Sekhwani Brothers

Sekhwani Brothers

سیکھوانی برادران

حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانیؓ، حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ و حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانیؓ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313 اصحاب کی فہرست میں شامل ان بھائیوں کے خاندانوں کا اعزاز غیر معمولی ہے۔ لیکن بیعت کرلینے کے بعد امام وقت ؑ سے بے پایاں اخلاص او ر پھر خلفائے احمدیت سے محبت و فدائیت والی عالی خدمات بجالاکر یہ خاندان قابل تقلید نمونے چھوڑ گیا ہے۔ ان کے حالات سے آگہی قارئین کو اجتماعی طور پر نیکی میں آگے بڑھنے میں مدد دے گی۔


Book Content

Page 1

صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے سیکھوانی برادران ( حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی وحضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ) تصنيف منیر الدین شمس سیکھوانی برادران (حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی وحضرت میں خیرالدین صاحب سکھوانی وہ خاندان بہت ہی خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں اجتماعی طور پر کسی سچائی کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہو.اس طرح ایک تو وہ آپس کی محبتوں کو قائم رکھتے ہیں اور دوسرے مل کر اس سچائی کے اظہار کے لئے کوشش اور جدو جہد کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.سیکھوانی بھائی بھی ایسے ہی ایک خاندان کی لڑیوں سے تھے.جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو مانا.آپ کے پیغام کو تکریم دی اور باہم مل کر اس راہ میں پوری تندھی اور محنت کے ساتھ خدمات پیش کر دیں.اللہ تعالیٰ ان پاک بزرگوں کو اپنی رحمت کے سایوں میں رکھے اور ان کی پاک نسلوں کو اپنے آباء واجداد کی ہی طرح دین کا سچا خادم بنائے.والسلام خاکسار

Page 2

1 پیش لفظ عزیز ساتھیو! اللہ تعالیٰ کے پیارے ایک ایسے جو ہر کی طرح ہوتے ہیں جو تہہ در تہہ پردوں میں رہنا پسند کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا پر ظاہر فرمادے.انتہائی سعادت مند ہوتے ہیں وہ لوگ جو ابتداء سے ہی انبیاء کے ساتھی بن جاتے ہیں.سیکھوانی برادران انہیں گنے چنے چند خوش نصیبوں میں سے تھے جو حضرت اقدس مسیح موعود سے بہت ابتدائی زمانہ سے تعلق رکھتے تھے.ان کے حضرت اقدس سے بے پایاں اخلاص کا ثبوت ہمیں حضرت مسیح موعود کی تحریرات اس مختصر سی کتاب میں سیکھوانی برادر ان کا مختصر تعارف کروانے کے لئے مجھے ارشاد ہوا ہے.میری مراد حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی ، حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی اور حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی سے ہے.اس خاندان کو یہ شرف حاصل ہے کہ نہ صرف یہ کہ تینوں بھائی اور انکی ہمشیرہ حضرت میں بارہا نظر آتا ہے.پھر حضور کے وصال کے بعد خلافت احمدیہ سے محبت اور امیر بی بی صاحبہ عرف مائی کا کو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے آپ کی اخلاص اور فدائیت ہی ان کا طرہ امتیاز رہا.خود بھی بے مثال خدمت کی توفیق پائی اور ہم سب کیلئے بھی قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سب سے راضی ہو.جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی بلکہ ان کی والدہ حضرت شرف بی بی صاحبہ اور والد حضرت میاں محمد صدیق صاحب بھی حضور علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو چکے تھے.رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ان تین سو تیرہ ( رفقاء) کی جو فہرست حضور نے درج فرمائی ہے اس میں چند ایسے خوش قسمت افراد بھی ہیں جنہیں مع اہل بیت حضور نے اس فہرست میں شامل فرمایا ہے.ان میں حضرت میاں جمال الدین، حضرت میاں خیر الدین اور حضرت میاں امام الدین بھی شامل ہیں.وایں سعادت بزور بازو نیست.سیکھوانی برادران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے دادا حضرت میاں امام الدین صاحب ( والد محترم خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) اور ان کے بھائیوں کا ذکر خیرا اپنی مختلف تصنیفات میں فرمایا ہے اور انہیں سیکھوانی برادران کے طور پر بھی ذکر فرمایا ہے.اس کشمیری خاندان کے بزرگ دو سو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل 1800ء میں کشمیر

Page 3

3 2 کے جس گاؤں سے ہجرت کر کے قادیان کے قرب وجوار میں آکر آباد ہوئے تھے اس حضرت میاں خیر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ ”جب میں قادیان پہنچا تو حضور گاؤں کا نام بالحجہ حائن ہے.یہ گاؤں محل وقوع کے لحاظ سے دامن کوہ میں واقع ہے.اس نے فرمایا ہم نے تمہارے والد صاحب کا جنازہ پڑھ دیا تھا.اس وقت حضور (بیت) جگہ ایک بلند و بالا پہاڑ ہے جسکا نام مہ بال ہے.اس خاندان کے افراد غالباً ڈوگرہ راج میں جب کشمیر میں قحط سالی ہوئی تو وہاں سے ہجرت کر کے (ہند ) پنجاب میں آباد ہو گئے.ابتداء میں کچھ عرصہ قیام راجہ سائنسی ضلع امرتسر میں رہا اور پھر تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں سیکھواں میں ( جو قادیان سے مغرب کی جانب چار میل کے فاصلہ پر ہے ) آکر آباد ہو گئے.تفصیل کے لئے دیکھئے تاریخ احمدیت جموں وکشمیر از محمد اسد اللہ قریشی صفحہ 38 تا 42) 66 مبارک میں تشریف فرما تھے.“ قادیان میں آنا جانا (رجسٹر روایات جلد نمبر 13 ) اس خاندان کے افراد کا قادیان میں آنا جانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے سے تھے.حضرت میاں امام الدین صاحب اس بارہ میں فرماتے ہیں : میری آمد ورفت قادیان میں کیوں ہوئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ( قادیان میں ) خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے سیکھواں گاؤں میں ایک مخلص اور باوفا جماعت حضرت میرے نانکے (ننھیال) تھے.اس واسطے میری آمد و رفت زمانہ لڑکپن سے شروع تھی.اس مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئی.ان میں سیکھوانی برادران اور ان کے اعزاوا قارب کو ایک وقت میری عمر قریباً شاید باراں یا تیراں سال کی ہوگی.اس وقت قادیان کی حالت نہایت خاص مقام حاصل ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.بے رونق بستی تھی اور بازار خراب ہوتے تھے اور کثرت سے قمار بازی ہوتی تھی.گویا ہر ایک سیکھواں ایک گاؤں کا نام ہے جو قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب واقع ہے کا ایک پیشہ سمجھا جاتا تھا.ہنسی ٹھٹھا سے بات چیت ہوتی تھی.کوئی بھی خدا کو یاد نہیں کرتا.اس جگہ کے تین بھائی میاں جمال الدین.میاں امام الدین اور میاں خیر الدین صاحبان تھا.مگر ایک میاں جان محمد مرحوم ( بیت) اقصیٰ کے امام تھے.....وہ حضرت صاحب کے حضرت صاحب کے قدیم اور مخلص ( رفقاء) میں سے ہیں....66 پاس آتے جاتے تھے.وہ میرے ماموں تھے.(حضرت میاں جان محمد صاحب مرحوم یکے از (سیرت المہدی روایت نمبر 517) ( رفقاء) تین صد تیرہ.مرتب) کچھ ان سے حضرت صاحب کی باتیں سنیں.کچھ عام طور پر لوگوں سیکھوانی برادران ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کرم دین کے سے سنیں کہ مرزا صاحب اندر ہی اندر رہتے ہیں.اس سبب سے میں نے حضرت صاحب مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور گئے ہوئے تھے کہ وہاں انہیں خبر ملی کہ انکے والد میاں محمد کے مکان پر آنا جانا شروع کیا.بے شک آپ ایک کوٹھڑی میں رہتے تھے جو بیت الفکر کے صدیق صاحب بیمار ہیں.چنانچہ یہ تینوں بھائی حضور علیہ السلام سے اجازت لے کر سیکھواں نام پر کتابوں میں درج ہے.پہنچے لیکن وہاں پہنچنے سے قبل ہی انکے والد صاحب فوت ہو چکے تھے.اس وقت ابھی بہشتی مقبرہ کا قیام نہیں ہوا تھا اسلئے تدفین سیکھواں ہی میں ہوئی.جب کبھی میں جاتا تو آپ ٹہلتے نظر آتے اور کچھ لکھتے رہتے تھے.اس وقت کچھ صحن ہوتا تھا.وہاں ہی ٹہلتے پھرتے اور میں جب کبھی جاتا تو خاموش بیٹھ جاتا.آپ کے چہرہ کی

