Language: UR
نظارت نشر واشاعت قادیان کی طرف سےشائع کردہ اس ٹائپ شدہ کتاب میں 32 اہم موضوعات پر احادیث کا انتخاب ہے جسے دوسرے لفظو ں میں ان عناوین پر سیرت النبی ﷺ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کی شکل میں آپ ﷺ کے شب و روز اور آپ کے فرمودات کا ایسامجموعہ تیار ہوگیا ہے جس کا مطالعہ قاری کو اسوہٴ کامل ﷺ کی روزمرہ زندگی، آپ کی عبادات اور آپ کے عظیم الشان روحانی درجات اور دلکش طرز تعلیم و تلقین سے آگہی بخشتا ہے۔ اس مجموعہ میں کل 93 احادیث کوعربی متن وحوالہ بمع سلیس اردو ترجمہ درج کیاگیا ہے۔
احادیث O
منتخب احادیث
MUNTAKHAB AHADEES (Urdu) (Selected Sayings of the Holy Prophet (peace be upon Him) Present edition in INDIA in August 2016 copies-1000 Published by: NAZARAT NASHRO ISHA'AT QADIAN Dist.Gurdaspur, Punjab-143516 - India Printed at: Fazle Umar Printing Press QADIAN ISBN-
بسم الله الرحمن الرحيم بِسْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَـ لى رَسُولِهِ الْكَرِيم كلمه طبية لا إلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ س محبت کے جرم میں گرفتاریوں ، مقدمات قید و بند ، تشدد و تعذیب اور قتل وغارت کو بلالی رُوح کے ساتھ برداشت کرنے والے احمدیوں کی طرف سے جماعت احمدیہ عالمگیر کی صد سالہ جوبلی کے مُبارک موقع پر ایک پاکیزہ تحفہ.
1 3 5 6 10 15 17 20 22 26 28 نمبر شمار 1 2 3 4 5 LO مقدمه فہرست مضامین مضامین نیتوں اور اعمال کی نسبت اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت لاثانی توحید بہترین ذکر - ذکر الہی 6 محبت الہی 7 9 10 11 12 قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اسلام کی بنیاد نماز کی شرائط اور آداب روزه حج
مضامین صفحہ 30 35 38 40 42 47 50 51 53 55 56 57 58 60 61 نمبر شمار 13 انفاق فی سبیل اللہ 14 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر 15 16 حلال و حرام نکاح 17 حُسن سلوک 18 19 اسلامی معاشرہ شکر گزاری و احسان مندی 20 والدین سے حسن سلوک 21 ہمسایہ سے حسن سلوک 22 23 کمزوروں سے شفقت عفو و درگزر.24 کھانے پینے کے آداب 25 لباس 26 صفائی و پاکیزگی 27
نمبر شمار مضامین صفحہ 28 29 30 31 32 تکبیر 63 جھوٹ 64 مسلمانوں کا تنزیل امام مہدی کی بعثت خطبہ حجۃ الوداع 66 68 73
نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مقدمہ اسلام ایک عظیم مذہب ( دین یا ضابطہ حیات ) ہے اس کی عظمت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم غلطیوں سے پاک اور کامل تعلیمات کا حامل ہے اور یہ کہ بانی اسلام سید نامحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اُن تمام تعلیمات پر کما حقہ خود عمل پیرا ر ہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمات پیش فرمائیں ان کا اپنی ذات کے ذریعہ ایک زندہ جاوید نمونہ بھی پیش فرمایا.آپ کے عمل اور تعلیمات میں گہری اور مضبوط مطابقت نے آپ کے صحابہ پر آپ کے اسوہ حسنہ کے نہ مٹنے والے نقوش پیدا کر دیئے.آپ کے وصال کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سید نا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ آپ کا عمل قرآن ( کی تفسیر ) تھا.آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارشادات اور وحی الہی میں کوئی تضاد نہ تھا.آپ کی طرف نازل ہونے والی وحی مصلے تھی جس میں آپ کے نفس کی خواہشات کا مطلق دخل نہ تھا.قرآن کریم آپ کے متعلق یہ شہادت دیتا ہے کہ آپ اپنی جانب سے خود کچھ نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ کے تمام ارشادات وحی الہی کے مطابق ہیں.
چنانچہ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قرآن کریم میں تمام انسانوں کے لئے قیامت تک کے لئے ایک کامل نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے.اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.” تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں ایک پاک نمونہ ہے.“ بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے بعض امور کے بارہ میں قرآن کریم کی آیات کا ایک انتخاب پہلے ہی شائع کیا جاچکا ہے.اب احادیث کا ایک مختصر انتخاب یا دوسرے الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ.آپ کے شب و روز اور آپ کے فرمودات پر مبنی ایک انتخاب پیش ہے.ان فرمودات کے پڑھنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روز مرہ کی زندگی ، آپ کی عبادت ، آپ کے عظیم الشان روحانی درجات اور طرز تعلیم وتلقین کے متعلق معلومات ہوسکیں گی.بعض روایات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں لکھی جاچکی تھیں لیکن اکثر روایات آپ کے وصال کے تقریباً دونتو سال بعد ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں.باوجود اس کے کہ اکثر روایات اس قدر لمبے عرصہ کے بعد جمع کی گئیں.پھر بھی ان روایات کو مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر انتہائی معتبر خیال کیا جاسکتا ہے.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات آپ کے صحابہ کی نگاہ میں انتہائی بابرکت یقین کئے جاتے تھے لہذا آپ جو کچھ فرماتے تھے وہ آپ کے صحابہ فی الفور حفظ کر لیا کرتے تھے اور بعد میں (صحابہ ان فرمودات کو ) اپنے درمیان متواتر بیشمار اوقات میں دہراتے رہتے تھے.دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ آپ کا فرمودہ کلام انتہائی مذہبی جوش اور عقیدت سے سنا جاتا تھا.آپ کے اصل فرمودہ الفاظ میں کسی قسم کی تحریف یا معمولی ردو بدل بھی اللہ تعالیٰ کے حضور قابلِ
مواخذه جرم خیال کیا جاتا تھا.اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ میں یہ تنبیہ ہے کہ وہ شخص جو مجھ سے ایسے الفاظ منسوب کرتا ہے جو میں نے نہیں کہے ( آخرت میں ) اُس کی جگہ جہنم میں ہوگی.“ تیسرے یہ کہ جب لوگ آپ کے متعلق یا آپ کی بیان فرمودہ کوئی روایت کسی کے سامنے بیان کرتے تھے تو ایسی روایت سننے والے کا یہ فرض خیال کیا جاتا تھا کہ وہ نہ صرف اس روایت کو حفظ کرے بلکہ راوی کا نام اور اس کے کوائف بھی حفظ کرے تا کہ اگر روایت کی صحت کی مزید تحقیق ضروری خیال کی جائے تو آگے روایت بیان کرنے والا اصل راوی کی سند پیش چوتھی اہم وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی قوم عرب اپنے لا زوال حافظے کے لئے مشہور تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی عربوں میں ایسے لوگوں کا ملنا مشکل نہ تھا جنکو عرب شعراء کے ایک لاکھ یا اس سے زائد اشعار یاد نہ ہوں.اس کے علاوہ شجرہ نسب یا در رکھنے میں بھی عرب مشہور تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے متبعین کا روحانی درجہ بہت زیادہ بلند ہو گیا تھا.اور مبالغہ آمیزی کی عادت کی مذمت کی جانے لگی تھی مزید برآں قرآن کریم میں نہ صرف راست گوئی کی بلکہ روایتوں کی صحت کی تحقیق کی بھی بے حد تاکید موجود ہے.ان وجوہات کی بناء پر بانی اسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال جمع کرنے میں ایسی خصوصی احتیاط برتی گئی جو دوسرے تاریخی مواد کے جمع کرنے میں کبھی بھی بالکل اختیار نہیں کی گئی تھی.ان اقوال کے جمع کرنے کے دوران مسلمان علماء نے اس قدر تفصیلی چھان بین سے کام لیا
اور روایتوں کی صحت کی جانب اس قدر توجہ دی جس کے باعث کسی دوسرے ( تاریخی ) ذخیرے کے جمع کرنے کے کام کا مقابلہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے جمع کرنے کے کام سے نہیں کیا جاسکتا.ہر حدیث کے راویوں کی زنجیر کی ہر کڑی کا ذکر احادیث کے تمام بڑے مجموعات میں مذکور ہے.یہاں تک کہ راویوں کے اخلاق اور ان کے مستند ہونے کی جانچ پڑتال کا کام ایک علیحدہ مستقل مضمون کی حیثیت اختیار کر گیا جس کے نتیجہ میں روایتوں کی صحت پر کھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے تاریخ انسانی میں پہلی بار ایک جدید صنف کا اضافہ ہو گیا.اپنے ان قارئین کے فائدے کے لئے جو اسلام کے متعلق بہت کم واقفیت رکھتے ہیں ہم یہاں پر یہ بتانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ احادیث کے موضوع پر جو درجنوں کتا ہیں لکھی گئی ہیں ان میں علماء اسلام کے نزدیک چھ غیر معمولی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں.یہ صحاح ستہ کہلاتی ہیں (یعنی چھ مستند ) زیر نظر مختصر مجموعہ میں پیش کی جانے والی اکثر احادیث مذکورہ چھ کتب احادیث سے ماخوذ ہیں.اُن کتب احادیث اور ان کے جمع کرنے والے علماء کا تعارف ذیل میں پیش ہے.صحیح بخاری قرآن کریم کے بعد یہ کتاب سب سے زیادہ مستند خیال کی جاتی ہے.اس کتاب کے جمع کرنے والے بخارا کے رہنے والے محمد اسمعیل تھے جو عرف عام میں امام بخاری کہلاتے ہیں.( پیدائش ۹۴ ! ھ وفات ۲۵۶ ھ مطابق ۸۱۲ تا ۶۸۷۸) صحیح مسلم اہمیت کے لحاظ سے صحیح مسلم کا دوسرا درجہ خیال کیا جاتا ہے اس کے جمع کرنے والے مسلم
بن الحجاج تھے جو علاقہ خراسان کے شہر نیشا پور کے رہنے والے تھے ( پیدائش ۰۲ بڑھ وفات جامع الترمذی تیسرے درجہ پر جامع الترمذی ہے اس کے جمع کرنے والے امام محمد بن عیسی ترمذ کے رہنے والے تھے.( پیدائش ۲۰۹ ھ وفات 9ے بڑھ ) سنن ابو داؤد اگلے درجہ پر سنن ابوداؤد ہے جس کے جمع کرنے والے سلیمان بن الاشعث تھے جو ابو داؤد کے نام سے پہچانے جاتے تھے ( پیدائش ۲ بڑھ وفات ۷۵ بڑھ ) سنن ابن ماجہ مستند ہونے کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر سنن ابن ماجہ ہے اس کے جمع کرنے والے محمد ابن ماجہ تھے جو عراق کے مشہور شہر قزدین کے رہنے والے تھے.( پیدائش ۰۹ برھ وفات ۲۷۵ھ) سنن نسائی چھٹے نمبر پر حدیث کی کتاب سنن نسائی ہے.اسکو احمد بن شعیب نے جمع کیا تھا جو خراسان کے شہر نساء کی وطنیت کی وجہ سے نسائی کہلاتے تھے.( پیدائش ۱۵ بدھ وفات ۰۶ ۳۳ھ) موطا امام مالک صحاح ستہ (یعنی چھ مستند ) کے علاوہ ایک اور اہم مجموعہ احادیث ہے جو موطا امام مالک
کے نام سے مشہور ہے.اس کے جمع کرنے والے مالک بن انس عام طور پر امام مالک کے نام سے مشہور ہیں یہ کتاب صحاح ستہ میں اس لیے شامل نہیں کی جاتی ہے کہ یہ دراصل فقہ کی کتاب تصور ہوتی ہے جس میں فقہ کے مسائل کے بیان میں احادیث بیان ہوئی ہیں.جو روایات مؤطًا امام مالک میں بیان ہوئی ہیں ان کا مستند ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ سب کی سب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی شامل ہیں.احادیث جمع کر نیوالوں میں امام مالک کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ آپ کو امام المحدثین کہا جاتا ہے.(یعنی احادیث جمع کرنے والوں کا امام) اور احادیث جمع کرنے والے علماء میں سب ہی نے آپ کے اس بلند مقام کی تصدیق کی ہے.
