Seerat Masih-e-Maud

Seerat Masih-e-Maud

سیرت مسیح موعود علیہ السلام

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت مصلح موعودنے اس کتاب کے دیباچہ میں رقم فرمایاکہ ’’چونکہ احمدیہ جماعت کی روزمرہ ترقی اور اطراف عالم میں پھیلنے والی لہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو، جو اس کے حالات سے واقف نہیں، خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کے حالات سے آگاہ ہوں لیکن بوجہ مجبوری کے وہ مفصل کتب کو نہیں دیکھ سکتے اس لئے میں نے چاہا کہ ایک ایسا رسالہ لکھ دوں جس میں مختصر طو ر پر اس سلسلہ اور اس کے بانی کے حالات درج ہوں تاکہ طالبانِ حق کے لئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت راہنما کا کام دے اور مزید تحقیق کے لئے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کرے اور آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے والوں کے لئے راستہ صاف کرے۔ اس مختصر ٹریکٹ میں مندرجہ ذیل امور پر روشنی ڈالی جائے گی: احمدؑ بانی سلسلہ احمدیہ کے حالات۔ اس کی سیرت۔ اس کا دعویٰ اور دلائل۔ اس کی مشکلات۔ اس کی پیش گوئیاں۔ اس کا کام۔ اس کے بعد اس کے قائم کردہ سلسلہ کے حالات۔‘‘


Book Content

Page 1

نام کتاب سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود عليه الصلاة والسلام تصنیف سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی نوراللہ مرقدة

Page 2

دیباچه خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے تاریخی اور بابرکت موقع پر اس کتاب کی ایک دفعہ پھر اشاعت کی جارہی ہے.دعا ہے کہ تمام احمدی بچوں اور نو جوانوں کے لیے اس کتاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت وسوانح کا مطالعہ ہم کا مطالعہ باعث از دیا دایمان و عمل ہو.آمین سب کے لیے انتہائی اہم اور ضروری ہے، نہ صرف ہمارے علم اور معلومات کے لیے بلکہ عمل وایمان کی مضبوطی اور ترقی کے لیے بھی.میں اپنے دیباچہ میں از خود کچھ عرض کرنے کی بجائے اس کتاب کے دیباچہ اوّل کو من وعن یہاں لکھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں جو حضرت مصلح موعود نے اس کتاب کے لیے رقم فرمایا تھا آپ فرماتے ہیں:- وو چونکہ احمد یہ جماعت کی روز مرہ ترقی اور اطراف عالم میں پھیلنے والی لہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو جو اس کے حالات سے واقف نہیں خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کے حالات سے آگاہ ہوں لیکن بوجہ مجبوری کے وہ مفصل کتب کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے میں نے چاہا کہ ایک ایسا رسالہ لکھ دوں جس میں مختصر طور پر اس سلسلہ اور اس کے بانی کے حالات درج ہوں تا کہ طالبان حق کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت راہنما کا کام دے اور مزید تحقیق کے لیے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کرے اور آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے والوں کے لیے راستہ صاف کرے.اس مختصر ٹریکٹ میں مندرجہ ذیل امور پر روشنی ڈالی جائے گی.احمد بانی سلسلہ احمدیہ کے حالات ، اس کی سیرت ، اس کا دعوی اور دلائل، اس کی مشکلات، اس کی پیشگوئیاں ، اس کا کام ،اس کے بعد اس کے قائم کردہ سلسلہ کے حالات“.(دیباچہ طبع اوّل )

Page 3

پیش لفظ سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنا ہم میں سے ہراحمدی کا احمد قادیانی علیہ السلام اور آپ کے خاندانی حالات فرض بھی ہے اور علم وعمل میں رنگ اور یقین پیدا کرنے کا ذریعہ بھی 1 احمد جو سلسلہ احمدیہ کے بانی تھے.آپ کا پورا نام غلام احمد تھا اور آپ قادیان کے "سیرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مصلح موعود کی تصنیف لطیف ہے.شعبہ اشاعت باشندے تھے جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ 11 میل، امرتسر سے چوبیس 24 میل اور مجلس خدام الاحمدیہ کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس کتاب کو پھر شائع کر رہا ہے حضرت لا ہور سے قریباً ستاون 57 میل جانب مشرق پر ایک قصبہ ہے.آپ قریباً 1836ء یا مصلح موعود نے یہ کتاب 1916ء میں تصنیف فرمائی تھی اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو 1837ء میں اسی گاؤں میں مرزا غلام مرتضی صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوئے * اور آپ کی ولادت تو ام تھی یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی ہی مدت چکے ہیں.1979ء میں صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے زمانہ صدارت میں یہ کتاب مجلس بعد فوت ہو گئی.خدام الاحمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی تھی.پھر قلیل عرصہ کے دوران اس کی دوبارا شاعت پیشتر اس کے کہ میں آپ کے حالات بیان کروں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً آپ کی گئی.خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے تاریخی اور بابرکت موقع پر اس کتاب کی ایک دفعہ کے خاندان کے بھی کچھ حالات بیان کر دیے جائیں.پھر اشاعت کی جارہی ہے.اس کتاب کی تیاری کے دوران خاکسار کے ساتھ نے تعاون کیا.فجزاهم الله احسن الجزاء آپ کا خاندان اپنے علاقے میں ایک معزز خاندان تھا اور اس کا سلسلہ نسب بر لاس سے جو امیر تیمور کا چا تھا ملتا ہے اور جبکہ امیر تیمور نے علاقہ گش پر بھی جس پر اس کا چچا حکمران تھا قبضہ کر لیا تو بر لاس خاندان خراسان میں چلا آیا اور ایک مدت تک یہیں رہا لیکن دسویں صدی ہجری یا سولہویں صدی مسیحی کے آخر میں اس خاندان کا ایک ممبر مرزا ہادی بیگ بعض غیر معلوم وجوہات کے باعث اس ملک کو چھوڑ کر قریباً ۲۰۰ دو سو آدمیوں سمیت ہندوستان آگیا اور دریائے بیاس کے قریب کے علاقہ میں اُس نے اپنا ڈیرہ لگایا اور بیاس سے نومیل کے فاصلہ پر ایک گاؤں بسایا اور اُس کا پورا نام اسلام پور رکھا ( یعنی اسلام کا شہر ) چونکہ آپ ایک نہایت قابل آدمی تھے دہلی کی حکومت کی طرف سے اس علاقہ کے ی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی تحقیقات کی رو سے حضرت اقدس علیہ السلام کی پیدائش ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء ہے.منہ)

Page 4

2 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 3 قاضی مقرر کیے گئے اور اس عہدہ کی وجہ سے آپ کے گاؤں کا نام بجائے اسلام پور کے حکومت نے سکھوں کی حکومت کو تباہ کیا تو اُن کی جاگیر ضبط کی گئی مگر قادیان کی زمین پر اُن اسلام پور قاضی ہو گیا یعنی اسلام پور جو قاضی کا مقام ہے اور بگڑتے بگڑتے اسلام پور کا نام تو کو مالکیت کے حقوق دیے گئے.بالکل مٹ گیا اور صرف قاضی رہ گیا جو پنجابی تلفظ میں قادی بن گیا اور آخر اس سے بگڑ کر اس گاؤں کا نام قادیان ہو گیا.غرض مرزا ہادی بیگ صاحب نے خراسان سے آکر بیاس کے پاس ایک گاؤں آپ کا خاندانی تذکرہ تاریخوں میں یه مختصر حالات لکھنے کے بعد سر لیپل گریفن کی کتاب ” پنجاب چیفس“ کا وہ حصہ جو بسا کر اس میں بود و باش اختیار کی اور اسی جگہ پر ان کا خاندان ہمیشہ قیام پذیر رہا اور حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے متعلق ہے ہم لکھ دینا مناسب سمجھتے ہیں:.با وجود دہلی پایہ تخت حکومت سے دور رہنے کے اس خاندان کے ممبر مغلیہ حکومت کے ماتحت معزز عہدوں پر مامور رہے اور جب مغلیہ خاندان کو ضعف پہنچا اور پنجاب میں طوائف الملو کی پھیل گئی تو یہ خاندان ایک آزاد حکمران کے طور پر قادیان کے اردگرد کے علاقہ پر جو قریباً ساٹھ میل کا رقبہ تھا حکمران رہا لیکن سکھوں کے زور کے وقت رام گڑھیا سکھوں نے بعض اور خاندانوں کے ساتھ مل کر اس خاندان کے خلاف جنگ شروع کی اور گوان کے پڑدادا نے تو اپنے زمانہ میں ایک حد تک دشمن کے حملوں کو روکا لیکن آہستہ آہستہ (حضرت) مرزا صاحب کے دادا کے وقت اس ریاست کی حالت ایسی کمزور ہوگئی کہ صرف قادیان شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی 1530ء میں ایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندۂ سمر قندا اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بود و باش اختیار کی.یہ کسی قدر پڑھا لکھا آدمی تھا (۱) اور قادیان کے گرد و نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا.کہتے ہیں کہ قادیان اُس نے آباد کیا اور اُس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان (۲) ہو گیا.کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہد حکومت میں معز ز عہدوں پر ممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا.(مرزا) جو اُس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا اور اس کے چاروں طرف فصیل تھی اُن کے قبضہ میں گل محمد اور اُس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیا اور کنھیا مسلوں سے جن کے قبضہ میں رہ گیا اور باقی سب علاقہ اُن کے ہاتھوں سے نکل گیا اور آخر بعض گاؤں کے باشندوں سے سازش کر کے سکھ اِس گاؤں پر بھی قابض ہو گئے اور اس خاندان کے سب مردوزن قید ہو گئے لیکن کچھ دنوں کے بعد سکھوں نے اُن کو اس علاقے سے چلے جانے کی اجازت قادیان کے گرد و نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے.آخر کار اپنی تمام جا گیر کو کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ (۳) کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی.اُس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام دے دی اور وہ ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے اور وہاں قریباً سولہ سال رہے.اس کے بعد ا.دراصل وہ بہت ذی علم وفہم اور مومن مرد خدا تھا.( ناقل) مہا راجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ آ گیا اور انہوں نے سب چھوٹے چھوٹے راجوں کو اپنے ماتحت پنجابی لوگ 'ض کوو بولتے ہیں اس لئے اسلام پور قاضیاں کا نام صرف قاضیاں یعنی قادیان بن گیا اور اسلام پور بالکل حذف کر لیا اور اس انتظام میں حضرت مرزا صاحب کے والد کو بھی اُس کی جاگیر کا بہت کچھ حصہ ہو گیا.( ناقل) واپس کر دیا اور وہ اپنے بھائیوں سمیت مہا راجہ کی فوج میں ملازم ہو گئے اور جب انگریزی.یہ نام یعنی اہلو والیہ مسل.رام گڑھیا مسل.کنھیا مسل سکھوں کے گروہوں کے نام ہیں.

Page 5

سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گڑھیا مسل کے تمام جا گیر پر قابض ہو گیا تھا، غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اُسے واپس دے دیا.اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہا راجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں.نو نہال سنگھ ، شیر سنگھ اور دربارِ لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا.1841ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور 1843ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا.ہزارہ کے مفسدہ میں اُس نے کار ہائے نمایاں کیے اور جب 1848ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا.اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں.جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لیے دیوان مولراج کی امداد کے لیے ملتان کی طرف جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑ کا یا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور اُن کو شکست فاش دی.اُن کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مر گئے.الحاق کے موقعہ پر اس خاندان کی جاگیر ضبط کی گئی مگر 700 روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اُس کے گردو نواح کے مواضعات پر اُن کے حقوق مالکا نہ رہے.اس خاندان نے غدر 1857ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں.غلام مرتضی نے بہت سے آدمی بھرتی کیے اور اُس کا بیٹا غلام قادر جرنیل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اُس وقت تھا جب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 46 نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا.جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ 1857ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا.غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا 1876ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا.غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اُس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے.یہ کچھ عرصہ تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپر نٹنڈنٹ رہا.اُس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہو گیا اور اُس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی 1883ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے.مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اب اکسٹرا اسٹنٹ ہے.یہ قادیان کا نمبردار بھی ہے.نظام الدین کا بھائی امام الدین جو 1904ء میں فوت ہوا دہلی کے محاصرے کے وقت ہاڈسن ہورس ( رسالہ ) میں رسالدار تھا.اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا.یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو غلام مرتضی کا چھوٹا بیٹا تھا مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا.پیشخص 1837ء میں پیدا ہوا اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی.1891ء میں اُس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، چونکہ یہ ایک عالم اور منطقی تھا اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہو گئے اور اب احمدیہ کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے.مرزا، عربی فارسی اور اُردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا جن میں اُس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی 5 4

Page 6

6 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اُن کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیا ہے.مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے لیکن اپنی وفات سے پہلے جو 1908ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ حاصل کر لیا کہ وہ لوگ بھی جو اُس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے.اس فرقہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمد یہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھا پہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتا ہے.مرزا غلام احمد کا خلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نورالدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے.اس خاندان کے سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے، حقوق مالکانہ ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فیصدی حقوق تعلق داری حاصل ہیں.( دی پنجاب چیفس حصہ اوّل مطبوعہ 1919ء لاہور ) پیدائش حضرت اقدس علیہ السلام و زمان طفولیت و تذکرہ والد بزرگوار.حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے مختصر حالات لکھنے کے بعد ہم آپ کے حالات بیان کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ 1836ء یا 1837ء میں پیدا ہوئے تھے جو کہ آپ کے والد کے عروج کا زمانہ تھا کیونکہ اُس وقت اُن کو جاگیر کے بعض مواضع اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی خدمت کی وجہ سے اچھی عظمت حاصل تھی لیکن منشاء الہی یہ تھا کہ ایک ایسے رنگ میں پرورش پائیں جس میں آپ کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو.اس لیے آپ کی پیدائش کے تین ہی سال بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی سکھ حکومت پر زوال آ گیا اور اس زوال کے ساتھ آپ کے والد صاحب بھی مختلف تفکرات میں مبتلا ہو گئے اور آخر الحاق پنجاب کے موقعہ پر اُن کی جائیداد سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 7 ضبط ہوگئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جاگیر واپس نہ لے سکے جس کا صدمہ اُن کے دل پر آخری دم تک رہا چنانچہ خود حضرت مرزا صاحب اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :- ”میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر کار نا کا می تھی کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور اُن کا واپس آنا ایک خام خیال تھا.اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیاوی کدورتوں سے پاک ہے.اگر چہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سر کا رانگریزی کی طرف سے کچھ انعام سالا نہ مقرر تھا اور ایام ملا زمت کی پنشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا.اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدرمیں نے اس پلید دنیا کے لیے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لیے کرتا تو آج شاید قطب وقت یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے.ع عمر بگذشت نماند است جز آیا می چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے اور وہ یہ ہے ہے

Page 7

8 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام از درے تو اے کسے ہر بے کسے نیست امیدم که بروم نا امید اور کبھی در دول سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے بعے باب دیده عشاق و خاکپائے کیسے مرادی است کہ درخون تپد بجائے کیسے سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 9 نے کبھی اس کی طرف التفات نہ کی اور اس سے ایسی جدائی اختیار کی کہ پھر اس سے کبھی نہ انہیں پھراس نہ ملا.غرض مرزا صاحب کو اپنی بچپن کی عمر سے ہی اپنے والد کی زندگی میں ایک ایسا تلخ نمونہ دیکھنے کا موقع ملا کہ دنیا سے آپ کی طبیعت سرد ہوگئی اور جب آپ بہت ہی بچہ تھے تب بھی آپ کی تمام تر خواہشات رضائے الہی کے حصول میں ہی لگی ہوئی تھیں.چنانچہ آپ کے حضرت عزت جلشانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز سوانح نویس شیخ یعقوب علی صاحب آپ کے سوانح میں ایک عجیب واقعہ جو آپ کی نہایت آخری عمر میں اُن پر غلبہ کرتی گئی تھی.بار ہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بے ہودہ خرخشوں کے لیے میں نے اپنی عمر نا حق ضائع کر دی.بچپن ہی میں عبادت الہی کا شوق اس تحریر سے جو حضرت مرزا صاحب نے اپنے والد کی اس حالت کے متعلق لکھی ہے - بچپن کی عمر کے متعلق ہے تحریر کرتے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اُس وقت آپ ایک اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہوگئی ، کہا کرتے تھے کہ نا مرا دے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے“ اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت پچپن کی عمر سے آپ کے جس میں آپ کے زمانہ طفولیت اور جوانی کے وقت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہورہا تھا ایسے رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی تھی کہ جس کی وجہ سے دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیدا اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اس ہی نہ ہونے پائی.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کی دنیا وی حالت فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی اُس وقت بھی ایسی تھی کہ وہ دنیاوی لحاظ سے معزز و ممتاز کہلاتے تھے اور حکام اُن کا ادب و سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اسی پر موقوف جانتے تھے.نماز پڑھنے کی خواہش کرنا لحاظ کرتے تھے لیکن پھر بھی اُن کا دنیا کے پیچھے پڑنا اور اپنی ساری عمر اس کے حصول کے لیے اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی جاننا اور پھر اس گھر میں پرورش پا کر جس کے خرچ کر دینا لیکن پھر بھی اس کا اس حد تک ان کو حاصل نہ ہونا جس حد تک کہ وہ اُس پر چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے، ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے خاندانی حق خیال کرتے تھے اس پاک دل کو جو اپنے اندر کسی قسم کی میل نہ رکھتا تھا یہ بتا دینے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لیے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو، نہیں نکل سکتی.کے لیے کافی تھا کہ دنیا روزے چند اور آخرت با خداوند.چنانچہ اس نے اپنے بچپن کی عمر سے اس سبق کو ایسا یاد کیا کہ اپنی وفات تک نہ بھلایا اور گو دنیا طرح طرح کے خوبصورت لباسوں میں اس کے سامنے آئی اور اُس کو اپنے راستہ سے ہٹا دینے کی کوشش کی لیکن اس حصول تعلیم کا زمانہ جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے ہیں وہ نہایت جہالت کا زمانہ تھا اور لوگوں کی تعلیم کی

