Language: UR
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلیٰ سے یہ اعلان فرمایا کہ <span class="quranic">لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ </span><span class="c243">(الاحزاب: ۲۲) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے۔نیز محبت الٰہی کے حصول کی شرط اتباع نبویؐ کے ساتھ مشروط کردی۔</span> حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور ۵۲ سالہ دور خلافت میں سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا۔ آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی۔ حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرة النبی ؐ کو آپ کی جملہ کتب، تحریرات، خطابات و خطبات سے اخذ کرکے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے جو آٹھ جلدوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ ذیل میں پہلی چار جلدیں احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہیں۔
سیرت النبی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد چهارم
ISLAM INTERNATIONAL S PUBLICATIONS LTD سیرت النبی صلى الله علم (جلد چهارم) Seerat-un-Nabisa - Volume 4 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad ra on the subject of the life of the Holy Prophetsa First published in UK in 2022 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-207-0 (Seerat-un-Nabisa - 8 Volume set)
سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احد المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود • اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید.بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلی سے یہ اعلان فرمایا کہ لفد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةً (الاحزاب : 22 ) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے.نیز محبت الہی کے حصول کی شرط اتباع نبوی کے ساتھ مشروط کر دی.جس ہستی کے بلندی اخلاق کی گواہی خدائے ذوالجلال نے دی اور اسے ہمارے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اس عالی وجود کی سیرت کا بیان یقیناً محبت رسول کی علامت ہوگا کیونکہ آپ کی ذات صفات الہیہ کی مظہر اتم تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے حسن و احسان کے تذکرے صحابہ کی سیرت کا نمایاں پہلو اور سیرت کا بیان عاشقان رسول کا خاصہ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی محبت اور عشق میں ڈوب کر آپ کی سیرت بیان فرمائی اور برملا یہ اعلان فرمایا که بعد از خدا بعشق محمد مختمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد میں عشق مصطفی عے میں دیوانہ ہو چکا ہوں.اگر اس عشق اور دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں ایک سخت کا فرانسان ہوں.عشق و محبت رسول کی جو لو آپ کے سینہ میں جل رہی تھی آپ نے اس کو اپنی اولاد
ii 66 اور اپنے متبعین میں بھی روشن کیا.پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کے بارہ میں پیشگوئی مصلح موعود میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ” وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت الہی اور عشق رسول کا جذ بہ ورثہ میں بھی پایا اور پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق آپ حسن و احسان میں آپ کے نظیر تھے.حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور 52 سالہ دور خلافت میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا.آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی.حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرۃ النبی ﷺ کو آپ کی جملہ کتب تحریرات، صلى الله خطابات و خطبات سے اخذ کر کے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے اور اب اس کی چوتھی جلد احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہے.
جلد 4 صفحہ نمبر 1 9 13 15 16 17 19 222 20 24 27 28 29 31 37 فهرست عناوین سيرة النبي علي عنوان آنحضور ﷺ کا کلمہ حکمت کہ ہر مرض کی دوا ہے رسول کریم ﷺ کی دعاؤں اور اخلاق کے اثرات صلى الله رسول کریم علیہ کے ابتلا اور نصرت الہی رسول کریم علیہ کے صبر کا نمونہ طائف کا ابتلا جنگوں میں رسول کریم اللہ کا خلق عظیم رسول کریم ع کا راہ مولیٰ میں مصائب اٹھانا رسول کریم ﷺ کے تو کل کا واقعہ رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ایک واقعہ صلى الله پیاروں کی وفات پر رسول کریم ع کا طرز عمل اور نمونہ نمبر شمار رسول کریم اللہ کے حکیمانہ فیصلے صلح حدیبیہ کا ایک واقعہ دعوت الی اللہ میں رسول کریم ﷺ کے مناسب حال فیصلے موجودہ زمانہ کی خرابیوں کا علاج رسول کریم ہے کے صلى الله ارشادات کی روشنی میں سیرة النبی علیہ کے جلسوں کے متعلق اہم ہدایات 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15
سيرة النبي علي ii جلد 4 نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر رحمة للعلمين علي اسوۂ کامل 52 89 111 112 113 123 125 126 127 130 133 140 143 144 147 148 150 153 صلى الله سيرة النبی علیہ کے جلسوں کے اثرات ا رسول کریم علیہ کی مجلس کا ایک واقعہ اللہ تعالیٰ کی چار صفات اور رسول کریم ع کے چار کام رسول کریم ﷺ کی ہمدردی خلق کا ایک اہم واقعہ صلى الله رسول کریم علیہ کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز سمجھنا صلى الله رسول کریم ﷺ کی مذہبی رواداری کی ایک مثال صلى الله رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ رسول کریم علیہ کے مخالفوں کی ناکامی رسول کریم علیہ سے صحابہ کا عشق اور فدائیت رسول کریم ﷺ کی صداقت کے تین دلائل رسول کریم مے پر طائف میں پتھر برسائے گئے جنگ حنین میں رسول کریم ﷺ کی بہادری اور قوت قدسیہ کا مظاہرہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کا مقام خطرات کے موقع پر رسول کریم ﷺ کا طرز عمل صلى الله رسول کریم ﷺ پر اعتراض کا بھیانک نتیجہ صحابہ رسول کی فدائیت اور قربانیاں 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 29 30 31 32 33
جلد 4 سيرة النبي علي نمبر شمار 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 iii عنوان ایک صحابی کے عشق رسول کی مثال رسول کریم ﷺ کی عبادت کی برکات پہلی وحی اور حضرت خدیجہ کی تسلی رسول کریم علیہ کی عظمت کے قیام کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی رسول کریم ﷺ کی سیرت کا ایک اہم واقعہ رسول کریم ﷺ کی تکالیف اور نصرت الہی صلى الله صلى الله رسول کریم ﷺ کی شجاعت اور آپ علیہ کی حفاظت رسول کریم ﷺ کی خطر ناک مخالفت اور نصرت الہی رسول کریم ﷺ کی عظمت و احترام اور مقام رسول کریم اللہ پر خدا تعالیٰ کا احسان رسول کریم میہ کی غیرت ایمانی رسول کریم ﷺ کی عملی زندگی کے اثرات رسول کریم علیہ کے بارہ میں الزامات کا جواب الله عشق رسول اور رسول کریم عملہ کا ایک معجزہ صلى الله رسول کریم ﷺ کی زندگی کے متفرق واقعات صلى الله رسول کریم ہے کے پیدا کردہ اخلاق تقسیم غنائم پر ایک انصاری کا اعتراض رسول کریم ﷺ کا صبر و تحمل صفحہ نمبر 155 156 159 160 164 165 168 171 176 189 192 196 199 202 206 209 211 213
سيرة النبي علي نمبر شمار 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 iv عنوان رسول کریم ﷺ اور نصرت الہی صلى الله رسول کریم ﷺ اور مقامات مقدسہ سے پیار رسول کریم ﷺ کے اطاعت شعار صحابہ رسول کریم ﷺ کی اہل وعیال سے محبت رسول کریم مہ کی حفاظت الہی رسول کریم ﷺ کی مذہبی رواداری رسول کریم ﷺ کا انداز تربیت جنگ احزاب کی مشکلات اور نصرت الہی صبر کی نصیحت اور انداز تربیت رسول کریم ﷺ کی محنت ہائے شاقہ اور معمور الاوقاتی رسول کریم ﷺ کی بہادری اور توکل رسول کریم ﷺ کی غیرت ایمانی رسول کریم ﷺ بہترین مصلح رسول کریم اللہ کی رحم دلی رسول کریم ﷺ کا بطور بادشاہ نمونہ صلى الله رسول کریم علی کا راہ خدا میں مصائب اٹھانا آنحضرت علی کے ذریعہ توحید کامل کا قیام رسول کریم ﷺ کے طرز عمل سے وقار کا مفہوم بیعت رضوان صفحہ نمبر جلد 4 214 224 226 228 230 232 233 235 238 239 244 251 255 260 270 273 275 289 291
جلد 4 صفحہ نمبر 293 296 300 303 304 306 308 313 316 320 322 V عنوان اعلیٰ مقصد کے لئے قربانی بارے رسول کریم ہے کے دوار شادات الله رسول کریم ﷺ کا دعوت الی اللہ میں حیرت انگیز استقلال رسول کریم علیہ کا دعوت الی اللہ کا طریق رسول کریم ﷺ کا تذلل رسول کریم ﷺ کی وطن اور اہل وطن سے محبت رسول کریم ﷺ پر اعتراض کے خطرناک نتائج رسول کریم ﷺ کی زندگی کا اثر انگیز واقعہ رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کی حالت رسول کریم ﷺ کی دعویٰ سے قبل کی زندگی الله رسول کریم ﷺ کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف رسول کریم ﷺ کا جنگ خندق میں پتھر توڑنا اور عظیم فتوحات کی بشارات رسول کریم ﷺ کا مسیلمہ کذاب اور کفار مکہ کو جواب رسول کریم ﷺ کا بیان فرمودہ عظیم اصلاحی نکتہ گالیوں کے مقابلہ میں رسول کریم علیہ کا صبر 324 326 328 جنگ احد میں رسول کریم عملے کی ایک چھوٹی سی ہدایت 330 333 پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ فتح مکہ کے بعد ہندہ کی عورتوں کے ہمراہ بیعت سيرة النبي الله نمبر شمار 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86
سيرة النبي علي vi جلد 4 صفحہ نمبر نمبر شمار 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 عنوان جماعت احمد یہ ہی رسول کریم ﷺ کے مقام کا عرفان 334 کھتی ؟ رسول کریم ﷺ کی سیرت صلح حدیبیہ کی روشنی میں تمام کمالات اور انعامات کے جامع رسول کریم ہے کے مقابلہ میں دو دشمنوں کی ناکامی الله رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی آپ سے دیوانہ وار محبت رسول کریم علی کا غلاموں پر احسان رسول کریم ﷺ کے مخالفین سے خدا کا سلوک جنگ بدر میں رسول کریم ﷺ کی نصرت صفات باری کے مظہر اتم رسول کریم علیہ کا اہل خانہ سے پیار جملہ اخلاق کے جامع صلى الله رسول کریم ﷺ کے غیر معمولی یقین کے اثرات رسول کریم اے کے اموال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متفرق حصے 101 تمدن اسلامی کے متعلق رسول کریم عالی و دولت کی توہ 102 رسول کریم ﷺ کی قربانیاں 103 104 صلى الله رسول کریم ﷺ کی سخاوت اور توکل کا مقام رسول کریم ع کا صحابہ سے مشورہ لینا 358 362 365 368 371 372 375 377 388 390 395 400 402 410 416 417 419
سيرة النبي علي نمبر شمار vii عنوان 105 ایک غریب شخص کو رسول کریم ع کی نصیحت 106 فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ کا فیصلہ 107 108 سیرت نبوی کے دو پہلو رسول کریم اللہ کا خوف خدا 109 رسول کریم ﷺ اور امن عالم 110 111 رشتہ داروں سے سلوک رسول کریم ﷺ کی شجاعت 112 حیات مسیح کا عقیدہ رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے 113 رسول کریم ہے اور عورتوں کے حقوق 114 رسول کریم عمل کا بیان فرموده نکته 115 رسول کریم ﷺ کے صدق کا اثر 116 صحابہ کی دلجوئی اور حسِ مزاح 117 118 119 120 شادی بیاہ کے معاملہ میں رسول کریم ﷺ کی سادگی رسول کریم ﷺ کی زندگی پر مختصر نظر رسول کریم ﷺ کا بچپن رسول کریم ع کا وسعت حوصلہ 121 الہی وعدوں کے پورا کرنے کے لئے رسول کریم علی کی قربانیاں اور دعائیں صفحہ نمبر 423 425 427 432 434 454 455 456 465 469 470 471 472 475 480 482 484 جلد 4
سيرة النبي عليه 1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلد 4 آنحضور ﷺ کا کلمہ حکمت کہ ہر مرض کی دوا ہے حضرت مصلح موعود کا ایک مضمون الفضل 21 فروری 1933ء کے شمارہ میں شائع ہوا جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں :.د میں اس حکمت کی طرف توجہ دلاتا ہوں یعنی لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوْتِ 1 جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک مرض کا علاج بلا استثنا اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مگر باوجود اس کے انسان موت سے نہیں بچ سکتا.بیماریاں دور کی جاسکتی ہیں مگر موت کو ٹلایا نہیں جا سکتا.انسان آخر مرتا ہے اور ضرور مرتا ہے آئندہ مرے گا اور ضرور مرے گا.یہ کلام ہے جو بانی اسلام کے منہ پر آج سے تیرہ سو سال پہلے جاری ہوا اور ان لوگوں کے سامنے بیان کیا گیا جو اس کی پوری حقیقت کو سمجھنے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے تھے بلکہ اُس زمانہ میں جاری ہوا جس کے ایک ہزار سال بعد سخت جدو جہد سے علوم دنیوی اس مقام پر پہنچے جہاں سے وہ اس حکمت کی صرف شبیہ دیکھنے کے قابل ہو سکے.عرب موت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور اس کی جنگی اور آزاد زندگی اسے بیماریوں سے بچائے رکھتی تھی.پس علم طب اس کی نظروں سے پوشیدہ تھا اور اس علم سے صرف چند نسخے جو عورتیں سینہ بسینہ یا د رکھتی چلی آتی تھیں اس کے حصہ میں آئے تھے اور اگر باوجود اس کی جنگی زندگی کے وہ بیمار ہوتا تو وہ اسے دیوتاؤں کا غضب سمجھ کر یا ستاروں کا اثر خیال کر کے شفا سے مایوس ہو جاتا تھا اور اسے پیغام اجل سمجھ کر اپنی قسمت پر قناعت کرتے ہوئے ہر قسم کی جدو جہد کو ترک کر دیتا تھا.اس کے دائیں
سيرة النبي عمال 2 جلد 4 طرف ہندوستان اور ایران اُس زمانہ کے حالات کے مطابق علم طب کے اچھے خاصے علم بردار تھے اور بائیں طرف یونانی مگر وہ ان کے بیچ میں رہ کر بھی اس علم سے بالکل کورا تھا.اس جماعت کا ایک فرد آج سے تیرہ سو سال پہلے کہتا ہے کہ لِكُلِّ دَاءِ دَوَاءٌ إِلَّا المَوت ہر ایک مرض خواہ کوئی ہو اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پس انسان ہر مرض کے صدمہ سے بیچ سکتا ہے لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ اس طرح وہ مرضوں سے بچ کرموت سے بچ جائے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا.کیا اس تعلیم کی نسبت یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ عرب کے حالات سے متولد ہوئی تھی عرب تو بیچارے طب سے بالکل ہی ناواقف تھے.خود یونانی جنہوں نے علم طب کو ترقی دیتے دیتے کمال تک پہنچا دیا تھا سینکڑوں بیماروں کو لا علاج قرار دیتے تھے.رسول کریم ﷺ کی راہنمائی کا اثر پھر کیا اس تعلیم کو اس زمانہ کے صلى الله حالات سے متولّد قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اس حقیقت کے اظہار کے بعد بھی سینکڑوں سال تک دنیا اس تعلیم کی حقیقت نہیں سمجھی اور اٹھارویں صدی عیسوی تک تمام اقسام طب بیسیوں امراض کو لاعلاج خیال کرتی رہیں.نہیں اور یقیناً نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اس حکمت کے جاری ہونے کے گیارہ سو سال بعد جا کر دنیا کو اپنی غلطی پر کسی قدر تنبیہ ہوئی اور دوسو سال کی لمبی جد و جہد کے بعد وہ آج اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ہر ایک مرض کا علاج موجود ہے اور جن امراض کا علاج اس وقت تک نہیں بھی معلوم ہو سکا ان کو بھی ہم معلوم کر لیں گے کیونکہ یکے بعد دیگرے ہمارے اس خیال کی کہ فلاں اور فلاں امراض لا علاج ہیں نیچر تر دید کرتی چلی گئی ہے.چھلی دو سو سال کی علمی ترقی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کی صداقت پر مُہر لگا دی ہے کہ ہر ایک مرض کی دوا موجود ہے اور آج ہم بہت سے
سيرة النبي علي 3 جلد 4 ایسے امراض سے نجات پاسکتے ہیں جن کا علاج آج سے دوسو سال پہلے بالکل ناممکن خیال کیا جاتا تھا یا ایسا مشکل تھا کہ بہت کم مریض اس سے بکلی شفا پاتے تھے.کزاز کا مریض جس سختی اور شدت بعض شدید امراض اور ان کا علاج سے جان تو ڑا کرتا تھا اُس کو دیکھ کر بہتوں کے دل ہل جاتے تھے.موت کو چھوڑ کر اُس مریض کی تکلیف ہی ایسی ہوتی تھی کہ اس کے رشتہ دار ا سے بھی غنیمت سمجھتے کہ مریض آرام کے ساتھ مر سکے لیکن تریاق کزاز ٹیکا کی ایجاد سے اگر مرض شروع ہوتے ہی ٹیکا کر دیا جائے تو ایک معقول تعداد میں مریضوں کی جان بچ جاتی ہے اور اگر امکانِ زہر ہی کی حالت میں اثر کے ظاہر ہونے سے پہلے ٹیکا کر دیا جائے تو قریباً سب کے سب آدمی اس مرض کے حملہ سے بچ جاتے ہیں اور اس کے علاج میں اس ترقی کو دیکھ کر آئندہ کے لئے ہمارا کامل علاج کے نکلنے کی امید کرنا خلاف عقل نہیں ہے.خناق کا مرض بھی نہایت خطرناک مرض ہے اور نہایت ہی مُہلک ثابت ہوتا رہا ہے اور چونکہ اس میں گلے کے اندر ایک زائد جھلی پیدا ہو جاتی ہے اور سانس رکنے لگ جاتا ہے اس مریض کی حالت بھی نہایت قابل رحم ہوتی ہے اور چند گھنٹوں کے اندر ہی مریض کی حالت یاس کی ہو جاتی ہے اور نہایت دکھ سے سانس رک رک کر مر جاتا ہے.یہ مرض بھی لاعلاج ہی سمجھا جاتا تھا اور اگر اس مرض کے بیمار ا چھے ہوتے تھے تو اس قدر علاج کا اثر نہیں سمجھا جاتا تھا جس قدر کہ طبیعت کی طاقت مقابلہ کا.لیکن تریاق خناق ٹیکا کے نکلنے سے اس مرض کے علاج میں بھی بہت سہولت پیدا ہو گئی ہے اور ایک معقول تعداد میں مریضوں کی جان بچ جاتی ہے.ہلکے کتے کے کاٹنے کے نتائج سے بالعموم لوگ واقف ہیں اس زہر کا علاج بھی دنیا کو اس سے پہلے معلوم نہ تھا اور جو کچھ علاج کیا جاتا تھا وہ یقینی نہ ہوتا تھا اور علاج کہلانے کا مستحق نہ تھا.مگر اب پسٹیور طریق علاج سے ہزاروں جانیں ہر سال اس
سيرة النبي عمال 4 جلد 4 خطرناک آفت سے بچائی جاتی ہیں اور ان بھیا نک مناظر کے دیکھنے سے سگ گزیدہ کے رشتہ دار بچ جاتے ہیں جو اس سے پہلے ان کو دیکھنے پڑتے تھے.آ تشک کی مرض بھی قریباً لا علاج تھی لیکن گو مختلف علاجوں سے بعض دفعہ ظاہری علامات مٹ جاتی تھیں مگر اس موذی مرض کا اثر جسم میں باقی رہتا تھا اور صحت ہمیشہ کے لئے برباد ہو جاتی تھی.مگر سالورسن اور نیو سالورسن کی ایجاد سے اس عظیم الشان خطرہ سے بھی بنی نوع انسان نے نجات پالی ہے اور اب ہزاروں آدمی اس کے زندگی کے تباہ کرنے والے زہر سے بکلی پاک ہو جاتے ہیں اور کارآمد زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.پتھری کی مرض کیسی خطرناک تھی اور جب تک اس کا آپریشن کرنے کا طریق معلوم نہیں ہوا اس کا مریض کس طرح اپنے سامنے یقینی موت دیکھتا تھا.اس سے قریباً ہر ملک کے لوگ واقف ہیں.گھیگے کی مرض کو مہلک نہ ہو مگر کیسی بدنما ہوتی ہے.درحقیقت اس مرض سے زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور شکل نہایت بری اور ڈراؤنی معلوم ہوتی ہے اور شاید بہت ہوں جو اس مرض کی وجہ سے موت کو زندگی پر ترجیح دیں مگر اس کا کوئی علاج نہ تھا یہاں تک کہ آپریشن نکلا اور آپریشن کے بعد بھی یہ مرض بار بار عود کر آتی تھی.یہاں تک کہ ہومیو پیتھک علاج سے اس مرض کا ازالہ کر دینا پوری طرح ممکن ہو گیا اور آٹو ہیمک (Autohemic) علاج نے تو اس کا ایک ایسا یقینی علاج بنی نوع انسان کے ہاتھ میں دے دیا کہ اب یہ مرض بالکل معمولی رہ گئی ہے اور بعض ڈاکٹروں کا تجربہ ہے کہ قریباً ننانوے فیصدی مریض بلا خطرہ کے پوری طرح شفا پا جاتے ہیں اور اس مرض کے عود کرنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں رہتا اور نہ صرف گھیگا ہی دور ہو جاتا ہے بلکہ تھائرائڈ گلینڈز کے ورم کی وجہ سے عام صحت پر جو اثر پڑتا رہتا ہے وہ بھی دور ہو جاتا ہے.
سيرة النبي عمال 5 جلد 4 اسی طرح رسولیاں اور بعض خاص قسم کے سیلان خون جو پہلے لا علاج اور مہلک سمجھے جاتے تھے اب ان کا آپریشنوں اور دواؤں سے علاج آسان ہو گیا ہے.اور بیسیوں بیماریاں ہیں جیسے ذیا بیطس ، سل ، جگر کے پھوڑے، ہیضہ، کوڑھ، تپ محرقہ ، بیماری ہائے قلب ، سرطان، ہڈی کا شکستہ ہو کر باہر آ جانا، فتق ، کبورت دم، بول الدم، ٹیرا پن ، اپنڈی سائٹس، آنکھ کے اعصاب کے فالج سے بینائی کا جاتے رہنا، نواسپر انتڑیوں میں بل پڑ جانا، بچہ کا رحم میں پھنس جانا وغیر ہا جن کے علاج یا تو بالکل نہ تھے یا اگر تھے تو محض خیالی کیونکہ ان علاجوں کا یقینی نتیجہ نہیں نکلتا تھا اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ صحت دواؤں کے اثر سے ہوتی ہے یا خود بخو دطبیعت اچھی ہو گئی ہے لیکن ان کے ایسے علاج نکل آئے کہ علمی طور پر ان کو یقینی علاج کہا جا سکتا ہے.اس ترقی کو دیکھ کر اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن بیماریوں کا علاج اب تک نہیں ملا یا ناقص علاج ملا ہے ان کا علاج بھی مل جائے گا اور یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ ہر ایک بیماری کا علاج موجود ہے، بالکل سچ تھا اور ایک ایسا نکتہ حکمت تھا جسے اس زمانہ کے حالات کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ اس زبردست ہستی کی طرف سے القا کیا گیا تھا جو نیچر کی پیدا کرنے والی اور اس کی طاقتوں سے واقف ہو.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی کہ ہر مرض کا علاج موجود ہے صرف اسی رنگ میں تائید نہیں ہوئی کہ بعض امراض جو پہلے لا علاج یا بمشکل علاج پذیر سمجھی جاتی تھیں ان کے لئے اب مفید اور سہل علاج دریافت ہو گئے ہیں بلکہ اس طرح بھی کہ کئی طریق علاج نئے دریافت ہوئے ہیں جن سے علاوہ لاعلاج امراض کے علاج معلوم ہونے کے دوسری امراض کے علاج میں بھی سہولت پیدا ہوگئی ہے اور یا تو صحت کا حاصل ہونا پہلے سے آسان ہو گیا ہے یا دواؤں کی قیمت اور خرچ میں کفایت ہو گئی ہے.
سيرة النبي عليه 6 جلد 4 علم طب میں ترقی جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمہ حکمت بیان فرمایا اُس وقت علم طب کی صرف دو شاخیں تھیں یعنی یونانی اور ویدک.باقی سب علاج انہی کی شاخیں تھیں یا ایسے طریق علاج تھے جو سائنس یا علم کہلانے کے مستحق نہ تھے لیکن اس کے بعد یورپ کی توجہ علم کی طرف پھرنے سے یونانی طریق علاج میں سے نشو و نما پا کر ایلو پیتھک طریق علاج نکل آیا.اس کے بعد ہو میو پیتھک طریق علاج یعنی علاج بالمثل کی دریافت نے طبی دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا اور یہ معلوم کر کے انسان کو سخت حیرت ہوئی کہ اس کی شفایابی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکمت سے ان ہی ادویہ میں قوت شفا بھی رکھی ہوئی ہے جن سے اس قسم کی مرض پیدا ہوتی ہے.گویا بیماری کے ساتھ ہی اس کا علاج بھی رکھا ہے.جو چیز جس قسم کی بیماری بڑی مقدار میں پیدا کرتی ہے اس کی تھوڑی مقدار جو زہر یا بداثر ڈالنے کی حد سے نکل جائے اسی قسم کی بیماری کے رفع کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے.اس طریق علاج سے بہت سے امراض جو پہلے لا علاج سمجھے جاتے تھے قابل علاج ثابت ہو گئے اور طبی علوم میں بہت ترقی ہوئی.اسی طرح علاج بالماء یعنی ہیڈ رو پیتھی کے معلوم ہونے سے صرف غسل اور گیلے کپڑوں کی مالش سے بہت سی امراض کا علاج ہونے لگا اور بہت سے گہنہ امراض کے دفع کرنے میں اس علاج سے مدد ملی.ٹو یلو ٹشو ریمیڈیز (Twelve Tissue Remedies ) یعنی بارہ نمکوں کے علاج کی ایجاد نے علاج کو ایسا آسان کر دیا کہ اب ہر ایک شخص کی مقدرت میں ہو گیا کہ وہ طبیب کے نہ ملنے کی صورت میں آسانی سے بغیر کسی خاص علم کے محض کتاب دیکھ کر معمولی اور روزمرہ کی شکایات کا علاج کر سکے اور صرف ان بارہ معدنی اجزا کے ذریعہ جن سے انسانی جسم بنا ہے تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہو گیا.الیکٹرو ہو میو پیتھی کے طریق علاج نے طب کے دائرہ عمل کو اور بھی وسیع کر دیا ہے اور بنی نوع انسان کے لئے شفایابی کے دروازے کھول دیئے.
سيرة النبي علي 7 جلد 4 سائیکیوانیلیسز (Psychoanalysis) کے طریق علاج نے بہت ایسی امراض کے علاج کا دروازہ کھول دیا ہے جو فکر و خیال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور جن کا علاج صرف دواؤں سے ہونا ناممکن تھا.علاج بالتوجہ اور توجہ ذاتی نے شفا کو انسان کے ایسا قریب کر دیا کہ گویا شفا حاصل کرنے کے لئے ارادہ کی دیر ہوتی ہے.ارادہ کیا اور بہت سی شفا ہوئی.ویکسین اور سیرم کی ایجاد نے علم طب میں ایک ایسا مفید اضافہ کیا ہے کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے.درحقیقت اس طریق علاج سے ہزاروں لاکھوں مریضوں کو ہر سال ایسے رنگ میں آرام ہوتا ہے کہ اس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور سگ گزیدہ اور خناق اور کز از وغیر ہا کے علاج اور انفلوئنزا اور محرقہ وغیر ہا کے حفظ ما نتقدم میں اس سے اس قدر مدد ملی ہے کہ اس پر جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر کیا جائے کم ہے.مددملی بلحاظ زمانہ کے سب سے آخر میں لیکن بلحاظ اثر کے اعلیٰ درجہ کے طریقہ ہائے علاج میں سے آٹو ہیمک (Autohemic) طریق علاج کی ایجاد ہے جسے امریکہ میں 1910 ء میں ڈاکٹر راجرز نے ایجاد کیا ہے.اس طریق علاج کے ذریعہ خود بیمار کا خون چند قطرے لے کر اور خاص طور پر تیار کر کے مریض کے جسم میں پرکاری کے ذریعہ داخل کر کے تمام مزمن امراض کا علاج کیا جاتا ہے اور ان چند سال کے عرصہ میں ہی اس میں اس قدر کامیابی ہوئی ہے کہ بیان سے باہر ہے.ان مختلف طریقہ ہائے علاج کی دریافت کے علاوہ اور بہت سی ایسی دریافتیں ہوئی ہیں جن سے علاج یا تشخیص کہ جو علاج صحیح کے لئے ضروری ہے بہت سہل ہوگئی ہے.مثلاً خوردبین کی ایجاد ہے اس کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوا ہے کہ بہت سی بیماریاں نہایت باریک کیڑوں سے پیدا ہوتی ہیں اور جس وقت بیماری کی تشخیص مشکل ہو اس کے ذریعہ سے معلوم کر لیا جاتا ہے کہ کس مرض کے کیڑے انسان کے جسم میں پائے جاتے ہیں.یا مثلاً خون کا امتحان ہے اس کے ذریعہ سے بھی تشخیص میں بہت سی
سيرة النبي عمال 8 جلد 4 مدد ملتی ہے یا پیشاب کے پر کھنے کے بہت سے طریق ہیں کہ جن کے ذریعہ بہت سی امراض کا پتہ لگایا جاتا ہے.ان کے علاوہ امریکہ کا ایک ڈاکٹر سان فرانسسکو میں ایک ایسا آلہ ایجاد کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیابی بھی ہوگئی ہے کہ جس سے مختلف مخفی امراض صرف اس آلہ کو مریض کے جسم سے لگانے سے معلوم ہو جایا کریں گی اور ان کے درجے بھی پتہ لگ جایا کریں گے.غرض بہت سے طریق تشخیص ایسے ایجاد ہوئے ہیں کہ ان سے بیماریوں کا یقینی طور پر معلوم کرنا آسان ہو گیا ہے اور اس وجہ سے امراض کا علاج بھی بہت سہل ہو گیا ہے.اسلام کی صداقت کی زبردست دلیل یہ سب ترقیاں جو اس صدی اور اس سے پہلی صدی میں ہوئی ہیں کس امر پر دلالت کرتی ہیں؟ کیا اس پر نہیں کہ اسلام تیرہ سو سال پہلے کے عربوں کے حالات کا ایک طبعی نتیجہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا مذہب ہے ورنہ اس میں یہ خیالات کہاں سے آئے جو اس زمانہ کے خیالات سے نہ صرف یہ کہ مختلف ہیں بلکہ ایسے بعید ہیں کہ اس زمانہ میں ان کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سن کر بھی ان پر یقین کرنا مشکل تھا اور کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مذہب صرف عربوں یا ان ہی کی قسم کے اور لوگوں کے لئے مفید نہیں بلکہ ہر درجہ کی تہذیب یافتہ قوموں کے لئے مفید ہے اور ان کو ترقی کے زینہ پر چڑھا کر بہت اوپر لے جا سکتا ہے.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “ (الفضل 21 فروری 1933 ء ) 66 1 مسلم كتاب السلام باب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ صفحه 977 حدیث نمبر 5741 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية میں "إِلَّا الْمَوْتِ“ کے الفاظ نہیں ہیں.
سيرة النبي علي 9 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی دعاؤں اور اخلاق کے اثرات حضرت مصلح موعود 24 فروری 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.”دیکھو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ہمیں برا تو کہتے ہو لیکن اَوَلَمْ يَرَوْا انَّا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا 1 کچھ پتہ بھی ہے تمہارے بیٹے اور بیٹیاں، بھانجے اور بھانجیاں، عزیز اور رشتے دار سب کو ایک ایک کر کے محمد ماہ کی گود میں لا رہے ہیں.اسلام کے زمانہ میں ہمیں یہ نظارے نظر آتے ہیں.ایک شخص شدید دشمن ہوتا ، رات اور دن رسول کریم ﷺ کی مخالفت میں لگارہتا مگر وہ خود یا اس کا کوئی عزیز بیٹا یا بیٹی، بیوی یا بہن داخل اسلام ہو جاتی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہی واقعہ ہے.وہ اپنی جوانی کے دنوں میں اسلام کی مخالفت میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے.حتی کہ ان کے گھر کی ایک خادمہ مسلمان ہو گئی تھی وہ اسے سخت پیٹا کرتے.اور جب خود مسلمان ہو گئے تو وہ یہ کہہ کر چڑایا کرتی کہ تم تو مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا کرتے تھے اب خود مسلمان ہو گئے ہو.انہوں نے ایک دفعہ عزم کیا کہ رسول کریم کو قتل کر دیں.تلوار سنبھالے جارہے تھے کہ راستہ میں انہیں ایک دوست ملا.اس نے پوچھا خیر تو ہے کدھر کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جارہا ہوں.اس نے کہا واہ واہ ! بڑے باغیرت ہو محمد ﷺ کو تو قتل کرنے چلے ہو مگر اپنے دل کا حال معلوم نہیں کہ بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.کہنے لگے ہیں! یہ بات ہے اچھا میں پہلے ان کا ہی صفایا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے رسول کریم ﷺ ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ابو جہل یا عمر بن الخطاب ان دونوں میں سے کسی کو مسلمان
سيرة النبي عالي 10 جلد 4 کر دے کیونکہ یہ دونوں پُر جوش اور اعزاز رکھنے والے تھے.جب بہن کے گھر پہنچے تو دروازہ اندر سے بند تھا اور اندر ایک صحابی قرآن شریف پڑھا رہے تھے.انہوں نے دستک دی تو اندر سے پوچھا گیا کون ہے؟ انہوں نے کہا میں ہوں جلدی کھولو.انہوں نے حضرت عمر کی آواز سن کر اس صحابی کو تو کہیں چھپا دیا اور قرآن کے اوراق بھی پوشیدہ کر دیئے پھر دروازہ کھولا.حضرت عمر نے غصہ سے پوچھا دروازہ کھولنے میں دیر کیوں لگی ہے؟ کہا گیا یونہی دیر ہوگئی ہے.کہنے لگے بتاؤ کیا وجہ تھی ؟ انہوں نے کچھ عذر وغیرہ کئے مگر ان کی تسلی نہ ہوئی اور چونکہ طبیعت میں سخت جوش تھا اس لئے بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا.ان کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھیں تو چونکہ حضرت عمر جوش میں ہاتھ اٹھا چکے تھے اس لئے بہن کے بھی ایک مکا لگا اور خون بہنے لگا.حضرت عمر جہاں نہایت سخت مزاج تھے وہاں رقیق القلب بھی بہت تھے.بہادر آدی جب عورت پر وار ہوتے دیکھتا ہے تو سخت ندامت اور پشیمانی محسوس کرتا ہے.اسی بنا پر حضرت عمر بھی نادم ہوئے اور کہنے لگے اچھا مجھے دکھاؤ تو تم کیا پڑھ رہے تھے؟ اس طرح انہوں نے اپنی شرمندگی کا اظہار کرنا چاہا.میں نے ابھی بتایا ہے کہ بہادر آدمی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتا.پھر میں نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عمر اپنی لونڈی کو پیٹا کرتے تھے.دراصل اُس زمانہ کے اخلاق کے لحاظ سے لونڈی اور غلام انسان نہیں سمجھے جاتے تھے اس لئے انہیں مارنا پیٹنا کوئی بات نہ تھی.لیکن ایک کر اور آزاد عورت پر ہاتھ اٹھا نا سخت عیب متصور ہوتا تھا.انہوں نے جب قرآن کے اوراق مانگے تو بہن نے کہا ہم نہیں دیں گے، تم ان کی بے حرمتی کرو گے.انہوں نے قسم کھائی کہ میں بے حرمتی نہیں کروں گا.اس پر قرآن کی آیات دکھائی گئیں.چونکہ دل پہلے ہی رقت حاصل کر چکا تھا اور روحانیت کا دروازہ کھل چکا تھا اس لئے جوں جوں پڑھتے جاتے آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے جاتے.پھر سیدھے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے.وہاں بھی صحابہ دروازے بند کئے بیٹھے تھے.جب
سيرة النبي عمال 11 جلد 4 انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو چونکہ بڑے تیز مزاج تھے بعض صحابہ کو خدشہ پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ بختی کریں.حضرت حمزہ نے کہا کوئی بات نہیں دروازہ کھول دو.اگر اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس کا سر توڑ دوں گا.دروازہ کھولا گیا اور حضرت عمر اندر آئے.رسول کریم علیہ نے ان کے دامن کو جھٹکا دے کر فرمایا عمر ! کس نیت سے آئے ہو؟ انہوں نے گردن جھکائی اور عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! آپ کی بیعت کرنے کیلئے آیا ہوں 2.غرض یہ سزا تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخالفین کو مل رہی تھی.اور یہی سزا ہے جو نیکی اور تقویٰ پیدا کرتی ہے.اگر ہم کسی کو مار دیتے ہیں تو اسے ہمیشہ کے لئے نیکی سے محروم کر دیتے ہیں اور اگر کسی کو گالی دیتے ہیں تو بھی اس کے دل میں بغض پیدا کر کے اسے نیکی سے محروم کرتے ہیں.صحیح اور مفید طریق یہ ہے کہ ظالم کی بجائے ہم مظلوم بنیں.اور اگر دشمن غصے اور کینہ کا اظہار کرے تو ہم نرمی، محبت اور ملائمت میں ترقی کرتے جائیں.اگر وہ دنیا کی اصلاح سے ہمیں رو کے تو ہم اور زیادہ اس اصلاح پر کمر بستہ ہو جائیں.اس زمانہ میں بھی میں دیکھتا ہوں کہ پھر احمدیت کے خلاف جوش پیدا ہو رہا ہے.اس کے مقابلہ میں میں دیکھتا ہوں کہ بعض احمد یوں کے دلوں میں بھی ویسا ہی جوش ہے جیسے حضرت حمزہ کے دل میں تھا کہ انہوں نے کہا آنے تو دو اگر اس نے کوئی خلاف حرکت کی تو اس کا سر توڑ دوں گا.یہ حضرت حمزہ کے الفاظ تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ میں سر توڑ دوں گا بلکہ آپ نے کہا عمر ! تم کب تک ہمارے پیچھے پڑے رہو گے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں تو تو بہ کرنے آیا ہوں 3.رسول کریم علیہ کے کیا درد کے الفاظ ہیں اور کس طرح محبت ان میں کوٹ صلى الله کوٹ کر بھری ہوئی ہے.گویا ایک طرف تو رسول کریم ﷺ انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ تم ہمیشہ ظلم کرتے ہو اور پھر یہ بھی اظہار فرمارہے ہیں کہ ہم کبھی اس ظلم کا جواب نہیں دیتے.اور تیسری طرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ عمر ا تم نیکی کا کب تک انکار کرو گے.یہی
سيرة النبي عمال 12 جلد 4 66 چیز ہے جس سے آج بھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.“ (الفضل 9 مارچ 1933 ء ) 1: الرعد: 42 2، 3: الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 صفحہ 267 تا 269 مطبوعہ بیروت 1985ء
سيرة النبي علي 13 جلد 4 وو رسول کریم ﷺ کے ابتلا اور نصرت الہی ابتلا اور حضرت مصلح موعود نے 17 مارچ 1933 ء کو بمقام لا ہور خطبہ جمعہ میں فرمایا :.حقیقی امداد اور نصرت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام حکومتوں سے آزاد جگہ پیدا کیا.اگر رسول کریم کسی منظم حکومت کے ماتحت ہوتے تو چاہے وہ حکومت دشمن بھی ہوتی پھر بھی دشمن کی حکومت ایک رنگ حفاظت کا اپنی رعایا کو ضرور دیتی ہے.مثلاً یہی کہ ایسی حکومت میں بھی ہر شخص ایذا پہنچانے کا مجاز نہیں ہوسکتا.بلکہ اگر حکومت دشمن ہو تو وہ یہی چاہے گی کہ میں خود سزا دوں، یہ نہیں کہ خالد بکر جو اٹھے فساد برپا کرنا شروع کر دے.اس طرح حکومت کی تنظیم میں فرق پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کی اجازت نہیں دے سکتی.مثلاً افغانستان میں ہی ہمارے بعض احمدی بھائی سنگسار کئے گئے مگر حکومت نے یہ فعل خود کیا دوسروں نے نہیں.پس باجود اس کے کہ اُس وقت کی حکومت افغانستان کا فعل نہایت ہی ظالمانہ اور عدل و انصاف کے خلاف تھا پھر بھی اس نے اس حد تک کیا کہ ظلم بھی اپنے ہاتھ سے کیا دوسروں کے ذریعہ نہیں.لیکن رسول کریم ﷺ کو جو آخری ہدایت نامہ دے کر بھیجا گیا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ کامل طور پر اسی کی تائید و نصرت سے پھیلے انسانی ہاتھ کا اس میں دخل نہ ہو.تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسے ملک میں پیدا کیا جس میں کوئی بھی حکومت نہ تھی.اس میں شبہ نہیں کہ عرب کے لوگ آپس میں بعض موقعوں پر مشورہ کر لیا کرتے تھے مگر کوئی ایسا قانون نہ تھا جس میں افراد، افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہوں.بے شک ان میں یہ قانون تھا کہ لڑائی سے پہلے فلاں شخص کے
سيرة النبي علي 14 جلد 4 پاس روپیہ جمع کرا دیا جائے یا مثلاً یہ قانون تھا کہ جھنڈا فلاں شخص اٹھائے مگر ایسا کوئی قانون نہ تھا کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرنا چاہے تو وہ نہ کر سکے.پس گوان میں تنظیم کا ایک رنگ تھا مگر افراد کی آزادی پر حد بندی کے لئے نہیں بلکہ اپنے شہر یا قبائل کی حفاظت کے لئے.ایسے ملک میں رسول کریم میلے کے دعویٰ نبوت کرنے کے یہ معنے تھے کہ آپ کی جان کی اُس وقت کوئی بھی قیمت نہ تھی.اور اگر کوئی شخص نقصان پہنچانا چاہتا تو اُسے اُس کے ارادہ سے کوئی شخص نہ روک سکتا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ بتلانا چاہتا تھا کہ مجھے اپنے دین کی اشاعت کے لئے کسی انسانی مدد کی ضرورت نہیں.اور چونکہ رسول کریم افضل الانبیاء اور سید الرسل ہیں اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہوتے جو باقی انبیاء کے حالات زمانہ سے ممتاز ہوتے.لوگ کہتے ہیں کہ باقی انبیاء کو بھی ابتلاؤں سے گزرنا پڑا.یہ ٹھیک ہے مگر ان کے زمانہ کے ابتلا اس حد تک نہیں پہنچے جس حد تک رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ابتلا تھے.“ ( الفضل 23 مارچ 1933 ء )
سيرة النبي علي 15 جلد 4 رسول کریم علیہ کے صبر کا نمونہ صلى الله حضرت مصلح موعود 17 مارچ 1933 ء کو لاہور میں خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.اگر ہماری جان بھی دشمن لے لیتا ہے تو یہ کون سی بڑی بات ہے.بلکہ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ہمارا مولیٰ جو دور تھا موت کے بعد ہمارے قریب ہو گیا.یا اگر ہمارے عزیز اور رشتہ دار دین کے راستہ میں مارے جاتے ہیں تو یہ سب چیزیں بھی خدا ہی کی ہیں ہمارا ان پر کیا حق ہے.دیکھ لو رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بچے بھی دیئے اور پھر اس نے اٹھا بھی لئے.ایک دفعہ آپ قبرستان کے قریب سے گزررہے تھے کہ ایک بڑھیا اپنے بچے کی قبر پر رو رہی تھی.آپ نے فرمایا اے عورت! صبر کر.وہ کہنے لگی اگر تیرا بچہ مرتا تو تجھے پتہ لگتا کہ کتنا درد ہوتا ہے.آپ نے فرمایا اے بی بی ! میرے گیارہ بچے مر چکے ہیں.اتنا کہہ کر آپ وہاں سے چلے آئے.بعد میں کسی نے اسے بتایا کہ بد بخت یہ تو رسول اللہ ہے تھے.وہ یہ سنتے ہی دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں نے صبر کیا.آپ نے فرمایا صبر تو وہ ہے جو شروع میں کیا جائے 66 ور نہ رو دھو کر تو سب کو صبر آ جاتا ہے 1.“ ( الفضل 23 مارچ 1933 ء ) 1: بخاری کتاب الجنائز باب زيارة القبور صفحہ 205 حدیث نمبر 1283 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 16 جلد 4 طائف کا ابتلا حضرت مصلح موعود نے 17 مارچ 1933ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا:.پس تم اپنے دل کی کیفیت کو بدل ڈالو اور جیسا کہ میں نے ایک پچھلے خطبہ میں کہا تھا مومن اللہ تعالیٰ کا عاشق ہوتا ہے اپنے اندر عشق پیدا کرو.رسول کریم ﷺ کی مثال دیکھ لو جب آپ طائف میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے تو دشمنوں نے آپ پر پتھر برسائے.آپ اس تکلیف کی وجہ سے لہولہان ہو گئے.اور جب آپ آرہے تھے تو آپ کو الہام ہوا کہ اے محمد! ( ع ) اگر تو چاہے تو ابھی ان پر عذاب نازل کر کے ان کا تختہ الٹ دوں.آپ نے فرمایا نہیں.انہوں نے جو کچھ کیا ناواقفی کی وجہ سے کیا 1 66 ( الفضل 23 مارچ 1933 ء ) 1 : مسلم كتاب الجهاد باب ما لقى النبى له من أذى المشركين والمنافقين صفحه 801،800 حدیث نمبر 4653 مطبوعہ ریاض 1998ء
سيرة النبي علي 17 جلد 4 وو جنگوں میں رسول کریم علیہ کا خلق عظیم الله حضرت مصلح موعود 31 مارچ 1933ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کے میدان میں جنگ میں شامل ہونے والی ایک عورت کی لاش ملتی ہے.جنگ بھی ایسی جس کی فتح پر اسلام کی فتوحات کا انحصار تھا اور دشمن بھی ایسا جس نے اپنی ساری عمر اسلام کے مٹانے کے لئے خرچ کر دی تھی.ایسا دشمن مارا جاتا ہے، ایسی لڑائی فتح ہوتی ہے.لیکن ایک عورت کی لاش دیکھ کر محمد ﷺ کی ساری خوشی غم میں بدل جاتی ہے.آپ کے چہرہ پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا.صحابہ کہتے ہیں ہم نے کبھی رسول کریم ﷺ کو اتنا غضب میں الله نہیں دیکھا جتنا اُس روز 1.اس میں رسول کریم ﷺ کا کوئی دخل نہ تھا، اسلامی لشکر کا کوئی دخل نہ تھا.ایک ایسے موقع پر جبکہ اپنے پرائے میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات ایک اپنا اپنے ہاتھ سے قتل ہو جاتا ہے اتفاقاً حادثہ کے طور پر وہ عورت ماری جاتی ہے.لیکن چونکہ اس سے اسلامی فتح مشتبہ ہو جاتی اور دشمن کو انگشت نمائی کا موقع ملتا تھا وہ کہہ سکتے تھے محمد (ﷺ) کے متبعین نے عورت کو قتل کر دیا اس لئے رسول کریم ﷺ کو یہ حملہ بہت ہی سخت نظر آیا اور آپ کی ساری خوشی غم سے بدل گئی.جو دراصل سبق ہے اس بات کا کہ آپ کے نزدیک فتح کوئی چیز نہ تھی بلکہ نیک اور جائز ذرائع سے حاصل کردہ فتح کی قیمت آپ کے دل میں تھی.الله ایک اور موقع پر کچھ صحابہؓ بعض لوگوں پر حملہ کر کے ان کا مال لے آئے.جس وقت حملہ کیا گیا حج کے ایام آچکے تھے اور ان دنوں لڑائی جائز نہ تھی.اس موقع پر بھی
سيرة النبي عليه 18 جلد 4 رسول کریم ﷺ کا چہرہ غمگین ہو گیا اور آپ نے فرمایا تم نے یہ کیا کیا؟ پھر جو مارے گئے ان کا خون بہا دیا گیا.اس لئے نہیں کہ عام جنگی قوانین کے لحاظ سے یہ کوئی بری بات تھی.ہمیشہ لوگ ایسا کرتے اور خود عرب کے لوگ کرتے بلکہ محض اس لئے کہ رسول کریم ﷺ کا نقطہ نگاہ دوسروں سے بالا تھا.پس یا د رکھو ہماری جماعت کا مقصد فتح حاصل کرنا نہیں بلکہ دین اور اخلاق کے ذریعے فتح حاصل کرنا ہے.“ صلى الله 66 (الفضل 16 اپریل 1933 ء ) 1:ترمذی ابواب السير باب ماجاء فى النهى عن قتل النساء والصبيان صفحه 382 حدیث نمبر 1569 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 19 جلد 4 رسول کریم علیہ کا راہ مولیٰ میں مصائب اٹھانا د حضرت مصلح موعود نے 31 مارچ 1933 ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا:.پس ابتلا اور مصیبتیں مومن کا خاصہ ہیں اور ایمان کے جلا کے لئے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہے.اگر ابتلاؤں، ٹھوکروں اور گالیوں سے بے عزتی ہوتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ باللہ رسول کریم ﷺ کی بے عزتی ہوئی کیونکہ آپ کو گالیاں دی گئیں.اتنی کہ کسی اور کو آج تک نہیں ملیں.تکالیف پہنچائی گئیں اور اس قدر کہ کوئی شخص ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے.دشمن ایک اوجھڑی اٹھا لائے جو غلاظت سے بھری ہوئی تھی اور آپ کے اوپر ڈال دی 1.ایک دفعہ آپ کے گلے میں رسی ڈال کر کھینچا گیا اور کوشش کی گئی کہ آپ کا دم گھٹ ( الفضل 16 اپریل 1933ء ) جائے.1 بخاری کتاب مناقب الانصار باب ما لقى النبي و اصحابه من المشركين بمكة صفحہ 646 حدیث نمبر 3854 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: بخاری کتاب مناقب الانصار باب ما لقى النبى و اصحابه من المشركين بمكة صفحہ 647 حدیث نمبر 3856 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 20 20 رسول کریم علیہ کے تو کل کا واقعہ حضرت مصلح موعود 31 مارچ 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں رسول کریم ﷺ کے تو کل کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:.” جب آپ حضرت ابو بکر کے ساتھ غارثور میں گئے تو دشمن اس قدر سر پر آ گیا کہ ذرا سر جھکا تا تو دیکھ سکتا تھا.غار ثور ایک اچھی کھلی جگہ ہے اور باہر کھڑے ہو کر اگر دیکھا جائے تو اندر بیٹھا ہوا آدمی صاف نظر آ سکتا ہے.دشمن اس غار کے بالکل منہ پر کھڑا تھا اور اتنا قریب کہ اگر ذرا بھی سر جھکائے تو دیکھ لے.اُس وقت حضرت ابو بکر کے دل میں گھبراہٹ محسوس ہوئی لیکن اپنی جان کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی جان کے لئے.آپ نے سوچا کہ دشمن سر پر ہے، بظاہر اب پکڑے جانے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی.غار کا منہ کھلا ہے اور ہم بالکل سامنے ہیں.لیکن رسول کریم علیہ جانتے تھے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت ہیں اس لئے آپ نے كما لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا 1 چونکہ رسول کریم ﷺ کی نظر حضرت ابو بکر سے بہت زیادہ دور رس اور تیز تھی اس لئے وہ ان باتوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو حضرت ابو بکر کو نظر نہ آتی تھیں.یوں حضرت ابو بکر کی نظر بھی بہت تیز تھی.ایک دفعہ رسول کریم نے ایک خطبہ بیان کیا کہ اب مسلمانوں کے لئے فتوحات کا زمانہ قریب آ گیا ہے.یہ سن کر آپ رونے لگ گئے.یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ دیکھو! بڈھے کی مت ماری گئی.رسول کریم علیہ فتوحات کی بشارت دیتے ہیں اور یہ رو رہا ہے لیکن آپ نے بتایا کہ جب امت کو فتح حاصل ہو جائے تو نبی کا کام ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ! جلد 4
سيرة النبي علي 21 جلد 4 ا صلى الله اپنے پاس بلا لیتا ہے.تم لوگ فتح پر خوش ہو لیکن مجھے آنحضرت ﷺ کی صحبت میں خوشی ہوتی ہے 2 اور آپ کا یہ قیافہ صحیح نکلا کیونکہ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی رسول کریم ﷺ وفات پا گئے.حضرت ابو بکر نے جو کچھ بیان کیا یہ سنت اللہ ہے.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے پاس بھی ایک شخص نے بیان کیا کہ یہ بات بہت گھبراہٹ کی ہے کہ احمدیت کی فتح جلد جلد نہیں ہوتی اور بعض لوگوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا دی.لیکن آپ کے چہرہ پر افسردگی کے آثار ظاہر ہو گئے اور فرمایا جب صبح آ جاتی ہے تو پھر نبی کی ضرورت نہیں رہتی.ابھی جماعت کی تربیت کا کام باقی ہے.جب یہ ختم ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فتوحات کے دروازے بھی کھول دے گا.تو حضرت ابو بکر کی نگاہ بے شک بہت صحیح تھی اس نے وہ کچھ دیکھا جو اور نہ دیکھ سکتے تھے.مگر رسول کریم علی کی نظرسی تیزی اس میں بھی نہ تھی اس لئے غار ثور میں آپ کو گھبراہٹ کا ہونا لازمی ( الفضل 6 اپریل 1933 ء ) تھا.“ 1: التوبة: 40 2 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي الله الله باب قول النبي الله سدوا الابواب الا باب أبي بكر صفحہ 613 حدیث نمبر 3654 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 22 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ایک واقعہ یکم مئی 1933 ء کو مبلغ انگلستان مولوی فرزند علی خان صاحب کی دعوت چائے کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے کفار سے جنگ کر رہا تھا.صحابہ کہتے ہیں وہ اس قدر سرگرمی سے جنگ میں مصروف تھا کہ ہمیں رشک آتا تھا.اتنے میں ایک صحابی نے دوسرے سے کہا دیکھو! یہ کیسا جنتی آدمی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں بھی یہ آواز پہنچ گئی آپ نے فرمایا اگر کسی نے دنیا کے پردے پر دوزخی چلتا پھرتا دیکھنا ہوتو وہ اس لڑنے والے کو دیکھ لے.چونکہ مسلمانوں کی ظاہری طور پر وہ بہت حمایت کر رہا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے صحابہؓ کے دلوں میں تزلزل پیدا ہوا اور انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اسلام کے لئے اتنی قربانی کرے اور پھر بھی وہ درزخ میں جائے.ایک صحابی کہتے ہیں جب لوگوں کے دلوں میں میں نے یہ وسوسہ پیدا ہوتے دیکھا تو میں نے کہا خدا کی قسم ! میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.وہ صحابی کہتے ہیں میں اس کے پیچھے پیچھے رہا یہاں تک کہ وہ اس جنگ میں شدید زخمی ہوا.آخری وقت سمجھ کر لوگ اس کے پاس آتے اور کہتے تمہیں جنت کی بشارت ہو مگر وہ کہتا مجھے جنت کی کیوں خبر دیتے ہو دوزخ کی خبر دو کیونکہ میں نے آج اسلام کے لئے جنگ نہیں کی بلکہ ان کفار سے مجھے کوئی پر انا بغض تھا اس کا بدلہ لینے کے لئے میں ان سے لڑا.پھر اس کی حالت جب زیادہ
سيرة النبي علي 23 جلد 4 خراب ہو گئی تو اس نے برچھی زمین پر گاڑی اور اس پر گر کر خودکشی کر لی.وہ صحابی کہتے ہیں میں آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے رسول ہیں.آپ نے فرمایا کیوں کیا ہوا؟ اس صحابی نے تمام داستان سنائی تب آپ نے بھی فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں 1.تو ظاہری قربانیاں اگر دیکھی جائیں تو دنیا میں ہم سے زیادہ قربانیاں کرنے والے موجود ہیں گو بحیثیت قوم ہمیں امتیاز حاصل ہے مگر افراد کے لحاظ سے زیادہ قربانیاں کرنے والے مل سکتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ان کی تمام قربانیاں قوم یا ملک کے لئے ہوتی ہیں یا اس مذہب کے لئے ہوتی ہیں جسے وہ قوم کی طرح سمجھتے ہیں مگر ہم میں سے ہر شخص کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اس کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعمال انسانی نیت پر موقوف (الفضل 9 مئی 1933 ء ) ہوتے ہیں 2.“ 1 بخارى كتاب الجهاد و السير باب لا يقال فلان شهيد صفحہ 479 حدیث نمبر 2898 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله الله صفحه 1 حدیث نمبر 1 مطبوعہ ریاض 1999 ، الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 24 جلد 4 دو رسول صلى الله پیاروں کی وفات پر رسول کریم مے کا طرز عمل اور نمونہ حضرت مصلح موعود نے 19 مئی 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.صلى الله رسول کریم ﷺے ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ کوئی شخص آپ کو بلانے آیا کہ آپ کی صاحبزادی بلاتی ہیں کیونکہ آپ کا نواسہ بیمار ہے.آپ تشریف لے گئے اور ساتھ دوسرے صحابہ بھی تھے.بچہ اُس وقت نزع کی حالت میں اور بہت تکلیف میں تھا.آپ نے اسے گود میں اٹھا لیا اور اس کی حالت کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے.وہ بچہ وہیں فوت ہو گیا.تب ایک صحابی نے جو حقیقت سے آگاہ نہ تھا اور جسے عرفان کا مقام حاصل نہیں تھا کہا کیا اللہ تعالیٰ کا رسول بھی روتا ہے؟ آپ نے صلى الله فرمایا تمہیں اللہ تعالیٰ نے سنگ دل بنایا ہوگا مجھے رحم دل بنایا ہے 1.تو رسول کریم علی کے جو سب سے زیادہ قرب الہی کے مقام پر تھے انہوں نے بھی اس بچہ کی جدائی پر تکلیف محسوس کی بلکہ جب اس پر اعتراض کیا گیا تو اسے سنگدلی قرار دیا.ایک اور واقعہ مجھے یاد پڑتا ہے.اور میرا حافظہ ایک سے زیادہ واقعات کو ملاتا نہیں تو وہ اس طرح ہے کہ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کو ایک لشکر کا نائب سالار بنا کر بھیجا.آپ نے فرمایا کہ اس لشکر کے سردار زید بن حارثہؓ ہوں گے.لیکن اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر ہوں گے.اور اگر وہ شہید ہوں تو پھر عبداللہ ان کی جگہ ہوں گے.خدا تعالیٰ کی قدرت جنگ ہوئی اور زید مارے گئے.جنہیں لوگ رسول کریم ﷺ کا بیٹا
سيرة النبي علي 25 جلد 4 کہا کرتے تھے.جعفر نے کمان ہاتھ میں لی لیکن وہ بھی مارے گئے.اور پھر عبداللہ کمانڈر ہوئے لیکن وہ بھی کام آئے.اس پر لشکر میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی.بعض مسلمان اپنے مقاموں سے پیچھے ہٹنا شروع ہوئے.اُس وقت حضرت خالد بن ولیڈ نے آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا تھام لیا اور کہا مسلمانو! یہ بھاگنے کا وقت نہیں بلکہ دلیری دکھانے کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی نصرت کی کہ باوجود یکہ دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی وہ مرعوب ہو گیا.رات ہو گئی اور حضرت خالد نے مسلمانوں کو اندھیرے میں پیچھے ہٹا لیا.اور اس طرح مسلمان تباہی سے بچ گئے.قبل اس کے کہ کوئی انسان آپ تک یہ خبر پہنچا تا رسول کریم ﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع ہو گئی.آپ منبر پر تشریف لائے ، مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ زید مارے گئے اور پھر جعفر اور عبد اللہ بھی جنگ میں کام آئے.پھر ایک سَيْفَ مِّنْ سُيُوفِ اللَّهِ اس جگہ کھڑی ہوئی اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تباہی سے بچا لیا 2.جب یہ لشکر واپس آیا تو جن جن لوگوں کے رشتہ دار مارے گئے تھے انہیں تفصیلی حالات معلوم ہوئے تو کسی کی ماں نے کسی کی بہن نے کسی کی بیوی اور کسی کے اور رشتہ داروں نے رونا شروع کیا.تاریخ میں آتا ہے کہ جب رونے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو رسول کریم ﷺ بھی رو پڑے اور فرمایا کہ سب گھروں سے رونے کی آوازیں آتی ہیں مگر جعفر کے گھر سے کوئی آواز نہیں آتی.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مدینہ میں مسافر تھے اور یہاں ان کا کوئی قریبی رشتہ دار نہ تھا.یہ ایک درد کا اظہار تھا.اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ یہ کوئی اچھی چیز تھی.جعفر چونکہ رسول کریم ﷺ کے چچیرے بھائی تھے اور سب رشتہ داروں کو چھوڑ کر رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہجرت کر آئے تھے.دوسروں کو روتے دیکھ کر آپ کو خیال ہوا کہ اگر ان کے بھی عزیز یہاں ہوتے تو وہ بھی روتے.صحابہ کرام جو رسول کریم ﷺ کی ہر خواہش کو پورا کرنا ضروری سمجھتے تھے انہوں نے الله آکر اپنی مستورات کو گھروں سے کھینچ کھینچ کر نکالا کہ حضرت جعفر کے گھر جاؤ.اور.
سيرة النبي عمال 26 جلد 4 تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے گھر کہرام مچ گیا.رسول کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ مدینہ کی عورتیں جعفر کے گھر روتی ہیں.چونکہ آپ کا یہ اصل منشا نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا ان کو روکو.آپ نے یہ الفاظ محض اظہارِ درد کے لئے فرمائے تھے کہ جعفر وطن سے دور تھا اس پر رونے والا کوئی نہیں.یہ گویا اس کی مسکینی کی موت کا احساس تھا.مگر وہ تھوڑے سے عزیز جو مدینہ میں تھے اور باقی صحابیہ عورتوں کے دلوں میں بھی وہ درد پیدا ہو چکا تھا جو آپ پیدا کرنا چاہتے تھے اس لئے لوگوں نے جا کر رو کا مگر وہ نہ رکیں.اس پر کسی نے آکر رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ بند نہیں ہوتیں.آپ نے فرمایا کہ ان کے منہ پر مٹی ڈالو یعنی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو3.لیکن بعض لوگوں نے اس کا مفہوم صحیح نہ سمجھا اور فی الواقعہ مٹی اٹھا لی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب علم ہوا تو آپ نے ان کو ڈانٹا اور بتایا کہ آپ کا یہ مطلب نہیں 4.“ ( الفضل یکم جون 1933 ء ) 66 1:مسلم كتاب الجنائز باب البكاء على الميت صفحه 371 حدیث نمبر 2135 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 2 بخاری کتاب المغازى باب غزوة موتة من أرض الشام صفحہ 632 حدیث نمبر 3757 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4،3:بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصيبة يعرف فيه الحزن صفحه 208 حدیث نمبر 1299 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية
سيرة النبي علي 27 جلد 4 رسول کریم اللہ کے حکیمانہ فیصلے علی حضرت مصلح موعود نے 13 اکتوبر 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.ایک صحابی کے متعلق آتا ہے کہ جب رسول کریم ع فتح مکہ کے لئے تشریف لا رہے تھے تو حضرت عباس نے ابوسفیان کو پکڑ کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا.جس وقت اسلامی لشکر آگے چلا تو ابو سفیان کہنے لگا میں بھی دیکھوں لشکر کتنا بڑا ہے.وہ ایک طرف کھڑا ہو کر دیکھنے لگا.لشکر کا ہر حصہ اپنے اپنے پھریرے اور جھنڈے کے نیچے جا رہا تھا کہ اتنے میں ایک انصاریوں کا دستہ گھوڑے دوڑاتا ہوا پاس سے گزرا.وہ انصاری اس شان اور تبختر 1 سے جا رہے تھے کہ ابوسفیان پوچھنے لگا یہ کون ہیں؟ سالا رلشکر نے بھی یہ سن لیا.وہ کہنے لگا ہم کون ہیں؟ اس کا ابھی پتہ لگ جائے گا جب ہم مکہ پہنچ کر تمہارے رشتہ داروں کی کھوپڑیاں توڑیں گے.اس نے رسول کریم ﷺ سے شکایت کی کہ آپ تو کہتے تھے کہ مکہ میں خون نہیں بہایا جائے گا لیکن یہاں ابھی سے جبکہ مکہ میں لشکر پہنچا نہیں کھوپڑیاں توڑنے کے ارادے ہو رہے ہیں.رسول کریم ﷺ نے اس صحابی کو معزول کر دیا اور اس کے بیٹے کو سالا رلشکر بنا دیا 2.اس طرح آپ نے قبیلہ کے احساسات کا خیال بھی رکھ لیا اور قصور وار کو سزا بھی (الفضل 19 اکتوبر 1933 ء) 1 تبختر: فخر، تکبر.ناز سے چلنا ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 342 مطبوعہ فیروز سنز لاہور 2010ء) دے دی.2 فتح البارى بشرح البخارى جلد 8 صفحہ 8 ، 9 مطبوعہ المكتبة السلفية 2010 ء
سيرة النبي علي 28 جلد 4 وو صلح حدیبیہ کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود نے 13 اکتوبر 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا:.رسول کریم مع تبلیغ کے لئے ضرور جلوس نکالتے.مگر آپ نے کبھی جلوس نہیں نکالا.جلوس اور اغراض کے ماتحت نکالے جاتے ہیں.مثلاً اگر دشمن ہم سے لڑتا ہو ، دق کرتا ہو تو فوجی رنگ میں اس پر رعب بٹھانے کے لئے ایک وقت جلوس بھی مفید ہوسکتا ہے بلکہ ایسے موقع پر جلوس کا نکالنا یا اپنی طاقت کے اظہار کے لئے کوئی طریق اختیار کرنا ثواب کا موجب ہو جاتا ہے.جیسا کہ رسول کریم ﷺ جب صلح حدیبیہ کے بعد عمرہ کے لئے تشریف لائے تو آپ نے ایک صحابی کو دیکھا کہ وہ اکثر اکثر کر چل رہا ہے.آپ نے اس سے پوچھا تم اس طرح کیوں چلتے ہو؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! راستہ میں ملیریا کا زور رہا.ہم میں سے بہت سوں کو بخار نے آگھیرا.یہ خبر کافروں تک بھی پہنچ چکی ہے.اگر ہم جھکے چلیں تو یہ خیال کریں گے کہ مسلمانوں میں کوئی طاقت اور ہمت نہیں پس میں اکڑ کر چلتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ ہم ان کے مقابلہ کے لئے تیار ہیں.رسول کریم ﷺ نے اس صحابی کی گفتگو کو پسند کیا اور 66 فرمایا اللہ تعالیٰ کو بھی یہ بات پسند آئی ہے.“ ( الفضل 19اکتوبر 1933ء)
سيرة النبي علي 29 جلد 4 - دعوت الی اللہ میں رسول کریم علیہ کے مناسب حال فیصلے حضرت مصلح موعود 13 اکتوبر 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں:.مومن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جب تک یہ سمجھتا ہے کہ ابھی پیغام نہیں پہنچا اپنے مقام سے نہیں ہٹتا اور جب دیکھتا ہے کہ پیغام پہنچ گیا تو چلا آتا ہے کیونکہ واپس تو آخر آنا ہی ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ کا نمونہ یہی ہے.آپ جب طائف تشریف لے گئے تو جتنی باتیں آپ سنا سکے سنا دیں.اور جب لوگوں نے کہا کہ ہم باتیں سننے کے لئے تیار نہیں تو آپ واپس تشریف لے آئے.مگر واپسی کے وقت کفار نے آپ کے پیچھے بچے اور کتے لگا دیئے.بچے آپ پر پتھر پھینکتے اور کتے کاٹتے.مگر باوجود اس کے صلى الله رسول کریم یہ رستہ میں یہی دعا کرتے رہے کہ الہی ! ان پر رحم کر میری قوم نے مجھے پہچانا نہیں.جو شخص بھی آپ کو اس حالت میں دیکھتا وہ خیال ہی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بزدل ہیں بلکہ ہر شخص یہی کہتا کہ کیا کوہ وقار ہے.لیکن ایسی ہی صورت میں اگر کوئی شخص دوڑتا جائے پیچھے بچے اور کتے لگے ہوئے ہوں اور وہ شور ڈالتا جائے کہ مرگیا، مرگیا، مر گیا ، تو ہر شخص کہے گا کہ یہ بزدل ہے.پس دونوں حالتوں میں فرق ہے اور ہر شخص کی حالت بتا سکتی ہے کہ وہ بزدلی دکھا رہا ہے یا بہادری.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر ایسے مقام پر کھڑے رہنا چاہئے جہاں تشدد ہو.اگر چہ بعض جگہ کھڑا رہنا بھی ضروری صلى الله ہوتا ہے.مثلاً طائف سے تو رسول کریم یہ واپس آگئے مگر حنین کے موقع پر آپ نے.
سيرة النبي عمال 30 جلد 4 کہا چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھے 1.گویا آپ نے دونوں نظارے دکھلا دیئے.ایک جگہ کچھ بچے اور کہتے آپ کے پیچھے ڈالے گئے اور آپ واپس آگئے.کیونکہ آپ نے سمجھا کہ آپ جو پیغام پہنچانا چاہتے تھے وہ پہنچا چکے.مگر دوسری جگہ جب کہ چار ہزار تیر انداز سامنے تھے اور صرف بارہ صحابہ آپ کے پاس رہ گئے تھے آپ نڈر ہو کر میدان جنگ میں کھڑے رہے.صحابہ جوشِ اخلاص میں آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر روکنا چاہتے مگر آپ فرماتے چھوڑ دو میں پیچھے نہیں ہٹوں گا.وہی پیغام ہے، وہی پہنچانے والا ہے مگر ایک جگہ سے واپس آگئے اور دوسری جگہ کھڑے رہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موقع اور محل کو دیکھ کر کام کرنا چاہئے.ایک موقع ایسا بھی آسکتا ہے جب کہ واپس آنا منع ہو.مثلاً سیالکوٹ میں جب میں نے ایک دفعہ لیکچر دیا اور مخالفوں نے روکنا چاہا تو اُس وقت میں نے سمجھا تھا میرا لیکچر بند کر دینا اور واپس چلے جانا سلسلہ کی ہتک ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا.پس میں نے اُس وقت یہی سمجھا کہ چاہے پتھر پڑیں ، زخمی ہوں ہم میدان سے نہیں ہٹیں گے.لیکن ایسے مواقع بھی آسکتے ہیں جب کہ واپس چلے آنا مناسب ہو.پس موقع اور محل کے مطابق کام کرو اور بزدلی نہ دکھاؤ.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً طائف سے ہی جب رسول کریم ﷺے واپس آرہے تھے تو ایک نہایت ہی اشد ترین دشمن نے جو ہمیشہ آپ کا مخالف رہا کرتا تھا جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو وہ خود سامنے نہ جا سکا مگر اس نے اپنے غلام کو بلا کر کہا انگور توڑ کر انہیں کھلاؤ.“ ( الفضل 19 اکتوبر 1933ء ) 1 مسلم كتاب الجهاد والسير باب غزوة حنين صفحه 789 حدیث نمبر 4612 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 31 جلد 4 موجودہ زمانہ کی خرابیوں کا علاج رسول کریم علیہ کے ارشادات کی روشنی میں حضرت مصلح موعود نے ایک مضمون یوم التبلیغ کے حوالہ سے تحریر فرمایا جو کہ الفضل 22 اکتوبر 1933ء میں شائع ہوا.آپ تحریر فرماتے ہیں:.صلى الله اسلام کے بیرونی دشمن ہی کم نہیں لیکن افسوس کہ اس کے اندرونی دشمن بھی بہت سے پیدا ہو گئے ہیں.وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں دشمنانِ اسلام کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں اور اپنوں کو غفلت کی نیند سلانے کے درپے رہتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں امت محمدیہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور لوگ رسماً مسلمان رہ جائیں گے.اسلام اور قرآن کریم کے آثار مٹ جائیں گے اور قرآن کریم کے صرف لفظ باقی رہ جائیں گے.اُس وقت اللہ تعالیٰ آپ کی روحانی ذریت میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا جو اسلام کی عظمت کو از سرِ نو قائم کرے گا اور ایمان اور قرآن کو دوبارہ واپس لا کر تجدید دین کی بنیاد رکھے گا.اُس وقت علماء دنیا میں سب.بد تر مخلوق ہوں گے اور سب سے زیادہ روحانیت سے محروم 1.اسلام جب شروع ہوا اُس وقت بھی اس کی مسافرانہ حیثیت تھی کہ نہ اس کا کوئی مکان تھا نہ گھر نہ وطن نہ ملک اور آخری زمانہ میں بھی اس کا یہی حال ہو گا کہ وہ بے وطن اور بے دیار ہو جائے گا اور مسافرانہ حیثیت سے ادھر ادھر پھرے گا کوئی اسے اپنے گھر رکھنے پر تیار نہ ہو گا 2.ان حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا
سيرة النبي عمال 32 جلد 4 آنے والا ہے کہ ان کے ظاہر تو مسلمانوں والے ہوں گے اور باطن کا فروں والے.ان کی زبانیں اسلام کی مقر ہوں گی لیکن اندرو نے اسلام و قرآن کو دھکے دے رہے ہوں گے.ان کے علماء ان کو اسلام کی طرف واپس لانے کی جگہ خود اسلام کو عملاً چھوڑ رہے ہوں گے اور دنیا کے پردہ پر بدترین مخلوق ہوں گے.ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں علماء سے اس قسم کی امید رکھنی کہ وہ صداقت اور حق کی تائید کریں گے خلاف عقل ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کے لئے اہل فارس میں سے ایک شخص کو اُس وقت کھڑا کرے گا جو لوگوں کو اسلام کی طرف واپس لائے گا اور ایمان کو قائم کرے گا3.یہ بھی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے مستقبل میں سب سے بڑا فتنہ مسیحیت کا فتنہ ہے.حتی کہ احادیث میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی لوگ اپنی طاقت اور قوت سے سب دنیا پر چھا جائیں گے.بلکہ اس فتنہ کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَهُم مِّنْ كُلِّ حَدَبِ يَنْسِلُونَ 4 یعنی یا جوج ماجوج سب بلند و بالا مقاموں سے اتر کر دنیا پر چھا جائیں گے اور یا جوج ماجوج کے متعلق بائبل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی لوگ ہیں.چنانچہ لکھا ہے کہ یا جوج سے مراد روس اور ماجوج سے مراد ایک زبر دست طاقت ہے جو امن سے جزیروں میں بیٹھ کر حکومت کرتی ہے 5.یعنی حکومت برطانیہ اور ان دونوں ملکوں کا شاہی مذہب مسیحیت ہے.پس یہ امر بالبداہت ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو خراب حالت رسول کریم علی نے بیان فرمائی ہے وہ اسی فتنہ یعنی مسیحیت کی ترقی کے زمانہ میں ہی ہوئی تھی اور چونکہ مسیحی فتنہ ظاہر ہو چکا ہے بلکہ اب تو اس میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے لگ گئے ہیں جیسا صلى الله کہ روس کی حالت سے ظاہر ہوتا ہے تو یہ امر ناممکن ہے کہ رسول کریم ﷺ کے فرمودہ کے مطابق مسلمانوں میں خرابی پیدا نہ ہو چکی ہو.وہ لوگ جو دین اسلام کے دشمن ہیں اور اس کی سچائی دیکھنا نہیں چاہتے اس
سيرة النبي عمال 33 جلد 4 صداقت کو چھپانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو تسلی دے رہے ہیں کہ تمہاری حالت بالکل ٹھیک ہے.تم نمازیں پڑھتے ہو، روزے رکھتے ہو، حج کرتے ہو پس تمہاری حالت بالکل درست ہے اور اگر کوئی خرابی ہو تو تمہارے علماء تمہاری اصلاح کے لئے کافی ہیں حالانکہ اس سے زیادہ کوئی ظلم نہیں ہو سکتا کہ ایک بیمار کو اس کی بیماری سے ناواقف رکھا جائے یا یہ کہ علاج کا کام دشمن جان کے سپرد کیا جائے.رسول کریم یہ تو فرماتے ہیں کہ مسیحیت کی ترقی کے وقت مسلمانوں کی حالت خراب ہو گی اور ان میں صرف ظاہری اسلام باقی رہ جائے گا لیکن مسلمانوں کے لیڈر کہلانے والے کہتے ہیں کہ نہیں نہیں اطمینان سے بیٹھے رہو تم میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوا.رسول کریم ﷺ تو فرماتے ہیں اس وقت مسلمانوں کے علماء دنیا میں سب سے بدترین مخلوق ہوں گے لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ اول تو مسلمانوں میں کوئی نقص نہیں اور اگر ہے تو اس کا علاج یہ علماء کر لیں گے.گویا اول تو رسول کریم ﷺ کی تشخیص مرض کو جھٹلایا جاتا ہے اور پھر فرض کر کے کہ مرض ہے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ جسے رسول کریم ﷺ نے دشمن جان قرار دیا ہے اسی صلى الله سے علاج کراؤ اور جو تھوڑا بہت دین یا ایمان باقی ہے اسے بھی بربادکرالو.اے بھائیو! خوب سمجھ لو کہ رسول کریم علیہ سے زیادہ کوئی آپ لوگوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا.وہ تو ہم سب کے روحانی باپ ہیں اور اس وجہ سے جسمانی ماں باپ سے بہت زیادہ خیر خواہ.کون سا باپ ہے جو اپنے بچہ کی بد گوئی کرے گا اور جب وہ نہایت نیک ہے اسے بد قرار دے گا اور جب وہ تندرست ہے اسے بیمار قرار دے گا سوائے اس باپ کے جو کسی وجہ سے اپنے بچہ کا دشمن ہو گیا ہو یا جو فاتر العقل ہو.مگر کیا آپ میں سے کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جیسا باپ ایسی غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے.یقیناً اگر مسلمانوں پر ایسا زمانہ نہیں آنے والا تھا تو آپ کبھی ایسے فقرے نہ کہتے کہ ان کے اندر صرف رسماً اسلام رہ جائے گا.اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ جو علماء کی عزت قائم کرنے میں سب سے بڑھ کر تھے اور جنہوں نے صلى الله
سيرة النبي عليه 34 جلد 4 عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ 6 فرما کر علمائے اسلام کو وہ عزت بخشی ہے جو کبھی کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بخشی وہ بلا وجہ ہرگز یہ نہ کہہ سکتے تھے کہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.یقیناً آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے علماء کی بہت ہی بری حالت دکھائی ہو گی تبھی آپ نے ایسا فرمایا ورنہ آپ کے رحم سے یہ امید کی جاتی ہے کہ تھوڑی بہت خرابی کا تو آپ ذکر بھی نہ کرتے اور اپنے حلم کی عادت اور پردہ پوشی کی خصلت سے کام لے کر معمولی سے نقص پر پردہ ہی ڈالتے تا علماء کی بدنامی نہ ہو لیکن جب آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ علماء کی حالت کو نہایت سخت الفاظ میں بیان فرمایا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ آپ نے یہ کام امت کی ہمدردی سے مجبور ہو کر کیا ہے اور اس خوف سے کیا ہے تا مسلمان ایسی گھبراہٹ کے وقت میں ان سے اپنا علاج کرا کے اپنے آپ کو تباہ اور برباد نہ کر لیں اور رہی سہی روحانیت سے بھی انہیں ہاتھ نہ دھونے پڑیں.پس اے بھائیو ! رسول کریم ﷺ ہی کی بات کو یا درکھو کہ آپ سے بڑھ کر آپ لوگوں کا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا.اور ان دوست نما دشمنوں سے بچو جو تم کو بیمار دیکھ کر علاج کا مشورہ دینے کی بجائے الٹا غافل کرنا چاہتے ہیں اور آپ سے بھی دشمنی کرتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کی بھی تکذیب کرتے ہیں.مسلمانوں کی خراب حالت اظهر مِنَ الشَّمس ہے.ان کی حکومتیں جاتی رہیں، ان کی تجارتیں برباد ہو گئیں، ان کے دلوں سے علم اٹھ گیا ہے، تقویٰ مٹ گیا ہے، ان کے قلوب سے خدا تعالیٰ کی یاد جاتی رہی ہے ، رسول کریم ﷺ کی اتباع کا جوش سرد ہو گیا ہے، ہمدردی عام کا خیال جا تا رہا ہے، قربانی اور ایثار کی روح مردہ ہو گئی ہے، غرض بقول أَصْدَقُ النَّاس صرف رسم اسلام باقی رہ گئی ہے روح اسلام مٹ چکی ہے.الله ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اگر مسلمانوں کی خبر نہ لیتا اور حسب وعدہ فارسی الاصل انسان کو یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کو مبعوث نہ فرما تا تو یقیناً
سيرة النبي علي 35 جلد 4 صل الله اس پر وعدہ خلافی کا الزام آتا مگر اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے.اس نے وقت پر اپنا وعدہ پورا کر دیا اور مرض کے پیدا ہوتے ہی طبیب بھی بھیج دیا.اب یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ رسول کریم ﷺ کے تجویز کردہ اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طبیب سے علاج کرائیں اور اس کی اتباع میں داخل ہو کر اسلام کی شوکت بڑھائیں یا ان لوگوں سے علاج کرائیں کہ جن کو رسول کریم ﷺ نے آسمان کے نیچے سب سے بدتر وجود قرار دیا ہے اور آپ لوگوں کے ایمان کا دشمن.مگر یہ یا درکھیں کہ دوست سے بھاگ کر دشمن کی پناہ میں جانے والا کبھی فلاح نہیں پاتا اور اللہ تعالیٰ کے تجویز کردہ نسخہ کو رد کر کے بندوں کے ٹوٹکوں پر نگاہ رکھنے والا کبھی صحت کا منہ نہیں دیکھتا.وقت نازک ہے اور مصیبت بہت بڑی.پس اللہ تعالی کی نصیحت کی قدر کرو اور اس کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہ اس نے عین مرض کے وقت طبیب روحانی بھیج دیا ہے.اس کے مامور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعووں پر ایمان لاتے ہوئے احمدیت کو قبول کرو تا کہ یہ مصیبت کے دن ٹل جائیں اور اسلام ایک دفعہ پھر فتح و کامرانی کے دن دیکھے.محمد رسول اللہ ﷺ کا باغ خشک ہو رہا ہے اگر وفادار ہو تو دیر نہ لگاؤ.اٹھو اور اپنے خونوں سے اس باغ کے درخت کو سیراب کرو.آسمانی باغ کنوؤں کے پانیوں سے نہیں بلکہ مومنوں کے خون سے سینچے جاتے ہیں.اس دن کا انتظار نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے تم کو غداروں کی فہرست میں شامل کر کے ابدی موت کے گھاٹ اتار دیں بلکہ آگے بڑھ کر خود اپنے لئے قربانی کی موت قبول کرو تا کہ ابدی زندگی پاؤ.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.وَاخِرُ دَعُونَا أَن الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِين “ خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ
سيرة النبي علي 36 قادیان.ضلع گوداسپور.پنجاب جلد 4 الفضل 22 اکتوبر 1933 ء ) 1 کنزل العمال جلد نمبر 11 صفحه 181 حدیث نمبر 31136 مطبوعہ دمشق 2012ء الطبعة الاولى 2:مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الاسلام بدأ غريباً صفحه 74 حدیث نمبر 372 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 3:بخاری کتاب التفسیر زیر آیت واخرين منهم لما يلحقوا بهم صفحه 869 حدیث نمبر 4897 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4: الانبياء: 97 5 حز قیل باب 38 آیت 3 صفحہ 836 جز قیل باب 39 آیت 6 صفحہ 837 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء :6 مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 336 مطبوعہ اودھ اکتوبر 1889ء
سيرة النبي علي 37 37 سيرة النبي ﷺ کے جلسوں کے متعلق اہم ہدایات حضرت مصلح موعود نے 24 نومبر 1933 ء کو خطبہ جمعہ کے دوران سیرت النبی کے جلسوں کے بارہ میں درج ذیل ہدایات دیں :.الله پرسوں انشاء اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے حالات سے دنیا کو آگاہ کرنے اور اپنے نوجوانوں کو ان کے احسانات سے واقف کرنے کا دن آنے والا ہے.اچھی.اچھی چیز برے ہاتھوں میں پڑ کر خراب ہو جاتی ہے.اور بری سے بری چیز اچھے ہاتھوں میں آ کر کچھ نہ کچھ اپنی شکل بدل لیتی ہے.بلکہ کئی ایسی چیزیں جنہیں لوگ برا سمجھتے ہیں وہ اچھے ہاتھوں میں آکر نیکیاں اور خیر بن جاتی ہیں.اس دن کے متعلق بھی ہمارے دوستوں کو خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کسی تصنع اور کسی ایسے ذریعے کو جو اپنی ذات میں ناجائز و نا پسندیدہ ہوا چھے کام کے لئے جائز و پسندیدہ نہیں سمجھتا.ایسے ہی جذبات کے اظہار کے مواقع ہوتے ہیں جبکہ قوموں کے قدم لڑکھڑا جایا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا پیدا کیا ہے کہ وہ ہر وقت ہی جسر صراط پر کھڑا ہے.ذرا سی لغزش اس کو اور اس کی قوم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے.شیعوں کے تعزیوں کو دیکھتے ہو ان کی کہاں سے کہاں نوبت پہنچ گئی.غم کے اظہار کی بعض کیفیات بعض نے ظاہر کی ہوں گی.بعد میں آنے والوں نے ان پر مبالغہ کی کوشش کی.پھر لوگوں میں سے بعض کمزور ہوتے ہیں.انہیں لیڈری کی خواہش ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پہلوں سے زیادہ کام کر کے دکھائیں.اور جب جائز حد بندی ختم ہو جائے تو چونکہ ناجائز کا ہی دروازہ کھلتا ہے اس لئے ان میں ایسی باتیں پیدا ہو گئیں.جلد 4
سيرة النبي عمال 38 جلد 4 ابتدا میں محض امام حسین کی شہادت کا ذکر کر کے لوگ ایک دوسرے کے دل میں محبت قائم رکھتے.پھر ان میں حال کھیلنے والے آگئے.اور جب ان کی وجہ سے لوگوں نے رونا شروع کیا تو واعظوں میں سے کمزور طبقہ نے خیال کیا کہ اس طرح تو بڑی شہرت ہوتی ہے لوگوں کو خوب رلانا چاہئے.تب انہوں نے باتوں میں مبالغہ شروع کر دیا تا کہ جو پہلے نہیں روتے وہ بھی رو پڑیں.پھر مبالغہ آمیز باتیں سن کر بھی جو لوگ نہیں روتے تھے انہوں نے طعن و تشنیع اور لوگوں کے ڈر سے جھوٹا رونا شروع کر دیا.حتی کہ ترقی کرتے کرتے واعظوں نے لوگوں کو رلانے اور لوگوں نے رونے کی مشقیں شروع کر دیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصل حقیقت جاتی رہی اور کچھ کا کچھ لوگوں میں باقی رہ گیا.ہندوستان میں ایک ریاست ہے.اس میں کچھ عرصہ پہلے واقعات کربلا ایک نئے رنگ میں دکھائے جاتے تھے.باقاعدہ ایکٹ کیا جاتا اور تمام واقعات کو عملی صورت میں دکھایا جاتا.چنانچہ ہر سال محرم کے دنوں میں وہاں کے نواب صاحب اپنے دربانوں اور حاشیہ نشینوں کو ساتھ لے کر گھوڑوں پر سوار ہو جاتے اور سڑک پر کسی ایسے قیدی کو کھڑا کرنے کا حکم دیتے جسے موت کا حکم مل چکا ہوتا اور اس قیدی کو سکھایا جا تا کہ جب نواب صاحب تجھ سے پوچھیں کہ تو کون ہے؟ تو تو کہنا میں شمر ہوں یا یزید ہوں.نواب صاحب اپنے ساتھیوں سمیت گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے اور اس سے پوچھتے تو کون ہے؟ جب وہ کہتا میں شمر ہوں یا یزید ہوں تو اسے مار دیا جاتا.گویا سمجھا جاتا کہ اس رنگ میں انہوں نے حضرت امام حسین کا بدلہ لے لیا ہے.چالیس پچاس سال کا عرصہ ہوا کوئی قیدی تھا جسے موت کا حکم مل چکا تھا.اسے بھی سکھایا گیا کہ جب نواب صاحب تیرے پاس پہنچیں اور پوچھیں کہ تو کون ہے؟ تو تو کہنا کہ میں شمر ہوں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تجھے چھوڑ دیں گے.لیکن اس کے رشتہ داروں کو کسی طرح نواب صاحب کی حرکت کا علم تھا.انہوں نے اس سے کہا کہ لوگوں کے دھوکا
سيرة النبي عمال 39 جلد 4 میں نہ آنا.اس طرح نواب صاحب مار دیا کرتے ہیں.اسے ایک سڑک کے کنارے کھڑا کر دیا گیا.اور جب نواب صاحب اپنے ہمراہیوں سمیت گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے اور اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ تو وہ کہنے لگا میں امام حسن ہوں.اس پر وہ گالیاں دیتے ہوئے واپس لوٹ گئے.اور ملازموں نے پھر اسے کئی قسم کے لالچ دینے شروع کئے.مگر اب چونکہ وہ اپنی آنکھ سے بھی نواب صاحب کا حال دیکھ چکا تھا اس لئے وہ اور زیادہ پختہ ہو گیا.لوگوں نے سمجھا کہ اب یہ پھنس گیا ہے.نواب صاحب کو اطلاع دی گئی کہ اب اسے سمجھا دیا گیا ہے.وہ یہی کہے گا کہ میں شمر ہوں.مگر جب پھر نواب صاحب گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس جوش سے آئے کہ ابھی اس کی بوٹیاں کر دیں اور اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ وہ کہنے لگا میں امام حسین ہوں.نواب صاحب پھر واپس چلے گئے.اسی افراتفری میں وہ وہاں سے بھاگا اور انگریزی گورنمنٹ کی حدود میں پناہ گزیں ہو گیا.گورنمنٹ نے شکایت پہنچنے پر جب معاملہ کی تحقیق کی اور اسے درست پایا تو اُسی وقت سے وہاں انگریز وزیر جانے لگا اور نواب صاحب کے اختیارات میں کمی کر دی گئی.اب دیکھ لو بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی.کجا یہ کہ لوگ اس واقعہ کو محبت کے رنگ میں سنتے اور کجا یہ کہ پھر یہ ایک پیشہ بن گیا.رلانے والے بھی بطور پیشہ رلاتے ہیں اور بعض رونے والے بھی بطور پیشہ کے روتے ہیں.چنانچہ ایک ایک آنے چھ چھ پیسے بلکہ پلاؤ کی ایک رکابی پر رونے والے مل جاتے ہیں.مگر کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اسلام کا یہی منشا تھا کہ لوگ اس واقعہ کا ذکر کر کے روئیں یا رلائیں یا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اس سے غیر مذاہب والوں پر عمدہ اثر پڑ سکتا ہے؟ وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ پاگل ہیں جو رو رہے ہیں.اور واقعہ میں جولوگ ے لے کر روئیں ان کے رونے کا دلوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے.بے شک ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عشق و محبت سے کام کرتے اور روتے ہیں.اور گو ہم انہیں غلطی پر کہہ سکتے ہیں لیکن پاگل نہیں کہہ سکتے.مگر جو لوگ پیسے لے کر ماتم میں شریک ہوتے ہیں
سيرة النبي علي 40 جلد 4 صاف طور پر ان کے طرز سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ لوگ دل سے نہیں رو ر ہے.کیونکہ وہ ایک طرف تو روتے جاتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر کے بعد دوسروں کی طرف آنکھ اٹھا کر تماشا دیکھنے لگ جاتے ہیں.گو ان کی زبان پر افسوس کے الفاظ ہوتے ہیں مگر ان کی نگاہ غم سے خالی ہر طرف گھوم رہی ہوتی ہے.اور ہر شخص انہیں دیکھ کر کہتا ہے کہ خبر نہیں انہیں کیا ہو گیا.یہ پاگل ہو گئے ہیں یا حد درجہ کے لالچی ہیں کہ چند پیسوں کے عوض رو رہے ہیں.غرض ایک ہی چیز ہے مگر پہلے اخلاص اور عقیدت کے اظہار کے ذریعے سمجھی گئی اور بعد میں تصنع کی صورت اختیار کر گئی.جس پر آج تک یورپین مصنفین ہنسی اڑاتے ہیں.صلى الله ہم نے رسول کریم ﷺ کی سیرت پر جلسے منعقد کرنے کیلئے جو دن مقرر کیا ہے اس کی ایک ہی غرض ہے.اور وہ یہ کہ لوگوں کو معلوم ہو رسول کریم ﷺ نے بنی نوع انسان پر کیا کیا احسانات کئے.آپ نے کیا کیا قربانیاں کیں اور کس رنگ میں لوگوں کے سامنے ایک مکمل ضابطہ پیش کیا.اس دن کا یہ مطلب نہیں کہ اسے تما شا بنا لیا جائے اور دلچسپی کا ایک ذریعہ سمجھ لیا جائے.اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر رسول کریم ﷺ کی عظمت کے لئے لوگ اکٹھے نہیں ہوں گے بلکہ تماشا دیکھنے کے لئے آئیں گے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ دلیر ہوتے ہیں وہ تھیڑ میں تماشا دیکھ لیتے ہیں اور کچھ منافق مولوی ہوتے ہیں وہ رسول کریم ﷺ کے نام کی آڑ میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں.پس اس رنگ میں سوائے اس کے کہ لوگ منافق ثابت ہوں اور کیا ظاہر ہوسکتا ہے.گو رسول کریم ﷺ کے نام کے پردہ کے پیچھے ایکٹ کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا.میں قریباً ہر سال کہتا رہا ہوں کہ جماعت کو ایسا رنگ اختیار کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.منتظمین ہاں ہوں بھی کر دیتے ہیں مگر باوجود اس کے ہر سال قادیان کے منتظمین اس کا خیال نہیں رکھتے کسی ایسے جلوس کا نکلنا جس میں رسول کریم علیہ کے اعمال واقوال کو خوبصورت
سيرة النبي علي 41 جلد 4 پیرا یہ میں پیش کیا گیا ہو بری چیز نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بعض دفعہ جماعت کی ترقی کے خیال کے ماتحت اس قسم کی تجویر کو پسند فرما لیا کرتے تھے کہ بعض شہروں میں جلوس نکالا جائے جس میں سب لوگوں کی ایک ہی طرز کی پگڑیاں ہوں.پس اس قسم کے جلوس میں تو کوئی حرج نہیں.لیکن اگر جلوس میں اس قسم کی حرکات اور اس قسم کے اقوال شامل کر لئے جائیں جو ناجائز ہوں تو پھر وہ تبلیغی جلوس نہیں رہتا اور گو وہ دلچسپی کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ ناجائز ہوگا.اور اس بات کا ثبوت کہ لوگ جلوس میں محض اس کی دلچسپی کی وجہ سے شریک ہوتے ہیں نہ کہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے اس بات سے مل سکتا ہے کہ جس طرف نظر اٹھائی جائے بچے اور عورتیں جلوس کی طرف دوڑی چلی آتی ہیں.حالانکہ جمعہ کا خطبہ ہو رہا ہو، کوئی تقریر ہو یا قرآن مجید کا درس ہو رہا ہو تو لوگ اس شوق سے نہیں آتے.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جلوس میں تبلیغ مد نظر نہیں ہوتی بلکہ جلوس محض ایک تماشا ہوتا ہے.اور اگر یہ تماشا نہیں تو لوگ اس کی طرف کیوں اس قدر متوجہ ہوتے ہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جلوسوں کے ضمن میں جماعت کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ اسے تماشہ نہ بنایا جائے.اور قادیان کی جماعت کو اس میں نمونہ بننا چاہئے.مجھے نہیں معلوم میں نے کسی خطبہ کے ذریعے اس امر کا اظہار کیا ہے یا نہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ میں ہمیشہ سے یہ نصیحت کرتا چلا آیا ہوں مگر کہنے کا فائدہ بہت کم دیکھا ہے.میرے نزدیک صلى الله اگر تھیٹر دیکھنے کا شوق ہو تو بجائے اس کے کہ رسول کریم ع کے نام کے پیچھے تھیٹر صلى الله دیکھا جائے ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایک دن تھیڑ کا مقرر کر لیں.رسول کریم علی کی ذات کو اس حقیر چیز میں کیوں لایا جاتا ہے.پس آئندہ کے لئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ بے شک اس موقع پر جلوس نکلے مگر اس میں ایسے کلمات ہوں جو تبلیغی ہوں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظمیں پڑھی جائیں جن میں رسول کریم علے کے کارناموں کا ذکر ہے تا کہ جو لوگ ہمارے جلسہ میں نہیں آتے وہ اپنے گھروں پر ہی صلى الله
سيرة النبي علي 42 جلد 4 الله ہماری باتیں سن لیں.گویا یہ بھی ایک تبلیغ کا رنگ ہو گا اور میں اس سے منع نہیں کرتا.گو اس رنگ میں جلوس بھی باہر ہی مفید ہوتے ہیں.یہاں تو ایک حد تک تماشا ہی نظر آتا ہے کیونکہ تبلیغی باتیں ہر وقت لوگوں کے سننے میں آتی رہتی ہیں.مگر باوجود اس کے یہاں بھی جلوس اگر اس خیال سے نکال لیا جائے کہ جنہیں ہماری باتیں سننے کا اتفاق نہیں ہوتا وہ اس طرح سن لیں گے تو کوئی حرج نہیں.مگر یہ ضروری ہے کہ جلوس کے دوران ایسے کلمات استعمال کئے جائیں جن میں رسول کریم ﷺ کے کارناموں ، آپ کے اخلاق اور آپ کی قربانیوں کا ذکر ہو.اسی رنگ میں نظمیں بھی ہونی چاہئیں تا کہ جو لوگ نثر سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے وہ نظم سن کر ہی فائدہ حاصل کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اتنی نظمیں لکھی ہیں ان سے منشا یہی ہے کہ جولوگ نثر پڑھنا نہیں چاہتے وہ نظم پڑھ لیا کریں.غرض ہرایسی تدبیر جو جائز ہو اور مومن کے وقار کے مطابق ہو اس کے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اچھی بات ہے.لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان جلوسوں کو ایک حد کے اندر رکھا جائے.مثلاً ایسے محلوں میں سے جلوس کا گزرنا بھی بے فائدہ ہے جہاں خالص اپنی جماعت کے لوگ رہتے ہیں کیونکہ یہ محض ایک رسم ہو گی.ہاں اگر ایسی گلیوں یا محلوں میں سے جلوس کو گزارا جائے جہاں غیر احمدی رہتے ہوں اور جنہیں صحیح رنگ میں رسول کریم ہے کی زندگی کے حالات معلوم نہ ہوں یا جہاں غیر احمدی واعظ رسول کریم کی ایسی خوبیاں بیان کرتے ہوں جن سے حقیقت میں آپ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی.مثلاً یہ کہ آپ کا حلیہ ایسا تھا ، آنکھیں ایسی تھیں، بال ایسے تھے.یا ہندوؤں اور کہ رسکھوں کے مکانات کے پاس سے یا بازاروں میں سے جلوس گزارا جائے جہاں اردگرد کے دیہات کے بھی بعض لوگ موجود ہوتے ہیں اور اس طرح انہیں باتیں پہنچ سکیں تو اس سے فائدہ ہوسکتا ہے.دوسری چیز جس کی طرف میں ہمیشہ توجہ دلاتا رہا ہوں اور مجھے ہمیشہ ہی حیرت صلى الله
سيرة النبي عمال 43 جلد 4 ہوئی ہے کہ قادیان کے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ ہوتا ہے.ہمیں بے شک رسول کریم علیہ سے محبت ہے ، عشق ہے مگر باوجود اس کے ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو صدمہ نہیں پہنچا سکتے.اور اگر ہم پہنچا ئیں تو یہ رسول کریم ﷺ سے دشمنی ہوگی.وہ چیز جس نے رسول کریم ﷺ کی آخری گھڑیوں کو تکلیف دہ بنا دیا وہ یہی تھی.ورنہ آپ نے فرمایا تھا خدا تعالیٰ کا ایک بندہ تھا اس سے خدا نے پوچھا تم دنیا میں رہنا چاہتے ہو یا ہمارے پاس آنا چاہتے ہو.تو اس نے کہا اے خدا! میں تیرے پاس آنا چاہتا ہوں.اب تو مجھے اپنے پاس بلا لے.یہ رسول کریم علیہ نے اپنا حال ہی بیان فرمایا تھا مجلس میں جب آپ نے یہ بات بیان فرمائی تو لوگوں نے سمجھا کہ آپ نے ایک مثال سنائی ہے.شاید یہودیوں میں کوئی شخص ایسا گزرا ہو یا عیسائیوں میں مگر حضرت ابو بکر یہ بات سن کر رو پڑے.ایک صحابی کہتے ہیں لوگوں نے حضرت ابو بکر کی طرف دیکھنا شروع کیا اور کہا اس بڑھے کو کیا ہو گیا.کسی بندہ سے کہا گیا تھا کہ تو دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا خدا کے پاس آنا چاہتا ہے اور اس نے کہا میں خدا کے پاس آنا چاہتا ہوں اس سے اس کا کیا بگڑا کہ یہ رونے لگ گیا.مگر دراصل رسول کریم علیہ نے اپنا حال بتایا تھا اور خبر دی تھی کہ اب آپ دنیا میں زیادہ دیر نہیں رہیں گے.اس وجہ سے حضرت ابو بکر رو پڑے.جب رسول کریم ﷺ نے آپ کی نہ تھمنے والی رقت کو دیکھا تو فرمایا ابوبکر کا مجھ سے اس قدر تعلق ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا.پھر فرمایا مسجد میں جس قدر کھڑکیاں کھلتی ہیں ان میں سے سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے باقی سب بند کر دی جائیں 1.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی اپنی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بلا لے.اور گو بظاہر کام پورا نہیں ہوا تھا اور حضرت عمرؓ جیسے انسان نے بھی آپ کی وفات پر کہہ دیا تھا کہ آپ پھر واپس آئیں گے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری نظروں میں کامل طور الله
سيرة النبي علي 44 الله جلد 4 پر اشاعت اسلام کا کام نہیں ہوا تھا مگر باوجود اس کے رسول کریم ﷺ نے سمجھا جتنا کام آپ نے کرنا تھا وہ کر چکے اور آپ کی خواہش ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جائیں.لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو مرض الموت میں سخت تکلیف ہوئی.آپ بار بار فرماتے اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا 2.گویا با وجود اللہ تعالیٰ سے ملنے کی خواہش کے جس بات سے آپ کی زندگی کی آخری گھڑیاں تکلیف میں گزریں وہ یہی تھی کہ کہیں میری امت شرک میں گرفتار نہ ہو جائے.پس اس میں رسول کریم ﷺ کی عظمت نہ ہو گی اگر ہم اس رنگ میں آپ سے محبت کا اظہار کریں جس میں مشرکانہ رنگ پایا جاتا ہو.بلکہ میں سمجھتا ہوں رسول کریم ﷺ کی نگاہ میں ابو جہل کے تمام مظالم اور وہ ایذائیں جو اس نے آپ کو دیں ، آپ کا گلا گھونٹا، آپ پر گند پھینکا اور آپ کو ہر رنگ میں مشکلات و مصائب میں مبتلا کیا حقیر ہوں گی اس امر کے مقابلہ میں کہ آپ کی ذات کے متعلق کسی قسم کا شرک کیا جائے.مگر میں نے دیکھا ہے یہاں جو جلوس نکلتا ہے اس میں بعض قطعات پر لکھا ہوتا ہے يَا مُحَمَّدُ حالانکہ رسول کریم ع کے وفات پاچکے اور اب وہ دنیا میں واپس نہیں آسکتے.پس یا مُحَمَّدُ کہنا ہرگز جائز نہیں.ہاں بعض دفعہ کشفی طور پر ایک انسان رسول کریم ﷺ کو اس طرح مخاطب کرتا ہے تو وہ روحانی کیف ہے جو ہر شخص کو میسر نہیں آتا.مگر جب کوئی شخص اس کیف سے خالی ہو کر یا مُحَمَّدُ کہتا ہے تو وہ نقل کرتا اور مشرکانہ رنگ اختیار کرتا ہے.اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ کچھ تختے ہوتے ہیں ان پر بھی يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ لکھا ہوتا ہے.بھلا یا مُحَمَّدُ کہنے سے کیا رسول کریم ﷺ تشریف لے آئیں گے؟ اگر تم یا الله کہو تو بات بھی ہے کیونکہ تمہارا خدا ہر وقت تمہارے پاس ہے لیکن اگر تم صلى الله يَا مُحَمَّدُ کہتے ہو تو یہ فضول بات ہے.رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے اور جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا جو محمد اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ آپ صلى الله
سيرة النبي م 45 جلد 4 فوت ہو گئے اور جو خدا کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے 3.اسی طرح جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ تو یا اللہ ہی کہے گا یا مُحَمَّدُ کبھی نہیں کہے گا.کیونکہ جس چیز کو بھی ہم بغیر کسی خاص کیفیت کے یا کہہ کر مخاطب کریں بے فائدہ اور لغو بات ہے.ہاں کیفیت کی حالت میں ہم کہہ سکتے ہیں اور وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ تنہائی کی گھڑیاں ہوتی ہیں اور قوت متخیلہ کام کر رہی ہوتی ہے.اس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے اشعار میں بعض جگہ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روحانی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم ﷺ کا قرب اس قدر محسوس کیا کہ گویا آپ کو سامنے نظر آگئے.اور اس کشفی حالت کے لحاظ سے آپ نے یا نَبِی اللہ وغیرہ الفاظ کہ دیئے.مگر کون بیوقوف شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ لڑ کے جو جلوس میں شامل ہوتے اور اشعار پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ ایسے روحانی مقام پر اُس وقت فائز ہوتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا انہیں انتہائی قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ بے اختیار يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّد ﷺ کہہ رہے ہوتے ہیں.صاف ظاہر ہے کہ یہ تصنع ہے، بناوٹ ہے اور کچھ نہیں.وہ کیفیت جس میں پیدا ہو وہ بے شک کہہ لے.مگر کیا جس میں یہ کیفیت پیدا ہو وہ لوگوں سے پوچھا کرتا ہے کہ میں کہوں یا نہیں ؟ اس کے منہ سے تو آپ ہی بات نکل جاتی ہے.ایسی کیفیت خلوتوں اور تنہائی کی گھڑیوں میں بعض خاص لوگوں پر طاری ہوتی ہے، جلوسوں میں نہیں آسکتی.پھر جب یہ کیفیت آتی ہے تو تصنع نہیں ہوتا.یہ کیفیت جب جلوس میں بھی طاری ہو تو کشفی حالت ہی ہوگی.پس ایسے تمام اشعار جن میں خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف باتیں پائی جاتی ہوں ان کے پڑھنے میں رسول کریم ﷺ کی عزت نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کی کوئی ہتک نہیں ہو سکتی.گویا آپ کا مقصد توحید پرستی نہیں تھی بلکہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ نے لوگوں سے حضرت عیسٹی کی پرستش کی بجائے اپنی پرستش شروع کرا دی اور یہ ایک نہایت ہی نا معقول اور رسول کریم ﷺ کی تک.