-1 نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ نتیوں اور اعمال کی نسبت حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِقُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْن وَقَاصِ اللَّيْهِيَ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِثْمَا لِكُلِّ امْرِىءٍ مَّا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ.بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) ہم سے حمیدی نے بیان کیا کہ سفیان نے ہمیں بتایا کہ ہم سے یحیی بن سعید الانصاری نے کہا کہ مجھے محمد بن ابراہیم تیمی نے خبر دی کہ انہوں نے علقمہ بن وقاص اللیٹی سے سنا کہ میں نے
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے سنا جبکہ وہ منبر پر تھے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ سب اعمال کا انحصار تو نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی بدلہ ملتا ہے.پس جس نے اللہ تعالیٰ اور رسول کی خاطر ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور رسول کی خاطر ہوگی اور جس نے دنیوی مقاصد کے حصول کی نیت کی اس کو دنیوی مقاصد حاصل ہونگے اور اگر کسی نے کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے مقصد سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی امر کے لئے ہوگی جس کے لئے اس نے ہجرت کی.( بخاری ) -r عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِ وبْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللهُ عَنْهُ.(بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم...حضرت عبداللہ بن عمر و ابن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ.اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جو اس بات کو جسے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے چھوڑ دے.(بخاری) 2
اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت -٣- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا قَالَ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ : وَالسَّمَوتُ مَطوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ، سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ.قَالَ يَقُولُ اللهُ أَنَا الْجَبَّارُ، أَنَا الْمُتَكَثِرُ، أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الْمُتَعَالُ يُمَجِدُ نَفْسَهُ قَالَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَدُّدُهَا، حَتَّى رَجِفَ بِهَا الْمِنْبَرُ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيَخِرُّ بِهِ (مسند احمد صفحه ۸۸ جلد ۲) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیٹھے ہوئے یہ آیت تلاوت فرمائی.وَالسَّمَوتُ مَطوِيتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ..که آسمان اور زمین دونو ( قیامت کے دن ) اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہونگے وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے ان شریکوں سے جو لوگ اس کے مقابل میں ٹھہراتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : میں بڑی طاقتوں والا اور نقصان کی تلافی کرنے والا ہوں.انتہائی بلند مرتبہ والا اور انتہائی بلندشان والا بادشاہ ہوں.اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی ذات کی حمد اور بزرگی بیان کرتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کو اس قدر جوش سے دہراتے چلے گئے کہ منبر زور سے ہلنے لگا 3
اور ہمیں خیال ہوا کہ کہیں آپ منبر سے گر ہی نہ جائیں.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ : سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ.(بخاری کتاب الرد على الجهنية...باب قول الله يضع الموازين بالقسط) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو کلمے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں وہ زبان پر ہلکے ہیں مگر تول میں وزنی ہیں اور وہ ہیں.سُبحان اللہ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ - 4
لاثانی توحید عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهِ قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ اللهِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ كَذَّبَنِي عَبْدِي وَلَمْ يَكُن لَّهُ ذَلِكَ ، وَشَتَمَنِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ ذُلِكَ، تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ أَنْ يَقُولَ فَلَن تُعِيْدَنَا كَمَا بَدَأَنَا، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ يَقُولُ اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا، وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ آلِدٌ وَلَمْ أَوَلَدٌ، وَلَمْ يَكُنت كُفُوًا أَحَدٌ.(مسند احمد جلد ۲ صفحه ۳۱۷) ہمام بن منبہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ یہ بات ابو ہریرہ نے ہم سے بیان کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میری کبریائی کا انکار کرتا ہے جبکہ یہ اسے زیب نہیں دیتا.وہ مجھے گالیاں دیتا ہے حالانکہ اسے ایسا کرنے کا حق نہیں تھا.اس کا میری کبریائی کا انکار کرنا یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کو ایک مرتبہ پیدا کیا لیکن مرنے کے بعد دوبارہ اس کی پیدائش پر قادر نہیں ہوں.مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میری ذات صد یعنی بے نیاز ہے نہ میں نے کسی کو جنا ہے نہ میں جنا گیا ہوں اور نہ ہی میرا کوئی ہمسر ہوسکتا ہے.5
بہترین ذکر ذکر الہی - - عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَفْضَلُ الذِكرِ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ : الْحَمْدُ لِلهِ.(ترمذی کتاب الدعوات باب دعوة المسلم مستجابة) حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ بہترین ذکر لا إلهَ إِلَّا الله ( یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ) اور بہترین دعا الحمد لله ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریف کے لائق ہے ).- عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُهُ مَثَلُ الْحَى وَالْمَيِّتِ وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ : فَقَالَ مَثَلُ الْبَيْتِ الَّذِي يُذْكَرُ اللَّهُ فِيْهِ وَالْبَيْتِ الَّذِي لَا يُذْكَرُ اللهُ فِيْهِ مَثَلُ الحَقِّ وَالْمَيْتِ.(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ تعالی ) حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو ذکر الہی کرتا ہے بمقابلہ اس کے جو ذکر الہی نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک زندہ شخص کے مقابلے میں مردہ شخص.6
-^ اور مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا اس کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے.- عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَجْهَرُوْنَ بِالتَّكْبِيرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِنَّكُمْ لَسْتُمْ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ (مسلم کتاب الذکر استحباب خفض الصوت بالذكر) حضرت ابو موسیٰ ( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبکہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے لوگوں نے بآواز بلند تکبیر ( یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے ) کہنا شروع کر دی.(اُس پر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.”اے لوگو اپنے لئے میانہ روی کا راستہ اختیار کرو.تم نہ تو ایسی ہستی کو مخاطب کر رہے ہو جو سننے کی طاقت نہیں رکھتی اور نہ ایسی ہستی کو جو کہ ہر جگہ موجود نہیں.تم ایسی ہستی کو مخاطب کر رہے ہو جو تمہارے قریب اور ساتھ ہے.۹ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلَائِكَةً سَيَّارَةً فُضُلًا يَتَّبِعُونَ مَجَالِسَ الذِكرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرُ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَقَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوْا وَصَعِدُوا إلَى السَّمَاءِ قَالَ: فَيَسْأَلُهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ 7
اَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمِدُونَكَ وَيَسْتَلُونَكَ ، قَالَ : وَمَاذَا يَسْأَلُونِي قَالُوا : يَسْتَلُونَكَ جَنَّتَكَ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي ؟ قَالُوا : لَا أَى رَبِّ ، قَالَ : فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا : وَيَسْتَجِيرُوْنَكَ قَالَ : وَهِمَا يَسْتَجِيرُ ونَنِي؟ قَالُوا : مِنْ ؟ نَارِكَ يَا رَبِّ، قَالَ وَهَلْ رَأَوْا نَارِى قَالُوا : لَا ، قَالَ : فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِى ؟ قَالَ وَيَسْتَغْفِرُوْنَكَ قَالَ : فَيَقُولُ قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَأَعْطَيْتُهُمْ مَا سَأَلُوا وَأَجَرْتُهُمْ بِمَا اسْتَجَارُوْا قَالَ فَيَقُولُونَ رَبّ فِيهِمْ فُلَانٌ عَبْد خَطَاءِ إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ ، قَالَ : فَيَقُولُ : وَلَهُ غَفَرْتُ هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى بِهِم جَلِيسُهُم.(مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذكر ) حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض عالی مرتبہ ملائکہ اُن انسانوں کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں جو ذکر الہی کے لیے مجلسوں میں جمع ہوتے ہیں جب وہ ( ملائکہ ) کسی ایسی مجلس کو دیکھتے ہیں جو اللہ جل شانہ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہے تو ملائکہ ان پر اپنے پر پھیلا کر اس میں شریک ہو جاتے ہیں ایسی حالت میں وہ ( ملائکہ ) ایک دوسرے کے اوپر اُڑ رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان ساری فضا ان (ملائکہ ) کی موجودگی سے پر ہو جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا استعارہ کے رنگ میں ذکر ہے اور اس کو ظاہری شکل میں نہ لینا چاہئے.ناقل ) جب لوگ (انسان ) اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو ملائکہ بھی آسمان 8
کی طرف واپس چلے جاتے ہیں.تب اللہ جل شانہ ان (فرشتوں) سے پوچھتا ہے(حالانکہ وہ خود بخوبی جانتا ہے کہ کیا واقعہ ہوا ہے.تم کہاں سے ہو کر آرہے ہو؟ تو وہ ( ملائکہ ) جواب دیتے ہیں ہم تیرے کچھ ایسے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جو کہ تیری ثنا ( تعریف ) کر رہے تھے.تیری کبریائی کے گن گارہے تھے.تیری توحید کا اعلان کر رہے تھے.تیری حمد کر رہے تھے اور مجھ سے دُعائیں مانگ رہے تھے.تب اللہ جل شانہ دریافت کریگا کہ وہ دُعا میں مجھے سے کیا مانگ رہے تھے؟ تب فرشتے جواب میں کہتے ہیں وہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے.تب اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے.تو فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں ہمارے آقا انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی ہے.اُس پر اللہ تعالیٰ فوراً سوال کرتا ہے کہ اگر انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہوتا تو پھر کیا مانگتے ؟ ملائکہ اپنے جواب کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تیری پناہ مانگتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس پر پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے میری پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ تیرے آگ کے عذاب سے.پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ کے عذاب کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں.نہیں.انہوں نے وہ آگ نہیں دیکھی ہے.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہوں نے میری آگ کے عذاب کو دیکھا ہوتا تو کیا ہوتا ؟ تب ملائکہ کہتے ہیں کہ وہ تیری طرف سے بخشش کے طلب گار ہیں.اللہ تعالیٰ جواب میں کہتا ہے کہ میں نے ان کو وہ سب کچھ عطا کر دیا جو انہوں نے کبھی بھی مجھ سے مانگا اور میں نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا جو انہوں نے مجھ سے مانگی.تب فرشتے کہتے ہیں کہ اے ہمارے آقا ان میں سے ایک آدمی تو سخت گناہ گار ہے وہ تو اس ( مجلس) کے پاس سے گزر رہا تھا اور ان کے پاس چند لمحوں کے لئے بیٹھ گیا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو بھی میں نے معاف کیا وہ میرے رحم وکرم کے ایسے مستحق ہیں کہ جو ان کی مجلس میں شریک ہو گیا وہ بھی میری بخشش سے محروم نہیں رہا.9