Page 8

10 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 11 طرف بہت ہی کم توجہ تھی اور سکھوں کے زمانہ کی بات تو یہاں تک مشہور ہے کہ اگر کسی کے تھا.پس جن حالات کے ماتحت اور جن اُستادوں کی معرفت آپ کی تعلیم ہوئی وہ ایسے تھے نام کسی دوست کا کوئی خط آ جاتا تو اس کے پڑھوانے کے لیے اُسے بہت مشقت اور محنت کہ اُن کی وجہ سے آپ کو کوئی ایسی تعلیم نہیں مل سکتی تھی جو اس کام کے لیے آپ کو تیار کر دیتی برداشت کرنی پڑتی تھی اور بعض دفعہ مدت تک خط پڑا رہتا تھا اور بہت سے رؤساء بالکل آن جس کے کرنے پر آپ نے مبعوث ہونا تھا.ہاں اس قدر اس تعلیم کا نتیجہ ضرور ہوا کہ آپ کو پڑھ تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے چونکہ آپ سے بہت بڑا کام لینا تھا اس لیے آپ کی تعلیم کا اس فارسی اور عربی پڑھنی آگئی اور فارسی میں اچھی طرح سے اور عربی میں قدرے قلیل آپ نے آپ کے والد کے دل میں شوق پیدا کر دیا اور باوجود ان دنیا وی تفکرات کے جن میں بولنے بھی لگ گئے تھے.اس سے زیادہ آپ نے کوئی تعلیم نہیں حاصل کی اور دینی تعلیم تو وہ مبتلا تھے انہوں نے اس جہالت کے زمانہ میں بھی اپنی اولا دکو اس زمانہ کے مناسب حال با قاعدہ طور پر کسی استاد سے حاصل نہیں کی.ہاں آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور آپ اپنے تعلیم دلانے میں کوتا ہی نہ کی.چنانچہ جب آپ بچہ ہی تھے تو آپ کے والد نے ایک استاد والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں اس قدر مشغول رہتے تھے کہ بارہا آپ کے والد آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا جن کا نام فضل الہی تھا.اُن سے حضرت مرزا صاحب نے صاحب کو ایک تو اس وجہ سے کہ آپ کی صحت کو نقصان نہ پہنچے اور ایک اس وجہ سے کہ آپ قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب پڑھیں.اس کے بعد دس سال کی عمر میں فضل احمد نام ایک اس طرف سے ہٹ کر اُن کے کام میں مددگار ہوں ، آپ کو روکنا پڑتا تھا.استاد ملازم رکھے گئے.یہ اُستاد نہایت نیک اور دیندار آدمی تھا اور جیسا کہ حضرت مرزا صاحب خود تحریر فرماتے ہیں ، آپ کو نہایت محنت اور محبت سے تعلیم دیتا تھا.اس اُستاد سے حضرت صاحب نے صرف و نحو کی بعض کتب پڑھیں.اس کے بعد سترہ اٹھارہ سال کی عمر ملازمت کے حالات اور مسیحیوں سے مباحثات جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے اُس وقت گورنمنٹ برطانیہ کی حکومت پنجاب میں میں مولوی گل علی شاہ آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھے گئے ان سے نحو منطق اور حکمت کی چند مستحکم ہو چکی تھی.غدر کا پُر آشوب زمانہ بھی گذر چکا تھا اور اہلِ ہند اس بات کو اچھی طرح کتب آپ نے پڑھیں اور فن طبابت کی چند کتب اپنے والد صاحب سے جو ایک نہایت سمجھ چکے تھے کہ اب اس گورنمنٹ کی ملازمت ہی میں تمام عزت ہے اس لیے مختلف شریف تجربه کار طبیب تھے ، پڑھیں اور یہ تعلیم اُن دنوں کے لحاظ سے جن میں آپ تعلیم پا رہے خاندانوں کے نوجوان اس کی ملازمت میں داخل ہو رہے تھے.ایسے حالات کے ماتحت اور تھے ، بہت بڑی تعلیم تھی.لیکن در حقیقت اس کام کے مقابلہ میں جو آپ نے کرنا تھا کچھ بھی اس بات کو معلوم کر کے کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت زمینداری کے کاموں میں بالکل نہ تھی.چنانچہ ہم نے بعض وہ آدمی دیکھے ہیں جو آپ کے ساتھ اُن اُستادوں سے پڑھتے نہیں لگتی ، اپنے والد صاحب کے مشورہ سے آپ سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے تھے جن کو آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا تھا اور وہ نہایت معمولی گئے اور وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہو گئے مگر اکثر وقت علمی مشاغل میں ہی لیاقت کے آدمی تھے اور ان کو ایک معمولی خواندہ آدمی سے زیادہ وقعت نہیں دی جاسکتی اور گذرتا اور ملازمت سے فراغت کے اوقات میں یا تو آپ خود مطالعہ کرتے یا دوسرے جو استاد آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھے گئے تھے وہ بھی کوئی بڑے عالم نہ تھے کیونکہ اس لوگوں کو پڑھاتے تھے یا مذہبی مباحث میں حصہ لیتے تھے اور اُس وقت بھی آپ کی پر ہیز وقت علم بالکل مفقود تھا اور فارسی اور عربی کی چند کتب کا پڑھ لینے والا بڑا عالم خیال کیا جاتا گاری اور تقویٰ کا اتنا اثر تھا کہ باوجود اس کے کہ آپ بالکل نو جوان تھے اور صرف اٹھائیں

Page 9

12 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 13 سال کی عمر تھی مگر بوڑھے بوڑھے آدمی مسلمانوں میں سے بھی اور ہندوؤں میں سے بھی کرتی کہ کسی مذہب کی ناجائز طور پر دل آزاری کی جائے.غرض اُس وقت مسیحیوں اور آپ کی عزت کرتے تھے لیکن آپ کی عادت اُس وقت بھی خلوت پسندی کی تھی.اپنے مسلمانوں کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے اور پادریوں کے اخلاق اُن دنوں میں صرف انہی مکان سے باہر کم جاتے اور اکثر وقت وہیں گزارتے.مسیحی مشن اُن دنوں پنجاب میں نیا نیا لوگوں تک محدود ہوتے تھے جو اُن کی باتوں کی تصدیق کریں اور جو آگے سے جواب دے آیا تھا اور مسلمان اُن کے حملوں سے ناواقف تھے اور اکثر مسیحیوں سے شکست کھاتے تھے بیٹھیں اُن کے خلاف اُن کا جوش بڑھ جاتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ حضرت مرزا صاحب لیکن حضرت مرزا صاحب سے جب کبھی بھی مسیحیوں کی گفتگو ہوئی اُن کو نیچا دیکھنا پڑا.چنانچہ دین میں غیور تھے اور مذہبی مباحثات میں کسی سے نہ دیتے تھے.ریورنڈ بٹلر آپ کی نیک نیتی پادریوں میں سے جو لوگ حق پسند تھے وہ باوجود اختلاف مذہبی کے آپ کی بہت عزت اور ا خلاص اور تقویٰ کو دیکھ کر متاثر تھے اور باوجود اس بات کو محسوس کرنے کے کہ یہ شخص میرا کرتے چنانچہ آپ کا سوانح نگار لکھتا ہے کہ ریورنڈ بٹلر ایم.اے جو سیالکوٹ کے مشن میں شکار نہیں ، ہاں ممکن ہے کہ میں اس کا شکار ہو جاؤں اور باوجود اس طبعی نفرت کے جو ایک صید کام کرتے تھے اور جن سے حضرت مرزا صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے کو صیاد سے ہوتی ہے وہ دوسرے مذہبی مناظرین کی نسبت مرزا صاحب سے مختلف سلوک جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لیے چلے آئے کرنے پر مجبور ہوئے اور جاتے وقت کچہری میں ہی آپ سے ملنے کے لیے آگئے اور آپ اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا کہ کس طرح تشریف لائے ہیں تو ریورنڈ مذکور نے کہا سے ملے بغیر جانا پسند نہ کیا.که صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے اور جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے.یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب کہ گورنمنٹ برطانیہ کی نئی نئی فتح کو پادری لوگ اپنی فتح کی علامت قرار دیتے تھے اور اُن میں تکبر اس قدر سرایت کر گیا علیحد گی ملا زمت اور پیروی مقدمات قریباً چار سال آپ سیالکوٹ میں ملازم رہے لیکن نہایت کراہت کے ساتھ.آخر تھا کہ ان دنوں میں جو کتب اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں اُن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے والد صاحب کے لکھنے پر فوراً استعفیٰ دے کر واپس آگئے اور اپنے والد صاحب کے حکم کے کہ پادری صاحبان نے اُس وقت شاید یہ خیال کر رکھا تھا کہ چند ہی روز میں تمام مسلمانوں ماتحت اُن کے زمینداری کے مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ کو پکڑ کر بزور شمشیر گورنمنٹ مسیحی بنالے گی اور وہ اسلام اور بانی اسلام کے خلاف سخت سے لگتا تھا.چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اس لیے والد صاحب کا حکم تو نہ سخت الفاظ استعمال کرنے سے بھی نہ رکتے تھے جہتی کہ بعض دانا یوروپین صاحبان کو ہی اُن ٹالتے تھے لیکن اس کام میں آپ کا دل ہر گز نہ لگتا تھا.چنانچہ اُن دنوں کے آپ کو دیکھنے تصانیف کو دیکھ کر لکھنا پڑا کہ ان تحریروں کی وجہ سے اگر دوبارہ 1857ء کی طرح غدر ہو والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرہ پر جائے تو کوئی تعجب نہیں اور یہ حالت اُس وقت تک قائم رہی جب تک کہ مسیحی پادریوں کو یہ بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شاید فتح ہوگئی ہے.پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار یقین نہ ہو گیا کہ ہندوستان میں حکومت انگلستان کی ہے نہ کہ پادریوں کی.اور یہ کہ کوئین گئے ہیں.جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا، منشائے الہی وکٹوریہ کی گورنمنٹ بزور شمشیر دین مسیحی پھیلانے کی ہرگز روادار نہیں اور وہ کبھی پسند نہیں یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہوگئی ہے.یاد الہی میں مصروف رہنے کا

Page 10

14 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 15 موقعہ ملے گا.یہ زمانہ آپ کا عجیب کشمکش کا زمانہ تھا.والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ یا تو اور ریاست کپورتھلہ کے محکمہ تعلیم کا افسر بنانے کی تجویز ہوئی لیکن آپ نے نامنظور کر دیا اور اپنے زمینداری کے کام میں مصروف ہوں یا کوئی ملازمت اختیار کریں اور آپ ان دونوں اپنے والد صاحب کے ہموم و عموم کو دیکھ کر اس بات کو ہی پسند فرمایا کہ جس تنگی سے بھی گذارہ باتوں سے متنفر تھے اور اس لیے اکثر طعن و تشنیع کا شکار رہتے تھے.جب تک آپ کی والدہ ہو گھر پر ہی رہیں اور ان کے کاموں میں جہاں تک ہو سکے ہاتھ بٹائیں.گوجیسا کہ پہلے بتایا صاحبہ زندہ رہیں آپ پر ایک سپر کے طور پر رہیں لیکن اُن کی وفات کے بعد آپ اپنے والد جا چکا ہے آپ کا دل اس کام کی طرف بھی راغب نہ تھا لیکن آپ اپنے والد صاحب کے حکم صاحب اور بھائی صاحب کی ملامت کا اکثر نشانہ ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ کے ماتحت اُن کے آخری ایام کو جہاں تک ہو سکے با آرام کرنے کے لیے اس کام میں لگے آپ کا دنیاوی کاموں سے متنفر ہو نائستی کی وجہ سے ہے.چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ضرور رہتے تھے گو فتح و شکست سے آپ کو دلچسپی نہ تھی.ایک مقدمہ میں نشان الہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام گو اس زمانہ میں اپنے والد صاحب کی مدد کے لیے اُن کے بعض دفعہ آپ کے والد نہایت افسردہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میرے بعد اس لڑکے کا کس طرح گزارہ ہوگا اور اس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا اور کبھی کبھی وہ آپ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو ملاں بھی کہہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں ملاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے.لیکن باوجود اس کے خود اُن کے دل میں دنیاوی کاموں میں لگے ہوئے تھے لیکن آپ کا دل کسی اور طرف تھا اور ” دست در کار دل بھی آپ کا رعب تھا اور جب کبھی وہ اپنی دنیا وی نا کامیابی کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں بایار کی مثال بنے ہوئے تھے.مقدمات سے ذرا فارغ ہوتے تو خدا تعالیٰ کی یاد میں آپ کے استغراق کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس وقت فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے مشغول ہو جاتے اور اِن سفروں میں جو آپ کو اُن دنوں مقدمات میں کرنے پڑتے آپ جس میں میرا بیٹا لگا ہوا ہے.لیکن چونکہ اُن کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گذری تھی اس ایک وقت کی نماز بھی بے وقت نہ ہونے دیتے بلکہ اپنے اوقات پر نماز ادا کرتے بلکہ ا لیے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا.مگر حضرت مرزا صاحب اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے مقدمات کے وقت بھی نماز کو ضائع نہ ہونے دیتے چنانچہ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ آپ ایک تھے بلکہ کسی کسی وقت قرآن حدیث اپنے والد صاحب کو بھی سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تھے ضروری مقدمہ کے لیے جس کا اثر بہت سے مقدمات پر پڑتا تھا اور جس کے آپ کے حق اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے اور دونوں میں ہو جانے کی صورت میں آپ کے بہت سے حقوق محفوظ ہو جاتے تھے، عدالت میں میں سے ہر ایک دوسرے کو شکار کرنا چاہتا تھا.باپ چاہتا تھا کہ کسی طرح بیٹے کو اپنے تشریف لے گئے.اُس وقت کوئی ضروری مقدمہ پیش تھا اُس میں دیر ہوئی اور نماز کا وقت آ خیالات کا شکار کرے اور دنیاوی عزت کے حصول میں لگا دے اور بیٹا چاہتا تھا کہ اپنے باپ گیا.جب آپ نے دیکھا کہ مجسٹریٹ تو اس مقدمہ میں مصروف ہے اور نماز کا وقت تنگ ہو کو دنیا کے خطرناک پھندہ سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی کو لگا دے.غرض یہ عجیب رہا ہے تو آپ نے اس مقدمہ کو خدا کے حوالے کیا اور خود ایک طرف جا کر وضو کیا اور دن تھے جن کا نظارہ کھینچنا قلم کا کام نہیں ہر ایک شخص اپنی اپنی طاقت کے مطابق اپنے دل درختوں کے سایہ تلے نماز پڑھنی شروع کر دی.جب نماز شروع کر دی تو عدالت سے آپ کے اندر ہی اس کا نقشہ کھینچ سکتا ہے.ان دنوں آپ کے سامنے پھر ملا زمت کا سوال پیش ہوا کے نام پر آواز پڑی.آپ آرام سے نماز پڑھتے رہے اور بالکل اس طرف توجہ نہ کی.

Page 11

16 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 17 جب نماز سے فارغ ہوئے تو یقین تھا کہ مقدمہ میں فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری مل گئی ہوگی سات میل پیدل پھر لیتے تھے اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ کیونکہ عدالت ہائے کا قاعدہ ہے کہ جب ایک فریق حاضر عدالت نہ ہو تو فریق مخالف کو بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اُٹھ کر ( نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا یکطرفہ ڈگری دی جاتی ہے.اسی خیال میں عدالت میں پہنچے.چنانچہ جب عدالت میں ہے) سیر کے لیے چل پڑتے تھے اور وڈالہ تک پہنچ کر ( جو بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریباً پہنچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ فیصل ہو چکا ہے.لیکن چونکہ فیصلہ عدالت معلوم کرنا ضروری تھا جا ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے ) صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا.کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے ، جو ایک انگریز تھا کا غذات پر ہی فیصلہ کر دیا اور ڈگری آپ کے حق میں دی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی طرف سے وکالت کی.غرض آپ ان دنیاوی کاموں میں اسی طرح مشغول تھے جس طرح ایک شخص سے کوئی ایسا مکالمہ الہیہ کا آغاز آپ کی عمر قریباً چالیس سال کی تھی جب کہ 1876ء میں آپ کے والد صاحب کام کرایا جائے جس کے کرنے پر وہ راضی نہ ہو حالانکہ وہ کام خود آپ کے نفع کا تھا کیونکہ یکدفعہ بیمار ہوئے اور گوان کی بیماری چنداں خوفناک نہ تھی لیکن حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ آپ کے والد صاحب کی جائیداد کا محفوظ ہونا درحقیقت آپ کی جائیداد کا محفوظ ہونا تھا نے بذریعہ الہام بتایا کہ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ یعنی رات کے آنے والے کی قسم.تو کیا جانتا کیونکہ آپ اُن کے وارث تھے.پس آپ کا باوجود عاقل و بالغ ہونے کے اس کام سے ہے کہ کیا ہے رات کو آنے والا.اور ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ اس الہام میں آپ کے والد بیزار رہنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ دنیا سے بگلی متنفر تھے اور خدا تعالیٰ ہی آپ کا صاحب کی وفات کی خبر دی گئی ہے جو کہ بعد مغرب واقعہ ہوگی.گو حضرت صاحب کو اس سے مقصود تھا.محنت اور جفاکشی کی عادت پہلے ایک مدت سے رویائے صالحہ ہو رہے تھے جو اپنے وقت پر نہایت صفائی سے پورے ہوتے تھے اور جن کے گواہ ہندو اور سکھ بھی تھے اور اب تک بعض ان میں سے موجود ہیں.لیکن الہامات میں سے یہ پہلا الہام ہے جو آپ کو ہوا اور اس الہام کے ذریعہ سے گویا باوجود اس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سُست ہرگز نہ تھے بلکہ نہایت محنت خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ آپ کو بتایا کہ تیرا دُنیا وی باپ فوت ہوتا ہے لیکن آج سے کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا میں تیرا آسمانی باپ ہوتا ہوں.غرض پہلا الہام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا وہ یہی ہوتا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے تھا جس میں آپ کو آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی تھی.اس خبر پر بالطبع آپ اور آپ پیادہ پاہیں چھپیس کوس کا سفر طے کر کے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے.بلکہ اکثر اوقات کے دل میں رنج پیدا ہونا تھا چنانچہ آپ کو اس خبر سے صدمہ پیدا ہوا اور دل میں خیال گذرا آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے تھے اور عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر کہ اب ہمارے گزارے کی کیا صورت ہوگی ؟ جس پر دوسری دفعہ پھر الہام ہوا اور آپ کو عمر تک تھی.ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں، اکثر اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے تسلی دی.اس واقعہ کو میں اس جگہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام روزانہ ہوا خوری کے لیے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے اور بعض اوقات کے الفاظ میں لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں.آپ تحریر فرماتے ہیں:-