سيرة النبي عمال 46 جلد 4 کرنے والی بات ہے.مگر باوجود اس کے کہ میں نے کئی بار سمجھایا پھر بھی یہ بیہودگی نظر آ جاتی ہے اور ہمیشہ سے جلوس میں ایسے تختے نظروں کے سامنے آتے رہتے ہیں جن پر يَا مُحَمَّدُ لکھا ہوتا ہے.نہ معلوم جو منتظم ہیں وہ قرآن مجید اور سلسلہ کے لٹریچر کو نہیں پڑھتے اور اس امر کو بھی نہیں سمجھتے کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کی غرض کیا تھی.یا نہ معلوم کیا بات ہے کہ وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے.کیسے اچھے شعر ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فارسی، اردو اور عربی میں رسول کریم ﷺ کی شان میں کہے ہیں.انہیں سن کر کوئی انسان رسول کریم ﷺ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.وہ اشعارلڑکوں سے پڑھاؤ.حضرت مسیح موعود کی نظمیں انہیں یاد کراؤ.یہ کیا کہ يَا مُحَمَّدُ الله يَا مُحَمَّدُ کہنا شروع کر دیا.تم يَا مُحَمَّدُ ہزار سال کہتے رہو.رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے اب وہ دنیا میں نہیں آ سکتے.تم يَا مُحَمَّدُ کی بجائے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرو جو تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اور تم ابھی پوری بات بھی نہیں کہہ چکے ہو گے کہ وہ تمہارے قریب آجائے گا.وہ خود کہتا ہے فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 4.میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا میں جواب دیتا ہوں.مگر جو قریب ہی نہیں اور جس کے اور ہمارے درمیان ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اسے پکارنا کیا اور اس سے جواب کی امید رکھنا کیا ؟ پس ایک تو جلوسوں میں ایسا رنگ مت اختیار کرو جو تھیر والا ہو یا جس میں مشر کا نہ طریق پایا جاتا ہو.ہمیں اگر رسول کریم ﷺ محبوب ہیں تو اسی لئے کہ آپ نے دنیا میں تو حید قائم کی.ورنہ ان میں اور دوسرے انسانوں میں بظاہر کیا فرق ہے.آپ نے خدا کی بڑائی قائم کی پس وہ خود بھی بڑے ہو گئے.اور دراصل جتنا جتنا کوئی شخص خدا کی بڑائی ظاہر کرتا ہے اسی صلى الله قدر وہ خود بھی بڑا بنتا جاتا ہے.رسول کریم علیہ نے چونکہ اپنی ذات کو مٹا دیا اور چونکہ آپ نے اپنے نفس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی آپ کو لا زوال بزرگی عطا کی.کیونکہ جب انسانی وجود مٹ جائے تب خدا ہی
سيرة النبي علي خدانظر آیا کرتا ہے.47 جلد 4 پس صحیح طریق اختیار کرو اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی محبت تمام نیکیوں کی جڑ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے سب چیزوں کی جڑ تقوی اللہ ہے باقی اللہ تعالیٰ کے نبی ، رسول، خلفاء، مجدد، صدیق ، صلحاء اور اولیاء سب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے ذرائع ہیں.ہمارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی ذات ہے.یہ بیوقوفی ہو گی اگر چھوٹے کی محبت کے لئے بڑے کی عظمت کو قربان کر دیا جائے.پس جلوس میں تصنع نہیں ہونا چاہئے ، سادگی اور اخلاص ہونا چاہئے.مجھے اس وقت یاد نہیں مگر کئی شعر ایسے پڑھے جاتے ہیں جن میں شرک کی بو ہوتی ہے ان کا پڑھنا ہرگز درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پڑھو.در مشین وغیرہ میں سے کچھ حصوں کا انتخاب کر لو.اس میں ضرور مشکلات بھی پیدا ہوں گی.مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں لڑکوں کو یاد کرانی پڑیں گی.لیکن اس کے مقابلہ میں جو فائدہ ہے وہ بہت بڑا ہے.اس سے نہ صرف ظاہری لحاظ سے لوگوں پر عمدہ اثر پڑے گا اور وہ رسول کریم علیہ کے کمالات سے واقف ہوں گے بلکہ باطنی طور پر بھی فائدہ ہوگا.اور لوگوں کے دلوں میں خیال پیدا ہو گا کہ ہم بھی ایسے صلى الله صلى الله اشعار لکھیں جن سے رسول کریم علیہ کے حالات لوگوں کے سامنے آئیں.ایک نعت کہنے کا پرانا طریق تھا.اور وہ یہ کہ اشعار میں ذکر کیا جاتا رسول کریم ﷺ کا ناک ایسا خوبصورت تھا ، کان ایسے تھے، رنگ ایسا تھا، قد ایسا تھا.اس سے غیر مسلموں میں مسلمانوں کو سوائے ندامت کے اور کچھ حاصل نہ ہو سکتا تھا.مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ کہیں باہر گیا تو ایک ہندو مجھ سے ملنے آیا.اس نے مجھے اس قدر شرمندہ کیا کہ میں پانی پانی ہو گیا.اور گو وہ غیر احمدیوں کا طریق عمل تھا مگر مسلمان ہونے کے لحاظ سے مجھے سخت ندامت ہوئی.وہ کہنے لگا مجھے ایک ایسے بندہ کی تلاش تھی جو مجھے خدا تک
سيرة النبي علي 48 جلد 4 صلى الله پہنچائے.اس غرض کے لئے میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے پاس گیا.اسی دوران میں جب رسول کریم ﷺ کے حالات معلوم کرنے کے لئے میں مجالس مولود میں پہنچا تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی.اس کے بعد اس نے وہاں کا ایسا گندہ نقشہ کھینچا کہ میں شرم کے مارے پانی پانی ہو گیا.کہنے لگا مجھے وہاں بتایا جانے لگا کہ آپ کی زلفیں ایسی تھیں، آنکھیں ایسی خوبصورت تھیں، قد اس قسم کا تھا، رنگ اس طرح کا تھا.بھلا مجھے ان باتوں سے کیا.اس نے ان باتوں کو اس طرح بنا بنا کر پیش کیا کہ میری آنکھیں اس کے سامنے جھک گئیں.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ لوگوں کے دل میں رسول کریم علیہ کی اصل محبت نہیں رہی.اگر وہ آپ کے حالات پڑھتے ، قرآن مجید پر غور کرتے تو وہ ان باتوں کی طرف کبھی نہ جاتے.مگر چونکہ حالات معلوم کرنے اور قرآن مجید پر غور کرنے میں محنت صرف کرنی پڑتی ہے.مگر یہ معلوم کرنا اور یاد رکھنا بالکل آسان ہے کہ آپ کا رنگ سفید تھا داڑھی گھنی تھی اس لئے انہی کو بیان کرنا شروع کر دیا.یا رسول کریم ﷺ کے متعلق اس قسم کی من گھڑت کہانیاں سنانی شروع کر دیں کہ ایک گوہ آئی اور اس نے آپ کو سجدہ کیا یا درخت اور پتھر آپ کے سامنے سر بسجو د ہو گئے.ایسی کہانیاں چونکہ بچوں تک کو بھی جلد یاد ہو جاتی ہیں اس لئے لوگوں نے رسول کریم کے فضائل اسی رنگ میں بیان کرنے شروع کر دیئے.چنانچہ دیکھ لو کسی بچے کو قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر سمجھاؤ.وہ سن لے گا لیکن جب اس سے پوچھا جائے کہ کیا سنا؟ تو کہے گا یاد نہیں.لیکن اسے کوئی کہانی سنا دو اور تیسرے دن سننا چاہو تو ایک ایک حرف سنا دے گا.چونکہ رسول کریم ع کی قربانیاں، آپ کے اخلاق اور آپ کی پاکیزہ زندگی کے واقعات معلوم کرنے کے لئے محنت کی ضرورت تھی اور کہانیاں بیان کرنا اور یا د رکھنا آسان تھا اس لئے لوگوں نے کہانیاں اور قصے بیان کرنے شروع کر دیئے.پس یہ لوگوں کی سستی اور کوتاہی کا ثبوت ہے، رسول کریم ﷺ کی محبت نہیں.اگر ہم بھی رسول کریم ﷺ کے متعلق اسی قسم کی باتوں میں الجھ جائیں اور
سيرة النبي علي 49 جلد 4 صلى الله قرآن مجید سے معارف اور نئے نئے علوم نکالنے اور رسول کریم علیہ کے حقیقی فضائل بیان کرنے کی طرف توجہ نہ کریں تو کس قدر افسوس ناک بات ہوگی.رسول کریم ﷺ کے متعلق اگر یہ بیان کیا جائے کہ آپ کا رنگ کیسا تھا تو چونکہ رنگ نہیں بدلتا اس لئے اتنا جاننا ہی کافی ہوتا ہے کہ آپ کا رنگ کالا تھا یا گورا.لیکن معارف چونکہ زمانے کے تغیر کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور ان کے متعلق محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے لوگ اس طرف آنے سے جی چراتے ہیں.یا مثلاً یہ امر کہ رسول کریم ﷺ کے بال کندھوں سے اونچے تھے یا نیچے ایک معمولی بات ہے ہر شخص اسے ایک دفعہ بھی سن لے تو یا د رکھ سکتا ہے.لیکن یہ کہ آپ نے کس کس رنگ میں قربانیاں کیں ، بنی نوع انسان سے آپ کے تعلقات کس قسم کے تھے ، پھر بنی نوع انسان کے علاوہ ہر فرد سے آپ کا علیحدہ علیحدہ سلوک تھا، زید کا بھی آپ سے تعلق تھا.اور اگر ہم غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے لئے بھی کچھ قربانیاں کی ہیں.اسی طرح ہر صحابی کے متعلق غور کیا جا سکتا ہے اور نئی نئی باتیں نکالی جا سکتی ہیں.پھر اگر ہم دیکھیں کہ رسول کریم ﷺ نے کس طرح انسانی فطرت کی گہرائیوں کا مطالعہ کر کے دعائیں سکھائی ہیں.اور اس مضمون کے ماتحت قرآن مجید پر غور کیا جائے تو سینکڑوں مضامین سامنے آنے شروع ہو جائیں گے.غرض اس طریق کے ماتحت کام کرو.اور جب شعر پڑھو تو اچھے شعر پڑھو.اسی طرح اگر خود اشعار بناؤ تو اچھے اشعار بناؤ.پرانے لوگوں میں سے بھی بعض نے رسول کریم ﷺ کی مدح میں نہایت اچھے اشعار کہے ہیں.اگر ہم ان سے بھی فائدہ اٹھالیں تو یہ اچھی بات ہوگی.میں نے اب کی دفعہ سیرت النبی کے جلسہ کی آمد سے دو دن پہلے یہ بات سنا دی ہے.اب بھی اگر جلوس میں اس قسم کے اشعار پڑھے گئے یا تختوں پر مجھے لکھے نظر آگئے تو میں جھنڈے وہیں رکھوا لوں گا اور ایسے لوگوں کو جلوس سے الگ کرا دوں گا کیونکہ یہ صلى الله رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والی بات ہے.آپ کا اصل مقصد تو حید کا قیا
سيرة النبي علي 50 جلد 4 تھا.اس پر جتنا جی چاہے زور دو.مگر توحید کے صرف یہ معنے نہیں ہوتے کہ اللہ ایک ہے.اگر پتھر ایک ہو تو کیا یہ بڑی خوبی کی بات سمجھی جاسکتی ہے؟ اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے تمام حسن اس ایک خدا کے سامنے بیچ ہیں.جب اس کے سامنے اچھی.اچھی چیز بھی جاتی ہے تو ماند پڑ جاتی ہے اور اکیلا خدا ہی نظر آتا ہے.پس ایک ہونے کا یہ مفہوم ہے کہ وہ تمام صفاتِ حسنہ میں منفرد ہے اور ساری چیزیں اس کے سامنے پھیکی پڑ جاتی ہیں.یہی وہ مفہوم ہے جسے دنیا کے ذہن نشین کرنے کے لئے انبیاء آتے ہیں.جب اس مفہوم کو اپنے دل میں بٹھاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دل میں قائم ہوگی اور اس کا قرب تمہیں حاصل ہوگا.پس یاد رکھو تمام ترقیات کا گر توحید ہے.اللہ تعالیٰ کے حسن کو ایسے رنگ میں ظاہر کرنا کہ باقی تمام حسن اس کے سامنے بے حقیقت ہو جائیں اسی طرح جس طرح سورج کے سامنے ستارے ماند پڑ جاتے ہیں اور نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ.یہ توحید کا مفہوم ہے.یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ باقی چیزیں معدوم ہو جاتی ہیں کیونکہ جسے خدا نے بنایا وہ معدوم کیسے ہوسکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کا حسن اس قدر ظاہر ہو کہ باقی تمام حسن ماند پڑ جائیں اور سوائے اللہ تعالیٰ کے حسن کے اور کوئی حسن نظر ہی نہ آئے یہی تو حید ہے.اور جس وقت یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے اُس وقت انسان کا دل کسی انسان کی محبت کے لئے فارغ نہیں ہوسکتا.یہ تعلیم ہے اسے دنیا کے سامنے پیش کرو.رسول کریم ﷺ کی وہ قربانیاں ظاہر کرو اور آپ کی ان خدمات کو پیش کرو جو آپ نے نوع انسان کے لئے کیں.ورنہ اگر یوں کرو گے تو ہندوؤں کے بازار میں سے گزرتے ہوئے یا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ کہو گے تو وہ سمجھیں گے یہ صلى الله پاگل ہو گئے ہیں.لیکن اگر تم یہ بیان کرو گے کہ غیر قوموں پر رسول کریم ﷺ نے کیا کیا احسانات کئے تو وہ بے اختیار آپ کے مداح ہو جائیں گے.تو تم تجربہ کر کے دیکھ لو کہ ان میں سے کون سا رسول کریم ﷺ کی محبت پیدا کرنے والا نسخہ ہے.تمہیں معلوم
سيرة النبي علي 51 جلد 4 ہوگا کہ قربانیاں، پاکیزگی اور اخلاق ہی ایسی چیز ہیں جن سے محبت پیدا ہوسکتی ہے نہ کہ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ کہنے سے.پس صحیح طریق اختیار کرو.قادیان والوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ یہ ہر وقت دین کی باتیں سنتے رہتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ جلوس میں زیادہ عمدگی سے کام کیا جائے گا اور کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جس میں تما شا ہو یا مشرکانہ رنگ پایا جاتا ہو.“ صلى الله صلى الله (الفضل 10 دسمبر 1933 ء) 1 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علة باب قول النبي علية سدوا الابواب الا باب ابی بکر صفحہ 613 حدیث نمبر 3654 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2:بخاری کتاب الجنائز باب مایکره من اتخاذ المساجد على القبور صفحہ 212 حدیث نمبر 1330 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية صلى الله 3 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علة باب قول النبي علي لو كنت متخذا خليلا صفحہ 615 حدیث نمبر 3668 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :4 البقرة: 187
سيرة النبي علي 42 52 رحمة للعالمين عالي حضرت مصلح موعود کا یہ مضمون 26 نومبر 1933ء کے الفضل خاتم النبین نمبر میں شائع ہوا.آپ تحریر فرماتے ہیں:.انسانی دماغ بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب قسم کا بنایا ہے.کئی کئی حالتوں میں سے وہ گزرتا ہے.ایک وقت فلسفہ کے دلائل اسے الجھا رہے ہوتے ہیں تو دوسرے وقت وجدان کی ہوائیں اسے اڑا رہی ہوتی ہیں.ایک وقت علم کے غوامض اسے نیچے کی طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں تو دوسرے وقت عشق کی بلندیاں اسے اوپر کو اٹھا رہی ہوتی ہیں.انہی حالتوں میں سے ایک حالت مجھ پر طاری تھی.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کر رہا تھا میری عقل اس کی حد بندی کرنا چاہتی تھی کہ میرا دل میرے ہاتھوں سے نکلنے لگا.اس بحر نا پیدا کنار کی شناوری نے میری فکر کوسب قیود سے آزاد کر دیا اور وہ زمانہ اور مکان کی قید سے آزاد ہو کر اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر پرواز کرنے لگا.آسمان کیلئے رحمت میری نگاہ آسمانوں کی طرف گئی اور میں نے روشن سورج اور چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا وہ کیسے خوش منظر تھے ، وہ کیسے دل لبھانے والے تھے ، ان کی ہر ہر شعاع محبت کی چمک سے درخشاں تھی.یوں معلوم ہوتا تھا جیسے جھلملیوں سے کوئی معشوق محو نظارہ ہے.میرا دل اس نظارہ کو دیکھ کر جیتاب ہو گیا.مجھے اس روشنی میں کسی کی صورت نظر آتی تھی، کسی ازلی ابدی معشوق کی جو سب حسنوں کی کان ہے.مجھ پر بالکل اسی کی سی حالت طاری تھی جس نے کہا ہے جلد 4
سيرة النبي علي 53 جلد 4 گیا ے چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمال یار کا نہ معلوم میں اس خیال میں کب تک محو رہتا کہ میں نے عالم خیال میں دیکھا سورج کی روشنی زرد دھیمی پڑنے لگی ، چاند اور ستارے مٹتے ہوئے معلوم ہونے لگے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ وجود جو ان کی چمک دمک کا باعث تھا ناراض ہو کر پیچھے ہٹ گیا ہے اور جھروکہ جھانکنے والے کے چہرہ کے نور سے محروم ہو گیا ہے.وہ زندہ نظر آنے والے گرے بے جان مٹی کے ڈھیر نظر آنے لگے.میں نے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے کہ میری نظر نیچے کی گہرائیوں میں اپنے ہم جنس انسانوں پر پڑی.میں نے دیکھا ہزاروں لاکھوں بظاہر عقلمند نظر آنے والے انسان سر کے بل گرے ہوئے یا گھٹنے ٹیک کر بیٹھے ہوئے گڑ گڑا کر اور رو رو کر دعائیں کر رہے ہیں.کوئی کہتا ہے اے سورج دیوتا! مجھ پر نظر کر، میرے اندھیرے گھر کو اپنی شعاعوں سے منور کر، میری بیوی کی بے اولا د گود کو اولاد سے بھر دے اور میرے دشمنوں کو تباہ کر.کوئی کہتا اے چند ماہا! میری تاریکی کی گھڑیوں کو اپنے نور سے روشن کر اور غموں اور رنجوں کو ہمارے گھر سے دور کر.کوئی کہتا اے ستارو! تم خوشیوں کا موجب اور میری راحتوں کا منبع ہو.اے زہرہ! تو محبت سے ہمارے گھروں کو بھر دے اور ہمارے پیاروں کے دل ہماری طرف پھیر دے.اور اے مریخ! تو ہم پر ناراض نہ ہو اور مصیبتوں کی گھڑیاں ہم پر نہ لا ، اپنا غصہ ہمارے دشمنوں کی طرف پھیر دے.میرا دل اس گھناؤنے نظارہ کو دیکھ کر سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا انسان نے کیسی خوبصورت چیزوں کو کیسا گھناؤنا بنا دیا ہے.جب عاشق محبوب کے چہرے کی بجائے اس کی نقاب سے عشق کرنے لگتا ہے، جب اس کے حقیقی حسن کو بھلا کر وہ اس کے لباس کی زیبائش پر فریفتہ ہونے لگتا ہے تو محبوب اس لباس سے نکل جاتا ہے اور خالی لباس عاشق کی طرف پھینک دیتا ہے کہ جا اور اسے دیکھا کر.مگر وہی لباس جو معشوق
سيرة النبي عمال 54 جلد 4 کے جسم پر خوبصورتیوں کا مجموعہ نظر آتا تھا اب کیسا برا، کیسا بھڈ انظر آتا ہے.میں نے کہا یہی حال آسمان کے اجسام کا ہے جب تک ان میں ازلی ابدی محبوب کا چہرہ دیکھا جائے وہ کیسے خوبصورت نظر آتے ہیں، کیسے شاندار، کیسے باعظمت.اور جب خودان کی ذات مقصود ہو جائے ان کی عظمت کس طرح برباد ہو جاتی ہے.ہیئت دان کس طرح بے رحمی سے ان کو چیر پھاڑ کر ایک دھاتوں کا تو وہ ایک گیسوں کا مجموعہ ثابت کر دیتے ہیں.میں نے اس خیال کے پیدا ہونے پر پہلے تو حسرت سے آسمانوں کی طرف اور ان کے کھوئے ہوئے حسن کی طرف دیکھا اور پھر انسان اور اس کی گم شدہ عقل کی طرف نظر کی.میں اسی حال میں تھا کہ ایک نہایت دل کش ، نہایت سریلی آواز ، دلوں کو مسحور کر دینے والی ، افکار کو اپنا لینے والی میرے کانوں میں پڑی.اس نے پر جلال و شاندار لہجہ سے کہا نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ صرف اللہ کو جو ایک ہی ہے اور جس کا قبضہ ان سب فلکی اجرام پر اور دوسری چیزوں پر ہے سجدہ کرو 1.اور یاد رکھو کہ اس نے سورج کو بھی پیدا کیا ہے اور چاند کو بھی اور ستاروں کو بھی اور یہ سب اس کے ایک ادنیٰ اشارے کے تابع ہیں اور خادم ہیں.یادرکھو کہ وہی پیدا کرتا اور اسی کا حکم چلتا ہے.وہ آواز کیسی مؤثر کیسی موہ لینے والی تھی.زمین کی حالت یوں معلوم ہوئی جیسے کسی پر قشعرير 20 آ جاتا ہے.انسان یوں معلوم ہوا جیسے سوتے ہوئے جاگ پڑتے ہیں ، ندامت، شرمندگی اور حیا کے ساتھ ٹمٹماتے ہوئے چہروں کے ساتھ لوگ اٹھے اور اپنے پیدا کرنے والے کے آگے جھک گئے.آسمان پھر خوبصورت نظر آنے لگا، از لی ابدی معشوق نے پھر سورج، چاند اور ستاروں کی جھلملیوں میں سے دنیا کو جھانکنا شروع کیا، پھر دنیا کا ذرہ ذرہ جلال الہی کا مظہر بن گیا، ہیئت دانوں کے سب استدلال اور سب دلیلیں حقیر نظر آنے لگیں ، صاحب دل بول اٹھے تم اپنی گیسوں اور دھاتوں کے نظریوں کو اپنے گھر لے جاؤ.تم چھلکے کو تو دیکھتے ہو مغز پر نگہ نہیں ڈالتے.تم ان دھاتوں کے طوماروں اور گیسوں کے مجموعوں کے پیچھے نہیں دیکھتے کس کا حسن
سيرة النبي عمال 55 جلد 4.چمک رہا ہے؟ کس کا ہاتھ کام کر رہا ہے؟ میں نے دیکھا چاند کی وہ بے نور مٹی بھی جسے ہیئت دان کہتے ہیں کہ ہزاروں سال کے تغیرات کے ماتحت مردہ ہو چکی ہے خوشی سے چمک رہی تھی.اسے اس سے کیا کہ وہ سرد ہے یا گرم، نیم مردہ ہے یا زندہ، اس کا ذرہ ذرہ تو اس خوشی سے دمک رہا تھا کہ وہ اب سے آيَةٌ مِّنْ آیتِ اللهِ کہلائے گا.کسی چیز نے میرے دل میں ایک چٹکی لی اور میں نے ایک آہ بھری.پھر میں نے کہا یہ آواز تو ان اجرام فلکی کیلئے ایک رحمت ثابت ہوئی.فرشتوں کیلئے رحمت پھر میری نظر اور بھی بلند ہوئی اور میں نے عالم خیال میں اوپر آسمانوں پر ایک مخلوق دیکھی جو نہایت خوبصورت اور نہایت پاکیزہ تھی.ان کے چہرے میں نے عالم کشف اور رویا میں دیکھے ہوئے تھے.میں نے عالم خیال میں بھی ان کی ویسی ہی شکل دیکھی اور مجھے نہایت بھولے بھالے وجود نظر آئے ، لطیف اجسام کے جن کو صرف روحانی آنکھ دیکھ سکتی ہے، پاکیزہ صورت اور پاکیزہ سیرت محنتی اور کام کرنے والے، ایسے کہ ان کو وقت کے آنے جانے کا کچھ علم ہی نہ ہوتا، ان کا ہر لحظہ گویا آقا کی خدمت کے لئے رہن تھا ، وہ مشینیں تھیں جو مالک کے اشارہ پر چلتی ہیں مگر میں نے اپنی فکر کی آنکھ سے دیکھا کہ ان کے خوبصورت چہروں پر افسردگی کے آثار تھے.ان کی تازگی میں بھی ایک جھلک پژمردگی کی تھی.میں نے اس کے سبب کی تلاش کی مگر آسمان پر کوئی بات مجھے نظر نہ آئی جو اس کا موجب ہوتی.ان کا آقا ان سے خوش تھا اور وہ اپنے آقا سے خوش.پھر ان کی افسردگی کا کیا باعث تھا؟ میں نے پھر زمین پر نظر کی اور ایک دل دہلانے والا نظارہ دیکھا.میں نے بلند عمارتیں دیکھیں جو ان فرمانبردار روحوں کے نام پر بنائی گئی تھیں میں نے ان میں ان کے مجسمے دیکھے جن کی لوگ پوجا کر رہے تھے.میں نے بھاری بھر کم جسموں والے بڑے بڑے جُوں والے لوگ دیکھے جو نہایت سنجیدہ شکل بنائے ہوئے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ گویا سب دنیا کا علم سمٹ کر ان کے دماغوں میں جمع ہو گیا
سيرة النبي علي 56 جلد 4 ہے اپنے گرد و پیش بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس لہجہ میں کہ گویا وہ ایک بڑے راز کی بات انہیں بتا رہے ہیں ایسی بات کہ جسے دوسرے لوگ عمر بھر کی جستجو اور بیسیوں سال کی تپتیا کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکتے یہ کہہ رہے تھے کہ فرشتے اصل میں خدا کی بیٹیاں ہیں 3 اور جو کام خدا تعالیٰ سے کرانا ہو اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ان خدا کی بیٹیوں کو قابو میں کیا جائے اور وہ بزعم خود ایسی عبادتیں جن سے فرشتے قابو آتے ہیں لوگوں کو بتا رہے تھے.لوگوں کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے تھے اور ان کے دل ان علم روحانی کا خزانہ لٹانے والوں پر قربان ہو رہے تھے.پھر میری ایک اور طرف نگہ پڑی میں نے دیکھا ویسے ہی جبوں والے کچھ اور لوگ اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں ایک کنویں کے پاس کھڑے ہوئے کچھ راز و نیاز کی باتیں کر رہے تھے.وہ انہیں بتا رہے تھے جس طرح ایک گہرا راز بتایا جاتا ہے کہ اس کنویں میں ہاروت و ماروت دوفرشتے ایک فاحشہ سے عشق کرنے کے جرم میں قید کئے گئے تھے.کچھ جُبہ پوش تو اصرار کر رہے تھے کہ وہ اب بھی اس جگہ قید ہیں اور بعض تو یہاں تک کہتے تھے کہ ان کے کسی استاد نے ان کو الٹا لٹکے ہوئے دیکھا بھی ہے جسے سن کر کئی عقیدت مندوں کے جسم پر پھریری آجاتی تھی.تب مجھے معلوم ہوا کہ انسانی گناہ نے فرشتوں کو بھی نہیں چھوڑا.میں اسی حیرت میں تھا کہ میں نے پھر وہی آواز دلکش، مؤثر ، شیریں آواز ، محبت اور جلال کی ایک عجیب آمیزش کے ساتھ بلند ہوتی ہوئی سنی.اس نے کہا فرشتے خدا کے بندے ہیں نہ کہ بیٹیاں 4 اور وہ پوری طرح اس کے فرمانبردار ہیں.کبھی بھی اس کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے 5.لوگوں میں پھر بیداری پیدا ہوئی.بہت سے لوگ خواب غفلت سے چونکے اور اپنے پہلے عقائد پر شرمندہ اور نادم ہوئے.کئی اونچی عمارتیں جو خدا کی بیٹیوں کے نام سے کھڑی کی گئی تھیں گرا دی گئیں اور ان کی جگہ خدائے واحد و قہار کی عبادت گاہیں کھڑی کی گئیں.وہ کنویں جو فرشتوں کے گناہوں کی یادگار تھے اجاڑ ہو گئے.زائرین نے ان کی زیارت ترک کر دی.میں نے دیکھا فرشتے خوش تھے.گویا
سيرة النبي م 57 جلد 4 ان کے لباسوں پر گندے چھینٹے پڑ گئے تھے جسے دھونے والے نے دھو دیا.میرے دل سے پھر ایک آہ نکلی اور میں نے کہا یہ آواز ان فرشتوں کے لئے بھی ایک رحمت ثابت ہوئی.زمانہ کے لئے رحمت میری نظر یہاں سے اٹھ کر زمانہ کی طرف گئی.میں نے کہا وقت کتنا لمبا ہے؟ کب سے یہ فرشتے کام کر رہے ہیں؟ کب سے سورج اور اس کے ساتھ کے سیارے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ کون بتا سکتا ہے کہ زمانہ جو کچھ بھی ہے اس نے کس قدر تغیرات دیکھے ہیں؟ کس طرح اور کب سے یہ خوشی اور غم کا پیمانہ بنا رہا ہے؟ اگر وہ جاندار شے ہوتا تو ایک بے اندازہ زمانہ تک اللہ کی مخلوق کی خدمت میں لگا رہنے پر اسے کسی قد رفخر ہوتا.میں اسی خیال میں تھا کہ مجھے زمانہ کے چہرہ پر بھی دو داغ نظر آئے.مجھے کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ زمانہ غیر فانی ہے، زمانہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ابدی ہے.اور کچھ لوگ یہ کہتے سنائی دیئے کہ زمانہ ظالم ہے اس نے میرا فلاں رشتہ دار مار دیا زمانہ برا ہے اس نے مجھ پر فلاں تباہی وارد کر دی.میں نے کہا اگر زمانہ زندہ شے ہوتی تو وہ ان کی باتوں کوسن کر ضرور ملول ہوتا.مگر معا وہی آواز پھر بلند ہوئی اس نے کہا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زمانہ ہمارے آدمیوں کو مارتا اور تباہ کرتا ہے یا وہ خدا ہے، غلط کہتے ہیں 6.انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں.مارنا اور جلانا تو خدا تعالیٰ کا کام ہے.وہ جب تک کسی چیز کو عمر دیتا ہے وہ قائم رہتی ہے اور زمانہ اس کے ساتھ بمنزلہ ایک کیفیت کے رہتا ہے اور پھر اس نے کہا زمانہ کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کی صفات کا ایک ظہور ہے.پس تم جو اسے گالیاں دیتے ہو در حقیقت خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے ہو.میرا دل اس آواز والے کے اور بھی قریب ہو گیا اور میں نے محبت بھرے دل سے کہا کہ یہ آواز تو زمانے کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.زمین کے لئے رحمت زمانہ سے ہٹ کر میری نگہ کرہ ارض پر پڑی.میں نے کہا ہماری دنیا دوسرے کروں سے کچھ کم خوبصورت نہیں بلکہ
سيرة النبي عمال 58 جلد 4 بظاہر زیادہ ہے کیونکہ وہاں سے تو صرف روشنی آتی ہے اور یہاں روشنی کے علاوہ قسم قسم کے سبزے اور رنگ رنگ کے نظارے اور پھولوں سے ڈھنپی ہوئی بلند پہاڑیاں اور کلیلیں کرتی ہوئی ندیاں اور اچھلتے ہوئے چشمے اور سایہ دار وادیاں اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور پھولوں سے اٹی ہوئی جھاڑیاں اور لہلہاتے ہوئے کھیت اور غلوں سے بھرے ہوئے کھلیان اور چہچہاتے ہوئے پرندے اور ناز و رعنائی سے بھاگتے ہوئے چوپائے اور نہ معلوم کیا کیا کچھ بھرا پڑا ہے.مجھے اس وقت زمین کچھ ایسی خوبصورت نظر آئی کہ درندوں اور وحوش اور سانپوں اور بچھوؤں اور دوسرے زہر یلے کیڑوں اور مچھروں اور طاعون کے چوہوں تک میں مجھے خوبصورتی ہی خوبصورتی نظر آنے لگی.میں نے خیال کیا کہ شیر بے شک وحشی جانور ہے اور کبھی کبھی انسانوں کو چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے لیکن اگر شیر نہ ہوتا تو شیر افگن کہاں سے پیدا ہوتے.اگر بہادر شیر انسانوں کی بہادری کی آزمائش کے لئے نہ ہوتا تو بہادری کی آزمائش کا یہی ذریعہ رہ جاتا کہ لوگ بنی نوع انسان پر حملہ کر کے اپنی شجاعت کی آزمائش کرتے اور یہ جانور تو زندہ ہی نہیں مر کر بھی ہمارے کام آتا ہے اس کی چربی اور اس کے ناخن اور اس کی کھال علاجوں اور زینت و زیبائش میں کیسی کارآمد ثابت ہوتی ہے.مجھے سانپ کے زہر سے زیادہ اس کے گوشت کے فوائد نظر آنے لگے اور میں نے کہا کہ اگر سانپ نہ ہوتا تو ہمارے اطبا قرص افعی کہاں سے ایجاد کرتے.اور اگر بچھو نہ ہوتا تو یہ گردوں کی پتھریوں کے مریض آپریشن کے بغیر کس طرح آرام پاتے.میں نے مچھر کو صرف کثرتِ رطوبت کا ایک الارم پایا.بیچارا چھوٹا سا جانور کس طرح رات دن ہمیں بیدار کرتا اور بتاتا ہے کہ گھر میں نالیاں گندی رہتی ہیں، شہر کی بدروئیں میلے سے بھری رہتی ہیں، لوگ پانی جیسی نعمت یونہی ضائع کر رہے ہیں.غرض رات دن ہمیں اپنے فرض سے آگاہ کرتا رہتا ہے.جب ہم ہوشیار ہی نہیں ہوتے اور ستی کا دامن نہیں چھوڑتے تو بیچارہ غصہ میں آ کر کاٹتا ہے.بیماری اتنی مچھر سے پیدا نہیں
سيرة النبي علي 59 جلد 4 ہوتی جتنی کثرتِ رطوبت سے ، جتنی گندی نالیوں کے تعفن سے، بد روؤں کی غلاظت اور بے احتیاطی سے پھینکے ہوئے پانیوں سے.غرض مجھے ہر شے میں اس کے پیدا کرنے والے کا حُسن نظر آنے لگا.ہر ذرہ میں ازلی ابدی محبوب کی شکل نظر آنے لگی.مگر ناگاہ میری نظر آبادیوں کی طرف اٹھ گئی اور میں نے دیکھا کہ لوگ ہاڑیوں ، درختوں ، پتھروں ، دریاؤں ، جانوروں کے آگے سجدے کر رہے ہیں اور مغز کو بھول کر چھلکے پر فدا ہورہے ہیں.میری طبیعت منفض 7 ہوگئی اور میرا دل متنفر ہو گیا اور مجھے شیر، سانپ ، بچھو تو الگ رہا مصفی پانی میں بھی لاکھوں کیڑے نظر آنے لگے اور سبزہ زار مرغزاروں سے بھی سڑے ہوئے سبزے کی دماغ سوز بو آنے لگی اور میں نے دیکھا کہ یہ زمین تو ایک دن رہنے کے قابل نہیں.مجھے یوں معلوم ہوا گویا یہاں کی ہر شے مردہ ہے اور اس کے نظارے ایک بدکار بڑھیا کی مانند ہیں کہ باوجود ہزاروں بناوٹوں اور تزئینوں کے اس کی بدصورتی اور بدسیرتی چھپ نہیں سکتی.مگر میں اسی حالت میں تھا کہ پھر وہی آواز بلند ہوئی ، پھر وہی شیریں دل میں چبھ جانے والی آواز اونچی ہوئی اور اس نے کہا کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ انسان کے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے 8.اس کے پہاڑ اور اس کے دریا اور اس کے چرند اور اس کے پرند اور اس کے میوے اور اس کے غلے سب کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اعمال میں تنوع پیدا ہو اور وہ ان امانتوں کے بہترین استعمال سے اپنے پیدا کرنے والے کا قرب حاصل کرے.اس زمین کی اچھی نظر آنے والی اور بظاہر بری نظر آنے والی سب اشیاء انسان کے لئے آزمائش ہیں.پس مبارک ہے وہ جو ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے کا قرب حاصل کرتا ہے.اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ یوں معلوم ہوا گویا اس دنیا کے ذرہ ذرہ کے سر پر سے بوجھ اتر گیا.یہی جہان ایک جنت نظر آنے لگا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگلے جہان کی جنت اس جنت کا ایک تسلسل ہے اور کچھ بھی نہیں.بہت سے لوگ جنہوں نے اس آواز کو سنا اپنی غلطیوں
سيرة النبي علي 60 جلد 4 سے پشیمان ہو کر شرک و بدعت سے تو بہ کر کے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف دوڑ پڑے.پھر دنیا خدا کے جلال کا ظہور گاہ بن گئی.پھر کسی کی تجلیاں اس میں نظر آنے لگ گئیں اور میں نے ایک آہ بھر کر کہا کہ یہ آواز ہماری زمین کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.انسانیت کے لئے رحمت جب میں نے تمام مخلوقات میں سے انسان کی عبادتوں کو دیکھا اور اس کی غلطیوں کے ساتھ اس کی تو بہ پر نظر کی اور اس کی ناکامیوں کے ساتھ اس کی متواتر جدوجہد کا معائنہ کیا تو میرا دل خوشی سے اچھل پڑا اور میں نے کہا اس خوبصورت دنیا میں ایسی اچھی مخلوق کیسی بھلی معلوم دیتی ہے، کس طرح دل کھینچتی ہے.مگر جب میں اس سرور سے متکلیف ہو رہا تھا یکدم میری نگہ چند لوگوں پر پڑی جنہوں نے سیاہ جیتے پہن رکھے تھے ، جن کی بڑی بڑی داڑھیاں اور موٹی موٹی تسبیجیں اور سنجیدہ شکلیں انہیں مذہبی علماء ثابت کر رہی تھیں ، ان کے گرد ایک جم گھٹا تھا کثرت سے لوگ ان کی باتوں کو سنتے اور ان سے متاثر ہوتے تھے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے اکثر لوگ ان کی توجہ کا شکار ہو چکے ہیں اور ہور ہے ہیں.ان کے چہروں سے علم کے آثار ظاہر تھے اور ان کی باتوں سے درد اور محبت کی بو آتی تھی.انہوں نے لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ اے بد بخت انسانو! تم کیوں خوش ہو؟ آخر کس امید پر تم جی رہے ہو؟ کیا تم کو اس جہنم کے گڑھے کی خبر نہیں جو تمہارے آباء نے تمہارے لئے تیار کر رکھا ہے؟ وہ نہ بجھنے والی آگ جو گندھک سے بھڑک رہی ہے، وہ تاریکی جس کے سامنے اس دنیا کی تاریکیاں روشنی معلوم ہوتی ہیں تمہارا انتظار کر رہی ہے.پھر تم کیوں خوش ہو؟ تم کس منہ سے نجات کے طالب ہو اور تمہارا دل کس طرح اس کی تمنا کر سکتا ہے؟ تم نہیں سمجھتے کہ پاک اور نا پاک کا جوڑ نہیں؟ اور ماضی کا بدلنا کسی کے اختیار میں نہیں ؟ تم میں سے کون ہے جو کہے کہ وہ پاک ہے؟ اور خدا تعالیٰ سے ملنے کا مستحق ہے؟ اور تم میں سے کون ہے جو کہے کہ وہ پاک ہوسکتا ہے؟
سيرة النبي علي 61 جلد 4 کیونکہ شریعت پاک نہیں نا پاک کرتی ہے.حکم فرمانبردار نہیں نا فرمان بناتا ہے.کون ہے جو تمام حکموں پر عمل کر سکتا ہے؟ اور جس نے ایک ادنی سے حکم کی بھی نافرمانی کی وہ باغی بن گیا.کیا عمدہ سے عمدہ شے کو ایک قطرہ ناپاکی کا ناپاک نہیں کر دیتا ؟ پھر تم کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ تم پاک ہو یا پاک ہو سکتے ہو؟ کیا تم کو یاد نہیں کہ تمہارے باپ آدم نے گناہ کیا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو بھول گیا اور شیطان نے اس کو اور اس کی بیوی حوا کو جو تمہاری ماں تھی ورغلایا اور گنہگار کر دیا ؟ 10 تم جو ان کی اولاد ہوکس طرح خیال کر سکتے ہو کہ ان کے گناہ کے ورثہ سے حصہ نہ لو گے؟ کیا تم امید کرتے ہو کہ ان کی دولت پر تو قابض ہو جاؤ اور ان کے قرضے ادا نہ کرو؟ ان کی نیکیاں تو تم کو مل جائیں اور ان کے گناہ میں تم حصہ دار نہ بنو؟ اور جب گناہ تم کو ورثہ میں ملا ہے تو تم اس ورثہ کی لعنت سے بچ کیونکر سکتے ہو؟ تم خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم کو معاف کر دے گا ؟ نادانو ! تم کو یاد نہیں کہ وہ رحم کرنے والا بھی ہے اور عدل کرنے والا بھی ؟ اس کا رحم اس کے عدل کے مخالف نہیں چل سکتا.پس کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری خاطر اپنے عدل کو بھول جائے؟ میں نے دیکھا ان کی تقریروں میں مایوسی کی لہر اس قدر ز بر دست تھی کہ امیدوں کے پہاڑ کو اڑا کر لے گئی.جو چہرے خوشیوں سے ٹمٹما رہے تھے حرمان و یاس سے پژمردہ ہو گئے.دنیا اور اس کے باشندے ایک کھلونا اور وہ بھی شکستہ کھلونا نظر آنے لگے مگر ذرا سانس لے کر ان علماء نے پھر گرج کر لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا مگر تم مایوس نہ ہو کہ جہاں تمہاری امیدوں کو توڑا گیا ہے وہاں ان کے جوڑنے کا بھی انتظام موجود ہے اور جہاں ڈرایا گیا ہے وہاں بشارت بھی مہیا کی گئی ہے.خدا کے عدل نے تم کو سزا دینی چاہی تھی مگر اس کے رحم نے تم کو بچا لیا اور وہ اس طرح کہ اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا کہ تا وہ بے گناہ ہو کر صلیب پر لٹکایا جائے اور سچا ہو کر جھوٹا قرار پائے.چنانچہ وہ مسیح کی شکل میں دنیا میں ظاہر ہوا اور یہود نے اسے بلا کسی گناہ کے
سيرة النبي عمال 62 جلد 4 صلیب پر لٹکا دیا اور وہ تمام ایمان لانے والوں کے گناہ اٹھا کر ان کی نجات کا موجب ہوا 11 پس تم اس پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہ اٹھا لے گا.اس طرح خدا کا عدل بھی پورا ہوگا اور رحم بھی اور دنیا نجات پا جائے گی.میں نے دیکھا کہ مایوسی پھر دور ہوگئی اور لوگ خوشیوں سے اچھلنے لگے اور ساری دنیا نے ایسی خوشی کی جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی اور لوگ آئے اور صلیب کو جو اُن کی نجات کا موجب ہوئی روتے ہوئے چمٹ گئے.وہ بیتاب ہو کر کبھی اس کو بوسہ دیتے اور کبھی اس کو سینہ سے لگاتے اور ایک دیوانگی کے جوش سے انہوں نے اس چیز کا خیر مقدم کیا.لیکن میں نے دیکھا کہ اس جوش کے سرد ہونے پر بعض لوگ سرگوشیاں کر رہے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ یہ تو بے شک معلوم ہوتا ہے کہ گناہ سے انسان بچ نہیں سکتا لیکن امید کا پیغام کچھ سمجھ میں نہیں آیا.اگر خدا کے لئے عادل ہونا ضروری ہے تو اس کا بیٹا بھی ضرور عادل ہوگا اور اگر گناہ گار کے گناہ کو معاف کرنا عدل کے خلاف ہے تو بے گناہ کو سزا دینا بھی تو عدل کے خلاف ہے.پھر کس طرح ہوا کہ خدا کے بیٹے نے دوسروں کے گناہ اپنے سر پر لے لئے اور خدا نے اس بے گناہ کو پکڑ کر سزا دے دی ؟ پھر انہوں نے کہا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ موت کو تو گناہ کی سزا بتایا گیا تھا جب گناہ نہ رہا تو موت کیونکر رہ گئی ؟ گناہ کے معاف ہونے پر موت بھی تو موقوف ہونی چاہئے تھی.پھر بعض لوگوں نے کہا کہ ہم سے تو اب بھی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں.اگر ورثہ کا گناہ دور ہو گیا تھا تو گناہ ہم سے باوجود بچنے کی کوشش کے کیوں ہو جاتا ؟ جب بعض دوسروں نے ان کو دلیری سے یہ کہتے ہوئے سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم سے بھی اور ہم سے بھی ؟ پھر میں نے عالم خیال میں دیکھا کہ ان لوگوں نے کہا کہ خدا نے ہم کو کیوں پیدا کیا؟ انسانیت جو اس قدر اعلی شے سمجھی جاتی تھی کیسی ناپاک ہے؟ کس طرح گناہ سے اس کا بیج پڑا اور گناہ میں اس نے پرورش پائی اور گناہ ہی اس کی خوارک بنی اور گناہ ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہوا.ایسی ناپاک شے کو وجود میں لانے کا مقصد کیا تھا؟ یہ جنت
سيرة النبي علي 63 جلد 4 کیا شے ہے؟ اور کس کے لئے ہے؟ کیونکہ ہم کو تو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور دوزخ کے سوا کسی شے کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.وہ انہی فکروں میں تھے کہ پھر وہی شیریں اور مست کر دینے والی آواز جو کئی بار پہلے دنیا کے عقدے حل کر چکی تھی بلند ہوئی.پھر اس آواز کی صداؤں سے پُر کیف نغمے پیدا ہو کر دنیا پر چھا گئے.پھر ہر شخص گوش بآواز ہو گیا.پھر ہر دل رجاء و امید کے جذبات سے دھڑ کنے لگا.وہ آواز بلند ہوئی اور اس نے دنیا کو اس بارہ میں طویل پیغام دیا جس کے مطلب اور مفہوم کو میں اپنے الفاظ میں اور اپنی تمثیلات سے ادا کرتا ہوں.اس نے کہا جو کسی کے دل میں ناامیدی پیدا کرتا ہے وہ اس کے ہلاک کرنے کا ذمہ دار ہے 12.ایمان کی کیفیت خوف و امید کی چار دیواری کے اندر ہی پیدا ہوسکتی ہے اور وہ بھی تب جب امید کا پہلو خوف پر غالب ہو.پس جو امید کو دور کرتا ہے وہ گناہ کو مٹاتا نہیں بڑھاتا ہے اور خطرہ کو کم نہیں زیادہ کرتا ہے.آدم نے بیشک خطا کی لیکن وہ ایک بھول تھی 13.دیدہ دانستہ گناہ نہ تھا.لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ باپ جو کچھ کرے بیٹے کو اس کا ورثہ ملے.اگر یہ ہوتا تو جاہل ماں باپ کے لڑکے ہمیشہ جاہل رہتے اور عالموں کے عالم.مسلول ماں باپ کے بچے ہمیشہ مسلول نہیں ہوتے نہ کوڑھیوں کے بچے ہمیشہ کوڑھی ہوتے ہیں.بعض باتوں میں ورثہ ہے اور بعض میں ورثہ نہیں اور جہاں ورثہ ہے وہاں بھی خدا تعالیٰ نے ورثہ سے بچنے کے سامان پیدا کئے ہیں.اگر ورثہ سے بچنے کے سامان نہ ہوتے تو تبلیغ اور تعلیم کا مقصد کیا رہ جاتا ؟ کافروں کے بچوں کا ایمان لے آنا بتا تا ہے کہ ایمان کے معاملہ میں خدا تعالیٰ نے ورثہ کا قانون جاری نہیں کیا.اگر اس میں بھی ورثہ کا قانون جاری ہوتا تو مسیح کی آمد ہی بے کار جاتی.اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو نیک طاقتیں دے کر پیدا کیا ہے پھر بعض انسان ان حالتوں کو ترقی دیتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض ان کو پاؤں میں روند دیتے ہیں اور نامراد ہو جاتے ہیں.قانونِ شریعت بے شک سب کا سب قابل عمل ہے لیکن نجات کی بنیاد عمل پر نہیں
سيرة النبي عليه 64 جلد 4 ایمان پر ہے جو فضل کو جذب کرتا ہے.عمل اس کی تکمیل کا ذریعہ ہے اور نہایت ضروری لیکن پھر بھی وہ تکمیل کا ذریعہ ہے اور ذریعہ کی کمی سے چیز کا فقدان نہیں ہوتا.بیج سے درخت پیدا ہوتا ہے لیکن پانی سے وہ بڑھتا ہے.ایمان بیج ہے اور عمل پانی جو اُسے اوپر اٹھاتا ہے.خالی پانی سے درخت نہیں اُگ سکتا لیکن بیچ ناقص ہو اور پانی میں کسی قدر کمی ہو جائے تب بھی درخت اُگ آتا ہے.کسان ہمیشہ پانی دینے میں غلطیاں کر دیتے ہیں لیکن اس سے کھیت مارے نہیں جاتے جب تک بہت زیادہ غلطی نہ ہو جائے.انسانی عمل ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس کی کمی اس میں نقص پیدا کرتی ہے لیکن اس کی ایسی کمی جو شرارت اور بغاوت کا رنگ نہ رکھتی ہو اور حد سے بڑھنے والی نہ ہو ایمان کی کھیتی کو تباہ نہیں کر سکتی اور شرارت و بغاوت بھی ہو تو خدا کا عدل تو بہ کے راستہ میں روک نہیں.عدل اس کو نہیں کہتے کہ ضرور سزا دی جائے بلکہ اس کو کہتے ہیں کہ بے گناہ کو سزا نہ دی جائے.پس گناہ گار کو رحم کر کے بخشا اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے مخالف نہیں عین مطابق ہے.اگر عدل کے معنی یہ ہوں کہ ہر عمل کی عمل کے برابر جزا ملے تو بخشش اور نجات کے معنی ہی کیا ہوئے؟ اس طرح تو نہ صرف گناہ کا بخشا عدل کے خلاف ہوگا بلکہ عمل سے زیادہ جزا دینا بھی عدل کے خلاف ہوگا.کیونکہ عدل کے معنی برابر کے ہیں.اور اگر یہ صحیح ہو تو کسی شخص کو اس کی عمر کے برابر ایام کے لئے ہی نجات دی جاسکتی ہے اور وہ بھی اس کے اعمال کے وزن کے برابر.مگر اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.پھر نہ معلوم خدا تعالیٰ کی رحمت کو اس مسئلہ سے کیوں محدود کیا جاتا ہے؟ اس نے کہا خدا مالک ہے اور مالک کے لئے انعام اور بخشش میں کوئی حد بندی نہیں.وہ بیشک وزن کرتا ہے لیکن اس کا وزن اس لئے ہوتا ہے کہ کسی کو اس کے حق سے کم نہ ملے نہ اس لئے کہ اس کے حق سے زیادہ نہ ملے مسیح بیشک بے گناہ انسان اور خدا کا رسول تھا لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ وہ دوسروں کا بوجھ اٹھا لے گا.قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی صلیب خود ہی اٹھانی ہوگی اور جو خود اپنی صلیب نہ اٹھا سکے گا وہ نجات بھی
سيرة النبي علي 65 جلد 4 نہ پاسکے گا.سوائے اس کے کہ خدا کے فضل کے ماتحت اس کی بخشش ہو اور خدا تعالیٰ خود کسی کا بوجھ اٹھا لے.پس یہ مت کہو کہ انسان فطرتا ناپاک ہے ہاں وہ جو خدا کی دی ہوئی خلعت کو خراب کر دے وہ ناپاک ہے ورنہ خدا کے بندے اس کے قرب کے مستحق ہیں اور قرب پا کر رہیں گے.میں نے دیکھا اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ دلوں کی کھڑکیاں گھل گئیں.خالق اور مخلوق کے تعلقات روشن ہو گئے اور مایوسیاں امید سے بدل گئیں لیکن ساتھ ہی خشیت الہی امید کے ہم پہلو آ کر بیٹھ گئی اور ہر غلط اتکال اور نامناسب استغنا کا دروازہ بند ہو گیا.جو ہمت ہار بیٹھے تھے وہ از سر نو شیطان سے آزادی کی جدو جہد میں لگ گئے اور جو حد سے زیادہ امید لگائے بیٹھے تھے اور دوسروں پر اپنا بوجھ لادنے کی فکر میں تھے انہوں نے دوڑ کر اپنے بوجھ اپنے کاندھوں پر رکھ لئے.دنیا کی بے چینی دور ہوگئی اور اطمینان دلوں میں خیمہ زن ہو گیا اور اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھا کہ انسانیت خوشی سے اچھل رہی تھی.میرے دل سے پھر ایک آہ نکلی.ویسی ہی جیسے ایک معشوق سے دور پڑے ہوئے عاشق کے سینے سے نکلتی ہے.میں نے دور افق میں بعد زمانی کی غیر متناہی روکوں کو دیکھا اور حسرت سے سر نیچے ڈال دیا.پھر جذبات سے بھرے ہوئے دل سے میری زبان سے نکلا یہ آواز انسانیت کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.نسل انسانی کے لئے رحمت میرے دل میں خیال گزرا کہ جس طرح یہ آواز انسانیت کے لئے رحمت ثابت ہوئی ہے کیا انسانوں کے لئے بھی رحمت ہے؟ کیا انسان جسمانی لحاظ سے بھی اس سے کوئی نفع حاصل کرتا ہے اور اس کا محتاج ہے؟ میں اسی خیال میں تھا کہ میں نے دیکھا کچھ لوگ خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں اور رات اور دن اسی حالت میں عبادت کرتے ہیں.اور میں نے کچھ اور کو دیکھا کہ سخت سردی میں سرد پانیوں میں
سيرة النبي عمال 66 جلد 4 کھڑے ہو کر ذکر الہی میں مشغول ہیں.اور ایک اور جماعت کو میں نے گرمی میں بڑے بڑے الاؤ جلا کر ان میں بیٹھے ہوئے یا محبوب میں ہوش وحواس سے گم پایا.اور بعض کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے عہد کر لیا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے اور عورت خاوند کا اور مرد بیوی کا منہ نہ دیکھے گا.اور بعض نے کہا کہ وہ اچھی چیزیں نہیں کھائیں گے بلکہ ہر سال اپنی مرغوب اشیاء میں سے بعض کو ترک کرتے چلے جائیں گے.میں نے ان لوگوں کو اس حال میں دیکھا اور میرا دل تردد میں پڑ گیا.ایک طرف ان کی شاندار قربانی مجھے ان کی قدر دانی پر مائل کرتی تھی اور دوسری طرف میرا دل سوال کرتا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ نے تمام حسن اور خوبی اس لئے پیدا کی ہے کہ اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور اسے ترک کیا جائے؟ اور کیا اس سے خود اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں آتا کہ اس نے سب کچھ سلبی فائدے کیلئے پیدا کیا ہے اور حقیقی فائدے کیلئے کچھ بھی نہیں ؟ میں اسی فکر میں تھا کہ میں نے پھر وہی آواز بلند ہوتی ہوئی سنی.مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے اس آواز کے مالک کی نگاہ دلوں کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے اور انسانی فطرت کی گہرائیاں اس پر روشن ہو جاتی ہیں یا جیسے کوئی دلوں کی واقف اور انسانی خواہشات سے آگاہ ہستی سب کچھ دیکھ کر اسے بتاتی جاتی ہے.اور میں نے اس آواز کو جس کی شیرینی کو کوئی شیرینی نہیں پہنچ سکتی اور جس کی دلکشی کے مقابل دنیا کے سارے راگ بے لطف نظر آتے ہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ نادانو ! تمہارے ظاہری تقدس تمہارے کام نہیں آ سکتے.تقدس یہ نہیں کہ تم اپنے جسم کو تکلیف دو.نقدس یہ ہے کہ تمہارے دل صاف ہوں اور بہادر وہ نہیں جو مخالفت سے خائف ہو کر بھاگ جائے.بہادر وہ ہے جو مخالفت کے میدان میں کھڑا ہو کر دشمن کی بات تسلیم نہ کرے.خدا نے جس چیز کو پاک بنایا ہے اس سے گناہ پیدا نہیں ہو سکتا.گناہ تو خدا کے بتائے ہوئے حدود کو توڑنے سے پیدا ہوتا ہے.اور اے نادانو ! کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے تم پر اپنے ہی حق تو مقرر نہیں کئے.جب اس نے تم کو مدنی الطبع بنایا ہے تو اس نے تم پر
سيرة النبي عمال 67 جلد 4 اپنے دوستوں کے بھی اور اپنے ہمسایوں کے بھی اور اپنی قوم کے بھی بلکہ اپنے نفس کے بھی حق رکھے ہیں.تم ان سب حقوق کو چھوڑ کر اگر رہبانیت کی زندگی بسر کرتے ہو تو تم ایک نیکی کے ارادے سے دس بدیوں کے مرتکب ہوتے ہو اور گناہ کی دلدل سے نکلنے کی بجائے اس میں اور بھی پھنس جاتے ہو.تمہارا شادیاں نہ کرنا تم میں عفت نہیں پیدا کرتا.اگر نسلِ انسانی کے فنا کا ہی نام نیکی ہوتا تو خدا تعالیٰ انسان کو پیدا ہی کیوں کرتا.کیا تم اس کام میں نقص نکالتے ہو جو خدا تعالیٰ نے کیا اور اس کی پیدائش میں تغیر کرتے ہو.یاد رکھو کہ نیکی یہ نہیں کہ تم نفس کو بلا وجہ دکھ دو اور دروازوں کی موجودگی میں دیواریں پھاند کر آؤ.بلکہ نیکی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی بتائی ہوئی حد بندیوں کے اندر استعمال کرو تا تمہارے اندر صالح خون پیدا ہو اور تم نیک اعمال پر قادر ہو جاؤ.میں نے دیکھا یہ بات اس قدر خوبصورت اور یہ نصیحت ایسی پاکیزہ تھی کہ انسانوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر رونق آ گئی اور وہ وحشت زدہ مخلوق جو اپنے سایوں سے بھی ڈر کر بھا گئی تھی اس نے پھر انسانیت کا جامہ پہن لیا اور خدا کی بنائی ہوئی خوبصورتی کو ایک نئی نگہ سے دیکھنا شروع کیا.وہ جو ہر شے کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ہرحسن میں شیطان کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے تھے اور دنیا کو دشمنوں سے گھرا ہوا خیال کرتے تھے اور اپنے آپ کو تن تنہا سمجھتے ہوئے بوکھلائے ہوئے پھرتے تھے میں نے دیکھا ان کے چہروں سے اطمینان ظاہر ہونے لگا.بجائے ہر چیز کو زہر خیال کرنے کے تریاق کی خوبیاں بھی انہیں نظر آنے لگیں اور بجائے اپنے آپ کو دشمنوں میں گھرا ہوا محسوس کرنے کے وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر ان کے مددگار پیدا کئے ہیں اور ہر پڑاؤ پر ان کی رہنمائی کے لئے علامتیں لگائی ہیں.تب انہوں نے اپنی جلد بازیوں پر ندامت کا اظہار کیا اور اپنی بیوقوفیوں پر افسوس کا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے کہ اس نے دنیا کو ہمارے دشمنوں سے نہیں بھرا بلکہ دوستوں سے معمور کیا
سيرة النبي عمال 68 جلد 4 ہے اور شکر و امتنان کے جذبہ سے متاثر ہو کر اپنے مربی اور اپنے ہادی کے آگے سجدہ میں گر گئے.میرے دل سے اس پر پھر ایک آہ نکلی اور میں نے کہا کہ یہ آواز نسلِ انسانی کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.گزشتہ انبیاء کے لئے رحمت جب میں نے محسوس کر لیا کہ انسان فطرتا نیک ہے اور اس میں اعلیٰ ترقیات کے جو ہر مخفی ہیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں غیر محدود ہیں تو میں نے کہا کہ آؤ دیکھیں انسان نے کیسے کیسے باکمال وجود پیدا کئے ہیں اور نسل انسانی کے اعلیٰ نمونوں کا مطالعہ کریں اور دیکھیں انہوں نے کن کن کمالات کو حاصل کیا ہے اور کن بلند یوں تک پرواز کی ہے.اور میں عالم خیال میں ہندوؤں کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے پوچھا کہ آپ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ سب سے قدیم قوم ہیں اور آپ کا مذہب سب سے پرانا ہے کیا آپ کے مذہب میں کوئی باکمال لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں؟ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہندو قوم میں بڑے بڑے باکمال لوگ گزرے ہیں.میرے سامنے انہوں نے ویدوں کے رشیوں کی تعریف کی ، منوجی کی خبر دی، بیاس جی سے آشنا کیا، کرشن جی کے حالات سنائے ، رامچند رجی کے واقعات سے آگاہ کیا اور میرا دل ان کی باتوں کو سن کر اور ان کی دنیا کو نیک بنانے کی جدو جہد کو معلوم کر کے بہت ہی لطف میں آیا.تب میں نے ان سے سوال کیا آپ کے ہمسایہ میں بدھ مت والے بستے ہیں کچھ ان کے بانی کی نسبت بھی مجھے خبر دیں.انہوں نے کہا کہ وہ تو ایک دھوکا خوردہ انسان تھے کچھ ایسے خدا رسیدہ آدمی نہ تھے.میں نے کہا کسی اور قوم کے بزرگ کا حال بتائیں لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ہمارا مذہب سب سے قدیم ہے اور خدا تعالیٰ نے سب ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیا کو دے دی ہے.اس کے بعد اسے کسی اور الہام کے بھیجنے اور معرفت کا رستہ بتانے کی ضرورت ہی کیا تھی.تب میں بدھ مت والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے اس مذہب کے بانی کے حالات پوچھے.انہوں
سيرة النبي عمال 69 جلد 4 نے بدھ جی کے حالات جو سنائے وہ ایسے دلکش اور مؤثر تھے کہ میرا دل بھر آیا اور ان کی محبت میرے دل میں گڑ گئی اور میں نے کہا کہ آپ کے مذہب کے بانی واقعہ میں بڑے آدمی تھے.انہوں نے خود دکھ برداشت کئے اور دوسروں کو سکھ دیئے، خود تکالیف برداشت کیں اور دوسروں کو آرام پہنچایا، اپنی زندگی کی ہر گھڑی کو بنی نوع انسان کی خیر خواہی میں صرف کیا، ان کے حالات بالکل کرشن جی اور رام چندر جی کی طرح کے ہیں اور وہ بھی انہی کی طرح آسمان روحانیت کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں پھر نہ معلوم ہندو لوگ ان کو کیوں اچھا نہیں سمجھتے اور ان کے حسن کی قدر نہیں کرتے.انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے.ہمارے گوتم بد ھ اور رام چندر جی اور کرشن جی میں کوئی مناسبت نہیں آپ جو کچھ کرشن جی اور رام چندر جی کی نسبت سنتے ہیں وہ تو قصے اور کہانیاں ہیں.ہندوؤں کے بزرگ ہمارے مذہب کے بانی کی حقیقت تک کہاں پہنچ سکتے تھے.میں نے ہر چند اصرار کیا کہ دونوں قوموں کے بزرگوں کے حالات آپس میں مشابہ ہیں اور ان کے مخالفوں کے بھی لیکن بدھ مت کے لوگ نہ مانے اور نہ مانے.اور میں زرتشتیوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے پوچھا کہ کیا ان میں بھی کوئی بزرگ گزرا ہے؟ زرتشتیوں نے اپنے بزرگ زرتشت کے احوال سنائے جن کوسن کر میرے دل کی کلی کھل گئی اور میرا سینہ خوشی سے بھر گیا کیونکہ اس مرد نیک سیرت کی زندگی ایک اعلیٰ درجہ کا سبق تھی.بدی کے خلاف اس کی جدوجہد، نیکی کے قیام کے لئے اس کی مساعی، بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف پھیر لانے کے لئے اس کی تگ و دو کچھ ایسی شاندار تھی کہ منجمد خون میں بھی حرارت پیدا ہوتی تھی ، ساکن دل بھی حرکت کرنے لگتا تھا.میں نے ان کے احوال معلوم کئے اور بہت ہی فائدہ حاصل کیا.میں نے کہا وہ بالکل کرشن ، رام چندر، بدھ کا نمونہ تھے اور واقعہ میں اس قابل کہ ان کے نمونہ سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے.لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ان کے ماننے والوں نے اس بات کو بہت ہی برا مانا
سيرة النبي علي 70 جلد 4 اور اس قول میں اپنے بزرگ سردار کی ہتک محسوس کی اور کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوؤں کا تعلق تو بد ارواح سے ہے.آپ نے نہیں سنا کہ ان کا تعلق دیوتا سے ہے اور اندر سے.اور اگر آپ ہماری کتب پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ بدار واح کے نام ہیں.پھر آپ نے کس طرح ان لوگوں کے بزرگوں کو ہمارے آقا سے مشابہت دی.میری حیرت جو دوسری اقوام کے رویہ سے پہلے ہی ترقی پر تھی اور بھی بڑھ گئی اور میں تعجب و حیرت سے دوسری قوموں کی طرف متوجہ ہوا.میں نے یہود کو مخاطب کیا اور ان سے ان کے بزرگوں کے حالات دریافت کئے.انہوں نے ایک لمبا سلسلہ بزرگوں کا پیش کیا.انہوں نے دنیا کی ابتدا آدم سے بیان کی اور نوح کے طوفان اور ان کی فتوحات کا ذکر کیا پھر ابراہیم اور اس کی کامیابیوں اور الحق اور یعقوب اور یوسف اور موسی اور ہارون اور داؤد اور یسعیاہ اور عزرا اور ان کے علاوہ بیسیوں اور بزرگوں کے کارناموں کا ذکر کیا.انہوں نے خصوصیت سے موسی کا ذکر کیا کہ وہ بہت بڑے نبی تھے اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں شریعت تکمیل کو پہنچی.اور انہوں نے کہا کہ ان کی شریعت کے احکام ایسے کامل ہیں کہ جب تک زمین و آسمان قائم ہیں کوئی شخص ان کا ایک شعثہ بھی مٹا نہیں سکتا.میں نے دیکھا اس سلسلہ میں ابراہیم اور موسی اور داؤد خاص شان کے انسان تھے، ابراہیم کے حالات تو ایسے تھے کہ دل محبت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہو جاتا تھا اور موسٹی کی قومی تربیت کی جد و جہد اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بچہ کی سی سادگی کے ساتھ ایسا رجوع ایسا دلکش نظارہ تھا کہ وہاں سے ہلنے کو دل نہ چاہتا تھا مگر داؤد کا عشق بھی کچھ کم ولولہ انگیز نہ تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ داؤد کے ہر ذرہ میں محبت کی بجلی سرایت کر گئی تھی اور ان کی آواز کی ہر ہر میں موسیقی کی روح ناچتی ہوئی معلوم ہوتی تھی.ان کے درد انگیز نوحے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کی گہرائیوں کا پتہ دیتے تھے بلکہ ان کے عشقیہ گیتوں میں ایک ایسے معشوق کی محبت کا بھی اظہار تھا جو ابھی دنیا میں پیدا نہ ہوا تھا مگر اہل بصیرت
سيرة النبي علي 71 جلد 4 لوگوں کو اس کی انتظار تھی اور وہ اپنی روحانی آنکھوں سے ہی دیکھ کر اس کے عاشق ہو رہے تھے.مجھے موسی کی باتوں میں بھی یہ جھلک نظر آئی مگر وہاں ایک فلسفی بولتا ہوا مجھے دکھائی دیا اور داؤد کے نغموں میں عشق کا ترنم اور محبت کا سوز پایا جاتا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا داؤد نے ایک ہی وقت میں سورج چاند کو دیکھا.کبھی ایک کے جلال کو دیکھتے اور کبھی دوسرے کے جلال کو.وہ ایک کی قوتِ عاکسہ پر عش عش کرتے تو دوسرے کی قوت منعکسہ پر.میری روح یہود کے بزرگوں کے حالات معلوم کر کے بے حد مسرور ہوئی اور میں نے خیال کیا یہاں سے مجھے میری بے چینی کا علاج ملے گا اور میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کا خیال ہندوؤں اور بدھوں اور زرتشتیوں کے بزرگوں کے متعلق کیا ہے؟ میری حیرت کی حد نہ رہی جب انہوں نے بھی مجھے یہ جواب دیا کہ آپ ان لوگوں کے دھوکا میں نہ آئیں ، وہ سب گمراہ لوگ تھے.الہام تو صرف عبرانی میں ہو سکتا ہے، خدا تعالیٰ کی زبان بھی عبرانی ہے اور جنت کی زبان بھی عبرانی اور فرشتے بھی عبرانی زبان ہی بولتے ہیں اور ان لوگوں کا دعوی تو سنسکرت اور پراکرت اور پہلوی زبانوں میں الہام کا ہے، ان کے دعوے تو بالبداہت غلط ہیں.بعض لوگوں نے احتجاج کیا کہ شیطان کی زبان بھی تو آپ کے نزدیک عبرانی تھی.پھر جب شیطان سنسکرت، پراکرت اور پہلوی جاننے والوں کے دلوں میں وسوسے ڈال لیتا تھا تو فرشتے نیک باتیں کیوں نہیں ڈال سکتے تھے ؟ اور جب کہ وہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی مخلوق تھے تو ان کے لئے خدا تعالیٰ نے کیا کیا ؟ مگر انہوں نے ان باتوں کی طرف توجہ نہ کی اور کہا سب مخلوق ایک سی نہیں ہوتی.ہم خدا کی چنیدہ قوم ہیں ہم اور دوسرے برابر نہیں ہو سکتے.میرا دل پھر اندر ہی اندر بیٹھنے لگا.مجھے پھر نور غائب ہوتا ہوا اور تاریکی پھیلتی ہوئی نظر آئی اور میں افسردہ دلی سے مسیحیوں کی طرف مخاطب ہوا.میں نے عالم خیال میں ان سے بھی مسیح کے متعلق سوال کیا اور انہوں نے جو حالات ان کے سنائے وہ ایسے دردناک تھے کہ میری آنکھوں
سيرة النبي عمال 72 جلد 4 میں بار بار آنسو آ جاتے تھے.میں نے کہا بیشک یہ بزرگ بھی بالکل دوسری اقوام کے بزرگوں کی طرح بہت بڑے پایہ کے تھے مگر میری اس بات سے خوش ہونے کی بجائے وہ لوگ ناراض ہوئے اور کہا کہ آپ دوسرے بزرگوں کا ذکر نہ کریں یہود سے باہر تو کوئی بزرگ ہوا ہی نہیں اور یہود کے بزرگ بھی گو خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے مگر سب کے سب گنہگار تھے.آدم سے لے کر ملا کی تک بلکہ سیٹی تک ایک بھی پاک نفس نہیں گز را 14 پاکیزگی صرف خدا کے بیٹے کو حاصل ہے جو مسیح کے رنگ میں ظاہر ہوا.میں نے کہا اور باقی قومیں ؟ انہوں نے کہا وہ میسیج پر ایمان لا کر بچ سکتی ہیں.میں نے کہا مسیح کے بعد کے لوگ تو اس طرح بچ سکتے ہیں پہلے لوگ کرشن ، رامچند ر، بدھ اور زرتشت جیسے لوگ؟ وہ نیکیوں کے مجسمے ، وہ تقویٰ کی جیتی جاگتی تصویریں ان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا کوئی ہو نجات وہی پائے گا جو مسیح کی بے گناہ موت پر ایمان لاتا ہے.چونکہ مسیح کی قوم آخری قوم تھی میرا دل مایوسی سے بھر گیا اور میں نے کہا خدایا ! یہ کیا بات ہے تو نے حُسن ہر جگہ پیدا کیا ہے لیکن ہر جگہ کی قوم دوسری جگہ کے حُسن کو نہیں دیکھ سکتی.کیا یہ حسن ہی نہیں جسے میں حُسن سمجھ رہا ہوں یا لوگوں کی نظروں کو کچھ ہو گیا ؟ میں اسی خیال میں تھا کہ پھر مجھے وہی پیاری آواز ، وہ مشکل کشا آواز، وہ سیدھا راستہ دکھانے والی آواز بلند ہوتی سنائی دی.اس نے کہا سنو اے دنیا کے بُھولے ہوئے لوگو! دنیا کی کوئی قوم نہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی نہ آئے ہوں 15.خدا تعالیٰ رَبُّ الْعَلَمِینَ ہے کسی خاص قوم کا رب نہیں ، وہ ظالم نہیں اور ہوشیار کرنے کے بغیر سزا نہیں دیتا.پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ اس کے عذاب تو ہر ملک میں آتے لیکن نبی ہر ملک میں نہ آتے.خدا تعالیٰ کی کوئی زبان نہیں.وہ زبانوں کا پیدا کرنے والا ہے، اس کا الہام بندوں کی زبان میں نازل ہوتا ہے.جس قوم کو وہ مخاطب کرتا ہے اسی کی زبان میں وہ کلام کرتا ہے کہ لوگ اس کی نازل کردہ ہدا یتوں کو سمجھیں.خدا کے سب نبی برگزیدہ اور پاک تھے.ان میں تمہارے لئے نمونہ ہے جو
سيرة النبي عليه 73 جلد 4 ان میں سے ایک کا بھی انکار کرتا ہے خدا تعالیٰ کی درگاہ سے راندہ جاتا ہے اور جوان کے نقش قدم پر چلتا ہے برکت پاتا ہے اور ہدایت حاصل کرتا ہے.میری روح اس آواز کو سن کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گر گئی اور میں نے کہا اے پیارے مالک! اگر یہ آواز تیری طرف سے بلند نہ ہوتی تو میں تو تباہ ہو جاتا.مجھے تو نے حُسن کو پہچاننے کا مادہ دیا ہے.اندھا حُسن سے بے خبر رہ کر دنیا کی اس کیفیت سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا تھا جو میں نے دیکھی لیکن میں جسے تو نے آنکھ دی تھی اگر اس آواز کو نہ سنتا تو دیوانہ ہو جاتا ، پاگلوں کی طرح کپڑے پھاڑ کر جنگلوں میں نکل جاتا.مجھے تو کرشن ، رامچندر، بدھ ، زرتشت ، موسی ، عیسی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.میرے لئے یہ عقده لا ینحل تھا کہ حسن موجود ہے لیکن لوگ اسے نہیں دیکھتے مگر تیرا شکر اور احسان ہے کہ تو نے اس آواز کو بلند کیا.میرا دل اُس وقت اس آواز والے کی محبت سے بھی اس قدر لبریز ہوا کہ میں نے سمجھا میرے صبر کا پیالہ ابھی چھلک جائے گا.میرے سینہ سے پھر ایک آہ نکلی اور میں نے کہا کہ یہ آواز تو سب دنیا کے بزرگوں کے لئے ایک رحمت ثابت ہوئی اور میں نے بیتاب ہو کر اس آواز کے مالک کے دامن کو پکڑنا چاہا.لیکن میرے اور اس کے درمیان تیرہ صدیوں کا پردہ حائل تھا.ایک قابو میں نہ آنے والا ماضی ، ایک بے بس کر دینے والا گزشتہ زمانہ.آہ! اے عزیز و! میں تم کو کیا بتاؤں اُس وقت میرا کیا حال تھا.ایک پیاس سے مرنے والے آدمی کے منہ سے پانی کا گلاس لگا کر جس طرح کوئی روک لے وہ اس کی خنکی کو تو محسوس کرے لیکن اس کی تراوت اس کے حلق کو نہ پہنچے بالکل میرا یہی حال تھا.مجھے یوں معلوم ہوتا تھا اس آواز کا صاحب بالکل میرے پاس ہے اور باوجود اس کے اُس کے اور میرے درمیان تیرہ صدیوں کا لمبا بعد تھا.میں اس کے دامن کو چھوتا تھا مگر پھر بھی پکڑ نہیں سکتا تھا.اُس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ اگر مجھے داؤد نبی مل جائیں تو میں انہیں پکڑ کر گلے لگالوں اور پھر خوب روؤں.وہ مستقبل کے گلے کریں اور میں ماضی کے شکوے.کیونکہ انہیں اس
سيرة النبي عمال 74 جلد 4 امر کا شکوہ تھا کہ وہ اس محبوب سے تیرہ سو سال پہلے کیوں پیدا ہو گئے ؟ اور مجھے اس کا افسوس کہ میں تیرہ سو سال بعد میں کیوں پیدا ہوا؟ پہلی کتب کے لئے رحمت میں نے بزرگان دین کی طرف توجہ کرنے کے بعد پہلی کتب کی طرف نگاہ کی اور میں نے خیال کیا کہ بزرگ فوت ہو چکے، ان کے کارنامے لوگوں کے سامنے نہیں اور شاید انسان انسان سے حسد بھی کرتا ہے ممکن ہے حسد اور بغض کی وجہ سے لوگوں نے ان بزرگوں کی قدر نہ کی ہو اور چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی باتوں میں آ گئے ہوں اس لئے آؤ ہم ان کتب پر نظر ڈالیں جو آسمانی کہلاتی ہیں اور ان کی قدرو قیمت کا اندازہ لگائیں.میں نے ویدوں پر بنگہ کی اور ان میں بعض ایسے شاندار خیالات دیکھے، ایسے پاکیزہ جواہر پارے دریافت کئے کہ میرے دل نے تسلیم کر لیا کہ ان کو پیش کرنے والے رشی منی خدا تعالیٰ سے ہی سیکھ کر یہ باتیں پیش کرتے تھے.اس کے کئی حصے میری سمجھ میں نہیں آئے لیکن میں نے سمجھا اتنے لمبے عرصہ میں انسانی دست بُر دبھی کتابوں کو کچھ کا کچھ بنا دیتی ہے بہر حال ان میں مندرج خیالات کی عام رو نہایت پاکیزہ تھی.پھر میں نے گوتم بدھ کی پیش کردہ تعلیم کو دیکھا تو اصولی طور پر اس کو بہت سے حسن سے پُر پایا.اگر ویدوں میں محبت الہی کے جلوے نظر آ رہے تھے تو بدھ کی تعلیم میں خدا تعالیٰ پر اتکال اور اخلاق فاضلہ کے خوبصورت اصل نظر آئے.بیشک ان کی تعلیم میں بھی بہت سی باتیں میری عقل کے خلاف تھیں مگر اصولی طور پر میں اس امر کو سمجھ سکتا تھا کہ وہ تعلیم آسمانی منبع سے ہی نکلی ہے اور انسانی عقل اس کا سرچشمہ نہیں.گو یہ حق ہے کہ انسان نے بعد میں کتر بیونت سے اس کے حسن کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے.اس کے بعد میں زرتشت کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں میں نے نہ صرف اخلاق کی اعلی تعلیم پائی بلکہ تدبیر کا پہلونہایت روشن طور پر کام کرتا ہوا نظر آیا.بدھ میں صوفیت کی روح کام کر رہی تھی لیکن زرتشت میں ایک معلم کی جو ایک بچہ کی کمزوریاں دیکھ کر
سيرة النبي علي 75 جلد 4 اس کو تفصیلی ہدایات دیتا ہے جن سے اُس کے لئے اپنا کام عمدگی سے پورا کرنا آسان ہو جاتا ہے.میں نے اس میں دوسری تعلیمات کے مقابلہ کی نسبت معاد پر زیادہ زور پایا اور اس میں یہ روح کام کرتی ہوئی دیکھی کہ زیادہ اس خیال میں نہ پڑو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے ؟ تم کدھر جا رہے ہو اور مستقبل میں تم سے کیا پیش آنے والا ہے اس کا زیادہ خیال کرو.میں نے دیکھا کہ وہ تعلیم جنت اور دوزخ اور عالم برزخ اور حساب اور تو بہ اور گناہوں کی فلاسفی وغیرہ کے خیالات سے لبریز تھی اور گو اس میں بھی انسانی دست اندازی کے اثر ہویدا تھے لیکن یہ امر بھی بالبداہت ثابت ہوتا تھا کہ اس کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور زرتشت ایک عمدہ گویے نہ تھے جو فطرت کے رازوں کو ظاہر کر رہے ہوں بلکہ خود ایک ئے تھے جس میں دوسرا شخص اپنی آواز ڈالتا ہے اور جس سُر کے اظہار کے لئے چاہتا ہے اسے کام میں لاتا ہے.پھر میں نے تو رات اور اس کے ساتھ کی کتب پر نگاہ کی اور انہیں خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور شرک کی تردید اور توحید کے اثبات کے خیالات سے پُر پایا.میں نے دیکھا کہ ان کتب میں اللہ تعالیٰ کی بندوں پر حکومت اور ان کی مشکلات میں ان کی رہنمائی پر خاص زور تھا اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا تھا گویا خدا تعالیٰ کوئی الگ بیٹھی ہوئی ہستی نہیں بلکہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو روز مرہ اپنے بندوں کے کام کا جائزہ لیتا ہے اور شریر کو سزا دیتا اور نیک کو انعام دیتا ہے اور ان کی غلطیوں پر تنبیہ کرنے کے لئے تازہ بتازہ احکام بھیجتا رہتا ہے.میں نے اس مجموعہ میں یہ نیا امر دیکھا کہ جہاں گزشتہ کتب تعلیم پر زیادہ زور دیتی تھیں اور معلم کو نظر انداز کر دیتی تھیں وہاں اس مجموعہ میں معلموں کی شخصیتیں نہایت نمایاں نظر آتی تھیں اور تعلیم سے کم معلم کی شخصیت پر زور نہ تھا اور اسی اصل کے ماتحت اس کتاب میں ایک یا دو معلموں کے ذکر پر بس نہیں کی گئی تھی بلکہ معلموں کی ایک لمبی صف تھی جو ہر وقت تعلیم کے صحیح مفہوم کو سمجھانے کے لئے استاد نظر آتی تھی.اس شریعت میں بھی زرتشتی کتاب کی طرح تفصیلات تعلیم پر خاص زور تھا اور گو اس میں
سيرة النبي علي 76 جلد 4 بھی انسانی ہاتھ کی دخل اندازی صاف ظاہر تھی لیکن میں نے دیکھا کہ آسمانی نور کی روشنی اس قدر درخشاں تھی کہ کوئی نابینا ہی اس کے دیکھنے سے قاصر رہے تو رہے.پھر میں نے انجیل کی طرف نگاہ کی اور اسے گو میں ایک کتاب تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ مسیح کے اقوال اور تعلیمیں اس میں بہت ہی کم نقل تھیں، زیادہ تر اس کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی تھی ، لیکن پھر بھی اس میں روحانیت کی جھلک تھی اور جو تھوڑی سی تعلیم مسیح کی طرف منسوب کر کے اس میں لکھی گئی تھی وہ نہایت اعلیٰ اور دلکش تھی.اس کتاب میں سزا اور جزا کی جگہ محبت اور رحم پر زیادہ زور تھا اور انسان کی ذاتی تکمیل کی جگہ آسمانی امداد پر انحصار رکھا گیا تھا.بدھ کی طرح تو کل کا مظاہرہ تو نہ تھا لیکن مشکلات کے وقت خدا تعالیٰ کی امداد پر ضرور زور دیا گیا تھا.اس کتاب سے خود ہی ظاہر تھا کہ مسیح گو ایک ملہم من اللہ تھے لیکن شریعتِ جدیدہ کے حامل نہ تھے اور گوان کے الہامات اس میں مذکور نہ تھے لیکن جو کچھ حصہ الہامات کا اس میں مذکور تھا وہ لطیف اور اللہ تعالیٰ کی شان کا ظاہر کرنے والا تھا اور ایک ادنی نظر سے اس کے الہامی ہونے کا علم حاصل کیا جا سکتا تھا.میں نے ایک خوشی کا سانس لیا اور کہا جس طرح خدا تعالیٰ کا مجازی نور اس کے مادی عالم کی ہر شے سے ظاہر ہے اسی طرح اس کا حقیقی نور اس کے روحانی عالم کی ہر شے سے ظاہر ہے.میں نے کہا گو نبی فوت ہو چکے ہیں مگر یہ کتب اپنے حسن دلکش کی وجہ سے ضرور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہوں گی اور یہ باغ روحانی کے مختلف پودے ضرور یکجا جمع ہو کر دنیا کی روحانی کوفت کو دور کرتے اور اس کی اخلاقی افسردگی کو مٹاتے ہوں گے.مگر میری حیرت کی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ باوجود آنکھوں کے سامنے ان روحانی جواہرات کی موجودگی کے ہر اک یہی شور مچا رہا تھا کہ میرے پاس تو قیمتی ہیرے ہیں اور دوسروں کے پاس بے قیمت پتھر.میں نے کہا خدایا! ان عقل کے اندھوں کو کیا ہو گیا جو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے.کیا دنیا سے انصاف مٹ گیا ہے؟ کیا انسان اپنی روحانیت کی نمائش گزشتہ ایام
سيرة النبي عمال 77 جلد 4 میں کر چکا اور اب بالکل کھوکھلا ہو گیا ہے؟ کیا یہ دنیا جو کسی وقت خدا کا تخت گاہ کہلاتی تھی اب محض شیطان کی چوگان بازی کے لئے رہ گئی ہے؟ میں اسی فکر میں تھا کہ پھر وہی دلوں کو پاک اور دماغوں کو منور کر دینے والی آواز بلند ہوئی اور اس نے کہا کہ ہمارا یہ مسلک نہیں کہ دوسروں کی قبروں پر اپنا محل بنا ئیں.جوحسن کو نہیں دیکھتا وہ اندھا ہے.بیشک گزشتہ کتب میں انسانی دست بُرد نے تغیر کر دیا ہے لیکن پھر بھی ان کا منبع الہی علم ہے اور ہماری آواز ان کی مصدق ہے اور ان کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی شہادت دیتی ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے علاوہ اور مقاصد کے اس مقصد کے لئے بھی مبعوث فرمایا ہے کہ ہم تمام خدا تعالیٰ کی کتب کی تصدیق کریں اور ان کی سچائی کو ثابت کریں تا اللہ تعالیٰ پر ظلم کا الزام نہ لگے اور تا حسن کو دیکھ کر اس کا انکار کرنے والے روحانی نابینائی کے مرض میں مبتلا نہ کئے جاویں.نادان انسان ان کتب کی صداقت کا کس طرح انکار کر سکتا ہے جو غیب پر مشتمل ہیں اور جن کی صداقت پر آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں کر کے اور خصوصاً ہمارے زمانہ کی خبر دے کر خدا تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے.کوئی انسان نہیں جس کو غیب کا علم ہو اور یہ کتب تو غیب کے خزانوں سے بھری ہوئی ہیں اور یہ بھی تو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ ان میں انسانی ملاوٹ ہے وہ تو حید کی تعلیم کو خاص طور پر پیش کرتی ہیں حالانکہ شیطانی کلام خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم ہیں کیا کرتا.اس آواز کو سن کر میرے دل کی گرہیں کھل گئیں ، میری پریشانی دور ہو گئی اور میرے دل سے ایک آہ نکلی اور میں نے کہا یہ آواز گزشتہ کتب کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.انسانی ضمیر کے لئے رحمت جب میں نے دیکھا کہ سب قوموں میں نبی گزرے ہیں اور سب ہی کے پاس شمع ہدایت موجود ہے جس کے ذریعہ سے اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ کا کامل نور پا سکتے ہیں تو میں نے کہا کہ باوجود اس حسد اور بغض کے جو مختلف قوموں کو دوسرے مذاہب کے بزرگوں اور کتب سے
سيرة النبي علي 78 جلد 4 ہے پھر بھی وہ اشتراک اور وہ مناسبت جو ایک دوسرے کے مذاہب میں پائی جاتی ہے اور ان اعلیٰ تعلیمات کی وجہ سے جو ان کی کتب میں بھری پڑی ہیں دنیا میں صلح اور امن کی تو ایک بنیاد قائم ہو گئی ہے.گو غیریت اور غیرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے بزرگوں کو تسلیم نہ کریں لیکن کم سے کم اس اتحاد نے دنیا کولڑائی اور جھگڑوں سے تو ضرور بچا لیا ہوگا.لیکن میری حیرت کی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کو مار پیٹ رہے تھے اور طرح طرح سے دکھ دے رہے تھے کہ تم کیوں اپنا عقیدہ چھوڑ کر ہمارے عقیدے کو قبول نہیں کر لیتے ؟ میں نے دیکھا کہ بعض کو گالیاں دی جا رہی تھیں ، بعض کو پیٹا جارہا تھا ، بعض کا بائیکاٹ کیا جارہا تھا ، بعض پر تمدنی دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور بعض پر اقتصادی.لیاقت تو موجود ہوتی لیکن ملازمت نہ دی جاتی، اچھا مال تو فروخت کرنے کے لئے ان کے پاس ہوتا لیکن ان سے خرید وفروخت نہ کی جاتی ، عدالتوں میں بلاوجہ اور بے قصور ان کو کھینچا جاتا ، بعض کو تو جلا وطن کیا جاتا اور بعض کو تلوار سے ڈرا کر اپنا مذہب چھوڑنے کے لئے کہا جاتا.میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ جس پر جبر کیا جاتا تھا اس کا عقیدہ جبر کرنے والے سے سینکڑوں گنے زیادہ اچھا ہوتا.بعض دفعہ جبر کرنے والے کے اعمال نہایت گندے ہوتے اور جبر کے تختہ مشق کے اعمال نہایت پاکیزہ ہوتے.میں حیران ہو کر دیکھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے.جب بعض لوگ ان جابروں سے پوچھتے کہ آخر یہ کیا ظلم ہے اور ان لوگوں کو کیوں دکھ دیا جاتا ہے؟ تو لوگ جواب میں کہتے کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں ہم لوگ انصاف کر رہے ہیں اور ظلم نہیں بلکہ حقیقی خیر خواہی کرنے والے ہیں.اگر مادی طور پر ہم نے کچھ سختی کر لی تو اس کا حرج کیا ہے جب کہ ان کی روح کو ہم نجات دلا رہے ہیں.میں نے دیکھا کہ یہ ظلم ترقی کرتے کرتے اس قدر بڑھ گیا کہ بعض لوگوں کو صرف اس جرم پر آزار پہنچائے جانے لگے کہ وہ کیوں اپنے رب کی آواز کو سنتے ہیں.اور بعض کو اس لئے کہ کیوں تو حید کے قائل ہیں اور بعض کو اس لئے کہ کیوں خدا تعالیٰ کی طرف ظلم اور
سيرة النبي عمال 79 جلد 4 کمزوری منسوب نہیں کرتے.اور میں نے لوگوں کو اس لئے بھی دوسروں پر جبر کرتے دیکھا کہ وہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹ بول سکتا ہے.آہ ! یہ ایک بھیا نک نظارہ تھا جسے دیکھ کر میری روح کانپ گئی اور میں نے کہا آخر ان نبیوں کے آنے کا کیا فائدہ ہوا.یہ شریعتیں کس مصرف کی ہیں کہ ان کے باوجود یہ ظلم ہو رہے ہیں اور میں ابھی اسی سلوک پر حیرت کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا بعض لوگ عبادت کے لئے عبادت گاہوں کی طرف آنا چاہتے تھے کہ بعض دوسرے لوگوں نے ان کو روکا اور کہا کہ تم کو کس نے کہا ہے کہ ان مقدس مقامات کو نا پاک کرو اور کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ جب کہ تم عشائے ربانی میں فطیری کی جگہ خمیری روٹی استعمال کرتے ہوئے یا مقدس اشیاء کو دستانے پہن کر پکڑ لیتے ہو تم ہماری عبادت گاہوں میں داخل ہو کر انہیں نجس کرنا چاہتے ہو.غرض اسی قسم کی باتیں تھیں جن پر میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کو عبادت گاہوں سے روک رہے تھے اور نتیجہ یہ تھا کہ لوگوں کی توجہ عبادت سے ہی ہٹ رہی تھی.پھر میں نے دیکھا کہ بعض لوگ اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور انہوں نے ثواب کا سب سے بڑا کام یہ سمجھا کہ جہاں موقع ملا دوسروں کی عبادت گاہ گرا دی.یہودی مسیحیوں کی عبادت گاہیں اور مسیحی یہودیوں کی اور بدھ ہندوؤں کی اور ہندو بدھوں کی عبادت گاہیں گرا رہے تھے اور اپنے اعمال پر فخر کر رہے تھے اور ہر اک شخص یہ خیال کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کا پیمانہ اس کے لئے دوسری اقوام کی عبادت گاہوں کے گرانے کے کام کے مطابق وسیع ہوگا.آہ! یہ مقدس جذبات کی بے حرمتی کا ایک حیا سوز نظارہ تھا.ایک دل دہلا دینے والا منظر تھا.میں نے کہا یہ ترقی ہے جو دنیا نے ان ہزاروں سالوں میں کی ہے جن میں قریباً ہر صدی نے ایک نبی پیدا کیا ہے.کیا یہ ارتقا ہے جسے علمائے سائنس ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں؟ میں شاید نبیوں کے کاموں کی پائیداری کا قائل ہی نہ رہتا اگر وہی پاکیزہ آواز ، مقدس آواز جو پہلے
سيرة النبي علي 80 جلد 4.میرے شبہات کا ازالہ کرتی رہی تھی پھر بلند نہ ہوتی.پھر میں اسے دنیا کی آوازوں کو دباتے ہوئے نہ پاتا.پھر اسے جلالی انداز میں یہ کہتے نہ سنتا کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا باطل تو بھا گا ہی کرتا ہے.ہے.دین کے معاملہ میں جبر ہرگز جائز نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی میں کامل فرق کر کے دکھا دیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہراک ضروری امر کو کھول دیا ہے اور بقدر ضرورت جسمانی پانی کی طرح وہ مختلف ممالک میں روحانی پانی برساتا رہا ہے.ان کے اختلافات اس امر پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ پانی پاک نہیں بلکہ صرف مختلف ممالک اور مختلف زمانوں کے لوگوں کی طبائع اور ضرورتوں کے فرق پر دلالت کرتا ہے جس کو جب اور جو ضرورت ہوئی خدا تعالیٰ نے ضرورت کے مطابق سامانِ ہدایت پیدا کر دیے.پس ان اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور اگر کوئی ناحق پر بھی ہو تب بھی اسے جبر سے نہ منواؤ کہ خدا تعالیٰ کا معاملہ دل کی حالت کے مطابق ہے نہ کہ زبان کے قول کے مطابق.خدا تعالیٰ کو تمہاری باتیں اور تمہارے ظاہری اعمال نہیں پہنچتے بلکہ اس کے حضور میں تمہارے دل کی کیفیت پہنچتی ہے جو جبر سے نہیں پیدا ہوسکتی.ایک دوسرے کو عبادت گا ہوں میں عبادت کرنے سے نہ روکو کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے.جو خدا کا نام لینا چاہتا ہے خواہ کسی طریق پر نام لے اسے اجازت دو تا لوگوں میں عبادت کی طرف توجہ ہو اور لامذہبیت ترقی نہ کرے.لوگوں کی عبادت گاہوں کو نہ گراؤ خواہ آپس میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو کیونکہ اس سے ظلم اور فتنہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور امن کا قائم ہونا لمبے زمانے تک ناممکن ہو جاتا ہے.اگر کوئی ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حکومت کو تباہ کر دے گا اور نئی قو میں پیدا کرے گا جو اس کے حکم کے ماتحت عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گی.اس آواز نے میرے خدشات کو دور کر دیا، میرے خیالات کو مجتمع کر دیا اور میں نے پھر آزادی کا سانس لیا جس میں ایک طرف تسلی اور دوسری طرف درد ملا ہوا تھا.تسلی اس لئے کہ میں نے دیکھا کہ دنیا کی اصلاح کا دن آ گیا، ظلم مٹایا.