محبت الہی ١٠- عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَا وَدَعَلَيْهِ السَّلَامُ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ ، اللهُمَّ اجْعَلْ حُبّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَّفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ (ترمذی کتاب الدعوات) حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام ان الفاظ میں دُعا فرماتے تھے.اے میرے آقا مجھ کو اپنی محبت کا سزاوار کر اور ان لوگوں کی محبت عطا کر جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور ایسے کام کرنے کا شوق (محبت) عطا کر جس سے تیری خوشنودی ( محبت ) حاصل ہو.اے میرے آقا مجھکو میری زندگی کی محبت سے بھی بڑھ کر اور اپنے عزیز واقرباء کی محبت سے بھی بڑھ کر اور اُس شخص کی ٹھنڈے پانی کی خواہش سے بھی بڑھ کر جو سخت دھوپ میں گرمی سے مر رہا ہو ان سب سے بڑھ کر اپنی محبت عطا کر.-11 ١١ - عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ : أَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ تُحِبَّ الْمَرْءِ لا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ، وَأَنْ يُكْرَةَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ 10
انْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقَذَفَ فِي النَّارِ.(بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- تین باتیں ہیں جس میں وہ ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کرے گا.اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اُسے زیادہ محبوب ہوں.دوسرے یہ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفر سے نکل آنے کے بعد پھر کفر میں لوٹ جانے کو اتنا نا پسند کرے جتنا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے.۱۲- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الرَّحْمَةِ مَا قَنَطُ مِنْ جَنَّتِهِ اَحَدٌ.(مسلم کتاب التوبة باب فى سعة رحمة الله) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی سختی اور وسعت کا علم ہو جائے تو اس کو جنت کے حصول سے مایوسی ہو جائے اور اگر ایک کافر کو اللہ تعالیٰ کی بے اندازہ رحمت کا علم ہو جائے تو وہ جنت کے حصول سے کبھی مایوس نہ ہو.۱۳ - عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 11
قَالَ قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : أَنَا عِنْدَ ظَنِ عَبْدِي في فَلْيَظُن في مَا شَاء (بخاری کتاب التوحید باب يحذركم الله نفسه و مسند دار می باب حسن الظن حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرا اپنے بندوں کے ساتھ برتاؤ اپنی ذات کے ساتھ حسن ظن اور بدظنی رکھنے کے درجہ کے مطابق ہوتا ہے.۱۴ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ : أَنَا عِنْدَ ظَنِ عَبْدِي بِي وَانَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي وَاللهِ : اللَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَتَهُ بِالْفَلَاةِ وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَى شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَى ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِذَا أقْبَلَ إِلَى يَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرُولُ.(مسلم کتاب التوبة باب فى الحضّ على التوبة) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.” میں اپنے بندے سے اس کے اس حسنِ ظن کے مطابق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے جہاں بھی وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں.“ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی تو بہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا وہ شخص بھی خوش نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.”جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو 12
میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں.“ ۱۵ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَةُ الْمَوْتُ أَوْصَى بَنِيْهِ فَقَالَ إِذَا أَنَا مِتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اسْحَقُونِي ثُمَّ ذَرُونِي فِي الرِّيحِ فِي الْبَحْرِ فَوَا اللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَى رَبِّ لَيُعَذِّبُنِي عَذَابًا مَّا عَذَّبَهُ أَحَدًا قَالَ فَفَعَلُوا بِهِ ذَلِكَ ، فَقَالَ لِلْأَرْضِ ادِى مَا أَخَذْتِ ، فَإِذَا هُوَ قَائِمُ فَقَالَ لَهُ : مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ خَشْيَتُكَ أَوْ مَخَافَتُكَ يَارَب ! فَغَفَرَ لَهُ.(بخاری کتاب التوحید، ابن ماجه کتاب الزهد باب ذكر الذنوب، مسند احمد جلد ۲ صفحه ۲۶۹) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ :- ایک مرتبہ ایک ایسا شخص تھا جس نے بہت گناہ کئے تھے جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میرے مرنے کے بعد میری لاش کو جلا دینا.ریزہ ریزہ کر کے اُس کا سفوف بنا دینا اور پھر میرے جسم کی راکھ کوسمندر کے قریب لے جا کر ہوا میں بکھیر دینا.مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھکو پکڑ لیا تو مجھ کو ایسی سزا دیگا جو آج تک کسی کو نہ دی ہوگی ( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹوں نے وہی کیا جو ان کو کہا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے جسم کے تمام ذرات جہاں کہیں بھی ہیں وہ حاضر کر دیئے 13
جائیں اس طرح وہ شخص اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کر دیا گیا.اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ تجھ سے میرے خوف نے مجھ کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کر دیا.14
قرآن کریم ١٢ - عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے.١٤- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى -12 اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَلِي مِنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِب.(ترمذی فضائل القرآن باب من قرأ حرفًا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس کو قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی یاد نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے.“ ۱۸ - عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيبًا فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوْشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَانَا تَارِكَ فِيْكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَتَّ عَلَى 15
كِتَابِ اللهِ وَرَغَبَ فِيْهِ ثُمَّ قَالَ، وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، أَذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بيتى (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل على) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد یہ تلقین اور تنبیہ کی:- اے لوگو! میں ایک انسان ہوں.ایسا ہونا ہے کہ ایک دن میرے آقا ( یعنی اللہ ) کا پیغامبر آئیگا اور میں اس دُنیا سے رخصت ہو جاؤنگا.میں دوا ہم چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ کی کتاب جس میں ہدایت اور نور ہے پس اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو اور اس پر عمل کرو.اس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کے بارہ میں جذ بہ کو ابھارا (پھر کہا کہ ) میں اپنے اہل بیت کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں میں تم کو انتباہ کرتا ہوں کہ تم میرے اہلِ بیت کے ساتھ سلوک کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا.16
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ١٩ - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْلى قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْتِفُ وَلَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِى لَهُمَا حَاجَتَهُمَا.(مسند دار می باب فی تواضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت عبداللہ بن ابو اؤ فی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیوگان اور مساکین (ضرورتمندوں) کی صحبت کو نہ تو حقارت سے دیکھتے تھے اور نہ نفرت فرماتے تھے بلکہ اس کے برعکس آپ ہمیشہ ان کی امداد کے موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے.(مسند دارمی) ٢ - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَط بِيَدِهِ وَلَا امْرَأَةً وَلَا خَادِمًا إِلَّا أَنْ تُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا نِيْلَ مِنْهُ شَيْءٍ قَط فَيَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيْءٍ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عَزّ وَجَلٌ.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعدته الأثام واختياره من المباح) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو ہاتھ سے نہیں مارا پیٹا.نہ کسی عورت کو نہ کسی نوکر کو.حالانکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ( قال ) کیا.اگر کبھی آپ کو کسی سے دُکھ پہنچا تب بھی آپ نے اس کا بدلہ نہیں لیا.لیکن جب کبھی 17
شعائر اللہ کی بہتک کی گئی تو آپ نے اللہ جل شانہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا.٢١ - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْلِفُ الْبَعِيرَ وَيُقِيمُ الْبَيْتَ وَيَخْصِفُ النَّعْلَ وَيَرْقَعُ الثَّوْبَ وَيَحْلِبُ الشَّاةَ وَيَأْكُلُ مَعَ الْخَادِمِ وَيَطْحَنُ مَعَهُ إِذَا أَعْيَا وَكَانَ لَا يَمْنَعُهُ الْحَيَاءُ أَنْ يَحْمِلَ بِضَاعَتَهُ مِنَ السُّوقِ إِلَى أَهْلِهِ وَكَانَ يُصَاحَ الْغَنِي وَالْفَقِيرَ وَيُسَلِّمُ مُبْتَدِيًا وَلَا يَحْتَقِرُ مَا دُعِيَ إِلَيْهِ وَلَوْ إلى حَشْفِ التَّمْرِ وَكَانَ هَيْنَ الْمُؤْنَةِ ، لَيْنَ الْخُلُقِ، كَرِيمَ الطَّبِيعَةِ، جَمِيْلَ الْمُعَاشَرَةِ ، طَلِقَ الْوَجْهِ، بَشَامًا مِنْ غَيْرِ ضِحَكَ مَحْزُونًا مِنْ غَيْرِ عُبُوسَةٍ مُتَوَاضِعًا مِنْ غَيْرِ مَذِلَّةٍ، جَوَادًا مِنْ غَيْرِ سَرَفٍ رَقِيْقَ الْقَلَبِ رَحِيمًا بِكُلِّ مُسْلِمٍ لَمْ يَتَجَشَّأْ قَط مِن شَبَعٍ وَلَمْ يَمُدَّ يَدَهُ إِلى طَمَع - (مشكوة كتاب الفتن باب فی اخلاقہ قشیریہ ص ۵، اسد الغابة جلد اول ص ۲۹) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے.گھر کے کام کاج کرتے.اپنی جوتیوں کی مرمت کر لیتے.کپڑے کو پیوند لگا لیتے.بکری دوہ لیتے.خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے.آٹا پیتے پیتے اگر وہ تھک جاتا تو اس میں اس کی مدد کرتے.بازار سے گھر کا سامان اُٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے.امیر وغریب ہر ایک سے مصافحہ کرتے.سلام میں پہل کرتے.اگر کوئی معمولی کھجوروں کی بھی 18
دعوت دیتا تو آپ اسے حقیر نہ سمجھتے اور قبول کرتے.آپ نہایت ہمدرد نرم مزاج اور حلیم الطبع تھے.آپ کا رہن سہن بڑا صاف ستھرا تھا.بشاشت سے پیش آتے.تبسم آپ کے چہرے سے جھلکتا رہتا.آپ زور کا قہقہ لگا کر نہیں ہنتے تھے خدا کے خوف سے فکر مند رہتے لیکن ترشروئی اور خشکی نام کو نہ تھی.منکسر المزاج تھے لیکن اس میں کسی کمزوری یا پست ہمتی کا شائبہ تک نہ تھا.بڑے سخی لیکن بے جا خرچ سے ہمیشہ بچتے تھے.نرم دل.رحیم و کریم تھے.ہر مسلمان سے مہربانی سے پیش آتے.اتنا پیٹ بھر کر نہ کھاتے کہ اباسیاں لیتے رہیں.کبھی حرص وطمع کے جذبہ سے ہاتھ نہ بڑھاتے بلکہ صابر وشاکر اور کم پر قانع تھے.(مشکوۃ) ۲۲ - عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِي رَضِيَ اللهُ عنه قَالَ : أَخْرَجَتْ لَنَا عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا كِسَاءَ وَإِزَارًا غَلِيظًا قَالَتْ : قُبِضَ رَسُولُ الله ﷺ فِي هَذَيْنِ بخاری کتاب اللباس باب الاكسية) حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موٹی کھدر کی چادر اور تہبند نکال کر دکھائی اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت یہ کپڑے پہن رکھے تھے.19
