SF1

SF1

سوانح فضل عمر (جلد اوّل)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

Book Content

Page 1

سوانح فضل عمر جلد اوّل ○ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد فضل عمر مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی کے سوانح حیات تصنیف مرزا طاہر احمد ناشرین فضل عمر فانو نداریشن

Page 2

طبع اول تعداد.طابع..دو ہزار اقبال احمد میم ناشرین فضل عمر فاؤنڈیشن

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمة عرض حال حضرت فضل عمر مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی سوانح کی تصنیف و ترتیب کا کام فضل عمر فاؤنڈیشن.ربوہ کے فیصلہ کے مطابق قبل ازیں استاذی المکرم ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ.ربوہ کے سپرد تھا.آپ نے بڑی محنت اور کاوش کے ساتھ کئی سال تک اس بارہ میں متفرق مواد کو یکجا کیا اور ابتدائی چند ابواب کی تصنیف بھی مکمل کر لی لیکن بعد ازاں بعض مصالح کے پیش نظر یہ ذمہ داری خاکسار راقم الحروف کے کندھوں پر ڈال دی گئی.خاکسار کے لئے از سر نو اس کام کا آغاز کرنا ایک مشکل امر تھا اور جو طویل مواد مگرم محترم ملک صاحب نے بڑی محنت سے یکجا کیا تھا اس کے بغور مطالعہ کے لئے ہی بہت وقت درکار تھا.افسوس که اینجا دیگر مصروفیات اور مشاغل کے باعث نہیں اس اہم کام کے لئے خاطر خواہ وقت نہ دے سکا.نتیجہ توقع سے زیادہ تاخیر ہوتی چلی گئی اور اب کئی سال کے انتظار کے بعد حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی طویل سوانح حیات کی پہلی جلد ہدیہ قارئین کرنے کے قابل ہو سکا ہوں.جو قارئین مختلف قسم کی تصانیف کا تجربہ رکھتے ہیں وہ مجھ سے غالباً اس امر میں اتفاق فرمائیں گے کہ تصانیف کی مختلف انواع میں سب سے مشکل اور وقت طلب نوع کسی سوانح حیات کی تصنیف ہے بعض ایسی شخصیات کی سوانح حیات کی تیاری میں بھی جو اپنی ہمعصر اور ہم قوم شخصیات میں کوئی غیر معمولی عظمت کا مقام نہ رکھتی تھیں، اُن کے سوانح نگار کو سالہا سال تک محنت اور کاوش کا سامنا کرنا پڑا.چنانچہ لارڈ فشر کے سوانح نگار ایڈمرل میکن نے ہمہ وقت کام کرنے کے باوجود اس کام پر دس سال کا طویل عرصہ صرف کیا.یہ مثال محض اس لئے پیش کی جارہی ہے کہ ایک سوانح نگار کی مشکلات کا کچھ اندازہ ہو سکے.حضرت فضل عمر مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات کتنی پہلوؤں سے ایک عام دنیاوی رہنما یا جرنیل یا اہل قلم کی سوانح سے مختلف اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور گو اس وقت ہمارا یہ دعوی بعضی قارئین کو عجیب معلوم ہو لیکن ہر آنے والا سال ہمارے اس دعوئی کی صداقت پر نئی

Page 4

n شہاد میں ثبت کرتا ہے گا کہ آپ اُن ممتاز ابنائے آدم میں سے تھے جو صدیوں ہی میں نہیں بلکہ ہزاروں سال میں کبھی ایک بار اُفتی انسانیت پر طلوع ہوتے ہیں اور جن کی روشنی صرف ایک نسل کو نہیں بلکہ بیسیوں انسانی نسلوں کو اپنی ضیا پاشی سے منور کرتی رہتی ہے.آپ بانی تسلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ کی حیثیت سے اس وقت مسند خلافت پر متمکن ہوئے جب آپ کی عمر صرف ۲۵ برس تھی مسلسل ۵۲ سال تک آپ نے خلافت احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کو سرانجام دیا اور ۷۷ سال کی عمر میں وفات پائی.۵۲ سال کا عرصہ ہندوستان کی اوسط انسانی عمر کے لحاظ سے تقریباً دو انسانی عمروں کا عرصہ بنتا ہے.یہ تمام عرصہ آپ نے ہمہ تن مشغولیت کے عالم میں صرف کیا.آپ کے خطبات اور تقاریر اور مختلف تقاریب پر خطابات کی تعداد ہی ہزاروں تک جا پہنچتی ہے.بیسیوں اہم تصانیف ہیں.سینکڑوں سفر اور دیگر مشاغل کا ذکر اخبارات کے ہزار ہا صفحات پر پھیلا پڑا ہے.اگر چہ آج آپ کے اکثر ہمعصر ؟ اس دنیا سے اُٹھ چکے ہیں لیکن آج بھی ہزاروں ایسے احباب زندہ موجود ہیں جو آپ کے اخلاق اور عادات اور احسانات کی میٹھی یا دیں لئے ہوتے ہیں.ہزاروں صفحات پر مشتمل ایسا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے جس میں آپ کو قریب سے دیکھنے والوں نے اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کیا ہے.اس تمام مواد کی چھان بین اور انتخاب اور مناسب ابواب میں اس کی برمحل ترتیب کوئی معمولی کام نہیں.آپ کی بچپن کی زندگی کے حالات بھی یکجائی صورت میں نہیں ملتے بلکہ ورق در ورق بکھرے پڑے ہیں.آپ کے بعض ہمعصر بچپن کے ساتھی ایسے ہیں جو آج بھی بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہیں اور بعض نے ابھی قریب کے زمانہ میں ہی وفات پاتی ہے.ایسے بزرگان سے اُن کی یادوں کو کرید کر قابل ذکر واقعات کی جستجو کوئی معمولی کوشش نہیں.میں ایک دفعہ پھر محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی محنت اور کاوش کو سراہنے پر مجبور ہوں کہ انہوں نے بڑی تندہی اور لگن سے ایسا مواد اکٹھا کر کے میرے کام کو آسان کر دیا لیکن اس کے باوجود ابھی بہت سے ایسے بزرگ تھے جو اپنی عمر کی زیادتی اور صحت کی کمزوری کے باعث محض اخباری اعلانات یا خطوط کے ذریعہ کچھ لکھنے کی طاقت نہ پاسکے یا بعض دیگر مصروفیات اور مشاغل کے باعث اتنا وقت فارغ نہ کر سکے کہ اپنی یادوں کو مجتمع کر کے پورے انہماک کے ساتھ اس موضوع پر قلم اُٹھا سکیں.ایسے متعدد دوستوں سے رابطہ پیدا کر کے اُن کی قیمتی یادوں کا سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش ہماری طرف سے آج بھی جاری ہے.

Page 5

جلد اوّل سے متعلق ایک ضروری صراحت سوانح فضل عمر کی جلد اول میں قارتمین بہت سا ایسا مواد بھی پائیں گے جو براہ راست سوانح حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتا.مثلاً مذہبی پس منظر - احمدیت کا تعارف تاریخ احمدیت کے کچھ احوال وغیرہ.یہ بظاہر بے تعلق مواد ایک مجبوری کے تحت پیش کیا جا رہا ہے.اور منظر غائر دیکھا جائے تو کچھ ایسا بے تعلقی بھی معلوم نہ ہوگا.وہ قارئین جو احمدیت سے کسی حد تک شناسائیں اُن کے لئے تو حضرت فضل عمر رضی الله عنه کی سوانح حیات کو کما حقہ سمجھنا چنداں مشکل نہ ہوگا مگر ہمارے پیش نظر ایسے قارئین بھی ہیں جو ہمارے ہم وطن ہونے کے باوجود تحریک احمدیت سے بنیادی طور پر نا آشنا ہوں بلکہ جو کچھ جانتے ہوں وہ محض دشمن کی زبان سے پہنچی ہوئی کہانی کی حد تک.ایسے دوستوں کو جب تک احمدیت کے اصلی خد و خال سے روشناس نہ کروایا جاتا اُن کے لئے حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات صحیح معنوں میں سمجھنا مشکل ہوتا.تعارف احمدیت کے علاوہ تاریخ احمدیت کے بعض پہلوؤں کا ذکر بھی ایک وجہ سے ناگزیر تھا.حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کے باون سالہ دور خلافت میں آپ کی سوانح کے خطوط کو تاریخ احمدیت کے خطوط سے کلیتہ الگ کرنا کسی طرح ممکن نہیں.لہذا اس سے قبل کے نسبتا مختصر دور میں اگر تاریخ احمدیت کو کلیت نظر انداز کر دیا جاتا تو سوانح کی بعد کی جلدوں میں قارئین یقیناً جابجا تشنگی محسوس کرتے.بهذا ربط کلام کی خاطر تاریخ احمدیت کے محض اُن پہلوؤں کا ذکر اس جلد میں کیا گیا ہے جو آپ کی زندگی پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہوتے یا آپ کی زندگی جن سے کسی رنگ میں اثر پذیر ہوتی.ہماری کوشش ہوگی کہ تمام سوانح حیات قریباً تین جلدوں میں یا کم وبیش بارہ صد صفحات کے اندر مکمل ہو جاتے لیکن حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی بھر اُوپر زندگی اور بے شمار قابل ذکر کارناموں تصانیف اور تقاریر کے پیش نظر اتنے تھوڑے صفحات میں اس کام کو سمیٹنا ایک مشکل امر ضرور ہے.زیر نظر جلدمیں ہی اقتباسات کے اختیار و ترک کے مسئلہ نے کئی ماہ تک ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کئے رکھا.

Page 6

..بورڈ آف ایڈیٹرز کے بارہ میں چند الفاظ تشکر کام کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر فضل عمر فاؤنڈیشن نے یہ پسند نہ کیا کہ ایک ہی شخص کی صوابدید پر اس کام کو چھوڑ دیا جائے.چنانچہ سلسلہ کے بعض بلند پایہ بزرگان اور جید علما پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل کیا گیا جس کے اراکین کے اسما ٹائٹل پیج پر درج ہیں میمضمون کا مسودہ باری باری ان تمام بزرگان کی خدمت میں اُن کی آرا اور رہنمائی کے لئے ارسال کیا جاتا رہا جو اپنی اپنی مصروفیات کے مطابق کبھی کم اور کبھی زیادہ وقت لے کر مستورہ کا گہری تنقیدی نظر سے مطالعہ فرمانے کے بعد خاکسار کی مناسب رہنمائی فرماتے رہے.یہ کام خاصہ وقت طلب تھا اور مختلف آرا کو مختلف بزرگان کے سامنے از سر نو پیش کر کے کسی ایک نتیجہ تک پہنچنا مزید وقت کا متقاضی تھا جو جملہ ممبران بورڈنے بڑی بشاشت اور فراخدلی سے صرف فرمایا.بالخصوص حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا تعاون اور مشفقانہ رہنمائی میرے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے.ان دونوں بزرگان نے کم سے کم مدت میں مسودہ کے ہر حصہ کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے ہمیشہ نہایت قیمتی تنقید اور اصلاح فرمائی.فجزاهم الله احسن الجزاء - آخر پر میں مگرم یوسف سلیم صاحب ایم.اے انچارج شعبہ زود نویسی کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو ابتدا ہی سے اس کام سے متعلق رہے اور ضروری مواد اکٹھا کرنے اور ترتیب دینے میں محترم ملک سیف الرحمن صاحب کے بعد خاکسار کا بھی بڑے خلوص اور محنت سے ہاتھ بٹاتے رہے.اسی طرح کا نی ریڈنگ میں بھی آپ نے بہت جانفشانی دکھاتی اور چھوٹے چھوٹے اسقام کی بھی نشاندہی کرتے رہے.اس جلد کی کتابت خیس نوجوان کا تب اعجاز احمد محمود نے کی ہے وہ بھی میرے شکریہ کے مستحق ہیں کیونکہ اُن کا تعاون آجرا نہ نسبت سے بہت بڑھ کر تھا اور دلی لگن اور جذبہ شوق کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیا.وما توفيقنا الا بالله والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد +1940

Page 7

عناوين باب اول : ترتیب عناوين باب دوم : پیشگوئی مصلح موعود مذہبی پس منظر موعود بیٹے کی ولادت چین اور احمدیت کا مختصر تعارف رحمت کا نشان ذہبی پس منظر.مسلمانوں کی حالت.غیر مذاہب پر عیسائیت کی یلغار اور اس کے خطرناک نتائج.= 11 تعلیم و تربیت اور عنفوان شباب موعود بیٹے کی ولادت.بچپن کے ابتدائی ایام اور تربیت والدین - آپ کی تربیت میں آپ کی بزرگ والدہ کا حصہ.تربیت قبول کرنے کی اہلیت.ہندوستان سے اسلام کو مٹانے کے خود اپنی تربیت کی اہمیت.ہندو منصو ہے.احمدیت کا مختصر تعارف.۱۵ 16 تقریر و تحریر ماموریت کا دعوئی اور جماعت کا باقاعدہ قیام ۲۵ چین کی دلچسپیاں، تفریحات اور کھیلیں.بچپن وفات مسیح ناصری کا ولولہ خیز اعلان اور تعلقات کے دائرے.مسیحیت کا دعوئی - ۲۷ پہلی شادی.مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی اور اپنے عظیم باپ کی صداقت پر آپ کا ایمان ۲۳ اور اس کے نتائج.اس کی لطیف تشریح.دیگر دعادی اور آپ کے مشن کی عالمگیر حیثیت احمدیت مخالفت کی بھٹی میں.دیگر مذاہب کی طرف سے مخالفت اور آریہ سماج کا مقابلہ.مسیح موعود کے صاحب اولاد ہونے کے پر سول اور پر خطر فضاؤں تھے.حضرت مسیح موعود کی صداقت پر آپ کا ۳۹ روز و شب بڑھتا ہوا ایمان - ۴۵ باب سوم حضرت مسیح موعود کا وصال متعلق حضرت سرور دو عالم کی عظیم الشان خلافت اولی کا قیام ، حضرت صاحبزاد مصاب خوشخبری اور بزرگان امت کی بشارات کی استحکام خلافت کے لئے عظیم خدمات 41 ۹۵ མ་ UA IPY ۱۳۷ مهم ما ۱۴ 100 141

Page 8

عناوين دیگر مشاغل اور مصروفیات عناوين درس قرآن کریم حضرت مسیح موعود کا وصال اور تدفین - ۱۶۵ مجلس انصار اللہ کے شیریں ثمرات.198 ساره سلام حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک تاریخی عهد - حضرت مسیح موعود کے صحابہ سے گہری محبت (۳۰۶ ۱۷۷ تضرعات کا رنگ جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا قیام ۱۸۰ حضرت خلیفہ المسیح الاقوال کی صاحبزادہ افلام خلافت کے استحکام کیلئے جد و جہد صاحب سے بلند توقعات اور کامل اعتماد ۳۱۳ حضرت خلیفہ ربیع الاول سے کامل اطاعت انتخاب بحیثیت پریذیڈنٹ ملس مشاورت ۲۱۴۳ ۱ تعلیم الاسلام سکول کے جاری رکھنے اور اور وفا کا تعلق.حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک اہم رویا ایا کردار مدرسہ احمدیہ کے قیام میں تاریخی کردار ۳۱۳ مدرسہ احمدیہ کی بہبود اور ترقی کے لئے تقریر و تحریر طرز خطابت اور اس کے گہرے اثرات ۳۲۵ مزید خدمات ۳۲۱ بعض دیگر اہم اور دور رس علمی خدمات : ایک غیر از جماعت صحافی کے تاثرات ۱۳۹۴ رسالہ تشخید الاذہان کا اجرا ۲۲۵ احمدیہ دار المطالعہ اور لائبریری کا قیام ۲۳۷ اخبار الفضل" کا اجرا الی مشکلات حضرت صاحبزادہ صاحب کا منظوم کلام ۲۴۵ مختلف سفروں کی رو نداد محمود کی کہانی محمود کی زبانی حج بیت اللہ اور سفر مصر باب چهارم : باب پنجم : عہد خلافت اُولی کے آخری ایام خلافت ثانیہ کا قیام، از کار خلافت کا فتنہ اور اس کی مختلف اشکال ۲۵۴ عہد خلافت اولی کے آخری ایام حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات اور خلافت ثانیہ کا قیام امام وقت پر آمریت کا الزام ۲۴۷ پہلے امام یا خلیفہ کی مخالفت کا الزام ۳۲۸ حضرت صاحبزادہ صاحب کی سیرت قومی اموال میں کے چند اور متفرق پہلو.تلور تصرف کا الزام

Page 9

۳۵۵ ron ط عناوين عناوین یہ اعتراض کہ حق حقدار کو نہیں پہنچا بلکہ خلیفہ وقت کی غلطیوں کی نشاندہی کمتر شخص کو اختیار کر دیا گیا ہے.۲۵۲ اور اُن کے چرچے جزئی فضیلت کی بھتیں یا نفاق کا چور دروازه بڑھاپے اور جسمانی کمزوری کے باعث ۳۵۳ نااہلی کا الزام ایک چاند کے بعد دوسرا چاند O

Page 10

باب اوّل پیشگوئی مصلح موعود مذہبی پس منظر احمدیت کا مختصر تعارف اور

Page 11

رحمت کا نشان.مذہبی پس منظر مسلمانوں کی حالت.غیر مذاہب پر عیسائیت کی عالمگیر یلغار اور اسکے خطرناک نتائج.ہندوستان سے اسلام کو مٹانے کے ہندو منصوبے - احمدیت کا مختصر تعارف ماموریت کا دعوئی اور جماعت احمدیہ کا باقاعدہ قیام - وفات مسیح ناصری کا ولولہ خیز اعلان اور مسیحیت کا دعوئی.میسج موعود کے نزول کی پیشگوئی اور اس کی لطیف تشریح.دیگر دعا دی اور آپ کے مشٹن کی عالمگیر حیثیت - احمدیت مخالفت کی بھٹی میں.دیگر مذاہب کی طرف سے مخالفت اور آریہ سماج سے مقابلہ.میسج موعود کے صاحب اولاد ہونے کے متعلق حضرت سرور دو عالم صلے اللہ علیہ وسلم کی تعظیم الشان خوش خبری اور بزرگانِ اُمت کی بشارات.

Page 12

" رحمت کا نشان یں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا...نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسموح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا به پر شوکت الفاظ اُس پیشگوئی کی ابتدا.اور آخر سے لئے گئے ہیں جس میں ایک عظیم الشان انسان کی ولادت کی خبر دی گئی تھی جس نے اپنی ہم عصر دنیا میں ہی نہیں بلکہ بعد کی دنیا میں بھی ایک بلند اور درخشندہ نام اور وسعت پذیر کام پیچھے چھوڑنا تھا.کب، کیوں کس کو اور کس کی ولادت کی خبر ان الفاظ میں دی گئی اور ہم عصر دنیا اور بعد کے آنے والے انسانوں کو اس پیشگوئی نے کس حد تک اور کیسے متاثر کیا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر آئندہ اس مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی لیکن قبل اسکے کہ اس عظیم انسان کی زندگی کے دلچسپ اور عجیب حالات کا تذکرہ چھیڑا جائے، اس پیشگوئی کے پس منظر کے متعلق کچھ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.در اصل اس پیشگوئی میں کسی انفرادی عظمت کے حامل عظیم ہیرو کی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ ایک ایسے مذہبی رہنما کی ولادت کی خبر دی جارہی ہے جسے اس زمانہ کی ایک مذہبی تحریک کا رُوح رواں.

Page 13

بنتا تھا اور جس کی تمام قوتیں اور فطری استعدادیں اسی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے وقف ہو جانا تھیں ہیں جب تک کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس تحریک کے خد و خال پر روشنی نہ ڈالی جائے اور یہ پس ظاہر نہ کیا جائے کہ اس پیشگوئی کا اس تحریک سے کس نوعیت کا تعلق ہے، قارئین اس سوانح حیات مذہبی پس منظر D-O تاریخ مذاہب میں 19 ویں صدی کا نصف آخر اور نویں صدی عیسوی کا آغاز خصوصی اہمیت کا حامل ہے.یہ وہ دور ہے جب کہ تمام روئے زمین پر ایک طرف تو بڑے بڑے مذاہب کے در میان گهری سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ نظریاتی جنگ لڑی جارہی تھی اور دوسری طرف احیائے علوم اور تہذیب نو کے نتیجہ میں مذہبی اور غیر مذہبی نظریات باہم دگر بڑی شدت کے ساتھ بر سر پیکار تھے اول الذکر مقابلہ میں عیسائیت اسلام اور ہندومت کا مجادلہ خاص طور پر قابل ذکر ہے.ان تینوں مذاہب کی باہمی جنگوں کے لئے ہندوستان ہی بہترین اکھاڑا ثابت ہو سکتا تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اویں صدی کے نصف آخر میں سر زمین ہند میں ان تینوں مذاہب کے درمیان وسیع پیمانے پر تاریخی اہمیت کی نظریاتی جنگیں لڑی گئیں اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی رنگ میں اب تک جاری ہے.سرزمین ہند میں ان تینوں مذاہب کے مابین مذہبی جنگوں کے جو بکثرت محرکات موجود تھے اُن کا مختصر جائزہ حسب ذیل ہے :- احیائے علوم اور تہذیب نو نے عموماً مذہب اور خصوصا عیسائیت کو جو چیلنج دیا تھا اُس کے نتیجہ میں عیسائی پادریوں میں مقابلے اور مدافعت کا ایک نیا جوش پیدا ہونے کے علاوہ انہیں عیسائیت کے لئے نئی منڈیوں کی بھی تلاش تھی.اور نو آبادیات سے بہتر انہیں کوئی اور جگہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے نظر نہ آتی تھی.انگریزی حکومت کا سورج نصف النہار پر تھا اور حکومت کے مذہب کو جو نفسیاتی برتری حاصل ہوتی رہی ہے، وہ پوری شان کے ساتھ عیسائیت کو ہندوستان میں حاصل تھی، نیز اس مذہب کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں جو اقتصادی اور اقتداری فوائد حاصل ہو سکتے تھے اُن کی تصویر بہت دلر یا تھی.لہذا زمین ہندوستان عیسائیت

Page 14

کے پھیلاؤ کے لئے خاص کشش کا موجب بنی.انگریزی حکومت کے مفادات بھی اسی امر سے وابستہ تھے کہ ہندوستانی ذہن جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ عیسائی نظریات کے تابع ہو کر حکومت برطانیہ کے استحکام میں ممد و معاون ثابت ہو.ہندوستان میں مسلمانوں کے تین صد سالہ سیاسی اقتدار کا خاتمہ ہندومت کے لئے خوش آئند خوابوں کا تحفہ لے کر آیا تھا :- -3 از سر نو ہندو مہاراشٹر کے قیام کا تصور ذہنوں میں جنم لینے لگا تھا اور اس کے طبعی نتیجہ کے طور پر غیر قوموں کو نندھی کے ذریعہ ہندومت میں جذب کرنے کا تصور بھی پیدا ہو رہا تھا.ب.ہندو تہذیب و تمدن کے احیاء کے منصوبے بن رہے تھے.پس یہ ضروری تھا کہ سابق آقاؤں یعنی مسلمان حکمرانوں کی تہذیب وتمدن کے نقوش کو مسمار کر کے انہی مقامات پر ہندو تہذیب کی نئی عمارتیں بلند کی جائیں.ج اسلام نے پُر امن تبلیغ کے ذریعہ بر صغیر میں جو وسیع نفوذ کیا تھا اُسے مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا نتیجہ قرار دیا جانے لگا تھا اور شدید..جذبہ انتقام کے ساتھ ہندومت کی طرف سے اسلام پر یلغار کے منصوبے بنائے جارہے تھے تاکہ بر صغیر سے اس بدیشی مذہب کا مکمل صفایا کر دیا جائے.د ہندو مفکرین کے ذہنوں میں ایسی سیاسی تحریکات جنم لے رہی تھیں جو بعض صورتوں میں کھلم کھلا اسلم کش عزائم کی آئینہ دار تھیں اور بغیر کسی تلبیس کے اُن کے سیاسی مقاصد میں یہ بات داخل تھی کہ ہندوستان پر سوائے ہندو کے کسی کو راج کا حق نہیں اور مسلمانوں کو بزور شمشیر مغلوب کر لینا اُن کا مذہبی اور پیدائشی حق ہے.دوسری قسم کی سیاسی تحریکات تلبیس کا پہلو لئے ہوتے تھیں لیکن انجام کار سب کے مقاصد ایک ہی تھے یعنی مسلمانوں پر ایسا مکمل اور آخری -

Page 15

غلبہ حاصل کرلیتا جو رفته رفته مذہب اسلام کے نابود ہونے پر منتج ہو اور ہندوستان پر بلا شرکت غیرے صرف ہندومت کا تسلط قائم ہو جائے.اس شدید مذہبی کشمکش میں مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی جو کیفیت تھی، اس کا علیحدہ علیحدہ مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ہے جس سے یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ ان تینوں میں سے سب سے کمزور اور قابل رحم حالت مسلمانوں کی تھی.مسلمانوں کے کیمپ میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ اُن میں ایک قومی مذہبی قیادت کا فقدان تھا وہ اندرونی اختلافات میں اُلجھے ہوتے تھے اس لئے اُن کی ذہبی قیادت پیش آمدہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی.

Page 16

مسلمانوں کی حالت غیر منظم اور منتشر ہونے کے باوجود مسلمان عوام میں اپنے مذہب کے ساتھ بے پناہ وابستگی اور عقیدت پائی جاتی تھی.لہذا اگر چہ اسلام کی طرف سے جارحیت کا الا ماشاء اللہ فقدان تھا، لیکن عامہ المسلمین اور بعض خدارسیدہ علماء کے سینوں میں اپنی کس مپرسی کا احساس بڑی تیزی سے پیدا ہو کر ہیجانی کیفیت اختیار کر رہا تھا.جہاں تک مسلمان عمار کا تعلق ہے وہ اگر چہ اپنی بساط کے مطابق اسلام کے دفاع میں کوشاں تھے لیکن عیسائیت ، ہندومت اور تہذیب نو کی سہ طرفہ یلغار کا کما حقہ مقابلہ کرنا دراصل ان کے بس کی بات نہیں تھی.ان کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی مدارس کا نظام تعلیم اپنے زمانہ سے صدیوں پیچھے رہ چکا تھا اور نئے علوم اور سائنسی انکشافات کی ہو ایک بھی ان مدارس کو نہیں پہنچی تھی ( آج بھی اکثر صورتوں میں یہی درست ہے دنیا و مافیہا کا ایک ایسا فلسفہ ان کو پڑھایا جارہا تھا جو کئی صدیاں نہیں، کئی ہزار برس پرانا تھا اور حقائق سے اس کا دُور کا بھی تعلق نہ تھا.جہاں تک مذہبی تعلیم کا تعلق ہے، یہ مدارس اسلام کے سوا کسی مذہب کی تعلیم سے کوئی سروکار نہ رکھتے تھے جس کے نتیجہ میں ایسے علماء تیار ہوتے تھے جن کو شنیدہ علم کے سوا غیر مذاہب کی تعلیمات اور کتب مقدسہ سے کوئی ٹھوس واقعیت نہیں تھی.ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں جارحانہ جنگ تو الگ رہی ، مدافعانہ جنگ کے لئے بھی ضروری ہتھیار مہیا نہ تھے اور غیر مذاہب کی کتب سے ناواقفیت بار بار اور بری طرح جوابی کاروائی کی راہ میں حائل ہوئی تھی.اس پر مزید وبال یہ تھا کہ عموماً علماء میں اپنے شاندار ماضی میں بسنے کا رجحان اس حد تک پایا جاتا تھا کہ عملاً ان کے نزدیک منتقدین اور بزرگان سلف کے بعد کسی نتی علمی کاوش کی گویا ضرورت ہی باقی نہیں تھی.ضرورت تو الگ رہی، ایک طبقہ علماً کے نزدیک تو متقدمین کے بعد برنتی علمی کارش گویا دین کو بگاڑنے کے مترادف سمجھی جاتی تھی.اسلام پر عائد کئے جانے والے صرف انہی اعتراضات سے انہیں واقفیت تھی جن کا ذکر متقدین کی کتب میں ملتا تھا اور جوابات بھی بس اسی قدر یاد تھے جو متقدمین کی کتب میں درج تھے.بعد میں اُٹھاتے

Page 17

جانے والے جوابی اعتراضات یا مسلمان مفسرین کی تفاسیر کی آڑ لے کر قرآن اور سنت پر کئے جانے والے تازہ حملوں کے جوابات تو کجا ان اعتراضات ہی سے اکثر مسلمان علماءہ بے بہرہ تھے.یہ تو بیشتر ان علماء کا حال تھا جو اسلام کا درد رکھتے تھے اور خلوص نیت سے یہ چاہتے تھے کہ اسلام کی طرف سے علمی اور بسانی جہاد میں بھر پور حصہ لیا جائے.وہ بے نیاز طبقہ علمامہ اس کے علاوہ تھا اور اکثریت میں تھا جسے اس جنگ سے کوئی بھی سروکار نہ تھا.ہاں وہ اندرونی فرقہ وارانہ جھگڑوں ہی کو باعث نجات سمجھ بیٹھے تھے اور قصہ وہابی غیر وہابی کا اور جھگڑا شیعہ سنی کا اُن کی تمام تر توقعات اور جوش و خروش اور ہیجانات کا محور بنا ہوا تھا.کہیں تو نظریاتی جنگیں تھیں اور کہیں نور و بشر کے طوفان خیز جھنگڑے تھے.ان کے نزدیک اسلام ہی کی چار دیواری میں اندرونی لہروں کے باہم دگر گر امرا کر جھاگ جھاگ ہوتے رہنے کا نام جہاد تھا.گریبانوں میں اُنجھے ہوئے اس گروہ کے علاوہ ایک وہ انبوہ بھی علماء کہلانے والوں کا تھا جو نکاح اور فاتحہ خانیوں کی شیرینیوں اور یوسف زلیخا اور ملکہ سبا کے قصوں نیز جنات کی تسخیر کے دعووں سے دیہات کے ماحول کو رنگینیاں عطا کر رہا تھا.اسلام اور قرآن پر کیا بہت رہی تھی اور ہمارے آقا و مولا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے کیسے ظالمانہ اور سفاکانہ حمل ہو رہے تھے ؟.ان باتوں کی تو اُن کے جنات کو بھی خبر نہ تھی جن کی فرضی تسخیر میں وہ ہمہ تن مصروف تھے.H مذکورہ بالا حالات کے ردعمل کے طور پر کسی قسم کے خیالات اور تحریکات کی کوئی مسلمانوں کے.درمیان چلنے لیں.شدت اور وسعت میں سب سے بڑا رد عمل جس نے علماء اور عوام کی بھاری اکثریت کو اپنی پیسیٹ میں لے لیا، ان پیش گوئیوں میں پناہ ڈھونڈنے کی صورت میں ظاہر ہوا جن میں حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسلمانوں پر آنے والے ادبار کی خبروں کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نخجلت دہندہ کی بعثت کی خبر بھی دی گئی تھی جو اس آڑے وقت میں مسلمانوں کے تنزل کو ترقی اور ان کی شکست کو عظیم الشان عالمگیر غلبہ میں تبدیل کر دے گا.اصل پیش گوئیاں کیا تھیں اور ان کا حقیقی مفہوم کیا تھا ؟ یہ ایک علیحدہ بحث ہے.اس وقت ہم مختصراً ان پیش گوئیوں کے اس مفہوم کا ذکر کرتے ہیں جو مسلمان علماء کی طرف سے بکثرت مسلمان عوام میں پھیلا دیا گیا تھا.یہ تضور حضرت بانی اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان پیش گوئیوں سے ماخوذ تھا جن میں ایک طرف تو ایک خوفناک آفت کے خروج کی خبر دی گئی جس کا نام دنبال بتایا گیا تھا اور......

Page 18

دوسری طرف ایک نجات دهنده مسیح و مہدی کی آمد کی بشارت دی گئی تھی.مذکورہ بالا پیش گوئیوں کے نتیجہ میں مسلمان عوام اپنے تنزیل اور ادبار کے ایام میں ایک ایسے در قبال کے خروج کے منتظر تھے جس نے ایک دیو ہیکل یک شیمی انسان کی صورت میں ایک طویل و عریض گدھے پر سوار ہو کر دنیا میں خروج کرنا تھا اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا.اس قبال کی زد سے دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں نے بھی بری طرح متاثر ہونا تھا یہاں تک کہ ایک معمولی تعداد کے سوا اکثر و بیشتر مسلمانوں نے دجال کے غلبہ سے کلیہ مغلوب ہو جانا تھا لیکن عین اس وقت جب کہ مسلمان صفحہ ہستی سے مٹتے ہوئے نظر آتے آسمان سے مسلمانوں کے نجات دہندہ مسیح ناصری نے نازل ہو کر دنبال کو اپنی تلوار سے قتل کر دینا تھا اور یوں بظاہر سر پر منڈلاتی ہوئی ایک ذلت آمیز شکست کو ایک عظیم الشان فتح اور غلبہ میں بدل دیتا تھا.اس تصور کے مطابق قتل دخیال سے فارغ ہو کر مسیح موعود کے فرائض میں مندرجہ ذیل امور شامل تھے :- اقبال دُنیا بھر کی صلیبوں کو خواہ وہ لکڑی کی ہوں یا لوہے کی اپیل تانبے کی ہوں یا سونے چاندی کی توڑ دیا یہاں تک کہ روئے زمین پر کوئی صلیب دیکھنے کو بھی نظر نہ آئے.دوم ر تمام دنیا کے سوروں کا قتل عام اور سطح ارض کو اس خبیث جانور کے وجود سے پاک کرنا.اسلام کے غلبہ نو کا یہ وہ تصور ہے جو حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت پاکیزہ اور لطیف پر استعارہ کلام کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں مسلمان علمار نے پیشگوئیوں کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر باندھا اور مسلمان عوام میں خوب خوب اس کا چرچا گیا.مذہبی جنگوں کے جس دور کا ہم جائزہ لے رہے ہیں، اس دور میں یہ علما.زیادہ ترایسی ہی خوابوں میں زندگی بسر کر رہے تھے اور حملہ آور قوموں کے خلاف نظریاتی جہاد کرنے کی بجائے اسی یک میشیمی و حال اور اس کے گدھے کی راہ دیکھ رہے تھے کہ ادھر وہ ظاہر ہو اور اُدھر سیسیح ناصری چوتھے آسمان کی بلندیوں سے اتر کرشاہین کی طرح اس پر جھپٹ پڑیں اور اس کام سے فارغ ہونے کے بعد دنیا بھر کے ممالک کا دورہ کر کے تمام صلیبیں توڑ ڈالیں یہاں تک کہ ایک بھی صلیب دنیا میں باقی نہ رہے.پھر اس کے فوراً بعد سوروں کی طرف اپنی توجہ منعطف فرمائیں اور ان کی بیخ کنی کی عالمگیر مهم شروع کر دیں یہاں تک کہ یہ پلید جانور دنیا سے ناپید ہو جاتے اور چہار دانگ عالم میں مسلمانوں کا بول بالا ہو جائے.

Page 19

ادھر مسلمانوں کے تصور کی یہ حالت تھی اُدھر عیسائی اور ہند و عملاً اپنے اپنے مذاہب کو غالب کرنے کیلئے جو منصوبے بنا رہے تھے اور جو ٹھوس اقدام کر رہے تھے ان کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے.ان حالات کے ایک سرسری موازنہ سے بھی خوب ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہندو اور عیسائی ہر دو کے مقابل پر مسلمانوں کی حالت سخت ناگفتہ بہ اور قابل رحم تھی.یہ خوابوں کی دنیا میں کہیں رہے تھے تو وہ عمل کے میدان میں قدم مار رہے تھے.

Page 20

غیر مذاہب پر عیسائیت کی عالمگیر بلغار اور اس کے خطرناک نتائج پادری عماد الدین صاحب جو کبھی اجمیر شریف کی جامع مسجد کے خطیب ہوا کرتے تھے اسلام سے انحراف کر کے عیسائی ہو گئے اور اسلام کے خلاف اس درجہ ان کا بغض بڑھا کہ بعد کی ساری زندگی اسلام کے خلاف جدو جہد کے لئے وقف ہو گئی اور عیسائیت کے صف اول کے مجاہدین میں ان کا شمار ہونے لگا.غیر مذاہب پر عیسائیت کی پے در پئے فتوحات کے نتیجہ میں عیسائی پادریوں کا فاتحانہ انداز فکر اُن کی حسب ذیل تحریر کے لفظ لفظ سے عیاں ہے :- نتشار میں جب دلیم کیری صاحب نے آکے ملک بنگال کے ایک حصہ میں کام شروع کیا، اس وقت سے بہت آہستہ آہستہ مسیحی دین کا چرچا تمام ملک ہندوستان میں پھیلا ہے اور پنجاب میں قریب ۴۵ برس سے خدا کا دین آیا ہے.جس وقت کبیری صاحب آئے اس وقت ملک کی ایسی حالت تھی کہ کوئی دنیا دی سمجھ کا آدمی نہ کہ سکتا تھا کہ مسیح کا دین اس ملک میں.پھیلے گا کیونکہ اس وقت کے محمدی اور ہندو اپنے اپنے مذاہب میں بڑے مضبوط اور سرگرم اور تعصب و سختی و نا واقعی سے بھر پور ہو کے ہوا سے باتیں کرتے تھے.ہاں اس وقت کیری صاحب کا مسیحی ایمان گواہی دیتا تھا کہ خدا کا دین اس ملک کو بھی ضرور فتح کرے گا جیسا کہ وہ پیچھے سے فتح مند ہو تا چلا آیا ہے.اسی طرح اب ہم مسیحی بھی خدا پر یقین اور بھروسہ کر کے کہتے ہیں کہ کسی وقت یہ ملک ملک انگلستان کی مانند ہونیوالا ہے.ہمارے مخالف ہندو و مسلمان و دیانندی و نیچری و غیره اگر چہ کیسا ہی زور دکھلا دیں اور زبان درازیاں کریں، وقت چلا آتا ہے کہ پتہ ندارد ہوں گے.صرف مسیحی دینداری یہاں ہوگی یا شرارت نفسانی کے لوگ ملیں گے کیونکہ ملک ملک نے اب

Page 21

ایسی حالت کی طرف رخ کر لیا ہے اور پیچھے ہوں ہی ہوتا آیا ہے اور تعلیمات کے نتائج یہی ہیں.“ ہے ہندوستان میں جو عیسائیت کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی اس کی ایک ادنی سی جھلک پنجاب کے لیفٹینٹ گورنر چارلس ایچی سن کی ایک تقریر میں پائی جاتی ہے جو انہوں نے شاہ میں کی تھی.انہوں نے کہا :- بعض ایسے لوگوں کو جنہیں اس طرف توجہ کرنے کا موقعہ نہیں ملا یہ سُن کر تعجب ہو گا کہ جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چار پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے اور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اس عظیم الشان امر کا سبب کہ ہر جگہ عیسائیوں کی جماعت ایسی تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے کہ جتنی قرونِ اولیٰ کے بعد کبھی نہیں پھیلی.میں اور آپ اس کا حقیقی سبب جانتے ہیں.وہ یہ ہے کہ خدا وند کی روح حرکت میں ہے.پہلے کی طرح اب بھی خداوند اپنے نام کو عظمت دے رہا ہے اور وہ ہمارے چرچ کو اُن لوگوں سے وسعت دے رہا ہے جو نجات چاہتے ہیں.انجیل کے پیغام کی قدیم طاقت ابھی تک موجود ہے.اب بھی رسولوں کے زمانہ کی طرح خدا کا کلام زیر دست نشود نما تے کی طاقت رکھتا ہے اور اس کا غلبہ ہو رہا ہے" امریکہ سے مشہور عیسائی مناد ڈاکٹر جان ہنری بیروز کو ہندوستان بلوایا گیا.وہ انگریزی زبان کے بڑے فصیح البیان مقرر تھے.انہوں نے شملہ میں برصغیر کا طوفانی دورہ کر کے جگہ جگہ لیکچر دیتے اور ان لیکچروں میں عیسائیت کے عالمگیر غلبہ کا وہ ڈھنڈورا پیٹا کہ آسمان سر پر اٹھا لیا.انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں عیسائیت کے غلبہ واستیلاء کا ذکر کرتے ہوئے بڑے طمطراق سے اعلان کیا :- " آسمانی بادشاہت پورے کرہ ارض پر محیط ہوتی جارہی ہے.آج دنیا بھر میں اخلاقی اور فوجی طاقت، علم و فضل صنعت و حرفت اور تمام تر تجارت سے خط شکاگو - مرقومه پادری عماد الدین لا ینز در ضروری نشده مطبوعہ نیشنل پریس امرتسر شهداء له دی مشنر مصنفہ آن کلارک، مطبوعہ لندن ص ۲۳۲

Page 22

ان اقوام کے ہاتھ میں ہے جو آسمانی ابوت اور انسانی اخوت کی مسیحی تعلیم پر ایمان رکھتے ہوئے یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ) تسلیم کرتی ہیں.' اسی لیکچر میں آگے چل کر انہوں نے ایک برطانوی ادیب کے حوالہ سے عیسائیت کے غلبہ واستيلة کا نقشه نهایت درجه فخر به انداز اور تعلمی آمیز الفاظ میں کھینچتے ہوئے کہا :- دنیا تے عیسائیت کا عروج اس درجہ زندہ حقیقت کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ ایسا درجہ عروج اسے اس سے پہلے کبھی نصیب نہ ہوا تھا.ذرا ہماری ملکہ عالیہ (ملکہ وکٹوریہ ) کو دیکھو جو ایک ایسی سلطنت کی سربراہ ہے جس پر کی کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.دیکھو وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر کمال درجه تا بعداری سے احتراما جھکتی اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے ! یا پھر گاؤں کے گرجا میں جا کر نظر دوڑ او اور دیکھو کہ وہ سیاسی مدیر (وزیر اعظم برطانیہ) جس کے ہاتھوں میں ایک عالمگیر سلطنت اور اس کی قسمت کی باگ ڈور ہے.جب یسوع مسیح کے نام پر دعا کرتا ہے تو کیسی عاجزیی اور انکساری سے اپنا سر جھکاتا ہے ! دیکھو جرمنی کے نوجوان قیصر کو جب وہ خود اپنے لوگوں کے لئے بطور پادری فرائض سرانجام دیتا اور یسوع مسیح کے مذہب یعنی دین عیسائیت سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا ہے.مشرقی انداز پر ماسکو کے شاہانہ ٹھاٹھ بات میں زارہ روس کو دیکھو کہ تاج پوشی کے وقت ابنِ آدم کے طشت میں رکھ کر اسے تاج پیش کیا جاتا ہے.یا پھر مغربی جمہوریت (امریکہ) کے ایک صدر کے بعد دوسرے صدر کو دیکھو کہ ان میں سے ہر ایک عبادت کے نسبتاً سادہ لیکن عمیق اسلوب میں ہمارے خداوند کے ساتھ اپنی وفاداری اور تابعداری کا اظہار کرتا چلا جاتا ہے.امریکی، برطانوی جرمن اور روسی سلطنتوں کے حکمران اقرار کرتے ہیں ، کیا ان سب کے زیر نگیں علاقے مل کر ایک ایسی وسیع و عریض سلطنت کی حیثیت نہیں رکھتے کہ جس کے آگے ازمنہ قدیم کی بڑی سے بڑی سلطنت 19 له پیروز لیکچرز من

Page 23

۱۴ 66 بھی سراسر بے حیثیت نظر آنے لگتی ہے ہے“ لے عیسائی سلطنت کے دبدبہ و حکومت اور ان میں عیسائیت کے غلبہ و استیلاء کا نہایت پر شکوہ الفاظ میں نقشہ کھینچنے کے بعد ڈاکٹر پیروز نے خاص اسلامی ملکوں میں بھی عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا بڑے فاتحانہ اندازہ میں ذکر کیا اور کہا :- اب میں اسلامی ملکوں میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں :- اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چہکار اگر ایک طرف لبنان پر حلوہ فگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کے نور سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے.یہ صورتِ حال اس آنے والے انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ، دمشق اور تهران خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے ، حتی کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعہ مکہ اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگی اور بالاآخر وہاں صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے حقیقی اور واحد خدا کو اور یوں مسیح کو جانیں جس کو تو نے بھیجا ہے نہ ہے له بیروز لیکچرز ! ۲۰ - ۱۹ نے بیروز لیکچرز ص۲۴۲

Page 24

۱۵ ہندوستان سے اسلام کو مٹانے کے ہند و منصوبے مشری سمر تھے رامداس سوامی برہمن نے بقول لالہ لاجپت رائے " سیوا جی کو بار بار اسلام کے خلاف جنگ کرنے کا اپدیش کیا " ہے اور اسی برہمن دیوتا کے اندیشوں کا نتیجہ تھا کہ سیوا جی اسلام اور اہلِ اسلام یہ کی دشمنی میں انتہائی ترقی کر گیا، جس کا پتہ خود اُس کے ایک خط سے مل جاتا ہے جو اس نے راجہ جے سنگھ کو لکھا تھا.تحریر کیا کہ :- " میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے.افسوس صد ہزار افسوس !! کہ یہ تلوار مجھے ایک اور مہم کے لئے میان سے نکالنی پڑی.اسے مسلمانوں کے سروں پر بجلی بن کر گرنا چاہیئے تھا جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ جنہیں انصاف کرنا آتا ہے...میری بادلوں کی طرح گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ خونی مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سارے مسلمان اس سیلاب خون میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہ رہے گا." اس خط کو نقل کرنے کے بعد مسٹر اے.کے.سوریہ، بی.اے ، ایل.اہل - بی وکیل خود بھی وہ رقمطرانہ ہیں کہ : - " سیلوا جی کے یہ الفاظ اسے اپنے اصل رنگ میں ظاہر کر رہے ہیں.اسلام کو مٹاکر اس ملک کا عام مذہب ہندو دھرم کو بنانا چاہتا تھا اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہی تھا کہ مسلمانوں کو حوالہ شمشیر و آتش کر کے ہندوستان سے ان کا نام و نشان مٹا دے “ سے مسلمانوں کے خلاف سیلوا جی نے جس خطرناک اور انتہائی غضب ناک تحریک کا آغاز کیا تھا، وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم مغلوب و مقہور کرنے سے تعلق رکھتی تھی.بعد کے زمانوں میں اگر چہ اس کی ے منقول از اخبار الجمیعتہ دہلی ، جون ۱۹۲۷ اے سیوا جی اردو ص ۲۴۴

Page 25

14 شکلیں بدلتی رہیں لیکن عملاً سیوا جی کی روح ہی ہر اُس ہند و تحریک کے اندر کار فرما نظر آتی ہے جو مسلمانوں کی سیاسی بیخ کنی اور اقتصادی استحصال کا مقصد لئے ہوتے تھی.اس سیاسی حملہ کے پہلو بہ پہلو مذہب اسلام کی بیخ کنی کا مقصد لئے ایک انتہائی خطرناک مذہبی تحریک بھی جاری ہوتی جسے ہم آریہ سماج کے نام سے جانتے ہیں.ان دونوں تحریکوں کا موازنہ کرتے ہوئے مهاشه فضل حسین صاحب رقمطراز ہیں :- و سمرتھ رامداس اور سیوا جی مرسیہ کا خواب پورا کرنے کے لئے جس قسم کی تحریک مہاتما تلک نے جاری کی، اسی طور کی تحریک سوامی دیانند جی نے بھی چلائی.ان دونوں کا نصب العین ایک ہی تھا مگر طریق کار میں کسی قدر اختلاف تھا.اول الذکر تحریک زیادہ ترسیاسی لائنوں پر چلائی گئی ، مگر آخر الذکر کو مذہبی رنگ دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ سوامی صاحب کی تحریک زیادہ وسیع زیادہ منظم زیادہ مضبوط زیادہ موثر اور زیادہ کامیاب ہوئی.سوامی صاحب بھی وہی کچھ چاہتے تھے جو تملک مسودے کا اپدیش تھا، مگر تلک کی تحریک مہاراشٹر اور بنگال وغیرہ تک ہی محدود رہی اور سوامی صاحب کی تحریک سارے ملک میں پھیلی اور بار آور ہوئی ، کیونکہ اس پر جس قسم کا رنگ چڑھایا گیا تھا وہ جہاں جدید الخیال ہندووں کو اپیل کرتی تھی وہاں قدامت پسند ہندو بھی اس سے متاثر ہوتے تھے " لے خود سند و مورخین کی رائے میں آریہ سماج کے قیام کا واحد مقصد ہندوستان سے اسلام کو ملیامیٹ کرنا اور مکمل ہندو راج کا قیام تھا.چنانچہ لالہ دھنیت رائے بی.ایل.ٹی لکھتے ہیں :- ”ہندوستان میں سوائے بہندو راج کے دوسرا راج ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا.ایک دن آئے گا کہ ہندوستان کے سب مسلمان شُدھی اُدی اندولن کی وجہ سے آریہ سماجی ہو جائیں گے.یہ بھی ہندو بھائی ہیں.آخر صرف ہندو ہی رہ جائیں گے.یہ ہمارا آدرش ( نصب العین) ہے.یہ ہماری انشا (منا) ہے سوامی جی مہاراج نے آریہ سماج کی بنیاد اسی اصول کوئے کر ڈالی تھی تھے ے ہندو راج کے منصوبے حصہ اول صف ۹۴ سه اخبار پر کاشس لا ہور ۲۷ اپریل شده

Page 26

16 ۳۵ احمدیت کا مختصر تعارف اسلام کے لئے فکروں اور رنجوں اور پریشانیوں کا یہ وہ زمانہ تھا جس میں احمدیت کا نور طلوع ہوا او اسلام کے احیائے نو کی ایک عظیم تحریک منصہ شہود پر ابھری.اس تحریک کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسئلہ میں قادیان کی ایک گمنام بستی میں پیدا ہوئے جو مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں بٹالہ سے بارہ میں مشرق میں واقع ہے.بچپن ہی سے آپ کو اسلام اور بانی اسلام سے ایک بے پناہ خداداد عشق تھا اور عبادت الہی کا ذوق دل میں جاگزیں تھا.مسجد سے آپ کو ایسی محبت تھی کہ بسا اوقات جب آپ کے والد سے آپ کے متعلق پو چھا جاتا کہ آپ کہاں ہوں گے تو وہ جواب دیتے کہ مسجد میں جا کر دیکھو کسی صف میں لیٹا پڑا ہو گا.عبادت انہی کے ذوق کے علاوہ بنی نوع انسان کی گھرمی ہمدردی بھی بچپن ہی سے آپ کے کردار کا نمایاں حصہ تھی چنانچہ آپ کے سوانح نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ اپنا کھانا اکثر گھر سے باہر لے جاتے اور غرباء اور مساکین کو اس میں شریک کرلیتے یہاں تک کہ بعض ایام میں سارا کھانا غرباء کو کھلا کر خود پیسے دو پیسے کے پنے خرید کر اس سے بھوک مٹا لیتے.آپ کی بعد کی زندگی میں میں دو کر دار نمایاں ہوکر انبھرے جو آپ کی زندگی کے عظیم مشن کی حثیت اختیار کر گئے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- " میں دو ہی مسلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہوئی دی تھی جو حالیہ میں پیدا ہوئی تھی كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ یاد من یا درکھو تألیف ایک اعجاز ہے یہ لے آغاز جوانی ہی میں آپ نے شدت سے یہ محسوس کیا کہ اسلام چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھرا ہوا ہے اور اس کے دفاع کی کوئی موثر کوشش اہل اسلام کی طرف سے نہیں کی جارہی.اس احساس کے نتیجہ میں دو قومی رد عمل آپ کے دل میں پیدا ہوئے.اول یہ کہ آپ پہلے سے بھی زیادہ انہماک اور دردمندی کے ساتھ عبادت انہی میں مصروف ہو گئے اور بارگاہ رب العزت میں مجھک کر اسلام کی فتح مندی ے ملفوظات جلد دوم صدام

Page 27

JA اور احیاتے تو کے لئے گریہ وزاری کرنے لگے.دوسرار و عمل یہ تھا کہ قرآن کریم کے گہرے اور پر فکر مطالعہ کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب عالم کا بھی گہری نظر سے مطالعہ فرمانے لگے اور اُن کی طرف سے اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لینے لگے.اس لیے اور دقیق موازنہ اور مطالعہ نے آپ کو پہلے سے بھی زیادہ اس یقین پر قائم کر دیا کہ تمام مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے جو پیروی کے لائق اور جامع کمالات خستہ ہے اور کل عالم اور تمام زمانوں کے لئے ہدایت کا سامان رکھتا ہے جب کہ دیگر مذاہب بھی اگر چہ ابتدا خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے مگر وہ محدود زمانوں کے لئے مخصوص اقوام کی ہدایت کے لئے نازل کئے گئے تھے اور اپنا اپنا مقصد وجود پورا کرنے کے بعد اب وہ ہے ضرورت اور بے فیض ہو چکے تھے.ان کی کتابیں محترف و مبدل ہو گئیں، ان کی تعلیمات بگڑ گئیں، ان کا زمانہ عمل ختم ہوا اور ان کی مثال بچپن کے ایسے بوسیدہ اور ناقابل استعمال کپڑوں کی طرح ہے جو بالغ انسان کی ضروریات کسی طرح پوری نہیں کر سکتے.مذاہب عالم کے اس تفصیلی موازنہ کا ماحصل حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی بیبیوں تصانیف میں موقع اور محل کے مطابق پیش کیا گیا ہے.اسی طرح آپ کے منظوم کلام میں بھی اس تحقیق کا نچوڑ بڑے دلکش پیرائے میں ملتا ہے جس کے چند نمونے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں :- نور فرقاں ہے جو سب ٹوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں تھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا لے ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاتے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے گور انھو دیکھو سنا یا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہیں باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلا یا ہم نے نے برابین احمدیہ حصہ سوم ص ۲۷۴ مطبوعه ۱۸۸۳

Page 28

14 آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے آؤ لو گو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے تو تمہیں طور تلی کا بت یا ہم نے آج ان ٹوروں کا ایک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے جب سے یہ نور بلانور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفے پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ اور لیا بار خدا یا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پہلا یا ہم نے اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے مورد قہر ہوتے آنکھ میں اغیار کے ہم جب سے عشق اس کا تہ دل میں بٹھایا ہم نے لے اس گہرے مطالعہ اور موازنہ مذاہب کے بعد جس کی بعض جھلکیاں مندرجہ بالا اشعارمیں ہمیں نظر آئی نہیں آپ اسلام کے ایک عظیم لطل جلیل کی حیثیت سے میدان عمل میں نکلے اور مہندومت اور عیسائیت کی طرف سے اسلام پر کئے جانیوالے اعتراضات کے نہایت مدل جوابات تحریر فرمانے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.آپ نے صرف دفاع پرسی اکتفانہ فرمایا بلکہ حملہ آور مذاہب پر شدید جوابی حملے بھی کئے جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے ایک پہلوان کی حیثیت سے آپ کا شہرہ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گیا اور قادیان کے ایک گوشتہ تنہائی میں رہنے والایہ نوجوان افق مذہب پر ایک روشن چمکتے ہوئے ستارے کی طرح طلوع ہوا.اسلام کی تائید میں جو عظیم لٹریچر آپ نے پیدا کیا اس کی تعداد ۵۰ ضخیم کتب و رسائل سے تجاوز کر گئی.دیگر سینکڑوں اشتہارات اور مضامین ان کے علاوہ ہیں، لیکن اس ضمن میں آپ کی سب سے پہلی اور بنیادی حقائق پر مشتمل تصنیف براہین احمدیہ کے نام سے موسوم ہے.یہ ایک معرکہ آنا رامہ اور انقلاب انگیز تصنیف تھی جس نے نکیسر میدان جہاد کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیا اور مذاہب کے مابین لڑی جانے والی قلمی جنگ میں ایک نئے علم کلام کا اضافہ کیا.اس تصنیف کا غیر معمولی اثر اپنوں اور غیروں پر پڑا جہاں دشمن سخت بر اساں اور پریشاں ہوا وہاں دوستوں کے دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگے کہ اسلام کا ایک بطل جلیل میدان مبارزت میں نکل آیا ہے.مسلمانوں کے بجھتے ہوئے دلوں میں اُمید کی نئی شمعیں روشن ہونے لگیں.ملک کے طول و عرض میں براہین احمدیہ کے محاسن اور کمالات پر زور دار تبصرے لکھے گئے جن میں مشہور اہلحدیث لیڈر مولوی ابوسعید ے آئینہ کمالات اسلام ص ۲۲۲ مطبوعه ۱۹۹۳مه

Page 29

محمدحسین صاحب بنالوی کا تبصرہ بہت شہرت رکھتا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچرمیں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے.اسلام کے قلمی جہاد میں اس کتاب کی غیر معمولی عظمت کے پیش نظر اور اس بنا پر کہ در اصل تحریک احمدیت کا بیج اسی کتاب میں بویا گیا، ہم اس کتاب پر کئے جانے والے بعض مشہور تبصروں میں سے چند اقتباسات ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.مولوی ابو سعید محمد تین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ جلد ہفتم نمبر 4.میں لکھا: ابوسعید ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوتی اور آئندہ کی خبر نہیں.لَعَلَ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ اَمْراً.اور اس کا متولیف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پانی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب تبادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفینِ اسلام خصوصاً فرقہ ارید و بریم سماج سے ایسے زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کے نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی جانی ومالی قیمی بانی نصرت کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعوی کیا ہو کہ میں کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس اگر تجربہ و مشاہدہ کرے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو.(۲) براہین احمدیہ کے دوسرے تبصرہ نگار لدھیانہ کے مشہور اور باکمال صوفی مرتاض حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ تھے جو ریڑ چھتر گورداسپور میں بارہ چودہ برس تک سلوک کی منازل طے

Page 30

۲۱ کرنے کے بعد دعوت رشد و ہدایت کی اجازت لے کر لدھیانہ محلہ جدید میں دھونی رمائے بیٹھے تھے اور جن کے عقیدت مندوں کا حلقہ دُور دُور تک بڑی سرعت سے پھیل رہا تھا اور ان کے رُوحانی کمالات اور توجہ کی برکات کی دھوم مچی ہوئی تھی.اُن کی دینی عظمت کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ لدھیانہ کے بڑے بڑے علماء مثلاً مولوی محمد صاحب لدھیانوی وغیرہ ان کے خاص ارادتمندوں میں شامل تھے.حضرت صوفی صاحب رضی اللہ عنہ نے اشتہار واجب الاظہار کے نام سے نہایت والہانہ انداز میں ایک مفصل ریویو شائع کیا جس میں براہین احمدیہ کے متعلق بڑے پر شوکت اور دل آویز الفاظ میں اپنے تاثرات سپرد قلم کئے.حضرت صوفی صاحب موصوف لکھتے ہیں :- " اس چودھویں صدی کے زمانہ میں کہ ہر ایک مذہب و قمت میں ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہے بقول شخصے ' کا فرشتے نئے ہیں مسلماں نئے نئے ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ براہین احمدیہ اور اس کے مولف مخدومنا مولانا میرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں.جو ہر طرح سے دعوئی اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کیلئے موجود ہیں.جناب موصوف عامی علماء اور فقراء میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ امور اور مسلم اور مخاطب النی ہیں.صدہا نیچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رویار صالحہ اور امرانی اور اشارات اور بشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان عربی، فارسی، اردو انگریزی وغیرہ میں ہیں حالانکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ انگریزی کا نہیں پڑھا...صاف ظاہر ہوتا ہے بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عن ابي هريرة قال فيما اعلم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان الله عزّ و جلّ يبعث لهذه الامة على راس كل مائة سنة من يجدد نهادینها درواه ابو داود) مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد اقمت میں سے ہیں.اس دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل اسی کی تائید میں ہے.اس موقعہ پر چند اشعار فارسی اس کتاب کے لکھتا ہوں جین کو پڑھکر ناظرین خود جناب ممدوح کا مرتبه دریافت فرمائیں گے اور یقین ہے کہ خلوص دل

Page 31

اور صدق عقیدت سے یہ شعر زبان حال سے فرماویں گے کہ سے سب مریضوں کی ہے تمہیں یہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے سن شریف حضرت کا قریباً چالیں یا پینتالیس ہو گا.اصل وطن اجداد کا ملک فارس معلوم ہوتا ہے.نہایت خلیق صاحب مروت و حیا نوجوان رعنا چہرہ سے محبت الہی سکتی ہے.اسے ناظرین! میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک وشبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد وقت اور طالبان سلوک کے لئے کبریت احمر اور سنگدلوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکرین اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجتہ بالغہ ہیں.یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا.آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آگیا ہے اور محبت الہی قائم ہوچکی ہے اور آفتاب عالمتاب کی طرح بدلائل قاطعہ ایسا با دستی کامل بھیج دیا ہے کہ بچوں کو نور بخشے اور ظلمات وضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے وو (۳) براہین احمدیہ کے تیسرے تبصرہ نگار مولوی محمد شریف صاحب بنگلوری تھے جو مسلمانان ہند کے نهایت دیندار اور تقوی شعار صحافی اور شهور مسلم اخبار منشور محمدی" بانگھور کے مدیر شہیر تھے.مولانا محمد ر اور شریف صاحب نے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُونَا “ کے عنوان سے اپنے مبسوط اور پر زور تنصیرے میں لکھا :- ” منافقوں اور دشمنوں کے سارے جملے دین اسلام پر ہو رہے ہیں.ادھر دھر یہ بین کا زور اُدھر لامذہبی کا شور کہیں برہمو سماج والے اپنے مذہب کو فیلسوفانہ تقریروں سے دین اسلام پر غالب کیا چاہتے ہیں.ہمارے عیسائی بھائیوں کی پوری ہمت تو اسلام کے استیصال پر مصروف ہے اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ جب تک آفتاب اسلام اپنی پرتاب شعاعیں دنیا میں ڈالتا رہے گا تب تک عیسوی دین کی ساری کوششیں بیکار اور تثلیث تین تیرہ رہے گی.غرض سارے مذہب اور تمامی دین والے یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح دین اسلام

Page 32

کا چراغ گل ہو....مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اہل اسلام سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید نہ حمایت کی توفیق دی ہے کوئی کتاب ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو اور جس میں دلائل عقلیہ اور براہین نقیہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثبوت نبوت پر قائم ہوں.خدا کا شکر ہے کہ یہ آرزو بھی بر آئی.یہ وہی کتاب ہے جس کی تالیف یا تصنیف کی مدت سے ہم کو آرزو تھی.برائین احمدیه ملقب به البراهين الاحمديه على حقيقة كتاب الله القرآن ونبوة محمدية " جس میں مصنف زاد قدره اللهم متع المسلمين بطول حیاتہ نے تین سو برا این قطعیہ عقلیہ سے حقیقت قرآن اور نبوت محمدیہ کو ثابت کیا ہے.افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہلِ اسلام ہند مقبول بارگاه صمد جناب مولوی میرزا غلام احمد رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور کی تصنیف ہے.سبحان اللہ ! کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہو رہا ہے.ہر ہر لفظ سے حقیقت قرآن ظاہر ہورہی ہے.مخالفوں کو کیسے آب و تاب سے دلائل قطعیہ سُنائے ہیں ! دعوئی ہی مدتل و براہین ساطعہ ثبوت ہے.مثبت بدلائل قاطعہ تاب دم زدنی نہیں ، اقبال کے سوا چارہ نہیں.ہاں انصاف شرط ہے ورنہ کچھ بھی نہیں.ایها الناظرین! یہ وہی کتاب ہے جو فی الحقیقت لا جوا ہے (۴) دہی کے نہایت فاضل علوم شرقیہ سے با خبر عالم اردو فارسی کے نامور شاعر نواب صابہ الدین احمد خان صاحب (لوہارو) براہین احمدیہ کو دیکھتے ہی فریفتہ ہو گئے اور یہاں تک وارفتگی کا عالم ہوا کہ مہفتہ عشرہ میں پوری کتاب ختم کر کے دم کیا اور فرمایا :- نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے مصنف کو یا تو لوگ پاگل کہیں گے یا اس سے اگلی صدی کا مجدد ہو گا " اور اسی طرح اُن کے نواسے اور ملک کے نامور شاعر ابو المعظم نواب سراج الدین احمد صاحب سائل و منشور محمدی، بنگلور - ۲۵ / رجب المرجب ۱۹ و ۲۱۷

Page 33

۲۴ t نے اسے بڑی معرکے کی کتاب قرار دیا.اسے -۵- ایک مشہور سکھ لیڈر ارجن سنگھ صاحب ایڈیٹر "رنگین" امرتسر لکھتے ہیں." اس وقت گھر گھر براہین احمدیہ کا چرچا تھا اور تمام پڑھے لکھے مسلمان اس کتاب کے مطالعہ کو ضروری سمجھتے تھے کیونکہ مسلمان عالموں کا خیال تھا کہ اس کتاب میں آریہ اور عیسائیوں کے تمام اعتراضوں کا جواب آچکا ہے.ہر ایک مسلمان مناظر اس کتاب کو ایک نظر دیکھ لینا ضروری خیال کرتا تھا.الغرض اس کتاب کی تصنیف کی وجہ سے جہاں میرزا صاحب ایک طرف ہندوستان کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا بن گئے وہاں آپ کو عیسائیوں اور آریوں میں بھی کافی شہرت حاصل ہو گئی یہ سکے ن ۴ ۱۹۳۶ الحکم ار مارچ سے تخلیفہ قادیان ۵۰ از ارمین سنگھ صاحب مدیر اخباره رنگین امرتسر یاری از دیر رنگین ه ص

Page 34

۲۵ ماموریت کا دعوئی اور جماعت احمدیہ کا باقاعدہ قیام برا بین احمدیہ کی اشاعت تک حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی زندگی کا دور اگرچہ سرا پا خدمت اسلام کے لئے وقف تھا تا ہم آپ کی یہ خدمت ایک انفرادی حیثیت رکھتی تھی اور نہ تو آپ علما کے کسی گروہ کے نمائندہ تھے نہ کسی مسلم سوسائٹی کی طرف سے مقرر تھے.اسی طرح اگرچہ براہین احمدیہ میں آپ کے الہامات اور رویام و کشوف درج ہیں چین سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اللہ تعالے آپ کو بحیثیت مامور خدمتِ اسلام کا فریضہ سونپنے کا ارادہ فرما چکا ہے لیکن اس وقت تک ماموریت کا دعوئی کرنے اور محبت لے کر خدمت اسلام کے لئے کسی علیحدہ جماعت کے قیام کے متعلق کوئی قطعی ارشاد خداوندی نازل نہیں ہوا تھا.لہذا معتقدین کی خواہش اور بار ہا اصرار کے باوجود آپ بیعت لے کر ایک جماعت کے قیام پر آمادہ نہ ہوتے اور خواہش کرنے والوں کو ہمیشہ یہی جواب دیتے رہے کہ ابھی اللہ قبل شانہ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم نازل نہیں ہوا یشہ میں پہلی بار آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لے کر اسلام کی خدمت پر مامور مخلصین کی ایک جماعت تیار کرنے کا ارشاد ہوا.چنانچہ مارچ شہ میں لدھیانہ کے مقام پر آپ نے بیعت لے کر باقاعدہ جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی.اس تاریخی بیعت میں چالیس مخلص معتقدین کو شمولیت کا شرف حاصل ہوا.بیعت کے ذریعہ مسلمانوں میں ایک علیحدہ جماعت کے قیام سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا جو مقصد تھا اور بعیت کے ذریعہ جماعت میں شامل ہونے والوں سے آپ نے جو توقعات وابستہ فرمائیں ان کی ایک جھلک آپ کے حسب ذیل الفاظ میں دکھائی دیتی ہے.آپ فرماتے ہیں :- " وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں، یتیموں کے لئے بطور بالیوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاکت چشمہ بر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت

Page 35

میں بہتا ہوا نظر آئے....خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو یہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے حصاف کرے گا اور اُن کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا اور وہ جیسا کہ اُس نے اپنی پاک پیشین گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور سہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشو و نما دے گا یہاں تک کہ اُن کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی.اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک اُن میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نفرت دی جائے گی.اس رت جلیل نے یہی چاہا ہے.وہ قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے ہر ایک طاقت اور قدرت اُسی کو ہے لے مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفا −196 ه ۱۹ - ۱۹۸ مطبوعه شکله ناشر الشركة الاسلامیه درلوده

Page 36

وفات مسیح ناصرتی کا ولولہ خیز اعلان اور مسیحیت کا دعوئے نشہ کا سال تاریخ احمدیت میں ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.یہی وہ سال ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے یہ حیرت انگیز انکشاف فرمایا کہ سیح بانی ناصری علیہ السلام ، جن کو اس زمانے کے مسلمان اور عیسائی دونوں ہی آسمان پر زندہ رونق افروز تسلیم کرتے تھے طبعی موت سے وفات پاچکے ہیں اور وہ مسیح جس کے دوبارہ نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا تھا وہ خود حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی ہیں.آپ کا یہ اعلان اس الہام الہی کے نتیجہ میں تھا کہ : مسیح ابن مریم رسول اللہ نوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.اگر چہ اس الہام سے قبل بھی آپ کو بارہا مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کی مختلف رنگ میں خیر دی جاچکی تھی اور بار ہا آپ کو مسیح کے لقب سے یاد کیا گیا تھا مگر کچھ تو مسلمانوں کے رائج الوقت عقیدہ کی وجہ سے اور کچھ اپنی طبعی انکساری کے باعث آپ ان الہامات اور القابات کو استعارہ قرار دیتے رہے.چنانچہ آپ اس ضمن میں تحریر فرماتے ہیں :- " اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا سیح ابن مریم سے اپنے میں بہتر ٹھہرا ہوں.خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے قُلْ أَجَرَّدُ نَفْسِي مِنْ ضُرُوبِ الْخِطَابِ - یعنی اُن كوك کو کہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا.یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے میرا اس میں دخل نہیں ہے.رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام ے تذکره صا طبع سوم شه

Page 37

۲۸ میں تنافق کیوں پیدا ہو گیا.سو اس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہینِ احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا ، مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا سیح میں ہی ہوں.اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی آسمان پر سے نازل ہوں گئے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہی نازل ہوئی کہ وہ پیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے.اور ساتھ اس کے صد با نشان ظہور میں آئے.اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے.اور خدا کے چمکتے ہوتے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں سیح آنے والا میں ہی ہوں، ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا.اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کر کے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا.تو آیات قطعیۃ الدلائت سے ثابت ہوا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اسی اُمت میں سے آئے گا اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتا ہے تو کوئی تاریخی باقی نہیں رہتی ، اسی طرح صد با نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تین مسیح موعود مان لوں میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہوں مجھے اس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرئے اس نے گوشتہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ

Page 38

۲۹ شہرت دُوں گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا ہے میرا اس میں کیا قصور ہے.اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو سیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے.اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا، مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے اوپر نازل ہوئی اُس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُتنی ہے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی کسی امتی کے مقام مسیحیت پر فائز ہونے کا اعلان ایک عظیم دھماکہ بن کر مسلمان اور عیسائی دنیا میں زلزلہ بر پا کر گیا.لیکن قبل اس کے کہ اس پہلو پر مزید کچھ روشنی ڈالی جائے مناسب ہوگا کہ مختصراً اس انقلاب آفریں اعلان کا جائزہ لیا جائے.اس دعونی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینا اس لئے بھی اشد ضروری ہے که در اصل احمدیت کی حقیقت اسی دعوئی کے گرد گھوم رہی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھے بغیر احمدیت کا مزاج سمجھنا ممکن نہیں.بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ احمدیت کا امتیازی نشان اسی عقیدہ میں مضمر ہے کہ : " مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکے اور دعت کے موافق ان کے رنگ میں رنگین ہو کا کر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مبعوث ہوتے " اس ضمن میں حسب ذیل اہم سوالات چھان بین کے لائق نظر آتے ہیں :- (3) کیا قرآن کریم اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا اور تاحکم ثانی اپنے نزول کے انتظار میں وہیں قیام فرمانا ثابت ہے؟ اگر ایسا ہے تو حضرت مرزا صاحب کے مذکورہ بالا دعوی کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے ؟ (ب) اگر قرآن وحدیث سے حضرت عیسے علیہ السلام کی حیات کی بجائے وفات ثابت ہوتی ہو تو ان احادیث نبویہ کے کیا معنے لئے جائیں گے جن کے مطابق آخری انے روحانی خزائن جلد ۳۲ حقیقت الوحی ص ۱۵ تا ۱۵۴..

Page 39

زمانہ میں دجال نے خروج کر کے دُنیا میں تباہی پھیلانی تھی اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے نازل ہو کر اُسے ہلاک کرنا صلیب کو توڑنا، سوروں کو قتل کرنا اور مسلمان کے درمیان ایک عادل منصف کے طور پر اُن کے اختلافات کا فیصلہ فرما تھا ؟ (ج) حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے وصال کی خبر امت محمدیہ کے لئے ایک افسوسناک سانحہ کا حکم رکھتی ہے یا پُر مسرت نوید کی ؟ اور اس کے مخالف یا موافق کیا اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں ؟ ان سوالات میں سے حجز الف کا جواب بہت طویل اور تفصیلی ہے.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے قرآن کریم کی تیس آیات سے نیز بیشتر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت قوی استدلال کے ساتھ یہ ثابت فرما دیا ہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبویہ کی رو سے حضرت پیسے علیہ السلام کا نہ صرف یہ کہ زندہ آسمان پر جانا ثابت نہیں بلکہ اس کے بر عکس قطعی وفات ثابت ہوتی ہے.آپ کی مختلف کتب میں یہ یہ دلائل بکثرت بیان ہوتے ہیں جن میں سے بالخصوص نزول ایسے اور ازالہ اوہام " اس مسئلہ پر حاصل بحث کرتی ہیں.حضرت مرزا صاحب نے صرف نقلی دلائل ہی کو پیش نہیں کیا بلکہ زبر دست عقلی دلائل بھی اپنے دعوئی کی تائید میں پیش فرمائے.اسی طرح آپ نے صرف اس دعونی پر ہی اکتفا نہ فرمائی کہ حضرت مسیح آسمان کی طرف نہیں اٹھائے گئے بلکہ ان کا زیر زمین مدفون ہونا بھی ثابت فرما دیا.اس سلسلہ میں آپ کی معرکۃ الآرا تحقیق "مسیح ہندوستان میں اس لائق ہے کہ ہر محقق گری توجہ سے " اس کا مطالعہ کرے.یہ تحقیق ایک حیرت انگیز تاریخی انکشاف ہے.جزء ب میں جو سوال اُٹھایا گیا ہے اس کا جواب بھی تفصیل کے ساتھ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے اپنی مختلف کتب میں بڑے دلچسپ پیرایہ میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر آپ نے دجال کے خروج اور مسیح ابن مریم کے نزول کی گتھیوں کو ایسے نہسن پیرایہ میں سلجھایا کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے.آپ نے بتایا کہ دجال کے خروج کی پیشگوئی ہو تا مسیح کے نزول کی یہ دونوں ہی نہایت لطیف تمثیلات اور استعارات پر مشتمل ہیں جنہیں ظاہر پر محمول کر کے انسان حقیقت سے ہٹ کر بہک جاتا ہے.چنانچہ آپ کی پیش کردہ وضاحت کے مطابق وہ دجال میں نے مسیح ابن مریم کے نزول سے قبل خروج کرنا تھا، کوئی ایسا مافوق الفطرت دیو نہیں تھا جیسے ہم بڑی بوڑھی عورتوں کے قصوں کہانیوں میں سنتے ہیں بلکہ اس سے مراد ایک ایسی قوم تھی جو اپنے انتہائی دجل اور دھو کہ آمیز

Page 40

۳۱ سیاست (DIPLOMACY) کے ذریعہ دنیا میں بڑا فتنہ پیدا کرنے والی تھی.میں اس تمثیلی انسان کو دیو ہیکل دکھانا اس فتنہ کی شدت اور ہیبت کو ظاہر کرنے کے لئے تھا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ اس قوم کی طاقت کے سامنے دیگر قومیں پستہ قد بونوں کی طرح بے زور اور بے حیثیت ہو کر رہ جائیں گی.تمثیلی زبان میں اس عظیم پیشگوئی کی سب کڑیاں نہایت معنی خیز ہیں.مثلان پیشگوئی کی رو سے دائیں آنکھ کا بعصات سے محروم دکھایا جانا اور بائیں آنکھ کا بہت بڑی اور روشن دکھانا اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ یہ قوم روحانیت سے بالکل عاری ہوگی لیکن دنیا کے معاملات میں بڑی تیز اور باریک نظر رکھنے والی ہوگی اور مادی قوانین کے مطالعہ سے غیر معمولی استفادہ کرے گی.اس طرح اس دقبال کی سواری لینی عجوبہ روزگار گدھے کی جو تمثیل بیان کی گئی وہ بھی دراصل اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ دقبال کی قوم سائنس میں غیر معمولی ترقی کرے گی اور آگ اور پانی سے چلنے والی انتہائی تیز رفتار سواریاں ایجاد کرے گی اور انہی سواریوں کے ذریعے وہ ساری دنیا پر غلبہ پائے گی.- اس پہلو سے جب ہم وقبال کے گدھے کی مبینہ صفات پر غور کرتے ہیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ مغرب کی عیسائی اقوام نے جو سواریاں ایجاد کی ہیں، دجال کے گدھے کی تصویر بعینہ اُن پر صادق آتی ہے مثلاً خوراک کے طور پر اگ اور پانی کا استعمال انتہائی تیز رفتار ہونا، وسیع و عریض ہوتا ، سواریوں کا پیٹھ پر بیٹھنے کی بجائے پیٹ میں یعنی اندرونی سیٹوں پر سفر کرنا، روانگی سے قبل بلند آواز نکال کر مسافروں کو متنبہ کر دینا یہ تمام علامتیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں دجال کے گدھے کی بیان کی گنتی تھیں، بتمام تفصیل مغرب کی عیسائی قوموں کی ایجاد کردہ سواریوں پر صادق آتی ہیں.ریل ہو یا سمندری جہاز دونوں کی خوراک آگ اور پانی دونوں کی رفتار غیر معمولی تیز ، دونوں کے مسافر پیٹ کے اندر دونوں کا حجم عظیم پھر مزید تکلف یہ کہ جیسا کہ احادیث نبویہ میں بیان کیا گیا تھا، دونوں اپنے سفر پر روانہ ہونے سے قبل ایک خاص بلند آواز کے ذریعہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم روانہ ہونے والے ہیں.پس حضرت مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ان آسمانی معموں کو حل فرمایا اور دنیا کو بتایا کہ کیا درقبال کی پیشگوئی اور کیا اس کو بلاک کرنے والے مسیح کی آمد کی پیشگوئی.یہ سب استعارہ کی زبان تھی.پس کوئی منصف مزاج طالب حق یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مسیح موعود کے نزول اور دنبال کے خروج سے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی تشریح فرما کر حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی ایک نہایت عظیم الشان خدمت سر انجام دی ہے.قارئین کرام ! ایک طرف آپ اس ظاہری منظر کو دیکھتے جو محض الفاظ کے ظاہری معنے قبول کرنے سے آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے دوسری طرف اس

Page 41

باطنی منظر کو دیکھیں جس پر سے حضرت مرزا صاحب نے تمثیل اور استعارہ کے پردے اٹھاتے ہیں جہاں پہلے منظر کو دیکھ کر نظر گھبراتی اور عقل اسے حقیقت کے طور پر قبول کرنے سے انکار کرتی ہے وہاں دوسرا منظر کتنا دیدہ زیب اور نقل کے لئے قابل قبول ہے؟ اور آنحضورصلی الہ علیہ وسلم کی کسی علت دل میں بھاتا ہے کہ چودہ سو سال قبل ہی آج کے زمانہ کی تو ایجاد سواریوں کا نقشہ ہو ہو کھینچ کر رکھ دیا اور مغربی قوموں کے عالمگیر غلبہ کی خبر دے دی.ج.جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ وفات مسیح کا اعلان امت محمدیہ کے لئے مردہ جانفزا تھا یا اندو مبناک خبر ؟ تو ادنی سے تدبر سے بھی یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ میسیج کی موت کا اعلان در اصل اسلام کہ کی زندگی کا پیغام تھا.یہ خوشی سے اچھلنے اور گودنے کا وقت تھا نہ کہ شدت غم سے سر سینے کا.عیسائیت کے ہاتھہ میں اسلام کے خلاف سب سے کاری حربہ مسلمانوں کا یہی غلط اعتقاد تھا.عیسائی پادریوں کے نزدیک حیات مسیح اور رفع الی السما کے عقیدہ کے حسب ذیل طبیعی نتائج مترتب ہوتے تھے : حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مطالبہ کیا گیا کہ آسمان پر چڑھ کر اور پھر (1) وہاں سے کتاب لا کر دکھائیں تو اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ جواب دینے کی ہدایت کی.قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلا بَشَراً رَسُولاً (بنی اسرائیل : ۹۴) یعنی اُن سے کہہ دے کہ میرا رب دان بیہودہ باتوں کے اختیار کرنے سے پاک ہے میں تو بشر رسول کے سوا کچھ نہیں گویا آسمان پر جانا بشریت اور رسالت دونوں سے ارفع تر مقام کا متقاضی تھا.چونکہ میں نے یہ کام کر کے دکھا دیا لہذا آپ بشر اور رسول دونوں سے بلند تر تھے.(۲) آپ کی غیر طبعی طویل عمر آپ کی الہی صفات کی نشاندہی کرتی ہے.(۳) کسی رسول کو خدا نے سخت سے سخت تکلیف کے وقت بھی اپنی طرف نہیں اُٹھایا.(۴) آخری زمانہ میں امت محمدیہ کو نئی زندگی بخشنے کے لئے آخر مسیح کی ضرورت پیش آتے گی پیس مسیح محسن ثابت ہوتے اور اُمت محمدیہ زیرا احسان - افضل وہی ہو گا جو محسن ہو.میجیوں کو مسلمانوں پر اس عقیدہ کی بنا پر جو منطقی غلبہ نصیب ہوتا ہے وہ مسلمانوں کیلئے شدید مضرات سے خالی نہیں تھا.اسی عقیدہ کے طفیل مسلمانوں کا ایک طبقہ تو آمد سیح کی موہوم تمنا لئے خوابوں میں زندگی گزارنے لگا اور دوسرا طبقہ اس کے رد عمل میں اسلام ہی سے بیزار ہو کر دنیا کی طرف ٹھیک گیا یا احادیث کا منکر ہو کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو گیا.پس آخری اور قطعی اور صحیح فیصلہ وہی ہے جو حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ مسیح کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے

Page 42

مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی اور اس کی لطیف تشریح اگر مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات قرآن و حدیث کی رو سے نیز تاریخی اور عقلی دلائل کی روشنی میں قطعی طور پر ثابت ہو جائے تو لازماً اس مسیح کے نزول کی پیشگوئی کی کوئی معقول توجیہ پیش کرنی ہوگی جس کی آمد کی خوش خبری اُمت محمدیہ کو دی گئی تھی اور نہ ان بکثرت اور متواتر احادیث کو کرد کرنا پڑے گا جن میں یہ پیش گوتیاں مذکور ہیں.جماعت احمدیہ کے سوا دیگر مسلمان اس مسئلہ پر دو گروہوں میں بنے ہوئے ملتے ہیں.ا قال وہ سواد اعظم جو ان احادیث نبویہ کو ان کے تواتر اور شہرت اور صحت کے پیش نظر رة کرنے پر آمادہ نہیں.یہ گروہ جو زیادہ تر علما اور عوام الناس پر مشتمل ہے حضرت میع ناصری علیہ السلام کو زندہ آسمان پر بیٹھا ہوا تسلیم کرنے پر مصر ہے اور یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک دن نازل ہو کر اپنے مفوضہ فرائض سرانجام دیں.دوسرا گروہ اہل قرآن، نیچریوں اور مغربی تعلیم سے متاثر ان مسلمانوں پر مشتمل ہے جو عقلاً مسیح گے تا ناصری کا زندہ آسمان پر بیٹھ ربنا تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں.لہذا یہ لوگ اُن احادیث نبویہ کو ان کے تواتر اور صحت اور شہرت کے باوجود کہ ذکر دیتے ہیں اور کسی آنے والے مصلح کے امکان سے ہی چھٹکارا پالیتے ہیں.پس جہاں اول الذکر گروہ (جو بھاری اکثریت میں ہے) ایسی بعید از قیاس امیدوں کی دُنیا میں پس رہا ہے جن کے پورا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا وہاں موخر الذکر اقلیت قنوطیت اور مایوسی کا شکار نظر آتی ہے اور کسی آسمانی مصلح کی آمد سے مایوس ہو کر اُمت مسلمہ کو اپنی مہبود اور بقا کے لئے خود ہی ہاتھے پاؤں مارنے کی تلقین کرتی ہے.اس مکتب خیال کا رجحان زیادہ تر دنیا وی فلاح و بہبود اور سیاسی ترتی کی طرف ہے اور کوئی روحانی پیغام اُن کے پاس نہیں.مندرجہ بالا دونوں مکاتب خیال کے مابین حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق جو

Page 43

۳۴ موقف اختیار فرمایا وہ بیک وقت دل و دماغ دونوں کو مطمئن کرنے والا ہے اور ایمان کو بھی اسی طرح رضامند کرتا ہے جیسے عقل کو.سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن اور حدیث کے درمیان کوئی تفاوت پیدا نہیں ہونے دیتا بلکہ ایک کو دوسرے کا موید قرار دیتا ہے.اختصار کے ساتھ یہ موقف درج ذیل کیا جاتا ہے: جس طرح خروج دجال کی پیشگوئی معنی خیز تمثیلات پر مشتمل تھی اسی طرح نزول مسیح کی پیشگوئی بھی استعارہ کی زبان میں ہے.قتل دجال سے مراد نہ تو کسی ایک دیو قامت مخلوق کا قتل کرنا تھا نہ کسر صلیب سے مراد ظاہری صلیبوں کا توڑنا.اسی طرح قتل خنزیر سے بھی یہ مراد نہ تھی کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی الله انزول کے بعد دنیا بھر کے سور مارتے پھریں گے.حتی کہ خود مسیح سے مراد بھی پرانے مسیح نہیں کیونکہ قرآن کریم واضح طور پر ان کی وفات کی خبر دیتا ہے.پس قرآن اور حدیث میں کوئی تناقض نہیں.قرآن جس مسیح کے مرنے کی خبر دیتا ہے وہ حقیقی مسیح تھا اور حدیث جس سیح کے آنے کی خبر دیتی ہے وہ تمنیلا مسح کا نام پانے والا موعود مصلح ہے جس نے اُمتِ محمدیہ ہی میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں سے پیدا ہونا تھا.آپ نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ صلیب توڑنے کی پیشگوئی کے ظاہری معنے لینا محض جہالت اور پیشنگوئی کی عظمت کو گرا دینے کے مترادف ہے.صلیب توڑنے کے معانی آپ نے یہ بیان فرمائے کہ آنے والا موعود حقانی دلائل کے ساتھ صلیبی فتنے کی کمر توڑ دے گا اور بگڑے ہوئے عیسائی عفت ائد کے خلاف ایسے قومی اور کاری برامین پیش کرے گا کہ جو صلیبی عقائد کو پارہ پارہ کر دیں.اسی طرح آپ نے وضاحت فرمائی کہ خنزیر کو قتل کرنا بھی کوئی ظاہری نعل نہیں ورنہ مانا پڑے گا کہ حضرت بیٹے کی زندگی کے بقیہ دن انتہائی پیرانہ سالی کے عہد میں دنیا بھر کے جنگلوں یا دریا کے بیلوں میں بدمست پھرنے والے سوروں کی تلاش، تعاقب اور اُن کے شکار میں کٹ جائیں گے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ استعادة استعمال فرماتے تھے جن کا مطلب صرف یہ تھا کہ آنے والا سیح نا پاک اور خبیث اخلاق کو مٹائے گا اور دخیال کی گندی تہذیب کا قلع قمع کرے گا.اس سوال پر بھی آپ نے سیر حاصل بحث فرمائی کہ آنے والے مصلح کو مسیح کا لقب دینے میں کیا حکمت تھی.آپ نے فرمایا کہ آنے والے مسیح محمدی اور مسیح موسوی کے درمیان چونکہ بہت سی مشاہتیں پائی جانی تھیں، لہذا آنے والے کا نام تمثیل مسیح ابن مریم رکھ دیا گیا.جیسے کسی بہادر کو رستم یا کسی بہت سخی انسان کو حاتم طائی کہ دیا جاتا ہے جو ماثلتیں آپ نے بیان فرما ہیں ، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں :-

Page 44

۳۵ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام موسوی شریعت کے تابع ہو کر آئے تھے اور خود اُن کے اعتراف کے مطابق وہ تورات کا ایک شعشہ بھی تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اسی طرح آنیوانے میسج بھی حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے کامل طور پر تابع ہونگے جس طرح حضرت مسیح ابن مریم نے یہودی فرقوں کے اختلافات میں حکم و عدل کا کردار ادا کیا اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ روشنی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی احصل تعلیم کو بعد میں شامل ہونے والے انسانی خیالات سے پاک کر کے پیش کیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود اُمت محمدیہ میں بعد کے پیدا ہونے والے اختلافات میں حکم و عدل کا کردار ادا کریں گے.جس طرح موسوی دور کے تیز غلبہ کے مقابل پر عیسی بن مریم کے متبعین کو آہستہ آہستہ رونما ہونے والا غلبہ عطا کیا گیا اسی طرح حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلد اور برق رفتار غلبہ کے مقابل پر آنے والے مصلح کو سیخ ناصری کی طرح آہستہ آہستہ ظاہر ہونے والا غلبہ عطا کیا جائے گا.م جس طرح حضرت مسیح کو تلوار کا جہاد نہیں کرنا پڑا لیکن تبلیغی جہاد کے سلسلہ میں آپ کو اور آپ کے متبعین کو شدید مخالفت اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں اسی طرح مسیح موعود اور آپ کی جماعت کو بھی اسلام کی تبلیغ کے سلسلہ میں ایک لمبا اور قربانیوں سے بھر گویہ جہاد کرنا پڑے گا اور طرح طرح کے دکھوں اور مصائب کا سامنا کرنا ہو گا.آنے والے موعود کو نسیح کا نام دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنے والے مسیح نے بگڑی ہوئی عیسائیت کے تصور کی پیداوار یعنی ما فوق البشر اور ابن الله (نعوذ بالله مسیح کی بجائے حقیقی مسیح کا وجود ان کے سامنے از سر نو پیش کرنا تھا اور اس کی امامت میں انہوں نے بالآخر فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا تھا.

Page 45

دیگر دعاوی اور آپ کے مشن کی عالمگیر حیثیت حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ دعوئی کہ آپ کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا ہے آپ کو دیگر تمام علمائے اسلام اور پیروں فقیروں سے ایک بالکل الگ مقام عطا کرتا ہے.آپ کا دعوئی یہ ہے کہ آپ کو خود اللہ تعالیٰ نے خدمت اسلام کا فریضہ ایک مامور کی حیثیت سے سونپا ہے اور آپ وہی وجود ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی تھی.اس دعونی کا لازمی نتیجہ دیگر مذاہب پر بھی پڑا تھا کیونکہ جب آپ نے مسلمانوں کے موعود امام ہوتے کا دعوی کیا تو یہ دعوی اس اسلامی عقیدہ کے پس منظر میں تھا کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم وہ آخری صاحب شریعیت رسول ہیں جن کا دین اب قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتا.اگر اس دعوئی کو درست تسلیم کیا جائے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اسلام کے سوا اب کسی اور مذہب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح مبعوث نہیں ہو سکتا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں پائی جانے والی اُن پیشگوئیوں کی کیا حیثیت ہوگی جو اپنے مذہبی رہنماؤں کے بارہ میں یہ مژدہ سناتی ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ایک دفعہ پھر نازل ہو کر یا تجتم اختیار کر کے دنیا کو اپنے اپنے مذہب پر اکٹھا کریں گے ؟ کیا اُن پیشگوئیوں کو اصلا بے بنیاد اور قابل رو تسلیم کیا جائے یا ان میں سے کسی ایک کو سچا اور باقی تمام کو جھوٹا سمجھا جائے ؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کے باہمی تصادم کو دور کرنے کی معقول توجیہ پیش نہ کی جا سکے تو ان سب کو بیک وقت صحیح تسلیم کرنا عقلاً محال ہے.حضرت مرزا صاحب نے ان پیشگوئیوں کی اصلیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس ظاہری تضاد کو کو دور کرنے کی ایک معقول توجیہ پیش فرمائی.آپ کے نزدیک یہ مختلف پیش گوئیاں آنے والے موعود کے لئے جو وقت معین کرتی ہیں وہ ایک ہی ہے اور سب ایک ہی زمانہ کی علامتیں بیان کرتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخری زمانہ میں ہندووں کا کرشن دُنیا کو ہندومت کی طرف میلانے کے لئے

Page 46

اوتار بن کر آئے گا اور عیسائیوں کا سیح خدا کے بیٹے کی حیثیت سے تقسیم اختیار کر کے تثلیث پر ایمان لانے کو ذریعہ نجات بتائے گا یا بدھ اس لئے جنم لے گا کہ دنیا کو ایک دفعہ پھر بدھ مت کی تعلیم دے اور زرتشت اس لئے نزول فرمائے گا کہ آتش پرستی کی طرف دنیا کو دعوت دے یہ تصور مضحکہ خیز اور محال ہے کہ بیک وقت کئی پیچھے اور خُدا کے پیارے رشی یا اوتار دُنیا میں ظاہر ہو کر اہل دنیا کو متضاد اور متصادم تعلیمات کی طرف بلائیں.کوئی توحید کو ذریعہ نجات بتلاتا ہو تو کوئی بت پرستی کو کوئی تعقیدہ تثلیث کو مدار نجات قرار دے رہا ہو تو کوئی آگ کی پوجا کو.واقعہ یوں ہے کہ یہ سب اپنے اپنے وقت میں در اصل ایک ہی خدا کے خلیفہ اور مظہر تھے ، گو مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے مختلف مصیبتیں ظاہر ہوئیں لیکن اس پہلو سے اُن میں کوئی فرق نہیں کہ سب ایک ہی بالا رہستی کے پیغامبر تھے.پس ان کے دوبارہ آنے کا بھی صرف یہی مطلب ہے کہ جب ان کی قومیں بگڑ جائیں گی اور ان کی تحقیقی تعلیم کو منع کر دیں گی تو خدا کی طرف سے ایک ایسا مصلح ظاہر ہو گا جس کا آنا گویا خود اُن ہی کا آنا ہے.پیس آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا امام تو ایک ہی ہو گا لیکن مختلف مذاہب کی طرف سے اُسے مختلف تمثیلی نام دیتے جائیں گے کہیں اسے کرشن کے نام سے پکارا جائے گا تو کہیں بڑھ کے لقب سے کہیں مسیح ابن مریم ظاہر کیا جائے گا تو کہیں زرتشت.اور یہ مختلف متمثیلی نام رکھنے کا مقصد یہ ہوگا کہ جملہ مذاہب کے پیرو خود اپنی اپنی کتب مقدسہ میں بیان کردہ علامتوں سے آنے والے مصلح کو پہچان کر اس کی اس طرح اطاعت کریں جیسے وہ اپنے مذہب کے نہایت قابل تعظیم اور واجب الاطاعت امام کی کرتے تھے گویا اس کا آنا خود اُن کے اُن اپنے امام کا آنا قرار پائے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اذان پاکر آپ نے یہ دعوی کیا کہ چونکہ آخری شریعیت اور آخری روحانی سلطنت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے لہذا اس حیثیت سے میں ہی آپ کا وہ روحانی فرزند اور غلام کا مل ہوں جو اسلام کے احیائے نو کے لئے مبعوث کیا جانا تھا اور جسے جملہ مذاہب عالم کے موعود مصلحین کی نمائندگی بھی سونپی جانی تھی.پس میں ہندوؤں کا آنے والا کرشن بھی ہوں اور عیسائیوں کا موعود سیح بھی اور تمام دیگر مذاہب کے ان ائمہ کا نمائندہ بھی ہوں جن کا صدیوں سے انکار کیاجارہا تھا چنانچہ امام اسی میں بھی آپ کو ان تمام نبیوں کا نمائندہ قرار دیا گیا جن کی مختلف قوموں کو انتظار تھی.جیسا کہ فرمایا جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاء : یعنی خدا کا پہلوان سب نبیوں کے لبادہ میں (تذکرہ طبع سوم ص 49)

Page 47

اس کے علاوہ بعض ایسے نبیوں کا نام دے کر بھی آپ کو مخاطب کیا گیا جن کی آمد ثانی کے بعض دیگر مذاہب کے پیرو کار منتظر تھے.چنانچہ ایک الہام میں آپ کو اس طرح مخاطب کیا گیا : ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے، لے..O سے تذکره ( مجموعه الهامات در رویا و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام طبع سوم است ۳

Page 48

۳۹ احمدیت مخالفت کی بھٹی میں " حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی شخصیت، آپ کے طرز فکر اور دعا دی کے مختصر تعارف کے بعد اب ہم ایک نظر ان نتائج پر بھی ڈالتے ہیں جو اس صورت حال کو بہر حال لازم تھے.سلمان علماء اور مسلمان عوام کے سواد اعظم پر آپ کے طرز فکر اور دعاوی کا شدید معاندانہ رد عمل ہوا اور راس کماری سے لے کر درہ خیبر تک مخالفت کی ایک ہولناک تند خو آگ بھڑک اُٹھی.آپ کو کا فراور ملحد اور دنبال قرار دیا گیا اور قتل " آپ کی اور آپ کے متبعین کی ادنی سزا تجویز کی گئی.مخالفت کے جوش میں بعض علماء تو اس قدر آگے بڑھ گئے کہ آپ کے بارہ میں عجیب و غریب من گھڑت قصے عوام میں مشہور کر کے یہ تاثر دینے لگے کہ گویا نعوذ باللہ آپ وہ دجال میں جس کے فتنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سو سال قبل ڈرایا تھا.مثال کے طور پر آپ کے بارہ میں یہ مشہور کر دیا گیا کہ آپ (نعوذ باللہ) دائیں آنکھ سے عاری ہیں، تاکہ ذہن اس دجال کی طرف منتقل ہو جائے جس کا ذکر پہلے کسی قدر تفصیل سے گزر چکا ہے.لیکن اس مذموم کوشش کے وقت انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اس افتراء کے بعد اس عجیب و غریب گدھے کو کہاں سے پیدا کریں گے جس پر سفر کر کے دقبال نے دنیا فتح کرنی تھی.نیز یہ خیال بھی ان کے دل میں نہ گزرا که اگر نعوذ بالله یہ وہی درخیال ہے تو پھر تا وقتیکہ مسیح ابن مریم آسمان سے نہ اتریں کسی ماں نے وہ عالم پیدا نہیں کیا جو اس کا مقابلہ کر سکے.قصہ مختصر صداقت اور خلوص کی جوسرا پہلے راستبازوں کو ملتی آئی ہے، وہ نہایت بھیانک صورت لئے ہوئے آپ کے حصے میں بھی آئی.لیکن اس کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ اپنوں نے غیروں سے بڑھ کر ایذارسانی میں حصہ لیا اور آپ کے لئے فی ذاتہ یہ دکھے دوسرے تمام دکھوں سے ہوا تھا کہ مسلمان علماء اپنی مخالفت میں پادریوں اور پنڈتوں سے بھی بازی لے گئے.اس کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :.کا فرد ملحد و دخیال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا عظیم ملت میں رکھا یا ہم نے ترے منہ ہی کی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے

Page 49

۴۰ وہ انتہائی سنگین جرائم جن کی پاداش میں مسلمان علمامہ کا غضب آپ پیر نازل ہوا یہ تھے :- ا آپ کا دعویٰ کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.آپ کا یہ دعوئی کہ آنے والا مصلح امت محمدیہ میں پیدا ہونا تھا مسیح اس کا صفاتی نام ہے جو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے.آپ کا دعوئی کہ آپ ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس مشن پر مامور کئے گئے ہیں توسی موعود کا مشن تھا اور آپ ہی کا صفاتی نام مسیح ہے.لہذا اب مزید کسی نئے آنیوالے کا انتظار بے سود ہے.آپ کا دعوئی کہ خدا تعالیٰ آج بھی اپنے بندوں سے اسی طرح ہم کلام ہوتا ہے جس طرح پہلے ہوتا تھا.اسکی کوئی صفت معطل نہیں ہوتی.اور عقل بھی انسان کسی ایسے تاریخی خدا پر ایمان نہیں لا سکتا جو اگلے وقتوں کے انسانوں سے تو بولتا آیا ہو لیکن ایک وقت کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے چُپ رہنے کی قسم کھائے.آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ واقعات بھی اس لغو تصور کو جھٹلارہے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے وحی و الہام کا تعلق تو بیٹھا ہے.چنانچہ سینکڑوں مسلمان اولیاء اور اقطاب سے اللہ تعالیٰ کا ہمکلام ہونا ثابت ہے اور اس زمانہ میں خود آپ سے (حضرت مرزا صاحب علیہ السلام سے خدا تعالیٰ بکثرت ہمکلام ہوتا ہے اور وحی و الہام اور کشوف درویار کے ذریعے بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طریق پر آپ کو اپنے ارشادات سے نوازتا ہے.جو بکثرت غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی معجزانہ تائید کی بشارتیں لے کر آتے ہیں اور ایسے امور کا انکشاف کرتے ہیں جو کسی منجم یا الکل چو مارنے والے پیشین گو کی پانچو حد استعداد سے باہر ہوتے ہیں.غرضیکہ کسی عاجز انسان کی مجال نہیں کہ الہام الہی کی مدد کے بغیر ان پر قدرت پا سکے.مندرجہ بالا وجوہ مخالفت کے علاوہ آپ کا یہ دعوی بھی علماء کی شدید ناراضگی کا موجب بنا کہ جیسا کہ احادیث نبوی میں آنے والے مصلح یعنی مسیح موعود کو نبی اللہ کہا گیا تھا.اللہ تعالٰی نے آپ کو بار ہا نبی اللہ کے نام سے مخاطب فرمایا.مگر یہ نبوت کوئی مستقل اور اور آزاد نبوت نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے عطا ہونے والی خلیلی نبوت ہے.یہ نبوت چونکہ کامل طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہے

Page 50

3 لہندا ہرگز آپ کے خاتم النبیین ہونے کے مخالف نہیں اور آخری صاحب شریعت نبی جن کے فرمان کا سکہ تا قیامت جاری رہے گا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہی میں اور کوئی نہیں با غير نبی ایسا پیدا نہیں ہو سکتا جو آپ کے کسی ارشاد کا ایک شعتہ بھی تبدیل کر سکے یا نعوذ باللہ آپ کی شریعت سے نہر مو انحراف کرنے کا واہمہ بھی دل میں لا سکے.مندرجہ بالا پا نچوں دعاوی چونکہ مسلمان علماء کی اکثریت کے مروجہ عقائد کے خلاف تھے.اِس لئے حضرت مرزا غلام احمد صاحب پر ان کی شدید ناراضگی ایک لازمی امر تھا اور چونکہ حضرت مرزا صاحب اپنے دعاوی کی تمام تر بنیاد قرآن و سنت پر رکھتے تھے لہذا آپ کے اور دیگر مسلمان علماء کے درمیان ان امور پر ایک شدید ند بی جنگ شروع ہو گئی کہ کس حد تک قرآن و سنت آپ کے دعاوی کو اسلامی یا غیر اسلامی ثابت کرتے ہیں.یہ جنگ جو ابھی تک جاری ہے اور فیصلہ کن ہونے تک ائندہ بھی جاری رہے گی ایک قلعی رجحان ضرور ظاہر کر چکی ہے کہ اس دن ہے ہے کہ کہ جب حضرت مرزا صاحب اکیلے تھے اور آپ کے مقابل پر بند دوستان بھر کے علمار ایڑی چوٹی کا زور آپ کی مخالفت میں لگا رہے تھے آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں پڑھا جس میں آپ کے مشن کا قدم ترقی کی جانب نہ اُٹھا ہو.سینکڑوں علماء اور بزرگان اسلام جو کبھی کافر کہنے والوں کے زمرہ میں شامل تھے قرآن وسنت کے پیش کردہ دلائل سے گھائل ہو کر آپ کی صداقت اور شامل کے قائل ہوتے چلے گئے اور لاکھوں مسلمان عوام بھی آپ کے سلسلہ میں داخل ہو کر آپ کے قافلہ میں آملے اور ملتے چلے جاتے ہیں.کبھی آپ اکیلے تھے، اور آج لکھوکھا آپ کے ماننے والے ہیں.کبھی آپ کی آواز مشرقی پنجاب کے ایک گمنام گاؤں قادیان سے تنہا بھی تھی اور ہندوستان کے وسیع و عریض نقار خانے کے شور تلے دیتی دکھائی دیتی تھی.وہ آواز جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دینے کی خاطر ہندوستان کے طول و عرض میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا اور ایک ایسا غلغلہ باو ہو بلند ہورہا تھا کہ جس کی بازگشت ہمالہ کی شمالی چوٹیوں سے ٹکرا کر مہندوستان کے جنوبی ساحل تک سنائی دیتی تھی، ہاں وہی تنہا آواز پھر تنہا نہ رہی.کوئی فصیل اس کا حصر نہ کر سکی.ہزاروں لاکھوں صدائیں اس کی تصدیق میں ہندوستان کے گوشے گوشے سے بلند ہونے لگیں ایسے گھپ اندھیری رات میں نیم شبانہ عبادت کرنے والے عابد اپنے اپنے عبادت خانوں میں چراغ جلاتے ہیں.تعداد میں کم ، خال خال اور دور دور لیکن بایں ہمہ شب ظلمات میں نور کے احیاء اور بقاء کی یقینی علامت لئے ہوئے ویسے ہی آپ کی صداقت کا نور لتے ہوئے بے شمار چراغ ہندوستان کی دیگر بستیوں میں متعدد دوسرے سینوں کو منور کرنے لگے.مخالفت کا شور بھی بلند ہوتا چلا گیا اور عصبیت کے اندھیرے