سيرة النبي علي 81 جلد 4 جائے گا اور درد اس لئے کہ اس آواز کے مالک کی طرف میرا دل زیادہ سے زیادہ کھینچا جا رہا تھا.مگر تیرہ سو سال کا زمانہ پوری 13 نا قابل گز رصد یاں میرے اور اس کے درمیان میں حائل تھیں.مگر بہر حال میرے دل سے پھر ایک آہ نکلی اور شکر و امتنان سے بھرے ہوئے دل سے میں نے کہا کہ یہ آواز انسانی ضمیر کے لئے بھی ایک رحمت ثابت ہوئی.معذوروں کے لئے رحمت اس کے بعد میری نگہ انسانوں میں سے معذوروں پر پڑی.میں نے دیکھا کہ انسانوں میں سے کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے ناکارہ اور بے مصرف نظر آتے ہیں.ان میں سے اندھے ہیں اور بہرے ہیں اور گونگے ہیں اور لنگڑے ہیں اور اپاہج ہیں اور مفلوج ہیں اور کمزور جسموں والے ہیں اور بیمار ہیں اور بوڑھے ہیں یا چھوٹے ہیں، بیکار ہیں اور بے سرو سامان ہیں اور بے یارو مددگار ہیں.میں نے دیکھا یہ مخلوق خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ دلچسپ مخلوق تھی.میں نے ان میں سے ایسے لوگ دیکھے کہ باوجود اپاہج ہونے کے ان کے دل شرارت سے لبریز تھے.اگر کسی کے ہاتھ نہ تھے تو وہ پاؤں سے چوری کرنے کی کوشش کرتا تھا اور اگر پاؤں نہ تھے تو وہ گھیسٹ کر بدی کے مقام پر جانا چاہتا تھا.اور اگر آنکھیں نہ تھیں تو وہ کانوں سے بدنظری کا مرتکب ہونے کی کوشش کرتا تھا یا ہاتھوں سے چھو کر اپنے بد خیالات کو پورا کرنے کی سعی کرتا تھا.بے یارو مددگار لوگوں کو میں نے دیکھا ان کے چہروں پر بادشاہوں سے زیادہ نخوت کے آثار تھے، بیکسوں کو دیکھا کہ اپنی بے کسی کی حالت میں ہی وہ دوسروں کو گرانے کے لئے کوشاں تھے.مگر میں نے انہی لوگوں میں سے ایسے لوگ دیکھے جن کے دل خدا کے نور سے پُر تھے، ان کی آنکھیں نہ تھیں مگر وہ بینا لوگوں سے زیادہ تیز نظر رکھتے تھے ، ظاہری کان نہ تھے مگر ان کی سماعت غضب کی تیز تھی ، ہاتھ نہ تھے مگر جس نیکی کو پکڑتے تھے چھوڑنے کا نام نہ لیتے ، پاؤں نہ تھے مگر نیکی کی راہوں
سيرة النبي علي 82 جلد 4.پر اس طرح چلتے تھے جس طرح تیز گھوڑا دوڑتا ہے.مگر باوجود ان کے اچھے ارادوں اور میسر شدہ سامانوں کے مطابق کوشش کرنے کے پھر بھی وہ اس قسم کے عمل نہیں کر سکتے تھے جو تندرست اور طاقت رکھنے والے لوگ کر سکتے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ظاہر بینوں کی نگہ میں نکمے اور ناکارہ نظر آتے تھے.میں نے دیکھا ان کو ہاتھوں کے نہ ہونے کا اس قدر صدمہ نہ تھا جس قدر اس کا کہ وہ ان نیک کاموں کو بجا نہیں لا سکتے کہ جن میں ہاتھ کام آتے ہیں، انہیں آنکھوں کے جانے کا اس قد رصدمہ نہ تھا جس قدر اس کا کہ وہ ان نیک کاموں سے محروم ہیں جن میں آنکھیں کام آتی ہیں غرض ہر کمزوری جو ان میں پائی جاتی تھی خود اس کمزوری کا ان کو احساس نہ تھا لیکن اس کمزوری کے نتیجہ میں جس قسم کی نیکیوں سے وہ محروم رہتے تھے ان کا اُن کو بہت احساس تھا.میں نے ان لوگوں کو ہزار بدصورتیوں کے باوجود خوبصورت پایا اور ہزار عیبوں کے باوجود کامل دیکھا اور میں جوش سے کہہ اٹھا کہ باوجود مذاہب کے اختلاف کے اس میں تو کسی کو اختلاف نہ ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت خوبصورت مخلوق ہے.ان کے عیب پر ہزار کمال قربان ہو رہا ہے اور یہ لوگ ثابت کر رہے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ فضل کرے تو میلے کے ڈھیر پر بھی پاکیزہ روئیدگی پیدا ہوسکتی ہے.مگر میری حیرت کی حد نہ رہی کہ جب ایک جماعت مجھ سے اس بارہ میں بھی اختلاف پر تیار ہو گئی اور بعض نے کہا کہ ایسے ناپاک لوگوں کو آپ اچھا کہتے ہیں ان سے تو الگ رہنے کا حکم ہے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا تک نا جائز ہے اور نہ ان سے چھونا درست ہے.ایک اور جماعت بولی یہ اپنے گزشتہ اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کے پیارے کس طرح ہو گئے بلکہ انہوں نے ان کے گناہ تک گنائے کہ گزشتہ زندگی میں فلاں گناہ کر کے آنکھیں ضائع ہوئیں، فلاں گناہ کر کے کان ضائع ہوئے وغیرہ ذَالِکَ.اور بعض نے ہنس کر کہا کہ خیر یہ تو بیوقوفی کی باتیں ہیں اصل میں ان پر دیوسوار ہیں.ہمارے خداوندان دیووں کو نکالا کرتے تھے اور ان کے بعد ان
سيرة النبي عمال 83 جلد 4 کے شاگرد.مگر اب ایسے لوگ ہم میں موجود نہیں رہے.میں نے کہا الہی ! دنیا کو کیا ہو گیا ہے یہ دل کے اندھے آنکھوں کے اندھوں پر اور دل کے بہرے کانوں کے بہروں پر بنتے ہیں.یہ بدصورت اور کریہہ المنظر لوگ ان اپاہجوں کے حُسن کو کیا جانیں جن کے دل تیرے نور سے منور اور جن کے سینے تیری محبت کے پھولوں سے رشک صد مرغزار بن رہے ہیں.آہ! میں کس طرح مانوں کہ تو بھی بنیوں کی طرح یہ ہے کہ کس کی تھیلی میں کیا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے.مگر میرے خیالات کی روکو پھر اُسی عقدہ کشا آواز نے روک دیا.وہ ناز و رعنائی سے بلند ہوئی.اس ناز سے کہ کسی معشوق کو کب نصیب ہوا ہوگا ، اس شان سے کہ کسی بادشاہ کو خواب میں بھی حاصل نہ ہوئی ہوگی اور اس نے کہا کہ اے کام کرنے والو! اے خدا کی راہ میں جانیں قربان کرنے والو! مت خیال کرو کہ خدا کے حضور میں تم ہی مقبول ہو اور اس کے انعامات کے تم ہی وارث ہو یا درکھو کہ کچھ تمہارے ایسے بھائی بھی ہیں کہ جو بظاہر ان عمل کی وادیوں کو نہیں طے کر رہے جن کو تم طے کر رہے ہو ان کٹھن منزلوں میں سے نہیں گزر رہے جن میں سے تم گزر رہے ہو.لیکن پھر بھی وہ تمہارے ساتھ ہیں تمہارے شریک ہیں، تمہارے ثوابوں کے حصہ دار ہیں 16.اور خدا تعالیٰ کے ایسے ہی مقرب ہیں جیسے کہ تم.میں نے دیکھا نیکوکاروں کی وادی میں ایک عظیم الشان ہلچل پیدا ہوئی اور سب بے اختیار چلا اٹھے کہ کیوں ایسا کیوں ہے؟ اس مقدس آواز نے جواب دیا اس لئے کہ گوان کے ہاتھ پاؤں بوجہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ معذوریوں کے تمہارے ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے مگر ان کے دل تمہارے ساتھ ہیں.جب تم عمل کی لذتوں سے مسرور ہو رہے ہوتے ہو وہ غم اور حرمان کے تلخ پیالے پی رہے ہوتے ہیں.بے شک جام مختلف ہیں، بے شک شراب جدا جدا ہے لیکن کیف میں کوئی فرق نہیں.نتیجہ ایک ہی ہے.تم جس مقام کو پاؤں سے چل کر پہنچتے ہو وہ دل کے پروں سے اڑ کر جا پہنچتے ہیں.ان کو نا پاک مت کہو جو ان سے نیک ہیں وہ تم میں
سيرة النبي م 84 جلد 4 سے پاکیزگی میں کم نہیں.میری روح وجد میں آگئی ، میرا دل خوشی سے ناچنے لگا میں نے کہا صَدَقْتَ يَارَسُوْلَ اللهِ انصاف اس کا نام ہے، عدل اس کو کہتے ہیں.میرے دل سے پھر ایک آہ نکل گئی اور میں نے کہا طاقت ور کے ساتھی تو سب ہوتے ہیں مگر یہ آواز معذوروں کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.آئندہ نسلوں کے لئے رحمت میں کہاں کہاں تم کو اپنے ساتھ لئے پھروں میں نے اس عالم خیال میں بیسیوں اور مقامات کی سیر کی لیکن اگر میں ان کیفیات کو بیان کروں تو یہ مضمون بہت لمبا ہو جائے گا اس لئے میں اب صرف ایک اور نظارہ کو بیان کر کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.میرے دل میں خیال آیا کہ یہ غیبی آواز ماضی کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی اور حال کے لئے بھی مگر اس کا معاملہ مستقبل کے ساتھ کیسا ہے.میں نے کہا آئندہ نسلیں لوگوں کو اپنی جانوں سے کم پیاری نہیں ہوتیں.ماں باپ خود فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں بشرطیکہ ان کی اولا د بچ جائے بلکہ سچ پوچھو تو وہ ہر روز اپنے آپ کو اولاد کی خاطر تباہی میں ڈالتے رہتے ہیں.پھر ماضی اور حال کسی کو کب تسلی دے سکتے ہیں جبکہ مستقبل تاریک نظر آتا ہو، جبکہ آئندہ نسلیں فلاح و کامیابی کی راہوں پر چلنے سے روک دی گئی ہوں.میں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا ، یہ تو انسانی فطرت کے خلاف ہے کہ کوئی اپنی نسلوں کی تباہی پر راضی ہو جائے اس لئے مستقبل کے متعلق تو ضرور سب مذاہب متحد ہوں گے اور اس مقدس وجود سے ان کو اختلاف نہ ہوگا جو دوسرے امور میں ان سے اختلاف کرتا رہا ہے اور ان کے لئے صحیح عقیدہ یا صحیح عمل پیش کرتا رہا ہے.تب میں نے عالم خیال میں ہندو بزرگوں سے سوال کیا کہ آئندہ نسلوں کے لئے آپ میں کیا وعدے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وید آخری اور اوّل کتاب ہے اس کے بعد اور کوئی کتاب نہیں.میں نے کہا میں تو کتاب کے متعلق سوال نہیں کرتا میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ جو پہلوں نے دیکھا کیا آئندہ نسلوں کے لئے بھی اس کے دیکھنے کا امکان
سيرة النبي علي 85 جلد 4 ہے؟ وید دوبارہ نازل نہ ہوں لیکن ویدوں نے جو عجائبات پہلے لوگوں کو دکھائے کیا ویسے ہی عجائبات پھر بھی دنیا کے لوگ دیکھیں گے اور اپنے ایمان تازہ کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ افسوس! ایسا نہیں ہوسکتا.آخر ویدوں کے زمانہ جیسا زمانہ اب دنیا کو کس طرح مل سکتا ہے.میں نے بدھوں سے سوال کیا اور انہوں نے بھی کوئی ایسی امید نہ دلائی.زرتشتی لوگوں نے بھی اس پرانے اچھے زمانے کا وعدہ اپنی اولا دوں کے لئے نہ دیا.یہود نے کہا زکریا تک تو خدا تعالیٰ کا کلام لوگوں پر اتر تا رہا اور اس کے معجزات لوگوں کے ایمان تازہ کرتے رہے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوسکتا.مسیحیوں نے کہا حواریوں تک تو روح القدس اترا کرتا تھا مگر اب اس نے یہ کام ترک کر دیا ہے.میں نے کہا اور آئندہ نسلیں؟ کیا اب وہ محروم رہیں گی؟ کیا اب ان کے ایمانوں کو تازہ کرنے کے لئے کوئی سامان نہیں؟ انہوں نے کہا کہ افسوس ! اس رنگ میں اب کچھ نہیں ہو سکتا.میں حیران تھا کہ لوگ کس طرح اپنی اولادوں کو محروم کرنے پر رضا مند ہو گئے اور وہ کیوں خدا تعالیٰ کے آگے نہ چلائے کہ اگر اولاد کی محبت دی ہے تو ان کی ترقی کے سامانوں کے وعدے بھی تو کر.مگر میں نے دیکھا ان لوگوں میں کوئی حس نہ تھی وہ اس پر خوش تھے کہ خدا کا کلام نَعُوذُ بِاللہ کوئی لعنت تھا کہ شکر ہے اس سے ان کی اولادوں کو نجات ملی.میں دلگیر و افسردہ ہو کر ان لوگوں کی طرف سے ہٹا اور میں نے کہا وہ نور بھی کیا جس کی روشنی بند ہو جائے اور وہ خدا ہی کیا جس کی جلوه گری ماضی میں ہی ختم ہو جائے کہ پھر میں نے اسی موہنی پیاری دلکش آواز کو بلند ہوتے ہوئے پایا.پھر اسے ایک انداز دلربائی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو نعمت ہم نے پائی اسے اپنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان میں تقسیم کر دیا.خدا تعالیٰ کی نعمتیں ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ اسی طرح مستقبل کا بھی رب ہے جس طرح ماضی کا.جو کوئی بھی اس سے سچا تعلق رکھے گا اس کا کلام اس پر نازل ہوگا، اس کے نشانات اس کے لئے ظاہر ہوں گے، اس کی محبت محدود نہیں کہ وہ اسے گزشتہ
سيرة النبي عمال 86 جلد 4 لوگوں پر تقسیم کر چکا، وہ ایک غیر محدود خزانہ ہے جس سے ہر زمانہ کے لوگ علی قدر مراتب حصہ لیں گے.ہر اک جو بچے دل سے کہے گا کہ اللہ میرا رب ہے اور اس تعلق پر سچے عاشقوں کی طرح قائم ہو جائے گا خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوں گے اور اس کے رب کا پیغام اس کو آ کر دیں گے اور اس کی محبت بھری باتیں اس کے کان میں ڈالیں گے اور غموں اور فکروں کے وقت اس کے دوش بدوش کھڑے ہوں گے اور بشارت دیں گے کہ اللہ تمہارا دوست اور تمہارا مددگار ہے.پس کچھ فکر نہ کرو اور غم نہ کر و 17 اور الہام الہی کا دروازہ ہمیشہ ان کے لئے کھلا رہے گا اور ان کے عشق کو رد نہ کیا جائے گا بلکہ قبول کیا جائے گا اور وہ سب در جے جو پہلوں کو ملے ہیں ان کو بھی ملیں گے.میں نے یہ بشارت سن کر بے اختیار کہا اللہ اکبر.یہ آواز تو آئندہ نسلوں کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئی.اگر آئندہ کے لئے آسمانی نعمتوں کا دروازہ بند ہو جاتا تو عاشق تو جیتے جی ہی مر جاتے.جن کے دل میں عشق الہی کی چنگاری سلگ رہی ہے انہیں جنت بھی اسی لئے اچھی لگتی ہے کہ اس میں معشوق از لی کا قرب نصیب ہوگا ورنہ انار اور انگور ان کے لئے کوئی دلکشی کا سامان نہیں رکھتے.اگر قرب سے ہی ان کو محروم کیا جانا تھا جیسے کہ دوسرے لوگ کہتے ہیں تو ان کے لئے پیدا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا.پس مبارک وہ جس نے آئندہ نسلوں کو بھی امید سے محروم نہ کیا اور عاشقوں کو معشوق کے وصال کی خوشخبری سنا کر ہمیشہ کے لئے اپنا دعا گو بنا لیا.مگر اب تو میرے دل سے ایک بہت ہی درد بھری آہ نکلی اور میں نے کہا کیا ان تیرہ صدیوں ، نا قابل گزر تیرہ صدیوں کے لئے جن کو ماضی کی مہر نے بالکل ہی عبور کے قابل نہیں چھوڑا طے کرنے کا کوئی راستہ نہیں ؟ کیا میرے اور میرے محبوب کے درمیان ایسی سد سکندری حائل ہے جس کو توڑنا بالکل ناممکن ہے؟ کیا اس مایوسی کی تاریکی کو امید کی کوئی کرن بھی نہیں پھاڑ تی ؟ میں انتہائی کرب میں تھا کہ مجھے ایک اور آواز سنائی دی.ایسی قریب کہ اس کے قرب کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ وہ میری رگِ گردن سے بھی زیادہ قریب تھی.
سيرة النبي عمال 87 جلد 4 اور اس نے کہا افسوس نہ کر میری طرف دیکھ جو چیز تیرے لئے ماضی ہے میرے لئے حال.بے شک کمزور انسان ماضی کو نا قابلِ وصول سمجھتا ہے اور سمجھتا رہا ہے لیکن میرے سامنے ماضی اور مستقبل سب ایک سے ہیں.جس وجود کو تو دیکھنا چاہتا ہے میں نے اس کے ماضی کو مستقبل سے بدل دیا ہے.میری طرف سیدھا چلا آ تو اس کو میرے قرب میں، میری جنت کے اعلیٰ مقامات میں ، میرے کوثر کے کنارے پر اسی طرح میری نعتیں تقسیم کرتا ہوا پائے گا جس طرح تیرہ صدیاں گزریں.دنیا کے لوگوں نے اسے ہر قسم کی نعمتیں تقسیم کرتے ہوئے پایا تھا.کیوں وہ سب کے لئے رحمت نہ ہو کہ میں نے اسے پیدا ہی تقسیم کے کام کے لئے کیا تھا.تبھی تو وہ ابو القاسم کہلایا اور تیمی تو اس نے منع کیا کہ کوئی شخص اس کی کنیت اختیار نہ کرے 18.میں نے کہا اے میرے دل میں بولنے والے! میں تیرے ازلی حسن پر قربان.بے شک میرا محمد رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ تھا لیکن تُو رَبُّ الْعَلَمِینَ ہے.تیری رحمت کے قربان ، ماضی کے ایک منٹ کو کوئی واپس نہیں لا سکتا لیکن تو نے تیرہ صدیوں کے ماضی کو مستقبل بنا دیا اور وہ جسے ہم خیال کرتے تھے کہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں اس کی آئندہ ملاقات کا وعدہ دلایا.اے میرے محمد کے معشوق ! آمیرے دل میں بھی گھر کر لے.تیرا حسن سب سے بالا ہے.تیری شان سب سے نرالی.اور یہ کہتے ہوئے میری ایک آنکھ سے ایک آنسو نکل پڑا.وہ میرے رخسار پر ڈھلکا ہی تھا کہ میری ایک بیوی میرے کمرہ میں داخل ہوئی.میں نے عشق کا راز فاش ہونے کے خوف سے جھٹ وہ آنسو پونچھ دیا ور نہ نہ معلوم اس کے کتنے اور ساتھی اس کے پیچھے چلے آتے.“ (روز نامہ الفضل 26 نومبر 1933 ء) لحم السجدة: 38 2 قشعريره: لرزہ بدن کپکپی ( المنجد عربی اردوصفحہ 805 مطبوعہ کراچی 1974 ء) 3: بنی اسرائیل: 41
سيرة النبي علي 4 الزخرف : 20 5: التحريم: 7 6: الجاثية: 25 :7 88 منفض : رنجیدہ ناراض ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 1296 مطبوعہ فیروز سنز لاہور 2010ء) 8: البقرة: 30 جلد 4 9 گلتیوں : باب 3 آیت 11 تا 14 صفحہ 1129 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 10: پیدائش : باب 3 آیت 12 ، 13 صفحہ 12 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 11 : رومیوں : باب 14 آیت 9 صفحہ 1099 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 12 :مسلم كتاب البر والصلة باب النهي عن قول هلك الناس صفحہ 1144 حدیث نمبر 6683 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية :13: طه: 116 :14: یوحنا باب 10 آیت 8 صفحہ 1037 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 15 : فاطر: 25، الرعد : 8 16: بخاری کتاب المغازی باب نزول النبي الحجر صفحہ 753 حدیث نمبر 4423 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 17: حم السجدة: 31 18:بخاری کتاب المناقب باب كنية النبي صلى الله عليه وسلم صفحہ 595 حدیث نمبر 3537 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 89 68 جلد 4 اسوۂ کامل حضرت مصلح موعود نے 26 نومبر 1933ء کو قادیان میں جلسہ سیرت النبی ﷺ پر جو تقریر فرمائی وہ بعد میں اسوۂ کامل“ کے عنوان سے شائع ہوئی.یہ تقریر درج ذیل ہے.آپ فرماتے ہیں:.اصل مضمون شروع کرنے سے قبل میں ایک تحریر کے متعلق کچھ کہنا ایک شکایت چاہتا ہوں جو اسی وقت مجھے دی گئی ہے.اس پر چند ہندو اصحاب کے دستخط ہیں اور انہوں نے شکایت کی ہے کہ آج ایک جلوس ان کی گلیوں میں گزرا جس کا پہلے دستور نہ تھا اور کہ اس میں شامل ہونے والے بعض طالب علموں کا رویہ ناپسندیدہ تھا.پیشتر اس کے کہ میں یہ معلوم کروں کہ ان کے رویہ میں کیا ناپسندیدگی تھی جس کے متعلق اگر وہ مجھے بعد میں اطلاع دیں گے تو میں ہر نا پسندیدہ رویہ کے متعلق نوٹس لوں گا لیکن عام نصیحت میں تحقیق سے پہلے ہی کر دیتا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی ناپسندیدہ حرکت کی تو یہ بہت ہی ناپسندیدہ بات تھی.یہ دن ہم نے اس بات کی تیاری کے لئے مقرر کیا ہے کہ مختلف اقوام میں صلح و آشتی کی بنیاد بن سکے اور وہ دن جسے ہم اقوام میں صلح کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں اور جسے ہم آہستہ آہستہ اس صورت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں کہ سب مذاہب کے بزرگوں کو اچھے ناموں سے یاد کیا جائے تا مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں جو کدورت ہے وہ دور ہو اور پیار بڑھے اس دن کسی کا دل دکھانا جو پہلے ہی اسلامی تعلیم کی رو سے ناپسندیدہ بات ہے اور مسلمان کو اس بات سے جس سے دوسرے کو دکھ ہو مجتنب رہنے کا حکم ہے،
سيرة النبي عمال 90 جلد 4 خصوصیت سے ناپسندیدہ بات ہے.اور اس دن بالخصوص اس بات کا لحاظ کرنا چاہئے کہ ایسی بات نہ کی جائے جس سے کسی کا دل دکھے.مصنوعی حد بندیوں کے نقصانات ان کے اس شکوہ کے متعلق کہ جلوس ان کی گلیوں میں سے گزرا جس کا پہلے دستور نہ تھا میں اپنا خیال ظاہر کر دیتا ہوں اور میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یہ تنگ دلی ہم سب قوموں کو مٹا دینی چاہئے.میرے نزدیک جب تک ہندو بازار، مسلم بازار اور ہند و محلہ ، مسلم محلہ کی تفریق باقی ہے، ہمارے اندر محبت سے ایک دوسرے کی طرف بڑھنے کی جستجو پیدا ہی نہ ہو گی.ان مصنوعی حد بندیوں کی وجہ سے قلوب میں ایسی گر ہیں رہیں گی کہ جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے روکیں گی.جو چیز قلوب کو مجروح کرتی ہے وہ خواہ ہند و محلہ میں کی جائے یا مسلم محلہ میں وہ بہر حال بری ہے.اگر ہندو اپنے محلہ میں مسلمانوں کو گالیاں دیں یا مسلمان اپنے محلہ میں ہندوؤں کو برا بھلا کہیں تو یہ تو بے شک صحیح ہے کہ چونکہ ایک دوسرے کی گالیوں کو ایک دوسرے نے سنا نہیں اس لئے جوش نہیں پھیلے گا اور فساد نہیں ہو گا.لیکن فساد اصل دل کا ہوتا ہے.اگر اپنی اپنی جگہوں پر دروازے بند کر کے بلکہ کوٹھڑیوں میں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک دوست دوسرے کے کان میں بلکہ اپنے ہی دل میں ایک دوسرے کو گالیاں دے تب بھی یہ فعل ویسا ہی برا ہوگا کیونکہ اپنے دل میں گالی دینے والے کا دل تو خراب ہو گیا اور ایسے دل میں محبت کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی.اس لئے اگر قلوب کی درستی کو مدنظر رکھا جائے تو ایک دوسرے کو گالی دینے یا برا بھلا کہنے کے لئے ظاہر و باطن یا اپنے اور پرائے محلہ کی حد بندی کوئی نہیں لیکن اگر دل شکنی نہ کی جائے اور ہند و جلوس ہمارے محلہ سے گزر جائے تو اس میں خرابی ہی کیا ہے اور اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے یا اگر ہمارا جلوس بغیر کسی دل شکنی کے ہند و محلہ میں سے گزر جائے تو اس میں کیا حرج ہے.
سيرة النبي عمال 91 جلد 4 ہندوستان میں فساد کا اصل باعث لیکن یہ میرا اپنا خیال ہے اور جب تک سب کے اندر یہ وسعت قلبی پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو چاہئے کہ اس محلہ کو چھوڑ دیا جائے لیکن میری اپنی رائے یہی ہے کہ صلح و آشتی کے لئے ہمیں یہ تنگ دلی دور کر دینی چاہئے اور جن چیزوں میں ہمارے مذاہب نے دائرے قائم نہیں کئے مثلاً ہند و محلہ یا مسلم محلہ کسی مذہب نے نہیں بتایا تو ہم خواہ مخواہ نئی حد بندیاں کیوں کریں.ہندوستان میں تمام لڑائیاں ایسی ہی تنگ دلانہ ذہنیت میں پیدا ہوتی ہیں جس کا میں ہمیشہ سے مخالف رہا ہوں.احمدیوں کی وسعت قلبی ہماری چھوٹی مسجد کے نیچے سے ہندو، مسلم، سکھ براتیں باجہ بجاتے ہوئے گزر جاتی ہیں اور نماز کے وقت بھی جبکہ میں نماز پڑھا رہا ہوتا ہوں گزرتی ہیں لیکن میں نے انہیں بھی نہیں روکا.بلکہ بعض لوگوں نے روکنا چاہا تو میں نے انہیں بھی منع کیا.اگر کوئی شخص باجے سے ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے تو دین کی طرف ہماری توجہ ہی کیا ہوئی.چاہئے کہ ہم دین میں ایسے مگن ہوں کہ کوئی چیز ہمیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے.مجھے تو کبھی اس کا احساس نہیں ہوا.بلکہ اگر کسی کو ہوا تو میں نے اسے بھی منع کیا اور یہی کہا کہ یہ گلی گزرنے کی ہے اور اب تک اس میں سے ہندو، سکھ، مسلمان سب کی براتیں گزرتی ہیں.یہاں کی بھی اور باہر کی بھی.اور میرا خیال ہے کہ یہی ذریعہ صلح کا ہے.ناپسندیدہ باتیں خواہ ہند ومحلہ میں ہوں یا اپنے محلہ میں ہر حال میں ناپسندیدہ ہیں.فساد کے خیال سے اگر دوسرے کے محلہ میں جا کر کوئی ایسی بری حرکت کی جائے تو یہ زیادہ بری بات ہے.لیکن جو بات ہے ہی نا پسندیدہ اسے اپنے محلہ میں بھی نہیں کرنا چاہئے.جماعت کو نصیحت اس لئے میں بغیر تحقیق کے ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی حرکت کی ہے تو تو بہ کرے اور اگر نہیں کی تو آئندہ کے
سيرة النبي عمال 92 جلد 4 لئے مزید احتیاط کرے.اگر کوئی قوم پسند نہیں کرتی تو اس کی گلی میں سے نہ گزرا جائے.لیکن پھر بھی میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق صلح کا نہیں اس سے ہر جگہ اور ہر قوم میں فساد ہوتے رہتے ہیں.ایسی ہی باتوں سے ہندومسلمانوں میں اور پھر مدراس کے علاقہ میں عیسائیوں اور ہندوؤں کے مابین فساد ہوتے رہتے ہیں.یہ خیال کہ ہماری مسجد یا محلہ میں سے کوئی گزر جائے تو یہ ہتک ہے قطعاً غلط ہے.اگر وہ ہمارا بھائی ہے تو اس میں ہتک کی کیا بات ہے لیکن جب تک دل نہیں بدلتے اور کسی کو دکھ ہوتا ہے اُس وقت تک اگر ہم چھوڑ ہی دیں تو کیا حرج ہے.مضمون کی وسعت اور وقت کی تنگی اس کے بعد میں اس غرض کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا گیا ہے.اس میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تفصیلی واقعات تو کسی علی صورت میں بیان نہیں ہو سکتے کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہوتا ہے.سردیوں کے دن ہیں.اوّل تو عصر و مغرب کی نمازوں کے درمیان وقفہ ہی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا ہوتا ہے.اس میں سے کچھ وقت یہاں پہنچنے میں لگ جاتا ہے، کچھ تلاوت ونظم میں، پھر کھڑے ہونے اور تمہید میں کچھ صرف ہو جاتا ہے.اور صرف پندرہ بیس منٹ باقی بچتے ہیں اور کون ہے جو اس قدرقلیل عرصہ میں اس بحر نا پیدا کنار کو تیر کر گزر سکے.صرف اتنا ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعض اعمال کو بیان کیا جائے تا ماننے والوں کے علم اور محبت میں زیادتی ہو اور دوسروں میں منافرت کم ہو.مذاہب کا اصل مقصد آج میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کروں گا کہ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں وہ وصلِ الہی کو ہی اصل مقصد قرار دیتے ہیں.ہندو، مسلمان ، سکھ، عیسائی ، زرتشتی، یہودی، مجوسی ہر ایک اپنے مذہب کا اصل مقصد وصالِ الہی ہی بتاتے ہیں لیکن وہ سب کے سب اس وصال کو مرنے کے بعد قرار دیتے ہیں.مثلاً سناتنیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد کامل انسان
سيرة النبي علي 93 جلد 4 خدا تعالیٰ میں جذب ہو جاتے ہیں.آریہ کہتے ہیں کہ وہ لمبے عرصہ کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب میں چلے جاتے ہیں.بدھوں کا بھی ایسا ہی عقیدہ ہے.یہودیوں میں سے بعض تو قیامت کے قائل ہی نہیں، جو قائل ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں.زرتشتی ، مسلمان غرضیکہ سب کا یہی خیال ہے اور سب نے اس وصال کا زمانہ بعد الموت رکھا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان سفر میں ہو تو بھی اپنے لئے کچھ نہ کچھ سامان ضرور کرتا ہے اس لئے دنیا میں بھی جو بطور سفر ہے وصالِ الہی کی کوئی تجاویز ہونی چاہئیں.اور اس پر سب مذاہب کا اجتماع ہے کہ جب تک انسان حقیقی تقرب الہی حاصل کرے اُس وقت تک اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کرے تو یہ بھی ایک قسم کا قرب ہے.مثلاً روزہ کیا ہے؟ یہی کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرح ایک وقت کے لئے کھانے سے ہاتھ اٹھا لے.پھر نماز ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ بغیر کسی شریک، ساتھی اور رشتہ دار کے ہے اسی طرح انسان بھی ایک وقت کے لئے اپنے ساتھیوں اور رشتہ داروں سے الگ ہو جائے اور اس طرح سب مذاہب میں کچھ نہ کچھ عبادات ہیں.اور سب مذا ہب اس امر پر متفق ہیں کہ اصل مقصد انسانی زندگی کا قرب الہی ہے اور دنیا میں اس کی مثال اللہ تعالیٰ کی صفات کا دل میں پیدا کرنا ہے اور کامل انسان وہی ہو گا جو زیادہ سے زیادہ صفات الہی اپنے وجود میں ظاہر کرے گا..صفات الہی کا مظہر اتم آج کے مضمون میں میں رسول کریم علیہ کے کاموں میں سے اسی کام کو لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ آپ نے صفات الہی کو جس قدر اپنے اندر جذب کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی اور اسی غرض سے میں نے شروع میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں.پہلی صفت ربوبیت رَبُّ الْعَلَمِينَ ہے.جس طرف دیکھو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کام کر رہ رہی ہے.زمین، آسمان ، سورج، چاند، ستارے، مشرقی ، مغربی ، گورے،
سيرة النبي عليه 94 جلد 4 کالے، ایشیائی، یورپین سب اس کی ربوبیت کے نیچے ہیں.اور وہ چھوٹے بڑے امیر غریب سب کی ربوبیت کرتا ہے.صفت رحمانیت دوسری صفت رحمن ہے یعنی جتنی طاقتیں انسان کے اندر ہیں ان کے استعمال کے بیرونی سامان بھی مہیا فرماتا ہے.دنیا کی حکومتوں میں یہ بات نہیں.مثلاً یونیورسٹی ہے وہ علم پڑھانے کا سامان تو کرتی ہے مگر یہ نہیں کہ بعد میں نوکری بھی ضرور دے.وہ کہتی ہے کہ ہم نے پڑھا دیا اور اب جاؤ اپنے لئے روزگار تلاش کرو.وہ خالی علم دیتی ہے اس کے استعمال کے ذرائع نہیں دیتی مگر اللہ تعالیٰ رحمن ہے یعنی وہ قوتوں کے استعمال کے ذرائع بھی ساتھ دیتا ہے.رحمانیت کی لطیف تشریح ہر چیز جو اس نے پیدا کی ہے اس کے مقابل ایک ذریعہ اس کے استعمال کا بھی بنایا ہے.مثلاً آنکھ ہے اس کے لئے روشنی ضروری ہے تا کہ وہ دیکھ سکے اس لئے اس نے سورج پیدا کیا.پھر یہ ضروری ہے کہ آنکھ خوبصورت اشیاء کو دیکھے تا اس میں طراوت پیدا ہو اور اس نے خوبصورت مناظر ، سبزیاں، خوبصورت انسان ، چرند، پرند، درخت، بیل بوٹے وغیرہ اشیاء پیدا کر دیں.پھر اس نے کان دیئے ہیں مگر یہ نہیں کہا کہ آواز میں خود پیدا کرو بلکہ آواز بھی ساتھ ہی پیدا کر دی ہے.پھر آوازوں کے سننے میں بھی بے شمار فرق ہیں اگر سب کی آواز ایک سی ہوتی تو امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا لیکن اس قدر بار یک فرق ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.گاڑی آتی ہے، گھوڑا آتا ہے لیکن کان دونوں کے شور کو پہچان لیتے ہیں.پھر ہر انسان کی آواز میں کچھ نہ کچھ فرق ہے.تو اتنے امتیاز ہیں کہ اگر انہی کو دیکھا جائے تو کان کے لاکھوں کام نظر آتے ہیں.پھر چھونے کی طاقت دی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ اس کے لئے کام خود تلاش کرو بلکہ چھونے کے لئے چیزیں بھی پیدا کر دی ہیں.کوئی نرم چیز ہے، کوئی سخت ، کوئی پھسلنی اور کوئی کھردری ، پھر ان میں سے ہر ایک کی کئی اقسام ہیں.نرمی میں بھی ہزاروں فرق ہیں.
سيرة النبي علي 55 95 جلد 4 ہم ریشم پر ہاتھ رکھتے ہیں پھر ربڑ پر رکھتے ہیں اور اگر چہ دونوں نرم ہیں مگر ہماری چھونے کی طاقت دونوں میں ایک امتیاز قائم کرتی ہے اور اس طرح نرمیوں میں بھی ہزاروں امتیاز ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت نے جو طاقتیں انسان کو دی ہیں ان کے استعمال کے ذرائع بھی ساتھ ہی پیدا کر دیئے ہیں.مگر دنیوی حکومتیں ایسا نہیں کرتیں.ان کی مثال تو ایسی ہے کہ کہتے ہیں کوئی شخص شکار کے لئے ایک دلچسپ مثال گیا اور ایک خرگوش مار کر لایا.جب گھر کے قریب پہنچا تو خیال کیا کہ میرا کنبہ تو بہت ہے چھوٹے چھوٹے بچے ، بہن ، بھائی ہیں ایک خرگوش اگر میں گھر لے گیا تو وہ آپس میں لڑیں گے اس لئے بہتر ہے کہ باہر ہی کسی کو دے جاؤں.پاس سے کوئی سادھو گزر رہا تھا اس نے سوچا کہ اسے ہی دے جاؤں اور اس خیال سے اسے پوچھا کہ سادھو جی! خرگوش کھا لیتے ہو؟ مگر اس کے جواب دینے سے پہلے اسے خیال آیا کہ بچے بوٹیوں پر تو پکنے کے بعد لڑیں گے لیکن اگر میں باہر ہی دے گیا تو گھر پہنچتے ہی سب پوچھیں گے ہمارے لئے کیا لائے اور پھر انہیں کیا جواب دوں گا اس لئے بہتر ہے کہ گھر لے جاؤں.سادھو نے اس کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہاں مل جائے تو کھا ہی لیتے ہیں.اس پر وہ کہنے لگا کہ اچھا پھر مار مار کر کھایا کرو.تو دنیا کی حکومتوں کی مثال ایسی ہی ہے وہ ساری امیدیں پیدا کرنے کے بعد یہ کہہ دیتی ہیں کہ مار مار کر کھایا کرو اسی لئے تعلیم یافتہ نوجوان جن کے متعلق کسی نے کہا ہے کہ ے ایم.اے بنا کے کیوں میری مٹی خراب کی کہتے ہیں کہ اچھا پھر پہلے تمہیں ماریں گے.اور وہی تعلیم یافتہ لوگ جنہیں حکومت نے پڑھا کر ان کے لئے کام کرنے کے سامان مہیا نہیں کئے تھے وہ پھر اسی کے ارکان کو مارنے لگ جاتے ہیں.صفت رب العلمین اور رسول کریم میں تو میں بتا رہا تھا کہ پہلی صفت صلى الله جو اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی
سيرة النبي علي 96 جلد 4 بیان کی گئی ہے وہ اس کا رب العلمین ہوتا ہے.جو بندہ رَبُّ الْعَلَمِینَ بنتا ہے ہم سمجھیں گے کہ وہ کامل ہے.اور رسول کریم ع کے متعلق ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا آپ صلى الله نے عالم کی ہر شے پر نگاہ ڈالی اور اس کے فائدہ کے لئے کام کیا؟ اگر ڈالی تو ماننا پڑے گا کہ آپ کامل انسان تھے لیکن اگر ہر شے پر آپ کی نگاہ نہیں پڑی اور کوئی حصے ایسے رہ گئے ہیں کہ ان کے لئے آپ نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ رَبُّ الْعَلَمِینَ نہیں کہلا سکیں گے.اس کے لئے ہم کوئی مثال لیتے ہیں اور چونکہ نسل انسانی زیر بحث ہے اس لئے ہم جوان یعنی بنا بنا یا آدمی لیتے ہیں جسے ہر قوم تسلیم کرتی ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے آئندہ نسلوں کا بیج بنایا ہے.غور کرنا چاہئے کہ اس کی پہلی خواہش کیا ہوگی.بائبل سے بھی ثابت ہے عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اسی کی جنس سے جوڑا ہی اسے تسلی دے سکتا ہے.دنیا کی خوبصورتی اور اس کی کوئی شے اسے تسلی نہیں دے سکتی جب تک اس کا ہم جنس جوڑا نہ ہو.نوجوانوں کی ربوبیت جوش جوانی میں شہوات معقل پر غالب آ جاتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ خواہشات کے دریا میں عذاب سے صلى الله لا پرواہ ہو کر کود پڑ.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا رسول کریم ﷺ نے اس حالت میں انسان کی ربوبیت کی ہے.اور جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کے جوشِ جوانی کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کی ہے.آپ نے فرمایا کوئی شخص نسب کے لئے شادی کرتا ہے، کوئی حسب کے لئے ، کوئی خوبصورتی کے لئے نکاح کرتا ہے مگر میری نصیحت تمہیں یہ ہے کہ اس کے ساتھ نکاح کرو جو اخروی زندگی کی ترقی کا موجب ہوا کیونکہ اگر تم خوبصورتی کو دیکھ کر شادی کرو گے تو تمہاری ساری عمر کے اعمال خوبصورتی کے گرد ہی چکر لگاتے رہیں گے.اور بڑے خاندان کی عورت سے شادی کرنے والے کا مطمح نظر تمام عمر یہی رہے گا کہ جس طرح بھی ہو اپنے کو بڑا بنائے.جس شخص کی شادی کسی ایسے خاندان میں ہو جو معزز سمجھا جاتا ہو تو اس کی
سيرة النبي علي 97 جلد 4 ساری کوشش یہی ہو گی کہ دھوکا سے ، فریب سے جس طرح بھی ہو سکے اپنی نسل کو کسی پرانے خاندان سے وابستہ کرے.مسلمانوں میں سید زیادہ معزز سمجھے جاتے ہیں اور ہندوؤں میں برہمن.اور ایسا انسان ہمیشہ جس طرح بھی ہو اپنے کو کسی پرانے معزز خاندان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش میں لگا رہے گا.خوبصورتی کا محور ہمیشہ شہوت ہو گا اور حسب و نسب کا دھوکا، فریب اور جبر.اپنے کو کسی معزز خاندان سے منسوب کرنے والوں کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے.ایک شخص کسی عدالت میں ادائے شہادت کے لئے گیا اور اپنی قومیت سید بتائی.اس پر فریق ثانی نے اعتراض کیا.عدالت نے اسی فریق کے ایک اور گواہ سے دریافت کیا کہ فلاں آدمی کی قومیت کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ پکا سید ہے، اس کا باپ ہمارے سامنے موچی تھا لیکن اس کے سیّد ہونے کے تو ہم خود گواہ ہیں کیونکہ یہ ہمارے سامنے سیّد بنا ہے.تو یہ بالکل بے ہودہ بات ہے.محض سید کہلانے سے کیا بنتا ہے لیکن لاکھوں آدمی ہیں جو اپنی قومیت بدلنے میں لگے ہوئے ہیں.تو نسب کی وجہ سے شادی کرنے والے کی زندگی کی بنیاد فریب اور جھوٹ پر ہو گی اور خوبصورتی کی وجہ سے شادی کرنے والے کی بنیاد شہوت پر.مگر رسول کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ اگر آج ہی تمہاری نیت ٹھیک نہیں تو آئندہ کیا ہو گا.تم نکاح کی بنیاد بھی دین پر رکھو اس صورت میں تمہارے دونوں کام ہو جائیں گے اور تمہارے اعمال بھی دین کے گرد چکر لگائیں گے.صلى الله نکاح کے بارے میں ربوبیت انتخاب کے بعد نکاح کی شرائط طے ہوتی ہیں اور پھر ان میں جھگڑا پیدا ہوتا ہے کہ مرد پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی یا عورت پر ، مرد والے عورت والوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور عورت والے مرد والوں پر لیکن یہاں بھی رسول کریم علی آ موجود ہوتے ہیں کہ یہاں بھی میری ایک بات سن لو.مرد و عورت کو اللہ تعالیٰ نے وسة ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے 2 دونوں کے احساسات یکساں ہیں اور ان میں کوئی
سيرة النبي علي 98 جلد 4 فرق نہیں.جیسے بیوی کو اپنے ماں باپ پسند ہیں ویسے ہی میاں کو بھی اور آپ نے ایک ایسا گر بیان فرما دیا جس پر عمل کر کے دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں.آپ نے حکم دیا که صله رحمی کرو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت رحمی تعلقات کا لحاظ رکھو، قولِ سدید اختیار کر وہ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا نہ کرو غرضیکہ آپ نے نکاح کے متعلق تفصیلی ہدایات دیں.جنہیں اگر میں بیان کروں تو یہ تقریر خطبہ نکاح بن جائے گی.مختصر یہ ہے کہ اس موقع پر بھی آپ نے ربوبیت کی.بیوی کی آمد کے موقع پر ربوبیت پھر بیوی گھر آتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب شہوانی جذبات غالب آ سکتے ہیں.یہاں رسول کریم ﷺ پھر آ موجود ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پہلے تھوڑا کام : ہمارا کر لو اور دعا کرو.اس تعلق کے نتیجہ میں تمہاری آئندہ نسلیں ہوں گی ، مانا کہ تم نیک ہومگر ہو سکتا ہے کہ تمہاری اولا د شریر ہو تو بھی دنیا میں فساد پیدا ہوگا اور تمہارا قائم کیا ہوا تقویٰ ملیا میٹ ہو جائے گا اس لئے خدا سے دعا کرو کہ تمہارے ملنے کا نتیجہ تقویٰ ہو 5.یہ ایسا وقت تھا کہ شہوت چاہتی تھی انسان شہوت کا بیج بوئے مگر روحانیت صلى الله چاہتی تھی کہ روحانیت کا بوئے مگر رسول کریم ﷺ آ کر بتاتے ہیں کہ بے شک تم شہوت کا بیج بود مگر روحانیت کی چاشنی کے ساتھ.پھر اولاد پیدا ہوتی ہے.جونہی بچہ پیدا بچہ کی پیدائش کے وقت ربوبیت ہوتا ہے آپ اُسی وقت اس کی ربوبیت کا خیال فرماتے ہیں اور اس کی تربیت کے لئے اپنی تفصیلی ہدایات دیتے ہیں کہ اور کسی قوم میں ان کی نظیر نہیں ملتی.آپ کا حکم ہے کہ معا بچہ کے کان میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے.بچہ اگر چہ اُس وقت بظاہر ایک بے جان چیز ہے مگر اس کے کان میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم آپ نے دیا اور اس میں دو فائدے ہیں.اول یہ کہ اس وقت کی بات کان میں پڑی ہوئی ضائع نہیں جاتی اور دوسرے یہ کہ والدین کو توجہ دلائی کہ اگر
سيرة النبي علي 99 جلد 4 پیدائش کے وقت ہی اس کی تربیت کا حکم ہے تو بڑے ہو کر یہ کتنی ضروری ہوگی.بچہ کی تربیت کا حکم جب اسے ڈرا ہوش آئے تو کم ہے کہ اسے تعلیم دلا 5- حتی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق بھی تاکید فرمائی.حتی کہ فرمایا جس شخص کی دولڑکیاں ہوں اور وہ ان کو تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو اس کا ٹھکانہ جنت میں ہو گا..گویا اسے اتنا ضروری قرار دیا کہ ماں باپ پر اس کا انتظام فرض کیا.چنانچہ فرمایا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارَاہِ اس میں باطنی تعلیم بھی ہے اور ظاہری بھی اور دونوں کے لئے ماں باپ کو ذمہ وار قرار دیا اور فرمایا کہ دونوں تعلیموں سے اولاد کو آراستہ کر کے اسے جہنم سے بچاؤ.جہنم سے مراد بیماری اور غربت وغیرہ بھی ہے جو جہالت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اخروی جہنم بھی مراد ہے گویا ہر قسم کی جہنم سے اولادکو بچانے کا حکم دیا.بداخلاقی بھی جہنم ہے کہ بداخلاقی سے لوگ نفرت کرتے ہیں.تو یہ آیت عام ہے اور اس میں ہر قسم کی آگ سے اولا د کو بچانے کا حکم دیا ہے.اور مسلمان کا فرض قرار دیا کہ بچے کی بچپن کی حالت میں نگرانی کرے اور فرمایا کہ اگر اس میں خرابی پیدا ہوئی تو تم سے باز پرس ہوگی.پھر بعض بچے یتیم رہ جاتے ہیں ان کے لئے بھی حکم دیا کہ تقیموں کی ربوبیت ان کے مال کی حفاظت کی جائے.پھر بتایا کہ ان کے احساسات کا کس طرح خیال رکھا جائے، تعلیم کا کیا انتظام ہو.غرض کہ ان کی پرورش کے لئے تفصیلی احکام صادر فرمائے.گویا ان کو بھی خالی نہیں رہنے دیا.باقی مذاہب میں یہ بات ہرگز نہیں.وہاں اگر اپنی اولاد کی تربیت کا کوئی اصول ہے تو بیامی کے لئے نہیں اور اگر یتامیٰ کے لئے ہے تو اپنی اولاد کے لئے نہیں مگر رسول کریم ﷺ نے سب کو لے لیا ہے اور کسی کو اپنی ربوبیت سے باہر نہیں رہنے دیا.جوانوں کی راہنمائی اس کے بعد انسان جوان ہوتا ہے اور جوانی کے متعلق آپ پھر تفصیلی احکام دیتے ہیں.مثلاً یہ کہ جذبات میں
سيرة النبي عمال 100 جلد 4 کس حد تک آزادی ہے ، ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک کریں، ماں باپ جوان اولاد کے ساتھ کیسا سلوک کریں.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ میرے الله باپ نے میرے بھائی کو گھوڑا دیا ہے مگر مجھے نہیں دیا.آپ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ اگر وسعت ہے تو سب کو دو وگرنہ ایک سے بھی واپس لے لو 10.جوانی میں جب من وتو کے احساسات ہوتے ہیں اُس وقت بھی ان کے متعلق احکام بیان کئے.لڑکی کے لئے کیا حد بندیاں اور لڑکے کے لئے کیا ہیں.انہیں اپنی شادی بیاہ کے معاملہ میں کہاں تک آزادی ہے اور کہاں تک پابندی ہے.بھائی بہن کے کیا تعلقات ہیں.پھر دنیا میں لوگ عام طور پر جو کام کرتے ہیں ان کے متعلق بھی تفصیلی احکام دیے.آپ نے بتایا دنیوی امور میں ربوبیت کہ تجارت میں دھوکا نہیں کرنا چاہئے 11 ، لین دین عارضی اور مستقل کے علیحدہ علیحدہ احکام بیان فرمائے.رہن اور بیع کے واسطے مفصل ہدایات دیں.غرض ان تمام ضرورتوں کے لئے آپ نے احکام دیئے.انسان جب بوڑھا ہوتا ہے تو بچوں کو اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے اور بتایا کہ بوڑھے ماں باپ کو اُف تک نہ کہو 12.مرنے والے کی ربوبیت پھر موت کا وقت ہوتا ہے اس کے لئے بھی احکام دیئے اور بتایا کہ وہ انسان کا آخری وقت ہوتا ہے.اُس وقت اپنے تھوڑے سے فائدہ کے لئے مرنے والے کی عاقبت خراب نہ کرو.اسے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے کا موقع دو.تمہارے بچوں کا کیا حال ہوگا ، بیوی کیا کرے گی ایسے سوالات سے ان قیمتی لمحات کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کے سامنے قرآن کریم کی آیات اور سورۃ لین پڑھو 13.اس کے بعد اپنی تکالیف کا خود انتظام کر لینا اور ان کا ذکر کر کے اس کے آخری وقت کو خراب نہ کرو.پھر فرمایا کہ اگر کسی کی جائیداد ہو تو چاہئے کہ وہ اس کے
سيرة النبي عمر 101 جلد 4 لئے پہلے سے وصیت کر رکھے 14 تا اُس وقت یہ باتیں اسے پریشان نہ کریں.اور اس پر آپ اس قدر زور دیتے تھے کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ہر روز لکھی ہوئی وصیت سرہانے رکھ کر سوتا تھا 15 اور یہ اس لئے حکم دیا ہے کہ تا مرنے والے کی آخری گھڑیاں خراب نہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو سکے.یہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا ہوتا ہے تا یہ سلسلہ اخروی زندگی میں بھی قائم رہے.اگر کوئی مرتے وقت ہائے میرے بچے ، ہائے میری بیوی کہتا رہے گا تو اٹھتے وقت بھی اس کا دھیان اس طرف ہو گا لیکن اگر مرتے وقت ہائے اللہ کہے گا تو اٹھتے وقت بھی اس کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہوگی.اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر بچہ روٹی کے لئے روتا ہوا سو جائے تو صبح اٹھتے وقت وہ روٹی کو ہی یاد کر رہا ہو گا.غرضیکہ رسول کریم ﷺ نے انسان کی ان آخری گھڑیوں کو بھی فراموش نہیں کیا اور حکم دیا کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کی جائے.موت کے بعد ربوبیت پھر انسان مر جاتا ہے اُس وقت کا بھی آپ نے خیال رکھا اور بتایا کہ کس طرح مردہ کی تجہیز و تکفین کی جائے.آپ ہر قوم کے مردوں کا احترام کرتے تھے.ایک دفعہ ایک میت جا رہی تھی کہ آپ اس کے احترام کے طور پر اٹھ کر کھڑے ہو گئے.کسی نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله ! یہ تو یہودی تھا.آپ نے فرمایا یہودی بھی تو خدا کا بندہ ہی ہے 16.پھر فرمایا مردوں کا ذکر اچھی طرح کیا کرو 17.اور کہا جا سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ہر مرنے والے کی بھی خبر گیری کی اور اس طرح اس کی بھی ربوبیت کر دی اور انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک سب ضروری احکام دے دیئے اور پھر اگر تمام افراد کو علیحدہ علیحدہ لیا جائے تو اس میں بھی آپ کی ربوبیت نظر آئے گی.روحانی ربوبیت سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ سب کی اخروی زندگی کے لئے سہارا ہیں.آپ نے ہر قوم کے افراد کو دعوت الہی
سيرة النبي عمال 102 جلد 4 میں شامل ہونے کے لئے بلایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ سب نبی اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے مگر میں سب اقوام کی طرف بھیجا گیا ہوں 18.یہ نہیں کہ اسلام کسی سے کہے کہ تم ہندو ہو تمہیں عرب کی تعلیم سے کیا واسطہ بلکہ آپ وہ نور لائے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ 19 جس کا مشرق و مغرب سے کوئی تعلق نہیں.اس رنگ میں بھی آپ نے مظہرِ رَبُّ الْعَلَمِینَ ہونے کا ثبوت دیا.حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی کہ مجھے اپنی تعلیم سکھائے مگر آپ کی تعلیم چونکہ محدود طبقہ کے لئے تھی اور وہ عورت اس حلقہ سے باہر تھی اس لئے آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اپنے موتی سؤروں کے آگے نہیں ڈال سکتا 20.اور بچوں کی روٹی چھین کر کتوں کو نہیں دے سکتا 21 اور اس طرح اُسے بتا دیا کہ میری تعلیم محدود ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم کو سب مخلوقات کے لئے عام کر دیا اور اس طرح آپ رَبُّ الْعَلَمِینَ کے مظہر اتم ٹھہرے.غرضیکہ جسمانی اور روحانی دونوں حالتوں میں بھی آپ " کی عام ربوبیت ربوبیت کو عام پاؤ گے.یہودیوں میں سود منع ہے مگر تا ہم غیروں سے وہ لے لیتے ہیں 22.آپ نے سود کو منع فرمایا مگر سب کے لئے.آپ نے حکم دیا کہ اگر کسی مسکین کو حاجت ہے تو اسے سود پر روپیہ دینا ظلم ہے گویا جسمانی طریق پر بھی آپ نے امتیاز نہیں رکھا.گو افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے پیدا ہو گئے جو غیروں سے دھو کا جائز سمجھتے ہیں.بعض مولویوں نے فتوی دے رکھا ہے کہ کافر سے سود لینا جائز ہے حالانکہ جب کوئی شخص رحم کا محتاج ہے تو خواہ وہ کسی قوم کا ہو اس پر رحم کرنا چاہئے اور دھوکا و فریب اگر برا ہے تو سب کے ساتھ.یہ نہیں کہ غیروں کے ساتھ اسے جائز سمجھا جائے.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ میں نے ایک شخص کو اٹھنی دی کہ چار آنے کی فلاں چیز لے آؤ.وہ تھوڑی دیر کے بعد چیز لے آیا اور اٹھنی بھی ساتھ ہی آپ کو واپس کر دی اور کہنے لگا آج کا فرکوخوب دھوکا دیا.میں نے اس
سيرة النبي عمال 103 جلد 4 سے چار آنے نقد اور چار آنے کی چیز لے لی اور پھر اس سے کہا کہ فلاں چیز تمہارے پاس ہے تو دکھاؤ.یہ کوئی ایسی چیز تھی جو عام طور پر دکاندار اندر رکھتے ہیں وہ اندر سے لانے کے لئے گیا مگر اٹھنی صندوقچی کے اندر رکھنا بھول گیا اور میں نے اٹھا کر جیب میں ڈال لی.تو بعض مسلمان اسے جائز سمجھتے ہیں مگر یہ اسلام کی تعلیم ہرگز نہیں.اسلامی تعلیم تو یہی ہے کہ سب کے ساتھ عدل وانصاف کرو.دنیوی معاملات میں یہ امتیاز نہ ہونا چاہئے.امتیاز رنگ ونسل کی ممانعت اس کے علاوہ آپ نے نسلی امتیاز کو منایا.عیسائیوں کے گرجوں میں امرا و غرباء کی کرسیاں علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں ، ہندوؤں میں کوئی اچھوت ہے اور کوئی برہمن، یہودیوں میں کوئی بنی ہارون اور کوئی بنولاوی مگر آپ نے فرمایا کہ نسلی امتیاز کوئی شے نہیں.تم میں سے جو نیکی کرے وہ بڑا ہے 23 اور جو شریر ہو ، جھوٹ بولے اور برے اعمال کرے وہ خواہ کسی قسم سے ہو وہ برا ہے.مضمون تو یہ سارے مذاہب کی جزئیات پر حاوی ہے مگر اس جگہ صرف اشارات ہی کئے جا سکتے ہیں کیونکہ مغرب کا وقت ہو چکا ہے.الہام الہی پھر رحمانیت آتی ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ جو چیز اس نے پیدا کی ہے اس کے استعمال کے سامان اور ذرائع بھی مہیا کر دیے.اس کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ کیا غیر مستحق کے کام کو چلانے کے لئے بھی آپ نے کوئی سامان کیا ہے یا کام کرنے سے پہلے اس کے چلانے کے لئے آپ نے کوئی انتظام کیا ہے اس ضمن میں پہلی بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسب کے بغیر جو چیز ملتی ہے وہ الہام ہے.آپ کے زمانہ میں الہام کا دروازہ بند تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وحی کا دروازہ اب بند ہے اور الہام پہلوں پر ختم ہو چکا آئندہ نسلوں کے لئے اسے پانے کی کوئی امید نہ تھی.آپ نے انسانوں کے احساسات کا خیال کیا اور بتایا کہ الہام کا دروازہ اب بھی کھلا ہے.اگر کسی انسان کے اندر کسی چیز کے پانے کی اہلیت اور فطرت ہو مگر اسے خیال ہی نہ ہو کہ یہ چیز مجھے مل سکتی ہے تو وہ اس کے لئے کیا کوشش کرے گا.کسی کے گھر میں
سيرة النبي م 104 جلد 4 خزانہ ہو مگر اسے کوئی علم تک نہ ہو تو اس سے اس کو کیا فائدہ ہوگا.پس قو تیں تو سب میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہر دماغ میں الہام پانے کی قابلیت رکھی ہے مگر یہ ملتا امید اور توکل کے نتیجہ میں ہے اور آپ نے ساری دنیا کے اندر اس کی امید پیدا کی کہ اس کے لئے اب بھی الہام کا دروازہ کھلا ہے.اور یاد رکھنا چاہئے کہ الہام کے لئے امید اور تو کل ہی دروازہ ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہی اس سے سلوک کرتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے اَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِى بِبی 24 یعنی میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان کرتا ہے میں اس سے ویسا ہی سلوک کرتا ہوں.اگر وہ کہتے ہیں کہ الہام کا دروازہ بند ہے تو میں بھی کہتا ہوں کہ اچھا بند ہی سہی.اور اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا سے مل کر رہیں گے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اچھا آؤ مل لو.آپ نے یہ روحانی امید دلائی اور توکل کا دروازہ کھول دیا.غرباء کی امداد کا مکمل انتظام جسمانی طور پر بھی اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں.سب مذاہب نے صدقہ و خیرات کا حکم دیا ہے مگر جب تک ایک نظام کے ماتحت یہ کام نہ ہو مکمل نہیں ہوسکتا.ہر کوئی کہہ دے گا کہ اچھا دے دیں گے.کب دیں گے ، کیا دیں گے اس کے متعلق کوئی علم نہیں.مگر رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق ایسے قوانین دیئے ہیں کہ ہر وہ شخص جس میں طاقت اور استطاعت ہے مجبور ہے کہ ان محتاجوں کے لئے جن کے کام کرنے کے سامان نہیں ہر سال ایک مقررہ رقم ادا کرے جو ایک جگہ جمع ہو اور جو جملہ محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے.اس طرح غرباء کو اوپر اٹھایا جائے اور یہ بھی رحمانیت کے ماتحت کام ہے.وقت نہیں وگر نہ اگر اس کی تفصیلات بیان کی جائیں تو معلوم ہو کہ آپ نے اس سے کس طرح چوری، ڈاکہ اور فسادات وغیرہ کا دروازہ بند کر دیا.صفت رحیمیت کا مظہر اتم تیسری صفت رحیمیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کام کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیا جائے.اچھے لوگ
سيرة النبي عمال 105 جلد 4 ہمیشہ ایک دوسرے کے احسانات کا بدلہ دیا کرتے ہیں.مثلاً ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے جناب والا ، تو وہ کوشش کرے گا کہ جواب میں اس کا بدلہ ادا کرے اس لئے کہے گا آئے تشریف لائیے ، سر آنکھوں پر آئیے.ایک کہتا ہے آپ بہت اچھے آدمی ہیں.دوسرا کہتا ہے میں کیا ہوں آپ کا مقابلہ میں کسی طرح بھی نہیں کر سکتا.مگر یہ تہذیب اسی حد تک ہے کہ اپنا نقصان نہ ہو جب ذاتی نقصان کا موقع ہو تو سب کچھ بھول جاتا ہے.دہلی والے میرزا صاحب کہلاتے ہیں اور لکھنوی میر صاحب اور دونوں تہذیب اور وضع داری میں مشہور ہیں.کہتے ہیں کہ کسی موقع پر ایک لکھنوی میر صاحب اور لا دہلوی مرزا صاحب سٹیشن پر اکٹھے ہو گئے اب دونوں نے خیال کیا کہ اپنی تہذیب کا پوری طرح مظاہرہ کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ دوسرا بد تہذیب سمجھے اور اس لئے گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر میر صاحب کہہ رہے ہیں کہ حضرت میرزا صاحب! سوار ہو جیئے اور ساتھ جھکتے بھی جاتے ہیں.اور میر صاحب اس سے بھی زیادہ جھک کر کہہ رہے ہیں کہ آپ تشریف رکھیئے میں ناچیز پیش قدمی کرنے کا حقدار نہیں.لوگ گاڑی میں سامان لادتے اور بیٹھتے جاتے ہیں مگر یہ دونوں دروازے کے سامنے کھڑے اپنی تہذیب کے جو ہر دکھا رہے ہیں.لیکن جونہی گاڑی نے سیٹی بجائی ایک نے دوسرے کو وہ دھکا دیا کہ کمبخت آگے سے نہیں ہٹتا گھنے بھی دے گا یا نہیں.تو جہاں قربانی کا موقع آتا ہے سب تہذیب دھری کی دھری رہ جاتی ہے.صلى مگر رسول کریم ﷺ نے نقصان اٹھا کر ایک بدلہ رحیمیت نقصان اٹھا کر بدلہ کا دیا ہے.ہر نبی نے آپ کے متعلق پیشگوئی کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا شخص آئے گا اور لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ہو گا.اوّل تو اسلام کی تعلیم کو دیکھ کر مسلمان ہونے والوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کی تعداد جوایسی پیشگوئیوں کی وجہ سے ایمان لائے بہت ہی کم ہے.رسول کریم علیہ نے اپنی تعلیم اور حسنِ اخلاق سے جن لوگوں کو کھینچا ان کی تعداد بہت زیادہ ہے.مگر پھر بھی آپ نے
سيرة النبي متر 106 جلد 4 اپنا نقصان کر کے اس کا بدلہ ادا کیا ہے کیونکہ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ پہلے انبیاء بھی راستباز تھے تو یہ جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے کہ پھر آپ کی کیا ضرورت تھی.اگر آپ یہ کہہ دیتے کہ پہلے سب چور اور بٹمار تھے اور میں نبی ہوں کیونکہ دنیا کو ایک نیک راہنما کی ضرورت تھی تو آپ کے لئے بہت آسانی رہتی.مگر نہیں، آپ نے اس احسان کا بدلہ دینے کے لئے فرمایا کہ اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ 25 ان نبیوں کے کہنے سے تو شاید اب ہیں یا سو دو سو لوگ ہی داخل اسلام ہوئے ہوں گے مگر آپ نے کروڑ ہا انسانوں سے ان کی تقدیس منوا دی اور اس طرح اس معمولی سے احسان کا اتنا شاندار بدلہ دیا اور خود نقصان اٹھا کر دیا.خود ان کی قوموں نے ان پر اعتراض کئے مگر آپ نے ان کو دور کیا اور فرمایا کہ ان میں عیب ظاہر کرنے والا خود عیبی ہے.غرباء کو بدلہ انبیاء کی جماعتوں میں پہلے ہمیشہ فر با ری داخل ہوتے ہیں چنانچہ ہر قتل غرباء نے بھی ابوسفیان سے یہی پوچھا تھا کہ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُوْنَهُ أم ضُعَفَاتُهُم 26 مگر جب جماعت قائم ہو جاتی ہے اور روپیہ وغیرہ آنے لگے تو ان کے رشتہ دار مالک بن بیٹھتے ہیں اور آپس میں بانٹ لیتے ہیں مگر آپ نے فرمایا کہ جو اموال آئیں میری اولا د خواہ غریب ہی ہو اس کا ان پر کوئی حق نہ ہو گا 27.غرباء نے صلى الله دین کی خدمت کی تھی اور یہ رسول کریم ﷺ پر کوئی احسان نہ تھا.ظاہر میں وہ بے شک آپ کی مدد کرتے تھے مگر اصل میں یہ ان کی اپنی جانوں کی مدد تھی مگر پھر آپ نے ان کی اس برائے نام امداد کا اس قدر لحاظ کیا کہ فرمایا کہ ہم اپنی اولاد کا حق بھی خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو ان کو دیتے ہیں.صفتِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين چوتھی صفت اس میں مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 28 بیان کی گئی ہے.اور مالک وہ ہوتا ہے جو اپنی چیز کا پہلے سے فکر کرے.نوکر تو کہہ دے گا دیکھا جائے گا مگر مالک تمام باتوں کا پہلے
سيرة النبي عمال 107 جلد 4 سے خیال کرے گا کہ کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو اور رسول کریم ع روحانی طور پر اس طرح مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ٹھہرے کہ جتنی غلطیاں انسان سے سرزد ہوسکتی ہیں ان سے روکنے کے طریق بتائے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں ایک جج چوری کرنے والے کو سزا دے دیتا ہے مگر ان وجوہ کو نا پید کرنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کرتا جو چوری کا باعث ہوتی ہیں.باقی مذاہب نے یہ تعلیم تو دی ہے کہ شرارت کرنے والے کو سزا دی جائے مگر آپ نے شرارت کا دروازہ بند کیا ہے.ایک طرف آپ نے استغنا پیدا کیا اور فرمایا حریص نہ ہو.پھر اس خیال سے کہ غریب احتیاج کے باعث کسی چوری وغیرہ پر مجبور نہ ہو جائے ، زکوۃ اور صدقات کا انتظام فرمایا.بعض مذاہب نے حکم دیا ہے کہ بدکاری نہ کرو مگر آپ نے حکم دیا کہ بد نظری نہ کرو 29 جو بدکاری کا اصل باعث ہے اور پھر ضرورت کے نہ پورا ہو سکنے کی صورت میں انسان کو بداخلاقی سے بچانے کے لئے چار تک شادیوں کی اجازت دی 30.گویا حج والا نہیں بلکہ مالک والا معاملہ کیا.کوئی مالک یہ نہیں کرتا کہ نوکر میرے جانوروں کو مارے گا تو اسے سزا دوں گا بلکہ وہ اسے پہلے سے روکتا ہے کہ جانوروں پر سختی نہ کرنا.آپ چونکہ صفت مالک کے مظہر تھے اس لئے ہم سے زیادہ ہماری خیر خواہی کرتے تھے.ایک صحابی دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو جاگتے تھے.آپ نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے اور لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 31 یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.گویا جس طرح مالک نوکر کو کہتا ہے کہ میرے گھوڑے کو تیز مت چلاؤ اس طرح آپ نے بھی کہا.صفات الہی کا مکمل مظہر یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اس وقت اشارات کے سوا کچھ بیان کرنا ناممکن ہے اور یہ چاروں صفات آپ کے اندر ایسے طور پر پائی جاتی ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل ، اکمل بلکہ مکمل انسان تھے یعنی دوسروں کو بھی کامل بنانے والے.پس ہر انسان جو خوبی اور حسن کو دیکھنے والا ہے اسے ان کی قدر کرنی چاہیئے.
سيرة النبي علي 108 جلد 4 آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس غرض کے اللہ تعالیٰ سے دعا لئے ہم نے یہ دن قائم کیا ہے یعنی مختلف اقوام میں محبت والفت پیدا کرنا وہ اس سے پوری طرح حاصل ہو.لوگوں کے اندرحسن کو دیکھنے کی عادت اور اہلیت پیدا ہو.حسنِ ظاہری کو تو سب دیکھتے ہیں مگر اصلی حسن کو دیکھنے والے بہت کم ہیں.اعلیٰ صداقت اور اعلیٰ اخلاق کو کوئی نہیں دیکھتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے مظہر یعنی انبیاء پیدا کئے تھے لوگوں میں انہیں دیکھنے کی عادت نہیں.اللہ تعالیٰ اس حالت کو دور کر دے تا لوگ اس کے نور کو دیکھ سکیں.اور ہندو، سکھ، عیسائی ، زرتشتی سب میں محبت پیدا ہو وہ انبیاء کے حسن کو دیکھ سکیں.ہر قوم میں جو اچھے نمونے ہیں ان سے سبق حاصل کر سکیں.بدھ ، کرشن اور زرتشت غرضیکہ سب انبیاء کی زندگی میں ایسے واقعات ہیں جن سے مسلمان سبق حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ حسن پیدا کیا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کو توفیق دے کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں.رسول کریم ﷺ تو سب کے لئے مطاع اور سب کی خوبیوں کے جامع ہیں.لیکن ان کے نمونے ہر قوم میں ہیں.پس ہر حسن کو دیکھو اور ہر نیکی پر نگاہ ڈالو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صلح کا شہزادہ کہا گیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ صلح کا یہی رستہ ہے.اور ہمیں بھی توفیق دے کہ دنیا میں صلح و آشتی پیدا کر سکیں اور ہر قسم کی ٹھوکروں سے محفوظ رکھے.(آمین) (مطبوعہ دسمبر 1933 ء قادیان) 1:بخارى كتاب النكاح باب الاكفاء في الدين صفحه 910 حدیث نمبر 5090 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: النساء:2 3:بخارى كتاب الادب باب فضل صلة الرحم صفحه 1047 حدیث نمبر 5983 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4: الاحزاب: 71
سيرة النبي علي 109 جلد 4 5:بخارى كتاب الدعوات باب مايقول اذا اتى اهله صفحه 1109 حدیث نمبر 6388 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 6: كنز العمال جلد 16 صفحہ 599 حدیث نمبر 46004 مطبوعہ دمشق 2012 ء الطبعة الاولى ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في النفقات على البنات والاخوات صفحہ 446 حدیث نمبر 1916 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 8:التحريم: 7 9: النساء : 73 10:بخارى كتاب الهبة باب الهبة للولد صفحه 418 حديث نمبر 2586 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 11 ابوداؤد كتاب البيوع باب في النهي عن الغش صفحه 500 حدیث نمبر 3452 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 12 : بنی اسرائیل : 24 13:سنن ابی داؤد كتاب الجنائز باب القراءة عند الميت صفحه 457 حدیث نمبر 3121 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 14: البقرة: 181 15 : مسلم كتاب الوصية باب وصية الرجل مكتوبة عنده صفحه 713 حدیث نمبر 4207 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الاولى 16 : بخاری کتاب الجنائز باب من قام بجنازة يهودى صفحه 210 حدیث نمبر 1312 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 17: ابوداؤد كتاب الادب باب فى النهى عن سب الموتى صفحہ 691 حدیث نمبر 4900 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى صلى الله :18: بخارى كتاب الصلوة باب قول النبي علية جعلت لى الارض مسجدا وطهورا
سيرة النبي عمال 110 صفحہ 76 حدیث نمبر 438 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 19: النور : 36 20 متی باب 7 آیت 6 صفحہ 629 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 21 : متی باب 15 آیت 26 صفحہ 940 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء :22: استثناء باب 23 آیت 19، 20 صفحہ 205 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 23: الحجرات : 14 جلد 4 :24: بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى يريدون ان يبدلوا كلام الله صفحه 1292 حدیث نمبر 7505 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 25 : فاطر: 25 26: بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى صفحہ 3 حدیث نمبر 7 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 27:بخارى كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل صفحه 241 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 28: الفاتحة: 4 29: النور: 31 30: النساء : 4 31:بخارى كتاب الصوم باب من اقسم على اخيه ليفطر صفحہ 316 حدیث نمبر 1968 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 111 جلد 4 سيرة النبی علیہ کے جلسوں کے اثرات 27 دسمبر 1933ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.یوم النبی ﷺ کی تقریب تو کئی سال سے منائی جارہی ہے.1928ء میں پہلی دفعہ یوم النبی ﷺے منایا گیا تھا جس کو اب 6 سال ہو چکے ہیں.ان جلسوں کے متعلق سالِ حال کا تجربہ پہلے سے بھی زیادہ شاندار اور امید افزا ہے.خصوصاً پنجاب کے باہر کے علاقوں میں یوم النبی ﷺ کے جلسے خاص اثر رکھتے ہیں.خاص کر بنگال میں یہ تحریک اس طرح گھر کر رہی ہے کہ ممکن ہے یہ ہندومسلمانوں کی مشترکہ تحریک بن جائے.بڑے بڑے معزز تعلیم یافتہ اور بااثر ہندو نہ صرف پرائیویٹ گفتگو میں بلکہ پبلک تقریروں میں بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان کے متحد ہونے اور ہندو مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس سے بہتر تحریک اور نہیں ہو سکتی.ایک مشہور ہندو لیڈر مسٹر بین چندر پال صاحب نے ایک دفعہ کہا ہندو مسلمانوں کو اس شخص کا ممنون ہونا چاہئے جس نے یہ تحریک جاری کی ہے.اگر یہ تحریک آج سے ہیں سال پہلے جاری کی جاتی تو ہندو مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی یہ حالت نہ ہوتی جو اب ہے.اور اگر اس تحریک کو جاری رکھا گیا تو امید ہے کہ اہلِ ہند کے باہمی تعلقات میں خوشگوار تبدیلی پیدا ہو جائے گی.اور بھی کئی ایک بڑے بڑے لوگ اس تحریک کے مفید اثرات سے متاثر ہو چکے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ یہ تحریک عام ہو جائے.“ (الفضل 7 جنوری 1934ء) 66
سيرة النبي علي 112 جلد 4 رسول کریم علیہ کی مجلس کا ایک واقعہ 27 دسمبر 1933ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا :.رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا.ایک دوسرا شخص آیا اور اُس کی بدگوئی کرنے لگا.وہ چپ بیٹھا رہا اور بدگوئی کرنے والا بڑھتا گیا.آخر اُس نے کہا میں اب تک چپ بیٹھا ہوں اور تو بڑھتا جاتا ہے.رسول کریم علیہ نے فرمایا جب تک تو چپ تھا فرشتے تیری طرف سے جواب دے رہے تھے اب کہ تُو بول پڑا فرشتے خاموش ہو گئے ہیں1.پس صبر سے کام لینا چاہئے اور اس حد تک کام لینا چاہئے کہ لوگوں کی نگاہوں میں تم نئے انسان سمجھے جاؤ.“ الفضل 11 جنوری 1934 ء) 1: ابوداؤد کتاب الادب باب الانتصار صفحہ 690 حدیث نمبر 4896 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 113 جلد 4 اللہ تعالیٰ کی چار صفات اور رسول کریم علی کے چار کام 25 جنوری 1934 ء کو قصور میں حضرت مصلح موعود نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.” میں نے قرآن کریم کی تین آیات پڑھی ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم اور آپ کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے.اس کی تشریح کرنے کے بعد میں بتاؤں گا کہ سلسلہ احمدیہ نے اسے پورا کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ 1 اے بندے! تو اس کلام کے پڑھنے سے پہلے کہہ میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بے انتہا کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس کے بعد فرمایا سبحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ 2 - دنیا میں جدھر نگاہ ڈالو آسمانی طاقتیں بھی اور زمینی بھی یہ امر ثابت کر رہی ہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا ہر عیب سے پاک اور مبرا ہے.الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ 3 - وه الْمَلِكِ یعنی بادشاہ ہے.القدوس تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے.یعنی صرف عیوب سے ہی مبرا نہیں بلکہ ہر قسم کی خوبیاں بھی اپنے اندر رکھتا ہے.الْعَزِيزِ غالب ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.الْحَکیم اس کی تمام باتیں حکمت پر مبنی ہیں.تو انہی چار صفات کو تم دنیا میں جلوہ گر دیکھو گے.ایک خدا کی ملکیت ، ایک قدوسیت یعنی پاکیزگی، ایک غلبہ یعنی ہر چیز اس کے حکم کے نیچے چل رہی ہے اور ایک
سيرة النبي عمال 114 جلد 4 حکمت.یہ چار باتیں ہیں جو ہر جگہ نظر آتی ہیں لیکن ہر آنکھ بینا نہیں ہوتی اور ہر عقل رسا نہیں ہوتی ، ہر ذہن حقیقت کو سمجھنے والا نہیں ہوتا اس لئے ضروری ہے کہ سمجھانے کے لئے کوئی استاد بھی ہو اس لئے فرما یا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ 4 وہی خدا ہے جس نے اُمّی لوگوں میں یعنی ان لوگوں میں جو صداقتوں سے بالکل بے بہرہ تھے اپنا ایک رسول بھیجا.وہ باہر سے نہیں آیا کہ تم کہہ سکو کہیں سے سیکھ کر آیا ہے بلکہ وہ انہی میں سے تھا.جیسے یہ اُمی تھے ویسا ہی وہ تھا.اس نے کسی اور جگہ زندگی بسر نہیں کی کہ کہا جا سکے وہ کہیں سے علوم وفنون سیکھ کر آیا ہے.یہ لوگ اس کی زندگی کے ہرلمحہ سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ اس نے کسی سے سبق نہیں پڑھا، باہر سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ وہ انہی میں سے ایک ہے.وہ کیا کرتا ہے فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتِه وہاں پہلے الْمَلِكِ فرمایا تھا اور یہاں اس کے مقابل میں يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ فرمایا.یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت ثابت کرتا ہے.بادشاہ اسے کہتے ہیں جس کی با قاعدہ حکومت ہو، فوج انتظام کرنے کے لئے اور پولیس مجرموں کو پکڑنے کے لئے موجود ہو، بدمعاشوں کی سزا یابی اور مقدمات کے تصفیہ کے لئے عدالتیں ہوں، جس کا سکہ رواں ہو.یا پرانے زمانے میں بادشاہ کی یہ نشانی سمجھی جاتی تھی کہ جس کی مہر دنیا میں رائج ہو، جس کا تاج و تخت ہو.غرضیکہ بادشاہت کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی چار صفات بیان کی ہیں اور ان کے ثبوت کے لئے ہم نے یہ ذریعہ مہیا کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا ہے جو ان چاروں صفات کو دنیا میں ظاہر کرتا ہے.پہلی صفت الملک بیان کی تھی.اس کے متعلق فرمایا رسول کا کام یہ ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ یہ وہ دلائل سناتا ہے جن سے پتہ لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بادشاہ ہے.دوسری صفت القُدوس پیش کی تھی اس کے مقابل رسول کا کام یہ بتایا ویزکیھم کہ دنیا کو پاک کرتا ہے.عالم کی علامت کیا ہوتی ہے؟ یہی کہ وہ دوسروں کو پڑھاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے ذریعہ عالم ہو
سيرة النبي متر 115 جلد 4 جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا ثبوت یہ ہے کہ اس کی طرف سے آنے والے دنیا کو پاک کرتے ہیں.محمد رسول اللہ یہ گندے لوگوں کو لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں آ کر وہ پاک ہو جاتے ہیں.تیسری صفت عزیز یعنی غالب ہے ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے.وہ صرف نام کا ملک نہیں بلکہ اس کی ملوکیت ہمیشہ جاری ہے اور اس کا ثبوت یہ دیا کہ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وہ دنیا میں خدا کے قانون اور شریعت کو رائج کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے قانون کو دنیا میں نافذ کر کے اس کی عزیزیت ثابت کرتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر دنیا میں الہی قانون کو رائج کیا اور اس طرح بتا دیا کہ خدا عزیز ہے.چوتھی چیز الْحَکیم ہے.اس کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں.اس کے مقابل رسول کا کام یہ بتایا کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ - بر بات جو وہ کہتا ہے اس کی حکمت بھی ساتھ ہی بیان کر دیتا ہے.دنیوی بادشاہ ایسا نہیں کرتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ بس ہمارا حکم ہے ایسا ہو وجہ کوئی نہیں بیان کرتے لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا حالانکہ دنیا کے بادشاہوں کی اس کے مقابل میں کوئی ہستی ہی نہیں.لیکن وہ کہتے ہیں ہمارے سامنے کون بول سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس میں تمہارا فائدہ ہے.وہ انسان کی عقل پر حکومت کرتا ہے زبر دستی نہیں کرتا.اور خدا کے حکیم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ محمد ہر شعبہ زندگی کے متعلق تعلیم دیتا ہے مگر اس کا مقصد ، اس کی غرض ، خوبیاں اور فوائد ساتھ بیان کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات کے مقابل چار کام بیان فرمائے.مگر یہ کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی آکر بیان نہیں فرمائے بلکہ قرآن مجید اور دیگر کتب سماویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام پہلے سے چلے آتے ہیں.مکہ کی تجدید کے موقع پر ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ یعنی اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد یہاں لا کر بسائی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ جس وقت اس قوم
سيرة النبي عمال 116 جلد 4 میں جہالت پیدا ہو جائے اور یہ نور کے محتاج ہوں تو ان میں سے ہی ان کے لئے ایک رسول بھیجیو جو ان کو تیری آیات اور نشانات سنائے ، تیری شریعت سکھائے، احکامِ شریعت کی حکمت بتائے اور انہیں پاک کرے.گویا یہی چار باتیں ہیں جو مانگی گئی تھیں جو ان چار صفات یعنی ملکیت، قدوسیت، عزیزیت اور حکیمیت کا اظہار ہے اور یہ چار کام تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر کئے.پہلا کام يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ ہے.اس کے کیا معنی ہیں؟ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ صفت ملکیت کے اظہار کے لئے ہے.کوئی بادشاہ ہونا چاہئے اور اس میں کہ بادشاہ ہے بہت بڑا فرق ہے.اگر کسی ملک کا کوئی باقاعدہ نظام نہ ہو، آئین نہ ہو ، تنازعات کے فیصلہ کے لئے عدالتیں نہ ہوں ، فوج نہ ہو، پولیس نہ ہو اور ایک شخص دلائل دیتا جائے کہ بادشاہ ضرور ہونا ا چاہئے تو سننے والا یہی کہے گا کہ جب کوئی نظر تو آتا نہیں ، نہ ملک کی بہبودی اور بہتری کے لئے کوئی کوشش ہو رہی ہے، نہ بدمعاشوں کے لئے پولیس یا فوج ہے تو صرف چاہئے سے اس کے وجود کو کس طرح تسلیم کر لیا جائے.عقلی دلائل سکھانے کے لئے کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی کیونکہ یہ تو ہر شخص جان سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق بھی عقلی دلائل ہر انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں ان کے لئے بھی کسی نبی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.ایک فلاسفر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کسی جاہل سے پوچھا خدا کی ہستی کا ثبوت کیا ہے؟ اس نے کہا ہم جنگل میں مینگنیاں پڑی دیکھتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی بکری اِدھر سے گزری ہے پھر اتنی بڑی کائنات کو دیکھنے سے یہ کیوں نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی خدا ہے.تو خدا تعالیٰ کے متعلق ہر انسان کی فطرت بول پڑتی ہے اور اس قسم کے دلائل کے لئے کسی نبی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.یہاں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے دلائل تو مکہ والوں کو بھی معلوم تھے.ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ایسے لوگ تھے جو شرک کے خلاف تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک چچا ہمیشہ شرک کے خلاف تعلیم دیا کرتے تھے..
سيرة النبي علي 117 جلد 4 ان سے سوال کیا گیا آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ تو جواب دیا کہ میں نے شرک کے خلاف اتنی کوشش کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ میں ہوتا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی ایسے لوگ تھے جو شرک کے خلاف تھے اور وہ بغیر کسی دلیل کے اس بات کے مدعی تھے کہ خدا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیوں مبعوث کیا؟ یہ صاف بات ہے کہ انسان کی عقلی ایمان پر تسلی نہیں ہو سکتی.دلائل صرف ’ چاہئے‘ تک پہنچاتے ہیں” ہے تک نہیں.مگر نبی خدا کی صفات کو ظاہر کر کے بتا دیتے ہیں کہ خدا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ خدا چاہئے بلکہ یہ دکھا دیا کہ خدا ہے اور آپ نے اپنی زندگی کے ہر عمل سے دکھا دیا کہ ایک زندہ خدا موجود ہے.تاریخ اسلام میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں.میں ان سب کو بیان نہیں کر سکتا اس وقت صرف ایک بیان کرتا ہوں جسے بچے بھی جانتے ہیں.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے گئے تو غار ثور میں جا کر ٹھہرے.قریش نے تلاش شروع کی اور کھوجی کی مدد سے عین غار کے منہ تک پہنچ گئے.کھوجی نے وہاں پہنچ کر پورے وثوق سے کہا کہ یہاں تک آئے ہیں.اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ یہاں سے آسمان پر چڑھ گئے ہوں مگر اس سے آگے ہر گز نہیں گئے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے اور مکڑی نے غار کے منہ پر جالا تن دیا اسے دیکھ کر ان میں سے ایک نے کہا میں تو ہمیشہ یہاں آتا ہوں.یہ غار تو ویسی کی ویسی ہی ہے اور ہمیشہ ایسی ہی حالت میں ہوتی ہے.کھوجیوں پر اہلِ عرب بہت اعتماد رکھتے تھے.کھوجی پورے یقین سے کہتا ہے کہ اس جگہ سے آگے نہیں گئے.وہ لوگ غار کے منہ پر کھڑے ہیں اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں خیال اور خوف پیدا ہوتا ہے اور بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ ان کا یہ خوف اپنی جان کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا.آپ کچھ گھبراہٹ کا اظہار
سيرة النبي علي 118 جلد 4 کرتے ہیں.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ڈرتے کیوں ہو، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے 6.اور یہ ایک ایسا جملہ ہے جو خدا ہونا چاہئے کہنے والے کے منہ سے نہیں نکل سکتا.جنہوں نے خدا کو دیکھا نہیں ہوتا وہ ایسی حالت میں نہیں کہتے کہ خدا ہے وہ ہمیں بچائے گا بلکہ وہ ایسے موقع پر جان بچانے کے لئے کئی حیلے ا اختیار کرتے ہیں.کبھی جھوٹ ، کبھی فریب اور کبھی خوشامد سے جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں.ان کے اندر یہ احساس نہیں ہو سکتا کہ نڈر ہو کر کہیں خدا ہمارے ساتھ ہے اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.چنانچہ کھوجی نے ان لوگوں سے کہا بھی کہ غار کے اندر دیکھو مگر کسی نے نہ دیکھا اور اوپر ہی کھڑے ہو کر واپس چلے گئے.یہ ایک ایسی مثال ہے جسے مسلمان بچے بھی جانتے ہیں.وگرنہ آپ کی زندگی کی ہر ساعت میں آپ نے اپنے عمل سے بتایا ہے کہ ایک زندہ خدا موجود ہے اور آپ اسے پیش کرتے تھے اور ایسی طرح کہ کسی کو انکار کی گنجائش نہ رہتی تھی.مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی یہی حالت تھی اور ہر جگہ آپ نے خدا کا جلال اور ارفع و اعلیٰ شان پیش کی بلکہ قبل از وقت واقعات بتا دیئے حتی کہ بدر کی جنگ کے متعلق صحابہ کا بیان ہے کہ آپ نے ہمیں یہاں تک بتا دیا تھا کہ فلاں فلاں کا فرفلاں فلاں جگہ مارا جائے گا.اور اس سے خدا کا ہونا ثابت ہوتا ہے.یہی چیز ہے جس کے لئے نبی مبعوث ہوتے ہیں.صلى الله رسول کریم ﷺ کے نمونہ کے اثرات عقلی دلائل کے لئے کسی نبی کی حاجت نہیں ہوا کرتی.بوعلی سینا کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا ایک شاگرد ایک دفعہ ان کی قابلیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ کہنے لگا آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بڑھ گئے ہیں.بوعلی سینا یہ بات سن کر خاموش رہے.سردی کا موسم آیا تو ایک تالاب کا پانی منجمد ہورہا تھا اور اس پر برف کی پیڑیاں جمی ہوئی تھیں آپ نے اس سے کہا اس میں چھلانگ لگاؤ.اس نے جواب دیا آپ پاگل تو نہیں ہو گئے کہ طبیب ہو کر مجھے ایسا حکم دیتے ہیں جس کا نتیجہ
سيرة النبي علي 119 جلد 4 ہلاکت ہے.بوعلی سینا نے کہا تمہیں یاد ہے تم نے مجھے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل بتایا تھا مگر نادان تو اتنا نہیں جانتا کہ آپ کے تو ایک ادنی اشارہ پر ہزاروں لوگ جانیں فدا کر دیتے تھے مگر تو مجھے آپ سے برتر کہنے کے باوجود میرے کہنے پر میری بات نہیں مانتا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو مشاہدات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس امر کے ایسے بین ثبوت دیئے کہ کوئی انکار نہیں کرسکتا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے ایک ادنی اشارے پر ہزاروں لوگ جانیں فدا کر دیتے تھے اور عزیز سے عزیز چیز مسرت کے ساتھ قربان کر دیتے تھے.اگر انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی ان میں یہ بات نہ پیدا ہوسکتی.تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جنگ کے لئے جب تشریف لے گئے اس وقت انصار کے ساتھ آپ کا معاہدہ یہ تھا کہ وہ مدینہ کے اندر آپ کی حفاظت کریں گے.یعنی اگر کوئی دشمن مدینہ میں داخل ہو کر آپ پر حملہ کرے گا تو اس کا مقابلہ کریں گے باہر جا کر نہیں لڑیں گے.بدر کی طرف جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ لڑائی ہوگی موقع کے قریب آکر اس کی اطلاع دی اور مشورہ کیا کہ ہمیں لڑنا چاہئے یا نہیں.مہاجرین نے کہا ضرور لڑنا چاہئے مگر اس جواب کے بعد آپ نے پھر فرمایا کہ لوگو! بولو کیا کرنا چاہئے؟ مہاجرین پھر جواب دیتے مگر اس جواب کے بعد آپ نے پھر یہی فرمایا.اس پر ایک انصاری بولے اور کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ کا منشا شاید ہم سے ہے.آپ سے بیشک ہمارا معاہدہ تھا مگر اُسی وقت تک کے لئے تھا جب تک آپ کے ذریعہ ہم نے خدا کو نہ دیکھا تھا اور صرف سنی سنائی باتیں تھیں.اس کے بعد آپ کے ظہور سے ہم نے زندہ خدا کے زندہ نشانات دیکھے اب وہ حالت نہیں.اب تو اگر آپ سمندر میں کود پڑنے کا حکم دیں گے تو ہمیں اس میں ذرا تأمل نہ ہوگا.خدا کی قسم ! دشمن آپ تک نہ پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزر کر نہ آئے.ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی ، دائیں بھی لڑیں.