اسلام کی بنیاد ۲۳ - عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ : شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلوةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكوة وَعَجَ الْبَيْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ..(بخاری کتاب الایمان باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی الاسلام) حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے.اوّل یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ہے دوسرے نماز قائم کرنا.تیسرے زکوۃ دینا.چوتھے بیت اللہ کا حج کرنا پانچویں روزے رکھنا.- عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ القِيَابِ ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا اَحَدٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكُبَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ : مَا الْإِيْمَانُ ؟ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَره (ترمذی کتاب الایمان باب في وصف جبريل النبی ﷺ الایمان والاسلام) 20
حضرت عمر بن الخطاب بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے اور بالوں کا رنگ سیاہ تھانہ وہ مسافر لگتا تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھاوہ آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کے ساتھ اپنے گھٹنے ملا کر مؤدب بیٹھ گیا اور عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایمان کسے کہتے ہیں آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر.یوم آخرت اور خیر وشر کی تقدیر پر ایمان لائے.21
نماز کی شرائط اور آداب ۲۵ - عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ دَعَا بِإِنَاءٍ فَأَفْرَغَ عَلَى كَفَّيْهِ ثَلكَ مِرَارٍ فَغَسَلَهُمَا ثُمَّ أَدْخَلَ يَمِيْنَهُ فِي الْإِنَاءِ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَقًا وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلكَ مِرَارٍ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَكَ مِرَارٍ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يفيت فِيهِمَا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَليه.(بخاری کتاب الوضوء باب الوضوء ثَلنَّا ثَلنَّا) حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ پانی منگوایا.پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے پھر اپنے دائیں ہاتھ سے پانی لیکر کلی کی ، ناک صاف کیا پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا.پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے.اس کے بعد سر کا مسح کیا.پھر ٹخنوں تک اپنے پاؤں تین بار دھوئے اور اس طرح وضو مکمل کرنے کے بعد کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس نے اس طرح سے وضو کیا جس طرح میں نے کیا ہے پھر وساوس سے محفوظ رہ کر خشوع وخضوع سے دورکعت نماز پڑھی اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اَلَا اَدلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا ، وَيَرْفَعُ بهِ الدَّرَجَاتِ ؟ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ : قَالَ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ 22
عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطا إِلَى الْمَسَاجِدِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلوة بَعْدَ الصَّلوةِ، فَتلِكُمُ الرِّبَاطُ ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ.(مسلم کتاب الطهارات باب فضل اسباغ الوضوء على المكاره) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے فرمایا دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد میں دُور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ بھی ایک قسم کا رباط ہے یعنی یہ بات سرحد پر چھاؤنی قائم کرنے کی طرح ہے.۲۷- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِالْحَمْدِ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوَّبُهُ وَلَكِن بَيْنَ ذلِكَ.وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدُ حَتَّى يَسْتَوِى قَائِمًا وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدُ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحَيَّةَ وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصُبُ رِجْلَهُ الْيُمْنى وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقْبِ الشَّيْطَانِ وَكَانَ يَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلوةَ بِالتَّسْلِيم - 23 (مسند احمد جلد ۶ صفحه۳۱)
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر ( یعنی اللہ اکبر ) کہہ کر نماز شروع کرتے.اس کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھتے جب رکوع کرتے تو نہ سر کو او پر اُٹھا کر رکھتے نہ نیچے جھکاتے بلکہ پیٹھ کے برابر اور ہموار رکھتے اور جب رکوع سے اٹھتے تو سیدھے کھڑے ہو کر پھر سجدہ میں جاتے اور جب سجدہ سے سر اُٹھاتے تو پوری طرح بیٹھنے کے بعد دوسرا سجدہ کرتے اور پھر دورکعتوں کے بعد تشہد کے لیے بیٹھتے اپنا دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور بایاں بچھا دیتے اور اس طرح بیٹھ کر تشہد پڑھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے یعنی ایڑیوں پر بیٹھنے سے منع فرماتے اور سجدہ میں باز و بچھانے سے منع فرماتے جس طرح کہ کتا اپنے بازو بچھا کر بیٹھتا ہے آخر میں آپ السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہہ کر نماز ختم کرتے.۲- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَى الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ تَعَالَى ؟ قَالَ : الصَّلوةُ عَلَى وَقْتِهَا : قُلْتُ ثُمَّ الى ؟ قَالَ : بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ : ثُمَّ أَيُّ ، قَالَ : الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ (بخاری کتاب الجهاد باب فضل الجهاد والسير) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے آپ نے فرما یا وقت پر نماز پڑھنا میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرما یا ماں باپ سے نیک سلوک کرنا پھر میں نے عرض کی کہ اس کے بعد کونسا؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا.۲۹ - عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مُرُوا أَوْلَادَكُمْ 24
بِالصَّلوةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ ابْنَاءُ عَشْرِ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.(ابو داؤد باب متى يؤمر الغلام بالصلوة مسند احمد جلد ۲ صفحه۱۸۰) حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جا ئیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کرو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو اور اس عمر میں ان کے بسترے بھی الگ کر دو.۳۰ - عَنْ فَاطِمَةَ الزُّهْرَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، قَالَ : بِسْمِ اللهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَإِذَا خَرَجَ قَالَ : بِسْمِ اللهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ.( مسند احمد حدیث فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد ۲ صفحہ ۲۸۳) ۳۰- حضرت فاطمتہ الزہرا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہونے لگتے تو یہ دُعا پڑھتے.اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اللہ کے رسول پر سلامتی ہو، اے میرے اللہ ! میرے گناہ بخش اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے.“ اور جب آپ مسجد سے نکلنے لگتے تو یہ دعا مانگتے.اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رسول پر سلامتی ہو.اے میرے اللہ ! میرے گناہ بخش.اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے.“ 66 25
روزه ٣١- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عليه وسلم : قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ : كُل عمل بن ادم له إِلَّا الصَّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِئُ بِهِ.وَالصَّيَامُ جُنَّةً فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُتُ وَلَا يَصْحَبُ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ : إِنِّي صَائِمُ.وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ تَخْلُوْفُ قمِ الصَّائِمِ أَطيبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ (بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا ستم) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان کے سب کام اس کے اپنے لیے ہیں مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا بنوں گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.روزہ ڈھال ہے پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بے ہودہ باتیں کرے نہ شور و شر کرے اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو اسے کہنا چاہئے کہ میں روزہ سے ہوں.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار ہے کیونکہ اس نے اپنا یہ حال خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری اس وقت جب روزے کی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوگی.26
-٣٢ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَمْ يَدَعُ قَوْلَ النُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.(بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں.۳۳ - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ تَعَالَى ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ - (بخاری کتاب الاعتكاف باب الاعتكاف في العشر الاواخر) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور آپ کا یہی معمول وفات تک رہا اس کے بعد آپکی ازواج مطہرات بھی ان دنوں میں اعتکاف بیٹھتی تھیں.27
حج -٣- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَاأَيُّهَا النَّاسُ : إِنَّ اللهَ قَد فَرَضَ عَلَيْكُمُ الْحَج فَحُجُّوا ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُوْلَ اللهِ ؟ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ : ذَرُونى مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ ، وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَاسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْيءٍ فَدَعُوهُ.(مسلم کتاب الحج باب فرض الحج مرة فى العمر ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطاب میں ارشاد فرمایا اے لوگو ! تم پر اللہ نے حج فرض کیا ہے اسلئے تم حج کیا کرو اس پر ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج ضروری ہے آپ خاموش رہے اس نے تین بار یہ سوال دہرایا تو آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر ایک پر ہر سال حج فرض ہو جا تا اور تم ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتے پھر فرمایا جب تک میں تم کو چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑے رکھو! بلا ضرورت باتیں پوچھنے کی حرص نہ کرو.کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سے سوال کیا کرتے تھے.اور پھر جو باتیں وہ بتاتے ان کی خلاف ورزی کر کے ہلاکت کے گڑھے میں 28
جا گرتے جب میں خود تم کو کوئی حکم دوں تو طاقت کے مطابق اسے بجالا ؤ اور اگر کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو.-۳۵- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَن حَجّ لِلّهِ فَلَمْ يَرْفُتُ وَلَمْ يَفْسُقُ رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ - (مشكوة كتاب المناسك) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کی خاطر حج کرے اور پھر وہ نہ بے ہودہ باتیں کرے اور نہ فسق و فجور کا مرتکب ہو تو وہ وہاں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے گا جیسے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا.29
