Seeratun Nabi Az Hazrat Masih Maud

Seeratun Nabi Az Hazrat Masih Maud

سیرة النبی ﷺ

از تحریرات و فرمودات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات و فرمودات سے اقتباسات جمع کرکے مکرم آصف احمد خان صاحب استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا نے سیرت النبی ﷺ پر یہ تفصیلی کتاب مرتب کی ہے جس میں متفرق اقتباسات کو درج کرتے ہوئے زمانی ترتیب بھی قائم رکھی گئی ہے اور بعض جگہ سیاق و سباق واضح کرنے اور تسلسل و رطب کی خاطر وضاحتی نوٹس بھی شامل کئے گئے ہیں۔ نیز حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پاکیزہ تحریرات کی تائید میں بعض جگہ پر مختلف کتب تاریخ و سیرت وغیرہ سے حوالہ جات بھی پیش کئے گئے ہیں یوں دلی محبت اور قابل قدر محنت سے تیار ہونے والی اس تحقیق سے ایک نہایت قیمتی کتاب مکمل ہوئی ہے جس کا سیرت و سوانح کا پہلو بھی نمایاں اور آقا و مطاع کے والہانہ عشق و محبت کی جھلکیاں بھی محفوظ ہوگئی ہیں۔ شعبہ اشاعت جماعت احمدیہ کینیڈا نے اس 300 صفحات کی کتاب کی احسن طباعت کا اہتمام کیا ہے۔


Book Content

Page 1

برت النبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی از تحریرات و فرمودات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحقيق وترتيب آصف احمد خان

Page 2

بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سیرت النبی سالیها السلام از تحریرات و فرمودات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کتاب میں سیرت النبی صلی این ترتیب زمانی از تحریرات و فرمودات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان کی گئی ہے اور تسلسل وربط قائم رکھنے کی خاطر وضاحتی نوٹس بھی دئے گئے ہیں.نیز مقدس تحریرات کی تائید میں دیگر کتب سے حوالہ جات بھی دئے گئے ہیں.تحقيق, وترتيب آصف احمد خان ربی سلسلہ و اُستاد جامعہ احمدیہ کینیڈا

Page 3

نام کتاب سیرت النبی صلی این نام از تحریرات و فرمودات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنف سن اشاعت ناشر طبع مکرم آصف احمد خان مربی سلسلہ احمدیہ.استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا 2018: شعبہ اشاعت.جماعت احمدیہ کینیڈا : اول کمپوزنگ و ٹائٹل : مکرم فرحان احمد نصیر ( واقف زندگی) 500: تعداد 978-0-9937731-9-8: ISBN Siratun-Nabisa Az Taḥrīrāt wa Farmūdāt Syednā Hazrat Aqdas Masih Mau'ūdas by Asif Ahmad Khan Copyright © 2018 Ahmadiyya Muslim Jamaat, Canada All right reserved.

Page 4

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 5

ii

Page 6

3 5..8 9 12.12 12 13 13 13 21 24 24.xii.......xiii.......xiv.1 فہرست مضامین پیش لفظ اظہار تشکر مقدمة الكتاب باب اول عرب و عجم قبل از اسلام اور آنحضور ملا کے آباء واجداد...ملک عرب سے آنحضور صلی الم کے ظہور کی حکمت : سیاسی حالات.27 iii اخلاقی حالت.ایران اور ہند : یہود کی حالت : یہود مشرکوں کے پیشوا تھے: عیسائیوں کی حالت: یہودیوں سے مذہب میں تحریف کا سبق لینا: کفارہ کا عقیدہ بگاڑ کی اہم وجہ :.بد چلنی میں یہودی بڑھے ہوئے تھے یا عیسائی؟: عیسائیوں کا بد کاری میں اول نمبر ہونے کا سبب : نیک راہب : آباء و اجداد.آنحضور صلی ا م کا نسل اسماعیل سے ہونا: مکہ کی آبادی و سکونت حجاز :.

Page 7

31 33 34 34 34 36..36..37 38.39 41 42 42 43 46 46 49 49 50 51.52 41.iv سید الکونین حضرت محمد صلی علیکم کا مظہر نسب محفوظ نسب.نسب مبنی بر نکاح.مطہر سلسلہ امہات : شرک سے پاک سلسلہ آباء: داد اعبد المطلب: والد ماجد عبد الله : والد ماجد عبد اللہ کی وفات :.سیده آمنه : حوالہ جات باب اوّل.باب دوم ولادت، بچپن، جوانی ولادت با سعادت:..مکہ میں پیدا ہونے میں حکمت: اسم محمد واحد.الہامی نام.مصداق اسم محمد صل الله لم : سراپا محمد: مصداق اسم احمد : اسم احمد و محمد سے مراد دو صفات :.مظہر رحمانیت و رحیمیت اُمت کے لئے وصیت :.جماعت کو نصیحت : آپ نے فرمایا.

Page 8

53 54 56 56 59 60.62..67 70 71 72 73 75 76 77 77 78 79 80 82 82 84 67...........اسم احمد میں پیشگوئی:.رضاعت و ایام طفولیت: بکریوں کی نگہبانی:.سقوط شهب در جم شیاطین : پاکیزه شباب:.حضرت خدیجہ سے شادی: باب سوم طلوع اسلام غارِ حرا.مستشرقین کا اعتراض: نزول وحی خشيت على نفسی کی حقیقت فترت وحی کی حکمت: اسلام کا عالمگیر مشن :.آغاز تبلیغ: قریش کو دعوت اسلام:.ایک وضاحت: ابتدائی مسلمان: حضرت ابو بکر صدیق کا قبول اسلام: دور ابتلاء: انبیاء اور انکی جماعتوں پر ابتلاء اور انکی مخالفت کی وجوہات:.مقام قبولیت کا حصول:.مخالفت بوجه بغض و حسد :.V

Page 9

86 86 87 88 90..92..92.8222 93 22 94 98 102 104 106 106 109 110.122 123 122.مذہبی امور میں عدم دلچسپی :..ایمان کی حقیقت سے ناواقفیت : مخالفت صداقت کی علامت:.ایلام یعنی دُکھ برنگ انعام:.ابو طالب کے پاس قریش کے وفود :.ابو طالب کے پاس قریش کا وفد : ایک اور وفد : دنیوی لالچ دینے کی کوشش:.آنحضور صلی علی کم پر قریش کے مظالم :.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام.سفر طائف:.126 127 128 vi مکہ میں قحط : معراج و اسراء:.معراج واسر اء روحانی سفر ہیں : شیعہ عقائد کی اصلاح.شق قمر : باب چهارم ہجرت مدینہ آنحضور صلی علی رقم کا خواب: ہجرت کی وجہ :.وحی کے ذریعہ اطلاع :.گھر کا محاصرہ اور توکل علی اللہ :.ہجرت کے لئے خروج:

Page 10

129 130 131.135 136.137 139 140 144 147 149 150 151.152 153 154 154 155 156 157 158 144..vii دشمن کے سامنے سے گزر گئے: یار غار غار ثور میں پناہ:.سابقہ انبیاء سے مماثلت: شراقہ کا تعاقب: تکمیل ہجرت و نزولِ قبا: مسجد نبوی تحویل قبلہ: باب پنجم جہاد بالسیف و غزوات.دفاعی جنگ کے لئے اجازت :.غزوہ بدر..آنحضور صلی اسلام کی دعا :.مسلمانوں کی کمزور حالت: ابو جہل کی دعا: کنکریوں بھری مٹھی کا معجزہ: بدر کی پیشگوئی: دوخوشیاں اکٹھی ملیں: غزوه أحد.آنحضور صلی علی رقم کا ایک خواب: لڑائی میں سب سے بہادر :.....صحابہ کا قصور نہ تھا: غزوہ خندق:

Page 11

160 161 162 163 164 165 165 166 168 171 175 176 177 180 170...صلح حدیبیه : خواب اور اجتہاد: ایک نکتہ :.صحابہ کی آزمائش : اجتہادی غلطی، سھو نسیان کے امکان میں حکمت: بیعت رضوان: فتح مبین کا پیش خیمہ : واقعہ سحر کی تردید: حوالہ جات باب پنجم.181 182 182 183 183 185 186 viii باب ششم سلاطین کو تبلیغی خطوط قیصر روم کے نام خط: آنحضور صلی الم کی تصویر : قیصر کی شہنشاہی: کسرای کے نام خط: فلا كسرى بعده:.فتح خیبر : فتح مکه : فتح مکہ قوت قدسی کا ثمر : انہدام اصنام : لا تثريب عليكم اليوم: ابوسفیان ایک کم فراست والا آدمی.غزوہ حنین:

Page 12

188 190 190 191 192 192 195 196 200 200 204 205 206 208 208 209 210 211 214 215 216 206.....نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ :.حج.مکی دور میں حج : حجة الوداع.سورۃ النصر کا نزول، قرب وصال کی پیشنگوئی اور اعلان : رحلت سے قبل تکمیل دین:.ابو بکر کی کھڑکی کی حقیقت : وصال پر اجماع صحابه.صحابہ کی غلطی عمدانہ تھی: اجماع صحابہ پر اعتراض کا جواب:.عمر مبارک:.حوالہ جات باب ششم.باب ہفتم عائلی زندگی اور ازواج مطہرات انبیاء کی بیوی بچے رکھنے کی غرض:.بیویوں کی تعداد: حضرت خدیجہ سے شادی: حضرت سودہ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب: حضرت عائشہ کو خواب میں دیکھنا: حضرت عائشہ سے کم عمری میں شادی پر اعتراض کا جواب: حضرت عائشہ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب: بناوٹ اور تکلف سے پاک واقعہ افک: ix

Page 13

217 217 221 224 226 227 228 231 233 234 235 236 236 237 238 239 239 241 242 243 244 حضرت زینب اور حضرت زید سے متعلق چند اعتراضات کا جواب: پہلے اعتراض کا جواب: دوسرے اعتراض کا جواب:.قَضیٰ حَاجَتَہ کی حقیقت : شہر والا واقعہ:.لمبے ہاتھوں والی سے مراد :.تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب: متعہ کا جائز کرنا اور پھر نا جائز کرنا:.اولا د النبی صل اللالم ابراہیم کی وفات پر سورج گرہن: آنحضور کی بیٹیاں : ابو لہب کے لڑکوں سے منگنی کی وجہ : اولاد کو نصائح : حوالہ جات باب ہفتم 238.............X باب بشتم آنحضور صلی الل ولم کے شمائل لباس: طعام.رہن سہن میں سادگی: - شعر سُننا اور شعر کہنا:.فارسی زبان میں الہام.پاکیزه مزاح:.اخلاق عالیہ :

Page 14

245 245 253 257 259 264 276.....280.....xi بشر ہونا: نبي أمي.....حفاظت الہی و تصرفات اعجازی: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات آنحضرت صلی اسلم کی زندگی کے دو زمانے :.کلید مضامين..کتابیات مصنف کتاب

Page 15

بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت و سوانح پر بلاشبہ سینکڑوں ہزاروں کتب لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی لیکن آپ کے عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف مواقع پر جس کمال محبت و عقیدت کے ساتھ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح بیان فرمائی ہے اس کی مثال ملنانا ممکن ہے.در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے محبوب نبی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت اور اطاعت و غلامی سے ہی مامور من اللہ ہونے کا شرف پایا.آپ کی حیات مبارکہ کا ہر پہلو اور تحریر و تقریر کا ہر لفظ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مخمور تھا.جہاں ایک طرف آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کے واقعات اپنی تحریرات و ملفوظات میں بیان فرمائے ہیں وہاں ایک غیور عاشق کی طرح اپنے محبوب پر اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات بھی غیر معمولی رنگ میں عطا فرمائے ہیں.مکرم آصف احمد خان صاحب نے بڑی محنت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و فرمودات سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذ کر کے انہیں کتابی صورت میں ترتیب دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی طباعت بابرکت فرمائے.آمین خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف جنوری ۲۰۱۸ xii

Page 16

بسم اللہ الرحمن الرحیم اظہار تشکر ہم اللہ تعالیٰ کے بیحد شکر گزار ہیں کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کو یہ کتاب جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ارشادات و فرمودات پر مبنی سیرت النبی صلی ا م بلحاظ ترتیب زمانی مرتب کی گئی ہے طبع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ علی ذلک.اس کتاب کو مکرم آصف احمد خان صاحب مربی سلسلہ احمدیہ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا نے نہایت محنت و دلی خلوص سے مرتب کیا ہے.اس کتاب میں مؤلف نے جس طرز اور ترتیب سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ارشادات کو قلمبند کیا ہے وہ نہایت عمدہ و دلکش ہے اور قارئین کے لئے محبت رسول صلی ا یکم کو بڑھانے والی ہے.نیز اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق اور فہم و عرفانِ سیرت کا بھی ادراک ملتا ہے.اس کتاب کے مسودہ کا وکالت تصنیف لندن کی ہدایت پر ریسرچ سیل ربوہ نے باریک بینی سے جائزہ لیا اور قیمتی مشوروں اور تجاویز کے ساتھ اسے موقر بنانے میں مدد کی.ان تمام ضروری مراحل کے بعد کتاب کے حتمی مسودہ کی منظوری مکرم و محترم منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنیف لندن نے فرمائی.فجزاھم اللہ احسن الجزاء.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محبت رسول و فہم سیرت میں بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں اور خوشنودی سمیٹنے والا بنائے جن کی پر شفقت دعاؤں اور برکت سے ہمیں ہر کام کی توفیق ملتی ہے.آمین شیخ عبد الودود نیشنل سیکرٹری اشاعت جماعت احمدیہ کینیڈا xiii

Page 17

بسم اللہ الرحمن الرحیم مقدمة الكتاب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات و فرمودات میں تاریخ اسلام اور سیرت النبی صلی ال نیم کے مختلف واقعات کو کئی پہلؤوں اور نئے زاویوں سے اور مختلف مقاصد کے تحت بیان فرمایا ہے.چنانچہ ایک مقصد غیر مسلموں کے اعتراضات کے جوابات دینا ہے جو وہ تاریخ اسلام اور سیرت النبی علی ایم کے مختلف واقعات پر کرتے ہیں.مثلا جہاد بالسیف کی ضرورت، آنحضور صلی ا لم کی میت، صحابه فما عظیم کر دار ، اور کشوف کی حقیقت، ازواج مطہرات سے متعلق اعتراضات.اسکے علاوہ آپ نے بہت سے علمی، فقہی اور معاشرتی و اخلاقی مسائل سیرت النبی صلی علی کرم اور تاریخ اسلام کی رُو سے حل فرمائے ہیں.مثلا وحی کی حقیقت، معجزات ، اعلیٰ اخلاق، تعدد ازدواج، منتعہ کی ممانعت، سحر کی حقیقت سخاوت و شجاعت وغیرہ.پھر بعض واقعات کو بعض واقعات کی تشریح کی غرض سے بیان فرمایا ہے.اور ان واقعات کو بیان فرمانے کا سب سے بڑا مقصد حضرت مخدوم العالمین سید المرسلین صلی علی کریم کے اس عالی مرتبہ کا بیان ہے جو بسبب انتہا درجہ کی محبت کے بدرجہ اتم آپ ہی پر منکشف ہوا.حضور نے انبیاء علیم السلام کے واقعات زندگی بالخصوص آنحضرت صلی ظلم کی سیرت مبارکہ کے مطالعہ کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے.آپ اپنی تصنیف براہین احمدیہ میں فرماتے ہیں غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت انکے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انہیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا اور کیونکر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں.“ ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن.جلد 1 صفحہ 108) xiv

Page 18

پھر ایک جگہ آپ نے ان لوگوں کو جو مناظرات مذہبیہ میں قدم رکھیں یا مخالفین کے اعتراضات کا جواب لکھنے کا ارادہ کریں چند ضروری نصائح اور شرائط بیان فرمائیں ان میں سے ایک علم تاریخ سے واقفیت ہے جیسا کہ فرمایا: چھٹی شرط علم تاریخ بھی ہے.کیونکہ بسا اوقات علم تاریخ سے دینی مباحث کو بہت کچھ مدد ملتی ہے.مثلاً ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں آچکا ہے اور پھر وہ ان کتابوں کے شائع ہونے سے صدہا برس بعد وقوع میں آگئی ہیں.اور اس زمانہ کے تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا بیان کر دیا ہے.پس جو شخص اس تاریخی سلسلہ سے بے خبر ہو گا وہ کیونکر ایسی پیشگوئیاں جن کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو چکا ہے اپنی کتاب میں بیان کر سکتا ہے ؟“ البلاغ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 373) ایک جگہ حضور نے سوانح نویسی کی اہمیت اور سوانح نویسی کے اصول و آداب کے بارہ میں ان الفاظ میں نصیحت فرمائی.یہ بات ظاہر ہے کہ جب تک کسی شخص کے سوانح کا پورا نقشہ کھینچ کر نہ دکھلایا جائے تب تک چند سطریں جو اجمالی طور پر ہوں کچھ بھی فائدہ پبلک کو نہیں پہنچا سکتیں اور انکے لکھنے سے کوئی نتیجہ معتد بہ پیدا نہیں ہو تا.سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اُس زمانے کے لوگ یا آنے والی نسلیں ان لوگوں کے واقعات زندگی پر غور کر کے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یا زہد و تقویٰ یا علم و معرفت یا تائید دین یا همدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں اور کم سے کم یہ کہ قوم کے اولو العزم لوگوں کے حالات معلوم کر کے اس شوکت اور شان کے قائل ہو جائیں جو اسلام کے عمائد میں ہمیشہ سے پائی جاتی رہی ہے تا اس کو حمایت قوم میں مخالفین کے سامنے پیش کر سکیں اور یا یہ کہ ان لوگوں کے مرتبت یا صدق اور کذب کی نسبت کچھ رائے قائم کر سکیں.اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے لئے کسی قدر مفصل واقعات کے جاننے کی ہر ایک کو ضرورت ہوتی ہے.اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک نامور انسان کے واقعات پڑھنے کے وقت نہایت شوق سے اس شخص کے سوانح کو پڑھناشروع کرتا ہے اور دل میں جوش رکھتا ہے کہ اس کے کامل حالات پر اطلاع پاکر اس سے کچھ فائدہ اٹھائے.تب اگر ایسا اتفاق ہو کہ سوانح نویس نے نہایت اجمال پر کفایت کی ہو XV

Page 19

اور لائف کے نقشہ کو صفائی سے نہ دکھلایا ہو تو یہ شخص نہایت ملول خاطر اور منقبض ہو جاتا ہے.اور بسا اوقات اپنے دل میں ایسے سوانح نولیس پر اعتراض بھی کرتا ہے اور در حقیقت وہ اس اعتراض کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ اس وقت نہایت اشتیاق کی وجہ سے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک بھو کے کے آگے خوان نعمت رکھا جائے اور معاً ایک لقمہ کے اٹھانے کے ساتھ ہی اس خوان کو اٹھا لیا جائے.اس لئے ان بزرگوں کا یہ فرض ہے جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دلعزیز اور مقبولِ آنام بنانے کے لئے نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کر کے دکھلاویں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے.تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے.اور صفحات تاریخ پر نظر ڈالنے والے خوب جانتے ہیں کہ جن بزرگ محققوں نے نیک نیتی اور افادہ عام کے لئے قوم کے ممتاز شخصوں کے تذکرے لکھے ہیں انہوں نے ایسا ہی کیا ہے“ (کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد 13 حاشیہ صفحہ 159-162) آپ نے اپنی تصنیف البلاغ میں دنیا کے علوم کی اہم کتب کی فہرست شائع فرمائی جو حضرت حکیم نورالدین صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھیں.ان کتب سے حضور بوقت ضرورت استفادہ کرتے تھے.ان میں علم تاریخ کے متعلق کتب کی فہرست بھی درج فرمائی ہے.جو آپ کے مطالعہ میں رہیں اور وہ یہ ہیں: تاریخ طبری کلان ۱۴ مجلد - تاریخ ابن خلدون کے مجلد.تاریخ کامل ابن اثیر ۱۲ مجلد.اخبار الدول قرمانی.اخبار الاوائل محمد بن شحنہ.تاریخ ابو نصر عتبی.نفح الطيب تاریخ علماء اندلس.مروج الذہب مسعودی.آثار الا دہار ۳ مجلد.عجائب الاثار جیر تی.خلاصۃ الاثر فی اعیان حادی عشر.فہرست ابن ندیم.مفاتیح العلوم الآثار الباقیه بیرونی تقویم البلدان عمادالدین.مراصد الاطلاع.مسالک الممالک.الفتح الفتی نزہتہ المشتاق مواہب اللدنیہ.زرقانی شرح مواہب.زاد المعاد.سیرۃ ابن ہشام.شفا شرح شفا لعلی قاری سیرۃ محمدیہ.اوجز السیر.قرة العیون.سرور المحزون.مدارج النبوة- معارج النبوة سيرة حلبيه سيرة دحلان ملخص التواریخ.سیر محمد یہ حیرت.تنقید الکلام.بدائع الزهور.تحفۃ الاحباب.تاریخ الخلفاء سیوطی.تاریخ الخلفاء اصابہ فی معرفہ الصحابہ.xvi

Page 20

اسد الغابة- میزان الاعتدال ابن خلکان.تذکرۃ الحفاظ لسان المیزان خلاصہ اسماء الرجال.تقریب التہذیب.خلاصہ تاریخ العرب تاریخ عرب سید یو.تاریخ مصر و یونان.تاریخ کلیسیا.دینی و دنیوی تاریخ مسیحی کلیسیا.تاریخ یونان.تاریخ چین.تاریخ افغانستان.تاریخ کشمیر.گلدستہ کشمیر.تاریخ پنجاب.تاریخ ہندوستان الفنسٹن.تاریخ ہند ذکاء اللہ.ایضا جدید و قالع راجپوتانہ.تاریخ غوری و خلجی.عجائب المقدور.تاریخ مکہ.رحلہ بیرم صفوۃ الا عتبار.رحلتہ ابن بطوطہ ۸ مجلد.رحلة الصديق رحلته الوسی.رحلتہ احمد فارس.رحلہ شبلی.خلفاء الاسلام.تاریخ نہر زبیدہ.تاریخ بنگال.مناقب خدیجہ.مناقب الصدیق.مناقب اہل بیت.مناقب الخواتین.رحله بر نیر.تاریخ بیت المقدس اليانع الجنی تذکرہ ابوریحان المشتبه من الرجال.بدایۃ القدماء.فتوح بہنا.جغرافیہ مصر.فتوح الیمن.فتوح الشام.معجم البلدان.تاریخ الحکماء.سیرۃ النعمان.حیات اعظم.خیرات الحسان.حسن البیان.مناقب الشافعی.قلائد الجواہر - اخبار الاخیار.تذکرۃ الابرار.گذشتہ و موجودہ تعلیم.تاریخ علوی تذکرۃ الاولیاء طبقات کبری.اتحاف النبلاء التاج المكلل طبقات الادباء طلائع المقدور.ابجد العلوم- عمدۃ التواریخ.آئینہ اودھ واقعات شجاع.نفحات الانس.سوانح محمد قاسم.مولوی فضل الرحمن.بستان المحدثین.تراجم حنفیہ.گلاب نامہ.تاریخ حصار.تاریخ بہاولپور.تاریخ سیالکوٹ.تاریخ نحات.تاریخ پٹیالہ.تاریخ روسیہ.تاریخ لاہور.روز روشن.شمع انجمن صبح گلشن.تذکرۃ الشعراء دولت شاہی.ترجمان وہابیہ.تاریخ الحکماء.یاد گار خواجہ معین الدین چشتی.تقویم اللسان.ترک تیمور “ البلاغ.روحانی خزائن جلد 13.صفحہ 461،462) یہ کتب آپ کے وسعت مطالعہ کی صرف ایک جھلک ہے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں کتب آپ کے مطالعہ میں رہتی تھیں.آپ کی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے تاریخ اسلام اور سیرت النبی صلی ایلیم سے متعلق روایات کا بہت گہر امطالعہ کیا ہے اور پوری تحقیق فرمائی ہے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں ”ہمارے مذہبی مخالف صرف بے اصل روایات اور بے بنیاد قصوں پر بھروسہ کر کے جو ہماری کتب مسلّمہ اور مقبولہ کی رُو سے ہر گز ثابت نہیں ہیں بلکہ منافقوں کی مفتریات ہیں ہمارا دل دکھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرتے ہیں اور گالیوں تک نوبت پہنچاتے xvii

Page 21

ہیں جن کا ہماری معتبر کتابوں میں نام و نشان نہیں.اس سے زیادہ ہمارے دل دکھانے کا اور کیا موجب ہو گا کہ چند بے بنیاد افتر اؤں کو پیش کر کے ہمارے اس سید و مولی محمد مصطفی صلی ا م پر زنا اور بدکاری کا الزام لگانا چاہتے ہیں جس کو ہم اپنی پوری تحقیق کی رُو سے سید المعصومین اور ان تمام پاکوں کے سردار سمجھتے ہیں جو عورت کے پیٹ سے نکلے اور اس کو خاتم الانبیاء جانتے ہیں کیونکہ اس پر تمام نبو تیں اور تمام پاکیز گیاں اور تمام کمالات ختم ہو گئے“.آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10، صفحہ 84) بلاشبہ آپ نے تحقیق کا حق ادا کیا لیکن سب سے اہم ذریعہ آپ کے علم و عرفان کا وہ سلسلہ وحی والہام و کشوف ہے جو ہمیشہ آپ کی زندگی میں جاری رہا جس کے ساتھ آپ کو علم و عرفان کے خزائن عطا فرمائے گئے اور وہ خزائن آپ نے دنیا میں تقسیم کئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے تاریخ اسلام اور سیرت النبی صلی الی یوم کے واقعات کو گہری محبت میں ڈوبے ہوئے دل اور الہام کی روشنی سے معطر نہایت دلر با انداز سے بیان فرمایا ہے.اور کچھ تحریرات کے بارہ میں تو آپ نے فرما بھی دیا کہ یہ عبارت الہامی ہے.مثلا ایک واقعہ بیان فرمانے کے بعد فرمایا: یہ سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگر چہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 111،110) اسی طرح ایک مجلس میں حدیثوں کے متعلق ذکر ہو رہا تھا تو آپ نے فرمایا ”ہم تو اس بحث میں نہیں پڑتے.حدیث والے سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا یہ آپ کی حدیث ہے یا نہیں“.( اصحاب احمد جلد 10، حصہ اول صفحہ 262) اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے بیان فرمائے ہوئے خطوط اور مقاصد کے تحت تاریخ اسلام اور سیرت النبی صلی لیلی کیم کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میں اللہ تعالیٰ کا بیحد شکر گزار ہوں جسکے فضل و کرم اور پیارے آقا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں سے امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے باغیچہ میں xviii

Page 22

سے سیرت النبی صلی اللہ ظلم کا ایک گلدستہ بنانے کی توفیق ملی ہے.الحمد للہ علی ذلک.جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر یہ حضور“ ہی کی تحریرات کا ایک مجموعہ ہے جس میں سیرت النبی صلی یک کم تر تیب زمانی از تحریرات و فرمودات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان کی گئی ہے اور تسلسل و ربط قائم رکھنے کی خاطر وضاحتی نوٹس بھی دیئے گئے ہیں.نیز مقدس تحریرات کی تائید میں دیگر کتب سے حوالہ جات بھی دیئے گئے ہیں.حضور نے متعدد مضامین ایک سے زائد جگہوں پر تحریر فرمائے ہیں لہذا ہر عنوان کے تحت بعض ارشادات اس کتاب میں درج کر دئے گئے ہیں اور اسی مضمون سے ملتے جلتے ارشادات و فرمودات کا حوالہ کلید مضامین کی فہرست میں درج کر دیا گیا ہے.اس کتاب کی تدوین کے سلسلہ میں محترم چوہدری بادی علی صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ کینیڈا برائے اشاعت و تصنیف کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے مسودہ کو باریک بینی سے دیکھا اور رہنمائی بھی فرمائی.اسی طرح محترم حافظ را نا منظور احمد صاحب لائبریرین جماعت احمدیہ کینیڈا نے مسودہ کی پروف ریڈنگ کی.کتاب کی ابتدائی گرافکس مکرم حماد مبین صاحب مربی سلسلہ نے کی اور ان کے بعد مکرم فرحان احمد نصیر صاحب لائیبریرین جامعه احمد یہ کینیڈا نے کتاب کی پروف ریڈنگ اور گرافکس کا کام نہایت خوش دلی اور محنت سے مکمل کیا اور ٹائٹل پہنچ بھی تیار کیا.جزاهم الله تعالى احسن الجزاء - اللہ تعالیٰ اس تالیف کو قبول فرمائے.اسکی افادیت اور برکت میں اضافہ فرمائے اور قارئین کے لئے محبت رسول اور فہم سیرت النبی صلی علی ظلم میں اضافہ کا موجب ہو.آمین.آصف احمد خان مربی سلسلہ احمدیہ پروفیسر ( تاریخ وسیرت ) جامعہ احمدیہ کینیڈا xix

Page 23

Page 24

بسم اللہ الرحمن الرحیم باب اول عرب و عجم قبل از اسلام اور آنحضور صلی یم کے آباء واجداد آنحضور صلی الم کا ملک عرب سے اور بالخصوص مکہ سے ظہور فرمانا بیشمار حکمتوں پر مبنی ہے.انسانی آنکھ تاریخ عالم کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب سر زمین عرب پر پہنچتی ہے تو ظهر الفساد فی البر والبحر کا اندوہناک نظارہ کرتی ہے.پھر وہی آنکھ ظہور اسلام کے بعد جب عرب کی پلٹی ہوئی کا یا دیکھتی ہے تو دل ایمان و عقیدت سے بھر جاتا ہے اور زبانوں پر بے اختیار درود و سلام جاری ہو جاتا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَ سَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوَثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبُكَةِ الْعِقْيَانِ تو نے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا تو تو نے انہیں خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا.حَتَّى القَنى بَرٌّ كَمِثلِ حَدِيقَةٍ عَذَبِ الْمَوَارِدِ مُمرِ الْأَغْصَانِ یہاں تک کہ مخشک ملک اس باغ کی مانند ہو گیا جس کے چشمے شیریں ہوں اور جس کی ڈالیاں پھلدار ہوں.عَادَتْ بِلَادُ الْعُرُبِ نَحْوَ نَضَارَةِ بَعْدَ الْوَجِـي وَ الْـمَـحْـلِ وَ الْخُسْرَانِ ملک عرب خشک سالی.قحط اور تباہی کے بعد شاداب ہو گیا.كَانَ الْحِجَازُ مَغَازِلَ الْعِزُلَان فَجَعَلْتَهُمْ فَانِينَ فِي الرَّحْمَانِ اہل حجاز آھو چشم عورتوں سے عشق بازی میں لگے ہوئے تھے سوکو نے انہیں خدائے رحمن ( کی محبت ) میں فانی بنا دیا.(قصائد الاحمدیہ صفحہ 3) ملک عرب سے آنحضور صلی الم کے ظہور کی حکمت: سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات و فرمودات میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ آنحضور صلی ا م کا ملک عرب سے مبعوث ہونا حکمت سے خالی نہ تھا بلکہ ضرور تھا کہ آپ عرب ہی سے ظہور فرماتے.آپ فرماتے ہیں.

Page 25

اس آخری نور کا عرب سے ظاہر ہونا بھی خالی حکمت سے نہ تھا.عرب وہ بنی اسماعیل کی قوم تھی جو اسرائیل سے منقطع ہو کر حکمت الہی سے بیابانِ فاران میں ڈال دی گئی تھی اور فاران کے معنی ہیں دو فرار کرنے والے یعنی بھاگنے والے.پس جن کو خود حضرت ابراہیم نے بنی اسرائیل سے علیحدہ کر دیا تھا اُن کا توریت کی شریعت میں کچھ حصہ نہیں رہا تھا.جیسا کہ لکھا ہے کہ وہ اسحاق کے ساتھ حصہ نہیں پائیں گے.پس تعلق والوں نے انہیں چھوڑ دیا اور کسی دوسرے سے ان کا تعلق اور رشتہ نہ تھا.اور دوسرے تمام ملکوں میں کچھ کچھ رسوم عبادات اور احکام کی پائی جاتی تھیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ کسی وقت ان کو نبیوں کی تعلیم پہنچی تھی.مگر صرف عرب کا ملک ہی ایک ایسا ملک تھا جو ان تعلیموں سے محض ناواقف تھا اور تمام جہان سے پیچھے رہا ہوا تھا.اس لئے آخر میں اُسکی نوبت آئی اور اس کی نبوت عام ٹھہری تا تمام ملکوں کو دوبارہ برکات کا حصہ دیوے اور جو غلطی پڑ گئی تھی اس کو نکال دے.پس ایسی کامل کتاب کے بعد کس کتاب کا انتظار کریں جس نے سارا کام انسانی اصلاح کا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پہلی کتابوں کی طرح صرف ایک قوم سے واسطہ نہیں رکھا.بلکہ تمام قوموں کی اصلاح چاہی اور انسانی تربیت کے تمام مراتب بیان فرمائے.وحشیوں کو انسانیت کے آداب سکھائے.پھر انسانی صورت بنانے کے بعد اخلاق فاضلہ کا سبق دیا“ (روحانی خزائن، اسلامی اصول کی فلاسفی، جلد 10 صفحہ 367) اس ارشاد میں حضور نے جو نکات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے متعلق خدا تعالیٰ نے جو وعدے کئے تھے انکے پورا ہونے کے لئے ضروری تھا کہ انکے دونوں بیٹوں کی نسلوں کو نبوت و شریعت کی نعمت سے نوازا جاتا.حضرت اسحق علیہ السلام کی نسل یعنی بنی اسرائیل میں خدا تعالیٰ نے پے در پے انبیاء مبعوث فرمائے جبکہ انکے بھائی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل جو عرب میں آکر آباد ہوئی اس میں اُس وقت تک نبوت منقطع تھی اور ان کے پاس کوئی شریعت نہ تھی گویا اقی تھے.انہی اتمیوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق آنحضور صلی علیہ کام کو مبعوث فرمایا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں اور ان سے کئے گئے وعدوں کا ذکر قرآن میں اور بائیبل میں موجود ہے (1) حضرت اسماعیل علیہ السلام کا حجاز میں آکر آباد ہونا اور آنحضور صلی للی یکم کا نسل اسماعیل سے ہونا بھی ثابت شدہ حقیقت ہے.2

Page 26

سیاسی حالات حضور نے ظہور اسلام کے وقت عرب اور اسکے ارد گرد کی سلطنتوں کے سیاسی و تمدنی حالات بھی بیان فرمائے ہیں.اس جگہ اس بات کا جتلا دینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ خسرو پرویز کے وقت میں اکثر حصہ عرب کا پایہ تخت ایران کے ماتحت تھا اور گو عرب کا ملک ایک ویرانہ سمجھ کر جس سے کچھ خراج حاصل نہیں ہو سکتا تھا چھوڑا گیا تھا مگر تاہم بگفتن وہ ملک اسی سلطنت کے ممالک محروسہ میں سے شمار کیا جاتا تھا لیکن سلطنت کی سیاست مدنی کا عرب پر کوئی دباؤ نہ تھا اور نہ وہ اس سلطنت کے سیاسی قانون کی حفاظت کے نیچے زندگی بسر کرتے تھے بلکہ بالکل آزاد تھے اور ایک جمہوری سلطنت کے رنگ میں ایک جماعت دوسروں پر امن اور عدل اپنی قوم میں قائم رکھنے کے لئے حکومت کرتی تھی جن میں سے بعض کی رائے کو سب سے زیادہ نفاذ احکام میں عزت دی جاتی تھی اور اُن کی ایک رائے کسی قدر جماعت کی رائے کے ہم پلہ سمجھی جاتی تھی.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن.جلد 15 حاشیہ صفحہ 376) ذیل میں ظہور اسلام سے قبل عرب میں مشہور قبائل اور ریاستوں کا ذکر کرنا مناسب ہے تاکہ معلوم ہو کہ عرب کس طرح قبائل واقوام میں بٹا ہوا تھا.جس کا اپنا کوئی مرکزی نظام یا شریعت نہ تھی.غسان.عرب کے شمال میں ایک ریاست تھی جسکے باشندے مذہب عیسائی تھے لیکن نسلا عرب تھے.یہ در اصل رومی حکومت کے تحت تھے.عرب میں عیسائیت بھی سب سے پہلے عنسان میں داخل ہوئی.(2) یمن.عرب کے جنوب میں یمن کا علاقہ تھا اس میں عیسائی اور مشرک قبائل آباد تھے یمن کے مشرکین کی حمایت بالعموم فارس کے ساتھ تھی اور عیسایوں کی حمایت روم اور حبشہ کے ساتھ تھی.دور رسالت میں یمن کے اکثر حصہ پر ایران کی حکومت تھی ایران کی طرف سے باذان نامی گورنر مقرر تھا.نجران.نجران کا علاقہ بھی عرب کے جنوب میں یمن کے قریب ہی تھا اس علاقے میں عیسائیت کا زور تھاروم کے پوپ کی طرف سے یہاں بشپ اور آرچ بشپ بھی مقرر ہوتے تھے.

Page 27

بحرین.عرب کے مشرق میں بحرین کا علاقہ ہے.یہاں اس وقت ایران کی حکومت تھی یہاں کے مشہور قبائل عبد القیس، بکر بن وائل، اور تمیم تھے.قبائل غطفان.عرب کے وسط یعنی مسجد کے علاقہ میں غطفانی قبائل آباد تھے.ان میں سے قبائل الشجع، مروہ، فزارہ، کعب اور کلاب وغیرہ قابل ذکر تھے.یہ اندرونی طور پر آزاد تھے لیکن بیرونی معاملات میں بوقت ضرورت متحد ہو جایا کرتے تھے.خیبر و فدک.مدینہ کے شمال مشرق میں خیبر اور فدک کا علاقہ تھا.اس علاقہ میں یہود آباد تھے.یہاں یہود نے مضبوط قلعے بنارکھے تھے.اوس و خزرج.مدینہ میں دو مشہور مشرک قبائل آباد تھے.اوس و خزرج.ان دونوں قبائل کی آپس میں شدید دشمنی تھی.اور کئی جنگیں لڑچکے تھے.انکی آخری جنگ نبوت کے تیرھویں سال ہوئی.قبائل عرب میں سب سے پہلے اسلام انہی نے قبول کیا اور انصار کہلائے.مدینہ کے یہودی قبائل.مدینہ میں تین یہودی قبائل آباد تھے.بنو قینقاع، بنو نضیر ، اور بنو قریظہ.قریش مکہ.عرب کا سب سے مشہور قبیلہ قریش تھا جو مکہ اور اسکے ارد گرد آباد تھا.قریش قبیلہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب کا سب سے معزز قبیلہ تھا.خاص نسل اسماعیل میں سے تھا.قریش اندرونی طور پر بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا تھا.یہ چند مشہور قبائل کا ذکر ہے لیکن اسکے علاوہ بھی بیسیوں قبائل آباد تھے.الغرض جزیرہ نما عرب مختلف اقوام اور قبائل اور مذاہب اور تمدنوں اور رواجوں کا ایک تیر تھ بنا ہوا تھا.جہاں کوئی مرکزی حکومت نہ تھی.لیکن مجموعی طور پر عرب کو ایران کا ایک محروسہ علاقہ سمجھا جاتا تھا.

Page 28

اخلاقی حالت: ظہور اسلام سے قبل عرب کی بلکہ تمام ممالک کی اخلاقی حالت بہت گری ہوئی تھی آپ نے اس بارہ میں بھی بڑی تفصیل بیان فرمائی ہے.تا معلوم ہو کہ کس تاریکی سے نکال کر انکو روشنی کے مینار بنا دیا گیا.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں." آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ جب تمام دنیا میں شرک اور گمراہی اور مخلوق پرستی پھیل چکی تھی.اور تمام لوگوں نے اصول حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور صراط مستقیم کو بھول بھلا کر ہر ایک فرقہ نے الگ الگ بدعتوں کا راستہ لے لیا تھا.عرب میں بت پرستی کا نہایت زور تھا.فارس میں آتش پرستی کا بازار گرم تھا.ہند میں علاوہ بت پرستی کے اور صد با طرح کی مخلوق پرستی پھیل گئی تھی اور انہیں دنوں میں کئی پوران اور پستک کہ جن کے رو سے بیسیوں خدا کے بندے خدا بنائے گئے اور اوتار پرستی کی بنیاد ڈالی گئی.تصنیف ہو چکی تھی اور بقول پادری بورٹ صاحب اور کئی فاضل انگریزوں کے ان دنوں میں عیسائی مذہب سے زیادہ اور کوئی مذہب خراب نہ تھا اور پادری لوگوں کی بد چلنی اور بد اعتقادی سے مذہب عیسوی پر ایک سخت دھبہ لگ چکا تھا.اور مسیحی عقائد میں نہ ایک نہ دو بلکہ کئی چیزوں نے خدا کا منصب لے لیا تھا“ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 112 حاشیہ 1) اور ہماے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے.جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِ وَالْبَحْر (الروم: 42) یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے.یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں ہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی بگڑ گئے ہیں.پس قرآن شریف کا کام در اصل مُردوں کو زندہ کرنا تھا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضِ بَعْدِ مَوْتِهَا (الحديد : 18) یعنی یہ بات جان لو کہ اب اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو بعد اس کے مرنے کے زندہ کرنے لگا ہے.اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا اور کوئی نظام ا پوران یا پر ان ہندومت کی مشہور کتا ہیں، پستک: کتاب، صحیفہ 5

Page 29

انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے.ایک ایک شخص صدہا بیویاں کر لیتا تھا.حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا.ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُم یعنی آج مائیں تمہاری تم پر حرام ہو گئیں.ایسا ہی وہ مردار کھاتے تھے.آدم خور بھی تھے.دنیا کا کوئی بھی گناہ نہیں جو نہیں کرتے تھے.اکثر معاد کے منکر تھے.بہت سے ان میں سے خدا کے وجود کے بھی قائل نہ تھے.لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتے تھے.یتیموں کو ہلاک کر کے ان کا مال کھاتے تھے.بظاہر تو انسان تھے مگر عقلیں مسلوب تھیں.نہ حیا تھی نہ شرم تھی نہ غیرت تھی.شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے.جس کا زنا کاری میں اول نمبر ہو تا تھا.وہی قوم کا رئیس کہلاتا تھا.بے علمی اس قدر تھی کہ ارد گرد کی تمام قوموں نے ان کا نام اُمی رکھ دیا تھا.ایسے وقت میں اور ایسی قوموں کی اصلاح کیلئے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہر مکہ میں ظہور فرما ہوئے.پس وہ تین قسم کی اصلاحیں جن کا ذکر ہم ابھی کر چکے ہیں.ان کا در حقیقت یہی زمانہ تھا“ ( اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 328-329) حضور کے مندرجہ بالا ارشادات میں سے ظاہر ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے عرب سمیت تمام دنیا شرک ، بد اخلاقی اور بد رسومات اور ظالمانہ طریق پر قائم ہو چکی تھی.اسکے متعلق بہت سے ثبوت موجود ہیں.مثلاً عرب ہی میں شرک کی یہ حالت تھی کہ ہر قبیلہ ہر خاندان کا بلکہ ہر شخص کا اپنا بت تھا.عرب کے بعض بت بہت مشہور تھے جنکے نام کی عرب قسمیں کھاتے تھے ، اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے تھے.کتب تاریخ میں عرب کے مشہور بتوں کے نام بھی درج ہیں.نام بت پجاری قبائل لات طائف ثقیف، ہوازن عرابی منات مد پینه مکه قریش، کنانه اوس، خزرج ور دومة الجندل كلب شواع مدینہ ہذیل 6

Page 30

يغوث مد پینه مذحج يعوق س همدان (سیرت النبی صلی العلم لابن ہشام، ناشر مصطفی محمد ، مکتبہ التجار یہ مصر، جلد 1 صفحہ 55، اصنام عرب) خانہ کعبہ میں 365 بت نصب تھے اور ان بتوں کا سر دار ھبل تھا (3) بیان کیا جاتا ہے عرب میں بت پرستی کی ابتدا ایک شخص عمرو بن لحی نے کی.وہ ایک تجارتی سفر سے واپسی پر شام سے ایک بُبت لایا اور یہ ثبت اس نے خانہ کعبہ میں رکھ دیا.رفتہ رفتہ اور لوگ بھی بت لا کر کعبہ میں رکھتے گئے اور اس طرح بالآخر تمام عرب میں بت پرستی پھیل گئی.(4) یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بت پرستی کی ابتدا اسطرح ہوئی کہ جو لوگ حج کی غرض سے آتے تھے وہ واپسی پر کعبہ کے پتھر عقیدت کے طور پر ساتھ لے جاتے تھے یہ عقیدت بگڑتے بگڑتے بت پرستی پر منتج ہوئی.(5) اسی طرح مشہور کتاب تمدن عرب میں لکھا ہے کہ عربستان میں ایک عبادتگاہ تھی جس کا نام کعبہ تھا اور جسکی از روئے روایات حضرت ابراہیم نے کی تھی یہ کعبہ کل عرب کی نظروں میں ایک متبرک مقام تھا اور بہت زمانے سے یہاں حج ہوا کرتا تھا.لیکن حقیقت میں کعبہ عربستان کے دیوتاوں کا مندر تھا اور محمد کے زمانے میں یہاں 365 بت موجود تھے اور بقول اکثر مورخین عرب اس میں حضرت ابراہیم اور حضرت مریم اور دیگر انبیاء کی مورتیں بھی تھیں؟ تاریخ اسلام و سیرت النبی صلیلی کیم کی کتب اور کتب حدیث و اسماء الرجال میں بھی عرب کی اخلاقی بد حالی کے متعلق بہت کچھ بیان کیا گیا ہے.مثلا لکھا ہے کہ بے شرمی اس حد تک تھی کہ کعبہ کا بھی برہنہ طواف کرتے تھے.(7 غسل یا طہارت کے وقت پر دے کا کوئی خیال نہ کرتے تھے.(8) شعر و غزل کی محفلوں میں کھلے عام زنا کے قصے بیان کر نا عام بات تھی.نکاح و شادی کے بعض بہت بے شرمی کے رواج تھے جیسے یہ کہ بعض اوقات ایک عورت ایک ہی وقت میں کئی آدمیوں کی زوجیت میں ہوتی تھی.(9) اسی طرح ایک مورخ لکھتا ہے : "The Ayyam al Arab were intertribal hostilities generally arising from disputes over cattle, pasture lands or springs, they afforded ample opportunity for plundering and raiding, for the manifestation of single-handed deeds of heroism by the champions of the 7

Page 31

contending tribes and for the exchange of vitriolic satires on the part of the poets.The Spokesmen of the warring parties, though always ready for a fight the Bedouin was not necessarily eager to be killed.His encounters therefore, were not as sanguinary as there accounts would lead one to believe.Nevertheless these Ayyam provided a safety valve for a possible over population in Bedouin land, whose inhabitants were normally in a condition of semi- starvation and to whom the fighting mood was a chronic state of mind.Through them vendetta became one of the strongest religio- social institutions in Bedouin life.(10) ایران اور ہند: عرب کی طرح ایران اور ہند بھی بت پرستی اور شرک سے بھرے پڑے تھے.جنکا ذکر آپ نے مذکورہ حوالہ میں کیا ہے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں صدیوں پہلے مادہ پرستی رائج ہو چکی تھی.تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں ایران میں اشکانی خاندان حکمران تھا اس زمانہ میں بھی لوگ چاند ، سورج اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے.آفتاب کو مہر کہتے تھے اور اسے کنبہ کا محافظ سمجھتے تھے.آفتاب طلوع ہو تا تو پرستش کے لئے گردنیں خم ہو جاتیں آفتاب کے نام پر قربانیاں اور نذر نیاز دیا کرتے تھے.(11) ایران کی یہ بت پرستی آنحضرت علی ایم کے زمانہ تک عروج پر تھی.اس کا ایک ثبوت ان روایات میں بھی ملتا ہے جن میں حضرت سلمان فارسی کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ انکا خاندان مقدس آگ کی حفاظت پر مامور تھا.نیز وہ روایات بھی اس کا ثبوت ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ ولادت رسول اللہ صلی علیم کے وقت ایران کی مقدس آگ جو صدیوں سے روشن تھی بجھ گئی.(12) اسی طرح آپ نے ہند کی بت پرستی کا بھی ذکر کیا ہے اس کے متعلق بھی بہت سے تاریخی ثبوت موجود ہیں.آنحضور صلی ایام کے زمانہ بعثت سے عرصہ قبل ہند میں بت پرستی رائج ہو چکی تھی جیسا کہ ستیار تھ پر کاش میں جین مت اور بت پرستی کے ضمن میں لکھا ہے کہ ”بہت لوگوں نے جین مت قبول کیا لیکن وہ لوگ جو پہاڑی کاشی قنوج والے تھے انہوں نے جینیوں کا مت قبول نہ کیا.وہ جین وید کے معنی نہ جان کر بیرونی پوپ لیلا کی بنیاد غلطی سے ویدوں پر مان کر ویدوں کی بھی مذمت کرنے لگے اسکے پڑھنے پڑھانے وغیرہ اور برہمچریہ وغیرہ 8

Page 32

اصولوں کو بھی تباہ کیا.جہاں جتنی کتابیں ویدوں وغیرہ کی پائیں انہیں تلف کیا.آریوں پر بہت سا حکومت کا زور بھی چلایا اور تکلیف دی.جب انکو خوف اور خطرہ نہ رہا تب اپنے مت والے گرہستی اور سادھووں کی عزت اور وید کے پیرؤوں کی بے عزتی کرنے لگے.اور طرف داری سے سزا بھی دینے لگے.اور خود عیش و آرام اور غرور میں ہو پھول کر پھرنے لگے.شجھ دیر سے لیکر مہابیر تک اپنے تیر تھنکروں کے بڑے بڑے بت بنا کر پرستش کرنے لگے.یعنی پاشان وغیرہ مورتی کی بنیاد جینیوں سے پھیلی پر میشر کا مانا کم ہوا پتھر کی مورتی پوجا میں مصروف ہو گئے.ایسی تین سو برس تک آریہ ورت میں جینوں کی حکومت رہی.بہت لوگ وید کے حکم سے ناواقف ہو گئے.اس بات کو تقریبا اڑھائی ہزار برس گزرے ہوں گے (13) یہود کی حالت: یہود جو انبیاء کی اولاد اور اہل کتاب کہلاتے تھے انکی دینی و اخلاقی بد حالی کے بارہ میں بھی بڑی تفصیل کے ساتھ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: اور خود کسی تاریخ دان اور واقف حقیقت کو اس سے بے خبری نہیں ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تک ہر یک قوم کی ضلالت اور گمراہی کمال کے درجہ تک پہنچ چکی تھی اور کسی صداقت پر کامل طور پر ان کا قیام نہیں رہا تھا.چنانچہ اگر اول یہودیوں ہی کے حال پر نظر کریں تو ظاہر ہو گا کہ ان کو خدائے تعالیٰ کی ربوبیت تامہ میں بہت سے شک اور شبہات پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے ایک ذات رب العالمین پر کفایت نہ کر کے صدہا ارباب متفرقہ اپنے لئے بنارکھے تھے یعنی مخلوق پرستی اور دیوتا پرستی کا بغایت درجہ ان میں بازار گرم تھا.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال قرآن شریف میں بیان کر کے فرمایا ہے.اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ یعنی یہودیوں نے اپنے مولوی اور درویشوں کو کہ جو مخلوق اور غیر خدا ہیں، اپنے رب اور قاضی الحاجات ٹھہر ارکھے ہیں.اور نیز اکثروں کا یہودیوں میں سے بعض نیچریوں کی طرح یہ اعتقاد ہو گیا تھا کہ انتظام دنیا کا قوانین منضبطہ متعینہ پر چل رہا ہے اور اس قانون میں مختارانہ تصرف کرنے سے خدائے تعالیٰ قاصر اور عاجز ہے.گویا اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں نہ اس قاعدہ کے بر خلاف کچھ ایجاد کر سکتا ہے اور نہ فنا کر سکتا ہے بلکہ جب سے کہ اس نے اس عالم کا ایک خاص طور پر شیر ازہ باندھ کر اس کی پیدائش سے فراغت پالی ہے تب سے یہ کل اپنے ہی پرزوں کی صلاحیت کی وجہ سے خود بخود چل رہی ہے اور

Page 33

رب العالمین کسی قسم کا تصرف اور دخل اس کل کے چلنے میں نہیں رکھتا.اور نہ اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی کے موافق اور اپنی خوشنودی ناخوشنودی کے رو سے اپنی ربوبیت کو بہ تفاوت مراتب ظاہر کرے یا اپنے ارادہ خاص سے کسی طور کا تغیر اور تبدل کرے بلکہ یہودی لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور مجسم قرار دے کر عالم جسمانی کی طرح اور اس کا ایک جز سمجھتے ہیں.اور ان کی نظر ناقص میں یہ سمایا ہوا ہے کہ بہت سی باتیں کہ جو مخلوق پر جائز ہیں وہ خدا پر بھی جائز ہیں اور اس کو من کل الوجوہ منزہ خیال نہیں کرتے.اور ان کی توریت میں جو محرف اور مبدل ہے خدائے تعالیٰ کی نسبت کئی طور کی بے ادبیاں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پیدائش کے ۳۲ باب میں لکھا ہے کہ خدائے تعالیٰ یعقوب سے تمام رات صبح یک کشتی لڑا گیا.اور اس پر غالب نہ ہوا اسی طرح بر خلاف اس اصول کے کہ خدائے تعالیٰ ہر یک مافی العالم کا رب ہے.بعض مردوں کو انہوں نے خدا کے بیٹے قرار دے رکھا ہے.اور کسی جگہ عورتوں کو خدا کی بیٹیاں لکھا گیا ہے اور کسی جگہ بیل میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم سب خدا ہی ہو.اور سچ تو یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تعلیموں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ جب عیسائیوں نے معلوم کیا کہ بائیبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے اور خدا کی بیٹیاں بلکہ خدا ہی بناتی ہے.تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم بھی اپنے ابن مریم کو انہیں میں داخل کریں تا وہ دوسرے بیٹوں سے کم نہ رہ جائے.اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے ابن مریم کو ابن اللہ بنا کر کوئی نئی بات نہیں نکالی بلکہ پہلے بے ایمانوں اور مشرکوں کے قدم پر قدم مارا ہے.غرض حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں کی یہ حالت تھی کہ مخلوق پرستی بدرجہ غایت ان پر غالب آگئی تھی اور عقائد حقہ سے بہت دور جاپڑی تھی یہاں تک کہ بعض ان کے ہندوؤں کی طرح تناسخ کے بھی قائل تھے اور بعض جزا سزا کے قطعا منکر تھے.اور بعض مجازات کو صرف دنیا میں محصور سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل نہ تھے.اور بعض یونانیوں کے نقش قدم پر چل کر مادہ اور روحوں کو قدیم اور غیر مخلوق خیال کرتے تھے.اور بعض دہریوں کی طرح روح کو فانی سمجھتے تھے اور بعض کا فلسفیوں کی طرح یہ مذہب تھا کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین اور مدبر بالا رادہ نہیں ہے.غرض مجزوم کے بدن کی طرح تمام خیالات ان کے فاسد ہو گئے تھے اور خدائے تعالیٰ کی صفات کاملہ ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت اور مالک یوم الدین ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے نہ ان صفتوں کو اس کی ذات سے مخصوص سمجھتے تھے اور نہ ان صفتوں کا کامل طور پر خدائے تعالیٰ میں پایا جانا یقین رکھتے تھے بلکہ بہت سی 10

Page 34

بد گمانیاں اور بے ایمانیاں اور آلودگیاں ان کے اعتقادوں میں بھر گئی تھیں اور توریت کی تعلیم کو انہوں نے نہایت بد شکل چیز کی طرح بنا کر شرک اور بدی کی بدبو کو پھیلانا شروع کر رکھا تھا.پس وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت و غیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں“ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 463 تا 466 حاشیہ نمبر 11) یہود کی اخلاقی ابتری کا ذکر قرآن اور بائبل میں صراحتاً موجود ہے مثلاً سورۃ البقرہ میں ہے کہ: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا الله وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (البقرہ: (84) اور جب ہم نے بنی اسرائیل کا میثاق (ان سے) لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کروگے اور قریبی رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے بھی.اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو.اس کے باوجود تم میں سے چند کے سوا تم سب (اس عہد سے ) پھر گئے.اور تم اعراض کرنے والے تھے.وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (المائدة: 19) اور یہود اور نصاریٰ نے کہا کہ ہم اللہ کی اولاد ہیں اور اس کے محبوب ہیں.تو کہہ دے پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتا ہے؟ نہیں، بلکہ تم ان میں سے جن کو اُس نے پیدا کیا محض بشر ہو وہ جسے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اس کی بھی جو اُن دونوں کے درمیان ہے اور آخر اسی کی طرف لوٹ کر جاتا ہے.لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (المائدہ: (79) جن لوگوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا وہ داؤد کی زبان سے لعنت ڈالے گئے اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے بھی.یہ اُن کے نافرمان ہو جانے کے سبب سے اور اس سبب سے ہوا کہ وہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے..ہو.یہود کی حالت پر حضرت عیسٰی نے بھی بارہا افسوس کا اظہار کیا ہے اناجیل اس قسم کے بیانات سے بھری پڑی ہے جن میں حضرت عیسی نے اس وقت کے یہودی فقیہوں اور عالموں کو انکی بد کرداری کی وجہ سے برا بھلا کہا.11

Page 35

یہود مشرکوں کے پیشوا تھے: آپ نے فرمایا ہے شرک کی ابتداء کرنے والے یہو رہی تھے.پس وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت وغیرہ صفات کے معطل جانے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں“ عیسائیوں کی حالت: (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 466 حاشیہ نمبر 11) دنیا کی باقی اقوام و مذاہب کی طرح عیسائیت پر بھی جسے وجود میں آئے ابھی صرف پانچ سو سال ہی ہوئے تھے اخلاقی انحطاط کا دور تھا.حضور نے اس بارہ میں بھی کئی پہلووں پر روشنی ڈالی ہے.مثلاً عیسائیوں میں اخلاقی زوال کی وجوہات کیا تھیں اور بد اخلاقی کی کیا حالت تھی نیز یہ کہ دنیا کی دوسری اقوام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے.یہودیوں سے مذہب میں تحریف کا سبق لینا: جیسا کہ حضور نے یہود کے متعلق فرمایا ہے پس وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت وغیرہ فات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 حاشیہ 11 صفحہ 466) اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا کہ اور سچ تو یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تعلیموں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ جب عیسائیوں نے معلوم کیا کہ بائیبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے اور خدا کی بیٹیاں بلکہ خدا ہی بناتی ہے.تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم بھی اپنے ابن مریم کو انہیں میں داخل کریں تا وہ دوسرے بیٹوں 12

Page 36

سے کم نہ رہ جائے.اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے ابن مریم کو ابن اللہ بنا کر کوئی نئی بات نہیں نکالی بلکہ پہلے بے ایمانوں اور مشرکوں کے قدم پر قدم مارا ہے“ ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 465 حاشیہ نمبر 11) کفارہ کا عقیدہ بگاڑ کی اہم وجہ : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور جس قدر بد چلنی اور بد اعمالی عربوں میں آئی وہ در اصل عربوں کی ذاتی فطرت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت ناپاک اور بد چلن قوم ان میں آباد ہو گئی جو ایک جھوٹے منصوبہ کفارہ پر بھروسہ کر کے ہر یک گناہ کو شیر مادر کی طرح سمجھتی تھی“ بد چلنی میں یہودی بڑھے ہوئے تھے یا عیسائی؟: ( نور القرآن ا.روحانی خزائن.جلد 9.حاشیہ صفحہ 341) تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ یہود اور عیسائی دونوں ہی بد چلنیوں میں مبتلا ہو چکے تھے.لیکن اگر یہ موازنہ کیا جائے کہ کون اول نمبر پر تھا تو اس بارہ میں آپ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ عیسائی بد چلنیوں میں سب سے بڑھے ہوئے تھے فرمایا: ”بظاہر یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کیا اس زمانہ میں فسق و فجور اور ہر ایک قسم کی بد چلنی میں یہود بڑھے ہوئے تھے یا عیسائی نمبر اول پر تھے.مگر ذرہ غور کرنے کے بعد معلوم ہو گا کہ در حقیقت عیسائی ہی ہر ایک بدکاری اور بد چلنی اور مشرکانہ عادات میں پیش دست تھے “ عیسائیوں کا بدکاری میں اول نمبر ہونے کا سبب: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: (نور القرآن ا.روحانی خزائن جلد 9- حاشیہ صفحہ 341-342) قرآن شریف نے جس قدر اپنے نزول کے زمانہ میں ان عیسائیوں وغیرہ کی بدچلنیاں بیان کی ہیں جو اس وقت موجود تھے.ان تمام قوموں نے خود اپنے منہ سے اقرار کر لیا تھا بلکہ بار بار اقرار کرتے تھے 13

Page 37

کہ وہ ضرور ان بد چلنیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور عرب کی تاریخ دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ آباء واجداد کے جن کو اللہ جل شانہ نے اپنے خاص فضل و کرم سے شرک اور دوسری بلاؤں سے بچائے رکھا باقی تمام لوگ عیسائیوں کے بدنمونہ کو دیکھ کر اور ان کی چال و چلن کی بد تاثیر سے متاثر ہو کر انواع اقسام کے قابل شرم گناہوں اور بد چلنیوں میں مبتلا ہو گئے تھے اور جس قدر بد چلنی اور بد اعمالی عربوں میں آئی وہ در حقیقت عربوں کی ذاتی فطرت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت ناپاک اور بد چلن قوم ان میں آباد ہو گئی جو ایک جھوٹے منصوبہ کفارہ پر بھروسہ کر کے ہر یک گناہ کو شیر مادر کی طرح سمجھتی تھی اور مخلوق پرستی اور شراب خواری اور ہر ایک قسم کی بدکاری کو بڑے زور کے ساتھ دنیا میں پھیلا رہی تھی اور اول درجہ کی کذاب اور دغا باز اور بد سرشت تھی.بظاہر یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کیا اس زمانہ میں فسق و فجور اور ہر ایک قسم کی بد چلنی میں یہودی بڑھے ہوئے تھے یا عیسائی نمبر اول پر تھے.مگر ذرہ غور کرنے کے بعد معلوم ہو گا کہ در حقیقت عیسائی ہی ہر ایک بدکاری اور بد چلنی اور مشرکانہ عادات میں پیش دست تھے.کیونکہ یہودی لوگ متواتر ذلتوں اور کوفتوں سے کمزور ہو چکے تھے اور وہ شرارتیں جو ایک سفلہ آدمی اپنی طاقت اور دولت اور عروج قومی کو دیکھ کر کر سکتا ہے یا وہ بد چلنیاں جو کثرت دولت اور روپیہ پر موقوف ہیں.ایسے نالائق کاموں کا یہودیوں کو کم موقعہ ملتا تھا مگر عیسائیوں کا ستارہ ترقی پر تھا اور نئی دولت اور نئی حکومت ہر وقت انگشت دے رہی تھی کہ وہ تمام لوازمات ان میں پائے جائیں جو بدی کے مؤیدات پیدا ہونے سے قدرتی طور پر ہمیشہ پائی جاتی ہیں.پس یہی سبب ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کی بد چلنی اور ہر یک قسم کی بدکاری سب سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی اور یہ بات یہاں تک ایک مشہور واقع ہے کہ پادری فنڈل باوجود اپنے سخت تعصب کے اس کو چھپا نہیں سکا اور مجبور ہو کر اس زمانہ کے عیسائیوں کی بد چلنیوں کا میزان الحق میں اس کو اقرار کرنا ہی پڑا.مگر دوسرے انگریز مؤرخوں نے تو بڑی بسط سے ان کی بد چلنیوں کا مفصل حال لکھا ہے چنانچہ ان میں سے ایک ڈیون پورٹ صاحب کی کتاب ہے جو ترجمہ ہو کر اس ملک میں شائع ہو گئی ہے.غرض یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس زمانہ کے عیسائی اپنی نئی دولت اور حکومت اور کفارہ کی زہر ناک تحریک سے تمام بدچلنیوں میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے.ہر ایک نے اپنی فطرت اور طبیعت کے موافق جدا جدا بے اعتدالی اور معصیت کی راہیں اختیار کر رکھی تھیں اور ان کی دلیریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائی سے بالکل نومید ہو چکے تھے اور ایک چھپے ہوئے دہر یہ تھے اور ان 14

Page 38

کی روحانیت کی اس وجہ سے بہت ہی بیخ کنی ہوئی کہ دنیا کے دروازے ان پر کھولے گئے اور انجیل کی تعلیم میں شراب کی کوئی ممانعت نہیں تھی.قمار بازی سے کوئی روک نہ تھی پس یہی تمام زہریں مل کر ان کا ستیا ناس کر گئیں.صندوقوں میں دولت تھی ہاتھ میں حکومت تھی.شرا ہیں خود ایجاد کر لیں.پھر کیا تھا.اتم الخبائث کی تحریکوں سے سارے برے کام کرنے پڑے.یہ باتیں ہم نے اپنی فطرت سے نہیں کہیں.خود بڑے بڑے مؤرخ انگریزوں نے اس کی شہادتیں دی ہیں.اور اب بھی دے رہے ہیں بزرگ پادری باس ور تھے اور فاضل قسمیں ٹیلر نے حال ہی کے زمانہ میں کس صفائی سے انہیں باتوں پر لیکچر دیئے ہیں اور کس زور سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیسائی مذہب کی قدیم بد چلنیوں نے اس کو ہلاک کر دیا ہے چنانچہ قوم کے فخر پادری باس اور تھ صاحب اپنے لیکچر میں بآواز بلند بیان کرتے ہیں کہ عیسائی قوم کے ساتھ تین لعنتیں لازم ملزوم ہو رہی ہیں جو اس کو ترقی سے روکتی ہیں.وہ کیا ہیں.زناکاری.شراب خواری.قمار بازی.غرض اس زمانہ میں سب سے زیادہ یہ عیسائیوں کا ہی حق تھا کہ وہ بدکاریوں کے میدانوں میں سب سے پہلے رہیں.کیونکہ دنیا میں انسان صرف تین وجہ سے گناہ سے رک سکتا ہے ) یہ کہ خدا تعالیٰ کا خوف ہو ) یہ کہ کثرت مال جو بد معاشیوں کا ذریعہ ہے اس کی بلا سے بچے (۳) یہ کہ ضعیف اور عاجز ہو کر زندگی بسر کرے حکومت کا زور پیدا نہ ہو.مگر عیسائیوں کو ان تینوں روکوں سے فراغت ہو چکی تھی اور کفارہ کے مسئلہ نے گناہ پر دلیر کر دیا تھا اور دولت اور حکومت ظلم کرنے کے لئے معین ہو گئے تھے.پس چونکہ دنیا کی راحتیں اور نعمتیں اور دولتیں ان پر بہت وسیع ہو گئی تھیں اور ایک زبر دست سلطنت کے وہ مالک بھی ہو گئے تھے اور پہلے اس سے ایک مدت تک فقر وفاقہ اور تکالیف شاقہ میں مبتلا رہ چکے تھے اس لئے دولت اور حکومت کو پا کر عجیب طوفان فسق و فجور ان میں ظاہر ہوا اور جس طرح پر زور سیلاب آنے کے وقت بند ٹوٹ جاتا ہے اور پھر بند ٹوٹنے سے تمام اردگرد کھیتوں اور آبادی کی شامت آجاتی ہے اسی طرح ان دنوں میں وقوع میں آیا کہ جب عیسائیوں کو تمام اسباب شہوت رانی کے میسر آگئے.اور دولت اور قوت اور بادشاہت میں تمام دنیا کے طاقتوروں سے اول نمبر پر ہو گئے.تو جیسے ایک سفلہ آدمی فقر وفاقہ کا مارا ہوا دولت اور حکومت پاکر اپنے لچھن دکھلاتا ہے وہ سارے لچھن ان لوگوں نے دکھلائے اول و حشیوں اور سخت ظالموں کی طرح وہ خونریزیاں کیں اور ناحق بے موجب کئی لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور وہ بے رحمیاں دکھلائیں جن سے بدن کانپ اٹھتا ہے اور پھر امن اور آزادی پاکر دن رات شراب خواری، زناکاری، قمار بازی میں شغل رکھنے لگے.چونکہ 15

Page 39

ان کی بد بختی سے کفارہ کی تعلیم نے پہلے ہی ان کو بدکاریوں پر دلیر کر دیا تھا اور صرف ستر بی بی از بے چادری کا مصداق تھی.اب جو بچھی بھی ان کے گھر میں آگئی تو پھر کیا تھا ہر ایک بدکاری پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے ایک زور دار سیلاب اپنے چلنے کی ایک کھلی کھلی راہ پا کر زور سے چلتا ہے اور ملک پر ایسا بد اثر ڈالا کہ غافل اور نادان عرب بھی انہیں کے بداثر سے پیسے گئے وہ تو اقی اور ناخواندہ تھے.جب انہوں نے اپنے ارد گرد عیسائیوں کی بد اعمالیوں کا طوفان پایا تو اس سے متاثر ہو گئے.یہ بات بڑی تحقیق سے ثابت ہوئی ہے کہ عربوں میں قمار بازی اور شراب خواری اور بدکاری عیسائیوں کے خزانہ سے آئی تھی اخطل عیسائی جو اس زمانہ میں ایک بڑا شاعر گذرا ہے.جس کا دیوان بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حال میں بیروت میں ایک عیسائی گروہ نے بڑے اہتمام اور خوبصورتی سے وہ دیوان چھاپ کر جابجا شائع کیا ہے چنانچہ اس ملک میں بھی آگیا ہے اس دیوان میں کئی ایک شعر اس کی یاد گار ہیں.جو اس کی اور اس وقت کے عیسائیوں کی اندرونی حالت کا نقشہ ظاہر کر رہے ہیں.منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ یہ بان الشباب و ربما علّلته بالغانيات وبالشراب الاصهب یعنی جوانی مجھ سے جدا ہو گئی اور میں نے اس کے روکنے کے لئے کئی مرتبہ اور بہت دفعہ یہ حیلہ کیا ہے کہ خوبصورت عورتوں اور سرخ شراب کے ساتھ اپنا شغل رکھا ہے.اب اس شعر سے صاف ظاہر ہے شخص باوجود پیرانہ سالی اور عیسائیوں کا ایک بزرگ فاضل کہلانے کے پھر بھی زناکاری کی ایک خراب حالت میں مبتلا رہا اور زیادہ قابل شرم بات یہ کہ بڑھا ہو کر بھی بدکاری سے باز نہ آیا اور نہ صرف اسی پر بس کرتا تھا بلکہ شراب پینے کا بھی نہایت درجہ عادی تھا.اخطل کی لائف پر اطلاع رکھنے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ وہ اس زمانہ کی عیسائی قوم میں بہت ہی معزز اور علم اور فضیلت کی رو سے گویا ان میں صرف ایک ہی تھا اور اس کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اس خیال کو جو کفارہ کے مسئلہ سے اس کو ملا تھا شاعرانہ لباس میں ادا کرتا بلکہ وہ پادریوں کا بھی منصب رکھتا تھا.اور جن گر جاؤں کا اس نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے.یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ان میں ایک پیشرو پادری کی حیثیت سے بلاناغہ جاتا تھا اور سب لوگ اسی کے نقش قدم پر چلتے تھے کیا اس زمانہ کے تمام عیسائیوں میں سے اس کے یگانہ روزگار ہونے میں یہ کافی دلیل نہیں کہ کروڑہا عیسائیوں اور پادریوں میں سے صرف وہی اس زمانہ کا ایک آدمی ہے جس کی یاد گار تیرہ سو برس میں اس زمانہ میں پائی گئی غرض 16

Page 40

عیسائیوں میں سے صرف ایک اخطل ہی ہے جو پرانے عیسائیوں کے چال چلن کا نمونہ بطور یاد گار چھوڑ گیا.اور نہ صرف اپنا ہی نمونہ بلکہ اس نے گواہی دے دی کہ اس وقت کے تمام عیسائیوں کا یہی حال تھا اور در حقیقت وہی چال چلن بطور سلسلہ تعامل کے اب تک یورپ میں چلا آتا ہے عیسائی مذہب کا پایہ تخت ملک کنعان تھا اور یورپ میں اسی ملک سے یہ مذہب پہنچا اور ساتھ ہی ان تمام خرابیوں کا تحفہ بھی ملا.غرض اخطل کا دیوان نہایت قدر کے لائق ہے جس نے اس وقت کے عیسائی چال چلن کا تمام پردہ کھول دیا اور تاریخ پتہ نہیں دے سکتی کہ اس زمانہ کے عیسائیوں میں سے کوئی اور بھی ایسا ہے جس کی کوئی تالیف عیسائیوں کے ہاتھ میں ہو.ہمیں اخطل کی سوانح پر نظر ڈالنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ وہ انجیل سے بھی خوب واقف تھا کیونکہ اس نے اس وقت کے تمام عیسائیوں اور پادریوں سے خصوصیت کے ساتھ وہ علمیت اور قابلیت دکھلائی کہ اس وقت کے عیسائیوں اور پادریوں میں سے کوئی بھی دکھلانہ سکا.بہر حال ہمیں مانا ہی پڑا کہ وہ اس وقت کے عیسائیوں کا ایک منتخب نمونہ ہے.مگر ابھی آپ سن چکے ہیں کہ وہ اس بات کا اپنے منہ سے اقراری ہے کہ میں خوبصورت عورتوں اور عمدہ شراب کے ساتھ پیرانہ سالی کے ملال کو دفع کرتا ہوں.اور اس وقت کے شعراء کا بھی یہی محاورہ تھا کہ وہ اپنی بدکاریوں کو انہیں الفاظ سے ادا کرتے تھے اور وہ لوگ حال کے نادان شاعروں کی طرح صرف فرضی خیالات کی بندش نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے واقعات کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیتے تھے اسی وجہ سے ان کے دیوان محققوں کی نظر میں نکمے نہیں سمجھے گئے.بلکہ تاریخی کتب کا ان کو پورا مر تبہ دیا گیا ہے اور وہ پرانے زمانہ کے رسوم اور عادات اور جذبات اور خیالات کو کامل طور پر ظاہر کرتے ہیں اسی واسطے اہل اسلام نے جو علم دوست ہیں ان کے قصائد اور دیوانوں کو ضائع نہیں کیا تا کہ ہر زمانہ کے لوگ بچشم خود معلوم کر سکیں کہ اسلام سے پہلے عرب کا کیا حال تھا اور پھر اسلام کے بعد قادر خدا نے کس تقویٰ اور طہارت سے ان کو رنگین کر دیا“ ( نور القرآن ا.روحانی خزائن.جلد 9- حاشیہ صفحہ 341 تا 346) مندرجہ بالا ارشادات میں حضور نے تاریخی حقائق کی بنا پر یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اسلام کے ظہور سے قبل عیسائی برائیوں میں تمام اقوام سے آگے بڑھے ہوئے تھے بلکہ تمام دنیا میں برائیوں کی اشاعت کرنے والے بھی عیسائی ہی تھے اسکی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ وہ عیسائیوں کی ترقی اور عروج کا زمانہ تھا اور ہر قسم کی برائی تک انکی رسائی ممکن تھی.جبکہ باقی اقوام کو لغویات میں مبتلا ہونے کی ایسی کھلی مہلت نہ تھی.جیسا کہ پادری 17

Page 41

کینن نے بھی اپنی کتاب تاریخ مسیحی کلیسیا ۳۳ ء تا ۲۰۰ء کے صفحہ 168 باب 14 میں لکھا ہے کہ عیسائیوں کے عروج کا زمانہ تیسری صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے.جغرافیائی لحاظ سے عربوں کے ہمسایہ ہونے کے ناطے عیسائیوں اور عربوں کے تجارتی تعلقات قائم تھے.عرب سے شام کی تجارت ایک مشہور واقعہ ہے.ان دیرینہ تجارتی تعلقات کا نتیجہ تھا کہ شام وغیرہ سے عیسائیوں کا کلچر بھی عرب میں سرایت کرنے لگا.نیز بہت سے عیسائی عرب میں آکر آباد بھی ہو گئے تھے.مثلاً غسان اور نجران کے علاقے تو خاص عیسائیوں کے مرکز تھے.مورخین بیان کرتے ہیں کہ اسلام سے چار صدیاں پہلے عرب میں عیسائی عنسان کے راستے اثر ڈالنا شروع کر چکے تھے.جیسا کہ مشہور مورخ Philip K Hitti لکھتا ہے: Such an influence as the Nestorians of al-Hirah had on the Arabs of the Persian border was exerted by the Monophysites of Ghassanland upon the people of al-Hijaz for four centuries prior to Islam these Syrianized Arabs had been bringing the Arab world into touch not only with Syria but also with Byzantium, such personal names as Dawud (David), Sulayman (Solomon), Isa (Jesus) were not uncommon amaong the pre Islamic Arabians.(14) اسی طرح ایک عیسائی پادری سلطان محمد پال لکھتا ہے "حضور مسیح کے آسمان پر صعود فرمانے کے تھوڑی مدت بعد عربستان کے مغربی گوشہ شام کی طرف سے مسیحی مذہب عرب میں داخل ہوا یونانی اور سریانی مورخین اور ان کے بعد مسلمان مورخین کی شہادت سے ثابت ہے کہ مسیحی مذہب اول اول حوران کے پایہ تخت یعنی بصری میں داخل ہوا (15) عیسائی مورخین کی مذکورہ بالا تحریرات سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ جس زمانہ میں آنحضور صلی الیکم مبعوث ہوئے اس سے عرصہ قبل ہی عرب میں عیسائیت نے اثرات مرتب کرنے شروع کر دئے ہوئے تھے.اب یہ دیکھتے ہیں کہ اسوقت کے عیسائیوں کی حالت کیا تھی اگر تو وہ نیک تھے تو انکا اثر بھی نیک ہی ہو گا اور اگر وہ بد کر داری میں بڑھ چکے تھے تو انہوں نے عرب میں بھی وہ ہی اثرات مرتب کرنے تھے.اور تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عیسائی اپنے عروج کے تھوڑا عرصہ بعد ہی کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہو گئے تھے.اس بات کا اقرار کئی عیسائیوں نے کیا ہے.سیّد نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی انہی عیسائیوں کے چند حوالے نمونہ کے 18

Page 42

طور پر پیش فرمائے ہیں.ذیل میں چند حوالے پیش ہیں جن میں خود عیسائیوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے.پادری ڈبلیو کین پی ہیرس اپنی کتاب تواریخ مسیحی کلیسیا لکھتا ہے.”ہمارا خداوند یسوع مسیح اس لئے دنیا میں آیا کہ تاریک ممالک کو منور کرے.جو اقوام اندھیرے میں پڑی ہیں ان کو نور میں لائے.تو ہمات اور بد رسومات سے چھڑائے.جہاں کہیں خدا کی جلالی انجیل پورے طور پر سمجھی اور مانی گئی وہیں لوگ ایسی بیہودگیوں سے آزاد ہو گئے.لیکن جہاں کہیں انسانی روایات نے انجیل کی روایات پر پردہ ڈالا اور کلیسیاد نیا مزاج کی ہو گئی وہیں تو ہمات بڑھتے گئے اور انسان اپنے ہی وہموں کے غلام بن گئے پہلی صدیوں میں کلیسیا تمام بد رسومات اور ہر طرح کے تو ہمات سے پاک تھی اس لئے انجیل پورے سادہ ایمان سے مانی گئی لیکن جب کہ بہت سے نالائق اشخاص کلیسیا میں گھس گئے اور خادمان دین کا سادہ طرز رہائش جاتارہا اور سلطنت سے تعلق پیدا ہو گیا د نیا داری اور خودی بڑھ گئی تو انجیل کی سچائی کا اثر بہت کم ہو گیا تو ہمات بڑھ گئے اور مختلف رسومات کلیسیا میں داخل ہوئیں.مونٹن ازم، نو دیش ازم اور درویشی فرقے اس لئے پیدا ہو گئے کہ کلیسیا کی روحانی زندگی کا معیار بھی بہت ہی کم ہو گیا سیپرین (Cyprian) کا یہ خیال تھا کہ ڈینش (Danish) کی عالمگیر ایذارسانی اس واسطے ہوئی کہ تیں ۳۰( تیس) سال کے آرام سے کلیسیا کی روحانی حالت بہت بگڑ گئی تھی.ایسی کہ بیان کرتے شرم آتی ہے.مسیحی بتخانوں میں جاکر نمازیں کرانے لگ گئے.دیوتاوں کے لئے پریسٹ کا کام بھی شروع کر دیا.رومی دیوتاوں کی قربانیوں میں بھی شریک ہونے لگ گئے.مسیحی عورتوں نے پجاریوں سے شادیاں کیں، ناپاکی بہت بڑھ گئی بشپوں اور خادمان دین نے تجارت شروع کر دی ان حالات کو دیکھ کر کوئی تعجب نہیں کہ کلیسیا میں بد رسومات اور توہمات گھس آئے ہوں ایسی رسومات اور توہمات کا آغاز یوں ہوا کہ دوسری صدی میں مسیحی شہدا کی عزت حد سے زیادہ ہونے لگی.ایسے مقدسوں کی عزت و حرمت تو واجب ہے لیکن یہ عزت اس درجہ تک جا پہنچی کہ پرستش ہونے لگی گویا خدا کا حق شہیدوں کو ملنے لگ گیا، شہدا کے مزاروں پر عبادتیں ہونے لگیں، جہاں وہ شہید ہوئے وہیں گرجے بن گئے رفتہ رفتہ شہدا کو وہی درجہ ملنے لگا جو بت پرستوں میں دیوتاوں اور قوم کے بہادروں کو ملتا ہے، ان سے دعائیں مانگنا، خدا کے حضور ان کی سفارشوں کے خواستگار ہونا، شہدا کے تبرکات جیسے ہڈی کے ٹکڑے بال کپڑوں کے ٹکڑے بطور تعویز استعمال ہونے لگے.جب ایسے تبرکات کی قدر ہونے لگی تو جعلی تبرکات بنے شروع ہو گئے.درویشوں خادمان دین نے ایسی چیزوں کی تجارت شروع کر دی.اور یہ بھی شہرت ہونے لگی کہ ان سے معجزات بھی سرزد ہوتے ہیں شہدا کی جائے پیدائش اور رہائش وغیرہ زیارت گاہیں بن گئیں...چوتھی صدی میں مقدسہ مریم کی پرستش شروع ہو گئی، پانچویں صدی میں یو ٹیکن اور نسٹورین مباحثوں میں یہ پرستش اور بھی عروج پاگئی.پہلی 19

Page 43

تین صدیوں میں اس کا کہیں ذکر تک نہیں پایا جاتا.چھٹی صدی میں مقدسہ مریم اور اس کی گود میں بچے کی تصویریں گرجوں میں لگنی شروع ہو گئیں.شروع میں نیت تو اچھی تھی کہ ایسی تصاویر سے جاہل تعلیم حاصل کریں مگر رفتہ رفتہ ان تصویروں کے آگے سجدہ ہونے لگا.پہلے پہل پیٹر انطاکیہ کے پیٹر یارک نے مقدسہ مریم کا نام کلیسیا کی نماز کی کتاب میں درج کیا.اس وقت سے اس بات کی قدرو منزلت یہاں تک بڑھ گئی کہ ساتویں صدی میں محمد صاحب نے سمجھا کہ ثالوث مقدس جنگی پرستش مسیحی کرتے ہیں وہ باپ بیٹا اور مقدسہ مریم ہیں.کنواری مریم کی پرستش کے ساتھ ساتھ مقدسوں اور فرشتوں کی پرستش بھی شروع ہو گئی.جن سے خدا کے حضور سفارش کی درخواست کی جاتی تھی کہ خطرات سے محفوظ رکھیں.پانچویں صدی میں ان کی تصاویر گر جاوں میں لگائی گئیں.انکے سامنے بتیاں جلانا، بخور جلانا اور ان کا بوسہ دینا، آخر کار پرستش ہونے لگ گئی.کلیسیا کے اکثر بزرگوں نے ایسی رسومات اور توہمات کی مخالفت کی.چنانچہ سیپرین (Cyprian) نے اس بات پر زور دیا کہ شہیدان کار تقج کی عزت حد سے زیادہ نہ کرنی چاہئے.نیسیہ کے گریگوری (Gregory) اور جیروم (Jerome) نے تیر تھ گاہوں کی بڑی مخالفت کی.ویلینٹین (Valentinian) نے مقدس مرحوموں کی پرستش ناجائز قرار دی.ہیلویڈیس (Helvidius) نے مقدس مریم کی پرستش کی سخت مخالفت کی ان کے علاوہ اوروں نے بھی ان تو ہمات کے بارے بہت کچھ کہا سنا.لیکن کسی نے بھی ان کے حال پکار کی پروانہ کی.مشرقی کلیساؤں میں بت پرستی بہت بڑھ گئی چنانچہ ساتویں صدی میں محمدی حملوں سے کسی قدر اس کی صفائی بھی ہوئی چوتھی صدی خادمان دین کے تجرد کا خیال پیدا ہوا کہ ان کی شادی نہیں کرنی چاہئے راہب خانوں اور درویشوں کا میلان اس طرف زیادہ ہو گیا...مشرق میں تو اس کی بہت پابندی نہ ہوئی مگر مغرب میں اس کا قانون بن گیا.اس قاعدے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں...تیسری صدی میں پریسٹ کے سامنے گناہوں کے اقرار کی رسم جاری ہوئی...رفتہ رفتہ یہ اقرار (کو نیشن) ایک قانون بن گیا.اور خیال ہونے لگا کہ ایسے اقراروں کے بغیر گناہوں کی معافی نہیں ہوتی ایسے اقرارات سے کئی قسم کی خرابیاں پیدیاں ہونے لگیں،.(16)66 چوتھی اور پانچویں صدی عیسویں میں Spain میں گاتھ قوم حکمران تھی.ان کا مذہب عیسائیت تھا اور رومی حکومت کا ہی ایک حصہ سمجھی جاتی تھی اس قوم کے سرداروں اور پادریوں کی عیاشیوں اور بد کرداریوں اور مظالم کا ذکر متعدد کتب میں مذکور ہے، مثلاً Edward Gibb نے اپنی کتاب The Decline and Fall of Empire Roman کے باب 18 میں بڑی تفصیل سے کیا ہے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 20

Page 44

جس شخص اخطل عیسائی کا ذکر کیا ہے اس کے متعلق بڑی تفصیل سے مختلف کتب میں بیان کیا گیا ہے.دلچسپی رکھنے والے اس کا مکمل تعارف اردو دائرہ معارف اسلامی.زیر لفظ اخطل.جلد 1 صفحہ 181 تا 183 دیکھ سکتے ہیں.نیک راهب: عرب کے اہل کتاب میں بعض نیک راہب بھی تھے جن میں سے کچھ الہام اور کشوف میں سے بھی حصہ پاتے تھے.آپ نے تاریخ میں مذکور ان نیک راہبوں کا بھی ذکر اپنی تحریرات میں فرمایا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرمایا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ہزاروں راہب ملہم اور اہل کشف تھے اور نبی آخر الزمان کے قرب ظہور کی بشارت سنایا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے امام الزمان کو جو خاتم الانبیاء تھے قبول نہ کیا تو خدا کے غضب کے صاعقہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کے تعلقات خدا تعالیٰ سے بکلی ٹوٹ گئے اور جو کچھ ان کے بارے میں قرآن شریف میں لکھا گیا اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.یہ وہی ہیں جن کے حق میں قرآن شریف میں فرمایا گیا وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ سے نصرت دین کیلئے مددمانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہو تا تھا اگر چہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی خدا تعالیٰ کی نظر سے گر گئے تھے لیکن جب عیسائی مذہب بوجہ مخلوق پرستی کے مر گیا اور اس میں حقیقت اور نورانیت نہ رہی تو اس وقت کے یہود اس گناہ سے بری ہو گئے کہ وہ عیسائی کیوں نہیں ہوتے تب ان میں دوبارہ نورانیت پیدا ہوئی اور اکثر ان میں سے صاحب الہام اور صاحب کشف پیدا ہونے لگے اور ان کے راہبوں میں اچھے اچھے حالات کے لوگ تھے اور وہ ہمیشہ اس بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر زمان اور امام دوران جلد پیدا ہو گا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ملک عرب میں آرہے تھے اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ یعنی اس نبی کو وہ ایسی صفائی سے پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بچوں کو.مگر جب کہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہو گیا.تب خود بینی اور تعصب نے اکثر راہبوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دل سیہ ہو گئے.مگر بعض سعادتمند مسلمان ہو گئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا پس یہ ڈرنے کا مقام ہے اور سخت ڈرنے کا مقام ہے خدا تعالیٰ کسی مومن کی بلعم کی طرح 21

