Seerat_Ahmad_Qudratallah_Sanori

Seerat_Ahmad_Qudratallah_Sanori

سیرت احمد

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

Book Content

Page 1

سیرت احمد قدرت اللہ سنوری

Page 2

حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری - کتاب مولف ہذا

Page 3

الحاج مسعود احمد خورشید

Page 4

سیرت احمد یعنی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چھبیس (۲۶) بلند پایہ صحابہ کی ایمان افروز اور غیر مطبوعہ روایات جو راقم الحروف (قدرت اللہ سنوری) نے ۱۹۱۵ء میں اپنے الفاظ میں قلمبند کی تھیں.کتاب کے آخری حصہ میں حضور اقدس کے بعض خطوط کی نقل کے علاوہ اپنی سوانح حیات بھی درج کر دی ہے.اس کتاب کی اشاعت کے جملہ اخراجات میرے بیٹے الحاج مسعود احمد صاحب خورشید کراچی نے برداشت کئے ہیں.فجر اہم اللہ احسن الجزاء.

Page 5

سجدے کئے ہوئے ہیں.اور یہ فضل میری محنت کے نتیجہ میں نہیں.بلکہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کا ایک ارشاد میرے سجدوں کی وجہ سے ہو گی.مرتب کتاب ہذا کے متعلق ” ناصر آباد میں میری زمینوں پر ایک دوست منشی قدرت اللہ صاحب سنوری مینیجر تھے.ایک دفعہ ہم زمین دیکھنے گئے.چونکہ سندھ میں صدر انجمن احمدیہ کی زمین تھی.اس لئے میرے ساتھ چوہدری فتح محمد صاحب میں نے ہر کھیت کے کونہ پر دو دو رکعت نماز پڑھی ہے.اور چار چار سجدے کئے ہیں." اس پر ان دونوں کا رنگ فق ہو گیا.کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا انہیں پتہ نہیں لگ سکتا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.صدرانجمن احمدیہ کو اس سال گھاٹا رہا.لیکن منشی قدرت اللہ صاحب نے کئی ہزار روپیہ مجھے بھجوایا.میں نے سمجھا کہ یہ صدر انجمن کا سیال ایم اے اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی تھے.وہاں ان دنوں گھوڑے کم روپیہ ہے.جو غلطی سے میرے نام آگیا ہے.لیکن دیکھا تو معلوم ہوا یہ ملتے تھے.انہوں نے میرے لئے گھوڑا کسی سے مانگ لیا تھا.اور دوسرے ساتھی میرے ساتھ پیدل چل رہے تھے.منشی قدرت اللہ سنوری صاحب نے باتوں باتوں میں بتایا.کہ انہیں اس قدر آمد کی امید ہے.اس پر چوہدری صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب نے اس خیال سے کہ منشی قدرت اللہ صاحب کو ان باتوں کا علم ہو کر تکلیف نہ ہو.آپس میں انگریزی میں باتیں کرنی شروع کر دیں.اور یہ کہنا شروع کر دیا.کہ یہ شخص گپ ہانگ رہا ہے.اتنی فصل کبھی نہیں ہو سکتی.ان کا یہ خیال تھا کہ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری انگریزی نہیں جانتے.مگر دراصل وہ اتنی انگریزی جانتے تھے کہ ان کی باتوں کو خوب سمجھ سکیں.مگر وہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے.جب انہوں نے باتین ختم کر لیں.تو منشی صاحب کہنے لگے."آپ لوگ خواہ کچھ خیال کریں.دیکھ لینا میری فصل اس سے بھی زیادہ نکلے گی.جو میں نے بتائی ہے.آپ کو کیا معلوم ہے.میں نے ہر کھیت کے کونوں پر میرا ہی روپیہ ہے.ساتھ ہی منشی قدرت اللہ صاحب نے مجھے لکھا کہ میرا اندازہ ہے کہ اتنی ہی آمد اور ہو جائے گی.میں نے چو پیداوار ابھی تک اٹھائی ہے.وہ میں نے ایک ہندو تاجر کے پاس بھیج دی ہے.آٹھ ہزار روپیہ میں بطور پیشگی لے کر بھیج رہا ہوں.اور میں ابھی اور روپیہ ارسال کروں گا.حالانکہ میری زمین صد را انجمن احمدیہ کی نسبت بھی بہت تھوڑی تھی.لیکن اس سال صدرانجمن احمدیہ کو گھاٹا رہا.لیکن مجھے نفع آیا.یہ محض منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کے سجدوں کی برکت تھی.(رپورٹ مجلس شوری ص ۶۵ و ۶۶ - ۲۹-۳۰-۳۱ مارچ ۱۹۵۶ء) یہ تو حضور کی ذرہ نوازی ہے.وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ محض حضور کی برکت سے مجھے ۱۹۵۶ء سے آج تک لاکھوں روپے حاصل ہوئے ہیں.(قدرت اللہ سنوری)

Page 6

52 54 54 60 67 28 الیہ مولوی قدرت اللہ سنوری 29 چوہدری کریم بخش صاحب نمبردار رائے پور ریاست نامہ 30 شیخ حامد علی صاحب 31 شیخ نور احمد مختار عام حضرت صاحبزادہ صاحب 32 حضرت حافظ معین الدین صاحب 33 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 34 حافظ روشن علی صاحب 35 حضرت سید میر عنایت علی شاہ لدھیانوی 36 حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ 37 چوہدری میر بخش صاحب سید فضل شاہ صاحب 39 شیخ امام بخش صاحب شاہجہانپوری 40 سید میر مهدی حسین صاحب 41 حضرت حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری 42 میر مهدی حسین صاحب 38 43 حافظ احمد اللہ صاحب 44 حافظ محمد ابراہیم صاحب 45 شیخ غلام احمد صاحب واعظ 46 میر مهدی حسین صاحب 47 بھائی عبدالرحیم صاحب 48 غلام حسین ولد ولی داد ساکن چک پنیال 49 احمد نور صاحب کابلی 50 اللہ دین المعروف فلاسفر حافظ احمد اللہ صاحب 52 حضرت خلیفہ المسیح الثانی اید و اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 53 خط بنام چوہدری رستم علی خان صاحب کو رٹ اتر 54 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 55 میر ناصر نواب صاحب 56 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 57 منشی اڈورے خان صاحب 77 77 81 84 85 85 86 86 87 88 94 95 97 101 104 105 105 114 115 116 117 117 119 119 121 1 5 6 7 7 11 12 17 18 19 20 20 23 25 27 29 29 32 32 51 33 33 2 4 7 فهرست روایات صحابه حضرت حافظ سید حامد علی شاہ صاحب حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب حضرت منشی امر ڈوے خان صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت منشی اثرورے خان صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت میاں چراغ الدین صاحب لاہوری حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و 10 حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سابق سردار جگت سنگھ 11 ملا وامل 12 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 13 ڈاکٹر عبد اللہ صاحب 14 احمد نور صاحب مهاجر کابلی 15 حضرت میر ناصر نواب صاحب 16 حافظ ابراہیم صاحب 17 غشی اڑورے خاں صاحب 18 حافظ ابراہیم صاحب عالمی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 19 20 حافظ حامد علی صاحب 21 احمد دھرم کوٹ رندھاوا 22 مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری 23 حضرت حافظ احمد اللہ صاحب مهاجر 24 ماسٹر عبد العزیز صاحب ایمن آبادی 25 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 26 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 27 مولوی قدرت اللہ سنوری 35 36 32333 37 37 39

Page 7

1 بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم نحمدہ و نصلی علی رسو لد الكريم و علی عبده المسيح الموعود روایات صحابہ روایت ا.حضرت حافظ سید حامد علی شاہ صاحب ایک صاحب مظفر گڑھ کے غلام مرتضی یا غلام مصطفیٰ ڈپٹی تھے وہ ایک دنیا دار آدمی تھے.انہوں نے مختلف وسائل کو کام میں لا کر ایک لڑکی سے اس کے والدین کی اجازت کے بغیر شادی کرلی.کئی سال وہ لڑکی ان کے گھر میں رہی.اسی اثناء میں ڈپٹی صاحب نے اس لڑکی کے والدین کے ساتھ رسائی کرلی.اور ان سے بہت کچھ سلوک کر دیا.آخر آمد و رفت شروع ہو گئی.مگر حکمت الہی کچھ عرصہ بعد وہ لڑکی فوت ہو گئی.ڈپٹی صاحب کی عمر اس وقت ۷۰ سال کی ہوگی.مگر اس گھر میں جس کی لڑکی ان کے گھر میں تھی.ایک اور لڑکی جو ان عمر کی تھی.انہوں نے چاہا کہ اب اس سے شادی کریں.لڑکی کا باپ راضی ہو گیا کہ بیٹی دے دوں.ڈپٹی صاحب کو حضرت صاحب کے حالات کا پتہ تھا.انہوں نے چاہا یہ ملہم ہیں.122 129 131 133 135 137 147 150 150 152 153 153 155 159 161 165 165 166 173 175 176 176 180 182 195 206 58 حضرت مولوی قطب الدین صاحب ولد غلام حسین صاحب 59 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 60 (بھائی) عبدالرحیم صاحب 61 منشی اروڑے خان صاحب 62 عبد اللہ خان (دیوان چند) ولد چنت رائے گجرات 63 حضرت سید فضل شاہ صاحب 64 خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں 65 حافظ احمد اللہ صاحب مهاجر 66 مرزا غلام اللہ صاحب انصار ساکن قادیان سید فضل شاہ صاحب 67 68 بھائی عبدالرحیم صاحب سپرنڈ نٹ بورڈنگ ہاؤس احمد یہ سکول 69 میر قائم علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحق 70 حافظ محمد ابراہیم صاحب مهاجر 71 احمد دین زرگر مهاجر 72 پیر برکت علی صاحب بردار حضرت حافظ روشن علی صاحب 73 حافظ عبدالرحیم صاحب ساکن مالیر کوٹلہ 74 احمد دین صاحب سنار مهاجر 75 حکیم مفتی فضل الرحمان صاحب مهاجر 76 عبد الرحمن صاحب ساکن پهرد ضلع ہزارہ 77 منشی جھنڈے خان صاحب 78 احمد دین صاحب درزی مهاجر 79 بابو فخر الدین صاحب کلرک ترقی اسلام 80 کشن سنگھ آریہ کیساں والا خطوط حضرت مسیح موعود بنام خلیفه رشید الدین صاحب خطوط سید ناصر احمد شاه رسید فضل شاہ صاحب میری مختصر سوانح حیات 1 i

Page 8

3.2 لکھا خدا اگر راضی ہو.اور مجھے اس بڑھاپے میں شادی سے کچھ فائدہ ہو تو کروں ورنہ کیا ضرورت ہے.اس خیال سے حضرت صاحب سے خط و کتابت کی اور اپنا حال لکھا کہ اگر آپ خدا سے دریافت فرما دیں کہ یہ فرما دیں شادی مبارک ہے تو میں شادی کرلوں.حضرت صاحب نے جواب میں کہ کہ عام طور پر دعا تو ہر ایک سائل کے لئے کر دی جاتی ہے لیکن اگر کوئی خاص کرا دے.تو جب تک اس کا کچھ تعلق اور بوجھ ہمارے ذمہ نہ ہو.ہم دعا نہیں کر سکتے.ہاں اگر آپ کو ضرورت ہے.آپ قادیان آجا ئیں پھر ہم پر بوجھ پڑ جائے گا.ہم دعا کر دیں گے.چنانچہ ڈپٹی صاحب معہ چند آدمیوں کے یہاں آئے اور حضرت صاحب نے ان کو گول کمرہ میں جگہ دی اور وہ وہاں اترے.خوب کھانے ان کے لئے حضرت صاحب کے حکم سے پکتے تھے اور وہ کھاتے تھے حقہ نوشی بھی کرتے تھے.ایک دن شام کو عشاء کے وقت حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا.حامد علی ہم آج ان کے لئے دعا کریں گے.میں نے کہا بہت خوب.حضور میرے فلاں کام کے لئے بھی دعا فرما دیں.آپ نے فرمایا " بہت اچھا تم خود بھی دعا کرنا استخارہ بھی کرنا.ہم بھی دعا کریں گے ".اور اندر تشریف لے گئے.صبح کی نماز کے وقت باہر تشریف لائے.پوچھا کیا وہ سو رہے ہیں.میں نے عرض کیا جی ہاں.فرمایا ”اچھا سونے دو.غرض میں نے اور حضرت صاحب دونوں نے نماز ادا کی.حضور نے فرمایا.میں اندر سے ہو کر اندر کی گلی سے باہر بوہڑ کے نیچے آتا ہوں.تم باہر کے راستے سے آؤ.غرض ہم دونوں بوہڑ کے نیچے جمع ہو گئے.آپ نے فرمایا.ہم نے رات ڈپٹی صاحب کے واسطے بہت دعا کی.دعا تو ہم نے تمہارے لئے بھی کی مگر تمہارے لئے ذرہ کم وقت خرچ کیا.سناؤ تمہیں کچھ خواب آیا.مجھ کو ایک خواب آیا تھا.میں نے سنایا.فرمایا ٹھیک ہے.یہ اسی امر کے متعلق ہے.فرمانے لگے.ڈپٹی صاحب کے لئے بہت دعا کی گئی.مگر پتہ نہیں وہ کہاں چلی گئی.اور تمہارے لئے جو دعا کی اس کا تو نتیجہ معلوم ہو گیا.یہ یاد رکھو کہ ان بڑے آدمیوں نے سینکڑوں خون کئے ہوتے اور صدہا کی گلو تراشیاں کی ہوتی ہیں ان کے لئے دعا آسمان پر نہیں جاتی.یونہی دھکا کھاتی ہے.اور غریبوں کا حساب چونکہ تھوڑا ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے دعا جلد قبول ہو جاتی ہے.غریب ایماندار دولت مند ایمانداروں سے پانچ سو برس پہلے جنت میں داخل ہوں گے.غرضیکہ وہ تین چار روز ٹھہرے حضور دعا کرتے رہے.کوئی الہام نہ ہوا.حضرت صاحب نے فرمایا.دعا بہت کی گئی کوئی الہام نہیں ہوا.آپ استخارہ کر کے نکاح کر لیں.خدا بہتر کر دے گا.چنانچہ ڈپٹی صاحب نے نکاح کر لیا.اور کچھ عرصہ کے بعد پھر خطوط لکھنے شروع کئے کہ حضور دعا کریں خدا ایک لڑکا عطا فرما دے.حضرت صاحب نے پھر لکھا کہ جب تک ہم پر بوجھ نہ پڑے خاص دعا نہیں ہو سکتی.چنانچہ وہ پورے سال کے بعد پھر آگئے اور بڑے ٹھاٹھ کے ساتھ کئی آدمیوں کے ساتھ.غرضیکہ پہلی طرح ان کی بڑی خاطر شروع ہوئی اور حضرت صاحب نے ان کے لئے دعائوں کرنی شروع کی کہ مسجد مبارک کا وہ حصہ جو پہلے بنا ہوا تھا اس کے تین درجے تھے.سب سے اگلا درجہ نماز کے لئے اور درمیانی حصہ میں حضور نے چلہ شروع کیا.تیسرے درجہ میں زینہ کے پاس میری چارپائی

Page 9

5 4 ہوتی تھی.حضور نے روزے رکھنے شروع کئے اور رات کو مسجد کے درمیانی حصہ میں حضور دری پر سو جایا کرتے تھے.چار پائی پر نہ سوتے تھے.غرض گیارہ دن حضور نے دعا کی.اور بہت دعا کی.اور آپ نے ڈپٹی صاحب کو بہت دفعہ نصیحت فرمائی کہ حقہ چھوڑ دو.کم کرتے کرتے.لوگوں سے کم ملا کرو.دن رات میں کم از کم پانچ سو دفعه استغفار پانچ سو دفعه درود شریف پڑھا کرو.غرض گیارہ دن کے بعد الہام ہوا اگر تو بہ نصوحی کرے گا.لڑکا دے دیں گے".آپ نے اس کو فرمایا.یہ الہام ہوا ہے.تو بہ کے ساتھ مشروط ہے.جس رات یہ الہام ہوا.اسی رات میں نے خواب دیکھا اور صبح وہ خواب حضرت صاحب کو سنایا.وہ یہ کہ میں دیکھتا ہوں کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں لڑکا مردہ پیدا ہوا ہے.وہ کہتے ہیں میری بیوی بیمار ہے.سخت تکلیف ہے.حضرت صاحب فورا چلے آویں.توقف نہ ہو.ہرگز ہر گز دیر نہ کریں.حضرت صاحب نے خواب سنا اور خاموش رہے.چنانچہ بارہ بجے دن کے جب ڈاک آئی.حضرت صاحب کے پاس حضرت میر ناصر نواب صاحب کا خط آیا.آپ نے وہ خط دیکھا.اور مجھے حضور نے ساتھ لیا.جہاں آج کل نواب صاحب کی حویلی ہے.اس جگہ گھوڑوں اور گائے بھینسوں کا طویلہ تھا.وہاں مجھے لے گئے.اکیلے ہو کر وہ خط دکھایا اور فرمایا دیکھو تمہارے خواب کا واقعہ سارے کا سارا خط میں درج ہے.فور آ جاؤ.یکہ کرایہ کرو اور چلو.اور حضور نے ڈیٹی صاحب کو بلوا کر رخصت کر دیا اور نصیحت فرما دی اگر تو بہ کرو گے.خد الڑ کا دے دے گا.چنانچہ ڈپٹی صاحب اپنے گھر کو چلے گئے.ہم حضرت صاحب اور میں لودھیانہ کو چلے گئے.اور نو بجے رات کے لودھیا نہ پہنچے اور وہاں ضروری انتظام کیا گیا.ایک سال بعد ڈپٹی صاحب کا خط آیا کہ حضرت میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا.اور سات روز کا ہو کر آج مر گیا.ہزاروں روپیہ لاگیوں وغیرہ کو دیا گیا برباد ہو گیا.عقیقہ نہ کیا.لڑکا مر گیا.میں روتا ہوں اور ساتھ ہی دو بکرے کراکر گوشت تقسیم کر رہا ہوں.حضرت صاحب نے جواب میں تحریر فرمایا.اس میں کچھ حکمت الہی تھی.گھبراؤ نہیں.خدا اور لڑکا دے دے گا.چنانچہ سال بعد ڈپٹی صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا.اور حضور کو اطلاع ملی.فالحمد للہ علی ذالک.حفرات حافظ محمد ابراہیم صاحب حضرت مسیح موعود مسجد مبارک کی چھت پر تھے.ایک شخص نے عرض کیا.حضور سنا ہے کہ مسیح موعود دو فرشتوں کے کندھوں پر نازل ہونگے.وہ فرشتے کہاں ہیں.آپ نے فرمایا دو فرشتوں سے میرا کیا بنتا ہے.میرے ساتھ تو لاکھوں فرشتے ہیں جو دنیا میں تحریک کر کر کے مخلوق کو یہاں لاتے ہیں.یہ بیان حدیث شریف کے مطابق ہے.جس میں لکھا ہے کہ جس سے خدا محبت رکھتا ہے.اس کے متعلق آسمان اور زمین کے فرشتوں کو حکم ہو تا ہے کہ اس سے محبت رکھیں.

Page 10

7 6 روایت ۳ حضرت منشی اروڑے خانصاحب ایک دفعہ حضرت صاحب نے گورداسپور جانا تھا.جب حضور یہاں سے چلے.ساتھ چلنے والے بھی اور دوسرے لوگ بھی ساتھ ہو لئے.جب مڑی کے پاس پہنچے.حضور نے ساتھ چلنے والوں کو فرمایا.چلو آگے.میں اب یکہ میں سوار ہو کر آتا ہوں.تم چلو.واپس ہونے والوں کے ساتھ مصافحہ کر کے فرمایا.جاؤ واپس.میں اب آگے جاتا ہوں.صرف میں اور یکہ والے ساتھ رہے.مجھے حضور نے ٹھہرا لیا تھا.جب سب چلے گئے.میں قریب چاہ سے پانی لایا.حضور قضاء حاجت کے بعد تشریف لائے.اور فرمایا اب یکہ میں سوار ہو جاؤ.اور چلو چلیں.میں نے عرض کیا.حضور مجھے اپنی لڑکی کو ملنے جانا تھا.یہاں تو دیر ہو گئی.اب وہاں جانا واپس آنا پھر حضور کے ساتھ شامل ہونا مشکل ہے.آپ نے فرمایا تم یکہ میں سوار ہو کر چلو اور فارغ ہو کر بٹالہ پہنچو.میں پیدل آتا ہوں.میں نے اصرار کیا بڑا اصرار کیا.آپ نے فرمایا الامر فوق الادب میں یکہ میں سوار ہو کر چلا گیا.چنانچہ لڑکی کو بٹالہ مل کر میں راستہ پر آیا.سینکڑوں آدمی منتظر کھڑے تھے.بٹالہ کے راستہ کی طرف جب میں یکہ لیکر باہر آیا.کیا دیکھتا ہوں کہ خدا کا محبوب ہاتھ میں چھڑی لیکر تن تنہا پیدل چلے آرہے ہیں.آپ کی شفقتوں کو ہم کیا کیا بیان کریں.زبان بیان سے قاصر ہے.روایت ۴ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کو الہام ہوا.ملا وامل یہودا اسکر یوطی ہے.شرمیت آخر وقت تک حضرت صاحب کے پاس آیا کرتا تھا.آپ اندر دالان میں بلا کر اس کے ساتھ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک گفتگو کرتے رہتے.اسی دالان کے نصف میں پردہ کپڑے کا ہو تا تھا باقی نصف میں گھر کے لوگ.روایات ۵ حضرت منشی اروڑے خانصاحب جن دنوں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا.ایک دن مجسٹریٹ کا ارادہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود کو سزا دے دے اور وہ مجسٹریٹ دلی کینہ رکھتا تھا.مگر خدا کی بھی عجیب شان ہے کہ دفعتہ حضرت صاحب بیمار ہو گئے.اور بیماری کے سبب ڈاکٹر نے کچھری جانے سے روک دیا اور اسی طرح وقت ٹل گیا.ورنہ قبل ازیں کئی دوستوں نے منع کیا تھا کہ حاکم کا ارادہ بد ہے.حضور صبح کھری نہ جائیں مگر حضور نے انکار فرما دیا.ایسا نہیں ہو سکتا.خدا ہر وقت ہمارا نگہبان ہے.ہم نہیں رک سکتے.حضور کی عادت تھی کہ جس وقت حضور کو معلوم ہو تاکہ فلاں الہام اسی طرح پورا ہوتا ہے.خواہ اس کے مخالف لاکھ دنیاوی اسباب ہوں یا ظاہرا طور پر ناکافی معلوم ہوتے ہوں یا بے عزتی کا خطرہ ہو.آپ ہر گز نہ گھبراتے

Page 11

9 8 اور تمام جائز طاقتیں الہام کے پورا کرنے کے لئے خرچ کرتے.خبریں وغیرہ منگانے میں خواہ کتنا ہی روپیہ خرچ ہو دے.آپ ہرگز دریغ نہ فرماتے.یہ آپ کے یقین کامل کی نشانی تھی کہ خدا میرے ساتھ ہے.میں نے دوستوں سے سنا ہے کہ حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں مسیح ناصری کی خدائی کو خاک میں ملا کر جاؤں گا.اور یہی وجہ تھی کہ حضور ہر تقریر کرتے وقت مسیح کی وفات کا ضرور ذکر فرماتے تھے.ڈاکٹر مارٹن کلارک والے مقدمہ کے فیصلہ کے دن میں ساتھ تھا.فیصلہ کے وقت حضور باطمینان تمام نماز جمعہ پڑھ رہے تھے.حکم لے کر آدمی پاس آیا.حضور نے نماز سے فارغ ہو کر اس حکم پر دستخط فرمائے اس حکم میں یہ ذکر تھا کہ آئندہ منذر پیشگوئیاں شائع نہ کریں.میں نے عرض کیا کہ حضور اب مشکل ہوگی.آپ نے فرمایا کوئی مشکل نہیں سیلاب کے پانی کسی کے روکے کب رکھتے ہیں.وہ تو اپنے نکلنے کے لئے خود راہ نکال لیتے ہیں.خواہ ان کے لئے کوئی لاکھ روکیں بناوے.ایک راہ نہیں ہو گا دوسرا ہو گا.حضور دہلی میں گئے.جاتے وقت خاص خاص دوستوں کو خط لکھے کہ جس دوست کو خط ملے وہ اگر ہو سکے دہلی پہنچے.ہمارا مباحثہ مولوی نذیر حسین دہلوی سے ہو گا.چنانچہ میں بھی دہلی پہنچا.وہاں معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کا فساد کرنے کا منشاء ہے.اب ہم نے امیر علی شاہ سے جو غالبا انسپکٹر نہیں کر سکتے.مولوی محمد حسین بٹالوی نے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر سے عرض کردی کہ مولوی لوگ روز بحث کرتے ہیں کیا آپ روزان معمولی باتوں کا انتظام کریں گے.چنانچہ انہوں نے کہہ دیا کہ انتظام کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہم مجبور ہیں.اس طرح باتوں میں دیر لگ گئی.میں نے نواب خان سے کہا چلو وقت ہو گیا ہے.حضرت صاحب تو ہمارا انتظار نہ کریں گے.وقت پر مکان مباحثہ پر پہنچ جائیں گے.ہم جلدی جلدی وہاں پہنچے.دیکھا کہ حضرت صاحب گاڑی پر سوار ہو رہے ہیں.عرض کیا گیا.انتظام پولیس کا نہیں ہے.آپ نے فرمایا.ہمیں کیا پر واہ.ہمارا انتظام خدا کرے گا.ہم ضرور جائیں گے ، رک نہیں سکتے.آپ وہاں پہنچے.حضور کے ساتھ گیارہ آدمی ایک لڑکا غرضیکہ صرف بارہ آدمی تھے.ادھر مخالف لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے اور فساد کا بھی سخت اندیشہ تھا.مگر حضور کے چہرہ پر ذرہ بھی خوف یا ملال نہ معلوم ہو تا تھا.آپ بہادروں کی طرح ان کے درمیان جاپہنچے.کسی مخالف کی کوئی شرارت نہ چلی.خدا نے ہر شریر کی شرارت سے حضور کو بچایا.جس دن کرم دین والے مقدمہ کی آخری تاریخ مجسٹریٹ کے ہاں تھی.چونکہ ہم لوگوں کو معلوم تھا کہ مجسٹریٹ حضرت صاحب سے عداوت رکھتا پولیس تھے یا کوئی اور عہدہ دار تھے ذکر کیا.انہوں نے کہا.ہم خوب انتظام ہے.اس لئے جماعت کے لوگوں کو بہت خوف تھا.مگر میں نے دیکھا.امن کا رکھیں گے.غرض جس دن مباحثہ ہونا تھا.میں اور چوہدری نواب خان امیر علی شاہ کے پاس گئے.مگر انہوں نے کہا افسوس ہے ہم کچھ انتظام حضور کے چہرہ مبارک پر ذرہ بھی آثار ملال و خوف نہ تھے.آپ کچھری سے باہر شملتے رہے میں ساتھ تھا.آپ نے مجھ سے یہ گفتگو فرمائی کہ.

Page 12

11 10 ور نظر ہوشیار برگ درختان سبز ہر ورقے دفتری است معرفت کردگار خیال کرو.ایک طرف تو ایک انسان کے واسطے ہر ایک ورق معرفت کا دفتر ہے.اور وہ ہر ایک پتہ سے کیا کیا معرفتیں حاصل کرتا ہے.دوسری طرف بھڑ بھونجے کو دیکھو ایک پنڈ پتوں کی لاکر بھٹی میں جھونک کر راکھ کر دیتا ہے اور ان پتوں سے کوئی معرفت اس کے خیال دو ہم میں بھی نہیں ہوتی.اتنے میں اندر کچھری سے آواز پڑی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام بلا کسی قسم کی گھبراہٹ کے اندر گئے.اندر سے کسی دوست نے جلد ہی کہہ دیا کہ مجسٹریٹ نے پانچصد روپیہ جرمانہ کر دیا.اور جرمانہ ادا بھی کر دیا گیا.حضور تشریف لے چلیں مگر ایک ذرہ بھی گھبراہٹ حضور کے دل میں نہ تھی.میں عام طور پر ہر مقدمہ میں.ہر جلسہ میں ہر ایک مباحثہ میں حضرت صاحب کے ساتھ رہا ہوں.میں ہمیشہ حضور کے چہرہ پر بہادری شجاعت کے صاحب کو عمدہ غذا کھانے کی عادت تھی.ہم لوگ واقف تھے اس لئے ہمیشہ کھانے میں جو چیز عمدہ ہوتی وہ مولوی عبد الکریم صاحب کے آگے کر دیا کرتے.چنانچہ اس دن بھی انڈے وغیرہ مولوی عبد الکریم صاحب کے آگے رکھے) حضرت صاحب نے مجھے فرمایا.منشی صاحب یہ بھی کھائیے (انڈوں کی طرف اشارہ کیا) میں نے ایک لقمہ لگالیا.پھر آپ نے فرمایا.یہ بھی کھائیے.میں نے پھر لقمہ لگا لیا.غرض حضور نے تین چار دفعہ فرمایا.میں نے ہر دفعہ ایک لقمہ لگا لیا.آخر حضور نے میری ران پر ہاتھ رکھ کر نهایت شفقت سے دبایا اور فرمایا اجی منشی صاحب خوب کھائیے.اللہ اللہ کیا شفقت تھی.دنیا میں ایسا شفیق کوئی عزیز نہ کوئی بزرگ میں نے نہیں دیکھا.روایت ۶ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آثار دیکھتا رہا ہوں.میں نے کبھی حضور کے چہرہ سے گھبراہٹ بے چینی ٹپکتی نہیں دیکھی.جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو اپنے مولا کی تائیدوں پر کس قدر کامل بھروسہ تھا.ایک دن مسجد مبارک کی چھت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رونق افروز تھے.شام کا کھانا باہر آیا.حضور نے کھانا کھانا شروع کیا.حضور کے سامنے مولانا مولوی نورالدین صاحب تھے ، برابر پر میں تھا.میرے سامنے حضرت مسیح موعود کو ایک خیال ہر وقت رہتا تھا کہ وفات مسیح پر طرح طرح کے دلائل ہوں تاکہ دنیا کو کامل یقین وفات مسیح پر ہو جائے.ایک دفعہ رات کے بارہ بجے حضرت صاحب اند ریلنگ پر سے اٹھ کر باہر صحن میں آئے اور کسی سے ذکر کیا کہ دیکھو یہ دلیل وفات مسیح پر ہے اور ہمیں ابھی اللہ تعالیٰ نے سمجھاتی ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب فرماتے تھے کہ مولوی عبد الکریم صاحب.ہم چاروں کھانا کھانے لگے (مولوی عبد الکریم میں قریب کے چوبارہ میں تھا.میں نے جب حضرت کو یہ ذکر کرتے سنا میں نے خیال کیا.اللہ اللہ اس شخص کو کس قدر دین کا فکر ہے رات کے بارہ

Page 13

13 12 بجے ایک دلیل سینہ میں آئی اور اس وقت چاہا کہ اس کو دوسروں تک پہنچاؤں.حضرت ام المومنین نے کہا.آپ رات کو بارہ بجے دلیل وفات مسیح سناتے ہیں.صبح کو سنا دیں.آپ نے فرمایا.نہیں معلوم صبح تک کیا ہو دیکھو تو سہی یہ کیا عمدہ دلیل وفات مسیح پر ہے.روایات ۷ حضرت میاں چراغ الدین صاحب لاہوری میرالڑ کا عبد المجید بیمار تھا اور ایسا سخت بیمارا ہوا کہ حکیموں اور ڈاکٹروں نے لاعلاج بتایا اور اس کی شادی میں پندرہ دن باقی تھے.مجھے سخت صدمہ ہوا.میں نے گھبرا کر حضرت صاحب کے پاس دعا کے لئے بذریعہ خط التجا کی.آپ نے فوراجواب لکھا کہ میں نے تمہارے خط کے آنے پر بہت دعا کی اور وہ دعا قبول ہو گئی اللہ تعالی کی شان کہ دو دن کے اندر مرض بالکل جاتی رہی لڑکا راضی ہو گیا.اب تک خدا کے فضل سے زندہ ہے.ایک دفعہ میں قادیان آیا.دو چار دن کے بعد جب جانے لگا تو میں نے سوچا اگر آج نہ جاؤں تو کل دفتر میں دس بجے کے بجائے بارہ بجے حاضر ہو جاؤں گا اور صبح نو بجے کی گاڑی سے چلا جاؤں گا.آج کی رات اور فیض صحبت اٹھاؤں.چنانچہ ٹھہر گیا.صبح کو چھ بجے حضرت صاحب سیر کے لئے نکلے.میں نے اجازت چاہی.آپ نے دعا فرمائی اور اجازت دی.جب میں چلنے لگا.فرمایا منشی صاحب ابھی وقت ہے.آؤ سیر کو چلیں.میں ساتھ ہو گیا.اڑھائی گھنٹہ کے بعد جب سیر سے واپس آئے.مصافحہ کیا اور فرمایا.جاؤ اجازت ہے.میں نے کچھ نہ کہا.اور چپکا ہو کر چلا آیا.یکہ کیا.گیارہ بجے بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچا کیا دیکھتا ہوں.گھنٹی بج رہی ہے.میں نے پوچھا یہ کس گاڑی کی گھنٹی ہے.لوگوں نے کہا لا ہو ر جانے والی گاڑی آج دو گھنٹہ لیٹ تھی، وہ آوے گی، میں نے ٹکٹ لیا.سوار ہو کر آرام سے لاہور پہنچا.ایک دن سیر میں میں حضور کے ساتھ تھا.فرمایا منشی صاحب بہت عرصہ ملازمت کر لی ہے.اب بہتر ہے پنشن لے لو اور قادیان آجاؤ.میں نے عرض کیا بہتر ہے.کل ہی جا کر درخواست دے دوں گا.آپ نے فرمایا.نہیں اتنی جلدی نہیں دو تین ماہ تک لے لینا.میں نے کہا اچھا یہ کہہ کر میرے دل میں فکر ہو گیا کہ یا الہی میں سلسلہ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں.کوئی مضمون میں نہیں لکھ سکتا.واعظ میں نہیں.میرے یہاں آنے سے کیا ہو گا.میں ایسا کم علم ہوں گویا نفی کے برابر.مجھ ایسے انسان کی یہاں کیا ضرورت ہے.میں یہ بات سوچ رہا تھا.اور ذرا پیچھے ہو گیا تھا.میں پھر ہمت کر کے جلدی جلدی چل کر حضور کے برابر ہو گیا.میں دائیں طرف تھا مولوی محمد احسن صاحب بائیں طرف.آپ نے مولوی محمد احسن سے مخاطب ہو کر فرمایا.بعض لوگ خیال کرتے ہیں.ہم امی ہیں قادیان میں جا کر کیا کریں گے.وہ نہیں جانتے کہ آنحضرت " بھی امی ہی تھے.خداوند تعالٰی نے تمام علوم کو حضور کے قدموں کے نیچے ڈال دیا.اور فصاحت و بلاغت حضور پر ختم ہوئی، وہ کتاب لائے اور وہ معارف سکھائے جس سے جہان کے علماء دنگ رہ گئے.یہ خیال درست نہیں کہ کوئی کہے میں امی

Page 14

15 14 ہوں.خدا جب کسی شخص سے کوئی کام لینا چاہتا ہے.خود فہم عطا فرما دیتے ہے.میں حیران رہ گیا.پیچھے واقعہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ حضور نے مجھے پنشن کے لئے فرمایا.جب دو تین ماہ گزر گئے.ستائیس تاریخ انگریزی مہینہ کی تھی.میں دفتر میں کام کرنے گیا.دفعتہ خیال آیا کہ حضرت صاحب نے پنشن کے لئے فرمایا تھا اور وہ وقت جو مقرر فرمایا تھا پورا ہو گیا.میں نے پینشن کی درخواست لکھ کر اسی وقت صاحب کے پیش کی.اس نے بہت اصرار کیا کہ ابھی تم دس سال نوکری کے قابل ہو.میں نہ مانا.اس نے حکم دیا اچھا تین دن ٹھہر جاؤ مہینہ ختم ہو جائے.تنخواہ پورے مہینہ کی لینا.مگر میرے دل میں کچھ ایسا اثر حضور کے فرمان کا ہوا ہوا تھا کہ میں نے انکار کر دیا کہ میں تو ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتا.فرمایا اچھا جاؤ چارج فلاں کلرک کو دے دو.حکم ہو گیا.چونکہ میں کانفیڈ نشنل کلرک تھا.اس لئے چارج نہایت احتیاط سے دیا.اور وہ کاغذات جو ضروری اور سر بمہر رکھے ہوئے تھے.سب کچھ سمجھا کر چارج دے کر میں اسی روز گھر آیا.اگلے روز پتہ لگا کہ دفتر میں چوری ہو گئی اور وہ کانفیڈ نشنل کا غذات چوری ہو گئے.اس شخص کو جو میری جگہ مقرر ہوا تھا.ڈی گریڈ کیا گیا.کچھ دنوں اسے تکلیف ہوئی.اگر میں وہاں ہو تا چونکہ میں پرانا ملازم تھا.میری غلطی تو سخت مواخذہ لاتی.یہ حضور کے فرمان کا اعجاز تھا کہ مجھے اس چوری سے پہلے پنشن پر آمادہ کر لیا.ورنہ میری ساری ملازمت رائیگاں جاتی اور خدا معلوم کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑتیں.ایک شخص لاہور میں تھا جو کہ مہدی بنا پھرتا تھا.لوگوں نے جو شریر الطبع تھے اسے اکسایا.حضرت صاحب لاہور تشریف لے گئے تھے اس نے پیچھے سے آکر حضرت صاحب کو بھی ڈال کر گرانا چاہا.ہم مارنا چاہتے تھے.حضور نے روک دیا.اور فرمایا.اس کو مت مارو.اس کا کیا قصور ہے.اس کو بصیرت ہی نہیں.ایک دفعہ حضور لاہور میں تھے.ایک شخص سراج الدین نامی بازار میں سامنے آیا اور گالیاں دینی شروع کیں اور گالیاں بھی بخش گالیاں حضور کے ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا اسے سونگھتے رہے.وہ گالیاں نکالتا رہا.حتی کے آپ قیام گاہ پر آگئے.وہ بھی وہاں آگیا.اور تقریباً آدھ گھنٹہ وہاں رو برو کھڑا ہو کر سخت نخش بکتا رہا.آپ خاموش بیٹھے رہے.جب چپ ہو گیا.آپ نے فرمایا بس اور کچھ فرمائیے.وہ شرمندہ ہو کر چلا گیا.جس سال میلا رام کے منڈوہ میں حضور کا لیکچرلاہور میں ہوا تھا.اس سال حضرت صاحب میرے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.سامنے آکر ہزاروں مخالف لوگ کھڑے ہوتے ، بعض بد معاش برابھلا کہتے.حضور سنتے مگر کچھ نہ کہتے.ایک بد معاش مولوی جس کا نام ہم نہیں جانتے تھے ، جب حضرت کو ٹھے پر ہوتے سامنے سڑک پر ایک درخت ٹالی کا تھا، وہ اس پر چڑھ کر سخت گالیاں دیتا تھا.(لوگ اس کو مولوی ٹالی کہنے لگے مگر حضرت کچھ نہ کہتے.بلکہ کسی دوست کو بھی کچھ نہ کہنے دیتے.ورنہ اگر حضور اشارہ فرماتے تو نہ معلوم کیا سے کیا ہوتا.کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں حضور کے غلام موجود ہوتے تھے.

Page 15

17 16 ایک دفعہ حضور نے جہلم جانا تھا.راستہ میں کچھ دن لاہو ر بھی ٹھہر نا تھا.جب اسٹیشن پر اترے ہم بہت سے لوگ حاضر تھے.اس سال حضور کے ساتھ حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید بھی تھے.بڑے بڑے لوگ اپنی کو ٹھیوں مکانوں پر تیاریاں کئے ہوئے تھے کہ حضور کو وہاں لے جائیں.مگر جب حضرت اترے میں نے عرض کیا.میرے دو مکان ہیں.ایک شہر میں ہے.ایک یہاں قریب ہی ہے اگر حضور مناسب خیال فرماویں تو میرے اسی قریب کے مکان میں اتر پڑیں.اور یہ خالی ہے.آپ نے فرمایا بہت اچھا.چنانچہ حضور اس عاجز کے مکان پر ہی اترے اور لوگوں کو جواب دے دیا.اور وہاں قیام فرمایا.دوسرے تیسرے روز میں نے موقعہ پا کر عرض کیا کہ حضرت دعا فرما دیں اور یہ مکان مبارک ہو جاوے.اور اگر حضور فرماویں تو بال بچہ کو بھی یہاں لے آؤں.کیونکہ آب و ہوا اچھی ہے.آپ نے فرمایا میں تو اس مکان کو بڑا بابرکت دیکھتا ہوں.کیونکہ میں نے اس میں نمازیں پڑھیں اور اتنی جماعت نے نمازیں پڑھی ہیں.میں تو یہاں نمازیں اور جماعتیں ہوتی دیکھتا ہوں.خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے آج احمدی جماعت لاہور کے چار سو یا پانچ سو افراد اسی مکان میں نماز اکثر اوقات میں پڑھتے ہیں.اور جمعہ بھی اسی مکان میں ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک مخالف نے اخبار میں شائع کر دیا کہ (نعوذ باللہ من ذالک) حضرت مسیح موعود کو جذام ہو گیا.لاہور میں ایک کھلبلی مچ گئی.مخالفوں نے بڑا شور مچایا.گیارہ مخالف لاہور سے تیار ہوئے کہ چلو قادیان تماشہ دیکھ کر آویں.چنانچہ مجھے بھی کچھ بے چینی ہوئی میں بھی چلا آیا.ان گیارہ اشخاص میں سے پانچ اشخاص تو بٹالہ سے واپس ہو گئے کہ چلو جی سنا ہے مرزا صاحب جادو کر دیتے ہیں کہیں ہم کو جادو سے مرید نہ کرلیں.چھ ان میں سے قادیان کو آئے.میں ان لوگوں سے پہلے یکہ پر بیٹھ کر قادیان آگیا تھا.جب میں آیا حضرت صاحب کو خدا کے فضل سے خوش و خرم تندرست پایا.مگر میں نے کچھ ذکر نہ کیا.تھوڑی دیر کے بعد وہ چھ آدمی لاہور والے آگئے.تو جب وہ اگر حضور کی مجلس میں بیٹھے انہوں نے کچھ ذکر نہیں کیا تھا کہ حضور نے پاجامہ کھینچ کر اپنی ایک پنڈلی سنگی کردی اور جو اصحاب پاؤں دبا رہے تھے ان کو کہا خوب دباؤ.پھر حضور نے دوسری پنڈلی اسی طرح ننگی کر دی.اسی طرح حضور نے دونوں بازو کہنیوں تک خود بخود یکے بعد دیگرے ننگے کئے.پھر حضور نے کرتہ مبارک اٹھا کر اس کو پنکھے کی طرح ہلایا.جس سے حضور کا پیٹ ننگا ہو جاتا تھا.جب حضور نے یوں کیا.وہ لاہوری بولا.اٹھے.کیسے بد معاش ہیں (یعنی اخبار والے لاہور کے) کیسا جھوٹ شائع کیا ہے.حضرت صاحب کچھ نہ بولے.پھر ان میں سے دو تین آدمیوں نے بیعت کر لی.باقی یونہی چلے گئے.روایت ۹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک دفعہ حضور دہلی میں تشریف لے گئے.مخالف لوگوں نے بڑی بڑی شرارتیں کرنی چاہیں حتی کہ قتل کا ارادہ کر لیا.پولیس نے بڑا کافی انتظام کیا.جب نہایت ہی تشویش بڑھی.انسپکٹر پولیس خود حضور کے ساتھ ہو

Page 16

19 18 سلام پہنچایا ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ جب مسیح مہدی آوے اس کو میرا اسلام علیکم پہنچانا.آپ نے تبسم لب ہو کر فرمایا لیا.اور پولیس دونوں جانب ایک راستہ بناتی جاتی تھی.انسپکٹر پولیس ساتھ تھا.حضور کو مکان تک پہنچا کر وہ لوگ واپس گئے.صبح جمعہ تھا.(ان دنوں نماز الگ نہیں پڑھتے تھے.آپ جامعہ مسجد دہلی کو صرف ایک آدمی ہمراہ لیکر الحمد للہ یہ پیشگوئی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تھی ، پوری ہو گئی.چلے گئے اور کچھ خوف نہ کیا جو آدمی ساتھ تھا.اس نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب نہایت تیز قدمی سے چلے گئے اور بالکل بے خطر جب مسجد کے دروازے پر پہنچے.وہاں ہجوم تھا.روایات ۱۰ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سابق سردار جگت سنگھ ایک دفعہ حضرت صاحب امرتسر گئے وہاں لیکچر کی تجویز ہوئی.جب حضور لیکچر دینے کے لئے گئے.وہاں باوجود پولیس کے انتظام کے لوگ نہ ہے.بلکہ پتھر مارنے شروع کئے.آخر پولیس نے کہا.ہمارے قابو سے بات باہر ہو گئی ہے.آپ تشریف لے چلیں.چنانچہ حضور کو بند گاڑی میں بٹھایا گیا.اور لوگ زور زور سے پتھر پھینکتے تھے.اس قدر زور سے لوگ ادھر ادھر سے پتھر مارتے تھے کہ گاڑی کی طاقی کو زور سے ہم کھینچ کر اوپر لے جاتے مگر لگائی نہ جاتی.پتھروں کے مارے نیچے گر جاتی.مگر یہ عجیب خدا کا فضل تھا کہ بارش کی طرح پتھر بر سے مگر احمدی جماعت کے کسی فرد کو کوئی پتھر نہ لگا.بلکہ جب بھی کسی مخالف نے مارا یا زمین پر گرا یا گاڑی پر یا کسی دوسرے مخالف کے ہی لگا.جس وقت پتھر پڑ رہے تھے ، ایک آدمی نے زور سے السلام علیکم کہا.آپ نے فرمایا.وعلیکم السلام.اس نے کہا میں نے وہ پتھر بھی قوم نے برسائے.سلام علیکم بھی پہنچ گیا.آپ اس وقت ذرہ بھی نہیں گھبرائے.روایات " ملا وامل ایک شخص میر عباس علی نامی لودھیانہ کے تھے.وہ مرزا صاحب کے بڑے مخلص آدمی تھے.ابتدا میں.بعد میں نہ معلوم وہ کیوں مخالف ہو گئے.ایک دفعہ ان کا خط مرزا صاحب کے پاس آیا کہ آپ کے لودھیانہ آنے کے وقت سے میرے ساتھ بڑی مخالفت شروع ہوئی ہے.لوگ بری بری گالیاں دیتے ہیں اور لڑتے رہتے ہیں.آپ نے جواب لکھا.وہ جواب میں نے دیکھا.اس میں ایک شعر تھا.جو یہ ہے.گر مجنوں صحبت خواهی به بینی زود تر خار ہائے دشت و تنہائی و طعنه عالی اور جہاں تک میرا خیال ہے.خط کا مضمون اس شعر میں آہی گیا.

Page 17

21 20 روایت ۱۲ ساتھ تھے نیچے بہت سے لوگ حضور کے ساتھ ہو لئے.ملاوامل نے قریب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہو کر کان میں کہا.ان لوگوں کو منع کر دو.آپ نے زور سے فرمایا.میں اور ایک دفعہ حضرت صاحب کو کھانسی ہو رہی تھی.دوائی میں پلایا کرتا تھا ملاوائل اور ڈاکٹر عبداللہ صاحب جائیں گے.سب لوگ واپس ہو گئے.کئی کئی دفعہ دن میں اور کئی دفعہ رات کو اٹھ اٹھ کر میں حضرت صاحب کو معلوم ہوا کہ شرمیت بیمار ہے.آپ شرمیت کے مکان پر پہنچے.وہاں جا کر دوائی دیا کرتا تھا.میں دن میں حضور کے پاس گیا.کیا دیکھتا ہوں حضور سیب آپ نے اس کو دیکھا.میں نے بھی دیکھا.شرمیت کے ناف کے اوپر پھوڑا کھا رہے ہیں.میں نے عرض کیا.یہ ترش ہیں اور کھانسی اور زیادہ ہوگی.تھا.آپ نے مجھ سے فرمایا دیکھا.میں نے کہا حضور چیرا دیا جائے گا.آپ مجھے خیال تھا کہ اگر بیماری زیادہ ہوئی مجھے بار بار اٹھنے کی اور تکلیف ہوگی.نے فرمایا ملاوامل تم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جاؤ.یہ اوزار لے آویں گے آپ مسکراتے جاتے تھے.میں نے پھر عرض کیا.حضرت اس سے کھانسی اور چیرا دے کر دوائی وغیرہ لگا دیا کریں گے.حضور واپس تشریف لے گئے.زیادہ ہوگی اور یہ ترش ہے.آپ پھر کھانے لگے اور ہنستے جاتے تھے.آخر میں نے چیرا دیا.بڑی پیپ وغیرہ نکلی زخم بڑا تھا.ایک ماہ سے کچھ دن زیادہ میں مجھے فرمایا ابھی الہام ہوا ہے کہ احتیاط کی ضرورت نہیں اب آرام ہو علاج ہو تا رہا.آخر میں آکر زخم مسور کے دانہ کے برابر رہ گیا.مگر وہ ٹھیک جائے گا.میں اس حکم کی تعمیل میں کھاتا ہوں.ہونے میں نہیں آتا تھا.ایک دن میری بیوی نے سنایا کہ میں نے خواب میں دیکھا.ایک مسور کے دانہ کے برابر زخم ہے وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں روایات ۱۳ ڈاکٹر عبد اللہ صاحب ایک دن دوپہر کے وقت میں مسجد مبارک میں گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ شرمیت کا زخم ہوں اور ایک وجہ سے راضی نہیں ہو تاور نہ کبھی کا راضی ہو جاتا.وہ وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس روپیہ ابھی نہیں ہے جو فیس دے.اس لئے راضی نہیں ہوتا.اسی واسطے مجھے جلایا جاتا ہے.میں نے خواب سے ملاوائل مسجد میں کھڑا ہے.میں نے پوچھا تم کیوں کھڑے ہو کہا.مرزا معلوم کیا کہ فیس کا تقاضا کروں.مگر چونکہ حضرت صاحب کا دخل تھا.میں صاحب کو بلایا ہے.میں بھی ٹھر گیا کہ زیارت کرلوں گا.تقریباً دس منٹ نے سوچا اجازت حضرت صاحب کی ضروری ہے.میں نے حضرت مولوی کے بعد حضرت صاحب تشریف لائے.حضور نے اندر سے آتے ہی السلام عبد الکریم صاحب سے ذکر کیا.آپ نے فرمایا فیس کیوں چھوڑنی ہے لے علیکم کہا.میں نے و علیکم السلام کہا.حضور نے فرمایا اچھا تمہاری ہی ضرورت لو.میں نے کہا جب ایک جلیل القدر عالم کہتے ہیں لے لوں.چنانچہ میں نے تھی (میں خاموش رہا بوجہ ادب کے) آپ نیچے اترے.میں اور ملاوائل اگلے دن شرمیت کو ہنستے ہوئے کہا کہ لالہ جی زخم تو تقریباً اچھا ہو گا مگر دو

Page 18

23 22 کہاں سے میں نے عرض کیا.رات بٹالہ تھا اب آیا ہوں.فرمایا پیدل.میں نے عرض کیا ہاں.آپ نے فرمایا کتنی رخصت.صرف دو دن.اوہو.تکلیف ہوئی ہوگی.میں نے عرض کیا حضرت کوئی تکلیف نہیں.آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ.چاء پیو گے یا لسی.میں نے کہا نہیں حضرت.آپ نے فرمایا تکلف کی ضرورت نہیں.ہمارے گھر میں گائے ہے وہ تھوڑا سا دودھ دیتی ہے.ہمارے گھر کے لوگ دہلی گئے ہوئے ہیں.کسی بھی موجود ہے چاء بھی.جو چاؤ سوپی لو.میں نے کہا اچھا حضرت لسی پی لونگا.آپ نے فرمایا چھا چلو مسجد مبارک میں بیٹھو.چنانچہ میں مسجد میں آیا.اور بیٹھ گیا.تھوری دیر بعد بیت الفکر کا دروازہ کھلا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت صاحب نکلے اور آپ روپے روزانہ فیس کے حساب سے ساٹھ ستر روپے فیس دلوائیے.اس نے کہا بہت اچھا دیں گے.اگلے دن گیارہ بجے ایک آدمی میرے پاس آیا کہ حضرت صاحب بلاتے ہیں.میں مسجد مبارک میں گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں حضرت صاحب اور شرمیت بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا ڈاکٹر صاحب لالہ شرمیت کے ذمہ تمہاری فیس کے ساٹھ ستر روپے ہو گئے.میں نے کہاہاں حضور ہو تو گئی ہے.آپ نے فرمایا.اچھا میں کہتا ہوں تم معاف کر دو.میں نے عرض کیا بہت اچھا حضور میں نے معاف کیا.پھر میں نے اپنی بیوی کا خواب متذکرہ صدر سنایا.حضور ہنس پڑے اور فرمایا مجھے ایک دن سخت درد پیٹ میں ہوتی تھی.درد کے درمیان آنکھ لگی.میں دیکھتا ہوں ایک شیشی ہے.وہ کہتی ہے ” خاکسار پیپر منٹ" پھر آنکھ کھل گئی.میں سمجھ گیا.نے ایک ہانڈی کو ری معہ کوری چینی کے جس میں لسی تھی اٹھائی ہوئی ہے.پیپر منٹ منگا کر کھایا.فوراً آرام ہو گیا.ایک دفعہ میں لاہور سے دودن کی چینی پر نمک ہے نمک پر گلاس ہے.حضور نے لا کر میرے آگے رکھا اور خود گلاس میں کسی ڈالنے لگے.مجھے حضور کی شفقت پر کمال خوشی ہوئی.میں نے گلاس پکڑ لیا.اتنے میں چند دوست اور آگئے.میں نے خود بھی وہ لسی پی.اور اور دوستوں کو بھی پلائی.پھر حضور خود وہ ہانڈی اور گلاس اندر لے گئے.یہ حضور کے اخلاق فاضلہ کی ایک ادنیٰ مثال ہے.رخصت لیکر آیا.شام کو بٹالہ اترا.رات کو بٹالہ رہا صبح اول وقت اٹھ کر چلا.نماز فجر راستہ میں پڑھی.سورج نکلا ہی تھا کہ قادیان آگیا.میں بازار کی طرف آرہا تھا کہ جب میں مسجد کے سامنے سے بڑی حویلی کے پاس آیا.سامنے جہاں آج کل حضرت میاں شریف احمد صاحب کا چوبارہ ہے.اس کے پاس والے مکان کی جگہ سفید زمین پڑی تھی.وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مزدور کچھ اینٹیں سی نکال رہا ہے.اور حضرت صاحب اس کے پاس کھڑے ہیں.میں نے حضرت صاحب کو دیکھا.حضرت صاحب نے مجھے دیکھ لیا.آپ فور مزدور کے پاس سے آکر راستہ پر کھڑے ہو گئے.میں قریب گیا.السلام علیکم کہا.آپ نے وعلیکم السلام فرمایا.اور کہا اس وقت روایت ۱۴ احمد نور صاحب مهاجر کابلی ایک دفعہ بارش بہت کثرت سے ہوئی اور مینہ بند نہ ہو تا تھا.تھوڑے دنوں بعد پھر بارش ہو جاتی.میرا امکان چونکہ ڈھاب کے کنارہ پر تھا.وہاں

Page 19

25 24 پانی بہت چڑھ آیا.اور اگر ایک دو بارش اور ہوتی تو قریب تھا کہ پانی اندر تک پہنچ جاتا اور مکان گر جاتا.ہمیں بڑی تشویش تھی.لوگوں نے حضرت صاحب سے ذکر کر دیا.ایک دن صبح کے وقت حضور سیر کر کے واپس آئے.ام المومنین ساتھ تھیں.اور بھی عورتیں ساتھ تھیں.حضور ہمارے مکان میں آپہنچے.ہاتھ میں سوٹا تھا (اللہ اکبر کیا وقت تھا) ام المومنین کے ساتھ آپ مکان کے اندر گئے اور پوچھا.پانی آگیا.پانی آگیا.عرض کیا گیا.ہاں حضور پانی قریب ہی آگیا اور مکان گرنے کا بہت ہی حضرت صاحب نے اسے تین دفعہ منع کیا یہ باز نہ آیا خیر وہ مل کر چلا گیا.آخر چند دن کے بعد وہ وہاں پلیگ سے مرگیا اور اس کو یہاں واپس آنا نصیب نہ ہوا.روایات ۱۵ حضرت میر ناصر نواب صاحب ایک دفعہ مجھ کو درد قولنج ہوا.اور بڑی تکلیف تھی.حضرت میرے اندیشہ ہے.فرمایا اچھا اللہ آپ پر رحم کرے گا.اب بارش کے بند ہونے پر پاس آئے اور دعا شروع کی (میاں اسماعیل بھی میرے پاس تھے.وہ میرے تم مٹی اور ڈال لینا.اب اللہ رحم کرے گا.چنانچہ ایسا فضل الہی ہوا کہ درد اور تکلیف کو محسوس کر کے روتے تھے.میاں اسحاق بھی میرے پاس بارش ایک عرصہ کے لئے بند رہی.ڈھاب میں پانی اتر گیا.ہم نے خاصی تھے.وہ میاں اسماعیل کو روتے دیکھ کر کہتے تھے.اس کو کیا ہو گیا.یونہی مٹی ڈال لی.اس دن سے آج تک ہمارے مکان کو پانی کا خطرہ نہیں ہوا.روتا ہے) حضرت صاحب نے دیر تک دعا کی.دعا کرتے کرتے درد جاتا رہا ایک دفعہ میرا ایک عزیز جو جہلم رہتا تھا.یہاں آیا ہو ا تھا.اتفاقاً وہاں اور آرام ہو گیا.پلیگ ہو گئی.اس نے حضرت صاحب سے اجازت چاہی آپ نے فرمایا وہاں پلیگ ہے یہاں ہی ٹھہرو.وہ دو تین دن ٹھہرا.پھر عرض کی.آپ نے فرمایا وہاں طاعون ہے ٹھہرو.اس نے دو تین دن کے بعد پھر عرض کیا.آپ نے جس سال سخت زلزلہ آیا.میری بیوی اور میری لڑکی (ام المومنین) دونوں بہت خوفزدہ تھیں اور روتی تھیں کہ میاں اسماعیل کہیں زلزلہ میں مر نہ گئے ہوں.حضرت صاحب نے سنا تو فرمایا ہمیں الہام ہوا ہے کہ فرمایا وہاں طاعون ہے ٹھہرو.اس نے دو تین دن بعد پھر عرض کی اب تو اسٹنٹ سرجن" جب تک اسٹنٹ سرجن نہ ہو کس طرح مر سکتا وہاں کچھ آرام ہے.آپ نے فرمایا اچھا جاؤ.اس نے مجھ سے کہا.اجازت ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.میاں اسماعیل ہر بلا سے محفوظ رہے اور بفضل الہی ہو گئی.میں حضرت صاحب کے پاس گیا اور پوچھا.آپ نے فرمایا.ہاں وہ آج تک خوش و خرم ہیں.کہتا تھا، اجازت دے دی.میں اپنے گھر آیا.وہ جانے کو تیار تھا.میں نے جب حضرت مرزا صاحب کی شادی میری لڑکی سے ہوئی.وہ پہلی بار یا اپنی بیوی اور بھا وجہ سے کہا اس سے مل لو.امید نہیں یہ پھر آوے.دوسری بار یہاں ( قادیان) آئی ہوئی تھی.میں اس کو لینے کے لئے آیا مرزا

Page 20

27 26 صاحب نے اس کو رخصت کر دیا.ایک میں تھا ایک میری لڑکی (ام ایک سپاہی کو حکم دے گیا کہ اس خانہ کو چابی لگارو.اور جب تک گاڑی نہ المومنین) ایک خدمتگارہ جو مرزا صاحب نے ساتھ بھیجی تھی.جاتے وقت چلے یہاں کھڑے رہو.کوئی اور آدمی سوار نہ ہونے پارے ایسا ہی ہوا ہم کو خرچ معمولی دیا جس سے کہ ہم تھرڈ کلاس کے ٹکٹ لے سکتے تھے.گاڑی چلدی.جالندھر چھاؤنی کے سٹیشن پر ایک بابو آیا.چابی کھولی اور بٹالہ جاکر میں نے دہلی کے تین ٹکٹ تھرڈ کلاس کے لئے اور اپنی لڑکی (ام ایک آدمی کو اندر داخل کیا کہ یہاں بیٹھ جا.ابھی وہ بیٹھنے نہ پایا تھا کہ پھر اس المومنین) سے کہا.تم اور خدمتگارہ زنانی گاڑی میں بیٹھ جاؤ.میں مردانی بابو نے اس پکڑ کر کھینچ لیا اور کہا.آ اور جگہ بٹھاؤں اور خانہ کو چابی لگا کر چلا گاڑی میں بیٹھوں گا.انہوں نے انکار کیا کہ میں اکیلی نہیں ہوتی میں آپ گیا.غرض اسی طرح غازی آباد تک ہم تینوں بیٹھے رہے.وہاں نماز فجر کا کے ساتھ بیٹھوں گی.مجھے تکلیف معلوم ہوئی کہ جب یہ ساتھ بیٹھے گی وقت ہو گیا.ہم نے اتر کر نماز پڑھی.وہاں سے پنجاب لائن اور دہلی لائن کا لوگ ساتھ آ بیٹھیں گے.اس کو بھی اور مجھے بھی تکلیف ہو گی.خیر ہم ایک کچھ حساب تھا.وہ گاڑی میں آدمی گن گن کر ہر ایک خانہ میں دس دس خالی سے خانہ میں بیٹھ گئے.امر تسر پہنچے.اسٹیشن سے پرلی طرف ایک باغیچہ بٹھایا کرتے تھے.میں نے سوچا یہاں تو وہ ضرور دس پورے بٹھا دیں گے.میں بیٹھ رہے کیونکہ گاڑی نے رات کے وقت جانا تھا.وہاں بیٹھ کر میں نے جب ہم نماز پڑھ کر گئے.اپنا خانہ خالی پایا.دیر تک بیٹھے رہے کہ اب کوئی دعا کی.بار خدایا.اگر مرزا اپنے دعوئی میں سچا ہے (اس وقت میں نہ مرزا ہمارے خانہ میں آدمی بٹھا رے بابوؤں نے اور ساری ریل میں حساب صاحب کا مرید تھانہ معتقد) اور تجھے اس کی عزت منظور ہے تو مجھے ایک نشان کر کے دس دس آدمی فی خانہ پورے پورے بٹھائے.مگر ہمارا خانہ دلی تک دکھا کہ میں اور میری لڑکی (ام المومنین) اور اس کی خدمتگارہ مینوں ہی ایک اسی طرح رہا.ہم دہلی بخیر و عافیت اتر گئے.خانہ میں بیٹھے چلے جائیں.اور دہلی تک کوئی مرد ہمارے خانہ میں آکر نہ بیٹھے کیونکہ لوگوں کے دل تیرے تصرف میں ہیں.سٹیشن پر ڈپٹی فتح علی اور روایت ۱۶ حافظ محمد یوسف جو مرزا صاحب کے معتقد تھے مجھے مل گئے.انہوں نے کہا.شام کا کھانا ہم لاویں گے.میں نے منظور کر لیا وہ شام کو کھا نالائے ان کے حافظ ابراہیم صاحب رض ایک دفعہ حضرت صاحب گورداسپور مقدمہ کی وجہ سے گئے ہوئے ساتھ ان کے دوست ڈپٹی انسپکٹر پولیس سٹیشن بھی ساتھ آیا.انہوں نے ہم تھے.وہاں عدالت کے باہر بیٹھے تھے.ایک سائل نے سوال کیا واذ کو کھانا کھلایا اور ہمارا اسباب خود اٹھا کر ہم کو گاڑی میں سوار کر دیا.وہ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُ وَ الأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيس اس کے کیا رخصت ہو گئے.مگر ڈپٹی انسپکٹر پولیس وہاں کھڑا رہا.آخر جب وہ جانے لگا معنی ہیں.کیا شیطان خدا کے تصرف سے باہر تھا.مخلوق نہ تھا.جو انکار کیا.