انفاق فی سبیل اللہ ٣٦- عَنْ مُعَادٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذلِكَ فَأَعْلِمُهُمُ أَنَّ اللهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذلِكَ فَأَعْلِمُهُمْ أَنَّ اللهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ - وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ.(بخاری کتاب الزكوة باب لا تؤخذ كرائم اموال الناس في الصدقة) حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کا حاکم بناتے ہوئے یہ ہدایات دیں کہ تو اہلِ کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہا ہے ان کو سب سے پہلے کلمہ شہادت ( یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ) کی طرف دعوت دینا اگر وہ اس بات کو مان لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس بات کو مان لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو امیروں سے لے کر غرباء کو دیا جاتا ہے اور اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں تو پھر ان کے بہترین اموال سے ہاتھ روکے رکھنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیونکہ مظلوم اور خُدا کے درمیان کوئی 30
رکاوٹ نہیں ہوتی.۳۷ - عَنْ خُرِّيمِ بْنِ فَاتِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةٌ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ كُتِبَ لَهُ سَبْعُ مِائَةِ ضِعْفٍ.ترمذی باب فضل النفقة فى سبيل الله حضرت خریم بن فاتک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے.۳۸- عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : كَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اَكْثَرَ الْأَنصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُ حَاءَ ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَّاءٍ فِيْهَا طَيِّبٍ ، قَالَ أَنَسُ : فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا هِمَا تُحِبُّونَ، جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ! اِنَّ اللهَ تَعَالَى انْزَلَ عَلَيْكَ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ، وَإِنَّ أَحَبَّ مَالِي إِلَى بَيْرُ حَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ تَعَالَى اَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللهِ تَعَالَى فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ 31
وَسَلَّمَ : نَج: ذلِكَ مَالٌ رَائِحُ ذَلِكَ مَالُ رَائِحَ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ وَإِنِّي أَرى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ - فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ اَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللهِ : فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِى عَلَيْهِ.(بخاری کتاب التفسير باب لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبّون) : حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ انصاری مدینہ کے انصار میں بڑے مالدار تھے ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سے سب سے زیادہ عمدہ باغ بیرحاء نامی تھا جو حضرت طلحہ کو بہت پسند تھا اور مسجد نبوی کے سامنے بالکل قریب تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اس باغ میں جاتے اور اس کا میٹھا اور عمدہ پانی پیتے جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جب تک تم اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہیں کرتے نیکی کو نہیں پاسکتے تو حضرت طلحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! آپ پر اس مضمون کی آیت نازل ہوئی ہے اور میری سب سے پیاری جائیداد بیرحاء باغ ہے میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرہ میں شامل کر دیگا.حضور اپنی مرضی کے مطابق اس کو اپنے مصرف میں لائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ ! واہ ! بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ مال ہے.بڑا نفع مند ہے اور جوتُو نے کہا ہے وہ بھی میں نے سن لیا ہے میری رائے یہ ہے کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں کو دید و چنانچہ حضرت طلحہ نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں اور چیرے بھائیوں میں تقسیم کر دیا.۳۹- عَنْ عَدِي بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ (بخاری کتاب الزکوة باب اتقوا النار ولو بشق تمرة) 32
حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور دیکر ہی کیوں نہ ہو.٤٠ - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللهِ تَعَالَى قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ بَعِيْدُ مِنَ النَّارِ وَالْبَخِيْلُ بَعِيْدُ مِنَ اللهِ تَعَالَى بَعِيْدُ مِنَ النَّاسِ بَعِيْدُ مِنَ الْجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ وَالْجَاهِلُ السَّخِنُ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الْعَابِدِ الْبَخِيْلِ.(قشيريه - الجود والسخاء) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے.لوگوں کے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے اس کے برعکس بخیل اللہ تعالیٰ سے دُور ہوتا ہے لوگوں سے دُور ہوتا ہے جنت سے دُور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے.ان پڑھ ینی بخیل عابد سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللهِ : أَى الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأَمَّلَ الْغِلَى وَلَا تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا وَكَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ (مشكوة كتاب الانفاق) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے 33
پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اجر کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ اجر کے لحاظ سے وہ صدقہ بڑا ہے کہ تو اس حال میں صدقہ کرے کہ تو بالکل تندرست ہو اور خود بھی خواہش رکھتا ہو اور تو ڈرتا ہو غربت سے اور طمع رکھتا ہو کہ تو غنی ہو جائے اور تو نہ مہلت دے ( یعنی صدقہ دینے میں اتنی دیر نہ کرو) کہ جان نکلتے ہوئے گلے تک پہنچ جائے اور پھر تو خیال کرے کہ میں اس مال کو فلاں جگہ خرچ کروں اور میرا یہ مال میرے فلاں وارث کو ملے گا.34
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۴۲ - عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَ اللهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ.(ترمذی ابواب الفتن باب الامر بالمعروف والنهي عن المنكر) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یا تو تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سخت عذاب سے دو چار کر دیگا پھر تم دُعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی.۴۳- عَنْ نُعْمَانَ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ.فَقَالُوا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرُقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا.(بخاری کتاب الشركة باب هل يقرع فى القسمة والاستهام فيه) 35
حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھتا ہے اور جو ان کو تو ڑتا ہے ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے ایک کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لئے قرعہ ڈالا.کچھ لوگوں کو اوپر کا حصہ ملا اور کچھ کو نیچے کی منزل میں جگہ ملی.جو لوگ نیچے کی منزل میں تھے وہ اوپر والی منزل میں سے گزر کر پانی لیتے تھے پھر انہیں خیال آیا کہ خواہ مخواہ ہم اوپر کی منزل والے لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں کیوں نہ ہم نیچے کی منزل میں سوراخ کر لیں.اور وہاں سے پانی لے لیا کریں اب اگر اوپر والے ان کو ایسا احمقانہ فعل کرنے دیں تو سب غرق ہو جائیں گے اور اگر ان کو روک دیں تو سب بچ جائیں گے.۴۴- عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرُ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ.(مسلم کتاب الفضائل باب فضائل علی بن ابی طالب و بخاری کتاب الجهاد) حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرما یا اگر اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے اعلیٰ درجہ کے سُرخ اونٹوں کے مل جانے سے بہتر ہے (سرخ اونٹ عربوں کی قیمتی متاع اور دولت سمجھی جاتی تھی.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أجُورٍ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ أَثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا 36
يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَثَامِهِمْ شَيْئًا.(مسلم کتاب العلم باب من سن حسنة او سيئة) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص کسی کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا ثواب اس بات پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں کچھ بھی کم نہیں ہوتا اور جو شخص کسی گمراہی اور برائی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اسی قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر کہ اس برائی کرنے والے کو ہوتا ہے اور اس کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی.٤٦- عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : يَسِرُ وا وَلَا تُعَسّرُوا وَبَيَّرُ وا وَلَا تُنَفِّرُوا - (مسلم كتاب الجهاد باب فى الامر بالتيسير وترك التنفير) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے لئے آسانی مہیا کرو.ان کے لئے مشکل پیدا نہ کرو.خوش خبری دوان کو مایوس نہ کرو.37
حلال و حرام ۴۷ - عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِي جُرْثُومِ بْنِ نَاشِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيْعُوهَا ، وَحَدَّلَكُمْ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً لَكُمْ غَيْرَ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا.(دار قطنی) ابو ثعلبہ منی جرثوم بن ناشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں ان کو ضائع مت کرو اور اس نے کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ اشیاء کو حرام ٹھہرایا ہے ان کی حرمت کو نہ توڑو اور بعض چیزوں کے بیان کرنے میں از راہ شفقت و رحمت خاموشی اختیار فرمائی ہے نہ کہ بھول سے.پس ان کی کرید میں مت پڑھو.۴۸- عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ الْحَلَالَ بَيْنَ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنُ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَالِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمَّى ، أَلَا وَإِنَّ حِمَى 38
اللهِ مَحَارِمُهُ ، اَلا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُه ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ : أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ (مسلم کتاب البیوع باب اخذ الحلال) حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.حرام اور حلال واضح ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جنکو اکثر لوگ نہیں جانتے.پس جو لوگ مشتبہات سے بچتے رہے انہوں نے اپنے دین کو اور اپنی آبرو کو محفوظ کر لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا بہت ممکن ہے کہ وہ حرام میں جا پھنسے یا کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے.ایسے شخص کی مثال بالکل اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ علاقہ کے قریب قریب اپنے جانور چراتا ہے بالکل ممکن ہے کہ اس کے جانور اس علاقہ میں گھس جائیں.دیکھو ہر بادشاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہوتا ہے جس میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی.یا درکھو اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ اس کے محارم ہیں اور سنو انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب تک وہ تندرست اور ٹھیک رہے تو سارا جسم تندرست اور ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب اور بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار اور لاچار ہوجاتا ہے اور اچھی طرح یا درکھو کہ یہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے.39