Page 51

بھی پھیلتے رہے، لیکن تصدیق کی آوازیں بھی ہر لمحہ تعداد اور قوت میں پہلے سے بڑھ کر آمَنَّا وَصَدَقْنَا آمَنَّا وصدقنا ! کے راگ الاپنے لگیں اور ایمان کی شمعیں بھی مقدس سینوں کے راہب خانوں میں ہر شب پہلے سے بڑھ کر روشن ہوتی رہیں.یہ مذہبی جنگ ہندوستان کی سرحدیں پھلانگ کر مشرق وسطے کے عرب ممالک میں بھی جا پہنچی اور کفر کے فتووں کا ایک کان پھاڑ دینے والا شور وہاں سے بھی بلند ہوا.لیکن وہاں بھی تائید اور تصدیق کی آوازیں ساتھ ساتھ بلند ہونے لگیں.غرضیکہ مخالفت کا کوئی شور خطہ ارض پر ایسا نہ اُٹھا جس کے بطن سے تصدیق کی آوازیں بھی بلند نہ ہوئی ہوں.یہ سب مخالفت مسلمانوں کی طرف سے تھی اور اس مخالفت کی وجوہات کا مختصر تذکرہ اوپر گزر چکا ہے بڑی اور بنیادی وجہ اس کی یہی تھی کہ اُس مسیح ناصری کی موت کا آپ نے اعلان کیا تھا جس کے زندہ آسمان سے اترنے کا خواب مسلمان علماء اور عامتہ الناس صدیوں سے دیکھ رہے تھے.صدیاں بیت گئی تھیں.تنزل کی جھونپٹریوں میں سسکتی ہوئی اس قوم کو جو کبھی اوج ثریا پر قدم رکھتی تھی اور ایک کے بعد عروج کے دوسرے ستارے پر کمندیں ڈال رہی تھی اگر تے کرتے یہ آخرایسی گری کہ سطح زمین سے بھی نیچے اتر گئی اور تحت الشرار سے ورے اس کے قدم نہ تھے.غرضیکہ دنیا کی ادنی ادنی قوموں کو بھی آج ہر شعبہ زندگی میں ان سے فزوں تر مقام حاصل ہو گیا اور زندگی کی سب قدروں میں وہ ان پر بازی لے گئیں، ہلاکت اور ادبار کے اس سخت دردناک دور میں ایک اور صرف ایک اُمید تھی جو چرخ چہارم سے وابستہ تھی نکبت کے سفلی میدانوں میں چاروں شانے چت گرے ہوئے مسلمان مسیح ناصری کے آسمان سے اترنے کی راہ دیکھ رہے تھے گویا وہ ان عظیم الشان برکتوں کی راہ دیکھ رہے تھے جو نعوذ باللہ امت محمدیہ کے لئے میسج موسوی کے قدموں سے وابستہ ہو چکی تھیں.وہ راہ دیکھ رہے تھے جاہ وحشمت کے اُن محلات کی جن کے ابواب سیچ ناصری کی جنبش سب سے وا ہوتے تھے.وہ راہ دیکھ رہے تھے اُن طلسماتی فلک بوس قلعوں کی جن کی تعمیر کا الہ دینی چرا مسیح ناصری کے دست راست میں تھا.پھر حضرت مرزا صاحب کا یہ جرم کیا کم تھا کہ اس آسمانی منجی کی موت کے اعلان کی ایک ہی ضرب کے ساتھ حسین خوابوں کا یہ حسین طلسم پارہ پارہ کر دیا گیا.لیکن کاش مسلمان علماء یہ سوچتے کہ اگر ایک خیالی مسیح اُن کے ہاتھ سے چھینا گیا تھا تو ایک حقیقی میں انہیں عطا بھی تو ہو ا تھا.وہ سبیح جس نے محمد سلتے ہیں کی غلامی ہی میں امت محمدیہ میں پیدا ہونا تھا اور محمد صلے اللہ کی غلامی ہی میں امت محمدیہ میں مرنا تھا.جس نے اُمت محمدیہ کو خوابوں کی بے عمل زندگی سے نکال کر حقائق جد و جہد ایثار اور قربانیوں سے بھر گویر ایک نئی زندگی عطا کرنی تھی جس نے اُمت محمدیہ کو پھولوں کی سیج پر لٹا کر اوریاں نہیں دینی.عليه وسلم

Page 52

عليه وسلم تھیں بلکہ کانٹوں سے بھرے ہوتے دُکھوں اور مصائب کے ان سنگلاخ راستوں سے گزارنا تھا جن پر سے گزرے بغیر قومیں کبھی بھی ترقیات کی بلند و بالا جنتوں میں داخل نہیں ہوا کرتیں.یہ وہی راستہ تھا جو مکہ کی پتھری گلیوں اور جلتے جلتے ریگزاروں پر سے گزرتا تھا جہاں محمد صلی اللہ کے غلاموں کو گھسیٹا جاتا اور بلال کی چھاتی پر سلگتے ہوئے پتھر کی سلیں رکھی جاتی تھیں.یہ وہی راستہ تھا جو طائف کو جاتا تھا اور جس کی ایک منزل شعب ابی طالب میں واقع تھی.یہ راستہ وہی راستہ تھا جو بدر احد اور حنین کے مقاتل سے ہوکر گزرتا تھا.بهر حال قصہ مختصر جب مسلمان علماء اور عامتہ الناس کا یہ حال تھا کہ باوجود اس کے کہ ایک سیح کے بدلے دوسرے مسیح کی آمد کی خبر اُن کو دی جارہی تھی وہ سخت غضب ناک اور برافروختہ تھے پھر ادھر عیسائیوں سے تحمل اور بردباری کی توقع بھلا کیا ہوسکتی تھی کہ جن کا نقصان مسلمانوں کے نقصان سے بہت بڑھ کر تھا.مسلمانوں کا تو صرف ایک نبی فوت ہو رہا تھا جس سے پہلے اور بعد کے دوسرے سب نبی بھی گزر چکے تھے مگر عیسائیوں کے لئے تو یہ اُن کے ایک خدا کی موت کا اعلان تھا اور ان کے لئے یہ صدمہ اپنی نوعیت کا پہلا صدمہ تھا.پس عیسائیوں کی طرف سے مخالفت کا جو شور برپا ہوا وہ ہندوستان اور مشرق وسطی کی حدود سے بہت آگے نکل گیا اور یورپ اور امریکہ کے کلیساؤں میں بھی سنائی دینے لگا.حیرت ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان جیسے غلام اور پسماندہ ملک کے ایک پسماندہ صوبے کی ایک چھوٹی سی گمنام بستی کے ایک غیر معروف اور گوشہ نشین دعویدار کے ایک ہی اعلان تے وہ عالمگیر زلزلہ برپا کر دیا کہ جن کے زیر دست جھٹکے یورپ اور امریکہ کے کلیساؤوں نے بھی شدت سے محسوس کئے.یہ ایک دلچسپ داستان ہے کہ امریکہ کی عظیم الشان اور منقطع دنیا نے بھی قادیان کے اس دعویدار کا کس قدرت سنجیدگی اور فکر کے ساتھ نوٹس لیا اور وہاں کے بعض مشہور بابایان کلیسا کے ساتھ آپ کی کیسی فیصلہ کن جنگیں ہوئیں ! مقصود کلام اس وقت صرف اتنا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح ناصرتی کی وفات کے اعلان سے جہاں مسلمانوں میں بہت مشہور ہوئے وہاں اسی اعلان کی بدولت کل عالم کی عیسائی دنیا بھی آپ سے شدید نفرت کرنے لگی اور آپ کو نیست و نابود کرنے اور آپ کے پیغام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ہر حربہ بروئے کار لانے لگی.لیکن آپ کے قدموں میں ایک ذرہ بھر لغزش نہ آئی، اور آپ اپنے اس موقف پر نہایت مضبوطی کے ساتھ آخری سانس تک قائم رہے کہ خدا تعالٰی کی دی ہوئی خبر کے مطابق مسیح ناصری جو بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے ہر دوسرے بشر رسول کی طرح وفات پاچکے ہیں اور می ناصری کی زندگی سے نہیں بلکہ اُن کی موت سے اسلام کا احیاتے تو مقدر اور وابستہ ہو چکا ہے

Page 53

چنانچہ آپ نے نہایت واشگاف الفاظ میں یہ اعلان فرمایا کہ : تم بیٹے کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسی موسوی کی بجائے عیسی محمدی کو آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے میں پہنچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام میں وحی و الہام کا سلسلہ نہیں تو اسلام مر گیا ہے اسی طرح آپ فرماتے ہیں :- پس مسیح کو مرنے دو کہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے ٹھ نے ملفوظات جلد دہم حاشیه صد ۴۵ کے ملفوظات جلد دہم ص۲۵۷

Page 54

۴۵ دیگر مذاہب کی طرف سے مخالفت اور آریہ سماج سے مقابلہ اگر حضرت مرزا صاحب کا دعوی ہیں تک رہتا کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور اُن کی بجائے خدا تعالے نے آپ کو اُن کے رنگ میں مبعوث فرمایا ہے تب تو بات مسلمانوں اور عیسائیوں کے غیظ و غضب تک محدود رہتی.مگر آپ کا یہ دعونی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن چونکہ عالمی مشن تھا لہذا آپ کی غلامی میں مبعوث ہونے والے امام زمانہ کا مشن بھی لازماً عالمی ہونا تھا.اور آپ کا یہ دعوئی کہ آپ صرف عیسائیوں کے مسیح اور مسلمانوں کے مہدی ہی نہیں بلکہ یہودیوں کے لئے داؤد اور ہندووں کے کرشن بھی ہیں، بلا استثناء تمام مذاہب عالم کے پیرو کار ان کو آپ کا دشمن بنا گیا.مسلمان اور عیسائی تو نالاں تھے ہی ہندو بھی سخت سیخ پا ہوتے کہ ہمارا کرشن اور محمد ( صلے السلام کے غلاموں میں پیدا ہو ؟...اس سے زیادہ دُکھ اُن کے لئے ممکن نہ تھا.ہندوؤں کے نزدیک یہ ہندو مذہب اور کرشن جی مہاراج کی ایسی تذلیل تھی کہ حضرت مرزا صاحب کے خلاف اس دعوی کی بنا پر سند و سوسائٹی کی نس نس میں بغض، تعصب اور نفرت کا زہر سرایت کر گیا.اس زہر کا جسمانی مظہر لیکھرام کی صورت میں ظاہر ہوا جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا) یہ وہ آریہ لیڈر تھا جس کی کھلیاں حضرت بانی اسلام محمد عربی هستی جس ذکر یہ وہ تھاجس اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر سے ایسی بھر پور تھیں کہ ہزار بار ڈسنے کے باوجود وہ کبھی اس زہر سے خالی نہ علیہ ہوسکیں.ایک قوم سکھ باقی تھی جس کا مسکن زیادہ تر پنجاب ہے اور خصوصاً قادیان کے ارد گرد بھاری تعداد میں آباد ہے، اس قوم کے ہاتھ میں بھی آپ نے دشمنی کا ایک زبر دست بہانہ تھما دیا.آپ نے دعوئی کیا کہ سکھ مت کے بانی حضرت باراگورو نانک صاحب دراصل کسی نئے مذہب کے بانی نہیں تھے ، بلکہ نو عمری میں ہی آپ نے بت پرستی سے متنفر ہو کر دین اسلام کو دل سے قبول کر لیا تھا اور آخری سانس تک دین اسلام کے پیرور ہے.آپ ایک معمولی مسلمان نہ تھے بلکہ نہایت اعلنے پایہ کے بزرگ مسلمان اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور قرآن و سنت کے دل و جان سے پابند

Page 55

تھے.چونکہ آپ نے زیادہ تر ہندوؤں میں توحید کے قیام کے لئے جہاد کیا اور ہندو نو مسلم ہی زیادہ تر آپ کے مسلک کے مرید ہوئے لہذا مرور زمانہ سے آہستہ آہستہ اسلام کے اس صوفی فرقہ کو ایک الگ مذہب تصور کر لیا گیا.اپنے اس دعوی کے ثبوت کے طور پر خدا تعالٰی سے خبر پاکر آپ نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی فرمایا که حضرت با دا گورو نانک صاحب کے مقدس چوے پر مبینہ طور پر جو نا معلوم الهامی زبان درج ہے وہ سورہ فاتحہ اور بعض دیگر قرآنی آیات ک سوا اور کچھ نہیں.نہ صرف آپ نے یہ اعلان فرمایا بلکہ اپنے بعض رفقا کے ساتھ خود بنفس نفیس یہ چولہ ملاحظہ فرمانے کے لئے ڈیرہ بابا نانک صاحب تشریف لے گئے اور اس چولے کی تصاویر بھی اتر و ائیں نہیں بعد میں بکثرت شائع کروا کر دنیا پر خوب روشن کر دیا کہ مندرجہ عبارت کوئی نئی الہامی زبان نہیں جیسا کہ سکھوں کا عقیدہ تھا، بلکہ اس پر تو محض سُورۃ فاتحہ کلمہ طیبہ اور قرآن کریم کی بعض دیگر آیات درج ہیں.ہر ہے کہ یہ دعوی سکھ مت کی علیحدہ مذہبی حیثیت پر ایک کاری ضرب لگاتا ہے اس نے سکھوں کا اس انکشاف پر سخت ناراض اور سیخ پا ہوتا ایک شیعی امر تھا.چنانچہ پنجاب بھر کی سکھ آبادی بھی آپ کو ناراضگی کی آنکھ سے دیکھنے لگی.مندرجہ بالا حقائق پر نظر ڈال کر تعجب نہیں رہتا کہ کیوں حضرت مرزا صاحب اپنے زمانہ کے ابنائے آدم کی نظروں میں بلا استثنار سب سے زیادہ مقہور و مغضوب ٹھہرے یہاں تک کہ جو پہلے اپنے تھے وہ بھی ایسے دشمن ہوئے کہ شرافت اور نجابت کے سارے دستور بالائے طاق رکھ کر سخت اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے.صرف اس زبان ہی کو دیکھ لیجئے جو اس وقت معاند مسلمان علماء نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف استعمال کی.اس قدر غلیظ اور ناپاک گالیاں سُن کر عقل باور نہیں کرتی کہ ایک مسلمان عالم کی لغت گالیوں کے مضمون میں اتنی وسیع ہو سکتی ہے.فتاوی کفر کی کوئی انتہانہ نہ رہی اور جہنم کی بشارتیں تو روزمرہ کا معمول ہو تیں اور برسرِ عام دی جانے لگیں.سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ وہ دعا دی جو آپ نے کئے تھے، اُن کو اشتعال انگیزی کے لئے ناکانی سمجھ کر آئے دن من گھڑت اور خود ایجاد دعاوی آپ کی طرف منسوب کئے جانے لگے.اور آپ کی پاکیزہ تحریرات کے ظروف میں وہ خیالی گند بھرے جانے تھے جن کا دہم بھی حضرت مرزا صاحب کے نزدیک حرام اور گھر تھا.مثلاً آپ کے متعلق کیاگیا کہ نعوذ باللہ آپ خدا یا خدا کا بیٹا ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا نعوذ باللہ آپ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل اور بالمقابل نبی ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا نعوذ باللہ آپ

Page 56

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے اور امہات المومنین کی سخت توہین کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ادھر اپنے لینی مسلمان کہلانے والے آپ سے یہ سلوک کر رہے تھے اُدھر غیر بھی بڑی شدت اور تدی کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہورہے تھے.ظاہر ہے کہ جب مسلمان ایک غیر قوم کے نبی کی موت کا پھوٹی بھی برداشت نہیں کر سکے تو عیسائی خود نچلے کیسے بیٹھ سکتے تھے جب کہ اُن کے اپنے خدا کا اکلوتا بیٹا مارا جار ہا تھا.چنانچہ بڑے بڑے عیسائی پادری للکارتے ہوئے آپ کے مقابل پر مبارزت کے لئے نکلے جن میں لاہور کے بشپ لیفرائے امرتسر کے عبداللہ آتھم اور امریکہ کے ڈوئی جیسے نامی گرامی پہلوان شامل تھے.ہندو قوں میں اس وقت آریہ سماج ہندومت کا ایک شدید جارحیت پسند فرقہ تھا.اس فرقہ نے ہندومت کی نمائندگی میں حضرت مرزا صاحب اور اسلام کو نیچا دکھلانے کے لئے شدید جنگ لڑی.اگر چہ عیسائی پادری بھی بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مظہر ازواج اور مقدس اہل بیت پر نہایت کمینے اور رکیک حملے کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے لیکن اس بارہ میں جو تا پاک مظاہرہ کبھی آریہ سماج نے کیا اس کی مثال نظر نہیں آتی.حضرت مرزا صاحب کے خلاف آریہ مت کے بغض و عناد کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.اس فرقہ کی نمائندگی میں سب سے پیش پیش پنڈت لیکھرام تھے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے اور سخت بے باکی سے گند اُچھالنے اور استہزاء کرنے میں یہ سب دوسرے کینه توز اور گندہ دہن مخالفین پر سبقت لے جاچکے تھے.حضرت مرزا صاحب نے ان پنڈت صاحب کو بھی نہایت پر شوکت الفاظ میں للکارا اور اسلام پر ان کے حملوں کے جواب میں پے در پے نہایت شدید جوابی حملے آریہ مت پر کہئے.جن ایام کا اہم ذکر کر رہے ہیں یہ مذہبی جنگوں کا وہ دور تھا جب کہ نظریاتی تبخیں اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں اور مخالفت یا موافقت میں کوئی ایسی دلیل باقی نہیں رہی تھی جسے فریقین نے استعمال نہ کیا ہو.حضرت مرزا صاحب نے اس طویل بحث کو فیصلہ کن صورت دینے کے لئے اپنے مخالفین کو اس طرف توجہ دلائی کہ حق اور باطل کا فیصلہ منقولی دلائل کی بجائے اس طریق سے کیا جائے کہ جس ہذہ سب کے ماننے والوں کا اللہ تعالٰی سے سچا اور زندہ تعلق قائم ہو اور اس کا مشاہدہ کیا جا سکے، اُسے سچا تسلیم کرلیا جائے اور جہاں محض زبانی جمع خرچ ہو اور تعلق باللہ کی عملاً کوئی نشانی نہ ملتی ہو اسے رڈ کر دیا جائے.آپ نے دعوی کیا کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے اور اسلام کا رسول ایک زندہ رسول ہے جس کی قوت قدسیہ آج بھی خاک کی ایک ٹکی کو خدا تما انسان بنا سکتی ہے، اسی طرح اسلام کی کتاب بھی ایک زندہ

Page 57

کتاب ہے جو آج بھی ہر مخلص حق جو کا تزکیہ نفس کر کے اُسے اس قابل بنا سکتی ہے کہ اُس کا اپنے ربّ سے ایک زندہ اور ٹھوس تعلق قائم ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص دین اسلام اور بانی اسلام اور صحیفہ اسلام کی صداقت کو پر کھنا چاہتا ہے تو وہ آئے اور اللہ تعالیٰ کے اس انتہائی مشفقانہ اور کریمانہ سلوک کو دیکھ لے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل غلامی کے نتیجہ میں اس نے مجھ سے فرمایا ہے.وہ مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے.وہ مجھے فتح اور نصرت کی بشارتیں دیتا ہے، میری دعاؤں کو سُنتا ہے اور اُن کی قبولیت کی ایسی خوش خبریاں مجھے دیتا ہے جو اپنے وقت پر نہایت صفائی سے پوری ہوتی ہیں.وہ ہر قدم پر میری نصرت فرماتا ہے اور میرے مخالفین کو نیچا دکھاتا ہے.میں دُنیا میں تنہا تھا اور ساری دنیا میری مخالفت میں یک جان و کمر بستہ تھی پھر بھی اس نے ہر مخالف کے شر سے مجھے محفوظ رکھا اور دن بدن مجھے برکت پر برکت دیتا چلا گیا اور زمین میرے لئے غیر کے مقابل پر ہمیشہ بڑھتی رہی، آج بھی اسی طرح وہ میری دعاؤں کو سُنتا اور میری حفاظت کی ضمانت دیتا ہے اور میرے لئے غیرت دکھاتا ہے یہاں تک کہ روئے زمین کی تمام طاقتیں اور تمام مذاہب کے ماننے والے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائیں تو بھی مجھے بلاک نہیں کر سکتے اس ضمن میں آپ نے پنڈت لیکھرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- الا ! اسے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران محمد کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیا بنگر ز غلمان محمد آئینہ کمالات اسلام ) یعنی اگرچہ کرامات اور معجزات عملاً دنیا سے ناپید ہوچکے ہیں، لیکن ! اے شکوک میں بھٹکنے والے آ اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے ہاتھوں نمودار ہونے والے معجزات اور کرامات کا مشاہدہ کر اور اسے نادان اور گمراہ دشمن اسلام، محمد صلے اللہ علیہ و سلم کی کاٹ دینے والی تیز تلوار سے ڈر.اور آپ نے تمام دنیا کے مذاہب کے رہنماؤں کو بار بار چیلنج دیا کہ اگر واقعی تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالی تمہارے ساتھ ہے تو اسی ایک نکتے پر سب لڑائی کا فیصلہ ہوا چاہتا ہے.خدا تعالی کی تائید کی لازماً کچھ علامتیں ہوتی ہیں ان علامتوں کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھ لو کہ سچائی کس کے ساتھ ہے.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی دوسرا مذہبی رہنما اس مقابلے کے لئے آمادہ نہ بھی ہو تو میری طرف سے یہ دعوت پھر بھی قائم رہتی ہے اور وہ شخص جو صدق دل سے صداقت کا متلاشی ہے اس کے لئے میرے گھر کے دروازے کھلے رہیں گئے وہ

Page 58

دلیل ہو.شوق سے آئے اور قادیان میں کچھ عرصہ میرے پاس قیام کرے.اِس عرصہ قیام کے دوران اگر خدا تعالٰے اسے کوئی واضح اور غیر مبہم نشان میری صداقت کا نہ دکھا دے تو وہ شخص بے شک مجھے بھوٹا قرار دے.آپ نے فرمایا کہ ہر سچائی روشن آفتاب کی طرح خود اپنی دلیل ہوتی ہے، اسے کسی مصنوعی سہار کی ضرورت نہیں ہوتی.اگر خدا تعالیٰ کسی کے ساتھ ہے تو اس کے لئے اس سے بڑھ کر صداقت کی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ خدا کا قرب بذات خود اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس صلائے عام کے نتیجہ میں قادیان کے آریوں نے ایک محضر نامہ آپ کی خدمت میں اس مضمون کا پیش کیا کہ آپ جو دور دراز کے بسنے والے متلاشیان حق کو بھی قادیان اگر نشان دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں تو ہم جو آپ کے ہمسایہ میں رہتے ہیں، ہمیں کیوں اس سے محروم رکھا جائے.اس خیرات کو گھر سے شروع کیجئے اور پہلے ہمیں خدا تعالٰے کے قرب اور رحمت کا نشان دکھائیے.حضرت مرزا صاحب کی زندگی میں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام کے احیائے نو کی عظیم الشان جدوجہد کی تاریخ میں یہ موقع ایک بلند اور عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا.آپ کا قلب سلیم اس یقین سے پر تھا کہ اسلام کی صداقت اور زندگی بخش قوت کو پرکھنے کے لئے بلکہ ایک زندہ اور صاحب قدرت خدا کے وجود کا ثبوت طلب کرنے کے لئے آریہ مت نے اسلام کو جو چیلنج دیا ہے اللہ تعالیٰ کی غیرت ضرور اس موقع پر جوش مارے گی اور آپ کی گریہ وزاری کو قبول فرماتے ہوتے وہ اپنی غیر معمولی قدرت اور رحمت کا نشان دکھلائے گا.اب سوال یہ تھا کہ اس موقع پر کس نوعیت کا نشان طلب کیا جائے.کیا معجزہ کے عامی تصور کے پیش نظر آگ پر چل کر یا پانی میں سے گزر کر دکھایا جائے یا بے نثمر درختوں سے پھل توڑا جاتے، یا چند مادر زاد اندھوں کو بینائی عطا کی جائے.لیکن یہ سب عیدے تو عارضی نوعیت کے تماشے تھے جن سے بنی نوع انسان کی خدمت اور اسلام کی برتری کا مستقل سامان پیدا نہیں ہو سکتا تھا.پھر یہ اس تقسیم کے شعبدے تھے کہ دنیا کے بہت سے بازاری مداری بھی ان سے ملتے جلتے تماشے دکھا کر نظر کے دھوکے کا سامان کرتے رہے ہیں.علمی روشنی اور سائنسی ترقی کے اس زمانہ میں خدا تعالٰی سے اس قسم کا نشان طلب کرنا ایک ایسا ہی فعل تھا جیسے ایک عظیم الشان شہنشاہ کی خاص رضامندی کے لمحات میں کوئی بدنصیب اس سے دو چاریے روٹی کے ایک ٹکڑے یا چھٹے پرانے کپڑے کا سوال کر دے ! چونکہ حضرت مرزا صاحب کا مشن عالمگیر تھا اس لئے آپ کو ایک نشان چاہئے تھا جو عالمگیر حیثیت کا حامل ہو اور سورج کی طرح مشرق و مغرب پر چھکے ، اور آپ کے مشن میں براہِ راست محمد و معاون ہو.

Page 59

اور اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا باعث بنے اور اس کی برکتوں سے رُوئے زمین پر لینے والی تمام قومیں حصہ پائیں.اُس وقت آپ کی عمر پچاس برس سے متجاوز ہو چکی تھی اور ظاہر زندگی کے بیشتر ایام گزر چکے تھے.دن بدن آپ کا یہ احساس شدت اختیار کرتا چلا جارہا تھا کہ خدمت کے دن تو تھوڑے رہتے جاتے ہیں اور اسلام کی فتح کا دن ابھی دور نظر آتا ہے.اس درد میں کتنی بے قراری تھی اور یہ کرب آپ کو کیسے کیسے تڑپا تا تھا.اس کا کچھ اندازہ آپ کے بعض اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جن میں سے چند ایک مثال کے طور پر پیش ہیں :- پھر بہار دیں کو دکھلا اسے میرے پیارے قدیر کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن دن چڑھا ہے دُشمنان دیں کا ہم پر رات ہے اے میرے سورج دیکھا اِس دیس کے چپکانے کے دن دل گھٹتا جاتا ہے ہر دم جاں بھی ہے زیر وزیر اک نظر فرما کہ جلد آئیں ترے آنے کے دن چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا کب تلک لیے چلے جائیں گے ترسانے کے دن کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے کیا مرے دلدار تو آئے گا مرجانے کے دن دین اسلام کو سرخرو اور کامران دیکھنے کی بیخت بے قرار تمنا لئے آپ اپنے رب سے اس کی رحمت اور قربت کا نشان مانگنے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس غرض سے آپ نے ہوشیار پور کے قصبہ میں ایک مکان میں تنہا چالیس دن کے لئے گوشہ نشینی اختیار کی.چالیس دن شب و روز عبادت اور گریہ وزاری کرتے ہوئے آپ نے اپنے رب سے ایک ایسے باکمال فرزند کی ولادت کی التجا کی جو دین اسلام کی فضیلت اور کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے ہر ضروری صفت سے متصف ہو اور اسے دینِ اسلام کی کامیاب خدمت کی بھر پور توفیق عطا ہو.آپ نے چالیس روز کے بعد اس چلہ کے اختتام پر بذریعہ اشتہار یہ اعلان فرمایا کہ جو کچھ میں نے خدا سے مانگا تھا، وہ اس نے اپنی بے پایاں رحمت اور کمال شفقت کے نتیجہ میں مجھے عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے اور ایک ایسے متصف بہ صفات حسنہ ذی شان بیٹے کی ولادت با سعادت کی خوش خبری دی ہے جو اپنی غیر معمولی صفات اور عظیم الشان خدمت اسلام کے ذریعہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.آپ نے نشان کی طالب دنیا کو بتایا کہ : " بالعام اللہ تعالٰی و اعلامه عز و جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے جل شانه ے خاتمہ حقیقة الوحی صفحه آخر مطبوعه شه

Page 60

۵۱ " و ما اسمہ مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا :- میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُس کے موافق جو تو نے مجھے سے مانگا.سو میں نے تیری تفرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پائیہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لو دھیانہ کا سفر ہے تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح و ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اسے مظفر تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہان میں موت کے پنجے سے نجات پادین اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے میں باہر آدین اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور ناحق اپنی تمام برکتون کے ساتھ آجائے اور باطن اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور ہا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں.اور تا وہ یقین امین کہ مین تیرے ساتھ ہون اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور پاک رسول محمد مصطفے کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ہے.اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جاتے.سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک رکھ غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ جس سے پاک ہے اور منی نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.ن صاحب شکون اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے میچی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.ہ سخت زمین و نسیم ہوگا.اور دن کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ

Page 61

۵۲ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند - منظهر الاول والآخر، مظهر الحق والعلام كان الله نزل من السما - جن کا نزول بہت مبارک اور جلال انہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے اور جن کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلہ جلد بڑھے گا اور اسیرون کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرً ا مَقْضِيّ + اس پیشگوئی کے شائع ہونے پر ہندوستان کے مذہبی دنگل میں جو ہنگامہ برپا ہوا اس کی تفصیل ایک الگ کتاب کی متقاضی ہے اور اس موضوع پر متعد د رسالہ جات اور کتب شائع ہو چکی ہیں.اس جگہ ہم نہایت اختصار کے ساتھ ممی پس منظر کو واضح کرنے کے لئے اُس ملک گیر رد عمل کا خلاصہ درج کیڑتے ہیں جو اس پیشگوئی کے نتیجہ میں ظاہر ہوا :- بعض مخالفین جو نسبتاً زیادہ سنجیدہ تھے، اس فکر میں مبتلا ہوتے کہ بیٹا تو اتفاقاً کبھی ہو سکتا ہے لہذا یہ پیش گوئی اگر یوری بھی ہو جائے تو اسے کوئی خاص نشان قرار نہیں دیا جا سکتا.۲.حضرت مرزا صاحب کی بڑی عمر اور کمزور صحت کو دیکھ کر اور اس وہم میں مبتلا ہو کر کہ چونکہ آپ نے نعوذ باللہ خدا پر بہتان باندھا ہے، مخالفین یہ یقین کر بیٹھے کہ بیٹا تو الگ رہا بیٹی بھی ان کو نصیب نہ ہوگی اور نعوذ باللہ یہ نامراد اور بعد از پیشگوئی ہے اور اولاد اس دنیا سے اٹھ جائیں گے.آتے ہم اول الذکر فریق کے رد عمل کا تجزیہ کرتے ہیں کیا واقعی پچاس سال سے متجاوز عمر کا ایک انسان جس کی تمام زندگی ایک مقصد کے حصول میں صرف ہوئی ہو اور جس نے اپنی زندگی کے بیشتر ایام اور راتیں اس مقصد کی پیروی میں انتہائی جسمانی ذہنی اور روحانی مشقت کے ساتھ بسر کی ہوں، جس نے بکمال اپنے مال اور جان اور وقت اور عزت اور جذبات کو اس مقصد کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہو، کیا وہ اپنے عزیز ترین مقصد کو محض موسوم تمنا کی نذر کر سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نه اشتهار ۲۰ فروری شد ، مندرجه تبلیغ رسالت جلد اول صفه ۵ تا ۱۰ و مجموعه اشتهارات جلد اول خنفر تا ۱۰۳

Page 62

.." ایسا شخص جس کی اپنی زندگی ہر آن خطرے میں ہو اور جو چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھرا ہوا ہوا کیا ہندو اور کیا عیسائی کیا سکھے اور کیا دیگر مذاہب کے پیرو کار ہر مذہب وملت کے ماننے والے اس کے خون کے پیاسے ہوں حتی کہ خود اپنے ہم مذہب اسکے خون کی پیاس میں کسی دوسرے سے پیچھے نہ رہے ہوں.غیر تو غیر خود اپنے آبائی گھروں میں بسنے والے اپنے ہی خاندان کے افراد اس مذہبی عداوت میں غیروں پر بازی لے جا رہے ہوں.کون ہے جو ان حالات میں ایک ایسی من گھڑت پیشگوئی کرنے کی جبہ اُت کرے جس کے پورا ہونے کا انحصار دوسرے اتقاقات کے علاوہ لازماً اس اتفاق پر بھی مبنی ہو کہ پیشین گو پیش گوئی کے بعد ایک معقول مدت تک زندہ رہے گا.صرف یہی نہیں بلکہ اس کی رفیقہ حیات کی زندگی کی ضمانت بھی اسوقت تک اس میں شامل ہو جب تک خدا تعالیٰ اس کی گود ایک موعود بیٹے سے ہری نہیں کر دیتا.ظاہر ہے کہ اگر صرف یہی اتفاقات پیش نظر ہوتے تو بھی کسی شخص کو اپنی صداقت اور کذب کا انحصار ان اتفاقات پر رکھنے کی جرات نہ ہوتی لیکن اتفاقات کا یہ سلسلہ میں ختم نہیں ہو جاتا.پیشگوئی صرف ایک بیٹے کی پیدائش کی نہیں بلکہ ایک ایسے عظیم الشان فرزند کی ولادت کی ہے جس کے آنے سے ایک روحانی انقلاب کی داغ بیل ڈالی جانے والی ہے.اس ضمن میں خود حضرت مرزا صاحب نے اپنے معترضین کو جو جواب دیا ہے وہ آپ کے اپنے الفاظ ہی میں پڑھنے سے تعلق رکھت ہے.آپ فرماتے ہیں :- "اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولی و اکمل وافضل واتم ہے کیونکہ مردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہی میں دُعا کر کے ایک رُوح واپس منگوایا جائے اور ایسا مردہ زندہ کرنا حضرت مسیح اور بعض دیگر انبیا علیہم السلام کی نسبت با تیبل میں لکھا گیا ہے جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے اور پھر با وصف ان سب عقلی و علی جرح و قدح کے یہ بھی منقول ہے کہ ایسا مردہ صرف چند منٹ کے لئے زندہ رہتا تھا اور پھر دوبارہ اپنے عزیزوں کو دوہرے ماتم میں ڈال کر اس جہان سے رخصت..

Page 63

۵۴ ہو جاتا جس کے دُنیا میں آنے سے نہ دنیا کو کچھ فائدہ پہنچتا تھا نہ خود اس کو آرام ملتا تھا اور نہ اس کے عزیزوں کو کوئی سچی خوشی حاصل ہوتی تھی، سو اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا سے بھی کوئی روح دنیا میں آئی تو و حقیقت اس کا آنا نہ آنا برابر تھا اور بغرضِ محال اگر ایسی رُوح کتی سال جسم میں باقی بھی رہتی تب بھی ایک ناقص روح کسی بہ ذیل یا دنیا پرست کی جو احد من الناس ہے دنیا کو کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی ہے مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانه و برکت حضرت خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ آلہ وسلم خدا وند کریم نے اس عاجز کی دُعا کو قبول کر کے ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سو اگر چہ بظاہر یہ نشان احیائے موتی کے برابر معلوم ہوتا ہے گر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے.مردہ کی بھی روح ہی دُعا ہے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے.مگر اُن روحوں اور اس روح میں لاکھوں کو سوں کا فرق ہے.جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ اُن کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ اسے پس به امر خوب ذہن نشین رہے کہ محض ایک بیٹے کی ولادت کی پیش گوئی نہیں کی گئی' ایک ایسے فرزند جلیل کی پیشگوئی کی گئی ہے جو عمر پانے والا ہو گا، نہایت ذکی اور نسیم ہوگا.صاحب شکوہ اور والا عظمت اور دولت ہوگا.تو میں اس سے برکت پائیں گی.وہ علوم ظاہری و باطنی سے پیر کیا جائے گا.کلام اللہ یعنی قرآن کریم کا نہایت گہرا فہم اس کو عطا ہوگا اور اس خداداد فہم سے کام لے کر وہ قرآن کی ایسی عظیم الشان خدمت کی توفیق پائے گا کہ کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہو.وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.وہ عالم کباب ہو گا یعنی اس کے دور حیات میں ایسی عالمگیر تباہیاں آئیں گی جو سب دُنیا کو بُھون کر رکھ دیں گی.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.کیا یہ تمام صفات اور ان کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات جو اس موعود بیٹے کی بیان کی گئی ہیں محض ایک کے بعد دوسرے رونما ہونے والے اتفاق پر آس لگا کر بیان کی جا سکتی ہیں ؟ وہ شخص جس کی اپنی زندگی خطرے میں ہوا جس کی اپنی شہرت اور اس کے سلسلہ کی بقامہ دنیا کی نظر ا تبلیغ رسالت جلد اول ۴۰۰۳ و اشتهار ۲۰ ر ماریخ ۱۸۸۶ مندرجه مجموعه اشتهارات جلد اول ص ۱۱۴ ۱۱۵

Page 64

۵۵ میں چند دن کا کھیل ہو جس کے متعلق یہ دعوی کیا جارہا ہو کہ خدا پر افتراء کرنے والا ہے اور اس جرم کی پاداش میں خدا کا قہری ہاتھ اُسے آج یا کل اس طرح نیست و نابود کرنے والا ہے کہ صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے اُس کا نشان مٹ جائے گا.اگر وہ مرد صادق نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ ان حالات ہیں وہ ایسے عظیم الشان اور بے نظیر صاحب عظمت و شکوہ بیٹے کی ولادت کی پیشگوئی کرنے کی جرات کرتا جس کے پورا نہ ہونے کے ظاہری امکانات پورا ہونے کے امکانات سے ہزاروں گنا بڑھ کر تھے.اس حقیقت سے آنکھیں بند کرنا انصاف کا خون کرنا ہے کہ جس بیٹے کی ولادت کی خبر دی جا رہی ہے وہ ہزاروں میں سے ایک نہیں لاکھوں میں سے ایک نہیں کروڑوں اور اربوں میں سے ایک ہے صرف یہی نہیں کہ مجموعی طور پر اس پیشگوئی کو پورا کر دکھانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں، بلکہ اس پیشگوئی کے بہت سے اجزاء ایسے ہیں جن میں سے کسی ایک کو پورا کرنے کی بھی کسی انسان کو قدرت نہیں.کون ایسا مسلمان ہے جو سخت جرات اور بے باکی دکھاتے ہوئے اپنے اس دعونی کو خدا کی طرف منسوب کر سکتا ہے کہ اسے ایک ایسا بیٹا عطا ہو گا جو کلام اللہ کا مرتبہ اور مشرف تمام دنیا پر ظاہر کر دے گا.کون عیسائی ایسا ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ اس کے بیٹے کو بائیل کا ایسا علم عطا ہو گا کہ تمام دنیا پر با تکمیل کی فضیلت ثابت کر دکھائے گا.اور کون ہندو ہے جو دیدوں کے بارہ میں اور کون سکھ ہے جو گر تھے کے متعلق اپنے پیدا ہونے والے بیٹے کی طرف یہ خدمت منسوب کر سکے ؟ بیٹے ایسے دعوئی کے بعد پیدا ہوں بھی تو مرجاتے ہیں اور اگر زندہ بھی رہیں تو سوطرح کی بیماریاں اور ناگہانی آفات ان کی راہ روکے کھڑی رہتی ہیں.ان سب آفات سے بچ بھی نکلیں تو وہ ذہنی قابلتیں پیدا کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی جو علمی نشو و نما کا موجب بنتی ہیں.ایسی قابلیتیں پیدا ہو بھی جائیں تو ان کے ضائع ہونے یا غلط راستوں پر بھٹک جانے کے خطرات صحیح راستوں پر گامزن ہونے کے امکانات کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں اور اگر وہ صحیح راستوں کی طرف چل بھی پڑیں تو کوئی نہیں جو اُن کی دلچسپی کا رخ خاص سمت میں موڑ سکے، کوئی نہیں جو یہ تعین کر سکے کہ علم کی بے شمار شاخوں میں سے کون سی شاخ ان کو مرغوب ہوگی.اگر رجحان مذہبی بھی ہو توکون ضمانت دے سکتا ہے کہ باپ کا مذہب ہی بیٹے کو مرغوب ہوگا.اگر حُسنِ اتفاق سے ایسا بھی ہو جائے تو اس مذہب کی کتاب مقدس سے مالا مال ہو جانا اور غیر مذاہب کی کتب پر اس کی فضیلت ثابت کرنے کی توفیق پا جانا یہ بھلا کس کسی کو نصیب ہوتا ہے.یہ بحث تو آگے آئے گی کہ کس حتنک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو یہ توفیق نصیب ہوئی.یہاں ذکر صرف اتنا ہے کہ کون باپ

Page 65

اپنے بیٹے کے حق میں جو ابھی پیدا بھی نہ ہوا ہو.یہ دعوی کرنے کی جرات کر سکتا ہے اور اپنی سچائی کا دار و مدار اس دعوئی کے پورا ہونے پر رکھ سکتا ہے.پھر اگر یہ توفیق ملیتر آبھی جائے کہ اپنے مذہب کے مقدس صحیفہ کے اسرار و معارف پر اس قدر دسترس حاصل کرے تو وہ ذرائع میسر آنے کی ضمانت کیا ہے جن سے کام لے کر وہ اپنے خدا داد انکشافات کو مختلف زبانوں کے تراجم میں ڈھال کر دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا انتظام کر سکے.انتہائی نا مجھی اور سخت تعصب سے کام لئے بغیر کون یہ ! کہہ سکتا ہے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کرنا اور پھر اسکا پورا ہو جانا نعوذ باللہ ایک مفتری کا کام بھی ہو سکتا ہے اور اتفاقاً بھی یہ واقعہ ظہور پذیر ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی قربت اور محبت کا اس میں کوئی نشان نہیں.اگر ایسا ممکن ہوتا تو کیوں اس نوعیت کی پیشگوئی کسی مخالف نے ملا کر کے نہ دکھا دی ؟ اس واقعہ کو توستانشی برس گزر چکے ہیں، گویا ایک صدی تمام ہوا چاہتی ہے.کیا آج بھی کوئی ہے جو ایسا کرنے کی جرات کر سکے یا کل کوئی ہوگا ، چیلینج کا یہ ابد تک پھیلا ہوا راستہ ہے، کون ہے جو اس پر قدم مارنے کی جرات کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ایسی پیشگوئی نہ کوئی کر سکتا تھا نہ کر سکے گا.سوائے اس کے کہ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ابدی ذلت اور رسوائی کا سامان کرنا چاہے.ہم یہ دعوی کسی اندھے عقیدہ کی وجہ سے نہیں کر رہے بلکہ ہر منصف مزاج اسی شدت کے ساتھ اس دعوئی کی تصدیق کرے گا اور اگر خدا تعالٰی کا کوئی وجود ہے اور وہ ہمارے افعال پر نظر رکھتا ہے اور کار خانہ قدرت کے سیاہ وسفید میں اس کا کوئی عمل دخل ہے تو گو یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے پاگل پن میں یا از او انتزار کوئی ایسی بڑ ٹانک دے جس کا تعلق آئندہ تین چوتھائی صدی پر پھیلے ہوئے واقعات سے ہو.لیکن یہ بہر حال یا ور نہیں کیا جا سکتا کہ ایک زندہ اور فعال رب جو تمام قوانین قدرت کی باگ ڈور سنبھالے ہوتے ہوا وہ اس جھوٹے دعویدار کے منہ سے نکلی ہوئی ایک ایک بات کو پورا کر دکھائے اور اسے غیب کے اُن اَن گنت مخفی در مخفی اسباب پر غلبہ عطا کرے جن پر ایک خاص شکل اور خاص ترتیب سے خاص وقتوں پر ہی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کا انحصار ہوتا.انہی اشکال ضروریہ کی وجہ سے گذشتہ ایک صدی میں حضرت مرزا صاحب کے سوا کوئی اور شخص ایسا دعوئی نہ کر سکا.ہاں صرف ایک بد قسمت کو یہ جرات ہوئی کہ اس پیشگوئی کے بالمقابل اور برعکس ایک منفی نوعیت کی پیشگوئی کرے.اس پیشگوئی کرنے والے کا حال چونکہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگے بیان کیا جائے گا لہذا فی الحال ہم اس مضمون کو چھوڑ کر موخر الذکر مخالف طبقہ کے رد عمل کو لیتے ہیں :-..

Page 66

مؤثر الذکر طبقہ جو در اصل اس پیشگوئی میں پی پی رکھنے والوں کی اکثریت پر مشتمل تھا اور جس دلچسپی میں بکثرت مولوی بھی شامل تھے اور پادری بھی اور پنڈت بھی اور محنت اور پر فقیر بھی پیشگوئی کے شائع ہوتے ہی اس کی نامرادی کا انتظار کرنے لگے.بعض تو ان میں سے ایسے تھے کہ وقت سے قبل ہی تمسخر اور استہزاء میں مصروف ہو گئے.اور بعض بڑی بے صبری سے موقع کے انتظار میں دن کاٹنے لگے.اس پیشگوئی کے بعد پہلی ولادت میں حضرت مرزا صاحب کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی.۵ را پر مل شاہ کو بچی کا پیدا ہونا تھا کہ اس طبقہ کی طرف سے ہنسی ٹھٹھے کا ایک شور بلند نہوا اور مخالف اخبارات میں ہے در پے اعلانات ہوتے کہ "مرزا کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.حضرت مرزا صاحب نے ان مخالفین کو بارہ بار توجہ دلائی کہ پیشگوئی میں یہ خبر تو دی ہی نہیں گئی کہ اس پیشگوئی کے بعد میہلا بچہ لڑکا ہی ہو گا.بلکہ واضح طور پر اس موعود بچے کے نو سال کے عرصہ میں پیدا ہونے کا ذکر تھا.لیکن باوجود اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے مخالفین ایک مدت تک انجان بنے رہے اور تمسخر اور استہزار سے دل بہلا کر اپنے اپنے دینوں کی بزعم خود بھاری خدمت سرانجام دیتے رہے.بلاش به تاریخ ابنا تے عالم کسی دوسرے ابن آدم کی پیدائش سے قبل ایسے ہنگامہ کا منظر پیش نہیں کرتی اور اس کی کوئی نظیر مذہبی یا غیر مذہبی دنیا میں بھی نہیں ملتی کہ ایک بچہ جو ابھی پیدا بھی نہ ہوا ہو ، محل نزاع بن جاتے اور اس کا امکانی وجود کروڑوں انسانوں کی بحث کا موضوع ہو جائے اور مختلف مذاہب کے ہزار ہا رہنما اس کی پیدائش سے قبل دل کی گہرائیوں سے یہ آرزو کریں کہ کاش وہ پیدا ہی نہ ہو.اور اگر وہ پیدا ہو بھی جاتے تو خدا کرے کہ لولی لنگڑا یا مفلوج اور ہزارہ قسم کے عیوب لئے دنیا میں آئے تا کہ ان کے جذبہ بغض و عناد کو تسکین ملے اور حاسدوں کے دلوں کو ٹھنڈک نصیب ہو.پھر جس کے متعلق لاکھوں دلوں میں یہ تمنائیں مچلتی ہوں کہ اگر وہ صحت مند ہی پیدا ہو جائے تو کاش ایسا ہو کہ وہ اُن کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھنے سے پہلے ہی مر جاتے یا بہت سے ایسے وبال اُس پر آپڑیں کہ کسی کام کے قابل نہ رہے.یعنی زندہ رہے بھی تو اپنے چاہنے والوں کے دلوں کا ناسور بن کر زندہ رہے.یہ وہ منفرد بچہ تھا جس کی پیدائش سے قبل مذہبی دنیا نے ایک ایسا دلچسپ واقعاتی ڈرامہ دیکھا جس میں وہ تمام عناصر جمع ہوگئے تھے جو ایک ڈرامہ کی روح رواں ہوتے ہیں.آیتے ! دیکھیں کہ مستقبل پر پڑا ہوا غیب کا تاریک پر دہ کب اٹھتا اور ہمیں کیا دکھاتا ہے ؟..جب حاسدین اور مخالفین کے اس موخر الذکر گروہ میں جس کا ذکر چل رہا ہے، آریہ مت کا نامور پہلوان لیکھرام بھی دندناتا ہوا آن کو دا.حضرت مرزا صاحب کے مدمقابل تمام مذہبی رہنماؤں میں وہ واحد

Page 67

شخص تھا جس نے یہاں تک بے باکی سے کام لیا کہ حضرت مرزا صاحب کے جھوٹے ہونے کا صرف دعوئی ہی نہیں کیا بلکہ آپ کی پیشگوئی کے مقابل پر ایک اپنی پیشگوئی بھی خدا تعالے کی طرف منسوب کر کے شائع کر دی.اس پیشگوئی نے ایک نیا اور نہایت ہی دلچسپ عنصر اس مقابلہ میں شامل کر دیا یعنی عملاً اس دعوئی کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹی پیش گوئیاں منسوب کرنا کس قدر آسان ہے ! لیکھرام کی یہ پیشگوئی منفی پہلو رکھتی تھی یعنی ہر وہ خوشخبری جو حضرت مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے حق میں بیان فرمائی لیکھرام کی پیشگوئی میں خدا تعالی ہی کی طرف منسوب کر کے اس کا رد کیا گیا اور ہر اچھی خبر کے مقابل پر ایک بُری اور منحوس خبر رکھ دی گئی اور اس طرح یہ انتہائی دلچسپ مذہبی مقابلہ اپنے معراج کو پہنچا جبکہ وہ بچہ جس کے بارہ میں شرق و غرب کا بعد رکھنے والی متقابل پیشگوئیاں کی جارہی تھیں، ابھی نیست سے وجود میں نہیں آیا تھا.بغرض موازنہ لیکھرام کی پیشگوئی بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل اور اس لائق ہے کہ اس کا نہایت غور سے مطالعہ کیا جائے کیونکہ : - F.اس کے مطالعہ سے رات اور دن ظلمت اور نور کا فرق بڑا کھل کر سامنے آجاتا ہے.ایک طرف حضرت مرزا صاحب کی مثبت پیشگوئی رکھیئے دوسری طرف پنڈت لیکھرام کی منفی پیشگوئی اور یہ حقیقت نہ بھولئے کہ یہ دونوں ہی خدائے واحد کی طرف منسوب کی جارہی ہیں، یہ ایک نہایت دلچسپ اور بصیرت افروز موازنہ ہے.پیشگوئی کا مطالعہ اس لئے بھی اہم ہے کہ اس پیشگوئی کے نتیجہ میں ہمیں اپنے ہی زمانہ میں عملاً یہ موقع نصیب ہو گیا کہ خدا تعالٰی پر جھوٹ بولنے والوں سے خدا تعالیٰ کے سلوک کا مشاہدہ کر سکیں.ایک خدا کی طرف دو مختلف مذاہب کے رہنماؤں کی طرف سے دو متضاد اور متخالف پیش گوئیوں کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹی ہے.- پیشگوئی کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس میں مخالفین کے جذبات کی ساری روح سمٹ کر آگئی ہے.اگرچہ لیکھرام بحیثیت آریہ لیڈر ہونے کے عیسائی یا مسلمان مخالفین کی نمائندگی نہیں کر سکتا تھا لیکن مرزا صاحب سے خدا تعالٰی کے جس سلوک کی بے قرار تمنا سب مخالفین کے دلوں میں شدت سے مچل رہی تھی

Page 68

۵۹ اُس کی اس سے زیادہ صحیح اور مکمل تصویر نہیں کھینچی جاسکتی تھی.یہ مسئلہ کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے نہیں کیا دکھایا.؟ ناظرین آئندہ صفحات کے مطالعہ سے بآسانی معلوم کر سکیں گے.لیکھرام کی پیشگوئی کے اہم نکات حسب ذیل ہیں.یہ تمام پیشگوئی لکھنے سے ہم اس لئے قاصر ہیں کہ اس کی زبان نہایت دل آزار ہے جسے دہرانے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے.پس بامر مجبوری اس میں سے صرف وہ مخالفانہ دعاوی پیش کئے جارہے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کے کسی حصہ کی تردید یا نفی میں کئے گئے ہیں.الفاظ من وعن پنڈت لیکھرام کے اپنے ہیں : تقابلی نقشه پیشگوئی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مخالفانہ پیشگوئی پنڈت لیکھرام به نسبت مصلح موعود به نسبت پسر موعود ( نقل کفر کفر نه باشد) نیا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں " رحمت کا نہیں زحمت کا کیا ہو گا آپ تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں“ تو ہر بات کو اُلٹی سمجھتے ہیں اور کر " میں امتیاز نہیں رکھتے.م تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ "خُدا اس سفر کو نہایت منحوس بتلاتا ہے کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا " آپ نے شاید بود مانہ میں بنا کنجر کی سرائے میں جیل خانہ کے متصل فروکش ہونے کو مبارک سمجھا ہوگا.م سو قدرت اور رحمت کا نشان تجھے دیا خدا کہتا ہے میں نے قہر کا نشان دیا ہے.رحمت کا نشان تو صرف بنا کنجر کی سرائے جاتا ہے." م اے مظفر ! تجھ پر سلام " م تھی اور بس“ اے منکر و مکار تجہ پر آلام " خُدا نے کھاتا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں خدا کہتا ہے کہ میں جلد معصومی کو فی النار

Page 69

موت کے پنجہ سے نجات پادیں اور وہ کروں گا.اور قبر سے نکال کر جہنم میں جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں" ڈالوں گا“ تا دین اسلام کا مشرف اور کلام اللہ کا " آج تک گویا جس کا نام اسلام ہے وہ مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.محض خیال خام تھا اور جس کا نام قرآن تھا وہ شرف کے مرتبہ سے برکسران تھا اب مرزا کی بدولت شرف ومرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا اور قرآن و اسلام کا نام باہر ہوگا.م اور ناحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ مرزا ہی کے منہ سے ثابت ہوا کہ اب تک آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں دین اسلام میں باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.میں تیرے ساتھ ہوں کے ساتھ موجود تھا اور حق مع اپنی برکتوں کے مفقود.اب ساحیر قادیانی کے وجود سے حق آوے گا اور باطل جاوے گا" پہلے پیشوایان کے ساتھ کون تھا ؟ کیا شیطان بے عنوان تھا.البتہ خدا کا یہ فرمان تھا کہ مرزا کا ساتھی نہیں، اس کا مددگار شیطان ہے" غدا نے یہ نقرہ سُن کر مسکرا کر فرمایا کہ پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ذکی تو اس فریب کو سمجھا ؟ عرض کیا کہ میں م سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور غلام لڑکا تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے ہوگا.تو دو کوس کے فاصلے پر رہتا ہوں مجھے کیا معلوم ہے...کیا واقعی لڑکا ہوگا ؟ فرمایا نہیں لڑکی.مگر اپنا الہام سچا کرنے کو مرزا اس وقت ضرور فریب کھیلے گا اور اُسی وقت ہم تجھ کو اطلاع دیں گے

Page 70

F مرزا صاحب! اب میرا سوال ہے کہ آپ کے یہ لڑکا اب کی دفعہ ہوگا یا دوسری نوبتِ الہام میں ؟ تاہم عبارت اصل لکھی ہے کہ اگر اب کی دفعہ لڑکا ہو گیا تو الہام سچا ثابت، ورنہ دوسری دفعہ کی تاریکی بتا دیں گے.کیوں صاحب ! اب خُدا نے آپ کو پاک اور ذکی لڑکا دینے کی بشارت دی ہے.کیا پہلے لڑکے دو تو کر یہ منظر ناپاک ترغیبی ہیں اور کیا اپنی ذریت سے ہونے میں کچھ شبہ بھی ہے ؟ مرزا صاب! واقعی آب آپ کے کمالات پیغمبروں کے ساتھ خوب مشابہ ہو چلے...O اُس کا نام عنمو ائل اور بشیر بھی ہے" ہم نے شناخدا کہتا ہے اس کا نام عزرائیل اور شریر بھی ہے.مت مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.و خدا کہتا ہے وہ آسمانی گولا نہایت منحوس ہے جو پاتال کو جاتا ہے" صاحب کو اور عظمت اور دولت شاید صاحب ذلت و خوست و نکبت ہو گا" ہوا مت وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے سیمی نفس و خدا کہتا ہے وہ مرزا کی طرح دنیا میں

Page 71

اور روح الحق کی برکت سے بہتوں آکر اعزاز شیطانی نفس اور روح منحوس کی نحوست سے بہتوں کو دائم المراض کر کے کو بیماریوں سے صاف کرے گا “.مشدہ سخت ذہین و نسیم ہوگا.ذمین وسیم ہو.واصل فی النار کرے گا اور آخر کو خود بھی اس میں پڑے گا اور اس کا خر دنبال ہوگا " دہ نہایت غنی اور گردن ہوگا " مت اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی " خدا کہتا ہے وہ نہایت غلیظ القلب ہوگا سے پر کیا جائے گا.مت نور آتا ہے اور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.اور علوم صورتی و معنوی سے قطعی محروم ہو گا" آیا آپ اور آپ کے دونوں لخت جگر ظلم محض تھے جن کو خدا نے اپنے قہر غضب کے قطران سے متعفن اور گندہ کیا اس کو بھی خدا اسی تحصیلی کا بتا بتاتا ہے اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.کیا پہلا ثلاثہ امیروں فقیروں کی قید کا باعث ہوا.اب خدا کہتا ہے کہ وہ دائم الحبس ہو گا.م اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا دیسلا ثلاثہ کیوں گمنام رہا ؟ اب کہتا ہے محض خلاف ہے.اس رذیل کا نام "" قادیان میں بھی بہت سے نہ جائیں گے میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا " شاید خدا کہتا ہے میں مرزا کی ذریت کو اور برکت دُوں گا “.منقطع کروں گا اور نحوست دوں گا.مرزا صاحب ! آپ ہر ایک بات کو الٹی نہی سمجھتے ہیں سے نہ ہو کیونکر تمہارا کار الٹا تم اُئے بات اُلٹی بار اٹا " مگر بعض اُن میں سے کم عمری میں فوت و بعض قادیانی ہے اصل میں کلھم محکم ربانی ہے.ہوں گے.م تیری ذریت منقطع نہ ہوگی اور آخری آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی.

Page 72

دنوں تک سر سبنر رہے گی.ت غایت درجہ تین سال تک شهرت رہے گی " پنڈت لیکھرام کے طرز کلام کو دیکھ کر مبادا کسی کو شبہ گزرے کہ یہ شخص آریہ لیڈر نہیں بلکہ یوں ہی کوئی غیر معروف نا قابل التفات شخص تھا.آریہ ورت میں پنڈت لیکھرام کے مقام اور شخصیت کے بارہ میں مختصر تعارف کلیات آریہ مسافر کے دیباچہ سے پیش خدمت ہے :- " آریہ سماج کے دائرہ میں پنڈت لیکھرام کا نام بچے سے لے کر بوڑھے تک جانتا ہے اور جب تک آریہ سماج کا وجود ہے، پنڈت جی کی شہادت کسی کو نہیں بھول سکتی.虹 سوائے پنڈت لیکھرام کے اور کوئی شخص اس کام کے لائق نہ سمجھا گیا.اس وقت سے برابر دیشا منتروں میں ویدک دھرم کا پرچار کرتے ہوئے آریہ مسافر نے دو شہرت حاصل کی جو شاید ہی کسی موجودہ مذہبی واعظ کے نصیب ہوتی ہو گی سے آریہ سماج کے لٹریچر میں سے شری سوامی دیانند جی کی تصانیف کے بعد اگر کسی لٹریچر کی زیادہ مانگ ہے تو وہ آریہ مسافر ( پنڈت لیکھرام کی تصانیف ہیں.پنڈت لیکھرام کا شمار گو اس جماعت میں نہیں ہو سکتا جس میں بدھ اور شنکر تانک اور دیانند وغیرہ اپنے چند روپ سے سنسار کو روشن کرتے ہوئے شانتی کی برت کر رہے ہیں.لیکن اس میں سند یہ نہیں کہ وہ (پنڈت لیکھرام) اُن چمکتے ہوئے ستاروں میں سے ایک تھے جو کہ ایسے چند رماؤں کی شو بہا کو دوبالا کر رہے ہیں ھے آئیے اب ہم کچھ دیر کے لئے لیکھرام کو اس کے حال پر رہنے دیں مستقبل کے وہ پر دے ایک ایک کر کے اُٹھ چکے ہیں جن کے پیچھے اس مقابلے کے پیچ اور جھوٹ کا فیصلہ چھپا ہوا تھا زمانے کا نہ رکنے والا پہیہ ہمیں چھیاسی برس آگے لے آیا ہے اور ہمارے لئے اس مقابلے کا نتیجہ مستقبل پر i 19+1 ے کلیات اربد مسافر حصہ سوم مه ۲۹ تا شام نه اريد مسافر شمید نمبر مارچ شاء من م کے آریہ مسافر شهید نمبر مارچ ۱۹۲۳ء ۳۲ که ۵۰ه کلیات آریہ مسافر دیباچه صوج

Page 73

نہیں بلکہ ماضی کے پردوں پر مرتسم ہو چکا ہے.لیکھرام سے خدا کی غیرت نے کیا سلوک کیا اور حضرت مرزا صاحب کو دی گئی آسمانی بشارتیں کسی صفائی سے پوری ہوئیں اور کس طرح وہ بچہ ناموافق حالات کے با وجود اور دشمن کی قمری نگاہوں کے علی الرغم بڑھتا اور پھولتا اور پھلتا رہا.یعنی کہ اس مقام محمود تک جا پہنچا جس کی اس کے حق میں خوشخبری دی گئی تھی.یہ سب امور اس کتاب کے آئندہ صفحات میں اپنے اپنے مقام پر درج کئے جائیں گے.لیکن بیشتر اس کے کہ اس تمہید کو ختم کیا جائے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس بچہ کی ولادت کی شان لیکھرام کے وجود یا عدم وجود سے بے نیاز ہے لیکھرام کی بے باک دخل اندازی سے گو ایک موازنہ کا دلچسپ موقع تو ضرور میسر آیا لیکن یہ پیشگوئی اپنی عظمت اور شان میں ایک منفرد اور عالمگیر حیثیت رکھتی ہے.

Page 74

۶۵ یح موعود کے صاحب اولاد ہونے کے متعلق حضرت سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان خوشخبری اور بعض دیگر بزرگان اُمت کی بشارات بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود میں حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے جو کہ دار ادا کرنا تھا اس کی اہمیت کا اندازہ کچھ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خدا سے علم پا کر دنیا کو آپ کی ولادت کی خبر دینے میں حضرت مرزا صاحب منفرد نہیں بلکہ اس پیدائش کے تذکرے آپ سے قبل بھی دُور دُور تک تاریخ کے مختلف اوراق میں پھیلے پڑے ہیں.سب سے زیادہ قابلِ فخر اور سب سے اعلیٰ و اولی ان پیشگوئیوں میں وہ پیشگوئی ہے جو ہمارے آقا و مولی سب نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں فرمائی.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :- يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ يَتَزَوَّج لے ويولد له " له الذله حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے اور شادی کریں گے اور اس حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں :- قد أخيَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انَ به المسيح الموعود يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ فَفِى هَذَا إِشَارَةٌ إلى أنَّ اللهَ يُعْطِيهِ وَلَدْ صَالِحاتِشَابِهُ آبَاهُ وَلَا باباه وَيَكُونَ مِنْ عِبَادِ اللهِ المُكْرَمِين " " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالے سے خبر پا کر فرمایا کہ مسیح موعود له مشكوة مجتبائی صنم باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ، نه آئینہ کمالات اسلام ص۵۷

Page 75

។។ شادی کریں گے اور اُن کے ہاں اولاد ہوگی.اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسا نیک بیٹا عطا کرے گا جو نیکی کے لحاظ سے اپنے باپ کے مشابہ ہو گا نہ کہ مخالف اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہوگا کیا ایک اور مقام پر اسی پیشگوئی پر بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- " یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اسکی نسل سے ایک شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگو تیوں میں خبر آچکی ہے ہے اس موعود فرزند کے متعلق حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے علاوہ قدیم روحانی صحیفوں میں بھی خبر دی گئی ہے.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی پیشگوئی کے تذکرہ میں یہود کی شریعت کی بنیادی کتاب طالمود میں لکھا ہے :- " یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ (یعنی مسیح) وفات پا جائے گا اور اس کی سلطنت اس کے بیٹے اور پوتے کو ملے گی.اس رائے کے ثبوت میں یسعیاہ باب ۴۲ آیت ہم کو پیش کیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے وہ ماند نہ ہوگا اور تہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرے تے ظالمود کی اس پیشگوئی کے بعد ہم زرتشت علیہ السلام (جو مسیح علیہ السلام سے ایک ہزار سال قبل ایران میں گزرے ہیں) کی بڑی واضح پیش گوئی درج کرتے ہیں.یہ پیشگوئی زرتشتی مذہب کے صحیفہ دساتیر میں دین زرتشت کے مجدد ساسان اول نے تحریر کی ہے.اصل پیشگوئی پہلوی زبان میں ہے جس کوزرتشتی اصحاب نے فارسی زبان میں ڈھالا ہے :- چوں ہزار سال تازی آئین را گذرد چنان شود آن آمین از جدائی را که اگر با نگین گرنمانند نداندش...در افتد در نهم و کنند خاک پرستی و روز بروز جدائی و دشمنی در آنها افزون شود.....پس شما یا بید خوبی را گر ماند یکدم از ہمیں خروج انگیزم از کسان تو و کے و آئین و آب تو به تو رسانم و پیغمبری و پیشوائی از فرزندان تو بر نگیرم " = ے حقیقة الوحی ملا کے ظالمور.مرتبہ جوزف بر کھلے بات نجم مطبوعہ لندن جاده که سرنگ شما - شاره به سفرنگ ساتر من الملفوظا متر در نشست مطبو من این مطلع سراجی دلی

Page 76

44 ترجمہ بچہ شریعت عربی پر ہزار سال گزر جائیں گے تو تفرقوں سے دین ایسا ہو جائے گا کہ اگر خود شارع (صلی الله علیه وسلم) کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ بھی اسے پہچان نہ سکے گا...اور ان کے اندر انشقاق اور اختلاف پیدا ہو جائے گا اور روز بروز اختلاف اور باہمی دشمنی میں بڑھتے چلے جائیں گے......جب ایسا ہو گا تو تمہیں خوشخبری ہو کہ اگر زمانہ میں ایک دن کبھی باقی رہ جاتے تو تیرے لوگوں سے (فارسی الاصل) ایک شخص کو کھڑا کروں گا جو تیری گمشدہ عزت و آبرو واپس لائے گا اور اسے دوبارہ قائم کرے گا.میں پیغمبری وپیشوائی ( نبوت و خلافت) تیری نسل سے نہیں اٹھاؤں گا ".پیشگوئی مندرجہ بالا کے آخری فقرہ پنچمیری پیشوائی ازفرزندان تو بر گیم میں یہ اشارہ ہے کہ که آخری زمانہ کا موعود تہب آئے گا تو اس کی اولاد میں سے کوئی اس کا جانشین ہوگا.حضرت شاہ نعمت اللہ صاحب ونی نے بھی اس آخری زمانے کے مامور کے بارہ میں پیشگوئی فرماتی ہے.آپ اُمت مسلمہ کے مشہور صاحب کشف و الهام بزرگ تھے.آپ نے آخری زمانہ میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی منظوم کلام میں فرمائی.آپ فرماتے ہیں:- قدرت کرد کار می بینم حالت روزگار می بینیم از نجوم این سخن نمی گویم بلکه از کردگار می بینم عین کرے سال چون گذشت از سال بوالعجب کار و بارے بینم گر در آئینه تعمیر جهان گرد و زنگ و غبار می بینم ظلمت ظلم فالمان دیار بے حد و بے شمار مے بینم جنگ و آشوب و فتنه و بے داد درمیان و کنار سے بینم بنده را خواجہ وش ہے یایم خواجه را بنده وار می بینم سکه نوز نن د بر رخ نزار در همش کم عیار می بینم بعضے اشجار بوستان جہاں بے بہار و تمارے بینم غم مخور نه انکه من دریں تشویش خرمی وصل یار سے بینم چوں زمستان بے چین بگذشت شمس خوش بهار می بینم

Page 77

4^ ان اشعار میں حضرت مسیح موعود اور مہدی مسعود کے ظہور سے قبل کے انقلابات کا نقشہ کے اعتقاد کھینچا گیا ہے.پھر مسیح موعود کے زمانہ اور نام کی تعین کی گئی ہے :- رحم دیوان سے خوانم ! = نام آن نامدار نے بینم پھر فرماتے ہیں :.دور او چون شود تمام بکام پسرش یادگار می بینم - یعنی جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اُس کے نمونہ پیر اس کا بیٹا بادگار رہ جائے گا.له "الاربعين في احوال المهدییانه از حضرت شاه اسمعیل شهید مطبوعه نومی راننده مصری گنج ه کلکته

Page 78

باب دوم O موعود بیٹے کی ولادت بچین تعلیم و تربیت عنفوان شباب

Page 79

O موعود بیٹے کی ولادت.آپ کی والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم نہ بچپن کے ابتدائی ایام اور تربیت والدین - آپ کی تربیت میں آپ کی بزرگ والدہ کا حصہ.تربیت قبول کرنے کی اہمیت خود اپنی تربیت کی اہلیت.تعلیم.تقریر و تحریر بچپن کی بچسپیاں، تفریحات اور کھیلیں.تعلقات کے دائرے.پہلی شادی.اپنے عظیم باپ کی صداقت پر آپ کا ایمان اور اس کے نتائج.پر تہوں اور پر خطر فضاؤں تلے.حضرت مسیح موعود علیه السلام کی صداقت پر آپ کا روز و شب بڑھتا ہوا ایمان.徊

Page 80

41 موعود بیٹے کی ولادت ** ی پیشگوئی کے تقریباً تین سال بعد (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے) وہ بچہ جس کے ذکر نے برصغیر پاک وہند کی مذہبی فضا میں تہلکہ مچائے رکھا بالآخر ۱۲ جنوری شده (بمطابق ۹ر حمادی الاول ) کو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات قادیان میں پیدا ہوا.اور تفاؤل کے طور پر اس قومی امید کے ساتھ کہ یہ وہی بچہ ثابت ہو گا جس کا وعدہ دیا گیا تھا ، اس کا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا.جوں جوں مستقبل نے اپنے ورق الٹے یہ امر گمان سے یقین میں بدلتا چلا گیا کہ یہ وہی موعود بچہ ہے جس کے وجود کے ساتھ روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں کی تقدیر وابستہ ہونے والی ہے اور جس نے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرتے ہوئے زمین کے کناروں تک شہرت پانی ہے آپ کے والد حضرت مرزا غلام احمد بيع موجود عليه الصلوة والسلام کا کسی قدر تعارف پہلے گزر چکا ہے.لہذا بے محل نہ ہو گا کہ آپ کی بزرگ والدہ کا بھی کچھ تعارف اس موقع پر کروایا جائے.آپ کی والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بگیر آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا دہلی کے ایک قدیم اور معزز سید خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو اپنی بزرگی اور سیادت میں کئی سو سال سے دہلی میں مشہور چلا آرہا تھا.اس خاندان کی ہندوستان میں سکونت کی تاریخ حضرت خواجہ سید میر محمد ވ بأمر رحمة اللہ علیہ سے شروع ہوتی ہے جن کا زمانہ سترھویں صدی عیسوی بتایا جاتا ہے.نظر اس کے کہ آیا یہ خاندان پہلی مرتبہ سترھویں صدی ہی میں یا اس سے قبل دہلی میں آکر آباد ہوا اس میں شک نہیں کہ حضرت خواجہ صاحب کی غیر معمولی بزرگی اور بلند مقام کے باعث ہندوستان میں آپ ہی اس خاندان کے جد امجد تسلیم کئے جاتے ہیں.آپ ایک صاحب کشف و رویا با خدا بزرگ تھے.اور آپ کو خاندان کا جد امجد قرار دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خاندان کا بانی قرار دیا ہے.یہ کشف اس لحاظ سے نہایت اہم اور قابل ذکر ہے کہ اس

Page 81

کی رو سے بالاتر اس خاندان کا تعلق اس مہدی کے ساتھ ہونا مقدر تھا جس کی خوشخبری انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو دی تھی.اس کشف کے مطابق آپ کو عالم بیداری میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ نظر آئے اور فرمایا کہ ناناجان نے مجھے خاص اس لیئے تیرے پاس بھیجا ہے کہ میں تجھے معرفت اور ولایت سے مالا مال کر دوں.یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت میں تیرے واسطے محفوظ رکھی گئی.اس کی ابتدا.تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی معہود علیہ السلام پر ہو گا ئیے ہماری طرف سے اپنے ایسے تمام قارئین سے جو سلسلہ احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے یہ گذارش بے جانہ ہوگی کہ یہ کس قدر عجیب اور دلچسپ واقعہ ہے کہ سترھویں صدی کے ایک بزرگ کی اس پیشگوئی کے تقریباً دو سو سال بعد آپ کے خاندان کی ایک سید زادی کی شادی خاندانی روایات کے سراسر خلاف پنجاب کے ایک اجنبی خاندان کے ایک ایسے فرد سے قرار پاتی ہے جو امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور مزید تعجب اس پر یہ ہے کہ اسی دعویدار کے زمانہ میں چاند اور سورج کو رمضان کے مہینے میں انہی تاریخوں میں گرین لگ جاتا ہے جین تاریخوں کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے فرمائی تھی کہ ہمارے مہدی کے زمانہ میں چاند اور سورج کو رمضان کے مہینے میں ان ان تاریخوں میں گرین لگے گا.بهر حال یہ نجیب الطرفین بچہ وعدہ کے مطابق ۱۲ جنوری شملہ کو قادیان میں پیدا ہوا.اور جیسا کہ پیدائش سے قبل آپ کا وجود ہندوستان کی مذہبی دنیا میں موضوع بحث بنا ہوا تھا.اسی طرح پیدائش کے بعد بھی ایک عرصہ تک آپ دوست اور دشمن کی نگاہوں کا مرکز بنے رہے.ه میخانه درد صف ۲۵ سید ناصر نظیر صاحب قرآق دہلوی - انَ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِيفُ الْقَمَرُ لاول و لم تكونا منذ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنَكَسِفُ الشَّمْسُ فِي البَصْفِ مِّنْهُ : خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ" (دار قطنی جلد اول من مطبع انصاری (تی) ترجمہ : ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں.یہ نشان آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک کبھی ظاہر نہیں ہوئے.ایک تو یہ کہ قمر (چاند) کو رمضان میں پہلی رات میں گرین لگے گا اور دوسرا یہ کہ سورج کو اُسی رمضان کی درمیانی تاریخ میں گرین لگے گا اور یہ دونوں باتیں آسمان وزمین کے پیدائش کے وقت سے نہیں ہوتیں.

Page 82

دوست کی نگاہ محبت آپ پر پڑتی تھی کہ آپ ہی وہ پر موجود ہیں جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین اسلام کی خدمت اور سربلندی کے لئے وقف ہو گا اور دشمن کی نظریہ موسوم تمنائے ہوئے تھی کہ کاش یہ بچہ اُن کی آنکھوں کے سامنے بلاک ہو کر ایک مرتبہ پھر اُن کو تمسخر اور استہزا.کا موقع ہم پہنچائے.اگر نگاہوں میں کی جانے کی طاقت ہوتی اور اگر دشمن کی تمنائیں خدا کی نظر میں ایک ادنی سا درجہ بھی رکھتیں تو اس بچے کے زندہ رہنے یا پنپنے کا کوئی بھی امکان نہ تھا.لیکن خدا تعالی کو یہی منظور تھا کہ یہ بچہ اس کی رحمت کے سایہ تلے پرورش پائے اور جلد جلد بڑھے اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے.تقریباً تین سال قبل پنڈت لیکھرام پشاوری نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے سلسلہ کے نیست ونابود ہونے اور آپ کی نسل کے کاٹے جانے کے بارہ میں جو پیش گوئی کی تھی اس میں بیان کردہ مدت کے پورا ہونے میں بمشکل دو ماہ باقی تھے کہ وہ بچہ پیدا ہوا نہیں اس دو ماہ کے بقیہ عرصہ میں پنڈت لیکھرام کے دل پر جو بیتی ہوگی اس کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.کس طرح اس نے اس بچے کی موت کی توقعات میں دن کائے اور راتیں بسر کی ہوں گی.اور کیسی کیسی اس کے دل میں حسرتیں مچلتی ہوں گی کہ کاش یہ لڑکا بھی میری آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو کر میرے سینے کی آگ کو ٹھنڈا کر دے.یقیناً پہلے دونوں بچوں کا نو عمری میں ہی فوت ہو جانا لیکھرام کی ان امیدوں کے لئے ایک قوی بنیاد مہیا کر رہا تھا اور اس کی اس خواہش کا پورا ہونا بظاہر بعید نظر نہیں آنا تھا کہ یہ بچہ بھی تھوڑی مدت زندہ رہ کر پہلے دونوں بچوں کی طرح ہی اپنی ماں کی گود خالی کر جائے گا.مگر یقینا اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا.آسمان پر کچھ اور ہی فیصلے ہو چکے تھے اور اس تقدیر کو کوئی ٹال نہیں سکتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نے نہیں بلکہ خود لیکھرام نے نہایت خائب و خاسر اور نامراد ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ اس دنیا سے اُٹھ جانا تھا.پس ایسا ہی ہوا.دنوں پر دن گزرتے چلے گئے اور ایک رات کے بعد دوسری رات آتی لیکن نہ تو لیکھرام کی قہر آلود نظریں اس بچے کو بلاک کر سکیں، نہ اس کی بددعائیں اور دشنام طرازیاں اس کا کچھ بگاڑ سکیں.دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوئے لیکن لیکھرام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی آثار پیدا نہ ہوئے.یہاں تک کہ خود لیکھرام کی نہایت ذلت آمیز اور عبرتناک موت کا وقت آپہنچا اور بعینہ اُسی طرح جس طرح حضرت مرزا صاحب نے چار سال قبل شاہ میں اس کی موت کی واضح پیشگوئی فرمائی تھی عید کے دوسرے روز لیکھرام ایک نامعلوم شخص کے

Page 83

ہاتھوں اس طرح مارا گیا کہ اس نے چھری کے پے در پے وار کر کے پیٹ چاک کر دیا اور انٹریاں باہر نکل پڑیں.چنانچہ چند گھنٹے نہایت اذیت ناک عذاب میں مبتلارہ کر ڈاکٹروں کی ہر کوشش کو ناکام بناتے ہوئے لیکھرام اور مارچ شہہ کو خائب و خاسر اس دنیا سے اٹھ گیا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس عرصہ میں اللہ تعالے نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو دو اور بھی بیٹے عطا فرمائے اور یہ دونوں بھی بشارت کے مطابق پیدا ہوتے پر لیکھرام کی موت کے وقت حضرت مرزا صاحب کو ایک ہی نہیں تین منتشر بیٹے عطا ہو چکے تھے جو تینوں کے مینوں اپنے اپنے رنگ میں عظمت کے نشاں لئے ہوئے تھے.یہ ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی مذکورہ پیش گوئی کے مقابل پر لیکھرام کی پیشگوئی بھی اس لئے خاص اہمیت رکھتی تھی کہ چونکہ یہ دونوں پیشگو تیاں ایک ہی خدا کی طرف منسوب کی جارہی تھیں اور بیک وقت ایک دوسرے کی ضد بھی تھیں اس لئے یہ امر بہر حال قطعی طور پر ثابت تھا کہ ایک اُن میں سے یقیناً جھوٹی ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قو قطعی طور پر ایک جھوٹی پیشگوئی خدا کی طرف منسوب کی جارہی ہو تو خدا کا سلوک ایسے بے باک انسانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ اس نہایت اہم سوال کے جواب کے طور پر ہم نے یہاں پنڈت لیکھرام کی نامراد موت کا ذکر کیا ہے.اگر یہ منطقی امکان اس بات کا موجود تھا کہ دونوں پیشگوئیاں غلط ہو میں لیکن خدا تعالٰی کے اس مختلف سلوک نے جو بعد میں ظاہر ہوا، قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ پنڈت نے جو بعدمیں نا ہونا کر دیا لیکھرام کی پیشگوئی جھوٹی تھی اور حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی سچی تھی.

Page 84

40 بچپن کے ابتدائی ایام اور تربیت والدین عربی کا ایک محاورہ ہے " الصبی صَبِي وَلَو كَانَ نَبَيَا “ کہ بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ اس نے نبی ہی کیوں نہ بنتا ہو.اس کے ساتھ اگ.اردو کے اس محاورے کو ملا لیا جائے : ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ! تو یہ ایک مکمل صداقت بن جاتی ہے.ہر چند کہ بچہ اپنی جبلتی طاقتوں کے لحاظ سے کتنے ہی بڑے مقام پر پہنچنے والا کیوں نہ ہو اس کے بچپن کی معصومیت اور بے ساختہ پن بھی اپنی جگہ قائم رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی بچپن ہی میں اس کے شاندار مستقبل کی جھلکیاں بھی وقتاً فوقتا نظر آتی رہتی ہیں.صاحب فراست لوگ ایسے بچے کو دیکھ کر بخوبی پا جاتے ہیں کہ بالائے سرش زہوش مندی کے مے تافت ستاره بلندی اگر خدا کا فضل شامل حال رہے تو یہ بچہ ایک دن عظیم انسان بننے والا ہے.حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالے عنہ کے بچپن میں ان دونوں صداقتوں کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے.اس امتزاج کے نمونے کے طور پر آپ کے بہت بچین کا ایک واقعہ حضرت مرزا صاب علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ عبدال ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں : ترو ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیه السلام لدھیانہ میں قیام فرما تھے.میں بھی وہیں تھا محمود کوئی تین برس کا ہوگا.گرمی کا موسم تھا.مردانہ اور زنانہ میں دیوار حائل تھی.آدھی رات کا وقت تھا جو میں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرت کے ادھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی.حضرت اسے گود میں لئے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چپ نہیں ہوتا تھا.آخر آپ نے کہا دیکھو محمود ! وہ کیسا تارا ہے !"

Page 85

44 بچہ نے نئے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چپ ہو کر پھر وہی رونا اور چلاتا اور یہ کہنا شروع کر دیا آیا تارے جانا“ (یعنی ابا میں ستارے پر جاؤں گا.ناقل) کیا مجھے مزا آیا اور پیارا معلوم ہوا ! آپ کا اپنے ساتھ یوں تھے ! کا گفتگو کرنا یہ اچھا معلوم ہوا یہ ہم نے ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکال لی.آخر بچہ روتا رو تا خود ہی جب تھک گیا چُپ ہو گیا.مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپ کی زبان سے نہ نکلا یہ لے اس بچے کی بعد کی زندگی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے ستاروں پر جانے کی یہ تمنا یقیناً ان بلند عزائم کی غماز تھی جو تمام عمر اس کی بے پناہ قوت عمل کے لئے مہمیز کا کام دیتے رہے علاوہ ازیں اس روایت سے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی طبیعت کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ کے دل میں بچوں کے لئے کس قدر شفقت پائی جاتی تھی اور آپ کسی درجہ حلیم تھے.ایک ایسے مصروف الاوقات شخص کے لئے جس کا بال بال اہم ترین مصروفیات میں بندھا ہوا ہو اور مشکل رات کو پہلے پہر تھوڑا سا آرام کا وقت میسر آتا ہوا ایک روتے ہوئے بچے کو خود گود میں اُٹھا کر دلاسا دیتے ہوئے اس وقت تک پھرتے رہنا جب تک وہ خود ہی تھک کر سو جائے، آپ کے اعلیٰ اور حسین اخلاق کی ایک پیاری مثال ہے.یہ تو بہت بچپن کا واقعہ معلوم ہوتا ہے.اسی قسم کا ایک اور واقعہ نسبتا بڑی عمر میں بھی پیش آیا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ صبر آزما تھا لیکن حضرت مرزا صاحب عدالیہ کلام کو اللہ تعالے نے غیر معمولی حلم اور صبر کا مادہ عطا فرمایا تھا اور طبعیت میں نرمی اتنی زیادہ تھی کہ بچوں پر ناراض ہونا آپ کے لئے ایک مشکل امر تھا.وجہ خواہ کچھ بھی ہو یہ بات بہر حال قطعی ہے کہ اس بچے سے باپ کا سلوک غیر معمولی نرمی اور درگزر کا حامل تھا.دوسری روایت بھی حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی بیان کردہ ہے اور حسب ذیل ہے : " محمود چار ایک برس کا تھا.حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے میاں محمود دیا سلاتی ہے کہ وہاں آئے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک نے موعود مصنفہ حضرت مولانا عبد الكريم الصمت یار دوم

Page 86

غول تھا.پہلے کچھ دیر آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی حضرت صاحب کے لکھے ہوئے مسودات کو آگ لگا دی.اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے.اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مستورات راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلے نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو سیاق عبارت ملانے کے لئے کسی گذشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی.اس سے پوچھتے ہیں، خاموش دیکا جاتا ہے.آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیتے ہیں.عورتیں اور بچے اور گھر کے سب لوگ انگشت بدنداں، اب کیا ہوگا اور در حقیقت عادتاً ان سب کو علی قدر مراتب بُری حالت اور مکر وہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہیئے تھا.مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں.خوب ہوا، اس میں اللہ تعالے کی کوئی بڑی مصلحت ہو گی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے لے اس حلم اور بردباری کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیه السلام تربیت اولاد کی حکمت سے نا واقف تھے یا ایسی ماؤں کی طرح جو اپنے حد سے بڑھے ہوئے پیار پر اختیار نہیں رکھتیں، تربیت کے فرض سے بے نیاز ہو کر اپنے بچوں کی محبت سے مغلوب ہو جاتے تھے.دراصل آپ کی تربیت کا انداز بالکل منفرد اور نہایت لطیف تھا.اور جیسا کہ آگے چل کر بیان ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوگا.بعض مواقع پر آپ اپنے بچوں سے سختی سے بھی پیش آتے رہے.فرق صرف یہ ہے کہ جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن کے اثر کا دائرہ آپ کی ذات تک محدود تھا، آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب پر کبھی سختی نہیں کی خواہ ان کے کسی فعل سے آپ کو کیسی ہی ذاتی تکلیف پہنچی ہو.مگر جہاں تک امور دینیہ کا تعلق ہے یا ایسی غلطیوں کا سوال ہے جن کے نتیجہ میں اخلاق پر برا اثر پڑنے کا خطرہ ہو سکتا تھا وہاں آپ نے موقع محل کے مطابق کبھی نرمی سے اور تبھی سختی سے آپ کو اس طرف توجہ ضرور دلائی.یہ فرق سیح موعود مصنفہ حضر مولانا عبد الكريم ض ص ۱۲-۱۳

Page 87

بہت اہم ہے اور تربیت کرنے والوں کے لئے اس میں بڑا گہرا سبق ہے کہ علم کی حدود کہاں جا کر ختم ہوتی ہیں اور سختی کے تقاضے کہاں سے شروع ہوتے ہیں..دو چھوٹے چھوٹے واقعات اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں :- اولاً حضرت صاحبزادہ صاحب کا اپنا بیان ہے کہ ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا.میں وہاں کھڑا تھا.اندر کمرے میں صرف حضرت صاحب تھے میں نے اس کتے کو اشارہ کیا اور کہا ٹیپو ٹیپو ٹیپو حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو ر کھ دیا ہے اور تم اُن کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو.خبردار ! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا " میری عمر شاید آٹھ نو سال کی تھی.وہ پہلا دن تھا جب سے میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی ہے اس واقعہ سے جہاں ایک طرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بچے کے سر فعل کو بلا امتیاز برداشت کرنا حلم کی تعریف میں داخل نہیں وہاں حضرت مرزا صاحب کی بے پناہ دینی اور قومی حمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے.وہ بچہ جو آپ کے منہایت محنت سے لکھے ہوئے قیمتی مسودات کو جن پر خدا جانے کتنے گھنٹوں یا راتوں کی محنت آپ نے صرف فرمائی ہوگی، آن واحد میں تیلی دکھا کر خاکستر کر دیتا ہے، اس کا یہ فعل تو آپ برداشت فرما لیتے ہیں اور اس تکلیف کا کوئی خیال نہیں کرتے جو اس کے نتیجہ میں آپ کو دوبارہ اٹھانی پڑی.لیکن ایک مسلمان سلطان جو قومی حمیت میں شہید ہوا اور جس کے ساتھ آپ کا اسلام کے سوا کوئی اور رشتہ نہ تھا اس کے نام کو ایک بچہ کا لاعلمی کی بنا پر بھی اس رنگ میں لینا جس سے اس کی تحقیر ہوتی ہو آپ سے برداشت نہ ہو سکا.اس واقعہ میں ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو حضرت مرزا صاحب پر انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے کی جسارت کرتے ہیں.قومی حمیت سے لبریز وہ دل جو سلطان فتح علی ٹیپو کی محض اس لئے انتہائی عزت کرتا تھا کہ انگریز کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے اس نے اپنی زندگی مردانہ وار نثار کر دی.کیسے ممکن ہے کہ ایسے غیور انسان کے متعلق کسی غیر قوم کا ایجنٹ ہونے کا واہمہ تک بھی دل میں لایا جائے.الفضل یکم اپریل شده شده است

Page 88

69 یاد ؟" نهایت شفیق اور مہربان ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی یہ پسند نہ فرماتے تھے که بخیه دینی فرائض کی سرانجام دہی میں غفلت کرتے اور آپ بغیر سرزنش یا اظہار ناراضگی کے اسے چھوڑ دیں.اسی قسم کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ ہمار تھے.اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جاسکے.میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں.تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے طا.اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک د نہیں رہ سکتی تھی مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے.محمد بش اُن کا نام ہے...میں نے اُن سے پوچھا.آپ واپس آرہے ہیں، کیا نماز ہو گئی ہے ؟ انہوں نے کہا.آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آگیا.میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا.مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے ؟ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب اُن کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا.میں نے دیکھا آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھے پر بہت ہی اثر ہوا.جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا.آپ ی سُن کر خاموش ہو گئے.لیکن اب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبد الکریم صاحب نے آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے ؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوتی کیونکہ میں خود تو گیا ہی نہیں تھا معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھتے میں غلط فہمی ہوتی ہے.میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں ہے.

Page 89

مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوتی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں الزام مجھے پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا مولوی عبد الکریم صاحب نے جواب دیا.ہاں حضور ! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے.میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی.خُدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی تصدیق کرا دی کہ فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طور پر لوگ آتے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہے جس کا آج تک میرے قلب له پر گہرا اثر ہے یہ بچوں کو عموماً یہ خدا داد ملکہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے دلی رجحانات سے کم عمری کے باوجو د بخوبی واقف ہو جاتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ وہ در اصل کن کن اقدار کو اولیت دیتے ہیں.یہ عمومی تاثر جو بچوں کے دل پر اپنے ماں باپ کے بارہ میں پڑتا ہے، وہ اُن کی عادات واطوار کو ڈھالنے میں ایک بڑا بھاری کردار ادا کرتا ہے پس مندرجہ بالا ہر دو واقعات کے نتیجے میں حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے دل میں قومی حمیت اور فرائض کی ادائیگی کی اہمیت اتنے گہرے طور پر جاگزیں ہو گئی کہ مستقلاً آپ کے مزاج کا ایک نمایاں وصف بن گئی.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی تربیت کا رنگ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، بڑا لطیف تھا اور عموماً نرم و نازک پیار کی باتوں سے اور نیک توقعات کے اظہار کے ذریعے بچوں سے ایسی باتیں منوا لیا کرتے تھے کہ بسا اوقات زبانی یا جسمانی سختی کے طریق وہاں ناکام رہ جاتے ہیں.آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ کبھی بچہ ایک کھانے کی چیز ضرورت سے زیادہ اُٹھا لیتا ہے.ماں باپ اُسے جھڑکتے اور خفا ہوتے ہیں.چھینا جھپٹی پر بھی اتر آتے ہیں لیکن بچہ اُن کی بات ماننے کی بجائے ضد اور بغاوت میں بڑھتا چلا جاتا ہے.حضرت مرزا صاحب کا طریق کار ایسے مواقع پر بالکل مختلف ہوتا تھا اور اس کا نتیجہ بھی بالکل الگ نکلتا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب علیه السلام کے ایک مخلص مرید سید فضل شاہ صاحب بیان کرتے ہیں :- ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چوبارے کے صحن میں بیٹھے تھے اور بادام آگے رکھے تھے.میں بادام توڑ رہا تھا کہ اتنے میں حضرت ن الفضل مارجون ۱۹۲۵ ص

Page 90

میاں بشیر الدین محمود احمد جن کی عمر اس وقت چار پانچ سال کی ہوگی، تشریف لائے اور سب بادام اُٹھا کر جھولی میں ڈال لئے.حضرت اقدس نے یہ دیکھ کر فرمایا.یہ میاں بہت اچھا ہے، زیادہ نہیں لے گا.صرف ایک دولے گا.باقی سب ڈال دے گا.جب حضرت صاحب نے یہ فرمایا تو میاں نے جھٹ سب بادام میرے آگے رکھ دیتے اور صرف ایک یا دو با دام لے کر چلے گئے.بچوں کے اخلاق کی خوابی کی ایک بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ ماں باپ انہیں نادان سمجھ کر ان سے دیانت اور امانت اور صداقت کا وہ معاملہ نہیں کرتے جن کی اُن سے وہ توقع رکھتے ہیں مثلاً ماں باپ دل سے چاہیں بھی کہ بچہ جھوٹ بولنے کا عادی نہ بنے تو بعض دفعہ دل بہلا دے گی خاطر یا اُن سے وقتی طور پر اپنا پیچھا چھڑانے کی نیت سے بچے کے سامنے جھوٹ بول دیتے ہیں بچوں سے ماں باپ کی کمزوریاں ہرگز چھپی نہیں رہتیں.چنانچہ ایسے ماں باپ کی نصیحتوں کا بچوں پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا جن کا عمل ان کے قول سے مختلف ہو.حضرت مرزا صاحب سے کسی قسم کی اخلاقی کمزوری سرزد ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور بچوں کی طبیعت پر آپ کے قول و فعل کی ہم آہنگی اور صداقت کا از خود اثر پڑتے رہنا ایک لازمی امر تھا.آپ نے صرف اسی پر اکتفا نہ فرمائی بلکہ بچوں کی تربیت کی خاطر اس بارہ میں غیر معمولی احتیاط فرما یا کرتے تھے.مثلاً حضرت منشی ظفر احمد صاحب کیور تھلوی راضی اللہ عنہ جو حضرت مرزا صاحب کے خاص عشاق صحابہ میں سے تھے بیان فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے.اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم نے حضور کے پیر داب رہے تھے کہ شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کوئی سخت چیز پڑی ہے.میں نے ہاتھ ڈال کر نکالی تو حضور کی آنکھ کھل گئی.آدھی کی.ٹوٹی گھڑے کی ایک چینی اور دو ایک ٹھیکرے تھے میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا : یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دیتے ہیں.آپ پھینکیں نہیں ، میری جیب ہی میں ڈال دیں کیونکہ میاں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے، وہ مانگیں گے تو ہم

Page 91

Ar کہاں سے دیں گے ؟ اٹھے یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی لطافت اور حسن سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے کے لئے کسی راہ اچٹتی ہوئی ایک نظر کافی نہیں، بلکہ اس کی جاذبیت ہر صاحب ذوق کے قدم روک کر اُسے کچھ عرصہ ٹھرنے پر مجبور کر دیتی ہے.یہ ممکن نہیں کہ کوئی سخن شناس نظر دو گھڑیاں یہاں ٹھہر کر ایک خاص عالم محویت میں اس کا نظارہ کئے بغیر میاں سے گزر جائے.کہتے ہیں کہ پارس پتھر سنگریزوں سے بھی مس کر جائے تو وہ سونا بن جاتے ہیں.یہ تو ایک افسانہ ہے لیکن اعلیٰ اخلاقی اقدار کی عینک سے اگر دیکھیں تو وہ آدھی ٹوٹی گھڑے کی چینی اور ایک دو ٹھیکرے سونے نے کہیں زیادہ بیش قیمت اور حمک دمک میں فائق نظر آئیں گے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کبھی کوئی چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس کی مدد سے اس بچے کے اخلاق کو ایک نرالی شان کے ساتھ صیقل کیا جا سکے.چنانچہ مرزا محمد اسماعیل بیگ صاحب اسی قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دن کچھ اصحاب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں ایک کیکر کا درخت گرا ہوا تھا بعض دوستوں نے اس کی شاخوں سے مسواکیں بنائیں.صاحبزادہ مرزا محمود احمد بھی ساتھ تھے.چھوٹی عمر تھی.ایک مسواک کسی نے اُن کو بھی دے دی اور انہوں نے بے تکلفی اور بچین کی وجہ سے ایک دو دفعہ حضور کو بھی کہا یہ ابا مسواک سے ہیں، قمر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا میاں ! اپہلے ہمیں یہ بتلاؤ کہ کس کی اجازت سے یہ مسواکیں حاصل کی گئی تھیں.یہ بات سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں لیا ہے یہ واقعہ ایک انوکھا انداز دلکشی لئے ہوتے ہے اور اس لائق ہے کہ اصول تربیت کے مضمون میں اسے سنہری حروف میں رحم کیا جائے سڑک پر گرے ہوئے ایک کیکر کے درخت سے چند مسواکوں کی شہنیاں کاٹ لینا کوئی ایسا اخلاقی جرم نہیں کہ ایسے چوری کی حدود میں داخل سمجھا جائے اور کوئی دنیوی یا مذہبی عدالت ایسے شخص کے لئے کوئی سزا یا سرزنش تجویر کرے.عام طور پر تو کھڑے درختوں سے بھی مسواک کے لئے شانیں کاٹ لی جاتی ہیں اور قبل ازیں اجازت حاصل کرنا کے اصحاب احمد جلد چهارم طبع دوم عب؟ نه تاریخ احمدیت جلد ۵ ص۲۱

Page 92

ایک اُن منی بات ہے.ہاں مالک کا حق بہر حال قائم رہتا ہے اگر چاہے تو ایسا کرنے سے روک دے.ایسے موقع پر اگر آپ اپنے صحابہ کو سختی سے ایسا کرنے سے روک دیتے تو عوام الناس پر ایک ایسا متشدد اخلاقی ضابطہ عائد کرنے کے مترادف ہوتا جو تکلیف مالا طاق" کا حکم رکھتا.بایں ہمہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اخلاق کے جس بلند مقام پر فائز فرمایا تھا اس مقام کے مشکل تر دستور کے مطابق آپ کے حسن کے شفاف چہرے پر یہ ادنی سا خاک کا ذرہ بھی زیب نہ دیتا تھا.یہ خاک کا ذرہ جیسے عام انسان اپنی نگی آنکھ سے دیکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا.آپ اسے نہ اپنے لئے پسند کرتے تھے نہ اس موعود بیٹے کے لئے جس نے اپنے وقت میں ایک عالم کے اخلاق کو سنوارنے کا بیڑا اٹھانا تھا لیکن آپ خاموش رہے تاکہ ان خدام کی دلآزاری نہ ہو جن کو اس فعل سے روکنا تکلف میں داخل ہو جاتا.پس اس واقعہ کا حسن آپ کی اس خاموشی میں مضمر ہے جو اپنے لئے اس تیز کو نا پسند کرتے ہوئے بھی آپ نے اختیار فرمائی.یہ خاموشی ایک بار یک مگر نا قابل تردید دلیل اس بات پر بھی ٹھہرتی ہے کہ اس انسان میں ریا اور عجب کا شائبہ تک نہ پایا جاتا تھا.ورنہ کیا عمدہ موقع تھا اپنے تقوی کے بلند مقام کی نمائش کا.جب تک بچے نے مکرر سوال کر کے مجبور نہ کر دیا دل ہی دل میں اپنے اس حسین فیصلہ کو داد دینے والی نگاہوں سے چھپاتے چھپاتے چلتے رہے پھر جب بولنے پر مجبور بھی ہوئے تو منع کرنے کا اندازہ کتنا پیارا ہے.سوال کے جواب میں ایک چھوٹا سا سوال کر دیتے ہیں.میاں ! ہمیں یہ تو بتاؤ کہ کس کی اجازت سے یہ مسواکیں حاصل کی گئی ہیں.کوئی اپنی نیکی کا عجب نہیں، کوئی رعونت نہیں.نصیحت میں کوئی تلخی نہیں کوئی خشونت نہیں ، مسکراتے ہوئے نرم الفاظ کے لبادے میں طائم یہ سوال ہے "میاں ہمیں یہ تو بتاؤ...فضاؤں میں ملک بکھیرنے والے عطر بیز اخلاق بڑے بڑے ٹکڑوں پر نہیں تو لے جاتے بلکہ چھوٹے چھوٹے نرم و نازک واقعات کی ایسی ہی زود جس میزانوں پر سکتے ہیں.گو اس واقعہ کا تعلق در اصل حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی سیرت سے ہے ، لیکن یہاں یہ بتانا مطلوب ہے کہ یہ وہ باپ تھا جس کی تربیت کے ساتے تھے محمود پل کر جوان ہوا.یہ چند نمونے آپ کے انداز تربیت کے ہیں، لیکن خود حضرت مرزا صاحب کے نزدیکب

Page 93

تربیت کا سب سے مقدم ذریعہ دعا تھا.وہ شخص جو اپنی اولاد کے لئے اس کے خلعت وجود پہننے سے بھی پہلے انتہائی گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں مانگتارہا ہوا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی موجود اولاد کے بارہ میں دعاؤں سے غافل ہو جاتا جب کہ صورتِ احوال یہ تھی کہ دُعا پر آپ کا انحصار کرنا صرف اپنی اولاد کے معاملہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اعتقاداً آپ دُعا کو ہر دوسرے ذریعہ پر اولیت دیتے تھے اور اسباب کی پیروی کو محض اس لئے اختیار فرماتے تھے کہ اسباب بھی خدا ہی کے پیدا کردہ ہیں اور ان کو اختیار کرنا بھی اُسی کی منشا کے مطابق ہے.بسا اوقات جب آپ بعض لوگوں کو اس رنگ میں تربیت کرتا دیکھتے کہ گویا محض ان کی تربیت ہی پر بچوں کے اخلاق کے بنے یا بگڑنے کا انحصار ہے تو آپ کو اس سے شدید تکلیف ہوتی یہاں تک کہ آپ کے نزدیک دعا کے ذریعہ خدا سے مدد مانگنے کے بغیر تربیت کے دیگر ذرائع پر انحصار کرنا شرک کا درجہ رکھتا تھا.مندرجہ ذیل بروایت ہمارے مافی الضمیر کو کھول کر بیان کرنے میں محمد ثابت ہو گی :- ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا.آپ اس سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں بلا کر بڑی درد انگیز تقریر میں فرمایا میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے.گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے.اگر کوئی شخصی خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بردبار اور با سگون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا خشم نمائی کرے.مگر مغضوب الغضب اور سبک سر اور طالش العقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کر لیں.اس لئے کہ والدین کی دُعا کو بچوں کے حق

Page 94

میں خاص قبول بخشا گیا ہے.میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں" جو چند واقعات جستہ جستہ ہم تک پہنچے ہیں محض نمونہ ہیں اور اس انیس سالہ زندگی کے تمام دور پر حاوی نہیں جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کو اپنے جلیل القدر والد سے تربیت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اس تربیت کی چند جھلکیاں جو پیش کی گتی ہیں انہیں دیکھ کر بے اختیار دل چاہتا ہے کہ کاش ایک سینما سکوپ کی طرح تربیت کے ان حسین نظاروں کی وہ تمام تصویریں متحرک ہو کر ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتیں ! تاریخ کا یہ دور جس حد تک بھی محفوظ ہے، اسے دیکھ کر ایک قطعی نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ جس طرح مقناطیس اپنی قوت جاذبہ کو دوسرے لوہے کے ٹکڑے کی طرف منتقل کرتا ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب علیہ السلام اپنی شخصیت کے تمام حسن کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی شخصیت میں منتقل فرماتے رہے.بنی نوع انسان کی جو ہمدردی آپ کے دل میں تھی اس سے آپ اس بچے کے دل کو بھی بھرتے رہے.خدا کی دیگر مخلوق کے لئے جس جذبہ رحم سے آپ کا سینہ بھر پور تھا وہی جذبہ رحم آپ اپنے اس بچے کے سینہ میں بھی موجزن دیکھنا چاہتے تھے.باتیں چھوٹی چھوٹی اور انداز نصیحت نہایت سادا اور پیارا ہے.لیکن اس کے نتیجہ میں ایک اثر قبول کرنے والا بچہ مخلوق خدا کے لئے ایک گداز دل کی نعمت پا جاتا ہے :- ایک بار آپ دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے.حضرت صاحب جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے وہاں سے گزسے تو دیکھ کر فرمایا.میاں ! گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں ملے حضرت صاحبزادہ صاحب کی سیرت کا یہ دور اپنے بزرگ والد کی سیرت سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور ایک کا بیان دوسرے کے بغیر ممکن نہیں.اپنے صرف اپنے اخلاق ہی سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شخصیت کو معمور نہیں کیا بلکہ جن اقدار کو آپ اولیت دیتے تھے، اُن اقدار کو اولیت دیتا بھی اپنے اس پیارے بچے کو سکھایا اور اخلاق میں تبھی حفظ مراتب کے آداب سکھاتے : ایک دفعہ تعلیم الاسلام سکول کے طلبہ کو مضمون دیا گیا کہ علم اور دوست الا کا مقابلہ کرو.صاحبزادہ صاحب نے اس مضمون کے متعلق بہت لے سیرت مسیح موعود " ص ۳۴۲

Page 95

M سوچا لیکن فیصلہ نہ کر سکے کہ علم اور دولت میں سے کونسا اچھا ہے.کھانے پر جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب سے باتوں باتوں میں پوچھا.بشیر ! تم بتا سکتے ہو کہ علم اچھا ہے یا دولت؟ حضرت میاں بشیر احمد صاحب تو خاموش رہے البتہ خود حضور علیہ السلام نے یہ بات سن کر فرمایا بیٹا محمود ! توبہ کرو.توبه کرد.نہ علم اچھا نہ دولت - خدا کا فضل اچھا ہے تسلط اس لطیف انداز تربیت کا یہ اثر تھا کہ جس بے پناہ حسن اخلاق کے حضرت مرزا صاحب خود مالک تھے وہی حسن حضرت صاحبزادہ صاحب کے کردار میں بھی بدرجہ اتم سرایت کر گیا اور بعد ازاں ہمیشہ آپ کے دیکھنے والوں کا ذہین، خصوصاً ان دیکھنے والوں کا جنہوں نے آپ کے مقدس باپ کا چہرہ بھی دیکھا ہوا تھا، اس الہی وعدے کی یاد دلاتا رہا کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.صرف دوستوں ہی نے اس حقیقت کو نہیں پایا بلکہ اغیار کی آنکھ بھی اس مماثلت کو خوب پہچانتی رہی.یہ الگ بات ہے کہ اُن کی زبان اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے تلخی کی آمیزش لئے ہوتی تھی.حضرت صاحبزادہ صاحب ہمیشہ لطیفے کے طور پر بچپن کے زمانے کا ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ اُن کی تائی جو حضرت مرزا صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی بیوہ تھیں اور حضرت مرزا صاحب کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد ایک عرصہ تک آپ پر ایمان نہ لائی تھیں، جب حضرت صاحبزادہ صاحب کو دیکھا کرتیں تو بڑی تلخی سے یہ کہتی تھیں : " جیو جیا کاں اوہو جیتی کہ کو " حضرت صاحبزادہ صاحب کو اس وقت چونکہ پنجابی زبان کا پورا محاورہ نہ تھا اس لئے بہت مدت تک اس کا مفہوم نہ سمجھ سکے.بعد ازاں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس سے مراد یہ تھی جس موبو کا باپ تھا ویسا ہی اُس کا بچہ.اسی دشمن آنکھ نے اپنی آخری عمر میں یہ بھی توفیق پائی کہ اس مماثلت کو فما ثملت حسن و احسان کے طور پر پیچانا ہے.چنانچہ وہ تائی جو اپنے دیور پر ایمان لانا اپنی غیرت اور شان کے خلاف سمجھتی تھی اپنی آخری عمر میں اپنے اس بھتیجے کے ہاتھ پر ایمان لا کر سلسلہ عالیہ حمدہے.میں داخل ہوئی.نفرت کی جگہ محبت نے لے لی اور رعونت کی جگہ اس درجہ انکسار نے کہ اس بچے اد سیرت میں موجود ص ۳۴۲

Page 96

AL کی آمد پر بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود احتراما اُٹھ کر کھڑی ہو جاتی تھی.یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ حضرت مرزا صاحب کو اللہ تعالٰی نے یہ دو فی العام فرمایا تھا: تانی آئی.یہ الہام مدت تک دشمنوں کی تضحیک کا موجب بنا رہا اور اس وقت اس کے معنے دنیا پر کھلے جب کہ آپ کی یہی بھاوج جو آپ کے بچوں کی تائی تھیں، آپ کی زندگی میں ایمان سے حروم رہ کر آپ کے بچے کے ہاتھ پر اس حیثیت سے سلسلہ میں داخل ہوئیں کہ قادیان کی گلی گلی میں تائی آئی کا شور مچ گیا.