Page 12

19 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے والد کی وفات اور الہی تصرفات ” جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب بمقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہی کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی میرے پاس پہنچ گئی جو اب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے:.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 220-219) غرض جس دن حضرت صاحب کے والد صاحب نے وفات پائی تھی اُس دن مغرب سے چند گھنٹے پہلے ان کی وفات کی اطلاع آپ کو دے دی گئی اور بعد میں خدا تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ خود ہی تمہارا انتظام فرما دے گا.جس دن یہ الہامات ہوئے پاتے تھے جو ان کی حیات سے مشروط تھی اس لیے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات اُسی دن شام کو بعد مغرب آپ کے والد صاحب فوت ہو گئے اور آپ کی زندگی کا ایک نیا کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے.اس الہام کے ساتھ ایسا دل قوی ہوا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے.جب مجھ کو الہام ہوا کہ الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ تو میں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا.تب میں نے ایک ہند وکھتری ملا وامل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہند و کو اس کام کے لیے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جاوے.چنانچہ مولوی دور شروع ہوا.بعض مشکلات اور آپ کا استقلال آپ کے والد صاحب کی جائیداد کچھ مکانات اور دوکانات بٹالہ، امرتسر اور گورداسپور میں تھی اور کچھ مکانات اور دوکانیں اور زمین قادیان میں تھی.چونکہ آپ دو بھائی تھے اس لیے شرعا و قانونا وہ جائیداد آپ دونوں کے حصہ میں آتی تھی.چونکہ آپ کا حصہ آپ کے گزارہ کے لیے کافی تھا لیکن آپ نے اپنے بڑے بھائی سے وہ جائیداد تقسیم نہیں کرائی اور جو کچھ وہ دیتے اُس پر گزارہ کر لیتے اور اس طرح گویا والد کے قائم مقام آپ کے بڑے بھائی ہو گئے.لیکن چونکہ وہ ملازم تھے اور گورداسپور رہتے تھے اس لیے اُن دنوں آپ کو بہت تکلیف ہو گئی حتی کہ ضروریات زندگی کے حاصل کرنے میں بھی آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور یہ تکلیف آپ کو آپ کے بھائی کی وفات تک برابر رہی اور یہ گویا آپ کے لیے آزمائش کے سال تھے اور آپ نے اُن آزمائش کے دنوں میں صبر و استقلال سے صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپے تیار ہوکر کام لیا وہ آپ کے درجہ کی بلندی کی بین علامت ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ کا اپنے 18

Page 13

20 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 21 والد صاحب کی متروکہ جائیداد پر برابر کا حصہ تھا پھر بھی آپ نے ان کی دنیا کی رغبت دیکھ کر ہی روزہ رکھ لیتے.غرض یہ زمانہ آپ کے لیے ایک بڑے مجاہدات کا زمانہ تھا جسے آپ نے اُن سے اپنا حصہ طلب نہ کیا اور محض کھانے اور کپڑے پر کفایت کی.گو آپ کے بھائی بھی نہایت صبر و استقلال سے گزارا.سخت سے سخت تکالیف کے ایام میں بھی اشارہ اور کنایی اپنی طبیعت کے مطابق آپ کی ضروریات کے پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ سے کبھی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کی تحریک نہیں کی.ایک حد تک محبت بھی رکھتے تھے اور کسی قدر ادب بھی کرتے تھے لیکن با وجود اس کے چونکہ وہ نہ صرف روزوں کے دنوں میں بلکہ یوں بھی آپ کی ہمیشہ عادت تھی کہ ہمیشہ کھانا دنیا داری میں بالکل منہمک تھے اور حضرت صاحب دنیا سے بالکل متنفر تھے اس لیے وہ آپ غرباء میں بانٹ دیتے تھے اور بعض دفعہ ایک چپاتی کا نصف جو ایک چھٹانک سے زیادہ نہیں کو ضرورتِ زمانہ سے ناواقف اور سُست سمجھتے تھے اور بعض دفعہ اس بات پر اظہار افسوس ہو سکتا آپ کے لیے بچتا تھا اور آپ اُسی پر گزارہ کرتے تھے.بعض دفعہ صرف چنے بھنوا کر کھا بھی کرتے تھے کہ آپ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.چنانچہ ایک دفعہ کسی اخبار کے لیتے اور اپنا کھانا سب غرباء کو دے دیتے.چنانچہ کئی غریب آپ کے ساتھ رہتے تھے اور منگوانے کے لیے آپ نے اُن سے ایک نہایت قلیل رقم منگوائی تو انہوں نے باوجود اس دونوں بھائیوں کی مجلسوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا.ایک بھائی کی مجلس میں سب کھاتے کے کہ آپ کی جائیداد پر قابض تھے ، انکار کر دیا اور کہا کہ یہ اسراف ہے.کام تو کچھ کرتے پیتے آدمی جمع ہوتے تھے اور دوسرے بھائی کی مجلس میں غریبوں اور محتاجوں کا ہجوم رہتا تھا نہیں اور یونہی بیٹھے کتب و اخبار کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں.غرض آپ کے بھائی صاحب جن کو وہ اپنی قلیل خوراک میں شریک کرتا تھا اور اپنی جان پر اُن کو مقدم کر لیتا تھا.بوجہ دنیا داری میں کمال درجہ کے مشغول ہونے کے آپ کی ضروریات کو نہ خود سمجھ سکتے تھے انہی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدمت اسلام کے لیے کوشش شروع کی اور نہ اُن کو پورا کرنے کی طرف متوجہ تھے جس کی وجہ سے آپ کو بہت کچھ تکلیف پہنچتی.مگر اور مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ میں اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے جن کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ کے بھائی بھی اکثر قادیان سے باہر رہتے آپ کا نام خود بخود گوشتہ تنہائی سے نکل کر میدانِ شہرت میں آ گیا لیکن آپ خود اسی گوشتہ تنہائی تھے اور اُن کے پیچھے اُن کے منتظمین آپ کے تنگ کرنے میں خاص طور پر کوشاں رہتے.میں ہی تھے اور باہر کم نکلتے تھے بلکہ مسجد کے ایک حجرہ میں جو صرف 5x6 فٹ کے قریب لمبا اور چوڑا تھا رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی ملنے کے لیے آجاتا تو مسجد سے باہر نکل کر بیٹھ جاتے یا گھر آپ کا مجاہدہ اور ایثار اور خدمت اسلام میں آ کر بیٹھے رہتے.غرض اس زمانہ میں آپ کا نام تو باہر نکلنا شروع ہوا لیکن آپ باہر نہ نکلے انہی ایام میں آپ کو بتایا گیا کہ الہی انعامات کے حاصل کرنے کے لیے کچھ مجاہدہ کی بلکہ اسی گوشتہ تنہائی میں زندگی بسر کرتے.بھی ضرورت ہے اور یہ کہ آپ کو روزے رکھنے چاہئیں.اس حکم کے ماتحت آپ نے متواتر ان مجاہدات کے دنوں میں آپ کو کثرت سے الہامات ہونے شروع ہو گئے اور بعض چھ ماہ کے روزے رکھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کا کھانا جب گھر سے آتا تو آپ بعض امور غیبیہ پر بھی اطلاع ملتی رہی جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے اور آپ کے ایمان کی غرباء میں تقسیم کر دیتے اور جب روزہ کھول کر گھر سے کھانا منگواتے تو وہاں سے صاف زیادتی کا موجب ہوتے اور آپ کے دوست جن میں بعض ہندو اور سکھ بھی شامل تھے ان جواب ملتا اور آپ صرف پانی پر یا اور کسی ایسی ہی چیز پر وقت گزار لیتے اور صبح پھر آٹھ پہرہ باتوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے.

Page 14

22 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 23 اشتہار کتاب براہین احمدیہ مذاہب کے پیروکسی طرح میدانِ مقابلہ میں آجائیں اور اس طرح اسلام کی فتح ثابت ہو ) یہ پہلا حصہ 1880ء میں شائع ہوا.پھر اس کتاب کا دوسرا حصہ 1881ء میں اور پہلے تو آپ نے صرف اخبارات میں مضامین دینے شروع کیے لیکن جب دیکھا کہ تیسرا حصہ 1882ء اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع ہوا.گوجس رنگ میں آپ کا ارادہ دشمنانِ اسلام اپنے حملوں میں بڑھتے جاتے ہیں اور مسلمان ان حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا کتاب لکھنے کا تھا وہ درمیان میں ہی رہ گیا کیونکہ اس کتاب کی تحریر کے درمیان میں ہی آپ ہو رہے ہیں تو آپ کے دل میں غیرتِ اسلام نے جوش مارا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ آپ کے لیے اشاعت اسلام کی خدمت کسی اور رنگ میں الہام اور وحی کے ماتحت مامور ہو کر ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تحریر فرما ئیں جس میں اسلام مقدر ہے لیکن جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا وہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا.کی صداقت کے وہ اصول بیان کیے جائیں جن کے مقابلہ سے مخالف عاجز ہوں اور آئندہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کے دوست دشمن سب کو آپ کی قابلیت کا اقرار اُن کو اسلام کے مقابلہ کی جرات نہ ہو اور اگر وہ مقابلہ کریں تو ہر ایک مسلمان اُن کے حملہ کور و کرنا پڑا اور مخالفین اسلام پر ایسا رعب پڑا کہ اُن میں سے کوئی اس کتاب کا جواب نہ دے کر سکے.چنانچہ اس ارادہ کے ساتھ آپ نے وہ عظیم الشان کتاب لکھنی شروع کی جو براہین سکا.مسلمانوں کو اِس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ وہ بلا آپ کے دعوی کے آپ کو مجد د تسلیم احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی نظیر کسی انسان کی تصانیف میں نہیں ملتی.جب ایک کرنے لگے اور اُس وقت کے بڑے بڑے علماء آپ کی لیاقت کا لوہا مان گئے.چنانچہ حصہ مضمون کا تیار ہو گیا تو اُس کی اشاعت کے لیے آپ نے مختلف جگہ پر تحریک کی اور بعض مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اُس وقت تمام اہل حدیث وہابی فرقہ کے سرگروہ تھے اور لوگوں کی امداد سے جو آپ کے مضامین کی وجہ سے پہلے ہی آپ کی لیاقت کے قائل تھے اس وہابی فرقہ میں اُن کو خاص عزت حاصل تھی اور اسی وجہ سے گورنمنٹ کے ہاں بھی اُن کی عزت تھی انہوں نے اس کتاب کی تعریف میں ایک لمبا آرٹیکل لکھا اور بڑے زور سے اس کا پہلا حصہ جوصرف اشتہار کے طور پر تھا شائع کیا گیا.اس حصہ کا شائع ہونا تھا کہ ملک میں شور پڑ گیا اور گو پہلا حصہ صرف کتاب کا اشتہار تھا لیکن اُس میں بھی صداقت کے ثابت کرنے کے لیے ایسے اصول بتائے گئے تھے کہ ہر ایک شخص جس نے اُسے دیکھا اس کتاب کی عظمت کا قائل ہو گیا.اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ اگر وہ خوبیاں جو آپ اسلام کی پیش کریں گے وہی کسی اور مذہب کا پیر و کی تائید کی اور لکھا کہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں ایسی کتاب کوئی نہیں لکھی گئی.اخبار غیبیہ اور سلسلۂ الہامات کی کثرت اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض الہامات بھی لکھے ہیں جن اپنے مذہب میں دکھا دے یا اُن سے نصف بلکہ چوتھا حصہ ہی اپنے مذہب میں ثابت کر میں سے بعض کا بیان کر دینا یہاں مناسب ہوگا کیونکہ بعد کے واقعات سے اُن کے غلط یا دے تو آپ اپنی سب جائیداد جس کی قیمت دس ہزار روپے کے قریب ہوگی ، اُسے بطور درست ہونے کا پتہ لگتا ہے:.انعام کے دیں گے ( یہ ایک ہی موقع ہے جس میں آپ نے اپنی جائیداد سے اُس وقت فائدہ اُٹھایا اور اسلام کی خوبیوں کے ثابت کرنے کے لیے بطور انعام مقرر کیا تا کہ مختلف دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.( تذکرہ صفحہ 104)

Page 15

24 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام يَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَا تُوْنَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ“.بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( تذکره صفحه 50) ( تذکره صفحه 10) سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مدت تک آپ کے رشتہ داروں ہی کے قبضہ میں رہا.دوسری شادی، خلق خدا کا رجوع، اعلان دعوی حقه 25 بھائی صاحب کی وفات کے ڈیڑھ سال بعد آپ نے الہام الہی کے ماتحت دوسری سیہ وہ الہامات ہیں جو براہین احمدیہ 1884ء میں شائع کیے گئے تھے جبکہ آپ دنیا میں شادی دہلی میں کی.چونکہ براہین احمدیہ شائع ہو چکی تھی.اب کوئی کوئی شخص آپ کو دیکھنے ایک کسمپرس آدمی کی حالت میں تھے لیکن اس کتاب کا نکلنا تھا کہ آپ کی شہرت ہندوستان کے لیے آنے لگا تھا اور قادیان جو دنیا سے بالکل ایک کنارہ پر ہے مہینہ دو مہینے کے بعد کسی نہ میں دور دور تک پھیل گئی اور بہت لوگوں کی نظریں مصنف براہین احمدیہ کی طرف لگ گئیں کہ کسی مہمان کی قیام گاہ بن جاتی تھی اور چونکہ لوگ براہین احمدیہ سے واقف ہوتے جاتے یہ اسلام کا کشتی بان ہوگا اور اسے دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا اور یہ خیال اُن کا درست تھے.آپ کی شہرت بڑھتی جاتی تھی اور یہ براہین احمدیہ ہی تھی جسے پڑھ کر وہ عظیم الشان تھا لیکن خدا تعالیٰ اسے اور رنگ میں پورا کرنے والا تھا اور واقعات یہ ثابت کرنے والے انسان جس کی لیاقت اور علمیت کے دوست دشمن قائل تھے اور جس حلقہ میں بیٹھتا تھا خواہ تھے کہ جو لوگ اِن دنوں اُس پر جان فدا کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے وہی اُس کے خون یورپینوں کا ہو یا دیسیوں کا اپنی لیاقت کا سکہ اُن سے منوا تا تھا آپ کا عاشق و شید ا ہو گیا اور کے پیاسے ہو جائیں گے اور ہر طرح اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور آپ کی با وجود خود ہی ہزاروں کا معشوق ہونے کے آپ کا عاشق ہونا اُس نے اپنا فخر سمجھا.میری قبولیت کسی انسانی امداد کے سہارے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے زبردست حملوں کے ذریعہ سے مراد اُستاذی المکرم حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے ہے جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت جموں میں مہا راجہ صاحب کے خاص طبیب تھے.انہوں نے وہاں ہی براہین احمدیہ پڑھی اور ایسے فریفتہ ہوئے کہ تادمِ مرگ حضرت صاحب کا دامن نہ چھوڑا.سلسلہ بیعت کا آغاز اور پہلی بیعت مقدر تھی.آپ کے بھائی صاحب کی وفات 1884ء میں آپ کے بھائی صاحب بھی فوت ہو گئے اور چونکہ وہ لا ولد تھے اس لیے اُن کے وارث بھی آپ ہی تھے لیکن اس وقت بھی آپ نے اُن کی بیوہ کی دلدہی کے لیے غرض براہین احمدیہ کا اثر رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوا اور بعض لوگوں نے آپ کی خدمت جائیداد پر قبضہ نہ کیا اور اُن کی درخواست پر نصف حصہ تو مرز اسلطان احمد صاحب کے نام پر میں درخواست کی کہ آپ بیعت لیں لیکن آپ نے بیعت لینے سے ہمیشہ انکار کیا اور یہی لکھ دیا جنہیں آپ کی بھاوج نے رسمی طور پر متبنی قرار دیا تھا آپ نے تہنیت کے سوال پر تو جواب دیا کہ ہمارے سب کام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.حتی کہ 1888ء کا دسمبر آ گیا صاف لکھ دیا کہ اسلام میں جائز نہیں لیکن مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوہ کی دلد ہی اور خبر گیری جب کہ آپ کو الہام کے ذریعے لوگوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا اور پہلی بیعت 1889ء کے لیے اپنی جائیداد کا نصف حصہ بخوشی خاطر دے دیا اور باقی نصف پر بھی خود قبضہ نہ کیا بلکہ میں لدھیانہ کے مقام پر جہاں میاں احمد جان نامی ایک مخلص تھے.اُن کے مکان پر ہوئی