- ۴۹ نکاح عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعِ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا ، فَاظُفُرْ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ.(بخاری کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا اس کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے لیکن تو دیندار عورت کو ترجیح دے اللہ تیرا بھلا کرے ( تجھے دیندار عورت حاصل ہو ) ۵۰ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ : شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدعَى لَهَا الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الْفُقَرَاءُ وَمَنْ لَمْ يُجب الدعوَةَ فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُولَهُ.(مسلم کتاب النکاح باب الامر باجابة الداعي الى دعوة) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کی بدترین دعوت وہ ہے جس میں امراء کو بلایا جائے اور غرباء کو چھوڑ دیا جائے اور جو شادی کی دعوت کو قبول نہ کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے.40
۵۱- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ابْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ الطَّلَاقُ (ابو داؤد کتاب الطلاق باب في كراهية الطلاق) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال اور جائز باتوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ بات طلاق ہے ( یعنی ضرورت کی بنا پر اس کی اجازت تو ہے لیکن ہے خدا کو سخت ناپسند ) ۵۲ - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَانَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي (ابوداؤد) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل ( بیوی بچوں) سے سب سے بہتر سلوک کرنے والا ہے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل سے اچھا سلوک کرتا ہوں.41
۵۳ حُسنِ سلوک عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ مِنْ اَحَتِكُمْ إِلَى وَأَقْرَبِكُمْ مِي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا، وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِكُمْ إِلَى وَأَبْعَدِ كُمْ مِنِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْقَارُونَ وَالْمُتَشَرِّقُونَ وَالْمُتَفَيْهِقُونَ ! قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ : قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْنَارُونَ وَالْمُتَشَدِقُونَ فَمَا الْمُتَفَيْهِقُوْنَ؟ قَالَ : الْمُتَكَثِرُونَ.(ترمذی کتاب البر والصلة باب في معالى الاخلاق) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہونگے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہونگے اور تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دُور وہ لوگ ہونگے جوثر تاریعنی منہ پھٹ.بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے ہیں.متشدق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اور مُتفيهقی.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ رہا اور متشدق کے معنی تو ہم جانتے ہیں متفق کیسے کہتے ہیں آپ نے فرمایا مُتفيهق متکبر انہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں.-۵۴ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَيَّمَ 42
مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ (السنن الكبرى كتاب الشهادة باب بیان مکارم الاخلاق) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اعلیٰ ترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے.-۵۵ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ نَفْسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفْسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يسرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِّنْ بُيُوتِ اللهِ تَعَالَى يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَيَتَدَارَسُوْنَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِيْنَةُ وَغَشِيَتُهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَتُهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَاً بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعُ بِهِ نَسَبُهُ.(مسلم کتاب الذكر باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی 43
مسلمان کی دنیوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کریگا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کو آرام پہنچایا اور اس کے لیے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کر لگا.جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لیے تیار ہو.جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کے درس و تدریس میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت اور اطمینان نازل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت انکو ڈھانپے رکھتی ہے.فرشتے ان کو گھیرے رکھتے ہیں.اپنے مقربین میں اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتا رہتا ہے جو شخص عمل میں مست رہے اس کا نسب اور خاندان اس کو تیز رفتار نہیں بنا سکتا یعنی وہ خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا ابْنَ آدَمَ! مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدُنِي ، قَالَ : يَا رَبِّ ! كَيْفَ اَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ، قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فَلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدُهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدتَهُ لَوَجَدُتَنِي عِنْدَهُ - يَا ابْنَ آدَمَ : اِسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمُنِي ، قَالَ : يَارَب ! وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ، قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمُهُ ، أَمَا -۵۶ 44
عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدُتَ ذُلِكَ عِنْدِي - يَا ابْنَ آدَمَ ! اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي ، قَالَ : يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ، قَالَ : اِسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمُ تَسْقِهِ أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذُلِكَ عِنْدِي.(مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی تھی.اس پر وہ جواب دیگا.اے رب العالمین.تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے اور میں تیری عیادت کس طرح کرتا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.کیا تجھے معلوم نہیں ہوا تھا کہ میرا افلاں بندہ بیمار ہے اور تو اس کی عیادت کے لیے نہیں گیا تھا کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا.اور اس کی عیادت میری عیادت ہوتی.اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھاناما نگا مگر تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا.وہ کہے گا اے میرے رب تو تو رب العالمین ہے کھانے سے بے نیاز ہے میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یہ لم نہیں کہ میرے بندے نے تجھ سے کھاناما نگا تھا اور تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا.کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو گو یا تو نے مجھے یہ کھانا کھلایا ہوتا.اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایا.وہ کہے گا.اے میرے رب تو رب العالمین ہے.پیاس سے بے نیاز ہے.میں تجھے کیسے پانی پلاتا اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا.تو نے اسے پانی نہیں پلایا تھا.کیا تجھے یہ مجھ نہ آئی کہ اگر تو اسے پانی پلا تا توگو یا تو نے یہ مجھے پانی پلایا ہوتا اور اس کا ثواب میں تجھے دیتا.45
۵۷ - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ لَن تَسْعُوا النَّاسَ بِأَمْوَالِكُمْ فَسَعُوهُمْ بِبَسْطِ الْوَجْهِ وَحُسْنِ الْخُلُقِ.(رساله قشیریه، باب الخلق ص ۱۲۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم لوگوں کی اپنے اموال سے مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم حسن اخلاق بشاشت اور ہنستے چہرہ کے ساتھ ان سے ملوتا کہ کچھ تو انکی دلداری ہو.46
اسلامی معاشرہ ۵۸- عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا يُؤْمِنْ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبُّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِه.(بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ دوسرے کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے یعنی اگر اپنے لیے آرام سکھ اور بھلائی چاہتا ہے تو دوسرے کے لئے یہی چاہے.۵۹ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ كُن وَرِعًا تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ وَكُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ وَاحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُن مُؤْمِنًا وَأَحْسِنُ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَكَ تَكُنْ مُسْلِمًا وَاقِل الضَّحِكَ فَإِن كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُميتُ الْقَلْبَ.(ابن ماجه کتاب الزهد باب الورع والتقوى) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار انکو مخاطب کر کے فرمایا.اے ابوہریرہ ! تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کر تو سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا.قناعت اختیار کر تو سب سے بڑا شکر گزارشمار ہوگا.جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو گے تو صحیح مومن سمجھے جاؤ گے.جو تیرے پڑوس میں بستا ہے اس سے 47
اچھے پڑوسیوں والا سلوک کرو تو بچے اور حقیقی مسلم کہلا سکو گے کم ہنسا کرو کیونکہ بہت زیادہ قہقہے لگا کر ہنسنا دل کو مُردہ بنا دیتا ہے.۶۰ - عَنْ أَبِي يُوْسُفَ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ : أَفَشُوا السَّلَامَ ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ ، وَصِلُّوا الْاَرْحَامَ ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامُ ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.ترمذی ابواب صفة القيمة حضرت ابو یوسف عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.اے لوگو! سلام کو رواج دو.ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ.صلہ رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں.اگر تم ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.٢١ - عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الْآخَرِ حَتَّى تَخْتَلِطُوا بِالنَّاسِ مِنْ أَجْلِ أَنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُهُ (مسلم کتاب السلام باب تحريم مناجاة الاثنين دون الثالث بغير رضاه حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تم تین ہو تو تم میں سے دو الگ سرگوشی نہ کریں جب تک کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل نہ جاؤ کیونکہ اس طرح تیسرے آدمی کو رنج ہوسکتا ہے کہ نہ معلوم انہوں نے کیا بات مجھ سے چھپائی ہے.48
٢٢ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : كَان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَطَسَ وَضَعَ يَدَهُ أَوْ ثَوْبَهُ عَلَى فِيْهِ وَخَفَضَ أَوْ غَضَّ بِهَا صَوْتَهُ شَكَ الرَّاوِى.(ترمذی کتاب الاستيذان باب فى خفض الصوت و تخمير الوجه) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب آپ کو چھینک آتی تو اپنا ہاتھ یا کپڑا منہ کے سامنے رکھ لیتے اور جس قدر ہوسکتا آواز کو دباتے.49