Page 4

5 4 طرف دیکھتا رہتا.نہایت روشن ہوتا تھا.گویا خاص طور پر نور الہی چمکتا تھا.وہ زمانہ آپ کھایا کرو.پھر بموجب حکم حضوڑ کے کھانا شروع کر دیا.آج تک خدا کے فضل سے حضور کا براہین احمدیہ ) لکھنے کا تھا.پھر آپ کے کچھ اشتہار نکلنے شروع ہوئے.مگر میں اس وقت کے گھر کے مہمان رہے ہیں.ابتداء میں گھر سے کھانا تیار ہو کر آتا تھا.لنگر خانہ موجود نہیں پڑھا ہوا نہیں تھا.کچھ باتیں حضرت صاحب کی اپنے بڑے بھائی جمال الدین مرحوم سے سنا تھا.یہ بعد ہوا ہے.حضرت صاحب خود بھی مہمانوں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے.جو کرتا تھا.آج فلاں مختلف مذہب یعنی عیسائی وغیرہ کے اشتہار کا جواب دیا ہے.یہ مجھ سے گول کمرہ ہے اس میں کھانا کھلایا جاتا تھا.( بیت ) مبارک کی چھت پر کچھ زمانہ سب عمر میں بڑا تھا اس واسطے اس کی آمد و رفت مجھ سے پہلے تھی.یہ مجھ سے زیادہ واقفیت رکھتا مہمانوں میں آپ بیٹھ کر کھانا کھاتے رہے ہیں.شام کی نماز پڑھ کر بیٹھ جاتے.پھر گفتگو تھا.میں جب اپنے گاؤں سے آتا تو نماز ( بیت ) اقصیٰ میں پڑھا کرتا تھا.وہاں حضرت ہوتی رہتی اور عشاء کی نماز پڑھ کر تشریف لے جاتے اور کھانا حضور جو کھاتے بہت تھوڑا سا صاحب بھی گاہے گا ہے آکر نماز پڑھا کرتے تھے اور ٹہلتے بھی رہتے تھے اور میاں جان محمد ٹکڑا منہ میں ڈالتے اور بہت آہستہ آہستہ کھاتے اور کچھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دستر خوان مرحوم امام ہوتے تھے اور گا ہے گا ہے آپ بھی نماز پڑھا دیتے تھے اور چند کس نمازی ہوتے پر گراتے اور چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں ڈالتے.بالکل تھوڑا کھانا کھاتے تھے.تھے.عام طور پر نمازی نہیں ہوتے تھے اس وقت یہ حالت تھی.جب آپ کی بہت شہرت ہوگئی تو آپ کے بہت مضامین مخالف مذاہب کی تردید کے نکلتے رہتے تھے.پھر جب میں کبھی آتا تو حضور کے پاس جاتا کیونکہ آپ کی محبت کے سوا کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا.پھر آپ نے ایک اشتہار چندہ کے متعلق شائع کیا اور میں اور بھائی خیرالدین صاحب نے 4 /آنہ رجسٹر روایات نمبر 7 صفحہ 422-420) سیکھوانی برادران نے ایک ہی روز 23 نومبر 1889ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ماہوار مقرر کر کے چندہ پیش کیا تو حضور نے فرمایا.یہ کام بڑا ہے دیکھو تم غریب ہو.ہم نے کے دست مبارک پر اجتماعی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی.مولانا دوست محمد شاہد کہا حضوڑا انشاء اللہ بڑی خوشی سے ادا کریں گے.تو پھر حضور نے منظور فرمایا.بفضل خدا آج صاحب تحریر فرماتے ہیں.” دائگی مرکز احمدیت قادیان دارالامان کے ماحول میں واقع گاؤں سیکھواں اور سیکھوانی برادران یعنی حضرت مولوی جمال الدین صاحب ، حضرت میاں تک عمل ہوتا رہا ہے.ہم تین بھائی ہیں بڑے کا نام جمال الدین اور میرا نام امام الدین سیکھوانی اور مجھ سے امام الدین صاحب اور حضرت میاں خیر الدین صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں.تینوں چھوٹے کا نام خیر الدین ہے.اور جب ہم قادیان میں آتے کھانا اپنے رشتہ داروں کے گھر متدین بزرگوں کو دعوئی ماموریت سے بھی قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذاتی روابط سے کھاتے اور پھر اس مجلس میں بہت وقت گذر جاتا کیونکہ حضرت صاحب ان ایام میں اور دلی عقیدت کا شرف حاصل تھا.تینوں نے ایک ہی دن 23 نومبر 1889ء کو اجتماعی جب ( بیت ) مبارک میں (نداء) ہوتی تو آجاتے تھے.پھر بہت گفتگو ہوتی رہتی تھی.بیعت کی اور تینوں کا نام بنفس نفیس حضرت اقدس نے 313 رفقاء کی فہرست ضمیمہ انجام آتھم تو پھر ایک دن حضرت صاحب نے مجھ کو کہا تم آج سے ہمارے مہمان ہو.یہاں سے کھانا میں اپنے قلم سے درج فرمایا.“

Page 5

7 6 حضرت میاں امام الدین صاحب بیعت کرنے کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: کیا جائے.اور وہ صفتیں یہ ہیں: دیانت ہمحنت علم.جب تک کہ یہ تینوں صفتیں موجود نہ ہوں فرمایا: کارکن آدمی ہر جگہ جماعت کے اندرمل سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو ذاتی اخراجات جس وقت حضور نے بیعت کا اشتہار دیا تو لدھیانہ میں حضور نے بیعت لینی شروع تب تک انسان کسی کام کے لائق نہیں ہوتا...غرض ہر سہ صفات کا ہونا ضروری ہے.کی.جب حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ سے قادیان تشریف لائے ہم تینوں بھائی حضور کے پاس آئے.عرض کی کہ حضور ہم کو بھی بیعت میں داخل کر لیں تو حضور نے منظور کے واسطے جو کچھ دیا جاوے وہ بھی ناگوار نہیں گزرتا خواہ وہ معمولی واعظ کی تنخواہ سے زیادہ ہو فرما کر ہاتھ مبارک نکال کر ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت لی.پھر حضور ایک رجسٹر لائے جس کیونکہ کارکن کو جو کچھ دیا جائے وہ ٹھکانے پر لگتا ہے.اس میں کوئی اسراف نہیں.“ پر پہلی بیعت مولوی نورالدین صاحب کی تھی باقی اور دوستوں کے نام تھے.قریب ڈیڑھ صد سیکھوانی برادران میاں جمال الدین ، میاں امام الدین ، میاں خیر الدین صاحبان کا 66 نمبر کی تعداد تھی جو ہم نے تینوں بھائیوں نے اپنے ہاتھ سے نام لکھے تھے.“ (رجسٹر روایات نمبر 5 صفحہ 58) ایک دوست نے ذکر کیا کہ وہ بھی اس کام کے واسطے رکھے جاسکتے ہیں.حضرت نے فرمایا: بے شک وہ بہت موزوں ہیں.مخلص آدمی ہیں.ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت کرتے ہیں.تینوں بھائی ایک ہی صفت کے ہیں.میں نہیں جانتا کہ کون ان میں سے عظیم الشان سعادت سیکھوانی برادران کو یہ عظیم الشان سعادت حاصل ہے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام دوسروں سے بڑھ کر ہے.“ نے اپنی کتب، اشتہارات اور ملفوظات میں مختلف مقامات پر ان تینوں بھائیوں کا ذکر خیر فرمایا ہے اور بعض جگہوں پر انکے والد محترم کا بھی ان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ 1891ء میں قادیان میں منعقد ہوا جس میں 75 امام وقت کی آواز پر لبیک احباب نے شرکت فرمائی.حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف ” آسمانی فیصلہ “ میں ان احباب ( ملفوظات جلد پنجم مطبوعہ ہندوستان ایڈیشن 2003 صفحہ نمبر 269) ہمیشہ برکت اس میں ہوتی ہے کہ امام وقت کی آوز پر لبیک کہتے ہوئے جہاں تک ممکن کرام کی فہرست بھی درج فرمائی ہے.اس فہرست میں تینوں سیکھوانی برادران کے نام بھی ہو اسکی ہر تحریک میں حصہ لیا جائے.اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی شامل ہیں اور ان کے ساتھ ان کے ماموں حضرت میاں جان محمد صاحب کا نام بھی شامل ہے.قابل اعتماد خاطر اپنی جانوں اور اموال کو پیش کرتے ہیں تو اسکے بدلہ میں وہ انہیں جنت عطا فرمائیگا.الفاظ یوں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو (اس وعدہ کے ساتھ ) سلسلہ کے کارکنان کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی.”جب تک کسی میں تین صفتیں نہ ہوں وہ اس لائق نہیں ہوتا کہ ان کے سپرد کوئی کام (سورۃ التوبہ.آیت نمبر 111)