Page 45

بد عاقبت نہ کرے.الہی تو اس امت کو فتنوں سے بچا اور یہودیوں کی نظریں ان سے دور رکھ.آمین ثم آمین ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 475 476) قرآن کریم اور احادیث نیز کتب تاریخ و سیرت سے یہ بات بالبداہت ثابت شدہ ہے کہ اسلام کے ظہور کے زمانہ تک اہل کتاب میں بعض نیک راہب موجود تھے ان میں سے کچھ صاحب الہام بھی تھے اور کچھ نے اسلام بھی قبول کیا.مثلاً قرآن کریم میں سورۃ البقرہ آیت 147، آل عمران آیت 76، المائدہ آیت 84,83.میں اس قسم کے نیک راہبوں کا ذکر موجود ہے.اسی طرح آنحضور صلی الیکم کے بچپن میں شام کی طرف ایک سفر میں بحیر انامی عیسائی راہب سے ملاقات اور اس کے کشوف کا بھی ذکر ملتا ہے (17) ورقہ بن نوفل بھی اسی قسم کے راہبوں میں شمار ہو تا ہے.جس کا ذکر تاریخ اسلام کی متعدد کتب میں موجود ہے.اس مضمون سے متعلق آپ کا ایک پر معارف ارشاد ذیل میں درج ہے جس میں آپ نے دنیا کی اس حالت کو آنحضور صلی علی رام کی صداقت کی ایک بین دلیل قرار دیا ہے.فرمایا: پس آنحضرت کا ایسی عام گمراہی کے وقت میں مبعوث ہونا کہ جب خود حالت موجودہ زمانہ کی ایک بزرگ معالج اور مصلح کو چاہتی تھی اور ہدایت ربانی کی کمال ضرورت تھی.اور پھر ظہور فرما کر ایک عالم کو توحید اور اعمال صالحہ سے منور کرنا اور شرک اور مخلوق پرستی کا جو اتم الشرور ہے قلع قمع فرمانا اس بات پر صاف دلیل ہے کہ آنحضرت خدا کے سچے رسول اور سب رسولوں سے افضل تھے.سچا ہونا ان کا تو اس سے ثابت ہے کہ اس عام ضلالت کے زمانہ میں قانون قدرت ایک سچے ہادی کا متقاضی تھا اور سنت الہیہ ایک رہبر صادق کی مقتضی تھی.کیونکہ قانون قدیم حضرت رب العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو رحمت الہی اس کے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جیسے جب امساک باران سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام تمام ہونے لگتا ہے تو آخر خداوند کریم بارش کر دیتا ہے اور جب وہا سے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہوا کی نکل آتی ہے یا کوئی دوا ہی پیدا ہو جاتی ہے اور جب کسی ظالم کے پنجہ میں کوئی قوم گرفتار ہوتی ہے تو آخر کوئی عادل اور فریا درس پیدا ہو جاتا ہے.پس ایسا ہی جب لوگ خد ا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں.تو خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور 22

Page 46

اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے کہ تاجس قدر بگاڑ ہو گیا ہے اس کی اصلاح کرے اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ پروردگار جو قیوم عالم کا ہے اور بقا اور وجود عالم کا اسی کے سہارے اور آسرے سے ہے کسی اپنی فیضان رسانی کی صفت کو خلقت سے دریغ نہیں کرتا اور نہ بیکار اور معطل چھوڑتا ہے بلکہ ہر یک صفت اس کی اپنے موقعہ پر فی الفور ظہور پذیر ہو جاتی ہے.پس جبکہ از روئے تجویز عقلی کے اس بات پر قطع واجب ہوا کہ ہر یک آفت کا غلبہ توڑنے کے لئے خدا تعالیٰ کی وہ صفت جو اس کے مقابلہ پر پڑی ہے ظہور کرتی ہے اور یہ بات تواریخ سے اور خود مخالفین کے اقرار سے اور خاص فرقان مجید کے بیان واضح سے ثابت ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت میں یہ آفت غالب ہو رہی تھی کہ دنیا کی تمام قوموں نے سیدھا راستہ توحید اور اخلاص اور حق پرستی کا چھوڑ دیا تھا اور نیز یہ بات بھی ہر ایک کو معلوم ہے کہ اس فساد موجودہ کے اصلاح کرنے والے اور ایک عالم کو ظلمات شرک اور مخلوق پرستی سے نکال کر توحید پر قائم کرنے والے صرف آنحضرت ہی ہیں کوئی دوسرا نہیں.تو ان سب مقدمات سے نتیجہ یہ نکلا کہ آنحضرت خدا کی طرف سے بچے بادی ہیں چنانچہ اس دلیل کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں آپ ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.اللہ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ وَاللَّهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (سورة النحل: 64-66) یعنی ہم کو اپنی ذات الوہیت کی قسم ہے جو مبدء فیضان ہدایت اور پرورش اور جامع تمام صفات کا ملہ ہے جو ہم نے تجھ سے پہلے دنیا کے کئی فرقوں اور قوموں میں پیغمبر بھیجے.پس وہ لوگ شیطان کے دھوکا دینے سے بگڑ گئے.سو وہی شیطان آج ان سب کا رفیق ہے.اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور جو امر حق ہے وہ کھول کر سنایا جائے اور حقیقت حال یہ ہے کہ زمین ساری کی ساری مرگئی تھی.خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور نئے سرے اس مردہ زمین کو زندہ کیا.یہ ایک نشان صداقت اس کتاب کا ہے.پر ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں یعنے طالب حق ہیں“ (روحانی خزائن جلد 1 - براہین احمدیہ بقیہ حاشیہ نمبر 10 صفحہ 113 تا115) 23

Page 47

آباء واجداد: آنحضور صلی الم کے آباء اجداد نسب و حسب ہر دو لحاظ سے سب سے اعلیٰ تھے ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعائیں مانگی تھیں وہ حضرت اسحق کے حق میں بھی پوری ہوئیں اور لازم تھا کہ حضرت اسماعیل کے حق میں بھی پوری ہو تیں.حضرت الحق کی نسل سے پے در پے نبی بر پا ہوئے اور حضرت اسماعیل کی نسل سے نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللی کم مبعوث ہوئے.حضور نے اپنی تحریرات میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحق اور حضرت اسماعیل کے متعلق نیز حضرت ہاجرہ اور حضرت سارہ کے متعلق نہایت اہم حقائق پر روشنی ڈالی ہے.جن میں کچھ ذیل میں درج ہیں.آنحضور ملیالم کا نسل اسماعیل سے ہونا: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ان لوگوں کی مثال اُن یہودی فقہاء کے ساتھ دی جاسکتی ہے جو کہ بنی اسرائیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے گزر چکے تھے اور ان کا عقیدہ پختہ تھا کہ آخری نبی جو آنے والا ہے وہ حضرت اسحق کی اولاد میں سے ہو گا اور اسرائیلی ہو گا وہ مر گئے اور بہشت میں گئے، لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ مسئلہ روشن ہو گیا کہ آنے والا آخری نبی بنی اسمعیل میں سے ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا تب بنی اسرائیل میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیئے گئے اور لعنتی ہوئے اور آج تک ذلیل اور خوار اور در بدر مصیبت زدہ ہو کر پھر رہے ہیں“ عقده ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن.جلد 5 صفحہ 64) آنحضور صلی الم کے ظہور مبارک سے قبل تک بنی اسرائیل کا ایمان تھا کہ وہ عظیم نبی جو مبعوث ہونے والا ہے بنی اسرائیل سے ہی ہو گا لیکن جب آپ صلی اللہ علم کا ظہور بنی اسماعیل میں ہوا اور علامات نبوت روشن ہوتی گئیں تو یہ مدہ کھل گیا.روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے یہود میں اس موعودہ نبی کے متعلق ان علامات کے علاوہ جو بائیبل میں موجود تھیں کچھ سینہ بہ سینہ روایات بھی مشہور تھیں جو یہ اشارہ کرتی تھیں کہ وہ نبی بنی اسماعیل میں سے ہو گا، یہاں تک کہ ان علامات سے اشارہ پاکر ان میں سے کچھ کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ ظہور مبارک عرب بلکہ میٹر ب سے ہو گا اور اس بنا پر انکے کچھ قبائل نے بیشترب اور اس کے قریبی علاقوں میں سکونت بھی اختیار کرلی.24

Page 48

لیکن قوم پرستی نے ان کو یہ صداقت قبول کرنے سے روک دیا کہ بنی اسرائیل کے علاوہ انکے بھائیوں بنی اسماعیل میں نبی بر پا ہو سکتا ہے.حالانکہ وہ تمام علامات آنحضور صلی علیکم میں موجود پاتے تھے.تمام منقولی و معقولی دلائل سے قریش کا نسل اسماعیل ہونا ثابت ہے اس کے باوجو د جب کوئی اور چارہ نہ رہا تو جدید زمانہ کے مورخین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ قریش کا اسماعیل سے کوئی تعلق نہیں.مثلاً ولیم میور نے لکھا کہ اسماعیل کا عرب میں آباد ہونا اور قحطان عرب کے مورث اعلیٰ تھے اور قریش اسماعیلی روایات مثلاً کعبہ کا طواف حجر اسود کا بوسہ اور حج کے مناسک کے امین تھے وغیرہ تمام من گھڑت قصے ہیں.اسکے نزدیک عربوں میں یہ تمام رسوم و روایات یہودیوں سے سن کر راہ پاگئی ہوں گی.(18) لیکن جیسا کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آنحضور صلی یی کم نسل اسماعیل سے تھے اس بات کے لئے کافی دلائل موجود ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کئے جاتے ہیں.عرب کی تاریخ کا ایک نہایت اہم ماخذ قرآن مجید ہے اور عرب کے جو تاریخی حقائق قرآن نے بیان فرمائے ہیں انہیں خود اس وقت کے عربوں نے بھی جھٹلایا نہیں تھا بلکہ اس سے متفق نظر آتے ہیں.قرآن مجید میں بھی قریش کو نسل اسماعیل سے قرار دیا گیا ہے.وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَأتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الحج:79) اور اللہ کے تعلق میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے.اس نے تمہیں چن لیا ہے اور تم پر دین کے معاملات میں کوئی تنگی نہیں ڈالی.یہی تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب تھا.اُس (یعنی اللہ ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا (اس سے) پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ رسول تم سب پر مگر ان ہو جائے اور تاکہ تم تمام انسانوں پر نگران ہو جاؤ.پس نماز کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو.وہی تمہارا آقا ہے.پس کیا ہی اچھا آقا اور کیا ہی اچھا مدد گار ہے.حدیث کی روایات میں بھی بکثرت ایسی روایات موجود ہیں جن سے آنحضور صلی علیکم کا قریش میں سے ہونا ثابت ہے.مثلاً بخاری کتاب بدء الخلق میں ابن عباس سے مروی ایک لمبی روایت ہے جس میں حضرت ابراہیم کا حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کو مکہ کی بے آب و گیاہ ویرانہ میں چھوڑنے اور مکہ شہر کی آبادی اور قریش کے تاریخی حالات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں.(19) بخاری کتاب المناقب میں نبی اکرم صلی للی کم کا قریش میں سے ہونا اور 25

Page 49

قریش کا نسل اسماعیل سے ہونا متعدد روایات میں مذکور ہے.(20) عربوں کی تاریخ کا ایک اور نہایت اہم ماخذ ابتدائی مورخین کی کتب ہیں جن میں عربوں کی اپنی قدیم روایات بیان کی گئی ہیں اور ان کو نظر انداز کر کے عرب کی تاریخ کا مطالعہ ممکن نہیں.ان تمام کتب سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ قریش نسل اسماعیل سے ہیں مثلاً سیرت النبی لابن ہشام میں روایت ہے کہ قَالَ ابنُ هِشَامُ فَالْعَرِبُ كُلَّهَا مِنْ وُلِدِ إِسْمَاعِيلَ وَ قَحْطَانَ وَبَعضُ أَهْلِ الْيَمَن يَقُولُ قَحْطَانَ مِنْ وُلدِ إِسْمَاعِيلَ وَيَقُول إِسْمَاعِيلَ، ابُوا لَّعَرَبِ كلها (21) طبقات ابن سعد میں آنحضور صلی للی نیم کے الفاظ میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے (22) بائبل سے بھی ثابت ہے کہ حضرت سارہ کی نارضگی کی وجہ سے حضرت اسماعیل اور ہاجرہ وطن سے بے وطن ہوئے تھے.اور دنیا میں صرف عرب ہی اپنے آپ کو انکی اولاد قرار دیتے ہیں اگر وہ بھی نہیں تھے تو سوال یہ ہے کہ پھر حضرت اسماعیل اور ہاجرہ وطن سے بے وطن ہو کر کہاں گئے.مناسب ہے کہ یہاں بائیبل کی وہ عبارت تحریر کر دی جائے جس میں یہ قصہ بیان ہوا ہے.” دوسرے دن صبح سویرے ہی ابراہام نے کچھ کھانا اور پانی کی مشک لیکر ہاجرہ کے کندھے پر رکھ دی.اور اسے اسکے لڑکے کے ساتھ وہاں سے رُخصت کر دیا اور وہ چلی گئی اور بئر سبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی.جب مشک کا پانی ختم ہو گیا تو اس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے سایہ میں چھوڑ دیا اور خود وہاں سے تقریباً سو گز کے فاصلہ پر دور جا کر اسکے سامنے بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کہ میں اس بچے کو مرتے ہوئے کیسے دیکھوں گی؟ اور وہ وہاں نزدیک بیٹھی ہوئی زار زار رونے لگی.خدا نے لڑکے کے رونے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا اے ہاجرہ، تجھے کیا ہوا؟ خوف نہ کر خدا نے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اسکی آواز سن لی ہے لڑکے کو اٹھالے اور اس کا ہاتھ تھام کیونکہ میں اس سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا.تب خدا نے ہاجرہ کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا.چنانچہ وہ گئی اور مشک بھر کے لے آئی اور لڑکے کو پانی پلایا وہ لڑکا بڑا ہو تا گیا اور خدا اس کے ساتھ تھا.وہ بیابان میں رہتا تھا اور تیر انداز بن گیا.جب وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا تو اسکی ماں نے مصر کی ایک لڑکی سے اسکی شادی کر دی“ پرانا عہد نامہ.پیدائش باب 21.آیت 14 تا 21) بائیبل کے اس حصہ میں جس بئر سبع کا ذکر ہے اسکے متعلق سر سید احمد خان صاحب نے ایک مفید تحقیق کی ہے جو انکی کتاب ”خطبات احمدیہ میں موجود ہے.(23) جہاں تک فاران کا تعلق ہے اسلامی مورخین اور جغرافیہ دانوں 26

Page 50

نے کافی تحقیق کی ہے جس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فاران سے مراد حجاز کی سر زمین ہے.نیز بائیبل سے یہ ثابت ہے کہ قیدار کی نسل عرب میں آباد ہوئی تھی اور قیدار مسلمہ طور پر نسل اسماعیل سے تھا.(24) الغرض کہ آنحضور صلی ایم کا نسل اسماعیل سے ہونا ایسا ثابت شدہ امر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے.اس مضمون کے متعلق درج ذیل کتب میں نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے.مکہ کی آبادی و سکونت حجاز : (سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.صفحہ 65 تا 73) ( فصل الخطاب از حضرت حکیم نورالدین صاحب، خلیفہ المسیح الاول صفحہ 273 تا 283) ( الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرت المحمدیہ مصنفہ سرسید احمد خان صاحب.خطبہ نمبر 8) ان صفحات میں حضور کی تحریرات و فرمودات کی روشنی میں مکہ شہر کی آبادی کی عظیم الشان غرض و غایت، دعاء ابراہیمی کی قبولیت، ذبح عظیم کی برکات، اور سیدہ ہاجرہ کے بلند مر تبہ کا ذکر ہے.آپ فرماتے ہیں: ”دیکھو حضرت ابراہیم کا ابتلاء کہ بچے اور اس کی ماں کو کنعان سے بہت دور لے جانے کا حکم ہوا اور وہ ایسی جگہ تھی جہاں نہ دانہ تھا اور پانی.وہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم نے خدا کے حضور عرض کی کہ اے اللہ میں اپنی ذریت کو ایسی جگہ چھوڑتا ہوں جہاں دانہ پانی نہیں ہے.حضرت سارہ کا ارادہ یہ تھا کہ کسی طرح سے اسماعیل مر جائے، اس لئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اسے کسی بے آب و گیاہ جگہ میں چھوڑ آ.حضرت ابراہیم کو یہ بات بری معلوم ہوئی، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ سارہ کہتی ہے ، وہی کرنا ہو گا.اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ کو سارہ کا پاس تھا.حضرت سارہ نے اس واقعہ سے پہلے بھی ایک دفعہ حضرت ہاجرہ کو گھر سے نکالا تھا.اس وقت بھی خدا تعالیٰ کا فرشتہ اس سے ہم کلام ہوا تھا.کیونکہ نبیوں کے سوا غیر انبیاء سے بھی اللہ تعالیٰ بذریعہ فرشتہ کلام کیا کرتا ہے؛ چنانچہ حضرت ہاجرہ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ ہوا.غرض حضرت ابراہیم نے ویسا ہی کیا اور کچھ تھوڑا سا پانی اور تھوڑی سے کھجوریں ہمراہ لے کر حضرت ہاجرہ اور اس کے بچے کو لے جاکر وہاں چھوڑ آئے جہاں اب مکہ آباد ہے.چند دن کے بعد نہ دانہ رہانہ پانی.حضرت اسماعیل شدت پیاس سے بے چین ہونے لگے ، تو اس وقت حضرت ہاجرہ نے نہ چاہا کہ اپنے بچے کی ایسی بے بسی کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھے.اس 27

Page 51

لئے حضرت ہاجرہ چند مرتبہ اس پہاڑ پر ادھر ادھر دوڑیں کہ شاید کوئی قافلہ ہو.پہاڑ پر چڑھ کر گریہ وزاری کرنے لگیں.یہ ایسا وقت تھا کہ ان کے پاس صرف ایک ہی بچہ تھا.خاوند سے الگ تھیں.دوسرا بچہ پیدا ہونے کی امید نہیں تھی.گویا بیوہ کی مانند آپ کا حال تھا.آپ کی گریہ وزاری پر فرشتہ نے آواز دی ہاجرہ !ہاجرہ!! جب آپ نے ادھر ادھر دیکھا، تو کوئی شخص نظر نہ آیا.بچہ کے پاس جب آئیں تو دیکھا کہ اس کے پاس پانی کا چشمہ بہ رہا ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے مردہ سے ان کو زندہ کر دیا.حضرت نبی کریم فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چشمہ کا پانی نہ روکتا، تو وہ تمام ملک میں پھیل جاتا اس قصہ کے بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی ایسی جگہوں پر جہاں آب و دانہ کچھ نہ ہو.اس طرح اپنی قدرت کے کرشمے دکھایا کرتا ہے، چنانچہ پانی کہ اس پہلے کرشمہ نے حضرت اسماعیل گوزندہ کیا، مگر وہ پانی جو حضرت نبی کریم کے ذریعہ سے پھیلایا گیا، اس کی شان میں فرمایا.اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید : 18) گویا اس پانی سے دنیا زندہ ہوئی.مدعا یہ ہے کہ جہاں ظاہری اسباب موجود نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے بچاؤ کی ایک راہ نکال دی اور اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتا ہے کہ اس کے امر سے زمین و آسمان قائم ہیں.تو غور کرو کہ وہ جنگل جہاں اس قدر گرمی پڑتی تھی اور جہاں انسان کا نام ونشان نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا بابرکت بنا دیا کہ کروڑہا مخلوق وہاں جاتی ہے اور ہر ملک اور ہر قوم کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں.وہ میدان جہاں حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں، وہی جگہ ہے جہاں نہ دانہ تھانہ پانی“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 1 صفحہ 172-173) حضور نے مندرجہ بالا فرمودات میں جس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے ایک مشہور واقعہ ہے جو قرآن کریم احادیث اور کچھ فرق کے ساتھ بائیبل میں بھی مذکور ہے.اور آپ نے اس ارشاد میں اعتراض یا الزام کا رنگ اختیار کئے بغیر یہ حقیقت بیان فرما دی ہے کہ قرآن کریم نے جس رنگ میں اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے وہی درست اور انبیاء علیم السلام کے شایان شان ہے.بائیبل جس حقیقت کو درست رنگ میں بیان کرنے سے قاصر ہے.اس کی مزید تفصیل میں جانے سے پہلے اس بارے میں قرآنی آیات درج کی جاتی ہیں تاکہ یہ معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو.فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ۖ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّابِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا 28

Page 52

إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ - إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ - وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ.وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنُ وَظَالِمُ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ.(الشفت: 113،102) پس ہم نے اسے ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی.پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے ! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے ؟ اس نے کہا اے میرے باپ ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے.یقینا اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.پس جب وہ دونوں رضامند ہو گئے اور اس نے اُسے پیشانی کے بل لٹا دیا.تب ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم ایقینا تو اپنی رویا پوری کر چکا ہے.یقینا اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں.یقیناً یہ ایک بہت کھلی کھلی آزمائش تھی.اور ہم نے ایک ذبح عظیم کے بدلے اُسے بچا لیا.اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا.ابراہیم پر سلام ہو.یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا.اور ہم نے اسے اسحاق کی بطور نبی خوشخبری دی جو صالحین میں سے تھا.اور اُس پر اور اسحاق پر ہم نے برکت بھیجی اور ان دونوں کی ذریت میں احسان کرنے والے بھی تھے اور اپنے نفس کے حق میں کھلم کھلا ظلم کرنے والے بھی تھے رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (ابراہیم :38) اے ہمارے رب ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے.اے ہمارے رب ! تا کہ وہ نماز قائم کریں.پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کریں.احادیث میں بھی یہ واقعات بیان ہوئے ہیں مثلاً صحیح بخاری کتاب بدء الخلق اور کتاب الانبیاء میں یہ واقعات بڑی تفصیل سے مذکور ہیں.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ بائیبل میں بھی یہ واقعات بیان ہوئے ہیں لیکن کچھ فرق کے ساتھ.بائیبل میں جب ان واقعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات پر کچھ اعتراض پید اہوتے ہیں.29

Page 53

اور وہ یہ کہ جیسا کہ بائیبل میں لکھا ہے کہ براہیم سارہ کی رنجش کے نتیجہ میں اسماعیل اور ہاجرہ کو جنگل بیابان میں چھوڑ آئے (25)، گویا انہوں نے بیگناہوں پر ظلم کیا.اور یہ ایک عظیم الشان نبی کے شایان شان نہیں ہو سکتا.لیکن قرآن نے حضرت ابراہیم سے اس اعتراض کو دور فرمایا ہے.اس معاملہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے.اس آیت (ابراہیم : 38) میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم کا یہ فعل نہایت نیک نیت کی بنا پر تھا.ضمناً اس میں بائیبل کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ بائبل میں ہے کہ حضرت سارہ ناراض ہو گئیں تھیں اس لئے انکو خوش کرنے کے لئے حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل اور انکی والدہ کو جنگل میں چھوڑا تھا یعنی ایک نبی نے اپنی ایک بیوی کی رضا مندی کے لئے بعض بے گناہوں پر ظلم کیا قرآن کریم اس امر کا جو حضرت ابراہیم کے نام پر دھبہ ہے خود حضرت ابراہیم کے منہ سے دفعیہ کرواتا ہے اور انکی مذکورہ بالا دعا نقل کر کے بتاتا ہے کہ یہ بیان بائبل کا غلط اور بے بنیاد ہے.اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے رب تو تو جانتا ہے کہ میری نیت انکو جنگل میں چھوڑنے سے کیا ہے میں ایسا کسی دنیوی غرض کی وجہ سے نہیں کر رہا بلکہ محض تیری خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی بیوی بچوں کو اس جنگل میں چھوڑے جارہا ہوں“ ( تفسیر کبیر جلد 3 از حضرت مصلح موعود صفحه 487، تفسیر سورۃ ابراہیم آیت 38) آپ نے ان واقعات کو بیان فرما کر امت مسلمہ کو خدا تعالیٰ کے ان عظیم الشان فضلوں کی طرف توجہ دلائی ہے نیز ابتلاؤں میں صبر کے عظیم الشان ثمرات یاد دلائے ہیں اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ تمام برکتوں کی کنجی رضاء خداوندی اور ارادہ الہی کی اتباع میں ہے جیسا کہ فرمایا.ماسوا اس کے جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے صفات اخلاقیہ سے دلوں میں اپنی محبت جماوے ایسا ہی اُن کی صفات اخلاقیہ میں اس قدر معجزانہ تاثیر رکھ دیتا ہے کہ دل اُن کی طرف کھنچے جاتے ہیں.وہ ایک عجیب قوم ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہوتے ہیں اور کھونے کے بعد پاتے ہیں اور اس قدر زور سے صدق اور وفا کی راہوں پر چلتے ہیں کہ اُن کے ساتھ خدا کی ایک الگ عادت ہو جاتی ہے گویا اُن کا خدا ایک الگ خدا ہے جس سے دنیا بے خبر ہے.اور اُن سے خدا تعالیٰ کے وہ معاملات ہوتے ہیں جو دوسروں سے وہ ہر گز نہیں کرتا جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفادار بندہ تھا 30

Page 54

اس لئے ہر ایک ابتلاء کے وقت خدا نے اُس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اُس کے لئے سرد کر دیا.اور جب ایک بد کردار بادشاہ اُن کی بیوی سے بد ارادہ رکھتا تھا تو خدا نے اُس کے اُن ہاتھوں پر بلا نازل کی جن کے ذریعہ سے وہ اپنے پلید ارادہ کو پورا کرنا چاہتا تھا.پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسمعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اُس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا سید الکونین حضرت محمد علی علوم کا مظہر نسب : (روحانی خزائن جلد 22.حقیقۃ الوحی صفحہ 52) کتب تاریخ وسیرت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام انبیاء نسب اور حسب کے لحاظ سے مطہر اور معزز تھے.ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی علیم بھی نسب اور حسب کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ تھے بلکہ سب سے اعلیٰ تھے.آپ صلی اللہ ظلم کی اس امتیازی شان کا حضور نے اپنی تحریرات و فرمودات میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا فرمایا: ”کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے، حکیم بھی ہے اور اسکی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل انکی اطاعت سے کراہت نہ کرے.یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیهم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں.اسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سیّد و مولی نبی صل الم کےوجود باجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ (توبہ: 128) یعنی تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو خاندان اور قبیلہ اور قوم کے لحاظ سے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے.اور سب سے زیادہ پاک اور بزرگ خاندان رکھتا ہے اور ایک اور جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (الشعراء: 218-220) یعنی خدا پر توکل کر جو غالب اور رحم کرنے والا ہے.وہی خدا جو تجھے دیکھتا ہے جب تو دعا اور دعوت کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہی خدا جو تجھے اسوقت دیکھتا تھا کہ جب تو تخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلا آتا تھا.یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ معصومہ 31

Page 55

کے پیٹ میں پڑا.اور انکے سوا اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں ہمارے بزرگ اور مقدس نبی صلی الی یوم کے علو خاندان اور شرافت قوم اور بزرگ قبیلہ کا ذکر ہے“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 281) حضور نے مندرجہ بالا تحریر کی وضاحت میں اسی صفحہ کے حاشیہ میں درج فرمایا کہ م نفس کے لفظ میں ایک قراءت زبر کے ساتھ ہے یعنی حرف فاء کی فتح کے ساتھ اور اسی قراءت کو ہم اس جگہ ذکر کرتے ہیں.اور دوسری قراءت بھی یعنی حرف فاء کی پیش کے ساتھ بھی اسکے ہم معنی ہے کیونکہ خدا قریش کو مخاطب کرتا ہے کہ تم جو ایک بڑے خاندان میں سے ہو یہ رسول بھی تمہی میں سے ہے یعنی اعلیٰ خاندان ہے“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15، حاشیہ صفحہ 281) عرب کی تاریخ دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بجز آنحضرت ملی ایام کے سلسلہ آباء واجداد کے جن کو اللہ جلّ شانہ نے اپنے خاص فضل و کرم سے شرک اور دوسری بلاوں سے بچائے رکھا باقی تمام لوگ عیسائیوں کے بد نمونہ کو دیکھ کر اور انکی چال و چلن کی بد تاثیر سے متاثر ہو کر انواع اقسام کے قابل شرم گناہوں اور بد چلنیوں میں مبتلا ہو گئے تھے“ (نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 341 حاشیہ) جیسا کہ آپ نے آنحضور صلی اللہ نیلم کی علام نبی قرآن کریم اور تاریخ عرب کی رو سے بیان فرمائی ہے اور بالخصوص جن آیات کا ذکر فرمایا ہے یعنی (توبه: 128 اور الشعراء: 220،218) ہیں اور دیگر بزرگ مفسرین نے بھی ان آیات کا یہی مضمون بیان کیا ہے مثلا علامہ ابن کثیر لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ (توبه: 128) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنین پر احسان ظاہر فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے تمہاری ہی طرح کا ایک رسول بھیجا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی رَبَّنَا وَابعَث فِيهِم رَسُولًا مِنهم اور ولقد مَنَّ الله على المومنين اور لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ جعفر بن ابی طالب نے نجاشی سے اور مغیر گانے سفیر کسری سے کہا تھا اللہ نے ہم میں ہماری ہی قوم کا ایک رسول بھیجا ہے جسکے نسب سے ہم واقف ہیں جسکی صفات جانتے ہیں جسکے اٹھنے بیٹھنے اور صدق امانت سے ہم واقف ہیں زمانہ جاہلیت سے بھی جسکے 32

Page 56

خاندان پر کوئی دھبہ نہیں ہے.(26) اس مضمون کو اسی آیت لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُ مِنْ أَنْفُسِكُمْ“ کے تحت امام فخر الدین رازی نے بھی بیان کیا ہے اور انہوں نے اسکی دوسری قرأت جسکا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کا بھی ذکر کیا ہے.چنانچہ امام فخر الدین رازی تحریر کرتے ہیں کہ.”آن المقصود من ذكر هذه الصّفةُ التنبيه على طهارتِهِ كَانّ قِيلَ هُوَ مِنْ عَشيَرتِكَم تَعرفونه بالصدق والامانة والعفافِ والصيانة...و قُرِئَ مِن أَنفُسَكُمْ أَى مِنْ اَشرَفكُم وأفضلكُم وقيل هِيَ قِرائہ رسُولِ اللهِ وَ فاطمہ وَ عائشہ یعنی مقصود آپ مالی نام کی اس صفت کے بیان کا یہ ہے تا آپ میلی یی کم کی پاکیزگی بیان ہو جیسا کہ بیان کیا گیا ہے آپ صلی اللی علم تمہارے ہی قبیلہ میں سے ہیں اور تم انکے صدق و امانت و عفت و صیانت سے خوب واقف ہو...اور اس آیت کو مِن أَنفُسَكُم بھی پڑھا گیا ہے.اور یہ قرائت رسول اللہ صلی علیکم و فاطمہ وعائشہ کی ہے.(27) محفوظ نسب: کسی بھی خاندان کے نسب کا شرف اس بات کو بھی سمجھا جاتا ہے کہ اس خاندان کا نسب کتنی پشتوں تک معلوم و محفوظ ہے.جس خاندان کا نسب جتنی دور کی پشتوں تک معلوم و محفوظ ہو وہ اتناہی معزز سمجھا جاتا ہے اور وہ افراد، قوم یا خاندان جس کا نسب بھی محفوظ ہو اور خالص بھی ہو اسکی تمام پشتوں میں بکثرت نیک کردار لوگ موجود ہوں وہ قوم حسب و نسب کے لحاظ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے.دنیا کی تمام قدیم اقوام میں سے ایک حضرت محمدصلی ال نیم کا خاندان ہی ایسا ہے جس کا نسب ابتدا سے لیکر انتہا تک محفوظ اور خالص ہے اور نیک کردار لوگوں حتی کہ ملہمین سے پر رہا ہے.تاریخ کی متعدد کتب میں نبی اکرم صلی للی یم کا نسب نامہ درج ہے " محمد علی تعلیم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن عدنان بن اسماعیل بن ابراہیم (28) یہ نسب نامہ جملہ کتب تاریخ میں بغیر کسی اختلاف کے موجود ہے.اور یہ عرب میں ایسا مشہور و معروف تھا کہ جس میں کوئی شبہ نہ تھا.نسب نامہ معلوم و محفوظ رہنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ عرب معاشرہ میں نسب نامہ یا درکھنا ایک رواج تھا.اور جس شخص کا نسب معلوم نہ ہو تا اس کی کوئی عزت نہ ہوتی تھی.اگر چہ نسب نامہ یاد رکھنے کا رواج تھا لیکن بعض لوگ اس فن میں مہارت کی خاص شہرت بھی رکھتے تھے.اگر کسی شخص کے نسب کا کوئی معاملہ در پیش آتا تو لوگ ان ماہرین انساب کی طرف رجوع کرتے تھے.33

Page 57

نسب مبنی بر نکاح آنحضور صلی ا ہم کو نسب کے لحاظ سے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ صل علی مہم کا خاص سلسلہ آباء نکاح پر مبنی ہے.جیسا کہ آپ صلی علیم نے فرمایا خَرجت من نكاح.ولم اخرجُ مِن سفاح مِن لَدُن آدمَ لم يُصِبنِي مِن سفاح أهل الجاهلية شئى لم اخرج الا من طهره “ یعنی میری پیدائش نکاح سے ہوئی.میں گناہ سے نہیں پید اہو ا.آدم سے لیکر یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی میرے سلسلہ آباء میں گناہ کا شائبہ تک نہیں.میں اس سلسلہ آباء کے پاک تخم سے ہی ہوا ہوں.(29) مطہر سلسلہ امہات: آنحضور صلی الم کا سلسلہ نسب جسطرح والد کی طرف سے مظہر ہے اسی طرح والدہ کی طرف سے بھی پشت در پشت مطہر ہے.مثلا ھشام بن محمد اپنے والد کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضور صلی الم کے نسب نامہ میں 500 ماؤں کے نام لکھے ان میں سے ایک کے متعلق بھی سفاح یعنی گناہ کا شائبہ تک نہ تھا.حتی کہ خاص زمانہ جاہلیت میں بھی.(30) تاریخ وسیرت کی متعدد کتب میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی علیہ کی اپنی جذات یعنی دادیوں پر فخر کیا کرتے تھے کیونکہ آپ کی تمام نسبی دادیاں نہایت پاکباز تھیں اور انکی اولاد معروف نکاح کے نتیجہ میں ہوئی.آپ فرمایا کرتے تھے میں عواتک اور فواطم کی اولاد ہوں.عواتک عاتکہ کی جمع ہے جسکے معنی پاکدامن کے ہیں اور فواطم فاطمہ کی جمع ہے جسکے معنی ایسی اونٹنی کے ہیں جس کا دودھ چھڑایا گیا ہو.اور عرب میں فاطمہ نیک خواتین کا لقب ہوا کر تا تھا.(31) شرک سے پاک سلسلہ آباء: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: عرب کی تاریخ دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بجز آنحضرت ملی ایام کے سلسلہ اجداد کے جن کو اللہ جل شانہ نے اپنے خاص فضل و کرم سے شرک اور دوسری بلاوں سے بچائے رکھا باقی تمام لوگ عیسائیوں 34

Page 58

کے بد نمونہ کو دیکھ کر اور انکی چال چلن کی بد تاثیر سے متاثر ہو کر انواع اقسام کے قابل شرم گناہوں اور بد چلنیوں میں مبتلا ہو گئے تھے “ ( نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 341 حاشیہ) چونکہ آنحضرت ملا لیا اور آپ کی والدہ ماجدہ کے متعلق کبھی کسی کافر کو ایسا وہم و گمان بھی نہ ہوا تھا بلکہ سب کے نزدیک آپ اپنی ولادت کی رُو سے طیب اور طاہر تھے اور آپ کی والدہ عفیفہ اور پاک دامن تھیں اس لئے آپ کی نسبت یا آپ کی والدہ ماجدہ کی نسبت ایسے الفاظ بیان کرنے ضروری نہ تھے کہ وہ مش شیطان سے پاک ہیں“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 5 صفحہ 343) اور پھر الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (الشعراء: 218، 220) کی تشریح میں آپ صلی علیہ نیم کے مقدس و مطہر نسب اور علو خاندان ہونا ثابت کیا ہے.اسی طرح اس مضمون کو دوسرے مفسرین نے بھی بیان کیا ہے.یہاں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم عرب کی تاریخ پڑھتے ہیں تو مجموعی طور پر تمام عرب اور حتی کہ نسل اسماعیل کے مولد و مسکن مکہ اور اسکے باسی قریش بھی اسی شرک میں مبتلا نظر آتے ہیں پھر آپ کے خاندان کا شرک سے محفوظ رہنا کیسے ممکن ہوا.یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آنحضرت علی کیم کے سلسلہ اجداد سے مراد تمام قریش نہیں بلکہ وہ خاص لڑی ہے جسکا ذکر وَتَقَلُّبَكَ في السَّاجِدِينَ میں ہوا ہے.جس میں آپ میلی لیے کم کا مقدس تخم پشت در پشت منتقل ہو تا رہا.اس سلسلہ میں آپ صلی للہ کر کے چھاؤں کا ہوناضروری نہیں.اسی طرح آپ صلی للی ریم کے سلسلہ آباء میں اگر کوئی عم (چا) مشرک بھی ہو تو اس سے آپ مصلی علی ایم کے خاص سلسلہ آباء کی پاکیزگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا.مثلا آذر بھی عم ابراہیم تھا حالانکہ قرآن میں ابراہیم کا باپ (آب ) کہا گیا ہے اور اسکا مشرک ہونا بھی قرآن سے ثابت ہے.لہذا سلسلہ آباء واجداد سے یہاں مراد بالخصوص ایک معین لڑکی ہے جسے خدا نے اپنے خاص فضل سے تمام نجاستوں سے محفوظ رکھا.جب ہم آنحضور ملیالم کے نسب نامہ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں اس خاندان میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو شرک اور دوسری بلاؤں اور نجاستوں سے بچائے گئے تھے.حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے قرب کے زمانہ میں تو لازماً اس خاندان میں توحید خالص پر قائم افراد بکثرت موجود ہوں گے.لیکن جب رفتہ رفتہ عرب میں شرک عام ہو تا گیا (جسکے اصل محرک عیسائی تھے ) اور جاہلیت عروج پر پہنچ گئی حتی کہ مکہ بھی بتوں کا تیر تھے بن گیا اس دور میں بھی اس خاندان میں توحید پرست بلکہ الہام کا درجہ پانے والے افراد موجود نظر آتے ہیں.35

Page 59

دادا عبد المطلب: آپ صلی علی یلم کے دادا عبد المطلب کے ساتھ خدا تعالیٰ کا جو سلوک تھا وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشرک نہ تھے.زم زم کی تلاش ایک کشف کے نتیجہ میں ہوئی (32) نیز ابرہہ الاشرم کی تباہی کا واقعہ جو سورت الفیل میں مذکور ہے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عبد المطلب ہر گز مشرک نہ تھے بلکہ توحید پر قائم تھے.والد ماجد عبد الله : آنحضور صلی ال نیم کے والد ماجد عبد اللہ کے متعلق بھی کتب تاریخ میں بڑی تفصیلات ملتی ہیں.حضور نے آپ کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی الله وسلم کے والد ماجد عبد اللہ مشرک نہ تھے “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 23) کتب تاریخ وسیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ایک نہایت شفقت کا سلوک تھا.مثلا عبد المطلب نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ انکو دس بیٹے عطا فرمائے گا تو ایک بیٹا اللہ کی خاطر ذبح کریں گے.چنانچہ جب دس بیٹے ہو گئے تو قرعہ ڈالا گیا جو عبد اللہ کے نام کا نکلا.جو سب سے چھوٹے اور پیارے تھے.اور عبد اللہ بھی اس قربانی کے لئے تیار ہو گئے.لیکن دوسرے رشتہ داروں، اور ننہال کی طرف سے شدید اصرار پر اونٹوں کے مقابل قرعہ ڈالا گیا.اسطرح پہلے دس پھر میں پھر پچاس اور ساٹھ اونٹوں کا قرعہ ڈالا گیا، ہر دفعہ قرعہ عبد اللہ کے نام کا نکلا.آخر جب ۱۰۰ اونٹوں کے برابر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹوں کے نام کا نکلا اس طرح عبد اللہ کے بدلہ سو اونٹ ذبح کئے گئے.(33) انسان کی قربانی کا رواج دنیا کے باقی حصوں کی طرح عرب میں بھی تھا شاید اسماعیل کی قربانی کی یاد میں تھا.لیکن اس قربانی میں فرق یہ تھا کہ بتوں یا دیوی دیوتاؤں کی بجائے یہ نذر محض خدا تعالیٰ کی خاطر مانی گئی تھی.عبد اللہ کا اس طرح سنت اسماعیلی" پر عمل کرتے ہوئے قربانی کے لئے تیار ہو جانا اور پھر تقدیر الہی سے بچائے جانا اس بات کی علامت تھا کہ ان سے خدا تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا.ایساسلوک اور ایسی توجہ خداوندی تقاضا کرتی ہے کہ وہ شرک کی ناپاکی سے بچائے جاتے.پھر عبد اللہ کی پاکدامنی کے واقعات بھی کتب سیرت و تاریخ میں مذکور ہیں.جیسے بیان کیا جاتا ہے کہ عبد اللہ پر ایک عورت فریفتہ تھی، وہ انکے چہرے پر نور الہی دیکھتی تھی اس نے عبد اللہ کو اپنی طرف بلایا لیکن عبد اللہ نے سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے قبول نہ کیا.36

Page 60

اس عورت نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اتنے اونٹ پیش کرتی ہے جتنے انکی نذر پر قربان ہوئے تھے.(34) گویاوہ ایک امیر اور صاحب اختیار عورت تھی لیکن عبد اللہ نے اس کی اس دعوت کو ٹھکرا دیا.یہ عمل اس بات کی علامت تھا کہ عبد اللہ فطر تأنیک اور پاکدامن تھے اور ایسی نیکی اور پاکد امنی مشرکوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے.والد ماجد عبد اللہ کی وفات: والد ماجد عبد اللہ کی وفات کے بارہ میں مشہور روایات یہی ہیں کہ انکی وفات حضرت رسول کریم صلی ال نیم کی ولادت سے چند ماہ پہلے ہوئی تھی گویا آپ صلی علی یم یتیم پیدا ہوئے.لیکن دوسری طرف یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ والد ماجد عبد اللہ کی وفات آپ میلی لی نام کی ولادت کے چند ماہ بعد ہوئی.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے: تاریخ کو دیکھو.کہ آنحضرت صلی اللہ ہم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا.اور ماں چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی.تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا.بغیر کسی سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا“ پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 465) الله ثمانية وعشرون شهرا.جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ دونوں قسم کی روایات موجود ہیں ذیل میں چند مثالیں ان روایات کی دی جاتی ہیں.ابن سعد کی روایت ہے توفّی عبداللہ بن عبدالمطلب بعد ما اتى على رسول یعنی عبد اللہ بن عبد المطلب کی وفات اس وقت ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی علی کریم کی عمر اٹھائیس ماہ تھی.(35) محمد ابن جریر نے بیان کیا ہے کہ توفی عبداللہ ابو رَسُول الله بعد ما اتى على رسُول الله ثمانية وعشرون شهرًا.یعنی عبد اللہ ابور سول اللہ کی وفات اسوقت ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی علی یم کی عمر اٹھائیس ماہ تھی (36) اسی طرح ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ عبد اللہ کی وفات اسوقت ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی للی کم کی عمر دوماہ تھی.(37) اگر چہ عام مورخین نے پیدائش سے پہلے والی روایات کو زیادہ بیان کیا ہے لیکن معیار کے لحاظ سے دونوں قسم کی روایات بر ابر ہیں.اور جتنی بھی مستند کتب تاریخ نہیں ان میں یہ دونوں قسم کی روایات برابر مذکور ہیں.37

Page 61

سیدہ آمنه : عبد اللہ اور آمنہ کی شادی کے بارے میں بھی تفصیل سے روایات ملتی ہیں کہ دونوں کے بزرگوں کی رضامندی اور اس زمانہ کے معروف طریق کے مطابق نکاح ہوا.سیدہ آمنہ سید الکونین صلی میں کمی کی ماں نہایت نیک پارسا خاتون تھیں.کشف والہام پانے والی خاتون تھیں روایات میں درج ہے کہ حضرت آمنہ نے آنحضور صلی یک کم کی ولادت سے قبل خواب دیکھا کہ انکے بطن سے نور نکلا ہے جس نے اکناف عالم کو منور کر دیا ہے.(38) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سیدہ آمنہ کے ملہمہ ہونے کی تصدیق ان الفاظ میں فرمائی ہے: ” یہی مثیل موسیٰ تھا جسکا نام محمد ہے.اس نام کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا.خدا جانتا تھا کہ بہت سے نافہم مذمت کرنے والے پیدا ہوں گے اس لئے اس نے اس کا نام محمد رکھ دیا.جبکہ آنحضرت شکم آمنہ عفیفہ میں تھے تب فرشتہ نے آمنہ پر ظاہر ہو کر کہا تھا کہ تیرے پیٹ میں ایک لڑکا ہے جو عظیم الشان نبی ہو گا اس کا نام محمد رکھنا“ ( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 522) سیرت النبی لا بن ھشام میں روایت درج ہے کہ حین حملت (امنہ) برسول الله- فقيل لها انك قد حملت (39) بسيد هذه الامة فاذا وقع الى الارض فقُولى أعيذ باللهِ الوَاحِدِ مِن شَرِّ كُلّ حاسد ثمّ سمّيه محمد اس روایت میں فقولى أعيذ بالله الواحد) سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آمنہ کو خدا تعالیٰ نے توحید کی تعلیم بھی سکھائی تھی.اور وہ اسی پر قائم تھیں.الغرض نبیوں کے سردار سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی للہ ہم کو جو بے انتہا فضیلتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی علیہ ظلم کا سلسلہ آباء چاہے وہ جڑی ہو یا امہاتی ہر دور میں نیک، توحید پرست اور خدا کے مقربین سے پڑ رہا ہے.اور آپ کے مقدس تخم میں شرک و سفاح کا شائبہ تک نہیں.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَ سَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيْدٌ.38

Page 62

حوالہ جات باب اوّل 1.(البقرہ:30.ابراہیم : 36 تا 38- الصافات: 102) ( پیدائش باب 21 آیت 13) 2.(عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد پال پروفیسر کر سچن کالج لاہور ، شائع کردہ پنجاب ریلیجیس بک سوسائیٹی ، انار کلی ، لاہور ، مطبع اتحاد پریس لاہو ر پاکستان ، صفحہ.37) 3- ( تاریخ الامم والملوک محمد ابن جریر الطبری.جلد 2.صفحہ 183 باب ذکر نسب رسول اللہ و ذکر بعض آبائه واجداده، مطبوعہ دار الفکر بیروت (+2002 4.(سیرت النبی ابن ہشام صفحہ 46 باب قصر عمرو بن لحی وذکر اصنام العرب مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 5- ( معجم البلدان از الشیخ الامام شہاب الدین ابی عبد الله الحموی الرومی البغدادی، دار صادر بیروت لبنان 1399ھ.جلد 5.صفحہ 204 ذکر منات.) 6.(ماخوز از تمدن عرب گستاولی بان“.اردو ترجمه از سید علی بلگرامی.صفحہ 199.شائع کردہ مقبول اکیڈمی لاہور.مطبع شیخ پر نٹر ز ، لاہور ) 7.(سیرت الحلبیہ - جلد 3 صفحہ 296.باب سریہ اسامہ بن زید.مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء) رض 8.(سنن النسائی.باب الاستنتار عند الاغتسال حدیث 409) 9.( بخاری کتاب النکاح باب من قال لا نکاح الا بولی حدیث 5127) 10.History of The Arabs, By Philip K Hitti 4th Edition, Macmillan & Co publisher and printers Ltd, London ,1949, page 88-89.11.( تاریخ ایران، از مقبول بیگ بدخشان، جلد 1 صفحہ 310 ناشر سید امتیاز علی، مطبع شفیق پریس لاہور طبع اول 1967 ء) 12.(سیرت النبی لابن ہشام جلد 1 صفحہ 166-167 حدیث اسلام سلمان فارسی مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 13.(ستیارتھ پر کاش کا مستند اردو ترجمہ ، جین مت اور بت پرستی صفحه 414 415 مصنفه مهرش سوامی دیانند سرسوتی ، مترجم رادھا کشن، پبلشر لالہ کیشور رام، بار ششم، 2001 بکرمی، پرنٹر ز لالہ کیشور رام پرنٹرز، لاہور.) 14.History of The Arabs - Philip K.Hitti, page 106 15- ( عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد یال پروفیسر کر سچن کالج لاہور، شائع کردہ پنجاب ریجیں بک سوسائیٹی ، انار کلی ، لاہور ، مطبع اتحاد پر لیس لاہو ر پاکستان.صفحہ 40-41) 16.( تاریخ مسیحی کلیسیا 33 تا600 عیسوی.از پادری کین ڈبلیو پی ہیرس صفحہ 297 تا 301.کر چھین نالج سوسائیٹی انار کلی لاہور.ایڈیشن 2.(1939 17- ( الطبقات الکبرای لابن صفحہ 57، باب ذکر ابی طالب و ضمہ رسول اللہ الخ مطبوعہ دار حیات التراث العربی بیروت 1996ء) 18.(Life of Mahomet by Sir William Muir LLD.page 9, Under introduction pre historical notes of Mecca.London 1878) 19.( بخاری کتاب احادیث الا نبیاء، حدیث 3364) 20.( بخاری کتاب المناقب، مناقب قریش) 21.(سیرت النبی گابن ہشام صفحہ 25 باب سیاقة النسب من ولد اسماعیل، اصل العرب مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 22.(الطبقات الکبرای لابن سعد، جلد 1 صفحه 5 ذكر من انتمی الیہ رسول اللہ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) 39

Page 63

23.(خطبات احمد یہ از سر سید احمد خان خطبہ نمبر 8 صفحہ 306 تا340 ادارہ دعوۃ الفرقان) 24.(یسعیا باب 21 آیت 13 تا 18) 25.(پرانا عہد نامہ.پیدائش باب (21) 26- ( تفسیر ابن کثیر لابی الفدا ابن کثیر ، جلد 4 صفحہ 211.سورۃ تو به زیر آیت لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ) 27- ( تفسیر کبیر از امام رازی جلد 8 جزء 16 صفحہ 187 زیر آیت لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ ) 28- ( الطبقات الکبرای لابن سعد جلد اول صفحه 24، نسب رسول اللہ صلی ال کی مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) م الله 29.( الطبقات الکبرای لابن سعد جلد اول صفحہ 26، نسب رسول اللہ صلی الی کی مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) 30.( الطبقات الکبرای لابن سعد جلد اول صفحہ 60، نسب رسول اللہ صلی ا لم ) الله سة 31.(سیرت الحلبیه از برہان الدین علی الحلبی جلد 1 صفحہ 62 باب تزویج عبد اللہ ابی لنبی مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2002ء) 32 - ( سیرت النبی لابن ہشام ذکر حفر زمزم.جلد 1 صفحہ 118 مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 33.(سیرت النبی لابن ہشام جلد 1 صفحہ 126 ذکر نذر عبد المطلب و زیبح ولده نجاة عبد الله من الذبح مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 34.(سیرت النبی گلابن ہشام جلد 1 صفحہ 127 زیر عنوان ذكر المراة المتعرضة لنكاح عبد اللہ ابن عبد المطلب مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت (+2001 35.( الطبقات الکبرای لابن سعد جلد اصفحہ 101، وفات عبد اللہ ) 36- ( تاریخ الامم و الملوک لمحمد ابن جریر الطبری.ذکر مولد و رسول اللہ.جلد 2 صفحہ 139.مطبوعہ دار الفکر بیروت 2002ء) 37.(البدایہ والنھایہ لابن کثیر.وفات عبد اللہ ابن المطلب جلد 1 جزء دوم صفحہ 286 باب سیر ۃ رسول اللہ محتی مبعثہ دار الکتب العلمیہ بیروت (2001 38.(سیرت النبی لابن ہشام.ذکر ولادة رسول اللہ.ذکر ما قیل آمنه عند حملها برسول اللہ مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 39.(سیرت النبی لابن ہشام جلد 1 - صفحہ 128، ذکر ماقبل آمنه عند حملها برسول اللہ مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001ء) 40 40

Page 64

باب دوم ولادت، بچپن، جوانی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضور علی ایم کے ابتدائی حالات یعنی ولادت باسعادت، رضاعت و ایام طفولیت جوانی اور شادی کے حالات و واقعات پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی ہے اس باب میں ولادت تا قبل نزول وحی کے حالات بیان کئے گئے ہیں.ولادت با سعادت: کتب تاریخ و سیرت میں آپ صلی للی کم کی ولادت و بچپن کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے ان واقعات سے آپ نے اپنی تحریرات و فرمودات میں سیرت کے نہایت اعلیٰ پہلووں کو منکشف فرمایا ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.” وہی خدا جو تجھے دیکھتا ہے جب تو دعا اور دعوت کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہی خدا جو تجھے اسوقت دیکھتا تھا کہ جب تو تخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلا آتا تھا.یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ معصومہ کے پیٹ میں پڑا“ ( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 281) بر ہمو سماج کے ایک پر چارک نے آنحضور صلی اللی نام کی سیرت کے متعلق ایک کتاب بعنوان، سوانح عمری حضرت محمد صاحب تحریر کی جس میں انہوں نے عموماً بہت اچھے رنگ میں سیرت النبی صلی علی ایم کے واقعات درج کئے ہیں.آپ نے اس کتاب کو پسند فرمایا اور اسکے متعلق فرمایا کہ ”مولف کتاب نے اپنی دیانت داری اور انصاف پسندی اور حق گوئی اور بے تعصبی کا عمدہ نمونہ دکھلایا ہے“ (روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت صفحہ 255) حضور نے بطور نمونہ اس کتاب کی چند تحریرات کو چشمہ معرفت میں درج فرمایا ہے.ان منتخب حصوں میں ایک جگہ درج ہے.غرض جس وقت عرب کی یہ حالت تھی جو اوپر مذکور ہوئی تب حضرت محمد صاحب عرب کے ایک مشہور اور معروف قبیلہ قریش کی شاخ بنی ہاشم میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اس لئے آپ کو اس قدر تعلیم پانے کا بھی موقعہ نہ ملا کہ وہ ماں باپ کے زیر سایہ اپنی 41

Page 65

مادری زبان کو سیکھ سکتے بلکہ پیدا ہوتے ہی دودھ پلانے کے لئے ایک دیہاتی اور گنوار دایہ کے سپر دکئے گئے اور دن رات ایک گنواری زبان سے ان کو واسطہ پڑا“ (روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت صفحه 256) تاریخ اسلام اور سیرت النبی کی ابتدائی کتب میں نبی اکرم صلی علیم کی تاریخ ولادت معین طور پر درج نہیں ہے لیکن بعد کے مورخین و محققین نے اصل تاریخ ولادت معلوم کرنے کی کوشش کی ہے.اگر چہ اس میں بھی اختلاف موجود ہے.بعض مورخین نے یہ تاریخ ولادت بیان کی ہے جو درست معلوم ہوتی ہے 9ر بیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 بروز پیر (1) آنحضور صلی ایم کی ولادت کے وقت رونما ہونے والے بہت سے واقعات بیان کئے جاتے ہیں کہ ایک نور نے بصری کے محلات کو روشن کر دیا.(2) در یہ کہ آپ کی ولادت کے وقت فارس کے ایوانوں میں زلزلہ آیا جس سے اس کے 14 ستون ٹوٹ گئے اور فارس کے مقدس آتشکدوں کی آگ بجھ گئی.(3) نیز یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی می کنم مختون پیدا ہوئے (4) مکہ میں پید اہونے میں حکمت: میں دیکھتا ہوں گرمیوں کو بھی روحانی ترقی کے ساتھ خاص مناسبت ہے آنحضرت علی الم کو دیکھو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مکہ جیسے شہر میں پیدا کیا اور پھر آپ ان گرمیوں میں تنہا غارِ حرا میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے وہ کیسا عجیب زمانہ ہو گا.آپ کہی ایک پانی کا مشکیزہ اُٹھا کر لے جاتے ہوں گے “ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 316) اسم محمد واحمد : سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں نہایت تفصیل سے آنحضور صلی علیکم کا نام مبارک محمد اور احمد رکھے جانے کے متعلق پر معارف نکات بیان فرمائے ہیں.42

Page 66

الہامی نام: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: یہی مثل موسیٰ تھا جس کا نام محمدؐ ہے.اس نام کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا.خدا جانتا تھا کہ بہت سے نافہم مذمت کرنے والے پیدا ہوں گے اس لئے اس نے اس کا نام محمد رکھ دیا.جبکہ آنحضرت شکم آمنہ عفیفہ میں تھے.تب فرشتہ نے آمنہ پر ظاہر ہو کر کہا تھا کہ تیرے پیٹ میں ایک لڑکا ہے جو عظیم الشان نبی ہو گا اس کا نام محمد رکھنا“ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15، صفحہ 522) پیغمبر خداصلی ایام کے وقت میں لوگ تو آپ کی مذمت کیا کرتے تھے مگر آپ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ ان کی مذمت کو کیا کروں میرا نام تو خدا نے اول ہی محمد علی ایم رکھ دیا ہوا ہے “.( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 59) کتب احادیث وسیرت سے بھی یہی بات عیاں ہے کہ یہ نام مبارک الہامی ہے.نیز اس کے الہامی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ان ناموں کا قرآن میں وارد ہونا ہے.قرآن کریم میں اسم محمد متین دفعہ آیا ہے اور ایک دفعہ اسم احمد آیا ہے.(5) ان ناموں کے الہامی ہونے کے متعلق کتب احادیث و سیرت میں سے چند روایات یہ ہیں.عن ابی جعفرا بنُ محمد بن عَلى أُمِرَتْ آمِنهُ وهيَ حَامِلَهُ بِرَسُولِ اللهِ أَن تُسَمِّيهِ احمد - یعنی جب حضرت آمنہ رسول اللہ صلی علیکم کے حمل سے تھیں تو انہیں یہ حکم دیا گیا کہ آپ کا نام احمد ر کھیں (6) سیرت النبی گلا بن ھشام میں روایت درج ہے كم حين حملت (امنه) برسُولِ اللهِ فقيلَ لَهَا إِنك قد حملت بسّيدِ هذهِ الأُمةِ فإِذا وَقَع إلى الارضِ فَقُولى أعيذه بالواحدِمِن شَرِّ كلّ حاسِدٍثم سمّيه محمدًا (7) یعنی جب حضرت آمنہ آنحضور صلی ال نیم کے حمل سے تھیں تو ان کو کہا گیا کہ یقینا آپ اس اُمت کے سردار کی ماں بننے والی ہیں پس یہ کہو کہ میں ہر شر سے خدائے واحد کی پناہ مانگتی ہوں اور اس بچہ کا نام محمد رکھو.اس روایت اور اس قسم کی متعدد روایات جو کتب سیرت میں موجود ہیں سے صاف ظاہر ہے کہ آپ صلی للی ملک کا نام احمد اور محمد الہامی نام تھے پھر کتب سیرت میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ 43

Page 67

ر المطلب کو یہ نام خواب کے ذریعہ بتایا گیا.اور انہوں نے آپ صلی علیہ سلم کی ولادت پر سیدہ آمنہ سے کہا کہ اس بچہ کا نام محمد رکھیں (8) آپ نے فرمایا: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے.محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم.آنحضرت کا اسم اعظم محمد ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے.اسم اللہ دیگر کل اسماء مثلاً حی، قیوم، رحمن، رحیم وغیرہ کا موصوف ہے.حضرت رسول کریم کا نام احمد وہ ہے.جس کا ذکر حضرت مسیح نے کیا ياتي من بعدى اسمه أحمد (الصف:7) من بعدی کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا.یعنی میرے اور اسکے درمیان اور کوئی نبی نہ ہو گا.حضرت موسیٰ نے یہ الفاظ نہیں کہے ، بلکہ اُنہوں نے مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ (سورة الفتح: 30) میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے.جب بہت سے مومنین کی معیت ہوئی جنہوں نے کفار کے ساتھ جنگ کئے.حضرت موسیٰ نے آنحضرت کا نام محمد بتلایا.صلی اللہ علیہ وسلم.کیونکہ حضرت موسیٰ خود بھی جلالی رنگ میں تھے.اور حضرت عیسی نے آپ کا نام احمد بتلایا.کیونکہ وہ خود بھی ہمیشہ جمالی رنگ میں تھے“ اسی طرح آپ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ: ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 443-444) شان جلیل و عظیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مظہر اتم الوہیت ہے جیسے تمام نبی ابتدا سے بیان کرتے آئے ہیں ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے اس شانِ عالی کا اقرار کیا ہے یہ اقرار جابجا انجیلوں میں موجود ہے بلکہ اسی اقرار کے ضمن میں حضرت مسیح علیہ السلام اقرار کرتے ہیں کہ میری تعلیم ناقص ہے کیونکہ ہنوز لوگوں کو کامل تعلیم کی برداشت نہیں مگر وہ روح راستی جو نقصان سے خالی ہے ( یعنی سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کا قرآن شریف میں بھی نام حق آیا ہے) وہ کامل تعلیم لائے گا اور لوگوں کو نئی باتوں کی خبر دے گا.انجیل برنباس میں تو صریح نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو محمد ہے درج ہے اور اس کے ٹالنے کے لئے یہ ناکارہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے کسی زمانہ میں یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کتاب برنباس میں درج کر دیا ہو گا یا خود کتاب تالیف کر دی ہو گی 44

Page 68

گویا مسلمان لوگ کسی رات کو اتفاق کر کے مسیحی کتب خانوں میں جا گھسے اور اپنی طرف سے بر بناس کی انجیلوں میں جابجا محمد نبی نام درج کر دیا یا خود یونانی یا عبرانی زبانوں میں اپنی طرف سے انجیل برنباس بنا کر اور کئی ہزار نسخے اس کے لکھ کر پوشیدہ طور پر جبکہ عیسائی سوتے تھے وہ کتابیں ان کے کتب خانوں میں رکھ آئے لیکن ایک انگریز فاضل عیسائی جس نے کچھ تھوڑا عرصہ ہوا قرآن شریف کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اس نے اپنے دیباچہ میں اس تقریب کے بیان میں کہ انجیل برنباس میں پیش گوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موجود ہے یہ قصہ تحریر کیا ہے کہ برنباس کی انجیل پوپ پنجم کے کتب خانہ میں تھی اور ایک راہب جو اس پوپ کا دوست تھا اور مدت سے اس انجیل کی تلاش میں تھا.وہ پوپ کی الماری میں جبکہ پوپ سویا ہوا تھا اس انجیل کو پا کر بہت خوش ہوا اور کہا کہ یہ میری وہ مراد ہے جو مدت کے بعد پوری ہوئی اور اس انجیل کو اپنے دوست پوپ کی اجازت سے لے گیا اور نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھلا کھلا انجیل میں لکھا ہوا دیکھ کر مسلمان ہو گیا پس اس فاضل انگریز کی اس تحریر سے جو ہمارے پاس موجود ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہ کتاب پوپوں کے کتب خانوں میں چاروں انجیلوں میں شامل کر کے عزت کے ساتھ رکھی جاتی تھی تبھی تو ایسے ایسے بزرگ اور فاضل راہب اس انجیل کو پڑھ کر مسلمان ہوتے تھے اس انگریز کا نام جارج سیل صاحب ہے جو اکابر علماء عیسائیوں سے ہے ان کا ترجمہ قرآن شریف جو ان کی طرف سے شائع ہو کر مطبع لنڈن فریڈرک وارن اینڈ کمپنی میں چھپا ہے اس کے پہلے دیباچہ میں مؤلف موصوف نے یہ عجیب تذکرہ کہ ایک بزرگ راہب انجیل بر بناس پڑھ کر اور اس میں پیشگوئی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کھلے کھلے طور پر پاکر مسلمان ہو گیا تھا اس طور سے (جو نیچے لکھا جاتا ہے) بیان کیا ہے.فرامیر مینو جو ایک عیسائی مانک یعنی ایک بزرگ راہب تھا وہ بیان کرتا ہے کہ اتفاقیہ مجھ کو ایک تحریر آبرنس صاحب کی (جو ایک فاضل مسیحیوں سے ہے) منجملہ اس کی اور تحریروں کے جن میں وہ پولوس کے بر خلاف ہے نظر سے گزری اس تحریر میں آبرنس صاحب (جو پولوس عیسائی کے مخالف ہیں) اپنے بیان کی صداقت کی بابت انجیل برنباس کا حوالہ دیتے ہیں.تب میں اس بات کا نہایت شائق ہوا کہ انجیل برنباس کو میں بھی دیکھوں اور اتفاقاً تقریب یہ نکل آئی کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے پوپ پنجم کا مجھ سے اتحاد و دوستانہ کرادیا.ایک روز جبکہ پوپ موصوف کے کتب خانہ میں ہم دونوں اکٹھے تھے اور پوپ صاحب سو گئے تھے میں نے دل بہلانے کو ان کی کتابوں کا ملاحظہ کرنا شروع کیا سو 45

Page 69

سب سے پہلے جس کتاب پر میرا ہاتھ پڑا وہ وہی انجیل برنباس تھی جس کا میں متلاشی تھا.اس کے مل جانے سے مجھے نہایت درجہ کی خوشی پہنچی اور میں نے یہ نہ چاہا کہ ایسی نعمت کو آستین کے نیچے چھپا رکھوں.تب میں پوپ صاحب کے جاگنے پر ان سے رخصت ہو کر وہ آسمانی خزانہ اپنے ساتھ لے گیا جس کے پڑھنے سے مجھے دین اسلام نصیب ہوا.دیکھو صفحہ دہم ۰ اسطر چهارم ۴ ترجمہ قرآن شریف جارج سیل صاحب.پھر صفحہ ۵۸ سطر ۲۴.اسی ترجمہ میں جارج سیل صاحب اپنے عیسائی تعصب کے جوش سے یہ بے دلیل اور مہمل رائے لکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل برنباس میں لفظ پیری قلیط (جس کا ترجمہ محمد ہے) مسلمانوں نے داخل کر دیا ہو گا مگر یقین کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب اصلی جعل مسلمانوں کا نہیں.یعنی مسلمانوں نے اس میں صرف اس قدر جعل کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی پیش گوئی بتصریح نام اس میں لکھ دی ہے اور جعل یہ اس لئے ٹھہرا کہ یہ پیشگوئی صریح صریح اس میں موجود ہے جس کا ماننا حضرات عیسائیوں کو کسی طور سے منظور ہی نہیں اور لطف یہ کہ آپ ہی اقراری ہیں کہ اس پیش گوئی کو پڑھ کر بڑے بڑے نیک بخت اور فاضل راہب مسلمان ہوتے رہے ہیں فتند بر.منہ“ سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2، حاشیہ صفحہ 287-290) مصداق اسم محمد صلى الله : سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد تحریرات میں آپ صلی للی کم کا نام مبارک محمد و احمد رکھے جانے میں پنہاں حکمتوں کو نہایت لطیف پہلوؤں سے بیان فرمایا ہے.ذیل میں آپ کی چند تحریرات درج کی جاتی ہیں.سراپا محمد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا؟ تو انسان وجد میں آکر اللهم صلی علے محمد کہہ اٹھتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں.کہ یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے.قرآن شریف اور دنیا 46

Page 70

کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم نے کیا کیا.ورنہ وہ کیا بات تھی کہ جو آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب:57) کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی.پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلایا، صلی اللہ علیہ والہ وسلم.عادت اللہ اسی طرح پر ہے.زمانہ ترقی کرتا ہے.آخر وہ زمانہ آگیا جو خاتم النبین کا زمانہ تھا جو ایک ہی شخص تھا.جس نے یہ کہا : قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (7:159) کہنے کو تو یہ چند الفاظ ہیں.اور ایک اندھا کہہ سکتا ہے کہ معمولی بات ہے مگر جو دل رکھتا ہے وہ سمجھتا ہے اور جو کان رکھتا ہے وہ سنتا ہے.جو آنکھیں رکھتا ہے وہ دیکھتا ہے.کہ یہ الفاظ معمولی الفاظ نہیں ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ معمولی لفظ تھے ، تو بتلاؤ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یا مسیح کو یا کسی نبی کو بھی یہ طاقت کیوں نہ ہوئی کہ وہ یہ لفظ کہہ دیتا.اصل یہی ہے کہ جس کو یہ قوت یہ منصب نہیں ملاوہ کیونکر کہہ سکتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ کسی نبی کو یہ شوکت یہ جلال نہ ملا جو ہمارے نبی کریم کو ملا.بکری کو اگر ہر روز گوشت کھلاؤ، تو وہ گوشت کھانے سے شیر نہ بن سکے گی.شیر کا بچہ ہی شیر ہو گا.پس یاد رکھو کہ یہی بات سچ ہے کہ اس نام کا مستحق اور واقعی حقدار ایک تھا.جو محمد کہلایا.یہ داد الہی ہے.جس کے دل و دماغ میں چاہے.یہ قوتیں رکھ دیتی ہے اور خداخوب جانتا ہے کہ ان قوتوں کا محل اور موقعہ کونسا ہے.ہر ایک کا کام نہیں کہ اس راز کو سمجھ سکے اور ہر ایک کے منہ میں وہ زبان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا جب تک روح القدس کی خاص تائید نہ ہو یہ کام نہیں نکل سکتا.رسول اللہ میں وہ ساری قوتیں اور طاقتیں رکھی گئی ہیں جو محمد بنا دیتی ہیں تا کہ بالقوة باتیں بالفعل میں بھی آجاویں، اس لئے آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ایک قوم کے ساتھ جو مشقت کرنی پڑتی ہے.تو کس قدر مشکلات پیش آتی ہیں.ایک خدمت گار شریر ہو تو اس کا درست کرنا مشکل ہو جاتا ہے.آخر تنگ اور عاجز آکر اس کو بھی نکال دیتا ہے.لیکن وہ کس قدر قابل تعریف ہو گا جو اسے درست کر لے اور پھر وہ تو بڑا ہی مرد میدان ہے جو اپنی قوم کو درست کر سکے ، حالانکہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں.مگر وہ جو مختلف قوموں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا.سوچو تو سہی کس قدر کامل اور زبر دست قویٰ کا مالک ہو گا.مختلف طبیعت کے لوگ، مختلف عمروں، مختلف ملکوں، مختلف خیال، مختلف قوی کی مخلوق کو ایک ہی تعلیم کے نیچے رکھنا اور پھر ان سب کی تربیت کر کے دکھا دینا اور وہ تربیت بھی کوئی جسمانی نہیں بلکہ روحانی تربیت، خداشناسی اور 47

Page 71

معرفت کی باریک سے باریک باتوں اور اسرار سے پورا واقف بنا دینا اور نری تعلیم ہی نہیں بلکہ عامل بھی بنا دینا یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے.دنیا کے لئے اجتماع بھی ہو سکتے ہیں.کیونکہ ان میں ذاتی مفاد اور دنیوی لالچ کی ایک تحریک ہوتی ہے.مگر کوئی یہ بتلائے کہ محض اللہ کے لئے پھر ایسے وقت میں کہ اس جلالی نام سے کل دنیانا واقف ہو اور پھر ایسی حالت میں اس کا اقرار کرنا کہ دنیا کی تمام مصیبتوں کو اپنے سر پر اٹھا لینا ہو.کون کسی کے پاس آسکتا ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی عظیم الشان قوت جذب کی نہ ہو کہ بے اختیار ہو ہو کر دل اس کی طرف بھیج آویں اور وہ تمام تکلیفیں اور بلائیں ان کے لئے محسوس اللذات اور مدرک الحلاوت ہو جاویں.اب رسول اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کی طرف غور کرو تو پھر کیسا روشن طور پر معلوم ہو گا کہ آپ ہی اس قابل تھے کہ محمد نام سے موسوم ہوتے اور اس دعویٰ کو جیسا کہ زبان سے کیا گیا تھا.إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اپنے عمل سے بھی کر دکھاتے؛ چنانچہ وہ وقت آگیا کہ اِذا جَاءَ نَصْرُ الله وَالفتحُ وَرَايتَ النَّاسَ يَدخلُونَ فِي الله أفواجاً (النصر: 302) اس میں اس امر کی طرف صریح اشارہ ہے کہ آپ اس وقت دنیا میں دينِ آئے جب دین اللہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور گئے اس وقت کہ جبکہ اس نظارے کو دیکھ لیا کہ یدخلون في دِينِ اللهِ اَفوَاجاً.جب تک اس کو پورا نہ کر لیا.نہ تھکے نہ ماندے ہوئے.مخالفوں کی مخالفتیں، اعداء کی سازشیں اور منصوبے، قتل کرنے کے مشورے، قوم کی تکلیفیں آپ کے حوصلہ اور ہمت کے سامنے سب بیچ اور بے کار تھیں.اور کوئی چیز ایسی نہ تھی جو آپ کو اپنے کام سے ایک لمحہ کے لئے بھی روک سکتی ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت تک زندہ رکھا.جب تک کہ آپ نے وہ کام نہ کر لیا جس کے واسطے آئے تھے.یہ بھی ایک ستر ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے جھوٹوں کی طرح نہیں آتے.اسی طرح پر آپ کے صدق نبوت پر آپ کی زندگی سب سے بڑا نشان ہے.کوئی ہے جو اس پر نظر کرے ؟ آپ کو دنیا میں ایسے وقت پر بھیجا کہ دنیا میں تاریکی چھائی ہوئی تھی اور اس وقت تک زندہ رکھا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ: 4) کی آواز آپ کو نہ آگئی اور فوجوں کی فوجیں اسلام میں داخل ہوئیں آپ نے نہ دیکھ لیں.غرض اس قسم کی بہت سی وجوہ ہیں، جن سے آپ کا نام محمد رکھا گیا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 421-422) 48

Page 72

مصداق اسم احمد : زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقام احمد ہے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: پھر آپ کا ایک اور نام بھی رکھا گیا.وہ احمد ہے؛ چنانچہ حضرت مسیح نے اسی نام کی پیش گوئی کی تھی.مُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ (الصف: 7) یعنی میرے بعد ایک نبی آئے گا.جس کی میں بشارت دیتا ہوں اور جس کا نام احمد ہو گا.یہ بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کی حد سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو گا.اس لفظ سے صاف پایا جاتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ کوئی اسی کی تعریف کرتا ہے جس سے کچھ لیتا ہے اور جس قدر زیادہ لیتا ہے اسی قدر زیادہ تعریف کرتا ہے.اگر کسی کو ایک روپیہ دیا جاوے تو وہ اسی قدر تعریف کرے گا اور جس کو ہزار روپیہ دیا جاوے وہ اسی انداز سے کرے گا.غرض اس سے واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے زیادہ خدا کا فضل پایا دراصل اس نام میں ایک پیش گوئی ہے کہ یہ بہت ہی بڑے فضلوں کا وارث اور مالک ہو گا“ اسم احمد و محمد سے مراد دو صفات: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 422-423) فرمایا ” آپ کے مبارک ناموں میں ایک سر یہ ہے کہ محمد اور احمد جو دو نام ہیں ان میں دو جدا جد اکمال ہیں.محمد کا نام جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے.جو نہایت درجہ تعریف کیا گیا.اور اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے.کیونکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے.پس اس میں جلالی رنگ ہوناضروری ہے.مگر احمد کا نام اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتا ہے، کیونکہ تعریف کرنا عاشق کا کام ہے.کیونکہ وہ اپنے محبوب اور معشوق کی تعریف کرتا رہتا ہے.اس لئے جیسے محمد محبوبانہ شان میں جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے اسی طرح احمد عاشقانہ شان میں ہو کر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے.اس میں ایک ستر یہ تھا کہ آپ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کر دی گئی.ایک تو مکی زندگی جو ۱۳ برس کے زمانہ کی ہے اور دوسری وہ زندگی جو مدنی زندگی ہے اور وہ برس کی ہے.مکہ کی زندگی میں اسم احمد کی تجلی تھی.اس وقت آپ 49

Page 73

کی دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و بکاء اور طلب استعانت اور دعا میں گزرتی تھی.اگر کوئی شخص آپ کی اس زندگی کے بسر اوقات پر پوری اطلاع رکھتا ہو ، تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ جو تضرع اور زاری آپ نے اس کی زندگی میں کی وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا.پھر آپ کی تضرع اپنے لیے نہ تھی.بلکہ یہ تضرع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی.خدا پرستی کا نام و نشان چونکہ مٹ چکا تھا.اور آپ کی روح اور خمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذت اور سرور آچکا تھا.اور فطر تا دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے.ادھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو ان کی استعدادیں اور فطرتیں عجیب طرز پر واقعہ ہو چکی تھیں اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا.غرض دنیا کی اس حالت پر آپ گریہ وزاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لَعَلَّكَ بَاخِعُ نَفْسَك أَلَّا يَكُونُوا مُومِنينَ (الشعراء: 4) یہ آپ کی متضر عانہ زندگی تھی.اور اسم احمد کا ظہور تھا.اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے.اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمد کی تجلی کے وقت ہوا“ مظہر رحمانیت و رحیمیت (ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 423) آپ نے اسم محمد کو صفت رحمانیت کا مظہر اور اسم احمد کو صفت رحیمیت کا مظہر قرار دیا ہے.رحمان جلال کو ظاہر کرتا ہے اور رحیم جمال کا مظہر ہے.اس لطیف نکتہ کو آپ نے نہایت وضاحت و صراحت سے بیان فرمایا ہے.”یہی وجہ ہے کہ احمد کا نام مظہر جمال ہے اور اس کے مقابل پر محمد کا نام مظہر جلال ہے.وجہ یہ کہ اسم محمد میں ستر محبوبیت ہے کیونکہ جامع محامد ہے اور کمال درجہ کی خوبصورتی اور جامع المحامد ہونا جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے.لیکن اسم احمد میں سر عاشقیت ہے.کیونکہ حامدیت کو انکسار اور عشقی تذلل اور فروتنی لازم ہے.اسی کا نام جمالی حالت ہے اور یہ حالت فروتنی کو چاہتی ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبوبیت بھی تھی جس کا اسم محمد مقتضی ہے.کیونکہ محمد ہو نا یعنی جامع جميع محامد ہو ناشان 50

Page 74

محبوبیت پیدا کرتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبیت بھی تھی جس کا اسم احمد مقتضی ہے.کیونکہ حامد کے لئے محب ہونا ضروری ہے“ اُمت کے لئے وصیت: ار بعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد 17، صفحه 447-448) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسم محمد اور اسم احمد کے بارے ایک اہم نکتہ یہ بیان فرمایا ہے کہ ان دو مقدس ناموں میں اُمت کے لئے نصیحت و وصیت ہے.جیسا کہ فرمایا: أحمد ومحمد من فبشرى لنا معشر الإسلام قد بعث لنا نبی پس ہم جو اسلام کا گروہ ہیں ہمیں خوشخبری ہو کہ ہمیں بهذه الصفة.وبذا الكمال التام، وسُمّی احمدیت اور محمدیت کی صفت والا نبی ملا اور اس کا نام خدا تعالیٰ الله العلام، ليکون کی طرف سے احمد اور محمد ہوا تا کہ اس کے دونوں نام اُمت بذان الاسمان بلاغا للأمة وتذکیرا لہذا کے لئے ایک تبلیغ ہو.اور اس مقام کے لئے یہ ایک یاد دہانی المقام.الذى بو مقام الفناء والانقطاع و ہو.وہ مقام جو فنا اور غیر اللہ سے منقطع ہونے اور معدوم الانعدام، لترغب الأمة في هذه الصفات ہونے کا مقام ہے تاکہ اُمت ان صفتوں میں رغبت کرے اور کا وتتبع اسمي خير الأنام.وقد نُدب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں ناموں کی پیروی عليهما إذ قيل حكاية عن الرسول : فا کرے اور پیروی کے لئے قرآن شریف میں بُلایا گیا ہے جبکہ تبعُونِي يُحببكم الله فابتزّت أرواحنا عند رسول کی زبان سے کہا گیا کہ آؤ میری پیروی کرو تا خدا تم وعد بذا الجزاء والإنعام، وقلوبنا ملئت سے پیار کرے.پس یہ سن کر کہ یہ انعام ملے گا ہماری شوقا وصارت أشكالها ككؤوس المدام، روحیں جنبش میں آئیں اور ہمارے دل شوق سے بھر گئے اور وما أعظم شأن رسول ما خلا اسمہ من ان کی شکلیں یوں ہو گئیں جیسا کہ شراب سے بھرے ہوئے وصية للامة، بل ملاء من تعليم الطریقۃ، کوزے ہوتے ہیں اور اس رسول کی کیا ہی بلندشان ہے جس کا ويهدى إلى طرق المعرفة، وأُشير في نام بھی وصیت سے خالی نہیں.بلکہ خدا جوئی کے طریقہ کی اسميه إلى منتهى مراحل شبل حضرة اس سے تعلیم ملتی ہے اور معرفت کی راہوں کی طرف وہ العزة، واومى إلى نقطة ختم علیہا سلوک ہدایت کرتا ہے.اور اس میں اس نقطہ کی طرف اشارہ ہے 51

Page 75

أبل المعرفة.اللهم فصل علیہ وسلم ، وآلہ جس پر اہل معرفت کے سلوک ختم ہوتے ہیں اور نیز خدا المطهرين الطيبين، وأصحابہ الذین ہم شناسی کے آخری مقام کی طرف اشارہ ہے.پس اے خدا! أسود مواطن النهار و ريبان اللیالی و نجوم اس نبی پر سلام اور درود بھیج اور اس کے آل پر جو مظہر اور الدین، رضی الله عنهم أجمعين طیب ہیں اور اس کے اصحاب پر جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں اور دین کے ستارے ہیں.خدا کی خوشنودی ان سب کے شامل حال ہے.جماعت کو نصیحت: آپ نے فرمایا نجم الهدی، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 16-17) سو اس نے قدیم وعدہ کے موافق اپنے مسیح موعود کو پیدا کیا جو عیسی کا اوتار اور احمدی رنگ میں ہو کر جمالی اخلاق کو ظاہر کرنے والا ہے اور خدا نے تمہیں اس عیسی احمد صفت کے لئے بطور اعضا کے بنایا.سو اب وقت ہے کہ اپنی اخلاقی قوتوں کا حُسن اور جمال دکھلاؤ.چاہئے کہ تم میں خدا کی مخلوق کے لئے عام ہمدردی ہو اور کوئی چھل اور دھوکا تمہاری طبیعت میں نہ ہو.تم اسم احمد کے مظہر ہو.سو چاہئے کہ دن رات خدا کی حمد و ثنا تمہارا کام ہو اور خادمانہ حالت جو حامد ہونے کے لئے لازم ہے اپنے اندر پیدا کر و اور تم کامل طور پر خدا کی کیونکر حمد کر سکتے ہو جب تک تم اس کو رب العالمین یعنی تمام دنیا کا پالنے والا نہ سمجھو اور تم کیونکر اس اقرار میں بچے ٹھہر سکتے ہو جب تک ایسا ہی اپنے تئیں بھی نہ بناؤ.کیونکہ اگر تو کسی نیک صفت کے ساتھ کسی کی تعریف کرتا ہے اور آپ اس صفت کے مخالف عقیدہ اور خلق رکھتا ہے تو گویا تو اس شخص سے ٹھٹھا کرتا ہے کہ جو کچھ اپنے لئے پسند نہیں کرتا اس کے لئے روار کھتا ہے.اور جبکہ تمہارا رب جس نے اپنی کلام کو رب العالمین سے شروع کیا ہے زمین کی تمام خوردنی و آشامیدنی اشیاء اور فضا کی تمام ہوا اور آسمانوں کے ستاروں اور اپنے سورج اور چاند سے تمام نیک و بد کو فائدہ پہنچاتا ہے تو تمہارا فرض ہونا چاہئے کہ یہی خلق تم میں بھی ہو ورنہ تم احمد اور حامد نہیں کہلا سکتے.کیونکہ احمد تو اس کو کہتے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا ہو.اور جو شخص کسی کی بہت تعریف کرتا ہے وہ اپنے لئے وہی خلق پسند کرتا ہے جو اس میں ہیں اور چاہتا ہے کہ وہ خلق اُس میں ہوں.پس تم کیونکر بچے احمد یا حامد ٹھہر سکتے ہو جبکہ اس خلق کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے.حقیقت میں احمدی بن جاؤ اور یقیناً سمجھو 52

Page 76

کہ خدا کی اصلی اخلاقی صفات چارہی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں مذکور ہیں.(۱) رب العالمین سب کا پالنے والا (۲) رحمان.بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخو د رحمت کرنے والا (۳) رحیم.کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام اکرام کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا.(۴) اپنے بندوں کی عدالت کرنے والا.سو احمد وہ ہے جو ان چاروں صفتوں کو ظلی طور پر اپنے اندر جمع کرلے.یہی وجہ ہے کہ احمد کا نام مظہر جمال ہے اور اس کے مقابل پر محمد کا نام مظہر جلال ہے.وجہ یہ کہ اسم محمد میں ستر محبوبیت ہے کیونکہ جامع محامد ہے اور کمال درجہ کی خوبصورتی اور جامع المحامد ہونا جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے.لیکن اسم احمد میں ستر عاشقیت ہے.کیونکہ حامدیت کو انکسار اور عشقی تذلل اور فروتنی لازم ہے.اسی کا نام جمالی حالت ہے اور یہ حالت فروتنی کو چاہتی ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبوبیت بھی تھی جس کا اسم محمد مقتضی ہے.کیونکہ محمد ہونا یعنی جامع جمیع محامد ہوناشان محبوبیت پیدا کرتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبیت بھی تھی جس کا اسم احمد مقتضی ہے.کیونکہ حامد کے لئے محب ہو نا ضروری ہے.ہر ایک شخص کسی کی سچی اور کامل تعریف تبھی کرتا ہے جبکہ اس کا محب بلکہ عاشق ہو اور عاشق اور محب ہونے کیلئے فروتنی لازم ہے اور یہی جمالی حالت ہے جو حقیقت احمدیہ کو لازم پڑی ہوئی ہے.محبوبیت جو اسم محمد میں مخفی تھی صحابہ کے ذریعہ سے ظہور میں آئی.اور جو لوگ ہتک کرنے والے اور گردن کش تھے محبوب الہی ہونے کے جلال نے ان کی سرکوبی کی لیکن اسم احمد میں شانِ محبت تھی یعنی عاشقانہ تذلل اور فروتنی.یہ شان مسیح موعود کے ذریعہ سے ظہور میں آئی.سو تم شانِ احمدیت کے ظاہر کرنے والے ہو.لہذا اپنے ہر ایک بیجا جوش پر موت وارد کرو اور عاشقانہ فروتنی دکھلاؤ.خدا تمہارے ساتھ ہو“.آمین (اربعین نمبر 4، روحانی خزائن 17 جلد صفحہ 446 تا 448) اسم احمد میں پیشگوئی: آپ نے ایک اہم بات یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ احمد میں دراصل مسیح موعود و مہدی معہود کی پیشگوئی ہے.ایک جگہ فرمایا.کذالک ورث المسیح الموعود اسم أحمد الذى هو مظهر الرحيمية والجمال.واختار لہ اللہ ہذا الاسم ولمن تبعہ وصار لہ کالآل فالمسیح الموعود مع جماعته مظهر من 53