سيرة النبي علي 120 جلد 4 گے اور بائیں بھی.ہم موٹی کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جاتو اور تیرا رب جا کر لڑتے پھرو بلکہ دشمن آپ تک ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی پہنچ سکے گا.ایک صحابی کہتے ہیں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی جنگوں میں شریک ہوا مگر مجھے ہمیشہ حسرت رہی کہ کاش! یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی 9.یعنی یہ فقرہ میرے منہ سے نکلتا.یہ بات بغیر اس کے ممکن نہ تھی کہ ان لوگوں نے زندہ خدا کو دیکھ لیا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ 10 اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) انہوں نے بیعت کرتے وقت اپنے ہاتھوں پر تیرا ہاتھ نہیں دیکھا بلکہ خدا کا ہاتھ دیکھا ہے اور یہ ایسی بات ہے جو نبی کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی.رسول کریم کے ذریعہ دوسری چیز پاکیزگی ہے.رسول کریم صلی اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب کی حالت سب صفت قدوسیت کا اظہار پر واضح ہے اس لئے مجھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن اس کے بعد ان لوگوں کے اندر جو پاکیزگی آئی اس کی ایک مثال بیان کر دیتا ہوں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ حبشہ میں ہجرت کر گئے تو مکہ والوں نے انہیں پکڑنے کے لئے ایک وفد بھیجا جس نے امراء کو تحائف وغیرہ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا لیکن جب وہ نجاشی بادشاہ کے دربار میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارے کچھ لوگ بھاگ کر یہاں آئے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت دی جائے تو اس نے کہا میں ان لوگوں سے باتیں کرنے کے بعد جواب دوں گا.جب مسلمانوں کو طلب کیا گیا تو ان کے امیر نے کہا اے بادشاہ! ہم دنیا میں بدترین مخلوق تھے ، شرابی ، زانی، چور، ڈاکو، فریبی اور عورتوں کی بے عزتی کرنے والے تھے مگر خدا نے ہم میں ایک نبی مبعوث کیا جس کے ذریعہ ہماری سب بد عادات چھوٹ گئیں اور ہماری حالتیں بالکل بدل گئیں ، نہ ماننے والوں کی دنیا علیحدہ ہوگئی اور ہماری علیحد 110 یہ وہ دعوی تھا جو انہوں نے مخالفوں اور جانی دشمنوں کے سامنے پیش کیا مگر
سيرة النبي عمال 121 جلد 4 قریش کے وفد کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ یہ کہہ سکے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں، یہ تو اب بھی ویسے ہی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.اگر فی الواقعہ ان کے اندر پاکیز و تغییر نہیں ہو چکا تھا تو کیا وجہ ہے کہ صحابہ وہاں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم پاکباز ہو گئے ہیں مگر مخالف یہ نہیں کہہ سکتے کہ غلط کہتے ہیں یہ اب بھی ویسے ہی گندے ہیں.یہ تزکیہ تھا جو بغیر رؤیتِ الہی کے نہیں ہوسکتا.صفات عزیزیت و حکیمیت کا اظہار تیسری اور چوتھی چیز يُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ 12 ہے.قرآن کریم کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے یہ لیکچر تو کیا اس جیسے دس ہزار لیکچر بھی کافی نہیں ہو سکتے.یہ وہ تعلیم ہے جس نے دنیا سے منوا لیا ہے کہ اس کا دنیا کی سب ضرورتوں پر حاوی ہونا ایسی بات ہے جس کا مقابلہ اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا.حکمت سکھانا بھی اسلام کی خصوصیت ہے.نماز کیوں پڑھیں، روزہ کیوں رکھیں، حج کیوں کریں، زکوۃ کیوں دیں، غرضیکہ کوئی حکم ایسا نہیں جس کی حکمت نہ بیان کی گئی ہو.ہر بات کے متعلق بتا دیا گیا ہے کہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور تمہاری ہی ترقی کے لئے ہے.یہ چار کام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر دنیا میں کئے اور گویا یہ اسلام کا خلاصہ ہے.یعنی اوّل خدا کی ذات مشاہدہ سے منوانا، دوسرے بنی نوع انسان کو پاک کرنا، تیسرے ایسی تعلیم دینا جو سب ضرورتوں پر حاوی ہو اور چوتھے انسان میں ایمانی بشاشت پیدا کرنا اور اسے بتانا کہ اس پر عمل کرنا تمہارے ہی فائدہ کا موجب ہے اور ایسی حکمتیں بیان کرنا کہ اس مذہب کو ماننے والا دوسروں کے سامنے اپنا سر اونچا کر سکے.“ 1: الجمعة : 1 2، 3: الجمعة : 2 4: الجمعة : 3 ( مطبوعہ دسمبر 1934 ء قادیان)
سيرة النبي علي 5: البقرة : 130 122 جلد 4 6: السيرة الحلبية الجزء الثاني صفحه 206 مطبوعہ بیروت 2012 ء سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 13 مطبوعہ مصر 1295ھ 8: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحه 675 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الأولى 9: بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى اذ تستغيثون ربكم صفحہ 668 حديث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 10: الفتح : 11 11 : السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحه 385 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 12: الجمعة : 3
سيرة النبي علي 123 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی ہمدردی خلق کا ایک اہم واقعہ حضرت مصلح موعود 16 مارچ 1934ء کے خطبہ جمعہ میں آنحضرت ع ہمدردی خلق اور صفت احسان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.' آپ ایک دفعہ مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی آیا اور آکر کہنے لگا مجھے کچھ دو.آپ نے اسے کوئی چیز دی.راوی کا خیال ہے کہ وہ چیز اونٹنی وغیرہ تھی.پھر یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آیا اس کی تسلی ہوگئی ہے یا نہیں آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کر دیا ہے یعنی تمہاری ضرورت پوری ہو گئی ؟ اس نے جواب دیا کہ حسن سلوک اور ضرورت کا پورا ہونا تو دور کی بات ہے آپ نے تو میرے ساتھ معمولی رواداری کا برتاؤ بھی نہیں کیا.اس پر صحابہ کو غصہ آیا اور وہ اسے مارنے لگے کہ اس نے کیوں رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے.مگر آپ نے ان کو صلى الله روک دیا اور اس اعرابی سے کہا کہ میرے پیچھے آؤ.آپ اسے الگ لے گئے اور کہا کہ تم سائل کی حیثیت سے میرے پاس آئے تھے اور میں نے تمہارے ساتھ سلوک کر دیا اور پوچھا کہ میں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کر دیا ہے؟ مگر تم نے جواب دیا که معمولی رواداری بھی نہیں کی.پھر آپ نے اسے کچھ اور دیا جو راوی کو یاد نہیں رہا کیا تھا اور پھر پوچھا کیا اب تمہارے ساتھ حسن سلوک کر دیا ہے؟ اس نے کہا ہاں اب واقعی کر دیا ہے.میری طرف سے اور میرے اہل وعیال کی طرف سے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.آپ نے فرمایا تمہارے پہلے جواب سے سننے والوں کو غصہ آیا تھا جس سے ان کے دلوں میں تمہارے متعلق نفرت رہے گی اس لئے بہتر ہے کہ جب پھر
سيرة النبي مله 124 جلد 4 مجلس بیٹھی ہو تو میں تم سے یہی سوال کروں گا اور تم اگر چاہو تو اپنے جواب سے ان کے جذبات میں تبدیلی کر سکتے ہو.چنانچہ پھر مجلس کے موقع پر وہ آیا.آپ نے اس سے وہی سوال کیا اور اس نے کہا ہاں آپ نے میرے ساتھ حسن سلوک کر دیا اب میں راضی ہوں اللہ تعالیٰ میری طرف سے اور میرے اہل وعیال کی طرف سے آپ کو جزائے خیر دے.پھر آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ شخص میرے پاس آیا، ناواقف تھا اور مجھ سے حسن سلوک کی امید رکھتا تھا.اس کی امید کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک نہ ہوا اور تم اسے مارنے کے لئے دوڑے لیکن میں نے روکا اور اسے خوش کیا.اور میری تمہاری مثال ایسی ہی ہے کہ کسی شخص کی اونٹنی بھاگ گئی ، اس کے رشتہ دار اور دوست سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور اس کے پیچھے بھاگنے لگے مگر وہ ان کے شور سے بدک کر اور بھی تیز بھاگنے لگی.اس نے جب یہ حالت دیکھی تو کہا کہ بھائیو! میری حالت پر رحم کرو اور یہ احسان مجھ پر نہ کرو مجھے اور میری اونٹنی کو چھوڑ دو.اور جب وہ لوگ ہٹ گئے اور شور کم ہوا تو اونٹنی بھی ذرا آہستہ ہوئی.اس نے سبز گھاس اکھاڑ کر اس کے سامنے کیا اور اس طرح چپکا ر کر اسے پکڑ لیا.اسی طرح یہ شخص میرے پاس آیا تو تم لوگوں نے یہ کوشش کی کہ یہ بدک کر بھاگ جائے.اگر وہ چلا جاتا تو ضرور جہنم میں جا گرتا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کامیابی دی اور میں نے اسے بچا لیا.آپ نے اُس وقت وہ محبت شفقت اور مہربانی ظاہر کی جو بنی نوع انسان کے لئے آپ کے دل میں تھی اور اس طرح بتا دیا کہ انسان کی اصلاح کس طرح ہوسکتی ہے.“ ( الفضل 22 مارچ 1934 ء )
سيرة النبي علي 125 جلد 4 رسول کریم ﷺ کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز سمجھنا دو حضرت مصلح موعود 6 اپریل 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.کئی دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ فلاں چیز اس کی قوت کا موجب ہے حالانکہ وہ عدم مذ ہبر کا ثبوت ہوتا ہے اور اگر وہ غور کرے تو اسے معلوم ہو کہ وہی چیز اس کی کمزوری کا موجب بنتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں یہاں تک کہ میں آپ کو جان کی طرح عزیز سمجھتا ہوں.آپ نے فرمایا یہ کوئی اعلیٰ ایمان نہیں جب تک کہ تم مجھے اپنی جان سے بڑھ کر پیارا نہ سمجھو.اب جس چیز پر اس نے ناز کیا تھا اور سمجھا تھا کہ محبت کا بہت بلند مقام اسے حاصل ہو چکا ہے وہی چیز اس کا نقص ٹھہری.اس نے الله خیال کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو اپنی جان کی طرح عزیز سمجھنا ہی کافی ہے مگر صلى رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک تم اپنی جان سے بھی بڑھ کر مجھے عزیز نہ سمجھو ایمان کامل نہیں ہوسکتا.چونکہ وہ ایمان کے رستہ پر چل رہا تھا اس لئے اس نے سنتے ہی کہا يَارَسُولَ اللَّه! آپ مجھے اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز ہو گئے ہیں اور اس طرح اُسی (الفضل 12 اپریل 1934ء ) 66 وقت اس کی اصلاح ہوگئی.“
سيرة النبي علي 126 جلد 4 رسول کریم علیہ کی مذہبی رواداری کی ایک مثال 7 اپریل 1934 ء کو حضرت مصلح موعود نے فیصل آباد میں بیت الذکر کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا:.وو دوسرے لوگ مساجد بناتے ہیں مگر باہر بورڈ لگا دیتے ہیں کہ یہاں کوئی شیعہ، احمدی ، وہابی نہ آئے مگر وہ دھوکا خوردہ ہیں.وہ خدا کے نام پر مسجد بناتے ہیں مگر پھر اس پر اپنا قبضہ کر لیتے ہیں.تم بھی اگر ایسا ہی کرو گے تو خدا کے فضل کو حاصل نہیں کر سکو گے.تمہارا بورڈ یہی ہونا چاہئے کہ یہ خدا کا گھر ہے جس کا جی چاہے یہاں آ کر اس کا نام لے سکتا ہے.خواہ وہ کسی رنگ میں عبادت کرے ہم خوش ہوں گے.رسول کریم ے کے پاس عیسائیوں کا ایک وفد آیا اور کچھ مذہبی مباحثہ کیا.اتنے میں ان کی عبادت کا وقت آ گیا.عیسائیوں میں بعض مشرک ہوتے ہیں اور بعض موحد بھی.گو وہ بعض مسلمانوں کی طرح حضرت مسیح کی تعظیم ارباب کی حد تک کرتے ہیں مگر پھر بھی خدا کو ایک مانتے ہیں.اس وفد کے عیسائی بت پرست تھے اور انہوں نے سونے کی صلیبیں اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں جنہیں وہ پوجتے تھے.انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کہا کہ ہم باہر جا کر اپنی عبادت کر آئیں مگر آپ نے فرمایا کہ یہ مسجد عبادت کے لئے ہی ہے آپ بے شک یہاں اپنی طرز پر عبادت کریں.چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی صلیبیں رکھیں اور اپنے طریق پر عبادت کی 1.“ ( الفضل 15 اپریل 1934ء) 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 385 386 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء
سيرة النبي علي 127 جلد 4 رسول کریم ع کی قوت قدسیہ حضرت مصلح موعود نے 18اپریل 1934 ء کو فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:." آپ نے بدی کو چھوڑنے کی طاقت لوگوں کے دلوں میں پیدا کی.امریکہ نے شراب نوشی کی ممانعت کا قانون پاس کیا مگر وہ طاقت نہ پیدا کر سکا جو شراب ترک کرنے کے لئے ضروری تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف شراب سے نہ روکا بلکہ وہ طاقت پیدا کی جس سے اسے چھوڑا جا سکتا ہے اور یہی فرق ہے اسلام میں اور دنیوی طاقتوں و حکومتوں میں.کسی چیز کو حرام قرار دینے اور لوگوں سے اسے چھڑانے کے لئے بھی ایک طاقت چاہئے کیونکہ یہ ایک قربانی ہے جو بغیر طاقت کے نہیں ہو سکتی اور یہ طاقت دنیوی نہیں بلکہ وہ طاقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور جسے قوتِ قدسیہ کہا جاتا ہے.بوعلی سینا کے متعلق لکھا ہے کہ آپ ایک دفعہ کوئی مسئلہ بیان کر رہے تھے ان کی تقریر سن کر ایک شاگرد لٹو ہو گیا اور مستی میں آ کر کہنے لگا خدا کی قسم ! آپ تو محمد رسول اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں.وہ ایک فلسفی اور نیک آدمی تھے اُس وقت تو خاموش رہے جب سردی کا موسم آیا، عراق میں سردی بہت پڑتی اور پانی جم جاتا ہے وہ ایک تالاب کے پاس بیٹھے تھے جو بالکل یخ بستہ تھا اسی شاگرد کو انہوں نے کہا کہ اس تالاب میں کود پڑو.اس نے جواب دیا کہ آپ اتنے بڑے طبیب ہو کر ایسی جہالت کی بات کہتے صلى الله ہیں.وہ کہنے لگے بے حیا! تجھے یاد نہیں تو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ علی
سيرة النبي عمال 128 جلد 4.سے بھی بڑھ کر ہو.محمد رسول اللہ علیہ کے تو ایک اشارے پر ہزاروں لوگوں نے جانیں فدا کر دیں مگر تو میرے کہنے پر اس تالاب میں بھی نہیں کو دسکتا.تو اصل چیز قوت قدسیہ ہے.جب امریکہ نے شراب کی بندش کے احکام جاری کئے تو میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ اس میں دیکھنے والی بات یہی ہے کہ وہ اس پر عمل بھی کرا سکتا ہے یا نہیں اور وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام اور دنیوی حکومتوں کی طاقتیں کتنا بڑا فرق رکھتی ہیں.اب امریکہ جہاں سے چلا تھا وہیں واپس آ گیا اور اس نے ممانعت شراب کے قانون کو منسوخ کر دیا ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا عجیب واقعہ ہے.آپ نے حکم دیا کہ شراب منع ہے اور سب جانتے ہیں کہ نشہ والے شخص کو کوئی ہوش نہیں ہوتا.مجھے تو اس کا تجربہ نہیں باہر رہنے والوں کو تو ایسے لوگوں کو دیکھنے کے مواقع عام طور پر ملتے رہتے ہیں.ہاں ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ میں گاڑی میں سفر کر رہا تھا.اسی کمپارٹمنٹ میں ایک ریاست کے وزیر صاحب بیٹھے تھے جنہیں میں نہیں پہچانتا تھا مگر وہ مجھے جانتے تھے.کہنے لگے کیوں مرزا صاحب! آپ کی کیا خاطر کروں؟ اور اسی فقرہ کو بار بار دہرانا شروع کیا.پھر ایک اور صاحب بیٹھے تھے انہیں کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی، جگہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے.پھر ایک سکھ ای.اے.سی آگئے ان سے بھی یہی کہنا شروع کر دیا کہ آپ کی کیا خاطر کروں؟ میں نے سمجھا انہیں کوئی مرض ہے مگر کسی نے بتایا کہ نہیں ، نشہ کی حالت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرمایا کہ شراب منع ہے تو اُس وقت مدینہ میں ایک دعوت ہو رہی تھی ، شراب کے مٹکوں کے ملکے بھرے رکھے تھے اور لوگ پی پی کر مست ہو رہے تھے کہ گلی میں سے ایک شخص اعلان کرتا ہوا گز را کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شراب منع کر دی ہے.ایک شخص اٹھا کہ باہر جا کر معلوم کروں کہنے والا کیا کہتا ہے مگر دوسرا اسی نشہ کی حالت میں اٹھا اور سونٹا مار کر مٹکوں کو توڑ دیا کہ پہلے شراب کو زمین پر بہا کر پھر دریافت کریں گے 1.اس کے مقابل میں امریکہ کی حالت
سيرة النبي عمل 129 جلد 4 دیکھو کہ جن کو حکم دیا گیا وہ ہوش میں تھے.پھر اس قانون کا نفاذ کرانے کے لئے کروڑوں روپیہ خواہ لینے والے سپاہی تھے مگر کامیابی نہ ہو سکی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ کوئی فوج تھی نہ پولیس مضنور لوگوں کے کان میں آپ کی آواز پڑتی ہے اور وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ پوچھ لیں اعلان کا کیا مطلب ہے اور اسی وقت شراب کے مٹکے توڑ دیتے ہیں اور پھر شراب کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے.یہی وہ چیز ہے جس سے کام ہوتے ہیں.“ تحقیق حق کا صحیح طریق مطبوعہ 30 ستمبر 1934 ء) 1:مسلم كتاب الاشربة باب تحريم الخمر صفحہ 885 حدیث نمبر 5131 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 130 جلد 4 فرمایا:.رسول کریم علیہ کے مخالفوں کی ناکامی حضرت مصلح موعود نے 8 اپریل 1934 ء کو فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے تیسری چیز عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَّبِّهِ 1 کے سلسلہ میں وہ معجزات اور پیشگوئیاں ہیں جو رسول کریم علیہ نے بیان کی ہیں.آپ نہایت خطرناک دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے مگر آپ نے دعویٰ کیا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 2 مکہ والوں نے سارا زور لگایا کہ آپ کو قتل کریں، آخر کار تجویز کی کہ سب مل کر آپ کو ماریں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کو قبل از وقت ان کے منصوبوں کا علم دے دیا اور آپ بچ گئے.آپ جب غار ثور میں گئے تو دشمن بھی غار کے منہ تک پہنچ گئے ان کے ساتھ ایک بہت بڑا ماہر کھوجی تھا، ہمارے علاقہ کے لوگ تو کھوجیوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے البتہ اس علاقہ میں رواج ہے، اس کھوجی نے کہا کہ یا تو اس غار میں ہیں یا پھر آسمان پر چڑھ گئے ہیں اس سے آگے نہیں گئے 3.لیکن ان لوگوں پر اس قدر تصرف الہی تھا کہ کسی نے جھک کر نیچے نہ دیکھا کہ شاید اس کے اندر ہی ہوں.پھر ایک سردار نے اعلان کیا کہ جو آپ کو پکڑ کر لائے گا اسے سو اونٹ انعام دیا جائے گا4.چنانچہ ایک شخص آپ کے تعاقب میں گیا اور بالکل قریب جا پہنچا مگر جب وہ حملہ کرنے لگتا تو گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑتا.تین دفعہ ایسا ہی ہوا آخر وہ سمجھ گیا اور اُسی وقت ایمان لے آیا 5.تو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں کثرت سے ایسے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے آپ کی حفاظت کرتے تھے.ایک عورت نے آپ کو کھانے میں زہر
سيرة النبي عمال صلى الله 131 جلد 4 دینا چاہا ایک صحابی نے وہ کھانا کھا لیا اور وہ فوت ہو گئے لیکن آپ نے لقمہ اٹھایا اور پھر رکھ دیا 6.اسی طرح آپ پر پیچھے سے پتھر گرا کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا..آپ بالکل اکیلے باہر چلے جاتے تھے صحابہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو مدینہ سے باہر کچھ شور ہوا وہ جب اٹھ کر دیکھنے کے لئے جا رہے تھے تو رسول کریم ﷺ گھوڑے پر واپس آتے ہوئے ان کو ملے اور فرمایا میں دیکھ آیا ہوں کوئی خطرہ کی بات نہیں 8.تو آپ راتوں کو اکیلے پھرتے مگر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا حالانکہ سب آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے ، ان کی سب تدابیر نا کام ہوئیں...رسول کریم ﷺ کو نقصان پہنچانے کی تمام تدابیر ناکام ہوئیں اور دشمنوں کی شکست کی تمام پیشگوئیاں جو رسول کریم ﷺ نے کیں مثلاً فتح مکہ کی خبر ، فتح خیبر کی خبر اور ابو جہل کی موت کہ کہاں اور کس طرح واقع ہوگی وغیرہ وہ سب پوری ہوئیں.اسی طرح کی مثالیں حضرت مرزا صاحب کی زندگی میں بھی ملتی ہیں.رسول کریم ﷺ کو سخت مخالف حالات میں جو کامیابی ہوئی دشمن بھی اس کے معترف ہیں.ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ اسلام پر جو چاہو اعتراض کرو لیکن ایک بات سخت حیران کن ہے اور وہ یہ کہ ایک کچا مکان جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہے اور بارش میں پانی چھت سے ٹپک ٹپک کر فرش پر کیچڑ ہو جاتا ہے ، اس کے اندر چند لوگ بیٹھے ہیں ، جن میں سے اگر کسی کا تہبند ہے تو گرتا نہیں اور گرتا ہے تو پگڑی نہیں غرضیکہ کسی کے بدن پر بھی پورے کپڑے نہیں ہیں وہ نہایت سنجیدگی سے اس امر پر غور کر رہے ہیں کہ فلاں ملک کو کس طرح فتح کیا جائے اور فلاں کو کس طرح اور پھر وہ کر کے دکھا بھی دیتے ہیں.وہ کہتا ہے تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو چاہو اعتراض کرو لیکن اس کا کیا جواب تحقیق حق کا صحیح طریق مطبوعہ 30 ستمبر 1934 ء) ہے اور یہ کیا راز تھا.“ 1:هود: 18 2: المائدة : 68
سيرة النبي علي 132 3 تاريخ الخميس الجزء الاوّل صفحہ 370 مطبوعہ 1302ھ 4: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاوّل صفحہ 543 مطبوعہ دمشق 2005 ء 5: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاوّل صفحہ 547 مطبوعہ دمشق 2005 ء 6 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 1128 ، 1129 مطبوعہ دمشق 2005 ء 7: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 975 مطبوعہ دمشق 2005 ء جلد 4 8: بخارى كتاب الجهاد و السير باب السرعة والركض في الفزع صفحه 491 حدیث نمبر 2969 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 133 جلد 4 رسول کریم ﷺ سے صحابہ کا عشق اور فدائیت کے فرمایا:.حضرت مصلح موعود نے 18اپریل 1934ء کو فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے - رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر ایک ایسا واقعہ ہوا جو صاف طور پر ثابت کر رہا ہے کہ صحابہ کرام آسمان سے کسی کے آنے کے منتظر نہ تھے اور اس واقعہ کو اگر کوئی مسلمان ان جذبات محبت کے ماتحت پڑھے گا جو ایک مسلمان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونے چاہئیں تو اسے مجھ سے متفق ہونا پڑے گا.احادیث میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو صحابہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ابھی منافق موجود ہیں اس لئے ابھی آپ کی وفات بے موقع ہے.اصل بات یہ ہے کہ آپ کی ذات سے ان لوگوں کو اتنی محبت تھی کہ آپ کی زندگی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز انہیں پیاری نہ لگتی تھی اور اپنے عشق کے نشہ میں وہ یہ خیال بھی نہ کر سکتے تھے کہ آپ ان سے جدا ہو جائیں گے.ان کے عشق کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح عورتیں تک آپ سے اخلاص کے نشہ میں مخمور تھیں.جنگ احد میں غلط طور پر یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں مگر بات صرف یہ تھی کہ آپ سخت زخمی ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے.جو لوگ اُس وقت آپ کی حفاظت کر رہے تھے ان میں سے بعض شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپ کے اوپر گر گئیں.اس سے یہ خبر پھیل گئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں لیکن جب صحابہ کرام نے باہر نکالا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.آپ کی
سيرة النبي عمال.134 جلد 4 شہادت کی خبر مدینہ میں بھی پہنچ گئی.اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد آپ مدینہ واپس آگئے لیکن آپ کی آمد سے قبل عورتیں اور بچے سب روتے اور ہلکتے ہوئے شہر سے باہر نکل آئے.ایک صحابی گھوڑا دوڑاتے ہوئے سب سے آگے جا رہے تھے.وہ جب ان عورتوں کے پاس پہنچے تو ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے چونکہ آپ کو اپنی آنکھوں سے زندہ دیکھا تھا اور اس کے دل سے بوجھ ہٹ چکا تھا اس لئے اس نے سوال کا جواب تو نہ دیا بلکہ یہ کہا کہ تیرا باپ مارا گیا ہے.مگر اس عورت نے کہا میں نے باپ کا تم سے کب پوچھا ہے مجھے تو یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ صحابی کا دل چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے کی خوشی سے بھرا ہوا تھا اس لئے پھر اس نے اس کے سوال کی طرف توجہ نہ کی اور کہا تیرا بھائی بھی مارا گیا.مگر اس عورت نے پھر کہا کہ میں نے تجھ سے یہ سوال کیا کب ہے؟ میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پوچھ رہی ہوں.اس نے پھر بھی اس سوال کی اہمیت کو نہ سمجھا اور کہا کہ تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے.مگر اس عورت نے کہا میں نے تم سے خاوند کے متعلق کب پوچھا ہے؟ تم یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا آپ تو خدا کے فضل سے زندہ سلامت ہیں.اس پر اس عورت نے کہا پھر کوئی پرواہ نہیں خواہ کوئی مارا جائے 1.تو یہ ان لوگوں کے عشق کا حال تھا.ایک فدائیت کی روح تھی جو ان کے اندر کام کر رہی تھی اور وہ یہ سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے ہیں.جب آپ کی وفات ہوئی تو اس خبر کو سن کر حضرت عمرؓ ا تنے جوش میں آئے کہ آپ نے کہا جو یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوگئے ہیں میں اُس کی گردن اڑا دوں گا.آپ تو موسی کی طرح آسمان پر گئے ہیں اللہ تعالیٰ سے باتیں کر کے واپس آئیں گے اور منافقوں کی اچھی طرح خبر لیں گے.حضرت ابو بکر
سيرة النبي عمال 135 جلد 4 اُس وقت مدینہ میں نہ تھے بلکہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے.بعض صحابہ نے آپ کے پیچھے آدمی دوڑائے کہ جلدی آئیے اسلام میں ایک فتنہ پیدا ہونے لگا ہے.چنانچہ آپ آئے اور سیدھے اندر چلے گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک تھا.حضرت ابو بکر نے آپ کے منہ سے چادر اٹھائی ، جھکے، پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.پھر آپ باہر آ کر کھڑے ہوئے اور آیت کریمہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ 2 تلاوت کر کے فرمایا اے مسلمانو! محمد اللہ تعالیٰ کے رسول تھے خدا نہیں تھے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول ہوئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں اگر آپ فوت یا قتل ہو جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ پھر فرمایا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ : یعنی جو شخص محمد صلى الله علیہ و آلہ وسلم کو پوجتا تھا وہ کجھ لے کہ آپ فوت ہو چکے ہیں اور جو خدا کی پرستش کرتا تھا وہ مطمئن رہے کہ خدا ہمیشہ زندہ ہے.حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے یقین ہو گیا کہ میری غلطی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی فوت ہو گئے ہیں.اس پر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلنے لگی اور میں گر پڑا 4.دوسرے صحابہؓ بھی بیان کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکلی جارہی ہے.وہ بے تحاشا مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار بھاگے پھرتے اور حضرت حستان کے یہ شعر پڑھتے تھے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر انہوں نے بے اختیار کہے تھے.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُةِ یعنی تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیری موت سے میری آنکھیں اندھی ہو گئیں اب تیرے
سيرة النبي عمار 136 جلد 4 بعد کوئی مرے یا جئے ہمیں کیا ، ہمیں تو تیری زندگی کی پرواہ تھی.یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے معا بعد ہوا جسے کوئی مسلمان سوائے اس کے کہ اس کی آنکھیں پُر نم ہو جائیں اور آواز کانپنے لگے، پڑھ یا سن نہیں سکتا.اگر صحابہ کا عقیدہ یہ ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور پھر آئیں گے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ کیوں کہتے کہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آسمان پر گئے ہیں.انہیں تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ جس طرح حضرت عیسی آسمان پر گئے تھے آپ بھی گئے ہیں.پھر حضرت ابو بکر اس آیت سے استنباط کرتے ہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ سب رسول فوت ہو چکے ہیں اگر صحابہ میں کوئی شخص حضرت عیسی کے آسمان پر جانے کا عقیدہ رکھنے والا ہوتا تو وہ کھڑا ہو کر اُس وقت یہ نہ کہتا کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ آسمان پر رہنا شرک نہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آسمان پر جانے سے شرک کیونکر لازم آ سکتا ہے؟ مگر اُس وقت سب خاموش رہتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہتا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ اس عقیدہ کا کوئی بھی شخص ان میں نہ تھا.صل الله رسول کریم ﷺ منبع ہدایت ہیں دوسری چیز جو اس ضمن میں میں پیش کرتا ہوں یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ مَنَ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان کیا.ہر شخص جو مومن کہلانا چاہتا ہے غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا، وہ اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، پاک کرتا ہے، کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ سب کے سب پہلے گمراہ تھے.پہلی بات جو اس آیت میں بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور اس کے بعد ہر شخص ایمان آپ سے حاصل کرے گا.دوسری یہ کہ آپ سے ایمان حاصل کرنے سے پہلے وہ
سيرة النبي عمال 137 جلد 4 گمراہ ہوگا گویا تمام وہ لوگ جو آپ کے زمانہ میں ہوئے یا آپ کے بعد وہ آپ کا کلمہ پڑھنے سے قبل گمراہ ہیں.اب غور کرنا چاہئے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ آئیں تو اس آیت کے ماتحت وہ کیا ہوں گے.اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی ایک لمحہ بھی دنیا پر ایسا نہیں آیا اور نہ آئے گا کہ جب آپ کے بغیر بھی کوئی شخص ہدایت یافتہ کہلا سکے گا ، جو بھی ہدایت لے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے گا.تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عیسی علیہ السلام نَعُوذُ بِاللهِ ضلال میں سے آئیں گے؟ غور کرو! اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا عقیدہ رکھ کر اس امر سے انکار کیا جائے تو قرآن کریم کی آیت غلط ٹھہرتی ہے اور اگر یہ مانا جائے تو اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک ہے.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِ گویا غیر اللہ کی آیات نہیں سنا سکتے.یہ تو عام بات ہے کہ شاگرد کا کام استاد کی طرف تو منسوب ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہدایت حاصل کرنے والے مصلحین کا کام اور ان کا آیات پڑھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہوسکتا ہے لیکن جو آپ کی بعثت سے قبل کا پڑھا ہوا ہو اس کا کام آپ کی طرف کیونکر منسوب ہوسکتا ہے.مثلاً میں نے جو کچھ پڑھا ہے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پڑھا ہے کیونکہ اگر آپ نہ پڑھتے تو میں کس طرح پڑھ سکتا لیکن حضرت عیسی دوبارہ آ کر جو تلاوت آیات کریں گے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ تو آپ کی بعثت سے پہلے کے ہی پڑھے ہوئے ہیں.پھر فرماتا ہے وَ يُزَكِّيهِمْ یعنی آپ سب کا تزکیہ کریں گے.اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عیسی نَعُوذُ بِاللهِ گندے ہو کر آئیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا تزکیہ کریں گے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے بغیر کوئی
سيرة النبي مله 138 جلد 4.شخص پاک نہیں ہوسکتا.انبیاء ہمیشہ یا تو تکمیل کے لئے آتے ہیں جیسے موسوی سلسلہ کے نبی تھے یا پھر اُس وقت آتے ہیں جب ساری قوم خراب ہو جائے.اس لئے یا تو تسلیم کرو کہ قرآن کریم نامکمل ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام اسے مکمل کرنے کے لئے آئیں گے یا یہ مانو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب حضرت عیسی آئیں گے تو نَعُوذُ باللهِ غیر مزکی اور گندے ہوں گے اور یہ کتنا بڑا حملہ ہے.پھر غور کرو حضرت عیسی آکر جن لوگوں کو پاک کریں گے وہ کس کے کھاتے میں لکھے جائیں گے.حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے ہدایت پانے کا ثواب منبع ہدایت تک پہنچتا ہے اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی کے ذریعہ جو لوگ ہدایت پائیں گے ان کا ثواب کس کو پہنچے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو پہنچ نہیں سکتا کیونکہ حضرت عیسی نے جو کچھ سیکھا اللہ تعالیٰ سے براہ راست سیکھا ہے.پس کیا اس سے مسلمانوں کے دل خوش ہوتے ہیں کہ حضرت عیسی ضرور آ جائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقیات بے شک قیامت تک کے لئے رک جائیں؟ ہم تو ایسے کھاتہ کو پھاڑ ڈالیں گے جس میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ ہو.صحابہ کا تو یہ حال تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدہ ہو کر کسی نیکی کا ثواب بھی حاصل نہ کرنا چاہتے تھے.بخاری اور احادیث کی دوسری کتب میں آتا ہے کہ حضرت عثمان نے ایک دفعہ جب کہ حج کے لئے مکہ میں گئے ہوئے تھے منی کے مقام پر نماز کی دورکعتوں کی بجائے چار رکعتیں پڑھ لیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں صرف دو پڑھا کرتے تھے.اس پر صحابہ میں ایک ہیجان تو ضرور پیدا ہوا مگر انہوں نے خلیفہ کی اقتدا میں چار ہی پڑھ لیں.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا میں تو دو رکعت ہی پڑھاؤں گا لیکن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعت ہی پڑھاتے تھے.میں نے خلیفہ وقت کی پیروی کرتے ہوئے پڑھی تو چا رہی ہیں مگر دعا یہ
سيرة النبي علي 139 جلد 4 کی ہے کہ خدایا! میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے دو پڑھی تھیں اس لئے مجھے دو کا ہی ثواب عطا ہو..میں سمجھتا ہوں حضرت عثمان نے چونکہ مکہ میں شادی کی ہوئی تھی اس لئے اپنے آپ کو وہاں مسافر نہ سمجھتے تھے.مگر عبد اللہ بن مسعودؓ کو گوارا نہ ہوا کہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں انہوں نے دو رکعت کا ثواب حاصل کیا تھا وہاں آپ کے بغیر چار کا ثواب حاصل کریں.مگر آج مسلمان اپنے عقیدہ کے لحاظ سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ قیامت تک کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر ساری نیکیاں حضرت عیسی کے نام لکھ دی جائیں.کیا کسی مومن کی غیرت اسے برداشت کر سکتی ہے؟“ تحقیق حق کا صحیح طریق مطبوعہ 30 ستمبر 1934ء) 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 880 مطبوعہ دمشق 2005 ء 2: آل عمران: 145 صلى الله 3: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبي لوكنت متخذا خليلا صفحه 616،615 حدیث نمبر 3668،3667 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 4: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 1460 مطبوعہ دمشق 2005 ء 5 دیوان حسان بن ثابت صفحہ 103 مطبوعہ بیروت 1994ء الطبعة الثانية 6: آل عمران: 165 بخارى ابواب التقصير باب الصلوة بمنى صفحہ 175 حدیث نمبر 1084 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 140 جلد 4 رسول کریم علیہ کی صداقت کے تین دلائل حضرت مصلح موعود نے 8 اپریل 1934 ء کو فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.قرآن کریم میں اَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ 1 میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخاطبین کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ غور کرو! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ تمہارے سامنے ہے جسے سن کر قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسے کیوں مانیں.ہم اس سوال کو تسلیم کرتے ہیں مگر تم سوچو تو سہی کہ ان دلائل کی موجودگی میں کیا یہ رد کر نے کے قابل ہے.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے تین دلائل بیان کئے گئے ہیں.پہلی بات أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةِ ہے.یعنی کیا وہ شخص بھی جو یہ دلائل رکھتا ہو اور یہ دلائل خدا کی طرف سے ہوں، انکار کے قابل ہو سکتا ہے؟ اس کی صداقت کی پہلی دلیل تو یہ ہے کہ اسے وہ دلائل حاصل ہیں جنہیں بندہ بنا ہی نہیں سکتا.ایسے دلائل قرآن کریم میں بیسیوں ہیں مگر میں اس وقت صرف چند ایک کو لوں گا.سورۃ یونس میں آتا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 2 اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے.اگر کوئی شخص ڈھونگ رچائے تو وہ زیادہ سے زیادہ دو چار ماہ پہلے نمازوں کی پابندی کرے گا اور اپنے آپ کو نیک پاک ظاہر کرنے لگے گا.وہ اُسی دن سے اس کا اہتمام شروع کرے گا جس دن سے کہ اس نے لوگوں کو لوٹنے اور ٹھگنے کا ارادہ کیا ہوگا پہلے نہیں کیونکہ پہلے تو اسے
سيرة النبي علي 141 جلد 4 پتہ ہی نہ تھا کہ اس نے آگے چل کر کیا کرنا ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں سے کہو کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں نے جھوٹ بنایا ہے تو اتنا تو خیال کرو کہ میں نے اپنی ساری عمر تم لوگوں میں بسر کی ہے، تم ہی میں میں پیدا ہوا، تم ہی میں مجھ پر جوانی کا عالم آیا اور تم ہی میں اُدھیڑ عمر آئی ، اتنے ا عرصہ میں کبھی تم نے مجھے جھوٹ بولتے دیکھا ؟ اگر نہیں تو پھر کیوں عقل نہیں کرتے.بچپن کی نیکی کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ زمانہ گلیۂ خدا کے قبضہ میں ہوتا ہے.آپ کفار کے سامنے یہ بات پیش فرماتے ہیں کہ تم لوگوں میں ہی میں نے اپنا بچپن گزارا.کیا تم سمجھتے ہو کہ جب میں چھ سات سال کا تھا اُس وقت مجھے علم تھا کہ میں بڑا ہو کر ایسا دعوی کروں گا کہ میں اُسی وقت سے پاکیزہ رہنے کی کوشش کرتا ؟ آپ کے اس سوال کے جواب میں آپ کے تمام رشتہ دار، بھائی، دوست بلکہ دشمن بھی ساکت ہو گئے.پھر جوانی کا زمانہ آیا کون ہے جو 17 ، 18 سال کی بھر پور جوانی کے ایام اس وجہ سے نیک رہ کر گزارے کہ 40 سال کی عمر کو پہنچ کر کوئی دعویٰ کروں گا.ظاہر ہے کہ یہ دن بھی خدا کے قبضہ میں ہوتے ہیں.خصوصاً ایسے لوگوں کی جوانی کے دن جن کے سامنے لالچ آتے ہوں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے لالچ آتے ہی نہیں مگر آپ کے سامنے لالچ آئے.دنیا نے طرح طرح کے لالچوں کے ذریعہ آپ کو اپنی طرف کھینچنا چاہا مگر آپ اس سے جدا رہے.پھر ادھیڑ عمر آئی اس میں بھی آپ نے وہ نمونہ دکھایا کہ کوئی حرف نہ رکھ سکا.حضرت ابو بکر جو آپ کے خاص دوست تھے جب آپ نے دعویٰ کیا اُس وقت وہ باہر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو ایک دوست سے ملنے گئے.اس کے مکان پر بیٹھے تھے کہ اس کی لونڈی آئی اور آ کر کہا ابو بکر ! تمہیں معلوم ہے تمہارا دوست تو سودائی ہو گیا.آپ نے پوچھا کون سا دوست؟ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا.آپ نے دریافت کیا وہ کیا کہتا ہے؟ لونڈی نے بتایا وہ کہتا ہے خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے.آپ نے کہا اگر
سيرة النبي علي 142 جلد 4 وہ ایسا کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے.اگر آپ کا پہلا کیریکٹر خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت بے عیب نہ ہوتا تو کیوں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایک منٹ کے لئے شبہ پیدا نہ ہوا.آپ اسی وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان پر گئے اور دستک دی.آپ باہر تشریف لائے تو حضرت ابو بکر نے کہا میں ایک بات پوچھنے آیا ہوں.آپ نے کوئی ایسا دعویٰ کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال کیا معلوم نہیں میرے دعوی کو سن کر اس پر کیا اثر ہوا ہے اس لئے کچھ دلائل بیان کرنے لگے لیکن حضرت ابو بکر نے کہا مجھے دلائل کی ضرورت نہیں صرف یہ فرما ئیں کہ آپ نے دعوی کیا ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا ہے.حضرت ابوبکر نے فوراً کہہ دیا میں اس تحقیق حق کا صحیح طریق مطبوعہ 30 ستمبر 1934ء) پر ایمان لاتا ہوں.1:هود: 18 2:يونس: 17 66
سيرة النبي علي 143 جلد 4 رسول کریم میہ پر طائف میں پتھر برسائے گئے فرمایا:.8 اپریل 1934ء کو فیصل آباد میں خطاب کے دوران حضرت مصلح موعود نے دو پس یہ مت خیال کرو کہ خدا اس بات کا محتاج ہے کہ بندے اس کا نام پھیلانے کے لئے بے جا جوش دکھائیں اور خلاف اخلاق حرکات کریں اس سے دین کی کبھی ترقی نہیں ہو سکتی.غور تو کرو دنیا میں جو تمام بزرگ گزرے ہیں وہ پتھر مارنے والے تھے یا کھانے والے؟ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا جس نے دوسروں پر پتھر پھینکے ہوں اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا جس پر مخالفین نے تشدد نہ کیا ہو.مسلمان خوب الله جانتے ہیں کہ رسول کریم عمل یہ طائف میں پتھروں کی جھولی بھر کر نہ لے گئے تھے بلکہ طائف والوں نے آپ پر پتھر برسائے تھے 1.جولوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں، وہ ماریں کھاتے ہیں مگر پھر بھی منہ سے یہی کہتے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے.“ ( تحقیق حق کا صحیح طریق مطبوعہ 30 ستمبر 1934 ء) 66 1: السيرة الحلبية الجزء الثاني صفحه 54،53 مطبوعہ بیروت 2012 ء
سيرة النبي علي 144 جلد 4 جنگ حنین میں رسول کریم کی بہادری اور قوت قدسیہ کا مظاہرہ حضرت مصلح موعود نے یکم جون 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا :.غزوہ حنین کے موقع پر کچھ ایسے لوگ مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے جو در حقیقت مسلمان نہیں تھے یا ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے.فتح مکہ کے بعد جبکہ ثقیف اور ہوازن وغیرہ سے طائف کے قریب مقابلہ ہوا تو اُس وقت مکہ کے ان لوگوں نے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے خواہش ظاہر کی کہ انہیں بھی جنگ کرنے والوں میں شامل کیا جائے.بعض غیر مسلم بھی مسلمانوں کے زیر اثر ان کے ساتھ شریک ہو گئے.چونکہ نئے مسلمان وہ اخلاص نہیں رکھتے تھے جو خدا تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کو جذب کر سکتا ہے اور کافر تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مؤید ہونے کے مقام سے بہت دور ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہ یہ کہتے ہوئے گئے کہ آج ہم میدان جنگ میں اپنی بہادری دکھائیں گے اور بتلائیں گے کہ جرأت کسے کہتے ہیں ان بہادروں نے یہ کیا کہ جب ثقیف اور ہوازن کے تیراندازوں نے مسلمانوں کے لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ ڈالی تو ان کے گھوڑے اور اونٹ وغیرہ بدکنے لگے اور ڈرکر پیچھے کی طرف بھاگے.لازمی طور پر اس کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کی صفیں ٹوٹ جائیں چنانچہ تمام صفیں ٹوٹ گئیں.صحابہ کے اونٹ اور گھوڑے بھی ڈر کے مارے میدان جنگ سے بھاگ نکلے اور میدان خالی ہونا شروع ہو گیا یہاں تک کہ صرف بارہ
سيرة النبي علي 145 جلد 4 صحابہ رسول کریم ﷺ کے پاس رہ گئے.اُس وقت دشمن کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اور وہ برابر تیراندازی میں مصروف تھا.صحابہ نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں صلى الله نے رسول کریم میلے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب ٹھہرنے کا موقع نہیں اور صلى الله بعضوں نے تو رسول کریم ع کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا اب حضور کو آگے نہیں بڑھنا چاہئے.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو.پھر آپ نے گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھایا اور فرمایا:.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب 1 میں خدا کا سچا نبی ہوں جس میں جھوٹ نہیں.مگر چونکہ یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ چار ہزار کی تعداد میں دشمن سامنے ہے اور وہ برابر تیراندازی میں مصروف ہے.صرف باره آدمی رسول کریم عملے کے ارد گرد رہ جاتے ہیں اور وہ آپ سے عرض کرتے ہیں کہ اب آگے بڑھنا مناسب نہیں مگر باوجود اس کے آپ بڑھتے چلے جارہے ہیں تو ممکن ہے آپ میں انسانیت سے بالا کوئی بات ہو اس لئے فرمایا اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب - میرے اندر کوئی خدائی طاقتیں نہیں میں تو صرف عبد المطلب کا بیٹا ہوں.اُس وقت جب صرف بارہ آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس رہ گئے آپ نے حضرت عباس کو بلایا.ان کی آواز بہت بلند تھی.جب وہ آگئے تو آپ نے فرمایا اے عباس! بلند آواز سے پکارو کہ اے انصار ! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.یہ وقت تھا جس میں صحابہؓ کو عبودیت کے اظہار کا موقع ملا کیونکہ لشکر منتشر ہو چکا تھا اور افراد پراگندہ ہو چکے تھے.اونٹ اور گھوڑے اور دوسرے جانور بھاگے چلے جارہے تھے اور اس قسم کا ان پر خوف طاری تھا کہ وہ واپس لوٹنے کے لئے تیار نہ تھے.ایسے نازک موقع پر جبکہ منتشر شدہ لشکر کا دوبارہ جمع ہونا بظاہر ناممکن اور محال نظر آتا تھا جب حضرت عباس نے آواز دی کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو خدا کے رسول کی آواز سنتے ہی صحابہ کھڑے ہو گئے.ایک صحابی کی روایت ہے کہ اُس وقت لشکر میں اس قسم کا تہلکہ مچا ہوا
سيرة النبي علي 146 جلد 4 تھا کہ ہم اپنے گھوڑوں کو لوٹاتے مگر وہ پیچھے نہ لوٹتے.ہم باگیں کھینچتے اور پورے زور سے کھینچتے یہاں تک کہ جانور کا سر ان کی دم سے جاملتا مگر باوجود اس کے جب لگام ذرا ڈھیلی ہوتی وہ آگے کو بھاگ پڑتے.اس صحابی کا بیان ہے جب ہمیں یہ آواز سنائی دی کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم دنیا میں نہیں بلکہ مرچکے ہیں اور میدان حشر میں کھڑے ہیں اور صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اے مُردو! ہمارے پاس آجاؤ.یہ آواز سنتے ہی ہم میں ایک نیا جذ بہ اور نیا رنگ پیدا ہو گیا.جو لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑں کو واپس لوٹا سکے انہوں نے واپس لوٹا کر اور جنہوں نے یہ دیکھا کہ ان کی سواریاں مڑنے کے لئے تیار نہیں تو سواریوں کی گردنیں اڑا کر لبیک کہتے ہوئے اس آواز پر جمع ہو گئے اور چند منٹ کے اندر اندر ہی میدان جنگ صحابہ سے بھر گیا 2.“ ( الفضل 7 جون 1934 ء ) 1:بخارى كتاب الجهاد و السير باب من صف اصحابه عند الهزيمة صفحه 484 حدیث نمبر 2930 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية :2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 1240 مطبوعہ دمشق 2005 ء
سيرة النبي علي 147 جلد 4 رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کا مقام الله حضرت مصلح موعود 15 جون 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں:.’یا د رکھنا چاہئے انبیاء کی جماعتیں غیر معمولی نہیں ہوتیں.رسول کریم ﷺ کے وقت میں جولوگ پیدا ہوئے اور آپ پر ایمان لائے قربانیاں انہوں نے بھی کیں اور بعد میں آنے والوں نے بھی کیں.بنی نوع انسان کی خدمت انہوں نے بھی کی اور دوسروں نے بھی کی.لیکن کیا وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں آپ پر ایمان لانے والا ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی بعد میں آنے والوں پر ایک رنگ کی فضیلت رکھتا ہے؟ امت محمدیہ میں رسول کریم ﷺ کے بعد سینکڑوں اولیاء ایسے گزرے ہیں جو کئی صحابہ سے درجہ میں بلند تھے.مگر باوجود اس کے جب ان کے سامنے کسی صحابی کا نام آتا تو ان کے دلوں پر غیر معمولی کیفیت طاری ہو جاتی، ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ، ان کے چہروں کی حالت بدل جاتی اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویاوہ کسی بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہیں.اس کی کیا وجہ تھی کہ سید عبدالقادر جیلانی ، شہاب الدین صاحب سہروردی اور معین الدین چشتی جیسے آدمی جنہوں نے دنیا کی ہدایت کے لئے بہت بڑے بڑے کام کئے ایک معمولی صحابی کے مقابلہ میں اپنے آپ کو گرا دیتے اور اپنے درجہ کو متنزل کر دیتے.اسی وجہ سے کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ غیر معمولی حالات میں پیدا ہوئے اور غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان (الفضل 21 جون 1934ء ) 66 لانے کی توفیق عطا فرمائی.“
سيرة النبي علي 148 جلد 4 خطرات کے موقع پر رسول کریم ﷺ کا طرز عمل حضرت مصلح موعود نے 12 اکتوبر 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.وہ امر جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قادیان میں احراری فتنہ کی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض لوگ مضطرب سے ہوئے جاتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں کچھ گھبراہٹ اور جلد بازی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.مومن کا فرض ہے کہ ہوشیار رہے.اور اس میں رسول کریم ﷺ کی مثال ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.ایک دفعہ مدینہ کے باہر شور ہوا تو آپ معاً رسے نکلے اور کسی صحابی کا گھوڑا لے کر جو ایسی جگہ بندھا تھا جہاں آپ بآسانی پہنچ سکتے تھے اکیلے ہی اس شور کی وجہ معلوم کرنے کے لئے چلے گئے.اُن دنوں خبر مشہور تھی کہ وہ عیسائی قبائل جو قیصر کے ماتحت تھے مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ شور سن کر ا کٹھے ہوئے ، بعض مسجد نبوی میں جمع ہو گئے اور بعض نے ادھر ادھر باتیں کرنا شروع کر دیں اور سب اس انتظار میں تھے کہ رسول کریم ﷺ جس طرح ارشاد فرمائیں کیا جائے.اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سوار باہر سے آ رہا ہے اور صلى الله پاس آنے پر معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ ہیں.آپ نے فرمایا میں شور سن کر دیکھنے گیا تھا کہ کیا بات ہے مگر کوئی بات نہیں ہے 1.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ ہوشیاری اور احتیاط میں دوسروں سے کس قدر بڑھے ہوئے تھے حالانکہ آپ سے زیادہ بہادر اور کوئی نہیں ہو سکتا.جسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوا سے اور کس کا خوف ہوسکتا ہے.اس کے لئے تمام ڈرمٹ جاتے ہیں.بیشک حذر اس کے اعلیٰ اخلاق میں سے ایک
سيرة النبي عمال 149 جلد 4 خلق ہوتا ہے مگر ڈر بالکل نہیں ہوتا.رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر پہلے اس گھوڑے کی تعریف کی اور فرمایا یہ تو سمندر ہے.پھر ان لوگوں کی تعریف کی جو مسجد میں جمع ہو گئے تھے اور فرمایا کہ ایسے مواقع پر جمع ہو جانا بہتر ہوتا ہے.اور جمع ہونے کے لئے مسجد سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہوسکتی.“ الفضل 21 اکتوبر 1934ء) 1: بخارى كتاب الجهاد والسير باب السرعة والركض في الفزع صفحہ 491 حدیث نمبر 2969 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 150 جلد 4 رسول کریم علیہ پر اعتراض کا بھیانک نتیجہ حضرت مصلح موعود نے 16 نومبر 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا:.” جب رسول کریم ﷺ نے ہوازن پر فتح پائی تو مال غنیمت میں ان کے بہت صلى الله سے گلے اور ریوڑ بھی آئے.مکہ کے نومسلموں کے متعلق رسول کریم ع چاہتے تھے کہ ان کے دلوں کو محبت اور پیار سے اسلام کی طرف مائل رکھیں.دوسرے اس لئے کہ مکہ والے سمجھتے تھے کہ شاید مسلمان ہماری پرانی مخالفت کی وجہ سے دل میں ہم سے بغض رکھتے ہیں رسول کریم ﷺ نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم پرانی مخالفتوں کو یاد نہیں رکھتے بلکہ بھلا دیا کرتے ہیں ریوڑوں کے ریوڑ ان میں تقسیم کر دیئے.اس پر انصار میں سے ایک نوجوان جو اس حکمت کو نہیں سمجھتا تھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا تلواروں سے تو ہماری خون ٹپکتا ہے مگر جب ہم نے جانیں قربان کر کے فتح حاصل کی تو مال مکہ والے لے گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہوازن کے معرکہ میں سب سے زیادہ قربانی انصار نے ہی کی تھی.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ جنگ حنین میں کفار کے مقابلہ میں ان نو مسلموں کی وجہ سے جو صحابہؓ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گئے تھے اور کچھ ان کفار کی وجہ سے جو مسلمانوں کی طرف سے ہو کر لڑے ان میں بھا گڑ پڑ گئی اور وہ میدان جنگ سے بھاگ نکلے یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس رہ گئے.اُس وقت ہوازن کے چار ہزار تجربہ کار تیرانداز مسلمانوں پر تیروں کی بارش برسا رہے تھے اور مسلمانوں کے گھوڑے اور ان کے اونٹ بے تحاشا بھاگے جار ہے تھے.رسول کریم ﷺ نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس سے جن کی.
سيرة النبي عليه 151 جلد 4 آواز بہت بلند تھی کہا عباس! زور سے آواز دو کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.آپ نے اس موقع پر مہاجرین کو نہیں پکا را بلکہ انصار کو پکارا.انصار خود کہتے ہیں جب ان کے کانوں میں یہ آواز پہنچی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوا کہ صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے اور قیامت کا دن آ گیا ہے.جو شخص اپنی سواری کو موڑ سکا وہ اپنی سواری کو دوڑاتے ہوئے اور جس کی سواری نہ مرسکی اس نے تلوار سے اس کی گردن اڑاتے ہوئے تیزی سے رسول کریم ﷺ کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چند منٹ میں ہی میدان صحابہ سے بھر گیا اور مسلمانوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوگئی 1.یہ فتح جو ہوازن کے مقابلہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی خصوصیت سے انصار کی فتح تھی مگر جب ایک بیوقوف نوجوان نے یہ الفاظ کہے کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر ریوڑ مکہ والے لے گئے تو رسول کریم ﷺ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار ! مجھے تمہاری طرف سے یہ بات پہنچی ہے.انصار رو پڑے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں یہ ایک نادان نوجوان کے منہ کے الفاظ ہیں.رسول کریم ﷺ نے ان کی اس بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور فرمایا تم کہہ سکتے تھے کہ محمد (ﷺ ) اکیلا تھا، اس کی قوم نے اسے رد کر دیا، اس کے وطن والوں نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا، اس کی تکذیب کی ، اس کی تکفیر کی اور اس کے قتل کا ارادہ کیا مگر ہم گئے اور اسے اپنے وطن میں لائے ، اپنی عزتیں اس پر قربان کیں ، اپنی جانیں اس پر فدا کیں اور جب لڑائی ہوئی تو اس کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی ، آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی یہاں تک کہ اس کے بھائیوں سے لڑ کر وہ شہر جس میں سے اسے نکالا گیا تھا فتح کیا اور اس کے لئے جانی اور مالی ہر رنگ کی قربانی کی مگر جب مال دینے کا وقت آیا تو اس نے اپنے رشتہ داروں اور وطن والوں کو تو مال دے دیا مگر ہمیں یاد نہ رکھا.انصار ایسی مخلص جماعت بھلا اس کو کب برداشت کر سکتی تھی.ان کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور انہوں نے کہا
سيرة النبي متر 152 جلد 4 الله يَا رَسُولَ الله ! ہم تو کہہ چکے یہ ایک نادان نوجوان کا فعل ہے ہم اس سے بیزار ہیں.رسول کریم ﷺ نے پھر ان کی بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور فرمایا اے الله انصار ! تم ایک اور بات بھی کہہ سکتے تھے اور وہ یہ کہ خدا نے محمد (ﷺ) کو مکہ میں پیدا کیا مگر مدینہ والوں کی قربانیاں خدا تعالیٰ کو کچھ ایسی پسند آئیں کہ وہ اپنے خاتم النبین کو مکہ سے اٹھا کر مدینہ میں لے آیا.پھر مدینہ والوں کی قربانیوں کو خدا تعالیٰ نے نوازا اور انہیں تو فیق دی کہ وہ اس کے وعدوں کے پورا کرنے والوں میں شامل ہوئے اور جب خدا تعالیٰ نے خاص اپنی طاقتوں اور بے انتہا قدرتوں کے نتیجہ میں ملک عرب کو اس کے رسول کے تابع کر دیا اور مکہ جس میں سے اسے نکالا گیا تھا فتح ہو گیا تو مکہ والے تو اونٹ اور بھیڑیں ہانک کر لے گئے مگر مدینہ کے لوگ خدا کے رسول کو اپنے گھر لے آئے.انصار نے پھر روتے ہوئے کہا یا رسول اللہ ! جو کچھ ہوا وہ ہمارے ایک بیوقوف نوجوان کا قول تھا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.آپ نے فرمایا جو کچھ ہونا تھا ہو چکا.اس ایک نادان کے قول کی وجہ سے اب تم دنیا کی بادشاہت سے ہمیشہ کے لئے محروم رہو گے تم نے جو کچھ لینا ہے وہ مجھ سے حوض کوثر پر آکر لینا 2.تیرہ سو برس گزر گئے اس واقعہ کے بعد عرب حاکم ہوئے ، مصری حاکم ہوئے ، سپینش نسل کے لوگ حاکم ہوئے ، مورش حاکم ہوئے ، پٹھان حاکم ہوئے ، مغل حاکم ہوئے مگر رسول کریم ے کے گرد جانیں قربان کرنے والے انصار کسی چھوٹی سی ریاست کے مالک بھی نہ ( الفضل 22 نومبر 1934 ء ) بن سکے.“ 1 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 1240 مطبوعہ دمشق 2005 ء صلى الله 2:بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى الله يعطى المؤلفة قلوبهم صفحه 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 153 جلد 4 صحابہ رسول کی فدائیت اور قربانیاں حضرت مصلح موعود نے 23 نومبر 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.”جب رسول کریم علی اللہ محفوظ ہو گئے اور کفار بھاگ گئے تو مسلمانوں نے لاشوں کا معائنہ کیا کہ دیکھیں کون کون شہید ہوا ہے.ایک انصاری اپنے کسی رشتہ دار کی تلاش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک صحابی 1 زخمی پڑے ہیں اور ان کی ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں وہ اس کے پاس پہنچے اور کہا بھائی ! تمہاری حالت خطر ناک ہے اپنے متعلقین کو کوئی پیغام دینا ہو تو دے دو.انہوں نے کہا ہاں میں منتظر ہی تھا کہ کوئی اس طرف آئے تو میں اسے پیغام دوں.میرا رشتہ داروں کو یہ پیغام ہے کہ اے عزیزو! ہم نے جب تک زندہ تھے رسول کریم ﷺ کی جو ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک امانت ہیں اپنی جانوں سے حفاظت کی.اب ہم جاتے ہیں اور یہ امانت تمہارے سپرد ہے تمہارا فرض ہے کہ اپنے مال و جان سے اس کی حفاظت کرو.اس کے سوا نہ کسی کو سلام دیا نہ کوئی پیغام بلکہ یہی کہا کہ میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ جس رستہ سے میں آیا ہوں اسی سے تم بھی آؤ.تو یہ قربانیاں ہیں جو صحابہ کرام نے کیں.مگر ان کے باوجود الله رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اے دوستو ! ان قربانیوں کو کچھ نہ سمجھو تم سے پہلے کچھ لوگ گزرے ہیں جن کو آروں سے چیرا گیا اور جن کو آگ میں جلایا گیا محض اس وجہ سے کہ وہ خدا پر کیوں ایمان لائے 2 تمہاری قربانیاں ان کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.اصل بات یہ ہے کہ قربانی کرنا مشکل نہیں ایمان لانا مشکل ہے.“ ( الفضل 25 نومبر 1934ء ) 66
سيرة النبي علي 154 جلد 4 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 875 مطبوعہ دمشق 2005 ء 2: بخارى كتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام صفحہ 606 حدیث نمبر 3612 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 155 جلد 4 ایک صحابی کے عشق رسول کی مثال حضرت مصلح موعود نے 7 دسمبر 1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.صلى الله رسول کریم علیہ کے ایک صحابی ایک جنگ میں قید ہو کر مکہ میں پہنچے.کفار انہیں طرح طرح کے دکھ دیتے تھے اور مار دینے کا فیصلہ کر چکے تھے ایسی حالت میں ان سے کسی نے کہا کہ کیا تمہارے نزدیک اچھا نہ ہوتا کہ تم مدینہ میں آرام سے اپنے گھر میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری جگہ یہاں محمد (ﷺ) ہوتے.اگر ان صحابی کے دل میں اخلاص نہ ہوتا تو وہ کہتے کہ میرے ایسے نصیب کہاں مگر انہوں نے جواب دیا کہ تم تو یہ کہتے ہو مگر میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ میں گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں مدینہ ہی کی کسی گلی میں کا نا چھ جائے 1.“ الله 66 ( الفضل 13 دسمبر 1934 ء) 1 اسد الغابة الجزء الثانى فى حالات زيد بن دثنة صفحه 195 مطبوعہ بیروت لبنان 2006ء
سيرة النبي علي 156 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی عبادت کی برکات کی رسول حضرت مصلح موعود نے 14 دسمبر 1934 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا:.ہم اس وقت رمضان کے مہینے میں داخل ہو رہے ہیں.یہ پہلا جمعہ ہے جو اس مہینہ میں آیا ہے اور ان دنوں کی یاد دلاتا ہے، وہ مبارک دن ، وہ دنیا کی سعادت کی ابتدا کے دن ، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناؤنی شکل اس کے بدصورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد مصطفی علیہ غار حرا میں جا کر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کریں گے جسے ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے.انہی تنہائی کی گھڑیوں میں ، انہی جدائی کے اوقات میں اور انہی غور و فکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آ گیا.اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو وہ جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اسے اس کے پیدا کرنے والے، اس کی تربیت کرنے والے، اس کو تعلیم دینے والے اور اس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر دنیا کو ہدایت کا رستہ دکھاؤ اور بتایا کہ تم مجھے تنہائی میں اور غار حرا میں ڈھونڈتے ہو مگر میں تمہیں مکہ والوں کی گالیوں اور ان کے شور وشغب میں ملوں گا.جاؤ اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دو کہ میں نے تم کو ادنیٰ حالت میں پیدا کر کے اور پھر ترقی دے کر اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ تم کھاؤ پیو اور مر جاؤ اور کوئی سوال تم سے نہ کیا جائے.
سيرة النبي عمال 157 جلد 4 وہ لوگ جو اپنی زندگی کا مقصد ہی عیش و طرب سمجھتے تھے، جن کے نزدیک د نیاطلبی ہی خدا طلبی کا نام تھا، جو ہر ایک عیش و آرام کو اپنا حق سمجھتے تھے ان کو جا کر یہ کہنا کہ اپنے اوقات نمازیں پڑھنے اور دعائیں کرنے میں صرف کرو.اپنے اموال بجائے شراب میں اڑانے اور جوئے میں ہارنے کے خدا کے رستے میں اور غریبوں کی پرورش میں خرچ کرو بظاہر وہی بات تھی جیسے بھینس کے سامنے بین بجانا.کون امید کر سکتا تھا کہ اس آواز کے مقابلہ میں ان کے قلوب سے بھی ایک آواز اٹھے گی ، اس سریلی تان کے مقابلہ میں ان کے قلوب کوئی شعور محسوس کریں گے خود محمد رسول اللہ علیہ بھی حیران رہ گئے.جب آپ کو یہ حکم دیا گیا تو آپ نے جبرائیل کو حیرت سے دیکھ کر کہا کہ ما انَا بِقَارِ 1 کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا.یعنی اس قسم کا پیغام مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے.کیا یہ الفاظ میرے منہ سے مکہ والوں کے سامنے زیب دیں گے، کیا میری قوم ان کو قبول کرے گی اور سنے گی مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متواتر حکم دیا گیا کہ جاؤ اور پڑھو، جاؤ اور پڑھو، جاؤ اور پڑھو.تب آپ نے اس آواز پر اور اس ارشاد کی تعمیل میں تنہائی کو چھوڑا اور جلوت اختیار کی مگر وہ کیسی مجلس تھی ؟ وہ ایسی مجلس نہ تھی کہ جس میں ایک دوست بیٹھ کر دوسرے دوست کے سامنے اپنے شکوے بیان کرتا ہے.وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں دوست اپنے دوست کے خوش کرنے والے حالات سنتا اور لطف اٹھاتا ہے.وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں انسان اپنی ذہنی کوفت اور تکان کو دور کرتا ہے.وہ قصوں کہانیوں والی مجلس نہ تھی ، شعر و شاعری کی مجلس نہ تھی ، وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں مباحثات اور مناظرات ہوتے ہیں بلکہ وہ مجلس ایسی تھی جس میں ایک طرف متواتر اور پیہم اخلاص کا اظہار ہوتا تھا تو دوسری طرف متواتر اور پیہم گالیاں، دشنام، ڈراوے اور دھمکیاں ہوتی تھیں.وہ ایسی مجلس تھی جس میں ایک دفعہ جانے کے بعد دوسرے دن جانے کی خواہش باقی نہیں رہتی.وہ ایسی گالیاں، ایسے ڈراوے اور ایسی دھمکیاں ہوتی تھیں کہ ایک طرف ان کے دینے والے سمجھتے تھے کہ اگر اس شخص میں
سيرة النبي عليه 158 جلد 4 کوئی حس باقی ہے تو کل اس کے منہ سے ایسی بات ہرگز نہ نکلے گی.وہ خوش ہوتے تھے کہ آج ہم نے محمد (ﷺ) کی زبان بند کر دی اور دوسری طرف جب خدا کا سورج چڑھتا تھا تو خدا کا یہ عاشق خدا کا پیغام مکہ والوں کو پہنچانے کے لئے نکل کھڑا ہوتا.پھر تمام دن وہی گالیاں، وہی دھمکیاں اور وہی ڈراوے ہوتے تھے اور اسی میں شام ہو جاتی.مگر جب رات کا پردہ حائل ہوتا تو وہ سمجھتے کہ شاید آج یہ خاموش ہو گیا ہوگا مگر وہ جس کے کانوں میں خدا کی آواز گونج رہی تھی وہ مکہ والوں سے کیسے خاموش ہو جاتا.اگر تو اس کی رات سوتے گزرتی تو وہ بیشک اس پیغام کو بھول جاتا مگر جب اس کے سونے کی حالت جاگنے کی ہی ہوتی تو وہ کیسے بھول سکتا تھا.وہ سبق جو دہرایا نہ جائے بیشک بھول سکتا ہے مگر جب آپ کی یہ حالت تھی کہ جو نہی سر ہانے پر سر رکھا وہی اقْرَأْ کی آواز آنی شروع ہو جاتی تو آپ کس طرح اس پیغام کو بھول جاتے“.اس موقع پر بارش کے چھینٹے پڑنے شروع ہو گئے.اور لوگوں میں کچھ حرکت پیدا ہوئی.اس پر حضور نے فرمایا:.صلى الله گھبراؤ نہیں یہ بارش تمہاری مہینوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب تازہ بارش ہوتی تو رسول کریم ﷺ باہر نکل کر منہ کھول دیتے اور جب چھینٹا منہ میں گرتا تو فرماتے کہ یہ میرے رب کا تازہ انعام ہے پس محمد مصطفی مے کو رمضان میں ہی یہ آواز آئی اور رمضان میں ہی آپ نے غار حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سنانی شروع کی.“ (الفضل 20 دسمبر 1934 ء) 1 بخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله ص حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 159 جلد 4 وو پہلی وحی اور حضرت خدیجہ کی تسلی حضرت مصلح موعود نے 21 دسمبر 1934ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا:.رسول کریم ﷺ پر غار حرا میں جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیز اپنی ذمہ داریوں کے احساس کی وجہ سے اور ان کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے آپ اپنی وفادار بیوی حضرت خدیجہ کے پاس مشورہ کرنے گئے.اُس وقت حضرت خدیجہ نے آپ سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے تو ضرور اس کے بجالانے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو الہام ہوتے ہیں وہ یا تو انعامی ہوتے ہیں یا امتحانی کبھی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس کا امتحان لینے کے لئے الہام نازل کرتا ہے تا اس کے اندر جوشر ہو وہ ظاہر ہو جائے اور کبھی الہام اس لئے نازل کرتا ہے کہ اپنے بندے کو اونچا کرے.حضرت خدیجہ نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا.كَلَّا وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَداً 1 یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ہرگز رسوا نہیں کرے گا.اگر آپ کا یہ خیال ہو کہ یہ الہام امتحانی ہے تو میں اسے مان نہیں سکتی.میں چونکہ آپ کی ذات سے پوری طرح آگاہ ہوں اس لئے میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا.اور ایسا نہ ہونے کی بنا آپ نے جن اخلاق پر بتائی ان میں سے ایک یہ ہے کہ تكْسِبُ الْمَعْدُومَ 2 یعنی دنیا سے جو نیکیاں معدوم ہو چکی ہیں وہ آپ سے ظاہر ہو رہی ہیں.“ ( الفضل 27 دسمبر 1934 ء ) 21:بخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله ع صفحہ 1 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 160 جلد 4 رسول کریم علیہ کی عظمت کے قیام کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی 27 دسمبر 1934ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.پھر کہا جاتا ہے کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.ادھر اخباروں میں شائع کرتے ہیں کہ جو رسول کریم ﷺ کی جنگ کرے اُس کا قتل کرنا جائز ہے.مطلب یہ کہ احمدیوں کو قتل کرنا جائز ہے اور عوام کو چاہئے کہ احمدیوں کو قتل کریں حالانکہ رسول کریم ﷺ کی ہتک ہم نہیں کرتے بلکہ وہ خود کرتے ہیں.وہ کسی منصف کو بٹھا کر فیصلہ کرا لیں کہ رسول کریم ﷺ کی ہتک وہ کرتے ہیں یا ہم ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو کہتے ہیں: بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم 1 صلى الله یعنی خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم علیہ کے عشق سے میں مخمور ہوں اس کا نام اگر کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.یہ ہمارا عقیدہ ہے مگر کہا یہ جاتا ہے کہ ہم رسول کریم ع کی ہتک کرتے ہیں.پھر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز تھے اور آپ کے حلیہ میں آئے.آپ کا ادب آپ کے دل میں اس قدر تھا کہ آپ کی آل و اولاد کے متعلق
سيرة النبي عمال 161 جلد 4 کہتے ہیں کہ ان کے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی شاگردی کے تعلق سے آپ کی اولاد کا اس درجہ پاس کرتے تھے.غرض رسول کریم ﷺ کی جو عزت ہمارے دل میں ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم تسلیم ہی نہیں کر سکتے کہ کسی اور کے دل میں اس سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کی عزت ہو سکتی ہے.پھر دیکھو رسول کریم ﷺ کی عزت بچانے اور آپ کی تو قیر قائم کرنے کے لئے آگے ہم آتے ہیں یا وہ؟ جب رسول کریم ﷺ کو دوسرے مذاہب کے بد زبان لوگ گالیاں دیتے ہیں تو کون ان گالیوں کو رد کرنے کے لئے اٹھتا ہے اور اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی خوبیاں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.پھر انگلستان، افریقہ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں ہم جاتے ہیں تا کہ وہاں کے لوگوں کو رسول کریم ﷺ کی غلامی میں داخل کریں یا وہ.عجیب بات ہے کہ رسول کریم ہے سے محبت تو اُن کو ہو لیکن آپ کی شان میں بدزبانی کرنے والوں کی حرکات سے ہمارے دلوں میں پیدا ہو.صلى الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نمونہ سے بتا دیا ہے کہ آپ رسول کریم ے کے متعلق کتنی غیرت رکھتے تھے.آپ ایک دفعہ لا ہور تشریف لے گئے.لیکھرام جو مشہور آریہ تھا آپ سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے آ کر سلام کہا.آپ نے کوئی جواب نہ دیا.پھر اُس نے سلام کیا ، پھر بھی آپ نے جواب نہ دیا.تیسری دفعہ اُس نے سلام کیا پھر بھی آپ نے توجہ نہ کی.اس پر کسی نے آپ سے کہا پنڈت لیکھرام سلام کہتے ہیں.اس پر آپ نے نہایت غصہ سے کہا اسے شرم نہیں آتی میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے.ہم پر رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے کا الزام لگانے والوں میں سے کتنے ہیں جو ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں.ان میں سے کئی ایسے ہیں جو رسول کریم عملے کے شدید مخالفوں کی دعوتیں کھا لیتے اور انہیں اپنے گھروں میں عزت سے بٹھاتے ہیں اور
سيرة النبي عمر 162 جلد 4 اس وقت بھی وہ ہماری دشمنی کی وجہ سے ان کی خوشامد میں کر رہے ہیں.غرض ہم اپنی جانیں دے کر اور اپنے مال قربان کر کے رسول کریم عملے کی عزت بچا رہے ہیں.مگر انہوں نے کیا کیا ہے؟ یہی نا کہ کچھ ہندو مار ڈالے اور اس طرح اسلام کو بدنام کر دیا.یہ اسلام کو دنیا کی نظروں میں بدنام کرنے والے اور رسول کریم ﷺ سے دنیا کو تنفر کرنے والے آپ کے خیر خواہ لیکن لاکھوں روپیہ اسلام کی اشاعت کے لئے خرچ کرنے والی اور ہزاروں آدمیوں کے ذریعہ رسول کریم ے کی خوبیاں دنیا میں پیش کرنے والی جماعت آپ کی دشمن ہو گئی.ہم نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ، افریقہ اور امریکہ میں رسول کریم علیہ کو گالیاں دینے والوں کو مسلمان بنا رہے ہیں.کچھ عرصہ ہوا ایک نو مسلم نے مجھے لکھا کہ میں پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب آپ کے مبلغ.غ کے ذریعہ مجھ پر یہ اثر ہوا ہے کہ میں اُس وقت تک نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیج لوں.کیا یہی وہ ہتک ہے جو ہم رسول کریم ﷺ کی کر رہے ہیں؟ عاوسم پھر ہم پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کی ہتک کرتے ہیں مگر اس الزام کے لگانے والوں کو یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ کوئی مولود نہیں خواہ مرد ہو خواہ عورت جسے شیطان نے نہ چھوا ہو سوائے حضرت عیسی اور ان کی ماں کے.کیا ان کے اس حدیث کو پیش کرنے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی والدہ اور والد اور خود رسول کریم پر اس طرح حملہ کرتے ہیں؟ اسی طرح وہ حضرت ابراہیم ، حضرت یعقوب ، حضرت اسحاق اور دوسرے انبیاء کو بھی انہی میں شامل کر رہے ہیں جن کو شیطان نے چُھوا.یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر یہ کہتے ہوئے تو ذرا نہیں شرماتے کہ رسول کریم ہے کے باپ دادے اور آپ کی دادیاں نانیاں سب کو شیطان نے چھوا.مگر جب مسیحی لوگ ان کی ان باتوں سے فائدہ اٹھا کر حضرت مسیح کی نبی کریم ﷺ پر فضیلت ثابت صلى الله صلى الله
سيرة النبي علي 163 جلد 4 کرتے ہیں ( ہم اس کے خلاف کہتے اور ان باتوں کا انکار کرتے ہیں ) تو ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کو برا بھلا کہتے ہیں.یہ ہے ان کی غیرت کا حال.پھر وہ امہات المؤمنین کو گالیاں دیتے ہیں اور آیت اِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا 1 کے یہ معنی کرتے ہیں کہ رسول کریم کی بیویوں سے کہا گیا ہے تمہیں تو بہ کرنی چاہئے ، تمہارے دل گندے ہو چکے ہیں.ان کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں کے دل گندے ہو گئے تھے 2 لیکن ہم لوگ ان معنوں کے منکر ہیں.ہمارے نزدیک اُمہات المؤمنین پاکباز ، پاک شعار اور تقویٰ کی اعلیٰ راہوں پر چلنے والی ہماری مقدس مائیں تھیں اور اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ اے ہمارے پیغمبر کی بیویو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو تو یہ فعل تمہارے مقام کے عین شایانِ شان ہے کیونکہ تمہارے دل تو پہلے سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف جھک رہے ہیں.مگر باوجود اس کے یہ لوگ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ع کی ہتک کرتے ہیں.“ 1: التحريم: 5 الفضل 20 جنوری 1935ء) 2: جامع البيان تالیف ابی جعفر محمد بن جرير الطبرى الجزء الثامن والعشرون صفحہ 161 مطبع مصطفى البابي الحلبى مصر 1954ء
سيرة النبي علي 164 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی سیرت کا ایک اہم واقعہ دو حضرت مصلح موعود 19 جولائی 1935 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.شریعت خود حفاظتی کی اجازت دیتی ہے یہ نہیں کہتی کہ اگر کوئی حملہ کرے تو اُس وقت اپنے آپ کو اس کے حملہ سے نہ بچایا جائے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کا ایک اپنا واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے.ایک دفعہ آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے ، آپ کی ایک بیوی نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! ابھی ایک شخص کو میں نے دیکھا وہ سوراخ میں سے ہمارے گھر میں جھانک رہا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے پہلے کیوں نہ بتایا میں نیزے سے اس کی آنکھ پھوڑ دیتا 1.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود حفاظتی جائز ہے مگر یہ خود حفاظتی اس وقت جائز ہوتی ہے جب کوئی شخص حملہ کر رہا ہو.اگر چلا گیا ہو تو پھر اس کے پیچھے بھاگ کر اس پر حملہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اگر بعد میں بھی حملہ جائز ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ نہ فرماتے کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتا یا ورنہ میں اس کی آنکھ پھوڑ دیتا.آپ بعد میں بھی اس کی آنکھ پھوڑ سکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہ کیا.“ الفضل 25 جولائی 1935 ء ) :1 مسلم كتاب الآداب باب تحريم النظر في بيت غيره صفحه 960 حدیث نمبر 5638 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 165 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی تکالیف اور نصرت الہی حضرت مصلح موعود رسول کریم ﷺ کی تکالیف کا تذکرہ کرتے ہوئے 19 جولائی 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.وو پھر ایک ایسی قوم کے متعلق جسے رسول کریم ﷺ کی تعلیم پہنچی ہو، جو اپنے آپ کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرتی ہو اور جس کے کانوں میں خدا کی آواز پڑتی ہو کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ نیک اور شریف لوگوں سے خالی ہے.بعض اوقات ظلم اپنی کثرت کی وجہ سے خود بخود توجہ کو کھینچنے کا موجب ہو جاتا ہے.لوگ ایک وقت تک ظلم کو دیکھتے ہیں بلکہ اس میں شریک بھی ہو جاتے ہیں اور بعض شریک تو نہیں ہوتے مگر بے پرواہ ہو کر ایک طرف بیٹھے رہتے ہیں.مگر ظلم جب حد کو پہنچ جائے تو ان کی فطرت جوش میں آ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس سے زیادہ ظلم برداشت نہیں کیا جا سکتا اور وہ لوگ ظالموں سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تمہیں شریف اور جائز کارروائیاں کرنے والا سمجھا تھا مگر اب معلوم ہوا کہ تم برے لوگ ہو.غالب نے کہا ہے کہ :.سے درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا جب درد حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ بھی ایک علاج ہو جاتا ہے.کئی بیمار اس طرح تباہ ہو جاتے ہیں کہ ان کو بیماری کی ابتدا میں تکلیف زیادہ نہیں ہوتی اس لئے وہ علاج کی طرف توجہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض لا علاج صورت اختیار کر لیتا ہے.پھر کئی بیمار اس طرح اچھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں ابتدا میں ہی زیادہ تکلیف ہونے
سيرة النبي مله 166 جلد 4 صلى الله صلى الله لگتی ہے اور وہ فوراً کسی لائق طبیب سے مشورہ لے لیتے ہیں.پھر بسا اوقات مرض کا بڑھنا انسان کے اندر شفا کا مادہ پیدا کر دیتا ہے اسی طرح ظلم بھی جب حد سے گزرتا ہے تو وہ علاج کا موجب ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کو مکہ والے ایک وقت تک دکھ دیتے رہے اور دوسرے لوگ دیکھتے ہوئے خاموش رہے.ان میں بھی ایسے شرفاء موجود تھے جو مکہ والوں کے رویہ کو نا پسند کرتے تھے مگر سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے خود ہی ایک نیا مذہب نکالا ہے اور پھوٹ ڈال دی ہے جس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ہم کیا کریں اس طرح وہ اپنے دلوں کو تسلی دے لیتے.یہاں تک کہ ظلم بڑھتے بڑھتے ایک وقت ایسا آیا کہ پورے طور پر رسول کریم ﷺ ، آپ کے رشتہ داروں اور صحابہ کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور آپ ان کو ساتھ لے کر ایک وادی میں چلے گئے.وہاں ان کی نظر بندوں کی سی حالت تھی اور یہ کوئی ایک دن، دو دن ، ہفتہ دو ہفتہ، مہینہ دو مہینہ کی بات نہ تھی بلکہ سالہا سال تک یہ حالت چلی گئی.کفار نے فیصلہ کیا کہ کوئی شخص ان کے ہاتھ نہ کوئی چیز فروخت کرے اور نہ ان سے خریدے.نہ خرید نے تک تو برداشت کیا جاسکتا تھا مگر فروخت نہ کرنے کا نتیجہ یہ تھا کہ انہیں کھانے کے لئے بھی کچھ نہ مل سکتا.مکہ میں زمینداری تو ہوتی نہیں قافلہ والوں کو ممانعت تھی کہ مسلمانوں کے پاس کوئی چیز فروخت نہ کریں اس طرح انہیں نہ آٹا مل سکتا اور نہ کوئی اور چیز گویا ان کے لئے زندگی کے سب سامان بند کر دیئے گئے.اس طرح مسلمانوں پر یہ مصائب بڑھتے گئے حتی کہ ایک صحابی کہتے ہیں آخر وہ دن آ گئے کہ چونکہ کھانے پینے کو کچھ نہ ملتا تھا ہمیں آٹھ آٹھ دس دس روز پاخانہ نہ آتا تھا اور چونکہ پتے وغیرہ کھا کر گزارہ کرتے تھے اس لئے جب آتا تو مینگنیاں سی ہوتی تھیں 1.انہی تکالیف کے صدمہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں اور دوسرے صحابہ کو بھی اس قسم کے بہت سے صدمات برداشت کرنے پڑے لیکن آخر یہ ظلم ہی ظالم کی طاقت کو توڑنے کا موجب بن گیا کیونکہ جب بات یہاں تک پہنچی تو وہ طبائع جو مختلف باتوں سے اپنے دلوں کو تسلی
سيرة النبي علي 167 جلد 4 دے لیتی تھیں ان کو یہ احساس ہوا کہ اب بات حد سے بڑھتی جا رہی ہے.ایک ان میں سے اٹھا اور اپنے ایک گہرے دوست کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میں تم پر اعتبار کر کے ایک خاص مشورہ کے لئے آیا ہوں.تم کو معلوم ہے کہ مکہ والوں نے ایک معاہدہ کر کے اسے کعبہ میں لٹکا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ کوئی چیز فروخت کی جائے اور نہ ان سے خریدی جائے.اس نے کہا ہاں.پھر اس نے کہا غور کرو آخر ان کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس قدر ایذائیں دی جاتی ہیں.جب ہم لوگ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور بیوی بچوں میں دن گزار رہے ہیں تو ان کو بھوکے پیاسے مارنا بہت بڑا ظلم ہے جسے میں تو برداشت نہیں کر سکتا.اس نے آدمی بھی ایسا ہی چنا تھا جس کی طبیعت سے وہ واقف تھا.اُس نے جواب میں کہا کہ میں بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا.پھر اس نے پوچھا کوئی اور ایسے لوگ بتاؤ جو ہمارے ہم خیال ہوں.اس نے بعض نام بتائے چنانچہ وہ ان کے پاس گئے انہوں نے بھی اتفاق کیا اور ان سب نے تلوار میں نکال لیں اور کہا کہ خواہ جان چلی جائے ہم اس معاہدے کو توڑتے ہیں اور جب انہوں نے دلیری سے کعبہ میں جا کر اس معاہدے کو پھاڑ دیا 2.تو سینکڑوں ہزاروں شریف الطبع لوگ جو ظالموں کے رعب میں تھے سامنے آ گئے اور ان کے ہم صلى الله خیال ہو گئے اور اس طرح رسول کریم ﷺ ، آپ کے رشتہ دار اور سب صحابہ اس وادی ( الفضل 31 جولائی 1935ء) 66 سے باہر آگئے.“ 1: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب سعد بن ابی وقاص صفحہ 628 حدیث نمبر 3728 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول حديث نقض الصحيفة صفحه 428،427 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 168 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی شجاعت اور آپ کی حفاظت حضرت مصلح موعود 9 اگست 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.ہمیشہ یاد رکھو کہ کچھ لیڈر ہوتے ہیں اور باقی متبع.اور زندہ قومیں جانتی ہیں کہ لیڈروں کی قیمت کیا ہوتی ہے.جب کسی قوم کے متعلق یہ معلوم کرنا چا ہو کہ وہ زندہ ہے یا مردہ تو یہ دیکھ لو کہ وہ اپنے لیڈروں کی عزت کرتی ہے یا نہیں.جو شخص اپنے سر کو نہیں بچاتا وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اگر سر سلامت ہو تو ٹانگیں خواہ ٹوٹی ہوئی ہوں پیٹ میں گولی لگی ہوئی ہو پھر بھی انسان کچھ کام کر سکتا ہے مگر جب سر نہ ہو تو باقی سب کچھ سلامت ہونے کے باوجود انسان کچھ نہیں کر سکتا.جاہل لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے لیڈروں کو پہلے قربان کریں وہ اس کا نام نیک نمونہ رکھتے ہیں مگر یہ بے وقوفی کی علامت ہے.اگر کوئی بزدل ہے تو وہ لیڈری کا مستحق ہی نہیں لیکن جب کسی کو لیڈر بنا لیا جائے تو پھر اسے پہلے قربان کرنے کی کوشش کرنا حماقت ہے.پس تمہاری پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ ایسے لوگوں کو لیڈر بناؤ جو مخلص ، قربانی کرنے والے اور فرض کی خاطر جان دینے سے ڈرنے والے نہ ہوں، لیڈری کے لئے ایسے ہی لوگ تلاش کرو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أَهْلِهَا 1.جو اہل ہوں اُن کو لیڈر بناؤ اور جب بنا لو تو پھر اس بات کو کبھی فراموش نہ کرو کہ لیڈر بمنزلہ دماغ کے ہے اور دوسرے لوگ ہاتھ پاؤں ہیں اس لئے اُس کی صلى الله بہادری کا امتحان نہ کرو.رسول کریم ماہ سے زیادہ بہادر کون ہوسکتا تھا.جنگ حنین کے موقع پر غفلت کی وجہ سے جب اسلامی لشکر پراگندہ ہو گیا اور صرف بارہ آدمی آپ
سيرة النبي عمال 169 جلد 4 کے ساتھ رہ گئے اُس وقت چار ہزار تجربہ کار تیر انداز جھاڑیوں میں بیٹھے تیروں کی بارش برسا رہے تھے ، سپاہی سب بھاگ چکے تھے اور یہی وقت لیڈر کی بہادری ظاہر ہونے کا تھا.صحابہ نے آپ سے عرض کیا کہ يَارَسُولَ اللَّهِ! یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں جب تک لشکر دوبارہ جمع نہ ہو آپ بھی واپس چلیں حتی کہ ایک مخلص نے آگے بڑھ کر آپ کی سواری کی باگ پکڑ لی کہ خطرہ کی حالت ہے آگے جانا درست نہیں مگر آپ نے سواری کو ایڑھ لگائی اور أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب 2 کہتے ہوئے آگے بڑھے.اس کا مطلب یہ تھا کہ میں سچا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں ، ایسے موقع پر بھاگ نہیں سکتا اور پھر تم یہ بھی خیال نہ کرنا کہ میں اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتا ہوں میں انسان ہوں اور عبد المطلب کا بیٹا ہوں.آخر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیئے کہ لشکر پھر جمع ہو گیا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن رسول کریم علی نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ آپ کسی خطرہ سے نہیں ڈرتے تھے مگر باوجود اس کے بدر کے موقع پر صحابہ نے بڑے اصرار سے آپ کے لئے پیچھے جگہ بنائی اور ایک تیز رو اونٹنی پاس باندھ دی اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! مدینہ میں بعض ہمارے بھائی ہیں جنہیں علم نہ تھا کہ ایسی خطرناک جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ لوگ ہم سے کم اخلاص رکھنے والے نہ تھے ، وہ سب یہاں آتے ، اب کفار کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں ، ان کے پاس سامان بہت ہے اور ہمارے پاس کم ممکن ہے ہم مارے جائیں اس لئے ہم نے تیز ترین اونٹنی آپ کے پاس باندھ دی اور گارد مقرر کر دی ہے جو آخری دم تک آپ کی حفاظت کرے گی.لیکن اگر گارد کے آدمی بھی مارے جائیں تو آپ اس اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ میں پہنچ جائیں وہاں ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دے گی 3.صحابہ نے اُس وقت یہ نہیں کہا کہ آپ تو خدا کے رسول ہیں ، خدا کی خاص حفاظت میں ہیں، آپ کو نمونہ دکھانا
سيرة النبي متر 170 جلد 4 66 چاہئے ، آپ پہلے میدان میں نکلیں اور بعد میں ہم نکلیں گے.“ 1: النساء: 59 (الفضل 16 اگست 1935ء) :2 مسلم كتاب الجهاد والسير باب غزوة حنين صفحه 790 حدیث نمبر 4615 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 3: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول بناء العريش لرسول الله الله صفحه 681 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 171 جلد 4 رسول کریم علیہ کی خطرناک مخالفت اور نصرت الہی وو صلى الله حضرت مصلح موعود 23 اگست 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم یہ تیرہ سال تک ایسے علاقہ میں رہے جہاں کا ہر شخص مسلمان کا قتل واجب اور ضروری سمجھتا تھا اور اسے ثواب کا فعل قرار دیتا تھا اور مسلمانوں کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ گویا قریباً ایک ہزار کے مقابل پر ایک مسلمان تھا.معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مکہ میں ہجرت کے وقت تک 82 ،83 صحابہ ہی تھے اور مکہ سے جولشکر مسلمانوں کے ساتھ لڑائیاں کرنے کے لئے نکلتے رہے ہیں اس سے کفار کی طاقت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.مہذب قوموں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے سو میں سے چھ سپاہی مل سکتے ہیں اور اگر بڑا زور دیا جائے تو دس.اور جو اقوام مہذب نہیں وہ عام حالات میں سولہ اور خاص حالات میں 20 ،22 فیصدی سپاہی دے سکتی الله ہیں.رسول کریم ﷺ کے مقابل پر جو لشکر آتے رہے ہیں ان میں مکہ کے سپاہی ہزار باره سو تک ہوتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور گردونواح کی آبادی دس بارہ ہزار ضرور تھی اور ان کے مقابل پر مسلمان ابتدا میں تو دو تین ہی اور آخر پر 83،82 تھے.رسول کریم ﷺ کی مخالفت ابتدا سے ہی تھی.جب آپ نے دعویٰ کیا اُسی وقت کفار نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آپ زندہ رکھے جانے کے قابل نہیں.جو عذاب صحابہؓ کو دیئے جاتے تھے ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتدا ہی سے دئیے جاتے تھے، جب آپ کے ساتھیوں کی تعداد 23، 24 سے زیادہ نہ تھی اُس وقت بھی بعض عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا تھا اور ایک مرد کی ایک ٹانگ ایک اونٹ الله
سيرة النبي عمال 172 جلد 4 کے ساتھ اور دوسری دوسرے سے باندھ کر اور اونٹوں کو مختلف سمتوں میں چلا کر چیر دیا گیا تھا.یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلمانوں کو قطعاً کوئی طاقت حاصل نہ تھی کہ سمجھ لیا جائے مکہ والے مسلمانوں کی طاقت سے گھبرا گئے تھے بلکہ اس وقت مسلمان ایسے کمزور تھے کہ کفار یکدم حملہ کر کے ان سب کو مار سکتے تھے مگر باوجو دسب تدابیر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سامان ایسا ضرور ہو جاتا تھا کہ وہ ایسا نہ کر سکتے اور ڈر جاتے تھے.بسا اوقات ایسا ہوا کہ وہ مجالس میں بیٹھے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو مار دیا جائے مگر ان میں سے کوئی شدید دشمن کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مار دینے کے متعلق تو مجھے اتفاق ہے مگر یہ طریق جو تجویز کیا گیا ہے میں اس کی حمایت نہیں کرتا اور بس اسی میں بات رہ گئی.غرض اللہ تعالیٰ کوئی غیر معمولی سامان ایسے کر دیتا کہ انہیں حملہ کا موقع ہی نہ مل سکا اور اگر کسی نے کیا بھی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہ خود ہی ڈر گیا اور خوفزدہ ہو کر رہ گیا.رسول کریم ﷺ ایک معاہدہ میں شریک ہوئے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ مظلوموں کی مدد کی جائے.ایک شخص نے ابو جہل سے روپیہ لینا تھا وہ کسی گاؤں کا رہنے والا تھا بار بار آتا مگر ابو جہل انکار کر دیتا اور وہ پھر واپس چلا جاتا.وہ باری باری ان سب لوگوں کے پاس گیا جو اس معاہدہ میں شریک تھے مگر کسی نے اس کی حمایت کا دم نہ بھرا بلکہ سب نے یہی کہہ دیا کہ ابو جہل اتنا بڑا رئیس ہے اسے کون کچھ کہہ سکتا ہے.آخر وہ شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا.آپ نے فرمایا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور اُس مخالفت کے زمانہ میں جب کفار نے آپ کو مارنے کے لئے قسمیں کھائی ہوئی تھیں آپ اس کے ساتھ ابوجہل کے مکان پر تشریف لے گئے.دروازہ پر پہنچ کر دستک دی ابو جہل باہر آیا اور آپ کو اپنے دروازہ پر دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا.اس نے گھبرا کر پو چھا کہ آپ کیسے آئے ہیں؟ آپ نے اس شخص کو آگے کیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس کا روپیہ دینا ہے؟ اس نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا پھر دے دو.وہ فوراً اندر گیا اور لا کر روپیہ
سيرة النبي عمال 173 جلد 4 دے دیا.بعد میں اس کے ساتھیوں نے اسے شرمندہ کیا کہ تم تو دوسروں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کا روپیہ کسی نے دینا ہو تو نہ دے مگر خود محمد ﷺ کے آنے پر فوراً لا کر ادا کر دیا.ابو جہل نے کہا میں کیا کرتا میں نے جب دروازہ کھولا تو یوں معلوم ہوا کہ دو بڑے بڑے مست اونٹ آپ کے دائیں بائیں کھڑے ہیں اور اگر میں نے ذرا بھی گستاخی کی تو مجھے کھا جائیں گے 1.اب یہ سامان خدا کی طرف سے ہی تھا ورنہ وہاں وحشی اونٹ کہاں سے آنے تھے.اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں اسے فرشتے دکھا دیئے کہ دیکھ لو یہ ہمارے سپاہی ہیں تم ذرا بولے تو یہ تمہارا ٹینٹوا2 دبا دیں گے.پس ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی.پھر آپ کو مدینہ میں لایا اور تھوڑے تھوڑے لشکروں کے ساتھ آپ کو فتوحات دیں.پھر آپ کی زندگی میں ایسے واقعات بھی بہت سے ہیں کہ بالکل غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا.جب آپ غار ثور میں تھے تو دشمن بالکل سر پر پہنچ گیا اور حضرت ابو بکر گھبرا گئے صلى الله کہ رسول کریم ﷺے اس کی نظر سے بچ نہیں سکیں گے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو م کیا کہ گھبراہٹ کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور دشمن سر پر پہنچ کر نا کام واپس لوٹ گیا 3.ایک یہودن نے آپ کو کھانے میں زہر دے دیا اور آپ نے ایک لقمہ اٹھا کر منہ میں بھی ڈال لیا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا اور آپ نے اسے پھینک دیا 4 اب یہ بالکل غیر معمولی بات ہے عام بادشاہوں کو اس کا کسی طرح علم نہیں وسکتا.یہ تو ممکن ہے کہ زہر تھوڑا کھا ئیں اور بچ جائیں لیکن یہ نہیں کہ لقمہ منہ میں ڈالتے ہی علم ہو جائے.پھر ایک دفعہ یہود نے آپ کو ایک فیصلہ کرنے کے بہانہ سے بلایا اور ایسا انتظام کر دیا کہ اوپر سے بڑا سا پھر گرا کر آپ کو بلاک کر دیا جائے لیکن اللہ تعالی نے آپ کو الہاما بتا دیا اور آپ بات کرتے کرتے اٹھ کر آگئے 5.بعض روایات میں ہے کہ کسی