Page 6

9 8 الله آنحضرت علﷺ کے صحابہ نے اس بارہ میں بہت عمدہ نمونے پیش فرمائے اور سیکھوانی لکھتے ہیں کہ ”ہم نے حضور کے پاس عرض کی کہ ہم تینوں بھائی مع والد یک آنحضور ﷺ کے غلام صادق کے رفقاء نے بھی اس سلسلہ میں کوئی کمی نہیں رہنے صدر و پیل کر ادا کر سکتے ہیں اگر حضور منظور فرماویں.تو حضور نے منظور فرمایا.وہ روپیہ دی.سیکھوانی برادران کوئی امیر نہ تھے لیکن دل کے ضرور امیر تھے اور اس کوشش میں رہتے ادا کر دیا گیا تھا.“ تھے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی ہر تحریک پر لبیک کہنے والوں میں شامل ہوں.دوسری (رجسٹر روایات نمبر 7 صفحہ 426-427) اس طرح اس سیکھوانی خاندان کو منارہ اسی قادیان کی تعمیر کے سلسلہ میں تاریخی طرف حضور علیہ السلام نے بھی ان کے جذبہ قربانی کو قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے اپنی سعادت حاصل ہوئی.چنانچہ منارہ اسیح پر یہ نام یوں درج ہیں: تحریرات میں مختلف جگہوں پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے ان کے لئے دعاؤں کی تحریک فرما دی ہے.ان میں سے چند کا ذکر ذیل میں کرتا ہوں.ضمیمہ انجام آتھم میں حضور علیہ السلام نے اپنے پر ہونیوالے خدا تعالیٰ کے فضلوں نمبر شمار : 64 میاں محمد صدیق سیکھواں نمبر شمار 65 میاں امام الدین سیکھواں نمبر شمار 66 میاں جمال الدین سیکھواں نمبر شمار: 67 میاں خیر الدین سیکھواں اور انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” خدا نے ایسے مخلص اور جان فشاں ارادتمند ہماری خدمت میں لگا دئے کہ جو اپنے مال کو اس راہ میں خرچ کرنا اپنی سعادت دیکھتے قابل رشک نمونه ہیں....میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں خدمات کا تذکرہ یوں فرمایا ہے: سے قریب رہنے والے ہیں.وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ اپنے خدام کی مخلصانہ مالی قربانیوں اور ”میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپورہ اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے پچاس روپیہ دئے ہیں.ان چاروں صاحبوں (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد نمبر 11 صفحہ 312-313) چوتھے حضرت منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن او جله ضلع گورداسپور کا ذکر ابتداء میں فرمایا.یہ مزدوری کرتے ہیں، سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں.“ تعمیر مار اسی میں حصہ سیکھوانی برادران کے بہت قریبی دوست تھے.ناقل ) کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب منارة المسیح کی بنیاد رکھی گئی تو اسکے بعد کچھ کام ہونے کے بعد تعمیر رک گئی کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ 66 تھی.حضور علیہ السلام نے چندہ کی تحریک فرمائی کہ سو آدمی ایک ایک سو روپیہ دیں اور ان بیعت میں شرط تھی.“ کے نام دعا کی خاطر منارہ پر لکھے بھی جائیں گے.میرے دادا میاں امام الدین صاحب ( جلسة الوداع - ضمیمہ اشتہار " الانصار 14اکتوبر 1899 ء.بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 167)

Page 7

11 10 حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی ابتدائی تعارف و بیعت رجسٹر بیعت اولیٰ کے مطابق آپ کے کوائف حسب ذیل ہیں:.نمبر شمار: 149 تاریخ عیسوی 23 نومبر 1889ء بروز جمعہ نام مع ولدیت میاں جمال الدین ولد محمد صدیق قوم وائیں عرف کشمیری موضع سیکھو ان ضلع و تحصیل گورداسپور بقلم خود.یکے از احباب تین صد تیرہ انہوں نے سوال کیا کہ حضور ہمارے نام بھی درج کئے گئے ہیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا تم سب بھائیوں کے نام فہرست میں درج کئے گئے ہیں.جب ہمارے بھائی نے واپس جا کر یہ بات ہم کو سنائی تو ہماری خوشی کی کوئی حد نہ رہی.اور خدا تعالیٰ کی غریب نوازی کا شکر یہ ادا کیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.پچاس روپے (رجسٹر روایات جلد نمبر (13) حضرت اقدس نے آپ کی مخلصانہ مالی قربانی اور خدمت کا بھی تذکرہ فرمایا.آپ نے ضمیمہ اشتہار الانصار ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۹ء میں فرمایا: ”میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادران (رجسٹر بیعت اولی ، اندراج نمبر 149 ،موجود خلافت لائبریری ربوہ ) حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر دین نے پچاس روپے دیئے.ان چاروں بھائیوں (چوتھے حضرت منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن اوجالہ ضلع گورداسپور کا ذکر ابتداء میں فرمایا.ناقل ) کے چندوں کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ حضرت اقدس نے آپ کو اپنے 313 ( رفقاء) کی فہرست میں شامل فرمایا.سب لے آئے ہیں اور آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی“ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی فہرست ضمیمہ انجام آتھم کے بارہ میں بیان جولائی ۱۹۰۰ء میں ان بھائیوں اور ان کے والد محمد صدیق صاحب چاروں کی طرف کرتے ہیں: سے ایک سوروپیہ منظور فرما کر فہرست برائے چند تعمیر منارۃ اُسیح میں ان کے نام نمبر ۸۴ پر جب بموجب حدیث تین صد تیرہ ( رفقاء) کی فہرست تیار کرنے کا ارادہ فرمایا تو درج فرمائے.بہت سے مخلصین نے اپنے اور اپنی اولاد کے نام پیش کئے.ہم سب بھائی خاموش رہے.اس لئے نہیں کہ ہم کو پرواہ نہ تھی بلکہ اس لئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تو ہمارے نام درج وقد تصيبين 1899ء ہو جائیں گے.آخر جس دن فہرست تیار ہو کر طبع ہو رہی تھی یا قریباً مکمل ہو چکی تھی تو ہمارے جن دنوں میں حضرت اقدس علیہ السلام اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں تالیف کر بھائی جمال الدین صاحب قادیان آئے اور حضور علیہ السلام کی مجلس میں یہ ذکر ہورہا تھا.رہے تھے انہیں ایام میں آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح ناصرٹی کو فتنہ صلیب کے وقت نصیبین

Page 8

13 12 (عراق) کے بادشاہ نے اپنے پاس بلایا تھا اور آپ کے سفر کے آثار موجود ہیں.حضرت لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - احباب جنازہ غائب پڑھیں اور دعائے مغفرت کریں.آپ کا مسیح موعود علیہ السلام وفات مسیح کے ثبوت کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے چنانچہ آپ وصال 14 اگست 1922 ء کو ہوا.نے نصیبین سے ثبوت ملنے کی امید سے ایک وفد بھیجنے کا ارادہ فرمایا.اس مقصد کے لیے حضور علیہ السلام حضرت مرزا خدا بخش صاحب کو منتخب کر چکے تھے حضرت میاں جمال الدین صاحب بعد ازاں 10 اکتوبر 1899ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ باقی دو احباب حضرت مولوی قطب الدین صاحب اور حضرت جمال الدین سیکھوانی صاحب کا انتخاب عمل میں آیا.مگر افسوس کہ بعض پیش آمدہ امور ضروریہ کی وجہ سے اس وفد کا بھیجا ملتوی ہو گیا.خدمات عالیہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس بیان کرتے ہیں: الفضل قادیان 17 /اگست 1922 ص1) حضرت مولانا جلال الدین شمس حضرت میاں جمال الدین صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آپ سلسلہ کے ساتھ سچا اخلاص رکھتے تھے.آپ کو علم طب میں خاصی مہارت تھی اور قرآن و حدیث سے اچھی طرح واقف تھے.آپ خدا کے فضل سے ذہین و فہیم تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم اپنے گاؤں سیکھواں کی ( بیت ) میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے.دوران بہت سے ایسے صاحب علم دوست تھے جو غیر احمدی مولویوں کو مذہبی گفتگو میں گفتگو میں میرے والد (حضرت امام الدین ) صاحب نے فرمایا: اب میری نظر میں کمی آگئی ہے.آپ ( یعنی حضرت میاں جمال الدین صاحب ) فرمانے لگے میری نظر میں ذرا ساکت کر دیتے تھے.البتہ وہ مولوی کے لقب سے ملقب نہ تھے.ان میں مثال کے طور پر میرے تایا اور والد اور چامیاں جمال الدین ، میاں امام الدین اور میاں خیر الدین تھے جن کمی نہیں آئی اور اس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کی برکت ہے.کے مولویوں سے متعدد مباحثے ہوئے اور ان کے ذریعے سینکڑوں سعید روحیں احمدیت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت آغوش میں داخل ہوئیں.“ ڈھونڈیں گے.اس پر میرے دل میں ہمیشہ خیال رہتا تھا کہ جب بادشاہ برکت حاصل کریں گے تو ہم کیوں نہ کریں.اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (بیت صداقت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ 1964 ءباراوّل، ربوہ،1965ءص 160) الذکر ) سے اندر تشریف لے جانے لگتے تو میں آپ کی دستار مبارک کا شملہ اپنی آنکھوں پر وفات حضرت مولوی جمال الدین صاحب آپ کی وفات پر الفضل نے لکھا.مولوی جمال الدین صاحب سیکھواں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پھیر لیا کرتا تھا.اسی کی برکت ہے کہ میری نظر میں کمی نہیں آئی.آپ پر بہت سے مصائب اور تکالیف بھی آئیں.اپنی وفات سے قریباً ایک مہینہ پہلے آپ ایک گھوڑی سے گر پڑے اور سر میں چوٹ پرانے ( رفقاء) میں سے اور مخلص احمدی تھے چند دن کی علالت کے بعد فوت ہو گئے.انا آئی.علاج کرتے رہے مگر چوٹ نے دماغ میں اثر کیا.پھر آپ بول نہ سکتے تھے.ساتھ