شکر گزاری و احسان مندی ۱۳ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَا يَشْكُرِ النَّاسَ لَا يَشْكُرِ الله.(ترمذی باب ما جاء فى الشكر لمن احسن اليك) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا.50
والدین سے حسن سلوک ۶۴ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ ! مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي ؟ قَالَ : أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ : أُمُّكَ.قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أُمُّكَ.قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ : أَبُوكَ.وَفِي رِوَايَةٍ S يَا رَسُولَ اللهِ ! مَنْ اَحَقُّ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ؟ قَالَ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أَبُوكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ.(بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے.آپ نے فرما یا تیری ماں.پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.اس نے چوتھی بار پوچھا تو آپ نے فرمایا ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے.پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار.۶۵ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَعْمَ أَنْفُ قِيْلَ مَنْ يَا رَسُوْلَ اللهِ : قَالَ : مَنْ اَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ (مسلم کتاب البر والصلة باب رغم انف من ادرك ابويه) 51
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مٹی میں ملے اس کی ناک.مٹی میں ملے اس کی ناک ( یہ الفاظ تین دفعہ آپ نے دوہرائے ) ( یعنی ایسا شخص سخت قابل مذمت اور بدقسمت ہے ).لوگوں نے عرض کیا حضور! کونسا شخص؟ آپ نے فرما یاوہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر وہ ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا.52
ہمسایہ سے حسن سلوک عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ رَضِي الله عنهما قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوْصِيْنِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِثُهُ (بخاری کتاب الادب باب الوصايا بالجار) حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عائشہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل مجھے ہمیشہ پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا آرہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اسے وارث ہی نہ بنادے.۶۷ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمُ ضَيْفَهُ ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْلِيَسْكُت.(بخاری کتاب الادب باب من كان يؤمن بالله واليوم الأخر) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یعنی سچا مومن ہے.وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے.جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے جو شخص اللہ 53
تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی اور نیکی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے.-YA /۶ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ : وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ : وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ : قِيْلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ : الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ.(بخاری کتاب الادب باب اثم من لا يأمن جاره بوائقه) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے.خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! کون مومن نہیں؟ آپ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اس کے اچانک واروں سے محفوظ نہ ہو.54
کمزوروں سے شفقت - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : رُبِّ أَشْعَكَ أَغْبَرَ مَدْفُوعِ بِالْأَبْوَابِ لَو أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَابَره (مسلم کتاب الجنة باب الناريدخلها الجبارون) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ ان کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہوتے ہیں یعنی بظاہر معمولی نظر آتے ہیں.دروازوں پر سے ان کو دھکے دیئے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اگر وہ قسم کھا لیں کہ ایسا ہو تو خدا تعالیٰ ویسا ہی کر دیتا ہے.۷۰- عَنْ أَبِي اللَّرُدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : اِبْغُونِ فِي ضُعَفَائِكُمْ فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ.(ترمذی کتاب الجهاد باب ما جاء في الاستفتاح بصعاليك المسلمين) حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.کمزوروں میں مجھے تلاش کرو.یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کر کے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو.یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے ہی تم کو رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے.55
-21 عفو و درگزر ۷۱- عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : أَفْضَلُ الْفَضَائِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ وَتُعْطِيَ مَنْ مَنَعَكَ وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَكَ.(مسند احمد جلد ۳ صفحه ۴۳۸) حضرت معاذ بن انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگز رکرے.۷۲- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَّالٍ وَلَا عَفَا رَجُلٌ عَنْ مَظْلِمَةٍ إِلَّا زَادَهُ اللهُ عِرًّا وَلا تَوَاضَعَ.(مسند احمد جلد ۲ صفحه ۲۳۵، جلد ۲ صفحه ۴۳۸) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.56
کھانے پینے کے آداب ۷۳- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَذْكُرِ اسْمَ اللهِ تَعَالَى ، فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يَذْكُرَ إِسْمَ اللهِ تَعَالَى فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ : بِسْمِ اللهِ أَوَّلَهُ وَاخِرَةَ (ترمذی کتاب الاطعمة باب ماجاء في التسمية على الطعام) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لے یعنی بسم اللہ پڑھے اگر شروع میں بھول جائے تو یاد آنے پر بِسْمِ اللهِ اوَّلَهُ وَاخِرَةُ پڑھ لے.- ۷۴ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ قَالَ : الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ.(ترمذى كتاب الدعوات باب ما يقول اذا فرغ من الطعام) حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا تناول فرماتے یا پانی پیتے تو بعد میں یہ دُعا پڑھتے.سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور مسلمان یعنی اطاعت شعار بنایا.57
لباس عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : إِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنِ الْحَرِيرِ وَالرِّيْبَاجِ وَالشُّرْبِ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَقَالَ : هِيَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا، وَهِيَ لَكُمْ فِي الْآخِرَةِ.(مسلم کتاب اللباس والزينة باب تحریم استعمال اناء الذهب والفضة) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ریشم اور دیباج پہنے سے منع فرمایا.اسی طرح سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت فرمائی اور ارشاد فرمایا یہ اس دنیا میں دوسروں کے لئے ہیں اور آخرت میں تمہارے لیے ہونگے.عَنْ أَبِي سَعِيدِنِ الْخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَجَلَّ ثَوْبًا سَماهُ بِاسْمِهِ.عِمَامَةً ، أَوْ قَمِيصًا ، أَوْ رِدَاءِ - يَقُولُ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيْهِ ، أَسْأَلُكَ خَيْرَةً وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ -24 شَرِهِ وَشَرِ مَا صُنِعَ لَهُ (ترمذی کتاب اللباس باب ما يقول اذا لبس ثوبًا جديدًا) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے عمامہ قمیص یا چادر.پھر فرماتے اے میرے اللہ تو ہی تعریف کا مستحق ہے تو نے ہی مجھے یہ کپڑا پہنایا.میں تجھ سے اس کپڑے کے فائدے ( خیر ) مانگتا ہوں اور اس مقصد کی 58
بھی خیر جس کے لیے یہ کپڑا بنا یا گیا ہے اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کپڑے کے نقصان اور اس مقصد کے شر سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے.59
صفائی و پاکیزگی - عَنْ أَبِي مَالِكِ الْأَشْعَرِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ (مسلم کتاب الطهارة باب فضل الوضوء) حضرت ابو مالک اشعری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا طہارت پاکیزگی اور صاف ستھرارہنا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : السَّوَاكُ مُطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِ.(نسائی باب الترغيب فى السواك) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک منہ کو صاف رکھنے والی اور رب کریم کی رضا و خوشنودی کا موجب ہے.60
۷۹- عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا يَبعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ ، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ اِخْوَانًا - الْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ : لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ وَلَا يَخْذُلُه - التَّقْوَى هُهُنَا - وَيُشِيرُ إِلى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِيءٍ مِّنَ الشَّرِ أَن يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ.(مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم وخذله) حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو.ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.اور بے رخی نہ کرو تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے.اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو.ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر نہ ظلم کرتا ہے نہ تحقیر کرتا ہے.نہ رسوا کرتا ہے.تقویٰ یہاں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہے.ایک انسان کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے.ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں.اس کا خون.اس کا مال اور اس کی آبرو.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ 61
وَسَلَّمَ قَالَ : إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ اَوْ قَالَ الْعُشْبَ.(ابو داؤد کتاب الادب باب في الحسد) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے.62
w عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً ، قَالَ : إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.(مسلم کتاب الایمان تحريم الكبر وبيانه) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا.ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہوا اسکے جوتے اچھے ہوں.آپ نے فرما یا اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے.تکبر در اصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے.لوگوں کو ذلیل سمجھے اور برائی سے پیش آئے.63
جھوٹ ۸۲- عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصَّدُقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَاِنَّ الْبِرِّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدِّقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا - (مسلم کتاب البر والصلة باب قبح الكذب و حسن الصدق وفضله) حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور آگ کی طرف لے جاتے ہیں اور جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.- عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟ قُلْنَا : بَلَى 64