Page 21

29 28 آپ نے فرمایا.نہیں یہ بات نہیں.مشاہدات اس کے گواہ ہیں.جس قدر شیطان کے مرنے کے دن ہیں.نورانی ستارہ اور سیارہ ہیں اور بڑے بڑے جیسے سورج اور چاند.سب نورانی مخلوق زمین کو سجدہ کرتی ہے.ان کی شعاعیں اور ان کی تاثیرات اور ان کے عکس سب زمین پر پڑتے ہیں.اور آگ کی شعاع او پر کو اٹھتی ہے.اس میں نیچے کو جھکنے کا خاصہ ہی نہیں ہے.شیطان نے اپنے آپ کو آگ روایت ۱۷ حضرت منشی اروڑے خانصاحب ایک شخص بٹالہ میں محمد بخش نامی تھانیدار تھا.اس نے حضرت مسیح سے نسبت دی ہے.وہ کیسے سجدہ کرتا.وہ تو ناری مخلوق سے ہے جس کا موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مقدمہ حفظ امن کے خلاف کرنے کا چلایا.اور زمین پر جھکنا کام ہی نہیں ہے.تکبر اور نخوت اس کا زحل ہے.(اس کو سزا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی.غرض محمد بخش تھانیدار کی یہ شرارت تھی اور اس کی شرارت سے حضرت صاحب کو بہت اباء اور استکبار کی ہی ہے) ایک دن حضرت صاحب دن کے دس بجے مسجد مبارک میں آئے.اور تکالیف کا سامنا ہوا آخر مقدمہ میں حضور بری ہو گئے.مگر جو جو لوگ اس مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب بیٹھے تھے.میں بھی موجود تھا.شرارت میں کوشاں تھے وہ ناکام و نامراد ہوئے اور ہلاک ہو گئے.مگر محمد آپ نے تشریف لا کر مولوی صاحب سے فرمایا.آج میں اس آیت پر غور بخش تھانیدار مذکور کے بیٹے نے فیصلہ مقدمہ سے کچھ عرصہ بعد آخر حضرت کر رہا تھا قَالَ رَبِّ أَنْظِرْ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُون اور اس کے معنی پر توجہ صاحب کی بیعت کر لی.جب وہ بیعت کر چکا تو حضرت مولانا مولوی نور الدین کر رہا تھا.کہ بعث کے معنی کیا ہیں.اگر دن بعث تک شیطان رہے گا.یعنی صاحب نے عرض کر دیا کہ حضرت یہ لڑکا جس نے بیعت کی ہے محمد بخش تھانہ جب آسمان زمین فنا ہو جاویں گے.ساتھ ہی ملائکہ بھی اور جب دوبارہ دار بٹالہ کا بیٹا ہے.آپ نے فرمایا اچھا ہم نے آج اس کے باپ کا قصور سب لوگ اٹھیں گے.تو اس وقت شیطان مرنے لگے گا.تو کیا شیطان باقی معاف کیا.رہے گا.اس کا اصل مطلب مجھے سمجھایا گیا کہ یہ بعث وہ بعث نہیں.بلکہ آخری زمانہ کے بعث کا مطلب ہے.یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں انسانوں روایت ۱۸ کا انتہائی بعث ہے اور وہ شیطان کے مرنے کا دن ہے.اور نبی کریم صلی اللہ حافظ ابراہیم صاحب ایک دفعہ گرمی کے موسم میں حضور مسجد مبارک میں شاہ نشین پر زمانہ میں شیطان اور مسیح موعود کی جنگ ہوگی.اور یہی بعث ہے اور یہی تشریف فرما تھے.اور بہت سے لوگ موجود تھے.مغرب اور عشاء کے علیہ وسلم نے اور پہلے انبیاء علیہم السلام) نے خبر دی ہے کہ اس آخری

Page 22

31 30 درمیان حضور نے فرمایا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ کی زندگی کے دو حصے ہیں.ایک ظاہری لوگوں کے لئے ایک باطنی لوگوں قبْلِهِمُ اس میں جناب الہی نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تم میں سے نیک کے لئے.ظاہری لوگوں کے لئے جو حصہ ہے اس پر لوگوں نے قسم قسم کی اعمال کریں گے.ہم ان کو اسی طرح خلیفہ کریں گے جس طرح ہم نے سوانح لکھی ہیں.مگر ہم کہتے ہیں کہ آپ خاتم النبین اور آخر الزمان کس پہلوں کو خلیفہ کیا.اس کما کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس امت طرح ہو سکتے ہیں.کیا آپ کے بعد نسل انسانی کا خاتمہ ہے یا زمانے آپ کے کے خلفاء بالکل پہلی امت کے خلفاء کے مشابہ ہونگے.اور ادھر ہم دیکھتے بعد ختم ہو گئے.نہیں بات اصل میں یہ ہے کہ آپ کی ۲۳ سالہ عمر میں جو عمر ہیں کہ کسی نے اس امت میں تیرہ سو برس تک دعوی نبوت نہیں کیا.تو پھر نبوت ہے.تمام آئندہ آنے والے زمانوں کا نقشہ ہے.یہ تیرہ سو برس جو یہ شبیہ کامل اور اکمل اور اتم طور پر صادق نہیں آتی.اور اس کے پورا اب گزر چکے ہیں یہ حضور کے ان تیرہ برسوں کے مشابہ تھے.جو مکہ کے تیرہ کرنے کے لئے چودھویں صدی پر جناب الہی نے مجھے مبعوث فرمایا.اور برس تھے.اس چودھویں صدی سے حضور کی مدنی زندگی کے مشابہ شروع جس قدر اسرائیلی انبیاء علیہ السلام ہیں.سب کے نام میرے پر استعمال کئے ہوتے ہیں.اس تیرہ سور برس کے عرصہ میں اگرچہ اسلام کو بڑی بڑی تا کہ اس تشبیہ کی تکمیل ہو جائے.چنانچہ آدم ، نوح ، داؤد اور سلیمان فتوحات میسر آئی ہیں.اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سال مصائب کے یہاں تک کہ آخری خلیفہ مسیح کے نام سے مجھے بار بار پکارا تا کہ اس تشبیہ کی تھے.کیونکہ جس قدر اعتراضات کا ذخیرہ ہے.وہ اتنی صدیوں میں تیار ہوا پوری تکمیل ہو جائے.جس طرح ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اسی قدر اعتراضات اسلام پر تیرہ سو برس میں ہوئے جس کا ازالہ اب خاتم النبین اور جامع کمالات تھے.چاہئے تھا کہ اسی رنگ سے اس کا خلیفہ ہم کو مشکل ہو گیا ہے.یہ دس سو سال جس کا شروع چودھویں صدی سے خاتم الخلفاء اور جامع کمالات انبیاء علیھم السلام ہوتا.کیونکہ رسول اللہ کو ہے.مدنی زندگی کے مشابہ ہیں.یہ ساتواں ہزار ہے.اور اس کے بعد دنیا کا موسیٰ سے تشبیہ دیگر جناب الہی نے کما کا لفظ استعمال فرمایا ہے.جب خاتمہ ہے.اس لئے آپ خاتم النبین تھے کہ تمام آنے والے زمانوں کا مثیل موسیٰ جامع کمالات ہے.تو اس کی امت میں خلیفہ کا مثیل کیوں نقشہ آپ کی عمر میں تھا.اس لئے نبی آخر الزمان اور خاتم النبین تھے.اور جامع کمالات نہ ہو.ایک دفعہ حضرت نے انہی ایام میں فرمایا کہ میں نے یہ دس سو سال اسلام کے غلبہ کے لئے پیدا شدہ اعتراضات کے دفعیہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کیا ہے.جو آپ کی تیئیس سالہ عمر نبوت ہے.اس کے اندر ایک نقشہ ہے.ایک زمانہ کا.اور آپ لئے ہیں.

Page 23

33 روایت ۲۱ 32 روایت ۱۹ احمد دھرم کوٹ رندھاوا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں مولوی عابد علی شاہ صاحب کے ساتھ دارالامان آیا.ہم مسجد جس دن میاں فضل احمد صاحب کا انتقال ہوا.کسی نے اندر آکر حضرت مبارک میں تھے.حضرت صاحب تاکی سے نکلے نماز ظہر کے لئے.السلام مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اطلاع دی.میں نے اس وقت حضور کے علیکم فرمایا.اور تشریف فرما ہوئے.آپ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو.نیز چہرہ مبارک کی طرف دیکھا.آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے.فرمایا.حضور نے پوچھا.تمہارا بال بچہ راضی ہے.بڑی محبت سے حضور نے کلام اس نے ہمیشہ اطاعت ہی کی اور میری بیماری کے وقت میں بھی اکثر آکر فرمایا.خدمت کرتا رہا.مگر چونکہ بیعت نہ کی تھی، اس لئے حضور نے جنازہ نہ پڑھایا اور نہ کسی احمدی کو جنازہ میں شامل ہونے کا حکم دیا.روایت ۲۰ حافظ حامد علی صاحب حضرت صاحب نے فرمایا ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اور وہ بادشاہ مجھے دکھائے گئے." ایک دن حضور نے فرمایا جو لوگ تم میں سے ایک پیسہ دیتے ہیں عنقریب ایک وقت آوے گا کہ اس پیسہ کے برابر سونے کا پہاڑ فضیلت نہ رکھے گا.اور اس نظارہ کو تم میں سے کئی ایک دیکھیں گے.ایک دن مرزا سلطان احمد صاحب نے مسماۃ بھاگ بھری کو کہا کہ جاؤ حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے.ان کی خبر لاؤ.جس وقت وہ آئی میں روایت ۲۲ موجود تھا.اس نے عرض کی کہ میاں سلطان احمد صاحب نے حضور کی مزاج پرسی کے لئے بھیجا ہے.آپ نے فرمایا.کون سلطان احمد.اس نے عرض مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری حضرت صاحب میر کے لئے تشریف لے جارہے تھے.ایک دوست نے کی حضور کا بیٹا.آپ نے فرمایا ہمارا بیٹا کہو.خادم یا دوست ہمارا تو یہ حامد علی سوال کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسی باتیں بھی اللہ ہے جو ہر وقت حاضر خدمت رہتا ہے.نے بتائی تھیں جن کی عام لوگوں میں پہنچانے کی ممانعت تھی.امام جوزی یہ روایت ہے.آپ نے فرمایا.قرآن میں آتا ہے بلغ مَا اُنْزِل الیک اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کسی طرف وحی ނ i

Page 24

35 34 الہام کرے وہ پہنچایا جائے.اور سب پہنچایا جائے.میں نے عرض کیا کہ صحیح ہوگا.کیونکہ این عزم الملوک یعنی وہ شاہی عزم کہاں ہے.اس نے کہا.کہ بس اب میں اقرار پر قائم رہوں گا.چنانچہ وہ تھوڑی مدت میں تندرست ہو گیا.فرمایا اسی طرح مومن کو عزم اور استقلال چاہئے.آپ کی طرح اگر شیخ عبد القادر جیلانی یا بادا صاحب یا دوسرے اولیاء اللہ عزم اور استقلال نہ کرتے.تو اس درجہ تک کہاں پہنچتے.آپ تذکرۃ الاولیا کو بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ مجھے دو علم کے برتن جناب مستجاب سے ملے.ایک تم پر ظاہر کر دیتا ہوں ایک اگر ظاہر ہو جائے تو تم میرا گلا کاٹ دو.اس سے ثابت ہو تا ہے کہ بعض علوم مخفی تھے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ روایت مطابق روایت ہے؟ تم بتاؤ کیا یہ دیکھیں.اس میں ذکر ہے کہ کس حد تک انہوں نے ریاضتیں کیں اور کتنی ابو بکر، عمر، عثمان نے کہا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی ابو ہریرہ ان علوم کی گویائی کی طاقت نہیں رکھتا تھا.یا اس کا محل اس وقت نہیں تھا.جب میں نے بیعت کی اس وقت حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور یہ فرما دیں کہ کس ڈھب سے ایسا اعتقاد حاصل ہو سکتا ہے جو خد اتعالیٰ پر کامل یقین ہو جاوے یوں تو ایمان رکھتا ہوں مگر عملی طریق میں آ کر وہ ثابت نہیں ہو تا.آپ نے فرمایا.اسکے لئے جہاد کی ضرورت ہے.کیونکہ قرآن شریف میں ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں.آپ ریاضت کریں.میں نے عرض کیا کہ حضور نمازیں پڑھی جاتی ہیں ، دعائیں کی جاتی ہیں ، لیکن وہ یقین حاصل نہیں ہو تا جو چاہئے.فرمایا مومن میں ایک عزم ہونا چاہئے.جیسا کہ ایک بادشاہ بیمار تھا.وہ بہت علاج کرتا تھا.لیکن آرام نہ ہو تا تھا.وجہ یہ تھی کہ حکیموں کے روبرو اقرار کے باوجود پھر پرہیز نہ کرتا تھا اور صحت نہ ہوتی تھی اس پر ایک حکیم آیا اور تکالیف اٹھا ئیں.میں نے عرض کیا.اگر یہ سب کچھ ہم نے ہی کرنا تھا.تو پھر حضور کے تشریف لانے کی کیا ضرورت تھی.آپ نے فرمایا کہ یہ آپ لوگوں کی فطرت صحیحہ کی کشش ہے جو مجھے بارگاہ ایزدی سے کھینچ کر لائی ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ ہجرت کا اصل سبب مدینہ والوں کی پاک فطرت کی کشش تھی جو حضور کو مکہ سے مدینہ لے گئی.آپ عزم استقلال سے لگے رہیں اور دعا ئیں کرتے رہیں انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن وہ یقین حاصل ہو جائے گا.سوالحمد للہ کہ آج وہ بات حضور کی دعا کے طفیل حاصل ہو گئی ہے.روایت ۲۳ حضرت حافظ احمد اللہ صاحب مهاجر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جب کہا میں جناب کا علاج کرتا ہوں.چنانچہ اس نے نسخہ دینے کے بعد چند باتیں کسی بندے کو اصلاح خلق کے لئے مامور کرنے کی غرض سے منتخب فرمایا تو پر ہیز کی بتلائیں اور پھر کہا.بادشاہ سلامت آپ نے اس پر عزم دکھانا پہلا کلام یا مخاطبت اس کے ساتھ یہ فرمائی.إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مُكِيْنَ

Page 25

37 36 آمین یا اس کا مفہوم ہوتا ہے.روایات ۲۴ ماسٹر عبد العزیز صاحب ایمن آبادی نقل خط السلام علیکم.انشاء اللہ دعا کروں گا.بہت توجہ کرنی چاہئے.خدا کے وجود سے انکار جیسا اور کوئی گناہ نہیں ہے.اس خبیث قوم کی صحبت کے اثر سے بچنا چاہئے.نقل خط مرزا غلام احمد السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.اگر خواب میں لڑکی کا نام مریم معلوم ہوا ہے تو مریم ہی رکھ دیں ورنہ عائشہ رکھ دیں.والسلام نقل خط مرزا غلام احمد عفی عنہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مجھ کو بہت خوشی ہوئی کہ آپ کی کوشش سے اس قدر شریف احمد نے ترقی کی.میں لکھتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی بہت توجہ سے کوشش کریں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ نقل خط السلام علیکم.آپ خود کوشش کریں اور ناول ترک کرا دیں.گھر میں بہت کہا جاتا ہے.مگر استاد کی بات کا اثر بہت ہوتا ہے.والسلام نقل خط مرزا غلام احمد السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبركاته ، شریف احمد کے لئے بہت کوشش کریں.آپ کو بہت ثواب ہو گا.ابھی اس کو پڑھنے کی طرف سچا اور دلی شوق نہیں.صرف آپ کی دن رات کی کوشش سے پڑھتا ہے.ایسا کرنا چاہئے کہ اس کے دل میں علم کا شوق پیدا ہو جائے.یہ خدمت انشاء اللہ خدا تعالیٰ کے نزدیک موجب ثواب عظیم ہوگی.مبلغ ایک روپیہ پہنچ گیا ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.والسلام.روایات ۲۵ مرزا غلام احمد عفی عنہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک بادشاہ نے جو دیکھا کہ ٹیکس سے تو خرچ پورا نہیں ہو تا کچھ ملازموں کو تخفیف کر دیا.چنانچہ تخفیف عمل میں آئی.رات کو بادشاہ نے رویا میں دیکھا کہ 1

Page 26

39 38 خزانہ کھلا پڑا ہے اور باہر گڑے کھڑے ہیں.لوگ خزانہ سے روپیہ نکال کر گڑوں میں بھرتے ہیں.بادشاہ نے پوچھا تم کون لوگ ہو.انہوں نے کہا.ہم فرشتے ہیں.کہا یہ کیا کرتے ہو.انہوں نے کہا جن لوگوں کو تم نے موقوف کیا ہے.ان کا رزق یہاں تھا.وہ نکال کر جہاں وہ گئے ہیں وہاں لے جائیں گے.بادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور سوچا.میرا تو مفت کا احسان تھا اور رزاق تو وہ ہے.ہر ایک کو رزق دیتا ہے.اور تخفیف سے باز آیا.پھر فرمایا.ہماری انجمن نے بھی کچھ تخفیف کی مگر نتیجہ یہ ہوا کہ آمد اور بھی کم ہو گئی.روایت ۲۶ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ نے بعض دفعہ ایسا کیا کہ جب کوئی کتاب جیسی لکھتے تو خواجہ کمال الدین صاحب کو دکھلاتے اور فرماتے کہ خواجہ صاحب اس کو پڑھ کر دیکھ لو.کوئی حرف اس میں ایسا تو نہیں جو قانونا نہ شائع ہونا چاہئے.خواجہ صاحب کتاب کو دیکھ کر واپس دے دیتے اور عرض کرتے حضور دیکھ لی ہے.آپ فرماتے ساری دیکھ لی ہے.وہ کہتے نہیں ساری تو نہیں کچھ آگے پیچھے سے دیکھی ہے.آپ فرماتے نہیں ساری پڑھ جاؤ.اور ایک دن فرمایا ہم تو خواجہ صاحب کو کتاب دیکھنے کے لئے زیادہ تاکید اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ کتاب کو پڑھ لیں.اور ان کو واقفیت ہو جائے.مگر باوجود اس قدر تاکید کے بھی یہ توجہ نہیں کرتے اور ساری کتاب نہیں پڑھتے.روایت ۲۷ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے.میں دارالامان میں آیا ہوا تھا.حضور مسجد مبارک کی چھت پر (نماز مغرب کے بعد) تشریف رکھتے تھے.چند ایک مہمان اور چند ایک مہاجر موجود تھے.ایک صاحب سہارنپور سے آئے ہوئے تھے.وہ معزز آدمی تھے.مگر ضعیف العمر تھے.انہوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب کے پاس سفارش کی یہ صاحب جنہوں نے بیعت کی ہے.بڑے معزز آدمی ہیں اور بڑے اخلاص سے انہوں نے بیعت کی ہے.ان کا ایک کام بھی ہے.وہ یہ ہے کہ کئی سال سے ایک مشین ایجاد کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں اس میں تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے.یہ خواہش کرتے ہیں کہ حضور دعا فرما دیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرما دے.وہ کسر نکل جاوے اور یہ کامیاب ہوں.اس عرصہ میں یہ زیر بار بھی بہت ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا.مجھے تو ان کی مشین کی فکر ہے.اگر ان کی مشین (وجود کی اصلاح) درست ہو گئی تو سب کچھ ہو گیا.باقی یہ ایجادیں اور مشینیں تو بہتیری ہو رہی ہیں اور جب انسان کی مشین درست ہو جاتی ہے تو یہ مشینیں تو خود بخود چل پڑتی ہیں.ایک دن سیر میں حضور نے ذوالفقار علی صاحب سے فرمایا کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ نواب صاحب رامپوربی کے لفظ سے بڑے گھبراتے ہیں.یہ لوگ عربی کی ناواقفیت کی وجہ سے زیادہ چڑتے ہیں.بچی پیشگوئیاں کرنے

Page 27

41 40 والے کا ترجمہ ان سے عربی میں کراؤ.اور وہ پیشگوئیاں بھی کثرت سے کرے اور کچی ہوں اس کا ترجمہ عربی میں سوائے نبی کے اور ہو ہی نہیں سکتا.آپ کی قوت اعجازی کا یہ کمال تھا کہ اکثر دفعہ ایسا واقعہ ہوا کہ مہمان مہمان خانہ میں بیٹھ کر باتیں کرتے کہ آج حضرت صاحب سے نماز کے بعد فلاں فلاں سوالوں کا جواب پوچھیں گے.مگر جب حضرت نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے تو اور جماعت کے عام لوگ آگے ہو جاتے اور حضور کے کہ ایک رشتہ کی تجویز ہوئی ہے تم قادیان آجاؤ.چنانچہ میں دارالامان میں آ گیا.جب وہ ملے تو انہوں نے کہا وہ شخص جو تم کو دیکھنا چاہتا ہے.وہ تو آج چلا گیا ہے ایک اور جگہ رشتہ ہے اس کے لئے خانصاحب اکبر خان کو خط لکھ دیتا ہوں.وہ کوشش کر کے کرا دیں گے.تم خط لے کر جاؤ.میں نے عرض کیا بہت اچھا.انہوں نے خط لکھا.جب خط ختم کرنے لگے تو کہا.تبر کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اکبر خان کو سفارش کرادوں.میں نے کہا بہتر.انہوں نے اس خط کے آخر پر لکھ دیا کہ حضرت بالکل قریب ہو جاتے تو آپ گفتگو شروع کر دیتے اور مہمان انتظار کرتے کہ (مسیح موعود) آپ بھی تبر کا سفارش فرما دیں.اور وہ خط حضرت مسیح اب یہ گفتگو ختم ہو تو پوچھ لیں گے یا حضور خود کچھ فرمانے لگتے تو ٹھہر جاتے کہ جب حضور فرما چکیں گے.تو پھر سوال کریں گے.مگر اللہ اللہ حضور کی قوت اعجازی کہ اس سلسلہ گفتگو میں حاضرین کے ۹۰ فیصدی سوالوں کے جواب ہوتے.اور مجھے تو اکثر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک مہمان دوسرے کو اشارہ کرتا کہ لو.تمہارے سوال کا جواب تو خود ہی مل گیا.دوسرا دوسرے تعلق تھا.اور اللہ تعالٰی حضور کو ایسے ڈھنگ پر گفتگو کرنے کا موقع دیتا کہ نہ سائلوں کو تکلیف ہو اور نہ حضور کو بار بار ہر ایک کے سوال کا جواب دینا موعود کی خدمت میں اوپر بھیج دیا.آپ نے فورا اس خط پر سفارش لکھ دی اور یہ لکھا کہ میاں قدرت اللہ ہمارے میاں عبداللہ صاحب سنوری کے بھیجے ہیں اور مخلص احمدی ہیں.میں آپ کو سفارش کرتا ہوں آپ کو شش کر کے ان کے لئے رشتہ کرا دیں.جب یہ خط ملا تو مکرم عبد اللہ سنوری صاحب نے مجھ سے کہا کہ جلدی کو کہتا.اسی طرح تقریبا سب کے سب تسلی کر کے اٹھتے اور کسی کو بھی سوال چلے جاؤ میں نے کہا.حضرت صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی.کیونکہ حضور کرنے کی حاجت نہ ہوتی.یہ دلیل ہے کہ حضور کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کامل کی طبیعت اچھی نہ تھی.آپ باہر تشریف نہ لائے تھے.اس لئے میں بغیر ملے کے نہیں جاسکتا.اس دن ایک بڑے آدمی نے مصافحہ کرنا چاہا تھا اور حضور نے باہر تشریف لانے سے انکار کر دیا تھا.مکرم عبد اللہ سنور صاحب نے کہا آج ملنا مشکل ہے تم چلے جاؤ.میں نے عرض کی کہ بغیر ملے تو میں میری پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا اور دوسری شادی کی ضرورت تھی.نہیں جاتا.رشتہ جاتا ہے تو جائے ملاقات کے بغیر قادیان سے جانا موت سے مکرم عبد اللہ صاحب سنوری قادیان میں تشریف رکھتے تھے.ان کا خط گیا بڑھ کر ہے.انہوں نے ایک خدمتگارہ کو کہہ دیا کہ حضرت صاحب کے پاس پڑے.

Page 28

43 42 جاکر عرض کر دو کہ میاں عبد اللہ سنوری کا بھتیجہ مصافحہ کرنا چاہتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد آواز میں پڑنی شروع ہو ئیں.میاں قدرت اللہ سنوری ہمیں تعمیل حکم کرنی ضروری ہے.اگر آپ حضرت صاحب کے پاس سفارش کر دیں کہ یہ تو حضور کے فیض صحبت کے لئے آئے ہیں.آپ ان کو حضرت صاحب بلاتے ہیں.میں نے جب سنا تو دوڑتا ہوا گیا جس مکان کو نہ بھیجیں.بلکہ بیوی والے کو لکھ دیں وہ آکر اپنی بیوی کو لے جائے.ام میں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب تشریف رکھتے ہیں اس میں ان المومنین نے حضرت صاحب سے عرض کر دی.آپ نے فرمایا.بہت دنوں مہمان رہتے تھے.اس مکان کے زینہ سے اوپر گیا.مکرم عبد اللہ مناسب ہے.میاں قدرت اللہ صاحب کو ہماری طرف سے لکھ دو کہ سنوری صاحب بھی میرے ساتھ اوپر گئے.تو درواز کے آگے کیا دیکھتا حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ خود آکر اپنی بیوی کو لے جاؤ.چنانچہ خط لکھا ہوں.اللہ تعالیٰ کے محبوب تمہ باندھے اور گلے میں کرتہ سر پر رومی ٹوپی گیا.میں خط کو دیکھتے ہی جائے ملازمت سے سنور کو روانہ ہوا.اور گھر سے پنے کھڑے ہیں.السلام علیکم کے بعد مصافحہ کیا.اور میں نے جو جو عرض کی خرچ اور پار چات ضروری لیکر دار الامان کا قصد کیا.مکرم عبد اللہ صاحب حضور نے سنی اور دعا کی درخواست پر خوش ہو کر فرمایا بہت اچھا دعا کریں بوجہ بیماری مکرمی رحمت اللہ صاحب سنور رخصت پر تھے.انہوں نے مجھے گے.اور اس کے بعد خود ہی تبسم لب ہو کر فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے رشتہ حضرت صاحب کے نام خط لکھ دیا اور مکرم رحمت اللہ کی بیماری کا حال بھی کے لئے بھی سفارش کر دی ہے.اب اجازت ہے.جلدی جاؤ.چنانچہ میں لکھا.اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ حضور نے جو نسخہ قبل ازیں بھیجا ہے اس میں ایک دوائی برگ بیلا لکھی تھی، وہ نہیں ملتی ، اس کا پتہ دیویں.میں فورا چلا گیا.ایک دفعہ میرے خسر اور میری بیوی قادیان آئے ہوئے تھے.وہ ایک قادیان پہنچا.ظہر کی نماز ہو رہی تھی ، نماز میں شامل ہو گیا.حضرت صاحب ماہ کے لئے آئے تھے یہاں وہ زیادہ دن ٹھہر گئے.میں نے اپنے خسر کو خط لکھا نماز سے فارغ ہو کر اندر چلے گئے.میں نے سلام پھیر کر ایک خادمہ کے ہاتھ کہ میری بیوی کو واپس پہنچا دیں.انہوں نے وہ خط حضرت صاحب کو دکھا خط اندر بھیجا اور میں ایک دوست سے باتیں کرنے لگا جب حضرت صاحب کو دیا.آپ نے فرمایا.یہ بہت خوب بات ہے.فورا ان کی بیوی کو ان کے خط ملا آپ خط دیکھتے ہی فورا باہر تشریف لائے.دروازہ پر آکر جب دیکھا پاس پہنچا دو.جب انہیں ضرورت ہے تو پھر ان کا یہاں ٹھہرنا اچھا نہیں مجھے موجود نہ پایا.آپ واپس اندر تشریف لے گئے.جب میں اس دوست ہے.میرے خسر سن کر خاموش رہے.اور گھر سے میری خوشدامنہ کو اندر سے بات کر کے فارغ ہوا تو فورا جا کر پردہ کے پاس دروازہ پر کھڑا ہو گیا.بھیجا.انہوں نے ام المومنین کے پاس عرض کیا.کہ حضرت صاحب نے اندر سے ایک خادمہ آئی اس نے مجھے پوچھا کیوں کھڑے ہو.میں نے کہا آج ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اپنی لڑکی کو اپنے داماد کے پاس چھوڑ آؤ.اب حضرت صاحب سے ملنا ہے.اس نے کہا تم قدرت اللہ سنوری ہو.میں نے.

Page 29

45 44 کہا ہاں.اس نے کہا افسوس ہے کہ حضرت صاحب تم کو ملنے کے لئے آواز آئی.میں لوٹا پھر حضور کو باہر تشریف فرما پایا.فرمایا ابھی میاں تشریف لائے تھے.تم نہ ملے.حضرت صاحب واپس تشریف لے گئے.عبد اللہ کو لکھ دو کہ رحمت اللہ کو باغ میں رکھیں اور مرغ کے چوزوں کی میں نے کہا تم پھر اطلاع کر دو.اس نے کہا.واہ حضرت صاحب کیا بار بار بیخنی پلادیں.آدیں گے.وہ تو تمہاری خوش قسمتی تھی کہ باوجود مصروفیت کے حضرت پھر میں نے دیکھا کہ حضور سیر میں دوسرے تیسرے روز مجھ سے پوچھ صاحب ملنے آئے تھے.میں نے کہا تم پھر کہدو.اس نے انکار کیا.میں نے لیتے میاں عبداللہ کے لڑکے کی خبر خیرت آئی ہے یا نہیں.جب کچھ حال اصرار کیا.اللہ تم کہدو.اس نے واپس جاکر حضرت صاحب سے عرض معلوم ہو تا تو عرض کر دیتا.ایک دن حضور نے فرمایا.آج میاں عبد اللہ کا کیا.آپ کے ہاتھ میں مکرم عبد اللہ سنوری صاحب کا خط تھا اسے ہاتھ میں خط آیا ہے.تمہارا بھائی راضی ہے.فرمایا مجھے بڑی خوشی ہوئی.میں بھی لئے حضور فورا ہی تشریف فرما ہوئے اور السلام علیکم کہا.میں نے جواب حضور کی اس بندہ نوازی سے خوش ہوا.جس دن روانگی کا ارادہ ہوا.میں دیا.وعلیکم السلام - من کر کے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نذرانہ پیش نے حضرت صاحب کی خدمت میں اجازت کے لئے عریضہ لکھا.اور دعا کی کیا.حضرت صاحب نے وہ لیکر جیب میں ڈالا.اور اچھی زور کی آواز سے خواہش کی اور ساتھ ہی یہ خواہش تحریر کی کہ حضور کا ایک دستی رو مال اگر جزاک اللہ فرمایا.جو دل میں ایک عجیب اثر کر گیا.پھر فرمایا تم میاں عبد اللہ تیر کامل جائے تو زہے قسمت.میری بیوی خط لیکر اندر گئی.حضور نے وہ کی جگہ کام کرتے ہو.اور نظر شفقت مجھ پر ڈالی.میں نے عرض کیا.ہاں خط پڑھا اور ام المومنین سے فرمایا کہ میاں قدرت اللہ کی بیوی کو میرا ایک حضور ان کا قائم مقام ہوں.پھر خط کو دیکھا اور دوبارہ وہی فرمایا.پھرسہ دستی رومال دے دو.اس کے میاں تبر کا رومال مانگتے ہیں.مگر وہ رومال مرتبہ وہی فرمایا.میں جواب میں وہی فقرہ عرض کرتا رہا.پھر آپ نے دینا جو کثرت سے میرے ہاتھ میں رہا ہو.چنانچہ ام المومنین نے فورا ایک فرمایا.میاں عبد اللہ سمجھے ہیں.کہ برگ بیلا ہے وہ برگ بیلا نہیں بلکہ برگ ململ کا رومال جس کو حضرت صاحب نے اکثر دفعہ استعمال کیا تھا اٹھا کر میری بید ہے.آپ ان کو خط لکھ دیں.میں نے عرض کیا بہت خوب.حضور اندر بیوی کو دے دیا اور یہ کہا کہ اس کو حضرت صاحب نے کثرت سے ہاتھ میں تشریف لے گئے.میں زینہ میں آیا ہی تھا کہ حضور نے پھر آواز دی اور لیا ہے.حضرت صاحب نے وہ رومال میری بیوی کے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا.ابھی میاں عبد اللہ کو لکھ دینا.اور ساتھ ہی یہ بھی لکھنا کہ رحمت اللہ اپنے دونوں مبارک ہاتھوں میں دبایا اور پھر میری بیوی کو دیا.اور فرمایا.کو باغ میں کھلی ہوا میں رکھیں اور پندرہ پندرہ دن کے مرغے کے چوزوں اپنے میاں سے یہ کہدینا کہ یہ رومال حضرت صاحب کا ہی ہے اور آپ نے کی یخنی انہیں پلاویں.پھر حضور تشریف لے گئے.میں نیچے اترنے لگا.پھر ہی دیا ہے بلکہ اس وقت بھی آپ نے اپنے ہاتھ کو مل کر دیا ہے تاکہ تمہاری 1

Page 30

47 46 خواہش پوری ہو جائے.اور میرے خط کا جو جواب لکھا.وہ نیچے درج کرتا اللہ صاحب پھر تقریباً دو ماہ کے قریب بیمار رہے اور حکیم نے کہا.دراصل مرض اندر تھی کثرت کام اور علاج چھوڑنے کی وجہ سے بیماری عود کر ہوں :- نقل خط السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته اجازت ہے چلے جائیں.اور میاں آئی.خیر حضور کے فقرہ کے مطابق خداوند تعالیٰ نے دوبارہ پوری صحت عطا فرمائی.اور اپنے پاک محبوب کی بات کو پورا کر دکھایا.جب صاحب فنانشل کمشنر ۷ ۱۹۰ ء میں قادیان تشریف لائے میں بھی عبد اللہ سنوری کے خط سے حال صحت معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی اللہ وہاں موجود تھا.شام کے وقف ایک معزز احمدی نے جو بڑی دنیا وی و جاہت تعالیٰ پوری صحت عطا فرما دے.میری طرف سے کہدیں کہ میں دعا کرتا رہا رکھتا تھا.اور کچھ دنیا کی طرف زیادہ مائل اور دنیا پسند تھا.حضرت صاحب ہوں خدا تعالیٰ قبول فرما دے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ے عرض کیا کہ حضور فنانشل کمشنر صاحب تشریف لاویں گے حضور بھی استقبال کے لئے آگے چلیں ، تاکہ گاؤں سے ایک میل آگے جاکر استقبال کیا جائے.حضرت صاحب نے فرمایا ” مجھے ان تکلفات سے نفرت ہے.باقی اب خط کو دیکھنے سے یہ واضح ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت صاحب کو استقبال وغیرہ کرنا کمیٹیوں کا کام ہے.تم لوگ جاؤ دو چار آدمی استقبال مكرم عبد اللہ صاحب سنوری کے خط سے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ مکرمی کرو.مجھے یہ پسند نہیں ہے اور دوسرے میں ضعیف العمر ہوں اس نے رحمت اللہ بالکل راضی ہو گیا.مگر حضور نے خط میں یہ لکھا کہ (میاں عرض کی حضور ایسا نہ ہو صاحب بہادر ناراض ہوں.آپ نے فرمایا ” مجھے عبد اللہ سنوری کے خط سے حال صحت معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی.اللہ دنیا کے کیڑوں مکوڑوں کی کچھ پرواہ نہیں.جس بات کی طرف میرا مولا مجھے تعالیٰ پوری صحت عطا فرمادے) پوری صحت ہو جائے جب میں نے جاکر توجہ نہ دلائے اور دل نہ چاہے میں نہیں کرتا.جب صاحب فنانشل کمشنر معلوم کیا تو پتہ لگا کہ مکرمی رحمت اللہ راضی خوشی اپنی جائے ملازمت پر حاضر بہادر قادیان تشریف لائے اور کیمپ میں چلے گئے جو ان کے لئے باہر لگایا گیا بھی ہو چکے.میں دل میں بار بار یہ خیال کرتا تھا کہ الہی حضرت صاحب نے یہ تھا.تو سب احمدی دوست واپس چلے آئے.میں بھی وہاں سے واپس آیا کیوں تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پوری صحت عطا فرما دے.مگر حکمت الہی پنہاں اور مسجد مبارک میں چلا گیا.تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ تھی وہ آشکار ہوئی.اللہ کے محبوب نبی جری اللہ فی حلل الانبیاء کا کلام معجز الصلوۃ والسلام اندر سے تشریف لائے اور مسجد مبارک میں آبیٹھے.میں نما پورا ہوا کہ تقریباً ایک ماہ کے بعد پھر مرض نے زور پکڑا.اور مکرمی رحمت حضور کے بالکل قریب ہی بیٹھا تھا کہ لوگ جوق در جوق مسجد میں آپہنچے اور ! I

Page 31

49 48 لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد حضور پھر تشریف لائے اور دروازہ پر سے مسجد لوگوں سے بھر گئی.حضرت صاحب کا چہرہ بڑا بشاش تھا.آپ نے صاحب فنانشل کمشنر بہادر کی تشریف آوری کے متعلق اور وہ گفتگو جو اس پردہ اٹھایا.وہاں صرف میں ہی بیٹھا ہوا تھا.آپ نے مجھے السلام علیکم نے احمدی احباب سے کی تھی سنی.گفتگو کے درمیان خواجہ کمال الدین نے فرمایا.اتنے میں نیچے سے حضرت میر ناصر نواب صاحب تشریف لے کہا کہ حضور صاحب فنانشل کمشنر کو حضور کی طرف سے دعوت دے دی گئی آئے.حضرت صاحب نے ان سے پوچھا.کھوجی لنگر میں کھانا پک گیا جو باہر ہے اور صاحب بہادر نے منظور کرلی.آپ نے پوچھا اچھا د عوت تو کر دی جائے گا.انہوں نے زور سے کہا.کہاں پک گیا.یہاں کوئی توجہ کرتا ہے.مگر یہ تو بتاؤ کہ ان کی دعوت میں کیا کیا ہو گا انہوں نے کہا.کچھ میوہ کچھ دعوت تو کر دی.اب سب آرام سے پلنگوں پر جابیٹھے ہیں کسی نے توجہ ہی بسکٹ ، کچھ اور کچھ تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا یہ کچھ اور کچھ نہیں کی.آپ نے فرمایا.وہ کام ہی کیا ہے.صرف دو دیگیں پکتی ہیں.کیا.ہم ہر گز پسند نہیں کرتے کہ وہ امرا کے سے تکلفات کریں.کیونکہ ایک زردہ کی ایک پلاؤ کی.میر صاحب نے پھر زور سے کہا.حضرت یہ الہام الہی نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ تیرے آباو اجداد کا سلسلہ قطع کر کے تجھ لوگ باتیں ہی بناتے ہیں کرتے کچھ نہیں سب لیٹ گئے ہیں.حضرت سے نیا سلسلہ جاری کیا جائے گا.میرے خاندان کو یہ بات حاصل تھی.مگر صاحب نے تبسم لب ہو کر فرمایا کہاں کا بڑا کام ہے ، صرف دو دیگیں پکنی اب میں نے یہ بات الہام الہی کی وجہ سے چھوڑ دی.ہنس کر فرمایا.اب تو یہ ہیں.میر صاحب نے پھر زور سے کہا.حضرت یہ لوگ بڑے ست ہیں.کام فقیر کا لنگر ہے اور جاؤ صاحب فنانشل کمشنر بہادر سے عرض کردو کہ فقیر کے کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ کام ہو تا ہے.کام تو جب ہی ہوتا ہے جب لنگر سے پکا پکا یا کھانا ملے گا.اگر چاہیں دعوت منظور کر لیں.جب حضرت کوئی کرے.ادھر ادھر پھرنے سے کام نہیں ہو تا.یہ بات میر صاحب نے صاحب نے یہ فرمایا تو خواجہ صاحب چپ ہو گئے.جب حضرت صاحب نے زور سے کہی.میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رنگ دیکھا کہ یہ نہیں اٹھے.تو آپ نے کسی اور دوست کی طرف اشارہ کر کے سرخ ہو گیا.آپ نے سر مبارک ذرا اوپر کو اٹھایا اور ایک خاصی زور کی فرمایا.جاؤ تم جاکر صاحب بہادر سے عرض کر دو.کہ مرزا صاحب نے فرمایا آواز سے بولے وہ آواز میرے دل میں دھنس گئی.آپ نے میر صاحب کی ہے کہ یہ فقیر کا لنگر ہے اور اس سے پکا پکا یا کھانا ملے گا.چنانچہ وہ دوست فوراً طرف آنکھ اٹھا کر فرمایا :- چلے گئے اور جاکر صاحب بہادر سے عرض کر دی.انہوں نے منظور فرمالیا.انہوں نے واپس آکر حضرت صاحب سے عرض کی.آپ نے فرمایا.ایک دیگ زردہ اور ایک پلاؤ کی پکوا کر وہاں بھیج دو.اور حضور اندر تشریف لنگر میں درد یگیں پکوا دیں ایک زردہ کی.ایک پلاؤ کی.میر صاحب نے عرض کیا.بہت اچھا حضرت.پھر آپ اندر تشریف لے گئے.تین چار بجے کے قریب حضرت صاحب فنانشل کمشنر صاحب بہادر سے

Page 32

51 50 ملنے کے لئے تشریف لے گئے.اور تقریباً ایک گھنٹہ اندر ٹھرے جب حضور ہو ئیں ، وہ سب دفاعی تھیں.اسلام کا تلوار سے پھیلنا یہ غلط عقیدہ مخالفوں واپس آئے.اس قدر انبوہ مخلوق کا ساتھ تھا کہ ایک دوسرے پر گرے نے گھڑ رکھا ہے.اور آپ نے فرمایا.صاحب فنانشل کمشنر نے اور بھی پڑتے تھے.پانچ آدمیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر حلقہ بنایا.درمیان میں حضور کو لے لیا.تاکہ مخلوق کے دھکوں سے حضرت صاحب کو تکلیف نہ ہو.ان پانچوں میں ایک میں بھی تھا.میں نے دیکھا حضرت باتیں کرنا چاہیں وہ دنیاوی باتیں تھیں.میں نے کہا آپ دنیا وی حاکم ہیں.خدا نے مجھے دین کے لئے یعنی روحانی حاکم بنایا ہے.جس طرح آپ کے وقت کاموں کے لئے مقرر ہیں ، اسی طرح ہمارے بھی کام مقرر ہیں.اور صاحب بڑے بشاش تھے.آپ بازار کے راستہ سے گھر کو تشریف لائے.ہماری نماز کا وقت ہو گیا.یہ کہکر ہم کھڑے ہو گئے.فرمایا صاحب بہادر بھی جب بازار کے قریب پہنچے.ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور حضرت صاحب کے برابر آکر کہا حضور پیچھے ایک عجب بات ہوئی.آپ نے فرمایا کیا.اس ٹوپی اتار کر سلام کیا.اور ٹھر گئے.ہم چلے آئے.نے عرض کی حضور جب کیمپ کے دروازے سے نکلے تو ہزاروں کی تعداد کھڑے ہو گئے اور خوش خوش ہمارے ساتھ خیمہ سے باہر تک آئے اور جن دنوں میں فنانشل کمشنر صاحب آئے ہوئے تھے ، ایک جمعہ بھی ان میں لوگ موجود تھے.حضور کے ساتھ ہی سب لوگ دوڑ پڑے اور کیمپ کا دنوں میں آیا.حضور جمعہ میں تشریف لائے.جماعت احمدیہ کا خدا کے فضل سے بڑا انبوہ ہو گیا.تقریباً دو ہزار یا اس سے زیادہ مہمان بھی آئے تھے.ارد گرد خالی ہو گیا اور صاحب فنانشل کمشنر اور ان کے ساتھ جو اور انگریز کھڑے تھے.انہوں نے تالیاں بجائیں اور کہا دیکھو کس طرح لوگ جمعہ تقریباً دو بجے کے بعد ہوا.آپ نے فرمایا عصر بھی ساتھ ہی پڑھ لی روڑے جاتے ہیں.اور ہنس ہنس کر مخلوق کو دیکھتے تھے.آپ پھر چل جاوے.نماز سے فارغ ہو کر آپ چلنے لگے.جب باہر والی محراب میں یعنی پڑے.راستہ میں حضور اس قدر انبوہ سے ذرہ نہ گھبرائے بلکہ ہشاش بشاش جہاں نمبر رکھا ہوا ہے.تشریف لائے تو آپ وہاں ٹھر گئے اور دیوار کے چلے آتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم نے خوب کھول کھول کر تقریباً پندرہ قریب ہو کر کھڑے ہو گئے.لوگوں کو فرمایا کہ اسی جگہ مصافحہ کر لیں.اور منٹ صاحب فنانشل کمشنر کو اسلام کی خوبیاں سنائیں اور ہم نے اپنی طرف مسجد کے اندر کی طرف سے لوگ آکر مصافحہ کر کے گذرتے جائیں.تاکہ سے حجت پوری کر دی.اور عقائد مہدی خونی کا سوال صاحب نے ہم سے سب کا مصافحہ ہو جائے.میں دروازہ کی دوسری طرف دیوار سے لگ کر ممبر کیا.ہم نے بتا دیا کہ ہمارے فلاں فلاں رسالہ کو دیکھو ہم خونی مہدی کے کے پاس کھڑا ہو گیا کہ دیر تک زیارت کر تار ہوں.آپ لوگوں سے مصافحہ عقیدہ کو غلط سمجھتے ہیں.ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ دین اسلام دلائل قویہ اور کرتے جاتے تھے.آنکھیں نیچی کئے ہوئے گا ہے مسکراتے تھے.اگر کوئی نشانات آسمانی سے پھیلا ہے اور آئندہ پھیلے گا اور جو جنگیں اسلام میں السلام علیکم کہتا.آپ وعلیکم السلام فرماتے تھے.جب چوہدری رستم علی

Page 33

53 52 کورٹ انسپکٹر پولیس نے مصافحہ کیا تو آپ نے ذرا آنکھ اٹھائی اور ان سے دیں گے.مگر تم سوچو یہ قابل علاج ہے.اللہ اللہ کرو.اور اگر کچھ علاج آنکھ ملائی اور ہنس کر فرمایا.اوہو آج تو چوہدری صاحب بھی اس طرح مصافحہ کرتے ہیں.چوہدری صاحب نیچی نگاہ کئے ہوئے کھڑے رہے.حضرت صاحب نے دیر بعد ان کا ہاتھ چھوڑا.جب ہاتھ چھوڑا تو وہ آگے چاہتے ہو تو حضرت صاحب کو دعا کے لئے عرض کرو.ایسے مریض دعا سے راضی ہو سکتے ہیں.دوا کی حد سے تو یہ گذر گئی ہے.پھر میرے والد صاحب نے آکر علیحدہ طور پر میری والدہ صاحبہ سے کہدیا کہ حکیم صاحب نے علاج بڑھ گئے.جب سب لوگ مصافحہ کر چکے تو آپ پھر چلنے لگے اور فرمایا آج کا سے جواب دیا ہے.حضور سے جاکر کہو کہ دعا فرماویں.چنانچہ میری والدہ جمعہ تو عید ہو گیا.صاحبہ نے مجھے سمجھا دیا اور مجھے حضرت صاحب کے پاس بھیجا.میں آہستہ روایت ۲۸ اہلیہ مولوی قدرت اللہ سنوری آہستہ وہاں پہنچ گئی.میں نے موقعہ پاکر سارا حال عرض کیا اور کہا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے جواب دے دیا کہ راضی نہیں ہو سکتی.حضور اس وقت کچھ لکھ رہے تھے کہ میں نے رو رو کر اپنا حال بیان کیا تو آپ ابھی میری شادی نہ ہوئی تھی کہ میں سخت بیمار ہو گئی.تپ اور کھانسی نہ نے کام چھوڑ دیا اور سارا حال توجہ سے سنا اور فرمایا کہ اچھا ہم دعا کریں جاتا تھا.کوئی دق بتاتا تھا کوئی کچھ.آخر میرے والد نے گھر میں آکر ذکر کر دیا کہ حکیم لوگ لڑکی کی بیماری کو لا علاج ٹھراتے ہیں.مجھ کو بھی خبر ہو گئی.گے.اور جاؤ مولوی صاحب سے اسی وقت کو نین کی گولیاں لاؤ.میری والدہ نے کونین کی گولیاں مولوی صاحب کے پاس سے لا کر حضرت صاحب میں نے اپنے والد سے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مجھے قادیان لے کو دے دیں.آپ نے دو دو گولیاں ایک ہفتہ کے کھانے کے لئے دیں.چلیں.اگر خدا کو منظور ہوا شائد میں راضی ہو جاؤں.میرے والد نے کہا بات تو ٹھیک ہے انشاء اللہ ہم تجھے قادیان لے چلیں گے.چنانچہ تھوڑے عرصہ بعد میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ قادیان آئے.اور مجھے بھی ساتھ اٹھالائے.میری حالت بہت نازک تھی.جب ہم دار الامان میں پہنچے اور فرمایا گلو کے پانی کے ساتھ ان کو کھایا کرنا اور میں دعا کروں گا.ایک ہفتہ کے اندرہی مجھ کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور حضور کی دعا سے صحت حاصل ہو گئی.اور اس لاعلاج مرض کی جڑھ جاتی رہی.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا میں نے نہ کہا تھا کہ دواؤں سے نہیں بچ سکتی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں رہنے کے لئے وہ کمرہ عطا میں نے تجربہ کیا ہے کہ ایسے بیمار ایک فیصدی بھی نہیں بچ سکتے.یہ حضور کی فرمایا جس کا نام بیت الذکر ہے ، میرے والد صاحب نے مجھ کو حضرت مولوی نور الدین کے پیش کیا کہ اس کا علاج کریں.آپ نے کہا.اچھا علاج تو کر دعا کا نتیجہ ہے کہ یہ بچ گئی اور تندرستی ہو گئی.ورنہ کوئی پہلو زیست کا باقی نہ تھا.! : '

Page 34

55 54 روایت ۲۹ کی عمر سے مہندی لگاتا ہوں.پوشاک اس وقت بھی سادہ تھی.اکثر غرارہ چوہدری کریم بخش صاحب نمبردار رائے پور ریاست نابھہ پہنتے تھے ، ایک شتری چوغہ پہنا کرتے تھے.جو کئی سال رہا.رات کو حافظ محمد جمیل صاحب سے جو کہ میرے استاد تھے تراویح میں ایک دفعہ میں قادیان آیا ہوا تھا.میری بیوی بچے ساتھ تھے.گھر سے اطلاع آئی کہ میری بھاوجہ پلیگ سے فوت ہو گئی اور میرے بھائی کی لڑکی بھی قرآن شریف سنتے تھے آٹھ رکعت میں اور صبح کے وقت نماز کے بعد کبھی فجر فوت ہو گئی ہے.میں نے حضرت صاحب سے اجازت چاہی.آپ نے فرمایا کے بعد کبھی عصر کے بعد ٹہلتے ٹہلتے مجھ سے وہ حصہ قرآن کا سنتے تھے جو رات جب وہاں پلیگ ہے تو ہم اجازت نہیں دیتے.وہ تو خود جلتے ہیں تمہیں جلانا کو سنا تھا.اس وقت حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب زندہ تھے.غفارہ چاہتے ہیں.وہ خود مر رہے ہیں تمہیں مارنا چاہتے ہیں.ان کو لکھ دو حضرت کشمیری حضرت صاحب کا اس وقت خادم تھا.اور میں اس کے ساتھ صاحب ہم کو اجازت نہیں دیتے.جب پلیگ سے امن ہو جائے تو پھر وہ حضرت صاحب کے مکان پر آیا.چارپائی بچھی تھی میں اس پر بیٹھ گیا آپ اطلاع دیں.اس وقت تم کو اجازت ملے گی میاں کریم بخش ! غور کرو.اگر نے اوپر دریچہ سے دیکھ لیا.پوچھا کون ہے.خادم نے کہا حافظ حامد علی میں ایک مکان گر رہا ہو اور کوئی کسی کو کہے کہ نیچے آکر کھڑا ہو جا.وہ اس کو کیا اٹھنے لگا.آپ نے فرمایا اٹھو نہیں بیٹھے رہو.مجھے اس وقت حضرت صاحب کھے گا.یہی کہ تو مجھے مارنا چاہتا ہے.اور میرے نزدیک تو پلیگ زدہ گاؤں کے چہرہ سے محبت تھی اور بوجہ خلق عظیم کے مجھے حضور سے بہت حسن ظن میں جانا حرام موت مرنا ہے.باہر سے ہر گز اس طرح پلیگ زدہ جگہ میں نہ تھا.پھر تقریباً ہمیں روزہ کو چلا گیا.پھر تقریباً آٹھ سال کے بعد میں بیمار ہو جانا چاہئے اور نہ پلیک والی جگہ سے دوسری محفوظ جگہ یعنی آبادی میں جانا گیا.میں علاج کرانے امرتسر گیا تھا.ایک ہفتہ رہ کر واپس آیا.چاہئے.کیونکہ اس سے وہاں نقصان ہو گا.روایت ۳۰ شیخ حامد علی صاحب قریباً چالیس سال گذرے قادیان میں رمضان شریف آیا.میرا استاد قرآن شریف سنانے آیا تھا.حضور داڑھی کو مہندی لگاتے تھے.اور آپ نے فرمایا.میں بیس سال کتهھو ننگل کے پڑاؤ پر حضرت صاحب سے ملا.آپ کے ہمراہ ملا وامل تھے اور چاہ کے فرش پر بیٹھے قلچہ کھا رہے تھے.میں نے پہچاننا چاہا مگر سمجھ میں نہ آیا.میں نے پوچھا میاں جی آپ کون ہیں.آپ نے فرمایا.چاہ سے پانی نکالو پھر بتادیں گے.میں نے پانی نکالا.پانی کی کلی کی پھر پیشاب کرنے کے I

Page 35

57 56 لئے تشریف لے گئے.واپس آکر پوچھا تمہارا کیا نام ہے اور کہاں کے رہنے والے ہو.میں نے نام بتایا اور گاؤں کا نام تھہ غلام نبی بتایا.آپ نے فرمایا مولوی محمد عمر کو جانتے ہو.میں نے کہا وہ ہمارے مکان میں رہتے ہیں.ہم خواب میں قادیان سے اپنے گاؤں گیا ہوں تو ایک شخص امیر بخش ملا.اور کہا نے رکھا ہوا ہے.فرمایا ان کو میرا السلام علیکم کہہ دینا.میں نے پتہ پوچھا.حامد علی ہمارے گاؤں میں حضرت عیسی آئے ہیں اور مسجد میں بیٹھے ہوئے فرمایا مرزا غلام احمد قادیان سے ہوں.مجھ کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی.میں ہیں.میں اپنے گھر نہیں گیا بلکہ مسجد میں چلا گیا.جاکر السلام علیکم کہا.نے علاج کے لئے کہا آپ نے فرمایا تم یکہ پر سوار ہو جاؤ.ہم بھی یکہ پر سوار ملاقات کی.اس وقت ان کی عمر بیس سال معلوم ہوتی تھی.میں نے چند ہو جاتے ہیں.تم قادیان چلو.میں تمہارا علاج کروں گا.میں گھر پہنچا اور باتیں کیں دور کی.ہمارے گھر دعوت کھانا.انہوں نے منظور فرمالیا.میں زیادہ بیمار ہو گیا.پھر چند ماہ کے بعد قادیان آیا.جب وہاں پہنچا تو اپنی پہلی نے اپنے گھر جاکر والدہ سے کہا.حضرت عیسی آئے ہیں ان کی دعوت ہے عادت کے موافق فرمانے لگے.قرآن شریف سناؤ اور ایک دور کوع قرآن عمدہ کھانا پکانا.سو میٹھے چاول.مرغ و غیرہ پکائے گئے.میں نے اپنی والدہ اور شریف کے سنے تھے.آپ نے فرمایا بیماری کے سبب اب وہ خوبصورتی بیوی کو کہا.میں حضرت کو کھانا کھلانے گھر لاؤں گا.تم زیارت کر لینا.چنانچہ پڑھنے میں تمہارے گلے میں نہیں رہی.میرے آنے سے حضور کو بڑی میں حضرت عیسی کو گھر لے آیا میں نے مکان میں چارپائی بچھائی.نہایت عمدہ خوشی ہوئی.فرمایا شکر ہے کہ موحد نمازی آیا.کیونکہ خادم وغیرہ اچھے نہ استری شده در تھی ان کے نیچے بچھائی گو اس وقت استری نہ ہوتی تھی) کھانا تھے.پھر میں نے اور حضرت صاحب نے کئی سال نماز پڑھی اور تیسرا آدمی کھایا باہر چلے گئے گھر سے نکلتے ہی مسجد قریب تھی.میں نے دریافت کیا کہ دو نہ ہو تا تھا.کبھی کوئی آدمی ماہ دو ماہ کے بعد آتا تھا.اس وقت آپ نے ہزار سال آپ آسمان پر کیا کرتے رہے.اس وقت عیسیٰ علیہ السلام کی بغل براہین احمدیہ لکھنی شروع کر رکھی تھی اور شائع ہوتی تھی.آپ روز صبح کو میں ایک کتاب تھی ، نیلی چولی تھی.فرمایا یہ کتاب بنا تا رہا.مجھ سے پوچھتے کوئی خواب دیکھی ہے.میں جواب دیتا، اگر آتی ہے تو یاد نہیں رہتی.یہاں تک کہ چند دنوں میں مجھے خیال ہو گیا.میں نے یہ ذکر تعبیر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی.آپ نے حلیہ پوچھا.میں نے کہا حکیم محمد دین ساکن گوجرانوالہ کی سی مکرم عبد اللہ سنوری صاحب سے کیا.انہوں نے کہا، خواب اچھی جب شکل ہے.گھونگر والے بال.عمر تمیں سال کے قریب ہے.قد درمیانہ آتی ہے کہ درود التحیات والحمد پڑھے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.اسی رو زیا پیشانی فراخ.آپ نے فرمایا.خواب درست ہے میں نے بھی عیسی علیہ السلام کو اسی رنگ میں دیکھا ہے اور بال گھونگر والے تھے.تعبیر یہ ہے کہ دوسرے روز خواب آئی.