سيرة النبي علي 174 جلد 4 آدمی نے آپ کو اطلاع دے دی.اگر یہ ہو تو بھی دشمن کے ذریعہ سے پتہ لگنا ایک نشانِ الہی ہے.غرض آپ نے واپس آ کر صحابہ سے فرمایا کہ اس مکان کی چھت کو جا کر دیکھو اور جب وہ گئے تو وہاں چکی کا پاٹ پڑا ہوا پایا.پھر آپ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے ایک دشمن نے قسم کھائی کہ میں ضرور راستہ میں آپ کو مار دوں گا.راستہ میں ایک جنگل میں آپ ٹھہرے اور صحابہ اس خیال سے کہ یہاں کسی دشمن کا گزر کس طرح ہوسکتا ہے اِدھر اُدھر چلے گئے.آپ اکیلے ایک درخت کے نیچے سورہے تھے کہ اُس دشمن نے آپ کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی اتار لی اور کہا اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا 6.اتنا کہنا تھا کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور آپ نے اُسے اٹھا کر اس سے پوچھا کہ اب بتا تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپ کا خیال تھا کہ اس نے مجھ سے سن کر سبق حاصل کر لیا ہو گا اور یہی جواب دے گا مگر اس کی حالت اُس وقت ایسی گندی تھی کہ پھر بھی اسے سمجھ نہ آئی اور اس نے یہی کہا کہ آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا ابھی میں نے تمہیں سبق دیا تھا مگر پھر بھی تم نے اللہ کا نام نہیں لیا.جاؤ میں تم کو چھوڑتا ہوں..پھر احد کی جنگ میں دشمنوں نے آپ کو گھیر لیا مگر اللہ تعالی نے آپ کو بچا لیا.اس قسم کے بہت سے واقعات آپ کی زندگی میں پائے جاتے ہیں.آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما بتایا کہ بعض منافق رستہ میں جھاڑیوں میں چھپے بیٹھے ہیں.انہوں نے خیال کیا تھا کہ جنگل ہے اور رات کے اندھیرے میں ہم آپ کو مار دیں گے کسی کو علم بھی نہ ہو سکے گا اور اسی لئے وہ علیحدہ ہو کر وہاں جا چھپے تھے.آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ وہاں ان کی تلاش کرو چنانچہ وہ پکڑے گئے اور ان کو اقرار کرنا پڑا 8.اور یہ مخالفت کا طوفان ابتدا سے ہی موجود تھا لیکن ادھر مخالفوں کی اس قدر کثرت اور آپ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنا اور
سيرة النبي علي 175 جلد 4 ادھر صحابہ کا کمزور ہونا اور پھر مقابلہ کا کوئی سامان نہ رکھنا مگر باوجود ان سب باتوں کے آپ کا محفوظ رہنا اور نہ صرف سارے عرب کا بادشاہ ہو جانا بلکہ آپ کے لگائے ہوئے پودے کا اس طرح پھیلنا کہ آپ کی امت کا ساری دنیا کو فتح کرنا اتنی حیرت انگیز ترقی تھی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.“ ( الفضل 27 اگست 1935ء) 1:السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول امر الاراشي الذي باع اباجهل ابله صفحه 441، 442 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الأولى 2 : ٹینٹوا: گلا.ٹینٹوا دبانا: گلا گھونٹنا.عاجز کرنا.سخت تقاضا کرنا (فرہنگ آصفیہ جلد اول صفحہ 635 مطبوعہ لاہور 2015ء) 3: التوبة: 40 4: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى امر الشاة المسمومة صفحه 1128 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 5: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى امر اجلاء بني النضير في سنة الرابع صفحه 975 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى : بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 7 السيرة الحلبية الجزء الثانى غزوة ذات الرقاع صفحه 558 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الأولى 8 السيرة الحلبية الجزء الثالث غزوة تبوک صفحه 276 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 176 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی عظمت و احترام اور مقام وو صلى الله حضرت مصلح موعود 30 اگست 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہیں یا کہتے ہیں کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر کسی کے اندر ایک ذرہ بھر بھی تخم دیانت ہو تو وہ ہمارے لٹریچر کو پڑھ کر یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کرنے والے ہیں.ہمارے عقائد بالکل واضح ہیں اور ہماری کتابیں بھی چھپی ہوئی موجود ہیں.ان کو پڑھ کر کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.ہاں دشمن یہ کہ سکتا ہے کہ گو الفاظ میں یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی عزت کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں آپ کا ادب نہیں مگر اس صورت میں ہمارا یہ پوچھنے کا حق ہوگا کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے کام لے کر انہوں نے ہمارے دلوں کو پھاڑ کر دیکھ لیا اور معلوم کر لیا کہ ان میں حقیقتا رسول کریم علی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بہتک کے جذبات ہیں.رسول کریم ﷺ کا ادب اور احترام جو ہمارے دلوں میں ہے میں سمجھتا ہوں مخالفوں کے لئے اس کے پہچاننے کے دو طریق ہو سکتے ہیں ان دو طریق میں سے کسی ایک کو دشمن اختیار کر کے دیکھ لے اسے معلوم الله ہو جائے گا کہ ہمارے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی محبت ہے یا نہیں.مثلاً ایک تو یہ ہے کہ ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں میں سے ایسے لوگ جو ہمارے ساتھ ملنے جلنے والے ہوں سو، دوسو، چارسو، پانچ سو یا ہزار تلاش کر لئے جائیں اور ان ہزار سے کہا صلى الله
سيرة النبي عمال 177 جلد 4 جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی مقدس مذہبی کتاب ہاتھ میں لے کر اُس خدا کی جس کے ہاتھ میں اُن کی جان ہے قسم کھائیں اور یہ قسم کھا کر کہ اگر وہ جھوٹ بولیں تو اُن پر اور ان کے بیوی بچوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو بتائیں کہ جب کبھی احمدیوں سے انہیں بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے انہوں نے احمدیوں کے دلوں کو کیسا پایا ہے؟ کیا رسول کریم ﷺ کا عشق اور آپ کی محبت انہوں نے محسوس کی یا رسول کریم ﷺ کی ہتک کا انہیں شبہ ہوا ؟ اگر احمدی بالفرض عام مسلمانوں کے سامنے رسول کریم نے کی ہتک کرنے سے اس خیال سے بچتے ہیں کہ اس طرح مسلمان ناراض ہو جائیں گے تو ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں کے سامنے تو وہ نڈر ہو کر رسول کریم ﷺ کی نَعُوذُ بِاللهِ ہتک کرتے ہوں گے پس غیر احمدیوں کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ احمدی منافقت سے کام لے کر انہیں خوش کرنے کے لئے ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کی تعریف کر ہیں مگر ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی.پس میں کہتا ہوں تصفیہ کا آسان طریق یہ ہے کہ ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں میں سے ایک ہزار آدمی چنا جائے اور وہ مؤکد بعذاب حلف اٹھا کر بتائیں کہ احمدی عام مسلمانوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے متعلق زیادہ جوش رکھتے ہیں یا کم؟ اگر ایک ہزار سارے کا سارا یا اس کا بیشتر حصہ کیونکہ ایک دو جھوٹ بھی بول سکتے ہیں یہ گواہی دے کہ اس نے احمدیوں کو رسول کریم ﷺ کی عزت کرنے والا اور آپ کے نام کو دنیا میں بلند کرنے والا پایا تو اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو اپنے فعل پر شرمانا چاہئے.میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو ہمارے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں وہ بار بار ہمارے متعلق اس صلى اتہام کو دہرا کر خود رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ کسی کو گالی دینے کا ایک طریق یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ دوسرے کی طرف گالی منسوب کر کے اس کا ذکر کیا جائے.جیسے کوئی شخص کسی کو اپنے منہ سے تو حرام زادہ نہ کہے مگر یہ کہہ دے کہ فلاں شخص آپ کو
سيرة النبي عمال 178 جلد 4 حرام زادہ کہتا تھا.یہ بھی گالی ہو گی جو اس نے دوسرے کو دی گو دوسرے کی زبان سے دلائی.پس اگر یہ تصفیہ کا طریق جو میں نے بیان کیا ہے اس پر مخالف عمل نہ کریں تو میں کہوں گا ایسے اعتراض کرنے والے در حقیقت رسول کریم علیہ کی خود ہتک کرتے ہیں گواپنے منہ سے نہیں بلکہ ہماری طرف ایک غلط بات منسوب کر کے.دوسرا طریق یہ ہے کہ ان مخالفین میں سے وہ علماء جنہوں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو، پانچ سو یا ہزار میدان میں نکلیں.ہم میں سے بھی پانچ سو یا ہزار میدان میں نکل آئیں گے.دونوں مباہلہ کریں اور دعا کریں کہ وہ فریق جو حق پر نہیں خدا تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے.ہم دعا کریں گے کہ اے خدا !تُو جو ہمارے سینوں کے رازوں سے واقف ہے اگر تو جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں واقعی الله رسول کریم ﷺ کی عظمت و محبت نہیں اور ہم آپ کو سارے انبیاء سے افضل و برتر یقین نہیں کرتے اور نہ آپ کی غلامی میں نجات سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا ایک خادم اور غلام نہیں جانتے بلکہ درجہ میں آپ کو رسول کریم ﷺ سے بلند سمجھتے ہیں تو اے خدا ! ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اس جہان میں ذلیل و رسوا کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک کر.اس کے مقابلہ میں وہ دعا کریں کہ اے خدا! ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ع کی ہتک کرتے ، آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور آپ کے درجہ کو گرانے اور کم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اے خدا! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو تو اس دنیا میں ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو ذلیل ورسوا کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کر.یہ مباہلہ ہے جو وہ ہمارے ساتھ کر لیں اور خدا پر معاملہ چھوڑ دیں.پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں ایسے علماء کا اکٹھا کرنا جو ہمارے سلسلہ کی کتب سے واقفیت رکھتے ہوں آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ کہلانے والوں کے لئے کوئی مشکل نہیں بلکہ معمولی بات ہے.اور ہم تو ان سے بہت تھوڑے ہیں مگر پھر بھی ہم تیار ہیں کہ پانچ سو
سيرة النبي عمال 179 جلد 4 یا ہزار کی تعداد میں اپنے آدمی پیش کریں.شرط صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ اپنی طرف سے پیش کریں وہ ایسے ہوں جو حقیقت میں ان کے نمائندہ ہوں.اگر وہ جاہل اور بیہودہ اخلاق والوں کو اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ یہ تسلیم کر لیں کہ وہ ان کی طرف سے نمائندہ ہیں.ہاں احرار کے سرداروں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس میں شامل ہوں مثلاً مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب شامل ہوں ، مولوی حبیب الرحمن صاحب شامل ہوں ،مسٹر مظہر علی صاحب اظہر شامل ہوں ، چودھری افضل حق صاحب شامل ہوں، مولوی داؤ د غزنوی صاحب شامل ہوں اور ان کے علاوہ اور لوگ جن کو وہ منتخب کریں شامل ہوں.پھر کسی ایسے شہر میں جس پر فریقین کا اتفاق ہو یہ مباہلہ ہو جائے.مثلاً گورداسپور میں ہی یہ مباہلہ ہوسکتا ہے جس مقام پر انہیں خاص طور پر ناز ہے یا لا ہور میں اس قسم کا اجتماع ہوسکتا ہے.ہم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا گر ہم رسول کریم ﷺ پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں ، آپ کو خاتم النبیین نہ سمجھتے ہوں، آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں.اس کے مقابلہ میں وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبیین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی تو ہین کرنے والے ہیں.اے خدا! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سا فریق اپنے دعوی میں سچا ہے، کون رسول کریم ماہ سے حقیقی عشق رکھتا ہے اور کون دوسرے پر جھوٹا الزام لگاتا ہے مگر یہ شرط ہو گی کہ عذاب انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور ایسے سامانوں سے ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاسکیں.صلى الله
سيرة النبي علي 180 جلد 4 دوسرا اتہام جو میں نے چند دن ہوئے سنا ہے وہ یہ ہے کہ منصوری میں احراریوں کا ایک جلسہ مولوی عطا اللہ شاہ صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مسٹر حسام الدین صاحب ایک احراری نے جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلاتے ہوئے کہا کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی جائے تو مرزائی لوگ اس کی کوئی پرواہ نہ کریں گے بلکہ خوش ہوں گے.اس کے جواب میں بھی میں کہتا ہوں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا تو الگ رہی ہم تو یہ بھی پسند نہیں کر سکتے کہ خانہ کعبہ کی کسی اینٹ کو کوئی شخص بدنیتی سے اپنی انگلی بھی لگائے اور ہمارے مکانات کھڑے رہیں.جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک صحابی کو جب کفار مکہ قتل کرنے لگے تو انہوں نے اُن صحابی سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم اس وقت مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہوتے اور محمد (ﷺ) کو تمہاری جگہ سزا دی جاتی.اُس صحابی نے جواب دیا کہ تم تو یہ کہتے ہو کہ محمد ﷺ یہاں میری جگہ ہوں اور میں مدینہ میں آرام سے بیٹھا ہوں میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اور محمد ی ﷺ کو مدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے کوئی کانٹا چھ جائے 1.اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بھی پسند نہیں کہ خانہ کعبہ کی طرف کوئی بدنیت انگلی بھی اٹھائے اور ہمارے مکان کھڑے رہیں.گجا یہ کہ ہم خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجتی دیکھیں اور خوش ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم قادیان کا احترام کرتے ہیں مگر کیا ایک چیز کے احترام کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم دوسری چیز کا احترام نہیں کرتے.کیا وہ شخص جو اپنے ماں باپ کا احترام کرتا ہے اُس کے احترام کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ رسول کریم ﷺ کا احترام نہیں کرتا.یا جو شخص رسول کریم ﷺ کا احترام کرتا ہو اُس کے احترام کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا احترام نہیں کرتا.الله صلى الله ہزار ہا چیزیں دنیا میں ایسی ہیں جن کا ہم احترام کرتے ہیں ، ہم حضرت ابرا
سيرة النبي علي 181 جلد 4 صلى الله صلى الله علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت موسی علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ،حضرت عیسی علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت صالح علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں، حضرت ہود علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں، حضرت شعیب علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں اور پھر رسول کریم ﷺ کا بھی احترام کرتے ہیں.کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا احترام کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم دوسرے انبیاء کی ہتک کرتے ہیں ؟ یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیھما السلام کا احترام کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی توہین کرتے ہیں ؟ فرض کرو اگر کوئی شخص سوال کرے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمہارے زمانہ میں ہوں اور ان پر کوئی شخص حملہ کر دے تو کیا تم اپنی جان اور مال ان پر قربان کرو گے یا نہیں ؟ تو کیا غیر احمدی اس سوال کا یہ جواب دیں گے کہ ہم تو رسول کریم ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے والے ہیں کسی اور کے لئے اگر جان قربان کر دیں گے تو رسول کریم ﷺ کی بہتک ہو جائے گی یا ہر مسلمان مجبور ہے یہ جواب دینے کے لئے کہ اگر بالفرض حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا میں ظاہر ہوں اور کوئی شخص اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی جان اور اپنا مال آپ پر قربان کر دے گا مگر کیا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتا ہے؟ کیا وہ جو کہا کرتے ہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ 2 وطن کی محبت ایمان کا ایک حجز و ہے ، جو کہا کرتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہئے اُن کے اس قول کے یہ معنی ہوا کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ پر اگر کوئی حملہ کرے تو وہ اس کے بچانے کے لئے کوئی حرکت نہیں کریں گے؟ پھر کیا یہی بات ان کے متعلق نہیں کہی جاسکتی ؟ اگر ہندوستان سے اتنی محبت کرنے کے باوجود کہ وہ لوگ کہا کرتے ہیں جب تک انگریزوں کو ہندوستان سے نکال نہ دیا جائے تو ایمان قائم نہیں رہ سکتا ان کی مکہ معظمہ سے محبت رہ سکتی ہے ؟ تو قادیان سے محبت کا یہ نتیجہ کیونکر نکالا جا سکتا ہے کہ ہمیں مکہ معظمہ محبوب نہیں.بے شک ہمیں قادیان محبوب ہے اور بے شک ہم قادیان
سيرة النبي علي 182 جلد 4 کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں مگر خدا شاہد ہے خانہ کعبہ قادیان سے بدرجہا زیادہ محبوب ہے.ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا وہ دن نہیں لاسکتا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی وہ دن آئے کہ خانہ کعبہ بھی خطرہ میں ہو اور قادیان بھی خطرہ میں ہو اور دونوں میں سے ایک کو بچایا جاسکتا ہو تو ہم ایک منٹ بھی اس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے کہ کس کو بچایا جائے بلکہ بغیر سوچے کہہ دیں گے کہ خانہ کعبہ کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے پس قادیان کو ہمیں خدا تعالیٰ کے حوالے کر دینا چاہئے.خود رسول کریم علیہ نے خانہ کعبہ کے بعد مدینہ کے لئے دعا کی اور کہا اے میرے رب! جیسے حضرت ابرا ہیم نے مکہ کے لئے برکت چاہی تھی میں تجھ سے مدینہ کے ناپوں اور پیمانوں میں برکت چاہتا ہوں اور جیسے وہاں ایک حصہ کو حرم قرار دیا گیا اسی طرح میں بھی مدینہ کے ایک حصہ کو حرم بنا تا ہوں اور جس طرح وہاں شکار اور فساد اور قتل و خون ریزی کی ممانعت ہے اسی طرح میں بھی مدینہ کے ایک علاقہ میں شکار ، فساد اور قتل و خون ریزی منع کرتا ہوں.مگر کیا کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ یہ دعا مانگ کر رسول کریم ﷺ مکہ معظمہ کی ہتک کرنا چاہتے تھے ؟ مدینہ کو مکرم بنانے کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ مکہ معظمہ کی عزت کم ہے.اسی طرح قادیان کو عزت دینے کے بھی ہر گز یہ معنی نہیں کہ ہمارے دلوں میں خانہ کعبہ یا مدینہ منورہ کی عزت نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ مکہ وہ مقدس مقام ہے جس میں وہ گھر ہے جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور مدینہ وہ بابرکت مقام ہے جس میں محمد ﷺ کا آخری گھر بنا ، جس کی گلیوں میں آپ چلے پھرے اور جس کی مسجد میں اس مقدس نبی نے جو سب نبیوں سے کامل نبی تھا اور سب نبیوں سے زیادہ خدا کا محبوب تھا نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.اور قادیان وہ مقدس مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات مقدسہ کا خدا تعالیٰ نے دوبارہ حضرت مرزا صاحب کی صورت میں نزول کیا.یہ مقدس ہے باقی سب دنیا سے مگر تابع ہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اگر صلى الله
سيرة النبي علي 183 جلد 4 خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے تو احمدی خوش ہوں گے وہ جھوٹ بولتا ہے، وہ افتر ا کرتا ہے اور وہ ظلم و تعدی سے کام لے کر ہماری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو ہمارے عقائد میں داخل نہیں اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ قادیان کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے قائم کیا ہے کہ تا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت کو اس کے ذریعہ دوبارہ قائم کیا جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا کہ تا آپ رسول کریم ﷺ کی اس عزت کو جو لوگوں کے قلوب سے محو ہو چکی تھی دوبارہ قائم کریں اور آپ کے نام کی بڑائی ظاہر صلى الله کریں.ہم رسول کریم ﷺ پر ایمان لا کر خدا تعالیٰ کے منکر نہیں ہو جاتے اسی طرح رسول صلى الله ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر ایمان لا کر رسول کریم ﷺ کے باغی نہیں ہو جاتے.پھر ہم مدینہ منورہ کی عزت کر کے خانہ کعبہ کی ہتک کرنے والے نہیں ہو جاتے.اسی طرح ہم قادیان کی عزت کر کے مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کی تو ہین کرنے والے نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ نے ان تینوں مقامات کو مقدس کیا اور ان تینوں مقامات کو اپنی تجلیات کے اظہار کے لئے چنا.بیت اللہ کو خدا تعالیٰ نے حج کے لئے چنا جس کے سوا اس دنیا میں قیامت تک اور کوئی حج کی جگہ نہیں.مدینہ منورہ کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی ذات کے لئے چنا.اور اب خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے دوسرے روحانی ظہور کے لئے اور اپنے مسیح و مہدی کے مقام صلى الله نزول کے لئے قادیان کو چنا.نہ حج کسی اور جگہ پر کیا جا سکتا ہے نہ رسول کریم علی دوبارہ دنیا میں آسکتے ہیں اور نہ کسی اور شہر کو آپ کی جائے سکونت ہونے کا فخر حاصل ہو سکتا ہے اور نہ مسیح و مہدی اب دوبارہ آسکتے ہیں.پس ان دو بستیوں کو چھوڑ کر قادیان کے برابر دنیا کی اور کوئی بستی نہیں.لیکن مکہ و مدینہ قادیان سے بھی بلند شان رکھنے والے ہیں.جس خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت دکھائی تھی اُسی خدا
سيرة النبي علي 184 جلد 4 صلى الله نے اپنی طاقتوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دشمنوں کو نیچا دکھایا اور اُسی خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفین کو غرق کیا لیکن رسول کریم ﷺ کی مدد کرنے کے ہرگز یہ معنی نہیں تھے کہ حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی اور دیگر انبیاء علیھم السلام کی خدا تعالیٰ نے مدد نہیں کی تھی.اسی طرح مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت اور انہیں اپنے جلال کے اظہار کے لئے مخصوص کر لینے کے ہرگز یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ کوئی اور مقام خدا تعالیٰ کا فضل جذب نہیں کر سکتا.ہمارا خدا وسیع طاقتوں اور قدرتوں والا خدا ہے اُس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے اور اُس کی فوجیں انسانی شمار سے باہر ہیں.وہ جس طرح ایک مقام کی حفاظت کر سکتا ہے اسی طرح دوسرے مقام کی بھی اپنی فوجوں سے محافظت کرسکتا ہے.میں چھوٹا تھا کہ میں نے رؤیا دیکھا کہ ایک مصلی ہے جس پر میں نماز پڑھ کے بیٹھا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ وہ شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی کی ہے اور اس کا نام منہاج الطالبین ہے یعنی خدا تعالیٰ تک پہنچنے والوں کا رستہ.میں نے اس کتاب کو پڑھ کر رکھ دیا.پھر یکدم خیال آیا کہ کتاب حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو دینی ہے اس لئے میں اسے ڈھونڈنے لگا مگر وہ ملتی نہیں.ہاں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک اور کتاب مل گئی.اُس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ یعنی تیرے ربّ کے لشکروں کو سوائے اُس کے اور کوئی نہیں جانتا.تو اللہ تعالیٰ کی فوجوں میں کوئی کمی نہیں.اگر کم فوجیں ہوتیں تب تو کہا جا سکتا تھا کہ قادیان کو خدا تعالیٰ نے کیوں مکرم بنا دیا.اگر تینوں مقدس مقامات پر نَعُوذُ باللہ بیک وقت حملہ ہو گیا تو وہ فوجیں کہاں سے آئیں گی جو ان سب کی حفاظت کریں گی.پس اگر خدا تعالیٰ کی فوجیں محدود ہوتیں تب تو احرار کو فکر ہو سکتا تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہو گیا تو اس کی حفاظت کی کیا صورت ہو گی ، مکہ معظمہ پر حملہ ہو گیا تو اُس کی حفاظت کی کیا صورت ہو گی اور
سيرة النبي عمال 185 جلد 4 قادیان پر حملہ ہو گیا تو اُس کی حفاظت کی کیا صورت ہو گی لیکن جس کے ایک محنُ کہنے سے زمین و آسمان بن جاتے اور ایک حسن کہنے سے بنے بنائے کام تباہ ہو جاتے ہیں اُس کو اس بخل اور کنجوسی کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ تین کیا تین ہزار بلکہ تین لاکھ شہر بھی اگر مکرم بنا دے تو ان کی حفاظت کے لئے کیا اُس نے کسی سے کچھ مانگنے جانا ہے کہ مخالفین کو اس کا فکر لگا ہوا ہے! اگر تو ملکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہ لی ہوئی ہوتی اور اس کی حفاظت مولوی عطا اللہ شاہ صاحب کے سپرد ہوتی تب وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم کہاں کہاں کی حفاظت کریں لیکن جب کہ خدا تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حفاظت ہمارے سپرد نہیں کی بلکہ اپنے ذمہ لی ہے تو ان مولویوں کو اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکالنے کی ضرورت ہی کیا ہے.ان مولویوں کا تو خدا پر اتنا بھی ایمان نہیں جتنا رسول کریم ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کا تھا جو اسلام سے پہلے ہوئے ہیں.اگر حضرت عبدالمطلب جتنا ایمان بھی ان کے دلوں میں ہوتا تو یہ سمجھ لیتے کہ مکہ معظمہ کی حفاظت خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے انسان کے سپردنہیں کی.تاریخوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم علی کی پیدائش سے کچھ مدت پہلے سینیا کی حکومت کی طرف سے یمن کے علاقہ پر ابرہہ نامی ایک گورنر مقرر تھا اُس نے چاہا کہ عربوں کو عیسائیت کی طرف کھینچنے کے لئے ان کی توجہ بیت اللہ کی طرف سے ہٹا دی جائے.اس غرض کے لئے اس نے اپنی طرف سے بعض کوششیں کیں مگر جب ناکام ہوا تو اُسے خیال پیدا ہوا کہ اگر میں کعبہ کو گرا دوں تو شاید اس طرح لوگوں کی توجہ اس سے پھر جائے.اس خیال کے آنے پر وہ اپنی فوجیں لے کر بیت اللہ کی طرف چل پڑا.اُس وقت حبشہ کی طاقت بہت بڑھی ہوئی تھی.موجودہ ایسے سینیا سے اس کا ملک بہت وسیع تھا اور حبشہ کی دولت بھی اُس وقت بہت زیادہ تھی کیونکہ یمن بہترین سرسبز مقامات میں سے ہے جو اس کے قبضہ میں تھا.پس ابر ہہ اور اُس کی
سيرة النبي م 186 جلد 4 فوجیں مالدار، دولت مند اور ساز وسامان رکھنے والی تھیں.جب فوجیں مکہ کے قریب پہنچیں تو اس لاؤ لشکر کو دیکھ کر مکہ والوں کو کچھ بھی نہ سوجھا اور وہ چپ ہو کر بیٹھ گئے.ابرہہ نے ایک چھوٹا سا دستہ آگے بھیجا جو مکہ والوں کے بہت سے جانور جو باہر چر رہے تھے سمیٹ کر لے آیا.ان جانوروں میں دوسو اونٹ حضرت عبدالمطلب کے بھی تھے.اس کے بعد ابرہہ کے لشکر میں بیماری پھیل گئی اور اُس کی فوج کے لوگ لیے پے در پے مرنے لگے تو اسے یہ خیال آیا کہ مکہ والے اگر مجھ سے آکر کہیں کہ میں واپس چلا جاؤں تو میں واپس لوٹ جاؤں گا.تاریخوں سے ثابت ہے کہ وہ بیماری چیچک تھی.بہر حال کوئی نہ کوئی موت ایسی تھی جس نے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کر دیا.قرآن کریم میں بھی سورۃ الفیل میں اس کا ذکر آتا ہے.ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں جانوران کی بوٹیاں نوچ نوچ کر پتھروں پر مارتے اور کھاتے تھے جس طرح چیلیں اور گدھیں کھاتی ہیں.جب بیماری نے اس کے لشکر کے اکثر حصہ کو نا کارہ کر دیا تو اُس نے اپنی عزت رکھنے کے لئے اہل مکہ کو کہلا بھیجا کہ بعض سردار میرے پاس بھیجے جائیں میں اُن سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کے سردار عبدالمطلب تھے جب وفد اُس کے پاس پہنچا اور حضرت عبدالمطلب نے ان سے باتیں کیں تو ان کی باتوں کا ابرہہ پر نہایت گہرا اثر پڑا اور سیاسیات میں ان کی رائے کو اُس نے نہایت ہی صائب اور معقول پایا.اور اس امید میں رہا کہ ابھی یہ مجھ سے کہیں گے کہ خانہ کعبہ پر حملہ نہ کیا جائے اور لشکر واپس لے جائیں اور میں ان کے سراحسان رکھ کر واپس چلا جاؤں گا مگر حضرت عبدالمطلب نے اس کا ذکر تک نہ کیا.آخر کچھ دن انتظار کرنے کے بعد ابرہہ خود ہی کہنے لگا میرا دل چاہتا ہے آپ لوگ مجھ سے کچھ مانگیں تو میں دوں.اسے پھر بھی یہی خیال رہا کہ یہ کہیں گے آپ خانہ کعبہ کو گرانے کا ارادہ ترک کر دیں اور واپس چلے جائیں.وہ چونکہ اب لشکر ڈالے تنگ آچکا تھا اس لئے گفتگو کو ہیر پھیر کر اسی طرف لانا چاہتا تھا مگر حضرت عبدالمطلب
سيرة النبي عمال 187 جلد 4 نے اس کا جواب صرف یہ دیا کہ میرے دوسو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ کر لے آئے ہیں وہ مجھے واپس کر دئیے جائیں.یہ سن کر جیسے انسان دنگ رہ جاتا ہے اُس کا رنگ فق ہو گیا اور کہنے لگا آپ کی باتوں کا مجھ پر بڑا اثر تھا اور میں سمجھتا تھا کہ آپ بڑے ہی سمجھدار ہیں مگر آپ کی اس بات سے وہ سارا اثر جاتا رہا ہے.انہوں نے پوچھا کس طرح؟ اُس نے کہا تمہارے سامنے اس وقت اتنی خوفناک مصیبت ہے کہ میں تمہارے کعبہ کو گرانے آیا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھ سے جو مانگنا ہو مانگو مگر تم بجائے یہ کہنے کے کہ ہمارا کعبہ مت گراؤ یہ کہتے ہو کہ میرے دوسو اونٹ واپس کر دیے جائیں.بھلا ایسے خطرے کی حالت میں اونٹوں کا خیال کرنا بھی کوئی عقلمندی ہے؟ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا اصل بات یہ ہے کہ تم نے میری بات پر غور نہیں کیا ور نہ اسی سے جواب سمجھ جاتے.عبدالمطلب صرف دوسو اونٹوں کا مالک ہے جب اسے اپنے اونٹوں کی فکر پڑ گئی تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خانہ کعبہ کے مالک خدا کو اپنے گھر کی کوئی فکر نہیں؟ میں جانتا ہوں کہ اگر یہ کعبہ خدا کا گھر ہے تو اس گھر کا مالک اس کی آپ حفاظت کرے گا مجھے اس کی فکر کی کیا ضرورت ہے 3.اس میں شبہ نہیں کہ انسانوں کا کام بھی ہوتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کی حفاظت میں حصہ لیں مگر یہ محض ثواب کے لئے ہوتا ہے اصل حفاظت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ خود کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ میں آپ کو دشمنوں کے حملوں سے بچاؤں گا مگر باوجود اس کے صحابہؓ نے رسول کریم ﷺ کے گرد پہرے دیئے.مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ صحابہؓ کے پہروں کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی جان محفوظ رہی.کیا ہزاروں بادشاہ مضبوط پہروں کے ہوتے ہوئے قتل نہیں ہو گئے ؟ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ کے پہروں کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی حفاظت ہوئی.رسول کریم ﷺ کی حفاظت محض خدا تعالیٰ نے کی.ہاں ثواب کے لئے صحابہ نے بھی اس میں حصہ لے لیا.اسی طرح اگر خدانخواستہ خانہ کعبہ پر کوئی دشمن حملہ کر دے تو گو الله
سيرة النبي متر 188 جلد 4 ہر مسلمان کا فرض ہوگا کہ وہ اپنی ہر چیز خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے قربان کر دے مگر اصل حفاظت وہی کرے گا جو خانہ کعبہ کا مالک اور ہمارا خدا ہے.“ ( الفضل 3 ستمبر 1935ء ) 1: اسد الغابة الجزء الثاني زيد بن الدثنة صفحه 195 مطبوعه بيروت 2006ءالطبعة الاولى 2: موضوعات کبیر ، ملا علی قاری صفحہ 35 مطبوعہ دہلی 1346ھ 3: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول عبد المطلب وحناطة و خويلد بين يدى ابرهة صفحه 82 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 189 جلد 4 رسول کریم ﷺ پر خدا تعالیٰ کا احسان حضرت مصلح موعود 11 اکتوبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.” جب دنیوی عہدوں پر فائز ہونے یا اعلیٰ عہدہ داروں اور افسروں کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے لوگ عزت محسوس کرنے لگتے ہیں تو کتنے تعجب کی بات ہو گی اس قوم کے متعلق جسے خدا تعالیٰ کی آواز سننے کا موقع ملے خواہ براہ راست سنے کا یا بالواسطہ سننے کا مگر وہ اس آواز کی قدر نہ کرے.اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے الَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ اے ہمارے رسول ! کیا ہم نے تیرے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا کہ تیرے دل میں اپنی اطاعت اور فرما نبرداری کا ایک جوش پیدا کر دیا اور پھر قرب کے حصول کے لئے بجائے اس کے کہ تجھ پر سب کوشش چھوڑ دی جاتی ہم نے خود الہام کے ذریعہ اپنی رضا کی راہیں تجھے بتادیں اور اس طرح تیرا بوجھ تجھ سے دور کر دیا.کیا یہ احسان جو ہم نے تجھ پر کیا کچھ کم ہے ؟ یہ احسان جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ کیا گیا صرف آپ کے ساتھ ہی احسان نہ تھا بلکہ ساری دنیا پر احسان ہے.کون سا انسان ایسا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اس احسان سے محروم رکھا یا کون سا ایسا مذہب یا ملک یا جماعت ہے جسے یہ کہہ دیا گیا ہو کہ محمد ﷺ کے اس انعام میں تم حصہ دار نہیں.جب حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس ایک کنعانی عورت آئی اور اُس نے کہا اے استاد! مجھ پر رحم کر، جو تعلیم تو دوسرے لوگوں کو دیتا ہے اُس سے مجھے بھی فائدہ اٹھانے دے تو اُسے یہ جواب دیا گیا کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں 2 اور جیسا کہ عیسائی کتب سے
سيرة النبي عمال 190 جلد 4 معلوم ہوتا ہے وہ عورت دل شکستہ ہو کر واپس چلی گئی.مگر رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم ملی اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں.اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کوفر ما تا ہے جا اور ساری دنیا کو یہ پیغام سنا دے کہ اِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَا م میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بن کر آیا ہوں.کوئی قوم ایسی نہیں جو میرے دائرہ ہدایت سے باہر ہو.میرا دستر خوان ہر شخص کے لئے کھلا ہے جو چاہے اپنی روحانی غذا کا سامان اس سے حاصل کرے.پس ہم میں سے کون ہے جو یہ کہے کہ خدا کی یہ آواز میرے کانوں نے نہیں سنی یا خدا تعالیٰ کا محبت بھرا ہاتھ میری طرف بڑھا یا نہیں گیا.اور اگر خدا تعالیٰ اپنی شیریں آواز سنائے اور انسان اپنے کانوں میں روئی ڈال لے یا خدا تعالیٰ اپنا محبت بھرا ہاتھ بڑھائے اور انسان اپنے ہاتھ کو کھینچ لے تو ایسے انسان کا علاج کیا ہوسکتا ہے اور کیونکر یہ شکوہ کر سکتا ہے کہ اسے ہدایت نہیں ملی.غیروں کو جانے دو ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنے تازہ کلام کے سننے کا موقع دیا ہے.وہ خدا جس نے حرا میں رسول کریم ﷺ سے کہا کہ جا اور دنیا کو ہدایت دے، وہ خدا جس نے جبریل کی معرفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام پہنچایا کہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 4 وہ خدا جس نے غار ثور میں آنحضرت ﷺ سے یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی سے کہہ دے ڈر کی کوئی بات نہیں اِنَّ اللهَ مَعَنَا اللہ ہمارے ساتھ ہے ، وہ خدا جس کی وحی مدینہ میں بھی جا کر نازل ہوئی اور اس نے خبر دی کہ ساری دنیا ایک دن اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے والی ہے اور قیصر و کسریٰ کی حکومتیں پاش پاش ہو جائیں گی کیا اسی خدا نے دوبارہ ہمیں آواز نہیں دی ؟ اور کیا وہی شیریں آواز ایک بار پھر ہمارے لئے بلند نہیں کی گئی ؟ وہ پیاری آواز جس کی ایک ایک سُر کے اندر ہزاروں محبتیں بھری ہوئی تھیں ایسی اعلی محبتیں کہ جو انسان کے دل کو عشق کے جذبات سے لبریز کر دیتی ہیں ہمارے لئے پھر بلند کی گئی اور اُسی شان کے ساتھ بلند کی گئی جس شان کے ساتھ وہ
سيرة النبي عمال 191 جلد 4 پہلے بلند ہوئی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے بروز اور آپ کے اعلیٰ درجہ کے شاگردوں میں سے ہیں اور آپ خود نہیں بولتے تھے بلکہ آپ کی وساطت سے خود رسول کریم وہ بو لتے تھے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم نے اس صلى الله آواز کی کیا قدر کی اور کیا اس آواز کے معاملہ میں ہمارے دلوں میں بھی وہی ادب اور احترام کے جذبات ہیں اور وہی قربانیوں کے ولولے اور جوش ہیں جس قسم کا ادب و احترام اور جس قسم کی قربانیاں یہ آواز چاہتی ہے؟“ 1: الانشراح : 42 2 متی باب 15 آیت 26 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 3: الاعراف: 159 4: العلق : 2 ،3 5: التوبة : 40 ( الفضل 19 اکتوبر 1935 ء )
سيرة النبي علي 192 جلد 4 رسول کریم علیہ کی غیرت ایمانی رسول حضرت مصلح موعود 18 اکتوبر 1935 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:." رسول کریم ﷺ کی غیرت کو دیکھو کہ آپ کا طریق ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ کے نام کے لئے جو غیرت تھی وہ اس واقعہ سے آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے.احد کی جنگ جو ایک مشہور جنگ ہے اور ہر مسلمان جسے تاریخ اسلام سے ذرہ بھر بھی اُنس ہے اس کے حالات جانتا ہے.اس جنگ میں ایک موقع پر ایسی حالت ہو گئی کہ صحابہ کے قدم اکھڑ گئے اور بہت تھوڑے صحابہ میدانِ جنگ میں ย ره گئے.بلکہ ایک وقت ایسا آیا جب کہ صرف چھ سات صحابہ رسول کریم ﷺ کے گرد رہ گئے.دشمن انہیں بھی ریلتے ہوئے پیچھے دھکیل کر لے گیا اور اُس نے پتھروں کی بوچھاڑ رسول کریم ہے اور آپ کے صحابہ پر کر دی.رسول کریم علیہ کو اس سے سخت تکلیف ہوئی ، آپ کے بعض دندان مبارک ٹوٹ گئے اور آپ تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو کر گر گئے.اس کے بعد بعض صحابہ شہید ہو کر گرے اور اُن کے جسم رسول کریم ﷺ کے جسم کے اوپر گر گئے.اور باقی صحابہ نے خیال کیا کہ شاید رسول کریم ع شہید ہو گئے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پھر طاقت دی اور اُنہوں نے باوجود کمزوری کے اس ایمان اور اخلاص سے کام لے کر جواُن میں ودیعت تھا پھر اکٹھا ہونا شروع کیا اور بہت سے صحابہ جمع ہو گئے.صحابہ کا اخلاص اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ ایک صحابی کے متعلق تواریخ میں آتا ہے کہ وہ جنگِ بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے.بعد میں جب کبھی وہ بدر کے واقعات سنتے تو انہیں بڑا درد پیدا ہوتا اور جوں جوں صحابہ
سيرة النبي عمال 193 جلد 4 کفار کی شکست کا ذکر کرتے انہیں اور زیادہ جوش آتا.اور وہ کہتے میں اگر ہوتا تو آپ لوگ دیکھتے کہ کیا کرتا.بظاہر یہ متکبرانہ دعویٰ ہے مگر کبھی عشق میں چور ہو کر اس قسم کے الفاظ انسان کے منہ سے نکل جاتے ہیں.عام طور پر یہ فقرات منافقوں کے منہ سے نکلا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی نہایت جو شیلے مومن بھی جب سنتے ہیں کہ وہ کسی خدمت دین کے خاص موقع سے محروم رہ گئے ہیں تو اُس وقت وہ اپنا جوش اس قسم کے الفاظ سے نکالتے ہیں کہ اگر ہم ہوتے تو یوں کرتے.اسی جذبہ کے ماتحت یہ صحابی جب دوسرے صحابہ کی جرات کا کوئی واقعہ سنتے تو کہا کرتے کہ تم نے کچھ بھی نہ کیا میں اگر ہوتا تو دکھا تا کہ کس طرح جنگ کیا کرتے ہیں.احد کی جنگ میں یہ بھی شامل تھے چونکہ اس جنگ میں مسلمانوں کو پہلے ہی فتح ہوئی تھی وہ مطمئن ہو کر ایک طرف کھڑے ہو گئے تھے اور کھجوریں کھا رہے تھے.کھجور میں کھاتے ہوئے انہوں نے کیا دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک پتھر کے اوپر بیٹھے ہیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں.انہوں نے پوچھا عمر ! کیا ہوا روتے کیوں ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا رسول کریم اللہ شہید ہو گئے ہیں.وہ اُس وقت آخری کھجور کھانے لگے تھے اور منہ کی طرف لے جارہے تھے کہ جو نہی انہوں نے یہ بات سنی کھجور اپنے ہاتھ سے پھینک دی اور کہا میرے اور جنت کے درمیان کیا صرف یہی ایک کھجور حائل نہیں ؟ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا مجھے آپ پر تعجب ہے رسول کریم ﷺ اگر شہید ہو گئے ہیں تو آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں جہاں وہ گئے ہم بھی وہیں جائیں گے.یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی تلوار ہاتھ میں لی اور میدانِ جنگ میں کود پڑے.اور اتنی بہادری سے لڑے کہ جب وہ لڑتے لڑتے شہید ہوئے تو بعد میں ان کے جسم پر تلوار کے ستر زخم دیکھے گئے 1.غرض صحابہ جوشِ ایمان سے باوجود ظاہری کمزوری کے اور پاؤں اکھڑ جانے صلى الله کے پھر ا کٹھے ہو گئے اور جب انہوں نے نعشوں کو ہٹایا تو دیکھا کہ رسول کریم علی
سيرة النبي عمال 194 جلد 4 زندہ ہیں.صحابہ نے آپ کو اٹھایا اور جب آپ کو ہوش آیا تو آپ تمام مسلمانوں کو ایک پہاڑ کی طرف لے گئے اُس وقت چونکہ تمام صحابہ زخموں سے چور تھے اور بہت کم ایسے تھے جو تندرست ہوں اس لئے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ خاموش رہو دشمن کو خواہ مخواہ برانگیختہ کرنے کی کیا ضرورت ہے.ابوسفیان جو کفار کا کمانڈر تھا مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر بولا دیکھا! ہم نے بدر کا بدلہ لیا یا نہیں؟ الله پھر کہا دیکھو ہم نے تمہارے محمد (ﷺ) کو مار دیا.بعض صحابہ اس پر بولنے لگے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا چپ رہو بولنے کی کیا ضرورت ہے.جب مسلمانوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا تو وہ کہنے لگا کیا تم میں ابوبکر زندہ ہے ؟ ( میں اس جگہ ضمناً یہ بات صلى الله بتا دیتا ہوں کہ ابوسفیان کے ان سوالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم علیہ کی زندگی میں کفار تک بھی یہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر ہی مسلمانوں صلى میں اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں اور آپ کی وفات کے بعد انہی کا وجود مسلمانوں کے لئے نقطۂ اجتماع ہوسکتا ہے ) رسول کریم ﷺ نے پھر صحابہ سے فرمایا خاموش رہو جواب دینے کی ضرورت نہیں.جب ابو سفیان کو اس بات کا بھی جواب نہ ملا تو کہنے لگا ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا.پھر اُس نے پوچھا کیا تم میں عمر زندہ ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جواب دینے لگے تو رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا چپ رہو.جب اس بات کا بھی ابوسفیان کو کوئی جواب نہ ملا تو وہ کہنے لگا ہم نے عمر کو بھی مار دیا.پھر اُس نے تکبر سے نہایت بلند آواز سے نعرہ لگایا اور کہا اُعْلُ هُبَل.اُعْلُ هُبَل.ٹمبل ان کا دیوتا تھا جس کی وہ پرستش کیا کرتے تھے مطلب یہ تھا کہ آج واحد خدا کے پرستار مبل کی پرستش کرنے والوں کے سامنے تباہ ہو گئے اور ٹمبل جیت گیا.صحابہ اس پر خاموش رہے الله کیونکہ رسول کریم ﷺ انہیں بار بار یہ ہدایت دے چکے تھے کہ چپ رہو.مگر جب ابوسفیان نے اُعُلُ هُبل کا نعرہ لگایا اور فخریہ کہا کہ ایک خدا کے مقابلہ میں ہبل جیت گیا تو رسول کریم علیہ نے بڑے جوش سے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تم جواب
سيرة النبي عمال 195 جلد 4 کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا کہو اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.تم ہیل کو لئے پھرتے ہو مبل تو کوئی چیز نہیں اللہ ہی ہے جو عزت و جلال والا اور اسی کا نام دنیا میں بلند ہے 2.تو دیکھو کتنے نازک الله مقام پر رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت کا مظاہرہ فرمایا.دشمن مسلمانوں کی کمزوری کو دیکھ کر انہیں چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے ہم نے محمد ﷺ کو مار دیا ، ابو بکر اور عمر کو مار دیا مگر رسول کریم ﷺ صحابہ کی کمزور حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں خاموش رہو اور جواب مت دو.مگر جونہی خدا کا نام آتا ہے اور مہبل کی فتح جتائی جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے فرماتے ہیں خاموش کیوں ہو ، بولو اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ.تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے مومن کو جو محبت ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.“ (الفضل 24 اکتوبر 1935ء) 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى شأن أنس بن النضر صفحه 862 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 2 بخاری کتاب المغازی باب غزوة احدصفحہ 685،684 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 196 جلد 4 رسول کریم علیہ کی عملی زندگی کے اثرات 25 اکتوبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود نے فرمایا :.صلى الله احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ پر جب پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی تو آپ یہ دیکھ کر کہ مجھ پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے میں اسے کس طرح ادا کر سکوں گا گھبرائے اور اپنی اس گھبراہٹ کا حضرت خدیجہ سے ذکر کیا کہ اتنا عظیم الشان کام مجھے جیسا کمزور آدمی کہاں کر سکے گا.حضرت خدیجہ نے جب آپ کی بات سنی تو چونکہ وہ آپ کے طریق عمل کو جانتی تھیں اس لئے انہوں نے کہا آپ تو یونہی گھبرا رہے ہیں.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو چھوڑ دے.آپ تو وہ ہیں جو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نہایت اعلیٰ برتاؤ کرتے ہیں ، ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور آپ نے ان نیک اخلاق کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے جو زمانہ سے مفقود ہیں.پھر آپ مہمان کی عزت اور خاطر و تواضع کرتے اور حق کی راہ میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں کس طرح ممکن ہے کہ خدا آپ کو چھوڑ دے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بتاتا ہے کہ عملی زندگی ایسی اہم چیز ہے کہ اس سے ہر دوسرا شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.حضرت خدیجہ مکہ کی تھیں جہاں کے رہنے والے الہام کے قائل نہ تھے.غیر قوموں مثلاً یہود اور عیسائیوں سے انہیں ملنے کا کہاں موقع تھا.بے شک حضرت خدیجہ کے ایک رشتہ کے بھائی ورقہ بن نوفل عیسائی تھے مگر وہ بھی ایک گوشہ نشین آدمی تھے تبلیغی آدمی نہ تھے.غرض اسلام سے پہلے الہام اور اس کی حقیقت سے انہیں کوئی آگا ہی نہ تھی مگر باوجود اس کے وہ اس نکتہ کو بجھتی
سيرة النبي علي 197 جلد 4 تھیں کہ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنی زندگی کو قربان کر دے، اپنی حیات کی تمام ساعات کو خدا تعالیٰ کے دین اور اُس کے جلال کے لئے وقف کر دے تو اُسے خدا ضائع نہیں کرتا.كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيْكَ اللهُ ابدا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا یہ خطرات سب خیالی ہیں خدا آپ کو رسوا نہیں کر سکتا کیونکہ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدَقُ الْحَدِيث وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَ تُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ 1.آپ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ،سچائی کو اختیار کرتے اور ان اخلاق کو ظاہر کرتے ہیں جو سارے ملک میں مفقود ہیں.پھر مہمانوں کی عزت کرتے اور مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں.گویا یہ پانچ باتیں ایسی تھیں جنہوں نے حضرت خدیجہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر کیا ہوا تھا کہ وہ خیال بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ کبھی خدا آپ کو ضائع کر سکتا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت بھی آتا ہے کہ جب رسول کریم ہو نے دعوی نبوت کیا تو اُس وقت آپ مکہ میں نہیں تھے بلکہ باہر کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے جیسے ہمارے ہاں گھی وغیرہ لینے کے لئے بعض دفعہ آدمی پاس کے گاؤں میں چلا جاتا ہے.جب آپ واپس آئے تو آپ ایک دوست کے گھر میں اُسے ملنے کے لئے تشریف لے گئے.وہاں باتوں باتوں میں اس کی لونڈی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی ہے! تیرا دوست تو آج کل پاگل ہو گیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کون؟ اُس نے رسول کریم ﷺ کا نام لیا اور کہا وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے مجھے پر نازل ہوتے ہیں اور خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے.آپ نے جب یہ بات سنی تو اُسی وقت کھڑے ہو گئے ، چادر جو تھوڑی دیر پہلے کندھے سے اتاری تھی پھر سنبھال لی اور سیدھے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.آپ باہر تشریف لائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے سنا ہے کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں خدا کے فرشتے آپ پر اترتے اور خدا کا پیغام دیتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ رسول کریم ﷺ نے
سيرة النبي عمال 198 جلد 4 الله اس خیال سے کہ یہ پرانے دوست ہیں انہیں ٹھوکر نہ لگے چاہا کہ اپنی صداقت کے پہلے دلائل پیش کریں مگر رسول کریم ﷺ نے جونہی کوئی دلیل دینی چاہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کوئی اور بات نہ کریں آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ کا ایسا دعویٰ ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پیشتر اس کے کہ آپ اپنی صداقت کی کوئی دلیل دیں آپ گواہ رہیں کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں 2.پھر انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ! میں دلیلیں سننا نہیں چاہتا تھا تا کہ میرا ایمان ناقص نہ ہو.میں نے آپ کی زندگی دیکھی ہوئی ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ جس شخص نے چالیس سال تک پاکیزہ زندگی بسر کی ہو اور انسانوں پر جھوٹ نہ بولا ہو وہ خدا کے متعلق کس طرح جھوٹ بول سکتا ہے.تو استقلال، ہمت، جرات، قربانی ، ایثار، عدل اور انصاف ایسی چیزیں ہیں کہ جس انسان میں یہ پائی جائیں اُس کے متعلق انسان شکوک وشبہات میں مبتلا نہیں رہتا بلکہ اس کی (الفضل 31اکتوبر 1935ء) 66 عملی زندگی کا خود مداح بن جاتا ہے.“ 1 بخاری کتاب التفسير تفسير سورة اقرا باسم ربك الذى خلق صفحہ 886 حدیث نمبر 4953 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية صل الله 2 السيرة الحلبية الجزء الاول باب ذکر اول الناس ایمانا به ما را به صفحه 446 مطبوعہ بیروت.2012 ، الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 199 جلد 4 رسول کریم ہے کے بارہ میں الزامات کا جواب 66 حضرت مصلح موعود نے مجلس احرار کا مباہلہ کے متعلق نا پسندیدہ رویہ کے عنوان سے 30 اکتوبر 1935 ء کو مضمون تحریر فرمایا جو 2 نومبر 1935ء کی الفضل میں شائع ہوا اس مضمون میں آپ احراریوں کے جھوٹے الزامات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.میں امید کرتا ہوں کہ سب حق پسند احباب اب معاملہ کو سمجھ گئے ہوں گے اور وہ احرار پر زور دیں گے کہ مباہلہ کی تفصیلی شرائط جماعت احمدیہ کے نمائندوں سے طے کر کے تاریخ کا تعین کریں اور اس طرح خالی اخباری گھوڑے دوڑا کر اس نہایت اہم امر کو ہنسی مذاق میں نہ ٹلا ئیں.الله اے بھائیو! احرار کے مذکورہ بالا جواب کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے کے لئے مباہلہ کا انتظار کئے بغیر میں اُس خدائے قہار و جبار، مالک ومختار، مُعِزّ و مُذِل، مُحْي اور ممیت کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرا اور سب جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت یہ عقیدہ ہے ( اور اگر کوئی دوسرا شخص اس کے خلاف کہتا ہے تو وہ مردود ہے اور ہم میں سے نہیں ) کہ رسول کریم علی افضل الرسل اور سید ولد آدم تھے.یہی تعلیم ہمیں بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے اور اسی پر ہم قائم ہیں.رسول کریم ﷺ کی امت اپنے آپ کو جانتے ہیں اور سب عزتوں سے زیادہ اس عزت کو سمجھتے ہیں.بے شک ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا کا مامور اور مرسل اور دنیا کے لئے ہادی سمجھتے ہیں لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کو جو
سيرة النبي علي 200 جلد 4 کچھ ملا وہ رسول کریم ﷺ کے طفیل اور آپ کی شاگردی سے ملا تھا.اور آپ کی بعثت کا مقصد صرف اسلام کی اشاعت اور قرآن کریم کی عظمت کا قیام اور رسول کریم علی کے فیضان کو جاری کرنا تھا اور جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره از بحر کمال محمد است این آتشم ز آتش ز آتش مهر محمد یست ویں آب من ز آب زلال محمد است 1 الله آپ جونور دنیا میں پھیلاتے تھے وہ رسول کریم ﷺ کے نور کا ایک شعلہ تھا اور بس.آپ رسول کریم ع سے جدا نہ تھے اور نہ ان کے مدمقابل.اور اسی طرح یہ کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دنیا کے دوسرے سب مقامات سے جن میں قادیان بھی شامل ہے افضل اور اعلی ہیں اور ہم احمدی بحیثیت جماعت ان دونوں مقامات کی گہری عزت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ان کی عزت پر اپنی عزت کو قربان کرتے ہیں اور آئندہ کرنے کے لئے تیار ہیں.اور میں خدائے واحد و قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس اعلان میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہا.میرا دل سے یہی ایمان ہے اور اگر میں جھوٹ سے یا اخفا یا دھوکا سے کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ:.اے خدا! ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے اس قسم کا دھوکا دینا نہایت خطر ناک فساد پیدا کر سکتا ہے.پس اگر میں نے اوپر کا اعلان کرنے میں جھوٹ ، دھو کے یا چالبازی سے کام لیا ہے تو مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر لعنت کر.لیکن اگر اے خدا! میں نے یہ اعلان سچے دل سے اور نیک نیتی سے کیا ہے تو پھر اے میرے رب ! یہ جھوٹ جو بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت، میری نسبت اور سب جماعت احمدیہ کی نسبت بولا جاتا ہے تو اس کے ازالہ کی خود ہی کوئی تدبیر کر اور اس ذلیل دشمن کو جو ایسا گندہ الزام ہم پر
سيرة النبي علي 201 جلد 4 لگاتا ہے یا تو ہدایت دے یا پھر اسے ایسی سزا دے کہ وہ دوسروں کے لئے عبرت کا موجب ہو.اور جماعت احمدیہ کو اس تکلیف کے بدلہ میں جو صرف سچائی کو قبول کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے عزت، کامیابی اور غیر معمولی نصرت عطا کر کہ تو اَرحَمُ الرَّاحِمِینَ ہے اور مظلوموں کی فریاد کو سننے والا ہے.اللَّهُمَّ آمِینَ.اے سننے والوسنو! کہ میں نے اپنی طرف سے قسم کھا لی ہے اور قسم کھا کر اس عقیدہ کا اعلان کر دیا جس پر میں اول دن سے قائم ہوں.اب احرار یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں مباہلہ سے گریز کرتا ہوں.میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ مباہلہ ہو یا نہ ہواللہ تعالیٰ کی نصرت اس میری قسم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو نصیب ہوگی اور پیش آمدہ ابتلاؤں یا آئندہ آنے والے ابتلاؤں سے ان کو نقصان نہ پہنچے گا بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل ہوگی.بے شک ابتلا خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کے لئے ضروری ہیں مگر اصل شے نتیجہ ہے جو ہمیشہ ان کے حق میں اچھا اور ان کے دشمن کے حق میں برا ہوتا ہے اور اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سے یہی سلوک ہوگا.وَ آخِرُ دَعُونَا ان الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ والسلام خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان 30 اکتوبر 1935ء 1: آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 1645 یڈیشن 2008ء ( الفضل 2 نومبر 1935ء)
سيرة النبي علي 202 جلد 4 عشق رسول اور رسول کریم علی کا ایک معجزہ حضرت مصلح موعود نے یکم نومبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.”ہمارے آقا و سردار محمد مصطفے اللہ کو تو عَلَى الْإِغلان گالیاں دی جاتی ہیں مگر مسلمانوں میں طاقت نہیں کہ اس کا ازالہ کر سکیں.اس حالت کا علاج ایک ہی صورت میں ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ پھر ایک آواز آسمان سے اٹھائے جو پھر اسلام کی عزت قائم کرے.پس جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ امت محمدیہ کے دل اور ہاتھ مفلوج ہو چکے ہیں اور ان کے اندر عشق کی آگ نہیں رہی تو اُس نے اپنا مامور بھیج دیا تا دائمی غیرت مسلمانوں کے اندر پیدا کرے.عارضی غیرت بھی دنیا میں بڑے بڑے کام کرا لیتی ہے جیسے بغداد کے برائے نام بادشاہ سے کرا دیا مگر یہ غیرت ایمان کی علامت نہیں.اگر ایمانی غیرت ہوتی تو اسلام کے دن اُسی وقت پھر جاتے مگر انہوں نے عورت کو چھڑایا اور پھر سو گئے.ایسی عارضی غیرت سے اسلام زندہ نہیں ہو سکتا.اسلام اُس غیرت سے زندہ ہوتا ہے جو کبھی مٹ نہ سکے.اُس آگ سے زندہ ہو سکتا ہے جو کبھی سرد نہ ہو سکے جب تک کہ سارے جہاں کو جلا کر راکھ نہ کر دے.اُس زخمی دل سے ہوسکتا ہے جو کبھی اند مال نہ پائے، اُسے وہ دیوانہ زندہ کر سکتا ہے جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگیاں قربان کی جاسکیں.یہی دیوانگی پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے اور اسی روح کو آپ کی زندگی میں ہم نے مشاہدہ کیا.آپ کے اندر سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے ، چلتے پھرتے ہم نے دیکھا کہ ایک آگ تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ
سيرة النبي الله صلى اللهم 203 جلد 4 محمد رسول اللہ علیہ کی عزت کو دنیا میں دوبارہ قائم کیا جا سکے.آج نادان اعتراض صلى الله کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم ﷺ کی پتنگ کی.مگر ہمیں تو معلوم ہے کہ آپ کو کس طرح ہر وقت آنحضرت علیہ کی عزت قائم کرنے کی دھن لگی رہتی تھی.مجھے ایک بات یاد ہے جو گو اس وقت تو مجھے بری ہی لگی تھی مگر آج اس میں بھی ایک لذت محسوس کرتا ہوں.ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ایک دفعہ باہر سے یہاں آئے.ابھی تک اُنہوں نے بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا.میں اُن سے ملنے گیا میرے بیٹھے بیٹھے ہی ڈاک آئی.اُس زمانہ میں توہین مذاہب کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا.اس سے بات چل پڑی تو مرزا سلطان احمد صاحب کہنے لگے اچھا ہوا بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے.(وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے ) ورنہ سب سے پہلے وہ جیل جاتے کیونکہ اُنہوں نے حضرت رسول کریم ﷺ کی توہین کو برداشت نہیں کرنا تھا.اُس وقت تو یہ بات مجھے بری لگی کیونکہ اس میں بے ادبی کا پہلو تھا مگر اس سے اُس محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے تھی.تو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کو دیکھا.آپ ایک آگ میں کھڑے تھے وہی آگ آپ نے ورثہ میں ہمیں دی ہے اور جس احمدی میں وہ آگ نہیں وہ آپ کا صحیح روحانی بیٹا نہیں.میں کہہ رہا تھا کہ ایک سال کا عرصہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ فرعونی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا.گالیاں تو آپ کو ہمیشہ ہی دی جاتی ہیں مگر یہ آواز قادیان میں سخت گستاخی اور دل آزار طریق پر اٹھائی گئی.ہمارے کانوں نے اسے سنا اور ہمارے دلوں کو اس نے زخمی کر دیا اور جماعت میں ایک عام جوش اور اس کے نتیجہ میں کام کرنے کا ایک عام ولولہ پیدا ہو گیا مگر میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ زخم ابھی تک ہرا ہے یا مندمل ہو رہا ہے ؟ جس کا زخم
سيرة النبي عمال 204 جلد 4 مندمل ہو رہا ہے وہ سمجھ لے کہ وہ اُس ایمان کو نہیں پا سکا جو کامیابی کے لئے ضروری ہے.لیکن اگر آج بھی ہرا ہے ، آج بھی تم قربانی کے لئے اُسی طرح تیار ہو ، آج بھی اپنی گردن آستانہ الہی پر اُسی طرح کٹوانے پر آمادہ ہو تو سمجھو کہ تمہارے اندر ایمان موجود ہے.اچھی طرح یاد رکھو کہ ایمان ، جنون اور موت ایک ہی چیز ہے سوائے اس کے کہ دنیوی جنون میں عقل ماری جاتی ہے اور صحیح مذہبی جنون میں عقل تیز ہو جاتی ہے پس اپنے دلوں کو ٹو لو اور دیکھو کہ تمہارے دل کی آگ کی وہ حالت تو نہیں جولو ہے کی ہوتی ہے جب اُسے آگ میں ڈالا جاتا ہے.جب اُسے آگ سے نکالا جائے تو سرد ہو جاتا ہے.خدا کی محبت کی آگ ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ایمان قائم رہ سکے.اس آگ میں مومن کا دل ہر وقت پگھلا رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کر کے بہت سی باتیں دور کر دی ہیں.اسی مقام قادیان میں گو حقیقتاً اس کی زمین میں نہیں ایک سال ہوا کہ احرار اصحاب فیل کی طرح آئے اور ان کے صدر نے اعلان کیا کہ فرعونی تخت الٹ دیا جائے گا لیکن تمہاری کوشش اور محنت کے بغیر.آج کہاں ہے وہ تخت جس پر بیٹھ کر جماعت کے متعلق یہ الفاظ کہے گئے تھے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے اور آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ ایک دفعہ یہود الله نے ایران کے بادشاہ کو حضرت رسول کریم ﷺ کے خلاف خوب بھڑ کا یا اور کہا کہ یہ شخص اپنی حکومت قائم کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں ایرانی مقبوضات آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے.بادشاہ ظالم تھا اس نے بغیر تحقیقات کے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ عرب کے جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اُسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دو.گورنر یمن نے اپنے چند آدمی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیج دیئے اور کہلا بھیجا کہ بے شک یہ حکم ظالمانہ ہے اور آپ نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی کہ جس سے شاہ ایران کو غصہ پیدا ہو لیکن چونکہ وہ طاقتور بادشاہ ہے اس لئے آپ کی طرف سے انکار کی صورت میں وہ عرب کو تاخت و تاراج کر دے گا آپ آجائیں اور میں
سيرة النبي عمال 205 جلد 4 سفارش کر دوں گا کہ آپ سے کوئی بدسلوکی نہ ہو.جب یہ قاصد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ پیغام دیا تو آپ نے فرمایا کہ اچھا ہم کل جواب دیں گے.دوسرے دن وہ پھر جواب کے لئے گئے مگر آپ نے پھر اگلے روز جواب دینے کو فر مایا اور اگلے روز پھر فرمایا کہ کل جواب دیں گے.اس طرح جب تین راتیں گزر گئیں تو ان قاصدوں نے کہا کہ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس طرح ٹال مٹول نہ کریں گورنر یمن نے آپ کی سفارش کا وعدہ کر لیا ہے ورنہ اگر شاہ ایران کو غصہ آگیا تو عرب کی حیثیت ہی کیا ہے وہ اسے بالکل تباہ کر دے گا.اس پر آپ نے فرمایا سنو ! اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ میرے خدا نے تمہارے خدا کو آج رات مار دیا ہے.انہوں نے اسے نَعُوذُ بِاللهِ مجذوب کی بڑ سمجھا اور خیر خواہی کے طور پر پھر نصیحت شروع کی مگر آپ نے فرمایا کہ تم جا کر یہ بات کہہ دو.گورنر یمن سے جا کر اُس کے نمائندوں نے جب یہ بات کہی تو اُس نے کہا کہ یہ شخص یا تو مجنون ہے یا نبی ہے بہر حال میں انتظار کروں گا.چند روز کے بعد ایران کا ایک جہاز بندرگاہ پر آیا جس میں سے ایک شاہی پیغامبر اترا اور بادشاہ کا خط گورنر کو دیا جس کی مہر دیکھتے ہی اُس نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات سچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اُس پر مہر ایک دوسرے با دشاہ کی تھی.خط کو کھولا تو اُس میں لکھا تھا کہ اپنے باپ کی ظالمانہ حرکات کو دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ وہ ملک کی حالت کو خراب کر رہا ہے فلاں رات ہم نے اُسے قتل کر دیا ہے اب ہم بادشاہ ہیں اس لئے ہماری اطاعت کرو.اور ہمارے باپ نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق ایسا ظالمانہ حکم دیا تھا اُسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں 1.“ ( الفضل 7 نومبر 1935ء) 1 تاريخ الطبرى المجلد الثانى ذكر الاحداث التي كانت في سنة ست من الهجرة صفحہ 133 ، 134 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الخامسة
سيرة النبي علي 206 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی زندگی کے متفرق واقعات وو صلى الله حضرت مصلح موعود 8 نومبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صلح حدیبیہ کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ کا ایک رئیس کفار کی طرف سے آپ سے گفتگو کرنے کیلئے آیا.وہ مکہ والوں کا اتنا بڑا محسن تھا کہ اس کا دعوی تھا کہ مکہ کا کوئی آدمی ایسا نہیں جس پر میرا کوئی احسان نہ ہو.یہ اپنے آپ کو وادی مکہ کا باپ سمجھتا تھا اور یہی شان دکھانے کے لئے اُس نے رسول کریم ﷺ کی داڑھی کو ہاتھ لگایا اور کہا میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو تم نے اپنے ارد گرد جمع کر لئے ہیں تمہارے کام نہیں آئیں گے آخر تمہاری قوم ہی ہے جو تمہارے کام آئے گی پس تم اپنی قوم کی بات مان لو.جونہی اس نے رسول کریم علی کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا یا ایک صحابی نے زور سے اپنی تلوار کا کندہ اُس کے ہاتھ پر مارا اور کہا ہاتھ پرے کر ! کیوں تو اپنا نا پاک ہاتھ رسول کریم ﷺ کے مقدس جسم سے چھوتا ہے.اُس نے نظر اٹھائی اور کہا کیا تو وہ شخص نہیں جس کے خاندان پر فلاں موقع پر میں نے احسان کیا تھا؟ یہ سخت نازک موقع تھا مگر احسان کا لفظ سن کر اُس صحابی کی آنکھیں نیچی ہو گئیں اور وہ جھٹ پیچھے ہو گیا.تب اُس نے سمجھا کہ اب میں نے میدان صاف کر لیا.تب اُس نے وہی بات کہہ کر رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا.اس پر پھر ایک صحابی نے بڑے زور سے تلوار کا کندہ اُس کے ہاتھ پر مارا اور کہا کیوں تو اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم ﷺ کے مقدس جسم سے چھوتا ہے ؟ اُس نے نظر اٹھائی مگر دیکھ کر نگاہ نیچی کر لی اور کہا تمہارے خلاف میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ الله
سيرة النبي عمال 207 جلد 4 تم پر میرا کوئی احسان نہیں.یہ دوسرے شخص حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے 1.تو مومن اگر قید کیا جا سکتا ہے تو احسان سے.ایک دفعہ کسی جنگ میں ایک شخص کفار کی طرف سے لڑائی میں شامل ہوا تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا دیکھنا لڑائی میں فلاں شخص بھی شامل ہے یہ میرے ساتھ اچھا سلوک کیا کرتا تھا اور جب مکہ والے میری مخالفت کرتے اور سخت ایذائیں دیا کرتے تھے تو یہ پوشیدہ طور پر میری مدد کیا کرتا ، اس کا خیال رکھنا.اگر چہ مہاجر اس سے واقف تھے مگر چونکہ انصار واقف نہ تھے اور وہ بھی جنگ میں شامل تھے اس لئے اُنہیں بتانے کے لئے رسول کریم علیہ نے یہ فرمایا.اسی طرح حنین کی جنگ جس میں مسلمانوں کو بوجہ اس کے کہ مکہ کے نو مسلم بھی اس میں شامل ہو گئے تھے بہت بڑا نقصان پہنچا تھا یہاں تک کہ ایک موقع پر رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک بھی خطرے میں پڑ گئی تھی اور چار ہزار تجربہ کار تیراندازوں کے نرغہ میں رسول کریم ﷺ آگئے تھے اور صرف چند صحابہ آپ کے ساتھ رہ گئے تھے ایسی خطرناک جنگ کے ختم ہونے کے بعد جس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے آخر دشمن قید کر لئے گئے اور ان کے اموال پر قبضہ کر لیا گیا.یہ قید ہونے والے اُس قوم میں سے تھے جس میں رسول کریم ﷺ بچپن میں رہے اور جس قوم کی ایک عورت کا آپ نے دودھ پیا تھا.کفار نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد رسول کریم ﷺ کی صلى الله رضاعی بہن سے کہا کہ تو جا اور رسول کریم ﷺ سے ہماری سفارش کر.ان میں سے خود کوئی رحم کی درخواست کی بھی جرات نہیں کرتا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا.جب رسول کریم ﷺ کی رضاعی بہن آپ کے پاس آئی اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میں آپ کے پاس ایک کام سے آئی ہوں تو رسول کریم علی نے فرمایا بہن! میں تو تیرا ایک مہینہ تک انتظار کرتا رہا تا تو سفارش کے لئے آئے تو مجھے تیری سفارش رد نہ کرنی پڑے مگر ایک مہینہ کے انتظار کے بعد میں نے غنیمت کا
سيرة النبي علي 208 جلد 4 مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ہے.اب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ تم لوگ ایک چیز چن لو یا مال یا قیدی.اگر مال کہو تو میں واپس دلوا دیتا ہوں اور اگر قیدی کہو تو انہیں چھڑوا دیتا ہوں.دونوں میں سے جو بھی صورت پسند ہو بتا دو.انہوں نے اپنے قبیلہ سے مشورہ کیا تو فیصلہ کیا ہمیں مال نہیں چاہئے قیدی دے دیئے جائیں.رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا میں نے اس قوم میں دودھ پیا ہے کیا تم اس تعلق کی وجہ سے ان کے قیدی چھوڑ سکتے ہو؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! ہمیں اس سے زیادہ خوشی اور کس میں ہو سکتی ہے چنانچہ انہوں نے سب قیدی رہا کر دیے 2.تو مومن کو طاقت اور تعداد ڈرا نہیں سکتی بلکہ جتنا زیادہ اسے ڈرایا اور دھمکایا جائے اور جتنا زیادہ اُس پر دباؤ ڈالا جائے اتنا ہی زیادہ وہ اونچا ہوتا ہے مگر جتنا زیادہ اس کے سامنے جھکو اتنی ہی زیادہ وہ محبت کرتا ہے.“ (الفضل 13 نومبر 1935 ء ) 66 1 : بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد والمصالحة مع اهل الحرب وكتابة الشروط صفحه 448،447 حدیث نمبر 2731 ، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى و يوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم صفحه 730 حدیث نمبر 4318، 4319 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 209 جلد 4 رسول کریم اللہ کے پیدا کردہ اخلاق صلى اللحم علوس حضرت مصلح موعود 8 نومبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.ایک دفعہ کسی بات میں جھگڑا ہو گیا.حضرت عمر دوڑے دوڑے رسول کریم علی کے پاس پہنچے اور جا کر کہا مجھ سے آج سخت غلطی ہوئی حضرت ابو بکر کی میں بے ادبی کر بیٹھا حضور! میرا قصور معاف کرا دیں.ادھر حضرت ابو بکر جلدی جلدی رسول کریم علی کے حضور پہنچے تا آپ انہیں حضرت عمرؓ سے معافی دلوا دیں.جب حضرت ابو بکر رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے تو حضرت عمر اس سے پہلے پہنچ چکے تھے اور واقعہ عرض کر چکے تھے.رسول کریم ﷺ کو اسے سن کر سخت تکلیف ہوئی کہ کیوں حضرت ابوبکر سے وہ جھگڑے اور آپ نے ناراضگی سے کہنا شروع کیا کہ کیوں تم لوگ اُسے ستاتے ہو جو اُس وقت مجھ پر ایمان لایا جب دوسرے لوگ اسلام کو رد کر رہے تھے؟ صلى الله جب رسول کریم ہے اس طرح اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرما رہے تھے حضرت ابو بکر بھی وہاں آپہنچے اور بجائے اس امر پر خوش ہونے کے فوراً دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور عاجزانہ طور پر عرض کرنے لگ گئے کہ يَا رَسُولَ اللهِ! عمر کا قصور نہیں غلطی میری تھی.الله یہ وہ اخلاق ہیں جو رسول کریم ﷺ نے پیدا کئے اور یہ وہ اخلاق ہیں جو تو ارث کے طور پر مسلمانوں میں چلتے رہے یہاں تک کہ ان میں بداعمالیوں کی کثرت ہو گئی اور ہوتے ہوتے اسلامی اخلاق ان میں سے بالکل مٹ گئے.پہلے لوگوں کو تو ہم فخر کے ساتھ دوسری قوموں کے سامنے پیش کر سکتے اور ان سے کہہ سکتے تھے کہ یہ ہیں جو اسلامی اخلاق کا نمونہ ہیں.مگر کیا آج کے مسلمانوں کو بھی ہم دوسری قوموں کے
سيرة النبي عليه 210 جلد 4 ع سامنے پیش کر سکتے ہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ امت ہے جو رسول کریم ہ نے تیار کی ؟ اگر نہیں تو اس لئے کہ ان کا رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہونا آپ کی ہتک ہے.پھر میں پوچھتا ہوں کیا ہمارا فرض نہیں کہ اس ہتک کو دور کریں جو رسول کریم ﷺ کی دنیا میں ہو رہی ہے؟ اور کیا ہمارا فرض نہیں کہ اس دھبہ کو آپ پر سے ہٹائیں؟ پس جب تک مسلمانوں کی حالت کو اس رنگ میں نہ بدل دو کہ انہیں کھیل نہ بنایا جا سکے ، نہ انہیں اسلام کی تعلیم سے پھرایا جا سکے نہ انہیں بغاوت پر آمادہ کیا جا سکے ، نہ آپس میں لڑوایا جا سکے اور نہ اخلاق سے عاری اور بے بہرہ کر کے گندی گالیاں دینے پر آمادہ کیا جا سکے ، اُس وقت تک تمہارا فرض ہے کہ مسلمانوں کی درستی کی کوشش کرتے چلے جاؤ اور دم نہ لو جب تک کہ ان کی اصلاح نہ ہو جائے.کس طرح ممکن ہے کہ رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہونے والوں کی ایسی گندی حالت ہو اور ہم گھروں میں چین سے بیٹھے رہیں.آخر یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں.“ (الفضل 13 نومبر 1935ء)
سيرة النبي علي 211 جلد 4 تقسیم غنائم پر ایک انصاری کا اعتراض حضرت مصلح موعود آل انڈیا نیشنل لیگ کی والنٹیئرز کور سے خطاب کرتے ہوئے الله 24 نومبر 1935 ء کو فرماتے ہیں:.میں اس موقع پر یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ انسان کے اعمال کے دو قسم کے بدلے ہوا کرتے ہیں ایک وہ بدلہ جو چاندی اور سونے کی صورت میں اسے ملتا ہے اور ایک وہ بدلہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی رضا کی صورت میں حاصل ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور اس موقع پر کچھ اموال ہاتھ آئے اور رسول کریم ﷺ نے بعض کمزور لوگوں میں انہیں تقسیم کر دیا تو بعض نوجوانوں نے صلى الله اعتراض کیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر رسول کریم ﷺ نے اموال مکہ والوں کو دے دیئے کیونکہ وہ آپ کے رشتہ دار تھے.اس پر رسول کریم ﷺ نے تمام انصار کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ بات بیان فرمائی کہ آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں صلى الله کہ جب مکہ والوں نے محمد (ﷺ) کو باوجود بھائی بند ہونے کے اپنے شہر سے نکال دیا تو مدینہ کے لوگوں نے پناہ دی، ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کی ، اپنی جانیں تک دیں اور ہر رنگ میں مدد اور اعانت کی لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو انہوں نے تمام اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے.آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں.صحابہ نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله! یہ ہم نہیں کہتے.ہم میں سے ایک بے وقوف نوجوان نے یہ بات کہی ہے.آپ نے فرمایا مگر اس بات کی ایک اور صورت بھی تھی اور اگر تم چاہتے تو اس رنگ میں بھی کہہ سکتے تھے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نبی بھیجا ایسا نبی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کا
سيرة النبي علي 212 جلد 4 سردار بنایا اور روئے زمین کے تمام انسانوں کے لئے اسے ہادی بنا کر مبعوث کیا،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہ انسانی کوششوں سے بلکہ محض اپنے فضل اور رحم سے فرشتوں کی فوج کی مدد کے ساتھ اسے فتح دی اور مکہ جو اُس کا وطن تھا اس کے قبضہ میں دے دیا.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکہ میں اسے فاتحانہ طور پر داخل کیا تو مکہ جہاں کا وہ رہنے والا تھا اس کے باشندے تو اونٹوں اور بھیڑوں کے گلے اپنے گھروں کو لے گئے لیکن مدینہ کے لوگ جہاں کا وہ رہنے والا نہ تھا اپنے گھروں میں خدا کے رسول کو لے آئے 1.تو دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چاندی اور سونے کے لئے محنتیں کرتے ہیں جیسے مکہ والے تھے کہ وہ اونٹوں کے گلے اپنے گھروں کو لے گئے.ان کا بھی کام کرنے سے مقصد و مدعا یہ ہوتا ہے کہ سونا اور چاندی ان کی جیبوں میں پڑے.لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے مد نظر مال و دولت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کا منتہائے نظر ہوتا ہے.تو آپ لوگوں نے جو کام کیا ہے اگر چہ صرف آپ نے ہی یہ کام نہیں کیا گورنمنٹ کے سپاہی بھی اس کام پر متعین تھے اور جب وہ جائیں گے تو کسی کو رستہ کے اخراجات کے لئے روپیہ ملے گا اور کسی کو بھیتا ملے گا لیکن اس قسم کی کوئی چیز آپ لوگوں کو نہیں ملی اور گو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ آپ لوگوں کا وقت ضائع گیا لیکن جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مکہ کے لوگ تو اونٹوں کے گلے اپنے گھروں کو لے گئے اور مدینہ کے لوگ خدا کا رسول لے آئے.اسی طرح اس کام کے بدلے جو چیز آپ لوگوں کو ملی ہے وہ ان لوگوں کو نہیں ملی.آپ لوگوں نے سلسلہ کی حفاظت کا کام کر کے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی ہے جس کے مقابلہ میں سونے (الفضل 26 نومبر 1935ء ) 66 اور چاندی کی کوئی حیثیت نہیں.“ 1: بخاري كتاب فرض الخمس باب ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يعطى المؤلفة قلوبهم صفحہ 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 213 جلد 4 رسول کریم اللہ کا صبر و تحمل حضرت مصلح موعود نے 6 دسمبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.وو صلى الله رسول کریم وہ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں عبادت کر رہے تھے کہ کفار نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اس زور سے دبایا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور بعضوں نے سمجھا کہ شاید آپ اس تکلیف سے وفات پا جائیں گے.اُس وقت تک پردہ کا حکم نہیں اترا تھا.جب رسول کریم اللہ کو اس رنگ میں اذیت دی گئی تو آپ کے خاندان کی بعض مستورات باہر آگئیں اور اُنہوں نے کفار کو کہا تمہیں شرم نہیں آتی تم ایک ایسے شخص کو محض خدائے واحد کی عبادت کرنے کے جرم میں تکلیف دیتے ہو 1.ہم میں سے رسول کریم ﷺے کے برابر کیا آپ کی خاک پا کے برابر بھی کون ہے پھر اگر آپ نے ان سب تکلیفوں کو برداشت کیا تو ہم کون ہیں کہ ان تکلیفوں کو برداشت نہ کر سکیں.(الفضل 12 دسمبر 1935ء) 1: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم باب قول النبي صلى الله علیه وسلم لو كنت متخذا خليلا صفحه 618 حدیث نمبر 3678 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية میں عورتوں کی بجائے حضرت ابوبکر کا ذکر ہے.66 صلى الله
سيرة النبي علي 214 جلد 4 وو رسول کریم علی اور نصرت الہی حضرت مصلح موعود نے 13 دسمبر 1935ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:.رسول کریم اللہ نے اہل مدینہ کی پہلی بیعت میں شرط منظور کی تھی کہ مدینہ کے مسلمان اُسی وقت رسول کریم ﷺ کے دشمنوں سے جنگ کریں گے جب کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہوں.مدینہ سے باہر وہ لڑائی کے ذمہ دار نہ ہوں گے 1.اگر اسی طرح آج کوئی شرطی بیعت کرنا چاہتا ہے تو اسے بیعت سے پہلے واضح کر دینا چاہئے تا کہ میں چاہوں تو اُس کی بیعت قبول کروں اور چاہوں تو رد کر دوں.اور اگر ایسے شخص کی بیعت منظور کروں تو بے شک میرا حق نہیں ہو گا کہ اُسے اُس حد سے آگے لے جاؤں جس حد تک ساتھ چلنے کا اُس کا وعدہ ہو.لیکن جو شخص پہلے بے شرط بیعت کرتا اور بعد میں شرطیں باندھتا ہے، دین کے لئے قربانی کرنے سے ہچکچاتا اور بہانے بنا تا ہے وہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے.میں کہوں گا کہ تمہارے اپنے اقرار کی وجہ سے تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ دریافت کرتا ہے کہ میں تو تم سے مدد مانگنے کے لئے نہیں گیا تھا تم نے خود کہا تھا کہ ہم مہاجر اور انصار بنتے ہیں ورنہ جب تم نہیں تھے اُس وقت بھی خدا اپنے رسول کی مدد کرتا تھا تم نے کہا ہم مدد کرتے ہیں خدا تعالیٰ نے کہا کہ اچھا! ہم خدمت کا موقع تمہیں دیتے ہیں ہاں اگر تم خود مدد کرنا نہ چاہوتو ہم تمہیں مجبور نہیں کر سکتے.یہ دیکھ لو کہ جب ہمارا رسول صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے باہر نکلا تھا اُس وقت اُس کی کس نے مدد کی تھی ؟ یا د رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ ثَانِيَ اثْنَيْنِ کا
سيرة النبي عمال 215 جلد 4 ترجمہ دو میں سے دوسرا کرتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ثانی کا لفظ زائد آ گیا ہے لیکن یہ درست نہیں.ثَانِيَ اثْنَيْنِ کے معنی ہی یہ ہیں کہ جب اُس کے ساتھ صرف ایک شخص تھا یعنی دو شخصوں میں سے یہ ایک تھا.اس میں کوئی لفظ زائد نہیں اور جو اس کے کوئی اور معنے کرتا ہے وہ عربی سے ناواقفی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کافروں نے ہمارے رسول کو نکال دیا تو اُس وقت جب صرف ایک ساتھی اس کے ساتھ تھا اُس وقت بھی ہم نے اس کی مدد کی.یہ اشارہ غار ثور کے واقعہ کی طرف ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب بعض صحابہؓ حبشہ کو اور بعض مدینہ کو ہجرت کر گئے تو آنحضرت عمے کو بھی بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپ بھی ہجرت کریں مگر آپ نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آنے پر کروں گا.حضرت ابو بکر نے بھی کئی بار ہجرت کی خواہش کی مگر اُن کو بھی آپ نے روک دیا.معلوم ہوتا ہے کہ الہاماً آپ کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ آپ کے ساتھی ہوں گے.ایک دن آپ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور فرمایا کہ آج ہجرت کا حکم مجھے ہو گیا ہے اس پر حضرت ابو بکر نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مجھے بھی ساتھ چلنے کا موقع دیجیے اور میرے پاس ایک تیز رفتار اونٹنی ہے اسے ہدیہ قبول فرمائیے.آپ نے فرمایا کہ ساتھ چلنے کی تو اجازت ہے مگر اونٹنی میں تحفہ نہیں لوں گا بلکہ اُس کی قیمت دوں گا.رات کے وقت آنحضرت معہ ایسے وقت میں گھر سے نکلے جب ہر قوم کا ایک ایک آدمی تلواریں لئے مکان کے باہر اس نیت سے کھڑا تھا کہ آپ باہر نکلیں تو قتل کر دیا جائے.آپ کو اُن کے اس منصو بہ کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا تھا اس لئے آپ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا دیا تا کفار مطمئن رہیں کہ آپ گھر میں سور ہے ہیں.وہ دروازوں کی دراڑوں میں سے دیکھتے تھے اور اس انتظار میں تھے صلى الله کہ گھر سے باہر آئیں تو آپ کو قتل کریں.مگر آ نحضرت ﷺ اندھیرے میں نکل کران کے سامنے باہر نکل گئے اور کفار سمجھے کہ یہ کوئی اور شخص ہے آپ اندر لیٹے ہوئے ہیں.
سيرة النبي علي 216 جلد 4 رسول کریم ﷺ نے مقررہ جگہ پر پہنچ کر حضرت ابو بکر کو ساتھ لیا اور غار ثور پر جا پہنچے.میں اُس غار کے قریب تک گیا ہوں لیکن افسوس ہے کہ دل کے ضعف کی وجہ سے میں عین اُس کے دہانہ پر نہیں پہنچ سکا.سو پچاس گز کے فاصلہ پر تھک کر رہ گیا.رستہ سخت دشوار گزار ہے اور میرا دل چونکہ زیادہ چڑھائی پر چڑھنے سے دھڑ کنے لگتا ہے اس لئے میں عین وہاں تک نہ پہنچ سکا مگر اپنے ایک ساتھی کو وہاں تک بھیجا جس نے بتایا کہ کئی گز چوڑا منہ ہے.غرض آنحضرت علیہ حضرت ابو بکر کو لے کر وہاں پہنچ گئے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ چونکہ تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے کعبہ میں جایا کرتے تھے اس لئے کفار کا ارادہ یہ تھا کہ جب تہجد کے لئے گھر سے باہر نکلیں گے تو قتل کر دیا جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ آپ جب گھر سے نکلے تو کسی نے یہ دریافت ہی نہیں کیا کہ کون ہے.انہیں یقین تھا کہ آپ لیٹے ہوئے ہیں ( چار پائی پر یا زمین پر جہاں بھی آپ سوتے تھے ) کیونکہ حضرت علی انہیں آپ کی جگہ پر لیٹے ہوئے نظر آتے تھے.صبح کے وقت جب آپ گھر سے نہ نکلے بلکہ ان کی جگہ حضرت علی گھر سے نکلے تو اُن کو بہت حیرت ہوئی اور اُن کو پتہ لگ گیا کہ آپ رات کو چلے گئے ہیں اس لئے کھوجیوں کو بلایا گیا اور تعاقب کیا گیا.کھوجی تعاقب کرنے والوں کو لے کر اس غار پر پہنچا اور کہا کہ نشان یہیں تک ہے یا تو وہ اس غار کے اندر ہیں اور یا آسمان پر چلے گئے ہیں.عرب کے کھو جی بہت ماہر ہوتے تھے اور اُن کی بات پر اعتبار کیا جاتا تھا لیکن اُس وقت اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا تصرف اُن کے دلوں پر کیا کہ باوجود کھوجی کے اصرار کے اُنہوں نے یقین نہ کیا کہ آپ اس غار میں ہیں.وجہ یہ ہوئی کہ غار کے ارد گرد اُس کے دہانہ پر جھاڑیاں ہیں.رسول کریم ﷺ کے اندر جانے کے بعد ان پر کڑیوں نے جالا تن دیا.ہر شخص جانتا ہے کہ مکڑی ایک منٹ میں جالاتن دیتی ہے.ہم بچپن میں یہ کھیل دیکھا کرتے تھے کہ ایک مکڑی نے جالا تنا شروع کیا ہے اور ایک منٹ میں تن دیا ہے مگر تصرف الہی کے ماتحت اُن کی عقل ایسی ماری گئی کہ
سيرة النبي علي 217 جلد 4 انہوں نے خیال کیا کہ اس غار میں کوئی نہیں اترا کیونکہ اگر کوئی اثر تا تو یہ جالے ٹوٹ جاتے.اُس وقت جب کھوجی یہ باتیں کر رہا تھا کہ آپ یا اس غار میں ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں اُس وقت کیا مشکل تھا کہ وہ نیچے جھانک کر دیکھ لیتے مگر یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ کسی کو اس کی توفیق نہ ہوئی.لیکن کھوجی کے یہ الفاظ کہنے سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ مکہ کے لوگ ضرور غار کے اندر اتر کر دیکھیں گے.پس اُس وقت حضرت ابوبکر نے گھبرا کر کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! اب کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ گھبراہٹ کی بات نہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھے اپنے متعلق تو کوئی گھبراہٹ نہیں.کیونکہ اگر میں مارا گیا تو میں ایک فرد ہوں مجھے آپ کے متعلق فکر ہے کیونکہ اگر آپ مارے گئے تو دین اور امت تباہ ہو جائیں گے.یہ محبت بھرے الفاظ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئے کہ رسول کریم ﷺ کو وحی ہوئی کہ اپنے ساتھی سے کہہ دو کہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا 2 - جس کا مطلب یہ تھا کہ اے رسول! تو ابو بکر سے کہہ دے کہ رسول کے لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں.اللہ نہ صرف اس کا بلکہ اس کا ساتھی ہونے کی وجہ سے تیرا بھی محافظ ہے.بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ گھبرا گئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ یہ گھبراہٹ اپنے لئے نہیں تھی بلکہ رسول کریم ﷺ کی خاطر تھی.آپ کی اس حرکت پر ایک اعتراض ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ان کا یہ ایمان نہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ؟ اور اس کا جواب یہ ہے کہ عشق است و ہزار بد گمانی جب عشق کمال کو پہنچ جائے تو اس کے ماتحت کئی قسم کے تو ہمات شروع ہو جاتے ہیں اور وہ بھی قابل قدر ہوتے ہیں.حضرت خلیفہ اوّل مجھ سے بہت محبت کرتے تھے.بعض دفعہ کوئی غیر میری شکایت کر دیتا تو مجھ سے پوچھتے.جب میرا جواب سن لیتے تو کہتے میاں برا نہ منانا د عشق است و هزار بدگمانی
سيرة النبي ما 218 جلد 4 مجھے اس وقت بچپن کی ایک بات یاد آ گئی مجھے اس پر ہنسی بھی آیا کرتی ہے اور اس پر ناز بھی.ہے تو وہ جہالت کی بات مگر ایسی جہالت جس پر عقل کے ہزاروں فعل قربان کئے جا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت صحن میں سور ہے تھے کہ بادل زور شور سے گھر آئے اور بجلی نہایت زور سے کڑکی.وہ کڑک اس قدر شدید تھی کہ ہر شخص نے یہی سمجھا کہ گویا بالکل اُس کے پاس بجلی گری ہے.اس کیفیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ہمارے بورڈنگ ہاؤس کا ایک لڑکا اُس وقت گھبرا کر چار پائی سے گر پڑا اور اس نے خیال کیا کہ بجلی مجھ پر گری ہے اور اس خوف سے اس نے شور مچانا شروع کیا مگر دہشت کی وجہ سے اُس کی زبان سے لفظ تک نہیں نکلتا تھا.سننے والے حیران تھے کہ وہ چار پائی کے نیچے پڑا ہوا بلی بلی کا شور کر رہا تھا آخر کچھ دیر کے بعد وہ سمجھے کہ یہ بجلی بجلی کر رہا ہے.خیر تو جب بادل زور سے آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو صحن میں سو رہے تھے چار پائی سے اٹھ کر کمرہ کی طرف جانے لگے.دروازہ کے قریب پہنچے کہ بجلی زور سے کڑکی.میں اُس وقت آپ کے پیچھے تھا میں نے اُسی وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دیئے.اس خیال.کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے آپ پر نہ گرے.اب یہ ایک جہالت کی بات تھی بجلیاں جس خدا کے ہاتھ میں ہیں اُس کا تعلق میری نسبت آپ سے زیادہ تھا بلکہ آپ کے طفیل میں بھی بجلی سے بچ سکتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہاتھوں سے بجلی کو نہیں روکا جاسکتا مگر عشق کی وجہ سے مجھے ان سب باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی.محبت کے وفور کی وجہ سے یہ سب باتیں میری نظر سے اوجھل ہو گئیں اور میں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.یہ جہالت کی بات تھی مگر اس جہالت پر میں آج بھی ہزار عقل قربان کر دینے کے لئے تیار ہوں کیونکہ یہ جہالت عشق کی وجہ سے تھی.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی آنحضرت ﷺ سے عشقیہ تھا.جب آپ مدینہ میں داخل ہونے کے لئے مکہ سے نکلے تو اُس وقت بھی آپ کا تعلق عاشقانہ تھا
سيرة النبي عمال 219 جلد 4 اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اُس وقت بھی تعلق عاشقانہ تھا.چنانچہ جب آنحضرت ل پر اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا 3 کی وحی قرآنی نازل ہوئی جس میں مخفی طور پر آپ کی وفات کی خبر تھی تو آپ نے خطبہ پڑھا اور اُس میں اس سورۃ کے نزول کا ذکر فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقیات میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور اُس نے خدا تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی.اس سورۃ کوسن کر سب صحابہؓ کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور سب اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ اب یہ دن آ رہا ہے مگر جس وقت باقی سب لوگ خوش تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی چیخیں نکل گئیں اور آپ بے تاب ہو کر رو پڑے اور آپ نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ! آپ پر ہمارے ماں باپ اور بیوی بچے سب قربان ہوں.آپ کے لئے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.گویا جس طرح کسی عزیز کے بیمار ہونے پر بکرا ذبح کیا جاتا ہے اُسی طرح حضرت ابو بکر نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرت کے لئے پیش کی.آپ کے رونے کو دیکھ کر اور اس بات کو سن کر بعض صحابہ نے کہا دیکھو! اس بڑھے کو کیا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو اختیار دیا ہے کہ خواہ وہ رفاقت کو پسند کرے یا دنیوی ترقی کو اور اُس نے رفاقت کو پسند کیا یہ کیوں رو رہا ہے؟ اس جگہ تو اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہے.حتی کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے بھی اس کا اظہار حیرت کیا.رسول کریم علیہ نے لوگوں کے اس استعجاب کو محسوس کیا اور حضرت ابو بکر کی بیتابی کو دیکھا اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا کہ ابو بکر مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتا.مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں 4.پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے سب لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابو بکر
سيرة النبي علي 220 جلد 4 کی کھڑکی کے.اور اس طرح آپ کے عشق کی آنحضرت ﷺ نے داد دی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بتا دیا کہ اس فتح ونصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر ہے اور آپ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کیا کہ ہم مر جائیں مگر آپ زندہ رہیں.رسول کریم ﷺ کی وفات پر بھی حضرت ابوبکر نے اعلیٰ نمونہ عشق کا دکھایا.غرض حضرت ابو بکر نے غار ثور میں اپنی جان کے لئے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ رسول کریم مے کے لئے.اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو خاص طور پر تسلی دی.اس واقعہ کی طرف ان آیات میں اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس خطر ناک موقع پر کس نے رسول کریم علیہ کی صلى الله مدد کی تھی ؟ اُس وقت بھی ہم نے ہی اُسے بچایا تھا اور اگر آج بھی تم جواب دے دو تو ہم خود اس کی مدد کریں گے.پس اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ طریق بالکل غلط ہے کہ نہ کام کیا جائے اور نہ جواب دیا جائے کوئی شریف انسان اس طریق کو اختیار کرنا پسند نہیں کرے گا.میرے ہاتھ میں تلوار نہیں کہ کوئی کہہ دے میں ڈر گیا تھا اور ڈر کر میں نے اقرار کر لیا تھا.جب کوئی شخص کام کرنا نہیں چاہتا تو وہ کہہ دے یا جس حد تک کرنا چاہتا ہے وہ بتا دے مگر جب کوئی شرط نہیں تو پھر کیوں تساہل سے کام لیا جاتا ہے.بے شک جس کا دل چاہے ہٹ جائے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ کی ترقی اور حفاظت کے سامان خود پیدا کر دے گا.گھبراہٹ اگر ہو سکتی ہے تو مجھے جس پر ذمہ داری ہے مگر میں جانتا ہوں کہ خواہ سارے مجھے چھوڑ جائیں اللہ تعالیٰ خود میری مدد کا سامان پیدا کر دے گا اور مجھے کامیابی عطا کرے گا لیکن بفرض محال اُس نے میرے لئے اس جدو جہد میں موت ہی مقدر کی ہوئی ہے تو میں اس موت کو برانہیں سمجھتا.خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا بھی خواہ بظاہر نا کامی کی شکل میں بہت پیارا ہوتا ہے پس جسے دنیا نا کامی سمجھتی ہے وہ بھی میرے لئے کامیابی ہے اور جو اس کے نزدیک کامیابی ہے وہ بھی میرے لئے کامیابی ہی ہے.