Page 16

26 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 27 اور سب سے پہلے حضرت مولانا مولوی نورالدین نے بیعت کی اور اُس دن چالیس کے زبر دست آرٹیکل لکھے تھے انہوں نے ہی آپ کے خلاف زمین و آسمان سر پر اُٹھا لیا اور لکھا قریب آدمیوں نے بیعت کی.اس کے بعد آہستہ آہستہ کچھ لوگ بیعت میں شامل ہوتے کہ میں نے ہی اس شخص کو چڑھایا تھا اور اب میں ہی اسے گراؤں گا یعنی میری ہی تائید سے ان کی کچھ عظمت قائم ہوئی تھی اب میں اتنی مخالفت کروں گا کہ یہ لوگوں کی نظروں سے گر رہے.مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اور اُس کا اعلان لیکن 1891ء میں ایک اور تغیر عظیم ہوا یعنی حضرت مرزا صاحب کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام جن کے دوبارہ آنے کے مسلمان اور مسیحی دونوں قائل ہیں، فوت ہو چکے ہیں اور ایسے فوت ہوئے ہیں کہ پھر واپس نہیں آسکیں گے اور یہ کہ مسیح کی بعثت ثانیہ سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو اُن کی خوبو پر آوے اور وہ آپ ہی ہیں.جائیں گے اور بدنام ہو جائیں گے.مولوی صاحب مع بعض دیگر علماء کے لدھیانہ بھی پہنچے.مباحثہ لدھیانہ اور مباحثہ کا چیلنج دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور بھی فرما لیا.لیکن مباحثہ * میں فریق مخالف نے اس قسم کی کج بحثیں شروع کیں کہ کچھ فیصلہ نہ ہوسکا اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے دیکھا کہ ایک فتنہ عظیم برپا ہے اور قریب ہے کہ کوئی صورت غدر کی جب اس بات پر آپ کو شرح صدر ہو گیا اور بار بارالہام سے آپ کو مجبور کیا گیا کہ آپ اس بات کا اعلان کریں تو آپ کو مجبورا اس کام کے لیے اُٹھنا پڑا.قادیان میں ہی آپ کو یہ پیدا ہو جائے تو انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک خاص حکم کے ذریعے لدھیانہ سے اُسی دن چلے جانے پر مجبور کیا.اس پر بعض دوستوں کے مشورہ سے کہ شاید ایسا الہام ہوا تھا.آپ نے گھر میں فرمایا کہ اب ایک ایسی بات میرے سپرد کی گئی ہے کہ اب حکم آپ کے متعلق بھی جاری ہو آپ لدھیانہ سے امرتسر تشریف لے آئے اور آٹھ دن اس سے سخت مخالفت ہو گی اس کے بعد آپ لدھیانہ چلے گئے اور مسیح موعود ہونے کا اعلان 1891ء میں بذریعہ اشتہار کیا گیا.علماء زمانہ کی شدید مخالفت اور مباحثہ لدھیانہ اِس اعلان کا شائع ہونا تھا کہ ہندوستان بھر میں شور پڑ گیا اور اس قدر مخالفت ہوئی کہ الامان ! وہی علماء جو آپ کی تائید کرتے تھے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت وہاں رہے لیکن بعد میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے دریافت کرنے پر بتایا کہ آپ کے متعلق کوئی حکم نہ تھا جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور پھر وہاں ہفتہ بھر کے قریب رہے اور پھر قادیان تشریف لے آئے.دہلی کا سفر اور مولوی نذیرحسین سے مباحثہ اس کے بعد کچھ مدت قادیان رہ کر پھر لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں کچھ مدت رہے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے جہاں آپ 28 ستمبر 1891ء کی صبح کو پہنچے.چونکہ دہلی اس زمانہ میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا وہاں کے لوگوں میں پہلے سے ہی آپ یہ مباحثہ 20 جولائی 1891ء سے شروع ہوا اور متواتر کئی دن تک رہا.یہ مباحثہ چونکہ تحریری ہوا تھا، اس لیے "الحق مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں آپ کی تائید میں لدھیانہ کے نام سے شائع ہوا.( ناقل )

Page 17

28 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 29 کے خلاف جوش پھیلایا جاتا تھا آپ کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کے علماء میں ایک جوش پیدا ہوا مجمع کے انتظام کے لیے سپر نٹنڈنٹ پولیس مع دیگر افسران پولیس اور قریباً سو کانسٹیبلوں اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کے چیلنج دینے شروع کیے اور مولوی نذیرحسین جو تمام ہندوستان کے آئے ہوئے تھے.لوگوں میں سے بہتوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے کے علماء حدیث کے اُستاد تھے ، اُن سے مباحثہ قرار پایا.مسجد جامع مقام مباحثہ قرار پائی اور ادنیٰ سے اشارے پر پتھراؤ کرنے کو تیار تھے اور مسیح ثانی بھی پہلے مسیح کی طرح فقیہیوں لیکن مباحثہ کی یہ سب قرار داد مخالفین نے خود ہی کر لی.کوئی اطلاع آپ کو نہ دی گئی.عین اور فریسیوں کا شکار ہو رہا تھا.لوگ اس دوسرے صحیح کو سولی پر لٹکانے کی بجائے پتھروں سے وقت پر حکیم عبدالمجید خان صاحب دہلوی اپنی گاڑی لے کر آ گئے اور کہا کہ مسجد میں مباحثہ مارنے پر تلے ہوئے تھے اور گفتگوئے مباحثہ میں تو انہیں نا کامی ہوئی.مسیح کی وفات پر بحث ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسے فساد کے موقعہ پر ہم نہیں جاسکتے جب تک پہلے سرکاری انتظام کرنا لوگوں نے قبول نہ کیا.قسم بھی نہ کسی نے کھائی نہ مولوی نذیرحسین کو کھانے دی.خواجہ نہ ہو، پھر مباحثہ کے لیے ہم سے مشورہ ہونا چاہیے تھا اور شرائط مباحثہ طے کرنی تھیں.آپ محمد یوسف صاحب پلیڈ ر علیگڑھ نے حضرت سے آپ کے عقائد لکھائے اور سنانے چاہیے کے نہ جانے پر اور شور ہوا.آخر آپ نے اعلان کیا کہ مولوی نذیر حسین دہلوی جامع مسجد لیکن چونکہ مولویوں نے لوگوں کو یہ سنا رکھا تھا کہ یہ شخص نہ قرآن کو مانے نہ حدیث کو نہ میں قسم کھا لیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام قرآن کی رو سے زندہ ہیں اور اب تک فوت نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو.انہیں یہ فریب گھل جانے کا اندیشہ ہوا، اس لیے لوگوں ہوئے اور اس قسم کے بعد ایک سال تک کسی آسمانی عذاب میں مبتلا نہ ہوں تو میں جھوٹا ہوں اور میں اپنی کتب کو جلا دوں گا اور اس کے لیے تاریخ بھی مقرر کر دی.مولوی نذیرحسین صاحب کے شاگرد اس سے سخت گھبرائے اور بہت روکیں ڈالنی شروع کر دیں لیکن لوگ مصر ہوئے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ مرزا صاحب کا دعوی سن کر قسم کھا جائیں کہ یہ جھوٹا ہے اور لوگ اُس وقت کثرت سے جامع مسجد میں اکٹھے ہو گئے.حضرت صاحب کو لوگوں نے بہت روکا کہ آپ نہ جائیں سخت بلوہ ہو جائیگا لیکن آپ وہاں گئے اور ساتھ آپ کے بارہ دوست تھے ( حضرت مسیح کے بھی بارہ ہی حواری تھے.اس معرکۃ الآراء موقعہ پر آپ کے کو اُکسا دیا.پھر کیا تھا ایک شور برپا ہو گیا اور محمد یوسف کو وہ کاغذ سنانے سے لوگوں نے باز رکھا.افسر پولیس نے جب دیکھا کہ حالت خطر ناک ہے تو پولیس کو مجمع منتشر کرنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ کوئی مباحثہ نہ ہوگا.لوگ تتر بتر ہو گئے.پولیس آپ کو حلقہ میں لے کر مسجد سے باہر گئی.دروازہ پر گاڑیوں کے انتظار میں کچھ دیر ٹھہر نا پڑا.لوگ وہاں جمع ہو گئے اور اشتعال میں آکر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.اس پر افسران پولیس نے گاڑی میں سوار کرا کر اس کے بعد مولوی محمد بشیر صاحب کو دہلی کے لوگوں نے بھوپال سے بلوایا اور اُن سے آپ کو روانہ کیا اور خود مجمع کے منتشر کرنے میں لگ گئے.ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی ) جامع مسجد دہلی کی وسیع عمارت اندر اور باہر آدمیوں سے پر تھی بلکہ سیڑھیوں پر بھی لوگ کھڑے تھے.ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں سے گزر کر جب کہ سب لوگ دیوانہ وارخون آلود نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے آپ اس مختصر مباحثہ ہوا جس کا تمام حال چھپا ہوا موجود ہے.جماعت کے ساتھ محراب مسجد میں جا کر بیٹھ گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے 17 اکتوبر 1891ء کو یہ اشتہار شائع فرمایا تھا اور مقررہ تاریخ 20 اکتوبر 1891ء کو بوقت عصر جامع مسجد دہلی میں آنے کی دعوت دی تھی.( ناقل) ڈپٹی عبد اللہ آتھم سے مباحثہ کے حالات کچھ دن کے بعد آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.چند ماہ کے بعد 1892ء میں

Page 18

30 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر ایک سفر کیا.پہلے لاہور گئے وہاں مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ ہوا وہاں سے اور اندھوں کو اچھا کیا کرتے تھے.سیالکوٹ اور وہاں سے جالندھر اور پھر وہاں سے لدھیانہ تشریف لائے.لدھیانہ سے پھر قادیان تشریف لے آئے.مسیحیوں سے مباحثہ ”جنگ مقدس“ 31 پس آپ کا دعوی تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب کہ آپ بھی ایسے مریضوں کو اچھا کر کے دکھلا ئیں اور دور جانے کی ضرورت نہیں مریض حاضر ہیں.جب انہوں نے یہ بات پیش کی سب لوگ حیران رہ گئے اور ہر ایک شخص محو حیرت ہوکر اس بات کا انتظار کر نے لگا کہ دیکھیں کہ مرزا صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ اور مسیحی اپنی اس عجیب کا رروائی پر بہت خوش اس کے بعد 1893ء میں حضور کا مباحثہ مسیحیوں سے قرار پایا اور مسیحیوں کی طرف سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم مباحث مقرر ہوئے.یہ مباحثہ امرتسر میں ہوا اور پندرہ دن تک رہا ہوئے کہ آج ان پر نہایت سخت حجت تمام ہوئی ہے اور بھری مجلس میں کیسی خجالت اُٹھانی اور جنگ مقدس“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے.پڑی ہے.لیکن جب آپ نے اس مطالبہ کا جواب دیا تو اُن کی ساری خوشی مبدل به افسوس و اس مباحثہ میں بھی جیسا کہ ہمیشہ آپ کے مخالفین کو زک ہوتی رہی ہے، مسیحی ناظرین کو ندامت ہوگئی اور فتح شکست سے بدل گئی اور سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی و معقولیت سخت زک ہوئی اور اس کا نہایت مفید اثر ہوا.اس مباحثہ کے پڑھنے سے ( یہ مباحثہ تحریری کے قائل ہو گئے.آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا تو انجیل میں لکھا ہے ہم ہوا تھا اور طرفین آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے پرچہ کا جواب دیتے تھے اور وہ اصل تو اس کے قائل ہی نہیں بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا.یہ تو تحریر میں ایک کتاب کی صورت میں شائع کی گئی ہیں ) معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی مباحث آپ انجیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے اور اس طرح ہاتھ کے زبر دست استدلال سے تنگ آ جاتا تھا اور بار بار دعوئی بدلتا جاتا تھا اور بعض جگہ تو پھیر کر نہ کہ دعا اور دوا سے.لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو تو تم مسیحیوں کی طرف سے ناروا سخت کلامی تک کی گئی ہے.آپ نے اس جدید علم کلام کو پیش کیا لوگ اس سے بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو.پس ان مریضوں کا ہمارے سامنے پیش کرنا کہ ہرا ایک فریق اپنے مذہب کی صداقت کے دعاوی اور دلائل اپنی مسلمہ کتب سے ہی پیش آپ لوگوں کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے اور اب ہم ان مریضوں کو جو آپ لوگوں نے نہایت مہربانی سے جمع کر لیے ہیں آپ کے سامنے پیش کر کے کہتے ہیں کہ براہ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہے تو ان اس مباحثہ میں ایک عجیب واقعہ گزرا جس میں دوست دشمن آپ کی خداداد ذہانت مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جاؤ.اگر یہ اچھے ہو گئے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ بلکہ الہی تائید کے قائل ہو گئے اور وہ یہ کہ گو بحث اور اُمور پر ہو رہی تھی مگر مسیحیوں نے آپ کو لوگ اور آپ کا مذہب سچا ہے ورنہ جو دعویٰ آپ لوگوں نے خود کیا ہے اُسے بھی پورا نہ کر شرمندہ کرنے کے لیے ایک دن کچھ لولے لنگڑے اور اندھے اکٹھے کیے اور عین دوران سکیں تو پھر آپ کی صداقت پر کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے.اس جواب کا ایسا اثر ہوا کہ مباحثہ میں آپ کے سامنے لا کر کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعوی کرتے ہیں ، وہ تو لولے لنگڑ.مسیحی بالکل خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دے سکے اور بات ٹال دی.کرے.ایک عجیب واقعہ

Page 19

32 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 33 اس کے بعد انہی دنوں آپ ایک دفعہ فیروز پور تشریف لے گئے.ان تمام سفروں کا ارادہ کیا اور اس کے لیے تمام مذاہب کے پیروان کو شامل ہونے کی دعوت دی جنہوں میں ہر جگہ آپ کو دِق کیا گیا اور لوگوں نے آپ کو بڑا دکھ دیا اور جو کچھ تحریر کے ذریعہ شائع کیا نے بڑی خوشی سے اس بات کو قبول کیا.بحث میں شرط تھی کہ کسی مذہب پر حملہ نہ کیا جاوے گیا اس کی کوئی حد ہی نہیں.جہاں آپ جاتے وہیں لوگ مل کر آپ کو دکھ دیتے.تعطیل جمعہ کی کوشش اور حسب ذیل پانچ مضامین پر مختلف مذاہب کے پیروان سے مضامین لکھنے کی درخواست کی گئی: (1) انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں یکم جنوری 1896ء کو آپ نے اسلامی عظمت کے اظہار اور زبردست اسلامی شعار (2) انسان کی زندگی کے بعد کی حالت نماز جمعہ کے عام رواج کے لیے ایک کوشش کا آغاز فرمایا.یعنی گورنمنٹ ہند سے تعطیل جمعہ (3) دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ کس طرح پوری ہوسکتی ہے.کی تحریک کی کارروائی شروع کی.بدقسمتی سے مسلمانوں میں جمعہ کے متعلق جو اُن کے لیے (4) کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا و عاقبت میں کیا ہوتا ہے.مسیح موعود کا ایک زبردست عملی نشان تھا ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں کہ بعض شرائط کو ملحوظ (5) علم گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں.رکھ کر جمعہ کی فرضیت پر ہی بحث چھڑ چکی تھی اور عملی طور پر جمعہ بہت جگہ متروک ہو گیا تھا آپ اس کا نفرنس کا مجوز حضرت کی خدمت میں بھی قادیان حاضر ہوا اور آپ نے ہر طرح نے اُس کو زندہ کیا اور چاہا کہ گورنمنٹ جمعہ کی تعطیل منظور فرمائے.اس بارہ میں جو میموریل اُن کی تائید کا وعدہ کیا بلکہ اصلی معنوں میں اس کانفرنس کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود علیہ گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجنا آپ نے تجویز فرمایا اُس کی تیاری سے پہلے ہی مولویوں نے السلام نے ہی رکھی تھی.جو شخص بعد میں کا نفرنس کا مجوز قرار پایا، قادیان آیا تو حضرت نے یہ اپنی عادت کے موافق مخالفت کی اور اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا.حضرت مسیح موعود علیہ تجویز پیش کی تھی.چونکہ آپ کی غرض دنیا کو اس صداقت سے آگاہ کرنا تھا جو آپ لے کر السلام یہ کام محض للہیت سے کر رہے تھے آپ کو کسی تحسین و داد کی تمنا نہ تھی.آپ کا مدعا تو آئے تھے اور آپ کا ہر کام نمود و نمائش سے بالا تر ہوتا تھا اس لیے آپ نے اس شخص کو اس اس اہم دینی خدمت کا انجام پانا تھا خواہ کسی کے ہاتھ سے ہو.آپ نے کل کام مولوی محمد تحریک میں سعی کرنے پر آمادہ کیا اور اس کا پہلا اشتہار قادیان میں ہی چھاپ کر شائع حسین بٹالوی کی درخواست پر اُن کے سپر د کر دینے کا اعلان کر دیا کہ وہ جمعہ کی تعطیل کے کرایا.اپنے ایک مرید کو مقرر کیا کہ وہ ہر طرح اُن کی مدد کرے اور خود بھی مضمون لکھنے لیے خود کوشش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کریں.مگر افسوس ! انہوں نے اس مفید کام کو اس کا وعدہ کیا.جب آپ مضمون لکھنے لگے تو آپ سخت بیمار ہو گئے اور دستوں کی بیماری شروع راہ سے روک دیا مگر آپ کی یہ تحریک الہی تحریک تھی آخر خدا تعالیٰ نے آپ ہی کی جماعت ہو گئی لیکن اس بیماری میں بھی آپ نے ایک مضمون لکھا اور جب آپ وہ مضمون لکھ رہے تھے تو آپ کو الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا.یعنی آپ کا مضمون اس کا نفرنس میں دوسروں کے مضامین سے بالا رہے گا.چنانچہ آپ نے قبل از وقت ایک اشتہار کے ذریعہ یہ بات شائع کے ذریعہ اس کو پورا کیا.مذاہب عالم کا عظیم الشان جلسہ 1896ء کے اواخر میں چندلوگوں نے مل کر لاہور میں ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کرنے کر دی کہ میرا مضمون بالا رہے گا.