Page 36

59 58 حضرت عیسی علیہ السلام کے ہمرتبہ کوئی آدمی ہو گا جس کی تم خدمت کرو گے.اور تمہارا خاندان کرے گا.حساب کا معاملہ :- آخر عمر تک مجھ سے کبھی حساب نہیں مانگا.اور نہ تقریباً پچاس روپے واپس لایا.اس کا حساب میں نے حضرت صاحب کو دیا.کبھی ناراض ہوئے.بلکہ ایک دفعہ میں لاہور گیا.مولوی نورالدین جب میں آیا اپنے ساتھ تقریباً چار سیر پختہ آٹا لایا.آپ نے فرمایا.آٹا صاحب نے سات سو کی ہنڈی روانہ کی تھی وہ لیکر گیا.کچھ اسباب لایا.کیوں لائے ہو.تمہارا خدا رازق ہے.اس کی ضرورت نہیں.چند روز رہتے ہوئے گزرے تھے.فرمایا کہ تیرا خیال جو جانے کے آپ نے فرمایا میں نے کب مانگا ہے.متعلق ہے.یہ درست نہیں کہ تو واپس جاوے دوائی تو ہم دے دیں گے مگر ایک روپیہ ۸ آنہ کی غلطی اور پگڑی والا معاملہ :- تھوڑی دیر بعد میں وہاں دوائی سے فائدہ نہ ہو گا.پھر فرمایا اصل بات یہ ہے کہ میرا دل نہیں گیا اور دیکھا کہ حساب میں ایک روپیہ ۸ آنہ کی کمی تھی.آپ نے فرمایا تم چاہتا کہ تو جائے اور زمیندارہ کام کرے.کیونکہ قرآن شریف میں خود ہی ابتلاء میں آئے.میں نے کب حساب مانگا تھا.آخر تلاش ہوئی ایک ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلّة وَالْمَسْكِنَة جو ہے وہ زمینداروں کے حق روپیہ ۸ آنہ کہاں گیا.دیر بعد یاد آیا.حضور کے پاس پگڑی نہ تھی، جانے میں ہے اور صحیح بخاری کی آخری حدیثوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ سے پہلے فرمایا تھا ایک روپیہ ۸ آنہ کا دوپٹہ.یہاں بازار سے ہی لے آؤ.وسلم نے زمیندارہ کے آلات دیکھے فرمایا جن کے گھر میں ہونگے وہ ہمیشہ میں نے وہ یاد کرایا.فرمایا ٹھیک ہے.ذلت میں رہیں گے.ان میں اکثر دیندار نہ ہونگے.یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ایک دفعہ حضرت صاحب بیمار تھے میں پاؤں دبار ہا تھا حضور کے ٹانگوں پر ہوں کہ تم یہاں رہو.میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں.پھوڑے نکلے ہوئے تھے.آپ بہت کمزور ہو گئے تھے.فرمایا.میں بہت آپ نے فرمایا.میں نے اپنے پاس آسمان سے نان پکا پکا یا اتر تا دیکھا ہے (یا کمزور ہو گیا ہوں.اب تالیف کی امید نہیں.براہین احمدیہ کے چار کے چار آگیا ہے) آواز آئی یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہی حصہ رہ جائیں گے.یہ باتیں کرتے ہی الہام ہوا.جس کا ترجمہ یہ ہے.ہے.اسی واسطے میں چاہتا ہوں کہ تم ان میں سے ہو جاؤ اور آسمانی کھانے کیا ہم تھک گئے ہیں اور پھر نہ کر سکیں گے." آپ نے فرمایا یہ خوشخبری میں شریک ہو جاؤ.کچھ دن میر عباس علی، منشی عبد الحق اکو شنٹ لاہور کبھی ہے ممکن ہے خدا وہی طاقت یا اس سے بڑھ کر دے.انہیں دنوں میں الہام کبھی آیا کرتے تھے یا مولوی غلام رسول دینا نگر کے جو پشاور کے صدر قانون وا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَسِيْن اس الہام پر صبح آٹھ بجے ایک لڑکا گوتھے آیا کرتے تھے.یا کبھی گردو نواح کے آدمی یونہی ملنے آجاتے تھے.سیدان کا آیا.اور وہ لڑکا تقریباً دس سال کا ہو گا ، وہ خوبصورت بھی تھا.جمعہ میں ان دنوں کبھی تین کبھی چار آدمی ہوتے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا.صبح ہی الہام ہو ا تھا.اس الہام کے مطابق یہ لڑکا

Page 37

61 60 آگیا.پھر یہ الہام مشہور ہو گیا.یہاں تک کہ حافظ سلطانی نے جو حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا.اس نے امر تسر جا کر مولوی غلام علی سے ذکر کیا.پہلی خواب میں نے دیکھا کہ حضرت مرزا صاحب اس جگہ جہاں بورڈنگ ہے.انہوں نے فرمایا.اس الہام کے معنی یہ ہیں کہ مرزا صاحب کے گھر میں لڑکا ایک بہت بڑا چبوترا بنا رہے تھے.ان دنوں یہ زمین غیر آباد تھی.اور ہو گا.حافظ غلام احمد صاحب امر تسر سے آئے.انہوں نے کہا کہ مولوی جھاڑیوں کی کثرت کی وجہ سے گزرنے والے کو ڈر لگتا تھا.غلام علی کہتے ہیں کہ الہام مذکور سے ثابت ہو تا ہے کہ آپ کے حسین لڑکا دوسری خواب ہو گا.پھر اس کے متعلق اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ اور نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ الهام ہوئے.میں دیکھتا ہوں کہ گاؤں سے باہر اراضی دیمہ میں ایک سوار کھڑا ہے.اس کے پاس سبز گھوڑا ہے.اور برقعہ پہنا ہوا ہے.میں دوڑا دوڑا آیا.کیونکہ حضرت صاحب کو نکاح کے متعلق بار بار الہام ہوتے تھے.اور ایک اور آدمی نظر آیا.میں نے پوچھا.یہ کون ہے.اس نے کہا حضرت جب بار بار الہام ہوئے تو نکاح کی تجویز ہوئی.میر ناصر نواب صاحب سے یوسف علیہ السلام ہیں.تھوڑا سامنہ دکھایا پھر نہ معلوم کہاں چلے گئے.تیسری خواب خط و کتابت ہوئی.انہوں نے ہاں کر لی.میں نے دیکھا ہمارے گھر میں مختلف رنگ و مختلف قد و قامت کے بہت سے پرندے ہیں.ایک مرغ جتنا جانور سب سے بڑا ان میں ہے وہاں ایک روایات ۳۱ شیخ نور احمد صاحب مختار عام حضرت صاحبزادہ صاحب شخص کو میں نے دیکھا جس سے میں نا آشنا تھا.میں نے پوچھا.یہ پرندے کیا جن دنوں حامد علی یہاں آیا اس کو ضعف کی بیماری تھی.ہمارا گاؤں ہیں.اس نے کہا.بڑا پرندہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں.موضع کھارا یہاں سے دو کوس ہے.وہاں ایک تھہ ہے ( حافظ حامد علی بوجہ یہ تینوں خواہیں میں نے حامد علی کو سنا ئیں.وہ مجھے لے کر قادیان آیا.برادری میرے واقف تھے) یہ وہاں میرے پاس نور کی تلاش میں گئے.حضرت مسیح موعود گول کمرہ والی جگہ ٹہل رہے تھے.حافظ حامد علی نے کہا.میری عمر بارہ سال کی تھی.میں نے تین خواہیں متواتر تین راتوں میں دیکھی یہ لڑکا متاب خان کھارا والا ہے اور وہ گذشتہ خواہیں سنائیں گئیں.آپ تھیں.وہ میں نے حافظ حامد علی کو سنانی شروع کردیں.نے میرے شانہ پر ہاتھ رکھا اور ٹہلتے ٹھملتے خواب سنے.جب خوابیں منا چکا تو آپ نے تبسم لب ہو کر فرمایا.دو خوابوں کی تعمیر یہ ہے :- حضرت یوسف کا 1 I i i

Page 38

63 62 دیکھنا ۴۵ سال تکالیف آویں گی ( یہ خواب ہو ہو پورا ہوا) تیسرے خواب کی تعبیر :- پرندہ کی شکل میں حضرت ابراہیم کو دیکھنا.یہ دانہ اٹھا کر چہائے.میرے والد صاحب اور تایا صاحب ذکر کیا نبی بزرگ ہے.خدا فرماتا ہے.ہم انبیاء کو بہشت میں پرندہ کی شکل میں داخل کرتے ہیں.خواب کے متعلق آپ نے بڑی تفتیش کی.مویشیوں کے مقدمات میں راستی کرتے تھے کہ ہمارا گاؤں مرزا صاحب کی مفصل حالات دریافت کئے اور قدد رنگ وغیرہ کے متعلق پوچھا ( یہ خواب تعلقہ داری میں تھا.کچھ عرصہ حضور اپنے والد صاحب کے مختار رہے اور ہمارے ساتھ بھی کئی پیشیوں میں عدالت میں جانا ہوا.آپ ہمیشہ راستی کا بھی پورا ہو گیا) اکثر دفعہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں آتا.آپ ٹہلا کرتے مگر پہلو اختیار کرتے خواہ مقدمہ کو کس قدر نقصان پہنچ جاتا.غرض راستی کو ہاتھ میں قرآن شریف ہو تا تھا.یا کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے آپ چنے کے دانے بالکل ہاتھ سے نہ جانے دیتے.بھی اکثر چبایا کرتے تھے.کیونکہ مسکین لوگ آجاتے اور اندرون خانہ سے جو کھانا آتا.وہ آپ مسکینوں کو دے دیتے اور خود دانے چبا کر دن بسر کرتے تھے.پھر کھانے کو نہ فرماتے تھے.جب حضور کی دوسری شادی ہوئی.تو اسی وقت میراثی کا سوال مرزا سلطان احمد صاحب کی بھی شادی ہوئی تھی.یہاں دستور تھا کہ مرزا صاحبان کے گھر میراثی آکر شادی پر کچھ لیا کرتے مریض کی خبر گیری ایک دفعہ میرے تایا صاحب بیمار تھے ہم نے تھے.وہ میراثی آیا.مرزا امام الدین بھی سلطان احمد صاحب کے پاس بیٹھے آکر عرض کی کہ حضور وہاں چل کر مریض کو ہوئے تھے ، ان سے ملا.اور دعا کی انعام چاہا.انہوں نے کہا مرزا غلام احمد دیکھ لیں.ہم سواری کے لئے گھو ڑالائے ہیں.آپ بے تامل تشریف لے کی بھی شادی ہوئی ہے.جب تک ان سے انعام نہ لاوے ہم نہ دیں گے.آئے اور فرمایا.گھوڑی کی ضرورت نہیں آپ دو کوس پیدل ہمارے گاؤں اور جو وہ دیں گے ہم ان سے دگنا دیں گے.وہ میراثی قطب الدین نامی گئے.مریض کو دیکھا اور جاتے ہی السلام علیکم فرمایا.بیمار کے پاس بیٹھ گئے.دوائی تجویز فرمائی.پھر چند دینی باتیں کیں.دودھ چائے وغیرہ کے لئے بہت کہا.مگر آپ نے پینا منظور نہ فرمایا.آخر میں کہا کہ اگر بہت خاطر منظور ہے تو چنے کے دانے لے آؤ.چنانچہ لائے گئے.حضور نے یونہی دس پانچ حضرت صاحب کے پاس آیا.آپ مسجد مبارک سے اتر رہے تھے وہ چڑھ رہا تھا.زینہ میں السلام علیکم ہوئی میراثی نے دعادی آپ نے فرمایا نماز پڑھا کرو.اس نے کہا.ہاں نماز بھی پڑھتے ہیں رزق کا بھی فکر ہے.آپ نے فرمایا یہاں آجاؤ.اس نے کہا حضور بال بچہ.آپ نے فرمایا بال بچہ کو بھی

Page 39

65 64 لے آؤ.خدا ان کا بھی مالک ہے.اور آپ نے جیب سے نکال کر دو روپیہ سنیں.پھر ہم نے پوچھا وہ حاجی کہاں ہے.اس نے کہا.تکیہ میں ہے.دئے اور فرمایا.یہ کپڑے اتار دو.ان کے (روپوں کے) کپڑے لیکر تھ چنانچہ ہم تکیہ میں گئے.دیکھا وہ (جعلی حاجی) چرس پی رہا ہے.کئی تسبیح گلے میں ہیں.رنگے ہوئے کپڑے ہیں ہر ایک کے سوال پر وہی بات مذکور سناتا کرتہ بنا لو اور نماز پڑھا کرو.ہے.ہم چلے گئے.کئی دن بعد پھر آئے.مرزا امام الدین ملے.انہوں نے کہا.لو بھئی مرزا غلام احمد ہمارے دم میں نہیں آتا.اس نے خط لکھا ہے کہ جب حضور نے دعوئی امام الدین کا بنایا ہو ابناوٹی عرب مہدویت کیا آپ میں نے دعوت اسلام دی ہے.مبارک ہے وہ جو اس میں شامل ہو.میری بیعت میں نے جس دن بیعت کی اس دن میں نے کچھ پتاشے لا کر آگے رکھے ، حافظ حامد احمد علی آئے اور عرض کیا کہ لودھیانہ تھے.قادیان میں خبر آئی کہ دعوی کیا ہے.مگر چند دنوں بعد ہمارے گاؤں میں افواہ اڑی کی ایک عرب مدینہ سے آیا ہے، وہ کہتا ہے حضرت رسول کریم نے مجھے خواب میں بتایا ہے کہ مہدی قادیان میں ہے.چنانچہ بہت سے لوگ ہمارے گاؤں سے اور دیگر بہت سے لوگ اور دیہات کچھ مہمان جو کپور تھلہ کے آئے ہوئے ہیں ان کے لئے چاء تیار ہے میٹھی سے دار الامان آئے.(حضرت صاحب لو دھیانہ میں ہی تھے ) کیا دیکھتے ہیں مرزا امام الدین کے گھر مجمع ہے.میرے بھائی کے ساتھ مرزا امام الدین کا تعلق تھا.انہوں نے اس کو اپنے پاس بلالیا.میں بھی پاس جا بیٹھا.میرے بھائی نے کہا وہ حاجی کہاں ہے.انہوں نے کہا تو دوست ہے تجھ کو اصل حقیقت بتا تا ہوں.وہ حاجی نہیں ہے وہ جالندھر کا رہنے والا فقیر ہے.اس کو ہم نے مشورہ سے ایسا کرنا سکھایا ہے.اور چونکہ مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہے ہم نے اس طرح اس کی تائید کی ہے اور ایک خط مرزا صاحب کو لودھیانہ لکھ دیا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے ایسا سامان کیا ہے اور بھی مدد کریں گے مگر اپنے کام میں ایک پتی ہماری رکھ لو.دیکھئے کیا جواب آتا ہے کام تو اس نے چھیڑا ہے.بہت روپیہ کماویں گے.میں نے یہ باتیں خوب بناؤں.آپ نے فرمایا ہاں.میاں نور محمد نے چاہ سے (یعنی محبت سے) بیعت کی ہے.ان کے لئے چاء میں پتاشہ ڈالو.آپ ہمیشہ خندہ پیشانی سے رہتے.بشاشت چہرہ پر رہتی تھی.ایک روز میں دو بجے مسجد مبارک میں آیا تہجد پڑھنی تھی.نماز تہجد اندھیرا تھا.جب مسجد میں داخل ہوا.اندھیرے میں آدمی کا سانس معلوم ہوا.میں آگے بڑھا.دیکھتا ہوں حضور چٹائی پر لیٹے ہیں.سر کے نیچے کہنی رکھی ہے اور سو رہے ہیں.میں نے نماز پڑھی.فارغ ہو کر آہستہ آہستہ پاؤں دبانے لگا.حضور بیدار ہوئے.فرمایا نماز کا وقت ہو گیا.میں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں.چنانچہ اندر

Page 40

67 66 تشریف لے گئے اور وضو کر کے پھر نماز ادا فرمائی.خدا برکت دے.رات کو قرآن کے نوٹ لکھنا ایک دن تجھید کے وقت میں روایات ۳۲ باہر نکلا تقریباً چار بجے حضرت حافظ معین الدین صاحب ہونگے.دیکھا حضور ڈہاب کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں.معلوم ہوا میرا گاؤں بھینی ضلع امرتسر، امرتسر سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے.باغ سے تشریف لائے ہیں.بغل میں قرآن شریف تھا.چند کاغذ قلم دوات میرے نانکے قادیان میں تھے.میری پیدائش قادیان میں ہی ہوئی تھی.تھے.آپ نے مجھے دیکھ کر جھٹ السلام علیکم فرمایا اور خندہ پیشانی سے گھر کو یہاں ہی جو ان ہوا.اور تھوڑا ہی عرصہ کبھی کبھی جاکر بھینی رہا.میرے نانا صاحب نے پہاڑی دروازہ کھو جوں والی مسجد میں ایک ملاں حسین بخش کے تشریف لے گئے.میں نے آٹا وغیرہ کی دکان کرلی تھی.آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ خالص پاس مجھے پڑھنے کے لئے بٹھایا.مرزا سلطان احمد بھی وہاں میرے ساتھ گھی اور آٹا ہوتا ہے.ایک دن مجھے بلوایا میں در دولت پر حاضر ہوا.اور پڑھتے تھے.اسی طرح پھر میں حضرت صاحب کا واقف ہوا.اور حضور کے دستک دی.حضور تشریف لائے.آپ نے فورا السلام علیکم فرمایا اور پوچھا گھر آنے جانے لگ گیا.ان دنوں حضرت صاحب دس گیارہ سال کامل تمہارے ہاں سنا ہے عمدہ آٹا اور گھی ہوتا ہے.میں نے کہا ”حضور " فرمایا گوشہ نشینی کے بعد باہر نکلنے لگے تھے.اس سے پہلے حضور نے تقریباً دس ہمارے لنگر کے لئے دے سکتے ہو ؟ میں نے کہا انشاء اللہ.اس کے بعد حضور گیارہ سال گوشہ نشینی کی اور بہت ہی کم با ہر نکلتے تھے اور لوگوں سے بہت کم اکثر دفعہ گھی منگوایا کرتے جس وقت اطلاع دی جاتی کہ اتنا گھی دیا گیا.تو ملتے تھے.اس عرصہ میں حضور کی صحت کچھ خراب ہو گئی تھی.آپ کے فور انقد قیمت ادا فرماتے.اگر قیمت نہ ہوتی تو وعدہ فرماتے ایک دن کا یا چار والد صاحب مرحوم کو جب علم ہوا تو فرمایا اس ملاں کو کہو ذرہ باہر عمل لیا دن کا غرض یہ عادت تھی کہ جو وعدہ فرماتے اس سے کچھ وقت پہلے روپیہ کرے اور دیکھ بھال کر توجہ کی اور مرغ اور سریاں کھلائی شروع کیں اور یخنی پلانی شروع کی کیونکہ کمزوری بڑھ گئی تھی.اس لئے کہ جو کھانا آتا تھا وہ مسکینوں کو دے دیتے تھے اور خود بہت کم کھاتے تھے.آپ کے بھائی مرزا ارسال فرماتے.ایک دن حضور سیر کے لئے جارہے تھے جب بازار میں سے گزرے میں وکان میں کام کر رہا تھا میں نے السلام علیکم کہا.حضور نے تبسم لب ہو کر غلام قادر کو جب پتہ لگا کہ یہ روٹی تقسیم کر دیتے ہیں ، انہوں نے گھر میں انتظام کر دیا کہ دو آدمیوں کا کھانا زیادہ بھیجا کرو.اس لئے پھر دس بارہ جواب دیا اور فرمایا.الحمد للہ ہمارے سلسلہ کی دکانیں بازار میں ہیں.فرمایا I i

Page 41

69 68 روٹیاں آتیں مگر حضور تقریبا سب ہی تقسیم کر دیتے اور جہاں تک مجھے علم عمارت تین چار دفعہ میں آپ کے پسند آئی تھی.مسجد مبارک بھی میری ہے میں نے اس وقت لوگوں سے سنا کہ حضور ایک روٹی کی چوتھائی تناول موجودگی میں بنی ہے.کوچہ پر ڈاٹ لگی اور یہ تین کمرے بنے تھے.ایک فرماتے ہیں.اس میں سے تین چوتھائی روٹی تقسیم کر دیتے.شام کے وقت محراب کا کمرہ تھا.آگے اور دوسرا کمرہ بڑا تیسرا کمرہ تھا یہ جگہ اس وقت لڑکوں سے چنے بھنوا کر منگوالیا کرتے تھے.اس میں سے بہت سا حصہ پاس ویران پڑی تھی.دھتورے اور آک اور ڈیلوں کے بوٹے یہاں کھڑے بیٹھنے والوں کو دے دیتے خود تھوڑے ہی چبایا کرتے تھے.ہوتے تھے.میں اور اور لڑکے کھیلا کرتے تھے.حضرت صاحب کی عادت تھی ، دروازہ بند رکھتے تھے ، اگر دنیا دار وجیہہ حضرت صاحب گوشہ نشینی میں ذکر الہی کرتے تھے.قرآن پڑھتے تھے لوگ ملنے کو آتے تو آپ ان کے ملنے کے لئے بہت کم دروازہ کھولتے تھے.حدیث دیکھتے تھے اور نوٹ کرتے تھے.آخر آپ نے براہین احمدیہ لکھنی ہاں جب کوئی مسکین آدے اور آواز دے تو آپ دروازہ کھول دیتے.شروع کی.اور وہ اس طرح کہ ایک شخص شمس الدین نامی حضرت صاحب آپ مسکینوں اور غربا کے کنبوں سے بہت محبت کرتے تھے.بڑی مسجد اقصیٰ کے پاس ہو تا تھا.آپ ٹہلتے تھے بغیر کتاب کے.آپ براہین احمدیہ کی نامی میرے سامنے بنی ہے.حضرت صاحب کے والد صاحب نے یہ جگہ عبارت پڑھتے تھے.اس کو کہتے تھے لکھتا جا.وہ لکھتا جاتا تھا.حضرت سات سو روپیہ کو ہندوؤں سے خرید کی تھی.ان دنوں میں جوان تھا.طاقت صاحب شملتے رہتے اور مضمون لکھاتے رہتے تھے.مگر شمس الدین حقہ پیا اچھی تھی، بھوک زیادہ لگتی تھی.جو کھانا حضرت صاحب کے ہاں سے ملتا کرتا تھا.اور اس کی توجہ میں بعض دفعہ غلطی ہو جایا کرتی تھی.جب حضور وہ تو سب مسکینوں کو حصہ رسدی ملتا تھا.اس سے میری شکم پوری نہ ہوتی فرماتے مسودہ مناؤ.وہ سنا تا آپ فرماتے.تم نے تو مسودے کا بیڑا غرق کر تھی.سوال کرنے سے مجھے نفرت تھی.زیادہ سوال میں نہ کرتا تھا اکثر دفعہ دیا.اور بہت غلطیاں کیں.اس کو رد کروا کر دوبارہ لکھواتے تھے.اسی بھوک کے وقت میں مسجد اقصیٰ میں توت کے پتے کھالیا کرتا تھا.ایک دفعہ طرح براہین احمدیہ کا مسودہ حضور نے لکھوایا.اور حضور کے پاس کوئی حضرت صاحب نے مجھے ایسا کرتے دیکھ لیا.میری جھولی سے پتے گر پڑے.کتاب وغیرہ نہ ہوتی تھی.زبانی ہی مضمون لکھواتے تھے.جب مسودہ آپ نے فرمایا حافظ یہ پتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا.حضرت بھوک کے وقت درست لکھا جاتا.پھر غلام محمد کاپی نویسی کرتا تھا.اس کو مسودہ ملتا تھا.وہ کاپی لکھتا تھا اور وہ کاپی پھر چھپ جایا کرتی تھی.مرز اسلطان احمد صاحب نے قرآن تو مسجد میں پڑھا.مگر بعد میں حضرت صاحب نے خود مرزا سلطان احمد صاحب کو قرآن پڑھایا اور سبقا " سبقا " کئی کھالیتا ہوں.گول کمرہ میرے رو برو بنا ہے.یہ کئی دفعہ گرا کر بنایا.حضور کے والد روبرو جب دیکھتے کہ ذرہ خم رہ گیا ہے.پھر گروا کر بنواتے.اسی طرح اس کی | !

Page 42

71 70 ایک دن مسجد اقصیٰ کے پاس سے گذر رہا تھا حضرت صاحب معہ میاں احسان کرتے تھے.کتابیں تا شرح ملا کافیہ حضرت صاحب سے پڑھیں.یہ دل لگا کر پڑھتے تھے حضور نے مرزا سلطان احمد کو فارسی بھی پڑھائی.فضل احمد جان محمد کے وہاں ٹہل رہے تھے.میرے جو تہمد باندھا ہوا تھا وہ لنگوٹ کی بھی حضور کے پاس پڑھتا تھا مگر وہ دل نہ لگا تا تھا.اور اکثر ادھر ادھر دوڑ جایا کرتا تھا.اس لئے اسے کچھ کم علم نصیب ہو ا تھا.صرف تھوڑا بہت اردو ہی سیکھا تھا.طرح کا تھا، اور اس سے پنڈلیاں ننگی ہوتی تھیں گھٹنوں تک بمشکل آتا تھا.آپ نے دیکھ کر فرمایا.یہ نابینا حافظ یو نہی آوارہ پھرتا ہے.قرآن پڑھے تو بہت ہی بہتر ہے.اگر قرآن نہیں پڑھتا تو کم از کم کوئی قصہ وغیرہ یاد کرلے“ ایک دفعہ میرے روبرو مرزا غلام قادر مرحوم نے آخری ایام میں مرزا سلطان احمد کو بلایا اور سمجھایا کہ میں آج کل بیمار ہوں.دنیاوی کاموں میں بھی اکیلا ہی رہا اور تم بھی اکیلے ہی ہو.مگر یاد رکھو.بھائی صاحب سے (مرزا روٹی کا گزارہ تو چل جائے.اس بات کا مجھ پر بڑا اثر ہوا.چنانچہ میں نے قصے (سوہنی وغیرہ کے یاد کرنے شروع کر دیئے.اور میں اپنے بھائی کے ساتھ گداگری کو جاتا تو قصے پڑھتا.کیونکہ ہماری ذات بھرائی تھی اور ہم غلام احمد صاحب سے میں بھی قانونی باتوں میں بہت مشورہ لیتا تھا.تم بھی مشورہ لے لیا کرو.جب براہین احمدیہ چھپنی شروع ہوئی.حضرت صاحب کو لوگ بھیک مانگ کر گزارہ کرتے تھے مگر وہاں ان قصوں نے تو کام خوب دیا.لوگ قصہ سنتے اور کچھ دے دیتے.مگر مجھے یہ تکلیف ہوئی.کہ جب میں روپے کی ضرورت ہوئی.آپ نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ تمہارے پاس زیور طلائی و نقری ہے.تم مجھے بطور قرض کے دے دو.ہمیں کتاب کی چھپوائی میں ضرورت ہے.جب اس نے سنا تو انکار کر دیا کہ آپ تو ملاں آدمی ہیں.دن رات نماز روزوں اور قرآن کتابوں میں لگاتے ہو.میں وہ زیور بھی جو میرے ساس خسر نے دیا ہے تم کو دیکر کھو دوں.خیر زور نہ دیا.آپ خاموش رہے.نماز پڑھنے لگتا.تو میرا بھائی مجھے روکتا کہ نماز نہ پڑھو.اس طرح مانگنے میں ہرج ہوتا ہے.میں نے دعا کی خدایا اس سے چھڑا.چنانچہ خدا کی حکمت دیکھو.ایک دن میں حضرت صاحب کی طرف آیا.مرزا غلام قادر صاحب مرحوم بیمار تھے.انہیں قصے سننے کا شوق تھا.بوجہ بیماری بیکار رہتے تھے قصہ سن کر خوش ہوتے.دن کو تو لوگ آجاتے تھے مگر رات کی تنہائی میں گھبراتے.میاں جان محمد صاحب نے ان سے ذکر کر دیا کہ حافظ معین الدین ایک دن حضور نے میاں جان محمد کو کہا کہ کچھ روپیہ قرض دو.براہین خوب قصہ جانتا ہے.انہوں نے حضرت صاحب سے سفارش کی کہ آپ احمدیہ کی چھپوائی کے لئے ضرورت ہے.اس نے کہا پانچ روپے ہیں.آپ اس حافظ کو کہدیں کہ میرے پاس رہا کرے.چنانچہ حضرت صاحب نے نے لے لئے.تھوڑے ہی عرصہ بعد روپے آگئے.آپ نے وہ واپس کر مجھے فرمایا.حافظ صاحب تم مرزا غلام قادر صاحب کے پاس رہا کرو.وہ دیئے.شاید کچھ زیادہ ہی دیا.کیونکہ آپ کی عادت تھی کہ ہمیشہ لوگوں پر |

Page 43

73 72 تمہیں رکھنا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا.حضرت روٹی کہاں سے کھاؤں.بلکہ معکوسی ترقی ہونے لگی.آخر میں نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک آپ نے فرمایا.جب وہ رکھیں گے روٹی بھی دیویں گے.اگر نہ دیں ہمیں دریا ہے میں اس میں خود کو دتا ہوں.اچھلتا ہوں.نہاتا ہوں.اس کے پانی اطلاع کرو.ہم بندوبست کر دیں گے.آپ بے فکر رہیں خداوند تعالیٰ کے نیچے نہایت عمدہ ریت ہے.اس کا پانی گھٹنوں تک تھا مگر تھوڑی دیر میں تمہاری روٹی کا انتظام کر دے گا.چنانچہ کچھ دن ایک وقت کھانا مرزا غلام وہ پانی بالکل خشک ہو گیا.مجھے جاگ آگئی.اس کی تعبیر کچھ سمجھ میں نہ آئی.قادر صاحب دیتے اور ایک وقت حضرت صاحب.پھر مرزا غلام قادر کچھ دنوں بعد جب میں قادیان آیا.حضرت صاحب مجھے ملے.فرمایا حافظ صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب دونوں وقت کا کھانا ہمارے ہی ہاں کھایا تجھ کو کہا تھا کہ یہاں آجاؤ.تو نہ آیا.جب آپ نے یہ حکم فرمایا.خدا نے کرو.چنانچہ میں آٹھ نو ماہ رہا پھر مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ہو گئی اور فورا اس خواب کی تعبیر میرے دل میں ڈال دی کہ وہ دریا قرآن تھا.وہ تو پھر مجھ کو اجازت ہو گئی اور میں موضع ننگل چلا گیا.اور وہاں جاکر قرآن خشک ہو گیا.اب ترقی نہ ہو سکے گی.اور جہاں کا تھا وہاں ہی رہ گیا.میں ڈر شریف پڑھنا شروع کر دیا.میں نے تقریباً دس یا گیارہ پارے قرآن شریف گیا.میں نے زور سے کہا.حضرت میری توبہ میں بھول گیا.اب میں کے پڑھے تھے کہ ایک دن میں حضرت صاحب کے پاس آیا.آپ گول کمرہ آجاؤں گا.آپ نے فرمایا.ہاں آجائے گا.میں نے کہا ہاں حضور.آپ کے آگے ایک تخت پوش پر تنہا بیٹھے تھے.اس وقت مسجد مبارک تیار ہو گئی نے فرمایا پکا وعدہ ہے.میں نے کہا.ہاں حضور پکا وعدہ ہے.آپ نے تھی.مجھے بلا کر فرمایا حافظ ! اب تم بالکل ہمارے پاس آجاؤ.اور اس مسجد فرمایا.پھر تو یہاں سے نہ جائے گا.میں نے کہا حضور نہیں پھر نہیں جاؤں میں اذان دیا کرو.کیونکہ مجھے کام میں لگا رہنے کے باعث بعض وقت وقت گا.آپ نے فرمایا اپنا بسترا اٹھا لاؤ.چنانچہ میں گیا اور بسترا اٹھالایا.اور گول تنگ ہو جاتا ہے.اگر مسجد میں اذادن ہو وے تو ہمیں پتہ لگ جاوے اور نماز کمرہ میں رکھ دیا.تھوڑی دیر بعد حضرت صاحب تشریف لائے.فرمایا اول وقت پر پڑھی جایا کرے.اگر تم اب نہ آئے تو یاد رکھو کہ پھر خدا کی حافظ ! تجھے کہا تھا مگر تو نہ آیا.میں نے کہا حضرت میں تو آگیا.بستر بھی لے آیا بہت مخلوق میرے پاس آجائے گی اور پھر تم کو یہاں جگہ نہ ملے گی.اور پھر ہوں.آپ نے فرمایا اچھا بستر بھی لے آیا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضور لے پچھتاؤ گے.میں نے عرض کیا.حضرت قرآن شریف پڑھتا ہوں.وہ ختم ہو آیا ہوں.آپ نے فرمایا اب تو تو نہ جائے گا.میں نے عرض کیا نہیں حضور جائے تو آسکتا ہوں.آپ نے فرمایا جو پڑھ لیا ہے وہی کافی ہے.اب یہاں اب نہیں جاؤں گا.چنانچہ اس دن سے میں نے در دولت پر رہائش شروع آجاؤ.میری بد قسمتی میں نے نہ مانا.اور خاموش ہو کر چلا گیا.وہاں جا کر کردی اور مسجد میں اذان دیا کرتا تھا.دس پانچ دن بہت کوشش کی کہ کچھ ترقی کروں.مگر سبق یاد ہی نہ ہو تا تھا آپ اکثر دفعہ مجھ سے پنجابی کے شعر سنا کرتے تھے.جو عورتیں یا بچے

Page 44

75 74 پاس ہوتے تھے وہ میرے شعروں میں متوجہ ہوتے.آپ کام میں لگ حضور کو اطلاع دی آپ نے فرمایا اگر وہ گھبراتا ہے.تم مت گھبراؤ.اس کو جاتے اور فرماتے حافظ تم پڑھو.میں کام بھی کرتا ہوں اور سنتا بھی ہوں.مگر کھانا کھلاؤ بڑی نرمی سے بات کرو اور خواہ کچھ سخت ست کے برداشت وہ عورتیں بچے حضور کے کام میں حارج نہ ہوتے تھے.میں ابتداء سے کرو.مہمان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو.اس کی سختی کی ہرگز ہرگز پرواہ نہ حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کے اند ر زنانہ مکان میں چلا جایا کرتا کرو.جو کچھ بھی کہے سب برداشت کرو.جب میں باہر آؤں گا تو ملوں گا.تھا، دروازہ پر دستک دیا کرتا تھا، جب اندر سے حضرت صاحب اجازت فرما اس دن حضور باہر تشریف نہ لائے اور ملاقات نہ ہو سکی.میں نے رات کو دیتے تو میں اندر جاتا.اگر اجازت نہ ہوتی تو واپس آجاتا.اس شخص کو پوچھا.تم کام بتاؤ.اس نے بڑی لمبی چوڑی باتیں کر کے بتایا.جب براہین احمدیہ چھپ گئی.لوگ اس کو دیکھ کر جوق در جوق آنے میری تجارت تھی وہ خراب ہو گئی.مجھے چار سو روپیہ کی ضرورت ہے.وہ شروع ہوئے.پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا.لوگ بیعت کرنے لگ عرض کر کے دلوا دو.چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے عرض کر دیا.آپ گئے.قادیان میں رونق ہونے لگی.ہر قسم کے تحائف اور روپے اور جگہ صبح کو نماز کے وقت تشریف لائے.تو اس وقت اس سائل سے ملاقات جگہ سے انسان آنے شروع ہو گئے.ہوئی.اس نے سوال کیا.آپ نے فرمایا.میرے پاس اس وقت روپیہ براہین احمدیہ کے شائع ہونے سے پہلے حضور نے بتایا کہ براہین احمدیہ نہیں ہے اور میرا کام تو کل پر ہے.جو آتا ہے خرچ کر دیا جاتا ہے.یہ خیال کے شروع کرنے سے پہلے کھانا کھانے والوں کے علاوہ میرے پاس پچپن لوگوں کا غلط ہے کہ جب عیسی ، آدیں گے تو ان کے پاس خزانہ ہو گا.جو ہزار سائل آئے اور میں نے ان کو کچھ نہ کچھ دیا اور یہ تعداد میں لکھتا رہا.آوے گا.اس کو بوریاں بھر بھر کر دولت دیوے گا.یہ غلط ہے.دولت کی مگر جب الہامات شروع ہوئے پھر میں نے یہ لکھنا چھوڑ دیا.بوریاں ہمارے پاس نہیں.ہاں قرآن مجید کا خزانہ خدا نے مجھے دیا ہے وہ ایک دفعہ ایک سائل آیا اور حضور نے اس کے سوال پر گیارہ روپے حسب استعداد ہر ایک کے لئے تقسیم ہوتا ہے جو چاہے فائدہ حاصل میرے ہاتھ بھیجے آپ حتی الامکان سائل کو خالی نہ جانے دیتے تھے مگر جو کرلے.آخر سائل کو کچھ دیا گیا.مگر وہ جاتا ہوا ایک خط لکھ کر حضرت سائل فضول خرچی کے لئے کچھ مانگے اسے سمجھا بجھا کر واپس کر دیتے تھے.صاحب کو دے گیا جو سارے کا سارا گالیوں سے پر تھا.آپ نے وہ خط پڑھا ایک دفعہ ایک شخص آیا اور مجھ سے پوچھا حضرت صاحب کہاں ہیں.اور خط کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس بھیجا کہ مہمان صاحب میں نے کہا گول کمرہ میں ہیں.بیٹھو جب حضرت صاحب تشریف لاویں گے یہ انعام دے گئے ہیں.مل لینا.وہ بہت گھبرا تا تھا.ابھی ملنا ہے سختی سے کہتا تھا.آخر میں اندر گیا.ایک دن ہمیں مرزا نظام الدین نے بلا کر کہا کہ حضرت صاحب سے │

Page 45

77 76 ہماری صلح کروا دو.اور ہم انہیں مان لیتے ہیں.ہم نے کہا.بہت اچھی کہ ہم ایمان لائے اللہ اور آخرت پر مگروہ مومن نہیں.سو نظام الدین بھی بات.مناسب موقع پر عرض کی جاوے گی.مگر دل ڈر تا تھا.کیونکہ صاحب کی زبان مبارک سے کئی دفعہ ایسے کلمات سنے تھے.جن سے ہم پر ثابت ہو تا تھا کہ ان کو ایمان نصیب نہ ہو گا.چنانچہ خود عرض کرنے کی جرات نہ انہیں میں سے ہے.روایت ۳۳ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوئی.مگر ایک حافظ جو ان دنوں یہاں رہتا تھا.اس سے ہم نے ذکر کیا.اس حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مسیح کی موت میں اسلام کی زندگی نے کہا.میں حضرت صاحب کو کہوں گا.اور میں تو حضرت سے منوالوں گا.کیونکر یہ ہو سکتا ہے.کہ کوئی کہے میں ایمان لاتا ہوں اور حضرت صاحب ہے.چاہے مسیح کی موت مان لو.چاہے اسلام کی موت قبول کر لو.اس انکار کر دیں کہ ہمیں تیری ضرورت نہیں.خیر جب حضرت تشریف لائے وقت مسیح کی خدائی زور پکڑ رہی ہے.مسیح کو مرنے دو تا اسلام زندہ ہو.حافظ صاحب نے فوراً یوں سلسلہ گفتگو شروع کیا کہ حضرت ایک عرض اسلام تو حقیقت ہے راہ ہے.اس سے تو جہان ہدایت پاتا ہے.مسیح تو ایک ہے.آپ نے فرمایا کہو.آدمی ہے.اس کی کیا حقیقت ہے.اگر اس کی زندگی سے جہان کی ہدایت رکے.سو تم اس عقیدہ کو چھوڑو.تا اسلام زندہ ہو.حافظ : حضور اگر کوئی مخالف اپنی غلطیوں سے تو بہ کر کے حضور کے ہاتھ پر ایمان لاوے اور وہ پہلے حضور کے ساتھ بہت مخالفت کر چکا ہو.کیا حضور اس کو معاف فرما کر اس کی بیعت لے لیں گے ؟ حضرت صاحب : ہاں ہم اس کو معاف کر دیں گے.اور بیعت میں داخل کرلیں گے.خواہ وہ محمد حسین بٹالوی جیسا دشمن ہو.سوائے نظام الدین وغیرہ کے.روایات ۳۴.حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر علماء کو علم کا گھمنڈ ہے تو ہماری کتابوں کا رد لکھ دیں.کسی نے کہا فلاں عالم کہتا ہے کہ میں رد لکھ سکتا ہوں لیکن اگر حافظ : حضور نظام الدین کی استثناء کیوں فرما دی.حضور قرآن سے اس چاہوں.مگر میں نے نہیں چاہا.آپ نے فرمایا.ایک شخص کے پاس بکری کی دلیل دیں.کیا نظام الدین جدا مخلوق ہے.تھی.اس نے اشتہار دیا میری بکری شیر کو مار دیتی ہے.لوگ آئے اور کہا حضرت صاحب : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ دکھاؤ کس طرح مارتی ہے.کہا مارتی ہے جب اس کا جی چاہے.سو ان علماء الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْن دیکھو خدا فرماتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کی یہ حالت ہے.یہ لکھ تو سکتے نہیں یونہی کہ کر اپنا اور جہلاء کا جی خوش کر

Page 46

79 78 دیتے ہیں.چونکہ قرآن میں آیا ہے کہ مومن مصیبت میں بھی خوش ہوتا ہے.نظام الدین کا لڑکا دل محمد نامی مر گیا.بڑی جزع فزع ہوئی.مگر کچھ دن کے بعد میاں مبارک احمد صاحب کی وفات ہو گئی.اس دن میں نے دیکھنا چاہا کہ مصیبت میں خوشی کس طرح ہوتی ہے.چنانچہ میاں مبارک احمد کا جنازہ لے کر بہشتی مقبرہ میں گئے.وہاں قبر میں دیر تھی.حضرت صاحب بلا تکلف ایک دن حضرت صاحب کے پاس کسی نے عرض کیا کہ بٹالہ میں مخالف لوگ شور کرتے ہیں کہ احمدی لوگ قادیان میں رہ کر شراب پیتے ہیں.حضور نے فرمایا اس کی تحقیقات کرو.رائی کا پہاڑ بنتا ہے.مگر جب تک کچھ وجود نہ ہو.انسان سے کچھ نہیں بنتا.چنانچہ اس کی تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کا ایک رشتہ دار جو رشتہ میں ان کا بھتیجا تھا وہ شراب پیتا ہے.اور ہندو بازار میں جا کر چوری چھپے یہ کام کرتا زمین پر بیٹھ گئے.خدام ارد گرد بیٹھ گئے.جب سب لوگ بیٹھ گئے تو ہے.حضرت صاحب کو اطلاع دی گئی آپ نے ناراض ہو کر فرمایا.مولوی حضرت صاحب نے فرمایا.خوشی اور غمی کے دن کبھی کبھی آیا کرتے ہیں.صاحب سے کہدو کہ اس کو فورا نکال دیں.اس پر حضرت مولوی ہمارے گھر میں اٹھارہ برس کے بعد آج یہ دن آیا ہے.اس دن بڑا فضل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کی اصلاح کے لئے دو طریقے رکھے ہیں.ایک قانون شریعت ایک قانون قضاء و قدر.شریعت میں خود اپنی اصلاح اپنی ضروریات اور حالت کے ماتحت کر لیتا ہے.مثلاً وضو کی جگہ تیم کر لیا.نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھی گئی بیٹھ کر پڑھ لی.روزہ کی بجائے فدیہ دے دیا.رمضان کے مہینہ میں بیمار ہوا تو دوسرے وقت روزہ رکھ لیا.مگر قانون قضاء و قدر خدا کے ہاتھ ہے، وہ انسان کے اوپر اتنی چھری چلاتا ہے جتنی ضرورت ہوتی ہے.مگر انسان اس وقت صبر کرے ، چالیس سال کی نماز کے برابر ثواب ملتا ہے.فرمایا ایسے وقت دل بڑا خوش ہوتا ہے.جس وقت حضور نے یہ تقریر فرمائی حضور کا چہرہ مبارک بالکل بشاش تھا.اور ہمارا وہ مسئلہ حل ہو گیا کہ مومن مصیبت کے وقت بھی خوش ہوتا ہے.صاحب کی خدمت میں عرض کی گئی.آپ نے اسی وقت اس کو کہا کہ اگر تمہارے پاس خرچ اور کرایہ وغیرہ نہیں ہے تو لے لو.اور فور آچلے جاؤ.چنانچہ اس نے کچھ روپے لے لئے اور چلا گیا.حضرت صاحب کو اطلاع دی گئی کہ اس کو رخصت کر دیا گیا.فرمایا آپ نے خوب کیا.انبیاء کی خاص وقتوں میں خاص حالت ہوتی ہے.ایک اخبار شبھ چنتک نامی آریہ قوم کا قادیان سے نکلتا تھا اس میں ہمارے سلسلہ کی نسبت بہت ساگند شائع ہو تا تھا اور طرح طرح کے بہتان شائع ہوتے تھے.مگر جب حضرت سے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا.ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو.اور ان سے کچھ جھگڑا نہ کرو.ان کی طرف خیال ہی نہ کرو.جو کچھ لکھیں لکھنے دو.عرصہ گذر گیا ایک دفعہ کے پرچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات پر اعتراض کئے گئے.وہ پرچہ حضرت مولوی نور الدین 1

Page 47

81 80 صاحب نے دیکھ لیا.اس پر چہ کو دیکھ کر اہل مجلس سے فرمایا آج تمہیں ایک تماشہ دکھاویں گے.آج ہم یہ پرچہ حضرت صاحب کے روبرو پیش کریں گے.دیکھنا آج کیا ہو گا.چنانچہ ظہر کے وقت جب حضرت صاحب تشریف لائے.نماز کے بعد مولوی صاحب نے وہ پرچہ حضرت صاحب کو دکھایا اور فرمایا ان کی حالت اب یہاں تک پہنچ گئی.حضور نے پرچہ دیکھا.اس کو پڑھتے پڑھتے حضور کا رنگ متغیر ہو گیا.اور وہ پرچہ لے کر اندر تشریف لے گئے عصر کے وقت باہر تشریف لائے اور رسالہ " قادیان کے آریہ اور ہم " کا مسودہ لکھ لائے.اور مسودہ جماعت کو سنایا اور کہا.ان کا اب وقت آگیا ہے.اخبار والے سال کے اندراند رفتا ہوں گے.اور بڑے زور سے فرمایا یہ قوم ہی سو سال کے اندر تباہ ہو جائے گی بلکہ بعض تم میں سے دیکھتے ہوں گے کہ اس قوم کا خاتمہ ہو جائے گا.چنانچہ اخبار کا سال کے اندر اندر خاتمہ ہو گیا اور اس کے کارکن اور ایڈیٹروغیرہ بھی سال کے اندر ہی مرگئے.باقی جو حالت قوم کی اس دن سے ہوئی.وہ بھی لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہے.ایک دن حضور کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف رکھتے تھے، دو تین آدمی آئے اور بار بار عرض کی حضور کرم دین کے ساتھ راضی نامہ کرلیں وہ مقدمہ سے دست برداری نامہ دیتا ہے.آپ فرماتے تھے، دست برداری نامہ کیا ہوتا ہے وہ لکھ دے کہ وہ خط میرے ہی تھے جن کو غلط ثابت کرنے کا میں نے مقدمہ دائر کیا ہے.ہم اس پر کچھ نہیں کرتے.مگر وہ بار بار کہتے تھے، راضی نامہ کر لو.آخر آپ نے بڑے جوش میں آکر فرمایا.راضی نامہ کیا ہوتا ہے.کیا تم چاہتے ہو آنے والی نسلیں یہ خیال کریں کہ ایسا شخص بھی مسیح موعود ہو سکتا ہے، جس نے کرم دین کی طرف سے جھوٹے خط شائع کئے اور بعد میں مقدمہ بننے پر راضی نامہ کر لیا.یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم راضی نامہ کریں.آپ کو معلوم نہیں ہے.خداوند تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت اس مقدمہ کے فیصلہ کی اطلاع دے دی اور آپ کو کیا معلوم ہے.خدا تو مجھ سے اس طرح باتیں کرتا ہے.جس طرح میں آپ سے باتیں کرتا ہوں.پھر میں کیونکر تمہارے کہنے سے خدا کی مرضی کے خلاف راضی نامہ کرلوں.اس مقدمہ سے تو ایک نشان ظاہر ہو گا.روایات ۳۵ حضرت سید میر عنایت علی شاہ لدھیانوی میرے چچا عباس علی حضرت صاحب کی خدمت میں آیا کرتے تھے.ایک دفعہ لدھیانہ کے لوگوں نے میرے چا کو مجبور کیا.کہ حضرت اقدس کو لدھیانہ میں تشریف لانے کے لئے عرض کی جاوے چنانچہ چچا صاحب اکیلے ہی قادیان آئے اور حضرت صاحب سے درخواست کی لدھیانہ تشریف لے چلیں اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں نے ایک کشف دیکھا ہے کہ کوئی شہر ہے ہم وہاں گئے ہیں.وہاں لوگ ہم سے مخالف ہوئے ہیں.ہم نے ان سے کہا.آؤ ہم تم کو نماز پڑھا ئیں.انہوں نے کہا ہم نے نماز پڑھی ہوئی ہے ہم چل پڑے اور پیچھے لوٹ کر دیکھا کہ کوئی ہمارے ساتھ ہے یا 1

Page 48

83 82.نہیں؟ تو نظر آیا کہ میر صاحب اس حالت میں یعنی آپ میرے ساتھ ہیں.کردا ئیں.چنانچہ حضرت صاحب سے عرض کی گئی.آپ نے دعوت قبول آپ نے فرمایا دیکھنا میر صاحب کہیں کشفی شہر آپ کا لدھیانہ ہی نہ ہو.فرمائی اور جب کھانے کا وقت آیا.تب حضور معہ اپنے احباب کے منشی حضور نے چلنے کا وعدہ فرمایا اور فرمایا مکان (میری رہائیش کے لئے) وسیع رحیم بخش کے مکان پر تشریف لے گئے.چنانچہ وہاں ایک وسیع کمرہ میں تجویز کرنا.جس میں الگ الگ کمرے ہوں.اور جس میں سب ضروریات حضرت صاحب اور ان کے احباب کو جو ساتھ تھے.بٹھایا گیا.کچھ دیر کے بعد صاحب مکان نے عرض کی کھانا تیار ہے.دوسرے کمرے میں چل کر مہیا ہوں.چنانچہ حضور وقت موعودہ پر لدھیانہ تشریف لائے.ایک کثیر انبوہ شہر کے عمائید اور سر بر آوردہ لوگوں کا استقبال کے لئے کھانا کھا لیں.اسی کمرہ میں حضور تشریف لے گئے.کمرہ چھوٹا تھا آدمی سٹیشن پر گیا.مگر سوائے میر عباس علی صاحب کے کوئی حضور کا مینی واقف نہ بہت تھے.جگہ بہت تھوڑی تھی وقت سے کھانا کھایا گیا.جب کھانے سے تھا.چنانچہ وہ سب لوگ آگے کی گاڑیوں میں تلاش کرتے تھے.اور حضور فراغت ہوئی.تب ایک آدمی مولوی عبد العزیز کے پاس سے آیا اور منشی پچھلی گاڑیوں سے اتر کر تمام لوگوں میں سے ہو کر باہر تشریف لے آئے.احمد جان سے کہا.مولوی صاحب کہتے ہیں.مرزا صاحب قادیان والوں کو جب لوگوں نے سب اگلی پچھلی گاڑیاں دیکھ لیں اور حضور کو نہ پایا.تو مایوس کہہ دو.یا تو ہم سے بحث کر لیں یا کو توالی چلیں.منشی احمد جان نے کہا.ان کو کہہ دو.اگر کوئی بات کرنی ہے تو محلہ صوفیاں میں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں آجا ئیں.حضرت صاحب اس جگہ سے اٹھ کر بڑے کمرہ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور لوگوں نے کہا.ہم شکوک رفع کرنے کے لئے آئے ہیں.لوگوں نے شکوک بیان کئے.حضور نے ایک مدلل تقریر فرمائی.وہ لوگ مخالفت پر اڑے رہے.صاحب مکان نے عرض کی کہ میں حضور کو تکلیف دینا نہیں چاہتا جو اب معقول دئے جا صاحب سے کہا کہ آپ کو میری گوٹھی لے چلو.چچا صاحب نے انکار کیا.چکے ہیں.اب اگر یہ ضد کریں تو کرنے دو.حضور جائے قیام پر تشریف لے ہو کر باہر آگئے.حضرت صاحب باہر ٹھہر گئے.آپ کے ساتھ حافظ حامد علی صاحب.میاں جی جان محمد اور ملاو امل تھے ، میں باہر کی طرف نکلا.آپ کو دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا.یہ نورانی بشرہ اسی پاک وجود کا معلوم ہوتا ہے.میں نے مصافحہ کیا.اتنے میں میرے چا بھی آپہنچے.انہوں نے جھٹ مصافحہ کیا.میں نے تب جان لیا کہ یہی حضرت اقدس ہیں.لوگوں سے مصافحہ کرنے کے بعد نواب علی محمد خان ساکن جھجر والے نے میرے چچا اس دن حضور ڈپٹی امیر علی والے مکان میں جو حضور کے واسطے تجویز کیا گیا تھا، ٹھہرے.اور کھانا وغیرہ کھایا.اگلے دن منشی رحیم بخش صاحب نے منشی احمد جان صاحب اور چچا صاحب سے کہا.آج ہمارے ہاں دعوت قبول ہیں.راستہ میں مولوی عبد العزیز کا آدمی ملا کہ وہ بلاتے ہیں ، ان کا مکان قریب ہی ہے.وہاں چلیں.منشی احمد جان نے کہا.جاؤ ان کو کہدو.کہ اگر ملنا ہے تو حضور کی جائے قیام پر آجائیں.اور حضرت کی خدمت میں ☐

Page 49

85 84 عرض کی کہ حضور اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ ہو لیں.کیونکہ روایت ۳۷.مولوی دنگئی کہیں دنگا نہ کر لیویں.آپ نے فرمایا نہیں ایسا نہیں ہو گا.ہم چوہدری بدر بخش صاحب اسی راستہ سے چلیں گے آپ اسی راستہ سے بخیر و خوبی مکان پر پہنچے.جب وہاں پہنچے تو ملا وامل نے کہا کہ میر صاحب آپ نے کچھ معلوم کیا.یہاں پر کر کے فرمایا.رات مجھے الہام ہوا ہے کہ :.حضرت اقدس کا کشف پورا ہو گیا.جس کے متعلق حضرت صاحب نے قدا فَلَحَ مَنْ زَ كَهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا قادیان میں آپ کو بتایا تھا.وہ شہر اور ہیا نہ ہی نکلا.اور یہاں کے ہی لوگوں حضرت صاحب نے سیر کے درمیان مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب نے مخالفت کی.بلکہ کشف تو دعوت کے مکان ہی میں پورا ہو گیا.روایات ۳۶ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ من الله ایک دفعہ حضرت صاحب نے لدھیانہ میں آریوں کو نصیحت فرمائی.عقبی خرید لو.دنیا چند روزہ ہے.جس کا ترجمہ ایک شعر کے رنگ میں معلوم ہوا ہے.کوئی اس پاک جو دل لگاوے ނ کرے پاک آپکو تب اسکو پاوے روایت ۳۸ - سید فضل شاہ صاحب ایک دن ایک شخص حضرت صاحب کی خدمت میں تقریبا دن کے ایک ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس کسی نے میری شکایت کی کہ یہ لڑکا بجے حاضر ہوا.حضور ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے باہر تشریف لائے تھے.اس نالائق ہے.اس وقت میری عمر گیارہ سال کی تھی اور میرے بھائی کی شخص نے آتے ہی حضور کو السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا.پھرہا تھوں کو بوسہ تعریف کی.اس کی عمر دس سالہ تھی.حضرت صاحب نے فرمایا.آپ کے دیا.اور سو روپہ کے قریب رومال میں بندھا ہو البطور نذر نہ پیش کیا.اور نزدیگ چھوٹا بر خوردار ہے.میرے نزدیک بڑا بر خوردار ہے.اس وقت عرض کیا صرف زیارت کرنے آیا ہوں.ظہر کی نماز پڑھ کر واپس چلا گیا.حضرت صاحب نے دعویٰ وغیرہ کچھ نہ کیا تھا.یہ عجائبات قدرت ہیں.میں حضور نے اگلی صبح باہر تشریف لا کر فرمایا بعض انسان عجیب اخلاص رکھتے بیعت میں ہوں ، وہ مخالف ہے.ہیں.کل جو شخص آیا تھا.وہ شاید ایک گھنٹہ رہا ہو گا.میں اس کا واقف ہی نہیں ، مگر عجیب اخلاص رکھتا تھا.کل اس نے دن میں سو روپیہ کے قریب

Page 50

87 86 ہوئے.اس وقت غیر احمدی لوگ ارد گرد کے بہت جمع ہو گئے اور کھانا دئے.رات کو میں نے اس شخص کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے سامنے بیٹھا ہے اور ایک ایک کر کے گن گن کر روپیہ مجھے دیتا ہے.میں نے دامن کھانے بیٹھ گئے.میر ناصر نواب صاحب نے حضرت صاحب سے عرض کی آگے کر رکھا ہے.میں گن گن کر لیتا ہوں.معلوم ہو اخدا نے اس کی نذر کہ کھانا احمدیوں کی تعداد کے اندازہ کا خیال رکھ کر پکایا گیا ہے.یہ غیر احمدی کو قبول فرمالیا اور یہ خواب اس کی سند تھی.روایت ۳۹.شیخ امام بخش صاحب شاہجہانپوری معرفت حافظ سخاوت علی صاحب شامل ہوتے ہیں ہماری رائے ہے کہ ان کو منع کر دیا جاوے.آپ نے فرمایا ان کا بھی وہ ہی رب ہے جو احمدیوں کا رب ہے.کھانے سے منع نہ کرنا چاہئے.روایات ۴۱.حضرت صاحب معہ خدام کے گول کمرہ میں کھانا کھا رہے تھے.ایک حضرت حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری آدمی درمیان میں ایسا تھا کہ اس کے کپڑے بالکل میلے اور پھٹے ہوئے تھے.اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رَسالہ.آپ نے فرمایا.جو ترجمہ اس کا اسے ایک امیر آدمی یعنی وجیہہ اور خوش پوش صاحب نے ذرہ کہنی سے دبایا عام مفسر کرتے رہے ہیں.اس سے انبیاء کی فضیلت ثابت کرتے ہیں.میں کہ پیچھے رہو پھر کھا لینا.حضرت صاحب کی نظر پڑ گئی اور آپ نے کھڑے ہو الگ معنے بتاتا ہوں، وہ بھی لطیف ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اپنی کر تقریر فرمائی کہ ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے.اور ہر نبی کی جماعت رسالت جیسی نعمت کو کن اہل دل لوگوں میں قبولیت کے لئے جگہ دیوے.غرباء سے ترقی کرتی رہی ہے.یہ لحاظ رکھنا چاہئے.اگر ہمارے کسی ذی ایک دن حضور گول کمرہ میں تشریف فرما تھے.تقریباً ہمیں یا پچیس آدمی مقدرت دوست کو کوئی غریب برا معلوم ہو.اس سے نفرت آوے.تو اس وہاں موجود تھے.حضور کچھ تقریر فرما رہے تھے کہ ایک فقیر آیا.اور زور کو چاہئے کہ خود الگ ہو جائے مگر کسی غریب کو تکلیف نہ دے.یہ مناسب سے سوال کیا.مجھے ناگوار معلوم ہوا کہ حضور کی آواز میں مخل ہوتا ہے.میں نے دروازہ بند کر دیا.حضور کی نظر پڑ گئی.آپ نے تقریر بند کر کے مجھے نہیں ہے.روایت ۴۰ میر مهدی حسین صاحب ایک دن کسی تقریب یا جلسہ پر بہت سے دوست کھانے کے لئے جمع 1

Page 51

89 88 فرمایا.جاؤ اٹھ کر اندر دروازه پر دستک دے کر اس سائل کو اندر سے کچھ شخص کو الہام کا ہونا ممکن سمجھتے ہو.میں نے کہا ہاں الہام کی خصوصیت دلواؤ.اور ایسا کرنا اچھا نہیں کہ سائل کے سوال پر دروازہ بند کر دو.ایک دفعہ حضور نے فرمایا مجھے الہام ہوا ہے.نزلت الرحمت علی ثلث العين و على آخرين اسلام میں ہے اور مذاہب میں نہیں ، یہ ممکن ہے.۹۰ء یا 91ء میں جب حضور کا دعویٰ شائع ہوا.میں نے عبد الکریم خان ساکن جمارو کو ایک خط لکھا کہ جس شخص کو تم پیشوا سمجھتے ہو.وہ دعوی کرتے ہیں کہ میں آسمان تین عضووں پر رحمت نازل ہوئی.ایک آنکھوں پر اور دو عضووں پر.سے نازل ہوا.کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو مجھے سمجھاؤ.اس کا کوئی جواب نہ رو اور عضو کی حضور نے تشریح فرمائی.ایک گھٹنوں کی آنکھوں پر اور ایک ملا.اس لئے میں رخصت حاصل کر کے اس کے مکان پر گیا.اور یہی مطالبہ دل کی آنکھوں پر.یعنی خدا تعالیٰ نے تین آنکھوں پر رحمت نازل کی.ایک کیا کہ مجھے سمجھاؤ.عبد الکریم خان نے قرآن مجید ثبوت میں پیش کیا کہ آنکھیں ، دوسری دل کی آنکھیں.تیسری گھٹنوں کی آنکھیں.قرآن مجید آسمان پر جانے کا انکار کرتا ہے اور یہ عقیدہ سرے سے غلط ہے.چنانچہ حضور نے اخیر عمر تک عینک وغیرہ نہ دن کو اور نہ رات کو استعمال اور جس نے آنا ہے وہ اسی دنیا سے ہو گا.میں نے کہا.قرآن شریف کی فرمائی.اور سیر بھی خوب فرماتے رہے.یعنی گھٹنوں میں بھی طاقت رہی اور کوئی آیت پڑھو مان لوں گا.اس نے کہا.تھیں آئیتیں موجود ہیں.میں نے دل کی آنکھوں کا تو کیا کہنا.لاکھوں اندھے سو جا کھے کر دیے.روایات ۴۲.حضرت میر مهدی حسین صاحب کہا.صرف تین ہی کافی ہیں.اگر اکیلی آیت ثابت کرے تو وہ ایک ہی کافی ہے.اس نے ازالہ اوہام میں سے یہ آیت لے کر پڑی و من نعمره تنكس في الخلق افلا يعقلون.میں نے اس آیت کو سن کر کہا کہ بے شک آسمان پر جانا غلط ثابت ہوتا ہے.اور میرا عقیدہ اب کسی کے میں نے ۱۸۸۵ء میں عبد الکریم خان ساکن جمارو کے پاس کتاب سرمہ آسمان پر جانے کا نہیں رہا.چشم آریہ دیکھی ، اس کے اشعار کو بڑے وجد سے پڑھا.اور حضور کے میں نے عبد الکریم خان سے کتاب مانگی.اس نے کہا کتاب نہیں دے حالات معلوم ہوئے.میں نے نتیجہ نکالا پنجاب میں کوئی مولوی ہے جو اسلام سکتا.ہاں کتاب لے کر تمہارے گھر آکر لوگوں کو سناؤں گا تیسرے روز کو غلبہ دینا چاہتا ہے.میں ان دنوں شیعہ تھا.بیعت وغیرہ سے اپنے تئیں میرے مکان پر کتاب لے کر آگئے.میں نے ان سے کہا.کوئی مقام ہمارے مستثنیٰ سمجھتا تھا.اس کے بعد مقام شیر پور میں منشی احمد بخش ، منشی ابراہیم اور دوستوں اور مخالفوں کو سناؤ.چنانچہ کچھ حصہ کتاب کا سنایا (ہمارے مخالف منشی اسماعل ساکنان سنور نے حضرت کا ذکر کر کے مجھ سے سوال کیا کہ تم کسی الرائے مولویوں کا حوصلہ) میں نے ایک خواندہ بزرگ سے پوچھا کہ کیا تم

Page 52

91 90 ا شخص کی تصدیق کرتے ہو.انہوں نے کہا مولویوں کے برخلاف ہے.اس وہ سختی میرے روبرو کسی نے گزاری.اس کے بعد ایک آواز آئی، مرزا سچا نکلے گا.اور پھر میں اپنی اصلی حالت میں آگیا.اور اس کھلے نظارے کے جب مولوی نہیں مانتے ہم کیوں مانیں.میں نے کہا.ایسے مولویوں پر ہزار نفریں جو قرآن کریم کی بات سے انکار کریں.اور اپنے مولویوں کی بات کو بعد بیعت کا خط لکھا.مقدم کریں.میں نے ایک دفعہ دعا کے واسطے خط لکھا.میرے خیال میں جب وہ خط پھر میں نے حضرت صاحب کو خط لکھا اور عرض کیا کہ اپنے عقائد کی حضرت صاحب کے پاس پہنچا.میرا مطلب پورا ہو گیا.بعد میں حضرت فهرست بھیج دی جائے.اگر اس میں شرک کی ملونی نہ ہوئی تو مان لوں گا.صاحب کا جواب پہنچا دعا کی گئی.گویا جواب پہنچنے سے پہلے خدا داند تعالٰی نے اس کے جواب میں حضرت مولانا نورالدین صاحب کا لکھا ہوا خط پہنچا کہ مجھے قبولیت کے آثار دکھا دئے.ہمارے عقائد ہماری کتابوں میں لکھے ہیں.کتابیں جلد بھیجی جائیں گی.صبر میں نے ملازمت ترک کر دی اور قادیان آگیا اور حضور کی خدمتگاری سے انتظار کرو.اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بہت پڑھا کرو.مجھے اختیار کی.حضرت صاحب نے ایک دفعہ مجھے کیوڑہ کی گاگر کی بلٹی کے لئے اس ہدایت سے کمال خوشی ہوئی اور نور احمد صاحب جالندھری نے کتابیں بھیجا.جو جے پور سے آتی تھی.مجھے بلٹی چھڑاتے وقت بابو نے کہا.جو کرایہ مہیا کر دیں.میں نے کتابیں پڑھ کر جو نتیجہ نکالا.وہ یہی تھا کہ دنیا میں بہت وہاں سے دیا گیا ہے.وہ ایک روپیہ کم دیا گیا ہے.وہ روپیہ دو.میں نے لوگ اعلیٰ اعلیٰ مضامین نویس ہوتے ہیں.خدا جانے یہ کہاں تک درست کہا.بلٹی پیڈ (Paid) ہے.اس نے کہا.بلٹی میں پچھلے کلرک نے غلطی کی ہے.اس کے بعد فیصلہ آسمانی میں حضرت صاحب کا ایک استخارہ نکلا کہ اگر ہے.ایک روپیہ جلدی ادا کرو.میں نے ایک روپیہ دے کر رسید لے لی.کوئی شخص میری تین کتابوں کو پڑھ کر مطمئن نہ ہو.تو وہ اس طرح سے واپس آکر حضور سے عرض کیا کہ ایک رد پید اور دیا گیا ہے.یہ اس کی رسید استخارہ کرے.چنانچہ میں نے استخارہ کا مصمم اراداہ کر لیا اور رخصت کا منتظر ہے.آپ نے فرمایا.بہت اچھا.ہم محصول کم دینا کب چاہتے ہیں.یہ فقرہ رہا اور ۱۳۱۱ھ کا رمضان شریف آگیا.میں نے سوچا اب خوب موقع ہے.میرے لئے موثر ہوا.میں نے حضرت کے بتائے ہوئے استخارہ کے بغیر خود تجویز کردہ استخارہ مجھے حضور برف خرید کر کے لانے کے لئے امر تسر بھیجا کرتے تھے.ایک کیا.پہلے ہی دن وتروں میں قُلْ هُوَ اللهُ ۳۱ مرتبہ پڑھی.دعا کی حالت مرتبہ مجھے بلوا کر آستانہ پر کھڑا کر کے یوں فرمایا میاں مہدی حسین ہم نے میں مجھ پر غنودگی طاری ہوئی.میں نے دیکھا کہ صبح کا وقت ہے.اور ایک تمہیں برف کے لئے امر تسر بھیجا تھا.ہم نے خوب برف پی.اور تم کو ثواب ہاتھ میں سامنے ایک سختی نظر آئی جس پر لکھا تھا.حضرت مرزا صاحب جی.ہوا.پھر دوسری مرتبہ ہم نے بھیجا اور برف استعمال کی تم کو ثواب ہوا.پھر.