Page 97

آپ کی تربیت میں آپ کی بزرگ والدہ کا حصہ یہ مضمون اُدھورا رہے گا اگر یہ ذکر نہ کیا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کے ساتھ ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کی بزرگ والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنھا کی تربیت کا بھی آپ کے کردار کی تشکیل پر نہایت گہرا اثر پڑا.بہت کم ہوتے ہیں وہ خوش نصیب بچے جن کے والدین دونوں ہی اعلئے مرتبانہ اوصاف سے متصف ہوں.مزید براں دونوں کی تربیت کے دھارے ایک ہی سمت میں بہتے ہوں اور دونوں کے مزاج میں تضاد کی بجائے ہم آہنگی پائی جائے.حضرت صاحبزادہ مرز امحمود احمد صاحب کے شاندار مستقبل کے بارہ میں جو پیش گوئی کی گئی تھی اس کی عملی تصویر بنانے کے لئے جو مختلف اسباب کار فرما تھے، ان میں یہ بھی ایک اہم سبب تھا.باقی تمام امور بچے کی تربیت کے لئے خواہ کیسے ہی موید کیوں نہ ہوں.اگر صرف یہی رخنہ پڑ جائے کہ ماں باپ کا انداز تربیت ایک دوسرے کی ضد یا مزاج اور مطمع نظر مخالف ہوں تو صرف یہ ایک سبب ہی بچے کی تربیت میں گھرے گھاؤ ڈال دیتا ہے.یہ اللہ تعالے کا آپ پر غیر معمولی احسان تھا کہ ماں بھی آپ کو وہ نصیب ہوئی جو شرافت اور نجابت اور فن تربیت میں ایک بلندشان رکھتی تھی اور آپ کا مطمح نظر بھی وہی تھا جو حضرت اقدس مرزا غلام احمد علا ایسی سلام کا تھا.آپ کی والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم جو راقم الحروف کی دادی تھیں اور جو میں امسال تک مجھے بھی آپ کا زمانہ پانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، بڑے سادہ اور موثر الفاظ میں نصیحت فرمایا کرتی تھیں.بناوٹ اور تصنع کے کوچے سے نا آشنا صدق وصفا کی مظہر تھیں.آپ کی ہر بات محبت بھری سچائی سے معطر تھی.سوائے غصہ کے میں نے آپ کی کسی بات میں کبھی ادنی سا تکلف کا شائبہ تک نہ دیکھا.دل کی چونکہ بے حد نرم تھیں.غصہ بہت کم اور وہ بھی برائے نام ہی آتا تھا لہذا کبھی بچوں کے ساتھ کسی حرکت پر اظہار ناراضگی مقصود ہو تو زیر دستی غصہ ظاہر فرمایا کرتیں.اور ہم بعد میں ہنسا کرتے کہ حضرت اماں جان کو غصہ وغیرہ تو کوئی نہیں ہے محض ہماری تنبیہہ کی خاطر

Page 98

٨٩ اظہار کر رہی ہیں.اس ظاہری غصہ کے بعد جس کا کوئی دکھ ہم بچوں کو نہیں پہنچتا تھا.خود ہی پریشان ہو جاتی تھیں اور بچے کی دلجوئی کی کوشش فرمائیں.ہم بچے تو آپ کے پوتوں پوتیوں نواسوں، نواسیوں کی حیثیت سے کبھی کبھی آپکے فیضیاب ہوتے تھے.ہاں وہ اولاد بڑی خوش قسمت تھی جسے مسلسل آپ کا فیضان حاصل رہا.میرے والد حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے بچپن کے زمانے میں آپ کا کیا انداز تربیت تھا اس کے متعلق بہترین بیان آپ کی اولاد ہی میں سے کسی کا ہو سکتا ہے.لہذا اپنی بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے ایک مضمون میں سے متعلقہ اقتباس پیش خدمت ہے.آپ فرماتی ہیں :- بچے پر ہمیشہ اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے.جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا آپ کا اول سبق ہوتا تھا.ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ میں فرماتی رہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان کے پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں.حضرت ام المومنین مرضی الله عنها ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ متنفر کرتا تھا...اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی.بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ دوسرے اُن کا A نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گئے تھے له سیرت ام المومنین.صنفه شیخ محمود احمد صاحب عرفانی حصہ اول ص۹-۳۹۴

Page 99

۹۰ تربیت قبول کرنے کی اہلیت رنگ خواہ کیسا ہی دیدہ زیب اور پختہ اور دیر پا کیوں نہ ہو جب تک کسی کپڑے میں اُسے قبول کرنے کی پوری صلاحیت موجود نہ ہو وہ رنگ اس پر چڑھ نہیں سکتا.تربیت کا رنگ بھی اسی شرط کا محتاج ہے.اس پہلو سے جب ہم حضرت صاحبزادہ مرزاعه ود احمد صاحب کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی ذات میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود نظر آتی ہے کہ اچھی باتوں کو قبول کرنے اور خوبصورت رنگوں کو اپنانے کا مادہ آپ کو بدرجہ احسن ودیعت ہو ا تھا یہی نہیں بلکہ غلط نقش کو رد کر دینے کی اہلیت بھی آپ بخوبی رکھتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود عل السلام کی لمبی تربیت کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ آپ اچھی بات کو جو اچھے اور عمدہ طریق پر کہی گئی ہو قبول کرتے تھے بلکہ ایسی نصیحت کو بھی جو بظاہر سخت کڑوی ہو لیکن فی ذاتہ درست ہو آپ بغیر تردد اور نفسیاتی الجھن کے قبول فرما لیتے تھے.ایک واقعہ اس ضمن میں اس پہلو سے خصوصاً قابل غور ہے کہ اچھی عمر تلخی سے کی ہوئی نصیحت کو نہ صرف آپ نے قبول کیا بلکہ اس نصیحت کرنے والے کا احسان زندگی بھر محسوس فرماتے رہے : مجھے ایک دوست کا احسان اپنی ساری زندگی میں نہیں بھول سکتا اور میں جب کبھی اس دوست کی اولاد پر کوئی مشکل پڑی دیکھتا ہوں تو میرے دل میں نہیں اُٹھتی ہے اور اُن کی میبودی کے لئے دعائیں کیا کرتا ہوں بستہ کی بات ہے جب کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام مولوی کرم دین والے مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور میں مقیم تھے وہ دوست جن کا میں ذکر کر رہا ہوں مراد آباد یو پی کے رہنے والے تھے اور فوج میں رسالدار میجر تھے.محمد ایوب ان کا نام تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے کے لئے گورداسپور آئے تھے.انہوں نے دو باتیں ایسی کیں جو میرے لئے ہدایت کا موجب ہوئیں.دتی میں رواج تھا کہ بچے باپ کو تم کہہ کر خطاب کرتے اسی طرح بیوی خاوند _

Page 100

91 کی کو کو تم کہتی پلکھنو وغیرہ میں آپ کے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں.گھر میں ہمیشہ تم تم کا لفظ سنتے رہنے سے میری عادت بھی تم کہنے کی ہوگئی تھی.یوں تو میری عادت تھی کہ میں حتی الوسع حضرت مسیح موعود اتم کو مخاطب کرنے سے کتراتا تھا لیکن اگر ضرورت پڑ جاتی اور مجبورا مخاطہ کرنا پڑتا تو تم کہ کر مخاطب کرتا تھا.چنانچہ مجھے اس دوست کی موجودگی میں آپ سے کوئی بات کرنی بیری اور میں نے تم کا لفظ استعمال کیا.یہ لفظ سن کر اس دوست نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور مجلس سے ایک طرف لے گئے اور کہا "میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے آپ کو آپ کی غلطی سے آگاہ کروں.اور وہ یہ کہ آپ کو حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کرتے وقت کبھی کبھی تم کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیئے.بلکہ آپ کے لفظ سے مخاطب کریں.ورنہ آپ نے پھر یہ لفظ بولا تو جان لے لوں گا.مجھے تو تم کا لفظ استعمال کرتے رہنے کی وجہ سے تم اور آپ میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا بلکہ میں آپ کی نسبت تم کے لفظ کو زیادہ پسند کرتا تھا.او حالت یہ تھی کہ آپ کا لفظ بولتے ہوئے مجھے بوجہ عادت نہ ہونے کے شرم سے پسینہ آجاتا تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ آپ کہنا جرم ہے.مگر اس دوست کے سمجھانے کے بعد میں آپ کا لفظ استعمال کرنے لگا اور ان کی اس نصیحت کا اثر اب تک میرے دل میں موجود ہے.اسی طرح ایک دفعہ میں نے لاہو.آنے پر یہاں بعض لڑکوں کو ٹکھٹائی لگاتے دیکھا اور میں نے بھی شوق سے ایک نکٹائی خرید لی اور سینی شروع کر دی گورداسپور ہی کا واقعہ ہے کہ وہی مرحوم دوست مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے " آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کتنچینیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ ہم نے تو آپ سے سبق سیکھنا ہے.جو قدم آپ اٹھائیں گے ہم بھی آپ کے پیچھے چلیں گئے یہ کہ کر انہوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور میں نے اتار کر ان کو دے دی اور

Page 101

۹۲ پس اُن کی یہ دو نصیحتیں مجھے کبھی نہیں بھول سکتیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک مخلص متبع کو ایسا ہی ہونا چاہیئے.اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب ! صاحبزا؟ صاحب کہ کر اس کا دماغ بگاڑنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے کہنا چاہیئے کہ آپ ہوتے تو صاحبزادہ ہی تھے مگر اب غلام زادہ سے بھی بدتر معلوم ہو رہے ہیں اس لئے آپ کو چاہیئے کہ اپنی اصلاح کریں لئے اس روایت سے جہاں اور بہت سے سبق ملتے ہیں وہاں یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آ جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے دل میں آپ کا عشق اتنا غالب تھا کہ اس کے مقابل پر کسی دوسری محبت کی پرواہ نہیں کرتے تھے.یہ درست ہے کہ حضرت پیچ موعود عليه الصلوة والسلام کے صحابہ کو آپ کی اولاد سے بھی بہت پیار تھا اور بکثرت شواہد ملتے ہیں کہ وہ آپ کی اولاد کے ساتھ نہایت پیار اور محبت کا سلوک روا رکھتے تھے لیکن اُن کی یہ محبت کسی کورانہ تقلید کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اس عرفان کی وجہ سے تھی کہ اس زمانہ میں تمام برکتوں اور اعلیٰ اقدار کا سر چشمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ہیں اور خوب جانتے تھے کہ بیٹر کو عليه جڑ اپنی شاخ پر بہر حال فضیلت ہے اور وہ اسی وقت تک اور اسی حد تک پیار کے لائق ہے جس حد تک وہ اس سر چشمہ کے قریب ہو.یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کوئی ظاہری لباس معین کرتا ہے جس کا ترک کرنا کسی انسان کو قابل مواخذہ بنا دے اور کیا فقط شلوار قمیص ہی اسلامی لباس ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں.واقعہ یہ ہے کہ انگریز ہند دستان میں ایک حاکم کے طور پہ آیا اور ہندوستانیوں نے اس کے لباس اور عادات اور اطوار کو اس بناء پر قبول نہیں کیا کہ ان میں کوئی فوقیت پائی جاتی تھی بلکہ یہ لعل ایک غلامانہ ذہنیت کے نتیجہ میں شروع ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ آپ کی اولاد سے اتنی بلند توقعات رکھتے تھے کہ ان کے لئے ایک ادنی سی لغزش بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر چه اصولاً واجب الاطاعت امام ہی نمونہ ہوتا ہے اور اس کی اولاد سے غلط نمونہ اخذ کرتا نا مناسب اور بے اصول طریق ہے اور قرآن کریم نے اس مسئلہ کو خوب کھول کر بیان فرما دیا ہے له الفضل لاہور ۱۸ فروری ۱۹

Page 102

۹۳ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں اور اس طرف بھی قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے کہ عوام الناس جو اصول کو اچھی طرح نہیں سمجھتے بسا اوقات امام کے قریب تر رہنے والوں سے بھی نمونہ پکڑتے ہیں خواہ وہ میرا ہی کیوں نہ ہو لہذا جہاں تک اہل بیت کا تعلق ہے ان پر سیر حال دوهری احتیاط کی ذمہ داری ہے.اس پہلو سے اس زمانہ میں جب کہ مغربی تہذیب صرف ایک لباس ہی کے ذریعہ ہماری قدیم تمدنی روایات پر حملہ آور نہیں ہو رہی تھی بلکہ اس کے ساتھ بہت سی دیگر اخلاقی خرابیاں بھی سرعت سے ہندوستان میں پھیل رہی تھیں.انگریزی لباس کو اپنانے کے نتیجے میں ایسے طبقہ کے لئے جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے، یقیناً یہ خطرہ تھا کہ وہ انگریز کے لباس کے ساتھ دیگر برائیوں میں بھی موت ہو جاتے.اس خطرہ کی نشاندہی کرم و محترم رسالدار میجر محمد ایوب خان صاب مرحوم نے کھلے لفظوں میں فرماتی ہے اور آپ نے اسے درست تسلیم فرمایا اور آئندہ کے لئے اس لباس کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا.میں خاص طور پر اس امر کی وضاحت اس لئے کر رہا ہوں کہ اس واقعہ سے غلط استنباط کرتے ہوئے کوئی اسے شرعی مسئلہ نہ سمجھ بیٹھے جب کہ خود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے نزدیک اس کی یہ حقیقت نہ تھی.اس ضمن میں حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے بچپن کے ایام کے ذکر سے چند لمحے کی رخصت لیتے ہوئے ایک بہت بعد کا واقعہ بیان کرتا ۱۹۵۵ ہوں جو میرے سامنے گزرا اور بس کے اور بہت سے گواہ بھی موجود ہیں : واقعہ یوں ہے کہ 2002ء میں جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ بغرض علاج انگلستان تشریف لے گئے تو حضور کے دوسرے کئی بچوں کی طرح مجھے بھی حضور کی معیت کی سعادت نصیب ہوئی.وہاں ایک موقعہ پر کھانا کھاتے ہوئے مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے انگریزی لباس کے مسئلہ پر گفتگو چل پڑی.محترم چوہدری صاحب چونکہ خود کوٹ نیلون استعمال فرماتے تھے اس لئے چاہتے تھے کہ ایک دفعہ کھل کر حضور اس بارہ میں کوئی فیصلہ صادر فرمائیں.اس موقع پر حضرت صاحب نے جو موقف اختیار فرمایا وہ وہی تھا میں کا میں ذکر کر آیا ہوں، یعنی یہ لباس خصوصاً اس لئے آپ کو نا پسند تھا کہ یہ ہماری قوم کی غلامانہ ذہنیت کا آئینہ دار تھا.آخر یہ کیا وجہ ہے کہ انگریزوں نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ہمارا لباس نہیں اپنایا بلکہ وہ اپنے لئے اُسے ذلت کا موجب سمجھتے رہے.ایسی صورت میں آپ کے نزدیک یہ بے غیرتی اور بے قمیتی تھی کہ ان کے لباس کو اختیار کیا جائے.حضور کا یہ جواب سن کر محترم چوہدری

Page 103

۹۴ صاحب نے گذارش کی کہ اب تو وہ صورت حال باقی نہیں اور کیا انگریز اور کیا امریکن سب مغربی قومیں بکثرت ہمارا لباس اختیار کرنے لگی ہیں لہذا وہ کراہت باقی نہیں رہنی چاہئے.مکرم چوہدری صاحب نے یہ بھی گزارش کی کہ مرور زمانہ سے اب آہستہ آہستہ یہ انگریزی لباس ایک بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور مشرق بعید کی دوسری آزاد اور باغیرت قومیں بھی اسے اپنا چکی ہیں، نیز ہمارے لباس کی نسبت یہ کچھ سستا بھی پڑتا ہے.خاص طور پر یورپین ممالک میں شلوار قمیص اور اچکن کو صاف ستھرا رکھنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ ہاں ایسی صورت میں تو کوئی قابل اعتراض بات نہیں رہتی البتہ ٹائی لگانے کے متعلق مجھے یہ تردد ہے کہ کہیں یہ صلیب کی علامت نہ ہو اس لئے بغیر ٹائی کے استعمال کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.چوہدری صاحب نے اس کے جواب میں جو گزارش کی وہ یہ تھی کہ ٹائی صلیب کی علامت یقینا نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہودی قوم کبھی بھی اسے نہ اپناتی نیز ناتی در اصل سرد ممالک کے اس رویال کی بدلی ہوئی صورت ہے جو گردن کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ تو میں استعمال کرتی تھیں بعد ازاں اس کا کام صرف کالر کو بند کرنے کا رہ گیا.اس استدلال کو قبول کرتے ہوئے حضور نے نہ صرف اس کی اجازت فرمائی بلکہ محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب مرحوم کو جو سفر میں حضور کے ہمراہ تھے الطور لطیفہ ایک ٹائی کا تحفہ بھی مرحمت فرمایا.اصل مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب کے تربیت سے متاثر ہونے اور بخوشی اسے قبول کرنے کا ایک اور واقعہ پیش کیا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.ایک دفعہ ایک لڑکے کے کندھے پر کسی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماستر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبد الرحیم صاحب در دو کے والد تھے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بڑی بات ہے.اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی.لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے اُن کے لئے دل سے دُعا نکلتی ہے".ہے اس واقعہ سے بھی مزید اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ میں اچھی تربیت قبول کرنے کا کیسا 19×9 ے اخبار الفضل قادیان ار مارچ ۱۹۳۷ )

Page 104

۹۵ طبعی میلان پایا جاتا تھا اور صرف یہی نہیں کہ آپ نصیحت کی بات کو بُرا نہیں مناتے تھے بلکہ اس کے نتیجہ میں شکر گزاری کا ایسا شدید جذبہ دل میں پیدا ہو جاتا تھا کہ سالہا سال گزر جانے اور بچپن کے بعد جوانی اور جوانی کے بعد بڑھاپا آجانے کے بعد بھی اس کی شدت کم نہ ہوئی.یہ فقرہ بہت ہی فکر انگیز ہے کہ : " جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار اُن کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے خود اپنی تربیت کی اہمیت - انسانی تربیت میں ایک بڑا حصہ اُن نصائح کا ہوتا ہے جو وہ اپنے بہی خواہوں سے سنتا ہے اور ایک حصہ اس طعن و تشنیع کا جود دشمن کی زبان سے کسی نیک نیتی کے نتیجہ میں نہیں نکلتی بلکہ محض زخم پہنچانے کی خاطر صادر ہوتی ہے.ایک حصہ اُن حماقتوں کا بھی ہوتا ہے جو وہ گردوپیش میں بیوقوفوں سے سرزد ہوتا ہوا دیکھتا ہے اور ایک حصہ ان خود کردہ غلطیوں کا بھی جن کے سرزد ہونے کے بعد جلد یا بدیر احساس ندامت دل و دماغ کو کریدنے لگتا ہے.ان سب امور کے علا وہ انسان کی اپنے گرد و پیش پر غور کرنے کی عمومی عادت بھی تربیت کے معاملے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے وَتَفكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ میں اسی عادت کا ذکر ہے.اس طرز فکر کے دو پہلو ہیں.ایک یہ عادت کہ انسان اپنے گرد و پیش پر غور و فکر کر کے اور اپنے نفس میں ڈوب کہ معارف اور حقائق کے نئے نئے موتی تلاش کرتا رہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو باتیں اُسے آبائی عقائد اور عادات واطوار کے نتیجہ میں از خود گویا ورثے میں ملی ہیں، انہیں آنکھیں بند کر کے قبول نہ کرے بلکہ اس وقت تک کہ وہ مور ولی عقائد عقل کو قاتل نہ کر لیں اور دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں انہیں نہ اپنائے جس انسان میں اس قسم کی عادت ہو اُسے گویا ایک اندرونی مربی عطا ہو جاتا ہے جو تا زندگی اس کے ساتھ رہتا اور اس کی فکری نشو و نما میں ہمیشہ مدد گار بنا رہتا ہے.یہ طرز فکر ذہنی دیانت کا بھی متقاضی ہے جس کے بغیر صحیح نتائج تک رسائی ممکن نہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کو یہ مربی بھی عطا ہوا تھا.اور آپ کو بڑے بڑے مسائل سے لے کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کرنے اور انہیں ذہن میں منقلب کرتے رہنے کی عادت تھی.دو واقعات اس تعلق میں بطور مثال نہیں ہیں.اولاً.آپ فرماتے ہیں:.میں نے بچپن میں یہ اعتراض آریوں کا شنا کہ خدا کچھ پیدا نہیں کرسکتا

Page 105

۹۶ وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کے لئے روح اور مادہ دونوں کا محتاج ہے.میری یہ عادت تھی کہ ایسے مسائل کو لے کر جو عقل کے مخالف ہوتے ہیں غور کیا کرتا تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ میں ایک دفعہ رات کے وقت دیوار سے ٹیک لگائے ستاروں پر غور کر رہا تھا.میں نے یہ خیال کرنا شروع کیا کہ ان ستاروں کے اوپر بھی کوئی چیز ہے تو میں نے خیال کیا کہ اگر کوئی چیز نہیں تو خلاصہ ناممکن ہے اور اگر کہو کہ کچھ اور بھی ہے تو پھر اس کے بعد کچھ اور بھی ہوگا.غرضیکہ اسی طرح سوچتے سوچتے میں نے دیکھا کہ انسان تو اس نظری مسئلہ کو بھی حل نہیں کر سکتا اور اس سوال کے دو ہی جواب ہیں، اور دونوں ہی ناممکن میں لے ایک اور موقعہ پر آپ فرماتے ہیں :- میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحب کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کا تھا تو میں نے صتم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا.مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا حتی کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا ہے اس سلسلہ میں یہ تیسرا واقعہ بھی آپ کے ذہنی انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں: منشہ میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک مجبہ لایا تھا.میں نے آپ سے وہ جبہ لے لیا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے میں اسے پہن نہیں سکتا تھا.کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے.19.جب میں گیارہ سال کا ہوا اور نالہ نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں، اس کے الفضل ۲۳ اگست ۱۹ در ۵ له الفضل ارجون ١٩٣٣ ص

Page 106

96 وجود کا کیا ثبوت ہے ؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا.آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا.میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا میں نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا ! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو.اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.مگر آج بھی اس دُعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں آج بھی میں کہتا ہوں خدایا تیری رات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو.ہاں اُس وقت میں بچہ تھا.اب مجھے زائد تجریہ ہے.اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری قوات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں چن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور مشترک ہے یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا ، پہن لیا تب میں نے اس کو ٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز بھی نہیں چھوڑوں گا.اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا! اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی گو اس نماز کے بعد کسی سال بچپن کے ابھی باقی تھے میرا وہ عدم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے مجھے نہیں معلوم میں کیوں رویا فلسفی کے گا.اعصابی کمزوری کا نتیجہ ہے.مذہبی کے گا تقویٰ کا جذبہ تھا مگر میں جس سے یہ واقعہ گزرا کہتا ہوں، مجھے معلوم نہیں میں کیوں رویا ؟

Page 107

۹۸ ہاں یہ یاد ہے کہ اس وقت میں اس امر کا اقرار کرتا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا.اور وہ رونا کیسا با برکت ہوا ! اور وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی ! جب اس کا خیال کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹیریا کے دورہ کا نتیجہ نہ تھے پھر وہ کیا تھے ؟ میرا خیال ہے وتمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھے.وہ مسیح موعود کے کسی فقرہ یا کسی نظر کا نتیجہ تھے اگر یہ نہیں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے پہلے الحكم جوبلی نمبر دسمبر ۶۱۹۳۹

Page 108

٩٩ ایک ایسا بچہ جس کی پیدائش اتنے بڑے عالمگیر نزاع کا مرکز بنی رہی ہو اور جس کی لمبی اور بامراد زندگی کے ساتھ اس کے باپ کی صداقت کی پہچان کی تمام تر امیدیں وابستہ ہوں، یقینا اس لائق ہے کہ اس کا باپ اس کی صحت و عافیت اور تعلیم و تربیت کے انتظام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے.لیکن تعجیب ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی طرف سے ایسا کوئی اقدام نہ کیا گیا.نہ اس بچے کی صحت وعافیت کی طرف کوئی غیر معمولی توجہ دی گئی نہ اس کی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص اہتمام کیا گیا.یہ بات بھی نہ تھی کہ بچہ از خود ہی صحت مند اور توانا تھا یا تعلیم میں ویسے ہی بہت ہوشیار تھا اور کسی مخصوصی توجہ کا محتاج نہ تھا.اس کے برعکس یہ ایک نحیف و نا تواں بچہ تھا جس کی صحت کسی بھی زاویہ نگاہ سے قابل رشک قرار نہیں دی جا سکتی تھی اور جس سے قبل پیدا ہونے والے اس کی والدہ کے تمام دوسرے بچے کم سنی ہی میں فوت ہو چکے تھے.آپ کی آنکھوں میں گھروں کا جو آزار تھا وہ محض جسمانی تکلیف کا موجب ہی نہیں تھا بلکہ حصول تعلیم میں بھی مشکلات پیدا کر رہا تھا.بسا اوقات آپ بچپن کے زمانہ میں آنکھوں کی بیماری کے باعث سکول جانے سے قاصر رہتے اور جاتے بھی تو پڑھائی کی طرف کما حقہ توجہ نہ دے سکتے.جس کے نتیجہ میں آپ کے بچپن کا تعلیمی دور کسی بھی دنیوی معیار کے لحاظ سے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا.یہ ایک اہم نفسیاتی سوال ہے کہ وہ شخص جو اپنے ہاں کسی ایسے بچے کی ولادت کی پیشگوئی کرے جو لمبی عمر پانے والا اور صاحب علم و فضل ہوا وہ پیشگوئی اگر اس نے خود بنائی ہو اور اس کا الہی بشارات سے کوئی تعلق نہ ہو تو ایسی صورت میں اپنے بچو کی تعلیمی دیکھ بھال وغیرہ سے متعلق اس کا کیا طیز زیل ہونا چاہیئے.یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، دوست اور ہمن تمام دنیا کی آنکھیں اس بچے پر لگی ہوئی تھیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو اس بارہ میں کبھی کوئی تشویش لاحق نہ ہوئی اور سواتے اس کے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے قرآن کریم ناظرہ ختم کرنے پر آپ نے غیر معمولی خوشی منائی، صاحبزادہ صاحب کی تعلیم میں آپ کی کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی.زمانہ کے دستور کے مطابق صاحبزادہ صاحب کی تعلیم کا آغاز گھر پر ہی حروف کی سوجھ بوجھہ

Page 109

پیدا کرنے اور قرآن کریم ناظرہ پڑھنے کے ذریعہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایس غرض سے حافظ احمد اللہ ناگپوری کو مقرر فرمایا.آپ کو قرآن کریم سے جو عشق تھا اس کا کچھ اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جب صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے ناظرہ قرآن کریم پڑھ لیا تو حضرت صاحب نے ایک نہایت شاندار تقریب اس موقع پر منعقد فرمائی اور بطور شکرانہ کے حافظ صاحب کو ڈیڑھ صد روپے کی رقم جو اس زمانہ کے معیار کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی عطا فرمائی.اس تقریب میں قادیان کے دوستوں ہی کو مدعو نہیں کیا گیا بلکہ دور دور کے تعلق والوں کو بھی دعوت دی گئی.گویا باقاعدہ ایک سیشن کا اہتمام تھا.علاوہ ازیں آپ نے ایک دعائیہ آمین بھی لکھی جو ایک جلسہ میں پڑھ کر سنائی گئی.اس آمین کا مطالعہ نہایت اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ اس سے ایک طرف اس عظیم باپ کے پر خلوص جذبات کی تصویر سامنے آجاتی ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت بڑی شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے کہ آپ اس بچے کی تربیت کے معاملہ میں اصل انحصار اللہ تعالیٰ ہی پر رکھتے تھے اور بھروسہ دعاوں پر تھا نہ کہ ظاہری تدابیریم - اس آمین کے چند اشعار بطور نمونہ پیشیں ہیں :- حمد و ثنا اُسی کو جو ذاتِ جاودانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باتی و ہی ہمیشہ غیر اسکے سب میں فانی ہوائے غیروں سے دل لگانا، جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر میں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں مرے یہی ہے سُبحان من شیرانی یار ہے تیرا احسان میں تیسے درپہ قربان تو نے دیا ہے ایمان تو ہر ماں نگہاں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم در حمن یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي کیونکر ہو شکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي

Page 110

تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنائیں گا یا صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَراني ہے آج ختم قرآن نکلے ہیں دل کے ایٹل تو نے دکھایا یہ دن میں تمسے منہ کے قرباں اور اتارنے اے میرے ریسن کیونکر ہو شکر احساں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَراني تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے کیونکر ہو حمد تیری کب طاقت قلم ہے تیرا ہوں میں ہمیشہ جب تک کہ دم میں دم ہے یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَن يراني اسے قادر و توانا ؛ آفات سے بچاتا ہم ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھکو مانا غیروں سے دل غنی ہے جب سے سے تھکو جانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي اتر کو میرے پیارے اک دم ن دور کرنا بہتر ہے زندگی سے تیرے حضور مرنا نہ واللہ خوشی سے بہتر غم سے تے گذرنا تو بھی یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي سب کام تو بنائے لڑکے بھی تجھے ہے یہ سب کچھ تیری طے کرے تو کچھ نہ ہے تو نے ہی میرے جانی خوشیوں کےدن دکھاتے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي یرمین واپس میں مجھ سےہی یہ شمر ہیں وہ میرے بار بریں تیرے غلام در یں تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں بیہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَن يراني کر انکو نیک قسمت سے انکو دین دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری حمت انکونیک انکو دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَراني پر

Page 111

اے واحد و یگانہ اے خالق زمانہ کی میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ سے تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبحان من يراني اقبال کو بڑھانا اب فضل سے کے آتا بر رنج سے بچانا دکھ درد سے چھڑانا ہر خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزماتا ! یہ روز کر مبارک سُبحانَ مَنْ يَراني یہ تینوں تیرے چاکر ہو وہیں جہاں کے بیر یہ بادی جہاں ہوں.یہ جو دیں نور یکیسر یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہو دیں مہر انور یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَرَانی ابل وقار ہو دیں نہ دیار ہو دیں حق پر نثار ہو دیں مولی کے بارہویں با برگ و بار ہو دیں اک سے ہزارہ ہوویں پیہ روز کر مبارک سبحان من ترانی تو ہے جو پالتا ہے ہر دم سنبھالتا ہے غم سے نکالتا ہے دردوں کو ٹالتا ہے دم کرتا ہے پاک مال کو حق دل میں ڈالتا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرانی تو نے سکھایا فرقاں جو ہے مدار ایماں جس سے ملے ہے عرفاں اور دور ہو وشیاں یہ سو سے تیرا احساں تجھ پر شار ہو جاں به روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي دنیا بھی اک سرا ہے بھڑے گا جو ملا ہے اگر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جایہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سُبحان من يراني اے دوستو پیار و اعتقنے کو مت بسارو کچھ زاد راہ سے لو کچھ کام میں گذار و دنیا ہے جاتے فانی دل ہے سے اتار و یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرانى لو

Page 112

اے میرے بندہ پرور کر انکونیک اختر رتبہ میں ہوں یہ برتری اور بخش تاج وانسر ہوں تو ہے ہمارا مہر تیرا نہیں ہے ہمسر به روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرانی شیطان سے دور رکھی اپنے حضور کیوں جان پر نور رکھیو دل پر شد در کھیتو ان پر میں تیرے قربان با رحمت ضرور کھیتو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي میری دعائیں ساری کر یو قبول بازی میں جاؤں تیرے داری کر تو مرد جاری تومدد ہم تیرے در پہ آئے لیکر امی بھاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمرو دولت کر دُور ہر اندھیرا دن ہوں مُرادوں والے پر ٹور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَن تَرانی یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ انکو گی ہے 8 کر ان سے دُور یا رب دنیا کے سامنے پھندے انگوگیرے دنیا جینگے میں ہمیشہ کر یو نہ ان کو مندے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرانی اے میرے دل کے پیارے لیے مہرباں ہمارے کر انکے نام روشن جیسے کہ میں ستارے فضل کر کہ ہو دیں نیکو گھر یہ سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَراني اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی 88 کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہو وے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی نیه روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَراني سُن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے ان کو رکھنائیں تیسے منہ کےواری اپنی پناہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرانی

Page 113

۱۰۴ قرآن کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا یا فکر معاد رکھنا.پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے پیارے صدق وسدا درکھنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانی ید :- ناظرہ قرآن پڑھنے کے بعد آپ کو باقاعدہ اسکول میں داخل ہو کر مروجہ دنیوی تعلیم پانے کا موقع ملا اور گھر پر بھی بعض اساتذہ سے اردو اور انگریزی کی امدادی تعلیم حاصل کی چنانچہ حضرت منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ آپ کو اردو پڑھاتے رہے اور بعد ازاں کچھ عرصہ حضرت مولوی شیر علی صاحب مرضی اللہ عنہ نے آپ کو انگریزی پڑھائی لیکن یہ سب تعلیم کس ماحول میں اور کس اہتمام کے ساتھ ہوتی.یہ ایک دلچسپ داستان ہے جو خود حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ہی کے الفاظ میں سننے سے تعلق کھتی ہے.آپ فرماتے ہیں : "میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ہے.آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لئے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ.اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت نگرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی ہیں اور ایسی شدید تکلیف کروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شروع کر دیئے مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے جب آخری روزے کی آپ افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیاہے لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا --

Page 114

زور نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی.چنانچہ میری باتیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا.دو چارفٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں.لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو.تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اس میں بھی کرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کتنی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اسکی مرضی پر ہوگی.یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر یزید نہ دیا جائے کیونکہ اسکی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی فرماے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو.اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طلب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب حین کو خدا تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ ہمارے حساب کے اُستاد تھے اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے کیونکہ جتنی دُور بورڈ تھا.اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں تھی نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی.اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا.کبھی سے جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ نہیں پڑھتا.کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا.مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلا کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح وعود کس قدر ناراض ہوں.لیکن حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام ا.

Page 115

1-4 نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا.آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ بھی کبھی مدر سے چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے.پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان تھوڑی کھلوائی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے.جاب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں.آخر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کو نسا حساب سیکھا تھا.اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہیئے.یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے ہیں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا.کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی بغرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میں در حقیقت مجبور بھی تھا.کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا.چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا.پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی.ریڈ آئیوڈائڈ آف مرکزی (Red Iodide of Mercury) کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی.اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی تھی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی.غرض آنکھوں میں شکرے جگر کی خرابی، عظیم طحال کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دیا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہیے، پڑھ لے.اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے.ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا.ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب مرضی اللہ عنہ نے میرا اُردو کا امتحان لیا.میں اب بھی بہت بدخط ہوں مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا.انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا.

Page 116

1-6 د.میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں میرے خط کا نمونہ صرف میری لڑکی امتہ الرشید کی تحریر میں پایا جاتا ہے.اس کا لکھا ہوا ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے امتہ الرشید کے لکھے ہوئے پر ایک روپیہ انعام مقرر کر دیا تھا کہ اگر خود امتہ الرشید بھی پڑھ کر بتا دے کہ اس نے کیا لکھا ہے تو ایک روپیہ انعام دیا جائے گا.یہی حالت اس وقت میری تھی کہ مجھ سے بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا بھی پڑھا نہیں جاتا تھا.جب میر صاحب نے پرچہ دیکھا تو وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ تو ایسا ہے جیسے ٹنڈے لکھے ہوں.اُن کی طبیعت بڑی تیز تھی.غصہ میں فورا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا.ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نا معلوم کیا ہو.خیر میر صاحب آگئے اور حضرت صاحب سے تھمنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے میں نے اس کا اُردو کا امتحان لیا تھا.آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا برا اخط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا.پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام سے کہنے لگے آپ بالکل پڑاہ نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا " بلاد حضرت مولوی صاحب کو جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا لیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بڑی محبت تھی.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علم اٹھائی

Page 117

1-A اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو.بیس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیا میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا.اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی.دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا.اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے.کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا.الف اور بارہ وغیرہ احتیاط سے ڈالے.جب حضرت میسج موعود علیہ الصلوة والسلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے.مجھے تومیر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے.حضرت خلیفہ اول پہلے ہی میری تائید میں ادبار کھائے بیٹھے تھے.فرمانے لگے حضور با میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو میرے پاس آجایا کرو میں پڑھتا جائی گا اور تم سنتے رہا کرو چنانچہ انہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھا دی.یہ نہیں کہ آپ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہو بلکہ آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے.کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے.ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے چلے جاتے.آپ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا.اس کے بعد پھر کچھ ناغے ہونے لگ گئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ نے پھر مجھے کہا کہ میاں مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو.دراصل میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی میں ہی میں نے آپ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی گوناغے ہوتے رہے.اسی طرح طلب بھی حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام

Page 118

1-9 کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر دی تھی.طب کا سبق میں نے اور میر محمد اسحاق صاحب نے ایک دن ہی شروع کیا تھا بلکہ میر صاحب کا ایک لطیفہ ہے جو ہمارے گھر میں خوب مشہور ہوا کہ دوسرے ہی دن میر محمد اسحق صاحب اپنی والدہ سے کہنے لگے اماں جان مجھے صبح جلدی جگا دیں کیونکہ مولوی صاحب دیر سے مطب میں آتے ہیں میں پہلے مطب میں چلا جاؤں گا تاکہ مریضوں کو نسخے لکھ لکھ کر دوں.حالانکہ بھی ایک ہی دن اُن کو طلب شروع کئے ہوا تھا.غرض میں نے آپ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی.قرآن کریم کی تفسیر آپ نے دو مہینے میں ختم کر دی.آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف پارہ اور کبھی پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سنا دیتے کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے.اسی طرح بخاری آپ نے دو تین مہینے میں مجھے ختم کرا دی.ایک دفعہ رمضان کے مہینے میں آپ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی میں شریک ہو گیا.چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا.غرض یہ میری علمیت تھی.مگر انہی دنوں جب میں یہ کورس ختم کر رہا تھا مجھے اللہ تعالٰی نے ایک رویا.دکھایا ہے ایک اور موقع پر آپ اپنے بزرگ استاد حضرت الحاج حکیم مولوی نور الدین کے طریق تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- مجھے سب سے بڑی تعلیم جو حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دمی وہ یہی تھی کہ جب میں پڑھتے ہوئے کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے میاں آگے چلو.اس سوال کے متعلق گھر جا کر خود سوچنا ہے حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ جو حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے وصال کے بعد سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ چنے گئے تھے اپنے علم وفضل کی وجہ سے تمام ہندوستان له الموجود تقریر حضرت مصلح موجود بر موقع جلسه سالانه ۱۹۱۳ نه مده تا ۸۴

Page 119

میں ایک معروف مقام رکھتے تھے.آپ کا حضرت صاحبزادہ صاحب کو پڑھاتے وقت یہ خاص سلوک تھا کہ جہاں دوسروں کے سوالات کا جواب تفصیل سے دیا کرتے وہاں حضرت صاحبزادہ صاحب کو سوال کرنے سے ٹوکتے.اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کے نزدیک یہ طالب علم غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا اور اگر خود مسائل پر غور کرتا تو درست نتائج تک پہنچ سکتا تھا.دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ قرآن کے علم کو کوشش کی بجائے اللہ تعالیٰ کے فضل پر زیادہ معنی سمجھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ یہ بچہ اللہ تعالیٰ کے خاص سلوک کے نتیجہ میں اور اس کی رہنمائی میں قرآن کریم کا علم سیکھے گا.ابتداء میں تو حضرت صاحبزادہ صاحب کے دل میں یہ احساس رہا کہ حضرت خلیفہ البیع الاول دو سر طلباء کی نسبت آپ پر زیادہ سختی فرماتے ہیں.لیکن رفتہ رفتہ یہ حقیقت کھل گئی کہ اس استثنائی سلوک کا مقصد کیا تھا.چنانچہ اس بارہ میں آپ خود ہی اس قسم کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ایک شاندار نکتہ میں نے اپنی ذات میں بھی دیکھا ہے میں جب حضرت..خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف اور بنجاری پڑھا کرتا تھا تو آپ نے آدھ آدھ سیارہ روز پڑھا کر دو ماہ میں سب جسم کرا دیا.میں جب کچھ پوچھنا چاہتا تو فرماتے.میاں ! گھر جا کر سوچ لینا.دوسرے ھنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اگر میں کوئی سوال کرتا تو فرماتے.میاں! انٹھو ادھر آکر بیٹھو.غرض اس طرح پڑھانے کے بعد فرمایا جو علم نور دین کو آتا تھا ، پڑھا دیا.اس کے اندر ایک نکتہ تھا اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ ترجمہ پڑھ لے اور اس کو اچھی طرح سمجھ لے.باقی جو علوم میں وہ تو خدا کے سکھانے سے آتے ہیں.اُن کے متعلق اسے اپنے طور پر کوشش کرنی چاہیئے اور خدا تعالیٰ سے حاصل کرنے چاہئیں میں اگر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی بتائی ہوئی باتوں کو لکھ رکھتا تو آج ان اعتراضوں کے جواب کہاں سے لاتا جو اسلام پر ہورہے ہیں.کیا انہوں نے ہمیشہ زندہ رہنا تھا نہیں ! اس لئے انہوں نے وہ گر مجھے بتا دیا جو اُن

Page 120

کے بعد بھی میرے کام آنے والا تھا.لے ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :- " اللہ تعالیٰ نے اب مجھے بہت علم بخشا ہے..لیکن اس کتاب (قرآن) کی چاٹ انہوں نے ہی لگائی اور اس کی تفسیر کے متعلق صحیح راستہ پر ڈالا اور وہ بنیاد ڈالی جس پر عمارت تعمیر کر سکا.اس لئے دل ہمیشہ ان کے لئے دعا گو رہتا ہے کے دینی تعلیم کے متعلق آپ کا رجحان اور ذاتی دلچسپی دنیوی تعلیم کی طرف رجحان اور دلچسپی سے بالکل مختلف اور ممتاز نظر آتے ہیں.کہاں یہ بے رخی کہ حساب کی کلاس میں عدم دلچسپی اور صحت کی کمزوری کے باعث یکسر جانا ہی ترک کر دیا اور دیگر مضامین کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہ کی 1 سکول میں آتے دن ناغے ہوتے رہے.اور کجا دینی تعلیم کے لئے ایسا ذوق و شوق کہ بسا اوقات سارا سارا دن اس انتظار میں بیٹھے گزار دیتے تھے کہ کب حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو فرصت ملے اور آپ سے سبق لے لیں اور دینی تعلیم کے اس ذوق و شوق کی راہ میں جسمانی بیماریوں کے حامل ہونے کا تو کیا سوال جو غیر معمولی مشقت اس راہ میں اُٹھانی پڑی، اُس کے نتیجہ میں بعض عوارض اور بھی آپ کو لاحق ہو گئے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- میں نے حضرت خلیفہ البیع الاول سے تیس طرح پڑھا ہے اور کوئی شخص نہیں پڑھ سکتا آدھ آدھ پارہ بخاری کا آپ پڑھتے تھے اور کہیں کہیں خود بخود ہی کچھ بتا دیتے تھے اور بعض وقت سبق کے انتظار میں سارا سارا دن گزارنا پڑتا تھا اور کھانا بھی بے وقت کھایا جاتا تھا.اسی وقت میرا معدہ خراب ہوا ہے.ایک دفعہ میرے سر میں درد تھا اور میں پڑھ کر آیا تھا.والدہ نے پوچھا کیا پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا کہ میں تو پڑھتا نہیں.مولوی صاب کہا ہی پڑھتے ہیں.آپ نے جا کر مولوی صاحب سے کہا.آپ کیا پڑھاتے ہیں ؟ محمود یوں کہتا ہے.حضرت مولوی صاحب نے مجھے فرمایا.میاں! تم ہمیں کہتے ! بیوی صاحبہ کو کہنے کی کیا ضرورت تھی یہ کہ له الفضل سر نومبر ۱۹۵۴ سے الفضل ۳ جولائی ۱۹۲۲ء تفسیر کبیر جلد سوم ص ۸۳

Page 121

اسی تعلق میں ایک اور روایت بھی قابل توجہ ہے جس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس حد تک آپ کے دل میں دینی علم کے حصول کے لئے ایک فطری لکن پائی جاتی تھی.آپ فرماتے ہیں :- ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود السلام کی زندگی میں مجھ سے ناراض ہو گئے.وجہ یہ کہ آپ نے ایک مضمون لکھوایا تھا اور اس پر ایک انعام مقرر کیا تھا جو بعض کے نزدیک اس قابل نہ تھا.میری رائے بھی یہی تھی.ایک شخص نے سختی سے نکتہ چینی کی اور وہ کسی نے میری طرف منسوب کر کے آپ کو پہنچا دی.مولوی صاحب مجھے سے ناراض ہو گئے.میں اُن دنوں بخاری پڑھتا تھا.میں فوراً بخاری نے کر آپ کے پاس پڑھنے کے لئے چلا گیا.حالانکہ مجھے ان دنوں بخار ہوتا تھا، اور کئی ماہ سے سبق چھوڑا ہوا تھا لیکن میں نے یہ خیال کیا کہ اگر آج نہ گیا تو ضرور دل میں ایک حجاب پیدا ہو جائے گا اور علم سے محروم رہ جاؤں گائیے اس روایت کو پڑھ کر آپ کی بصیرت کے ایک اور پہلو کی طرف بھی ذہن متوجہ ہوتا ہے.یعنی اس بار یک نفسیاتی نکتہ تک رسائی کہ استاد اور طالب علم کے درمیان مذکورہ صورت حال میں ایک ایسا حجاب بھی پیدا ہو سکتا ہے جو علم کی راہ میں روک بن جاتے یہ ہر بچے کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ طرز فکر آپ کی غیر معمولی ذہانت اور بصیرت پر گواہ ہے.سبقاً سبقاً قرآن کریم اور صحیح بخاری پڑھنے کے علاوہ بھی آپ کو وسیع پیمانے پر دینی تعلیم محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب کی وجہ سے صبح و مسائل رہی تھی لیکن یہ زبانی اور عمومی رنگ کی تعلیم تھی.یہ وہ گھر تھا جہاں دن رات تذکرہ ہی خدا اور رسول کا رہتا تھا.جوں جوں آپ کی عمر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک سایہ تلے بڑھتی گئی.دینی اغراض سے آنے والے دوستوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی.یہاں تک کہ قادیان ایک مرجع تخاص و عام بن گیا.ان آنے والوں میں دوست بھی تھے اور دشمن بھی لیکن ذکر دونوں کی زبان پر امور دینیہ ہی کا کتا تھا.پس اُس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں کسی بچے کا پکنا ہی ایک بڑی بھاری دینی تربیت گاہ میں داخل ہونے کے مترادف تھا.اس دور کا ذکر کرتے ہوئے خود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- له الفضل ۱۳ ستمبر

Page 122

١١٣ ” ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت میسج موعود علیہ السلام سے براہِ راست نہیں میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ بھی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا یه له اس قسم کی پر معارف مجالس سے آپ نے کیا استفادہ کیا.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: " ہم نے ( ان مجالس میں) اس قدر مسائل سنے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے تھے اس لئے آپ کی تمام باتیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشا اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہیں.آخر میں ہم آپ کے بارہ میں آپ کے بچپن کے دو بزرگ اساتذہ کے تاثرات بیان کر کے اس باب کو ختم کرتے ہیں.سیرت کے مطالعہ کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ استاد کی آنکھ سے شاگرد کو دیکھا جائے.حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ جو آپ کے انگریزی کے استاد تھے اور علاوہ مدرسہ کے آپ کو گھر پر بھی پڑھاتے تھے، اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- مرج 19ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا چارج لینے کے بعد جلد ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ما تحت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جب کہ آپ کی عمر 12 سال کی تھی بندہ کے پاس انگریزی پڑھنی شروع کی پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مکان میں جو دار المسیح الموعود کے متصل اس جگہ واقع تھا جہاں آجکل نواب صاحب کا مکان ہے رہتا تھا.جب تک میں اس مکان میں رہا حضر خلیفہ ایسی ایدہ اللہ تعالٰی اس مکان میں پڑھنے کے لئے تشریف لاتے رہے اس کے بعد میں خود حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا.اور یہ خدمت بندہ حضرت له الفضل ۲ دسمبر ۱۹۳۷ له الفضل ۳ دسمبر ۱۹۳۷

Page 123

میسج موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دس سال میں برابر ادا کرتا رہا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے شش سالہ دورِ خلافت میں جاری رہا...گویا حضور کا سارا بڑھنا اور پھولنا اور با برگ و بار ہونا میری آنکھوں کے سامنے ہوا.آپ ایک نازک میتوں والے چھوٹے پودے کی طرح تھے جب کہ میں نے پہلی دفعہ حضور کو دیکھا اور یہ پودا میرے دیکھتے دیکھتے جلد جلد بڑھا اور پھول پھل لایا اور وہ حیرت انگیز ترقی کی جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں اور عقل دنگ ہو جاتی ہے اگر کوئی قابل انشا پرداز ہوتا تو وہ شاید اس حیرت انگیز ترقی کا نقشہ کھینچنے کی کچھ کوشش کرتا لیکن ہیں تو اس سے زیادہ نہیں کر سکتا کہ اس بات کی شہادت دوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں آپ کی نسبت پہلے سے خبر دی گئی تھی اس کو میں نے اپنی آنکھوں سے لفظ لفظ پورا ہوتے دیکھ لیا.مجھے اپنی زبان کی کمزوری اور قلم کی ناتوانی پر افسوس آتا ہے جو صحیح نقشہ ناظرین کے سامنے پیش کرنے سے عاجزہ ہوں لیکن میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا وھو الموفق میں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اوصاف حمیدہ اور خصائل محمودہ کے کچھ نہیں دیکھا.ابتدا میں ہی آپ میں نیکی کے انوار اور تقومی کے آثار پائے جاتے تھے جو آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ نمایاں ہوتے گئے ممکن ہے کہ کوئی شخص میرے اس بیان کو خوش اعتقادی پر محمول کرے اس لئے میں آپ کے بچپن کی ایک بات کا ذکر کرتا ہوں جس سے ناظرین خود حقیقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں.آپ کو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے کی چیز نہ لینا.یہ ایک ہدایت تھی جو حضرت اقدس علیه الصلوة دالسلام نے اپنے بچہ کو دی.اب دیکھئے کہ وہ خورد سال بچہ حضرت اقدس کی اس ہدایت کی کس طرح تعمیل کرتا ہے.

Page 124

۱۱۵ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتداء میں حضور بندہ کے مکان پر پڑھنے کے لئے تشریف لاتے تھے اور وہ مکان حضرت مسیح موعود عليه الصلوة و السلام کا ہی مکان تھا جو حضور کے رہائشی مکان کے بالکل متصل بلکہ حضور کے گھر کے ساتھ ملحق تھا ہم غالباً تین سال اس مکان میں رہے اور اس تمام عرصہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی بندہ کے پاس پڑھنے کے لئے تشریف لاتے اور جب کبھی آپ کو پیاس لگتی تو آپ اُٹھ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور اپنے گھر سے پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے.خواہ کیسا ہی مصفا پانی کیسے ہی صاف ستھرے برتن میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپ اسے نہ پیتے صرف اس لئے کہ حضرت اقدس علیہ ا السلام کی طرف سے آپ کو ہدایت تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا.اب بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں ہمیں حضور کی اس وقت کی شکل صحیح رنگ میں نظر آسکتی ہے.اول دیکھتے کہ حضور اس بچپن کے زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کیسی کامل اطاعت کرتے اور کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتے.دوسرے دیکھتے کہ وہ اس اطاعت میں کس درجہ کی احتیاط سے کام لیتے.بظا ہر حضرت اقدس نے جب فرمایا کہ کسی کے ہاتھ سے کھانے پینے کی چیز نہ لیا تو حضرت اقدس کی مراد ایسی چیزوں سے تھی جو لوگ بچوں کو اپنی محبت اور پیار کے اظہار کے لئے دیتے ہیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ کسی کے برتن سے پانی بھی نہ پیتا.مگر آپ کی حتیاط اس درجہ کی تھی کہ آپ اپنے گھر کے سوا قادیان میں کسی اور گھر سے کسی گھڑے یا صراحی سے پانی لے کر پینا بھی حضرت اقدس کے حکم کی خلاف ورزی ہی سمجھتے تھے.یہی حد درجہ کی احتیاط ہے جسے دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں.پس آپ کے اسی عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ بچپن میں ہی اطاعت اور تقویٰ کی باریک راہوں پر گامر بیتے

Page 125

114 اور یہی بیج تھا جو آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا گیا اور زیادہ واضح اور زیادہ نمایاں شکل میں کمال کے آخری مرتبہ تک پہنچ گیا.یہ پانی کا واقعہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوا اور حضور ہمیشہ اطاعت کے اصول پر مضبوطی سے قائم رہے.ممکن ہے کہ کوئی شخص خیال کرے کہ شاید حجاب کی وجہ سے آپ ہمارے گھر سے پانی پینے سے اجتناب فرماتے مگر ایسا نہیں تھا ، آپ بے تکلفی سے ہمارے گھر میں رہتے اور حضور کی خوش خلقی اور خوش طبعی کی باتیں اس وقت بندہ کے گھر سے نہایت محبت کے ساتھ یاد کرتی ہیں اور جب حضور کے منصب خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد بندہ کے گھر سے بیعت کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اُس وقت کے بچپن کے واقعات ان کو یاد دلائے کیونکہ حضور کا حافظہ بہت مضبوط ہے.حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایده الله تعالیٰ بنصرة العزيز کی طالب علمی کا ایک اور واقعہ لکھتا ہوں اس سے بھی آپ کی قلبی کیفیت پر روشنی پڑتی ہے.ایک دن کچھ بارش ہو رہی تھی مگر زیادہ نہ بھی بندہ وقت مقررہ پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا حضور نے دروازہ کھولا.بندہ اندر آکر برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا.آپ کمرہ میں تشریف لے گئے.میں نے سمجھا کہ کتاب لے کر باہر برآمدہ میں تشریف لائیں گے گھر جب آپ کے باہر تشریف لانے میں کچھ دیر ہو گئی تو میں نے اندر کی طرف دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں.میں نے خیال کیا کہ آج بارش کی وجہ سے شاید آپ سمجھتے تھے کہ میں حاضر نہیں ہوں گا.اور جب میں آگیا ہوں تو آپ کے دل میں خاکسار کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے اور آپ بندہ کے لئے دعا فرما رہے ہیں.آپ بہت دیر تک سجدہ میں پڑے رہے اور دعا فرماتے رہے یہ بے اسی طرح حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی جو آپ کے بچپن کے اساتذہ میں سے تھے.اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :- ن الفضل ۱۵ نومبر ۱۹

Page 126

چونکہ عاجز نے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کی بیعت شما: کے آخیر میں کر لی تھی اور اس وقت سے ہمیشہ آمد و رفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا.میں حضرت اولو العزم مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیا اور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی اور حضرت میسج موعود علیہ السلام کے دینی کاموں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا.نمازوں میں اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سُنتے.ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب آپ کی عمر دس سال کے قریب ہو گی.آپ مسجد اقصی میں حضرت مسیح موعود علیه السلام کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے.بچپن سے ہی آپ کو خطرہ اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ خاص تعلق محبت تھا.نئے ه الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۲۰

Page 127

HA تقریر و تحریر آپ کی تعلیم کا ایک اہم پہلو تحریر و تقریر سے متعلق تھا.اس شعبہ میں بھی حضرت خلیفہ ایسیح الاول رضی اللہ عنہ ہی آپ کے معلم اور مرتبی بنے اور آپ کی تربیت میں گہری دلچسپی پی لیکن آپ کے مضامین اور تقاریر کو جس سخت معیار سے جانچتے رہے وہ بعض اوقات آپ کی دل شکنی کا موجب بھی بن جاتا تھا حالانکہ اس سختی کی وجہ محض یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو آپ سے بہت ہی بلند تو قعات تھیں اور انہی تو قعات کی کسوٹی پر آپ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو پر کھتے تھے.اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں :- " مجھے خوب یاد ہے.میں نے سب سے پہلا مضمون جب تشحید الاذبان میں لکھا تو اس کی بڑی تعریف ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بھی اسے پسند فرمایا.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی الله عنه الله نے خود کئی لوگوں کو دکھایا.مگر مجھے فرمانے لگے کبھی تم نے سُنا ہے لوگ کہا کرتے ہیں.اونٹ چانی تے ٹوڈا بتائی.پھر فرمانے لگے، اس کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے عرض کیا مجھے تو پتہ نہیں ٹوڈا کیا ہوتا ہے.فرمانے کسی نے اونٹ والے سے پوچھا تھا.اُونٹ بیچتے ہو ؟ اس کی کیا قیمت لو گے؟ اس نے کہا اُونٹ کے تو میں چالیس روپے لوں گا مگر اونٹ کے نیچے کے بیالیس.اس نے کہا یہ کیوں ؟ بیچنے والا کہنے لگا اس لئے کہ یہ اونٹ بھی ہے اور اونٹ کا بچہ بھی ہے.پھر فرمانے لگے ہم تمہارے باپ کے مضامین دیکھتے رہتے ہیں.ابھی تک تمہارا یہ مضمون حضرت کے مقابل کا مضمون نہیں، ہمیں تو تب خوشی ہو کہ ان سے بھی اعلیٰ لکھو اے حضرت خلیفہ ایسے الاول رضی اللہ عنہ کی ایسی ہی بند تو قعات آپ کی تقاریر سے متعلق بھی تھیں اور نتیجہ اُن کو بھی ایسے ہی کڑے معیاروں پر پر کھا جاتا تھا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا له الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۷ حده

Page 128

۱۱۹ بشیر الدین محمود احمد صاحب فرماتے ہیں :- "ہم نے ایک دفعہ ایک انجمن بنائی جس میں تقریریں کرنے کی مشق کی جاتی تھی اور اعلیٰ درجہ کی تقریر کرنے والوں کو انعام دیتے جاتے تھے.میں اس میں جب بھی تقریر کرتا ، حضرت خلیفہ المسیح الاول اس پر ہمیشہ جرح اور نکتہ چینی کرتے.کچھ مدت تک اسی طرح ہوتا رہا.میرے نفس نے دھوکا دیا اور میں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب مجھ پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں ہیں نے ایک مضمون لکھا اور اپنے ایک سکول فیلو ( ہم کتب کو جو تقریریز نا نہیں جانتا تھا پڑھنے کے لیئے دیا.جب اس نے مضمون پڑھا تو حضرت مولوی صاب نے اس کی از حد تعریف کی.اس پر میرے دل میں اور احساس ہوا کہ مولوی صاحب مجھ سے سختی کرتے ہیں، بے یہ تو آپ کا اپنا تاثر تھا.آپ کے بچپن کے ہم جماعت محترم شیخ عبد العزیز صاحب جو آجکل لالپور میں رہائش پذیر ہیں اس بارہ میں اپنا الگ تاثر یوں بیان کرتے ہیں :- حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانہ میں جمعہ پڑھانے کے بعد مسجد اقصی میں ہی تشریف فرما ہوتے اور چند ایک طلباء تھوڑے تھوڑے وقت میں اپنا اپنا مضمون یا لیکچر سناتے.آخر میں حضرت مولوی صاحب ہر ایک کے مضمون اور لیکچر پر ریمارکس کرتے لیکن حضرت میاں صاحب مصلح موعود کے مضمون کی زیادہ ہی غلطیاں نکالتے اور بتاتے کہ آپ کو یہ یہ باتیں بیان کرنی چاہیئے تھیں اور اصلاح فرماتے ہوئے نہایت محبت اور شفقت سے ان کی بعض خوبیاں بھی بیان کرتے جس سے کم از کم میں تو ضروری سمجھتا کہ میاں صاحب کا مضمون سب سے تو کھاڑی ہے جس میں بے شمار نقائص ہیں.لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ واصل آپ میاں صاحب کو ٹرینڈ کر رہے تھے.بعد میں میں نے خود اُنہیں ایسے ایسے لیکچر دیتے سنا کہ عقل حیران ہو جاتی تھی کہ یہ وہی شخص ہے جو سب سے پھاڑی تھا یہ تھے الفضل در اکتوبر ما کے مستوده روایات محترم شیخ عبد العزیز صاحب

Page 129

جب استاد کا طالب علم سے اس قسم کا رویہ ہو تو بسا اوقات استاد کے نیک ارادوں کی طرف طبیعت مائل ہونے کی بجائے اس کے سلوک کی ظاہری تلخی زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے اور اکثر طلبا کار و عمل ایسی صورت میں یا تو استاد اور تعلیم سے متنفر ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یا پھر ایسے طلبا آندرونی طور پر مر جھا جاتے ہیں اور کوئی ذوق و شوق باقی نہیں رہتا.اس کے برعکس بعض طلبا کو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی ہوتی ہے کہ اُن پر استاد کا یہ سلوک تازیانہ کا کام کرتا ہے اور اس چیلنج کو مردانہ وار قبول کرتے ہوئے وہ اپنی کمزوریوں کو دُور کرنے اور اپنی قابلیتوں کو پہلے سے بڑھ کر اُجاگر کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں.حضرت مرزا محمود احمد صاحب پر موخر الذکر و دعمل ہوا اور اسی کی حضرت خلیفہ اول کو آپ سے توقع تھی.اس کے نتیجہ میں آپ کی تقریر وتحریر کو کیا نئی رفعتیں عطا ہوئیں، اس مضمون کے بیان کا موقع آپ کی زندگی کے بعد کے حالات میں جا بجا پیدا ہوتا رہے گا.اس دور میں جس پر ہم نظر ڈال رہے ہیں یعنی آپ کی پیدائش سے لے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے وصال تک کا دور اس میں آپ کو مشق کے علاوہ بھی بعض اوقات تقریر کرنی پڑی ندہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کا امرتسر خالصہ کالج سے فٹ بال کا مینج ہوا تھا.جس میں اللہ تعالٰی کے فضل سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ٹیم کامیاب رہی.صاحبزادہ صاحب موصوف بھی ٹیم کے ساتھ امرتسر گئے تھے.میچ کے بعد ایک مختصر سی تقریب مسترت منعقد ہوئی جس میں شہر کے بعض روستا شامل تھے.پارٹی کے بعد صاجزادہ صاحب سے خواہش کی گئی کہ آپ حاضرین سے خطاب فرما دیں.آپ نے اس سے پہلے اس قسم کے مجمع میں جس میں معزز غیر احمدی بھی بکثرت شامل ہوں کبھی پبلک تقریر نہیں کی تھی.اس لئے آپ نے عذر کیا اور کہا کہ میں تیار نہیں ہوں.لیکن حاضرین کے اصرار پر آپ دل میں دعا کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور پہلے تجربہ کے باوجود بڑی موثر تقریر کی اور ایسے نئے نکات بیان کئے کہ ایک نوخیز طالب علم کی زبان سے معرفت کی ایسی باتیں سن کر سبھی حیران رہ گئے.آپ نے فرمایا : "خدا تعالیٰ سورۃ فاتحہ میں ایک دعا سکھاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اے خدا ہم نہ مغضوب نہیں اور نہ ضائل نہیں.احادیث سے ثابت ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہودی اور ضالین سے مراد انصاری ہیں...دوسری طرف اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوتی ہے.اب یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اس وقت نہ یہودی

Page 130

پاکے مخالف تھے نہ عیسائی.آپ کے مخالف صرف مکہ کے مشرکیہ تھے...اس میں کیا راز اور کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشترکین کا تو ذکر نہ کیا جن کی مخالفت کا مکہ میں شدید زور تھا اور یہود و نصاریٰ کا ذکر کر دیا.جو وہاں آٹے میں نمک کے برابر تھے.اس میں یہ راز ہے کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اس کی تقدیر کے ماتحت مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جانے والا تھا.اور آئندہ...اس کا نام دنشان تک نہ ملنا تھا.پس جو مذہب ہی مٹ جانے والا تھا ، اس سے بیچنے کی دعا سکھانے کی ضرورت ہی نہ تھی.جو مذاہب بیچ رہے تھے اور جن سے رُوحانی یا مادی رنگ میں اسلام کا ٹکراؤ ہوتا تھا ، ان کے بارہ تھا میں دعا سکھا دی گئی ہے ابتدائی تقاریر میں سب سے اہم اور قابل ذکر موقع اس آخری جلسہ سالانہ کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے ڈیڑھ سال قبل دسمبر میں منعقد ہوا.اس موقع پر سلسلہ کے چوٹی کے علما اور اکابرین کے علاوہ بیرونی جماعتوں سے کافی تعداد میں مرد عور تیں اور بچے تشریف لائے ہوئے تھے.پبلک اجتماع سے آپ کا یہ پہلا خطاب تھا اور موقع کی اہمیت کے پیش نظر آپ پر جو اندرونی ہیجان اور گھبراہٹ کی کیفیت طاری تھی اس کے باوجود آپ کی تقریر غیر معمولی طور پر کامیاب ہوتی اور سورۃ لقمان کے دوسرے رکوع کی جو تفسیر آپ نے بیان فرمائی اس میں قرآن کریم کے ایسے نئے معارف اور لطیف نکات بیان ہوتے کہ یہ تفسیر زبان زد عام ہوگئی اور حیرت و استعجاب سے انگلیاں اٹھنے لگیں کہ یہ نوجوان قرآنی معارف کو سمجھنے میں بڑے بڑے اکابرین پر بازی لے گیا ہے.چنانچہ یہ تقریر اسی زمانہ میں اخبار" البدرہ قادیان میں شائع ہو گئی اور آج بھی اس کا مطالعہ انسان کو ایک عجیب روحانی سُرور عطا کرتا ہے.خود حضرت مرزا محمود احمد رضی اللہ عنہ پر اس تقریر کے دوران جو کیفیت طاری تھی وہ آپ ہی کی زبانی سننے کے لائق ہے.آپ فرماتے ہیں :.سب سے پہلی تقریر جو میں نے عام جلسہ میں کی.اس رکوع کو پڑھ کر اس مسجد میں کی تھی.اب مسجد وسیع ہو گئی ہے اور اس کی پہلی شکل ے تفسیر کبیر سورۃ کوثر ص ۴۷۶ - ۴۷۷ کی کام

Page 131

نہیں رہی لیکن اس وقت میں جہاں کھڑا ہوں میں اس کے سامنے کے دروازے میں کھڑے ہو کر میں نے تقریر کی تھی.اگر چہ اب علم میں بہت ترقی ہو گئی ہے.حالات اور افکار میں بہت تغیر ہو گیا ہے لیکن اب بھی میں اس تقریر کو پڑھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ وہ باتیں کس طرح میرے منہ سے نکلیں اور اگر اب میں وہ باتیں بیان کروں تو یہی سمجھوں گا کہ خدا تعالیٰ نے خاص فضل سے سمجھائی ہیں.اس وقت مجھ پر ایسی حالت تھی کہ چھوٹی عمر اور مجمع عام میں پہلی دفعہ بولنے کی وجہ سے میرے اعصاب پر ایسا اثر پڑا ہوا تھا کہ مجھے لوگوں کے چہرے نظر نہ آتے تھے، اندھیرا سا معلوم ہوتا تھا.اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.بعد میں اخبار میں میں نے کہیں تقریر پڑھی تو معلوم ہوا کہ میں نے کیا کہا تھا.یہ رکوع میرے لئے تبلیغ اسلام کرنے میں بیج کا کام دے گیا اور میں نے اس سے بڑا فائدہ اٹھایا نہ ملے اس موقع پر سامعین کی جو کیفیت تھی اس کا کچھ اندازہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے جلیل القدر صحابی اور قادر الکلام شاعر حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے :- برج نبوت کا روشن ستارہ اوج رسالت کا درخشندہ گوہر محمود سلمہ اللہ الود و د شرک پر تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہوا میں ان کی تقریر خاص توجہ سے سنتا رہا.کیا بتاؤں، نصاحت کا ایک سیلاب تھا جو پورے زور سے بہہ رہا تھا.واقعی اتنی چھوٹی سی عمر میں خیالات کی پختگی اعجاز سے کم نہیں! میرے خیال میں یہ بھی حضور علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے اور اسی سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ مسیحیت مآب کی تربیت کا جو ہر کس درجہ کمال پر پہنچا ہوا ہے.آپ نے روحانی کمالات پر عجیب طرز سے بحث کی ہے جہاں تک آپ کی مضمون نویسی کی مشق کا تعلق ہے اس کا پہلا ٹھوس اظہار نوجوانوں کے ایک دینی، علمی اور ادبی رسالہ تشحید الا زبان کی صورت میں منظر عام پر آیا جسے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے الحکم جوئی نمبر دسمبر شاه.١٩٣٩ ن الحکم ۱۰ جنوری شده و جوبلی نمبر ۱۹۳۹ء

Page 132

نے مل کر جاری کیا.آپ فرماتے ہیں : وو ہم سات طالب علم تھے جنہوں نے مل کر رسالہ تشحید الا زبان جاری کیا کسی سے کوئی مدد ہم نے نہیں لی.ایک پیسہ بھی چندہ کسی سے نہیں مانگا ، اپنے پاس سے ہی سب رقوم دیں.ہاں بعد میں اگر بعض دوستوں نے اپنے طور پر کوئی مدد دی تو وہ لے لی اور نہ سب بوجھ خود اٹھا یا کسی سے مضمون بھی نہیں مانگا خود ہی رسالہ کو ایڈٹ کرتے، خود ہی چھاپتے اور خود ہی بھیجتے تھے.سب کام خود ہی کرتے تھے لے اس رسالہ میں نہایت اعلیٰ پایہ کے مضامین شائع ہوتے رہے اور جہاں ایک طرف وہ نوجوان جیو جو ہر قابل رکھتے تھے اہل علم و ادب سے متعارف ہوئے وہاں بعض نوجوانوں کو تحریر کی مشق کا بہت اچھا موقع میسر آیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اس کے صرف پانی ہی نہیں تھے بلکہ ہمیشہ اس کی روح رواں بھی بنے رہے اور آپ ہی کے مضامین دراصل اس رسالہ کی جان تھے.چنانچہ وہ پہلی تمہید جو اس رسالے کو شائع کرنے کی وجوہات پر بحث کرتے ہوئے رقم فرمائی وہ چودہ ہے صفحات پر مشتمل تھی اور ایک ایسی اعلیٰ پایہ کی کاوش تھی کہ حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی الله عنه نے بھی کھلے لفظوں میں اس کی داد دی.گویادہ اعلیٰ مطمح نظر آپ کو پورا ہوتا دکھائی دیا جس کو پیش نظر رکھ کر آپ نے اس نوجوان کو تقریر و تحریر کی تربیت دی تھی.حضرت حکیم نور الدین یہ کی تعریف تو پھر ایک استاد کی تعریف تھی ایک مشفق و مهربان بلکہ غیر معمولی محبت کرنے والے بزرگ کی تعریف تھی معجب تو اس بات پر آتا ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب وکیل اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اسے بھی اس موقع پر آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے بغیر نہ رہ سکے.یہ دونوں بزرگ وہ ہیں جنہیں اپنی دنیوی علوم کی برتری کا اس زمانہ میں بھی بڑی شدت سے احساس تھا اور بعد میں تو یہ احساس بڑھتے بڑھتے اس درجے تک پہنچ گیا کہ حضرت مرزا محمود احمد رضی اللہ عنہ کی نہر دلعزیزی اور آپ کے علم و فضل کی برتری کے چرچے ان کو خوشی کی بجائے دُکھ پہنچانے لگے.یہی مولانا محمد علی صاحب ہیں جو اس تمہید کو پڑھ کر بے اختیار یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے : اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں.پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے له الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۷

Page 133

سهم ۱۲ لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفینِ سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.اس وقت صاحبزادہ صاحب کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کی ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی خیال اُن کے دلوں میں ہوگا.مگر دین کی ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے.صرف اسی موقع پر نہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ دلی خوش اُن کا ظاہر ہو جاتا ہے.جھوٹ تو ایک گند ہے.پس اس کا اثر تو یہ چاہیئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اور گورانی جس کی نظیر نہیں ملتی..غور کرو اگر جس کی تعلیم اور تربیت کا یہ پھل ہے وہ کا ذب ہو سکتا ہے؟ اگر وہ کا ذب ہے تو پھر دنیا میں صادق کا کیا نشان ہے ، لہ صرف جماعت احمدیہ کے افراد نے ہی اس رسالے کی عظمت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ غیروں نے بھی اس پر تحسین کی نظر ڈالی.یہاں تک کہ قادیان سے سینکڑوں میل دور وسط ہند کے مشہور شہر مُراد آباد تک بھی اس کے چرچے ہونے لگے.چنانچہ وہاں کے ایک مشہور اخبار " نیز اعظم نے لکھا: بلا مبالغہ اسلامی رسالوں میں ریولو آف ریجیز کے بعد اس کا شمار کرنا چاہیئے مذہب اسلام کو اس کے اجرا سے بہت مدد ملے گی یہ تھے اس زمانہ میں آپ کی دینی سرگرمیاں غیر معمولی تیزی سے بڑھ رہی تھیں.ذہنی اور روحانی نشو نما کا یہ دور تھا جسے دیکھ کر بے اختیار مصلح موعود کی پیشگوئی کے ان الفاظ کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا ".چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس دور میں آپ کے دینی جوش کو محسوس فرما کر اس کا اظہار ان لفظوں میں فرمایا :- میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دُعا کرتا ہوں، ہے سه ریویو اُردو مارچ شاه سے تاریخ احمدیت جلد سوم صدام له الحكم جوبلی نمبر ۹۳ "

Page 134

۱۲۵ یہ چھوٹا سا اظہار مسرت خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرز فکر پر بھی روشنی ڈالتا ہے.بچے کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر خوشی کے اظہار کا یہ ایک عجیب طریق ہے کہ فخریہ کلمات کی بجائے آپ فرماتے ہیں کہ میں ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں.ظاہر ہے کہ آپ یہ محسوس کر کے کہ یہ وہی بچہ ہے جس کا وعدہ دیا گیا تھا، اس لئے خاص طور پر دُعا کی طرف متوجہ ہوتے تھے کہ اسے اللہ تعالی واقعی وہی موعود بیٹا بنا دے جس کی خبر دی گئی تھی اور انس پر اپنے فضلوں کی بارش کو تیز تر کر دے تاکہ تمام خوش خبریاں اس کے حق میں بدرجہ نام پوری ہوں.

Page 135

بچپن کی دلچسپیاں تفریحات اور کھیلیں آپ کی بچیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا اور ایک نظر ان پر ڈالنے سے ایک نہایت وسیع اور ہمہ گیر شخصیت سے تعارف کا احساس ہونے لگتا ہے.دلچسپیوں کا مضمون اگر چہ بظاہر کوئی سنجیدہ یا مسائل انسانی سے متعلق کوئی اہم مضمون نظر نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کے کردار کے گہرے اور قابل اعتماد مطالعہ کے لئے اس کے بچپن اور لڑکپن کی دلچسپلیوں کا مطالعہ نہایت مفید ثابت ہوتا ہے کیونکہ انسانی زندگی کا یہ دور تصنع سے پاک ہوتا ہے.پس نہیں جہاں بچپن اور دلچسپیوں کا مضمون اکٹھا ہو جائے وہاں بے لاگ اور غیر مبہم مطالعہ کا بہترین موقع پیدا ہو جاتا ہے مثلاً کھیل کے میدان میں جذباتی انگیخت کے واقعات اور ان کا طبیعت پر رد عمل فتح وشکست کی کیفیات جسمانی خطرات دوستوں کے ساتھ معاملات کسی کی حق تلفی کا موقع پیدا ہونا کسی کی حق تلفی کرنا خود نمائی پیدا ہونا یا اس کے برعکس انکسار حق پرستی یا تو کل وغیرہ وغیرہ ایسے بہت سے حالات بکثرت پیدا ہوتے رہتے ہیں جو کسی انسان کی ذہنی اینچی اور جذبات اور اخلاق کی گہرائیوں کے مطالعہ کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں.کھیلوں میں آپ کی دلچسپی کا عمومی تعارف تو یہ ہے کہ کبھی آپ نے کسی ایک کھیل کو اس طرح منفرد کر کے نہیں اپنایا کہ ہ مستقلا آپ کی عادت بن جاتے اور آپ کی دیگر دلچسپیوں پر حاوی ہو جائے بدلتے ہوئے موسموں کے مطابق بدلتی ہوئی کھیلیں آپ کی دلچسپیوں کا مرکز بنتی رہیں.قادیان ایک ایسے علاقہ میں واقع ہے جو دامن کوہ کے قریب ہونے کے باعث سرسبز و شاداب ہے اور سردی و گرمی دونوں ہی وہاں شدید ہوتے ہیں.برسات بھی خوب کھل کر ہوتی ہے اور لیا اوقات ہفتہ ہفتہ دس دس دن تک مسلسل جھڑی لگی رہتی ہے.اس علاقے میں پنجاب کی ٹھیٹھ مقامی کھیلیں بڑی مرغوب ہیں مثلا گلی ڈنڈا کبڈی میرو ڈبہ وغیرہ اور باہر سے آتی ہوئی یورپین کھیلیں مثلا فٹ بال کی کرکٹ بیڈ منٹن بھی وہاں شوق سے کھیلی جاتی ہیں.

Page 136

۱۴۷ ان میں سے بعض کھیلیں سخت سردی کے دنوں میں زیادہ موزوں البعض موسم بہار یا موسم خزاں میں، بعض برسات میں اور بعض سخت گرمی کے ایام میں کھیلی جاتی ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب ان میں سے کسی ایک کھیل کے ایسے شوقین نہیں ہوئے کہ اس میں غیر معمولی مہارت پیدا کرنے کے لئے اُسے مستقلاً اپنا لیا ہو.طبیعت میں گیس کا مادہ بہت تھا اور نئی چیز دیکھنے پر اس کا ذاتی تجربہ حاصل کرنے کا شوق مچلنے لگتا.چنانچہ ایسے دنوں میں جب کہ موسم اور طبیعت کو فٹ بال سے زیادہ مناسبت ہو، آپ فٹ بال کھیلا کرتے.جب کبڈی کا دور دورہ ہوتا آپ کبڈی کے میدان میں نکل جاتے.جب بچوں میں میرود بہ یا گلی ڈنڈا کی رو چلتی تو آپ میرود بہ یا گلی ڈنڈا کی ٹیموں میں دکھائی دینے لگتے.جب برسات کی جھڑیاں قادیان کے گردا گرد پھیلے ہوئے جو ہڑوں کو لیالسب بھر دیتیں بلکہ پانی ان کے کناروں سے اُچھل کر میدانوں میں پھیل جاتا اور قادیان حد نظر تک پھیلے ہوئے پانی کے درمیان ایک جزیرہ دکھائی دینے لگتا تو تیرا کی اور کشتی رانی کا شوق ہر شوق پر غالب آجاتا.پھر جب خزاں اور بہار کے معتدل دن رات شکار کا موسم ہے کہ آتے تو آپ کے دل میں بھی یہ شوق کر دیں لینے لگتا.بچپن کے ابتدائی دور میں آپ غلیل لے کر بچوں کے جھرمٹ میں شکار کے لئے نکل کھڑے ہوتے بعد ازاں جب ہوائی بندوق میسر آئی تو ہوائی بندوق لے کر دوستوں کو ساتھ لئے ہوئے قادیان کے اردگرد کے دیہات میں شکار کے لئے نکل جاتے.آپنے اب ہم ان دلچسپیوں پر ذرا تفصیلی نظر ڈال کر دیکھیں کہ کس حد تک یہ ہمیں آپنے کی شخصیت سے روشناس کرانے میں مدد دیتی ہیں.شکار کا ذکر چل رہا تھا سو شکا ر ہی کے ایک واقعہ سے ہم اس مضمون کا آغاز کرتے ہیں جو آپ نے ایک موقع پر بیان فرمایا ہے :- مجھے اپنے بچپن کی ایک مثال یاد ہے.اس وقت تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی اور میں بڑا تعجب کرتا تھا اور بہت سوچتا تھا.مگر کچھ مجھ نہیں آتی تھی.آخر خدا کے فضل سے وہ بات حل ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ اس کے اندر کیا حقیقت تھی.وہ واقعہ یہ ہے کہ مجھے بچپن میں ہوائی بندوق کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پرندوں کے شکار کا بہت شوق تھا.ایک دفعہ میں بندوق لے کر ایک گاؤں کی طرف گیا جس کا نام شاید نا تھ پور ہے.ایک

Page 137

IMA او دو اور لڑکے بھی میرے ساتھ تھے.جب میں وہاں پہنچا چند نوجوان سکھ اُس گاؤں کے ہمارے پاس آتے اور کہنے لگے، آؤ ہم تم کو شکار بتلاتے ہیں.چنانچہ وہ ہمیں گاؤں کے قریب لے گئے اور خود انہوں نے ہمیں شکار بتلایا اور جگہ جگہ ہمارے ساتھ پھرتے رہے اور جس طرح ہم اس شکار میں لذت محسوس کر رہے تھے، اسی طرح وہ بھی لذت محسوس کر رہے تھے.اور میں طرح ہم شوق سے شکار کی تلاش میں پھر رہے تھے، ہمارے ساتھ وہ بھی اسی طرح شوق کے ساتھ پھر رہے تھے کہ ایک جگہ ایک درخت پر فاختہ نظر آئی میں نے نشانہ لگا کر بندوق چلائی اور وہ گر گئی.اس سے بھی جس طرح ہم نے لذت اور خوشی محسوس کی، اسی طرح انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا کہ اتنے میں گاؤں کی ایک بڑھیا وہاں سے گزری.اس نے جو فاختہ کو تڑپتے ہوئے دیکھا تو دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا اور ان نوجوان سکھوں سے کہا کہ تم کو شرم نہیں آتی ! تم ایسے بے غیرت ہو گئے ہو کہ لوگ دوسرے گاؤں سے آگرہ تمہارے گاؤں میں جیتو ہتیا کرتے ہیں.(آگے حضور نے فرمایا کہ اس بڑھیا کے کتنے پیران نوجوان سکھوں کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ کہنے لگے کہ یہاں شکار نہ کریں لیے یہ واقعہ میرے نزدیک اس پہلو سے مطالعہ کے لائق ہے کہ ایسا واقعہ اگر کسی عام بچے سے پیش آتا تو یقینا وہ سخت خوف محسوس کرتا اور یہی خوف اس کی یاد کا نمایاں پہلو بن کر اس کے ذہن پر ثبت ہو جاتا.بلاشبہ صورت حال ایسی تھی کہ بڑھیا کی اہمیت سے آپ اور آپکے چند معصوم ساتھیوں کیلئے سخت خطرہ پیدا ہو سکتا تھا.جس زمانہ کا یہ ذکر ہے ان دونوں قادیان کی آبادی بہت کم تھی اور علاقے پر وہ رعب ابھی قائم نہ ہوا تھا جس کا ہم نے بعد کے زمانہ میں مشاہدہ کیا.لیکن بعد کے زمانہ میں بھی جب کہ قادیان کی ٹھاک بیٹھ چکی تھی.مجھے یاد ہے کہ قادیان کے بچے سکھوں کے بعض بد نام دیہات میں جانے سے گھبراتے تھے کیونکہ ان کی وحشت اور جرائم کے قتے عام مشہور تھے اور بسا اوقات وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے برانگیخ ہو کر بچوں کو زد و کوب کیا کرتے تھے.بلکہ بڑوں سے بھی اُن کے اُلجھنے اور بعض اوقات اچھی خاصی لڑائیاں ہونے کے واقعات روز مرہ کے مشاہدہ کی باتیں تھیں.لہذا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس پس منظر کی روشنی میں بچوں کو ایسے واقعات اگر یا د رہتے ہیں تو خوف اور گھبراہٹ کی ہیجانی کیفیات کی وجہ سے له الفضل قادیان سهم را پریل ۱۹۲۵

Page 138

۱۲۹ ایسے اور عموماً ایسے واقعات بیان کرتے ہوئے وہ اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ اس وقت خوف کے مارے ہماری جان نکل گئی یا ٹانگیں کانپنے لگیں یا سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے لگے یا ہم نے دُعا کی کہ اے الله ! اب تو ہی بچانے والا ہے وغیرہ وغیرہ.لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب کا رد عمل بالکل الگ ہے اور طبیعت پر غالب اور دیر پا اثر جس چیز نے کیا وہ ایک نفسیاتی مسئلہ تھا.آپ کے ذہن کا رد عمل ایک فلسفی کا سا ہے جو مثلاً تاریخ کے اُلجھے ہوئے واقعات کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے.آپ کو اس واقعہ سے شدید تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک طرف سادہ فطرت کا معصوم تقاضا ہے جس کے پیش نظر سادہ لوح سکھ جوان اور بچے آپ کے ساتھ مل کر شکار کا طبعی لطف اٹھا رہے ہیں.دوسری طرف ایک مذہبی تعصب سے پیدا شدہ انگیخت ہے جس کے نتیجہ میں اچانک ان کا رجحان تبدیل ہو کر اُن کا تعصب فطری شوق پر غالب آجاتا ہے.یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ اور کس حد تک درست اور کس حد تک غلط تھا ؟ یہ فکر آپ پر ایسی غالب آئی کہ اس وقت ہی نہیں بلکہ بعد ازاں بھی سالہا سال اس پر غور کرتے رہے اور یہ واقعہ اپنے اسی نمایاں پہلو کی وجہ سے آپ کو یا د رہا.آپ کے یہ الفاظ آپ کی دیر یہ عادت فکر کے آئینہ دار ہیں : اس وقت تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی اور میں بڑا تعجب کرتا تھا اور بہت سوچتا تھا مگر کچھ سمجھ نہ آتی تھی.آخر خُدا کے فضل سے وہ بات حل ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ اس کے اندر کیا حقیقت تھی ؟..." آپ کا نشانہ بچپن ہی سے بہت اچھا تھا.حکیم دین محمد صاحب جو آپ کے بچپن کے ساتھ کھیلے ہوتے ہیں بیان کرتے ہیں :- ایر گن کا نشانہ آپ کا بڑا ہی صحیح تھا.چنانچہ اس حد تک تھا کہ زنبور جو ام پر بیٹھے ہوتے تھے.آپ ایک ایک کو نشانہ بنا کر گرا دیتے تھے.اکثر چھوٹی چڑیوں اور فاختہ کا شکار کرتے ہم آپ کے ساتھ ہوتے، اور ذبح کرتے جاتے.بڑے ہو کر آپ کے پاس بندوقیں تھیں اور سب احباب کو معلوم ہے پھیر دیچی میں جا کر دریائے بیاس پر مرغابی کا شکار کیا کرتے تھے" سے شکار کے دوران کئی رنگ میں آپ کی تربیت ہوتی رہی.بہت حد تک تو اس وجہ سے کہ آپ کا لے پھر سے مستورہ روایات حضرت حکیم دین محمد صاحب دار الرحمت وسطی - ریوه

Page 139

ذہن گرد و پیش پر غور کرنے اور چھوٹے چھوٹے واقعات سے سبق حاصل کرنے کا عادی تھا.اور کچھ اس طریق پر کہ جب گھر آکر اپنے شکار کے تھنے بیان کیا کرتے تو حضرت اماں جان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہاں ضروری سمجھتے مناسب نصیحت فرما دیتے جو حکمت ودانائی سے لبریز ہوتی.ایک مرتبہ آپ ایک طوطا شکار کر لائے.ہمارے ہاں عوام الناس میں طوطے کو حرام سمجھا جاتا ہے اور بہت سے علماء کے نزدیک اس کا کھانا مکروہ ہے لیکن جہاں تک شریعیت کا تعلق ہے کوئی ثبوت اسکے حرام یا مکروہ ہونے کا نہیں ملتا.البتہ ہمارا مزاج ضرور گواہی دیتا ہے کہ یہ جانور کھانے کا نہیں حضرت سیح موعود علیہ السلام نے اس موقع پر ظاہری اصطلاحوں میں پڑنے کی بجائے بڑے ہی پیارے انداز میں وہ حکمت کی بات صاحبزادہ صاحب کو سمجھا دی جس کے نتیجہ میں صرف طوطے کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس قسم کے بیسیوں الجھے ہوئے مسائل نہایت آسانی سے حل ہو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا : "میاں ! اللہ تعالیٰ نے سب جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کئے.بعض ان میں سے خوبصورتی کے لئے بھی پیدا کئے گئے ہیں.(یعنی اللہ تعالیٰ کی کائنات کو زینت بخشنے کے لئے) طوطا انہیں میں سے ایک ہے." بات یہ چھوٹی سی ہے لیکن جس بچے کی اس حکمت اور دانائی سے تربیت ہو رہی ہو، اس کی بصیرت میں لطافت اور قلب و ذہن میں وسعت کیوں پیدا نہ ہو.شکار کے علاوہ آپ کو گھوڑ سواری کا بھی شوق تھا آپ فرماتے ہیں: "مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک گھوڑی خرید کر دی تھی.درحقیقت وہ خرید تو نہ کی گتی تھتی بلکہ تحفہ بھیجی گئی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا.میں نے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کیا.آپ نے فرمایا مجھے سائیکل کی سواری تو پسند نہیں ہیں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں.میں نے کہا اچھا آپ مجھے گھوڑا ہی سے دیں.آپ نے فرمایا پھر مجھے گھوڑا وہ پسند ہے جو مضبوط اور طاقتور ہو.اس سے غالباً آپ کا منشا یہ تھا کہ میں اچھا سوار بن جاؤں گا.آپ نے کپورتھلہ والے عبد المجید خان صاحب کو لکھا کہ ایک اچھا تھوڑا خرید کر بھجوا دیں.خان صاحب کو اس لئے لکھا کہ ان کے والد صاحب ریاست کے اصطبل کے

Page 140

١٣١ انچارج تھے اور ان کا خاندان گھوڑوں سے اچھا واقف تھا.انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفہ بھجوا دی اور قیمت نه لی حضرت مسیح موعود علا السلام جب فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا.اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے تا کہ اس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے.مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہو گیا تھا اور جو اب بھی زندہ ہیں کہلا بھیجا کہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے.اسے آپ بالکل فروت نہ کریں.اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی.وہ جگہ جہاں مجھے یہ بات کسی قسمتی تھی اب تک یاد ہے.میں اس وقت ڈھاب کے کنارے تشحید الاذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا.جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اس لئے اسے فروخت نہ کرنا چاہیئے تو بغیر سوچے سمجھے معا میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بے شک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کا ہے...مگر میں گھوڑی کی خاطر حضرت ام المومنین کو تکلیف دینا نہیں چاہتا.چنانچہ میں نے اس گھوڑی کو فروخت کر دیا ہے • اس واقعہ کے من و عن بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ قارئین کو حضرت مسیح موعود علیه السلام کے اس رجحان کا اندازہ ہو سکے کہ آپ ایک مجاہدانہ روح رکھتے تھے.اس لئے سائیکل کی بجائے گھوڑے کی مردانہ سواری کو ترجیح دی.اور گھوڑا بھی وہ جو بہت مضبوط اور طاقتور ہو.اگر چہ یہ بات اولاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر روشنی ڈالتی ہے.لیکن بلاشبہ مردانگی کی یہی صفات پوری شدت کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے اندر بھی پائی جاتی تھیں.دراصل انسانی قومی کی عموغت کے بعد جو انسانی صفات ہمیں نظر آتی ہیں، اگر اس کے پس منظر میں جستجو کی جائے تو انسان کے بچپن کے زمانہ میں یہ درخت ایک چھوٹے سے نرم و نازک پودے کی صورت میں دکھائی دے گا جس کی نرم و نازک جڑیں اس قسم کے واقعات کی نرم اور زرخیز مٹی میں پیوستہ ہوتی ہیں.دوسرا پہلو قابل توجہ اس روایت کا آخری حصہ ہے.باوجود اس کے کہ آپ نے کو له الفضل لاہور ۱۸ / فروری باشه

Page 141

گھوڑوں سے بہت پیار تھا اور تمام عمر آپ نے حسب توفیق متعدد گھوڑے رکھے اور اپنے بچوں اور بچیوں کو بھی سواری کا شوق دلایا.گھوڑوں سے پیار اپنی جگہ لیکن اس سے بہت بڑھ کر اس گھوڑی کی یہ حیثیت کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک یاد گار عطیہ تھی.اس شدید محبت کے پیش نظر جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھی، یقینا یہ گھوڑی بھی آپ کو اسی نسبت سے خاص طور پر پیاری ہوگی لیکن ذمہ داری کا احساس ایک غیر مبہم اور روشن قوت فکر اور یہ ذہنی قابلیت که مختلف اقدار کو ان کے موقع اور محل پر رکھا جانا چاہیے.یہ تینوں صفات قطعی طور پر اس بات کی ضامن تھیں کہ آپ جذبات کے کسی ایک دھارے میں بہہ کر کوئی یک طرفہ اور غیر متوازن فیصلہ نہ کربیٹھیں.کتنا صحیح فیصلہ ہے کہ اپنے جذبات کی قربانی کو تو قبول کر لوں گا.مگر یہ خطرہ مول نہ لوں گا کہ میری ماں کو اس وجہ سے ادنی سی تکلیف بھی پہنچے.گھڑ سواری ہی کے ضمن میں دو اور دلچسپ واقعات پیش کئے جاتے ہیں جو اپنے اپنے رنگ میں خاص اہمیت رکھتے ہیں.اللہ کبھی جو قادیان کی ایک پرانی معروف دایا اور فضل دین قصاب کی بیوہ ہے.اس کا خاندان احمدی تو نہیں تھا لیکن حضرت صاحب کا پرانا خدمت گزار ضرور تھا اللہ بھی اپنے بچپن کا یہ واقعہ بیان کرتی ہیں :- "جب حضور سیر کے بعد گھوڑی پر سوار ہو کر گھر آیا کرتے تو ہم با وجود اس کے کہ غیر احمدی بچیاں تھیں.باہم مل کر ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہو جاتی تھیں.اور آپ سے کہتی تھیں :- " میاں محمود دی گھوڑی نوں پیٹھے میاں دی گھوڑی نوں اللہ رکھے گھوڑی دے دم دا اک بال دے دیے " حضور مسکرا کر فرماتے کہ تم بال لے کر کیا کرو گی ؟ ہم کہتیں کہ ہم پھڑیں پکڑیں گی اور ہوائی جہانہ بنا کر اُٹھائیں گی حضور فرماتے کہ اس سے گھوڑی کو تکلیف ہوگی روتے گی بیٹے گی خون نکلے گا.لاؤ میں تمہیں خود اپنے ہاتھ سے پھڑ پکڑ دیتا ہوں.ایک دفعہ حضور نے گھوڑی سے اتر کر ہمارے گھر کے سامنے دھریک کے درخت کے ساتھ باندھ دی اور اپنے ہاتھ سے آہستہ سے پھڑوں کے چھتے سے ایک دو پھر پکڑ لئے اور ہمیں کہا یہ تو بھڑیں.ایسا واقعہ کتنی مرتبہ ہوگا

Page 142

۱۳۳ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن ہی سے آپ کی طبیعت میں بے تکلفی، انکساری زندہ دلی اور بچوں سے پیار پایا جاتا تھا.میں طرح پیار سے آپ چھوٹی چھوٹی بچیوں سے بات کرتے ہیں جو خاندانی محافظ سے خادماؤں اور چاکرا نیوں کا درجہ رکھتی ہیں، اُن کی دلجوئی کی خاطر سواری سے اتر کر اسے درخت سے باندھتے ہیں.یہاں تک کہ ان کا دل خوش کرنے کے لئے پھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے بھی گریزد نہیں کرتے.دیکھتے یہ چھوٹا سا دلچسپ واقعہ ایک بچے کی طبیعت کے کتنے ہی پہلوؤں پر کس عمدگی سے سا روشنی ڈالتا ہے.بچپن کا زمانہ اس لحاظ سے بہت ہی اہم ہے کہ اس کے سادہ بے ریا اور بے تکلف نظارے کسی انسان کی فطرت سے روشناس کرانے میں بڑی ہی مدد دیتے ہیں، ایک مرتبہ بالہ کے اسٹیشن پر گورداسپور کے ایک ہند و تنیس بابا کانسی رام صاحب جو آپ سے بہت عقیدت رکھتے تھے آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے وہاں گھوڑوں کا تذکرہ چل پڑا تو آپ نے بچپن کا یہ واقعہ بیان کیا: ایک دفعہ بچپن کے ایام میں میں گھوڑے پر سوار ہوا.گھوڑا تھا منہ زور قصبہ سے باہر نکلتے ہی وہ بے لگام ہو گیا.میں نے ہر چند اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکا.اس حالت میں موضع بسرانواں کے قریب پہنچ گیا.جہاں میں نے دیکھا کہ گھوڑا جس سُرخ جا رہا ہے.اس کے سامنے ایک غیر آباد تغییر منڈیر کے کنواں ہے.اور اس کے پاس ہی دو چار قدم کے فاصلے پر چند بچے کھیل رہے ہیں.اس وقت میں نے سوچا اگر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور بچوں کی طرف گھوڑے کا رخ کرتا ہوں تو میری ایک جان کے کے بدلے کتنی جانیں (بچے) ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور اگر ان کو بپتا ہوں.تو دوسری طرف کنواں ہے.جس میں گھوڑے کے گرنے کی وجہ سے اپنی جان جانے کا ڈر ہے.اس وقت میں نے یہی فیصلہ کیا کہ میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں اپنی جان کی پرواہ نہ کروں.چنانچہ میں نے گھوڑے کو سیدھا جانے دیا.خدا کی شان گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا تھا.بعین کنوئیں کی منڈیر کے پاس پہنچ کر یکدم رک گیا ہے یہ واقعہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں.سوائے اس کے کہ جب انسان خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی عظیم قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو بسا اوقات اللہ تعالیٰ اس قربانی کی روح له الفضل ۴ مارچ

Page 143

مهم ۱۳ کو تو قبول کر لیتا ہے لیکن آزمائش کے دکھوں سے انسان کو اپنے فضل سے بچا لیتا ہے.نہ جانے وہ کتنی مرتبہ اپنے صادق بندوں سے اس قسم کے پیار کے سلوک فرما چکا ہے اور آئندہ فرماتا رہے گا.اور آج تک یه دلنواز رسم بندگی و بنده نوازی اُمت محمدیہ میں لاکھوں مرتبہ جلوہ دکھا چکی ہوگی.جیسا کہ ذکر گزر چکا ہے، آپ کو کشتی رانی کا بھی شوق تھا اور تیراک بھی بہت اچھے تھے.یہ مشقیں زیادہ تر قادیان کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ان خندق نما جو ہڑوں میں ہوا کرتی تھیں ہو ڈھاب کے نام سے معروف تھے اور جن میں پانی تو سال بھر خشک نہ ہوتا تھا لیکن نہانے کے قابل صرف برسات کے دنوں میں ہوا کرتے.غرضیکہ آپ اُن سب کھیلوں میں حصہ لیتے رہے جو قادیان میں رائج تھیں.آپ کے بچپن کے ایک ساتھی مرزا احمد بیگ صاحب بیان کرتے ہیں : بڑے ہو کر حضور فٹ بال بھی شوق سے کھیلتے تھے.اور میرود بہ خاص شوق سے کھیلتے تھے مجھے بھی حضور کے ساتھ میر وڈیہ اور فٹ بال کھیلنے کا اکثر اتفاق ہوا ہے.ویسے حضور ابتداز جسمانی طور پر کچھ کمزور تھے.اس کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی حضور کی صحت کی اس حالت کا ذکر آیا تھا اور غالباً حضرت خلیفہ المسیح الاول نے کا ڈلیور آئیل cod-liver oil تجویز کیا تھا.حضور کچھ عرصہ پہلوانی یعنی کشتی کا کرتب بھی سیکھتے رہے ہیں یہ کر تب آپ ایک نوجوان جس کا نام محمد حسین تھا لیکن بچے اس کو بابا فضل حسین کر کے پکارتے تھے سے سیکھا کرتے.فضل حسین صاحب اس لڑکے کے دادا تھے...ایک چھوٹی سی کشتی بھی علم سے منگوائی تھی.یہ طغیانی کے دنوں میں حضور ڈھاب میں چلایا کرتے تھے.خلافت سے پہلے حضور حضرت استاذی المکرم مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ ضیاء الاسلام پریس کے عقب میں بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے ایک دفعہ میں بھی اس کھیل میں شامل ہوا تھا پہلے اس سلسلہ میں مدیر الحکم کا بیان بھی قابل ذکر ہے.کے روایت مرزا احمد بیگ صاحب ساہیوال

Page 144

۱۳۵ غور کا مقام ہے کہ بچوں کو ایسے موقعوں پر کھیل کود کے تماشے دیکھنے کا از حد شوق ہوا کرتا ہے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لڑکے اپنے فوائد کی پرواہ نہ کر کے اور نقصان اٹھا کر بھی دُور دُور سے ایسے نظارے دیکھنے کے واسطے جمع ہو جایا کرتے ہیں.مگر میں بعض ایسے لڑکوں کو خوب جانتا ہوں جو مدرسہ تعلیم الاسلام ہی کے تعلیم یافتہ ہیں.اپنی ٹیم کی کمزوری اور مقابل ٹیم کی طاقت اور مضبوطی کو دیکھ کر کھیل کے میدان سے الگ جاکر اور تنہائی کے گوشوں میں گریہ و بکا سے حضور انہی میں دعاوں میں مصروف تھے.یہ بات یہ کوئی چھوٹی سی نہیں کہ نظر اندازہ کر دی جائے.سوچنے والی طبیعت اس سے اندازہ کر سکتی ہے اور نتیجہ نکال سکتی ہے کہ ان بچوں نے اپنی کامیابی کی کلید کس بات کو یقین کر رکھا تھا اور اس سے ان کے دلی خیالات اور عقائد کا اچھی طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اور ان کے تعلیم و تربیت کے اعلیٰ.اصول کا پتہ لگتا ہے...جوں توں کر کے ہاف ٹائم گزرا.پانچ منٹ آرام یا یوں کہئے کہ دُعاؤں کے لئے ایک موقع ہاتھ آ گیا.اور وقت گزرنے پر پھر پیج شروع ہوگیا غرض پھر پورے جوش و خروش سے اپنی اپنی کامیابی کے واسطے سر توڑ کوشش کرنے لگے.خدا کی شان کوئی پندرہ میں منٹ کی کھیل کے بعد تعلیم الاسلام سکول قادیان فٹ بال ٹیم نے ایک گول خالصہ کا لحبیب پر کر دیا.جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کیا گیا اور سب نے بے چون چرا اس کو تسلیم کر لیا.اللہ اکبر ! گوں کا ہونا تھا کہ سب لڑکے میدان مقابلہ میں جدھر جس کا منہ تھا اور جہاں جو کوئی تھا، وہیں اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں گھر گئے.تمام احمدی قوم کے افراد جو اس وقت وہاں موجود تھے، خدا کی اس ذرہ نوازی پر شکریہ کرتے ہوئے سجدہ میں گرگئے جن کی دیکھا دیکھی عوام اہل اسلام بھی سجدے میں گر گئے.عجیب ایک نظارہ تھا.اور عجیب ہی سماں حاضرین پر ایک خاص اللہ ہو ا بجائے اس کے کہ گول کرنے کی خوشی میں چیریز

Page 145

اور بہروں کے نعرے لگائے جاتے اور بڑا غل غپاڑہ کیا جاتا ، کوئی اچھلتا کوئی کودتا سب کے سب یکدم خدا کی حمد اور ستائش کے لئے سر نیاز زمین پر رگڑ رگڑ کر شکریہ کرنے لگے.سب لوگ اس نظارہ سے متاثر ہوتے اور تعریف کرنے لگے.اس جگہ پر میں ایک عجیب نکتہ بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو کہ اگر چہ احمد می قوم کی تعلیم کی گھٹی میں شامل ہے مگر موقع اور وقت کے لحاظ سے ایک نکتہ اس طبیعت کے واسطے بڑا ہی قابل تعریف ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو اس وقت موقع میچ میں شریک تھے سجدہ شکر کے بعد اُٹھے اور فرمایا کہ ہم نے تو صرف یہ دعا کی کہ عليهم.ان فرمان طرح ہے کہ غیر الْمَغْضُوبِ عَلَيْه هم - اُن کا فرمانا تھا کہ بجلی کی طرح میرے دل میں وہ سارا سماں بندھ گیا اور ساری حقیقت اس دعا کی میرے دل میں بھر گئی اور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی نکستر ریس طبیعت اور انتقال ذہن پر عش عش کر گیا.اور میں نے بھی اسی رنگ میں دعا کرنی شروع کردی....کسی نے کسی ماہر فن جنگ سے پوچھا تھا کہ ہتھیاروں میں سے سب سے اچھا کون سا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ جو وقت پر کام آجائے غرض مناسب موقع اور مناسب حال میں ایک دُعا تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور انجام بخیر ہوا اور مقابل کے لوگ کوئی گول نہ کر سکے اور اس طرح سے خدا نے محض اپنے فضل سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کو فتح عطا کی جو کہ لڑکوں کے لئے خصوصاً موجب از دیا د ایمان ہوئی اور قبولیت دعا کا ایک تازہ نمونہ اُن کو خدا نے اُن کے اپنے وجود میں عطا کر دیا یا سے..له " الحكم ۲۴ مارچ شده

Page 146

تعلقات کے دائرے بچپن کے اس دور میں آپ کے تعلقات کے دائرے اپنے ہم جولیوں ، بہن بھائیوں، اساتذہ اور بزرگان ، ماں باپ امام اور امام الامام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالٰی کی ذات والا صفات تک ممتد تھے.مخالفوں سے براہ راست سلوک کا کوئی خاص موقع اس لئے پیدا نہیں ہوا کہ آپ کے لئے اُن سے معاملہ کرنے کے مواقع ہی پیدا نہیں ہوئے.اپنے سے کم عمر چھوٹے بچوں سے جو سلوک آپ فرماتے تھے.اس کی ایک چھوٹی سی جھلک گھوڑی والے اس واقعہ میں گزر پیچی ہے جس میں گھوڑی کے دم کا بال مانگنے پر آپ نے کس طرح ان غریب بچوں کی دلجوئی فرمائی.آپ کے بچپن کے ساتھیوں کے تاثرات بھی جا بجا روایات کی صورت میں کچھ دیئے جاچکے ہیں اور کچھ آئندہ دیتے جاتے رہیں گے.اس لئے اس پر بھی کوئی الگ باب باندھنے کی ضرورت نہیں البتہ بہن بھائیوں سے آپ کا جو سلوک تھا اور اُن کے دلوں پر آپ کی کیا تصویر بن رہی تھی.یہ مطالعہ بڑا دلچسپ ہے.خوش قسمتی سے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدخلها العالی جو آپ کی چھوٹی بمیره اور ہمشیرگان میں بڑی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت بقید حیات ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی عمر میں اور صحت میں بہت برکت دے.آپ نے صحت کی کمزوری کے باوجود تکلیف فرما کر اپنے تاثرات قلمبند فرماتے ہیں جن میں سے فی الحال آپ کی یادوں کا وہ حصہ پیش کیا جاتا ہے جو بچپن کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.آپ فرماتی ہیں :- "میں نے حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کو ایک خواب بیان فرماتے سُنتا ہے.بلکہ خود مجھے بھی مخاطب فرما کر سُنایا ہے.دو چار بار فرمایا :- مجب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہونے کو تھے تو ایام حمل میں میں نے خواب دیکھا کہ میری شادی مرزا نظام الدین سے ہو رہی ہے.اس خواب کا میرے دل پر مرزا نظام الدین کے اللہ مخالف ہونے کی وجہ سے بہت برا اثر پڑا کہ مومن سے شادی میں نے کیوں لکھی ، میں تین روز تک مغموم رہی _ _

Page 147

.اور اکثر روتی رہتی.تمہارے ابا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ذکر نہیں کیا.مگر جب آپ نے بہت اصرالبہ کیا کہ بات کیا ہے ؟ کیا تکلیف پہنچی ہے؟ مجھے بتانا چاہیئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے یہ خواب بیان کیا.خواب سن کر تو آپ بے حد خوش ہو گئے اور فرمایا اتنا مبارک خواب اور اتنے دن تم نے مجھ سے چھپایا ! تمہارے ہاں لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا اور نظام الدین کے نام پر غور کرو.اس کا مطلب یہ مرزا نظام الدین نہیں تم نے اتنے دن تکلیف اٹھائی اور مجھے یہ بشارت نہیں سنائی.اپنا بچپن کا ایک خواب یاد آگیا.یاد رہا اور کچھ سال ہوتے ہیں نے لکھ بھی لیا تھا.میں نے خواب میں دیکھا ( میں خواب میں اوپر کے صحن میں کھڑی تھی) کہ ہمارے صحن کا کنواں لبالب پانی سے بھرا ہے اور ایک جوان نوعمر جس کی پشت سے بڑے بھائی صاحب مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی معلوم ہوتے تھے اتیز تیز اس کنواں کے گرد گھوم رہا ہے اور اس کی زبان پر اونچی آواز سے یہ الفاظ جارہی ہیں : إنِّي جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ " آنکھ کھلی تو میرے بڑے بھائی صاحب کا مصر (صرف شانوں تک) میرے تکیہ پر تھا پہلے تو میں دیکھتی رہی مگر جب وہ کیفیت دور ہوگئی تو ڈر کر حضرت مسیح موعود علیه السلام کو پکارا اور کہا کہ میں نے اس طرح خواب دیکھا ہے.آپ نے فرمایا یہ کشف تھا.ڈرو نہیں، بہت مبارک خواب اور کشف ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے.حضرت اماں جان کی زبانی دائی کا نام ہر دوائی تھا.اذان بھی کان میں حضور خود دیتے تھے اور غالباً شہد وغیرہ بھی خود ہی چٹاتے ہوں گے.مگر اس کے لئے خاص الفاظ حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے مجھے یاد نہیں.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ جب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہوئے

Page 148

۱۳۹ تو عصمت (ہماری بہن) سو رہی تھیں.خادمہ نے اس کو جگایا اور کہا اُٹھو بی بی ! تمہارا بشیر آگیا.کیونکہ بشیر اول کی وفات پر غالباً عصمت اس کو یاد اؤں کرتی ہوں گی.اماں جان نے فرمایا کہ وہ اُٹھ کر بجائے میری طرف آنے کے " میرا لبشیر آ گیا.کہتی ہوتی اپنی بڑی والدہ (والدہ حضرت مرزا سلطان احمد قصاب) کی طرف یعنی تائی صاحبہ کے گھر کو دوڑ گئی.اس کو اپنی بڑی والدہ سے بہت تعلق تھا اور وہ بھی اس کو بہت پیار کرتی تھیں.بسم اللہ وغیرہ کی کوئی تقریب میں نے نہیں سنی نہ دیکھی.آمین بے شک ہم سب کی ہوئی اور بہت دھوم سے ہوئی.آپ نے شروع میں جہاں تک مجھے یاد ہے اکثر سنا ہوا ( نام یاد نہیں آرہ) اس وقت بنگالی صاحب تھے نیز اُن کی اہلیہ صاحبہ کا دُودھ میرے منجھلے بھائی صاحب نے پیا تھا.زینب بیگیم مصری عبدالرحمن) کے والد صاحب صحابی تھے.مخلص تھے.ایک خط اُن کا میرے پاس رکھا ہے میرے میاں کو لکھا تھا.ایک بہت مبشر خواب مگر نام اُن کا بھول گئی اس وقت اگر اللہ کے ساتھ نام تھا یا د ہی نہیں آرہا.غالباً اُن سے ہی ابتداء میں پڑھا پھر سکول میں بھی اور اصل شوق سے جو پڑھنا شروع کیا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے جو قرآن شریف و حدیث پڑھنے لگے کیونکہ اس وقت سے مطالعہ پر زور تھا اور اکثر مسائل پر حدیث وغیرہ پر میرے چھوٹے ماموں جان سے گھر پر بھی باتیں ہوتی تھیں.ان کی توجہ علم دین کی طرف ہی رہی مگر یہ نہیں کہ ہر وقت لگے ہی رہیں.میز پر قرآن شریف عربی کی کتابیں، نفت وغیرہ کتب حدیث اور ایک انجیل بھی ضرور رکھی رہتی تھی.اسی طرح شیعوں کے مرائی اور کتابیں مختلف مذاہب کی ہوں گی ضرور مگر میں نے انجیل پڑھ کر دیکھی کچھ حصہ اور مرثیے پڑھے اوہ یاد ہے.انیس اور دبیر بھی اُن کے پاس تھے.کوئی خاص وقت پڑھائی کا باہر صرف بھی نہیں کرتے تھے اور اندر بھی پڑھتے ضرور تھے مگر اتنا نہیں کہ دن رات جیسے لڑکے سر کھپاتے ہیں، ان کو تو اللہ تعالٰی نے خود ہی اپنے فضل سے پڑھا دیا.