سيرة النبي عمال 221 جلد 4 پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَاءٍ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے رسول کے دل پر سکینت نازل کی اور جب ظاہری لشکر نا پید تھے اُس نے اس کی مدد ایسے لشکروں کے ذریعہ سے کی جو دنیا کو نہ نظر آتے تھے.اب بھی دیکھ لو کہ احمدی جماعت جس قدرستی تبلیغ میں کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کی کسر پوری کر دیتے ہیں.کئی لوگ بیعت کے لئے آتے ہیں اور پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ بیعت کا حکم ہمیں کشف یا رویا میں ہوا تھا.کئی دفعہ حکم ہوا لیکن ہم سستی کرتے رہے آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انذار آیا کہ اگر بیعت نہ کرو گے تو تمہارا خاندان تباہ کر دیا جائے گا اس پر ہم بیعت کے لئے آمادہ ہو گئے.جس پیرے کا قصہ میں نے سنایا ہے اُس کے ایک بھتیجے کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا.وہ پہلے نماز نہیں پڑھتا تھا پھر یکدم نمازیں پڑھنے لگ گیا اور اُس نے بیعت کر لی.دو چار دن برابر نمازوں میں دیکھ کر حضرت خلیفہ اول نے اُس سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم با قاعدہ نماز پڑھتے ہو پہلے تو باوجود بار بار کی تاکید کے تم نمازوں سے بھاگتے تھے.اُس نے اپنے پنجابی لہجہ میں کہا کہ مولوی صاحب! مجھے بھی ہلام ہوا تھا (الہام ہوا تھا ) کہ تو نماز پڑھا کر.حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کیا الہام ہوا تھا ؟ تو اُس نے کہا یہ الہام ہوا تھا اوٹھ اوئے سورا ! نماز پڑھ.یعنی اوسو راٹھ کر نماز پڑھ.غرض خدا تعالیٰ کو آدمیوں کی ضرورت نہیں وہ کام لینا چاہے تو ملائکہ سے ہی کام لے لیتا ہے.خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی ترقی کے لئے دیانت اور امانت کی آدمیوں سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو لوگ دیانتداری کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے انہیں چاہئے کہ پیچھے ہٹ جائیں اور میدان سے الگ ہو جائیں اور یہ بالکل نہ کہیں کہ ہم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ وہ اس طرح اپنے آپ کو اور گنہگار بناتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلَى ، باوجود اس کے کہ ہمارا رسول اکیلا تھا گو ابو بکڑ ساتھ تھے مگر وہ بھی آپ میں مدغم تھے کیونکہ
سيرة النبي علي 222 جلد 4 صدیق اُسی کو کہتے ہیں جو نبی سے کامل اتحاد رکھتا ہو پس ان کے ساتھ ہونے کے باوجود آپ اکیلے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے کفار کی مجموعی تدابیر کو ناکام بنا دیا اور اُس نے فتح دی.پس ظاہری تدبیروں سے کچھ نہیں بنتا ہم تو صرف تمہیں ثواب کا موقع دیتے ہیں.وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ الله تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے پس اُسے کسی کی احتیاج ہی کیا ہو سکتی ہے.پھر فرمایا انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا و جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 2 - یعنی ہم اپنے قول کو دوبارہ دہراتے ہیں کہ اتنی نصیحت کے بعد شاید تمہارے دل نرم ہو گئے ہوں اور تم حکم خدا وندی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو.اور کہتے ہیں کہ تم کو چاہئے کہ حالات کے تقاضا کے مطابق تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکل کھڑے ہو.خواہ خفیف ہونے کی حالت میں خواہ ثقیل ہونے کی حالت میں.خفیف اور ثقیل کے معنی جوان اور بوڑھے کے بھی ہو سکتے ہیں، غریب اور امیر کے بھی ، تندرست اور بیمار کے بھی ، فارغ اور مشغول کے بھی ، مجرد اور متاہل کے بھی، بے سروسامان اور ساز وسامان والے کے بھی ، سوار اور پیادہ کے بھی اور اکیلے اور جتھے والے کے بھی.ان حالتوں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کو خدا کی راہ میں نکل کھڑا ہونا چاہئے اور اپنے اموال اور اپنی جانوں سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہئے.“ الفضل 21 دسمبر 1935ء ) صلى الله 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول استيثاق الرسول عليه من امر الانصار صفحه 675 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول حديث هجرته الى المدينة صفحه 542 تا 544 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى السيرة الحلبية الجزء الثاني باب عرض صلی الله عليه وسلم نفسه على القبائل صفحہ 206 مطبوعہ بیروت 2012 ء رسول ا الله الطبعة الأولى
سيرة النبي علي 3: النصر : 2 تا 4 223 جلد 4 4 ترمذی ابواب المناقب باب لو كنت متخذا خليلا صفحہ 833 حدیث نمبر 3660،3659 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 6،5: التوبة: 40 7: التوبة: 41
سيرة النبي علي 224 جلد 4 رسول کریم علم اور مقامات مقدسہ سے پیار حضرت مصلح موعود 26 دسمبر 1935ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے احراریوں کے الزامات کا یوں جواب دیتے ہیں :.اس کے بعد میں موجودہ سال کے ایک نہایت ہی اہم واقعہ کی طرف جو مباہلہ کا ہے احباب کو توجہ دلاتا ہوں.احرار کی طرف سے متواتر ہم پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی نَعُوذُ بِالله تک کرتے ہیں.آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ سے درجہ میں بلند سمجھتے ہیں اور یہ کہ نَعُوذُ بِاللہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ اگر ان مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بھی بج جائے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں.یہ بات جیسی جھوٹی اور بے بنیاد ہے اس کو ہر احمدی کا دل ہی جانتا ہے اور ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس کو محسوس نہ کرتا ہو.ہمیں گندی سے گندی گالیاں دی جاتی ہیں، برے سے برے نام رکھے جاتے ہیں، دل آزار سے دل آزار کلمات ہمارے متعلق استعمال کئے جاتے ہیں مگر ہمیں کبھی بھی ان الفاظ سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی ہمیں اس بات کے سننے سے ہوتی ہے کہ ہم نَعُوذُ بِالله رسول کریم ع کی ہتک کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانے پر بھی خوش ہیں.غالبا احرار نے یہ جانتے ہوئے ہی ہمارے متعلق یہ کہنا شروع کیا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں دوسری گالیاں انہیں اتنا دکھ نہیں دیتیں جتنی یہ بات دکھ دیتی ہے اس لئے وہ ہمارے متعلق یہ اعتراض کر کے ہمیں صلى الله
سيرة النبي علي 225 جلد 4 انتہائی تکلیف اور دکھ دینا چاہتے ہیں لیکن دراصل اپنے اس عمل سے دشمن اقرار کر صلى الله رہا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے انتہا درجہ کی محبت رکھنے والے ہیں.66 (الفضل 8 فروری 1936ء)
سيرة النبي علي 226 جلد 4 رسول کریم علیہ کے اطاعت شعار صحابہ حضرت مصلح موعود نے 26 دسمبر 1935ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب میں الله چنده تحریک جدید کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کا یوں ذکر فرمایا:." جو شخص یہ پوچھتا ہے کہ ایسا شخص چندہ دے گا کہاں سے.میں اسے کہتا ہوں کہ وہ ایمان سے دے گا.ایک بے ایمان انسان یہ دیکھا کرتا ہے کہ فلاں کی جیب میں کیا ہے؟ لیکن ایک ایماندار شخص یہ نہیں دیکھا کرتا کہ میری جیب میں کیا ہے بلکہ وہ اپنے دل کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ سے اسے ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے جب میں قربانی پر آمادہ ہوں گا تو میرا خدا مجھے دے گا.صحابہ کو دیکھو ان کی کیا الله حالت تھی.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے چندے کا اعلان کیا.ایک صحابی نے اس اعلان کو سنا تو اٹھ کر باہر چلے گئے اور ٹوکری اٹھا کر کہنے لگے میں مزدوری کرنا چاہتا ہوں.مجھے جو بھی کوئی شخص مزدوری دے میں وہ لینے کے لئے تیار ہوں.کسی نے کہا یہ کیوں ؟ انہوں نے کہا میں نے یہ رقم چندہ میں دینی ہے.آخر انہوں نے مزدوری کی اور شام کو جو غلہ ملا وہ رسول کریم ﷺ کے سامنے لا کر رکھ دیا.مجلس میں کچھ منافق بھی بیٹھے تھے.وہ تھوڑے سے غلہ کو دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے رومہ کے ملک کے ساتھ اس غلہ سے جنگ کی تیاری ہو گی 1.مگر رسول کریم ﷺ نے ان دانوں کو قبول فرمایا اور اپنے عمل سے فرما دیا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان دانوں کی بہت بڑی قیمت ہے.تو مومن اپنی جیبوں سے چندہ نہیں دیتا بلکہ دل سے دیتا ہے.الله
سيرة النبي علي 227 جلد 4 البتہ منافق جیب سے دیتا ہے، اس لئے مومن کی نگاہیں اور طرف ہوتی ہیں اور منافق کی نگاہیں اور طرف.“ الفضل 12 مارچ 1936 ء ) 1: بخاری کتاب التفسير باب قوله الذين يلمزون المطوعين من المومنين صفحه 801 حدیث نمبر 4668 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 228 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی اہل وعیال سے محبت حضرت مصلح موعود نے 11 جنوری 1936 ء کو حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی دو صاحبزادیوں کے نکاحوں کے اعلان کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی صلہ رحمی کے بارہ میں فرمایا:.رسول کریم میے کے متعلق احادیث میں آتا ہے ماں باپ تو آپ کے موجود نہ تھے مگر آپ کی رضاعی والدہ تھیں اور جب وہ تشریف لاتیں تو حضور دور ہی سے دیکھ کر تیز تیز دوڑ کر جاتے اور فرماتے امی امی اور اپنی چادر بچھا دیتے.بیویوں کے ساتھ سلوک کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اس قدر خیال رکھتے جہاں سے بیوی برتن کو منہ لگا کے پانی پیتیں آپ بھی اسی جگہ پر منہ لگا کر پیتے 1.حضرت عائشہ کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے سر میں درد تھا آنحضرت ﷺے گھر میں تشریف لائے تو انہوں نے فرمایا میرے سر میں درد ہے.آپ نے فرمایا معمولی بات ہے انشاء اللہ آرام ہو جائے گا کوئی فکر کی بات نہیں.حضرت عائشہ نے کہا آپ کا کیا ہے میں مرجاؤں گی تو آپ کسی اور سے شادی کر لیں گے.آپ نے فرمایا عائشہ انہیں.میں فوت ہو جاؤں گا صلى الله اور تم زندہ رہوگی 2.چنانچہ نبی کریم ﷺ کی وفات آپ سے پہلے ہوئی.پھر حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتی ہوں تو مجھے ہمیشہ اس بات سے دکھ ہوتا ہے کہ میں نے اس رنگ میں اُس وقت کیوں گفتگو کی.اسی طرح اولاد کی محبت کے متعلق بھی نبی کریم ﷺ کا طریق نہایت ہی کامل نظر آتا ہے.انبیاء در حقیقت اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اولاد کی محبت خدا تعالیٰ کی ظلمی
سيرة النبي علي 229 جلد 4 محبت ہے جو آئندہ زمانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مرد بنائی ہے.رسول کریم ﷺ کی نرینہ اولاد تو بڑی عمر کی نہیں ہوئی.لیکن آپ کی لڑکیاں تھیں اور نواسے تھے ان کے ساتھ ہمیشہ آپ محبت اور پیار کا جو سلوک فرماتے اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس قدر محبت ان سے کرتے تھے.بعض دفعہ کوئی کم سن بچہ نماز میں آپ کے اوپر آ بیٹھتا مگر آپ سجدہ میں ہی رہتے جب تک کہ بچہ خود بخود نہ اٹھتا.پھر آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کی عزت کرو 3.اولاد چونکہ خدا تعالیٰ کا ظل قرار پائی اس لئے عزت کے قابل 66 الفضل 18 جنوری 1936ء) 1: ابو داؤد كتاب الطهارة باب مؤاكلة الحائض صفحه 47 حديث نمبر 259 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الأولى 2 بخاری کتاب المرضى باب ما رخص للمريض أن يقول انى وجع صفحه 1003 حدیث نمبر 5666 مطبوعه رياض 1999 الطبعة الثانية 3 ابن ماجه كتاب الادب باب بر الوالد و الاحسان الى البنات صفحہ 526 حدیث نمبر 3671 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 230 جلد 4 رسول کریم مے کی حفاظت الہی حضرت مصلح موعود نے 31 جنوری 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.’ایک دفعہ ایران کے بادشاہ نے گورنر یمن کو لکھا کہ رسول کریم ﷺ کو گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دیا جائے.گورنر نے بعض آدمی مدینہ میں بھیجے جنہوں نے جا کر کہا کہ ہمارے شہنشاہ کا ایسا حکم ہے.آپ نے انہیں فرمایا کہ ٹھہر و ہم دو تین دن تک جواب دیں گے.جب ایک دو دن گزر گئے تو انہوں نے کہا کہ دیر ٹھیک نہیں گورنر یمن نے کہا ہے کہ بادشاہ نے غلط خبروں کی بنا پر ایسا حکم دیا ہے آپ آجائیں تو میں سفارش کر دوں گا.آپ نے فرمایا کہ ٹھہر وہم جواب دیں گے.اگلے روز انہوں نے پھر از راہ نصیحت کہا کہ دیر اچھی نہیں بادشاہ بگڑ جائے گا.آپ نے فرمایا کہ جاؤ اپنے گورنر سے کہہ دو کہ ہمارے خدا نے اس کے خدا کو مار دیا ہے.انہوں نے پھر خیر خواہی کے طور پر کہا آپ انکار نہ کریں بادشاہ ناراض ہو گیا تو آپ کی ساری قوم کو تباہ کر دے گا مگر آپ نے فرمایا کہ بس جاؤ اور یہ جواب دے دو.وہ چلے گئے اور گورنر کو یہ جواب دے دیا.اُس نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے اگر یہ بات ٹھیک نکلی تو یہ شخص سچا ہوگا.چند روز کے بعد ایک جہاز ایران سے آیا جس میں سے کچھ افسر نکلے اور انہوں نے گورنر کو ایک سر بمہر لفافہ دیا.مہر کو دیکھتے ہی گورنر نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات سچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ خط پر مہر نئی تھی.جب اس نے لفافہ کھولا تو اُس میں لکھا تھا کہ ہمارا باپ ظالم تھا اس لئے ہم نے اسے قتل کر کے زمام حکومت خود سنبھال لی ہے تم لوگوں سے ہماری وفاداری کا عہد لو.نیز ہمارے باپ نے مدینہ کے ایک شخص کے
سيرة النبي علي 231 جلد 4 66 متعلق ایک ظالمانہ حکم دیا تھا ہم اسے بھی منسوخ کرتے ہیں 1.“ نیز فرمایا:.( الفضل 10 مارچ 1936ء) ایک جنگ کے بعد رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے ایک شخص اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے بڑی دور تک چلا آیا.صحابہ ایک جگہ آرام کرنے کے لئے لیٹے تو انہوں نے غلطی سے رسول کریم علیہ کیلئے پہرہ کا کوئی انتظام نہ کیا اور خیال کیا کہ تھوڑی دیر ٹھہرنا ہے اور اس جنگل میں کون حملہ کرنے آئے گا.رسول کریم عہ بھی ایک درخت کے نیچے سو گئے.وہ دشمن آیا اور آپ ہی کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی اتار کر اُس نے آپ کو جگایا اور پوچھا کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے سادگی سے فرمایا اللہ 2 اور اس بہادرانہ ایمانی رنگ کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ اُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.آپ نے اُسے اٹھایا اور پوچھا اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا کہ نہیں اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے جاؤ ( الفضل 10 مارچ1936ء ) چلے جاؤ.1 تاريخ الطبرى الجزء الثانى ذكر الاحداث التى كانت فى سنة ست من الهجرة صفحہ 133 134 مطبوعہ بیروت 2012 ، الطبعة الخامسة 2: بخارى كتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: السيرة الحلبية الجزء الثاني غزوة ذات الرقاع صفحه 558 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 232 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی مذہبی رواداری حضرت مصلح موعود نے 17 فروری 1936 ء کو کلارنی ہوٹل کراچی میں ایک عشائیہ سے خطاب میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کے حوالہ سے فرمایا:.نجران جو یمن کا ایک حصہ ہے وہاں کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرت عمی کی خدمت میں مذہبی بحث کرنے کیلئے حاضر ہوا.گفتگو لمبی ہوگئی.ایک دن ( جو غالباً اتوار کا دن ہوگا کیونکہ تین دن کی گفتگو میں صرف ایک دن نماز کا ذکر آتا ہے ) عصر کے وقت انہوں نے اس خیال کا اظہار کر کے بحث کو ختم کرنا چاہا کہ ہماری نماز کا وقت ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ مسجد خدا کا گھر ہے تم اسی میں عبادت کر لو.چنانچہ صلى الله اُسی جگہ اسی مسجد میں رسول کریم ہے کے سامنے ان لوگوں نے اپنی عبادت کر لی 1.اگر ہمارے آنحضرت معہ اخلاق کا یہ نمونہ دکھاتے ہیں اور پھر ایسے موقع پر جہاں تو حید اور شرک کا اختلاف ہے تو اس میں ہمارے لئے ایک نہایت قیمتی سبق چھوڑتے ہیں کہ ہمیں مذہبی اختلاف کی وجہ سے آپس کی رواداری کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.“ (الفضل 26 فروری 1936 ء ) 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث باب يذكر فيه ما يتعلق بالوفود صفحه 386،385 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 233 جلد 4 وو رسول کریم اللہ کا انداز تربیت حضرت مصلح موعود 28 فروری 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم ہے جب ایک جہاد میں تشریف لے گئے جس میں مسلمانوں کو بہت سی دقتیں پیش آئیں تو آپ کو محسوس ہوا کہ بعض صحابہ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ انہوں نے دین کی خدمت دوسروں سے نمایاں طور پر کی ہے اس پر آپ نے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کچھ لوگ مدینہ میں ایسے رہتے ہیں کہ تم کسی وادی میں سے نہیں گزرتے اور کوئی تکلیف خدا تعالیٰ کے رستہ میں برداشت نہیں کرتے مگر جس طرح تمہیں ثواب ملتا ہے اسی طرح انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب مل رہا ہے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ کیونکر؟ ہم اسلام کی خدمت کیلئے باہر نکلے ہوئے ہیں، خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو قربان کر کے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں اور وہ مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہیں.پھر وہ اسی ثواب کے مستحق کیونکر ہو سکتے ہیں جس کے ہم ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر جن کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ معذور لوگ ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ پاؤں ہوتے تو وہ بھی جہاد کیلئے نکلتے ، اگر ان کے پاس مال ہوتا تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ کرتے ، اگر ان کے پاس طاقت ہوتی تو وہ بھی اس سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے مگر ان کے پاس کچھ نہیں وہ معذور ہیں اور اپنی معذوری کو دیکھ کر ان کے دل مدینہ میں بیٹھے خون ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کاش! ہمارے پاس مال ہوتا ، کاش! ہمارے پاس طاقت ہوتی تو آج ہم بھی جہاد کرتے.پس وہ خدا تعالیٰ کے حضور تم سے
سيرة النبي علي 234 جلد 4 کچھ کم ثواب کے مستحق نہیں بلکہ ویسے ہی ثواب کے مستحق ہیں جیسے تم ہو اور گوان کے پاس سامان نہیں مگر ان کا ارادہ یہی ہے کہ اگر سامان ہوتا تو ہم اس سے کام لے کر خدا تعالیٰ کی راہ میں نکل کھڑے ہوتے 1.“ صلى الله (الفضل 26 فروری 1936ء) 1 بخاری کتاب المغازی باب نزول النبي علم الله الحجر صفحه 753 حدیث نمبر 4423 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 235 جلد 4 جنگ احزاب کی مشکلات اور نصرت الہی حضرت مصلح موعود 20 مارچ 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.جنگِ احزاب کے موقع پر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان تو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی بادشاہت ہمیں مل جائے گی آج ان کی عورتوں کیلئے پاخانہ پھرنے کی جگہ بھی نہیں رہی.کہاں گئے ان کے وہ دعاوی.اس جنگ میں دس ہزار کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابل پر تھا اور سارے عرب قبائل جمع ہو کر آئے تھے اُدھر یہودیوں نے مدینہ میں بغاوت کر دی تھی اُس وقت سوائے اس کے کہ مسلمان خندق بنا لیتے ان کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.چنانچہ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ خندق کھودیں اور جب وہ خندق کھود رہے تھے تو ایک پتھر ایسا آیا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا.صلى الله رسول کریم علیہ کو اطلاع دی گئی آپ وہاں تشریف لائے اور جب زور سے کدال مارا تو پتھر میں سے آگ نکلی اور آپ نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.صحابہ نے بھی نعرہ لگایا.پھر کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور صحابہ نے بھی آپ کی تقلید کی.تیسری دفعہ کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر زور سے الله اکبر کہا اور صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا.جب وہ پتھر ٹوٹ گیا تو آپ نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے نعرے کیوں لگائے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے لگائے تھے اس لئے ہم نے بھی لگائے.آپ نے فرمایا ہاں میں نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ جب پہلی دفعہ پتھر میں سے آگ نکلی تو میں نے اُس شعلہ میں یہ
سيرة النبي علي 236 جلد 4 نظارہ دیکھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیصر کے قلعے تباہ ہو گئے ہیں.دوسرے شعلہ میں مجھے کسریٰ کے قلعوں کی تباہی کا نظارہ دکھائی دیا اور تیسرے میں حمیر کے قلعے بھی سرنگوں نظر آئے 1.اُس وقت بھی منافقوں نے ہنسی اڑائی اور کہا کہ جان بچانے کیلئے خندق کھودرہے ہیں اور مدینہ سے باہر نکل نہیں سکتے مگر خواب دیکھ رہے ہیں قیصر و کسری کے محلات کے.گویا وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے اس قدر مشکلات کا زمانہ تھا کہ منافق جو بز دل ہوتے ہیں وہ بھی دلیری سے ان پر ہنسی کرنے لگ گئے تھے.قرآن کریم نے بھی غزوہ احزاب یا خندق کا نظارہ بیان کر کے بتایا ہے کہ اُس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ گویا وہ زلزلہ میں مبتلا ہیں اور زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی تھی.2.بظاہر اس زبردست لشکر کے مقابل پر صحابہ کا زور نہیں چلتا تھا مگر پندرہ روز کے بعد آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے آواز دی اور فرمایا کوئی ہے؟ مگر کسی نے جواب نہ دیا.ایک صحابی نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.پھر فرمایا کوئی جاگتا ہے؟ مگر کوئی نہ بولا.اُسی صحابی نے پھر کہا يَارَسُوْلَ اللہ ! میں حاضر ہوں مگر آپ نے پھر فرمایا تم نہیں کوئی اور.اور پھر تیسری دفعہ آواز دی مگر پھر بھی کوئی نہ بولا اور پھر اُسی نے آواز دی اور آپ نے فرمایا کہ جاؤ دیکھو مجھے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا ہے.وہ صحابی باہر نکلے تو دیکھا کہ سب میدان خالی پڑا ہے، نہ غنیم کا کوئی خیمہ تھا اور نہ سامان.ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اُس وقت جاگتا تھا مگر سردی شدید تھی اور کپڑے نا کافی تھے اور سردی کی وجہ سے باوجود جاگنے کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی 3.کفار کے بھاگنے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک عرب سردار کی آگ بجھ گئی ، اہل عرب اس بات کو منحوس خیال کرتے تھے ، اس نحوست کے دور کرنے کیلئے اس قبیلہ نے اپنے رواج کے مطابق یہ طریق تجویز کیا کہ رات کے وقت اپنے خیمے وہاں سے اٹھا کر چند میل کے فاصلے پر لے جا کر لگائیں اور اگلے روز پھر وہیں آلگائیں اور جب رات کو
سيرة النبي عمال 237 جلد 4 چپکے سے انہوں نے خیمے اکھاڑنے شروع کئے تو ساتھ والوں نے خیال کیا کہ شکست ہوگئی ہے اور یہ لوگ بھاگ رہے ہیں انہوں نے بھی فوراً اپنے خیمے اٹھانے شروع کر دئیے.ان کو دیکھ کر ان کے پاس والوں نے بھی ایسا ہی کیا حتی کہ ابوسفیان کو جو اس لشکر کا سپہ سالار تھا خبر ہوئی تو اُس نے خیال کیا کہ مسلمانوں نے شب خون مارا ہے اس لئے یہاں سے جلدی بھاگنا چاہئے.چنانچہ وہ اس قد رگھبرایا کہ اونٹ کو کھولے بغیر اُس پر سوار ہو کر اُسے مارنے لگ گیا مگر وہ چلتا کس طرح.آخر اس کے کسی ساتھی نے اُس پر اُس کی غلطی کو واضح کیا.یہ البہی نصرت تھی جس نے اُس وقت جب انسانی تدابیر بیکار ہو چکی تھیں آسمان سے نازل ہوکر رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو نجات دی.پس آسمانی نصرت اُسی وقت آتی ہے جب ساری تدابیر انتہا کو پہنچ کرختم ہو جاتی ہیں اور کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں.جب وہ دنیا دار نگاہوں میں مضحکہ خیز اور روحانی نظر والوں کے لئے رقت انگیز ہو جاتی ہیں اُس وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ بندہ چلائے.“ ( الفضل 27 مارچ 1936ء) 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث غزوة الخندق صفحہ 11 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 2: الاحزاب : 12 3: السيرة الحلبية الجزء الثالث غزوة الخندق صفحہ 28 تا 30 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 238 جلد 4 وو.صبر کی نصیحت اور انداز تربیت حضرت مصلح موعود نے 27 مارچ 1936 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ صحابہ نے شکایت کی کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! ہم پر کفار کی طرف سے پیہم مظالم ہونے لگ گئے ہیں آپ ان کیلئے بددعا کریں.رسول کریم ﷺ نے جواب دیا کہ تم سے پہلے لوگوں کو اس سے بہت زیادہ تکلیفیں پہنچیں، وہ سر سے لے کر پیر تک آروں سے چیر دیئے گئے مگر انہوں نے اُف نہ کی.صلى الله تم بھی صبر کرو اور ان تکلیفوں سے نہ گھبراؤ 1.پس صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ یہ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے وہ تکلیفیں برداشت نہیں کیں جو پہلی امتوں نے برداشت کیں تو ہماری جماعت نے تو ابھی صحابہ جیسی قربانیاں بھی نہیں کیں پھر ہم کیوں گھبرا جائیں.“ ( الفضل 14 اپریل 1936 ء ) 1: بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام صفحہ 606 حدیث نمبر 3612 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 239 جلد 4 رسول کریم اللہ کی محنت ہائے شاقہ کی اور معمور الاوقاتی حضرت مصلح موعود 24 اپریل 1936 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.” میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ستی اور غفلت بہت بڑی لعنت ہے اور ہمیں اس لعنت کو بہت جلد اپنے آپ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ہم اس کو دور نہیں کر سکتے تو ہمیں کم از کم اپنی اولادوں سے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ڈاکٹروں نے اس بات پر بخشیں کی ہیں کہ ایشیائی لوگ سست کیوں ہوتے ہیں.بعض کا خیال ہے کہ چونکہ ایشیا میں ملیریا زیادہ ہوتا ہے اس لئے ملیریا کی وجہ سے ایشیا والے ستی کا شکار رہتے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بات غلط ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملیر یاستی پیدا کرتا ہے اور جب ملیریا کا انسانی جسم پر اثر ہونے لگے تو بخار چڑھنے سے کئی دن پہلے ہی انسان کا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا اور پھر بخار کی حالت میں بھی جمائیاں آتی ہیں ، اعضاء شکنی ہوتی ہے اور پژمردگی سی چھائی رہتی ہے.پس یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایشیا میں ملیریا نہایت سخت ہوتا ہے لیکن اسی ایشیا میں وہ لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوں نے دنیا میں اتنے مہتم بالشان اور حیرت انگیز کام کئے ہیں کہ دنیا ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.چنانچہ اسی ایشیا صلى الله میں رسول کریم ﷺے ہوئے ہیں جن کی زندگی پر جب اس لحاظ سے غور کیا جائے کہ وہ کیسی محنتی زندگی تھی تو ہمیں اس میں محنت کا ایسا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے کہ اُسے دیکھ
سيرة النبي عليه کر حیرت آجاتی ہے.240 جلد 4 دنیا میں ایک شخص جرنیل ہوتا ہے اور وہ جرنیلی کے کاموں میں ہی تھکا رہتا ہے، کوئی استاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ سکول کا کام اتنا زیادہ ہے کہ دماغ تھک جاتا اور جسم پھر چور ہو جاتا ہے ، ایک حج ہوتا ہے اور وہ یہ شور مچاتا رہتا ہے کہ نجی کا کام اتنا زیادہ ہے کہ میری طاقت برداشت سے بڑھ کر ہے، ایک وکیل ہوتا ہے اور وہ یہ شہ شکوه کرتا رہتا ہے کہ وکالت کا کام اتنا بھاری ہے کہ مجھے اس سے ہوش ہی نہیں آتا، ایک میونسپل کمیٹی کا پریذیڈنٹ ہوتا ہے اور وہ اس امر کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ اتنا زیادہ کام ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا اسے کس طرح کروں ،ایک لیجسلیٹو اسمبلی کا سیکرٹری ہوتا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ قانون سازی کا کام اتنا بھاری ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوں.غرض ایک ایک کام انسان کی کمر توڑ دینے کیلئے کافی ہے مگر محمد ﷺ کی زندگی میں یہ سارے کام بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام ہمیں ایک جگہ اکٹھے نظر آتے ہیں.محمد علی معلم بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کو دین پڑھاتے اور رات دن پڑھاتے ، محمد اے جی بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرتے محمد ﷺ پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتے کیونکہ بلدیہ کے حقوق کی نگرانی و صفائی کی نگہداشت اور چیزوں کے بھاؤ کا خیال رکھنا یہ سب کام آپ کرتے ، پھر رسول کریم اللہ مفتن بھی تھے کیونکہ آپ قرآن کریم کے احکام کے ماتحت لوگوں کو قانون کی تفصیلات بتاتے اور ان کا نفاذ کرتے ، اسی طرح رسول کریم علی جرنیل بھی تھے کیونکہ آپ لڑائیوں میں شامل ہوتے اور مسلمانوں کی جنگ میں راہبری صلى الله فرماتے ، رسول کریم ﷺ بادشاہ بھی تھے کیونکہ آپ تمام قسم کے ملکی اور قومی انتظامات صلى الله کا خیال رکھتے ، پھر اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام تھے جو رسول کریم ﷺ کے سپرد تھے مگر آپ یہ سب کام کرتے اور اسی علاقہ میں رہ کر کرتے جس میں رہنے والوں کی ستی کی دلیل بعض ڈاکٹر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ملیریا زدہ علاقہ ہے.آخر آپ بھی تو
سيرة النبي علي 241 جلد 4 ایشیا کے ہی رہنے والے تھے یورپ کے رہنے والے تو نہ تھے.اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں اپنی صحت کی درستی کا خیال رکھنا چاہئے اور ملیریا کو اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہماری تندرستی بر باد کرے مگر ملیر یا بھی تو بعض کمزوریوں کی وجہ سے ہی آتا ہے یا روحانی کمزوریاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا جسمانی سستیاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا امنگوں کی کمی ملیریا کا شکار بنا دیتی ہے.دنیا میں امنگ بھی بہت حد تک بیماریوں کا مقابلہ کرتی ہے.بے شک بداحتیاطی اور بد پر ہیزی بھی بیماری لانے کا باعث بنتی ہے مگر امنگیں بیماری کو دبا لیتی ہیں لیکن وہ جو پہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال چکا ہو اور کہے کہ آبیل مجھے مار اور بیماریوں کے مقابلہ کی تاب اپنے اندر نہ رکھتا ہو اس پر بیماری بہت جلد غلبہ پالیتی ہے.لیکن وہ جو اپنی امنگوں کو زندہ رکھتا، اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا اور اپنے حوصلہ کو بلند رکھتا بیماری اس پر غلبہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا.اگر بیماری اس پر حکومت کرنا چاہے تو وہ اس کی حکومت سے بھی انکار کر دیتا ہے.پس میں تسلیم کرتا ہوں کہ بیماری کا علاج ہونا چاہئے مگر میں یہ ہرگز تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہ ست اور نکما بنانے کا کافی سبب ہے.ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ نے جس محنت اور مشقت کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ کے متبعین میں سے کسی کو یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ کہے کہ ملیریا ہے کا ہمارے ملک میں پایا جانا ہمارے ملک کی سستی اور غفلت کیلئے کافی عذر ہے.ہم جب رسول کریم ﷺ کی زندگی دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ آدھی رات کے بعد اٹھ بیٹھتے اور عبادت شروع کر دیتے ہیں.اسی عبادت کے دوران میں فجر کی اذان ہوتی ہے اور آپ کو نماز کیلئے اطلاع ملتی ہے.رسول کریم ﷺ نما ز پڑھانے چلے جاتے ہیں.نماز پڑھا کر آپ مسجد میں ہی بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں جس کو کوئی ضرورت اور احتیاج ہو وہ بیان کرے.اس پر پہلے جن جن لوگوں کو رات کو کوئی
سيرة النبي عمال 242 جلد 4 خواب آیا ہوتا وہ بیان کرتے اور آپ تعبیریں بتاتے ، اس کے بعد جنہیں کوئی دوسری حاجتیں ہوتیں وہ آپ کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتے اور آپ مناسب مشورے دیتے.پھر صحابہؓ کو آپ قرآن کی تعلیم دیتے.بعض کو حفظ کراتے اور بعض کو معانی بتاتے.پھر مقدمات والے آجاتے اور آپ ان کے جھگڑوں کو سنتے اور فیصلہ کرتے.مقدمات سننے کے بعد ظہر کا وقت آجاتا ہے اور آپ کھانا کھانے اندر تشریف لے جاتے ہیں.اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنے کیلئے نکلتے ہیں.ظہر کی نماز کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، درس و تدریس ہوتا ہے، اسلامی ضروریات پر مشورے ہوتے ہیں ، قانون کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں ، افتاء کا کام کیا جاتا ہے اسی میں عصر کا وقت آجاتا ہے اور آپ عصر کی نماز پڑھانے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر یا تو نصائح کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یا فوجی مشقیں ہونے لگتی ہیں کیونکہ بالعموم عصر کے بعد رسول کریم ﷺ صحابہ سے فوجی مشقیں کراتے.کہیں تیر اندازی ہوتی ، کہیں کشتی ہوتی ، کہیں گھڑ دوڑ ہوتی.اسی طرح بالعموم ظہر سے پہلے اور اشراق کے بعد رسول کریم بازار تشریف لے جاتے اور بھاؤ وغیرہ معلوم کرتے اور دیکھتے کہ کہیں دکاندار دھو کا تو نہیں کر رہے یا لوگ دکانداروں پر تو ظلم نہیں کر رہے اور عصر کے بعد وعظ ونصیحت کا سلسلہ شروع ہوتا یا صحابہ کو فوجی مشقیں کرائی جاتیں اور انہیں جنگ کیلئے تیار کیا جاتا.گویا اُس وقت رسول کریم کے جرنیل کے فرائض سرانجام دیتے.پھر مغرب کی نماز پڑھا کر کھانا کھا کر آپ مسجد میں آجاتے اور مجلس لگ جاتی.پھر عشاء تک یا تو مقدمات کے تصفیے ہوتے یا شکایات سنی جاتی ہیں یا تعلیم دی جاتی ہے اسی دوران میں عشاء کی نماز کا وقت آجاتا ہے اور عشاء کی نماز پڑھ کر اور نوافل سے فارغ ہو کر آپ سو جاتے.اور آدھی رات کے بعد پھر اٹھ بیٹھتے اور اسی کام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.غرض اس زندگی میں ایک منٹ بھی تو ایسا نہیں آتا جسے ہمارے ہاں گئیں ہانکنے کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہایت قیمتی وقت محض بکو اس میں ضائع کر دیا جاتا ہے صلى الله
سيرة النبي عمار 243 جلد 4 کہ فلاں کا یہ حال ہے اور فلاں کا یہ.اور اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.اسی وقت کے اندر رسول کریم ﷺ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کر تے تھے اور اتنی توجہ سے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ میں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں.پھر بیوی بھی ایک نہیں آپ کی 9 بیویاں تھیں اور 9 بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی.چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میں ایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے.پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرما دیتے.اس کام کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہیں اور بھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم ﷺ سرانجام دیتے ہیں.پس آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو مگر آپ بھی اسی ملیر یا والے ملک کے رہنے والے تھے.“ ( الفضل 30 اپریل 1936 ء )
سيرة النبي علي 244 جلد 4 رسول کریم علیہ کی بہادری اور توکل حضرت مصلح موعود یکم مئی 1936 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بچے تھے اور یتیم بچے ، ان کا چچا ان کو پال رہا تھا ان کو جس وقت ساری قوم نے شرک کیلئے مجبور کیا جسے ان کی فطرت قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھی ان کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پر وہت 1 ہیں اور ہمارا گزارا ہی اس پر ہے اگر آپ نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہو جائے گا.اُس وقت اس نہایت ہی چھوٹی عمر کے بچے نے دلیری سے یہ جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتا ہے ان کو میں ہرگز سجدہ نہیں کرسکتا.اس جواب کا اندازہ ہر شخص نہیں کرسکتا صرف وہی کرسکتا ہے جسے قربانی کرنے کا موقع ملا ہو.آج جبکہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں موجود ہے اور میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ظلم ہوتا نہیں کیونکہ ہمیں خود ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن اکثر حکام انصاف کی کوشش مرور کرتے ہیں.ایک قانون موجود ہے جو چاہتا ہے کہ انصاف ہو گو ظالم اپنے ظلم کیلئے اس میں سے رستے نکال لیتے ہیں لیکن پھر بھی ظلم حد کے اندر رہتا ہے.اس پُر امن زمانہ میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں پر جب صداقت کھل جاتی ہے تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان یا احمدی ہو جائیں تو ہمارے گزارہ کی کیا صورت ہوگی ؟ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی ؟ آج جب احمدیت کو قبول کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیں سوائے معمولی تکالیف کے اچھے اچھے تعلیم یافتہ ، بڑی عمر کے اور
سيرة النبي عمال 245 جلد 4 بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی؟ گزارہ کا کیا انتظام ہوگا ؟ لیکن حضرت ابراہیم جو یتیم ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شکستہ دل تھے اور جن کا پہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھا اپنے چچا کے ہاں اور اس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گزارہ کی کیا صورت ہوگی بلکہ بلا سوچے بہادرانہ طور پر یہ جواب دیتے ہیں کہ جن بتوں کو انسان خود گھڑتے ہیں اُن کو میں سجدہ نہیں کرسکتا.بعینہ اسی قسم کا واقعہ رسول کریم ﷺ کو پیش آیا جب ایک لمبے عرصہ تک آپ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہلِ مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو دوبارہ اپنے دین میں شامل کر لینے سے مایوس ہو گئے تو مکہ کے رؤسا آپ کے چچا بوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بری طرح ذلیل کیا ہے ہم اس پرختی کر سکتے تھے مگر ہمیں آپ کا لحاظ تھا اس لئے اس سے وہ سلوک نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا مگر اب یہ بات ہمارے لئے نا قابل برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے سمجھا ئیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں پر سختی سے حملہ نہ کرے اور تبلیغ میں نرمی کا پہلو ر کھے.اور اگر وہ آپ کے کہنے سے اتنا بھی کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کر لیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں.اگر آپ اس کیلئے تیار نہیں ہیں تو گو ہمارے دلوں میں آپ کا ادب بہت ہے اور آپ کے خاندان کو فضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہم صبر نہیں کر سکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلق کرنا پڑے گا.ابو طالب مومن نہ تھے اور ایمان کے بعد جس بہادری سے انسان کا تعلق ہو جاتا ہے اس سے محروم تھے.وہ رئیس تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ
سيرة النبي علي 246 جلد 4 دھو بیٹھنے کا خطرہ تھا.سارا مکہ اُن کو سلام کرتا تھا اور اب ان کے سامنے جو صورتِ حالات تھی اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا تھا کہ کوئی اُن کو منہ بھی نہ لگاتا اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی.اس قسم کی عزتوں کیلئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کر دیتے ہیں اور ایک ایک سلام کیلئے مرا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ جب آپ تعلیم سے فارغ ہو کر نئے نئے بھیرہ میں آئے تو بعض مولویوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کی.اُس وقت اس علاقہ میں ایک معزز پیر صاحب تھے جن کا بھیرہ اور نواح میں بہت اثر تھا اور فتویٰ کفر شائع کرانے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کر دیں.باقی مولویوں سے تو حضرت خلیفہ اول کے دوست نہ ڈرتے تھے مگر ان پیر صاحب کے متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائے گا اس لئے آپ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ سنا ہے مولوی لوگ آپ سے فتویٰ لینے آئے تھے.پیر صاحب نے کہا ہاں آئے تھے اور جو باتیں وہ کہتے ہیں ٹھیک ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ فتویٰ دے دوں.اس پر اس دوست نے کہا کہ آپ تو پیر ہیں اور سب نے آپ کو سلام کرنا ہے نور دین خواہ کچھ ہو آپ کو سلام تو ضرور کرتا ہے اور اگر آپ نے فتویٰ دے دیا تو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے.اس پر پیر صاحب گھبرا گئے اور کہا کہ بھلا ہم پیروں کا فتووں سے کیا تعلق ہے آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں.اس دوست نے آکر حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ میں اس طرح کر آیا ہوں اور اب پیر صاحب چاہیں گے کہ آپ اُن کو سلام کریں.آپ نے فرمایا کہ ہمارا کیا حرج ہے کر دیں گے.چنانچہ وہ دوست پھر پیر صاحب کے پاس گئے اور پیر صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پیر صاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو سلام کیوں نہ کریں گے.اس پر پیر صاحب بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا ہم فلاں روز اس
سيرة النبي عمال الله 247 ا جلد 4 طرف سے گزریں گے مولوی صاحب سے کہنا کہ ضرور سلام کریں.چنانچہ پیر صاحب حضرت مولوی صاحب کے مطب کے سامنے سے گزرے اور حضرت مولوی صاحب نے اپنے دوستوں سمیت باہر نکل کر اُن کو سلام کیا.پیر صاحب نے گھوڑا کھڑا کر لیا اور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے لگے کہ دیکھو! ہمارے پاس مولوی لوگ فتوے کیلئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کر دیا کہ ہم کو ان باتوں سے کیا تعلق ہے ہمیں سب نے سلام کرنا ہوتا ہے.یہ واقعہ شہر میں پھیل گیا اور پیر صاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہو گئے اور مخالفت کا زور ٹوٹ گیا.غرض ابو طالب کے لئے یہ بڑا امتحان تھا وہ سارے شہر میں مکرم سمجھے جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب اُن کی عزت جاتی رہے گی انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میں سمجھتا ہوں کہ تو جو کرتا ہے سچ سمجھ کر کرتا ہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایا ہے مگر اب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور کہا ہے کہ یا تو اپنے بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اور یا پھر اس سے قطع تعلق کرلو اور اگر میں ایسا نہ کروں تو قوم میرے ساتھ قطع تعلق کر لے گی اور تو جانتا ہے کہ قوم کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے اب تو بتا تیری کیا رائے ہے؟ رسول کریم ﷺ نے جس وقت یہ بات سنی آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چا! میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے مگر سچائی کے مقابلہ میں میں آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوں.اگر دشمن میری دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لا کر کھڑا کر دیں تو بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیں کروں گا اور توحید کی اشاعت سے باز نہیں رہوں گا2.میں آپ کیلئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہوں لیکن یہ بات آپ کی نہیں مان سکتا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور اپنی قوم سے صلح کرلیں میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے.اس پر باوجود اس کے کہ ابو طالب کیلئے قوم کا چھوڑ نا مشکل تھا اس دلیرانہ جواب کو سن کر ان پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بے شک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.
سيرة النبي عمال 248 صلى الله جلد 4 ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابو طالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا اور یہ معلوم ہوتا کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی.جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریم ﷺ کو ان سے بہت ہی محبت تھی اُن کی قربانیوں اور حسن سلوک کی وجہ سے ، اس لئے آپ کو سخت دکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مررہے ہیں.آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله كبر دیجئے مگر ابو طالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا.آخر رسول کریم ﷺ نے بہت اصرار کیا، آپ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چچا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ابوطالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا 3.گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانا نہ چاہتے تھے.اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریم ﷺ کے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہوا کہ اُس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا.صلى الله غرض ایسے واقعات کو دیکھ کر دوست تو کیا دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہر شخص خواہ اس کے دل میں کتنا عنا د بھی کیوں نہ ہو ان واقعات کوسن کر سر جھکا لیتا ہے اور ایسے بہادر کی عظمت کے اقرار پر مجبور ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایسے بیسیوں نہیں سینکڑوں واقعات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بہادری کے ایسے بلند مقام پر تھے کہ اس سے اوپر خیال بھی نہیں کیا جاسکتا بہادری کہاں سے پیدا ہوئی؟ یہ تو کل ہی سے تھی.دنیا دار جسے بہادری کہتے ہیں مذہبی لوگ اسے تو کل کے نام سے موسوم کرتے ہیں.فرق صرف یہی ہے کہ بہادری.
سيرة النبي عمال - 249 صلى الله جلد 4 کے لفظ سے یہ معلوم نہیں ہوتا یہ چیز کہاں سے آئی اور توکل کا لفظ بتا دیتا ہے کہ اس قسم کی بہادری اعلیٰ مقصد سے پیدا ہوتی ہے.تو کل کے یہی معنی ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں انسان ہر چیز کی قربانی کیلئے تیار ہو گویا تو کل کا لفظ بہادری کے اسباب وجوہ اور اس کا منبع بھی بتا دیتا ہے اور بہادری و توکل میں صرف یہی فرق ہے ورنہ دونوں چیزیں ایک ہی ہیں.اسی بہادری کو ہم رسول کریم علیہ کے صحابہ میں بھی دیکھتے ہیں اور صحابہ میں ہی نہیں بلکہ صحابیات میں بھی ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے اور نہ صرف عورتوں بلکہ بچوں میں بھی موجود ہے.آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کیلئے قربانی سے بچنے کیلئے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کے ہیں کہ ہمیں یہ وقت ہے وہ روک ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کے ما تحت مسلمانوں میں قربانی کا وہ جذبہ پیدا ہو چکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اسی جذبہ سے سرشار نظر آتے تھے یہاں تک کہ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلایا تاکہ ان میں سے ان لوگوں کا انتخاب کریں جو جنگ کے قابل ہوں.اُس وقت ایک لڑکے کے متعلق آتا ہے دوسرے صحابہ اور وہ خود بھی بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ لوگ کھڑے ہوئے وہ بھی اس جوش میں کہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کا موقع ملے اُن میں کھڑا ہو گیا مگر چونکہ قد چھوٹا تھا دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے خطرہ تھا کہ شاید منتخب نہ ہو سکے اس لئے وہ اپنی انگلیوں کے بل کھڑا ہو گیا اور ایڑیاں اوپر اٹھا لیں تا قد اونچا معلوم ہو اور چھاتی تان لی تا کمزور نہ سمجھا جائے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ لیا جائے اور جب آپ انتخاب کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ یہ بچہ ہے اسے کس نے کھڑا کر دیا ہے اسے ہٹا دو.مگر آج ایسا ہوتا تو شاید ایسا بچہ خوشی سے اچھلنے لگتا کہ میں بچ گیا لیکن جب اُس بچہ کو الگ کیا گیا تو وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم ﷺ کو رحم آگیا اور الله
سيرة النبي علي 250 آپ نے فرمایا اچھا اسے لے لیا جائے 4.“ جلد 4 ( الفضل 7 مئی 1936 ء ) 1 پروہت : برہمن یا پنڈت جو پوجاپاٹ یا بیاہ شادی اور موت کی رسوم ادا کرتا ہے.(فیروز اللغات اردو جامع صفحه 393 فیروز سنز، مطبوعہ لاہور 2010ء) 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول وفد قريش مع ابى طالب في شان الرسول صفحہ 312،311 مطبوعہ دمشق 2005 الطبعة الاولى 3 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول طمع الرسول فى اسلام ابی طالب صفحہ 472 مطبوعہ دمشق 2005 الطبعة الأولى :4 السيرة الحلبية الجزء الثانى باب غزوة بدر الكبرى عمير بن ابی وقاص صفحه 370 371 مطبوعہ بیروت 2012 ، الطبعة الأولى
سيرة النبي علي 251 جلد 4 وو رسول کریم عملہ کی غیرت ایمانی حضرت مصلح موعود 19 جون 1936 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم و احد کی جنگ میں جب زخمی ہوئے تو کفار میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ رسول کریم ﷺ نَعُوذُ بِاللہ مارے گئے ہیں اس سے قدرتی طور پر ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.ان کا لشکر ایک جگہ اکٹھا ہو کر اس بات پر فخر کر رہا تھا کہ ہم نے صلى الله صلى الله محمد (ﷺ) کو نَعُوذُ بالله مار دیا ہے اس موقع پر ابوسفیان نے کفار کے لشکر کی طرف سے آواز دی اور کہا کہاں ہے محمد (ع ) ؟ رسول کریم ﷺ اس وقت تک ہوش میں صلى الله آچکے تھے آپ نے جب سنا کہ ابوسفیان کہہ رہا ہے کہ کہاں ہے محمد (ع ) ؟ اور صحابہ نے اس کا جواب دینا چاہا تو رسول کریم ﷺ نے انہیں منع فرما دیا اور کہا مت جواب دو خاموش رہو.صحابہ کی طرف سے جواب نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ بات درست ہے کہ محمد ( ﷺ ) نَعُوذُ باللہ مارے گئے ہیں.چنانچہ انہوں نے خوشی سے نعرہ بلند کیا اور کہا ہم نے محمد (ﷺ) کو مار دیا.اس کے بعد انہیں قدرتی طور پر خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اگر کوئی شخص مسلمانوں کو سنبھال سکتا ہے تو وہ ابو بکر ہے اس پر ابوسفیان نے آواز دی کہاں ہے ابوبکر ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جواب دینے لگے تو رسول کریم ﷺ نے منع فرما دیا اور کہا مت جواب دو.اس پر پھر کفار نے خوشی سے ایک نعرہ مارا اور کہا کہ ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا.پھر ابوسفیان نے پوچھا کہاں ہے عمر؟ حضرت عمر نہایت تیز مزاج تھے وہ یہ کہنے کو ہی تھے کہ عمر تمہارا سر توڑنے کیلئے موجود ہے کہ رسول کریم اللہ نے انہیں منع کر دیا اور فرمایا خاموش رہو کیونکہ اس وقت اسلامی لشکر
سيرة النبي م صلى الله - 252 جلد 4 تتر بتر ہو چکا ہے اور صحابہ سخت زخمی تھے اور رسول کریم ﷺ یہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ ایسی حالت میں دشمن کو چھیڑا جائے اسی لئے آپ صحابہ کو جواب دینے سے منع فرماتے رہے کہ دشمن کو انگیخت کرنے کا کیا فائدہ.جب انہوں نے سمجھ لیا کہ رسول کریم بھی مارے گئے ہیں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی مارے گئے ہیں تو ابوسفیان زور سے چلایا اور اُس نے بلند آواز سے نعرہ مار کر کہا اُعْلُ هُبل أغلُ هُبل - قبل مشرکین مکہ کا بہت بڑا دیوتا سمجھا جاتا تھا، اُس کا نام لے کر ابوسفیان نے پکارا اُس کی شان بلند ہو کیونکہ صبل آخر تو حید پرستوں کے مقابلہ میں جیت گیا، یہ لوگ مارے گئے اور ھبل کو فتح ہوئی.جب ابوسفیان نے یہ نعرہ لگایا تب وہی محمد جو تینوں موقعوں پر صحابہ کو خاموش کرتے چلے آئے تھے اور صحابہ بھی اس لئے خاموش تھے کہ رسول کریم ع کے جواب دینا پسند نہیں فرماتے تھے جب ابوسفیان نے کہا أعْلُ هُبَل اُعْلُ هُبل تو آپ کی ساری احتیاط اور سارا حرم جاتا رہا اور آپ نے صحابہ سے فرمایا کیوں جواب نہیں دیتے ؟ انہوں نے کہا کہ يَارَسُوْلَ اللهِ! ہم تو اس لئے خاموش ہیں کہ آپ نے ہمیں جواب دینے سے منع فرمایا ہے.آپ نے فرمایا نہیں اب جواب دو.انہوں نے کہا يَارَسُولَ اللهِ! کیا جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا کہو اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ 1 تمہارا میل جھوٹا ہے، اللہ ہی ہے جو عزت اور الله جلال والا ہے.تو محمد ﷺ کے طریق عمل نے ہم کو بتا دیا کہ ہماری غیرتیں کیا اور ہمارے جوش کیا اور ہماری ہمتیں کیا سب خدا اور اس کے رسول کیلئے ہونی چاہئیں.پس ہزاروں قربانیوں کے موقعے تمہارے لئے موجود ہیں.سات ہزار کی قادیان کی احمدی آبادی ہے اس میں سے کم سے کم ڈیڑھ ہزار مرد ہوں گے.میں نے تبلیغ عام کا اعلان کیا ہوا ہے مگر ان میں سے کتنے ہیں جو سال میں سے ایک مہینہ قربان کر کے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام دنیا میں پہنچانے کیلئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں.اگر ہم واقعہ میں غیرت مند ہیں تو کیوں ہماری غیرتیں خدا تعالیٰ کے نام
سيرة النبي متر 253 جلد 4 صلى الله صلى صلى الله کیلئے جوش میں نہیں آتیں.آخر خدا کے سپاہی اور گاؤں کے گنوار لٹھ باز میں کوئی فرق بھی تو ہونا چاہئے.وہ فرق یہی ہے کہ گنوار لٹھ باز کی غیرت اُس وقت بھڑکتی ہے جب اس کے گھر پر کوئی شخص حملہ آور ہو لیکن خدا تعالیٰ کے سپاہی کی غیرت اُس وقت بھڑکتی ہے جب خدا تعالیٰ کے گھر پر کوئی شخص حملہ آور ہو.محمد ﷺ کے گھر پر حملہ کیا گیا آپ نے اپنا گھر چھوڑ دیا، محمد ہے کے وطن پر حملہ کیا گیا آپ نے اپنا وطن چھوڑ دیا لیکن جب خدا تعالیٰ کی ذات پر حملہ ہوا تو اُس وقت محمد ﷺ خاموش نہ رہے بلکہ آپ نے الله کفار کو جواب دیا.محمد حملے کی جائیدادیں اور آپ کے اموال اور آپ کے املاک اور آپ کی زمینیں چھین چھین کر دشمنوں نے جو حالت کر دی تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ جب آپ حج کیلئے فتح مکہ کے بعد مکہ تشریف لائے تو کسی نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! آپ کہاں ٹھہریں گے؟ کیا ہی وہ دردناک جواب ہے جو رسول کریم ﷺ نے دیا.آپ نے فرمایا ہمارے لئے تو عقیل نے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں ہم کہاں ٹھہریں گے 2.وہ شخص جس کے باپ دادے مکہ پر حکومت کرتے چلے آئے تھے سات سال کے بعد مکہ میں ایک اجنبی کی حیثیت میں آتا ہے اور جب اُس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ آپ کہاں ٹھہریں گے؟ تو وہ مسیح علیہ السلام کی طرح کہتا ہے درندوں کیلئے ماندیں ہیں اور چڑیوں کیلئے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں 3.ہمارے لئے تو کوئی گھر ہی باقی نہیں رہا ہم کہاں ٹھہریں گے.مگر خدا تعالیٰ کیلئے انہی محمد ﷺ کی غیرت دیکھو کہ حنین کے موقع پر صحابہ ایک وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، اسلامی لشکر کفار کی شمولیت کی وجہ سے تتر بتر ہو جاتا ہے صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد رہ جاتے ہیں اور چار ہزار کا لشکر دونوں طرف سے تیروں کی بارش برسا رہا ہے ایسی حالت میں گھبرا کر صحابہ عرض کرتے ہیں کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! یہ کھڑے رہنے کا موقع نہیں میدانِ جنگ سے پیچھے بیٹے اور ایک تو وفور محبت کی وجہ سے آپ کے گھوڑے کا باگ پکڑ لیتا اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے مگر رسول کریم ہے اس کو ہٹا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں
سيرة النبي متر 254 جلد 4 چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ.اور اپنی سواری کو ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اور لشکر کفار میں نڈر ہو کر گھس جاتے اور فرماتے ہیں أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ 4 یعنی کیا اس وقت صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹا ہوں؟ ہرگز نہیں میں خدا کا سچا نبی ہوں اور دیکھو! میں اکیلا اس وقت تمہاری طرف بڑھ رہا ہوں.لیکن اس طرح میرا دشمنوں کی طرف بڑھتے چلے جانا لوگوں کو حیرت میں ڈال دے گا اور وہ کہیں گے شاید یہ خدا ہے مگر سنو! یہ درست نہیں میں خدا نہیں بلکہ (الفضل 25 جون 1936ء) 66 عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.“ 1: بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد صفحه 685،684 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 السيرة الحلبية الجزء الثالث فتح مكة صفحه 187 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 3: متی باب 8 آیت 20 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور 2011ء 4: مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين صفحہ 790 ، 791 حدیث نمبر 4615 تا 4617 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 255 جلد 4 رسول کریم بہترین مصلح حضرت مصلح موعود 17 جولائی 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.”رسول کریم ﷺ کی زندگی میں دونوں پہلو نظر آتے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ دنیا کے مادی مصلح بھی ہیں ، اخلاقی مصلح بھی ہیں اور روحانی مصلح بھی ہیں اور آپ کی حیات طیبہ تمام کی جامع نظر آتی ہے.اگر ایک طرف آپ تعلیم دیتے ہیں کہ اَلدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ 1 تو دوسری طرف روحانیت کی تکمیل کے متعلق زور دیتے ہیں.دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا ہے جیسے بچے اور ماں کا تعلق.دعا کے معنے پکارنے کے ہیں.پکارنے والا تب پکارتا ہے جب اسے یقین ہو کہ کوئی میری مدد کرے گا کیونکہ کون اپنے دشمن کو مدد کیلئے پکارتا ہے کہ مجھے آکر بچاؤ بلکہ انسان ایسے وقت میں خاموش رہتا ہے تا کہ کوئی اس پر ہنسے نہیں.دعا میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں.اوّل یہ کہ اپنے دل میں یقین کرے کہ میری بات قبول کی جائے گی.دوسرے یہ اعتما در کھے کہ جس کو میں پکارتا ہوں اس میں میری مدد کرنے کی طاقت ہے.تیسرے ایک فطری لگاؤ جو انسان کو باقی ہر قسم کے لگاؤ سے پھیر کر اُسی کی طرف لے جاتا ہے.پہلے دو تو عقلی نکتے ہیں.تیسری فطرتی محبت ہے جو دوسری طرف سے اس کی آنکھ کو بند کر کے محبوب کی طرف لے جاتی ہے.بچہ اور ماں کی مثال کو دیکھ لو بچہ کا ماں سے فطرتی تعلق ہوتا ہے قطع نظر اس سے کہ ماں اس کی مدد کر سکے یا نہ کر سکے وہ اسے پکارتا ہے.ایک سمندر میں ڈوبنے والا بچہ با وجود یہ جاننے کے کہ میری ماں تیرنا نہیں جانتی پھر بھی اپنی ماں کو آواز دیتا ہے کہ مجھے بچاؤ.کسی
سيرة النبي علي 256 جلد 4 دوسرے کو آواز نہیں دیتا کہ کوئی مجھے بچائے بلکہ بے اختیار اپنی ماں کو پکارتا ہے.یہ جذباتی تعلق ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ بغیر دعا کے انسان کے ایمان کو کامل نہیں کیا جاسکتا.پس آنحضرت ﷺ نے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو ماں اور بچہ کا ساتعلق قرار دیا ہے کہ دنیا سے آنکھ بند کر کے اس کی طرف بھاگے جب بھی دکھ پہنچے تو بھاگ کر اسی کے آستانہ پر گرے.دوسری چیز اخلاق میں ہم دیکھتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایسے باریک در بار یک اخلاقی پہلو معلوم ہوتے ہیں کہ بار یک نگاہ والے بھی دیکھ نہیں سکتے.مثلاً بیویوں کے معاملہ میں ہی آپ کے متعلق آتا ہے کہ جب کوئی آپ کی بیوی پانی پیتی آپ اُسی جگہ منہ لگا کر پانی پیتے جہاں سے اس نے پیا ہوتا2.یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے مگر کیسا باریک نکتہ ہے کہ انسانی محبت بڑے بڑے معاملات سے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہوتی ہے.اخلاق کے بڑے معاملات میں بھی آپ نے ایسی تعلیم دی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ شخص ساری عمر اخلاقیات کا مطالعہ کرتا رہا ہے.بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات، رشتہ داروں کے باہمی تعلقات، انسان کے ذاتی کیریکٹر کی تفصیلات، جھوٹ ، خیانت، بدگمانی سے پر ہیز تمام امور نظر آتے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جس کا ذکر نہ آیا ہو بلکہ اپنی ذات میں ایسا کامل نمونہ دکھا یا ہے کہ اگر کسی شخص کو بیسیوں زندگیاں عطا ہوں تب بھی اس کمال کو نہیں پہنچ سکتا.تیسری چیز مادیات ہیں ان کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں تو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں مادیات میں اصلاح کی تعلیم بھی معلوم ہوتی ہے.سڑکوں کو کھلا کرو، پانی کی صفائی رکھو، راستہ کی صفائی کرو، مکان کشادہ بناؤ وغیرہ احکام سے آپ کی تعلیم پر ہے.پس مادیات کے لحاظ سے بھی آپ کی تعلیم ایسی مکمل ہے کہ حیرت آجاتی ہے.تمام ضروری مادی چیزیں خواہ وہ سیاست سے تعلق رکھتی ہوں یا تمدن سے تعلق رکھتی ہوں یا تجارت سے یا صنعت سے صلى الله متعلق ہوں ہر ایک شے کو رسول کریم ﷺ نے اپنی اپنی جگہ پر بیان فرمایا ہے لیکن
سيرة النبي عمال 257 جلد 4.با وجود اس کے رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ کے لوگوں کی طرح یہ نہیں کیا کہ دنیا کی ہر شے کو مذہب کا حصہ قرار دے دیا ہو.مثلاً آپ کے متعلق واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگ کھیتی باڑی کر رہے تھے.آپ پاس سے گزرے تو وہ کر اور مادہ پودوں کو ملا رہے تھے آپ نے فرمایا کیا حرج ہے اگر نہ لگاؤ.لوگوں نے لگانے چھوڑ دیئے تو دوسرے سال پھل بہت کم آیا.آپ نے ان درختوں کو دیکھ کر دریافت فرمایا تو لوگوں نے کہايَارَسُولَ اللهِ ! آپ ہی نے فرمایا تھا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے حکم نہیں دیا تھا آپ لوگ اپنی دنیاوی باتوں کو مجھ سے اچھا جانتے ہو 3.اب گویا رسول اللہ نے مادیات کو مذہب سے جدا کر دیا.وہ زبان بھی خدا کے رسول کی زبان تھی مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا کے رسول کی زبان تھی آپ نے مادیات کو مادیات قرار دے کر فرمایا کہ تم ان باتوں کو زیادہ جانتے ہو مگر آج کل کے مولوی تو ایسا کرتے ہیں کہ خواہ اُن کے منہ سے انہونی بات بھی نکلے اس کے نہ ماننے سے اسلام کے دائرہ سے خارج اور کافر و مرتد ہونے کا سوال پیدا ہو جاتا ہے.دوسری طرف مغربی گروہ ہے اس کے نزدیک مذہب پر نہ ایمان لانا ضروری ہے، نہ ان کے نزدیک آپ کی تعلیم کی عزت ہے، نہ اخلاق کی حرمت، وہ ہر شے کو مادی قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ اُن کے فلاسفروں نے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ خدا نے دنیا کوکس طرح پیدا کیا بلکہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو کس طرح پیدا کیا.ان کے نزدیک خدا کا سوال انسانی ارتقاء کا نتیجہ ہے اور یہ کہ بے شک خدا کا وجود ایک حقیقت ہے لیکن دماغی ترقی کی وہ انتہائی کڑی ہے اور کچھ نہیں.ان کے نزدیک انسان نے اپنے لئے ایک اچھا نمونہ تلاش کرنا چاہا جب وہ انسانوں میں ایک عمدہ نمونہ تلاش نہ کر سکے تو انہوں نے انسانوں سے باہر ایک ذہنی نقشہ تیار کیا.پہلی کوشش انسان کی ایسی کامیاب نہ تھی مگر جوں جوں وہ زیادہ غور کرتا گیا زیادہ ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ اس نے ایک کامل نقشہ تیار کر لیا اُس کا نام خدا ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ اس کا حکم مانے یعنی اس کی نقل کرنے کی
سيرة النبي علي 258 جلد 4 کوشش کرے بغیر اس کی نقل اتارنے کے انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے بلکہ اس لئے کہ انسان نے آخر ایک کامل وجود کو دریافت کر لیا.غرض ان لوگوں نے خدا کو بھی مادیات کا حصہ قرار دے لیا ہے اور دوسری طرف ہندوستان کے مولویوں نے ہر ایک شے حتی کہ اخبار، سوسائٹی اور جلسہ کو بھی مذہب کا حصہ ٹھہرا لیا ہے.لیکن اس طریق سے نہ دنیا کی اصلاح ہوسکتی ہے نہ مذہب کی.جس گروہ نے مادیات کو روحانیات کے تابع کیا وہ کہتا ہے کہ نماز پڑھنے سے دنیا حاصل ہو جاتی ہے.دوسرا فریق کہتا ہے کہ دنیا میں کما نا ، کھانا کھلانا خدا کے حصول کا موجب ہیں.یہ دین کو خیالی نقطہ سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ دنیا کے پیچھے تمام روحانیات کو قربان کرنا چاہتا ہے.پس یہ دونوں دھوکا خوردہ اور دھوکا دینے والے ہیں اصل حقیقت رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ دونوں الگ الگ ہیں اور دونوں ضروری ہیں اور ان کو ملانا جائز نہیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ بے شک عبادت ضروری ہے لیکن وَ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 4 وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقِّ وَلِجَارِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 5.مگر تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے ہمسایہ کا بھی تجھ پر حق ہے.66 (الفضل 25 جولا ئی 1936ء) 1 ترمذى كتاب الدعوات باب منه الدعاء مخ العبادة صفحہ 770 حدیث نمبر 1 337 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 2: ابوداؤد كتاب الطهارة باب مؤاكلة الحائض و مجامعتها صفحه 47 حديث نمبر 259 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 3: مسلم كتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شرعًا صفحه 1039 حدیث نمبر 6128 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 259 جلد 4 4 بخارى كتاب الصوم باب من اقسم على اخيه صفحه 316 حدیث نمبر 1968+ بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم صفحه 317 حدیث نمبر 1975 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5 بخاری کتاب الصوم باب حق الضيف في الصوم حديث نمبر 1974 صفحہ 317 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 260 جلد 4 رسول کریم اللہ کی رحم دلی حضرت مصلح موعود 24 جولائی 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.مکہ والوں نے جب آنحضرت ﷺ کی تبلیغ کو سننے سے انکار کر دیا تو آپ کو خیال آیا کہ طائف کے لوگوں کو تبلیغ کروں.مکہ کے بد باطن مخالفوں کو جب علم ہوا تو انہوں نے طائف والوں کے پاس آدمی بھیجا کہ اس شخص کیلئے ہم نے مکہ میں تو کوئی جگہ چھوڑی نہیں ہمیں امید ہے کہ تم لوگ اپنے مذہب کیلئے ہم سے کم غیرت مند ثابت نہ ہو گے.طائف والوں نے جواب دیا کہ تم اسے یہاں آنے دو تم سے زیادہ بدسلوکی ہم کریں گے.رسول کریم علی ہے جب طائف پہنچے تو ان لوگوں نے دھوکا سے آپ کو ایک جگہ بلایا کہ آپ کی باتیں سنیں گے اور ادھر شہر کے لڑکوں کو جمع کر لیا جن کی جھولیوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ساتھ کتے تھے.جب آپ نے وہاں پہنچ کر بات شروع کی تو لڑکوں نے پتھر مارنے شروع کر دئیے اور کتے بھی چھوڑ دیئے گئے.پھر آپ پر گرتے اور جسم اطہر پر زخم لگتے جاتے تھے اور خون بہتا جاتا تھا 1.آپ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کیلئے ٹھہرتے تو جسم اطہر سے خون پونچھتے جاتے اور ساتھ فرماتے اے میرے رب ! یہ لوگ نہیں جانتے میں کون ہوں تو انہیں معاف کر 2.عربوں میں شرافت کا مادہ تھا اس لئے دشمن بھی بعض اوقات دل میں در دمحسوس کرتا تھا.رستہ میں ایک عرب سردار کا باغ تھا جب اُس نے آپ کو اس حالت میں آتے دیکھا تو اس کے دل میں درد پیدا ہوا اور اپنے عیسائی غلام سے کہا انگور تو ڑ کر لے جاؤ اور اس شخص کو بلالا ؤ اور اسے بٹھا کر کھلاؤ.چنانچہ غلام جا کر آپ کو بلا لایا، بٹھایا
سيرة النبي عمال 261 جلد 4 اور انگور کھلائے اور پھر دریافت کیا کہ آپ مے کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے؟ آپ نے اسے ساری بات سنائی اور پھر کہا کہ میں جب طائف سے واپس آ رہا تھا تو مجھ پر جبریل نازل ہوئے اور کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تو کہے تو طائف والوں کا تختہ اُسی طرح اُلٹ دوں جس طرح لوط کی بستی کا اُلٹا گیا تھا مگر میں نے اسے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ تباہ ہو گئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا.آپ کی باتیں سن کر عیسائی غلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.جب اس کے آقا نے یہ دیکھا تو اس کی مذہبی غیرت جوش میں آگئی اور اپنے غلام کو واپس بلالیا اور کہنے لگا کہ کیا تو بھی اس کے پھندے میں آ گیا ہے 3..معلوم ہوتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی نظر کے سامنے تھا اور آپ نے نہ چاہا کہ آپ کا قدم کسی ایسی جگہ پڑے جہاں آنحضرت ﷺ کا قدم نہ پڑا تھا.اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مومن کو ایک ہی وقت میں بہادر بھی اور رحیم بھی ہونا چاہئے.یہ دو جذبات بہت کم اکٹھے مل سکتے ہیں.مگر وہ بہادری حقیقی نہیں ہوتی جس میں ظلم ہو.وہ شجاعت شجاعت نہیں بلکہ تہو ر ہوتا ہے.حقیقی بہادری مومن میں ہی ملتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ رحم کا جذبہ ضروری ہے.مومن بیک وقت بہادر بھی اور رحیم بھی ہوتا ہے.اگر وہ ایک طرف اپنی جان کو اخروٹ اور بادام کے چھلکے سے بھی حقیر سمجھتا ہے تو دوسری طرف اس کے اندر اتنا رحم ہوتا ہے کہ وہی لوگ جو اس پر ظلم کرتے ہیں ان سے وہ عفو کا معاملہ کرتا ہے.الله ایک واقعہ میں نے رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کا سنایا ہے جو ایک لمبی زنجیر کی کڑی ہے.متواتر تیرہ سال تک آپ پر یہ مظالم جاری رہے.کبھی آپ پر تلواروں سے حملہ کیا جاتا تو کبھی تیروں اور سونٹوں اور پتھروں سے، کبھی آپ کے اوپر نجاست پھینکی جاتی اور کبھی گلا گھونٹا جاتا.حتی کہ آخری ایام میں جب آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا مسلسل تین سال تک آپ کا اور آپ کے صحابہ کا ایسا شدید بائیکاٹ کیا گیا کہ کسی سے سودا بھی
سيرة النبي عمال 262 جلد 4 مسلمان نہ خرید سکتے تھے.حضرت ابوبکر کی روایت ہے کہ اتنی تنگی ہوگئی تھی کہ بعض دفعہ دنوں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا.پاخانے سوکھ گئے اور جب پاخانہ آتا تو بالکل مینگنیوں کی طرح ہوتا کیونکہ بعض اوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے 4 اور بعض اوقات کھجور کی گٹھلیاں.احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی چہیتی بیوی جس نے اسلام کیلئے ہر چیز قربان کر دی تھی یعنی حضرت خدیجہ ان کی وفات انہی مظالم کے باعث ہوئی.ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ جن بی بی کے بیسیوں غلام تھے اور جو لاکھوں روپے کی مالک اور جو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں، جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھاتی تھیں بڑھاپے میں ان کو کئی کئی فاقے کرنے پڑتے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے وغیرہ.اُس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہوگا.چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ فوت ہو گئیں.آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب بھی انہی تکالیف کی وجہ سے فوت ہو گئے.ان حالات میں تو ایک عام انسان تو در کنار بہادر سے بہادر اور جری سے جری انسان کے ساتھ بھی اگر ایسی حالت ہوتی تو اس کے دل کا غصہ انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے.اگر ایسی ہی وفادار بیوی انہی حالات میں کسی اور شخص کی ضائع ہوتی تو وہ ان وفاداریوں اور قربانیوں کو یاد کر کے اور ان بچوں پر نگاہ ڈال کر جنہیں بے نگران چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہوتی ، بہادر سے بہادر انسان بھی قسم کھاتا کہ اس صدمہ کے عوض قریش کی ہر عورت کو بھی قتل کرنا پڑا تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا.رسول کریم ﷺ نے کیا کیا؟ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں جب رسول کریم علیہ نے قریش کی ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپ اس قدر غصہ میں آئے کہ میں نے آپ کو اس قدر غصہ میں کبھی نہ دیکھا تھا اور آپ نے سخت غصہ کی حالت میں دریافت کیا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اور پھر فرمایا کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، ضعیفوں، بیماروں اور مذہبی لیڈروں پر کبھی ہاتھ مت اٹھا ؤ5.کجا وہ سلوک اور کجا یہ.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بہادری کا مفہوم یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتایا.مگر میں اپنی
سيرة النبي علي 263 جلد 4 الله جماعت سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا ان میں بھی وہی جرات اور وہی رحم ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دکھایا ؟ ہمارے دوستوں کی حالت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو دوست گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم قید ہو جائیں گے ، پکڑے جائیں گے.کیا انہیں پتہ نہیں کہ جب انہوں نے احمدیت کو قبول کیا تھا تو اُس وقت یہ سب چیزیں ان کے سامنے رکھ دی گئی تھیں.کیا انہیں کسی نے دھوکا سے احمدیت میں داخل کر لیا تھا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ جو لوگ تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتے ان کا راستہ مجھ سے الگ ہے.میرا راستہ پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں پر ہے.کسی سے کوئی دھوکا نہیں کیا گیا.ہر شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ یہ سب تکالیف اسے برداشت کرنی پڑیں گی پھر شکایت کیسی ! اگر تو ہم کسی سے کہتے کہ آؤ احمدی ہو جاؤ ہم تمہیں بڑے بڑے عہدے دلائیں گے، دولت دیں گے، بیماریوں اور تکلیفوں سے بچائیں گے ، عمدہ عمدہ عورتوں سے شادیاں کر دیں گے ، تمہارے بچوں کی تعلیم کا انتظام کر دیں گے تو شکایت ہوسکتی تھی مگر ہم تو شروع دن سے یہی کہتے کہ خدا نے ہمیں اس لئے چن لیا ہے کہ دین کے لئے ہمیں قربانی کی بھیڑیں بنائے.اگر ابتلاؤں کی تلواروں سے گردن کٹوانی ہے، اگر اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے ہولی کھیلنی ہے تو آؤ.تو پھر کوئی شکایت کا موقع.نہیں.یہ بزدل کا کام نہیں اور ڈرپوک ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا.ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ تا محمد علی کی بادشاہت کو پھر قائم کریں اور ظاہر ہے کہ شیطان کے چیلے جنہیں اس سے پہلے انسانوں پر بادشاہت حاصل ہے وہ سیدھے ہاتھوں اپنی بادشاہتیں ہمارے حوالے نہیں کریں گے.وہ ہر تدبیر اختیار کریں گے جس سے ہمیں کچلا جا سکے اور ہر سامان مہیا کریں گے جس سے ہماری طاقت کو توڑا جا سکے.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ جاؤ اور اُس وقت تک دم نہ لو جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ جھنڈا دنیا کے تمام مذاہب کے قلعوں پر نہ گاڑ
سيرة النبي علي 264 جلد 4 دو جو صدیوں سے گرا ہوا ہے، جس کی عزت کو دشمنوں نے خاک میں ملانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے.اس مقصد کو ہم نے کبھی نہیں چھپایا گو یہ ہمیشہ کہا ہے کہ ہم اس مقصد کو امن کے ذریعہ اور دلوں کو فتح کر کے حاصل کریں گے.مگر یہ تو ہم نے کہا ہے کہ ہم ہر حال میں سچائی کو اختیار کریں گے.کیا ہمارے دشمنوں نے بھی یہ اقرار کیا ہوا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ شکوہ کیسا کہ حکومت کے بعض افسر کیوں آئین کو توڑتے ہیں؟ کیا انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا اس نے خیال کیا کہ فوج پر اتنا روپیہ صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے.قصائی جو روز چھری چلاتے ہیں ان سے ہی فوج کا کام لیا جا سکتا ہے.چنانچہ سب فوج موقوف کر دی گئی.اردگرد کے بادشاہوں کو جب یہ اطلاع ملی تو ایک بادشاہ نے جو اپنی حکومت کو وسیع کرنا چاہتا تھا اور ہمت والا تھا حملہ کر دیا.بادشاہ نے قصائیوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ جا کر مقابلہ کرو.وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد شور مچاتے ہوئے آگئے کہ ظلم ! داد، فریاد، بے انصافی.بادشاہ نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ دشمن کا لشکر بہت بے انصافی کرتا ہے.ہم تو چار چار مل کر ایک آدمی کو پکڑتے اور سر اور پاؤں کو پکڑ کر با قاعدہ بسم اللہ کہہ کے چھری پھیرتے ہیں لیکن دشمن بے تحاشا تلواریں مار مار کر ہمارے بیسیوں آدمی ہلاک کر دیتا ہے اس لئے اس کا ازالہ کیا جائے.اسی طرح ہمارے بعض نادان بھی یہی شور کرتے ہیں کہ ہم سچ بولتے ہیں اور آئینی طریق اختیار کرتے ہیں مگر ہمارے دشمن غیر آئینی کا رروائیاں کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں.ان کی بات ایسی ہی ہے جیسے قصائیوں نے کی تھی.کیا ہمارا دشمن بھی سچائی کا پابند ہے؟ کیا وہ بھی میری ہدایتوں پر نے کیلئے تیار ہے؟ کیا اس کے اخلاق کا بھی وہی معیا ر ہے جو تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے؟ کیا اس نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ تم سچ بولتے ہو اور
سيرة النبي عليه 265 جلد 4 تمہارا دشمن جھوٹ ، تم آئین کے مطابق چلتے ہو اور وہ غیر آئینی ذرائع اختیار کرتا ہے، تم رحم کرتے ہو اور وہ بختی ، اگر تم میں اور اس میں یہ فرق نہ ہوتا تو تم کو احمدیت میں داخل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی.دوسری طرف رحم کا معاملہ ہے.بہت تم میں ہیں جو چاہتے ہیں کہ اگر دشمن قابو آئے تو اس سے پوری طرح بدلہ لیا جائے لیکن یاد رکھو یہ طریق مسلمان کا نہیں ہوتا.مومن سے جب معافی طلب کی جاتی ہے تو وہ معاف کر دیتا ہے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت آچکی ہو.بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت رحم سے روک دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ہر چیز پر حاوی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم علیہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے عَفَا الله عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ 7 منافق جنگ میں نہ جانے کی اجازت لینے آئے اور تُو نے اجازت دے دی.اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کرے جو اس رحم سے پیدا ہوگی تو نے کیوں اجازت دی؟ محمد رسول اللہ علیہ سے خدا کا علم زیادہ تھا اس لئے یہ فرمایا.پس ایسے مواقع کے علاوہ جہاں خدا کا حکم ہم کو رو کے شدید سے شدید دشمن بھی اگر ہتھیار ڈال دے تو ہمارا غصہ دور ہو جانا چاہئے.ہاں مومن بیوقوف نہیں ہوتا اور وہ کسی کے دھوکا میں نہیں آتا.رسول کریم ﷺ تو یہاں تک احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے میدانِ جنگ میں جب ایک مسلمان اسے مارنے لگا تھا کہہ دیا کہ میں صابی ہوتا ہوں.کفار مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے جس طرح آج ہمیں مرزائی کہتے ہیں حالانکہ یہ سخت بداخلاقی ہے.ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی اپنے اوپر لے لی مگر پھر بھی ہم انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں.عیسائیوں کو عیسائی اور یہودیوں کو یہودی کہتے ہیں.یہ نہیں کہتے کہ تم کہاں کے ہدایت یافتہ ہو.مگر جو لوگ دین سے بے بہرہ ہوں ان کے اخلاق گر جاتے ہیں اور وہ دوسرے کا نام بھی ٹھیک طرح نہیں لینا چاہتے.تو اُس وقت کے صلى
سيرة النبي علي صلى الله 266 جلد 4 کفار مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے اور ایک شخص نے لڑائی کے دوران میں کہا کہ میں صابی ہوتا ہوں مگر چونکہ یہ نام غلط تھا اور لڑائی ہو رہی تھی مسلمان نے اسے مارڈالا.رسول کریم ﷺ کو جب علم ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے ظلم کیا.اسے مارنے کا تمہیں کیا حق تھا.اُس صحابی نے عرض کیا کہ اس نے صابی کا لفظ بولا تھا.آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ صابی ہی کہتے ہیں.اسی طرح ایک اور شخص نے لڑائی میں کلمہ پڑھا اور ایک صحابی نے اُسے مار دیا.اس پر بھی رسول کریم و سخت ناراض ہوئے 8.تو ایک طرف رحم اور دوسری طرف بہادری جب تک انتہا کو نہ پہنچی ہوئی ہو کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا.رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو وہ دشمن مجرموں کی حیثیت سے آپ کے سامنے پیش کئے گئے.وہ لوگ جن کے مظالم کی وجہ سے آپ کو راتوں رات مکہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا آپ کے سامنے پیش ہوئے.جو ان کے ظلم سے اپنے عزیز وطن کو، اپنے پیارے خدا کے گھر کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور ان لوگوں کی موجودگی میں پیش ہوئے جن میں سے بعض کی بیویوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہوں نے لاک کر ڈالا تھا ، جن کے باپوں اور بھائیوں اور دوستوں کو ایک اونٹ کے ساتھ ایک ٹانگ اور دوسرے سے دوسری ٹانگ باندھ کر اور انہیں مختلف جہتوں میں چلا کر چیر چاڑ کر ہلاک کر دیا تھا ، ان غلاموں کے سامنے جنہیں جیٹھ اور ہاڑ کی گرمیوں میں گرم پتھروں پر لٹا لٹا کر جلایا جاتا تھا اور پھر کوڑے لگائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اپنے دین سے تو بہ کرو پھر چھوڑیں گے ، مکہ کے وہ ظالم سردار جنہوں نے تیرہ سال تک صحابہ کے وطن کو ان کے لئے جہنم بنا رکھا مجرموں کی حیثیت سے حاضر تھے.صحابہ کہتے ہیں کہ تلواریں میانوں سے اُچھل اچھل پڑتی تھیں کہ ان ظالموں سے اپنے بزرگوں کے خون کا بدلہ آج لیں گے.مہاجر تو مہاجر انصار کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا حتی کہ ایک انصاری سردار کے منہ سے بے اختیار نکل ہی گیا کہ مکہ کے ظالم لوگو! آج تمہارے درودیوار کی اینٹ سے اینٹ ہم بجادیں گے.لیکن محمد رسول اللہ علی
سيرة النبي علي 267 جلد 4 نے بجائے اُن کو سزا دینے کے خود اُن ہی سے دریافت کیا کہ اے مکہ کے رہنے والو! بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے آگے سے جواب دیا کہ وہی جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.آپ نے فرمایا جاؤ میں نے تم کو معاف کیا.تم مجھے یوسف سے کم رحم کرنے والا نہیں پاؤ گے اور سب کو معاف کر دیا.یوسف کے بھائیوں نے انہیں صرف جلا وطن کیا تھا مگر رسول کریم علیہ پر کفار کے مظالم کے مقابلہ میں جلا وطن کرنا کچھ چیز نہیں.یہاں جلا وطنی تو ہزاروں ظلموں میں سے ایک ظلم تھی.پھر یوسف کے سامنے اُس کے باپ جائے بھائی کھڑے تھے جن کی سفارش کرنے والے اُن کے ماں باپ موجود تھے مگر یہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے عزیزوں اور بھائیوں کے قاتل تھے.حضرت حمزہ کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے؟ رسول کریم ﷺ کی چہیتی بیٹی کو مارنے والے کون تھے جبکہ وہ حاملہ تھیں؟ اور خاوند نے اس خیال سے کہ والد کی عداوت کی وجہ سے لوگ انہیں مکہ میں تنگ کرتے تھے مدینہ روانہ کر دیا تھا مگر کفار نے راستہ میں انہیں سواری سے گرا دیا جس سے اسقاط ہو گیا اور اسی کی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہو گئی.حضرت یوسف کے سامنے کون سے جذبات تھے سوائے اس کے کہ ان کے بھائیوں نے اُن کو وطن سے نکال دیا تھا مگر یہاں تو یہ حالت تھی کہ ابوطالب کی روح آنحضرت علی سے کہہ رہی تھی کہ میرے (جس نے تیری خاطر تیرہ سال تک اپنی قوم سے مقابلہ کیا ) یہ لوگ قاتل ہیں.عالم خیال میں حضرت خدیجہ آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ میں نے اپنا مال و دولت، اپنا آرام آسائش سب کچھ آپ کیلئے قربان کر دیا تھا اور یہ لوگ میرے قاتل ہیں.حضرت حمزہ کھڑے کہہ رہے تھے کہ ان میں ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری لاش کی بے حرمتی کی تھی اور میرے جگر اور کلیجہ کو باہر نکال کر پھینک دیا تھا.آپ کی بیٹی آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے شرم نہ آئی اور ایسی حالت میں مجھ پر حملہ کیا جبکہ میں حاملہ تھی اور مجھے ایسا نقصان پہنچایا جس سے بعد میں میری وفات
سيرة النبي عمال 268 جلد 4 ہوگئی.پھر وہ سینکڑوں صحابہ جو آنحضرت عیہ کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز تھے اور جن میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جب ان میں سے ایک کو مکہ میں کفار نے پکڑا اور قتل کرنے لگے تو کہا کہ کیا تم یہ پسند نہ کرو گے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہوں اور تم صلى الله آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں تو آرام سے گھر میں بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چھے 2.ایسے عزیز صحابہ کے ناک پاؤں اور ہاتھ کاٹ کاٹ کر انہیں مارا گیا اور اُن کی روحیں اُس وقت آنحضرت عے کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ لوگ ہمارے قاتل ہیں مگر باوجود ان سب جذبات کے آنحضرت ﷺ نے کہا تو یہ کہا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ جاؤ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی 10.پس غور کرو کیا ان سے زیادہ تکالیف ہمیں دی جاتی ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ بعض چیزیں جسمانی اذیت سے زیادہ ہوتی ہیں مگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی تھیں اور ان میں بھی صحابہ ہمارے شریک ہیں.رسول کریم ﷺ کی ذات پر بھی ایسے حملے کئے جاتے تھے اور ایسی گالیاں دی جاتی تھیں جیسی آج دی جاتی ہیں.یہ ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ ہمارے دشمن گالیاں دینے میں زیادہ ہوشیار ہیں اور ان کی فطرت زیادہ گندی ہے اور کفار عرب کی شرافت سے یہ لوگ نا آشنا ہیں مگر یہ نہیں کہ اُس زمانہ میں گالیاں وغیرہ بالکل دی ہی نہیں جاتی تھیں.اس زمانہ میں بھی رسول اللہ علیہ کے گھر کی مستورات کے متعلق ویسے ہی گندے اتہام لگائے جاتے تھے جیسے آج لگائے جاتے ہیں اور عرب کے شاعر شعروں میں ان کے ساتھ محبت کا اظہار کیا کرتے تھے.پس یہ ممکن ہے کہ آج کل کے لوگ اس خباثت میں ان سے زیادہ ہوں مگر جسمانی تکالیف صحابہ کو ہم سے بہت زیادہ تھیں.اُس زمانہ میں ساری حکومت اسلام کے مخالف تھی مگر آج ساری نہیں.آج گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ ہمارے مقابل پر نہیں بلکہ بعض حکام ہمارے خیر خواہ بھی ہیں اور بعض اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر
سيرة النبي عمال 269 جلد 4 ہماری مخالفت کرتے ہیں.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہوئے آج وہی رحم نہ دکھا ئیں جو آنحضرت ﷺ نے دکھایا اور جسے قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہر فرمایا.( الفضل 2 اگست 1936 ء ) صلى الله 1 السيرة الحلبية الجزء الثانى باب ذكر خروج النبى الله الى الطائف صفحه 54،53 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 2:بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار صفحہ 586 حدیث نمبر 3477 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 3: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول قصة عداس النصرانی معه الا صفحه 476، 477 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الأولى صلى الله 4 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي عل باب مناقب سعد بن ابی وقاص صفحہ 628 حدیث نمبر 3728 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية 5:ابوداؤد كتاب الجهاد باب في قتل النساء صفحه 385 حدیث نمبر 2669،2668 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 6 انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23 ، 24 مطبوعہ 2008 ء 7: التوبة: 43 8 مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر صفحہ 56 حدیث نمبر 277 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 9 اسد الغابة الجزء الثاني زيد بن الدثنة صفحه 195 مطبوعہ بیروت 2006 ء الطبعة الاولى 10: السيرة الحلبية الجزء الثالث فتح مكة صفحه 207 208 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 270 جلد 4 رسول کریم ع کا بطور بادشاہ نمونہ الله حضرت مصلح موعود 31 جولائی 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.پہلے انبیاء کو لو اور دیکھو کہ نبوت کا انعام کس حد تک اُن کو دنیوی مراتب عطا کرتا ہے.اس حد تک ہمارے لئے بھی جائز ہوگا کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو یہ مراتب بخشے.نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو جس حد تک ان کے دنیا سے تعلقات تھے اُس حد تک جاہ کی طلب ہمارے لئے جائز ہے اور جس جگہ پر جا کر وہ کھڑے ہو جاتے ہیں اس سے آگے بڑھنا ہمارے لئے جائز نہ ہوگا.ان انبیاء میں سے بعض بادشاہ بھی تھے.مثلاً حضرت نبی کریم ع ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام وغیرہ.حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام.حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ایک حد تک تنفیذ امر کا مقام حاصل تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایسی حکومت حاصل نہ سہی لیکن کم از کم اپنے قبیلہ میں وہ ضرور حکومت کرتے تھے.غرض بادشاہت کا ثبوت بعض انبیاء میں ضرور ملتا ہے اور یہ بات تاریخ سے بھی ثابت ہے اس کے حصول اور قیام کیلئے کس حد تک انہوں نے دین کو تابع کیا ہے اس کی مثال ہمارے سامنے آنحضرت علی کے وجود مبارک میں موجود ہے.حضور آخری عمر میں ایک بادشاہ تھے اس میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس بادشاہت سے حضور نے دنیاوی فوائد کیا حاصل کئے ہیں.مثلاً بیوی بچوں کی آسائش، دوستوں کی آسائش اور رشتہ داروں کی آسائش اس بادشاہت سے حضور نے کہاں تک حاصل کی.غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے اس بادشاہت سے دنیاوی فائدہ
سيرة النبي علي 271 جلد 4 کوئی بھی حاصل نہیں کیا بلکہ حضور نے اپنی تمام تر زندگی میں لوگوں کیلئے قربانی ہی پیش کی.حضور نے ممالک مفتوحہ اور جائیدادوں کو اپنا ہرگز قرار نہیں دیا.حضور کی وفات کے بعدسنی شیعہ کا جو اختلاف پیدا ہوا اس عظیم الشان اختلاف کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ حضور نے جائیدادوں اور ممالک مفتوحہ کو اپنی ذاتی چیز اور ملکیت قرار نہیں دیا اور یہ جائزہ نہیں ٹھہرایا کہ یہ اشیاء حضور کے خاندان کی طرف بطور ورثہ کے منتقل ہوسکیں.پس حکومت سے حضور نے اپنی ذات کیلئے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.حضور کی اولاد کے بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نے ان کیلئے کوئی چیز بھی دنیا میں نہیں چھوڑی.حتی کہ حضور کی وفات کے وقت حضور کی بہت سی اشیاء گرو رکھی ہوئی ثابت ہوئیں.انسان کو اپنی زندگی میں بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ اسے اپنی مملوکہ اشیاء گرو رکھنی پڑتی ہیں اسی طرح حضور پر بھی تنگی اور فراخی کے زمانے آتے رہتے تھے.خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں جب بہت سا مال آیا تو حضرت فاطمہ نے حضور سے درخواست کی کہ اس مال میں سے ایک لونڈی مجھے عنایت فرمائی جائے جو میرا کام کاج کرے.حضور نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ یہ مال میرا تو نہیں ہے یہ تو خدا تعالیٰ کا ہے.میں تم کو اس مال میں سے کچھ نہیں دے سکتا تم خدا تعالیٰ کا ذکر کیا کرو اور لونڈی کا خیال ترک کر دو 1.پھر حضور کے دوستوں کو لو.رسول کریم عمل کے دوست ایسے لوگ تھے جنہوں نے حضور کی بہت خدمات کیں لیکن حضور نے ان سے کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جن میں دوسرے لوگوں پر ان کو ترجیح دی گئی ہو.حضرت عباس حضور کے چا بھی تھے اور دوست بھی کیونکہ عمر میں برابر کے تھے ان کے تعلقات حضور سے اس قدرا ہم تھے کہ جب کچھ لوگ مدینہ منورہ کے مسلمانوں میں سے حج کرنے آئے اور انہوں نے چاہا کہ حضور کو اپنے ساتھ مدینہ لے چلیں تاکہ حضور مکہ کی تکالیف سے محفوظ ہو جاویں اُس وقت حضور نے ان کی ملاقات کیلئے صرف حضرت عباس کو اپنے ساتھ لیا اور
سيرة النبي عمار 272 جلد 4 معاہدہ بھی ان کی منشا کے مطابق کیا.یہی حضرت عباس جب بدر کی جنگ میں مسلمان ہونے سے پہلے قید ہوئے تو حضور نے ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا.جس طرح باقی قیدیوں کو رسیوں میں جکڑا گیا اسی طرح ان کو جکڑا گیا اور بوجہ رفاہیت کی زندگی کی عادت کے ان کو کئی دوسرے قیدیوں سے زیادہ تکلیف پہنچی اور وہ شدت درد سے کراہتے رہے.چنانچہ بعض صحابہ نے رات کے وقت حضور علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ بار بار کروٹیں بدل رہے ہیں اور آپ کو بے چینی کی تکلیف معلوم دیتی ہے.اس پر بعض صحابہ نے عرض کی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو نیند نہیں آرہی اور کچھ بے چینی سی ہے.حضور نے فرمایا ہاں میں بے چین ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید عباس کی رسیاں زیادہ سخت باندھی گئی ہیں کیونکہ وہ کراہ رہے ہیں ان کی تکلیف کو دیکھ کر مجھے بے چینی محسوس ہو رہی ہے اور میں سو نہیں سکتا.صحابہ نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو معمولی بات ہے ہم اسی وقت حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیتے ہیں.حضور نے فرمایا نہیں! یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں ورنہ عباس کی رسیاں بھی اسی طرح رہنے دی جائیں.چنانچہ حضرت عباس اور باقی تمام قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی گئیں 2 اور حضرت عباس کو آرام مل گیا تب حضور آرام کی نیند سوئے.پس بادشاہت سے حضور نے یا حضور کے دوستوں اور رشتہ داروں نے قطعاً کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.وہ بادشاہت تو خدا تعالیٰ کیلئے تھی اور اس بادشاہت میں آپ کو ویسی ہی انفرادی عزت حاصل تھی جیسی اور لوگوں کو تھی.“ ( الفضل 9 اگست 1936ء) 66 1 ابوداؤد كتاب الخراج باب فى بيان مواضع قسم الخمس صفحہ 436 حدیث نمبر 2987 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الأولى 2: اسد الغابة الجزء الثانى عباس بن عبدالمطلب صفحہ 530 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 273 جلد 4 رسول کریم ﷺ کا راہ خدا میں مصائب اٹھانا حضرت مصلح موعود نے 31 جولائی 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.قرآن مجید کے نزدیک ذلت یہ نہیں کہ لوگ ہم کو گالیاں دیں کیونکہ گالیاں تو آنحضرت ﷺ کو بھی دی گئیں ، حضور پر اوجھڑی بھی پھینکی گئی تو کیا گالیاں دی جانے اور اوجھڑی پھینکے جانے سے حضور کی ذلت ہوئی ؟ ہرگز نہیں.حضور کا نام ہی محمد ہے جس کے معنی عزت دیا گیا کے ہیں.پس جو واقعہ بھی حضور سے گزرا وہ یقیناً سراسر عزت ہے.اگر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ جھوٹا ٹھہرتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ حضور کو محمد کہتا ہے اور دوسری طرف نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ ذلیل ہونے دیتا ہے.پس اگر گالیوں کا ملنا ذلت ہے تو یہ ہرگز آنحضرت ﷺ کو نہ دی جاسکتیں.ہاں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کیلئے گالیاں کھانا عزت ہے لیکن اپنی ذات کیلئے گالیاں کھانا کبھی ذلت کا موجب بھی ہوسکتا ہے.رسول کریم می صلى الله کو ذاتی طور پر لوگ صادق اور امین کے نام سے یاد کیا کرتے تھے لیکن جونہی حضور نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا لوگوں نے حضور کو کاذب کہنا شروع کر دیا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ کی طرف یہ قول نقل فرمایا که فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ 1 یعنی دعوی نبوت سے قبل کیا کسی نے تم میں سے مجھے گالی دی یا کوئی اعتراض کیا ؟ ہاں جو نہی میں نے خدا تعالیٰ کا نام لیا تو تم نے مجھ کو گالیاں دینا شروع کر دیں.تو یہ گالیاں وہ لوگ حضور کو نہیں دے رہے تھے بلکہ در حقیقت خدا تعالیٰ کو د.الله
سيرة النبي عمال 274 جلد 4 رہے تھے اور وہ اوجھڑی حضور پر نہیں پھینکی گئی تھی بلکہ دراصل خدا تعالیٰ پر پھینکی گئی تھی اور جب حضور کے گلے میں رسی ڈالی گئی تھی تو محض محمد اللہ کے گلے میں نہیں بلکہ اُس محمد کے گلے میں ڈالی گئی تھی جو رسول اللہ ہونے کا مدعی اور خدا تعالیٰ کا نام لینے والا تھا.پس یہ سلوک گویا حضور سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے تھا.“ نیز فرمایا:.( الفضل 9 اگست 1936 ء ) پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تکالیف اور مصائب کو اسی نقطہ نگاہ سے دیکھے کہ یہ قرب الہی کے حصول کیلئے ایک ذریعہ ہیں.ہم کو تو صرف گالیاں دی جاتی ہیں اور کچھ تھوڑی سی تکالیف دی گئی ہیں.نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو تو گالیاں بھی دی گئیں اور انہیں قتل بھی کیا گیا اور جلا وطن بھی کیا گیا حتی کہ عورتوں تک کو شدیدا بتلاؤں میں سے گزرنا پڑا.خود رسول کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی جب اُن کے خاوند نے اس وجہ سے انہیں مدینہ روانہ کر دیا کہ مکہ والے ان کو تکلیف دیتے تھے ان پر بزدل کفار نے حملہ کیا اور سواری سے گرا دیا.اُس وقت وہ حاملہ تھیں اسی صدمہ سے اُن کا حمل ساقط ہو گیا اور اسی تکلیف کی وجہ سے وہ آخر فوت ہو گئیں 2.پس خدا کی راہ میں تکلیف پانا عزت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ عزت کیلئے پیدا کئے 66 گئے تھے اگر یہ چیزیں عزت نہ ہوتیں تو آپ کو ہرگز ان باتوں سے واسطہ نہ پڑتا.“ 1: يونس: 17 الفضل 9 اگست 1936 ء ) 2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول خروج زينب الى المدينة صفحه 716،715 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 275 جلد 4 آنحضرت ﷺ کے ذریعہ توحید کامل کا قیام.حضرت مصلح موعود نے 28 اگست 1936 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.پچھلے جمعہ میں نے الفضل میں ایک دلچسپ بحث دیکھی اور وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کا ماٹو کیا ہونا چاہئے؟ اس مضمون پر دو دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اخبار الفضل میں شائع ہو چکے ہیں اور یہ دونوں اصحاب میرے ماموں ہیں.اسی ماٹو کے بارہ میں ایک تیسرا مضمون بھی میری نظر سے گزرا ہے جس کے بارہ میں مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ وہ اخبار میں بھی شائع ہوا ہے یا نہیں؟ ماٹو کے بارہ میں جو دو مضمون اخبار میں شائع ہو چکے ہیں ان میں ایک مضمون میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمارا ما لو فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ 1 ہونا چاہئے اور دوسرے مضمون میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہمارا مطمح نظر جس کو دوسرے الفاظ میں ماٹو کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ ہونا چاہئے.بہر حال یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ہر قوم کیلئے کوئی نہ کوئی مطمح نظر ضرور ہوتا ہے اور قدرتی طور پر سب قو میں اپنے اپنے ماٹو کو اپنے سامنے رکھتی ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں.مطمح نظر کا اصول یہ ہے کہ جس غرض کیلئے کوئی قوم یا انجمن بنی ہے وہ قوم یا انجمن اس غرض اور مقصد کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے.جس وقت فرانس کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت ہوئی تو باغیوں کام مطمح نظر یہ تھا کہ ہم نے حریت، مساوات اور اخوت کو حاصل کر کے رہنا ہے اور اس مضمون کے بورڈ لکھ لکھ کر انہوں نے مختلف مقامات پر لگا دیئے تھے اور اپنی تقریروں میں بھی وہ ان باتوں پر زور دیتے
سيرة النبي علي 276 جلد 4 تھے اور بازاروں میں پھر پھر کر لوگوں کو اپنے اس مطمح نظر کی طرف توجہ دلاتے تھے.انگلستان کی تاریخ سے بھی یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی وہاں اختلاف پیدا ہوا تو جو قوم بھی اٹھی ہے اس نے اپنے لئے ضرور کوئی نہ کوئی ماٹو تجویز کیا ہے جس کو وہ اپنے سامنے رکھتی تھی.پس تمام سوسائٹیاں اور انجمنیں یہ بتانے کیلئے کہ ہم کو دوسری قوموں سے کیا امتیاز ہے اپنے لئے ایک خاص مطمح نظر تجویز کر لیتی ہیں.کوئی انجمن یہ قرار دے لیتی ہے کہ اخلاق کی درستی اُن کے نزدیک سب سے بالا ہے، کوئی قوم یہ کہتی ہے کہ سب سے مقدم تعلیم کی ترقی ہے، کوئی سوسائٹی اپنا نصب العین یہ ٹھہرا لیتی ہے کہ ہم نے آزادی کو حاصل کرنا ہے اور اس کے بغیر ہماری زندگی ، زندگی کہلانے کی مستحق ہی نہیں.غرضیکہ کوئی انجمن سیاسی ہوتی ہے تو کوئی تعلیمی اور ہر ایک نے اپنے لئے کوئی نہ کوئی ماٹو تجویز کر رکھا ہوتا ہے اور وہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ جس بات کیلئے ہماری جماعت قائم ہوئی ہے اس کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اس بات کو اپنی جماعت کے سامنے بھی ہر وقت موجود رکھنا ہے.دنیا میں ہزاروں قسم کی نیکیاں ہیں اگر ہم ان میں سے ایک نیکی کو چن لیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری نیکیاں اس قابل نہیں کہ ان کے حصول کی کوشش کی جائے اور صرف یہ ایک نیکی جس کو ہم اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں اس قابل ہے کہ اس کو اختیار کیا جائے بلکہ مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ فلاں فلاں نیکی کا حاصل کرنا ہمارے لئے ذرا دقت طلب سی بات ہے لیکن اس نیکی کے حصول میں ہم کو چند در چند سہولتیں ہیں اس لئے ہم اس کی طرف اپنی توجہ کو زیادہ مبذول کرتے ہیں.اسی اصول کے ماتحت جس قوم کو تعلیم سے دلچسپی ہوتی ہے وہ تعلیم کو اور جس قوم کو نظام سے دلچسپی ہوتی ہے وہ نظام کو اپنا مائو قرار دے لیتی ہے اور جس قوم کو مثلاً سے دلچسپی ہے وہ ورزش کو اپنا مائو قرار دے لے گی.غرضیکہ جس جس کام سے
سيرة النبي عمال 277 جلد 4 کسی قوم کو دلچسپی ہوتی ہے وہ اسی کو اپنا مائو قرار دے کر اس کو اختیار کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتی ہے اور اس کوشش کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ باقی کاموں سے اس قوم کو نفرت ہے بلکہ صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کام کی طرف اس قوم کا زیادہ میلان ہے.اس لحاظ سے کوئی بھی اچھا ماٹو کوئی قوم رکھے وہ اُس کیلئے نیکی ہوگا.اور بعض ماٹو ایسے بھی ہیں جو آپس میں اشتراک رکھتے ہیں مثلاً یہ ماٹو کہ خدا کی اطاعت کرو اور یہ ماٹو کہ نیکیوں میں ترقی کرو در حقیقت ایک ہی ہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ خدا کی اطاعت کے بغیر نیکیوں کا حصول محال ہے اور اسی طرح جو شخص نیک ہی نہیں وہ خدا تعالیٰ کا مطیع کس طرح ہو سکتا ہے.اسی طرح یہ ماٹو کہ ” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور یہ ماٹو کہ ”میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کروں گا دونوں گو ایک نہ ہوں مگر آپس میں بہت مشابہ ہیں اور دونوں ایک حد تک ایک دوسرے کے اندر آجاتے ہیں.پس یہ ساری نیکیاں ہی اچھی ہیں اور ہم کو ان کے حصول کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.دوران لیکن جب میں نے ماٹو کے بارہ میں یہ مضامین الفضل میں پڑھے تو مجھے ایک یہودی کا قصہ یاد آ گیا کہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمرؓ سے باتیں کر رہا تھا کہ ن گفتگو میں کہنے لگا ہم تو آپ لوگوں سے سخت حسد رکھتے ہیں.حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہم پر کس بات کا حسد آتا ہے؟ وہ یہودی کہنے لگا کہ مجھے اس بات کا حسد ہے کہ آپ کے اسلام میں یہ ایک خاص خوبی ہے کہ دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں جس کے بارہ میں آپ کے اسلام کے اندرا حکام موجود نہ ہوں حتی کہ آپ کے اسلام نے تو پاخانہ اور پیشاب کرنے اور کھانا کھانے اور پانی پینے تک کیلئے بھی احکام بتلا دیئے ہیں کہ فلاں فلاں کام کرو تو اس طور پر کرو، اسی طرح شادی بیاہ کے بارہ میں بتلا دیا کہ اس طرح پر کرو غرضیکہ کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے بارہ میں اسلام کے اندر احکام اور مسائل موجود نہ ہوں.ہم کو آپ کے مذہب پر اس بات کا حسد ہے کہ یہ
سيرة النبي عمال 278 جلد 4 کس قدر وسیع مذہب ہے لیکن ہمارے مذہب میں یہ بات ہرگز موجود نہیں.اس واقعہ کو مدنظر رکھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کسی ایک بات کو بطور ماٹو چننا درست نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی تو ہر بات ہی ایسی ہے جو ماٹو بنانے کے قابل ہے.پس فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ بھی ایک نہایت عمدہ ماٹو ہے اسی طرح یہ ماٹو کہ ” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا بھی بہت عمدہ ہے اور اس کی طرف بھی قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے اور وہ اس آیت میں ہے کہ بل تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَ اَبقی 2 یعنی نادان لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ آخرت یعنی دین کی زندگی کا نتیجہ دنیوی زندگی سے اعلیٰ اور دیر پا ہے.پس اسے دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ هَذَا لَفِی الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَ موسی 3.یہ تعلیم ہم آج نہیں دے رہے یہ تعلیم سب انبیاء دیتے چلے آئے ہیں چنانچہ موشی اور ابراہیم کی وحیوں میں بھی اس پر زور دیا گیا تھا.قرآن مجید کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس مضمون کو ادا کرتی ہیں.پس یہ اعلیٰ تعلیم ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی وہ کون سی تعلیم ہے جو ماٹو نہ بن سکے.میں تو اس کے جس حکم پر نظر ڈالتا ہوں وہی جاذب توجہ نظر آتا ہے اور دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ میں اپنے محبوب کے جس حصے پر نگاہ ڈالتا ہوں کرشمہ دامن دل می کشد که جا اینجاست یعنی محبوب کے چہرہ کا ہر حصہ کہتا ہے کہ بس خوبصورتی کا مقام اگر کوئی دنیا میں ہے تو یہی ہے بس تو یہیں ٹھہر جا.اس تمہید کے بعد یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کی بعثت کا زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ 4 کا مصداق تھا.دنیا کی کوئی چیز ایسی نہ رہی تھی جس میں خرابی نہ آگئی ہو اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت کے نفل اور بروز ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی آنحضرت صلى الله
سيرة النبي علي 279 جلد 4 کے زمانہ کا ظل ہے اور اس زمانہ میں بھی ہر قسم کی خرابیاں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں اس لئے آج مذہب کی بھی ضرورت ہے ، اخلاق کی تمام اقسام کی بھی ضرورت ہے، دنیا کی ہر خوبی اور ترقی کی بھی ضرورت ہے.جہاں لوگوں کے دلوں سے خدا تعالیٰ پر ایمان اٹھ گیا ہے وہاں اخلاق فاضلہ بھی اٹھ گئے ہیں اور حقیقی دنیوی ترقی بھی مٹ گئی ہے کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ نفسانیت کا ایک مظاہرہ ہے اور دنیا کی ترقی نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس سے ایک حصہ دنیا فائدہ اٹھا رہا ہے اور دوسرے کو غلام بنایا جا رہا ہے.پس ایسے وقت میں ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی فلاں آیت پر ہمیں خاص طور پر عمل کرنا چاہئے اور فلاں کی طرف کم توجہ کی ضرورت ہے.نہیں بلکہ قرآن مجید کی ہر آیت ہی اس قابل ہے کہ انسان اس کو اپنا مطمح نظر اور نصب العین بنائے خصوصاً اس زمانہ میں کہ ہر آیت ہی کی طرف سے لوگوں کو بے رغبتی ہے مگر ایسے دن نہ بھی ہوں تب بھی قرآن مجید کی کسی آیت کا چن لینا انسان کیلئے ناممکن ہے کیونکہ اس کی ہر ایک آیت بے شمار خوبیوں کی جامع ہے اور ہر آیت پر انسان یہ خیال کر کے کہ اس سے بڑھ کر بھلا اور کون سی آیت ہوگی حیرت میں پڑ کر وہیں کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے.پس اس صورت میں کہ قرآن مجید کی ایک ایک آیت تمام خوبیوں کی جامع ہے ہم کسی آیت کو اپنا مائو قرار دیں اور کس کو اپنا ماٹو قرار نہ دیں جبکہ ان میں سے ہر ایک ہی ہمارا ماٹو ہے تو ترجیح کی کیا وجہ ہے؟ ہم کو تو اب خود کسی ماٹو کے تجویز کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی جبکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سارے قرآن مجید کو ماٹو مقرر کر دیا ہے لیکن اگر ایک مختصر ماٹو ہی کی ضرورت ہو تو وہ بھی رسول کریم ﷺ نے ہمارے لئے تجویز کر دیا ہے اور وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.یہ جملہ در حقیقت قرآن کریم سے ہی اخذ کیا گیا ہے اور قرآن مجید کے سب مضامین کا حامل ہے.گویا یہ تمام قرآن مجید کا خلاصہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد توحید کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح بندوں کے آپس کے
سيرة النبي عمال 280 جلد 4 تعلقات اور بندہ کے خدا تعالیٰ سے تعلقات توحید کے اندر آ جاتے ہیں.تو حید کے معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اور جس طرح سورج بغیر آنکھ کے نظر نہیں آسکتا اسی طرح صلى الله اللہ تعالیٰ بھی ایک خاص آنکھ کے بغیر نظر نہیں آسکتا اور وہ آنکھ آنحضرت عیہ ہیں ان کے ذریعہ سے ہی لا إِلهَ إِلَّا الله دنیا کو نظر آ سکتا ہے اور اسی حکمت کی وجہ سے لا الہ الا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صلى الله آنحضرت ﷺ کے بغیر توحید کا سمجھنا ہی محال ہے.گویا آنحضرت ﷺ ہی ایسی دور بین ہیں جس سے تو حید دیکھی جاسکتی ہے.پس یہ لا WATAN ANLA اللہ ایسی آیت ہے کہ اس میں بقرة، آل عمران، نساء وغیرہ سب سورتیں شامل ہیں اور اَلْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاسِ تک کا کوئی مضمون اس سے باہر نہیں.لیکن تو حید ایسی بار یک چیز ہے کہ اس کو ہر ایک نظر نہیں دیکھ سکتی.ہاں ایک عینک ہے کہ اگر اس کو انسان اپنی آنکھوں پر لگالے تو وہ تو حید نظر آنے لگتی ہے اور وہ عینک آنحضرت ﷺ کا وجو د مبارک ہے اور اس میں کون شبہ کرسکتا ہے کہ آنحضرت کے آنے سے ہی دنیا میں توحید قائم ہوئی ورنہ آپ کی بعثت سے قبل تو بعض لوگوں نے حضرت عزیز، بعض نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بنا رکھا تھا، بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے اور ایسے خطر ناک زمانہ میں جس میں گویا سب کی آنکھیں کمزور ہو رہی تھیں صرف آنحضرت ﷺ کی عینک لگانے سے ہی لوگوں کو توحید نظر آئی.آنحضرت سے قبل اور حضور کے زمانہ میں لاکھوں فلاسفر موجود تھے لیکن کسی کو تو حید کے علم کو بلند کرنے کا موقع نہ ملا بلکہ اس کے برعکس فلسفیوں نے جو کچھ پیش کیا وہ شرک سے پر تھا پس حقیقت یہی ہے کہ : ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده محض خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے ہی دنیا میں
سيرة النبي الله 281 جلد 4 تو حید قائم ہوئی اور یہی لا اله الا اللہ ایسا مائو ہے جس کو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بلند آواز میں بیان کرتے ہیں اور جب کسی شخص کو اسلام میں لایا جاتا ہے تو اُس سے یہی لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کا نام ہے اور باقی تشریحات اور تفصیلات ہیں جو ساتھ چسپاں کر دی جاتی ہیں.اور اگر کسی شخص میں دینی کمزوری پیدا ہوتی نظر آتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ لَا اِلهَ اِلَّا الله کے سامنے موجود ہونے سے انسان دینی کمزوریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جب لا اله الا اللہ آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو زید کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے، عمر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور بکر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم صلى الله کس طرح کہتے ہو کہ آنحضرت علی کے بغیر بھی تو حید حاصل ہوسکتی ہے جبکہ تو حید کو انسان رسالت کے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتا اور خصوصاً کامل تو حید کیلئے رسالت کامل یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا سمجھنا ضروری ہے.صلى الله غرض جب تک انسان آنحضرت ﷺ میں بالکل محو نہ ہو جائے تو حید کامل کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس کے تفصیلی جلوہ یعنی قرآن مجید کو سمجھ سکتا ہے.وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ میں محو ہو کر تو حید کو نہیں سمجھتے باوجود عقل کے شرک میں مبتلا رہتے ہیں جیسے کہ مسیحی ، ہندو، یہودی وغیرہ ہیں اور اسی طرح بہت سے مسلمان کہلانے والے جو پیروں اور فقیروں کو ہی اپنا خدا بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت خلیفہ اول کی ایک ہمشیرہ نے ایک فقیر کی بیعت کی ہوئی تھی.حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اس کو کہا کہ اپنے پیر صاحب سے جا کر یہ پوچھو کہ آپ کی بیعت سے مجھے کیا فائدہ ہے ؟ وہ اس فقیر سے پوچھنے گئیں.جب واپس آئیں تو آپ نے دریافت فرمایا کہ سناؤ کیا جواب ملا؟ کہنے لگیں پیر صاحب خفا ہوکر بولے کہ تجھے یہ سوال ضرور مولوی نورالدین صاحب نے ہی سمجھایا ہوگا جا کر ان سے کہہ دے کہ ہماری بیعت میں
سيرة النبي علي 282 جلد 4 آنے والے مریدوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ قیامت کے روز جب ہمارے مریدوں سے خدا تعالیٰ حساب لینے لگے گا تو ہم آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ ان کا حساب ہم سے لینا ان سے نہ پوچھو.اس کے بعد مرید تو دوڑ کر جنت میں جا داخل ہوں گے.اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ کیا ہمارے باپ امام حسینؓ کی قربانی کافی نہ تھی کہ اب ہمیں دق کیا جاتا ہے.پس اس پر خدا تعالیٰ خاموش ہو جائے گا اور ہم جنت میں چلے جائیں گے.یہ سب لغو خیالات اسی لئے پیدا ہوئے کہ لوگوں نے خدا تعالیٰ کو محمد رسول اللہ میں ہوکر نہیں دیکھا.اگر وہ خدا تعالیٰ کو محمد رسول اللہ کی عینک میں سے دیکھتے تو اس کی ایسی بری صورت نظر نہ آتی اور توحید سے دور نہ جاپڑتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ الله آنحضرت ﷺ کے بغیر تو حید انسان پر کھل ہی نہیں سکتی.چنانچہ دیکھ لو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت علی ہے میں محو ہو گئے اور ان میں محو ہونے کے بعد قرآن مجید پر غور کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن مجید میں سے یہ نظر آ گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور اُن کو زندہ مانا شرک ہے.حضور سے قبل لاکھوں عالم اور فقیہ موجود تھے لیکن کسی کو قرآن مجید میں یہ بات نظر نہ آئی بلکہ وہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف خدا تعالیٰ کی اکثر صفات نہایت شدومد سے منسوب کرتے تھے مثلاً وہ اب تک آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں ، وہ مردے زندہ کیا کرتے تھے ، ان کو غیب کا علم تھا وغیرہ وغیرہ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ایک احمدی بچہ بھی اس عقیدہ پر قائم رہنا گوارا نہیں کر سکتا اور وہ نہایت قوی عقلی و نقلی دلائل سے اس کو باطل کر سکتا ہے.یہ بات اس احمدی بچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں وہ بات آنحضرت عے میں فنا اور محو ہونے سے آئی ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ سے نور لیا اور اس نور کو دنیا میں پھیلایا تو شرک کی ظلمت اس نور کے آنے سے کافور ہوگئی اور علاوہ اس ایک بات کے صلى الله
سيرة النبي عليه 283 جلد 4 اور بھی ہزاروں شرک کی باتیں حضور نے لوگوں کو دکھائیں کہ وہ ان سے پر ہیز کریں لیکن یہی باتیں اس زمانہ کے مشہور علماء اور فقہاء کی نظر سے اب تک اوجھل ہیں.اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آنحضرت علی کے وجود مبارک میں محو نہیں ہوئے اس لئے اس نعمت سے محروم رہے اور حضرت مسیح موعود نے ہی اس زمانہ کے لوگوں کو لا الہ الا الله کا جلوہ دکھلایا اور یہی تو ایک چیز ہے جو اسلام کا لب لباب ہے اور جس کا ہر کامل موحد میں پایا جانا ضروری ہے.اس کے علاوہ باقی تفصیلات ہیں اور وہ مختلف آدمیوں کیلئے مختلف شکلوں میں بدلتی چلی جاتی ہیں.جیسے کہ ایک شخص آنحضرت علی کے حضور حاضر ہوا اور عرض کی يَارَسُولَ اللهِ! مجھے سب سے بڑی نیکی بتائیں.حضور نے فرمایا ماں کی خدمت کیا کر 5.اس کے بعد کسی اور موقع پر ایک اور شخص آیا اور اس نے عرض کی کہ يَارَسُوْلَ اللهِ ! مجھے سب سے بڑی نیکی بتائیں.حضور نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ کیا کر 6.ایک اور شخص نے سب سے بڑی نیکی دریافت کی تو حضور نے اُس کو تہجد بتلائی 2.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور نے متضاد باتیں بتلائیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں میں تضاد قطعاً نہیں بلکہ وہ تینوں اشخاص تین مختلف امراض میں مبتلا تھے.پس اُن کے علاج بھی مختلف ہی ہونے چاہئے تھے.ایک کو ماں کی خدمت نہ کرنے کی مرض تھی حضور نے اُس کیلئے سب سے بڑی نیکی ماں کی خدمت قرار دی.دوسرا شخص جہاد فی سبیل اللہ میں ست تھا اُس کو جہاد فی سبیل اللہ سب سے بڑی نیکی بتلائی گئی اور تیسرا شخص تہجد کی ادائیگی میں کمزور تھا اُس کو آنحضرت ﷺ نے یہ فرما دیا کہ تیرے لئے سب سے بڑی نیکی تہجد ہی ہے کیونکہ تو اس سے محروم ہے.صلى الله الغرض تفصیلات ہر انسان کیلئے بدلتی رہتی ہیں مگر لا اله الا الله سب کیلئے یکساں ہے یہ ہر گز نہیں بدلتا.کسی کو سورۃ بقرۃ فائدہ دیتی ہے، کسی کو آل عمران ، کسی کو کوئی اور سورۃ یا آیت.مگر لا الہ الا اللہ سب کو یکساں طور پر فائدہ پہنچاتا ہے گویا قرآن کریم
سيرة النبي متر 284 جلد 4 کی تمام آیات اپنے اپنے مقام پر بہت عمدہ اور مفید ہیں لیکن لا إِلهُ إِلَّا الله سب پر حاوی اور سب سے بڑھ کر ہے اور اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ آنحضرت ﷺ فرماتے صلى ہیں کہ اَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِآتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ.یعنی میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے وہ تم کو سیدھے راستہ پر ڈال دے گا.پس صحابہ کرام تو ستارے تھے لیکن آنحضرت ﷺ عالم روحانی تھے جس کے اندر یہ سب روحانی ستارے بھی آجاتے ہیں.یہ روحانی ستارے اپنی اپنی جگہ پر تو بہت عمدہ تھے لیکن روحانی سورج سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.الغرض ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ مالو لا اله الا الله تو موجود ہے لیکن لوگ اسلام کے اس ماٹو کو بھول گئے ہیں اور آج کل کے واعظ اپنے وعظوں میں توحید کا نام تک نہیں آنے دیتے بلکہ ادھر اُدھر کی غیر ضروری باتوں کے بیان کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں حالانکہ توحید کی ضرورت انسان کے ہر ایک کام میں رہتی ہے حتی کہ آنحضرت علی اپنے سونے کے وقت اور وضو کے وقت بھی تو حید کا اقرار فرمایا کرتے تھے کیونکہ تو حید صرف اس امر کا نام نہیں کہ انسان بت پرستی نہ کرے یا کسی شخص کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں زندہ نہ مانے یا کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرائے بلکہ دنیا کے ہر ایک کام میں توحید کا تعلق ہے کیونکہ جب بھی کسی انسان کو دنیا کے کسی کام پر ذرہ بھر بھروسہ اور اتکال ہو گیا تو وہ انسان شرک کے مقام پر جا ٹھہرا اور اس کے موحد ہونے کا دعویٰ باطل ہو گیا کیونکہ توحید کی لازمی شرط یہی ہے کہ انسان صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہی اتکال رکھے کیونکہ توحید کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر کام میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی انسان کی نظر صرف ایک خدا کی طرف اٹھے.جہاں اُس کی نظر ماسوی اللہ کی طرف بلند ہوئی اس میں شرک آ گیا.حتی کہ انسان کو ہر قدم پر سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں میں شرک تو نہیں کر رہا یہاں تک کہ جب آدمی پانی پیتا ہے اور کھانا کھاتا ہے تو اُس وقت بھی دیکھتا ہے کہ کہیں میں اس کام میں شرک تو نہیں کر رہا.