Page 53

93 92 [ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا.اب چوتھی مرتبہ ہمارا ارادہ تھا کہ کسی اور بھیجیں.مگر ہم نے یہی چاہا.کہ یہ ثواب بھی تم کو ہی دیں.اس اثناء میں حضور چارپائی پر لیٹ گئے اور میں پاؤں دبانے لگ گیا.میں نے عرض کیا حضور میں اسی کام کے لئے یہاں حاضر ہوا ہوں.جتنی مرتبہ حضور حکم دیں مجھے اس میں فخر ہے.آپ بڑے بشاش ہوئے اور بہت خوشی سے مجھے چوتھی مرتبہ جانے کے لئے حکم دے کر اندر تشریف لے گئے.چنانچہ تعمیل حکم کی گئی.ایک دفعہ حضور کے لئے جہلم سے مچھلی آئی تھی.اس وقت آپ احباب کے ساتھ عام مجمع میں باہر مسجد میں ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے.جب شام کو کھانے کے لئے بیٹھے وہ مچھلی بھی کھانے میں آئی.حضور بار بار لوگوں سے فرماتے تھے.اس کو کھاؤ.میں زیادہ قریب تھا.جب ہم نے کھانے میں کچھ تامل کیا.تو حضور نے اپنے دست مبارک سے مچھلی رکھنی شروع کر دی.چنانچہ میں نے دیکھا.آپ بہت آہستہ آہستہ کھانا تناول فرماتے تھے.پہلے ایک چپاتی کے بہت سے ٹکڑے کر دیتے اور اس میں سے تھوڑا سا کھاتے تھے.مجھے اس وقت یہ خیال آیا کہ تھوڑا کھانے سے عبادت میں ترقی ہوتی ہے.اس لئے ہم کو بھی پیروی کرنی چاہئے.حضور نے بعض کتابیں راتوں کو جلد چھپوانے کی غرض سے چھپوا ئیں.اس کا باعث گورداسپور والے مقدمات بھی تھے.کیونکہ دن میں مقدمات وغیرہ کے لئے جانا ہو تا تھا.حضور دن میں تصنیف فرماتے.پھر کاپی پڑھتے.پھر پروف نکلوا کر پڑھتے اور رات کو چھپواتے.اور دوبارہ سہ بارہ پروف راتوں کو دیکھ کر صحیح فرماتے.اور اس کام کو ایسی مصروفیت سے کرتے تھے کہ گویا کوئی بڑا بادشاہ کسی فوج کی تیاری میں مصروف ہے.بہت سی راتیں آپ تصنیف میں مصروف رہتے.اور کاتبوں کو بھی رات کو لکھنے کے لئے دیتے.اور دگنی مزدوری دے کر رات کو لکھواتے نہ اپنے آرام کی پرواہ نہ خرچ کی پرواہ کرتے.یہ مواقع میں نے بارہا دیکھے ہیں.ایک دفعہ حضور نے مجھے دو سو روپیہ کا آٹا خریدنے کے لئے روانہ فرمایا.اور احمد نور کاہلی کو میرے ساتھ روانہ کیا.میرے والد کسی قدر بیمار تھے.میں حضرت حکیم الامتہ نورالدین صاحب کی خدمت میں گیا.کہ میرے بعد دوا سے خبر گیری فرما دیں.مولوی صاحب نے فرمایا.آج مت جاؤ.میں نے کہا.حضرت صاحب نے روانہ فرمایا ہے.رک نہیں سکتا.انہوں نے فرمایا میری طرف سے عرض کرو کہ آج مہلت دی جاوے.میں نے ان کی طرف سے اپنے لئے عرض کی.حضور نے فرمایا.مجھے تو معلوم نہیں کہ تمہارے والد صاحب بیمار ہیں.اور تم کیا کر سکتے ہو.خدا تعالیٰ کے قضاء و قدر دنیا میں نازل ہوتے رہتے ہیں ، وہ جو چاہے گا ہو تا رہے گا.ایک روپیہ اور عطا فرمایا کہ یکہ میں سوار ہو کر چلے جاؤ اور کل واپس آجانا.میں یہ حال حکیم صاحب سے عرض کر کے روانہ ہو گیا.اور اپنے والد صاحب سے بھی کہدیا کہ مجھے حضور نے کام بھیجا ہے.انہوں نے کہا جاؤ.میری روانگی کے بعد والد صاحب کا انتقال ہو گیا.حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) نے کفن تیار کرا دیا اور قبر کھد وادی.اور فرمایا.جب مہدی حسین آئے اپنے والد کو دفن کر دے.میں اگلے روز شام کو واپس آیا.

Page 54

95 94 مجھے سب سامان تیار ملا اور جنازہ پڑھوا کر والد صاحب کو دفن کر دیا.ایسے جلیل القدر بادشاہ کو غلاموں کی اس قدر پر واہ.یہ بغیر خد اتعالیٰ کے مقبولوں کے دوسرے میں نہیں پائی جاسکتی.میں حضور سے دس روز کی رخصت لے کر گھر گیا.واپسی کے روز میرا بڑا لڑکا بیمار ہو گیا.مجھے گھر والوں نے روکا.میں نے کہا.میں نے حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کے حضور اقرار واپسی دسویں روز کیا ہے.میں نہیں رک سکتا.بچہ کا علاج کرواؤ.اللہ کافی ہے.میری غیر حاضری کے ایام میں کسی نے پوچھا کہ حضور سیالکوٹ کب تشریف لے جاویں گے.آپ نے فرمایا.مہدی حسین نے جمعرات کے روز واپس آتا ہے.اس کے آنے پر ہم اگلے روز روانہ ہو جائیں گے.میں وقت مقررہ پر حاضر ہو گیا.حضور نے مجھے ساتھ لیا اور سیالکوٹ معہ اور بہت سے احباب کے تشریف لے گئے.ایام مقدمات گورداسپور میں واپسی کے وقت میں نے حضور سے عرض کیا کہ میں کس راستہ سے قادیان جاؤں.حضور نے فرمایا.آپ میرے ساتھ جاویں گے.اس حکم سے جو حالت مجھ پر طاری ہوئی وہ وجدا نہ تھی کہ ایسے بادشاہ کو ایسے غلاموں سے ایسی شفقت ہے.میں پیدل چل کر قادیان پہنچ سکتا تھا مگر حضور مجھے ساتھ لائے جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی.روایت ۴۳ حضرت حافظ احمد اللہ صاحب ایک دن حضرت صاحب نے شیخ عبدالرحیم صاحب کو فرمایا کہ ایک بلٹی مالدے آموں کی آئی ہوئی ہے.بلٹی لے جاؤ بٹالہ سے آم لے آؤ.چنانچہ وہ فور آبلٹی لے کر چلے گئے.وہاں پہنچ کر بلٹی حاصل کی اور لے کر واپس ہوئے.انہوں نے کہا.راستہ میں میرا دل چاہا کہ ایک آم کھاؤں.مگر خیال آیا.کہ خیانت ہو گی.اسی شش و پنج میں مجھے یاد آیا کہ دوستوں کے گھروں سے کھانے کی نسبت قرآن میں آیا ہے کہ صدیقوں کے گھروں سے کھالیا کرو.میں نے سوچا کہ حضور سے زیادہ میرا مشفق کون ہے.خیر ایک آم کھالیا اور قادیان مہمان خانہ میں پہنچا.ٹوکری رکھ دی تو ایک بزرگ تشریف لائے.ان سے عرض کیا.میں بلٹی چھڑوا کر لے آیا ہوں.اس ٹوکری کو اندر پہنچا دیں.انہوں نے ٹوکری لے لی تو چلتے وقت میں نے ان سے کہا کہ جناب ایک آم میں نے ان میں سے کھالیا ہے.حضور کی خدمت میں عرض کر دیتا.وہ ناراض ہوئے اور کہا کہ اچھے مرید ہو.پیر کا مال کھانے میں بھی دریغ نہیں کیا.میں نے کہا.خیر کھالیا.آپ حضور سے کہدیں.چنانچہ انہوں نے ٹوکری لے جا کر حضرت صاحب کے پیش کی اور شکایت کی.حضور نے فرمایا.کیا ہوا.ایک آم اور ان کو دیدو.چنانچہ حضور کا بھیجا ہوا آم میرے تک پہنچا اور میں نے خدا کا شکر کر کے کھایا.روایات ۴۴.حافظ محمد ابراہیم صاحب ایک دفعہ کا ذکر ہے.گورداسپور میں مقدمہ کے ایام میں جو کرم دین

Page 55

97 96 سے تھا.ایک دن ایسا ہوا کہ مہمان کثرت سے آگئے لنگر خانہ بھی نہیں تھا.تمام ملازمین لوگوں کو کھانا کھلاتے کھلاتے حضرت صاحب کو کھانا کھلانا بھول گئے.بارہ بجے کے قریب جب دن ڈھلنے کو آیا تو حامد علی نے آکر حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور کھانا تو ختم ہو گیا اور میرے اب یاد آیا کہ حضور نے کھانا تناول نہیں فرمایا.اگر حضور حکم دیں تو کھانا دوبارہ تیار کیا جائے.فرمایا کوئی ضرورت نہیں ہے.ڈبل روٹی اور دودھ لے آؤ.میں وہی بھگو کر کھالوں گا.فور آحامد علی ڈبل روٹی اور دودھ کے لئے گیا.ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ نہ ملا.حامد علی نے عرض کیا کہ حضور ڈبل روٹی تومل گئی مگر دودھ کہیں نہیں ملتا.فرمایا پانی میں بھگو کر کھالیں گے کوئی ہرج نہیں ہے.اور حضور نے اسی طرح کچھ ڈبل روٹی پانی میں بھگو کر کھائی.اور دن بسر کر دیا.ایک دفعہ کا ذکر ہے.گورداسپور کے کرم دین والے مقدمہ کے دوران میں ہم سب خدام حضور کے ساتھ کچھری چلے گئے.حضور نے فرمایا ہمارا کھانا کھری ہی آجائے.تو جس وقت ہم پہنچے ، اسی وقت حضور کو حاکم نے اندر طلب کیا.پیچھے سے کھانا آ گیا.سب لوگوں نے کھانا کھایا.حضور کا کھانا باقی رکھ چھوڑا.بارہ بجے کے قریب لاہور کی جماعت آگئی.جو کھانا حضور کے لئے رکھا تھا.وہ ان لوگوں نے کھا لیا.حضور والا دو بجے کے قریب اندر سے آئے.اور لوگوں نے کہا حضور کا کھانا لا ہور کی جماعت نے کھالیا.اگر حکم ہو تو اور کھانا تیار کر لا ئیں.فرمایا کوئی ضرورت نہیں اب شام میں تھوڑی دیر ہے.شام کو ہی کھائیں گے.اب تھوڑا سا مصری کا شربت پی لوں گا.چنانچہ حضور نے شربت پیا اور اسی طرح دن بسر کر دیا.روایات ۴۵.حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ ۱۹۰۰ء کے رمضان شریف کے پہلے جمعہ میں میں نے مسجد اقصیٰ میں حضرت صاحب کی بیعت کی.بیعت لیتے وقت حضور نے میری طرف بہت توجہ سے مگر خلاف عادت دیکھا.آپ کی اس توجہ سے میری زبان پر آیت نَفَخَتُ فِيهِ مِنْ رُوحِى تقریباً دو تین گھنٹہ جاری رہا.میں لنگر خانہ سے روٹی نہ کھایا کرتا تھا.اور اپنے پاس سے اپنا سامان فروخت کر کے کھاتا رہا.جب وہ ختم ہو گیا.میر سعید عبد اللہ عرب کے پاس سوا آنہ روز پر ملازم رہا.اس نے کچھ عرصہ بعد جواب دے دیا.پھر میں شیخ یعقوب علی صاحب کے پاس ڈیڑھ روپے ماہوار اور روٹی پر ملازم رہا.اس شرط پر کہ طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد ملازم نہیں.اور نماز اور درس کے وقت ملازم نہیں.وہ حیران رہے کہ اس ملازم کو کس طرح ہٹاؤں.قدرت ایزدی میں بیمار ہو گیا.انہوں نے ہٹا دیا.میں نے نواب صاحب سے پانچ روپیہ قرض لے کر دودھ کی دوکان شروع کر دی.لوگوں نے حضور سے کہدیا کہ غلام احمد نے دودھ کی دوکان نکالی ہے.حضور نے فرمایا.خدا اس کو بڑی برکتیں دے گا.ایک دن میں نے عرض کیا.حضور میں نے دودھ کی دوکان کی ہے.اور میں حضور کے لئے ایک میر پختہ دودھ روز بھیجا کروں گا.آپ نے فرمایا.

Page 56

99 98 بہت خسارہ ہوا ہے.فروری ۱۹۰۰ ء میں حضور نے فرمایا.رات میں نے خواب میں دیکھا.چار شیخ صاحب میں نے تو بکری رکھی ہوئی ہے.اس کا دودھ پی لیتا ہوں.خیر میں نے اگلے دن سیر بھر دودھ بھیج دیا.آپ نے لیا.میں تین دن متواتر بھیجتا رہا.چوتھے دن حضور نے منع فرما دیا کہ بس.میں نے رقعہ لکھا کہ حضور نے آدمی میرے پیش کئے گئے ان کی قسمت کے نوشتہ بھی دکھائے گئے.اور ایک دودھ کیوں واپس کر دیا.آپ نے فرمایا.دعوت کی حد تین دن ہے.اس کی ان میں سے چار سال کی عمر بتائی گئی.جب حضور سے ان کا نام پوچھا.تو سے زیادہ نہیں.اس کے بعد تکلف ہے.اور نبی کریم کو اللہ تعالیٰ فرماتا حضور نے نام نہ بتلائے بلکہ کہا کہ یہ باتیں قضاء و قدر کی ہیں ہم ظاہر کرنی نہیں ہے: وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ.اس لئے میں نے بھی اس آیت پر چاہتے.اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے.مئی ۱۸۹۹ء میں حضور کو الہام عمل کیا.لہذا آج دودھ نہ بھیجیں.ہوا: إني لا جِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفْسِدُونَ - إِنِّي ایک دن میں فرنی بنوا کر لے گیا.اور رکابیوں کی تعداد اتنی لے گیا جتنے ایک دن حضور نے فرمایا.جن دنوں میں سیالکوٹ میں رہتا تھا.ایک کہ مرد.عورتیں اور بچے حضور کے ساتھ اندر تھے.حضرت صاحب کے روز میں دو منزلہ مکان پر تھا، چند اور شخص بھی ساتھ تھے.جب رات دروازه پر دستک دی.حضور خود ہی تشریف لائے.میں نے فرنی پیش کی.گذری چھت میں کھڑ کھڑا ہٹ ہوئی میں نے لوگوں سے کہا.نکلو چھت کے فرمانے لگے.آپ نے تکلیف کیوں کی ہے.پھر فرمایا.اچھا ایک رکابی لے گرنے کا خوف ہے.لوگوں نے کہا شاید چو ہے وغیرہ ہوں گے.خیر سو گئے.لیتا ہوں ، میں نے عرض کیا کہ میں تو حضور کے عیال کا شمار کر کے ہر ایک کے پھر مجھے ایسا ہی معلوم ہوا.میں نے جگایا.انہوں نے پہلی طرح پھر ٹال دیا لئے ایک ایک رکابی لایا ہوں.آپ نے پہلے ایک رکابی لی پھر میرے اصرار اور سو گئے.تیسری دفعہ مجھے ایسا ہی پھر معلوم ہوا میں نے زور سے لوگوں کو پر ایک اور لے لی.پھر فرمایا.باقی لے جاؤ.کہا جلدی اترو.چنانچہ سب اترے میں سب سے پیچھے رہا.جب میں اترا.جن دنوں کرم دین کے ساتھ مقدمات تھے.مجھے حضور نے فرمایا.شیخ تو دھڑام سے چھت گر پڑی.خداوند تعالیٰ نے میری وجہ سے ہی ان سب صاحب آپ کی دوکان کا کیا حال ہے.میں نے عرض کیا.حضور کے دروازہ لوگوں کو بچایا.کیونکہ مجھ سے خدمت دین کرانی تھی.میری وجہ سے وہ پر دھونی رمائے بیٹھا ہوں.کچھ نائی دھوبی کے لئے پیسے مل جاتے ہیں.بھی بچ گئے.فرمانے لگے ، آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالٰی آپ کو بہت برکت دے گا.فرمایا میں آپ کی ایک بات پر بہت حیران ہوں وہ آپ کا استقلال ہے جو آپ اس دکان میں ہارے نہیں بلکہ لگے ہی رہے ہیں.باوجودیکہ تمہیں آپ نے فرمایا.جو رسول کریم ( ا ) نے فرمایا ہے کہ صحیح کے اولاد ہو گی اور دجال کے اولاد نہ ہو گی اس سے حدیث شریف کا یہ منشاء ہے کہ جب مسیح فتح پائے گا تو دجال کی شرانگیز اولاد قطع ہو جائے گی.یعنی اثر :

Page 57

| 101 100 ایک دن فرمایا.میں نے خواب دیکھا.ہمارا جو باہر کا مکان ہے اس کے دجالیت نہ رہے گا.اور اثر مسیح باقی رہے گا.اگر کوئی اعتراض کرے کہ کرنے سے بند ہو جائیں گے.ہاتھوں سے مراد کہ ان کی قلم ہمارے مقابلہ آج کل عیسائیوں کے بہت اولاد ہے.سو اس کا جواب یہی ہے کہ ان کے جو میں کٹ جائے گی.پیروں سے مراد کہ وہ بھاگ نہ سکیں گے.چمڑا سے مراد مکرو فریب ہیں سب جاتے رہیں گے.کہ ان کا پردہ فاش ہو جائے گا.ایک دن حضور نے فرمایا کہ دجال کو جو کانا کہا گیا ہے.سو اس سے یہ مراد ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو آنکھیں تھیں.ایک حضرت آگے دو موٹے تازے گھوڑے باندھے ہوئے ہیں.ایک گھوڑے پر اسحاق " جن کی اولاد میں سے سب انبیاء بنی اسرائیل ہیں اور ایک آنکھ حضرت رسول کریم ( ا ) سوار ہیں.ایک پر میں سوار ہوں.ہم حضرت اسماعیل تھے.جن کی اولاد ہمارے نبی ا ہیں.سو د جال نے دونوں بہادروں کی طرح بڑی تیز رفتار سے چلتے ہیں.اتنے میں میری آنکھ ایک آنکھ سے کام لیا.یعنی بنی اسرائیل کے نبیوں کو تو کچھ تھوڑا بہت مانا.کھل گئی.مگر دوسری آنکھ یعنی ہمارے نبی کریم ﷺ کو نہ مانا.اس واسطے کانا ہے.ایک دن حضور نے فرمایا.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر سے اپنے باغ کی طرف جا رہا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لشکر عظیم الشان روایات ۴۶.میرمهدی حسین صاحب ایک دفعہ لنگر خانہ میں خرچ کی کچھ دقت تھی.حضور کو اس کی تشویش سواروں کا میری طرف چلا آتا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے مقابلہ تھی.ایک نابینا ایبٹ آباد کی طرف سے آیا.اور وہ دو چار دن رہ کر جانے کے لئے آیا ہے.اور میں ان کی طرف بہادروں کی طرح جاتا ہوں.مجھے لگا.تو اس نے زاد راہ کے لئے حضور سے مسجد میں سوال کیا.حضور اندر ان کا ذرہ بھی خوف نہیں.میں بہت دلیر ہوں.اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ تشریف لے گئے.اور اس کو اندر سے دویا تین روپے لا کر دئیے.اس نے لشکر ہمارے باغ میں چلا گیا.مجھے خوف ہوا کہ شاید باغ کا نقصان کریں گے.کہا.حضور پیدل نہیں چل سکتا.اس لئے یکہ وغیرہ کی ضرورت پڑے گی.میں ان کے پیچھے باغ میں گیا.تو دیکھتا ہوں کہ وہ سب ہلاک ہوئے پڑے ہیں ریل کا بھی کرا یہ چاہئے.یہ کافی نہیں ہے.حضور نے فرمایا.حافظ جی اور ان کا سر الگ ہے.ہاتھ الگ اور پیر بھی الگ ہیں.بدن کا چمڑا اترا ہوا تمہیں کسی کے گھر کی کیا خبر ہے.یہ فرما کر ٹھہر گئے.پھر دوبارہ اندر تشریف ہے.میں دیکھ کر حیران ہوا کہ الہی تو بڑا قادر ہے.یہ لشکر تو نے عجیب طرح لے گئے.اور اس کو ایک روپیہ اور لا کر دیا.معلوم ہو تا تھا کہ اس وقت پر ہلاک کیا.پھر میں بیدار ہو گیا.تعبیر یہ ہے.سر کٹنے سے مراد کہ وہ کلام خرچ کی بہت تکلیف تھی.اس پر بھی آپ نے سائل کو طاقت سے بڑھ کر

Page 58

103 102 عطا فرمایا.حضرت صاحب ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد باغ میں رونق افروز تھے.ایک خیمہ باہر مہمانوں کے لئے نصب تھا.اور اس میں مولوی عبدا میں پاس ہی مقیم تھی.اور انہوں نے رونا شروع کیا.والدہ شادی خاں نے اس کو چپ کرانے کے لئے کہا.اچھا ہم سیالکوٹ چلتے ہیں.کیونکہ زلزلہ کا خطرہ ہے.اور حضرت صاحب کے مکانات پختہ ہیں.پیر منظور محمد صاحب نے والدہ شادی خاں کو دو تین دفعہ کہا.کہ حضرت صاحب کے حکم کے تحت صاحب.پیر منظور محمد صاحب.میاں شادی خاں صاحب اور عاجز رہا کام کرو ورنہ پچھتاؤ گے ، اس کے رونے کی آواز حضرت اقدس کو پہنچ گئی.کرتے تھے.سید امیر علی شاہ کورٹ انسکپٹر صاحب ساکن سیالکوٹ آئے.آخر والده شادی خاں صاحب نے حضرت صاحب کے حضور جا کر ہاتھ درختوں کے نیچے ہی رات کو سوئے تھے.رات کو جھکڑ کے چلنے کی وجہ سے جوڑے اور کہا.ہم سے خطا ہوئی.ہم نادان ہیں ہمیں معافی دی جائے.ان کو بہت تکلیف ہوئی.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے اس کا ذکر حضور نے فرمایا.ہم نے تم کو اپنے مکانوں میں رہنے کو کہا تھا.ہمارے مکان حضرت صاحب سے کیا.حضور نے مجھے بلوا کر فرمایا کہ میاں مهدی حسین ہم بفضل خدا محفوظ رہیں گے.اگر ہمارے مکان پر بھی زلزلے آئے.تو نے یہ خیمہ اپنے مہمانوں کے لئے لگایا تھا.ہمارے سید امیر علی شاہ کو رات دوسروں کا کیا حال ہو گا.اچھا اب ہم تم کو وہاں جانے کا حکم نہیں دیتے.تکلیف ہوئی.اور کسی نے ان کی خبر بھی نہیں لی.میں نے عرض کیا کہ حضور اور فرمایا.دو چھولداریاں ہیں جو کہ مشرقی جانب نصب ہیں.ان میں تم اور مجھے ان کی تکلیف کی خبر نہیں.آدھی رات کے قریب جھکڑ آیا تھا.میں مهدی حسین رہو.ہم حضور کے حکم کے مطابق ان چھولداریوں میں چلے سوتا تھا.میں حضور کے حکم کے مطابق یہاں آیا ہوں.حضور حکم دیں وہاں گئے.اور حضرت کے قیام باغ تک وہاں مقیم رہے.چلا جاؤں گا خواہ حضور کسی درخت کے نیچے رہنے کا حکم فرما دیں یا حد آبادی ایک دن مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب کی کے اندر.حضور نے فرمایا.ہاں تم گاؤں میں چلے جاؤ.اور میرے بعد اور خدمت میں عرض کیا کہ میں نے مولوی نورالدین صاحب سے لے کر شہد احباب سے فرمایا کہ لو یہ تو جلدی ہی مان گئے.اسکے بعد میاں شادی خاں کو کھایا وہ بہت عمدہ اور لذیذ تھا حضرت صاحب نے فرمایا.عسل اعلیٰ صفتیں بلایا اور متذکرہ بالا تکلیف کا ذکر کیا.میاں شادی خان نے عرض کی کہ جہاں اور خوبیاں رکھتا ہے.اور میں اس کا ہمیشہ استعمال کرتا ہوں.اور اس کی حضور حکم دیں وہاں جا سکتا ہوں.حضور نے فرمایا.تم اندر گاؤں کے خاص صفت بتاتا ہوں.میں ایک مرتبہ کھانا کم کرتا کرتا خشک روٹی کے ہمارے مکانات میں چلے جاؤ.میاں شادی خاں نے اسی وقت اپنے بچوں کو چوتھے حصہ پر پہنچ گیا.حتی کہ چھ ماہ تک یہی عمل رہا.مگر اس وقت شہد کا لے کر خیمہ سے اسباب اٹھانا شروع کر دیا.اس پر میاں شادی خاں صاحب شربت پیا کرتا تھا.اور شربت پینے سے میرے کل اعضا کو بہت طاقت اور کی بیوی کو رنج پیدا ہوا.کیونکہ ان کی بیٹی مولوی عبد الکریم صاحب کے گھر

Page 59

105 104 قوت ہوتی تھی.اگر شربت پینے سے ہٹ جاتا.تو کچھ اعضاء میں درد روایت ۴۸ ضعف پیدا ہو جاتا.اس واسطے شہد کو خصوصیت سے پیا کرتا تھا.اس میں یہ خاص خوبی ہے کہ کل اعضا کو طاقت بخشتا ہے.اس ریاضت میں بہت کشف ہوئے.ابتداء یوں ہوئی کہ ایک دن ایک صالح مرد دیکھا.اس نے کہا.غلام حسین ولد ولی داد ساکن چک پنیال میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے ان کے لئے ملائی کی برف کے لئے اکٹر نے بند کیا ہوا تھا.مگر میاں مبارک احمد اس سخت بیماری میں بار بار روزے رکھے جائیں.سو میں نے روزے رکھنے شروع کر دیئے.جب ملائی کی برف مانگتے تھے.مگر ٹال دیا جاتا تھا تفاقا ایک برف بیچنے والا نیچے آ تین ماہ کے قریب پہنچا.ایک شخص بڑا قد آور اور سرخ رنگ کے جسم والا گیا.میاں مبارک احمد نے رونا شروع کر دیا.کہ برف لا دو.ام المومنین میرے سامنے آیا.یہ الفاظ کہتا تھا.قرت قرت ، قرت.یعنی تو قدر دایہ نے حضرت صاحب سے کہا.اس کو کیا علم ہے آپ پانی کی برف لے جائیں کرد تدر دایہ کیا.تو قدر دایہ کیا.تیسرا کشف.میرے ساتھ زمین نے بھی اور اس کو کہدیں ملائی کی برف کھالو.حضرت صاحب نے برف کی ڈلی لی اور میاں صاحب کے پاس گئے.اور حضور نے فرمایا کہ لو میاں یہ برف ہے.اس کو ہی ملائی کی برف سمجھ کر کھا لو.انہوں نے پھینک دیا.ام المومنین نے کہا.آپ نے یوں کیوں کہا ہے وہ اور رونے لگ گیا ہے.آپ پھر لے جائیں.چنانچہ آپ پھر دوبارہ برف لے گئے اور اسی طرح کلام کیا.روایت ۴۷.(بھائی) عبدالرحیم صاحب میاں مبارک احمد صاحب کو دفن کرنے کے بعد حضرت اقدس پاس کی فرمایا.میاں نے برف نہ کھائی.حضور نے بھی خلاف واقعہ بات نہ کی.روش پر بیٹھ گئے اور جماعت کو نصیحت فرمائی کہ جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں.ابھی جماعت نے اس طرف رخ بھی نہیں کیا.ذراسی مصیبت آتی روایات ۴۹.ہے.اسی میں گھبرا جاتے ہیں.جزع فزع شروع کر دیتے ہیں.خدا کی دی احمد نور صاحب کابلی ہوئی چیز اگر وہ واپس لے لے تو اس میں ہمارا کیا ہے.اسی قسم کی نصائح دیر میں حضرت مولوی سید عبد الطیف صاحب شہید عنہ کے پاس خوست تک فرماتے رہے.ہم لوگ تعجب کرتے تھے کہ اللہ اللہ یہ کس قدر عظیم میں مقام سید گاہ میں رہتا تھا.اور مولوی صاحب سے پڑھتا تھا.انہوں نے الشان انسان ہے کہ اپنے بیٹے کی وفات پر بھی افسوس نہیں بلکہ جماعت کو مجھے بتایا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جو ان میں سے میری طرف ایک قدم بھی آویگا.وہ دوزخ سے بچے گا.اور بہت معارف قرآن کے بیان کیا کرتے نصیحت کرنے کا ایک موقع نکال لیا.

Page 60

107 106 تھے.ایک دن بتایا کہ قرآن مجھے دریا کی شکل میں آکر مجھے عرش تک لے ان کا ( حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب کا مہمان خانہ ایک بڑا مہمان جاتا ہے.اور کبھی مجھے انسان کی شکل میں بن کر اپنے معنے بتاتا ہے اور مجھے خانہ تھا.اس میں بہت لوگ بیٹھتے تھے ، ان کو کہا کہ بشرط زیست میں اس ایسے علوم بتاتا ہے کہ اگر میرے پاس کوئی بھی کتاب نہ ہو وے یہ پہاڑ کے انسان سے ضرور ملوں گا.اور تم سب لوگ اس کو ضرور ملو.اگر میں مر بھی درخت اور پتھر کتاب کی مثل میں لوگوں کو پڑھا سکتا ہوں.میں اس میں سے گیا تو میرا سلام پہنچا دیتا.میں اس کی کتاب کو دیکھتا ہوں.اور اس میں وہ حقائق و معارف بیان کر سکتا ہوں جیسے کوئی کتاب سے.اسی اثناء میں امیر قرآن سے دوسرے درجہ پر نور پاتا ہوں.یہ وہی آدمی ہے جس کا وعدہ دیا عبدالرحمن نے جو کہ سرحد کو انگریزوں کے ساتھ تقسیم کرتا تھا.اس میں گیا تھا.اس کے مقابلہ میں میری عقل معارف کے لحاظ سے اس کے شاگرد مولوی عبد اللطیف صاحب کو اپنی طرف سے کام کرنے والا مقرر کیا.سب کے مثل بھی نہیں ہے.اور اپنے شاگر د عبدالرحمن کو بھیجا.کچھ تحائف پہاڑوں میں سے حد کو قائم کیا.اور بہت فائدہ سے کام کیا.اس اثناء میں بھی بھیجے.میں نے بھی اس کتاب کو دیکھا جو مولوی صاحب کے پاس تھی.ایک پشاور کا آدمی آیا اور اس آدمی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ عبد الرحمن یہاں (قادیان) سے ہو کر گیا.اور کچھ اور کتابیں لے گیا اور و السلام کی ایک کتاب غالبا انجام آتھم یا براہین احمدیہ عبد اللطیف صاحب کو شہید مرحوم کو دیں اور کچھ ہم لوگوں کو بھی دیں.میرے پاس انجام آتھم دی.چونکہ وہ (مولوی صاحب) اردو کا علم بھی پاس کر چکے تھے.کتاب کو کتاب آئی.میں اردو تو نہ سمجھتا.صرف عربی کچھ سمجھی.میں اس کو پڑھتا دیکھ کر خوش ہو کر اس شخص کو جبیب سے کچھ انعام دیا.وہ کتاب لا کر اپنے تھا اور روتا تھا.آخر چونکہ امیر کابل کا ڈر تھا.اس لئے شہید مرحوم نے وہ مہمان خانہ میں پڑھی.جب اس کے دو تین صفحے پڑھے.تو فرمایا.کہ میں کتاب مجھ سے لے لی.اور شہید مرحوم نے پھر کئی دن بعد ایک اور آدمی نے ساری دنیا پر نظر رکھی تھی کہ کوئی جگہ مجھے نظر آئے مگر کوئی ایسی جگہ نظر وہاں سے (کابل سے) بھیجا اور اپنی بیعت کا خط اسے دیا.اور کئی لوگوں نے نہ آئی.کہ مجھے توجہ ہو کہ وہ جو نور آنے والا ہے اس جگہ سے نکلے گا.جن میں میں بھی شامل تھا بیعت کے خطوط دیئے.تھوڑے عرصہ بعد امیر آخر میرا گمان غالب یہ تھا کہ مجھے ہی خدا تعالیٰ اس کام کے لئے کچھ دنوں میں عبد الرحمن کا انتقال ہو گیا.شہید مرحوم حج کی اجازت حاصل کر کے وہاں مقرر فرما دے گا.فرمایا کہ یہ وہی انسان ہے کہ رسول کریم نے فرمایا تھا کہ سے روانہ ہو گئے.مجھے علم ہوا تو میں نے سمجھا وہ ضرور قادیان سے ہو کر تم میں حکم بن کر ابن مریم آویگا.اگر پہاڑوں کی سروں پر اترے گا.تو تم کہیں جاویگا.مجھے جوش تھا اس لئے میں بغیر کسی خرچ کے وہاں سے تن تنہا دوڑ دوڑ کے اس کی طرف جاؤ.یہ وہی آدمی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ چل پڑا.راستہ میں اللہ تعالیٰ نے عجیب رنگ میں امداد دی.اور سفر خرچ کے لئے مقدر کیا تھا.کل انبیاء نے اس کے لئے پیشگوئی کی تھی.وغیرہ بھی خدا نے اس طریق پر دیا کہ مِنْ حَيْثُ لا يحتسب ریل کا سفر

Page 61

109 108 پہلے کبھی نہ کیا تھا.اس لئے کھانا بھی نہ کھایا جا سکا.کیونکہ ڈر تھا کہ اگر گاڑی مجھے بڑی ہنسی آئی.ایک آدمی نے کہا.تم پنجابی نہیں جانتے ہنستے کیوں ہو.سے اترا تو ریل چل نہ دے.آخر امرت سرا ترا.صبح کو بٹالہ کا ٹکٹ لیا.میں نے کہا.کشفی حالت میں میں نے یہ سب کچھ سمجھ لیا ہے.بٹالہ میں آگیا.وہاں ایک مولوی ملا.اس نے فارسی میں گفتگو کی.اس نے میں اور حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب حضرت صاحب کے پیچھے پوچھا کہاں جانا ہے.میں نے کہا مرزا صاحب کے پاس جاتا ہوں.اس نے پیچھے مشرق کی طرف سیر کو جا رہے تھے.مولوی صاحب کی یہ عادت تھی کہ کہا وہ کافر ہے تم کافر کے پاس کیوں جاتے ہو.میں نے کہا.میں اس کے وہ اپنی گرد کو جو راستہ میں ان پر پڑ جاتی تھی اتارتے یعنی جھاڑتے نہ تھے.پاس ضرور جاؤں گا اور اس کو دیکھوں گا.تم ایسے ہو جیسے شیطان.تم خدا کی راہ سے روکتے ہو.میں ہزاروں کو س سے آیا ہوں.وہاں ضرور جاؤں گا.جب بٹالہ سے چل کر نصف راہ میں آیا.میں راہ پوچھتا پوچھتا چلتا تھا.جب میں راہ پر چلنے لگوں تو مجھے خوشبو آوے.جب میں راہ چھوڑ دوں تو خوشبو ہٹ جاوے.میں حیران ہوا کہ شاید یہاں درخت ہے مگر پھر دل میں محسوس ہوا کہ مرزا صاحب کی خوشبو ہے جو مجھے آتی ہے.اور وہ خوشبو پر جب تک کہ سیر سے واپس آئے ہوئے کچھ دیر نہ ہو جاتی.پھر بھی کہتے حضرت صاحب نے ابھی گرد نہ جھاڑی ہو گی.جب کافی عرصہ گذر جاتا تو گرد جھاڑتے.ایک دن جبکہ ہم حضرت صاحب کے ساتھ سیر میں تھے مولوی عبد اللطیف صاحب نے ہنس ہنس کر مجھے بتلایا کہ مجھے جنت کی حور ملی جو بہت شنگاری ہوئی تھی.اس نے مجھے کہا.ذرا میری طرف بھی دیکھ لو.میں نے مجھے قادیان کی مسجد اقصیٰ تک آتی رہی.تھوڑی دیر بعد میں مسجد مبارک کہا.تو بہ اس انسان کے سامنے.میں تم کو کبھی بھی اس شخص کے مقابل میں آیا.مولوی عبد الکریم صاحب ملے ان سے کسی نے میرا حال بیان کیا نہیں دیکھوں گا.کیا اس کو چھوڑ کر میں تم کو دیکھ سکتا ہوں.وہ روتی ہوئی مولوی صاحب نے کہا.خوب.پھر شہید مرحوم مجھے یہاں مل گئے.جب واپس چلی گئی.حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) باہر تشریف لائے تو شہید مرحوم نے حضور سے میری بیعت کے لئے کہا.حضور نے میری بیعت لی.میں کچھ دن یہاں رہا.میں درود شریف پڑھا کرتا تھا ایک دفعہ کشفی حالت طاری ہوئی اور آل محمد کہتے ہوئے مجھے آدم سے لیکر تمام انبیاء کی زیارت ہوئی.ایک ایک دن مجھے شہید مرحوم نے فرمایا.کہ اپنے والد صاحب کو تم نے نہیں دیکھا.وہ بھی تمہارے پیچھے پیچھے تھا.کہا تم پر بہت زنگ تھا.میں نے بہت صاف کیا.آخر جب آنکھوں پر آیا ایک آنکھ کو میں نے بہت صاف کیا تو دوسری آنکھ کے لئے تمہارے والد نے کہا کہ میں دوسری آنکھ صاف کر دن میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھا.کسی نے پنجابی کا شعر پڑھا.میں پنجابی دوں گا.میں نے کہا چلو یہ دوسری دنیا سے آیا ہے.اس کو بھی افسوس رہے نہ جانتا تھا.مگر مجھے کشفی حالت میں وہ سب شعر سمجھ میں آتے جاتے تھے.گا.چنانچہ دوسری آنکھ تمہارے والد صاحب نے صاف کی.

Page 62

111 110 ایک دفعہ کی بات ہے شہید مرحوم نے کہا میرے وجود پر رسول کریم ایسا اس آیا ہے کہ میرے پاس سے نہیں جاتا.تھوڑی دیر میں چار پائی پر لیٹا میں نے تفتیش کے لئے وہاں پہنچا.اس کو صادق اور سچا پایا.اور اس کے دعوئی کو کلام اللہ اور حدیث کے مطابق پایا.اور تین ماہ وہاں رہا.اب وہاں ہی چارپائی کو صاف کر دیا تھا.پھر جلدی اٹھے تو کہا.قلم دوات لاؤ.مجھے یہ سے واپس آیا ہوں.تم لوگوں کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ اس کی اتباع الہام ہوا ہے : -: جسم منو رمُعَمَّرَ مُعَطِرَ يُضِيْ كَالنُّوالُوا الْمَكْنُونِ نُوْ وَعَلَى نُورٍ کچھ عرصہ بعد شہید مرحوم روانہ ہوئے.انہوں نے مجھے کہا تم ساتھ چلو.میرا دل نہ چاہتا تھا کہ قادیان سے جاؤں ان کو بوجہ ادب انکار بھی نہ کیا.حضرت صاحب کو رقعہ لکھا کہ حضور میرے استاد (شهید مرحوم) مجھے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں مگر میں جانا نہیں چاہتا.حضور نے جواب میں فرمایا.کہ اب تم چلے جاؤ.تم پھر آؤ گے (یہ نہیں فرمایا کہ تم پھر آنا) کر کے امن پاؤ گے.ایک آدمی کو مندرجہ بالا خط دے کر کابل روانہ کیا.اس کے بعد ایک دن شہید مرحوم نے ایک خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا.جس کا سر نامہ بڑا عظیم الشان تھا کہ میں کابل کے بادشاہ اور حکام کو تبلیغ کے لئے خطوط لکھ چکا ہوں.دیکھئے اس کا کیا جواب آئے گا.میں نے شہید مرحوم کو کہا.یہ خط مجھے دے دیں.میں اس کا پتہ لکھوں.فرمایا یہ تمہارے ہی ہاتھ میں آوے گا.یہ بات ختم ہو کر اسی طرح رہ گئی.تھوڑی دیر بعد پچاس سوار آگئے.انہوں نے وہ پچاس سوار دیکھنے کے بعد میں شہید مرحوم کے ساتھ چلا گیا.جب چلنے لگے تو حضرت مسیح موعود نماز عصر ادا کی.اور پھر وہ خط مجھے دیا.جس کی پشت پر میں نے لکھا کہ شہید علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان کے ساتھ پر لی سڑک تک گئے.شہید مرحوم چلتے وقت جب حضرت صاحب سے رخصت ہونے لگے تو پاؤں پڑے یعنی دیر تک پاؤں کو پکڑا اور چھوڑتے نہ تھے.حضرت صاحب نے فرمایا بس کرو.پاؤں چھوڑ دو.اَلْاَمَرْفُوقُ الْاَدب مولوی عبد اللطیف نے مجھے راستہ میں کہا.ابھی الہام ہوا ہے.اذهب الى فرعون اور کہا.ہم کو فرعونیوں کی طرف جانا ہے.پھر وہ اپنی جگہ پہنچے.ہم بھی ساتھ تھے.وہاں پہنچ کر انہوں نے امیر کابل کو اور افسروں کو تبلیغی خط لکھا کہ میں حج کے واسطے گیا تھا.اور میں پنجاب میں قادیان ایک جگہ ہے جس میں ایک انسان کا دعویٰ تھا کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.مامور ہوں.نبی ہوں.میں مرحوم گرفتار ہو گئے اور ان کو پچاس سوار پکڑ کر لے گئے.اور مجھے شہید مرحوم نے فرمایا.کہ دیکھو اگر میں مارا گیا.تو میرا جنازہ پڑھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھنا.میں نے وہ خط حضرت صاحب کے پاس مضمون بالا لکھ کر بھیج دیا.کہ وہ یہ یہ باتیں کر گئے ہیں.وہ پچاس سوار مولوی صاحب کو پکڑ کر لے گئے.اور کابل پہنچا دیا.وہاں ان کو تین ماہ کے بعد شہید کر دیا گیا.اس کے متعلق سب واقعات چھپ چکے ہیں.مجھے حاکم نے بند کر دیا کہ تم قادیان نہ جانا.میں نے اپنے گھر میں کہا کہ تم تیاری رکھو.اگر حاکم نے مجھے قید بھی کر دیا.تو میں قید خانہ سے بھی انشاء اللہ آجاؤں گا.اور ہم تم ضرور قادیان چلیں گے.مجھے خداوند تعالیٰ نے

Page 63

113 112 عجیب طرح بموجب اس فرمان کے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے (حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم آؤ گے) قادیان میں آنے کی توفیق دی.سو میں قادیان پہنچا.ایک دفعہ میں حضرت صاحب کے ساتھ گورداسپور جاتا تھا.میں نے کہا.حضرت مولوی صاحب عبد اللطیف مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ میں انتظار میں تھا کہ خدا مجھے مسیح موعود بنائے گا.جب حضور کی کتاب ملی تو اسے دیکھ کر کہا.ٹھیک ہے.یہ مسیح موعود آگیا.حضرت صاحب نے فرمایا اگر میں نہ آتا تو میرے خیال میں ضرور یہی مسیح موعود ہو تا.ایک دفعہ میں حضرت صاحب کے ساتھ گورداسپور جاتا تھا مجھے فرمایا تم ہمیشہ ہمارے ساتھ جایا کرو.صد با طرح کے دشمن ہوتے ہیں.تم ہمارے یکہ کے ساتھ رہا کرو.ایک دفعہ رات کو شیخ یعقوب علی اور مفتی فضل الرحمان.مولوی محمد علی اور میں حضرت صاحب کے ساتھ پیدل گورداسپور کو جارہے تھے.میں پیشاب کے واسطے بیٹھ گیا.یہ لوگ دوڑتے ہوئے میرے پاس سے گذرتے تھے.کیونکہ یہ لوگ حضرت اقدس سے پیچھے رہ گئے تھے.میں نے جلدی ہی اٹھ کو پوچھا.کیا ہوا دوڑتے کیوں ہو.انہوں نے کہا.چور ہے میں چوروں کے پیچھے بھاگا.مگر وہ چھپ گئے.جب حضرت صاحب کو پتہ لگا کہ چور تھے.آپ نے فرمایا.احمد نور کہاں گیا.ان لوگوں نے کہا.حضور چوروں کے پیچھے گیا ہے.آپ وہاں ہی ٹھر گئے.فرمایا احمد نور کو پکارو.وہ آجائے.چنانچہ یار محمد نے آواز دی.میں پکارنے کی آواز سن کر حضرت صاحب کے تمہیں پاس آیا.تب آپ آگے بڑھے.جب میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے مجھے کچھ جگہ دی.میں نے اس جگہ پر دیواریں بنانی شروع کیں.سکھوں نے میرے گھر پر حملہ کر کے دیواروں کو گرا دیا.حضرت صاحب نے فرمایا.اچھا گرانے دو.ہم اور جگہ گھر بنا دیں گے (یہ حضور کا حوصلہ تھا کہ آپ کی ملکیت پر لوگوں نے خواہ مخواہ حملہ کیا اور حضور نے صبر کیا) میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھا اور رسول کریم کے وجود مبارک کو ان کے وجود کے ساتھ ایک ہی پایا.کہ رسول کریم بھی ہیں.اور حضرت مسیح موعود بھی ہیں گو رنگ الگ الگ ہیں.مگر وجود ایک ہی ہے.ایک دفعہ خواب میں قادیان کو مکہ کی شکل میں دیکھا.اور مہمان خانہ کو عرفات کی شکل پر دیکھا.ایک دفعہ حضرت صاحب مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائے.مولوی نور الدین صاحب شفا خانہ میں تھے اور ابھی نہیں آئے تھے.جموں کا رہنے والا ایک آدمی سامنے بیٹھا تھا.اس کا نام مجھے معلوم نہیں اس نے عرض کیا.حضور بعض لوگ ہوتے ہیں کہ نمازی بھی ہوتے ہیں.زکوۃ بھی دیتے ہیں.حج بھی کرتے ہیں.نفل بھی پڑھتے ہیں متقی بھی ہوتے ہیں.اور آپ کو بھی اچھا سمجھتے ہیں.مگر بیعت نہیں کی ہوتی.حضرت صاحب نے فرمایا.اچھا سمجھنا تو ایک ہندو کو بھی اچھا سمجھنا ہے.جس نے میرے دعوی کی تصدیق نہیں کی وہ تو مجھے جھوٹا سمجھتا ہے اور بڑا ظالم ٹھہراتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن

Page 64

115 114 افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذِبَ بِآيَاتِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ (۱۸) یونس ع۲) خدا تعالیٰ نے تو مجھے اس زمانہ کے لئے درخت بنا کر بھیجا ہے.میں ایمان کا درخت ہوں.پھل بغیر درخت کے نہیں ہو تا.اگر کوئی پھل درخت سے کاٹا جاتا ہے تو وہ خشک ہو جاتا ہے.i حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے یا انسان عارف بنے یا دین العجائیز رکھے.ان دنوں صورتوں کے متعلق حضور اپنے عمل درآمد سے ثبوت دیا کرتے تھے.ایک دفعہ گل محمد عیسائی پشاور سے آیا.اس نے کچھ اعتراض کئے.اسی طرح جو لوگ مجھ سے کاٹے جائیں گے وہ خشک ہو جائیں گے.جو میرا حضور نے جواب دیئے.اثناء گفتگو میں اس نے کہا.حضور سختی کرتے ہیں.انکار کرتا ہے وہ تمام انبیاء کا انکار کرتا ہے.ایات ۵۰ الہ دین المعروف فلاسفر حضور نے فرمایا کہ کیا میں یسوع سے زیادہ سختی کرتا ہوں جو اپنے وقت کے فقیہوں، فریسوں کو کبھی سانپ کے بچے کبھی سوروں کے بچے کہتا.کبھی کہتا کسبیاں تم سے پہلے خدا کی بادشاہت میں داخل ہوں گی.مجاہدات تو گویا حضور کی عادت ہو گئے تھے رات کو کثرت سے تصنیف کا کام کرتے تھے اور اندر مہمان عورتوں کو نصائح وغیرہ فرماتے رہتے تھے.ہر ایک کے سوالوں کا جواب دیتے.ہر ایک کی عرضیوں پر غور فرماتے اور وافل اس کثرت سے رو رو کر اتنی دیر تک پڑھتے کہ حضور تھک جاتے تھے.الہ دین فلاسفر ( یہ نام اصل میں علاء الدین ہے.پنجابی میں الہ دین پکارتے ہیں) نے بیان کیا کہ ہمارے گاؤں کا ایک ملاں قادیان میں آیا اور اس نے حضرت صاحب سے وظیفہ دریافت کیا حضور نے فرمایا کہ استغفار کا ترجمہ اپنی مادری زبان میں پڑھا کرو.اس نے گاؤں میں جاکر ٹھٹھہ اڑایا کہ سیہ وظیفہ بتایا ہے.میں نے سن کر یہ پڑھنا شروع کر دیا.اور اس کے بعد خدا کے بڑے بڑے فضل مجھ پر ہوئے.مجھے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی روایت ۵۱ توفیق ملی اور استقامت ملی اور وہ بد بخت ٹھٹھا کر کے محروم رہ گیا.قریباً ۱۸۹۵ء کا ذکر ہے کہ حضور نے اپنے ایک ملازم کرم داد کو فرمایا.تمہارے کپڑے میلے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ حضور کو صفائی کا کتنا خیال رہتا تھا وَ صَدَقَ الله تعالى - إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِرِين) اس سے اعتراض پڑتا ہے.حضرت حافظ احمد اللہ صاحب ایک دن فجر کے وقت رمضان کے مہینہ میں میں مسجد مبارک میں گیا.میں نے صبح کی اذان کہی.حضرت صاحب اندر سے تشریف لائے.حضور تشریف فرما رہے اور میں اذان کہتا رہا.جب اذان کہہ چکا تو حضور نے فرمایا.تم نے اذان کے لئے جلدی کی میں نے تو ابھی سحری نہیں کھائی.میں

Page 65

117 116 نے عرض کیا حضور سحری کھالیں ابھی تبین نہیں ہوا.حضور فوراہی اندر کہا.ہاں.اس نے عرض کیا.اس بات کے فلاں فلاں پہلو پر بھی حضور نے تشریف لے گئے حضور نے کچھ تھوڑا سا کھانا کھایا اور پھر تشریف لائے اور غور کیا.سلطان نے جواب دیا.کہ کوئی جگہ خدا کے لئے بھی چھوڑنی چاہئے.یا سب جگہ خودہی پر کر دینی چاہئے؟ نماز پڑھائی.روایات ۵۲ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.خدا نے مجھے بتا دیا ہے کہ غیر احمدی مسلمان اب گھٹتے ہی جاویں گے اور وہی بچیں گے جو تجھ سے تعلق رکھیں گے ورنہ گھٹتے گھٹتے یہ بالکل مٹ جائیں گے.(یہ اس الہام کے مطابق ہے جو تذکرہ میں موجود ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُلْبِسُوا روایت ۵۳ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنام چوہدری رستم علی خان صاحب کورٹ انسپکٹر - بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.مشفقی مکرمی إيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْآمَن وَهُمْ مُهْتَدُونَ) اخویم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.میں آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات سے خوش ہوئے کہ دعا کروں گا.مگر اس طرح پر کہ جو کچھ آپ کے دنیا اور دین کے لئے فی ایک شخص نے سنایا کہ امیر عبد الرحمان والی کابل کے بیٹے نصر اللہ خان جب الحقیقت بہتر ہے وہ بات آپ کو میسر آوے.کیونکہ معلوم نہیں خیر کس کام ولایت گئے.وہاں لیڈیوں اور وزراء انگلستان سے جب ملاقات کی تو وزیر میں ہے.ہمیشہ حالات خیریت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام.خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۱۸.دسمبر ۱۸۸۹ء انگلستان نے کہا.یہ لیڈیاں مصافحہ کرنا چاہتی ہیں اور ملاقات کے لئے آئی نا جائز سمجھتے ہیں.ہیں.انہوں نے جواب دیا.ہم مسلمان ہیں ہم نامحرم عورتوں سے ہاتھ ملانا روایات ۵۴ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کو خوش ہو کر بیان فرمایا ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ کرتے تھے.جو حضور نے کسی سے سنی تھی.کہ سلطان عبد الحمید خان والی روم سے کسی نے کہا.حضور نے فلاں معاملہ میں غور کیا ہے.انہوں نے حضور کی بہت مخالفت کرتے ہیں.اور موافق تھوڑے ہیں.حیرانی ہوتی

Page 66

119 118 ہے کہ لوگ کس طرح حضور کو پہچانیں گے.آپ نے فرمایا.پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر کیا گمان ہوتا ہے.کہ اس کی روشنی جہان میں پھیلے گی.اور سب لوگ اس کو دیکھ لیں گے.مگر چودھویں رات کے چاند کو بہت لوگ دیکھ لیتے ہیں.کوئی اندھا ہی رہ جائے تو رہ جائے.روایات ۵۵- حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ ایک دن حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میرے والد صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ فلاں سکھ نے ہمارے کھیت سے لکڑی کاٹ لی ہے.تم باہر جا کر ایک دن حضرت مسیح موعود نے لوگوں کو جمع کر کے مینارہ کے متعلق دیکھو اسکے کھیت میں کہیں ہو گی.چنانچہ میں اس کے دیکھنے کے لئے گیا.مشورہ کیا کہ اس کے بننے کے لئے تجویز کی جائے.اور اندازہ کیا جائے کہ جب اس سکھ سے دریافت کیا تو اس نے مجھے کہا تم چور ہو.اور چوری کی کتنا روپیہ لگے گا.اس کے متعلق تجاویز ہوں.سید حامد شاہ صاحب غرض سے یہاں آئے ہو.میں خاموش رہا.کچھ دنوں بعد میں بٹالہ تحصیل سیالکوٹی کے والد صاحب نے تقریر کی اور کہا.اگر یہ بنوانا ہے تو اس پر دس میں گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سکھ تحصیل میں موجود ہے.ہاتھوں میں ہتھکڑی ہزار روپیہ لگے گا.اور اس سے کم میں یہ تیار نہیں ہو سکتا.حضور نے پڑی ہے.مجھے اس نے جھک کر سلام کیا.میں نے لوگوں سے اس کا حال فرمایا.کہ انتار و پیہ بہت ہے.اتنا روپیہ یہ غریب جماعت کہاں سے لاوے پوچھا.انہوں نے کہا.اس کے پاس سے کڑا ہا چوری کا پکڑا گیا ہے.اس گی.کچھ کم تخمینہ کرو.الحمد للہ کہ آج اسی غریب جماعت نے ڈیڑھ لاکھ جرم میں چالان ہو گیا ہے.روپیہ کی دو عمارتیں تیار کروائیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور تھے.رات جب مینارہ کا کام بند پڑا رہا.ایک دن ایک شخص نے سوال کیا.حضور کو دس بجے کے قریب نوکر سے کہا چلو قادیان چلیں.اس نے کہا.مجھے ڈر لگتا ہے.آپ نے فرمایا ہمیں تو کوئی ڈر نہیں لگتا.حضور اسی وقت چل یہ مینارہ کب تیار ہو گا.حضور نے فرمایا.اگر سارے کام ہم ہی ختم کر جاویں.تو پیچھے آنے والوں کے لئے ثواب پڑے.پا پیادہ تیرہ کوس کا سفر کر کے نماز فجر سے پہلے قادیان تشریف لے کہاں سے ہو گا.آئے.حضرت مسیح موعود اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بہت سی برکات کا وعدہ مینار کی تکمیل کے ساتھ ہے.جب یہ مینارہ تعمیر ہو جائے گا تو ان برکتوں کا نزول روایات ۵۶ ہو جائے گا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب میاں مبارک احمد بیمار ہوئے.میں نے دیکھا حضرت صاحب دن ! 1

Page 67

121 120 رات میں صرف دو تین گھنٹے سوتے تھے.دن رات آپ علاج اور دعاؤں حضرت مسیح موعود" پر خدا کا یہ خاص فضل تھا کہ گرمیوں کے موسم میں میں لگے رہتے تھے.اس قدر محنت اور محبت سے آپ تیمار داری کرتے تھے جب سخت گرمی دو تین دن پڑتی.تو تھوڑی بہت بارش ضرور برس جایا کرتی کہ دوسرا انسان آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اسی طرح حضور مولوی تھی.ایک دن مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ حضرت کئی عبد الکریم صاحب کی بیماری میں تیمار داری کرتے تھے.اگر کوئی کمزور ایمان دن سے بارش نہیں ہوئی.اگر حضور فرما ئیں تو کل نماز استسقاء پڑھی کا انسان مبارک احمد کی بیماری میں حضور کی مصروفیت دیکھتا تو ٹھو کر کھا جاتا.جائے.آپ نے فرمایا بہتر.مگر اللہ تعالیٰ کا احسان کہ رات کو ہی بارش ہو کہ شائد یہ لڑکا ان کا خدا ہے جو اس قدر کوششیں اس کی صحت کے لئے ہو گئی.حضرت منشی اروڑے خان صاحب رہی ہیں.مگر جب وقت وفات میاں مبارک احمد قریب آیا.حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحب کے ہاتھ میں نبض تھی.انہوں نے فرمایا.روایت ۵۷ حضور نبض کمزور ہو گئی.مشک لائیے.حضور علیہ السلام جلدی سے مشک لا کر واپس آرہے تھے کہ مولوی صاحب نے دیکھا اور نبض سے معلوم کیا کہ ایک دن میں قادیان آیا گرمی کے دن تھے.سخت تپش ہو رہی تھی.میاں مبارک احمد کی جان نکل گئی.بے ساختہ مولوی صاحب موصوف کے میں نے عرض کیا کہ حضور واپس جاتا ہے.مگر دل چاہتا ہے کہ راستہ میں منہ سے نکلا.حضور جان نکل گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارش پڑے اور بھیگتا جاؤں.حضور نے فرمایا.نے فرمایا.قلم دوات کاغذ لاؤ.جب کاغذات اور قلم و دوات پیش کی گئی.اس کی رحمت سے کیا بعید ہے" حضور نے فور آمریدوں کو خط لکھنے شروع کر دئیے.اور لکھتے تھے.کہ گھبراؤ جب بٹالہ پہنچے تو فور ابادل نمودار ہو کر بارش ہونی شروع ہو گئی اور اسٹیشن مت یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے.تک پہنچنے سے پہلے تمام کپڑے تر ہو گئے اور پانی ہی پانی ہو گیا.میرے رفیق اللہ اللہ یا تو یہ کوشش یا جان نکلتے ہی یہ حالت کہ خود بالکل مطمئن ہیں سفر نے کہا درخت کے نیچے ہو جاویں.میں نے کہا.نہیں ہم نے دعا کراکر اور جماعت کے لوگوں کی تسلی کے لئے خط لکھ رہے ہیں.پھر آپ نے اس بارش منگائی.اب تو بھیگتے ہی جائیں گے.چنانچہ ہم بارش میں ہی سٹیشن پر ندر محنت کیوں کی.اس کا جواب یہ ہے کہ حضور کو کامل ہمدردی تھی.اور چلے گئے.) اس ہمدردی کو حضور نے حد تک نبھایا.جب خدا کا فعل سرزد ہو گیا.پھر کچھ رنج نہیں کیا.I