Page 149

۱۴۰ اکثر آشوب چشم بھی ہو جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھائی کے لئے کبھی بھی نہیں کہا کہ محنت کرو وغیرہ گر ابتدا سے اپنی دینی کتب قرآن مجید حدیث اور دیگر مذاہب کی کتابیں اور الف لیلہ بھی مجھے بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں الف لیلہ کی بھی سُنا دیتے تھے.دیوان غالب وغیرہ اور آپ کے استاد ( جن سے کچھ عرصہ اصلاح لی تھی شاعری کے سلسلہ میں ) جلال لکھنوی کے دیوان بھی آپ کے پاس تھے.میری ہوش میں بہت کم عمری سے میں نے بڑے بھائی (حضرت مصلح موعودہؓ) کا کمرہ الگ دیکھا جس میں کتابیں رکھی رہتی تھیں میز پر میں بھی وہاں جا پہنچتی تھی آپ گھر کھیلتے تھے.اکثر وقت پا کر جو خالی صحن ہوا اس میں گیند بلا وغیرہ اور اس کے علاوہ گھر کے باہر آپ کے مشاغل خلیل سے نشانه بازی کشتی چلانا تیرنا وغیرہ تھے.مٹی کے غلے بنانے میں ہم.شریک ہو جاتے مگر گھر میں نہیں چلاتے تھے.یہ کام باہر ہوتا تھا.گھر میں تو کبھی نشان لگا کر غلیل جلا کر دیکھ لیا اور اس سے ذرا بڑے ہوئے تو سواری سیکھی اور گھوڑے کی سواری کو بہت پسند کرتے تھے.آپ ہم بچوں سے بہت پیار کرنے والے بے حد خیال رکھنے والے تھے، مجھے تو خاص طور پر بہت محبت کی بہت ناز اُٹھاتے کبھی خفا ہونا یاد میں نہیں.ایک بار لڑکیوں کے ساتھ میں کھیل رہی تھی.لڑکیوں نے کوئی کھیل تالی بجانے والا کھیلا.میں بھی بجانے لگی تو مجھے کا کھیلو مگر تم نہ کبھی تالی بجانا.یہ لوگ بجایا کریں.مبارک سے بھی بہت پیار کا سلوک تھا ( ایک خط میں حضرت میسج موعود علیہ السلام نے میرے میاں کو لکھا ہے محمود اپنی والدہ سے بہت مانوس ہے اور مبارک سے بھی اب تک کھیلتا ہے.ابھی بچہ ہی ہے ) دو مرے بھائیوں سے بھی کبھی میں نے سختی کا سلوک یا جھگڑا نہیں دیکھا.منجھلے بھائی صاحب سے تو اکثر لمبی باتیں کرتے مگر ہر وقت اچھے موضوع پر میرے بھائی اور ماموں مل کر باتیں کرتے تھے.کبھی فضول بات میں نے

Page 150

۱۴۱ نہیں سنی کیونکہ جہاں یہ سب مل کر بیٹھتے ہیں ضرور جا پہنچتی تھی کئی بار سنس کر فرماتے تھے کہ لڑکی وہ جو لڑکیوں میں کھیلے نہ کہ لڑکوں میں ڈنٹرپیلے مجھ سے بچپن سے بے تکلف رہے.ہر بات مجھ سے کر لیتے اور میں ہربات جو نئی سُنی یا مجھ سے باہر ہوتی اُن سے پوچھتی.میری کھل کر بات یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوتی تھی یا بڑے بھائی حضرت مصلح موعود سے حضرت مسیح موعود بھی جانتے تھے کہ ہم دونوں کا آپس میں زیادہ پیار اور بے تکلفی ہے تو آپ نے بھی تین چارہ بار کہا محمود کچھ چُپ چُپ ہے کبھی حاجت نہیں ظاہر کرتا نہ مانگتا ہے تم پوچھو تو سہی کہ کیا چاہتے ہیں نے پوچھا اور آپ نے بتا دیا.یہ میں لکھ چکی ہوں پہلے کبھی.ایک بار بخاری کی جلدوں کا پورا سیٹ منگانے کیلئے کہا تھا.ایک بار سول اخبار جاری کر دینے کو ایک دفعہ بھائی جان کو لاہور گئے زیادہ دن ہو گئے تھے ، کہا ہمیں اُن کا لاہورہ زیادہ رہنا پسند نہیں کرتا بلوالیں.ہم لوگ لڑتے نہیں تھے کم از کم بہنوں سے لڑنے کی تو قسم ہی ہمارے ہاں تھی.مبارک احمد اور میں چھوٹے تھے تینوں بھائیوں نے کبھی کچھ نہیں کہا.آپس میں منجھلے بھائی کبھی تکیوں سے لڑائی گویا مصنوعی جنگ کیا کرتے تھے یا چھوٹے بھائی صاحب کو منجھلے بھائی صاحب پڑاتے تھے وہ چڑتے مگر اس سے زیادہ ہرگز نہیں.نہ مار نہ کٹائی.ایک بار کوڑا چھپا کی کھیلتے ہوئے مبارک کی پیٹھ پر کوڑا زور سے مار دیا وہ نازک سا بچہ تھار رہنے لگا مجھے آج تک افسوس ہے اپنی اس حرکت کا کہ میں نے پکار کر حضرت مسیح موعود کو کہا کہ مبارک کو چھوٹے بھائی نے زور سے کوڑا مار دیا.تو آپ چھوٹے بھائی پر بہت خفا ہوتے تھے.مگر میں نے تو بڑے بھائی کو حقیقت مسیح موعود علیه السلام کی مانند محبت کرنے والا پایا.ذرا بڑے ہو کر یہ محبت ایک دوستی کا رنگ بھی اختیار کر گئی.

Page 151

۱۴۲ اس کے بعد حضرت صاحبزادی سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کے ایک اور طبع شدہ مضمون سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں : سب بہن بھائیوں سے بڑھ کر اپنے پیار سے مجھے شرف بخشا...بچپن سے.انہوں نے مجھ سے خاص محبت کی ہمیشہ میرا خیال رکھا.کسی آڑے وقتوں میں میری مدد کی.بچپن میں تو غلطیاں بھی ہوتی ہیں.کبھی بڑے بھائی بہنوں کو گھرک جھڑک بھی لیتے ہوں گے مگر یہاں تو محض پیار اور ناز برداری ہی تھی.ایک دفعہ بھی کبھی ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھا.میرا بھی یہ حال تھا کہ ہر بات پر شکایت یا ابا سے یا بڑے بھائی سے کرتی ہیں بہت چھوٹی تھی آپ باہر ڈھاب (جوہر) میں کشتی چلانے گئے ہوتے تھے.دولڑ کے آتے اور کہا کہ میاں شب مانگ رہے ہیں.ٹب دے دیا گیا اور میں نے اس وقت اپنی زندگی میں پہلا شعر کہا.جب آئے تو خوشی سے لپٹ کر کہا، بڑے بھائی ! میں نے تمہارے لئے شعر بنایا ہے.(اس وقت اس عمرم ہم شعر کہتے نہیں تھے بلکہ بناتے تھے) فرمایا بتاؤ تاؤ کیا ؟ میں نے بڑے فخر سے سنایا کہ نے شب لینا تھا ئب لے گئے.کشتی چلانی تھی کشتی چلا گئے اس کو یاد کر کے اب تک ہنسا کرتے تھے.ایک دفعہ میرے اُستاد پیر منظور محمد صاحب مرزا افضل بیگ صاحب سے گراموفون مانگ لاتے اور ریکارڈ چلانے لگے میں چھوٹی تھی اور وہ عجیب سے اشعار میرے لئے نئی چیز تھے.میں نے کہا پیر جی ! میری کاپی پر یہ شعر لکھ دو.انہوں نے بے خیالی میں لکھ دیا.ایک مصرعہ مجھے یاد ہے 8 ستم سے باز آظالم قیامت آنیوالی ہے میں فوراً بھاگی اور آکر بڑے بھائی کو دیکھایا کہ یہ پیر جی سے لکھوا کر لائی ہوں.میرے ہاتھ سے کاپی لی اور وہیں کھڑے کھڑے کاپی پر لکھ دیا اگر لایا کتے ایسی گھروں کو کاپیاں بیچتے 4 تو حضرت آپ کی اک روز شامت آنیوالی ہے

Page 152

۴۳ اور کہا اب جا کر یہ پیر جی کو دیکھا دو.اُن دنوں وہ گول کمرے میں ہمارے ہاں ہی رہتے تھے.میں نے جا کر دیکھا دیا.پیر جی نے کہا تو یہ ! توبہ ! لا حول ولا قوة الا باللہ مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی اور چاک کرنے لگے.میں نے اُن کو کہا اپنے شعر کو پھاڑ دو پر بڑے بھائی کا شعر نہیں پھاڑنے دوں گی.غرض بڑے بھائی صاحب سے بہت مانوسیت تھی اور حضرت سیح موعود علیہ السلام کو بھی علم تھا کہ میں اُن سے اور وہ مجھ سے بہت مانوس اور بے تکلف ہیں.آپ اب بڑے ہو چکے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بچین کی بے تکلفی سے کچھ طلب نہ کرتے تھے.دیے بھی سوال کرنا آپ کو نا پسند تھا مگر وہاں تو ادب کا بھی حجاب تھا.چندبار مجھے ہی حضرت مسیح موعود علیه السلام نے کہا کہ محمود کچھ خاموش اور اداس ہے تم کو بتائے گا.تم بھائی سے پوچھو کس چیز کی ضرورت ہے.دو تین بار کا تو مجھے ٹھیک یاد ہے.ایک دفعہ تو میرے پوچھنے پر کہا تھا " کہنا پو بخاری منگا دیں.پھر کئی جلدوں میں سُرخ جلدیں تھیں بہت سے پارے بخاری شریف کے آئے تھے.ایک بار اس طرح آپ کے فرمانے پر میں نے پوچھا تو کہا سولی اخبار میرے نام جاری کرا دیں.وہ بھی ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ سے واضح طور پر بہت محبت اور آپ کی بہت قدر تھی.اس کم عمری میں بھی مجھ پر یہ اثر تھا کہ مبارک چھوٹا ہے اور میں لڑکی ہوں اس لئے زیادہ خیال میرا رکھنے اور مبارک سے زیادہ پیار کرتے ہیں مگر اصل میں سب سے زیادہ میرے ابا کو پیارے میرے بڑے بھاتی ہیں.شادی کے بعد جب میں آتی میری آواز سُن کر یا معلوم کرکے کہ میں آئی ہوئی ہوں فوراً تشریف لے آتے جو بات نئی میری غیر حاضری میں ہوتی مجھے ضرور سُناتے.اپنے اشعار بالعموم پہلے مجھے سناتے.دو تین بار مصرعہ میں نے لگا دیا اس کو پسند کیا اور شامل کر لیا.ایک بار جب آپ کے اشعار کا پہلا مجموعہ کلام محمود شائع ہوا، مجھ سے پوچھا ٹھیک ٹھیک

Page 153

مهم ۱۴ بتاؤ تم کو میرا کون سا شعر سب سے زیادہ پسند ہے ؟ میں نے کہا ہے حقیقی عشق گر ہوتا تو سچی جستجو ہوتی تلاش یار سر مردمیہ میں ہوتی کو بہ کو ہوتی پہلی شادی 19-1 حضرت مسیح موعود علیه السلام پسند فرماتے تھے کہ نو جوانی کی عمر کو پہنچتے ہی بچہ کی شادی کر دینی چاہیئے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرز بشیر الدین محمود احمد صاحب کی عمر ابھی تیرہ برس کی تھی کہ آپ نے شاہ میں اپنے ایک مخلص مرید محترم ڈاکٹر یا رشید الدین رضی اللہ عنہ کو تحریک فرمائی کہ وہ اپنی بڑی لڑکی رشیدہ بیلیم (جن کا حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے محمودہ بیگم نام رکھ دیا تھا اور جو بعد ازاں حضرت اُمم ناصر کے نام سے مشہور ہوئیں ) کا رشتہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کرنے کے بارہ میں کے بار ہیں غور کریں.اس سلسلہ میں آپ نے محترم ڈاکٹر صاحب کو لکھا : این رشته پر محمود راضی معلوم ہوتا ہے اور گوالیا مجھے طور پر اس بات میں کچھ معلوم نہیں جن کے معلوم ہونے کے بارہ میں مجھے خواہش ھے تاکہ کوئی کام ہمارا مرضی الہی کے خلاف نہ ہو مگر محمود کی رضامندی ایک دلیل اس باتے پر ہے کہ یہ امر غالباً والله اعلم جناب الہی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہوگا.لہذا آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ کی یہ مرضی ہو اور اس میں کوئی مخالفت نہ پائی جاتے ہیں کے مقابل پر سب ارادے کا لعدم ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں اور اس شرط سے آپ تیار اور مستعد رہیں کہ جب آپ کو مسنون طور پر نکاح کے لئے لکھا جائے چند ہفته تک استخاره کرین که سر ایک کام جو استخان اور خدا تعالیٰ کی مرضی سے کیا جاتا ہے وہ مبارک ہوتا ہے.دوسرے میرا ارادہ یہ ھے اس نکاح میں انبیا کی سنت کی طرح سب کام ہو.بدعت اور بے ہوں مصارف اور لغور شوم اس نکاح میں نہ ہوں بلکہ ایسے سیدھے سادھے طریق پر ہو جو خدا کے پاک نبیوں نے پسند فرمایا

Page 154

: ۱۴۵ سے نکاح ہو جاوے تو موجب برکاتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب کے رشتہ داروں نے جو احمدی نہیں تھے اس رشتہ کی مخالفت کی لیکن ڈاکٹر صاحب نے بلا تامل اس مبارک تعلق پر رضامندی کا اظہار کر دیا.ان دنوں ڈاکٹر صاحب رڑکی ضلع سہارن پور (یو پی) میں متعین تھے.وہیں نکاح کی تقریب کا منعقد ہونا طے پایا.چنانچہ صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب، حضرت مولوی نور الدین صاحب رضو حضرت میر ناصر نواب صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور چند اور بزرگوں اور دوستوں کے ہمراہ ۲ اکتوبر کی شام کو رڑکی پہنچے.اسٹیشن پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے بہت سے دوستوں کے ساتھ استقبال کیا.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک ہزار روپیر حیق مهر پر نکاح پڑھا اور ۵ اکتوبر کو بعد نماز عصر یہ قافلہ رڑکی سے بخیریت واپس قادیان پہنچا.مغرب کی نماز کے بعد جب کہ حضرت مسیح موعود علیه السلام حسب معمول شده نشین پر تشریف فرما ہوئے تو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے تقریب نکاح پر مبارک دی اور ڈاکٹر صاحب کے اخلاص کی تعریف کی حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے، ان میں اہمیت اور زیرہ کی بہت ہے اورمیں نے دیکھا ہے اُن میں نوکہ فراست بھی ہے تے رخصتانہ کی تقریب دوسرے سال تشاء میں اکتوبر کے دوسرے ہفتے آگرہ میں منعقد ہوتی.اِن دنوں محترم ڈاکٹر صاحب آگرہ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے.اکتوبر تشنہ کو برات واپس تا دیان پہنچی اگلے دن حضور کے گھر سے اس خوشی میں بتاشے تقسیم کئے گئے.ہمیتی سے سیٹھ محمد اسماعیل آدم صاحب نے تقریب شادی کے موقع پر ایک ٹوپی اور اوڑھنی کا تحفہ بھیجا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ بھیجنے پر محترم سیٹھ صاحب کو شکریہ کا خط لکھا جس میں آپ نے تحریر فرمایا :- آپ کا محبت و اخلاص کا تحفہ جو آپ نے برخوردار مود اور بشیر کی کی شادی کی تقریب پر بھیجا ہے یعنی ایک ٹوپی اور ایک اوڑھنی پہنچ گیا ہے.میں آپ کے اس محبانہ تحفہ کا شکر کرتا ہوں اور آپ کے حق میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین اور دنیا میں اس کا اجر بخشے.آمین ہائے تاریخ احمدیت جلدم من الحکم نیا اکتوبر تنتشله الفضل در جوانی کمکتوبات احمد جلد ۵ ص ۲۱

Page 155

۱۴۶ ہ میں اللہ تعالٰی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو پہلا فرزند عطا فرمایا جس کا نام نصیر احمد رکھا گیا.صاحبزادہ مرزا نصیر احمد چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئے اور لاہور میں تدفین عمل میں آئی لے تو میر شدہ میں آپ کے ہاں دوسرے فرزند صاحبزادہ مرزا ناصر احمد تولد ہوئے.اس ولادت کے مبارک ہونے کی بشارت اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو پہلے ہی مل چکی تھی نچہ آپ نے اپنے ۲۶ ستمبر شملہ کے ایک خط میں لکھا : مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ یہ ہے یہ خوشخبری اپنی پوری شان سے اس وقت پوری ہوئی جب اس رویا کے بھی برسر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو منصب خلافت پر سرفراز فرمایا.ه تاریخ احمدیت جلد ۳ ص۹ سے "بدر" "قادیان ۱۸/ نومبر +19.4 جلد ۵ راه و تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۳۲

Page 156

۱۴ م باپ کی صداقت بر آپ کا ایمان اور اس کے نتائج حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی آئندہ زندگی کا رُخ معین کرنے کے لئے بہت سے اسباب کار فرما تھے.جو ظاہری بھی تھے اور باطنی بھی عمومی بھی تھے اور خصوصی بھی ایسے عوامل میں سے جو عمومی حیثیت رکھتے ہیں اور نیچے کی شخصیت کی تعمیر پر لازم نہایت گہرے رنگ میں اثر انداز ہوتے ہیں ایک نہایت اہم عامل کا اب تم جائزہ لیں گے جس نے آپ کی شخصیت کی تعمیر میں ایک نا قابل فراموش اور نہایت اہم کردار ادا کیا.سوائے اس کے کہ بچہ نہایت کند ذہن ہو کوئی ماں باپ اپنے بچے سے اپنی اندرونی شخصیت کو چھپا نہیں سکتے.خواہ وہ شخصیتیں لاکھ جبل اور فریب کے پردوں میں لیٹی ہوئی کیوں نہ ہوں اور یہ امر بھی قطعی اور ناقابل تردید ہے کہ بچے کے خیالات کا رخ معین کرنے اور اس کی اندرونی شخصیت کے خد و خال بنانے میں سب سے اہم کردار اس کے ماں باپ کی وہ اندرونی تصویر ادا کرتی ہے جو خود اس کے دل و دماغ پر بنتی چلی جاتی ہے.اس کے نتیجہ میں نفسیاتی الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں.اسی کے نتیجہ میں ذہنی بغاو میں بھی جنم لیتی ہیں اور اسی کے نتیجہ میں اعلیٰ مقاصد کی پیروی میں سرتا یا وقف مخلص اور صادق القول شخصیتیں بھی ابھرتی ہیں.غرضیکہ نیکی اور بدی میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کے نفسیاتی پس منظر کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ اُن کے والدین کے متعلق اُن کی رائے کو ان کے کردار کے بگاڑنے یا بنانے میں گہرا دخل ہوتا ہے جو رائے غیر شعوری طور پر لمبے تجربات اور محسوسات کے نتیجہ میں از خود ان کے دل ودماغ میں قائم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس راستے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی منفی یا مثبت جذباتی تحریکات اس کی اپنی شخصیت کو اس طرح ڈھالتی چلی جاتی ہیں جیسے کمہار کے ہاتھ میں گندھی ہوئی مٹی ڈھلتی ہے ہے.ہمیں تسلیم ہے کہ یقیناً یہ شخصیتوں کی تعمیر و تخریب کا واحد سبب نہیں اور ہم باخبر ہیں کہ اللہ تعالٰی کے وسیع کارخانہ مشیت میں ان گنت اسباب اور محرکات نامعلوم طور پر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں جو کچھ انسان کے محدود علم کے احاطہ میں داخل ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم مذکورہ بالا ایک سبب کو اگر سب

Page 157

دوسرے ظاہری اسباب سے قومی تر قرار دیں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا.اس زاویہ نگاہ سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شخصیت کا جائزہ لیں تو یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ آپ اپنے والد کو گھرے اندرونی مشاہدہ کے بعد اور لمبے عرصہ پر پھیلے ہوئے ظاہر و باطن آثار کے مطالعہ کے نتیجہ میں مخلص صادق القول اور حق پرست یقین کرتے تھے اور اس یقین کے نتیجہ میں جس قسم کے مثبت اثرات آپ کی شخصیت پر مترتب ہونے چاہتے تھے وہ اسی طرح مترتب ہوئے.اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ اسی مقصد کے لئے ہمہ تن وقف ہو گئے جس کے حصول کی خاطر آپ کے عظیم باپ کا ایک ایک لمحہ وقف تھا.آپ نے اس راہ میں اسی طرح جانی اور مالی اور جذباتی قربانیاں دیں جسطرح جلیل القدر باپ زندگی بھر دیتا رہا اور اسی طرح اس راہ میں دُکھ پر دُکھ جھیلے اور مشقتوں پرمشقتیں اٹھائیں.غرضیکہ وہ تمام آثار اس کے فکر و عمل میں ظاہر ہوئے جو قوی یقین اور پختہ ایمان کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتے.ظاہر ہے کہ وہ بچپن کا زمانہ جو کسی سوانح نگار کے دم تحریر سے ستر بریں پیچھے رہ چکا ہو.اس کے تمام خدو خال تو کیا، اُن کے ایک حصہ کو بھی از سر نو اُجاگر کرنا کوئی آسان امر نہیں.اگر چہ یہ درست ہے کہ مختلف راویوں اور مضمون لکھنے والوں نے جو آپ کے بچپن کے ساتھی تھے، مختلف وقتوں میں مختلف واقعات پر روشنی ڈالی ہے لیکن نہ تو ان کا حضرت مرزا محمود احمد سے ملاپ کا زمانہ آپ کے تمام بچپن پر حاوی ہو سکتا تھا نہ ہی اُن کی یاد داشت از سر نو ہر نقش کو اجاگر کر سکتی تھی.اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بار بار خود حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے ان بیانات اور فرمودات کا سہارا لینا پڑتا ہے جو آپ نے اپنی بڑی عمر کے زمانہ میں کسی مضمون کے تعلق میں بیان کئے.یہ بیانات چونکہ خود اپنی صداقت کی اندرونی شہاد میں لئے ہوتے ہیں.لہذا کسی اہل بصیرت اور صاحب فراست انسان کے لئے اُن کی صداقت پر شک کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا نمونہ کے طور پر دو واقعات پیش ہیں.ایک چھوٹا سا سادہ سا واقعہ ہے جو بہت بچپن کا معلوم ہوتا ہے اور دوسرا نسبتا تخته عمر یعنی عنفوان شباب کا واقعہ معلوم ہوتا ہے.پہلے کی اہمیت اس کی سادگی اور تصنع سے پاک معصومانہ بیان میں ہے اور دوسرے کی اہمیت اس بنا پر بڑی بھاری ہے کہ ایک خطر ناک اور اچانک بحران کے وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کے فوری اور بے ساختہ رد عمل کا اس میں ذکر ہے اور اس سے بھی بڑھ کر قابل غور اور انمول وہ تبصرہ ہے جو آپ نے ایک عجیب محویت کے عالم میں ڈوب کر خود اس واقعہ پر کیا ہے.

Page 158

۱۴۹ پہلا واقعہ یوں ہے : میری عمر جب نو یا دس برس کی تھی ہیں اور ایک اور طالب علم گھر میں کھیل رہے تھے.وہیں الماری میں ایک کتاب پڑی ہوئی تھی جس پر نیلا جر دان تھا اور وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی.نئے نئے علوم ہم پڑھنے لگے تھے اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرائیل نازل نہیں ہوتا.میں نے کہا یہ غلط ہے.میرے ابا پر تو ناندل ہوتا ہے.اس لڑکے نے کہا جبرائیل نہیں آتا کتاب میں لکھا ہے.ہم میں بحث ہو گئی.آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا.آپ نے فرما یا.کتاب اور میں غلط لکھا ہے.جبرائیل اب بھی آتا ہے.نے اب یا اسے انه با دوسرا واقعہ یوں ہے :- بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے.کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں.مگر میں اسے بڑی قدیہ کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے، اُن میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک راست وخت ہم سب صحن میں سو رہے تھے.گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا.اور زور سے گرجنے لگا.اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کین تجلی گر گئی دیگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بھلی شاید اُن کے گھرمیں بھی گرمی ہے...اس کڑک اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے.جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی، اس وقت ہم بھی جو صحن میں سورہے تھے اُٹھ کر اندر چلے گئے.مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیتے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے ان پر نہ گرے.بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے به الحكم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۵ ص ۶۹

Page 159

۱۵۰ تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے میں سمجھتا ہوں میری وہ حرکت ایک مجنون کی حرکت سے کم نہیں تھی.مگر مجھے ہمث خوشی ہوا کرتی ہے کہ اس واقعہ نے مجھ پر بھی اس محبت کو ظاہر کر دیا جو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھی.بسا اوقات انسان خود بھی نہیں جانتا کہ مجھے دوسرے سے کتنی محبت ہے جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہو تو اسے بھی اپنی محبت کی وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے تو جس وقت محبت کا انتہائی جوش اٹھتا ہے عقل اس وقت کام نہیں کرتی محبت پرے پھینک دیتی ہے عقل کو اور محبت پرے پھینک دیتی ہے فکر کو اور وہ آپ سامنے آجاتی ہے.لے اس واقعہ اور اس سے متعلق آپ کے تاثرات کو پڑھ کر اس بارہ میں کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ کو اپنے عظیم باپ کی صداقت پر کتنا گہرا اور پختہ ایمان تھا.اور اس کے نتیجہ میں ایسی گری محبت آپ کی ذات سے اور آپ کی ایسی عظمت آپ کے دل پر قائم تھی کہ اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی.گو محبت بھی بچوں کو اپنے باپ سے ہوتی ہے اور بعض والدین کی عظمت کا احساس بھی اُن کے بعض بچوں کے دل میں ہوتا ہے، لیکن بیک وقت ایسی شدید محبت اور تقدیس اور عظمت کے ایسے قومی احساس کا امتزاج یقیناً انسانی تجربات میں آئے دن کا مشاہدہ نہیں ہے.اس گھرے ایمان اور محبت کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آپ اسی راہ پر دلی وابستگی اور کامل خلوص کے ساتھ چل پڑے جو غلبہ اسلام کے جلد تر ظہور کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اختیار فرمائی تھی اور اپنی تمام طاقتین بچپن ہی سے اس راہ میں وقف کر دیں.دنیا وی علم کے مقابل پر دینی علم کے حصول میں امتیازی رغبت اسی یقین کامل کا ایک نتیجہ تھا حالانکہ جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی توجہ کا تعلق تھا.آپ اپنی شبانہ روز شدید مصروفیات کے باعث اپنے کسی بھی بچے کی تعلیم کی طرف ذاتی توجہ نہیں دے سکتے تھے.دوسرا اگرا اثر اس ایمان کا یہ ظاہر ہوا کہ بچپن ہی سے آپ کو عبادت الہی کا ذوق و شوق پیدا ہوا اور کم سنی ہی میں آپ نیم شبی عبادتوں کے عادی ہو گئے.متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نماز پنج وقتہ کے علاوہ تہجد کی نماز بھی بالالتزام ادا کیا کرتے تھے اور نماز کی ادائیگی محض رسمی اور ظاہری نہ تھی بلکہ بڑے خشوع و خضوع اور سوز و گداز کی حامل ہوا کرتی تھی له الفضل ۲۵۰ جنوری شد

Page 160

101 ایک بچے یا نوجوان کا نمازوں میں گریہ وزاری کرنا اور سجدوں میں دیر تک پڑے رہنا یقیناً بڑوں کے لئے باعث تعجب ہوتا ہے.خصوصاً اس وقت جبکہ ایسے بچے کو کوئی ظاہری صدمہ نہ پہنچا ہو اور فکر کی کوئی دوسری وجہ بھی نظر نہ آئے یہ تعجب اور بھی بڑھ جاتا ہے اور دل میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس بچے پر کیا بیتی ہے جو راتوں کو چھپ چھپ کر اُٹھتا اور بلک بلک کر اپنے رب کے حضور روتے ہوئے اپنے معصوم آنسو ہوا سے سجدہ گاہ کو تر کر دیتا ہے ! می تعجب شیخ غلام احمد صاحب واعظہ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی پیدا ہوا جو ایک موسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اخلاص اور ایمان میں ایسی ترقی کی کہ نہایت عابد و زاہد اور صاحب کشف و الہام بزرگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ : " ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا.مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاج سے دُعا کر رہا ہے.اس کے اس الحاج کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہوگیا.اور میں بھی دُعا میں محو ہو گیا ' اور میں نے دعا کی کہ یا الہی یہ شخص تیرے حضور ہے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آتے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں ! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو نہی مانگا ہے کہ انہی ! مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا اور یہ کہ کہ آپ اندر تشریف لے گئے نے اسلام کی فتح کا دن دیکھنے کی یہ بے قرار تمنا جو اس نو عمری میں آپ کے دل میں پیدا ہوتی تو عمری ہی میں پھل بھی لانے لگی.چنانچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے معصوم دل سے اُٹھنے ) له الفضل ۶ار فروری 14 YA

Page 161

۱۵۲ والی پاکیزہ دعاؤں کو رحمت اور شفقت کی نظر سے دیکھا اور اس دل کی تسلی کے خود انتظامات فرمائے.یہ تسلی رویائے مبشرہ کی صورت میں بھی دی گئی اور الہام کی زبان میں بھی اور کشفی رویت کے کے ذریعے بھی.حضرت سید سرور شاہ صاحب نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی اور جید عالم تھے اور جن کے علم و فضل کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے اساتذہ میں سکتھے بیان فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ المسیح الثانی مجھ سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں ! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں.کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوا ہیں وغیرہ آتی ہیں ؟ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ : مولوی صاحب! خوا ہیں تو بہت آتی ہیں اور میں ایک خواب تو تقریبا روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صحیح کو اُٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جا کر حریف کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے بار گزرنے کے لئے کوئی چیز نہیں پائی تو سر کنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں.میں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوتی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا اور میں نے اسی وجہ سے کلاس میں میٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا.آپ کو اپنی کرسی پر بیٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھے کر آپ کو پڑھاتا.اور میں نے خواب سن کر آپ سے یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ میاں ! آپ بڑے ہو کر مجھے بھلا نہ دیں اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں میلے بچپن میں آپ کے الہام کے بارہ میں آپ کے ساتھ کھیلے ہوئے ایک پرانے دوست جو بفضل تعالیٰ ** تادم تحریر زندہ موجود ہیں، بیان فرماتے ہیں :- شاید یہ امرکسی دوسری جگہ شائع شدہ یا ریکار ڈ میں آچکا ہو، لیکن میں اس 21940 نه الفضل ۶ار فروری

Page 162

۱۵۳ کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو بچپن کے زمانہ میں جب کہ وہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں میرے ساتھ پڑھتے تھے.آپ نے ذکر فرمایا کہ ان کو یہ آیت العام ہوتی ہے: جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبِعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ " اور یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ یہ یہ الہام مجھے ہوا ہے یہ لے نو عمری ہی کے عالم میں اللہ تعالٰی کی رویت کا شرف بھی آپ کو نصیب ہوا.چنانچہ مسجد احمدیہ لنڈن کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ کے دوران اس رویت انہی کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- مجھے آج تک تین اہم معاملات میں خدا تعالی کی رویت ہوتی ہے.پہلے پہل اس وقت کہ ابھی میرا بچپن کا زمانہ تھا.اس وقت میری توجہ کو دین کے سیکھنے اور دین کی خدمت کی طرف پھیرا گیا اس وقت مجھے خدا نظر آیا اور مجھے تمام نظارہ حشر و نشر کا دکھایا گیا.یہ میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب تھائی کے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ حساس تھا کہ اس بچے کے ساتھ خدا تعالیٰ کا خاص تعلق اس کم عمری کے زمانہ ہی میں شروع ہو چکا ہے چنانچہ خود حضرت مرزا محمود احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ :- جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اواں کو دُعا کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو.میں نے اسوقت رویا نہیں دیکھا کہ ہمارے گھر کے ارد گرد پہرے لگے ہوتے ہیں.میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہ خانہ ہوتا تھا.میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کر کے آگے ابلے چین دیئے گئے ہیں اور اُن پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگا دیں.مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ ۱۹۲۰ + نه روایت حضرت مرزا احمد بیگ صاحب له الفضل ۲۲ جنوری شه و

Page 163

۱۵۴ نہیں لگتی.وہ بار باراگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر کامیاب نہیں ہوتے.میں اس سے بہت گھبرایا لیکن جب میں نے اس دروازے کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ : "جو خدا کے بند رہے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں له الفضل ۱۶ ر فروری ما 1940

Page 164

100 پر ہول اور پرخطر فضاؤں تلے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی ابتدائی زندگی کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے آپ ایک مرتبہ پھر ذرا اس بالائی سطح کے منظر پر بھی ایک نظر ڈالیں جس پر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام اور آپ کے مخلص متبعین ایک عظیم جہاد میں مصروف تھے.اس سطح کی فضا بڑی طوفان خیر امتموج اور متلاطم تھی گویا ایک شور قیامت بیا تھا.تعارفی باب میں قبل ازیں یہ ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ السلام نے اسلام کی تائید میں تمام مد مقابل مذاہب کے ساتھ زیر دست قلمی اور لسانی جہاد شروع کرتے اُن کی دشمنی تو پہلے ہی مول لے رکھی تھی.اب جب یہ دعویٰ کیا کہ پہلے سچے فوت ہو چکے ہیں اور اُمت محمد میں نازل ہونے والا بس میں ہی ہوں تو مسلمان بھی آپ کے شدید دشمن ہو گئے بلکہ اس دشمنی میں غیروں پر بازی لے جانے لگے.تب آپ کے خلاف بر صغیر پاک وہند میں مخالفت کی ایک ایسی خوفناک آگ بھڑکائی گئی جس نے تمام تر صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کیا ہندو اور کیا مسلمان بلا تمیز مذہب و وقت کبھی اس آگ میں بغض و حسد کا ایندھن جھونکنے لگے.آپ کی مثال ایک ایسے جرنیل کی سی تھی جود دشمنوں کے زینے میں پھنس کر جو کبھی لڑائی لڑرہا ہو جس کے سامنے بھی دشمن ہو اور پیچھے بھی، دائیں بھی ہو اور باتیں بھی یہاں تک کہ اس قلعے کی فصیل کے اندر بھی دشمن ہوں میں کی حفاظت کی خاطر اس نے چند ٹمٹی بھر جانثاروں کے ساتھ سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہو.اس جنگ میں کوئی توازن نہ تھا اور ہر سبب جو مدد گار ہو سکتا تھا بظاہر دشمن کے ساتھ تھا.یہاں تک کہ اس امر پر بھی دشمن کے ہر کیمپ کا سو فیصدی اتفاق تھا کہ خدا بھی اس شخص کے ساتھ نہیں.اگر چہ یہ امر وہ طے نہ کر پائے تھے کہ پھر اُن میں سے خدا کس کے ساتھ ہے.ویسے ہر ایک کا زعم اپنی اپنی امر جگہ میں تھا کہ خدا بس اسی کے کیمپ میں رونق افروز ہے.یہ بھی کہتے تھے کہ اور کسی کے ساتھ ہویانہ ہو مرزا صاحب کے ساتھ تو خدا بہر حال نہیں بلکہ اُن کا تو وہ ایسا دشمن ہے کہ آج نہیں تو کل سخت عبرتناک سزائیں دے کر ان کو اور اُن کے سلسلہ کو اپنے بے پناہ غضب کی چکی میں پیس ڈالے گا اور خاک تک ہواؤں میں اس طرح بکھیر دے گا کہ ڈھونڈے سے تاریخ دان کو ان کا نشان نہ ملے.

Page 165

۱۵۶ دشمن کی خواہش بھی یہی تھی اور ارادے بھی یہی تھے.چنانچہ مسلمان علماء میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب جو آپ کے دشمنوں کی صف اول میں تھے اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- مسلمانوں سے ہو سکے تو مرزا صاحب کی کل کتابیں سمندر میں نہیں، کسی جلتے تنور میں جھونک دیں.اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مورخ تاریخ بند یا تاریخ اسلام میں اُن کا نام تک نہ سے پہلے اگرچہ مندروں ، سکھوں مسلمانوں اور عیسائیوں کے دیرینہ اختلافات اپنی جگہ پر تھے لیکن اس مشترک دشمن کے عناد نے متحارب گروہوں کو بھی ایک قسم کی وقتی وحدت عطا کر دی تھی.خلاصہ کلام یہ کہ صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کا بچپین حس بالا فضا کے سایہ تلے پروان چڑھ رہا تھا وہ شدید مخالفت کے تاریک بادلوں کے اجتماع کے باعث برق ورعد کا ایک دل ہلا دینے والا منظر پیش کر رہی تھی.اس میں تھی یہ تر فلمیں بھی تھیں اور پے بہ پے بجلی کے کڑکے بھی.افق تا افق ہراتی ہوئی عداوت کی بے نیام تلواریں تھیں اور سر بفلک سیاہ بادلوں کے بیلنے سے پھوٹتا ہوا لبعض کا لاوا کتنی بھیانک تھی یہ فضا کوئی مخالفت کی مخالفت تھی!.کوئی شور سا شور تھا !!.یہ وہ گھٹا تھی جو چاروں سمت سے اُمڈ آئی تھی.کبھی آریہ سماج کے خیل در خیل بادل مشرق سے چنگھاڑتے ہوئے حملہ آور ہوتے تو کبھی عیسائیت کی تہ بہ تہ کثافتیں اُفق مغرب سے بجلیاں گرائیں.دیکھنا اب یہ ہے کہ شدید مخالفت کا یہ طوفان احمدیت کے قافلے کا رخ موڑنے میں یا اس کے قدم تھا منے میں یا اس کی جمعیت کو پراگندہ کرنے میں کیس حد تک کامیاب ہوسکا.یہ درست ہے کہ مخالفت کے شور و غوغا کے باوجود قافلے منزل بمنزل رواں دواں رہتے ہیں.لیکن کیا یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ سفاک لٹیروں اور بے باک رہزنوں کے خوفناک جملے بھی کسی قافلے کے قدم روکنے یا اس کی جمعیت کو پریشان کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ؟ یا بڑے بڑے پر ہیبت بادشاہوں کی فوج کشی بھی قافلوں کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی ہے نہیں.یقیناً درست نہیں.کیونکہ فوجوں کی یلغار کے راستوں پر تو قافلوں کے تصور سے بھی مسافروں کے دل دہلتے اور پتے پانی ہوتے ہیں.احمدیت کا قافلہ رواں دواں رہا.کوئی خوف ان خدا پرستوں کی راہ میں حائل نہ ہو سکا کوئی حملہ احمدیت کی رفتار ترقی کو روک نہ سکا.کوئی یلغار اسے تنزیل کی جانب پسپا نہ کر سکی بجلیاں گرتی رہیں.لیکن یہ آگ انہیں جلانے پر قدرت نہ پاسکی بادل گرج گرج کر فضا کا سینہ چاک کرتے رہے.لیکن مجاہدین احمدیت کے دلوں پر کوئی لرزہ پیدا نہ کر سکے له الحکم مادر جوان شده

Page 166

104 ظلمات کے پر دے تہ بہ تہ ہونے کے باوجود وہ نور بصیرت اُن آنکھوں سے چھین نہ سکے جو اندھیروں کے پڑے پھاڑ کر صراط مستقیم کی طرف سر آن رہنمائی کرتا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب اور اس شاندار مستقبل کے درمیان جس کا پیش گوئی میں وعدہ دیا گیا تھا پھولوں کی کوئی بیج نہیں بھی ہوتی تھی بلکہ قدم قدم پر کانٹے بھی تھے اور پھر بھی اور لاتعداد ایسے خطرناک موڑ بھی جن پر اگر یہاں سے بیچ نکلے...اور اگر یہاں سے بیچ نکلے کی شرخ حروف میں لکھی ہوئی تختیاں آویزاں تھیں.ہیمر کے ساتھ آپ کی زندگی کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا بیان تو بعد میں آئے گا بچپن کے جس دور پر ہم نظر ڈال رہے ہیں اس وقت تو ابھی دُنیا کے قانونِ فتح و شکست کے لحاظ سے ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ احمدیت کا کوئی وجود باقی بھی رہے گا.بلکہ اگر مخالف اور موافق تمام اسباب و عوامل کو کسی کمپیوٹر میں ڈالا جاتا بس صرف انہی مشعیت کا خانہ خالی چھوڑ دیا جاتا تو ہر بار طلا استشه وبلا شبہ کمپیوٹر کا جواب میں نکلتا کہ احمدیت چند سانسوں کی مہمان ہے.اس پر اگر خدا تعالیٰ کی تائید کو بھی مخالف خانے میں ڈال دیا جاتا تو پھر جو نتیجہ نکل سکتا تھا' وہ ظاہر ہے.جو قارتین اس تاریخ ساز معرکۂ حق و باطل کی تفاصیل میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں تاریخ احمدیت کی جلد سوم کا مطالعہ کرنا چاہیئے.ہم یہاں صرف ایک نہایت مختصر خاکہ پیش کرنے پر اکتفا کریں گے.اس کی ضرورت بھی محض اس لئے پیش آرہی ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی زندگی بعد ازاں مکمل طور پر احمدیت میں جذب ہو کر ایک ہی وجود کے دو نام بن گئی تھی لہذا ربط مضمون کی خاطر تاریخ احمدیت کے اس دور کے بنیادی ڈھانچہ سے شناسائی بھی ضروری ہے.نشاہ کے آخر میں پہلی مرتبہ حضرت مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ سے واضح باذن پا کر اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا اور اس سلسلہ میں ایک رسالہ بنام فتح اسلام تحریر فر مایا فتح اسلام امرتسرمیں ابھی زیر طبع ہی تھی کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اتفاقا اس کے پروف پریس سے منگوا کر دیکھے اور دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گئے عقیدت معا عداوت میں بدل گئی اور پھر یہ عدادت اتنی شدت اختیار کر گتی کہ جلد ہی جناب مولوی صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف یہ واشگاف اعلان جنگ کر دیا :- اشاعتہ السنہ کا قرض اور اس کے ذمہ یہ ایک فرض تھا کہ اس نے جیسا کہ اس کو (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام - ناقل) دعادی قدیمہ کی نظر سے آسمان پر چڑھایا تھا ویسا ہی ان دعاوی جدیدہ کی نظر سے زمین پر گرا دے گا.ے اشاعة السته جلد ۱۳ نمبر ا ص ۴

Page 167

۱۵۸ نیز مسلمانان ہند کو اشتعال دلانے کے لئے لکھا کہ : " فتنہ قادیانی ابھی فتنہ ہے کوئی دن میں قیامت ہوگا.اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مذہب وامن میں زیر دست انقلاب واقع ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے اشاعۃ السنہ کا رسالہ اس کی سرکوبی کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے، لہ..اس اعلان کے منظر عام پر آنے سے ملک بھر میں مخالفت کا طوفان بے تمیزی کھڑا ہو گیا.خود مولوی محمد حسین صاحب بیالوی نے حق کی آواز کو دبانے کا فیصلہ کر کے ہر لمحہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں وقف کر دیا اور اپنی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے اسی پرانے حربہ کو آزمانے کی ٹھانی جو ہر یا مور مین اللہ اور امام ربانی کے خلاف استعمال ہوتا آیا ہے یعنی زور بازو سے اس سلسلہ کو مثانے اور منہ کی پھونکوں سے اس چراغ کو نبھانے کے درپے ہو گئے چنانچہ پہلی کوشش اس سلسلہ میں آپ نے یہ فرمائی کہ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک طوفانی دورہ کیا اور علماء سے حضرت مرزا صاحب کے خلاف کفر و ارتداد کے فتوے حاصل کئے.پھر ان فتاوی کو قریہ بقری مشتہر کیا اور حضرت مرزا صاحب کے خلاف عوام کے دلوں میں شدید نفرت کا زہر بھر دیا.خود مولوی صاحب کے اپنے ارشاد کے مطابق : اس عرصہ میں مسلمانوں کے اس دوست نما دشمن عقائد قدیمہ اسلامی کے ریبزن و بیج کن (کاویانی) کے تعاقب میں رہا اور مشکل اور لطائف الجیل جولائی شدہ میں بمقام لدھیانہ اس کو جا پکڑا اور بارہ دن تک خوب رگیدا اور چتھاڑا اور ۲۱ جولائی کو ذلت کی شکست دیکر مار بھگایا.پھر دہلی میں پچھاڑا.پھر جب وہ لاہور اور سیالکوٹ پہنچا تو وہاں اس کا پیچھا کیا اور مباحثہ سے صاف و صریح انکار کرا کر بھگا دیا ہے مسلمان علماء میں سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری پر ہی اکتفا نہیں ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا عالم دین ہو جو حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت میں سرگرم عمل نہ رہا ہو.اور شاید ہی کوئی حربہ مخالفت کا ایسارہ گیا ہو جو حضرت اقدس کے خلاف استعمال نہ کیا گیا ہو.یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ہندوستان کی اکثر مسجدیں آپ کی مخالفت کا اکھاڑہ بن گئیں اور اکثر منبر ومحراب آپ ہی کے خلاف سب وشتم اور افترا پردازی کے لئے استعمال ہونے لگے.یہ مخالفت صرف مسلمان مسلید ته اشاعة السنة جلد ۱۴ نمبر اصدا لے اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ا صت ۴

Page 168

۱۵۹ تک محدود نہیں تھی بلکہ غیر مسلموں کے معاہد میں سے بھی بہت سے مندر اور کلیسا آپ کے خلاف سازشوں کی آماجگاہ بنے ہوتے تھے.کلیسا اور آریہ سماج کے اکثر ذہبی راہنما اس مخالفت میں پیش پیش تھے.چنانچہ ان تین شدید معاندانہ قوتوں نے آپ کے خلاف ہر سمت سے یلغار کر دی.یہاں یہ اظہار تعجب ہے جانہ ہوگا کہ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا انوکھا اور حیران کن واقعہ تھا کہ تین قومین جو باہم شدید مذهبی عناد رکھتی تھیں یعنی بند و عیسائی اور مسلمان کسی مد مقابل سے مشترک مذہبی عناد کی بناء پر باہم متحد ہوتے ہوں.پس حضرت مرزا صاحب کی دشمنی نے یہ عجیب معجزہ بھی دنیا کو دکھایا کہ کیا عیسائی اور کیا آریہ اور کیا دوسرے مذہبی رہنما بھائیوں کی طرح باہم شیر و شکر ہو کر حضرت مرزا صاحب کو ہلاک کرنے کے منصوبے بنانے لگے اور ایک متحدہ طاقت کے ساتھ آپ کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہوئے.اگرچہ یہ جنگ مذہب کے نام پر لڑی جارہی تھی لیکن یہ امر بھی بڑا تعجب انگیز ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے ان مذہبی معاندین کے نزیک کوئی اخلاقی ضابطہ حیات درخور اعتناہ نہ تھا.اس مخالفت میں انہوں نے ہر حربہ کو جائز سمجھا، ہر غلط اقدام کو راست جانا اور ہر بد خلقی پر جسارت کی اور سر بے باکی کو درست تصویر کیا.غرضیکہ اخلاقی اور مذہبی قیود سے کلیتہ آزاد یہ ایک انوکھی جنگ مقدس تھی جو انوکھے انداز میں ٹری گئی.اس مقدس جنگ میں حضرت مرزا صاحب کے خلاف ہر طرح کا جھوٹ اور بہتان اور لاف زنی ، حق کی خدمت منتصور ہو رہے تھے گویا جھوٹ کے کاندھوں پر بٹھا کر سچائی کا بول بالا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی.اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے خلاف جھوٹے مقدمے گھڑ کر اور جھوٹے گواہ پیش کر کے بزم خود انصاف کو قائم کیا جارہا تھا.شرافت اور نجابت کی اقدار کی حفاظت کے نام پر آپ کے خلاف ہر قسم کی مغلظات کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ مستحسن شمار کیا جاتا تھا.حتی کہ آپ کو قتل کرنے کی ترغیب کھلم کھلا محراب و منبر سے یہ بتا کر دی جاتی تھی کہ آپ کا قاتل اگر مارا گیا تو بلا روک ٹوک اور بلا تکلف سیدھا جنت الفردوس میں جائے گا.علاوہ ازیں ایذارسانی کے دوسرے تمام ممکنہ ذرائع بھی آپ کے خلاف استعمال کئے گئے.آپ کے متبعین کو کبھی سوسائٹی سے خارج کر کے اچھوتوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اور بھی اُن کے اموال و اسباب ٹوٹ کر فقیرانہ حالت میں گھروں سے بے گھر اور وطنوں سے بے وطن کر کے خالی ہاتھ اس کارگاہ عالم میں دھکیل دیا گیا.پھر کبھی اُن کی بیویوں کو اُن پر حرام قرار دے کر رستے بستے -

Page 169

14- گھروں کو اجاڑا گیا اور کبھی ماں باپ بہن بھائیوں سے جُدا کر کے یکہ و تنہا اس دنیا کی تلخیاں سہنے کے لئے چھوڑ دیا گیا.بارہا ان کو زدوکوب بھی کیا گیا اور دردناک جسمانی اذیتیں بھی پہنچائی گئیں اوربسا اوقات انہیں قتل یا سنگسار کر کے احمدیت کو نابود اور اپنے بغض و حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی حضرت مرزا صاحب کے جلسوں پر پتھراؤ کیا گیا اور انہیں ناکام بنانے کے لئے انجان عوام الناس کو غول در غول بھیجوایا گیا جو شور و غوغا کر کے حضرت مرزا صاحب کو گالیاں دے کر اور چھاتیاں پیٹ کر مرزا ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہوئے حاضرین جلسہ کو سماعت سے محروم رکھتے یا مرعوب کر کے منتشر کرنے کی کوشش کیا کرتے.فنادی کفر کا یہ عالم تھا کہ صرف ایک مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا فتوئی ہی ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل گالیوں کا ایک مرفع تھا.ہندوستان کا شاید ہی کوئی مشہور شہر یا قصبہ ایسارہ گیا ہو جس کے علماء نے اس مغلظات سے پر فتوی کفر و الحادیر اپنے دستخط کر کے مُہر تصدیق ثبت نہ کی ہو.اس مخالفت کی کہانی طویل اور افسوسناک ہے.مختصر یہ کہ مخالفین کی غوغا آرائی اور شور و شر نے ہندوستان کی مذہبی فضا میں ایک تہلکہ مچارکھا تھا.انفرادی طور پر بھی آپ کے قتل کی کوششیں کی گئیں.عدالت کے دروازے کھٹکھٹا کر آپ کو بحیثیت ایک قاتل سزا دلوانے کی کوشش بھی کی گئی اور حکومت وقت کو بھی آپ سے بدظن کرنے کی خاطر آپ کو ایک خونی مہدی اور باغی سردار کے طور پہ پیش کیا گیا.یہاں تک کہ آپ کو ہلاک کرنے کی یہ کوششیں دنیاوی ذرائع کی حد تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ عرش کے خدا کو بھی اپنی مدد کے لئے بلایا گیا.پس شیم فلک نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ ایک طرف مسلمان علماء آپ پر تعنتیں بھیجتے اور سجدہ گاہوں پر یہ پیشانیاں رگڑتے ہوئے اپنے رب سے یہ التجا کر رہے تھے کہ اے خدا ! اس دشمن دین کو ہماری آنکھوں کے سامنے بلاک کر کے اس کے نام ونشان تک کو اس دنیا سے مٹا دے اور ہمیں دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما تو دوسری طرف بڑے بڑے عیسائی جبہ پوش پادری اس مزعومہ دشمن دین کی ہلاکت کے لئے ہاتھ باندھے کھڑے تھے.پھر ان دُعا کرنے والوں کی صف میں پنڈت لیکھرام اور اس کے چیلے چائے بھی بھجن گاتے ہوتے شریک تھے.بلکہ یہ اعلان بھی کر رہے تھے کہ پر ہاتما نے مرزا قادیانی کی ہلاکت آسمان پر لکھ دی ہے اور یہ خود اور اس کی تمام اولاد ہماری آنکھوں کے سامنے رسوا اور ذلیل اور ہلاک اور نابود ہو جائے گی یہاں تک کہ قادیان کی بستی میں بھی کوئی ان کا نام جاننے والا باقی نہ رہے گا.لے تفصیل کے لئے دیکھیں تاریخ احمدیت جلد دوم ص ۱۹۴ "..

Page 170

191 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر آپ کا روز و شب بڑھتا ہوا ایمان حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے جس فضا میں بچپن گزارا اس کا ایک مختصر نقشہ گذشتہ باب میں کھینچا گیا ہے.دو برعکس اور متقابل زاویوں سے آپ نے اپنے باپ کو دیکھا.ایک طرف معاندین او اعداء کی یہ کثرت اور عداوت کی یہ شدت تھی تو دوسری طرف یقین و معرفت کے ہتھیاروں سے مسلح ایک روز و شب بڑھنے والی عاشقوں اور جاں نثاروں کی وہ چھوٹی سی جماعت تھی جو پروانہ وار آپ کے گرد جمع ہو رہی تھی.ایک زاویہ نگاہ سے آپ کے والد دنیا والوں کی نظر میں ہی مغضوب و مقہور نہیں بلکہ خود عرش کے خدا کی شدید نفرت اور قہر کا نشانہ تھے تو دوسرے زاویہ کی رُو سے آپ خدا کے ایک فرستادہ اور محبوب بندے تھے جن پر خدا والوں کی ایک جماعت اذن کی منتظر ہر دم جاں نثار کرنے کو تیار کھڑی تھی.اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں متضاد زاویہ ہائے نگاہ سے کئے گئے ان مخالف نظاروں میں سے کسی کا اثر آپ کی طبیعت پر غالب آیا ؟ کس کو آپ نے ٹھوس حقیقت سمجھا اور کس کو محض نظر کا ایک غریب جانا ہے.یہ فیصلہ آپ کے لئے چنداں مشکل نہ تھا.ایک کمزور فر د بشر کے گرد جمع ہوتے ہوئے چند کمزور انسانوں کو آپ نے لاکھوں کروڑوں جابر انسانوں کے نرغے میں گھرے ہوئے دیکھا جو یہ دعوی بھی رکھتے تھے کہ رش کا خدا انہی کے ساتھ ہے.لیکن ہر بار جب وہ حضرت مرزا صاحب اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوئی کوشش کرتے تو بری طرح ناکام اور خائب و خاسر ہو جاتے.نابود کرنا تو در کنار وہ اُن کی جمعیت کو ذرہ بھر پریشان کرنے پر بھی قدرت نہ پا سکے.اس کے برعکس ہر حملے اور پر یلغار کے بعد حضرت مرزا صاحب اور آپ کے متبعین کی طاقت کیا بلحاظ کمیت اور کیا بلحاظ کیفیت پہلے سے بڑھتی ہی چلی گئی اور ہر بار معرکہ آرائی کا گرد و غبار چھٹنے کے بعد آپ نے اس بظاہر کمزور اور ناتواں جماعت کو خاک مذلت میں ٹوٹتا ہوا دیکھنے کی بجائے عزت و مرتبت کے بلند تر مقامات پر جلوہ افروز پایا یکے بعد دیگرے آپ نے اپنے بزرگ والد کے مخالفین کو اُن کی بربادی کی حسرت لئے ہوئے اس دنیا سے

Page 171

۱۶۲ رخصت ہوتے دیکھا.کیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور کیا ڈوئی اور کیا لیکھرام ، ایک کے بعد دوسرے نے آپ کو نیچا دکھانے کا دعوی کیا اور خدا تعالیٰ کی نصرت کا ادعا لے کر اٹھا لیکن ایک کے بعد دو مصرا اپنی تمام کوششوں کی ناکامی اور اپنی تمام دُعاوں کی نامرادی کا منہ دیکھتا ہوا اس عظیم مذہبی اکھاڑے سے رخصت ہوا.پھر وہ دن بھی آیا جب کہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے رب کے حضور حاضر ہونا تھا.ایک روز انرش ترقی کرتی ہوئی بڑھتی ہوئی پھلتی پھولتی اور پھلتی ہوئی جماعت آپ کو میسر آچکی تھی جو تنزل کے نام سے نا آشنا تھی.بلند حوصلے لئے ہوئے ستاروں پر کمندیں ڈالتی ہوئی وہ ہر لحظہ قدم آگے اور صرف آگے بڑھانا جانتی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے یہ دن بھی دیکھا.یہ وہ دن تھا جب کہ خود آپ کی ہلاکت اور بربادی کی پیشگوئیاں کرنے والے پنڈت لیکھرام کو خائب و خاسر اور بے اولاد مرے ہوئے گیارہ برس گزر چکے تھے.خدا کس کے ساتھ تھا اور کس کے ساتھ نہیں.کیا ان حالات میں یہ فیصلہ کرنا اس زیرک نوجوان کے لئے بلکہ دنیا کے کسی بھی صاحب فراست کے لئے کچھ مشکل ہو سکتا تھا.نہیں اور یقینا نہیں.اس شدید دنیوی مخالفت کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی قطعی اور لافانی تائیدی شہادت نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے قلب و روح پر جو اثر ڈالا وہ اپنے والد کی سچائی پر ایک غیر متزلزل کرے اور محکم ایمان کی صورت میں ظاہر ہوا جسے دنیا کی کوئی قوت کوئی طوفان اور کوئی زلزلہ جنیش نہ دے سکتے تھے.چنانچہ باپ کی مقدس لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر آپ نے اپنے جذبات کے لاوے کو ایک عزم صمیم کی صورت میں ڈھالا اور ایک ایسا عہد کیا جو تاریخی بھی تھا اور تاریخ ساز بھی ! یہ ایک عظیم مشاق تھا جس نے آپ کی بقیہ زندگی کو اپنے مضبوط بندھنوں میں جکڑ دیا اور ایک خاص قوت اور ایک خاص و البیت اور ایک خاص جذبہ شوق کے ساتھ ایک خاص سمت میں ایک خاص راہ پر ہمیشہ ہمیش کے لئے گامزن کر دیا.اس عہد کا تفصیلی ذکر انگلے باب میں کیا جارہا ہے.

Page 172

باب سوم حضرت مسیح موعود ع السلام کا وصال خلافت اولی کا قیام حضرت صاحبزادہ صاحب کی استحکام خلافت کیلئے عظیم خدمات دیگر مشاغل اور مصروفیات

Page 173

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال اور تدفین.حضرت صاحبزان صاحب کا ایک تاریخی عہد.جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا قیام.نظام خلافت کے استحکام کے لئے جد و جہد - حضرت خلیفہ مسیح الاول ضی اللہ عنہ سے کامل اطاعت اور وفا کا تعلق.حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک اہم رویا تقریر و تحریر - طرز خطابت اور اس کے گہرے اثرات.رشحات قلم کے چند نمونے.بعض دیگر اہم اور دور رس علمی خدمات : رسالہ تشعید الازبان کا اجرا و احمدیہ دار المطالعہ لائبریری کا قیام اخبار الفضل کا اجراً مالی مشکلات حضرت صاحبزاں صاحب کا منظوم کلام - مختلف سفروں کی رو نداد - محمود کی کہانی محمود کی زبانی.حج بیت اللہ اور سفر مصر -

Page 174

۱۶۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال اور تدفین..حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے ساتھ ہی حضرت صاحبزادہ مرز البشیر الدین محمود احمد صاحب کی ابتدائی تربیت کا عہد آفریں دور ختم ہوا اور آپ نے ایک نئے دور میں قدم رکھا جو آپ کے عہد کی آزمائشوں کا دور تھا لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس دور کی تفاصیل پر نظر ڈالیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے عظیم سانحہ کے متعلق کچھ اور تفاصیل بیان کریں.کیونکہ یہ واقعہ اس دور کا ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس کا محض اُچٹتا ہوا ذکر نہ تو لکھنے والے کی پیاس بجھا سکتا ہے اور نہ پڑھنے والے کی.گذشتہ صفحات میں قارئین جگہ جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایسی پیشگوئیوں یا تمناؤں کا ذکر پڑھ چکے ہیں جن کے پورا ہونے کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات (معاذ اللہ ) ایک انتہائی مایوسی ناکامی اور نامرادی کی وفات ہوئی چاہتے تھی.احمدیت یعنی اسلام کے از سرنو زندہ ہونے کی وہ عالمگیر تحریک جس کی باقاعدہ بنیاد حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے شملہ میں بھی آپ کے دعوئی کے مطابق یہ کوئی انسانی تحریک نہیں تھی بلکہ الہی منشا کے مطابق یہ وہی تحریک تھی جس کی خوشخبری انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حضرت مسیح کے نزول اور کبھی مہدی کے ظہور کے طور پر فرماتی تھی.یہ تحریک جیسا کہ ظاہر ہے انتہائی کمزوری کے عالم میں شروع ہوئی جب کہ ہندوستان بھر میں صرف گنتی کے چند حق شناس بزرگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی ابتدا کی.ظاہر ہے کہ یہ وقت احمدیت کی تاریخ میں انتہائی کمزوری کا وقت تھا اور اس کے مقابل پر احمدیت کا دشمن اپنی نوعیت کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے اتنا قوی اور غالب نظر آتا تھا کہ باہمی نسبت کے لحاظ سے ایسی قوت اسے پھر کبھی نصیب نہ ہوئی.مختصراً اب ہم دیکھیں گے کہ حضرت مرزا صاحب کے وصال کے وقت احمدیت کس مقام پر کھڑی تھی.کیا اس کی کمزوری میں دشمن کے پے بہ پے حملوں کی وجہ سے اضافہ ہوا تھا یا بر کس صورت حال تھتی.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کا وصال ۲۶ مئی نشہ کو لاہور کے مقام پر ہوا.آپ نے یہ سفر ایک دینی اور تبلیغی مہم کے سلسلہ میں اختیار فرمایا تھا.اگر چہ اس سفر سے قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کو باربار

Page 175

144 قرب وصال کی خبر دی تھی لیکن احباب جماعت اپنی بے پناہ محبت کی وجہ سے یہ وہم بھی نہ کر سکتے تھے کہ ان کے روحانی آقا عنقریب انہیں داغ مفارقت دینے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے قرب وصال کی جو خبریں دیں ان میں ایک خاص قابل ذکر خیر یہ بھی تھی : دو , " الرحيل ذ ثُمَّ الرَّحِيل نه i یعنی سفر آخرت ایک سفر میں پیش آئے گا.ان واضح الہامات کے نتیجہ میں یا ویسے ہی گھرے قلیمی اور روحانی تعلق کی وجہ سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو اس سفر میں ایک دھر کا سا: لگ گیا تھا اور طبیعت میں سخت بے کلی بے چینی اور غم کے جذبات پیدا ہو گئے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہے :- " حضرت صاحب کی وفات سے پہلے ایام کا ذکر ہے کہ ملک مبارک علی صاحب تاجر لا ہور روز شام کو اس مکان پر آجاتے جس میں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے تھے اور جب حضرت صاحب باہر سیر کو جاتے تو وہ اپنی لکھی میں بیٹھ کر ساتھ ہو جاتے تھے.مجھے سیر کے لئے حضرت صاحب نے ایک گھوڑی منگوا دی ہوئی تھی.میں بھی اس پر سوار ہو کر جایا کرتا تھا اور سواری کی سڑک پر گاڑی کے ساتھ ساتھ گھوڑی دوڑاتا چلا جاتا تھا اور باتیں بھی کرتا جاتا تھا.لیکن جس رات کو حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپ نے فوت ہوتا تھا، میری طبیعت پر کچھ بوجھ سا معلوم ہوتا تھا.اس لئے میں گھوڑی پر سوار نہ ہوا.ملک صاحب نے کہا میری گاڑی میں ہی آجائیں.چنانچہ میں اُن کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی میرا دل افسردگی کے ایک گہرے گڑھے میں گر گیا اور یہ مصرعہ میری زبان پر جاری ہو گیا کہ : 4 راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو ملک صاحب مجھے اپنی باتیں سنائیں.میں کسی ایک آدھ بات کا جواب دے دیتا.تو پھر اسی خیال میں مشغول ہو جاتا.رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یکدم ترقی کر گئی اور صبح آپ فوت ہو گئے.یہ بھی ایک تقدیر خاص تھی جبس نے مجھے وقت سے پہلے اس ناقابل برداشت صدمہ کے برداشت کرنے ے تذکرہ طبع سوم مره

Page 176

144 کے لئے تیار کر دیا ہے علاوہ ازیں جب آپ اپنی حرم محرمہ حضرت ام نا صر صاحبہ رضی اللہ عنہا کو اپنے سسرال سے بلانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس وقت بھی آپ کے دل میں یہی کھٹکا لگا ہو ا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو جاتے اور میری ہو گی وہاں موجود نہ ہو.بهر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال حسب العامات ایک سفر کے دوران ہوا غلط جب کہ آپ لاہور میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے ہاں قیام پذیر تھے.یہ وصال مذکورہ بالا استثناء کو چھوڑ کر اپنوں اور غیروں.دونوں کے لئے اچانک اور غیر متوقع تھا.آپ کے متبعین اور محبان پر آپ کے وصال کے سانحہ کی خبر بجلی بن کر گری اور ایک ایسا شدید غم آپکی جماعت کو پہنچا جس کی مثال کسی دنیوی رشتہ میں نظر نہیں آتی.ہاں باپ بیجوں اور بہن بھائیوں کے وفات کے منظر بڑے روح فرسا ہوتے ہیں لیکن دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ جیسا تم آپ کے ماننے والوں کو آپ کی جدائی کا تھا اس کی کوئی نظیر دنیوی رشتوں میں نہیں ملتی.اس نظم کے ساتھ فکر کا پہلو بھی نمایاں تھا.اور بکثرت زمینوں میں سوال اُٹھ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا اور احمدیت کا کیا بنے گا.اس کے مقابل پر آپ کے دشمنوں کے کیمپ میں اس خبر کے نتیجہ میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے اور مولویوں کے بہکاتے ہوتے سادہ لوح عوام تو اس فہمی میں کہ نعوذ باللہ اسلام کا کوئی بڑا دشمن مرا ہے ناچتے اور شور مچاتے شہر کی گلیوں میں نکل آئے اور تالیاں پیٹتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے وصال کے سانحہ کو ایک عظیم الشان مستوار کی طرح منایا.انکی خوشی بھی محبان کے غم کی طرح دوسری خوشی تھی کیونکہ اس وفات میں دشمن کو صرف آپ ہی کی وفات نظر نہیں آئی بلکہ انہوں نے اس میں گویا احمدیت کو مرتا ہوا گمان کیا اور یقین کر لیا کہ اب چند ہی دن میں وہ اس تحریک کا جنازہ نکلتا ہوا دیکھ لیں گے.پس ایک طرف دوسرے غم و فکر میں مبتلا ایک اندوہ میں جماعت تھی اور دوسری طرف دوسری مسترتوں میں سرشار ایک انبوہ کثیر سند دستان کے متعدد قصبات کی گلیوں اور بازاروں میں نکل کر تالیاں پیٹتے سیٹیاں بجاتے اور آوازے کستے ہوئے اپنی بے پناہ مسرت کا اظہار کر رہا تھا.آیتے اب دیکھیں کہ احمدیت اس وقت کسی مقام پر کھڑی تھی.وہ جماعت جس کی ابتدا نہ میں لدھیانہ کے مقام پر صرف چالیس افراد کے عہد بیعت سے ہوئی تھی، آپ کے وصال کے وقت سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک پہنچ چکی تھی.آپ کی طرف عوام و خواص کا بعض دنوں میں تو اس شدت سے..ه تقدیر الهی، تقریر حضرت مصلح موعود جاب الانه ۱۵ ص ۱۸۹ ۱۹۰

Page 177

رجوع ہوتا تھا کہ بعیت کے خطوط لانے والا ہرکارہ ایک وقت میں اس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتا تھا.چنانچہ دودو..یا تین تین دفعہ تھیلے بھر بھر کر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی خدمت میں لے کر آیا کرتا تھا.قادیان میں آنے والے زائرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ آخر مہمان خانے اور دارالضیافت کے قیام پر منتج ہوا.اس میں بیسیوں مہمان قیام فرماتے جو حضرت صاحب کی زیارت کے لئے دور دراز مقامان سے حاضر ہوا کرتے تھے.ان دنوں بٹالہ سے قادیان تک کا بارہ میل کا سفر سیدل یا یکے کے ذریعہ کیا جاتا تھا.زائرین یکہ میانہ ہونے کی صورت میں بٹالہ میں انتظار کرنے کی بجائے پیدل سفر کو ترجیح دیتے اور شوق زیارت میں کشاں کشاں پیدل ہی قادیان کی سمت روانہ ہو جاتے.آپ کی طرف خلقت کا یہ رجوع دشمنوں کے لئے اس قدر فکر اور تشویش کا موجب تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے تو اپنا یہ دستور بنا لیا تھا کہ جب فرصت ملتی.بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر قادیان کی سمت جانے والے زائرین کو سمجھا مجھا کر آپ کی زیارت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے لیکن زیارت کا یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا ہی رہا اور کوئی مخالفانہ کوشش مہجوم خلائق کو آپ تک رسائی پانے سے روک نہ سکی.اس ضمن میں یہ دلچسپ واقعہ لکھنے کے لائق ہے کہ ایک بیعت کرنے والے نے تو اپنی بیعت کی وجہ ہی یہ بیان کی کہ میں اللہ تعالٰی کی اس فعلی تائید کو دیکھ کر حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر ایمان لے آیا ہوں کہ ایک طرف تو مولوی محمد حسین صاحب بنا لوی ہیں جن کی جوتیاں گھس گئیں لوگوں کو حضرت مرزا صاحب کی زیارت سے روکنے کی کوشش میں اور دوسری طرف یہ حال ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے شوق نے لوگوں کی جوتیاں گھسا دی ہیں اور وہ قادیان کے چکر لگاتے ہوئے نہیں تھکتے.بهجوم خلائق کا رجوع قادیان کی جانب اتنا بڑھا کہ بٹالہ سے قادیان کو جانے والی سڑک پر زائرین کی آمد و رفت کی کثرت سے گڑھے پڑگئے اور حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کا وہ الہام معنا اور لفظاً پورا ہوا جس میں سالہا سال پہلے یہ خبر دی گئی تھی کہ : تأتيكَ مِنْ كُلِّ نَجْ عَمِيقٍ ديالونَ مِنْ كُلِّ نَجْ عَمِيقٍ له یعنی تیری طرف آنے والے لوگ اور تیری طرف آنے والے سامان گھرے گڑھوں والے راستوں پر سے گزر کر آئیں گے.ه تذکره طبع سوم ص۳۵۶

Page 178

149 خلائق کا یہ رجوع صرف پنجاب تک محدود نہیں تھا بلکہ شمال، جنوب مشرق اور مغرب غرض ہندستان کا کوئی ایسا خطہ باقی نہیں رہا جہاں سے حضرت مرزا صاحب کی زیارت کی غرض سے لوگ حاضر نہ ہوتے ہوں.پھر ہندوستان تک ہی یہ بات محدود نہ تھی بلکہ مشرق وسطی یورپ اور امریکہ کے دور دراز ممالک کے باشندے بھی قادیان کی اس گمنام بستی میں حاضر ہونے لگے.اسی رجوع خلائق کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں : میں تھا غریب و بے کس و گمنام دبے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا آپ کے وصال سے قبل ہندوستان کے ہر گوشہ میں آپ کی جماعت کی شاخ قائم ہو چکی تھی.جنوبی ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں بھی آپ کے دعاوی کو بر حق تسلیم کر لیا گیا تھا اور ہندوستان سے باہر بعض عرب ممالک میں بھی آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مرسل اور مامور ربانی کے طور پر قبول کیا جارہا تھا.اسی طرح امریکہ میں بھی آپ کے متبعین کی جماعت قائم ہو چکی تھی اور افغانستان کی سنگلاخ سرزمین میں تو نہ صرف یہ جماعت قائم ہوئی بلکہ بعض مخلصین نے اپنے خون کی قربانی دے کر آپ کے دعادی اور اپنے ایمان کی صداقت پر شہادت کی ابدی مہر تصدیق ثبت کر دی تھی.جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے، وہ بھی آپ کی زندگی ہی میں مضبوط خطوط پر قائم کیا جا چکا تھا بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے ایک دینی مدرسہ اور تعلیم الاسلام سکول کا اجرا ہو چکا تھا.کثرت سے آنے والے مہمانوں کے لئے ایک باقاعدہ مہمان خانہ کا قیام عمل میں آچکا تھا.متعدد اخبارات ورسائل شائع ہو رہے تھے اور سلسلہ کے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لئے چندہ جات کے ایک باقاعدہ نظام کی بنیاد بھی ڈال دی گئی تھی جس کی رُو سے جماعت میں شامل ہونے والے ہر شخص پر یہ لازم آتا تھا کہ وہ اپنی آمد میں سے کچھ نہ کچھ مقرہ رقم با قاعدہ پابندی کے ساتھ اشاعت اسلام کی غرض سے چندہ کے طور پر ادا کیا کرے.ه بر این احمدیہ حصہ تیم ما

Page 179

مالی قربانی کے علاوہ جانی قربانی کا بھی اس رنگ میں مطالبہ کیا جار ہا تھا کہ مخلصین جماعت اشاعت اسلام کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کریں.چنانچہ اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے بہت سی سعید رو میں نذر جاں لئے ہوئے قادیان میں حاضر ہو رہی تھیں ایک اور انقلاب آفریں نظام جو حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا نظام وحیت تھا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے رویا میں ایک ایسا مقبرہ دکھایا جس میں آپ کے علاوہ آپ کے ایسے متبعین نے دفن ہونے کی توفیق پانی تھی جو تقویٰ اور طہارت کے اعلی مقام پر فائز ہوں اور اسلام کے عالمگیر جہاد کی خاطر قربانی کا ایسا شاندار نمونہ پیش کرنے والے ہوں کہ تازندگی اپنی آمد کا کم از کم بر حصہ خدمت دین کے لئے پیش کریں اور یہ وصیت کریں کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کی جائیداد کا کم از کم بار حصہ جماعت احمدیہ کو اس مرض سے پیش کر دیا جائیگا کہ اسے خدمت دین محمد پر خرچ کیا جائے.چنانچہ اس منشائے الہی کی تعمیل میں آپ نے نظام وصیت کی بنیاد رکھی.یہ تمام امور بڑے امید افزا تھے اور اس کلماتی کونپل میں ایک عظیم شجرہ طیبہ کی جھلک ہر صاحب فراست کو نظر آرہی تھی.اس پر احمدیت کے نقطہ نگاہ سے ایک بہت ہی باعث تسکین امر یہ تھا کہ جس موعود بیٹے کی خبر دے کر اس کی ترقی کے ساتھ احمدیت اور اسلام کی ترقی وابستہ کی گئی تھی وہ زندہ صحت و عافیت کے ساتھ صحیح جنگ میں تربیت پاتا ہوا ایسے راستہ پر چل پڑا تھا جس کا رخ پہلے سے مقرر کردہ مقصود کی جانب تھا.احمدیت اس مقام سے گزر رہی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا اور اس اچانک صدمہ کے نتیجہ میں الا ماشا اللہ اکثر مخلصین جماعت بشری تقاضے کے ماتحت گھبرا گئے اور سخت پریشان ہو گئے کہ اس عظیم آسمانی وجود کی جدائی کے بعد اب اس جماعت کا کیا بنے گا جو اس کے سایہ عاطفت کے نیچے پرورش پا رہی تھی.یہی وہ وقت تھا جب کہ مخالفین جماعت کی میدوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی.لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو دونوں جماعتوں کے جذبات میں بعد المشرقین ہونے کے باوجود زبانِ حال سے دونوں کا فیصلہ ایک ہی تھا کہ جب تک حضرت مرزا صاحب زندہ تھے آپ کی قیادت وسیادت کی عظمت کے نتیجہ میں آپ کے مشن کا کوئی بال بیکا نہ کر سکتا تھا لیکن آپ کے وصال کے بعد دشمنوں کے لئے نقصان دہی کے مواقع اور دوستوں کیلئے خطرات کے آثار پیدا ہو گئے تھے.دوسرے لفظوں میں احمدیت کے دشمنوں اور محبتوں دونوں ہی نے مذکورہ بالا ہے اختیار

Page 180

141 تو عمل کے اظہار سے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی عظیم شخصیت کو اپنے اپنے رنگ میں خراج سین پیش کیا.اگر چه کسی متعصب اخبارات نے اس موقع پر سخت غیر شریفانہ رویہ اختیار کیا لیکن دنیا تے صحافت میں ابھی وسعت حوصلہ باقی تھی اور انصاف عنقا نہیں ہوا تھا.چنانچہ مشاہیر اہل قلم نے جو اظہار کیا.اس کے چند نمونے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں.مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا :- شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تا.اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو نہ ہی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب اہستی کو بیدار کرتا رہا.خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا...مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مثانے کے لئے اُسے امتداد زمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں، دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.میرزا صاحب کی اس رفعت نے اُن کے بعض دعا دی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کر دیا ہے کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جدا ہو گیا.اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی، خاتمہ ہو گیا.اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جزئیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے شمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا، آئندہ بھی جاری رہے.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے

Page 181

۱۷۲ ظہور میں آیا ، قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہر گز اوج قلب سے نیا منیا نہیں ہو سکتا جب کہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حا فظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے تصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل ودولت کی زبر دست طاقیتں اس حملہ آور کی نیشت گرمی کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا....کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدا فعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدا فعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑاتے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں اور لاکھوں مسلمان اسکے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اُڑنے لگا...غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہر علی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے.مرزا صاحب اور مولوی محمد

Page 182

قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خوانی جا بجا آغاز کی تھی، اُن کا تعاقب شروع کر دیا تھا.ان حضرات نے عمر بھر سوامی جی کا قافیہ تنگ رکھا.جب وہ اجمیر میں آگ کے حوالے کر دیئے گئے اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرہ سے انسویں صدی کے ہند و ریفارمر کا چڑھایا ہوا ملمع اتارنے میں مصروف رہے.اُن کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے، نا ممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جا سکیں.فطری ذہانت اعشق و مهارت اور سلسل بحث و مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک شان خاص پیدا کر دی تھی.اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر بھی اُن کی نظر نہایت وسیع تھی اور وہ اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے.تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ اُن میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب وملت کا ہو.اُن کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑھاتا تھا.ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور با ہمی شکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں اس کی نظیر غالباً دنیا میں کسی جگہ سے نہیں مل سکتی.مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی اُن میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی اُن کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا.آئندہ امید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اہلے خواہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دے“.- (بحوالہ تبد یا قادیان ارجون شنشله ص ۳۰۲) ۸

Page 183

تہذیب نسواں لاہور میں سید ممتاز علی صاحب نے لکھا :- مرزا صاحب مرحوم نهایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت ** باخبر عالم بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں مذہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے تھے لیکن اُن کی ہدایت در مہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تخفی" سے منشی سراج الدین صاحب ( والد ماجد مولانا ظفر علی خاں صاحب) ایڈیٹر اخبار زمیندار نے لکھا: " آپ بناوٹ اور افترا سے بری تھے.مسیح موعود یا کرشن کا اوتار ہونے کے دعا دی جو آپ نے کتنے ، اُن کو ہم ایسا ہی خیال کرتے ہیں جیسا کہ منصور کا دعوئی انا الحق تھا..گو ہمیں ذاتی طور پر مرزا صاحب کے دعادی یا الہامات کے قاتل اور معتقد ہونے کی عزت حاصل نہ ہوئی.مگر ہم اُن کو ایک پکا مسلمان سمجھتے تھے یہ ہے کر زن گزٹ دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی صاحب نے لکھا : مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اُس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں، وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اُس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لرسحر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا....اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی سند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں...اس کا پرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارت میں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے...اس نے ملاکت کی پیشگوئیوں، مخالفتوں اور نکتہ چینوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف ے مواد تشخید الازبان جلد سو عنبر ، اسلام کے بجوار بعد یہ قادیان ۲۵ جون نشده ص ۱۳

Page 184

140 کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا ہ لے آریہ تیتر کا نے لکھا : عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، اس کی نسبت آپ کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے.مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی بھی دوستانہ نہیں ہوئے اور جب ہم آریہ سماج کی گذشتہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو ان کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے " سے بحوالہ اگریم اندر" لاہور نے لکھا :- اگر ہم غلطی نہیں کرتے تو مرزا غلام احمد صاحب ایک صفت میں حضرت محمد (صلعم) صاحب سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا.خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا.اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی "" بر مجھ پر جارک نے لکھا :- " ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ کیا بلحاظ لیاقت اور کیا بلحاظ اخلاق اور شرافت کے ایک بڑے پایہ کے انسان تھے مجھے پاؤ نیز " الہ آباد نے لکھا :- "اگر پچھلے زمانہ کے اسرائیلی نبیوں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آکر دنیا میں اس وقت تبلیغ کرے تو بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں نہ ہو گا جیسے کہ مرزا غلام احمد قادیانی معلوم ہوتے تھے...مرزا غلام احمد صاحب کو اپنے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا.اور وہ کامل صداقت اور خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ اُن کو خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے...انہوں نے بشپ ویلڈن (بشپ سیفرائے چاہیئے ناقل) کو چیلنج دیا کہ نشانوں میں اُن کا مقابلہ کریں...اور اس مقابلہ کا یہ نتیجہ قرار دیا کہ تا فیصلہ ہو کہ سلسلہ احمدیه که اساس تشخید الاذہان نشده ص۳۳۲ سے تشحید الاذہان نشده ۳۸۲ بحوالي بحوالي

Page 185

164 سچا مذہب کون را ہے...بہر حال قادیان کا نبی ایک ایسا انسان تھا جو ہر روز دنیا پر نہیں آیا کرتے.اُن پر سلامتی ہو نہ سکے مولوی نور محمد صاحب نقشبندی نے لکھا :- " اُسی زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت ہے کہ اور حلف اُٹھا کر وہابیت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنائوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تاہم برپا کیا.اسلام کی سیرۃ و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرۃ رسول اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور اُن کی سیر جن پر اس کا ایمان تھا.یکساں تھے.پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا.مگر حضرت بیٹے کے آسمان پر جسم خاکی زندہ ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا یہ تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے ! بفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عینی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور میں عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنایہ پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا.اور اس ترکیب سے اس نے ہند دوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی تے ه بود رشید الا زبان جلد ۳ نمبر » ننشده عن ۳-۳۰۲ کے دیباچه بر ترجمه قرآن مجید موسوی اشرف علی صاحب تھانوی از مولوی نور محمد صاحب نقشبندی - مالک اصبح المطابع من ۳

Page 186

166 حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کا ایک تاریخی عہد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تدفین کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب صبر و عزم کا بیسیکر بنے ہوئے نہایت وقار کے ساتھ اپنے خالی گھر واپس تشریف لائے.وہ گھر جو اپنے پیارے باپ اور کے مقدس امام کے وجود سے خالی ہو چکا تھا جس میں نہ تو امامت در شے کے طور پر پیچھے چھوڑی گئی تھی نہ ہی دنیا کے اموال و اسباب اور نعمتوں کے سامان.لیکن جیسا کہ آپ کی بزرگ والدہ نے اپنے سب ؟ کو جمع کر کے وصیت فرمائی ، حقیقت میں یہ گھر خالی نہ تھا.آپ نے فرمایا : بیجو با گھر خالن دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے.انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ھے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا " سے پس اس دن کے بعد کی تاریخ اسی بھاری خزانے کی تقسیم کی تاریخ ہے جو اللہ تعالٰی کے فضلوں کی صورت میں اس نوجوان پر خصوصیت کے ساتھ اور باقی بہن بھائیوں پر بالعموم حسب مراتب ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قدر معلوم کے مطابق نازل ہوتا رہا.صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور اس سفر البشیراء کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے مرحوم آقا سے جُدائی کے بعد اس کی دعاؤں کے سائے تلے آپ کو تن تنہا طے کرنا تھا.یہ سفر ایک مخصوص منزل کی جانب اور ایک معین قبلہ کی طرف تھا جس کی تعیین خود حضرت صا حبزادہ صاحب نے اپنے مرحوم باپ کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر کی تھی.یہ ایک مقدس عہد تھا جو آپ نے اپنے رب سے کیا اور پھر تا زندگی پوری وفا اور عزم اور ہمت کے ساتھ اس پر قائم رہے.اپنی زندگی کے ان عہد آفریں لمحات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- " 194 له الفضل ۱۹ جنوری ۱ روایت حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه وظلمها

Page 187

" حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے آخری لمحے تھے اور آپ کے ارد گرد مرد ہی مرد تھے مستورات وہاں سے بہٹ گئی تھیں.چار پانی کے تینوں طرف مرد کھڑے تھے.میں وہاں جگہ بنا کر آپ کے سرہانے کی طرف چلا گیا یا شاید وہاں نسبتاً کم آدمی ہوں.میں وہاں کھڑا ہوا اور میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی آنکھ کھولتے ادھر ادھر پھیرتے اور پھر بند کر لیتے.پھر کھولتے اُن کی پتلیاں اِدھر اُدھر مڑتیں اور پھر تھک کر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے کئی دفعہ آپ نے اسی طرح کیا.آخر آپ نے زور لگا کر کیونکہ آخری وقت طاقت نہیں رہتی اپنی آنکھ کو کھولا اور نگاہ کو چکر دیتے ہوئے سرہانے کی طرف دیکھا نظر گھومتے گھومتے جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑی تو مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے آپ میری ہی تلاش میں تھے اور مجھے دیکھ کر آپ کو اطمینان ہو گیا.اس کے بعد آپ نے آنکھیں بند کر لیں.آخری سانس لیا اور وفات پاگئے.اس وقت میں نے سمجھا کہ آپ کی نظر مجھ کو ہی تلاش کر رہی تھی اور میں نے اپنے ذہن میں سمجھا کہ میں جو دعائیں کر رہا تھا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرما دی کہ میں آخری وقت میں آپ کی آنکھوں کو دیکھ سکوں.آپ کی وفات کے معا بعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہو گا.انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اب فوت ہو گیا، اب سلسلہ کا کیا بنے گا ؟ جب...اس طرح بعض اور لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیتے اور میں نے اُن کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہو گا تو مجھے یاد ہے گو میں اس وقت انمیں سے سال کا تھا مگر میں نے اُسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ اے خدا ! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے بیچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو

Page 188

149 رت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے، میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا...انسانی زندگی میں کسی گھڑیاں آتی ہیں بستی کی بھی چشتی کی بھی.علم کی بھی جہالت کی بھی.اطاعت کی بھی غفلت کی بھی.مگر آج تک میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میری گھڑی ایسی چشتی کی گھڑی تھی ایسی علم کی گھڑی تھی ایسی عرفان کی گھڑی تھی کہ میرے جسم کا ہر ذرہ اس عہد میں شریک تھا اور اس وقت میں یقین کرتا تھا کہ دُنیا اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ مل کر بھی میرے اس عہد اور اس ارادہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی.شاید اگر دنیا میری باتوں کو شنتی تو وہ اُن کو پاگل کی بر قرار دیتی بلکہ شاید کیا یقیناً وہ اُسے جنون اور پاگل پن بجھتی.مگر میں اپنے نفس میں اس عہد کو اور سب سے بڑی ذمہ داری اور سب سے بڑا فرض سمجھتا تھا اور اس عہد کے کرتے وقت میرا دل یہ یقین رکھتا تھا کہ میں اس عہد کے کرنے میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کوئی وعدہ نہیں کر رہا بلکہ خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں مجھے دی میں انہیں کے مطابق اور مناسب حال یہ وعدہ ہے بلے له الفضل اور جون 9 ۲۱

Page 189

جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا قیام..آئیے اب ہم مہترین اور اُن کی قیاس آرائیوں کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہوئے اس نیٹو پر نظر کریں کہ جماعت احمدیہ نے اس نازک موڑ پر کیا روش اختیار کی.ایک بہت اہم سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ جماعت کے مستقبل کی قیادت کی شکل کیا ہوگی ؟ کیا یہ اُن گدیوں کی پنج پر چل پڑے گی جن میں پیروں کا روحانی ور ته پر اسرار طریق پر خود بخود اولاد میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے.یا جمہوریت کی اس ڈگر پر چل پڑے گی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لندا مذہبی امور میں بھی عوام ہی کا اقتدار چلے گا اور جمہوری طریق پر ایک ایسی مذہبی قیادت کو جنم دیا جائے گا جو نہ صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہو بلکہ عوام کی منشا کے رحم و کرم پر رہے.جب تک وہ اُسے قابل سمجھیں قیادت پر فائز رکھیں جب نا اہل تصور کرنے لگیں یا اپنے مزاج کے خلاف پاتیں تو اسے رد کر دیں.....تمیسرا سوال یہ تھا کہ کیا یہ قیادت وہ طریق اختیار کرے گی جو انبیا علیہم السلام کی پروردہ جماعتوں کا طریق ہوتا چلا آیا ہے اور جسے سید ولد آدم حضرت خاتم النبیین صلے اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال صحابہ رضوان اللہ علیہم کی جماعت نے اختیار کیا.اس طریق کا فلسفہ یہ ہے کہ مذہبی قیادت جب بگڑ جائے تو کسی جمہوری یا آمرانہ طریق پر اس کی اصلاح نہیں ہوا کرتی بلکہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اللہ تعالٰی خود قیادت کے اہل کسی انسان کو قیادت کے لئے چنتا اور اپنی نظر کے نیچے اسے ایک جماعت کی تربیت کی توفیق عطا کرتا ہے.پس اس کے بعد وہ تربیت یافتہ جماعت اللہ تعالیٰ کے تصرف اور منت کے مطابق اپنے درمیان سے ایک ایسے متقی شخص کا انتخاب کرتی چلی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے فرستادہ مامور کی نیابت کرتا ہے.اس طریق پر جب اللہ تعالیٰ کی منشا اور مشیت کے مطابق ایک دفعہ وہ اُن کا امام مقرر ہو جاتا ہے تو پھر تا حین حیات وہ اُن کا امام رہتا ہے اور کوئی دنیوی طاقت قیادت کی یہ چادر اس سے چھین نہیں سکتی.یہ نائب الرسول جسے خلیفہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، انسانوں کے سامنے نہیں بلکہ صرف اپنے رب کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے.گویا جہاں تک مذہبی جمہوریت کا تعلق ہے اس میں جمہور.اللہ تعالٰی کی مشیت کا آلہ کار توحضر در بنائے جاتے ہیں مگر اقتدار اعلی خدا ہی کے ہاتھ میں رہتا ہے اور وہی ایک

Page 190

JAI مقدر ہستی ہے جس کے سامنے یہ مذہبی قیادت ہمیشہ جواب دہ رہتی ہے.یہ بعینہ وہی نظام خلافت ہے جو حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلّہ نے اپنے پیچھے چھوڑا اور حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم ایک دوسرے کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے.پس سوال یہ تھا کہ ان تینوں میں سے کون سا نظام اس جماعت کے لئے مناسب اور مفید ہوگا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چل کر اسلام کے احیاتے لو کی خاطر قائم کی تھی.جماعت احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر متفقہ طور پر جس طریق پر اجماع کیا وہ خلافتِ راشدہ کا طریق تھا.اس کے مقابل پر پیری مریدی یا بادشاہی کے فرسودہ نظام کو بھی.ذکر دیا گیا اور دنیا دی جمہوریت کے اس نظام کو بھی ٹھکرا دیا گیا جو مغربی فلسفہ کی پیداوار ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضور کے وصال کے بعد آپ کی تدفین سے پہلے جب آپ کی نعش مبارک بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے لائی گئی تو جماعت کے بر سر آوردہ لوگوں نے باہم مشورہ سے نئے امام کی جانشینی کے مسئلے پر غور کرنا شروع کیا.مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کی وفات سے دو چار روزہ پہلے رویا میں یہ دکھایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت حکیم نور الدین صاحب آپ کی جانشینی کریں گے.بزرگان جماعت اور انجمن کے سرکردہ ممبروں میں حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کو خلیفہ منتخب کرنے کے بارہ میں رائے ظاہر کی.تمام احباب جماعت کی نظریں پہلے ہی اس بزرگ اور عاشق صادق غلام پر پڑ رہی تھیں چنانچہ بلا توقف ہر ایک نے آپ کے حق میں رائے دی.البتہ مولوی محمد احسن صاحب سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مشورہ کر لینا ضروری ہے.چنانچہ جب آپ سے مشورہ لیا گیا تو آپ نے نہایت شرح صدر سے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا :- حضرت مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہیے اور حضرت مولانا ہی خلیفہ ہونے چاہیں ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے اور حضرت اقدس کا ایک الہام ہے کہ اس جماعت کے دو گروہ ہوں گے ایک کی طرف خدا ہوگا لے حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اکابرین جماعت نے جب متفقہ طور پر یہ درخواست کی کہ وہ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو آپ نے ایک نہایت پر از معرفت 2 له اصحاب احمد جلد دوم ص ۵۸ - طبع اول ۱۹۵

Page 191

IAF تقریر فرمائی جس میں جماعت کو توحید کا سبق دے کر اپنی خوشخبریوں کے پورا ہونے کے فلسفہ کے بارہ میں کچھ فرمایا اور پھر اپنے امام منتخب ہونے سے متعلق اپنے دلی جذبات اور خیالات کا ان الفاظ میں اظهار فرمایا :- میری پچھلی زندگی پر غور کر لو میں کبھی امام بننے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم مرحوم امام الصلوۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے میں دُنیا میں ظاہر داری کا خواہش مند نہیں.میں ہرگز ایسی باتوں کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجد سے راضی ہو جاتے.اس خواہش کے لئے ہیں دعا نہیں کرتا ہوں.قادیان بھی اسی لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی.اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جاتے...اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت یک جانے کا نام ہے" آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا :- اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں، تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی.اگر یہ تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہا اس بوجھہ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتاً فوقتاً اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات؟ دینی مدرسے کی تعلیم میری مرضی اور منشا کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اُٹھاتا ہوں جس نے فرمایا : ولتكن مِنكُمْ أمَّة يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وأل عمران : ١٠٥) یاد رکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی زمیں نہیں وہ مرچکی والے له الحكم ارجون له مثه

Page 192

IAF اس تقریر کے بعد بیک زبان حاضرین نے باآواز بلند یہ عہد کیا کہ ہم آپ کے تمام احکام مانیں گے آپ ہمارے امیر ہیں اور مسیح موعود کے جانشین.چنانچہ اس اقرار کے بعد الحاج حضرت حکیم نور الدین خلیفہ المسیح الاول نے جملہ حاضرین سے جنکی تعداد بارہ سو تھی.بیعت خلافت کی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک نیا دن طلوع ہوا.یہ دن قدرت ثانیہ کا دن تھا جس نے تا ابد جماعت احمدیہ کے ساتھ رہنا تھا اور جس کی خوشخبری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو دی تھی.چنانچہ شہادت القرآن" میں آپ فرماتے ہیں :- "چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو کہ تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں، ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے." اسی طرح رسالہ الوصیت میں آپ فرماتے ہیں :- ” خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو ظاہر کرتا رہا کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِى (المجادله : ۳۲) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا منشا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اس طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تعمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بہ ظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے، مخالفوں کو ہنسی اور ٹھیٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ

Page 193

1^ وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت تا بود ہو جائے گی.اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمر ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مزید ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرند ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوئے تھام لیا.کان

Page 194

۱۸۵ نظام خلافت کے استحکام کے لئے جدوجہد حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی الله عنه سے کامل اطاعت اور وفا کا تعلق ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر جماعت احمدیہ نے سو فی صد اجتماع کے ساتھ یہ فیصلہ کیا بلکہ یوں کہنا چاہتے کہ خدا کی اُمل تقدیر نے خود جماعت کو اس امر پر اکٹھا کر دیا کہ جماعت احمدیہ خلافت راشدہ کے طریق رہی کو اپنائے گی.چنانچہ فیصلہ کے مطابق بفضلہ تعالیٰ تمام جماعت نے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے عہد کی تجدید کی.اس کے باوجود بیعت کرنے والوں میں بعض احباب ایسے بھی شامل تھے جو دل سے نظام خلافت کے اختیار کرنے پر راضی نہ تھے اور اگر چہ جماعت کی بہت بھاری اکثریت کے رجحان سے مرغوب ہو کر اُن کی یہ رائے وقتی طور پر دب گئی لیکن اس حد تک بھی مغلوب نہ ہوسکی کہ وہ اُسے ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیتے چنانچہ پہلے پہل دبی زبان سے یہ لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے اور بعد میں ایک باقاعدہ گروہ کی صورت میں اس قسم کا پروپیگینڈہ کرنے لگے جس سے نظام خلافت کو شدید نقصان پہنچنے کا کا اندیشہ تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب جو دل کی گہرائیوں کے ساتھ نظام خلافت پر کامل یقین رکھتے تھے.اور جانتے تھے کہ اسلام کا احیائے نو نظام خلافت کے استحکام سے وابستہ ہے، ابتدا ہی سے اس بارہ میں فکر مند اور نگران تھے.آپ کی فطری ذہانت نے آپ کو اسی لمحہ اس بارہ میں متنبہ کر دیا تھا جب ابھی اس فتنہ نے پہلی انگڑائی لی تھی.اس صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :

Page 195

JAY حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کو ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب) نے مولوی محمد علی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب! آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے.میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جب کہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جب کہ حضرت خلیفہ اول نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطلاعات کرنی ہوگی.اور اس تقریر کو سُن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے ؟ میرے اس جواب کو سُن کر خواجہ صاحب بات کا رُخ بدل گئے اور کہا بات تو ٹھیک ہے میں نے یونسی علمی طور پر بات دریافت کی تھی اور ترکوں کی خلافت کا حوالہ ہے کر کہا کہ چونکہ آج کل لوگوں میں اس کے متعلق بحث مشروع ہے اس لئے میں نے بھی آپ سے اس کا ذکر کر دیا، یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آپ کی کیا رائے ہے.اور اس پر ہماری گفتگو ختم ہو گئی.لیکن اس سے بہر حال مجھ پر اُن کا عندیہ ظاہر ہو گیا اور میں نے سمجھ لینا کہ ان لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا کوئی ادب اور احترام نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹا دیں جو ہمارے سلسلہ میں جاری ہوا ہے یا سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے جماعت میں بعض سرکردہ اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ احباب کا ایک گروہ ایسا پیدا ہو چکا تھا جو بظاہر تو نظام خلافت کی بجائے دنیوی جمہوری نظام کو سلسلہ عالیہ احمدیہ میں رائج کرنے کا خواہشمند نظر آتا تھا لیکن جیسا کہ آئندہ حالات کے تجزیہ سے ظاہر ہوگا، در حقیقت جمہوریت کا دعویٰ محض ایک اڑ تھی جس کے پیچھے ایک مخصوص گروہ کے ذاتی اقتدار کی تمنا کار فرما تھی.چنانچہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جن میں سر فہرست مکرم مولانا محمد علی صاحب ایم.اے اور مکرم خواجہ کمال الدین صاح تھے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی بادل نخواستہ کی تھی.ورنہ بیعت کے بعد ے اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات ص ۲ و خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صد