Page 77

الله لصفة الرحيمية والأحمدية ليتم قوله آخرين منهم ولا راد للإرادات الربانية.وليتم حقيقة المظاهر النبوية وهذا هو وجه تخصيص صفة الرحمانية والرحيمية بالبسملة.الله الذي ليدل على اسمى محمد وأحمد ومظاهرهما الآتية.أعنى الصحابة ومسيح كان آتيا في حلل الرحيمية والأحمدية اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 115،114) اللہ تعالیٰ نے جس حقیقت کو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا ہے اس حقیقت کو خدا تعالیٰ نے پہلے بزرگان اُمت پر بھی منکشف فرمایا تھا.جو کتب میں درج ہے.مثلاً حضرت علی کا قول ہے يُظهِرُ صاحِبَ الراية المحمدِيّةِ وَ دَولَةِ الاَحمدِيةِ (9) حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں میں ایک عجیب بات کہتا ہوں کہ آنحضرت صلیا ایلم کے زمانہ رحلت سے ایک ہزار چند سال بعد ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ میں رسائی پاکر اسکے ساتھ متحد ہو جائے گی.اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمد کی ہو جائے گا.(10) شان احمد را که داند جز خداوند کریم آنچنان از خود جدا کز میاں افتاد میم رضاعت و ایام طفولیت احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم در میان سے گر گیا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں.”ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا حصہ عمر کا جو چالیس برس ہے بیکسی اور پریشانی اور یتیمی میں بسر کیا تھا کسی خویش یا قریب نے اس زمانہ تنہائی میں کوئی حق خویشی اور قرابت کا ادا نہیں کیا تھا یہاں تک کہ وہ روحانی بادشاہ اپنی صغر سنی کی حالت میں لاوارث بچوں کی طرح بعض بیابان نشین اور خانہ بدوش عورتوں کے حوالہ کیا گیا اور اسی بے کسی اور غریبی کی حالت میں اس سید الا نام نے شیر خوارگی کے دن پورے کئے اور جب کچھ سن تمیز پہنچا تو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں 54

Page 78

کوئی بھی نہیں ہوتا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اس مخدوم العالمین کے سپرد کی اور اُس تنگی کے دنوں میں بجز ادنیٰ قسم کے اناجوں یا بکریوں کے دُودھ کے اور کوئی غذا نہ تھی جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے لئے کسی چا وغیرہ نے باوجود آنحضرت کے اول درجہ کے حسن و جمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طور پر محض خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مکہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابو طالب رئیس مکہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اور دنیوی جاہ و حشمت و دولت و مقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس درد ناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اور اُن کے دوسرے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں.سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کنجیاں دی جائیں گی“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 112-114) آنحضرت کی ولادت کے بعد عرب کے عام دستور کے مطابق رضاعت کے لئے دایہ کے سپرد کیا گیا.پہلے ثوبیہ اور پھر حلیمہ سعدیہ کو آپ کی مرضعہ ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.ابن ہشام کی روایت کے مطابق.بی بی حلیمہ سے پہلے ثوبیہ نے اپنے بیٹے مسروح کے دودھ کے ساتھ آنحضور صلی علیمیم کی رضاعت کی.ثوبیہ نے ہی اس سے پہلے 55

Page 79

حضرت حمزۃ اور حضرت عبد اللہ بن حجش کی بھی رضاعت کی تھی.ثوبیہ ابو لہب کی لونڈی تھی.(11) حضرت نبی اکرم صلی الم سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ میں نے آپ سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں پایا آپ نے فرمایا کیسے نہیں ہوں گا میں قبیلہ کے لحاظ سے قریشی ہوں اور بنی سعد میں میں نے دودھ پیا ہے (12) پس عربوں کا یہ دستور تھا کہ لوگ اپنے بچوں کو دوسرے قبیلہ کی دایا کے پاس چھوڑ آیا کرتے تھے تاکہ بچہ دیہات کی خالص فزا میں پروان چڑھے اور اس کی زبان فصیح ہو.(13) بکریوں کی نگہبانی: بکریوں کی نگہبانی انبیاء کی سنت ہے اور ہمارے پیارے نبی نے بھی اپنے مقدس بچپن میں اس سنت پر عمل فرمایا.آپ نے اس کا ذکر نہایت محبت کے رنگ میں فرمایا ہے اور اس پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی ہے.اس سلسلہ میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا.اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا.اور اس مصیبت اور یتیمی کے ایام میں بعض لوگوں کی بکریاں بھی چرائیں اور بجز خدا کے کوئی متکفل نہ تھا“ پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 465) آپ نے آنحضور صلی للی کم کی زندگی کے مختلف ادوار کا ذکر فرمایا ہے اور وہ دور مبارک جو الم يجدك يَتِيمًا فَأُوى کے تحت دور یتیمی کی مشکلات کا زمانہ ہے اس دور میں آنحضور ملیالی تم پر جو مصائب تھے ان کا ذکر فرمایا ہے.اور یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ آپ ہر وقت خدا کی پناہ میں تھے.اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ نہایت محبت بھرے الفاظ میں آنحضور صلی علیم کی زندگی کے اس دور کا ذکر فرمایا ہے.اور جب کچھ سن تمیز پہنچا تو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں کوئی بھی نہیں ہو تا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اُس مخدوم العالمین کے سپرد کی اور اُس تنگی کے دنوں میں بجز ادنی قسم کے اناجوں یا بکریوں کے دُودھ کے اور کوئی غذا نہ تھی“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 112-113) 56

Page 80

کتب سیرت و تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی علی کم اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض کچرایا کرتے تھے.جیسا کہ ابن سعد کی روایت ہے عن ابي هريرة قالَ رسولُ الله ما بَعَثَ اللَّه عَزَّ وَ جَلَّ نبياً إِلَّا رَعَى الغَنَمَ قال له اصحابه و أنتَ يا رَسُولَ اللهِ قال نعم و انا رعيتها لأهل مكة بالقيراط (14) یعنی ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریوں کی نگہبانی نہ کی.صحابہ نے پوچھا یار سول اللہ کیا آپ نے بھی.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے اہل مکہ کی بکریوں کی نگہبانی چند قیراط کے عوض کی تھی.روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بنو سعد کی بکریوں کی نگہبانی بھی کی اور اہل مکہ کی بکریوں کی نگہبانی بھی کی (15) اسی طرح ایک روایت میں قیراط کی بجائے اجیاد کے الفاظ بھی ہیں وانا ہو.ارعى غنم اهلی با جيادٍ.یعنی میں چند اجیاد کے عوض اپنے خاندان کی بکریوں کی نگہبانی کیا کرتا تھا.(16) حضور نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس عرصہ میں آپ صلی علیم کی بجز ادنی قسم کے اناجوں اور بکریوں کے دودھ کے اور کوئی غذا نہ تھی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 112-113) اسکے ثبوت میں بھی روایات موجود ہیں.یہ واقعات آپ مالا ظلم کی زندگی کے اس حصہ سے تعلق رکھتے ہیں جس میں آپ بی بی حلیمہ سعدیہ کے ہاں بچپن میں رہے.اور یہ عرصہ چار سال کا ہے.بنو سعد ایک خالص دیہاتی قبیلہ تھا اور ایسے قبائل کی غذا سادہ ہی ہوا کرتی تھی.اور مکہ کے لوگوں کی بھی عام غذا بکریوں کا دودھ اور سبزیاں ہی ہوا کرتی تھی.اس عرصہ میں اعلیٰ قسم کی غذا کھانے کا کم ہی موقعہ ملا ہو گا.دوسرے بچوں کی طرح آپ کا گزر بسر بھی جنگلی پھلوں، سبزیوں اور بکری کے دودھ پر تھا.ان حالات کی تصویر ایک روایت سے معلوم ہوتی ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضور صلی ا م ( صحابہ کے ساتھ ) ارک نامی بوٹی کے پاس سے گزرے تو آنحضور صلی ایم نے فرمایا کہ اسکے سیاہ پھل کھایا کرو میں بھی یہی چنا کرتا تھا جب میں گلہ بانی کرتا تھا.اُن (صحابہ) نے کہا اے اللہ کے رسول صلی للی کم کیا آپ نے بھی گلہ بانی کی تھی.آپ صلی الیم نے فرمایا ہاں.اور کوئی نبی ایسا نہیں جس نے گلہ بانی نہ کی ہو (17) ارک جس کی جمع اراک ہے ایک جھاڑی نما پودے پر اگنے والا ایک پھل ہے جو بالعموم اونٹوں اور بکریوں کی خوراک ہے لیکن انسان بھی اسے کھا لیتے ہیں.اور اس کا اردو تر جمہ پیلو کیا جاتا ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مَا مِن نَبِي إِلَّا قَد رَعَاهَا یعنی ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں تو قرآن اور حدیث اور بائیبل اور تاریخ سے بھی اس کے اشارے ملتے ہیں مثلاً حضرت موسی کا بکریوں کی نگہبانی کرنے کا ثبوت سورۃ 57

Page 81

طا کی آیت قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِي فِيهَا مَارِبُ أُخْرَى (طه:19) یعنی: اس نے کہا یہ میر اعصا ہے، میں اس پر سہارا لیتا ہوں اور اس کے ذریعے اپنی بھیڑ بکریوں پر پتے جھاڑ تا ہوں اور اس میں میرے لئے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.سورۃ القصص میں بھی اشارے ملتے ہیں کہ حضرت شعیب اور انکی اولاد بھی بکریوں کی نگہبانی کرتے تھے.دراصل بکریاں چرانے میں کئی حکمتیں ہیں اور انکا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان ارشادات میں فرمایا ہے جو پہلے پیش کئے جاچکے ہیں.ان ارشادات سے جو حکمتیں معلوم ہوتی ہیں انکا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حالات جو آپ صلی اللہ تم پر وارد ہوئے یہ خاص حکمت الہی سے تھے.مثلا یہ کہ شیر خوارگی کی عمر میں دالوں کے سپر د کئے جانے سے آپ میں وسعت حوصلہ بہادری اور صبر کی عادات پروان چڑ ہیں.بکریوں کی نگہبانی سے آپ کی ایم کی کئی پہلوؤں سے تربیت ہوئی.چرواہے جب گلہ لیکر جنگلوں میں جاتے ہیں تو بکریاں تو اپنا پیٹ بھر لیتی ہیں لیکن چرواہے اکثر بھوکے رہ جاتے ہیں یا انہیں ادنیٰ قسم کی غذا پر گزارہ کرنا پڑتا ہے.جس کی وجہ سے ان میں حلم اور صبر پیدا ہوتا ہے.اور پھر بعض اوقات چرواہوں کو کئی قسم کے خطرات و مشکلات اور ناگہانی آفات سے بھی واسطہ پڑتا ہے ان نامساعد و پُر خطر حالات میں چرواہے اپنے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں اور انکو خطرات کی جگہوں سے دور رکھتے ہیں اور ممنوعہ علاقوں میں جانے سے بھی روک رکھتے ہیں.اس طرح چرواہوں میں بہادری سے اپنی رعیت کی نگہبانی کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے.نبی بھی اپنی قوم کا رائی ہوتا ہے اس لئے نبی میں ان صلاحیتوں کا پایا جانا از بس ضروری ہے.جس طرح چرواہا اپنی رعیت سے اور اسکی رعیت اس سے مانوس ہوتی ہے اسی طرح نبی اور اسکی رعیت بھی ایک دوسرے سے رشتہ انسیت میں بندھ جاتے ہیں.پس یہ خصائص پیدا کرنے کے لئے ہر نبی کی طرح بلکہ اُن سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان حالات میں سے گزارا اور آپ کی ربوبیت فرمائی.آپ نے ایک جگہ اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.یادر ہے کہ اوی کا لفظ جو اسی وحی الہی میں ہے یعنی یہ فقره که انه أوى القرية اس لفظ کے عربی میں یہ معنی ہیں کہ ایک حد تک مصیبت دکھلا کر پھر اپنی پناہ میں لے لینا بکلی برباد نہ کرنا یہ محاورہ قرآن شریف اور تمام عرب زبان میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی الم کو فرماتا ہے اَلَم يَجِدكَ يَتِيمًا فاوی یعنی کیا خدا نے تجھ کو یتیم پاکر پھر پناہ نہ دی ظاہر ہے کہ خدا تعالی نے اول آپ ہی آنحضرت علی کو یتیم کیا اور یتیمی کے تمام مصائب آنحضرت ملا م پر وارد کئے اور پھر بعد مصائب کے پناہ دی“ 58 (مکتوبات احمد، جلد 6 صفحہ 152)

Page 82

سقوط شہب در جم شیاطین : کتب تفسیر اور تاریخ وسیرت میں زمانہ بعثت نبوی صلی ا تم میں سقوط شہب کے متعلق بھی روایات درج ہیں، حضور نے سورۃ الجن کا حوالہ دیتے ہوئے سقوط شہب در زمانہ بعثت نبوی کی حقیقت بیان فرمائی ہے.اب جاننا چاہیئے کہ عرب کے لوگ بوجہ ان خیالات کے جو کاہنوں کے ذریعہ سے اُن میں پھیل گئے تھے نہایت شدید اعتقاد سے ان باتوں کو مانتے تھے کہ جس وقت کثرت سے ستارے یعنی شہب گرتے ہیں تو کوئی بڑا عظیم الشان انسان پیدا ہوتا ہے خاص کر اُن کے کا ہن جو ارواح خبیثہ سے کچھ تعلق پیدا کر لیتے تھے اور اخبار غیبیہ بتلایا کرتے تھے اُن کا تو گویا پختہ اور یقینی عقیدہ تھا کہ کثرت شہب یعنی تاروں کا معمولی اندازہ سے بہت زیادہ ٹوٹنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی نبی دنیا میں پیدا ہونے والا ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت حد سے زیادہ سقوط شہب ہوا جیسا کہ سورۃ الجن میں خدا تعالیٰ نے اس واقعہ کی شہادت دی ہے اور حکایتا عن الجنات فرماتا ہے.وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا.وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا (الجن:9) ا.سورۃ الجن الجزو نمبر ۲۹.یعنی ہم نے آسمان کو ٹولا تو اُس کو چوکیداروں سے یعنی فرشتوں سے اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا اور ہم پہلے اس سے امور غیبیہ کے سننے کے لئے آسمان میں گھات میں بیٹھا کرتے تھے اور اب جب ہم سننا چاہتے ہیں تو گھات میں ایک شعلے کو پاتے ہیں جو ہم پر گرتا ہے.ان آیات کی تائید میں کثرت سے احادیث پائی جاتی ہیں.بخاری مسلم ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ سب اس قسم کی حدیثیں اپنی تالیفات میں لائے ہیں کہ شہب کا گر ناشیاطین کے رد کرنے کے لئے ہوتا ہے اور امام احمد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ شہب جاہلیت کے زمانہ میں بھی گرتے تھے لیکن ان کی کثرت اور غلظت بعثت کے وقت میں ہوئی چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جب کثرت سے شہب گرے تو اہل طائف بہت ہی ڈر گئے اور کہنے لگے کہ شاید آسمان کے لوگوں میں تہلکہ پڑ گیا تب ایک نے اُن میں سے کہا کہ ستاروں کی قرار گاہوں کو دیکھو اگر وہ اپنے محل اور موقعہ سے ٹل گئے ہیں تو آسمان کے لوگوں پر کوئی تباہی آئی ورنہ یہ نشان جو آسمان پر ظاہر ہوا ہے ابن ابی کبشہ کی وجہ سے ہے (وہ لوگ شرارت کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن 59

Page 83

ابی کبشہ کہتے تھے ) غرض عرب کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات جمی ہوئی تھی کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے یا کوئی اور عظیم الشان آدمی پیدا ہوتا ہے تو کثرت سے تارے ٹوٹتے ہیں.اسی وجہ سے بمناسبت خیالات عرب کے شہب کے گرنے کی خدائے تعالیٰ نے قسم کھائی جس کا مدعا یہ ہے کہ تم لوگ خود تسلیم کرتے ہو اور تمہارے کا ہن اس بات کو مانتے ہیں کہ جب کثرت سے شہب گرتے ہیں تو کوئی نبی یا عظیم من اللہ پیدا ہوتا ہے تو پھر انکار کی کیا وجہ ہے.چونکہ شہب کا کثرت سے گرنا عرب کے کاہنوں کی نظر میں اس بات کے ثبوت کے لئے ایک بدیہی امر تھا.کہ کوئی نبی اور ملہم من اللہ پیدا ہوتا ہے اور عرب کے لوگ کاہنوں کے ایسے تابع تھے جیسا کہ ایک مرید مرشد کا تابع ہوتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے وہی بد یہی امر اُن کے سامنے قسم کے پیرایہ میں پیش کیا تا اُن کو اس سچائی کی طرف توجہ پیدا ہو کہ یہ کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے انسان کا ساختہ پر داختہ نہیں“ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5.حاشیہ صفحہ 103 تا107) اس عنوان کے تحت بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجن میں کچھ روایات درج ہیں.نیز دیگر مفسرین نے بھی اس موضوع کے تحت کئی روایات درج کی ہیں.جیسے تفسیر القرآن لابن کثیر ، سورۃ الجن، جلد 5 صفحہ 46.پاکیزہ شباب: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا.اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا.اور اس مصیبت اور یتیمی کے ایام میں بعض لوگوں کی بکریاں بھی چرائیں اور بجز خدا کے کوئی متکفل نہ تھا.اور پچیس برس تک پہنچ کر بھی کسی چچا نے بھی آپ کو اپنی لڑکی نہ دی.کیونکہ جیسا کہ بظاہر نظر آتا تھا آپ اس لائق نہ تھے کہ خانہ داری کے اخراجات کے متحمل ہو سکیں.اور نیز محض آتی تھے اور کوئی حرفہ اور پیشہ نہیں جانتے تھے“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 465) 60 60

Page 84

مذکورہ بالا تحریر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ میلی لی ایم کے مبارک زمانہ شباب پر مختصر الفاظ میں نہایت جامع تبصرہ فرمایا ہے.بظاہر نظر تمام حالات ناموافق تھے.غربت، یتیمی، امی محض، کوئی حرفہ یا فن با قاعدہ سیکھنے کا موقع نہ ملا.سو خاندان میں کسی ہم عمر لڑکی سے شادی بھی بظاہر ناممکن تھی.لیکن آپ کی ذات میں وہ جو ہر مخفی تھے کہ جو تجربہ کے محتاج نہ تھے اور نہ ہی کسی استاد سے حرفہ و پیشہ سیکھنے سے مل سکتے تھے.آپ کو امانت و دیانت اور ہمدردی مخلوق سے پر وہ قلب مظہر عطا ہوا تھا جس نے عظیم المرتبت رسالت کا متحمل ہونا تھا.خدا نے ایسے نامساعد حالات میں بھی آپ صلی علیکم کی حیرت انگیز خبر گیری فرمائی.جسکا ذکر آپ نے اپنی تحریرات الله سة میں یہ الفاظ کہ بظاہر نظر آتا تھا فرما کر یہ نکتہ بیان فرما دیا ہے کہ اوائل جوانی میں آپ صلی علیہ نظم بظاہر ایک غریب اور ناتجربہ کار نظر آتے تھے لیکن بفضلہ تعالیٰ زندگی کے کسی حصہ میں بھی خدا نے آپ مالی کیم کو بے یار ومدد گارنہ چھوڑا.اور آپ پر ایک فضل یہ بھی تھا کہ فہم و فراست کے ساتھ مشاہدہ فطرت سے بہت کچھ سیکھ لیتے تھے.بچپن اور نوجوانی کے پیش آمدہ حالات سے آپ صلی علیکم کے قلب مطہر نے گہرے اور دقیق در دقیق نتائج اخذ کئے جنہیں صدق و امانت کی کسوٹی پر رکھ کر زندگی کا لائحہ عمل تیار ہوا.بچپن اور جوانی میں آپ صلی علیہ یکم جن تجربات میں سے گزرے اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عرب کے عام دستور کے مطابق بچپن میں چند قیراط کے عوض بکریاں چرائیں.اس تجربہ سے آپ نے دیگر فوائد کے علاوہ معیشت کے ابتدائی اصول سیکھے.آپ صلی میں ظلم کا اپنے چا ابو طالب کے ساتھ ایک تجارتی سفر پر بچپن میں شام کی طرف جانا ثابت ہے.(18) اپنے ماحول میں چچاؤں اور دیگر رشتہ داروں کو مکہ میں تجارت میں مشغول پا کر تجارت کی سمجھ بوجھ لا شعوری طور پر حاصل ہوئی ہو گی.اور مکہ تو تھا ہی ایک تجارتی مرکز.آپ صلی الی یکم نے ہیں یا اکیس برس کی عمر میں ایک یادو تجارتی سفر کئے تھے.(19) اور عمر کے اسی حصہ میں حلف الفضول میں شرکت بھی فرمائی.اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر کے اس حصہ میں عملی زندگی میں قدم رکھنے شروع فرمائے.اور پچیس سال کی عمر تک اگر چہ سمجھ بوجھ تو حاصل ہو چکی تھی لیکن بظاہر بے تجربہ و بے مال و متاع اس لئے تھے کہ ذاتی تجارت کا موقعہ حاصل نہ ہوا تھا.بلکہ ایک اجیر کی حیثیت سے ہی تجارت میں دخل تھا.اور یہی وجہ ہے کہ اس عمر تک خاندان کی کوئی لڑکی آپ صلی علیم سے بیاہی نہ گئی.61

Page 85

حضرت خدیجہ سے شادی: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ” جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے لئے کسی چاو غیرہ نے باوجود آنحضرت کے اول درجہ کے حسن و جمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طور پر محض خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مکہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابو طالب رئیس مکہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اور دنیوی جاہ و حشمت و دولت و مقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس درد ناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اور اُن کے دوسرے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں.سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کنجیاں دی جائیں گی“ (روحانی خزائن جلد 3 ، ازالہ اوہام، حاشیہ صفحہ 114،113) کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عرب میں تو چھوٹی عمر میں ہی شادی کا رواج تھا پھر کیا وجہ تھی کہ آپ کی شادی چھپیں سال کی عمر تک نہ ہو سکی.اور شادی ہوئی بھی تو ایک چالیس سالہ بیوا کے ساتھ ہوئی.اوپر کے ارشاد میں حضور نے نہایت بلیغ الفاظ میں اس ممکنہ سوال کا جواب بھی دیا ہے اور آپ صلی للی کم کی پاکیزہ جوانی کا بھی 62

Page 86

تذکرہ فرما دیا ہے.آپ کی شادی پچیس برس کی عمر تک نہ ہونے کا باعث کوئی ذاتی عیب نہ تھا بلکہ صرف آپ کا بظاہر بے مال و متاع ہو نا تھا.جو آپ صلی للی کام کے اختیار کی بات نہ تھی.اہل مکہ کے نزدیک ظاہری حالات ہی سب کچھ تھے.اخلاقی خوبیوں سے کچھ سروکار نہ تھا سو ان کے نزدیک آپ ایک یتیم، تنہا، جسکا کا کوئی بھائی یا بہن بھی نہ تھا اور ایسی حالت میں دنیا پرست رشتہ داروں نے آپ سے ایسی بے اعتنائی اور سردمہری کا مظاہرہ کیا.کہ کسی نے اپنی لڑکی آپ سے بیا ہنی مناسب نہ سمجھی.حالانکہ اس وقت چاؤں اور دیگر رشتہ داروں کی لڑکیاں موجو د تھیں.مدنی دور میں جب حالات بدلتے ہیں تو یہی رشتہ دار اپنی بیٹیوں کو آپ صلی اللہ نام کے عقد میں دینے کے متمنی نظر آتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کو مزید سمجھنے کے لئے اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس دور میں آپ صلی الم کے قریبی رشتہ داروں کے حالات کیا تھے تو معلوم ہوتا ہے چچاوں اور پھوپھیوں اور دیگر اقربا کے حالات بہتر تھے اور انکے ہاں لڑکیاں بھی موجود تھیں اور وہ اس وقت آپ صلی ال نیم کی معاونت کر سکتے 1.حضرت حارث بن عبد المطلب کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بہادر سخی اور متمول شخص تھے.2.ابو لہب بن عبد المطلب بھی مکہ کا ایک معزز شخص تھا اس کی ایک بیٹی درہ تھیں جن کو صحابیہ ہونے کا شرف حاصل ہے.3.حضرت زبیر بن عبد المطلب کا شمار قریش کے نامور لوگوں میں ہوتا تھا مہمان نواز، معاملہ فہم اور سخی انسان تھے.انکی ایک بیٹی ام حکیم تھیں.4.حضرت ضرار بن عبد المطلب بھی ایک نامور انسان تھے.لیکن انکی کوئی اولاد نہ تھی.5.حضرت مقوم کی بیٹی ہندہ تھی.6.ابو طالب بن عبد المطلب نے تمام عمر آپ صلی للی کم کا ثابت قدمی سے ساتھ دیا.انکی ایک بیٹی اُم ہانی تھیں.7.حضرت امیر حمزہ بھی مکہ کے ایک معزز اور صائب الرائے آدمی تھے.اور متمول انسان تھے..امامہ اور عمارہ انکی دو بیٹیاں تھیں.8.حضرت عباس بھی آنحضرت صلی علیہ یکم کے چاتھے.اور کثیر العیال ہونے کی وجہ سے غربت کا شکار تھے.لیکن آپ صلی الیکم کے ساتھ بہت وفا کا سلوک تھا.63

Page 87

غرضیکہ آنحضور صلی کم کا خاندان مکہ کا ایک معزز اور افرادی قوت سے بھر پور خاندان تھا.اسکے باوجود کسی قریبی نے قرابت کا حق جیسا کہ تھا ادا نہ کیا اور سرد مہری سے کام لیا اسکی وجہ صرف اور صرف وہی تھی جو آپ نے بیان فرمائی ہے.ان حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ میلی لی نام کو ان رشتوں سے بہتر اور اعلی رشتہ عطا فرمایا یعنی حضرت خدیجہ سے آپ صلی علیکم کی شادی ہوئی.اور جیسا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ محض خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مکہ کی رئیسہ نے آنحضرت مصلی تم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کرلی“ (روحانی خزائن جلد 3 ، ازالہ اوہام صفحہ 113 حاشیہ) یہ ارشاد آپ صلی الیم کے ساتھ خدا تعالیٰ کے پیار کے تعلق اور اسکے خاص فضل و کرم کی طرف خوب روشنی ڈالتا ہے.نیز اس امکانی اعتراض کی بھی تردید کرتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ کسی خفیہ تدبیر یا کوشش سے حضرت خدیجہ کو شادی کے لئے مائل کیا.دیگر کتب سیرت سے بھی ظاہر ہے کہ آنحضور صلی علیم کے ساتھ حضرت خدیجہ کی شادی محض اتفاقی طور پر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی اور شرفاء عرب کے رسم و رواج کے ماتحت ہوئی.مثلا ابن کثیر بیان کرتے ہیں حضرت خدیجہ مکہ کی نہایت شریف خاتون تھیں اور بہت متمول بھی تھیں اس لئے مکہ کے بہت سے شریف خاندانوں کے لوگ ان سے شادی کے خواہشمند تھے لیکن انہوں نے رسول اللہ صلی لی کمر کو ان کی صفات حسنہ کی وجہ سے چنا جو میسرہ نے حضرت خدیجہ کو بتائیں تھیں.(20) میسرہ نے تجارتی سفر کے دوران پیش آمدہ واقعات جن میں آپ کی امانت دیانت اور ذہانت کے واقعات کے علاوہ معجزانہ واقعات کا بھی ذکر کیا جیسے دو فرشتوں کا سایہ فگن ہونا اور تجارتی مال میں معجزانہ برکت اور فائدہ ہونا (21) چنانچہ اسی طرح ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہ نے خود رسول اللہ صلی علی یم کو شادی کا پیغام بھجوایا تھا اور یہ نکاح با قاعدہ ملکہ کے رواج کے مطابق بزرگوں کی رضامندی سے طے پایا تھا.(2) پس اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم کے اظہار کے طور پر اس شادی کے سامان بہم پہنچائے.اُم المومنین حضرت خدیجہ نے اپنی خدا داد فراست سے مخدوم العالمین شاہ دو جہان کو پہچان لیا اسے حاصل کیا اور اسکی خدمتگزار ہو کر عظیم الشان نعمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہوئیں.64

Page 88

حوالہ جات باب دوم 1.(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 93) 2.( الطبقات الکبرای لابن سعد جلد 1 صفحہ 48، باب ذکر مولد رسول اللہ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) 3.(البدایہ والنہایۃ لابی الفدا ابن کثیر.جلد 1 جزء 2، صفحہ 290 باب ذکر ار تجاس الدیوان..مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء) 4- (خصائص الکبرای از امام جلال الدین سیوطی جلد 1 صفحہ 90 الآية في ولادته مختونا مقطوع السرہ.مطبعہ المکتبة الحقانیہ پشاور ) 5.(آل عمران 145 ، الاحزاب 41، محمد 3.الصف 7).6- (الطبقات الکبرای لابن سعد جلد 1 صفحہ 49 زکر و اسماء الرسول و کنیته مطبوعہ دار احیاه التراث العربی بیروت 1996ء) 7.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 128 ذکر ما قيل لآمنۃ عند حملها بر سول اللہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001) 8.(سیرت الطلبہ..جلد 1 ، صفحہ 117، باب تسمیہ محمد...مطبوعہ دار لکتب العلمیہ بیروت 2002 ء) 9.( ینابیع المودۃ.جزء3، صفحہ 28، مطبعہ دارالاسوة للطباعة والنشر طهران) 10.(مبد او معاد، صفحہ 205، مصنفہ امام ربانی مجد والف ثانی، مطبوعہ ادارہ مجددیہ ناظم آباد نمبر 3 کراچی.) 11.(سیرت النبی لابن ہشام جلد 1 صفحہ 130، باب اخوته من الرضاع مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء.) 12.(سیرت النبی لابن ہشام.حدیث حلیمہ عماراته من الخیر..الخ صفحہ 131 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001) 13.(سیرت الحلبیه از برہان الدین علی الحلبی جلد 1 صفحہ.131 ذکر رضاعته ما اتصل به ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002.) 14.(الطبقات الکبرای لابن سعد.ذکر ر عیۃ رسول اللہ الغنم بمکت - جلد 1 صفحہ 59 مطبوعہ احیاہ التراث العربی بیروت 1996ء) 15.(الروض الانف مسحصیلی جلد 2 صفحہ 182 باب وفاة آمنة و حال رسول اللہ مطبوعہ دار احیاه التراث العربی بیروت بیروت 1412ھ) 16.( الطبقات الکبرای لابن سعد.ذکر رعیتہ رسول اللہ الغنم بمکۃ.جلد 1 صفحہ 60 مطبوعہ احیاه التراث العربی بیروت 1996ء) 17.(سیرت الحلبیہ جلد اول.صفحہ 185 باب رعیتہ الغنم مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء) 18.(الطبقات الکبرای لابن سعد، جلد 1 صفحہ 57 ، باب ذکر ابی طالب و ضمہ رسول اللہ الیہ...الخ مطبوعہ احیاه التراث العربی بیروت 1996ء) 19.(تاریخ الخمیس جلد 1، صفحہ 261،260) 20.(البدایہ والنہایۃ لابن کثیر جلد اول صفحہ 316 ، باب تزویجہ خدیجہ بنت خویلد دار هجر للطبأة والنشر والتوزيع والاعلان 1997ء) 21.(سیرت النبی لا بن ہشام.صفحہ 149-150 باب حدیث تزو تیج رسول اللہ خدیجه مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 2001) 22.( الطبقات الکبرای لابن سعد ، جلد 1 صفحہ 62-63 باب ذکر تزویج رسول اللہ خدیجہ بنت خویلد.مطبوعہ احیاه التراث العربی بیروت 1996ء) 65

Page 89

66

Page 90

باب سوم غار حرا طلوع اسلام آنحضور صلی یکم کی عمر جب تقریباً چالیس برس کی ہوئی تو خلوت و تنہائی آپ کو محبوب ہو گئی.اور اپنے خالق و مالک رب کی جستجو میں مشغول رہنے لگے.اس عرصہ میں آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے.اور بہت سا وقت وہاں گزارتے.اس مبارک دور کے متعلق سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.پھر جب آپ چالیس برس کے سن تک پہنچے تو یک دفعہ آپ کا دل خدا کی طرف کھینچا گیا.ایک غار مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے.جس کا نام حرا ہے.آپ اکیلے وہاں جاتے اور غار کے اندر چھپ جاتے اور اپنے خدا کو یاد کرتے ایک دن اُسی غار میں آپ پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے.اور زمین گنہ سے آلودہ ہو گئی ہے.اس لئے میں تجھے اپنار سول کر کے بھیجتا ہوں.اب تو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں.اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک امی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں اور عرض کی کہ میں پڑھنا نہیں جانتا.تب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھر دیئے اور آپ کے دل کو روشن کیا تھا.آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے.اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں سے دشمنی پر کمر باندھ لی.یہاں تک کے آخر کار آپ کو قتل کرناچاہا“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 466-465) انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی.ہمارے نبی کریم ملی کم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے.آپ عبادت کرنے کے لیے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غارِ حرا تھی چلے جاتے تھے.یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرات نہ کر سکتا تھا.لیکن آپ نے اس کو اس لیے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا.آپ بالکل تنہائی چاہتا تھے.شہرت کو ہر گز پسند نہیں 67

Page 91

کرتے تھے.مگر خدا تعالیٰ کا حکم ہوا.يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرُ (المدثر:2-3) اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لیے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] - جلد 4، صفحہ 34) میں دیکھتا ہوں کہ گرمیوں کو بھی روحانی ترقی کے ساتھ خاص مناسبت ہے.آنحضرت علی الم کو دیکھو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مکہ جیسے شہر میں پیدا کیا اور پھر آپ ان گرمیوں میں تنہا غارِ حرا میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے وہ کیسا عجیب زمانہ ہو گا.آپ ہی ایک پانی کا مشکیزہ اُٹھا کر لے جاتے ہوں گے“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن.جلد 4، صفحہ 316) محضرت علی الله علم کو ہر گز خواہش نہ تھی کہ لوگ آپ کو پیغمبر کہیں اور آپ کی اطاعت کریں اور اسی لیے ایک غار میں جو قبر سے زیادہ تنگ تھی جا کر آپ عبادت کیا کرتے تھے اور آپ کا ہر گز ارادہ نہ تھا کہ اس سے باہر آویں آخر خدا نے اپنی مصلحت سے آپ کو خود باہر نکالا اور آپ کے ذریعے دنیا پر اپنے نور کو ظاہر کیا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 619) تاریخ اسلام و کتب سیرت النبی صلی الم کے متعدد حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جب آپ کی عمر چالیس سال کے قریب ہوئی تو آپ کا دل اپنے خالق حقیقی کی طرف اس قدر کھینچا گیا کہ آپ اکثر وقت گوشہء تنہائی میں بسر کرنے لگے.اس کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت درج ہے کہ عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت: أول ما بدىء به رسولُ الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، وكان يخلو بغار حراء، فيتحنث فيه - وهو التعبد - الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله، ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها، حتى جاءه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملک فقال : اقرأ، قال: (ما أنا بقارىء ).قال: (فأخذني فغطنى حتى بلغ منى الجهد، ثم أرسلنى فقال: اقرأ، قلت ما أنا بقارئ، فأخذني فغطنى الثانية حتى بلغ م الجهد، ثم أرسلنى فقال اقرأ، فقلت: ما أنا بقارىء، فأخذني فغطني الثالثة، ثم أرسلنى فقال : (اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق.اقرأ وربك الأكرم).منی 68

Page 92

أسد بن فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها فقال زملونی.زملونی فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة وأخبرها الخبر: (لقد خشيت على نفسي).فقالت خديجة : كلا والله ما يخزيك الله أبدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقرى الضيف، وتعين على نوائب الحق.فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن عبد العزى، ابن عم خديجة، وكان امرء ا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب وكان شيخا كبيرا قد عمى، فقالت له خديجة: يا بن عم، اسمع من ابن أخيك.فقال له ورقة : يا بن أخى ماذا ترى؟ فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رأى، فقاله له ورقة : هذا الناموس الذى نزل الله به على موسى، يا ليتني فيها جذع، ليتنى أكون حيا إذ يخرجک قومك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أو مخرجى هم).قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودى وإن يدركنى يومك أنصرك نصرا مؤزرا.ثم لم ينشب ورقة أن توفى، وفتر الوحى ترجمہ: ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا سب سے پہلی وحی جور سول اللہ صلی للی کم پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے.پس جو خواب آپ صلی اللہ ہم دیکھتے تھے وہ صاف صاف) صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا.(پھر اللہ کی طرف سے) خلوت کی محبت آپ صلی الی یکم کو دے دی گئی.چنانچہ آپ صلی علیہ کی غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی راتیں ( لگا تار عبادت کیا کرتے تھے.بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زادراہ بھی لے جاتے یہاں تک کہ آپ صلی الم کے پاس وحی آگئی اور آپ صلی للہ یکم غار حرا میں تھے یعنی فرشتہ آپ صلی نیلم کے پاس آیا اور اس نے ( آپ صلی علیہم سے ) کہا کہ پڑھو ! آپ صلی علیہم نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.آپ صلی علیہ کی فر ماتے ہیں پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے ( زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی.پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور ( زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے.تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.آپ صلی علیہ یکم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور تیسری بار مجھے (زور سے ) بھینچا پھر مجھے کہا کہ (اقرا باسم ربک) الخ ( العلق : 3-1) اپنے پروردگار کے نام (کی برکت) سے پڑھو جس نے ( ہر چیز کو پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھو اور ( یقین کر لو کہ) تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہے“.پس رسول اللہ صلی الی یکم کا دل اس واقعہ کے سبب سے (مارے خوف کے کانپنے لگا اور آپ صلی علیہ ظلم ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس 69

Page 93

تشریف لائے اور (وہاں موجود لوگوں سے) کہا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو.چنانچہ انھوں نے آپ میلی لی ایم کو مکمل اڑھا یا یہاں تک کہ (جب ) آپ صلی علیہم کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ صلی علیہ ہم نے خدیجہ سے سب حال (جو غار میں گزرا تھا) بیان کر کے کہا کہ بلاشبہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے.خدیجہ بولیں کہ ہر گز نہیں.اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.یقیناً آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جو چیز لوگوں کے پاس نہیں وہ انہیں دیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) مدد کرتے ہیں.پھر خدیجہ آپ صلی ا کم کولے کر چلیں اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی جو کہ خدیجہ کے چچا کے بیٹے تھے، کے پاس آپ صلی للی کم کولائیں اور ورقہ وہ شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور عبرانی کتاب لکھا کرتا تھا.یعنی جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ بینائی جاچکی تھی.تو اس سے ام المومنین خدیجہ نے کہا کہ اے میرے چا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے (صلی علی کر) سے (ان کا حال ) سنو !اور قہ بولے، اے میرے بھتیجے !تم کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ صل اللی کم نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کر دیا تو ورقہ نے آپ صلی علیہ نظم سے کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل کیا تھا.اے کاش! میں اس وقت (جب آپ صلی علیہ کم بی ہوں گے ) جوان ہو تا.اے کاش میں (اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ صلی کم کو آپ کی قوم (مکہ سے) نکالے گی.رسول اللہ صلی ہی ہم نے یہ سن کر بہت تعجب سے فرمایا: کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں جس شخص نے آپ کی ایک ہی جیسی بات بیان کی اس سے (ہمیشہ) دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ ملا نیم کی نبوت ) کا دور مل گیا تو میں آپ صلی للی کم کی بہت ہی بھر پور طریقے سے مدد کروں گا.مگر چند ہی روز گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی ( کی آمد عارضی طور پر پر چند روز کے لیے ) رک گئی.(1) اس طرح یہ تفصیلات سیرت کی اکثر کتب میں مذکور ہیں.غار حرامکہ کے قریب شمال میں جبل حرا کی چوٹی پر ایک تنگ و تاریک غار ہے.(2) مستشرقین کا اعتراض: بعض مستشرقین جن میں سے ایک منٹگمری واٹ بھی ہے نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت محمدعلی علی یلم غار حرا میں عبادت کے لئے نہیں جاتے تھے بلکہ مکہ کے بعض دوسرے لوگوں کی طرح گرمیوں کے موسم میں گرمی سے بچنے کے لئے غارِ حرا میں جا کر بیٹھ جایا کرتے تھے.جیسا کہ لکھتا ہے.There is no improbability in Muhammad's going to Hira, a hill a little way from Mecca, with or without his family.It might be a 70

Page 94

method of escaping from the heat of Mecca in an unpleasant season for those who could not afford to go to at-Taif.(3) وو آپ کے ارشاد سے اس قسم کے اعتراضات کی بھی تردید ہو جاتی کہ جیسا کہ فرمایا کہ ” یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی اس میں جانے کی جرات نہ کر سکتا تھا ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 34 ) پس ایسی خطر ناک اور اور تنگ و تاریک غار میں کوئی کیونکر گرمیوں کے موسم میں جاکر ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے بیٹھ سکتا ہے گرم موسم میں تو ایسی جگہ مزید گرم ہوتی ہے اور ہزار کیڑے مکوڑے اس میں پیدا ہو جاتے ہیں.عرب کے تاریخی حالات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں بعض سر سبز و شاداب علاقے بھی موجود تھے مثلاً یمن حجر طائف وغیرہ.اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ امیر لوگ وہاں گرمیوں کے موسم میں جا کر رہا کرتے تھے (4) نیز منٹگمری واٹ کا یہ خیال بھی درست نہیں کہ محمد صلی الی یکی عرب کے امیر لوگوں کی طرح سر سبز و شاداب علاقہ میں جا کر رہنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے.سیرت النبی صلی علیکم کے مطالعہ سے یہ بات نہایت واضح ہے کہ حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد آپ صلی المیہ نیم کے پاس اتنے وسائل موجود تھے کہ کہ آپ صلی الم عرب کے کسی بھی ٹھنڈے سرسبز و شاداب علاقہ میں جاکر سکونت اختیار کر سکتے تھے.لیکن دنیا کے ان آراموں سے آپ کو کوئی غرض نہ تھی.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے واضح ہے کہ آپ ان گرمیوں میں تنہا غارِ حرا میں جاکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے “.عباتگزاروں کا ہمیشہ یہ طریق رہا ہے کہ ان میں سے بعض عبادت کے لئے تنہائی کی جگہوں کو پسند کر کے رہا کرتے تھے.عرب کے متعبدین غاروں میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے (5) اور آنحضور صلی للہ ہم تو تمام عابدوں سے بڑھ کر عابد تھے اور یہی حرا کی عبادتیں تھیں جس نے بالآخر دنیا کو منور کر دیا.نزول وحی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ایک دن اسی غار میں آپ پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے.تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا.اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے اور زمین گنہ سے آلودہ ہو گئی ہے.اس لئے میں تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہوں.اب تو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں.اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک اقی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں.اور عرض کیا کہ میں 71

Page 95

پڑھنا نہیں جانتا.تب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھر دے.اور آپ کے دل کو روشن کیا تھا“ (پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466،465) فرمایا.آنحضرت ملا ل و ل کو ہر گز خواہش نہ تھی کہ لوگ آپ کو پیغمبر کہیں اور آپ کی اطاعت کریں اور اسی لیے ایک غار میں جو قبر سے زیادہ تنگ تھی جا کر آپ عبادت کیا کرتے تھے اور آپ کا ہر گزارادہ نہ تھا کہ اس سے باہر آویں آخر خدا نے اپنی مصلحت سے آپ کو خود باہر نکالا اور آپ کے ذریعے سے دنیا پر اپنے نور کو ظاہر کیا“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 619) کتب حدیث و تاریخ وسیرت میں نزول وحی کی ابتدا کے متعلق بڑی تفصیلات بیان کی کئی ہیں.پچھلے صفحات میں بخاری کی ایک لمبی روایت درج کی گئی ہے جو حضور کے مندرجہ بالا ارشادات کی تائید کرتی ہے.خشيت على نفسی کی حقیقت: نزول وحی کی ابتدا کے وقت آنحضور صلی علی کم پر ایک خوف کی کیفیت طاری تھی جسکا اظہار خشیت علی نفسی (یعنی مجھے اپنے نفس کے بارے خوف لاحق ہوا) کے الفاظ سے اور ما انا بقاری کہ میں پڑھنا نہیں جانتا اور اسی طرح زملونی ملونی سے اس خوف کا اظہار ہوا.اس خوف کی ایک وجہ تو صاف ظاہر ہے کہ جب حکم ماموریت ہوا تو آپ صلی الی نام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں تو امی ہوں پھر کس طرح اس کلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے سکوں گا.آپ صلی ظم کو اس منصب کی ذمہ داری کا مکمل عرفان حاصل ہو چکا تھا جس کی وجہ سے دل میں عجز کی وجہ سے خوف پیدا ہوا.اس بات کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے.اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک اُتی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں.اور عرض کیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا“ (پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466،465) حضور نے خشیت علی نفسی کے متعلق ایک نہایت اہم نکتہ بیان فرمایا ہے جو آنحضور صلی اللہ نام کی ارفع شان کا بھی اظہار ہے اور تمام انسانوں کے لئے بھی رہنمائی ہے.آپ فرماتے ہیں.72

Page 96

حضرت علی ایم کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے بلکہ حضرت خدیجہ کے پاس ڈرتے ڈرتے آئے اور فرمایا کہ خشیت علی نفسی یعنی مجھے اپنے نفس کی نسبت بڑا اندیشہ ہوا کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو.لیکن جو لوگ بغیر تزکیہ نفس کے جلدی سے ولی بننے کی خواہش کرتے ہیں وہ جلدی سے شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں“ فترت وحی کی حکمت: حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 578) آغاز نزول وحی کے بعد کچھ عرصہ کے لئے نزول وحی کا سلسلہ رک گیا.کتب احادیث و سیرۃ النبی صلی نیلم میں اس عرصہ کو فترة وحی کا عنوان دیا گیا ہے.اس موضوع پر بھی محدثین و مورخین نے بہت کچھ بیان کیا ہے.لیکن فترة وحی کے متعلق عدیم المثال تفسیری نکات اور اس واقعہ کا عظیم روحانی تجربہ ہونے کا بیان اور اس کی نہاں در نہاں غرض وغایت کا بیان صرف سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہی منکشف فرمایا ہے.اس مضمون کو دیکھ کر انسان کس قدر انشراح کے ساتھ قبول کر سکتا ہے کہ قرآن کریم کس قدر عالی مضامین کو کیسے انداز اور طرز سے بیان کرتا ہے.پھر قرآن شریف میں ایک مقام پر رات کی قسم کھائی ہے.کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کی قسم ہے جب وحی کا سلسلہ بند تھا.یادرکھنا چاہیے کہ یہ ایک مقام ہے جو ان لوگوں کے لئے جو سلسلہ وحی سے افاضہ حاصل کرتے ہیں آتا ہے وحی کے سلسلہ سے شوق اور محبت بڑھتی ہے لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارج عالیہ تک پہنچاتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے قلق اور کرب میں ترقی ہوتی ہے اور روح میں ایک بے قراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دعاؤں کی روح اس میں نفع کی جاتی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر یا رب! یارب !! کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق اور جذبہ کے ساتھ دوڑتی ہے جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ رکھا گیا ہو بے اختیار ہو کر ماں کی طرف دوڑتا اور چلاتا آتا ہے ، اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بیحد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دوڑتی ہے اور اس دوڑ دھوپ اور قلق و کرب میں وہ لذت و سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے..یاد رکھو روح میں جس قدر اضطراب اور بیقراری خدا تعالیٰ کے لئے ہو گی اسی قدر دعاؤں کی توفیق ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہو گا.غرض یہ ایک زمانہ ماموروں اور مرسلوں اور ان لوگوں پر جن کے ساتھ 73

Page 97

مکالمات الہیہ کا ایک تعلق ہوتا ہے آتا ہے اور اس سے غرض اللہ تعالیٰ کی یہ ہوتی ہے کہ تا انکو محبت کی چاشنی اور قبولیت دعا کے ذوق سے حصہ دے اور انکو اعلیٰ مدارج پر پہنچا دے تو یہاں جو ضحی اور کیل کی قسم کھائی، اس میں رسول اللہ صلی الی کام کے مدارج عالیہ اور مراتب محبت کا اظہار ہے اور آگے پیغمبر خدا کا ابراء کیا کہ دیکھو دن اور رات جو بنائے ہیں ان میں کس قدر وقفہ ایک دوسرے میں ڈال دیا ہے ضحی کا وقت بھی دیکھو اور تاریکی کا وقت بھی خیال کرو مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ خدا تعالیٰ نے تجھے رُخصت نہیں کر دیا.اس نے تجھ سے کینہ نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ ایک قانون ہے جیسے رات اور دن کو بنایا ہے اسی طرح انبیاء علیهم السلام کے ساتھ بھی ایک قانون ہے کہ بعض وقت وحی کو بند کر دیا جاتا ہے تا کہ ان میں دعاوں کے لئے زیادہ جوش پیدا ہو.اور ضحی اور کیل کو اسلئے بطور شاہد بیان فرمایا تا آپ کی امید وسیع ہو اور تسلی اور اطمینان پیدا ہو " ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن].جلد 1 صفحہ 149-150) وحی الہی کا یہ قاعدہ ہے کہ بعض دنوں میں تو بڑے زور سے بار بار الہام پر الہام ہوتے ہیں اور الہاموں کا ایک سلسلہ بندھ جاتا ہے اور بعض دنوں میں ایسی خاموشی ہوتی ہے کہ معلوم نہیں ہو تا کہ اس قدر خاموشی کیوں ہے اور نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ نے ان سے کلام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے.نبی کریم صلی ا م پر بھی ایک زمانہ ایسا ہی آیا تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ اب وحی بند ہو گئی.چنانچہ کافروں نے ہنسی شروع کی کہ اب خدا نعوذ باللہ ہمارے رسول کریم (صلی ال) سے ناراض ہو گیا ہے اور اب وہ کلام نہیں کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن شریف میں اس طرح دیا ہے کہ وَالضُّحى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّ عَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى (الضحی :4-2) یعنی قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی.اور رات کی.نہ تو تیرے رب نے تجھ کو چھوڑ دیا اور نہ تجھ سے ناراض ہوا.اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے دن چڑھتا ہے اور اس کے بعد رات خود بخود آجاتی ہے اور پھر اس کے بعد دن کی روشنی نمودار ہوتی ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی خوشی یا ناراضگی کی کوئی بات نہیں.یعنی دن چڑھنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنے بندوں پر خوش ہے اور نہ رات پڑنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ناراض ہے بلکہ اس اختلاف کو دیکھ کر ہر عظمند خوب سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ہو رہا ہے.اور یہ اس کی سنت ہے کہ دن کے بعد 74

Page 98

رات اور رات کے بعد دن ہوتا ہے پس اس سلسلہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ اس وقت خدا تعالیٰ خوش ہے اور اس وقت ناراض ہے غلط ہے.“ اسلام کا عالمگیر مشن: (ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 370) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں بڑی تفصیل سے اسلام کے عالمگیر مشن کا ذکر فرمایا ہے.اور اس پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی ہے.چند تحریرات پیش ہیں پہلا مقصد آنحضرت صلی اللہ ﷺ کا عرب کی اصلاح تھی.اور عرب کا ملک اس زمانہ میں ایسی حالت میں تھا کہ بمشکل کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان تھے “ ایک جگہ فرمایا: (پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 463) "رسول اللہ صلی الم کے دنیا میں آنے کی غرض وغایت تو صرف یہ تھی کہ دنیا پر اس خدا کا جلال ظاہر کریں جو مخلوق کی نظروں اور دلوں سے پوشیدہ ہو چکا تھا اور اسکی جگہ باطل اور بیہودہ معبودوں، بتوں اور پتھروں نے لے لی تھی اور یہ اس صورت میں ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلیالی کم کی جمالی اور جلالی زندگی میں جلوہ گری فرماتا اور اپنے دست قدرت کا کرشمہ دکھاتا“ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 426) ”ہمارے نبی صلی ا م نے کہیں نہیں کہا کہ میں صرف عرب کے لئے بھیجا گیا ہوں بلکہ قرآن شریف میں یہ ہے قُل يَأَيُّها الناسُ انّى رسولُ اللهِ اليكُم جميعًا (اعراف (159) یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمام دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 469) قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر یہ دعوی کیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے لئے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قُل يَا أَيُّها الناسُ انّى رسولُ اللهِ اليكُم جميعًا یعنی تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں اور پھر فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً 75

Page 99

لِلْعَالَمِینَ یعنی میں نے تمام عالموں کے لئے تجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے.اور پھر فرماتا ہے لِتَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيراً یعنی ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے.لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعوی نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا...اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا عین موقعہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللی علم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ ہم نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُل يَأَيُّها الناسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ اليكُم جَمِيعًا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کیطرف خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہر گز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے “ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 76-77) آغاز تبلیغ: حضور فرماتے ہیں: ایک دن اسی غار میں آپ پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا.اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے اور زمین گنہ سے آلودہ ہو گئی ہے.اس لئے میں تجھے اپنا رسول کر کے بھیجتا ہوں.اب تو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466-465) آنحضور صلی الم نے ماموریت کے بعد خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق تبلیغ کا آغاز فرمایا.لیکن یہ تبلیغ ابھی صرف اپنے قریبی رشتہ داروں اور عزیزوں تک ہی محدود تھی اور خفیہ تھی.اس طرح ابتدا میں قریبی رشتہ داروں اور گھر میں رہنے والے افراد نے ہی اسلام قبول کیا.جن میں سر فہرست حضرت خدیجہ حضرت علی، حضرت فاطمہ حضرت زید شامل ہیں.اور حضرت ابو بکر صدیق اور چند اور صحابہ شامل ہیں اور تبلیغ کا سلسلہ تقریباً تین سال تک محدود اور قدرے خفیہ رہا.اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اہل بیت اور ابتدائی صحابہ کی تربیت اس رنگ میں کرنے کا موقعہ مل گیا کہ آئندہ لوگوں کے لئے نمونہ بن سکیں.76

Page 100

قریش کو دعوت اسلام: آنحضور صل الم نے انذِر عَشِیرتک الاقربین کے حکم کے مطابق اپنے خاندان اور قبیلہ اور قوم یعنی اہل مکہ کو دعوت اسلام دی.اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں.ایک دفعہ اوائل دعوت میں آنحضرت علی ال یکم نے ساری قوم کو بلایا.ابو جہل وغیرہ سب ان میں شامل تھے.اہل مجمع نے سمجھا تھا کہ یہ مجمع بھی کسی دنیوی مشورہ کے لئے ہو گا.لیکن جب ان کو اللہ تعالیٰ کے آنیوالے عذاب سے ڈرایا گیا تو ابو جہل بول اٹھاتبا لک الهذا جمعتنا.غرض باوجود اس کے کہ آنحضرت ملا ہم کو وہ صادق اور امین سمجھتے تھے مگر اس موقعہ پر انہوں نے خطرناک مخالفت کی اور ایک آگ مخالفت کی بھڑک اُٹھی، لیکن آخر آپ کامیاب ہو گئے اور آپ کے مخالف سب نیست و نابود ہو گئے “ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 4 صفحہ 379) آپ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے یہ ایک مشہور واقعہ ہے جو متعدد کتب میں مذکور ہے بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضور صلی الم نے کوہ صفا پر چڑھ کر ہر قبیلہ کو نام لے کر بلایا جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا اے قریش اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے تو کیا تم میری بات مانو گے سب نے کہا کہ ہم ضرور مانیں گے کیونکہ آپ صادق اور امین ہیں.آپ نے فرمایا تو پھر سنو میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کا عذاب قریب ہے خدا پر ایمان لاؤ اس عذب سے بچ جاؤ گے.جب قریش نے یہ الفاظ سنے تو ہنسنے لگے اور ابو لہب نے کہا تبَّا لَكَ الهذا جمعتنا یعنی نعوذ بالله تجھ پر ہلاکت ہو اس بات کے لئے ہمیں جمع کیا تھا.اور ابو لہب کے یہ الفاظ سن کے تمام لوگ منتشر ہو گئے.اس واقعہ کے کچھ دن بعد آپ نے اپنے گھر میں قریش والوں کو دعوت دی اور کھانے کا بھی اہتمام فرمایا کھانے کے بعد جب آپ نے لوگوں کو پیغام حق پہنچانا شروع کیا تو سب لوگ چلے گئے.ایک وضاحت: (6) تَبَّا لَكَ الهذا جَمَعتَنَا کے کتب تاریخ میں ابو لہب کے بیان کئے گئے ہیں لیکن حضور کے مذکورہ بالا ارشاد میں ابو جہل کا نام بیان کیا گیا ہے.اس کی وجہ سہو کاتب ہے.جیسا کہ اس صفحہ کے فٹ نوٹ میں بھی لکھا ہوا ہے کہ 77

Page 101

ابو لہب نے یہ بات کہی تھی.ڈائری نویس یا کاتب کی غلطی سے ابو جہل لکھا گیا ہے“ (فٹ نوٹ منجانب مرتب ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 379) ابو لہب کو ابو لہب اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ الفاظ بول کر مخالفت کی آگ بھڑکائی تھی.یعنی مخالفت کا پہلا شعلہ یہ شخص ابو لہب تھا.آپ نے ابو لہب کے متعلق ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ”ابو لہب قرآن میں عام ہے نہ خاص، مراد وہ شخص ہے جس میں التہاب واشتعال کا مادہ ہو “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 156) نیز آپ نے ابو لہب اور ابو جہل میں ایک مماثلت بھی بیان فرمائی ہے اور وہ یہ کہ دونوں میں بے صبری تھی جیسا کہ فرمایا.”ابو جہل اور ابو لہب میں کیا تھا؟ یہی بے صبری اور بے قراری تو تھی.کہتے تھے تو خدا کی طرف سے آیا ہے تو کوئی نہر لے آ.ان کم بختوں نے صبر نہ کیا اور ہلاک ہو گئے“ ابتدائی مسلمان: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ( ملفوظات [2003 ایڈیشن جلد 1 صفحہ 124) ”آپ کی قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں سے دشمنی پر کمر باندھ لی“ (پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466) آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے غریب اور عاجز لوگ تھے.کتب تاریخ سے بھی یہی ثابت ہے.نیز یہ کہ قبول اسلام سے قبل اگر کوئی کچھ حیثیت معاشرہ میں رکھتا بھی تھا تو اسلام لانے کے بعد معاشرہ میں مخالفت کی وجہ سے غریب اور عاجز ہو کر رہ گیا.سب سے پہلے حضرت خدیجہ ایمان لائیں.وہ اگر چہ ایک امیر خاتون تھیں لیکن بحثیت عورت ایک عاجز انسان تھیں.بچوں میں حضرت علی ایمان لائے جنکی عمر اس وقت تقریباً دس سال تھی.(7) حضرت زید بھی ابھی بچہ ہی تھے.(8) پھر حضرت ابو بکر صدیق نے اسلام قبول کیا انکے قبول اسلام کا واقعہ تفصیل سے اگلے صفحات میں بیان کیا جائے گا.حضرت ابو بکر صدیق 78

Page 102

کی تبلیغ سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا انکے نام بھی کتب میں مذکور ہیں جو یہ ہیں حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت عبد الرحمان بن عوف، سعد بن ابی وقاص، طلحہ بن عبید اللہ.(9) ان کے علاوہ جو سابقین فی الاسلام ہیں ان میں حضرت بلال، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت یا سٹر اور ان کا خاندان.الغرض اکثر ان میں وہ لوگ تھے جو غریب ، عاجز بوڑھے ، غلام اور بچے تھے جو مخالفین کے مقابلہ میں کچھ طاقت نہ رکھتے تھے.اس کا ثبوت وہ مظالم ہیں جو ان پر ڈھائے گئے.نیز ابوسفیان کا وہ اقرار جو اس نے ہر قل قیصر روم کے دربار میں کیا تھا جب قیصر نے اس سے پوچھا کہ محمد پر ایمان لانے والے امیر لوگ ہیں یا غریب تو ابوسفیان نے جواب دیا تھا کہ غریب لوگ اس پر زیادہ ایمان لائے ہیں.) حضرت ابو بکر صدیق کا قبول اسلام: (10) حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ابو بکر صدیق کے قبولِ اسلام کے متعلق بیان فرماتے ہیں ”دیکھو مکہ معظمہ میں جب آنحضور صل لل علم کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکہ میں ہی تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکہ ہی کے تھے لیکن ابو بکر کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپ شہر میں بھی داخل نہیں ہوئے تھے راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پوچھا کہ کوئی نئی خبر سناؤ اور اس نے کہا کہ آنحضرت ملا لی ہم نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگر چہ بعد میں بے انتہا معجزات آپ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے لیکن ابو جہل نے باوجودیکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لیکن وہ مخالفت اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کر تا رہا “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 7) حضرت صدیق اکبر ابو بکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت علی ای کم پر ایمان لائے تو انہوں نے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا اور جب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے تو بیان کیا کہ میرے پر تو محمد علی ای کم کا امین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ کو استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باند ھیں.ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر یک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضیلت آنحضرت ملا لی کم کی دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کا ذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے انکی نگاہوں 79

Page 103

میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی الله ولم تقوی کے اعلیٰ مراتب پر ہیں اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری سب تعلیموں سے صاف تر اور پاک تر اور سراسر نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور صداقت انکے چہرہ پر برس رہی ہے.پس انہی باتوں کو دیکھ کر انہوں نے قبول کر لیا کہ وہ در حقیقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 388-337) تقریباً تمام کتب تاریخ وسیرت میں حضرت ابو بکر صدیق کا قبول اسلام کا واقعہ مذکور ہے جس سے یہ بات بڑی وضاحت سے ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللی کم سے دعوی کے ثبوت میں کوئی دلیل نہیں مانگی تھی.نیز یہ کہ بالغ مردوں میں سے سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق نے اسلام قبول کیا.(۱۱) آنحضور صلی یکم اور حضرت ابو بکر صدیق کی دوستی اور تعلق بہت پرانا تھا.آنحضرت صلی للہ کم کی عمر تقریباً میں 20 سال کی تھی جب سے ان دونوں کی رفاقت ثابت ہے (12) اتنی لمبی رفاقت میں بارہا حضرت ابو بکر صدیق نے آنحضور صلی للہ کلم کا صادق و امین ہونا اور اعلیٰ اوصاف سے مزین ہو نا مشاہدہ کیا ہو گا جسکی وجہ سے انکے دل میں آپ صلی ال نیم کے متعلق ایک شوشہ بھی شک وشبہ کا پیدا نہ ہوا اور دعوی کا علم ہونے پر فوراً ایمان لے آئے اور صدیق اکبر کا لقب پایا.دور ابتلاء: اسلام کے آغاز سے ہی اسکی مخالفت کا بھی آغاز ہو گیا تھا.جیسا کہ آغاز تبلیغ کے عنوان کے تحت بھی ذکر کیا گیا ہے.مخالفین نے ہر صورت اسلام کی تبلیغ روکنے کی کوشش کی.اور اس کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا.مارا پیٹا، بائیکاٹ کئے اور پھر کئی مسلمانوں کو شہید بھی کیا.لیکن ہر تکلیف پر مسلمانوں نے صبر کیا اور ثابت قدمی دکھائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی تاریخ کے اس دور پر بھی مختلف پہلؤوں سے اپنی تحریرات میں روشنی ڈالی ہے.جیسا کہ فرمایا.اور جو بڑے آدمی تھے انہوں سے دشمنی پر کمر باندھ لی یہاں تک کہ آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا.اور کئی مرد اور کئی عورتیں بڑے عذاب کے ساتھ قتل کر دئے گئے “ پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466) 80

Page 104

فرمایا : ”دیکھو ہمارے نبی صلی علیم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہو گئے مگر آپ نے ایک دم بھر کے لئے کبھی کسی کی پروا نہیں کی.یہاں تک کہ جب ابو طالب آپ کے چچانے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا اس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رک سکتا.آپ کا اختیار ہے میر اساتھ دیں یا نہ دیں“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 281) ایک دفعہ اوائل دعوت میں آنحضرت مصلی یکم نے ساری قوم کو بلایا.ابو جہل وغیرہ سب ان میں شامل تھے.اہل مجمع نے سمجھا تھا کہ یہ مجمع بھی کسی دنیوی مشورہ کے لئے ہو گا.لیکن جب ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنیوالے عذاب سے ڈرایا گیا تو ابو جہل بول اُٹھا تَبَّا لَكَ الهذ اجمَعتَنَا غرض باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی ال ولم کو وہ صادق اور امین سمجھتے تھے مگر اس موقعہ پر انہوں نے خطرناک مخالفت کی اور ایک آگ مخالفت کی بھڑک اُٹھی، لیکن آخر آپ کامیاب ہو گئے اور آپ کے مخالف سب نیست و نابود ہو گئے “ 66 ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 379) مذکورہ بالا ارشادات سے ظاہر ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی جب آپ نے لوگوں کو حق کی طرف دعوت دی تو ساتھ ہی مخالفت کا آغاز ہو گیا.کتب تاریخ و سیرت اس بارہ میں مختلف تفصیلات بیان کرتی ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ مخالفت کا آغاز آغاز تبلیغ کے ساتھ ہی ہو گیا تھا ابن سعد کی روایت کے مطابق ابتداء وحی کے زمانہ میں ہی جب لوگوں نے اپنے بتوں کی مذمت سنی اور اپنے آباء واجداد کے کفر کی بابت سنا وہ دشمنی پر اتر آئے عام مخالفت کا پہلا واقعہ اسی واقعہ کو قرار دیا جاتا ہے جس میں ابو لہب نہ کہا تبَّا لَكَ الهذ اجمعتنا.یعنی نعوذ باللہ تجھ پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لئے ہمیں جمع کیا تھا.یہ مخالفت ابتداء میں کم تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مخالفت اور دشمنی میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور تھوڑا عرصہ بعد ہی قریش نے بزور شمشیر اسلام کا خاتمہ کرنا چاہا.اس مخالفت کی کئی وجوہات تھیں.اور اس میں کئی حکمتیں بھی تھیں جن کا ذکر اگلے صفحات میں (13) کیا جائے گا.81

Page 105

انبیاء اور انکی جماعتوں پر ابتلاء اور انکی مخالفت کی وجوہات: قریش کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور انکی مخالفانہ اور ظالمانہ کاروائیوں کی داستانِ دلگد از ہم پڑھتے اور سنتے ہیں.اور آج ہر احمدی مسلمان کم و بیش اسی قسم کے جو رو جفا کا نشانہ بنا ہوا ہے.بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مخالفانہ و معاندانہ کاروائیوں کی وجوہات کیا ہیں.خدا تعالیٰ کیوں اپنی مخلص جماعتوں کو طویل آزمائشوں کی چکی میں سے گزارتا ہے.قرآن کریم و احادیث اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مخالفانہ کاروائیوں کی کئی وجوہات ہیں اور ان کی حکمتیں بھی بیشمار ہیں.نیز آخرین کی اس جماعت یعنی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے حالات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعینہ وہی وجوہات اور حکمتیں کار فرما ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھیں.ان میں سے کچھ بیان کی جارہی ہیں.مقام قبولیت کا حصول: شدائد و آلام میں ایک حکمت مومنین کو کندن کرنا ہے.جسکے نتیجہ میں ان کے روحانی درجات بلند ہوتے ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ " أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ“ (البقره - 215) کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک تم پر اُن لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.انہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی.سنو! یقینا اللہ کی مدد قریب ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق انبیاء و مامورین پر آزمائش و ابتلاء میں ایک حکمت اس مامور من اللہ کو اور اس کی قوم کو قبولیت کے بلند مقام تک پہنچانا اور الہی معارف کے بار یک دقائق انکو سمجھانا ہے.گویا مصائب و آلام روحانی ترقی کا زینہ ہیں.روحانی ترقی کے لئے مضطر بانہ حالت میں مانگی ہوئی دعائیں کیمیا ہیں.ابتلاؤں کے زمانہ میں مومنین کی جماعت کو ایسی متفرعانہ دعاؤں کی خاص توفیق ملتی ہے.ایک شعر میں آپ نے اس وسیع مضمون کو ان الفاظ میں سمو دیا ہے.فرمایا 82

Page 106

عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں “ حضرت اقدس نے اس حقیقت کی نہایت عارفانہ انداز میں تفصیل بیان فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود ساکر کے ان کو دکھاتا ہے.یہ ابتلا اس لئے نازل نہیں ہو تا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام و نشان مٹادیوے.کیونکہ یہ تو ہر گز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزو جل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفادار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلا کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے اور الہی معارف کے بار یک دقیقے ان کو سکھا دے.یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے.زبور میں حضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائیش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تفرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں.اگر یہ ابتلاء در میان میں نہ ہو تا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہر گز نہ پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالئے.ابتلاء نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگادی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے بچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بیعزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مردوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا“ ( مجموعہ اشتہارات، جلد.1، صفحہ 174-175) 83 83

Page 107

حضور نے ایک اور جگہ تحریر فرمایا.” یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں دُکھ دئے جاتے ہیں.مشکل پر مشکل اُن کے سامنے آتی ہے نہ اس لئے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ نصرت الہی کو جذب کریں.یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے.چنانچہ مکہ میں ۱۳ برس گذرے اور مدینہ میں دس برس ہر نبی اور مامور مین اللہ کے ساتھ یہی حال ہوا ہے کہ اوائل میں دُکھ دیا گیا.مگار، فریبی، دوکاندار اور کیا کیا کہا گیا ہے.کوئی برا نام نہیں ہوتا جو اُن کا نہیں رکھا جاتا.وہ نبی اور مامور ہر ایک بات کی برداشت کرتے اور ہر دُکھ کو سہہ لیتے ہیں.لیکن جب انتہا ہو جاتی ہے تو پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے دوسری قوت ظہور پکڑتی ہے.اسی طرح پر رسول اللہ صلی کم کو ہر قسم کا ڈکھ دیا گیا ہے اور ہر قسم کا بُرا نام آپ کا رکھا گیا ہے.آخر آپ کی توجہ نے زور مارا اور وہ انتہا تک پہنچی جیسا اسْتَفْتَحُوا سے پایا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوا.وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ تمام شریروں اور شرارتوں کے منصوبے کرنے والوں کا خاتمہ ہو گیا.یہ توجہ مخالفوں کی شرارتوں کے انتہا پر ہوتی ہے.کیونکہ اگر اول ہی ہو تو پھر خاتمہ ہو جاتا ہے !! مکہ کی زندگی میں حضرت احدیت کے حضور گرنا اور چلانا تھا اور وہ اس حالت تک پہنچ چکا تھا کہ دیکھنے والوں اور سُننے والوں کے بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے.مگر آخر مدنی زندگی کے جلال کو دیکھو کہ وہ جو شرارتوں میں سرگرم اور قتل اور اخراج کے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے.سب کے سب ہلاک ہوئے اور باقیوں کو اس کے حضور عاجزی اور منت کے ساتھ اپنی خطاؤں کا اقرار کر کے معافی مانگنی پڑی“ مخالفت بوجه بغض و حسد : ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 1 ، صفحہ 424) مخالفت کی ایک وجہ وہ بغض و حسد ہے جو مامور من اللہ اور اس کی جماعت کے واسطے اس زمانہ کے نام نہاد عالموں، گدی نشینوں اور سر داروں وغیرہ کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.یہ طبقہ ہر عزت و شرف کا حقدار صرف اپنی ذات کو سمجھتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْءانُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ 84

Page 108

عظيم (الزخرف:32) اور انہوں نے کہا کیوں نہ یہ قرآن دو معروف بستیوں کے کسی بڑے شخص پر اتارا گیا؟ آپ نے انبیاء کی مخالفت بوجہ بغض و حسد و تکبر کی تفصیل ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے و واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا.اور تمام قومیں اسکی دشمن ہو گئی تھیں.جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہو نہار اور راستباز اور باہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اسکی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے.بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اس مرد خدا کے ظہور سے انکی آمدنیوں اور وجاہتوں میں فرق آتا ہے.ان کے شاگرد اور مرید انکے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں.کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیدا ہوتا ہے.لہذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پر ہیز گاری کے ان عالموں کو دی گئی تھی اب وہ اسکے مستحق نہیں رہے.اور جو معزز خطاب ان کو دئے گئے تھے جیسے منجم الامتہ اور شمس الامتہ اور شیخ المشائخ و غیر ہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے.سوان وجوہ سے اہل عقل ان سے مونہہ پھیر لیتے ہیں.کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے.ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء اور مشائخ کا فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے.وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوں کی سخت پردہ دری ہوتی ہے.کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت کم حصہ نور سے رکھتے ہیں اور انکی دشمنی خدا کے نبیوں اور راستبازوں سے محض نفسانی ہوتی ہے.اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں.بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور انکے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت ان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو ان پر ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی عوام کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہذاوہ اس فکر میں لگ گئے کہ کس طرح اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹادیں.اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے انکے 85

Page 109

مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتا ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں مال میں کثرت جماعت میں عزت میں مرتبت میں دوسرے فرقہ سے بر تر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاو کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودا زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اٹھا نہیں رکھا تھا اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو ان کے دلوں میں ایک رعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کاروائیاں ان سے ظہور میں آئیں“ مذہبی امور میں عدم دلچسپی : ( گونمنٹ انگریزی اور جہاد ، روحانی خزائن جلد 17 ، صفحہ 3 تا5) قوموں میں جب گمراہی عام ہوتی ہے تو ایک وبال یہ بھی آتا ہے کہ دنیاوی ترجیہات سبقت لے جاتی ہیں اور مذہب میں عدم دلچپسی عام ہو جاتی ہے.اور قوم بحیثیت مجموعی حقیقی دینی علوم سے محروم ہو جاتی ہے اور لوگ خالص علمی و دینی امور کو بھی دنیاوی طور طریق پر محمول کرنے لگتے ہیں.اس حقیقت کو بھی آپ نے انبیاء کی مخالفت کی ایک وجہ بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا جن قوموں سے ہمارے نبی ملی لی کم کا واسطہ پڑا ان کو مذہبی امور میں دلائل سننے یا دلائل سنانے سے کچھ غرض نہ تھی بلکہ انہوں نے اٹھتے ہی تلوار کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہا اور عقلی طور پر اسے رڈ کرنے کیلئے قلم نہیں اٹھائی“ ایمان کی حقیقت سے ناواقفیت : (چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 92) حضور نے انبیاء کی مخالفت کی ایک وجہ ایمان کی حقیقت سے ناواقفیت بیان فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا.سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے.کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیا سے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں انکی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہوا 86

Page 110

تھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے.اور چاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے.تب تک قبول کرنا مناسب نہیں.اور وہ بے وقوف یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو مانا ایمان میں کیو نکر داخل ہو گا.وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان.پس یہی حجاب تھا کہ جسکی وجہ سے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ اوائل میں ایمان لانے سے محروم رہے.اور پھر جب اپنی تکذیب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ راؤں پر اصرار کر چکے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں نے کہا کہ اب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے.غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے.اور نشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیاء کا شیوہ ہے.جس کی وجہ سے کروڑہا منکر ہیزم جہنم ہو چکے ہیں.خدائے تعالیٰ اپنی سنت کو نہیں بدلتا" مخالفت صداقت کی علامت: (مکتوبات احمد ، جدید ایڈیشن، جلد 2، مکتوب نمبر 8 ملفوف، صفحہ 178،177) مامورین کی صداقت کی ایک واضح علامت مخالفت و استہزاء ہے جیسا کہ قرآن کریم میں مذکورہے کہ يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ“ وائے حسرت بندوں پر ! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں.(يس:31) دنیا میں کئی مدعیان ہوئے ہیں.ان میں سے بعض نے تو خدائی تک کے دعوے کئے ہیں اور نبوت اور امامت کا دعویٰ کرنے والے بیشمار ہیں وہ لوگوں کو التجا سے دعوت دیتے رہے ہیں کہ انکی مخالفت کی جائے تا ان کی شہرت بھی ہو اور مذکورہ بالا آیت اور انبیاء صادقہ کی سنت سے تصدیق ہو لیکن کوئی انکی مخالفت پر وقت صرف کرنا مناسب نہیں سمجھتا.ہاں جو خدا کی طرف سے ہوں انکی مخالفت نہایت زور و شور سے ہوتی ہے.جو انکی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے.آپ نے اس مضمون پر ان الفاظ میں روشنی فرمائی ہے.آنحضرت علم کے زمانہ بعثت میں ہزاروں ہزار لوگ اپنے کاروبار چھوڑ کر بھی آپکی مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوئے.اپنے مالوں کا جانوں کا نقصان منظور کیا.اور آنحضرت صلی کم کی مخالفت کے لئے 87

Page 111

دن رات تدبیروں منصوبوں میں کوشاں ہوئے مگر دوسری طرف مسیلمہ تھا ادھر کسی کو توجہ نہ تھی.اس کی مخالفت کے واسطے کسی کے کان بھی کھڑے نہ ہوئے.آنحضرت صلی الم کے واسطے جس طرح گھر گھر میں پھوٹ اور جدائی ہوتی تھی.مسیلمہ کے واسطے ہر گز نہ ہوئی.غرض صادق کے واسطے ہی ایک کشش ہوتی ہے جو دلوں کے ولولوں کو ابھارتی اور جوش میں لاتی ہے.سعیدوں کے ولولے سعادت اور اشقیاء کے شقاوت کے رنگ میں پھل لاتے ہیں شقی چونکہ اسی فطرت کے ہوتے ہیں.اس واسطے ان کے واسطے کشش بھی الٹے رنگ میں ثمرات لاتی ہے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 246) ایلام یعنی دُکھ برنگ انعام: وہ دکھ جو کسی کی محبت میں اٹھایا جاتا ہے اپنے اندر ایک لذت رکھتا ہے.اور خدا کے عاشق و محب سب سے زیادہ اس محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دکھوں پر لذت و سرور اٹھاتے ہیں.بلکہ ہر راحت اس محبت کی خاطر قربان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں.مثلاً حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے اپنی جانوں اور وطنوں کی قربانی میں خوشی محسوس کی اور حضرت یوسف نے خدا کی محبت میں قید خانہ کی تکلیف کو آزادی پر ترجیح دی.الغرض ہر نبی ومامور من اللہ کے حالات زندگی اس بات کو واضح کرتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آنحضور صلی یم اور آپ کے صحابہ پر آنے والی مشکلات کی حکمت بیان کرتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں کہ خدا سے عشق اور محبت کی وجہ سے وہ دکھوں اور تکلیفوں میں اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل کرتے تھے.ہر تکلیف کے نتیجہ میں ان کے اندر ایک سرور اور لذت کا چشمہ پھوٹ نکلتا تھا اور یہی مومن کی نشانی ہے کہ وہ ہر وقت خدا کی راہ میں قربانی کے لئے آمادہ رہتا ہے اور اس راہ میں شہید ہونے کو بھی تیار ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں.یاد رکھو مومنوں کا ایلام برنگ انعام ہو جاتا ہے.اور اس سے عوام کو حصہ نہیں دیا جاتا.رسول اللہ علی ایم کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گزری اس میں جس قدر مسائل اور مشکلات آنحضرت صلی الله ولم پر آئیں ہم تو ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.دل کانپ اٹھتا ہے جب ان کا تصور کرتے ہیں.اس سے رسول اللہ صلی الم کی اعلیٰ حوصلگی، فراخدلی اور استقلال اور عزم واستقامت کا پتہ لگتا ہے کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے پڑتے ہیں مگر اس کو ذرا بھی جنبش نہیں دے سکتے.وہ اپنے منصب کے ادا کرنے میں ایک لمحہ ست اور غمگین نہیں ہوا.وہ مشکلات اسکے ارادے کو تبدیل نہیں 88

Page 112

کر سکیں.بعض لوگ غلط فہمی سے کہہ اٹھتے ہیں کہ آپ تو خدا کے حبیب مصطفی اور مجتبی تھے پھر یہ مصیبتیں اور مشکلات کیوں آئیں؟ میں کہتا ہوں کہ پانی کے لئے جب تک زمین کو کھو دانہ جاوے اس کا جگر پھاڑا نہ جاوے وہ کب نکل سکتا ہے.کتنے ہی گز گہر از مین کو کھودتے چلے جائیں تب کہیں جا کر خوشگوار پانی نکلتا ہے جو مایہ حیات ہوتا ہے.اسی طرح وہ لذت جو خد اتعالیٰ کی راہ میں استقلال اور ثبات قدم دکھانے سے نہیں ملتی جب تک ان مشکلات اور مصائب میں سے ہو کر انسان نہ گزرے.وہ لوگ جو اس کو چہ سے بے خبر ہیں وہ ان مصائب کی لذت سے کب آشنا ہو سکتے ہیں اور کب اسے محسوس کر سکتے ہیں.انہیں کیا معلوم ہے کہ جب آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی تھی اندر سے ایک سرور اور لذت کا چشمہ پھوٹ نکلتا تھا، خدا پر تو گل، اس کی محبت اور نصرت پر ایمان پیدا ہو تا تھا.محبت ایک ایسی چیز ہے کہ وہ سب کچھ کر دیتی ہے.ایک شخص کسی پر عاشق ہوتا ہے تو معشوق کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتا.ایک عورت کسی پر عاشق تھی اس کو کھینچ کھینچ کر لاتے تھے اور طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے ، ماریں کھاتی تھی مگر وہ کہتی تھی مجھے لذت ملتی ہے جبکہ جھوٹی محبتوں فسق و فجور کے رنگ میں جلوہ گر ہونے والے عشق میں مصائب اور مشکلات کے برداشت کرنے میں ایک لذت ملتی ہے تو خیال کرو کہ وہ جو خدا تعالیٰ کا عاشق زار ہو اس کے آستانہ الوہیت پر شار ہونے کا خواہش مند ہو ، وہ مصائب اور مشکلات میں کس قدر لذت پا سکتا ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی حالت دیکھو مکہ میں ان کو کیا کیا تکلیفیں پہنچیں.بعض ان میں سے پکڑے گئے قسم قسم کی تکلیفوں اور عقوبتوں میں گرفتار ہوئے.مرد تو مرد بعض مسلمان عورتوں پر اس قدر سختیاں کی گئیں کہ ان کے تصور سے بدن کانپ اُٹھتا ہے.اگر وہ مکہ والوں سے مل جاتے تو اس وقت وہ بظاہر انکی بڑی عزت کرتے ، کیونکہ وہ انکی برادری ہی تو تھے.مگر وہ کیا چیز تھی جس نے انکو مصائب اور اور مشکلات کے طوفان میں بھی حق پر قائم رکھا، وہ وہی لذت اور سرور کا چشمہ تھا جو حق کے پیار کی وجہ سے ان کے سینوں میں پھوٹ نکلا تھا.ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کہا کہ میں وضوء کرتا ہوں آخر لکھا ہے کہ سر کاٹو تو سجدہ کرتا ہے، کہتا ہوا مر گیا.اس وقت اس نے دعا کی کہ یا اللہ ! حضرت کو خبر پہنچا دے.رسول اللہ صلی اليوم اس وقت مدینہ میں تھے جبرائیل نے جا کر السلام علیکم کہا اور آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی.غرض اس لذت کے بعد جو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں سچ پوچھو تو مومن کی نشانی ہی یہی 89

Page 113

ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے تیار رہتا ہے.اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جائے کہ یا نصرانی ہو جایا قتل کر دیا جائے گا، اس وقت دیکھنا چاہئے کہ اس کے نفس سے کیا آواز نکلتی ہے.آیا وہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے.اگر وہ مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو مومن حقیقی ہے ، ورنہ کافر ہے.غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذت ہوتی ہے.بھلا سوچو تو سہی اگر یہ مصائب لذت نہ ہوتے تو انبیاء علیهم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزارتے.“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 517،516) صادق آن باشد که ایام بلا ے گزارد با محبت با وفا صادق وہ ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے دن محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.گر قضارا عاشقی گردد اسیر بوسد آز نجیر را کز آشنا اگر اتفاقا کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو وہ اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہو ابو طالب کے پاس قریش کے وفود: آغاز تبلیغ کے بعد جب مکہ میں اسلام کا چر چاہونے لگا اور لوگ اسلام کی اعلیٰ تعلیم کو قبول کرنے لگے تب قریش کے سرداروں میں بے چینی پیدا ہونی شروع ہوئی اور انہوں نے ہر تدبیر بروئے کار لا کر اسلام کی تعلیم کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش شروع کر دی.کتب تاریخ وسیرت میں تاریخ کے اس دور میں قریش کے چند وفود کا ذکر ملتا ہے جو ابو طالب کے پاس آئے تاکہ آنحضور صلی للی کم کو سمجھا بجھا کر اور بڑے بڑے دنیوی لالچ دے کر تبلیغ سے روکا جائے.ان وفود کی ابو طالب کے ساتھ اور آنحضور صلی المی نام کے ساتھ گفتگو نہایت دلچسپ ہے اور سیرت النبی صلی ال نیم کے عظیم پہلووں کو اجاگر کرتی ہے.حضور نے اپنی تحریرات میں ان میں سے بعض کا ذکر فرما کر سیرت کے نہایت زریں گوشوں کو دکھلایا ہے.بلکہ ان میں سے ایک واقعہ کا تو الہامی الفاظ میں ذکر فرمایا ہے.جو ذیل میں درج ہے.فرمایا: ”جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شر البریہ ہیں سفہاء ہیں اور ذریت شیطان ہیں اور ان کے معبود و قود النار اور حصب جہنم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ 90

Page 114

اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی.تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شر البریہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقود النار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجاور نہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہو جا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتار ہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہو رہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اِس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیر اساتھ دوں گا“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن، جلد 3 صفحہ 110-111) نوٹ : مذکورہ بالا تحریر کے بعد حضور نے حاشیہ میں فرمایا: یہ سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگر چہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے.قریش مکہ یہ جانتے تھے کہ جب تک ابو طالب کی پناہ اور حمایت آپ صلی علیم کے ساتھ ہے اس وقت تک کوئی معاندانہ کاروائی کھل کر نہیں ہو سکتی کیونکہ ابو طالب بنی ہاشم کے رئیس تھے اور انکی مرضی کے بغیر اگر محمد رسول 91