Page 20

34 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 35 اجلاس کا نفرنس 26-27-28 دسمبر 1896ء کو مقرر تھے.جلسہ کے انتظام کے لیے کیونکہ آپ کے مضمون کا ابھی پہلا سوال ہی ختم نہ ہوا تھا اور اُس وقت لوگوں کی خوشی کی کوئی چھ ماڈریٹر صاحبان مقرر تھے جن کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:.-1 رائے بہادر پر تول چند ر صاحب حج چیف کورٹ پنجاب 2 خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج سمال کا زکورٹ لاہور 3.رائے بہا در پنڈت رادھا کشن کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جنرل جموں 4.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی 5.رائے بہادر بھوانی داس ایم.اے سیٹلمنٹ آفیسر جہلم 6.سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور انتہا نہ رہی جب کہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے ، جن کا لیکچر آپ کے بعد تھا اعلان کیا کہ آپ کے مضمون کا وقت بھی حضرت صاحب کو ہی دیا جائے.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب آپ کا لیکچر پڑھتے چلے گئے حتی کہ ساڑھے چار بج گئے جب کہ جلسہ کا وقت ختم ہونا تھا لیکن اب بھی پہلا سوال ختم نہ ہوا تھا اور لوگ مُصر تھے کہ اس لیکچر کو ختم کیا جائے.چنانچہ منتظمین جلسہ نے اعلان کیا کہ بلا لحاظ وقت کے یہ مضمون جاری رہے جس پر ساڑھے پانچ بجے تک سنایا گیا تب جا کر پہلا سوال ختم ہوا.مضمون کے ختم ہوتے ہی لوگوں نے اصرار کیا کہ اس مضمون کے ختم کرنے کے لیے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا جائے چنانچہ 28 / تاریخ اس کانفرنس کے لیے مختلف مذاہب کے مشہور علماء نے مضامین تیار کیے تھے اس لیے کے پروگرام کے علاوہ 29 تاریخ کو بھی جلسہ کا انتظام کیا گیا اور اُس روز چونکہ بعض اور لوگوں میں اس کے متعلق بڑی دلچسپی تھی اور بہت شوق سے حصہ لیتے تھے اور یہ جلسہ ایک مذاہب کے قائم مقاموں نے بھی وقت کی درخواست کی تھی اس لیے کارروائی جلسہ صبح کو مذہبی دنگل کا رنگ اختیار کر گیا تھا اور ہر مذہب کے پیر واپنے اپنے قائم مقاموں کی فتح بجائے ساڑھے دس بجے کے ساڑھے نو بجے سے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا اور سب سے دیکھنے کے خواہشمند تھے.اس صورت میں تمام پرانے مذاہب جن کے پیر وکثرت سے پیدا پہلے آپ ہی کا مضمون رکھا گیا اور گو پہلے دنوں میں لوگ ساڑھے دس بجے بھی پوری طرح نہ ہو چکے ہیں بالکل محفوظ تھے کیونکہ اُن کی داد دینے والے لوگ جلسہ گاہ میں کثرت سے پائے آتے تھے لیکن آپ کے پہلے دن کے لیکچر کا یہ اثر تھا کہ ابھی نو بھی نہ بجے تھے کہ ہر مذہب جاتے تھے لیکن مرزا صاحب کا مضمون ایک ایسے جلسے میں سنایا جانا تھا جس میں دوست وملت کے لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں جمع ہونے شروع ہو گئے اور عین وقت پر جلسہ برائے نام تھے اور سب دشمن ہی دشمن تھے کیونکہ اُس وقت تک آپ کی جماعت دو تین سو شروع کیا گیا.اُس دن بھی گو آپ کے مضمون کے لیے اڑھائی گھنٹے دیے گئے تھے لیکن سے زیادہ نہ تھی اور اُس جلسہ میں تو شاید پچاس سے زائد آدمی بھی شامل نہ ہوں گے.تقریر کے اس عرصہ میں ختم نہ ہو سکنے کی وجہ سے منتظمین کو وقت اور دینا پڑا کیونکہ تمام آپ کی تقریر 27 دسمبر کو ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تھی.آپ خود تو وہاں حاضرین یک زبان ہو کر اس تقریر کے جاری رکھنے پر مصر تھے چنانچہ ماڈریٹر صاحبان کو نہ جاسکے تھے لیکن آپ نے اپنے ایک مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب کو اپنی طرف سے وقت بڑھانا پڑا.غرض دو روز کے قریباً ساڑھے سات گھنٹوں میں جا کر یہ تقریر ختم ہوئی اور مضمون پڑھنے پر مقرر کیا تھا.جب انہوں نے تقریر شروع کی تو تھوڑی ہی دیر میں ایسا عالم تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور سب لوگوں نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب کا مضمون بالا رہا ہو گیا کہ گو یا لوگ بُت بنے بیٹھے ہیں اور وقت کے ختم ہونے تک لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوا کہ اور ہر مذہب و ملت کے پیر و اس کی خوبی کے قائل ہوئے.جلسہ کی رپورٹ مرتب کرنے کس قدر عرصہ تک آپ بولتے رہے ہیں.وقت ختم ہونے پر لوگوں کو سخت تشویش ہوئی والوں کا اندازہ ہے کہ آپ کے لیکچروں کے وقت حاضرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے سات

Page 21

36 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آٹھ ہزار تک ترقی کر جاتی تھی.غرض یہ لیکچر ایک عظیم الشان فتح تھی جو آپ کو حاصل ہوئی اور اس دن آپ کا سکہ آپ کے مخالفوں کے دلوں میں اور بھی بیٹھ گیا اور خود مخالف اخبارات نے اس بات کو تسلیم کیا کہ آپ کا مضمون اس کا نفرنس میں بالا رہا.یہ مضمون وہی سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حسین کا می رومی سفیر کا قادیان میں آنا 37 مئی 1897ء میں ایک عظیم الشان واقعہ کا آغاز ہوا جو تاریخ میں ایک نشان کے طور پر ہے جس کا انگریزی ترجمہ ٹیچنگز آف اسلام یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر قبولیت رہے گا.حسین کا می سفیر روم اپنی متعدد درخواستوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حاصل کر چکا ہے.خدمت میں قادیان حاضر ہوا.حضرت نے اپنی خدا داد فراست اور الہامی اطلاع پر اُسے 1897ء کے آغاز کے ساتھ عیسائی دنیا پر اتمام حجت کے لیے ایک اور طریق پیش کیا اشارہ اُس کی اپنی حالت اور ٹرکی پر آنے والے مصائب سے اطلاع دی کیونکہ سفیر مذکور اور حضرت مسیح علیہ السلام کی حقیقی شخصیت کے ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں کے غلط عقائد نے سلطنت روم کی نسبت ایک خاص دعا کی تحریک کی تھی جس پر آپ نے اس کو صاف فرما دیا کہ سلطان کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی کی اصلاح کی خاطر چہل روزہ دعوت مقابلہ کا اعلان کیا.اگر چہ اس مقابلہ میں دوسرے حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.اہل مذاہب بھی شامل تھے مگر عیسائی بالخصوص مخاطب تھے.اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی اُس شخص کے لیے مقرر تھا جو یسوع کی پیشگوئیوں کو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کا ایک خط چھپوایا جس سے مسلمانانِ ہند و پنجاب میں شور مچ گیا مگر بعد میں آنے والے اور نشانوں سے قوی تر دکھا سکے مگر کسی کو جرات اور حوصلہ نہ ہوا.ان باتوں سے سفیر مذکور ناراض ہو کر چلا گیا اور لاہور کے ایک اخبار میں گندی گالیوں واقعات نے اس حقیقت کو کھول دیا اس کے ضمن میں بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں.خود و سفیر مذکور حضرت کے مشہور الہام إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اهَانَتَگ کا نشانہ بنا کیونکہ وہ ایک سنگین الزام میں ماخوذ ہو کر سزا یاب ہوا اور جس اخبار نے نہایت زور سے اس مضمون کی واقعہ قتل لیکھرام 1897ء میں لیکھرام نامی ایک آریہ 16 مارچ کو آپ کی ایک پیشگوئی کے مطابق مارا تائید کی تھی اور اسے چھا پا تھا وہ بھی سزا سے نہ بچا اور سلطنت ٹرکی کی جو حالت ہے وہ ہر شخص گیا اور اس پر آریوں میں سخت شور برپا ہوا اور بعض شریروں نے طرح طرح سے احمدیوں کو پر عیاں ہے.اور پھر اُن کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی دکھ دینا شروع کیا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف تو سخت ہی شور برپا ہوا اور کھلے لفظوں میں آپ پر قتل کا الزام لگایا گیا اور فورا آپ کی تلاشی لی گئی کہ شاید کوئی سراغ قتل کا مل جاوے لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ہر طرح ناکام مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک اسی سن کی یکم اگست کو آپ کے خلاف ڈاکٹر مارٹن کلارک نام ایک مسیحی پادری نے رکھا اور باوجود اس کے کہ ہر طرح آپ پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی لیکن پھر بھی کامیابی نہ مقدمہ سازش قتل مسٹر اے.ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں دائر کیا اور ہوئی اور آپ اس الزام سے بالکل پاک ثابت ہوئے.بیان کیا کہ مرزا صاحب نے عبدالحمید نام ایک شخص کو میرے قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا.

Page 22

38 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اول تو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے آپ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا لیکن بعد میں اُن کو معلوم ہوا کہ بوجہ غیر ضلع ہونے کے یہ بات اُن کے اختیار سے باہر ہے.پس مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب بہا در ضلع گورداسپور کی عدالت میں منتقل کیا جن کا نام ایم.ڈبلیو ڈگلس ہے اور جو اس وقت جزائر انڈیمان کی چیف کمشنری سے پنشن یاب ہو کر ولایت میں ہیں.آپ کے سامنے بھی عبدالحمید نے یہی بیان کیا کہ مجھے مرزا صاحب نے مارٹن کلارک صاحب کے قتل کے لیے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ ایک بڑے پتھر سے ان کو مار دو.لیکن چونکہ اس بیان میں جو اُس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے سامنے دیا تھا اور اُس میں جواب آپ کے سامنے دیا کچھ فرق تھا اس لیے آپ کو کچھ شک پڑ گیا اور آپ نے بڑے زور سے اس امر کی تحقیقات شروع کی اور چار ہی پیشیوں میں 27 دن کے اندر مقدمہ فیصلہ کر دیا اور باوجود اس کے کہ آپ کے مقابلہ پر ایک مسیحی جماعت تھی بلا تعصب حضرت مسیح موعود کے حق میں فیصلہ دیا اور آپ کو صاف بری کر دیا بلکہ اجازت دی کہ اپنے مخالفین کے خلاف مقدمہ دائر کریں لیکن آپ نے اُن کو معاف کر دیا اور اُن پر کوئی مقدمہ نہ کیا.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب اپنے فیصلہ میں تحریر فرماتے ہیں:.”ہم نے اُس کا بیان سنتے ہی اس کو بعید از عقل سمجھا کیونکہ اول تو اُس کا بیان جو ہمارے سامنے ہوا اُس بیان سے مختلف تھا جو امرتسر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب کے سامنے ہوا.علاوہ ازیں اس کی وضع قطع ہی شبہ پیدا کرنے والی تھی.دوسرے ہم نے اس کے بیانات میں یہ عجیب بات دیکھی کہ جس قدر عرصہ وہ بٹالہ میں مشن کے ملازموں کے پاس رہا اُس کا بیان مفصل اور طویل ہوتا گیا.چنانچہ اُس نے ایک بیان 12 / اگست کو دیا اور ایک 13 / اگست کو اور دوسرے دن کے بیان میں کئی تفصیلات بڑھ گئیں جو پہلے دن کے بیان میں نہ تھیں.چونکہ اس سے ہمیں طبہ پیدا ہوا کہ یا تو اسے کوئی سکھاتا ہے یا اسے بہت سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کچھ معلوم ہے جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا.اس لیے ہم نے صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کو کہا جو ایک یورپین آفیسر تھے کہ اس کو مشن کمپاؤنڈ سے نکال کر اپنی تحویل میں رکھو اور پھر بیان لو.انہوں نے اُسے مشن کے قبضہ سے نکال لیا اور جب آپ نے اُس سے بیان لیا تو بلا کسی وعدہ معافی کے وہ روکر پاؤں پر گر گیا اور بیان کیا کہ مجھ کو ڈرا کر یہ سب کچھ کہلوایا گیا ہے.میں اپنی جان سے بیزار ہوں اور خود کشی کے لیے تیار تھا اور درحقیقت جو کچھ میں نے مرزا صاحب کے خلاف بیان کیا وہ عبدالرحیم، وارث الدین اور پریم داس عیسائیوں کی سازش اور اُن کے سکھانے سے کیا ہے.مرزا صاحب نے نہ مجھ کو بھیجا اور نہ میرا اُن سے کوئی تعلق تھا.چنانچہ جو دقت ایک دن کے بیان میں آتی دوسرے دن یہ مجھے سکھا دیتے اور مرزا صاحب کے جس مرید کی نسبت میں نے بیان کیا تھا کہ اُس نے بعد از قتل مجھے پناہ دینی تھی اُس کی شکل سے بھی میں واقف نہیں نہ اُس کا نام سنا تھا انہوں نے خود ہی اس کا نام اور پتہ مجھے یاد کرا دیا اور اس ڈر سے کہ میں بھول نہ جاؤں میری ہتھیلی پر پنسل سے نام لکھ دیا تھا کہ اُس وقت دیکھ لینا اور یہ بھی کہا کہ جب پہلے مجھ سے مرزا صاحب کے خلاف بیان لکھوایا تو ان عیسائیوں نے خوش ہو کر کہا کہ اب 39 ہمارے دل کی مراد بر آئی (یعنی اب ہم مرزا صاحب کو پھنسا ئیں گے “.یہ تمام تفصیل لکھ کر مجسٹریٹ صاحب بہادر نے آپ کو بری کیا.اس مقدمہ پر آپ کے مخالف اس قدر خوش تھے کہ ایک آریہ وکیل نے بلا اُجرت اس میں مسیحیوں کی طرف سے پیروی کی اور مسلمان مولوی بھی آپ کے خلاف گواہی دینے آئے.غرض مسیحی ، ہندو اور مسلمان مل کر آپ پر حملہ آور ہوئے اور بعض ناجائز طریق بھی اختیار کیے گئے لیکن خدا تعالیٰ نے کپتان ڈگلس کو پیلاطوس سے زیادہ ہمت اور حوصلہ دیا.انہوں نے ہر موقعہ پر یہی کہا کہ میں بے ایمانی نہیں کر سکتا اور یہ نہیں کیا کہ اپنے ہاتھ دھو کر مسیح موعود کو اس کے دشمنوں کے

Page 23

40 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 41 ہاتھ میں دے دیتے بلکہ انہوں نے آپ کو بری کیا اور اس طرح رومن حکومت پر برٹش راج تھا خصوصاً اس شخص پر اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا.لاہور سے کی برتری ثابت کر دی.انہی دنوں میں آپ نے الصُّلْحُ خَيْر“ کے نام سے ایک اشتہار شائع کر کے 66 مسلمان علماء کے آگے تجویز پیش کی کہ وہ آپ کی مخالفت سے باز آجائیں اور آپ کو دشمنوں کا مقابلہ کرنے دیں اور اس کے لیے 10 دس سال کی مدت مقرر کی کہ اس معیاد کے اندرا گر حضرت صاحب سید ھے قادیان تشریف لے آئے.پنجاب میں طاعون اور حضور کی احتیاطی تدابیر اُسی سال ملک پنجاب میں طاعون پھوٹا اور جب کہ تمام مذہبی آدمی اُن تدابیر کے میں جھوٹا ہوں تو خود تباہ ہو جاؤں گا اور اگر سچا ہوں تو تم عذاب سے بچ جاؤ گے جو بچوں کی سخت مخالف تھے جو گورنمنٹ نے انسدادِ طاعون کے متعلق نافذ کی تھیں.آپ نے بڑے مخالفت کے سبب خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے.لیکن مسلمانوں نے اس کو قبول نہ زور سے اُن کی تائید کی اور اپنی جماعت کو آگاہ کیا کہ ان تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی حرج کیا اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے سے ہی مقابلہ پسند کیا.ایک سفر نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر قسم کی تدابیر جو حفظانِ صحت کے متعلق ہوں اُن پر عمل کیا جائے اور اس طرح آپ نے امنِ عامہ کے قیام میں بہت بڑا کام کیا.کیونکہ اس وقت لوگوں میں اکتوبر 1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا.وہاں شہادت دے کر جب عام طور پر یہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ گورنمنٹ خود ہی طاعون پھیلاتی ہے اور جو تدابیر اس واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں لاہور بھی ٹھہرے.یہاں جن جن گلیوں سے آپ گذرتے کے انسداد کی ظاہر کی جاتی ہیں وہ در حقیقت اس وباء کو پھیلانے والی ہیں اور اسلام کے بھی ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر بُرے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے خلاف ہیں.چنانچہ علماء نے بڑے زور کے ساتھ فتویٰ دے دیا تھا کہ طاعون کے دنوں نکالتے.میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا.میں میں گھر سے نکلنا سخت گناہ ہے اور اس طرح ہزاروں جاہلوں کی موت کا باعث ہو گئے.اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لیے یہ دیکھ کر مجھے سخت چوہے مارنے کی گولیاں تقسیم کی گئیں تو انہی کو باعث طاعون قرار دیا گیا.پنجرے دیئے گئے تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گذرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں ، سیٹیاں تو اُن پر اعتراض کیا گیا.غرض اس طرح شورش برپاتھی اور بعض جگہ حکام سرکار پر حملے بھی بجاتے ہیں؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈ اشخص جس کا ایک پہنچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر ہوئے.ایسے وقت میں آپ کے اعلان اور آپ کی جماعت کے عمل کو دیکھ کر دوسرے کپڑا باندھا ہوا تھا نہیں معلوم کہ ہاتھ کے کٹنے کا ہی زخم باقی تھا یا کوئی نیا زخم تھا وہ بھی لوگوں لوگوں کو بھی ہدایت ہوئی اور آپ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ طاعون کے دنوں میں گھروں میں شامل ہو کر غالباً مسجد وزیر خاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ سے باہر نکلنا اور بستی سے باہر رہنا اسلام کی رُو سے منع نہیں بلکہ منع صرف یہ بات ہے کہ ایک دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا: ہائے ! ہائے مرزا نٹھ شہر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں جائے کیونکہ اس سے بیماری کے دوسرے شہروں میں گیا،، ( یعنی میدان مقابلہ سے فرار کر گیا ) اور میں اس نظارہ کو دیکھ کر سخت حیران پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے.