يَا رَسُولَ اللهِ : قَالَ : الْإِشْرَاكُ بِاللهِ ، وَعَقُوقُ الْوَالِدَيْنِ ، وَكَانَ مُتَكَأَ فَجَلَسَ فَقَالَ : أَلَا وَقَوْلَ النُّورِ : فَمَازَالَ يُكَثِرُهَا حَتَّى قُلْنَا : لَيْتَهُ سَكَتَ.(بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین) حضرت ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیں آپ نے فرمایا.اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی.اس وقت آپ تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا.خبر دار جھوٹی بات سے بچنا.آپ اس جملہ کو اتنا دُہراتے رہے کہ ہم نے کہا کاش آپ خاموش ہو جائیں.65
مسلمانوں کا تنزیل ۸۴- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا آتى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ، قَالُوا مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ : مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي.(ترمذی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامة) حضرت عبد اللہ بن عمر" بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اُمت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کا مرتکب ہوا تو میری اُمت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقہ کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کونسا ہے تو حضور نے فرمایا.وہ فرقہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریق پر عمل پیرا ہو گا.66
-۸۵ عَنْ عَلي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُوْشِكُ أَنْ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ.( رَوَاهُ البيهقى فى شعب الايمان) (مشكوة كتاب العلم، الفصل الثالث صفحه ۳۸ کنز العمال جلد ۲ صفحه ۴۳) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قر آن کا کچھ باقی نہیں رہیگا (یعنی عمل ختم ہو جائیگا ) اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں تو بظاہر آباد نظر آئیں گی.لیکن ہدایت سے خالی ہونگی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہو نگے.ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے.یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہونگے.67
امام مہدی کی بعثت ٨٦ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ فَلَمَّا قَرَأَ : وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ، قَالَ رَجُلٌ مَّنْ هُؤُلَاءِ يَارَسُوْلَ اللهِ؟ فَلَمْ يُرَاجِعُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ : لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ القُرَيَالْعَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هؤلاء.(بخاری کتاب التفسير سورة جمعة و مسلم،صفحہ۱۷۰) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی.جب آپ نے اس سورہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم “ پڑھی (یعنی کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہیں جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے ) تو ایک شخص نے پوچھا یہ لوگ کون ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ان میں ابھی شامل نہیں ہوئے.تو آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا.اس آدمی نے تین دفعہ یہ سوال دُہرایا.روای کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی اس وقت ہمارے درمیان 68
بیٹھے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا ہو ( زمین سے اُٹھ گیا ہو) تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے آئیں گے ( یعنی آخرین سے مراد بنائے فارس ہیں جن میں سے مسیح موعود ہو نگے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہ کا درجہ پائیں گے).۷- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكُنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرْبَ وَيَفِيْضُ الْمَالَ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ اَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ، ثُمَّ يَقُولُ اَبْوَهُرَيْرَةَ وَاقْرَؤُا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا.(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم (یعنی مثیل مسیح) نازل ہونگے.صحیح فیصلہ کرنے والے.عدل سے کام لینے والے ہونگے.صلیب کو توڑیں گے.خنزیر کو قتل کریں گے لڑائی کو ختم کریں گے ( یعنی اس کا زمانہ مذہبی جنگوں کے خاتمہ کا زمانہ ہوگا اسی طرح وہ روحانی مال بھی لگا ئیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہیں کرے گا.ایسے وقت میں ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہو گا ( یعنی مادیت کے فروغ کا زمانہ ہوگا ) یہ روایت کرتے 69
ہوئے ابوہریرہ کہتے ہیں اگر تم چاہو تو یہ آیت وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمُ شَهِيدًا.پڑھ کر اس سے سمجھ سکتے ہو کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہیں مگر وہ اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا.۸۸ - أَلَا إِنَّ عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ ، أَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِى فِي أُمَّتِى مِنْ بَعْدِي ، أَلَا إِنَّهُ يَقْتُلُ الرِّجَالَ وَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ، أَلَا مَنْ أَدْرَكَهُ فَلْيَقْرَأُ عَلَيْهِ السَّلَامَ.(طبرانی الاوسط والصغير) یا درکھو مسیح موعود اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں.یا درکھو وہ میرے بعد میری اُمت میں میرا خلیفہ ہوگا.ہاں وہ دجال کو قتل کر دیگا.صلیب کو پاش پاش کر یگا.جز یہ ہٹا دیا کیونکہ مذہبی جنگوں کا زمانہ ختم ہو جائے گا اور ملکی لڑائیوں کے انداز بدل جائیں گے ) یاد رکھو جو بھی مسیح موعود سے ملاقات کا شرف حاصل کرے وہ میرا سلام انہیں ضرور پہنچائے.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَتُهُ مِلِي السَّلَامَ (در منثور صفحه ۲۴۵ / ج ۲) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو مسیح موعود سے ملنا نصیب ہو وہ میری طرف سے انہیں میر اسلام پہنچا دے.٩٠ - عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا 70
رَأَيْتُمُوْهُ فَبَايِعُوْهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِى (ابن ماجه کتاب الفتن) حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مہدی کو پاؤ تو اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف کے تو دوں پر سے گزرجانا پڑے تو جاؤ.کیونکہ وہ خلیفہ اللہ ہے اور مہدی ہے.11 ٩١- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ وَفِي رِوَايَةٍ فَأَقَكُمْ مِنْكُمْ.(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم الله - مسند احمد جلد ۲ صفحه ۳۳۶) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری حالت کیسی نازک ہوگی جب ابن مریم یعنی مثیل مسیح مبعوث ہوگا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض انجام دے گا.- عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَلِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : إِنَّ لِمَهْدِيَّنَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النَّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ.(سنن دار قطنی باب صفة صلوة الخسوف والكسوف وهيئتهما) 71
حضرت محمد بن علی نے فرمایا پیشگوئی کے مطابق ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ایسے ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے وہ کسی کی صداقت کے لیے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے اوّل یہ کہ اس کی بعثت کے وقت رمضان میں چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ ( یعنی ۱۳ رمضان ) کو چاند گرہن لگے گا اور سورج گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ ( یعنی ۲۸ / رمضان ) کو سورج گرہن لگے گا اور یہ دو نشان اس رنگ میں پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوئے.72
خُطبہ حجۃ الوداع ۹۳ - عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ شَهِدَ حَجَةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَرَ وَوَعَظَ ثُمَّ قَالَ : أَى يَوْمٍ أَحْرَمُ أَى يَوْمٍ أَحْرَمُ ، أَي يَوْمٍ أَحْرَمُ : قَالَ فَقَالَ النَّاسُ : يَوْمُ الْحَجَّ الْأَكْبَرِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّ دِمَانَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا أَلَا لَا يَحْيَى جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ وَلَا يَجْنِى وَالِدُ عَلَى وَلَدِهِ، وَلَا وَلَدٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ فَلَيْسَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِيْهِ شَيْءٍ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِهِ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبَأَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعُ لَكُمْ رُؤُسُ أَمْوَلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعُ كُلُّهُ أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَةٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ دَةٍ أَضَعُ مِنْ دَمِ الْجَاهِلِيَّةِ دَمَ الْحَارِثِ ابْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْبٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْراً، فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانِ عَنْدَ كُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلَّا 73
أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُهُ هُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّجٍ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا أَلَا وَإِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لَمِنْ تَكْرَهُونَ أَلَا وَإِنَّ حَقَّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ.(ترمذی ابواب التفسير سورة التوبه) ۹۳-سلیمان بن عمرو بن الاحوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شامل ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد کچھ نصائح فرما ئیں اور پھر صحابہ سے پوچھا.کونسا دن زیادہ حرمت والا ہے؟ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ حج اکبر کا دن سب سے زیادہ عزت والا ہے.آپ نے فرمایا پس یقیناً تمہارے خُون اور تمہارے مال اور عزتیں تمہارے لیے ایسے ہی عزت و حرمت رکھتے ہیں جو عزت یہ دن تمہارے اس شہر اور مہینہ میں رکھتا ہے اور سنو کو ئی ظلم کرنے والا سوائے اپنے نفس کے کسی پر ظلم نہیں کرتا پس کوئی باپ بیٹے پر یا بیٹا باپ پر ظلم نہ کرے.پھر سن رکھو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے پس کسی مسلمان کے لئے اپنے کسی بھائی کی کوئی چیز جائز اور حلال نہیں سوائے اس چیز کے جو کوئی خود دیدے.اور یہ بھی سن لو کہ جاہلیت کے تمام شود آج میں گا لعدم کرتا ہوں.البتہ تم اپنے راس المال کے مالک ہو گے.نہ تم ظلم کرو گے نہ تم 74
پر ظلم ہوگا، لیکن میں عباس بن عبد المطلب کا سارے کا سارا شود ( راس المال سمیت ) کالعدم قرار دیتا ہوں اور پھر سنو کہ جاہلیت کے خُون کے انتقام بھی آج سے ختم ہیں اور سب سے پہلے میں خود جاہلیت میں اپنے چچا حارث بن عبد المطلب کے کئے گئے خون کا انتقام معاف کرتا ہوں.حارث بنولیث میں اپنے زمانہ رضاعت میں ہی قبیلہ ہذیل کے ہاتھوں قتل ہو گئے تھے اور یاد رکھو کہ عورتوں سے حسن سلوک کرنا وہ تمہارے پاس مقید ہوتی ہیں پس تمہیں ان پر کوئی اختیار نہیں سوائے اس کے کہ وہ کسی کھلی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں اگر وہ ایسا کریں تو ان کو اپنے بستروں سے جدا کر دو اور بدنی سزا دو تو اس حد تک کہ اس کا اثر بدن پر ظاہر نہ ہونے پائے اور اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان کے خلاف کوئی راہ تلاش نہ کرو.اور سُنو جس طرح تم اپنی عورتوں پر حق رکھتے ہو اسی طرح ان کے حقوق تم پر بھی ہیں.اور تمہاراحق اپنی بیویوں پر یہ ہے کہ وہ اپنے گھر ان لوگوں کے لیے آراستہ نہ کریں جو تمہیں ناپسند ہوں اور نہ ہی تمہارے نا پسندیدہ لوگوں کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں اور سنو ! ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کی پوشاک اور خوراک کے بارہ میں ان سے حسن سلوک کرو..75