Page 196

JAL پندرہ دن ہی کے اندر اندر ان کے خیالات میں ایسی نمایاں تبدیلی نہیں آسکتی تھی.دراصل یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر کے آخری ایام میں آپ کے وصال سے قبل ہی جمہوریت کے ذریعہ جماعت احمدیہ پر قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگے تھے.اس خیال کے پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وصال سے قریباً تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی منشاء کے تحت ایک ایسا نظام جاری فرمایا تھا جسے نظام وصیت کہا جاتا ہے.اس نظام کا خاکہ یہ ہے کہ ایسے تمام متقی اور پر ہیز گار مخلصین جماعت کو بعد از وفات ایک علیحدہ قبرستان میں دفن کیا جائے جو تادم مرگ شریعت اسلامیہ کے ظاہر و باطن پر عمل پیرا رہے ہوں اور جو اسلام کو از سر نو بیا میں غالب کرنے کی خاطر اس حد تک مالی قربانی کرنے کا عہد کریں کہ زندگی بھر اپنی آمد کا بڑا حصہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو خدمت دین کے لئے پیش کرتے رہیں اور یہ وصیت بھی کریں کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کی تمام جانداد کا برا حصہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحویل میں دینی مقاصد پر خرچ کرنے کی غرض سے پیش کر دیا جائے گا.ایسے مخلصین کے لئے چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی بشارت تھی اس لئے آپ نے اس مقبرہ کا نام بہشتی مقبرہ تجویز فرمایا.اس نظام کو چلانے کے لئے اور اس مخصوص آمد اور جائداد کے انتظام و انصرام کی خاطر آپ نے ایک ایسی انجمن بھی قائم فرماتی جو آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے بعد بھی اس کام کو باحسن طریق سر انجام دیتی رہے.اس انجمن کے ممبران میں بہت سے دیگر احباب کے علاوہ مذکورہ بالا دو بزرگان یعنی مولانا محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب بھی شامل تھے.لہذا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سے اُن کے ذہن میں کچھ اس قسم کا تصور قائم ہوگیا کہ گویا یہ انجن ان تمام اختیارات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی جانشین ہو گی جو آپ کو بحیثیت مامور من اللہ حاصل تھے.اول تو اس انجمن کے قیام سے یہ خیال پیدا ہونا کہ گویا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام دنیا میں کوئی جانشین مقرر فرما رہے ہیں جو آپ کے تمام فرائض منصبی کو ادا کرے گا اس لئے غلط تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ انجمن اپنی زندگی ہی میں قائم فرما دی تھی اور آپ کی زندگی ہی میں اس انجمن نے اپنے محدود دائرہ کار میں کام شروع کر دیا تھا.پس اس انجمن کو نہ تو اس وقت امام جماعت احمدیہ کا جانشین ہونے کا مقام حاصل ہوا اور نہ آپ کے وصال کے بعد اس بارہ میں سوچا جا سکتا تھا.دوسرے انجمن کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ یہ جدید جمہوری نظام کے مشابہ کوئی ادارہ تھا اس لئے بھی بالید است غلط تھا کہ انجمن کے تمام ممبران کو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 197

JAA ہی نے مقر فرمایا تھا اور کوئی ایک ممبر بھی جمہوری طریق پر منتخب نہیں ہوا تھا.اس لئے اس انجمن کو کسی جمہوری ادارہ کے مشابہ سمجھ لینا ان لوگوں کے ذہنی ابہام اور انتشار کی نماز میں تو کر سکتا ہے، انجمن کے جمہوری ہونے کے حق میں کوئی دلیل نہیں بن سکتا.واقعہ یہ ہے کہ جس طرح جمہوریت کی راہ میں ایسی کوئی روک نہیں کہ چند آدمیوں کی بجائے ایک ہی آدمی کے ہاتھ میں سارے یا اکثر اختیارات سونپ دیتے جائیں.اسی طرح شخصی سیادت کے نظام میں بھی ایسی کوئی روک نہیں کہ ایک کی بجائے چنا آدمیوں کو بعض اختیارات تفویض کر دیتے جائیں.پس محض اس بنا پر کہ چند امور کی نگرانی کے لئے کوئی انجمن قائم کر دی گئی تھی، جمہوریت کا استنباط کرنا کم فہمی تھی.اگر بفرض محال حضرت مسیح موعود علیه السلام کا منشا.انجمن کے قیام سے جمہوری نظام کا قیام ہی تھا تو آپ کے وصال کے معا بعد جمہوری روایت کے مطابق ہی جماعت کو چند اشخاص پرشتمل ایک نتی انجمن کا انتخاب کرنا چاہئے تھا.کیونکہ جمہوری اصول کے مطابق آپ کے وصال کے ساتھ ہی آپ کی قائم کردہ انجمن کی قانونی حیثیت ختم ہو جانی چاہیئے تھی اور نئی انتظامیہ چنے کا حق جمہور کی طرف کوٹ جانا چاہیے تھا.لیکن ایسا نہیں ہوا.تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ جماعت نے نئی انجمن کا انتخاب نہیں کیا.ہاں نئے امام کا انتخاب ضرور کیا اور انجمن جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے تابع فرمان تھی، آپ کے وصال کے بعد بھی اسی طرح نئے منتخب شدہ امام یعنی حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے تابع فرمان ہو گئی اور یقینا یہ الی تصرف تھا کہ کسی ایک شخص کو بھی اُس وقت یہ جرات نہ ہوتی کہ ایس کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اس انجمن کی جو شیت تھی اُسے مزید واضح کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کی حسب ذیل روایت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے :- ایک دن حضرت صاحب اندر آئے تو والدہ صاحبہ سے کہا کہ انہیں (یعنی تجھے) انجمن کا ممبر بنا دیا ہے.نیز ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کو اور مولوی صاحب کو تا کہ اور لوگ کوئی نقصان نہ پہنچا دیں...آپ کو کہا گیا ہ۱۴ نام لکھ لئے ہیں.حضرت نے فرمایا اور چاہیں باہر کے آدمی بھی ہوں...اس پر کیا گیا کہ زیادہ آدمیوں سے کو رم نہیں پورا ہو گا.آپ نے فرمایا اچھا تھوڑے سہی.پھر کہا اچھا ایک اور تجویز کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مولوی صاحب کی راتے چالیس آدمیوں کی رائے کے برابر ہو.اس وقت میرے سامنے ان لوگوں نے حضرت صاحب کو دھوکا

Page 198

١٨٩ دیا کہ حضرت! ہم نے مولوی صاحب کو پریذیڈنٹ بنایا ہے اور پریذیڈنٹ کی راتیں پہلے ہی زیادہ ہوتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا ہاں یہی میرا منشا ہے کہ ان کی رائیں زیادہ ہوں.مجھے اس وقت انجمنوں کا علم نہ تھا کہ کیا ہوتی ہیں ور نہ بول پڑتا کہ پریذیڈنٹ کی ایک ہی زائد رائے ہوتی ہے تو انہوں نے یہ دھوکا دیا.پھر تفصیلی قواعد مجھے ہی دیئے گئے تھے اور میں ہی حضرت صاحب کے پاس لے کر گیا تھا.اس وقت آپ کوئی ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ نے پوچھا کیا ہے ؟ میں نے کہا انجمن کے قواعد میں.فرمایا لے جاؤ.ابھی فرمت نہیں.گویا آپ نے اُن کو کوئی وقعت نه دی له مندرجہ بالا حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے معا بعد بعض اکابرین کی گفتگو سے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ بعض لوگ جنہوں نے نفلام خلافت کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے بلند مرتبہ اور جماعت کے عمومی رجحان سے مرعوب ہو کر بیعت خلافت میں شامل ہوتے تھے، کسی وقت بھی جماعت کے لئے فتنہ کا موجب بن سکتے ہیں اور ایسے خیالات کی ترویج کر سکتے ہیں جو جماعت میں خلافت کی قدرو منزلت کو کم کریں اور جماعت میں نفاق اور افتراق کے بیج ہوتیں.خلافت اولی پر ابھی مشکل ایک سال گزرا تھا کہ آپ کے خدشات حقیقت کا جامہ اوڑھ کر سامنے آگئے اور جماعت میں منظم طریق پر بعض ایسی چہ میگوئیاں کی جانے لگیں جس سے خلافت کے وقار اور مقام کو سخت صدمہ پہنچنے کا احتمال تھا.اس صورت حال سے متاثر ہو کہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ نے مقام خلافت سے متعلق مندرجہ ذیل سوالنامہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجوایا : صدر انجمن احمدیہ کے تعلقات اس زمانہ میں اور آئندہ زمانہ میں خلافت کے منصب پر بیٹھنے والے (یعنی خلیفہ) کے ساتھ کیسے ہیں اور کیسے ہوں گے.یعنی آپس میں کیا فرق ہے اور ہو گا ؟ خلیفه...بطور خود اشاعت اسلام وغیرہ و جماعت احمدیہ کی مدات کا انتظام کے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ ص ۳۸۱۳

Page 199

19- کر سکتا ہے یا نہیں ؟ خلیفہ کے حکم صدر انجمن مسترد کر سکتی ہے یا نہیں ؟ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے یہ سوالات سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو بغرض جواب بھیجوا دیئے.مولوی صاحب موصوف نے ان سوالات سے متعلق اپنا جو جواب بھیجوایا وہ یہ ہے :- ،..> اس وقت خلافت کے منصب پر بیٹھنے والا صدر انجمن احمدیہ کا صدر ہے یعنی جس شخص کو حضرت صاحب نے مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ کا میر مجلس منتخب فرمایا تھا اسی کو ساری قوم نے اتفاق کے ساتھ خلیفہ منتخب کیا ہے.ہیں وہ اور صدر انجمن پس احمدیہ ایک ہی چیز ہیں.آئندہ جیسا خلیفہ ہوگا ویسے ہی اس کے ساتھ تعلقات ہوں گے علم غیب کوئی نہیں جانتا.لیکن حضرت صاحب کی وصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خلیفہ کا کوئی فرد واحد ہونا ضروری ہے.گو بعض صورتوں میں ایسا ہو سکتا ہے.جیسا کہ اب ہے بلکہ حضرت صاحب نے انجمن کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ ایک ہی شخص ہو بلکہ ایک جماعت بھی ہو سکتی ہے اور یہ اس واسطے بھی ہے کہ انجمن کے واسطے حضرت اقدس نے دُعا کی ہے کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں اور خاص طور پر اگر اس امانت کے قابل کسی ایک فرد واحد کو سمجھا ہے تو وہ حضرت مولوی نور الدین صاحب ہی ہیں.انجمن کو ایک مامور من اللہ نے الہام الہی کے مطابق قائم کیا ہے اگر کوئی خلیفہ مامور من اللہ ہو تو وہ مطابق منشاء الہی اس میں جو چاہے گا تغیر کر سکے گا، دوسرے کے واسطے جائز نہیں.حضرت صاحب نے جائدادوں اور مالوں اور مکانوں کا صرف محافظ ہی نہیں بنایا بلکہ ان کا مالک بھی قرار دیا ہے.نہاں صرف یہ روک

Page 200

191 ہے کہ اس انجمن کا کوئی ممبر کسی جائداد یا مال کو اپنے ذاتی افرانس میں خرچ نہیں کر سکتا.اور نہ ہی خود انجمن سوائے اعرض سلسلہ کے کسی طرح پر خرچ کر سکتی ہے ا سکے جناب مولوی صاحب کا یہ جواب حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کو حیرت میں ڈالنے والا تھا.کیونکہ اس میں خلیفہ کی حیثیت کو اس قدر گرا کر پیش کیا گیا تھا کہ جیسے سوائے بیعت لینے کے اس کا کوئی اور کام ہی نہیں.بهر حال مولوی صاحب موصوف کا جواب پڑھ کر حضرت خلیفہ المسیح الاول راضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان سوالات کو جواب کے لئے چالیں ایسے آدمیوں کے پاس بھی بھیجا جائے جو جماعت میں نمائندہ حیثیت کے مالک ہوں.اور اُن کی رائے سے آپ کو اطلاع دی جائے.نیز یہ نمائندہ سر جنوری نشاہ کے دن بغرض مشورہ جمع ہوں تھے یہ سوالات جب دوسرے لوگوں کے پاس پہنچے تو ہر ایک نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق جواب لکھا.ممبران انجمن میں سے خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا الیعقوب بیگ صاحب شیخ رحمت الله صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا جواب مولوی محمد علی صاحب کے جواب کے مطابق تھا.انہوں نے لکھا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کی رُو ہے اُن کی جانشین انجمن ہے.حضرت صاحب نے کسی فرد واحد کو اپنا جانشین نہیں بنایا.یہ اور بات ہے کہ اس انجمن نے بالا تفاق آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے آپ بالاتفاق کو اپنا مطالع بنالیا.تو اس کا اپنا ذاتی فعل ہے.وہ وصیت کے ماتحت ایسا کرنے پر مجبور نہ تھی نہ تھ علاوہ ازیں خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر لاہور کے احمدیوں کا ایک جلسہ بلوایا ' جس میں تقریر کی کہ :- سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے.اصل جانشین حضرت مسیح موعود ع السلام کی انجمن ہی ہے.اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت خطرہ میں پڑ جائے گی.کے حقیقیت اختلاف حصہ اول ص ۳۹ تا اسم که حقیقت اختلاف صدام سه تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۲۰۲

Page 201

۱۹۲ اور سلسلہ تباہ ہو جائے گا.“ اور سب لوگوں سے دستخط لئے گئے کہ حسب فرمان حضرت مسیح موعود علیه السلام با نشین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انجمن ہی ہے.صرف دو شخص یعنی حکیم محمد حسین صاحب قریشی سیکرٹری انجمن احمدیہ لاہور اور بایو غلام محمد صاحب نورمین ریلوے دفتر لاہور نے دستخط کرنے سے انکار کیا اور جواب دیا کہ ہم تو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں.اور ہاتھ وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیتہ اللہ رکھتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب ہم سے زیادہ اس کے دل میں ہے جو کچھ وہ کسے گا ہم اس کے مطابق عمل کریں گے لے خلیفہ وقت کے خلاف اس شورش اور ساز باز کے دوران یہ سوالنامه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی خدمت میں بھی پہنچا.آپ اسے پڑھ کر بہت متفکر ہوتے.اپنے بشرح صد خلیفہ اول نہ کی بیعت کی تھی اور دل و جان سے عہد اطاعت باندھا تھا اور عقلاً بھی آپ خلافت کی ضرورت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے مناسب سمجھا کہ جواب دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور بڑی عاجزی اور تضرع کے ساتھ رجوع کریں اور اسی سے رہنمائی چاہیں.اسی حالت اضطراب اور دعا میں کئی دن گزر گئے اور آپ کوئی جواب نہ لکھ سکے.آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی : " قل مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاءكُم اس آیت سے آپ کو یہ تقسیم ہوئی کہ جولوگ خلافتِ احمدیہ کے خلاف میں اُن کو خدا وند تعالیٰ کی طرف سے کہہ دو کہ یورپ کی تقلید میں کامیابی اور فلاح نہیں.یہ دینی سلسلہ ہے اس لئے جس طرح خدا کے نبیوں کے خلیفے ہوتے رہے ہیں، اسی طرح یہاں بھی خلافت ہی ہوگی.لیکن اگر وہ باز نہیں آئیں گے تو خدا کو اُن کی کوئی پرواہ نہیں.کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خدا کے حضور گر جائیں اور زاری کریں.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا کا عذاب موجود ہے.غرض اس طرح سے جب خدا نے آپ پر حقیقت واضح کر دی تو آپ نے اپنی راستے لکھ کر بھیج دی کہ خلیفہ انجمن پر حاکم ہے نہ کہ انجمن خلیفہ پڑی نام نها و علمبرداران جمہوریت اور معتقدین نظام خلافت کے مابین یہ نزاع اتنی اہمیت اختیار کر گیا کہ کے اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات ص ۲۰۱۱۹ سے اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات د ۲۳ الفضل ۲۸ ستمبر له من

Page 202

۱۹۳ بالآخر حضرت خلیفہ المسیح الاول کے حکم کے مطابق جماعت کے دو اڑھائی سو نمائندے تاریخ مقررہ پر اس اہم اور بنیادی مگر انتہائی نازک مسئلہ کے متعلق رائے دینے کے لئے مرکز میں جمع ہوئے.۱۳۱ جنوری شائد کو شور میں منعقد ہوئی تھی.۳۰ تاریخ کو نمائندگان مرکز میں پہنچ چکے تھے.ہر ایک دل آنے والے دن کے انتظار میں بے چین تھا.اس تاریخ کی رات بڑی ہی عجیب رات تھی اور یہ دن بڑا ہی نازک دن تھا.بہتوں نے قریب جاگتے ہوئے یہ رات کائی.اور قریباً سب کے سب تہجد کے وقت مسجد مبارک میں جمع ہو گئے تاکہ دعا کریں اور اللہ تعالیٰ ہے مدد اور رہنمائی چاہیں.اس دن اس قدر درد مندانہ دعائیں کی گئیں کہ قادیان کی فضاء میں سوائے گریہ و بکا کے کچھ سنائی نہ دیتا تھا جبینیں آستانہ الوہیت پر جھکی ہوئی تھیں اور سجدہ گاہ میں آنسوؤں سے تر تھیں.فجر کی اذان کے بعد حضرت خلیفہ اول نماز پڑھانے کے لئے میسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز شروع ہوئی.بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صبح کی نماز سے قبل آپ کو الہاما سورۃ بروج کے پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس کے پڑھنے سے اکثر لوگوں کے دل نرم ہو جائیں گے.چنانچہ اس کے مطابق آپ نے نماز میں اس سورۃ کی تلاوت فرمائی.اگر چہ شروع سے لے کر آخر تک ساری ہی نماز سوز و گداز عجز ونیاز، گریہ و بکا " اور تضرع و خشوع کی تصویر بنی ہوئی تھی.مگر جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ : -- اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ م لم يتوبو فلهم عذاب جـ ولهم عذاب الحريقه البروج ۱۰۸۵) تو مسجد میں درد ناک چیخوں سے ایک کہرام مچ گیا اور قلوب خشیت الہی سے پارہ پارہ ہونے لگے خود حضرت خلیفہ اول کی آواز بھی شدت گریہ سے رُک رُک جاتی تھی.آپ نے جب دوبارہ اس آیت کی تلاوت فرمائی تو مخلصین جماعت کا وفور گریہ سے یہ عالم ہوا کہ کسی خون میں نہاتے ہوئے مرغ بسمل کی طرح اپنے لگے.فرش مسجد سے کنگرہ ہائے عرش تک آہوں اور چیخ وپکار کا ایک شور بپا تھا.اس واقعہ سے متعلق حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک اہم رویا انہی دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک رویا دیکھا جسے بعد میں

Page 203

۱۹۴ حضرت خلیفہ اول نے کو بھی سنا دیا گیا تھا.آپ فرماتے ہیں :- میں نے رویا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہورہا ہے اور حضرت خلیفہ اول میں الی تقریر فرمارہے ہیں.مگر آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنوایا تھا.اُس حصہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوتے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا.آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے تھے اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں.آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقت آگئی اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے تبھی تقریر کی جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پر لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت دُکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی پیچھے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے.پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا واقعہ یاد آگیا.جب اُن میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا، یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور باتیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آوے.اُسی رنگ میں میں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے.اور دشمن آپ کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہم پر حملہ کر کے پہلے ہمیں ہلاک نہ کرے.قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو رویامہ میں میں نے اپنی تقریر میں بیان کیا.مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول رضی الله عنه تقریر یہ کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن سے یہ رویا.بالکل نکل گیا اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا میرے دائیں طرف آبیٹھو.پھر خود ہی فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے ؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم

Page 204

۱۹۵ نہیں.آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی.تم نے تو خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا ہے عنه بهر حال مسجد مبارک میں جب لوگ جمع ہو گئے تو اس کے تھوڑی دیر بعد حضرت خلیفہ المسیح رضی ا سے گھر سے مسجد میں تشریف لائے.کوئی دو اڑھائی سو کا مجمع تھا جس میں اکثر احمد یہ جماعتوں کے نمائندے تھے.بے شک ایک دُنیا دار نا واقف کی نظر میں وہ دو اڑھائی سو بے زر اور پے زور معمولی انسانوں کا ایک مجمع تھا جو کرسیوں اور مسندوں سے عاری ارزاں چٹائیوں کے ایک ادنی فرش پر بیٹھا تھا.ممکن ہے یہ اس کی نظر میں ایک معمولی اور ناقابل التفات نظارہ ہو.لیکن ایک دنیا دار کو کیا خبر کہ خدا کی رضا کی نگاہیں اُن خواتین اسلام پر کیسے پیار اور انتفات سے پڑ رہی ہوں گی، جن کے دل ایمان کی دلت پڑ سے مالا مال اور یقین کی قوت سے پر تھے اور جو خدا کے وعدوں پر ایک غیر فانی اور غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے.وہ یہ جانتے تھے کہ اس مجلس کے ساتھ حقیقی اسلام یعنی احمدیت کی ترقی اور غلبہ کی تقدیر وابستہ ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر ایک دل ہلا دینے والی تقریر کی.آپنے فرمایا ہ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ میں اپنے مرزا کی مسجد میں کھڑا ہوائیوں آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا.میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے.اور یہ دونوں خادم ہیں.انجمن مشیر ہے.اس کا رکھنا خلیفہ کے لئے ضروری ہے جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کا کام بیعت لینا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ تو بہ کرے.خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر اس جماعت میں سے کوئی مجھے چھوڑ کر مرتد ہو جائے گا تو میں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا.کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اور یا بعیت سے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملا بھی کر سکتا ہے.اس لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں بیت سے خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک ص ۱۵-۱۷

Page 205

194 وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.حضرت خلیفہ اس نے اپنی تقریر یں یہ بھی فرمایا کہ میں ان لوگوں کے طریق کو بھی پسند نہیں کرتا جنہوں نے خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کیا ہے کیے اور فرمایا جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو اُن کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے ہم نے اُن کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا اور پھر جبکہ خُدا نے مجھے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس فتنہ کو مٹا سکوں تو اُنہوں نے یہ کام خود بخود کیوں کیا یہ سکے حضرت خلیفہ المسح الاول مرضی اللہ عنہ کی یہ تقریر اتنی پرجوش اور موید من اللہ تھی کہ اکثر دل موم کی طرح کھل گئے اور سامعین پر خوب واضح ہوگیا کہ خلافت کی کیا عظمت ہے اور خلیفہ کا مقام کیا ہے مجلس پر رقت کا ایک عجیب سماں طاری تھا حتی کہ درد و کرب کی شدت سے مغلوب ہو کر بعض احب تو زخمی پرندوں کی طرح زمین پر گر کر لوٹنے اور تڑپنے لگے.ہ تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور ایک دو اور احمدیوں سے فرمایا کہ اس فتنے کے بانی ہونے کی بنا پر آپ لوگ دوبارہ بیعت کریں.اسی طرح قادیان میں حضرت صاحب کے منشا کے خلاف جلسہ کرنے کی وجہ سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو بھی ارشاد ہوا کہ وہ تجدید بیعت کریں.چنانچہ یہ سب دوست دست خلافت پر تجدید بیعت کر کے گویا نئے سرے سے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی یہ سمجھ کر کہ یہ عام بیعت ہے اپنا ہاتھ بیعت کے لئے بڑھایا مگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ کو پرے کر دیا اور فرمایا : - یہ بات تمہارے متعلق نہیں تھے خواجہ کمال الدین صاحب نے اس بیعت کے وقت صاف لفظوں میں یہ اقرار کیا کہ میں آپ کا حکم بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کے حکم بھی مانوں گا یہ مجھے سے یہ اشارہ اس جلسہ کی طرف ہے جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے خلافت کی تائید میں اپنے گھر میں بعض دوستوں کو مدعو کر کے کیا تھا اور اس میں خلافت سے وفاداری کے عہد وپیمان کئے گئے تھے.اسے خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک م19 ست اندرونی اختلافاتت سلسلہ احمدیہ کے اسباب مولفہ خواجہ کمال الدین صاحب ، حت

Page 206

196 19-9 " افسوس کہ اس واقعہ پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ بعض طبیعتیں پھر کچی پر مائل ہوگئیں اور نفاق کی وہ باتیں پھر دوہرائی جانے لگیں جن سے توبہ کر کے حضرت خلیفہ ایسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تجدید کی گئی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح پر متفرق اعتراضات کرنے کے بعد جماعت میں یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جارہا تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول مراضی اللہ عنہ کو معزول کر کے انجمن کی بالا دستی قائم کی جانی چاہیے.اگر چہ اس قسم کی باتوں کا تحریری ریکارڈ موجود نہیں لیکن حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ۱۶ار اکتوبر ششدہ کے عید الفطر کے خطبہ سے یہ بات بڑی وضاحت سے مترشح ہوتی ہے کہ منافقین اس حد تک بے باک ہو گئے تھے کہ انہوں نے عزل خلیفہ کا مطالبہ شروع کر دیا تھا.آپ فرماتے ہیں :- خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے.میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس کرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا.اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا...تم معاہدہ کا حق پورا کرو.پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو!...مجھے ضرورتاً کچھ کہنا پڑا ہے.اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تمہار ا ساتھ دوں گا.مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں.تم اپنے پہلے معاہدہ پر قائم ہو.ایسا نہ ہوکہ نفاق میں مبتلا ہو جاؤ.اگر تم مجھ میں کوئی اعوجاج دیکھو تو اس کی استقامت کی دعا سے کوشش کرو گھر ہے گمان نہ کرو کہ تم مجھے بڈھے کو آیت یا حدیث یا مرزا صاحب کے کسی قول کے معنے سمجھا لو گے.اگر میں گندہ ہوں تو یوں دعا مانگو کہ خدا مجھے دنیا سے اُٹھا لے.پھر دیکھو کہ دعا کس پر الٹی پڑتی ہے.تو یہ کرو اور دعا کرو اور پھر دُعا کرو میں فروری گویا نو ماہ سے اس دکھ میں مبتلا ہوں.اب تم اس بڑھے کو تکلیف میں نہ ڈالو.اس پر ہم کرد.اگر میں نے کسی کا مال کھایا تو میں دس گنا دینے کی طاقت رکھتا ہوں.اگر میں نے کسی سے طمع کیا ہے تو میں لعنت کر کے کہوں گا کہ ایسا آدمی ضرور بول تھے ایک اور غلطی ہے، وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم

Page 207

صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے وَلَا يَعْصِنَكَ فِي مَعْرُدن اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنائی ہے ؟ اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بعیت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک ستر ہے نہیں تم میں سے کسی پر ہر گز بدان نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا ہے تا تم میں کسی کو اندر ہی اندر دھوکا نہ لگ جائے...میں ایسے لوگوں کو جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں پھر سمجھ جائیں پھر سمجھے جائیں.ایسا نہ ہو کہ اُن کی ٹھوکر کا باعث بنوں میں اخیر میں پھر کہتا ہوں کہ آپس میں تباغض و تحاسد کا رنگ چھوڑ دو.کوئی آمر امن یا خوف کا پیش آجا دئے عوام کو نہ سناؤ.ہاں جب کوئی امر طے ہو جاتے تو پھر بے شک اشاعت کرو.اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ باتیں تمہیں ماننی پڑیں گی طوعاً و کرھا اور آخر یہ کہنا پڑے گا اتنا طائعین جو کچھ میں کہتا ہوں تمہارے پھلے کی کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں راہ ہدایت پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر کرے.آمین اله حضرت خلیفہ البیع الاول کی اس تقریر کے قریباً ڈیڑھ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاب کو ایک دفعہ پھر رویا کے ذریعہ خبردار فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے ایک کمزور جھتے کا ٹوٹ کر الگ ہو جانا مقدر ہے.لہذا باقی عمارت کی مضبوطی اور تعمیر نو کی طرف توجہ ہوئی ضروری ہے.اس تنبیہ کے نتیجہ میں آپ نے بعض احتیاطی تدابیر اختیار فرمائیں اور ایک باقاعدہ انجمن کا قیام فرمایا جو خلافت کے ساتھ کامل وابستگی کا عہد کرتے ہوئے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لئے کوشاں رہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :- چند دن کا ذکر ہے کہ صبح کے قریب میں نے دیکھا کہ ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں اور اس محل کے پاس ایک میدان ہے.اور اس میں ہزاروں آدمی پیتھیروں کا کام کر رہے ہیں اور بڑی سرعت سے انہیں پا تھتے تھے میں نے پوچھا کہ یہ کیسا مکان ہے اور یہ کون لوگ ہیں، اور اس کے بدر جلد ۸ نمبر ۵۲ بلد نمبر ۵۲ و الحكم ۲۰ / اکتوبر شله ( بحواله تاریخ احمدیت جلد سهم منه ۲۹۱٬۲۹)

Page 208

199 پا مکان کو کیوں گرا رہے ہیں ؟ تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہے اور اس کا ایک حصہ اس لئے گرا رہے ہیں تا پُرانی اینٹیں خارج کی جائیں (اللہ رحم کرے) اور بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں.اور یہ لوگ انسٹیں اس لئے یا تھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایا جائے اور وسیع کیا جائے.یہ ایک عجیب بات تھی کہ سب ہتھیروں کا منہ مشرق کی طرف تھا.اس وقت دل میں خیال گزرا کہ یہ تیرے فرشتے ہیں اور معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے بلکہ فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر کام کر رہے ہیں.چنانچہ میں نے سوچا کہ جو کوئی کسی کے کام میں اُسے مدد دیتا ہے تو وہ اس کا دوست اور پیارا بن جاتا ہے.تو اگر ہم اس وقت ملائکہ کے کاموں میں مدد دیں گے جو خود اپنی ہی مدد ہے، تو ضرور ہے کہ ملائکہ کا ہم سے خاص تعلق ہو جائے اور اس تعلق کی وجہ سے خود ہمارے نفوس کی بھی اصلاح ہو اور ملائکہ ہمارے دلوں میں کثرت سے نیک تحریکیں شروع کر دیں چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں دو تحریکیں پیدا کیں کہ حسین سے سلسلہ کی خدمت مد نظر ہے....دوسری تحریک جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے کہ ایک انجمن قائم کی جائے جس کے ممبران خصوصیت سے قرآن و حدیث اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تبلیغ کی طرف توجہ رکھیں اور افراد جماعت میں صلح و آشتی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ممبران اپنے دنیاوی کام کرتے ہوئے بھی اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دیں......کام تو اللہ ہی نے کرنا ہے.ہماری تو کوششیں ہی ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ کوشش کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے.یہ مست سمجھو کہ ہم اس کام کے لائق نہیں.اگر ہمت و استقلال ہو اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو تو پھر وہ خود ہی قرآن وحدیث کا علم سکھا دیتا ہے...اسلام کا سورج کسن کے نیچے ہے خدا کی حضوری میں ترمیو آووزاری کرو تا وہ گن ڈور ہو اور دنیا خدا تعالے کا چہرہ دیکھے اور قرآن اور رسولِ

Page 209

کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی عظمت اس پر ظاہر اور حضرت مسیح موعود او علیہ السلام کی سچائی سے وہ آگاہ ہو.صاف گو بنو اور پیچ اور دھوکے کو چھوڑ دو.اور صاف صاف الفاظا میں دُنیا پر وہ سچائیاں ظاہر کرو جو خدا نے تم کو دی ہیں تا قیامت کے دن سبکدوش ہو کہ ہم نے اپنی طرف سے تبلیغ کر دی تھی.کون جانتا ہے کہ میں کل تک زندہ رہوں گا لیپس ہر ایک انسان کا فرض ہے کہ وہ کل کے آنے سے پہلے ہی اپنے خیالات کا دنیا پر اظہار کرے اور مولی ہے جو کچھ ہدایت پائی نہس کو لوگوں پرپیش کرے.پھر جس کا دل چاہے مانے اور جو چاہے انکار کرونے حضرت مسیح نے اس تبلیغ کے کام کے لئے اپنے حواریوں کو کہا تھا : مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ آج میں بھی حضرت مسیح کے تبع کے طور پر اپنے دوستوں کے آگے یہی کلمہ دوہراتا ہوں کہ اپنی کھر ہمت باندھ کر میرے ساتھ اس کام میں شامل ہوا اور جہاں تک ہو سکے اس کام کو کرو تا خدا تعالیٰ کی درگاہ سے انعام کے مستحق ہو.یہ سلسلہ تو ضرور پھیلے گا ہی لیکن ہم نے شستی دکھائی تو ہم انصار کیونکر بنیں گے.لیکن چونکہ یہ ایک بڑا عظیم الشان کام ہے.اس لئے میں یہ شرط لگانی پسند کرتا ہوں کہ جس نے اس کام میں حصہ لینا ہو وہ پہلے سات دفعہ استخارہ کرے تاکہ اللہ تعالٰی اس کے کام کا ذمہ دار ہو جائے اور اگر سات دفعہ استخارہ کرنے کے بعد اس کے دل کو اللہ تعالٰی اس طرف جھکا دے تو پھر شوق سے اس انجمن میں داخل ہو.چنانچہ میں نے بھی اس اعلان کے پہلے خود کسی دفعہ استخارہ کیا اور نہ صرف خود ہی کیا بلکہ کسی ایک نیک اور صالح دوستوں سے بھی استخارہ کروایا اور کئی ایک دوستوں کو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارات بھی ہوئیں تب جا کر یہ کام میں نے شروع کیا اور استخارہ وغیرہ کرنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح سے بھی اجازت لی چنانچہ اس انجمن کے وہ قوائد جن کی پابندی ہر ایک ممبر کو لازمی ہوگی وہ حضرت خلیفہ المسیح نے کے حضور پیش کر کے اجازت حاصل کرلی گئی ہے یہ

Page 210

اس مجلس کے قواعد میں ایک اہم مشق یہ بھی تھی کہ : اس مجلس کے ممبر خصوصیت سے حضرت خلیفہ ایسیح کی فرمانبرداری کا خیال رکھیں...افسوس ! که ی تنبیهات بعض بیمار دلوں پر اثرانداز نہ ہوسکیں بلکہ جوں جوں حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کی عمر بڑھتی اور صحت گرتی رہی مخالفین خلافت کو یہ فکر بھی دامنگیہ ہو نے لگا کہ اگر خلافت کا نظام جاری رہا تو مبادا مرزا محمود احمدی کو جماعت اپنا خلیفہ منتخب کرلے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اطاعت کا جوآ تو جوں توں بہایا جا رہا تھا لیکن ایک کم عمر نوجوان کی اطلاعات کو قبول کرنا بعض ایسے علماء اور اکابرین کے لئے بہت مشکل تھا جو انجمن کے ممبر ہونے کی وجہ سے اپنے تین بہت بلند و بالا خیال کرنے لگے تھے عمر کے ظاہری تفاوت نے مزید مہمیز کا کام دیا اور بڑی بڑی دنیوی ڈگریوں کا غرور اور بھی سیخ پانی کا موجب بنا.انہیں اپنے سامنے ایک ایسا کم عمر بچہ نظر آرہا تھا جو اگرچہ دنیوی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ تھا لیکن اس کی دینی خدمات اور علم قرآن اور عقل و فراست کا شہرہ اس شرعت اور وسعت کے ساتھ پھیل رہا تھا کہ حاسدین کے دل اس خوف سے لرزاں تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے وصال کے بعد حسب دستور جماعت کے نئے خلیفہ کا انتخاب ہوا تو اس نوجوان کے سوا جماعت کی نظر انتخاب کسی اور پر نہیں پڑے گی.ان حالات کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ایک باقاعدہ اور منظم سازش کے ذریعہ نظام خلافت کو سبو تاژ کرنے کی کوششیں ایک دفعہ پھر تیز تر کر دی گئیں اور وہ عہد بعت جس کی تجدید دو سال قبل م مبارک کے صحن میں کی گئی تھی، ایک مرتبہ پھر بالائے طاق رکھ دیا گیا.اور بعینہ اس خبر کے موافق جو حضرت صاحبزادہ صاحب کو رویا میں دی گئی تھی ، مقام خلافت کے بارہ میں ایسی گستاخانہ باتیں دہرائی جانے لگیں جن کے نتیجہ میں لازماً تفرقہ اور نفاق کا بیج بویا جاتا.جب یہ دل آزار باتیں حضرت اقدس خلیفہ المسیح الاول کے کانوں تک پہنچیں تو آپ نے جلسہ سالانہ دسمبر بار کے موقع پر جماعت کو اس بارہ میں نهایت دردمندانہ اور پاک نصائح فرمائیں اور مقام خلافت کو خوب کھول کھول کر حاضرین جلسہ پر واضح فرما دیا.آپ نے فرمایا :- "میں خلیفہ المسیح ہوں.اور خُدا نے مجھے بنایا ہے، میری کوئی خواہش اور آرزو نہ تھی اور کبھی نہ تھی.اب جب خدا تعالیٰ نے مجھے یہ ہدا پہنا دی ہے میں ان جھگڑوں کو نا پسند کرتا ہوں اور سخت ناپسند له "بدر" قادیان ۲۳ فروری "

Page 211

کرتا ہوں.میں نہیں چاہتا کہ تم میں ایسی باتیں پیدا ہوں جو تنازع کا موجب ہوں.تم کو کیا معلوم ہے کہ قوم میں تفرقہ کے خیال سے بھی میرے دل پر کیا گزرتی ہے ؟ تم اس درد سے واقف نہیں.تم اس تکلیف کا احساس نہیں رکھتے جو مجھے ہوتی ہے.میں یہ چاہتا ہوں اور خدا ہی کے فضل سے یہ ہو گیا کہ میں تمہارے اندر کسی قسم کے تنازعہ اور تفرقہ کی بات نہ سنوں بلکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ تم اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا عملی نمونہ ہو : واعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا میں پھر تمہیں کہتا ہوں جو سُنتا ہے وہ سُن لے اور دوسروں کو پہنچا دے کہ جھگڑا مت کرو.ہم مر جائیں گے پھر تمہیں بہت سے موقعے جھگڑنے کے ہیں تم سمجھتے ہو میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح آسانی سے خلیفہ بن گیا ہوں ؟ تم اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ اس دکھ کا اندازہ کر سکتے ہو اور نہ اس بوجھ کو سمجھ سکتے ہو جو مجھ پر رکھا گیا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ میں اس بوجھ کو برداشت کر سکا تم میں سے کوئی بھی نہیں جو اس کو برداشت تو ایک طرف محسوس بھی کر سکے.کیا وہ شخص جس کے ساتھ لاکھوں انسانوں کا تعلق ہو آرام کی نیند سو سکتا ہے نیز فرمایا : ور میں اس مسجد میں قرآن کریم ہاتھ میں لے کر اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے پر بننے کی ہرگز خواہش نہیں اور نہ تھی اور قطعا خواہش نہ تھی.خدا تعالیٰ کے منشا کو کون جان سکتا ہے.اس نے جو چاہا کیا.تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا اور اس نے آپ نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کتا پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں باوجود اس کے میں تمہارے مال اور تمہاری کسی بات کا بھی روادار نہیں اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا کے بدر قادیان ۲۵ جنوری شاه مت

Page 212

نہیں.تمہارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا.اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی کو دے دیا کرتا تھا.مگر کسی کو غلطی میں ڈالا اور اس نے کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں.تب میں نے محض خدا کی رضا کے لئے اس روپیہ کو دینا بند کر دیا کہ میں دیکھوں یہ کیا کر سکتے ہیں.ایسا کسنے والے نے غلطی کی انہیں بے ادبی کی.اسے چاہیئے کہ وہ تو بہ کرے میں پھر کہتا ہوں کہ وہ تو بہ کرے.اب بھی توبہ کرلیں.ایسے لوگ اگر توبہ نہ کریں گے تو ان کے لئے اچھا نہ ہوگا.تم خوب یاد رکھو کہ معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں تم مجھ میں عیب دیکھو آگاہ کر دو مگر ادب کو ؟ ہاتھ سے نہ جانے دو.خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے...پس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے.اور اپنے مصالح سے بنایا ہاں تمہاری بھلائی کے لئے بنایا ہے.خدا کے بناتے ہوتے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہو گا تو وہ مجھے موت دے دے گا تم اس معاملہ کو خدا کے حوالے کرو.تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تم میں سے کسی کا بھی شکر گزار نہیں ہوں جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا.مجھے یہ لفظ ہی دُکھ دیتا ہے.جو کسی نے کہا کہ پارلیمنٹوں کا زمانہ ہے دستوری حکومت ہے....مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہو گئی اور دستوری حکومت کا زمانہ ہے.انہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا بے ادبی کی خوب یا درکھو اور سُن رکھو میری امانت، دیانت کی حفاظت تم سے نہیں ہو سکتی.اور کوئی بھی نہیں کر سکتا.مجھے تم میں سے کسی کا خوف نہیں اور بالکل نہیں.ہاں میں صرف خدا ہی کا خوف رکھتا ہوں.پس تم ایسی بدگمانی نہ کرو اور تو یہ کرو.اگر ہمارا گناہ ہے، ہمارے ہی ذمہ رہنے دو.اگر میں غلطی کرتا ہوں اس بڑھاپے اور اس عمر میں قرآن مجید نے نہیں سمجھایا تو پھر تم کیا سمجھاؤ گے ؟ میری حالت یہ ہے کہ بیٹھتا ہوں تو پیر دکھی ہوتے ہیں.کھڑا

Page 213

کم۲۰ ہوتا ہوں تو محض اس نیت سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے.میں نہیں جانتا میرا کتنا وقت ہے...مجھے کیا معلوم ہے کہ پھر کہنے کا موقعہ ملے گا یا نہیں ؟ے موقعہ ہو تو تو فیق ہو یا نہ ہو.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ تم کو حق پہنچا دوں پس میری سنو اور خدا کے لئے سنو.اسی کی بات ہے جو میں سنانا چاہتا ہوں میری نہیں کہ : ވ ہو واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا حضرت اقدس خلیفہ ایسے الاول رضی اللہ عنہ کی اس نہایت پر درد اور موثر تقریر سے علم ہوتا ہے کہ جو فتنہ ششتہ میں بظاہر دب گیا تھا وہ پھر بڑی شدت سے سر اٹھانے لگا تھا اور نظام خلافت کو گیا پھر سے سر اور مٹانے کی کوششیں ایک بار پھر تیز کر دی گئی تھیں.افسوس کہ مسجد مبارک کے مقدس صحن میں مخلصین کی آہ و بکا کے درمیان عمد بعیت کی جو تجدید کی گئی تھی اُسے ایک بار پھر نیا منیا کر دیا گیا.اور بار جمہوریت کے نام پر انجمن کے اقتدار اعلیٰ کا ڈھول ایک مرتبہ پھر اُسی زور و شور سے پیٹا جانے لگا.اس فتنہ کا ایک پہلو تو وہی تھا جس کا حضرت خلیفہ المسیح کی محولہ بالا تقریر میں صراحتاً ذکر ہے ایک اور مہلو یہ تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کو نظام خلافت کے دشمن اپنی راہ میں حائل دیکھ کر آپ کے خلاف بھی طرح طرح کی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو گئے.ایک طرف تو یہ کہا جانے لگا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کو انجمن نے اپنے اختیار سے خلیفہ بنایا ہے لیکن اقتدار اعلیٰ اس کے باوجود انجمن ہی کے ہاتھ میں ہے اور خلیفہ انجمن کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا نیز یہ بھی سب ملا کہا جانے لگا کہ انجمن کا یہ فعل بھی ایک غلطی تھا اور آئندہ اس قسم کی غلطی کا اعادہ نہیں کیا جائے گا.یعنی موجودہ خلیفہ کی موت کے بعد انجمن کسی نئے خلیفہ کے انتخاب کی اجازت نہیں دے گی خواہ کیسے ہی محدود اختیارات کیوں نہ رکھتا ہو.دوسرا پہلو اس فتنے نے یہ اختیار کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں مشہور کیا جانے لگا کہ یہ جو نظام خلافت کے حامی اور خلیفہ المسیح کے بڑے مطیع بنے پھرتے ہیں اور اصل محض اس لئے ہے کہ یہ خود خلیفہ بننے کے خواہشمند ہیں.احباب جماعت میں اس الزام کی اشاعت پہلے پہل تو زبانی سرگوشیوں کے ذریعہ کی جانے لگی.پھر گمنام مطبوعہ مفلٹس کے ذریعہ اس زہر یلے خیال کی اطلاعات ے بدر قادیان یکم فروری ۱۹۱۷ ص ۳ اہم

Page 214

۲۰۵ کی جانے لگی اور ستم ظریفی کی حدید ہے کہ خود حضرت خلیفہ ایسی کو یہ کہ کر حضرت صاحبزادہ صاحب اور دیگر اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی کہ صاحبزادہ صاب.نه صرف خود خلیفہ بننے کے خواہشمند ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ در اصل خلافت کے حق دار تھے ہی وہی، اور حضرت خلیفہ المسیح کا انتخاب اُن کے نزدیک نعوذ باللہ غلط ہوا ہے.اہلِ بیت کے علاوہ آپ کے دیگر رفقا کو بھی اس بارہ میں آپ کا ہم نوا بتایا جانے لگا.حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ بڑے خدا رسیدہ جہاندیدہ اور صاحب فہم و فراست بزرگ تھے اور علم لدنی اور معرفت کے ایسے اعلیٰ مقام پر فائز تھے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی آپ ان ادنی چالاکیوں سے متاثر نہیں ہو سکتے تھے اور خوب اچھی طرح علم رکھتے تھے کہ کون گہرے اور غیر متزلزل یقین اور خلوص کے ساتھ اُن کا مطیع و فرمانبردار ہے اور کون نہیں.چنانچہ آپ نے لاہور کے ایک سفر میں عین اس مقام پر جو ان افواہوں کا منبع اور مرکز تھا، بڑے واشگاف الفاظ میں فتنہ پروازوں کو متنبہ فرما دیا کہ یہ الزامات محض بے بنیاد ہیں اور خلیفہ امیج کو ان لغو کوششوں سے دھو کا نہیں دیا جا سکتا.جون شاہ کو احمد یہ بلڈنگ لاہور میں (جو بعد ازاں منکرین خلافت کا مرکز بنا کا اور تا حال میں مرکز ہے) آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا : میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنایا کس نے ؟ الله تعالیٰ نے فرمایا: اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَة - اس خلافتِ آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا کہ حضور وہ مفسد فی الارض اور مسفك الدم ہے مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا ؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے اور اگر وہ ابا اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یاد رکھے کہ الیس کو آدم کی مخالفت نے کیا کھیل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اسے اسجد والادم کی طرف

Page 215

لے آئے گی...اُن کی (حضرت داؤد کی - ناقل) مخالفت کرنے والوں نے تو یہاں تک ایجی ٹیشن کی کہ وہ انارکسٹ لوگ آپ کے قلعے پر حملہ آور ہوتے.اور کود پڑے مگر جس کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا ، کون تھا جو اس کی مخالفت کر کے نیک نتیجہ دیکھ سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے ابو بکر و عمر رضی الله عنهما کو خلیفہ بنایا.رافضی اب تک اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں.مگر کیا تم نہیں دیکھتے کروڑوں انسان ہیں جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر درود پڑھتے ہیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے....اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں.تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا.اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا ورنہ اس اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دیتے پر تھوکنا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے....مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں که جتنی فرمانبه داری میرا پیارا محمود بشیر شریف نواب ناصر نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں.ان کو خدا کی رضا کیلئے محبت ہے.بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سُنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں...میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں مگر نہیں میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے) ایک بھی نہیں....جیسا میں نے ابھی کہا ہے یہ رفض کا شعبہ ہے.جو خلافت کی بحث

Page 216

۲۰۷ تم چھیڑتے ہو یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہیے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے کہ خلیفہ کرتا ہی کیا ہے ؟ لڑکوں کو پڑھاتا رہتا ہے کوئی کہتا ہے کہ کتابوں کا عشق ہے اسی میں مبتلا رہتا ہے.ہزار نالا تھیاں مجھ پر تھو پو.مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا.یہ لوگ ایسے ہیں جیسے رافضی ہیں جو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں...میں باوجود د اس بیماری کے جو مجھے کھڑا ہونا تکلیف دیتا ہے اس رقعہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرندیس کی طرح سزا دیں گے.دیکھو ! میری دعائیں عرش میں بھی سنی جاتی ہیں.میرا مولیٰ میرے کام میری دُعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے.میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے.تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو.توبہ کر لو..تھوڑے دن صبر کرو پھر جو پیچھے آئے گا اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا یہ اتنے معلوم ہوتا ہے حضرت خلیفہ المسیح کے اس واضح اور پریقین اعلان کے باوجود کہ صاحبزادہ مرزا محمود احمد سے بڑھ کر جماعت میں کوئی اور آپ کا مطیع نہیں ، یہ فتنہ پرواز بے ہودہ سرائی سے باز نہیں آئے اور یہ شر انگیز افواہیں پھیلانے پر مصر رہے کہ دراصل حضرت صاحبزادہ صاحب خود خلیفہ بننے کے نے بدر قادیان ۲۸ / بعون ۱۹۱۷ ه من تا ۲۲

Page 217

Y-A خواہشمند ہیں.اس موقف کو اختیار کرنے اور اس پر اصرار کرنے پر وہ ایک لحاظ سے مجبور بھی تھے.احباب جماعت کی بھاری اکثریت حضرت صاحبزادہ صاحب سے بوجوہ گہری محبت رکھتی تھی اور آپ کی رائے کو بڑی وقعت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.نظام خلافت کے بارہ میں آپ کا موقف بڑا واضح اور غیر مبہم تھا اور خلیفہ کی اطاعت سے متعلق بھی آپ کے نظریات اور آپ کے عمل سے محبت بخوبی آگاہ تھی ہیں جب تک آپ کے خلوص نیت کو جماعت کی نظر میں مجروح اور مشکوک نہ کیا جاتا ، آپ کے قومی موقف کو شکست دے کر نظام خلافت کو گزند پہنچانا ممکن نہ تھا.منکرین خلافت خوب جانتے تھے کہ آپ کو پچھاڑے اور مغلوب کئے بغیر وہ جماعت احمدیہ سے خلافت کے وجود کو کبھی ختم نہیں کر سکتے ہیں اس سنگ راہ کو ہر قیمت پر دور کرنا ان کیلئے ایک لابدی امر تھا.چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کے خلاف الزام تراشی اور بدگمانیاں پھیلانے کی مہم ایسی تیز کر دی گئی کہ متعدد احباب اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.یہ کوششیں رفتہ رفتہ ذاتی عناد اور بعض میں تبدیل ہو گئیں اور آپ کی دل آزاری کیلئے مختلف جملے ایجاد کئے جانے لگے.ان حربوں میں سے ایک یہ تھا کہ خطوط کے ذریعہ آپ کو مخاطب کر کے نہایت تکلیف دہ الزامات اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا.چنانچہ ایسے ہی ایک انتہائی دل آزار خط سے مجروح اور دل شکستہ ہو کر بالآخر آپ نے ایک مطبوعہ خط کے ذریعہ ان تمام الزاستان سے اپنی بریت کا اعلان کیا تا کہ احباب جماعت پر حقیقت حال واضح ہو جائے اور وہ لاعلمی میں اس فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں.یہ خط مین وئن پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.آپ اس گمنام معترض کو جس نے ایک مطبوعہ کھلی چھٹی لے کے ذریعہ آپ کو ہدف علامت بنایا تھا، مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- " مجھے آپ کے خط کو پڑھ کر جو صدمہ ہوا اُسے تو خدا ہی جاتا ہے لیکن وہ صدمہ کوئی نیا نہ تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس قسم کے الزامات لگائے جانے کا عادی ہوں اور جب سے ہوش سنبھالا ہے غیروں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ اپنے دوستوں ہی کے ہاتھوں سے وہ کچھ دیکھا اور ان زبانوں سے وہ کچھ نا کہ دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے ہم نے دل سے دشمن کی عداوت کا گلا جاتا رہا میں ایک گہنگار انسان ہوں اور مجھے پاک و مظہر ہونے کا دعوئی ے حضرت صاحبزادہ صاحب نے اصل خط اور اپنا مفصل جواب الفضل 9 نمیمیرہ میں شائع کروادیا تھا

Page 218

۲۰۹ نہیں.ہر روز مجھ سے غلطیاں ہوتی ہیں اور کون ھے جن سے غلطیاں سرزد نہ ہوتی ہوں.لیکن یا وجود اس کے جو گناہ سرزد نہ ہو اس کی طرف منسوب ہونے پر دن گھبراتا ضرور ھے.جو جملے آن مکرم نے کہتے ہیں اُن کوئی ثبوت بھی دیتے تو شاید ان کے جواب دینے کے قابل ہوتا لیکن وہ کہتے ہیں کہ تم نے یوں کیا، یوں کیا.اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ھے کہ میں نے یوں نہیں کیا.اور آپ نے صرف بدظنی سے کام لیا ہے اور اعتراض کرنے میں جلدی کی ہے.اگر یہ خطہ اکیلا آتا اور اس کے سوا اور میں کوئی آواز نہ سنتا تو میں بالکل خاموشن رہتا.لیکن آج پانچ سال کے قریب عرصہ ہونے کو آید ھے کہ اس قسم کے اعتراضات میں سنتا آرہا ہوں لیکن پہلے تو افواھا ان اعتراضات کا علم ہوتا تھا اور اب کچھ مدت سے تحریراً بھی یہ الزاست مجھ پر قائم کئے جانے لگے ہیں اور صرف بھی تک بس نہیں بلکہ ٹریکیوں کے ذریعہ یہ خیال تمام جماعت احمدیہ میں پھیلانے کی کوشش کی گئی ھے.چنانچہ جن دوستوں تک ہی اظہار حق" نامی ٹریکٹ جولاہور سے کسی گمنام صاحب کی طرف سے شاتھ ہوا ھے پہنچا ھے اور اکثر لوگوں کو.ناقل) پہنچا ہوگا کیونکہ وہ پنجاب و ہندوستان میں بکرے شائع کیا گیا ھے.اُن کو علم ہو گیا ہو گا کہ اب یہ معاملہ زبانوں سے گزر کر تحریر تک اور تحریر سے گزر کر اشاعت تک جاپہنچا ہے.اس لئے ضرورت ھے کہ مُجملاً اس کے متعلق کچھ لکھا جائے.میں حیران ہوں کہ اس معاملہ پر کچھ لکھوں تو کیا لکھوں.آخر وہ کون سے دلائل میں جن کو توڑوں.جب سب معاملہ کھے بنا ہی بدظنی پر ھے تو میں بدلتی میں دلائل کیا دُون عقلی مسئلہ ہو تو اس کا جواب دلائل عطیہ سے دیا جائے.لیکن جب یہ معاملہ ہی رویت و سماعت کا ھے تو جب تک میری تحریر یا تقریر سے یہ الزامات مجھ پر ثابت نہ کہتے جائیں اس وقت تک میں ان الزامات کا کیا جواب دے سکتا ہوں

Page 219

٢١٠ جیسا کہ میں نے بیان کیا ھے این جواب دینے سے مجبور ہوں اور موجودہ صورت میں اور کیا کہ سکتا ہوں سوائے اس کے کہ یہ کون کہ خدا تعالی شاہد ھے اور میں اس کو حاضر ناظر جان کر اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی اس امر کی کوشش نہیں کی کہ میں خلیفہ ہو جاؤں.نہ یہ کہ کوشش نہیں کی بلکہ کوشش کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہیں آیا اور نہ میں نے کبھی یہ امید ظاہر کی اور نہ میرے دل نے کبھی خواہش کی اور جن لوگوں نے میری نسبت یہ خیان پھیلایا ھے انہوں نے میرا خون کیا ھے.وہ میرے قاتل اور خدا کے حضور و إن الزامات کے جوابت ہوں گے.جب حضرت صاحب فوت ہوتے ہیں اس وقت میری عمر انہیں سان کی تھی اور ہندوستان میں انیس سال کی عمر میں ابھی کھیلنے کو اپنے کے بھی دن سمجھے جاتے ہیں.پس میری عمر بچپن کی حالت سے زیادہ نہیں ہوئی تھی.جب سے میں نے یہ چھوٹے بولا جاتے ہوئے سنا.میرے اس دوست نے جن نے مجھے خط لکھا ہے آج یہ اعتراض کیا ھے.مگر یہ اعتراض بہت پرانا ہے اور اس وقت سے میں اس کو سنتا آرہا ہوں جبکہ میں ابھی اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھ سکتا تھا.میں وقت خلافت کا جھگڑا ہوا ھے اس وقت میرے کانوں میں یہ آوازین پڑی تھیں کہ بعض نوجوان خلیفہ بننے کی خواہش میں یہ شورش بپا کر رہے ہیں.میرے کان اس بات کو سُنتے تھے مگر میرا دما غیر ان کے معنوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا.کیونکہ میرا دن پاک تھا.اور بالکل بے لوث تھا اور اس پر ہوا و ہوس کے غبار نے کوئی اثر نہ کیا تھا.میں نے معلوم کیا.که این انگلیوں کا اشان میری طرف ہے اور ان اقوال کا مخاطب میں ہوں.میری اُس وقت کیا عمر تھی اور ایسے وقت میں میرے دل پر کیا صدات گزر سکتے تھے اُسے خدا ہی جانتا ھے.میرا کوئی دوست

Page 220

Fin نہ تھا جن سے میں اس دُکھ کا اظہار کر سکوں کیونکہ میری طبیعت بچین سے ہی اپنے دکھ لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے دُکھتی ہے.میرے دل پر وہ اتوان خنجر اور تلوار کی ضرب سے بڑھ کر پڑتے تھے اور میرے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے مگر خدا کے سوا کسی سے اپنے دُکھ کا اظہار نہ کرتا تھا.اور اگر کرتا تو لوگ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے تھے میں نے ان لوگوں کے بغض سے جنہوں نے یہ باتیں میرے حق میں آمین ہمیشہ اپنے آپ کو بچائے رکھا اور اپنے دل کو میلا نہ ہونے دیا.لیکن لہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی " میں سمجھتا تھا کہ چند دن کا فتنہ ھے جو خود بخود دُور ہو جائے گا مگر اس فتنہ نے اپنی لمبائی میں شب ہجر کو بھی بات کر دیا اور گھٹنے کی بجائے اور بڑھا.میں نے کبھی معلوم نہیں کیا کہ میرا کیا قصور تھا.سوائے اس کے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا تھا کیونکہ اور بہت سے لوگ موجود ہیں جن پر یہ الزام نہیں لگائے گئے اور لاکھوں احمدیوں کے سر پر یہ بوجہ نہیں رکھا گیا.مگر یہ تصور میرا نہیں.اس کی نسبت خدا سے یہ سوال کرو.اگر یہ کوئی قصور تھا تو اس کا فاعل خدا ھے، نہ میں تین خود مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں پیدا نہیں ہوا.مجھے میرے مولا نے جہان بھیج دیا میں آگیا.بین خدا کے لئے مجھے اس فعل پر دُکھ نہ دو.اس واقعہ کی بنا پر مجھے مت ستاؤ.جو میرے اختیار سے باہر ھے جس میں میرا کوئی دخل نہیں.غرض ان مشکلات میں اپنے مولا کے سوا میں نے کسی پر توکل نہیں کیا اور اپنے دل کے دُکھوں پر اس کے سوا کسی کو آگاہ نہیں کیا.اور تو میرا دل ایک پھوڑے کھے طرح بھرا ہوا تھا.مگر سوارت کبھی کبھی اپنی نظموں میں بے اختیار ہو کر اشارہ اپنے دُکھ کے اظہار کے کبھی اپنے دکھ کا اظہار نہیں کیا.مجھے ہمیشہ تعجب آتا رہا ہے کہ لوگ اس قدر بد ظنیوں سے کیوں

Page 221

۲۱۲ کام لیتے ہیں.مجھ سے تو اس معاملہ پر اگر کسی دوست نے گفتگو کرنی چاہی تو ہمیشہ میں نے یہی کہہ کر ٹال دیا کہ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں کب تک زندہ رہوں گا.مگر افسوس کہ ظلم میں کمی آنے کے بجائے وہ اور ترقی کرتا گیا.یعنی کہ اب وہ اپنے کمال پر پہنچ گیا ہے اور خدا چاھے تو شاید وقت آگیا ہے کہ اہے وہ پھر زوال کی طرف رخ کر ہے.اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ شاید اس شور کا اثر ایک میرے پیارے کے دل پر نہ پڑے تو میں شاید اب بھی جواب کی طرف متوجہ نہ ہوتا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ قوم کو ہلا کتے سے بچانے کے لئے کچھ کہنا ضروری ہے.میرے باپے پر جین قد الزام لگائے گئے تھے یہ الزام اُن کے عشر عشیر بھی نہیں.لیکن وہ خدا کے مامور تھے اور اُن سے جو خدا کے وعدے تھے وہ مجھ سے نہیں.اس نے میرا ان پر کڑھنا تعجب کی بات نہیں افسوس میں نے اپنے دوستوں سے وہ سُنا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے نہ سُنا تھا.میرا دل حسرت و اندن کا مخزن ہے اور میں حیران ہوں کہ میں کیوں اس قدر مورد عتاب ہوں.بے شک ن بھی ہوتے ہیں جو غم و راحت میں اپنی عمر گزارتے ہیں.مگر یمان تو چھاتی قفس میں داغ سے اپنی ہے رشک باغ a جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو اگر میں تبلیغ دین کے لئے کبھی باہر نکلتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو پھسلانے کے لئے اپنی شہرت کے لئے اپنا اثر در سو خو پیدا کرنے کے لئے اپنی حمائتیں بنانے کے لئے نکلتا ہے.اور اس کا باہر نکلت اپنی نفسانی اغراض کے لئے ہے.اور اگر میں اس اعتراض کو دیکھ کر اپنے گھر بیٹھ جاتا ہوں تو یہ الزام دیا جاتا ھے کہ یہ دین کی خدمت میں کوتا ہی کرتا ھے اور اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے اور خالی بیٹھا دین

Page 222

۳۱۳ کے کاموں میں رخنہ اندازی کرتا ہے.اگر میں کوئی کام اپنے ذمہ لیتا ہوں تو مجھے سنایا جاتا ھے کہ میں حقوق کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا.ہوں اور قومی کاموں کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہوں اور اگر میں دل شکستہ ہو کر جدائی اختیار کرتا ہوں اور علیحد گی میں اپنی سلامتی دیکھتا ہوں تو یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ یہ قومی درد سے بے خبر ہے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کی بجائے اپنے اوقات کو رائیگاں گواتا ہے.مگر مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں عام انسانوں سے زبان کام کرتا ہوں حتی کہ اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھتا.مگر اسے جانے دو.مجھے تم خود ہی بتاؤ کہ وہ کونسا تفسیرا رستہ ہے جسے میں اختیار کروں.خدا کے لئے مجھے اس طریقے سے آگا ہی دو میں پران دونوں راستوں کو چھوڑ کر میں قدم زن ہوں اللہ مجھے وہ سبیل بتاؤ جسے میں اختیار کروں.آخر میں انسان ہوں.خدا کے پیدا کئے ہوئے دو راستوں کے علاقہ تیسرا راستہ میں کہاں سے لاؤں ؟ صبح شام رات دن اُٹھتے بیٹھتے یہ باتیں سُن سُن کر میں تھک گیا ہوں.زمین با وجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو گئی ہے اور آسمان با وجود رفعت کے میرے نئے قید خانہ کا کام دے رہا ہے.اور میری و بی حالت ھے کہ حتى إذا ضَاقَتْ عَلَيْهُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ انْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لا مَلْجَا مِنَ اللهِ إِلا إِلَيهِ.افسوس کہ میرے بھائی مجھ پر تہمت لگاتے ہیں اور میرے بزرگ مجھو یر بانی کرتے ہیں.دنیا میں ڈیڑھ اربے آدمی بنتا ھے مگر مجھے تو سوائے خدا کے اور کولھے نظر نہیں آتا.لوگ اس دنیا میں تنہا آتے اور بیان سے تنہار جاتے ہیں.مگر میں تو تنہا آیا اور تنہا رہا اور تنہا جاؤں گا.یہ زمین میرے لئے ویران جنگل ھے.اور یہ بستیاں اور شہر میرے لئے التوبة ١١٨:٩

Page 223

۲۱۴ قبرستان کی طرح خموش ہیں.میرے دوست مجھے اس وقت معاف فرمائیں میں ان کی محبت کا شکر گزار ہوں لیکن میں کیا کروں کہ جہان میں ہوں وہاں وہ نہیں ہیں.میں ان مہربانوں کے مقابلہ میں جو مجھے آئے دن ستاتے رہتے ہیں ان کی محبت کی قدر کرتا ہوں.اُن کے لئے دُعا کرتا ہوں.اپنے رہے سے اُن پر فضل کرنے کی درخواست کرتا ہوں لیکن باوجود اس کے میں تنہا ہوں.میری مثال ایک طوطے کی ھے جن کا آقا اس پر مہربان ہے اور اس سے نہایت محبت کرتا ہے اور وہ طوطا بھی اس کے پیار کے بدلے میں اس سے انس رکھتا اور اس کی جدا تھے کو نا پسند کرتا ہے مگر پھر بھی اس کا دال کہیں اور ھے اس کے خیال کیں اور ہیں.میرے آقا کا دلبند میرا مطالع امام حسین تو ایک دفعہ کربلا کے ابتلا میں مبتلا ہو الیکن میں تو اپنے والد کی طرح نہیں کہتا ہوں کہ ے کر بلاتی است سیر بر آنم صد حسین است در گریبانم ارے نادانو! کیا تم اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر میرا خدا مجھے بڑا بنانا چاہے تو تم میں سے کون ھے جو اس کے فضل کو رد کر سکے اور کون ھے..جو میرے مولیٰ کا ہاتھ پکڑ سکے.وإِنْ يَرِدُكَ بِخَيْرِ فَلاَ رَاد لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرحيمة لل اور اگر وہ مجھے عزت دینا چاہے تو کون ھے جو مجھے ذلیل کر سکے اور اگر مجھے بڑھانا چاہے تو کون ہے جو مجھے گھٹا سکے اور اگر وہ مجھے اونچا کرنا چاہے تو کون ہے جو مجھے نیچا کر سکے اور اگر وہ مجھے اپنا قرب عطار کرنا چاہے تو کون ہے جو مجھے اس سے بعید کر سکے اور اگروہ مجھے اپنے پاس بٹھاتے تو کون ھے جو مجھے اس سے دُور کردے.پس اپنے آپ ه یونس : ۱۰۸

Page 224

۲۱۵ " کو خدامت قرار دو کہ عزت دینا اور ذلیل کرنا خدا کے اختیار میں ہے نہ کہ تمہارے مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا - - کسی انسان کی زندگی کا بھی اعتبار نہیں ہوتا مگر میں تو خصوصاً ހ بیمار رہتا ہوں اور چوتھے پانچویں دن مجھے حرارت ہو جاتی ہے اور سخت سر درد کا دور ہوتا ہے.چنانچہ اس وقت بھی جبکہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں میرے سرمیں درد ھے اور بدن گرم ہے اور صرف خدا ہی کا فضل ہے کہ میں یہ چنار سطریں لکھنے کے قابل ہوا ہوں اور علاق ازمین مجھے اور بھی کئی بیماریاں ہیں.میرا سینہ کمزور ھے.میرا جگر ہمار ھے.میرا معدہ اچھی طرح غذا ہضم نہیں کر سکتا.تمہیں کیا معلوم ھے که مین کل تک زندہ رہوں گا یا نہیں کیا جانتے ہو کہ نیا سال مجھے پر چڑھے گا یا نہیں ؟ تم کیوں خواہ نخواہ یوسف علیه السلام کے بھائیوں کی طرح کہتے ہو : يَخْلُ لَكُم وَجْهُ أَبِيكُم - میرے تو اپنے پیارے دوسری دنیا میں ہیں.میرے لئے تو یہ دنیا خالی ہے میرا مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس دنیا میں ہے.میرا احمد اُسی دنیا میں ہے.کیا وہ لوگ زندہ رہے کہ میں رہوں گا.میرے پاس اعمال کا ذخیرہ نہیں اور میرا ہاتھ خالی ھے.لیکن خدا کے فضل سے امیدوار ہوں کہ نہ مجھے اُن کے خدام میں جگہ دے کیونکہ اُن کے قریب کے بغیر جنت بھی میرے لئے بھیانک ہے.میں تم سے گھبرانا نہیں.میں تمہارے جملوں سے ڈرتا نہیں کیونکہ میرا خدا پر بھروسہ ہے.لیکن مجھے اگر غم ہے تو اس بات کا کہ قوم میں فتنہ نہ ہو اور یہیں غم میرے دل کو کھائے جاتا ہے.مگر مجھے امید ھے کہ خدا تعالی اس جماعت کو بچائے گا اور اس کی مدد کرے گا کیونکہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ایک پودا اپنے ہاتھ سے لگا کر پھر اسے سو رکھنے دے.ان استلا کے ایام ہیں جو گزر جائیں گے یا اے (الفضل ۱۹ نو بر شانه ) یہ خط اس مضمون پر حرف آخر ہے اور اس کے بعد کسی مزید تنصرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی •

Page 225

۲۱۶ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار اور صاحب فراش تھے.یہ آپ کی آخری بیماری تھی اور قرب وصال کے آثار بہت نمایاں ہو چکے تھے چنانچہ اس خط کی اشاعت کے چند ماہ بعد ہی آپ اس عالم گزران سے کوچ کر کے جان آفرین کے حضور حاضر ہو گئے.اس وقت انکار خلافت کا فتنہ کس طرح اپنے عروج کو پہنچا اس کا ذکر بعد میں اپنے محل پر کیا جائیگا.فی الحال ہمیں کچھ دیر کے لئے اس ذکر کونج کرنے کی اجازت دیجئے تاکہ ہم اس دور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی دیگر علمی اور دینی خدمات اور دوسری متفرق مصروفیات کا کچھ ذکر کر سکیں.

Page 226

۲۱ " وہ جلد جلد بڑھے گا " حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد کی جو صفات آپ کی ولادت کی عظیم الشان پیشگوئی میں بیان فرمائی گئی تھیں.ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جلد جلد بڑھے گا ، اگر چہ آپ کی تمام زندگی ہی اس الہام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آتی ہے.لیکن خصوصیت کے ساتھ حضرت خلیفت المسیح الاوّل کی خلافت کے چھ سالہ دور میں آپ کی ذہنی علمی اور روحانی نشو نما کی رفتار عقل کو حیران کرتی ہے.آپ کے مضامین' آپ کی تقریریں، آپ کا سفر آپ کا حضر، آپ کی انتظامی جد و جہد آپ کی بصیرت اور پُر خطر فتنوں پر گہری نظر رکھنا.یہ تمام امور گہرے مطالعہ کے مستحق ہیں.لیکن بجائے اس کے ہم اس پر خود کچھ رائے زنی کریں خود آپ ہی کے نثر و نظم کے بعض اقتباسات نیز آپ کے ہمعصر مبصرین کی بعض آیا پر اکتفا کرتے ہیں.کیوں نہ ہو ! جب خود مشک بول رہا ہو تو کیا عطار کی خاموشی بہتر نہیں ؟ ریر و تحریر خلافت اُولی کی ابتدا میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر انہیں سال کی تھی اور حضرت خلیفہ المسيح الاول رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت آپ اپنی عمر کے ۲۶ ویں سال میں داخل ہو چکے تھے.اس نو عمری میں آپ کی تقریر و تحریر کا جو ننگ تھا اس کے چند نمونے ناظرین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں.آپ کے خیالات اور افکار میں ایک بزرگ مفکر کی سی پختگی آچکی تھی.آپ کے الفاظ اثر اور جذب اور خلوص اور گداز میں گوندھے ہوتے تھے.کلام تقع سے نا آشنا تھا اور تحریر تکلف سے پاک تھی.تقریر میں ایک طبعی روانی تھی اور تحریر سلامت کا ایک بہتا ہوا دریا تھی.دونوں ہی قرآنی علوم اور عرفان کے پانی سے لبریز اور دل و دماغ کو بیک وقت سیراب کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 19 سال کی عمر میں آپ نے جو پہلی تقریرہ کی اس کے متعلق

Page 227

۲۱۸ ایک صاحب علم و فضل بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- ایک اور واقعہ جس کا میں اس مضمون میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ، وہ حضور رین کی پہلی تقریر ہے جو حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر کی.یہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں منعقد ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ حضور کے دائیں طرف سٹیج پر رونق افروز تھے بیٹیج کا رخ جانب شمال تھا.اس تقریر کے متعلق دو باتیں خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں.اول عجیب بات یہ تھی کہ اس وقت آپ کی آواز اور آپ کی ادا اور آپ کا لہجہ اور طریز تقریر حضرت مسیح موعود علیه السلام کی آواز اور طرز تقرر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ اس وقت سُننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہو ا تھا ہم سے جدا ہوئے تھے یاد تازہ ہو گئی.اور سامعین میں سے بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں ئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس آواز کی وجہ سے جو اُن کے پسر موعود کے ہونٹوں سے اس وقت اس طرح پہنچ رہی تھی جس طرح گراموفون سے ایک نظروں سے غائب انسان کی آواز پہنچتی ہے، آنسو جاری ہو گئے اور اُن آنسو بہانے والوں میں ایک خاکسار بھی تھا.اگر یہ کہنا درست ہے کہ انسان کی روح دوسرے یہ اُترتی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آپ پر اتر رہی تھی اور اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ یہ ہے میرا پیارا بیٹا جو مجھے بطور رحمت کے نشان کے دیا گیا تھا.اور جس کی نسبت یہ کہا گیا تھا کہ وہ حسن داحسان میں تیرا نظیر ہو گا.دوسری بات جو اس تقریر کے متعلق قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جب تقریر ختم ہو چکی تو حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے جن کی ساری عمر قرآن شریف پر تدبر کرنے میں صرف ہوئی تھی اور قرآن کریم جنگی روح کی غذا تھی فرمایا کہ میاں نے بہت سی آیات کی ایسی تفسیر کی ہے جو میرے لئے بھی بھی تھی.

Page 228

۲۱۹ یہ آپ کی پہلی پبلک تقریر تھی جو آپ نے جماعت کے سامنے کی اور اس پہلی تقریر میں قرآن شریف کے وہ معارف بیان فرمائے ہیں جن کی نسبت حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ جیسے عالم قرآن نے یہ اعتراف فرمایا کہ یہ ان کے لئے بھی جدید معارف ہیں.پس یہ معارف اس نوجوان کو کس نے سکھائے ؟ یہ حکمت اور یہ علم آپ کو اس زمانہ جوانی میں کس نے دیا ؟.اُسی نے جو قرآن شریف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے : " فَلَمَّا بَلَغَ شده اتینه حكما وعلما ه وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ.آپ نے صرف عام طور پر دانائی اور حکمت کی باتیں بیان نہ فرمائیں، بلکہ قرآن شریف کے اچھوتے معارف بیان فرماتے اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف کے متعلق فرماتا ہے : لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.پس لڑکین کی خلوت سے نکلتے ہی آپ کا لوگوں کے سامنے قرآن شریف کے جدید اور لطیف معارف بیان فرمانا اس بات کی ایک بین شہادت ہے کہ آپ نے اپنا ٹرکین اللہ تعالیٰ کی خاص تربیت میں گزارا اور آپ کمپین میں ہی مطہرین کی جماعت میں داخل تھے یا لے اس مختصر مگر موثر اور حقائق و معارف سے لبریز تقریر کے متعلق ایڈیٹر الحکم نے لکھا: "آج صبح کی کاروائی تشحید الاذہان کے جلسہ سے شروع ہوئی.حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ الاحد کی نظم اور آپ کی تقریر نے مردہ دلوں کو جلا دیا.بلا مبالغہ صاحبزادہ صاحب کی تقریر میں قرآن مجید کے حقائق و معارف کا سادہ اور مسلسل الفاظ میں ایک خزانہ تھا.پلیٹ فارم سے اس لب ولہجہ میں بول رہے تھے جو حضرت امام علیہ السلام کا تھا.اور الوَلَدُ سِر لابی کا پورا نمونہ تھا.صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے متعلق مجھے الفاظ نہیں ملتے کہ میں اس کا ذکر کر سکوں.الفضل در نومبر له حت

Page 229

۲۲۰ صاحبزادہ صاحب نے تشنہ حقائق قوم کو باپ کی طرح سیراب کر دیا اور وہی زمانہ یاد دلا دیا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے بھی زیادہ حقائق و معارف کے موتیوں سے مالا مال کرنے کے لئے اس زمانہ میں مختلف اہم موضوعات پر آپ نے درجنوں تقاریر فرمائیں اور بیبیوں مضامین لکھے جن میں سے اکثر آج ایک محفوظ ہیں.ان میں سے بعض تقاریر اور مضامین کے اقتباسات بغیر تبصرہ کے پیش کئے جارہے ہیں.یہ تقاریر اور مضامین آپ کے فکر و نظر اور شخصیت کی منہ بولتی تصویریں ہیں.آپ کی بعض تقاریر جو ابھی تک محفوظ ہیں، اتنی لمبی ہیں کہ اُن کا من وعن پیش کرنا جگہ کی مناسبت کے لحاظ سے موزوں نہیں.لیکن وہ اتنی پر مغز اور پر حکمت ہیں اور آپ کی جوانی کے پختہ فکر پر اس طرح واضح دلالت کر رہی ہیں کہ اُن کا کلیتہ حذف کر دینا بھی قارئین سے نا انصافی ہوگی.ہمارے سامنے آپ کی ایک تقریر ۲۷ مارچ شش کی ہے جب کہ آپ کی عمر بیس سال کی تھی به تقریر جو سورۃ لقمان کے آخری رکوع میں بیان فرمودہ مضمون سے تعلق رکھتی ہے پورے سوا دو گھنٹے تک جاری رہی.اس کے چند اقتباسات جو آپ کے ذہن رسا اور واضح غیر مسلم طرز فکر پر روشنی ڈالتے ہیں، پیش خدمت ہیں.ایک ہی لفظ مختلف معانی میں جس طرح استعمال ہو سکتا ہے اور اس کے صحیح استعمال یا صحیح اور ان کے فقدان سے بعض اوقات جو عظیم خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، اُن پر آپ کی کیسی وسیع اور گہری نظر تھی ، مثال کے طور پر ذیل کا اقتباس پیش ہے : "کلمہ شہادت اور سورۃ لقمان کا آخری رکوا پڑھ کر فرمایا.فرمانبرداری ایک ایسی چیز ہے اور یہ ایسا مشکل مسئلہ ہے کہ اس کا حاصل کرتا بلکہ اس کا سمجھنا ہی مشکل ہے.بعض الفاظ ہوتے ہیں جن کے ایک وقت میں کچھ معنی ہوتے ہیں اور دوسرے میں کچھ.مثلاً فرمانبرداری ہے.استاد کی فرمانبرداری اور معنی رکھتی ہے اور والدین کی فرمانبرداری اور معنوں میں چھپایا، ماموں کی فرمانبرداری کا کچھ اور رنگ ہے.پھر بادشاہ کی فرمانبرداری اور معنوں میں ہے.مرسل یا مامور من اللہ کی کی فرمانبرداری اور ہی شان میں ہے.ایک ہی لفظ ہے جو مختلف جگہوں میں ل "الحكم" جوبلی نمبر دسمبر صر کالم ۲

Page 230

مختلف معنی دیتا ہے.جو انسان مناسب موقع معنی نہ کرے وہ دھوکا کھاتا ہے اگر کوئی شخص والدہ کی فرمانبرداری رسول کی فرمانبرداری اور رسول کی فرمانبرداری والد کی فرمانبرداری قرار دے لے تو ضرور ہے کہ کچھ مدت بعد قرار لے کہ کچھ ٹھوکر کھائے اور ممکن ہے کہ والد کا حکم مقدم سمجھ کر خدا کی درگاہ سے بھی دور ہو جائے.بلغم کے قصہ ہی کو دیکھ لو کہ اس کی دعائیں قبول ہوتیں.اس کی آواز خدا کی بارگاہ میں سنی جاتی.وہ خدا کے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹاتا تو جواب پاتا.مگر ایک ایسا موقع آیا کہ اس نے بادشاہ کی خواہش کو مقدم کیا تو اس کے لئے حکم ہوا کہ آج سے تیری دُعائنی نہ جائے گی.وہ نہ سمجھا کہ چھوٹی چیزیں بڑی چیزوں کے لئے قربان کی جاتی ہیں.عیسائیوں کو بھی اس قسم کا دھوکا ہوا ہے.بکروں کو ذبح ہوتے دیکھا تو خدا کے بیٹے کو بھی قربان کر دیا اور یہ نہ سمجھے کہ بڑے چھوٹوں کے لئے نہیں بلکہ چھوٹے بڑوں کے لئے قربان کئے جاتے ہیں.فرمانبرداری کے مفہوم کو خوب واضح کرنے کے بعد آپ نے ایک اور روزمرہ استعمال میں آنے والے لفظ "درد" کی مثال پیش نظر رکھ کر یہ وضاحت فرمائی : "دیکھو درد ہے.اب کانٹا چھنے کا بھی درد ہے.جگر کا بھی درد ہے.قولنج کا بھی درد ہے.پھر دل کا بھی درد ہے.اب دیکھو لفظ تو درد ہی کا ہے مگر کجا کانٹے کا درد اور کجا اس دل کا دردجس کی قوم تباہ ہو رہی ہے.غرض ایک اُجڈ انسان کے دل کا درد ہے جسے صرف دُنیا کی محدو د چیزوں سے تعلق ہے.ایک عالم کے دل کا درد ایک شہید کے دل کا درد ہے.ایک صدیق کے دل کا درد ہے.پھر ایک نبی کے دل کا درد ہے.اور یہ درد یکساں نہیں.دیکھو ہم بھی درد محسوس کرتے ہیں مگر قوم کی جو تڑپ، جو درد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا، وہ ہم میں کہاں ہو سکتا ہے اللہ اللہ ! وہ کیسی دُعائیں تھیں جنہوں نے عرب میں جو جہالت کا منبع تھا علوم و معارف کی نہریں بہا دیں.اور وہ قوم جو جہالت کی وارث تھی، اُسے

Page 231

۲۲۲ علوم کا وارث بنا دیا..." اسی تقریر میں آگے چل کر انسانی عمل کے دو متحرکات یعنی احسان اور خوف کا دلچسپ موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ احسان بہت موثر ہوتا ہے اور خوف کم موثر - احسان میں کامل تابعداری ہوتی ہے اور خوف میں کم.لوگ اپنے محبوبوں کے راضی کرنے کے لئے جو جو دکھ اور مصیبتیں اُٹھاتے ہیں وہ کسی جابر و ظالم کے لئے نہیں اُٹھاتے.اس احسان کے نظارہ کے لئے سب سے پہلے قرآن مجید میں الحمد شریف ہے جہاں فرمایا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سب تعریفیں ہیں اس اللہ کے لئے جور بوست کرنے والا ہے تمام عالمین کا جو مچھر سے لیکر انسان تک اور کپڑے سے لے کر ہاتھی ایک سب کی ربوبیت کرتا ہے.ہم اپنے سے ادنی چیز کی قدر نہیں کرتے مگر وہ کیس گیشه ہو کر ایسا مہربان ہے کہ اپنے سے ادنیٰ سے ادنی چیز کی پرداخت فرماتا ہے.ایک حلوائی سارا دن مٹھائی تیار کرتا ہے اور اس کے لئے بہت خرچ کرتا ہے.بہت محنت اٹھاتا ہے مگر چیونٹی اور کبھی اسی ربوبیت عامہ کے ماتحت اس سے بلا کسی محنت کے فائدہ اٹھاتی ہے.بعض وقت ایک کتا پکا پکا یا بنا بنایا حلوا لے جاتا ہے جسے دیکھ کر ایک محدود خیال والا انسان گھبراتے مگر میں تو اس میں بھی اسی کی ربوبیت کی شان جلوہ گر دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی ادنیٰ سے ادنی مخلوقات کو کس حکمت سے رزق پہنچانا ہے کہ اشرف المخلوقات کو ایک رنگ میں اُن کا خادم بنا دیا ہے.یہ نظارہ دیکھ کر بے اختیار زبان سے نکلتا ہے الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الله جب کوئی روٹی اُٹھا لے جائے تو ایک احمق اس کے پیچھے لٹھ لے کر اُٹھے گا.اور میں ایسے تقی القلب لوگوں سے واقف ہوں جن میں سے ایک نے اس کا گھی کھا جانے والی بلی کو ہلاک کیا اور پھر اس کی انتڑیوں سے بھی نچوڑ کر نکالا.مگر ایک نبی کی فطرت اس موقعہ پر بھی الْحَمْدُ لِلَّهِ رب العالمین ہی پڑھے گی کیونکہ ایسی باتوں سے اس کی ربوبیت کا •

Page 232

ثبوت ملتا ہے.ہر چیز میں ہم دیکھتے ہیں کہ فضلہ لگا دیا ہے.میوہ کھاؤ تو اس کی گٹھلی پھینکنی پڑتی ہے.فضلہ چھوڑنا ہی پڑتا ہے.اور پھر جو کچھ کھایا جائے اس کا فضلہ بن کر بھی ایک وقت خاص پر نکل جاتا ہے اور دوسرے جانداروں کے کھانے کے کام آتا ہے ، اس طرح اس کی وبیت کی صفت اپنا جلوہ دکھاتی ہے" نماز با جماعت کی برکتوں پر ایک نئے انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : پس میں تمہیں سخت تاکید کرتا ہوں کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھو.جماعت پر جو فضل ہوتے ہیں وہ اکیلے پر نہیں ہو سکتے.دیکھو ایک انسان ہے.اس کا ہاتھ کاٹ دو پیروں کو نکال دو تو وہ ان اعضاء سے مل کر جو کام کر رہا تھا.اب نہیں کر سکتا.یہ اس لئے کہ جماعت کے ساتھ جو کام مختص ہے.وہ اکیلے سے نہیں ہو سکتا.اسی طرح مرکبات سے دوائیاں بنی ہوتی ہیں جو تریاتی اثر رکھتی ہیں.وہ اکیلی کسی دوا میں نہیں ہو سکتا." # آیات قرآنی پر آپ کے انداز تدبر کی ایک مثال پیش ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے کہ کے کی.اللہ تعالیٰ اپنے محسن بندوں کے اجر ضائع نہیں کرتا، آپ کا ذہن اس سوچ میں ڈوب گیا کہ پھر کیوں ہزار ہا پاکیزہ نبیوں کی تعلیم ضائع ہو گئی اور کیوں صرف آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی تعلیم محفوظ رکھی گئی.اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے آپ بحر معارف کی جن گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے، اس کا کچھ اندازه مندرجہ ذیل اقتباس سے ہو سکتا ہے " میں نے لا يُضِيعُ أَجْرَ المُحسنین پر تدبر کیا ہے کہ کیا وجہ ہے دوسرے انبیا عليهم السلام کی تعلیم بالکل محفوظ نہیں اور نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی تعلیم محفوظ ہے.تو مجھے سمجھایا گیا کہ چونکہ اللہ تعالی کی دوسری صفات نے بھی جلوہ کرنا تھا اور ہر ایک نبی نے خدا کی ایک نہ ایک صفت کے ماتحت کام کیا ہے اس لئے اُن کی تعلیم کے ساتھ دوسرے نبی کی تعلیم کا اضافہ ہے.مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم محسن کامل تھے.آپ کی ذات آپ کی تعلیم خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ تھا.اس لئے خدا نے فرمایا: اِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.ہم اس کو محفوظ رکھیں

Page 233

مهم ۳۳۳ گے.میں تمہیں دلی خلوص کے ساتھ یقین دلاتا ہوں کہ نبی کریم صلے الل کلیه مسلم سے بڑھ کر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کوئی نظر نہیں آتا.کیونکہ آپ نے اس کلمہ لا الہ الا الله کے ذریعہ نہ صرف خود نجات پائی بلکہ ایک دنیا کو نجات دلائی.بلکہ اس کے غلاموں کے غلام لوگوں کو نجات دینے والے ہوئے.جیسا کہ اس نے اس زمانہ کے امام کی زبان پر فرمایا.آگ سے ہمیں مت ڈرا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.دنیا میں یہ بات شاید لطیفہ سمجھی جاوے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات یر کسی نے نوحہ نہیں لکھا.مگر میرا دل ہمیشہ نوحہ کیا کرتا ہے.کہ اسے رسول ! تو نے ہمیں کیوں چھوڑ دیا.جس کی معرفت ایسی کامل تھی کہ خدا کے سوا گویا کچھ نظر ہی نہ آتا تھا.سارے عرب کے عمائد آپ کے برخلاف اُٹھے.آپ کے چچا کے پاس شکایت کی.آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور امیدیں بھی دلائیں کہ اگر ماں کی خواہش ہے تو لے ہے.اگر حسین سے حسین بی بی چاہے تو وہ حاضر ہے.اگر بادشاہی کی حرص ہے، تو ہم اپنا سردار بنا لیں.مگر آپ نے فرمایا کہ مجھے کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے.اگر مال کچھ چیز ہے، اگر دنیا کی بادشاہتیں کچھ قدر رکھتی ہیں تو خدا تعالیٰ خود ہی مجھے دے دے گا.تمہارے واسطہ کی ضرورت نہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا وجود کس قدر با برکت اور باعزت ہے کہ بادشاہوں کا غلام زادہ ہونا تو ایک قسم کی گالی اور ذلت کا موجب ہے مگر آ نحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے غلام زادے بھی دنیا میں وہ عزت پا رہے ہیں جو بڑے سے بڑے رئیس کو حاصل نہیں.میں جب راہ میں چلتا ہوں تو لوگ دست بوسی اور اعزاز و اکرام میں ایسا مبالغہ کرتے ہیں کہ رستہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے.اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ اللہ! کیا ہی عالیشان ہے وہ نبی جس کا غلام زادہ ہونا اس قدر عزت و شرف کا موجب ہے.آخر یہ عزت جو میری کی جاتی ہے یہ اسی لئے ہے کہ میں ه تذکره م۳۹۴

Page 234

۲۲۵ غلام احمد کا بیٹا ہوں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام زادہ ہوں لے کہ آپ کی طرز خطابت اور اس کے گہرے اثرات حضرت صاحبزادہ صاحب کو قادیان میں بھی اور قادیان سے باہر بھی اپنوں میں بھی اور غیروں کے مجمع میں بھی بیسیوں مرتبہ مختلف دینی اور تربیتی مسائل پر خطاب کرنے کا موقع ملا.آپ کی اکثر تقاریر تو من من محفوظ نہیں رہ سکیں لیکن بعض اخبارات و رسائل میں محفوظ کر لی گئیں.اُن سب کا پیش کرنا بھی ممکن نہیں.لہذا آپ کے بے تکلف سادہ مگر پر معارف طرز کلام کا محض ایک نمونہ پیش کرنے پر اکتفا کی جاتی ہے.کیا اپنے اور کیا غیر جملہ سامعین جس حد تک آپ کے خطاب سے متاثر ہوتے تھے اس کا کچھ اندازہ الحکم میں شائع ہونے والی ایک جلسہ کی رو ندا د سے لگایا جاسکتا ہے :.بنارس سے واپسی پر حضرت صاحبزادہ صاحب کی طبیعت ناساز تھی مگر کانپور کے احباب نے چاہا کہ ایک پبلک تقریر کریں اگر صاحبزادہ صاحب یا ہم لوگ چاہتے تو کانپور میں آپ کے متعد دلیکچر ہو سکتے تھے مگر چونکہ صاحبزادہ صاحب کو چار دن سفر بنارس میں صرف کرنے پڑے اور ان کی طبیعت بھی نصیب اعدام درست نہ تھی.اس لئے آپ کا منشا کسی پبلک تقریر کا نہ تھا تاہم احباب کے بے حد اصرار پر آپ نے منظور کیا کہ وہ خصوصیات سلسلہ پر پبلک تقریر کریں اس اعلان سے یہ بھی غرض تھی کہ آنے والے وہی لوگ ہوں گے جو ہمارے سلسلہ کے متعلق واقفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس مطلب کے لئے تیار ہو کر آئیں گے کہ انہوں نے کیا سنا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے منظور فرمانے کے بعد دوسرا سوال اعلان کا تھا پبلک جلسوں کے لئے بعض وقت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غیر احمدیوں کی طرف سے ہوں.مگر حضرت صاحبزادہ صاحب احمدی قوم کی پوزیشن کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور نہیں پسند کرتے کہ وہ دوسروں میں مدغم اور منظم ہو جاوے.میں اس جلسہ کے اعلان کو جماعت کے سیکرٹری کی طرف سے دینا تجویز ہوا.اور ۱۸ار اپریل کو جس کی شام کو لیکچر ہونا تھا.اربجے کے قریب اعلان ہو سکا.وہاں کی جماعت نے نہایت مستعدی سے اس اعلان کو بقدر اپنی ہمت $1910 اخبار بدس" قادیان اسم اور اپریل 19ء

Page 235

کے شائع کیا.اس میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر کسی شخص کو کچھ دریافت کرتا ہو تو وہ ظہر اور عصر کے مابین دریافت کر سکتے ہیں چنانچہ ظہر اور عصر کے درمیان مدرسہ جامع العلوم کے طلباً جمع ہو کر آتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس نشان پر کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن ہوگا " گفتگو کرتے رہے...صاحبزادہ صاحب کی طبیعت بہت ناساز تھی اور ہم سب اور وہ خود بھی مطمئن نہ تھے کہ تقریر کر سکیں گے.بعد مغرب لوگوں کا ہجوم ہوا اور کوئی بارہ سو کے قریب شرفاً کا مجمع ہو گیا.سب کے بیٹھنے کے لئے فرش ہی تجویز کیا گیا تھا.کرسیوں اور بنچوں کا انتظام ہماری طاقت سے باہر تھا اور نہ اس قسم کے تکلفات میں پڑنا ہم نے پسند کیا...حضرت صاحبزادہ صاحب اُٹھے ان کی غرض تو اس وقت اتنی ہی تھی کہ وہ اپنی علالت کا گذر کردیں گے.مگر کھڑے ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید اور نصرت کی اور ایک جدید اور اچھوتا طریق دعوت حق کا آپ کے دل میں ڈالا کہ تمام سننے والے مسحور ہو گئے.باوجودیکہ ان کے مالوف عقائد کی کمزوریاں نہایت جوش کے ساتھ بیان کی گئیں اور ان کی شناعت کو کھول کھول کر بتایا گیا اگر اس وقت ان کی حالت ایسی تھی کہ وہ نہایت توجہ کے ساتھ اسے سُن رہے تھے.یہ کہنا کہ اس لیکچر کا اثر کیا ہوا میرے قلم کے اظہار سے باہر ہے.دیکھنے والے جانتے ہیں.دو گھنٹے ایک تقریر ہوئی اور تقریر کے ختم ہونے کے بعد لوگوں کا ایک اژدھام صاحبزادہ صاحب کی طرف جھکا ، وہ نثار ہوتے اور ہاتھ چومتے تھے اور متعدد درخواستیں ہو رہی تھیں کہ ابھی اس پر اور بیان کیا جاوے اور کچھ روز قیام ہو.مگر صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا ہے کہ آب میں یہاں سے روانہ ہو جاتی " لئے آپ کے رشحات قلم کے چند نمونے آپ نے تشحید الاذھان کے ادارتی نوٹ میں قمری نشان " کے عنوان سے ایک مقالہ سپرد قلم کیا.اس میں ۲۸ دسمبر تشنہ میں آنے والے زلزلہ کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود 1915 له الحكم قادیان ۴۷ در متی ه ص ۱۰۹

Page 236

۲۲۷ و مهدی محمود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کا پورا ہونا ثابت کیا ہے.اس مضمون کی ابتدا کیوں کرتے ہیں دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اے ہوئے زمین کے رہنے والو ! جن کے کانوں تک میری آواز پہنچ سکتی ہے یا جن کی آنکھیں میری تحریر کو دیکھ سکتی ہیں.میں تمہیں اس نیکی کی طرف بلاتا ہوں جس کے پھیلانے کا ذمہ خود خدا نے اٹھایا ہے اور تم جانتے ہو جس کام کو چاہتا ہے، اپو را کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا سدراہ بن سکے.اُس نے دنیا کا اختلاف دُور کرنے کے لئے اپنے بندوں میں سے ایک شخص کو چنا اور عرب کے ریگستان میں سے ایک ایسا درخت نکالا جس کے سایہ کے نیچے ہر گوشے کے لوگوں نے کروڑوں کی تعداد میں آرام پایا.وہ وجود با وجود گم نامی کے کنج انزوا سے نکل کر شہرت کے اعلیٰ مقام پر پہنچا.اور وہ علو مرتبہ حاصل کیا کہ سورج کی طرح اس پر بھی نظر نہیں ٹیک سکتی.اسی کے بعد خدا تعالے نے تیرہ سوئیس بعد ایک اور تشخص کو اس کے خادموں میں سے جینا اور چاہا کہ اس کے ہاتھوں دنیا کو ہدایت دے.چنانچہ وہ بھی پیش یا چھبیس برس تک دنیا کو اسی کے خالق کی طرف بلا کر چلا گیا.سوچونکہ میں اُس کے خادموں میں سے ایک ہوں جن کا فرض ہے کہ دُنیا کو سچائی پر اگاہ کریں اور اس کی ہدایت میں کوشش کریں اس لئے آیت یا مُرُونَ بالمعروف کے ماتحت میں یہ اشتہار دیتا ہوں اور دنیا کے ہر گوشے کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور خدا تعالے کے سلسلہ میں داخل ہو کہ اپنی دنیا اور دین کو سنواریں کیونکہ وہ جو اس کے ارادہ کا مقابلہ کرتے ہیں خسر الدنیا و الأخيرة کے مستحق ٹھہرتے ہیں پس اگر چہ خدا کا مسیح ہم میں نہیں رہا مگر اس کا قائم کر دہ سلسلہ موجود ہے اور دن رات ترقی کر رہا ہے، اس میں شامل ہو کر آسمانی اور زمینی عذابوں سے بچو کیونکہ خدا ارادہ کر چکا ہے کہ دنیا سے شرک کو دور کرے اور توحید کو قائم کرے.اور اس کے نبی کی معرفت 2..

Page 237

KA ہم کو اطلاع مل چکی ہے کہ جب تک دنیا اصلاح نہ کرے گی، آسمانی اور زمینی عذاب پیچھا نہ چھوڑیں گے.پس مبارک ہے وہ جو بھیڑیے کے حملہ سے پہلے اپنی بکریوں کو محفوظ جگہ میں بند کرلے اور بشارت ہے اس کے لئے جو چور کے آنے سے پہلے اپنے مال کو محفوظ کر لیتا ہے" قرآنی تعلیمات کے لئے غیرت حضرت صاحبزادہ صاحب کی فطرت میں داخل تھی اور ہمیشہ اس امر پر نگران رہتے تھے کہ اسلامی تعلیمات پر کوئی حملہ بغیر موثر جواب کے نہ رہے.رسالہ قش حمید الاذھان " اس سلسلہ میں ایک عظیم خدمت سر انجام دے رہا تھا.اور اکثر اعتراضات کے جوابات آپ خود اپنے فلم سے تحریر فرماتے.نمونہ ایک اقتباس پیش ہے: آجکل مسلمانوں کی کچھ ایسی کمزور حالت ہے کہ دین و دنیا میں ذلیل ہوتے....جاتے ہیں.باوجود اس کے کہ اُن کو خدا نے ایسا مضبوط اور کامل دین دیا تھا کہ اگر یہ اس پر سکتے بستے تو ہر طرح اقبال اور نفرت ہی حاصل کرتے لیکن کو تا ہی قسمت سے تمام دنیا کے مسلمان اس پاک مذہب اسلام سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نبی لایا تھا، بالکل غافل ہو گئے ہیں.اور اوامر و نواہی تک سے بے خبر ہیں.اسلام ایک ایسا پاک مذہب ہے کہ اس پر چلنے والے کسی ملک اور زمانہ میں کسی علم کے جاننے والے کے آگے شرمندہ نہیں ہو سکتے.دنیا کے جس قدر سچے علوم ہیں وہ سب اسلام کے مطابق ہیں اور خدا کا قانون قدرت اسلام کے اصولوں کے بر خلاف کبھی واقعہ نہیں ہوتا.مجھے تعجب ہے کہ غیر تو میں اگر اسلام کی تعلیم پر اعتراض کریں تو کچھ حرج نہیں، وہ تو مخالف ہی ہیں.خود مسلمان کیونکر یہ کہنے لگ گئے ہیں که قرآن شریف کے بعض احکام اب حالات زمانہ کے بر خلاف ہیں، اس لئے ہم اب جو چاہیں کریں.پایونیر کے ۲۸ نومبر ان کے پرچہ میں مجھے ایک مسلمان کہلانے والے صاحب کا یہ مضمون دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ اصل بات جو مذہب کی ہے وہ تو اعتقادی حصہ ہے.باقی رہا عملی حصہ سو وہ زمانہ کے مطابق بدلتا رہتا ہے.اس لئے قرآن شریف کے احکام پر عمل کرنا تشحيد الاذهان فروری شاه صلاه

Page 238

ہمارے لئے ضروری نہیں.جیسا کہ آجکل سُود لینا جائز ہے.میں اس وقت شود کے جواز یا ممانعت پر بحث کر کے جزئیات میں نہیں پڑنا چاہتا بلکہ اس اصل پر ایک نوٹ لکھنا چاہتا ہوں کہ آیا قرآن شریف کے احکام تبدیل ہو سکتے ہیں ؟ سو میں راقم مضمون مندرجہ پایونیر کی بات کو بہت حقارت سے دیکھتا ہوں کیونکہ اس صورت میں قرآن شریف پر یہ اعتراض آتا ہے کہ وہ انسانی کلام ہے خدائی نہیں.کیونکہ خدا تو عالم الغیب ہے.اس نے ہر زمانہ کے حالات کے مطابق قوانین کیوں نہ اتارے اور دوسری یہ بات ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشا تھا کہ یہ اُمت زمانہ کے حالات کے مطابق جب چاہیے اور قانون وضع کرے تو قرآن شریف کو ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے کیوں بھیجا ؟ اور یہ کہنا کہ اصول میں تو کچھ تبدیلی نہیں ہو سکتی اس لئے قرآن شریف پر کچھ اعتراض نہیں ہو سکتا ایک لغویات ہے کیونکہ اصل اصول تو مذاہب کا خدا کو واحد وقادر ماننا ہے.سو یہ اور بہت سی قومیں مانتی ہیں.اسلام کو خصوصیت کیا ہے اور اسلام کے بھیجنے کی ضرورت کیا پڑی.اگر اس طرح عملیات کو چھوڑا جائے تو مذہب تو ایک ڈھکونسلا بن جائے.ایک شخص کل اُٹھ کر کہے گا کہ آجکل روزے رکھنے حالات کے بر خلاف ہیں ، دُنیا تیرہ سو برس میں ترقی کر گئی ہے اس لئے اب یہ حکم منسوخ ہے.دوسرا نماز کو فضول قرار دے گا.تیسرا حج کو لغو اور چوتھا ز کوۃ کو بے ہودہ.اس طرح اسلام ایک بازیچہ طفلاں بن جائے گا.انسان کو چاہیئے کہ بات کہنے سے پہلے اس کو سوچ لے.قرآن کا ایک ایک نکتہ اٹل ہے اور ہر ایک زمانہ میں اس پر عمل ہو سکتا ہے.اس کا بھیجنے والا عالم الغیب ہے اور اس نے چونکہ قرآن شریف پر عمل کرنا ہر زمانہ میں ضروری قرار دیا ہے.اس لئے اس کا ایک ایک کلمہ ہر زمانہ کے مطابق ہے اور جہاں کوئی خاص خصوصیت ہے وہاں اس نے خود بتا دیا ہے.غرض مسلمانوں پر خدا کا احسان ہے کہ وہ کبھی شرمندہ نہیں ہو سکتے.ہاں اگر کوئی خود اپنے آپ.کو ذلیل کرے تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے.مرزا محمود احمد شعیدالا زمان جلد منهم

Page 239

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے جماعت کو پہلے سے بڑھ کر ایشیار قربانی محنت اور استقلال کے ساتھ اپنے عظیم مقصد کی پیروی کی جس احسن رنگ میں تلقین کر کی اس کا ایک نمونہ تشہید میں شائع ہونے والے متعدد طویل مضامین سے اخذ کردہ ایک مختصر اقتباس کی صورت میں پیش ہے : ہمارے ہادی اور رہنما خاتم النبيين محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم نے جب اس کام کو پورا کرنے کا ارادہ کیا اور خدائے تعالیٰ نے اُن کو حکم دیا کہ وہ اسے انجام دیں تو مخالفت اور شرارت کی حد ہو گئی بلکہ اور اس کے اطراف کے لوگوں نے دس برس تک آپ کو وہ تکلیفیں دیں کہ الاماں ! الاماں نہیاں تک کہ بنی ہاشم سمیت آپ کو ایک پہاڑی میں تین سال تک محصور رہنا پڑا اور اہل ملک سے ہر قسم کے تعلقات ٹوٹ گئے اور آپ کے ہاتھ کسی قسم کا سودا بیچنا یا آپ سے ہمکلام تک ہونا ممنوع قرار دیا گیا.چنانچہ طائف کا واقعہ جس میں آنحضرت پر پھر یہ سائے گئے اور آپ کا جسم مبارک سولمان ہو گیا اور آپ کے پیچھے شریر اور بدمعاش آپ کو دکھ دینے کے لئے لگاتے گئے ان تکالیف کی جو اس وقت بد معاشوں کے ہاتھوں آپ کو پہنچیں ایک کھلی مثال ہے.اس کے علاوہ وہ تکالیف جو آپ کے صحابہ کو اس راہ میں پیش آئیں ایک سخت سے سخت دل والے انسان کو کینیا دینے کے لئے کافی ہیں.اُن کو پیٹا گیا اور لوٹا گیا اور بے عززت و بے حرمت کیا گیا اور ہر قسم کے عذاب دیئے گئے.صرف اس لئے کہ انہوں نے اسلام کو اختیار کیا تھا اور اس کے پھیلانے کے لئے اپنی جانیں بیچ دی تھیں.وہ مستل کئے گئے اپنے گھر بار سے نکالے گئے اور وطن سے بے وطن ہوئے اُن کے بیچے اور اُن کی بیویاں اُن کی آنکھوں کے سامنے بے رحمی سے ماردی عمتیں اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے آنحضرت کے ہاتھ پیر اس بات کا اقرار کیا کہ ہم خواہ کچھ ہو دنیا میں اسلام کی پاک تعلیم کو پھیلائیں گے چنانچہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ • 44..و وَمَا نَصمُوا مِنْهُمْ إِلا أَن يُؤْمِنو بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ( البروج : 9) ه ) : ٩ می

Page 240

٢٣١ یعنی اُن سے دو شمنی نہیں کی گئی مگر اس لئے کہ وہ خدائے عزیز و حمید پر ایمان لاتے یعنی انہوں نے اسلام کی پیروی کی اور احادیث سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ کفارہ مکہ نے آپس میں مشورہ کر کے نبی کریم کو کہلا بھیجا کہ ہم آپ کی ہر ایک بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں مگر ہمارے بتوں کی برائی نہ کی جائے اور اس معاملہ میں خاموشی اختیار کی جائے مگر اس کا جواب نبی کریم نے یہی دیا کہ دنیا کی کوئی خواہش یا لالچ مجھے تبلیغ اسلام سے نہیں روک سکتے ہیں یہ تمام تکلیفیں جو نبی کریم یا صحابہ کو دی گئی تھیں.اُن کی اصل غرض یہی تھی کہ اُن کو اسلام کی تبلیغ سے روکا جائے اور دین سے بنا کر دنیا کی طرف متوجہ کیا جائے پھر اس زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ جب خدائے قادر نے حضرت مسیح موعود کو اس کام پر مامور کیا تو دنیا نے آپ سے کیسا سلوک کیا.آپ وہی تھے کہ جن کو براہینِ احمدیہ کے شائع ہونے پر ہندوستان کے ہر گوشتہ کے لوگوں نے مجدد قبول کر لیا تھا اور ہر ایک مسلمان کی آنکھیں آپ پر لگی ہوئی تھیں اور سہر ایک دل اس امید سے پر تھا کہ ایک دن یہ مئے عرفان کا ساقی شراب محدت پلا کر تمام ہندوستان کو نشہ حقیقی میں مخمور کر دے گا.لیکن جونہی خدائے تعالیٰ کی آواز نے آپ کے دل میں پکار کر کہا کہ سُن ! میں تجھے اسلام کی خدمت کے لئے مامور کرتا ہوں.تو مسلمانوں اور دیگر قوموں کو ہدایت دے اور اُن کی آنکھوں کو کھوں تاکہ بجائے ایک سیاہ اور بدنما چہرے کے انہیں اسلام کا نورانی چہرہ نظر آئے اور میں تجھے اس خدمت کے لئے مسیح موعود کا عہدہ دیتا ہوں.بس پھر کیا تھا، چار دانگ میں شور مچ گیا کہ کافر ہے کا فر ہے.تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ آپ کو دکھ دینے کے لئے کیسی کیسی کوششیں کی گئیں یکفر کا فتوی لگایا گیا گالیاں دی گئیں اور آپ کی نسبت ایسے ایسے بے حیاتی کے کلمے کے گئے کہ ایک مولوی کی زبان سے نکلنے تو الگ ایک گھنگی بھی اُن کے بولتے ہوئے جھجک جاتا ہے شیطوں کے ذریعہ اشتہاروں کے ذریعہ اخباروں کے ذریعہ اور کتابوں کے ذریعہ آپ پر ایسی ایسی ہمتیں لگائی گئیں اور وہ وہ جھوٹ باندھے گئے کہ معاذ اللہ ! پھر زبانی تکلیفوں سے گزر کر عملی رنگ میں

Page 241

بھی کوئی کمی نہیں کی گئی.لدھیانہ کا فساد اور دہی کا ہنگامہ تو خیر مشروع شروع میں تھا شاء میں جب کہ اس سلسلہ کو ایک خاص ترقی اور یہ ونق بل چکی تھی امرتسر میں وہاں کے بدمعاشوں نے پتھر پھینکنے کی جو جرات کی اور جس طرح بلوہ کیا اسکے آپ میں سے بہت سے لوگ چشم دید گواہ ہوں گے.پھر ا سکے علاوہ آپ کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے اور قتل کے مقدمے کئے گئے خود بے انصافی کر کے انصاف کی عدالتوں سے عدل چاہا گیا.گورنمنٹ کو بدظن کرنے کی کوشش کی گئی اور ٹیکس کا مقدمہ کر کے مالی نقصان کا ارادہ کیا گیا پھر آپ کی ذات کو چھوڑ کر آپ کے متبعین سے بھی نہایت برا اور ڈلیل سلوک کیا گیا یہاں تک کہ اُن کی چوری اور اُن کی امانت میں خیانت اور اُن کا قتل تک جائز رکھا گیا.اور آجکل کے علما نے فتویٰ دے دیا کہ اُن لوگوں کی عورت میں ایک نکال لیتی جائز ہیں.وہ گھروں سے نکالے گئے اور اُن کا مال لوٹا گیا.اُن سے کلام تک کرنا ایک کبیرہ گناہ قرار دیا گیا.یہاں تک کہ جو اُن کو سلام کرے وہ کا فرادر جو اُن کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافراور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے مسیح موعود کے ہاتھ پر اس بات کی بعیت کی ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے یعنی اسلام کا نورانی چہرہ دنیا پر عملاً اور قولا نظا ہر کریں گے چنانچہ دشمن یہاں تک ترقی کر گئے کہ حضرت مولوی صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب اور میاں عبد الرحمن صاحب کا بلی اس راہ میں شہید کئے گئے.پس اے میرے دوستو با یہ کام جو احمد کی جماعت میں داخل ہو کر آپ نے اپنے ذمے لیا ہے، کچھ چھوٹا سا کام نہیں اور یہ قطعاً گمان نہیں کرنا چاہیے کہ آرام اور آسائش کے ساتھ یہ مدعا حاصل ہو جائے گا بلکہ یاد رکھو کہ اس کام کے پورا کرنے کے لئے طرح طرح کی مشکلات پیش آئیں گی اور مخالفت اور عداوت کا ایک دریا ہو گا جو تمہاری طرف انڈا چلا آئے گا.تمہارے دوست دشمنوں سے بڑھ کر تمہیں ایذا دیں گے اور بہت ہوں گے جن کو تم وفا دار سمجھتے ہو لیکن جب وہ تمہاری کوششیں اس امر کی طرف مبذول دیکھیں گے تو بے وفائی کریں گے اور مین سے تمہیں خیر کی امید ہوگی اُن سے شہر پہنچے..