Page 24

42 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قانونِ سٹیشن پر گورنمنٹ کو میموریل اور تجاویز یہ ایام مذہبی بحث مباحثہ کے سبب سخت خطرناک ہو رہے تھے اور 1897ء اور 1898 ءئن خاص طور پر ممتاز تھے.آپس کی مخالفت سخت بڑھ رہی تھی اور سیاسی مفسدہ سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی.43 (2) اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود اُن کے مذہب پر پڑتے ہوں.یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے ہی مذہب میں موجود ہوں.پرداز اس مذہبی دشمنی سے فائدہ اُٹھا کر گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اُکسانے میں مشغول (3) اگر یہ بھی نا پسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک فرقہ سے دریافت کر کے اس کی مسلمہ کتب مذہبی کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ اس مذہب پر ان کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ جب اعتراضات کی بنیادصرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پیر و تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اُن کے رُو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ با ہمی بغض و عداوت ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے.تھے اور اسی شرارت کو محسوس کر کے گورنمنٹ نے 1897ء میں سٹیشن کا قانون بھی پاس کیا تھا لیکن باوجود اس قانون کے ہندوستان امن سے فساد کی طرف منتقل ہو رہا تھا اور اس قانون کا کوئی عمدہ نتیجہ نہ نکلا تھا کیونکہ ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے اور یہاں کے لوگ جتنے مذہب کے معاملہ میں جوش میں آسکتے ہیں اتنے سیاسی امور میں نہیں آتے.لیکن اس قانون میں مذہبی لڑائی جھگڑوں کا سد باب نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کی ضرورت گورنمنٹ اُس وقت محسوس کرتی تھی مگر جس بات کو مد برانِ حکومت سمجھنے سے قاصر تھے حضرت مسیح موعود علیہ اگر اس تحریک پر گورنمنٹ اُس وقت عمل کرتی تو جو فتنے اور فساد ہندوستان میں پہلے السلام ایک گوشہ تنہائی میں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے چنانچہ تمبر 1897ء میں ایک میموریل دنوں نمودار ہوئے وہ کبھی نہ ہوتے لیکن گورنمنٹ نے اس موقعہ پر اس ضرورت کو محسوس نہ کیا تیار کر کے لارڈ ایجن بہادر وائسرائے ہند کی خدمت میں ارسال کیا اور اُسے چھاپ کر اور اس کے مدبران سلطنت کی آنکھ اُن جراثیم کی بڑھنے والی طاقت کو نہ دیکھ سکی جنہیں اس شائع بھی کر دیا.اُس میں آپ نے ہز ایکسی لینسی کو بتایا کہ فتنہ وفساد کا اصلی باعث مذہبی نبی وقت نے اُن کی ابتدائی حالت میں دیکھ لیا تھا مگر 1908ء میں پورے دس سال بعد جھگڑے ہیں ان کے نتیجہ میں جو شورش لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اُسے بعض شریر گورنمنٹ کو مجبورا یہ قانون پاس کرنا پڑا کہ ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب پر حملہ گورنمنٹ کے خلاف استعمال کرتے ہیں.پس قانون سٹڈیشن میں مذہبی سخت کلامی کو بھی کرنا اور ناروا سختی کرنی درست نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس پمفلٹ یا مضمون کے داخل کرنا چاہیے اور اس کے لیے آپ نے تین تجاویز بھی پیش کیں.چھاپنے والے پر لیس یا اخبار کی ضمانت لی جائے یا اسے ضبط کیا جائے.لیکن یہ قانون اس (1) اوّل یہ کہ قانون پاس کر دینا چاہیے کہ ہر ایک مذہب کے پیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو قدر عرصہ کے بعد پاس ہوا کہ اس کا وہ اثر اب نہیں ہو سکتا جو اُس وقت ہو سکتا تھا.دراصل بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہوگی.اس ہندوستان کے سارے فتنے کی جڑ مذہبی جھگڑا ہے جو بعض شریروں کی عجیب پیچ در پیچ قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری سازشوں کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور جب کسی مذہب کے پیرؤں ہوگی اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پیرو اس بات پر ناخوش ہوں کہ اُن کو دوسرے کی سب سے پیاری چیز ( اُن کے مذہب ) پر گندے الفاظ میں حملہ کیا جائے تو جاہل عوام کو

Page 25

44 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورنمنٹ سے بدظن کرنے کے لیے اسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے جس کے ماتحت ہمیں اس قدر دکھ دیا جاتا ہے اور وہ لوگ اس ظالم کا پیچھا چھوڑ کر محسن گورنمنٹ کے سر ہو جاتے ہیں.ایک دل آزار کتاب 1898ء میں ایک عیسائی مرتد نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کی شیرازہ بندی اور مخالفین کی ناکامی 45 اسی سال آپ نے اپنی جماعت کے شیرازہ کو مضبوط کرنے اور خصوصیات سلسلہ کے قائم رکھنے کے لیے جماعت کے تعلقات ازدواج اور نظام معاشرت کی تحریک کی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ احمدی اپنی لڑکیاں غیر احمدی لوگوں کو نہ دیا کریں.اسی سال گورنمنٹ کو بھی آپ نے نشان بینی کی دعوت دی.دراصل اسی ذریعہ سے مطہرات کے خلاف ایک نہایت دل آزار کتاب (۱) شائع کی جس سے مسلمانوں میں ایک آپ کو عمال حکومت پر اپنی تبلیغ کا کامل طور پر پہنچادینا مقصود تھا جوعلی وجہ الا تم پورا ہو گیا.جوش پیدا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ ملک کے امن پر اثر انداز ہوگا.1898ء میں آپ نے اپنی جماعت کے بچوں کے لیے ایک ہائی سکول کی بنیاد رکھی لاہور کی ایک انجمن (۲) نے گورنمنٹ کے حضور اس کتاب کی ضبطی کے لیے میموریل بھیجنے کی جس میں اپنی جماعت کے طلباء چاروں طرف سے آ کر پڑھیں جس کی غرض یہ تھی کہ تیاری کی لیکن آپ نے منع فرمایا کہ اس کا نتیجہ مفید نہ ہوگا اور مشورہ دیا کہ اس کا ایک دوسرے سکولوں کے اثرات سے محفوظ رہیں.پہلے سال یہ سکول صرف پرائمری تک تھا لیکن زبردست جواب لکھا جائے مگر انجمن والوں نے اس مشورہ کی قدر نہ کی جس پر آخر انہیں اُسی ہر سال ترقی کرتا چلا گیا اور 1903ء میں میٹریکولیشن کے امتحان میں اس کے لڑکے شامل طرح ناکام رہنا پڑا جیسے آپ نے اُن کو قبل از وقت بتلا دیا تھا.خودحضرت نے اس ہوئے.میموریل (۳) کی اعلانیہ مخالفت کی کیونکہ اصولی طور پر اس میموریل کا انجام بصورت منظوری 1899ء میں آپ پر ایک اور مقدمہ حفظ امن کے متعلق آپ کے دشمنوں نے قائم کیا یہ ہونا چاہیے تھا کہ اسلام کا ضعف ثابت ہو آپ نے جواب دینے کے طریق کو مقدم کیا اور لیکن اس میں بھی آپ کے دشمن سخت ذلیل اور ناکام ہوئے اور آپ کو کامیابی حاصل گورنمنٹ نے آپ کے میموریل کو قدر کی نظر سے دیکھا اس طرح پر آپ نے مسلمانوں کے ہوئی.ایک جائز حق کی حفاظت کی جو انہیں تبلیغ اسلام اور اپنے مذہب کے خلاف لکھنے والوں کے جواب دینے کا تھا.1900ء میں آپ نے عیسائی مذہب پر ایک اتمام حجت کیا.یعنی آپ نے لاہور کے بشپ صاحب کو خدائی فیصلہ کی دعوت دی مگر با وجود یکہ ملک کے نامی اخبارات نے تحریک کی مگر بشپ صاحب اِس مقابلہ میں نہ آسکے.ا.یہ کتاب امہات المومنین کے نام سے ایک عیسائی ڈاکٹر احمد شاہ مرتد نے شائع کی تھی.۲.لاہور کی انجمن سے " انجمن حمایت اسلام لاہور مراد ہے.۳.حضرت اقدس علیہ السلام نے 4 مئی 1898ء کو لیفٹینٹ گورنر پنجاب کے پاس یہ میموریل بھیجا تھا کہ جب ہزار کاپی اس جماعت کا نام احمدی رکھنا کتاب کی مسلمانوں میں مفت تقسیم کر کے اُن کی دل آزاری کی گئی ہے تو اس کا ضبط کرنا لا حاصل ہے.پادریوں نے ایسی ہزاروں 1901ء میں مردم شماری ہونے والی تھی اس لیے 1901ء کے اواخر میں آپ نے اپنی جماعت کے نام کتا نہیں لکھ کر مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے.اس طریق مباحثہ کی اصلاح ہونی چاہیے اور اس قسم کے دلآ زار اور نا پاک کلمات ایک اعلان شائع کیا کہ ہماری جماعت کے لوگ کاغذات مردم شماری میں اپنے آپ کو کے استعمال سے حکما روک دینا چاہیے.

Page 26

46 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 47 احمدی مسلمان لکھوائیں گویا اس سال آپ نے اپنی جماعت کو احمدی کے نام سے مخصوص کر ٹپکتا تھا اور نہایت پر رعب و ہیبت حالت تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے غنودگی کے عالم میں ہیں.یہ تقریر ایسی لطیف اور اس کی زبان ایسی بے مثل ہے کہ بڑے بڑے عربی دان اس کی کے دوسرے مسلمانوں سے ممتاز کر دیا.اسی سال آپ کے مخالف رشتہ داروں نے آپ کو اور نظیر لانے سے قاصر ہیں اور اس کے اندر ایسے ایسے حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں کہ مقدمه انهدام دیوار آپ کی جماعت کو دکھ دینے کے لیے (بیت اقصیٰ) کے عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے.یہ تقریر خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور دروازہ کے آگے ایک دیوار کھینچ دی جس کے سبب نمازیوں کو بہت دور سے پھیر کھا کر آنا سب کی سب عربی زبان میں ہے.پڑتا تھا اور اس طرح بہت تکلیف اور حرج ہوتا تھا.جب انہوں نے کسی طرح نہ مانا تو مجبور عربی زبان کی ترویج کیلیے اسباب کا سلسلہ اس زمانہ میں آپ نے اپنی ہو کر جولائی 1901ء میں آپ کو عدالت میں نالش دائر کرنی پڑی اور اگست سنہ مذکور میں وہ جماعت کو عربی سکھانے کیلیے مقدمہ آپ کے حق میں فیصل ہوا اور دیوار گرائی گئی اور خرچہ مقدمہ بھی آپ کے مخالفوں پر ایک نہایت لطیف تجویز فرمائی جو یہ تھی کہ نہایت فصیح اور آسان عبارت میں کچھ جملے بنائے جنہیں لوگ یاد کر لیں اور اس طرح آہستہ آہستہ اُن کو عربی زبان پر عبور حاصل ہو جائے پڑا لیکن آپ نے اُن کو معاف کر دیا.ریویو آف ریلیجنز کا اجراء 1902 ء میں آپ نے ولایت میں تبلیغ اسلام کے اور اُن فقرات میں یہ خوبی رکھی گئی تھی کہ وہ ایسے امور کے متعلق ہوتے تھے جن سے انسان کو لیے ایک ماہوار رسالہ نکالنے کا حکم دیا جور یو یو آف روز مرہ کام پڑتا ہے اور جن میں ایسی اشیاء کے اسماء اور ایسے افعال استعمال کیے جاتے تھے ریلیجنز کے نام سے بفضل خدا اب تک جاری ہے.اس کا ایک ایڈیشن انگریزی اور جو انسان روز مرہ بولتا ہے.کچھ اسباق اس سلسلہ کے نکلے لیکن بعد میں بعض زیادہ ضروری ایک اُردو میں نکلتا ہے.اس ریویو کے ذریعہ سے امریکہ اور یورپ میں نہایت احسن طور پر امور کی وجہ سے یہ سلسلہ رہ گیا تا ہم آپ اپنی جماعت کے واسطے ایک راہ نکال گئے جس پر تبلیغ اسلام ہورہی ہے اور اس کے زبر دست مضامین کی دوست دشمن نے تعریف کی ہے.چل کر وہ کامیاب ہو سکتی ہے.آپ کا منشاء یہ تھا کہ ہر ایک ملک کی اصل زبان کے علاوہ ابتداء میں علاوہ دیگر ممبران سلسلہ کے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس رسالہ میں عربی زبان بھی مسلمانوں کے واسطے مادری زبان ہی کی طرح ہو جائے اور عورت مردسب مضمون دیا کرتے تھے جو دراصل اُردو میں لکھے جاتے تھے پھر اُن کا ترجمہ انگریزی رسالہ اسے سیکھیں تا کہ آئندہ نسلوں کے لیے اس کا سیکھنا آسان ہو اور بچے بچپن میں ہی اپنی میں شائع ہوتا تھا.ان مضامین کا پڑھنے والوں پر نہایت گہرا اثر پڑتا تھا اور یہی مضامین تھے مادری زبان کے علاوہ عربی زبان سیکھ لیں اور یہ ارادہ تھا جس کے پورا ہوئے بغیر اسلام اپنی جنہوں نے ریویو کی عظمت پہلے ہی سال میں قائم کر دی تھی.جڑوں پر پوری طرح نہیں کھڑا ہو سکتا کیونکہ جو قوم اپنی دینی زبان نہیں جانتی وہ کبھی اپنے اس سال عیدالاضحیہ کے موقعہ پر جو حج کے دوسرے دن ہوتی ہے الہامِ دین سے واقف نہیں ہوسکتی.اور جو قوم اپنے دین سے واقف نہیں وہ کبھی اپنے دشمنان دین خطبہ الہامیہ الہی کے ماتحت ایک تقریر آپ نے فی البدیہ عربی زبان میں کی.کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی اور جو قو میں دین سے واقف ہونے کے لیے صرف تر جموں اُس وقت ایک عجیب حالت آپ پر طاری تھی اور آپ کا چہرہ سرخ ہور ہا تھا اور چہرہ سے نور پر قناعت کرتی ہیں وہ نہ دین سے واقف رہتی ہیں نہ اُن کی کتاب سلامت رہتی ہے کیونکہ

Page 27

48 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 49 ترجمہ آہستہ آہستہ لوگوں کو اصل کتاب کے مطالعہ سے غافل کر دیتا ہے.چونکہ ترجمہ اصل اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے.آپ حضرت کتاب کا قائم مقام نہیں ہو سکتا اس لیے آخر کار وہ جماعت کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے.صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر آپ کے اس ارادہ کو پورا کرنے کی طرف آپ کی جماعت کی توجہ لگی ہوئی ہے اور انشاء اللہ ہجوم خلائق کے سبب راستہ نہ ملتا تھا.اہلِ شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ تعالی ایک دن کامیابی ہوجائے گی.کی زیارت کے لیے آئے تھے.قریباً ایک ہزار آدمی نے اس جگہ بیعت کی اور جب آپ منارة امسیح کی بنیاد اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض پیشگوئیوں کی بنا عدالت میں حاضر ہونے کے لیے گئے تو اس قدر مخلوق کا رروائی مقدمہ سننے کے لیے موجود یر کہ مسیح دمشق کے مشرق کی جانب ایک سفید منارہ تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے.پہلی ہی پر اُترے گا ایک منارہ کی بنیاد رکھی تا کہ وہ پیشگوئی لفظ بھی پوری ہو جائے.گو اس پیشگوئی پیشی میں آپ بری کیے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے.کے حقیقی معنے یہی تھے کہ مسیح موعود کھلے کھلے دلائل اور براہین کے ساتھ آئے گا اور تمام دنیا پر جماعت کی ترقی اور کرم دین والے مقدمہ کا طول پکڑنا اس کا جلال ظاہر ہو گا اور اس کو بہت بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ علم تعبیر الرؤیا میں منارے سے 1903 ء سے آپ کی ترقی حیرت انگیز طریق سے شروع ہوگئی اور بعض دفعہ ایک ایک مراد وہ دلائل ہیں جن کا انسان انکار نہ کر سکے اور بلندی پر ہونے کے معنے ایسی شان حاصل کرنے کے ہیں جو کسی کی نظر سے پوشیدہ نہ رہے اور مشرق کی طرف آنے سے مراد ایسی ترقی دن میں پانچ پانچ سو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے.ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ ہوتی ہے جسے کوئی نہ روک سکے.: مقدمہ کرم دین (ازالہ حیثیت عرفی) 1902ء کے آخر میں حضرت مسیح بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے موعود علیہ السلام پر ایک شخص کرم ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا.اسی سال جماعت احمدیہ کے لیے ایک دردناک حادثہ پیش آیا کہ کابل میں اس دین نے ازالہ عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لیے آپ کے نام سمن جاری ہوا.چنانچہ آپ جنوری 1903 ء میں وہاں تشریف لے گئے.یہ سفر آپ جماعت کے ایک برگزیدہ ممبر کو صرف مذہبی مخالفت کی وجہ سے سنگسار کیا گیا.کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی مقدمات کا سلسلہ جو جہلم میں شروع ہو کر بظاہر ختم ہو گیا تھا پھر بڑے زور سے شروع ہو کے لیے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو گیا.یعنی کرم دین جس نے پہلے وہاں آپ کے خلاف مقدمہ کیا تھا اُسی نے پھر گورداسپور سکتا.جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترے ہیں اُس وقت وہاں اس قد را نبوہ کثیر تھا کہ میں آپ پر ازالہ حیثیت عرفی کی نالش دائر کر دی.اس مقدمہ نے اتنا طول کھینچا کہ جسے پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی بلکہ اسٹیشن کے باہر بھی دو رویہ سڑکوں پر لوگوں کی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اس مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں ایک مجسٹریٹ بھی بدل گیا اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہو گیا تھا حتی کہ افسرانِ ضلع کو انتظام کے لیے خاص اور اس کی پیشیاں ایسے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے رکھی گئیں کہ آخر مجبور ہو کر آپ کو گورداسپور