Page 115

اللہ صلی علی کم کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی گئی تو یہ بنو ہاشم کے ساتھ جنگ کے مترادف ہو گا.اس لئے انہوں نے ابو طالب کو آنحضور صلی للی کم کی حمایت سے دستبردار ہونے کو کہا.(14) ابو طالب کے پاس قریش کا وفد : مذکورہ بالا جس وفد کا ذکر کیا گیا ہے یہ در اصل دو سر اوفد ہے.اس سے پہلے بھی قریش کے سردار اس قسم کا مطالبہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے تھے اور ابو طالب نے انہیں تسلی وغیرہ دے کر واپس بھیج دیا تھا.(15) قریش نے چند دن بعد جب دیکھا کہ اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو ابو طالب کے پاس ایک اور وفد کی صورت میں آئے جس میں ابو جہل، عاص بن وائل، اسود بن مطلب، اسود بن عبد یغوث شامل تھے.یہ لوگ ابو طالب کے پاس آئے اور کہا کہ اب حد ہو گئی ہے.محمد صلی الی نیم کو ہمارے بتوں کی مذمت سے روکیں یا اسکی حمایت سے دستبر دار ہو جائیں اور ہمیں خود نمٹنے کی اجازت دیں.اس دفعہ سرداران قریش کے لہجہ میں سختی زیادہ تھی جسکی وجہ سے ابو طالب کو پریشانی لاحق ہوئی.آنحضور صلی ا یکم جب گھر تشریف لائے تو سارا قصہ بیان کیا اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا.(16) ابوطالب کی پریشانی دیکھ کر آنحضور صلی یکم نے ان سے وہ الفاظ فرمائے جن کا ذکر حضور نے الہامی الفاظ میں فرمایا ایک اور وفد : سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسی دور کے ایک اور وفد کا بھی ذکر فرمایا ہے جو قریش کی کم ظرفی اور آنحضور علی ایم کی اعلی ظرفی اور اولو العزمی پر روشنی ڈالتا ہے.فرمایا: دو یہ بھی یادر کھیں کہ یہ مشکلات اور روکیں صرف میری ہی راہ میں نہیں ڈالی گئیں بلکہ شروع سے سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جب کوئی راستباز اور خدا تعالیٰ کا مامور ومرسل دنیا میں آتا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے اس کی جنسی کی جاتی ہے اسے قسم قسم کے دکھ دئے جاتے ہیں مگر آخر وہ غالب آتا ہے اور اللہ تعالی تمام روکوں کو خود اٹھا دیتا ہے.آنحضور صلی کمی کو بھی اس قسم کے مشکلات پیش آئے ابن جریر نے ایک نہایت ہی دردناک واقعہ لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلیم نے نبوت کا دعوی کیا تو ابو جہل اور چند اور لوگ بھڑ کے اور مخالفت کے واسطے اٹھے انہوں نے یہ تجویز کی کہ ابو طالب کے پاس جا کر شکایت کریں.چنانچہ ابو طالب کے پاس یہ لوگ گئے کہ تیرا بھتیجا ہمارے بتوں اور معبودوں 92

Page 116

کو بُرا کہتا ہے اس کو روکنا چاہئے چونکہ ایک بڑی جماعت یہ شکایت لے کر گئی تھی اس لئے ابو طالب نے آنحضرت ملا م کو بلایا تاکہ ان کے سامنے آپ سے دریافت کریں.جہاں یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے یہ ایک چھوٹا دالان تھا اور ابو طالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ باقی تھی.جب آنحضرت ملا کر تشریف لائے تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ چاکے پاس بیٹھ جائیں مگر ابو جہل نے یہ دیکھ کر کہ آپ یہاں آکر بیٹھیں گے شرارت کی اور اپنی جگہ سے کود کر وہاں جا بیٹھا تا کہ جگہ نہ رہے اور سب نے مل کر ایسی شرارت کی کہ آپ کے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ رکھی.آخر آپ دروازہ ہی میں بیٹھ گئے.اس دردناک واقعہ سے انکی کیسی شرارت اور کم ظرفی ثابت ہوتی ہے غرض جب آپ بیٹھ گئے تو ابو طالب نے کہا کہ اے میرے بھتیجے تو جانتا ہے کہ میں نے تجھ کو کس واسطے بلایا ہے.یہ مکہ کے رئیس کہتے ہیں کہ تو انکے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے.آنحضرت میلی لی ایم نے فرمایا.اے چا میں تو ان کو ایک بات کہتا ہوں کہ اگر تم یہ ایک بات مان لو تو عرب و عجم سب تمہارا ہو جائے گا.انہوں نے کہا وہ کونسی بات ہے ؟ تب آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ جب انہوں نے یہ کلمہ سنا تو سب کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور بھڑک اُٹھے اور مکان سے نکل گئے اور پھر آپ کی راہ میں بڑی روکیں اور مشکلات ڈالی گئیں “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 535،536) مندرجہ بالا واقعہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے طبری کے حوالہ سے بیان کیا ہے.طبری میں یہ روایت تقریباً انہی الفاظ میں ابن عباس کی روایت سے بیان کی گئی ہے.دنیوی لالچ دینے کی کوشش: تاریخ اسلام کے اس دور میں چند ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن میں کفار سرداران قریش نے حضرت نبی اکرم صل للہ کل کو دنیوی لالچ دے کر تبلیغ سے روکنے کی کوشش کی.اور آپ صلی علی یکم نے ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا.آپ نے بھی ان میں سے چند واقعات کا ذکر فرمایا ہے اور آپ صلی یک کم کی بے مثال استقامت پر روشنی ڈالی ہے.رسول اکرم علی علیم کی استقامت انکے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے.گل قوم کا ایک طرف ہونا.دولت، سلطنت، دنیوی وجاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمتہ اللہ لَا إِلهَ إِلَّا اللہ سے رُک جاویں.لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالت مآب کا قبول کرنا اور فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا.میں تو حکم 93

Page 117

خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرف سے سب تکالیف کی برداشت کرنا یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن جلد 4 صفحہ 46) ابن ہشام نے ایک روایت بیان کی ہے جو مذکورہ بالا ارشاد کی تفصیل جاننے کے لئے مفید ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ قریش کے بڑے بڑے سردار جن میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو سفیان بن حرب، نضر بن حارث، ابو البختری اسود بن مطلب، زمعہ بن اسود، عبد اللہ بن امیہ ایک شام غروب آفتاب کے وقت کعبہ کے پاس جمع ہوئے اور آپ صلی اللہ تم کو بھی بلوالیا.قریش نے آپ صلی علیم کو کہا کہ اے محمد آپ نے ہمارے بتوں کی مذمت کی ہے.ہمارے آباء کو برا بھلا کہا.اور قوم میں افتراق ڈالا.ہم چاہتے ہیں کہ آپ ایسا کرنے سے رُک جائیں.اسکے بدلہ اگر آپ کو مال چاہئے تو ہم سب مل کر آپ کو عرب کا سب سے زیادہ مالدار بنادیتے ہیں.اگر سر داری چاہئے تو ہم آپ کو سردار بنا د لیتے ہیں.اگر خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو عرب کی جو چاہیں عورت آپ کے سپرد کر دیتے ہیں، اور یہ کہا کہ اگر آپ کو کوئی جھاڑ پونچھ یعنی کسی ذہنی بیماری کا علاج در کار ہے تو وہ بھی کروانے کو تیار ہیں.اسکے جواب میں آپ صلی میں ہم نے فرمایا مجھے ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں چاہئے.نہ میں تم میں عزت چاہتا ہوں اور نہ میں تم پر حکومت کا خواہاں ہوں میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اگر تم میری بات مانو گے تو تم دین و دنیا کے مالک بنائے جاؤ گے.اسکے بعد قریش نے نبوت کی دلیل کے طور پر بیہودہ سوالات کرنے شروع کئے جن کے جواب میں آپ نے سورۃ کہف کی آیات سنائیں.(18) آنحضور صلی اللی کم پر قریش کے مظالم : سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: ”آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے.اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں نے دشمنی پر کمر باندھ لی.یہاں تک کے آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا.اور کئی مر داور کئی عور تیں بڑے عذاب کے ساتھ قتل کر دیئے گئے“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466) ایک جگہ حضور نے برہمو پر کاش دیوجی کی کتاب سوانح عمری حضرت محمد صاحب کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ: 94

Page 118

” اور جب قریش اپنے اس حیلہ میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو بے انتہا اذیتیں اور تکلیفیں پہنچانی شروع کیں.عزیزوں کا لہو سفید ہو گیا.سگا چا ابو لہب دشمن جانی بن گیا.سنگی چچی کا یہ حال تھا کہ وہ بہت سے کانٹے گوکھرو سمیٹ لیتی اور جن جن راہوں سے آپ گذرتے وہاں وہ گو کھٹڑو اور کانٹے بکھیر دیتی اور آپ کے پاؤں زخمی ہو جاتے تب آپ بیٹھ جاتے اپنے پاؤں سے بھی کانٹے نکالتے اور راستہ میں سے بھی دور کرتے تا دوسرے چلنے والے بھی اُس اذیت سے بچیں.آپ جب وعظ کہنے کے لئے کھڑے ہوتے اور قرآن مجید پڑھتے تو لوگ غل مچاتے تا کوئی شخص اُن کی بات کو نہ سن سکے.آپ کو کہیں کھڑا نہ ہونے دیتے اور جب آپ تنگ آکر چلے جاتے تو ان پر پتھر اور ڈھیلے پھینکے جاتے یہاں تک کہ آپ کے ٹخنے اور پنڈلیاں زخمی ہو جاتیں.ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپ کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کیا.قریب تھا کہ آپ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابو بکر آنکلے اور انہوں نے مشکل سے چھڑایا.اس پر ابو بکر کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے“ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 257-258) اور جب کفار قریش کا حد سے زیادہ ظلم بڑھ گیا.اور انہوں نے غریب عورتوں اور یتیم بچوں کو قتل کرناشروع کیا.اور بعض عورتوں کو ایسی بیدردی سے مارا کہ اُن کی دونوں ٹانگیں دور سوں سے باندھ کر دو اونٹوں کے ساتھ وہ رسے خوب جکڑ دیئے اور پھر اُن اُونٹوں کو دو مختلف جہات میں دوڑایا اور اس طرح پر وہ عورتیں دو ٹکڑے ہو کر مر گئیں“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 467) قریش نے آنحضور صلی نام پر اور صحابہ پر مظالم کا ایک دردناک سلسلہ شروع کر دیا.اور آپ صلی علیہ ظلم کی تو جان کے درپے ہو چکے تھے کیونکہ اسلام کی روح آپ ہی کی ذات بابرکات تھی.بنو ہاشم میں سے صرف ابو طالب اور حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے.اور اب تو قریش ابو طالب کی بھی پروانہ کرتے تھے.کیونکہ اس کام یعنی آنحضور صلی ایم کی حمایت میں ابو طالب تنہا ہی تھے.دوسرا چا ابو لہب اور اسکی بیوی ام جمیل بھی آپ کے مخالفین میں سے تھے.ابو لہب وہ شخص تھا جس نے ابتدا میں ہی اسلام کی مخالفت کا اعلان کر دیا تھا ور اسکی بیوی بھی اس کے ساتھ تھی.(19) لیکن مظالم میں اس وقت تک شامل نہ ہوئے جب تک انکو قریش کی طرف سے خطرہ پیدا نہیں ہوا.بلکہ شعب ابی طالب کی محصوری تک کسی حد تک بنو ہاشم کے ساتھ رہا لیکن شعب ابی طالب میں 95

Page 119

محصوری کے واقعہ کے وقت اس نے بنی ہاشم سے علیحدگی اختیار کرلی اور باقاعدہ مخالفت اور مظالم میں شامل ہو گیا بلکہ مظالم کی انتہا کر دی اسکی بیوی بھی مظالم میں کسی سے کم نہ تھی.اسی لئے خدا تعالیٰ نے ان دونوں کا ذکر سورۃ لہب میں کیا ہے.اس سورت کے نزول کے بعد یہ دونوں مخالفت کی آگ میں اور زیادہ بھڑک اُٹھے.اور آنحضور صلی علیم کے راستے میں کانٹے بچھانا اور ہجو کرنا انکا معمول ہو گیا.(20) حضور نے جیسا کہ فرمایا ہے کہ آنحضور صلی ا ہم جب وعظ کے لئے کھڑے ہوتے تو لوگ شور مچاتے تاکہ لوگ آپ کی آواز سُن نہ سکیں.اس کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ(حم 27) اور اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا، کہا کہ اس قرآن پر کان نہ دھرو اور اُس کی تلاوت کے دوران شور کیا کرو تا کہ تم غالب آجاؤ.آپ نے مذکورہ بالا تحریر (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 257-258) میں ایک بد بخت کی آپ صلی الی یکم کے گلے میں پڑکاڈال کر قتل کی کوشش کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے اسکی تفصیل کتب سیرت میں سے طبری کی ایک روایت کے مطابق یہ ہے کہ عقبہ بن معیط نے کعبہ کے قریب محمد صلی للی کام کے گلے میں کپڑا ڈال کر اسے بل دینا شروع کیا اس سے آپ کا سانس رُک گیا حضرت ابو بگر اچانک وہاں آئے تو یہ دیکھ کر آپ نے عقبہ بن معیط کو پکڑ کر پیچھے کیا اور کہا.يَا قَومِ ا تقتلونَ رَجُلاً أَن يَقول رَبِّيَ الله یعنی اسے قوم تم اس شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ یہ کہتا ہے میر ارب اللہ ہے.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ تکلیف آپ صلی للی کم کی زندگی کی شدید ترین تکالیف میں سے تھی.اکسید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے.مکہ معظمہ میں تیرہ برس تک کفار کے ہاتھ سے سخت تکلیف میں رہے اور یہ تکلیف اس تکلیف سے بہت زیادہ تھی جو فرعون سے بنی اسرائیل کو پہنچی“ (21) ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 290) جیسا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ قریش آنحضور صلی ایم کے دشمن جانی ہو گئے تھے یہ واقعات صرف چند مثالیں ہیں.ور نہ انہوں نے تو آپ صلی لی ایم کے قتل کی کسی کوشش سے دریغ نہ کیا تھا.اور کوئی ظلم چھوڑا نہ تھا.لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو صبر اور استقامت بھی عطا فرماتا تھا.اور آپ صلی علیہم کی حفاظت بھی فرماتا تھا.صحابہ اور صحابیات پر ڈھائے جانے والے مظالم میں حضور علیہ السلام نے آل یاسر کا ذکر کیا ہے سیرت النبی صلی ا لم لا بن ہشام میں درج ایک روایت کے مطابق سمیہ اور حضرت یا سڑکی بنی مخزوم کی ملکیت میں تھے یعنی انکے غلام تھے.ان دونوں نے اسلام 96

Page 120

قبول کر لیا تھا اور انکے بیٹے حضرت عمار بھی مسلمان ہو گئے تھے انکے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ابو جہل کی نگرانی میں بنوم مخزوم الِ یا سر پر دردناک مظالم ڈھاتے تھے.انکو گرمیوں کی تپتی دوپہر میں ریت پر ننگے بدن لٹا کر او پر بھاری پتھر رکھ دیا کرتے تھے اور تازیانوں سے مارا کرتے تھے.ایک دفعہ آنحضور صلی ا ہم نے اس خاندان کو ایسی مظلومیت کی حالت میں دیکھ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر انکو جنت کی نوید سنائی فرمایا صبرا يا ال ياسر موعدُكُمُ الجنة - اے ال یاسر صبر کرو خدا نے تمہارے لئے جنت لکھ دی ہے.حضرت یا شر کو تو قریش نے اسی طرح کے دکھ دیتے ہوئے شہید کر دیا.اور انکی بیوی حضرت سمیہ کو نہایت ظالمانہ طریق سے انکی ران میں نیز امار کر شہید کر دیا حضرت عمار کو بھی طرح طرح کے دکھ دیتے رہے.اس طرح اس خاندان نے صبر ووفا کا عظیم نمونہ دکھایا.(22) حضرت بلال کے متعلق بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا آقا امیہ بن خلف نہایت ظالمانہ طریق سے انکو مارا کرتا تھا.انکو ننگے بدن تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا کرتا تھا.اور حضرت بلال کے منہ سے صرف احد احد کی آواز ہی نکلتی تھی.اور اسی حالت میں نڈھال ہو کر بیہوش ہو جایا کرتے تھے.حضرت ابو فکی جو کہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے انکو بھی اسی طرح کے دکھ دئے جاتے تھے.حضرت لبینہ بنو عدی کی لونڈی تھیں انکو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے حضرت عمرؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے مارا کرتے تھے.حضرت زنیرہ پر ابو جہل نے اس قدر ظلم کیا کہ انکی آنکھیں جاتی رہیں.لیکن اس نے اسلام کو نہ چھوڑا.حضرت خباب بن الارت گو لوگوں نے پکڑ کر دہکتے ہوئے انگاروں پر سینہ کے بل لٹا دیا اور اوپر ایک شخص چڑھ گیا تا کہ ہل بھی نہ سکیں.(23) مشرکین بعض اوقات مسلمانوں پر اس قدر ظلم کرتے تھے کہ وہ اس ظلم کی تاب لانے کے قابل نہ ہوتے تھے.اور وہ ان لمحوں میں خدا کے حضور دین کے معاملہ میں مضطر کی کیفیت میں ہوتے تھے.قریش ان میں سے کسی کو مارتے تھے، کسی کو بھوکا اور پیاسا رکھتے تھے.بعض ان میں سے بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے.کمزوری کے باعث غشی کی سی کیفیت میں ہوتے تھے.قریش ان سے ایسی حالت میں جو چاہتے کہلوالیتے تھے.یہاں تک کہ اس کیفیت میں نا قابل برداشت تکالیف سے بچنے کے لئے گوبر کے کیڑے کو بھی خدا کہہ سکتے تھے.اور جب انکی حالت ذرا بہتر ہوتی تو وہ اسلام کی تعلیمات پر ہی قائم ہوتے تھے.اور ایسی حالت کے صرف ایک یا دو صحابہ کے واقعات ہی ملتے ہیں.ورنہ اکثر صحابہ کے منہ سے اسلام لانے کے بعد کبھی اضطراری حالت میں بھی خلاف توحید کوئی کلمہ نہ نکلا.(24) شعب ابی طالب میں محصوری کا زمانہ مظالم کی انتہا کا زمانہ تھا.آنحضور صلی علی نام کو آپ کے صحابہ کے ساتھ بلکہ چچا ابو طالب کو بھی ایک محلہ میں محصور کر دیا گیا.اور ان ایام میں مسلمانوں نے شدید بھوک اور پیاس کی تکالیف جھیلیں.انہی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ہو گئی.(25) 97

Page 121

تاریخ کی کتب ان واقعات کو سمیٹ نہیں سکتیں.یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اُن شدائد وآلام کی جو اس دور میں مسلمانوں پر گزر رہے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عمر کے قبولِ اسلام کو آنحضور صلی یکم کی دعا کا معجزہ قرار دیا ہے اور آپ نے اپنی تحریرات میں حضرت عمرؓ کے بلند روحانی مقام اور آپ کی آنحضور صلی نیم سے انتہا درجہ کی محبت کا بھی نہایت دلکش الفاظ میں ذکر فرمایا ہے.اس سلسلہ میں چند تحریرات پیش ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا.ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس کا توقف ہو گیا.اللہ تعالیٰ خوب مصلحت سمجھتا ہے کہ اس میں کیا سر ہے.ابو جہل نے کوشش کی کہ کوئی ایسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہ کو قتل کر دے.اس وقت حضرت عمر بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے.اور شوکت رکھتے تھے.انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے رسول اللہ کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمر اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمر قتل کر آویں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے.اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شہید کرنے جاتے ہیں.دوسرے وقت وہی عمر اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں.وہ کیا عجیب زمانہ تھا.غرض اس وقت یہ معاہدہ ہوا کہ میں قتل کرتا ہوں.اس تحریر کے بعد آپ کی تلاش اور تجسس میں لگے راتوں کو پھرتے تھے کہ کہیں تنہا مل جاویں تو قتل کر دوں.لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ تنہا کہاں ہوتے ہیں.لوگوں نے کہا نصف رات گزرنے کے بعد خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھا کرتے ہیں.حضرت عمرؓ یہ سنکر بہت ہی خوش ہوئے چنانچہ خانہ کعبہ میں آکر چھپ رہے.جب تھوڑی دیر گزری تو جنگل سے لا الہ الا اللہ کی آواز آتی ہوئی سنائی دی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی آواز تھی.اس آواز کو سن کر اور یہ معلوم کر کے وہ ادھر ہی کو آرہی ہے.حضرت عمر اور بھی احتیاط کر کے چھپے اور یہ ارادہ کر لیا کہ جب سجدہ میں جائیں گے ، تو تلوار مار کر تن مبارک سر سے جدا کر دوں گا.آپ نے آتے ہی نماز شروع کر دی.پھر اس سے آگے کے واقعات خود حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سجدہ میں اس قدر رو رو کر دعائیں کیں کہ مجھ پر لرزہ پڑنے لگا.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی کہا سَجَدَ لكَ رُوحى 98

Page 122

وَجَنَانِی یعنی اے میرے مولیٰ میری روح اور میرے دل نے بھی تجھے سجدہ کیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کو سن کر جگر پاش پاش ہوتا تھا.آخر میرے ہاتھ سے ہیبت حق کی وجہ سے تلوار گر پڑی.میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچا ہے اور ضرور کامیاب ہو جائے گا.مگر نفس امارہ بر ہوتا ہے.جب آپ نماز پڑھ کر نکلے.میں پیچھے پیچھے ہو لیا.پاؤں کی آہٹ جو آپ کو معلوم ہوئی.رات اندھیری تھی.آنحضرت علی الم نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا کہ عمر.آپ نے فرمایا.اے عمر نہ تو رات کو پیچھا چھوڑتا اور نہ دن کو.اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روح کی خوشبو آئی اور میری روح نے محسوس کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم بد دعا کریں گے.میں نے عرض کی کہ یا حضرت ! بد دعانہ کریں.حضرت عمر کہتے ہیں کہ وہ وقت اور وہ گھڑی میرے اسلام کی تھی.یہاں تک کہ خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں مسلمان ہو گیا“ ایک اور جگہ آنے فرمایا: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 424-425) حضرت عمر فیا آنحضرت صلی الم کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہو گا.ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالتمآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا.حضرت عمر نے مشرف باسلام ہونے سے پہلے ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لیے آمادہ ہو گیا.اس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی.دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں.یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے.آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لا الہ الا اللہ کی آواز آناشروع ہوئی.حضرت عمر نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت ملا ل لا سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں.آنحضرت صلیم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد الہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمر عادل پسیج گیا.اس کی ساری جرآت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا.نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی اہم گھر کو چلے تو ان کے پیچھے حضرت عمر ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے آہٹ پاکر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمر کیا تو میرا پیچھا نہ چھوڑے گا.حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت میں 99

Page 123

نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا.میرے حق میں بد دعانہ کیجئے گا؛ چنانچہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 47) کتب تاریخ و سیرت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ہجرت حبشہ کے آغاز کے زمانہ میں یعنی نبوت کے پانچویں سال میں اسلام قبول کیا تھا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالا تحریرات کی روشنی میں کتب تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی فطرت در اصل ابتداہی سے اسلام پر قائم تھی جیسا کہ چار برس کا توقف ہو گیا“ کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے.اگر چہ قبول اسلام سے قبل شدید مخالفین میں سے تھے لیکن آپ کی یہ مخالفت اپنی قوم کی مخلصانہ ہمدردی کی بنا پر تھی.مکہ جو صدیوں سے صرف ایک ہی مذہب کا شہر تھا اسلام کے وجو د سے دو گروہوں میں بٹ رہا تھا.مذہب کی بنا پر رشتہ داریوں میں دراڑیں پڑرہی تھیں.اس افتراق کی وجہ سے آپ قوم قریش کے کمزور ہونے کا خطرہ محسوس کر رہے تھے.ان تمام حالات کا قصور وار آپ کی نظر میں اسلام تھا.اور اسلام کا محور حضرت نبی اکرم صلی علی یم کی ذات اقدس تھی.یہی وجہ تھی کہ آپ نے ہی اپنی دلیرانہ اور ہمدردانہ فطرت کے باعث حضرت نبی اکرم علی ایم کے قتل کی ذمہ داری اپنے سر لی.اور اُس معاہدہ پر دستخط کئے تھے.جس کا ذکر حضور نے کیا ہے.کتب تاریخ وسیرت میں درج اس معاہدہ کی تفصیل کے لئے اُم السیر یعنی سیرت الحلبیہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ابو جہل نے یہ اعلان کیا کہ جو شخص محمد کو قتل کرے گا میری طرف سے وہ سو سُرخ و سیاہ اونٹوں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی کا انعام پائے گا.ایک روایت میں اس طرح درج ہے کہ جو شخص محمد کو قتل کرے گا اسکواتنے اوقیہ سونا اور اتنے اوقیہ چاندی اتنے اتنے اوقیہ مشک،اتنے تھان کپڑا اور اسکے علاوہ دوسری چیزیں بھی انعام ملیں گی.یہ سُن کر مجمع میں سے حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور بولے اس انعام کا حقدار میں بنوں گا.لوگوں نے کہا بے شک عمر اگر تم یہ کام کرو تو یہ انعام تمہارا ہو گا.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے باقاعدہ عہد لیا.(20) امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں معاہدہ والی روایت کو حضرت عمر کی ہی بیان کردہ روایت سے درج کیا ہے (27) حضرت عمرؓ اپنے اس عہد کی تکمیل کا عزم لئے ہوئے تھے کہ ہجرت حبشہ کا زمانہ آگیا اور مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرنے لگے.حضرت عمر کو مکہ کی ویرانی کا خطرہ اور غم محسوس ہونے لگا جس کا اظہار اس مشہور واقعہ سے ہوتا ہے کہ جب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ام عبد اللہ بنت حثمہ سے روایت ہے کہتی ہیں جس وقت ہم ہجرت کرنے کی تیاری کر رہے تھے.اور عامر اس وقت کسی کام کو گئے ہوئے تھے اچانک عمر بن خطاب میری طرف آنکلے.یہ اس وقت کفر ہی کی حالت میں 100

Page 124

تھے.اور ہم کو سخت ایذائیں پہنچاتے تھے.کہتی ہیں وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اے ام عبد اللہ کیا کوچ ہے ؟ کہتی ہیں میں نے کہا ہاں.واللہ ہم کیا کریں جب تم ہم کو بیحد تکلیفیں دیتے ہو اس لئے ہم خدا کے ملک میں سفر کرتے ہیں یہاں تک کہ خدا ہمارے لئے کشادگی پیدا کر دے.کہتی ہیں عمر بن خطاب نے کہا خدا تمہارا حافظ ہو...اور میں نے دیکھا کہ عمر کے دل پر غم تھا جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.رایتُ لَهُ رقّةٌ لَمْ اكُنْ أَراهَا(28) بہر حال اس واقعہ نے حضرت عمر کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کے متعلق غور و فکر پر مجبور کیا.اور معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک کسی حد تک اسلام کی سچائی اُن پر واضح بھی ہو گئی ہو گی.لیکن مکہ کے اتحاد کی خاطر وہ اسلام کا خاتمہ ضروری سمجھتے تھے.کیونکہ بظاہر قریش اسلام قبول کرنے والے نہیں اور محمد علی الی یکی اپنے عزم سے ٹلنے والے نہیں.لہذا اگر محمد کو ختم کر دیا جائے تو تمام جھگڑا ختم ہو جائے گا.غالباً خیالات کی کسی ایسی ہی ملی جلی کیفیت میں آپ نے تلوار ہاتھ میں لی اور اسلام کے خاتمہ کا عزم لے کر نکلے اور بالآخر خود اسلام کی آغوش میں آگرے.حضرت عمرؓ کے قبول اسلام اور اعلان اسلام کے متعلق سب سے مشہور روایت وہ ہی ہے جس میں آپ کا اسلام کے خاتمے کے لئے تلوار لے کر نکلنا اور معلوم ہونا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی بھی اسلام لاچکے ہیں.غالباً یہ آخری تقریب پید اہوئی آپ کے اعلان اسلام کی ورنہ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اسلام ان کے دل میں بہت پہلے گھر کر چکا تھا.یہ بھی مسلّم ہے کہ آنحضور صلی لی کام کی خاص دعائیں تھیں جو آپ کو اسلام کی طرف کھینچ رہی تھیں.ان دعاوں کا ذکر تاریخ کی مختلف کتب میں موجود ہے کہ اے اللہ عمر و بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ اسلام کو طاقت بخش (29) پس یہ دعا حضرت عمرؓ کے حق میں انکی سعید فطرت کے باعث پوری ہوئی.اور انکی وجہ سے اسلام کو بہت فائدہ ہوا.عمر جو کبھی تلوار لیکر آنحضور صلی کم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے چند ہی دنوں کے اندر آپ صلی ال نیم کے عاشق صادق ہو گئے.آنحضور صلی علیم کی تکلیف سے بے چین اور بے اختیار ہو کر آبدیدہ ہو جاتے تھے.ایک واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.محضرت علی ایم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمر آپ سے ملنے گئے.ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی.آنحضرت ملا لی یکم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.جب حضرت عمر اندر آئے تو آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے.حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے.ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے.حضرت عمران کو دیکھ کر رو پڑے.آپ نے 101

Page 125

پوچھا.اے عمر ا تجھ کو کس چیز نے رُلایا؟ عمر نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خدا تعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں.آنحضرت علی الم نے فرمایا.اے عمر مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اُونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو.ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں ستالے اور جو نہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے.جس قدر نبی اور رسول ہوئے سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مد نظر رکھا ہوا تھا“ (ملفوظات[2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 51) سفر طائف: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمارے بادی کامل کو یہ دونوں باتیں دیکھنی پڑیں.ایک وقت تو طائف میں پتھر برسائے گئے.ایک کثیر جماعت نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف دی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقلال میں فرق نہ آیا.جب قوم نے دیکھا کہ مصائب و شدائد سے ان پر کوئی اثر نہ پڑا، تو انہوں نے جمع ہو کر بادشاہت کا وعدہ دیا.اپنا امیر بنانا چاہا.ہر ایک قسم کے سامان آسائش مہیا کر دینے کا وعدہ کیا.حتی کہ عمدہ سے عمدہ بی بی بھی.بدیں شرط کہ حضرت بتوں کی مذمت چھوڑ دیں.لیکن جیسے کہ طائف کی مصیبت کے وقت ویسی ہی اس وعدہ بادشاہت کے وقت حضرت نے کچھ پروانہ کی اور پتھر کھانے کو ترجیح دی.سو جب تک خاص لذت نہ ہو، تو کیا ضرورت تھی کہ آرام چھوڑ کر دکھوں میں پڑتے“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 11) مومنوں پر ابتلاء آتے ہیں.رسول اللہ صلی ا یکم تیرہ برس تک کیسی تکلیفیں اُٹھاتے رہے.طائف میں گئے تو پتھر پڑے اس وقت جب آپ کے جسم سے خون جاری تھا آپ نے کیسا صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا.اور کیا پاک الفاظ فرمائے کہ یا اللہ میں یہ سب تکلیفیں اس وقت تک اُٹھا تار ہوں گا جب تک تو راضی ہو“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 284) 102

Page 126

مکہ میں دس سال تبلیغ کے نتیجہ میں بظاہر کوئی راہ اسلام کے پھلنے کی نظر نہ آتی تھی.اور قریش اسلام کے بارے میں کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے.اور آنحضور صلی علی یم نے طائف کے سفر کا ارادہ فرمایا تا کہ اہل طائف کو اسلام کی براہ راست تبلیغ کی جائے.طائف کا شہر مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر ہے.اس دور میں طائف میں قبیلہ بنو ثقیف آباد تھا.جنکے اہل مکہ سے گہرے دیرینہ دوستانہ تعلقات تھے.اور رشتہ داریاں بھی تھیں.شوال 10 نبوی میں آنحضور صلی علیکم حضرت زید بن حارثہ کو ساتھ لیکر طائف تشریف لے گئے.آپ صلی یکم نے وہاں دس دن قیام کیا.اور کئی لوگوں کو جن میں کچھ سردار بھی تھے تبلیغ کی.لیکن کسی نے بھی اسلام کے پیغام میں دلچسپی نہ لی.بلکہ تکذیب اور استہزاء سے کام لیا.ان میں ایک کمبخت سر دار عبدیالیل تھا جس نے آپ صلی میں کم کو نہ صرف طائف سے چلے جانے کو کہا بلکہ شہر کے اوباش لڑکوں کو کہا کہ آپ پر پتھر برسائیں اور ان لڑکوں نے نبی معصوم محمد صلی علی ام پر پتھر برسانے شروع کئے اور طائف کے شہر سے باہر تقریباً دو کوس تک برساتے رہے.آنحضور علی ملی یم کا جسم مبارک زخمی ہو گیا.اور خون پیروں تک پہنچ کر جمنے لگا.طائف سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا آنحضور" اس باغ میں رُکے اور کچھ آرام فرمایا.اور ایسی حالت میں جبکہ آپ شدید زخمی حالت میں تھے.اور بظاہر ہر طرف سے ناامیدی کا عالم تھا آپ نے نہایت رفت بھری دعا کی جس کا ذکر حضور نے کیا ہے.اس دعا کے اصل عربی الفاظ یہ ہیں اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَشكُو ضُعَفَ قُوَّتِي، وَقِلَّةَ حِيلَتِي وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ، رَبَّ المُسْتَضِعَفِينَ إِلَى مَن تَكِلُنِي، إلى بَعِيدٍ يَجهَمُنِي وَإِلى عَدُ و مَلَكتَهُ ،آمرى إِن لَم يَكُن بِكَ عَلَى غَضَب فَلَا أَبَالِي غَيْرَ أَنَّ عَافِيَتَكَ هِيَ أَوسَعُ بِي، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَت بِهِ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيهِ آمَرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِن أَن يَحُلَّ بِي غَضَبُكَ أَويَنزِلَ عَلَى سَخَطِكَ، لَكَ العُتبي حَتَّى تَرضَى وَلَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ.ترجمہ : الہی میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تجھ سے فریاد کرتا ہوں، اے درماندہ عاجز کے مالک تو مجھے کس کے حوالہ کر رہا ہے، کیا بیگانہ ترش رو کے یا میرے دشمن کے ، اگر تو مجھ سے خفا نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں، تیری عافیت میرے لیے وسیع ہے، تیری ذات کے نور کے حوالے سے جس سے سب تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور دنیا و آخرت کے تمام مسائل حل ہوتے ہیں اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیر اغضب مجھ پر اترے یا تو مجھ سے ناراض ہو جائے ، ہر حال میں تیری ہی رضا مجھے مطلوب ہے ، ہر طاقت و قوت کا تو ہی تنہا مالک ہے.(30) 103

Page 127

طائف کے واقعات میں ایک اہم واقعہ جو آپ صلی علیہ ظلم کی سیرت پر روشنی ڈالتا ہے یہ ہے حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی علیہ کم سے پوچھا کہ کیا آپ پر اُحد کے دن سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آیا ہے ؟ اس پر آپ صلی علیہم نے فرمایا کہ مجھے جو تمہاری قوم کی طرف سے پہنچاوہ تو پہنچا ہی لیکن ان کی جانب سے سب سے تکلیف دہ عرفہ کا دن تھا جب میں ابن عبدیالیل بن عبد کلال کے پاس گیا.جس چیز کا میں نے ارادہ کیا ہوا تھا اس کا انہوں نے جواب نہ دیا.میں واپس اس حال میں لوٹا کہ میرے چہرے پر غم کے آثار تھے.میں مسلسل چلتا رہا یہاں تک کہ قرن الثعالب مقام پر آپہنچا.آپ فرماتے ہیں کہ اس جگہ آکر میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے.اور اس میں جبرائیل ہے.جبرائیل نے مجھے پکارا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں قوم کی باتیں سن لیں اور ان کا رد عمل دیکھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے کہ آپ ان ( طائف والوں) کے بارہ میں جو چاہیں اس کو حکم دیں.چنانچہ پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے پکارا، مجھ پر سلامتی بھیجی اور عرض کی کہ آپ حکم فرما ئیں وہی ہو گا جو آپ چاہیں گے.اگر آپ چاہیں تو میں ان پر دونوں پہاڑ گرادوں.اس پر رسول کریم صلی علی کرم نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کر دے گا جو کہ خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہر ائیں گے (31) عتبہ اگر چہ مسلمان تو نہیں تھا لیکن نامعلوم کیوں انکو خیال آیا اور انہوں نے آنحضور ملی ی کیم کو ایک طشتری انگوروں کی اپنے ایک عیسائی غلام عد اس کے ہاتھ بھیجی.آنحضور صلی الیم نے کچھ دیر اس جگہ قیام کیا اور پھر واپس مکہ کا سفر جاری رکھا.طائف اور مکہ کے درمیان نخلہ کے مقام پر جنات کے ایک گروہ کے آپ صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہونے کے واقعات بھی تاریخ میں مذکور ہیں.بہر حال آپ صلی علیم نے ملکہ کے قریب پہنچ کر عرب کے دستور کے مطابق مکہ میں داخلہ کے لئے ایک عرب سردار مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کی جسکے بعد آپ مکہ میں داخل ہوئے.(32) مکہ میں قحط : آنحضور صلی ا م کو اگر چہ ہر طرف سے مخالفت اور تکذیب کا سامنا تھا لیکن آپ صلی یہ تم اپنی قوم کو ہر حال میں عذاب عظیم سے بچا لینا چاہتے تھے.سابقہ اقوام کو جس طرح بعض عارضی مصائب نے ایمان کی دولت سے مالا مال کیا اسی طرح آپ ملی ایم کی بھی خدا تعالیٰ سے یہ دعا تھی کہ اس قوم پر بھی کچھ ایسے حالات پیدا ہوں کہ انکی 104

Page 128

توجہ دین کی طرف ہو.چنانچہ اس دعا کے نتیجہ میں مکہ اور اسکے گردو نواح میں سات سال تک قحط پڑا.اس کے متعلق سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ایک نوع تو یہی کہ جو دعائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائے تعالیٰ نے آسمان پر اپنا قادرانہ تصرف دکھلایا اور چاند کو دو ۲ ٹکڑے کر دیا.دوسرے وہ تصرف جو خدائے تعالیٰ نے جناب ممدوح کی دعا سے زمین پر کیا اور ایک سخت قحط سات برس تک ڈالا.یہاں تک کہ لوگوں نے ہڈیوں کو پیس کر کھایا“ (روحانی خزائن جلد 2 ، سرمہ چشمہ آریہ - حاشیہ صفحہ 64) احادیث کی کتب میں بھی ان دعاؤں کی تفصیل بیان کی گئی ہے.عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه قال ان سنة النبي صلى الله عليه وسلم لما رأى من الناس إدبارا، قال: (اللهم سبع كسبع يوسف).فأخذتهم حصت كل شيء، حتى أكلوا الجلود والميتة والجيف (33) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ا یم نے جب ( قبول دعوت اسلام سے) لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو ( اللہ سے دعا کی : ”اے اللہ ! (ان پر سات برس ( قحط ڈال دے) جیسا کہ یوسف کے عہد میں ) سات برس تک ( مسلسل قحط رہا تھا).“ اس قحط نے انھیں آلیا.یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد ابو سفیان (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ) آپ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے محمد ! آپ تو اللہ کی بندگی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور بے شک یہ آپ صلی علیہم کی قوم کے لوگ ( ہیں جو مارے بھوک سے ) مرے جاتے ہیں.آپ صلی یہ تم اللہ سے ان کے لیے دعا کیجیے.چنانچہ آپ صلی علیہ ظلم نے انکے لئے دعا کی اور ابھی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ بادل آگئے اور موسلا دار بارش شروع ہو گئی اور مکہ کی وادیاں پانی سے بھر گئیں.اتنی بارش ہوئی کہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت انس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ایک ہفتہ ہم نے آفتاب ( کی شکل) نہیں دیکھی تھی پھر آئندہ جمعہ میں ایک شخص اسی دروازے سے (مسجد میں حاضر ہوا اور (اس وقت) رسول اللہ صلی علی کم کھڑے ہوئے (جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے پس وہ شخص آپ صلی اللہ ظلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کی کہ یارسول اللہ !(لوگوں کے مال ( پانی کی کثرت سے ) خراب ہو گئے اور راستے بند ہو گئے لہذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ بارش کو روک دے.پس رسول اللہ صلی الیم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس کے بعد کہا: ”اے اللہ ! ہمارے آس پاس بارش برسا اور ہم پر نہ برسا، 105

Page 129

ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، میدانوں، وادیوں اور درختوں کی جڑوں میں بارش برسا.“ حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی صلی ال ظلم کے یہ کہتے ہی ) بارش بند ہو گئی اور ہم لوگ دھوپ میں چلنے پھرنے لگے (34) معراج و اسراء: معراج اور اسراء سیرت النبی صلی ایم کے دو اہم واقعات ہیں جو آپ صلی للی کم کی علوم شان کے مظہر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہوا ہے.یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں.لیکن انکو ایک ہی واقعہ سمجھا گیا ہے.اسکی وجہ احادیث میں ان سفروں کے اندرونی واقعات کا بلا تخصیص مل جل جانا ہے.لیکن ان دونوں واقعات یعنی معراج اور اسراء کے الگ الگ عنوان باندھے گئے ہیں.معراج سے مراد وہ روحانی سفر ہے جو آپ صلی علیم نے ملکہ سے آسمانوں تک کا کیا اس کا ذکر سورۃ النجم 6 تا19 میں ہے.اور اسراء مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا روحانی سفر ہے جو سورۃ بنی اسرائیل میں مذکور ہے.یہ دونوں واقعات آپ کی یہ کم کی علومشان کے مظہر ہیں.لیکن اُمت نے ان واقعات کی حقیقت کو سمجھنے میں بھی غلطی کھائی ہے جسکی اصلاح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بطور حکم و عدل فرمائی ہے.معراج واسر اء روحانی سفر ہیں: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ایسا ہی ایک اور غلطی جو مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہوئی ہے وہ معراج کے متعلق ہے.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی ا ہم کو معراج ہوا تھا.مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا.سو یہ عقیدہ غلط ہے.اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت علی ا ہم اسی جسد عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے.سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے.بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا.وہ ایک وجو د تھا مگر نورانی، اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو ؛ ورنہ ظاہری جسم اور ظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا قل سبحان ربي هل كنت الا 106

Page 130

بشرارسولا (بنی اسرائیل : (94) کہ دے میر ارب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں.انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پر نہیں جاتے.یہی سنت اللہ قدیم سے جاری ہے “ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 4 صفحہ 646) ”بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ الباری ہے.تمام معراج کا ذکر کر کے اخیر میں فاستیقظ لکھا.اب تم خود سمجھ لو کہ وہ کیا تھا.قرآن مجید میں بھی اس کے لئے رویا کا لفظ ہے وما جعلنا الرؤيا التي اريناک (بنی اسرائیل: 61) “ 66 ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 634) ”بیشک ہم بھی جانتے ہیں کہ جسم کے ساتھ آپ گئے تھے.بیداری بھی تھی اور جسم بھی تھا مگر وہ ایک اعلیٰ درجہ کی کشفی حالت تھی اس دلیل کے واسطے بخاری کو دیکھ لو کہ یہ سارا واقعہ لکھنے کے بعد لکھا ہو گا كه ثم استيقظ بھلا اس کے کیا معنے ؟ دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کو بہت عرصہ آنحضرت علی ایم کے ساتھ رہنے کا موقعہ ملا تھا.اور جن کا علم بھی بہت بڑا تھا ان کی یہ روایت ہے.استیقظ سے یہ مراد نہیں کہ آپ نے خواب دیکھا تھا بلکہ ایک قسم کی بیداری تھی اور اس میں یہ بھی شعور تھا کہ مع جسم گئے.یہ ایک خدا تعالیٰ کا تصرف ہوتا ہے کہ غیوبت حس نہیں ہوتی اور یہ ایک نکتہ ہے کہ علم سے حل نہیں ہو سکتا بلکہ تجربہ صحیحہ اس کو حل کر سکتا ہے.فلسفہ اور طبعی کا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اعتراض کے قابل بات ہے مگر بعض لوگ خود اسلام کو بگاڑتے اور قابل اعتراض بناتے ہیں“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 618) بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات اسی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف اس کو رد کرتا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بھی رؤیا کہتی ہیں.حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا اور اتم اور اکمل تھا کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشف میں جو جسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہو تا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور آپ کو اسی جسم کے ساتھ جو بڑی طاقتوں والا ہوتا 107

Page 131

ہے معراج ہوا.پھر آپ نے اس امر کی تائید میں چند آیات سے استدلال کیا کہ جسم آسمان پر نہیں جاتا یہ باتیں قریبا پہلے ہم بار بار درج کر چکے ہیں بخوف طوالت اعادہ نہیں کرتے “ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 2 صفحہ 446) "وأما معراج رسولنا فكان أمرا إعجازيًا من عالم اليقظة الروحانية اللطيفة الكاملة، فقد عرج رسول الله صلی الله عليه وسلم بجسمه إلى السّماء وهو يقظان لا شك فيه ولا فقد ريب، ولكن مع ذلك ما الله.عنهن.وكذلك كثير من الصحابة.فأنت تعلم وتفهم أنّ قصّة المعراج شيء آخر لا يضاهيه قصة صعود عيسى عليه السّلام إلى السماء، وإن كنت تشك فيه فارجع إلى البخارى، وما أظن أن تبقى بعده من المرتابين“ جسمه من السرير كما شهد عليه بعض أزواجه رضى (حمامة البشرای، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 220،219) حضور نے مندرجہ بالا تحریرات میں جہاں معراج کا ذکر کیا ہے اس سے مراد یہ دونوں سفر ہیں یعنی اسرا بھی شامل ہے کیونکہ نوعیت کے لحاظ سے ایک ہی قسم ہے اس لئے لفظ معراج ہی استعمال ہوا ہے.حضور نے اس کے متعلق جو اہم اور بنیادی بحث اور وضاحت طلب بات ہے اس کو واضح فرمایا ہے یعنی یہ کہ یہ سفر نہ تو معمولی خواب کے سفر تھے.نہ جسد عنصری کے ساتھ تھے بلکہ کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ تھے.معراج اور اسرا کے متعلق یہی بحث زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کے حل سے ہی عرش الہی ، نبی اکرم صلی علیکم کا بشری یا نورانی ہونا، جنت کی حقیقت اور کشف کی حقیقت، وفات وحیات مسیح وغیرہ کی بحثوں کے متعلق اصولی رہنمائی ملتی ہے.اس مسئلہ کو آپ نے ان ارشادات میں دلائل کے ساتھ حل فرمایا ہے.اور کشوف کا ذاتی تجربہ رکھنے کی وجہ سے اس کیفیت کا آپ عرفان رکھتے تھے.پھر یہ کہ آپ نے اس کے لئے منقولی دلائل ازواج مطہرات اور صحابہ کا بھی معراج کے روحانی سفر کا قائل ہونا بیان کیا ہے.حضور نے ثُم استيقظ یعنی ( پھر آپ صلی علیہ کم بیدار ہو گئے) والی حدیث کا ذکر فرمایا ہے.بخاری میں معراج کے متعلق احادیث متعدد جگہوں پر بیان ہوئی ہیں.بخاری کتاب التوحید میں حدیث موجود ہے جس میں آخر میں ثمّ استیقظ کے الفاظ ہیں.نیز ابن ہشام نے روایت درج کی ہے کہ حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ اسراء کے وقت آنحضور کا جسم غائب نہیں ہو ابلکہ اللہ نے آپ صلی الم کا روحانی اسرا کرایا تھا 108

Page 132

(35) اسی طرح امیر معاویہ کے متعلق بھی روایت ہے کہ ان سے جب معراج کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا یہ ایک رویا صادقہ تھی.(36) شیعہ عقائد کی اصلاح: شیعہ معراج اور اسرا کے واقعات کے ساتھ حضرت علی سے متعلق بعض عقائد بیان کرتے ہیں.حضور نے ان عقائد باطلہ کو بھی رڈ فرمایا ہے.ایسا ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک کرامت ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج ہوا تو آپ نور کے صدہا پر دے عبور کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچے صرف ایک پر دہ باقی رہا تو آپ نے عرض کی کہ یا الہی میں تو اس قدر مشقت اُٹھا کر محض دیدار کے لئے آیا تھا مگر اس جگہ ایک پردہ درمیان میں حائل ہے میرے پر رحم فرما اور یہ پردہ درمیان سے اُٹھا دے تا مجھے دیدار نصیب ہو تب اللہ تعالیٰ نے رحم فرما کر پردہ درمیان سے اُٹھا دیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ جس کو خدا سمجھے بیٹھے تھے وہ حضرت علی ہی ہیں.پھر یہ سنا کر کہا جاتا ہے کہ مرتضیٰ علی کی یہ شان ہے شیخین کو اُن سے نسبت ہی کیا اور ایسی ہی اور کرامات بھی بہت ہیں جو اس زمانہ کے جہلاء پیش کیا کرتے ہیں“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 337) شیعوں نے مبالغہ کی حد کر دی.ایک شیعہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے تمام انبیاء حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی امام حسین کی شفاعت کے محتاج ہیں.پھر کہتے ہیں کہ حضرت علی پر وحی آئی تھی مگر جبریل بھول گیا.اور یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت ملا ہم جب معراج کو گئے تو آگے علی موجود تھے اور ایک شخص حضرت علی کو خدا کہتا ہے تو کہا کہ اچھالا کھوں کروڑوں بندے خدا کے اور ایک بندہ تو میرا ہی سہی.گویا حضرت علی کو خدا بنادیا ہے.تعجب ہے کہ علی آسمان پر تو خدا ہے مگر زمین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ایک صحابی ہے جو معمولی خلافت کو بھی نہ سنبھال سکا.معلوم نہیں کہ لوگ شیعہ (مذہب) میں کونسا اسلام پاتے ہیں.آنحضرت صلی ال ولم کے کل صحابہ کو سوائے دو چار کے یہ مرتد کہتے ہیں.اُمہات المومنین پر سخت اعتراض کرتے ہیں.قرآن کو بیاض عثمانی قرار دیتے ہیں.جس قوم کے 109

Page 133

پاس کتاب اللہ نہیں اس کا مذہب ہی کیا ہوا.کیا گالیاں دینا اور گھر بیٹھ کر دوسروں پر اور مرے ہوؤں پر تبرے بھیجتے رہنا یہ بھی کوئی مذہب ہے ؟“ شق قمر شق قمر کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہوا ہے.( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 448) اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ.وَإِنْ يَرَوْا أَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرُ مُسْتَمِرٌّ.وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ (سورة القمر: 2-4) ساعت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا.اور اگر وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے.اور انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی ( اور جلد بازی سے کام لیا) حالانکہ ہر آمر اپنے وقت پر) قرار پکڑنے والا ہوتا ہے.مسلمان ابھی شعب ابی طالب میں ہی تھے کہ یہ معجزہ رونما ہوا تھا.بعض کفار نے آپ صلی اللہ تم سے معجزہ طلب کیا جس پر آپ صلی الم نے خدا تعالیٰ کے تصرف سے یہ معجزہ دکھایا.چاند کا ایک ٹکڑا جبل حرا کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف دکھائی دیتا تھا.(37) یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضور صلی الی یوم صحابہ کے ساتھ مٹی میں تھے کہ جب یہ شق القمر ہوا.جس پر آپ میلی لی ہم نے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو.(38) اہل عرب چاند کو حکومت کی علامت سمجھتے تھے جسکا اشارہ حضرت صفیہ کے اس خواب والے واقعہ سے بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے چاند کو اپنی جھولی میں گرا ہوا دیکھا تھا.اس کی تعبیر بادشاہت کی گئی تھی.(39) اس لئے انکے لئے شق قمر کا نشان انذار کے رنگ میں تھا کہ اب نہ صرف عرب بلکہ دنیا کی حکومتیں ختم ہو کر نئی حکومت یعنی اسلام کی حکومت قائم ہونے کا وقت ہے.آپ نے اپنی تحریرات میں بڑی تفصیل سے اس معجزہ کی حقیقت بیان کی ہے اور اس پر اُٹھنے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے.اور واقعہ پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی ہے.یہ واقعہ اپنے اندر جو نشان اور پیغام رکھتا ہے اسے بھی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے انکو بھی بیان فرمایا ہے.ایک ہند و لالہ مرلیدھر صاحب 110

Page 134

ڈرائینگ ماسٹر نے ایک مباحثہ میں اس واقعہ پر اعتراض کیا کہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ نبی معجزے دکھلاتے رہے ہیں چنانچہ حضرت محمد صاحب نے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دونوں آستینوں سے نکال دیا.سو یہ امر قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ ایک شے ہزاروں میل لمبی چوڑی یا ہزاروں میل قطر والی چھہ انچ یا ایک فٹ کے سوراخ سے نکل جاوے اور چاند جو ماہواری گردش زمین کے گرد کرتا ہے وہ اپنی گردش کو چھوڑ کر ادھر ادھر ہو جائے جس سے انتظام عالم میں ہی فرق آجائے.اور پھر علاوہ اس کے سوائے دو چار شخصوں کے کوئی نہ دیکھے.کیونکہ کسی ملک میں مثلاً ہندوستان چین بر ہما وغیرہ کی تاریخوں میں اس کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا.اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ یہ باتیں بالکل بناوٹی ہیں اگر اصلی ہیں تو ان کا کیا ثبوت ہے.اسکے جواب میں حضور نے فرمایا: سرمه چشم آرید ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 108) ”اس کے جواب میں واضح ہو کہ یہ اعتراض کہ کیونکر چاند دو ٹکڑے ہو کر آستین میں سے نکل گیا تھا یہ سراسر بے بنیاد اور باطل ہے کیونکہ ہم لوگوں کا ہر گز یہ اعتقاد نہیں ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین میں سے نکلا تھا اور نہ یہ ذکر قرآن شریف میں یا حدیث صحیح میں ہے اور اگر کسی جگہ قرآن یا حدیث میں ایسا ذ کر آیا ہے تو وہ پیش کرنا چاہیئے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی آریہ صاحبوں پر یہ اعتراض کرے کہ آپ کے یہاں لکھا ہے کہ مہان دیوجی کی لٹوں سے گنگا نکلی ہے.پس جس اعتراض کی ہمارے قرآن یا حدیث میں کچھ بھی اصلیت نہیں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ ماسٹر صاحب کو اصول اور کتب معتبرہ اسلام سے کچھ بھی واقفیت نہیں.بھلا اگر یہ اعتراض ماسٹر صاحب کا کسی اصل صحیح پر مبنی ہے تو لازم ہے کہ ماسٹر صاحب اسی جلسہ میں وہ آیت قرآن شریف پیش کریں جس میں ایسا مضمون درج ہے یا اگر آیت قرآن نہ ہو تو کوئی حدیث صحیح ہی پیش کریں جس میں ایسا کچھ بیان کیا گیا ہو اور اگر بیان نہ کر سکیں تو ماسٹر صاحب کو ایسا اعتراض کرنے سے متندم ہونا چاہئے کیونکہ منصب بحث ایسے شخص کے لئے زیبا ہے جو فریق ثانی کے مذہب سے کچھ واقفیت رکھتا ہو.باقی رہا یہ سوال کہ شق قمر ماسٹر صاحب کے زعم میں خلاف عقل ہے جس سے انتظام ملکی میں خلل پڑتا ہے یہ ماسٹر صاحب کا خیال سراسر قلت تدبر سے ناشی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ جل شانہ جو کام صرف 111

Page 135

قدرت نمائی کے طور پر کرتا ہے وہ کام سراسر قدرت کاملہ کی ہی وجہ سے ہوتا ہے نہ قدرت ناقصہ کی وجہ سے یعنے جس ذات قادر مطلق کو یہ اختیار اور قدرت حاصل ہے کہ چاند کو دو ٹکڑہ کر سکے اس کو یہ بھی تو قدرت حاصل ہے کہ ایسے پر حکمت طور سے یہ فعل ظہور میں لاوے کہ اس کے انتظام میں بھی کوئی خلل عائد نہ ہو اسی وجہ سے تو وہ سرب شکتی مان اور قادر مطلق کہلاتا ہے اور اگر وہ قادر مطلق نہ ہوتا تو اس کا دنیا میں کوئی کام نہ چل سکتا.ہاں یہ شناعت عقلی آریوں کے اکثر عقائد میں جابجا پائی جاتی ہے جس سے ایک طرف تو ان کے اعتقادات سراسر خلاف عقل معلوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف خلاف قدرت و عظمت الہی بھی جیسے روحوں اور اجزاء صغار عالم کا غیر مخلوق اور قدیم اور انادی ہونا اصول آریہ سماج کا ہے.اور یہ اصول صریح خلاف عقل ہے اگر ایسا ہو تو پر میشر کی طرح ہر ایک چیز واجب الوجود ٹھہر جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں رہتی بلکہ کاروبار دین کا سب کاسب ابتر اور خلل پذیر ہو جاتا ہے کیونکہ اگر ہم سب کے سب خدائے تعالیٰ کی طرح غیر مخلوق اور انادی ہی ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کا ہم پر کو نسا حق ہے اور کیوں وہ ہم سے اپنی عبادت اور پرستش اور شکر گزاری چاہتا ہے اور کیوں گناہ کرنے سے ہم کو سزا دینے کو طیار ہوتا ہے اور جس حالت میں ہماری روحانی بینائی اور روحانی تمام قوتیں خود بخود قدیم سے ہیں تو پھر ہم کو فانی قوتوں کے پیدا ہونے کے لئے کیوں پر میٹر کی حاجت ٹھہری.غرض خلاف عقل بات اگر تلاش کرنی ہو تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں جو خدائے تعالیٰ کو اول اپنا خدا کہہ کر پھر اس کو خدائی کے کاموں سے الگ رکھا جائے لیکن جو کام خدائے تعالیٰ کا صرف قدرت سے متعلق ہے اس پر وہ شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ اول خدائے تعالیٰ کی تمام قدرتوں پر اس نے احاطہ کر لیا ہو.اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ مسئلہ شق القمر ایک تاریخی واقعہ ہے جو قرآن شریف میں درج ہے اور ظاہر ہے کہ قرآنِ شریف ایک ایسی کتاب ہے جو آیت آیت اس کی بر وقت نزول ہزاروں مسلمانوں اور منکروں کو سنائی جاتی تھی اور اسی کی تبلیغ ہوتی تھی اور صدہا اس کے حافظ تھے مسلمان لوگ نماز اور خارج نماز میں اس کو پڑھتے تھے پس جس حالت میں صریح قرآن شریف میں وارد ہوا کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور جب کافروں نے یہ نشان دیکھا تو کہا کہ جادو ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تو اس اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ.وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِر صورت میں اس وقت کے منکرین پر لازم تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جاتے اور کہتے کہ آپ نے کب اور کس وقت چاند کو دو ٹکڑے کیا اور کب اس کو ہم نے 112

Page 136

دیکھا لیکن جس حالت میں بعد مشہور اور شائع ہونے اس آیت کے سب مخالفین چپ رہے اور کسی نے دم بھی نہ مارا تو صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ضرور دیکھا تھا تب ہی تو ان کو چون و چرا کرنے کی گنجائش نہ رہی غرض یہ بات بہت صاف اور ایک راست طبع محقق کے لئے بہت فائدہ مند ہے کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جھوٹا معجزہ بحوالہ اپنے مخالفوں کی گواہی کے لکھ نہیں سکتے تھے اور اگر کچھ جھوٹ لکھتے تو ان کے مخالف ہم عصر اور ہم شہر اس زمانہ کے اسے کب پیش جانے دیتے.علاوہ اس کے سوچنا چاہئے کہ وہ مسلمان لوگ جن کو یہ آیت سنائی گئی اور سنائی جاتی تھی وہ بھی تو ہزاروں آدمی تھے اور ہر ایک شخص اپنے دل سے یہ محکم گواہی پاتا ہے کہ اگر کسی پیر یا مر شد یا پیغمبر سے کوئی امر محض دروغ اور افترا ظہور میں آوے تو سارا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسا شخص ہر ایک شخص کی نظر میں برا معلوم ہونے لگتا ہے، اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھا اور افترا محض تھا تو چاہئے تھا کہ ہزار ہا مسلمان جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے ایسے کذب صریح کو دیکھ کر یکلخت سارے کے سارے مرتد ہو جاتے لیکن ظاہر ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی ظہور میں نہیں آئی پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معجزہ شق القمر ضرور وقوع میں آیا تھا.ہر ایک منصف اپنے دل میں سوچ کر دیکھ لے کہ کیا تاریخی طور پر یہ ثبوت کافی نہیں ہے کہ معجزہ شق القمر اسی زمانہ میں بحوالہ شہادت مخالفین قرآن شریف میں لکھا گیا اور شائع کیا گیا اور پھر سب مخالف اس مضمون کو سن کر چپ رہے کسی نے تحریر یا تقریر سے اس کارڈ نہ کیا اور ہزاروں مسلمان اس زمانہ کی رویت کی گواہی دیتے رہے اور یہ بات ہم مکرر لکھنا چاہتے ہیں کہ قدرت اللہ پر اعتراض کرنا خود ایک وجہ سے انکار خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کو نہ مانا جائے اور حسب اصول تناسخ آریہ صاحبان یہ اعتقاد ر کھا جائے کہ جب تک زید نہ مرے بکر ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا.اس صورت میں تمام خدائی اس کی باطل ہو جاتی ہے بلکہ اعتقاد صحیح اور حق یہی ہے کہ پر میشر کو سرب شکتی مان اور قادر مطلق تسلیم کیا جائے اور اپنے ناقص ذہن اور نا تمام تجربہ کو قدرت کے بے انتہا اسرار کا محک امتحان نہ بنایا جائے ورنہ ہمہ دانی کے دعویٰ پر اس قدر اعتراض وارد ہوں گے اور ایسی خجالتیں اٹھانی پڑیں گی کہ جن کا کچھ ٹھکانا نہیں.“ سرمه چشم آرید ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 109 تا 112) 113

Page 137

”میں کہتا ہوں کہ آپ اپنے اسی قول سے ملزم ٹھہر سکتے ہیں کیونکہ جس حالت میں چاند کے دو ٹکڑہ کرنے کا دعویٰ زور شور سے ہو چکا تھا یہاں تک کہ خاص قرآن شریف میں مخالفوں کو الزام دیا گیا کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا اور اعراض کر کے کہا کہ یہ پکا جادو ہے.اور پھر یہ دعویٰ نہ صرف عرب میں بلکہ اسی زمانہ میں تمام ممالک روم و شام و مصر و فارس وغیرہ دور دراز ممالک میں پھیل گیا تھا تو اس صورت میں یہ بات کچھ تعجب کا محل نہ تھا کہ مختلف قو میں جو مخالف اسلام تھیں وہ دم بخود اور خاموش رہتیں اور بوجہ عناد و بغض و حسد شق القمر کی گواہی دینے سے زبان بند رکھتیں کیونکہ منکر اور مخالف کا دل اپنے کفر اور مخالفت کی حالت میں کب چاہتا ہے کہ وہ مخالف مذہب کی تائید میں کتابیں لکھے یا اس کے معجزات کی گواہی دیوے.ابھی تازہ واقعہ ہے کہ لالہ شرمپت و ملاوامل آریہ ساکنان قادیان و چند دیگر آپ کے آریہ بھائیوں نے قریب ۷۰ کے الہامی پیشگوئیاں اس عاجز کی بچشم خود پوری ہوتی دیکھیں جن میں پنڈت دیانند کی وفات کی خبر بھی تھی.چنانچہ اب تک چند تحریری اقرار بعضوں کے ہمارے پاس موجود پڑے ہیں لیکن آخر قوم کے طعن ملامت سے اور نیز ان کی اس دھمکی سے کہ ان باتوں کی شہادت سے اسلام کو تائید پہنچے گی اور وہ امر ثابت ہو گا کہ جس میں پھر وید کی بھی خیر نہیں ڈر کر مونہہ بند کر لیا اور ناراستی سے پیار کر کے راستی کی شہادت سے کنارہ کش ہو گئے سو مخالف ہونے کی حالت میں اگر کوئی ادائے شہادت سے خاموش رہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اگر مخالف کی طرف سے ایک دعویٰ کا جھوٹا ہونا کھل جائے تو پھر جھوٹ کی اشاعت کے لئے قلم نہ اٹھائیں اور دروغگو کو اس کے گھر تک نہ پہنچائیں سو میں پوچھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے عام اور علانیہ طور پر یہ دعویٰ مشہور کر دیا تھا کہ میرے ہاتھ سے معجزہ شق القمر وقوع میں آگیا ہے اور کفار نے اس کو بچشم خود دیکھ بھی لیا ہے مگر اس کو جادو قرار دیا اپنے اس دعویٰ میں سچے نہیں تھے تو پھر کیوں مخالفین آنحضرت جو اسی زمانہ میں تھے جن کو یہ خبریں گویا نقارہ کی آواز سے پہنچ چکی تھیں چپ رہے اور کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مواخذہ نہ کیا کہ آپ نے کب چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھایا اور کب ہم نے اس کو جادو کہا اور اس کے قبول سے مونہہ پھیرا اور کیوں اپنے مرتے دم تک خاموشی اختیار کی اور مونہ بند رکھایاں تک کہ اس عالم سے گزر گئے کیا ان کی یہ خاموشی جو ان کی مخالفانہ حالت اور جوش مقابلہ کے بالکل بر خلاف تھی اس بات کا یقین نہیں دلاتے کہ کوئی ایسی سخت روک تھی جس کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے مگر بجز، ظہور سچائی کے اور کون سی روک تھی یہ 114

Page 138

معجزہ مکہ میں ظہور میں آیا تھا اور مسلمان ابھی بہت کمزور اور غریب اور عاجز تھے پھر تعجب یہ کہ ان کے بیٹوں یا پوتوں نے بھی انکار میں کچھ زبان کشائی نہ کی حالانکہ ان پر واجب ولازم تھا کہ اتنا بڑا دعویٰ اگر افترا محض تھا اور صدہا کو سوں میں مشہور ہو گیا تھا اس کی رد میں کتابیں لکھتے اور دنیا میں شائع اور مشہور کرتے اور جبکہ ان لاکھوں آدمیوں عیسائیوں، عربوں، یہودیوں، مجوسیوں وغیرہ میں سے رڈ لکھنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی اور جو لوگ مسلمان تھے وہ علانیہ ہزاروں آدمیوں کے روبرو چشم دید گواہی دیتے رہے جن کی شہادتیں آج تک اس زمانہ کی کتابوں میں مندرج پائی جاتی ہیں تو یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ مخالفین ضرور شق القمر مشاہدہ کر چکے تھے اور رڈلکھنے کے لئے کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی اور یہی بات تھی جس نے ان کو منکرانہ شور و غوغا سے چپ رکھا تھا سو جبکہ اسی زمانہ میں کروڑہا مخلوقات میں شق القمر کا معجزہ شیوع پا گیا مگر ان لوگوں نے مجلت زدہ ہو کر اس کے مقابلہ پر دم بھی نہ مارا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے مخالفین اسلام کا چپ رہنا شق القمر کے ثبوت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے ابطال کی.کیونکہ اس بات کا جواب مخالفین اسلام کے پاس کوئی نہیں کہ جس دعوی کا رد انہیں ضرور لکھنا چاہئے تھا انہوں نے کیوں نہیں لکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی درویش یا گوشہ نشین نہیں تھے تا یہ عذر پیش کیا جائے کہ ایک فقیر صلح مشرب جس نے دوسرے مذاہب پر کچھ حملہ نہیں کیا چشم پوشی کے لائق تھا بلکہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عام مخالفین کا جہنمی ہونا بیان کرتے تھے اس صورت میں مطلق طور پر جوش پیدا ہونے کے موجبات موجود تھے.ماسوا اس کے یہ بھی کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ واقعہ شق القمر پر جو چند سیکنڈ سے کچھ زیادہ نہیں تھا ہر یک ولایت کے لوگ اطلاع پا جائیں کیونکہ مختلف ملکوں میں دن رات کا قدرتی تفاوت اور کسی جگہ مطلع ناصاف اور پُر غبار ہونا اور کسی جگہ ابر ہونا ایسا ہی کئی اور ایک موجبات عدم رویت ہو جاتے ہیں اور نیز بالطبع انسان کی طبیعت اور عادت اس کے برعکس واقع ہوئی ہے کہ ہر وقت آسمان کی طرف نظر لگائے رکھے بالخصوص رات کے وقت جو سونے اور آرام کرنے کا اور بعض موسموں میں اندر بیٹھنے کا وقت ہے ایسا التزام بہت بعید ہے.پھر ان سب باتوں کے بعد ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ شق القمر کے واقعہ پر ہندوؤں کی معتبر کتابوں میں بھی شہادت پائی جاتی ہے مہابھار تہہ کے دھرم پر ب میں بیاس جی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر مل گیا تھا.اور وہ اس شق قمر کو اپنے بے ثبوت خیال سے بسو امتر کا معجزہ قرار دیتے ہیں لیکن پنڈت دیانند صاحب کی شہادت اور یورپ کے 115

Page 139

محققوں کے بیان سے پایا جاتا ہے کہ مہابھار تہہ وغیرہ پر ان کچھ قدیم اور پرانے نہیں ہیں بلکہ بعض پرانوں کی تالیف کو تو صرف آٹھ سو یا نو سو برس ہوا ہے.اب قرین قیاس ہے کہ مہابھار تہہ یا اس کا واقعہ بعد مشاہدہ واقعہ شق القمر جو معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھا لکھا گیا اور بسو امتر کا نام صرف بے جاطور کی تعریف پر جیسا کہ قدیم سے ہندوؤں کے اپنے بزرگوں کی نسبت عادت ہے درج کیا گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی شہرت ہندوؤں میں مؤلف تاریخ فرشتہ کے وقت میں بھی بہت کچھ پھیلی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے مقالہ یازدہم میں ہندوؤں سے یہ شہرت یافتہ نقل لے کر بیان کی ہے کہ شہر دہار کہ جو متصل دریائے پہنبل صوبہ مالوہ میں واقع ہے اب اس کو شاید دہارا نگری کہتے ہیں وہاں کا راجہ اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ایکبارگی اس نے دیکھا کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا اور بعد تفتیش اس راجہ پر کھل گیا کہ یہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے تب وہ مسلمان ہو گیا.اس ملک کے لوگ اس کے اسلام کی وجہ یہی بیان کرتے تھے اور اس گردنواح کے ہندوؤں میں یہ ایک واقعہ مشہور تھا جس بنا پر ایک محقق مؤلف نے اپنی کتاب میں لکھا.بہر حال جب آریہ دیں کے راجوں تک یہ خبر شہرت پاچکی ہے اور آریہ صاحبوں کے مہا بہار تہہ میں درج بھی ہو گئے اور پنڈت دیانند صاحب پر انوں کے زمانہ کو داخل زمانہ نبوی سمجھتے ہیں اور قانون قدرت کی حقیقت بھی کھل چکی تو اگر اب بھی لالہ مرلید ھر صاحب کو شق القمر میں کچھ تامل باقی ہو تو ان کی سمجھ پر ہمیں بڑے بڑے افسوس رہیں گے “ سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 121تا127) بعض نادان شق القمر کے معجزہ پر قانون قدرت کی آڑ میں چھپ کر اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کو اتنا معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور قوانین کا احاطہ اور اندازہ نہیں کیا جاسکتا.ایک وقت تو وہ منہ سے خدا بولتے ہیں ، لیکن دوسرے وقت چہ جائیکہ ان کے دل، ان کی روح خدائے تعالیٰ کی عظیم الشان اور وراء الوراء قدرتوں کو دیکھ کر سجدہ میں گر پڑے.اسے مطلق بھول جاتے ہیں.اگر خدا کی ہستی اور بساط یہی ہے کہ اس کی قدرتیں اور طاقتیں ہمارے ہی خیالات اور اندازہ تک محدود ہیں، تو پھر دعا کی کیا ضرورت رہی؟ لیکن نہیں.میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور ارادوں کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ایسا انسان جو یہ دعویٰ کرے، وہ خدا کا منکر ہے.لیکن کس قدر واویلا ہے اس نادان پر جو اللہ تعالیٰ کو لا محدود قدرتوں کا مالک سمجھ کر بھی یہ کہے کہ شق القمر کا معجزہ قانون قدرت کے خلاف ہے.116

Page 140

سمجھ لو کہ ایسا آدمی فکر سلیم اور دور اندیش دل سے بہرہ مند نہیں.خوب یا درکھو کہ کبھی قانون قدرت پر بھروسہ نہ کر لو.یعنی کہیں قانون قدرت کی حد نہ ٹھہر الو کہ بس خدا کی خدائی کا سارا راز یہی ہے.پھر تو سارا تارو پود کھل گیا.نہیں.اس قسم کی دلیری اور جسارت نہ کرنی چاہئے.جو انسان کو عبودیت کے درجہ سے گرا دے.جس کا نتیجہ ہلاکت ہے.ایسی بیوقوفی اور حماقت کہ خدا کی قدرتوں کو محصور اور محدود کرنا.کسی مومن سے نہیں ہو سکتی.امام فخر الدین رازی کا یہ قول بہت درست ہے کہ جو شخص خد اتعالیٰ کو عقل کے پیمانہ سے اندازہ کرنے کا ارادہ کرے گاوہ بیوقوف ہے.دیکھو نطفہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا.یہ لفظ کہہ دینے آسان اور بالکل آسان ہیں اور یہ بالکل معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر یہ ایک ستر اور راز ہے کہ ایک قطرہ آب سے انسان کو پیدا کرتا ہے اور اس میں اس قسم کے قویٰ رکھ دیتا ہے.کیا کسی عقل کی طاقت ہے کہ وہ اس کی کیفیت اور کنہ تک پہنچے.طبیعیوں اور فلاسفروں نے بہتیر از در مارا، لیکن وہ اس کی ماہیت پر اطلاع نہ پاسکے.اسی طرح ایک ایک ذرہ خدا تعالیٰ کے تابع ہے.اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ یہ ظاہری نظام بھی اسی طرح رہے اور ایک خارق عادت امر بھی ظاہر ہو جاوے.عارف لوگ ان کیفیتوں کو خوب دیکھتے اور ان سے حظ اٹھاتے ہیں.بعض لوگ ایک ادنیٰ ادنی اور معمولی باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں اور شک میں پڑ جاتے ہیں.مثلاً ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا.یہ امر بھی ایسا ہے جیسا شق القمر کے متعلق.خدا خوب جانتا ہے کہ اس حد تک آگ جلاتی ہے اور ان اسباب کے پیدا ہونے سے فرو ہو جاتی ہے.اگر ایسا مصالحہ ظاہر ہو جاوے یا بتلا دیا جاوے، تو فی الفور مان لیں گے.لیکن ایسی صورت مین ایمان بالغیب اور حسن ظن کا لطف اور خوبی کیا ظاہر ہو گی.ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا خلق اسباب نہیں کرتا، مگر بعض اسباب ایسے ہوتے ہیں کہ نظر آتے ہیں اور بعض اسباب نظر نہیں آتے.غرض یہ ہے کہ خدا کے افعال گوناگوں ہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کبھی درماندہ نہیں ہوتی اور وہ نہیں تھکتا وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (يس:80) أَفَعَيِينَا بِالخَلْقِ الْأَوَّلِ (ق: 16) اس کی شان ہے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں اور افعال کا کیسا ہی صاحب عقل اور علم کیوں نہ ہو ، اندازہ نہیں کر سکتا.بلکہ اس کو اظہار عجز کرنا پڑتا ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے.ڈاکٹر خوب جانتے ہیں.عبد الکریم نام ایک شخص میرے پاس آیا.اس کے پیٹ کے اندر ایک رسولی تھی.جو پاخانہ کی طرف بڑھتی جاتی تھی.ڈاکٹروں نے اسے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے اس کو بندوق مار کر مار دینا چاہئے.الغرض بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں 117

Page 141

ہو سکتی.مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے.تو اسے خود ہی دست لگ جاتے ہیں.انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے.لیکن بالاخر اس کو معلوم ہو گا کہ اس نے کچھ ہی نہیں کیا.حدیث میں آیا ہے کہ جیسے سمندر کے ہوگا کنارے ایک چڑیا پانی کی چونچ بھرتی ہو، اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور فعل کے معارف اور اسرار سے حصہ ملتا ہے.پھر کیا عاجز انسان ! ہاں، نادان فلسفی اسی حیثیت اور شیخی پر خدا تعالیٰ کے ایک فعل شق القمر پر اعتراض کرتا اور اسے قانون قدرت کے خلاف ٹھہراتا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ اعتراض نہ کرو.نہیں، کرو اور ضرور کرو.شوق سے اور دل کھول کر کرو.لیکن دو باتیں زیر نظر رکھ لو.اول خدا کا خوف ( اور اس کی لا محدود طاقت) دوسرے (انسان کی نیستی اور محدود علم) بڑے بڑے فلاسفر بھی آخر یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ہم جاہل ہیں.انتہائے عقل ہمیشہ انتہائے جہل پر ہوتی ہے.مثلاً ڈاکٹروں سے پوچھو کہ عصبہ مجوفہ کو سب وہ جانتے اور سمجھتے ہیں مگر نور کی ماہیت اور اس کا کنہ تو بتلاؤ کہ کیا ہے؟ آواز کی ماہیت پوچھو تو یہ تو کہہ دیں گے کہ کان کے پردہ پر یوں ہوتا ہے اور ووں ہوتا ہے، لیکن ماہیت آواز خاک بھی نہ بتلا سکیں گے.آگ کی گرمی اور پانی کی ٹھنڈک پر کیوں کا جواب نہ دے سکیں گے.کہنہ اشیاء تک پہنچنا کسی حکیم یا فلاسفر کا کام نہیں ہے.دیکھئے ہماری شکل آئینہ میں منعکس ہوتی ہے، لیکن ہمارا سر ٹوٹ کر شیشہ کے اندر نہیں چلا جاتا.ہم بھی سلامت ہیں اور ہمارا چہرہ بھی آئینہ کے اندر نظر آتا ہے.پس یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ چاند شق ہو اور شق ہو کر بھی انتظام دنیا میں خلل نہ آوے.اصل بات یہ ہے کہ یہ اشیاء کے خواص ہیں.کون دم مار سکتا ہے.اسلئے خدا تعالیٰ کے خوارق اور معجزات کا انکار کرنا اور انکار کے لئے جلدی کرنا شتاب کاروں اور نادانوں کا کام ہے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 56-57) 118

Page 142

119

Page 143

حوالہ جات باب سوم 1 ( صحیح البخاری، جلد 1، کتاب بدء الوحی، باب کیف كان بدء الوحی الی رسول اللہ، مولفہ امام محمد بن اسماعیل بخاری، ترجمه و تشریح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ، تحقیق و تخص شبیر احمد ثاقب - نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ) 2 ( معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 129 ، زیر لفظ حرا.اور زیر لفظ غار جلد 3 صفحہ 373 - دار احیاء التراث العربی بیروت) 3.(Muhammad at Mecca by W.Montagomery Watt.page 44, under visit to Hira; Tahannuth) 4- ( تمدن عرب از گستاولی بان اردو ترجمه از علی بلگرامی صفحہ 135-136 شائع کردہ مقبول اکیڈمی لاہور مطبع شیخ پر نٹر ز لاہور ) ( معجم البلدان جلد 3 صفحہ 244،241 زیر لفظ طائف.دار احیاء التراث العربی بیروت) 5.(سیرت النبی لابن ہشام.صفحہ 163 اخبار الکھان من العرب والاحبار من اليهود مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 6.(البدایہ والنھایہ لابن کثیر ، باب الامر بابلاغ الرسالۃ الی الخاص والعام...الخ.جلد 3 صفحہ 80 دار ہجر للطباعة والنشر والتوزيع والاعلان 1997ء) 7.(سیرت النبی لابن ہشام.ذکر اسلام خدیجہ بنت خویلد صفحہ 183، ذکر ان علی ابن ابی طالب أول ذكر اسلم صفحہ 186، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 2001ء) 8.(سیرت النبی لابن ہشام.ذکر اسلام زید بن حارثہ ثانیا صفحہ 188.مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) و.(سیرت النبی لابن ہشام.ذکر من اسلام من الصحابة بدعوة ابی بکر صفحہ 189 مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء) 10.( تاریخ الطبری از محمد ابن جریر طبری..جلد 3 صفحہ 139، ذکر خروج رُسل رسول اللہ الی الملوک مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء) 11.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 189، اسلام ابی بکر الصدیق و شانه مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 12- ( تاریخ الخمیس جلد 1 صفحہ 260 261 باب صحبتہ ابي بكر النبي في تجارة الى الشام، موسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 13 ( الطبقات الکبرای لابن سعد جلد 1 صفحہ 96، باب ذکر و عار سول اللہ الناس الی الاسلام دار احیاء التراث العربي بيروت 1996ء) 14- ( تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 230 ذکر الخبر عما کان من امر النبی...الخ مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء) 15- ( تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 230 ذكر الخبر عما كان من امر النبی...الخ مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء) 16- ( تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 231 ذكر الخبر عما كان من امر النبی...الخ مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء) 17- ( تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 231 ذكر الخبر عما كان من امر النبی الخ مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء) 18.(سیرت النبی لابن ہشام، صفحہ 221 تا223 حدیث رؤساء قريش مع الرسول، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 19.(سیرت النبی لابن ہشام، صفحہ 260،259 ، ذکر مابقی رسول الله من قومه من الاذی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001 ء) 20.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 260 ، ذکر مالقی رسول الله من قومه من الاذی، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 2001ء) 21- تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 235 ذکر اخبر عما كان من ام النبی..الخ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2002ء) 22.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 236 ، عدوان المشرکین علی مستضعفین...الخ، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 23.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 235، عدوان المشرکین علی مستضعفین...الخ، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 24.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 235، عدوان المشرکین علیا المستضعفین...الخ، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء) 120

Page 144

25.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 299، وفات ابی طالب و خدیجه، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 26.(سیرت الحلبیہ صفحہ 221 باب الحجرة الأولى الى ارض الحبشی...الخ مطبوعہ دار لکتب العلمیہ بیروت 2002ء) 27- (الخصائص الکبرای جلد 1 ، صفحہ 221 ، ماوقع فی اسلام عمر بن خطاب من الآيات مطبوعہ المکتبة الحقاضیہ پشاور) 28.(سیرت النبی گلابن ہشام صفحہ 251، اسلام عمر بن الخطاب، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 29.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 253، اسلام عمر بن الخطاب، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء) 30.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 301 ، باب سعی الرسول إلى ثقيف يطلب النصرة - مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 31.( صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب اذا قال احد کم آمین و الملائکۃ حدیث 3231) 32.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 301 ، باب سعی الرسول إلى ثقيف يطلب النصرة - مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) تاریخ الخمیس جلد 1 صفحہ 303 باب ذکر وفود الجن.موسسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 33.( بخاری کتاب الاستسقاء باب دعاء النبي صلى اللهم اجعلها علیهم سنین کسنمین یوسف حدیث 1007) 34.( بخاری کتاب الاستقاء باب الاستسقاء في المسجد الجامع حديث 1013) 35.(سیرت النبی گابن ہشام صفحہ 288 ، باب ذکر الاسراء والمعراج مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 36.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 288 ، باب ذکر الاسراء والمعراج مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 37.( بخاری کتاب المناقب الانصار - باب انشقاق القمر حدیث 3868) 38.( بخاری کتاب المناقب الانصار - باب انشقاق القمر حدیث 3869) 39.(اسد الغابۃ زیر لفظ صفیہ ) 121

Page 145

باب چهارم ہجرت مدینہ مکہ سے شمال کی طرف تقریباً اڑھائی سو میل کے فاصلہ پر مدینہ شہر ہے.اس کا قدیم نام یثرب تھا.آنحضور صلی می زنم کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد اس کا نام مدینتہ النبی ہو گیا.اور پھر صرف مدینہ رہ گیا.لیکن عقیدت مندان رسول اس شہر کو مدینہ منورہ کے نام سے یاد کرتے ہیں.کیونکہ یہ وہ مقدس بستی ہے جس میں نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی علیہ یکم خدا کے حکم سے ہجرت کر کے تشریف لائے اور اپنا مسکن بنا کر اسے منور کر دیا.اور اس نور سے تمام عالم کو منور کر دیا.مسلمان اگر مکہ کا نام آنے پر کعبہ کی یاد میں ڈوب جاتے ہیں تو مدینہ کا نام آنے پر مدینہ کے نور محمد مصطفی صل الی یکم کی یاد میں آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں.اس باب میں ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یثرب مدینہ النبی کیسے بنا اور کیونکر اسکے نور سے دنیا منور ہو گئی.آنحضور صلی الم کا خواب: مکہ میں جب مسلمانوں کا رہنا دو بھر ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ ہم کو ہجرت کے متعلق ایک خواب کے ذریعہ سے خبر دی.اس خواب کا ذکر کئی کتب میں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کا ذکر اپنی تحریرات میں بھی فرمایا ہے.جیسا کہ فرمایا: قال ابو موسى عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم رأيت في المنام اني اهاجر من الى ارض بها نخل فذهب وهلى الى انها اليمامة او هجر فاذا هي المدينة يثرب.مكة یعنی ابو موسی سے روایت ہے جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کرتا ہوں جس میں کھجوریں ہیں پس میر اوہم اس طرف گیا کہ وہ بیامہ یا ہجر ہو گا مگر آخر وہ مدینہ نکلا جس کو میٹر ب بھی کہتے ہیں“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 204) مکہ میں جب مسلمانوں کا رہنا دو بھر ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی علی یم کو ہجرت کے متعلق ایک خواب کے ذریعہ سے خبر دی.اس خواب میں جگہ کا نام اور وقت کی تعیین نہ تھی صرف یہ اشارہ تھا کہ وہ ایک سر سبز و شاداب جگہ ہو گی.آپ صلی للی کم کا خیال یمامہ اور حجر کی طرف اس لئے گیا کیونکہ وہ عرب کے مشہور سر سبز علاقے تھے.یمامہ 122

Page 146

ملک عرب کے مشرق میں بحر فارس سے ملا ہوا ہے.اُس زمانہ اس علاقہ سے مراد بحرین اور اسکا گردو نواح اور کوفہ وبصرہ کے قریب میدانی علاقوں تک پھیلا ہو ا علاقہ تھا اس علاقہ کو الحصاء بھی کہتے تھے.(1) ھجر کے متعلق لکھا ہے کہ جنوبی عرب میں یہ لفظ شہر کے معنی میں استعمال ہو تا تھا.اس لئے کئی شہروں کے ناموں کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے.مثلاً حجر نجران، حجر جازان اور حضر موت میں بھی غالباً حضر اور حجر ہم معنی ہیں.ان میں سب سے زیادہ معروف جنوبی بحرین کا علاقہ ہے جو ایک زرخیز علاقہ ہے.ہجرت کی وجہ : (2) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سرمہ چشم آریہ میں آنحضور صلی یلم کی زندگی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جن پانچ خوارق عادت تصرفات کو بیان کیا ہے ان میں سے ایک ہجرت مدینہ کے واقعات ہیں جیسا کہ فرمایا.”تیسرے وہ تصرف اعجازی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شر کفار سے محفوظ رکھنے کے لئے بروز ہجرت کیا گیا یعنے کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بد ارادہ کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا اور پھر بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی بدھ کا روز اور دو پہر کا وقت اور سختی گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا.جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مونہہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں.کس بہر کسے سرند ہر جان نفشاند عشق است که این کار بصد صدق کناند سو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس وفادار اور جان نثار عزیز کو اپنی جگہ چھوڑ کر چلے گئے تو آخر تفتیش کے بعد ان نالائق بد باطن لوگوں نے تعاقب کیا اور چاہا کہ راہ میں کسی جگہ پا کر قتل کر ڈالیں اس وقت اور اس مصیبت کے سفر میں بجز ایک با اخلاص اور یکرنگ اور دلی دوست کے اور کوئی انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہ تھا.ہاں ہر وقت اور نیز اس 123

Page 147

پر خطر سفر میں وہ مولیٰ کریم ساتھ تھا جس نے اپنے اس کامل وفادار بندہ کو ایک عظیم الشان اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا تھا سو اس نے اپنے اس پیارے بندہ کو محفوظ رکھنے کے لئے بڑے بڑے عجائب تقرفات اس راہ میں دکھلائے جو اجمالی طور پر قرآن شریف میں درج ہیں منجملہ ان کے ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورہ ٹین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے.از انجملہ ایک یہ کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنادیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اسی طرح اذن الہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکا میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے.از انجملہ ایک یہ کہ ایک مخالف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پکڑنے کے لئے مدینہ کی راہ پر گھوڑا دوڑائے چلا جاتا تھا جب وہ اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو جناب ممدوح کی بد دعا سے اس کے گھوڑے کے چاروں سم زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگ کر اور عفو تقصیر کراکر واپس لوٹ آیا“ ایک اور جگہ فرمایا: سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 حاشیہ صفحہ 64 تا66) یادر ہے کہ ۵ پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے (۲) دوسر اوہ موقعہ تھا جبکہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابو بکر کے چھپے ہوئے تھے (۳) تیسر اوہ نازک موقعہ تھا جب کہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ 124