Page 9

15 14 ہی سخت بخار ہو گیا.چند روز کے بعد آپ نے 63 سال کی عمر میں 15،14/اگست 1922 چندہ جات اور مالی قربانیوں میں پیش پیش رہتے تھے.سیکھواں سے قادیان اکثر پیدل آیا کی درمیانی شب بوقت نو بجے اس دنیا کو الوداع کیا اور جہان جاودانی کی طرف رحلت فرما کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرب حاصل کیا کرتے تھے.حضور کے ساتھ گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.15 اگست کی صبح کو بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے.اللہ نماز باجماعت ادا کرنے اور حضور کے ساتھ حضور کے دستر خوان اور لنگر سے کھانا کھانے کے بے شمار مواقع میسر آئے.آپ سلسلہ کی طرف سے کی جانے والی تحریکات میں تعالیٰ فردوس بریں میں آپ کو جگہ دے.الفضل قادیان 10 را کتوبر 1925 ص6) استطاعت کے مطابق ضرور حصہ لیا کرتے تھے.جماعت کی طرف سے جو خدمت بھی آپ کے سپرد کی جاتی اسے بخوشی رضا کارانہ طور پر بجالایا کرتے تھے.صبح کے وقت با قاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آواز بھی اچھی دی تھی.آپ اکثر کام کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار بلند آواز کے حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی پیدائش: آر : آپ انداز 18601ء.1861ء میں پیدا ہوئے.ساتھ پڑھا کرتے تھے.بیعت: رجسٹر بیعت اولی کے مطابق آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف سفروں میں آپکو حضور کی معیت میں رہنے اور خدمت کی توفیق بھی ملتی رہی بالخصوص حضور علیہ السلام کے خلاف جو جھوٹے مقدمات بیعت 23 /نومبر 1889 ء کو بروز جمعہ کی اور آپ کا نمبر 150 درج ہے.(رجسٹر بیعت اولی نمبر شمار 150 از خلافت لائبریری ربوہ ) بنائے جاتے تھے ان کی پیروی میں حضور کی ہمرکابی کا شرف ان تینوں بھائیوں کو حاصل ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین سو تیرہ رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ نمبر 41 (روحانی خزائن پیغام حق اور جماعتی خدمات جلد نمبر 11 صفحہ 325) پر اپنے تین سو تیرہ ( رفقاء) کی جو فہرست دی ہے اس میں نمبر 32 پر ”میاں امام الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہل بیت تحریر فرمایا ہے.عادات و مشاغل ابتدائی ایام میں جبکہ ابھی باقاعدہ دعوت الی اللہ کا صیغہ قائم نہیں ہوا تھا ، آپ آنریری طور پر دعوت الی اللہ کا کام کیا کرتے تھے.ضلع گورداسپور کی بیشتر جماعتوں کے قیام میں آپ کا بھی دخل تھا.سیکھواں میں احمدیت کا قیام تینوں بھائیوں کی دعوت الی اللہ سے ہوا.آپ اپنے بھائیوں میں منجھلے بھائی تھے.آپ نہایت عبادت گزار ، زاہد اور تہجد گزار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں: تھے.نماز کی پابندی کر نیوالے تھے.نہایت سادہ مزاج تھے اور ایمان میں پختہ تھے.اپنے اس گاؤں میں احمدیت کا محرک اور بانی ایک کشمیری خاندان ہے اور وہ تین بھائی بھائیوں میں سے سب سے زیادہ جمعہ میں شامل ہونے کے لئے قادیان آیا کرتے تھے.میاں جمال الدین ، میاں امام الدین ، خیر الدین ہیں.حضرت اقدس کے ساتھ ان کو بہت

Page 10

17 16 محبت اور اخلاص ہے.یہ تینوں بھائی ایک دوسرے سے اخلاص میں بڑھے ہوئے ہیں.جاتے وہاں (دعوت الی اللہ ) کیا کرتے.پنڈت لیکھرام کے قتل کے بعد جب آپ وہاں بڑے مستعد اور جواں ہمت ہیں.ان کے ساتھ ہی ان کا ایک پرانا دوست اور دینی بھائی گئے تو وہاں کے آریہ سرداروں نے آپ کو مارنے کے لئے ایک منصوبہ کیا.وہ واقعہ لمبا منشی عبد العزیز پٹواری سیکھواں ہے.مشخص اپنے اخلاص کا آپ نمونہ اور نظیر ہے.“ ہے.یہاں اس کا آخری حصہ درج کرتا ہوں.سرداروں نے اپنے مکان پر بلوا کر جہاں مربی و مناظر اور خادم سلسلہ گاؤں کے اور سر کردہ بھی جمع تھے ان پر اس قسم کے الزامات لگانے شروع کئے کہ آپ یہاں حضرت عبدالرحمن صاحب بی اے نے حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کی فساد کروانا چاہتے ہیں.مگر ثابت کوئی بات نہ کر سکے.نیز ان سے یہ تحریر بھی مانگی کہ وہ پھر وفات پر تحریر فرمایا کہ آپ جب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے با قاعدہ (مربی) نہ تھے اس وقت کبھی بھا گو والہ نہیں آئیں گے.آپ نے انکار کر دیا.سردار نے کہا لکھنا پڑے گا.والد ضلع گورداسپور میں ایک (مربی) اور مناظر کا کام کرتے رہے.یہی وجہ ہے کہ ضلع صاحب نے جواب دیا میں کبھی نہ لکھوں گا.سردار نے ایک شخص سے کہا قلم دوات گورداسپور کی بہت سی جماعتوں کی ترقی اور تربیت میں آپ کا بڑا حصہ ہے خصوصاً ہماری لاؤ.اتنے میں میرے نانا جان میاں کریم بخش مرحوم کو پتہ لگ گیا اور وہ وہاں پہنچ گئے جماعت ( موضع ہر سیاں) جو حضرت میاں صاحب کے گاؤں سے صرف دو میل کے فاصلہ اوروالد صاحب سے کہا تمہیں یہاں کس نے بلایا ہے ؟ اور ان کا ہاتھ پکڑ کر مجلس سے پر واقعہ ہے، آپ ہی کی ( دعوت الی اللہ ) اور تربیت کا نتیجہ ہے.“ باہر نکال لائے.والد صاحب کا خیال تھا کہ جو لوگ وہاں جمع تھے وہ نہیں جانے دیں گے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس فرماتے ہیں ” والد صاحب مرحوم کو میں نے مگر نا نا مرحوم کی جرأت کا ان پر کچھ ایسا رعب پڑا کہ سب خاموش رہ گئے.دوسرے روز کئی دفعہ غیر احمدیوں کو ( دعوت الی اللہ ) کرتے سنا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنے گاؤں سیکھواں واپس آنے لگے تو گھٹیا نام نمبر دار سے جو آپ کا واقف تھا اور اس کی صداقت ثابت کرنے کیلئے اکثر آپ کے الہامات اور ربانی تائیدات اور پیشگوئیاں مجلس میں حاضر تھا سرداروں کی اس کا روائی کا سبب دریافت کیا.اس نے کہا کہ آپ سے جن کے وقوع کے وہ خود چشم دید گواہ تھے ، پیش کیا کرتے تھے.مولوی کرم الدین والے نگو کا سلسلہ بھی میری رائے کی بنا پر شروع ہوا تھا.ورنہ تجویز یہ تھی کہ آپ کو اندر بلا کر مقدمہ کے حالات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر جہلم نیز ہنری مارٹن کلارک والے خوب مارا جائے اور چوری وغیرہ کا الزام لگا دیا جائے.اس نے وجہ یہ بتائی کہ سرداروں کا مقدمہ اور دیگر مقدمات جو گورداسپور میں ہوئے اور ان کے متعلق جو پیشگوئیاں پوری خیال ہے کہ پنڈت لیکھرام کا قاتل چھینہ سٹیشن سے اتر کر تمہاری معرفت قادیان گیا اور ہوئیں ان کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے کیونکہ اُن سب مقدمات کے وہ چشمد ید گواہ تھے.یہ انعام واکرام پا کر واپس ہوا.آپ نے اصل حقیقت بتائی.مگر اس پر آپ کی بات کا کوئی اثر سب واقعات میں نے ان سے کئی مرتبہ سنے تھے.گورداسپور کے مقدمات کے سلسلہ میں نہ ہوا.آپ نے سارا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا اور حضور نے اپنا الہام آپ کو مرکز سے اگر گورداسپور جلسہ کا انتظام کرنے کی کوئی اطلاع ملی تو آپ خواہ بارش ہوتی وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ پڑھا.“ یا رات کا وقت ہوتا ہر حال میں وہاں پہنچتے تھے.میرے نھیال ( بھا گووالہ ) میں جب (روز نامه الفضل قادیان.8 جولائی 1941ء)