Page 28

50 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 51 اس مقدمہ کا فیصلہ جنوری 1905ء میں ہوا اور اس فیصلہ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے جو کی ہی رہائش اختیار کرنی پڑی.کیا اس پر سیشن جج صاحب امرتسر مسٹر ہیری صاحب کی عدالت میں جو ایک یورپین تھے، اس مقدمہ کو اس قدر طول دیا گیا تھا کہ صرف تین چار الفاظ پر گفتگو تھی.کرم دین نے اس فیصلہ کی نگرانی کی گئی اور جب انہوں نے مقدمہ کی مسل دیکھی تو سخت افسوس ظاہر کیا کہ آپ کے خلاف ایک صریح جھوٹ بولا تھا.آپ نے اُس کی نسبت اپنی کتاب میں کذاب کا ایسے لغو مقدمہ کو مجسٹریٹ نے اس قدر لمبا کیوں کیا اور کہا کہ اگر یہ مقدمہ میرے پاس آتا تو لفظ لکھا تھا جس کے معنی عربی زبان میں جھوٹا بھی ہیں اور بہت جھوٹا بھی.اسی طرح ایک لفظ میں ایک دن میں اسے خارج کر دیتا.کرم دین جیسے انسان کو جو لفظ مرزا صاحب نے لیم ہے جس کے معنے کمینہ ہیں.لیکن کبھی ولد الزنا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے اور استعمال کیے اگر اُن سے بڑھ کر بھی کہے جاتے تو بالکل درست تھا.جو کچھ ہوا نہایت اُس کا زور اس بات پر تھا کہ مجھے بہت جھوٹا اور ولد الزنا کہا گیا ہے.حالانکہ اگر ثابت ہے تو نا واجب ہوا اور انہوں نے دو گھنٹے کے اندر آپ کو بری کر دیا اور جرمانہ معاف کر دیا اور اس یہ کہ میں نے ایک جھوٹ بولا ہے.اس پر عدالت میں ان الفاظ کی تحقیقات شروع ہوئی اور طرح دوسری دفعہ ایک یورپین حاکم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ حکومت انہی بعض اس قسم کے اور باریک سوال پیدا ہو گئے جن پر ایسی لمبی بحث چھڑی کہ دو سال ان لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہے جن کو وہ اس کے قابل سمجھتا ہے.مقدمات میں لگ گئے.دورانِ مقدمہ میں ایک مجسٹریٹ کی نسبت مشہور ہوا کہ اس کے ہم مذہبوں نے کہا ہے کہ مرزا صاحب اس وقت خوب پھنسے ہوئے ہیں ، ان کو سزا ضرور دو خواہ وحی آپ پر کئی سال پیشتر مقدمہ کے انجام کی نسبت کی تھی وہ پوری ہوئی.ایک دن کی قید کیوں نہ ہو.جن دوستوں نے یہ بات سنی سخت گھبرائے ہوئے آپ کے پاس اس مقدمہ کی کارروائی کو ایک جگہ بیان کرنے کے لیے میں آپ کے دوضروری سفر حاضر ہوئے اور نہایت ڈر کر عرض کیا کہ حضور ہم نے ایسا سنا ہے.آپ اس وقت لیٹے چھوڑ گیا ہوں جن میں سے آپ کا پہلا سفر تو لاہور کی طرف تھا جو دورانِ مقدمہ میں ماہ اگست ہوئے تھے یہ بات سنتے ہی آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایک ہاتھ کے سہارے سے ذرا اُٹھ 1904ء میں ہوا.اس دفعہ آپ لاہور میں پندرہ دن رہے.اس سفر میں بھی چاروں طرف بیٹھے اور اُٹھ کر بڑے زور سے فرمایا کہ کیا وہ خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے؟ اگر سے لوگ آپ کی زیارت کے لیے جوق در جوق آئے اور اسٹیشن پر تل دھر نے کو جگہ نہ تھی اُس نے ایسا کیا تو وہ دیکھ لے گا کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے.نہ معلوم یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی اور اس تمام عرصہ میں ایک شور پڑا رہا.آپ کی قیام گاہ کے نیچے صبح سے شام تک برابر ایک لیکن اس مجسٹریٹ کو انہی دنوں وہاں سے بدل دیا گیا اور باوجود کوشش کے فوجداری مجمع رہتا.مخالف آن آن کر گالیاں دیتے اور شور مچاتے حتی کہ بعض شریروں نے زنانہ اختیارات اُس سے لے لیے گئے اور کچھ مدت کے بعد اُس کا عہدہ بھی کم کر دیا گیا.اس مکان میں گھنے کی بھی کوشش کی جنہیں زبر دستی باہر نکالا گیا.لاہور کے دوستوں کی درخواست کے بعد مقدمہ ایک اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اُس نے بھی نہ معلوم کیوں اس کو بہت پر آپ کا لیکچر مقرر ہوا جو چھاپا گیا اور ایک وسیع ہال میں وہ لیکچر مولوی عبد الکریم صاحب لمبا کیا اور گوڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں تو آپ کو کرسی ملتی تھی لیکن اس مجسٹریٹ نے مرحوم نے پڑھ کر سنایا آپ بھی پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے.قریباً سات آٹھ ہزار آدمی تھے.با وجود آپ کے سخت بیمار ہونے کے آپ کو کرسی نہ دی اور بعض دفعہ سخت پیاس کی حالت اس لیکچر کے ختم ہونے پر لوگوں نے درخواست کی کہ آپ کچھ زبانی بھی بیان فرما ئیں.اس میں پانی پینے تک کی اجازت نہ دی.آخر ایک لمبے مقدمہ کے بعد آپ پر دوسو روپے جرمانہ پر آپ اُسی وقت کھڑے ہو گئے اور آدھ گھنٹہ تک ایک مختصر سی تقریر فرمائی.چونکہ یہ ایک

Page 29

52 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 53 تجربه شدهہ بات تھی کہ آپ جہاں جاتے ہر مذہب وملت کے لوگ آپ کے خلاف جوش اور رات کے پڑ جانے سے اندیشہ ہوا کہ کہیں بعض لوگ گاڑیوں کے نیچے نہ آجائیں چنانچہ دکھلاتے خصوصاً مسلمان کہلانے والے، اس لیے افسران پولیس نے اس دفعہ بہت اعلیٰ پولیس کو اس بات کا خاص انتظام کرنا پڑا کہ آپ کے آگے آگے راستہ صاف رہے.انتظام کیا ہوا تھا.دیسی پولیس کے علاوہ یوروپین سپاہی بھی انتظام کے لیے لگائے گئے تھے سیالکوٹ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ اس کام پر تھے.اُن کو بڑی جو تلوار میں ہاتھ میں لیے تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوئے تھے.چونکہ پولیس مشکل اور سختی سے راستہ کرانا پڑتا تھا اور گاڑی نہایت آہستہ آہستہ چل سکتی تھی.گاڑی کی افسروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ بعض جہلاء جلسہ گاہ سے باہر فساد پر آمادہ ہیں اس لیے انہوں نے کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں.بازاروں اور گلیوں میں لوگ علاوہ دو رویہ کھڑے ہونے کے، آپ کی واپسی کے لیے خاص انتظام کر رکھا تھا اور چند سوار کچھ فاصلہ پر آگے آگے چلے دوکانوں کے برآمدے بھی بھرے ہوئے تھے اور بعض تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑکیوں کے جاتے تھے اور پیچھے آپ کی گاڑی تھی.گاڑی کے پیچھے پھر کچھ پولیس کے جوان تھے اور ان چھوں پر چڑھے بیٹھے تھے.تمام چھتوں پر ہندوؤں اور مسلمانوں نے آپ کی شکل دیکھنے کے پیچھے پھر پولیس کے سوار جن کے پیچھے پیادہ پولیس مین.اس طرح بڑی حفاظت سے کے لیے ہنڈیاں اور لیمپ جلا رکھے تھے اور چھتیں عورتوں اور مردوں سے بھری پڑی تھیں آپ کو گھر پہنچایا گیا اور منصوبہ بازوں کو اپنی شرارت میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی.وہاں سے جو آپ کی گاڑی کے قریب آنے پر مشعلیں آگے کر کر کے آپ کی شکل دیکھتے تھے اور بعض آپ واپس گورداسپور تشریف لے آئے.اواخر اکتوبر 1904ء میں آپ گورداسپور کے لوگ آپ پر پھول پھینکتے تھے.مقدمات سے گونہ فراغت پا کے قادیان آگئے.27 اکتوبر کو سیالکوٹ تشریف لے گئے کیونکہ وہاں کے دوستوں نے باصرار وہاں تشریف لے جانے کی درخواست کی تھی اور عرض کیا تھا کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں یہاں کئی لیکچر سیالکوٹ سیالکوٹ آپ نے پانچ روز قیام فرمایا اور علاوہ تبلیغ کے جو آپ گھر پر ملنے والوں کو سال رہے ہیں پس اب بھی جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے ایک کرتے رہے آپ کا ایک پبلک لیکچر بھی وہاں ہوا.جس وقت لیکچر کا اعلان ہوا اُسی وقت دفعہ اس طرف قدم رنجہ فرما کر اس زمین کو برکت دیں یہ سفر بھی آپ کی کامیابی کا بین ثبوت سیالکوٹ کے علماء نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ کوئی شخص مرزا صاحب کا لیکچر سُننے نہ تھا کیونکہ ہر ایک اسٹیشن پر آپ کی زیارت کے لیے اس قدر مخلوق آتی تھی کہ سٹیشن کے حکام جائے اور یہ بھی فتویٰ دے دیا کہ جو شخص آپ کا لیکچر سننے جائے گا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور لاہور کے اسٹیشن پر تو اس قدر ہجوم ہوا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ گا( یہ ایک زبردست ہتھیار اُس وقت سے علماء ہند کے پاس ہے جس کے ذریعہ سے وہ ختم ہو گئے اور اسٹیشن ماسٹر کو بلا ٹکٹ ہی لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دینی پڑی.جب آپ جاہل مسلمانوں پر اپنی حکومت قائم رکھتے ہیں اور جس کے لیے جھوٹی سچی کوئی بھی دلیل اُن سیالکوٹ پہنچے تو اسٹیشن سے آپ کی قیام گاہ تک جو میل بھر کے فاصلہ پر تھی ، برابر لوگوں کا کے پاس نہیں ) اور اس اعلان کو ہی کافی خیال نہ کیا گیا بلکہ جس مکان میں آپ کا لیکچر تھا ہجوم تھا.شام کے وقت ٹرین اسٹیشن پر پہنچی تو سواری گاڑیوں میں چڑھتے چڑھاتے دیر لگ اُس کے مقابل چند مخالف مولویوں نے اپنے لیکچروں کا اعلان کر دیا تا کہ لوگ آپ کے گئی اور آپ کی گاڑی ابھی تھوڑی ہی دور چلنے پائی تھی کہ اندھیرا ہو گیا.ہجوم خلائق کے سبب لیکچروں میں شامل نہ ہونے پائیں اور باہر کے باہر ہی رُک جائیں.علاوہ ازیں کچھ آدمی

Page 30

54 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 55 لیکچر گاہ کے دروازہ پر بھی مقرر کر دیے کہ اندر جانے والوں کو روکیں اور بتائیں کہ آپ کے مختلف موقعوں پر آپ کے لیکچر سنایا کرتے تھے ایک لمبی بیماری کے بعد فوت ہوئے اور آپ لیکچر میں جانا گناہ ہے اور بعض تو اس حد تک بڑھے کہ آنے والوں کو پکڑ پکڑ کر دوسری طرف نے قادیان میں ایک عربی مدرسہ کھولنے کا ارشاد فرمایا جس میں دین اسلام سے واقف علماء لے جاتے تھے مگر باوجود اس کے لوگ بڑی کثرت سے آئے اور جس وقت لوگوں نے سُنا پیدا کیے جائیں تا کہ فوت ہونے والے علماء کی جگہ خالی نہ رہے.مولوی عبدالکریم صاحب کہ آپ لیکچر گاہ میں تشریف لے آئے ہیں تو مخالف علماء کا لیکچر چھوڑ کر وہاں بھاگ آئے کی وفات سے چند روز بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں قریباً پندرہ دن رہے.اُس اور اس قدر شوق سے لوگوں نے حصہ لیا کہ سرکاری ملازم بھی با وجود تعطیل کا دن نہ ہونے وقت دہلی گو پندرہ سال پہلے کی دہلی نہ تھی جس نے دیوانہ وار شور مچایا تھا لیکن پھر بھی آپ کے جانے پر خوب شور ہوتا رہا.اس پندرہ دن کے عرصہ میں آپ نے دہلی میں کوئی پبلک کے لیکچر میں شامل ہوئے.یہ لیکچر بھی چھپا ہوا ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر سُنا یا تھا.دوران لیکچر لیکچر نہ دیا لیکن گھر پر قریب روزانہ لیکچر ہوتے رہے جن میں جگہ کی تنگی کے سبب دواڑھائی سو میں بعض لوگوں نے شور مچانا چاہا.پولیس افسر نے جو ایک یوروپین صاحب تھے، نہایت سے زیادہ آدمی ایک وقت میں شامل نہیں ہو سکتے تھے.ایک دو دن لوگوں نے شور بھی کیا اور ہوشیاری سے اُن کو روکا اور ایک بڑی لطیف بات فرمائی کہ تم مسلمانوں کو ان کے لیکچر پر ایک دن حملہ کر کے گھر پر چڑھ جانے کا بھی ارادہ کیا لیکن پھر بھی پہلے سفر کی نسبت بہت فرق گھبرانے کی کیا وجہ ہے، تمہاری تو یہ تائید کرتے ہیں اور تمہارے رسول کی عظمت قائم کرتے ہیں.ناراض ہونے کا حق تو ہمارا تھا کہ جن کے خدا ( مسیح ) کی وفات ثابت کرنے پر یہ اس اس سفر سے واپسی پر لدھیانہ کی جماعت نے دو دن کے لیے آپ کو لدھیانہ میں ٹھہرایا قدر زور دیتے ہیں.غرض افسران پولیس کی ہوشیاری کے باعث کوئی فتنہ وفساد نہ ہوا.اس اور آپ کا ایک پبلک لیکچر نہایت خیر و خوبی سے ہوا.وہاں امرتسر کی جماعت کا ایک وفد پہنچا لیکچر میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو اہل ہنود پر اتمام محبت کرنے کہ آپ ایک دو روز امرتسر بھی ضرور قیام فرما ئیں جسے حضرت نے منظور فرمایا اور لدھیانہ کے لیے پبلک میں بحیثیت کرشن پیش کیا.جب لیکچر ختم ہو کر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض سے واپسی پر امرتسر میں اُتر گئے.وہاں بھی آپ کے ایک عام لیکچر کی تجویز ہوئی.امرتسر لوگوں نے پتھر مارنے کا ارادہ کیا لیکن پولیس نے اس مفسدہ کو بھی روکا.لیکچر کے بعد سلسلہ احمدیہ کے مخالفین سے پر ہے اور مولویوں کا وہاں بہت زور ہے.اُن کے اُکسانے دوسرے دن آپ واپس تشریف لے آئے اور اس موقعہ پر بھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے سے عوام الناس بہت شور کرتے رہے.جس دن آپ کا لیکچر تھا اُس روز مخالفین نے فیصلہ کر کوئی شرارت نہ ہو سکی.جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دُکھ دینے کا کوئی موقعہ نہیں ملا تو بعض لوگ شہر سے کچھ دور باہر جا کر ریل کی سٹرک کے پاس کھڑے ہو گئے اور چلتی ٹرین پر پتھر پھینکے لیکن اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہوسکتا تھا.لیا کہ جس طرح ہو لیکچر نہ ہونے دیں.چنانچہ آپ لیکچر ہال میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازہ پر مولوی بڑے بڑے تجھے پہنے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مار کر آپ کے خلاف وعظ کر رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے.آپ لیکچر گاہ مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات اور سفر دہلی کے حالات میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا.لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقعہ نہ 11 / اکتوبر 1905 ء کو آپ کے ایک نہایت مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب جو ملا جس پر لوگوں کو بھڑ کا ئیں.پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے

Page 31

56 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 57 آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر مخلص مرید پاس کھڑا تھا وہ جھٹ آپ کو بچانے کے لیے آپ کے اور حملہ کرنے والے کے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے.آپ نے ہاتھ درمیان میں آ گیا.چونکہ گاڑی کا دروازہ کھلا تھا سونٹا اُس پر رک گیا اور اُس شخص کے بہت سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اُس نے آپ کی تکلیف کے خیال سے پیش کر ہی دی.اس پر کم چوٹ آئی ورنہ ممکن تھا کہ اُس شخص کا خون ہو جاتا.آپ کے گاڑی میں بیٹھنے پر گاڑی آپ نے بھی اُس میں سے ایک گھونٹ پی لیا.لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا.مولویوں نے شور چلی لیکن لوگوں نے پتھروں کا مینہ برسانا شروع کر دیا گاڑی کی کھڑکیاں بند تھیں.اُن پر پتھر مچادیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا.آپ نے جواب میں گرتے تھے تو وہ گھل جاتی تھی.ہم انہیں پکڑ کر سبنھالتے تھے لیکن پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ فرمایا که قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیمار یا مسافر روزہ نہ رکھے بلکہ جب شفا ہو سے ہاتھوں سے چُھوٹ چُھوٹ کر وہ گر جاتی تھیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے یا سفر سے واپس آئے تب روزہ رکھے اور میں تو بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی.لیکن جوش میں چوٹ نہیں آئی صرف ایک پتھر کھڑکی میں سے گذرتا ہوا میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بھرے ہوئے لوگ کب رُکتے ہیں.شور بڑھتا گیا اور باوجود پولیس کی کوشش کے فرو نہ ہو لگا.چونکہ پولیس گاڑی کے چاروں طرف کھڑی تھی بہت سے پتھر اُسے لگے جس پر پولیس سکا.آخر مصلحتاً آپ بیٹھ گئے اور ایک شخص کو نظم پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا گیا.اُس کے نظم نے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا اور گاڑی کے آگے پیچھے بلکہ اُس کی چھت پر بھی پولیس مین بیٹھ پڑھنے پر لوگ خاموش ہو گئے.تب پھر آپ کھڑے ہوئے تو پھر مولویوں نے شور مچا دیا گئے اور دوڑا کر گاڑی کو گھر تک پہنچایا.لوگوں میں اس قدر جوش تھا کہ باوجود پولیس کی اور جب آپ نے لیکچر جاری رکھا تو فساد پر آمادہ ہو گئے اور سٹیج پر حملہ کرنے کے لیے آگے موجودگی کے وہ دُور تک گاڑی کے پیچھے بھاگے.دوسرے دن آپ قادیان واپس تشریف بڑھے.پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہزاروں آدمیوں کی روان سے روکے نہ رکتی لے آئے.تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر کی ایک لہر ہے جو آگے ہی بڑھتی چلی آتی ہے.جب وفات کی پیشگوئی اور سلسلہ کا نظام.صدرانجمن کا قیام پولیس سے اُن کا سنبھالنا مشکل ہو گیا تب آپ نے لیکچر چھوڑ دیا لیکن پھر بھی لوگوں کا جوش دسمبر 1905ء میں آپ کو الہام ہوا کہ آپ کی وفات قریب ہے جس پر آپ نے ایک 6600 ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے سٹیج پر چڑھ کر حملہ آور ہونے کی کوشش جاری رکھی.اس پر پولیس انسپکٹر نے آپ سے عرض کی کہ آپ اندر کے کمرہ میں تشریف لے چلیں اور فوراً سپاہی رسالہ ”الوصية لکھ کر اپنی تمام جماعت میں شائع کر دیا اور اُس میں جماعت کو اپنی دوڑائے کہ بند گاڑی لے آئیں.پولیس لوگوں کو اس کمرہ میں آنے سے روکتی رہی اور وفات کے قرب کی خبر دی اور اُن کو تسلی دی اور الہام الہی کے ماتحت ایک مقبرہ بنائے جانے دوسرے دروازہ کے سامنے گاڑی لا کر کھڑی کر دی گئی ، آپ اُس میں سوار ہونے کے لیے کا اعلان فرمایا اور اُس میں دفن ہونے والوں کے لیے یہ شرط مقرر کی کہ وہ اپنی تمام جائیداد تشریف لے چلے.آپ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ آپ گاڑی میں سوار کا دسواں حصہ اشاعت اسلام کے لیے دیں اور تحریر فر مایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہو کر چلے ہیں.اس پر جو لوگ لیکچر ہال سے باہر کھڑے تھے وہ حملہ کرنے کے لیے آگے ہے کہ اس مقبرہ میں صرف وہی دفن ہو سکیں گے جو جنتی ہوں گے اور ان اموال کی حفاظت بڑھے اور ایک شخص نے بڑے زور سے ایک بہت موٹا اور مضبوط سونٹا آپ کو مارا.ایک کے لیے جو اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لیے لوگ بغرض اشاعت اسلام دیں گے ایک