Page 148

گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا.(۴) چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دیدی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (۵) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے “ (چشمه معرفت ، روحانی جلد 23 صفحہ 263 حاشیہ) مکہ میں مسلمانوں کا رہنا جب محال ہو گیا تو ادھر خدا تعالیٰ نے بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کے ذریعہ ہجرت کے راستے پیدا فرما دئے اور واضح ہو گیا کہ خواب میں دکھائے گئے علاقہ سے مراد مدینہ ہے.بہت سے مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے.لیکن ابھی تک آنحضور صلی یہ کم کو خود ہجرت کا حکم نہیں ہوا تھا.ہجرت کا حتمی حکم ابو جہل اور شیخ مجدی والے واقعہ میں ہونے والے قریش کے خفیہ معاہدہ کے وقت ہوا.قریش کی جس گفتگو اور معاہدہ کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا ارشادات میں بیان فرمایا ہے قرآن کریم میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے.وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (الانفال: 31) اور (یاد کرو) جب وہ لوگ جو کافر ہوئے تیرے متعلق سازشیں کر رہے تھے تاکہ تجھے (ایک ہی جگہ ) پابند کر دیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے ( وطن سے) نکال دیں.اور وہ مکر میں مصروف تھے اور اللہ بھی ان کے مکر کا توڑ کر رہا تھا اور اللہ مکر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.کتب تاریخ و سیرت میں درج اس کی تفصیلات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کی بنیادی وجہ یہی خفیہ قتل کا معاہدہ تھا.مثلاً سیرت النبی ابن ہشام میں درج روایت ہے کہ " فقال ابو جهل بن هشام : والله ان لي فيه لراياً ما اراكمُ وقعتم عليه بعد، وقالوا وما هو يا ابالحكم؟ قال أرى ان ناخذ من كل قبيلة شابأفتى جليدًا نسيباً وسيطاً فينا، ثمّ نعطى كل فتى منهم سيفاً صارماً ثمّ يعمدوا عليه فيضربوه بها ضربة رجل واحدِ فيقتلوه فنسريح منه ، فانّهم اذا فعلوا ذلك تفرق دمه فى القبائل جميعاً فلم يقدر بنو عبد مناف على حربِ قومِهِمْ جَمِيعاً فَرضَوا مِنا بالعقلِ فَعقَلنا ه لَهُم يَقولُ الشَّيخُ النَجدِى : القَول مَا قَالَ الرَّجُلُ، هَذا الرَى، 125

Page 149

لَا أَرَى غَيْرَهُ فَتَفرِّقَ القُومُ عَلَى ذَلكَ وَهُم مُجمعُونَ لَه (3) یعنی: ابو جھل بن ہشام نے کہا.واللہ میری اس میں ایک رائے ہے میرے خیال میں کسی نے ایسا نہیں سوچا ہو گا.انہوں نے کہا اے ابوالحکم جلد بتا کہ وہ رائے کیا ہے.اس نے کہا کہ ہر قبیلہ میں سے ایک چنیدہ جو ان تیار رکھیں جب محمد سور ہے ہوں تو وہ اکٹھے ان پر تلواروں سے حملہ کر دیں اور قتل کر دیں.اس طرح ہم اس شخص (محمد) سے بے فکر ہو جائیں گے.بنو عبد مناف سب قبائل سے نہیں لڑ سکیں گے.بالآخر وہ خون بہاما نگیں گے تو ہم مل کر دے دیں گے.شیخ مسجدی نے کہا.بس یہی رائے سب سے عمدہ ہے.اسی پر عملد را مد کرو.سب اس فیصلہ پر متفق ہو گئے.وحی کے ذریعہ اطلاع: قریش کے اس بد ارادہ کی اطلاع آنحضور صلی علی یکم کو وحی کے ذریعہ ہوئی.اسکا ذکر بھی حضرت مسیح موعود علیہ ا نے اپنی کتب میں فرمایا ہے.بلکہ ایک ہندو مصنف پر کاش دیوجی (مصنف سوانح عمری محمد صاحب) کی بیان کردہ سیرت النبی صلی علیکم کو آپ نے اپنی کتاب میں درج بھی فرمایا ہے.پر کاش دیوجی نے اس مذکورہ بالا واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لاعلمی سے خلاف واقعہ لکھا ہے کہ مگر کسی جاں نثار خادم نے آپ کو وقت پر خبر کر دی (چشمہ معرفت جلد 23 حاشیہ صفحہ 262 تا 264) مصنف کی اس غلطی کی اصلاح حضور نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ.آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا اور یہ قول برہمو صاحب کا کہ جب گھر کا قتل کے لئے محاصرہ کیا گیا تو کسی جاں نثار خادم نے آپ کو اطلاع دے دی تھی یہ قول صحیح نہیں ہے بلکہ وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اس نے خود اطلاع دی تھی.چونکہ برامھ مذہب اس معرفت کی منزل تک نہیں پہنچا کہ خدا کے نبیوں کو خدا کی طرف سے وحی ہوا کرتی ہے.لہذا انہوں نے ایسا ہی لکھ دیا“ ایک اور جگہ فرمایا: چشمه معرفت جلد 23 حاشیہ صفحہ 264) اور آخری حملہ یہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا.مگر جس کو خدا بچاوے اس کو کون مارے.خدا نے آپ کو اپنی وحی سے اطلاع دی کہ آپ اس 126

Page 150

شہر سے نکل جاؤ.اور میں ہر قدم میں تمہارے ساتھ ہوں گا.پس آپ شہر مکہ سے ابو بکر کو ساتھ لے کر نکل آئے اور تین رات تک غار ثور میں چھپے رہے“ ایک اور جگہ فرمایا: (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 467،466) ”ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے دشمنوں کے ہاتھ سے بچایا.مکہ والوں نے اتفاق کر کے باہم عہد کر لیا تھا کہ اس شخص کو جو ہر وقت خدا خدا کر تا اور ہمارے بتوں کی اہانت کرتا ہے گرفتار کر کے بڑے عذاب کے ساتھ اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیں.مگر خدا نے اپنی خدائی کا کرشمہ ایسا دکھلایا کہ اول اپنی وحی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ اس وقت اس شہر سے نکل جانا چاہیے کہ دشمن قتل کرنے پر متفق اللفظ ہو گئے ہیں“ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 26) کتب سیرت میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے کہ آپ صلی لی کیم کو بذریعہ وحی قریش کے اس خطرناک منصوبہ کی اطلاع ہوئی اور آپ صلی الم کو اس منصوبہ سے محفوظ رکھنے کی تدبیر بھی بتائی گئی.طبری میں بیان ہے کہ فائی جبريلُ رسول الله فقالَ لَا تبت هذه الليلة على فراشك الذي تبيت عليهِ (4) یعنی حضرت جبریل آئے اور فرمایا آج کی رات آپ اس بستر پر نہ بسر کریں جس پر گزشتہ رات بسر کی تھی.گھر کا محاصرہ اور توکل علی اللہ : قریش نے اپنے منصوبہ کے مطابق آنحضور صلی نیم کے گھر کا محاصرہ کر لیا.لیکن خدا تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں آپ صلی الم کی ان انتہائی خطرہ کے لمحوں میں حفاظت فرمائی.حضور نے ان واقعات کو درج فرمایا ہے اور جہاں مورخین ان واقعات کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہے ہیں وہاں آپ نے انکی اصلاح بھی فرمائی ہے.اور سیرت کے پر معارف دقائق بھی بیان فرمائے ہیں.جیسا کہ فرمایا ” ہمارے سید و مولی خیر الرسل محمد صلی اللہ ﷺ کو بھی مکہ معظمہ میں جب دشمنوں نے قتل کرنے کے لئے چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا تھا ایسا ہی اضطراب پیش آیا تھا اور آپ نے دعا بھی نہیں کی تھی بلکہ راضی برضاء مولیٰ ہو کر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا تھا.پھر دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم کو 127

Page 151

خدا تعالیٰ نے کیسا بچا لیا.دشمنوں کے بیچ میں سے گزر گئے اور انکے سر پر خاک ڈال گئے مگر انکو نظر نہ آسکے “ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 10 حاشیہ) آپ کے اس ارشاد سے سیرت النبی صلی الم کا ایک بہت اہم پہلو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتلاء کے وقت آپ صلی الیم نے کوئی آہ و بکا نہیں کی یا گھبراہٹ یا سراسیمگی کا اظہار بھی نہیں فرمایا بلکہ کوہ و قار بن کر نہایت دلیری کے ساتھ راضی برضائے الہی اور توکل علی اللہ کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.حالانکہ بظاہر حالات ایسے تھے کہ سامنے موت دکھائی دیتی تھی.کتب سیرت و تاریخ کے مطابق قریش کے مقرر کردہ اشخاص جن میں خود ابو جہل بھی تھا تلواریں ہاتھ میں تیار رکھے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے گھر کے دروازہ پر کھڑے تھے اور آپ صلی کم پر ٹوٹ پڑنے کو بیتاب تھے.اور بظاہر انکے اس منصوبہ کی تکمیل میں کوئی روک بھی نہ تھی.(5) لیکن خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت تھی جو ساتھ تھی.اسی پر آپ صلی الیکم کو بھروسہ تھا.محاصرہ کے دوران جب آپ صلی علیکم گھر سے ہجرت کے لئے نکلے ہیں اس وقت بھی آپ صلی علی یم نے اس تو کل اور وقار کا عظیم نمونہ دکھایا.ہجرت کے لئے خروج: آنحضور صلی للہ کا محاصرہ کے دوران جب گھر سے ہجرت کے لئے نکلے ہیں اس وقت بھی آپ صلی ایم نے اس تو کل اور و قار کا عظیم نمونہ دکھایا.ان واقعات سیرت کو جنہیں بعض مسلم اور غیر مسلم مورخین نے سمجھنے میں غلطی کی ہے.آپ نے نہایت پر حکمت الفاظ میں انکو بیان فرمایا ہے جس سے اُن مورخین کی تصحیح بھی ہو جاتی ہے اور سیرت النبی صلی الم کے درخشاں پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے.ذیل میں چند ارشادات درج ہیں.فرمایا: بدھ کا روز اور دو پہر کا وقت اور سختی گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا“ (روحانی خزائن جلد 2، سرمه چشم آریہ ، حاشیہ صفحہ 65،64) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورہ 128

Page 152

لیسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے “ (روحانی خزائن جلد 2 ، سرمه چشم آریہ ، حاشیہ صفحہ 66) پھر دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی الله علم کو خدا تعالیٰ نے کیسا بچالیا.دشمنوں کے بیچ میں سے گزر گئے اور انکے سر پر خاک ڈال گئے مگر انکو نظر نہ آسکے" دشمن کے سامنے سے گزر گئے: ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 10 حاشیہ) آنحضور صلی ال نیم کی ہجرت کے واقعات میں معجزانہ حفاظت ایک نمایاں رنگ رکھتی ہے.ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی ایم کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھا.دشمن کی آنکھوں کے سامنے سے گزرے لیکن دشمن آپ کو دیکھ نہ پایا.روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آنحضور صلی ال یہ ہجرت کے وقت گھر کے دروازہ سے بڑے وقار اور اطمینان سے نکلے ہیں.آپ صلی اللہ ہم نے نہ تو بھیس بدلہ اور نہ ہی آپ صلی یہ کم گھر کے عقبی دروازہ سے نکلے.بعض غیر مسلم مورخین نے یہ لکھا ہے کہ محمدصلی یکم عقبی دروازہ سے نکل کر گئے.مثلاً پر کاش دیو جی نے لکھا ہے کہ ”آپ پچھلی طرف سے کود کر ابو بکر کے ہاں چلے گئے“ (سوانح عمری محمد صاحب).یہ بات یا تو لا علمی کی وجہ سے بعض غیر مسلم مورخین نے لکھی ہے یا پھر تعصب کی وجہ سے لکھی ہے.کیونکہ اسلامی لٹریچر میں جتنی بھی روایات ہیں ان سب سے یہی ظاہر ہو تا کہ آنحضور صلی للی ام اس موقعہ پر خدا تعالیٰ پر کامل تو کل کرتے ہوئے دشمنوں کے سامنے سے گزرے ہیں.بلکہ اس واقعہ کے ساتھ مسلمان مفسرین اور مورخین نے سورۃ لیس کی اس آیت کا تعلق جوڑا ہے.جس میں دشمنوں کی نظروں کو اندھا کر دینے کا ذکر ہے وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (يس: (10) اور ہم نے ان کے سامنے بھی ایک روک بنادی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک روک بنادی ہے.اور اُن پر پردہ ڈال دیا ہے اس لئے وہ دیکھ نہیں سکتے.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی متعدد تحریرات میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ آپ ”دشمنوں کے بیچ میں سے گزر گئے اور انکے سر پر خاک ڈال گئے مگر انکو نظر نہ آسکے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آنحضور صلی یکم کے قتل کا منصوبہ ہوا تھا اور آنحضور عملی کم کو بذریعہ وحی اطلاع ہوئی تھی وہ دوپہر کا وقت تھا قریش کے اس معاہدہ کے فوراًبعد محاصرہ شروع ہو گیا تھا اور دشمن نے آنحضور صلی للہ کم کی نگرانی شروع کر دی تھی اور کسی بھی وقت موقعہ 66 129

Page 153

پا کر وہ حملہ کر سکتے تھے گویا اسی وقت خطرہ کا آغاز ہو گیا تھا.اس وقت آنحضور صلی الہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اور حضرت ابو بکر صدیق کے گھر تشریف لے گئے.جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے بدھ کاروز اور دوپہر کا وقت اور سختی گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا“ (روحانی خزائن جلد 2 ، سرمه چشم آریہ ، حاشیہ صفحہ 65،64) قتل کے منصوبہ کے روز آپ کا دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر صدیق کے گھر جانا اور پھر مکہ سے غارِ ثور کے لئے منہ اندھیرے اپنے گھر سے نکلنا اور دشمن کی نظروں کے سامنے سے گزرنا اور دشمن کی آنکھوں کا اندھا ہو جانا اور انکے سروں پر خاک ڈالنا یعنی انکے منصوبوں کو خاک میں ملا دینا وغیرہ کو معجزانہ تصرف کے طور پر بیان کیا گیا ہے کفار محض خدائی تصرف سے آپ صلی اللہ یلم کو دیکھنے اور پہچاننے سے قاصر ہو گئے.روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محاصرین جب مستعدی سے کھڑے تھے انکو ایک اور شخص نے پہچان کر انکے کھڑے ہونے کی غرض پوچھی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اتنی تاریکی نہ تھی کہ محاصرہ کئے ہوئے لوگ پہچانے نہ جاسکتے ہوں.اگر وہ پہچانے جاسکتے تھے تو آپ کو بھی دیکھا اور پہچانا جا سکتا تھا.سیرت النبی صلی اللی نام کے اسی پہلو یعنی خوارق عادت تائید خداوندی کو اس ارشاد میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.یار غار سفر ہجرت کے لئے رفاقت کا اعزاز حضرت ابو بکر صدیق کے حصہ میں آیا.نیز ہجرت کی تیاری اور سفر ہجرت میں حضرت ابو بکر صدیق کی خدمات بھی غیر معمولی ہیں.آپ نے انکا ذکر بھی اپنی تحریرات میں فرمایا ہے.اور اس رفاقت کو آنحضور صلی ایم کے کشف اور الہام پر مبنی قرار دیا ہے.اس وقت آپ کے پاس ستر ۷۰ اسی ۸۰ صحابہ موجود تھے، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے ، مگر ان سب میں سے آپ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی انتخاب کیا.اس میں کیا سر ہے؟ بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کا فہم اللہ تعالی ہی کی طرف سے آتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کشف اور 130

Page 154

الہام سے بتا دیا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں.ابو بکر اس ساعت عُسر میں آپ کے ساتھ ہوئے.یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 1 صفحہ 250) جملہ کتب تاریخ وسیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے حکم کے بعد آپ صلی یا کام فوراً حضرت ابو بکر صدیق کے گھر گئے اور انکو اس حکم کے متعلق بتایا.حضرت ابو بکر صدیق نے سب سے پہلے اپنی رفاقت کی درخواست نہایت ادب و عاجزی سے الصحبۂ یا رسول اللہ کے الفاظ میں پیش کی.جو قبول کی گئی.حضرت ابو بکر کا انتخاب الہام پر مبنی تھا اور الہامی انتخاب کا سب سے بہترین ہونا بھی ثابت ہو گیا.حضرت ابو بکڑ نے سفر ہجرت کے لئے پر خلوص اور پر حکمت انداز میں تمام انتظام کئے ہوئے تھے.اس سفر کے لئے پہلے سے ہی دو اونٹنیاں تیار رکھیں، راہبر عبد اللہ بن اریقط اور وفادار غلام عامر بن فہیرہ کی ڈیوٹیاں اور راستہ کے انتخاب وغیرہ پر مشتمل سیکیم آنحضور صلی علیکم کے سامنے پیش کی جس کو منظور کیا گیا اور اسی پر عمل ہوا (6) حضور کے ان ارشادات سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آنحضور صلی ا یکم مکہ سے صرف حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ نکلے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مکہ میں ابو بکر صدیق کے سوا کوئی اس خدمت کے لئے تیار نہیں تھا.بلکہ آنحضور صلی ال نیم کے تمام اصحاب وفادار اور جانثار تھے.مکہ میں بھی بہت سے جان نثار صحابہ موجود تھے.آپ صلی علیہ یکم جس کو بھی اس خدمت کے لئے فرماتے وہ تیار تھا.فرمایا: حالانکہ مکہ میں آپ کے وفادار اور جاں نثار خدام موجود تھے.لیکن جب آپ نے ہجرت کی تو صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے لیا.مگر اس کے بعد جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو دوسرے اصحاب بھی یکے بعد دیگرے وہیں جا پہنچے“ غار ثور میں پناہ: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 4 صفحہ 389) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا پس آپ شہر مکہ سے ابو بگر کو ساتھ لے کر نکل آئے اور تین رات تک غار ثور میں چھپے رہے.دشمنوں نے تعاقب کیا اور ایک سراغ رسان کو لے کر غار تک پہنچے اس شخص نے غار تک قدم کا نشان پہنچا دیا اور کہا کہ اس غار میں تلاش کرو اس کے آگے قدم نہیں.اور اگر اس کے آگے گیا ہے تو پھر 131

Page 155

منہ پر آسمان پر چڑھ گیا ہو گا مگر خدا کی قدرت کے عجائبات کی کون حد بست کر سکتا ہے.خدا نے ایک ہی رات میں یہ قدرت نمائی کی کہ عنکبوت نے اپنی جالی سے غار کا تمام منہ بند کر دیا اور ایک کبوتری نے غار کے پر گھونسلا بنا کر انڈے دیدیئے اور جب سراغ رساں نے لوگوں کو غار کے اندر جانے کی ترغیب دی تو ایک بڑھا آدمی بولا کہ یہ سراغ رساں تو پاگل ہو گیا ہے.میں تو اس جالی کو غار کے منہ پر اس زمانہ سے دیکھ رہا ہوں جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا.اس بات کو سن کر سب لوگ منتشر ہو گئے اور غار کا خیال چھوڑ دیا“ پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23، صفحہ - 466-467) فرمایا: ”ازاں جملہ ایک یہ کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنادیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اسی طرح اذن الہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکا میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے“ سرمه چشم ر یہ روحانی خزائن جلد 2 حاشیہ صفحہ 66) فرمایا: ”غرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غار ثور کہتے ہیں.آپ جا چھپے.شریر کفار جو آپ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے، تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل ہی سر پر آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے.اس وقت آپ نے فرمایا.لا تحزن إن اللهَ مَعَنَا (التوبہ: ٤٠) کچھ غم نہ کھاؤ.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں؛ چنانچہ فرمایا.اِن الله مَعَنَا.معنا میں آپ دونوں شریک ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک پلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اور دوسرے پر حضرت صدیق کو رکھا ہے.اس وقت دونوں ابتلا میں ہیں.کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے.دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی 132

Page 156

تلاشی کرو.کیونکہ نشانِ پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے.لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو.مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے، کبوتر نے انڈے دئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں.اور دیوانے کی طرح بڑھتے ، آئے ہیں، لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں آپ نے زبان ہی سے فرمایا.کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں.اشارہ سے کام نہیں چلتا باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں.اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے.یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے.( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 1 صفحہ 250،251) لکھا ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے نکلے اور غار میں جاکر پوشیدہ ہوئے تو دشمن بھی تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے.اُن کی آہٹ پاکر حضرت ابو بکر گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے وحی کی اور آنحضرت ملی الم نے فرمایا : لا تحزن إنّ الله مَعَنَا (التوبه : ٤٠) کہتے ہیں کہ وہ نیچے اتر کر اس کو دیکھنے بھی گئے.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا.اسے دیکھ کر ایک نے کہا کہ یہ جالا تو ( آنحضرت صلی علی کم کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے.اس لیے وہ واپس چلے آئے.یہی وجہ ہے کہ جو اکثر اکابر عنکبوت سے محبت کرتے آئے ہیں“ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 390-389) پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک وفادار رفیق کے ساتھ جو صدیق اکبر تھا شہر سے باہر جاکر ایک غار میں چھپ گئے جس کا نام ثور تھا جس کے معنے ہیں ٹوران فتنہ { یہ نام پہلے سے پیشگوئی کے طور پر چلا آتا تھا تا اس واقعہ کی طرف اشارہ ہو } غرض جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جا کر غار ثور میں چھپ گئے تب دشمنوں نے تعاقب کیا اور غار ثور تک سراغ پہنچا دیا.اور سراغ چلانے والے نے اس بات پر زور دیا کہ یقینا وہ اس غار کے اندر ہیں یا یوں کہو کہ اس سے آگے آسمان پر چلے گئے کیونکہ سراغ آگے نہیں چلتا.مگر چند مکہ کے رئیسوں نے کہا کہ اس بڑھے کی عقل ماری گئی ہے غار پر تو کبوتری کا 133

Page 157

آشیانہ ہے اور ایک درخت ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے لہذا کسی طرح ممکن نہیں کہ کوئی غار کے اندر جاسکے اور آشیانہ سلامت رہے اور درخت کاٹا نہ جائے اور ان میں سے کوئی شخص درخت اور آشیانہ کو ہٹا کر اندر نہ جاسکا کیونکہ لوگوں نے بارہا دیکھا تھا کہ کئی دفعہ بہت سے سانپ غار کے اندر سے نکلتے اور اندر جاتے ہیں اس لئے وہ سانپوں کی غار مشہور تھی سو موت کے غم نے سب کو پکڑا اور کوئی جرات نہ کر سکا کہ اندر جائے.یہ خدا کا فعل ہے کہ سانپ جو انسان کا دشمن ہے اپنے حبیب کی حفاظت کے لئے اس سے کام لے لیا اور جنگلی کبوتری کے آشیانہ سے لوگوں کو تسلی دی.یہ کبوتری نوح کی کبوتری سے مشابہ تھی جس نے آسمانی سلطنت کے مقدس خلیفہ اور تمام برکتوں کے سرچشمہ کی حمایت کی.پس یہ تمام باتیں غور کے لائق ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولوں کو دشمنوں کے بد ارادوں سے بچالیا.اس کی حکمتوں اور قدرتوں پر قربان ہونا چاہیے کہ شریر انسان اس کے راستباز بندوں کے ہلاک کرنے کے لئے کیا کچھ سوچتا ہے اور در پر وہ کیسے کیسے منصوبے باندھے جاتے ہیں اور پھر انجام کار خدا تعالیٰ کچھ ایسا کرشمہ قدرت دکھلاتا ہے کہ مکر کرنے والوں کا مکر انہی پر اٹھا کر مارتا ہے اگر ایسانہ ہو تا تو ایک راستباز بھی شریروں کے بد ارادہ سے بیچ نہ سکتا“ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 26،25) غار ثور مکہ سے جنوب کی جانب ساڑھے چار کلو میٹر کے فاصلہ پر جبل ثور میں ہے.غار کا بڑا دہانہ تقریباً ایک میٹر چوڑا ہے.اور چھوٹا دہانہ تقریبا نصف میٹر چوڑا ہے.اس کا طول اٹھارہ بالشت اور عرض گیارہ بالشت ہے.جبل ثور کی بلندی 759 میٹر ہے.لیکن غار ثور سطح زمین سے زیادہ بلند نہیں (7) حضور نے غار ثور کے نام کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ یہ نام پہلے سے پیشگوئی کے طور پر چلا آتا تھا تا اس واقعہ کی طرف اشارہ ہو.“ لغت میں ثور ان کے معنی یہ ہیں: فی غلیان و اضطراب و هیجان.یعنی اضطراب اور بے چینی کی آزمائش.(8) مزید فرمایا: کسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں تیرہ ۱۳ برس تک سخت دل کافروں کے ہاتھ سے وہ مصیبتیں اٹھائیں اور وہ دُکھ دیکھے کہ بجز اُن برگزیدہ لوگوں کے جن کا خدا پر نہایت درجہ بھروسہ ہوتا ہے کوئی شخص اُن دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا اور اس مدت میں کئی عزیز صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت بے رحمی سے قتل کئے گئے اور بعض کو بار بار زدو کوب کر کے موت کے قریب کر دیا اور بعض دفعہ ظالموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس 134

Page 158

قدر پتھر چلائے کہ آپ سر سے پیر تک خون آلودہ ہو گئے اور آخر کار کافروں نے یہ منصوبہ سوچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے اس مذہب کا فیصلہ ہی کر دیں.تب اس نیت سے اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور خدا نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تم اس شہر سے نکل جاؤ.تب آپ اپنے ایک رفیق کے ساتھ جس کا نام ابو بکر تھا نکل آئے اور خدا کا یہ معجزہ تھا کہ باوجودیکہ صد ہالوگوں نے محاصرہ کیا تھا مگر ایک شخص نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا اور آپ شہر سے باہر آگئے اور ایک پتھر پر کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ ”اے مکہ تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں ہر گز نہ نکلتا تب اس وقت بعض پہلے نوشتوں کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ :.”وہ نبی اپنے وطن سے نکالا جائے گا“ مگر پھر بھی کفار نے اسی قدر پر صبر نہ کیا اور تعاقب کر کے چاہا کہ بہر حال قتل کر دیں لیکن خدا نے اپنے نبی کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا اور آنجناب پوشیدہ طور پر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف چلے آئے “ سابقہ انبیاء سے مماثلت: چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 390،391) حضور نے آنحضو صلی علیم کے غار ثور میں پناہ لینے کے اس واقعہ کو آنحضرت صلی علیکم کی حضرت یونس اور حضرت عیسی سے مماثلت اور سنت اللہ قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا: ”خدا جب اپنے محبوبوں کو بچانا چاہتا ہے تو ایسے ہی دھو کہ میں مخالفین کو ڈال دیتا ہے.ہمارے نبی لیا جب غار ثور میں پوشیدہ ہوئے تو وہاں بھی ایک قسم کے شبہ لھم سے خدا نے کام لیا یعنی مخالفین کو اس دھو کہ میں ڈال دیا کہ انہوں نے خیال کیا کہ اس غار کے منہ پر عنکبوت نے اپنا جالا بنا ہوا ہے اور ر کبوتری نے انڈے دے رکھے ہیں.پس کیونکر ممکن ہے کہ اس میں آدمی داخل ہو سکے.اور آنحضرت صلی ال ام اس غار میں جو قبر کی مانند تھی تین دن رہے جیسا کہ حضرت مسیح بھی اپنی شامی قبر میں جب غشی کی حالت میں داخل کئے گئے تین دن ہی رہے تھے.اور آنحضرت لام نے فرمایا کہ مجھے کو ٹیونس پر بزرگی مت دو یہ بھی اشارہ اس مماثلت کی طرف تھا کیونکہ غار میں داخل ہونا اور مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونا یہ دونوں واقعہ باہم ملتے ہیں.پس نفی تفضیل اس 135

Page 159

وجہ سے ہے نہ کہ ہر ایک پہلو سے.اس میں کیا شک ہے کہ آنحضرت ملی الم نہ صرف یونس سے بلکہ ہر ایک نبی سے افضل ہیں“.سراقہ کا تعاقب: (تحفہ گولڑ یہ.روحانی خزائن ، جلد 17 ، صفحہ 338) آنحضور صلی می کنم غار ثور میں تین رات قیام کرنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.اس عرصہ میں قریش کے سر داروں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ آنحضور صلی علی کم کو پکڑنے والے کو سو اونٹ بطور انعام دئے جائیں گے.اس انعام کے لالچ میں ایک شخص سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کیا یہ کلمہ کا تعاقب کیا.وہ آپ تک پہنچ بھی گیا لیکن آپ کو کوئی نقصان پہنچانے کی بجائے خود اسے آنحضور صلی الم سے معافی کا خواستگار ہونا پڑا.اس واقعہ کو بھی حضور نے اپنی تحریرات میں بیان فرمایا ہے بلکہ یہ ان واقعات میں سے ایک ہے جنہیں آپ نے من جانب اللہ خاص تصرفات میں شمار فرمایا ہے.آپ نے فرمایا: از انجملہ ایک یہ کہ ایک مخالف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پکڑنے کے لئے مدینہ کی راہ پر گھوڑا دوڑائے چلا جاتا تھا جب وہ اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو جناب ممدوح کی بددعا سے اس کے گھوڑے کے چاروں سم زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگ کر اور عفو تقصیر کراکر واپس لوٹ آیا“ سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 حاشیہ صفحہ 66) پھر ایک نے ان میں ایسے وقت میں خبر پا کر تعاقب کیا جب آنحضرت صلی ایلام مدینہ کے راہ میں جا رہے تھے.مگر وہ اور اس کا گھوڑا ایسے طور سے زمین پر گرے کہ وہ سمجھ گیا کہ نبی صلی ام حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 10 حاشیہ) یہ واقعہ مر الظہر ان کے مقام پر ہوا.اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سراقہ کی معافی کے بعد آنحضور صلی اللہ ہم نے اس کو مخاطب ہو کر فرمایا كَيفَ بِک إِذَا لبست شواری کسری و منطقته که سراقہ تیرا اس وقت کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے.پھر جب حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں کسری کے کنگن آئے تو حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلوا کر اسکو وہ کنگن پہنائے.اور اس وقت سراقہ ایمان میں اس قدر ترقی کر چکے تھے کہ اسلام میں 136

Page 160

مرد کو سونا پہننے کی ممانعت کی وجہ سے وہ کنگن پہنے میں بھی کچھ گریزاں تھے لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ سراقہ تمہیں تو یہ کنگن پہنے ہوں گے کیونکہ یہ نبی صلی للی کم کی پیشگوئی کی تکمیل ہے.چنانچہ وہ کنگن سراقہ کو پہنائے گئے.سراقہ کی وفات حضرت عثمان غنی کے زمانہ میں ہوئی.(9) تکمیل ہجرت و نزول قبا: آنحضور صلی الم کا سفر ہجرت تقریباً ایک ہفتہ میں مکمل ہوا.مدینہ میں داخل ہونے سے قبل آپ صلی ا ہم نے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر ایک نواحی بستی قبا میں دس دن قیام فرمایا.آپ نے آنحضور اور حضرت ابو بکر صدیق کی سیرت کا ایک واقعہ درج فرمایا ہے جو قبا میں اس قیام کے دوران رو نما ہو ا تھا.فرمایا: ”جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی داڑھی سفید تھی لوگوں نے یہی سمجھا کہ آپ ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کوئی خادمانہ کام کیا اور اس طرح پر سمجھا دیا کہ آپ پیغمبر کہیں تب معلوم ہوا“ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 388) پیغمبر خداصلی و کم کا کوئی خاص ایسا لباس نہ تھا جس سے آپ لوگوں میں متمیز ہو سکتے بلکہ ایک دفعہ ایک شخص نے ابو بکر کو پیغمبر جان کر ان سے مصافحہ کیا اور تعظیم و تکریم کرنے لگا آخر ابو بکر اٹھ کر پیغمبر خداصل ان کو پنکھا جھلنے لگ گئے اور اپنے قول سے نہیں بلکہ فعل سے بتلا دیا کہ آنحضرت ملا تم یہ ہیں میں تو خادم ہوں“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 619) آپ نے مذکورہ بالا ارشاد میں جس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے وہ قبا میں قیام کے دوران ہوا.سیرت کی متعدد کتب میں یہ واقعہ مذکور ہے.جیسے ابن ہشام کی ایک روایت میں درج ہے کہ قبا میں پہنچنے کے بعد آنحضور لا ل ل ل ورم او حضرت ابو بکر صدیق کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے.چونکہ ہم میں سے اکثر نے رسول اللہ صلی الی یوم کو اور حضرت ابو بکر صدیق کو پہلے نہیں دیکھا ہوا تھا.اس لئے پہچان نہ سکے کہ ان میں سے رسول اللہ کون ہیں.آپ ملی ایم کی زیارت کے لئے ایک بڑا ہجوم تھا.پھر جب آپ صلی علیہ ظلم پر سے سایہ ہٹا تو حضرت ابو بکر صدیق نے آنحضور صلیالم پر سایہ کرنے کے لئے چادر اوڑھا دی جس سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی علیکم کون 137

Page 161

ہیں“.(10) اسی طرح دوسری روایات میں بھی تقریبا یہی الفاظ ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق نے سایہ کرنے کے لئے اپنی چادر اوڑھا دی.حضور نے مذکورہ بالا ارشاد میں سے ایک میں جہاں یہ فرمایا ہے کہ ابو بکر اٹھ کر پیغمبر خداصلی اونم کو پنکھا جھلنے لگ گئے “ اس میں وقت اور مقام کی تعیین نہیں ہے.مضمون کے لحاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً یہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واقعہ کسی اور وقت رونما ہوا ہو.بہر حال اس معمولی لفظی اختلاف سے کچھ فرق نہیں پڑتا جبکہ روایات میں بھی کہیں ستر بردائیہ اور کہیں ظلل بردائیہ اور کہیں اظل علیہ جیسے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ سے سیرت النبی صلی علی ریم کے ایک اہم پہلو لباس کی سادگی اور حضرت ابو بکر صدیق کی عاجزانہ اور خادمانہ راہوں پر نہایت اعلیٰ رنگ میں روشنی ڈالی ہے.روایت میں اگر چہ پنکھا جھلنے کے الفاظ نہیں ہیں لیکن یہ الفاظ اس موقعہ پر حضرت ابو بکر صدیق کی اُن پر خلوص اور پر حکمت خادمانہ اداؤں کی بہت خوبصورتی سے منظر کشی کرتے ہیں.حضور نے یہ الفاظ بیان فرمائے ہیں تو یقیناً یہ واقعہ رونما ہوا ہے.اگر غور کیا جائے تو اس تناظر میں پنکھا جھلنے والی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ جب طویل مسافت کے بعد آنحضور صلی ی کی قبا میں پہنچے تو وہ دن کی دھوپ کا وقت تھا ، آپ درختوں کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے تھے.بعض لوگوں نے لا علمی سے حضرت ابو بکر کو رسول اللہ سمجھا تو لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے آپ جو خادمانہ حرکات بجالائے ان میں سے ایک اپنی چادر سے پنکھا جھلنا بھی ہو گا.اور جب سورج کی شعائیں کسی طرف سے آپ پر پڑنے لگیں تو کھڑے ہو کر اپنی چادر سے سایہ کر دیا جس سے کلیتاً غلط فہمی کا ازالہ ہو گیا.اور سب کو معلوم ہو گیا کون آتا ہے اور کون خادم ہے.بہر حال آنحضور صلیال کو دس دن قبا میں قیام کے بعد 12 ربیع الاول 14 نبوی بروز سوموار مدینہ تشریف لے آئے.مدینہ کے لوگوں نے آپ صلی کم کا پر جوش استقبال کیا.مدینہ کی بچیوں نے گیت گا کر آپ صلی یی کم کا استقبال کیا اس کا ذکر بھی آپ نے فرمایا ہے.(11) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے “ 138 ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 2 صفحہ 311)

Page 162

ان گیتوں میں پاکیزگی تھی.جیسا کے اس مشہور شعر سے ظاہر ہوتا ہے جو اس موقعہ پر گایا گیا تھا: طَلَعَ البَدرُ عَلَيْنَا مِن ثنيات الوداعِ وَجَبَ الشُّكرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعِ یعنی آج ہم پر کوہ وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے اس لئے ہم پر اللہ کا شکر واجب ہو گیا ہے.جب آپ صلی یہ کم کی اونٹنی بنو نجار کے محلہ میں پہنچی تو بنی نجار کی لڑکیوں نے دف بجا کر یہ گیت گائے: نحنُ جَوارِمن بني نجارِ يا حَبّذا محمّدًا من جَارِ یعنی ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں اور ہم کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ محمد صلی ا یہ کم ہمارے محلہ میں تشریف لائے ہیں.مسجد نبوی: مدینہ آمد کے بعد آنحضور صلی ال عالم نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا.یہ مسجد نبوی کہلاتی ہے.حضور نے مسجد نبوی کا ذکر بھی فرمایا ہے.محضور صلی الله نیم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی.اور اسی طرح چلی آئی.پھر حضرت عثمان نے اس لئے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا.مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے، شائد اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 93) مسجد کی عمارت کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ مسجد کی عمارت غیر تراشیدہ پتھروں کی تھی جو لکڑی کے ستونوں کے در میان چنے گئے تھے، چھت پر کھجور کے تنے اور شاخیں ڈالی گئی تھیں مسجد کے اندر چھت کے سہارے کے لئے کھجور کے ستون تھے.اور جب تک ممبر کی تجویز نہیں ہوئی تھی انہی ستونوں میں سے ایک کے ساتھ آنحضور ملی کم کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے.ابتدا میں مسجد کا فرش کچا تھا.زیادہ بارش کی وجہ سے چھت ٹپکتی تھی اور پانی جمع ہو کر کیچڑ بن جاتا تھا.اس لئے فرش پر پتھر ڈال دئے گئے.ابتدا میں مسجد کا رُخ بیت المقدس کی طرف تھا لیکن تحویل قبلہ کے بعد اس کا رُخ خانہ کعبہ کی طرف کر لیا گیا.وہ اس طرح کہ جنوبی دروازہ کو بند کر کے مصلی بنادیا گیا اور اس کے بالمقابل شمال میں دروازہ بنا دیا گیا.(12) مسجد کی بلندی 10 فٹ اور لمبائی 105 فٹ اور چوڑائی 90فٹ تھی.(13) 139

Page 163

تحویل قبلہ: مکہ میں آنحضور صل ال تیم خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کو سامنے رکھ کر عبادت کر لیا کرتے تھے.مدینہ میں دونوں کا سامنے ہو نا ممکن نہ تھا.اور نہ ہی اس بارہ میں کوئی حکم نازل ہوا تھا اس لئے آپ مالی می کنم انبیاء کی مقدس یاد گار ہونے کی وجہ سے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے.(14) لیکن آپ صلی علیم کے دل میں کعبہ کی تعظیم اور محبت بھی بہت زیادہ تھی.کیونکہ یہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام عبادت تھا.اس کشمکش اور بیقراری کو اللہ تعالیٰ نے بالآخر وحی کے ذریعہ دور فرمایا.اور آپ صلی یی کم کی دلی تمنا کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم نازل فرمایا.قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلَّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلَّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (سورة البقرة:144) یقینا ہم دیکھ چکے تھے تیرے چہرے کا آسمان کی طرف متوجہ ہونا.پس ضرور تھا کہ ہم تجھے اس قبلہ کی طرف پھیر دیں جس پر تو راضی تھا.پس اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے.اور جہاں کہیں بھی تم ہو اسی کی طرف اپنے منہ پھیر لو.اور بے شک وہ لوگ جو کتاب دیئے گئے وہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ اُن کے رب کی طرف سے حق ہے.اور اللہ اس سے جو وہ کرتے ہیں غافل نہیں ہے.ہجرت کے تقریباً ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد شعبان کے مہینہ میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تھا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحویل قبلہ کی غرض اور قبلہ و حجر اسود کی ضرورت و حکمت اور انکی حقیقت بیان فرمائی ہے.”نادان لوگ نہیں جانتے کہ تحویل قبلہ اور یہ انقلاب اللہ تعالیٰ نے اس واسطے کرائے کہ تا یہ ظاہر ہو جاوے کہ مسلمان کعبہ پرست نہیں ہیں.ہر دو متبرک مقامات جن کی بزرگی اور عزت کی وجہ سے کبھی کسی زمانے میں کسی کو ان کی پرستش کا خیال ہو سکتا تھا ان کو پیٹھ کے پیچھے کراکے اس امر کا اظہار عام طور پر کرا دیا کہ مسلمان واقعی اور حقیقی طور سے خدا پرست ہیں نہ کعبہ پرست.بایں ہمہ یہ لوگ مسلمانوں پر حجر اسود کی پرستش کا الزام دیتے ہی جاتے ہیں.صاف بات ہے کہ عبادت کے لئے انسان کو کسی نہ 140

Page 164

کسی طرف تو منہ کرنا ہی پڑتا ہے.پس ایک شخص تو خود اپنی خواہش سے کسی طرف کو پسند کرتا ہے اور دوسرا حکم الہی سے ایک خاص طرف منہ کرتا ہے.بھلا بتاؤ تو سہی ان میں سے کون اچھا ہے ایک تو حکم پرست ہے اور دوسرا نفس پرست.بایں ہمہ یہ لوگ مسلمانوں کو کعبہ پرست کہتے ہوئے شرماتے کیوں نہیں؟ پس آنحضرت میا علم کا تحویل قبلہ کرنا اسی حقیقت پر مبنی تھا کہ مسلمان خاص موقد اور توحید کے پابند ہو جاویں.کعبہ پرستی کا وہم تک بھی ان کے دل سے نکل جاوے نہ کسی تلون اور یقین کی کمی کی وجہ سے جیسا کہ نادان آریوں کا وہم ہے کیونکہ آپ تو صاف کہتے ہیں قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي“ (يوسف: 109) ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 5 صفحہ 469) 141

Page 165

حوالہ جات باب چہارم 1 ( معجم البلدان زیر لفظ یمامہ جلد 4 صفحہ 506،505 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) 2.( معجم البلد ان.زیر لفظ یمامہ جلد 4 صفحہ 505، 506 - زیر لفظ هجر جلد 4 صفحہ 469،468 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) 3.(سیرت النبی گلابن ہشام.باب ہجرة الرسول صفحہ 341 مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 4.(سیرت النبی کا بن ہشام.باب خروج النبی...الخ صفحہ 342 مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 5.(سیرت النبی لابن ہشام.باب خروج النبی...الخ صفحہ 342 مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 6.( بخاری کتاب البیوع باب اذی اشتری متاعا...الخ.حدیث 2138) 7- (اٹلس سیرت النبی، صفحہ 148 تالیف شوقی ابو تحلیل - مکتبہ دار السلام کتاب، ۱۴۲۴ھ.ریاض) 8- ( معجم المعانی الجامع ، ثور) 9.(اسد الغابة في معرفة الصحابة زیر لفظ سراقہ بن مالک بن جعشم تالیف علامہ عزالدین ابی الحن علی بن ابی الکرم محمد بن حمد بن عبد الکریم المعروف بابن اثیر.دار احیاء التراث العربی بیروت) 10- (سیرت النبی لابن ہشام.باب ہجرة الرسول صفحہ 347 348 مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 11- (البدایہ والنھا یہ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 218، باب ہجرة الرسول ورود مدینہ...الخ.مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء) 12- ( تاریخ انمیں، جلد 1 صفحہ 343 تا 344- موسی شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 13.( اردو دائرہ معارف اسلامیہ، زیر لفظ مسجد نبوی زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور 1993ء - ناشر در کمیس اداره پروفیسر سعد محمد امجد الطاف، مطبع رشید اقبال پر نٹر ز لاہور ) 14.(سیرت النبی کا بن ہشام.باب اسلام عمر بن الخطاب...الخ صفحہ 254 مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 142

Page 166

143

Page 167

باب پنجم جہاد بالسیف و غزوات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اس دور اعوج کے مسلمانوں کے بگڑے ہوئے نظریہ جہاد کی اصلاح فرمائی.ابتدائی غزوات و سرایہ کی حقیقی غرض و غایت بیان فرمائی.بہت سے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اسلام میں تلوار کی اجازت اسلام کی اشاعت کی خاطر تھی.گویا انکے نزدیک اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.غیر مسلم مورخین نے اسلام پر جو اعتراضات کئے ہیں ان میں سب سے بڑھ کر یہی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.اس اعتراض کو مسلمانوں کے ہی غلط عقائد و نظریات نے تقویت دی ہے.اس باب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں جہاد اور ابتدائی غزوات وسرایہ اور انکی غرض و غایت بیان کی جارہی ہے.دفاعی جنگ کے لئے اجازت: جہاد السیف کی اجازت کے متعلق آپ نے فرما اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اسلام میں کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ہے تو پھر کیونکر اسلام صلحکاری کا مذہب ٹھہر سکتا ہے پس واضح ہو کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت ہے اور یہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ دین اسلام میں جبر آدین پھیلانے کے لئے حکم دیا گیا تھا کسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں تیر ۱۳۰ برس تک سخت دل کافروں کے ہاتھ سے وہ مصیبتیں اٹھائیں اور وہ دُکھ دیکھے کہ بجز اُن برگزیدہ لوگوں کے جن کا خدا پر نہایت درجہ بھروسہ ہوتا ہے کوئی شخص اُن دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا اور اس مدت میں کئی عزیز صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت بے رحمی سے قتل کئے گئے اور بعض کو بار بار زدو کوب کر کے موت کے قریب کر دیا اور بعض دفعہ ظالموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر پتھر چلائے کہ آپ سر سے پیر تک خون آلودہ ہو گئے اور آخر کار کافروں نے یہ منصوبہ سوچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے اس مذہب کا فیصلہ ہی کر دیں.تب اس نیت سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور خدا نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تم اس شہر 144

Page 168

سے نکل جاؤ.تب آپ اپنے ایک رفیق کے ساتھ جس کا نام ابو بکر تھا نکل آئے اور خدا کا یہ معجزہ تھا کہ باوجودیکہ صدہا لوگوں نے محاصرہ کیا تھا مگر ایک شخص نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا اور آپ شہر سے باہر آگئے اور ایک پتھر پر کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ ”اے مکہ تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں ہر گز نہ نکلتا تب اس وقت بعض پہلے نوشتوں کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ : ”وہ نبی اپنے وطن سے نکالا جائے گا مگر پھر بھی کفار نے اسی قدر پر صبر نہ کیا اور تعاقب کر کے چاہا کہ بہر حال قتل کر دیں لیکن خدا نے اپنے نبی کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا اور آنجناب پوشیدہ طور پر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف چلے آئے اور پھر بھی کفار اس تدبیر میں لگے رہے کہ مسلمانوں کو بکلی نیست و نابود کر دیں اور اگر خدا تعالی کی حمایت اور نصرت نہ ہوتی تو اُن دنوں میں اسلام کا قلع قمع کرنا نہایت سہل تھا کیونکہ دشمن تو کئی لاکھ آدمی تھا مگر مکہ سے ہجرت کرنے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق ستر ۷۰ سے زیادہ نہ تھے اور وہ بھی متفرق ملکوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے.پس اس حالت میں ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ جبر کرنے کی کونسی صورت تھی غرض جب کافروں کا ظلم نہایت درجہ تک پہنچ گیا اور وہ کسی طرح آزار دہی سے بازنہ آئے اور انہوں نے اس بات پر مصمم ارادہ کر لیا کہ تلوار کے ساتھ مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں تب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دفاعی جنگ کے لئے اجازت فرمائی یعنی اس طرح کی جنگ میں جس کا مقصد صرف حفاظت خود اختیاری اور کفار کا حملہ دفع کرنا تھا جیسا کہ قرآن شریف میں تصریح سے اس بات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ آیت یہ ہے إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ ۖ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج: 39-40) (ترجمہ) خدا کا ارادہ ہے کہ کفار کی بدی اور ظلم کو مومنوں سے دفع کرے یعنی مومنوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دے تحقیقاً خدا خیانت پیشہ ناشکر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا.خدا اُن مومنوں کو لڑنے کی اجازت دیتا ہے جن پر کافر قتل کرنے کے لئے چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور خدا حکم دیتا ہے کہ مومن بھی کافروں کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور خدا اُن کی مدد پر قدرت رکھتا ہے یعنی اگرچہ تھوڑے ہیں مگر خدا اُن کی مدد پر قادر ہے.یہ قرآن شریف میں وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ کی اجازت دی گئی.آپ خود سوچ لو کہ اس آیت سے کیا نکلتا ہے.کیا لڑنے کے لئے خود سبقت کرنا یا مظلوم ہونے کی حالت میں اپنے بچاؤ کے لئے بھجبوری مقابلہ کرنا.ہمارے مخالف بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ آج 145

Page 169

ہمارے ہاتھ میں وہی قرآن ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شائع کیا تھا.پس اُس کے اس بیان کے مقابل پر جو کچھ بر خلاف اس کے بیان کیا جائے وہ سب جھوٹ اور افترا ہے.مسلمانوں کی قطعی اور یقینی تاریخ جس کتاب سے نکلتی ہے وہ قرآن شریف ہے.اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف یہی بیان کرتا ہے کہ مسلمانوں کو لڑائی کا اس وقت حکم دیا گیا تھا جب وہ ناحق قتل کئے جاتے تھے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں مظلوم ٹھہر چکے تھے اور ایسی حالت میں دو صورتیں تھیں یا تو خدا کافروں کی تلوار سے اُس کو فنا کر دیتا اور یا مقابلہ کی اجازت دیتا اور وہ بھی اس شرط سے کہ آپ اُن کی مدد کرتا کیونکہ اُن میں جنگ کی طاقت ہی نہیں تھی.اور پھر ایک اور آیت ہے جس میں خدا نے اس اجازت کے ساتھ ایک اور قید بھی لگادی ہے اور وہ آیت سیپارہ دوم سورۃ البقرۃ میں ہے اور اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ تمہیں قتل کرنے کے لئے آتے ہیں اُن کا دفع شر کے لئے مقابلہ تو کرو مگر کچھ زیادتی نہ کرو اور وہ آیت یہ ہے.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة: 191) یعنی خدا کی راہ میں اُن لوگوں کے ساتھ لڑو جو لڑنے میں سبقت کرتے ہیں اور تم پر چڑھ چڑھ کے آتے ہیں مگر اُن پر زیادتی نہ کرو اور تحقیقاً یاد رکھو کہ خدا از یادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 390 تا 392) واضح رہے کہ اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہوئیں کہ جیسے ایک زبر دست بادشاہ کمزور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ صحیح نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خدا تعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیر و مخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور کئی بڑے بڑے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کرنے کے لئے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعم کو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کے روکنے کے لئے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لئے جو اُن کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئی ہیں لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا 146

Page 170

کہ یہ ثابت کرے کہ جیسے ان کے بت قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں ایسا ہی تلوار کے ساتھ کامیاب کرا دینے سے بھی عاجز ہیں“ جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 245-244) کتب تاریخ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضور صلی علیکم اور صحابہ کی مدینہ ہجرت کے بعد قریش کے سردار ابو جہل نے مدینہ کے ایک رئیس عبد اللہ بن ابی بن سلول کو خط لکھا جس کا متن یہ تھا اِنَّكم ! وَيْتُم صاحِبَنا و انانُقسِمُ بِاللَّهِ لتقاتلنه أَوْ تُخرِجُنَّهُ أَوْ نُسيّرنَّ الَيكُم بِاَجْمَعِنَا حتى نَقتُلَ مقاتليكُم أَوْ نَستَبِيحَ نِسائكُم (ابو داود كتاب الخراج) یعنی اے اہل مدینہ تم نے ہمارے ایک شخص کو پناہ دی ہے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر تم نے اس کے خلاف جنگ نہ کی یا اسکو وطن بدر نہ کیا تو ہم اپنا لشکر لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے مردوں کو قتل کریں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے قبضہ میں کر لیں گے.یہ خط قریش کے انتہائی خطرناک ارادوں کی عکاسی کرتا ہے.پھر اسی زمانہ میں حضرت سعد بن معاذ رئیس اوس مکہ عمرہ کے لئے گئے تو انکو بھی ابو جہل نے دھمکیاں دیں ( بخاری کتاب المغازی) اور یہ صرف دھمکیاں ہی نہیں تھیں بلکہ عملاً قریش نے مدینہ کے ارد گر د متعد د پارٹیاں لشکر کشی کی غرض سے بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا.اور ان میں سے بعض تو مدینہ کے بہت قریب تک آئیں اور کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہو گئیں.قرآن کریم میں مسلمانوں کی اس دور کی حالت یہ بیان ہوئی ہے کہ وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (انفال:27) اور یاد کر وجب تم بہت تھوڑے تھے (اور) زمین میں کمزور شمار کئے جاتے تھے (اور) ڈرا کرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اُچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا تا کہ تم شکر گزار بنو.غزوہ بدر: حضور نے غزوہ بدر کے واقعات کا ذکر مختلف پہلووں سے فرمایا ہے.آپ کے ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ جنگ محض دفاع کی خاطر لڑی تھی.نیز یہ کہ دشمن خود جنگ کی غرض سے آیا تھا.جیسا کہ فرمایا: 147

Page 171

ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلم کو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے.“ (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 244) ” اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ لڑائی اور جہاد اصل مقاصد قرآن میں سے نہیں اور وہ صرف ضرورت کے وقت تجویز کیا گیا ہے یعنی ایسے وقت میں جبکہ ظالموں کا ظلم انتہا تک پہنچ جائے اور پیروی کرنے کے لئے طریق عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہتر ہے دیکھو کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ایذا پر اس زمانہ تک صبر کیا جس میں ایک بچہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جاتا ہے اور کافر لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ دکھ دیتے اور رات دن ستاتے اور شریروں کی طرح ان کے مالوں کو لوٹتے اور مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں کو قتل کرتے اور ایسے بڑے بڑے عذابوں سے مارتے کہ ان کے یاد کرنے سے آنکھوں کے آنسو جاری ہوتے ہیں اور نیک آدمیوں کے دل کانپتے ہیں اور اسی طرح دکھ انتہا کو پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن سے نکالے گئے یہاں تک کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا قصد کیا سو اس کے رب نے اس کو حکم دیا تاوہ مدینہ بھاگ جائے سو آنحضرت صلعم اپنے وطن سے کفار کے نکالنے سے ہجرت کر گئے اور ابھی کفار نے ایذا رسانی میں بس نہیں کی تھی بلکہ وہ فتنے بھڑکاتے اور دعوت کے کاموں میں مشکلات ڈالتے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر معہ اپنے سواروں اور پیادوں کے چڑھائی کی اور بدر کے میدان میں جو مدینہ سے قریب ہے اپنی فوج کے خیمے کھڑے کر دیئے اور چاہا کہ دین کی بیخ کنی کر دیں تب خدا کا غضب ان پر بھڑ کا اور اس نے ان کے بڑے ظلم اور سختی کے ساتھ حد سے تجاوز کرنا مشاہدہ کیا تو اس نے اپنی وحی اپنے رسول پر اتاری اور کہا کہ مسلمانوں کو خدا نے دیکھا جو نا حق ان کے قتل کے لئے ارادہ کیا گیا ہے اور وہ مظلوم ہیں اس لئے انہیں مقابلہ کی اجازت ہے اور خدا قادر ہے جو ان کی مدد کرے سو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول مظلوم کو اس آیت میں ان لوگوں کے مقابل پر ہتھیار اٹھانے کی پر اجازت دی جن کی طرف سے ابتدا تھی مگر اس وقت اجازت دی جبکہ انتہا درجہ کی زیادتی اور گمراہی ان کی طرف سے دیکھ لی اور یہ دیکھ لیا کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ بمجرد نصیحتوں سے ان کی اصلاح غیر ممکن ہے پس اب سوچو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں کی کیا حقیقت تھی اور نبی اللہ دشمنان دین سے ہر گز نہیں لڑا مگر جب تک کہ اس نے یہ نہ دیکھ لیا کہ وہ تیر چلانے اور تلوار مارنے میں پیش دست 148

Page 172

اور سبقت کرنے والے ہیں اور نیز یہ تو نہیں تھا کہ صرف کفار ہی مارے جاتے تھے بلکہ جانبین سے مرنے والے کام آتے تھے اور کفار ظالم اور حملہ آور تھے “ آنحضور صلی السلام کی دعا (نورالحق حصہ اول، اردو ترجمه ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 65،64) ”ہر یک نبی کو خدائے تعالیٰ یہ دن دکھاتا ہے.اوّل وہ کوئی وعدہ بشارت اپنے نبی کو دیتا ہے اور پھر جب وہ نبی اس وعدہ پر خوش ہو جاتا ہے تو ابتلا کے طور پر چاروں طرف سے ایسے موانع قائم کر دیتا ہے کہ جو نومیدی اور ناکامی پر دلالت کرتے ہوں بلکہ قطع اور یقین کی حد تک پہنچ گئے ہوں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے ایک طرف تو ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کی لڑائی میں فتح اور نصرت کی بشارت دی اور دوسری طرف جب لڑائی کا وقت آیا تو پھر پتہ لگا کہ مخالفوں کی اس قدر جمعیت ہے کہ بظاہر کامیابی کی امید نہیں.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت کرب و قلق ہوا اور جناب الہی میں رورو کر دعائیں کیں کہ یا الہی اس گروہ کو فتح بخش اور اگر تو فتح نہیں دے گا اور ہلاک کر دے گا تو پھر قیامت تک کوئی تیری پرستش نہیں کرے گا.سو یہ الفاظ در حقیقت اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی کی نسبت شک میں پڑ گئے تھے بلکہ حالات موجودہ کو خلاف مراد دیکھ کر خدائے تعالیٰ کے غنائے ذاتی پر نظر تھی اور اس کی جلالی ہیبت سے متاثر ہو گئے تھے اور در حقیقت هر یک جگہ جو قرآن شریف میں نبی کریم کو کہا گیا ہے کہ تُو ہمارے وعدہ میں شک مت کر وہ سب مقامات اسی قسم کے ہیں جن میں بظاہر سخت ناکامی کی صورتیں پیدا ہو گئی تھیں اور اسباب مخالفہ نے ایسا رعب ناک اپنا چہرہ دکھلایا تھا جن کو دیکھ کر ہر یک انسان ضعف بشریت کی وجہ سے حیران ہو جاتا ہے.سو ان وقتوں میں نبی کریم کو بطور تسلی دہی کے فرمایا گیا کہ اگر چہ حالت نہایت نازک ہے مگر تو باعث ضعف بشریت شک مت کر یعنی یہ خیال مت کر کہ شاید اس پیشگوئی کے اور معنے ہوں گے“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 304) بدر کی فتح کی پیشگوئی ہوچکی تھی، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعامانگتے تھے.حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت 149

Page 173

الحاح کیا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے، یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں“ (ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 8) ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہو اوہ آنحضرت ملا لی کم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا.وہ سب آنحضرت صلی ایم کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ کے پاس صرف تین تلواریں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 59) آپ نے غزوہ بدر کے دن مانگی جانے والی جس دعا کا ذکر فرمایا ہے اسکے الفاظ یہ ہیں اللهم أنجز لي ما وعدتني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن تهلك بذه العصابة لن تعبد في الأرض بعد (1) یعنی: اے خدا اللهم إني اپنے وعدوں کو پورا فرما.اے اللہ میں تیرے وعدہ اور عہد کا واسطہ دیتا ہوں، اے میرے اللہ اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہو گئی تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا نہیں رہے گا.مسلمانوں کی کمزور حالت: اس وقت بھی اللہ تعالٰی نے بدر ہی میں مدد کی تھی.اور وہ مد داخلہ کی مدد تھی.جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے.اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں.اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہو گی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمیعت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا.اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی جگہ دعا کی اللهمّ إِن أَهْلَكتَ هَذهِ العَصابَةَ لَن تُعبد فی الارض ابداً یعنی اے اللہ ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ ہو گا “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 431،432) 150

Page 174

ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہو اوہ آنحضرت صلی الہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا.وہ سب آنحضرت صلی کم کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ کے پاس صرف تین تلواریں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 5 صفحہ 59) آپ نے بدر کی جنگ میں مسلمانوں کی کمزوری کی حالت کا نقشہ بیان فرمایا ہے.اور تعداد تین سو تیرہ بیان فرمائی ہے جو تمام کتب سیرت و تاریخ سے ثابت ہے.طبری میں مختلف روایات میں تین سو دس سے تین سو اٹھارہ تک بیان ہوئی ہے.ابو جہل کی دعا: پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور اس زمانہ کے شریر اور حرامکار لوگ آنجناب کے دشمن ہو گئے اور مفتری اور کذاب سمجھنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی کے وقت میں ایک شخص مستمی عمر و بن ہشام نے جس کا نام پیچھے سے ابو جہل مشہور ہو ا جو کفار قریش کا سر دار اور سرغنہ تھا ان الفاظ سے دُعا کی کہ اللهُمَّ مَنْ كان منا افسد فى القوم واقطعَ للرحم فاحنه اليوم يعنی اے خدا جو شخص ہم دونوں میں سے (اس لفظ سے مراد اپنے نفس اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لیا) تیری نگہ میں ایک مفسد آدمی ہے اور قوم میں پھوٹ ڈال رہا ہے اور باہمی تعلقات اور حقوق قومی کو کاٹ کر قطع رحم کا موجب ہو رہا ہے آج اُس کو تُو ہلاک کر دے اور ان کلمات سے ابو جہل کا یہ منشاء تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مفسد آدمی ہیں اور قوم میں پھوٹ ڈال کر نا حق قریش کے مذہب میں ایک تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور نیز انہوں نے تمام حقوق قومی تلف کر دیے ہیں اور قطع رحم کا موجب ہو گئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ابو جہل کو یہی یقین تھا کہ گویا نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پوتر اور پاک نہیں ہے.تبھی تو اس نے دردِ دل سے دُعا کی لیکن اس دُعا کے بعد شاید ایک گھنٹہ بھی زندہ نہ رہ سکا اور خدا کے قہر نے اسی مقام میں اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا اور جن کی پاک زندگی پر وہ داغ لگاتا تھاوہ اس میدان سے فتح اور نصرت کے ساتھ واپس آئے“ (چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 174،175) 151

Page 175

ابو جہل نے جب بدر کی لڑائی میں یہ دُعا کی تھی کہ اللهم من كان منا كاذبا فاحنه في هذا الموطن یعنی اے خدا ہم دونوں میں سے جو محمد مصطفے صلی ال ایام اور میں ہوں جو شخص تیری نظر میں جھوٹا ہے اُس کو اسی موقع قتال میں ہلاک کر.تو کیا اس دُعا کے وقت اُس کو گمان تھا کہ میں جھوٹا ہوں؟“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 52) ابو جہل کی اس دعا کا ذکر بھی سیرت کی بہت سی کتب میں موجود ہے.ابو جہل کی ہلاکت کے متعلق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ دو کم عمر لڑکوں معاذ اور معوذ نے اس پر اچانک حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا لیکن جنگ کے اختتام تک ابو جہل شدید زخمی حالت میں زندہ رہا.اور حسرت کے ساتھ اپنی اور اپنی قوم کی شکست کا منظر دیکھتا ہوا بالآخر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا.(2) ابو جہل نہایت متکبر انسان تھا.مرتے وقت بھی اس کے متکبرانہ الفاظ تھے جو تاریخ میں محفوظ ہیں مثلاً اسکا قول کہ لو غیر اگار قتلنی یعنی کاش مجھے کسی کسان نے قتل نہ کیا ہوتا.آنحضور صلی ا ہم نے اسکے تکبر کی وجہ سے امت کا فرعون قرار دیا ہے (3) جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ: ابو جہل جو اس امت کا فرعون تھا بدر کے میدان میں ہلاک کیا گیا“ کنکریوں بھری مٹی کا معجوہ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 362) چوتھی وہ تصرف اعجازی کہ جب دشمنوں نے اپنی ناکامی سے منفعل ہو کر لشکر کثیر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کی تا مسلمانوں کو جو ابھی تھوڑے سے آدمی تھے نابود کر دیں اور دین اسلام کا نام و نشان مٹادیں تب اللہ جل شانہ نے جناب موصوف کے ایک مٹھی کنکریوں کے چلانے سے مقام بدر میں دشمنوں میں ایک تہلکہ ڈال دیا اور ان کے لشکر کو شکست فاش ہوئی اور خدائے تعالیٰ نے ان چند کنکریوں سے مخالفین کے بڑے بڑے سرداروں کو سراسیمہ اور اندھا اور پریشان کر کے وہیں رکھا اور ان کی لاشیں انہیں مقامات میں گرائیں جن کے پہلے ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ نشان بتلار کھے تھے “ سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد 2.حاشیہ ، صفحہ 67،66) 152

Page 176

”ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسانہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيتَ وَلَكِن اللَّهَ رَمَى یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا.یعنی در پر وہ الہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 65) اس واقعہ کے متعلق سیرت النبی از ابن ہشام میں درج ہے کہ آنحضور صلی علیم نے کنکریوں سے بھری مٹھی کفار کی طرف یہ کہتے ہوئے پھینکی کہ شاہت الوجوہ یعنی تمہارے منہ بگڑ جائیں.اور یہ کنکریاں آندھی کی شکل اختیار کر گئیں اور دشمنوں کے منہ اور آنکھیں مٹی سے بھر گئیں.بدر کی پیشگوئی: (4) ”جب یہ آیت نازل ہوئی سَيُهِزَمُ الجَمعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبَرُ تو آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ یہ پیشگوئی کس موقعہ کے متعلق ہے.پھر جب بدر کی لڑائی میں فتح عظیم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اب معلوم ہوا کہ اسی فتح عظیم کی یہ پیشگوئی خبر دیتی تھی“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 249) مذکورہ بالا ارشاد میں جس قرآنی پیشگوئی سَيُهِزَمُ الجمعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبَرُ (القمر 46) کا ذکر ہے یہ مکی دور میں نازل ہونے والی آیت ہے اس میں ایک بڑے گروہ کے شکست کھانے کی پیشگوئی تھی.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ آیت آنحضور صلی الی یوم بدر کے میدان میں بھی تلاوت فرما رہے تھے.جبکہ یہ مکہ میں نازل ہو چکی تھی.(5) 153

Page 177

دو خوشیاں اکٹھی ملیں: غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (الروم 2 تا 5 میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.رومی اپنی سرحد میں اہل فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بہت ہی جلد چند سال میں یقیناً غالب ہونے والے ہیں پہلے اور آئندہ آنے والے واقعات کا علم اور ان کے اسباب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں جس دن رومی غالب ہوں گے وہی دن ہو گا جب مومن بھی خوشی کریں گے.اب غور کر کے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے ایسے وقت میں یہ پیش گوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزور اور ضعیف حالت خود خطرہ میں تھی.نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گامرت کی قید بھی اس میں لگادی اور پھر یومئذ يفرح المؤمنون کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے؛ چنانچہ جس طرح یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہو گئی ادھر رومی غالب ہوئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی.اسی طرح سورۃ یوسف میں آیات للسائلین کہہ کر اس سارے قصہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور پیشگوئی بیان فرمایا ہے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 32،31) مندرجہ بالا ارشاد میں غلبہ روم والی جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے یہ آیت چھ نبوی میں نازل ہوئی.اور جس دن بدر کی جنگ ہوئی اسی دن رومیوں کی ایرانیوں پر فتح کی خبر بھی ملی.اس طرح یہ دو خوشیاں اکٹھی ملیں.(6) غزوه أحد : غزوہ بدر کی شکست کے بعد کفار مکہ مسلسل انتقام کی آگ میں سلگتے رہے.اور اس غم نے انکی راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون حرام کر رکھا تھا.بدر سے پہلے کی نسبت اب کئی گنازیادہ جوش و خروش سے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش میں تھے.بدر سے تقریباً ایک سال بعد ہی ایک دفعہ پھر بہت بڑا لشکر تیار ہو کر مکہ سے روانہ ہوا اور مدینہ کے نزدیک اُحد پہاڑ کے دامن میں خیمہ زن ہوا.یہ لشکر تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا.اور پوری طرح اسلحہ سے لیس تھا.اس کے مقابل مسلمانوں کی تعداد پوری کوشش کے باوجو د صرف سات سو تھی.اور اکثر غیر مسلح تھے.لیکن ایمان اور نصرت خداوندی سے آراستہ تھے.فتح و نصرت مسلمانوں کو ہی نصیب ہوئی.سیدنا 154

Page 178

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس غزوہ کے بعض واقعات کو بیان فرمایا ہے.اور آنحضور علی ملی یکم کی سیرت اور صحابہ کی سیرت کے نہایت اعلیٰ پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے.اسی طرح ان واقعات سے بعض تفسیری نکات کا استنباط کیا ہے.آنحضور صلی الله ولم کا ایک خواب: صل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے اور اس کا کلام بہر حال سچا ہے ہاں یہ ہوتا ہے کہ کبھی وہ جسمانی رنگ میں پوری ہوتی ہیں کبھی روحانی رنگ میں.اور منہاج نبوت میں اس کے نظائر موجود ہیں.آنحضرت صلی الل ولم نے دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح ہوئی ہیں تو وہ صحابہ کا ذبح ہونا تھا.اور آپ نے دیکھا کہ سونے کے کڑے پہنے ہوئے ہیں جو پھونک مارنے سے اڑ گئے ہیں.اس سے مراد جھوٹے پیغمبر تھے.پس خدا کا کلام کسی نہ کسی رنگ میں ضرور سچا ہے “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 643) اس ارشاد میں دو مختلف خوابوں کا ذکر ہے جو مختلف زمانوں میں دیکھے گئے.دونوں احادیث وسیرت کی متعد د کتب میں مذکور ہیں.گائیاں ذبح ہونے والی خواب کی تفصیل یہ ہے کہ غزوہ احد کے وقوع سے قبل دشمن کے لشکر کی خبر مدینہ میں پہنچ چکی تھی لیکن اس لشکر کے تفصیلی حالات کا علم آنحضور صلی یکم کو اور چند کبار صحابہ کو ہی تھا.یہ جمعرات کا دن تھا آنحضور صلی علیم نے مسلمانوں کو جمع کیا ان سے مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا دفاع کس طرح کیا جائے.یعنی کیا مدینہ میں ہی ٹھہر کر دفاع کیا جائے یا باہر میدان میں نکل کر دفاع کیا جائے.اس مشورہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی موجود تھا جو بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو چکا تھا لیکن حقیقت میں منافق تھا.(7) اس مشورہ سے پہلے آنحضور صلی الم نے اس خواب کا ذکر فرمایا جس کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات میں ہوا ہے.اور اس خواب کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ ﷺ نے فرمایا آج رات میں نے (خواب میں) ایک گائے دیکھی ہے.جو ذبح کی جارہی ہے.اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کا سر اٹوٹ گیا ہے اور پھر میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ میں ڈال رکھا ہے.اس خواب کی تعبیر بھی آپ صلی الی یکم نے خود ہی فرمائی کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے کچھ کا شہید ہونا ہے.اور میری تلوار کا سر اٹوٹنے سے مراد میرے کسی قریبی رشتہ دار کی شہادت ہو سکتی ہے یا شاید مجھے خود کوئی تکلیف پہنچے.اور زرہ کے اند رہاتھ رکھنے سے مراد دفاع کے لئے مدینہ میں ہی رہنے کی طرف اشارہ ہے.اس خواب کے سننے کے بعد آپ صلی علیکم کی اور 155

Page 179

اکابر صحابہ کی بھی یہی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر ہی دفاعی جنگ کی جائے.لیکن اکثر نوجوان صحابہ نے اصرار کیا کہ باہر میدان میں نکل کر جنگ لڑی جائے.چنانچہ آنحضور صلی علیم نے ان کا اصرار دیکھ کر مدینہ سے باہر نکل کر جنگ لڑنے کا فیصلہ فرمایا.(8) مختصر یہ کہ میدان احد میں یہ جنگ لڑی گئی آنحضور صلی ا ظلم کی بہترین حکمت عملی سے میدان جنگ میں باوجود مسلمانوں کی قلیل تعداد کے فتح نصیب ہوئی لیکن دژہ پر موجود کچھ صحابہ کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر دشمن کو مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے کا موقع مل گیا جس سے مسلمانوں کو شدید نقصان ہوا آنحضور کے خواب کے مطابق بہت سے صحابہ شہید ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے.اور سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ خود نبی پاک صلی علیم بھی زخمی ہوئے اور آپ صلی للی یکم کے چچا حضرت حمزہ بھی شہید ہوئے.کتب تاریخ میں درج ہے کہ ابن قمئہ نے آنحضور صلی میرم پر اچانک اس زور سے حملہ کیا کہ صحابہ کے دل دہل گئے.اگر چہ حضرت طلحہ نے کمال جانثاری سے یہ حملہ اپنے اوپر لے لیا لیکن اس شدید صدمہ سے آپ گر گئے اور یہ خبر پھیل گئی کہ نعوذ با للہ آنحضور شہید ہو گئے ہیں.ایک اور بد بخت نے آپ ملکی تعلیم کی طرف ایک بھاری پتھر پھینکا جس سے آپ کی رخسار پر شدید گہر از خم آیا اور کچھ دانت بھی شہید ہو گئے.صحابہ جو قریب تھے آپ کو اٹھا کر ایک قدرے محفوظ جگہ لے گئے.حضرت علی نے آپ صلی علیکم کے چہرے کو دھونے اور صاف کرنے کی سعادت حاصل کی (9) لڑائی میں سب سے بہادر : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں.جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے.لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا.کیونکہ آپ بڑے خطر ناک مقام میں ہوتے تھے.سبحان اللہ ! کیا شان ہے.احد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں.ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ برداشت نہیں کر سکتے.مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے.اس میں صحابہ کا قصور نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے.ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں.کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے.مگر زخم خفیف تھے.یہ خلق عظیم تھا“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 84) 156

Page 180

فرمایا: ”جس طرح ہمارے سید و مولی آنحضرت ملا ل ولم احد کی لڑائی میں مجروح ہوئے تھے اور کئی زخم تلواروں کے پیشانی مبارک پر آنحضرت علی ایم کو آئے تھے اور سر تا پا خون سے آلود ہو گئے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بہت کم حضرت عیسی کو صلیب پر زخم آئے تھے “ (ضمیمہ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 21 حاشیہ ، صفحہ 262) آنحضور صلی اللہ ہم بہت بہادر اور عظیم حوصلہ کے انسان تھے.جس کا اظہار حضور کے مندرجہ بالا ارشادات میں ہوا ہے.غزوہ احد کی تفصیلات میں بھی آنحضور صلی ایم کی بہادری و دلیری کی داستانیں دلوں کو درود و سلام سے بھر دیتی ہیں.درہ کی طرف سے خالد بن ولید کے اچانک حملہ سے آنحضور صلی علی کی اپنے چند صحابہ کے ساتھ اکیلے رہ گئے تھے.اور ان میں سے بھی اکثر شہید ہو گئے یا شدید زخمی ہو چکے تھے.ایسے موقع پر بھی آپ صلی ا ہم نے گھبراہٹ یا خوف کا کوئی اظہار نہیں فرمایا.بلکہ نہایت دلیری سے مقابلہ کیا.بلکہ ایک موقعہ پر جب دشمن نے اپنی فتح کے نعرے لگانے شروع کئے اور ان نعروں میں جب ہبل کی سر بلندی کا نعرہ لگایا تو آپ صلی الی یکم نے نڈھال اور زخموں سے چور ہونے کے باوجود صحابہ کو جو خود بھی بہت قلیل تعداد میں تھے اور تھکے ماندے اور زخموں سے چور تھے حکم دیا کہ اس نعرے کا جواب دو فرمایا کہ نعرہ لگاؤ الله اعلی و اجل.صحابہ نے بڑے جوش اور بلند آواز میں یہ نعرہ لگایا.یہ نعرہ لگانا آنحضور صلی تعلیم کی کمال بہادری اور توحید کی خاطر جاشاری کو ظاہر کرتا ہے.اور اسی طرح صحابہ کی بہادری بھی ظاہر ہوتی ہے.ایسے خطرے کے مقام پر صحابہ نے جس وفا اور بہادری کا ثبوت دیا وہ بھی عدیم المثال ہے.صحابہ کا قصور نہ تھا: بعض مورخین کم علمی یا بد نیتی سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ احد کے میدان میں صحابہ نبی صلی اللہ تم کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے.آپ نے اس اعتراض کو بھی دور فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا.اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں.ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ برداشت نہیں کر سکتے.مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے.اس میں صحابہ کا قصور نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 1 صفحہ 84) 157

Page 181

اچانک حملہ کے نتیجہ میں اکثر صحابہ باوجود پوری کوشش کے نبی صلی علیہ ہم تک پہنچ نہیں سکے تھے.اس میں انکی سستی یا بیوفائی کا دخل نہیں تھا.پس حقیقت یہی ہے کہ ”اس میں صحابہ کا قصور نہ تھا“ غزوہ خندق: غزوہ اُحد کے بعد قریش نے نجدی قبائل اور یہود مدینہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ایک اور جنگ مسلط کی جس کو غزوہ خندق کہتے ہیں.اسکے تفصیلی حالات کا ذکر اگر چه فرمودات و تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں موجود نہیں ہے.لیکن جیسا کہ یہ بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ آپ نے تاریخ اسلام اور سیرت النبی صلی ال ظلم کے ہر اس پہلو کا احاطہ فرمایا ہے جس سے متعلق کسی غیر مسلم معاند نے اعتراض کیا ہے یا مسلمانوں میں اس پہلو پر خلاف حقیقت نظریات پائے جاتے ہیں.آپ نے ہر اس اعتراض کا جواب دیا ہے اور مسلمانوں میں رائج غلط نظریات کی اصلاح فرمائی ہے.اس غزوہ سے متعلق ایک خط میں پادری فتح مسیح نے نبی اکرم صلی علیکم پر اعتراض کیا کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں.پادری صاحب نے قضا سے مراد نماز ادانہ کرنا لیا ہے.اس کے جواب میں آپ نے روایات کی رُو سے ثابت کیا ہے کہ چار نمازیں چھوڑی نہیں تھیں بلکہ مجبوری کے تحت صرف ایک نماز عصر اپنے اصل وقت سے کچھ تاخیر سے ادا کی تھی.آپ نے فرمایا: اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں اول آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے نادان قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں.ترک نماز کا نام قضا ہر گز نہیں ہوتا.اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بے وقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی تک قضا کے معنی بھی معلوم نہیں جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے.باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرہ 158

Page 182

بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہو گئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کی رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی.آپ عربی علم سے محض بے نصیب ، اور سخت جاہل ہیں ذرا قادیان کی طرف آؤ اور ہمیں ملو تو پھر آپ کے آگے کتابیں رکھی جائیں گی تا جھوٹے مفتری کو کچھ سزا تو ہو ندامت کی سزا ہی سہی اگر چہ ایسے لوگ شر مندہ بھی نہیں ہوا کرتے “ ( نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9، صفحہ 390-389) ہمارے پیارے امام حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ بالا ارشاد کے متعلق خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 2011 میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس معاملہ پر روشنی فرمائی.اس خطبہ کا مضمون سے متعلقہ حصہ درج ہے.فرمایا: ”جہاں تک چار نمازوں کے جمع کرنے کا سوال ہے یہ سنن ترمذی کی روایت ہے ، اور وہ حدیث اس طرح ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی الم کو خندق کے روز چار نمازوں سے روکے رکھا، یہاں تک کہ جتنا اللہ نے چاہارات کا حصہ چلا گیا.پھر آپ صلی الم نے حضرت بلال کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے اذان دی پھر اقامت کہی گئی اور آپ مئی ایم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی گئی اور آپ ملی ایم نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی گئی اور آپ ملی ایم نے مغرب کی نماز پڑھائی.پھر اقامت کہی گئی اور آپ صلی ا ہم نے عشاء کی نماز پڑھائی.(سنن ترمذی کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی الرجل تفوته الصلوات با یتھن ببدء حدیث 179) لیکن صحیح بخاری، مسلم اور سنن ابی داؤد میں حضرت علی کے حوالے سے جو حدیث ہے وہ اس طرح ہے کہ حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ خندق کے روز رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ انکے گھروں اور انکی قبروں کو آگ سے بھرے.انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطی سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.( صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير باب الدعا على المشركين بالهزيمة والزلزلۃ حدیث 2931) مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب التغليظ في تفويت صلاة العصر حديث 1420) تو اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ نماز عصر تھی بہر حال جو میں بیان کرنا چاہتا تھاوہ یہ تھا کہ آنحضرت علی الم کو نمازوں کے ضائع ہونے کی اس قدر تکلیف تھی کہ آپ نے دشمن کو بد دعادی.یہاں تو پھر اس کی اہمیت اس مضمون کے تحت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک وقت کی نماز کا ضائع کرنا بھی آپ کو برداشت نہیں تھا اور آپ نے 159

Page 183

دشمن کو سخت کہا.اس بارے میں صحیح بخاری کی ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے تو عصر کی نماز بھی نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا.نبی صلی کریم نے فرمایا کہ بخدا ! میں نے بھی نہیں پڑھی.اس پر ہم اُٹھ کر بطحان کی طرف گئے اور آپ صلی یم نے نماز کے لئے وضو کیا اور ہم نے بھی اس کے لئے وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد آپ نے عصر کی نماز پڑھی پھر اس کے بعد آپ نے مغرب کی نماز پڑھی.( صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلاة باب من صلى بالناس جماعۃ بعد ذهاب الوقت حدیث 596) علامہ ابن حجر عسقلانی تبخاری کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ابن عربی نے اس بات کی تصریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نماز جس سے نبی کریم ملا اللہ ہم کو روکے رکھا گیا تھا وہ صرف ایک نماز تھی یعنی نماز عصر.اس نماز کی ادائیگی یا تو اس وقت کی گئی تھی جب مغرب کی نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا یا یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کے بعد آپ نے عصر کی نماز پڑھی تھی.پھر اس کے بعد آپ نے مغرب کی نماز پڑھی.فتح الباری شرح صحیح بخاری اعلامہ ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 88،89 کتاب مواقیت الصلات باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت حدیث 596) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ بھی فرمایا پس آپ علیہ السلام کے اس فیصلہ کے بعد ، اس مہر ثبت کرنے کے بعد یہ چار نمازیں پڑھنے والی بھی جو حدیث ہے وہ بھی غلط ہے.صرف عصر کی نماز کا ہوا تھا لیکن جیسا کہ میں نے کہا اُس پر بھی آنحضرت صلی علی کو اتنا دکھ تھا کہ آپ نے دشمن کو برابھلا کہا اور کہا کہ ہماری نمازیں ضائع کر دی ہیں“.صلح حدیبیه : ( خطبات مسرور ، جلد نہم ، صفحہ 566تا568.خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 2011) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کو بیان فرمایا ہے.اور سیرت النبی صلی ایم کے اہم پہلووں پر روشنی ڈالی ہے.آپ نے بڑی وضاحت سے اس حقیقت کو کھولا ہے کہ انبیاء سے بھی بعض اوقات اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے.نیز یہ کہ اس قسم کی اجتہادی غلطی اگر چہ نبی اور مومنوں کے لئے تکلیف کا باعث بھی ہو سکتی ہے اور بعض مومنوں کے لئے آزمائش کا موجب بھی ہو سکتی ہے لیکن اس اجتہادی غلطی کے وقوع میں بھی حکمت الہی کار فرما ہوتی ہے اور بہت سی بھلائیاں اور برکتیں اس میں پنہاں ہوتی ہیں.حضور نے 160

Page 184

ثابت فرمایا ہے کہ حدیبیہ کا سفر جو بظاہر ایک خواب کے رنگ میں وحی پر مبنی تھا بہت سی فتوحات کی داغ بیل ڈالنے کا موجب ہوا.اور آپ نے اس واقعہ سے متعلق بعض ابہامات کو بھی دور فرمایا ہے.خواب اور اجتہاد: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک مرتبہ آپ نے ایک وحی الہی کے مطابق مدینہ سے مکہ کی طرف ایک طول طویل سفر کیا.اور وحی الہی میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ مکہ کے اندر داخل ہوں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے.اور وقت نہیں بتایا گیا تھا مگر آنحضرت صلی ا یکم نے محض اجتہاد کی بنا پر اس سفر کی تکلیف اٹھائی.اور وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا اور مکہ میں داخل نہ ہو سکے.سو اس جگہ پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی ہوئی جس سے بعض صحابہ ابتلا میں پڑ گئے“ (ضمیمه بر امین احمد یه روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 249-250) دیکھو آنحضرت عمال السلام کا صلح حدیبیہ کا معاملہ جس میں بعض بڑے بڑے اکابر صحابہ کو بھی ٹھو کر لگ گئی تھی مگر پھر خدا نے انکی دستگیری فرما کر انکو بچا لیا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اس میں شریک تھے“ (ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 522) اسوا اس کے یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ ایسے امور میں جو عملی طور پر سکھلائے نہیں جاتے اور نہ اُن کی جزئیات مخفیہ سمجھائی جاتی ہیں.انبیاء سے بھی اجتہاد کے وقت امکانِ سہو وخطا ہے.مثلا اس خواب کی بناء پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو بعض مومنوں کے لئے موجب ابتلاء کا ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کا قصد کیا اور کئی دن تک منزل در منزل طے کر کے اس بلدہ مبارکہ تک پہنچے مگر کفار نے طواف خانہ کعبہ سے روک دیا اور اُس وقت اس رؤیا کی تعبیر ظہور میں نہ آئی.لیکن کچھ شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی امید پر یہ سفر کیا تھا کہ اب کے سفر میں ہی طواف میتر آجائے گا اور بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب وحی میں داخل ہے لیکن اس وحی کے اصل معنے سمجھنے میں جو غلطی ہوئی اس پر متنبہ نہیں کیا گیا تھا تبھی تو 161

Page 185

خدا جانے کئی روز تک مصائب سفر اُٹھا کر مکہ معظمہ میں پہنچے.اگر راہ میں متنبہ کیا جاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور مدینہ منورہ میں واپس آجاتے “ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 471) مندرجہ بالا ارشادات میں سیرت النبی صلی لی کام کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے.آپ نے جن آیات قرآنی کا ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہیں لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُ وسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح: 28) یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کی) رویا حق کے ساتھ پوری کر دکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجد حرام میں امن کی حالت میں داخل ہو گے ، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کتر واتے ہوئے ، ایسی حالت میں کہ تم خوف نہیں کرو گے.پس وہ اس کا علم رکھتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے.پس اس نے اس کے علاوہ قریب ہی ایک اور فتح مقدر کر دی ہے.حدیبیہ کے سفر سے متعلق جو خواب دکھائی گئی تھی اس کا ذکر متعد د کتب احادیث و سیرت و تفسیر میں ہوا ہے مثلاً امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ تفسیر جلالین تفسیر سورۃ الفتح میں سورۃ الفتح کے شان نزول میں لکھتے ہیں:.رَأَى رَسُولُ الله صلى اللہ علیہ وسلّم في النومِ عَام الحديبية قبل خروجه أنه يدخلُ مكة هُوَ وَأَصحابه آمنين يُحلقون و يقصرونَ فَأَخبر بذلك اصحابه فَفَرحُوا فلمّا خَرِجُوا مَعَهُ وَصِدِّهُم الكفَّارُ بالحديبية.رجعوا وَشقٌ عَلَيهم بذلك وَ رَابَ بَعضُ المنافقينَ نَزَلَت ترجمہ :.رسول اللہ صلی علیکم نے حدیبیہ والے سال (سفر پر) باہر نکلنے سے پہلے خواب میں دیکھا کہ آپ مع صحابہ مکہ میں امن سے داخل ہوئے سر منڈاتے یا تراشتے ہوئے تو آپ نے اس امر کی صحابہ کو خبر دی جس پر وہ خوش ہوئے پس جب وہ آپ کے ساتھ نکلے اور کفار نے انہیں حدیبیہ پر روک دیا تو وہ ایسی حالت میں واپس ہوئے کہ یہ امر ان پر شاق تھا اور بعض منافقوں نے شک کیا تو سورۃ فتح نازل ہوئی.ایک نکتہ : "جس قدر انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں یا اہل اللہ ہوئے ہیں ان کو فطر رغبت دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کو پورا کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہوتے ہیں مسیح نے اپنی جگہ داؤدی تخت کی بحالی والی پیش گوئی کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی.کہ اپنے شاگردوں کو یہاں تک حکم دیا کہ جس کے پاس تلواریں اور ہتھیار نہ ہوں وہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خریدے.اب اگر اس پیشگوئی کو پورا کرنے 162