Page 242

گا.ابتلاؤں کا اثر و با تمہاری طرف اپنا منہ کھول کر پڑھے گا اور وہ جو شست اور کمزور ہو گا اس کی خوراک بنے گا.غرض کوئی مصیبت نہ ہوگی جو تمہیں نہ سینچے گی اور کوئی دُکھ نہ ہو گا جس کا تمہیں سامنا نہ کرنا پڑے اور کوئی رنج نہ ہو گا جو تمہیں غمگین نہ کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے اور یہی دعدہ ہے کہ جب تک وہ کسی کو آن ما نہیں لیتا اور کھوٹے اور کھرے کو پر کچھ نہیں لیتا اس وقت تک اس کو خدمت دین کے لائق نہیں بناتا اور مومن ہونے کا معزز خطاب نہیں دیتا خیا نیہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ أحَسِبَ النَّاسُ إِن تُترَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُونَ ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا فَ يعْلَمَنَّ الكَذِبین کے ایک جگہ اور فرماتا ہے :- ولنبلونَكُم بِشِيُّ مِنَ الخوف والجوع و وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ منَ الْاَمْوَالِ وَالاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّـ ونه لا به ورود الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُم مَّصِيبَةٌ و و احمد ولا قالوا إنا لله وإنا إليه راجعون ٥ ا وليك عليهم صلوت - من ربهم ورحمة واوليك هم المهتدون...پس اس کام کے لئے جو ہم نے اختیار کیا ہے ضرور ہے کہ ہمیں تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور مصیبتوں کا سامنا ہو " اسی مضمون سے ایک اور اقتباس پیش ہے جس میں آپ بالخصوص نوجوانانِ احمدیت کو خدمت دین کے لئے آگے آنے کی تلقین بڑے دلنشیں انداز میں کرتے ہیں :- قرآن شریف میں جہاں بڑی عمر کے لوگوں کے لئے بعض انبار کی مثالیں بیان کی ہیں، وہاں نوجوانوں کے لئے بھی نظیریں دی ہیں تاکہ عذر نہ کر سکیں.چنانچہ العنكبوت ۲۹ : ۳-۴ ة البقره ۲: ۱۵۷ - ۱۵۸

Page 243

سهم ۳۳ ه والصعت : ١٠٣.حضرت یوسف علیہ السلام نے بارہ برس کی عمر میں وہ کام کیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کہ جب اُن کی عمر قریباً تو سال کی تھی تو اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کو فرمایا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذیح کر رہا ہوں.اس کو سُن کر آپ نے بڑی دلیری سے فرمایا کہ خدا کی جو مرضی ہے اسے پورا کرو.چنانچہ قرآن شریف میں آتا ہے فَبَشِّرَ نَهُ بِغَامٍ حَلِيمٍ هِ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يَبْنَى إِنِّي أَرى فِي الْمَنَامِ انِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرَى قَالَ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُ فِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّبِرِينَ ALGOLDEN حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس چھوٹی سی عمر میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی اور فوراً خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے تیار ہو گئے پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے بارہ برس کی عمر میں وہ کام کیا کہ حیرت اور سکتہ ہوتا ہے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی جو کام ناصرہ اور اس کے گرد و نواح میں کیا وہ تینتیس برس کی عمر کے اندر ہی تھا....دوسرے لوگوں میں بھی اس قسم کی بہت سی نظیریں مل سکتی ہیں.حضرت علی رضی اللہ نے جوانی کی عمر میں ہجرت کے دن اپنی جان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلہ خطرہ میں ڈال کر ہمارے لئے ایک نیک نظیر قائم کر دی ہے.اور آپ لوگوں میں سے بہت سے اس سے واقف ہوں گے کہ بدر کی لڑائی میں چود کے چود دو برس کے دو لڑکے بھی شریک ہوتے تھے جنہوں نے ابو جبل جیسے کفایہ ملکہ کے سردار کو پہچان کر جا پکڑا اور بوجہ ہتھیار کے پاس نہ ہونے کے ایک اور صحابی کی مدد سے اس کو قتل کیا.پس بے شمار نظیریں انبیائد کی اور اُن کے تابعین کی ایسی مل سکتی ہیں کہ انہوں نے نو جوانی کی عمر میں اسلام کی خدمت کی اور اس کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے ظاہر کیا.پس کیا وجہ کہ آجکل کے نوجوان اس کام سے پیلوستی کریں اللہ ++ سے ماہنامه تشخیة الازبان "قادیان جلد هم نمبر ۶ جولاتی نشده صد ۲۱ تا صد ۲۴۳

Page 244

Fra بعض دیگر اہم اور دور رس علمی خدمات رسالہ تشحید الاذہان کا اجرا آپ کی تقاریر اور تحریرات سے جو چند اقتباسات نمونہ پیش کئے گئے ہیں وہ محض مختصر تعارف کے طور پر نمونه از خروارے ہیں اور غالباً قاری کی پیاس مُجھانے سے زیادہ اس کی آتشِ شوق بھڑ کانے کا کام دیں گے مگر افسوس کہ طوالت کا خوف مانع ہے کہ تمام تقاریر اور تحریرات کو من وعن پیش کیا جا سکے.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی سیرت کا ایک قابل قدر مہلو یہ بھی تھا کہ آپ عالم ہی نہیں تھے بلکہ عالم گر بھی تھے.اور جہاں خود دن رات حصول علم میں کوشاں تھے وہاں دیگر احباب جماعت میں بھی علم و فضل کی جستجو اور لگن پیدا کرنے کے لئے بے قرار رہا کرتے تھے.چنانچہ اس ضمن میں آپ نے مختلف مضامین اور تقاریر میں قوم کے نوجوانوں کو نہایت موثر رنگ میں نصایح فرمائیں اور کتنی ٹھوس اور دور رس تدابیر اختیار فرمائیں.ان میں سے ایک اہم اور قابل ذکر تدبیر رسالہ تشحید الاذہان کی اشاعت کا انتظام تھا.چنانچہ اس مرض سے آپ نے نشہ میں ایک انجمن کی بنا ڈالی جیسے انجمن تشحید الاذان کا نام دیا.ماہنامہ تشخید الا زبان احمدی نوجوانوں کے لئے علمی مضامین لکھنے کا ایک بہت بڑا محرک ثابت ہوا.اس رسالہ کی صورت میں گویا آپ نے ایک چھوٹا سا ایسا کارخانہ قائم کر دیا جس میں اعلیٰ کے لکھنے والے تیار ہونے لگے.یہاں تک کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی آئندہ تصنیفی ضروریات کے لئے لکھے.والوں کی ایک نہایت قابل کھیپ تیار ہو گئی.یہ رسالہ صرف تجربہ گاہ ہی نہیں تھا بلکہ خو د حضرت صاحبزادہ صاحب کے مضامین اور سلسلہ کے بعض دیگر صاحب قلم حضرات کے دقیق تحقیقی مضامین کی وجہ سے اس کے معیار کا شہرہ دور دور تک ہونے لگا.الحکم ۲۱ فروری شنشله انجمن تشحمید الا زبان کی کوششوں اور رسالہ تشحمید الاذہان کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہے :- " یہ انجمن احمدی قوم کے نونہالوں کی انجمن ہے جیس کے بانی مبانی احمدی قوم کے فخر اور مخدوم حضرت صاحبزادہ مرزا البشیر الدین محمود احمد سله الله الاحد

Page 245

۲۳۶ ہیں.اس انجمن کے سر پرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو تھے ہی مگر حضرت خلیفہ المسیح ستمہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتی اور محسن رہے.انجمن کے جلسوں میں اپنے بہت سے ضروری کام چھوڑ کر بھی ہمیشہ خوشی سے حاضر ہوتے اور وقتا فوقتا اپنی تقریروں میں انجمن مذکور کے نوجوان ممبروں کی حوصلہ افزائی اور تعلیم سے کام لیتے رہتے اور آج میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ تشحید الاذہان کی موجودہ کامیابی پر سب سے زیادہ خوش اور سب سے زیادہ مبارک باد کے قابل آپ ہی کا وجود ہے.اس لئے کہ یہ انجمن جس کی ترقی اور کامیابی کے آپ دل سے خواہشمند تھے اور ہیں، آپ کے ہاتھوں میں قائم ہوئی، آپ کے زیر سایہ بڑھی، پھلی پھولی اور ترقی کر رہی ہے اور اس کے خوشگوار پھیل آج احمد کی قوم کے لئے مایہ ناز ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کے قلم اور زبان کے بیش قیمت جواہرت انجمن تشخید کے لئے سلسلہ کی تاریخ میں وز یتیم سمجھے جاکر ہمیشہ قابل عزت سمجھے جائیں گئے...اور اب نظر آتا ہے کہ وہ کام جو ابتداء شاید بچوں کا کھیل سمجھا جاتا ہو ایک ایسا کام ہے جس سے یقینا اللہ اور اس کا رسول خوش ہے اور جیس پر یقینا وقت آنے والا ہے کہ بڑے بڑے بوڑھوں کو رشک ہوگا - خدمتِ دین کے لئے بے غرض اور پُر جوش نوجوان تیار کردہ یا چھوٹی اور آسان بات نہیں ہے.میں انجمن کے ممبروں کارکنوں اور الیمین کے بانی اور سرپرست کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں.انجمن کا رسالہ تشحید حضرت صاحبزادہ صاحب کی ایڈ میٹری سے نکلتا ہے اور یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ بالکل حق بات ہے کہ رسالہ مذکور کے ایڈیٹر کی زبان اور فلم میں بھی وہی شان جلوہ گر ہے جو ہم سب کے آتا اور 4 محبوب مسیح و مہدی کے زبان اور قلم میں تھی " اس رسالہ میں چھپنے والے بعض مضامین اتنے بلند پایہ تھے کہ بعض غیر از جماعت اخبارات نے بھی اُن کو سراہا اور اپنے صفحات کی زینت بنایا.چنانچہ رسالہ تشحید الاذہان مارچ شاہ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :-

Page 246

اس رسالہ کے مضامین کی عمدگی کے لئے اس سے بڑھ کر کیا امر پیش کیا جاسکتا ہے کہ موافقین کے علاوہ مخالفین نے بھی اس کو پسند کیا ہے.چنانچہ اخبار وکیل امرہ نے ایک مضمون سالم کا سالم اپنے پرچہ میں نقل کیا ہے جس کا ہیڈ نگ کیا تلوار کے زور سے اسلام پھیلا ہے ؟ ہے، از قلم صاحبزادہ مرزا البشیر الدین محمود احمد صاحب الله..احمدیہ دار المطالعہ اور لائبریری کا قیام ظاہر ہے کہ تصنیف کے کام کو اچھی کتابوں کا میا ہونا اور مطالعہ کی سہولتیں لازم ہیں.چنانچہ اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے آپ کی تحریک پر انجمن تشید الاذہان نے قادیان میں پہلا دار المطالعہ قائم کیا.تشحمید میں اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں :- اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ہم اس تمام ذخیرہ کتب کو جمع کریں جو ہمارے مذہبی علوم کے سیکھنے میں کارآمد ہو سکتے ہیں.مگر قادیان میں اس قسم کی کوئی لائبریری نہیں جہاں بیٹھ کر احمد کی خواہ قادیان کے یا باہر کے آئے ہوئے کسی وقت کتب دینیہ کے مطالعہ سے اپنے ذخیرہ معلومات کو بڑھا سکیں، اس لئے انجمن تشخید الاذہان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس ضرورت کو پورا کرے اور حضرت خلیفہ المسیح کے مشورہ سے ایک دار الکتب یا لائبریری کھولنے کی صلاح ہے جو دن کے اکثر حصہ میں کھلا رہے گا اور وہ لوگ جو قادیان آتے ہیں بجائے اپنا وقت کسی اور جگہ لگانے کے اس جگہ بیٹھ کر دینی علوم میں ترقی کر سکیں گے.اس کتب خانہ میں حضرت اقدس کی کل کتب اور اشتہار اور دیگر تمام احمدیوں کی کرتا میں خواہ کسی زبان میں ہوں دیکھی جائیں گی اور اس کے علاوہ کتب حدیث اور تاریخ وغیرہ بھی رکھی جائیں گی ہے یہ کام جس محمدگی اور سنجیدگی، جس اہتمام اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا' اس کا ذکر کرتے له تشوية الازمان تاریخ نشده به تشیید الاذهان جلد ، قلمه ص ۲۸۶۲

Page 247

PPA ہوئے اخبار بدر ۱۲رمتی نہ لکھتا ہے :- " انجمن تشخید خوب ترقی کر رہی ہے.لائبریری کا انتظام اعلی پایہ پر زیر غور ہے.ساڑھے دس ماہ سے جو فہرست کتب تیار ہو رہی ہے انشاء اللہ اسب جلد مکمل ہونے والی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ عنقریب ہم ہندوستان مصر کے اردو و عربی چیدہ اخبارات اس کی میز پر دیکھیں گے...صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو نوجوانوں کی سُدھار کا خاص خیال رہتا ہے.آپ نے اُن کالجیٹوں یا طالب علموں کے لئے جو بعد الامتحان یا سمر و کیشن دار الامان میں آتے ہیں، ایک تعلیمی نصاب تیار کیا ہے جس میں قرآن وحدیث کا ایک حصہ قصیدہ بہشتی وغیرہ شامل ہے.آپ بڑی محنت سے اُن کو پڑھاتے ہیں اور عربی سے اور دین سے عمدہ واقفیت کرا دیتے ہیں.یہ بہت ہی مفید کام ہے.اللہ تعالیٰ توفیق بخشے.اخبار الفضل کا اجرا 1911 تشخیز اگر چہ جماعت کی علمی ضروریات کو بہت حد تک بڑی عمدگی سے پوری کر رہا تھا، لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے بجا طور پر یہ ضرورت محسوس کی کہ جب تک سلسلہ کا ایک باقاعدہ اخبار جاری نہ ہو صحیح معنوں میں مرکز اور جماعت کے مابین رابطہ قائم نہیں ہو سکتا.چنانچہ اس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے جون سواء میں الفضل اخبار کا اجراء فرمایا.یہ اخبار آج تک جماعت احمدیہ کا مرکزی روزنامه چلا آرہا ہے.اس بارہ میں اعلان فضل" کے عنوان کے تحت آپ نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے اس فلسفہ پر روشنی ڈالی کہ بعض چھوٹے چھوٹے امور کس طرح بڑے ہو جاتے ہیں اور ایک چھوٹے سے بیج سے کس طرح بڑے بڑے عظیم القامت درخت بن جاتے ہیں.فرمایا یہی مثال روحانی سلسلوں کی ہے.گذشتہ الہی سلسلوں کی طرح جماعت احمدیہ کی ضروریات بھی بڑھتی چلی جارہی ہیں.پھر فرمایا : اس لئے بموجب ارشاد حضرت خلیفہ المسیح تو تھا علی اللہ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے.ہمارا کام کوشش ہے.برکت اور اتمام خدا تعالیٰ

Page 248

۲۳۹ THE کے اختیار میں ہے.لیکن چونکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اس لئے اس کی مدد کا یقین ہے.بے شک ہماری جماعت غریب ہے لیکن ہمارا خدا غریب نہیں ہے اور اس نے ہمیں غریب دل نہیں دیتے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوری توجہ کرے گی.اور اپنی بے نظیر تہمت اور استقلال سے کام لے کر جو وہ اب تک ہر ایک کام میں دکھاتی رہی ہے اس کام کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرے گی اور میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا تحریر کو صرف ارادوں اور خواہشوں تک ہی نہ رہنے دے.اور سلسلہ کی ضروریات کے پورا کرنے میں ہمارا ہاتھ بٹاتے سائے A ران علمی خدمات کے پیچھے قربانی اور ایثار شوق اور جذب کے جو جذبات کار فرما تھے، ان کا کچھ اندازہ ان ذاتی قربانیوں سے ہو سکتا ہے جو آپ نے اور آپ کے اہل بیت نے ان اخبارات و رسائل کے سلسلہ میں پیش کیں.اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی بعض بعد کی تحریرات کے چند اقتباس ناظرین کی دلچسپی کا موجب ہوں گے :- رو " مجھے اس وقت ساٹھ روپے ملتے تھے جن میں سے دس روپے ماہوار تو تشہیر پر خرچ کرتا تھا.دو بچے تھے بیوی تھی اور کو کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی مگر خاندانی طور طریق کے مطابق ایک کھانا پکانے والی اور ایک خادمہ بچوں کے رکھنے اور اوپر کے کام میں مدد دینے کیلئے میری بیوی نے بھی ہوئی تھی.سفر اور بیماری وغیرہ کے اخراجات بھی اس میں سے تھے پھر مجھے کتابوں کا شوق بچپن سے ہے چنانچہ اس گزارہ سے اپنی علمی ترقی کے لئے اور مطالعہ کے لئے کتابیں بھی خرید تا رہتا تھا اور کافی ذخیرہ میں نے جمع کر لیا تھا یہ ہے بدر اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا.الحكم اوّل تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھار نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں بہت گراں گزرتا تھا.دیوی ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا له "بدر" قادیان در جون ۱۹۱۳، ص۱۷ تا ۲۰ له الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹

Page 249

۲۴۴۰ تھا.میں بے مال وزر تھا.جان حاضر تھی.مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا.اس وقت بسلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرماتے.اُن کی شہستی کو جھاڑے.اُن کی محبت کو اُبھارے، اُن کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا.اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش.نہ وہ ممکن تھی نہ یہ.آخر دل کی بے تابی رنگ لائی.اُمید کر آنے کی صورت ہوئی....خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنوئیں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں میں کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے زیادہ مذموم تھا اپنے دو زیور مجھے دے دیتے کہ میں اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں.اُن میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالی کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے " بہ زیور حضرت صاحبزادہ صاحب نے خود لاہور جا کر پونے پانچ سو روپے میں فروخت کئے.یہ تھا" الفضل" کا ابتدائی سرمایہ ! یہ جیسی قیمیتی امداد تھی اس کا اندازہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے :- " اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا..میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا.اور میرے لئے خدمت کا کونسا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روز مرہ پڑھنے والا فتنہ کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے له الفضل ٢٨ دسمبر له صية - ٢٨

Page 250

آخر پر ہم حضرت مولوی شیر علی صاحب بی.اے کے ایک اقتباس پر اس باب کو بند کرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ جماعت احمدیہ کے بزرگان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام میں ایک بلند مرتبہ رکھتے تھے.آپ اپنی نیکی، تقومی بے نفسی اور سادگی میں ساری جماعت میں معروف دیشہور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا مبر بھی مقر فرمایا تھا.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ایک عرصہ تک مدرس کے فرائض انجام دیتے رہے اور حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے استاد بھی رہے.آپ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی علمی کاوشوں کو جیسا پایا وہ مندرجہ ذیل الفاظ سے ظاہر ہے: ان پاک جذبات میں سے جنہوں نے ابتدا سے آپ کے اندر نشود نما پائی ایک جذبہ تبلیغ تھا اور ساتھ ہی اس کے یہ اُمنگ کہ نہ صرف خود اس کام میں حصہ لیں بلکہ دوسروں کو بھی اس خدمت کے لئے تیار کریں.جس طرح ایک ملک کے خیر خواہ اور قوم کے بہی خواہ لیڈر میں یہ تڑپ ہوتی ہے کہ اپنی گری ہوئی قوم کو ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہونچانے کے لئے اور اپنے دشمنوں سے گھرے ہوئے ملک کو حملہ آوروں کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کے لئے اور اپنے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقہ کو دوبارہ فتح کرنے کے لئے اور دنیا میں اپنی قوم کی حکومت کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے ایک فوج تیار کرے.اور اس فوج میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بھرتی ہونے کے لئے تحریک کرے اور بھرتی ہونے والوں کو قواعد جنگ کی تعلیم دے اور ان کو ضروری اسلحہ سے مسلح کرے.یہی جذبہ لڑکپن کے زمانہ میں آپ کے سینہ میں موجزن تھا چنانچہ آپ نے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی حضور علیہ السلام سے اجازت حاصل کر کے ایک رسالہ جاری کیا.جس کا نام حضور نے آپ کے ولی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے اور اُن اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کے ماتحت آپ نے اس رسالہ کے اجرا کا ارادہ فرمایا تھا، تشحید الاذہان رکھا.یعنی ایسا رسالہ جس میں مضمون نویسی کی مشق کر کے سلسلہ کے نوجوان اپنی علمی طاقتوں اور اپنے ذہنوں کو تیز کریں گے اور آپ نے اس رسالہ

Page 251

۲۴۲ کے متعلق ایک انجمن قائم کی جس کے سپرد اس رسالہ کا انتظام اور اس کی ترقی کے لئے کوشش کرنا اور نوجوانوں میں مضمون نویسی اور علمی ترقی کی رغبت پیدا کرنا تھا.اور آپ ہر ایک ذریعہ سے کوشش کرتے تھے کہ کثرت سے لوگ اس تحریک میں شریک ہوں.رسالہ کے علاوہ آپ نے انجمن تشحید الاذہان کے زیر اہتمام ایک مجلس بھی قائم کی جس کا نام مجلس ارشاد تھا.اور اس سے آپ کی غرض یہ تھی کہ تبلیغی فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوان اسلامی جدال کے لئے اس دوسرے ہتھیار کو بھی چلانے میں مشتاق ہوں جس کا نام تقریر ہے.یعنی وہ تحریر اور تقریر دونوں ہتیاروں سے حفاظت اسلام اور اشاعت اسلام کی لڑائیاں لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں.پھر چونکہ آپ کی خواہشات کی جولانگاہ صرف ہندوستان نہ تھا بلکہ آپ تمام دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا چاہتے تھے اور آپ کی اسی نوجوانی کے زمانہ میں یہ آرزو تھی کہ روتے زمین کے شرق و غرب میں اسلام کا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دے.اس لئے آپ نے مجلس ارشاد کے اجلاس دو حصوں میں تقسیم کر دیتے.ایک اردو اور ایک انگریزی...یہ کوششیں اگر چہ آپ کی عمر اور قادیان کے حالات کے لحاظ سے چھوٹے پیمانہ پر تھیں، لیکن اِن سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانی کے زمانہ میں ہی آپ کے دل کے اندر کیا کیا اُبال اُٹھتے تھے اور کھیل کود کے زمانہ میں آپ کے سینہ کے اندر کس بات کی تڑپ تھی.پھر جوں جوں آپ کی عمر بڑھتی گئی.آپ کے کام کا دائرہ بھی زیادہ وسیع ہوتا گیا.آپ نے لڑکپن کے زمانہ میں سلسلہ کے نوجوانوں کو اسلام کی قلمی اور لسانی خدمت کے لئے تیار کرنے کی غرض سے رسالہ تشخید الادمان مباری کیا تھا اور مجلس ارشاد کی بنیاد ڈالی تھی.خلافت اُولی کے زمانہ میں آپ نے تمام جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت کے لئے حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ تعالی عنہ کی اجازت سے ایک ہفتہ وار

Page 252

۲۴۴۳ اخبار جاری کیا جس کا نام الفضل ہے اور جو اس وقت جماعت احمدیہ کا قومی آرگن ہے.اور قادیان سے روزانہ شائع ہوتا ہے پھر جماعت میں تبلیغی روح پھونکنے کے لئے اور رابطہ اخوت و محبت قائم کرنے کے لئے آپ نے انصار اللہ کی جماعت قائم کی ہے مالی مشکلات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مالی مشکلات ذرائع آمد کی کمی اور زمیندارہ انتظام کی کمزوری کو بالکل نمایاں کر دیا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل ورثہ آپ کی روحانی برکتیں تھیں نہ کہ دنیا دی مال و منال - حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالی نے تربیت کا نہایت لطیف ملکہ اور گہری فراست عطا فرمائی تھی چنانچہ مالی مشکلات کے اس صبر آزما دور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے خیالات اور جذبات کی رو کو اصل حقیقت کی طرف مبذول کرنے کی خاطر اپنے لخت جگر کا ہاتھ تھام کر اسے بیت الدعا یعنی اُس چھوٹے سے حجرہ میں لے گئیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تخلیہ میں اپنے رب کی عبادت اور مناجات کیا کرتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی نکال کر آپ کے سامنے رکھ دی اور کہا میں سمجھتی ہوں میں تمہارا سب سے بڑا ور نہ ہے کہیے لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب خود بھی تو یہی سمجھتے تھے اور اس کے برعکس کسی خیال کا گزرتیک بھی کبھی آپ کے دل و دماغ سے نہ ہوا تھا.ہاں ماں نے نہایت پیارے انداز میں اپنا فرض ادا فرما دیا اور خدا اور اس کے رسول کے حضور سرخرو ہو گئی.جہاں تک حضرت صاحبزادہ صاحب کے ذاتی خیالات کا تعلق ہے نہ کبھی پہلے آپ نے سلسلہ کے اموال کو اپنا سمجھا نہ بعد میں.ہاں ہمیشہ اپنے اموال کو سلسلہ احمدیہ کی ملکیت سمجھتے رہے.ایک مرتبہ بعض نا سمجھ احمدیوں نے بظاہر اخلاص کے رنگ میں آپ کو مشورہ دیا کہ جو چندے آتے ہیں وہ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہی آتے ہیں اس لئے آپ مطالبہ کریں کہ ان چندوں میں سے ہمارا حصہ بھی مقرر ہونا چاہیے.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس وقت بخیر تھا مگر یہ مشورہ مجھے اتنا بُرا معلوم ہوا کہ میں نے کمرے کے باہر ٹہلنا شروع کر دیا کہ مجھے جو نہی موقع ملے ہیں والدہ ے روزنامہ "الفضل قادیان در نومبر شاه صده مه له الفضل له الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۵ ء

Page 253

هم ۲۴۷ سے اس کے متعلق بات کروں اور حب موقع ملا تو میں نے کہا کہ یہ چندے کیا ہماری جائیداد تھی ؟ یہ تو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ہیں ان میں سے حصہ لینے کا کسی کو کیا حق ہے ؟ ایک اور دوست نے غالباً حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے منشا سے یہ تجویز پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے گزارہ مقرر کرنا چاہیے.لیکن آپ نے کہا ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں.یہ جواب سن کر اس دوست نے کہا پھر آپ لوگوں کے گزارے کی کیا صورت ہوگی.آپ نے جواب دیا ہم بندوں کے کیوں محتاج ہوں اگر اللہ تعالی کا نشا زندہ رکھنے کا ہوگا تو وہ خود انتظام کر دے گا اور اگر اس نے مارتا ہے تو وہ موت زیادہ اچھی ہے جو اس کے منشا کے ماتحت ہو.ادھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ آپ کی دینی مصروفیات اور مالی مشکلات سے بے خبر نہ تھے.چنانچہ حضور نے ایک دن آپ کو بلایا اور کہا ہم آپ لوگوں کو اپنے پاس سے کچھ پیش نہیں کرتے بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے جس کے ماتحت میں نے گزارہ کی تجویز کی ہے.اور الہام میں رقم تک مقرر ہے اس لئے بلا تمنا اور بلا مطالبہ خدا کے منشا کے مطابق جو گزارہ خلیفہ وقت مقرر کرے اس کے قبول کر لیتے ہی میں برکت ہے.چنانچہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کے مطابق خلیفہ وقت کے ارشاد کے سامنے سر تسلیم تم کر دیا.اور اللہ تعالیٰ کی منشا اور خلیفہ وقت کے حکم کے مطابق یہ گزارہ قبول کر لیا.لیکن باوجود ذائی ضروریات اور مالی مشکلات کے آپ اس مقررہ گزارہ سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی بقا کے لئے کھلے ہاتھوں خرچ کرتے رہے.انجمن کے اس مقررہ گزارہ پر ہی آپ کے اخراجات کا مدار نہ تھا بلکہ زمیندارہ یا دوسرے ذرائع سے جو تھوڑی بہت آمدنی ہوئی اس کا بھی ایک معقول حصہ آپ اللہ تعالی کی راہ میں پوری بشاشت کے ساتھ خرچ کرتے رہتے.پہلے رسالہ تشحی الاذہان کے اخراجات کا ایک معتد بہ حصہ اپنی گرہ سے ادا کرتے رہے.پھر جب اخبار الفضل جاری کیا تو اس کے ابتدائی اخراجات بھی خود اُٹھائے.مقررہ جماعتی چندوں میں باقاعدہ حصہ لینے کے علاوہ اس زمانہ میں پیش آمدہ دوسری قومی اور ملکی ضروریات میں بھی حسب استطاعت حصہ لیا.مہمانداری تو آپ کے خاندانی اوصاف میں شامل تھی.پھر جس قدر بھی انڈین یا بیرون ملک آپ نے علمی، تفریحی یا حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے حکم سے تبلیغی سفر کئے : ان میں اپنی گرہ سے خرچ کیا اور باوجود حق کے جماعت کے بیت المال سے ایک پیسہ وصول کرنے کے بھی روا دار نہ بنے.

Page 254

۲۴۵ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کا منظوم کلام حضرت صاحبزادہ صاحب کا عارفانہ منظوم کلام پہلی مرتبہ متی ء میں شائع ہوا.آپ کی پہلی نظم تنش کی ہے جب کہ آپ شاد تخلص کرتے تھے شعر و سخن کے باب میں آپ کا مسلک کیا رہا ہے، اس پر آپ خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : میں کسی نظم کو شاعری کے شوق میں نہیں کہتا ہوں.بلکہ جب تک ایک خاص جوش پیدا نہ ہو.نظم کہنا مکروہ سمجھتا ہوں.اس لئے درد دل سے نکلا ہوا کام سمجھنا چاہئے.بعض نظم نا مکمل صورت میں پیش کرنے سے میرا مقصد میرا یہ ہے تاکہ لوگ دیکھیں کہ شاعری کو بطور پیشہ نہیں اختیار کیا گیا.بلکہ جب کبھی قلب پر کیفیت ظاہر ہوتی تو اس کا اظہار کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ خیال نہیں ہوتا کہ اس کو مکمل بھی کیا جاوے.چونکہ میں تکلف سے شعر نہیں کہتا.ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے.پڑھو اور غور کرو.خدا کرے یہ درد بھرے کلمات کسی سعید روح کے لیئے مفید و با برکت ثابت ہوں یا اے کلام محمود باب رحمت خود بخود پھر تم پر وا ہو جائے گا جب تمہارا قادر مطلق خدا ہو جائے گا جو کہ شمع روتے دلبر پہ فدا ہو جائے گا خاک بھی ہو گا تو پھر خاک شفا ہو جائے گا مدتی دوران کا جو خاکپ ہو جائے گا مہر عالم تاب سے روشن ہوا ہو جائے گا دیکھ لینا ایک دن خواہش پر آئے گی میری میرا ہر ذرہ محمد پر فدا ہو جائے گا لے تاریخ احمدیت جلد ۴ ص۴۷۳

Page 255

۲۴۶ نقش پا پر جو محمد کے پہلے گا ایک دن پیروی سے اس کی محبوب خدا ہو جائے گا کی ہیں در مالک یہ بیٹھے ہم لگانے مملکی ہاں کبھی تو نالہ اپنا بھی کر سا ہو جائے گا عشق مولا دل میں جب مستور ہو گا موجزن یاد کر اس دن کو تو پھر کیا سے کیا ہو جائے گا“ ے مناجات بدرگاه ایزدی اے میرے مولی مرے مالک مری جاب کی سیر مبتلا ئے رنج وغم ہوں جلد سے میری خبر دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوتے اب کسی پر تیرے بن پڑتی نہیں میری نظر ہر مولاتو جبکہ ہر شے ملکہ ہے تیری میرے مولا تو پھر جس سے تو جاتا رہا بتا کہ وہ جانے کدھر بے کسی میں رہزن رنج و مصیبت آپڑا سب متابع صبر و طاقت ہو گئی زیر و زیر یا الہی پر جم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں دل سے تنگ آیا ہوں اپنی جان سے بیزار ہوں تحرم خاکی ہوں نہیں رکھتا کوئی پرواہ میری دشمنوں پر بھی گراں ہوں دوستوں پر بار ہوں کیا کروں جا کر حرم میں مجھ کو ہے تیری تلاش دار کا طالب نہیں ہوں، طالب دیدار ہوں صبر و تمکیں تو الگ دل تک نہیں باقی رہا راہ اُلفت میں کٹنا ایسا کہ اب نادار ہوں "...تو خوب تھا وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا مرتے ہوئے کو آگے چلاتے تو خوب تھا دلبر سے رابطہ جو بڑھاتے تو خوب تھا یوں عمر رائیگاں نہ گنواتے تو خوب تھا اک غمزدہ کو چہرہ دکھاتے تو خوب تھا روتے ہوئے کو آئے ہنساتے تو خوب تھا محمود دل خدا سے لگاتے تو خوب تھا شیطاں سے اپنا پیچھا چھڑاتے تو خوب تھا دنیا ئے دُوں کو آگ لگاتے تو خوب تھا کوچہ میں اوس کے دھونی رماتے تو خوب تھا " کے اخبار بدر قادیان ۲۵ جون شنهای نمبر ۲۵ صدا که بدر هر جولاتی شده یی که مدرسه ار جنوری اشاره شده صن جاده

Page 256

۲۴۷ اپیل بخدمت قوم " یہ وہ نظم ہے کہ جو میری طرف سے ڈاکٹر احمد حسین صاحب لائلپوری نے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر پڑھی.میں نے اس وقت بھی حاضرین جلسہ کی خدمت میں عرض کر دی تھی کہ میں شاعری کے شوق میں نظم نہیں کہتا.بلکہ ایک خاص جوش جب تک پیدا نہ ہو، نظم کہنا مکر وہ سمجھتا ہوں.اس لئے سامعین اسے شعر سمجھ کر نہیں بلکہ درد دل سے نکلی ہوئی نصیحت سمجھ کر سنیں.اور اب بھی میں گل ناظرین کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ وہ اسے غور سے پڑھیں اور پھر اس کے مطالب پر غور کریں حتی الوسع اس پر عمل کرنے کے کوشش کریں.وما توفیقی الا بالله - خاکسار مرزا محمود احمد مدت سے پارہ ہائے جگر کھا رہا ہوں میں یہ رنج در محمن کے قبضہ میں آیا ہوا ہوں میں میری کمر کو قوم کے غم نے دیا ہے توڑ کسی ابتلا میں ہاتے ہو ا مبتلا ہوں میں کوشان حصول مطلب دل میں ہوں اس قدر کہتا ہوں تم کو سچ ہمہ تن التجا ہوں میں کچھ اپنے تن کا فکر ہے مجھ کو نہ جان کا دین محمد متی کے لئے کر رہا ہوں میں میں رو رہا ہوں قوم کے مرجھائے پھول پر بلبل تو کیا ہے اس سے کہیں خوشنوا ہوں میں بیمار رُوح کے لئے خاک شفا ہوں میں ہاں کیوں نہ ہو کہ خاک در مصطفے ہوں میں پھر کیوں نہ مجھ کو مذہب اسلام کا ہو فکر جب جان و دل سے معتقد میبر تا ہوں میں کہتا ہوں سچ کہ فکر میں تیری ہی فرق ہوں اسے قوم سن کہ تیرے لئے کر رہا ہوں میں کیا جانے تو کہ کیسا مجھے اضطراب ہے ایسا تیاں ہے سینہ کہ دل تک کباب ہے ه تشید الازمان ماہ فروری نشده مدت ۱ تا ۱۹ لے

Page 257

نواتے محمود ر محمود خدا حال پریشاں کردیں اور اس پر دے میں نہین کوپیشیاں کر دیں خنجر ناز یہ ہم جان کو قربان کر دیں اور لوگوں کے لئے راستہ آسان کر دیں کھینچ کر پردہ سُرخ یار کو عریاں کر دیں وہ ہمیں کرتے ہیں ہم اُن کو پیشیاں کر دیں نغمه محمود مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دلفگار ہو جس کا نہ یار ہو نہ کوئی غمگسار ہو کتنی ہی پل صراط کی گوتیز دھار ہو یا رب میرا وہاں بھی قدیم استوار ہو تقویٰ کی جڑ یہی ہے کہ خالق سے پیار ہو گو ہاتھ کام میں ہوں مگر دل میں یار ہو " نواتے محمود ہاتے وہ دل کہ جسے طرز وفا یاد نہیں وائے وہ رُوح جسے قولِ مبلی یاد نہیں بے حسابی نے گناہوں کی مجھے پاک کیا میں سراپا ہوں خطا کوئی خط یاد نہیں درد دل سوز جگر اشک رواں تھے میرے دوست یار سے مل کے کوئی بھی تو رہا یاد نہیں ایک دن تھا کہ محبت کے تھے مجھ سے اقرار مجھ کو تو یاد ہیں سب آپ کو کیا یاد نہیں ہم وہ ہیں پیار کا بدلہ جنہیں ملتا ہے پیار بھولے میں روز جزا اور جزا یاد نہیں" سے یادِح وہ نکات معرفت بتلائے کون جارم وصل دار با پلوائے کون دلز ڈھونڈتی ہے جلوۂ جاناں کو آنکھ چاند سا چہرہ ہمیں دکھلائے کون له اخبار بدس قادیان ۲۹ اپریل شده ست که بدر ۳ ۱ متی شده صد سے بدر - ۲ رمتی شاه

Page 258

" ۲۴۹ کون دے دل کو تسلی ہر گھڑی اسب آڑے وقتوں میں آڑے آئے کون کون دکھلاتے ہمیں راہ ہدی حضرت باری سے اب ملواتے کون سرد مہری سے جہاں کی دل ہے مرد گرمتی تاثیر سے گرماتے کون کون دُنیا سے کرے ظلمت کو دور راہ پر بھولے ہوؤں کو لاتے کون میرے واسطے زاری کرے درگورتی میں میرا جائے کون دہ گل رعت ہی جب مر کھا گیا پھر بہب ار جانفزا دکھلائے کون گل نہیں پڑتی اسے اس کے سوا اس دل غمگین کو سمجھائے کون اے مسیحا تیرے سودائی جو ہیں ہوش میں مبتلا کہ ان کو لائے کون" زمزمی فی کمر معظم جاتے ہوئے یہ نظم صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے لکھی روڑے جاتے ہیں یہ امید تمنا سوئے باب شاید آجائے نظر روتے دل آیا ہے نقاب یا انہی ! آپ ہی اب میری نصرت کیجئے کام لاکھوں ہیں مگر ہے زندگی مثل حجاب کیا بتاؤں کس قدر کمزوریوں میں ہوں پھنسا سب جہاں بیزار ہو جاتے جو ہوں میں بے نقاب میں ہوں خالی ہاتھ مجھے کو یونسی جانے دیجئے شاہ ہو کر آپ کیا لیں گے فقیروں سے حساب میری خواہش ہے کہ دیکھوں اس مقام پاک کو جس جگہ نازل ہوئی مولا تیری ام الکتاب این ابراہیم آتے تھے جہاں باتشنہ لب کر دیا خشکی کو تو نے اُن کی خاطر آب آب میرے والد کو بھی ابراہیم ہے تو نے کہا جس کو جو چاہے بنائے تیری ہی عالی جنا ہے ابن ابراہیم بھی ہوں اور تشتہ کب بھی ہوں اس لئے جاتا ہوں میں مکہ کو با امید آب چشمه انوار میرے دل میں جاری کیجئے پھر دکھا دیجئے مجھے عنوانِ رُوئے آفتاب له بدی قادیان ۲۷ ر مستی نشده ص ۳ ۱۹۱۳ سے تشحید الا زبان ماہ فروری سلسله صله

Page 259

۲۵۰ وو یا د حبیب اسے چشمہ علم و ہڈی اے صاحب فہم وذکا اسے نیک دل اسے باصفا اسے پاک طینت با حیا اسے مقتدا اے پیشوا اے میرزا اسے رہنما اسے مجتبی اسے مصطفیٰ اسے نائب رب المورتی کچھ یاد تو کیجئے ذرا ہم سے کوئی اقرار ہے دیتے تھے تم مردم خبر ندھتی تھی جس کہاں گھر مٹ جائے گا سب شور و شرموت آتنگی شیطان پر پاؤ گے تم فتح و ظفر ہوں گے تمہارے بحروبر آرام سے ہوگی بسر ہوگا خُدا میقہ" واں تھے یہ وعدے خوبستہ یاں حالت ادبار ہے چھینے گئے ہیں ملک سب باتی ہیں اب شام پر پیچھے پڑا ہے اُنکے اب دشمن لگاتے تا نقب ہم ہو رہے ہیں جاں بلب بنتا نہیں کوئی سبب ہیں منتظر اس کے کہ کب آئے ہمیں امداد آب پیالہ بھرا ہے لب طلب ٹھو کر سہی اک درکار ہے کیا آپ پر الزام ہے یہ خود ہمارا کام ہے غفلت کا یہ انجام ہے سیتی کا یہ انعام ہے قسمت یونسی بد نام ہے دل خود اسیر دام ہے اب کس جگہ اسلام ہے باقی فقط اک نام ہے ملتی نہیں کے جام ہے بس اک نہیں آزار ہے لے 1917 له تشحید الاذہان مارچ ۱۹۱۳ ص۱۵۳٬۱۵۲..

Page 260

۲۵۱..مختلف سفروں کی رو نداد حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے چھ سالہ دور خلافت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کو متعد د سفر پیش آئے جن کی ظاہری غرض خواہ کچھ بھی ہولیکن عملاً یہ تمام سفر ایک ہی مقصد کو پورا کر رہے تھے اور کوئی ایک بھی سفر ایسا نہ تھا جس میں بیشتر وقت خدمت دین میں صرف نہ ہوا ہو.جلسوں میں شمولیت اور تقریروں کے علاوہ احباب جماعت کی تربیت اور غیر انہ جماعت دوستوں سے مذہبی امور پر تبادلہ خیالات میں اکثر وقت گزر جاتا.ان سب مصروفیات سے جو وقت سیر و سیاحت کے لئے بچتا اور قدرتی مناظر کی سیر یا قابل دید تاریخی اور مقدس مقامات کی زیارت پر خرچ ہوتا، وہ بھی عملاً خدمت دین ہی کا ایک حصہ تھا کیونکہ جیسا کہ آپ کے سفروں کی رو تداد کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے یہ وقت بھی آپ اہم دینی اور قومی مسائل پر فکر و تدبر میں خرچ کرتے اور جیسے ایک عاشق کو مختلف حسین مواقع یا مناظر اپنے محبوب کی یاد دلاتے ہیں اسی طرح سیر و تفریح کے دوران مختلف اثر پذیر نظارے آپ کے جذبات اور افکار کے دھاروں کا رخ دینی اور قومی مسائل کی طرف پھیر دیتے تھے اور بسا اوقات آپ گہری سوچ کی جھیل میں غوطہ زن ہو کر بیش قیمت افکار و نظریات کے موتی چن لاتے.پس جسمانی سیر کے ساتھ ساتھ ایک سیر روحانی بھی جاری رہتی رساله تشحید شاہ کے ایک پرچہ میں آپ کے مختلف سفروں کی ایک رو نداد شائع ہوئی تھی جس میں خلافت اُولیٰ کے صرف پہلے سال کے سفروں کا مختصر ذکر ہے.ہم اس میں سے ایک اقتباس درج کرتے ہیں جس سے آپ کے سفروں کا وہ ظاہری پہلو قارئین کے سامنے آجائے گا جسے ایک صحافی کی آنکھ نے دیکھا.اس کے بعد ہم خود حضرت صا حبزادہ صاحب کی زبانی آپ کے بعض سفروں کی رو نداد پیش کریں گے جسے دیکھ کر قارئین آپ کے سفروں کے باطنی پہلو کا بھی کسی حد تک نظارہ کر سکیں گے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی سیرت اور کردار کے مطالعہ کا یہ بھی ایک دلچسپ طریق ہے :....آپ مختلف مقامات میں تبلیغ اسلام کے لئے لیکچر دیتے ہیں اور جہاں کہیں آپ کو باہر کسی شہر میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے، فوراً لیکچر دیتے ہیں.آپ کا سب سے پہلا سفر جو اس غرض کے لئے ہوا، بیگو وال کی طرف 19.9

Page 261

۲۵۲ تھا جہاں آپ با اجازت حضرت امیر المومنین شادی کے موقع پر گئے تھے اور آپ نے وہاں پہنچ کر خلق اللہ کو اپنے لیکچر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دیا پھر سالانہ جلسہ کے کچھ دن پہلے جب کہ ایک طرف انجمن تشخید الاذہان کی اہم ذمہ داریاں اور دوسری طرف صدر انجمن احمدیہ کی ضروریات قادیان میں رہنے پر آپ کو مجبور کرتی تھیں ' حسب الحکم حضرت امیر المومنین آپ کو انجمن احمدیہ کا ٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور کے جلسہ پر جانا پڑا.پھر آپ نے تشویند الاذان کے سالانہ جلسہ پر ایک بڑا مبسوط لیکچر دیا جو اس رسالہ کے اسی سال کے پہلے پرچہ میں شائع ہو چکا ہے.اس کے بعد مارچ کے آخری عشرہ میں نوجوان احمد کی طلباً لا ہور نے اپنی امین "الاخوان" کے سالانہ جلسہ پر آپ کو مدعو کیا.آپ باوجودیکہ سفر کے بالکل نا قابل تھے.کیونکہ آپ کو ایک بہت سخت چوٹ لگی تھی اور اسی حالت میں کہ ڈاکٹر صاحبان بھی آپ کو باہر جانے کا مشورہ نہ دیتے تھے' با جارات ضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح لاہور پہنچے.جب آپ جلسہ کے دن متظام جلسہ پر پہنچے تو آپ کے سخت درد ہو رہی تھی اور کھڑا ہونے کے قابل نہ تھے پر لفضل ایزدی آپ میں وقت کھڑے ہوئے فوراً درد رفو چکر ہوگیا اور آپ نے آرام کے ساتھ ایک اعلیٰ لیکچر دیا.اس کے بعد آپ نے ایک لمبا دورہ کیا جس میں چار لیکچر دیئے.آپ مارچ کے خاتمہ پر قادیان دار الامان سے اپنی والدہ محترمہ حضرت ام المومنین کے ساتھ دہلی کی طرف روانہ ہوئے.راستہ میں آپ چند روز کیوں تھلہ میں ٹھہرے.چونکہ انجمن احمدیہ لاہور کا سالانہ جلسه به یادگار حضرت رسول کریم صلی الله عليه وسلّم ۱۲ ربیع الاول مطابق د ر ا پریل شنشله کو لیکچر ہونا تھا.اس لئے آپ کیپور تھلہ سے لاہور روانہ ہوئے اور وہاں لیکچر دیا.اس جگہ سے فارغ ہو کر آپ دہلی میں حضرت ام المومنین کی خدمت میں بجا حاضر ہوتے اور وہاں دہلی میں اور اپریل کو لیکچر دیا.پھر چونکہ ار اپریل کو انجمن احمدیہ قصور کا سالانہ جلسہ تھا جس میں آپ کو مدعو کیا گیا تھا

Page 262

۲۵۳ اس لئے آپ تصور پہنچے اور وہاں جلسہ میں ایک لیکچر دینے کے بعد جلسہ سے فارغ ہو کر دوبارہ حضرت اُم المومنین کی خدمت بابرکت میں دہلی میں جاکر حاضر ہو گئے.جہاں آپ نے ا ر اپریل کو ایک عام لیکچر دیا اور وہاں سے آپ دار الامان تمہ خیریت مع حضرت ام المومنین واپس پہنچے.اس آخری سفر کے مفصل حالات بدر میں شائع ہونگے.لیکن ایڈیٹر صاحب ممدوح نے آج ہی میری التجا پر اس بات کو منظور فرمایا ہے کہ موخر الذکر تقریریں کو رسالہ میں شائع کیا جائے جس کے لئے میں ناظرین کو مبارک باد دیتا ہوں.جائنٹ ایڈیٹر یہ کئے انجمن احمدیہ فیروز پور کا سالانہ جلسه ۲۹- ۳۰ متی شانہ کو منعقد ہوا.اس میں ۲۹ متی کو دوسرے اجلاس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر ہوتی.ایڈیٹر الحکم نے اس کے متعلق لکھا کہ : حکیم احمد حسین صاحب کی نظم کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا لیکچر تھا جو آپ نے اس مضمون پر دیا : "اسلام کیا ہے اور وہ ہمیں کیا بنانا چاہتا ہے" یہ لیکچر نہایت قابلیت اور خصوصیت کے ساتھ دیا گیا.مجھے اس لیکچریز زیادہ ریمارک کرنے کی ضرورت نہیں.میں اس لیکچر کو عنقریب شائع کر دوں گا انشاء اللہ) کیونکہ میں نے اس لیکچر کو خود لکھا ہے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی اصلاح کے بعد اس کے شائع کرنے کی کوشش کروں گا.دما توفيقى الا بالله العلى العظيم حضرت صاحبزادہ صاحب کے لیکچر کے وقت جناب خواجہ صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب - ناقل) صدر جلسہ تھے.خواجہ صاحب نے جو ریمارک اس لیکچر پر کئے ان میں سے دو تین فقرے میں اُنہیں کے الفاظ میں دیست ہوں.صاحبزادہ صاحب نے جس قابلیت کے ساتھ اپنے پچر کو ختم کیا ہے، میں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت پر نہیں سمجھتا مگر جو حقانیت اُن کے دل پر مرتسم ہے وہ بڑے بڑے آدمیوں میں نہیں.اگر چہ ہم نے کوئی گندی که تمجید الازمان می شه صد تا ص۱۶۳

Page 263

۲۵۴ نہیں بنائی مگر میں اتنا کہتا ہوں کہ آپ نے اور پیروں کے بچے بھی دیکھتے ہیں.میرے مرشد زاده اور پیر زادہ کو بھی آپ نے دیکھا ہے کہ وہ قرآن کریم پر کیسا شیدا ہے اور اس کے حقائق ومعارف بیان کرنے میں کیسا قابل ہے.اس قسم کے ریمارکس کے بعد جن میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے مضمون کی بے حد تعریف تھی، خواجہ صاحب نے دوسرے اجلاس کو ختم کیا.اس سفر ملتان 2 نومبر منشاء میں جماعت احمدیہ ملتان کے بہت اصرار پر اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کی احیات سے حضرت صاحبزادہ صاحب نے ملتان کا سفر کیا اور ملتان میں منعقدہ ایک جلسہ سے خطاب فرمایا.اس قافلہ کو قادیان سے روانگی کے وقت خود حضرت خلیفہ المسیح نے رخصت کیا اور فرمایا : " میں نے بہت دعا کی ہے.عمان میں شیعہ بہت ہیں پر تم چار یار وہاں جاتے ہو.نرمی سے وعظ کرد سخت کلامی نہ کرو.دعاوں سے بہت کام لو.امیر بنا بنایا تمہارے ساتھ ہے" آپ کا اشارہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف تھا کیونکہ آپ وند کے امیر تھے.آپ نے جمعہ لاہور میں پڑھایا اور خطبہ میں خلافت کے برکات اور رحمت کا بیان کیا اور اس کی مخالفت کا خلاف قرآن و حدیث و تعامل صحابہ ہونا ثابت کیا اور جماعت کو تاکید فرمائی کہ اختلافات میں نہ پڑیں.کوئی امر شتر اُن کے علم میں آدے تو اپنی مجلسوں میں اس پر مباحثات نہ کریں بلکہ ایسے معاملات حضرت خلیفہ اسیح تک پہنچا دیویں اور پھر وہاں سے جو حکم آوے اس پر عمل در آمد کریں اور جو لوگ خلافت کے خلاف کوئی بکواس کریں اُن کی مجلسوں میں بیٹھنا اور ان سے تعلق رکھنا غیرت کے خلاف سمجھیں ؟ ه الحكم قادیان در جون نشده، ص۳-۴ درجون له بد را قادیان ۱۸ ؍ دسمبر ۱۹۱۳ ص ۳ بدر ۱۸؍

Page 264

۲۵۵ - بعض دیگر سفر علم کی تلاش اور تعلیم دین کی اشاعت کا جذبہ عشق کی حدتک پہنچا ہوا تھا.نہ دن کو آرام کرتے نہ رات کو چین سے سوتے.بہر وقت یہی خیال تھا کہ دین احمد کی اشاعت ہو تو کیو نکر دنیا صحیح تعلیم روشناس ہو تو کس طرح مختلف مقامات پر جو تبلیغی یا تربیتی اجلاس ہوتے حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر آپ اُن میں شمولیت فرماتے.اسی ضمن میں آپ اندرون ملک دہلی ڈاموزی بنارس کا پورٹ لاہور، متان تصور امرتسر باله وزیر آباد اور دوسرے متعدد مقامات پر تشریف لے گئے اور بڑے بڑے مجمعوں کو خطاب فرمایا.جس کا خاص روحانی اثر پیدا ہوا اور متعدد افراد کو قبول حق کی توفیق می.جماعت احمدیہ فیروز پور ملتان اور لاہور کے سالانہ جلسوں میں آپ کی پر اثر تقاریر کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.ور میں آپ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے.آپ نے آپ سفر کے تبلیغی حالات انہی دنوں الحکم میں شائع کرائے.جو بڑے دلچسپ اور معلومات افزا تھے.دہلی میں آپ کے دو لیکچر ہوئے.ایک کا موضوع "اسلام اور آریہ مذہب اور دوسرے کا اسلام اور عیسائیت تھا دونوں لیکچروں میں دہلی کے معززین کی ایک کثیر تعداد شامل ہوئی.ایک جلسہ کی صدارت خواجہ حسن نظامی نے کی.قیام دہلی کے دوران ہی آپ نے لاہور کے جلسہ سیرت النبی میں شمولیت فرمائی.اس کے بعد پھر دہلی گئے.وہاں کچھ دن قیام کرنے کے بعد جماعت احمدیہ تصور کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے.چونکہ حضرت ام المومنین ابھی دہلی میں تشریف رکھتی تھیں.اس لئے قصور کے جلسہ سے فارغ ہو کر پھر دبلی اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں ایک اور روح پرور لیکچر دینے کا موقع بلا.دہلی سے واپسی کے وقت آپ نے جن الفاظ میں دُعا کی اُن سے آپ کے دلی جذبات کا اظہار ہوتا ہے.آپ نے کہا خدا وہ دن لاتے کہ اس شہر کو بھی خدا ہدایت دے اور اس مٹی سے پھر کسی دن اس قسم کے برگزیدہ لوگ پیدا ہوں جن کے مزار بکثرت وہاں پائے جاتے ہیں لیے ہ میں آپ حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے ماتحت بھائی صحت کی غرض سے ڈلہوزی تشریف لے گئے.یہ ایک تفریحی سفر تھا.لیکن اس میں بھی تبلیغ حق کے فریضہ کا له الحكم ، رمتی شاه 141

Page 265

۲۵۶ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا.وہاں ایک پادری سے جس کا نام بیگن تھا نہ ہی مسائل پرتفصیلی کنگو کی.بعد میں ڈلہوزی سے واپس آکر آپ نے اس گفتگو کی تفصیل پہاڑی وعظہ کے نام سے رسالہ شہید الاذہان میں شائع کرادی.آپ کے دلچسپ طرز استدلال کے نمونہ کے طور پر اس گفتگو کا ایک حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے :-..مجھے بھی پچھلے دنوں پہاڑ پر جانے کا اتفاق ہوا.اور وہاں پنجاب کے ایک مشہور و معروف پادری صاحب سے ہم کلامی کا موقع ملا...پاور کی صاحب ہم کو ڈالوڑی کے بازار میں کتابوں کا ایک بنڈل ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آئے جو قریباً تمام کی تمام اسلام کے خلاف تھیں اور اسی غرض سے لکھی گئی تھیں کہ نادان اور جاہل مسلمانوں کو ٹھسلا کر دائرہ اسلام سے خارج کرکے مسیح کی بھیڑوں میں شامل کیا جائے.پادری صاحب نے عبد الملاقات دو رسالے ہمیں بھی دیئے جن میں اسلام اور اس کے بانی پر مختلف پیرائیوں میں حملے کئے گئے تھے.انہیں پڑھ کر میری طبیعت میں اور بھی جوش آیا کہ پادری صاحب سے مل کر ضرور چند باتوں کا تصفیہ کرنا چاہیئے.اس اتفاقی ملاقات کے دوسرے یا تیسرے دن فرصت نکال کر میں اور دو اور صاحب یا دری صاحب کی ملاقات کے لئے گئے.نصف گھنٹہ کی تلاش کے بعد پادری صاحب کی گوٹھی کا پتہ لگا.جو ایک بڑی پرفضا اور خوبصورت مقام پر بنی ہوتی تھی...پادری حساب برآمدے میں ہی کھڑے تھے.دیکھ کر بڑے تپاک سے ملے اور اندر لے گئے.اور ملاقات کے کمرے میں تم تینوں کو بٹھا کر ایک دو منٹ کے لئے باہر تشریف لے گئے.واپس آنے پر پادری صاحب نے حسب معمول مختلف واقعات پر گفتگو شروع کی.اور انگلستان کی موجودہ حالت پر باتیں ہوتی رہیں.ان پادری صاحب کا نام بینگن ہے...ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد پادری صاحب نے گفتگو کا رخ مسیحیت کی طرف پھیرا اور چاہتے تھے کہ صیحیت کے متعلق طول و طویل تحصیلوں میں ہم کو لے جائیں اور جو احسانات مسیحیت نے یورپ پر کتے ہیں اہمارے سامنے بیان کریں لیکن چونکہ وقت کم اور فرصت قلیل تھی میں نے عرض کی کہ ہم سر دست تثلیث کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتے ہیں جسکی پادری صاحب نے بڑی خوشی سے اجازت دی.چونکہ میں نے جاتے ہی پادری صاحب سے عرض کر دیا تھا کہ میں آپ سے جو گفتگو کروں گا وہ طالب حق ہونے کی حیثیت سے کرونگا نہ کہ کسی

Page 266

ros ذہب کے پیرو ہونے کی حیثیت سے.اس لئے میں مندرجہ ذیل گفتگو میں اپنے نام کی جگہ خاب کے کی ہے.میں مندرجہ میں طالب حق کا لفظ استعمال کروں گا.- طالب حق پادری صاحب! آپ کا تثلیث کے متعلق کیا خیال ہے ؟ ! پادری صاحب میرا خیال ہے کہ شکلیت تین اقوم کا نام ہے.ایک اقنوم خدا باپ - ایک اقنوم مسیح بنیا اور ایک روح القدس.اور میں ان تینوں کی خدائی کا قاتل ہوں.طالب حق پادری صاحب ! آپ کی اقنوم سے کیا مراد ہے ؟ پادری صاحب (مسکرا کر اقنوم آپ ہی کی زبان کا لفظ ہے.طالب حق بے شک ہماری زبان کا لفظ ہے لیکن ہم خدا تعالیٰ کی نسبت اس لفظ کا استعمال نہیں کرتے.اس لئے جب خدا تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال ہو تو ہمیں اس کے معنے سمجھنے میں دقت ہوتی ہے.پادری صاحب.میں تو اور اس کے لئے کوئی لفظ تجویز نہیں کر سکتا.طالب حق اگر آپ اُردو یا عربی میں اس کے لئے کوئی اور لفظ تجویز نہیں کر سکتے تو انگریزی میں ہی سہی.پادری صاحب.انگریزی میں ہم اس کے لئے پر سیو نیلیٹی استعمال کرتے ہیں.حق میں نے ایک امریکن پادری سے دریافت کیا تھا تو انہوں نے اس کے معنے کیپیٹی کے بناتے تھے.پادری صاحب نہیں نہیں اس کے معنے پر سیونیلیٹی کے ہیں.طالب حق مجھے تو...نہ اقوم کے معنی سمجھ آتے ہیں اور نہ پر سیو نیلیٹی کے ہیں آپ سے کھول کر پوچھنا چاہتا ہوں.آپ یہ فرمائیے کہ یہ تینوں کیا حیثیت رکھتے ہیں.مثلاً یہی کہ دنیا کا خالق کون ہے ؟ پادری صاحب آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت ہے.اس میں محبت کا مادہ ہے.وہ چاہتا ہے کہ کسی چیز سے محبت کرے اور یہ تمام دنیا کی چیزیں فانی ہیں اصلی نہیں ہیں.اس لئے ضرور کی تھا کہ ایک ایسا وجود ہوتا کہ جس سے خدا محبت کرتا.سو اس لئے بیٹے کی ضرورت تھی اور اس کو تو آپ بھی مانتے ہوں گے کہ اگر کوئی ایسا وجود نہ ہو کہ نہیں سے خدا محبت کرے تو

Page 267

۲۵۸ وہ محبت فضول جائے گی.طالب حق پادری صاحب! آپ نے بہت ہی معقول بات فرمائی ہے لیکن میں اس وقت تثلیث کو سمجھنا چاہتا ہوں نہ کہ تثلیث کی ضرورت کو.میرا سوال تو یہ تھا کہ یہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی اور کس نے کی.پادری صاحب کلمے سے پیدا ہوئی.خدا نے کی.طالب حق کلمہ دنیا بن گیا اور یہ دنیا اسی کا حصہ ہے یا خدا نے حکم دیا اور وہ ہو گئی.پادری صاحب.(مسکرا کر) اوہو ! ہمارا یہ خیال نہیں ہے کہ دنیا نیست سے پیدا ہوئی.یہ آریوں کا خیال ہے.مجھے سے ایک دفعہ ایک آریہ ملا تھا اور اس نے مجھے سے پوچھا تھا کہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی.نیست سے بہت کس طرح ہو سکتا ہے.میں نے اُسے جواب دیا کہ ہمارا ہرگز یہ مذہب نہیں کہ نیست سے بہت نبود خُدا نے حکم کیا ہو جا! وہ ہوگئی ہم نہیں مانتے کہ اس نے نیست کو کہا کہ تو کچھ بن جا.طالب حق اوہو! آپ نے بہت اچھا جواب دیا.اور بہت لطیف بات کہی لیکن میری کہ عرض یہ تھی کہ کلمہ سے دنیا پیدا ہوئی یا خدا کے امر پر دنیا موجود ہو گئی.پاور کی صاحب.ہاں کلمہ میسج ہے.انجیل میں لکھا ہے کہ ابتدا میں کلام تھا.اور کلام خدا کے ساتھ تھا.اور کلام خدا تھا.میں ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا.سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں اور کوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی.زندگی اس میں تھی اور وہ زندگی انسان کا نور تھی.اس سے معلوم ہوا کہ ابتدا میں خدا کے ساتھ میں تھا اور مسیح سے دُنیا پیدا ہوئی.آپ کے مذہب اسلام میں بھی مسیح کو کلمہ کہا گیا ہے.کیا میں آپ کو اس کی نسبت کچھ سناؤں ؟ طالب حق پادری صاحب! میں نے آپ کے ابتدا ہی میں عرض کر دیا تھا کہ میں ایک ایسے انسان کی حیثیت میں آپ کے پاس آیا ہوں جس کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہیں اور گو میں مسلمان ہوں لیکن اس وقت میں ایسے پیرایہ میں گفتگو کروں گا گویا گل مذاہب ابھی میرے زیر تحقیق ہیں.اس لئے

Page 268

۲۵۹ آپ ابھی انجیل کی نسبت کلام فرما دیں.اگر قرآن شریف کی تحقیقات کی ضرورت ہوگی تو میں کسی مولوی کے پاس جاؤں گا.قرآن شریف کی تحقیقات کے لئے مجھے کسی یا دری کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے.وید کی نسبت میں پنڈت سے پوچھوں گا.قرآن شریف کی نسبت کسی مولوی سے اور بائبل کی نسبت پادری صاحب سے تحقیقات کروں گا.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ میں بائبل سمجھنے کے لئے کسی مولوی کے پاس جاؤں اور قرآن شریف سمجھنے کے لئے کسی پادری کے پاس.آپ اس وقت با تبل سے کلام فرما دیں.پادری صاحب (مسکرا کر ) ہاں تو بے شک آپ بائیل کی نسبت سوال کرتے ہیں.بائبل سے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں معلوم ہوتا ہے کہ کلام سے دُنیا پیدا ہوئی.طالب حق تو پادری صاحب ! آپ تثلیث کے کیوں قاتل ہیں.کلام ایک صفت ہے اور خدا میں بیسیوں صفات پائی جاتی ہیں.دیکھتا ہے سنتا ہے.قادر ہے اعلیم ہے ' خالق ہے.آپ صرف صفت کلام کو ہی کیوں خُدا قرار دیتے ہیں.آپ کل صفات الہیہ کو اپنائے الہیہ قرار دیں.آپ کے مذہب کے رو سے تو صرف شکلیث پر ہی کفایت نہیں کی جا سکتی.پادری صاحب، اوہو! آپ کو غلطی لگ گئی.کیا آپ خدا کے کلام کو انسانی کلام سمجھتے ہیں اس بات کو تو آپ بھی مانتے ہیں کہ خدا میں اور انسان میں مشابہت نہیں ہے کلام صفت نہیں کلام قدرت ہے.طالب حق پادری صاحب ! کلام وہ ذریعہ ہے کہ میں سے ہم اپنا مافی الضمیر دوسرے پر ظاہر کرتے ہیں.یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ میں اور ہم میں بہت فرق ہے وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں.لیکن جیسے انسان کے دیکھنے کی طاقت سُننے کی طاقت اور اس کے علم کو آپ لوگ صفات انسانی قرار دیتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی بھی ان طاقتوں کو صفات ہی قرار دیتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ خدا کی صفت علم کو یا صفات سمع کو تو آپ صفت قرار دیں اور صفتِ کلام کو اس بنا پر کہ خدا اور انسان میں

Page 269

بہت فرق ہے.دوسری ذات قرار دیں.پھر علاوہ ازیں آپ صرف اس کلام کو جس کے واسطے سے دنیا پیدا کی گئی.کیوں خدا کہتے ہیں.کیوں توریت اور انجیل اور دیگر صحفِ انبیا کو خدا قرار نہیں دیتے...پادری صاحب (مسکرا کر) نہیں نہیں ! ہم انجیل توربیت کو خدا نہیں مانتے.ہمارے مذہب میں ایسا جائز نہیں.اور ہم تو کلام کو صفت قرار نہیں دیتے بلکہ ایک ذات قرار دیتے ہیں.طالب حق تو آپ کلام کو کیا سمجھتے ہیں.پادری صاحب قدرت ! طالب حق جناب نے فرمایا ہے کہ ہم کلام کو قدرت سمجھتے ہیں.لیکن آپ کو یا د رکھنا چاہیئے کہ قدرت بھی کوئی علیحدہ ذات نہیں.مثلاً میرے ہاتھ میں پکڑنے کی قدرت ہے.یہ قدرت میرے ارادے کے ماتحت ہے.اس میں خود کوئی علم نہیں.جب ہاتھ کو حکم دیتا ہوں کہ تو پکڑا تو وہ پکڑ لیتا ہے..لیکن خود میرے ہاتھ کے پکڑنے کی قدرت میں تو کوئی علم نہیں.اگر آپ سچ کو قدرت بھی قرار دیں اور کلام کا دوسرا نام قدرت رکھیں.تب بھی تو سیح کوئی علیحدہ ذات قرار نہیں پا سکتا.ورنہ ہر ایک چیز میں کچھ نہ کچھ قدرت ہوتی ہے تو اس طرح ہر ایک ذات کو دو ذرا میں قرار دینا پڑے گا.اور دوسرے اس صورت میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ میسج علم اور ارادے سے خالی تھا کیونکہ جیسا کہ میں ثابت کر آیا ہوں کہ قدرت صفت علم وارادہ کے بھی ماتحت ہوتی ہے..پادری صاحب.ہم تو میسج کو علم سے خالی نہیں سمجھتے.میسج ضرور علیم ہے.طالب حق یہ بے شک درست ہے کہ آپ میسج کو ایک علیم بستی مانتے ہیں اور گو کو میسج انجیل میں اپنے علم کا منکر ہے مگر اس وقت مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں میں آپ ہی کی بات کو مانتا ہوں اور چونکہ مسیح خدا ہے.اس لئے ہوتا بھی ایسا ہی چاہتے لیکن یہ اعتقاد کی بات ہے.اور جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں مسیح کو اگر کلمہ مان لیا جائے تو اول تو وہ ایک نصفت اور پھر علم

Page 270

سے خالی ثابت ہوتا ہے اور چونکہ میں عقلی دلیل سے ہی فائدہ اٹھا سکتا ہوں.اس لئے ضرور ہے کہ یا تو سرے سے میسج کے کلمہ ہونے کا ہی انکار کر دوں یا آپ کے قول کو مانتے ہوئے اسے کلمہ تو قرار دوں.سیکن علم سے خالی.پادری صاحب بے شک عقل تو یہی کہتی ہے لیکن انجیل اس بات کو نہیں مانتی.طالب حق تو کیا عقل کی رو سے تثلیث کا ماننا نا ممکن ہے.پادری صاحب.اس میں کیا شک ہے کہ عقل انسانی ہستی باری کی گنہ تک نہیں پہنچ سکتی طالب حق جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے عقل ہی ایک سمجھ کا ذریعہ بنایا ہے تو بغیر عقل کے ہم کسی بات کو مان کیونکر سکتے ہیں.بے شک بعض باتیں عقل سے بالا ہوتی ہیں لیکن کوئی انہی مذہب اپنے پیروؤں سے خلاف عقل باتیں نہیں منواتا نہیں اس بات میں آپ سے متفق ہوں کہ ذات الہی کی کنہ کو پہنچا انسانی عقل کا کام نہیں کیونکہ وہ محدود ہے.مگر یہ ضروری ہے کہ جن باتوں کا ماننا مدار نجات ہے وہ انسانی عقل کی پہنچ کے اندر ہونی چاہئیں کیونکہ اگر بعض ایسی باتیں مدار نجات قرار دے دی جائیں جو عقل کے خلاف ہوں تو انسان کے لئے نجات کا دروازہ بالکل بند ہو جائیگا.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے تو ہستی باری کا ثبوت ضرور ایسا ہونا چاہتے جو عقل کے خلاف نہ ہو....پس چونکہ تثلیث کا مسئلہ آپ کے مذہب کی رُو سے جزو اعظم ہے اس لئے یہ ضرور کی ہے کہ یہ ایسے پیرایہ میں بیان کیا جاتا جس کو عقل انسانی سمجھ کہتی.کو پادری صاحب بے شک عقل یہی کہتی ہے لیکن تثلیث کے مانے سے پہلے انجیل کا ماناضروری.طالب حق انجیل کو انسان تب مانے جب اصول مسیحیت ثابت ہو جائیں.ان مسائل کے حل ہونے سے پہلے انسان انجیل کو کب مان سکتا ہے ؟ پادری صاحب جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے انجیل کے ماننے سے پہلے ان مسائل کا سمجھنا مشکل ہے.لے لله تشعند الازبان جلد ۶ نمبر شده صد ۲۸۰ تا حث ۲۹

Page 271

ایک اور موقع پر آپ نے اسی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل دلچسپ واقعہ بیان فرمایا :- وئیں نے ایک پنسل اُن کی میز سے اُٹھا کر اُن کے قریب رکھ دی اور میں نے کہا پادری صاحب ! اس میل کو اُٹھا کر دوسری جگہ رکھنے ! پر آپ قادر ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر میں نے کہا گیا میں قادر ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! پھر میں نے ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا کیا یہ صاحب قادر ہیں ؟ پادری صاحب نے کہا ہاں! میں نے کہا جب ہم تینوں شخص اپنی ذات میں اس فیسل کو ملانے پر قادر ہیں، لیکن پھر بھی ہم تینوں کھڑے ہو کر شور مچا دیں کہ او بہرہ ! ادھر آو او باورچی ! ادھر آو.جب وہ کمرے میں داخل ہوں تو ہم اُن سے کہیں کہ ہم تینوں سے مل کر یہ منیل اِدھر رکھ دو.تو بتا ہے وہ ہمیں پاگل سمجھیں گے یا نہیں ؟ پادری صاحب نے کہا آپ کا مطلب ؟ میں نے کہا صرف جواب دے دیجئے.انہوں نے کہا ہاں پاگل کہیں گے.میں نے کہا جب خدا باپ خدا بیٹا اور خُدا روح القدس تینوں کائنات کے پیدا کرنے پر بذاتہ قادر ہیں ، اور اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کو اس کام کے لئے بلاتے ہیں جس کو وہ اکیلے اکیلے کر سکتے ہیں تو بتائیے دوسرے خدا بلانے والے خدا کو اور ہم لوگ اس خدا کو پاگل کہیں گے یا نہیں ؟ اور پاگل خدا ہو ہی نہیں سکتا.یا تو پاگل کہلا کر وہ خدا نہ رہے گا یا ایسے پاگل دنیا میں وہ اودھم مچا دیں گے کہ دنیا ہی تباہ ہو جائے گی.(تفسیر کبیر سورۃ انبیاء سند - ۵۰۲) اس سفر کے دوران ایک اور دلچسپ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے.محترم شیخ قص صاحب مرحوم جو ایک وقت میں افسر امانت صدر انجمن احمد یہ رہے ہیں بیان کرتے ہیں کہ : شاہ میں میں ڈالموزکی ملازم تھا اور جس مکان میں میں رہتا تھا اس کے قریب ہی کو تو ال عبد الغفار خان کا مکان تھا.اس کے پاس ملنے جلنے والوں کا جمگٹھا رہتا.لیکن میں با وجود قریب رہنے کے بھی اس کے ہاں کبھی نہ گیا تھا.جوب کافی عرصہ اسی طرح گزر گیا تو ایک دن جبکہ میں اس کے مکان کے سامنے سے گزر رہا تھا.اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوتے اپنے مکان میں لے گیا کہ پڑوس میں رہ کر اس طرح لاتعلقی چھی

Page 272

نہیں لگتی.اندر ہر طرح کے پھل رکھے تھے مگر میں نے اُن کے لئے کسی رغبت کا اظہار نہ کیا اور کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہا آؤ یا ہر سیر کے لئے چلیں.وہ میرے ساتھ باہر نکلا.لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو تھے.میں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا.میرے ہاں کوئی اولاد نہیں.روپیہ پیسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہے.خرچ بھی خوب کرتا ہوں.لوگ میرے پاس بن بلائے بھی کھانے کیلئے آتے ہیں لیکن تم میری ٹیکیش کے باوجود ان سے بے نیاز ہو.میں نے تم جیسا عجیب آدمی نہیں دیکھا.میرے لئے دُعا کرو.شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اس پر میں نے اُسے جواب دیا میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں اگر دیکھنا ہے تو میرے مرشد زادہ مرزا محمود احمد کو دیکھو.اُن کے حُسن سیرت کا کوئی جواب ہی نہیں.وہ کہنے لگا اُن سے ملنے کی کوئی صورت؟ کیا وہ یہاں آنے کی میری دعوت قبول کر لیں گے ہے میں نے کہا اُن سے ملنے کی صُورت خدا سے چاہو.بہر حال کچھ دنوں کے بعد میں ڈلہوزی سے قادیان آیا تو مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس یکمہ کھڑا دیکھا.پوچھا یہ کس کے لئے ہے.معلوم ہوا میاں محمود احمد صاحب ڈلہوزی جارہے ہیں.میری آپ سے بے تکلفی تھی.روانگی کے لئے جب باہر آئے تو میں نے مصافحہ کیا اور ساتھ ہی عرض کیا وہاں آپ کا ایک عاشق بیٹھا ہے.آپ میری بات پر مسکرائے اور کسی قسم کی تفصیل معلوم کئے بغیر یکہ پر سوار ہو گئے.اس دن غالباً اتوار کا دن تھا میں نے کسی سے پوسٹ کارڈ کیا اور کو توال عبد الغفار خاں کو لکھ دیا کہ تمہیں جن کی طلب تھی وہ اس گاڑی سے ڈلوزی آرہے ہیں.اُن سے ملنے کی کوشش کرو.عبدالغفار کا خیال تھا کہ جیسے اور پیر ہوتے ہیں یہ بھی فقیرانہ لباس ایلی تہہ والے کوئی سائیں جی ہوں گے جن کے آگے آگے کسی مرید نے جھنڈا اٹھارکھا ہوگا.غرض اپنے تصور کے مطابق اُس نے اپنے آدمیوں کو اس قسم کی علامات بتا کر اڈے پر بھیجا کہ اس ہنیت کذائی کے بزرگ جب یہاں پہنچیں تو ان سے درخواست کی جائے کہ وہ میرے ہاں قیام فرمائیں.ان لوگوں نے واپس آکر بتایا کہ اس قسم کے کوئی پیر آج ڈلہوزی نہیں آئے.اس پہ وہ خود ایک احمدی دوست کے ہاں گیا اور پوچھا آج تمہارے پیرزادہ نے آنا تھا، کیا وہ آگئے ہیں.اس دوست نے بتایا کہ ہاں وہ تشریف لے آتے ہیں.اور اِس وقت اللہ تعالیٰ کے گھر یعنی مسجد میں نماز پڑھنے گئے ہیں.چنانچہ وہ وہاں پہنچا.آپ

Page 273

مهم اما سلام نماز سے فارغ ہو چکے تھے اس نے حاضر ہو کر درخواست کی کہ آپ اس کے ہاں قیام فرمتیں مگر آپ نہ مانے.پھر اس نے میرا خط دکھایا اور اصرار کیا کہ شرفاتے شہر کو سفارش کے لئے نے آؤں گا.اس پر آپ نے فرمایا میں تو ان احمدی دوستوں کا مہمان ہوں، ان کی اجارت سے ہی جا سکتا ہوں.پہلے تو دوستوں نے بھی معذرت کی اور کہا یہ تو مبلغ میں تبلیغ کریں گے اور اس طرح شاید آپ کے لئے مشکلات پیدا ہوں لیکن کو توال نے کہا بھلا تم مجھ سے زیادہ کہاں تبلیغ کروا لو گے جتنے آدمی کہو گے بلوا دوں گا.غرضیکہ احمدی دوست مصلحتاً مان گئے اور اس طرح وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے ہاں لے گیا.آپ کے اعزاز میں بہت بڑی دعوت دی.معززین کو مدعو کیا.جب سب لوگ آگئے تو حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہنے لگا.یہ کھانا تو ہم ہر روز کھاتے ہیں.نئی چیز تو آپ کی روحانی باتیں ہیں پہلے یہ روحانی کھانا کھلائیں.پھر یہ کھانا بھی چنا جائے گا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک سحرآ گئیں تقریر فرمائی جس کا مدعوئین پر خاص اثر ہوا.تقریر کے بعد کھانا کھایا گیا.اور لوگ خوشی خوشی رخصت ہوئے.کو تو ال عبد الغفار خاں نے آپ سے عرض کیا کہ ابھی میرا دل نہیں بھرا.آپ کچھ آرام فرما لیں تو آپ کو شہر کے مولویوں کے پاس نے جاؤں گا تا کہ.فرمالیں " ان کو بھی تبلیغ ہو سکے یا تجھے غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت کی بحالی کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے لحاظ سے بھی آپ - 1910 کا یہ سفر بہت کامیاب رہا.191ء میں حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر آپ نے چکوال ضلع جہلم کے علاقہ تبلیغی دورہ کیا.اس دورے کی رپورٹ الفضل میں ان الفاظ میں شائع ہوتی :- ۲۴ جنوری ۱۹۱۷ء کو مفتی فضل الرحمان صاحب کے ہمراہ قادیان سے آپ روانہ ہوئے.لاہور پہنچ کر آپ نے ۲۵ جنوری کی شام کو جماعت لاہور کی درخواست پر ایک پر معارف لیکچر دیا میں میں آیت اُدْعُونِي استجب لكم " کی تفسیر کرتے ہوئے زمانہ حال کے مسلمانوں کا صحابہ کی قربانیوں سے مقابلہ کیا اور آخر میں جماعت کو تبلیغ حق کی ضرورت واہمیت بتائی اور اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.تقریر کے بعد اُسی دن لاہور سے روانہ ہوکر بجے شب جہلم پہنچے.۲۶ جنوری کو نماز ظہر کے بعد جہلم میں آپ نے ایک تقریر فرمائی جو له مستوده روایات حضرت شیخ فضل احمد صاحب مرحوم

Page 274

۲۶۵ سورۃ فاتحہ کی تفسیر مشتمل تھی.۲۷ جنوری کو آپ 4 بجے صبح جہلم سے بذریعہ ویل مندرا اسٹیشن پر اُترے اور تانگہ پر سوار ہوکر شام کے چھ بجے چکوال رونق افروز ہوئے.راستہ میں چک نورنگ کے احمد نی علاقہ دار با یو غلام حیدر اور علاقہ دار سید رکن شاہ اور سید اللہ وہ نمبردار چوہان نے آپ کا استقبال کیا.چکوال میں ایک مختصر سے خطاب کے بعد ۲۹ جنوری کو آپ تانگے پر سوار ہو کر چک نورنگ تشریف لے گئے جہاں شام کو مردوں اور عورتوں میں الگ الگ وغفظ کیا.چک نورنگ سے آپ گھوڑے پر سوار ہو کر ۳۰؍ جنوری کو چوہان پہنچے اور جمعہ پڑھانے کے بعد ایک عام لیکچر دیا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کھول کھول کر بیان فرمائی.یہ تقریر بڑی دلپذیر تھی اور لوگوں پر اس کا گہرا اثر ہوا.اگلے دن اسر جنوری آدھی رات کو آپ چوہان سے بذریعہ ریل مسلم پہنچے اور صبح جو بھی گھاٹ میں حضرت میسج موعود علیه السلام کی صداقت پر زبر دست لیکچر دیا.لیکچر گاہ با وجود مخالفت کے پر تھی.شام کو آپ جہلم سے گوجرانوالہ پہنچے اور وہاں کی جماعت سے خطاب فرمایا.دوسرے دن صبح چار بجے ریل پر سوار ہوئے اور شام کو بٹالہ پہنچ کر بوقت عشا قادیان دارد ہوئے نہ لے - یہ تو آپ کے تبلیغی اور تربیتی سفر تھے علم ومعرفت کی تلاش میں آپ نے بعہد خلافت اُولیٰ بعض علمی سفر بھی کئے.آپ کے بعض تعلیمی سفر پہلا سفر آپ نے اندرون ملک بعض مشہور مدارس اسلامیہ کے معائنہ اور وہاں کے علمی ماحول کے مطالعہ کی غرض سے اختیار کیا.اس سفر میں : وثر مولاناسید سرور شاہ صاحب ، قاضی امیر حسین صاحب حافظ روشن علی صاحب سید عبد الحمی عرب صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی آپ کے ساتھ تھے.روانگی سے قبل یہ وفد حصول دُعا کے لئے حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا :- له الفضل اور فروری ساده

Page 275

" میں میاں صاحب کو تم پر امیر مقرر کرتا ہوں...میاں صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ تقوی اللہ اور چشم پوشی سے عموماً کام لیں.بہت دُعائیں کریں.جناب الہی میں گر جانے سے بڑے بڑے برکات اترتے ہیں.اور آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنے امیر کی پوری پوری اطاعت و فرمانبرداری کریں.کوئی کام ان کی اجازت کے بدوں نہ کریں.علم کا کھمنہ کوئی نہ کرے.میں نے بھی علوم پڑھتے ہیں، بعض وقت کوئی لفظ بھول بھی جاتا ہوں مگر خدا کے فضل سے خوب سمجھتا ہوں بہت پڑھایا ہے اور پڑھاتا بھی ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ محض علوم کچھ چیز نہیں ہے علم آن بود که نور فراست رفیق اوست تم بھی اس علم کو حاصل کرو یہی اپنا مقصد بناؤ.باقی علوم کچھ بھی چیز نہیں ہوتے.ان کا گھمنڈ بھی نہ کرنا.دعاؤں سے بہت کام لینا...میرا اپنا تجربہ ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر جاتا ہے تو پھر خدا تعالی اس کے دل کو کھول دیتا ہے اور آپ ہی اس مشکل کا حل بتا دیتا ہے...علما سے ملو اگر کسی سے عمدہ بات ملے تو اُسے فورا لے لو.کیونکہ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَةُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہے بیٹا بعد حصولِ دُعا یہ و قد ۳ را پریل شاہ کو روانہ ہو کر امرتسر کے راستہ ہردوار اور ہردوار سے لکھنو پہنچا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے جمعہ امین آباد پارک میں قاضی محمد اکرم صاحب کے مکان پر پڑھایا.اور آیت وَلْتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ تَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ پر ایک مختصر خطبہ دیا اور سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تحریک فرماتی اس کے بعد آپ مولانا شبلی کے قائم کردہ دارالعلوم ندوہ دیکھنے تشریف لے گئے مولانا شبلی کو پتہ چلا تو انہوں نے اصرار کیا کہ ۶-۷- د ر ا پریل شاہ کو ندوۃ العلماء کا سالانہ جلسہ ہو رہا ہے.مصر سے سید رشید رضا بھی تشریف لارہے ہیں.آپ حضرات بھی ضرور شمولیت فرمائیں اور ہمارے ہاں ہی قیام کریں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب مولانا ے تفسیر کبیر الماعون ص ۲۷ : که ال عمران : ۱۰۵

Page 276

کی کی دعوت پر جلسہ میں شامل ہوتے تعطیل جمعہ سے متعلق ایک پیش شدہ ریزولیوشن کی تائید میں تقریر کی.اس خیال سے کہ دوسرے علما کپڑ نہ جائیں اور کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو.کی.آپ نے مولانا کے ہاں قیام نہ فرمایا لیکن علامہ شبلی مرنجاں مرنج طبیعت رکھتے تھے.ان کو جب معلوم ہوا کہ آپ کا قیام کسی اور جگہ ہے تو وہ اصرار کر کے آپ کو اپنے یہاں سے آئے.وہاں جاکر جیسا کہ خیال تھا کچھ بدمزگی پیدا ہوئی اور غیر احمدی علما نے مولانا کو گالیاں دیں مگر وہ بہت ہمت والے آدمی تھے انہوں نے اس کی بالکل پر واہ نہ کی ہے ندوة العلما کے جلسہ سے فارغ ہو کر آپ لکھنو کا مدرسہ فرنگی محل دیکھنے گئے.مدرسہ کے سٹاف اور ان کے اخلاص سے آپ از حد متاثر ہوئے جس وقت وقد وہاں پہنچا تو مولوی عبد الهادی صاحب فرنگی محلی نہایت تپاک سے ملے اور اپنی کلاس کا معائنہ کرایا اور پھر مولوی صیغہ اللہ کو وقد کے ساتھہ کیا کہ باقی سکول دکھا دیں.آپ نے دیکھا کہ ہر طالب علم نہایت ادب اور متانت سے بات کرتا تھا.مولوی عبدالحی صاحب کے نواسے کو بھی انہوں نے پیش کیا کہ اس سے سوال کریں.اس وقت اس کی عمر کوئی ۱۳ سال کے قریب تھی.اس سے آپ نے جتنے سوال کئے اس نے مهایت سنجیدگی اور متانت سے اُن کے جواب دیتے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی طالب علم سے سوال نہیں پوچھ رہے بلکہ کسی مفتی سے فتوی دریافت کر رہے ہیں.انہوں نے بتایا کہ اس بچہ کو تین چار ہزار عربی شعر یاد ہیں فرض وہ لڑکا بڑا ہی ذہین تھا.افسوس کہ یہ نہایت ذکی اور فہیم بچہ نو عمری ہی میں فوت ہو گیا.قیصر باغ لکھنو کی بارہ دری واجد علی شاہ میں آپ نے خصوصیات سلسلہ پر ایک کامیاب لیکچر سید دیا.بھنو نے گو مخالفت کے در درمان صاحت میں پیدا کی عرب صاحب کو سے ہار کے پس گر آپ نے اس کی پرواہ نہ کی اور وہاں چار کامیاب لیکچر دیتے.وفد کے باقی ارکان نے لکھنو میں سید رشید رضا اور دوسرے علما سے ملاقاتیں کا نہیں.حقیقۃ الوحی کا ضمیمہ استفتا اور دوسری کتب تقسیم کیں.امر اپریل کو حضرت صاحبزادہ صاحب بنارس سے کانپور پہنچے جہاں وفد کے دوسرے حضرات پہلے ہی پہنچ چکے تھے.کا نیور میں دو مدر سے قابل دید تھے.مدرسہ جامع العلوم جس کے ناظم محمد سعید خانصاحب کالک مطبع نظامی تھے.دوسرا مدرسہ الہیات تھا جس کے پرنسپل مولانا آزاد شبھائی تھے چنانچہ آپ نے یہ دونوں مدر سے دیکھے سے الحکم معمار اپریل شاد

Page 277

پریل کی شام کو کانپور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک پبلک لیکچر طلائی محل کے میدان میں ہوا جو آپ کی قیام گاہ کے نزدیک تھا.لیکچر کے وقت لوگوں کا ایک نجوم امڈ آیا اور سیر گاہ بالکل بھر گئی اور بہت سے لوگوں کو کھڑا ہونا پڑا.کوئی اڑھائی ہزار کے قریب مجمع ہو گا.سب سے پہلے مولوی عبد الحمی عرب صاحب نے تلاوت کی.پھر حافظ روشن علی صاحب کی مختصر سی تقریر ہوئی.اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور گو بنارس میں کثرت سے بولنے کی وجہ سے طبیعت علیل تھی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی کہ آپ نے ایک جدید اور اچھوتے رہنگ میں احمدیت کی تبلیغ کی جسے سن کر سب مسعور ہو گئے.دو اڑھائی گھنٹے تک آپ کی تقریر ہوئی.تقریر کے بعد جو نہی آپ بیٹھے تو لگ اپنی جگہ پر یہ سمجھ کر جمے رہے کہ شاید سانس لینے کے لئے بیٹھے ہیں آخر اعلان کیا گیا کہ لیکر تی ہے.اس پر سامعین نے بآواز بلند کہا کہ بہت سے لوگ مصافحہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ وہ لوگ جو دن کے وقت ایک گفتگو کے دوران میں آپ کے منہ پر کا فرکہ کے گئے تھے.بڑھ بڑھ کر مصافحے کرنے لگے.کانپور کے شرفا نے مزید قیام اور لیکچر کی درخواست کی.مگر آپ نے فرمایا کہ.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں نہیں ڈالا ہے کہ اب میں یہاں سے روانہ ہو جاؤں.یہاں سے روانہ ہو کر دوسرے دن آپ شاہجہان پور پہنچے اور حافظ سید مختار احمد صاحب کے مکان پر قیام فرمایا.انہی کی تحریک پر آپ نے صبح کے وقت ایک ایسا پر اثر خطاب فرمایا کہ مولوی سراج الدین خانپوری صاحب نے اس کی افادیت کے پیش نظر اس کی فوری اشاعت کی تحریک کرتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ رقم بھی پیش کی.۲۰ را پریل کو یہ وقد رام پور پہنچا جہاں خانصاحب ذوالفقار علی خان اور مولوی عبید اللہ صاحب سجل آپ کے خیر مقدم کے لئے موجود تھے.رام پور میں آپ نے مدرسہ عالیہ دیکھا.۲۲؍ اپریل کو آپ و قد سمیت امروہ پہنچے.اسٹیشن پر مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی اور دوسرے احباب جماعت نے پر جوش استقبال کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہاں بھی ایک مختصر سی تقریر فرمائی.ر اپریل کو وفد دہلی پہنچا اور مدرسہ حسین بخش ، مدرسہ عبد الرب اور مدرسہ فتح پوری دیکھا.۲۵ اپریل کو دارالعلوم دیوبند دیکھنے کے لئے گئے جمعیتہ الانصار کے سیکرٹری مولوی عبید اللہ صاحب سندھی کے ذریعہ سے دارالعلوم دیوبند کے صدر مولانا محمود الحسن صاحب اور دوسرے بزرگ علما سے طلاقات ہوئی.مدرسہ کا معائنہ کرنے اور مدرسہ کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا.مهتم مدرسه مولوی محمد احمد صاحب خلف الرشید مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بڑے اخلاق اور مروت سے

Page 278

پیش آئے لیکن بعض جو پہلے علما نے مخالفت بھی کی اور جوش تنصیب میں مولانا سید سرور شاہ صاب کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے دیو بند میں ایک احمدی میاں فقیر محمد صاحب رہتے تھے، اُن سے بھی ملاقات ہوئی.دیو بند کی عظیم اسلامی درسگاہ دیکھنے کے بعد آپ اپنے ساتھیوں سمیت سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں کا مشہور مدرسہ مظاہر العلوم دیکھا.مولوی عنایت علی صاحب مہتمم مدرسہ جو ایک خوش اخلاق بزرگ تھے آخر تک ساتھ رہے.اتفاق سے سہارنپور میں حافظ عبدالمجید صاحب منصوری آئے ہوئے تھے انہوں نے پورے ہند کو پُر تکلف چائے کی دعوت دی.سہارنپور سے ۲۸ اپریل کی شام کو ہردوار پنجر سے آپ روانہ ہوئے اور اگلے دن ظہر سے قبل کامیاب و کامران قادیان پہنچ گئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نہایت تپاک سے ملے.بڑی خوشی کا اظہار فرمایا اور اگلی رات پورے وفد کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام فرمایا ہے آپ کے سفروں کا جو حال اب تک بیان ہوا وہ دیکھنے والوں یا ہمسفروں کے الفاظ میں تھا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دیکھنے والا خواہ کیسا ہی صاحب بصیرت کیوں نہ ہو وہ دوسرے کے دل میں اتر کر اس کے باریک در باریک جذبات اور اُن کی گنہ کو نہیں پہنچ سکتا.یقیناً ایک مبصر کے بس کی بات نہیں کہ ذہنوں کے اندرونی گوشوں تک نفوذ کر کے افکار کی موجوں کا نظارہ کر سکے.ان کیفیات کو تو دہی بیان کر سکتا ہے جس کے دل پر گزر رہی ہو.یہ ایک طبعی امر ہے کہ سیر و تفریح کے وقت بدلتے ہوئے مناظر در اوقات اور نئے نئے مشاہدات ایک سیاح کے قلب و نظر پر گہرا اثر ڈالتے ہیں.ایک شاعر کا دل ان محرکات سے ایک رنگ میں متاثر ہوتا ہے تو ایک فلسفی کا ایک دُوسرے رنگ میں.ایک بادشاہ کے خیالات کا دھارا ایک طرف مرتا ہے تو ایک فقیر کے خیالات کا دھارا ایک دُوسری طرف آیئے ہم دیکھیں کہ سیر و سیاحت نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے قلب و ذہن میں کسی قسم کے احساسات اور افکار کو موجزن کیا ہے - 1915 ادم الحکم می باشد O

Page 279

مير اسفر محمد کی کہانی محمود کی زبانی خدا تعالیٰ نے انسان پر محبت قائم کرنے کے لئے ذرہ ذرہ میں ایک خاص شان رکھی ہے.ایک ایک نکتہ خدا تعالیٰ کی بستی پر دلالت کر رہا ہے اور ایک ایک شعشہ اس کی قدرت کا مظہر ہے.سورج روشن ہے اور اس کی روشنی سے ایک نہیں، دو نہیں ، لاکھوں فائدے دنیا کو پہنچ رہے ہیں.اور پھر ان فائدوں سے ایک دو آدمی ہی متمتع نہیں ہوتے بلکہ بے شمار مخلوقات فائدہ اُٹھا رہی ہے.اگر انسان ایک بڑے مکان میں بیٹھا ہوا اس کے فوائد سے حصہ لے رہا ہے تو جانور اپنے گھونسلے میں اس سے کچھ کم نہیں لیتا.اور ھچھوندر جو سورج کے آئے اپنی آنکھیں نہیںکرسکتی اور روشنی کو دیکھ ہی نہیں سکتی.وہ گو کہ ظاہر میں اس سے دُور ہے لیکن چشم بصیرت رکھنے والے انسان جانتے ہیں کہ اس اندھیرے میں بھی سورج کی روشنی اور تپیش اُسے فائدہ پہنچا رہی ہے اور اس کی زندگی پر ایک بہت بڑا اثر کر رہی ہے.غرض یہ تو ایک موٹی مثال ہے میں سے ایک انسان نصیحت حاصل کر سکتا ہے.ورنہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں، ذرہ ذرہ میں خاص حکمتیں مخفی ہیں جو کہ انسان کو خدا کی طرف رہنمائی کر رہی ہیں.انس نئے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُل سِيرُوا فِي الْأَرْضِ " کیونکہ انسان جس طرف پھرے گا اور مختلف ممالک کی سیر کرے گا اور مختلف اشیا کیر غور کرے گا، اسی قدر اُسے معرفت اور نیکی کی توفیق ہے گی....اس لئے حکم ہوا ہے کہ اپنے کھانے سے اپنے پینے سے اپنے چلنے پھرنے سے غرض ہر ایک بات سے نصیحت حاصل کرو تا کہ نفس کے خفیہ حملوں سے محفوظ رہو.اور یہ بات صرف کہنے کی ہی نہیں، بلکہ اس میں خود میرا ذاتی تجربہ ہے اور میں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے اور خدا کے فضل سے ہر روز فائدہ اُٹھاتا ہوں.ابھی پچھلے دنوں میں مجھے ایک سفر کرنا پڑا ہے جس سے مجھے اس قدر فائدہ پہنچا ہے له الانعام : ۱۲ لئے

Page 280

کہ میں بیان نہیں کر سکتا.بعض ایسی چیزیں میرے سامنے آئیں کہ ان میں میں نے خود خُدا کو دیکھا بعض ایسے وجود میں نے دیکھے ہیں کہ وہ خود خدا کا ثبوت تھے اور خدا کی ہستی کو ثابت کر رہے تھے.غرض کہ بے شمار فوائد تھے کہ اگر ایک ایک کو لکھنے بیٹھوں تو شاید دفتروں کے دفتر لکھنے پڑیں لیکن باوجود اس کے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے سفر کا ایک مختصر حال لکھوں.شاید کوئی سعید روح اس سے فائدہ اٹھاتے اور میں بھی ثواب کا اتفاق کی بات ہے کہ بعض دنوں میں تو کئی کئی مہینے تک باہر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے.اور بعض دنوں میں خدا کی قدرت ایسے سامان مہیا کرتی ہے کہ مجبوراً مختلف جگہوں میں یکے بعد دیگرے پھرنا پڑتا ہے.لاہور میں بارہ وفات کا جلسہ تھا.مگر می خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھے اس موقع پر آنے کے لئے فرمایا اور حضرت خلیفہ المسیح سے بھی اجازت طلب کی.اور آپ کی اجازت پر میرا ارادہ ہوا کہ دو یا تین اپریل کو کہاں سے روانہ لاہور ہوں گا.اتنے میں والدہ ماجدہ کا ارادہ دہلی جانے کا ہوا اور دہلی سے میر قاسم علی صاحب نے خط لکھا کہ میں بھی وہاں جاؤں.اور یہ بات اس کی محرک ہوئی کہ میں دو یا تین کو یہاں سے چلنے کی بجائے غالباً ۲۴ تاریخ کو یہاں سے روانہ ہوا.چونکہ والدہ صاحبہ حضرت ام المومنین بند نے کپور تھلہ میں بھرنا تھا اس لئے میں بھی سیدھا کپور تھلہ ساتھ گیا اور وہاں سے پھر لاہور آنے کا ارادہ کیا.چنانچہ اسی دن شام کو چار بجے کے قریب ہم کپور تھلہ پہنچے.یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بھی کچھ مدت قیام رہا ہے خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ خاص خاص جگہوں میں خاص خاص خصوصیتیں ہوتی ہیں.کپور تھلہ کی مٹی میں خدا تعالیٰ نے وہ اثر رکھا ہے کہ یہاں جس قدر لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں کسی دلیل کسی معجزہ کسی نشان کی وجہ سے نہیں ہوئے اور نہ انہیں کسی کشف و کرامت کی ضرورت ہے کہ اُن کے ایمان کو قائم رکھے.بڑے سے بڑا ابتلا ہو اور کیسا ہی سخت امتحان ہو.ان لوگوں پر خدا کا کچھ ایسا افضل ہے کہ ان کا پائے ثبات ذرا بھی لغزش نہیں کھاتا اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معجزانہ زندگی کو دیکھ کر آپ کی بیعت ہی نہیں کی بلکہ عشق پیدا کیا ہے اور یہاں تک ترقی کی ہے کہ لیلی را بچشم مجنوں باید دید کا معاملہ ہو گیا ہے.ان لوگوں نے خدا کے

Page 281

۲۷۲ مرسل کی زندگی کو دیکھ لیا ہے کہ وہ کیسی پاک اور صاف تھی اور مشاہدہ کر لیا ہے کہ وہ گنا ہوں سے کیسا پاک تھا.بچنا نچہ اُن کا یہی اخلاص اور محبت ہی حضرت صاحب کو وہاں کھینچ کر لے گیا.اور یہی ہمیں بھی وہاں لے گیا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص سے ہمیں محبت ہے.اس کے متعلقین سے بھی قدرتاً محبت ہوتی ہے.اس لئے سیچی دوستی کی نشانی میسی سمجھی گئی ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست کے مال وجان اور عزیز و اقارب کا اُسی طرح محافظ ہو اور چاہنے والا ہو جیسے کہ وہ اپنے مال و جان کی حفاظت کرتا اور اپنے عزیز و اقارب کو چاہتا ہے.پس وہ شخص جس کے ہاتھ میں ہاتھ کرتا دے کر یہ اقرار کیا ہو کہ ہم تجھ سے تمام دنیا کے رشتوں اور دوستیوں سے بڑھ کر سلوک کریں گے اس کی ہر ایک چیز کیوں پیاری نہ ہو.غالباً یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کو ہم سے ایک خاص محبت اور اخلاص ہے بلکہ میں کہ سکتا ہوں کہ یہ محض اخلاص ہی اخلاص ہے اور نفسانی خواہشیں ان میں بالکل نہیں.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت صاحب نے ان کو ایک موقع پر لکھا.میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگ قیامت کو بھی میرے ساتھ ہوں گے کیونکہ دنیا میں بھی آپ نے میرا ساتھ دیا ہے.اس جگہ میں نے کامل ایمان کے کئی نمونے دیکھے اور سُنے.لیکن ایک بات نے تو مجھ پر وہ اثر کیا کہ میری روح کو قول بلٹی یاد آگیا اور اگر چہ اس کا لکھنا شاید عام لوگوں کے لئے مفید ثابت نہ ہو لیکن بعض با مذاق لوگوں کے لئے جن کو خاص ذوقی بات عام دلائل سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے، شاید مفید ثابت ہو.منشی محمد اروڑا صاحب جو حضرت صاحب کے نہایت پرانے مریدین میں سے ہیں اور حضرت اقدس سے خاص محبت جو شاید دوسری جگہ بہت کم ملے رکھتے ہیں.انہوں نے شنایا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے مجھ سے پوچھا کہ سب لوگ دُعا کے لئے کہتے ہیں اور آپ بالکل نہیں کتے اس کی کیا وعیہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی.میں آپ خدا تعالیٰ سے مانگ لیتا ہوں اور اس وقت آپ پر اس کے جو احسانات اور کریم ہیں اُن کو زیر نظر رکھ لیتا ہوں اور وہ کام خود بخود ہو جاتا ہے مجھے اس سے ایک تو اُن کے ایمان پر خیال گیا کہ کیا ایمان ہے! اور خُدا تعالیٰ کے رحموں پر کس قدر بھروسہ.ہے اور دوسرے حضرت اقدس کی سچائی پر کیا ایمان ہے! اور دوسری طرف میرا خیال