Page 11

19 18 حضرت خلیفہ اسیح سے عقیدت آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کرام کے ساتھ بھی بے انتہا محبت اور عقیدت تھی.حضرت خلیفہ امسیح الثانی (نوراللہ مرقدہ) کے بارہ میں مختلف پیشگوئیوں کو پورا خوب خدمت کرتے رہے.جب آپکے بیٹے (میرے والد محترم) حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کو دعوت الی اللہ کے لئے انگلستان بھجوایا گیا تو آپ کے کہنے پر حضرت میاں امام الدین صاحب قادیان منتقل ہو گئے تا کہ اپنی بہو اور انکے بچوں کے پاس رہ سکیں.لیکن اسکے باوجود آپ نے جماعت سیکھواں کا کام اپنے ذمہ رکھا اور قادیان میں بھی ہوتے دیکھا تھا اس لئے ان کیلئے دل میں بہت عظمت تھی.جب شیخ مصری کا فتنہ اٹھا اور اس سلسلہ میں اشتہارات نکالنے کی تجویز ہوئی تو میاں امام دین صاحب کے بیٹے مولانا مفوضہ کام نہایت خوبی سے سرانجام دیتے رہے.آپکے اخلاص اور ایمان کی پختگی کا حال کسی قدر اس واقعہ سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ایک جلال الدین شمس صاحب نے جو ان دنوں انگلستان میں (مربی) کا فریضہ انجام دے دفعہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے حکم سے بعض ( مربیان ) کو تحصیل شکر گڑھ بھیجا گیا.وہاں رہے تھے، انہیں لکھا کہ وہ اس تحریک میں ان کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر دور و پیہ پیش کریں.چنانچہ اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے مولانا شمس صاحب کو مواشہ قوم کے متعلق خیال تھا کہ وہ دین حق کے قریب آرہی ہے.چنانچہ (مربیان ) کی لکھا کہ رقم پیش کرنے کے بعد میں نے کچھ اپنے متعلق حضور سے عرض کرنا چاہا لیکن مجھ پر کوششوں سے کئی لوگ (مومن) ہونے کے لئے تیار ہو گئے.جب حضور کی خدمت میں رقت طاری ہو گئی اور کچھ کہہ نہ سکا.حضور سے ملاقات کرتے وقت اکثر آپ کی یہی اطلاع بھجوائی گئی تو حضور نے بیعت لینے کے لئے حضرت میاں امام الدین کو منتخب فرمایا.کیفیت ہوا کرتی تھی.جب گورداسپور میں مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھیں (ضلع شیخ مصری صاحب نے کہا کہ یہ شخص سادہ سا ہے اسے بھی نا مناسب نہیں.لیکن حضور نے جہلم کے مقدمہ کے سلسلہ میں عدالت میں پیشیاں پے درپے ہوتی رہیں اور دوسال ان کا مشورہ قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان مقدمہ چلتا رہا، حضرت میاں امام الدین صاحب نے گورداسپور میں ایک مکان کرایہ پر لیا ( رفقاء) کی قدرومنزلت معلوم نہیں.جب کوئی (مربی) نہ تھا تو یہی لوگ (دعوت الی اللہ ) اور وہیں قیام کیا اور حضرت اقدس کو دبانے کی خدمت سرانجام دیتے رہے.کرتے تھے اور دین حق لوگوں تک پہنچاتے تھے.چنانچہ آپ کو تحصیل شکر گڑھ بھیجا گیا.آپ نے کئی روز تک وہاں قیام فرمایا اور بیعت لی.(روز نامہ الفضل یکم مئی 1980ء.روز نامہ الفضل 8 ستمبر 2000ء) خلافتہ ثانیہ کے شروع میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے جماعتوں کو سمجھانے کیلئے ضلع گورداسپور اور ضلع سیالکوٹ میں ایک وفد بھجوایا تھا.اس وفد میں آپ آپ کی شادی بھی شامل تھے.روزنامه الفضل قادیان - 16 / ہجرت 1320 ہش.صفحہ 5) آپ کی شادی بھا گو وال تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک خاندان میں حضرت آپ جب تک سیکھواں میں مقیم رہے اس جماعت کے سیکرٹری رہے اور جماعت کی میاں کریم بخش صاحب ( جو 313 ( رفقاء) میں سے تھے ) کی بیٹی حضرت حسین بی بی

Page 12

21 20 صاحبہ سے ہوئی تھی.آپ خاموش طبیعت تھیں.اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں.بچوں سے ایک نشان بہت پیار و محبت سے پیش آتیں.آپکی وفات ربوہ میں 19 ستمبر 1960ء میں نوے سال کی عمر میں ہوئی.آپ موصیہ تھیں.آپ کی وصیت نمبر 434 تھا اور 1/6حصہ کی وصیت ایک مرتبہ یوں ہوا کہ آپکا بیٹا بشیر احمد ران میں گلٹی ہونے کے باعث بیمار ہو گیا.بعض کروائی ہوئی تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت 1891ء میں کی تھی.لوگوں نے خیال کیا کہ یہ طاعون ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے بڑے وثوق سے فرمایا کہ یہ طاعون نہیں بلکہ ” داد ہے اور بڑے اولاد جوش سے فرمایا کہ دیکھو جس کو ہم جانتے ہیں اسے بھی طاعون نہیں ہو سکتی اور جو ہمیں جانتا آپ کی اولا د کمپین ہی میں فوت ہو جاتی تھی.چنانچہ جب کئی بچے فوت ہو گئے تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں دعا کیلئے عرض کیا.حضور نے دعا ہے اسے بھی طاعون نہیں ہو سکتی.آپ یہ مبارک کلمات سن کر سیکھواں واپس گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے چند دنوں ہی میں بشیر احمد کو آرام آ گیا.کے ساتھ دوائی بھی تجویز فرمائی جس کے نتیجہ میں اس کے بعد آپ کی اولا دزندہ رہی.آپ کے چار بچے چھوٹی عمر ہی میں وفات پاگئے تھے.ان کے علاوہ آپ کو اللہ تعالیٰ اطاعت کا مجسم نمونہ نے پانچ بیٹیاں ہاجرہ بیگم اہلیہ حسین بخش صاحب، عائشہ بی بی اہلیہ حاجی ولی محمد صاحب، رمضان بی بی اہلیہ محمد حسین صاحب ، حمیدہ بی بی اہلیہ چوہدری وزیر محمد صاحب پٹیالوی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت اور فرمانبرداری کے مجسم نمونہ تھے.ہر امر میں آپکی اطاعت لازمی سمجھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک مرتبہ اور بشری بی بی اہلیہ مولوی چراغ دین صاحب ( مربی سلسلہ) اور دو بیٹے بشیر احمد (اہلیہ: فاطمہ بی بی صاحبہ ) اور حضرت مولانا جلال الدین شمس ( اہلیہ: سعیده با نو بنت حضرت خواجہ دو تین مولوی موضع ہرسیاں میں آگئے اور انہوں نے ( بیت ) میں حضور علیہ السلام کے عبید اللہ صاحب (رفیق)، ریٹائر ڈ ایس ڈی او) عطا فرمائے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم خلاف بدزبانی شروع کر دی.ہرسیاں میں اس وقت صرف دو تین ہی احمدی تھے.یہ لوگ سے ان سب کی اولاد اور اولاد در اولاد اپنے اپنے رنگ میں دین حق واحمدیت کی خدمت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کو بلانے آئے کہ چل کر ان غیر احمدی مولویوں سے بحث میں ہمہ تن مصروف ہے اور مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہے.ان میں حضرت مولانا کریں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مناظرہ کیلئے جلال الدین صاحب شمس کی صورت میں سیکھواں سے ایک ستارہ نکلا جوش بن کر ایک لمبا اجازت مانگی جس پر حضور نے فرمایا ” بحث کرنے کی اجازت نہیں.“ یہ سن کر میاں صاحب عرصہ اپنی بابرکت کرنوں سے ایک عالم کو مستفیض کرتا رہا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا سچا ہرسیاں کے احمدی احباب کے ساتھ ہر سیاں چلے آئے لیکن مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا.اور حقیقی خادم و وفادار بنارہا اور اپنے آقا سے خالد احمدیت کے لقب سے نوازا گیا.آخر جب ان مولویوں نے یہ کہہ کر تنگ کرنا شروع کیا کہ مناظرہ کرنے کی جرات