Page 186

کی وہ فطری خواہش اور آرزونہ تھی جو انبیاء علیہم السلام میں ہوتی ہے تو کوئی ہم کو بتائے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اور ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر یہ طبعی جوش نہ تھا تو آپ کیوں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے جب کہ کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا؟ بات یہی ہے کہ یہ گو وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کی حرمت اور عزت کرنا ہے اور چونکہ ان نشانات کے پورا ہونے پر معرفت اور یقین میں ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ پورے ہوں.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نشان پورا ہو تا تو سجدہ کیا کرتے تھے.“ صحابہ کی آزمائش: ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 48) فرمایا : ” دیکھو آنحضرت علی ایم کا صلح حدیبیہ کا معاملہ جس میں بعض بڑے بڑے اکابر صحابہ کو بھی ٹھو کر لگ گئی تھی مگر پھر خدا نے انکی دستگیری فرما کر انکو بچالیا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس میں شریک تھے “ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 5 صفحہ 522) حضور نے یہاں صحابہ کے جن ابتلاؤں کا ذکر فرمایا ہے اسکے متعلق ایک روایت میں ہے کہ جاء عمر فقال السنا على الحق وهم على الباطل؟ اليس قتلانا في الجنة وهم في النار؟ قال بلى قال ففيما نعطى الدنيّة في ديننا؟ ونرجع ولم يحكم الله فينا.فقال يا ابن الخطاب اني رسول الله ولن يضيعني الله ابدا فرجع متغیظ (10) کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی علیم سے کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں، حضرت عمرؓ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مقتولین جنتی اور ان کے مقتولین جہنمی نہیں ؟ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں.حضرت عمرؓ نے کہا تو پھر کس وجہ سے ہم اپنے دین کے معاملہ میں کمزوری دکھائیں اور ہم واپس جارہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کیا.رسول اللہ صلی ا ولم نے فرمایا.اے ابن خطاب میں اللہ تعالیٰ کار سول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے ہر گز ضائع نہیں کرے گا.پس حضرت عمررؓ ناراض واپس ہوئے.یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ فرمایا : ماشككت منذ اسلمت الا يومئذ کہ میں جب سے مسلمان ہوا مجھے صرف اسی دن شک پیدا ہوا (1) (11) 163

Page 187

روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ اور باقی صحابہ کا یہ رد عمل ایک غم کی حالت میں تھا.اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صحابہ نعوذ باللہ ایسے شک میں مبتلا ہو گئے تھے کہ منحرف ہو جاتے.جیسا کہ اس موقعہ کے دیگر واقعات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ ابتلا نہایت قلیل وقت کے لئے تھا.صحابہ اس سکنہ سے نکلنے کے ساتھ ہی اطاعت کا ایک کامل نمونہ تھے.حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے کہا اٹھو قربانی دو پھر سر منڈواؤ (یعنی احرام کھول دو) راوی کہتا ہے.فوالله ما قام منهم رجل حتى قال ذلك ثلاث مرّات کہ خدا کی قسم صحابہ میں سے کوئی نہ اٹھا یہاں تک کہ آپ نے تین دفعہ یہ حکم دیا جب کوئی بھی نہ اٹھا تو آپ حضرت ام سلمہ کے پاس گئے اور لوگوں کے اس معاملہ کا ذکر کیا.ام سلمہ نے کہا.اے اللہ کے نبی ! کیا آپ ایسا چاہتے ہیں ؟ آپ ان میں سے کسی سے ایک کلمہ بھی نہ کہئے.اپنی قربانی دیجئے پھر مونڈنے والے کو بلائیے کہ وہ آپ کا سر مونڈ دے.آپ نے ایسا ہی کیا.باہر نکلے کسی سے کلام نہ کی اپنی قربانی دی اور سر منڈایا جب صحابہ نے یہ دیکھاتو وہ بھی اٹھے اور انہوں نے قربانیاں دیں اور بعض بعض کا سر مونڈنے لگے حتى كاد بعضهم يقتل بعضًا غنا کہ قریب تھا کہ غم کے مارے ایک دوسرے کو قتل کر دیں.یہ واقعات بتاتے ہیں کہ اگر چہ اس اجتہادی غلطی کے وقوع سے ایک وقتی ابتلا تو تھا لیکن صحابہ ایسی حالت میں نہیں تھے کہ نعوذ باللہ وہ ہمیشہ کے لئے آپ سے منہ پھیر لیتے.اجتہادی غلطی، سھو نسیان کے امکان میں حکمت: اس مضمون کو حضور نے نہایت اعلیٰ رنگ میں ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے یہی حال انبیاء کی اجتہادی غلطی کا ہے کہ روح القدس تو کبھی ان سے علیحدہ نہیں ہوتا.مگر بعض اوقات خدا تعالیٰ بعض مصالح کے لئے انبیاء کے فہم اور ادراک کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے تب کوئی قول یا فعل سھو یا غلطی کی شکل پر ان سے صادر ہوتا ہے اور وہ حکمت جو ارادہ کی گئی ہے ظاہر ہو جاتی ہے تب پھر وحی کا دریا زور سے چلنے لگتا ہے اور غلطی کو درمیان سے اُٹھا دیا جاتا ہے گویا اس کا کوئی وجود نہیں تھا...جس حالت میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفی کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے.اور ہر بات میں ، حرکات میں سکنات میں اقوال میں افعال میں، روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بُو آوے 164

Page 188

تو اس سے کیا نقصان بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا تالوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں“ بیعت رضوان ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 115،116) فرمايا: "إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 11) یعنی جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.واضح ہو کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کیا کرتے تھے اور مردوں کے لئے یہی طریق بیعت کا ہے سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے بطریق مجاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو اپنی ذات اقدس ہی قرار دے دیا اور ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا.یہ کلمہ مقام جمع میں ہے جو بوجہ نہایت قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا گیا ہے فتح مبین کا پیش خیمہ : (سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد 2 حاشیہ صفحہ 275-276) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور آپ کو یاد ہو گا کہ حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے اور فرمایا ہے إِنَافَتَحْنَا لَكَ فَتحاً مبيناً.وہ فتح اکثر صحابہ پر بھی مخفی تھی بلکہ بعض منافقین کے ارتداد کا موجب ہوئی مگر دراصل وہ فتح مبین تھی گو اس کے مقدمات نظری اور عمیق تھے“.( مجموعہ اشتہارات، جلد 2 صفحہ 83-84، اشتہار 5 اکتوبر 1894) لکھا ہے کہ آنحضرت ملی ایم نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقعہ ملا.اور انہوں نے آنحضرت صلی علم کی باتیں سنیں تو ان میں سے صدہا مسلمان ہو گئے جب تک انہوں نے آپ میلم کی با تیں نہ سنی تھیں ان میں 165

Page 189

اور آنحضرت علی السلام کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپ کے حسن و جمال پر ان کو اطلاع نہ پانے دیتی تھی اور جیسا دوسرے لوگ کذاب کہتے تھے (معاذ اللہ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور ان فیوض و برکات سے بے نصیب تھے جو آپ لے کر آئے تھے اس لیے کہ دور تھے لیکن جب وہ حجاب اٹھ گیا اور پاس آکر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہ میں داخل ہو گئے “ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 506) جیسا کہ حضور نے فرمایا ہے حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے گویا کہ یہ پیشگوئی تھی عظیم فتوحات کی اور آئندہ حالات نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا.حضرت براء کی ایک روایت ہے کہ تم لوگ فتح مکہ کو فتح قرار دیتے ہو جبکہ ہم بیعت رضوان کو فتحا مبینا قرار دیتے ہیں (12) صلح حدیبیہ کے بعد بڑی تیزی سے اسلام پھیلنا شروع ہوا حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمرو بن العاص جیسے عظیم صحابہ کو قبول اسلام کا شرف نصیب ہوا.معاہدہ امن کے تحت مسلمانوں نے اپنی پوری توجہ تبلیغ اسلام کی طرف مرکوز کر دی.جسکے نتیجہ میں طول و عرض میں اسلام کا پیغام پہنچنا شروع ہوا.تبلیغی وفود کی روانگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا.اور اسلام کی تعلیمات کو پرکھنے کے لئے قبائل عرب کے متعدد وفود مدینہ کا سفر اختیار کرنے لگ گئے.مختلف ممالک کے سلاطین کو بھی اسی دور میں ہی خطوط لکھے گئے.اس طرح گویا تبلیغ کا ایک بند ٹوٹ گیا اور اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا.حدیبیہ کے سفر میں صرف چودہ سو صحابہ شامل ہوئے تھے لیکن ایک ہی سال بعد ہونے والے عمرہ کے سفر میں تعداد تقریباً چوبیس سو تھی.اور اس ترقی کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ غزوہ خندق میں مدینہ کی کل آبادی تین ہزار کے قریب تھی اور مدینہ سے باہر کوئی اکا دکا ہی مسلمان تھے لیکن فتح مکہ جو حدیبیہ کی شرائط کا ہی ثمر تھا اس میں دس ہزار قدوسیوں نے شرکت کی.واقعہ سحر کی تردید: بعض مورخین نے بلکہ بعض محدثین نے بھی روایات درج کی ہیں جن میں بیان کیا جاتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضور صلی علیم پر کسی یہودی نے جادو کر دیا تھا.جسکے اثر سے آپ کو نسیان اور سر درد کا عارضہ لاحق ہو گیا.بعض اوقات آپ خیال فرماتے تھے آپ نے فلاں کام کر لیا ہے حالانکہ وہ کام نہیں کیا ہو تا تھا.اسی طرح بعض اوقات ازواج کے گھر باریوں کے متعلق بھی آپ بھول جاتے تھے.الغرض کہ اس قسم کے واقعات کی بنیاد پر یہ مشہور کر 166

Page 190

دیا گیا کہ آپ ایک یہودی کے جادو کے اثر میں ہیں.اس قسم کی روایات کی حکم و عدل سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے واضح الفاظ میں تردید فرمائی ہے.جیسا کہ فرمایا ”جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے.رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے.بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيثُ أَتَى ( طه : 70) دیکھو حضرت موسیٰ کے مقابل پر جادو تھا.آخر موسی غالب ہوا کہ نہیں؟ یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضور کے مقابل جادو غالب آگیا.ہم اس بات کو کبھی مان نہیں سکتے آنکھ بند کر کے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے خلاف ہے.یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو.ایسی باتیں کہ اس جادو کی تاثیر سے (معاذ اللہ ) آنحضرت صلی الم کا حافظہ جاتا رہا.یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا، کسی صورت میں صحیح نہیں ہو سکتی.معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملا دی ہیں.گو کہ ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم کے بر خلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں.اس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا.گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاج سے کام نہیں لے سکے.وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے.آثار نبوی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے.لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے.جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے.ایسی بات کہ آنحضرت ملا م پر (معاذ اللہ ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اُٹھ جاتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اذيَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجلُاً مَسحُوراً ( بنى اسرائیل: 38) ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ مسلمان.یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضور پر (معاذ اللہ ) سحر اور جادو ہو گیا تھا.اتنا نہیں سوچتے کہ جب (معاذ اللہ ) آنحضور کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانہ ؟ وہ تو پھر غرق ہو گئی.معلوم نہیں کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس معصوم نبی کو تمام انبیاء مش شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں یہ انکی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 349،348) 167

Page 191

حوالہ جات باب پنجم 1- ( تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 33- ذکر بدر الكبرمی مطبوعہ دار الفکر بیروت 2002ء) م الله سة 2.(سیرت الحلبیہ جلد 2 صفحہ 237 باب ذکر مغازی علی ای کم مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء) 3.(سیرت الحلبیہ جلد 2 صفحہ 215 ذکر مغازیہ صلی الیکم مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء) 4.(سیرت النبی کا بن ہشام صفحہ 428، ذکر رویا عاتکہ...الخ، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 5.(سیرت الحلبیہ جلد 2 صفحہ 230 غزوہ بدر.مطبوعہ دار لکتب العلمیہ بیروت 2002ء) 6.(ترمذی، ابواب التفسیر.تفسیر سورۃ الروم حدیث 2935) 7.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 523 ، باب غزوہ احد، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 2001ء) 8.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 523 ، باب غزوہ احد ، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 9.( بخاری کتاب المغازی، باب ما اصاب النبی...الخ حدیث 4075،4074) 10- ( صحیح بخاری کتاب التفسیر ، باب قولہ اذا یبایعونک...حدیث 4874) 11 - (زاد المعاد لابن القیم - صفحہ 430 فصل في قصة الحديبية مطبوعہ مؤسسة الرسالة ناشرون دمشق 2006ء) 12 - ( صحیح بخاری کتاب المغازی.باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث 4150) 168

Page 192

169 69

Page 193

باب ششم صلح حدية سلاطین کو تبلیغی خطوط کے بعد آنحضور صلی علیم نے عرب کے ہمسایہ ممالک کے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط بھجوائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان میں سے بعض خطوط کا اپنی تحریرات میں ذکر فرمایا ہے.جن میں ان خطوط کے بھجوانے کی اہمیت و حکمت پر روشنی ڈالی ہے.آپ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ اسلام کا مشن عالمگیر تھا اور تمام انبیاء میں آنحضور صلی میں کم ہی کا مقام ہے کہ آپ میلی لیہ کی تمام عالم کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے اور اس منصب کو آپ صلی الم نے خطوط لکھ کر بھی پورا فرمایا.جیسا کہ فرمایا: قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر یہ دعویٰ کیا ہے وہ دنیا کی تمام قوموں کے لئے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قُل يَأَيُّها الناسُ إِنّى رسولُ اللهِ إِلَيكُم جميعًا یعنی تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں اور پھر فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِینَ یعنی میں نے تمام عالموں کے لئے تجھے رحمت کر کے بھیجا ہے.اور پھر فرماتا ہے لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نذيراً یعنی ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے.لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا...اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا عین موقعہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی انم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت صلی الم نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُل يَأَيُّهَا النَّاسُ انّى رَسُولُ اللهِ اليكم جميعا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کیطرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہر گز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے “ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 76-77) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ بالا ارشاد میں ان خطوط کا لکھا جانا عین موقعہ پر اور آپ صلی میں کمی کے منصب حقیقی کے شایان شان ہونا بیان فرمایا ہے.اس طرح بعض مستشرقین کے اس اعتراض کا بھی رد ہو جاتا ہے 170

Page 194

کہ یہ خطوط نعوذ باللہ محمد صلی للی یکم نے اپنی فتوحات کے پیش نظر آئندہ امکانی حیثیت یعنی عرب کے بادشاہ بننے کی امید سے لکھے تھے.مثلاً ان مستشرقین میں سے منٹگمری واٹ لکھتا ہے کہ : If Mohammad wrote letters to the heads of neighbouring states after al-Hudabiyah that would suggest that it was about this time that he became conscious of having overcome all serious opposition.It may also be that in accordance with pre-islamic custom the use of title like Mohammad the prophet and the messanger of God involved a clame to political leadership.(¹) اس قسم کے اعتراض کو حضور نے مندرجہ بالا ارشاد میں مختصر الفاظ میں لیکن نہایت پختہ دلیل سے رد فرما دیا ہے کہ بادشاہوں کو خطوط لکھنا آپ صلی علی کرم کے منصب رسالت میں شامل تھا کیونکہ آپ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے مبعوث کئے گئے تھے.دوم یہ کہ فعلی شہادت اس بات پر دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ ہم کو یہ کام کرنے کی توفیق ملی اور تبلیغ کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ صلی یی کم کو ذرائع بھی عطا فرما دے.اس کے مقابل باقی انبیاء جن کو یہ منصب عالمگیر تبلیغ کا نہیں سونپا گیا تھا انکو وہ ذرائع بھی میسر نہ آئے.آنحضور صلی اللہ علم کی ایک حیثیت رسول اللہ کی تھی اور ایک خاص نعمت آپ صلی الی ظلم کو بادشاہ ہونے کی بھی عطا کی گئی تھی.مدینہ کی ریاست کے بادشاہ تھے.اور اس دور میں تو مدینہ کی ریاست عرب کی ایک مضبوط ریاست تسلیم کی جاچکی تھی کیونکہ مکہ والوں نے بھی معاہدہ حدیبیہ پر دستخط کر کے مدینہ کی ریاست اور نبی اکرم صلی یکم کو اسکا بادشاہ ہونا تسلیم کر لیا تھا.اس کے باوجود آنحضور ملی یکم کو بادشاہ کہلوانے کا شوق نہ تھا اسی لئے آپ صلی الی یکم نے دنیوی رسوم کی خاطر جب انگوٹھی بطور مہر بنوائی اس پر اپنا لقب بادشاہ کا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ لکھوایا.قیصر روم کے نام خط: قیصر روم کو جو خط لکھا گیا اس کے متعلق آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.اس مجمل بیان کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ صحیح بخاری کے صفحہ ۵ میں مذکور ہے.آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط دعوتِ اسلام کا قیصر روم کی طرف لکھا تھا اور اُس کی عبارت جو صفحہ مذکورہ بخاری میں مندرج ہے یہ تھی.بِسْمِ اللهِ الرَّحمن الرّحيم من محمد عبد الله ورسوله الى هرقل عظیم 171

Page 195

الروم - سلام على من اتبع الهدى.امّا بعد فانّى ادعوك بدعایۃ الاسلام اسلِم تَسْلِم یؤتک اللہ اجرک مرتین.فان تولیت فانّ علیک اثم اليريسيين.ويا اهل الكتاب تعالوا الى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نعبد الا الله ولا نشرك به شيئًا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فان تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون.یعنی یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو خدا کا بندہ اور اُس کا رسول ہے روم کے سردار ہر قل کی طرف ہے.سلام اُس پر جو ہدایت کی راہوں کی پیروی کرے اور اس کے بعد تجھے معلوم ہو کہ میں دعوتِ اسلام کی طرف تجھے بلاتا ہوں یعنی وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ انسان خدا کے آگے اپنی گردن رکھ دے اور اُس کی عظمت اور جلال کے پھیلانے کے لئے اور اُس کے بندوں کی ہمدردی کے لئے کھڑا ہو جائے اس کی طرف میں تجھے بلاتا ہوں.اسلام میں داخل ہو جا کہ اگر تو نے یہ دین قبول کر لیا تو پھر سلامت رہے گا اور بے وقت کی موت اور تباہی تیرے پر نہیں آئے گی اور اگر ایسانہ کیا تو پھر موت اور ہاویہ در پیش ہے اور اگر تو نے اسلام کو قبول کر لیا تو خدا تجھے دو اجر دے گا.یعنی ایک یہ کہ تو نے مسیح علیہ السلام کو قبول کیا اور دوسرا یہ اجر ملے گا کہ تو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا لیکن اگر تو نے منہ پھیرا اور اسلام کو قبول نہ کیا تو یاد رکھ کہ تیرے ارکان اور مصاحبین اور تیری رعیت کا گناہ بھی تیری ہی گردن پر ہو گا.اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو تم میں اور ہم میں برابر ہے یعنی دونوں تعلیمیں انجیل اور قرآن کی اس پر گواہی دیتی ہیں اور دونوں فرقوں کے نزدیک وہ مسلم ہے کسی کو اس میں اختلاف نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم محض اُسی خدا کی پرستش کریں جو واحد لاشریک ہے اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ شریک نہ کریں نہ کسی انسان کو نہ کسی فرشتہ کو نہ چاند کو نہ سورج کو نہ ہوا کو نہ آگ کو نہ کسی اور چیز کو اور ہم میں سے بعض خدا کو چھوڑ کر اپنے جیسے دوسروں کو خدا اور پروردگار نہ بنالیں اور خدا نے ہمیں کہا ہے کہ اگر اس حکم کو سن کر یہ لوگ باز نہ آویں اور اپنے مصنوعی خداؤں سے دست بردار نہ ہوں تو پھر ان کو کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خدا کے اس حکم پر قائم ہیں کہ پرستش اور اطاعت کے لئے اُسی کے آستانہ پر گردن رکھنی چاہیئے اور وہ اسلام جس کو تم نے قبول نہ کیا ہم اُس کو قبول کرتے ہیں.یہ خطہ تھا جو ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف لکھا تھا اور اُس کو قطعی طور پر ہلاکت اور تباہی کا وعدہ نہیں دیا بلکہ اُس کی سلامتی اور ناسلامتی کے لئے شرطی وعدہ تھا.اور صحیح بخاری کے اسی صفحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قدر قیصر روم نے حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اس 172

Page 196

لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مدت تک اُس کو مہلت دی گئی.لیکن چونکہ وہ اس رجوع پر قائم نہ رہ سکا اور اُس نے شہادت کو چھپایا اس لئے کچھ مہلت کے بعد جو اُس کے رُجوع کی وجہ سے تھی پکڑا گیا.اور اُس کا رجوع اُس کے اس کلمہ سے معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری کے صفحہ ۴ میں اس طرح پر مذکور ہے.فان كان ما تقول حقافسیملک موضع قدمیها.تین.وقد كنتُ اعلم انه خارج ولم اكن اظن انه منكم فلوانّى اعلم انى أخلص اليه لتجسّمتُ لقاءه.ولوكنتُ عنده لغسلت عن قدمیہ.اس عبارت کا ترجمہ کرنے سے پہلے یہ بات ہم یاد دلا دیتے ہیں کہ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جبکہ قیصر روم نے ابو سفیان کو جو تجارت کی تقریب سے مع اپنی ایک جماعت کے شام کے ملک میں وارد تھا اپنے پاس بلایا اور اُس وقت قیصر اپنے ملک کا سیر کرتا ہوا بیت المقدس میں یعنی یروشلم میں آیا ہوا تھا اور قیصر نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ابو سفیان سے جو اُس وقت کفر کی حالت میں تھا بہت سی باتیں پوچھیں.اور ابو سفیان نے اس وجہ سے جو اُس دربار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر بھی موجود تھا جو تبلیغ اسلام کا خط لے کر قیصر روم کی طرف آیا تھا بجز راست گوئی کے چارہ نہ دیکھا کیونکہ قیصر نے اُن اُمور کے استفسار کے وقت کہہ دیا تھا کہ اگر یہ شخص واقعات کے بیان کرنے میں کچھ جھوٹ بولے تو اس کی تکذیب کرنی چاہیئے سو ابو سفیان نے پردہ دری کے خوف سے سچ سچ ہی کہہ دیا اور جس قدر قیصر نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کچھ حالات دریافت کئے تھے وہ سچائی کی پابندی سے بیان کر دیئے گو اُس کا دل نہیں چاہتا تھا کہ صحیح طور پر بیان کرے مگر سر پر جو مکذبین موجود تھے وہ خوف دامنگیر ہو گیا اور جھوٹ بولنے میں اپنی رسوائی کا اندیشہ ہو ا جب وہ سب کچھ قیصر روم کے رُوبرو بیان کر چکا تو اُس وقت قیصر نے وہ کلام کہا جو مندرجہ بالا عربی عبارت میں مذکورہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر یہ باتیں سچ ہیں جو تو کہتا ہے تو وہ نبی جو تم میں پیدا ہوا ہے عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا جس جگہ یہ میرے دونوں قدم ہیں اور قیصر نجوم کے علم میں بہت دسترس رکھتا تھا.اس علم کے ذریعے سے بھی اُس کو معلوم ہوا کہ یہ وہی مظفر اور منصور نبی ہے جس کا توریت اور انجیل میں وعدہ دیا گیا ہے.اور پھر اُس نے کہا کہ مجھے تو معلوم تھا کہ وہ نبی عنقریب نکلنے والا ہے مگر مجھے یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے نکلے گا اور اگر میں جانتا کہ میں اُس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں کوشش کرتا کہ اُس کو دیکھوں.اور اگر میں اُس کے پاس ہوتا تو اپنے لئے یہ خدمت اختیار کرتا کہ اُس کے پیر دھویا کروں.فقط یہ وہ جواب ہے جو قیصر نے خط کے پڑھنے کے بعد دیا یعنی اس خط کے پڑھنے کے بعد 173

Page 197

جس میں قیصر کو اُس کی تباہی اور ہلاکت کی شرطی دھمکی دی گئی تھی اور گو قیصر نے اسلم تسلم کی شرط کو جو خط میں تھی پورے طور پر ادا نہ کیا اور عیسائی جماعت سے علیحدہ نہ ہوا لیکن تاہم اُس کی تقریر مذکورہ بالا سے پایا جاتا ہے کہ اُس نے کسی قدر اسلام کی طرف رجوع کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اُس کو مہلت دی گئی.اور اس کی سلطنت پر بکلی تباہی نہیں آئی اور نہ وہ جلد تر ہلاک ہوا.اب جب ہم ڈپٹی آتھم کے حال کو قیصر روم کے حال کے ساتھ مقابل رکھ کر دیکھتے ہیں تو وہ دونوں حال ایک دوسرے سے ایسے مشابہ پائے جاتے ہیں کہ گویا آتھم قیصر ہے یا قیصر آتھم ہے.کیونکہ ان دونوں نے شرطی پیشگوئی پر کسی حد تک عمل کر لیا اس لئے خدا کے رحم نے رفق اور آہستگی کے ساتھ ان سے معاملہ کیا اور اُن دونوں کی عمر کو کسی قدر مہلت دے دی.مگر چونکہ وہ دونوں خدا کے نزدیک اخفائے شہادت کے مجرم ٹھہر گئے تھے اور آتھم کی طرح قیصر نے بھی گواہی کو پوشیدہ کیا تھا.کیونکہ اُس نے بالآخر اپنے ارکان دولت کو اپنی نسبت بد ظن پاکر ان لفظوں سے تسلی دی تھی کہ وہ میری پہلی باتیں جن میں میں نے اسلام کی رغبت ظاہر کی تھی اور تمہیں ترغیب دی تھی وہ باتیں میرے دل سے نہیں تھیں بلکہ میں تمہارا امتحان کرتا تھا کہ تم کس قدر عیسائی مذہب میں مستحکم ہو“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15، صفحہ 372 تا 376) اگر یہ کہو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ قیصر روم نے یہ تمنا کی کہ اگر میں جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں ایک ادنی خادم بن کر پاؤں دھویا کرتا.اس کے جواب میں آپ کے لئے اصح الکتب بعد كتب اللہ صحیح بخاری کی عبارت لکھتا ہوں ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور وہ یہ ہے و قد كنت اعلم انه خارج و لم اكن اظن انه منكم فلو اني اعلم انی اخلص اليه لتجشمت لقاء ه و لو كنت عنده لغسلت عن قدمیہ دیکھو ص ۴ یعنی یہ تو مجھے معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے مگر مجھ کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے ہی (اے اہل عرب) پیدا ہو گا پس اگر میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں بہت ہی کوشش کرتا کہ اس کا دیدار مجھے نصیب ہو اور اگر میں اس کی خدمت میں ہو تا تو میں اس کے پاؤں دھویا کرتا“ ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 387،386) 174

Page 198

”ہمارے نبی کریم صلی الم نے بھی جب نبوت کا خلعت خدا تعالیٰ سے پا کر دعوت اسلام کے خط بادشاہوں کو لکھے تھے تو ان میں سے ہر قل قیصر روم کے نام بھی ایک خط لکھا تھا.اس نے پڑھ کر کسی عرب جو آپ کی قوم کا ہو تلاش کرائی.چنانچہ چند قریشی جن میں ابو سفیان بھی تھا پیش خدمت کئے گئے.ان سے بادشاہ نے چند سوال کئے جن میں یہ بھی تھا کہ اس شخص کے آباء و اجداد میں سے کبھی کسی نے نبوت کا دعویٰ تو نہیں کیا؟ جس کا جواب نفی میں دیا گیا.پھر پوچھا گیا کہ کوئی بادشاہ تو نہیں گزرا اسکے بزرگوں میں؟ اس کا جواب بھی نفی میں دیا گیا.پھر یہ سوال کیا کہ اس شخص کے پیروکون لوگ ہیں ؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ انکی پیروی کرنے والے غریب اور کمزور لوگ ہیں.ان سوالات کے جوابات منکر قیصر نے اقرار کیا کہ انبیاء ہمیشہ دنیا میں اسی شان میں آیا کرتے ہیں، ان کے ساتھ اول میں ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہی شامل ہوا کرتے ہیں.اس شخص نے اپنی فراست صحیحہ سے معلوم کر لیا کہ واقعی یہ شخص سچانبی ہے اور یہ وہی نبی ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے چنانچہ اس نے یہ بھی کہا وہ وقت قریب ہے کہ وہ میرے تخت کا بھی مالک ہو جاوے گا“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 5 صفحہ 584،583) آنحضور صلى الل علم کی تصویر : روایات میں ہے کہ قیصر روم کے پاس بعض انبیاء کی تصاویر تھیں ان میں آنحضور صلی اللی علم کی بھی تصویر تھی.اس بارہ آپ نے بھی فرمایا ہے کہ ” قیصر روم صرف تصویر دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا“ ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 382) آنحضور صلی الم اور دوسرے انبیاء کی تصاویر کے متعلق امام سیوطی نے لکھا ہے کہ ایک دن ہر قل حضرت دحیہ کلبی کو ایک بڑے کمرے (دالان) میں لے گیا جہاں بہت سی تصویریں تھیں جنکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ حضرت آدم کو فرشتہ نے دی تھیں اور پھر نسل در نسل حضرت سلیمان تک پہنچیں.ان میں حضرت آدم حضرت ابراہیم حضرت نوح حضرت موسیٰ حضرت لوط حضرت اسحق حضرت اسماعیل حضرت یوسف حضرت داود حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ کی تصاویر تھیں نیز ان تصویروں میں حضرت محمد صلی ای ایم اور حضرت ابو بکر صدیق کی بھی تھی (2) اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ان تصاویر کو دکھانے کے بعد قیصر ایک اور کمرے میں دروازہ کھول کر داخل ہوا.اور ایک سیاہ ریشمی کپڑا نکالا جس میں رسول اللہ صلی علیم کی تصویر تھی.اس نے کہا کیا تم انہیں تصویر 175

Page 199

جانتے ہو ہم نے کہا نعم ، محمد رسول اللہ ہاں یہ محمد رسول اللہ ہیں.فقام قائماً ثم جَلَسَ وَقَالَ وَاللَّهِ انَّهُ لَهُوَ؟ قلنا نعم انه لهُوَ.یعنی پھر وہ احترام کے لئے کھڑا ہوا اور پھر بیٹھا اور اس نے کہا خدا کی قسم کیا یہی ہیں ہم نے کہا ہاں یہی آپ صلی الیہ کم ہیں.قیصر کی شہنشاہی: (3) آپ نے آنحضور صلی علی نظم کی عظمت شان میں یہ دلیل بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ قیصر جو نبی صلی ال نیم کے پاؤں دھونے کی تمنا کرتا تھا کوئی معمولی بادشاہ نہیں تھا بلکہ اپنے زمانہ میں اس کو جو طاقت حاصل تھی وہ اس دور میں سلطنت برطانیہ کی ملکہ کو بھی حاصل نہیں تھی.جیسا کہ فرمایا: کیا آپ کو خبر نہیں کہ قیصر روم جو آنجناب کے وقت میں عیسائی بادشاہ اور اس گورنمنٹ سے اقبال میں کچھ کم نہ تھاوہ کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ سعادت حاصل ہو سکتی کہ میں اس عظیم الشان نبی کی صحبت میں رہ سکتا تو میں آپ کے پاؤں دھویا کرتا...تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس کی طاقت کے برابر اور کوئی طاقت دنیا میں موجود نہ تھی ہماری گورنمنٹ تو اس درجہ تک نہیں پہنچی پھر جبکہ قیصر باوجود اس شہنشاہی کے آہ کھینچ کر یہ بات کہتا ہے کہ اگر میں اس عالی جناب کی خدمت میں پہنچ سکتا تو آنجناب مقدس کے پاؤں دھویا کرتا“ (نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 382،383) تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہور نبوی کے زمانہ میں عرب کے ارد گرد دو بڑی سلطنتیں رومی ( باز نطینی سلطنت اور دوسری ایرانی سلطنت تھیں.انکے ہم پلہ اس وقت اور کوئی سلطنت نہ تھی.جس زمانہ میں اسلام کا ظہور ہوا اس وقت یہ دونوں حکومتیں بر سر پیکار تھیں اور فارسی حکومت مسلسل رومی حکومت پر غالب آرہی تھی.اس زمانہ میں کسری شاہ ایران نے رومیوں کی مقدس صلیب بھی اپنے قبضہ میں لے لی تھی.(4) لیکن 625ء میں رومی حکومت کا عروج دوبارہ عروج شروع ہوا اور ایرانی سلطنت مغلوب ہونے لگی.حتی کہ رومی حکومت ایرانی حکومت کے اندر داخل ہو گئی.گویا اب رومی حکومت سب سے بڑی اور طاقتور سلطنت تھی.اور اتنی عظیم سلطنت کا بادشاہ بھی حضرت محمد صلی علی یم کے پاؤں دھونے کی تمنا کرتا تھا.(5) 176

Page 200

کسری کے نام خط: ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کے نام جو خط لکھا گیا اس کے بارے فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط پہنچنے پر اُس نے بہت غصہ ظاہر کیا اور حکم دیا کہ اُس شخص کو گرفتار کر کے میرے پاس لانا چاہیئے.تب اس نے صوبہ یمن کے گورنر کے نام ایک تاکیدی پروانہ لکھا کہ وہ شخص جو مدینہ میں پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے جس کا نام محمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کو بلا توقف گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو.اس گورنر نے اس خدمت کے لئے اپنے فوجی افسروں میں سے دو مضبوط آدمی متعین کئے کہ تاوہ کسریٰ کے اس حکم کو بجالا دیں.جب وہ مدینہ میں پہنچے اور اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ظاہر کیا کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ آپ کو گر فتار کر کے اپنے خداوند کسری کے پاس حاضر کریں تو آپ نے اُن کی اِس بات کی کچھ پرواہ نہ کر کے فرمایا کہ میں اِس کا گل جواب دوں گا.دوسری صبح جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے خداوند نے تمہارے خداوند کو (جس کو وہ بار بار خداوند خداوند کر کے پکارتے تھے ) اسی کے بیٹے شیر ویہ کو اُس پر مسلط کر کے قتل کر دیا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب یہ لوگ یمن کے اُس شہر میں پہنچے جہاں سلطنت فارس کا گورنر رہتا تھا تو ابھی تک اُس گورنر کو کسری کے قتل کئے جانے کی کچھ بھی خبر نہیں پہنچی تھی اس لئے اُس نے بہت تعجب کیا مگر یہ کہا کہ اِس عدول حکمی کے تدارک کے لئے ہمیں جلد تر کچھ نہیں کرنا چاہیئے جب تک چند روز تک پایۂ سلطنت کی ڈاک کی انتظار نہ کر لیں.سو جب چند روز کے بعد ڈاک پہنچی تو اُن کا غذات میں سے ایک پروانہ یمن کے گورنر کے نام نکلا جس کو شیر و یہ کسری کے ولی عہد نے لکھا تھا.مضمون یہ تھا کہ "خسرو میرا باپ ظالم تھا اور اُس کے ظلم کی وجہ سے اُمورِ سلطنت میں فساد پڑتا جاتا تھا اس لئے میں نے اُس کو قتل کر دیا ہے.اب تم مجھے اپنا شہنشاہ سمجھو اور میری اطاعت میں رہو.اور ایک نبی جو عرب میں پیدا ہوا ہے جس کی گرفتاری کے لئے میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا اُس حکم کو بالفعل ملتوی رکھو“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15، صفحہ 376 تا 377) اس جگہ اس بات کا جتلا دینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ خسرو پرویز کے وقت میں اکثر حصہ عرب کا پایہ تخت ایران کے ماتحت تھا اور گو عرب کا ملک ایک ویرانہ سمجھ کر جس سے کچھ خراج حاصل نہیں ہو سکتا 177

Page 201

تھا چھوڑا گیا تھا مگر تاہم بگفتن وہ ملک اسی سلطنت کے ممالک محروسہ میں سے شمار کیا جاتا تھا لیکن سلطنت کی سیاست مدنی کا عرب پر کوئی دباؤ نہ تھا اور نہ وہ اس سلطنت کے سیاسی قانون کی حفاظت کے نیچے زندگی بسر کرتے تھے بلکہ بالکل آزاد تھے اور ایک جمہوری سلطنت کے رنگ میں ایک جماعت دوسروں پر امن اور عدل اپنی قوم میں قائم رکھنے کے لئے حکومت کرتی تھی جن میں سے بعض کی رائے کو سب سے زیادہ نفاذ احکام میں عزت دی جاتی تھی اور اُن کی ایک رائے کسی قدر جماعت کی رائے کے ہم پلہ سمجھی جاتی تھی.سو بد قسمتی سے کسری کو اس اشتعال کا یہ بھی باعث ہوا کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رعایا میں سے ایک شخص سمجھا لیکن اس معجزہ کے بعد جس کا ذکر متن میں کیا گیا ہے قطعی طور پر حکومت فارس کے تعلقات ملک عرب سے علیحدہ ہو گئے اُس وقت تک کہ وہ تمام ملک اسلام کے قبضہ میں آگیا“ ( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15، حاشیہ صفحہ 376) ایک خبیث اور پلید دل بادشاہ کسری ایران کے فرمان روانے غصہ میں آکر آپ کے پکڑنے کے لئے سپاہی بھیج دیئے وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کا حکم ہے آپ نے اس بے ہودہ بات سے اعراض کر کے فرمایا تم اسلام قبول کرو.اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے کہ ہم جواب ہی لے جائیں حضرت نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا.صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند خداوند کہتے ہو.وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیر ویہ کو اس پر مسلط کر دیا سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے.یہ بڑا معجزہ تھا.اس کو دیکھ کر اُس ملک کے ہزار ہا لوگ ایمان لائے کیونکہ اسی رات در حقیقت خسرو پرویز یعنی کسری مارا گیا تھا اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے چنانچہ ڈیون پورٹ صاحب بھی اس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھتا ہے“ ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 385، 386) 178

Page 202

اسی پاک زندگی کے ثبوت کے لئے ایک اور تاریخی واقعہ ہے جو مسلمانوں کی کتابوں میں متواترات سے ہے اور وہ یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کی طرف خط لکھے کہ میں خدا کار سول ہوں تم مجھ پر ایمان لاؤ تو منجملہ ان بادشاہوں کے خسرو پرویز بھی تھا جو اپنے تئیں اور عرب کا بادشاہ سمجھتا تھا وہ اس خط کو سن کر بہت ناراض ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب خیال کر کے گرفتاری کا حکم دیا کیونکہ عرب کا ملک بھی اس کی حکومت کے متعلق تھا جو یمن کے صوبہ کے ماتحت تھا جب اس کے سپاہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گر فتار کرنے کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا کہ کل صبح جواب دوں گا.جب وہ صبح کے وقت حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم کس کے پاس مجھے لے جانا چاہتے ہو آج رات میرے خداوند نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے اور قتل کے لئے اس کے بیٹے کو اس پر مسلط کیا.پس پاک زندگی اس کو کہتے ہیں جس کے لئے خدا دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے کیا وید کے رشیوں میں اس کا کوئی نمونہ ہے.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 حاشیہ صفحہ 175) حضور نے ان واقعات سے سیرت النبی صلی الی نام کے انمول پہلوؤں کو واضح فرمایا ہے.اسلامی لٹریچر میں ان واقعات کے دیگر کوائف تفصیل سے ملتے ہیں.مثلاً بخاری کتاب العلم میں بھی جس کا ذکر آپ نے فرمایا ہے.یہ واقعات ایسے ہیں کہ غیر مسلم مورخین بھی انکو درج کئے بغیر نہیں رہ سکے.مثلاً مسٹر گیب نے لکھا: While the Persian monarch contemplated the wonders of his art and power, he received an epistle from an obscure citizen of Mecca, inviting him to acknowledge Mahomet as apostel of God.He rejected the invitation and tore the epistle."It is thus," exclaimed the Arabian prophet "that God will tear the kingdom and reject the supplications of Chosroes." Placed on the verge of the two great empires of the east, Mahomet observed with secret joy the progress of the mutual destruction; and in the midst of the Persian triumphs he ventured to fortell, that before many years should elapse, victory would again return to the banners of the Romans.At the time when this prediction is said to have been delivered, no prophesy could be 179

Page 203

more distant from its accomplishment, since the first twelve years of Heraclius announced the approaching dissolution of the empire.If the motives of Chosroes had been pure and honorable he must have ended the quarrel with the death of Phocas, and he would have embraced, as his best ally, the fortunate African who had so generously avenged the injuries of his benefactor Maurice.(6) فلا كسرى بعده حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کسری سے متعلق آنحضور مالی کیم کی ایک اور پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” اور حدیث شریف میں آیا ہے کراذا هلک کسری فلا کسری بعدہ.یعنی جب کسری ہلاک ہو جائے گا تو دوسرا کسری پیدا نہیں ہو گا جو ظلم اور جور و جفا میں اُس کا قائم مقام ہو.اس حدیث سے استنباط ہو سکتا ہے کہ کسی بد زبان اور فحش گو اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرنے کے بعد جو کسی قوم میں ہو پھر ایسی ہی خصلت کا کوئی اور انسان اُس قوم کے لئے پیدا ہونا خیال محال ہے کیونکہ خدا ہمیشہ اپنے راستبازوں کی نسبت گالیاں اور گندہ زبانی سنتا نہیں چاہتا“ ( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 379) تاریخ نے یہ بات بھی ثابت کی اور مستشرقین نے اس حقیقت کا اقرار کیا ہے جیسا کہ لکھا ہے Chosroes II., known as Parvez, grandson of Chosroes 1.(AD 590- 628), conquered Jerusalem and carried off the True Cross, afterwards restored under the empire Heraclius.This was the last great king of the Sassanian Denasty.Four years after his death the ill-starred Yazadgird III.(A.D.632-651), the last of his race, acceded and in the last-named year had the unhappiness to witness the final conquest of his kingdom by the Muslims, he himself perishing miserably by the hand of an assassin.(7) 180

Page 204

اسی طرح ایک اور جگہ لکھا ہے During Khusraw's reign Persia was reduced to a state of chaos.He was killed during a revolt of his generals, his eldest son being proclaimed king.(8) فتح خیبر : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں اس غزوہ کے متعلق تفصیلات موجود نہیں لیکن ایک جگہ پیشگوئیوں میں ماضی کا صیغہ استعمال ہونے کے بارہ میں ایک علمی بحث کے ضمن میں اس غزوہ کا ذکر فرمایا ہے.عن انس رضی اللہ عنہ قال قال النبی خربت خيبر.انا اذا نزلنا بساحتِ قوم فَساء صباح المنذرين - خیبر پر فتح پانے سے پہلے آنحضرت علی ایم نے فرمایا تھا کہ خیبر خراب ہو گیا اور ہم جب کسی قوم کے صحن میں اتریں پس اس قوم کی نامبارک صبح ہے جو ڈرائی گئی.پاس آپ نے اس جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کیا.اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ خراب ہو گا“ (ضمیمه بر این احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 171) خیبر کی فتح کی پیشگوئی 5ھ میں خندق کھودتے ہوئے ہو گئی تھی.لیکن اس کے حالات 7ء میں پیدا ہوئے.بیان کیا جاتا ہے کہ غزوہ خیبر کے موقعہ پر آنحضور صلی علیم اپنی فوج کے ساتھ رات کے وقت خیبر کے میدان میں پہنچے اور صبح ہوتے ہی صف بندی کر لی گئی.لیکن جنگ کا آغاز نہیں کیا.صبح جب اہل خیبر اپنے کام کاج کے لئے نکلے تو انہوں نے اچانک اسلامی لشکر کو محاصرہ کئے ہوئے پایا.اور انہوں نے بے ساختہ کہا محمد والله محمد خدا کی قسم محمد اپنی فوج کے ساتھ ( آپہنچے) آنحضرت صلی اللہ تم نے بلند آواز کہا خربت خيبر.انا اذا نزلنا والخميس بساحة قوم فساء صباح المُنذَرينَ اللہ اکبر خیبر اجڑ گیا.جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اترتے ہیں تو وہ صبح متنبہ کی گئی قوم کے لئے بہت بری ہوتی ہے.(9) 181

Page 205

فتح مکہ: تاریخ کی کتب میں بڑی تفصیل سے وہ حالات و واقعات درج ہیں جو بظاہر فتح مکہ کا باعث بنے تھے.جسکا خلاصہ یہ ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کی ایک شرط کی خلاف ورزی اہل مکہ نے کی اور اس کے نتیجہ میں مدینہ کے مسلمانوں کو مکہ پر چڑھائی کرنی پڑی.اس طرح آنحضور صلی تعلیم اپنے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے.اور اہل مکہ کے لئے اس مقابلہ کی کوئی راہ نہیں تھی.ان حالات و واقعات کا تفصیل سے ذکر کرنا اس لئے یہاں ضروری نہیں کہ یہ بہت سی کتب میں مذکور ہیں اور مشہور واقعات ہیں.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فتح مکہ کے متعلق سیرت النبی صلی ایم کے اہم بلکہ بہت حسین پہلوؤں کو بیان فرمایا ہے.فتح مکہ قوت قدسی کا شمر : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان ارشادات میں ایک نہایت اہم نکتہ یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ تمام حالات جو فتح مکہ پر منتج ہوئے دراصل آنحضور صل ال نیم کی دعاؤں کا نتیجہ تھے.یہ تمام واقعات یعنی معاہدہ حدیبیہ ، اور اسکی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کا بنو خزاعہ پر حملہ اور مسلمانوں کی فوج کا نہایت راز داری سے مکہ تک پہنچ جانا اور اہل مکہ پر توحید کا مضمون کھل جانا اور انکا بت پرستی سے بیزار ہو کر توحید پر قائم ہو جانا وغیرہ سب اعلیٰ درجہ کی قوت قدسی اور اللہ تعالیٰ سے شدید تعلقات کا نتیجہ تھا.جیسا کہ فرمایا: آنحضرت علی الم کی دُعائیں دنیا کے لیے نہ تھیں بلکہ آپ کی دُعائیں یہ تھیں کہ بت پرستی دُور ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو اور یہ انقلاب عظیم میں دیکھ لوں کہ جہاں ہزاروں بت پوجے جاتے ہیں وہاں ایک خدا کی پرستش ہو.پھر تم خود ہی سوچو اور مکہ کے اس انقلاب کو دیکھو کہ جہاں بت پرستی کا اس قدر چر چاتھا کہ ہر ایک گھر میں بت رکھا ہوا تھا.آپ کی زندگی ہی میں سارا مکہ مسلمان ہو گیا اور ان بتوں کے پجاریوں ہی نے ان کو توڑا.اور ان کی مذمت کی.یہ حیرت انگیز کامیابی یہ عظیم الشان انقلاب کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتا.جو ہمارے پیغمبر ملا ہم نے کر کے دکھایا.یہ کامیابی آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوت قدسی اور اللہ تعالیٰ سے شدید تعلقات کا نتیجہ تھا“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 524-525) 182

Page 206

انہدام اصنام بیان کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضور صلی اللی انم نے اپنے ہاتھ سے انہدام اصنام کیا تھا.اس پر بعض غیر مسلم مورخین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کسی قوم کی مذہبی آزادی کے خلاف اقدام تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان ارشادات میں ایک جملہ میں اس اعتراض کا کافی وشافی جواب فرما دیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ ”آپ کی زندگی ہی میں سارا مکہ مسلمان ہو گیا اور ان بتوں کے پجاریوں ہی نے ان کو توڑا.اور ان کی مذمت کی“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 3 صفحہ 525,524) کرد ثابت بر جهان عجز بتان دا نموده زور آن یک قادری اس نے دنیا پر بتوں کا عجز ثابت کر دیا اور خدائے واحد کی طاقت کھول کر دکھا دی.فتح مکہ کے ساتھ ہی اہل مکہ کا اپنے بتوں پر ایمان جاتارہا تھا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اگر بتوں میں کوئی طاقت ہوتی تو اس دن وہ ضرور انکی مدد کرتے.جیسا کہ لکھا ہے کہ جب آنحضور صلی علیہم نے ابو سفیان کو کہا الم يانِ لَكَ انْ تعلمَ انَّهُ لَا الہ الا الله کیا ابھی بھی تم پر وقت نہیں آیا کہ جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے جواب دیا میں بالکل سمجھ چکا ہوں کہ اللہ کے سوا اگر کوئی معبود ہو تا تو ہماری کچھ مدد تو کرتا.(10) ابوسفیان تو سر داران مکہ میں سے تھا لیکن ملکہ کے اکثر لوگ تو اس سے بھی پہلے توحید پر قائم ہو چکے تھے.عملا مکہ میں بتوں کا پجاری کوئی بھی نہ رہا تھا.انہی لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بتوں کو توڑ ڈالا.یہاں تک کہ کچھ ہی دن بعد جب غزوہ حنین ہو ا اس میں تمام اہل مکہ اسلام کے جھنڈے تلے آکر مشرکین سے نبرد آزما ہو رہے تھے.لا تثريب عليكم اليوم فتح مکہ کے موقعہ پر عفو عام تاریخ عالم کا ایک درخشاں پہلو ہے.اس کے متعلق سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ جب مکہ والوں نے آپ کو نکالا اور تیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفیں آپ کو پہنچاتے رہے آپ کے صحابہ کو سخت سخت تکلیفیں دیں جن کے تصور سے بھی دل کانپ 183

Page 207

جاتا ہے.اس وقت جیسے صبر اور برداشت سے آپ نے کام لیا وہ ظاہر بات ہے.لیکن جب خدا تعالی کے حکم سے آپ نے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کا موقع ملا تو اس وقت ان تکالیف اور مصائب اور سختیوں کا خیال کر کے جو مکہ والوں نے تیرہ سال تک آپ اور آپ کی جماعت پر کی تھیں آپ کو حق پہنچتا تھا کہ قتل عام کر کے مکہ والوں کو تباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپ پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ ان تکالیف کے لئے وہ واجب القتل ہو چکے تھے اس لئے اگر آپ میں قوت غضبی ہوتی تو وہ بڑا عجیب موقع انتقام کا تھا کہ وہ سب گرفتار ہو چکے تھے مگر آپ نے کیا کیا؟ آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور کہا لا تثریب علیکم الیوم.یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے مکہ کی مصائب اور تکالیف کے نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح اپنے جانستاں دشمنوں کو معاف کیا جاتا ہے یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی.یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ مکہ والوں نے آپ کی نری تکذیب نہیں کی تھی.نری تکذیب سے جو محض سادگی کی بناء پر ہوتی ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالی سزائیں نہیں دیتا ہے لیکن جب مکذب شرافت اور انسانیت کی حدود سے نکل کر بے حیائی اور دریدہ دہنی سے اعتراض کرتا ہے اور اعتراضوں ہی کی حد تک نہیں رہتا بلکہ ہر قسم کی ایذا دہی اور تکلیف رسانی کے منصوبے کرتا ہے اور پھر اس کو حد تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالی کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اپنے مامور اور مرسل کے لئے وہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیتا ہے، جیسے نوح کی قوم کو ہلاک کیا یا لوط کی قوم کو اس قسم کے عذاب ہمیشہ ان شرارتوں اور مظالم کی وجہ سے آتے ہیں جو خدا کے ماموروں اور ان کی جماعت پر کئے جاتے ہیں؛ ورنہ نری تکذیب کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس نے ایک اور عالم عذاب کے لئے رکھا ہے.عذاب جو آتے ہیں وہ تکذیب کو ایڈا کے درجے تک پہنچانے سے آتے ہیں اور تکذیب کو استہزاء اور ٹھٹھے کے رنگ میں کر دینے سے آتے ہیں اگر نرمی اور شرافت سے یہ کہا جاوے کہ میں نے اس معاملہ کو سمجھا نہیں اس لئے مجھے اس کے ماننے میں تامل ہے تو یہ انکار عذاب کو کھینچ لانے والا نہیں ہے کیونکہ یہ تو صرف سادگی اور کمی علم کی وجہ سے ہے میں سچ کہتا ہوں کہ اگر نوح کی قوم کا اعتراض شریفانہ رنگ میں ہو تا تو اللہ تعالیٰ نہ پکڑ تا ساری قومیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں سزا پاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن سننے کے لئے آتے ہیں.ان کو امن کی جگہ تک پہنچا دیا جاوے خواہ وہ مخالف اور منکر ہی ہوں اس لئے کہ اسلام میں جبر اور اکراہ نہیں جیسے فرمایا: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: 257) لیکن اگر 184

Page 208

کوئی قتل کرے گا یا قتل کے منصوبے کرے گا اور شرارتیں اور ایذارسانی کی سعی کرتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ سزا پادے.قاعدہ کی بات ہے کہ مجرمانہ حرکات پر ہر ایک پکڑا جاتا ہے پس مکہ والے بھی اپنی شرارتوں اور مجرمانہ حرکات کے باعث اس قابل تھے کہ ان کو سخت سزائیں دی جاتیں اور ان کے وجود سے اس ارض مقدس اور اس کے گردو نواح کو صاف کر دیا جاتا مگریہ رحمة للعالمین اورانک لعلیٰ خلق عظیم کا مصداق اپنے واجب القتل دشمنوں کو بھی پوری قوت اور مقدرت کے ہوتے ہوئے کہتا ہے لَا تَثْرِيبَ عَلَيكُم اليوم “ ابوسفیان ایک کم فراست والا آدمی: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 2 صفحہ 118 تا 119) تاریخی واقعات کی روشنی میں شخصیات کی طبائع و مزاج اور فراست و سفاحت پر تبصرہ آپ کی تحریرات کا ایک نہایت دلچسپ پہلو ہے جس کا اظہار بعض تحریرات میں ہوا ہے.جیسے ابوسفیان کے متعلق فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو سفیان ایک بڑا ضعیف القلب اور کم فراست والا آدمی تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فتح پائی تو اسے کہا کہ تجھ پر واویلا.اس نے جواب میں کہا کہ اب سمجھ آگئی ہے کہ تیرا اخد ا سچا ہے اگر ان بتوں میں کچھ ہو تا تو یہ ہماری اس وقت مدد کرتے.پھر جب اسے کہا گیا کہ تو میری نبوت پر ایمان لاتا ہے؟ تو اس نے تردد ظاہر کیا اور اس کی سمجھ میں توحید آئی.نبوت نہ آئی.بعض مادے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں فراست کم ہوتی ہے جو توحید کی دلیل تھی وہی نبوت کی دلیل تھی مگر ابو سفیان اس میں تفریق کرتارہا.اسی طرح سعید لوگوں کے دلوں میں اثر پڑ جائے گا سب ایک طبقہ کے انسان نہیں ہوتے.کوئی اول جیسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ.کوئی اوسط درجہ کے.کوئی آخری درجہ کے “ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن جلد 2 صفحہ 551) ابو سفیان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ کتب سیرت میں مذکور ہے اس سے مندرجہ بالا ارشاد کی وضاحت ہو جاتی ہے.جیسا کہ لکھا ہے کہ جب آنحضور صلی الی یکم نے ابو سفیان کو کہا آلم یانِ لكَ ان تعلَمَ إِنَّهُ لا اله الا اللہ کیا ابھی بھی تم پر وقت نہیں آیا کہ جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے جواب دیا میں بالکل سمجھ چکا ہوں کہ اللہ 185

Page 209

کے سوا اگر کوئی معبود ہو تا تو ہماری کچھ مدد تو کرتا.پھر اس سے پوچھا الم یانِ لَكَ أَنْ تَعلَمَ أَنِّي رسول الله تو اس نے کہا اس میں مجھے ابھی کچھ تردد ہے.اس کے دو ساتھی حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء اسی وقت مسلمان ہو گئے.(11) الغرض یہ واقعہ اور اسی طرح بعض اور واقعات اس کی ضعیف قلبی اور کم فراستی پر دلالت کرتے ہیں.مثلاً غزوہ سویق میں واپسی پر پکڑے جانے کے خوف سے ابو سفیان بھا گا اور اپنے اونٹ پر سے ستو کے تھیلے گر ا گیا تا کہ بوجھ ہلکا ہو اور تیزی سے بھاگ جائے.(12) اسی طرح غزوہ خندق میں آندھی والی شب سب سے پہلے ابوسفیان گھبر اکر بھاگا تھا جسے دیکھ کر باقی لشکر نے بھی راہ فرار لی.غزوہ حنین: (13) غزوہ حنین کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں بیان فرمایا ہے کہ ”جنگ حنین میں حضرت رسول کریم صلی ا یکم اکیلے رہ گئے.اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرت کی شجاعت ظاہر ہو.جبکہ حضرت رسول کریم صلی ال ان دس ہزار کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہو گئے.کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقعہ نہیں ملا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 512) محضرت علم کی مکی زندگی ایک عجیب نمونہ ہے اور ایک پہلو سے ساری زندگی ہی تکالیف میں گزری.جنگ حنین میں آپ اکیلے ہی تھے.لڑائی میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی نسبت رسول اللہ ظاہر کرنا آپ کی کس درجہ کی شوکت، جرآت اور استقامت کو بتاتا ہے“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 517-518) ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ نبوت کا دعوی کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں.کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے.مگر زخم خفیف تھے.یہ خُلق عظیم تھا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 84) 186

Page 210

”جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلین جنگ احد میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے میں محمد ہوں.میں نبی اللہ ہوں.میں ابن عبد المطلب ہوں “[ نوٹ : سہو ہے یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے.شمس ] اس غزوہ میں مسلمانوں کی حالت کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہے نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 406) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ.ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (التوبه:25-27) یقینا اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے اور (خاص طور پر) حنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تمہیں تکبر میں مبتلا کر دیا تھا.پس وہ تمہارے کسی کام نہ آسکی اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے.پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوا کرتی ہے.پھر اس کے بعد بھی اللہ جس پر چاہے گا تو بہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی للی نما بھی مکہ میں ہی تھے کہ اطلاعات ملیں کہ حنین اور طائف کے قبائل مکہ پر حملہ کی پوری تیاری اور ارادہ کر چکے ہیں بلکہ انکی طرف سے کھلم کھلا دھمکیاں بھی ملنی شروع ہوئیں.جن میں انکے سردار مالک بن عوف نصری کی طرف سے ان قبائل میں اسلام دشمنی کی ایک روح پھونک دی گئی تھی.آنحضور صلی علیکم نے مسلمانوں کو حسین کی طرف پیشقدمی کا حکم فرمایا شوال کو اسلامی فوج جسکی تعداد بارہ ہزار تھی حنین کی طرف بڑھی اس فوج میں دو ہزار کی تعداد میں مکہ کے نو مسلم اور اسی غیر مسلم بھی شامل ہوئے.یہ دونوں گر وہ پہلی دفعہ اسلامی فوج کا حصہ بنے تھے.اس لئے انکو اسلامی آداب جنگ اور اسلامی تعلیمات کا پوری طرح سے علم نہیں تھا.یہی وجہ تھی کہ ان میں سے کسی نے اتنی بڑی تعداد میں اپنی فوج دیکھ کر یہ کہہ دیا کہ لن نغلب اليوم 187

Page 211

بقلتنا.یعنی آج ہم اپنی قلت کی حالت میں غالب نہیں آئیں گے بلکہ بزور طاقت فتحمند ہوں گے.(14) خدا تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اور ایسے حالات پید اہوئے کہ ابتدا میں اسلامی لشکر کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا.دشمن کی اچانک تیر اندازی سے اسلامی لشکر پراگندہ ہو گیا.اور اکثر نو مسلم میدان جنگ سے بھاگ گئے.اور باقی مخلص مہاجرین کے در میان اور رسول اللہ صلی الم کے درمیان دشمن کی فوج حائل ہو گئی.اور باوجود کوشش کے بھی وہ رسول اللہ صلی الی یکم تیک حفاظت کے لئے نہ پہنچ سکے.یہاں تک کہ ایک موقعہ پر آنحضور صلی الہ یکم اکیلے تن تنہا میدان جنگ میں تھے اور یہ شعر پڑھتے تھے انا النبئ لا كذب انا ابنُ عبد المطلب کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اللہ کار سول ہوں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.(15) یہ حالات پیدا ہونے کی حکمت آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ: ”جنگ حنین میں حضرت رسول کریم صلی اللہ یکم اکیلے رہ گئے.اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرت کی شجاعت ظاہر ہو.جبکہ حضرت رسول کریم ملی ا یکم دس ہزار کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہو گئے.کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقعہ نہیں ملا“ نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ : اہل نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے متعلق فرمایا ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 512) فراست بھی ایک چیز ہے.جیسا کہ ایک یہودی نے آنحضرت صلی کم کو دیکھتے ہی کہ دیا کہ میں ان میں نبوت کے نشان پاتا ہوں اور ایسا ہی مباہلہ کے وقت عیسائی آنحضرت ملی الم کے مقابل پر نہ آئے کیونکہ انکے مشیر نے ان کو کہہ دیا تھا کہ میں ایسے منہ دیکھتا ہوں کہ اگر وہ پہاڑ کو کہیں کہ یہاں سے ٹل جاتو وہ ٹل جائے گا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 259) اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکا را بیگانہ محض پر بھی جا پڑتا ہے.جیسے ایک عیسائی نے جبکہ مباہلہ کے لئے آنحضرت صلی ا م مع حسنین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم عیسائیوں کے سامنے آئے دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو.مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ 188

Page 212

دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جاتو فی الفور اُٹھ جائے گا.سو خدا جانے کہ اس وقت نور نبوت و ولایت کیسا جلال میں تھا کہ اس کا فر بد باطن سیہ دل کو بھی نظر آگیا“ (مکتوبات احمد جدید ایڈیشن.جلد 1 صفحہ 563،562 مکتوب نمبر 27 بنام سید میر عباس علی شاہ صاحب) معاہدہ حدیبیہ کے بعد سات ہجری میں آنحضور صلی اللی رام نے نجران کے عیسائیوں کو تبلیغ کے لئے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا.ان کے ساتھ مباحثہ ہوا لیکن عیسائی مطمئن نہ ہو سکے.اسکے کچھ عرصہ بعد آنحضور صلی ا ہم نے نجرانیوں کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ اسلام قبول کر لو.اور اگر اسلام قبول نہ ہو تو سیاسی اطاعت قبول کر لو.اہل نجران نے باہم مشورہ کے بعد ایک وفد مدینہ بھیجا.یہ وفد 9 ہجری کو مدینہ آیا اس میں انکے اہم مذہبی رہنماوں کے ساتھ لارڈ بشپ جس کا نام ابو حارثہ تھا بھی آیا تھا.انکی کل تعداد ساٹھ تھی.آنحضور صلی الم نے ان لوگوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا.جب ان کی عبادت کا وقت ہوا تو آنحضور صلی اللہ ہم نے انکو مسجد نبوی میں ہی عبادت کی اجازت فرمائی اور انہوں نے مسجد میں ہی اپنے طریق کے مطابق عبادت کی.(16) اس قیام کے دوران انکی آنحضور صلی انیم سے دینی بحث بھی ہوئی لیکن باوجود مدلل جواب سننے کے انکی تسلی نہ ہوئی.اسی قیام کے دوران سورۃ آل عمران کی آیات مباہلہ نازل ہوئیں : فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران : 62) ترجمہ : اب جو شخص تیرے پاس علم (البی) کے آچکنے کے بعد تجھ سے اس کے متعلق بحث کرے تو تُو (اسے) کہہ دے (کہ) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو ، اور ہم اپنے نفوس کو اور تم اپنے نفوس کو، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.(ترجہ از تفسیر صغیر) ان آیات کے نزول کے بعد آپ صلی علی کریم نے ان عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی.پہلے تو انہوں نے اس کو قبول کر لیا.لیکن پھر جب انکے بعض اشخاص پر آنحضور صلی اللہ یکم اور صحابہ کے مقام روحانیت کی چمکار پڑی تو وہ خائف ہو کر مباہلہ سے رُک گئے.جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ بالا ارشاد میں فرمایا ہے.تاریخ الخمیس میں ان کے یہ الفاظ درج ہیں کہ فوالله لان كان نبياً فَلاعناه يعنى باهلناه لا تفلح ولا عقبنا من بعدنا ابدا (17) اسی طرح درج ہے کہ ایک شخص نے یہ بھی کہا فقال أسقفهم يا معشر النصري إلى لارى وجُوهاً سَالُوا تعلى أَن يَزِيلَ جَبَلًا عن مكانهِ لَأَزَالَهُ فَلَا تَباهَلُوا یعنی ان کے سردار نے کہا اے نصاری مجھ کو پروردگار کی الله 189

Page 213

(18) قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جاتو فی الفور اُٹھ جائے گا.آنحضور صل الم نے فرمایا کہ والذي نفسي بيدهِ لَو تَباهَلُوا لَمَسَحُوا قِرَدَةً و خَنازيرًا ولاضطرمَ الوادى ناراً عليهم بنجران و اهلي حتى الطير على الشَّجَرَةِ (19) یعنی اگر اہل نجران مباہلہ کرتے تو قسم اس ذت کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.تو وہ بندروں اور سوروں کی طرح مارے جاتے اور وادی ان پر آگ برساتی کہ انکے اہل خانہ بھسم ہو جاتے اور انکے درختوں کے پرندے بھی مارے جاتے.پس اہل نجران نے مباہلہ سے اعراض کیا اور معاہدہ اطاعت کے ساتھ واپس چلے گئے.حج فتح مکہ کے بعد آنحضور صلی یک کم کی ہدایت ہے؟ میں اسلامی طریق پر پہلا حج ادا کیا گیا.تیرہ سالہ مکی دور میں امن کے ساتھ اسلامی طریق پر حج کی ادائیگی ممکن نہ تھی.اس لئے آنحضور صلی ایم نے اس دور میں حج ادا نہیں کیا.مکی دور میں حج : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.حضرت علی ایک سو سال مکہ میں رہے آپ نے کتنی دفعہ حج کئے تھے ؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا“ (ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 280) صحیحین میں بھی مکی دور کے کسی حج کے واقعات و حالات مذکور نہیں ہیں جن سے مکی دور میں آنحضور صلی اللہ ہم کی ادائیگی حج ثابت ہو.کتب تاریخ وسیرت کی چند روایات میں مکی دور کے حج کی تعداد میں اختلاف ہے.مثلاً سیرت الحلبیہ میں ایک حج، دو یا تین حج اور اسی طرح ہر سال حج ادا کرنے کے متعلق بھی روایات مذکور ہیں (20) طبری نے بھی ایک حج، دو یا تین حج ادا کرنے کے متعلق بھی روایات درج کی ہیں.( تاریخ الامم و الملوک از محمد ابن جریر الطبری، عد د حج فی مکہ ) الطبقات الکبرای لابن سعد نے مکی دور میں عمروں کا ذکر کیا ہے حج کا ذکر نہیں کیا.کعبہ کے ساتھ آنحضور صلی اللہ ہم کو محبت تھی.آپ صلی یم کی مکی دور کی زندگی کعبہ کے گرد و نواح میں گزری.روایات میں عمروں اور طواف کا بھی ذکر ملتا ہے.لیکن حج کے واقعات کا کوئی ذکر نہیں.یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ نے آنحضور صلی علی نظم کو حج 190

Page 214

کرتے دیکھا ہو اور حج کے واقعات کی تفصیلات کا ذکر نہ کیا ہو.مکی دور کے حج کی تفصیلات کی عدم دستیابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ حضرت علی کم سو سال مکہ میں رہے آپ نے کتنی دفعہ حج کئے تھے ؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا“ حجة الوداع: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 280) فتح مکہ کے بعد آنحضور صلی علیم کی ہدایت سے؟ میں اسلامی طریق پر پہلا حج ادا کیا گیا.اس حج میں خود آنحضور صلی علیکم نے شرکت نہیں فرمائی لیکن اپنی نمائندگی میں حضرت ابو بکر صدیق کو حج کے تمام امور کی تفصیلات بتا کر امیر الحجاج مقرر فرما کر بھیجا.اس حج کو قرآن کریم میں حج اکبر کا نام دیا گیا ہے.اسے حج اکبر اس لئے کہا گیا کہ یہ وہ پہلا حج تھا جو کعبہ کی بتوں سے تطہیر کے بعد خالص اسلامی نظام اور طریق پر ہوا.اس سے اگلے سال آنحضور صلی الیکم بنفس نفیس حج کے لئے تشریف لے گئے.اس حج کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے.آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اس حج میں شامل ہوئی.اس حج میں آنحضور صلی اللہ ہم نے تکمیل دین اور اتمام نعمت کا اعلان فرمایا.اور عرفہ کا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا.اس کے متعلق حضور نے تحریر فرمایا: ب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر اعلان دے دیا کہ یہ سورت میری وفات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ اس کے بعد حج کیا اور اس کا نام حجتہ الوداع رکھا اور ہزار ہالوگوں کی حاضری میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ سنو ! اے خدا کے بندو! مجھے میرے رب کی طرف سے یہ حکم ملے تھے کہ تا میں یہ سب احکام تمہیں پہنچا دوں پس کیا تم گواہی دے سکتے ہو کہ یہ سب باتیں میں نے تمہیں پہنچا دیں.تب ساری قوم نے بآواز بلند تصدیق کی کہ ہم تک یہ سب پیغام پہنچائے گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اے خدا ان باتوں کا گواہ رہ اور پھر فرمایا کہ یہ تمام تبلیغ اس لئے مقرر کی گئی کہ شاید آئندہ سال میں تمہارے ساتھ نہیں ہونگا ( نور القرآن نمبر 1 ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 365 تا 367) 191

Page 215

سورة النصر کا نزول، قرب وصال کی پیشگوئی اور اعلان: فتح مکہ کے بعد سورۃ النصر کا نزول ہوا.اس سورۃ میں بظاہر عظیم فتوحات کا ذکر ہے لیکن اسی سورۃ میں آنحضور کے قرب وصال کی خبر بھی پنہاں تھی جسکا اظہار خود آنحضور نے بھی فرما دیا تھا.اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں ”دیکھو جب تک کفار مکہ کی مخالفت کا زور و شور رہا اس وقت تک بڑے بڑے اعجاز ظاہر ہوئے لیکن جب إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا (النصر: 2)کا وقت آیا اور یہ سورۃ اتری تو گویا آپ کے انتقال کا وقت قریب آگیا.فتح مکہ کیا تھی آپ کے انتقال کا ایک مقدمہ تھی“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 557) حضور نے مندرجہ بالا ارشادات میں سورۃ النصر کو مقدمہ قرب وصال قرار دیا ہے.روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ قبل نازل ہوئی تھی (21) اسی طرح روح البیان میں مذکور ایک روایت کا ترجمہ ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آنحضور صلی للی یکم نے صحابہ کو جمع فرمایا اور فرمایا کہ اب وصال کا وقت قریب ہے.رحلت سے قبل تکمیل دین: پس یہ آیت بصراحت اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن کا یہی دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں تشریف لائے تھے جبکہ تمام دنیا اور تمام قو میں بگڑ چکی تھیں اور مخالف قوموں نے اس دعویٰ کو نہ صرف اپنی خاموشی سے بلکہ اپنے اقراروں سے مان لیا ہے پس اس سے ببداہت نتیجہ نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت ایسے وقت میں آئے تھے جس وقت میں ایک سچے اور کامل نبی کو آنا چاہیئے.پھر جب ہم دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ آنجناب صلعم کس وقت واپس بلائے گئے تو قرآن صاف اور صریح طور پر ہمیں خبر دیتا ہے کہ ایسے وقت میں بلانے کا حکم ہوا کہ جب اپنا کام پورا کر چکے تھے یعنی اس وقت کے بعد بلائے گئے جبکہ یہ آیت نازل ہو چکی کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم کا مجموعہ کامل ہو گیا اور جو کچھ ضروریات دین میں نازل ہونا تھا وہ سب نازل ہو چکا اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی خبر دی گئی کہ خدا تعالی کی تائیدیں بھی کمال کو پہنچ گئیں اور جوق در جوق لوگ دین اسلام میں داخل ہو گئے.192

Page 216

ور یہ آیتیں بھی نازل ہو گئیں کہ خدا تعالٰی نے ایمان اور تقویٰ کو ان کے دلوں میں لکھ دیا اور فسق اور فجور سے انہیں بیزار کر دیا اور پاک اور نیک اخلاق سے وہ متصف ہو گئے اور ایک بھاری تبدیلی ان کے اخلاق اور چلن اور روح میں واقع ہو گئی تب ان تمام باتوں کے بعد سورۃ النصر نازل ہوئی جس کا ما حصل یہی ہے کہ نبوت کے تمام اغراض پورے ہو گئے اور اسلام دلوں پر فتح یاب ہو گیا.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر اعلان دے دیا کہ یہ سورت میری وفات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ اس کے بعد حج کیا اور اس کا نام حجتہ الوداع رکھا اور ہزارہ لوگوں کی حاضری میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ سنو! اے خدا کے بند و امجھے میرے رب کی طرف سے یہ حکم ملے تھے کہ تا میں یہ سب احکام تمہیں پہنچا دوں پس کیا تم گواہی دے سکتے ہو کہ یہ سب باتیں میں نے تمہیں پہنچا دیں.تب ساری قوم نے بآواز بلند تصدیق کی کہ ہم تک یہ سب پیغام پہنچائے گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اے خدا ان باتوں کا گواہ رہ اور پھر فرمایا کہ یہ تمام تبلیغ اس لئے مقرر کی گئی کہ شاید آئندہ سال میں تمہارے ساتھ نہیں ہونگا.اور پھر دوسری مرتبہ تم مجھے اس جگہ نہیں پاؤ گے.تب مدینہ میں جاکر دوسرے سال میں فوت ہو گئے اللھم صل علیہ وبارک وسلم در حقیقت یہ تمام اشارات قرآن شریف ہی سے مستنبط ہوتے ہیں جس کی تصدیق اسلام کی متفق علیہ تاریخ سے یہ تفصیل تمام ہوتی ہے“ (نور القرآن نمبر 1، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 361 تا 368) محضرت علی ایم کی دُعائیں دنیا کے لیے نہ تھیں بلکہ آپ کی دُعائیں یہ تھیں کہ بت پرستی دُور ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو اور یہ انقلاب عظیم میں دیکھ لوں کہ جہاں ہزاروں بت پوجے جاتے ہیں وہاں ایک خدا کی پرستش ہو.پھر تم خود ہی سوچو اور مکہ کے اس انقلاب کو دیکھو کہ جہاں بت پرستی کا اس قدر چر چا تھا کہ ہر ایک گھر میں بت رکھا ہو اتھا.آپ کی زندگی ہی میں سارامکہ مسلمان ہو گیا اور ان بتوں کے پجاریوں ہی نے ان کو توڑا.اور ان کی مذمت کی.یہ حیرت انگیز کامیابی یہ عظیم الشان انقلاب کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتا.جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ ہم نے کر کے دکھایا.یہ کامیابی آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوت قدسی اور اللہ تعالیٰ سے شدید تعلقات کا نتیجہ تھا.ایک وقت وہ تھا کہ آپ مکہ کی گلیوں میں تنہا پھر ا کرتے تھے اور کوئی آپ کی بات نہ سنتا تھا.پھر ایک وقت وہ تھا جب آپ کے انقطاع کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد دلایا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ 193

Page 217

يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا.(النصر : 2 (3) آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں.جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا کہ اس سے وفات کی بُو آتی ہے کیونکہ وہ کام جو میں چاہتا تھا وہ تو ہو گیا اور اصل قاعدہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اسی وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک وہ کام جس کے لیے وہ بھیجے جاتے ہیں نہ ہوئے.جب وہ کام ہو چکتا ہے تو ان کی رحلت کا زمانہ آجاتا ہے جیسے بندوبست والوں کا جب کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس ضلع سے رخصت ہو جاتے ہیں.اسی طرح پر جب آیت شریفہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ: 4) نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جس پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے.اس آیت کو سن کر رونے لگے.صحابہ میں سے ایک نے کہا کہ اے بڑھے اتجھے کس چیز نے رُلایا.آج تو مومنوں کے لیے بڑی خوشی کا دن ہے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نہیں جانتا اس آیت سے آنحضرت صلی ا کرم کی وفات کی بُو آتی ہے دنیا میں اسی طرح پر قاعدہ ہے کہ جب مثلاً محکمہ نبد وبست ایک جگہ کام کرتا ہے اور وہ کام ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ عملہ وہاں نہیں رہتا ہے.اسی طرح انبیاء ورُ سُل علیہم السلام دنیا میں آتے ہیں.اُن کے آنے کی ایک غرض ہوتی ہے اور جب وہ پوری ہو جاتی ہے پھر وہ رخصت ہو جاتے ہیں، لیکن میں آنحضرت مصلی کم کو جب دیکھتا ہوں تو آپ سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت اور قابل فخر ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ جو کامیابی آپ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں ملی.آپ ایسے زمانہ میں آئے کہ دنیا کی حالت مسخ ہو چکی تھی اور وہ مجذوم کی طرح بگڑی ہوئی تھی اور آپ اس وقت رخصت ہوئے جب آپ نے لاکھوں انسانوں کو ایک خدا کے حضور جھکا دیا اور توحید پر قائم کر دیا.آپ کی قوت قدسی کی تاثیر کا مقابلہ کسی نبی کی قوتِ قدسی نہیں کر سکتی.حضرت عیسی علیہ السلام ایسی حالت میں منقطع ہوئے کہ وہ حواری جو بڑی محنت سے تیار کئے تھے جن کو رات دن ان کی صحبت میں رہنے کا موقعہ ملتا تھا وہ بھی پورے طور پر مخلص اور وفادار ثابت نہ ہوئے اور خود حضرت مسیح کو اُن کے ایمان اور اخلاص پر شک ہی رہا یہانتک کہ وہ آخری وقت جو مصیبت اور مشکلات کا وقت تھا وہ حواری ان کو چھوڑ کر چلے گئے.ایک نے گرفتار کرا دیا اور دوسرے نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ لعنت کی.اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی.حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبی بھی راستہ ہی میں فوت ہو گئے اور وہ ارض مقدس کی کامیابی نہ دیکھ سکے اور ان کے بعد ان کا خلیفہ اور جانشین اس کا فاتح ہوا مگر آنحضرت ملا لی ایم کی پاک زندگی قابل فخر کامیابی کا نمونہ ہے اور وہ کامیابی 194

Page 218

ایسی عظیم الشان ہے جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی.آپ جس بات کو چاہتے تھے جب تک اس کو پورا نہ کر لیا آپ رخصت نہیں ہوئے.آپ کی رُوحانیت کا تعلق سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا چاہتے تھے.چنانچہ کون اس سے ناواقف ہے کہ اس سر زمین میں جو بتوں سے بھری ہوئی تھی.ہمیشہ کے لیے بت پرستی دُور ہو کر ایک خدا کی پرستش قائم ہو گئی.آپ کی نبوت کے سارے ہی پہلو اس قدر روشن ہیں کہ کچھ بیان نہیں ہو سکتا.آپ ایک خطر ناک تاریکی کے وقت دنیا میں آئے.اور اس وقت گئے جب اس تاریکی سے دنیا کو روشن کر دیا.آنحضرت مسلم کی نبوت اور آپ کی قدسی قوت کے کمالات کا یہ بھی ایک اثر اور نمونہ ہے کہ وہ کمالات ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بہ تازہ نظر آتے ہیں اور کبھی وہ قصہ یا کہانی کا رنگ اختیار نہیں کر سکتے “ ابو بکر کی کھڑکی کی حقیقت: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 524 تا 526) کتب تاریخ میں درج ہے کہ آخری علالت کے ایام میں آنحضور صلی علی یم نے فرمایا تھا کہ مسجد کی سب کھڑکیاں بند کی جاویں سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے.ایک روایت میں الفاظ ہیں کہ سٹو عني كل خوخة في هذِهِ المسجدِ الَّا خُوخة ابي بكر (سيرت الحلبیہ باب علالت رسول اللہ، زیر عنوان سد ابواب المسجد الا ابی بکر یعنی مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دو سوائے ابو بکر کے دروازے کے.ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم بحکم الہی تھاروایت ہے کہ آنحضور صلی ا لم نے فرمایا ما انا سددت ابوابكم ولكن اللہ سدھا.(22) یعنی میں نے تمہارے دروازے بند نہیں کئے بلکہ خدا نے کئے ہیں.اکثر سیرت نگاروں نے اس واقعہ کو صرف ظاہری الفاظ پر محمول کیا ہے.لیکن حضور نے اس واقعہ کو ایک عظیم استعارہ قرار دیا ہے.جو آنحضور صلی کم اور حضرت ابو بکر صدیق کے حقیقی روحانی مرتبہ کو ظاہر کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا: ”حضرت ابو بکر جن کو قرآن شریف کا یہ فہم ملا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ: 4) پڑھی تو حضرت ابو بکر رو پڑے.کسی نے پوچھا کہ یہ بڑھا کیوں روتا ہے، تو آپ نے کہا کہ مجھے اس آیت سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.انبیاء علیہم السلام بطور حکام کے ہوتے ہیں.جیسے بندوبست کا ملازم جب اپنا کام کر چکتا ہے.تو وہاں سے چل دیتا ہے، اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام جس کام کے 195

Page 219

واسطے دنیا میں آتے ہیں، جب اس کو کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.پس جب اكملت لكم دينكم کی صدا پہنچی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ یہ آخری صدا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر کا فہم بہت بڑا ہوا تھا اور یہ جو احادیث میں آیا ہے کہ مسجد کی طرف سب کھڑکیاں بند کی جاویں، مگر ابو بکر کی کھڑ کی مسجد کی طرف کھلی رہے گی.اس میں یہی سر ہے کہ مسجد چونکہ مظہر اسرار الہی ہوتی ہے اس لئے حضرت ابو بکر صدیق کی طرف یہ دروازہ بند نہیں ہو گا.انبیاء علیہم السلام استعارات اور مجازات سے کام لیتے ہیں“ وصال پر اجماع صحابہ: ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 293) حجتہ الوداع کے بعد آپ صلی للی یکم صرف اکاسی دن اس دنیا میں رہے.رفتہ رفتہ صحت کمزور ہوتی گئی.اور قرب رحلت کی علامات ظاہر ہوتی رہیں.اور بالآخر وصال کے صدمہ عظیمہ کی گھڑی آگئی.وصال نبوی پر تمام صحابہ غم سے نڈھال تھے.حضرت عمرؓ کا شدت غم سے یہ حال تھا کہ تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی نے کہا کہ رسول اللہ صلی علی کی وفات پاگئے ہیں تو اسکی گردن اڑا دوں گا.حضرت ابو بکر نے اس وقت کمال حکمت و دانائی سے اس معاملہ پر تمام صحابہ کی رہنمائی فرمائی.بلکہ قیامت تک کے لئے اُمت کو ایک بڑے فتنہ سے بچالیا.اس وقت جو واقعات رونما ہوئے انکو آپ نے اپنی تحریرات میں درج فرمایا ہے.واضح ہو کہ اس بارے میں صحیح بخاری میں جو اصح الکتب کہلاتی ہے مندرجہ ذیل عبار تیں ہیں.اللہ عن عبد عمر ان يجلس فاقبل الناس اليه وتركوا عمر فقال ابوبكراما بعد من منكم يعبد محمدًا فان محمدا قد مات ومن كان منكم يعبد الله فان الله حى لا يموت قال الله وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.الى الشَّاكِرِينَ.وقال والله كان الناس لم يعلموا انزل هذه الأية حتى تلاها ابوبكر فتلقاها من الناس كلهم فما اسمع بشرا من الناس الايتلوها..ان عمرًا قال والله ماهو الا ان سمعتُ ابابكر تلاها فعقرت حتى بن عباس ان ابابكر خرج وعمر يكلم النّاس فقال اجلس یا عمر فابی ان اللہ ما يقلنى رجلا ي وحتى اهويت الى الارض حتى سمعته تلاها ان النبي صلى الله علیہ وسلم قد مات.یعنی ابن عباس سے روایت ہے کہ ابو بکر نکلا ( یعنی بروز وفات آنحضرت صلی 196

Page 220

اللہ علیہ وسلم) اور عمر لوگوں سے کچھ باتیں کر رہا تھا ( یعنی کہہ رہا تھا کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں) پس ابو بکر نے کہا کہ اے عمر بیٹھ جا مگر عمر نے بیٹھنے سے انکار کیا.پس لوگ ابو بکر کی طرف متوجہ ہو گئے اور عمر کو چھوڑ دیا پس ابو بکر نے کہا کہ بعد حمد و صلوۃ واضح ہو کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا ہے اس کو معلوم ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا کی پرستش کرتا ہے تو خدا زندہ ہے جو نہیں مرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر دلیل یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ محمد صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گذر چکے ہیں یعنی مرچکے ہیں اور حضرت ابو بکر نے الشاکرین تک یہ آیت پڑھ کر سنائی.کہا راوی نے پس بخدا گویا لوگ اس سے بے خبر تھے کہ یہ آیت بھی خدا نے نازل کی ہے اور ابو بکر کے پڑھنے سے اُن کو پتہ لگا.پس اس آیت کو تمام صحابہ نے ابو بکر سے سیکھ لیا اور کوئی بھی صحابی یا غیر صحابی باقی نہ رہا جو اس آیت کو پڑھتا نہ تھا اور عمر نے کہا کہ بخدا میں نے یہ آیت ابو بکر سے ہی سنی جب اُس نے پڑھی پس میں اُس کے سننے سے ایسا بے حواس اور زخمی ہو گیا ہوں کہ میرے پیر مجھے اُٹھا نہیں سکتے اور میں اُس وقت سے زمین پر گر جاتا ہوں جب سے کہ میں نے یہ آیت پڑھتے سنا اور یہ کلمہ کہتے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے.اور اس جگہ قسطلانی شرح بخاری کی یہ عبارت ہے.وعمر بن الخطاب يكلم الناس يقول لهم مامات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم...ولا يموت حتى يقتل المنافقين.یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ کر لیں فوت نہیں ہوں گے اور ملل و محل شہرستانی میں اس قصہ کے متعلق یہ عبارت ہے.قال عمر بن الخطاب من قال ان محمدا مات فقتلته بسيفى هذا.وانما رُفع الى السماء كما رفع عيسى ابن مریم علیہ السلام وقال ابوبكر بن قحافة من كان يعبد محمدا فان محمدا قدمات ومن كان يعبد اله محمدٍ فانه حتى لا يموت وقرء هذه الآية وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فرجع القوم الى قولہ.دیکھو ملل محل جلد ثالث.ترجمہ یہ ہے کہ عمر خطاب کہتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں اپنی اسی تلوار سے اُس کو قتل کر دوں گا بلکہ وہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں 197