Page 282

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف گیا.چونکہ وہ ایک عظیم الشان نبی تھے.اس لئے انہوں نے بھی ایمان کا اس قسم کا ایک نمونہ دکھایا ہے جو کہ ان کی طہارتِ نفس کی وجہ سے بہت ارفع ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل آپ کے پاس آئے اور کہا کہ کچھ خواہش ہو تو فرمایئے.آپ نے نہایت بے توجہی سے جواب دیا کہ کچھ نہیں میری تم سے کچھ غرض نہیں.انہوں نے دوبارہ کہا کہ خدا تعالیٰ سے کچھ پیغام ہے.انہوں نے جواب دیا کہ مجھے کوئی واسطہ پسند نہیں.انہوں نے سہ بارہ کہا کہ اچھا تو دُعا کیجئے آپ نے جواب دیا کہ وہ آپ نہیں دیکھتا جو میں اُسے سناؤں کہ میرا کیا حال ہے ؟ شبحان اللہ کیسا ایمان ہے اور کیسا غنی ہے! اسی کا نتیجہ ہے کہ قرآن شریف میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کچھ ذکر آئے وہیں قرآن شریف کی عبادت محبت سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ محب اپنے محبوب کا ذکر کر رہا ہے خیر بات لمبی ہوتی ہے.اس لئے ہیں اور زیادہ واقعات نہیں لکھتا.کیونکہ اور بہت کچھ سنانا ہے.یہاں کی بعض قابل دید عمارات بھی دیکھیں اور ایک چھوٹی سی ندی جو نظارہ قدرت کو عجب طرح خوبصورت کر کے دکھاتی ہے وہ بھی دیکھی.یہاں کے راجہ صاحب کو سیر دسیاحت کا بہت شوق ہے اور وہ جس ملک میں جاتے ہیں، وہاں کی کچھ چیزیں لا کر اپنے ہاں رکھتے ہیں.اگر وہ اس سے ایک ناصح کا کام لیویں تو میرے خیال میں کئی واسطہ وہ کام نہیں کر سکتے جو دہ بے جان چیزیں کر سکتی ہیں.یہاں بعض غیر احمدی صاحبان بھی ملاقات کو آتے جن میں سے ایک صاحب اہل ہنوں میں سے تھے.جو وہاں مختاری کا کام کرتے ہیں.اور انہوں نے لیکچر کے لئے کہا لیکن چونکہ میں نے دوسرے ہی دن لاہور جانا تھا اس لئے زیادہ ٹھرنا مشکل تھا.دوسرے دن میں لاہور کی طرف روانہ ہوا اور والدہ صاحبہ دہلی کی طرف - دو تاریخ کو میں لاہور پہنچا اور برادرم مکرم سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر ٹھہرا.تیسرے دن یعنی چار تاریخ کو لیکچر شروع ہوئے.لاہور کے بہت سے معززین جلسہ میں آئے تھے جس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالی اندر ہی اندرلوگوں کے دلوں کو اس طرف پھیر رہا ہے ورنہ ایک دن وہ تھا کہ خود حضرت اقدس کی تحریر ہے لوگ بھاگتے تھے اور آج آپ کے خدام کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں.یہی وہ لاہور ہے

Page 283

کہ جہاں آپ کی وفات کے وقت دشمنوں نے وہ شور مچایا کہ الاماں!...ہم وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن خدا کا زبردست ہاتھ دنیا کو اپنے سلسلہ کی طرف کھینچ رہا ہے.وہی لوگ ہیں، وہی تعلیم ہے، رہی خیالات ہیں، وہی عمل ہیں.ہاں اگر فرق ہے تو یہ کہ وہ محمود وجود نہیں رہا.اسے اندھی دنیا ! تو خدا کے برگزیدہ کا مقابلہ کر کے اور اُن سے حسد کر کے کیوں ہلاکت کے گڑھے میں پڑتی ہے.تجھ پر افسوس اور سخت ہی افسوس! خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.شہر کے بہت سے روسا اس موقع پر آئے تھے اور اُن میں سے بعض اس سلسلہ کے سخت معاندین میں سے تھے لیکن عام طور پر سب پر اثر نیک ہوا اور سب نے معلوم کر لیا کہ اگر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والا کوئی گروہ ہے تو وہ میں فرقہ ہے.اس دن کی کارروائی نہایت عمدگی سے ختم ہوئی.دوسرے دن بھی اچھی رونق تھی.میرا لیکچر بارہ وفات پر تھا.جو کہ انشاء اللہ تعالیٰ رسالہ تشحید الا ذبان میں چھپ کر شائع ہو جائے گا.اس دن بھی لوگوں پر بہت نیک اثر ہوا اور اُن کے دلوں سے وہ وحشت جو ہم سے رکھتے تھے کچھ دور ہوئی.جلسہ ختم ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد میں دہلی کو روانہ ہوا.اور صبح آٹھ بجے کے قریب وہاں پہنچ گیا.یہی وہ شہر ہے کہ جس سے حضرت اقدس کی مخالفت نے اول ہی اول خطرناک صورت اختیار کی اور جہاں کے مشہور مولوی نذیر حسین کے فتوسی نے مسلمانوں میں مخالفت کا ایک عام جوش بھڑکا دیا.مگر با وجود اس کے حضرت اقدس کو اس شہر سے ایک خاص انس رہا ہے.آپ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ میں امید کرتا ہوں کہ دہلی کے وفات یافتہ بزرگوں کی رو میں ایک دن ضرور جوش میں آئیں گی اور اُن کی تڑپ سے یہ لوگ ہدایت پائیں گے.آپ فرماتے تھے کہ وہ شہر جہاں اس قدر اولیا " اور بزرگ دفن ہیں، کہ جن کی تعداد زندوں سے بڑھ گئی ہے کیا اس کے باشندوں کو ہندا ہدایت کے بغیر چھوڑ دے گا ؟ غرض ایسے شہر میں آنا میرے لئے ایک عجیب بات تھی اور کسی کیفیتیں سیدا ہو رہی تھیں.میں اس شہر میں جاتا ہوں جس کے لوگوں نے سب شہروں سے زیادہ حضرت اقدس کا مقابلہ کیا.میں میں سوائے ایک دو آدمیوں کے کسی نے آپ کی سچائی کو قبول نہ کیا جس کے باشندوں نے آپ کے قتل کرنے کی ٹھانی جنہوں نے آپ کو کافر قرار دینے

Page 284

۲۷۵ میں سب سے زیادہ پیش قدمی کی اور پھر با وجود اس کے جس شہر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبت تھی جس کی نسبت میں آپ کا فیصلہ ایک مدت پہلے سے آپ کی زبان سے سن چکا تھا.میرے سامنے ایک طرف تو قبروں کا سلسلہ تھا کہ جس میں بڑے بڑے اولیا مدفون تھے اور بڑے بڑے اقطاب، غوث امن کی نیند سورہے تھے اور دوسری طرف وہ لوگ نظر آتے تھے کہ جن کو خدا اور رسول سے کچھ تعلق ہی نہیں.اور جو ہر وقت دُنیا کے دھندوں میں پھنسے ہوئے دُکھ اور تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں.ایک طرف تو مجھے وہ لوگ نظر آتے تھے جو قبروں میں ہوشیار اور مرنے کے بعد زندہ ہیں.اور ایک طرف وہ لوگ جو باوجود آنکھیں کھلی ہونے کے بے ہوش اور باوجود زندہ ہونے کے مردہ تھے.ایک طرف تو وہ گروہ تھا جنہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے آپ کو مارا مگر اور دنیا کو زندہ کر دیا مگر دوسری طرف وہ جماعت تھی کہ جنہوں نے باوجود مُردہ ہونے کے اپنے آپ کو زندہ سمجھا اور اپنے فائدہ کی خاطر اور لوگوں کو بھی ہلاک کیا.غرض کہ دہی کا ایک ایک آدمی اور ایک ایک مکان اور ایک ایک گلی اور ایک ایک مقبرہ اور ایک ایک خانقاہ اور ایک ایک مسجد الگ شان خدا نمائی رکھتی تھی جو میرے دل پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی تھی غرض بہت سی مختلف کیفیتیں میرے دل میں پیدا ہوئیں.میرے وہاں پہنچنے پر معلوم ہو ا کہ میر قاسم علی صاحب نے جو ایک پر جوش اور مخلص احمد کی ہیں، دہلی میں میرا کوئی لیکچر کروانے کی بھی تجویز کی ہوتی ہے.چونکہ میں نے وہاں صرف ایک دو دن ہی ٹھہرتا تھا، اس لئے ہفتہ کی رات کو لیکچر قرار دیا.اور مضمون اسلام اور آریہ مذہب قرار پایا جمعرات کو ہم سب لوگ نظام الدین اولیا ، ہمایوں بادشاہ منصور اور خواجہ قطب الدین صاحب کے مقابر دیکھنے کے لئے روانہ ہوتے.سب سے پہلے تو وہ قلعہ دیکھا جہاں لودھی خاندان کے بادشاہ رہا کرتے تھے اور جہاں ہمایوں بادشاہ نے بھی اپنی جائے رہا ئش بنائی تھی.یہ قلعہ بجائے خود ایک عبرت کا مقام ہے بلکہ نہایت ہی عبرت کا مقام ہے کیونکہ یا تو کسی وقت اس کی وہ شان و شوکت تھی کہ ہندوستان کے عظیم الشان بادشاہ اس میں رہتے تھے اور یہ اُن کا عشرت کدہ تھا.لیکن آج یہ حالت ہے کہ وہ فصیل جو سخت خطر ناک اور طاقتور دشمنوں کی روک تھام کے لئے بنائی گئی تھی اب نہایت شکستہ حالت میں ہے.پتھر گرے ہوئے ہیں

Page 285

764 کہیں سے تو بہت ہی گہری ہوتی ہے اور کہیں ذرا اچھی حالت میں ہے لیکن پھر بھی اتنا ضرور ہے کہ دیوار کی چوڑائی نصف سے بھی کم رہ گئی ہے کیونکہ بہت کثرت کے ساتھ پتھر گر گئے ہیں.خیر یہ تو باہر کی حالت ہوئی.اندر کا نظارہ اس سے بھی زیادہ عبرت ناک ہے یعنی وہ قلعہ جہاں وہ لوگ رہتے تھے کہ جن کے آگے بڑے بڑے بادشاہوں کے سر جھکتے تھے اس میں اب گوجر لوگ رہتے ہیں.کوئی زمانہ ایسا ہو گا کہ اس قلعہ کی صفائی کا ایسا خیال رکھا جاتا ہوگا کہ ایک تنکا ایک نظر نہ آتا ہو گا مگر آج تو یہ حالت ہے کہ جابجا گوبر کے ڈھیر.لگے ہوتے ہیں اور جگہ جگہ پر مویشی بندھے ہوتے ہیں.سوائے چند تاریخی عمارات کے سب عمارتیں مسمار ہیں اور ان کے ملبہ سے اُن گوجروں نے اپنے رہائشی مکان بناتے ہیں.سبحان اللہ اورسی علیہ جس کے اُٹھانے کیلئے انہی لوگوں کے باپ دادا ہزار کوششیں کرتے ہوں گے اور شاہی مزدوروں میں داخل ہونا چاہتے ہوں گے.آج یہ لوگ اسکے مالک بن رہے ہیں اور وہ جگہ جیں میں داخل ہونے کیلئے بڑے بڑے راجوں مہاراجوں کو مہینوں وزیروں امیروں کی منت سماجت کرنی پڑتی ہو گئی آج اس جگہ پر گویا ان گوجروں کا قبضہ ہے.اس قلعہ میں ایک عالیشان مسجد بھی ہے جسکے صحن میں ایک حوض بنا ہوا ہے.اس کے علاوہ اس قلعہ میں وہ بُرج بھی ہے میں پر سے ہمایوں بادشاہ گرا تھا.یہ ایک چھوٹا سا گول برج ہے جو سیاروں کی گردش دیکھنے کیلئے بنایا گیا تھا.یہ بھی سنگ شرح کا ہے.پتھر ہی کا زینہ ہے اور جس زمینہ سے ہمایوں کا پاؤں پھیلا تھا وہاں سے سیڑھی کاٹ کر نشان بنایا ہوا ہے جو کہ ایسا خطرناک ہے کہ مجھے خوف ہے کہ کسی وقت کسی نا واقف سیاح کے ساتھ وہاں ہمایوں ساہی واقعہ پیش نہ آئے.خیران چیزوں کو دیکھتے ہوئے اور خُدا کی قدرت پر تعجب کرتے ہوئے ہم آگے روانہ ہوتے.تھوڑے ہی فاصلے پر ہمایوں بادشاہ کا مقبرہ تھا جو نہایت خوبصورت بنا ہوا ہے اور پرانے بادشاہوں کی خشان و شوکت پر دلیل ہے.اس کو دیکھا اور آگے پہلے - اب جس چیز کے دیکھنے کا ارادہ تھا.یہ کوئی دنیا دی بادشاہ کا مقبرہ نہ تھا اور نہ ہی کوئی شاہی عمارت تھی نہ کوئی پرانا قلعہ تھا بلکہ یہ ایک نہایت برگزیدہ انسان کا مزار تھا جس نے اپنے زہد اپنے تقومی اپنی پر ہیز گاری اور اپنے اخلاص اور محبت الہی کی وجہ سے محبوب الہی کا لقب حاصل کیا تھا.اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ فوت ہو گئے لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ آپ لاکھوں نہیں کروڑوں زندوں سے بڑھ کے زندہ ہیں.آپ نے قرب

Page 286

الہی سے وہ درجہ حاصل کیا کہ خدا نے آپ کے لئے موت حرام کر دی.میرا مطلب ان بزرگ سے حضرت نظام الدین اولیا ہیں.والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ سے ایک خاص اُنس تھا بلکہ آپ اُن کے حجرہ میں بھی تشریف لے گئے تھے اور وہاں دُعا بھی مانگی تھی.غرض آپ کے مقبرے کی سیر کرتے ہوئے دل میں بار بار جوش آتا تھا کہ ایک تو وہ بادشاہ ہے کہ جس کے آگے شاہان زمان کے سرجھکتے تھے اور اُن کی قبر کو کیسی عالی شان عمارت کے نیچے ہے، مگر ویران.اور ایک یہ فقیر ولی اللہ ہیں کہ گو بادشاہ ہمایوں سے بھی لے گزرے ہیں لیکن اب تک ان کے مقبرہ پر وہ رونق ہے کہ ایک گاؤں کا گاؤں بسا ہوا ہے.خواہ کم قسم لوگ آپ کی قبر کی زیارت کو کسی غرض کے لئے ہی آئیں لیکن وہ جو دعائیں مانگ جاتے ہیں.اس کا ثواب تو بہر حال آپ کو ملتا ہی رہتا ہو گا.اس جگہ مشہور شاعر خسرو کے مزار کو بھی دیکھا.یہ بھی حضرت نظام الدین صاحب کے خلفا میں سے تھے ایک اور چیز جو یہاں عجیب دیکھی وہ دنیا طلبی کا ایک نقشہ تھا یعنی یہاں ایک با ولی ہے جس کے ایک طرف ایک دیوار چلی جاتی ہے جو قریباً پچاس فٹ اونچی ہو گی اتنی بڑی اونچائی پر سے چند لڑکے کچھ پیسے لے کر کو دیتے ہیں اور اُن کا یہی پیشہ ہے انسان کے لئے یہ تادیر کا مقام ہے کہ دو چار پیسوں کے لئے ایک لڑکا پچاس فٹ اونچا جاتا ہے اور پھر زور سے پانی میں کود پڑتا ہے اور پھر اپنے آپ کو بچانے کے لئے تیر کر باہر آتا ہے.اور یہ سب کچھ کس لئے ؟ چند پیسوں کے لئے تو پھر وہ ہزاروں ہزار احسانات جو خدا انسان پر کرتا ہے اور وہ بے شمار انعامات جن کا وعدہ کرتا ہے اُن کے بدلہ میں غافل ایک پیتا تک نہیں توڑنا چاہتا.افسوس ! افسوس ! دنیا کی کچھ ایسی حالت ہو رہی ہے کہ یوں تو ایک کام کو لوگ تفریحاً روز کرتے رہیں گے لیکن اگر خدا کی طرف سے حکم آجا دے کہ یوں ضرور کیا کرو تو بہت سے آدمی فوراً اس کام کو چھوڑ دیں اور سو بہانہ بنانے کیلئے تیار ہو جاویں.خیر اس کی سیر کر کے ہم آگے روانہ ہوتے اور منصور کے مقبرہ کی سیر کی.یہ مقبرہ نواب منصور علی خان صفدر جنگ کا ہے.ایک تو وہ زمانہ تھا کہ مسلمان ہر بات میں کمال رکھتے تھے مگر آج وہ زمانہ ہے کہ جس بات میں دیکھو زوال ہی زوال ہے.نہ علوم و فنون کا شوق ہے نہ صنعت و حرفت کا نه انجنیری میں دخل ہے نہ زراعت و باغبانی سے واقفیت ہر بات میں اپنے ہمعصروں سے پیچھے ہی چلے جاتے ہیں اور یہ سب اسکا نتیجہ ہے کہ خدا کو چھوڑ بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے خدا انہیں چھوڑ

Page 287

بیٹھا ہے ورنہ اس قدر جلدی اُس حالت سے اس حالت تک پہنچنے سے کیا مطلب؟ افسوس کہ اب بھی اس موقعہ کو ہاتھ سے دے رہے ہیں اور وقت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے قصہ کو تا ہم اس جگہ سے چل کر آگے پہلے.اب جو جگہ دیکھنے کے قابل آئی تھی وہ قطب مینار ہے جس کے راستہ میں حضرت صاحب کو پچھلی دفعہ نہایت مبارک اور مبشر السلام ہو ا یعنی دست تو دُعائے تو تر خم از خدا " راستے میں سڑک کے کنارہ پر دو مقبرے ہیں.جین کا نام بیوی باندی کا مقبرہ مشہور ہے.جو.باندی کا ہے وہ تو بڑا ہے اور جو بیوی کا ہے وہ بہت چھوٹا سیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک لونڈی تھی جو بیوی کو بہت پیاری تھی تو میاں نے بیوی کے لحاظ سے اس کا مقبرہ خوب اچھی طرح بنوایا لیکن جب وہ بیوی مری تو اس کا مقبرہ بہت چھوٹا سا بنوا دیا کیونکہ اس سے کچھ محبت نہ تھی بلکہ کسی قسم کا لحاظ تھا جب لحاظ نہ رہا تو کسی کے دکھاوے کی کیا ضرورت رہی.یہ واقعہ بھی بڑی عبرت کے قابل ہے.والد صاحب حضرت مسیح موعود علیه السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب آپ کے والد فوت ہوئے تو آپ کے بڑے بھائی کے رُعب سے بہت لوگ ان کی وفات پر اظہارِ افسوس کرنے آئے لیکن جب وہ خود فوت ہوئے تو چونکہ حضرت صاحب کا دنیا داری سے کچھ تعلق نہ تھا اور لوگ آپ کا اس قسم کا رعب نہ مانتے تھے.کوئی پوچھنے تک بھی نہیں آیا کہ کیا حال ہے.اور یہ واقعات ہمارے سامنے روز ہوتے ہیں، کوئی اچنبھے کی بات نہیں.ہم روز مرہ دیکھتے ہیں کہ ایک معزز شخص کی زندگی میں تو اگر اُن کے نوکر کو بھی پھوڑا پھنسی نکل آوے تو بڑے بڑے معززین دوستی اور محبت جتلانے کے لئے فوراً حاضر ہوتے ہیں کہ سُنا ہے کہ آپ کے نوکر کو یہ تکلیف ہو گئی ہے، ہمیں سُن کر بہت صدمہ ہوا بڑا وفا دار نوکر ہے.اور اس قسم کی سو سو باتیں بناتے ہیں لیکن اگر اس کا مالک اُٹھ جائے تو اگر اس کا اکلوتا بیٹا بھی دُکھ اور مصیبت میں ہو.اور تکلیفوں نے اس کی کمر بھی توڑ دی ہو تب بھی کچھ توجہ نہیں ہوتی یا تو محبت کے دعوے ہوتے ہیں یا ایک ذرا سی مدت میں بات نفرت اور حقارت تک پہنچ جاتی ہے مگر یہ اُن ہی لوگوں کی بات ہے کہ جن کے دل نورِ ایمان سے خالی ہوتے ہیں اور دُنیا طلبی اُن کے خمیر میں ہوتی ہے جن کو اس شخص سے محبت نہیں ہوتی بلکہ اس کے جاہ وجلال سے ہوتی ہے ورنہ مجنوں کو تو سگ پہلی تک سے بھی

Page 288

۲۷۹ پیار تھا.بغرض کہ نیک لوگوں کی محبت نہایت بے غرضانہ ہوتی ہے.ہاں جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہو اُن کی محبت بھی نفرت سے بھری ہوتی ہے.اتنا فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ہر ایک شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ اصل تعلق اور پیار خدا سے پیدا کرے کیونکہ اس پر تو فنا نہیں نہ اس کی عظمت و شان جاتی رہے گی...الغرض ہم قطب مینار پر پہنچے.یہ دُنیا کی بے نظیر عمارتوں میں سے ہے اس سے اُونچی اور کوئی عمارت نہیں.اس کے ساتے کھنڈ ہیں...اس مینار کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر اونچا مینار کس طرح بنایا گیا یور بین ستیاح بھی دیکھ کر سخت حیران ہوتے ہیں.ہمارا تو بے اختیار سبحان اللہ کتنے کو دل چاہتا ہے کہ وہ عرب کا رہنے والا انسان جس کی نسبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنها فرماتی ہیں کہ اسے بعض اوقات فاقہ تک گزر جاتا تھا، ایسا پاک اور خدا رسیدہ انسان تھا.اس کے وجود میں خدا نے ایسی برکتیں پوشیدہ رکھی تھیں کہ خدا نے اُسے گھٹا می سے نکال کر ایک ایسے اونچے مقام پر کھڑا کیا کہ اس کے غلاموں کے غلاموں نے آپ کے نام کو ہندوستان جیسے بت پرست ملک میں آکر پھیلایا جن کے وجود سے بہندوستان میں ہزاروں مساجد تیار ہو ئیں.چنانچہ یہ مینار ایسی ہی یادگار ہے.مجمعہ کے دن ہفتہ کی رات کو ٹیگشن کے کمرہ میں میرا لیکچر تھا.وقت پر و باد وہاں پہنچے تو کوئی چھ سات سو آدمی وہاں موجود تھا بعض روسائے دہلی بھی آتے تھے.لیکچر انشاء اللہ تشحید الا زبان میں چھپ جائے گا.میں نے جس طرح خدا تعالے نے سمجھایا وہاں بیان کیا کہ مذہب کیا ہے اور یہ کہ مذہب کی نشانی یہ ہے کہ وہ انسان کو خدا تک پہنچاتے اور اس سے تعلق پیدا کرواتے اور بنی نوع انسان میں نیکی اور امن قائم کرے اور چونکہ قرآن شریف ہمیں خدا تک پہنچاتا ہے، لیکن بر خلاف اس کے آریہ مذہب کے اصول ہمیں خدا تعالیٰ سے متنفر کرتے ہیں اس لئے اسلام تو سچا مذہب ہے اور آریہ سچا مذہب نہیں.مثلاً اسلام خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق نہایت پاک تعلیم دیتا ہے لیکن آریہ مذہب خدا کو خالقیت سے جواب دے کر تناسخ کا قاتل ہو کر ابدی نجات کا انکار کرتے تو بہ کو لغو قرار دے کے ہمیں خدا تعالیٰ سے متنفر کر دیتا ہے جس سے اس کی لغویت ثابت ہوتی ہے.اسی طرح اسلام اور آریہ مذہب کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دکھلایا گیا کہ اسلام تو دنیا میں امن قائم کرتا ہے لیکن آریہ مذہب فساد ڈلواتا ہے...چونکہ

Page 289

۲۸۰ حضرت خلیفہ المسیح کا حکم تھا.اس لئے ہفتہ کو قصور کی طرف روانہ ہوا.جہاں کے احمدیوں نے ایک جلسہ کیا تھا.۱۲ار تاریخ کی شام کو جلسہ تھا، صبح کو وہاں پہنچا.تھوڑی دیر تک لاہور اور فیروز پور کی جماعتوں سے بہت سے احمدی آدمی اور بھی وہاں آتے....میرا مضمون یہاں تقویٰ پر تھا...میں شام کو پھر روانہ دہلی ہوا.وہاں دوبارہ میرے لیکچر کی تجویز ہوتی اور اب کے میرا لیکچر اسلام اور عیسائیت پر تھا.اس کا بھی لوگوں پر اچھا اثر ہوا.دری کی پبلک اس بات پر بہت حیران تھی کہ یہ لوگ آنحضرت صلی الله علیه واله وستم کی ہماری طرح ہی عزت کرتے ہیں.اتوار کی شام کو ہم وہاں سے روانہ ہوئے.میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس دردِ دل کا اثر تم پر بھی کرے جس سے میں نے یہ مضمون لکھا ہے.کاش کہ تم لوگ واقف ہو کہ میں تمہاری خیر خواہی کے لئے کیا درد محسوس کرتا ہوں.میں نے جو کچھ لکھا ہے، اسے جوش اور خیر خواہی سے لکھا ہے ورنہ میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ إِنْ أَجْرِى إِلَّا عَلَى اللهِ والسلام خاکسار مرزامحمود احمد علی الله عنه حج بیت اللہ اور سفر مصر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی زندگی میں سینکڑوں سفر کتے لیکن بلا شبہ ان میں سہے زیادہ اہمیت اور روحانی عظمت کا حامل وہ سفر تھا جو آپ نے حج بیت اللہ کی غرض سے اختیار فرمایا اور جس سفر میں آپ کو ابلاغ حق کی سعادت بھی نصیب ہوتی.ہم نے کوشش کی ہے کہ اس سفر کی روداد زیادہ سے زیادہ آپ کے اپنے الفاظ میں ہی پیش کی جائے.البتہ آغاز سفر سے متعلق احباب قادیان کے جو جذبات تھے، اُن کی ترجمانی کی خاطر یہ مناسب سمجھا گیا کہ اخبار البدر کا ایک مختصر نوٹ ہدیہ قارئین کیا جائے.لہذا اس تعارفی اقتباس سے ہم رو داد سفر کا آغاز کرتے ہیں :- حضرت صاحبزادہ صاحب کے لئے ایک الوداعی جلسہ میں احباب قادیان جمع ہوئے.له الحكم ۱۴۰۷ رمتی شله ص ۳ تا ۹

Page 290

۲۸۱ حضرت خلیفہ المسیح بھی تشریف لائے پہلے صوفی غلام محمد صاحب بی.اے نے قرآن شریف کی چند آیات خوش الحانی سے پڑھیں.اس کے بعد محمود احمد پسر شیخ الحکم صاحب نے جلسہ کی غرض بیان کی...اس کے بعد ماسٹر عبدالرحیم صاحب نے سورۃ فاتحہ کے بعد اپنی تقریر میں فرمایا :- حضرت خلیفہ المسیح کے ایام علالت میں ایک دن میں نے گھبرا کر بہت دُعا کی تو میں نے خواب میں حضرت خلیفہ المسیح کو دیکھا کہ میاں صاحب بشیر الدین محمود احمد کو پکڑے ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ پہلے بھی اول تھے، اب بھی اوّل ہیں.تب سے میری طبیعت میں ایک خاص تغیر نیکی کی طرف اور میاں صاحب کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ہے.میاں صاحب اس پاک سر زمین مکہ اور مدینہ میں ہمارے واسطے دریائیں کریں.اور انبیا کے مسکن بیت المقدس میں بھی ہمارے لئے دعائیں کریں.مصر میں موسے نے فرعون کو غرق کیا تھا.میاں صاحب بھی وہاں اپنی پاک نصایح پھیلا کر شیطان کو غرق کریں گے اور میرے لئے بھی دعا کریں." اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے کلمہ شہادت اور سورہ فاتحہ پڑھکر فرمایا و مسلمانوں میں رواج ہے کہ یہ کلمہ اور دعا میں خطبہ میں پڑھتے ہیں.اور مسلمانوں کا پہلا کام یہی ہے.اس میں خدا کے وجود کا اقرار.اس کی توحید اور رسالت کا اقرار ہے اور اپنی کمزوریوں سے ڈر کر خدا کی پناہ اور اپنے تمام کاموں میں خدا کے نام اور خدا کی صفات کے جلال کے لئے اظہار کی دُعا اور توفیق دعا کے واسطے دُعا ہے.اور منعم علیہ گروہ کا راستہ اپنے لئے مانگا گیا ہے اور اس کے واسطے استقامت کی خواہش کی ہے.میرے اس سفر کے متعلق ممکن ہے کہ میرے دل میں بھی مانگیں ہوں کہ میں بڑی بڑی دینی خدمات کروں گا.اور میرے دوستوں کے دل میں بھی ایسے ہی خیالات ہیں.مگر سب باتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں.اس کے فضل کے سوائے کچھ ہو نہیں سکتا.اُسی کا ایک ڈر ہے، جس کے بالمقابل سب در ایچ ہیں.اس واسطے ہم سب کو ایک دوسرے کے واسطے دعائیں کرنی چاہئیں یہی کامیابی کی چابی ہے.میں اپنے دوستوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ سب میرے واسطے دعائیں کریں یہی بڑا تحفہ اور بڑی مدد ہے.میرے دل میں مدت سے خواہش تھی کہ مکہ معظمہ

Page 291

۲۸۲ جو خدا کے بڑے پیاروں کی جگہ ہے وہاں جاکر دعائیں کروں کہ مسلمان اس وقت بہت ذلیل ہو رہے ہیں.اے خدا ! قوم نے مجھے کو چھوڑا.نہ دین رہا نہ دنیا ر ہی کوئی تدبیران کی.اصلاح کی کارگر نہیں ہوتی.اس جگہ تو نے ابراہیم کو وعدہ دیا تھا اور اس کی دعا کو قبولیت کا شرف بخشا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعاؤں کو قبول کیا تھا.آج پھر وہی دعائیں ہمارے لئے قبول فرما اور اہل اسلام کو عزت اور ترقی عطا کر جب ہماری دعائیں ایک حد تک پہنچیں گی تو وہ قبول ہوں گی ہمیں اپنے دوستوں سے دُعا ہی کی در بصورت کرتا ہوں.دشمن بڑا زبردست ہے اور ہم کمزور بانگر ہمارا محافظ بھی بڑا زبردست ہے لیے آپ کے اس سفر سے متعلق آپ کی والدہ کے جذبات کی عکاسی اس خطہ کے مندرجہ ذیل اقتباس سے ہوتی ہے جو آغاز سفر ہی میں بہتی پہنچنے پر حضرت حصا حبزادہ صاحب کو موصول ہوا :- ر "مولوی صاحب کا مشون ھے کہ پہلے مجھ کو چلے جاؤ اور میرا جو اسے یہ ھے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں.اب میرا کوئی دعوی نہیں ان جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے ان کو خطرہ تھا.اور تم کو کوئی خطرہ نہیں.خدا وند کریم اپنے خدمت گاروں کی آپ حفاظت کرے گا.میں نے خدا کے سپرد کر دیا، تم کو خدا کے سپرد کر دیا.اور سب بیان غیر دیتے ہے.واله محمود احمد سه اس سفر کے دوران مختلف ایمان افروز اور عبرت آموز واقعات اور دلگداز قلبی کیفیات کا ایک بیش قیمت خزانہ آپکے اُن خطوط میں دفن ہے جو سفر کی روداد سے متعلق آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی خدمت میں اور دیگر رفقا اور اعزا کو لکھے لیکن افسوس کہ ان تمام کا یہاں نقل کرنا مکن اور نہیں.ذیل میں اخبار الحکم کے مختصر نوٹ کے بعد حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں آپ کے لکھے ہوئے خطوط میں سے بعض پیش کرنے پر اکتفا کی جاتی ہے.C له بده قادیان ۳ اکتوبر تامر حبت ه الفضل قادیان ۱۲۰ تو میر شه وی تاریخ احمدیت جلد ہم اس ۴۴۲ ۴

Page 292

دیار محبوب سے نامہ محمود ( ایده الله الودود) سب خوبیوں میں کامل پاکان حق میں شامل محمود ابن مهدی یہ نوجوان ہمارا منقول از اخبار الحكم قادیان ، دسمبر له " " اس ہفتہ کی ولائتی ڈاک ہمارے اولو العزم مخدوم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایده الله بنصرہ العزیز و متعنا الله بطول حیاتہ کے کئی خط لے کر آتی جو ہمارے سید و مولی امام حضرت امیر المومنین کے نام ہیں.ان خطوط کو پڑھ کر ہر ایک احمدی کا دل دعا کے لئے جوش سے متحرک ہوگا.میری اپنی تو یہ حالت تھی کہ حضرت امیر المومنین اپنی غایت شفقت سے جب ان خطوط کا مضمون آج اور دسمبر کو مجھے زبانی سُنا رہے تھے تو تواجد کی حالت پیدا ہو رہی تھی اور میں حضرت کے چہرہ کو دیکھتا اور اُن کی آواز کو سُنتا تو اس سے مجھے ایسا معلوم ہوتا کہ آپ پر جوانی کا زمانہ عود کر آیا ہے چهره پر مسرت (ایسی مسترت جو حمد الہی سے ملی ہوتی ہو) کا خون دوڑتا تھا اور آواز میں بھی جوش ایسا جوش جو حمد الله وشکر اللہ سے معلومہ پایا جاتا تھا.حضرت صاحبزادہ صاب کے ایک فقرہ کا مفہوم جب آپ نے سُنایا کہ دعاؤں کی بڑی تحریک ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضور نے خود ایک مرتبہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے فیوض میں سے یہ بات بتائی تھی کہ دعاوں کے بڑے موقعے ملتے ہیں.غرض حضرت امیر المومنین کو بڑی خوشی اِن خطوط کو پڑھ کر ہوئی.خدا تعالیٰ کے محض فضل سے یہ خطوط مجھ کو مل گئے ہیں.میں احمدی قوم میں دیار محبوب سے آتے ہوئے نامہ محمود کو شائع کرنے کی عزت حاصل کرتا ہوں ان خطوط کے مطالعہ سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی پاک سیرت اُن کے پاک مقاصد و اغراض کا پتہ لگے گا.کیونکہ سیرت کا مطالعہ کسی شخص کی خواہشوں اور دعاوں سے خوب ہوتا ہے.کاش یورپ کے سوانح نگار اس لطیف اصل کو سمجھتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف کو اس نکتہ معرفت سے دیکھتے میری آرزو ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اسی رنگ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف دکھاؤں.بہر حال

Page 293

نم ۲۸ حضرت صاحبزادہ صاحب کی دعاؤں سے آپ کی سیرت کا پتہ لگے گا.ان خطوط پر میں ہیں پر وقت اور کوئی ریمارک نہیں کرتا.شوق محبت بہت کچھ لکھوانا چاہتی ہے.اور اشاعت کی عجلت قلم روکنے پر مجبور کرتی ہے.اس لئے اصل خطوط کو ذیل میں درج کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ احباب اپنے اولو العزم مخدوم کے لئے بیش از پیش دُعائیں کریں جو ان کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کے مقامات میں بھی دعائیں کر رہا ہے.عجیب بات ناظرین کو یہ معلوم ہوگی کہ ایک طرف حضرت خلیفہ المسیح ایده الله بنصرہ نے صاحبزادہ صاحب کو حج سے دار الامان والیس آنے کا خط لکھا دوسری طرف خدا تعالٰی نے ایسے سامان پیدا کر دیتے کہ وہ جنوری یا فروری میں واپس آجائیں اللہ تعالیٰ اُن کا حامی و ناصر ہو....ایڈیٹر پہلا خط جو سویز سے دیار محبوب کو جاتے ہوئے لکھا.سیدنا و امامنا السلام علیکم ! کل سویز خدا کے فضل سے آگئے اور خواب جو میں نے لکھی تھی اس کی تصدیق بھی ہوگی کیونکہ جو جہاز آن پی کو جانا تھا اس میں جگہ نہیں مل سکی اور وہی جواب ملا کہ ٹکٹ اس جہاز کے ختم ہو چکے ہیں، کسی اگلے جہاز پر جگہ بنادی جائے گی.ایک جهاز کل منگل کو انتیس اکتوبر کو جانا ہے.اس کے ٹکٹ کے لئے کوشش کر رہے ہیں.لیکن بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہزار ہا حاجی یہاں ہم سے پہلے آیا پڑا ہے آجکل مصر سے حجاج کے لئے روزانہ ایک دو جہاز روانہ ہوتے ہیں اور آخری جہاز وہ ہے جس پر پہلے جانے کا ارادہ کیا تھا اور اگر اسی پر آتے تو اغلب تھا کہ رہ جاتے اب بھی کہ ایک ہفتہ پہلے آگئے ہیں جگہ ملنے کی دقت ہو رہی ہے.مصر سے الہیر ہزار حاجی کے لئے ٹکٹ شائع ہو چکا...کل پورٹ سعید سے سویز آتے ہوئے سیکنڈ کلاس میں پانچ آدمی میرے ساتھ ہو اور سوار تھے.ایک تو کوئی یورپین تھا اور چار مسلمان - دو بدوی روسا تھے غالباً نہ مصر کے اور ایک محکمہ تار کا کوئی افسر تھا اور ایک ریلوے کا انسپکٹر.اُن جنوبی حصہ

Page 294

۲۸۵ سے گفتگو ہوتی آئی.اور میں نے انہیں موجودہ حالات اسلام پر توجہ دلاتی اور بتایا کہ کس طرح مذہبی اور دنیا دی دونوں طور سے مسلمان گر رہے ہیں اور سیمی غلبہ پاتے جارہے ہیں.اور پھر وفات مسیح کا مسئلہ اور حضرت صاحب کا دعوئی پیش کیا اور اتحاد کی ضرورت اور تعلق باہمی کے بڑھانے پر زور دیا.قریبا تین گھنٹہ تک گفتگو ہوتی رہی اُن میں سے جو شخص محکمہ تار کا افسر تھا وہ عربی زبان کے علاوہ انگریزی فرانسیسی اور اٹلی کی زبانیں جانتا تھا.خدا کے فضل سے ان پر الیسا اثر ہوا کہ ان سب نے قریباً مجھ سے میرا یہ لکھوالیا اور اس شخص نے جو کئی زبانیں جانتا تھا وعدہ کیا کہ میں ان سب خیالات کو اخبار العلم میں جو یہاں کا روزانہ اخبار ہے، شائع کروں گا اور آپ سے ان باتوں کی نسبت آئندہ خط و کتابت کرتا رہوں گا.پھر وہ میرے ساتھ سب اسباب لایا اور ایک لوکندہ تک لا کے اطمینان کر کے کہ اب کوئی تکلیف نہ ہو گی پھر اپنے کام کو گیا اور نہ سویز میں ہمیں بہت تکلیف ہوتی یہ خدا ہی کا فضل ہے اس نے بھی اپنے دوسرے ساتھی سے جو ریل کا انسپکٹر تھا فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ اس قسم کی انجمن قائم کریں جس کی غرض اشاعت اسلام اور اتحاد بین المسلمین ہو.میری طبیعت برابر کمز در ہو رہی ہے آج اس قدر سر درد تھی کہ دن کو سونا پڑا جس سے طبیعت پر اور بھی بداثر پڑا.آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ والدہ ناصر کچھ بیمار ہیں جیسے سیل کی ابتدا ہوتی ہے.ان کی والدہ کو چونکہ ایک دفعہ یہ مرض ہو چکی ہے مجھے ہمیشہ خطرہ رہتا ہے نہ معلوم خواب کی کیا تعبیر ہے لیکن حضور دعا فرمائیں.عورتوں کو خاوندوں کی جدائی کا بھی ایک صدمہ ہوتا ہے.اور اس سے جسمانی بیماریوں کا بھی ایک خطرہ ہوتا ہے.دُعا کی سخت ضرورت ہے حضور کی دُعا سے اس وقت تک ہر جگہ اللہ تعالی با اخلاق لوگوں سے ہی پالا ڈالتا رہا ہے.عرب صاحب بھی تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں.والسلام خاکسار - مرزا محمود احمد از سویز مرزام..۱۹۱۲ دوسرا خط جو جدہ پہنچ کر ۱۲ نومبر ۱۹ ء کو لکھا سیدی و آقائی و استاذی السلام علیکم ! کل بتاریخ یکم اکتوبر (غالباً نومبرہے کیونکہ جدہ کی مہر اور نومبر کی ہے.ایڈیٹر اللہ علی

Page 295

PAY کے فضل سے یہ خیر و عافیت جدہ پہنچ گئے.کل جس وقت اُترا ہوں، گو میرا بدن بہت گرم تھا اور سخت سردرد ہو رہی تھی لیکن چونکہ مصری جہاز کے مسافروں کو دیکھا نہیں جاتا، اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی اور بغیر کسی مزار کے گزر گئے.میرا خیال تھا کہ میر صاحب اس وقت تک پہنچ گئے ہوں گے لیکن معلوم ہوا کہ وہ اب تک نہیں پہنچے کیونکہ اُن کا جہاز ابھی دو دن تک آئے گا.سو انشاء اللہ وہ یا تو آج تشریف لائیں گے یا کل.میں انشاء اللہ جدہ میں اُن کا انتظار کروں گا اور جب وہ تشریف لائیں گے تو اُن کے ساتھ مل کر انشاء اللہ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوں گئے عرب صاحب یہ خیر و عافیت ہیں.میری صحت بدستور کمزور ہے.بہت خفیف سی کھانسی ہے اور حرارت سی معلوم ہوتی ہے چونکہ عمر پچپر نہیں لیا.اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ واقع میں بھی ہے یا معدہ کے نقص سے معلوم ہوتی ہے.سر درد روزانہ ہو جاتی ہے.کبھی پیٹ میں درد ہو جاتی ہے شاید اختلاف غذا کی وجہ سے ہے.مصر میں پہلے دن تو کچھ لکھے پڑھوں سے ملاقات ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں یہ سمجھا کہ شاید سارے مصر کی زبان ایسی ہے لیکن تین دن کے بعد کے تجربہ سے معلوم ہوا کہ بہت ہی خراب زبان ہے.عوام الناس کی زبان کا سمجھنا تو کار دارد ہے میں تو شیر زبان محاورہ جانتا ہی نہیں.لیکن اکثر اوقات عرب صاحب بھی کہتے تھے کہ میں نہیں سمجھا.الفاظ بھی بدل دیتے ہیں.ایسے ملک میں تو شاید آدمی پانچ سال میں بھی زبان نہ سیکھ سکے جہاز میں خاص قاہرہ کے آدمی بھی ہے.ان کی زبان بھی ویسی ہی تھی.حالانکہ بعض اُن میں سے بڑے بڑے آدمی تھے لیکن چونکہ زیادہ مذمت رہنے کا موقع نہیں ملا ابھی درست رائے قائم نہیں کر سکے.اب یہاں جدہ میں اس وقت تک جتنے آدمیوں ملنے کا موقع ملا ہے وہ خوب زبان فصیح بولتے ہیں.لیکن نہ معلوم کل تک یہ رائے قائم رہتی ہے یا نہیں.جو عرب قادیان میں دیکھے تھے اُن سے ان کی زبان مختلف ہے کل ایک دس گیارہ برس کے لڑکے نے کہا کہ مراكب الحجاج تكون مشحونا مشحون کا لفظ اس سے سُن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ قرآن کریم کا لفظ ہے.مصر میں بہت سے لوگوں سے سُنا کہ کہتے تھے اسرابعة يوم ستة يوم خمسة يوم یہاں ایک اور لڑکے نے کہا اربعہ ایام.وہاں کسی پڑھے لکھے آدمی کے منہ سے اے قواعد کی رو خمْسَةَ أَيَّامٍ ہونا چاہیتے ( النحو الواضح في قواعد اللغة العربية -

Page 296

YAL بھی ایام نہیں سنا.سب یوم یوم ہی کہتے تھے.میاں ابوبکر صاحب بتاتے ہیں کہ کلمہ کی زبان یہاں سے بھی صاف ہے.وہاں مصر کے لوگوں سے اور دوسروں سے یہ سُنا ہے کہ مصر میں لغت اور حدیث کے بعض بڑے بڑے عالم ضرور موجود ہیں.اگر یہ درست ہے تو مصر سے آدمی یہ فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ ایک دو سال تک متواتر رہ کر ان لوگوں سے تعلیم حاصل کرے.میرے جیسا آدمی جس کا ارادہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اس سفر میں خرچ کرنے کا تھا، ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.میں تو اگر نیت حج نہ کر لیتا تو یہ سفر میرے لئے مشکل ہو جاتا.اس قسم کی غفلت دُنیا میں چھائی ہوئی ہے کہ طبیعت گھبرا جاتی ہے.ہندوستان دین کے لحاظ سے سب ملکوں سے بڑھا ہوا ہے اور قادیان تو ایک رحمت ہے جس کی نظیر نہیں ملتی.دین کی ضرورت کو ہی لوگ نہیں سمجھتے مصر کے چار دن کے قیام اور دوران سفر جہاز میں بہت سے لوگوں سے گفتگو کا موقعہ ملا بہت نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ تبلیغ کی اُن کو ضرورت ہے جو جھوٹ پر ہیں، اور جو حق پر ہیں اُن کو تبلیغ کی کیا حاجت ؟ اگر کوئی لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو ہوں.ہم تو الحمد للہ مسلمان ہیں س ملا.جب اُن کو سمجھایا گیا توحیران ہوئے اور اقرار کیا کہ اب تک ہم ضرورت تبلیغ کو سمجھتے ہی نہیں تھے.اور کبھی خیال بھی نہیں کیا.اگر چہ چار دن ٹھہرنے کا ہی اتفاق ہوا لیکن جہاز میں تین دن مصریوں کا ہی ساتھ رہا.اور مصر سے اچھے اچھے لوگ بلاد کے حج کو جارہے تھے.سب سے میں نے ملاقات کی بچونکہ ان میں ہماری نسبت تعصب نہیں اس لئے کچھ مخالفت کے بعد مان لیتے ہیں اور زیادہ سیٹ نہیں کرتے اور تھوڑی سی گفتگو کے بعد محبت کرنے لگ جاتے تھے.اور خود با بلا کر گفتگو کرتے تھے.باوجود اس کے کہ وہ لوگ عرب ہونے پر افتخار کرتے تھے لیکن تمام تھرڈ کلاس والے عرب صاحب کو اپنا شیخ بنا بیٹھے تھے.اور ہر ایک اُن سے آکر فتویٰ پوچھتا تھا.اور مناسب حج دریافت کرتا تھا.اور سیکنڈ فسٹ والے میرے پیچھے بڑے ہوتے تھے خصوصاً مصری جہاں ملتے گفتگو شروع کر دیتے اور بلا کر پاس بٹھا لیتے.قمر قہوہ اور کافی کی عادت نہ تھی اس لئے ان لوگوں کو بہت تکلیف اور حیرت ہوتی تھی کیونکہ میں اُن کا ساتھ نہ دے سکتا تھا.قہوہ کی ایک پیالی تو خیر یعنی آسان ہے لیکن کافی پینا تو بہت مشکل کام ہے.کافی سخت کڑوی چیز ہے.وہ اس پر حیران ہوتے اور مجھ پر رحم کرتے تھے کہ یہ

Page 297

آ اس نعمت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.ایک شخص مجھے کہنے لگا کہ کیا بہندوستانی کافی نہیں پیتے ؟ یہ تو بڑی نعمت ہے.حج کی قدر اور اس کی عظمت حج کے بغیر نہیں معلوم ہو سکتی.واقعی جو دعا اور تو تبہ انی اللہ اس سفر میں دیکھی ہے وہ کبھی نہ دیکھی تھی سینکڑوں زبانوں کے بولنے والے لوگوں کو جہاز میں اکٹھا دیکھ کر اور اُنکی لبيك لبيك کی آواز سُن کر ایسی رقت اور محبت پیدا ہوتی تھی کہ اندازہ سے بڑھ کر رسولِ کریم کے کمالات پر تعجب آتا تھا کہ مکہ سے اُٹھ کر اس ٹور نے دنیا کے کس کس گوشہ کو روشن کر دیا.آخر وہ کیا قوت قدسی تھی جس نے کروڑوں نہیں اربوں کو ضلالت سے نکال کر ہدایت کا راستہ بتا دیا.رابغ پر بیٹھتے وقت جب لبیک لبیک کا نعرہ اُٹھا اور میں نے ترکوں کو بھینچ کھینچ کہتے سنا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ لوگ لفظ تو درست بول نہیں سکتے لیکن آنحضرت صلی الله عليه وسلم کی دعاؤں آہ و زاریوں نے اُن کو کھینچ کر راہ اسلام دکھا دی.رابغ کے قریب اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو دعاؤں کے لئے کھول دیا اور بہت دُعا کی توفیق یلی.قدرت الہیہ اور اس کے فضل کے قربان جاؤں کہ دو ترک جوار دو تو الگ عربی بھی نہیں جانتے تھے.ایک میرے دائیں اور ایک میرے باتیں کھڑے ہو گئے اور نہایت درد دل سے آمین آمین پکارنے لگے.فوراً میرے دل میں آیا کہ یہ قبولیت کا وقت ہے کہ خدا نے یہ لوگ میرے لئے آمین آمین کہنے کے لئے بھیج دیتے ہیں اور حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اس وقت میں نے اپنے لئے حضور کے لئے حضور کے خاندان کے لئے اپنی والدہ اور سارے خاندان کے علاوہ احباب قادیان احمدیوں اور پھر حالت اسلام کے لئے بہت دیر تک دعا کی اور وہ دونوں ترک برابر آمین کہتے رہے.فالحمد لله على ذلك.میں حیران ہوں.حد - - میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار کونسی بات تھی کہ خدا تعالٰی نے مجھے اس پاک زمین کی زیارت کی توفیق دی ! فضل ! فضل ! فضل ! دعا کی بہت ضرورت ہے.گو اس ملک میں دل خوش ہے لیکن جسم بیمار ہے.میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ مدینہ سے شام کے راستے مصر ہوتے ہوتے جنوری یا فروری کو واپس ہندوستان روانہ ہو جاؤں.ومن الله التوفيق - والسلام خاکسار مرزا محمود احمد

Page 298

٢٨٩ 它 بیت الحرام سے لکھا ہوا تیسرا نامہ محمود سیدی و امامی و استاذی السلام علیکم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عنایت سے بخیر و عافیت میر صاحب سمیت کل تاریخ سات نومبر کو مکہ مکرمہ پہنچ گئے.خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر اور عنایت ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اپنے پاک اور مقدس مقام کی زیارت کا موقعہ دیا.کل جب مکہ کی طرف اونٹ آرہے تھے.دل کی عجیب کیفیت تھی کہ بیان نہیں ہوسکتی.محبت کا ایک جوش دل میں پیدا ہو رہا تھا اور جوں جوں قریب آتے تھے دل کا شوق بڑھتا جاتا تھا.میں حیران ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی حکمت اور ارادہ کے ماتحت کہاں سے کہاں کھینچ لایا.پہلے مصر کا خیال پیدا.پھر یہ خیال آیا کہ راستے میں مکہ ہے.اس کی زیارت بھی کر لیں.پھر خیال ہوا کہ حج کے دن ہیں اُن سے بھی فائدہ اٹھایا جائے غرض کہ ارادہ مصر سے مکہ اور حج کا ہوا اور آخر اللہ تعالیٰ نے وہاں پہنچا دیا.مجھے مدت سے حج کی خواہش تھی اور اس کے لئے دعائیں بھی کی تھیں.لیکن یہ ظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی کیونکہ وہاں کے راستے کی مشکلات سے طبیعت گھبراتی اور یہ بھی خیال تھا کہ مخالفین کوئی شرارت نہ کریں.لیکن مصر کے ارادہ سے یہ خیال ہوا کہ مصر جانا اور راستے میں مکہ کو ترک کر دینا ایک بے حیائی ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جدہ سے مہ تک کا سفر نہایت کٹھن ہے اور میر صاحب تو قریباً بیمار ہو گئے اور مجھے بھی سخت تکلیف ہوتی اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ ہل گئے لیکن بڑی نعمتیں بڑی قربانی بھی چاہتی ہیں اس بڑی نعمت کے لئے یہ تکلیف کیا چیز ہے ! مدینہ کا راستہ اور بھی طویل اور کٹھن ہے.لیکن چند دن کی تکلیف اُن پاک مقامات کے دیکھنے کے لئے کہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی نے اپنی بعثت نبوت کا ایک روشن زمانہ گزارا کیا چیز ہے؟ میرا دل تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر قربان ہوا جارہا ہے کہ وہ کس حکمت کے ساتھ مجھے اس جگہ سے آیا.ذلك فضل الله يوتيه من يشاء اللہ تعالیٰ کی حکمت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اول تو اس جہاز سے جو مصر جاتا تھا رہ گئے.لیکن بعد میں جب اصرار کر کے دوسرے جہاز میں سوار ہوتے تو مصر -

Page 299

۲۹۰ پہنچتے ہی خواب آیا کہ حضرت یا آپ فرماتے ہیں کہ فوراً مکہ چلے جاؤ پھر شاید موقعہ ملے نہ ملے.چنانچہ دو جہاز چلے گئے اور ہم ان میں سوار نہ ہو سکے جس سے خواب کی تصدیق ہو گئی.اس طرح مصر کی سیر بھی نہ کر سکے اور جب مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ اب مصر نہیں جا سکتے.کیونکہ گورنمنٹ مصر کا قاعدہ ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو جا مصر کے باشندہ ہوں حج کے بعد چار مہینہ تک کوئی شخص حجاز و شام سے مصر نہیں جا سکتا.اس طرح گویا اگر میں مصر جانا چاہوں تو مجھے اپریل تک وہاں جانے کی اجابات نہیں اپریل کے آخر میں وہاں جا سکتا ہوں.پہلے تو اس خبر کو میں گپ ہی سمجھا تھا، لیکن بعد میں حاجی علی جان والے جو دہلی کے سوداگر ہیں، اُن کے یہاں سوداگر ہیں، اُن سے معلوم ہوا کہ واقعی حکم یہی ہے اور چونکہ ان کے کاروبار ان دیار میں جاری ہیں، اُن کو یقینی علم ہے.ایک اور شخص نے بتایا کہ میں پچھلے سال شام میں تین ماہ تک رُکا رہا اور اس مدت کے گزرنے پر پھر مصر کے داخلہ کی اجازت ملی.اب اس صورت میں مصر کو واپس جانا فضول معلوم ہوتا ہے.حج کے بعد چار ماہ تک مصر کے داخلہ کا انتظار کرنا فضول ہے.میں نے تو ان سب واقعات کو ملا کر یہی نتیجہ نکالا ہے کہ منشائے انہی مجھے حج کروانے کا تھا.اور مصر کا خیال ایک تدبیر تھی.میں تو اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی پر قربان ہوں کہ میرے جیسے گنہگار انسان کی کیا حقیقت تھی کہ اس پر اس قدر لطف و عنایت کی نظر ہوتی.اور اس طرح اسے ایسے پاک مقامات کی زیارت کروائی جاتی مگر خدا تعالیٰ کا پیار بھی اپنے بندوں سے سمجھ میں نہیں آسکتا.وہ تو محسن سے مگر ہماری طرف سے ناشکری ہوتی ہے.اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم کل عمرہ ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اُمید سے بڑھ کر دعاؤں کی توفیق دی اور میں نے حتی المقدور حضور کے لئے حضور کے خاندان کے لئے کل احمدی جماعت اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے دعائیں کیں.زیارت بیت اللہ کے وقت بھی اور صفا و مروہ کی سعی کے وقت بھی خصوصاً جماعت کی ترقی اور آپس کے اتحاد و مودت کے لئے والله المجيب - والسلام خاکسار مرزا محمود احمد

Page 300

۲۹۱ حضرت صاحبزادہ صاحب کا خط پورٹ حضرت خلیفہ المسیح الاول " کے نام اگرچہ میری جسمانی صحت اس سفر میں بہت کمزور رہی ہے لیکن روحانی طور سے بہت کچھ فائدہ ہوا ہے اور اس قدر دعاوں کا موقعہ ملا ہے کہ پہلے کم اتفاق ہوا تھا.اور مجھے سے جس قدر ہو سکا اپنے علاوہ حضور کے لئے حضور کے خاندان کے لئے اپنے سب خاندان کے لئے قادیان کے احباب کے لئے پھر کل جماعت احمدیہ کے لئے اور اسلام کے لئے بہت دعائیں کیں.خصوصاً انیس تاریخ تمام کو جہاز پر کچھ ایسی حالت ہوتی کہ مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا تمام زمین و آسمان نور سے بھر گیا.اور دل میں دُعا کا اس قدر جوش تھا کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا.اور پھر ساتھ دل میں یقین معلوم ہوتا تھا اور اطمینان تھا کہ سب دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور دُعا سے طبیعت گھبرائی نہ تھی.علاوہ ازیں ہمارے سفر میں اکثر اوقات دُعا کا موقعہ ملتا تھا.سمندر بہت اچھا رہا.ایک دن تو وہ کچھ تیز تھا مگر کچھ تکلیف نہیں ہوتی.میرے ساتھ بہت سے طلبا تے انگلستان سوار تھے.مسلمان بھی اور ہنود بھی، اُن کو تبلیغ کا بھی خوب موقعہ مل گیا.سب کے سب دھر یہ تھے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے تھے.بہنود گائے کے گوشت سے کسی قسم کا پر میز نہیں کرتے تھے کیونکہ اب وہ مذہب سے بالکل آزاد تھے.میں حتی الوسع سفر میں اُن کے پیچھے پڑا رہا اور وہ بھی کچھے مانوس ہو گئے تھے.جب اپنے کاموں سے فارغ ہوتے، میرے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں شروع کر دیتے تین بیرسٹر تھے سب سے زیادہ دریدہ دہن تھے.مگر اللہ تعالٰی کے فضل سے کوشش رائیگاں نہیں گئی اور گو انہوں نے پورے طور سے اقرار نہ کیا لیکن ایک نے یہ اقرار کیا کہ گو پہلے میں اس معاملہ میں بالکل نڈر تھا لیکن اب خدا کے بارہ میں ہنسی کرتے یا سنتے میرا دل کانپ جاتا ہے اور ایک خواہش پیدا ہو سکتی ہے کہ اس بات کی پوری طرح سے چھان بین کروں اس لئے یہ بھی کہا کہ اگر چہ آپ کی باتوں کا جواب میں نہیں دے سکتا لیکن چونکہ میرا پرانا اعتقاد جما ہوا ہے، اس

Page 301

۲۹۲ لتے پوری تسلی نہیں ہوتی.میں ایک امتحان بیرسٹری کا باقی ہے وہ دے کر جب پانچ ماہ کے بعد واپس ہند آؤں گا تو آپ سے ملوں گا اور قادیان آوں گا کہ اس مسئلہ کی تصدیق کروں.دوسرے ہند ونے کہ وہ بھی بیرسٹری کے سب امتحان پاس کر چکا ہے صرف ایک ٹرم TERM باقی ہے، کہا کہ آج تک میں نے اس رنگ میں کبھی مذہب پیش ہوتے نہیں دیکھا اور آج تک بغیر دلیل کے ہی ہمیں مذہب منوایا جاتا تھا.یہ نیاطریق دیکھا ہے کہ آپ دلائل دیتے ہیں.مگر وہ ایسا گستاخ تھا کہ بار بار یہ کہتا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ میں کوئی طاقت ہے تو وہ اسے ہلاک کر دے.نعوذ بالله من ذلک.ایک اور طالب علم نے میرا پتہ لکھ لیا کہ ولایت سے میں مذاہب کے متعلق آپ سے خط و کتابت کروں گا.میں نے سب سے وعدہ لیا ہے کہ ولایت میں خواجہ صاحب سے ملاقات کریں.بعض نے بعض کتابیں بغرض مطالعہ بھی مانگی ہیں.فالحمد لله على ذلك - اس فائدہ کے علاوہ مجھے سب سے عظیم الشان فائدہ یہ ہوا ہے کہ ان لوگوں کی حالت دیکھ کر اسلام کی موجودہ حالت کا نقشہ کھینچ گیا.ایسا خطرناک دھر یہ میں نے کبھی نہ دیکھا ہے جیسا ان لوگوں کو دیکھا.سخت دلیر اور منہ پھٹ میں دیکھتا ہوں اسلام کی حالت کا جو پہلے درد تھا اس سے لا محالہ بہت زیادہ اب میں پاتا ہوں.دُعا کی بہت ضرورت ہے اور سخت ہی محتاج ہوں.اس وقت بھی سر درد شروع ہے اور جب طبیعت بہت خراب ہوتی ہے تو دل گھبرا جاتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد از پورٹ سعید جدہ سے ایک خط کا کھا حج کے روز طبیعت ایسی صاف ہو گتی کہ خدا کے فضل سے حج نہایت محمد گی اور خیریت کے ساتھ ختم ہوا.بہت سے ایسے مقامات جہاں دُعا کی قبولیت خاص طور پر بتائی جاتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے دیکھے کہ حیران ہوں.عرفات میں قریباً چار گھنٹے سے بھی زیادہ دُعا کا موقعہ ملا اور آثار رحمت الہی ایسے نظر آتے

Page 302

۲۹۳ تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام دعائیں قبول ہو رہی ہیں.اور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعائیں القا ہوتی تھیں جو پہلے کبھی وہم میں بھی نہ آئی تھیں.فالحمد لله على ذلك...دعاؤں سے رغبت اور دعاؤں کا اتقا اور رحمت الہی کے آثار جو میں نے اس سفر میں خصوصاً مکہ مکرمہ اور ایام حج میں دیکھتے ہیں، وہ میرے لئے بالکل ایک نیا تجربہ ہے اور میرے دل میں ایک جوش پیدا ہوا ہے کہ اگر انسان کو توفیق ہو تو وہ بار بار ج کرے کیونکہ بہت سی برکات کا موجب ہے یا نے ان خطوط کے علاوہ آپ کی بعد کی بعض تقاریر اور تحریرات میں بھی اس سفر کی کچھ یادیں محفوظ ملتی ہیں.اُن میں سے بھی بعض نمونہ پیش ہیں :- " میں جب شاہ میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا.میرے ساتھ پانچ آدمی اور بھی ہم سفر تھے.اُن میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیرسٹری کر رہے تھے.اُن میں سے ایک ہندو تھا جو اب ہندوستان چلا گیا ہے.دو مسلمان تھے، جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے.یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہیے، مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اسی میں ہے.غرض خوب بخشیں ہوتی رہتی تھیں.جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کے لئے پہلے گئے.ہمیں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دولڑکے بھی تھے جن میں سے ایک اس وقت ایجو کیشن کا ڈائریکیٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا.بہر حال ہم سارے وہاں گئے.جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا.اس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے.اس نے دیکھ لیا کہ پنجانی ہیں.چنانچہ آتے ہی کہنے لگا " آگئے ساڈے لالہ لاجیت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے.اس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں.مجھے بڑی بد تہذیبی معلوم ہوتی کہ اس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آتے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی 37 کوکا ه بدر مادیان ۹ جنوری ۶۱۹۱۳ ما

Page 303

۲۹۴ ہیں.خیر اس وقت تو میں چپ رہا جب ہم واپس آتے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھاتے.کوئی مسافر آدمی تھا.پنجابی دیکھ کے اسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آتے ہیں تو اس میں حرج کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے کہ پولیس مین تھا اور اس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے.اب پتہ نہیں یہ سچ تھایا جھوٹ یا اُن کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کیا.بہر حال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں سیر روحانی جلد ۳ پھر فرمایا."جب انسان بیت اللہ کو دیکھتا ہے اور اس پر اُس کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل پر ایک خاص اثر پڑتا ہے اور وہ قبولیت دعا کا ایک عجیب وقت ہوتا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوتی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت جو دُعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے.فرمانے لگئے اس وقت میرے دل میں کہتی دُعاؤں کی خواہش ہوئی لیکن میرے دل میں فوراً خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعائیں مانگیں اور قبول ہو گئیں اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہوگا.پھر تو نہ حج ہوگا اور نہ یہ خار کعبہ نظر آئے گا.کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کروں کہ یا اللہ میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہوا کرے تاکہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے.میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی ہوئی تھی جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آ گئی.جونہی خانہ کعبہ نظر آیا ہمارے نانا جان نے ہاتھ اُٹھاتے کہنے لگے دعا کر لو.وہ کچھ اور دعائیں مانگنے لگ گئے مگر میں نے تو یہی دُعا کی کہ یا اللہ اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقعہ ملے گا.آج عمر بھر میں قسمت کے ساتھ موقع ملا ہے.پس میری تو یہی دعا ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقعہ پر دیکھ کر جو شخص دُعا کرے گا وہ قبول ہو گی.میری دُعا تجھ سے کہیں.ہے کہ ساری عمر میری دعائیں قبول ہوتی رہیں ریت را شیر دین محمد ادم (سورة بقره ) ۲۰۴ ص ۴۵ ایک اور موقعہ پر حج بیت اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : A

Page 304

۲۹۵ " میں نے دُعا میں چند جگہوں کا خاص تجربہ کیا ہے.اول خانہ کعبہ کی رویت کے وقت کی دُعا اس وقت میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ آسمان سے نزولِ انوار ہو رہا ہے.یہ قلبی کیفیت نہ تھی بلکہ واقعی ایک چیز تھی جو نظر آرہی تھی.دوسرے عرفات کا مقام یہ تو حج کا مغز ہے اس میں بھی نزول برکات کا ہوتا ہے.تیسری جگہ غارِ حرا تھی اس میں دُعا کرنے سے بھی قلب میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی تھی ایک وجہ اس کیفیت کے پیدا ہونے کی یہ ہے کہ ان مقامات کی وہ لوگ واجبی قدر نہیں کرتے.میں نے عرفات کے میدان میں دیکھا کہ لوگ میلوں کی طرح خرید و فروخت میں مصروف تھے، کھاتے پیتے پھرتے تھے، مجھے کوئی دعا میں مصروف نظر نہ آیا.البتہ جب خطیب کے خطبہ پڑھنے کے بعد کپڑا بلا تو لوگ کچھ متوجہ ہوئے ورنہ باقی تمام وقت کھانے پینے میں ہی گزار دیا.- میں نے وہاں خصوصیت سے برکات کو دیکھا.تین گھنٹہ کا وقت ملا اور میں نے تین گھنٹہ تک دُعا کی 'جب وقت تنگ ہونے لگا تو مجھے کہا گیا کہ اب چلنا چاہیئے.مگر مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں نے دس پندرہ منٹ ہی دعا کی ہے.میں نے وہاں تبلیغ شروع کی اور خدا نے اپنے خاص فضل سے میری حفاظت کی.اس وقت حکومت ترکی کا وہاں چنداں اثر نہ تھا.اب تو شاہ حجاز کے گورنمنٹ انگریزی کے زیر اثر ہونے کے باعث ہندوستانیوں سے بدسلوکی نہیں ہو سکتی مگر اس وقت یہ حالت نہ تھی.اس وقت تو وہاں جس کو چاہتے گرفتار کر سکتے تھے.مگر میں نے تبلیغ کی اور کھلے طور پر کی.لیکن جب ہم وہ مکان چھوڑ کر واپس ہوتے تو دوسرے دن اس مکان پر چھاپہ مارا گیا اور مالک مکان کو پکڑا گیا کہ اس قسم کا کوئی شخص یہاں تھا.وہاں ایک مولوی عبد الستار تاجر کتب تھے جو عالم اور شریف اور سمجھدار انسان تھے اور جمہور سے عقائد میں اختلاف رکھتے تھے مگر ظاہر نہیں ہو سکتے تھے.میں نے جب ان کو تبلیغ کی تو انہوں نے کہا کہ باتیں معقول ہیں مگر میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ فلاں شخص کے پاس اس قسم کی باتیں نہ کریں، وہ آپ کو نقصان پہنچائے گا.میں نے اُن کو بتایا کہ میں اس کو بھی دو گھنٹہ تک تبلیغ کر آیا ہوں.اس نے سوائے بد زبانی کے اور تو کچھ نہیں کہا.ا

Page 305

۲۹۶ وہاں میری شہرت بھی ہو گئی تھی.چنانچہ ایک سڑک پر ہم جا رہے تھے کہ ایک نوجوان شخص نے سنجیدگی سے " یا ابن مرسول اللہ " یا "یا ابن نبی اللہ کہہ کر سلام کیا اور ہٹ گیا.یہ اس نے تمسخر سے کہا یا حقیقی طور پر یہ معلوم نہیں اگر تمسخر کی کوئی علامت اس سے ظاہر نہیں ہوتی تھی.ممکن ہے کہ اس کے قلب میں تحریک ہوئی ہو.اور وہ خوف سے ظاہر نہ کرتا ہو “ لے حضرت صاحبزادہ صاحب کی سفر حج سے واپسی پر بمبئی سے لے کر قادیان تک تمام جماعتوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور لوگ جوق در جوق مختلف اسٹیشنوں پر آپ سے طاقات اور خوش آمدید کے لئے آئے.یہ محض ایک دنیوی رسم نہ تھی بلکہ خدمت دین کو اس موقع پر بھی اولیت حاصل رہی.ہر اسٹیشن پر آپ احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں سفر حج کی روداد سُناتے اور دینی نصائح فرماتے رہے اور با وجود وقت کی تنگی کے مختصر اور پر اثر تقاریر فرمائیں.امرتسر کے اسٹیشن پر استقبال کرنے والوں میں مکرم و محترم پر وفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے (کینٹب) (سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور و پروفیسر شعبہ نفسیات پنجاب یونیورسٹی) بھی شامل تھے.اُس وقت آپ نے پہلی مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیارت کی اور یہ موقع اس لحاظ سے بڑا بیش قیمت تھا کہ محترم قاضی صاحب نے اس وقت آپ کی شخصیت کی ایک ایسی تصویر اپنے ذہن میں محفوظ کرلی جس کا دلکش نقش آج تک محترم قاضی صاحب کی یادوں کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اور محترم قاضی صاحب کی بدولت ہمیں بھی آپ کی اس نو عمری کی شخصیت سے شناسائی کا موقع مل گیا.محترم قاضی صاحب اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.19ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فریضہ حج ادا کرکے واپس تشریف لائے تو امرتسر کے اسٹیشن پر امرتسر کی جماعت نے آپ کا استقبال کیا.اس موقعہ پر میں نے پہلی دفعہ آپ کو دیکھا.غالباً سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں تھے.یہ میرا پہلا نظارہ ہے جو میں نے آپ کی شخصیت کا کیا.بس وہ دن اور یہ دن ایک مستقل یاد رکھے ہوئے ہوں اسوقت میری عجیب کیفیت تھی.کاش میں بیان کر سکتا ! میں نے دیکھا کہ ایک نہایت ہی خوبصورت آدمی ہے جو ہمارا بزرگ ہے، لیڈر ہے، قابل احترام له الفضل ، مارچ ۱۹۲۷ء حدث

Page 306

۲۹۷ ہے اور عظیم انسان بننے والا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ آپ کو دیکھ کر آپ کے بوڑھے اور جوان ہونے کا فرق محسوس نہیں ہوتا تھا.19ء میں حضور ولایت لمہ تشریف لے گئے تو وہاں کے ایک اخبار نے لکھا کہ امام جماعت احمدیہ جوان آدمی ہیں.وہ پڑھ کر احساس ہوا کہ ہمارے حضرت صاحب جوان ہیں ! قدرت نے جو ان عمر میں ایک رعب عطا کیا ہوا تھا جس میں حضور کی جوانی چھپی رہتی.آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن اس پر سنجیدگی غالب تھی.سر پر سفید پکا باندھے ہوئے تھے.پاؤں میں پمپ شو قسم کی کالی چمکدار گر گابی پہنی ہوتی تھی.آپ کا چہرہ لباس.غرضیکہ آپ کا مجموعی شخص بہت دلکش تھا.آپ کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوئی اس لئے کہ ہمارے امام یعنی بانی جماعت احمدیہ کے بیٹے ہیں اور اپنے باپ کی طرح خوبصورت اور دلکش شخصیت کے مالک.یہ احساس آخر وقت تک قائم رہا حضور گاڑی سے اترے.احباب سے مصافحہ کیا اور بے تکلفی سے احباب سے باتیں کرتے رہے." محترم قاضی صاحب نے اپنی فراست اور ذہانت کے نتیجہ میں جو بات اس وقت محسوس کی وہ آپ کی شخصیت کا ایک اہم جز دھی.آپ کے چہرہ کو دیکھ کہ اور آپ سے ملاقات کے وقت ملنے والوں کا ذہن کبھی آپ کی عمر کی طرف منتقل نہیں ہوتا تھا بلکہ ملاقاتی براہ راست ایک ایسی شخصیت کے بحر بے کراں میں گم ہو جاتا تھا جو وقت کی قید سے آزاد ہو.یوں محسوس ہوتا تھا جیسے گزرتے ہوتے وقبت کا اس شخصیت سے کوئی تعلق نہیں.جوانی میں دیکھنے والوں نے آپ کے پختہ ذہن اور عظیم فکر کے نتیجہ میں کبھی آپ کی جوانی کو محسوس نہ کیا اور بڑی عمر میں ملنے والوں کے دل میں آپ کے پیر ولولہ دل اور بے پناہ قوت عمل کے نتیجہ میں کبھی آپ کی بڑی عمر کا خیال پیدا نہ ہوا.خود میرا ذہن بھی اپنے بچپن سے لے کر تقسیم ہند کے بعد کے چند سالوں تک کی زندگی میں کبھی بھی آپ کی عمر کی طرف منتقل نہیں ہوا.البتہ آپ کی عمر کے آخری چند سالوں میں کچھ تو ہجرت کے صدمہ کی بنا پر اور کچھ ایک قاتلانہ حملہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری کے باعث پہلی مرتبہ گرد و پیش میں بسنے والے اعزا و اقارب اور احباب جماعت نے بڑے دُکھ بھرے تعجب سے یہ امر محسوس کیا کہ آپ کی زندگی بڑھاپے کے دور میں داخل ہو رہی ہے.90ء کے بعد کے چند ابتدائی سالوں میں ہمارے چچا حضرت مرزا بشیر احمد رضی الله عنه مرزا احمد 190"

Page 307

٢٩٨ نے جنہیں ہم عمو صاحب کہا کرتے تھے مجھے خاص طور پر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت صاحب پر عمر کے آثار ظاہر ہوتے ہیں.پس محترم قاضی صاحب کی یہ روایت اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ حضور کی شخصیت کا یہ پہلو عنفوان شباب کے وقت بھی ش اسی طرح نمایاں تھا.جب حضرت صاحبزادہ صاحب بٹالہ پہنچے تو اپنی مقدس والده حضرت اُم المومنین رضی الله عنها کو بٹالہ میں جو قادیان سے بارہ میں مغرب کی طرف واقع ہے جوش محبت میں اپنے استقبال کا منتظر پایا.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے قادیان میں خاص طور پر آپ کے استقبال کی ہدایت فرمائی.دونوں تعلیمی اداروں میں تعطیل کر دی گئی.طلبا کے علاوہ سینکڑوں احباب جماعت قادیان سے دو میل دور نہر سو پیشوائی کے لئے پہنچے ہوئے تھے.باوجود ضعف اور ناتوانی کے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ بھی بنفس نفیس قادیان سے بہت دور تک پیدل استقبال کے لئے تشریف لے گئے.آپ کے اعزاز میں طلبا کی طرف سے ایک شاندار چائے کی دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے بھی تقریر فرمائی.طلبا نے فرط عقیدت میں حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ سے گزارش کی کہ ہم نہیں جانتے کہ اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کیسے کریں.اس پر حضور نے اظہار خوشی کا ایک پاکیزہ ذریعہ انہیں یہ سمجھایا : دعا کرو میاں صاحب کی زندگی با برکت، مفید خلائق اور خادم اسلام ہو.مل کر یہ دعا کرو.دو رکعت نماز پڑھ کر جناب انہی کی تعریف اور اپنے استغفار کے بعد " پس جو وجود دعاؤں کا زاد راہ لے کر قادیان سے روانہ ہوا تھا اس کی پیشوائی دعاؤں ہی کے رنگا رنگ گلدستوں اور نیک تمناؤں کے پھول نچھاور کر کے کی گئی.

Page 308

باب چهارم حضرت صاحبزادہ صاحب کی سیرت کے چند اور متفرق پہلو

Page 309

回 درس قرآن کریم - ه مجلس انصار اللہ کا قیام اور اس کے شیریں ثمرات - ا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے گہری محبت.تفرعات کا رنگ.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی آپ سے بلند توقعات اور کامل اعتماد انتخاب بحیثیت پریذیڈنٹ مجلس مشاورت - تعلیم الاسلام سکول کے جاری رکھنے اور مدرسہ احمدیہ کے قیام میں تاریخی کردار - مدرسہ احمدیہ کی بہبود اور ترقی کیلئے مزید خدمات - ایک غیر از جماعت صحافی کے تاثرات.

Page 310

٣٠١ درس قرآن کریم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اوائل نالہ سے قرآن کریم کا درس دینا شروع فرمایا.اس کے متعلق مدیر الحکم نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے متعلق اور خبروں کے ضمن میں لکھا :- آپ (تصا حبزادہ صاحب) خدمت دین اور اشاعت اسلام کا جو جوش اپنے سینے میں رکھتے ہیں وہ اب عملی رنگ اختیار کرتا جاتا ہے اور قوم کے لئے بہت ہی مسرت بخش اور امید افزا ہے.اللہ تعالیٰ روح القدس سے آپ کی مدد کرے اور حضرت امیر المومنین کی تربیت اور 10% دعاؤں کے پھلوں سے اسلام کا بول بالا ہو " (الحكم قادیان اور فروری شده مش) وسط سلسلہ سے آپ دن میں دو دفعہ درس دینے لگے.یعنی فجر اور ظہر کی نمازوں کے بعد ان درسوں میں اہالیان قادیان اور زاترین بڑے ذوق و شوق سے حاضر ہوتے اور علم معرفت کے اس شیریں چشمہ سے جی بھر کر اپنی پیاس بجھاتے.افسوس کہ آپ کے درس قرآن کریم کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں، اس لئے ہم اس کا کوئی نمونہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے سے بصد معذرت قاصر ہیں.البتہ سامعین اس درس سے جس حد تک استفادہ کرتے اور محفوظ ہوتے تھے، اس کا کسی قدر تصور حسب ذیل اقتباس کو پڑھ کر قائم کیا جا سکتا ہے جو مخدوم محمد ایوب صاحب بی.اے علیگ نئی دہلی کی ایک مطبوعہ یاد داشت سے لیا گیا ہے :- " میں نشانہ میں سکول سے موسم گرما کی تعطیلات میں قادیان گیا.اور حضرت خلیفہ اول ہے جو میرے والد صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ خاص طور پر اظہار محبت فرمایا کرتے تھے، کے زیر سایہ رہا کرتا تھا اور حضرت صاحب کے درس قرآن شریف میں شامل ہوا کرتا تھا.انہی ایام میں معلوم ہوا کہ حضرت میاں صاحب (حضرت خلیفة المسیح الثانی)

Page 311

بھی درس فرمایا کرتے ہیں.چنانچہ میں بھی وہاں حاضر ہوا مجھے اس درس میں صرف چند روز ہی شامل ہونے کا موقع ملا.حضور نے قرآن کریم کے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے معارف و حقائق بیان فرما کر ایک طرف تو لاَ يَمَةَ إِلا الْمُطَهَّرُون کے مطابق اپنی پاکیزہ زندگی کا ثبوت دیا.اور دوسری طرف کسی مشکل مقام قرآن مجید کے معنے معلوم کرنے کے لئے کوشش کرنے اور پھر سمجھنے کے لئے دعائیں کرنے اور پھر اس کا حل پانے کا ذکر فرما کر اپنے عشق قرآن شریف اور تعلق باللہ کا ثبوت الغرض اس قلیل عرصہ میں مجھ پر حضور کے عشق و فہم قرآن کریم طهارت و تقومی تعلق بالله اجابت دعا اور مظہر زندگی کا گہرا اثر ہوا جو کہ باوجود مرور زمانہ کے دل سے ہر گز دور نہیں ہوا.اور یہی اثر تھا جو کہ بفضلہ تعالیٰ حضور کو خلیفہ برحق مانتے ہیں کام آیا.الحمد لله على ذلك یہ اس وقت کی بات ہے جس کو اب انتیس سال گزر چکے ہیں.اور اب تو ماشاء اللہ حضور کا علم ایک بحر بے پایاں معلوم ہوتا ہے جس کا کچھ اندازہ ہی نہیں اور حضور کا ہر ایک خطبہ بلکہ ہر ایک تقریر و تحریر اپنے اندر ایک ایسی جدت اور شان رکھتی ہے کہ جس کی نظیر صفحہ ہستی پر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ہے الفضل قادیان ۲ دسمبر شه O

Page 312

سمسم مجلس انصار اللہ کے شیریں ثمرات ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک رویہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوتے ایک دینی انجمن مجلس النصار اللہ کی بنیاد ڈالی تھی.اس انجمن کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے جن احسن خطوط پر اتوار کیا اور جس طرح ان کوششوں کو شیریں پھل لگے اُن کا یہاں کچھ تذکرہ کیا جاتا ہے.19ء کو اس انجمن کا افتتاحی جلسہ قادیان میں منعقد ہوا حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس جلسہ میں ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی اور ممبروں کومتعدد ہدایات دیں.مثلا یہ کہ وہ بلیغی لیکچر دینے کے لئے بہت مشق کریں چھٹیاں لے کر مرکز میں آئیں.ہر روز تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ وقت دیں خواہ پانچ منٹ کے لئے ہی سہی.انصار کثرت سے باہم ملاقات کریں کیسی شہر میں جائیں تو وہاں کے انصار کو تلاش کر کے میں.اگر ریل میں سفر کر رہے ہوں تو جو اسٹیشن راستے میں آتے ہوں وہاں کے انصار کو اطلاع دیں.انصار سفر میں حتی الوسع انصار ہی کے پاس ٹھہریں.میں تو صحابہ کی طرح دینی گفت گو کر کے ایمان تازہ کریں.انصار کے لئے حضرت مسیح موعود علیه السلام اور حضرت خلیفہ ایسح الاول رضی اللہ عنہ اور علمائے سلسلہ کی بعض خاص کتابوں کا پڑھنا بھی لازمی قرار دیا گیا.حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی سرپرستی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی قیادت نے انجمن انصار اللہ کے ممبروں میں زندگی کی ایک لہر دوڑا دی.اور اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا کام جس میں سستی آگئی تھی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ شروع ہو گیا.جولائی 12 میک اس کے ممبروں کے ذریعہ دو تین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اسی طرح بعد میں بھی جاری رہا.انجمن نے جماعت میں مبلغین اسلام کی ایک جمعیت تیار کر دی جس نے آئندہ چل کر جماعت احمدیہ کی ترقی و اشاعت میں بڑا بھاری حصہ لیا.انجمن نے اپنے خرچ پر ایک ممبر چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو انگلستان بھیجوایا.علاوہ ازیں شیخ عبد الرحمان صاحب نو مسلم اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تعلیم وتبلیغ کی خاطر مصر بھیجے گئے ہے ہ میں حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ لندن میں جماعت احمدیہ کا ایک مضبوط مشن ہونا چاہیئے جیس کے لئے آپ نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تحریک فرماتی.1414 الحکم جوبلی نمبر ۳۶ ن ومت

Page 313

مهم۳۰ چنانچہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال جنہوں نے انہی دنوں ایم.اے کا امتحان پاس کیا تھا اور مولوی محمد الدین صاحب بی.اے نے اپنے آپ کو اس خدمت کیلئے پیش کر دیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جناب مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ سے فرمایا :- آپ تو کہتے تھے کوئی نوجوان جانے کو تیار نہیں.میرے پاس تو ایک کی بجائے دو تو جوانوں کی درخواستیں آگئی ہیں " سے اس پر مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش کی که به نوجوان دس دس ہزار روپیہ پیشگی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے عرض کیا یہ که به تجویز خود مولوی صاحب کی ہے ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے چوہدری صاحب نے پورا واقعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بیان کیا.آپ نے فرمایا مجلس انصار اللہ کا چندہ جو ممالک غیر میں تبلیغ کے لئے جمع ہے وہ میں آپ کو دیتا ہوں لیکن میرا اس طرح خود دینا درست نہیں.تبرک اور ادب کا تقاضا یہ ہے کہ میں رقم ابھی حضرت خلیفہ اول کو بھجوا دیتا ہوں.آپ حضور کے مطلب میں جاکر انتظار کریں.چنانچہ محترم چوہدری صاحب مطب میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوتے اور روپیہ کا انتظار کئے بغیر عرض کیا کہ حضور میں لندن جا رہا ہوں حضور نے فرمایا کرایہ کا کیا انتظام ہے ؟ ابھی آپ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ ایک خادم رو مال میں تین سو روپیہ لے کر پہنچ گیا.حضرت نے یہ رقم بڑی خوشی کے ساتھ چوہدری صاحب کے حوالے کر دی.وہاں اُس وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی تشریف فرما تھے.انہوں نے بھی ایک سو پانچ روپے حضرت کی خدمت میں پیش کئے.علاوہ ازیں بعض اور دوستوں نے بھی چندہ دیا لیکن یہ سب رقم سات سو سے کم رہی.ایک سو پانچ روپے حضرت خلیفہ اول کی فرمائش پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے دیئے گئے.جنوری شملہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح کی اجازت سے پر سوز دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ التجاؤں کے ساتھ ہندوستان بھر میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک سکیم تیار کی جس کے بعض حنتے یہ تھے :- ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں خاص طور پر جلسے کئے جائیں.回 مختلف مقامات میں واعظ مقرر کئے جائیں.سر زبان میں ٹریکٹ شائع ہوں.2 مناسب مقامات پر سکول کھولے جائیں.1909 له الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۷ء

Page 314

۳۰۵ اس سکیم کی تکمیل کے لئے جن اصحاب نے خاص طور پر آپ کی آواز پر لبیک کہا، اُن میں سے مولوی سید سرور شاه صاحب ، مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نه بیضه سید صادق حسین صاحب اٹاوہ میر قاسم علی صاحب چوہدری عبداللہ خان صاحب دانه نیکان ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب میاں نور الدین صاحب تاجر تارین.بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر اور میاں محمد شریف صاحب پلیڈر چیف کورٹ ' قابل ذکر ہیں.اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے جماعت کو جھنجھوڑتے ہوئے لکھا :- با میں حیران ہوں کہ میں سوتوں کو جگانے اور جاگتوں کو ہوشیار کرنے کے لئے کونسی راہ اختیار کروں.میں ششدر ہوں کہ تمہارے دلوں میں کیس طرح وہ آگ لگا دوں جو میرے دل میں لگ رہی ہے.لکڑیوں کو جلانے کے لئے دیا سلائیاں ہیں.بڑے بڑے جنگل ایک دیا سلائی سے جل سکتے ہیں.مگر دلوں کو گرم کرنے کے لئے دنیا نے کوئی سامان ایجاد نہیں کیا جس سے کام لے کر میں تمہارے دلوں میں حرارت پیدا کر دوں.دلوں کا پھیرنا خدا تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہے اور اسی سے دُعا کر کے میں نے یہ کم پیش کی ہے.اور اُسی کے حضور میں اب گرتا ہوں کہ وہ میری آواز کو موثر بناتے اور پاک دلوں میں اس کے لئے قبولیت پیدا کر سے بالے O له الفضل ۲۱ جنوری مادر

Page 315

حضرت مسیح موعود علیه السلام کے صحابہ سے آپ کی گہری محبت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بعد کے زمانہ میں کبھی کبھی لطیفہ کے کے طور پر حسب ذیل شعر سنایا کرتے تھے.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں میرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا..مگر آپ کے بچپن کا ایک واقعہ اس شعر میں ملبوس جذبات کے بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے.آپ جسے چاہتے تھے اس کے چاہنے والوں کو بھی چاہتے تھے.اس کے خدام اور فدائیتوں سے بھی گہری محبت کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی محبت اور عشق کا یہ عالم تھا کہ جتنا جتنا کسی کو آپ کے قریب پایا اسی قدر اس کی طرف کھینچتے چلے گئے.آپ کی محبت کا رخ متعین کرنے میں یہ اصل کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر بے خطا کام کرتا تھا.اس ضمن میں مندرجہ ذیل واقعہ دلچسپ مطالعہ کا مواد پیش کرتا ہے :- مولوی عبد الکریم صاحب بیمار ہوئے...ایک دفعہ یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لئے گیا تھا.اس کے سوا یاد نہیں کہ کبھی گیا ہوں.اس زمانہ کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب فوت نہیں ہو سکتے...مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی.ایک دو سبق اُن کے پاس الف لیلی کے پڑھے پھر چھوڑ دیتے.اس سے زائد اُن سے تعلق نہ تھا.ہاں اُن دنوں میں یہ کشیش خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کونسا ہے اور بایاں کونسا ؟ بعض کہتے مولوی عبد الکریم صاحب دائیں ہیں بعض حضرت اُستاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں.علموں

Page 316

.اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت نہ تھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسی محبت کی وجہ سے جو خلیفہ اول نہ مجھ سے کیا کرتے تھے میں نور الدینیوں میں سے تھا.ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی.غرض مولوی عبدالکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا.سوتے اس کے کہ میں اُن کے پر زور خطیبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت اور ان کی حُب مسیح موعود کا معتقد تھا مگر جونہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہو گیا.وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزر گئی جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی.دوڑ کر اپنے کمرہ میں گھس گیا اور دروازہ بند کر لیا.پھر ایک بے جان لاش کی طرح چارپائی پر گر گیا.اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.وہ آنسو نہ تھے ایک دریا تھا.دنیا کی بے ثباتی مولوی صاحب کی محبت میسج اور خدمت مسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے.دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں میں یہ بہت سا ہاتھ بناتے تھے.اب آپ کو بہت تکلیف ہوگی.اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جاتا تھا اور میری آنکھوں سے آنسووں کا دریا بہنے لگتا تھا.اس دن نہ میں کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھے حتی کہ میری لا ابالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیه السلام کو بھی تعجب ہوا اور آپ نے حیرت سے فرمایا کہ : " محمود کو کیا ہو گیا ہے.اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا یہ تو بیمار ہو جائے گا." خیر مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات نے میری زندگی کے ایک نئے دور کو شروع کیا.اسی دن سے میری طبیعت میں دین کے کاموں اور سلسلہ کی ضروریات میں دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی اور وہ بیج بڑھتا -

Page 317

٣٠٨ ہی چلا گیا.سچ یہی ہے کہ کوئی دنیا دی سبب حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب مرضی اللہ عنہ کی زندگی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات سے زیادہ میری زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا موجب نہیں ہوا.مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر مجھے یوں معلوم ہوا گویا اُن کی رُوح بھی مجھ پر آپڑی سے O.۱۹۲۹ له الحكم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹

Page 318

۳۰۹ تضرعات کا رنگ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے تشحید الاذہان میں ایک مضمون رقم فرمایا جو ماہ رمضان کے متعلق تھا.آپ نے اس مضمون میں رمضان کی برکات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا : " میں رسالہ تشحید الاذہان کے لئے اپنی میز میں سے ایک مضمون تلاش کر رہا تھا کہ مجھے ایک کاغذ ملا جو میری ایک دُعا تھی جو میں نے پا رمضان میں کی تھی.مجھے اس دُعا کے پڑھنے سے زور سے تحریک ہوئی کہ اپنے احباب کو بھی اس طرف متوجہ کروں انہ معلوم کیس کی دُعائنی جائے اور خدا کا فضل کس وقت ہماری جماعت پر ایک خاص رنگ میں نازل ہو.میں اپنا دردِ دل ظاہر کرنے کے لئے اس دُعا کو یہاں نقل کر دیتا ہوں کہ شاید کسی سعید الفطرت کے دل میں جوش پیدا ہو.اور وہ اپنے رب کے حضور میں اپنے لئے اور جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جائے جو کہ میری اصل غرض ہے.وہ دُعا یہ ہے:." اے میرے مالک میرے قادر خدا.میرے پیارے مولیٰ میرے راهنما - اے خالق ارض و سما.اے متصرف آب و ہوا.اے وہ خدا جس نے آدم سے لے کر حضرت پیسے تک لاکھوں بادیوں اور کروڑوں رھنماؤں کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا.اسے وہ علی وکبیر جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول مبعوث کیا.اے وہ رحمان جین نے میچ سارھنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں پیدا کیا.اے نور کے پیدا کرنے والے اے ظلمات کے مٹانے والے ! تیرے حضور میں ہاں صرف تیرے ہی حضور میں مُجھ سا ذلیل بندہ جھکتا اور عاجزی کرتا ہے کہ میری صدائن اور قبول کر کیونکہ تیرے ھی وعدوں نے مجھے جرات دلاتی ہے کہ

Page 319

میں تیرے آگے کچھ عرض کرنے کی جرات کروں.میں کچھ نہ تھا تو نے مجھے بنایا.میں عدم میں تھا تو مجھے وجود میں لایا.میری پرورش کیلئے اربعہ عناصر بتاتے اور میری خبر گیری کے لئے انسان کو پیدا کیا جب میں اپنی ضروریات کو بیان تک نہ کر سکا تھا تو نے مجھے پر وہ انسان مقرر کئے جو میری فکر خود کرتے تھے.پھر مجھے ترقی دی اور میرے رزق کو وسیع کیا.اے میری جان! ہاں اے میری جان! تو نے آدم کو میرا باپ بننے کا حکم دیا اور حوا کو میری مان مقرر کیا.اور اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو جو تیرے حضور عزت سے دیکھا جاتا تھا اس لئے مقرر کیا کہ وہ مجھ سے نا سمجھ اور نادانتے اور کم نہم انسان کے لیئے تیرے دربار میں سفارش کرے اور تیرے رحم کو میرے لئے حاصل کرے.میں گناہ گار تھا تو نے ستاری سے کام لیا.میں خطا کار تھا تو نے غفاری سے کام لیا.برا کے تکلیف اور دُکھ میں میرا ساتھ دیا ب کبھی مجھ پر مصیبت پڑی تو نے میری مدد کی اور جب کبھی ہیں گمراہ ہونے لگا تو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا.باوجود میری شرار توان کے تو نے چشم پوشی کی.اور باوجود میرے دُور جانے کے تو میرے قریب ہوا.میں تیرے نام سے غافل تھا مگر تو نے مجھے یاد رکھا.ان موقعوں پر جہان والدین اور عزیز و اقربا اور دوست و غمگسار مدد سے قاصر ہوتے ہیں تو نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا اور میری مدد کی.میں غمگین ہوا تو تو نے مجھے خوش کیا.میں افسردہ دل ہوا تو تو نے مجھے شگفتہ کیا مین رویا تو تو نے مجھے بنایا.کوئی ہو گا جو فراق میں ترقیا ہو مجھے تو تو نے خود ہی چہرہ دکھایا.تو نے مجھ سے وعدے کئے اور پورے کئے اور کبھی نہیں ہوا کہ تجھ سے اپنے اقراروں کے پورا کرنے میں کوتاہی ہوتی ہو میں نے بھی تجھ سے وعدے کئے اور توڑے مگر تُو نے اسکا کچھ خیال نہیں کیا.میں نہیں دیکھتا کہ مجھے سے زیادہ گناہ گار کوئی اور بھی ہو اور میں نہیں جانتا کہ مجھ سے زیادہ مہربان تو کسی اور گنہگار پر بھی ہو.

Page 320

EZ تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا.جب میں تیرے حضور میں آکر گڑ گڑایا اور زاری کی تو نے میری آواز سنی اور قبول کی میں نہیں جانتا کہ تو نے کبھی میری اضطرار کی دُعار دکھی ہو.لین اے میرے خدا امین نهایت دردِ دل سے اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور میں گرتا اور سجدہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میری دُعا کوشن اور میری ٹیکار کو پہنچے.اے میرے قدوس خدا ! میری قوم ملاک ہو رہی ہے.اسے ہلاکتنے سے بچا.اگر وہ احمد کی کہلاتے ہیں تو مجھے اُن سے کیا تعلق، جب تک اُن کے دل اور سینے صاف نہ ہوں اور وہ تیری محبت میں سرشار نہ ہوں.مجھے اُن سے کیا غرض سو اے میرے رب ! اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کو جوش میں لا.اور اُن کو پاک کر دے.صحابہ کا سا جوش و خروش اُن میں پیدا ہو.اور وہ تیرے دین کے لئے بے قرار ہو جائیں، اُن کے اعمال اُن کے اقوال سے زیان محمکہ اور صاف ہوں.وہ تیرے پیارے چہرہ پر قربان ہوں اور نبی کریم پر فدا - تیرے بیچ کی دعائیں اُن کے حق میں قبول ہوں اور اس کی پاک اور کچھ تعلیم اُن کے دلوں میں گھر کر چاہتے.اسے میرے خدا میری قوم کو تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا اور قسم قسم کی مصیبتوں سے انہیں محفوظ رکھے.ان میں بڑے بڑے بزرگ پیدا کر.پر ایک قوم ہو جائے جو تو نے پسند کر لی ہو.اور یہ ایک گروہ ہو جین کو تو اپنے لئے مخصوص کرے.شیطان کے تسلط سے محفوظ رہیں اور ہمیشہ ملائکہ کا نزول اپنے پر ہوتا رہے.اس قوم کو دین و دنیا میں مبارک کو مبارک کر.آمین ثم آمین یا رب العالمین اس کے بعد میں اپنے لئے اپنے بھائیوں کے لئے اپنی والدہ کے لئے اپنی ہمشیروں کے لئے اپنے دوستوں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے جن کا نام نیچے لکھتا ہوں، دُعا کرتا ہوں اور نہایت عاجز ہی سے سے دعا کرتا ہوں.کہ ہم کو دین و دنیا میں مبارک کر نیک کرا پاک کر.****.