Page 13

23 22 نہیں تو پھر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام حالات ہدایت کر جاتے کہ آپ لوگ سردی میں آئے ہیں کہیں سردی نہ لگ جائے.عرض کرنے کے بعد مناظرہ کی اجازت مانگی.لیکن حضور نے پھر یہی فرمایا کہ مناظرہ کرنے کی اجازت نہیں.میاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے سارا دن گاؤں عزم و ہمت اور صبر واستقلال سے باہر گزارا مگر مناظرہ سے انکار کر دیا.اور دوسری طرف مخالف جو منہ میں آیا کہتے جب آپکے بیٹے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ( دعوت دین حق ) کی غرض رہے.بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فرمان کا یہ اثر ہوا کہ چند غیر احمدی شرفاء سے فلسطین میں تھے اور مخالفت زوروں پر تھی.بڑوں سے لیکر چھوٹوں تک آپکی مخالفت نے ان مولویوں کو انکی بد زبانی کی وجہ سے خود گاؤں سے باہر نکال دیا اور دوسرے تیسرے کر رہے تھے.بعض مشائخ آپکے منہ پر کہتے تھے کہ تم واجب القتل ہو.ان ہی ایام میں دن جمعہ کی نماز کے لئے 16,15 آدمی قادیان گئے تا کہ یہ دیکھیں کہ جس شخص کو یہ مولوی حضرت شمس صاحب کے بڑے اور اکلوتے بھائی بشیر احمد صاحب وفات پاگئے جنہوں نے برا بھلا کہتے ہیں کیا وہ واقعی ایسا ہے؟ سب کے سب دوست جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد آخری ایام میں حضرت شمس صاحب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.اس بارہ میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کے لئے عرض کیا.اس طرح وہ حضرت شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں: لوگ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.والد صاحب نے مجھے لکھا کہ تمہاری والدہ کی خواہش تھی کہ حضرت صاحب سے میاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا ایمان ہے کہ اگر مناظرہ ہوتا تو شاید اس وقت عرض کروں لیکن تم (دعوت الی اللہ ) کے کام میں مصروف ہو.میں نے کہنا مناسب نہ ایک بھی احمدی نہ ہوتا.لیکن چونکہ حضور کی زبان میں برکت ہے اس لئے مناظرہ نہ ہونے سمجھا.لیکن اس سے قبل کا کو ( میری پھوپھی صاحبہ عرف مائی کا کو) نے ایک دفعہ حضور علیہ کی صورت میں غیر احمدی مولویوں کی بد زبانی کا بُرا اثر پڑا اور احمدیوں کی شرافت کا اچھا اثر السلام سے عرض کیا تھا تو حضور نے فرمایا ہمیں ان کے متعلق آپ کی نسبت زیادہ فکر ہے.چند روز کے بعد بھائی مرحوم کی وفات کی خبر ناظر صاحب ( دعوت الی اللہ ) کی طرف سے ہوا اور کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.(روز نامہ الفضل قادیان - 8 و فار جولائی 1320 ھش.1941ء) روزنامه الفضل قادیان.23 مئی 1941 ء صفحہ 3) بذریعہ تار پہنچی.بعد میں والد صاحب مرحوم کا خط ملا جس میں آپ نے قضاء الٹی پر رضا کا حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب ابن حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی بیان اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری والدہ نے بھی قابل تعریف صبر کا نمونہ دکھایا ہے.“ کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کا بیان ہے کہ میں چونکہ فیض اللہ چک کا رہنے والا تھا اور سیکھواں وہاں سے قریب ہی تھا اس لئے جب ان لوگوں کی خدمات کی آپ کا ایک قابل ذکر خط ضرورت پڑتی تو مجھے بھجوایا جاتا.تو میں صبح سویرے جا کر بتادیتا کہ حضور نے آپ کو طلب اکتوبر 1925ء میں عین جوانی کے عالم میں جب حضرت مولانا جلال الدین شمس فرمایا ہے.تو یہ صاحبان اسی وقت قادیان روانہ ہو جاتے اور ہمیں اپنے گرم لحافوں کو لپیٹنے کی صاحب بلا د عر بیہ میں خدمات بجا لا رہے تھے تو آپکے والد محترم نے شام میں آپکے نام

Page 14

25 24 سواب کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ دین میں قوت عطا فرمائے.اب خدا تعالیٰ نے آں عزیز ایک خط لکھ کر بھجوایا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت میاں امام الدین صاحب اس جدائی کو محض اللہ کی خاطر قبول کرتے ہوئے کس قدر تڑپ رکھتے کے سپرد یہ کام کیا ہے نہایت مضبوطی دل سے یہ کام کرنا گھبرانا نہیں.آنکھوں کے سامنے تھے کہ انکا بیٹا اللہ تعالیٰ کی خاطر خدمات بجالاتا رہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: عزیزم مولوی جلال الدین فاضل سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ وہ نظارے رکھنے چاہئیں.کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دل چاہتا تھا کہ ہاجرہ اور اپنے بچے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ آؤں؟ مگر وہ کام خدا کے حکم کے ماتحت کرتے تھے.پھر انہیں اس تابعداری کے کیا مراتب ملے.آج دنیا ان کی سنت پر چلتی ہے.علی ہذا القیاس دو خطوط آں عزیز کے پہنچ گئے.نہایت خوشی حاصل ہوئی.تمام حالات سے آگاہی بہت نظیر میں قرآن شریف سے مل سکتی ہیں.دعا بہت چاہئے.یہ دن خدا کے ملنے کے دن ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کامیابی عطا کرے.امام الدین از سیکھواں بقلم خود“ الفضل قادیان - 29 /اکتوبر 1925 ء صفحه ۲) حاصل ہوئی.گو جدائی کے صدمات ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے جو آں عزیز کو مرتبہ عطا کیا ہے ہر ایک کو نہیں ملتا.دعوت الی اللہ) کا کام سنت نبوی ﷺ ہے.سوحضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آں عزیز کو پسند فرما کر بھیجا ہے اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت عطا فرمائے اور ہر ایک طرح دین کی نصرت عطا فرمائے.جو حالات لوگوں کے تحریر تربیت اولاد کئے ہیں یہ حالات ہمیشہ ہی رسولوں کے وقت ہوتے رہے ہیں اور لوگ یہی کہتے رہے سے سب سے زیادہ جو قادیان میں اپنے گاؤں سے جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے آیا کرتے ہیں.مگر کیا لوگ اپنی باتوں میں کامیاب ہوئے یا رسولوں کو کامیابی ہوئی ؟ الٹھی وعدہ ہے کہ تھے وہ آپ ہی تھے.آپ اپنے ہمراہ اپنے بیٹے جلال الدین شمس صاحب کو بھی ہمراہ لے آپ نے اپنے بچوں کی تربیت عمدگی سے انکے بچپن سے ہی کی.اپنے بھائیوں میں وہ آخر کار اپنے رسولوں کی مددکرتا ہے.بیشک اللہ تعالیٰ کا ہر دل پر قبضہ ہے جو چاہتا ہے کرتا کر جایا کرتے تھے جو اُس وقت محض پانچ چھ سال کے تھے.پھر بچپن ہی میں آپ نے ہے اور یہ یقین ہے اور ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ بچوں کو مختلف دعا ئیں جیسے رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرُنِي وَ والسلام سے کئے ہیں پورے ہوں گے اور ضرور ہوں گے.یہ کام تو خدا تعالیٰ خود اپنے فضل ارْحَمُنِی وغیرہ یاد کروائی ہوئی تھیں.اپنے بیٹے سے اخبار بدر، الحکم اور ار دور یو یوآف سے کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.بمفت ایں اجر نصرت را د ہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا بکوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا رپیچز کے پرچے پڑھوا کر سنا کرتے تھے.اس طرح دونوں کے علم میں اضافہ ہوتا تھا اور تربیت بھی.مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے بارہ میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں ” جب میں مدرسہ احمدیہ کی دوسری جماعت میں پڑھتا تھا، اس وقت ہم سات طالبعلم گاؤں سے روزانہ آیا کرتے تھے.لیکن جب میں تیسری جماعت میں ہوا تو

Page 15

27 26 اسوقت صرف مولوی قمر الدین صاحب ( آپ کے چچا میاں خیرالدین صاحب کے انگلستان رکھا گیا.آپکے دونوں بچے جوان ہو چکے تھے اور اپنی والدہ سے پوچھا کرتے تھے بیٹے.ناقل ) اور میں رہ گئے تھے اور دونوں ہی سکول چھوڑنے کا ارادہ کیا کرتے تھے.کہ انکے ابا زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ اپنے دادا سے بھی یہی پوچھتے ہو نگے.اُدھر دادا ضعیف موسم گرما کی ڈیڑھ ماہ کی رخصتوں کے بعد جب مدرسہ جانے کا دن آیا تو میں نے انکار ہوتے جارہے تھے لیکن آپ نے کبھی بھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں یہ یا کیونکہ صبح چار پانچ بجے کے قریب جبکہ ابھی اندھیرا ہی ہوتا تھا ہمیں گاؤں سے چلنا درخواست نہیں کی کہ میرے بیٹے کو اب واپس بلا دیا جائے.اسی حالت میں 8 رمئی پڑتا تھا تا سکول میں وقت پر حاضر ہو جائیں.تب میرے والد صاحب نے مجھے مارا 1941ء کو قریباً 80 سال کی عمر میں آپ وفات پاگئے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور تقریباً ایک میل تک ساتھ آئے.میں ہچکیاں لیتا روتا ہوا ان کے ساتھ چلا گیا.اس آپ موصی تھے اور وصیت نمبر 95 تھا.آپ کی نماز جنازہ حضرت مولوی شیر علی کے بعد ہم کچھ مدت کیلئے اپنے رشتہ داروں کے گھر قادیان رہنے لگے.پھر اس کے بعد صاحب نے ایک بہت بڑے مجمع سمیت پڑھائی اور آپ کو مقبرہ بہشتی قادیان کے قطعہ سکول چھوڑنے کا خیال نہیں آیا.وہ دن تھا.اگر اس دن والد صاحب سختی نہ کرتے تو خاص ( رفقاء) میں دفن کیا گیا.آپ کی قبر کے کتبہ پر درج ذیل الفاظ لکھے ہوئے ہیں: نامعلوم میری زندگی کا مستقبل کیا ہوتا.ان کی سختی کو یا دکر کے میں ہمیشہ ان کے لئے دعا 66 کرتا ہوں.“ وفات (روز نامہ الفضل قادیان.8 جولائی 1941ء) عرصہ قریباً6 سال کے بعد حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کامیاب و کامران دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیکر بلاد عر بیہ سے دسمبر 1931ء کے آخر پر واپس قادیان پہنچے تو اپنے بوڑھے والد کا آپ ہی سہارا تھے کیونکہ آپکے اکلوتے بھائی تو فوت ہو چکے تھے.حلیہ مبارک لیکن چند سالوں کے بعد ہی 1936ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت شمس مزار پاک دل مولوی امام الدین صاحب والد ماجد مولوی جلال الدین صاحب مشمس مهاجر قادیان عمر ۸۰ سال وفات ۱۴-۵-۸ وصیت نمبر ۵۹ ہماری بڑی ہمشیرہ جمیلہ نسیم ملک صاحبہ کے بیان کے مطابق ” آپ اصل کشمیریوں کی صاحب کو انگلستان روانہ فرما دیا.اس وقت آپ کے دو بچے چھوٹی عمر کے تھے.بڑا بیٹا طرح اونچے چوڑے تھے اور نقش نہایت با اثر تھے.داڑھی درمیانی تھی.رنگ گندمی لیکن صلاح الدین دو تین سال کا تھا اور بیٹی جمیلہ چند ماہ کی تھی.اسکے بعد جنگ عظیم شروع ہوگئی سفید رنگ کی طرف مائل تھا.پگڑی باندھا کرتے تھے لیکن گلے کے بغیر نیز دیسی جوتے اور جماعت کے حالات ایسے تھے کہ حضرت شمس صاحب کو 10 سال سے زائد عرصہ پہنتے تھے.