سيرة النبي علي 285 جلد 4 66 پس اپنی جگہ پر فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ بہت عمدہ ماٹو ہے اور اسی طرح ” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا بھی بہت اچھا مائو ہے لیکن کامل موحد بننے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کی نظر سے ہر ایک چیز غائب ہو جائے اور ماسوی اللہ اس کے لئے کالعدم ہو جائیں حتی کہ انسان خود بھی غائب ہو جائے اور اُس کو اگر نظر آئے تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات نظر آئے پس اپنی اپنی جگہ پر تمام چیزیں اچھی ہیں.اگر کوئی جماعت کہے کہ ہمارا مطمح نظر یہی ہے کہ ہم لوگوں کو نیکی کی تحریک کیا کریں گے تو یہ اچھی بات ہے اگر کوئی جماعت کہے کہ ہمارا نصب العین فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرُتِ ہے تو یہ بھی اچھی بات ہے اور اگر کوئی کسی اور اچھی بات کو اپنا مائو قرار دے لے تو اُس کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن نبوت کے حقیقی متبع کا ماٹو اس زمانہ میں صرف لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے ہر کمال کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور سب کمال اسی کلمہ میں آتے ہیں مثلاً فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کو لے لو.اس استباق اور خیرات کے معنی ہم کہاں سے معلوم کریں.دین کو دنیا پر مقدم کروں گا فقرہ میں دین اور دنیا اور مقدم کرنا تینوں مضمون بھی تشریح کے محتاج ہیں.کئی لوگ دین کو دنیا اور کئی دنیا کو دین قرار دیتے ہیں.کئی مقدم کی تشریح میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہمیں صرف کمال کا نقطہ ہی نہیں بتاتا بلکہ تشریح اور توضیح کے حصول کا ذریعہ بھی بتاتا ہے.وہ ایک سو نیکیوں کی جامع لیکن تو حید کی طرف ہمیں بلاتا ہے دوسری طرف تو حید کے سمجھنے میں جو وقتیں پیش آسکتی ہیں ان کے حل کرنے کا طریق ہمیں بتا دیتا ہے.غرض جس نے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کو سمجھ لیا اُس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اُس نے سب ہی کچھ سمجھ لیا کیونکہ شرک ہی تمام بدیوں، غفلتوں اور گناہوں کی جڑ ہے اور توحید پر قائم ہونے کے بعد انسان میں اخلاق، علم ، عرفان، تمدن، سیاست، حدتِ نظر و حذق یعنی فنون میں کمال سب ہی کچھ آ جاتا ہے 6
سيرة النبي علي 286 جلد 4 کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے جو تمام امراض کا واحد علاج ہے.جس طرح تریاق کے میسر آنے پر مرض کا فور ہو جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا نور جب انسان میں آجاتا ہے تو اس کے پاس سے تمام امراض روحانی بھاگ جاتے ہیں.پس ہمارا ماٹو جو خود بخود خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے وہ لَا اِلهَ إِلَّا الله ہی ہے باقی تفصیلات ہیں اور وعظ کے طور پر کام آسکتی ہیں اور وہ سب لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ میں شامل ہیں.گویا TALALA AND الا اللہ ایک جامع اجمال ہے اور ماٹو اجمال کا ہی نام ہے.اس زمانہ میں چونکہ دجال اپنی پوری طاقت کے ساتھ دنیا میں رونما ہے اور اُس کا نصب العین یہ ہے کہ میں دنیا کو دین پر مقدم رکھوں گا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے مقابل پر یہ کہیں کہ تم تو دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہو لیکن ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور چونکہ ہم نے دجالی فتنہ کا قلع قمع کرنا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام کی بناء پر شرائط بیعت میں ایک یہ شرط بھی رکھی ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں دجال سے ہمارا سخت مقابلہ پڑے گا.وہ دنیا کو دین پر مقدم کر کے دکھلائے گا اور ہم اُس کے جواب میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھلائیں گے.دجال کا مقصد دنیاوی آرام کو حاصل کرنا ہوگا لیکن ہم دین کی راہ میں مصائب کا آنا ایک نعمت تصور کریں گے.لیکن اگر ہم کو خدا تعالیٰ دنیاوی آرام بھی دے دے تو یہ کوئی بری بات نہیں.کیا آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ مجھے قیصر و کسری کے خزانے دیئے گئے ہیں؟ تو اگر خزانوں کا ملنا بری بات ہوتی تو حضور کو کیا نَعُوذُ بِاللهِ) بری چیز دی گئی؟ ہرگز نہیں.ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کے تابع نہ ہو جائیں بلکہ دنیا کو اپنے ماتحت اور تابع رکھیں اور اس کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیں بلکہ ہم اس پر سوارر ہیں.ورنہ ہماری مثال اُس میراثی کی سی ہوگی جس نے دعا کی تھی کہ اے بھی سرورا مجھے کوئی جانور سواری کیلئے دے.ابھی وہ چلا جا رہا تھا کہ اُس کو ایک گاؤں کا رئیس مل گیا جس کی گھوڑی نے
سيرة النبي عمال 287 جلد 4 راستے میں ہی بچہ دے دیا تھا.اُس رئیس نے جب میراثی کو دیکھا تو کہا کہ میری گھوڑی کے بچہ کو اٹھا کر شہر لے چل.یہ عجیب معاملہ دیکھ کر میراثی بول اٹھا واہ سخی سرور ! تو بھی اُلٹی ہی سمجھ کا مالک ہے تجھ سے تو میں نے جانور سواری کیلئے مانگا تھا تو نے اٹھانے کیلئے دے دیا.تو جو انسان دنیا کو اپنے سر پر اٹھالیتا ہے اُس کی مثال بعینہ اس میراثی کی سی ہے کیونکہ دنیا تو خدا تعالیٰ انسان کو اس لئے دیتا ہے کہ انسان اس پر چڑھے لیکن وہ احمق دنیا کو اپنے سر پر اٹھا لیتا ہے.پس اصل چیز جس سے دنیا کی ترقی ہے وہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ہی ہے اور اس کی عینک جس سے یہ نظر آ سکے وہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہیں.جس طرح عینک کے بغیر آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا اسی طرح آنحضرت عے کے بغیر انسان لَا إِلَهَ إِلَّا الله کو نہیں دیکھ سکتا.ال اس زمانہ میں یوں تو اور بھی بہت سی نیکیاں ہیں اور سب کی طرف ہم کو توجہ کرنی چاہئے لیکن تو حید کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ خُذُوا التَّوحِيدَ التَّوْحِيْدَيَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ اے ابنائے فارس! تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو.تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو.ابنائے فارس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ہی نہیں بلکہ روحانی لحاظ سے ساری جماعت ہی ابنائے فارس کے ماتحت ہے اور یہ حکم تمام جماعت پر مشتمل ہے.یہ قاعدہ ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کسی ایک چیز کو خاص طور پر پکڑا کرتا ہے.فرمایا کہ تم مصائب کے موقع پر تو حید کو پکڑ لیا کرو کہ اس کے اندر باقی تمام چیزیں آجاتی ہیں.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لا إِلهَ إِلَّا الله کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے کیونکہ اسی میں انسان کی دینی اور دنیاوی فلاح مضمر ہے.“ ( الفضل 26 دسمبر 1936 ء ) 1: البقرة: 149 2: الاعلى: 17 ، 18
سيرة النبي عليه 3: الاعلى: 2019 4: الروم: 42 288 جلد 4 5: بخارى كتاب الادب باب من أحق الناس بحسن الصحبة صفحه 1045 حدیث نمبر 5971 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 6:بخاری کتاب الایمان باب من قال ان الايمان هو العمل صفحه 7 حدیث نمبر 26 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية ، بخارى كتاب الجهاد باب افضل الناس صفحه 462،461 حدیث نمبر 2786 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 7 :بخارى كتاب التهجد باب فضل قيام الليل صفحه 180 حدیث نمبر 1122 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 8: مشكوة كتاب المناقب باب مناقب الصحابة صفحه 414 حدیث نمبر 6018 مطبوعہ بیروت لبنان 2003 الطبعة الأولى c و تذکرہ صفحہ 197 ایڈیشن چہارم 2004 ء
سيرة النبي علي 289 جلد 4 رسول کریم ﷺ کے طرز عمل سے وقار کا مفہوم وو حضرت مصلح موعود نے 2 اکتوبر 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.رسول کریم علیہ کی ساری اولاد ہی عزت کے قابل ہے.اگر آپ نے اپنی ایک بیوہ بیٹی کی بھی شادی کی ہے تو دوسری بیٹی کی نسل میں سے کوئی شخص اپنی بیوہ بہن یا لڑکی کی شادی کیوں نہیں کر سکتا مگر میرا یہ جواب ان کی سمجھ میں نہ آیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ یہ ہتک ہے میں اسے کس طرح برداشت کر سکتا ہوں.اب یہ موجودہ زمانہ کے بڑے خاندانوں میں وقار کے خلاف بات سمجھی جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی اپنی کسی عزیزہ کی دوبارہ شادی کر دے مگر رسول کریم ﷺ کو اس میں کوئی بات وقار کے خلاف نظر نہیں آتی تھی.اسی طرح اور ہزاروں باتیں ہیں جو عرب میں اُس وقت رائج تھیں مگر آج ہمارے زمانہ میں اگر وہی باتیں کی جائیں تو سب لوگ انہیں وقار کے خلاف سمجھنے لگ جائیں.اس کی وضاحت کیلئے ایک اور مثال بھی دے دیتا ہوں.تاریخ سے ثابت ہے کہ بڑے بڑے صحابہ جب جنگ میں جاتے تو اشعار پڑھتے.رسول کریم می ان کے شعر سنتے اور انہیں داد دیتے لیکن ہمارے زمانہ میں اگر کوئی معز شخص شعر پڑھنے لگ جائے تو سب کہنے لگ جائیں گے کہ یہ وقار کے خلاف بات ہے حالانکہ تاریخ سے صاف طور پر نظر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جب کسی جنگ پر تشریف لے جاتے تو صحابہ ایسے اشعار پڑھتے جن میں لوگوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جانیں دینے کی ترغیب دی جاتی اور رسول کریم مع صحابہ کے ایسے اشعار سن کر اُن کی تعریف کرتے اور کوئی شخص اسے وقار کے خلاف نہ سمجھتا.لیکن اس زمانہ میں وہی بات وقار
سيرة النبي عمر 290 جلد 4 کے خلاف سمجھی جاتی ہے حالانکہ صحابہ میں ہمیں یہ بات دکھائی دیتی ہے بلکہ صحابہ تو الگ الله رہے خود رسول کریم عملے کے گھروں میں بعض اشعار گائے جاتے کیونکہ رسول کریم صلى الله نے جہاں مزامیر سے روکا ہے وہاں گانے یا بعض قسم کے باجوں کی اجازت بھی دی ہے.چنانچہ شریفانہ اشعار کا رسول کریم ﷺ کے گھروں میں پڑھا جانا ثابت ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض عورتوں سے گانا سن رہی ہیں.وہ پیشہ ور گانے والی عورتیں نہیں تھیں جنہیں اسلام نے ناپسند کیا بلکہ محلہ کے معزز گھرانوں کی بہو بیٹیاں یا بیویاں تھیں اور وہ بعض دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر گاتی تھیں.رسول کریم ﷺ نے ان کے فعل کو نا پسند نہیں کیا بلکہ ایک دفعہ عورتوں کے گانے کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ پر ناراضگی کا اظہار کیا تو رسول کریم ہم نے انہیں منع کیا اور فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں 1.مگر آج کسی گھر میں کوئی شریف عورت گا تو جائے تم دیکھ لو گے کہ باوجود حدیثیں پڑھنے کے ، باوجود تاریخی واقعات سے آگاہی رکھنے کے گھر گھر یہ چرچا ہوتا ہے کہ نہیں کہ فلاں عورت تو بڑی بری ہے وہ تو خوش الحانی سے شعر پڑھتی ہے.گویا لوگ اب صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ میراثنیں اور ڈومنیاں ہی گا سکتی ہیں شرفاء کا حق نہیں کہ وہ گائیں.مگر ہندوستان سے باہر نکل کر انگلستان چلے جائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ معزز سے معزز گھرانوں کی عورتیں گاتی ہیں، جرمنی چلے جائیں تو وہاں بھی یہی نظر آتا ہے، فرانس چلے جائیں تو وہاں بھی یہی دکھائی دیتا ہے اور پھر شریعت پر غور کرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس قسم کے گانے سے منع نہیں کیا.“ ( الفضل 10 اکتوبر 1936ء) 1:بخارى كتاب العيدين باب الحراب والدّرق يوم العيد حديث نمبر 949 صفحہ 153 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية عروسة
سيرة النبي علي 291 جلد 4 وو بیعت رضوان حضرت مصلح موعود نے 19 اکتوبر 1936 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.صلى الله رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے ایک بیعت رضوان لی تھی جو ایک بیری کے درخت کے نیچے لی گئی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان کو صلح کا پیغام دے کر مکہ بھیجا تھا وہاں ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے ان کو ٹھہرالیا اور یوں مصالحت کی باتیں بھی لمبی ہو گئیں اس لئے جس وقت تک ان کی واپسی کا اندازہ تھا (ضمناً میں حضرت عثمان کے اخلاص کا ذکر بھی کر دیتا ہوں.حضرت عثمان جب مکہ میں گئے تو ان کے دوستوں نے کہا کہ اب آپ آتو گئے ہیں عمرہ کر لیں.انہوں نے جواب صلى الله دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہاری فوجیں رسول کریم ﷺ کو تو باہر روکے ہوئے ہوں اور میں عمرہ کرلوں.میں اگر کروں گا تو آپ کے ساتھ کروں گا ورنہ نہیں ) تو اُدھر ان کی واپسی میں دیر ہوئی اور ادھر بعض شرارت پسندوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عثمان قتل کر دیئے گئے ہیں اور منافقوں نے جھٹ یہ خبر پھیلا دی تا رسول کریم ﷺ جوش میں آکر حملہ کر دیں.مگر آپ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے حملہ تو نہ کیا مگر چونکہ ہوشیار رہنا ضروری تھا آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ میں تم سے بیعت لینا چاہتا ہوں.یہ بیعت اسلام کی بیعت کے علاوہ ہوگی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت عثمان جو میرے ایلچی تھے شہید ہو گئے ہیں تو ہم ان کے قاتلوں سے جنگ کریں گے اور آپ لوگوں میں سے جو چاہیں میرے ہاتھ پر اس وقت بیعت کریں کہ اگر ایسی جنگ ہمیں کرنی پڑی تو وہ میدانِ جنگ سے بھاگے گا نہیں بلکہ فتح کے بغیر لوٹے گا نہیں
سيرة النبي علي 292 جلد 4 اس بیعت کو بیعت رضوان کے علاوہ موت کی بیعت بھی کہتے ہیں ) صحابہ آئے اور بیعت کیلئے ایک دوسرے پر گرنے لگے حتی کہ بعض کو تو اتنا جوش تھا کہ وہ تلوار سے دوسرے کو پیچھے ہٹا کر خود بیعت کیلئے آگے بڑھنا چاہتے تھے 1.اتفاقاً حضرت عمرؓ اس وقت کہیں اِدھر اُدھر ہو گئے تھے لیکن ان کے لڑکے عبداللہ بن عمرؓ موجود تھے انہوں نے ہوا خود ایک موقع پر بیان کیا کہ ایک نیکی میں اگر میں چاہتا تو اپنے باپ سے آگے بڑھ جاتا اور وہ موقع بیعت رضوان کا تھا.جب یہ بیعت شروع ہوئی تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا حضرت عمر وہاں موجود نہ تھے میں ان کی تلاش میں چلا گیا اور جب تلاش کر کے لا یا تو اُس وقت بہت سے لوگ بیعت کر چکے تھے میں اگر اپنے باپ کو شریک کرنے کی کوشش نہ کرتا تو سابقون میں ہوتا.“ (الفضل 16 اکتوبر 1936ء) 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى عثمان رسول محمد الى قريش صفحه 1105 ، 1106 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 293 جلد 4 اعلیٰ مقصد کے لئے قربانی بارے رسول کریم ماہ کے دوارشادات 21 اکتوبر 1936 ء کو دو مبلغین کی الوداعی دعوت میں حضرت مصلح موعود نے مبلغین کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.تاریخوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو جنگ میں کفار سے بڑے زور سے لڑ رہا تھا مجھے صحیح یاد نہیں کہ اُحد کی جنگ تھی یا کوئی اور، بہر حال ایک جنگ میں ایک شخص نہایت جوش سے لڑائی کر رہا تھا اور کفار کو قتل کر رہا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے دنیا کے پردہ پر چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے.صحابہؓ نے جب یہ سنا تو وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو شخص اس وقت سب سے زیادہ اسلام کیلئے قربانی کر رہا ہے وہ دوزخی ہو.ایک صحابی کہتے ہیں بعض لوگوں کے چہروں پر تردد کے آثار دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس شخص کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ وہ اس کے ساتھ ہو لئے یہاں تک کہ اسی لڑائی میں وہ زخمی ہوا.جب اُسے میدانِ جنگ سے الگ لے جایا گیا تو شدید کرب کی حالت میں وہ اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکالتا جن میں خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور اُس کے متعلق اظہارِ شکوہ ہوتا.لوگوں نے جب دیکھا کہ اس کی حالت نازک ہے تو انہوں نے اُس کے پاس آنا شروع کیا اور کہنے لگے ابشِرُ بِالْجَنَّةِ تجھے جنت کی بشارت ہو.مگر وہ اس کے
سيرة النبي متر 294 جلد 4 جواب میں کہتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی بشارت دو کیونکہ میں خدا کیلئے نہیں لڑا تھا بلکہ اپنے نفس کیلئے جنگ میں شامل ہوا تھا اور کفار کا میں نے اس لئے مقابلہ کیا تھا کہ میں نے بعض پرانے بدلے ان سے لینے تھے.آخر جب درد کی شدت زیادہ ہو گئی تو اُس نے زمین میں ایک نیزہ گاڑا اور اس پر اپنا پیٹ رکھ کر خودکشی کر لی.وہ صحابی جو اُس شخص کا انجام دیکھنے کیلئے اُس کے ساتھ لگے ہوئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ اُس نے خود کشی کر لی تو وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے.رسول کریم ہے اس وقت صحابہ میں لیٹے ہوئے تھے.اُس صحابی نے آتے ہی بلند صلى الله آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اُس کے رسول ہیں.رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور یہ کہ میں اُس کا رسول ہوں.پھر آپ نے دریافت فرمایا تم نے یہ کلمہ شہادت کیوں پڑھا ہے؟ اُس نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! جب آپ نے ایک شخص کے متعلق آج یہ کہا تھا کہ اگر کسی نے دنیا کے پردہ پر چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس کو دیکھ لے تو مجھے محسوس ہوا کہ بعض لوگوں کے دل میں تر ڈر پیدا ہوا ہے.اس وجہ سے میں اُس کے ساتھ ہی رہا تا کہ میں اُس کا انجام دیکھوں چنانچہ میں اب بتانے آیا ہوں کہ حضور کی بات درست نکلی اور اس نے خود کشی کر لی ہے 1.تو دنیا میں انسان ادنیٰ سے ادنی چیز کیلئے بھی قربانیاں کر لیتا ہے.دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ قربانی کس مقصد کیلئے کی جا رہی ہے.جب قربانی کسی اعلیٰ مقصد کیلئے کی جا رہی ہو تو وہ قابل قدر ہوتی ہے لیکن وہی قربانی جب ادنیٰ مقاصد کیلئے کی جائے تو اُس کی حیثیت کچھ بھی نہیں رہتی.ہجرت دیکھ لو کیسی اعلیٰ چیز ہے.مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مہاجر بھی ایک درجہ کے نہیں ہوتے بلکہ لوگ کئی چیزوں کیلئے ہجرت کرتے ہیں.کوئی کسی عورت کیلئے ہجرت کرتا ہے، کوئی کسی کیلئے ، کوئی کسی کیلئے مگر فر مایا اصل ہجرت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کیلئے کی جائے 2.“.الفضل 22 فروری 1961 ء )
سيرة النبي عليه 295 جلد 4 1:بخاری کتاب المغازى باب غزوة خيبر صفحہ 714 ، 715 حدیث نمبر 4207 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: بخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صلی عليه وسلم صفحه 1 حدیث نمبر 1 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية الله
سيرة النبي علي 296 جلد 4 رسول کریم ع کا دعوت الی اللہ میں حیرت انگیز ے استقلال حضرت مصلح موعود 21 اکتوبر 1936 ء کو اپنے خطاب میں مبلغین کو دعوت الی اللہ میں استقلال کی تلقین کرتے ہوئے رسول کریم علیہ کا ذکر بایں الفاظ فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ نے اسی وجہ سے فرمایا ہے کہ جس شخص سے کوئی ہدایت پاتا ہے اُس کی نیکیوں کا ثواب جس طرح اُس شخص کو ملتا ہے جو نیکی کر رہا ہو اس طرح ایک حصہ ثواب کا اُس شخص کو بھی ملتا ہے جس کے ذریعہ اُس نے ہدایت پائی ہو.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جس شخص کے ذریعہ کوئی دوسرا شخص گمراہ ہوتا ہے اُس کی گمراہی اور ضلالت کا گناہ جس طرح اسے ملتا ہے اسی طرح اُس شخص کو بھی گناہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ گمراہ ہوا ہو 1.محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں یہ بات ہمارے لئے موجود ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 2 - تمہارے لئے رسول کریم ﷺ کے وجود میں نمونہ پایا جاتا ہے.آپ نے تبلیغ شروع کی ، چند لوگوں نے آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر آپ کو قبول کر لیا مگر باقیوں نے انکار کر دیا.نہ مانا، نہ مانا ، نہ مانا یہاں تک کہ سال گزر گیا، دوسرا سال گزر گیا، تیسرا سال گزر گیا، چوتھا سال گزر گیا حتی کہ دس سال گزر گئے ، گیارہ سال گزر گئے اور لوگ انکار کرتے چلے گئے.ایک ظاہر بین شخص کی نگاہ میں اس کا مایوسی کے سوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا تھا مگر
سيرة النبي عليه 297 جلد 4 صلى الله رسول کریم ع مایوس نہ ہوئے.تب اسی حالت میں مکہ کے لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بعض باتوں میں نرمی کر دیں تو ہم ان کے ساتھ مل جاتے ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) شرک کریں، ہم یہ نہیں کہتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا مذہب چھوڑ دیں، ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہمارے بتوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال نہ کریں اور ان کی تحقیر اور تذلیل نہ کریں.کیا یہی وہ چیز نہیں جو مغرب میں ہمارے مبلغین کے سامنے پیش کی جاتی ہے؟ مگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا جواب دیا؟ باوجود اس کے کہ گیارہ سال کی لمبی مایوسی کے بعد امید کی جھلک دکھائی دی تھی، گیارہ سال کی لمبی تاریکی کے بعد روشنی کی ایک شعاع نکلی تھی اور کفار صرف اتنی سی بات پر آپ سے ملنے کیلئے تیار تھے کہ بتوں کے متعلق سخت الفاظ کہنا اور انہیں برا بھلا کہنا چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس سے ان کی ہتک ہوتی ہے اور باوجود اس کے کہ اس تجویز کے پیش کرنے کیلئے انہوں نے ذریعہ بھی وہ اختیار کیا جو ہمارے مبلغوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا.وہ ایک ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سب سے زیادہ محسن ہے.محمد ﷺ کی بچپن کی زندگی کے لمحات اس کے ممنونِ احسان ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ایک معتد بہ حصہ اس کے گھر الله سے کھائی ہوئی روٹیوں سے غذا حاصل کرتا رہا ہے اور محمد ﷺ کا جسم سالہا سال تک اس کے دیئے ہوئے کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانکتا رہا ہے.پھر نبوت کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ مذہبی طور پر وہ محمد علے سے متفق نہ ہوا ہر تکلیف میں وہ آپ کا ساتھ دیتا اور ہر مشکل میں وہ آپ کا ہاتھ بٹاتا.محمد علیہ کے ایسے محسن کے پاس وہ لوگ جاتے اور اسے کہتے ہیں کہ اب تک تو تم نے یہ خطر ناک غلطی کی کہ تم محمد ﷺ کا ساتھ دیتے رہے اور اپنی قوم کی جڑیں کٹوانے میں تم اس کی مدد کرتے رہے مگر اب ہم اس کی باتوں کی برداشت نہیں کر سکتے ، ہم اس بات کیلئے بالکل تیار ہیں کہ اس کے ساتھ مل جائیں مگر یہ ہم سے نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دے.پس صلى الله الله
سيرة النبي علي 298 جلد 4 اگر وہ اس بات کو منظور کرے کہ ہمارے بتوں کو گالیاں نہ دے تو ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے لیکن اگر وہ نہ مانے اور آپ بھی اس سے اپنا تعلق منقطع نہ کریں تو پھر آپ سے بھی الله ہمارے تعلقات جاتے رہیں گے.رسول کریم ﷺ کے چچا جن کا اس واقعہ میں میں ذکر کر رہا ہوں ان کا نام ابو طالب تھا.انہوں نے آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیری خاطر اپنی قوم سے لڑائی کی ، پھر تجھ کو معلوم ہے کہ تیری تعلیم سے تیری قوم کتنی متنفر اور کس قدر بیزار ہے، آج اس قوم کے بہت سے معزز افراد مل کر میرے پاس آئے تھے اور وہ کہتے تھے کہ تو صرف اتنی سی نرمی کر دے کہ بتوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال چھوڑ دے اگر تو اس بات کیلئے تیار نہ ہو تو پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ابو طالب سے بھی اپنے تعلقات منقطع کر لیں گے.تجھ کو معلوم ہے کہ میں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ اپنے تعلقات اس سے منقطع کر سکتا ہوں.پس کیا تو میری خاطر اپنی تعلیم میں اتنی معمولی سی کمی نہیں کرے گا ؟ یہ مطالبہ ایسے منہ سے نکلا تھا کہ یقیناً دنیوی لحاظ سے اس کا رد کرنا نہایت مشکل تھا.ہمارے مبلغ جو مغرب میں تبلیغ اسلام کیلئے جاتے ہیں ان کے سامنے اس قسم کی جذباتی تقریر کرنے والا کوئی نہیں الله ہوتا ، پس ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُس وقت رسول کریم ﷺ کے کیا جذبات تھے.ایک طرف آپ کا یہ عقدِ ہمت تھا کہ زمین و آسمان مل سکتے ہیں مگر میں وہ تعلیم نہیں چھوڑ سکتا جس کی اشاعت کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے میں مبعوث کیا گیا ہوں.اور دوسری طرف ابو طالب جو آپ کا نہایت محسن اور آپ کا چچا تھا اُس کے جذبات آپ کے سامنے تھے اور آپ چاہتے تھے کہ اس کے اُن احسانوں کا جو اُس نے آپ پر کئے اور اُن قربانیوں کا جو اُس نے آپ کی خاطر کیں کسی نہ کسی صورت میں بدلہ دیں لیکن خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مقابلہ میں بندوں کا احسان کیا حقیقت رکھتا ہے کہ اُس کی طرف توجہ کی جاتی.ان جذبات کے تلاطم نے رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہا دیئے اور آپ نے اپنے چچا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا میرے چا! میں آپ کیلئے ہر
سيرة النبي علي 299 جلد 4 قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی تعلیم کی اشاعت میں میں کسی فرق اور امتیاز کو روا نہیں رکھ سکتا.اے چچا ! آپ کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے اور آپ کا دکھ مجھے دکھ دیتا ہے لیکن اس معاملہ میں اگر آپ کی قوم آپ کی مخالفت کرتی ہے اور آپ میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو مجھے چھوڑ دیجئے.باقی رہی نرمی کرنی سو خدا کی قسم ! اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر رکھ دے تو میں اُس تعلیم کے پھیلانے میں کسی قسم کی کمی نہیں کروں گا جو خدا نے میرے سپرد کی ہے 3.کتنی مایوسی کی گھڑیوں میں رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک بات پیش کی گئی اور کس رنگ میں آپ سے ایک مطالبہ کیا گیا مگر رسول کریم ﷺ نے کتنا شاندار جواب دیا کہ معمولی حالات نہیں اگر کفار زمین و آسمان میں بھی تغیر پیدا کر دیں اور حالات ان کے ایسے موافق ہو جائیں کہ سورج پر بھی ان کا قبضہ ہو جائے اور نہ صرف مکہ میں یہ مجھے پناہ نہ لینے دیں بلکہ آسمان کے ستارے بھی ان کے ساتھ مل جائیں اور یہ سب مل کر مجھے کچلنے اور مجھے تباہ و برباد کرنے کیلئے اکٹھے ہو جائیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کے حکم کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں.یہ وہ ایمان تھا کہ جب محمد اللہ سے اس کا خدا تعالیٰ نے مظاہرہ کرایا تو اس کے بعد آپ کو حکم دیا کہ جاؤ ایک نئی زمین ہم نے تمہارے لئے تیار کر دی ہے اُس میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ.وہ زمین مدینہ تھی جہاں خدا تعالیٰ نے ایک ایسی جماعت کھڑی کر دی جس نے اسلام کیلئے اپنے آپ کو قربانیوں کیلئے پیش کیا اور اپنے دعوئی کو نباہا.یہ چیز ہے جس کی اس وقت بھی ضرورت ہے.(الفضل 22، 23 فروری 1961ء) 66 :1 مسلم كتاب العلم باب من سن سنة حسنة صفحه 1165 حدیث نمبر 6800 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 2: الاحزاب :.22: صلى الله 3 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول وفد قريش مع ابى طالب في شأن الرسول عليه صفحہ 312،311 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 300 جلد 4 فرمایا:.رسول کریم علیہ کا دعوت الی اللہ کا طریق حضرت مصلح موعود نے 21 اکتوبر 1936ءکو مبلغین سے خطاب کرتے ہوئے مدینہ میں ایک منافق نے جب یہ بات کہی کہ مہاجرین نے یہاں آ کر فتنہ وفساد مچا دیا ہے تو اُس شخص کا لڑکا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا مجھے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ میرے باپ نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے.يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے باپ کا سرکاٹ کر آپ کی خدمت میں لے آؤں تا ایسا نہ ہو آپ کسی اور شخص کے ذریعہ اُسے مروا دیں تو کسی مسلمان کے متعلق میرے دل میں برائی پیدا ہو جائے 1 تو تم سے پہلے لوگوں نے اس قسم کا نظارہ دکھایا ہے اور قربانی کی شاندار مثالیں پیش کی ہیں.پس تمہیں بھی اگر سلسلہ کیلئے اس قسم کی غیرت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تمہیں اس قسم کی غیرت کے اظہار میں کسی قسم کا دریغ نہیں کرنا چاہئے.چونکہ تم میں ایسے کئی بچے ہوں گے جو گیارہ سال کی عمر رکھتے ہوں گے یا گیارہ سال کے قریب قریب اُن کی عمر ہوگی اس لئے ممکن ہے تم کہو ہم اتنی چھوٹی عمر میں دین کیلئے کیا قربانی کر سکتے ہیں اس لئے میں تمہیں ایک گیارہ سالہ بچے کا واقعہ سناتا ہوں.الله رسول کریم ﷺ نے جب دعوی نبوت کیا اور لوگوں نے آپ کی باتوں کو نہ مانا تو آپ نے یہ تجویز کی کہ ایک دعوت کی جائے جس میں مکہ کے رؤسا کو اکٹھا کیا جائے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کی جائے.چنانچہ اس کے مطابق ایک دعوت کا انتظام کیا گیا
سيرة النبي عمال 301 جلد 4 جس میں مکہ کے رؤسا اکٹھے ہوئے مگر جب کھانا کھانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو بعض باتیں سنانی چاہتا ہوں تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں فرصت نہیں اور صلى الله سب ایک ایک کر کے اٹھ گئے.اس پر رسول کریم علیہ نے دوبارہ ایک دعوت کا انتظام کیا اور اب کی دفعہ یہ تجویز فرمایا کہ پہلے ہم انہیں اپنی باتیں سنائیں گے اور بعد میں دعوت کھلائیں گے.چنانچہ رو سا آئے اور بیٹھ رہے.رسول کریم ﷺ نے اُس وقت ایک وعظ کیا جس میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے فرمایا خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت آئی ہے اور اُس کو پھیلانا میرا فرض ہے.کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ہے جو اس انعام کا حصہ دار بنے اور کیا آپ لوگوں میں سے کوئی سعید روح ہے جو میرا ہاتھ بٹائے ؟ ان رؤسا نے جب یہ سنا تو خاموش رہے.مگر ایک گیارہ سال کا بچہ بھی وہیں بیٹھا تھا اُس نے اپنے دائیں بھی دیکھا تو رؤسا کو خاموش پایا، پھر اُس نے اپنے بائیں دیکھا تو اس طرف کے رؤسا کے منہ پر بھی اس نے مہر سکوت دیکھی.اس نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی اور دنیا میں سے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی آواز بغیر کسی جواب کے رہے.وہ ایک چھوٹا بچہ تھا مگر اس نظارہ کو دیکھ کر وہ برداشت نہ کر سکا وہ کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! میں اپنے آپ کو اس خدمت کیلئے پیش کرتا ہوں اور اس الله تعلیم کے پھیلانے میں میں آپ کی مدد کروں گا.رسول کریم ﷺ نے اُسے بچہ سمجھتے ہوئے اُس کی بات کی طرف زیادہ توجہ نہ کی اور پھر انہیں ترغیب دی تا ان میں سے کوئی شخص مدد کیلئے اٹھے.آپ نے پھر اُن مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکنے کی کوشش کی.پھر اسلام کے متعلق تقریر کی اور جب اپنی تقریر کو ختم کر چکے تو آپ نے پھر فرمایا کیا کوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی آواز کو پھیلانے میں میری مدد کرے؟ پھر وہ تمام لوگ ساکت رہے اور پھر اس گیارہ سالہ بچہ نے دیکھا کہ مجلس میں کامل خاموشی ہے اور کوئی خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار نہیں اس لئے پھر اس کی غیرت نے
سيرة النبي عمال 302 جلد 4 برداشت نہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی آواز بغیر جواب کے رہے.وہ گیارہ سالہ بچہ پھر کھڑا صلى الله ہو گیا اور اس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میں ہوں.آخر رسول کریم ﷺ نے جب دیکھا کہ وہی بچہ خدا تعالیٰ کی آواز کے جواب میں کھڑا ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا یہ خدا تعالیٰ کی دین ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم 66 رکھتا ہے 2.“ الفضل 26 ، 28 فروری 1961ء) 1: السيرة الحلبية الجزء الثانى غزوة بنى مصطلق صفحہ 581 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 2: السيرة الحلبية الجزء الاول استخفاؤه واصحابه فى دار ارقم صفحه 466،465 مطبوعہ بیروت 2012 ، الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 303 جلد 4 رسول کریم عملہ کا تذلل 6 نومبر 1936 ء کو حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.الله ایک سچے مومن میں تذلل ہوتا ہے اور وہ جوں جوں عبادت کرتا ہے اس کا تذلل ترقی کرتا چلا جاتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ عرض کیا يَارَسُولَ اللهِ ! اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا عائشہ! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں 1.اسی طرح ایک دفعہ جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ اپنے اعمال کے زور سے بہشت میں جائیں گے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں میں بھی جنت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی جاؤں گا2.گویا آپ نے اپنے اعمال کی قیمت محض اللہ تعالیٰ کا فضل رکھی.غرض جس کو بچے کام کی توفیق مل جاتی ہے اس کے دل میں کبھی غرور پیدا (الفضل 27 ستمبر 1961ء) نہیں ہوتا.“ 1 بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم صفحه 856 حدیث نمبر 4837 مطبوعہ ریاض 1999 2:بخارى كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل صفحہ 1121 حدیث نمبر 6463 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 304 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی وطن اور اہل وطن سے محبت نومبر 1936 ء میں ایک مسلمان رئیس کی حضرت مصلح موعود سے قادیان میں ملاقات ہوئی.ان سے گفتگو کے دوران آپ نے فرمایا:.نحضرت ﷺ فرماتے ہیں حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ 1 اور جب آپ فتح مکہ کے وقت مکہ تشریف لے گئے تو صحابہ نے دریافت فرمایا کہ حضور کہاں قیام فرمائیں گے؟ اس پر حضور کی آنکھوں میں بوجہ مکہ کی محبت کے آنسو آ گئے اور فرمایا کہ مکہ والوں نے تو میرے رہنے کیلئے کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں 2.صلى الله انبیاء اور ان کے متبعین کو دنیا سے محبت نہیں ہوتی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ فتح مکہ کے بعد کی ایک جنگ کے ختم ہونے پر آنحضرت ﷺ نے کچھ مال مکہ والوں میں تقسیم کیا تو ایک نوجوان انصاری نے اعتراض کیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال کے والوں کو بانٹ دیا گیا ہے.اس پر رسول کریم ﷺ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا مجھے ایک بات پہنچی ہے.انصار بھی سمجھ گئے اور انہوں نے عرض کیا حضور ! وہ ایک نادان نوجوان نے بات کہی ہے ہم اس سے اپنی براءت کا اظہار کرتے ہیں.ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا بعض باتیں جب منہ سے نکل جاتی ہیں تو وہ اپنا نتیجہ پیدا کر کے رہتی ہیں.تم یہ بات دو طرح کہہ سکتے تھے.یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جب مکہ والوں نے خدا کے رسول کو اپنے شہر سے نکال دیا اور اُس کے رہنے کیلئے کوئی جگہ نہ رہی تو ہم نے اسے پناہ دی اور اپنی جانیں اور اموال لگا کر اور اپنی گردنیں کٹوا کر اس کی حفاظت کی اور اسے اپنے گھروں میں جگہ دی لیکن جب الله
سيرة النبي عليه 305 جلد 4 اموال آئے تو خدا کا رسول ہمیں بھول گیا اور اس نے مال اپنے مکے کے رشتے داروں میں بانٹ دیا اور ہماری کوئی پرواہ نہ کی.لیکن اگر تم چاہتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ تمام انبیاء ایک عظیم الشان نعمت کی خبر دیتے چلے آئے تھے ، وہ یہ کہتے چلے آئے تھے کہ ایک نبی آئے گا اور وہ نہایت بلند عظمت و شان رکھتا ہو گا.اس نبی کو خدا نے مکہ میں پیدا کیا.وہ وہاں رہا اور جب خدا تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر مکہ فتح کیا تو مکہ والوں نے چاہا کہ اپنے رسول کو اپنے شہر میں لے جائیں لیکن اُس وقت خدا تعالیٰ نے مکہ والوں کو کہا تم اونٹ گھوڑے اور دیگر اموال لے جاؤ لیکن مدینہ والے خدا کا رسول اپنے گھروں کو لے جائیں.یہ سن کر انصار رو پڑے اور اپنی براءت کرنے لگے.تب آنحضرت علیہ نے فرمایا بعض باتیں جب منہ سے نکل جاتی ہیں تو اپنا نتیجہ ضرور دکھایا کرتی ہیں.اب خدا تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ اے انصار ! تم کو ان قربانیوں کے عوض دنیا میں قیامت تک سلطنت نہیں ملے گی.ہاں ان کا بدلہ حوض کوثر پر تم کو دے دیا جائے گا.چنانچہ دیکھ لو اسلام میں مغل، پٹھان حتی کہ حبشی بھی بادشاہ ہوئے اور تین سو سال تک حبشیوں نے بادشاہت کی.اور اور بھی جو قومیں مسلمان ہوئیں اُن کو خدا تعالیٰ نے سلطنت بخشی لیکن انصار 1300 سال سے کسی حصہ دنیا کے بادشاہ نہیں ہوئے.“ ( الفضل 8 نومبر 1936 ء ) 1 : موضوعات ملا علی قاری صفحہ 35 - مطبع مجتبائی دہلی 1346ھ 2: بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی صلی الله عليه وسلم الراية يوم الفتح صفحہ 725 حدیث نمبر 4282 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3: بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يعطى المؤلفة صفحہ 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية قلوبهم
سيرة النبي علي 306 جلد 4 صلى الله رسول کریم ﷺ پر اعتراض کے خطرناک نتائج وو حضرت مصلح موعود نے 4 دسمبر 1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.صلى الله رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو مکہ کے لوگ آپ کے پاس آئے جن کی نگاہیں بوجہ ایمان سے پوری طرح روشناس نہ ہونے کے ابھی دنیا ہی کی طرف تھیں اس کے بعد کی ایک جنگ میں کچھ اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے.آنحضرت نے وہ اموال ان لوگوں میں تقسیم کر دئیے.ایک انصاری نوجوان نے کسی مجلس میں کہا کہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے.آپ کو اس کا علم ہوا تو ا کا برانصار کو بلایا اور دریافت کیا کہ مجھے ایسی بات پہنچی ہے.انصار رو پڑے اور کہا کہ کسی نادان نے کی ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں اے انصار ! تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد (ﷺ) کو اس وقت جگہ دی جب اسے کوئی جگہ نہ دیتا تھا اور اس کے شہر والوں نے اسے نکال دیا تھا پھر اس کیلئے عزت اور فتح مندی حاصل کی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں کو بانٹ دیئے.اس پر انصار کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے پھر کہا کہ يَارَسُولَ اللَّهِ! ہم ایسا نہیں کہتے.پھر آپ نے فرمایا کہ تم اسی بات کو ایک اور طرح بھی کہہ سکتے ہو اور وہ اس طرح کہ جس شخص کو خدا نے تمام دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث کیا وہ مکہ کی چیز تھی مگر خدا اُسے مدینہ میں لے گیا اور پھر خدا نے اپنے زور اور طاقت سے مکہ کو اُس کیلئے فتح کیا.اُس وقت مکہ والوں کا خیال تھا کہ ان کی چیز انہیں مل جائے گی مگر مکہ والے بھیٹر اور بکریوں کو لے گئے اور مدینہ والے خدا کے رسول کو لے کر اپنے شہر کی طرف چلے
سيرة النبي عمال 307 جلد 4 گئے.پھر آپ نے فرمایا بے شک یہ بات ایک نادان کے منہ سے نکلی ہے مگر اس کی وجہ سے اب تمہیں اس دنیا کی حکومت نہیں مل سکتی.اب تمہاری خدمات کا بدلہ تمہیں حوض کوثر پر ہی ملے گا 1.دیکھ لو تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں اور چودھویں صدی گزر رہی ہے اس عرصہ میں ہر قوم ہی اسلام کی بدولت بادشاہ بنی ہے مگر کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہوسکا.سو بعض اوقات ایک شخص کا قول ساری قوم کیلئے نقصان کا موجب ہو سکتا ہے.“ 66 ( الفضل 12 دسمبر 1936ء) 1:بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى الله يعطى المؤلفة صفحه 523 حديث نمبر 3147 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 308 جلد 4 رسول کریم علیہ کی زندگی کا اثر انگیز واقعہ حضرت مصلح موعود نے 25 دسمبر 1936ء کے خطبہ جمعہ میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے ایک واقعہ پر درج ذیل عارفانہ تبصرہ فرمایا:.الله ”رسول کریم ﷺ کی زندگی کا ہر واقعہ دوسرے سے بڑھ کر ہے اور ہر واقعہ ایسے انسان کی نگاہ کو جس کے دل میں محبت اور عشق کی چنگاری ہو اپنی طرف کھینچنے کیلئے کافی ہے مگر ان تمام نوادر ، سوانح اور واقعات میں سے جو آپ کو اپنی زندگی میں پیش آئے میرے مذاق کے مطابق لطیف تر اور جاذب تر واقعہ حنین کا ہے اور زیادہ روحانیت کو بڑھانے والا ہے.اُس وقت بعض حدیث العہد اور نئے مسلمان ہونے والوں کی کمزوری اور بعض کفار کی خود پسندی اور خودی کی وجہ سے جو صرف اظہار شان کی غرض سے مسلمانوں سے مل گئے تھے اسلامی لشکر پر ایک سخت ابتلا آیا.یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کفار سے زیادہ تھی مگر پھر بھی تمام اسلامی فوج تتر بتر ہو گئی اور رسول کریم کے صرف 12 صحابہ کے ساتھ چار ہزار تیراندازوں کے نرغہ میں گھر گئے.حضرت ابو بکر اور بعض دوسرے صحابہ نے آپ سے عرض کیا کہ اب ٹھہرنے کا وقت نہیں گھوڑے کی باگ پھیریں اور واپس چلیں تا اسلامی فوج کو دوبارہ جمع کر کے حملہ کیا جائے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے اور گھوڑے کی باگ اُٹھائی اور اُسے ایڑ لگا کر اور بھی آگے بڑھایا اور کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب 1
سيرة النبي علي 309 جلد 4 یعنی میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں اور میری اس طاقت اور جرأت کو دیکھ کر کہ میں چار ہزار تیر اندازوں کے نرغہ میں ہونے کے باوجود آگے ہی بڑھتا جارہا ہوں غلطی سے یہ خیال نہ کرنا کہ مجھ میں خدائی صفات ہیں میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.پھر آپ نے حضرت عباس کو جو آپ کے چا بھی تھے مخاطب کر کے فرمایا آپ کی آواز کچی ہے زور سے آواز دیں کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.اُس وقت رسول کریم ﷺ نے صرف انصار کو آواز دی.اس میں کئی حکمتیں تھیں.ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس شکست کی وجہ مکہ کے بعض لوگ تھے اور چونکہ مہاجرین کے اہل وطن نے کمزوری اور غداری دکھائی اس لئے اس رنگ میں آپ نے لطیف طور پر ان کو زجر کی اور صرف انصار کو آواز دی چنانچہ آپ نے فرمایا عباس! انصار کو آواز دو.اور جس وقت حضرت عباس نے بلند آواز سے یہ فقرہ دہرایا کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اُس وقت اسلامی لشکر کی یہ حالت تھی کہ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہمارے قبضوں سے نکلے جارہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مکہ اور مدینہ سے ورے یہ نہیں رکیں گے.میدان سے بھا گنا مسلمان جانتے ہی نہ تھے اور ان کی غیرتیں یہ برداشت ہی نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کی سواریاں ان کو بھگالے جائیں اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم سارا زور انہیں روکنے کیلئے لگا رہے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکتے تھے.ہر بھاگنے والا گھوڑا دوسرے کو اور بھگاتا تھا اور ہر بھاگنے والا سپاہی دوسروں کو اور پراگندہ کرتا تھا.وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم بالکل بے بس ہو گئے اور سمجھتے تھے کہ میدان میں واپس آنا ہماری طاقت سے باہر ہے کہ اتنے میں حضرت عباس کی گونجنے والی آواز آئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے جسے سنتے ہی یوں معلوم ہوا کہ گویا ہم پر بجلی گر گئی ہے، حشر کا دن ہے اور صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے.ہمیں دنیا وَمَافِیهَا کا کوئی ہوش نہ تھا صرف ایک ہی آواز تھی جو ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ عباس کی آواز تھی.ہم نے گھوڑوں کو موڑنے کی آخری کوشش کی
سيرة النبي عمال 310 جلد 4 جو مڑ گئے مڑ گئے اور جو نہ مُڑے ہم نے تلوار میں نکال کر اُن کی گردنیں اڑا دیں اور پیدل دوڑ پڑے اور لَبَّيْكَ يَارَسُولَ الله ! لبیک کہتے ہوئے آنا فانا آپ کے گرد الله جمع ہو گئے 2.یہ حالت اخلاص اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے کا واقعہ میں نہیں جانتا لوگوں کے قلوب پر کیا اثر کرتا ہو مگر میرے پر یہ اثر ہوتا ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک لرزہ طاری ہو جاتا ہے.تیرہ صدیاں اس پر گزر چکی ہیں جب بھی یہ واقعہ میرے سامنے آتا ہے میری روح لبیک کہتی ہوئی رسول کریم ﷺ کی طرف جاتی ہے اور میں ہمیشہ اس واقعہ کو حشر کے میدان سے تشبیہ دیا کرتا ہوں.آج بھی خدا تعالیٰ کی آواز محمد مے میں سے ہوتی ہوئی خدا کے مامور اور آخری زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بلند ہوئی اور کہ رہی ہے کہ اے احمد یو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور آپ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی اور اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے.پس ان کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں کہ آپ کو یہ ایام کس تقویٰ ، کس محبت و عشق سے گزار نے چاہئیں.بظاہر ان ایام میں ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل خدا تعالیٰ نے ایک ہاتھ بڑھایا ہے جو ہمیں بلا رہا ہے اور ہماری نگاہیں اس کی طرف ہیں پس اپنی ذمہ داری کو محسوس کرو اور ان ایام کو بیکاری اور آوارگی ، سستی وغفلت میں نہ گزارو بلکہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے ، ذکر الہی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سننے میں گزارو.ذرا سوچو تو سہی کہ کون ایسا محبت و عشق کا دعوی کرنے والا ہو سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا رسول اسے آواز دے تو وہ راستہ میں کھڑا ہوکر بندروں کا تماشا دیکھنے لگے.یہ دن حشر کے ایام سے مشابہ ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں اپنے دودھ پینے والے بچہ کو بھی بھلا دے گی.آج اپنی ضرورتوں ، رشتہ داروں ، دوستوں ، اپنے کاموں ، اپنے جذبات اور احساسات کو بھی بھول جاؤ تمہارے کانوں
سيرة النبي عليه 311 جلد 4 میں ایک ہی آواز گونجے اور وہ خدا تعالیٰ کی آواز ہو اور تمہارا فرض ہے کہ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھو.ہم میں سے کتنے ہوں گے جو کہتے ہوں گے کاش! ہم محمد علی لے کے زمانہ میں ہوتے اور اس شمع کے گرد پروانوں کی طرح جل کر راکھ ہو جاتے.پھر کتنے ہوں گے جن کے دل میں یہ حسرت ہوگی کہ کاش! ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پاتے اور خدا تعالیٰ کے اس مامور، آخری مصلح، رسول کریم اے کے بروز ، مظہر صلى الله اور خلیفہ کے اردگرد اپنے نفوس اور اپنے اموال قربان کر دیتے.ایسے تمام لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے بندے کبھی مرا نہیں کرتے بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں.دنیا میں لوگ مرتے آئے ہیں اور سب مرتے جائیں گے مگر رسول کریم دائمی زندگی پانے والے انسان ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے حتی ہونے کی چادر آپ علوس پر ڈال دی ہے اور آپ کو کوئی نہیں مار سکتا.اسی طرح سب دنیا مرتی ہے اور مرتی جائے گی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے.خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کی چادر انہیں اوڑھا دی ہے اور اب کوئی انہیں نہیں مارسکتا.پس یہ مت خیال کرو کہ تم کس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابی بن سکتے ہو اور کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مل سکتے ہو.اگر آج تمہاری روحیں ان کے آستانہ پر گر جائیں اور ان کے روحانی وجود کی طرف بڑھیں تو تم آج بھی وہی رہتے حاصل کر سکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کئے.ضرورت صرف تقویٰ ، اخلاص اور ایثار کی ہے.تم ہرگز ہرگز یہ خیال مت کرو کہ جو کچھ پہلوں کو ملا وہ تم کو نہیں مل سکتا صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر اصلاح پیدا کرو، تقویٰ اور خشیت اللہ پیدا کرو.یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایک سچا عاشق اپنے معشوق کے پیارے سے محبت نہ کرے اور اس کے قریب نہ ہو.کیا یہ ممکن ہے کہ تم کسی کے ملازم ہو اور تمہارے آقا کا بچہ تمہیں جنگل میں اکیلا ملے اور تم اسے وہیں چھوڑ کر چلے آؤ ؟ پھر یہ خیال کرو کہ اگر تقویٰ اور خشیت سے تم اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کرلو اور اس کے محبوب بن جاؤ تو اس کا کامل عبد محمد عل ہے کس طرح تم سے الگ ہوسکتا ہے یقیناً جو محمد
سيرة النبي علي 312 جلد 4 صلى الله کا ہو خدا تعالیٰ اُس کا ہو جاتا ہے اسی طرح جو خدا تعالیٰ کا ہو جائے محمد رسول اللہ خود بخود اس کے ہو جاتے ہیں.اسی طرح جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صلى الله ہو جائے خدا تعالیٰ اُس کا ہو جاتا ہے اور جو خدا کا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلا اس کے ہو جاتے ہیں.پس اگر جسمانی طور پر محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم صلى الله صلى الله سے جدا ہو جائیں تو ہمارا خدا تو ہم سے جدا نہیں تم اگر خدا کے ہو جاؤ تو محمد عے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بخود تمہارے ہو جائیں گے.پس اے بعد میں آنے والو! گھبراؤ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ترقیات کے رستے تمہارے لئے بند نہیں کئے.ایک بزرگ لکھتے ہیں کہ احادیث پڑھتے وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کرتا تھا کہ کیا خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے محمد ﷺ کی زبان مبارک سے کلمات سنے اور لوگوں تک پہنچائے.یہ حسرت میرے دل میں بڑھتی گئی یہاں تک کہ ایک شب خواب میں آنحضرت عم تشریف لائے اور فرمایا بخاری لاؤ اور اس میں سے ایک حدیث خود مجھے پڑھائی اور پھر فرمایا کہ اب یہ براہ راست تم لوگوں کو ہماری طرف سے سنا سکتے ہو.پس اگر حقیقی محبت پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ پر کیا مشکل ہے کہ محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روحانی طور پر تم سے ملا دے اور اس طرح ان کے صحابہؓ میں داخل کر دے لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ تم خودی اور خود پسندی ، سستی ،غفلت اور دین سے بے اعتنائی ترک کر دو.“ 66 الفضل 16 جنوری 1937 ء ) :1 مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين صفحه 790 ،791 حدیث نمبر 4615 تا 4617 مطبوعہ ریاض 2000 ، الطبعة الثانية :2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى رجوع الناس بنداء العباس والانتصار بعد الهزيمة صفحه 1240 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 313 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہ کی حالت 27 دسمبر 1936ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.وو صلى الله رسول کریم میے کے ارشادات کو وہی لوگ جان سکتے تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں رسول کریم علی اللہ کی خدمت میں گزاریں یعنی صحابہ رسول کریم.جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ میں ایک شور پڑ کیونکہ رسول کریم ﷺ کی وفات اچانک ہوئی.ان صحابہ کو خبر نہ تھی کہ آپ کی وفات اس قدر جلدی ہو جائے گی.وفات کے قریب حضور انور علیہ السلام پر یہ سورۃ نازل ہوئی إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - 1 یعنی اے لوگو ! جب تم دیکھو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگ گئے تو خدا تعالیٰ کی تسبیح کرو ساتھ حمد اپنے رب کی.اور غفران و حفاظت مانگو یقیناً وہ ہے رجوع برحمت ہونے والا.یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ تو خدا کے قرب میں حاضر ہونے والا ہے اور کامیابی کا زمانہ آ گیا.اس پر صحابہ بہت خوش ہوئے مگر حضرت ابوبکر صدیق رو پڑے اور اس قدر روئے کہ گھیگی بندھ گئی.پھر حضرت ابو بکر سنبھل کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے يَارَسُولَ الله ! ہم اپنی جانیں، اپنے ماں باپ، اپنے بیوی بچوں کی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں.لوگ حیران تھے اور کہتے تھے کہ بڑھے کی عقل کو کیا ہو گیا ہے.لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس کو ابو بکر نے خوب سمجھا.رسول کریم ﷺ حضرت ابو بکر سے
سيرة النبي مله 314 جلد 4 بہت محبت کرتے تھے چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ پیارا ابوبکر ہے اگر خدا کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو ابوبکر کو بناتا.پھر آپ نے فرمایا سب کھڑکیاں بند ہو جائیں گی صرف ابو بکر کی کھڑ کی کھلی رہے گی 2.ایسا فرمانا بطور پیشگوئی کے تھا کہ ابوبکر خلیفہ ہو کر نماز پڑھانے کیلئے کھڑکی سے مسجد میں داخل ہوا کریں گے.پس رسول کریم ﷺ کو جو محبت حضرت ابو بکر سے تھی اور جو ابو بکر کو رسول کریم ﷺ سے تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابو بکر کا درجہ کس قدر بلند تھا.لوگوں نے حضرت ابوبکر سے پوچھا آپ اس بشارت نصرت پر کیوں روئے؟ آپ نے کہا خدا کے نبی دین پھیلانے کیلئے آتے ہیں جب دین کی ترقی ہو گئی تو آپ بالضرور اپنے مولیٰ کے حضور واپس چلے جائیں گے.اسی لئے حضرت ابوبکر نے قرآن کی یہ آیت سن کر کہا کہ يَارَسُولَ اللہ ! ہماری جانیں، ہمارے ماں باپ کی جانیں، ہمارے بیوی بچوں کی جانیں آپ کی جان پر قربان ہوں.اب اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صحابہ نہیں سب سے بہتر قرآن کریم کو سمجھنے والے تھے.رسول کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو اُس وقت حضرت ابوبکر صدیق باہر تھے.حضرت عمرؓ کو جب علم ہوا کہ رسول کریم علاوہ فوت ہو چکے ہیں تو آپ میان سے تلوار نکال کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی کہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں تو میں تلوار سے سر اڑا دوں گا رسول کریم یہ فوت نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ملنے گئے ہیں جیسا کہ حضرت موسی اللہ تعالیٰ سے ملنے گئے تھے.اور حضرت عمرؓ کی اس بات کا اثر تمام مسلمانوں پر ہوا.ایک صحابی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر بہت گھبرائے.وہ بہت سمجھدار تھے انہوں نے کہا دوڑ کر جاؤ اور حضرت ابوبکر کو خبر کر دو کہ مسلمان بگڑ رہے ہیں جلدی آئیں.پس ابوبکر جو اتفاق سے باہر گئے ہوئے تھے فوراً پہنچے اور آپ کے پاس گئے اور کپڑا چہرے پر سے ہٹایا ، زیارت کی اور کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں خدا تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.ایک آپ کی موت اور
سيرة النبي علي 315 جلد 4 دوسری قوم گمراہ ہو.ہر چندا ابو بکر کمزور اور نرم مزاج آدمی تھے حضرت عمر جو تلوار لئے کھڑے تھے اُن کے پاس آئے اور کہا اے عمر! بیٹھ جاؤ لیکن حضرت عمرؓ جوش میں آکر پھر کھڑے ہو جاتے.حضرت ابوبکر اُن کے اس جوش کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور یہ آیت پڑھی مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ 3 اے لوگو !.محمد تو فوت ہو چکے ہیں.جو کوئی سیدنا محمد کو پوجتا ہے وہ سن لے کہ خدا کبھی نہیں مرتا.محمد خدا کے ایک رسول تھے اگر محمد فوت ہو جائیں تو کیا تم پھر جاؤ گے؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ آیت سنی ، میری یہ حالت تھی کہ میری ٹانگیں مجھ کو کھڑا نہیں کر سکتی تھیں اور مجھ کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ قرآن کریم میں یہ آیت آج ہی نازل ہو رہی الازهار لذوات الخمار صفحہ 298 299 مطبوعہ بار دوم ) 66 -44 1: النصر : 2 تا آخر صلى الله صلى الله 2 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علة باب قول النبي علي سدوا الابواب الا باب ابی بکر صفحہ 613 حدیث نمبر 3654 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3: ال عمران : 145 4: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى مقالة عمر بعد وفاة الرسول عليه صفحه 1459 ،1460 مطبوعہ دمشق 2005 ءالطبعة الاولى
سيرة النبي علي 316 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی دعوئی سے قبل کی زندگی 27 دسمبر 1936 ء کے خطاب میں آپ نے رسول کریم ﷺ کی دعوئی سے قبل کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے کہو کہ میں نے نبوت سے پہلے تم میں ایک عمر گزاری ہے اور تم اقرار کرتے ہو کہ میں نے بندوں پر کبھی جھوٹ نہیں بولا1 تو کیا جب میں رات کو سو یا صبح اٹھ کر خدا پر صلى الله جھوٹ بولنے لگ گیا ؟ رسول کریم ﷺ کی امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ حضرت خدیجہ جو مکہ میں سب سے زیادہ مال دار عورت تھیں اور آپ کنگال اور آپ کے کنگال ہونے کا یہ ثبوت تھا کہ عرب کا دستور تھا کہ اپنے بچے باہر دائیوں کے پاس بھیج دیتے تھے تو اس سال جو دائیاں مکہ میں بچے لینے آئیں تو ہر دائی آپ کے لے جانے سے انکار کرتی رہی کیونکہ دائیاں جب بچے پال کر لاتیں تو اُن کو خوب انعام و اکرام ملتا.اُن کو خیال تھا کہ یہاں سے ہم کو کیا ملے گا.چنانچہ مائی حلیمہ بھی ایک دفعہ آپ کو دیکھ کر چھوڑ گئیں لیکن پھر جب شہر میں دوسرا کوئی بچہ نہ ملا تو پھر واپس آ کر وہی بچہ لے گئیں 2.تو آپ کی مالی حالت یہ تھی کہ دایہ بھی نہ ملی تھی.پھر جب والدہ فوت ہو گئیں تو اپنے چا کے پاس رہے.گویا وہ تمام زمانہ بے کسی کی حالت میں گزارا.چچا کے بچے کھانے پینے کے وقت شور و شر کرتے لیکن آپ آرام سے ایک طرف بیٹھے رہتے 3 کیونکہ چا کے لڑکے جانتے تھے کہ یہ تو ہمارے ٹکڑوں پر پل رہا ہے اصل مالک تو ہم ہیں.اکثر آپ کے چا کہتے بچہ تو نہیں ہنستا کھیلتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچی کے دل میں بھی وہ محبت
سيرة النبي عمال 317 جلد 4 صلى الله الله نہ تھی.آپ کے مقابلہ میں خدیجہ بہت مالدار عورت تھی، کئی تو اُن کے غلام تھے، اُن کی تجارت کے قافلے دور دور جاتے ، اُن کی عادت تھی کہ اپنے غلاموں سے سب حالات دریافت کرتی رہتیں.رسول کریم ﷺ آپ کے پاس نوکر ہو گئے اور ان کو ایک قافلہ کے ساتھ باہر بھیجا گیا.جب واپس آئے تو بہت نفع ہوا.انہوں نے جب آپ کی نسبت دریافت کیا تو غلاموں نے کہا کہ پہلے لوگ بہت سے نفعے خود رکھ لیتے تھے لیکن ہم نے ان کو بہت امین پایا ہے.وہ آپ کی تعریف سن کر اس قدر متاثر ہوئیں کہ اپنے چا کو بلا کر پیغام شادی بھیجا.رسول کریم ﷺ نے کہا کہ میرے چا سے پوچھ لو اگر وہ رضا مند ہوں تو پھر میں نکاح کرلوں گا.پھر چچا کی رضا مندی سے اپنا نکاح حضرت خدیجہ سے کر لیا 4.آپ کی امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں حضرت خدیجہ نے آپ کے اس جو ہر کو پہچان لیا اور حضرت خدیجہ نے اپنا تمام مال وزر آپ کے سپر د کر دیا.جب حضرت خدیجہ نے کہا کہ یہ میرا تمام مال آپ کا ہے تو آپ نے فرمایا کہ خدیجہ سچ کہتی ہو؟ پھر جس طرح میرا اختیار ہے میں کروں؟ پس آپ نے کہا کہ سب سے پہلے یہ جو غلام ہیں ان کو آزاد کر دو.حضرت خدیجہ کے دل پر آپ کی نیکی کا اس قدر اثر تھا کہ انہوں نے کہا بے شک آپ کو اختیار ہے.ان غلاموں میں ایک زیڈ بھی تھے یہ ایک بہت بڑے رئیس کے لڑکے تھے.بچپن میں کوئی اُن کو پکڑ کر بیچ گیا تھا.اُن کا باپ تمام جگہ اُن کی تلاش کرتا کرتا بہت سا روپیہ لے کر مکہ پہنچا اور کہا جس قدر آپ مال لینا چاہتے ہیں لے لیں اور لڑ کا ہمارے ساتھ کر دیں.اس کی ماں دس سال سے روتی روتی اندھی ہو گئی ہے اور میں دس سال سے اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ میں جا کر کہا لوگو! گواہ رہو یہ آزاد ہے اور کہا کہ یہ تیرا باپ ہے اس کے ساتھ چلا جا.دس سال سے اُس نے اپنا کاروبار چھوڑ کر تیری خاطر اپنی عمر کا ایک حصہ یوں برباد کیا ہے.زیڈ نے کہا بے شک یہ میرا باپ ہے اور ایک مدت کے بعد ملا ہے اور اس نے میری خاطر بہت تکلیف اٹھائی ہے اور کون ہے
سيرة النبي عمال 318 جلد 4 جس کو اپنے ماں باپ سے محبت نہیں ہوتی.بے شک اس نے دس سال میری محبت کے پیچھے برباد کئے ہیں لیکن مجھ کو تو آپ کے سوا کوئی ماں باپ نظر نہیں آ تا5.خیال کرو کہ آپ کو کس قدر انس تھا.باپ روتا ہوا چلا جاتا ہے لیکن وہ آپ کی جدائی پسند نہیں کرتا.پس یہ تھا آپ کی دیانت، امانت، صداقت، راستبازی کا حال.آپ نے اعلانیہ فرمایا کہ اے لوگو! میں نے تم میں عمر گزاری ہے بتلاؤ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟ تو کیا میں خدا پر ہی جھوٹ بولوں گا؟ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر سن کر فوراً ایمان لے آئے.کہتے ہیں کہ جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکر صدیق باہر گئے ہوئے تھے اور واپس آتے ہوئے راستہ میں اپنے ایک دوست کے مکان پر ٹھہرے اور آپ اپنی چادر بچھا کر لیٹنے ہی لگے تھے کہ اس گھر کی لونڈی نے آ کر کہا افسوس ! تمہارا دوست پاگل ہو گیا اور کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.حضرت ابوبکر فر ماتے ہیں کہ وہ لیٹے صلى الله بھی نہیں فوراً چادر سنبھال کر بیٹھ گئے اور رسول کریم ﷺ کے گھر پہنچے اور کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ حضرت ابوبکر چونکہ آنحضرت ﷺ کے گہرے دوست تھے آپ کو یہ خیال تھا کہ کہیں ان کو ٹھوکر نہ لگ جائے آپ ان کو تسلی سے بتانا چاہتے تھے لیکن حضرت ابوبکر نے آپ کو قسم دے کر کہا کہ آپ صاف بتا ئیں.آپ نے کہا درست ہے.حضرت ابوبکر صدیق نے کہا پس آپ میرے ایمان کے گواہ رہیں اور کہنے لگے کہ آپ مجھ کو دلیلیں دے کر میرا ثواب کیوں کم کرتے ہیں؟.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھا.“ الازھار لذوات الخمار صفحه 303 ،305 مطبوعہ بار دوم ) 1: يونس : 17 2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاوّل حديث حليمة عما رأته من الخير بعد تسلمها له ل لا لا لو صفحه 201 تا 203 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى صلى الله 3 السيرة الحلبية الجزء الاوّل وفاة عبد المطلب وكفالة عمه أبي طالب له عليه
سيرة النبي علي 319 جلد 4 صفحہ 196 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الأولى صلى الله 4 السيرة النبوية لابن هشام خديجة ترغب فى الزواج منه علي صفحه 231 232 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 5 اسد الغابة الجزء الثاني زيد بن حارثة صفحه 190 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى صلى الله 6: السيرة الحلبية الجزء الاول باب ذكر اوّل الناس ايمانا به علا صفحه 446 مطبوعه بیروت 2012 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 320 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف 28 دسمبر 1936 ء کو حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالا نہ قادیان میں فضائل القرآن کے موضوع پر چھٹی تقریر کی.اس تقریر میں آپ فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ سورۃ نساء میں فرماتا ہے وَاَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ا یعنی ہم نے تجھے تمام انسانوں کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے.اس آیت میں صاف طور پر بتایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ اگر آدمیوں کے علاوہ کوئی اور نرالی مخلوق بھی جسے جن کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ وَالْجِنِّ مگر وہ یہ نہیں فرما تا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کیلئے بھیجا ہے.پس جب آدمیوں کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے تو صاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جن آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جنّ الانس ہی مراد ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے وَإِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمُ انْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ 2 یعنی اے میری قوم! تم نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بچھڑے کو پوجا.اب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی جن نہیں تھے حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جن آپ پر ایمان لائے تھے.پس صاف ثابت ہوا کہ ان جنوں سے آدمی جن ہی مراد
سيرة النبي عمال 321 جلد 4 تھے نہ کہ وہ جن جن کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے.اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبد اللہ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں دی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں.ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً 2 مگر میں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں.یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں ایک نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی قوم کے سوا کسی اور قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو.لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان جنوں اور طیور کی طرف بھیجے گئے تھے.اگر واقعہ میں حضرت سلیمان جنوں اور طیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نَعُوذُ بِاللهِ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.“ 1: النساء : 80 2: البقرة: 55 66 فضائل القرآن نمبر 6 صفحہ 409 410 مطبوعه الشركة الاسلامیۃ لمیٹڈ ربوہ 1963ء) 3: نسائى كتاب الغسل والتيمم باب التيمم بالصعيد صفحه 58 حدیث نمبر 432 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 322 جلد 4 رسول کریم ﷺ کا غزوہ خندق میں پتھر توڑنا اور عظیم فتوحات کی بشارات فرمایا:.حضرت مصلح موعود نے 22 فروری 1937ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیٰ میں.رسول کریم اے کے زمانہ میں جنگ احزاب کے موقع پر دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے ایک خندق کے کھودنے کی ضرورت پیش آئی تھی تاکہ دشمن رات اور دن کسی وقت بھی چھا پہ نہ مار سکے.کیونکہ مسلمانوں کی فوج اتنی تھوڑی تھی کہ وہ چوبیس گھنٹے ہر مقام کا پہرہ نہیں دے سکتے تھے.تب آدمیوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک خندق کھودی گئی تاکہ تھوڑے آدمیوں کے ذریعہ بہت آدمیوں کا کام لیا جا سکے.جب وہ خندق کھودی جا رہی تھی تو ایک جگہ پر ایک پتھر نظر آیا جسے باوجود کوشش کے صحابہ نہ توڑ سکے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت کی کہ ایک چٹان ایسی آگئی ہے کہ اسے تو ڑا نہیں جاسکتا اور خندق مکمل نہیں ہو سکتی.تب رسول کریم مہ خود اس جگہ پر صلى الله تشریف لے گئے اور فرمایا کہ کدال میرے ہاتھ میں دو.اور آپ نے زور سے کدال اس چٹان پر ماری ایسے زور سے کہ لو ہے اور پتھر کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ایک آگ کا شعلہ نکلا.آپ نے فرمایا اللهُ اَكْبَرُ اور سارے صحابہ نے ساتھ کہا اللهُ اَكْبَرُ.پھر آپ نے دوسری دفعہ کدال اٹھائی اور اپنے پورے زور سے پھر وہ کدال چٹان پر ماری.اور پھر اس میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور پھر آپ نے فرمایا الله
سيرة النبي الله 323 جلد 4 اكبر.اور سب صحابہ نے ساتھ ہی کہا اللهُ اكْبَرُ.پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال اٹھائی اور اپنے پورے زور سے کدال پتھر پر ماری اور پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور پھر آپ نے فرمایا اللہ اَکبَرُ.اور صحابہ نے بھی اسی طرح زور سے آواز دی الله اكبر.اس تیسری ضرب سے وہ پتھر ٹوٹ گیا اور صحابہ نے خندق کو مکمل کر لیا.تب رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے تین دفعہ تکبیر کے نعرے مارے علی ہیں، تم نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم نے آپ کی نقل کی.آپ نے بھی تین دفعہ اللہ اکبر کہا تھا سو ہم نے بھی آپ کی نقل میں تین دفعہ تکبیر کے نعرے لگائے.آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ میں نے تکبیر کیوں کہی تھی ؟ صحابہ نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله ! اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا جب میں نے پہلی دفعہ کدال ماری اور اس پتھر میں سے آگ کا شعلہ نکلا تو میں نے اس شعلہ میں یہ نظارہ دیکھا کہ اسلامی فوجوں کے سامنے روما کی حکومت کی فوجیں تہ و بالا کر دی گئیں.اور میں نے اس موقع کے مناسب حال اللهُ اَكْبَرُ کہا.پھر جب میں نے دوسری دفعہ کدال ماری اور پتھر کی چٹان میں سے آگ کا شعلہ نکلا تو مجھے نظارہ دکھایا گیا کہ اسلامی سطوت کے سامنے کسری ایران کے قصر پر زلزلہ آ گیا ہے اور اس کی شوکت تو ڑ دی گئی ہے.تب میں نے اس کے مناسب حال تکبیر کا نعرہ بلند کیا.اور جب میں نے تیسری دفعہ کدال پتھر پر ماری اور پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا تو مجھے یہ نظارہ دکھایا گیا کہ حمیر کی طاقت اور قوت اسلام کے مقابلہ میں برباد کر دی گئی.تب پھر میں نے خدائی بڑائی بیان کی اور تکبیر کا نعرہ لگایا.صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ الله ! پھر جس بات پر آپ نے تکبیر کہی ہم نے بھی تکبیر کہی.(الفضل 4 مارچ 1937ء ) 1 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث غزوة الخندق صفحه 11 مطبوعہ بیروت 2012 ءالطبعة الاولى
سيرة النبي علي 324 جلد 4 رسول کریم ﷺ کا مسیلمہ کذاب اور کفار مکہ کو جواب دو حضرت مصلح موعود مارچ 1937 ء میں ایک خطبہ نکاح میں فرماتے ہیں:.بعض لوگ جنبہ داری میں آکر دین کو ضائع کر دیتے ہیں، بعض پر دوستوں کی محبت غالب آجاتی ہے اور وہ ان کی خاطر تقویٰ سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں اور بے شک وہ یہ فعل اپنی عزتوں کو برقرار رکھنے کے لئے کرتے ہوں گے مگر حقیقی عزت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا میرے پاس ایک لاکھ فوج ہے جو ہر وقت میری مدد کے لئے تیار ہے میں آپ سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بعد خلافت مجھے عطا کریں اور ایک لاکھ فوج حاضر ہے.رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا میں تجھے اس تنکے کے برابر بھی کچھ دینے کے لئے تیار نہیں 1 یہ سب اللہ تعالیٰ کی امانت ہے وہ جس کو چاہے گا دے گا.کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مسیلمہ کی ایک لاکھ فوج کہاں گئی.اس میں سے کئی محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے اور اس شخص کو جسے یہ دعوی تھا کہ یہ لوگ ہر وقت میری مدد کے لئے تیار رہتے ہیں اس کو چھوڑ دیا اور کئی تھے جو ایمان نہ لائے اور صحابہ کی تلواروں سے کاٹے جا کر جہنم میں چلے گئے.“ پھر فرمایا:.ایک دفعہ رسول کریم عملے کے پاس مکہ کے لوگ آئے اور عرض کیا کہ آپ دین ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں ان کا بھی یہی مطلب تھا کہ رسول کریم میں تبدیلی کریں اور ہمارے ساتھ مل جائیں مگر رسول کریم ﷺ نے ان کو اُس وقت
سيرة النبي عمال 325 جلد 4 یہی جواب دیا کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دو تب بھی میں اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کر سکتا ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.“ ( الفضل 21 مارچ 1937ء ) 1 بخاری کتاب المغازى باب وفد بنى حنيفة و حديث ثمامة بن اثال صفحه 742 حدیث نمبر 4373 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول وفد قريش مع أبي طالب في شان الرسول عليه صفحہ 312،311 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 326 جلد 4 رسول کریم اللہ کا بیان فرمودہ عظیم اصلاحی نکته رسول وو الله حضرت مصلح موعود 23 اپریل 1937 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس میں کئی عیب تھے.اس نے آپ سے درخواست کی اور نجات کا طریق دریافت کیا.اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کچھ تم کوشش کرو کچھ میں دعا کرتا ہوں.تم یہ کرو کہ اپنے پانچ عیوب میں سے ایک کو چھوڑ دو اور میں دعا کروں گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تمہیں باقیوں کے چھوڑنے کی بھی توفیق صلى الله دے دے گا.اُس نے دریافت کیا کہ وہ کس کو چھوڑ دے؟ حضور علی نے فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو اور ساتھ ہی اسے فرمایا کہ وہ حضور علیہ سے ملتا ر ہے.اُس شخص نے وعدہ کیا اور چلا گیا.کچھ عرصہ بعد جب اُس کے دل میں ایک عیب کے ارتکاب کی خواہش پیدا ہوئی تو جھٹ اسے خیال آیا کہ رسول کریم ﷺ نے یا کسی دوست نے صلى الله پوچھا تو کیا جواب دوں گا.لہذا اُس کا ارادہ ترک کر دیا.کچھ وقفہ کے بعد دوسرے عیب کا خیال پیدا ہوا.پھر جھٹ یہ امر سامنے آ گیا کہ اگر رسول کریم ﷺ یا کسی دوست نے دریافت کیا تو کیا جواب دوں گا کیونکہ جھوٹ تو بولنا نہیں.بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ اس عیب کا ارتکاب نہیں کروں گا.حتی کہ چاروں عیبوں کے کرنے کا باری باری خیال پیدا ہوا اور اسی خیال کے آنے سے کہ اگر رسول کریم ﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا سب کا ارادہ ترک کر دیا اور اُسی دن وہ ان عیبوں سے محفوظ رہا.اسی طرح کئی دن گزر گئے اور ہر روز اُس کی ان عیوب سے بچنے کی طاقت بڑھتی گئی اور جب رسول کریم ﷺ نے اُس کو بلایا تو اس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ يَارَسُولَ اللَّهِ! الله
سيرة النبي علي 327 جلد 4 اس خیال سے کہ کسی کے دریافت کرنے پر اپنے عیب کا اقرار کرتے ہوئے سچ بولنے میں شرمندگی ہوگی میں نے اس وقت تک یہ عیب نہیں کئے اور اب میں پانچوں عیبوں کے چھوڑنے پر قادر ہوں 1.غرض جھوٹ کے چھوڑنے سے یہ طاقت اس کے اندر پیدا ( الفضل 20 مئی 1937 ء ) 66 ہوگئی.“ 1 : تفسير كبير لامام فخرالدین رازی جلد 8 صفحہ 419 مطبوعہ قاھرہ 2012ء
سيرة النبي علي 328 جلد 4 گالیوں کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کا صبر حضرت مصلح موعود نے 7 مئی 1937 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا:.یہ سنت ہے کہ جب خدا کا کام بندہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے.حضرت ابو بکر ایک مجلس میں بیٹھے تھے.نبی کریم ﷺ بھی اس جگہ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آپ کو گالیاں دینے لگا.آپ خاموش رہے.جب اُس نے زیادہ پختی کی تو حضرت ابو بکر نے بھی اُس کو جواب دیا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تک آپ خاموش رہے خدا کے فرشتے اسے جواب دیتے رہے.لیکن جب آپ نے خود جواب دینا شروع کیا تو وہ چلے گئے 1.پس جس کام کو خدا نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہوتا ہے اگر بندہ اس میں دخل دے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے.لیکن اگر بندہ صبر کرے اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ جلد یا بدیر اس کا بدلہ لے لے گا تو خدا اس کا بدلہ لے لیتا ہے.رسول کریم ﷺ کو مکہ میں 13 سال تک اور پھر مدینہ میں جا کر بھی دشمن نے گالیاں دیں اور تنگ کیا.نہ صرف ایک دن نہ صرف ایک ماہ نہ صرف ایک سال بلکہ اس وقت تک مخالفین آپ کو گالیاں دے رہے ہیں اور تورات کی پیشگوئی کے مطابق کہ صل الله حضرت اسماعیل جو رسول کریم ﷺ کے جد امجد تھے ان کے خلاف ان کے بھائیوں کی تلوار ہمیشہ اٹھی رہے گی.آپ کو لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن خدا نے اس کا علاج اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور اس سے بہتر علاج اس کا کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام میں داخل کر دے لیکن اسلام میں داخل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں.مجھے ایک دفعہ ایک یہودی نے چٹھی لکھی کہ میں وہ شخص تھا کہ شاید ہی کسی کے دل
سيرة النبي عمال 329 جلد 4 الله میں میرے دل سے بڑھ کر محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق دشمنی ہو بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام سنتے ہی مجھے اشتعال پیدا ہو جاتا تھا.لیکن آپ کے مبلغوں سے اسلام کی خوبیاں سن کر اب میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میں رات کو نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیج لوں.بھلا ہماری گالیوں سے سلسلہ کی کیا خدمت ہو سکتی ہے.اگر ہم دعا کریں کہ اے خدا! تیرا وعدہ إِنَّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِ عین 2 سچا ہے تو آپ اس کا علاج کر اور اس وعدہ پر اعتماد رکھ کر چپ رہیں تو خدا خود ہی انتظام کرے گا.اور اگر تم نے خود اس میں دخل دینا شروع کر دیا تو تم بیعت میں رخنہ ڈالنے والے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے وعدہ کو پس پشت ڈالنے والے اور سلسلہ کو بدنام کرنے والے ( الفضل 13 مئی 1937 ء ) 66 ہو گے،، 1: مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 436 مطبوعہ بیروت 1978ء 2: الحجر : 96
سيرة النبي علي 330 جلد 4 جنگ احد میں رسول کریم ﷺ کی ایک چھوٹی سی ہدایت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ 26 جون 1937 ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں حضرت مصلح موعود نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی ہی بات ہے کہ اُحد کی جنگ کے موقع پر آپ نے ایک درہ پر دس سپاہی مقرر کئے جو اسلامی فوج کی پشت کی جانب تھا اور آپ نے اُن سے فرمایا کہ تم نے یہاں سے نہیں ہلنا.باقی فوج خواہ ماری جائے یا جیت جائے حتی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو بھی تم یہیں کھڑے رہو.گویا یہ کام اُس کڑی کے سپر د تھا اور بظاہر یہ کوئی کام نہیں کہ ایک درہ پر کھڑے رہو، خواہ فوج جیت جائے یا ہار جائے.بظاہر اس بات کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی لیکن بعد کے واقعات سے اس کی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے.جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے تو ان دس سپاہیوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو دشمن کو شکست ہو گئی ہے ہمیں بھی اجازت دیں کہ جہاد کے ثواب میں شریک ہوں لیکن افسر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تو یہیں کھڑے رہنے کا ہے.مگر انہوں نے کہا کہ اتنا غلو نہیں کرنا چاہئے ، کچھ تو اجتہاد سے بھی کام لینا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشا تو اس قدر تاکید سے یہ تھا کہ بے احتیاطی نہ کرنا یہ مطلب تھوڑا ہی تھا کہ واقعی اگر فتح حاصل ہو جائے تو بھی یہاں سے حرکت نہ کرنا.
سيرة النبي علي 331 جلد 4 افسر نے جواب دیا کہ مجھے تو اجتہاد کا حق نہیں.مگر انہوں نے اُس کے مشورہ کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ بالکل جاہلانہ مشورہ ہے اور اس میں اطاعت کے لئے ہم تیار نہیں ہیں اور ہم جہاد کے ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہتے.چنانچہ تین آدمی وہاں رہے اور باقی وہاں سے ہٹ آئے.اُس وقت تک حضرت خالد بن ولید مسلمان نہ ہوئے تھے، خالد بہت زیرک نوجوان تھے ، دشمن بھاگ رہا تھا کہ اُن کی نظر درہ پر پڑی اور دیکھا کہ وہ خالی ہے، انہوں نے جھٹ عکرمہ کو اشارہ کیا کہ ابھی شکست کو فتح میں بدلا جاسکتا ہے.چنانچہ انہوں نے چند سو سپاہی ساتھ لئے اور پیچھے سے آ کر اس درّہ پر حملہ کر دیا.وہاں صرف تین مسلمان تھے باقی جاچکے تھے ، وہ تینوں شہید ہو گئے اور عین اُس وقت جب مسلمان دشمن کو بھگاتے ہوئے لے جا رہے تھے پیچھے سے حملہ ہوا اور اچانک حملہ کی وجہ سے صحابہ کے پاؤں اکھڑ گئے.رسول کریم ہے صرف بارہ صحابہ کے ساتھ میدان میں رہ گئے اور جب دشمن نے آپ پر پورے زور کے ساتھ حملہ کیا تو ان بارہ میں سے بھی بعض مارے گئے اور بعض دھکیلے جا کر پیچھے ہٹ گئے.حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اسی ریلے میں پیچھے دھکیلے گئے اور آخر صرف رسول کریم و اکیلے رہ گئے اور چاروں طرف سے آپ پر پتھر برسائے جارہے تھے حتی کہ خود کی کیلیں سر میں دھنس گئیں اور آپ بے ہوش کر زمین پر گر گئے اور دشمن نے خیال کر لیا کہ شاید آپ وفات پاگئے ہیں.اور اس ہنگامہ میں جو صحابہ شہید ہوئے اُن کی لاشیں بھی آپ کے اوپر گر گئیں اور دشمن مطمئن ہو کر واپس چلا گیا کہ آپ شہید صلى الله صلى الله الله ہو چکے ہیں.چنانچہ جب صحابہ جمع ہوئے تو انہوں نے آنحضرت علی کو لاشوں کے ڈھیر میں سے نکالا اور دیکھا کہ آپ ابھی زندہ ہیں.ایک صحابی نے پورے زور کے ساتھ خو د کو کھینچ کر نکالا اور اس قدر زور لگانا پڑا کہ آپ کے دانت ٹوٹ گئے 1.دیکھو کتنی چھوٹی سی ہدایت تھی کہ وہ دس آدمی اس درہ پر بہر حال کھڑے رہیں لیکن اس کو نظر انداز کر دینے سے کتنا خوفناک نتیجہ نکلا.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی خاص
سيرة النبي علي 332 جلد 4 حفاظت کا وعدہ نہ ہوتا تو آنحضرت یہ بھی اُس دن شہید ہو جاتے.اُس وقت سوائے ملائکہ کے کس نے آپ کی حفاظت کی.جس طرح غار ثور کے منہ پر پہنچ جانے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کفار کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ زیادہ تحقیقات کی ضرورت نہیں اسی طرح اُحد کے موقع پر بھی ان کے دل میں یہ ڈال دیا کہ بس آپ فوت ہو چکے ہیں اب دیکھ بھال کی کیا ضرورت ہے.اگر کفار اُس وقت جھکتے اور غور سے دیکھتے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ کمی کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.یہ انسان کا کام نہیں، انسانوں نے تو آپ کو مروا ہی دیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا.اور یہ سب خطرہ اس وجہ سے پیدا ہوا کہ بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ ہم اجتہادی طور پر اطاعت کیلئے تیار نہیں ہیں، یہ بالکل خلاف عقل بات ہے.یہ لوگ منافق نہیں تھے مگر ان کی ذرا سی غفلت سے رسول کریم ﷺ کی ذات ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ آج اس کے حالات پڑھ کر بھی ایک مومن کا دل کانپ اٹھتا ( الفضل 18 جولا ئی 1937 ء) 1:بخارى كتاب المغازى باب غزوة احد صفحہ 684 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية + السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى ما لقيه الرسول يوم احد صفحه 858 ، 859 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 333 جلد 4 فتح مکہ کے بعد ہندہ کی عورتوں کے ہمراہ بیعت حضرت مصلح موعود 16 جولائی 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.و فتح مکہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے پانچ اشخاص کے متعلق حکم دیا تھا کہ : جہاں بھی ملیں مار دیئے جائیں.ان میں سے ایک ہندہ بھی تھی مگر وہ چادر اوڑھ کر دوسری عورتوں کے ساتھ بیعت کرنے آ گئی.رسول کریم ﷺ نے جب بیعت لیتے لیتے کہا کہ کہو ہم شرک نہ کریں گی تو چونکہ وہ بڑی دلیر عورت تھی اس سے نہ رہا گیا.کہنے لگی کیا ہم لوگ ایسے ہی بیوقوف ہیں کہ اب بھی شرک کریں گے.آپ اکیلے تھے اور ہم سارے تھے ، ہم نے مخالفت کی مگر آپ ہم میں سے ایک ایک کر کے سب کو چھین کر لے گئے آخر آپ جیتے اور ہم ہارے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتے ہیں؟ رسول کریم علیہ نے فرمایا کون ہے؟ ہندہ؟ مطلب یہ تھا کہ میں نے تو اس کے قتل کا حکم دیا تھا.وہ کہنے لگی کہ اب تو میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آپ مجھے نئے گناہ 66 پر سزا دے سکتے ہیں پرانے پر نہیں ، وہ معاف ہو گئے 1.‘“ (الفضل 30 جولائی 1937 ء) 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث فتح مكة صفحه 204 205، مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 334 جلد 4 جماعت احمد یہ ہی رسول کریم ﷺ کے مقام کا عرفان رکھتی ہے الله حضرت مصلح موعود نے اخبار احسان کے ایک گندے الزام کا جواب دیتے ہوئے 20 اگست 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.افسوس کی بات ہے کہ ایک اخبار کا ایڈیٹر جس کی ذمہ داری یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں اچھے اخلاق قائم کرے وہ شرافت ، انصاف اور صداقت کو ترک کر کے ایک ایسا حملہ کرے جس میں ایک ذرہ بھی سچائی نہ پائی جاتی ہو.اور ہمارا تو یہ دعوئی ہو کہ ہم رسول کریم ﷺ کے غلاموں کے بھی غلام ہیں اور وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے آپ کو ا رسول کریم علیہ سے بڑا سمجھتے ہیں، اس سے زیادہ جھوٹ اور اس سے زیادہ غلط بات اور کیا ہوسکتی ہے.ہاں یہ ایک سچائی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدہ کی رو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لئے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہوگا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناً اسے ” بعد از خدا بزرگ توئی“ کہہ سکتے ہیں.مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ وہ نَعُوذُ بِاللہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا ہے ي نَعُوذُ باللهِ درجہ میں رسول کریم ﷺ کے برابر ہے.کیونکہ ہماری تمام عزت، ہماری تمام بڑائی ، ہماری تمام ترقی اور ہما را تمام اعزاز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی
سيرة النبي علي 335 میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم 1 : جلد 4 یعنی اے مسلمانو ! میری زندگی کا ماحصل کیا ہے یہی کہ میں خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم اللہ کی عزت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں مگر تم باوجود ان باتوں کو دیکھنے کے مجھے کافر کہتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں میرے اندر کفر کی وجہ یہی نظر آئی صلى الله ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کا درجہ لوگوں میں قائم کرنا چاہتا ہوں.لیکن اگر میرا یہ فعل جرم ہے تو پھر میں یقیناً مجرم ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مجرم ہوں جتنا تم مجھے سمجھتے ہو.اور اگر کفر اسی کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کی محبت دل میں پائی جاتی ہو اور آپ کا عشق رگ وریشہ میں سرایت کر چکا ہو تو پھر خدا کی قسم ! میں اس سے بہت زیادہ کا فر ہوں جتنا تم مجھے سمجھتے ہو.یہی عقیدہ ہمارا ہے بلکہ ہم میں سے ہر احمدی کا یہی عقیدہ ہے اور جو شخص اس عقیدہ سے ذرہ بھر بھی ادھر اُدھر ہو جائے وہ احمدی نہیں رہ سکتا.کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال محمد مہ کی کامل اطاعت میں ہے.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 2 پر ہمارا کامل یقین وایمان ہے.یہ قرآن کی آیت ہے اور جو شخص قرآن کو مانتا ہو وہ اس آیت کے ما تحت لازمی طور پر یہ عقیدہ رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان رسول کریم ﷺ کی متابعت میں فنا ہو جائے.لطیفہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود رسول کریم ﷺ کی عملاً ہتک کرتے ہیں مگر الزام ہم پر لگاتے ہیں کہ گویا ہم ( نَعُوذُ بِاللهِ ) رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.گو عقیدہ صلى الله صلى الله ہم ان کے متعلق بھی یہ نہیں سمجھتے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ کوئی شخص مسلمان کہلاتے ہوئے دانستہ رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیں کر سکتا.مگر بعض دفعہ صلى الله
سيرة النبي عليه 336 جلد 4 صلى الله صلى الله صلى الله انسان غلطی سے نا دانستہ طور پر ہتک کا مرتکب ہو جاتا ہے.یہی حال ان کا ہے.وہ بھی گو عقیدۂ رسول کریم ﷺ کی بہتک نہیں کرتے مگر عملاً آپ کی ہتک کرتے ہیں.چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور رسول کریم ﷺ فوت ہو کر زمین میں دفن ہو چکے ہیں.اب یہ صاف بات ہے کہ جو نبی آسمان پر اپنے جسدِ عنصری کے ساتھ زندہ موجود ہو اور دنیا کے فسادات کو مٹانے اور دین کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے اُسی نے آخری زمانہ میں اتر نا ہو اور پھر نبی بھی وہ مستقل ہو یعنی رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور پیروی سے اس نے مقام نبوت حاصل نہ کیا ہو اور نہ اُس کا کام رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہوسکتا ہو وہ بہر حال اُس نبی سے بڑا ہو گا جو زمین میں دفن ہے.تو یہ لوگ عملاً رسول کریم ﷺ کی تنک کرتے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو آپ سے افضل قرار دیتے ہیں مگر ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت یہ یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ رسول کریم علیہ کے غلام ہیں اور آپ نے جو درجہ بھی حاصل کیا وہ رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور غلامی سے حاصل کیا پس آپ رسول کریم ﷺ کے شاگرد ہیں.اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ شاگرد جو بھی کام کرتا ہے وہ اُس کے استاد اور آقا کی طرف منسوب ہوتا ہے.ہر شخص صلى الله جانتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں اس سے بہت زیادہ فتوحات تھیں جو حضرت ابوبکر کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئیں اور پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ اس سے بہت زیادہ تھیں جو حضرت ابو بکر کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئیں.مگر باوجود ملک کے دائرہ کی وسعت کے اور باوجود اُن افراد کی کثرت کے جن پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے حکومت کی کیا کوئی احمق کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ رسول کریم علیہ سے الله صلى الله بڑے تھے.پس باوجود اس کے کہ حضرت ابو بکر کی حکومت اس سے بہت زیادہ علاقہ پر تھی جتنے علاقہ پر رسول کریم ﷺ کی حکومت تھی اور باوجو د اس کے کہ حضرت ابو بکر
سيرة النبي عمال 337 جلد 4 کو ان سے بہت زیادہ افراد پر حکومت حاصل تھی جتنے افراد پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکومت حاصل تھی.اسی طرح باوجود اس کے کہ حضرت عمرؓ کو اس سے بہت زیادہ علاقہ صلى الله اور بہت زیادہ افراد پر حکومت حاصل تھی جتنے علاقہ یا جس قدر افراد پر رسول کریم ﷺ یا حضرت ابو بکر نے حکومت کی.پھر بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ رسول کریم ع سے بڑے تھے.اسی لئے کہ ابوبکر، ابوبکر کہاں سے بنتا اگر وہ رسول کریم ﷺ کا غلام نہ ہوتا اور عمر، عمرؓ کہاں سے بنتا اگر وہ رسول کریم ﷺ کا غلام نہ ہوتا.بے شک حضرت ابو بکر نے اسلام کیلئے ایک وسیع علاقہ فتح کیا اور پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگوں پر حکومت کی مگر جو لوگ آپ کے تابع ہوئے وہ کن فوجوں سے فتح ہوئے تھے؟ انہی فوجوں سے جو رسول کریم ﷺ نے تیار کی تھیں.اور بے شک حضرت عمرؓ نے اس سے بھی زیادہ علاقہ پر حکومت کی اور اس سے بھی زیادہ افراد حلقہ بگوش اسلام بنائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمر نے کوئی اپنی فوجیں تیار کر لی تھیں ؟ حضرت عمرؓ نے وہی فوجیں لیں جو محمد ﷺ نے تیار کی تھیں اور اُسی سامان اور اُسی ایمان سے کام لیا جو سامان اور ایمان رسول کریم علیہ نے تیار کیا تھا.وہی قربانی ، وہی ایثار، وہی اخلاص اور وہی محبت کا جذ بہ جو رسول کریم علیہ نے لوگوں کے قلوب میں پیدا کیا تھا اُسی کو حضرت عمرؓ نے لیا اور اُن چیزوں کو اکٹھا کر کے ان سے ایک عمارت تیار کی.پس وہ عمر کی عمارت نہیں تھی وہ رسول کریم ﷺ کی عمارت تھی.اور جبکہ وہ سامان جن سے حضرت ابو بکر نے بڑائی حاصل کی رسول کریم ﷺ کے پیدا کئے ہوئے تھے اور جب کہ وہ سامان جن سے حضرت عمرؓ نے بڑائی حاصل کی رسول کریم ع کے پیدا کئے ہوئے تھے تو گو ظاہری طور پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے زیادہ علاقہ پر الله حکومت کی مگر وہ رسول کریم ﷺ سے بڑے نہیں تھے اور گو ظاہری طور پر ان کی رعایا کی تعداد بھی زیادہ تھی مگر پھر بھی وہ رسول کریم ﷺ کی حکومت سے باہر نہیں جاسکتے تھے اور نہ آپ کی غلامی سے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی الگ ہو سکتے تھے.کیونکہ یہ کام ان کا نہیں الله
سيرة النبي عمل الله محمد کا کام تھا.338 جلد 4 آج لڑائیوں میں لوگ کثرت سے تو ہیں چلاتے ہیں مگر کیا تم اُس انجینئر کو زیادہ قابل اعزاز سمجھتے ہو جس نے آج سے سو سال پہلے توپ ایجاد کی یا آج کل کے تو ہیں بنانے والوں کو زیادہ معزز سمجھتے ہو.اُس زمانہ میں بڑے سے بڑے گولے چھ پونڈ یا دس پونڈ کے ہوا کرتے تھے مگر آج کل کے کارخانے ان سے بہت بڑی بڑی تو ہیں بناتے ہیں.مگر باوجود اس تمام ترقی کے یہ کارخانے چلانے والے اُس انجینئر زیادہ معزز نہیں سمجھے جا سکتے جس نے توپ ایجاد کی کیونکہ اُس نے ایک نیا خیال پیدا کیا اور ایک نئی ایجاد کے راستہ پر لوگوں کو ڈال دیا جس پر دنیا آخر ترقی کرتی چلی گئی.اسی طرح ابتدائے اسلام میں وہ سپاہی جنہوں نے دنیا فتح کی وہ محمد ﷺ نے پیدا کئے تھے.وہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے پیدا نہیں کئے تھے.ہاں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں چونکہ زیادہ علاقے فتح ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے پہلے سپاہیوں کے رنگ میں اور سپاہی بھی تیار کر لئے اور ان کی مدد سے کئی علاقے فتح کر لئے مگر بہر حال یہ تمام فتوحات عمر کی نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی تھیں.پس شاگرد دنیا میں جو کام بھی کرتے ہیں وہ ان کے آقا کی طرف منسوب ہوتا ہے اور وہ سخت احمق شاگر د ہو گا جو یہ کہے گا کہ اس کا کام اس کے آقا سے بڑا ہے یا اس کی بڑائی کے دعوی سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے آقا سے بھی درجہ میں بڑھ گیا ہے.صلى الله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بیرونِ ہند میں سوائے افغانستان کے اور کہیں تبلیغ احمدیت نہیں تھی.عرب اور ایران میں اگے دستے احمدی تھے مگر میرے زمانہ میں قریباً ساری دنیا اور سارے براعظموں میں احمدیت کی تبلیغ ہوئی ہے ، یورپ کے مختلف علاقوں میں تبلیغ ہوئی ہے، افریقہ کے مختلف علاقوں میں تبلیغ ہوئی ہے.اسی طرح چین ، سماٹرا، جاوا اور امریکہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور پھر پہلے سے بہت زیادہ مصر، فلسطین اور شام کے حصوں میں احمدیت پھیل چکی ہے.مگر کیا اس کے یہ معنے
سيرة النبي عمال 339 جلد 4 لئے جائیں گے کہ ( نَعُوذُ بِاللهِ) میرا درجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا ہے؟ آخر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے یورپ کے لوگوں کو مسلمان بنایا اور کیا وہ میری چیز تھی ؟ پھر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے امریکہ کے لوگوں کو مسلمان کیا اور کیا وہ چیز میری ایجاد کردہ تھی ؟ پھر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے سماٹرا اور جاوا کے لوگوں کو مسلمان کیا اور انہیں رسول کریم ﷺ کی غلامی میں حقیقی معنوں میں داخل کیا اور کیا وہ چیز میری تھی؟ وہ صداقت کی تلوار جس سے میں نے ان علاقوں کو فتح کیا وہ میری نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی.پس یہ میرا کام نہیں بلکہ انہی کا کام ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تلوار چلائی وہ بھی آپ کی نہیں تھی بلکہ قرآن اور حدیث اور محمد اللہ کی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جو کچھ کیا وہ ان کا نہیں بلکہ محمد ﷺ کا کام تھا.ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کا پیغام دنیا کے کونوں تک پہنچائیں.ورنہ اگر ہم دنیا کے ایک ایک آدمی کو مسلمان بنالیں اور دنیا کے ایک ایک آدمی کے گند کو نکال کر اُسے تقویٰ اور طہارت سے لبریز کر دیں اور دنیا کی تمام حکومتوں کا نقشہ بدل کر اسلامی حکومتیں قائم کر دیں اور انصاف اور عدل قائم کر کے تمدنی معاملات میں اس قدر تغیر پیدا کر دیں کہ تمام دنیا کے لوگ ایک دوسرے کو بھائی بھائی سمجھنے لگیں.اسی طرح ہم تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت میں ایسی اصلاح کر دیں کہ تمام انسانوں میں مساوات قائم ہو جائے اور سب ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے لگیں.غرض ہم سب کچھ کر دیں اور ہمارے علاقوں کی وسعت ہزاروں گنے زیادہ ہو جائے اور ہمارے ماتحت افراد کی تعداد لاکھوں گنے بڑھ جائے پھر بھی ہمارا کام رسول کریم ﷺ کے کام کے ایک ذرہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا.پس ہمارا جس قدر کام ہے یہ ہمارا نہیں بلکہ رسول کریم علیہ کا ہے اور صلى الله.الله ہماری تمام کوششیں اپنا نام پھیلانے کیلئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام پھیلانے اور آپ کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے ہیں.آخر جب ہم امریکہ کے لوگوں
سيرة النبي مله 340 جلد 4 کہتے ہیں وہ اسلام میں داخل ہو جائیں تو ہم ان سے کیا کہلواتے ہیں؟ وہی کلمہ شہادت يعنى لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.اسی طرح افریقہ کے لوگوں کو جب ہم مسلمان بناتے ہیں، جب ہم سماٹرا، جاوا، چین اور جاپان میں اسلام کی اشاعت کرتے ہیں تو ان لوگوں سے کیا کہلواتے ہیں؟ یہی کہ لا الہ الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پھر کیا یہ صلى الله رسول کریم ﷺ کی عزت قائم ہوری ہے یا ہماری عزت قائم ہورہی ہے؟ ہماری اور محمد مہ کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے ہمالیہ پہاڑ اور سائبان.سائبان ایک لگتا ہے اور کچھ مدت کے بعد اٹھ جاتا ہے.ایک پھٹتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا آ جاتا ہے لیکن ہمالیہ پہاڑ برابر اپنی جگہ پر کھڑا ہے اور اسے کوئی شخص ہلا نہیں سکتا.اسی طرح خلفاء آتے اور چلے جاتے ہیں.ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا صلى الله خلیفہ دنیا میں آتا اور اپنا اپنا فرض سر انجام دے کر چلا جاتا ہے مگر رسول کریم کے ہمالیہ کی طرح اپنے مقام پر کھڑے ہیں اور ایک لمحہ بھی آپ پر ایسا نہیں آتا جب آپ دنیا کو اپنے فیوض نہ پہنچا رہے ہوں.پس جس احمدی نے بھی یہ بات کہی ہے انہی معنوں میں کہی ہوگی کہ اس زمانہ میں جولوگ ہیں ان کے لحاظ سے ہم اپنے خلیفہ کو بعد از خدا سمجھتے ہیں اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ اگر اس نے ان معنوں میں ان الفاظ کو استعمال کیا ہے تو یقیناً اُس نے سچ کہا ہے.اس میں کیا شبہ ہے اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، میں نے بھی بارہا بتایا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے.وہ دنیا میں خدا اور رسول کریم ﷺ کا نمائندہ ہے اور چونکہ دین دنیا پر مقدم ہے اس لئے گو ہم دنیوی معاملات میں حکام کی اطاعت کریں گے لیکن اگر دین کا معاملہ آئے گا تو پھر ان بادشاہوں کو ہماری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی پڑے گی.آج اگر دنیا کا ایک بڑے سے بڑا بادشاہ بھی مذہب کی تحقیق کرتا ہے اور تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اسلام ہی تمام مذاہب پر فضیلت رکھتا ہے تو جب وہ اس نکتہ پر پہنچے گا اُس
سيرة النبي ما 341 جلد 4 کیلئے سوائے اس کے اور کیا چارہ ہوگا کہ وہ اسلام کے خلیفہ کے پاس آئے اور اُس کی بیعت کرے اور جب وہ خلیفہ وقت کی بیعت کرے گا تو لازماً وہ خلیفہ کے ماتحت ہوگا اُس سے بڑا نہیں ہوگا.پس دنیا کے بادشاہوں کو جو بڑائی حاصل ہے وہ اُسی وقت تک ہے جب تک احمدیت اور اسلام کی صداقت اُن پر روشن نہیں ہوتی.جس دن اُن پر اسلام اور احمدیت کی صداقت روشن ہو گئی اُسی دن وہی فقرے جو آج غرباء کے منہ سے سن کر وہ ہنتے ہیں وہ خود کہنے لگ جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ ہی ہمارے حاکم اور آپ ہی ہمارے سرتاج ہیں.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک بادشاہ احمدی ہو اور وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے اور پھر وہ یہ کہے کہ میں تمہارا حاکم اور میں تمہارا بادشاہ ہوں.لازماً وہ یہی کہے گا کہ دینی میدان میں میں ہی غلام ہوں ، میں ہی شاگرد اور میں ہی ماتحت ہوں.عیسائیوں میں اس کی مثال موجود ہے چاہے وہ کیسی ہی غلط مثال ہو اور کتنے ہی غلط طریق پر ہو اور وہ یہ ہے کہ جو بادشاہ پوپ کو مانتے ہیں وہ پوپ کو اپنا سردار اور حاکم سمجھتے ہیں اور اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ ہماری بادشاہتیں ہمیں پوپ سے ملی ہیں.زمانہ وسطی میں تو یہ قاعدہ تھا کہ جب بادشاہ تخت پر بیٹھتا تو وہ پوپ کے پاس اپنی بادشاہت کی منظوری کیلئے چٹھی بھیجتا اور جب وہ اسے بادشاہ تسلیم کرتا تب وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا.عیسائی اپنا مذہبی پیشوا پوپ کو سمجھتے ہیں.لیکن جماعت احمدیہ کے نزد یک خلیفہ وقت اُس کا مذہبی پیشوا ہے.پس جو بادشاہ بھی احمدی ہوگا وہ اپنے آپ کو خلیفہ وقت کا ماتحت اور اُس کا نائب سمجھے گا اور گو دنیوی معاملات میں اُس کے احکام نافذ ہوں گے مگر دینی معاملات میں حکومت احمدی خلیفہ کی ہی ہوگی.اس لحاظ سے اگر اپنے موجودہ زمانہ کے لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے کوئی شخص خلیفہ وقت کو” بعد از خدا بزرگ توئی“ کہہ دے تو کہہ سکتا ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک ایسا عقلی مسئلہ ہے کہ اس کا کوئی شخص انکار ہی نہیں کرسکتا.