Page 321

FIF اپنے لئے چین نے ہدایت کا پھیلانے والا بنا.اسلام کا خادم بنا.اور صحت و پاک محمر عطا فرما.ہم اسلام پر مریں اور تو ہماری وفات کے وقت ہم پر خوش ہو.اور ہماری عمر تیری ناراضگی سے پاک ہو.پھر میں خاص طور سے خلیفہ وقت کے لئے دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب ! اُن کے علم وفضل میں ترقی دئے اُن کو اپنے کام میں کامیاب کر اور ہر قسم کے دُکھوں سے بچا اُن کی تدابیر میں برکت ڈال اور ان راہوں پر چلا جو اسلام کی ہوں.میری اس دعا کو اس جگہ نقل کرنے سے یہ غرض ہے کہ شاید کوئی نیک روح فائدہ اُٹھاتے اور اس مبارک مہینہ میں خاص طور سے جماعت احمدیہ اور اسلام کی ترقی کے لئے دعاوں میں لگ جاتے.میں آخر میں پھر اپنے احباب پر زور دیتا ہوں کہ اس وقت کو ضائع مت کرو.رات کو خدا کے حضور چلاؤ اور دن کو صدقہ کرو.یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ اگر تم میں سے ایک جماعت سچے دل سے ایسا کرنے والی نکل آئے تو خدا اپنے پاک کلام میں کامیابی کا وعدہ دیتا ہے.پس کون بدبخت ہے؟ جس کو خدا کے وعدوں پر اعتبار نہ ہو.خدا کرے کہ ہم لوگوں میں وحدت پیدا ہو اور ہم کو نیک اعمال اور دعاؤں کی توفیق ملے اور ظلمت کے دن دُور ہو کر اسلام کا نورانی چہرہ دنیا پر ظاہر ہو.آمین یا رب العالمین خاکسار مرزا محمود احمد الے ه تشخید الاذبان ستمبر ۶۱ ص ۳۲ تا صد ۳۳۱

Page 322

سم اسم حضرت اقدس خلیفہ المسیح الاول رضی الله عنه کی صاحبزادہ صاحب سے بلند توقعات اور کامل اعتماد حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں آپ نے اپنے محبوب اور مطالع امام سے جو کامل خلوص اور وفا کا تعلق رکھا، اس سے حضرت خلیفہ المسیح شیپوری طرح آگاہ تھے اور مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے باوجود ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں آپ کا دل میلا نہ ہوا بلکہ روز بروز آپ پر حضرت کا اعتماد بڑھتا رہا اور توقعات بلند تر ہوتی چلی گئیں.جب حضور باہر تشریف لے جاتے تو بسا اوقات صاحبزادہ صاحب ہی کو امام الصلوۃ اور امیر مقامی مقرر فرماتے.اسی طرح علالت طبع کی صورت میں بھی حضور حضرت صاحبزادہ صاحب کو امام الصلوة مقر فرمانے لگے.اور کئی مرتبہ اپنی موجودگی میں بھی نماز جمعہ کی امامت کا ارشاد فرمایا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ نے پہلی دفعہ نماز جمعہ ۲۹ جولائی نشہ کو پڑھائی.اور خطبہ جمعہ میں آپ نے آیت اِنَّ اللهَ يَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ کی ایسی لطیف تفسیر بیان فرمائی کہ حضرت خلیفہ المسیح بہت ہی محفوظ مسرور ہوتے اور بڑے پیار سے فرمایا :- میاں صاحب نے لطیف سے لطیف خطبہ سُنایا.وہ اور بھی الطف ނ ہو گا.اگر تم اس پر غور کرو گے میں اس خطبہ کی بہت قدر کرتا ہوں کے اور یقینا کہتا ہوں کہ وہ خطبہ عجیب سے عجیب نکات اپنے اندر رکھتا ہے حضور رضی اللہ عنہ کا یہ اعتماد اور الطاف بعض بااثرہ اور بار سُورخ دوستوں کو بہو اپنے نتیں عالم فاضل اور معزز شمار کرتے تھے اور ظاہری علم اور عمر کے تفاوت کے باعث صاحبزادہ صاحب کو تخفیف کی نگاہ سے دیکھتے تھے ایک آنکھ نہ بھاتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ حضرت خلیفہ المی کی علالت کے موقع پر حضرت صاحبزادہ صاحب کے امام الصلوۃ مقرر فرماتے جانے پر جناب مولوی محمد علی صاحب نے حافظ روشن علی صاحب سے کہا کہ آپ حضرت خلیفہ المسیح سے بے تکلف ہیں.میرا نام لئے بغیر حضور سے عرض کریں کہ جماعت کے بڑے بڑے جید عالم موجود ہیں اُن کی موجودگی میں میاں صاحب کو امام مقرر کرنا مناسب نہیں.اس پر بعض دوست اعتراض کرتے ن الحکم ۲۸ اکتوبر باشه

Page 323

۳۱۴ ہیں.محترم حافظ صاحب نے اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کر دیا.آپ نے فرمایا.اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ القَكُم - مجھے محمود جیسا ایک بھی منتقی نظر نہیں آتا.پھر فرمایا کیا میں مولوی محمد علی صاحب سے کہوں کہ وہ نماز پڑھایا کریں ؟ انتخاب بحیثیت پریذیڈنٹ مجلس مشاورت الہ میں جلسہ سالانہ مارچ میں ہوا.اس موقع پر احمدیہ کا نفرنس کے نام سے مجلس مشاورت ہوئی.اس کانفرنس کے پریذیڈنٹ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بالاتفاق مقرر ہوئے.اور بعض مضامین پر ایک دلچسپ مباحثہ ہوا جس سے معلوم ہوا کہ قومی کاموں سے دلچسپی کا مذاق بڑھ رہا ہے" اله تعلیم الاسلام سکول کے جاری رکھنے اور مدرسہ احمدیہ کے قیام میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا تاریخی کردار 19-0 غالبا شاہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب سے مشورہ طلب فرمایا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو قائم کرنے کی جو غرض تھی اسے یہ مدرسہ پورا کر رہا ہے کہ نہیں.اس پر مدرسہ کی انتظامیہ نے بعض مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے مدرسہ تو توڑ دینے کا مشورہ دیا.اور اس پر بڑا اصرار کیا.باوجود اس کے کہ اُس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر صرف 14 برس تھی.آپ کی رائے بڑی عمر کے صاحب تجر بہ منتظمین کی نسبت زیادہ پختہ اور باؤزدن ثابت ہوئی.آپ نے اس بات کی بڑے موثر رنگ میں وکالت فرمائی کہ یہ مدرسہ بہر حال قائم رہنا چاہیئے.اور مشکلات پر دوسرے ذرائع سے قابو پایا جا سکتا ہے.آپ کے اس موقف پر آپ کی مخالف رائے رکھنے والے بعض ه الفضل ۱۹ جنوری ۹۴ائد کار تاریخ ۶۱۹۱۰ ص ۱۴ در اپریل

Page 324

۳۱۵ دوستوں نے آپ کو انگریزیت کا دلدادہ ہونے کا طعنہ بھی دیا.لیکن آپ اپنی رائے کی انگ اصابت پر مصر رہے.چونکہ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی رائے بھی آپ ہی کے موافق تھی لہذا حضرت مسیح موعود علیه السلام نے ان دونوں کی رائے کو ترجیح دی اور بعض تبدیلیوں کے ساتھ مدرسہ تعلیم الاسلام کو قائم رکھنے کا فیصلہ فرمایا.لے انہی دنوں مدرسہ احمدیہ کی بنیاد بھی پڑی.اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ شاہ میں سلسلہ کے دو زبر دست عالم حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی وفات پاگئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُن کی وفات کا دوہرا صدمہ پہنچا.کچھ تو اس لئے کہ یہ دونوں اپنے تقوی ، علم و فضل اور اسلام کے لئے ہمہ تن جان نثاری میں بہت بلند مقام رکھتے تھے اور کچھ اس لئے کہ اتنے بلند پایہ علماء کی وفات سے ایک ایسا علمی خلا پیدا ہوا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا.چنانچہ اس پہلو سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جماعت میں سے اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں مگر افسوس جو مرتے ہیں اُن کا جانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا.مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج ہی پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوتی.اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب بننے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.ہم تو چاہتے ہیں کہ دین کے خادم پیدا ہوں.چنانچہ تعلیم دین کی اس کمی کے پیش نظر آپ نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ جماعت میں قادر الکلام اور خدمت دین کرنے والے علما پیدا کرنے کا کوئی مستقل انتظام ہونا چاہیتے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایسی اصلاح ہونی چا.یہاں سے واعظ اور علما پیدا ہوں.حضور نے اس کے لئے احباب سے مشورہ کیا اور آخر طے پایا کہ فی الحال مدرسہ تعلیم الاسلام کی نگرانی میں ہی دینیات کی ایک شاخ کھول دی جائے.چنانچہ جنوری شاہ میں یہ شاخ کھل گئی اور اس طرح اس کلاس کے اجرا سے پہلی دفعہ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد پڑی.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت کے آغاز ہی میں له الفضل یکم متى شاره که مکتوبات احمدیہ جلد نمبر۲ صفه ، تاریخ احمدیت جلد ۲ مه ۴۰۷ ، رسالہ تعلیم الاسلام جند اون

Page 325

بشدت یہ محسوس فرمایا کہ چونکہ مدرسہ کے قیام سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اولین خواہش یہ تھی کہ اہلنے پایہ کے علمائے ربانی پیدا ہوں اور اس وجہ سے دینی علوم کی تدریس کے لئے ایک الگ شاخ تعلیم الاسلام سکول میں قائم کی گئی تھی، لہذا اس غرض کو با حسن پورا کرنے کے لئے ایک باقاعدہ علیحدہ درس گاہ کا قیام زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے.اس غرض سے آپ نے ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی جو حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نواب محمد علی خان صاحب مولوی محمد علی صاحب اور مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب پر مشتمل تھی.اس سب کمیٹی کے سپرد اس نئے دینی مدرسہ کے لئے قواعد وضوابط اور لائحہ عمل تجویز کرنے کے علاوہ جملہ اخراجات کے لئے رویے کا انتظام کرنا بھی تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب اور بعض دوسرے احباب نے حضور کی اس تجویز کو پورے زور اور بڑی وضاحت کے ساتھ جماعت کے سامنے پیش کیا اور لکھا کہ یہ مدرسہ دنیا میں اشاعت اسلام کا ایک بھاری ذریعہ ہوگا اور اس کے چلانے کے لئے موزوں عمارت اور بہترین لائبریری کا ہونا ضروری ہے.لے ذرا زمانہ کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے کہ وہی بزرگان جو کل تک اس نوجوان کو انگریزیت کا طعنہ دے کر تعلیم الاسلام سکول کو بند کر دینے کے مشورے دے رہے تھے اس واقعہ کے چند سال بعد ہی نیرنگ زمانہ سے ایسے بدلے کہ اب اس نوجوان کی محض اس بنا پر مخالفت کرنے لگے کہ یہ ایک خالص دینی مدرسہ کے قیام کے لئے کوشاں ہے.چنانچہ ۱۵ر نومبر شاہ کو صدر انجمن احمدیہ کا ایک اجلاس لاہور میں جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان پر منعقدہ ہوا.اس اجلاس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو جو انجمن کے ممبر بلکہ میر مجلس تھے مدعو نہیں کیا گیا.بہر حال صدر انجمن نے اپنے اس اجلاس میں بلا کسی خاص وجہ کے اپنے سابقہ فیصلہ کے بالکل بر عکس یہ ریڈ یوشن پاس کیا کہ اس مجلس کی رائے میں عربی مدرسہ کے لئے بغیر وظیفہ کے طالب علموں کا ملنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور اس طرح پر مقصد دینی مدرسہ کا حاصل نہیں ہو سکتا، بہتر معلوم ہوتا ہے کہ احمدی طلبا کو اعلیٰ درجہ کی مروجہ تعلیم وظائف دے کر دلائی جائے یا ان کو خاص طور پر ڈاکٹری کے لئے تیار کیا جاوے...وغیرہ وغیرہ حسب قرار داد به معامله ۲۶ دسمبر تہ بوقت شب انجمن ہائے احمدیہ کی کانفرنس کے بدر مادیان ۱۸ رجون نشد، تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۲۳

Page 326

F16 اجلاس میں پیش کیا گیا.کانفرنس کے اس اجلاس کی اطلاع بھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نہیں دی گئی.خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسید محمد حسین شاہ صاحب نے اجلاس سے خطاب کیا اور انجمن کے ۵ار نومبر کے فیصلہ کی پُر جوش رنگ میں وکالت کی.اور یہ تجویز پیش کی کہ تعلیمی وظائف بڑھا دیتے جائیں تا احمدی نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں کالجوں میں جائیں اور پاس ہونے کے بعد ان میں سے جو دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کریں، انہیں ایک آدھ سال میں قرآن پڑھا کر مبلغ بنا دیا جائے.لے جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی تقریر خاص طور پر پُر جوش تھی.انہوں نے اپنی تقریر میں کہا : ہماری جماعت بڑی عقلمند ہے.وہ کسی چیز کا ضائع ہونا گوارا نہیں کر سکتی.چونکہ انگریزی دان مبلغ چاہیں اس لئے مدرسہ دینیہ پر اس قدر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں.اس مدرسہ کے ذریعہ جو مبلغ تیار ہوں گے دُنیا اُن کے متعلق یہی کہے گی کہ وہ روپیہ کی خاطر تبلیغ کر رہے ہیں.لیکن اگر ہم اپنے نو جوانوں کو کالج میں تعلیم دلوائیں، کوئی ڈاکٹر بن جائے کوئی وکیل بن جاتے، کوئی انجنیر بن جاتے، کوئی سائنس کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرے تو لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوگا.اور وہ کہیں گے کہ یہ کیسے اسلام کے جانثار خدام ہیں جو تنخواہ لئے بغیر تبلیغ اسلام کر رہے ہیں پس دینی تعلیم کا مدرسہ بند کر دیا جائے اور نوجوانوں کو کالجوں میں تعلیم دلوائی جائے.خواجہ صاحب کی اس پر خوش تقریر سے سامعین نے کافی اثر قبول کیا یہاں تک کہ بعید نہ تھا کہ اگر اس وقت رائے لی جاتی تو اکثر حاضرین مکرم خواجہ صاحب سے پوری طرح اتفاق کر جاتے.جس کا لازمی تیجہ یہ نکلتا کہ علیحدہ دینی مدرسہ کا قیام تو در کنار اسکول میں حضرت مسیح موعود عليه السلام کی جاری کردہ دیتی تدریس کی شاخ بھی بند کر دی جاتی لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا.عین اس وقت جب کہ خواجہ صاحب کی فصاحت و بلاغت اپنے عروج پر تھی اور آپ کی تقریر اپنے اثر کے منتہا تک پہنچ چکی تھی ، حضرت صاحبزادہ صاحب کسی سے صورت حال کا علم پا کر مجلس میں داخل ہوتے.جب حاضرین مجلس کا یہ رنگ دیکھا اور یہ محسوس کیا کہ ذہن پوری طرح خواجہ صاحب کے طلسم خطابت کے اسیر ہوتے جاتے الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۳۵

Page 327

PIA ہیں تو یک دفعہ آپ کو اس فکر سے اپنے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی دکھائی دی کہ اگر خدانخواستہ جماعت نے تدریس امور دینیہ کو بند کرنے کا فیصلہ دے دیا تو احمدیت کے مستقبل کا کیا بنے گا.بجلی کے گوندنے کی طرح یہ وہم آپ کے دل میں آیا اور گزند گیا اور اچانک الہی تصرف نے آپ کے دل و دماغ کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیا اور طبیعت ایک غیر معمولی قوت اور جوش سے بھر گئی.تب آپ نے کھڑے ہو کر بآواز بلند حاضرین مجلس سے کچھ بولنے کی اجازت طلب کی سوائے چند ایک کے سب نے بیک آواز کہا کہ ہاں، ہاں ! آپ ضرور ہو لئے.اس پر آپ نے بڑی متانت لیکن انتہائی درد انگیز مسجد میں اپنی تقریر کا یوں آغاز فرمایا : " آپ نے جو فیصلہ کیا ہے یہ آپ کے خیال میں ٹھیک ہوگا.مگر ایک چیز ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمارے کام آج ختم نہیں ہو جائیں گے.بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک ان کا اثر چلتا چلا جائے گا.اور دنیا کی نگاہیں ان پر ہوں گی اور اگر ہم کسی کام کو چھپانا بھی چاہیں گے تو وہ نہیں مجھے گا.بلکہ تاریخ کے صفحات پر ان واقعات کو نمایاں حروف میں لکھا جائے گا.اس نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار کیا.اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اسکا سردار مقر فرمایا.ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور سوائے مکہ اور مدینہ اور طائف کے سارے عرب میں بغاوت رونما ہو گئی.اس وقت بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقع پر اسامہ کا لشکر باہر بھیجنا درست نہیں کیونکہ ادھر سیارا عرب مخالف ہے.اُدھر عیسائیوں کی زبر دست حکومت سے لڑائی شروع کر دی گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی حکومت در نیم برہم ہو جائے گی.چنانچہ انہوں نے ایک وفد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ

Page 328

۳۱۹ کیا اور درخواست کی کہ یہ وقت سخت خطر ناک ہے.اگر اسامہ کا لشکر بھی عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے چلا گیا تو مدینہ میں صرف بچے اور بوڑھے رہ جائیں گے اور مسلمان عورتوں کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.اے ابوبکر! ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں.جب ہم انہیں دبا لیں گے تو پھر اسامہ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا جا سکتا ہے.اور چونکہ اسب سلمان عورتوں کی عزت اور عصمت کا سوال بھی پیدا ہو گیا ہے.اور خطرہ ہے کہ دشمن کہیں مدینہ میں گھس کر مسلمان عورتوں کی آبرو ریزی نہ کرے.اس لئے آپ ہماری اس التجا کو قبول فرماتے ہوئے جیش اسامہ کو روک لیں اور اسے باہر نہ جانے دیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی منکرانہ حالت کا اظہار کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو اپنے باپ سے نسبت دے کر بات کیا کرتے تھے.کیونکہ اُن کے باپ غریب آدمی تھے.اور چونکہ اُن کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا.اس لیئے اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ کیا ابو قحافہ کا بیٹا خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیه واله وسلّم نے جو آخری مہم تیار کی تھی اُسے روک دے؟ پھر آپ نے فرمایا.خدا کی قسم ! اگر کفار مدینہ کو فتح کرلیں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں گنتے گھسٹتے پھریں تب بھی اس تشکر کو نہیں روکوں گا جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا.یہ لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا.حضرت مسیح موعود علیه السلام کی وفات کے بعد آپ لوگوں کا بھی یہ پہلا اجتماع ہے.آپ لوگ غور کریں اور سوچیں کہ آئندہ تاریخ آپ کو کیا کہے گی.تاریخ یہ سکے گی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایسے خطرہ کی حالت میں جب کہ تمام عرب باغی ہو چکا تھا.اور جبکہ مدینہ کی

Page 329

عورتوں کی حفاظت کے لئے بھی کوئی مناسب سامان اُن کے پاس نہ تھا، اتنا بھی پسند نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تیار کہتے ہوئے لشکر کو وہ روک لیں.بلکہ آپ نے فرمایا کہ اگر مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسٹتے پھریں تب بھی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو منسوخ نہیں کروں گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے بر ۲ سال پہلے دسمبر شاہ کے جلسہ سالانہ پر تمام جماعت کے دوستوں سے مشورہ لینے کے بعد حین دینی مدرسہ کو قائم فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور مولوی بُرہان الدین صاحب جہلمی کی یادگار ہوگا اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے علما تیار کرنے کا کام اس کے سپرد ہو گا.اسے مسیح موعود کی جماعت نے آپ کے وفات پانے کے معا بعد توڑ کر رکھ دیا.کیونکہ جس طرح جیش اسامہ کی تیاری کا کام خود رسولِ کریم صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تھا، اسی طرح مدرسہ دینیات کا اجرا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آخری عمر میں فرمایا تھا.پس دنیا کیا کہے گی کہ ایک مامور کی وفات کے بعد تو اس کے متبعین نے اپنی عزتوں کا برباد ہونا پسند کر لیا مگر یہ برداشت نہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم باطل ہو.مگر دوسرے مامور کے متبعین نے با وجود اس کے کہ ان کے سامنے کوئی حقیقی خطرہ نہ تھا اس کے ایک جاری کردہ کام کو اس کی وفات کے معا بعد بند کر دیا ہائے آپ کے اس پر جوش اور روح پر در خطاب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جادو کا سا اثر کیا.اور لوگوں کے قلوب کو بیک دفعہ پلٹ کر رکھ دیا اور طبیعتوں میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگیا لبعض حاضرین کی فرط رقت سے چیخیں نکل گئیں.اور بکثرت پُر جوش آوازیں بلند ہوئے لیں کہ ہم حضرت صاحبزادہ ساب کی رائے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں اور ہرگز یہ رائے نہیں دیتے کہ مدرستہ دینہ بند کر دیا جائے.جناب سے ہیں اور یہ کہ بند دیا خواجہ کمال الدین صاحب نے جب مجلس کا یہ بدلا ہوا رنگ دیکھا تو کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ له تقریر جلسه سالانه ۲۰ دسمبر نشده ، تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۲۵

Page 330

ہم حضرت میاں صاحب کی رائے کے خلاف نہیں ہیں.دوستوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے.ہمارا مقصد تو یہ ہے کہ دوسرے پہلوؤں پر بھی غور کیا جائے.اور ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے.بعد میں خط و ر کتابت کے ذریعہ مشورہ حاصل کر کے مناسب فیصلہ کیا جائے گا.لیکن حاضرین نے خواجہ صاحب کے اس گریز کو کوئی وقعت نہ دی.اور اپنے فیصلہ پر قائم رہے.بایں ہمہ کچھ عرصہ بعد اس بارہ میں جماعتوں سے جب دوبارہ بھی رائے طلب کی گئی تو ہر جماعت نے یہیں لکھا کہ وہی فیصلہ درست تھا جو ہم قادیان میں کر آئے ہیں.اور ہرگز کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں.قصہ مختصر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی یہ شدید خواہش آخر یوری ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دینی تعلیم کے انتظام کا جو پیج اپنے مبارک ہاتھوں سے بویا تھا وہ ایک علیحدہ منفرد درخت کی صورت میں قائم ہو اور پھولے پھلے اور قیامت تک اس کے ٹھنڈے ساتے اور رنگ و بو اور پھولوں اور پھلوں سے نوع انسانی کو فائدہ پہنچتا ہے.اوائیل شن میں باقاعدہ اس مدرسہ کی بنیاد رکھ دی گئی اور نصاب کی تعیین و ترتیب کے لئے جو کمیٹی مقرر کی گئی اس میں بھی حضرت صاحبزادہ صاحب ممبر نا مرد کئے گئے.مدرسہ احمدیہ کی بہبود اور ترقی کے لئے مزید خدمات حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی منظوری سے نشہ میں مدرسہ احمدیہ کی نگرانی کی ذمہ داری بھی آپ ہی کو سونپ دی گئی.آپ کی اس نئی ذمہ داری سے قارئین کو مطلع کرتے ہوئے "اخبار الحکم رکھتا ہے :.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ اللہ حضرت خلیفہ المسیح منظلہ العالی کی زیر تربیت قوم کی بہترین امید ہو کر نشو و نما پارہے ہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے متعلق حضرت مسیح موعود و مغفور کو وعدہ دیا تھا ، اپنے کاموں سے اولوا الحرم ثابت ہو رہے ہیں اللهُم بِهِ : نَزِدْ مدرسہ احمدیہ کی نگرانی اور عمدہ انتظام کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد قبلہ سلمہ اللہ الاحد مدرسہ احمدیہ کے انسپکٹر مقرر ہوتے ہیں.صاحبزادہ صاحب کی توجہ مدرسہ احمدیہ کے لئے نہایت مفید اور

Page 331

مبارک ثابت ہونے کی خدا تعالیٰ کے فضل سے امید ہے یانہ کی مدیرہ الحکم کی یہ نیک اُمید کس شان سے پوری ہوئی تھی اس کا پورا اندازہ شاید اس نیک تمنا کا اظہار کرتے ہوتے خود راقم الحروف کو بھی نہ ہو.مدرسہ احمدیہ کا نگران بنتے ہی آپ نے بڑے انتہاک اور محنت اور حکمت اور دعاؤں کے ساتھ مدرسہ احمدیہ کا معیار بلند سے بلند تر کرنے کی کوششیں شروع کر دیں.اللہ تعالیٰ نے ان مخلصانہ کوششوں کو اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازا.اور یہ انتہائی مفید دینی درسگاہ جس نے مستقبل میں احمدیت کو اجل مذہبی راہنما مہیا کرتے تھے بہت جلد ایک بلند اور قابل رشک معیار تک پہنچ گئی.مدرسہ احمدیہ کے نگران کی حیثیت سے آپ کی شخصیت کا مطالعہ ہمیں آپ کی عظیم مربیانہ صلاحیتوں سے روشناس کرانے کا ایک عمدہ ذریعہ ثابت ہوتا ہے.ایس سلسلہ میں مدیر الحکم کے صاحبزادہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے قلم سے کھینچا ہوا ایک مختصہ خاکہ پڑھنے کے لائق ہے اور اس ضرب المثل کے مصداق ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے: مدرسہ ہائی کے ساتھ جب تک مدرسہ احمدیہ رہا' اس کی حالت بالکل ایک لاوارث چیز کی سی تھی.طالب علموں کے پاس پورے طور پر کمرے بھی نہ تھے.مدرسوں کے پاس اچھی کرسیاں تک نہ تھیں.بعض کلاسیں زمین پر چٹائیاں بچھا کر گزارہ کرتی تھیں.ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ نہ امتحان ہوا اور نہ کلاس بند ہوئی.بالکل لاوارتی کی سی حالت تھی.اس بےکسی کے زمانہ میں حضرت محمود مدرسہ احمدیہ کے لئے فرشتہ بن کر ظاہر ہوئے مدرسہ احمدیہ کی نظامت آپ کے سپرد ہوتی.وہ مدرسہ احمدیہ جس کی ڈوبتی کشتی ایک دفعہ آپ پہلے بچا چکے تھے اب آپ نے اسے اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا.آپ کا وجود مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک عیسم رحمت تھا.آپ نے پست خیال طالب علموں کے اندر علو ہمتی پیدا کرنے کے لئے متعدد طریق اختیار فرمائے.آپ نے حکما طالب علموں کو زمین پر بیٹھ کر پڑھنے سے منع فرمایا کیونکہ اس سے پست خیالی پیدا ہوتی ہے.طالب علموں کو فن خطابت سکھانے کے لئے جلسوں اور لیکچروں کا انتظام فرمایا.ہر جمعرات کو نصف ن الحکم ۲۸ متی شاه مت

Page 332

دن تعلیم ہوتی تھی اور باقی نصف وقت تعلیم خطابت ہوتی تھی.لڑکوں کے بورڈنگ ہاؤس کی صفائی کا خاص اہتمام ہونے لگا.ماہ میں ایک دفعہ لازماً آپ خود وقتاً فوقتاً تقریریں فرماتے اور اُن کو اُبھارتے.مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں کے لئے کھیلنے کے لئے کوئی الگ فیلڈ نہ تھی.آپ نے اُن کے لئے فیلڈوں کا انتظام کیا تا کہ آئندہ بننے والے علما تصرف ملاں ہی نہ ہوں بلکہ ہر طرح چاق و چوبند ہوں.مدرسہ بائی کے پاس تو ایک لائبریری تھی جس سے طالب علم فائدہ اٹھاتے تھے مگر مدرسہ احمدیہ کے پاس کوئی لائبریری نہ تھی.آپ نے اس ضرورت کو سخت محسوس کیا اور اپنی لائبریری سے قیمتی کتابوں کا ایک بڑا مجموعہ جس میں السلان مصر کے پرچے بھی تھے مرحمت فرمایا.اور مزید روپیہ بھی انجمن سے منظور کروایا.طالب علم عربی کتابوں کو پڑھتے تھے اور فائدہ اُٹھاتے تھے.آپ نے مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت کو اپنے لئے مخصوص کر لیا اور روزانہ تین چار گھنٹے اپنا وقت دیتے تھے.میں بھی اس کلاس کا طالب علم تھا اور اپنے بخت پر تحر کرتا ہوں کہ مجھے بھی آپ سے نسبت تلمذ حاصل ہے.آپ اپنی کلاس کے طالب علموں کی ہر طرح سے تربیت فرماتے تھے.یہ مدرسہ احمدیہ کا موضوع بہت لمبا ہے سر دست اختصار سے اس قدر لکھتا ہوں کہ تعض طالب علم مدرسہ میں گرفتہ پہن کر آجاتے تھے.ایک دفعہ آپ نے ترجمہ میں ایک فقرہ دیا.جو یہ تھا : مدرسہ میں بغیر کوٹ پہنے نہیں آنا چاہتے.اس فقرہ سے سب لڑکے سمجھ گئے کہ آپ کیا چاہتے ہیں.دوسرے دن لڑکے کوٹ پہن کر آگئے.تربیت کا یہ ایک عجیب پہلو تھا.ایک دن سکول میں آپ دیر سے تشریف لائے.لڑکے با ہم ہنسی مذاق کرنے لگے.اسی حالت میں آپ تشریف لے آئے.آپ نے اس وقت تو کچھ نہ فرمایا تیسرے دن اُردو سے عربی کرنے کا جب کام دیا تو حسب ذیل فقرات اس میں درج تھے :-

Page 333

ہنسی مذاق بُری چیز نہیں ۲.مگر کھیل کھیل کے وقت کھیلو.- مدرسہ میں جب آؤ ایک دوسرے کا ادب کرد.کم.دھکم دھکا مت ہو.۵.کسی کے کندھے پر ہاتھ مت رکھو.لڑکوں نے عربی میں ترجمہ تو کیا مگر اس کے ساتھ ہی اپنی اصلاح کرلی.رات کو آپ لڑکوں کو سٹڈی کی حالت میں دیکھنے کے لئے تشریف لاتے.الغرض مدرسہ احمدیہ آپ کی پوری توجہ سے بڑھتا چلا گیا اور سلسلہ میں جس قدر کام کرنے والے علما - آج نظر آتے ہیں وہ آپ کی توجہ اور محنت کا نتیجہ ہیں " سے I'" آپ کی سیرت سے متعلق ایک غیر از جماعت صحافی کے تاثرات ۱۹۱۳ مارچ 12 ء میں ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب امرتسر سے قادیان آئے اور چند دن قیام کر کے واپس چلے گئے.انہوں نے جماعت کا نہایت قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تاثرات پر ایک تفصیلی بیان دیا.اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے متعلق لکھا :- "(حضرت) صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مل کر ہمیں از جد مسرت ہوتی.صاحبزادہ صاحب نہایت ہی خلیق اور سادگی پسند انسان ہیں.علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم و مدیر بھی ہیں.علاوہ دیگر باتوں کے جو گفت گو صاحبزادہ صاحب موصوف اور میرے درمیان ہندوستان کے مستقبل پر ہوئی اس کے متعلق صاحبزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانہ ماضی کے واقعات کی بنا پر ظاہر فرمائی وہ نہایت ہی زیر دست مدیرانہ پہلو لئے ہوئے تھی.صاحبزادہ صاحب نے مجھ سے از راہ نوازش بہت کچھ مخلصانہ پیرایہ میںیہ خواہش ظاہر فرمائی کہ میںکم از کم ایک ہفتہ قادیان میں رہوں.اگرچہ بوجوہ چند در چند میں ان کے ارشاد کی تعمیل سے قاصر رہا.مگر صاحبزادہ صاحب کی اس بلند نظر نہ مہربانی نظران و شفقت کا از حد مشکور ہوں.صاجزادہ صاحب کا زہد و تقویٰ اور ان کی وسعت خیالانہ سادگی ہمیشہ یاد رہے گی " کے سے الحکم جوبلی نمبر دسمبر لانه صداے که تاریخ احمدیت جلدم من اهم

Page 334

باب پنجم عہد خلافت اولی کے آخری ایام خلافت ثانیہ کا قیام انکار خلافت کا فتنہ اور اس کی مختلف اشکال

Page 335

回 回 عہد خلافت اُولیٰ کے آخری ایام - حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات - اور خلافت ثانیہ کا قیام - انکار خلافت کا فتنہ اور اس کی مختلف اشکال - امارم وقت پر آمریت کا الزام - پہلے امام یا خلیفہ کی مخالفت کا الزام - قومی اموال میں غلط تصرف کا الزام.یہ اعتراض کہ حق حقدار کو نہیں پہنچا بلکہ کمتر شخص کو اختیار کر لیا گیا ہے.- جزئی فضیلت کی بخشیں یا نفاق کا چور دروازہ.خلیفہ وقت کی غلطیوں کی نشاندہی اور اُن کے چرچے.اپنی پسند کے آدمیوں کو مسلط کرنے کا الزام.بڑھاپے اور کمزوری صحت کے باعث نا اہلی کا الزام.ایک چاند کے بعد دوسرا چاند.

Page 336

الم سكر عہد خلافت اُولیٰ کے آخری ایام 1411 حضرت خلیفہ المسج حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ اوائل لہ میں ایک مرتبہ گھوڑے سے گر کر شدید زخمی ہوتے تھے اور ایک لمبا عرصہ صاحب فراش رہنے کے بعد گو بڑی ہمت اور پامردی کے ساتھ خلافت کی عظیم ذمہ داریوں کی سرانجام دہی میں پہلے کی طرح تن دہی سے مصروف ہو گئے، لیکن آپ کی صحت پر اس حادثہ کے بداثرات بہت گہرے اور دیر پا ثابت ہوئے اور عملاً آپ کے جسم کو اس تکلیف نے ڈھال اور کھلکا کردیا تھا چنانچہ حضور کی یہ عادت تھی کہ اپنی جسمانی تکالیف کا ذکر کریں لیکن جب کبھی کسی طبقہ سے دُکھ پہنچتا تھا تو ان کی دلآزار باتوں پر بطور شکوہ یہ فرما دیا کرتے تھے کہ میں انتہائی تکلیف اور جسمانی آنهاد کے با وجود محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر تم لوگوں کی بہبود کے لئے اس حد تک کوشاں ہوں کہ دعائیں کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نباہ رہا ہوں.لہذا تمہیں یہی خیال کر کے ایسی باتوں سے پر ہیز کرنا لازم تھا جن سے مجھے دکھ پہنچے.بہر حال اس بڑھاپے میں آپ نے بڑی جسمانی سختی اور تکلیف اُٹھا کر بھی اپنے جسم کو خدمت دین کے لئے مسخر کئے رکھا.کے جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ طبیعت کی خرابی کے با وجود احباب جماعت کی دلداری کی خاطر تقریر کے لئے تشریف لے آئے لیکن ابھی چند ہی کلمات فرماتے تھے کہ اچانک بیماری اتنی بڑھ گئی نہ ؟ ی که مرید شهر ناممکن نہ رہا.ایک ہی ماہ بعد یعنی جنوری 19ء میں رات بستر سے اُٹھنے پر چکر آیا اور سینے کے بل زمین پر گرنے سے ایک مرتبہ پھر شدید ضربات پہنچیں اور ہلکی حرارت اور قے کے عارضے لاحق ہو گئے یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور اور صاحب فراش ہو گئے.اس حالت میں بھی جب ذرا طاقت محسوس فرماتے بستر پر لیٹے لیٹے ہی قرآن کریم کا درس دیتے.جماعت کے مخلصین پر آپ کی اس بیماری کا جو بعد میں مرض الموت ثابت ہوئی ، بہت گہرا اثر تھا.ذہن پریشان اور فکر مند تھے اور دل اپنے محبوب آقا کی تکلیف سے پکھلے جاتے تھے.ایسے نازک وقتوں میں عموماً اختلافات اگر میٹ نہیں سکتے تو وقتی طور پر بھلا دیئے جاتے ہیں اور خشیت انہی دلوں کو نرم کرتی اور بھائیوں کی تقصیرات کو معاف کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے.جماعت پہلے سے بھی بڑھ کر دعاؤں اور ذکر الہی

Page 337

میں مصروف تھی.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے محبت اور آپ کی تکلیف کے احساس سے دلوں کی یہ کیفیت تھی کہ انہی ایام میں جب ایک مرتبہ آپ نے درس قرآن دیا تو آپ کے لہجہ کی درد انگیزی سے متاثر ہو کر سُنے والے بے اختیار رو پڑے اور بعض کمزور طبائع رکھنے والے سامعین کی تو فرط درد سے چیخیں نکل گئیں.آپ کے اس درس میں ایک گونا وصیت کا رنگ پایا جاتا تھا جس سے سامعین پر یہ تاثر پڑ نا قدرتی امر تھا کہ ان کا محبوب امام اُن سے جُدا ہونے کو ہے.افسوس ہے کہ ایسے وقت میں بھی منکرین خلافت اپنی سعی مذموم سے باز نہ آئے بلکہ اس بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور یہ یقین کر کے کہ اب یہ صاحب جلال بزرگ کبھی منبر رسول پر تھڑا ہو کر اُن کے فتنوں کی مذمت اور اُن کے فاسد خیالات کی بیخ کنی نہیں کر سکے گا پہلے سے بھی بڑھ کر اپنی کوششوں میں تیز ہو گئے.ایک طرف تو اُن کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ جماعت کہیں مستقلاً ہی نظام خلافت کو اپنا نہ لے اور اُن کے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں کہ خلیفہ ایسیح کی وفات کے بعد آخر انہی کی بادشاہی کے دن آئیں گے.دوسری طرف یہ فکر دامنگیر تھا کہ اگر جماعت نے نفلم خلافت کو اپنا نا ہی ہے تو مبادا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نیا امام منتخب کرے.اس دوہری تکلیف کا تصور اُن کے لئے سوہان روح بنا ہو ا تھا.اور طبیعتیں اس امکان کے بنا خلاف سیخ پا ہوئیں اور سرکشی کرتی تھیں.چنانچہ انہی خدشات اور توہمات میں غلطاں ایک طرف تو انہوں نے سرے سے خلافت کے نظام کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھارکھا تھا اور زبانی چہ میگوئیوں اور گمنام ٹریکٹوں کے ذریعے جماعت کو خلافت سے برگشتہ کرنے کی کوششیں تیز سے تیز تر کردی گئی تھیں.دوسری طرف اس امکان کی پیش بندی کے لئے بھی سکیم بنائی جارہی تھی کہ اگر خلیفہ بنا ہی ہے تو حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احد صاحب خلیفہ نہ ہوں.چنانچہ آپ پر کسی قسم کے ذاتی حملے کرکے آپ کو بدنام کرنے کی بنت نئی راہیں تجویز کی جاتیں اور جماعت کی نظر میں آپ کا مقام گرانے کی ہر ممکن سعی کی جاتی.یہ سب کچھ ہوا لیکن احباب جماعت کے قلوب میں آپ کی محبت بڑھتی ہی رہی اور ہر طرف آپ کے خلوص، آپ کے تقویٰ آپ کے دینی کاموں میں انہماک اور آپ کے علم و معرفت اور صدق و صفا کے چرچے ہونے لگے.یہ حالات منکرین خلافت کے لئے سخت تشویشناک تھے.اُن کے توہمات کی نوعیت اور تشویش کی شدت کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے پاس تشریف لاتے اور فرمایا :-

Page 338

۳۲۹ ایک مشورہ کرنا ہے آپ ذرا مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر تشریف لے چلیں.آپ کے نانا جناب میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں ملوایا گیا تھا.جب آپ وہاں پہنچے تو مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب مولوی صدر الدین صاحب اور ایک دو آدمی وہاں پہلے سے موجود تھے.خواجہ صاحب نے ذکر شروع کیا کہ آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بہت ناسانہ اور کمزور ہے.ہم لوگ یہاں ٹھہر تو سکتے نہیں.لاہور واپس جانا ہمارے لئے ضروری ہے ہیں اس وقت دوپہر کو جو آپ کو تکلیف دی ہے تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ کوئی ایسی بات طے ہو جائے کہ فتنہ نہ ہو اور ہم لوگ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں ہے اور مولوی محمد علی صاحب بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں.اس پر مولوی محمد علی صاحب بولے کہ مجھے بھی ہرگز خواہش نہیں.اس کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم بھی آپ کے سوا خلافت کے قابل کسی کو نہیں دیکھتے اور ہم نے اس امر کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن آپ ایک بات کریں کہ خلافت کا فیصلہ اسوقت تک نہ ہونے دیں جب تک ہم لاہور سے نہ آجا دیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص جلد بازی کرے اور پیچھے فساد ہو.ہمارا انتظار ضرور کر لیا جاوے.میر صاحب نے تو اُن کو یہ جواب دیا کہ ہاں جماعت میں فساد مٹانے کے لئے کوئی تجویز ضرور کرنی چاہیے مگر حضرت صاحبزادہ صاحب نے جن کو یکش کی گنتی تھی ، اس وقت کی ذمہ داری کو محسوس کر لیا اور صحابہ کا طریق آپ کے سامنے آگیا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لئے ہی کیوں نہ ہو نا جائز ہے.پس آپ نے اُن کو یہ جواب دیا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں اس کے جانشین کے متعلق تعیین کر دینی اور فیصلہ کر دینا کہ اس کے بعد فلاں شخص خلیفہ ہوا گناہ ہے.میں تو اس امر میں کلام کرنے کو ہی گناہ سمجھتا ہوں ے آئینہ صداقت ص۱۳۶

Page 339

جہ اکیلا ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ان لوگوں کی کوششیں تقوی اللہ پر مبنی نہ تھیں کیونکہ اگر یہ خلافت کے نظام کے سرے سے قاتل ہی نہ تھے یا کم از کم ایک دفعہ اسے تسلیم کرنے کے بعد اس سے برگشتہ ہو چکے تھے تو اُن کو کسی بھی اخلاقی معیار کی رو سے یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ بعض دوسرے لوگوں پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کریں کہ دراصل وہ بھی خلیفہ مسیح الادل کے بعد ایک دوسرے خلیفہ کے انتخاب کے حق میں ہیں صرف جلد بازی کے فیصلہ سے ڈرتے ہیں.چونکہ انکار خلافت کی تحریک کے بانی مبانی لاہور سے تعلق رکھے تھے اور لاہور ہی سے شائع ہونے والے گمنام مریکیوں کے ذریعہ جماعت کو نظام خلافت سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کی جاتی تھیں حضرت خلیفہ المسیح الاول کو وصال سے دو ہفتہ قبل جب اسی قماش کے ایک ٹریکٹ بعنوان اظہار الحق کے مضمون سے آگاہ کیا گیا تو حضور نے اس بارہ میں بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ガ لاہور کو جانتا نہیں ؟ وہ ایسا قصبہ ہے کہ جہاں سے مجھ کو ایسے بڑھاپے میں اس قدر تکلیف پہنچی ہے.میرا دل جلایا گیا.میں اس وقت بوڑھا ہوں کیا یہ مجھ کو دُکھ دینے اور تکلیف دینے کا وقت تھا ؟ یہ تو مجھ سے محبت کرنے کا وقت تھا.مجھے اس وقت راضی کرنا چاہیئے تھا.پھر فرمایا وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کر دیا ہے، غلط ہے.مجھے کیا علم ہے کہ کون خلیفہ ہوگا اور کیا ہو گا.کون خلیفہ بنے گا یا مجھ سے بہتر خلیفہ ہوگا ؟ میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا.میں کسی کو خلیفہ نہیں بناتا میرا یہ کام نہیں.خلیفے اللہ ہی بناتا ہے.میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا.لے حضور کے اس ارشاد میں یہ فقرہ کہ وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کر دیا ہے غلط ہے ایک گذشتہ واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ا ء میں جب آپ گھوڑے سے گر کر شدید خمی ہوئے تو اس حالت کے قریباً بیس روز بعد آپ نے وصیت پر مشتمل دو لفافے اپنے ایک شاگرد شیخ تیمور ای کے سپرد فرماتے تھے.ان میں سے ایک کا مضمون تو شیخ تیمور سے بھی خفیہ رکھا گیا.لیکن کا غذ پر جو تحریر تھی وہ شیخ صاحب کو دکھا دی گئی اور اُن سے بھی اسی کا غذ پر کچھ لکھوایا گیا تھا.گو بعد ازاں صحت بحال ہونے پر آپ نے اس وصیت کو کسی پر مضمون ظاہر فرمائے بغیر تلف فرما دیا تھا لیکن اس کے متعلق بعض دوستوں کا یہ کہنا تھا کہ اس میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاب - سے الحکم ۲۸ فروری ۱۹۱۳ء

Page 340

و خلیفہ مقر کرنے کی وصیت تھی.مکرم جناب مولوی محمد علی صاحب کا بھی اس بارہ میں یہی نظریہ تھا چنانچہ آپ لکھتے ہیں :- اپنی پہلی بیماری میں یعنی 10 ء میں جو وصیت آپ نے لکھوائی تھی اور جو بند کر کے ایک خاص معتبر کے سپرد کی تھی، اس کے متعلق معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں آپ نے اپنے بعد خلیفہ ہونے کے لئے میاں صاحب کا نام لکھا تھا.یہ وصیت بعد میں بند کی بند ضائع کر دی گئی ہے - ۲۷ فروری کو آپ آب و ہوا اور ماحول کی تبدیلی کی غرض سے شہر سے یا ہر نواب محمد علی 19 خان صاحب کی کو بھی " دار السلام" میں تشریف لے گئے.آپ کے خاندان اور آنے جانے والے مہمانوں کے لئے بھی کو بھٹی میں ہی رہائش اور کھانے وغیرہ کا انتظام کیا گیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آپ کی بیماری کے پیش نظر سخت فکر مند تھے اور تیمار داری اور خدمت کی خاطر شب و روز حاضر اور مستعد رہتے تھے.ہم رمارچ کو نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی طبیعت سخت خراب ہو گئی اور بے حد ضعف محسوس ہونے لگا.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب پاس بیٹھے تھے.انہیں فرمایا قلم دوات اور کا غمزے آئیں.آپ نے لیٹے لیٹے کاغذ ہاتھ میں لیا اور مندرجہ ذیل وصیت لکھی : بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِه نَحْمَدُهُ وَنَصَلَى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمَ وَالِهِ مَعَ الشَّيْلِيم خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے لا اله الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ - میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر مال نہیں ان کا اللہ حافظ ہے.انکی پر درش نیامی و مساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جاوے.لائق لڑکے ادا کریں یا کتب، جائداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین منتقی ہو ہر دلعزیز عالم با عمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی در گذر کو کام میں لا دے.میں سب کا خیر خواہ تھا.وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام " به وضعیت لکھ کر حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا کہ دو سنا دیں.چنانچہ انہوں نے بآواز بلند پڑھ کر سنا دی.پھر ارشاد فرمایا تین مرتبہ پڑھ کرشنا دو.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.ن الحکم / مارچ ۱۹۱۴ نے حقیقت اختلاف ص 1915

Page 341

۳۳۲ رض اس کے بعد آپ نے فرمایا کوئی اور ضروری امرا گر رہ گیا ہو تو بتا دیں میں لکھ دوں.حاضرین نے عرض کیا : کوئی ضروری امر باقی نہیں رہا.یہ سماں بڑا رقت آمیز اور درد و کرب سے پر تھا.وصیت سنائی جانے کے بعد فرمایا : یہ نواب صاحب کے سپرد کر دو وہ اسے محفوظ رکھیں.چنانچہ مولوی محمد علی : صاحب نے اصل کا غذ نواب صاحب کے سپرد کر دیا.نواب صاحب نے دستخط کیلئے یہ کاغذ حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے اس پر دستخط کئے.اس کے علاوہ مولوی محمد علی صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور نواب محمد علی خان صاحب نے بھی بطور گواہ اس وصیت پر دستخط کئے.لیکن افسوس کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی الله عنه کی اس واضح اور غیر مبہم وصیت کے باوجود کہ آپ کے بعد کسی متقی فرد کو آپ کا جانشین منتخب کیا جائے (نہ کہ چند افراد پر مشتمل کسی انجمن کو) اور باوجود اس کے کہ نہایت حکیمانہ رنگ میں حضرت خلیفہ المسیح نے اس وصیت کو سُنانے کے لئے جناب مولانا محمد علی صاحب ہی کو منتخب فرمایا اور پھر مولانا کوم تین بار ان سے وصیت پڑھا کر سنوائی.نہ تو مولانا کے ارادوں میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی نہ اُن کے ہم خیال اور زیر اثر احباب کے طرز عمل کی کوئی اصلاح ہوتی.گویا سرپنچوں کا کہا سر آنکھوں پر تھا لیکن...حضرت صاحبزادہ صاحب نے جب یہ حالات دیکھے تو سخت فکرمند ہوئے اور اس مضمون کا ایک اشتہار لکھ کر شائع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ اب جبکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہیں مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی اختلافی بھییں کریں.اس کا انجام فتنہ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ حضور کو شفا عطا فرمائے اور آپ خود ان بحثوں کی نگرانی کر سکیں نہ کچھ لکھا جائے اور نہ زبانی گفتگو کی جائے.آپ نے اشتہار کا مسودہ مولوی محمد علی صاحب کو بھیجا کہ اگر انہیں اس تجویز سے اتفاق ہو تو وہ بھی اس پر دستخط کر دیں تا ہر قسم کے خیالات کے لوگوں پر اس کا اثر ہو اور ساری جماعت فتنہ سے محفوظ ہو جائے لیکن مولوی محمد علی صاحب نے اس اشتہار پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور کا ا اور مذریہ پیش فرمایا کہ چونکہ اس اختلاف سے عام طور پر لوگ واقف نہیں اس لئے ان حالات میں یہ اشتہار ٹھیک نہیں.ایسا اشتہار شائع کرنے سے دشمنوں کو جماعت کے اندرونی اختلاف سے واقفیت ہوگی اور انہیں ہنسی کا موقع ملے گا.اس کی بجائے بہتر صورت یہ ہے کہ قادیان کے لوگوں کو جمع کیا جائے اور اس میں آپ اور میں تقریر کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ اختلافی مسائل پر گفتگو ترک کر دیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کا مقصد چونکہ اتحاد و اتفاق تھا اس لیئے آپ نے مولوی صاحب کی تجویز مان لی اور اشتہار شائع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.چنانچہ اس تجویز کے مطابق لوگ مسجد نور میں

Page 342

جمع ہوئے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اتحاد و اتفاق سے رہنے اور اس نازک موقع پر اختلافی بخشیں ترک کر دینے کی تلقین فرمائی.اس کے بعد مولانا محمد علی صاحب نے اس موضوع پر پُر زور خطاب فرمایا کہ اُنکے ہم خیال دوستوں کی اور اُن کے نظریات کی مذمت کرنے والے لوگ باز آجائیں.ورنہ فتنہ پیدا ہوگا.چنانچہ اس رنگ میں جناب مولانا صاحب مرحوم وہ سب کچھ کہہ گئے جس کے نہ کہنے کی تاکید کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا گیا تھا.اس قسم کی بخشیں صرف قادیان تک محدود نہ تھیں بلکہ با قاعدہ مہم کی صورت میں نمائندگان کو بھیجوا کر مختلف جماعتوں میں نظام خلافت کے خلاف پراپیگنڈہ کروایا جار ہا تھا اور جہاں جہاں مولانا محمد علی صاب کے ہم خیال دوست موجود تھے وہ کسی نہ کسی رنگ میں ضرور یہ مسئلہ چھیڑ دیتے تھے.مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ان دنوں انگلستان میں تھے.اس بارہ میں آپ کی ایک روایت بھی پڑھنے - سے تعلق رکھتی ہے :- یر میں خواجہ کمال الدین صاحب لندن تشریف لاتے...تھوڑے عرصہ بعد خواجہ صاحب اس مکان میں آگئے جس میں میں رہتا تھا اور مجھے روزانہ کچھ وقت اُن کی صحبت میں گزارنے کا موقع مل گیا.دوران گفتگو سلسلہ احمدیہ کا ذکر بھی آتا تھا.ایک دفعہ ہم دونوں سیر کے لئے جارہے تھے کہ فرمایا " نور الدین کے بعد خلافت کے متعلق بھی رولا ہی پڑے گا گفتگو پنجابی زبان میں تھی اور محبت کے رنگ میں خواجہ صاحب اکثر خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا نام اسی بے تکلفی سے لیتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بعض دفعہ صرف مرزا " کہ کر کرتے تھے ).میاں محمود ابھی بچہ ہے.محمد علی بہت حساس ہے.بات بات پر روپڑتا ہے.اور میں ہوں لیکن مجھ میں یہ نقص ہے کہ میں سچی بات منہ پر کہہ دیتا ہوں.مجھ سے لوگ خفا ہو جاتے ہیں " میں نے عرض کیا " خواجہ صاحب ! خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ المیسے اپنی لاہور کی تقریر میں بہت کچھ وضاحت فرما چکے ہیں آپ کیوں فکر کرتے ہیں.وقت آنے پر اللہ تعالیٰ جسے پسند فرماتے گا کھڑا کر دے گا اس پر فرمایا " یہ مفتی صادق کم بخت ہمارے خلاف سب کچھ شائع کر دیتا ہے.ہمارے حق کی کوئی بات نہیں لکھتا ہے تحدیث نعمت صد ۵ام ۴۶۰

Page 343

کم ۲۳۳ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات اور خلافت ثانیہ کا قیام..۱۳ مارچ ۹۷ جمعہ کا دن تھا حسب سابق آپ نے صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو خطبہ دینے کا ارشاد فرمایا جمعہ سے کچھ دیر پہلے اچانک آپ کی طبیعت کرنے لگی.اکثر دوست جمعہ کیلئے مسجد اقصی میں جاچکے تھے.آپ نے ساعت وصال قریب دیکھ کر اپنے صاحبزادہ عبدالحی کو بلوایا اور حسب ذیل الفاظ میں الوداع کہی : ANTENN إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ پر میرا ایمان رہا اور اس پر مرتا ہوں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ کو میں اچھا سمجھتا ہوں.اس کے بعد میں حضرت امام بخاری کی کتاب کو خدا کی پسندیدہ سمجھتا ہوں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگزیدہ انسان سمجھتا ہوں.مجھے اُن سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے اُن کی اولاد سے کی تم سے نہیں کی.قوم کو خدا کے سپر دکرتا ہوں اور مجھے اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا.تم کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کی کتاب کو پڑھنا پڑھانا اور عمل کرنا میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہ دیکھی.بے شک یہ خدا کی کتاب ہے.باقی خدا کے سپر د میله اسی طرح اپنی صاحبزادی امتہ الحی کو پیغام دیا کہ وہ میرے مرنے کے بعد میاں صاحب سے کہہ دیں کہ عورتوں میں بھی درس دیا کریں میٹھے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات بین جمعہ کے وقت ہوئی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کرہ دار السلام جانے سے پہلے کچھ دیر کے لئے اپنے گھر تشریف لے گئے تو اچانک حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا ملازم گھبرایا ہوا پہنچا کہ نواب صاحب نے گھوڑا گاڑی بھیجی ہے، فوراً تشریف نے آئیں.چنانچہ آپ اسی وقت گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہو گئے لیکن ابھی راستہ ہی میں تھے کہ ایک دوسرا ملازم دور تا ہوا آیا اور حضرت خلیفہ المسیح الاوں رضی اللہ عنہ کے وصال کی اندوہناک خبردی ان الله و انا الیه راجعون - آپ کو بھی پہنچتے ہی اپنے نہایت مشفق استاد اور مہربان آقا کی نعش مبارک کے پاس پہنچے.اس سراپا نور مقدس وجود کا چہرہ دیکھا.انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر فرمایا.طبت حيا وميتا.اور بڑے الحاج سے آپ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرنے کے بعد باہر دوستوں کے مجمع میں تشریف لے آئے له الحكم ۲ در تاریخ ۱۱ 1910 له الفضل ١٨ مارچ ۹۱

Page 344

۳۳۵ یا ہر دوستوں کا غم سے برا حال ہوا جاتا تھا.جس نے بھی یہ خبر سُنی پریشان حال دوڑتا ہوا دار السلام پہنچا.چنانچہ بہت جلد غمزدہ مخلصین کی ایک بھاری تعداد کو بھی کے وسیع و عریض بیرونی صحن میں جمع ہو گئی.اسی حالت میں نماز عصر کا وقت ہو گیا اور سب احباب نماز کے لئے مسجد نور میں جمع ہو گئے.نماز کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مختصر تقریر فرمائی اور فرمایا کہ یہ ایک نازک وقت ہے اور جماعت کے لئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی در پیش ہے سب لوگ گریہ وزاری کے ساتھ اپنے خدا کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اس اندھیرے وقت میں جماعت کے لئے روشنی پیدا فرمائے اور نہیں ہر رنگ میں ٹھوکر سے بچا کر اس راستہ پر ڈال دیے جو جماعت کے لئے بہتر اور مبارک ہے.جن لوگوں کو طاقت ہو وہ کل ہفتہ کے دن روزہ رکھیں تاکہ راست کی نمازوں اور دعاؤں کے ساتھ کل کا دن بھی دُعا اور ذکر الہی میں گزرے.اس تقریر نے سکینت اور تسلی کی ایک لہردلوں میں دوڑا دی اور سبھی اپنے خدا کے حضور جھلکتے اور اُسی سے فضل کی التجا کرتے ہوئے عاجزانہ دعاؤں میں لگ گئے.ادھر شمع خلافت کے پروانوں کی یہ حالت تھی اُدھر مہنگرین خلافت کا یہ حال تھا کہ وصال کی خبر سُنتے ہی مختلف جماعتوں میں کارندے دوڑا دیئے تاکہ تمام جماعتوں میں فوری طور پر ایک ایسا رسالہ تقسیم کر دیا جائے جو انکارِ خلافت سے متعلق پراپیگنڈے پرمشتمل تھا.اور جو پہلے ہی سے تصنیف اور طبع ہو کر اس انتظار میں تیار پڑا تھا کہ جو نہی حضرت خلیفہ المسیح کا وصال ہوا پہلے سے مقرر کردہ کارکنان ان رسالوں کو لے اورمیں اور تمام جماعتوں میں تقسیم کر دیں.یہ رسالہ میں اکیس صفحات کا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے البتہ غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ اول کی وصیت کے احترام میں کسی شخص کو بطور امیر مقرر کیا جاسکتا ہے مگر یہ شخص جانت یا صدر انجمن کا مطارع نہیں ہو گا بلکہ اس کی امارت محدود اور مشروط ہوگی.** اس رسالہ میں طرح طرح سے جماعت کو ابھارا گیا تھا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلافت پر رضا مند نہ ہو.اس رسالہ کی اشاعت کی خبر بہت جلد قادیان میں پھیل گئی جس سے سوگوار مخلصین کی تشویش میں مزید اضافہ ہونا ایک طبیعی امر تھا.مکرم مولانا محمد علی صاحب کے اس خطرناک اقدام کا وسیع پیمانے پر فوری تدارک کرنا تو ان حالات میں بہت مشکل تھا.لیکن بالکل خاموش رہنا بھی خطرات سے خالی نہ تھا.اس لئے قادیان میں حاضر الوقت احمدیوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے غلامان خلافت کی طرف سے ایک مختصر نوٹ تیار کیا گیا جس کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں اسلام کی تعلیم اور حضرت

Page 345

مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق خلافت کا نظام ضرور کی ہے اور جس طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جماعت کے مطاع تھے اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہوگا.اس نوٹ پر حاضر الوقت لوگوں سے دستخط لئے گئے تاکہ یہ اس بات کا ثبوت ہو کہ جماعت کی اکثریت نظام خلافت کے حق میں ہے.حالات بڑی تیزی سے نازک تر ہوتے جارہے تھے اور جو آتشیں مادہ مدت سے اُبل رہا تھا، اب پھٹ پڑنے کو تھا.اس صورتحال کے تدارک کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے باہمی سمجھوتے کے لئے ایک آخری کوشش ضروری کبھی.چنانچہ فریقین کے چند زعما.اس غرض کے لئے نواب محمد علی خان صاحب کی کو بھٹی میں جمع ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف سے یہ امر پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا کہ اس وقت سوال اصول کا ہے کسی کی ذات کا نہیں.اگر آپ لوگ خلافت کے اصول کو تسلیم کر لیں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرت رائے سے جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو ہم سب دل و جان سے اس کی خلافت کو قبول کریں گے مگر منکرین خلافت نے اس مخلصانہ اور با اصول پیشکش کو قبول نہ کیا اور ہر قسم کے سمجھوتے سے انکار کردیا.اس پر پھر ان لوگوں سے استدعا کی گئی اگر آپ حضرات خلافت کے اتنے ہی مخالف میں تو ہمارا آپ پر کوئی زور نہیں لیکن جو لوگ خلافت کو ضروری خیال کرتے ہیں، خدا را آپ اُن کے راستہ میں تو ردک نہ بنیں اور انہیں اپنے میں سے کوئی خلیفہ منتخب کر کے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کا موقع دیں.لیکن یہ مخلصانہ اپیل بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی اور اتحاد کی کوئی صورت وہ لوگ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ذاتی طور پر بھی جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے سے اس سلسلہ میں بات چیت کی.اس بات چیت کے دوران مولوی صاحب نے آپ سے کہا کہ چونکہ ہر ایک کام بعد مشورہ ہی اچھا ثابت ہوتا ہے اس لئے حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جلدی سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ پورے مشورہ کے بعد کوئی کام ہونا چاہیئے.آپ نے اُن سے کہا کہ جلدی کا کام بیشک بُرا ہوتا ہے اور مشورہ کے بعد ہی کام ہونا چاہیے اور ایک روز انتظار کر لیا جائے جب بیرونی جماعتوں سے احباب بکثرت شریف لے آئیں تو مشورہ ہو جاوے میولوی صاحب نے اس تجویز کو ر ذکرتے ہوئے فرمایا، چونکہ اختلاف ہے اس لئے پورے طور پر بحث ہو کر ایک بات پر متفق ہو کر کام کرنا چاہیے.پچار پانچ ماہ اس پر تمام جماعت غور کرے.تبادلہ خیالات کے بعد پھر جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے.آپ نے دریافت کیا 140 لے تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۵۸۲ ، آتنیه صداقت صن ، رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹ م

Page 346

که اول تو سوال یہ ہے کہ اختلاف کیا ہے.پھر یہ سوال ہے کہ اس قدر عرصہ میں انجیر کسی رہنما کے جماعت میں فساد پڑا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے موقع پر اس طرح ہوا تھا کہ جولوگ جمع ہو گئے تھے.انہوں نے مشورہ کردیا تھا اور یہی طریق پہلے زمانہ میں بھی تھا.چھ چھے ماہ کا انتظار نہ کبھی پہلے ہوا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد.مولوی محمد علی صاحب نے جواب دیا کہ اب اختلاف ہے پہلے نہ تھا.دوسرے اس انتظار میں حرج ہی کیا ہے اگر خلیفہ نہ ہو تو اس میں نقصان کیا ہوگا ؟ وہ کونسا کام ہے جو کل ہی خلیفہ نے کرنا ہے.آپ نے اُن کو جواب دیا کہ اس بات کا فیصلہ تو جماعت حضرت مسیح موعود کی وفات پر ہی کر چکی ہے کہ اس جماعت میں سلسلہ خلافت چلے گا.اس پر دوبارہ مشورہ بے معنی ہے اب یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا.اگر مشورہ کا سوال ہے تو صرف تعین خلیفہ کے متعلق ہے.اور یہ جو آپ نے کہا ہے کہ خلیفہ کا کام کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ کا کام علاوہ روحانی نگہداشت کے جماعت کو متحد رکھنا اور فساد سے بچانا ہے اور یہ کام نظر نہیں آیا کرتا کہ میں آپ کو معین کر کے بتادوں.خلیفہ کا کام روحانی تربیت اور نظام کا قیام ہے نہ روحانی تربیت مادی چیز ہے کہ میں بتا دوں کہ وہ یہ کام کرے گا اور نہ فساد کا کوئی وقت معین ہے کہ فلاں وقت تک اس کی ضرورت پیش نہ آوے گی.ممکن ہے کہ کل ہی کوئی امر ایسا پیش آجا دے جس کے لئے کسی نگران ہاتھ کی ضرورت ہو.پس آپ اس سوال کو جانے دیں کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو میشورہ اس امر کے متعلق ہونا چاہیئے کہ خلیفہ کون ہو.اس پر مولوی صاب نے کہا اس میں وقت ہے.چونکہ عقائد کا اختلاف ہے اس لئے تعین میں اختلاف ہوگا.ہم لوگ کسی لیے شخص کے ہاتھ پر کیونکر بیعت کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہمیں اختلاف ہو.آپ نے جواب دیا کہ اول تو ان امور اختلافیہ میں اب تک کوئی ایسی بات نہیں جس میں اختلاف ہمیں ایک دوسرے کی بیعتہ سے رو کے لیکن بہر حال ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ آپ میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.اس پرر مولوی صاحب نے کہا کہ بیشکل ہے اور آپ جانتے ہیں کہ لوگوں کی کیا رائے ہے.عرض اس طرح کوئی فیصلہ ہوئے بغیر یہ گفت گو بھی ختم ہوتی.پس جب کہ کوئی صورت سمجھوتہ کی باقی نہ رہی اور مولوی محمد علی صاحب اور آپ کے رفقا حضرت خلیفہ اول نہ کی وصیت کے باوجود نظام خلافت قائم رکھنے پر راضی نہ ہوتے تو سم از مارچ سالہ بروز ہفتہ قادیان میں حاضر الوقت احمدی احباب عصر کی نماز کے بعد انتخاب خلافت کے لئے مسجد نور میں کے اختلاف سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات من ، آیینه صداقت منها 1910

Page 347

م جمع ہوئے.قریبا دو ہزار کا مجمع تھا.سب سے پہلے نواب محمد علی خاں صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی وصیت پڑھ کر سنائی جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے کی نصیحت تھی.مولانا سید محمد من صاحب امروہی نے جو جماعت کے بڑے بزرگوں میں سے تھے کھڑے ہو کر تقریر کی اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت بتاکر تجویز کی کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بعد میری رائے میں ہم سب کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر جمع ہو جانا چاہتے کہ وہی ہر رنگ میں اس مقام کے اہل اور قابل ہیں.اس پر سب طرف سے ہاں حضرت میاں صاحب حضرت میاں صاحب کی آواز میں اُٹھنے آوازیں لگیں اور سارے مجمع نے بالاتفاق اور بالاصرار کیا کہ ہم اس تجویز کو بدل و جان قبول کرتے ہیں.اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور اُن کے بعض رفضا بھی موجود تھے.مولوی محمد علی صاحب نے مولوی محمد احسن صاحب کی تقریر کے بعد کچھ کہنا چاہا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی.اسی اثناء میں دوسری طرف سید میر حامد شاہ صاحب کھڑے ہو گئے.دونوں کچھ کہنا چاہتے تھے مگر سید صاحب چاہتے تھے کہ وہ پہلے اپنا عندیہ بیان کریں اور مولوی صاحب اپنے خیالات پہلے سنانا چاہتے تھے.ان دونوں بزرگوں میں کچھ دیر تک باہم رد و کد ہوتی رہی بسید صاحب مرحوم مولوی صاب سے اور مولوی صاحب سید صاحب سے صبر اور انتظار کرنے کی درخواستیں کرتے رہے.وہ کہتے مجھے پہلے کچھ کہ لینے دیں اور وہ فرماتے مجھے عرض کر لینے دیں.غرض اس طرح ایک مجادلہ کی صورت بن گئی.اس پر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ نے جرات کی اور عرض کیا کہ ان جھگڑوں میں یہ قیمتی وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے.ہمارے آقا حضرت صاحبزادہ صاحب ہماری بیعت قبول فرما دیں اس پر حاضرین مجلس بلا توقف بے اختیار لبتك لبنك کہتے ہوئے حضرت صا حبزادہ صاحب کی طرف H بڑھے.-- یہ نظارہ اور لوگوں کا جوش و خروش کسی دیکھنے والے کو بھول نہ سکتا تھا.لوگ چاروں طرف سے بیعت کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے اور یوں نظر آتا تھا کہ خدائی فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منشائے ایزدی کی طرف کھینچے لارہے ہیں.اس وقت شوق کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.چاروں طرف سے آواز اُٹھ رہی تھی کہ حضور ا ہماری بیعت قبول کریں.حضور ا ہماری بیعت قبول کریں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے چند لمحات کے تامل کے بعد میں میں ایک عجیب قسم کا عالم تفکر تھا، فرمایا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں، اس پر مولوی سید سرور

Page 348

۳۳۹ شاہ صاحب نے کہا میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں.آپ اُن کو دُہراتے ہوئے لوگوں کی بیعت لینا قبول کریں.غرض جب حاضر الوقت لوگوں کا اصرار بڑھا تو آپ نے پوری ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بیعت لینے کے لئے بڑھایا اور بیعت شروع ہو گئی.الفاظ بیعت کا سُنتا تھا کہ یک لخت مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا.جولوگ قریب نہیں پہنچ سکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا کر یا ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہراتے ہے اور اس طرح خدا کے مسیح کی یہ ا پیش خبری مکر بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ میں خدا کی ایک قسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے " بیعت کے بعد لمبی دُعا ہوئی پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ایده الله تعالیٰ بِنَصْرِدِ الْعَزِیز نے ایک روح پرور اور سکینت بخش تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا: "دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو ! پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.میرا ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آسکتا جو آپ کو دی ہوتی شرعیت ں سے ایک شعشہ بھی منسوخ کر سکے.میرے پیارو ! میرا دہ محبوب آقا سید الانبیا تر ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپ کی سچی غلامی میں نبی پیدا ہو سکتا ہے.یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں.پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے اور وہ خاتم الکتب اور خاتم شریعت ہے.پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام و ہی نبی تھے جس کی خیر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ شریعیت اسلامی کے آئینہ صداقت صث ، خلافت ثانیہ کا قیام صب..

Page 349

۳۴۰ میں کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہو سکتا.صحابہ کرام رضوات الله عليهم اجمعین کے اعمال کی اقتداء کرو.وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور کامل تربیت کا نمونہ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا جو اجماع ہوا وہ خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ ہے.خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفائے راشدین کے زمانہ میں ہوئی جب وہ خلافت محض ملوکیت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو تو گھٹتی گئی یہاں تک کہ اب جو اسلام اور اہلِ اسلام کی حالت ہے تم دیکھتے ہو.تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس منہاج نبوت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدں کے موافق بھیجا اور اُن کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے.حضرت خلیفہ المسیح مولانا نور الدین صاحب اُن کا درجہ اللہ علیین میں ہو.اللہ تعالٰی کروڑوں کرور قیمتیں اور برکتیں اُن پر نازن کرے میں طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اُن کے دل میں بھری ہوئی اور اُن کے رگ دریشہ میں جاری تھی جنت میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں پاک وجو دون اور پیاروں کے قرب میں آپ کو اکٹھا کرئے اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے.اور ہم سب نے اسی عقیدہ کے ساتھ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ہیں جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا.....میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں.حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے غلام کو وہ کام مت بتاؤ جو وہ کر نہیں سکتا.تم نے مجھے اس وقت غلام بنانا چاہا ہے تو وہ کام مجھے نہ بتانا جو میں نہ کر سکوں.میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گنہ گار ہوں میں کس طرح دعوی کر سکتا ہوں کہ دنیا کی ہدایت کر سکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت.

Page 350

۳۴۱ زیادہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہا نہیں تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے تو سنو ! اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو.میں انسان ہوں اور کمزور انسان مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا.تم سے غلطیاں ہوں گی تو میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگذر کروں گا.اور میرا اور تمہارا متحدہ کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پیدا کرنا ہے پس اب جو تم نے میرے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے اس کو وفاداری سے پورا کرو تم مجھ سے اور میں تم سے چشم پوشی خدا کے فضل سے کرتا ہوں گا.تمہیں امر بالمعروف میں میری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی...اں میں پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ امر معروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا.اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کرے گا.اور ہماری متحدہ دعائیں کامیاب ہوں گی..جس کام کو مسیح موعود نے جاری کیا تھا اپنے موقع پر وہ امانت میرے سپرد ہوتی ہے.پس دُعائیں کرو اور تعلقات بڑھاؤ اور قادیان آنے کی کوشش کرو اور بار بار آؤ.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا ہے اور یا بہ بارسُنا ہے کہ جو یہاں بار بار نہیں آتا اندیشہ ہے کہ اس کے ایمان میں نقص ہو.اسلام کا پھیلانا ہمارا پہلا کام ہے.مل کر کوشش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کی بارش ہو.میں پھر تمہیں کہتا ہوں، پھر کہتا ہوں اور پھر میں کہتا ہوں اب جو تم نے بیعت کی ہے اور میرے ساتھ ایک تعلق حضرت مسیح موعود کے بعد قائم کیا ہے اس تعلق میں وفادار کی کا نمونہ دکھاؤ اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھو میں ضرور تمہیں یاد رکھوں گا.ہاں یا درکھتا بھی رہا ہوں.کوئی دُعا میں نے آج تک ایسی نہیں کی جس میں میں نے

Page 351

، سلسلہ کے افراد کے لئے دُعا نہ کی ہو.مگر اب آگے سے بھی زیادہ یاد رکھوں گا.مجھے کبھی پہلے بھی دُعا کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں آیا جس میں احمدی قوم کے لئے دُعا نہ کی ہو.پھر سنو کہ کوئی کام ایسانہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عہد شکن کیا کرتے ہیں.ہماری دعائیں میں ہوں کہ ہم مسلمان جنگیں اور مسلمان مریں.آمین یا دعا اور تقریر کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی الله عنه نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے شمالی میدان میں قریباً اڑھائی ہزار اشکبار مخلصین جماعت کے ساتھ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر آپ کی معیت میں احباب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کو لے کر بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہ پہنچ کر اس مبارک وجود کو ہزاروں دعاؤں کے ساتھ اس کے محبوب آقا کے پہلو میں دفن کیا.حضرت اقدس خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے وصال کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اور زریں باب بند ہوا اور ایک اور زریں باب کھلا.اگرچہ مذہبی قوموں کی زندگی میں بھی تعظیم مخلص بنجا بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں اور قومی تاریخ کے اوراق پر اپنی عظمت کے انمٹ نقوش ثبت کر جاتے ہیں لیکن تو میں اُن کی زندگی سے زندگی تو پاتی ہیں، اُن کے مر جانے سے مر نہیں جاتیں.بلکہ ایک عرب شاعر کے اس لازوال شعر کے مصداق ایک کے بعد دوسرا عظیم سردار اُن کے جھنڈے کو منبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے اُن کی رہنمائی کے لئے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.زندہ قوموں کی کیسی سچی اور پاکیزہ تصویر اس شعر میں کھینچی گئی ہے کہ : اذا سید مناخلا قام سید قؤل لما قال الكرام فعوك یعنی جب ہم میں سے ایک سردار گزر جاتا ہے تو اس کی جگہ ویسا ہی ایک دوسرا اٹھ کھڑا ہوتا ہے.قوم کے صاحب اکرام بزرگوں نے جو اچھی باتیں کسی تھیں، وہ ویسی ہی اچھی باتیں بڑی کثرت سے کہتا ہے اور گفتار کا غازی نہیں بنتا بلکہ کردار کا بھی غازی ہوتا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ہر باب جو ایک دور پر بند ہوتا اور ایک نئے دور پر کھلتا ہے اس شعر کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتا چلا جاتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے بڑے مشکل مقام پر قدم رکھا تھا لیکن اپنی کمزور صحت الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۱۷

Page 352

سلام لهم سلام دکھتے بدن اور بڑھاپے کے سو عوارض کے باوجود بڑی جوانمردی ہمت استقلال اور غیر متزلزل تو کل کے ساتھ خلافت مسیح موعود کی عظیم ذمہ داریوں کو نباہا.فتنوں کی آندھیاں چلیں گر آپ کے پائے ثبات کو ایک ذرا سی لغزش بھی نہ دے سکیں اور خلافت احمدیہ کی جو عظیم امانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سپرد کی گئی تھی اس کے تقدس پر آپ نے آنچ نہ آنے دی.آپ کے وصال پر آج ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن آج بھی احمدیت کے بلند و بالا گنبدوں سے آپ کے ان پر شوکت الفاظ کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ :- خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا.مجھے تم میں سے کسی کا خوف نہیں اور بالکل نہیں، ہاں میں صرف خدا ہی کا خوف رکھتا ہوں.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے میں تم ان سے بچو.پھر سُن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.مجھے کو نہ کسی انجمن نے (خلیفہ) بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین ہے.یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حق دار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے اس سے توبہ کر لو اللہ تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے نہیں کو حق دار سمجھا خلیفہ بنایا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے.خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیرے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جسکو خدا چاہے گا اور خدا اسکو آپ کھڑا کر دے گا.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور نہ اب تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سنزا دیں گے.وہ خالد کون تھا جس کی تیغ براں خلافتِ احمدیہ کے دائیں اور باتیں اور آگے اور پیچھے شب آسمانی

Page 353

کی طرح چمکتی اور ہر شیطان مارد کو دھتکار رہی تھی.یہ وہی ایاز نور تو تھا جو بعد میں تاریخ احمدیت کے أفق ير محمود بن کر ابھرا اور باون برس تک مسند خلافت پر جلوہ افروز رہا.انکار خلافت کا فتنہ اور اس کی مختلف اشکال پیشتر اس کے کہ ہم اس دور محمودیت کے روشن باب میں داخل ہوں ہمیں چند لمحے یہاں توقف کر کے اس فتنے کی حقیقت سے متعلق کچھ مزید عرض کرنے کی اجازت دیجئے جو انکار خلافت کی صورت میں مختلف وقتوں میں حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مبارک عہد میں بار بار سر اٹھانے کی کوشش کرتا رہا اور بالآخر تقدیر الہی نے خلافت اُولیٰ اور خلافت ثانیہ کے اس کی مرکز کی جڑوں کو قادیان کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محم و احمد صاحب کی سیرت اور کردار سے اس مضمون کا گہرا تعلق ہے کیونکہ عہد خلافت اُولیٰ میں بھی اور بعد میں اپنی باون سالہ خلافت کے درخشندہ دور میں بھی آپ نے خلافت احمدیہ کے استحکام کے لئے عظیم انسان جدوجہد کی.یہ آپ کی انتھک محنت اور کاوش اور طویل تعلیم و تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے اندر خلافت کا مقام ایسا واضع ہو گیا اور قلوب کی گہرائیوں میں اس شجرہ طیبہ کی جڑیں ایسی مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہو گئیں کہ فتنوں کی تیز و تند آندھیاں پھر کبھی اُن کے پائے ثبات کو لرزاں نہ کر سکیں.ابھی ذکر گزرا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے منکرین خلافت کو خلافت ثانیہ کے آغاز ہی میں قادیان چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کر دیا اور اس طرح اس گروہ کا تعلق احمدیت کے مرکزی تنے سے ہمیشہ کے لئے کٹ گیا.لیکن اس کے باوجود چونکہ منکرین خلافت بھی احمدیت ہی کی طرف منسوب رہے لہذا عملاً احمدیت کے نام پہ دنیا کے سامنے دو تحریکیں پہلو بہ پہلو چل پڑیں.یقیناً احباب جماعت کے لئے یہ یہ تقسیم ایک بہت تکلیف دہ امر تھا.پس اس گروہ کو نصائح اور انذار کے ذریعہ سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی.مصالحت اور مفاہمت کی کوششوں میں بالخصوص حضرت صاحبزادہ صاحب پیش پیش رہے لیکن جیسا کہ دو مرتبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رویا کے ذریعہ خبر دی تھی انظریات کے اختلاف نے بالاخر تفرقہ کی صورت اختیار کرنی ہی تھی اور ایک گروہ کا کٹ کر جماعت سے الگ ہو جانا گویا تقدیر میرم تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اہم سانحہ کی خبر صرف صاحبزادہ صاحب ہی کو نہیں دی گئی تھی بلکہ ان سرکردہ احباب کو بھی اللہ تعالیٰ نے مکرر تنبیہ فرمائی جو تحریک انکارِ خلافت کے بانی مبانی تھے.چنانچہ اس ضمن میں مکرم محرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی مندرجہ ذیل روایت بڑی عبرتناک ہے ؟

Page 354

۳۴۵ 1 خواجہ صاحب اور میں ایک دفعہ سینما میں ملکہ الز ہتھے کا ڈرامہ دیکھنے کے لئے گئے.اس میں ایک منتظر یہ تھا کہ ارل آف ایسیکس کو بغاوت کے جرم میں موت کی سزا ملتی ہے.ایک لکڑی کے چبوترے پر جلاد کلہاڑی لئے کھڑا ہے.ایسیکس کو اس چبوترے پر لٹا دیا گیا اور اس نے اپنا سرلکڑی کے ایک بلاک پر رکھ دیا.جو نہی جلاد نے تصویر میں کلہاڑی اُٹھائی کہ الیکس کا سر قلم کر دے تو خواجہ صاحب سخت دہشت زدہ ہو گئے اور نہایت اضطراب کی حالت میں مجھ سے کہنا شروع کیا کہ اُٹھو جلدی اُٹھو، یہاں سے نکل جائیں.چنانچہ میں بھی خواجہ صاحب کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا اور اُن کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا.باہر نکل کر خواجہ صاحب نے مکان کا رستہ تو نہ لیا.ایک ایسی سٹرک پر سراسیمگی کی حالت میں چلتے گئے جو دریا.پر یار ایک بھلے علاقہ کی طرف جاتی تھی.کوئی نصف میل تک جا کر ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے مجھ سے دریافت کیا تم کیا سمجھے میری پریشانی کی کیا وجہ تھی ؟ میں نے کہا مجھے تو یہی خیال ہوتا ہے کہ شاید آپ کو سڑی سے کچھ تکلیف ہو گئی.خواجہ صاحب نے کہا نہیں مجھے سردی سے تو اس ملک میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہیں تو اس منظر کو دیکھ کر ڈر گیا تھا.کیونکہ مجھے اپنا ایک خواب یاد آ گیا تھا.خواجہ صاحب نے کہا کہ یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب متی شاہ میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام ہمارے مکانوں میں لاہور ٹھہرے ہوتے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے اور مولوی محمد علی اور تین چار اور لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ہم سے کہا گیا ہے کہ تم لوگوں نے بغاوت کی ہے تمہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا جائے گا.چنانچہ ہمیں ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جو چیف کورٹ کے فرسٹ پہنچ کے کمرے کی طرح ہے اور اس کے ایک طرف ایک چبوترے پر ایک تخت بچھا ہوا ہے جس پر بادشاہ بیٹھا ہے.میں نے غور سے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ مولوی نور الدین صاحب ہیں.انہوں نے ہم سے مخاطب ہو کر کہا تم نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے بتاؤ تمہیں کیا سترا

Page 355

العالم سلام دی جائے.میں نے عرض کیا کہ آپ اب بادشاہ ہیں جیسے چاہیں تجویز کریں.اس پر مولوی صاحب نے کہا اچھا ہم تم کو جلا وطن کرتے ہیں.اس کے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب کی وفات ہو گئی اور مولوی صاحب خلیفہ ہو گئے.پھر دوسری دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ ہم پھر گرفتار کئے گئے ہیں اور مثل سابق ہماری پیشنی بادشاہ کے سامنے ہوئی.اس دفعہ مولوی صاحب نے فرمایا تم نے دوبارہ بغاوت کی ہے.ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارا سرکاٹ ڈالا جائے.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں مجھے ایک ایسے ہی ہوتے پر لٹا دیا گیا جیسا اس تصویر میں تھا اور جلاد نے کلہاڑی میری گردن پر چلائی جس سے میں سخت خوفزدہ ہو کر بیدار ہو گیا.اور بیدار ہو کر بھی بہت عرصہ اس خواب کی دہشت اور ہیبت مجھ پر طاری رہی.اب جو میں نے وہی نظارہ تصویر میں دیکھا تو ویسے ہی میری طبیعت پر خوف طاری ہو گیا اور میں اس کی برداشت نہ کر سکا." جیسا کہ مریم خواجہ صاحب کی رویات سے واضح ہے آپ اور آپ کے ہم خیال رفقا کی بطور سرزنش قادیان سے علیحدگی مقدر تھی چنانچہ بعینہ اس تنبیہ کے مطابق خلافت ثانیہ کے آغاز کے تھوڑے عرصہ کے اندر ہی یہ لوگ قادیان چھوڑ کر چلے گئے اور لاہور میں اس مقام پر جو احمد یہ بلڈنگس کے نام سے مشہور ہے.احمدیت " کے ایک نئے مرکز کی بنا ڈالی.لیکن یہ گمان کرنا بھی درست نہیں کہ اس گروہ کی علیحدگی کے بعد انکار خلافت کا فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا جیسا کہ بعد کی تاریخ بتائے گی مختلف وقتوں شکلوں میں یہ فتنہ بعد میں بھی سر اٹھاتا رہا لیکن جماعت کی بہت بھاری اکثریت اس سے اس حد تک متنبہ اور خبر دار ہو چکی تھی کہ پھر کبھی اسے وبا کی صورت میں پھیلنے کی توفیق نہ ملی.ہاں اکا دُکا کمزور طبیعتوں کی ہلاکت کا موجب بن کر یہ پھر اپنی کمین گاہوں میں جا چھپتا رہا.ایک موعود صلح کی حیثیت سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے تمام کارناموں پر یکجائی نظر ڈالی جائے تو آپ کا یہ کارنامہ بلاشبہ ایک امتیازی شان اور دلر با چمک کے ساتھ نظر کو اپنی جانب کھینچے گا کہ آپ نے بفضلہ تعالیٰ احمدیوں کے قلوب میں خلافت کی عظمت اور اہمیت کو ہمیشہ کے لئے واضح اور جاگزیں اور راسخ کر دیا اور اختلاف اور افتراق کے فلسفہ اور محرکات کو بار بار ایسی وضاحت کے ساتھ اور لے ماہنامہ الفرقان سالنامه - نومبر دسمبر ۱۹۲۳ ص ۴۲ - ۴۵

Page 356

ا م بم جماعت کے سامنے رکھا کہ نظام خلافت کو سبوتاثر کرنے کے لئے جب بھی اور جس لباس میں بھی کے سامنے کھا کو کرنے کے لئے اور کوئی تحریک اٹھی جماعت نے بلا توقف اسے پہچانا اور سختی سے رد کر دیا.بعد میں اٹھنے والے اس نوع کے دوسرے فتنوں پر تفصیلی بحث کا یہاں موقع نہیں.لیکن چونکہ مومنین کی تطہیر اور آزمائش کے لئے آئندہ بھی اس قبیل کے فتنوں کا وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہنا متقدر معلوم ہوتا ہے اس لئے خصوصاً احمدیت کی نئی نسل کی تعلیم کی خاطر اگر یہاں اس کا مختصر تجزیاتی مطام پیش کر دیا جائے تو بے فائدہ نہ ہو گا.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دور میں جو انکارِ خلافت کا فتنہ اُٹھا اس کے نقوش کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہبی دنیا میں رونما ہونے والا کوئی نیا اور الگ فتنہ نہیں تھا بلکہ انہی جماعتوں کی تنظیم کو کمزور کرنے اور مرکزیت کو پراگندہ کرنے کے لئے ہمیشہ مذہبی دُنیا میں اسی شکل وصورت کے فتنے برپا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی تا قیامت برپا ہوتے رہیں گے.ذیل میں شق وار اس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے :- غمن امام وقت پر آمریت کا الزام حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ پر ایک خطرناک اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ آپ جماعت پنا حکم ٹھونس کر آمرین بیٹھے ہیں اور جماعت کے جمہوری نظام کو آمریت میں تبدیل کر رہے ہیں.اس ہیں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم کی شہادت کے مطابق گزشتہ انبیاء علیهم السلام پر بھی اسی قسم کے اعتراض کئے گئے بلکہ حضرت شعیب علیہ السلام کی جمہوریت پسند قوم نے بلکہ تو آپ کے انکار کی ایک بڑی دلیل یہ پیش کی کہ ہم اپنے معاملات میں تمہارے حکم کے تابع کیسے ہو سکتے ہیں.اسی طرح تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ مدینہ کے یہودی اور منافقین خود سید ولد آدم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کرتے اور اہل مدینہ کو اس بنا پر بددل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ نعوذ باللہ اسلام کا رسول آمرہ بننے کی کوشش کرتا ہے.لیس یہ جمہوریت کی رٹ کوئی نئے زمانہ کی پیدا وار نہیں نہ ہی جدید روشنی اور ترقی یافتہ تہذیب و تمدن سے اس کا کوئی تعلق ہے.بلکہ جب سے خدا تعالیٰ کے مقرر کر دہ اولی الامر دنیا میں آرہے ہیں جمہوریت کے نام پر اُن کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں.اگرچہ دنیوی آمر

Page 357

اور مذہبی رہنما کے اُولی الامر ہونے کے مابین قطبین کا بعد ہے لیکن آمر کے لفظی اشتراک کے باعث بعض اوقات فتنہ پرداز عامتہ الناس کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.امر اور اولی الامر میں متعدد دوسرے بنیادی اختلافات کے علاوہ جن پر انسان ادنیٰ سے تدیر سے اطلاع پا سکتا ہے.ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ جب کہ آمر ایک مادر پدر آزاد اور جابر حاکم ہوتا ہے جس کی حکومت بیرونی پابندیوں سے نا آشنا اور تیر و اکراہ پر مبنی ہوتی ہے.اُولی الامر بیک وقت ایک پہلو سے امرا اور ایک پہلو سے مانور ہوتا ہے اور براہ راست جسموں پر نہیں بلکہ دلوں کی معرفت اجسام پر حکومت کرتا ہے.وہ ایک مذہبی ضابطہ حیات اور دستور العمل کے اس حد تک تابع ہوتا ہے کہ سیر مو بھی اس سے انحراف نہیں کر سکتا اور اتنے اخلاص اور فروتنی اور احترام کے ساتھ اس کے ایک ایک نقطے پر عمل پیرا ہوتا ہے کہ کوئی دنیوی جمہوریت کا پرستار اس کا عشر عشیر بھی اپنے جمہوری دستور کا احترام نہیں کرتا.آمر کا تو معاملہ ہی الگ ہے.ایک جمہوری حکمران بھی جب چاہے اپنی چرب زبانی اور اثر در سورخ سے کام لے کر بنیادی جمہوری دستور کی ہر اس شق کو تبدیل کروا سکتا ہے، جسے وہ ناپسند کرے لیکن ایک اولی الامر مآمور من الله کو اتنی بھی قدرت نہیں کہ قانون شریعت کا ایک شعشہ بھی اپنے مقام سے ٹال سکے.المختصر یہ کہ ایک ہامور من اللہ پر دنیاوی معنوں میں " آمر ہونے کا الزام لگانا یا تو جہالت کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے یا اندھی دشمنی کے نتیجہ میں تیسری کوئی صورت ذہن میں نہیں آتی.ایک مامور من اللہ کے خلیفہ پر یہ الزام عاید کرنا تو بدرجہ اولی غلط ہے کیونکہ وہ تو اپنے فیصلوں میں دوسری پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفا کا معاملہ تو اس اعتراض سے اور بھی دور تر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ خلفا تو ایک ایسے مامور من اللہ کے تابع فرمان ہیں جس کا پور پور سید المامورین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے بندھنوں میں عاشقانہ اور والہانہ جکڑا ہو ا تھا.پہلے امام یا خلیفہ کی مخالفت کا الزام دوسرا اعتراض جو منکرین خلافت اور منافقین حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات پر کرتے رہے وہ یہ تھا کہ نعوذ باللہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا اور وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے انجمن کی حکمرانی کی بجائے خلافت کو جماعت پر ٹھونس دیا ہے.یہ اعتراض بھی کوئی نیا نہیں کیونکہ قدیم سے منافقین کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ ایک امام کی

Page 358

۳۴۹ زندگی میں تو اس پر اعتراش کرتے یا اس کے فیصلوں کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہیں اور کسی پہلو سے بھی اطاعت کرنے والوں کی صف اول میں اُن کا شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن جب وہ امام گر جاتا ہے اور اس کے تابع فرمان مخلصین کی صف اول میں سے ایک نیا امام اس کا جانشین مقرر ہوتا ہے تو اس امام پر یہ الزام لگانے لگتے ہیں کہ وہ گذشتہ امام کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا.تاریخ سے ثابت ہے کہ سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک خلفاً کو بھی بارہا اسی قسم کے طعنوں کے چر کے دیئے گئے اور اُن کے فیصلوں کو یہ کہ کر چیلنج کیا گیا کہ نعوذ باللہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات یا تعامل کے خلاف ہے.سادگی اور لاعلمی میں بھی یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور بعض اوقات نہایت اخلاص اور صاف نیت کے ساتھ اس خیال سے بھی ایسی بات کر دی جاتی ہے کہ ممکن ہے خلیفہ وقت کے ذہن میں متعلقہ ارشاد نبوی یا گذشتہ خلیفہ کا فیصلہ ستحضر نہ ہو.اس طریق پر اگر بات کی جائے تو یہ تقویٰ کے خلاف نہیں لیکن یہاں جس قبیل کے معترضین کا ذکر ہے وہ مومنین کی جماعت میں حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ مظنی پھیلانے کی کوشش کرتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ عمدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جماعت کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں.حالانکہ حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو فدائیت اور عشق اور اطاعت شعاری کی نسبت تھی اس کا عشر عشیر بھی ان معترضین کو نصیب نہ تھا.اس ضمن میں میاں محمدعبداللہ صاحب حجام کی ایک روایت بڑی بصیرت افروز ہے جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل راقم الحروف سے بیان کی.وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ قادیان میں حضرت میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی حجامت بنانے کی غرض سے گئے تو دوران انتظار صوبہ سرحد کے ایک معزز دوست غلام محمد خانصاحب بھی ملاقات کی غرض سے تشریف لے آتے لیکن کرسی کے اوپر بیٹھنے کی بجائے بڑے عاجزانہ رنگ میں زمین پر بیٹھ رہے.جب حضرت میاں شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے تو تیزی سے بڑھ کر اُن کو اُٹھایا کہ اوپر تشریف رکھیں لیکن وہ زمین پر بیٹھنے پر مصر رہے.بالآخر حضرت میاں صاحب نے کے اصرار کے بعد گزارش کی کہ دراصل میرے دل پر ایک واقعہ کا بڑا گہرا اثر ہے.اس لئے میں اپنے لئے خاکساری کو ہی پسند کرتا ہوں.اور وہ واقعہ بی شنایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیه السلام م کی زندگی میں جب کبھی ہم قادیان آتے تو ہمیشہ ایک بوڑھے آدمی کو بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جوتیوں میں بیٹھے ہوئے دیکھتے.جب حضور کا وصال ہوا تو ہم بھی جلد از جلد قادیان

Page 359

۳۵۰ پہنچے تا کہ اپنے محبوب کا آخری دیدار کر سکیں.قادیان پہنچتے ہی ہمیں خبر ملی کہ بہشتی مقبرہ کے ملحقہ باغ میں جماعت کے نئے امام خلیفتہ امیج بیعت لے رہے ہیں.چنانچہ ہم بھی دوڑتے ہوئے وہاں حاضر ہوتے لیکن ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ وہی جوتیوں میں بیٹھنے والا بوڑھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ کی حیثیت سے بیعت لے رہا تھا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بتاتے ہوئے اُن پر سخت رقت طاری ہوگئی اور روتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم نے سوچا کہ اللہ کی شان ہے کہ مسیح موعود کی جوتیوں میں بیٹھنے والا یہ بوڑھا آج مسند خلافت پر رونق افروز ہے ڈ ستم ظریفی دیکھتے کہ اسی انتہائی منکسر المزاج بزرگ پر بعد ازاں تکبر اور نخوت کے الزام لگاتے گئے اور وہ لوگ جو خود اطاعت کے مفہوم ہی سے نابلد تھے اسی عاشق صادق اور اطاعت محبتم بزرگ پر یہ اعتراض بھی کرنے لگے کہ نعوذ باللہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشائے مبارک اور وصیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جماعت کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں.یہ ستم ظریفی تو ہے لیکن تعجب کی بات نہیں کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا.اور خدا کے برگزیدہ بندے اوئی ادنی انسانوں کے ہاتھوں دُکھ اُٹھاتے ہیں گے.قومی اموال میں غلط تعرف کا الزام ایک اعتراض یہ اُٹھایا گیا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کو نعوذ باللہ جماعتی اموال کا درد نہیں اور بھیرہ کے ایک ہم وطن شخص کی ناجائز رعایت کر کے اُسے جماعت کی جائداد اونے پونے دی جارہی ہے.یہ اعتراض بھی پرانے منافقین کی روش کا اعادہ ہے.خلفائے راشدین کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے احباب پر خوب روشن ہوگا کہ کس طرح معترضین نے ایک کے بعد دوسرے خلیفہ پر مالی بے ضابطگیوں اور نا انصافیوں کے الزامات عاید کئے.خلفا" تو پھر خلفا تھے دونوں جہان کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظالم اس بارہ میں زبان طعن دراز کرنے سے بانہ نہ آتے یعنی اس سردار دو عالم پر بھی قومی اموال کی ناجائز تقسیم کا الزام لگایا گیا جو اس دنیا میں بھی عدل کی بلند ترین کرسی پر فائز فرمایا گیا اور قیامت کے دن بھی خدا کے بعد عدل و انصاف کی کرسیوں میں اس کی کرسی سب سے اونچی ہوگی.خدا کا نبی تو براہ راست خدا کا انتخاب ہوتا ہے لیکن نبی کے خلفا کا انتخاب چونکہ الہی تصرف کے

Page 360

۳۵۱ تحت نبی کی تربیت یافتہ صالحین کی جماعت کرتی ہے اور انتخاب کے وقت معیار محض تقوی اللہ ہوتا ہے.اس لئے انبیاء کے خلفا کو بھی خدا تعالیٰ ہی کا انتخاب شمار کیا جاتا ہے.جماعت احمدیہ (مبائعین) کا اسی مذہب پر اجماع ہے.پس جس وجود کو خلافت کی عظیم ذمہ داری محض اس لئے سونپی جاتی ہے کہ وہ اپنے وقت کے انسانوں میں اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ تقومی اپنے دل میں رکھتا ہے اس پر اس قسم کے لغو اعتراضات مضحکہ خیزی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.دین کی راہ میں مالی قربانی کے میدان میں یہ معتر نین حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی جوتیوں کی خاک کو بھی نہیں پہنچے تھے حضرت مسیح موعود علیه السلام آپ کے بارہ میں فرماتے ہیں :- سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے.میں انکی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کہ رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.اُن کے دل میں جو نامید دین کے لئے جوش بھرا ہوا ہے اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف مسیح لیتا ہے ! وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کی میسر ہیں ہر وقت اللہ رسول کی اطاعت کے لیے مستعد کھڑے ہیں.اور میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک سے بھی دریغ نہیں اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں خدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور مردم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.اُن کے بعض خطوط کی چند سطرس بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور الدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت اور اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے.اور وہ سطریں یہ ہیں :- مولنا مرشدنا امامنا - السلام عليكم ورحمة الله وبركاته عالیجناب ! میری دُعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر ہوں.اور

Page 361

۳۵۲ امام الزمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دے دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا ہے اس بحث میں یاد رکھنے کے لائق نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں پر اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کو خواہ وہ پہلے گزرے ہوں یا بعد میں آئیں، آپ عموماً خود مالی قربانی کرنے والوں کی صف میں سب سے پیچھے کھڑا ہو آپائیں گے یا پھر محض تماش بینوں کی حیثیت رکھتے ہوں گے.ایسے لوگوں کا مقصد نہ کبھی پہلے نیک ہوا نہ آئندہ ہوگا محض ریا کاری یا نفاق پھیلانے یا کسی ذاتی مجبش کا انتقام لینا ان کا مقصد ہوتا ہے.یہ اعتراض کہ حق، حق دار کو نہیں پہنچا بلکہ کمتر شخص کو اختیار کر لیا گیا ہے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ پر عائد کیا جانے والا یہ اعتراض بھی ہزاروں سال پرانا وہ اعتراض ہے جو منکرین نبوت انبیائے وقت پر کرتے رہے اور منکرین خلافت خلفائے وقت پر.یہی اعتراض حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ پر اور بعد میں آنے والے خلفا پر بھی کیا گیا اور خدا جانے کب تک کیا جاتا رہے گا.دراصل شیطان مومنین کی جماعت پر مختلف اطراف سے مختلف بھیس بدل کر حملہ آور ہوتا رہتا ہے.کہیں وہ ان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی مذہبی قیادت کے خلاف عدم اعتماد پیدا کرنے کی.کبھی وہ پھیپھا کٹنی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ امام وقت سے بڑھ کر کوئی اور تمہارا ہمدرد اور مبنی خواہ موجود ہے.کبھی وہ ظاہری ے روحانی خزائن (فتح اسلام) جلد ۳ ص ۳۵ - ۳۶

Page 362

۳۵۳ علم کی قیام اوڑھ کر آتا ہے اور یہ وسوسہ پھیلاتا ہے کہ تمہارے امام کا علم خام ہے جب کہ اس کی نسبت بہت بڑے بڑے عالم تم میں موجود ہیں.کبھی وہ ایک خستہ پوش عابد وزاہد بن کر ان کو در غلاتا ہے کہ تمہارے امام سے کہیں بڑھ کر خدا کا پیارا تم میں موجود ہے پیں جو کچھ مانگنا ہے، اس کی معرفت مانگو.حضرت خلیفہ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا جماعت احمدیہ پر ایک عظیم احسان ہے کہ اس قسم کے فتنہ پر دانوں کے اطوار و عادات کو بار بار ایسی وضاحت کے ساتھ کھول کر جماعت کے سامنے رکھ دیا ہے کہ اب جب بھی جس بھیس میں بھی فتنہ پر دار حملہ آور ہوتے ہیں، جماعت کی بھاری اکثریت کا ردعمل اس مصرعہ کے مصداق ہوتا ہے کہ ہم سمجھے ہوتے ہیں اُسے جس بھیس میں جو آئے ہاں چند احمق یا روحانی بیمار اور منافق طبع لوگ ضرور ہر بار شیطان کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ پہلا سبق بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلا قریب جو ابلیس نے خود کھایا اور اپنے متبعین اور کو کھلایا وہ انا خیر منہ کا قریب تھا.حق پرست اور حق شناس بندگانِ خدا کا امتیازی نشان انا خیر منہ کا دعوی نہیں بلکہ انا احقر الغلمان کا اعلان ہوتا ہے.وہ خود عاجزانہ راہوں پر قدم مارتے ہیں اور دنیا کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ ہے بدتر بنو سہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی عظمت بھی آپ کی انکساری اور عجزمی مضمر تھی.جزئی فضیلت کی بخشیں یا نفاق کا چور دروازہ.خلیفہ وقت سے بہتر ہونے کا گھمنڈ رکھنے والے یا اس پر کسی دوسرے کی فضیلت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بعض اوقات پختہ ایمان والوں کے دلوں میں راہ پانے کے لئے تنبہ کی فضیلت کے چور دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں.ان کی چکنی چپڑی باتیں کچھ اس بنچ پر چلتی ہیں کہ خلیفہ وقت فلاں معاملہ میں تو بہت قابل ہے لیکن فلاں معاملہ کی اسے کوئی واقفیت نہیں.اس معاملہ میں فلاں شخص کا جواب نہیں وغیرہ وغیرہ یہ فقہ مختلف شکل اختیار کر لیتا ہے کبھی تقریرو تحیر کی فضیلت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کبھی عبادت گزاری کی صورت میں کبھی ظاہری سادگی اور درویشانہ

Page 363

۳۵۴ زندگی کی قبا پہن کر اُٹھتا ہے، کبھی علم قرآن کا چوغہ اوڑھ کر کبھی دنیاوی علوم کی برتری کا تذکرہ کی بن جاتا ہے کبھی سیاست اور تدبر اور معاملہ فہمی کا چرچا.غرضیکہ جس رخنہ سے موقع ملے یہ مومنوں کی مرصوص صف بندی میں داخل ہو کر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک قیادت کی طرف مرکوز جماعتی توجہ کو دو یا تین یا زاید قیادتوں کی طرف پھیر کر وحدت ملی کے نقصان کا موجب بنتا.روحانی قیادت کے خلاف فتنے کی یہ مختلف شکلیں از منہ گزشتہ میں بھی پائی جاتی تھیں اور خلافت راشدہ کو بھی اس نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس نے یہ شکل اختیار کی کہ آپ کی بزرگی اور علم قرآن کو تو تسلیم کیا جانے لگا لیکن ساتھ ہی یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا جاتا کہ دراصل خلیفہ اسی لائق ہوتا ہے کہ نمازیں پڑھاتے درس و تدریس کا کام کرنے بیعتیں لے اور دعائیں کرہے.اس کا دیگر انتظامی امور وغیرہ سے کیا تعلق ؟ یہ کام تو حساب تجربہ جہاندیدہ اور علوم دنیوی سے آراستہ لوگوں کا ہے.لہذا جماعت کو ایک سر کی بجائے دوسروں والی قیادت کی ضرورت ہے.ایک سر تو مرکزی ملا کے فرائض انجام دے اور ایک سراصورت انجمن تمام دیگر امور میں جماعت کی قیادت کرے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس فتنہ نے جو صورت اختیار کی، چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے عین ممکن ہے کہ یہ کسی دوسری خلافت میں اس کے بالکل بر نکلس شکل میں ظاہر ہو اور کسی خلیفہ کے بارہ میں یہ پراپیگنڈہ کیا جائے کہ دراصل خلیفہ تو انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور اسی قابلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جماعت نے فلاں شخص کا انتخاب کیا تھا.جہاں تک رو خاصیت اور تعلق باللہ کا سوال ہے، فلاں شخص کا کوئی مقابلہ نہیں.پس انتظامی امور میں بے شک خلیفہ کی اطاعت کرو مگر ارادت مندی اور عقیدت اور دلی محبت فلاں بزرگ سے رکھو.گویا انجمن کے کام چلانے کے لئے تو خلیفہ ہو اور روحانی قیادت اور رہنمائی کے لئے ایک بت تراش لیا جائے.لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، حقیقت خلافت سے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے پر معرفت جلالی خطبات اور حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زندگی بھر کی بھر پور جد وجہد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی ایسی ٹھوس اور گہری تربیت ہو چکی ہے کہ جماعت کی بہت بھاری اکثریت ان فتنہ پر دانوں کے چھپے ہوئے بد ارادوں کو فوراً بھانپ لیتی ہے اور اُن کے دلوں میں پکنے والے بغض و عناد حسد و خود پرستی کے زہریلے مواد سے پناہ مانگتی ہے.الا مَا شَاءَ اللهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِى لَهُ

Page 364

۳۵۵ خلیفہ وقت کی غلطیوں کی نشاندہی اور اُن کے چرچے مذکورہ بالا فتنہ کی ایک شکل یہ بھی بنتی ہے کہ خلیفہ کے فیصلہ جات پر پہلے دبی زبان سے تنقید کی جاتی ہے چر حسب حالات کھل کر اُن کی مذمت کی مہم چلائی جاتی ہے.ایسے نتے.بعض اوقات عمومی شکل بھی اختیار کر جاتے ہیں اور تمام جماعت سے تعلق رکھنے والے مرکزی فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات یہ محدود دائرے سے تعلق رکھتے ہیں.بعض قضائی یا انتظامی فیصلے ایسے ہوتے ہیں که لازما خلیفہ المیے کا فیصلہ ایک فریق کے حق میں اور ایک فریق کے خلاف ہو گا.اس صورت میں متفقین کی ہمدردیاں حق اور ناحق کی تمیز کے بغیر بلا استثنا متاثرہ فریق سے ہوتی ہیں اور وہ انسانی ہمدردی اور اخلاق حسنہ کے پردہ میں متاثرہ دوستوں سے ایسی لگاوٹ کی باتیں کرتے ہیں جو رفتہ رفتہ خلیفہ وقت کے خلاف منافرت انگیزی پر منتج ہو جاتی ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی الله عنه نے جب منکرین خلافت کا بڑی سختی سے محاسبہ کیا تو فتنہ کی یہی شکل اس موقع پر بھی رونما ہوئی.اور اندر اندر ایک دوسرے کے ساتھ اس رنگ میں ہمدریاں کی جانے لگیں گویا وہ سخت مظلوم اور حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی تیخ ستم کاشتہ ہیں.فتوں کی تاریخ میں شکل بھی بہت قدیمی ہے اور اسی طرح مردود ہے جس طرح دیگر اقسام.اپنی پسند کے آدمیوں کو مسلط کرنے کا الزام ایک الزام حضرت خلیفہ المسح الاول نیز یہ لگایا گیا کہ یہ اپنی پسند کے آدمیوں کو (جو معتر حنین کی نظر میں نا اہل تھے ) جماعت پر مسلط کر رہے ہیں.یہ اُسی نوعیت کا الزام ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مبارک عہد میں ایک نہایت خطرناک وبا کی صورت میں پھوٹا تھا دراصل ہر زندہ حقیقت کے ساتھ موت کی منحوس صورتیں ہمیشہ نبرد آزما رہی ہیں اور رہیں گی اور ان وباؤں کے ساتھ مقابلہ میں جب بھی کوئی زندہ جماعت غالب آتی ہے تو اس نوعیت کے دوسرے فتنوں کے مقابلے کی پہلے سے بڑھ کر طاقت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اور اس ازلی ابدی حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کہ ہر زندہ حقیقت کو موت یا اس سے مشابہ توتوں کے ساتھ نبرد آزما رہنا پڑتا ہے اور اس میں اس کے ارتقا

Page 365

۳۵۶ اور تحسین عمل کا راز مضمر ہے.قرآن کریم اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : حمید تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَئ قَدِيرِهِ نِ الَّذِى خَلَقَ المَوتَ وَالْحَيوة ليبلوكم أيكم احسن عملاه وهو العزيز بر دو العقوم.الملت ۱۷ : ۲-۳) با برکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.وہی ہے میں نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہیں آزمائش میں ڈال کر معلوم کرے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے.اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے.حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ پر یہ الزام عائد کرنے والوں کے پیش نظر بالخصوص حضرت صاحبزادہ مرزا مجمو و احمد صاحب کی ذات تھی جن پر حضرت خلیفہ المسیح غیر معمولی اعتماد فرماتے اور معترضین کی نظر میں نااہل ہونے کے باوجود نہایت اہم جماعتی ذمہ داریاں آپ کے سپرد فرماتے.یہاں تک بھی چہ میگوئیاں کی جاتیں کہ اپنے بعد میاں محمود" کو خلیفہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے.اپنی آخری بیماری میں حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا اسی اعتراض کے پیش نظر تھا کہ : وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کر دیا ہے، غلط ہے مجھے کیا علم ہے کہ کون خلیفہ ہو گا اور کیا ہو گا.کون خلیفہ بنے گا یا مجھ سے بہتر خلیفہ ہوگا.میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا.میں کسی کو خلیفہ نہیں بناتا.میرا یہ کام نہیں خلیفے اللہ ہی بناتا ہے.میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا ہے بڑھاپے اور جسمانی کمزوری کے باعث نا اہلی کا الزام حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ پر تنقید کا ایک یہ بہانہ بھی بنایا جاتا تھا کہ چونکہ آپ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں لہذا عمر کے طبعی تقاضے کے پیش نظر ( نعوذ باللہ ) طبیعت میں تلون اور ضد بہت بڑھ گئے ہیں.اس ضمن میں بعض خطوط میں سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :- سے المحکم ۲۸ فروری شد

Page 366

۳۵۷ خلیفہ صاحب کا تلون طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں.جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلا کا ہے...اگر ذرا بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو یہ افروختہ ہو جاتے ہیں...سب حالات عرض کئے گئے مگر اُن کا جوش فرو نہ ہوا اور ایک اشتہار جاری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں " لئے " حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سُن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پروا ہی کرتے ہوئے شخصی و جاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے سلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ملے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت اقدس کے ذریعہ بنا تھا اور جو کہ بڑھے گا وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھیر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے ہے منافقین کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ بل فریب سے بات کرتے ہیں اور کسی بزرگ ہستی کی گستاخی کے لئے زبان بے قابو ہو رہی ہو تو لفظی چالاکی سے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کے خلاف زبان درازی مقصود ہو تو فلک کو برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لی جاتی ہے.اسی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے افلاک یا گردش ایام کو بُرا بھلا کہنے سے سختی سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ در اصل تقدیر الہی کو بُرا کہنے کے مترادف ہے.پس منافقین بھی خلیفہ وقت کو کوسنے کی جرات نہ پا کر کبھی اس کے بڑھاپے کو برا بھلا کہتے اور کبھی اس کی بیماری کو آڑ بنا کر مومنوں کی جماعت میں عزل خلیفہ کے جراثیم پھیلانے کی کوشش کرتے اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے کہ مومنوں کی سوسائٹی میں خلیفہ کا مقام اس سے بہت بڑھ کر ہے، جو ے خط ڈاکٹر مرز الیعقوب بیگ صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوئی سے خطہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوئی

Page 367

ایک خاندان کے ماحول میں ماں باپ کو حاصل ہوتا ہے یعنی ان ماں باپ کو جن کے بارہ میں قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر اُن میں سے دونوں یا ایک بہت بوڑھے ہو جائیں، تب بھی ( دامنِ ادب ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اُن کے سامنے اُف تک نہ کرتا.ایک چاند کے بعد دوسرا چاند اب ہم اس باب کو ختم کرتے ہیں.بلاشبہ تاریخ احمدیت کا یہ ایک زریں اور بڑا معرکتہ الامام دور تھا.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے شدید مشکلات اور مخالفتوں کے علی الرغم خلافت کی مقدس امانت کی اس شان سے حفاظت فرمائی کہ بالاخر منکرین خلافت کو نا کامی اور نامرادی کا منہ دیکھ کر ہمیشہ کے لئے مرکز احمدیت کو الوداع کہنا پڑا.اُفق احمدیت پر خلافت کا ایک چاند غروب ہوا تو ایک اور چاند طلوع ہوا.اُسی طرح روشن اور چمکتا ہوا اور ماحول کو نور آسمانی سے جگمگاتا ہوا.مخالفین بڑے کرب اور تکلیف کے ساتھ حسد کی آگ میں جلتے اور کسمساتے ہوئے اُسے بلند سے بلند تر ہوتا ہوا دیکھتے رہے لیکن کوئی نہ تھا جو اس کا کچھ بگاڑ سکے.خلافت احمدیہ مستحکم اور ممکن ہو چکی تھی اور تھا مومنوں کی جماعت کو اپنے سایہ عاطفت میں لئے ہوئے بلند تر منازل کی طرف بڑھ رہی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اس موقع پر بڑے دلنشین انداز میں احمدیت کے ایک رخصت ہوتے ہوئے خلیفہ کو الوداع اور ایک قدم رنجہ فرماتے ہوئے خلیفہ کو خوش آمدید کہتے ہیں.اے جانے والے تجھے تیرا پاک عہد خلافت مبارک ہو کہ تو نے اپنے امام و مطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلانہ کی جا ! اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارک باد کا تحفہ ہے اور رضوان یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر.اور اے آنے والے تجھے بھی مبارک ہو کہ تو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے والی گرجوں میں مسند خلافت پر قدم رکھا اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسا دیں.تو ہزاروں کا نیتے ہوئے دلوں میں سے ہو کر تخت امامت کی طرف آیا اور پھر ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھراتے ہوئے سینوں کو سکنیت بخش دی.آ ! اور ایک مشکور جماعت کی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ اُن کی سرداری کے تاج کو قبول کر.تو ہمارے پہلو سے اُٹھا ہے مگر بہت دور سے آیا ہے.آیا اور تو ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دُور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھ (سعد احمدی ست ۳۳) " O

Page 367