Page 16

29 28 میرے دادا میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کا ایک وقار اور عزت تھی.اپنے گاؤں امام کی قربت سیکھواں میں بھی اپنے اور غیر سبھی بہت عزت سے پیش آتے تھے اور احترام کرتے تھے اور بہت سے احباب جھگڑوں وغیرہ کے فیصلے بھی ان سے کروایا کرتے تھے.جب میں 1990ء آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ مسیج پاک علیہ السلام کے قرب میں رہیں اور جس حد تک ممکن ہو برکات حاصل کریں.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ہمراہ مختلف سفروں میں بھی میں اپنے بچوں کو لے کر سیکھواں دیکھنے گیا تو وہاں بعض سکھ احباب اس زمانہ کے بھی تھے جو آپ ساتھ رہے، ہر تحریک پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت حصہ لیتے رہے اور مختلف بہت پیار و محبت سے پیش آئے اور ہمارے دادا جان اور انکے بھائیوں کی تعریف میں رنگوں میں خدمت کی توفیق پاتے رہے.آپ کے ایک عزیز دوست منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی بیان کرتے ہیں کہ ان تینوں بھائیوں کی وجہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رطب اللسان تھے.دعا گو اور مستجاب الدعوات زیارت انہیں نصیب ہوئی اور بیعت کا شرف حاصل ہوا اور شاذ و نادر ہی کبھی کوئی دن آپ ایک دعا گو، تہجد گزار صوم صلوہ کے پابند اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.اپنی گزرتا تھا کہ میں مع میاں جمال الدین وغیرہ قادیان نہ آتا ورنہ ہر روز قادیان آنا ہمارا وفات سے چند سال قبل آپکو اپنی وفات کا احساس بھی جبکہ بڑھ گیا تھا تو آپ نے اپنی معمول تھا.اگر کبھی عشاء کے وقت بھی قادیان آنے کا خیال آتا تو اسی وقت ہم چاروں چل زیادتی عمر کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی.اس بارہ میں آپ نے اپنے بیٹے حضرت مولانا پڑتے اور باوجو د سردیوں کے موسم کے نہر میں سے گزر کر قادیان پہنچ جاتے.اگر ہم میں جلال الدین شمس صاحب کو 11 جولائی 1937ء کے خط میں تحریر فریا کہ سے کوئی کسی روز کسی مجبوری کی وجہ سے قادیان نہ پہنچ سکتا تو باقی پہنچ جاتے اور واپس جاکر میں جب بیمار تھا اور اپنی فصل ربیع کٹوانے کے لئے گاؤں میں گیا ہوا تھا.مجھے کچھ غیر حاضر کوسب باتیں سُنا دیتے.“ بخار کھانسی تھی.عشاء کے بعد جب میں چار پائی پر لیٹ گیا تو مجھے خیال آیا.ابھی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اگر میری اجل قریب ہے تو تو ( بخدا) زیادہ کرسکتا ہے کیونکہ مولوی (سیرۃ المہدی حصہ سوم.روایت نمبر 659 صفحہ 113) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر مجلس میں اور جلسوں میں شامل ہونے کو آپ موجب جلال الدین یہاں نہیں عمر زیادہ کرنے سے تیری ذات کو کوئی روکنے والا نہیں.جب صبح سعادت سمجھتے اور تکلیف اٹھا کر بھی وہاں پہنچتے.اسی طرح ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ قریباً تین بجے تھے مجھے آواز آئی.السلام علیکم بڑی بلند آواز سے.میں اٹھ کر بیٹھ گیا.میں مضمون جو لاہور میں پڑھا گیا تھا، اسمیں بھی آپ شامل تھے اور امرتسر میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے چار پائی کے چاروں طرف دیکھا تو کوئی شخص معلوم نہ ہوا.میں نے سمجھا کہ فرشتہ کی کے ساتھ جو تحریری مناظرہ ہوا جو جنگ مقدس کے نام سے چھپ چکا ہے ،اس موقع پر بھی طرف سے سلامتی کا لفظ ہے.ابھی اچھی عمر کا کچھ حصہ رکھا ہے یہ اس کا فضل ہے.‘ اس آپ حضور علیہ السلام کے قرب میں تھے.کے بعد آپ تقریباً چار سال تک زندہ رہے.حضرت میاں امام الدین سیکھوانی بہت ہی خوش قسمت انسان تھے کہ آپ نے نہ (روز نامه الفضل قادیان.8 جولائی 1941ء) صرف اس مسیح موعود کا زمانہ پایا ( جسکے انتظار میں لاکھوں کروڑوں انسان اپنی خواہش پورا

Page 17

31 30 ہوئے بغیر فوت ہو گئے ) بلکہ خدا تعالیٰ نے آپکو اس کے اولین رفقاء اور خدام میں شامل معہ اہل بیت اپنے تین سو تیرہ ( رفقاء) کی فہرست میں شامل فرمایا.وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ ہونے کی سعادت عطا فرمائی اور خدا تعالیٰ کے اس مقدس مسیح نے آپکے حق میں اپنے دست يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ مبارک سے تحریر فرمایا کہ آپ نے عہد بیعت کو کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے، پورا کر دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب کے علاوہ آپ کو حضرت خلیفہ امسح الاول نور اللہ مرقدہ کی خلافت میں بھی خدمات سلسلہ کی توفیق ملتی رہی اور آپ نے حضرت مصلح موعود کے با برکت دور خلافت کے بھی کئی سال دیکھے.درج ہیں.اطاعت امام اور بے لوث قربانیوں کا آپکو اللہ تعالیٰ نے یہ صلہ عطا فرمایا کہ آپکی اولاد در اولاد کو اللہ تعالیٰ نے بے حد نوازا ہے اور دین و دنیا میں اپنے فضلوں کا وارث بنایا ہے.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ نہ صرف آپکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اپنے آقا شادی کے قدموں میں جگہ دے بلکہ آپکی اولاد در اولاد کا بھی حامی و ناصر رہے اور انہیں بھی ہمیشہ اپنے قرب خاص سے نوازتا چلا جائے.آمین حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ور علیہ السلام نے جو رجسٹر بیعت اولی تیار فرمایا تھا اس میں آپ کے کوائف یوں نمبر شمار : 151 تاریخ هجری تاریخ عیسوی 23 نومبر 1889ء بروز جمعہ نام مع والدین میاں خیر الدین ولد محمد صدیق قوم وائیں عرف کشمیری.موضع سیکھوان ضلع و تحصیل گورداسپور بقلم خود (رجسٹر بیعت اولی.نمبر شمار 151 - از خلافت لائبریری.ربوہ ) آپ کی شادی محترمہ امیر بی بی صاحبہ سے ہوئی تھی جو قادیان کی رہنے والی تھیں اور خواجہ محمد شریف صاحب آف قادیان کی پھوپھی اور بابا نظام الدین صاحب کی بیٹی تھیں.بابا نظام الدین صاحب کے بہنوئی حضرت میاں محمد صدیق صاحب (حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی.حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے.آپ اندازاً1869ء میں پیدا اور حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ) کے والد اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ہوئے.آپ کا بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ سیکھواں سے قادیان آنا جانا رفقاء میں سے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی سے پہلے سے جاری تھا.بیعت آپ کو بھی اپنے بہن بھائیوں، والدین اور بزرگوں سمیت امام الزمان حضرت مسیح محترمہ امیر بی بی صاحبہ کے متعلق انکے بیٹے مولا نا قمرالدین صاحب (جنہیں خدام الاحمدیہ کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ) تحریر فرماتے ہیں کہ ” گاؤں کی بہت سی احمدی اور غیر احمدی لڑکیوں نے محترمہ والدہ صاحبہ سے قرآن موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا اور حضور علیہ السلام نے آپکو بھی کریم ناظرہ اور با ترجمہ پڑھا تھا.دینی مسائل اور عبادات میں شغف رکھتی تھیں.ہماری