Page 68

123 122 روایات ۵۸ ضرور تشریف لادیں.آپ نے منظور فرمالیا اور تاریخ مقررہ پر حضور حضرت مولوی قطب الدین صاحب ولد غلام حسین صاحب تشریف لے گئے.سٹیشن پر عصر کے وقت پہنچے.معززین شہر لدھیانہ) ساکن چند ہر (Chandhar) ضلع گوجرانواله حال مهاجر قادیان استقبال کے لئے موجود تھے.جب حضور اترے.ایک واقف شخص نے میرا حضرت صاحب کے ساتھ اس وقت سے تعلق ہے جب کہ سلسلہ حضور کو پہچان لیا.کہ تشریف لے آئے ہیں.جب حضور سٹیشن سے باہر بیعت شروع نہیں ہوا تھا.میں اسی وقت سے حضرت صاحب کا معتقد تھا.نکلے تو سب لوگوں نے مصافحہ کیا.نواب علی محمد خان نے کہا.میری کو ٹھی پر اور اولین بیعت کنندگان سے ہوں.اور میں نے حضرت صاحب کو لدھیانہ تشریف لے چلیں.مگر میر عباس علی نے کہا.یہ مبارک وجود آج میرے گھر میں دیکھا.جب پہلی ہی بار وہاں تشریف لے گئے.وہ اسی طرح پر ہوا کہ میں قدم مبارک رکھے.حضور نے منظور فرمالیا.اور میر عباس علی کے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میر عباس علی نے خط لکھا کہ حضور ٹھہرے.میں نے اس دن حضور کو اول بار دیکھا اور مصافحہ کیا.میری لدھیانہ تشریف لا ئیں.چنانچہ اس کا جواب حضرت صاحب کی طرف سے آنکھوں سے پانی جاری ہو گیا.بدن نرم ہو گیا اور ایسی حالت تھی جیسی گیا کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ کوئی شہر ہے.اس میں میں نے سرور کی ہوتی ہے.اور مجھے یقین ہو گیا کہ جیسے پہلے راستباز اور صادق مسلمانوں کی جماعت کو نماز پڑھانے کا ارادہ کیا ہے.تو میرے اندر انہوں بندے خدا کے دنیا میں آئے ہیں.یہ بھی انہیں میں سے ہیں.نے کوئی مخالف بات دیکھی ہے.ان لوگوں نے میرے پیچھے کھڑا ہونا نا پسند جتنے روز حضور لدھیانہ میں رہے.میں حضور سے ملتا رہا.اور ایک دن کیا.(قریباً قریباً یہی بات تھی) اور سب لوگ الگ ہو گئے ہیں.جب میں عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ حضور سے تعلق رکھوں.اور الگ نہ ہوں.نے دیکھا تو میرے پیچھے صرف آپ ہی ہیں (یعنی میر عباس علی ہیں) ممکن ہے مگر کیا کروں طالب علمی کا زمانہ ہے.اور تحصیل علم بھی ضروری ہے.آپ کہ میرے آنے سے اس شہر میں مسلمانوں کو کوئی ابتلا آجائے.قدم نے فرمایا.تم میرے پاس قادیان میں آنا.پھر میں وہاں امرتسر مولوی غلام الخروج قبل البروج.اس واسطے میں نہیں آنا چاہتا.ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو علی صاحب کے پاس آیا.میں امرتسر سے کبھی ہفتہ بعد کبھی دو ہفتہ بعد آسکتا ہوں.کیونکہ بندہ بغیر حکم الہی کے قدم نہیں اٹھا سکتا.قادیان آیا کرتا تھا.ان دنوں مہمانوں کی کثرت نہ ہوتی تھی.ان دنوں میں مولوی عبد القادر صاحب اور میر عباس علی نے دوبارہ خط لکھا کہ خواب حضور مجھے بعض وقت کرایہ بھی اپنے پاس سے دے دیا کرتے تھے.کا واقعہ ہے اور خواب میں شہر کا نام نہیں.ممکن ہے کوئی اور شہر ہو.آپ ایک مرتبہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ جو سادہ لوگ غریب ہوتے ہیں وہ انبیاء کے ساتھ ہوتے ہیں.وہ مولوی بحث میں پڑنا چاہتا تھا.مگر حضرت

Page 69

125 124 تھا.کسی احمدی نے حضور سے عرض کیا اگر حکم ہو.اس پر دعویٰ کیا جائے.صاحب نے پسند نہ فرمایا.ایک دن حضرت صاحب اندر سے مسجد میں تشریف لائے.فرمایا میری اس خبیث نے خواہ مخواہ خلاف واقعہ حضور کی ہتک کی ہے.آپ نے قوم نے خدا جانے کیوں اس قدر سختیاں مجھ پر روا ر کھی ہیں طرح طرح پر فرمایا.نہیں یہ انبیاء کی سنت ہے کہ ان کے ساتھ دنیا اسی طرح کا سلوک ایذا دیتے ہیں.ادھر یہ حال ہے کہ غیر قوموں کے اسلام اور بانی اسلام پر کرتی رہی ہے.مگر دعوی وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے.زور شور سے حملے ہو رہے ہیں.اس طرف ان کا قطعا خیال نہیں.اور مجھے جب حضور لدھیانہ میں تھے.اس زمانہ میں حضور کادعویٰ مجددیت کا ایذا رسانی کے درپے ہوتے ہیں.آج ایک پادری کا خط آیا ہے جس میں تھا.ایک سائل نے سوال کیا مگر اس کے چہرے اور الفاظ سے شرارت ٹپکتی میں نے پڑھا تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.میں نے اچھی طرح پڑھا بھی تھی.اس نے کہا کہ چار امام ہوئے اور چار مذہب چاروں اماموں کے نہیں کیونکہ مجھے بہت رونا آیا کہ مسلمانوں کی کیا حالت ہو گئی.وہ کیوں مختلف بنتے ہیں.اب اس اختلاف کو اگر آپ مجدد ہیں آپ کے سوا کون رسول کریم کی عزت کی پرواہ نہیں کرتے.یہ پادری لوگ کیسے بیباکانہ حملے دور کرے گا.آپ بتلائیں چاروں حق پر نہیں ہو سکتے.ان میں کافرکون آپ پر کرتے ہیں.اور عجیب مسلمان ہیں کہ وہ میرے در پے آزار ہیں.ہے اور حق پر کون ہے؟ آپ نے فرمایا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اور انہیں رسالتماب کی عزت کا فکر نہیں ہے.گورنمنٹ کوئی حکم نافذ کرے آگے جو اہلکار ہیں یا کوئی اور ذی وجاہت ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں تھے چند لوگ اس گورنمنٹ کے حکم کو الگ الگ طور پر لوگوں کو سنا ئیں.اگر اس اوباشوں نے ایک قوی ہیکل بد معاش کو اکسا ر کھا تھا اس نے مجمع عام میں کے سمجھانے میں ان کے بیانات کچھ مختلف ہوں.اور ضروری ہے کہ حضرت صاحب کے قریب ہو کر گلے میں باہیں ڈالیں اور اس زور سے حضور ہوں.کیونکہ ہر انسان کی طبیعت مختلف ہوتی ہے تو وہ گورنمنٹ کے مخالف کا گلہ گھونٹا کہ حضور کا چہرہ سرخ ہو گیا.کسی احمدی کو جوش آیا.اس نے نہیں کہلا سکتے.دراصل ان کا منشاء گورنمنٹ کے احکام کو پہنچانا ہے.وہ اس خبیث کے مکہ مارا.اور الگ کیا.حضرت اقدس نے فورا روک دیا کہ اختلاف جو ہے وہ اپنی اپنی طبائع کا اختلاف ہے.چونکہ ان کی نیت اس کو مت مارو.یہ اس کی کم عقلی ہے.جانے دو.اس سے سختی نہ کرو.تابعداری گورنمنٹ ہے اس لئے وہ لوگ باغی نہیں کہلا ئیں گے نہ مفسد.کلانور سے ایک مضمون خلاف واقعہ شائع کیا گیا اور اس میں حضرت مسیح اسی طرح چاروں امام راستی پر تھے.موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمہ خواہ مخواہ بہت سے گنہ منسوب کئے گئے مولوی شاہ دین نے وہاں سوال کیا تھا کہ انبیاء کے تابع غریب لوگ اور وہ تحریر ایک نہایت گندی تحریر تھی جس کو مومن پڑھ بھی نہیں سکتا ہوتے ہیں یا امیر؟ آپ نے فرمایا.غریب تابع ہوتے ہیں.اس نے کہا جو

Page 70

127 126 دین میں غریب ہوتے ہیں وہ غریب یا جو دنیا کے غریب ہوتے ہیں وہ غریب.کرامتوں کے منکر ہو.تو قادیان ایک سال کے لئے آجاؤ.میں تمہیں اس کے اوپر حضور نے چند منٹ گفتگو کی.اور بار بار حضور نے دہرایا کہ بفضل الہی نشان دکھلاؤں گا.اور تمہارا سال بھر کا خرچ خوراک میں دوں انبیاء کے ساتھ غریب لوگ ہوتے ہیں.گا.سوائے مے نوشی کے جو ہمارے مذہب میں ناجائز ہے.اگر تم نے نشان ایک دن حضرت صاحب نے فرمایا کہ تبلیغ کرو.اور باہر جاؤ.جو شدید دیکھ لیا تو ایمان لے آنا.اگر نشان نہ سرزد ہوا تو میں تم کو دو صد روپیہ مخالف انسان ہو اس سے اعراض کرو.جو لوگ مقدمہ میں ہار گئے ہوں یا ان ماہوار کے حساب سے سال کا ہرجانہ چوبیس سو علاوہ خرچ خوراک دوں گا.کا رشتہ دار مر گیا ہو.یا بیمار ہو.یا کوئی کسی قسم کا صدمہ رسیدہ ہو.ان کے پاس پہنچو اور ان کو تبلیغ کرو.ان کے دلوں میں صدمہ کے سبب سے تکبر کم ہوتا ہے.اور جس کا تکبر ٹوٹا ہو تا ہے وہ حق کو قبول کر لیتا ہے.چنانچہ میں خط لے کر امر تسر گیا.وہاں محمد حسین کو خط دکھایا.وہ خط لے کر مولوی غلام علی صاحب کو ملے.اس کے بعد وہ خط مولوی غلام علی صاحب کو دکھایا.انہوں نے کہا.ہم تو پسند نہیں کرتے کہ یہ خط دیں.کیونکہ اگر ایک دفعہ مجھے حضور نے تبلیغ کے لئے لاہور کی طرف روانہ کیا.فرمایا آتھم نشان دیکھ کر بھی انکار کر دے تو کیا علاج ہے.چوہیں سو روپیہ اور اللہ تعالیٰ تم کو جرات بخشے اور استقلال و ہمت کو بڑھائے.پیچھے سے یہ لفظ خرچ ہو جائے گا.اور اگر اس نے ویسے نہ مانا.ظاہری طور پر اسلام لے بھی کہے کہ اس وقت تمہارا تبلیغ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ آئندہ اس سلسلہ بھی آئے تو کیا فائدہ.اس میں فائدہ کی امید صرف دل پر ہوگی.اور نقصان کے لئے واعظین کی ضرورت ہوگی تو پھر تم کو بھی مقرر کیا جائے گا اور مال ہے.ہم پسند نہیں کرتے.خیر میں وہ خط عبد اللہ آتھم کے پاس معہ دس ہماری جماعت کے مخلص لوگ بھی تم سے محبت رکھیں گے.مجھے اس کے پندرہ معززین شہر کے لے گیا.عبد اللہ آتھم نے منظور نہ کیا.میں نے آکر بعد لاہور شہر میں جو کامیابی ہوئی وہ حضور کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا.ایک دفعہ مجھے حضور نے ویرہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا اور فرمایا اللہ تعالی تم کو ہمت بخشے اور ترقی عطا کرے.جاؤ تبلیغ کرو.عبد اللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ شروع ہو نا تھا تو حضرت صاحب نے مجھے چار ورق کا خط لکھ کر دیا تھا.میں وہ خط لے کر عبد اللہ آتھم کی طرف گیا تھا.جاتے ہوئے حضرت صاحب نے فرمایا تھا.امرتسر محمد حسین بٹالوی اور مولوی غلام حسین صاحب ہیں ان کو خط دکھا لینا.مضمون خط یہ تھا کہ تم مفصل حال حضرت صاحب سے عرض کر دیا.ایک دفعہ میں حضرت صاحب کے پاؤں دبا رہا تھا.میں نے عرض کیا.عالم ارواح کیا ہے.آپ نے فرمایا.عالم ارواح ایک عالم ہے اور ضرور ہے.دیکھو ہماری یہ دہلی والی شادی ابھی نہ ہوئی تھی کہ ہم نے خواب میں چھوٹے چھوٹے بچے دیکھے جو کھیلتے تھے اور میری ٹانگوں کو چمٹتے تھے.مگراب دیکھو.وہ خواب پورا ہو گیا.اور میاں محمود ، میاں بشیر میاں شریف اسی طرح کھیلتے ہیں.تو ثابت ہوا کہ ان کا وجود عالم ارواح میں تھا.تو جبھی مجھے

Page 71

129 128 دکھایا گیا تھا.ورنہ کہاں سے نظر آتا.تشریف لے گئے میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کیا آپ نے ایک دن میں نے عرض کیا.حضرت یہ مجذوب لوگ کیسے ہوتے ہیں.حامد علی صاحب سے فرمایا.یہ پتاشے وہی نور محمد دے گیا ہے.پرے رکھ بعض دفعہ یہ عجیب عجیب باتیں کہتے ہیں اور پوری ہو جاتی ہیں.آپ نے دو.ہم استعمال نہ کریں گے.اور مجھے فرمایا.اگر وہ مل جائے تو اس کو فرمایا.تزکیہ کے لئے انسان اپنی طبیعت پر خاص اثر ڈال کر اور تکلیف کے میرے پاس لاؤ.چنانچہ میں نے اس کو تلاش کیا اور حضرت صاحب کے ساتھ جھوٹ سے پر ہیز کرتا ہے.کانوں کو براسننے سے بچاتا ہے.حرام نہیں حضور لایا.آپ نے اس سے سوال کیا.اس نے کہا میں نے ان کے رعب کھاتا.اور حرام نہیں پیتا.غیبت نہیں کرتا.ان افعال شنیعہ سے جب وہ سے غلط کہہ دیا تھا.آپ نے اس کو کہا.اچھا اب لکھ دو کہ واقعہ سچا ہے.بچتا ہے.تو تزکیہ نفس ہو جاتا ہے.باقی لوگوں کو تزکیہ کرنا الگ امر ہے.اس نے لکھا عبارت درست نہ تھی.حضور نے سارا واقعہ اپنی قلم مبارک ای طرح مجذوب بلا تکلف افعال شنیعہ سے بچتا ہے.اس طرح پر مزکی سے لکھا.اور نیچے لکھا اگر یہ اوپر کی تحریر درست ہے تو تم فی سبیل اللہ انسان میں اور ان میں ایک طرح کی نسبت ہوتی ہے.اور دونوں سے ایک دستخط کر دو.چنانچہ اس نے دستخط کر دیے.حضور نے وہ پرچہ مجھے دے حالت کے کام سرزد ہوتے ہیں.ہاں ایک سالک بڑے بڑے اجروں کا دیا.میں نے وہ پرچہ مولوی غلام علی صاحب کو اور دوسرے لوگوں کو مستحق ہوتا ہے.اور مجذوب کسی اجر کا مستحق نہیں نہ وہ کوئی کمال ہے.دکھلایا.نور محمد کا اعتبار جاتا رہا.میں نے کہا.خیر اعتبار جاتا رہا تو جاتا رہا.مگر کیونکہ اس کو وہ حالت خود بخود حاصل ہوئی ہے.اور اس کی کوشش کا نتیجہ حضرت صاحب سے الزام جاتا رہا.ہے.روایات ۵۹ ایک شخص نور احمد نامی کا ذکر براہین احمدیہ میں ایک نشان کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت صاحب نے کیا ہے.وہ شخص امرتسر میں مولوی غلام علی صاحب کے پاس رہا کرتا تھا.جو حضرت صاحب کے بڑے مخالف تھے.جب براہین ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے جا رہے احمد یہ شائع ہوئی تو وہ نور احمد والا نشان اس میں لکھا ہو ا تھا.مولوی غلام علی تھے.راستہ میں کسی نے ذکر کیا کہ مولوی نورالدین صاحب کتاب نے حافظ (نور احمد) کو بلا کر کہا کہ تمہاری نسبت یہ نشان لکھا ہے کیا یہ صحیح ہے نور الدین لکھ رہے ہیں اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ یا غلط ہے.اس نے انکار کر دیا کہ واقعہ غلط ہے انہوں نے حافظ نور احمد سے والے واقعہ کا ذکر ہے.انہوں نے آگ کو جنگ کی آگ ثابت کیا ہے.و تخط کروالئے اور کئی لوگوں کو دکھائے.اتفاقاً حضرت صاحب بھی امرتسر آپ نے فرمایا مولوی صاحب سے کہدو.اور بڑے جوش سے فرمایا کہ

Page 72

131 130 مولوی صاحب کو کہدو.یہ بات غلط ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو واقعی آگ میں ڈالا گیا تھا.اور جو کوئی یہ غلط ثابت کرے وہ ہمارے مخالفوں کو اکسائے کہ وہ بہت سے اکٹھے ہو کر مجھ کو آگ میں ڈال کر دیکھ لیں.اگر روایات ۶۰ (بھائی) عبدالرحیم صاحب میری بیعت کی وجہ یہ تھی کہ مجھے حضرت مسیح موعود کی تحریر میں محبت آگ مجھ کو چھو جائے تو سمجھ لیں کہ وہ واقعہ غلط تھا.یہ فقرہ میرے کانوں میں الہی کی بو آتی تھی.اور میں نے دیکھا کہ آپ کا کلام انشا پردازوں کے تصنع یا گونج رہا ہے.دنیاوی علماء کی بناوٹ سے پاک تھا.چنانچہ میں نے صرف ست بچن پڑھ کر ایک دن حضرت صاحب نے فرمایا جبکہ بوجہ زلزلہ کے حضور باغ میں یقین کر لیا کہ اس کتاب کا لکھنے والا ایک دنیا دار اور ریا کار انسان نہیں ہو رہائش فرما تھے کہ ہم کو لنگر کے خرچ کے لئے بہت تشویش تھی.مہمان سکتا بلکہ یہ طرز کلام کسی راستباز کا ہے.مجھے تصوف کا شوق تھا.میرے زیادہ آتے ہیں.روپیہ کی ضرورت تھی.آج ایک شخص آیا.پھٹے پرانے استاد ایک ہندوید نئی تھے.میں ان سے کیمیائے سعادت پڑھا کرتا تھا.ایک کپڑے پہنے ہوئے تھے.کچھ کہنا چاہا.میں نے اس کی طرف توجہ کی تو ایک دن پڑھاتے پڑھاتے بادا صاحب نے علم لدنی کی تشریح کرتے ہوئے کہا.پوٹلی میلی سی لیر میں پیش کر دی.میں نے سمجھا کچھ پیسے ہیں.اندر آکر شمار جس طرح محمد صاحب کو ہو گیا تھا.یا جس طرح مرزا صاحب قادیان والے کیا تو دوصد کے قریب روپیہ تھا.فرمایا معلوم ہوتا ہے بے چارے نے اپنا کو ہے.بادا صاحب گو مسلمان نہ تھے.لیکن ان کے منہ پر محمد صلعم کے ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب کا نام آجانا میرے لئے بڑی تحریک کا موجب سارا ہی اندوختہ پیش کر دیا.ایک دن آپ نے مسجد مبارک میں بیٹھے فرمایا (یعنی حضرت خلیفتہ المسیح ہوا.اور آخر قادیان آکر بعد تحقیق حق ثابت ہوا.الثانی نے) کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے.جو مجھ سے تعلق پیدا نہیں جس زمانے میں میں پہلی دفعہ یہاں قادیان آیا میں نے دیکھا کہ حضرت کرے گا.وہ کاٹا جائے گا.خواہ وہ بادشاہ ہی ہو.اس لئے غیر احمدی قوم کا صاحب تمام مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے.اور بعد مغرب چندہ اشاعت اسلام کے لئے ہمیں کس کام کا ہے.کیونکہ وہ اشاعت اسلام چھوٹی مسجد کے اوپر دربار ہوتا تھا جس میں عجیب عجیب نکات معرفت بیان کس کام کی جس میں غیر مسیح کا چندہ ہو.جب حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ فرماتے تھے اور عشاء تک حضور باہر رہتے.مجھے پہلی مرتبہ یہ دیکھ کر تعجب خواہ بادشاہ ہی ہو.وہ بھی بلا تعلق کاٹا جائے گا تو کٹ جانے والوں کے مال ہوا تھا کہ آپ وکلاء کو کسی مقدمہ کی پیروی کے متعلق ہدایات فرما رہے تھے.میرا یہ تعجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ کر اور آپ کے مسجد کے اندر صحابہ کو جنگ اور دیگر ہدایات کے دینے سے رفع ہوا.میں کیا برکت ہے.רי

Page 73

133 132 لباس -:- حضرت اقدس عموماً لباس میں صفائی کے ساتھ سادگی کو پسند فرماتے تھے.مزاج میں تکلف نہ تھا.اگر رو مال ملنے میں دیر ہوتی.تو پگڑی کے شملہ سے ہی منہ پونچھ لیا کرتے تھے.پگڑی کے اندر ٹوپی ہمیشہ رکھا کرتے تھے.پگڑی سفید ہوتی تھی.کپڑوں کے متعلق کوئی خاص طرز نہ تھی.میں نے اپنی بیوی سے سنا ہے کہ حضرت ام المومنین جیسے کپڑے نکال کر دے دیتیں وہی پہن لیتے تھے.البتہ ایک موقعہ پر جبکہ امریکہ سے ایک امریکن مرد اور عورت آپ کی زیارت کو آئے تو حضور نے خاص اہتمام سے لمبی قبا پہنی اور کمر پر پٹکا باندھا.جو نہ کے متعلق بھی سادگی مد نظر تھی.عموماً جوتے کی ایڑی بیٹھی رہتی تھی.جو تادیسی ہی پہنتے تھے.ایک مرتبہ کسی دوست نے انگریزی جو تا لاکر پیش کر دیا.آپ نے دایاں بایاں پاؤں پہچاننے کے لئے نشان کرلئے.لیکن دیر نہ ہونے پائی تھی کہ آپ نے اس کا پہننا ترک کر دیا.اور فرمایا.اس کے پہنے میں وقت خرچ ہوتا ہے.ہمیں ان تکلفات سے کیا غرض.ہمار ا وقت قیمتی ہے.اس طرح انگریزی جو تہ کا پہننا ترک کر دیا.اور وہی سادہ دیہی جو نہ پہنتے رہے.حضور کو خوشبو کا شوق تھا.اور کپڑوں کو ہمیشہ خوشبو لگی رہتی تھی گرم کپڑے آپ ہمیشہ پہنتے تھے.کبھی کبھی پوستین بھی پہنا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی دوست نے گھڑی پیش کی.آپ نے اس کو رومال میں لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور فرمایا.یہ خدا نے ہمارے لئے بنائی ہے تاکہ نماز کا وقت معلوم کریں اور ہر قسم کے موسم میں معلوم ہو جایا کرے.حضرت صاحب کو خوراک میں سادگی مد نظر تھی.آپ گڑ کے پکے چاول زیادہ خوشی سے کھایا کرتے تھے.اور ساگ کو بھی پسند فرماتے تھے.میری بیوی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ کوئی دیہاتی عورت ساگ لائی ام المومنین نے ناپسند فرمایا.لیکن حضرت صاحب نے فرمایا.آپ رکھ لیجئے.پکوائیے ہم کھا ئیں گے.اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں.ایک یہ کہ حضور نے اس کی دل شکنی پسند نہ فرمائی.دوسرے ثابت ہوا کہ حضور ساگ بھی پسند فرماتے روایات ۶۱ حضرت منشی اروڑے خان صاحب ایک دن کسی نے ایمان کی نسبت سوال کیا.آپ نے فرمایا ایمان دو طرح کا ہوتا ہے.ایک موٹا ایک باریک (۱) موٹا ایمان وہ ہے کہ نبی کی شریعت کی پیروی کی جاوے.(۳) بار یک ایمان وہ ہے کہ دلق پہنکر نبی یا پیر کے ساتھ طرح طرح کی صعوبتیں اس کے ساتھ اٹھائے اور ہر عسر یسر میں ساتھ دے.یہ باریک ایمان ہے.ایک دن فرمایا لوگ دعا کے لئے کہتے ہیں.منشی صاحب دعا در اصل دو طرح کی ہوتی ہے.ایک تو عام دعا ہے.لوگ کہتے ہیں ہم کرتے ہیں.بلکہ بوجہ ہمدردی ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں.دوسری دعادہ ہے جو خاص ہے.وہ دعا جب تک نہیں ہوتی جب تک کوئی شخص ہمارے دل میں درد

Page 74

135 134 پیدا نہ کرے.پھر خاص دعا ہوتی ہے.میں جب خاص دعا کرتا ہوں خداوند تعالیٰ کی عادت ہے کہ مجھے اس کے متعلق جواب دے دیتا ہے.مگر دیکھو جب میں اپنی بیماری کے متعلق دعا کرتا ہوں.کوئی جواب نہیں ملتا.کیوں نہیں ملتا.آنحضرت کی زبان سے جو نکلا تھا.مسیح دو چادروں میں آئے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول کی زبان کا اس قدر پاس ہے کہ میری بیماری کے متعلق جواب نہیں ملتا.ایک دن فرمایا.خواب اور رویا میں انسان اگر کچھ عذاب یا تکلیف اپنے تئیں دیکھے تو وہ عذاب دعا صدقہ سے مل جاتا ہے آپ نے ایک مثال بتائی.ایک شخص سفر کی تیاری کر کے اپنے پیر کے پاس گیا اور اجازت چاہی.انہوں نے کہا.اس سفر میں تم مارے جاؤ گے یہ سفر نا مبارک ہے سفر نہ کرنا وہ چلا گیا.چونکہ وہ تیاری کر چکا تھا.اس لئے بار بار دل میں سفر کی تھی.آخر ایک اور باخد ا کامل انسان اس جگہ تھا.وہ اس کے پاس گیا.اور کہا سفر کرنا چاہتا ہوں.اگر اجازت دیں اور دعا کریں اور فرماویں تو میں سفر کروں.انہوں نے فرمایا ہاں جاؤ خد ا مبارک کرے گا.انشاء اللہ فائدہ ہو گا.غرض وہ سفر کو چلا گیا.ایک دن ایک جگہ نہانے لگا.ہزار روپیہ کی تھیلی جو پاس تھی.کھول کر رکھ دی بھول گیا اور چلا گیا.رات کو جہاں پہنچا وہاں سو رہا.خواب میں دیکھا ایک شخص قتل کے ارادہ سے آیا ہے اور تلوار ماری جب تلوار لگی.اس کی چیخ نکل گئی.آنکھ کھل گئی.اٹھا تو د کرا ادھر ادھر کچھ نہ پایا.بدن کو جو ہاتھ لگا.کمر پر تھیلی نہ پائی.یاد آیا تو بھاگا جہاں نہایا تھا.وہاں آکر دیکھا تھیلی موجود پائی اور اٹھا کر چلا گیا.سودا خریدا اور بیچا.بڑا نفع ہوا.واپس آیا تو تحائف لایا.دل میں سوچا پہلے پیر کے پاس لے جاؤں یا اس شخص کے پاس.سوچ سوچ کر پیر کے پاس لے گیا.آخر جب سامنے گیا.پیر نے کہا.بھاگ جا.اس شخص کے پاس تحفہ لے جاجس نے ستر بار تیرے لئے دعا کی اور اس کو بلا کو جو واقع ہونے والی تھی خواب میں دکھلواکر ٹلوا دیا.ایک دفعہ مجھے ترقی سررشتہ داری کے عہدہ کا خیال آیا.میں یہاں آیا ہوا تھا.میں نے چاہا اگر خدا ترقی دے تو دینی خدمات کی بھی ترقی ہو.میں نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ میں نے اپنی خدمات میں کچھ زیادتی کرنی چاہی ہے.حضور سے اظہار عرض کیا ہے کہ ایسا نہ ہو دل خیانت کرے.آپ نے فرمایا.آپ اپنی طرف سے عہد کر لیں خداوند تعالی خود پورا کرے گا.چنانچہ میں نے اپنے دوستوں سے ذکر کر دیا کہ ترقی ہو جائے گی.باوجود بہت سے اسباب مخالف پیدا ہونے کے اور مخالفتوں کے خداوند تعالیٰ نے تمام روکوں کو دور کر دیا.اور ترقی دے دی.روایات ۶۲ عبد اللہ خان (دیوان چند) ولد چنت رائے گجرات کوئی شخص بوڑے خان صاحب ڈاکٹر کو ازالہ اوہام بغرض تبلیغ دے گیا.انہوں نے مجھ سے پڑھوائی اور سنی.اس کے بعد جنگ مقدس کتاب مل گئی.وہ بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو سنائی.اس طرح پر مجھے حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کا پتہ چل گیا.میری طبیعت اسلام کی طرف 1 ! ¦ !

Page 75

137 136 راغب ہوئی.قرآن پڑھنا شروع کر دیا.درپردہ قرآن مجید پڑھا.اور نماز میں دعا کی عادت ہو گئی.مگر اسلام نہ لایا تھا.نہ دل مطمئن تھا.ایک پادری کو خبر ہو گئی وہ آیا اور مجھے عیسائیت کی طرف راغب کرنا چاہا.چونکہ مجھے ازالہ اوہام کا مضمون یاد تھا.جنگ مقدس کو بھی میں نے دیکھا.اس لئے پادری کو جوابوں میں میں نے چلنے نہ دیا.وہ مجبور ہو گیا.اور آخر میں نے کہا.اس عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی کا انتظار ہے.اگر پوری ہوئی.اسلام لے آؤں گا.پادری نے کہا.اگر پوری نہ ہوئی میں نے کہا عیسائی تو ہوتا نہیں پھر ہندو ہی رہوں گا.آخر جب وہ تاریخ گزر گئی آتھم نہ مرا.وہ پادری کئی پادریوں کو لیکر میرے پاس آیا.کہ اب اسلام کے خیال کو چھوڑ کر عیسائی ہو جاؤ.اور تار آگئی کہ عبد اللہ آتھم زندہ ہے.میں نے ان سے جواب سوال کئے.میں نے کہا اگر آتھم کا بچنا صداقت کا معیار ہے.یہ ممکن ہے آتھم نے توبہ کر لی ہو.یہ ثابت کرد اس نے تو بہ نہیں کی.دوسرے تمہاری کتاب تو تمہیں ملزم کرتی ہے.دیکھو انجیل میں فرعون اور موسی کا ذکر جہاں دریا کو موسیٰ نے کہا ٹھہر وہ نہ ٹھہرا.مگر فرعون نے جب کہا ٹھہر.وہ ٹھہر گیا.بتاؤ موسیٰ سچا تھا یا فرعون.لیکن سچا تو موسیٰ تھا.مرزا صاحب کی صداقت غالب ہے مگر میرے دل میں شک تھا آخر میں نے اس کے ساتھ شرط لگائی کہ عبد اللہ آتھم کے پاس چلو.اگر وہ قسم کھالے کہ اس نے توبہ نہیں کہ تو میں عیسائی ہو جاؤں گا.ورنہ میں اور تم دونوں مسلمان ہو جائیں گے.پہلے تو اس پادری نے اقرار کر لیا.مگر پھر چلنے کے وقت جب میں نے رخصت لے لی.اس نے انکار کر دیا.رات کو میں نے گھبرا کر دعا کی اور بہت دعا کی کہ خداوند تبارک تعالیٰ کس مذہب سے خوش ہے تاکہ میں وہ راہ اختیار کروں.دعا کرتے کرتے نیند کا غلبہ ہو گیا اور میں سو گیا.خواب میں دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور ہندو بازار کے چاہ کے پاس کھڑا ہوں.سامنے مسجد اقصیٰ کا دروازہ نظر پڑتا ہے.وہاں ایک وجیہ حسین انسان لمبے قد کا کھڑا ہے.میں نے اس سے پوچھا.مرزا صاحب کہاں ہیں.اس نے مشرق کی طرف اشارہ کیا.میں چل پڑا.چھتہ کے نیچے سے ہو کر اس دروازہ سے جو مرزا نظام الدین کے مکان کو جاتا ہے داخل ہو گیا.آگے جا کر کیا دیکھتا ہوں کچھ آدمی چارپائیوں پر بیٹھے ہیں کچھ نیچے بیٹھے چرس پی رہے ہیں.میں نے دیکھ کر لا حول و لا قوة الا باللہ کہا.وہاں سے جلد ہی میں بڑے دروازے کی طرف نکلا.باہر کھڑا ہو کر کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں.اس نے اوپر کی طرف اشارہ کیا.(اس وقت وہ ہی حصہ مسجد مبارک کا بنا ہوا تھا جو پہلے تھا) وہاں سے چوبارہ نظر آیا (جس میں آجکل غلام قادر رہتا ہے) میں زینہ پر چڑھنے لگا.نصف کے قریب گیا تھا کہ ایک آدمی نے پیچھے سے پکڑ لیا.روایات ۶۳.حضرت سید فضل شاہ صاحب ایک دفعہ میں نے التجا کی کہ حضور مجھے اپنی حالت پر بڑے تفکرات ہوتے ہیں.کہ میری دعا بھی قبول ہوتی ہے یا نہیں.فرمایا نہیں شاہ صاحب خدا تعالیٰ ایسا چڑ چڑا نہیں کہ ایک دفعہ غلطی ہو جائے.پھر وہ انسان کے پیچھے i }

Page 76

139 138 پڑ جائے.اور معاف ہی نہ کرے.بلکہ انسان ایک ہفتہ میں اپنے خدا کو تک بمشکل پہنا.اور دوپٹہ تو حضرت صاحب کے پاس آکر جلدی جلدی راضی کر سکتا ہے.باندھا.حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو بڑے زور سے سمجھانا شروع ایک دفعہ میں نے دوپہر کو کشفی حالت میں یا خواب میں دیکھا.کہ نہایت کیا کہ دیکھو شاہ صاحب نے ایسا خواب یا کشف دیکھا ہے اور یہ محمد اکبر کے فربہ اور کھپت رنگ کا گھوڑا ہے اور اس کا پیشاب بند ہے.اور پیٹ پھولا متعلق معلوم ہوتا ہے.آپ نے اس کے علاج کی طرف سے توجہ چھوڑ دی ہوا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گر کر مر جائے گا.حضرت مولوی حکیم ہے.حکیم کو چاہئے.جب تک مریض زندہ ہو.مایوس اور نا امید ہو کر توجہ نورالدین صاحب کو دیکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے پاس کھڑے ہیں.مگر اس نہ چھوڑے.اور اسی طرح سمجھاتے ہوئے بہمراہی مولوی صاحب و دیگر کے علاج کی طرف توجہ نہیں کرتے.اور مجھے ان کی طرف دیکھ کر نہایت حاضرین کے حضور محمد اکبر کے مکان کی طرف تشریف لے گئے.وہاں جا کر پریشانی ہوتی ہے کہ یہ حکیم ہیں کیوں متوجہ ہو کر علاج نہیں کرتے.ان کو دیکھا کہ واقعی اس کا پیٹ بہت پھولا ہوا ہے اور پیشاب بند ہے.حضور نے چاہئے کہ خوب متوجہ ہو کر علاج کریں.اور جس وقت وہ گھوڑاگر تا معلوم فرمایا اگر ایسا مریض بائیس دن بھی بیمار رہے تو وہ مرتا نہیں اچھا ہو جاتا ہے.ہوا.مجھے سخت گھبراہٹ ہوئی.اور اس گھبراہٹ میں میں بیدار ہو کر پھر حضور نے فی الفور یاور دیگیں منگا کر پانی گرم کرایا اور اس میں اس کو حضرت مسیح موعود کے پاس دالان میں پہنچا.کیونکہ ان دنوں میں بیت الفکر بٹھایا اور علاج شروع کر دیا.حضرت حکیم صاحب خاموش کھڑے رہے.میں بحکم حضرت صاحب رہا کرتا تھا.میں نے دستک دی.حضور نے بلایا.حضرت مسیح موعود کبھی اس کے سرہانے کبھی پائینتی جاتے تھے.تقریباً ہمیں میں حضور کی خدمت میں بیٹھ گیا اور اپنا سارا کشف یا خواب بیان کیا اور پوچھا دفعہ حضور نے چکر لگائے ہوں گے.اور جو جو علاج حضور فرماتے تھے.کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے.سمجھ میں نہیں آتا.جس وقت میں نے سارا بعض لوگ چپکے سے حکیم صاحب کو بتاتے تھے کہ یہ نقصان کا باعث ہو گا.کشف یا خواب بیان کیا آپ نے فورا حکم دیا میرا چوغہ لاؤ.سوٹی لاؤ.میں مگر حکیم صاحب یہی جواب دیتے کہ آپ خود عرض کر لیں میں اس وقت نے الٹا کر چونہ پہنایا اور سوٹی پیش کر دی.فرمایا یہ کشف محمد اکبر ٹھیکیدار کی حضور کے سامنے بول نہیں سکتا.تقریباً حضور آدھا گھٹہ علاج کرتے نسبت ہے اور آؤ چلو.میں اور حضرت صاحب زنانہ ڈیوڑھی کے راستہ رہے.اور اس عرصہ میں محمد اکبر کو پیشاب بھی آگیا.میں نے محمد اکبر کو یہ سے باہر آئے.اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے شفاخانہ کے کہتے سنا کہ حضرت صاحب نے جو بائیس دن کا ذکر کیا ہے مجھے امید ہے کہ یہ دروازہ پر آکر ٹھہرے اور مولوی صاحب کو آواز دی.مولوی صاحب ننگے مرض بائیس دن میں جائے گا.سر بیٹھے تھے.آواز دینے پر ننگے سر ہی دوڑے جو تا بھی حضرت تک پہنچنے چنانچہ حضرت صاحب واپس گھر کو تشریف لے آئے.اور محمد اکبر کو

Page 77

141 140 E بیس بائیس دن میں آرام آگیا.بتلا دیئے.فرمایا شاہ صاحب اب اپنا حال بتاؤ.کہ تمہاری کیا حالت ہے.ایک دفعہ میں اور حضرت صاحب لدھیانہ سڑک پر میر کر رہے تھے.میں نے عرض کیا حضور گھبراہٹ تو مجھے بھی بہت ہے مگر جو کچھ مجھے حضور کی میں نے ایک شعر پڑھا.کیمیا و زیمیا کس نداند خبر بذات اولیاء سیمیا صبحت سے حاصل ہوا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے اور کسی جگہ سچائی اور لطف ہمیں نظر نہیں آتا جس کے لئے مجھے تشفی بہت ہے.خواہ پیشگوئی پوری ہو یا نہ ہو.اور کہا کہ سنا ہے کہ اولیاء کے بغیر کیمیا نہیں آتی.حضور تو کامل ولی ہیں اور ان دنوں حضرت صاحب عام دوستوں سے خوابوں کے متعلق دریافت آپ جانتے ہیں کہ مجھے تو حضور کی ولایت میں کوئی شک نہیں.اگر حضور کرتے تھے اور خواب سنتے تھے.مجھے فرمایا کہ شاہ صاحب آپ بھی تو اس مجھے کیمیا بتلا دیں تو یہی کام کر لیا کروں کیونکہ میں ایک نکما نا کارہ آدمی ہوں.معاملہ میں دعا کرتے رہے ہیں.آپ نے بھی کوئی خواب دیکھی ہے.میں محنت کش نہیں ہوں.اگر یہی ہو جائے تو اچھا ہے.آپ نے فرمایا.دیکھو نے عرض کیا ہاں حضور دیکھی ہے.فرمایا سناؤ.چنانچہ میں نے اپنا خواب سنایا شاہ صاحب ہمارا طریق منہاج نبوت پر ہے.جیسا کہ نبی کریم جو یہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ میں اور حضرت صاحب مسجد مبارک کی چھت فرماتے ہیں کہ خداوند سے میں یہ چاہتا ہوں کہ جو دن کو مانگوں وہ رات کو کھا پر کھڑے ہیں.اور میرے پاس ایک دو نالی بندوق بھری ہوئی ہے.حضرت لوں اور جو رات کو مانگوں وہ دن کو کھالوں.صاحب سامنے کی طرف نظر فرماتے ہیں.اور میں بھی سامنے ان مکانوں کی جب عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد پوری ہونے کو تھی.بہت سے طرف جو ڈھاب کے پاس ہیں دیکھتا ہوں.وہاں ایک جنگل (بیلا) نظر آتا لوگ باہر سے اور گردو نواح سے آتے تھے.اور چونکہ میعاد میں صرف دو ہے.اور اس میں پنڈ کے بیڑے یعنی کانے ہیں.اور ایک بیڑے میں سٹور تین دن رہتے تھے.اس لئے ہر ایک آدمی کو گھبراہٹ تھی اور یہی خیال تھا چھپا ہوا ہے.آپ نے فرمایا.اس کو گولی مارو.چنانچہ میں نے گولی ماری.کہ تاریخ کے ختم تک وہ ضرور مرجائے گا.میں ان دنوں بیت الفکہ میں رہا لیکن مسئ اسور تڑپ کر باہر نہیں نکلا.آپ نے فرمایا اور چلاؤ.چنانچہ دوسری کرتا تھا.حضرت صاحب اور میں مسجد کی چھت پر بیٹھے تھے.اور آپ مجھے گولی بھی چلائی.وہ بھی اسی طرح رہی.آپ نے فرمایا.تیسری چلاؤ.سے ہر ایک مرید کی حالت گھبراہٹ وغیرہ پوچھتے تھے.چونکہ دوست مجھ سے چنانچہ تیسری یا چوتھی گولی لگنے پر وہ تڑپ کر باہر نکلا.اور گر کر مر گیا.جس وقت خواب بیان کر چکا فرمایا غالبا ایسا ہی ہو گا.باتیں کرتے رہتے تھے.میں اپنی واقفیت کے مطابق ہر ایک کا حال حضرت صاحب کو بتا دیتا تھا.جب وہ حالات جو مجھے معلوم تھے.حضرت صاحب کو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں بیت الفکر میں رہا کرتا تھا.عصر کے وقت

Page 78

143 142 سردار فضل حق صاحب میرے پاس آئے اور کہا.آؤ شاہ صاحب باہر سیر ہو تا.حضور مجھے فرماتے تھے.کہ دیکھو شاہ صاحب الہام ہوا ہے کہ ہم دیر اور شکار کر آئیں.میں نے انکار کیا کہ شاید حضرت صاحب یاد فرمالیں اور تک نہ پکڑیں گئے.(یعنی در و دیر تک نہ رہے گا) اور یہی الہام تین چار دفعہ میں حاضر نہ ہوں.انہوں نے کہا.یار تجھے ہی حضرت صاحب یاد کریں اس عرصہ میں ہوا.گے.بہت خصوصیت نہ جتا.آچلیں.چنانچہ ان کے اس کہنے پر ان کے ایک دن چوبارہ کے صحن میں میں اور حضرت مسیح موعود بیٹھے تھے.اور ساتھ چلا گیا.اور تقریباً ایک گھنٹہ سیر کر کے جب واپس آئے تو مجھے معلوم بادام آگے رکھے تھے (شاید وہ بادام نیچے سے آئے تھے یا حضور اندر سے ہوا کہ حضرت صاحب نے دادی صاحبہ (ایک خادمہ تھیں) کی معرفت لائے تھے).آپ نے فرمایا.شاہ صاحب ان باداموں کو تو ڑو اور حضور کبھی تلاش کروایا.پہلے دادی صاحب کو کہا کہ بیت الفکر سے شاہ صاحب کو بلاؤ.کبھی ان باداموں کو خود بھی توڑتے تھے.میں بادام تو ڑ رہا تھا کہ اتنے میں میں وہاں نہ ملا تو فرمایا وہ جاتے کہیں نہیں مولوی صاحب کے شفا خانہ میں حضرت میاں بشیر الدین جن کی عمر اس وقت چار یا پانچ سال کی ہو گی.آئے ہوں گے.اس نے دیکھ کر بتایا.وہاں بھی نہیں.آپ نے فرمایا مسجد اقصیٰ اور سب بادام اٹھا کر جھولی میں ڈال لئے.میں لیتا تھا.اور میاں بشیر الدین میں دیکھ.چنانچہ اس نے دیکھ کر بتایا نہیں.خیر جب مجھے معلوم ہوا.میں نہیں دیتے تھے.میں چھٹتا تھا مگر میاں الٹا کر پھر جھولی میں ڈال لیتے تھے.جب ندامت سے بھرا ہوا ( حضور کی خدمت میں پہنچا اور دستک دی.حضور نے حضرت اقدس نے توجہ فرمائی تو فرمانے لگے.دیکھو شاہ صاحب میں آپ دروازہ کھولا.حاضر ہوا.فرمانے لگے ایسے موقعہ پر شاہ صاحب ہمارے سے دیتا ہوں.اور میاں سے فرمانے لگے.کہ یہ میاں بہت اچھا ہے.یہ پاس سے کبھی غیر حاضر نہ ہوا کریں.کیونکہ ایسے سردرد کے دورہ میں اکثر زیادہ نہیں لے گا.صرف ایک یا دو لے گا.باقی سب ڈال دے گا.جب مجھے الہامات بہت ہوتے ہیں.اور میں چاہتا ہوں کہ جو ہمارے پاس زیادہ حضرت صاحب نے یہ فرمایا.میاں نے جھٹ سب بادام جھولی سے میرے رہنے والے ہیں ان کے لئے بھی تشفی کے الہامات ہوں.آپ کبھی ایسے آگے رکھ دیئے.اور صرف ایک یا دو بادام لے کر چلے گئے.موقعہ پر غیر حاضر نہ ہوا کریں.اگر کہیں جانا ہو تو اجازت لے کر جایا کریں.ایک دفعہ حضور کے دانت میں سخت درد ہو تا تھا.میں پاس تھا آپ کبھی نہ چاہتے تھے.انگریز کا حکم تھا اور اس حکم کی منسوخی کی کوئی صورت نظر نہ کسی صندوق سے دوائی مجھ سے نکلواتے اور بھنبہ میں لگوا کر دانت میں آتی تھی.انہوں نے جھٹ تین ماہ کی رخصت لی.اور قادیان چلے آئے.رکھتے.کبھی کوئی شیشی منگواتے تھے.یہ حالت تقریباً ایک گھنٹہ رہی.اسی کہ چلتا ہوں.حضرت سے دعا کراؤں گا.کیونکہ سب انگریز آفیسر خدا کے حالت کے درمیان حضور کو تقریباً تین چار بار الہام ہوا اور ہر دفعہ جب الہام ہاتھ میں ہیں.قادیان آکر حضرت صاحب سے عرض کی.فرمایا اچھی بات ایک دفعہ میرے بھائی ناصر شاہ صاحب کا تبادلہ گلگت ہو گیا.وہ وہاں جانا די 1

Page 79

145 144 ہے.آپ کہاں جانا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا جموں.آپ نے فرمایا.ابھی حکم لکھ کر ان کو روک لو.چنانچہ وہ بحکم صاحب وہاں ہی رہ گئے اور تار جب آپ کے جانے میں پندرہ دن رہیں.مجھے یاد کرانا.انہوں نے کہا بہت دے کر مجھے اور بال بچوں کو کشمیر سے جموں بلالیا.بہتر.چنانچہ جب پندرہ دن رہے.یاد کرایا.آپ نے دعا فرمائی.چندون ایک دفعہ میاں عبد اللہ صاحب سندری آئے ہوئے تھے.جب حضرت ہی گزرے یعنی ہفتہ پورا ہونے کو نہ آیا تھا کہ جموں سے خط آیا (ایک کلرک مسیح موعود باہر تشریف لائے تو میں دیکھتا تھا کہ جب حضرت صاحب کسی بات کا تھا) کہ آپ کا تبادلہ جموں کا ہو گیا ہے.صاحب نے خود بخود دفتر میں آکر میں مشغول ہیں خواہ کیسے ہی معزز آدمی سے بات کرتے ہوں مگر اگر عبد اللہ حکم لکھ دیا ہے.مگر حکم دفتر سے باہر نہیں نکلا.میں نے آپ کو اطلاع دے صاحب بول پڑتے تو حضرت صاحب فور اعبد اللہ صاحب کی طرف متوجہ ہو دی ہے.جب وہ خط ناصر شاہ صاحب کو ملا.وہ خط انہوں نے فورا حضرت جاتے.مجھے اس بات سے رشک پیدا ہوا کہ حضرت صاحب کو میاں عبد اللہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا.خط کو دیکھتے ہی حضرت صاحب فورا مسجد صاحب سنوری سے زیادہ تعلق ہے.جس کی وجہ سے زیادہ متوجہ ہوتے میں تشریف لائے.ناصر شاہ صاحب وہاں کھڑے تھے.حضرت صاحب ہیں.جب بھی یہ بات کرتے ہیں.تبھی حضور متوجہ ہو جاتے ہیں.دل میں بڑے خوش ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے دعا قبول کرلی ہے.چنانچہ حضور نے فوراً یہ خیال اکثر دفعہ آتا تھا.اتنے میں ہی حضرت صاحب میری طرف متوجہ ہو سجدہ شکر ادا کیا.اور پھر ناصر شاہ صاحب نے بھی سجدہ شکر ادا کیا.جب کر فرمانے لگے.آپ ان کو جانتے ہیں.میں نے عرض کیا.ہاں حضور جانتا رخصت پوری ہونے کو آئی.شاہ صاحب نے عرض کیا.حضور کشمیر اصلی ہوں.یہ بھائی عبد اللہ صاحب سنوری ہیں.آپ نے فرمایا.کیا آپ نے جگہ جاؤں گا.پھر وہاں سے گلگت ، وہاں سے جموں ، اس طرح تکلیف ہو یہ مصرعہ سنا ہے کہ ” قدیمان خود را بیفزائی قدر " یہ آپ سے بھی قدیمی گی.حضور دعا کریں اور مجھے مناسب مشورہ دیں کہ کہاں جاؤں.آپ نے ہیں.جب کوئی بھی ہمارے پاس نہیں آتا تھا.تب بھی یہ ہمارے پاس آیا فرمایا.سیدھے ملتان چلے جاؤ.چنانچہ وہ ملتان پہنچے.کلرکوں سے ملے.کرتے تھے.انہوں نے کہا.تبادلہ تو ہو گیا ہے مگر حکم جاری نہیں ہوا.آپ صاحب سے جب میں حضور کے پاس ہو تا تھا.میں نے دیکھا کہ اکثر حضرت میاں کچھری کے وقت سے بغیر مل لیں.جب وہ صاحب کو ملے.اس وقت وہاں شریف احمد حضرت صاحب کے پاس آجاتے.یا تو کچھ مانگنے لگتے.یا ایک کلرک موجود تھا.اس نے صاحب سے کہا کہ شاہ صاحب کی رخصت کاغذوں چیزوں کو ادھر ادھر کرنے لگ جاتے.آخر......حضرت صاحب پوری ہو گئی ہے.اور یہ اتفاقیہ یہاں آئے ہیں.اگر حضور یہاں ہی ان کو فرماتے ہم تم کو ابھی پکڑ کر استاد کے پاس بھیج دیتے ہیں.تو فی الفور میاں روک لیں تو بہت سا سفر خرچ بیچ رہے گا.صاحب نے فرمایا خوب ہے.بھاگ جاتے.حضرت صاحب دیکھ کر مسکراتے اور دروازہ بند کر יי !

Page 80

147 146 لیتے.کتاب پر دستخط فرما دیئے.یہ میں نے بارہا دیکھا کہ جب کبھی حضرت میاں محمود احمد صاحب سامنے آتے اور اس وقت جب آپ بالکل بچے تھے اور کسی کی گود میں سوتے روایات ۶۴.میری خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں آنکھیں دکھتی تھیں قریباً سات سال کا عرصہ اسی طرح گزر گیا.تھے......میں نے حضرت صاحب کا یہ دستور دیکھا کہ جب ان کو کوئی لا تا.یا خود آتے.حضرت صاحب ان کو السلام علیکم فرمایا کرتے.یہ طرز میں نے کسی دوسرے بچے کے ساتھ نہیں دیکھا.اور یہ حالت یہاں تک آنکھیں راضی ہونے میں نہ آتی تھیں.حکیموں ڈاکٹروں کے بہت علاج تھی کہ اگر میاں صاحب کہیں باہر ہی نظر آجا ئیں.غرض کہیں بھی حضرت کئے گئے.میں قادیان آیا.خلیفہ رشید الدین صاحب نے دیکھ کر کہا.اب صاحب کی نظر پڑ جائیں.السلام علیکم فرماتے خواہ آپ تھوڑی ہی دیر میں یہ لاعلاج ہو گئی ہیں.اس کے بعد حضرت مولانا مولوی حکیم نورالدین کئی کئی بار آدیں.اگر گول کمرہ میں ہوتے اور میاں محمود احمد صاحب کو چہ صاحب نے فرمایا کہ واقعی اب آنکھیں راضی ہونے کے قابل نہیں.اس میں ہوتے اور حضرت صاحب کی نظر پڑ جاتی.حضور وہاں ہی السلام علیکم کے لئے مجھ کو بڑی تشویش ہوئی.آپ سے میں اجازت روانگی لے چکا تھا.میں نے پھر عریضہ لکھا کہ میری آنکھوں کی نسبت حکیم صاحب اور ڈاکٹر فرماتے.جب عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کی مدت پوری ہو گئی اور وہ نہ مرا.حضور صاحب نے یہ کہا ہے.آپ فورا باہر تشریف لائے اور آکر آنکھوں کو خود کو اطلاع آگئی.صبح کے وقت حضور نے اول وقت نماز فجر ادا کی.اور اس دیکھا اور سارا حال پوچھا.پھر فرمایا.اگر تم کچھ تبدیلی کرو تو میں دعا کروں کے بعد چارپائی پر لیٹ گئے.میں پاؤں دباتا تھا.حضور کو کئی بار یہ الہام گا.آپ تین دن ٹھہریں.میں نے کہا کیون نہ ٹھہروں گا.فرمایا تہجد میں ہوا.اِنَّكَ اَنْتَ الأعلى - اور جب یہ الہام ہو تا حضور فرماتے اب پھر خوب دعا کیا کرو.میں بھی دعا کروں گا.تین دن کے بعد آپ نے مجھے وہی الہام ہوا ہے.غرض کئی بار تھوڑے عرصہ میں یہ الہام ہوا.اجازت دے دی.شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور ایک دن حضرت صاحب نے فرمایا.جس دن میں نے فتح اسلام کا مسودہ بھی یہاں آئے ہوئے تھے.وہ اور میں اکٹھے روانہ ہوئے.انہوں نے مجھے لکھنا شروع کیا.چند سطور ہی لکھی تھیں کہ باہر سے میاں محمود آگئے.میرا امرتسر ٹھہرالیا اور کہا مجھے ایک ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے.مل کر چلیں گے.خیال دوسری طرف تھا.میاں محمود نے جھٹ جھٹ قلم اٹھا کر اس کاغذ پر میں ٹھر گیا.جب وہ ڈاکٹر صاحب سے ملے.بعد فراغت گفتگو ، میں نے بھی لکیریں کھینچ دیں.میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ خدائے عزو جل نے اس آنکھیں دکھا ئیں.انہوں نے کہا.ماہ ڈیرھ ماہ رہو.پھر بتاؤں گا.آنکھیں h

Page 81

149 148 اچھی ہوں گی یا نہیں.میں نے کہا ٹھر تو نہیں سکتا.اگر کوئی دوائی دے سکتے دروازہ پر کھڑا اسے اندر بھیجتا تھا.اور وہ نہ جاتا تھا.بلکہ رونے لگ گیا تھا.ہیں تو دے دیں.چنانچہ انہوں نے ایک مرہم بنا کر دے دی.میں نے لے شرماتا تھا.اس کی آواز سن کر حضرت صاحب تشریف لائے اور فرمایا کیا لی اور تین دن استعمال کیا.بفضل خدا چوتھے دن بالکل آرام ہو گیا.یہ ہے.میں نے کہا حضرت یہ جانے کے لئے گھبراتا ہے.اجازت لینے کے لئے سب حضور کی دعا کا نتیجہ تھا اور میری آنکھیں بفضل خدا اب تک اچھی ہیں.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب تو مالیر کوٹلہ گئے ہوئے تھے.میں ۳۳ دن تک حضرت صاحب کے پاس رہا.کوئی مہمان کہا گیا تو روتا ہے.آپ نے فرمایا.واہ تیرے پیدا ہونے کے لئے تو ہم رو رو کر دعائیں کرتے تھے.تو اب یہاں رہنے سے تنگ ہے.ابھی تو ہم نے تیری دعوت کرنی ہے.پھر دوسرے دن حضور باغ میں تشریف لائے.وہاں سب احباب کو اکٹھا کر کے برانہ کی دعوت دی.پھر ہنس کر عبدالرحیم میرے سوا آپ کے ساتھ کھانا کھانے والا نہ تھا.صرف حامد علی ہو تا تھا.کو فرمایا کہ لو میاں تمہاری دعوت ہو گئی.اب کل سے تمہیں رخصت آپ دو پہر کو اوپر بالا خانے میں بلا لیا کرتے تھے.اور دو دو گھنٹے وہاں بیٹھتے.وہیں کھانے کھاتے اور چائے کی چاء دانی بھی بھر کر رکھ لیتے.اور ہنس کر ہے.ایک دفعہ میں قادیان میں آیا ہوا تھا کہ میرے ایک پھوڑا نکل آیا.جس فرماتے یا تم نے اس کو پینا ہے یا میں نے پینا ہے.بعض اوقات تھوڑا سا گڑ لا کو کار بنکل کہتے ہیں.ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کو دکھایا.انہوں نے اس کو چیر کر ڈال دیتے.اور جب میں پوچھتا حضرت گڑ کیوں ڈالا ہے.فرماتے ہیں یہ اچھا ہوتا ہے.میں نے عرض کیا.پھر مصری نہ ڈالی جایا کرے.آپ فرماتے نہیں نہیں.یہ اور بات ہے.دیا.میں مولانا نور الدین صاحب کے پاس گیا.میرے ہلنے جلنے سے معلوم کر لیا کہ کوئی تکلیف ہے.پوچھا خیر ہے.میں نے کہا پھوڑا نکل آیا ہے.آپ نے دیکھا اور کہا افسوس چیرا دلا دیا.مولوی عبد الکریم مرحوم کے بھی آپ کی عادت تھی.جب میں کچھ دن آکر ٹھہرتا.اور جب جانا چاہتا.میں پھوڑا تھا.وہ بھی چیر کر خراب کر دیا گیا.یہ آپ نے برا کیا.خیر میں کیا کر تو پہلی دفعہ کبھی اجازت نہ دیتے.فرمایا کرتے ایک جمعہ اور پڑھ کر جانا.اس کے بعد فرماتے ایک جمعہ اور پڑھ کر جانا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے دیر تک ٹھہرایا.میں نے جانا چاہا.میرے ساتھ میرا لڑ کا عبدالرحیم جو اس وقت تقریباً چھ سال کا ہو گا وہ بھی جانے کے لئے گھبرا تا تھا.میں نے اس کو کہا کہ تو اندر جا اور اجازت مانگ.اگر اجازت ہو گی تو چلیں گے.میں سکتا تھا.ڈاکٹر صاحب علاج کرتے رہے.ایک ماہ کے قریب علاج ہو تا رہا.کچھ فائدہ نہ ہوا.بلکہ زخم ہتھیلی کے برابر چوڑا ہو گیا.آخر تنگ آکر میں نے ارادہ کر لیا کہ لاہور چل کر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب یا ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب سے علاج کرواؤں.حامد علی کی معرفت حضور کے پاس عریضہ بھیجا.حامد علی نے آکر کہا.حضور بلاتے ہیں.میں حاضر ہوا.اطلاع 1

Page 82

151 150 دی.حضرت اقدس باہر تشریف لائے.بہت سے دوست بھی آموجود ہوئے.آپ نے پوچھا کیا ہے.میں نے کہا حضور کار بنکل نکل آیا ہے.موعود کے مکان پاس کھڑا تھا کہ ایک انگریز شاید کوئی پولیس آفیسر تھا.آیا اور مجھ سے پوچھا.مرزا صاحب کہاں ہیں.میں نے کہا آپ ٹھہریں میں آپ نے دیکھا اور کہا کون کہتا ہے.میں نے کہا ڈاکٹر کہتے ہیں.فرمایا یہ کیا ابھی ان کو اطلاع دیتا ہوں.میں نے اطلاع دی.آپ تشریف لائے.دو کرسیاں بچھائی گئیں.ایک پر انگریز بیٹھ گیا.ایک پر آپ.اس انگریز نے جانتے ہیں نہیں نہیں.کیوں مولوی صاحب کار بنکل ہے.نورالدین صاحب خاموش رہے آپ نے فرمایا لائی کو ر آرسنگ.لائی کو راسٹر کینا ملا کر کہا.میں نے کچھ پوچھنا ہے.آپ نے فرمایا پوچھ لو.اس نے ایک کتاب استعمال کرو.میں دعا کروں گا.میں نے آٹھ دن استعمال کیا.خدا کے فضل نکالی.اور ورق گردانی شروع کر دی.تھوڑی دیر کے بعد حیران سا ہو کر سے بالکل آرام ہو گیا.اور یہ مزید برآں شفقت تھی کہ نمازوں میں جب بولا.جو پوچھنا تھا وہ بھول گیا ہوں.اور جو نوٹ کیا تھا.وہ ملتا نہیں.آپ مسجد آتے تو بعض اوقات ہنس کر فرماتے کہ خلیفہ نورالدین کہتے ہیں نے فرمایا اچھا پھر پوچھ لینا.جب یاد آئے.پھر وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ کار بنکل نکل آیا ہے.یہ حضور کا اعجاز تھا کہ ایسی مہلک امراض سے بذریعہ دعا نجات ملی.روایت ۶۵ حافظ احمد اللہ صاحب مهاجر کی طرف چلا گیا.میرے بھائی مرزا نظام الدین صاحب نے ذکر کیا کہ جن دنوں حضرت صاحب سیالکوٹ میں نوکر تھے.میں بھی آپ کے ساتھ تھا.مجھے حضرت صاحب پڑھایا بھی کرتے تھے.آپ وہاں بھیم سین وکیل کو جو ہندو تھا.قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے.اور اس نے تقریباً ۱۴ پارہ تک قرآن ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سود اور سئور حضرت صاحب سے پڑھا تھا.ایک دن حضرت صاحب نے صبح اٹھ کر بھیم کے لفظ کو اگر ادا کریں.آواز ملتی جلتی ہے.اس لئے مجھے تو ان کے خواص بھی ملتے جلتے نظر آتے ہیں.میں سود سٹور کو قریب قریب ہی سمجھتا ہوں.روایات ۶۶ سین کو مخاطب کر کے یہ خواب سنایا کہ آج رات میں نے رسول اکرم کو خواب میں دیکھا.آپ مجھ کو بارگاہ ایزدی میں لے گئے.اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی.جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ سارے جہان کو تقسیم کر دو.یہ میری خواب ہے اس کو لکھ رکھیو.مجھے ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا.جب میں سخت بیمار ہو گیا.میرا بیٹا حضرت مرزا غلام اللہ صاحب انصار ساکن قادیان میرے بھائی مرزا نظام الدین نے ذکر کیا کہ ایک دن میں حضرت مسیح صاحب کی خدمت میں آیا اور بیماری کا حال عرض کیا.آپ نے فرمایا.