Page 32

58 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 59 انجمن مقرر فرمائی.اس انتظام کے علاوہ یہ بھی پیشگوئی کی کہ جماعت کی حفاظت اور اس کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور خود بھی اسی شرط کی پابندی کا اقرار کیا.سنبھالنے کے لیے خدا تعالیٰ خود میری وفات کے بعد اسی طرح انتظام کرے گا جس طرح کہ آپ سے بھی اس میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اُسی وقت کہہ دیا کہ مجھے پہلے نبیوں کے بعد کرتا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو کھڑا کرتا رہے گا جو جماعت کی نگرانی اسی تو اس تجویز میں دھوکے کی بو آتی ہے لیکن پھر بھی حجت پوری کرنے کے لیے ایک مضمون لکھ طرح کریں گے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر نے کی تھی.کر اُس میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا.اس مضمون میں آپ نے بڑے زور سے آریوں کو صلح سلسلہ کی ضروریات تعلیمی وتبلیغی کے لیے الوصيّة کی اشاعت تک مدرسہ اور میگزین کی کی دعوت دی اور نہایت نرمی سے صرف اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے پیش کیں.ہماری انتظامی کمیٹیاں تھیں اور مقبرہ کے لیے ایک جدید انجمن تجویز ہوئی مگر خدام کی درخواست پر جماعت کے قریباً پانچ سو آدمی ٹکٹ خرید کر اس کا نفرنس میں شامل ہوتے رہے اور ہمارے 1906ء کے دسمبر میں آپ نے اس انجمن کی بجائے جسے وصیتوں کے اموال کی حفاظت باعث دوسرے مسلمان بھی شامل ہوتے رہے لیکن جب آریوں کی باری آئی تو انہوں نے کے لیے مقرر کیا گیا تھا ایک ایسی انجمن قائم کر دی جس کے سپر د دینی اور دُنیاوی تعلیم کے نہایت گندہ طور پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بُرے سے بُرے الفاظ مدارس ریویو آف ریلیجنز مقبره بهشتی وغیرہ سب متفرق کام کر دیئے اور مختلف حضور کی نسبت استعمال کیے لیکن ہم آپ کی تعلیم کی ماتحت خاموشی سے ان لیکچروں کو سنتے انجمنوں کی بجائے ایک ہی صدرانجمن قائم کر دی.رہے اور کسی نے اُٹھ کر اتنا بھی نہیں کہا کہ ہم سے وعدہ خلافی کی گئی ہے.21 / مارچ 1908ء میں سروسن صاحب بہادر فنانشل کمشنر صوبہ پنجاب قادیان 1907 ء میں ستمبر کے مہینے میں آپ کا لڑکا مبارک احمد اس پیشگوئی کے مطابق تشریف لائے.چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ پنجاب کا ایک ایسا معزز اعلیٰ عہد یدار قادیان آیا.جو اس کی پیدائش کے وقت ہی چھاپ کر شائع کر دی گئی تھی ، ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں آپ نے تمام جماعت کو ان کے استقبال کا حکم دیا اور اپنی سکول گراؤنڈ میں اُن کا خیمہ لگوایا فوت ہو گیا.اسی سال صدرانجمن کی مختلف شہروں میں شاخیں قائم کرنے کی تجویز کی گئی.دومر داور اور ان کی دعوت بھی کی.چونکہ آپ کی نسبت آپ کے مخالفین نے مشہور کر رکھا تھا کہ آپ ایک عورت امریکن آپ سے ملنے کے لیے آئے جن سے دیر تک گفتگو ہوئی اور انہیں مسیح کی در پردہ گورنمنٹ کے مخالف ہیں کیونکہ افسرانِ بالا سے باوجود اپنے قدیم خاندانی تعلقات کے کبھی نہیں ملتے آپ نے عملی طور پر اس اعتراض کو دور کر دیا اور فنانشل کمشنر صاحب سے بعثت ثانیہ کی حکمت اور اصلیت سمجھائی.اس سال پنجاب میں کچھ ایجی ٹیشن پیدا ہو گیا اس پر آپ نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ ملاقات کے لیے خود تشریف لے گئے.اُس وقت آپ کے ساتھ سات آٹھ آدمی آپ کی کا ہر طرح وفادار رہنے کی تاکید فرمائی اور مختلف جگہ پر آپ کی جماعت نے اس شورش کے جماعت کے بھی تھے.صاحب ممدوح نے نہایت تکریم کے ساتھ اپنے خیمہ کے دروازے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریسیو کیا اور آپ سے مختلف امور آپ کے سلسلہ کے متعلق فرو کرنے میں بلا کسی لالچ کے خدمت کی.دسمبر میں آریوں نے لاہور میں ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی اور سب مذاہب کے دریافت کرتے رہے لیکن اس تمام گفتگو میں ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے.اُن لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی.لیکن یہ شرط رکھی کہ کسی مذہب کے پیروؤں کو دنوں میں مسلم لیگ نئی نئی قائم ہوئی تھی اور حکام انگریزی اس کی کونسی ٹیوشن پر ایسے خوش تھے

Page 33

60 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 61 کہ اُن کے خیال میں کانگریس کے نقائص دور کرنے میں یہ ایک زبر دست آلہ ثابت ہوگی گاڑی ریز رو نہیں ہوسکی وہاں دو تین دن انتظار کرنا پڑا.آپ نے اپنے گھر میں فرمایا کہ اور بعض حکام رؤساء کو اشارہ اِس میں شامل ہونے کی تحریک بھی کرتے تھے.فنانشل کمشنر ادھر الهام متوحش ہوا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روکیں پڑ رہی ہیں.بہتر ہے کہ یہیں صاحب بہادر نے بھی برسبیل تذکرہ آپ سے مسلم لیگ کا ذکر کیا اور اس کی نسبت آپ کی بٹالہ میں کچھ عرصہ کے لیے ٹھہر جائیں آب و ہوا تبدیل ہو جائے گی.علاج کے لیے کوئی رائے دریافت کی.آپ نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا.فنانشل کمشنر نے اس کی خوبی کا لیڈی ڈاکٹر یہیں بُلا لی جائے گی.لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں لا ہور ہی چلو.آخر دو اقرار کیا.آپ نے فرمایا کہ یہ راہ خطرناک ہے.انہوں نے کہا کہ آپ اسے کانگرس پر تین دن کے انتظار کے بعد آپ لاہور تشریف لے گئے.آپ کے پہنچتے ہی تمام لاہور میں قیاس نہ کریں اس کا قیام تو ایسے رنگ میں ہوا تھا کہ اس کا اپنے مطالبات میں حد سے بڑھ ایک شور پڑ گیا اور حسب دستور مولوی لوگ آپ کی مخالفت کے لیے اکٹھے ہو گئے.جس جانا شروع سے نظر آ رہا تھا لیکن مسلم لیگ کی بنیاد ایسے لوگوں کے ہاتھوں اور ایسے قوانین مکان میں آپ اُترے ہوئے تھے اُس کے پاس ہی ایک میدان میں آپ کے خلاف کے ذریعے پڑی ہے کہ یہ کبھی کانگرس کا رنگ اختیار کر ہی نہیں سکتی.اس پر آپ کے ایک لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو روزانہ بعد نماز عصر سے لے کر رات کے نو دس بجے تک مرید خواجہ کمال الدین نے جو دو کنگ مشن کے بانی اور رسالہ مسلم انڈیا کے مالک ہیں، جاری رہتا.ان لیکچروں میں گندی سے گندی گالیاں آپ کو دی جاتیں اور چونکہ آپ کے سرولسن کی تائید کی اور کہا کہ میں بھی اس کا ممبر ہوں اس کے ایسے قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس مکان تک پہنچنے کا یہی راستہ تھا آپ کی جماعت کو سخت تکلیف ہوتی لیکن آپ نے سب کو سمجھا کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں.مگر دونوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا کہ گالیوں سے ہمارا کچھ نہیں بگڑتا تم لوگ خاموش ہو کے پاس سے گزر جایا کرو.اُدھر فرمایا کہ مجھے تو اس سے بو آتی ہے کہ ایک دن یہ بھی کانگرس کا رنگ اختیار کر لے گی.میں دیکھا بھی نہ کرو.چونکہ اس دفعہ لاہور میں کچھ زیادہ رہنے کا ارادہ تھا اس لیے جماعت کے اس طرح سیاست میں دخل دینے کو خطرناک سمجھتا ہوں.یہ گفتگو تو اس پر ختم ہوئی لیکن ہر احباب چاروں طرف سے اکٹھے ہو گئے تھے اور ہر وقت ہجوم رہتا تھا اور لوگ بھی آپ سے ایک سیاسی واقعات کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ کا خیال کس طرح لفظ بلفظ پورا ہوا.ملنے کے لیے آتے رہتے تھے.اسی سال 26 / اپریل کو بوجہ والدہ صاحبہ کی بیماری کے آپ کو لاہور جانا پڑا.جس دن قادیان سے چلنا تھا اُس رات کو الہام ہوا :- مباش ایمن از بازی روزگار لاہور کے رؤساء کو دعوت اور حضور کی تقریر چونکہ رؤساء ہند بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ساری دنیا کے رؤساء دین سے نسبتاً غافل ہوتے ہیں ، اس لیے آپ نے اُن کو کچھ سنانے کے لیے یہ تجویز فرمائی کہ لاہور کے ایک غیر یعنی حوادث زمانہ سے بے خوف مت ہو.اس پر آپ نے فرمایا کہ آج یہ الہام ہوا احمدی رئیس کی طرف سے جو آپ کا بہت معتقد تھا رؤساء کو دعوت دی اور دعوتِ طعام میں ہے کہ جو کسی خطرناک حادثہ پر دلالت کرتا ہے.اتفاق سے اُسی رات میرے چھوٹے بھائی کچھ تقریر فرمائی.تقریر کسی قدر لمبی ہوگئی جب گھنٹہ کے قریب گزر گیا تو ایک شخص نے ذرا مرزا شریف احمد بیمار ہو گئے لیکن جس طرح سے ہو سکا روانہ ہوئے جب بٹالہ پہنچے، جو گھبراہٹ کا اظہار کیا.اس پر بہت سے لوگ بول اُٹھے کہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں لیکن یہ قادیان کا اسٹیشن تھا ، تو وہاں معلوم ہوا کہ بوجہ سرحدی شورش کے گاڑیاں کافی نہیں اسی لیے کھانا (غذائے روح) تو آج ہی میسر ہوا ہے.آپ تقریر جاری رکھیں.دواڑھائی گھنٹہ

Page 34

62 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 63 یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا.آپ نے اُسی وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور.تک آپ کی تقریر ہوتی رہی.اس تقریر کی نسبت لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ نے اپنا دعوی نبوت واپس لے لیا.لاہور کے اُردو روزانہ اخبار عام نے یہ خبر شائع کر دی.اس پر فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے.دن کو لیکچر ختم ہوا اور چھپنے کے لیے دے دیا گیا.رات کے آپ نے اُسی وقت اس کی تردید فرمائی اور لکھا کہ ہمیں دعوی نبوت ہے اور ہم نے اسے کبھی وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ہو گیا.والدہ صاحبہ کو جگایا.وہ اُٹھیں تو آپ کی حالت واپس نہیں لیا.ہمیں صرف اس بات سے انکار ہے کہ ہم کوئی نئی شریعت لائے ہیں.شریعت بہت کمزور تھی.انہوں نے گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا وہی جو میں کہا کرتا تھا وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.(یعنی بیماری موت ) اس کے بعد پھر ایک اور دست آیا.اس سے بہت ہی ضعف ہو گیا فرمایا حضور علیہ السلام کا وصال مولوی نور الدین صاحب کو بلواؤ (مولوی صاحب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے ) پھر فرمایا کہ محمود (مصنف رسالہ ہذا ) اور میر صاحب ( آپ کے خسر ) کو جگاؤ.آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی.لاہور تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ہوگئی میری چار پائی آپ کی چار پائی سے تھوڑی ہی دور تھی.مجھے جگایا گیا اُٹھ کر دیکھا تو آپ کو اور چونکہ ملنے والوں کا ایک تانتا رہتا تھا اس لیے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا.آپ اسی حالت کرب بہت تھا.ڈاکٹر بھی آگئے تھے انہوں نے علاج شروع کیا لیکن آرام نہ ہوا.آخر میں تھے کہ الہام ہوا الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِیلُ یعنی کوچ کرنے کا وقت آ گیا پھر کوچ کرنے کا انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات دی گئیں.اس کے بعد آپ سو گئے.جب صبح کا وقت ہوا وقت آ گیا.اس الہام پر لوگوں کو تشویش ہوئی لیکن فوراً قادیان سے ایک مخلص دوست کی اُٹھے اور اُٹھ کر نماز پڑھی.گلا بالکل بیٹھ گیا تھا کچھ فرمانا چاہا لیکن بول نہ سکے.اس پر قلم وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اُس کے متعلق سمجھا اور تسلی ہوگئی لیکن آپ سے جب دوات طلب فرمائی لیکن لکھ بھی نہ سکے.قلم ہاتھ سے چھٹ گئی.اس کے بعد لیٹ گئے اور پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے ایک بہت بڑے شخص کی نسبت ہے ، وہ شخص تھوڑی دیر تک غنودگی سی طاری ہو گئی اور قریباً ساڑھے دس بجے دن کے آپ کی روح پاک اس سے مُراد نہیں.اس الہام سے والدہ صاحبہ نے گھبرا کر ایک دن فرمایا کہ چلو واپس اُس شہنشاہ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی ساری عمر قادیان چلیں.آپ نے جواب دیا کہ اب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں.اب اگر خدا صرف کر دی تھی اِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - بیماری کے وقت صرف ایک ہی لفظ آپ کی ہی لے جائے گا تو جاسکیں گے.مگر باوجود ان الہامات اور بیماری کے آپ اپنے کام میں زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا.لگے رہے اور اس بیماری ہی میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لاہور میں پھیل گئی.مختلف مقامات کی جماعتوں آپ نے ایک لیکچر دینے کی تجویز فرمائی اور لیکچر لکھنا شروع کر دیا اور اس کا نام ”پیغام صلح کو تاریں دے دی گئیں اور اُسی روز شام یا دوسرے دن صبح کے اخبارات کے ذریعہ گل رکھا.اس سے آپ کی طبیعت اور بھی کمزور ہوگئی اور دستوں کی بیماری بڑھ گئی.جس دن یہ ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر مل گئی.جہاں وہ شرافت جس کے ساتھ لیکچر ختم ہونا تھا اُس رات الہام ہوا: - آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یادر ہے گی ، وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں دد مکن تکیه بر عمر نا پائیدار بھلائی جاسکتی جس کا اظہار آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا.لاہور کی پبلک کا ایک

Page 35

64 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 65 در د انسان کو بیتاب کر دیتا ہے اور میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر گر وہ نصف گھنٹہ کے اندر ہی اس مکان کے سامنے اکٹھا ہو گیا جس میں آپ کا جسم مبارک خدا تعالیٰ کا پیارا رسول اُن کے درمیان چلتا پھرتا تھا.پڑا تھا اور خوشی کے گیت گا گا کر اپنی کو ر باطنی کا ثبوت دینے لگا.بعضوں نے تو عجیب عجیب سوانگ بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا.کر کے کہیں سے کہیں چلا گیا.میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑھے دس بجے آپ فوت آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ہوئے.اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کر روانہ ہوئی اور آپ بات کے قبول کرنے کے لیے تو تیار تھے کہ اپنے حواس کو تو مختل مان لیں لیکن یہ باور کرنا کا الہام پورا ہوا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا کہ اُن کی لاش کفن میں انہیں دشوار و نا گوار تھا کہ اُن کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے.پہلے مسیح لپیٹ کر لائے ہیں.کے حواریوں اور اس مسیح کے حواریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان پہنچایا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششدر قادیان کی موجودہ جماعت نے (جن میں کئی سو قائم مقام باہر کی جماعتوں کا بھی شامل تھا) تھے.اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت بالا تفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حاجی نورالدین صاحب بھیروی کو تسلیم کر کیونکر ہوا.آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبین ہو کر آیا تھا اُس کی وفات پر کے اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور اس طرح الوصیۃ کی وہ شائع شدہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت بھرا ہوا شعر کہا تھا کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَيَّ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ ترجمہ: کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیری موت سے میری آنکھ اندھی جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر کھڑے کیے گئے تھے ، میری جماعت کے لیے بھی خدا تعالیٰ اسی رنگ میں انتظام فرمائے گا.اس کے بعد خلیفہ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دو پہر کے بعد آپ دفن کیے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق جو دسمبر 1902ء میں ہوا اور مختلف اخبارات ہو گئی.اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرے ہمیں اُس کی پرواہ نہیں کیونکہ ہم تو میں شائع ہو چکا تھا پورا ہوا کیونکہ 26 رمئی کو آپ فوت ہوئے اور 27 تاریخ کو آپ دفن کیے گئے اور اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے معنی واضح کر تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے.66 دیے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا وقت رسید یعنی تیری وفات کا وقت آگیا ہے.آج تیرہ سو سال کے بعد اُس نبی کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشم فلک آپ کی وفات پر انگریزی و دیسی ہندوستان کے سب اخبارات نے با وجود مخالفت کے اس بات کا اقرار کیا کہ اس زمانہ کے آپ ایک بہت بڑے شخص تھے.نے دیکھا کہ جنہوں نے اُسے پہچان لیا تھا اُن کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا اُن کی نظروں میں حقیر ہوگئی اور اُن کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ سال گزر چکے ہیں اُن کا یہی حال ہے اور خواہ صدی بھی گزر جائے مگر وہ دن اُن کو کبھی نہیں بھول سکتے جب کہ تمت بالخير

Page 35