Page 18

33 32 پھوپھی مائی کا کو کے ہمراہ جمعہ کی نماز پڑھنے قادیان جایا کرتی تھیں اور گاؤں کی دوسری مستورات بھی.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلی ذَالِکَ.ایک مرتبہ والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود ایک عظیم سعادت علیہ السلام سے نماز مغرب کے متعلق سوال کیا کہ کھانا پکانے کا وقت ہوتا ہے ، کیسے ادا کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالعموم نماز با جماعت کی امامت خود نہیں فرمایا کرتے تھے جائے؟ حضور نے فرمایا.کھانا مغرب سے پہلے پکا لیا کریں اور نماز وقت پر پڑھیں.حضور اور بہت کم نمازوں کی امامت آپ نے فرمائی ہے.21 / جولائی 1904ء کو جب حضور گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے تو چند احباب کو حضور علیہ السلام کی اقتداء میں نماز نے یہ ارشاد بڑی تاکید سے فرمایا.....محتر مہ والدہ صاحبہ کو ہم نے پابند صوم وصلوٰۃ اور باقاعدگی سے نماز تہجد پڑھنے والی ظہر و عصر باجماعت پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں حضرت میاں خیر الدین پایا.آپ اخلاق فاضلہ سے متصف تھیں.آپکی نیکی اور تقوی وطہارت کی وجہ سے بہت سی صاحب سیکھوانی بھی تھے.66 مستورات آپ سے دعا کراتی تھیں.“ (ماہنامہ مصباح ربوہ سالنامہ 1969ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر حضور علیہ السلام نے مختلف شہروں کا جو سفر فر مایا نیز آپکو مختلف مقدمات کی پیروی کے سلسلہ میں جو سفر کرنے پڑے ان میں سے متعد د سفروں میں تینوں سیکھوانی بھائیوں نے بڑے ذوق و شوق اور عقیدت کے ساتھ اپنے آقا کا قرب حاصل کرنے کوشش کی.تاریخ جسے اللہ رکھے البدر قادیان 24 جولائی 1904ء) محترمہ آپا صفیہ بیگم اہلیہ بشیر احمد حیات صاحب مرحوم ( بنت مولانا قمر الدین صاحب) نے مجھے بتایا کہ ہندوستان کی تقسیم کے دنوں میں جس روز قادیان پر حملہ ہوا، انکے دادا میاں خیر الدین صاحب گھر سے باہر چہل قدمی کیلئے گئے ہوئے تھے.راستہ میں انہوں نے قرآن کریم کے چند اوراق بکھرے پڑے پائے جنہیں انہوں نے اٹھا لیا.اسی احمدیت جلد دوم صفحہ 44 پر سفر دھاریوال کے بارہ میں لکھا ہے کہ چونکہ دھار یوال میں حضور اثناء میں چند سکھوں کا ادھر سے گزر ہوا اور انہوں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کاغذ ہیں؟ کی جائے قیام کیلئے کوئی انتظام مشکل تھا اس لئے میاں نبی بخش صاحب نمبردار بٹالہ، میاں صاحب نے فرمایا کہ یہ ہماری مذہبی کتاب قرآن کریم کے اوراق ہیں.خدا تعالیٰ کا یہ میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری، میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی اور میاں خیر الدین تصرف ہوا کہ وہ سکھ حضرات یہ سن کر بغیر کچھ کہے وہاں سے آگے نکل گئے اور حضرت میاں صاحب سیکھوانی وغیرہ نے دھار یوال سے ایک میل کے فاصلہ پر موضع لیل میں حضرت صاحب کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچایا حالانکہ بالخصوص اس روز جس دن قادیان پرحملہ ہوا اقدس اور دیگر احباب جماعت کے قیام و طعام کا ایک وسیع مکان میں انتظام کر لیا تھا.“ تھا، جو بھی قابو میں آجاتا تھا، اُسے زندہ نہیں چھوڑا جاتا تھا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ (روز نامہ الفضل 3 / جولائی 2006ء صفحہ 3) آپ کسی نقصان سے محفوظ رہے.

Page 19

35 34 تھے ) ہمارے گھر کو دیکھ کر حضرت اماں جان نے فرمایا کہ آپکا گھر تو ماشاء اللہ بہت صاف با برکت وجود ستھرا ہے بعض گھروں میں تو میں بہت گند دیکھتی ہوں اور بعض نے تو گھر ہی میں بھینسیں قادیان میں جب سکونت اختیار کی تو ابتداء میں گھر اتنابڑا نہ تھا اگر چہ ساتھ خالی جگہ وغیرہ بھی باندھی ہوتی ہیں.عرض کیا گیا کہ آج تو میں ثابت موٹھ (ایک قسم کا غلہ جس کے کافی تھی.آپا صفیہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ”میرے ابا جان مولا نا قمر الدین صاحب سے تو دانے کا رنگ سرخ اور جسامت دال مونگ جتنی ہوتی ہے ) کی کھچڑی بنا رہی تھی لیکن آپ کیا کھانا کافی احباب ملنے آتے تھے اور مجلس لگا کرتی تھی لیکن میرے دادا میاں خیر الدین صاحب پسند فرمائیں گی ؟ تو حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ہم بھی یہی کھائیں گے.چنانچہ آپ ان مجلسوں سے ذرا دور ہی رہتے تھے اور سونے کیلئے ساتھ والے کھلے میدان میں چار پائی نے بڑے شوق سے کھچڑی کھائی بلکہ بعد میں کبھی کبھار محبت اور بے تکلفی سے مطالبہ کر کے لے جایا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس جگہ میں اتنی برکت ڈالدی کہ ہمیں یہ ساری جگہ مل پکوا کر منگوایا بھی کرتی تھیں.گئی اور اس جگہ بڑا گھر بھی بنانے کی توفیق ملی.جب حضرت اماں جان بیاہ کر آئی تھیں تو ہم آپکو دیکھنے گئی تھیں آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ تم اسی طرح میرے دادا مجھے حساب پڑھایا کرتے تھے.ایک مرتبہ میں نے حساب کا میری بہن بن جاؤ.چنانچہ اسی محبت اور پیار کی وجہ سے آپ ہمیشہ شفقت فرمایا کرتی تھیں.“ جواب لکھا تو انہوں نے فرمایا کہ جواب غلط ہے.دو تین مرتبہ میں نے چیک کیا تو جواب وفات وہی صحیح تھا جو میں نے لکھا تھا لیکن ہر مرتبہ دادا جان نے یہی فرمایا کہ غلط ہے.چنانچہ میں روپڑی.اس پر میرے ابا جان نے دیکھا تو بتایا کہ جواب تو صحیح ہے.تب دادا جان نے حضرت میاں خیر الدین صاحب بعد میں جہلم میں آبادہو گئے تھے.آپ کی وفات کہا کہ دراصل میں نے کتاب میں ہی دیکھا تھا، اس میں غلط جواب چھپا ہوا ہے.چونکہ یہیں ریل کے ڈبہ کے ٹکرانے کی وجہ سے ہوئی.آپ شدید زخمی ہو گئے تھے.آپ کے میری دلآزاری ہوئی تھی اسلئے فوراً دادا جان نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور مجھے نقدی انعام پوتے خواجہ رشید الدین قمر صاحب (ابن مولانا قمر الدین صاحب ) فرماتے ہیں کہ ہماری میں دی تا کہ جو تکلیف ان کی وجہ سے مجھے ہوئی ہے اسکا ازالہ ہو جائے.“ دادی اور دیگر عزیز رور ہے تھے لیکن آپ ان سب کو صبر کرنے کی تلقین فرماتے رہے کہ اللہ حضرت اماں جان کی شفقت کی رضا پر ہمیشہ راضی رہنا چاہیے.آخر آپ 17 / مارچ 1949ء کو 80 سال کی عمر میں اپنے مولائے حقیقی کے حضور آپا صفیہ صاحبہ کی دادی جان بتایا کرتی تھیں کہ ایک مرتبہ حضرت اماں جان (اہلیہ حاضر ہو گئے.آپ بھی موصی تھے اور آپکی وصیت کا نمبر 96 تھا.آپ کو جہلم میں امانتاً دفن محترمہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام) ہمارے گھر سیکھواں تشریف لائیں.آپکے ہمراہ کیا گیا اور پھر جون 1960ء میں آپ کا جسد خا کی ربوہ لا کر بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا.حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جو اس وقت چھوٹی عمر آپ کی نماز جنازہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھائی جس میں اہل ربوہ کی کثیر تعداد کے تھے بھی تھے.(اُس وقت تینوں ایک ہی بڑے گھر میں رہا کرتے نے شرکت کی.

Page 20

36 آپ مولا نا قمر الدین صاحب کے والد اور مولانا جلال الدین شمس صاحب کے چچا تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین اور مخلصین رفقاء میں سے تھے.حلیہ مبارک آپ مضبوط جسم والے تھے.داڑھی درمیانی تھی.رنگ گندمی لیکن سفیدی غالب تھی.پگڑی کلے کے بغیر باندھتے تھے.سادہ دیسی جوتے پہنتے تھے.نیز کھلا کوٹ بھی پہنا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو جنت الفردوس میں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے کہ انہوں نے ابتداء میں باوجود مخالفتوں اور مشکلات کے مسیح الزمان کو پہچانا اور اس کے در پر دھونی جمائے رکھی اور برکات کو سمیٹتے رہے.اے خدا! تو ان سب برکات کا ہمیں بھی حقیقی وارث بنے کی توفیق عطا فرما اور مسیح پاک علیہ السلام کے بعد ہمیں ہمیشہ خلیفہ وقت کا سچا اور حقیقی جان شار بنے رہنے اور مقبول خدمات بجالاتے رہنے کی توفیق عطا فرما تا چلا جا تا ہم بھی تیری رضا حاصل کرنے والے بن جائیں.امین یا رب العالمین طبع..........اول

Page 20