Page 83

153 152 مولوی نور الدین صاحب کو لے جاؤ.چنانچہ وہ مولوی صاحب کو لے گئے.کیں.لیکن وہ وظیفہ ہی پوچھتا رہا.آپ نے فرمایا اچھا جب کسی حاکم کے انہوں نے علاج کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.مرض بڑھ گئی.شام کے وقت میرا پاس جانا ہو.سورہ یاسین ایک دفعہ یا تین دفعہ پڑھ کر جانا.پھر جب سامنے چچا اور میرا بیٹا پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور سے عرض جانے لگو.اپنی انگلی سے ماتھے پر یا عزیز لکھ لینا انشاء اللہ تعالیٰ وہ حاکم اچھی کیا.بیماری بڑھ گئی.حکیم صاحب کا خیال ہے کہ اب بچنا مشکل ہے.زندگی کی نسبت موت قریب ہے.آپ نے فرمایا.اچھا میں دعا کروں گا.روایات ۶۷ سید فضل شاہ صاحب توجہ کرے گا.روایت ۶۸ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد حالت میں تغیر ہو گیا.اور صبح تک میں بولنے لگا.بھائی عبدالرحیم صاحب سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس احمد یہ سکول اور دوپہر تک خدا کے فضل اور حضور کی دعا سے خاصی طاقت ہو گئی.حتی ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک میں کہ اگلے دن میں نے مسجد اقصیٰ میں جاکر نماز جمعہ ادا کی.تشریف فرما تھے.لوگ ارد گرد جمع تھے.ایک لڑکا برابر بیٹھا حضور کے ہاتھ دبا رہا تھا کہ حضرت صاحب نے ایک ٹانگ کو اپنی دوسری ٹانگ پر رکھا.اس لڑکے نے غلطی سے سمجھا کہ کسی نے حضرت صاحب کی ٹانگ پر بوجھ دے دیا ہے.اس نے حضرت صاحب کی اوپر کی ٹانگ پر چٹکی لے لی.آپ نے ایک فقیر کو عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس آکر کبھی کہتا ایک آنہ جھٹ ٹانگ اتار لی.تھوڑی دیر بعد حضرت اقدس نے پھر اس طرح کیا.ولواؤ.کبھی کہتا دو آنہ کبھی آٹھ آنہ.غرض وہ کچھ یقین کر کے مانگا کرتا.اس نے پھر اسی طرح چٹکی لی.آپ نے پھر ٹانگ اٹھالی.تھوڑی دیر بعد اگر حضرت صاحب کسی کام یا بات میں مشغول ہوتے وہ بار بار کہتا اور لے کر آپ نے پھر ایسا کیا اس نے پھر زور سے چٹکی لی اور مڑکر دیکھا.جب دیکھا کہ ہی پیچھا چھوڑتا.پھر حضرت صاحب اس کے خوب واقف ہو گئے.جب وہ میں نے تو حضرت صاحب کی ٹانگ پر تین چٹکیاں لی ہیں دم بخود ہو گیا.حضور آتا اور جتنے پیسے مانگتا آپ اتنے ہی دے دیتے اور فرمایا کرتے یہ تو اتنے لئے نے اسے کچھ نہ کہا.بغیر ملنے کا ہی نہیں.اس کو اتنے ہی دو جتنے یہ مانگتا ہے.ایک دفعہ ایک مہمان نے عرض کی حضور میں مالی مشکلات میں ہوں کوئی ملازمت چاہتا ہوں.ایسا کوئی وظیفہ بتا ئیں جس سے حاکم میری طرف متوجہ روایت ۶۹ میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحق دہلی آپ دہلی تشریف لے گئے تھے.کچھ دن وہاں حضور ٹھہرے.آپ کو ہو جائیں اور میرا مطلب حاصل ہو جائے.آپ نے اسے کئی صیحتیں درد نقرس شروع ہو گیا.مولوی نور الدین صاحب کو بلایا گیا.وہ بھی وہاں !

Page 84

155 154 تشریف لے گئے.جب او پر ملنے کے لئے حضور کے پاس تشریف لے گئے.لانا بھول گیا.شام کے وقت حامد علی صاحب آئے اور کہا.کہ حضور نے بید تو کئی دوست اور ساتھ تھے.خواجہ کمال الدین صاحب.ڈاکٹر یعقوب بیگ مشک کے لئے فرمایا ہے میرا رنگ زرد ہو گیا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی.میں صاحب ساتھ تھے.اوپر جا کر دیکھا.حضور کے نیچے روئی دار بچھونا پرانا بھاگا بھاگا گھر گیا.بوتل لایا اور حضور کے پاس گیا.قبل اس کے کہ میں کچھ ہے.اور تکیہ بھی پرانا ہے.بلکہ کئی جگہ سے روئی باہر نکلی ہوئی ہے.خواجہ کہوں آپ نے فرمایا.میر صاحب فکر نہ کریں میں سمجھ گیا کہ میر صاحب صاحب نے کہا.حضور کا لحاف بہت پرانا ہے.اگر فرما دیں تو نیا تیار مہمانوں کی خدمت میں لگ کر بھول گئے ہیں.خیر جب حضور روانہ ہونے کروا ئیں.فرمایا نہیں یہ پرانا شفیق ہے اور جو ضرورت نئے سے ہو گی.وہ لگے اسباب نکالا گیا.لوگ اسباب اٹھا کر لادتے تھے.میں نے بھی اٹھانا یہ پوری کرتا ہے.یعنی سردی نہیں لگتی.باقی نیا پرانا کیا ہے.اتنے میں چاہا.آپ نے فرمایا میر صاحب آپ نہ اٹھا ئیں.میں نے عرض کیا حضور حضور نے ران کو اٹھایا اور فرمایا.اوہو کیا ہوا کچھ چبھتا ہے.بچھونا الٹا کر میرا جی چاہتا ہے.حضور نے فرمایا میں تم سے بڑا خوش ہوں.بڑا خوش دیکھا ایک اینٹ پڑی ہے.جب وہ دکھائی.آپ نے فرمایا.او ہو میاں ہوں.آپ نے ہماری اور مہمانوں کی بڑی خدمت کی ہے.میں نادم ہو تا مبارک احمد نے رکھی ہے.اس کو پھینکنا نہیں.اگر وہ آکر ما نگیں تو پھر کہاں تھا اور آپ بار بار شکریہ ادا کرتے تھے میں نے کہا حضور میں غلام ہوں.میں سے دیں گے.اتنے میں حضور کے کوٹ سے کچھ نکالنا تھا.دیکھا تو اس کی مرید ہوں یہ ہمارا فرض ہے.آپ فرماتے تھے.نہیں نہیں تم نے بڑی جیب میں بھی ایک اینٹ پائی گئی.آپ نے فرمایا یہ بھی میاں مبارک نے خدمت کی ہے.میں بڑا خوش ہوں.خدا جزا دے خدا جزا دے ہم کیا اجر ڈالی ہے.خیر اس کو بھی رہنے دو.انہوں نے ڈالی ہے.پھر وہ مانگیں گے.دے سکتے ہیں.پھر ساتھ لائے اور ساتھ سوار کرایا.اور گاڑی میں حضور درد کی یہ حالت تھی کہ حضور نے ہاتھ میں انگوٹھا پکڑا ہوا تھا.جب درد اٹھتا نے کئی بار اظہار خوشنودی کیا.یہ آپ کی شفقت تھی.تھا حضور کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا.اور زبان سے فرماتے تھے.اللہ.جب پھر درد اٹھتا پھر فرماتے اللہ.اس کے سوائے اور لفظ نہ تھا.مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی حضور کیوڑہ اور بید مشک استعمال کریں.کیونکہ حضور روایات ۷۰ حافظ محمد ابراہیم صاحب مهاجر ایک دفعہ نماز جمعہ میں نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت صاحب کی کے ہونٹ پیاس کی وجہ سے خشک تھے.فرمایا کیوڑہ تو مل جائے گا بید مشک خدمت میں عرض کی کہ بھائی احسان علی خان آئے ہوئے ہیں کچھ عرض کرنا ملنی مشکل ہے.حضرت میرے ہاں ایک بوتل ہے.آپ نے فرمایا اچھا چاہتے ہیں آپ ٹھر جائیں.حضور جمعہ سے فارغ ہو کر اندر جانے لگے لاویں.میں نیچے آکر مہمانوں کے کھانے کے اہتمام میں لگ گیا اور بید مشک تھے.اس دن حضور نے جمعہ مسجد مبارک میں پڑھایا تھا.کیونکہ حضور کو

Page 85

157 156 کھانسی کی تکلیف تھی.مگر نواب صاحب کے کہنے پر حضور ٹھہر گئے.اور سے بڑھ کر ہوں.باقی دوسرے لوگ جو انبیاء اور اصفیاء کے مراتب کو نواب احسان علی خان نے آگے آکر عرض کیا کہ حضور میں کچھ عرض کرنا نہیں جانتے.انہوں نے صرف نام یاد کر لئے.جیسے ہمارے ملک کے میراثی چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا.فرمائیے.انہوں نے کہا جو حضور کی کتب میں یاد کر لیتے ہیں.ان کو کوئی تعلق کسی کے مرتبہ سے نہیں ہو تا.نہ کسی کی لکھا ہے کہ آپ امام حسین سے بڑھ کر ہیں.یہ آپ نے لکھا ہے یا آپ فضیلت سے یہ لوگ بھی جو امام حسین کے عاشق کہلاتے ہیں.مرکر دیکھ لیں کے کسی مرید نے لکھا ہے.فرمایا نہیں نہیں ہم نے لکھا ہے.اور آپ نے گے کہ نہ امام حسین کے یہ اور نہ امام حسین ان کے.بلکہ یہ بھی علم ہو فرمایا کہ فضیلت مراتب کی جو ہوتی ہے وہ لوگ جانتے ہیں.جو اسی زمرہ سے جائے گا کہ امام حسین ان اعتقادات سے سخت بیزاری رکھتے ہیں.ہوتے ہیں.میں ان جو ہروں کا ایک ٹکڑا ہوں اور اسی گروہ سے ایک انسان ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں ہم سب احباب حضرت صاحب کی ہوں.میں ان سب لوگوں کی فضیلتوں کو خوب سمجھتا ہوں.ان کے مراتب خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے.اور حضرت صاحب شاه نشین پر تشریف فرما ہمیں دکھائے جاتے ہیں.اگر میں اس بات میں مفتری ہوں تو خدا تو وہ قادر تھے.مسجد کے اوپر کے حصہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب آپ کے ہے کہ مفتری کو ایک رات کے لئے بھی مہلت نہیں دیتا.اور مجھے جن جن قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے حضرت صاحب کو مخاطب کر کے لوگوں سے جناب الہی نے بڑھ کر فرمایا ہے.انہی کی نسبت میں نے کہا ہے.فرمایا.کہ حضور یہ جو لوگ تمام احادیث کو مہدی آخر الزمان کی طرف اور اس میں خاص وجوہات ہیں.ان لوگوں کی پرستش لوگوں نے جناب الہی منسوب کرتے ہیں.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.اصل میں مہدی بہت سے کی طرح شروع کر دی.اس لئے اس نے نہ چاہا کہ میرا کوئی شریک ہو.ہوئے ہیں.کسی کے دو کندھوں میں نشان مہر نبوت تھا.کسی نے مال تقسیم مسیح ناصری اور امام حسین کی نسبت مجھے فرمایا کہ تم کہو کہ میں ان انسانوں کیا ہے.اور کسی نے بیت اللہ میں لوگوں سے بیعت لی ہے.اور انہی لوگوں سے بڑھ کر میں سے ایک نے قسطنطنیہ بھی فتح کیا ہے.یہ سب مختلف اشخاص ہوئے ہیں.مولوی صاحب نے فرمایا.حضور ایسا تو نہیں ہے.ہیں.جنہوں نے مختلف کام کئے ہیں اور ان سب لوگوں کی نسبت احادیث ایک عیسائی جس کا نام عبد الحق تھا، یہاں آیا.اس نے آٹھ سوال تجویز میں تذکرہ اور پیشگوئیاں ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب کیا کئے کہ یہ حضرت صاحب سے طے کروں گا.چنانچہ سیر کے وقت جب حضور ان لوگوں نے دعوے کئے ہیں.اور ان کی کوئی الہامی کتابیں ہیں.اور پھر کے ساتھ گیا.تو بغیر اس کے سوال کے حضور نے خود ہی آتے جاتے اپنی ان کے ماننے والی جماعتیں ہیں جو انکو مہدی سمجھتی ہیں.اور ان کے کوئی تقریر میں جواب دے دیا.وہ یہی کرامت سمجھ کر اسلام لے آیا اور کئی سال الہام موجود ہیں جن کی بنا پر انہوں نے دعویٰ کیا.کہ وہ منجانب اللہ مہدی

Page 86

159 158 قادیان رہا.گرمیوں کے موسم میں ایک دفعہ ہم لوگ بیٹھے تھے.حضور نے فرمایا جب میں بچہ تھا اور مولوی گل علی شاہ صاحب کے پاس پڑھا کرتا تھا.ان روایات اے احمدین صاحب زرگر مهاجر سیر میں ایک دن حضرت صاحب کو خواب سنایا.اور اس خواب میں ستار دنوں میں میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ میں ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہوں.بہت کا ذکر تھا.آپ نے اس کی تعبیر کی اور تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سنار کی قوم سے لوگ ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں.پھر جب ہم براہین احمدیہ لکھتے تھے.اس مکار ہوتی ہے.یہ لفظ سن کر میں ڈر گیا.جب حضور واپس تشریف لائے اور وقت الہام ہوا.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَانْتَهى امر الزمان گھر جانے لگے.میں نے عرض کیا.حضور میں یہ کام چھوڑ دوں.کیونکہ اليْنَاهُذَا تَأْوِيلُ رُؤيَا ى قدْ جَعلها رَبَى حَقا - یعنی جب فتح آپ نے فرمایا ہے کہ سنار کی قوم مکار ہوتی ہے.فرمایا.نہ کبھی ہم بھی زیور اور نصرت آگئی اور ہماری بات اپنی انتہا کو پہنچ گئی جو ہماری طرف سے تھی.یہ تیرے خواب کی حقیقت جس کو میرے رب نے ہی کر کے دکھایا.پھر فرمایا.ایک دفعہ میں نے دیکھا.براہین احمدیہ سے بہت پہلے اس وقت میری عمر تقریباً بتیس تینتیس سال کی تھی.کہ جناب الہی نے اپنا ہاتھ میری گردن میں ڈالا ہے.اور فرمایا :- ” جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو." کے واسطے کہہ دیتے ہیں اور یہ ثواب کا کام ہے.ایک دن میں نے عرض کیا کہ حضور سنار کھوٹ ملانے کے سبب سے زیور کم مزدوری پر بنا دیتے ہیں.جو زیور دس روپیہ کی مزدوری کا ہوتا ہے ایک روپیہ میں بنا دیتے ہیں.اور کھوٹ ڈال کر اپنا کام پورا کر لیتے ہیں.اب چونکہ میں نے توبہ کرلی ہے.اس لئے میں یہ کام نہیں کر سکتا.مگر جب دوسرے لوگوں کو اور جگہ کم مزدوری پر زیور بنتا ملے گا.وہ ہم سے کیوں بنوا ئیں گے کھوٹ کا تو ان کو علم نہیں ہو تا.آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کہدو کہ اب ہم سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں.اب ہم کھوٹ نہیں ملاتے.اگر پوری مزدوری نہ دیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی اور راہ کھولے گا.ایک دن حضور میر سے واپس تشریف لائے.میں نے عرض کیا حضور مجھے کوئی اپنا کپڑا بطور تبرک دیں.آپ نے اندر جا کر اسی وقت اپنا کوٹ اتار کر بھیج دیا.קי 1

Page 87

161 160 ایک دن میں نے خواب دیکھا اور حضرت صاحب کو لکھ کر دیا کہ حضور حضرت صاحب دعا فرما ئیں.کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین دار بنادے.میری بار رات خواب میں دیکھا کہ میں نے حضور کو ایک روپیہ دیا ہے.آپ نے بار تاکید پر ایک دن حضرت مولوی صاحب نے مسجد مبارک میں حضرت مجھے ایک کتاب دی ہے.میں اپنا خواب پورا کرتا ہوں.اور ایک روپیہ صاحب کی خدمت میں عرض کیا.کہ یہ ستارہ اپنے بھائیوں کے نیک ہونے پیش کرتا ہوں.آپ نے روپیہ رکھ لیا اور جواب تحریر فرما دیا کہ روپیہ رکھ کے لئے دعا کرانی چاہتا ہے.اور مجھے بار بار کہا ہے.آپ مسکرائے اور لیا گیا ہے.کتاب چھپ رہی ہے انشاء اللہ دے دی جاوے گی.مگر کتاب فرمایا.یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ دوسرے کے نیک ہونے کے لئے دعا شائع ہونے سے پہلے حضور خالق حقیقی سے جاملے.اور بعد میں حضرت میاں محمود احمد صاحب نے وہ وعدہ پورا کیا اور کتاب براہین احمدیہ کا حصہ کراتا ہے.ایک دن میں حضور کے مکان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ حضور نے پنجم عنایت فرمایا.پردہ پر سے کرم داد صاحب کو آواز دی (جو حضور کا خدمت گار تھا میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے بلوا کر فرمایا کہ ایک جوڑی گجائیاں حضور کی آواز سن کر اوپر کو دیکھا.اور میں نے عرض کیا کہ حضور وہ نہیں طلائی بنا کر لاؤ.جب میں بنا کر لے گیا.دروازہ پر جاکر دستک دی.حضور ہے.مجھے فرما ئیں کیا ارشاد ہے.آپ نے فرمایا.یہ لو ایک روپیہ اس کے ٹکٹ یا لفافے لاؤ.اور کرم داد کو کہہ دیتا کہ حاضر رہا کرے.ایک دن میں نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ حضور میری بیوی خود تشریف لائے.میں نے جوڑی گجائیوں کی پیش کی.اور عرض کی حضور یہ تیار ہو گئی ہے.تعجب سے فرمایا.بس یہی گجائیاں ہوتی ہیں.اور یہ تیار ہو گئیں.اور آپ مسکرائے اور اندر کو لے گئے.اور اندر جاکر ان کی کو حمل ہے اور بچہ کی پیدائش میں قریباً ایک ماہ باقی ہے.اگر حضور فرما دیں مزدوری بھیج دی.تو ہم اپنی روٹی لنگر سے پکو الیا کریں.فرمایا.نہیں ان دنوں میں عورتوں کے لئے کام کرنا بہت مفید ہوتا ہے.روایات ۷۲ ایک دن ہمارے پچھلے گاؤں سے ایک ملا آیا.میں اس کو لے کر حضرت صاحب کے پاس گیا.آپ باغ میں تشریف رکھتے تھے اور مہندی لگوار ہے تھے.ہم نے جاکر مصافحہ کیا اور دعا کے لئے عرض کی.آپ نے فرمایا بہت پیر برکت علی صاحب برادر حضرت حافظ روشن علی صاحب اچھا.اور سامنے حضور کے لئے خیمے لگ رہے تھے.آپ نے فرمایا.جاؤ تم بھی خیمے لگواؤ.میں نے کئی بار حضرت مولانا نورالدین صاحب کو کہا کہ حضور ! حضرت صاحب کے پاس سفارش کر یں کہ میرے بھائیوں کے لئے ساکن رن مل تحصیل پھالیہ ضلع گجرات ایک (۲) حضرت صاحب مسجد مبارک کے اگلے حصہ میں تشریف فرما i 1 1

Page 88

163 162 تھے.چند دیہاتی آدمی آئے.انہوں نے حضرت صاحب سے عرض کی تجد کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے بیرام لارڈ کا خطاب دیا گیا ہے.اور میں میں کیا پڑھنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ فَاقْرَوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ایڈورڈ ہفتم کے پاس گیا اور عرض کی کہ یہ خطاب حضور نے دیا ہے.انہوں (۲۱/ المزمل) میں نے پوچھا یہ آیت قرآن میں کہاں ہے.آپ نے فرمایا.نے جواب دیا کہ یہ خطاب میں نے تو نہیں دیا.پھر میں نے عرض کی.اگر سورۃ مزمل میں.آپ نے نہیں دیا تو اس میں تو میری ہتک ہے.شاہ ایڈورڈ ہفتم نے فرمایا مرتبہ عطا فرمایا ہے.ایک دن حضرت صاحب مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.آپ نے اس میں تمہاری ہی ہتک نہیں بلکہ میری بھی ہتک ہے.اس لئے میں تم کو یہ فرمایا کہ تسجد ضرور پڑھنی چاہئیے.حتی الامکان جہاں تک کوشش ہو سکے ہر خطاب دیتا ہوں.یہ خواب سن کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ ان کی آدمی توجہ کرے خواہ دو ہی نفل پڑھے مگر پڑھے سہی.سید امیر علی شاہ شہادت کا ثبوت ہے.اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو شہادت کا صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس وہاں موجود تھے انہوں نے عرض کی کہ حضور میں آج کل تھانہ....میں ہوں.وہاں سانپ بہت کثرت سے ہوتے ہیں.اگر میں نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ہمارے گھر تشریف پاؤں نیچے اتاروں وہ ڈس لیں.اس لئے مشکل ہے.آپ نے فرمایا کہ لائے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد آپ ہمارے مکان سے پیر محمد شاہ کے مکان چار پائی پر ہی پڑھ لیا کریں.پاس سے مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا.پر تشریف لے گئے ہیں آپ ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں اور پیر محمد شاہ اور ایک آپ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ زمیندار آدمی چارپائی پر بیٹھے ہیں.وہ حضرت صاحب سے مخالفت کی باتیں کر اپنے ہاتھوں پر اور بدن پر دم کر لیا کریں.پھر انشاء اللہ کوئی چیز ضرر نہ کرتے ہیں.اتنے میں مشرق سے سورج نکلا اور زلزلہ آیا.اور گاؤں کا دے سکے گی.حضرت صاحب نے فرمایا اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللہ پڑھ کر نصف حصہ جس میں مخالفین رہتے تھے ، غرق ہو گیا.خواب سن کر حضور نے ہاتھوں پر پھونک کر بدن پر مل لیا کریں پھر انشاء اللہ کوئی موذی ضرر نہ دے فرمایا کہ یہ لوگ مخالفت کر کے تباہ ہو جائیں گے.سکے گا.میرے بھائی ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب کی وفات جنگ میں شمالی ہند میں ہوئی.جب ان کے کاغذات ہمیں ملے.ان میں ایک پرچہ تھا جس میں جلسہ کے موقع پر میں معہ اپنی بیوی آیا ہوا تھا.جب واپسی کا ارادہ ہوا.میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ حضرت صاحب سے اجازت روانگی لے آؤ.انہوں نے بدھ کے دن شام کے وقت حضور سے اجازت چاہی.آپ نے خواب لکھا ہوا تھا.میں نے وہ خواب حضرت صاحب کو سنایا کہ وہ لکھتے ہیں فرمایا.اچھی بات اجازت ہے.صبح کو جمعرات کے دن روانہ ہوتے وقت میرے دل میں خیال آیا کہ خود بھی حضرت صاحب سے اجازت لوں.میں 1 i

Page 89

165 164 نے صبح کی نماز کے وقت حضور سے اجازت چاہی.آپ نے فرمایا جمعہ پڑھ کر جانا.چنانچہ ہم ٹھر گئے.مگر اسی دن سخت بارش ہوئی اور دو دن بڑی بارش ہوتی رہی.حتی کہ جمعہ میں بھی میں بڑی مشکل سے پہنچا.یہ حضور کا روکنا آپ کی قوت اعجازی پر دلیل ہے.روایت ۷۳ حافظ عبدالرحیم صاحب ساکن مالیر کوٹلہ حضور کی ایک کتاب کئی پریسوں میں چھپ رہی تھی.کچھ حصہ میگزین پریس میں بھی چھپ رہا تھا.ایک پروف لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ایک دن سید امیر علی شاہ صاحب ملہم ساکن سیالکوٹ نے مجھے فرمایا کہ ہوا.تو حضور نے فرمایا.دوسرا پروف تیار ہوا.میں نے عرض کی کہ کرم تم ایک رتی کستوری لاؤ.تمہیں ایک کلام لکھ دوں میں نے کہا کہ کستوری تو علی سنگساز بیمار ہے.اس لئے پروف تیار نہیں ہو سکا.حضور نے فرمایا اس کو یہاں ملتی نہیں.انہوں نے کہا.حضرت صاحب کو رقعہ لکھ دو.آپ عطا ابھی بلا کر لاؤ.جب میں ان کو بلا کر لایا تو حضور نے فرمایا کہ منشی صاحب آپ فرما دیں گے.میں نے کہا شرم آتی ہے.انہوں نے کہا شرم کی بات نہیں بیمار ہیں.انہوں نے عرض کیا.ہاں حضور میں بیمار ہوں.تو آپ نے فرمایا اگر اندر ہوگی تو حضور عنایت فرما دیں گے.چنانچہ میں نے رقعہ لکھ دیا.تم ہمارا پتھر ٹھیک کرو.خدا تم کو شفا دے گا.شام کو جب میں نے منشی کرم جب آپ نماز کے لئے تشریف لائے تو فرمایا کہ آپ کا رقعہ پہنچ گیا ہے.میں علی صاحب سے پوچھا کہ کیا حال ہے.تو انہوں نے کہا کہ بالکل تندرست نے اندر حکم دے دیا ہے.آپ کو کستوری پہنچ جائے گی.چنانچہ ایک رتی ہوں جس کے وہ زندہ گواہ موجود ہیں.کی بجائے حضور نے تین رتی کستوری بھیج دی.ہمارے ذمہ بہت سا قرض ہو گیا تھا.میں نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ حضور دعافرما ئیں.آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ہم دعا کریں گے مگر تم بھی دعا کرتے رہنا.اللهم اني ا سُلُكَ الْعَافِيَةِ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَ روایت ۷۴ احمد دین صاحب " سنار مهاجر میں حضور کے پاس گیا اور عرض کیا کہ مجھے قرض دینا ہے.حضور دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا.اللَّهُمُ اقْضِيْ دَيْنِي وَأَغْنِنِي مِنَ أَهْلِي وَمَا لِى اللَّهُمَّ اسْتَرْ عَوْرَاتِي وَا مِنْ رَوْعَاتِي وَاحْفِظُنِيْ مِنْ الْفَقْرِ.میں نے چند دن اس کو نماز میں پڑھا.خدا تعالیٰ نے قرض سے بَيْنَ يَدَيَّ فِي خَلْقِي وَ عَنْ يَمِينِي وَ عَنْ شَمَالِى وَ عَنْ قُوَّتِي وَأَعُوذُ بِكَ بِعَظْمَتِكَ إِنَّ الْمَثَالَ مَنْ تَحْتِي - نجات دے دی.

Page 90

167 166 روایات ۷۵ حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب مهاجر گئی.نہ معلوم اس کے کیا معنی.کوئی شخص جاوے.اور خبر لے آوے.اس لئے میں آیا ہوں.میرے اندر قوت گویائی نہ تھی.مگر اشارہ سے کہا ۱۸۹۸ء میں مجھے تپ محرقہ ہوا.پندرھویں دن عشاء کے وقت حضرت کہ بارہ بجے سے افاقہ شروع ہوا ہے.اس کے تیسرے چوتھے دن میں اس مولوی نورالدین صاحب دیکھنے کے لئے تشریف لائے.مجھے اس وقت قابل ہوا کہ گھر سے نکل کر دروازہ میں جا بیٹھا.اس وقت حضرت صاحب کے میر جانے کا وقت تھا.آپ تشریف لے آئے اور مجھے دیکھ کر مسکرائے سرسام تھا.مکان سے باہر نکل کر مولوی قطب الدین صاحب کو فرمایا کہ آج اس کی حالت بہت نازک ہے.بچنا مشکل نظر آتا ہے.پردہ کے پیچھے اور فرمایا.اب تم اچھے ہو.میں نے کہا.ضعف بہت ہے.فرمایا.تریاق میری خوشدامنہ سن رہی تھیں.وہ اسی وقت حضرت صاحب کے پاس الہی کھایا کرو.چنانچہ متواتر مجھے تین ماہ تک تریاق الہی کھلاتے رہے.دوڑی گئیں اور جا کر عرض کی کہ آپ کچھ توجہ کریں فضل الرحمن کی حالت ۱۹۰۴ء میں میری بیوی کو کھانسی شروع ہوئی اور فتہ رفتہ اتنی ترقی کی بہت خراب ہے.آپ کسی کتاب کے لکھنے میں مصروف تھے.فرمایا میں کہ رات دن میں ایک منٹ بھی چارپائی پر لیٹنا محال ہو گیا.حضرت صاحب ایک ضروری مضمون لکھ رہا ہوں.میں نے مولوی صاحب کو تاکید کردی ان دنوں میں مقدمہ کی پیروی کے سلسلہ میں گورداسپور مقیم تھے.میں ہے کہ بہت توجہ کریں انہوں نے جواب دیا کہ مولوی صاحب تو تقریباً آج گورداسپور میں ان کا قارورہ لے گیا کیونکہ میں حضرت صاحب کی زندگی مایوسی کے لفظ بول گئے ہیں.یہ سن کر حضرت صاحب نے اس مضمون کو میں علی العموم آپ کا ہی علاج کیا کرتا تھا) حکم دیا کہ مریضہ کو یہاں لے آؤ.رکھ دیا اور فرمایا کہ میں نے ابھی اس سے بہت کام لینے ہیں.تم جاؤ میں ابھی میں نے عرض کیا کہ اس کا یہاں آنا مشکل ہے.فرمایا.نواب صاحب کو اس کے لئے دعا کرتا ہوں.چنانچہ وہ گھر واپس چلی آئیں.رات کے بارہ میری طرف سے لکھ دو کہ وہ اپنی سواری دے دیں اور تم اس کو با آرام بجے مجھے ایک خون کا اسہال آیا.اس کے بعد دوسرا اور اس کے ساتھ میری یہاں لے آؤ.یہاں میں اس کے لئے مکان کا انتظام کر دیتا ہوں.چنانچہ آنکھیں کھل گئیں.اس کے بعد تیسرا آیا.صبح کے وقت ماسٹر عبدالرحمن میں دوسرے دن قادیان آیا اور ان کو نواب صاحب کی رتھ میں سوار صاحب جالندھری میرے پاس آئے اور کہا کہ نماز صبح کے بعد حضرت کر کے گورداسپور لے گیا.خود تو حضور ایک منزل مکان میں تشریف رکھتے صاحب نے مولوی عبد الکریم صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ رات جس تھے اور تنگی مکان کی وجہ سے خیمہ وغیرہ لگا کر رکھتے تھے اور میرے لئے ایک دو منزلہ مکان کرایہ پر لے رکھا تھا.اور مکان بھی ایسا کہ شہر بھر میں ایسا مکان وقت مجھے یہ اطلاع ملی فضل الرحمٰن کی حالت خطرہ میں ہے.تو مجھے دعا کی طرف توجہ ہوئی.اور میں بارہ بجے تک سجدہ میں رہا.مجھے بتلایا گیا کہ شفا ہو ملنا مشکل تھا.وہاں آپ نے ڈاکٹر یعقوب بیگ ڈاکٹر محمد حسین اور ڈاکٹر.

Page 91

169 168 اسماعیل خان کو بلایا.اور سب کو تاکید کی کہ بڑی توجہ سے مرض کی تشخیص ہوشیار اور تندرست تھا.اور اس کی عادات اور شکل و صورت کچھ ایسے کریں.ساتھ ہی حضرت مولوی صاحب کو بھی حکم ملا.بالاتفاق سب نے کہا دل لبھانے والے تھے کہ چھوٹی سی عمر میں وہ گھر کے سارے کام کرتا تھا.که مرض سل ہے.اور پھیپھڑہ میں تین بڑے بڑے سوراخ ہو چکے اور ذرا سے اشارہ سے بات کو سمجھ لیتا تھا.کچھ انہی وجوہات سے میری محبت ہیں.جب سب کی تشخیص میں نے حضور سے عرض کی.آپ نے فرمایا کہ اس سے بہت ہو گئی.پہلا لڑ کا چار سال کا ہو کر فوت ہو گیا.دوسرا بھی جب تم اسٹپریز وائن اور کا ڈلیور آئیل کی ایک درجن پلاؤ.اور تازہ جلیبی اور ساڑھے چار سال کا ہوا تو اسے تپ محرقہ ہوا.میں نے بڑا علاج کیا مگر کوئی دودھ دونوں وقت غذا رو.انشاء اللہ بالکل اچھی ہو جائے گی.یہ تشخیص افاقہ کی صورت نظر نہ آئی.جس دن اس کی بیماری کو پندرہ روز گزرے ہمارے نزدیک کچھ چیز نہیں.چنانچہ یہ دوائی حضور نے اپنے خرچ سے مجھے تھے.اس کو سرسام ہو گیا.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے منگوا دی.جس کا استعمال چار پانچ ماہ تک کراتا رہا.اور مریضہ بالکل لئے ایک عریضہ لکھا.آپ نے اس پر جواب تحریر فرمایا کہ میں انشاء اللہ دعا تندرست ہو گئی.اس کے بعد سات بچے پیدا ہوئے.کروں گا.پر اگر تقدیر مبرم ہے تو ٹل نہیں سکتی.یہ پڑھ کر مجھے یقین ہو گیا ۱۹۰۵ ء میں جب حضور باغ میں مقیم تھے.اور سید محمد اسحق صاحب کو کہ یہ بچہ بچ نہیں سکتا.چنانچہ اس کے چوتھے دن اس کی حالت بہت نازک نمونیہ ہوا.تو اس وقت اتفاقایہ ڈاکٹر لوگ پھر بلائے گئے.تو حضور نے فرمایا تھی.اور حضور اس دن گورداسپور والی تاریخ پر جانے والے تھے.میں کہ ان سے پوچھو کہ وہ سوراخ ابھی بھی موجود ہے یا نہیں.میں نے ڈاکٹر چونکہ ہر تاریخ پر ساتھ جایا کرتا تھا.اس لئے میں بھی حاضر ہوا.جب آپ یعقوب بیگ صاحب سے عرض کیا.کہ آپ ان کے سینہ کا ملاحظہ کریں.گھر سے تشریف لائے تو پہلے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تمہارے بچہ کا کیا حال دیکھنے کے بعد فرمانے لگے.میں نے وہ سوراخ کب بتائے تھے.میں نے ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور چل کر دیکھ لیں.جب آپ نے گھر آکر بچہ لاعلمی ظاہر کی.تو فرمانے لگے.اس وقت پھیپھڑہ صحیح سلامت معلوم ہوتا دیکھا.تو فرمایا.یہ بہت بیمار ہے.آج تم گورداسپور نہ جاؤ.آپ تشریف لے گئے.اور دوسرے دن چار بجے کے قریب بچہ فوت ہو گیا.اس سے اگلے دن حضور دس بجے گورداسپور سے واپس تشریف لے آئے.میں بھی ہے.میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا.تو فرمایا.میرا خدا پھوٹے ہوئے پھیپھڑہ کو برابر کر دینے پر بھی قادر ہے.چنانچہ آج تک پھر اس کو کبھی کھانسی نہیں ہوئی.میرے گھر میں یکے بعد دیگر سے دو لڑکیاں تولد سن کر مصافحہ کے لئے آگے بڑھا.میری گود میں چھوٹی لڑکی تھی.جو اس ہو ئیں جو خدا کے فضل سے اس وقت تک موجود ہیں.اس کے بعد ایک لڑکے سے چھوٹی تھی.مجھے دیکھ کر حضور نے فرمایا.مجھے تمہارے بچہ کے فوت ہو جانے کا بڑا رنج ہے.مگر مجھے یہ خیال تھا کہ تمہاری محبت اس کے لڑ کا تولد ہوا.وہ بھی نہ بولتا تھا نہ سنتا تھا.پہلا لڑکا عموماً بیمار رہتا تھا.دوسرا I

Page 92

171 170 آتا تھا.بہر حال میں نے تمہارے بچہ کے لئے بڑی دعائیں کی تھیں.اللہ تم کو نعم البدل دے گا.اور وہ سننے والا.بولنے والا ہو گا.میں نے عرض کیا (بوجہ اس کے کہ میں حضور کے سامنے بڑی بے باکی سے بولتا تھا) کہ حضور ساتھ شرک کی حد تک پہنچی ہوئی تھی.اس لئے اس کا زندہ رہنا محال نظر پیش خیمہ ہے.تم فورا اس کو دس رتی ہینگ دے دو.اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد مجھے اطلاع دو.میں عشاء کے بعد پھر حاضر ہوا.اور عرض کیا کہ مرض میں ترقی ہو گئی ہے.فرمایا دس رتی کو نین دے دو.اور ایک گھنٹہ کے بعد پھر مجھے اطلاع دو.اور یہ نہ سمجھنا کہ میں سو گیا ہوں.بے تکلف میرے گھر میں دو لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں.اس کے بعد دو لڑکے پیدا ہوئے مردانہ سیڑھیوں سے آواز دو ایک گھنٹہ بعد میں پھر گیا اور عرض کیا کہ کوئی افاقہ نہیں ہے.فرما یا دس رتی مشک دے دو.میں نے عرض کیا.اس وقت ہیں.اب یہ لڑکی گود میں ہے.اس کے بعد اگر لڑکا تولد ہوا تو نعم البدل ہو گا.اور لڑکی ہو گی تو میں نعم البدل نہیں سمجھوں گا.آپ ہنس پڑے اور مشک کہاں سے لاؤں.حضور ایک مٹھی بھر کر مشک کی لے آئے.فرمایا یہ دس رتی ہوگی.میں نے عرض کیا حضور یہ زیادہ ہے.فرمایا.لے جاؤ پھر کام آویگا.میں نے وہ لے لی.اور دس رتی مریضہ کو دے دی.ایک گھنٹہ بعد پھر گیا.اور عرض کیا کہ مرض میں بہت اضافہ ہو گیا.فرمایا دس تو کہ فرمایا.خدا تعالیٰ کو تو اتنی طاقت ہے کہ آئندہ لڑکیوں کا سلسلہ ہی قطع کر دے.چنانچہ اس کے بعد فضل کریم پیدا ہوا.پھر عبد الحفیظ.اس کے بعد دو حمل ساقط ہوئے ، دونوں لڑکے تھے.اس کے بعد محمد عبد اللہ.اس کے بعد عبد الکریم اور اس کے بعد احمد پیدا ہوا.اور خدا کے فضل سے یہ پانچوں کٹرائیل دے دو.میں نے آکر دس تولہ کسٹرائیل دے دیا.اس کے بعد زندہ موجود ہیں.فالحمد للہ رب العالمین.اس کو بہت سخت تے ہوئی.اور قے اس مرض میں آخری مرحلہ ہوتا ۱۹۰۷ء میں میرا دو سر الڑ کا عبد الحفیظ تولد ہوا.سردی کے ایام تھے اور ہے.قے کے بعد اس کا سانس اکھڑ گیا گردن پیچھے کو کھیچ گئی.آنکھوں میں دن دنوں میں بہت زچہ عورتیں کہ ا.یعنی تشیخ کی مرض سے مررہی تھیں.زچہ کے لئے یہ مرض بہت خطرناک ہوتی ہے.سینکڑوں میں سے کوئی ایک بچتی ہو گی.اند ھیرا آگیا اور زبان بند ہو گئی.میں پھر بھاگ کر سیڑھیوں پر چڑھا.حضور نے میری آواز سن کر دروازہ کھول دیا.اور فرمایا کیوں خیر ہے.میں نے عرض کیا کہ اب تو حالت بہت نازک ہو گئی ہے.سانس اکھڑ گیا ہے گردن میری بیوی کو بچہ تولد ہونے کے ساتویں دن مغرب کے قریب اس کے کھچ گئی.آنکھوں میں روشنی نہیں.زبان بند ہو گئی ہے.فرمایا.دنیا کے آثار معلوم ہوئے.چونکہ ان دنوں میں یہ وبا تھی.اس لئے اس کی طرف جتنے ہتھیار تھے وہ تو ہم نے چلا لئے.اب ایک ہتھیار باقی ہے اور وہ دعا بہت توجہ ہو گئی.میں مغرب کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں دوڑا ہے.تم جاؤ میں دعا سے اس وقت سر اٹھاؤں گا.جب اسے صحت ہو گی.گیا.اور ان سے عرض کی.آپ نے فرمایا.یہ تو بڑی خطرناک مرض کا میں یہ سن کر واپس لوٹ آیا.اور اس کہا.اب تجھے کیا فکر ہے اب تو ! !

Page 93

173 172 ٹھیکیدار نے خود ٹھیکہ لے لیا ہے.اس وقت رات کے دو بج چکے تھے.میں میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے.اس کو اب دوائی دینے کی گھر آیا اور مریضہ کو اسی حالت میں چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چارپائی بھی کیوں تکلیف دیتے ہو.فرمایا.ان کو کیا آتا ہے.جاؤ کیوڑہ اور گاؤ لے کر سو رہا.صبح کو کسی برتن کی آہٹ سے میری آنکھ کھلی.جب میں نے زبان اس کو پلاؤ.میں مسجد میں چل کر دعا کروں گا.میں ایک بوتل کیوڑا اور دیکھا تو میری پائینتی کی طرف میری بیوی کچھ بر تن درست کر رہی تھی.میں گاؤ زبان دے کر عید گاہ کو چلا گیا جب میں عید سے فارغ ہو کر گھر آیا.تو نے پوچھا کیا حال ہے.کہا آپ تو سور ہے اور مجھے دو گھنٹہ کے بعد اللہ تعالیٰ دیکھا کہ بچہ کھیل رہا تھا.میں نے جا کر حضرت صاحب سے عرض کی.فرمایا نے فضل کر دیا.الحمد للہ رب العالمین.مجھے تو یقین تھا کہ میری دعاؤں کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے نعم البدل عطا کیا میرا لڑکا فضل کریم جو حضرت صاحب کی دعا پر نعم البدل سمجھا گیا.ہے.نعم البدن دیگر فورا اللہ تعالیٰ چھین نہیں لیا کرتا.چنانچہ وہ بچہ بفضل ۱۹۰۵ء میں تولد ہوا.اور ۱۹۰۸ ء میں وہ اسی محرقہ تپ میں مبتلا ہو گیا.جس میں میرا لڑ کا عنایت الرحمن بیمار ہو کر فوت ہوا تھا.یکم رمضان کو یہ لڑکا بیمار ہوا.اور رمضان بھر میں حضور کا علاج کرتا رہا.تین عید کے دن صبح کے وقت اس کی حالت نازک ہو گئی.لوگ عید پڑھنے جا رہے تھے اور میں حضور کے دروازہ پر اس لئے کھڑا تھا کہ حضور باہر تشریف لائیں تو چل کر بچہ الہی تیسری جماعت میں پڑھتا ہے.روایات ۷۶ عبد الرحمن صاحب ساکن چہڑ ضلع ہزارہ : ایک دفعہ حضور گورداسپور مقدمہ کی وجہ سے تشریف لے گئے اور کو دیکھیں.اتنے میں ڈاکٹر محمد حسین اور ڈاکٹر یعقوب بیگ تشریف لائے.بہت سے خدام ساتھ تھے.میں بھی ساتھ تھا.واپسی کے وقت ہر ایک انہوں نے اندر اطلاع بھیجوائی.حضور نے کہلا بھیجا کہ میں وضو کر کے آتا دوست کو مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ کرایہ دیا جاتا تا کہ کوئی دوست بلا ہوں تم دونوں صاحب پہلے فضل الرحمن کے لڑکے کو جا کر دیکھ آؤ.دونوں کرایہ پیدل نہ جائے.اور باقی سامان خوردنوش تو حضور خود کر دیا کرتے میرے ساتھ آئے.لڑکا ماں کی گود میں بیہوش پڑا تھا.اس کو دیکھ کر ڈاکٹر تھے.میں نے کرایہ لینے سے انکار کر دیا.اور مفتی صاحب کو کہہ دیا کہ محمد حسین نے وہیں یہ لفظ کہہ دیا.کہ اس کو اب دوائی دینے کی بھی کیوں میرے پاس کرایہ ہے.اگر نہ ہو تا تو لے لیتا.حضرت صاحب پاس ہی تھے.تکلیف دیتے ہیں.اس کی حالت اخیر کو پہنچ چکی ہے.یہ سن کر اس کی ماں سن کر فرمایا کہ میں شفقت سے دیتا ہوں، آپ نہیں لیتے کیا باقیوں کے پاس رونے لگی.خیر میں دونوں ڈاکٹروں کے ساتھ حضور کے در دولت پر آگیا.کرایہ نہیں ہے.جو دیا جائے وہ لینا چاہئے.میں نے جھٹ ہاتھ بڑھا کر آپ دروازہ میں کھڑے تھے.مجھے دیکھتے ہی فرمایا.بچہ کی کیا حالت ہے.کرایہ لے لیا.یہ حضور کی کمال شفقت تھی کہ اگر کوئی بلا کرایہ ہو تا تو اس :

Page 94

175 174 کو بھی مل جاتا.کیونکہ بہت دوست ایسے بھی ہوتے تھے.جن کے پاس کرایہ نہیں ہوتا اور وہ مانگتے بھی نہیں.احمدی نے چند دن ہوئے کچھ کپڑے پیش کئے.آپ نے واپس کر دئیے.میں نے کہا کچھ بھی ہو میں تو سال بھر اس کے فکر میں رہا اور عمدہ کپڑا سلا مجھے ایک دو روحانی بیماریاں تھیں.جو نہ ظاہر کرنے کے قابل تھیں.کر کے شوق سے اخلاص سے حضور کے لئے لایا ہوں.اگر نہ پہنیں گے تو اور جن کا چارہ بھی بغیر ظاہر کئے نظر نہ آتا تھا.میں شش و پنج میں تھا کہ کیا میں کسی اور جگہ تو دیتا نہیں.پھر تو میں اسے جلا دوں گا.کروں.جب تک ظاہر نہ کروں اصلاح کیسے ہوگی.اور ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے بہت سمجھایا.مگر میں نہ مانا.آخر میں وہ چونہ لے گیا اور شرم دامنگیر تھی.اللہ اللہ حضور کی قوت اعجازی کے.حضور نے خود ہی حضور کے آگے رکھ دیا.تھوڑی دیر کے بعد میں نے کہا کہ حضرت یہ بس تقریر میں فرما دیا کہ بہت سے لوگ اپنی بدیوں کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر چھوڑ یہ ہی کہا تھا کہ حضور نے شفقت اور بڑے ادب سے اس کو اٹھا لیا.میرا دل نہیں سکتے.اس واسطے ان کو چاہئے کہ اس بدی کے اسباب تلاش کریں کہ باغ باغ ہو گیا.حضور لے کر اندر تشریف لے گئے.وہ بدی کیوں ہوتی ہے اور کن وجوہات سے آتی ہے.اور مثال بیان کی.یہ سامنے سے بدبودار دھواں آتا ہے.اگر منہ کے آگے ہم کپڑا کر بھی لیں تو روایت ۷۷ ہاتھ ہلنے سے کپڑا ہل جائے گا.اور دھو اں ہم کو تکلیف دے گا.اس لئے خشی جھنڈے خان ساکن جسے مالی ضلع گورداسپور اگر ہم یہ سوچیں کہ دھو آں کہاں سے آتا ہے.اور وہ طاق یا روشندان بند کر دیں کہ جس سے دھو آں آتا ہے.تو ہم دھوئیں سے محفوظ رہ سکتے ہیں.اسی طرح گناہ کی حالت میں ان اسباب سے انسان الگ ہو جائے.کہ مصنف چمکار احمدی و چهکار مهدی جب میں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کر لی.تو گاؤں کے لوگوں نے جن سے گناہ ہو تا ہے.اس جگہ.اس مکان اور پیشہ اور مجلس کو چھوڑ دے مخالفت شروع کر دی.مسلمانوں نے تو کرنی ہی تھی ہندو لوگ بھی درپے آزار ہو گئے.اور کہا.لڑکے نہیں پڑھائیں گے.تم تو مرزائی ہو گئے.جو گناہوں کا باعث ہو.ایک دفعہ میں ایک قیمتی چونہ سرخ اور روی بانات کا بڑے شوق اور مجھے ان کی شرارتوں سے خوف ہو ا تو قادیان آیا.ایڈیٹر الحکم نے مشورہ دیا بڑی محنت سے بنوا کر لایا.مہمان خانہ میں ایک دوست نے کہا.یہ چونہ کیسا کہ آپ قادیان آجائیں.میں آپ کو دفتر میں ملازمت دینے کو تیار ہے.میں نے کہا.حضرت صاحب کے لئے لایا ہوں.اس نے کہا حضرت ہوں.میں نے حضرت مسیح موعود سے اجازت چاہی.آپ نے پوچھا تم کو صاحب تو نہ پہنیں گے.کیونکہ میرے سامنے کی بات ہے.ایک معزز وہاں کیا ہے.میں نے عرض کر دی کہ یہ حالت ہے.آپ نے فرمایا.صحابہ K T |

Page 95

177 176 کے مقابلہ میں یہ تکالیف کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں.انہوں نے نے بڑا آگے جاتے تھے.اور وہ کھیت کی بٹ پر سے کودتے ہوئے چلتے تھے حضرت صبر اور استقامت دکھائی ہے.ابھی تو وہ آپ کو دھمکیاں ہی دیتے ہیں.اگر صاحب نے فرمایا.میاں گر جاؤ گے ایسے نہ چلو.راستہ پر سے ہو کر چلو.واقعی یہی ہو جائے تو ایک پیشہ کو ہرگز ہرگز رازق قرار نہ دو.اللہ پر توکل چنانچہ ساری سیر میں میاں نے ایسا نہ کیا.اور حضور کے ساتھ ساتھ چلتے رکھو اور کام پر لگے رہو.اگر ایک راہ بند ہو گئی تو رازق کئی اور راہیں کھول رہے.دے گا.اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے روزگار کو چھوڑنا میرے نزدیک ایک ۱۹۰۸ء کے ابتداء میں میں اپنے دوطن ملتان گیا.میرے والد صاحب کفران نعمت ہے.جو خدا کے دیئے ہوئے رزق کو لات مار کر آتا ہے.پھر اس سلسلہ میں داخل نہیں تھے اور چونکہ ملتان میں ۱۹۰۸ء تک طاعون مجھے تو ڈر ہی لگتا ہے کہ وہ کیسے کامیاب ہو.روایت ۷۸ احمد دین صاحب درزی مهاجر نہیں ہوئی تھی.میرے والد صاحب کو اعتراض تھا کہ تم قادیان کو دار الامان کہتے ہو.جہاں تھوڑے بہت طاعون کے کیس (Case) ہو چکے ہیں.دار الامان تو ہمارا ملتان ہے جہاں اب تک طاعون نہیں ہوئی.میں میرے والدین مجھے بیعت نہ کرنے دیتے تھے اور مخالفت کرتے تھے.نے یہ واقعہ حضرت مسیح موعود سے قادیان میں آکر عرض کیا.آپ نے میں ان سے چوری ہی بیعت کرنے کو آیا.میرے پاس صرف ایک روپیہ فرمایا کہ ان کو کہد دو جلدی نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہر ایک چار آنے تھے.جب میں نے بیعت کر لی.میں نے چاہا کہ نذر دوں.گو تمہیں بستی اور ہر ایک شہر میں طاعون آئے گی.چنانچہ اس کے بعد ۱۹۰۸ء میں کوس کا سفر کرنا کرایہ اور خرچ بھی ایک روپیہ چار آنے میں پورا نہ ہوتا ملتان میں طاعون بڑی زور سے پڑی.اور سواموات روزانہ تک نوبت پہنچ تھا.مگر میں نے ایک روپیہ پیش کر دیا.حضور نے تمہم بھر کر فرمایا رہنے دو.میں نے کہا حضور قبول فرمالیں.پھر میرے عرض کرنے پر حضور نے قبول فرمالیا.میں نے چار آنے سفر خرچ رکھ لیا تھا.باقی سفر پیدل کر لیا.روایات ۷۹ بابو فخر الدین صاحب کلرک ترقی اسلام گئی.ایک دفعہ ایک معزز دست یہاں تشریف لائے.ایک چور بھی ان کے ساتھ لگ گیا.اور ساتھ ہی آیا.وہ مہمان خانہ میں ٹھہرے اسباب رکھا اور ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں آئے.اس نے اسباب اٹھایا اور چلتا بنا.جب وہ مہمان خانہ میں آئے.تو اسباب نہ پایا.حضرت صاحب کو اطلاع دی.۱۹۰۷ ء.میں ایک دن حضور سیر میں تھے.میاں مبارک احمد آگے آپ نے حامد علی کو فرمایا کہ جاؤ یکہ میں بیٹھ کر بٹالہ کی سڑک پر ادھر ادھر تلاش کرو.اور ! !

Page 96

179 178 تلاش کرو.اور ایک دو دوستوں کو ادھر ادھر دیکھنے کو فرمایا.حافظ حامد علی حضور نے الائچیاں تو دو چار چبائیں مصری کو ویسے ہی رکھ چھوڑا.جب یکہ میں بیٹھ کر چلے.اور تھوڑی ہی دور گئے تھے.کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص وہاں پہنچے جہاں حضور کے لئے مکان تجویز تھا.آپ پالکی سے اترے اور راستہ کے ایک طرف بیٹھا ہے.انہوں نے اس کو پکڑ لیا.کیونکہ اس کا حلیہ پیشاب کرنے کے لئے گئے.پھر حضور نے اگر وضو کیا.مگرپالکی میں بیٹھ کر.اور پوشش ان مہمان صاحب نے بتا دی تھی.اور اس پکڑ کر حضرت چند افغان مہاجر کابلی جو موجود تھے انہوں نے وضو کرایا اور سارے وضو کا صاحب کے پاس لائے.اور اسباب لاکر حضرت صاحب کے آگے رکھ دیا.پانی وہ ہاتھوں میں لے کر پیتے رہے.حتی کے جو پانی پاؤں دھوتے وقت گرا آپ نے حامد علی کو فرمایا.دیکھو ہرگز غفلت نہ کیا کرو.اور مہمانوں کی وہ بھی انہوں نے پی لیا.پھر حضور نے تھوڑی سی چینی منگوائی اور فرمایا تکالیف کا خیال رکھا کرو.اگر کسی مہمان کا اسباب جاتا ہے تو سبھی جاتا ہے شربت بناؤ.جب تم پی چکو تو مجھے بھی دینا.اور پھر فرمایا.او ہو پالکی میں جب تم لوگ غافل ہوتے ہو اور اس چور کو صرف یہ فرمایا.جاؤ پھر کبھی تھوڑی سے مصری پڑی تھی وہ بھی ڈال لو.ہم نے عرض کیا پہلے آپ پی لیں قادیان نہ آنا چلے جاؤ.دوڑ جاؤ.اور وہ چلا گیا.پھر تبرک ہو جائے گا.چنانچہ آپ نے ایک گلاس لے کر اس میں سے نصف ایک دفعہ حضرت ام المومنین " لاہور تشریف لے گئیں.اور حضرت پی کر نصف واپس کر دیا.ہم نے باقی شربت میں ملا کر پیا.اس کے بعد حضور صاحب قادیان تھے.لاہور سے اطلاع آئی کہ ہم فلاں دن دو بجے آویں مکان میں تشریف لے گئے جو ٹھرنے کے لئے تجویز تھا.وہاں کئی دوست گے.حضرت صاحب نے ایڈیٹر الحکم اور مولوی محمد احسن صاحب کو ایک ٹالے اور لاہور کے پہلے ہی موجود تھے.آپ نے فرمایا کھانے کا انتظام ہو دن پہلے بھیجا کہ مکان وغیرہ کا انتظام کرلیں.اور یہ بھی فرمایا کہ محمد حسین چکا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا.ہاں حضور ہو چکا ہے.فرمایا جو دوست بٹالوی کو اطلاع کر دیں کہ ہم فلاں مکان پر ٹھریں گے.اگر وہ ملنا چاہیں تو مل ہمارے ساتھ آئے ہیں پہلے ان کو کھانا کھلاؤ.ہم پھر کھائیں گے.چنانچہ لیں.اگلے دن حضور نے چند افغانوں کو ہمراہ چلنے کا حکم دیا.اور لوگوں کو حضور نے پہلے ہم لوگوں کو کھانا کھلوایا اور پھر شیخ رحمت اللہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ چلنے کی اجازت نہ دی.میں نے پرچہ لکھ کر اجازت لے لی تھی.حضور نے خود کھانا کھایا.اتنے مین ایک ہندو تحصیلدار تحصیل بٹالہ سے چنانچہ صبح کو حضور پالکی میں سوار ہو کر چلے.ہم لوگ ہمراہ ہو گئے.آپ نے تشریف لائے.حضور ان کے ساتھ بڑے اخلاق سے ملے اور شہر کا حال پالکی میں آگے قرآن مجید کھولا ہوا تھا.اور قادیان سے بٹالہ تک حضور کے پوچھا.انہوں نے عرض کی حضور طاعون تو یہاں ہے.آپ نے فورا تبلیغی آگے سورہ فاتحہ ہی کھلی رہی.اور آپ سورہ فاتحہ ہی پڑھتے رہے.جب رنگ شروع کیا اور دیر تک ان کو تبلیغ فرماتے رہے.اور فرمایا ظاہری پل پر پہنچے.میں نے یہاں کچھ الائچیاں اور مصری لی تھی.وہ پیش کیں.چوہے مارنے سے کیا ہوتا ہے.پہلے دل کے چوہے مار د.پھر گاڑی کے آنے I.1

Page 97

181 180 کا وقت ہو گیا.حضور اسٹیشن پر تشریف لے گئے.گاڑی آگئی.حضور ام فرمایا مولوی نور الدین صاحب کو بلاؤ.آدمی گیا.وہ سو رہے تھے ، اٹھ کر المومنین کو اتارنے کے لئے زنانہ گاڑی کی طرف بڑھے.حضرت ام آئے.مولوی صاحب کو حضرت صاحب نے حال سنایا کہ بیمار عورت کو المومنین شاید سیکنڈ کلاس میں سوار تھیں.حضرت صاحب ورلی طرف دکھانا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا چلو دیکھ لیں.مولوی صاحب نے کہا.تھے.ام المومنین دوسری طرف کھڑکی سے نیچے اتر آئیں اور فرمایا محمود حضور تشریف نہ لے جائیں.میں خود دیکھ آتا ہوں.آپ اندر چلے گئے کے ابا السلام علیکم آپ نے فرمایا.وعلیکم السلام اور مصافحہ کیا.اور ساتھ اور مولوی صاحب نے مریضہ کو دیکھا.میرا خیال ہے.اگر مولوی صاحب لے کر بے تکلف باہر تشریف لائے.اور مکان میں لے گئے.تھوڑی دیر کو کوئی پانچ سو رو پہ دیتا.تو سوتے اٹھ کر نہ جاتے.مگر مرزا صاحب کے حکم ٹھرے.ظہر و عصر جمع کر کے پڑھی گئیں اور پھر قادیان کو چلنے کی تیاری ہوئی.گو اسباب کے پاس ہم سب لوگ موجود تھے.مگر میں نے دیکھا حضور خود بھی اسباب کے پاس اس طرح ملتے رہے جیسے کوئی پہرہ دار ہوتا ہے.حضور نے گرمی کی وجہ سے کوٹ نہیں پہنا تھا.صرف یا جامہ.ململ کا کرتہ اور واسکٹ پہنی تھی.سر پر دوپٹہ تھا اور کمر بند حضور کے کرتہ سے نیچے تک لٹک رہا تھا.جو حضور کی سادگی ثابت کر رہا تھا.جب سب اسباب یکوں پر لاو لیا گیا اور سب دوست سوار ہو گئے.اس وقت حضور سوار ہوئے.اور تقریباً آٹھ بجے شام کے معہ ام المومنین کے دارالامان تشریف لائے.روایت ۸۰ کشن سنگھ آریہ کیساں والا ایک دن گرمی کے موسم میں شام کے وقت اندھیرا ہو رہا تھا.اور سخت گرمی تھی.میں نے ایک بیمار عورت کو دیکھنے کے لئے اندر کہلا بھیجا کہ میرا نام لے کر کہہ دیں.آپ لالٹین لے کر فوراً آئے.اور حال سنا.سن کر سے فورا چلے گئے..| !