Page 221

جیسا کہ عیسی بن مریم اُٹھائے گئے اور ابو بکر نے کہا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ تو ضرور فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے نہیں مرے گا یعنی ایک خدا ہی میں یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور باقی تمام نوع انسان و حیوان پہلے اس سے مر جاتے ہیں کہ اُن کی نسبت خلود کا گمان ہو.اور پھر حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی جس کا یہ ترجمہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہیں اور سب رسول دُنیا سے گذر گئے کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم مرتد ہو جاؤ گے تب لوگوں نے اس آیت کو سن کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیا.“ (تحفه غزنوید، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 579 تا582) ”پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان پر جانا آپ کے نزدیک کیوں مستبعد ہے بلکہ صحابہ نے جو مذاق قرآن سے واقف تھے آیت کو سن کر اور لفظ خَلَتْ کی تشریح فقره أَفَأَن مَاتَ أَوْ قُتِلَ میں پاکر فی الفور اپنے پہلے خیال کو چھوڑ دیا ہاں اُن کے دل آنحضرت کی موت کی وجہ سے سخت غمناک اور چور ہو گئے اور اُن کی جان گھٹ گئی اور حضرت عمر نے فرمایا کہ اس آیت کے سننے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی ہے کہ میرے جسم کو میرے پیر اُٹھا نہیں سکتے اور میں زمین پر گر ا جاتا ہوں.سبحان اللہ کیسے سعید اور وقاف عند القرآن تھے کہ جب آیت میں غور کر کے سمجھ آگیا کہ تمام گذشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تب بجز اس کے کہ رونا شروع کر دیا اور غم سے بھر گئے اور کچھ نہ کہا اور تب حضرت حسّان بن ثابت نے یہ مرثیہ کہا كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِكْ فَعَمِنْ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَى فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی تو میری آنکھ کی پتلی تھا پس میری آنکھیں تو تیرے مرنے سے اندھی ہو گئیں اب تیرے بعد میں کسی کی زندگی کو کیا کروں.عیسی مرے یا موسیٰ مرے بیشک مر جائیں مجھے تو تیرا ہی غم تھا.“ (تحفہ غزنویہ ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 583) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ جو شخص حضرت سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ کلمہ منہ پر لائے گا کہ وہ مر گئے ہیں تو میں اس کو اپنی اسی تلوار سے اس کو قتل کر دوں گا.اس سے 198

Page 222

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کو اپنے کسی خیال کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر بہت غلو ہو گیا تھا اور وہ اس کلمہ کو جو آنحضرت مرگئے کلمہ کفر اور ارتداد سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ ہزارہا نیک اجر حضرت ابو بکر کو بخشے کہ جلد تر اُنہوں نے اس فتنہ کو فرو کر دیا اور نص صریح کو پیش کر کے بتلا دیا کہ گذشتہ تمام نبی مرگئے ہیں اور جیسا کہ انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ کو قتل کیا در حقیقت اس تصریح سے بھی بہت سے فیج اعوج کے کذابوں کو تمام صحابہ کے اجتماع سے قتل کر دیا گویا چار کذاب نہیں بلکہ پانچ کذاب مارے.یا الہی ان کی جان پر کروڑہا رحمتیں نازل کر آمین.اگر اس جگہ خلت کے یہ معنے کئے جائیں کہ بعض نبی زندہ آسمان پر جابیٹھے ہیں تب تو اس صورت میں حضرت عمر حق بجانب ٹھہرتے ہیں اور یہ آیت ان کو مضر نہیں بلکہ اُن کی مؤید ٹھہرتی ہے.لیکن اس آیت کا اگلا فقرہ جو بطور تشریح ہے یعنی أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ جس پر حضرت ابو بکر کی نظر جاپڑی ظاہر کر رہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے لینا کہ تمام نبی گذر گئے گو مر کر گذر گئے یا زندہ ہی گذر گئے یہ دجل اور تحریف اور خدا کی منشاء کے برخلاف ایک عظیم افترا ہے.اور ایسے افتر اعمد ا کرنے والے جو عدالت کے دن سے نہیں ڈرتے اور خدا کی اپنی تشریح کے برخلاف اُلٹے معنے کرتے ہیں وہ بلا شبہ ابدی لعنت کے نیچے ہیں.لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس وقت تک اس آیت کا علم نہیں تھا اور دوسرے بعض صحابہ بھی اسی غلط خیال میں مبتلا تھے اور اُس سہو و نسیان میں گر فتار تھے جو مقتضائے بشریت ہے اور اُن کے دل میں تھا کہ بعض نبی اب تک زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے.پھر کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی مانند نہ ہوں.لیکن حضرت ابو بکر نے تمام آیت پڑھ کر اور أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ سناکر دلوں میں بٹھا دیا کہ خلت کے معنے دو قسم میں ہی محصور ہیں (۱) حنف الف سے مرنا یعنی طبعی موت.(۲) مارے جانا.تب مخالفوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور تمام صحابہ اس کلمہ پر متفق ہو گئے کہ گذشتہ نبی سب مر گئے ہیں اور فقرہ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ کا بڑا ہی اثر پڑا اور سب نے اپنے مخالفانہ خیالات سے رجوع کر لیا.فالحمد للہ علی ذالک.منہ“ ( تحفه مغز نوید، روحانی خزائن جلد 15 حاشیہ صفحہ 582،581) 199

Page 223

صحابہ کی غلطی عمدانہ تھی: بعض صحابہ جن میں حضرت عمررؓ بھی شامل تھے حضرت عیسیٰ کی حیات کے قائل تھے لیکن انکی یہ غلطی کس قسم کی تھی اور کیوں تھی آپ نے اس پر بھی تبصرہ فرما کر انکی بیگناہی کو ثابت کیا ہے.صحابہ پر جو امکانی اعتراض تھا اس کا بھی آپ نے تدارک فرما دیا.جیسا کہ فرمایا: لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اُس وقت تک اس آیت کا علم نہیں تھا اور دوسرے بعض صحابہ بھی اسی غلط خیال میں مبتلا تھے اور اُس سہو و نسیان میں گرفتار تھے جو مقتضائے بشریت ہے اور اُن کے دل میں تھا کہ بعض نبی اب تک زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے.پھر کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی مانند نہ ہوں.لیکن حضرت ابو بکر نے تمام آیت پڑھ کر اور أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ سناکر دلوں میں بٹھا دیا کہ خلت کے معنے دو قسم میں ہی محصور ہیں (۱) حتف الف سے مرنا یعنی طبعی موت.(۲) مارے جانا.تب مخالفوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور تمام صحابہ اِس کلمہ پر متفق ہو گئے کہ گذشتہ نبی سب مر گئے ہیں“ اجماع صحابہ پر اعتراض کا جواب: (تحفه غزنویہ ، روحانی خزائن جلد 15 حاشیہ صفحہ 582) وصال نبی صلی ال نیم کے موقع پر صحابہ کا جو پہلا اور واحد اجماع ہو اہے اس پر کسی نے یہ اعتراض کیا کہ تمام صحابہ موجود نہیں تھے اس لئے اس کو اجماع صحابہ نہیں کہہ سکتے.اس اعتراض کا جواب آپ نے حدیث و تاریخ میں درج واقعات سے دیا ہے: ”اے عزیز بخاری میں تو اس جگہ کلھم کا لفظ موجود ہے جس سے ظاہر ہے کہ کل صحابہ اُس وقت موجود تھے اور لشکر اسامہ جو ہیں ہزار ۲۰۰۰۰ آدمی تھا اس مصیبت عظمی واقعہ خیر الرسل سے رُک گیا تھا اور وہ ایسا کون بے نصیب اور بد بخت تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اور فی الفور حاضر نہ ہوا.بھلا کسی کا نام تو لو.ماسوا اس کے اگر فرض بھی کر لیں کہ بعض صحابہ غیر حاضر تھے تو آخر مہینہ دو مہینہ چھ مہینہ کے بعد ضرور آئے ہوں گے پس اگر انہوں نے کوئی مخالفت ظاہر کی تھی اور آیت قد خلت کے اور معنے کئے تھے تو آپ اس کو پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو پس یہی 200

Page 224

ایمان اور دیانت کے بر خلاف ہے کہ ایسے جامع اجماع کے برخلاف آپ عقیدہ رکھتے ہیں حضرت مسیح کی موت پر یہ ایک ایسا زبردست اجماع ہے کہ کوئی بے ایمان اس سے انکار کرے تو کرے نیک بخت اور متقی آدمی تو ہر گز اس سے انکار نہیں کرے گا اب بتلاؤ کہ حضرت مسیح کی موت پر اجماع تو ہوا زندگی پر کہاں اجماع ثابت ہے برابر تفسیروں والے ہی لکھ جاتے ہیں کہ یہ بھی قول ہے کہ تین دن یا تین گھنٹے کے لئے مسیح مر بھی گیا تھا گویا مسیح کے لئے دو موتیں تجویز کرتے ہیں.مینتہ الاولی ومیننہ الاخرای اور امام مالک کا قول ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے مر گیا.یہی قول امام ابن حزم کا ہے.معتزلہ برابر اس کی موت کے قائل ہیں اور بعض صوفیہ کرام کے فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسی مسیح مر گیا اور اس کے خُلق اور خُو پر کوئی اور شخص اسی اُمت میں سے دنیا میں آئے گا اور بروزی طور پر وہ مسیح موعود کہلائے گا.اب دیکھو جتنے منہ اتنی ہی باتیں اجماع کہاں رہا.اجماع صرف موت پر ہوا اور یہی اجماع آپ لوگوں کو ہلاک کر گیا“ تحفه غزنویہ ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 586 تا 587) اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب تک زندہ رہتے تو ہر ج نہ تھا.اس لئے کہ آپ وہ عظیم الشان ہدایت لے کر آئے تھے جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی.اور آپ نے وہ عملی حالتیں دکھائیں کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی ان کا نمونہ اور نظیر پیش نہیں کر سکتا.میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی ضرورت دنیا اور مسلمانوں کو تھی اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیں تھی.پھر آپ کا وجود بانجو د وہ مبارک وجود ہے کہ جب آپ نے وفات پائی تو صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ دیوانے ہوگئے.یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار میان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ کہے گا تو میں اُس کا سر جُدا کر دوں گا.اس جوش کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک خاص نور اور فراست عطا کی.انہوں نے سب کو اکٹھا کیا اور خطبہ پڑھا.مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ يعنى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پا چکے.اب آپ غور کریں اور سوچ کر بتائیں کہ حضرت ابو بکر صدیق نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ آیت کیوں پڑھی تھی؟ اور اس سے آپ کا کیا مقصد اور منشاء تھا؟ اور پھر ایسی حالت میں 201

Page 225

کہ گل صحابہ موجود تھے.میں یقینا کہتا ہوں اور آپ انکار نہیں کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے صحابہ کے دل پر سخت صدمہ تھا اور اس کو بے وقت اور قبل از وقت سمجھتے تھے.وہ پسند نہیں کر سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنیں ایسی حالت اور صورت میں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا جلیل القدر صحابی اس جوش کی حالت میں ہو اُن کا غصہ فرو نہیں ہو سکتا ( تھا) بجز اس کے کہ یہ آیت ان کی تسلی کا موجب ہوتی.اگر انہیں یہ معلوم ہوتا یا یہ یقین ہو تا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتے.وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق تھے اور آپ کی حیات کے سوا کسی اور کی حیات کو گوارا ہی نہ کر سکتے تھے.پھر کیونکر اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو وفات یافتہ دیکھتے اور مسیح کو زندہ یقین کرتے.یعنی جب حضرت ابو بکر نے خطبہ پڑھا تو اُن کا جوش فرو ہو گیا اس وقت صحابہ مدینہ کی گلیوں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے.اُس وقت حسّان بن ثابت نے ایک مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِكْ فَعَمِنْ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ چونکہ مذکورہ بالا آیت نے بتا دیا تھا کہ سب مر گئے اس لئے حسان نے بھی کہہ دیا کہ اب کسی کی موت کی پروا نہیں.یقیناً سمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی زندگی صحابہ پر سخت شاق تھی اور وہ اس کو گوارا نہیں کر سکتے تھے.اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا اور اس میں حضرت مسیح کی وفات کا بھی گلی فیصلہ ہو چکا تھا...پھر وہ نبی جس نے صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا اور وہ کمالات دکھائے کہ جن کی نظیر نظر نہیں آتی وہ فوت ہو جاوے اور اس کے ان جان نثار متبعین پر اثر نہ پڑے جنہوں نے اس کی خاطر جانیں دینے سے دریغ نہ کیا.جنہوں نے وطن چھوڑا.خویش و اقارب چھوڑے اور اس کیلئے ہر قسم کی تکلیفوں اور مشکلات کو اپنے لئے راحت جان سمجھا.ایک ذرا سے فکر اور توجہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس قدر بھی دکھ اور تکلیف انہیں اس خیال کے تصور سے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اور قیاس ہم نہیں کر سکتے ان کی 202

Page 226

تسلی اور تسکین کا موجب یہی آیت تھی کہ حضرت ابو بکڑ نے پڑھی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایسے نازک وقت میں صحابہ کو سنبھالا لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 261 تا263) ”اے قابل رحم نادان یہ بات فی الواقع سچ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور تمام گذشتہ نبیوں کی موت کی نسبت صحابہ کرام کا اجماع ہو گیا تھا اور جس طرح خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر اجماع پایا گیا ہے اسی قسم کا بلکہ اس سے افضل و اعلیٰ یہ اجماع تھا اور اگر کوئی جرح قدح اس اجماع پر ہوتا ہے تو اس سے زیادہ جرح قدح خلافت مذکورہ کے اجماع پر ہو گا.در حقیقت یہ اجماع خلافت ابو بکر کے اجماع سے بہت بڑھ کر ہے کیونکہ اس میں کوئی ضعیف قول بھی مروی نہیں جس سے ثابت ہو جو کسی صحابی نے حضرت ابو بکر کی مخالفت کی یا تخلف کیا یعنی جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر بطور استدلال کے یہ آیت پڑھی کہ مَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ على أَعْقَابِكُمْ جس کا یہ ترجمہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہے اس میں کوئی جز الوہیت کی نہیں اور اس سے پہلے تمام رسول دنیا سے گذر چکے ہیں یعنی مرچکے ہیں.پس ایسا ہی اگر یہ بھی مر کر یا قتل ہو کر دنیا سے گذر گیا تو کیا تم دین سے پھر جاؤ گے تو اس آیت کے سننے کے بعد کسی ایک صحابی نے بھی مخالفت نہیں کی اور اُٹھ کر یہ عرض نہیں کی کہ یہ آپ کا استدلال ناقص اور نا تمام ہے.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بعض نبی زندہ بجسم عنصری زمین پر موجود ہیں جیسے الیاس و خضر اور بعض آسمان پر جیسے اور میں اور عیسی تو پھر اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت موت کیونکر ثابت ہو اور کیوں جائز نہیں کہ وہ بھی زندہ ہوں بلکہ تمام صحابہ نے اس آیت کو سن کر تصدیق کی اور سب کے سب اس نتیجہ تک پہنچ گئے کہ تمام نبیوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مرنا ضروری تھا پس یہ اجماع بلا توقف اور ترڈ د واقع ہوا لیکن وہ اجماع جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر مانا جاتا ہے اس میں بعض صحابہ کی طرف سے بیعت کرنے میں کچھ توقف اور تر ڈر بھی ہوا تھا گو کچھ دنوں کے بعد بیعت کرلی اور اس ابتلا میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مبتلا ہو گئے تھے لیکن گذشتہ انبیاء کی موت پر کسی صحابی کو بعد سنے صدیقی خطبہ کے کوئی ابتلا 203

Page 227

پیش نہیں آیا اور نہ ماننے میں کچھ بھی توقف اور تردد کیا بلکہ سنتے ہی مان گئے.لہذا اسلام میں یہ وہ پہلا اجماع ہے جو بلا توقف انشراح صدر کے ساتھ ہوا“ عمر مبارک: ( تحفه غزنویہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 578،577) ”اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وعظ صدیقی کے بعد کل صحابہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جتنے نبی تھے سب مرچکے ہیں اور یہ پہلا اجماع تھا جو صحابہ میں ہوا.اور صحابہ رضی اللہ عنہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں محو تھے کیونکر اس بات کو قبول کر سکتے تھے کہ باوجودیکہ ان کے بزرگ نبی نے جو تمام نبیوں کا سردار ہے چوسٹھ برس کی بھی پوری عمر نہ پائی.مگر عیسی چھ سو برس سے آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.ہر گز ہر گز محبت نبوی فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت با تخصیص ایسی فضیلت قائم کرتے “ (تذکرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 23) ”سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی اور مدینہ طیبہ میں آپ کا روضہ موجود ہے.ہر سال وہاں ہزاروں لاکھوں حاجی بھی جاتے ہیں “ (لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 260) 204

Page 228

حوالہ جات باب ششم 1.(Mohammad at Medina by Montgomery Watt.page 235) 2.(خصائص الکبری از امام جلال الدین سیوطی جلد 2 صفحہ 13،12 المكتبة الحقانیہ پشاور) 3- ( خصائص الکبری از امام جلال الدین سیوطی جلد 2 صفحہ 12 المكتبة الحقانیہ پشاور ) 4.(Encyclopaedia of Religion and Ethics, v.11 page 203, under word Sasanians New York scribers Sons) 5.(Life of Mohammaed, by W.Muir page 368) 6.(The Rise and Decline of Romans Empire.By Gibb, v 8 MOCCLXXXIII) page 188,189 j.j Tourneism 7.(Encyclopedia of Religions and Ethics v.11 page 203 under word Sasanians) 8.(Everyman's Encyclopedia v7 page 469 under word Khosraw, London J.M Dent & Sons LTD 1913) 9.(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر حدیث 4147) 10.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 739، اسلام ابی سفیان مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 11.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 737، اسلام ابی سفیان مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 12.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 512، غزوہ سویق.مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 13.(سیرت النبی لابن ہشام صفحہ 632، غزوة الخندق.مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 14.(سیرت النبی گابن ہشام صفحہ 761 تاب 765، غزوہ حنین.مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) 15.( بخاری کتاب المغازی باب قول الله و یوم حسنین اذا مبتکم...الخ حدیث 4315) 16 (زادالمعاد از ابن القیم صفحہ 561،560 فصل في قدوم وفد نجران مطبوعة مؤسسة الرسالة ناشرون دمشق 2006ء) 17- ( تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 155، باب وفود علیہ السلام مؤسسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 18- ( تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 155 156 باب وفود علیہ السلام مؤسسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 19.( تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 156، باب وفود علیہ السلام مؤسسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 20.(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 360 باب حجتہ الوداع مطبوعہ دار لکتب العلمیہ بیروت 2002ء) 21- (زادالمعاد از ابن القیم صفحہ 276 فصل خطہ منی مطبوع مؤسسة الرسالة ناشرون دمشق 2006ء) 22.(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 487 باب یذکر فی مدة مرضہ مطبوعہ دار لکتب العلمیہ بیروت 2002ء) 205

Page 229

باب ہفتم عائلی زندگی اور ازواج مطہرات اس باب میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں آنحضرت صلی علیم کی عائلی زندگی کے بارے بیان کیا گیا ہے.آپ نے اپنی تحریرات میں آنحضرت صلی علیہ ظلم کی ازواج مطہرات کے مناقب واوصاف کا بھی ذکر فرمایا ہے.نیز آنحضرت سلیم اور دیگر انبیاء علیهم السلام کی شادی کرنے کی اغراض بیان فرمائی ہیں.اور امہات المؤمنین سے متعلق غیر مسلم مورخین و معاندین کے اعتراضات کا بھی رڈ فرمایا ہے اور مسلمانوں کے اندر بھی جو بعض بگڑے ہوئے نامناسب عقائد و نظریات راہ پاگئے ہیں انکی بھی اصلاح فرمائی ہے.انبیاء کی بیوی بچے رکھنے کی غرض: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: بعض نادان لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ جبکہ انبیاء ایسے فنافی اللہ ہوتے ہیں اور دنیا اور اس کی لذتوں سے دور بھاگتے ہیں، پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ بیویاں اور بچے بھی رکھتے ہیں؟ ایسے معترضین اتنا نہیں سمجھتے کہ ایک شخص تو ان باتوں کا اسیر اور ان فانی لذتوں میں فنا ہو جاتا ہے، لیکن اس کے خلاف انبیاء کا گر وہ ان باتوں سے پاک ہوتا ہے.یہ چیزیں ان کے لئے محض خادم کے طور پر ہوتی ہیں.علاوہ ازیں انبیاء ہر قسم کی اصلاح کے لئے آتے ہیں.پس اگر وہ بیوی بچے نہ رکھتے ہوں، تو اس پہلو میں تکمیل اصلاح کیونکر ہو.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ عیسائی لوگ معاشرت کے متعلق حضرت مسیح کا دنیا کے رو برو کیا نمونہ پیش کر سکتے ہیں ؟ کچھ بھی نہیں.جب وہ اس راہ سے ہی نا واقف ہیں اور مدارج سے ہی بے خبر ، تو وہ کیا اصلاح کریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی کمال ہے کہ ہر پہلو میں آپ کا نمونہ کامل ہے.دنیا اور اس کی چیزیں انبیاء پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتیں اور وہ فانی لذتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کیا کرتے ، بلکہ ان کا دل خدا تعالیٰ کی طرف اس دریا کی ایک تیز دھار کی طرح جو پہاڑ سے گرتی ہے بہتا ہے اور اس کی رو میں ہر خس و خاشاک بہ جاتا ہے “ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 240) 206

Page 230

آنحضرت علی الم کی نبیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خد اتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے تھے.ایک رات آپ کی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس تھی.کچھ حصہ رات کا گذر گیا تو حضرت عائشہ کی آنکھ کھلی.دیکھا کہ آپ موجود نہیں.اُسے شبہ ہوا کہ شائد آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں اُس نے اُٹھ کر ہر ایک گھر میں تلاش کیا، مگر آپ نہ ملے.آخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رورہے ہیں.اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپ کی بیویاں حظ نفس یا اتباع شہوت کی بنا پر ہو سکتی ہیں ؟ غرضکہ خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آدیں.اور تقویٰ کی تحمیل کے لیے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو.آنحضرت علی علم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمر آپ سے ملنے گئے.ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی.آنحضرت ملا نام ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.جب حضرت عمر اندر آئے تو آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے.حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے.ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے.حضرت عمران کو دیکھ کر رو پڑے.آپ نے پوچھا.اے عمر! تجھ کو کس چیز نے رلایا؟ عمر نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خد اتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں.آنحضرت علی ای کم نے فرمایا.اے عمرہ مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اُونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو.ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں ستالے اور جو نہی کہ ذرا پسینہ خشک ہو ا ہو وہ پھر چل پڑے.جس قدر نبی اور رسول ہوئے ہیں سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مد نظر رکھا ہوا تھا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 51) 207

Page 231

بیویوں کی تعداد: آپ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت مال الم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خد اتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے تھے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 1 صفحہ 51) کتب تاریخ وسیرت میں آنحضور صلی ی ﷺ کی ازواج کی تعداد نو سے لیکر تیرہ تک بیان ہوئی ہے.لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ ایک وقت میں بیویوں کی زیادہ سے زیادہ تعد اد نور ہی ہے.حضرت خدیجہ سے شادی: اس کتاب میں آنحضور صلی علیہ نیم کے زمانہ شباب کے عنوان میں حضرت خدیجہ سے شادی کی تفصیل بیان ہو چکی ہے.یہاں حضور کا ایک ارشاد درج کیا جارہا ہے.”جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے لئے کسی چا وغیرہ نے باوجود آنحضرت کے اول درجہ کے حسن و جمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طور پر محض خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مکہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابو طالب رئیس مکہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اور دنیوی جاہ و حشمت و دولت و مقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس دردناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اور اُن کے دوسرے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں.سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب 208

Page 232

یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی گنجیاں دی جائیں گی“ حضرت سودہ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب: (روحانی خزائن جلد 3 ، ازالہ اوہام، صفحہ 113 114 حاشیہ) ایک پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ایک خط میں حضرت نبی اکرم صلی کم پر کچھ نہات گندے اعتراضات لکھے.ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہو گئے تھے.اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا: اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہو گئے تھے.سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کسی شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت مال اللهم باعث طبعی کراہت کے جو منشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو.کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو.چنانچہ نیل الاوطار کے ص ۱۴۰ میں یہ حدیث ہے: قَالَ السَّوْدَة بنت زمعة حين اسنت و خافت آن يفارقها رسول الله قالت يا رسول الله وهبت يومى لعائشة فقبل ذلك منها..و رواه ايضًا سعد و سعيد ابن منصور والترمذى و عبد الرزاق قال الحافظ في الفتح فتواردت هذه الروايات على انها خشيت الطلاق.یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ 209

Page 233

سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شائد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جاؤں گی تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی.آپ نے یہ اس کی درخواست قبول فرمالی.ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہوا تھا.اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کر کے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توار د اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرت نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پا کر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں.اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے.کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں.اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کاروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں“ ( نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 377 تا379) حضرت عائشہ کو خواب میں دیکھنا: آپ نے فرمایا: اس حدیث کو دیکھو جو صحیح بخاری کے صفحہ ۵۵۱ میں درج ہے اور وہ یہ ہے حدثنا معلى قال اللہ علیہ وسلم قال حدثنا وهيب عن هشام بن عروة عن ابيه عن عائشة ان النبي صلى لها اریتک فی المنام مرتین اری انک فی سرقۃ من حرير و يقول هذه امرأتك فاكشف عنها فاذا هي انت فاقول ان یک هذا من عند الله یمضہ یعنی حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ تو خواب میں مجھے دو دفعہ دکھائی گئی اور میں نے تجھے ایک ریشم کے ٹکڑے پر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ تیری عورت ہے اور میں نے اس کو کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تو ہی ہے اور میں نے کہا کہ اگر خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی تعبیر ہے جو میں نے سمجھی ہے تو 210

Page 234

ہو رہے گی یعنی خوابوں اور مکاشفات کی تعبیر ضرور نہیں کہ ظاہر پر ہی واقعہ ہو کبھی تو ظاہر پر ہی واقعہ ہو جاتی ہے اور کبھی غیر ظاہر پر وقوع میں آتی ہے“ حضرت عائشہ سے کم عمری میں شادی پر اعتراض کا جواب: (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 203،204) بعض غیر مسلم مورخین نے محض بخاطر اعتراض یہ الزام لگایا ہے کہ آنحضور صلی الم نے حضرت عائشہ سے نہات کم عمری میں شادی کی جو نعوذ باللہ زنا کے حکم میں ہے.یہ اعتراض پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے بھی کیا تھا.اس کا جواب حضور نے مختلف کتب میں نہایت تفصیل سے دیا ہے.”آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے.اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے.صرف ایک راوی سے منقول ہے.عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے.جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے.پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں.کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے.لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا مگر احمق کا کوئی علاج نہیں ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھا دیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے ہے کہ نو برس تک بھی لڑکیاں بالغ ہو سکتی ہیں.بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہو سکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صد ہالوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھ آٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اول درجہ کے احمق بھی ہیں.آپ کو اب تک اتنی بھی خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق ان کی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بنا پر تیار ہوتے ہیں.ان میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گزار ہیں اور اس کے خیرہ خواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تاہم ہم اس کو خطا سے معصوم 211

Page 235

نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے.گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے انگلستان میں لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ (۱۸) برس قرار دیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں.آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحى من السماء سمجھتے ہیں کہ ان میں امکان غلطی نہیں.تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کا تھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے.غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو ان کا ذکر کرنا یا تو حمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو 9 برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو و برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا.ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہیئے تھی“ (نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 377، 379) پادری صاحب! آپ کا یہ خیال کہ نو ۹ برس کی لڑکی سے جماع کرناز نا کے حکم میں ہے سراسر غلط ہے آپ کی ایمانداری یہ تھی کہ آپ انجیل سے اس کو ثابت کرتے.انجیل نے آپ کو دھکے دئے اور وہاں ہاتھ نہ پڑا تو گورنمنٹ کے پیروں پر آپڑے.یاد رکھیں کہ یہ گالیاں محض شیطانی تعصب سے ہیں.جناب مقدس نبوی کی نسبت فسق و فجور کی تہمت لگانا یہ افتر اشیطانوں کا کام ہے ان دو مقدس نبیوں پر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام پر بعض بد ذات اور خبیث لوگوں نے سخت افترا کئے ہیں.چنانچہ ان پلیدوں نے لعنۃ اللہ علیہم پہلے نبی کو تو زانی قرار دیا جیسا کہ آپ نے اور 212

Page 236

دوسرے کو ولد الزنا کہا جیسا کہ پلید طبع یہودیوں نے.آپ کو چاہیے کہ ایسے اعتراضوں سے پر ہیز کریں“ ( نور القرآن نمبر 2 ،روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 380) پانچواں اعتراض.بھلا اس مسئلہ پر بھی کبھی توجہ فرمائی ہے کہ حضرت رسول خدا محمد صاحب کا اپنی بیوی حضرت عائشہ نو سالہ سے ہم بستر ہونا کیا اولاد پیدا کرنے کی نیت سے تھا.اما الجواب.یہ اعتراض محض جہالت کی وجہ سے کیا گیا ہے.کاش اگر نادان معترض پہلے کسی محقق ڈاکٹر یا طبیب سے پوچھ لیتا تو اس اعتراض کرنے کے وقت بجز اس کے کسی اور نتیجہ کی توقع نہ رکھتا کہ ہر ایک حقیقت شناس کی نظر میں نادان اور احمق ثابت ہو گا.ڈاکٹر مون صاحب جو علوم طبعی اور طبابت کے ماہر اور انگریزوں میں بہت مشہور محقق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گرم ملکوں میں عور تیں آٹھ یا نو برس کی عمر میں شادی کے لائق ہو جاتی ہیں.کتاب موجود ہے تم بھی اسی جگہ ہو اگر طلب حق ہے تو آکر دیکھ لو.اور حال میں ایک ڈاکٹر صاحب جنہوں نے کتاب معدن الحکمت تالیف کی ہے.وہ اپنی کتاب تدبیر بقاء نسل میں بعینہ یہی قول لکھتے ہیں جو اوپر نقل ہو چکا.اور صفحہ ۴۶ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ نو یا آٹھ یا پانچ یا چھ برس کی لڑکیوں کو حیض آیا.یہ کتاب بھی میرے پاس موجود ہے جو چاہے دیکھ لے.ان کتابوں میں کئی اور ڈاکٹروں کا نام لے کر حوالہ دیا گیا ہے اور چونکہ یہ تحقیقا تیں بہت مشہور ہیں اور کسی دانا پر مخفی نہیں اس لئے زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں.اور حضرت عائشہ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سرو پا اقوال میں آیا ہے.کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں لیکن ڈاکٹر واہ صاحب کا ایک چشم دید قصہ لینسٹ نمبر ۱۵ مطبوعہ اپریل ۱۸۸۱ء میں اس طرح لکھا ہے کہ انہوں نے ایسی عورت کو جنایا جس کو ایک برس کی عمر سے حیض آنے لگا تھا اور آٹھویں برس حاملہ ہوئی اور آٹھ ۸ برس دس ۱۰ مہینہ کی عمر میں لڑکا پیدا ہوا“ آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 64،63) 213

Page 237

حضرت عائشہؓ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب: ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آنحضور صلی اللہ ﷺ کا حضرت عائشہ کے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا اس کا جواب آپ نے ان الفاظ میں دیا: پھر آپ حضرت عائشہ صدیقہ کا نام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا اب اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں.اے نادان جو حلال اور جائز نکاح ہیں.ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں یہ اعتراض کیسا ہے کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں.ہاں یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے.اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر نا گفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی.اے نادان ! فطرت انسانی اور اس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حسن معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے اسلام کے بانی علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسے برتا اور اپنی جماعت کو ایک نمونہ دیا مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط تکالے.اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میں کتوں اور کتوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آکر آہ و فغان کرنا اور برسوں دیوشیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودہ طلاق پاس کرانا یہ کس بات کا نتیجہ ہے.کیا اس قدوس مطہر.مزگی نبی امی کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں یہ نتیجہ ہے.اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص نالائق کتاب پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے اب دوزانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزا کی تصویر کھینچ کر غور کرو“ ( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 393،392) 214

Page 238

بناوٹ اور تکلف سے پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے.باوجودیکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے آپ سودے خود خرید لایا کرتے تھے ایک بار آپ نے کچھ خریدا تھا ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور مجھے دیدیں آپ نے فرمایا کہ جس کی چیز ہو اس کو ہی اٹھانی چاہئے اس سے یہ نہیں نکالنا چاہئے کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا بھی اٹھا کر لایا کرتے تھے غرض ان واقعات سے یہ ہے کہ آپ کی سادگی اور اعلیٰ درجہ کی بے تکلفی کا پتہ لگتا ہے آپ پا پیادہ ہی چلا کرتے تھے اس وقت یہ کوئی تمیز نہ ہوتی تھی کہ کوئی آگے ہے یا پیچھے.جیسا کہ آج کے وضعدار لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ کوئی آگے نہ ہونے پائے یہاں تک سادگی تھی کہ بعض اوقات لوگ تمیز نہیں کر سکتے تھے کہ ان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر کی داڑھی سفید تھی لوگوں نے یہی سمجھا کہ آپ ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن جب حضرت ابو بکر نے اٹھ کر کوئی خادمانہ کام کیا اور اس طرح پر سمجھا دیا کہ آپ پیغمبر نہیں تب معلوم ہوا بعض وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑے بھی ہیں ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہو گئے تا کہ حضرت عائشہ آگے نکل جائیں اور وہ آگے نکل گئیں اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی آئے جو تماشہ کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو ان کا تماشاہ دکھایا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ حبشی ان کو دیکھ کر بھاگ گئے“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 387،388) 215

Page 239

واقعہ افک: غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا.بعض منافقین نے ایک جھوٹ حضرت عائشہ کی طرف منسوب کر کے اسکی بہت زیادہ تشہیر کی جسکی وجہ سے آنحضور صلی للی نم اور حضرت عائشہ کو شدید صدمہ پہنچا اور تمام مسلمانوں کو بھی اس جھوٹے الزام کے پھیل جانے سے بہت تکلیف ہوئی.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس الزام سے أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی بریت فرمائی.اس الزام کو بعض مخلص صحابہ نے بھی سادگی اور لا علمی سے سچ سمجھ لیا.آپ نے اس واقعہ کا ایک جگہ ضمنا ذکر فرمایا ہے.اس ارشاد میں ہمارے لئے ان صحابہ کے متعلق بھی رہنمائی ہے جو اس معاملہ میں اپنی سادگی اور لاعلمی سے شامل ہو گئے تھے.نیز تہمت لگانے والے منافقین کے عمل کو خباثت کا نام دے کر انکی مذمت فرمائی ہے.اور ایک فقہی نکتہ اور اسلامی اخلاقیات کا بھی ذکر فرمایا ہے.”اس نا سمجھ کو یہ بھی تو خبر نہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اور احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے.ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے.حضرت ابو بکر نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ تب حضرت ابو بکر نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگادی.اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑ نا حسن اخلاق میں داخل ہے.مثلاً اگر کوئی اپنے خدمتگار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنتِ اسلام ہے تا تخلق با خلاق اللہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں.ترک وعدہ پر باز پرس ہو گی مگر ترک دعید پر نہیں “ (ضمیہ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181) 216

Page 240

حضرت زینب اور حضرت زید سے متعلق چند اعتراضات کا جواب: غیر مسلم مورخین کی طرف سے حضرت زینب اور حضرت زید سے متعلق بنیادی طور پر دو اعتراض کئے گئے ہیں (۱) یہ کہ متبھی اگر اپنی جورو کو طلاق دے دیوے تو متبیٰی بنانے والے کا اس عورت سے نکاح جائز نہیں (۲) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھیں تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے.حضور نے ان دونوں اعتراضات کا جواب بڑی تفصیل کے ساتھ دیا ہے.جو ذیل میں پیش ہے.پہلے اعتراض کا جواب: اب ہم ان آریوں کے اس پر افترا اعتراض کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انہوں نے زینب کے نکاح کی نسبت تراشا ہے.ان مفتری لوگوں نے اعتراض کی بنادو باتیں ٹھہرائی ہیں (۱) یہ کہ متبنی اگر اپنی جورو کو طلاق دے دیوے تو متبنی کرنے والے کو اس عورت سے نکاح جائز نہیں (۲) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھی تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے سو ہم ان دو باتوں کا ذیل میں جواب دیتے ہیں.امر اول کا جواب.یہ ہے کہ جو لوگ متبنی کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں.ظاہر ہے کہ قانون قدرت اس بیہودہ دعویٰ کو رد کرتا ہے اس لئے کہ جس کا نطفہ ہوتا ہے اسی کے اعضاء میں سے بچہ کے اعضاء حصہ لیتے ہیں اسی کے قومی کے مشابہ اس کے قوی ہوتے ہیں اور اگر وہ انگریزوں کی طرح سفید رنگ رکھتا ہے تو یہ بھی اس سفیدی سے حصہ لیتا ہے اگر وہ حبشی ہے تو اس کو بھی اس سیاہی کا بخرہ ملتا ہے اگر وہ آتشک زدہ ہے تو یہ بیچارہ بھی اسی بلا میں پھنس جاتا ہے.غرض جس کا حقیقت میں نطفہ ہے اسی کے آثار بچہ میں ظاہر ہوتے ہیں جیسی گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتی ہے اور چنے سے چنا نکلتا ہے پس اس صورت میں ایک کے نطفہ کو اس کے غیر کا بیٹا قرار دینا واقعات صحیحہ کے مخالف ہے.ظاہر ہے کہ صرف منہ کے دعویٰ سے واقعات حقیقیہ بدل نہیں سکتے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے سم الفار کے ایک ٹکڑہ کو طباشیر کا ٹکڑہ سمجھ لیا تو وہ اس کے کہنے سے طباشیر نہیں ہو جائے گا اور اگر وہ اس وہم کی بناء پر اسے کھائے گا تو ضرور مرے گا جس حالت 217

Page 241

میں خدا نے زید کو بکر کے نطفہ سے پیدا کر کے بکر کا بیٹا بنا دیا تو پھر کسی انسان کی فضول گوئی سے وہ خالد کا بیٹا نہیں بن سکتا اور اگر بکر اور خالد ایک مکان میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور اس وقت حکم حاکم پہنچے کہ زید جس کا حقیقت میں بیٹا ہے اس کو پھانسی دیا جائے تو اس وقت خالد فی الفور عذر کر دے گا کہ زید حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے میرا اس سے کچھ تعلق نہیں.یہ ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دوباپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متبنی بنانے والا حقیقت میں باپ ہو گیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعویٰ کیا گیا ہے.غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں.دو باتیں ہندوؤں میں قدیم سے چلی آتی ہیں.بیٹا بنانا اور خدابنانا.بیٹا بنانے کے لئے تو بڑا عمدہ طریق نیوگ ہے اور خدا اس طرح بناتے ہیں کہ سا لگرام کے پتھر پر معمولی منتر پڑھ کر جس کو ادا ہن کا منتر بھی کہتے ہیں اپنے ہی و ہم سے یہ یقین کر لیتے ہیں کہ اب اس میں پر میشر داخل ہو گیا ہے مگر آریوں نے پر میشر بننے کے طریق سے تو انکار کر دیا ہے مگر بیٹا بنانے کا نسخہ اب تک ان کی نظر میں قابل پسند ہے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اول آریہ لوگ گود میں بیگانہ بچہ لے کر بیٹا بناتے تھے پھر یہ بات کچھ بناوٹی سی معلوم ہوئی لہذا اس کے قائم مقام نیوگ نکالا کہ تا اپنی عورت کو دوسرے سے ہم بستر کرا کر اس کا نطفہ لے لیں تا نطفہ کے اجزاء جورو کے اجزاء سے مل جائیں اور اس طرح پر کچھ مناسبت پیدا ہو جائے مگر اس قابل شرم زناکاری کے بعد بھی مرد کو اس نطفہ سے کچھ تعلق نہیں کیونکہ وہ غیر کا نطفہ ہے اب چونکہ عقل کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ متبنی در حقیقت اپنا ہی لڑکا ہو جاتا ہے اس لئے ایسے اعتراض کرنے والے پر واجب ہے کہ اعتراض سے پہلے اس دعوے کو ثابت کرے اور در حقیقت اعتراض تو ہمارا حق ہے کہ کیونکر غیر کا نطفہ جو غیر کے خواص اپنے اندر رکھتا ہے اپنا نطفہ بن سکتا ہے پہلے اس اعتراض کا جواب دیں اور پھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ بھی یادر ہے کہ زید جو زینب کا پہلا خاوند تھاوہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا آپ نے اپنے کرم ذاتی کی وجہ سے اس کو آزاد کر دیا اور بعض دفعہ اس کو بیٹا کہا تا غلامی کا داغ اس پر سے جاتا رہے چونکہ آپ کریم النفس تھے اس لئے زید کو قوم میں عزت دینے کے لئے آپ کی یہ حکمت عملی تھی مگر عرب کے لوگوں میں یہ رسم پڑگئی تھی کہ اگر کسی کا استاد یا آقا یا مالک اس کو بیٹا کر کے پکار تا تو وہ بیٹا ہی سمجھا جاتا یہ رسم نہایت خراب تھی اور نیز ایک بیہودہ و ہم پر اس کی بنا تھی کیونکہ جبکہ تمام انسان بنی نوع ہیں تو اس لحاظ سے جو برابر کے آدمی ہیں وہ بھائیوں کی طرح ہیں اور جو بڑے ہیں وہ باپوں کی مانند ہیں اور چھوٹے بیٹوں کی طرح ہیں.218

Page 242

لیکن اس خیال سے اگر مثلاً کوئی ہندو ادب کی راہ سے قوم کے کسی مین آدمی کو باپ کہہ دے یا کسی ہم عمر کو بھائی کہہ دے تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ وہ قول ایک سند متصور ہو کر اس ہندو کی لڑکی اس پر حرام ہو جائے گی یا اس کی بہن سے شادی نہیں ہو سکے گی اور یہ خیال کیا جائے گا کہ اتنی بات میں وہ حقیقی ہمشیرہ بن گئیں اور اس کے مال کی وارث ہو گئیں یا یہ ان کے مال کا وارث ہو گیا.اگر ایسا ہوتا تو ایک شریر آدمی ایک لاولد اور مالدار کو اپنے منہ سے باپ کہہ کر اس کے تمام مال کا وارث بن جاتا کیونکہ اگر صرف منہ سے کہنے کے ساتھ کوئی کسی کا بیٹا بن سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے سے باپ نہ بن جائے پس اگر یہی سچ ہے تو مفلسوں ناداروں کے لئے نقب زنی یاڈا کہ مارنے سے بھی یہ عمدہ تر نسخہ ہو جائے گا یعنی ایسے لوگ کسی آدمی کو دیکھ کر جو کئی لاکھ پاکئی کروڑ کی جائید اور کھتا ہو اور لاولد ہو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تجھ کو باپ بنایا پس اگر وہ حقیقت میں باپ ہو گیا ہے تو ایسے مذہب کی رو سے لازم آئے گا کہ اس لاولد کے مرنے کے بعد سارا مال اس شخص کو مل جائے اور اگر وہ باپ نہیں بن سکا تو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ مسئلہ ہی جھوٹا ہے.اور نیز ایسا ہی ایک شخص کسی کو بیٹا کہ کر ایسا ہی فریب کر سکتا ہے اب چلو کہاں تک چلتے ہو ذرا اپنے دید کی سچائی تو ثابت کرو.بہتیرے راجے اور مہاراجے اپنی وفادار رعیت کو بیٹے اور بیٹیاں ہی سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی لڑکیاں بھی لے لیتے ہیں اور بہتیرے لوگ محبت یا ادب سے کسی کو باپ اور کسی کو بیٹا کہہ دیتے ہیں مگر ان کے وارث نہیں ہو سکتے.اب جانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں.جیسا کہ یہ آیت ہے.وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ (النساء:24) یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جو رو میں حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں.پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا.تو اب ہر یک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا.قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متبنی کی جو رو حرام نہیں ہو سکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لاؤ.اور پھر بعد اس کے سورۃ الاحزاب میں فرمایا.مَا جَعَلَ اللهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي 219

Page 243

تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادعوهم لابائهم هو اقسط عند الله (احزاب:5،6).یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے پس اگر تم کسی کو کہو کہ تو میرا دل ہے تو اس کے پیٹ میں دو دل نہیں ہو جائیں گے دل تو ایک ہی رہے گا اسی طرح جس کو تم ماں کہہ بیٹھے وہ تمہاری ماں نہیں بن سکتی اور اسی طرح خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقت میں تمہارے بیٹے نہیں کر دیا.یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ دکھلاتا ہے تم اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ تو قرآنی تعلیم ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے پاک نبی کا نمونہ اس میں قائم کر کے پورانی رسم کی کراہت کو دلوں سے دور کر دے سو یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے قائم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام آزاد کردہ کی بیوی کی اپنے خاوند سے سخت ناسازش ہو گئی آخر طلاق تک نوبت پہنچی.پھر جب خاوند کی طرف سے طلاق مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیوند نکاح کر دیا.اور خدا تعالیٰ کے نکاح پڑھنے کے یہ معنی نہیں کہ زینب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایجاب قبول نہ ہوا اور جبر اخلاف مرضی زینب کے اس کو گھر میں آباد کر لیا یہ تو ان لوگوں کی بدذاتی اور ناحق کا افترا ہے جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بھلا اگر وہ سچے ہیں تو اس افترا کا حدیث صحیح یا قرآن سے ثبوت تو دیں.اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں نکاح پڑھنے والے کو یہ منصب نہیں ہوتا کہ جبڑا نکاح کر دے بلکہ نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے.اب خلاصہ یہ کہ صرف منہ کی بات سے نہ تو بیٹا بن سکتا ہے نہ ماں بن سکتی ہے.مثلاً ہم آریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غصہ میں آکر یا کسی دھو کہ سے اپنی عورت کو ماں کہ بیٹھے تو کیا اس کی عورت اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق پڑ جائے گی اور خود یہ خیال بالبداہت باطل ہے کیونکہ طلاق تو آریوں کے مذہب میں کسی طور سے پڑہی نہیں سکتی خواہ اپنی بیوی کو نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ ماں کہہ دیں یا دادی کہہ دیں.تو پھر جبکہ صرف منہ کے کہنے سے کوئی عورت ماں یا دادی نہیں بن سکتی تو پھر صرف منہ کی بات سے کوئی غیر کا نطفہ بیٹا کیونکر بن سکتا ہے اور کیونکر قبول کیا جاتا ہے کہ در حقیقت بیٹا ہو گیا اور اس کی عورت اپنے پر حرام ہو گئی خدا کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا پس 220

Page 244

بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ اگر صرف منہ کی بات سے ایک آریہ کی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی تو اسی طرح صرف منہ کی بات سے غیر کا بیٹا بیٹا بھی نہیں بن سکتا.“ (آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 55 تا60) ”زینب کے نکاح کا قصہ جو آپ نے زنا کے الزام سے ناحق پیش کر دیا بجز اس کے کیا کہیں کہ گہر از خطا خطانہ کند اے نالائق متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرناز نا نہیں.صرف منہ کی بات سے نہ کوئی بیٹا بن سکتا ہے اور نہ کوئی باپ بن سکتا ہے اور نہ ماں بن سکتی ہے مثلاً اگر کوئی عیسائی غصہ میں آکر اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو کیا وہ اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی.بلکہ وہ بدستور اسی ماں سے مجامعت کرتا رہے گا پس جس شخص نے یہ کہا کہ طلاق بغیر زنا کے نہیں ہو سکتی اس نے خود قبول کر لیا کہ صرف اپنے منہ سے کسی کو ماں یا باپ یا بیٹا کہہ دینا کچھ چیز نہیں ورنہ وہ ضرور کہہ دیتا کہ ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے مگر شاید کہ مسیح کو وہ عقل نہ تھی جو فتح مسیح کو ہے.اب تم پر فرض ہے کہ اس بات کا ثبوت انجیل میں سے دو کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے یا یہ کہ اپنے مسیح کی تعلیم کو نا قص مان لو یا یہ ثبوت دو کہ بائبل کی رو سے متبنی فی الحقیقت بیٹا ہو جاتا اور بیٹے کی طرح وارث ہو جاتا ہے اور اگر کچھ ثبوت نہ دے سکو.تو بجز اس کے اور کیا کہیں کہ لَعَنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ مسیح بھی تم پر لعنت کرتا ہے.کیونکہ مسیح نے انجیل میں کسی جگہ نہیں کہا کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ تینوں امر ہم شکل ہیں.اگر صرف منہ کے کہنے سے ماں نہیں بن سکتی تو پھر بیٹا بھی نہیں بن سکتا اور نہ باپ بن سکتا ہے اب اگر کچھ حیا ہو تو مسیح کی گواہی قبول کر لویا اس کا کچھ جواب دو اور یاد رکھو کہ ہر گز نہیں دے سکو گے اگر چہ فکر کرتے کرتے مر ہی جاؤ کیونکہ تم کاذب ہو اور صحیح تم سے بیزار ہے “ دوسرے اعتراض کا جواب: ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 388، 389) اور دوسری جز جس پر اعتراض کی بنیادر کھی گئی ہے یہ ہے کہ زینب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا تھا صرف زبر دستی خدا تعالیٰ نے حکم دے دیا.اس کے جواب میں ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ ایک نہایت بد ذاتی کا افتراء ہے جس کا ہماری کتابوں میں نام و نشان نہیں.اگر سچے ہیں تو قرآن یا 221

Page 245

حدیث میں سے دکھلاویں کیسی بے ایمان قوم ہے کہ جھوٹ بولنے سے شرم نہیں کرتی.اگر افتراء نہیں تو ہمیں بتلا دیں کہاں لکھا ہے کیا قرآن شریف میں یا بخاری اور مسلم میں.قرآن شریف کے بعد بالاستقلال وثوق کے لائق ہماری دو ہی کتابیں ہیں ایک بخاری اور ایک مسلم.سو قرآن یا بخاری اور مسلم سے اس بات کا ثبوت دیں کہ وہ نکاح زینب کے خلاف مرضی پڑھا گیا تھا.ظاہر ہے کہ جس حالت میں زینب زید سے جو آنحضرت کا غلام آزاد تھا راضی نہ تھی اور اسی بناء پر زید نے تنگ آکر طلاق دی تھی اور زینب نے خود آنحضرت کے گھر میں ہی پرورش پائی تھی اور آنحضرت کے اقارب میں سے اور ممنون منت تھی تو زینب کے لئے اس سے بہتر اور کونسی مراد اور کونسی فخر کی جگہ تھی کہ غلام کی قید سے نکل کر اس شاہ عالم کے نکاح میں آوے جو خدا کا پیغمبر اور خاتم الانبیاء اور ظاہری بادشاہت اور ملک داری میں بھی دنیا کے تمام بادشاہوں کا سرتاج تھا جس کے رعب سے قیصر اور کسری کانپتے تھے.دیکھو تمہارے ہندوستان کے راجوں نے محض فخر حاصل کرنے کے لئے مغلیہ خاندان کے بادشاہوں کو باوجو د ہندو ہونے کے لڑکیاں دیں اور آپ درخواستیں دے کر اور تمنا کر کے اس سعادت کو حاصل کیا اور اپنے مذہبی قوانین کی بھی کچھ رعایت نہ رکھی بلکہ اپنے گھروں میں ان لڑکیوں کو قرآن شریف پڑھایا اور اسلام کا طریق سکھایا اور مسلمان بنا کر بھیجا حالانکہ یہ تمام بادشاہ اس عالیشان جناب کے آگے پیچ تھے جس کے آگے دنیا کے بادشاہ جھکے ہوئے تھے کیا کوئی عقل قبول کر سکتی ہے کہ ایک ایسی عورت جو اس ذلت سے تنگ آگئی تھی جو اس کا خاوند ایک غلام آزاد کر دہ ہے وہ اس غلام سے آزاد ہونے کے بعد اس شہنشاہ کو قبول نہ کرے جس کے پاؤں پر دنیا کے بادشاہ گرتے تھے بلکہ دیکھ کر رعب کو برداشت نہیں کر سکتے تھے چنانچہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ملک کا بادشاہ گرفتار ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا اور وہ ڈر کر بید کی طرح کا نپتا تھا.آپ نے فرمایا کہ اس قدر خوف مت کر.میں کیا ہوں ایک بڑھیا کا بیٹا ہوں جو باسی گوشت کھایا کرتی تھی سو ایسا خاوند جو دنیا کا بھی بادشاہ اور آخرت کا بھی بادشاہ ہو وہ اگر فخر کی جگہ نہیں تو اور کون ہو سکتا ہے.اور زینب وہ تھی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کے ساتھ آپ شادی کی تھی اور آپ کی دست پروردہ تھی اور ایک یتیم لڑکی آپ کے عزیزوں میں سے تھی جس کو آپ نے پالا تھا وہ دیکھتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں عزت کے تخت پر بیٹھی ہیں اور میں ایک غلام کی جو رو ہوں اسی وجہ سے دن رات تکرار رہتا تھا.اور قرآن شریف بیان فرماتا ہے کہ آنحضرت اس رشتہ سے طبعاً نفرت رکھتے تھے 222

Page 246

اور روز کی لڑائی دیکھ کر جانتے تھے کہ اس کا انجام ایک دن طلاق ہے چونکہ یہ آیتیں پہلے سے وارد ہو چکی تھیں کہ منہ بولا بیٹا در اصل بیٹا نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے آنحضرت کی فراست اس بات کو جانتی تھی کہ اگر زید نے طلاق دے دی تو غالباً خدا تعالیٰ مجھے اس رشتہ کے لئے حکم کرے گا تا لوگوں کے لئے نمونہ قائم کرے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور یہ قصہ قرآن شریف میں بعینہ درج ہے.پھر پلید طبع لوگوں نے جن کی بدذاتی ہمیشہ افترا کرنے کی خواہش رکھتی ہے خلاف واقعہ یہ باتیں بنائیں کہ آنحضرت خود زینب کے خواہشمند ہوئے حالانکہ زینب کچھ دور سے نہیں تھی کوئی ایسی عورت نہیں تھی جس کو آنحضرت نے کبھی نہ دیکھا ہو یہ زینب وہی تو تھی جو آنحضرت کے گھر میں آپ کی آنکھوں کے آگے جو ان ہوئی اور آپ نے خود نہ کسی اور نے اس کا نکاح اپنے غلام آزاد کردہ سے کر دیا اور یہ نکاح اس کو اور اس کے بھائی کو اوائل میں نامنظور تھا اور آپ نے بہت کوشش کی یہاں تک کہ وہ راضی ہو گئی.ناراضگی کی یہی وجہ تھی کہ زید غلام آزاد کردہ تھا.پھر یہ کس قدر بے ایمانی اور بد ذاتی ہے جو واقعات صحیحہ کو چھوڑ کر افتر اکئے جائیں قرآن موجود بخاری مسلم موجود ہے نکالو کہاں سے یہ بات نکلتی ہے کہ آنحضرت زینب کے نکاح کو خود اپنے لئے چاہتے تھے.کیا آپ نے زید کو کہا تھا کہ تو طلاق دیدے تا میرے نکاح میں آوے بلکہ آپ تو بار بار طلاق دینے سے ہمدردی کے طور پر منع کرتے تھے.یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم نے قرآن اور حدیث میں سے لکھی ہیں.لیکن اگر کوئی اس کے بر خلاف مدعی ہے تو ہماری کتب موصوفہ سے اپنے دعوے کو ثابت کرے.ورنہ بے ایمان اور خیانت پیشہ ہے.اور یہ بات جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نکاح پڑھ دیا.اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ نکاح میری مرضی کے موافق ہے اور میں نے ہی چاہا ہے کہ ایسا ہو تا مومنوں پر حرج باقی نہ رہے.یہ معنے تو نہیں کہ اب زینب کے خلاف مرضی اس پر قبضہ کر لو ظاہر ہے کہ نکاح پڑھنے والے کا یہ منصب تو نہیں ہوتا کہ کسی عورت کو اس کے خلاف مرضی کے مرد کے حوالہ کر دیوے بلکہ وہ تو نکاح پڑھنے میں ان کی مرضی کا تابع ہوتا ہے سو خدا تعالیٰ کا نکاح یہی ہے کہ زینب کے دل کو اس طرف جھکا دیا اور آپ کو فرما دیا کہ ایسا کرنا ہو گا تا امت پر حرج نہ رہے.اب بھی اگر کوئی باز نہ آوے تو ہمیں قرآن اور بخاری اور مسلم سے اپنے دعوے کا ثبوت دکھلاوے کیونکہ ہمارے دین کا تمام مدار قرآن شریف پر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کی مفسر ہے اور جو قول ان دونوں کے مخالف ہو وہ مردود اور شیطانی قول ہے یوں تو تہمت لگانا سہل ہے.مثلاً اگر کسی آریہ کو کوئی کہے کہ تیری والدہ کا تیرے والد سے اصل 223

Page 247

نکاح نہیں ہوا.جبر آ اس کو پکڑ لائے تھے اور اس پر کوئی اطمینان بخش ثبوت نہ دے اور مخالفانہ ثبوت کو قبول نہ کرے.تو ایسے بد ذات کا کیا علاج ہے ایسا ہی وہ شخص بھی اس سے کچھ کم بدذات نہیں جو مقدس اور راستبازوں پر بے ثبوت تہمت لگاتا ہے.ایماندار آدمی کا یہ شیوہ ہونا چاہئے کہ پہلے ان کتابوں کا صحیح صحیح حوالہ دے جو مقبول ہوں اور پھر اعتراض کرے ورنہ ناحق کسی مقدس کی بے عزتی کر کے اپنی ناپاکی فطرت کی ظاہر نہ کرے.جب ہم سوچتے ہیں کہ کیوں خدا تعالیٰ کے مقدس اور پیارے بندوں پر ایسے ایسے حرام زادے جو سفلہ طبع دشمن ہیں جھوٹے الزام لگاتے ہیں تو بجز اس کے اور کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تانور کے مقابل پر ظلمت کا خبیث مادہ بھی ظاہر ہو جاوے کیونکہ دنیا میں اضداد اضداد سے پہچانی جاتی ہیں.اگر رات کا اندھیرا نہ ہو تا تو دن کی روشنی کی خوبی ظاہر نہ ہو سکتی.پس خدا تعالیٰ اس طور سے پلید روحوں کو مقابل پر لا کر پاک روح کی پاکیزگی زیادہ صفائی سے کھول دیتا ہے“ قضی حَاجَتَہ کی حقیقت: (آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 60 تا 63) آنحضور صلی نیم کی طرف حدیث میں ایک واقعہ درج کیا گیا ہے اس کو بنیاد بنا کر بعض غیر مسلم معاندین نے اعتراض کیا کہ ”محمد صاحب کی ایک غیر عورت پر نظر پڑی.تو آپ نے گھر میں آکر اپنی بیوی سوڈہ سے خلوت کی پس جو شخص غیر عورت کو دیکھ کر اپنے نفس پر غالب نہیں آسکتا.جب تک اپنی عورت سے خلوت نہ کرے اور اپنے نفس کی حرص کو پورا نہ کرے تو وہ فرد اکمل کیونکر ہو سکتا ہے.اس کا جواب آپ نے ان الفاظ میں دیا ہے.ا قول میں کہتا ہوں کہ جس حدیث کے معترض نے الٹے معنے سمجھ لئے ہیں وہ صحیح مسلم میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں.عن جابر ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رأى امرأة فاتي امرأته زينب وهى تمعس منيّة لها فقضى حاجتہ اس حدیث میں سود کا کہیں ذکر نہیں اور معنے حدیث کے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا.پھر اپنی بیوی زینب کے پاس آئے اور وہ چمڑہ کو مالش کر رہی تھی.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت پوری کی.اب دیکھو کہ حدیث میں اس بات کا نام و نشان نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کا حسن و جمال پسند آیا بلکہ یہ بھی ذکر نہیں کہ وہ عورت جوان تھی یا بڑھی تھی اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا 224

Page 248

کہ آنحضرت نے اپنی بیوی سے آکر صحبت کی.الفاظ حدیث صرف اس قدر ہیں کہ اس سے اپنی حاجت کو پورا کیا اور لفظ قضی حاجتہ لغت عرب میں مباشرت سے خاص نہیں ہے.قضاء حاجت پاخانہ پھرنے کو بھی کہتے ہیں اور کئی معنوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے.یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے صحبت کی تھی.ایک عام لفظ کو کسی خاص معنی میں محدود کر نا صریح شرارت ہے.علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات مروی نہیں کہ میں نے ایک عورت کو دیکھ کر اپنی بیوی سے صحبت کی.اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ مسلم میں جابر سے ایک حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو دیکھے.اور وہ اس کی نظر میں خوبصورت معلوم ہو.تو بہتر ہے کہ فی الفور گھر میں آکر اپنی عورت سے صحبت کرلے.تاکہ کوئی خطرہ بھی دل میں گذرنے نہ پائے اور بطور حفظ ما تقدم علاج ہو جائے.پس ممکن ہے کہ کسی صحابی نے اس حدیث کے سننے کے بعد دیکھا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی راہ میں کوئی جو ان عورت سامنے آگئی اور پھر اس کو یہ بھی اطلاع ہو گئی کہ اس وقت کے قریب ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقا اپنی بیوی سے صحبت کی تو اس نے اس اتفاقی امر پر اپنے اجتہاد سے اپنے گمان میں ایسا ہی سمجھ لیا ہو کہ اس حدیث کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عمل کیا.پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ وہ قول صحابی کا صحیح تھا تو اس سے کوئی بد نتیجہ نکالنا کسی بد اور خبیث آدمی کا کام ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اس بات پر بہت حریص ہوتے ہیں کہ ہر یک نیکی اور تقویٰ کے کام کو عملی نمونہ کے پیرایہ میں لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیں.پس بسا اوقات وہ تنزل کے طور پر کوئی ایسا نیکی اور تقویٰ کا کام بھی کرتے ہیں جس میں محض عملی نمونہ دکھانا منظور ہوتا ہے اور ان کے نفس کو اس کی کچھ بھی حاجت نہیں ہوتی جیسا کہ ہم قانون قدرت کے آئینہ میں یہ بات حیوانات میں بھی پاتے ہیں.مثلاً ایک مرغی صرف مصنوعی طور پر اپنی منقار دانہ پر اس غرض سے مارتی ہے کہ اپنے بچوں کو سکھاوے کہ اس طرح دانہ زمین پر سے اٹھانا چاہئے سو عملی نمونہ دکھانا کامل معلم کے لئے ضروری ہوتا ہے اور ہر یک فعل معلم کا اس کے دل کی حالت کا معیار نہیں ہو تا ماسوا اس کے ایک خوبصورت کو اگر اتفاقاً اس پر نظر پڑ جائے خوبصورت سمجھنا نفس الامر میں کوئی بات عیب کی نہیں.ہاں بد خطرات کامل تقدس کے بر خلاف ہیں لیکن جو شخص بد خطرات سے پہلے حفظ ماتقدم کے طور پر تقویٰ کی دقیق راہوں پر قدم مارے تا خطرات سے دور رہے تو کیا ایسا عمل کمال کے منافی ہو گا.یہ تعلیم قرآن شریف کی نہایت اعلیٰ 225

Page 249

ہے کرانَ اكْرَمَكُم عِندَ اللهِ أَتْقَاكُمْ.یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے اسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل از خطرات خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطور حفظ ماتقدم کی جائے“ ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 444 تا446) شہد والا واقعہ : نا جائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے.آنحضرت علی ایم نے قسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے.خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قسم کو توڑ دیا جاوے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 231) ایک واقعہ احادیث کی کتب میں بیان گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تم ایک دفعہ اپنی ایک زوجہ کے ہاں تھے کہ اس زوجہ نے آپ صلی علی کرم کو ایک شہد پلایا چونکہ شہد آپ صلی می کنم کو بہت پسند تھا اس لئے آپ صلی علی کل اس زوجہ کے پاس زیادہ دیر ٹھہر گئے جسکی وجہ سے دوسری ازواج نے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے کہا کہ آپ صلی کریم کے منہ سے شہد کی بو آتی ہے.اس پر آپ نے قسم کھالی کہ آپ آئندہ کبھی شہد نہیں کھائیں گے.اس پر سورۃ التحریم کی یہ آیات نازل ہوئیں يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ.قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (التحريم: 2، 3) اے نبی !تو کیوں حرام کر رہا ہے جسے اللہ نے تیرے لئے حلال قرار دیا ہے.تو اپنی بیویوں کی رضا چاہتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے اللہ نے تم پر اپنی قسمیں کھولنا لازم کر دیا ہے.اور اللہ تمہارا مولا ہے اور وہ صاحب علم (اور ) صاحب حکمت ہے“ بعض مسلم مفسرین و مورخین نے اس واقعہ کو بعض دیگر واقعات کے ساتھ ملا کر ایلاء و تخییر والے واقعات سے جوڑا ہے.یہاں اُس مضمون کی تفصیلات میں جانا ضروری نہیں کیونکہ حضور کے مذکورہ بالا ارشاد میں اس کا ذکر نہیں ہے.226

Page 250

لمبے ہاتھوں والی سے مراد: حضور نے فرمایا.انبیاء کی کلام میں تمثیل کے ساتھ یا استعارہ کے طور پر بہت باتیں ہوتی ہیں دیکھو ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات امہات المومنین کو فرمایا تھا کہ تم میں سے پہلے اس کی وفات ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہونگے اور ان تمام اہل بیت کو اس حدیث کے سُننے سے یہی یقین ہو گیا تھا کہ در حقیقت لمبے ہاتھوں سے اُن کا لمبا ہونا ہی مراد ہے یہاں تک کہ آنجناب کی ان پاک دامن بیویوں نے باہم ہاتھ ناپنے شروع کئے لیکن جب سب سے پہلے زینب رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تب انہیں سمجھ آیا کہ لمبے ہاتھوں سے ایثار اور سخاوت کی صفت مراد ہے جو زینب رضی اللہ عنہا پر سب کی نسبت زیادہ غالب تھی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 146-147) حضرت زینب بنت حجش کو بھی آنحضور صلی ایم کی زیر تربیت رہنے کی توفیق ملی اس لئے انہوں نے بھی آنحضور صلی للی نیم کے اعلیٰ اخلاق بالخصوص سخاوت کا خاص وصف پایا.حضرت عائشہ بھی بیان کرتی ہیں کہ میں نے زینب سے زیادہ نیک، متقی، راستباز اور راست گو اور رشتہ داروں کے لئے دردمند اور صدقہ و خیرات کی شوقین کوئی دوسری عورت نہیں دیکھی.(1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اسکے الفاظ یہ ہیں کہ اسرعكُن لحاق بی اطوال کن.(2) ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ امہات المومنین سمجھی تھیں کہ حضرت سودہ مراد ہیں کیونکہ وہ دراز قد تھیں اور انکے ہاتھ بھی بظاہر لمبے تھے.لیکن جب آنحضور صلی اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش فوت ہوئیں تو معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں والی سے دراصل مراد ظاہری طور پر لمبے ہاتھ نہ تھے بلکہ استعارہ کے طور پر سب سے زیادہ سخاوت کرنے والی مراد تھی.(3) 227

Page 251

تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب: آنحضور صلی ال نیم کی ایک سے زائد شادیوں پر غیر مسلموں نے بہت اعتراضات کئے ہیں بلکہ بعض مسلمان بھی مغرب کی جدید تہذیب سے متاثر ہو کر اس اعتراض کو جائز سمجھ لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر اپنی تحریرات میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ہر پہلو سے اس کا جواب ارشاد فرما دیا ہے.یہاں صرف ایک ارشاد درج کیا جاتا ہے.فرمایا: ہمینہ طبع آدمی کے ہاتھ میں صرف بدظنی کے طور پر چند اعتراض ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ فلاں شخص کیونکر خدا کا نبی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھتا ہے مگر وہ نادان نہیں جانتا کہ اس میں کیا حرج ہے بلکہ کثرت ازدواج کثرت اولاد کا موجب ہے جو ایک برکت ہے.اگر ایک عورت کا سوخاوند ہو تو اُس کا سولڑکا پیدا نہیں ہو سکتا لیکن اگر سو ۱۰۰ عورت کا ایک خاوند ہو تو سو لڑکا پیدا ہونا کچھ بعید نہیں ہے پس جس طریق سے انسان کی نسل پھیلتی ہے اور خدا کے بندوں کی تعداد بڑھتی ہے اس طریق کو کیوں بُرا کہا جاوے؟ اگر کہو کہ یہ اعتدال کے برخلاف ہے تو یہ خیال باطل ہے کیونکہ جب کہ خدا نے ایک کو مرد بنایا اور زیادہ بچہ پیدا کرانے کا اُس میں مادہ رکھا اور عورت کی نسبت اس کو بہت زبر دست قوتیں دیں تو اس صورت میں اعتدال کو تو خدا نے اپنے ہاتھ سے توڑ دیا.جن کو خدا نے برابر نہیں کیا وہ کیونکر برابر ہو جائیں اُن کو برابر سمجھنا صریح حماقت ہے.ماسوا اس کے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ تعدد ازدواج میں کسی عورت پر ظلم نہیں.مثلاً اگر کسی شخص کی پہلی بیوی موجود ہے تو اب دوسری عورت جو اُس سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ کیوں ایسے شخص سے شادی کرتی ہے جو پہلے بھی ایک بیوی رکھتا ہے ظاہر ہے کہ وہ تو تبھی شادی کرے گی کہ جب تعدد ازدواج پر راضی ہو جائے گی.پھر جب میاں بیوی راضی ہو گئے تو پھر دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں پہنچتا جب حق دار نے اپنا حق چھوڑ دیا تو پھر دوسرے کا اعتراض محض جھک مارنا ہے اور اگر پہلی بیوی ہے تو وہ خوب جانتی ہے کہ اسلام میں دوسری بیوی کر سکتے ہیں تو وہ کیوں نکاح کے وقت میں یہ شرط نہیں کرا لیتی کہ اُس کا خاوند دوسری بیوی نہ کرے اس صورت میں وہ بھی اپنی خاموشی سے اپنا حق چھوڑتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ کثرت ازواج خدا کے تعلق کی کچھ حارج نہیں اگر کسی کی دس ہزار بیوی بھی ہو تو اگر اُس کا خدا سے پاک اور مستحکم تعلق ہے تو دس ہزار بیوی سے اُن کا کچھ بھی حرج نہیں بلکہ اِس سے اُس کا کمال ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام تعلقات 228

Page 252

کے ساتھ وہ ایسا ہے کہ گویا اُس کو کسی کے ساتھ بھی تعلق نہیں.اگر ایک گھوڑا بوجھ کی حالت میں کچھ چل نہیں سکتا مگر بغیر سواری اور بوجھ خوب چال نکالتا ہے تو وہ گھوڑا کس کام کا ہے ؟ اسی طرح بہادر وہی لوگ ہیں جو تعلقات کے ساتھ ایسے ہیں کہ گویا بے تعلق ہیں.پاک آدمیوں کی شہوات کو ناپاکوں کی شہوات پر قیاس نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ناپاک لوگ شہوات کے اسیر ہوتے ہیں مگر پاکوں میں خدا اپنی حکمت اور مصلحت سے آپ شہوات پیدا کر دیتا ہے اور صرف صورت کا اشتراک ہے جیسا کہ مثلاً قیدی بھی جیل خانہ میں رہتے ہیں اور داروغہ جیل بھی.مگر دونوں کی حالت میں فرق ہے.دراصل ایک انسان کا خدا سے کامل تعلق تبھی ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر بہت سے تعلقات میں وہ گرفتار ہو.بیویاں ہوں اولاد ہو تجارت ہو زراعت ہو اور کئی قسم کے اُس پر بوجھ پڑے ہوئے ہوں اور پھر وہ ایسا ہو کہ گویا خدا کے سوا کسی کے ساتھ بھی اُس کا تعلق نہیں یہی کامل انسانوں کے علامات ہیں.اگر ایک شخص ایک بن میں بیٹھا ہے نہ اس کی کوئی جو رو ہے نہ اولاد ہے نہ دوست ہیں اور نہ کوئی بوجھ کسی قسم کے تعلق کا اُس کے دامن گیر ہے تو ہم کیونکر سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے تمام اہل و عیال اور ملکیت اور مال پر خدا کو مقدم کر لیا ہے اور بے امتحان ہم اُس کے کیونکر قائل ہو سکتے ہیں اگر ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے تو ہمیں کیونکر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جاں فشانی کے موقع پر آپ ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لا کر صدہا امتحانوں کے موقعہ پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو جسمانی لذات سے کچھ بھی غرض نہیں اور آپ کی ایسی مجر دانہ زندگی ہے کہ کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی.تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اور خدا کی طرف جاؤں گا.ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے.ایک مرتبہ ایک جنگ کے موقعہ پر آپ کی اُنگلی پر تلوار لگی اور خون جاری ہو گیا.تب آپ نے اپنی انگلی کو مخاطب کر کے کہا کہ اے انگلی تو کیا چیز ہے صرف ایک انگلی ہے جو خدا کی راہ میں زخمی ہو گئی.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا.آپ نے فرمایا کہ اے عمر تو کیوں روتا ہے.حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر 229

Page 253

مجھے رونا آگیا.قیصر اور کسریٰ جو کا فر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں.تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اِس دُنیا سے کیا کام! میری مثال اُس سوار کی ہے کہ جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جارہا ہے اور جب دو پہر کی شدت نے اُس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اُسی گرمی میں اپنی راہ لی.اور آپ کی بیویاں بھی بجز حضرت عائشہ کے سب سن رسیدہ تھیں بعض کی عمر ساٹھ ۶۰ برس تک پہنچ چکی تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعدد ازواج سے یہی اہم اور مقدم مقصود تھا کہ عورتوں میں مقاصد دین شائع کئے جائیں اور اپنی صحبت میں رکھ کر علم دین اُن کو سکھایا جائے تا وہ دوسری عورتوں کو اپنے نمونہ اور تعلیم سے ہدایت دے سکیں.یہ آپ ہی کی سنت مسلمانوں میں اب تک جاری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے وقت کہا جاتا ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یعنی ہم خدا کے ہیں اور خدا کا مال ہیں اور اُسی کی طرف ہمارار جوع ہے.سب سے پہلے یہ صدق و وفا کے کلمے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے تھے پھر دوسروں کے لئے اس نمونہ پر چلنے کا حکم ہو گیا.اگر آنجناب بیویاں نہ کرتے اور لڑکے پیدا نہ ہوتے تو ہمیں کیونکر معلوم ہوتا کہ آپ خدا کی راہ میں اس قدر فدا شدہ ہیں کہ اولاد کو خدا کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے.اب تم مقابلہ کرو کہ ایک طرف تو وہ آر یہ ہیں کہ جو اولاد حاصل کرنے کے لالچ سے اپنی بیویوں سے نیوگ کراتے ہیں جو سراسر حرامکاری ہے اور ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو ہر ایک فرزند عزیز کے مرنے پر یہ کہتے ہیں کہ مجھے کسی سے تعلق نہیں مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق ہے.پس یہ پوشیدہ تعلق بجز ان امتحانوں کے کیونکر ثابت ہو سکتا تھا ؟ اسی بناپر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ یعنی اے نبی لوگوں کو کہدے کہ میں صرف خدا کا پرستار ہوں دوسری کسی چیز سے میرا تعلق نہیں اور میرازندہ رہنا اور میر امر نا صرف اس خدا کے لئے ہے جو تمام عالموں کا پروردگار ہے.دیکھو اس آیت میں کیسی ماسوی اللہ سے بے تعلقی ظاہر کی گئی ہے“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 297 تا 301) 230

Page 254

متعہ کا جائز کرنا اور پھر ناجائز کرنا: بعض غیر مسلم متعہ کو اسلامی تعلیمات کا حصہ قرار دے کر اسلام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں.اور بعض متعہ کو ہند و عقیدہ نیوگ کی مانند قرار دیتے ہیں.اسی طرح بعض مسلمان فرقے مثلاً شیعہ متعہ کو اب تک جائز قرار دیتے ہیں اس مسئلہ پر آپ نے ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے فرمایا: اور بعض آر یہ نیوگ کے مقابل پر اسلام پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں متعہ یعنی نکاح موقت جائز رکھا گیا ہے جس میں ایک مدت تک نکاح کی میعاد ہوتی ہے اور پھر عورت کو طلاق دی جاتی ہے.لیکن ایسے معترضوں کو اس بات سے شرم کرنی چاہئے تھی کہ نیوگ کے مقابل پر متعہ کا ذکر کریں.اول تو متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جبکہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کے لئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جو از اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھوکے کے لئے مردار کھانا نہایت بے قراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر متعہ ایسا حرام ہو گیا جیسے سور کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کے لئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی.قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اور عورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اور متعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں.اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط اور تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے موجود ہیں“ ایک اور جگہ فرمایا: آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 68،67) ما الجواب نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا.بلکہ جہان تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہو کر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے ان کو موقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت 231

Page 255

پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیر ملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اسی نیت سے نکاح ہو تا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی.پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا.مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہو گیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الہی نے آخر اس کو حرام کر دیا چنانچہ ہم رسالہ آریہ دھرم میں اس کی تفصیل لکھ چکے ہیں مگر تعجب کہ عیسائی لوگ کیوں متعہ کا ذکر کرتے ہیں جو صرف ایک نکاح موقت ہے اپنے یسوع کے چال چلن کو کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ ایسی جوان عورتوں پر نظر ڈالتا ہے جن پر نظر ڈالنا اس کو درست نہ تھا.کیا جائز تھا کہ ایک کسی کے ساتھ وہ ہم نشین ہو تا.کاش اگر وہ متعہ کا ہی پابند ہو تا تو ان حرکات سے بچ جاتا.کیا یسوع کی بزرگ دادیوں نانیوں نے متعہ کیا تھا یا صریح صریح زنا کاری تھی ہم عیسائی صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ جس مذہب میں نہ متعہ یعنی نکاح موقت درست ہے اور نہ ازدواج ثانی جائز اس مذہب کے لشکری لوگ جو باعث رعایت حفظ قوت کے راہبانہ زندگی بھی بسر نہیں کر سکتے بلکہ شہوت کی جنبش دینے والی شرابیں پیتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ خوراکیں کھاتے ہیں تا سپاہیانہ کاموں کے بجالانے میں چست و چالاک رہیں جیسے گوروں کی پلٹنیں وہ کیونکر بدکاریوں سے اپنے تئیں بچاسکتے ہیں اور ان کی حفظ عفت کے لئے انجیل میں کیا قانون ہے اور اگر کوئی قانون تھا اور انجیل میں ایسے مجر دوں کا کچھ علاج لکھا تھا تو پھر کیوں سرکار انگریزی نے ایکٹ چھاؤنی ہائے نمبر ۱۳ ۱۸۸۹ ء جاری کر کے یہ انتظام کیا کہ گورہ سپاہی فاحشہ عورتوں کے ساتھ خراب ہوا کریں یہاں تک کہ سر جارج رائٹ صاحب کمانڈر انچیف افواج ہند نے ماتحت حکام کو ترغیب دی کہ ایسی خوبصورت اور جوان عورتیں گوروں کی زناکاری کے لئے بہم پہنچائی جائیں یہ ظاہر ہے کہ اگر ایسی ضرورتوں کے وقت جنہوں نے حکام کو ان قابل شرم تجویزوں کے لئے مجبور کیا انجیلوں میں کوئی تدبیر ہوتی تو وہ حلال طریق کو چھوڑ کر نا پاک طریقوں کو اپنے بہادر سپاہیوں میں رواج نہ دیتے.اسلام میں کثرت ازدواج کی بر کتوں نے ہر یک زمانہ میں سلاطین کو ان ناپاک تدبیروں سے بچا لیا اسلامی سپاہی نکاح سے اپنے تئیں حرام کاری سے بچالیتے ہیں اگر پادری صاحبان کوئی مخفی تدابیر انجیل کی حرام کاری سے بچانے کی یاد رکھتے ہیں تو اس طریق سے گورنمنٹ کو روک دیں.کیونکہ اخبار ٹائمز نے اب پھر زور 232

Page 256

شور سے اس قانون کو دوبارہ جاری کرنے کے لئے سلسلہ جنبانی کی ہے یہ سب باتیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انجیل کی تعلیم ناقص ہے.اور اس میں تمدن کے ہر یک پہلو کا لحاظ نہیں کیا گیا“ ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 450 تا452) مندرجہ بالا ارشادات میں متعہ کے متعلق اصولی طور پر یہ باتیں بیان کی گئی ہیں کہ ”وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہو گیا “ اور جب نکاح و شادی کے احکام نازل ہو گئے تو آنحضور صلی ال کلم نے متعہ کی رسم کی کلیتاً ممانعت فرما دی.(4) ایک روایت ہے کہ رخص رسول الله ﷺ عَامَ أوطاس في المتعه ثُمَّ لَهَا عَنهَا که آنحضور صلی علیم نے اوطاس والے سال متعہ کی اجازت دی تھی پھر اس کی ممانعت کہ آنحضور متعہ فرما دی.(5) اسی طرح متعہ کی ممانعت کے متعلق ایک بڑی واضح حدیث ہے کہ عن علی رضی اللہ عنہ قال لابن عباس ان النبي نهي عن المتعه ولحوم الحمر الاهليه زمن خيبر - نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے روز عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھے کے گوشت سے روک دیا.(6) (نوٹ : مندرجہ بالا ایک روایت جہاں غزوہ اوطاس میں متعہ کی اجازت کا ذکر ہے یہ راوی کی غلطی ہے اصل میں یہ غزوہ بنی مصطلق کا واقعہ ہے جو پانچ ہجری میں ہوا تھا.) اولا د النبی صلى اللوم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا: تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اور خدا کی طرف جاؤں گا.ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خداہر ایک چیز پر میں تجھے مقدم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299) 233

Page 257

مندرجہ بالا ارشاد میں آپ نے سیرت النبی صلی للی نام کے ایک نہات اہم پہلو صبر ، تنتبل الی اللہ اور فنافی اللہ کو نہایت دلکش الفاظ میں بیان فرمایا ہے.اور اس ارشاد میں آپ کی شادیوں کی غرض بھی بیان کی گئی ہے.اسی طرح ”جو لخت جگر ہوتے ہیں“ میں یہ بھی پہلو جھلکتا ہے کہ آنحضور صلی ایم کو بچوں سے بہت پیار تھا گویا لخت جگر تھے لیکن خدا کی محبت اس محبت پر غالب تھی.اکثر تاریخ کی کتب میں آنحضور صلی علی ایم کے لڑکوں کی تعداد چار بیان کی گئی ہے لیکن وہ روایات بھی موجود ہیں جن میں لڑکوں کی تعداد گیارہ لکھی گئی ہے.اور اس ارشاد میں سیرت کا جو حسین پہلو بیان ہو ا ہے اس میں تعداد کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا لیکن اس ارشاد کی تائید میں چند حوالے درج کئے جاتے ہیں جن میں آپ کے لڑکوں کی تعداد گیارہ بیان کی گئی ہے.مثلاً سیرت الحلبیہ میں تعداد گیارہ والی روایت موجود ہے اور نام بھی درج ہیں قاسم، عبد اللہ ( قبل از بعثت)، طیب طاہر.طاہر و مطیب (جڑواں)، طیب اور مطیب (جڑواں)، عبد مناف، عبد الله (بعد از بعثت)، ابراہیم (7) اسی طرح تاریخ الخمیس تعداد ایک روایت میں گیارہ اور دوسری میں بارہ بیان ہوئی ہے.(8) ابراہیم کی وفات پر سورج گرہن: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: " ومن اوهامهم الواهية ان كسوف الشمس قبل ايامها المقررة واوقاتها المقدرة ليس اللہ خالق السموات والارضين وقالوا ان ابراهيم ابن رسول ببعيد من اللہ اللہ صلی علیہ وسلم مات يوم العاشر من الشهر وعند ذلك كسفت الشمس باذن الله الرحمان فكيف لا تنكسف فى آخر الزمان باذن ربّ العالمين ولا يعلمون ان هذا القول ليس بصحيح بل هو من نوع كذب صريح و من كلمات المفترين 66 (نور الحق، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 264،263) مندرجہ بالا ارشاد میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ابراہیم بن رسول اللہ صلی المی ریم کے متعلق ایک مشہور روایت کا ذکر فرمایا ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ انکی وفات کے دن سورج گرہن ہوا جس پر بعض لوگوں نے خیال کیا کہ شاید یہ انکی وفات کی وجہ سے ہوا ہے.آنحضور صلی ایم نے فرمایا کہ سورج اور چاند کا گرہن اللہ کی 234

Page 258

نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ لوگوں کو ہوشیار کرتا ہے اس کا تعلق کسی کی موت یا زندگی سے نہیں.(9) حضرت ابراہیم بن رسول اللہ صلی لکھ میں حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے.ساتویں دن انکا نام رکھا گیا اور عقیقہ کیا گیا.ابراہیم کی وفات ناھ میں ہوئی.انکی وفات کا آنحضور صلی علی یم کو بہت دکھ ہوا.آپ نے ابراہیم کے جسد کو گود میں لیا اور اسے بوسہ دیا.آپ کی آنکھیں نمناک تھیں جنہیں دیکھ کر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے تعجب کا اظہار فرمایا.آپ ملی لیے ہم نے فرمایا اے عبد الرحمان یہ تو رحمت کی وجہ سے ہے.آنکھیں اشکبار ہیں اور دل حزیں ہے لیکن ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے جس سے ہمارا خدا راضی ہو.اگر چہ اے ابراہیم ہمارا دل تیری فرقت کے سبب غمگین ہے.فقال لۂ عبدالرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله؟ فقال صلى الله عليه وسلم إنّ العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون (10) آنحضور کی بیٹیاں: فرمایا: ”دیکھو ہمارے پیغمبر خدا کے ہاں ۱۲ لڑکیاں ہوئیں.آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لڑکا کیوں نہ ہوا اور جب کوئی غم ہو تا تو اناللہ ہی کہتے رہے“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 372) حضور نے مندرجہ بالا ارشاد میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کے رواج کی اصلاح فرمائی ہے.اور اس اسلامی تعلیم پر اسوہ نبی صلی علیم سے روشنی ڈالی ہے.یہاں بھی بعض غیر از جماعت اعتراض کرتے ہیں آنحضور صلی کم کی تو صرف چار بیٹیاں تھیں یہاں بارہ کیوں لکھا گیا ہے.اس سلسلہ میں بھی اصولی جواب یہی ہے کہ یہاں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس میں تعداد کی کمی بیشی سے خاص فرق نہیں پڑتا.دوسری بات یہ ہے کہ یہ سہو کاتب بھی ہو سکتا ہے.اور بالخصوص یہ ارشاد جس کیفیت میں نوٹ کیا گیا اس میں سہو کاتب کا امکان موجود ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ یہ ارشاد دراصل احمدی خواتین کی مجلس کو وعظ ونصائح میں سے ایک مجلس کا حصہ ہے جو حضور نے 1902 1903 میں فرمائے تھے.یہ وعظ بالعموم عصر اور مغرب کے درمیان ہوا کرتے تھے.اس میں بعض اوقات تعطل بھی آجاتا تھا.اس وعظ کو اکثر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ضبط تحریر میں لایا کرتے تھے.جن سے سہو کا امکان بہت کم تھا.لیکن اس روز انکی جگہ کسی اور کاتب نے یہ وعظ نوٹ کیا.اور اسکے شروع میں لکھا کہ یہ وعظ ہمیں بالواسطہ ملا ہے (11) پھر البدر جلد نمبر 2 نمبر 27 صفحہ 210 ، 211 میں مورخہ 24 جولائی 1903 کو شائع ہوا اور اسکے شروع میں یہ نوٹ ہے کہ [ حضرت اقدس نے 12 جولائی 1903 کو اندرون خانہ بوقت بین 235