Page 98

183 182 حضرت والاشان مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط بنام خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر محی اخویم خلیفہ صاحب سلمہ اللہ تعالٰی السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا محبت نامہ پہنچا.باعث خوشی ہوا.اس جگہ بفضل تعالیٰ سب خیریت ہے.مجھے آپ سے دلی محبت ہے اور آپ یاد آتے رہتے ہیں.اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو دنیا و بسم اللہ الرحمن - محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.عزیزی محی اخویم ڈاکٹر دین کے مکروہات سے بچا کر آپ کی الہی مدد کرے.امید کہ اپنے حالات خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالٰی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے.چار ہزار کے اشتہار کے بعد پھر آپ کا محبت نامہ مع سفوف اور مرہم پہنچ کر موجب شکر گزاری ہوا اللہ کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی.والسلام تعالیٰ آپ کو جزائے عظیم بخشے.آپ نہایت محبت اور اخلاص سے ہر ایک امر میں بکمال مستعدی تعمیل کرتے ہیں.باقی سب خیریت ہے.والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۳.جولائی ۱۸۹۹ء بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کل کی ڈاک میں گولیاں کونین کی پہنچیں.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.آج کی ڈاک میں مبلغ ۵۰ روپیہ مرسلہ آپ کے مجھے کو مل گئے ہیں جزاکم اللہ خیرا عجیب اتفاق ہے کہ مجھ کو آج کل اشد ضرورت تھی.آج نومبر ۱۸۹۸ء کو خواب میں مجھ کو دکھایا گیا کہ ایک شخص نے روپیہ بھیجا بخشے.گولیاں نہایت عمدہ ہیں.اور نہایت محبت اور اخلاص سے بنائی گئی ہے.میں بہت خوش ہوا.اور یقین رکھتا تھا کہ آج ۴.نومبر ۱۸۹۸ء کو ہیں.امید کہ ہمیشہ اپنی خیر و عافیت سے مطمئن فرماتے رہیں.زیادہ خیریت آپ کا پچاس روپیہ آگیا.فالحمد للہ و جزاکم اللہ.معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ ہے.والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور - ۳۱.بھیجنا درگاہ الہی میں مقبول ہے.چنانچہ آج جو جمعہ کا روز ہے.میں نے آپ کے لئے درگاہ الہی میں نماز جمعہ میں دعا کی.امید کی انشاء اللہ پھر کئی دفعہ کروں گا.مجھے آپ سے دلی محبت ہے.اب دل بہت چاہتا ہے کہ آپ دسمبر ۱۸۹۳ء بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.نزدیک آجائیں.اللہ تعالٰی اسباب پیدا کرے.باقی سب خیریت ہے.! ↓ │ 1

Page 99

185 184 ا: 1 و السلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۴.نومبر ۱۸۹۸ء بروز جمعہ.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم.محی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچے.یہ امر آپ کی تکلیف اور تنگی خرچ کا موجب نہ ہو.آپ کی محبت اور اخلاص ایک امر ہے جو پختہ یقین سے مرکوز خاطر ہے.اس لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ طاقت سے زیادہ تکلیف اٹھایا کریں.میں نے آپ کے لئے سلسلہ دعا کا جاری کیا ہے.امید کہ اللہ تعالٰی السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کے متواتر عنائت نامے پہنچے.یا تو کسی بشارت کے ذریعہ اور یا خود بخود اثر دعا کا ظاہر کرے گا.آج کل چونکہ میں درد سر اور اسهال وغیرہ عوارض سے بیمار رہا.اس لئے جواب ایک ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب قادیان میرے پاس نہیں لکھ سکا.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے.اور کامیاب فرمائے.کئی موجود ہیں اور ایک ہفتہ برابر یہاں رہیں گے.مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا.احباب کو کافی عرصہ قادیان میں ٹھہرنے کا موقعہ ملتا ہے مگر آپ کو بہت کم خدا تعالیٰ نے مجھ کو دشمنوں کے الزام سے بری کیا.فالحمد للہ علی ذالک.اتفاق ہوا ہے.بہتر ہو کہ کسی وقت آپ کو مہمینہ ڈیڑھ مہینہ کے لئے قادیان کتاب حقیقتہ المہدی آپ نے دیکھ لی ہو گی.خدا تعالیٰ نے قبل فیصلہ مقدمہ میں رہنے کا اتفاق ہو.آپ کی فطرت میں بہت مادہ سعادت ہے.پس اس تمام حال ظاہر کر دیا تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تر اس ملک میں لادے.اور سعادت کے ساتھ قرب کے فیوض سے بھی حصہ لینا چاہئے.امتحان پیش بہت خوب ہو کہ کسی قریب تر مقام میں پنجاب میں آپ متعین ہوں.باقی آمدہ میں خدا تعالیٰ آپ کو پاس کرے.آمین.لکھنؤ کے عمدہ تحفوں میں سب خیریت ہے.از طرف ڈاکٹر عبدالحلیم خاں صاحب اور دوسرے عطر ہوتا ہے اور مجھے بھی عطر کے ساتھ بہت محبت ہے اگر عطر کیوڑہ یا فتنہ یا حاضرین کے السلام علیکم.والسلام آ کوئی اور عمدہ ہو تو آپ بقدر ایک تولہ عنایت فرمائیں.زیادہ خیریت ہے اور دعا آپ کے لئے کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۲۴.اکتوبر ۱۹۰۰ء الله الرحمن الرحیم نحمدہ نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم ڈاکٹر رشید الدین سلمہ اللہ تعالیٰ السلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۸.مارچ ۱۸۹۹ء بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.پانچ روپے مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچے.خدا تعالیٰ آپ جزائے خیر بخشے کہ آپ اپنے وعدہ کو محض اللہ سنت صادقہ کے ساتھ م علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک ۱۷.مارچ ۱۸۹۹ء کو مبلغ پورا کر رہے ہیں.اور اس قحط الراجال میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں کہ

Page 100

187 186 باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۳.مارچ ۱۸۹۹ء خدا تعالیٰ کے لئے مواعید کو پورا کرنے والے ہوں.آج کل مخالفین کا زور کاف سے نہ لکھیں.اور نہ بٹالہ کو طاء سے لکھیں.اور محمد حسین کو یہ بھی حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے.لاہو ر تو آج کل گویا آتش کدہ ہے.ہر روز نئے فہمائش ہوئی کہ وہ اپنے دوستوں کو گندی گالیاں اور فحش گوئی سے روکے.نئے فتنہ پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.مجھے معلوم نہیں کہ رسالہ غرض اس طرح پر مقدمہ فیصلہ ہو گیا.اب میں انشاء اللہ القدیر آپ کے " سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب آپ کے پاس پہنچا ہے یا لئے دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس جگہ خیر و عافیت سے جلد لاوے.نہیں.اور رسالہ سراج منیر اور حجتہ اللہ اور استفتاء اور چودھویں صدی کے اخبار کا جوابی اشتہار آپ کو پہنچا ہے یا نہیں.ان میں سے اگر کوئی رسالہ یا اشتہار نہ پہنچا ہو تو مطلع فرما دیں.تاکہ آپ کو بھیج دیا جاوے.زیادہ خیریت ہے والسلام خاکسار مرزا غلام احمد صاحب عفی عنہ ۹.جولائی ۱۸۹۷ء.کیا آپ کی نینی تال کی بدلی ہو گئی ہے یا نہیں.اگر ہو گئی ہے تو مفصل پتہ ارسال فرماویں.تا آئندہ اس پتہ پر خط لکھا کروں.بالفعل چکرانہ میں ہی خط بھیجتا ہوں.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.تفصیل بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالٰی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ شفاء بخشے.آمین.ان دنوں میں سرکار کی طرف سے مجھ پر بشمولیت محمد حسین ایک فوجداری مقدمہ دائر ہو گیا ہے.ایک پیشی ہو چکی ہے.اب ۵.جنوری ۱۸۹۸ء مقرر ہے.آج کل ایسے نازک مقدمات میں بغیر وکلاء کے کام نہیں چلتا اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ اپنے چند خاص اور مخلص دوستوں سے خرچ وکلاء مقدمہ کے لئے مدد طلب کی جائے.اس لئے ایسے خوفناک وقت میں آپ کو ہی تکلیف دیتا ہوں.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ دلی اخلاص اور محبت سے معمور ہیں.باقی ہر محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ مع مبلغ ساٹھ روپے یہ مندرجہ پہنچے.جزاکم اللہ خیر الجزا.آمین.مقدمہ متدائرہ ۲۴.فروری ۱۸۹۹ء کو خارج کیا گیا اور مجھ کو بری کیا گیا اور محمد حسین کو فہمائش کر کے رہا کیا گیا.مگر بری نہیں ہوا.جانبین سے دو طرح سے خیریت ہے.نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کسی کی موت کی پیشگوئی نہ کریں.اور ایک دو سرے فریق کو کافر اور کذاب اور دجال نہ کہے.قادیان کو چھوٹے والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۹ دسمبر ۱۸۹۷ء ↓ 1 را 1 1

Page 101

189 188 بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.خاکسار مرزا غلام احمد بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.ونکہ مجھے ایک اشد ضرورت در پیش ہے.اس لئے ہمراہ چند اور محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کوہ چکرانہ ضلع سہانپور مخلص دوستوں کے آپ کو بھی جو اول درجہ کے اخلاص اور محبت پر ہیں السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.باعث تکلیف رہی یہ ہے کہ اس مہمان بوجہ ضرورت تکلیف دیتا ہوں کہ وہ پانچ روپیہ جو آپ ماہ بماہ مجھے دیتے خانہ میں دن بدن بہت آمد درفت مہمانوں کی ہوتی جاتی ہے.اور پانی کی رہتے ہیں.وہ چار ماہ کے پیشگی کے حساب سے ہیں روپیہ بھیج دیں.اور دقت بہت رہتی ہے.ایک کنواں تو ہے مگر اس میں ہمارے بے دین شرکاء آئندہ جب تک اس پیشگی روپیہ کی میعاد ختم نہ ہو.کچھ نہ بھیجیں.کی شراکت ہے.وہ آئے دن فتنہ فساد برپا کرتے رہتے ہیں.اور نیز سقہ کا ضرورت کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہے.جہاں تک ممکن ہو جلد ارسال خرچ اس قدر پڑتا ہے کہ اس کی تین سال کی تنخواہ سے ایک کنواں لگ سکتا فرما دیں.اور کل سے میاں عبد الحکیم صاحب ڈاکٹر پٹیالہ ملنے کے لئے ہے.لہذا ان دقتوں کے دور کرنے لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ایک کنواں لگا یا جاوے.آج فہرست چنده مخلص دوستوں کی مرتب کی گئی جس میں آپ کا نام بھی داخل ہے.اس چندہ سے یہ غرض نہیں ہے کہ کوئی دوست فوق الطاقت کچھ دیوے.بلکہ جیسا کچھ چندوں میں دستور ہوتا ہے.آئے ہوئے ہیں.۳۰.مئی ۱۸۹۹ء تک میرے پاس رہیں گے.و السلام خاکسار مرزا غلام احمد یکم مئی ۱۸۹۹ء.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم.جو کچھ بطیب خاطر میسر آوے وہ بلا توقف ارسال کرنا چاہئے.اپنے پر فوق محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام الطاقت بوجھ نہ ڈالنا چاہیئے کہ اس خیال سے انسان بعض اوقات خود چندہ علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کی ہمدردی نہایت قابل شکر گذاری ہے کہ سے محروم رہ جاتا ہے.یہ کام بہت جلد شروع ہونے والا ہے.اور چاہ کی آپ نے مقدمہ کا حال سن کر پچاس روپے ارسال فرمائے ہیں اور پہلے ان لاگت تخمینا ۱۹۰ ہو گی.اگر خدا تعالیٰ چاہے گا.تو اس قدر دوستوں کے تمام سے چالیس روپے دیئے تھے.اور مبلغ ۶۰ روپیہ مدرسہ کے لئے پہنچ گئے.چندوں سے وصول ہو سکے گا.والسلام خاکسار غلام احمد دسمبر ۱۸۹۶ء جزاکم اللہ خیرا.بوجہ شدید کم فرصتی زیادہ نہیں لکھ سکا.تاریخ پیشی.آپ ہمیشہ سے بکمال محبت و صدق دل اعانت اور امداد میں مشغول ہیں جنوری ہے.بظاہر مقدمہ خطرناک ہے.خدا تعالیٰ حافظ ہو.والسلام اور در چندہ دہندگان آپ کا نام لکھا گیا ہے.گو آپ چار آنہ بطور چندہ دے 1

Page 102

191 190 دیں.غلام احمد بقلم خود بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے.میرے دونوں بدن کے حصے بیمار ہیں.دن میں پندرہ پندرہ مرتبہ اور کبھی چالیس چالیس دفعہ پیشاب آتا ہے.اور سخت ضعف ہو جاتا ہے.یہ نیچے کے دہر کی حالت ہے.اور اوپر کے حصہ میں دل رو محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام جو اشرف الاعضاء ہے بیمار ہے جیسا کہ اوپر ذکر گیا ہے.میں محسوس کرتا اور رحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ ملا بد ریافت خیر و عافیت خوشی ہوئی.ہوں کہ دو چادریں زرد رنگ کی ہیں جو مسیح موعود کی ذاتی نشانی ہے.انہی الحمد للہ علی ذالک.میری یہ بیماری در اصل دل کی معلوم ہوتی ہے کہ یک چادروں کی وجہ سے ضرور تھا کہ مسیح کا ہاتھ (دنیا میں اترتے وقت) دو دفعہ دوران خون کی حرکت کم ہو جاتی ہے.اور نیز دل کی حرکت کم ہو جاتی فرشتوں کے کندھوں پر ہو تا.اب ہر دو بیماریوں میں محض خدا کا فضل علاج ہے اور ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے.ساتھ ہی ہاتھ پیروں کی طرح سو جاتے کرتا رہا ہے.والسلام میرزا غلام احمد ہیں.دماغ میں غشی لانے والی لہریں محسوس ہوتی ہیں.میں خیال نہیں کرتا بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.کہ یہ بیماری کافور کی وجہ سے ہے.کیونکہ جس کافور کا میں استعمال کرتا ہوں.اس میں نمبر ملا ہوا ہوتا ہے.جو دل کا مقوی ہے.اور ساتھ ہی محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی السلام علیکم جائفل بھی ہوتا ہے.اور ساتھ ہی مشک بھی استعمال کرتا ہوں.یہ تمام ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آل محب کا عنایت نامہ پہنچا.مع مبلغ پچاس روپیہ کے چیزیں مقوی دل ہیں.بلکہ یہ بیماری عرصہ تمہیں برس سے لاحق ہے.مجھ کو ملا.جزاکم اللہ خیر الجزا.چونکہ اس خط میں بخار آجانے کا ذکر تھا.اس کمزوری اور ضعف کسی اور بیماری سے برپا ہو جاتی ہے.چونکہ آج تک لئے طبیعت متردد ہے.امید کہ دوسرے خط میں اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرما دیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو بفضل خود خیر و عافیت سے اس جگہ میں نے ۲۵.روزے رکھے تھے.بہت ہی کم غذا کھائی.دس دن میں شاید اس قدر غذا کھائی ہوگی جو تندرست انسان ایک دن میں یا حد دو دن میں کھا مخلصی عنایت فرمادے.آمین ثم آمین اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے سکتا ہے.اس لئے اس بیماری نے جلد جلد دورہ شروع کیا.اب بھی یہی خیر و عافیت ہے.چار نئی کتابیں چھپ رہی ہیں یقین ہے کہ جلد تر چھپ حالت ہے.آج ناچار ہو کر ۲۶.تاریخ رمضان کو میں نے روزہ نہیں رکھا جائیں گی.نہایت خوشی کی بات ہے.اگر مصر کی طرف سے واپسی کی ہے.یوں گھبراہٹ کچھ بھی نہیں یہ حالت ہے.امید کہ آپ اپنے حالات اجازت آ جائے.بہر حال استقامت سے ہر ایک کام کرنا چاہئے.اور خیریت آیات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں گے.میری تو زندگی محض خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے.بمبئی میں طاعون ترقی کر رہی ہے.اور ނ تے 1.! 1

Page 103

193 192 مدراس کے تین ضلعوں میں بھی شروع ہے.دیکھئے اللہ تعالیٰ کا کیا ارادہ گئے.جزاکم اللہ خیرا.لیکن ابھی تک معلوم نہ ہوا کہ آپ کی عرض پر کیا حکم ہے.ہند و جو تشی تو ۱۸۹۹ ء میں اس کا خاتمہ بتاتے ہیں.والعلم کلہ آیا.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے ہمیں مطلع فرما ئیں گئے اگر عند الله - والسلام - خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنه از قادیان ۱۳.اکتوبر آب و ہوا موافق نہیں تو اللہ تعالیٰ فضل فرما دے کہ وہاں سے پنجاب میں تبدیلی ہو جاوے.امید کہ تادم ملاقات خیریت آیات سے مسرور الوقت ۶۱۸۹۸ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچ گئے.فرماتے رہیں گے.زیادہ والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.ایسے نازک اور ضرورت کے وقت میں جبکہ بد طینت حاسدوں نے عدالت محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام میں میرے پر مقدمہ اٹھایا ہوا ہے.آپ کا متواتر امداد کرنا قابل شکر گذاری علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آج کی تاریخ مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے ہے.جزاکم اللہ خیر الجزا.اب مقدمہ کی تاریخ ۱۴.فروری ۱۸۹۹ء ہے.مجھ کو پہنچے.جزاکم اللہ خیر الجزا.اب بہت عرصہ گذر گیا.اللہ تعالیٰ جلد تر غالبا اتوار کے دن عید ہو گی.اس صورت میں پیر کو بمقام پٹھان کوٹ مقدمہ آپ کو اس ملک میں لادے.میں دعا میں مشغول ہوں.امید رکھتا ہوں کہ پر جانا ہو گا.واللہ اعلم.اب میں نے عہد کر لیا ہے کہ کچھ عرصہ آپ کے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم اور کرم سے جلد تر دعا منظور ہو جائے کہ وہ ہر چیز لئے دعا کرتا رہوں گا.اللہ تعالیٰ دوری مجبوری سے بخیر و عافیت رستگاری پر قادر ہے.حالات خیریت آیات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں.انشاء عنایت فرمادے آمین ثم آمین.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام.الله القدیر دعا برابر اوقات خاصہ میں کرتا رہوں گا.اور بفضلہ تعالیٰ قبول ہو خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۲۱.جنوری ۱۸۹۹ء گی.زیادہ خریت ہے.ا.اپریل ۱۸۹۹ء ۳۰/اکتوبر ۱۸۹۹ء.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے پہنچ 1, بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.زمیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.

Page 104

195 194 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا کارڈ پہنچا.اب انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالیٰ کسی مقام حسب المراد میں آپ کی تبدیلی کر دیوے.آمین ثم آمین.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.اب انشاء اللہ عنقریب آپ کی خدمت میں ست بچن و آریہ دھرم روانہ ہو گا.چونکہ بچوں کے لئے دستوں کے وقت کلور ادائین کی ضرورت پڑتی ہے اور مجھے بعض وقت ہمیشہ آپ مطلع فرماتے رہیں گے.میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں.اور دست آتے ہیں تو مفید پڑتی ہے.لاہور سے منگوائی گئی تھی مگر خراب نکلی.خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ اللہ جل شانہ دین و دنیا میں آپ کے ساتھ ہو.اور ہر ایک رنج و بلا سے بچاوے.آمین.باقی خریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۸ فروری ۱۸۹۹ء بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالٰی السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.مبلغ پانچ روپیہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیر الجزا.اللہ جلشانہ اس محبت اور اخلاص کی جو محض اللہ آپ سے ظہور میں آ رہی ہے.دارین میں بہت جزا ئیں بخشے.مجھے آپ سے دلی محبت ہے.اور میں خدا تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ کو دن بدن اپنی محبت میں ترقیات عطا فرما دے.اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر رہے.والسلام خاکسار غلام احمد بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.عزیزی محی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ اللہ تعالی.اگر آپ کے پاس ولائتی ساخت کی یہ دوا موجود ہو تو ایک شیشی اس میں سے بھیج دیں.یہ وہی دوا ہے جو آپ نے امر تسر کے مباحثہ میں خرید کر دی تھی.جب مجھے دست آتے تھے.باقی اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خریت ہے.بڑے دن پر شاید احباب آئینگے.والسلام.خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۳ دسمبر ۶۹۵ الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.میرے نزدیک تو مناسب ہے کہ کل تشریف لے جاویں.کل کے لئے تو اجازت ہے.آج توقف فرما دیں.لڑکا ایک دن کے لئے دہلی جائے گا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نقل خطوط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب

Page 105

197 196 السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا امید ہے کہ انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا.آپ بھی یاد دلاتے رہیں.اور دوا جو تجویز کی گئی ہے اس سے بھی اطلاع دیں کیسی ہے.خدا تعالیٰ آپ کو صاحب اولاد کرے.آمین ثم آمین.اور میں بہت خواہش رکھتا ہوں کہ کچھ مدت محی اخویم سید فضل شاہ صاحب میرے پاس رہیں.اور شاید آگے میں نے ذکر کیا تھا.ان کی خدمت میں میری طرف سے السلام علیکم.اگر قادیان آ جائیں تو نہایت بہتر ہے اس تقریب سے چند روز پھر ملاقات ہوتی رہے گی.و السلام غلام احمد عفی عنہ ۱۴.اگست ۱۸۹۶ء بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.عزیزی سید ناصر شاہ کی علالت طبیعت سے سخت قلق واضطراب ہے.خط کو پڑھتے ہی بدرگاہ حضرت ارحم الراحمین دعائے صحت کی گئی.اللہ جل شانہ صحت کامل عطا فرمائے.امید ہے کہ صحت اور خیر و عافیت سے جلد مطمئن فرما دیں گے.کہ صحت کامل کا بہت خیال رہے گا.اور آپ کی نسبت مجھے ہر وقت خیال رہتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی طرف نظر ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان " اکتوبر ۱۹۰۴ ء ۱۶.فروری ۱۸۹۱ء.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں اس وقت سیالکوٹ میں ہوں.اور آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ آپ کے تمام مقاصد پورے کرے.آمین.اس وقت بباعث شدت کم فرصتی میں زیادہ نہیں لکھ سکا.انشاء اللہ کسی دوسرے وقت میں مفصل خط لکھوں گا.والسلام خاکسار غلام احمد از سیالکوٹ از طرف احقر العباد حامد علی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.اس عاجز نے کئی دفعہ دعا کے لئے یاد کرایا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ مشفقی محی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کے کئی عنایت نامے پہنچے ہیں.بوجہ سر گردانی سفر کے جواب نہیں لکھ سکا.مجھ کو آپ کی پریشانی سے سخت تردد اور غم ہے.اور میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے فکر کو جلد دور کرے.اور اپنی طرف سے آپ کے لئے وجہ معاش عطا فرما دے.محی ! آپ کا بہت خیال اور از حد خیال رہتا ہے.اور دعا کی جاتی ہے.مگر ہر ایک امر وقت پر موقوف ہے.وہ لوگ بیوقوف ہیں جو آپ کو ڈراتے ہیں کہ آپ بہت

Page 106

199 198 سادہ ہیں کہ آپ سے نوکری نہیں ہوگی.وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.مگر میرے نزدیک بجائے نوکری کے اگر آپ کسی ٹھیکہ کی طرف توجہ فرما دیں تو یہ بہتر ہے.اور میں اس وقت بمقام جالندھر غلہ منڈی میں برمکان زین العابدین اترا ہوا ہوں.آپ کی ملاقات کا از حد شوق ہے لیکن وقت پر موقوف ہے.زیادہ خیریت.والسلام.از طرف حامد علی السلام علیکم.خاکسار غلام احمد از جالندھر از طرف مولوی عبد الکریم سہارنپوری السلام علیکم.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.مبلغ ہیں روپے جو عزیزی سید ناصر شاہ صاحب نے اس عاجز کے لئے اور نیز مبلغ پانچ رو پہ جو عرب صاحب کے لئے بھیجے ہیں.کل پچیس روپیہ روپے پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیرا یہ عاجز بباعث علالت لڑکی اب تک لدھیانہ میں رہا.اب ۱۰.مئی ۱۸۹۴ء کو لڑکی قضاء الہی فوت ہو گئی.سواب انشاء اللہ ۱۴ مئی ۱۸۹۴ء کو قادیان کی طرف روانہ ہو جاؤں گا.عزیزی ناصر شاہ صاحب کو بعد السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.پارسل مرسلہ آپ کا جو پار چات پاجامہ دکرتے.کیلا اور سنگترے کا تھا پہنچ گیا.جزاکم اللہ خیر الجزا.مجھ کو بہت ندامت اور شرمندگی ہے.کہ بیکاری اور تنگی کے ایام میں اس تکلیف اٹھانے کا وقت نہیں.خدا تعالیٰ میرے عزیز دوست سید فضل شاہ صاحب کو برسر روزگار کرے.نیز اپنی مرادات تک پہنچائے.پھر مانگ کر بھی تکلیف دیا کریں گے.مجھے خوب معلوم ہے کہ میرے عزیز دوست سید فضل شاہ صاحب کو مجھ سے بہت محبت اور اخلاص ہے اور وہ مخالف بد گو کے مقابل پر بوجہ جذبہ اخلاص صبر نہیں کر سکتے.ہمارے لئے یہ دن صبر اور حلم کے ہیں.ہمیں یہی چاہئے.کہ لوگ گالیاں دیں اور ہم اس کی برداشت کریں.آخر حق غالب آجایا کرتا ہے اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا.ہمارے بولنے کی حاجت نہیں.کام کرنے والا آسمان پر کر رہا ہے.اس عاجز کو خود سید فضل شاہ صاحب کے لئے خیال ہے اور بغیر یاد دہانی کے دعا کر رہا ہوں.آج خط کے پڑھنے کے بعد بھی دعا کی.اور آپ کے لئے بھی.آج رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام روانہ خدمت کرتا ہوں.ازالہ اوہام جس وقت آیا روانہ خدمت کروں گا.علیکم.مضمون واحد ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از محله اقبال گنج اپنے حالات سے مطلع فرمایا کریں.والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ لدھیانہ.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی مشفقی اخویم نشی کرم الہی صاحب سید فضل شاہ صاحب.السلام علیکم اقبال گنج ۱۹.اپریل ۱۸۹۱ء.عزیزی محی سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم و رحمتہ الله وبركاته ! 1

Page 107

201 200 آپ کا خط اور آپ کی وہ تمام چیزیں جو آپ نے مہربانی فرما کر ارسال کی ہیں پہنچ گئی ہیں.جزاکم اللہ خیر الجزا.خداوند کریم آپ ان سب خدمات کا جو آپ کرتے رہے ہیں.اجر بخشے.اور آپ پر راضی ہو.مجھے اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.اور اخویم منشی کرم الہی صاحب کے لئے دعا خیر کی گئی ہے.میں خوب جانتا ہوں.منشی صاحب اس عاجز سے اخلاص رکھتے ہیں.ایک نئے مسئلے میں منشی صاحب کو اصل حقیقت معلوم نہیں تھی.ورنہ وہ خود بہتوں سے جھگڑتے پھرتے.اور جس وقت ازالہ اوہام شائع ہوا.اس وقت امید رکھتا ہوں کہ سب سے پہلے منشی صاحب لاہور میں اس کی اشاعت کے لئے قدم اٹھا ئیں گے.غرض میں منشی صاحب سے بدل راضی ہوں.ناواقفیت کی حالت میں جو کچھ منہ سے نکل گیا.وہ عند اللہ قابل معافی ہے.خدا تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے.والسلام غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۸.اپریل ۱۸۹۱ء بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ہے.اس لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ بہت مدت تک ہماری جماعت باہر جنگل میں تکلیف اٹھارے.ہاں اگر شہر میں کچھ زور طاعون کا ہے.تو اس صورت میں شہر میں آنا مناسب نہ ہو گا.اور میں بھی چاہتا ہوں کہ ایک ایک دو ہفتہ کے بعد یا جب اللہ تعالیٰ چاہے باغ سے قادیان کے اندر چلا جاؤں.میری یہی تمنا ہے کہ اس آنے والی آفت کا خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ مفصل حال معلوم ہو جائے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.مگر بہت خوشی ہو گی.اگر خدا تعالیٰ کی وحی سے تاریخ اور وقت کا پتہ لگ جائے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.بے شک سب احباب جماعت جو باہر ہیں شہر میں آجائیں.اگر لوگ ٹھٹھا کریں تو کہہ دیں.آج تم ٹھٹھا کرتے ہو.اور وہ وقت آنے والا ہے جو ہم ٹھٹھا کریں گے.ہر ایک کے لئے خدا تعالیٰ نے وقت مقرر کیا ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۱۸- مئی ۱۹۰۵ء بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.چونکہ محی اخویم سید فضل شاه صاحب و سید ناصر شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ نے مجھے آفت زلزلہ کے وقت اور روز سے مجھ کو اطلاع نہیں السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میری دانست دی.بلکہ یہ بھی اطلاع نہیں دی کی وہ آفت جس کا نام زلزلہ رکھا گیا ہے.میں نوکری چھوڑنے کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ مقلب کیا وہ حقیقت میں زلزلہ یا کوئی اور آفت شدیدہ ہے جو زلزلہ کے رنگ میں ہے.اس القلوب ہے اور دلوں پر تصرف رکھتا ہے.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انگریز کے دل کو آپ کی طرف پھیر دے.یا کسی اور مہربان حاکم کے ماتحت کر دے.میں بھی انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا.جلد جلد مجھے کو خبر دیتے رہیں

Page 108

203 برکاتہ.آپ کے تفرقہ خاطر سے طبیعت نہایت مغموم متفکر ہوئی.لیکن 202 زیادہ خیریت.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۸- نومبر ۱۹۰۰ء بقول شخصے مشکلے نیست کو آساں نشود مرد باید که ہر اساں نشود بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب و سید ناصر شاہ صاحب سلمہ اللہ خدا تعالیٰ کے عجائب قدرت اور کاموں کی طرف نظر کر کے کچھ غم باقی نہیں تعالی.رہتا.دیر آید درست آید - انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے اور آپ کے برادر ناصر شاہ صاحب کے لئے توجہ سے دعا کروں گا.آپ تسلی رکھیں.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ جہاں تک میرے لئے ممکن ہو گا.آپ کے اور رسالہ ازالہ اوہام شاید میں روز تک چھپ کر آئے.اسی وقت بھیج امر مرقومہ کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالیٰ کامیاب فرمائے.آمین.اگر دوں گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام.غلام احمد لدھیانہ اقبال گنج اس کی مصلحت ہو تو کیا بعید ہے.امید ہے حالات خیریت سے مطلع فرماتے رہیں گے.آپ کے چند خطوط پہلے بھی پہنچے تھے.بعض کا جواب لکھنے سے میں قاصر ریا.اہم مقصود دعا ہوتی ہے.سو میں اپنے مخلص دوستوں کے بسم الله الرحمن الرحیم.محی عزیزی فضل شاہ صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اگر چہ عزیز لئے کسی حالت میں دعا سے غافل نہیں نماز میں بھی دعا کرتا ہوں.آپ کے حید رشاہ کی وفات آپ کے لئے بڑے صدمے کا باعث ہوئی.لیکن اس صبر لئے اور عزیزی ناصر شاہ کے لئے کئی دفعہ خاص طور پر دعا کی گئی اور پوشیدہ جمیل کا ثواب خدا تعالیٰ آپ کو بہت دے گا.صبر کرنا بھی ہر ایک کا کام طور پر بہت سی تاثیرات دعاؤں کی ہیں کہ ہمیشہ بلا ئیں رد ہوتی رہتی ہیں.نہیں.ایمانداروں کا کام ہے کہ جو خد اتعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں.زیادہ خیریت.والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد ۳۰ ستمبر ۱۹۰۰ء از آپ کے الفاظ سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی در حقیقت اس سے بڑھ کر کامل ایماندار اور کیا لکھ سکتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اس کا بہت اجر دے.اور نعم البدل عطا کرے اور آپ کی عمر دراز کرے.آمین.آپ کو معلوم ہے کہ پہلے زمانہ میں سادات پر کیا کیا تکالیف اور مصائب آئے ہیں.اور محی عزیزی فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و کسی قوت ایمانی سے وہ صبر کرتے رہے ہیں.پس اسی صبر کی آپ کے خط قادیان.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.!

Page 109

205 204 میں خوشبو آتی ہے.اللہ تعالیٰ بے رحم نہیں وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے.حالت ہے.ایک وقت آنے والا ہے کہ ہمارا وجود اور ہماری یہ مجالس یعنی دوسرے لوگوں سے ان کا اندازہ ایمان ظاہر کرتا ہے.سو آپ کی قوت خواب و خیال کی طرح ہو جائیں گی.اور لازم ہے کہ بد صحبت سے پر ہیز ایمانی آپ کے اس خط سے ظاہر ہے.ایمان جیسی کوئی چیز نہیں.ایمان گم کریں.دل کو گناہ کے منصوبوں سے پاک رکھیں.کہ بد قسمت ہے وہ شدہ چیز کو بہتر صورت میں واپس لاتا ہے.امید ہے کہ یہ مصیبت دوسری انسان اور بد بخت ہے وہ آدمی جس کا دل ہمیشہ گناہ کے منصوبے سوچتا ہے.تکالیف سے رہائی پانے کا موجب ہو گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن مَعَ آپ کو دنیا کے شغل میں کئی ابتلا پیش آئیں گے.ہر ایک ابتلا میں خدا پر الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا خدا تعالیٰ آپ پر فضل کرے.بھروسہ کریں نہ کوئی عمدہ حالت کسی تکیہ کا موجب ہو.اور نہ کوئی تنگی کی اور تمام مشکلات سے رہائی بخشے.آمین.والسلام غلام احمد عفی عنہ.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم.محی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب حالت بے صبر کر سکے.باتیں بہت ہیں.مگر بالفعل اس پر کفایت کرتا ہوں کہ خدا کا خوف اور اس کی مخلوق کی ہمدردی اور اپنی بیوی اور اہل سے رحمت اور در گذر اور اولاد کو دین کی رغبت دلانا اور بھائی کے ساتھ علم اور خلق کے ساتھ معاشرت کرنا.اور عام لوگوں کے ساتھ حتی المقدور بھلائی اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.افسوس کہ میں اس وقت بباعث درد ترک شر سے پیش آنا.اور اپنے خدا اور اس کے رسول کو سب پر مقدم سر جو بوجہ گرمی ہو گئی ہے.حاضر نہیں ہو سکا.آپ نے جو چند کلمات رکھنا.اور چالیس دن میں سے ایک مرتبہ خدا تعالیٰ کے خوف سے رونا بھی نصیحت کے لئے لکھے تھے.اس قدر کافی ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے رب کریم طریق سعادت ہے.خدا تعالیٰ توفیق بخشے.مجھے اس وقت درد سر ہے طاقت قادر و قیوم کے احکام کو یاد رکھیں اور کہ نماز پنجگانہ دلی خلوص سے ادا حاضری مسجد نہیں.اسی جگہ دونوں نمازیں پڑھوں گا.اس لئے دعا کریں.اور ہمیشہ نماز میں بعض دعا ئیں اپنی پنجابی زبان میں کر لیا کریں.نیز مطلوبہ.ایک کرتہ اور یہ نصیحت نامہ ارسال ہے.والسلام نماز میں اپنی زبان میں بہت دعا کیا کریں.جہاں تک ممکن ہو نماز تہجد کا بھی التزام رکھیں اور اس میں بھی اپنی زبان پنجابی میں دعا کیا کریں موت کو یاد رکھیں کہ یہ موت جب آتی ہے تو باز کی طرح ایک پوشیدہ جست سے اپنا شکار بنالتی ہے.جہاں تک ممکن ہو ہمیشہ کوشش کریں کہ جلد جلد اس جگہ آیا کریں کہ جس طرح ہر ایک چیز فانی ہے.اسی طرح ہمارے وجود کی یہی خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۴.جولائی ۱۹۰۰ء

Page 110

207 206 میری مختصر سوانح حیات حسب درخواست امین اللہ خان صاحب سالک حال مبلغ امریکہ ولد عبدالمجید خان صاحب ویرووال مندرجہ تحت حالات لکھاتا ہوں.جہاں تک حافظہ مدد دیتا ہے.اس کی خدمت میں قادیان آتے جاتے تھے.چنانچہ ان کی درخواست پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبالہ چھاؤنی سے ہوتے ہوئے براستہ راجپورہ اور پٹیالہ سنور تشریف لے گئے تھے اور پٹیالہ سٹیشن سے اتر کر خلیفہ محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی بگھی میں سوار ہو کر سنور پہنچے.میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ حضرت صاحب کی تشریف آوری کی چونکہ پہلے سے اطلاع تھی.اس لئے محلہ کے بہت سے لوگ قصبہ کے باہر کے مطابق حالات بیان کرتا ہوں لکھنے والے پڑھنے والوں کو اللہ تعالی ان برکات کا وارث کرے جو بوجہ بیعت حضرت مسیح موعود حاصل ہوئی ہیں.جمع تھے.جب حضور کی بگھی کی وہاں پہنچی.اور وہاں حضور نے ایک مجمع اور اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں سے محفوظ رکھے جو بوجہ بشریت انسان سے دیکھا.آپ نے بگھی کی کھڑکی کھول دی اور اندر بیٹھے ہوئے ہی یہ فرمایا کہ میاں عبد اللہ صاحب کے مکان میں اس قد ر ا حباب کو جانے کی دقت ہوگی.سرزد ہوتی ہیں.آمین ثم آمین (خاکسار قدرت اللہ سنوری بقلم خود بمقام ربوه محله دار نصر) اس لئے احباب نہیں مصافحہ کر لیں.مکرم عبد اللہ سنوری صاحب صاحب فرماتے تھے کہ اس وقت تمہاری عمر قریباً دو سال کی تھی.اور میری گود میں میری پیدائش قصبه سنور ریاست پٹیالہ مغربی پنجاب ۱۳۰۰ھ مطابق قریباً ۱۸۸۲ء میں ہوئی.میری پیدائش پر میرے والد صاحب اپنی جائے اٹھائے ہوئے تھے.چونکہ میں کھڑکی کے بالکل آگے کھڑا تھا.جب حضور ملازمت پر تھے.تاریخ پیدائش پر میرے دادا صاحب مرحوم نے حافظ شیر نے مصافحہ کے واسطے ہاتھ بڑہایا تو تم نے گود میں سے یہ سمجھا کہ مجھے لینے کے محمد صاحب (جو بعد میں بیعت کر کے صحابہ میں شریک ہوئے) کو گھر پر بلا کر لئے ہاتھ پھیلائے ہیں اور حضور کی طرف جھکے.حضور نے پہلے تم سے اذان دلوائی.حافظ صاحب نے میرا نام قدرت اللہ تجویز کیا.جب والد مصافحہ کیا اور سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا آؤ میاں پہلے تم سے مصافحہ کر لیں.پھر صاحب کی خدمت میں خط کے ذریعہ اطلاع پہنچی (وہ عالم اور شاعر تھے) مجھ سے مصافحہ کرنے کے بعد سب سے مصافحہ فرمایا.اس کے بعد حضور انہوں نے میرا تاریخی نام غلام مصطفیٰ (ان میں سے ۱۳۰۰ھ نکلتا ہے) رکھا.مکان میں تشریف لے گئے.کھانا کھانے کے بعد حضور پیڑھی پر تشریف فرما تھے.مکرم عبد اللہ صاحب کے صاحبزادے رحمت اللہ صاحب کو حضور کی مگر حافظ صاحب نے جو نام رکھا تھا.وہی مشہور ہو گیا.چونکہ مولوی عبد اللہ سنوری مرحوم میرے چچا تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ ا السلام گود میں دیا گیا.جس کو گود میں لے کر پیار فرمایا.اس کے بعد مجھے آپ کی گود میں دیا گیا.حضرت صاحب دعوت کے بعد پٹیالے تشریف لے گئے.

Page 111

209 208 (۱۸۸۹ء میں) نے کہا کہ میں پیر صاحب سے ارادت رکھتا ہوں اگر ان کو کوئی گالیاں دے تو ۱۸۸۹ء میں جب حضور نے بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو ہمارے قصبے سنور مجھے کتنا برا لگے گا.مگر وہ باز نہ آئے اور پھر گالیاں دینی شروع کیں.میں سے نو آدمیوں نے اسی سال بیعت کی.نے پھر منع کیا انہوں نے تیسری بار پھر گالیاں دینا شروع کیں اس پر مجھے غصہ چونکہ ۱۸۸۴ء سے حضور کا ذکر ہمارے گھروں میں رہتا تھا اور ۱۸۸۹ء آیا اور میں نے دونوں کو مارنا شروع کیا.وہ مجھے مارنے لگے.شور پڑ گیا.پیر میں کئی آدمی بیعت میں شامل ہو گئے تھے.میں اس بچپن کے زمانے میں یہ صاحب نے اندر سے تشریف لائے اور پوچھا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا.یہ سمجھ کے کہ بیعت تو کرنی چاہئے.خواہ کسی کی کرلی جائے جو یہاں قریب ہو.حضرت مرزا صاحب کو گالیاں نکالتے ہیں گورہ میرے کوئی پیر نہیں ہیں لیکن اتنی دور قادیان کون جائے.اور چونکہ والد صاحب نے اس وقت بیعت کسی بزرگ کو پس پشت گالیاں نکالنا برا ہے اس لئے ان کو منع کیا.انہوں نہیں کی تھی.اس واسطے میں ایک سید پیرزادہ صاحب سے ارادت رکھتے نے ناراض ہو کر مجھے فرمایا کہ یہ سید زادے ہیں آپ نے ان کو کیوں مارا.ہوئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا.ان سے جب بیعت کی میں نے جوابا کہا کہ یہ سید زادے نہیں.یہ چہار زادے ہیں جو خواہ مخواہ درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب بالغ ہو جاؤ گے تو پھر بیعت کر لینا.وہ کسی کو گالیاں دیتے ہیں.یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا آیا.اور گھر پر آکر میں قوالی وغیرہ کی مجالس میں ساتھ لے جایا کرتے تھے.نماز وہ ضرور پڑھتے نے تصرف الہی کے ماتحت ہی ایک پوسٹ کارڈ لے کر بیعت کا خط حضرت تھے.لیکن اکثر وقت چو سر شطرنج اور تاش ہمارے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کر دیا.مولوی محمد یوسف صاحب رہتے تھے.۱۸۹۸ء میں میں صبح کے وقت ان کی بیٹھک میں گیا.وہاں ان کو جن کا ذکر " ازالہ اوہام " میں ہے.ان کو جب میری بیعت کا علم ہوا.تو کے دو برادر زادے علی حسین اور علاؤ الدین بیٹھے تھے.پیر صاحب اندر انہوں نے میری تربیت شروع کر دی.اور صبح تہجد کے وقت مکان پر سے تھے.ان کا نام عبد الحق تھا اور جھنڈو سے معروف تھے.ہم تینوں تاش کھیلنے اٹھا کر لے جاتے تھے.اور مسجد میں اپنے ساتھ تہجد پڑھاتے تھے اور انہوں لگ گئے.تاش کھیلتے وقت ان دونوں نے حضرت مسیح موعود کا ذکر شروع نے مجھے سلسلے کے لٹریچر سے واقفیت پیدا کرائی.میں اپنی بیعت کو ان دونوں کیا.اور دریدہ دہنی اور گندہ زبانی سے آپ کو گالیاں دینے لگے.میں نے واقعات کی بناء پر جو حضور نے مجھے گود میں لیا تھا اور مصافحہ کیا تھا.سمجھتا ان سے کہا کہ ہمارے خاندان کے کئی بزرگوں نے ان کی بیعت کی ہوئی ہوں کہ وہی میری بیعت کا موجب ہو گئے.قریباً ایک سال کے اندر کا ہی ہے.وہ نیک اور بزرگ ہیں.اور آپ سید زادے ہیں.اس لئے فحش واقعہ ہے کہ میں بٹھنڈے میں نقشہ نویسی کا کام سیکھتا تھا.وہاں ہمارے سنور کلامی سے احتراز کریں.پس پشت گالیاں دینا شرافت سے بعید ہے.میں کا ایک شخص مجھے مکان پر ملا.اس کو میں نے تبلیغ کی.دوران گفتگو میں اس

Page 112

211 - 210 نے مجھے کہا کہ "دیکھا نہ بھالا صدقے گئی خالہ " آپ نے مرزا صاحب کو دیکھا تو ہے نہیں ؟ کیا یو نہی بیعت کرلی ہے ؟ میں نے میں چاہتی ہوں کہ جو اس کا حشر ہو وہی میرا حشر ہو اس لئے مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں بیعت کرلوں.والد صاحب نے کہا کہ اچھا! تمہاری مرضی.تم نے بیعت کرنی ہے تو کر لو.مجھے کوئی اعتراض نہیں.اس پر میں نے ان کی اس کو تو جواب دیدیا.مگر میرے دل میں یہ بات چبھ گئی.اور میں بٹھنڈے طرف سے حضور کی خدمت میں بیعت کا خط لکھدیا.سے ہی سوار ہو کر براستہ امرتسر قادیان پہنچا.ظہر کے وقت جب مسجد مبارک گیا.تو نماز کے بعد حضرت مسیح موعود تشریف فرما ر ہے.اس وقت دادا صاحب کی بیعت میں نے دادا صاحب کو تبلیغ کرنی شروع میرے خیال میں یہ بات آئی کہ آپ کا انکار کفر ہے.کئی دن قیام کے بعد کی.ان کی عمر قریباً سو سال تھی.مگران واپس گیا.(یہ واقعہ ۱۸۹۸ء کے آخر کا ہے).اس وقت مسجد مبارک کے قومی بالکل صحیح سالم تھے.انہوں نے فرمایا کہ میں لکھا پڑھا نہیں ہوں.صرف چھتے پر تین کمروں کی شکل میں تھی.اور مسجد میں دس سے لے کر پچیس آدمیوں تک کی حاضری ہوتی تھی.صرف قرآن شریف پڑھ سکتا ہوں.تمہارا اوالد مولوی ہے اس نے بیعت نہیں کی؟ میں نے کہا وہ بھی تحقیق کر رہے ہیں.آپ اس عمر کو پہنچے ہوئے میں نے جب مولوی عبد اللہ صاحب سے اس بات کا ذکر کیا کہ آپ کا انکار ہیں نبی کریم نے فرمایا ہے کہ جب مسیح آئے تو اسے سلام کہنا.اگر چہ کفر ہے تو آپ نے کہا کہ اس طرح نہ کہو.چنانچہ ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود نے خود اس کی تصریح کر دی کہ جو لوگ آپ پر کفر فتوی لگاتے ہیں ، وہ کافر ہیں.اور جو ان کی تائید میں ہیں.وہ بھی کافر ہیں.گھٹنوں کے بل جانا پڑے.تو اس لئے آپ بیعت کر لیں.انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو اپنے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ جو ایک پیر کی بیعت کر کے توڑتا ہے تو وہ گویا خدا کی بیعت سے پھرتا ہے.اگر مسیح علیہ السلام میری زندگی میں نازل ہو جائیں تو پھر مجھے بیعت تو فسح کرنی پڑے گی.میں نے کہا والدہ صاحبہ کی بیعت بیعت کے بعد مجھے تبلیغ کی طرف زیادہ که آسمان سے نہ تو آج تک کوئی آیا ہے اور نہ آئے گا.اور اس کے میں توجہ تھی.گھر میں والدہ صاحبہ کو تبلیغ کی اور انہوں نے والد صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ اجازت دے دیں گے.کہ میں بیعت کرلوں.والد صاحب نے کہا کہ میں تو اسی بات کا معتقد ہوں کہ مسیح آسمان سے آئے گا.والدہ صاحبہ نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے نے ثبوت پیش کئے.اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں مشروط بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.بیعت کا خط لکھدو.لیکن میری طرف سے یہ شرط پیش کرنا کہ اگر مسیح علیہ السلام آسمان سے آجا ئیں تو میں بیعت توڑ کے ان کی بیعت میں شامل ہو جاؤں گا.چنانچہ میں نے مشروط بیعت کا خط حضور کی خدمت

Page 113

213 212 میں لکھ دیا.جس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا ان کی مشروط بیعت منظور ہے.نیز تحریر فرمایا کہ اگر مسیح علیہ السلام آجا ئیں تو سب سے پہلے میں بیعت کر لوں لیکن یہ عقیدہ ہی غلط ہے.نہ کوئی آسمان پر گیا ہے اور نہ آسمان سے کوئی آئے گا.اور مجھے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا کر مبعوث کیا ہے.والد صاحب کی بیعت میں والد صاحب کے لئے دعائیں کرتاتھا لگے.ابھی شرح صدر نہیں.اگر چہ طبیعت میں تذبذب تو پیدا ہو گیا ہے.کچھ عرصے کے بعد انہوں نے بیعت کا خط لکھ دیا.والد صاحب کی وفات ۱۹۲۷ء میں ہوئی.چونکہ آپ بھی موصی تھے اور آپ کی وفات قصبہ سنور میں ہوئی.وہاں سے بذریعہ لاری آپ کی نعش قادیان پہنچائی گئی.جہاں اپ اس قطعہ صحابہ میں جو کنوئیں کی طرف ہے ، دفن ہوئے.والد صاحب کی بیماری طاعون ۱۹۰۳ء میں میں قصبہ بھی اور حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا کرتا تھا.والد صاحب چونکہ تہجد گزار تھے اور ذکر الہی کرتے رہتے تھے.انہوں نے ایک دن مجھے بتلایا کہ میں نے رات ایک عجیب خواب دیکھی ہے کہ میں بیت اللہ شریف میں ہوں اور وہاں نماز ادا کی ہے.ابھی سلام نہیں پھیرا تھا.دونوں ہاتھ التحیات کے وقت گھٹنوں پر رکھے ہوئے تھے کہ سلام پھیرنے کے ساتھ ہی کسی نے آکر میرے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر دیں.اور کہا کہ جب تک حب آل رسول نہ ہو گی.اس وقت نماز روزہ کچھ نہ قبول ہو گا تو والد صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو آل رسول کی اتنی محبت ہے کہ میں مشیہ تہجد میں پنجتن پاک کے کے لئے نام بنام دعا ئیں کرتا ہوں.میں نے عرض کیا کہ میں اس کی تعبیر عرض کروں.تو فرمانے لگے تم اغرقنا ال فرعون یہ دلیل پیش کرو گے.کہ وہ فرعوں کے متبع تھے اور اس کی واقعی تھے.اسی طرح جب آل رسول جو مجھے بتایا گیا ہے.تم اس میں حضرت مرزا صاحب کو بھی شامل قرار دو گے.میں نے عرض کیا ہاں ! کہنے آل نم ریاست پٹیالہ میں بندوبست کے محکمے میں ملازم تھا اور دفتر بسی میں تھا.مجھے وہاں خط ملا.کہ آپ کے والد صاحب طاعون سے بیمار ہیں.نازک حالت ہے فوراً پہنچ جاؤ.چنانچہ میں اسی وقت دفتر سے رخصت حاصل کر کے ٹانگے کے اڈے پر آیا.ٹانگے والوں نے بتایا کہ گاڑی کا وقت ہونے کو ہے اور فاصلہ چھ میل کا ہے اس لئے گاڑی نہیں مل سکتی.میں نے ٹانگے والے کو کہا کہ میں کرایہ پورا دے دیتا ہوں تم فور آچلو مجھے لے چلو.چنانچہ ٹانگہ بہت تیز چلایا گیا اور جب ہم سرہند کے اسٹیشن سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھے تو گاڑی اسٹیشن پر آ گئی.اسٹیشن لائن سے پرلی طرف تھا اور پھاٹک سے ایک فرلانگ کا فاصلہ تھا.ٹانگہ بہت تیز چلایا.مگر گاڑی اسٹیشن چھوڑ کے چل پڑی اور میں ٹانگے سے اتر کر تیزی سے دوڑ کر چلتی ٹرین پر سوار ہو گیا.گارڈ نے مجھے سوار ہوتے دیکھ لیا.وہ اگلا اسٹیشن آنے سے پہلے ہی چلتی گاڑی میں میرے ڈبے میں آگیا اور مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کو پولیس کے حوالہ کروں گا.آپ چلتی 1

Page 114

215 214 گاڑی میں کیوں سوار ہوئے ہیں.اگر آپ کا ہاتھ نہ پڑتا تو آپ کٹ جاتے.میں نے گارڈ کو خط دکھایا کہ میرے والد صاحب بہت بیمار ہیں اور ان کی حالت نازک ہے خط کو دیکھ کر جب اسٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی تو اس نے اسٹیشن ماسٹر سے مجھے ٹکٹ لا کر دے دیا.جس کے پیسے میں نے اس کو ادا کر دئیے.اس نے کہا کہ آئندہ ایسا کبھی نہ کرنا.میں پٹیالہ سے سنور پہنچا.اور والد صاحب کا علاج شروع کیا ان کی گردن میں طاعون کی گلٹنی نکلی ہوئی تھی اور درم کان کی لو سے لے کر مونڈھے تک تھا.چار پانچ دن علاج کو گزر گئے تھے کہ مغرب کے بعد میں والد صاحب کی چارپائی کے پاس گیا اور انہیں بلایا.طاعون کی وجہ سے غنودگی طاری رہتی تھی.اس لئے وہ بہت کم اور آہستہ بولتے تھے.اس وقت میرے دو تین آوازیں دینے پر انہوں نے کچھ بھی جواب نہ دیا.مجھے اس وقت خیال ہوا.کہ یہ ان کا آخری وقت ہے.میں باہر دالان میں آیا اور میں نے اپنی پہلی بیوی کو جو میرے ماموں کی لڑکی تھی کو ڈھونڈا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے والد کے ہاں گئی ا ہوئی ہیں.چونکہ ماموں صاحب کا مکان قریب ہی تھا.میں ان کو بلانے کے لئے چلا کہ اگر والد صاحب کی وفات ہو جائے.لوگ کہیں گے کہ یہ گھر میں بھی موجود نہیں تھی.میں ڈیوڑھی میں گیا تھا کہ مجھے غش آیا اور میں زمین پر گر پڑا.میرے گرنے کی آواز سے اندر سے میری والدہ اور ہمشیرہ وہاں آئیں اور مجھے بیہوش پا کر جلدی پانی لا کر منہ میں پانی ڈالا.مجھے ہوش آئی.والدہ صاحبہ نے پوچھا کیا بات ہے؟ یہاں کیوں آئے تھے ؟ میں نے کہا والد صاحب کی حالت بہت خراب ہے اور وہ گھر میں نہیں ہیں.ان کو بلانے جا رہا تھا.مجھے میری والدہ اندر لے گئیں اور چار پائی پر بٹھا کر کہا کہ ہم اسے خود بلا لیں گے گھبرانا نہیں چاہئے.اور اندر کی کوٹھڑی میں جہاں والد صاحب لیٹے ہوئے تھے ، جا کر والد صاحب سے کہا کہ آپ قدرت اللہ کے بلانے پر بولے نہیں.اس کو اس قدر صدمہ ہو گیا کہ غش کھا کر گر پڑا.اس پر والد صاحب نے انہیں کہا کہ اسے میرے پاس بلاؤ.والدہ صاحبہ نے مجھے اندر بلایا.اور والد صاحب نے اشارے سے مجھے کہا کہ قریب ہو جاؤ.فرمایا کہ میں یہاں سے ہیں پچیس میل دور تلونڈی سکول میں تھا.وہاں روزانہ کئی کئی آدمی طاعون سے مر رہے تھے.جب میرے طاعون نکلی تو بیہوشی تک پہنچ گئی تو میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایسا سامان ہو جائے کہ میں سنور میں جاکر مروں.اس پر مجھے فرشتے نے یہ بات بتلائی کہ تم ابھی فوت نہیں ہوتے.جب قدرت اللہ کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے ہوں گے تب تمہاری وفات ہوگی.فرمایا گھبرانا نہیں چاہئے اللہ تعالیٰ صحت عطا فرما دے گا.چنانچہ آپ صحتیاب ہو گئے.اس کے بعد میری پہلی بیوی فوت ہو گئی.پھر میری دوسری شادی ہوئی اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا وہ فوت ہو گیا.پھر چار لڑکیاں پیدا ہو ئیں.ان کے بعد میرا بڑا لڑکا محمود احمد پیدا ہوا.اس کے بعد پھر ایک لڑکی پیدا ہوئی اس کے بعد مسعود احمد پیدا ہوا اور اس کے بعد داؤ د احمد.داؤد احمد کی پیدائش کے بعد فرمانے لگے کہ یہ وہی دونوں لڑکے ہیں.اب میری وفات کا وقت قریب آگیا ہے.چنانچہ ۱۹۲۷ء میں اس کے بعد آپ نے وفات پائی.|

Page 115

217 216 سمجھا دیں وہ اس خیال سے کہ اگر والد صاحب یہاں فوت ہو جا ئیں تو نعش والد صاحب کا خواب والد صاحب نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ لے جانی پڑے گی جب میں کبھی بیمار ہو تا ہوں تو وہ مجھے قادیان لے جاتا میرے پاس فرشتہ شکل انسانی میں آیا اور مجھے کہا کہ اللہ کے حضور پیش ہونے کے لئے چلیں.میں اپنے اعمال کی نسبت خیال کر کے ندامت محسوس کرتے ہوئے یہ چاہتا تھا کہ نہ جاؤں.مگر اس کی آواز میں ایسی کشش تھی کہ میں اس کے ساتھ ساتھ جانے سے رک نہ سکا.اور مکان کے اندر داخل ہو گیا.جو عدالت کا کمرہ معلوم ہو تا تھا.ہے.اس کو کہدیں کہ وہ آئندہ ایسا نہ کرے.جب ایسا موقع ہو گا اس کو خبر بھی نہ ہوگی کہ میں انشاء اللہ قادیان پہنچ جاؤں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کی وفات سے دو دن پہلے میں کسولی پہاڑ پر گیا ہوا تھا.میرے بعد والد صاحب کی وفات ہو گئی.میری ہمشیرہ اور میرے بہنوئی نور محمد صاحب تار پر قادیان سے سنور آگئے.صندوق تیار کرا کر لاری میں رکھوا کر اس میں ایک ایک چبوترے پر میز کرسی بچھی ہوئی تھی.میری ہچکی بندھی قادیان لے گئے.جہاں آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ ہوئی تھی اور میں نظر نیچی کئے ہوئے تھا اور مجھے یہ خیال تھا کہ مجھ سے کوئی سوال ہو گا.کوئی آواز نہ آئی.تو میں نے ہلکے ہلکے نظر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کرسی پر حضرت مسیح موعود تشریف فرما ہیں.جب میں نے آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا اور آپ نے میری طرف دیکھا.تو کہا کہ ان کو لے جاؤ.انہوں نے میری بیعت کرلی تھی.ان سے کیا حساب لینا.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.بنصرہ العزیز نے پڑھائی اور آپ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے اور میں بعد میں سنور پہنچا.ایک دفعہ میں قادیان میں آیا ہوا تھا.ایک معمر آدمی دہلی سے بھی آئے ہوئے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی.بیعت کے بعد دعا ہوئی.اس کے بعد مجلس میں سے کسی دوست نے یہ عرض کیا کہ حضور ان نو مبائع صاحب نے دیر سے محنت جاری کر رکھی ہے کہ کوئی نئی مشین ایجاد کریں.حضور دعا فرمائیں کہ انہیں اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو.اور نور فراست کا مظاہرہ چونکہ والد صاحب کی وصیت کی ہوئی مشین ایجاد ہو جائے.حضور نے فرمایا کہ پہلے ان کی مشینری تو سنورنی اس لئے جب کبھی آپ پیار ہوتے.تو میں انہیں کوئی بہانہ بنا کر کے قادیان لے آتا.چونکہ وہاں ہمشیرہ صاحبہ رہتی تھیں.اس لئے وہ وہیں رہتے.اور میں واپس آجاتا.جب کئی دفعہ ایسا موقعہ پیش آیا تو آپ نے میری والدہ صاحبہ سے فرمایا قدرت اللہ کو چاہئے.جب یہ مشین درست ہو جائے تو اور ایجادیں بھی درست ہو سکتی ہیں.ایک دفعہ مسجد مبارک میں آپ کی خدمت میں یہ شکایت پیش ہوئی کہ میاں عبداللہ المعروف پروفیسر صاحب مخالفین سے بات کرتے وقت ان کے

Page 116

219 218 برابھلا کہنے کے جواب میں گالیاں دیتے ہیں.حضور خود ان کو منع فرما ئیں.آپ کے نواب صاحب رامپور کے پاس علماء گئے تھے.نواب صاحب نے عام طور پر حضور کی یہ عادت تھی کہ حضور کو اگر کسی دوست کی کمزوری کا کیا اثر لیا اور ان کا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ مباحثہ میں اور تو علم ہوتا تو مجلس میں بغیر کسی کا نام لئے اس برائی سے بچنے کے نصائح فرما بہت سی باتیں تسلیم کرتے تھے.لیکن نبی کے لفظ پر چڑتے تھے.فرمایا یہ عربی دیتے.مگر چونکہ عبداللہ صاحب پروفیسر صاحب کے متعلق کئی لوگوں نے زبان کی ناواقفیت کی وجہ ہے.نبی کا لفظ نباء سے مشتق ہے.اس کے معنے درخواست کی تھی.اس واسطے دوسرے موقعہ پر جب عبد اللہ صاحب نماز خبر کے ہیں.آپ ان سے کہیں کہ کیا مرزا صاحب نے بہت سی خبریں اور میں حاضر ہوئے تو حضور نے بعد نماز ان سے مخاطب ہو کے فرمایا کہ آپ کی پیشگوئیاں کی ہیں اور پوری ہوئی ہیں.وہ جب یہ مان لیں کہ کثرت سے نسبت ایسا معلوم ہوا ہے کہ آپ تبلیغ میں دوسرے کے برا بھلا کہنے کے پیشگوئیاں اور خبریں پوری ہو چکی ہیں تو پھر نبی ماننے میں کیا اعتراض ہے.میری پہلی بیوی فوت ہو گئی.مولوی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم مع مقابل میں خود بھی گالیاں دیتے ہیں.اہوں.پروفیسر صاحب نے عرض کیا کہ حضور چاہے مجھے کوئی مارے چاہے گالیاں اپنی اہلیہ صاحبہ کے قادیان شریف آئے ہوئے تھے.انہوں نے قادیان دے.لیکن میں کبھی اس کا جواب نہیں دیتا.لیکن جب کوئی مخالف حضور کو سے مجھے سرہند میں خط لکھا کہ میاں کریم بخش صاحب نمبردار ساکن رائے گالیاں دے.تو پھر میں برداشت نہیں کر سکتا.پھر میں بھی اس کو گالیاں دیتا پور ریاست نامہ مع اپنی اہلیہ اور لڑکے کے یہاں آئے ہوئے ہیں.تو اس پر چوہدری کریم بخش صاحب کہتے ہیں کہ آپ اگر اپنے بیٹے کے لئے رشتہ حضور نے فرمایا میری نصیحت یہی تو ہے کہ جب وہ مجھے گالیاں دیں تو آپ لینا چاہیں تو میں منظور کر لیتا ہوں.کیونکہ ان دنوں میں ان کے لڑکے رحمت صبر کریں.اس پر پروفیسر صاحب نے عرض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اللہ صاحب کی بیوی بھی فوت ہو چکی تھی اور اس کے لئے بھی رشتے کی ہمارے پیر کو گالیاں دے اور ہم صبر کریں.جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ اگر کوئی ضرورت تھی کہ مولوی صاحب نے کہا کہ پہلے میں اپنے بھتیجے کا رشتہ کروں حضور کے پیشوا محمد میں اللہ کو گالی دے یا برا بھلا کہے تو آپ برداشت نہیں گا اور بعد میں اپنے لڑکے کا.تو چوہدری کریم بخش صاحب نے کہا کہ میں کرتے اور اس کے ساتھ مباہلہ تک کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.تو میں اپنے آپ کے بھتیجے کو دیکھ کر اگر مناسب سمجھوں گا تو رشتہ کر دوں گا.اس لئے میں تمہیں اطلاع دیتا ہوں.کہ قادیان آجاؤ.اس خط پر میں رخصت لے کر قادیان حاضر ہوا.جب میں قادیان پہنچا تو مکرم عبد اللہ صاحب مرحوم نے فرمایا کہ تم نے آنے میں دیر کر دی اور کل چوہدری کریم بخش صاحب پیر کے لئے کیوں برداشت کروں.حضور مسکرائے اور خاموش رہے.ایک دن حضور میر کے لئے تشریف لے جارہے تھے.میں اور ذولفقار علی خانصاحب بھی ساتھ تھے.راستے میں حضور نے خانصاحب سے فرمایا کہ I

Page 117

221 220 واپس چلے گئے.مکرم عبد اللہ سنوری صاحب کی اہلیہ صاحبہ فرماتی تھیں.آپ کی ملاقات کے بغیر نہیں جاؤں گا.چاہے کتنی دیر ٹھر نا پڑے.تو مکرم که مکرم عبد اللہ سنوری صاحب ان سے رشتہ چاہتے ہیں میں تو نہیں پسند عبد اللہ سنوری صاحب نے بچی صاحبہ کو کہا کہ حضور کو کہو کہ قدرت اللہ نہیں جاتا اور کہتا ہے کہ حضور سے ملے بغیر میں نے نہیں جانا.تو چی صاحبہ کرتی.مکرم عبد اللہ سنوری صاحب نے کہا کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ کریم بخش کے ہاں ان کے رشتہ ہو گا اس پر مکرم عبد اللہ سنوری صاحب دوبارہ حضور کی خدمت میں گئیں اور حضور سے عرض کیا.حضور نے فرمایا نے فرمایا کہ سنور میں بھی کریم بخش صاحب ہیں ہیں.ان کے ہاں بھی لڑکی ہے.تو اس واسطے میں حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھ رہا ہوں کہ حضور ( مسیح موعود) سفارش فرما دیں.چنانچہ خط لکھا گیا اور چچی صاحبہ نے وہ خط حضور کو پیش کیا.اس پر حضور نے (سنور والے کریم بخش صاحب کے ہاں) سفارش فرما دی.اور ساتھ ہی حضور نے بچی صاحبہ سے فرمایا کہ قدرت اللہ کو کہدیں کہ میاں اکبر خانصاحب سنوری سنور گئے ہوئے ہیں یہ خط اکبر خان کو لے جا کر دیدیں.وہ کریم بخش صاحب کو خط دے دیں گے.چی صاحبہ خوشی خوشی سے وہ خط لے کر آئیں.اور آکر فرمایا کہ حضور نے سفارش فرما دی.مبارک ہو.خط لے جاؤ مکرم عبد اللہ سنوری صاحب نے فرمایا کہ جلدی واپس جا اور یہ خط جا کر دیدے.میں نے مکرم عبد اللہ سنوری صاحب سے کہا کہ میں کل سے آیا ہوں اور حضور باہر تشریف نہیں لائے.اس لئے ملاقات نہیں ہو سکی.اب میں آپ کی ملاقات کے بغیر واپس جانا نہیں چاہتا.مکرم عبد اللہ سنوری صاحب نے فرمایا کہ حضور کی طبیعت علیل ہے پتہ نہیں کب تک باہر نہ آسکیں تو فور اچلا جا.میں نے اصرار کیا کہ انسان کی زندگی کا اعتبار کیا ہے.شادی ہو نہ ہو.میں قدرت اللہ کو اندر کی سیڑھیوں سے آنے کو کہو.چنانچہ میں حاضر خدمت ہوا.حضور زینے کے سامنے ہی چھت پر ٹہل رہے تھے.حضور کے تہہ بند بندھا ہوا تھا.گلے میں کر نہ تھا.ریش مبارک پر مہندی لگی ہوئی تھی.اور پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور آپ ترکی ٹوپی پہنے ہوئے تھے.حضور نے مصافحہ کیا.میں نے نذرانہ پیش کیا.میں نے دعا کے واسطے عرض کیا.حضور نے تبسم فرماتے ہوئے کہا.ہاں ہاں دعا کریں گے اور فرمایا کہ میں نے آپ کے رشتے کے لئے بھی سفارش کر دی ہے اس کے بعد میں واپس سنور آ گیا.میری دوسری شادی ہونے کے بعد تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ وہ بیمار ہو گئیں.قصبہ بھی میں عبد الغفور خان حکیم جو حکیم اجمل خان دہلوی کے شاگرد تھے.ان کو گھر بلا کر میں نے دکھایا.تو انہوں نے فرمایا کہ دوائی تجویز کر دیتا ہوں.بخار سے تو انشاء اللہ آرام ہو جائے گا.مگر اس کے اعضائے رئیسہ اس قدر کمزور ہیں کہ اولاد ہرگز نہ ہو سکے گی.علاج سے ان کو بخار سے آرام ہو گیا.میں نے پھر اسسٹنٹ سرجن سردار نرائن سنگھ جو میرے کلاس فیلو تھے.انہیں بلا کر معائنہ کرایا انہوں نے بھی یہی کہا کہ اولاد نہ ہو سکے گی چونکہ ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد نے حضرت مسیح موعود کو اپنے خط میں لکھا I.:

Page 118

223 222 تھا کہ آپ دعا میں میرا مقابلہ کریں اور اس خط میں یہ بھی لکھدیا کہ قدرت اللہ کے لئے بیشک دعا کریں اس کے اولاد نہیں ہو گی.اب مجھے فکر پیدا ہوا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم نے میری نسبت بھی ایسا لکھ دیا ہے اور دوسرے ڈاکٹروں نے بھی یہی کہا ہے کہ اس کے ہاں اولاد نہ ہو گی.اس پر میرے خسر صاحب ہر سال مہینہ دو مہینہ قادیان آکر ٹھہرا کرتے تھے.میری شادی کے بعد جب انہوں نے قادیان آنا تھا.تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اجازت دو تو میں اپنی لڑکی کو بھی اپنے ساتھ قادیان لیتا جاؤں.جب میں نے اجازت دیدی تو وہ ساتھ قادیان لے گئے.میں نے ایک خط حضور کی خدمت میں عرض کر دیا اور اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ یہ خط حضور کی خدمت میں پیش کر دینا اور اس میں یہ عرض کیا کہ ڈاکٹر حکیم کہتے ہیں کہ اس کے ہاں اولاد نہ ہوگی.اور یہ دوائی استعمال نہیں کرتیں.حضور دعا بھی فرمائیں اور ان کو نصیحت بھی فرمائیں.ورنہ میں اور شادی کر لوں.چنانچہ میری اہلیہ نے وہ خط حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.حضور نے فرمایا.تمہارے میاں ڈاکٹر یا حکیم ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ وہ تو ڈاکٹر حکیم نہیں ہے دوسرے ڈاکٹر حکیم یہی کہتے ہیں.حضور نے دست مبارک سے اس کے پیٹ کو ٹولا اور فرمایا کوئی بیماری نہیں.دعا کریں گے.اس کے بعد فرمایا کہ ان کو خط لکھتا ہوں کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ تمہارے اس قدر اولاد ہو گی کہ تم سنبھال بھی نہ سکو گے.گھبرائیں نہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے مجھے سات لڑکیاں اور چھ لڑ کے عطا فرمائے ہیں.اور تین حمل ضائع ہو گئے.جن میں سے چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں اس وقت زندہ موجود ہیں.پینتیس نواسے نواسیاں ہیں اور اکیس پوتے پوتیاں ہیں اب بوجہ اس کے کہ ان کی رہائش مختلف شہروں کو ئٹہ کراچی لاہو ر سندھ اور پشاور وغیرہ میں ہیں.میں ان کی نگرانی نہیں کر سکتا.میرے خسر صاحب اس وعدے پر میری بیوی کو اپنے ساتھ قادیان لائے تھے کہ ایک ماہ کے بعد واپس پہنچا دیں گے.جب ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا تو میں نے خط لکھا کہ ان کو واپس پہنچا دیں.انہوں نے لکھا کہ چونکہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہوئی ہوئی ہے.اس واسطے مسیح موعود نے فرما دیا ہے کہ کچھ عرصہ اور ٹھہرے رہو.میں نے ان کو لکھا کہ ان کو یہاں پہنچا دیں.میرے خسر نے وہ خط حضور کی خدمت میں پیش کر دیا حضور نے فرمایا کہ ہاں وہ ٹھیک کہتے ہیں.آپ ان کی بیوی کو وہاں پہنچادیں.اس پر انہوں نے عرض کیا کہ کریم بخش باورچی پائل کے رہنے والے اور وہ میرے دوست ہیں.وہ وہاں جانے والے ہیں.ان کے ساتھ لڑکی کو روانہ کر دوں حضور نے فرمایا کہ جس سفر میں ایک رات آئے وہاں نا محرم کے ساتھ سفر ناجائز ہے اس پر میرے خسر نے اپنی بیوی سے کہا.آپ حضرت ام المومنین سے سفارش کرائیں کہ بجائے اس کے میں لڑکی کو وہاں چھوڑنے جاؤں حضور اگر ارشاد فرما ئیں تو وہ خود آکر لڑکی کو لے جائے.میری خوشدامن نے حضرت ام المومنین سے عرض کیا اور حضرت ام المومنین نے کہا کہ میاں کریم بخش بوڑھے آدمی ہیں.یہ لڑکی کو پہنچا کر پھر واپس آئیں.حضور اگر فرمائیں کہ وہ خود لڑکی کو آکر لے جائے تو اچھا ہو گا.حضور نے !

Page 119

225 224 فرمایا کہ اچھا انکو میری طرف سے خط لکھوا دیں کہ خود اپنی بیوی کو آکر لے جا.اس پر چوہدری صاحب نے مجھے خط لکھ دیا.اور میں قادیان شریف آیا.دو تین دن قیام کر کے میں واپس جانا چاہتا تھا.میں نے حضرت مسیح موعود سے اجازت چاہی.حضور نے فرمایا فنانشل کمشنر پنجاب معہ چند افسروں کے قادیان آرہے ہیں.ہم نے باہر کی جماعتوں سے چیدہ چیدہ دوستوں کو بلوایا ہے.آپ آئے ہوئے ہیں ٹھہر جائیں.چنانچہ میں ٹھہر گیا.جس دن فنانشل کمشنر صاحب نے وہاں آنا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب نے حضور سے مسجد میں آکر عرض کیا کہ ان کے استقبال کے لئے آگے جانا چاہئے.آپ نے فرمایا چار پانچ آدمی آپ ساتھ لے لیں اور اور ان کا استقبال کریں.میں استقبال کے لئے نہیں جاؤں گا.چنانچہ خواجہ صاحب اور جماعت کے چند اور احباب استقبال کے لئے گئے اور فنانشل کمشنر کو لا کر کیمپ میں ٹھہرا دیا.اس کے بعد خواجہ صاحب مسجد میں تشریف لائے اور حضور کی خدمت میں اطلاع عرض کی گئی.اس پر حضور مسجد میں تشریف لے آئے جو جو گفتگو فنانشل کمشنر سے ہوئی تھی خواجہ صاحب نے حضور کو سنائی.اور اس کے بعد یہ عرض کیا کہ فنانشل کمشنر صاحب کو مع دیگر افسران کے حضور کی طرف سے دعوت دی گئی ہے جو انہوں نے منظور کرلی ہے.اس پر حضور نے دریافت فرمایا.ان کی دعوت کا کیا انتظام ہو گا.خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ افسران کے عہدے کے لحاظ سے راشن پیش کیا جاتا ہے.اور تحصیلدار صاحب کے واسطے اس قدر راشن اور افسر مال i کے لئے اس قدر اور ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اور فنانشل کمشنر کے لئے اس قدر.اور اس کی تفصیل بتاتے وقت ہر افسر کے راشن کے بعد وغیرہ وغیرہ کا لفظ فرما دیتے تھے.حضور نے دریافت فرمایا کہ راشن تو آپ بیان کرتے جاتے ہیں.لیکن یہ وغیرہ وغیرہ کیا؟ خواجہ صاحب نے کہا کہ حضور گورنمنٹ کا قاعدہ ہے وہ سب کچھ ہے.(در اصل وہسکی وغیرہ وغیرہ سے مراد تھی جس کو خواجہ صاحب ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے) حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا ہوا ہے.يَنْقَطِعُ أَبَائِكَ وَيُبْدَأُ مِنْكَ - تو فرمایا کہ اب یہ سلسلہ چونکہ مجھ سے شروع ہوتا ہے.اور یہ فقیر کا لنگر ہے.اس سے تو پکا پکا یا کھانا ملے گا.آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر وہ پکا پکایا کھانا کھانا چاہتے ہیں تو کھالیں وگرنہ ہمیں ضرورت نہیں.خواجہ صاحب نے عرض کیا.کہ حضور اب تو دعوت ہو چکی ہے.اب وہ خواہ مخواہ ناراض ہونگے.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان کو حکومت عطا فرمائی ہے اس واسطے میں عزت کرتا ہوں.اگر وہ ناراض ہوں تو مجھے ان حشرات الارض کی کچھ پرواہ نہیں.خواجہ صاحب خاموش ہو گئے.حضور نے مجلس میں سے ایک شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ وہاں جائیں اور فنانشل کمشنر صاحب کو میری طرف سے کہدیں کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ہم راشن وغیرہ نہیں بھیجیں گے.ہم کھانا پکوا کے بھجوائیں گے.اگر آپ چاہیں تو بھجوائیں وگر نہ رہنے دیں گے.چنانچہ وہ دوست اس وقت چلے گئے.اور واپس آکر عرض کیا کہ فنانشل کمشنر کہتے ہیں کہ جو کھانا آپ بھجوائیں گے.1

Page 120

227 226 ہم وہی کھائیں گے.پھر حضور نے فرمایا ایک دیگ زردے کی اور ایک دیگ پلاؤ کی پکوا کر وہاں بھجوا دی جائے.حضور یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد کوئی دوست حضرت صاحب سے ملنے کے لئے آیا.اس نے زینے میں کھڑے ہو کر دستک دی.خادمہ نے اطلاع دی اور حضور تشریف لے آئے.وہ دوست زینے میں کھڑے اور حضور اندر صحن میں کھڑے باتیں کر رہے تھے.اتنے میں نیچے سے میر ناصر نواب صاحب تشریف لے آئے.جب وہ اوپر کی سیڑھی پر پہنچے تو حضرت صاحب نے دریافت کیا کہ میر صاحب فنانشل کمشنر صاحب کے کھانے کا انتظام ہو گیا.میر صاحب نے فرمایا کہ وہ (منتظم) ادھر ادھر پھر رہے ہیں.ابھی تو کچھ نہیں ہوا.حضور نے مکر رسہ کرر فرمایا کہ وہاں صرف ایک دیگ زردے کی اور ایک دیگ پلاؤ کی جانی تھی.اب تک چلی جانی چاہئے تھی.میر صاحب یہی کہتے رہے کہ منتظمین نے ابھی کچھ انتظام نہیں کیا.اس پر حضرت مسیح موعود کے چہرے پر سرخی نمودار ہوئی اور آپ نے آنکھیں ذرا اوپر اٹھاتے ہوئے زور سے کہا کہ میں حکم دیتا ہوں اور آپ کو حکم دیتا ہوں.ابھی لنگر میں جاکر ایک دیگ زردے کی اور ایک دیگ پلاؤ کی وہاں بھجوا دیں.میر صاحب نے یہ سن کر عرض کیا.حضور بہت اچھا.اور فورا لنگر خانے چلے گئے.اور کھانا تیار کر کے بھجوا دیا.۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں میں مال (بندوبست) کے محکمے میں ملازم ہوا.ریاست پٹیالے میں قانونی بندو بست پہلے ہی تھا اس واسطے زمیندار لوگ مربع بندی کے وقت ہی یہ سمجھ کر کہ ہم اپنا رقبہ زیادہ لکھالیں ، افسران بندو بست کو رشوت دیتے تھے.میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اس وقت رشوت کا بہت زور ہے.لوگ بہت روپیہ دیتے ہیں.حضور اگر اجازت فرمائیں تو میں ملازمت ترک کردوں.اس خوف سے کہ میں بھی کہیں اس مارکیٹ میں مبتلا نہ ہو جاؤں.تو حضور نے جوابا مجھے لکھوایا کہ ترک ملازمت معصیت ہے.دوسری جگہ کوشش کرتے رہیں.کسی دوسری جگہ ملازمت ملنے پر ملازمت ترک کی جا سکتی ہے.لیکن یہ خیال رہے کہ کوئی نابینا قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکتا کہ یا الہی میں نے تمام عمر بد نظری کبھی نہیں کی.کوئی محنت قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے بد فعلی نہیں کی.کوئی بہرہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کسی کی غیبت نہیں سنی.انسان کا تقویٰ یہی ہے کہ وہ باوجود ہر قسم کے کوائف صحیح ہونے کے خرائب سے اجتناب کرے.جب ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ مباہلہ حضور نے شائع کیا.گو اس نے اس کا انکار کر دیا.لیکن مجھے اس کا علم نہیں تھا.میں نے ایک نظم لکھ کر حضور کی خدمت میں بھیجی جس کے جواب میں حضور نے یہ تحریر فرمایا.نظم اچھی ہے مگر اس کو اخبار میں شائع ہونے کے لئے نہیں دیا.بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ اس نے مباہلے سے انکار ہی کر دیا تھا.تو مجھے سمجھ آئی کہ اس نظم کا شائع ہو نا مناسب ہی نہیں تھا.کیونکہ اس میں دو شعر مجھے یاد ہیں یہ تھے.تو تو ہے عمر میں جوان ابھی پیری آئی ہے میرے آقا.i.¦

Page 121

229 228 تیری بنے گی ایک نشاں موت مجھ کو دیتا یہیں دکھائی ہے ۱۹۰۸ ء کا واقعہ ہے.مئی کے مہینے میں رخصت پر سنور گیا ہوا تھا.دوکان کی مرمت کرا رہا تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سنوری بھی سنور تشریف لے آئے.عشاء کی نماز کے وقت انہوں نے مجھے فرمایا کہ کہ صبح قادیان چلیں.میں نے عرض کیا کہ دو دن کا کام باقی ہے.دو دن ٹھہر جائیں.پھر چلیں گے.فرمایا بہت اچھا.لیکن اگلے دن صبح کے وقت آٹھ بجے کے قریب میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ بھئی تم دو دن ٹھہر کر آجانا.میری طبیعت بے چین ہے اس لئے میں تو اب جاتا ہوں.چنانچہ وہ تشریف لے گئے.جب وہ قادیان شریف پہنچے.تو اس وقت معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا وصال ہو چکا ہے.اور جنازہ قادیان آچکا ہے.آپ جنازے میں شامل ہو گئے.بعد میں جو مجھے ملے تو فرمایا.کہ اگر میں اس وقت تمہاری درخواست پر رک جاتا تو مجھے یہ موقع میسرنہ سے آکر ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے.چونکہ دفتر سے چھٹی تھی.آپ صبح اس مکان میں تشریف لائے اور مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اکیلے ہیں باقی سب کہاں گئے.میں نے عرض کیا.کہ سب امیر کابل کو دیکھنے گئے ہیں.فرمانے لگے تم کیوں نہیں گئے میں بھی وہاں جا رہا ہوں.ہنس کر فرمانے لگے کہ آپ شاید اس لئے نہیں گئے کہ چونکہ کیمپ آفیسر آپ کے والد کا دوست ہے اس واسطے آپ ان کے ساتھ نہیں گئے کہ اگر ان کے ساتھ گیا تو ان سب کو کھانا وہیں سے کھلانا پڑے گا.میں نے عرض کیا کہ یہ بات نہیں ہے اصل میں میرا دل ہی نہیں چاہتا.فرمانے لگے میں سمجھ گیا کہ تم کیوں نہیں جاتے.میں جو جا رہا ہوں تم بتاؤ کہ میں کیوں جا رہا ہوں؟ میں خاموش ہو گیا.میں نے کوئی جواب نہ دیا.میں چشم پر آب ہو گیا تھا.فرمانے لگے کہ آپ اس وجہ سے نہیں گئے کہ امیر کابل وہ انسان ہے جس نے سید عبد اللطیف صاحب کو شہید کرایا.آپ کی غیرت نے یہ برداشت نہیں کیا کہ آپ اس کی شکل دیکھیں.لیکن میں اس غرض سے جاتا ہوں تا آتا.اس کا نتیجہ یہ ہو تاکہ میں تمام عمر بھر تمہاری شکل کبھی نہ دیکھتا.میں یہ دیکھوں کہ وہ کیسا انسان ہے جس نے ایسا قبیح فعل کیا.ایام بند و بست میں ۱۹۰۳ ء یا ۱۹۰۴ء کا غالبا واقعہ ہے.امیر کابل میں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست پیش کی اس ہندوستان کے دورے پر آئے.چونکہ انہوں نے سرہند بھی ٹھہرنا تھا.مضمون کی کہ اثناء گفتگو میں میری اہلیہ نے مجھ سے بتایا کہ ایک دن حضرت کیونکہ وہاں مجد والف ثانی کا مزار ہے.اور خاندان مجد د صاحب کا وہ مرید مسیح موعود نے مجھ سے یہ بات فرمائی تھی کہ رحیمن ! تم یہاں ہی رہو.اور تھا.جس تاریخ کو وہ سرہند تشریف لائے.دفتروں میں تعطیل ہو گئی.مکرم تمہارے میاں بھی یہاں آجائیں.میں نے اس سے کہا کہ آپ نے مجھے عبد اللہ صاحب دفتر میں ہی آرام فرمایا کرتے تھے.ان کا کھانا وہیں پہنچ جاتا اس وقت کیوں نہیں بتایا تھا.اب اتنے عرصے کے بعد ذکر کیا ہے.اس لئے تھا.میں اور دو تین اور احمدی اور مولوی صاحب کے دو صاحبزادے دفتر یہ درخواست پیش کرتا ہوں کہ اگر آپ اجازت فرما ئیں تو ملازمت ترک i | 1

Page 122

231 230 کر کے قادیان آجاؤں.جواباً حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ کچھ لوگوں کو باہر بھی کام کرنا چاہئے جو ملازمت کے سلسلے میں ہیں.اس جواب کے پہنچنے پر میرے دل میں بعض اوقات یہ تڑپ ہوتی تھی.کہ کاش مجھے اس بات کا علم حضرت مسیح موعود کے وقت ہو جاتا اور وہاں حاضر ہو جاتا.جو روحانی فیوض قادیان میں ہیں وہ باہر رہنے میں نہیں ہیں.چنانچہ میں اس کے متعلق دعائیں کرتا تھا.ایک رات میں نے نہایت ہی تضرع سے دعا کی کہ قادیان میں اپنا نصیب نہیں ہوا ہے بعض صحابہ کرام کو رسول کرم کے زمانہ میں بھی باہر بھیج دیا گیا تھا.میں نے جناب الہی میں عرض کیا کہ ان پر بھی کوئی اس وقت براه راست برکات کا نزول ہوتا ہوگا.اے خداوند تعالیٰ تو میری حالت پر بھی رحم فرما اور مجھے براہ راست برکات میں سے کچھ حصہ عنایت فرما.میں رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتا تھا.تو پہلے ایک پارہ تلاوت کرتا تھا.چنانچہ اس رات پندرھواں پارہ میری تلاوت میں تھا.جب میں اس آیت پر آیا.وَ مِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةٌ لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ تعالیٰ آپ کو اس مقام پر کھڑا کرے گا.حضور نے مجھے اس کوئی جواب نہ عطا فرمایا.مارچ ۱۹۱۴ء میں جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی.آپ کی وفات کی اطلاع پر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بیعت کے لئے قادیان حاضر ہوا.اور حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کر لی.دوسرے تیسرے روز آپ چوبارے میں ڈاک ملاحظہ فرما رہے تھے.میں بھی وہاں حاضر ہو گیا تھا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم ان کے علاوہ دو تین اور دوست وہاں موجود تھے.اس وقت حضور نے نواب صاحب کی طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ ہمارے میاں کو ایک سال پہلے اس خلافت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اطلاع دے دی تھی اور انہوں نے مجھے لکھا تھا.نواب صاحب نے دریافت کیا کہ آپ کے میاں کون؟ حضور نے فرمایا.یہ میاں قدرت اللہ صاحب سنوری بیٹھے ہیں.انہوں نے مجھے اطلاع دی تھی.میں نے اخبار الفضل میں اتنا نوٹ دے دیا تھا کہ بعض دوستوں کے لطیف مضامین آئے ہیں جن کے شائع ہونے کا رَبِّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا - (۸۰ / بنی اسرائیل) تو اس وقت کشفی حالت وقت نہیں.اور میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ بتا ئیں وہ ۱۹۱۴ عدد کیسے طاری ہو گئی.اور نَافِلَةٌ لكَ سے عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا تَمَحْمُودًا تک ایک لائن کھینچی ہوئی تھی.جس کے اوپر ۱۹۱۴ء لکھا ہوا تھا.جب یہ حالت دور ہو گئی تو میں نے ابجد کے لحاظ سے اعداد نکالنے شروع کئے.چنانچہ اس حصہ آیت کے ۱۹۱۴ عدد نکلے.یہ ۱۹۱۳ء کا نکلتے ہیں اور وہ کس طرح ہو ا تھا.میں نے عرض کیا.اس پر آپ نے مولوی محمد اسماعیل صاحب کو فرمایا کہ آپ عدد نکالیں کیا یہ درست ہے؟ چنانچہ انہوں نے اعداد نکال کر کہا.حضور درست ہے ۱۹۱۴ ہی نکلتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اب اسے الفضل میں شائع فرما دیں.چنانچہ میں نے یہ واقعہ ہے.میں نے صبح کو موجودہ امام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت مضمون اور دو تین مزید خواب جو اس کے متعلق تھے لکھ کر دفتر الفضل میں بابرکت میں تحریر کیا کہ مجھے کشفی حالت میں ایسا بتایا گیا ہے.۱۹۱۴ء میں اللہ بھجوائے تو انہوں نے کہا کہ کاپی تمام لکھی جاچکی ہے.اس لئے اگلے شمار !

Page 123

233 232 سے یہ میں شائع ہو سکتا ہے.حضور نے فرمایا بطور ضمیمہ اس کے ساتھ شائع کر دیا جائے.چنانچہ میں نے احمدی جماعت کے لئے ایک نادر تحفہ" کے عنوان مضمون شائع کرایا اور اس کے ساتھ اپنے کئی خواب اور براہین احمدیہ کی نظم میں سے چند اشعار بھی لکھے.جو میرے ذوق کے لحاظ اس موقع پر چسپاں ہوتے تھے.دو خواب ان میں سے اب بھی مجھے یاد ہیں.ایک میرا خواب ہے.ایک میری اہلیہ کا.گی.اور حضرت صاحبزادہ صاحب خلیفہ ہونگے.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قادیان آیا ہوں اور مہمان خانے کا جو دہ صحن ہے خواب میں اس کو بہت بڑا صحن دیکھتا ہوں وہاں لوگ جمع ہیں.چند کرسیاں بچھی ہوئی ہیں.جن میں سے ایک کرسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز.ایک پر حضرت مرزا بشیر احمد ایک پر حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور ایک پر حضرت ام المومنین تشریف فرما ہیں.ان سب کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے ہوئے ہیں.لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی کرسی کے نیچے اوپر بہت ہار پڑے ہیں.سامنے کی طرف جو میں نے دیکھا تو مجھے دہشت سی محسوس ہوئی.وہ یہ تھا کہ جس طرح چمار کسی مرے ہوئے جانور کے چمڑے کو الٹا لٹکاتے ہیں.اسی طرح تین آدمی الٹے لٹک رہے ہیں.جن کے سر نیچے کی بلند ہیں.ایک بانس خالی ہے اور دو سرے بانس کے اوپر صاحبزادہ محمود احمد طرف اور پاؤں اوپر کی طرف.اور جسم ایسا جیسے متورم.میں نے کسی سے دریافت کیا کہ یہ کیا؟ انہوں نے مجھے جواب میں بتایا کہ یہ تین مدعیان مارچ ۱۹۱۴ء میں میں تحصیل سرہند میں اپنی ملازمت پر حاضر تھا تو خلیفہ اول کی وفات سے دو تین روز پہلے میری اہلیہ نے مجھے سے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ریتی چھلے سے لے کر نواب صاحب کی کوٹھی کی جگہ تک سارا میدان ہے.اور وہاں مکانات نہیں ہیں.اور جہاں مسجد نور اور بورڈنگ ہے وہاں دو بہت لمبے لمبے بانس گڑھے ہوئے ہیں جو بہت ہی صاحب موجودہ امام تشریف فرما ہیں.ریتی چھلے کی طرف سے جہاں لوگوں کا ہجوم ہے.دس دس پندرہ پندرہ آدمیوں کی پارٹیاں بن کر دوڑتی ہیں.اور دوڑنے والے بانس کے پاس جا کر پکارتے ہیں.میں اول میں دوئم.اس خلافت پھر انہی ایام میں جبکہ میں قادیان میں بیعت کے لئے حاضر ہوا تھا.میں طرح پر تمام اپنے نمبر بولتے ہیں.ان پارٹیوں کے بعد گھوڑ سواروں کی نے الفضل والوں کو بشیر الدین خلیفتہ / ۱۳۳۲ھ یہ لکھ کر بھیجا.جو انہوں نے شائع کیا.پارٹیاں تیار ہو ئیں.اور وہ بھی اسی طرح گھوڑے دوڑانے لگے.جس پارٹی میں آپ نے اپنا گھوڑا دوڑایا.آپ کہتے ہیں میں اول نمبر پر آیا.بیعت کے بعد جب لاہوری جماعت کی طرف سے یہ بحث شروع ہوئی میرے گھوڑے کا کان آگے ہے.اس کے بعد بیدار ہو گئی.میں نے ان کہ آپ نبی نہیں تھے.تو گرمیوں کا موسم تھا میں اور میری بیوی قصبہ سنور سے کہا کہ حضرت خلیفہ اول چونکہ بیمار ہیں.اس لئے ان کی وفات ہو جائے میں اپنے چوبارے میں لیٹے ہوئے تھے کہ میری بیوی نے مجھے جگایا اور کہا کہ

Page 124

235 234 اٹھ کر باہر لوگوں کو دیکھو اتنا شور ہے اور آپ سو رہے ہیں.مولوی محمد موسیٰ صاحب.میرا دادا محمد عیسی صاحب بھی تشریف لے میں نے مکان کے پردوں سے ادھر ادھر دیکھا.سب سوئے ہوئے تھے آئے.میرے دل میں نہایت خوشی اور بشاشت تھی کہ قادیان میں تو مولوی کوئی بھی جاگ نہیں رہا تھا.میں نے ان سے کہا کہ باہر تو کوئی شور نہیں کیا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی یا مولوی نورالدین صاحب نماز پڑھاتے تھے.بات ہے ؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر سینے پر رکھا ان کا دل دھڑک رہا تھا.لیکن یہاں تو حضرت مسیح موعود خود نماز پڑھائیں گے.یہاں تو کوئی اور اتنا میں نے کہا کہ بات کیا ہے ؟ انہوں نے کہا.میں نے حضرت مسیح موعود کو بڑا عالم بھی نہیں.جب نماز کے لئے تیار ہوئے تو حضرت مسیح موعود نے دیکھا.تو حضور نے فرمایا کہ ان نشانات کے ذریعہ سے اگر آدم نبی ہیں تو میں مجھے اشارہ فرمایا کہ نماز پڑھاؤ.میں نے ایک دو دفعہ عذر پیش کیا.لیکن حضور نے فرمایا.آپ ہی نماز پڑھا ئیں.میں نے پھر اپنے والد اور مکرم عبد اللہ سنوری صاحب اور محمد یوسف صاحب سے درخواست کی کہ آپ میں سے کوئی نماز پڑھاوے.لیکن ہر ایک نے انکار کیا کہ جب حضرت کیوں نبی نہیں.پھر کچھ بلند آواز سے فرمانے لگے کہ اگر نوح ان نشانات سے نبی ہیں تو میں کیوں نہیں؟ اس کے بعد حضرت ابراہیم.حضرت اسماعیل ".حضرت اسحاقی".حضرت یعقوب".حضرت یوسف.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے نام لیکر یہی فقرہ کہتے تھے اور ہر نبی کے نام کے صاحب آپ ہی کو کہتے ہیں تو آپ ہی پڑھا ئیں.سو میں نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہو گیا.حضرت مسیح موعود بالکل میرے پس پشت کھڑے تھے.رنے وقت آواز میں گرج پیدا ہوتی تھی.آخر جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آیا.تو فرمایا کہ آپ مکمل ہدایت قرآن کریم لے کر آئے اور جب میں پہلی رکعت کے رکوع کے لئے گیا.تو حضور نے اپنی جگہ سے بڑھ کر میرے جسم کو اپنے جسم سے ڈھانپ لیا.جب میں نے سمع اللہ میں قرآن کریم کی اشاعت کے لئے آیا ہوں.یہ آواز اتنی گرج سے تھی کہ میں سمجھتی تھی کہ سارا شہر جاگ اٹھا ہے اور حضور کا گلا پھٹا جاتا ہے.چہرہ لمن حمدہ کہا تو حضور پیچھے ہٹ گئے.تو جب میں سجدے میں گیا.تو حضور نے اسی طرح مجھے ڈھانپتے ہوئے سجدہ فرمایا.آپ کا سر میرے سر سرخ ہوا جاتا ہے.میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے چچا غلام قادر صاحب مرحوم جو کہ کے آگے تھا.اور میرے بازوؤں سے آپ کے بازو باہر کی طرف زیادہ صحابی تھے.ان کے مکان کے صحن میں میں موجود ہوں.وہاں حضرت مسیح پھیلے ہوئے تھے.میں سجدے سے اٹھا تو حضور ہٹ گئے.دوبارہ سجدہ کیا تو پھر حضور نے ویسے ہی سجدہ کیا.ہر چہار رکعت میں حضور نے ایسا ہی کیا.موعود تشریف لے آئے اور انہیں معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ہے.معاً ہمارے خاندان کے بزرگ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم مولوی محمد نماز سے سلام پھیرنے کے بعد میں خواب سے بیدار ہو گیا.یوسف صاحب منشی احمد بخش صاحب.منشی محمد ابراہیم صاحب.میرے والد میری پہلی بیوی میری حقیقی ماموں زاد تھی.شادی سے چار سال بعد │ 1

Page 125

237 236 میری دوسری شادی کے بعد ایک سال بھی نہ گذرا ہو گا کہ میں " تحصیل فوت ہو گئی.موجودہ بیوی کے والد چوہدری کریم بخش صاحب موضع رائے پور ریاست نابھ کے باشندے تھے جو املوہ سے دو میل کے فاصلے پر تھا.میں سرہند میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں تھا.کسی معاملے کے متعلق میں اپنی بیوی سے ان ایام میں تحصیل سرہند میں ملازم تھا.میرے ہیڈ کوارٹر اور ان کے گاؤں ناراض ہو گیا اور دو تین دن تک ہماری بحث ہوتی رہی.تیسرے دن مجھے کا فاصلہ قریباً ۱۵ کوس تھا.کیونکہ یہ اپنے باپ کی اکلوتی تھیں.ان کی والدہ خواب میں حضرت مسیح موعود کی زیارت ہوئی.حضور نے مجھے فرمایا کہ اور ان کی بھی خواہش تھی کہ جلدی جلدی ملتی رہا کریں.تو کبھی ہفتے کبھی دو دیکھو میاں اپنی بیوی سے سختی سے پیش نہ آیا کرو.یہ ہماری بیٹی ہے.چنانچہ ہفتے کے بعد میں انہیں وہاں لے جاتا تھا.بار بار جانے کی تکلیف کی وجہ سے اس وقت سے آج تک میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں.اور کبھی اگر بھول میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مکرم عبداللہ صاحب مرحوم نے کہاں کر ان سے ناراض ہو جاتا ہوں تو اس واقعہ کے یاد آتے ہی فورا استغفار گاؤں میں میرا رشتہ کر دیا کہ اس طرح آنے جانے کی تکلیف ہوتی ہے.کرتا ہوں.چونکہ میں اس وجہ سے ان کا احترام کرتا ہوں کہ مجھے حضور نے کسی شہر میں رشتہ ہوتا تو بہتر ہوتا اور اس طرح روز روز کی تکلیف سے خواب میں ایسا فرمایا ہے لیکن ہمارے رشتہ داروں میں عام بات یہ مشہور بچتا.اس خیال کے بار بار آنے سے مجھے تکلیف محسوس ہوئی.میں نے ہے کہ مولوی صاحب اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں.حتی کہ حضرت خلیفتہ اصبح خواب میں دیکھا کہ میں قادیان شریف گیا.یکوں کے اڈے پر جب میں اترا الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بھی کئی دفعہ لوگوں سے ذکر فرمایا ہے کہ یہ اپنی تو وہاں حضرت مسیح موعود تشریف فرما تھے.میں نے سلام عرض کر کے بیوی سے خوب ڈرتے ہیں.مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے.تو حضور نے معانقے کے لئے ہاتھ بڑھا ایام خلافت اولیٰ میں چونکہ خلیفہ اول رمضان شریف میں تمام قرآن کر چھاتی سے مجھے لگالیا.حضور نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر میری پشت پر کریم کا درس دیتے تھے.اس لئے میں رمضان شریف کا تمام مہینہ قادیان باندھے ہوئے تھے میں نے بھی اسی طرح باندھ لئے جب دونوں نے ہاتھ میں آکر بسر کرتا تھا.جب بھی گنجائش ہوتی تو حضرت ام المومنین دارا مسیح چھوڑے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ حضور کی بجائے میرے خسر چوہدری میں جگہ دے دیتیں.ایک سال میں چھتے کے اوپر جو کمرہ ہے اس میں ٹھہرا کریم بخش صاحب تھے.میں خواب سے بیدار ہو گیا.وہ جو میرے دل میں ہوا تھا.اوپر صحن سارا کھلا تھا.جس میں حضرت ام المومنین اور حضرت کوفت تھی کہ میرا رشتہ کہاں ہو گیا وہ بالکل دور ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ یہ خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حرم اول کی رہائش تھی.میں نے حضور کے رنگ میں رنگین ہیں.چوہدری کریم بخش صاحب کا وصیت نمبر ۱۹ جب نیچے سے اوپر آنا ہو تا تو میں آوزیں دینے لگتا ( تاکہ پردہ ہو جائے) ایک ہے اور وہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں مدفون ہیں.دن حضور نے مجھے آوازیں دیتے سن لیا.حضور صحن میں آگے بڑھے اور

Page 126

239 238 دروازے کے پاس آکر کہنے لگے کہ یہاں خادما ئیں، دیگر عورتیں اور بچے ہوتے ہیں.شور کی وجہ سے تمہاری آواز کون سنتا ہے.آپ جب بھی آئیں السلام علیکم کہہ کر نیچی نظر ر کھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے جایا کریں.ایک دفعہ زینے میں کھڑے ہوئے کر میں نے خادمہ کو آواز دی کہ میں نے اماں جان سے ملنا ہے.خادمہ کے اطلاع دینے پر آپ تشریف لے آئیں.اور السلام علیکم فرمایا.میں نے دعا کے لئے عرض کیا.آپ نہایت محبت سے فرمانے لگیں، میں آپ کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہوں.آپ کی بیوی جو کہتی ہیں میں اس کے لئے بھی دعائیں کرتی رہتی ہوں.مجھے معلوم تھا.کہ حضور مجھ سے بہت خوش ہیں اور اس وقت بھی دعا ئیں دیتے تھے.میں نے جرات کر کے یہ عرض کر دیا کہ حضور! مجھے تو کامل خوشی جب ہوگی کہ جب یہ روحانی بادشاہت دوبارہ اسی گھر میں آجائے.یہ سن کر آپ کا لہجہ بدل گیا اور مجھے بار بار فرمایا.قدرت اللہ استغفار کرو.استغفار کرو.ایک خلیفہ کی موجودگی میں ایسی بات ہرگز نہیں کہنی چاہئے.پھر زور سے فرمایا.استغفار کریں.استغفار کریں.تب میں نے زور سے استغفار کیا.تب آپ خاموش ہو ئیں.ایک دفعہ برسات کے ایام میں میں اپنی اہلیہ کے علاوہ اپنی والدہ صاحبہ اپنی پھوپھی صاحبہ اور اپنی ہمشیرہ صاحبہ اور اپنے پھوپھا صاحب کو بھی ساتھ قادیان لایا.بٹالہ سے جب ٹانگہ پر سوار ہو کر نہر سے آگے قادیان والے موڑ پر ہم پہنچے.تو وہاں یکہ والوں نے بتایا کہ ہم سامان اوپر رکھ لیں گے.آپ پیدل پکڈنڈی سے جائیں.کیونکہ راستہ پانی کی وجہ سے خراب ہے.تو پگڈنڈی پر بھی بعض جگہ ایک ایک دو دو فٹ پانی تھا.کچھ بارش بھی ہوئی.اس وجہ سے ہم بھیگے ہوئے کپڑوں میں قادیان پہنچے.جب عورتیں اندر ام المومنین کے پاس پہنچیں تو چائے کے بعد آپ نے اپنے ایک مکان میں ہمیں بھجوا دیا.تاکہ مہمان خانہ میں ہمیں تکلیف نہ ہو.بارش کثرت سے ہوتی تھی.چند دن کے بعد (ہفتہ عشرہ کے بعد) کوئی دس بجے خادمہ آئی اور اس نے کہا.کہ حضرت ام المومنین فرماتی ہیں کہ جن کا مکان ہے یا جن کے لئے یہ بنوایا ہے وہ آگئے ہیں.اس لئے آپ آج ہی یہ مکان خالی کر دیں.گو ان دنوں روپے کی بڑی قیمت تھی.لیکن نئے مهمان میرے ساتھ تھے.اس لئے میں نے چاہا کہ خواہ دس روپیہ کرائے پر کوئی جگہ میں لے سکوں تو لے لوں.مگر کوئی جگہ نہ ملتی تھی.اماں جان کی طرف سے بار بار پیغام آتا تھا کہ اگر کوئی اور جگہ نہیں ملتی تو عورتیں اندر میرے پاس آجا ئیں.اور آپ مہمان خانہ میں ٹھہر جائیں.میں نے جہاں اور مکانوں کی تلاش کی وہاں میں سید محمد علی شاہ صاحب کے پاس پہنچا کہ ان کے کسی ایک مکان کی دوسری تیسری منزل خالی تھی.تاکہ میں وہ ایک ماہ کے لئے کرایہ پر لے سکوں.انہوں نے فرمایا کہ مجھے دس روپے کی ضرورت نہیں میں نے تو ایک شخص کو یہ جگہ چار روپیہ کرائے پر دی ہوئی ہے.اور اس نے مجھے ایک ماہ کا کرایہ بھی دے دیا ہوا ہے.اس اثنا میں عصر کا وقت ہو گیا.عصر کی نماز کے لئے میں مسجد مبارک میں آیا.تو شیخ غلام احمد صاحب واعظ نو مسلم مسجد میں موجود تھے.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو میں نے آج ادھر ادھر بہت گھومتے دیکھا ہے کیا بات ہے ؟ میں نے کہا کہ

Page 127

241 240 بار بار اصرار کرنے پر میں نے عصر کے بعد حضور سے مکان کے بارے میں عرض کر دیا.حضور نے فرمایا ہاں! آج کل مکانوں کی بڑی تکلیف ہے.تو جب حضور تشریف لے گئے تو میں نے شیخ صاحب سے کہا.دیکھا آپ نے یونہی مجھ سے کہلوایا.اس طرح مجھے مکان کی ضرورت ہے آپ ہی کوئی مکان بتلائیں.انہوں پاس ایک ہندو کا مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا جو کہ مسجد مبارک سے فرلانگ ڈیڑھ نے کہا کہ برسات کی وجہ سے کافی مکان خراب ہو گئے ہیں.مکانوں کی قلت فرلانگ کے فاصلہ پر ہو گا میرے گھر سے حاملہ تھیں اور ایام وضع قریب ہی ہے.آپ حضرت خلیفہ ثانی سے کہیں وہ آپ کے لئے انتظام کرا دیں تھے.گرمی کا موسم تھا.میں ظہر کی نماز کے لئے جانے لگا.تو میری بیوی نے گے.میں اصرار کرتا تھا کہ میں حضور کو یہ تکلیف دینی نہیں چاہتا.لیکن وہ مجھے کہا کہ مجھے درد کی تکلیف ہے دعا کرنا.میں مسجد مبارک میں چھوٹے کہتے نہیں آپ کہدیں حضور باسانی اس کا انتظام کروا دیں گے.ان کا زینے سے اوپر چڑھا اور کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر کہا کہ حضرت ام المومنین کو میری اطلاع دیتا.اطلاع پر حضور ام المومنین تشریف لائیں تو میں نے عرض کیا کہ حضور خادمہ نے درد کی وجہ سے مجھے دعا کے لئے کہا ہے.آپ دعا فرمائیں.ہم وطن سے اکیلے آئے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا.بہت اچھا.میں دعا کروں گی.میں مسجد میں داخل ہو گیا.اور نماز جب لوگ چلے گئے تو میں نے مسجد مبارک کی پرانی جگہ پر جہاں کہ سے فارغ ہونے کے بعد جب میں گھر پہنچا.تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ حضرت مسیح موعود نماز پڑھا کرتے تھے جاکر دعا کی.دعا کے بعد میرے دل آپ نے حضرت ام المومنین سے کیوں یہ عرض کی تھی.میں نے کہا کہ آپ میں خیال آیا کہ میں پھر شاہ صاحب کے پاس جاؤں.اس کو میں الہی تحریک کو کیسے علم ہو گیا.میں نے تو انہیں دعا کے لئے کہا تھا.انہوں نے کہا.کہ سمجھ کر محمد علی شاہ صاحب کے پاس گیا.جب میں شاہ صاحب کے صحن میں آپ نماز کے لئے چلے گئے.معمولی درد تھا.میری آنکھ لگ گئی.میں سو داخل ہوا تو وہ مجھے دیکھ کر ہنسے اور کہنے لگے کہ دوپہر کو آپ ضد کرتے تھے گئی.تو دروازہ زور سے کھٹکنے کی وجہ سے میری آنکھ کھلی اور میں نے کہ میں نے کسی کو مکان کرایہ پر دے دیا ہوا تھا.اس لئے آپ کو کس طرح دروازہ کھول دیا.وہاں حضرت ام المومنین تشریف لائی ہوئی تھیں اور آپ نے فرمایا کہ کڑیے تو تے پئی سو رہی ایس اور قدرت اللہ نے مینوں بتایا کہ اوہنوں تکلیف اے دعا کرو".میں نے کہا کہ خود ہو آؤں اور یہ فرما دے سکتا تھا.آپ کے جانے کے بعد دو پہر کی ڈاک سے کرایہ داروں کا خط آیا ہے کہ ہم نہیں آسکتے.اس لئے آپ جنہیں چاہیں مکان دے دیں.اور پھر شاہ صاحب نے مجھے چابی پکڑا دی.ہم نے پھر برسات کے وہ ایام کر میرے ساتھ اندر تشریف لے آئیں اور مجھے کہا کہ لیٹ جا.تیل کی وہاں نہایت آرام سے گزارے.میں اپنی اہلیہ کے ساتھ قادیان آیا ہوا تھا ہم نے عبد اللہ جلد ساز کے شیشی لی کر آپ نے اپنے دست مبارک سے میرے پیٹ پر مالش کی.کافی دیر مالش فرمانے کے بعد کہنے لگے کہ ابھی بچے کی پیدائش میں کافی دن باقی | 1

Page 128

243 242 کنارے باقی رہ گئے.تو اس وقت مجھے خیال آیا کہ یہ روٹیاں میں نے اپنی ہیں.اور مجھ سے فرمایا کہ تم نے دایہ کا جو کچھ دن خدمت کرے انتظام کر لیا ہے.میں نے کہا ہاں کر لیا ہے.پھر آپ تشریف لے گئیں.ہفتے عشرے سب اولاد کو تقسیم کرنی تھیں.میں نے خود ہی کھانی شروع کر دیں.پھر یہ کے بعد اللہ تعالٰی نے لڑکی (حمیدہ) عطا فرمائی.اس دوران میں آپ نے ایک خادمہ حیمی دو تین بار بار بھیجی اور وہ آکر پوچھتی تھی کہ رحیمن اماں جان پوچھتے ہیں کہ تم نے کیا جنا ہے.متفرق خوابیں خیال آیا کہ میری اولاد تو بہت ہے اور ٹکڑے تھوڑے سے ہیں.اس پر میں نے وہ ٹکڑے دونوں ہاتھوں میں رکھ لئے اور دعا کر کے پھونکیں مارنی شروع کیں تو وہ ٹکڑے بڑھنے شروع ہو گئے چنانچہ میں نے کئی دفعہ دعا کر کے پھونکیں ماریں اور ٹکڑے بہت سے ہو گئے.(ماہ اگست ۵۷ء میں جب میں محلہ میں گیا تو حضور کی خدمت میں یہ خواب لکھ کر بھیجوا دی.چنانچہ حضور نے اندر سے روٹیاں پکوا کر بھجوادیں اور میں نے وہ اپنی اولاد میں تقسیم کر دیں).خواب میں میں ایک مکان کے صحن میں تھا جہاں چند احباب موجود تھے.وہاں نماز کا ذکر ہوا.میں نے کہا کہ حضور کی خدمت میں اطلاع کر دینی چاہیے تاکہ حضور (خلیفہ ثانی) تشریف لے آئیں یا اجازت آجائے.انہوں نے کہا کہ اجازت آگئی ہے آپ نماز پڑھا ئیں.انہوں نے کہا کہ حضور نے آپ کے واسطے حکم دیا ہے.چنانچہ میں نے نماز پڑھانی شروع کر دی.پہلی رکعت کے رکوع میں جب گئے تو حضور تشریف لا کر صف اول میں میرا بالکل پیچھے رکوع میں شامل ہو گئے.جب میں نے سَمِعَ الله لِمَنْ حَمِدَہ کہا تو حضور میرے برابر آگئے.میں ذرا سا پیچھے ہوا کہ حضور سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تشریف لے آئے اور مجھے تین چار اب نماز پڑھا ئیں مگر حضور نے میری کمر پر سے مونڈھے تک ہاتھ بڑھایا اور ۱۹۵۷ء کی خوابیں : خواب میں کچھ کاغذات دکھائے گئے.وہ کاغذات میں نے مکرم مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم کو دکھائے اور ان کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ان میں آپ کے بڑے صاحبزادے مرحوم رحمت اللہ کا خط ہے انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے دیکھ لیا ہے.اس پر میں نے عرض کیا کہ دنیا میں لوگوں میں سے کسی کو دولت کی خوشی ہے کسی کو صحت کی خوشی ہے کسی کو اولاد کی خوشی ہے.مجھے یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملی ہیں مگر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرا خدا مجھ سے خوش ہے.یہ الفاظ الہامی تھے.میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک چوبارے میں ہوں دوسرے چوبارے روٹیاں دیں.میں نے انہیں کپڑے میں لپیٹ لیا اور گھر کو چل دیا.راستے میں جاتے ہوئے کھول کر انہیں درمیان میں تو ڑ کر کھانا شروع کر دیا اور اور ذرا آگے کر دیا.گویا اشارہ تھا.کہ تو ہی نماز پڑھا.میں نے نماز پڑھائی اور حضور ہر رکعت میں اسی طرح ہاتھ رکھتے تھے.چنانچہ یکم نومبر ۵۸ء

Page 129

245 244 انصار اللہ کے سالانہ اجتماع میں سیدی مرزا ناصر احمد صاحب نے مجھے فرمایا کہ نماز مغرب و عشاء آپ پڑھا ئیں.آپ کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے دونوں نمازیں پڑھا ئیں.اور آپ عین میرے پیچھے صف اول میں تھے یہ خواب میں نے اس اجتماع سے قبل مولوی عبد المالک خانصاحب (کراچی) عزیزم مسعود احمد خورشید وغیرہ کئی دوستوں کو سنائی تھی) آخر ستمبر ۵۸ء میں خواب میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے ملاقات ہوئی.آپ نے فرمایا کہ آپ کے ساڑھے چار بیٹوں کے لئے لنگر میں کھانے کا انتظام کر دیا ہے.وہاں سے روٹیاں لے لیں.میں نے ارادہ کیا کہ میں لنگر میں جاؤں.کسی شخص نے مجھ سے کہا کہ ابھی لنگر میں تقسیم شروع نہیں ہوئی ہے.کچھ دیر کو شروع ہوگی.میں نے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ رعب عطا فرمایا ہے کہ جب میں جاؤں گا تو وہ فور آروٹیاں دیں گے.چنانچہ میں لنگر میں گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی تقسیم شروع نہیں ہوئی.میں نے کہا کہ آپ کو حضرت صاحب نے حکم نہیں دیا.انہوں نے کہا کہ حکم کیا حضور تو آپ کا راگ گاتے رہے ہیں آپ روٹیاں لے جائیں.میرے پاس کپڑا کوئی نہیں تھا.میں نے لنگر کی دیواروں پر ہرن کی کھال لٹکی ہوئی دیکھی اور وہ کمرے کے ساتھ لگا کر لنگر والوں کو کہا کہ وہ نو افراد کے لئے کھانا دے دیں.چنانچہ انہوں نے مجھے بہت سی روٹیاں دے دیں.اولاد پہلی بار لڑکا پیدا ہوا.اس کا نام برکت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر محمود احمد رکھا.وہ لڑکا آٹھ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا.میں ملازمت پر تھا.میری اہلیہ نے نہایت صبر کیا.محلہ کی عورتیں آکر سابقہ دستور کے مطابق جزع فزع کرنے لگیں.تو انہوں نے منع کیا.محلہ میں اس کا شور ہوا کہ قدرت اللہ کی بیوی بیٹے کی وفات پر ہم کو رونے نہیں دیتی ہے.اس کے بعد لڑکی محمودہ بیگم پیدا ہوئی.اس کے بعد مسعودہ بیگم پیدا ہوئی.اس کے بعد حمیدہ بیگم پیدا ہوئی.یہ لڑکی قادیان میں پیدا ہوئی.اس کی پیدائش سے چند یوم پہلے مجھے خواب میں بتایا گیا کہ مریم کے رنگ کی لڑکی پیدا ہوگی.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ وہ زندہ سلامت موجود ہے اور اس میں مریمی رنگ ہے.اس کے بعد سعیدہ بیگم پیدا ہوئی جو ۶ اسال کی عمر میں فوت ہو گئی.چونکہ موصیہ تھیں اس لئے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئی.اس لڑکی کی وصیت کا جھگڑا ہوا.یہ اپنے سسرال سے قادیان میری ہمشیرہ کے پاس آئی.اور وصیت کر دی.اور فارم پر کر کے ہمشیرہ کو دے دیا خود سنور چلی گئی.وہاں جا کر بیمار ہو کر فوت ہو گئی.مجھے یہ علم تھا کہ یہ وصیت کر آئی ہے.میں نے نعش کو صندوق میں امانتا دفن کرایا.چھ سات ماہ بعد اس کی نعش کو قادیان لایا.جب افسر بہشتی مقبرہ سے عرض کیا تو انہوں نے دفتر سے معلوم کر کے فرمایا اس کی وصیت درج نہیں.گھر سے معلوم کیا.تو ہمشیرہ نے فرمایا کہ فارم گھر میں ہی پڑا ہے.سید سرور شاہ صاحب مرحوم کو فارم دکھلایا تو انہوں نے !

Page 130

247 246 فرمایا که دو موصی اگر مو كد بعذاب قسم کھاویں کہ ان کے سامنے کے ارشاد سے تیار کرتا تھا.اور حضرت خلیفہ ثانی کو دکھایا کرتا تھا.ان ایام وصیت کی ہے.اور دو گواہ ایک وقت میں موجود ہوں تو نعش دفن ہو سکتی ہے.مگر ایسی شہادت ملتی نہ تھی حضرت ام المومنین سے میں نے عرض کیا میں ہمیں دارا مسیح کے حضور کے دالان کے نیچے کمرہ رہائش کے لئے ملا ہوا تھا.ایک دن میری اہلیہ نے مجھے یہ بتایا کہ میں ام ناصر صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوئی.تو انہوں نے فرمایا رحیمن آج تمہارے متعلق خواب دیکھا کہ دعا فرمائیں نعش دفن نہیں ہو سکی.آپ نے فرمایا.ذرہ ٹھہرو.ہے.فرمایا.میں نے دیکھا.حضرت مسیح موعود فرش پر چیلہ مارے بیٹھے ہیں اور میں نے آپ کی ران مبارک پر سر رکھا ہوا ہے اور میں لیٹی ہوئی ہوں.سامنے سے تم آگئی.حضور نے دریافت فرمایا.رحیمن تمہارے کتنے تھوڑی سی دیر بعد آپ نے ایک تحریر مولوی سرور شاہ صاحب کے نام تحریر فرما کر مجھے دی.اس میں درج تھا کہ سعیدہ نے وصیت کرنے کا ذکر مجھ سے کیا تھا.میں نے وہ تحریر مولوی سرور شاہ صاحب کو دکھائی.آپ نے اجازت دی اور نعش بہشتی مقبرہ میں دفن ہو گئی.میری تیسری لڑکی حمیدہ بچے ہیں.تم نے کہا چار لڑکیاں ہیں.میں نے عرض کیا حضور دعا فرمائیں بیگم کی پیدائش قادیان میں ہوئی جس کا ذکر آچکا ہے.میرے والد صاحب اب اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمادے.چنانچہ آپ نے دعا فرمائی.اور پھر خواب قادیان تشریف لائے اور ابھی لڑکی پیدا نہیں ہوئی تھی.آپ کو بہت خیال سے بیدار ہوئی.فجر کی نماز کے بعد جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نماز پڑھا تھا کہ خدالر کا دیوے.میں نے انہیں خواب سنایا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ مریم کر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ آپ چیلہ مار کر فرش پر تشریف کے رنگ میں لڑکی پیدا ہوگی.والد صاحب نے کچھ رنج محسوس کیا.مگر رکھیں.حضور نے پوچھا کیوں.میں نے عرض کیا آپ تشریف رکھیں تو میرے بعد میری اہلیہ نے ان سے ذکر کیا.کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس لڑکی کے بعد اور لڑکی پیدا ہو گی.پھر لڑکا ہو گا.والد صاحب کو اس کا زیادہ رنج ہوا.میں بتا دوں گی.آپ تشریف فرما ہوئے تو میں آپ کی ران پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور خواب سنایا اور درخواست کی کہ آپ مثیل مسیح ہیں.آپ دعا کریں.آپ نے دعا فرمائی.چنانچہ اس کے بعد لڑکا پیدا ہوا.جب میں نے اور وہ جلد ہی قادیان سے سنور واپس چلے آئے اور والدہ صاحبہ سے فرمایا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو نام تجویز کرنے کے لئے خط لکھا تو آپ نے محمود کہ میں گیا تھا کہ خدا کرے لڑکا ہو.اور میں خوش خوش واپس آؤں مگر بیٹے نے اور خواب سنایا.بہونے اور خواب سنایا.اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ احمد نام تجویز فرمایا.اور تحریر فرمایا کہ چونکہ یہ لڑکا میری دعا سے پیدا ہوا ہے اس لئے نام محمود احمد رکھ دیں.تایا در ہے.اس کے بعد رشیدہ بیگم پیدا ہوئی.اور اس کے بعد برخوردار مسعود احمد پہلے حمیدہ بیگم پیدا ہوئی اور پھر سعیدہ بیگم پیدا ہوئی.میں معہ اپنی اہلیہ صاحبہ کے قادیان میں قیام پذیر تھا اور حضرت مسیح موعود کی زرعی جائیداد قادیان کی تقسیم کے کاغذات حضرت ام المومنین خورشید نامی پیدا ہوا جس کے لئے خداوند تعالیٰ نے مجھے بھی اور میری اہلیہ

Page 131

249 248 صاحبہ کو بھی بشارت دی اور مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم کو بھی بشارت دی کہ قدرت اللہ کو ایک عالی دماغ لڑکا دیا جاوے گا.چنانچہ مسعود احمد صاحب بفضلہ تعالیٰ زندہ سلامت ہے اور انہوں نے مزید ترقی کی ہے.اور سلسلہ کی بڑی بڑی خدمات کر رہے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود کا ا.اکتوبر ۱۹۰۴ء کا الہام تھا کہ قدرت اللہ کی بیوی روپوں کی ڈھیری پیش کرتی ہیں جس میں ایک لکڑی بھی ہے.جس کو بر خوردار نے دو ہزار روپیہ نقد بشکل تھیلی کے اپنی والدہ صاحبہ کے ذریعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے روبرو پیش کر کے الہام کو پورا کیا.جس کا ذکر رسالہ الفرقان اور رسالہ ریویو میں موجود ہے.اور سات ہزار روپیہ کے خرچ سے ہم دونوں کو ۵۸ء میں حج کرایا.اور کراچی محلہ ناظم آباد میں ساڑھے سات ہزار روپیہ کی اراضی مسجد کے واسطے ہمارے نام سے خرید کر کے سلسلہ کے حوالہ کر دی.اور گولیمار کی مسجد کے ساتھ ایک ہال ۱۹۰۰ روپیہ میں خرید کر کے مسجد کے ساتھ شامل ہونے کو ہمارے نام سے وقف کر دیا.اور حضرت مسیح موعود کی کتب کے ۱۲ سیٹ ہمارے اور اپنی اولاد کے لئے خرید کئے جو ۱۶۰ روپیہ فی سیٹ خرید کئے.اور ۳ اسیٹ کتب ہائے مذکور کے غیر ممالک کے واسطے خرید کئے.وہ ہر چندہ میں خدا کے فضل سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.اس کے بعد برخوردار داؤ د احمد پیدا ہوئے.والد صاحب کو ۱۹۰۴ء میں طاعون ہوئی.ایسا سخت حملہ تھا کہ مجھے شک تھا کہ فوت ہو جائیں گے.مگر اس حالت میں والد صاحب نے بتایا کہ میں فوت نہیں ہونگا.مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ تم قدرت اللہ کے دولڑ کے دیکھ کر وفات پاؤ گے.چنانچہ جب ۱۹۲۳ء میں مسعود احمد پیدا ہوا اور ۱۹۲۵ء میں داؤ د احمد پیدا ہوا تو والد صاحب نے ان کی پیدائش پر فرمایا کہ یہ دو لڑکے ہیں جو میں نے کہے تھے.اور فرمایا.مسعود احمد صاحب کے ساتھ داؤ د احمد کو چلتے پھرتے دیکھا تھا.چنانچہ ۱۹۲۷ء میں والد صاحب بمقام سنور فوت ہوئے اور نعش مبارک بذریعہ لاری قادیان پہنچائی گئی اور آپ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.داؤ د احمد کے بعد ایک لڑکا پیدا ہو کر دو سال کے قریب عمرپا کر فوت ہوا.اس کے بعد برخوردار نعمت اللہ پیدا ہوا.اس کے بعد لڑکی میمونہ پیدا ہوئی جو چھوٹی سی فوت ہوئی.اس کے بعد امینہ بیگم پیدا ہوئی جو آخری بچی ہے.حضرت اقدس اس کو گھر وڈی کہہ کر بلایا کرتے رہے ہیں.اور فرمایا کرتے رہے ہیں کہ تم مولوی صاحب کی آخری بیٹی ہو.پیٹ گھر و ڑ کر آئی ہیں.

Page 131