Page 259

العصر والمغرب ( یہ وعظ ) فرمایا تھا اور دروازہ سے باہر دیوار کی اوٹ میں کھڑے ہو کر قلمبند کیا گیا.چونکہ اکثر بچگان بھی عورتوں کے ہمراہ تھے جو اکثر شور کر کے سلسلہ تسامع کو توڑ دیتے تھے.اس لئے جہاں تک بشریت کی استعداد نے موقعہ دیا اس کو بلفظہ نوٹ کیا گیا.] ابو لہب کے لڑکوں سے منگنی کی وجہ : فرمایا: "محضرت علی عوام نے اپنی لڑکیوں کے رشتے ابو لہب سے کر دئے تھے حالانکہ وہ مشرک تھا مگر اس وقت تک نکاح کے متعلق وحی کا نزول نہ ہوا تھا.چونکہ پیغمبر خدا صلی اللہ ان پر توحید غالب تھی اس لئے دخل نہ دیتے تھے.اور قومیت کے لحاظ سے بعض امور کو سر انجام دیتے.اس لئے ابو لہب کو لڑکی دے دی تھی “نوٹ: فٹ نوٹ میں مرتب ملفوظات کی طرف سے نوٹ ہے کہ [ ابو لہب کے گھر مراد ہے] ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 355) مندرجہ بالا ارشاد میں جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ابو لہب سے مراد اس کے گھر یعنی اسکے بیٹے ہیں.اسکی تفصیل یہ ہے کہ حضرت رقیہ کی نسبت (منگنی) نبوت سے قبل عتبہ بن ابو لہب سے ہوئی تھی.سورۃ اللہب کے نزول کے بعد یہ رشتہ ختم ہو گیا.بعد میں حضرت رقیہ کی شادی حضرت عثمان غنی سے ہوئی.دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم کی نسبت بھی قبل نزول وحی عتیبہ ابن ابی لہب سے قائم ہوئی تھی اور سورۃ اللہب کے بعد یہ رشتہ بھی ختم ہو گیا.حضرت رقیہ کی وفات کے بعد انکی شادی حضرت عثمان سے ہو گئی.اس لئے حضرت عثمان کو ذوالنورین کہا جاتا ہے کہ انکے عقد میں آنحضور کی دو صاحبزادیاں آئیں.(12) اولاد کو نصائح : آنحضرت صلی الم نے خود فاطمہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے.اللہ تعالی کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا.کسی نے پوچھا کہ کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی“ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 4 صفحہ 445) 236

Page 260

حوالہ جات باب ہفتم ها الله سة 1 (سیرت الطلبیہ جلد 2 صفحہ 415 ذکر مغازیہ علی ای کم مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء) 2.(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل زینب حدیث 2452) 3.(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 449 باب ذکر ازواجہ و سرایہ مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء 4 ) صحیح مسلم کتاب النکاح باب نكاح المتعة حدیث 1406) ( بخاری کتاب النکاح باب نكاح المتعة حديث 5151) 5- ( صحیح مسلم کتاب النکاح باب نکاح المتحد حديث 1405) -6 ( صحیح بخاری ، کتاب النکاح بھی رسول اللہ صلی اللي يلم عن النكاح المتعد حديث 5115) 7.(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 433،432 باب ذکر اولادہ سلی کی مطبوعہ دار لكتب العلمیہ بیروت 2002ء) 8- ( تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 499 باب ذکر اولاده، موسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) 9.( بخاری کتاب الخسوف باب الدعا فی الخسوف.حدیث (1060) 10.(بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی و را نابفر اتک یا را براحیم لمحزونون حدیث 1303) 11- (الحکم جلد 7 نمبر 26 صفحہ 16،15 میں مورخہ 17 جولائی 1903) 12.(سنن الکبریٰ بیہقی کتاب النکاح باب تسمیہ ازواج النبی صلی علم حدیث 13427 مكتبه الرشد ریاض سعودی عرب 2004ء) 237

Page 261

باب ہشتم لباس: آنحضور صلی الیم کے شمائل ”ہمارے آنحضرت ملا علم نہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سر اویل بھی خرید نا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہے پہنے.علاوہ ازیں ٹوپی.گرتہ.چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی.جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں.ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہیے کہ ان میں سے ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو “ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 3 صفحہ 246) اطاعت، عبادت، خدمت میں اگر صبر سے کام لو تو خدا کبھی ضائع نہ کرے گا اسلام میں ہزاروں ہوئے ہیں کہ لوگوں نے صرف ان کے نور سے ان کو شناخت کیا ہے ان کو مکاروں کی طرح بھگوے کپڑے یا لمبے چونے اور خاص خاص متمیز کرنے والے لباس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ خدا کے راستبازوں نے ایسی وردیاں پہنی ہیں پیغمبر خدائی علیم کا کوئی خاص ایسا لباس نہ تھا جس سے آپ لوگوں میں متمیز ہو سکتے بلکہ ایک دفعہ ایک شخص نے ابو بکر کو پیغمبر جان کر ان سے مصافحہ کیا اور تعظیم و تکریم کرنے لگا آخر ابو بکر اٹھ کر پیغمبر خداسلام کو پنکھا جھلنے لگ گئے اور اپنے قول سے نہیں بلکہ فعل سے بتلا دیا کہ آنحضرت علی کمر یہ ہیں میں تو خادم ہوں جب انسان خدا کی بندگی کرتا ہے تو اسے رنگدار کپڑے پہنے، ایک خاص وضع بنانے اور مالا وغیرہ لٹکا کر چلنے کی کیا ضرورت ہے ایسے لوگ دنیا کے کتے ہوتے ہیں خدا کے طالبوں کو اتنی ہوش کہاں کہ وہ خاص اہتمام پوشاک اور وردی کا کریں.وہ تو خلقت کی نظروں سے پوشیدہ رہنا چاہتے ہیں.بعض بعض کو خدا تعالیٰ اپنی مصلحت سے باہر کھینچ لاتا ہے کہ اپنی الوہیت کا ثبوت دیوے آنحضرت صلی اللہ ﷺ کو ہر گز خواہش نہ تھی کہ لوگ آپ کو پیغمبر کہیں اور آپ کی اطاعت کریں اور اسی لیے ایک غار میں جو قبر سے زیادہ تنگ تھی جا کر آپ عبادت کیا کرتے تھے اور 238

Page 262

طعام: آپ کا ہر گز ارادہ نہ تھا کہ اس سے باہر آویں آخر خدا نے اپنی مصلحت سے آپ کو خود باہر نکالا اور آپ کے ذریعے سے دنیا پر اپنے نور کو ظاہر کیا“ (ملفوظات[2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 619) طیبین اور طاہرین کا سیر ہو کر کھانا اس قسم کا سیر ہونا نہیں ہے جو ان لوگوں کا ہوا کرتا ہے جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے کھاتے ہیں جیسے چار پائے کھایا کرتے ہیں اور آگ ان کا ٹھکانا ہے.آنحضرت علی الم کا کسی وقت سیر ہو کر کھانا اور ہی نور ہے اور اگر اس سیری کو ان لوگوں کی طرف نسبت دی جائے جن کا اصل مقصد انتطاذ اور تمتع ہے اور جنکی نگاہیں نفسانی شہوات کے استیفا تک محدود ہیں تو اس سیری کو ہم ہر گز سیری نہیں کہہ سکتے.سیری کی تعریف میں پاکوں اور مقدسوں کی اصطلاح اور ناپاکوں اور شکم پرستوں کی اصطلاح الگ الگ ہے.اور پاک لوگ اسی قدر غذا کھانے کا نام سیری رکھ لیتے ہیں کہ جب فی الجملہ دقت جوع دور ہو جائے.اور حرکات و سکنات پر قوت حاصل ہو جاوے.غرض مومن کی سیری یہی ہے کہ اس قدر غذا کھائے جو اسکی پشت کو قائم رکھے اور حقوق واجبہ ادا کر سکے پس جو سید المومنین ہے اس کی سیری کا قیاس عام لوگوں کی سیری پر قیاس مع الفارق ہے.اسی طرح بہت لوگوں نے آنحضرت مئی یا کم کی شان عظیم کو نہیں سمجھا اور الفاظ کے مورد استعمال کو ملحوظ نہیں رکھا اور اپنے تئیں غلطی میں ڈال لیا.آنحضرت مالم کا کسی وقت یہ فرمانا کہ میں سیر ہو گیا ہوں ہر گز اس قول کا مرادف نہیں کہ جو دنیا داروں کے منہ سے نکلتا ہے جنہوں نے اصل مقصد اپنی زندگی کا کھانا ہی سمجھا ہوا ہوتا ہے.غرض پاکوں کا کام اور کلام پاکوں کے مراتبہ عالیہ کے موافق سمجھنا چاہیے اور ان کے امور کا دوسروں پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے وہ در حقیقت اس عالم سے باہر ہوتے ہیں گو بصورت اسی عالم کے اندر ہوں“ (مکتوبات احمد یہ جدید ایڈیشن جلد 1 صفحہ 538،537 مکتوب نمبر 20 بنام میر عباس علی شاہ صاحب.21 جون 1883) رہن سہن میں سادگی: ”ایک دفعہ حضرت عمر آنحضرت علی ایم کے پاس آئے.آپ اندر ایک حجرہ میں تھے.حضرت عمرؓ نے اجازت چاہی.آپ نے اجازت دے دی.حضرت عمر نے آکر دیکھا کہ صف کھجور کے پتوں کی آپ 239

Page 263

نے بچھائی ہوئی ہے اور اس پر لیٹنے کی وجہ سے پیٹھ پر پتوں کے داغ لگے ہوئے ہیں گھر کی جائداد کی طرف حضرت عمر نے نظر کی تو دیکھا کہ ایک گوشہ میں تلوار لٹکی ہوئی ہے.یہ دیکھ کر ان کے آنسو جاری ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے پوچھا کہ اے عمر تو کیوں رویا؟ عرض کی کہ خیال آتا ہے کہ قیصر و کسری جو کہ کا فر ہیں ان کے لئے کس قدر تنعم اور آپ کے لئے کچھ بھی نہیں.فرمایا.میرے لئے دنیا کا اسی قدر حصہ کافی ہے کہ جس میں حرکت کر سکوں.میری مثال یہ ہے کہ جیسے ایک مسافر سخت گرمی کے دنوں میں اونٹ پر جارہا ہو اور جب سورج کی تپش سے بہت تنگ آوے تو ایک درخت کو دیکھ کر اس کے نیچے ذرا آرام کر لیوے اور جو نہی کہ ذرا پسینہ خشک ہو پھر اٹھ کر چل پڑے.تو یہ اسوۂ حسنہ ہے جو کہ اسلام کو دیا گیا ہے.دنیا کو اختیار کرنا بھی گناہ ہے اور مومن کی زندگی اضطراب کے ساتھ گذرتی ہے “ (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 660) ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار پیغمبر خداصلی نام کا کوئی خاص ایسا لباس نہ تھا جس سے آپ لوگوں میں متمیز ہو سکتے.بلکہ ایک دفعہ ایک شخص نے ابو بکر کو پیغمبر جان کر ان سے مصافحہ کیا اور تعظیم و تکریم کرنے لگا آخر ابو بکر اٹھ کر پیغمبر خدا ملیالم کو پنکھا جھلنے لگ گئے اور اپنے قول سے نہیں بلکہ فعل سے بتلا دیا کہ آنحضرت ملا ہم یہ ہیں میں تو خادم ہوں.جب انسان خدا کی بندگی کرتا ہے تو اسے رنگدار کپڑے پہنے ، ایک خاص وضع بنانے اور مالا وغیرہ لٹکا کر چلنے کی کیا ضرورت ہے ایسے لوگ دنیا کے کتے ہوتے ہیں.خدا کے طالبوں کو اتنی ہوش کہاں کہ وہ خاص اہتمام پوشاک اور وردی کا کریں.وہ تو خلقت کی نظروں سے پوشیدہ رہنا چاہتے ہیں.بعض بعض کو خدا تعالیٰ اپنی مصلحت سے باہر کھینچ لاتا ہے کہ اپنی الوہیت کا ثواب دیوے.آنحضرت لام کو ہر گز خواہش نہ تھی کہ لوگ آپ کو پیغمبر کہیں اور آپ کی اطاعت کریں اور اسی لیے ایک غار میں جو قبر سے زیادہ تنگ تھی جا کر آپ عبادت کیا کرتے تھے اور آپ کا ہر گز ارادہ نہ تھا کہ اس سے 240

Page 264

باہر آویں آخر خدا نے اپنی مصلحت سے آپ کو خود باہر نکالا اور آپ کے ذریعے سے دنیا پر اپنے نور کو ظاہر کیا.شعر سُننا اور شعر کہنا: ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 3 صفحہ 619) شعر و شاعری کے متعلق اسوہ رسول سے کیا ر ہنمائی ملتی ہے اس کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: محضرت علی اہل علم نے بھی خود شعر پڑھے ہیں.پڑھنا اور کہنا ایک ہی بات ہے.پھر آنحضرت مصلی یکم کے صحابی شاعر تھے.حضرت عائشہ.امام حسن اور امام حسین کے قصائد مشہور ہیں.حسان بن ثابت نے آنحضرت ملا لی ایم کی وفات پر قصیدہ لکھا.سید عبد القادر صاحب نے بھی قصائد لکھے ہیں.کسی صحابی کا ثبوت نہ دے سکو گے کہ اس نے تھوڑا یا بہت شعر نہ کہا ہو مگر آنحضرت صلی ا ولم نے کسی کو منع نہ فرمایا.قرآن کی بہت سی آیات شعروں سے ملتی ہیں.ایک شخص نے عرض کی کہ سورہ شعراء میں اخیر پر شاعروں کی مذمت کی ہے فرمایا کہ:.وہ مقام پڑھو.وہاں خدا نے فسق و فجور کرنیوالے شاعروں کی مذمت کی ہے اور مومن شاعر کا وہاں خود استثناء کر دیا ہے.پھر ساری زبور نظم ہے، یرمیاہ، سلیمان اور موسیٰ کی نظمیں تو رات میں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ نظم گناہ نہیں ہے ہاں فسق و فجور کی نظم نہ ہو.ہمیں خود الہام ہوتے ہیں بعض ان میں سے متقی اور بعض شعروں میں ہوتے ہیں“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 162) ایک صحابی نے آنحضرت صلی ایام کے بعد مسجد میں شعر پڑھے.حضرت عمرؓ نے روکا کہ مسجد میں مت پڑھو.وہ غصہ میں آگیا اور کہا کہ تو کون ہے کہ مجھے روکتا ہے میں نے اسی جگہ اور اسی مسجد میں آنحضرت علی ایم کے سامنے اشعار پڑھے تھے اور آپ نے مجھے منع نہ کیا.حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 162) محضرت معلوم کے پاس ہزاروں شاعر آتے اور آپ کی تعریف میں شعر کہتے تھے مگر لعنتی ہے وہ دل جو خیال کرتا ہے کہ آنحضرت علی کم ان کی تعریفوں سے پھولتے تھے وہ ان کو مردہ کیڑے کی 241

Page 265

طرح خیال کرتے تھے مدح وہی ہوتی ہے جو خدا آسمان سے کرے.یہ لوگ محبت ذاتی میں غرق ہوتے ہیں ان کو دنیا کی مدح و ثنا کی پروا نہیں ہوتی“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 187) ایک دفعہ ایک جنگ کے موقعہ پر آپ کی انگلی پر تلوار لگی اور خون جاری ہو گیا.تب آپ نے اپنی انگلی کو مخاطب کر کے کہا کہ اے انگلی تو کیا چیز ہے صرف ایک انگلی ہے جو خدا کی راہ میں زخمی ہو گئی“ آنحضور صلی اللہ سلم کا ایک مشہور شعر یہ ہے (چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299) انا النبي لا كذب انا ابن عبد المطلب میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں او میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں یہ شعر غزوہ حنین میں عین میدان جنگ میں جبکہ آپ ایک موقع پر اکیلے کھڑے تھے کہا تھا.یہ شعر اپنی ادبی ترتیب اور معانی کے لحاظ سے عدیم المثال ہے.اس کا ذکر بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمایا ہے.مندرجہ بالا ارشادات میں آنحضرت صلی اللہ نیم کے ایک شعر کا ذکر ہوا ہے جو انگلی کے زخمی ہونے پر کہا گیا تھا.وہ شعر یہ ہے هَل أنتِ إِلَّا اصبعُ دَمِيتِ وَفِي سبيل الله ما لقيت تو تو ایک انگلی ہے جو خون بہاتی ہے اور تجھے جو ( رنج ) ملا ہے خدا کی راہ میں ہی ملا ہے.فارسی زبان میں الہام: ”اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراص ہوا تھا کہ کسی اور زبان میں الہام کیوں نہیں ہو تا تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے فارسی زبان میں الہام کیا ” ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چه کنم ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 598) 242

Page 266

آپ نے ایک جگہ فرمایا: اور بعض کتب میں زبان پارسی میں یہ حدیث لکھی ہے ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چه کنم “ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 حاشیہ صفحہ 196) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “اگر میں خاک کے اس پتلے (انسان) کو نہ بخشوں تو اور کیا کروں.اسلامی لٹریچر میں یہ فارسی حدیث قدرے مختلف الفاظ میں لیکن مضمون کے لحاظ سے بعینہ ملتی ہے.مثلاً 1.حافظ عبد العزیز فریباری حنفی اپنی کتاب ” کو ثر النبی فی علم اصول الحدیث ” کے صفحہ 555 میں ایک فارسی حدیث درج کی ہے چکنم یہ ایس گناہ گاران کہ نیا مر زم ” لکھا ہے.اسی طرح جمال الدین حسین انجوی نے بھی ایک حدیث بیان کی ہے سأل رسول الله عن ميكائيل هل يقول الله شيئا بفارسي قال نعم يقول الله تعالیٰ جل جلالہ چون کنم با این مشت ستمگار جزاینکه بیا مرزم (فرهنگ جهانگیری جلد دوم صفحه 10) اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضور نے جس فارسی حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس مضمون کی احادیث اسلامی لٹریچر میں موجو د ہیں.اور اصولی طور پر فارسی زبان میں اس مضمون کی احادیث کا موجو د ہونا ثابت ہے.پاکیزہ مزاح: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہر پہلو میں اپنار ہنما قرآن اور اسوہ رسول صلی الی یکم کو ہی رکھا ہے اسکی ایک مثال مندرجہ ذیل ارشاد بھی ہے جس میں آپ نے اسوہ رسول صلی علی یکم سے پاکیزہ مزاح کی چند مثالیں بیان فرمائی ہیں.ایک روز کسی بیار بچہ نے کسی سے کہانی کی فرمائش کی تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو کہانی سنانا گناہ سمجھتے ہیں.اس کے متعلق آپ نے فرمایا: دوگناہ نہیں.کیونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی کوئی مذاق کی بات فرمایا کرتے تھے اور بچوں کو بہلانے کے لئے اس کو روا سمجھتے تھے.جیسا کہ ایک بڑھیا عورت نے آپ 243

Page 267

سے دریافت کیا کہ حضرت کیا میں بھی جنت میں جاؤں گی؟ فرمایا نہیں.وہ بڑھیا یہ سن کر رونے لگی.فرمایا روتی کیوں ہے؟ بہشت میں جوان داخل ہوں گے.بوڑھے نہیں ہوں گے یعنی اس وقت سب جوان ہوں گے.اسی طرح سے فرمایا کہ: ایک صحابی کی داڑھ میں درد تھا.وہ چھو ہارا کھاتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوہارا نہ کھا کیونکہ تیری داڑھ میں درد ہے.اس نے کہا کہ میں دوسری داڑھ سے کھاتا ہوں.پھر فرمایا کہ: ایک بچہ کے ہاتھ سے ایک جانور جس کو حمیر کہتے ہیں چھوٹ گیا.وہ بچہ رونے لگا.اس بچہ کا نام عمیر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا يَا عُمَيْرُ مَا فَعَلَتْ بِكَ حُمَيْرُ؟ اے عمیر حمیر نے کیا کیا؟ لڑکے کو قافیہ پسند آگیا.اس لئے چپ ہو گیا“ اخلاق عالیه (ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 5 صفحہ 10-9) ہمارے پیغمبر صل اللہ ہم نے غریبی کو اختیار کیا.کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی ال نیم کے پاس آیا.حضرت نے اس کی بہت سی تواضع و خاطر داری کی.وہ بہت بھوکا تھا.حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا.رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی.جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا اور رضائی میں ہی کر دیا.جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا.جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھاوہ رضائی کو خراب کر گیا ہے.اس میں دست کیا ہوا ہے.حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ میں صاف کروں.لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں.ہم جو حاضر ہیں ہم صاف کر دیں گے.حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا اس لیے میرا ہی کام ہے اور اُٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے.وہ عیسائی جبکہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیا کہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چار پائی پر بھول آیا ہوں.اس لیے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں.اس کو ندامت آئی اور کہا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں کبھی اس کو نہ دھوتا.اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پھر وہ مسلمان ہو گیا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن] جلد 3 صفحہ 370-371) 244

Page 268

بشر ہونا: "آنحضرت صلی الله ولم نے کھول کر بیان کر دیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (حم السجدة: 7) یعنی کہدو کہ بیشک میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں یہ اس لیے کہ وہ لوگ اعتراض کرتے تھے وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ (الفرقان:8) اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسار سول ہے کہ کھانا کھاتا اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.ان کو آخر یہی جواب دیا گیا کہ یہ بھی ایک بشر ہے اور بشری حوائج اس کے ساتھ ہیں.اس سے پہلے جس قدر نبی اور رسول آئے وہ بھی بشر ہی تھے.یہ بات انہوں نے بنظر استخفاف کہی تھی.وہ جانتے تھے کہ آنحضرت مالی تم خود ہی بازاروں میں عموماً سودا سلف خریدا کرتے تھے.ان کے دلوں میں آنحضرت علی السلام کا جو نقشہ تھا وہ تو نری بشریت تھی.جس میں کھانا پینا.سونا.چلنا.پھر ناوغیرہ تمام امور اور لوازم بشریت کے موجود تھے“ ( ملفوظات [ 2003 ایڈیشن جلد 4 صفحہ 415-414) جس حالت میں ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفی کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے.اور ہر بات میں ، حرکات میں سکنات میں اقوال میں افعال میں ، روح القدس کے چمکتے ہوئے نوار نظر آتے ہیں تو پھر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بُو آوے تو اس سے کیا نقصان بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تالوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں“ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن، جلد 5 صفحہ 116) نبی امی آنحضور صلی الم کی شان امیت کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بہت سی تحریرات میں بیان فرمایا ہے.اور اس اہم اور اعلیٰ پہلو کو جس طرح آپ نے نکھار کر بیان فرمایا ہے وہ آپ کی شان مہدویت کی دلیل ہے.فرمایا: 245

Page 269

قرآن شریف میں جس قدر بار یک صداقتیں علم دین کی اور علوم دقیقہ الہیات کے اور براہین قاطعہ اُصولِ حقہ کے معہ دیگر اسرار اور معارف کے مندرج ہیں اگر چہ وہ تمام فی حد ذاتہا ایسے ہیں کہ قومی بشریہ اُن کو بہ ہیئت مجموعی دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور کسی عاقل کی عقل ان کے دریافت کرنے کے لئے بطور خود سبقت نہیں کر سکتی کیونکہ پہلے زمانوں پر نظر استقراری ڈالنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ کوئی حکیم یا فیلسوف اُن علوم و معارف کا دریافت کرنے والا نہیں گزرا.لیکن اس جگہ عجیب بر عجیب اور بات ہے یعنے یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے اُمّی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے نا آشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی انہیں میں پرورش پائی اور اُنہیں میں سے پیدا ہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی اور ان پڑھ ہونا ایک ایسا بد یہی امر ہے کہ کوئی تاریخ دان اسلام کا اُس سے بے خبر نہیں لیکن چونکہ یہ امر آئندہ فصلوں کے لئے بہت کارآمد ہے اس لئے ہم کسی قدر آیات قرآنی لکھ کر امنیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرتے ہیں سو واضح ہو کہ وہ آیات به تفصیل ذیل ہیں قال الله تعالى: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِين (الجمعه: 3) وہ خدا ہے جس نے ان پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ان پر وہ اُس کی آیتیں پڑھتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ وہ لوگ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے.عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَأمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُتَيَّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف: 157-159) میں جس کو چاہتا ہوں عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے سو میں اُن کے لیے جو ہر یک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پر ہیز کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور نیز اُن کیلئے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل 246

Page 270

لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا وہ وہی لوگ ہیں جو اُس رسول نبی پر ایمان لاتے ہیں کہ جس میں ہماری قدرت کاملہ کی دو نشانیاں ہیں.ایک تو بیرونی نشانی کہ توریت اور انجیل میں اس کی نسبت پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کو وہ آپ بھی اپنی کتابوں میں موجود پاتے ہیں.دوسری وہ نشانی کہ خود اس نبی کی ذات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ باوجو د اقی اور ناخواندہ ہونے کے ایسی ہدایت کامل لایا ہے کہ ہر یک قسم کی حقیقی صداقتیں جن کی سچائی کو عقل و شرع شناخت کرتی ہے اور جو صفحہ دُنیا پر باقی نہیں رہی تھیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بیان فرماتا ہے اور اُنکو اسکے بجالانے کیلئے حکم کرتا ہے اور ہر یک نامعقول بات سے کہ جس کی سچائی سے عقل و شرع انکار کرتی ہے منع کرتا ہے اور پاک چیزوں کو پاک اور پلید چیزوں کو پلید ٹھہراتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے سر پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر پڑی ہوئی تھی اور جن طوقوں میں وہ گر فتار تھے ان سے خلاصی بخشتا ہے.سو جو لوگ اس پر ایمان لاویں اور اس کو قوت دیں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی بکلی متابعت اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی لوگ نجات یافتہ ہیں.لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں.وہ خداجو بلا شرکت الغیر ی آسمان اور زمین کا مالک ہے جس کے سوا اور کوئی خدا اور قابل پرستش نہیں زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے پس اس خدا پر اور اس کے رسول پر جو نبی اُقی ہے ایمان لاؤ.وہ نبی جو اللہ اور اس کے کلموں پر ایمان لاتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تا تم ہدایت پاؤ.وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (الشوری: 53) اور اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک روح نازل کی ہے تجھے معلوم نہ تھا کہ کتاب اور ایمان کسے کہتے ہیں پر ہم نے اس کو ایک نور بنایا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں بذریعہ اس کے ہدایت دیتے ہیں اور بہ تحقیق سیدھے راستہ کی طرف تو ہدایت دیتا ہے.وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخْطُهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ.بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (العنكبوت: 50،49) اور اس سے پہلے تو کسی کتاب کو نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا تا باطل رستوں کو شک کرنے کی کوئی وجہ بھی ہوتی بلکہ وہ آیات بینات ہیں جو اہل علم لوگوں کے سینوں میں ہیں اور ان سے انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم ہیں.ان تمام آیات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُتنی ہونا بکمال وضاحت ثابت ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت فی الحقیقت آتی اور ناخواندہ نہ 247

Page 271

ہوتے.تو بہت سے لوگ اس دعویٰ امیت کی تکذیب کرنے والے پیدا ہو جاتے کیونکہ آنحضرت نے کسی ایسے ملک میں یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ جس ملک کے لوگوں کو آنحضرت کے حالات اور واقعات سے بے خبر اور ناواقف قرار دے سکیں بلکہ وہ تمام لوگ ایسے تھے جن میں آنحضرت نے ابتداء عمر سے نشو نما پایا تھا اور ایک حصہ کلاں عمر اپنی کا ان کی مخالطت اور مصاحبت میں بسر کیا تھا پس اگر فی الواقعہ جناب ممدوح آتی نہ ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اپنے آتی ہونے کا ان لوگوں کے سامنے نام بھی لے سکتے جن پر کوئی حال ان کا پوشیدہ نہ تھا اور جو ہر وقت اس گھات میں لگے ہوئے تھے کہ کوئی خلاف گوئی ثابت کریں اور اُس کو مشتہر کر دیں.جن کا عناد اس درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ اگر بس چل سکتا تو کچھ جھوٹ موٹ سے ہی ثبوت بنا کر پیش کر دیتے اور اسی جہت سے ان کو ان کی ہر یک بدظنی پر ایسا مسکت جواب دیا جاتا تھا کہ وہ ساکت اور لاجواب رہ جاتے تھے مثلاً جب مکہ کے بعض نادانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی توحید ہمیں پسند نہیں آتی کوئی ایسا قرآن لاؤ جس میں بتوں کی تعظیم اور پرستش کا ذکر ہو یا اسی میں کچھ تبدل تغیر کر کے بجائے توحید کے شرک بھر دو تب ہم قبول کر لیں گے اور ایمان لے آئیں گے.تو خدا نے ان کے سوال کا جواب اپنے نبی کو وہ تعلیم کیا جو آنحضرت کے واقعات عمری پر نظر کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے:.قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدَّلُهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلْ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ (يونس: 16-18) وہ لوگ جو ہماری ملاقات سے نا امید ہیں یعنی ہماری طرف سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کے بر خلاف کوئی اور قرآن لا جس کی تعلیم اس کی تعلیم سے مغایر اور منافی ہو یا اسی میں تبدیل کر ان کو جواب دے کہ مجھے یہ قدرت نہیں اور نہ روا ہے کہ میں خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کچھ تبدیل کروں.میں تو صرف اُس وحی کا تابع ہوں جو میرے پر نازل ہوتی ہے.اور اپنے خداوند کی نافرمانی سے ڈرتا ہوں اگر خدا چاہتا تو میں تم کو یہ کلام نہ سناتا اور خدا تم کو اس پر مطلع بھی نہ کرتا پہلے اس سے اتنی عمر یعنی چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں پھر کیا تم کو عقل نہیں یعنی کیا تم کو بخوبی معلوم نہیں کہ افترا کرنا میراکام نہیں اور جھوٹ بولنا میری عادت میں نہیں اور پھر آگے فرمایا کہ اس شخص سے زیادہ تر اور کون ظالم ہو گا جو خدا پر افترا باندھے یا خدا کے کلام کو کہے کہ یہ انسان کا افترا 248

Page 272

ہے بلاشبہ مجرم نجات نہیں پائیں گے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا عربوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر میں ایسا بدیہی اور یقینی امر تھا کہ اس کے انکار میں کچھ دم نہیں مار سکتے تھے بلکہ اسی جہت سے وہ توریت کے اکثر قصے جو کسی خواندہ آدمی پر مخفی نہیں رہ سکتے بطور امتحان نبوت آنحضرت پوچھتے تھے اور پھر جواب صحیح اور درست پا کر ان فاش غلطیوں سے مبرا دیکھ کر جو توریت کے قصوں میں پڑگئے ہیں وہ لوگ جو ان میں راسخ فی العلم تھے بصدق دلی ایمان لے آتے تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح پر درج ہے:.وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ (المائده:83-85)سب فرقوں میں سے مسلمانوں کی طرف زیادہ تر رغبت کرنے والے عیسائی ہیں کیونکہ ان میں بعض بعض اہل علم اور راہب بھی ہیں جو تکبر نہیں کرتے اور جب خدا کے کلام کو جو اس کے رسول پر نازل ہو اسنتے ہیں تب تو دیکھتا ہے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ حقانیت کلام الہی کو پہچان جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہم ایمان لائے ہم کو اُن لوگوں میں لکھ لے جو تیرے دین کی سچائی کے گواہ ہیں اور کیوں ہم خدا اور خدا کے سچے کلام پر ایمان نہ لاویں.حالانکہ ہماری آرزو ہے کہ خدا ہم کو ان بندوں میں داخل کرے جو نیکو کار ہیں.إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (بنی اسرائیل: 108-110) جولوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے صاحب علم ہیں جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں پر گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خدا تخلف وعدہ سے پاک ہے ایک دن ہمارے خداوند کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا اور روتے ہوئے مونہہ پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہو.پس یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض آتی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذب قوم میں بود و باش رہی اور نہ مجالس علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا.اور دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا بار یک صداقتیں دیکھتے تھے جو 249

Page 273

پہلی کتابوں کی مکمل اور مستم تھیں تو آنحضرت کی حالت اُمیت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرت کی ان کو اظہر من الشمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر ان مسیحی فاضلوں کو آنحضرت کے اُمّی اور موید من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہو تا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کو عزیز اور پیارا معلوم ہوتا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہو کر ایسے مذہب کو قبول کر لیتے جو باعث تعلیم توحید کے تمام مشرکین کو بُرا معلوم ہو تا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اور بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر اوہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرت کو محض اتنی اور سرا پا مؤید من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے بالا تر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا.اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا اور جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور بد باطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بہ یقین کامل آنحضرت کو اُقی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیبل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور امتحان نبوت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیں.آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جواب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور گھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے کہ شاید در پردہ کسی عیسائی یا یہودی عالم بائیل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے.پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا اقی ہونا ان کے دلوں میں یہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے.واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا.کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی در پردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا.اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہل کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محریف اور مبدل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشر طیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے.اور اُن کے اصولِ مصنوعہ کو دلائل قویہ سے توڑتا 250

Page 274

ہے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذمت کرواتے.اور اپنی کتابوں کا آپ ہی رڈ لکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ ست اور نادرست باتیں اس لئے دنیا پرستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پر زور روشنی سے اپنی کر نیں چاروں طرف چھوڑ رہاتھا کہ وہ اس سے چمگادڑ کی طرح چھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہر گز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصب اور شدت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنار کھا تھا.پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہو گا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میں درج ہے انّما يُعلمُه بَشَرُ (سورۃ النحل: 104) اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ آخَرُونَ (سورة الفرقان الجزو نمبر (۱۸).یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہو کر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں.پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعر انے اکٹھے ہو کر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلاؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو تو پھر لاجواب ہو کر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جنات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہو گئے جیسا فرمایا ہے وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينِ.وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَحِيمٍ، فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ (التكوير: 25-27) قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْل هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (بنی اسرائیل: 89).یعنی قرآن ہر ایک قسم کے امور غیبیہ پر مشتمل ہے اور اس قدر بتلانا جنات کا کام نہیں.ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن متفق ہو جائیں اور ساتھ ہی بنی آدم بھی اتفاق کر لیں اور سب مل کر یہ چاہیں کہ مثل اس قرآن کے کوئی اور قرآن بنا دیں تو ان کے لئے ہر گز ممکن نہیں ہو گا اگر چہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں.پھر جب ان بد بختوں پر اپنے تمام خیالات کا جھوٹ ہونا کھل گیا اور کوئی بات بنتی نظر نہ آئی تو آخر کار کمال بے حیائی سے کمینہ لوگوں کی طرح اس بات پر آگئے کہ ہر طرح پر اس تعلیم کو شائع ہونے سے روکنا چاہئے جیسا کہ اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ہے.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا 251

Page 275

تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (حم السجدة: 27) وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (آل عمران : 73: یعنی کافروں نے یہ کہا کہ اس قرآن کو مت سنو.اور جب تمہارے سامنے پڑھا جاوے تو تم شور ڈال دیا کرو.تا شاید اسی طرح غالب آجاؤ.اور بعضوں نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ کہا کہ یوں کرو کہ اول صبح کے وقت جا کر قرآن پر ایمان لے آؤ.پھر شام کو اپنا ہی دین اختیار کر لو.تا شاید اس طور سے لوگ شک میں پڑ جائیں اور دین اسلام کو چھوڑ دیں.أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا.أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللهُ وَمَنْ يَلْعَن اللهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (النسا: 52، 53) کیا تو نے دیکھا نہیں کہ یہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے انجیل اور تورات کو کچھ ادھورا سا پڑھ لیا ہے ایمان ان کا دیوتوں اور بتوں پر ہے اور مشرکوں کو کہتے ہیں کہ ان کا مذہب جو بت پرستی ہے وہ بہت اچھا ہے اور توحید کا مذہب جو مسلمان رکھتے ہیں یہ کچھ نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس بر خد العنت کرے اس کے لئے کوئی مددگار نہیں.اب خلاصہ اس تقریر کا یہ ہے کہ اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے تو مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرائیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا وہ کیونکر ایک صریح امر خلاف واقعہ پا کر خاموش رہتے بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہو چکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے مونہہ سے نکلتا ہے وہ کسی اُمی اور ناخواندہ کا کام نہیں اور نہ دس ہیں آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے آعَانَہ عَلَيْهِ قَوْمُ آخَرُونَ (الفرقان: 5) کہتے تھے اور جو اُن میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کر چکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر پرخا ہے ،، ( براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 561589) 252

Page 276

حفاظت الہی و تصرفات اعجازی: سیرت النبی صلی یہ نیم کا ایک نہایت دلچسپ پہلو وہ تصرفات اعجازی اور حفاظت خداوندی ہے جو قدم قدم پر حضرت نبی اکرم صلی ایم کے ساتھ تھی.یہ خدا کی اپنے پیارے رسول سے محبت اور بے مثال تعلق کا ثبوت ہے.عاشق رسول صلی ایم سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد تحریرات میں اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے.الله کچھ ارشادات پہلے مختلف عناوین کے تحت درج کئے جاچکے ہیں.یہاں بھی کچھ درج کئے جارہے ہیں.یادر ہے کہ ۵ پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہو تا تھا اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے (۲) دوسر اوہ موقعہ تھا جبکہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابو بکر کے چھپے ہوئے تھے (۳) تیسر اوہ نازک موقعہ تھا جب کہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا.(۴) چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دیدی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (۵) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے “ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263 حاشیہ) ”ایک نوع تو یہی کہ جو دعائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائے تعالیٰ نے آسمان پر اپنا قادرانہ تصرف دکھلایا اور چاند کو ۲ دو ٹکڑے کر دیا.دوسرے وہ تصرف جو خدائے تعالیٰ نے جناب ممدوح کی دعا سے زمین پر کیا اور ایک سخت قحط سات برس تک ڈالا.یہاں تک کہ لوگوں نے ہڈیوں کو پیس کر کھایا.تیسرے وہ تصرف اعجازی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شر کفار سے محفوظ رکھنے کے لئے بروز ہجرت کیا گیا یعنے کفار مکہ نے آنحضرت صلی ایم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بد ارادہ کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا اور پھر 253

Page 277

بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی بدھ کا روز اور دو پہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلاء منجانب اللہ ظاہر ہوا اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت علی ایم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا.جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مونہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں.کسی بہر کسے سر ندهد جان نفشاند عشق است که این کار بصد صدق کناند سو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس وفادار اور جان نثار عزیز کو اپنی جگہ چھوڑ کر چلے گئے تو آخر تفتیش کے بعد ان نالائق بد باطن لوگوں نے تعاقب کیا اور چاہا کہ راہ میں کسی جگہ پا کر قتل کر ڈالیں اس وقت اور اس مصیبت کے سفر میں بجز ایک با اخلاص اور یکرنگ اور دلی دوست کے اور کوئی انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہ تھا.ہاں ہر وقت اور نیز اس پر خطر سفر میں وہ مولیٰ کریم ساتھ تھا جس نے اپنے اس کامل وفادار بندہ کو ایک عظیم الشان اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا تھا سو اس نے اپنے اس پیارے بندہ کو محفوظ رکھنے کے لئے بڑے بڑے عجائب تصرفات اس راہ میں دکھلائے جو اجمالی طور پر قرآن شریف میں درج ہیں منجملہ ان کے ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سور پریسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے.ازاں جملہ ایک یہ کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنادیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اسی طرح اذن الہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکا میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے.از انجملہ ایک یہ کہ ایک مخالف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پکڑنے کے لئے مدینہ کی راہ پر گھوڑا دوڑائے چلا جاتا تھا جب وہ اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو جناب ممدوح 254

Page 278

کی بددعا سے اس کے گھوڑے کے چاروں سم زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگ کر اور عفو تقصیر کرا کر واپس لوٹ آیا.چوتھی وہ تصرف اعجازی کہ جب دشمنوں نے اپنی ناکامی سے منفعل ہو کر لشکر کثیر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کی تا مسلمانوں کو جو ابھی تھوڑے سے آدمی تھے نابود کر دیں اور دین اسلام کا نام و نشان مٹادیں تب اللہ جل شانہ نے جناب موصوف کے ایک مٹھی کنکریوں کے چلانے سے مقام بدر میں دشمنوں میں ایک تہلکہ ڈال دیا اور ان کے لشکر کو شکست فاش ہوئی اور خدائے تعالیٰ نے ان چند کنکریوں سے مخالفین کے بڑے بڑے سرداروں کو سراسیمہ اور اندھا اور پریشان کر کے وہیں رکھا اور ان کی لاشیں انہیں مقامات میں گرائیں جن کے پہلے ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ نشان بتلا رکھے تھے.ایسا ہی اور کئی عجیب طور کے تائیدات و تصرفات الہیہ کا (جو خارق عادت ہیں) قرآن شریف میں ذکر ہے جن کا ماحصل یہ ہے کہ کیونکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مسکینی اور غریبی اور یتیمی اور تنہائی اور بے کسی کی حالت میں مبعوث کر کے پھر ایک نہایت قلیل عرصہ میں جو تیس برس سے بھی کم تھا ایک عالم پر فتح یاب کیا اور شہنشاہ قسطنطنیه و بادشاہان دیار شام و مصر و ممالک ما بین دجلہ و فرات وغیرہ پر غلبہ بخشا اور اس تھوڑے ہی عرصہ میں فتوحات کو جزیرہ نما عرب سے لے کر دریائے جیحون تک پھیلایا اور ان ممالک کے اسلام قبول کرنے کی بطور پیشگوئی قرآن شریف میں خبر دی اس حالت بے سامانی اور پھر ایسی عجیب و غریب فتحوں پر نظر ڈال کر بڑے بڑے دانشمند اور فاضل انگریزوں نے بھی شہادت دی ہے کہ جس جلدی سے اسلامی سلطنت اور اسلام دنیا میں پھیلا ہے اس کی نظیر صفحه تواریخ دنیا میں کسی جگہ نہیں پائی جاتی اور ظاہر ہے کہ جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت بھی کہتے ہیں.غرض قرآن شریف میں تصرفات خارجیہ کا ذکر بھی بطور خارق عادت بہت جگہ آیا ہے بلکہ ذرا نظر کھول کر دیکھو تو اس پاک کلام کا ہر یک مقام تائیدات الہیہ کا نقارہ بجارہا ہے اور ایک تصویر کھینچ کر دکھلا رہا ہے کہ کیونکر اسلام اپنی اول حالت میں ایک خورد تربیج کی طرح دنیا میں بویا گیا اور پھر وہ تھوڑے ہی عرصہ میں جو خارق عادت ہے کیسا بزرگ و عظیم القدر ہو کر اکثر حصہ دنیا میں پھیل گیا اور ہر یک موقعہ پر کیا کیا عجیب تائیدات الہیہ اس کی حمایت میں ظہور میں آتی رہیں“ (روحانی خزائن جلد 2، سرمه چشمه آریہ - حاشیہ صفحہ 68t64) 255

Page 279

اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دیئے وطن سے نکالا.دانت شہید کیا انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے.سو در حقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی الل علم کو خدا نے محفوظ رکھا“ ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301 حاشیہ) ”لکھا ہے کہ اول حال میں جناب پیغمبر خداصلی ای کم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کے لئے ہمراہ رکھا کرتے تھے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی الی یوم نے ان سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی حاجت نہیں“ (مکتوبات احمد قدیم ایڈیشن جلد 1 صفحہ 62-63) ”ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى (الانفال: 18) یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا.یعنی در پردہ الہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا.اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی.کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر 256

Page 280

داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو ۲ چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا.ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلوط تھی" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات: آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 65،66) اب میں چاہتا ہوں کہ چند باتیں اور کہہ کر اس تقریر کو ختم کر دوں.میں تھوڑی دیر کے لئے معجزات کے سلسلہ کی طرف پھر عود کر کے کہتا ہوں کہ ایک خوارق توشق القمر وغیرہ کے علمی رنگ کے ہیں اور دوسرے حقائق و معارف کے.تیسر اطبقہ معجزات کا اخلاقی معجزات ہیں.اخلاقی کرامت میں بہت اثر ہوتا ہے.فلاسفر لوگ معارف اور حقائق سے تسلی نہیں پاسکتے.مگر اخلاق عظیمہ ان پر بہت بڑا اور گہرا اثر کرتے ہیں.حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ آپ ایک درخت کے نیچے سوئے پڑے تھے کہ ناگاہ ایک شور و پکار سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنگلی اعرابی تلوار کھینچ کر خود حضور پر آپڑا ہے.اس نے کہا.اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم) بتا.اس وقت میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے پورے اطمینان اور سچی سکینت سے جو حاصل تھی فرمایا کہ اللہ.آپ کا یہ فرما نا عام انسانوں کی طرح نہ تھا.اللہ جو خدا تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مجمع ہے.ایسے طور پر آپ کے منہ سے نکلا اور دل پر ہی جا کر ٹھہرا.کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں، لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو ، وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا.الغرض ایسے طور پر اللہ کا لفظ آپ کے منہ سے نکلا کہ اس پر رعب طاری ہو گیا اور ہاتھ کانپ گیا.تلوار گر پڑی.حضرت نے وہی تلوار اٹھا کر کہا کہ اب بتلا.میرے ہاتھ 257

Page 281

سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ ضعیف القلب جنگلی کس کا نام لے سکتا تھا.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا اور کہا جا تجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ مروت اور شجاعت مجھ سے سیکھ.اس اخلاقی معجزہ نے اس پر ایسا اثر کیا کہ وہ مسلمان ہو گیا“ ( ملفوظات [2003 ایڈیشن جلد 1 صفحہ 63) نوٹ: یہ واقعہ غزوہ ذات الرقاع کا ہے.(بخاری، کتاب المغازی ب، ذات الرقاع باب من علق سيفه) " یہ وہ نمونہ ہے جو ہم اسلام کا دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اسی اصلاح اور ہدایت کا باعث تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پر آنحضرت میا علیم کا نام محمد رکھا جس سے زمین پر بھی آپ کی ستائش ہوئی.کیونکہ آپ نے زمین کو امن صلح کاری اور اخلاق فاضلہ اور نیکوکاری سے بھر دیا تھا.میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ آنحضرت علی ایم کے جس قدر اخلاق ثابت ہوئے ہیں وہ کسی اور نبی کے نہیں، کیونکہ اخلاق کے اظہار کے لیے جب تک موقع نہ ملے کوئی اخلاق ثابت نہیں ہو سکتا.مثلاً سخاوت ہے.لیکن اگر روپیہ نہ ہو تو اس کا ظہور کیونکر ہو، ایسا ہی کسی کو لڑائی کا موقع نہ ملے تو شجاعت کیونکر ثابت ہو.ایسا ہی عفو، اس صفت کو وہ ظاہر کر سکتا ہے جسے اقتدار حاصل ہو.غرض سب خلق موقع سے وابستہ ہیں.اب سمجھنا چاہئے کہ یہ کس قدر خدا کے فضل کی بات ہے کہ آپ کو تمام اخلاق کے اظہار کے موقعے ملے حضرت عیسی علیہ السلام کو وہ موقعہ نہیں ملے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخاوت کا موقع ملا.آپ کے پاس ایک موقع پر بہت سی بھیڑ بکریاں تھیں.ایک کافر نے کہا کہ آپ کے پاس اس قدر بھیڑ بکری جمع ہیں کہ قیصر و کسری کے پاس بھی اس قدر نہیں.آپ نے سب کی سب اس کو بخش دیں.وہ اسی وقت ایمان لے آیا.کہ نبی کے سوا اور کوئی اس قسم کی عظیم الشان سخاوت نہیں کر سکتا.مکہ میں جن لوگوں نے دکھ دیئے تھے.جب آپ نے مکہ کو فتح کیا تو آپ چاہتے تو سب کو ذبح کر دیتے، مگر آپ نے رحم کیا اور لَا تَثْرِيبَ عَلَيكُم اليومَ کہہ دیا.آپ کا بخشا تھا کہ سب مسلمان ہو گئے.اب اس قسم کے عظیم الشان اخلاق فاضلہ کیا کسی نبی میں پائے جاتے ہیں.ہر گز نہیں وہ لوگ جنھوں نے آپ کی ذات خاص اور عزیزوں اور صحابہ کو سخت تکلیفیں دی تھیں اور نا قابل عفو ایذائیں پہنچائی تھیں.آپ نے سزا دینے کی قوت اور اقتدار کو پاکر فی الفور ان کو بخش دیا؛ حالانکہ اگر ان کو سزادی جاتی، تو یہ بالکل انصاف اور عدل تھا، مگر آپ نے اس وقت عفو اور کرم کا نمونہ دکھایا.یہ وہ امور تھے کہ علاوہ معجزات کے صحابہ پر موثر ہوئے تھے.اسلیے آپ اسم با مسمی محمد ہو گئے تھے.ملیالم اور زمین پر آپ کی حمد ہوتی 258

Page 282

تھی اور اسی طرح آسمان پر بھی آپ کی تعریف ہوتی تھی اور آسمان پر بھی آپ محمد تھے یہ نام آپ کا اللہ تعالیٰ نے بطور نمونہ کے دنیا کو دیا ہے“ آنحضرت علی ایم کی زندگی کے دو زمانے: (ملفوظات[2003 ایڈیشن] جلد 2 صفحہ 62،61) خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح کو دو حصوں پر منقسم کر دیا.ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتحیابی کا.تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے.سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہو گئے.چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا.اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اپنے کام میں ست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا.اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ ، تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صل الله یم کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا.دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا.ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پا کر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا.چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور حقیقتاراستباز نہ ہو یہ اخلاق ہر گز دکھلا نہیں سکتا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کے پرانے کینے یکلخت دور ہو گئے.آپ کا بڑا بھاری خلق جس کو آپ نے ثابت کر کے دکھلا دیاوہ خلق تھا جو قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) یعنی 259

Page 283

ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میر امرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تا میرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو.اس جگہ جو خدا کی راہ میں اور بندوں کی بھلائی کے لئے مرنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ آپ نے نعوذ باللہ جاہلوں یا دیوانوں کی طرح در حقیقت خود کشی کا ارادہ کر لیا تھا.اس وہم سے کہ اپنے تئیں کسی آلہ سے قتل کے ذریعہ سے ہلاک کر دینا اوروں کو فائدہ پہنچائے گا بلکہ آپ ان بیہودہ باتوں کے سخت مخالف تھے اور قرآن ایسی خود کشی کے مرتکب کو سخت مجرم اور قابل سز ا ٹھہراتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقره: 196) یعنی خود کشی نہ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنی موت کے باعث نہ ٹھہرو اور یہ ظاہر ہے کہ اگر مثلاً خالد کے پیٹ میں درد ہو اور زید اس پر رحم کر کے اپنا سر پھوڑے تو زید نے خالد کے حق میں کوئی نیکی کا کام نہیں کیا بلکہ اپنے سر کو احمقانہ حرکت سے ناحق پھوڑا.نیکی کا کام تب ہو تا کہ جب زید خالد کے خدمت میں مناسب اور مفید طریق کے ساتھ سرگرم رہتا.اور اس کے لئے عمدہ دوائیں میسر کرتا اور طبابت کے قواعد کے موافق اس کا علاج کرتا.مگر اس کے سر کے پھوڑنے سے زید کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا.ناحق اس نے اپنے وجود کے ایک شریف عضو کو دکھ پہنچایا.غرض اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کے لئے جان کو وقف کر دیا تھا اور دُعا کے ساتھ اور تبلیغ کے ساتھ اور ان کے جور و جفا اٹھانے کے ساتھ اور ہر ایک مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو اس راہ میں فدا کر دیا تھا.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ (فاطر: 9) کیا تو اس غم اور اس سخت محنت میں جو لوگوں کے لئے اٹھا رہا ہے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا؟ اور کیا ان لوگوں کے لئے جو حق کو قبول نہیں کرتے تو حسرتیں کھا کھا کر اپنی جان دے گا؟ سو قوم کی راہ میں جان دینے کا حکیمانہ طریق یہی ہے کہ قوم کی بھلائی کے لئے قانون قدرت کی مفید راہوں کے موافق اپنی جان پر سختی اٹھاویں اور مناسب تدبیروں کے بجالانے سے اپنی جان ان پر فدا کر دیں نہ یہ کہ قوم کو سخت بلا یا گمراہی میں دیکھ کر اور خطر ناک حالت میں پا کر اپنے سر پر پتھر مار لیں یا دو تین رتی اسٹر کنیا کھا کر اس جہان سے رخصت ہو جائیں اور پھر گمان کریں کہ ہم نے اپنی اس حرکت بیجاسے قوم کو نجات دے دی ہے.یہ مردوں کا کام نہیں ہے.زنانہ خصلتیں ہیں اور بے حوصلہ لوگوں 260

Page 284

کا ہمیشہ سے یہی طریق ہے کہ مصیبت کو قابل برداشت نہ پا کر جھٹ پٹ خود کشی کی طرف دوڑتے ہیں.ایسی خود کشی کی گو بعد میں کتنی ہی تاویلیں کی جائیں مگر یہ حرکت بلاشبہ عقل اور عقلمندوں کا ننگ ہے.مگر ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا صبر اور دشمن کا مقابلہ نہ کرنا معتبر نہیں ہے.جس کو انتقام کا موقعہ ہی نہ ملا کیونکہ کیا معلوم ہے کہ اگر وہ انتقام پر قدرت پاتا تو کیا کچھ کرتا.جب تک انسان پر وہ زمانہ نہ آوے جو ایک مصیبتوں کا زمانہ اور ایک مقدرت اور حکومت اور ثروت کا زمانہ ہو.اس وقت تک اس کے سچے اخلاق ہر گز ظاہر نہیں ہو سکتے.صاف ظاہر ہے کہ جو شخص صرف کمزوری اور ناداری اور بے اقتداری کی حالت میں لوگوں کی ماریں کھاتا مر جاوے اور اقتدار اور حکومت اور ثروت کا زمانہ نہ پاوے.اس کے اخلاق میں سے کچھ بھی ثابت نہ ہو گا.اور اگر کسی میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوا تو یہ بھی ثابت نہ ہو گا کہ وہ دل کا بہادر تھا یا بزدل.اس کے اخلاق کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم نہیں جانتے.ہمیں کیا معلوم ہے کہ اگر وہ اپنے دشمنوں پر قدرت پاتا تو ان سے کیا سلوک بجالا تا اور اگر وہ دولت مند ہو جاتا تو اس دولت کو جمع کرتا یا لوگوں کو دیتا اور اگر وہ کسی میدان جنگ میں آتا تو دم دبا کر بھاگ جاتا یا بہادروں کی طرح ہاتھ دکھاتا.مگر خدا کی عنایت اور فضل نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اخلاق کے ظاہر کرنے کا موقعہ دیا.چنانچہ سخاوت اور شجاعت اور حلم اور عفو اور عدل اپنے اپنے موقعہ پر ایسے کمال سے ظہور میں آئے کہ صفحہ دنیا میں اس کی نظیر ڈھونڈنالا حاصل ہے.اپنے دونوں زمانوں میں ضعف اور قدرت اور ناداری اور ثروت میں تمام جہان کو دکھلا دیا کہ وہ ذات پاک کیسی اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی جامع تھی اور کوئی انسانی خلق اخلاق فاضلہ میں سے ایسا نہیں ہے جو اس کے ظاہر ہونے کے لئے آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک موقعہ نہ دیا.شجاعت، سخاوت، استقلال، عفو، حلم و غیره وغیرہ تمام اخلاق فاضلہ ایسے طور پر ثابت ہو گئے کہ دنیا میں اس کی نظیر کا تلاش کرنا طلب محال ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ جنہوں نے ظلم کو انتہا تک پہنچا دیا اور اسلام کو نابود کرنا چاہا خدا نے ان کو بھی بے سزا نہیں چھوڑا.کیونکہ ان کو بے سزا چھوڑنا گو یار است بازوں کو ان کے پیروں کے نیچے ہلاک کرنا تھا“ ( اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 447 تا450) 261

Page 285

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَ سَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.262

Page 286

263

Page 287

کلید مضامین حضور نے متعدد مضامین ایک سے زائد جگہوں پر تحریر فرمائے ہیں لھذا ہر عنوان کے تحت چنیدہ ارشادات اس کتاب میں درج کر دئے گئے ہیں اور اسی مضمون سے ملتے جلتے ارشادات و فرمودات کا حوالہ کلید مضامین کی جلد صفحات 1200112 1 418 4670463 77 2 107 5 107 3510340 9 66 329.328 367 10 10 حاشیہ صفحہ 207 22 22 239 23 <256.241.240 379 463 براہین احمدیہ فہرست میں درج کر دیا گیا ہے.عرب و عجم موضوعات زمانہ گمراہی میں بعثت اخلاقی و مذہبی حالت نبی کی متقاضی، عرب و ایران ، ہند کی مذہبی حالت، لیلۃ القدر سے مراد.یہود کی حالت عرب کی جغرافیائی و سیاسی حالت سرمه چشم آریہ آئینہ کمالات اسلام نور القرآن نمبر 1 عرب کاہنوں کے تابع تھے سقوط شهب اہل کتاب کی حالت ، آباء واجداد نبی کے علاوہ سب شرک میں مبتلا تھے ، عیسائی اول درجہ کے بد کردار تھے حلالہ اسلام سے پہلے کی رسم تھی ظهر الفساد في البر والبحر عربوں کی جہالت ناپاکی اور بیحیائی عرب سے ظاہر ہونے میں حکمت یہود کا سوختنی قربانی ترک کرنا نصاری و یہود کی حالت عرب کی اخلاقی و معاشی بد حالی پتھر آگ سورج کی پوجا مشرق اور مغرب میں شرک عرب کا ملک بلتن ایران کا حصہ تھا عرب کاہنو کے مرید تھے ، کاہنوں کو الہام یہودی راہبوں کی حالت آریہ دھرم اسلامی اصول کی فلاسفی حقیقة الوحی چشمہ معرفت ستاره قیصریه ضرورة الامام حاشیہ 376 15 488 13 476 264

Page 288

دنیا کی خراب حالت ، ہندووں کی حالت ظهر الفساد فی البر والبحر اور قوت قدسیہ عرب کی حالت زار ، جنگ، لوگوں کی نظر میں یہودی عالم متقی تھے.عرب میں نبی کی سب زیادہ ضرورت تھی شرک، پتھر آگ ستاروں وغیرہ کی پوجا نبی کی اشد ضرورت تھی آباء و اجداد.وطن، مطہر نسب موضوعات اعلیٰ خاندان مطهر نسب، بزرگ والده آمنه آنحضور کے آباء واجداد شرک سے بچائے گئے ابراہیم اور انکی بیوی کی خدائی حفاظت مکہ پہلا مر کز توحید حجر اسود، عرب کے مشہور قبیلہ قریش سے پیدا ہونا بچپن، یتیمی ، رضاعت، رعیة الغنم ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات مجموعه اشتہارات مکتوبات قدیم ایڈیشن تریاق القلوب نور القرآن حقیقة الوحی من الرحمان چشمه معرفت حضرت ابراہیم و سارہ اسماعیل، کنعان کا ذکر ملفوظات آنحضور علی ایم کے والد ماجد مشرک نہ تھے ملفوظات آنحضور صلی ایام کا بنی اسماعیل سے ہونا ولادت و کفالت اور ابتدائی حالات موضوعات عرب کے مشہور قبیلہ قریش سے پید اہونا بچپن، یتیمی، رضاعت، رعية الغنم حضرت خدیجہ سے شادی حضرت زید کی کفالت بچپن غریبی میں گزرا، ادنی قسم کی غذا پر گزارا، چچاؤں کی سردمہری اور اسکی حضرت خدیجہ سے شادی 265 چشمه معرفت ازالہ اوہام 419 1 61 2 له 324 56 1170115 5 306 2 16 1 جلد صفحات 282 280 15 341 حاشیہ 9 52 22 233 9 99 23 256 1730172 1 23 64 5 جلد صفحات 256 23 3 113،112 حاشیہ

Page 289

مادری زبان بھی والدین سے نہ سیکھی، چھ ماہ کی عمر تک دونوں ماں باپ فوت ہو چکے تھے باپ پیدائش کے چند دن بعد فوت ہو گیا حضرت خدیجہ سے شادی امی ناخواندہ اور وحشی قوم سے واسطہ ايام الصلح پیغام صلح ضمیمہ براہین احمدیہ حضرت آمنہ عفیفہ پر فرشتہ ظاہر ہونا تریاق القلوب ملفوظات ملفوظات مکہ جیسے شہر میں پید ا ہو نا، غار حراء یتیمی کی حالت ، بچپن کی مشکلات اسم محمد واحمد موضوعات محمد یعنی تعریف کیا گیا محمد اور احمد نام میں حکمت حضرت آمنہ کو فرشتہ نے محمد نام رکھنے کا کہا 396 14 256.465 23 229 21 522 15 316 4 549.548 5 296 11 1407 14 522 15 جلد صفحہ انجام آتھم حجم الصدى ستارہ قیصریہ 4480443 17 109 102 18 444.423.395 1 59 3.محمد جلالی اور احمد جمالی نام ہے جو صفت رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر ہیں اربعین نمبر ۴ محمد جلالی اور احمد جمالی نام ہے جو صفت رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر ہیں اعجاز المسیح محمد جلالی اور احمد جمالی نام ہے جو صفت رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر ہیں ملفوظات ملفوظات میر انام اول ہی خدا نے محمد رکھ دیا طلوع اسلام موضوعات 4670465 23 578 22 34 4 149.150 1 370 5 337 367.366 1 17.15.7 3 28.29 5 غار حرا میں عبات، خلوت پسندی، ابتداء وحی نزول وحی، خشیت علی نفسی کی حقیقت غار حرا، خلوت پسندی فترت وحی کی حکمت پیغام صلح حقیقة الوحی ملفوظات ملفوظات فترت وحی کی حکمت ملفوظات حضرت ابو بکر کا قبول اسلام آئینہ کمالات اسلام 5 حضرت ابو بکر کا قبول اسلام ملفوظات حضرت ابو بکر کا قبول اسلام ملفوظات حضرت ابو بکر کا قبول اسلام مکتوبات 266

Page 290

مخالفت کی وجہ اور حکمت گورنمنٹ انگریزی | 17 اور جہاد مخالفت کی وجہ اور حکمت چشمه معرفت مخالفت کی وجہ اور حکمت مجموعہ اشتہارات مخالفت کی وجہ اور حکمت ملفوظات مخالفت کی وجہ اور حکمت ملفوظات مخالفت کی وجہ اور حکمت مکتوبات احمدیہ اسلام کا عالمگیر مشن پیغام صلح ملفوظات مجموعہ اشتہارات دور ابتلاء موضوعات کتاب تبلیغ کا آغاز ، غریب لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے ، مخالفت کا آغاز پیغام صلح قریش کو تبلیغ ملفوظات ابو طالب کے پاس قریش کا وفد.آنحضور کا عظیم مخطبہ الہامی عبارت ازالہ اوہام لالچ دینے کی کوشش ابن جریر کا بیان کر دہ واقعہ ، کپڑوں کو آگ لگ گئی مداہنہ سے انکار چشمه معرفت ابو طالب کے پاس قریش کا وفد ملفوظات ابو لہب اور حمالۃ الحلب ابو جہل کی ایز ارسانی ابو جہل اس وقت کا فرعون تھا ابو بکر اور ابو جہل کی فطرت کا موازنہ ابو جہل آنحضور کی شان سے لا علم تھا اگر آنحضور نہ آتے تو ابو جہل کا کفر ثابت نہ ہوتا آنحضور کا یتیم ہونا.ہزاروں لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے صحابہ پر کفار کے مظالم لالچ دینے کی کوشش ملفوظات ملفوظات ازالہ اوہام ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات 267 3تا5 93.92 23 1760174 1 517.424 1 246 3 31.30 5 4660463 23 426 1 306 2 جلد صفحات 4660463 23 379 4 112110 سم 3 257 23 281.11 1 46 4 536 3 118112 3 156 1 428.427 1 202 له 2 8.7 3 260 3 421 4 548 5 246 3 5180516 1

Page 291

71 2 49 3 365 صحابہ اور صحابیات پر مظالم آنحضور اور صحابہ پر مظالم مظالم پر صبر اور صبر کی تلقین بنی اسرائیل سے بڑھ کر تکلیف پر صبر ملفوظات مکتوبات احمد سراج الدین عیسائی | 12 کے چار سوالوں کے جواب مجم المهدى مسیح ہند وستان میں لیکچر سیالکوٹ آنحضور علی ایام پر مظالم، صحابہ اور صحابیات پر مظالم چشمه معرفت ہجرت حبشہ کے واقعات چشمه معرفت حضرت عمر کا قبول اسلام ملفوظات ابو طالب کی وفات ابو طالب کا ایمان چشمه معرفت ملفوظات طائف کا سفر چشمه معرفت ملفوظات ہجرت مدینہ موضوعات قریش کا ارادہ قتل ، وحی کے ذریعہ اطلاع، ابو بکر کی معیت، محاصرہ، عنکبوت سرمه چشم آرید کا جالا، غار ثور ہجرت کی جگہ خواب میں دیکھی ذهب و صلی الى الحجر اولیمامہ ازالہ اوہام اراده قتل، محاصره، تعاقب اراده قتل، محاصره، تعاقب جنگ مقدس نور الحق اراده قتل، محاصره، تعاقب آریہ دھرم ارادہ قتل، محاصره، تعاقب کتاب البریه اراده قتل، محاصره، تعاقب مسیح ہندوستان میں غار ثور میں حفاظت غار ثور میں حفاظت ہجرت کی فضیلت تریاق القلوب تحفہ گولوڑ یہ نور القرآن 268 65 14 11 15 280 20 20 2590257 23 261-260 23 482.47 4 262 23 200 3 190-262 23 284 2 جلد صفحات 2 64 تا 66 حاشیہ 204 3 254 6 64 8 81 حاشیہ 10 26.25 13 10 15 522 15 338 17 412 9

Page 292

واقعات ہجرت وہ نہیں اپنے وطن سے نکالا جائے گا آنحضور کی زندگی کے پانچ خطر ناک مواقع واقعات ہجرت واقعات ہجرت سراقہ بن مالک چشمه معرفت پیغام صلح اتمام الحجة حقیقة الوحی کرامات الصادقین تریاق القلوب معراج واسر اء روحانی سفر تھے معراج و اسراء روحانی سفر تھے معراج ایک کشف تھا معراج کے وقت حضرت علی کو دیکھنا ثم استيقظ والی روایت جہاد بالسیف کی غرض و حقیقت موضوعات دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.ملفوظات ملفوظات ملفوظات 390 23 264 262 263 467.466 23 339 8 198-199 22 2200221 7 337 15 342 4 448 5 634 جلد صفحات چشمه معرفت دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.جنگ مقدس دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ملفوظات دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.دفاعی اغراض کے لئے جنگ کی اجازت.دین کی اشاعت کے لئے جنگ نہیں کی گئی.269 ملفوظات ملفوظات ملفوظات <391.467 23 232.392 256.237 2700 256 254 6 223 17 27 1 588-437-70 2 88 3 <372.476 4 <548.521

Page 293

غزوات موضوعات کنکریوں بھر مٹھی پھینکنا انکی لاشیں گرنے کی جگہ دکھائی گئی مار میت اذر میت کی تفصیل دشمن آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کے لئے آیا میدان بدر میں متضرعانہ دعائیں کافروں کا حملہ اور فوج کشی امت کا فرعون ، ابو جہل کی لاش، چند منٹوں میں مارا گیا، ابو جہل کی دعا برنگ مباہلہ سيهزم الجمع ويولون الدبر كى تشریح متضرعانہ دعائیں ابو جہل کی بدر کے وقت دعا.مار میت اذر میت کی تفصیل جنگ مقدس ازالہ اوہام نور الحق صفحات له 2 67 10 حاشیہ صفحہ 276 244 304 6 3.ايام الصلح 65.64 8 292 290 14 تریاق القلوب ضمیمہ براہین احمدیہ براہین احمدیہ حصہ پنجم | 21 ضمیمہ براہین احمدیہ چشمه معرفت آئینہ کمالات اسلام آپ کی میدان بدر میں دعا حقیقۃ الوحی آپ کی میدان بدر میں دعا ملفوظات ملفوظات 523 15 52 17 249 255 21 175.174 23 65 5 572 22 8 1 367 3 آپ کی میدان بدر میں دعا ملفوظات 59 5 آپ کی میدان بدر میں دعا ملفوظات 432 1 آپ کی میدان بدر میں دعا ملفوظات 31 2 آپ کی میدان بدر میں دعا بدر کی فتح احد آنحضور گازخمی ہونا آپ احد کی لڑائی میں اکیلے رہ گئے ایک عورت کا عظیم نمونہ ملفوظات 441 2 ايام الصلح ضمیمہ براہین احمدیہ چشمه معرفت ملفوظات 301 10 262 21 263 23 304 5 270

Page 294

آنحضور کی شجاعت احد سے پہلے خواب میں گائے دیکھی...جنگ خندق کے دوران نمازوں کی قضا کی حقیقت زمانہ فتح و نصرت موضوعات حدیبیہ.خواب کی بنا پر سفر حد بدبیہ.خواب کی بنا پر سفر حدیبیہ.خواب کی بنا پر سفر امصص ببظر اللات بیعت رضوان فتح مبین فتح مبین ملفوظات نور القرآن 1 84 643 له 2 390.389 9 جلد صفحات ضمیمہ براہین احمدیہ ازالہ اوہام 250-249 21 471 3 ملفوظات 522 5 ملفوظات سرمه چشم آریہ مجموعہ اشتہارات انوار الاسلام حدیبیہ کے مبارک ثمرات حدیبیہ کے متفرق واقعات حدیبیہ کے متفرق واقعات عورتوں سے بیعت لینے کا طریق جب کوئی نشان پورا ہو تا تو سجدہ کرتے خیبر.اللہ اکبر خربت خیبر ملفوظات حقیقۃ الوحی ضمیمہ براہین احمدیہ نور القرآن ملفوظات براہین احمدیہ حصہ پنجم انجام آتھم فساء صباح المنذرین غزوہ حنین.انا النبی لا کذب 271 ضمیمہ براہین احمدیہ ملفوظات لیکچر لاہور نور القرآن ملفوظات 3 12 79 276 275 حاشیہ له 2 83 2 90 9 506 3 573 22 250.249.176 21 449 9 48 2 171 21 339 11 171 21 551 119 118 2 200 20 406 9 517.512 1

Page 295

جلد صفحات 175.77 23 3860382 9 298 20 20 477 440 584.583 3.له 2 15 15 32 15 24 2 440 10 353 20 20 173 14 552 22 22 259 1 52 1 213 1 جلد صفحات 344 342 9 355،354, حاشیہ 355-354 411.410 293 1 578 4 257 2 525 3 کتاب چشمه معرفت منن الرحمان سلاطین کو خطوط.موضوعات بادشاہوں کو خطوط صرف آپ نے ہی لکھے قیصر روم کے پاس انبیاء کی تصاویر، آنحضور کی تصویر دیکھ کر کھڑا ہو گیا قیصر نے آپ کے پاؤں دھونے کی تمنا قیصر روم و کسری ایران کرمی کے خزانوں کی کنجیاں کی پیشگوئی قیصر نے کہا یہ تو وہی کلام ہے جو تورات میں ہے قیصر کے دربار میں خط، ابوسفیان سے سوالات کسری کی فتح آپ کے بعد ہوئی بادشاہوں کو خطوط، صحابہ نے مخط پہنچائے نجاشی کا ذکر کسری کی ہلاکت فجر ان کے نصاری سے مباہلہ نجران کے نصاری سے مباہلہ لیکچر لدھیانہ ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات مجموعه اشتہارات چشمه مسیحی راز حقیقت حقیقة الوحی نجر ان کے نصاری سے مباہلہ ملفوظات نجران کے نصاری سے مباہلہ مکتوبات نجران کے نصاری سے مباہلہ مجموعہ اشتہارات زمانہ قرب وصال موضوعات اليوم اكملت لكم دين نور القرآن اذا جاء نصر ر الله--- الحقني بالرفيق الاعلى ملفوظات اليوم اكملت اذا جاء نصر الله-.ملفوظات ملفوظات ملفوظات 272

Page 296

لشکر اسامہ بن زید حضرت ابو بکر کی امامت انکی خلافت کی طرف اشارہ ابو بکر کی کھر کی کھلی رکھنے کی تشریح وصال پر صحابہ کی حالت، ابو بکرم کا خطبہ وصال پر حضرت عمر کی حالت ، وصال النبی وصال کے وقت حضرت عمر کی حالت غم ، وصال النبی آپ کی 63 سال کی عمر میں وفات.وصال النبی.وصال کے وقت حضرت عمر کی حالت غم ، وصال النبی پیر کے دن وصال، مدینہ میں مدفون وصال وصال حضرت عمر کا تلوار لیکر کھڑے ہو جانا حضرت ابو بکر کی شجاعت وصال کے روز فرمانا اگر کچھ ہے تو صدقہ کر دیں صحابہ کا اجماع بے وقت موت نہ تھی ازواج مطہرات و اولاد موضوعات آپ کی ۹ بیویاں تھیں بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں حضرت خدیجہ سے ۲۵ برس کی عمر میں شادی حضرت سودہ کو طلاق دینے کے ارادہ کا اعتراض اور جواب حضرت عائشہ کی خواب میں تصویر تریاق القلوب سر الخلافة تذكرة الشهادتين ضمیمہ براہین احمدیہ الوصیت لیکچر لدھیانہ لیکچر لاہور حقیقة الوحی محله غزنویه کرامات الصادقین ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات 586 15 394 8 23 20 285-284-375 21 305.304 20 *360.260 20 -363 187.186 20 37034 22 578.577 15 221 7 251 1 588 3 20 20 1 575.539.323 4 2 5 جلد صفحات ملفوظات ازالہ اوہام نور القرآن مکتوبات احمدیہ ازالہ اوہام حضرت عائشہ سے کم عمری میں شادی کا اعتراض اور جواب نور القرآن حضرت عائشہ سے کم عمری میں شادی کا اعتراض اور جواب آریہ دھرم حضرت عائشہ سے کم عمری میں شادی کا اعتراض اور جواب مکتوبات احمد حضرت عائشہ کی زبان چوسنے کا اعتراض اور جواب واقعہ افک نور القرآن براہین احمدیہ حصہ پنجم 21 51 4 369 3 113 3 382381 9 18 3 310 3 382 376 9 64.63 10 17 3 392 9 181 273

Page 297

حضرت زینب لمہے ہاتھوں والی پیشگوئیکی مصداق حضرت زینب سے نکاح، متبنی سے نکاح...ازالہ اوہام نور القرآن آنحضرت کا ایک عورت کو دیکھنے کے بعد اپنی زوجہ سے خلوت...نور القرآن اولاد.آنحضور کے گیارہ لڑکے..اولاد.آنحضور کے گیارہ لڑکے..اولاد.آنحضور کے گیارہ لڑکے..ابراہیم کی وفات پر سورج گرہن آنحضور کی بارہ ۱۲ بیٹیاں ابو لہب کے بیٹوں سے آپ کی بیٹیوں کا نکاح متعہ عرب کی ایک رسم تھی، اسلام نے اسکی ممانعت کی سیرت النبی ملی ایم کے چند پہلو موضوعات ساحر ہونے کے الزام کا جواب طعام، سیر ی سے مراد آپ نے سر کے بال ایک شخص کو دئے ، تبرکات حضرت فاطمہ کو نصائح جب کوئی نشان پورا ہو تا تو سجدہ کرتے سخاوت و عفو سب سے بڑھ کر معصوم معمولات زندگی بھی انجام دیتے، بشری وجود سادہ زندگی، کھجور کی چٹائی کا بستر مزاح خدا کے حکم سے اپنی قسم توڑ دی ساده لباس شعر سننا، شعر کہنا، صحابہ کے اشعار فارسی الہام قوت قدسی 274 چشمه معرفت تجليات الطبية لوظات نور الحق ملفوظات ملفوظات نور القرآن آریہ دھرم 471 سم 3 388 9 446 444 9 299 23 414 20 20 219 3 264 8 372 3 355 3 450 9 73068 10 کتاب جلد صفحات ملفوظات مکتوبات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات له ملفوظات ملفوظات ملفوظات 2 له ملفوظات 5.ملفوظات ملفوظات ملفوظات حم ملفوظات 349.348 5 538.537 1 357 3 371-370 3 445 4 48 2 61 2 277 2 415 4 660 9 231 5 247.619 3 162 3 598 2

Page 298

ہر قوم کو روشن کر دیا مدینہ میں ایک بھی منافق نہ رہا توحید کا قیام صحابہ کی عظیم جماعت قائم کی جو نہ تھکی نہ ماندہ ہوئی قوت قدسی قوت قدسی آپ کی روحانی اولاد اور تاثیر کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا انا اعطینک الکوثر کا مقام یہودی بھی فرشتے بن گئے معجزات و برکات موضوعات مارميت اذ رمیت ( نیز زیر عنوان بدر دیکھئے) مریضوں اور سقیم الحال لوگوں کو اچھا کرنا پانی میں انگلیاں ڈبونے سے برکت کنویں میں لعاب سے پانی میٹھا ہو گیا حضرت خالد بن ولید آپ کے بال جنگوں میں اپنے منہ کے آگے لگا لیتے تھے جبہ مبارک سے مریضوں کو شفا ایک عورت نے پسینہ جمع کیا ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات ملفوظات 344-186 1 116 1 357 1 430 1 26 2 39 2 430 4 433 4 99 99 5 کتاب جلد صفحات ملفوظات 75 1 75 1 75 ملفوظات 391 1 ملفوظات 391 1 ملفوظات 3 357 ملفوظات 357 3 ملفوظات 357 3 ملفوظات پانی میں برکت، کھانے میں برکت، کنویں کا پانی میٹھا کر نے ، آنکھ کا ڈیلاوا پس آئینہ کمالات اسلام آمیں رکھ دینے کا معجزہ نبی امی امی ہونے کی تفصیل کسی استاد سے نہیں پڑھا یہ شان صرف آنحضور صلی الم کی ہے کسی عیسائی سے نہیں پڑھا والدین سے بھی نہیں علم حاصل کیا امی محض تھے براہین احمدیہ سرمه چشم آرید ايام الصلح اربعین چشمه مسیحی ضمیمہ براہین احمدیہ چشمه معرفت 275 66 5 5920562 1 76 2 3970394 14 3600358 17 343.342 20 229 21 265 23

Page 299

کتابیات روحانی خزائن جلد 1 تا 23.تصنیفات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ.پاکستان مطبع ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ.( یہ ایڈیشن 1985 میں لندن سے چھپنے والے ایڈیشن کار پر نٹ ہے ) ملفوظات (جلد 1 تا 5) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نظارت اشاعت.ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ پاکستان 1960 مجموعہ اشتہارات جلد 1 - حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام 1878ء تا 1893ء الناشر الشركة الاسلامیہ لمٹڈر بوہ 1967 ا مجموعہ اشتہارات جلد 2 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام - 1894ء تا 1897ء الناشر الشركة الاسلامیہ لمٹڈ ربوہ $1972 مجموعہ اشتہارات جلد 3 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام - 1898ء تا 1908ء الناشر الشركة الاسلامیہ لمٹنڈر بوہ 1975 مکتوبات احمد یہ جلد اول ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط) مر تبہ وطابع : حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب مطبع کار خانه انوار احمد یہ قادیان دسمبر 1908ء مکتوبات احمد یہ جلد دوم ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط ) مرتبہ : حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب طالع محمد وزیر خان احمدی شائع کرده بدر ایجنسی قادیان.مطبع سٹیم پریس لاہور مکتوبات احمدیہ جلد سوم (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط) مرتبہ : حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب.طالع محمد وزیر خان احمدی شائع کرده بدر ایجنسی قادیان.مطبع سٹیم پریس لاہور مکتوبات احمد یہ جلد پنجم ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط ) مر تبہ : حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب.شائع کردہ دفتر الحکم.مطبع راست گفتار پر میں امر تسر مکتوبات احمد جدید ایڈیشن جلد 1 - 2 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 2008 خطبات مسرور ، جلد نہم ، پہلی اشاعت انڈیا 2016، شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان.مطبع فضل عمر پر فلنگ پر لیس قادیان صحیح بخاری از امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی.دار السلام للنشر والتوزيع ریاض- طبعۃ الثاني 99ء صحیح مسلم از امام ابو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم الکثیری النیسابوری، متوفی ۲ بیم، دار السلام للنشر والتوزیع ریاض.طبعة الثانية ١٩٩٨ء 276

Page 300

صحیح الترمذی از امام ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورة الترمذی، متوفی ۲۸۹ ، مكتبة المعرفة- الناشر دار الكتب العربی.بیروت سنن ابی داود از امام حافظ ابو داود سلیمان ابن الاشعث السجستانی، متوفی ۲۷۵ - الناشر : دار احياء السنة النبوية مطبع الموسسة عبد الحفيظ البساط.بیروت الجامع المسند للامام احمد بن حنبل ناشر ادارۃ المصنفین، ربوہ، پاکستان عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری تالیف: علامہ بدرالدین ابی محمد محمود بن العینی، متوفی ۴۵۵.مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ، پاکستان فتح الباری شرح صحیح بخاری لامام حافظ احمد بن علی بن الحجر اعتقلانی، متوفی ۸۵۳، دار نشر الکتب السلامیہ ، لاہور، پاکستان ۱۹۸۱ء الشمائل النبويه - المعرفة شمائل الترمذی.تالیف: از امام ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورۃ الترمذی، متوفی ۲۸۹ ، باہتمام محمد سعید اینڈ سنز.ناشر : قرآن محل کراچی نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخبار تالیف: الشيخ الامام المستحدمحمدبن علی بن محمد الشوكائي الطبع والنشر: شركة مكتبة و مطبع مصطفی البابی.مصر صحیح البخاری، جلد 1، کتاب بدء الوحی ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول الله، مولفه امام محمد بن اسماعیل بخاری، ترجمہ و تشریح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ، تحقیق و تخص شبیر احمد ثاقب.نظارت اشاعت ربوہ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابة، تالیف علامہ عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبد الکریم المعروف بابن اثیر.دار احیاء التراث العربي بيروت الاصابہ فی تمیز الصحابه تالیف شہاب الدین ابی الفضل بن الحجر العسقلانی دار احیاء التراث العربی بیروت البدایہ والنھایہ لابن کثیر.وفات عبد اللہ ابن المطلب جلد 1 جزء دوم صفحہ 286 باب سیر ة رسول اللہ حتی مبعثہ دار الکتب العلمیہ بیروت $2001 الطبقات الکبرای لابن سعد.مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء ا سیرت النبی لابن ہشام.مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء تاریخ الامم والملوک لمحمد ابن جریر الطبری.مطبوعہ دار الفکر بیروت 2002ء الکامل فی تاریخ.تالیف محمد بن محمد بن عبد الکریم الواحد الشیبانی المعروف بابن اثیر.دار صادر بیروت الروض الانف تھیلی مطبوعہ دار احیاه التراث العربی بیروت بیروت 1412ھ التحصيلي تاریخ الخمیس فی احوال النفس النفيس تاليف الشیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری، ناشر و مطبع موسسه شعبان دار بیروت السیرت الحلبیہ فی سیرت الامين والمامون.تالیف علی برہان الدین الحلبی متوفی 1044, ناشر و مطبع فؤاد بعين الجدید.بیروت 277 "

Page 301

■ زاد المعاد فی حدی خیر العباد، الامام حافظ ابی عبد الله بن القیم الجوزی، ناشر محمد علی الصبیح، میدان الازهر مصر 1938ء - مطبع محمد علی صبیح میدان الازھر.مصر الله • سیرت خاتم النبیین صلی اینم از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے.الناشر Islam International Publication Ltd ■ 1996.Islamabad,Tilford,UK.ء.۱ خصائص الکبرای از امام جلال الدین سیوطی مطبعہ المكتبة الحقانیہ پیشاور الخطبات الاحمدیہ فی العرب وسیرت المحمدیہ.سرسید احمد خان.ایڈیشن اول 1964ء نفیس اکیڈمی کراچی مطبع جاوید پر یس کراچی معجم البلد ان.الشیخ الامام شہاب الدین ابی عبد اللہ یا قوت بن عبد اللہ الحموی الرومی.دار صادر بیروت.مید او معاد، صفحه 205، مصنفہ امام ربانی مجدد الف ثانی، مطبوعہ ادارہ مسجد د یہ ناظم آباد نمبر 3 کراچی تمدن عرب از گستاولی بان.مترجم ( اردو ) ڈاکٹر سید علی بلگرامی تاریخ ایران از مقبول بیگ بدخشان داری نشان سپاس دولت شہنشاہی.ناشر سید امتیاز علی تاج.ستارہ امتیاز.مطبع شفیق پریس لاہور.طبع اول 1967ء عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد پال پروفیسر کر سچن کالج لاہور ، شائع کردہ پنجاب ریجیس بُک سوسائیٹی ، انار کلی ، لاہور ، مطبع اتحاد پر میں لا ہو ر پاکستان.تاریخ مسیحی کلیسیا 33 تا600 عیسوی.از پادری کین ڈبلیو پی ہیرس صفحہ 297 تا 301.کرسچین نالج سوسائیٹی انار کلی لا ہور.ایڈ یشن 2.1939 بائبل کتاب مقدس ( نیا عہد نامہ و پر انا عہد نامہ) شائع کردہ پنجاب بیبل سوسائٹی لاہور.ایڈیشن 6، 1897ء مطبع امریکن مشن پر ہیں.لاہور ستیارتھ پرکاش کا مستند اردو ترجمہ ، جین مت اور بت پرستی صفحه 414 تا415 مصنفه مهرش سوامی دیانند سرسوتی، مترجم رادھا کشن، پبلشر لالہ کیشور رام ، بار ششم، 2001 بکرمی، پرنٹر زلالہ کیشور رام پر نٹر ز ، لاہور.اردو دائرہ معارف اسلامی زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور 1993ء - ناشر ورئیس ادارہ پر وفیسر سعد محمد امحمد الطاف.مطبع رشید اقبال پر نٹر ز لاہور • • The Decline and Fall of Roman Empire by Gibb Edward, Modern Library.Printed by Parkway Printing Company U.S.A.History of the Arabs by Filip K Hitti 4th Edition.McMillan & Co Ltd London 1949 • • Muhammad at Mecca by W.Montagomery Watt.Life of Mahomet by Sir William Muir LLD.Under introduction pre historical notes of Mecca 278

Page 302

• • • Encyclopedia of Religions and Ethics Vol.28 Edited by James Hastings printed in UK by Morrison and Gibb Ltd for T&T Clark 1974 Everyman's Encyclopedia Vol.7 Edited by D.A Giling JM Dents & Sons Ltd London 1978 تمت بالخیر 279

Page 303

مصنف کتاب آصف احمد خان مربی سلسلہ احمدیہ پروفیسر ( تاریخ وسیرت ) جامعہ احمدیہ کینیڈا مؤلف کتاب مکرم آصف احمد خان 1995 میں جامعہ احمد یہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور بطور مبلغ سے گوجر انوالہ، فیصل آباد اور کراچی کی مختلف جماعتوں میں خدمت کی توفیق پائی.وکالت تعلیم ربوہ کے تحت چار سال کے عرصہ میں تاریخ وسیرت کے مضمون میں تخصص مکمل کیا اور تخصص کے دوران دو سال جامعہ احمد یہ ربوہ میں بطور استاد تاریخ وسیرت تدریس کی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق پائی.مغربی افریقہ کے ملک سیر الیون میں عرصہ چھ سال 2003 تا 200 بطور مبلغ سلسلہ خدمت کی توفیق پائی.مارچ 2009 تا حال بفضلہ تعالیٰ جامعہ احمد یہ کینیڈا میں بطور استاد تاریخ وسیرت خدمت کی توفیق پارہے ہیں.280

Page 304

سیرت النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم از تحریرات و فرمودات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام Siratun-Nabisa Az Taḥrīrāt wa Farmūdāt Syednā Hazrat Aqdas Masīḥ Mau'ūdas by Asif Ahmad Khan اس کتاب میں سیرت النبی سی ما این ترتیب زمانی از تحریرات و فرمودات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان کی گئی ہے اور تسلسل وربط قائم رکھنے کی خاطر وضاحتی نوٹس بھی دئے گئے ہیں.نیز مقدس تحریرات کی تائید میں دیگر کتب سے حوالہ جات بھی دئے گئے ہیں.9780993773198 Copyright ©2018 Ahmadiyya Muslim Jama'at, Canada - All Right Reserved.

Page 304