سيرة النبي علي 342 جلد 4 میں پوچھتا ہوں کہ اگر احمدیوں کے سوا کسی دوسرے مسلمان کے منہ سے کسی اپنے بزرگ کے متعلق یہ لفظ نکلیں کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے بعد آپ ہی کو سمجھتے ہیں تو کیا اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ وہ اُس بزرگ کا درجہ رسول کریم علیہ سے بھی بڑا سمجھتا ہے؟ ہر شخص جو معمولی عقل بھی رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے فقرہ کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ اس بزرگ کا درجہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اپنے زمانہ میں وہ تمام دنیا پر فضیلت رکھتا ہے.اور احسان“ بھی کبھی اس پر اعتراض نہ کرے گا.یہ اعتراض اس کے صرف جماعت احمد یہ کیلئے وقف ہیں.پھر یہ لوگ تعلیم قرآن سے ایسے بے بہرہ ہو چکے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی مثالیں موجود ہیں اور وہ انہیں پڑھتے ہیں پھر بھی اس اسلوب بیان کو نہیں سمجھ سکتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق فرماتا ہے وَاصْطَفْكِ عَلَى نِسَاء الْعَلَمِینَ 3 کہ ساری دنیا کی عورتوں سے حضرت مریم علیہا السلام افضل ہیں.مجھے نہیں معلوم کہ احسان کے ایڈیٹر کا اس بارہ میں کیا عقیدہ ہے مگر میں تو ایک منٹ کیلئے بھی اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ حضرت مریم ہماری ماں عائشہ صدیقہ سے بڑی ہوں یا ہماری ماں خدیجہ سے درجہ میں بلند ہوں.پھر خود رسول کریم نے ایک حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا کہ فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّةِ 4 یعنی وہ جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی.اب بتاؤ اس جنت میں حضرت مریم علیہا السلام ہوں گی یا نہیں ہوں گی ؟ اگر حضرت مریم علیہا السلام نے بھی جنت میں ہی جانا ہے اور وہ جہان کی تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں تو حضرت فاطمہ سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّةِ کس طرح ہو سکتی ہیں.پس بہر حال اس آیت کے کوئی معنے کرنے پڑیں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام صرف اپنے زمانہ کی تمام عورتوں سے درجہ میں بلند تھیں.پھر اگر وہاں یہ معنے کرنے جائز ہیں تو شرافت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس احمدی کے فقرہ کے بھی یہی معنے کئے جائیں کہ اس زمانہ صلى الله.
سيرة النبي عمال 343 جلد 4 میں جس قدر لوگ ہیں ان سب سے جماعت احمدیہ کا خلیفہ بڑا ہے اور اگر یہی معنے کئے جائیں تو اس سے ہمیں انکار نہیں بلکہ یقیناً ہم اس کے دعویدار ہیں.پھر اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آنِّى فَضَّلْتُكُمُ عَلَى الْعُلَمینَ 5 کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے.اب بتاؤ کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ بنی اسرائیل رسول کریم ﷺ کی امت سے بھی بڑے ہیں.اللہ تعالیٰ تو امت محمدیہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ : کہ تم دنیا کی ساری قوموں میں سے زیادہ بلند درجہ رکھنے والی قوم ہو اور تم خالص دنیا کے فائدہ اور نفع رسانی کیلئے پیدا کی گئی ہو.اب ایک طرف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ فرماتا ہے کہ تم دنیا کی تمام قوموں سے اعلیٰ ہو اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے متعلق فرماتا ہے کہ میں نے انہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی.حالانکہ تمام جہان پر فضیلت ایک کو ہی حاصل ہو سکتی ہے دونوں کو حاصل نہیں ہوسکتی.پھر ان آیتوں کے تطابق کی کیا صورت ہے اور اَنِّی فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِيْنَ کے کیا معنے ہوں گے.کیا یہ ہوں گے کہ بنی اسرائیل کو مسلمانوں پر فضیلت حاصل ہے یا یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.مگر مسلمانوں کو ساری جماعتوں اور سارے زمانوں پر فضیلت حاصل ہے.اس کا مزید ثبوت رسول کریم علی کا اپنا دعویٰ ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں اِنِّی مُفَاخِرٌ بِكُمْ وَمُكَاثِرٌ بِكُم 7 که قیامت کے دن میں اپنی امت کو ساتھ لے کر باقی تمام انبیاء کی امتوں پر فخر کروں گا اور اس کی کثرت پر ان کے مقابلہ میں ناز کروں گا.اب قیامت کے دن جہاں ساری امتیں اکٹھی ہوں گی جس قوم کو فخر حاصل ہوگا یقینا وہی قوم دنیا کی ساری قوموں سے بڑی ہوگی تو خَيْرَ أُمَّةٍ کی تشریح رسول کریم ﷺ نے خود کر دی اور اللہ تعالیٰ نے بھی ایک دوسرے مقام پر اس کی تشریح کر دی جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ 8 اور اسی طرح ہم نے تم کو سب قوموں صلى الله
سيرة النبي علي 344 جلد 4 سے اعلیٰ بنایا ہے تا کہ تم باقی سب لوگوں پر شہید کے طور پر ہو.شہید کے معنے داروغہ کے ہوتے ہیں.اب خود ہی سوچ لو کہ کیا داروغہ بڑا ہوتا ہے یا مزدور بڑا ہوتا ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ مزدور نہیں بلکہ داروغہ بڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی ساری قوموں کے مقابلہ میں تم داروغہ کے طور پر ہو اور وہ تمہارے مقابلہ میں ایسی ہی ہیں جیسے مزدور ہوتا ہے.جب مسلمانوں کو باقی اقوام پر یہ فضیلت حاصل ہے اور جبکہ قیامت کے دن جہاں اگلی پچھلی تمام تو میں اکٹھی ہوں گی مسلمان شہید کے طور پر ہوں گے اور باقی قو میں مزدوروں کی طرح تو پہلی قوموں کی بڑائی کا جن آیات میں ذکر آتا ہے ان کے معنے یہی ہوں گے کہ ان قوموں کو صرف اپنے زمانہ میں تمام دنیا پر فضیلت حاصل تھی.پھر ایک مقام پر اللہ تعالیٰ بہت سے انبیاء کا اکٹھا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِيْنَ وَمِنْ أَبَا بِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَهُمْ وَهَدَيْنَهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْهِ و کہ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی.اسی طرح ان کے باپ دادوں کو فضیلت دی ، ان کی ذریت کو فضیلت دی اور ان کے بھائیوں کو فضیلت دی.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک سارے جہاں پر فضیلت رکھتا تھا؟ اگر باپ فضیلت رکھتے تھے تو بھائیوں کوکس طرح فضیلت حاصل ہوگئی ؟ اور اگر بھائی افضل تھے تو ذریت افضل کس طرح بن گئی ؟ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ تین دو سے بڑا ہے لیکن یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دو تین.بڑا ہے.اگر تین دو سے بڑا ہے تو دو تین سے بڑا نہیں ہوسکتا.اور اگر دو تین سے بڑا ہے تو تین دو سے بڑا نہیں ہوسکتا.دراصل وہاں بھی اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہر نبی کی جماعت کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.حضرت ابرا ہیم کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور اسحق کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور یعقوب کی قوم کو اپنے زمانہ میں
سيرة النبي علي 345 جلد 4 دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.اسی طرح دائڈ اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسی اور ہارون اور زکریا اور تیکتی اور عیسی اور الیاس اور اسماعیل اور الیسع وغیرہ کی قوموں کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.اور پھر ان کی وجہ سے ان کے اُن باپ دادوں اور اولادوں کو بھی فضیلت حاصل ہوگئی جو انبیاء کو ماننے والی تھیں.تو قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ ثابت ہے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہے تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت رکھتا ہے.اب یہ کتنی ظالمانہ یا کتنی جاہلانہ بات ہے جو ہماری طرف منسوب کی گئی ہے.اگر احسان نے دیدہ دانستہ یہ عقیدہ ہماری طرف منسوب کیا ہے تو اس نے ایک ظالمانہ فعل کیا اور اگر ہمارے عقائد سے واقفیت حاصل کئے بغیر اس نے ایسا نوٹ لکھا تو اس ہے نے ایک جاہلانہ فعل کا ارتکاب کیا.حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا 10 کہ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس میں دخل نہ دیا کرو.جو شخص قرآن کریم کو جانتا ہی نہیں اور جس نے رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور ہی نہیں کیا وہ اگر بغیر سوچے سمجھے اعتراض کر دیتا ہے تو اس کا اعتراض معاف بھی کیا جا سکتا ہے.مگر جو قرآن کریم پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کی باتوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے وہ معذور نہیں قرار دیا جا سکتا.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے قرآن پر کبھی غور نہیں کیا تھا یا اگر ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور نہیں کیا تھا تو کم از کم انہیں انسانوں کے کلام پر ہی غور کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا روز مرہ کی گفتگو میں اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں کئے جاسکتے.تم چلے جاؤ لاہور میں اور لوگوں سے دریافت کرو کہ سب سے بڑا پہلوان کون سا ہے؟ وہ کہیں گے سب سے بڑا پہلوان گاما ہے.اب کیا
سيرة النبي متر 346 جلد 4 جب کوئی شخص یہ کہے کہ سب سے بڑا پہلوان گاما ہے تو اس سے یہ بحث شروع کر دینی چاہئے کہ سب سے بڑا پہلوان تو رستم تھا تم گاما کو سب سے بڑا پہلوان کیوں قرار دیتے ہو؟ یا سب سے بڑا پہلوان تو غلام تھا تم گاما کو کیوں بڑا کہتے ہو؟ اگر کوئی شخص ایسی بحث کرے تو ساری دنیا اسے احمق قرار دے گی اور کہے گی کہ یہاں رستم اور گاما کا مقابلہ کون سا ہو رہا ہے یہاں تو یہ ذکر ہے کہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا پہلوان کون سا ہے.غرض تم ساری دنیا کا چکر لگاؤ ، ساری دنیا کا نہ سہی تم ہندوستان کا ہی چکر لگا کر دیکھ لو تمہیں گلیوں میں اور بازاروں میں، مدرسوں اور خانقاہوں میں ، چھوٹوں اور بڑوں میں غرض ہر جگہ اور ہر شہر میں اس قسم کے فقرات بولتے ہوئے لوگ نظر آئیں گے.وہ کہیں گے فلاں شخص سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑا ہونے سے مراد وہ کبھی یہ نہیں لیں گے کہ وہ پہلوں اور پچھلوں سب سے بڑا ہے بلکہ سب سے بڑا ہونے سے یہ مراد لیں گے کہ وہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا ہے یا ایک خاص دائرہ میں سب سے بڑا ہے.تم چلے جاؤ عدالتوں میں تمہیں روزانہ اس قسم کے نظارے دکھائی دیں گے کہ مجسٹریٹ کے سامنے مقدمہ پیش ہو رہا ہے اور ایک غریب شخص جس کا مقدمہ عدالت کے سامنے ہے وہ مجسٹریٹ کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا ہے ”خدا دے ہیٹاں ساڈے تسیں ہی ہو ، یعنی خدا کے نیچے اب آپ ہی ہمارا کام کرنے والے ہیں.روزانہ زمیندار اور پیشہ ور اس قسم کے فقرات استعمال کرتے ہیں مگر کبھی انہیں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ تم دہر یہ ہو گئے یا رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا تم نے انکار کر دیا.پس میں حیران ہوں کہ ادیب کہلانے والے ان محاوروں کو بھی کیوں نہیں سمجھتے جو جاہل سے جاہل زمیندار روزانہ بولتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.زمیندار جب یہ فقرہ استعمال کرتا ہے کہ ” خدا دے ہیٹاں ساڈے تسیں ہی ہو تو ”ہیٹاں“ سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اب خدا کے بعد اسی مجسٹریٹ کا درجہ ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے اس مقدمہ کا یا خدا فیصلہ کر سکتا ہے یا آپ فیصلہ کر سکتے ہیں.وہاں نہ دین 66
سيرة النبي عمال 347 جلد 4 کا ذکر ہوتا ہے نہ رسول کریم ﷺ کے درجہ کا ذکر ہوتا ہے.صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ میرے اس مقدمہ میں یا مجسٹریٹ نے فیصلہ کرنا ہے یا خدا نے.یا اگر گاؤں میں بیٹھ کر کوئی زمیندار اسی قسم کا فقرہ نمبردار سے کہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ میرا فیصلہ اب خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس سے نیچے اتر کر نمبر دار کے ہاتھ میں.لیکن اگر ان معنوں کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور جب کوئی زمیندار کسی نمبر دار کو کہے کہ ” خدا دے ہیٹاں ساڈے تیں ہی ہو تو جھٹ پولیس کا کوئی آدمی اسے ہتھکڑی لگا لے اور کہے کہ ہر میجسٹی شہنشاہ معظم کی بادشاہت کا یہ انکار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے نیچے نہ کوئی بادشاہ ہے نہ حاکم ، جو ہے یہ نمبردار ہی ہے.پس یہ ہائی ٹریزن (High Treason) کا مجرم ہے اسے جیل بھیجنا چاہئے.تو کیا ساری دنیا اس سپاہی کو پاگل قرار نہیں دے گی ؟ وہ کہے گی اسے جیل خانہ بھیجنے کی بجائے تمہیں پاگل خانہ بھیجنا چاہئے.کیونکہ تمہیں سوچنا چاہئے تھا کہ اس فقرے کا محل کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے.الله پھر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ تم اپنے متعلق یہ دعوی کرتے ہو کہ ہمیں رسول کریم ﷺ سے محبت ہے مگر اس لفاظی کا کیا فائدہ.تم نے کبھی غور بھی کیا ہے کہ صلى الله تمہاری اس محبت میں جو تم رسول کریم علیہ سے رکھتے ہو اور ہماری اس محبت میں جو ہم صلى الله رسول کریم ﷺ سے رکھتے ہیں کتنا عظیم الشان فرق ہے اور کتنا بین امتیاز ان دونوں میں موجود ہے.میں ایک دفعہ قصور گیا وہاں ایک دوست کا ایک کارخانہ ہے.وہ مجھے اپنا کارخانہ دکھانے کیلئے لے گئے.اُس وقت تک وہ غیر مبائعین سے تعلق رکھتے تھے مگر اب وہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.اسی اثنا میں قصور کا ایک ہندو نوجوان جو نہایت ہوشیار اور چلتا پرزہ تھا وہاں آ گیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میرا ایک سوال ہے آپ اس کا جواب دیں.میں نے کہا دریافت کیجئے.وہ کہنے لگا مجھے اس بات کا شوق ہے کہ مختلف مذاہب کے جو بانی ہیں ان کے حالات زندگی معلوم کروں.اس وجہ سے مختلف مذا ہر
سيرة النبي علي 348 جلد 4 کے واعظ جب ہمارے شہر میں آتے ہیں تو میں ان کے وعظوں اور تقریروں میں شامل ہوتا ہوں.جب کوئی بڑا مولوی آجاتا ہے اور لیکچر دیتا ہے تو میں اس کے لیکچر میں بھی شامل ہو جاتا ہوں اور جب کوئی عیسائی پادری آجاتا ہے تو اس کا وعظ سننے کیلئے بھی چلا جاتا ہوں اور جب کوئی ہندو پنڈت آتا ہے تو اس کی تقریر میں بھی چلا جاتا ہوں.مسلمان واعظوں میں سے مجھے ان کی تقریر کا زیادہ شوق رہتا ہے جو آنحضرت عہ کے حالات زندگی سنائیں کیونکہ یہ ایک تاریخی مضمون ہے اور ایک غیر مذہب والے کو مذہبی مضمون سے تاریخی مضمون سے زیادہ دلچسپی ہوسکتی ہے.لیکن ایک بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی اور وہ یہ کہ عیسائی پادری جب وعظ کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے محبت کی تعلیم دی اور انہوں نے لوگوں کیلئے اپنی جان قربان کر دی.ایک ہندو پنڈت کھڑا ہوتا ہے تو وہ بھی حضرت کرشن جی کے فضائل بیان کرتا اور کہتا ہے کہ انہوں نے دنیا سے جھگڑا اور فساد دور کیا.حضرت رام چندر کے متعلق کہتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ یہ سکھ پہنچایا.ایک سکھ گیانی آتا ہے تو وہ بھی اپنے گرو کی خوبیاں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے مگر جب کوئی مسلمان مولوی آتا ہے اور محمد مے کے فضائل بیان کرنے لگتا ہے تو یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ او کالی کملی والے او زلفاں والے! او کالی کملی والے او زلفاں والے!.میں اس کی یہ بات سن کر شرم اور صلى الله صلى الله ندامت سے پسینہ پسینہ ہو گیا اور میں نے اُسے کہا یہ مسلمان رسول کریم ع کے فضائل سے ناواقف ہیں.اگر یہ لوگ قرآن کریم پڑھیں اور احادیث سے واقفیت رکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو کس اعلیٰ رنگ میں بیان کیا گیا ہے.مگر چونکہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے محاسن پر کبھی غور نہیں کیا اس لئے یہ بڑی سے بڑی خوبی اور بڑے سے بڑا کمال جو آپ کا بیان کریں گے وہ یہی ہوگا کہ ”او کالی کملی والے او زلفاں والے“.غرض یہ لوگ جو رسول کریم ﷺ کی تعریف کرتے ہیں اس میں ہر شخص شامل ہوسکتا ہے.انہوں نے کالی کملی رسول کریم ﷺ کی.
سيرة النبي عليه 349 جلد 4 صلى الله صلى الله فضیلت کا معیار سمجھی ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان فقیروں نے کالی کملی اوڑھ لی اور سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ کے تمام کمالات انہیں حاصل ہو گئے.پھر انہوں نے رسول کریم علی میں ایک اور حسن یہ دیکھا کہ آپ کی زلفیں لمبی تھیں یہ دیکھ کر مسلمان فقیروں نے بھی اپنے بال بڑھا لئے اور سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع ہوگئی اور ہم آپ کے مثیل بن گئے.مگر ایک احمدی جب رسول کریم میلے کے اخلاق کو پیش کرے گا تو وہ آپ کے ان اخلاق کو پیش کرے گا جو ساری دنیا کی کملیوں والوں پر کیا، ساری دنیا کے نبیوں اور رسولوں پر آپ کی فضیلت ثابت کر دیتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا جو ان تعریفوں میں رسول کریم اللہ کا مقابلہ کر سکے.پھر جب یہ لوگ رسول کریم ﷺ کے معجزات بیان کرتے ہیں تو ایسے ایسے معجزات بیان کرتے ہیں جنہیں سن کر بجائے متاثر ہونے کے لوگ ہنستے ہیں اور پھر جب ہندوؤں کے سامنے ان قصوں کو رکھا جاتا ہے تو وہ ان سے بھی بڑے بڑے قصے اپنے بزرگان کے متعلق سنا دیتے ہیں کیونکہ خالی قصوں پر اگر دین کا مدار ہو تو قصے بنانے کوئی الله مشکل کام نہیں.ہمارے ایک عزیز تھے جو احمدی نہیں تھے وہ ایک دفعہ قادیان آئے.میر محمد اسحق صاحب اُس وقت چھوٹی عمر کے تھے.چھوٹی عمر میں انسان دعوئی زیادہ کر لیتا ہے اور بعض دفعہ جب اسے کوئی نئی دلیل ملتی ہے تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا اور وہ اس بات سے ناواقف ہوتا ہے کہ نہ ماننے والے کئی راستے نکال لیتے ہیں.اُن دنوں حقیقۃ الوحی تازہ تازہ چھپی تھی اور چونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بہت سے معجزات کا ذکر کیا ہے اس لئے میر محمد الحق صاحب حقیقۃ الوحی لے کر ان کے پاس چلے گئے.اُس وقت میر صاحب کی عمر پندرہ سولہ سال کی تھی.انہوں نے خیال کیا کہ جونہی میں نے اس کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات بیان کئے وہ احمدیت کی صداقت فوراً
سيرة النبي عمال 350 جلد 4 تسلیم کریں گے.خیر وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آگئے اور مجھے آکر کہنے لگے کہ میں نے ان کی خوب خبر لی ہے.وہ ہماری تمام باتیں مان گئے ہیں اور اب وہ بیعت کرنے کے بالکل قریب ہیں.میں نے کہا تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر ان کے پاس جائیں گے تو پتہ لگ جائے گا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ ان سے ملے اور مل کر واپس آئے تو کہنے لگے وہ تو عجیب آدمی ہیں.میری باتیں سن کر تو کہتے رہے کہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے مگر جب آخر میں میں نے کہا کہ جب تمام باتیں درست ہیں تو آپ احمدیت کو قبول کر لیجئے تو وہ کہنے لگے میاں ! یہ معمولی ولایت کے کمال ہیں ان سے کسی کو مامور تھوڑا ہی مانا جاسکتا ہے اور یہ تو ادنی باتیں ہیں.جو کامل ولی ہوں وہ تو اس سے بھی بڑے بڑے معجزات دکھا سکتے ہیں.پھر انہوں نے خود ایک قصہ سنایا.کہنے لگے تم نے سنا ہوگا کہ مکہ میں تربوز بہت اچھے ہوتے ہیں.اب قرآن میں لکھا ہے کہ وہ وادی غَيْرِ ذِي زَرع 11 ہے جب وہ ایسی وادی ہے جس میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوسکتا تو پھر اعلیٰ قسم کے تربوز اتنی کثرت سے کہاں سے آ جاتے ہیں.سو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ گدھوں والے مکہ سے طائف جاتے ہیں اور طائف سے بڑے بڑے کھنگھر اپنے بوروں میں بھر لیتے ہیں جب وہ واپس آتے اور مکہ میں پہنچتے ہیں تو تمام کھنگھر تربوز بنے ہوئے ہوتے ہیں.پھر کہنے لگے ہمارے ایک دادا تھے وہ بڑے بزرگ اور اللہ تعالیٰ کے کامل ولی تھے.ایک دفعہ وہ بغداد سے جہاز پر سوار ہوئے.راستہ میں جہاز کہیں گھنٹہ بھر ٹھہرا تو وہ کہنے لگے میں فلاں بزرگ سے مل آؤں.لوگوں ہے، نے انہیں کہا کہ جہاز نے یہاں صرف ایک گھنٹہ ٹھہرنا ہے اور آندھی بھی آئی ہوئی.آپ نہ جائیں.مگر وہ کہنے لگے نہیں میں ضرور جاؤں گا اور اگر میں ایک گھنٹہ تک نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کیا جائے اور جہاز بے شک روانہ ہو جائے.چنانچہ ایک گھنٹہ تک جہاز کھڑا رہا مگر وہ نہ آئے اور جہاز چل پڑا.جس وقت جہاز بمبئی پہنچا تو لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی بزرگ ساحل بمبئی پر ٹہل رہے ہیں.لوگوں نے عرض کیا حضرت آپ
سيرة النبي عمال 351 جلد 4 کہاں؟ کہنے لگے مجھے جب معلوم ہوا کہ جہاز چل پڑا ہے تو میں نے کھڑاواں پہنی اور بھاگ کر ہمبئی آگیا.پھر کہنے لگے وہ بزرگ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں جمعہ کے دن فوت ہوں گا اور میرا جنازہ کشمیر کی شاہی مسجد میں پڑھا جائے گا اور وہیں میں دفن ہوں گا.چنانچہ ایک دن جب وہ جمعہ کی نماز پڑھ چکے تو لوگوں سے کہنے لگے بھائیو! ذرا ٹھہر جانا میں اب فوت ہونے لگا ہوں، مجھے نہلا دھلا کر جانا.وہ کہنے لگے کہ آپ تو کہا کرتے تھے کہ میرا کشمیر میں جنازہ ہوگا اور وہیں میں دفن ہوں گا مگر آپ فوت یہیں ہونے لگے ہیں.انہوں نے فرمایا تم فکر نہ کرو وہ بھی ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے کلمہ پڑھا اور فوت ہو گئے.لوگوں نے انہیں نہلایا دھلایا اور پھر کفن پہنا کر چار پائی پر لٹا دیا.بس جو نبی انہوں نے نعش چار پائی پر رکھی وہ کیا دیکھتے ہیں کہ نعش غائب ہے.ادھر سرینگر کی جامع مسجد میں جب جمعہ ہو چکا تو امام صاحب نے لوگوں سے کہا بھائیو ! ذرا ٹھہر جانا یہاں ایک بہت بڑے بزرگ کا جنازہ آنے والا ہے.لوگوں نے کہا یہاں تو کوئی بزرگ فوت نہیں ہوا.امام صاحب کہنے لگے ابھی جنازہ پہنچ جاتا ہے.چنانچہ وہ مصلی پر بیٹھ گئے اور انہوں نے تھوڑی دیر ہی تسبیح پھیری تھی کہ یکدم ایٹہ سے جو علی گڑھ کے قریب ہے چار پائی پر جنازہ وہاں آ اترا اور سب نے ان کا جنازہ پڑھ کر انہیں وہیں دفن کر دیا.یہ قصہ سنا کر وہ میر محمد الحق صاحب سے کہنے لگے میاں! معجزے تو یہ ہوتے ہیں.وہ بھی کیا معجزے ہیں جو مرزا صاحب نے دکھائے.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور ان صاحب کے مذکورہ معجزات کی آپس میں کوئی نسبت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ صرف اوہام باطل تھے.مگر جب تاریخی معجزات سے لوگ یہ سلوک کریں تو ان معجزات کا کیا حال ہو گا جو رسول کریم ﷺ کے اصلی معجزات کو چھوڑ کر لوگوں نے خود بطور کہانی کے بنالئے ہیں.پھر اس قسم کے غیر تاریخی معجزات جب مسلمان مولوی ہندوؤں کے سامنے بیان الله
سيرة النبي م 352 جلد 4 کرتے ہیں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر معجزے بیان کر دیتے ہیں.چنانچہ ہندو کہتے ہیں کہ ایک نیل کنٹھ 12 کا بچہ تھا اسے پیدا ہوئے ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ وہ اپنی ماں سے کہنے گا اماں اماں! مجھے بھوک لگی ہے.ماں نے کہا کہ میرے پاس تو تمہارے لئے کچھ نہیں.وہ کہنے لگا اچھا تو اماں مجھے اجازت دے کہ میں باہر جا کر کچھ کھا پی آؤں.ماں کہنے لگی تمہیں باہر جانے کی تو میں اجازت دے دیتی ہوں مگر دیکھنا کسی برہمن کو نہ کھا جانا.لطیفہ یہ ہے کہ اسے پیدا ہوئے ابھی صرف ایک گھنٹہ گزرا ہے اور ماں کی ہدایت اسے یہ ہے کہ کسی برہمن کو نہ کھا جانا.خیر وہ کھانے کی تلاش میں باہر نکلا.آگے اُس نے کیا دیکھا کہ ایک بارات آرہی ہے جس میں سینکڑوں ہاتھی ، گھوڑے اور اونٹ ہیں اور ہزاروں آدمی اس بارات میں شامل ہیں.ان کے پاس کھانے کا بھی لاکھوں من سامان ہے.اس نے یہ دیکھتے ہی سڑک پر اپنی چونچ رکھ دی اور تمام اونٹ، گھوڑے، ہاتھی اور باراتی کھچے کھچے اُس کے پیٹ میں چلے گئے.غلطی سے ایک برہمن بھی وہ کھا گیا.مگر جب اسے معلوم ہوا کہ ایک برہمن بھی پیٹ میں چلا گیا ہے تو اس نے پیٹ مروڑ مراڑ کر برہمن کو اُگل دیا اور پھر وہ لاکھوں من کھانا بھی کھا گیا جو بارات کے ساتھ تھا.اس کے بعد اسے پیاس لگی تو وہ ایک دریا پر گیا اور اُس پر چونچ رکھ کر پانی پینا شروع کر دیا اور اتنا پانی پیا کہ آخر وہ دریا سارے کا سارا خشک ہو گیا.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ راجپوتانہ میں یہ دریا ہوا کرتا تھا مگر آجکل وہاں ریت ہی ریت ہے.اس کے بعد وہ آرام کرنے کیلئے ہمالیہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چلا گیا اور سو گیا.چنانچہ آج تک وہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر آرام کر رہا ہے.غرض مسلمانوں کے مولوی اس قسم کی مضحکہ خیز باتیں رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے اور ایسے معجزات آپ کے بیان کرتے ہیں کہ جن کے مقابلہ میں دشمن اس سے بھی بڑے بڑے معجزات پیش کر دیتا ہے اور وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے.مگر ہم رسول کریم ﷺ کے وہ معجزات بیان کرتے ہیں کہ جنہیں سن کر دشمن کے
سيرة النبي علي 353 جلد 4 منہ پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ بات تک نہیں کرسکتا.جب ہم دشمن کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کا مجزہ یہ ہے کہ جو شخص ان کی غلامی اور اتباع کرتا ہے خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اُس پر اترتا ہے اور زمین و آسمان کا خدا اُس سے ہمکلام ہوتا ہے.تو کیا ہے کوئی ہندو جو کہے کہ میں اس سے بڑھ کر اپنے پیشوا کا معجزہ پیش کر سکتا ہوں؟ یا ہے کوئی عیسائی جو کہے کہ ان کے مسیح کی اتباع سے یہ نعمت انسان کو حاصل ہو سکتی ہے؟ سب دم بخود ہو جاتے ہیں کیونکہ محمد نے کی غلامی کے سوا یہ نعمت کسی مذہب میں رہ کر انسان کو نصیب نہیں ہو سکتی.اسی طرح جب ہم قرآن کریم کے معجزات دنیا کے سامنے پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام پارلیمنٹیں اور دنیا کے تمام فلاسفر اور دنیا کے تمام مدبر اور عظمند سب مل کر جو تعلیمیں تجویز کر ر ہے اور سینکڑوں سال غور کرنے کے بعد انہیں لوگوں کی کامیابی کا ذریعہ بتا رہے ہیں وہ ہمارے اُمّی آقا اور سردار کی اس تعلیم کے مقابلہ میں جو اس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے پیش کی اگر رکھی جائیں تو خاک ہوکر رہ جاتی ہیں.تو کس طرح وہ عیسائی جو دوسروں پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ واقعہ میں قرآن کریم جس تعلیم کو پیش کرتا ہے وہی تعلیم اصلی اور اعلیٰ ہے.پھر کس طرح طلاق کے متعلق غیر تو الگ رہے مسلمان بھی بہانے بنانے لگ گئے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی یہ تشریح ہے اور اس کی وہ تشریح ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو آکر بتایا کہ طلاق بھی ایک ضروری چیز ہے اور جس عورت کو طلاق دی جائے وہ حسبِ منشا دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے.کیونکہ رسول کریم علی نے یہ تعلیم دی اور آپ نے جو کچھ کہا وہ بالکل سچ ہے.لوگوں نے اس بات کو سنا اور حقارت کی ہنسی ہنسے مگر کس طرح آج ایک زبر دست بادشاہ نے جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا اسی مسئلہ میں یورپ کے خیالات کی غلطی ثابت کرنے کیلئے اپنی بادشاہت چھوڑ دی.پادریوں نے بھی زور دیا کہ وہ بادشاہت نہ چھوڑے، مدبروں
سيرة النبي علي 354 جلد 4 نے بھی زور لگایا کہ وہ اپنے ارادہ سے باز رہے ، وزراء نے بھی کوشش کی کہ وہ اس اقدام کو ترک کر دے، پارلیمنٹ کے ممبروں نے بھی چاہا کہ وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنائے ، ملک نے بھی خواہش کی کہ وہ تاج و تخت کو نہ ٹھکرائے مگر اس نے صاف کہہ دیا کہ جو ملک یہ کہتا ہے کہ طلاق والی عورت الزام کے نیچے ہے اور اس سے دوبارہ شادی کرنا پسندیدہ نہیں میں اس کی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا.میں بادشاہت چھوڑ نی آسان سمجھتا ہوں مگر اس خیال کو ترک کرنا میرے لئے مشکل ہے کہ مطلقہ عورت کسی الزام کے نیچے نہیں ہوتی اور اس سے شادی کی جاسکتی ہے.صلى الله غرض قرآن کریم کے ایک ایک حرف اور ایک ایک حرکت اور ایک ایک نقطہ کے نیچے سے ہم نے معارف کے خزانے نکالے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا اور محمد ﷺ کی عزت عالم میں قائم کی.یہاں تک کہ اسلام کا شدید سے شدید دشمن بھی آج یہ تسلیم کرنے لگ گیا ہے کہ روحانی میدان میں محمد ہے جیسا پہلوان اور کوئی نہیں ہوا.پس وہ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی حقیقی شان دنیا میں قائم کی ، وہ جنہوں نے اسلام کی کچی خدمت کی ، وہ جنہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے دنیا کو دکھا دیا اور ثابت کر دیا کہ اسلام کی تمام تعلیمیں قابل عمل ہیں اور انہی پر عمل کرنے میں ہر برکت اور سعادت ہے ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے خلیفہ کو رسول کریم ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ اور اس سے زیادہ غلط بات اور کیا ہو سکتی ہے.میں ایسے اخبار نویسوں کو کہتا ہوں کہ مذہبی اختلاف کو جانے دو تم کم از کم انسانیت اور شرافت کا پاس رکھو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ دو.ہمارے تمہارے اختلاف بھی ہیں ، لڑائیاں بھی ہیں ، جھگڑے بھی ہیں مگر ان لڑائیوں اور جھگڑوں میں جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ اور کسی کی طرف وہ عقائد منسوب کرنے سے کیا حاصل جن کو وہ مانتا ہی نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ سچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی ہم سے زیادہ عزت ہے تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے علماء
سيرة النبي علي 355 جلد 4 کو تیار کریں اور تراضی فریقین سے ایک تاریخ مقرر کر کے وہ بھی رسول کریم ﷺ کی عظمت پر مضامین لکھیں اور ایک مضمون رسول کریم ﷺ کی عظمت پر میں بھی لکھوں گا پھر دنیا خود بخود دیکھ لے گی کہ ان کے دس ہمیں لکھے ہوئے مضامین میرے ایک مضمون کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کے فضائل اور آپ کے محاسن میں بیان کرتا ہوں یا وہ مولوی بیان کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی عظمت پر کبھی غور ہی نہیں کیا.ان کا بے شک رسول کریم ﷺ پر ایمان ہے مگر ان کا ایمان ایمان العجائز سے بڑھ کر نہیں.یعنی انہوں نے اپنے باپ دادوں سے جیسا سنا ویسا مان لیا.یا چونکہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ماننے لگ گئے ورنہ انہوں نے نہ کبھی قرآن پر غور کیا ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور کیا ہے.اگر ان لوگوں نے قرآن مجید کو غور سے پڑھا ہوتا تو حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق وَاصْطَفْكِ عَلَى نِسَاءِ العلمينَ اور اسی طرح بنی اسرائیل کے متعلق أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِيْنَ کے الفاظ پڑھ کر کیوں اس حقیقت کو نہ پہنچ جاتے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ بعد از خدا اُس کا درجہ ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ کے لوگوں پر صلى الله وہ فضیلت رکھتا ہے نہ یہ کہ وہ رسول کریم ہے سے بھی درجہ میں بڑا ہے.اس کے مقابلہ میں ہم وہ ہیں جو رسول کریم ﷺ کے ایک ادنیٰ سے ادنی ارشاد پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.اور یا تو آج سے تیرہ سو سال پہلے صحابہ نے یہ کہا تھا کہ يَارَسُولَ الله! آپ ہمیں حکم دیجئے ہم سمندر میں اپنے گھوڑے ڈالنے کیلئے تیار ہیں 13 اور ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے 14 اور یا یہی فقرے آج ہمارے ہیں.آج ہم ہی ہی ہیں جو رسول کریم علی ال اس لیے جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ رہے ہیں، آج ہم ہی ہیں جو دین کی اشاعت کر
سيرة النبي علي صلى الله 356 جلد 4 رہے ہیں، آج ہم ہی ہیں جو قرآن کریم کی خدمت کر رہے ہیں اور آج ہم ہی ہیں جو اسلام کے فضائل اور محاسن دنیا پر ظاہر کر رہے ہیں.مگر یہ غافل اور سوئے ہوئے افیونی کروٹ بدلتے ہیں اور آنکھیں کھولے بغیر کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدیوں نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کر دی.حالانکہ یہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم سے غافل ہو کر لحافوں میں لیٹے ہوئے پڑے ہیں اور ہم پر ایسی حالت میں اعتراض کر رہے ہیں جب کہ ہمارے سینے دشمنانِ اسلام کے مقابل پر تنے ہوئے ہیں اور جب کہ محمد علے کی حفاظت کیلئے ہم ان کے اعداء کے نیزوں کو اپنے جسموں پر روک رہے ہیں.“ :1 درشین فارسی صفحه 112 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ (الفضل 27 اگست 1937 ء ) 2: ال عمران : 32 3: ال عمران: 43 4 ترمذی ابواب المناقب باب ماجاء في فضل فاطمة صفحه 873 حدیث نمبر 3873 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى میں یہ الفاظ ہیں اَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةَ 5: البقرة: 48 6: ال عمران: 111 7 ابو داؤد كتاب النكاح باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء صفحه 297 حديث نمبر 2050 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى (مفهوما ) 8: البقرة : 144 9: الانعام : 88،87 10 : بنی اسرائیل : 37 11: ابراهيم : 38 12 : نیل کنٹھ : ایک پرندہ جس کی گردن اور پر نیلے ہوتے ہیں.(فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 1395
سيرة النبي عمال 357 جلد 4 مطبوعہ فیروز سنز لاہور 2010ء) صلى الله 13: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول استيثاق الرسول علية من أمر الانصار صفحه 675 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى :14: بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر صفحه 668 حدیث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 358 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی سیرت صلح حدیبیہ کی روشنی میں وو حضرت مصلح موعود 27 اگست 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دیکھ لو صلح حدیبیہ کی مثال بالکل واضح ہے.صلى الله رسول کریم علیہ نے رویا میں دیکھا کہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.چونکہ وہ حج کا وقت نہیں تھا آپ نے عمرہ کی نیت کی اور صحابہ کو بھی اطلاع دی.چلتے چلتے آپ کی اونٹنی حدیبیہ کے مقام پر بیٹھ گئی اور زور لگانے کے باوجود نہ اٹھی.آپ نے فرمایا کہ اسے خدا تعالیٰ نے بٹھا دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مشیت یہی ہے کہ ہم آگے نہ جائیں 1.مسلمانوں کی آمد دیکھ کر کفار نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا شروع کیا کیونکہ وہ یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان طواف کریں.رسول کریم ﷺ ان کے آدمیوں کی انتظار میں تھے کہ آئیں تو شاید کوئی سمجھوتہ ہو جائے.ان کی طرف سے مختلف نمائندے آئے اور آخر کار صلح کا فیصلہ ہوا.شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس وقت واپس چلے جائیں.وہ سمجھتے تھے کہ اگر اب انہوں نے طواف کرلیا تو ہمارے پرسی ( Prestige) میں فرق آئے گا اس لئے انہوں نے یہی شرط پیش کی کہ اب کے واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں.دوسری شرط یہ ہوئی کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو کر رسول کریم ﷺ کے پاس آجائے تو آپ اسے واپس کر دیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جانا چاہے تو اسے اس کی اجازت ہوگی.بظاہر یہ شرطیں بڑی کمزور شرطیں تھیں اور پھر جس وقت آپ نے اس شرط کو منظور کر لیا اُسی وقت ایک مسلمان جس کے ہاتھوں اور پاؤں میں کڑیاں اور
سيرة النبي عليه 359 جلد 4 بیڑیاں پڑی تھیں، جس کا تمام جسم لہولہان تھا نہایت تکلیف سے لڑھکتا اور گرتا پڑتا وہاں پہنچا اور عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! میرا حال دیکھئے میں مسلمان ہوں اور میرے رشتہ داروں نے اس طرح مجھے بیڑیاں پہنائی ہوئی ہیں اور مجھے شدید تکالیف پہنچا رہے ہیں.آج کفار لڑائی کیلئے تیار ہوئے تو میرا پہرہ ذرا کمزور ہوا اور میں موقع پا کر نکل بھاگا اور اس حالت میں یہاں پہنچا ہوں.صحابہ کو اس کی حالت دیکھ کر اتنا جوش تھا کہ وہ آپے سے باہر ہو رہے تھے لیکن اہل مکہ کی طرف سے جو شخص سفیر ہوکر آیا ہوا تھا اُس نے رسول کریم ﷺ کا نام لے کر کہا کہ ہمیں آپ سے غداری کی امید نہیں.آپ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے تو اسے واپس کر دیں گے اس لئے یہ شخص واپس کیا جائے.اُس وقت اُن ہزاروں آدمیوں کے سامنے جو اپنے گھروں سے جانیں دینے کیلئے نکلے تھے ان کا ایک بھائی تھا جو مہینوں سے قید تھا، جس کے ہاتھوں اور پاؤں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے اور جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تھا اسے دیکھ کر صحابہ کی تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور وہ دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم سب یہیں ڈھیر ہو جائیں گے مگر اسے واپس نہیں جانے دیں گے.مگر رسول کریم صلى الله نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ خدا کے رسول دھوکا نہیں کیا کرتے.ہم نے وعدہ کیا ہے اور اب خواہ ہمارے دلوں کو کتنی تکلیف ہوا سے پورا کریں گے اور آپ نے کفار کے نمائندہ سے فرمایا کہ اسے لے جاؤ.جب اس شخص نے دیکھا کہ مجھے واپس کیا جا رہا ہے تو اس نے پھر نہایت مترحمانہ نگاہوں کے ساتھ صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا تم جانتے ہو مجھے کس طرف دھکیلتے ہو؟ تم مجھے ظالم لوگوں کے قبضہ میں دے رہے ہو.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کو تاب نہ تھی کہ آنکھ اٹھا سکے اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے 2.لیکن صحابہ کو اس کا رنج اتنا تھا ، اتنا تھا کہ جب صلح نامہ پر دستخط ہو چکے تو رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا
سيرة النبي علي 360 جلد 4 اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ اس سال ہمیں عمرہ کا موقع نصیب نہ ہو.جاؤ اور اپنی قربانیوں کو ذبح کر دو.آپ نے یہ فرمایا اور وہ صحابہ جو آپ کے ایک اشارے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور نہایت بے تابی کے ساتھ فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے ان میں سے ایک بھی نہ اٹھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ اُمہات المومنین میں سے ایک بی بی تھیں.آپ نے ان سے کہا کہ آج میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے جو نبوت کے ایام میں کبھی نہیں دیکھا تھا.میں نے باہر جا کر صحابہ سے کہا کہ اپنی قربانیاں ذبح کر دو مگر ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھا.انہوں نے کہا يَارَسُولَ اللهِ! آپ کسی سے بات ہی نہ کریں.آپ سیدھے جا کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کردیں.یہ زجر زبان کی زجر سے بہت سخت تھی اور یہ مشورہ نہایت ہی اچھا تھا.چنانچہ آپ باہر آئے ، نیزہ لیا اور بغیر کسی مدد کے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کر دیئے.جو نہی صحابہ نے یہ دیکھا معاً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دوڑے.بعض رسول کریم ﷺ کی مدد کیلئے اور بعض اپنی قربانیوں کی طرف.اور ان کی بے تابی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے تلواروں کی نوکوں سے ایک دوسرے کو ہٹاتے تھے 3.لیکن گوانہوں نے یہ فرمانبرداری دکھائی اور ان کا جوش بھی ٹھنڈا ہوا مگر پوری طرح نہیں ہوا.حضرت عمر جیسا مخلص انسان بھی اپنے جوش کو نہ دبا سکا.آپ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جا کر بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! کیا آپ خدا کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم خدا کی کچی جماعت نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا یارسول اللہ ! آپ کو ایک رویا ہوئی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ نا کامی پھر کس بات کا نتیجہ ہے؟ ہم ایمان پر ہوتے ہوئے دب گئے اور کفار کا پہلو بھاری رہا اور ہم نے ایسی ایسی شرطیں منظور کر لیں کہ اپنے ایک بھائی کو سخت مصیبت کی حالت میں دیکھا ย الله
سيرة النبي علي 361 جلد 4 مگر کچھ نہ کر سکے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک مجھے رویا ہوئی تھی مگر کیا میں نے کہا تھا کہ اس سال ہم عمرہ کریں گے؟ میں نے صرف قیاس کیا تھا اور اسی قیاس کی بنا پر آیا اور تم کو معلوم ہے کہ یہ بات شرائط میں ہے کہ ہم اگلے سال عمرہ کریں گے اور خواب پورا ہوگا.پھر اس میں ذلت کی کوئی بات نہیں کہ جو مسلمان ہو اُسے واپس کیا جائے اور جو کافر ہوا سے اپنے ہم مذہبوں کے پاس جانے دیا جائے.جس مسلمان کو کفار پکڑ کر رکھیں گے وہ تبلیغ ہی کرے گا اور جو مسلمان مرتد ہو جائے تم بتاؤ ہم نے اُسے رکھ کر کرنا ہی کیا ہے.اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے.ان کا جوش کم ہوا مگر پوری طرح فرو نہیں ہوا.اور پھر وہ اس شخص کے پاس پہنچے جسے اللہ تعالیٰ نے صدیق کہا ہے اور جس کی نبض محمد رسول اللہ ﷺ کی نبض کے تابع چلتی تھی اور کہا ابوبکر ! کیا محمد اے خدا کے رسول ہیں؟ کیا ہمارا دین سچا ہے؟ کیا رسول اللہ علیہ نے خواب نہیں دیکھا تھا کہ ہم عمرہ کر رہے ہیں، پھر ہوا کیا؟ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا عمر! کیا محمد مصطفی علی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم ضرور اسی سال عمرہ کریں گے؟ خواب صرف یہی ہے کہ ہم عمرہ کریں گے سوضرور کریں گے.تب حضرت عمرہؓ کا دل صاف ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ صداقت جس طرح رسول کریم ﷺ کی زبان سے نکلی اُسی طرح ابو بکر کی زبان سے بھی نکلی 4.تو صلح حدیبیہ بڑا بھاری امتحان تھا ، بڑی آزمائش تھی مگر صحابہ نے انتہائی اطاعت کا نمونہ دکھایا.“ ( الفضل 4 ستمبر 1937 ء) 1 بخارى كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد صفحه 447 حدیث نمبر 2731، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى على يكتب شروط الصلح صفحه 1107 تا 1109 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 4،3: بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 447 حدیث نمبر 2732،2731 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 362 جلد 4 وو تمام کمالات اور انعامات کے جامع حضرت مصلح موعود نے 3 ستمبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :." پھر رسول کریم ﷺ کو دیکھو آپ چونکہ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ سے نوح والا معاملہ بھی کیا اور ابراہیم والا معاملہ بھی کیا.موسی والا معاملہ بھی کیا اور داؤد اور عیسی والا معاملہ بھی کیا.غرض سارے معاملے آپ سے ہوئے.نوح کا معاملہ آپ سے اس طرح ہوا کہ یہود کے بعض قبائل آپ کے زمانہ میں بالکل تہ تیغ کر دئیے گئے اور جس طرح نوح کے دشمنوں میں سے ایک شخص بھی نہیں بچا تھا اسی طرح ان قبائل میں سے ایک شخص بھی نہ بچ سکا اور سب تہ تیغ ہو گئے اور تہ تیغ بھی اپنے فتویٰ کے مطابق ہوئے.کیونکہ انہوں نے جس شخص کو فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کیا تھا اُس نے یہی فیصلہ دیا کہ جس قدر مرد ہیں وہ تہ تیغ کر دئیے جائیں.لوگ اس پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ نے (نَعُوذُ بالله ) ظلم کیا.حالانکہ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ محمد ﷺ تمام نبیوں کے کمالات کے جامع تھے اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے آپ مظہر نہ ہوں.پس چونکہ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے بھی مظہر تھے اس لئے ضروری تھا کہ جس طرح نوح کے دشمن سب کے سب ہلاک کئے گئے اسی طرح آپ کے بعض دشمن بھی تمام کے تمام ہلاک کئے جاتے.پھر حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی طرح آپ کو ہجرت بھی کرنی پڑی اور اس ہجرت کے زمانہ میں کچھ وقت آپ پر ایسا آیا جب آپ سیاسی طور پر حکمران تو تھے مگر ملکی طور پر نہیں.پھر کچھ وقت حضرت داؤد کی طرح آپ پر ایسا بھی
سيرة النبي علي 363 جلد 4 آیا جب آپ سیاسی اور ملکی دونوں طرح بادشاہ تھے.پھر آپ کو حضرت عیسی والی غربت بھی دیکھنی پڑی اور آپ نے مکہ میں بڑی بڑی تکالیف اٹھائیں.یہاں تک کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ ایک فاتح اور بادشاہ کی حیثیت میں اس میں داخل ہوئے تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ آپ کی رہائش کا انتظام کس گھر میں کیا جائے ؟ تب بعینہ وہی فقرہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے نکلا تھا رسول کریم علیہ کی زبان سے بھی نکلا اور آپ نے فرمایا میرے رہنے کا کیا پوچھتے ہو، عقیل نے تو میرے لئے مکہ میں کوئی گھر نہیں چھوڑا جس میں میں رہ سکوں 1.دراصل رسول کریم جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کی وجہ سے آپ کے اکثر مکانات بیچ ڈالے تھے اور بعض پر خود قبضہ کر لیا تھا.جس طرح انسان جب مرجاتا ہے تو اُس کے ورثاء اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اسی طرح انہوں نے آپ کی جائیداد سے معاملہ کیا اور جب آپ مکہ میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہوئے تو کوئی ایسا مکان نہ تھا جسے آپ اپنا مکان کہہ سکیں.اب یہ کتنا دردناک نظارہ ہے کہ ایک بادشاہ ہونے کی حیثیت میں رسول کریم ﷺ اپنے ملک اور اپنے شہر میں داخل ہوتے ہیں مگر کوئی گھر ایسا نہیں ملتا جسے آپ اپنا گھر کہہ سکیں.آپ فرماتے ہیں مکہ میں تو ہمارے لئے کوئی گھر نہیں رہنے دیا گیا.میدان میں خیمے لگاؤ اور وہاں میری رہائش کا انتظام الله کر و2.غرض یہ ساری چیزیں رسول کریم ﷺ کی ذات میں جمع تھیں اور پھر ساری عزتیں بھی آپ کی ذات میں جمع ہوئیں.جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمن صلى الله ہمیشہ کے لئے مغضوب ہو گئے تھے اسی طرح رسول کریم علیہ کے بعض دشمنوں کو بھی خدا نے مغضوب قرار دیا.جس طرح نوح کے دشمنوں کو خدا تعالیٰ نے کلّی طور پر ہلاک کر دیا تھا اسی طرح آپ کے بعض دشمنوں کو بھی اس نے کلّی طور پر ہلاک کیا.جس طرح موسی کے دشمنوں کو اُس نے پانی میں غرق کیا اسی طرح رسول کریم ﷺ کے دشمنوں کو بھی اس نے غرق کیا.دونوں طرح یعنی خشکی میں بھی اور تری میں بھی.
سيرة النبي علي 364 جلد 4 چنانچہ فتح مکہ کے بعد مکہ کے بعض بڑے بڑے سردار مکہ سے بھاگ نکلے اوروہ جہازوں میں سوار ہو کر کسی اور ملک کو جانے لگے تو سمندر میں ایسا طوفان آیا کہ وہ جہاز غرق ہو گیا اور سب پانی میں ڈوب گئے.غرض وہ تمام انعامات جو پہلے انبیاء کو ملے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع تھے.(الفضل 11 ستمبر 1937 ء) 66 21:بخارى كتاب الجهاد والسير صفحہ 506 حدیث نمبر 3058 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 365 جلد 4 رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں دو دشمنوں کی ناکامی حضرت مصلح موعود نے 17 ستمبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل اور خونریزی کا بازار گرم رہتا.جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رعب مٹتا جا رہا ہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار پایا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کر لیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے.اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کے لئے تاج بننے کا حکم بھی دے دیا گیا.اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا که آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اس کی بیعت کر آئے ہیں.اس پر رسول کریم ہے کے دعوئی کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں.اور چند دنوں کے بعد بعض اور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم ﷺ کی بیعت کر لی.پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں.چنانچہ رسول کریم ہو نے ایک صحابی کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ صلى الله کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے.انہی دنوں میں چونکہ مکہ میں رسول کریم علی اور آپ کے صحابہ کو بہت سی تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آر سے درخواست کی کہ آپ مدینہ میں تشریف لے آئیں.چنانچہ رسول کریم.بہت سے
سيرة النبي عمال 366 جلد 4 الله صحابہ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے لئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرا کا دھرا رہ گیا کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اُس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہوسکتی تھی تو یہی کہ محمد ﷺ فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن مسلمانوں میں جو نہی بادشاہت قائم ہوئی اور ایک نیا نظام انہوں نے دیکھا تو انہوں نے رسول کریم ع سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے؟ آپ کے بعد اسلام کا کیا حال ہوگا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے ؟ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا اور اس کے لئے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابوبکر ہے اور رسول کریم علیہ کے بعد مسلمانوں کی نظر اسی کی طرف اٹھتی ہے اور وہ اسے سب دوسروں سے معزز سمجھتے ہیں.پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کر دیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے بھی گرادیا جائے.اور اس بد نیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر گندہ الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں اشارۃ بیان کیا گیا ہے اور حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے.عبداللہ بن ابی بن سلول کی اس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابو بکر ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم اللہ سے بھی خراب ہو جائیں گے اور اس نظام کے قائم
سيرة النبي علي 367 جلد 4 ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے لا بدی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں تباہ ہو جاتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبد اللہ بن ابی بن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا اور بعض لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے.چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم ہے کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی کہ میرے ساتھ ایک لاکھ سپاہی ہیں صلى الله میں چاہتا ہوں کہ اپنی تمام جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کرلوں.رسول کریم علی نے فرمایا اسلام میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کر لو.وہ کہنے لگا میں بیعت کرنے کے لئے تیار تو ہوں مگر میری ایک شرط ہے.آپ نے فرمایا وہ کیا؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو خیر اب عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبردست قوم ہے پس میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا.آپ نے فرمایا میں کوئی وعدہ نہیں کرتا.یہ خدا کا انعام ہے وہ جسے چاہے گا دے (الفضل 24 ستمبر 1937 ء) 1: بخاری کتاب المغازى باب وفد بنى حنيفة صفحه 742 حدیث نمبر 4373 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 368 جلد 4 رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی آپ سے دیوانہ وار محبت حضرت مصلح موعود یکم اکتو بر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.دنیا میں ایک شخص گزرا ہے جس کا نام لوگوں نے اُس کی دیوانگی کی وجہ سے مجنوں رکھ دیا ہے.حالانکہ مجنوں اس کا نام نہیں تھا بلکہ اس کا نام قیس تھا.لیکن بوجہ اس کے کہ وہ عشق میں دیوانہ ہو گیا تھا لوگوں نے اس کا نام ہی مجنوں رکھ دیا.حالانکہ مجنوں کے معنے عربی میں پاگل کے ہیں اور لوگ مجنوں اسی طرح کہتے تھے جس طرح کہ ہندوستانی دیوانوں کو پاگل کہتے ہیں.اب اگر ہمارے ملک میں کوئی شخص لوگوں سے کہے کہ پاگل کی یہ بات ہے، پاگل کی وہ بات ہے تو لوگ اس کی بات سن کر حیران ہوں گے اور کہیں گے کہ کون سے پاگل کی؟ تم نام تو بتاتے نہیں.لیکن قیس کو ایک دنیا پاگل پاگل کہہ کر بلاتی ہے اور کسی کو حیرت نہیں ہوتی.ہر ایک فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ قیس کا ہی ذکر ہے.کیونکہ اس کے متعلق یہ لفظ اتنی کثرت سے استعمال ہوا کہ اب وہ اس کا علم بن گیا ہے اور اس کا نام قرار پا گیا ہے.غرض وہ ایک مجنون شخص تھا مگر دیکھو وہ مجنوں بھی اپنی بات میں کیسا ہوشیار تھا.کہتے ہیں مجنوں ایک جگہ بیٹھا ہوا ایک کتے کو گود میں لئے پیار کر رہا تھا کہ پاس سے کوئی شخص گزرا اور اُس نے کہا قیس! یہ کیا دیوانگی کی حرکت کر رہے ہو! ( آجکل کے انگریزوں اور میموں کی سمجھ میں شاید یہ بات نہ آئے کہ کتے کو پیار کرنے پر اس سے حیرت سے کیوں سوال کیا کیونکہ وہ خود کتوں کو پیار کرنے کے عادی ہیں اور ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں.ان سے اگر کوئی کہے کہ کتے کو کیوں پیار کر رہے ہو تو وہ شاید اُلٹا معترض کو پاگل سمجھیں گے اور کہیں گے کہ
سيرة النبي عليه 369 جلد 4 اس کا دماغ خراب ہو گیا.لیکن بہر حال ایشیائی ایشیائی ہے اور مغربی مغربی.ایک ایشیائی جب بھی کسی ایسے شخص کو دیکھے گا جو کتے سے پیار کر رہا ہو وہ حیرت سے اسے دیکھے گا اور وہ اسے اس کام سے روکے گا.اس بناء پر اُس شخص نے جب مجنوں کو دیکھا کہ وہ ایک کتے کو پیار کر رہا ہے تو اُس نے کہا قیں! یہ کیا پا گلا نہ حرکت کر رہے ہو ) قیس یہ اعتراض سن کر حیرت سے بولا کیا کر رہا ہوں؟ اُس نے کہا تم ایک کتے سے پیار کر رہے ہو.کہنے لگا کتا ؟ یہ تمہیں کتا نظر آتا ہوگا مگر مجھے تو یہ لیلیٰ کا کتا نظر آتا ہے.گویا قیس کو حیرت ہوئی کہ وہ شخص اس قدر بیوقوف ہے کہ اُسے کتے اور لیلیٰ کے کتے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.کتا بے شک ایک گندی چیز ہے مگر قیس کے نزدیک لیلی کا کتا بالکل اور چیز تھا وہ کسی صورت میں گندہ نہیں ہو سکتا تھا.تو جب کسی شخص سے کسی کو حقیقی عشق ہوتا ہے اسے اپنے معشوق کی ہر چیز پیاری نظر آنے لگ جاتی ہے.اب محمد اللہ بھی ایک انسان ہی تھے اور ویسے ہی انسان تھے جیسے مکہ کے اور بہت سے لوگ.مگر کیوں ہمارا ذرہ ذرہ آپ پر فدا ہے اور کیوں ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کرنا انتہائی سعادت اور خوش بختی سمجھتے ہیں.اسی لئے کہ وہ لوگوں کو آدمی نظر آتے ہیں مگر ہمیں اللہ کے آدمی نظر آتے ہیں.آپ کے آدمی ہونے سے تو ہمیں بھی انکار نہیں.آپ خود فرماتے ہیں کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ 1 میں تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں.مگر اس پر مزید بات یہ ہے کہ آپ ہمیں اللہ کے آدمی“ دکھائی دیتے ہیں.لوگ ہم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم ایک آدمی کے پیچھے چل رہے ہو مگر یہ درست نہیں.بھلا ہم کوئی ایسے پاگل ہیں کہ کسی آدمی کے پیچھے چلیں.ہم تو اللہ کے بندے کے پیچھے چل رہے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا محبوب ہے اس لئے اس محبوب میں جو بھی جذب ہو گیا وہ خالی بندہ نہ رہا بلکہ اللہ کا بندہ بن گیا اور اس لئے وہ ہمارا بھی محبوب اور معشوق قرار پا گیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے طواف کے لئے جاتے ہیں.راستہ میں کفار کا لشکر
سيرة النبي عمال.370 جلد 4 آپ کو اور صحابہ کو روک لیتا ہے.صنادید عرب ایک وفد لے کر آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ آپ کعبہ کا طواف کریں.اس سے ہمارے پر سیج (Prestige) میں فرق آتا ہے.اس پر صلح کی گفتگو شروع ہوگئی اور گفتگو ہوتے ہوتے نماز کا وقت آگیا.رسول کریم علے اٹھتے ہیں اور وضو کرتے ہیں مگر جب منہ میں پانی ڈال کر کلی پھینکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے کچھ اور بندے جو اپنی خوبیوں اور طاقتوں کے ذریعہ یہ ثابت کر چکے تھے کہ وہ دنیا کے عمود اور اس کی حفاظت کا ذریعہ ہیں ، دیوانہ وار آگے بڑھتے ہیں اور وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے.کوئی اس پانی کو ہاتھوں میں مل لیتا ہے، کوئی منہ کو ملنے لگ جاتا ہے، کوئی سینہ پر مل لیتا ہے، کوئی پیٹھ پر ملنے لگ جاتا ہے 2.یہ دیکھ کر کفار کی نظر حیرت سے پھٹ جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں دیکھو یہ کتنے پاگل ہیں.یہ جو کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں، ہم دنیا کی اصلاح کے لئے قائم کئے گئے ہیں ایک انسان کی تھوک کے لئے مر رہے ہیں کون ہے جو انہیں مہذب کہہ سکے.بے شک ان کی نگاہ میں وہ تھوک تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ تھوک ہی تھا مگر فرق یہ تھا کہ وہ کفار محمد ﷺ کی نسبت یہ سمجھتے تھے کہ یہ محمد (ع) کا تھوک ہے اور صحابہ یہ سمجھ کر اس تھوک ย کو اپنے ہاتھوں اور اپنے مونہوں پر ملتے تھے کہ یہ خدا کے بندے کا تھوک ہے.“ ( الفضل 8 اکتوبر 1937ء) 1: الكهف : 111 2 بخارى كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد صفحہ 448 حدیث نمبر 2731 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 371 جلد 4 وو رسول رسول کریم علیہ کا غلاموں پر احسان الله حضرت مصلح موعود یکم اکتوبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک شخص اپنے غلام کو مارنے لگا کہ اسے پیچھے کی طرف سے ایک آواز آئی کہ یہ کیا جاہلیت کی حرکت کر رہے ہو.اُس نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول کریم ع تھے.وہ صحابی کہتے ہیں میں اُس وقت نہایت جوش کی حالت میں تھا کیونکہ اُس غلام نے کوئی نہایت ہی بیہودہ حرکت کی تھی اور میں نے اُسے مارنے کے لئے اپنے ہاتھ میں کوڑا اٹھایا ہوا تھا اور ایک کوڑا لگا چکا تھا کہ مجھے رسول کریم ﷺ کی یہ آواز آئی کہ یہ کیا جاہلیت کی بات ہے.وہ صحابی کہتے ہیں یہ آواز سن کر مجھے اس قدر ندامت ہوئی کہ میں نے اپنے دل میں کہا کاش ! میں اس سے الله پہلے مر چکا ہوتا اور رسول کریم ﷺ کی ہیت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گر گیا.میں نہایت شرمندہ ہو کر مجرم کی طرح آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کیا يَارَسُولَ اللہ! میں اسے نہیں مارتا.آپ نے فرمایا اب کیا ہے اب تو تم اسے مار ہی چکے.میں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! پھر میرے اس گناہ کا کیا کفارہ ہے؟ آپ نے فرمایا اس کا کفارہ اس کی آزادی ہے.چنانچہ اُس صحابی نے اُسی وقت اُس غلام سے کہہ دیا کہ آج سے میں نے تجھ کو آزاد کیا.66 ( الفضل 8 اکتوبر 1937ء ) 1: مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک صفحہ 731 حدیث نمبر 4308 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 372 جلد 4 رسول کریم علیہ کے مخالفین سے خدا کا سلوک حضرت مصلح موعود نے 5 نومبر 1937 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.دیکھ لو مکہ والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی.انہوں نے اپنا یہ مقصد قرار دے دیا کہ محمد(ﷺ) کو زک پہنچانی ہے اور آپ کو مکہ سے نکال دینا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ایک نبی اور پھر اس نبی کو جو تمام نبیوں کا سردار ہے وہ حقیقی زک نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اس حد تک وہ اپنی کوششوں میں ضرور کامیاب ہو گئے کہ آنحضرت ﷺ کو مکہ چھوڑنا پڑا.اور ان کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں اور کہ ہم نے مکہ کو محمد (ﷺ) کے وجود سے (نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ) پاک کر دیا ہے.اگر چہ خدا تعالیٰ نے اُن کو جھوٹا کیا اور بتا دیا کہ جس کے مکہ سے جانے کو وہ مکہ کی پاکی کا موجب سمجھتے تھے اس کا جانا دراصل مکہ والوں کی ہلاکت کا موجب تھا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمُ وَاَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ا یعنی مک والے خوش ہیں کہ انہوں نے مکہ کو بزعم خود پاک کر لیا ہے لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنے کے لئے دو ہی طریق مقرر ہیں.یا تو یہ کہ وہ لوگ نیک ہوں اور استغفار میں لگے رہتے ہوں اور یا پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان میں ہو اور انہیں رسول کی صحبت جسمانی حاصل ہو.رسول کا جسمانی قرب بھی انسان کو بہت سے عذابوں سے بچا لیتا ہے.غرض یہی قانون دنیا میں رائج ہے کہ یا تو وہ لوگ عذاب سے بچائے جاتے ہیں جو نیک ہوں اور یا پھر جو
سيرة النبي عمال 373 جلد 4 رسول کے اس قدر قریب ہوں کہ ان پر عذاب کا اثر رسول اور اس کے ساتھیوں پر بھی پڑسکتا ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مکہ والے تو خوش ہیں کہ انہوں نے محمد (ع) کو نکال لیا ہے اور مکہ کو بزعم خود پاک کر دیا.حالانکہ ایسا کر کے انہوں نے ہمارے لئے ان پر عذاب نازل کرنے کا رستہ کھول دیا ہے.“ ( الفضل 18 نومبر 1937 ء ) نیز فرمایا:.تو یہ مکہ والوں کی بیوقوفی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نکال کر انہوں نے مکہ کو پاک کر لیا ہے.دراصل انہوں نے پاک نہیں کیا تھا بلکہ مکہ کے لئے خطرہ پیدا کر لیا تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پاکیزگی کو مکہ سے نکال کر انہوں نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تھا.لیکن بہر حال جس چیز کو وہ کامیابی سمجھتے تھے وہ انہوں نے بظاہر حاصل کر لی تھی.تو یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو شخص محنت اور سعی کرے وہ ضروری کلی یا جزوی کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور مومن تو اگر کوشش کرے تو بہت ہی کامیابی حاصل کر سکتا ہے.مکہ والوں کا مقصد غلط تھا مگر وہ اس میں لگ گئے.اس لئے عارضی کامیابی کی خوشی انہیں بھی حاصل ہو گئی.اس کے مقابل دیکھ لو آخری زمانہ کے مسلمانوں کا مقصد کتنا عظیم الشان تھا.یعنی یہ کہ قرآن کریم کی صداقت ظاہر الله ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت ثابت ہو.مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بادشاہتیں مٹ گئیں، جتھے ٹوٹ گئے ، وہ علم سے کورے ہو گئے اور انہیں ہر میدان میں شکست پر شکست ہوئی حالانکہ ان کا مقصد کیسا اعلیٰ تھا.ان کے مقابل پر دیکھو عیسائیوں کا مقصد کتنا غلط تھا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس دعوی پر جو عیسائی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے آسمان پھٹ جائے 2.عیسائی ایسے خطر ناک مقصد کے لئے کھڑے تھے اور مسلمان اس مقصد کے لئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا پیدا ہی اس مقصد کے لئے کی گئی ہے.چنانچہ حدیث قدسی صلى الله ہے لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک 3 اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود نہ ہوتا تو دنیا پیدا
سيرة النبي عليه 374 جلد 4 ہی نہ کی جاتی.اب دیکھو ایک طرف تو ایسا مقصد تھا جس کے لئے دنیا پیدا کی گئی اور دوسری طرف ایسا جس سے دنیا تباہ ہو جائے.مگر باوجود اس کے مسلمان ہارتے گئے اور عیسائی جیتتے گئے.جس کی وجہ یہ ہے کہ گو مسلمانوں کا مقصد نیک تھا مگر وہ اس مقصد کیلئے جد و جہد چھوڑ بیٹھے تھے اور دوسری طرف عیسائیوں کا مقصد برا تھا مگر وہ اس کیلئے سعی اور جد و جہد کر رہے تھے.“ 1: الانفال : 34 2: مريم: 89 تا 91 3: موضوعات کبیر.ملا علی قاری صفحہ 59 مطبوعہ دلی 1346ھ ( الفضل 18 نومبر 1937ء)
سيرة النبي علي 375 جلد 4 جنگ بدر میں رسول کریم ﷺ کی نصرت صلى الله حضرت مصلح موعود 12 نومبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف ظاہری آلہ بنایا ہے ورنہ اصل آلۂ کار جس سے اُس نے دنیا کو فتح کرنا ہے اور ہے.ہماری مثال ویسی ہی ہے جیسے محمد ﷺ نے کنکر اٹھا کر بدر کے دن پھینکے تھے.اللہ تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى 1 کہ یہ تمہارا کنکر پھینکنا، تمہارا کنکر پھینکنا نہیں بلکہ خدا کا کنکر پھینکنا ہے.اگر یہ کنکر تم پھینکتے تو ان کنکروں کا کیا تھا، تھوڑی دور جا کر یہ زمین پر گر پڑتے مگر یہ تم نے کنکر نہیں پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے.ادھر تمہارا ہاتھ ہلا اُدھر ہم نے آندھی کو بھی ساتھ ہی چلا دیا اور اُس نے کروڑوں کروڑ اور اربوں ارب اور کنکر اٹھا کر کفار کی آنکھوں میں ڈال دیئے.نتیجہ یہ ہوا کہ کفار بالکل حملہ نہ کر سکے.کیونکہ جو سوار سامنے کی طرف دیکھ ہی نہیں سکتا اس نے دشمن کا مقابلہ کیا کرنا ہے.غرض سب حالات کو دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ہماری حیثیت بدر کے ان کنکروں کی سی ہے جنہیں محمد ﷺ نے اپنی مٹھی میں لیا اور کفار کی طرف پھینکا.اُن کنکروں نے کفار کو اندھا نہیں کیا تھا جو رسول کریم ﷺ نے پھینکے بلکہ اُن کنکروں نے کفار کو اندھا کیا جو خدا تعالیٰ نے آندھی کے ذریعہ اڑائے.پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے سوا کوئی اور آلہ ہے جس نے کام کرنا ہے اور کوئی اور سامان پیدا کئے گئے ہیں جنہوں نے اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے اور وہ آلہ اور وہ ہتھیار جن سے دنیا پر اسلام کو غالب کیا جاسکتا ہے بندے کی وہ دعائیں ہیں جو
سيرة النبي علي 376 جلد 4 خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے جس سے ناممکن کام بھی ممکن ہو جاتے ہیں.“ 1: الانفال : 18 ( الفضل 20 نومبر 1937ء)
سيرة النبي علي 377 جلد 4 صفات باری کے مظہر اتم حضرت مصلح موعود 26 نومبر 1937 ء کے خطبہ جمعہ میں رسول کریم یا دل کو صفات الہیہ کا مظہر اتم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.سچائی جب ایک بچہ کے دل میں بھی داخل ہو جاتی ہے تو اُسے ایسا دلیر بنا دیتی ہے کہ وہ تمام دنیا کے مقابلہ میں نڈر ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے.پھر جو ہمارے سردار اور آقا محمد مصطفی ملے ہیں انہیں دیکھ لو.مکی زندگی میں ابو طالب جو آپ کے چچا تھے آپ کی بہت حفاظت کرتے تھے اور چونکہ وہ اپنی قوم کے سردار تھے اس لئے قریش مکہ صلى الله رسول کریم علیہ کو اس طرح وق نہیں کر سکتے تھے جس طرح وہ رسول کریم ہے کے صلى الله صحابہ کو دق کیا کرتے تھے.آخر جب رسول کریم عہ کے وعظ ونصیحت کوسن سن کر انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام بڑھتا جاتا ہے اور اگر اسے جلدی روکا نہ گیا تو اس کا مٹانا مشکل ہو جائے گا تو وہ سخت غیظ و غضب سے بھر گئے اور وہ ایک وفد کی صورت میں ابوطالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمیں سخت دق کر رکھا ہے، وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دیتا اور ایک خدا کا وعظ کرتا رہتا ہے.آپ اسے سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کرے.اور اگر وہ نہ رکے تو آپ اس سے الگ ہو جائیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں ہم خود اسے روک لیں گے.اور اگر آپ ان سے الگ ہونے کے لئے تیار نہ ہوں تو مجبوراً ہمیں آپ کی سرداری کو بھی جواب دینا پڑے گا اور پھر اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا.ابو طالب اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور جن قوموں کی قبائلی زندگی ہوتی ہے وہ اپنی سرداری کی بڑی قیمت بجھتی ہیں.ابوطالب نے جب یہ بات
سيرة النبي علي 378 جلد 4 سنی تو وہ گھبرا گئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلا کر کہا اے میرے بھتیجے ! اب قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی.میں نے ہمیشہ تیری حفاظت کی کوشش کی مگر آج میری قوم کے افراد نے مجھے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یا اپنے بھتیجے سے الگ ہو جا اور اگر الگ ہونے کے لئے تیار نہیں تو ہم آپ کی سرداری کو بھی جواب دے دیں گے، اب ہم میں برداشت کی زیادہ طاقت نہیں رہی.ابو طالب کے لئے یہ ایک ایسا امتحان کا وقت تھا کہ باتیں کرتے کرتے انہیں رقت آگئی اور ان کی تکلیف کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے.مگر آپ نے فرمایا اے چچا ! میں آپ کے احسانات کو بھول نہیں سکتا.میں جانتا ہوں کہ آپ نے میری خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیں.لیکن اے چچا ! مجھے خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے مقرر کیا ہے.اگر آپ کو اپنی تکلیف کا خیال ہے تو اپنی پناہ واپس لے لیں.خدا نے مجھے سچائی دی ہے جسے میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا.اگر وہ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اُس تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے.یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں تھے.آج بھی یورپ کے معاند مؤرخین جب رسول کریم ہے کے واقعات لکھتے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب جھوٹ بولنے والے نہ تھے اور انہیں اس تعلیم کی سچائی پر پورا یقین تھا جو وہ لائے تھے.پھر ابوطالب کا کیا حال ہوا ہوگا جس نے خود محمد ﷺ کی زبان سے یہ کلمات سنے.ابو طالب مسلمان نہ تھے مگر جس وقت انہوں نے سچائی کے متعلق محمد ﷺ کا یہ یقین دیکھا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اے بھتیجے! مجھے الله قوم کی کوئی پرواہ نہیں میں تیرے ساتھ ہوں تو شوق سے اپنا کام کرتا چلا جا 1.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سچائی کا وہ مادہ رکھا ہے کہ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.جانور بھی جھوٹ نہیں بولتا ، جھوٹ صرف انسان کی
سيرة النبي علي 379 جلد 4 ایجاد ہے.مگر جانور کا سچ بالکل اور قسم کا ہوتا ہے.اس کا سچ طبعی ہوتا ہے مگر انسان کا سچ ایمانی ہوتا ہے.اس لئے جو انسان راستباز ہوتا ہے وہ ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا کھڑا ہو جاتا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے مقابلہ میں ایک کروڑ آدمی ہیں یا دس کروڑ.وہ نظارہ دنیا کے لئے ایک حیرت انگیز نظارہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کھڑے ہو کر ساری دنیا کو تاراج کر رہا ہوتا ہے.مگر وہ کیا چیز ہے جو اس کے پیچھے ہوتی ہے؟ اس کے پیچھے صرف حق ہوتا ہے جس کی طاقت پر وہ ساری دنیا کو للکارتا ہے.غرض یہ خاصیت اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر پیدا کی ہے کہ وہ سچائی کا کامل نمونہ ہوتا ہے.پھر الحق کے دوسرے معنی دنیا کو قائم رکھنے والے کے ہیں اور اس کا بہترین نمونہ بھی انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا غضب دنیا کے گناہوں کی وجہ سے بھڑ کنے والا ہوتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کا الحق ہونا فوراً اپنے نبی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے اور کہتا ہے اس وجود کے ہوتے ہوئے میں اس دنیا کو کیونکر تباہ کر دوں.پس ان کا وجود دنیا کے لئے ایک حرز اور تعویذ ہوتا ہے اور ان کی وجہ سے دنیا بہت سے مصائب اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتی ہے.اسی طرح لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ ہے.یہ تو حید کا مقام بھی ایسا ہے کہ جو شخص اس مقام کو دیکھ لیتا ہے خود تو حید کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.آپ کہیں گے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا مظہر ہو جائے.مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا آپ لوگوں کے لئے مشکل ہو بالکل قریب زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الہام نازل ہو چکا ہے که انتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَ تَفْرِيدِی 2 کہ اے مسیح موعود ! تیرا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو تو حید کا مجھ سے تعلق ہے.گویا تولا الهُ إِلَّا هُوَ کا مظہر ہے اور مجھے لا إلهَ إِلَّا هُوَ پیارا ہے.اسی طرح مجھے تو پیارا ہے.تو توحید کے مقام کے یہ معنے ہیں کہ جس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ اب دنیا میں میرا پیارا صرف ہو.
سيرة النبي علي 380 جلد 4 ایک ہی وجود ہے اس کے سوا میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا.یہ وہی بات ہے جو بعض احادیث قدسیہ میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ 3 کہ صلى الله اے محمد یہ ساری دنیا تیری مٹھی میں آگئی ہے.جدھر تیرا ہاتھ اٹھے گا اُدھر ہی میرا ہاتھ اٹھے گا.جدھر تیری نظر ہوگی اُدھر ہی میری نظر ہوگی.یہ تو حید کا مقام ہے جو اصل مقام تو محمد ﷺ کا ہے لیکن ظلی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ مقام صلى الله حاصل ہوا ہے.پھر یوں بھی رسول کریم علے تو حید کے مظہر تھے کہ جیسی تو حید محمد علی ہے نے قائم کی ایسی تو حید قائم کرنا تو الگ رہا کسی دوسری قوموں نے اس رنگ میں تو حید کو سمجھا بھی نہیں.یہ اس تفصیل کا موقع نہیں ورنہ میں بتاتا کہ دنیا نے توحید کو سمجھا ہی نہیں.تو حید وہی ہے جو رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی.پھر یہ بھی توحید کا مقام تھا کہ رسول کریم ﷺ سید ولد آدم تھے یعنی دنیا کے تمام انسانوں میں سے افضل واعلیٰ ہیں اور آئندہ بھی کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنتا جو آپ کے درجہ کی بلندی کو پہنچ سکے.پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ خدا تعالیٰ کے حضور اُس کی توحید سے آپ نے ایسا تعلق قائم کیا کہ دنیا وَ مَا فِيهَا آپ کی نظروں سے غائب ہو گئے اور خدا ہی خدا آپ کو نظر آنے لگ گیا.گویا ایک آپ کا وجود تھا اور ایک خدا کا.انسانی وجودوں میں سے واحد وجود آپ کا تھا اور خدا تو ایک ہے ہی.اور پھر اس لحاظ سے بھی آپ تو حید کے مقام پر تھے کہ تو کل کا اعلیٰ مقام آپ کو حاصل تھا اور آپ کی نظر خدا کے سوا اور کسی کی طرف نہ اٹھتی تھی.پھر صفت رب العلمین کا مادہ بھی خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیا اور اسے اتنا وسیع کیا ، اتنا وسیع کیا کہ ہر ماں اور ہر باپ اپنے بچہ کی ربوبیت کر رہا ہے.پھر محمدعلی اللہ کو دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ آپ اس صفت کے کامل مظہر تھے اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے احسان سے باہر رہ گئی ہو.مخلوق میں سے اہم جنس حیوان ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انسانوں پر رحم کیا بلکہ آپ کے
سيرة النبي عمال 381 جلد 4 دائرہ شفقت میں دوسرے حیوانات بھی آگئے اور آپ نے ان کی بہتری کے لئے اپنی امت کو کئی احکام دیئے ہیں.مثلاً آپ نے فرمایا کہ آزاد جانور کو باندھ کر مت رکھو اور اگر باندھ کر رکھتے ہو تو ان کے کھانے پینے کا بندو بست کرو.اس حکم کے ماتحت ہر شخص جو کسی جانور کو اپنے گھر میں باندھ کر رکھتا ہے وہ اس بات پر مجبور ہے کہ اسے کھانے پینے کے لئے دے اور اگر نہیں دے گا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ دوزخ میں جائے گا 4.پھر جانورں پر آپ نے اس قدر رحم کیا کہ فرمایا کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح مت کرو تا اسے تکلیف نہ ہو.کسی جانور کو کند چھری سے ذبح نہ کرو 5.اسی طرح جانور کو باندھ کر نشانہ بنانے سے منع کیا 6.جانور پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے روکا.اسی طرح منہ پر داغ دینے کی ممانعت کی اور فرمایا اگر داغ لگانا ہی ہو تو پیٹھ پر لگا و 2.غرض جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانوروں کے لئے مقرر ہیں ان کے سوا باقی ہر قسم کی تکلیف سے آپ نے انہیں محفوظ کر دیا.اور پھر جو زیادہ سے زیادہ رحم جانوروں پر کیا جا سکتا تھا وہ بھی آپ نے کیا اور فرمایا جو جانور پالتو نہیں دانے وغیرہ چگتے رہتے ہیں اُن کو دانے وغیرہ ڈال دینا بھی ثواب کا موجب ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا ایک شخص تھا جو جانوروں کو دانے ڈالا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اس نے اسی نیکی کے عوض اسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.غرض آپ کے احسانات سے حیوانات بھی باہر نہیں اور انسان باہر نہیں.انسانوں میں سے مرد اور عورت کو لے لو.پہلی قوموں نے مردوں کے متعلق بے شک قوانین تجویز کئے تھے مگر عورتوں کے حقوق کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا تھا.رسول کریم صلى الله ے وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ تعلیم دی کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ 2 جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں 8
سيرة النبي عمال 382 جلد 4 کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں.پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے.اسے جائیداد کا مالک قرار دیا ، اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا، اس کی تعلیم کی نگہداشت کی ، اس کی تربیت کا حکم دیا اور پھر فیصلہ کر دیا کہ جس طرح جنت میں مرد کے لئے ترقیات کے غیر متناہی مراتب ہیں اسی طرح جنت میں عورتوں کے لئے بھی غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.پھر مردوں کی مختلف شاخیں ہیں.کبھی مرد بحیثیت باپ ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بھائی ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بیٹا ہوتا ہے اور کبھی مرد بحیثیت خاوند ہوتا ہے.اسی طرح عورت کبھی بحیثیت ماں ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بیٹی ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بہن کے اور کبھی بحیثیت بیوی کے.پھر مرد کبھی معلم ہوتا ہے کبھی متعلم.عورت بھی کبھی معلمہ ہوتی ہے اور کبھی متعلمہ.پھر عورت کبھی دودھ پلانے والی ہوتی ہے اور کبھی دودھ پینے والی.کبھی مرد دودھ پلوانے والا ہوتا ہے اور کبھی خود دودھ پینے والا یعنی چھوٹا بچہ ہوتا ہے.پھر مرد عورت خریدار بھی ہوتے ہیں اور بیچنے والے بھی ہوتے ہیں.وہ محنت کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور مزدوری دینے والے بھی ہوتے ہیں.معاہدہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور معاہدہ لینے والے بھی ہوتے ہیں.حاکم بھی ہوتے ہیں اور محکوم بھی ہوتے ہیں.غرض ہر قسم کی زندگی مردوں سے بھی تعلق رکھتی ہے اور عورتوں سے بھی.ان تمام شعبوں میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ مردوں کو بھی احکام دیے اور عورتوں کو بھی.پھر انسانوں میں قوموں ، مذہبوں اور حکومتوں کے تفاوت کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہیں.مگر جہاں گھمسان کی لڑائی الله ہو رہی ہوتی ہے، جہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا وہاں محمد ﷺ کے ذریعہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ بے شک میرے ماننے والے مسلمان ہیں اور نہ ماننے والے کا فر مگر دیکھو میں رب العلمین کا مظہر ہوں.دیکھنا ! ان کفار میں سے کسی عورت کو نہ مارنا ، دیکھنا !
سيرة النبي عليه الله 383 جلد 4 ان میں سے کسی بچے کو نہ مارنا، دیکھنا ! ان کے کسی پنڈت، پادری یا راہب کو قتل نہیں کرنا ، دیکھنا ! باغات نہ جلانا ، معبد نہ گرانا ، پھل دار درخت نہ کاٹنا.دیکھنا ! جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا، دیکھنا! کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرنا جس نے تمہارے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے ہوں.دیکھنا ! زخمی کو نہ مارنا، دیکھنا! کسی کو آگ سے عذاب نہ دینا ، دیکھنا ! کفار کا مثلہ نہ کرنا اور ان کے ہاتھ پاؤں نہ کاٹنا.یہ سب احکام جو رسول کریم علیہ نے دیئے یہ مسلمانوں کے لئے تو نہیں تھے ، یہ کفار کے لئے تھے.آخر مسلمانوں نے مسلمانوں کے ناک، کان اور ہاتھ نہیں کاٹنے تھے انہوں نے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر آگ میں نہیں جلانا تھا.وہ اگر مثلہ کر سکتے تھے یا آگ سے عذاب دے سکتے تھے تو کافروں کو.پس یہ احکام مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے نہیں تھے بلکہ کفار کی خیر خواہی کے لئے تھے اور ان کے آرام اور بچاؤ کے لئے یہ سب سامان تھے.گو یا تمثیلی زبان میں اگر ہم ان واقعات کو بیان کریں تو اس کا نقشہ یوں کھینچا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک لمبے عرصہ تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد جب تلواریں سونت کر کفار پر حملہ آور ہوئے تو وہی محمد ﷺ جو مسلمانوں کو کفار سے لڑا رہے تھے ، کیا دکھائی دیتا ہے کہ دشمنوں کے آگے بھی کھڑے ہیں اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر یہ ختی نہ الله کرو، وہ سختی نہ کرو.گویا محمد یہ صرف مسلمانوں کے لشکر کی ہی کمان نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ کفار کے لشکر کی بھی کمان کر رہے تھے اور اُسے بھی مسلمانوں کے حملہ سے بچارہے تھے.پس لڑائیوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت رب العلمین کا مظہر ہونے کا ثبوت نظر آ رہا ہے.پھر غلاموں پر بھی آپ نے احسان کیا اور فرمایا جو شخص کسی غلام کو مارتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا فدیہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے.آپ نے فرمایا اپنے غلام سے وہ کام نہ لو جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خو د ساتھ لگ کر کام کراؤ.اور اگر تم اس کے لئے تیار نہیں تو تمہارا حق نہیں کہ اس سے کام لو.اسی طرح اگر غلام صلى الله
سيرة النبي علي 384 جلد 4 کے لئے تمہارے منہ سے کوئی گالی نکل جاتی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اسے فوراً آزاد کر دو.غرض مزدور اور آقا کے لحاظ سے بھی آپ نے صفت رب العلمین کا مظہر بن کر دنیا کو دکھا دیا.آپ نے ایک طرف مزدور کو کہا کہ اے مزدور تو حلال کما اور محنت سے کام کر.اور دوسری طرف آقا سے کہا کہ اے محنت لینے والے! تو حد سے زیادہ اس سے کام نہ لے اور اس کا پسینہ سُوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری اسے دے.اسی طرح تجارتوں کے متعلق اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی رسول کریم علیہ نے احکام دیئے ہیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر رسول کریم ﷺ کا کوئی احسان نہ ہو.الله کوئی کہہ سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں پر تو رسول کریم ﷺ نے یہ احسانات کئے آپ کے پہلوں پر کیا احسان ہیں؟ سوایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے احسانات نہ صرف موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں پر ہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے.آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں تمام انبیاء پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے.تم مجھے ایک ہی نبی ایسا بتا دو جس پر کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو.ہر نبی پر الزام لگا اور انہی قوموں نے ان پر الزام لگایا جو ان انبیاء کو ماننے والی تھیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت داؤد علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی الزام لگا اور عیسائیوں نے تو حضرت عیسی علیہ السلام کو مستی کرے کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سب نبی چور اور بٹ مار تھے.مگر حضرت عیسی علیہ السلام کی نیکی بھی ان کی نگاہ میں کیا تھی؟ انہوں نے منہ سے تو کہہ دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بے گناہ تھے مگر تفصیلات میں وہ ان پر الزام لگانے سے بھی باز نہیں آئے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اس پر سواری کرتے پھرے.لوگوں کو گالیاں دیتے تھے اور انہیں حرام کار اور بدکار کہتے تھے.وہ لوگوں کے گناہ اٹھا کر صلیب پر لٹک گئے اور اس طرح نَعُوذُ باللهِ مِنْ ذَلِكَ لعنتی بنے اور تین دن دوزخ میں رہے.وہ لوگوں
سيرة النبي م 385 جلد 4 کے سؤروں کے گلے بغیر ان کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کر دیا کرتے تھے.یہ سب باتیں مسیحی کتب میں لکھی ہیں.پھر ہندوؤں کو لے لو.وہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو اپنا اوتار مانتے ہیں.مگر رام چندر جی کا سیتا سے جو سلوک بیان کرتے ہیں وہ اگر ایک طرف رکھ لیا جائے اور دوسری طرف ان کی بزرگی اور نیکی دیکھی جائے تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کیا ہو.مگر وہ حضرت رام چندر کی طرف بے دریغ یہ ظلم منسوب کرتے جاتے ہیں.پھر حضرت کرشن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرا چرا کر لے جایا کرتے تھے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نبی صلى الله تھے.غرض تمام انبیاء پر بیسیوں الزامات لگائے جاتے تھے.یہ صرف محمد یہ کی ہی ذات ہے جس نے تمام انبیاء سے ان اعتراضات کو دور کیا اور بتلایا کہ یہ لوگ نیک، پاک اور راستباز تھے.ان پر الزام نہیں لگانا چاہئے.پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف موجودہ اور آئندہ نسلوں پر احسان کیا بلکہ پہلے لوگوں پر بھی احسان کیا جو وفات پاچکے تھے اور ان کی قوموں پر بھی احسان کیا.جب ایک یہودی کو بتادیا جائے کہ تمہارے بزرگ تمام نقائص سے پاک تھے تو اس کی گزشتہ تاریخ کتنی صاف ہو جاتی ہے اور وہ کیسی خوشی کے ساتھ ان بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرے گا.یہی حال عیسائیوں کا ہے اور یہی حال دوسری قوموں کا ہے.پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف اپنی قوم کی ترقی کے راستے کھولے بلکہ دوسری قوموں کی روایات کو بھی صاف کیا اور ان کے سامنے بھی ان کے بزرگوں کے اعلیٰ نمونے پیش کئے جن کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے وہ عظیم الشان ترقی کر سکتے ہیں.پھر آپ نے ملائکہ پر بھی احسان کیا.طرح طرح کے الزام تھے جو ان پر لگائے جاتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَو کہ ملائکہ گنہگار نہیں ان کے اندر خدا تعالیٰ نے انکار کا مادہ ہی نہیں رکھا.انہیں جو بھی حکم ہے اس کی وہ اطاعت کرتے ہیں.پس ان پر کسی قسم کا الزام لگانا اور یہ کہنا کہ انہوں نے
سيرة النبي علي 386 جلد 4 بھی فلاں گناہ کیا سخت ظلم ہے.پھر رسول کریم اللہ نے دنیا کے ہر گنہگار پر احسان کیا اور اس کے دل کو خوشی سے لبریز کر دیا.رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے ساری دنیا یہ کہا کرتی تھی کہ گنہگار ہمیشہ کے لئے دوزخ میں گرائے جائیں گے اور جو شخص ایک دفعہ جہنم میں چلا گیا پھر وہ وہاں سے نہیں نکل سکے گا.گویا دنیا گنہ گاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتی تھی اور توبہ کا دروازہ اس پر بند بتلاتی تھی.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان کتنا ہی گنہگار ہو جائے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے کے لئے تیار ہے.بیشک گنہگاروں کے گناہ بہت بڑے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا رحم اس سے بھی بڑا ہے.پس تم اس بات سے مت گھبراؤ کہ تم گناہوں میں ملوث ہو، تم تو بہ کرو کہ خدا آج بھی تمہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہے.کتنی امید ہے جو گنہگاروں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ نے پیدا کر دی.کتنی امنگ ہے جو آپ نے ان کے قلوب میں پیدا کر دی.غرض رب العلمین کی صفت اعلیٰ درجہ کے کمال کے ساتھ محمد مے میں ظاہر ہوئی اور ان سے اتر کرامت محمد یہ کے اور بہت سے اولیاء وصلحاء میں ظاہر ہوئی اور ظاہر ہوتی رہتی ہے.“ 1: السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 صفحه 312 مطبوعہ دمشق 2005 ء 2 تذکرہ صفحہ 53 ایڈیشن چہارم 2004 ء 3: موضوعات کبیر.ملا علی قاری صفحہ 59 مطبوعہ دہلی 1346ھ الله (الفضل 4 دسمبر 1937 ء ) 4: بخارى كتاب المساقاة باب فضل سقى الماء صفحه 380 حدیث نمبر 2364 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :5 مسلم كتاب الصيد والذبائح باب الامر باحسان الذبح صفحہ 873 حدیث نمبر 5055 مطبوعہ ریاض اپریل 2000 ء الطبعة الثانية 6: مسلم كتاب الصيد والذبائح باب النهي عن صبر البهائم صفحہ 873 حدیث نمبر 5057
سيرة النبي علي 387 جلد 4 مطبوعہ ریاض اپریل 2000ء الطبعة الثانية 7:ابوداؤد كتاب الجهاد باب النهي عن الوسم فى الوجه صفحه 372،371 حدیث نمبر 5055 مطبوعہ ریاض اپریل 2000 ء الطبعة الثانية 8: البقرة: 229 9: التحريم : 7
سيرة النبي علي 388 جلد 4 رسول کریم ﷺ کا اہل خانہ سے پیار صلى الله حضرت مصلح موعود 26 نومبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.محمد ہے جن کے قدموں کے نیچے ہزاروں انسان اپنی آنکھیں بچھانے کے لئے تیار تھے اور جن کی خدمت کے لئے ہزاروں لوگ موجود تھے انہیں جب ہم اہلی زندگی میں دیکھتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک موقع پر جھکتے ہیں اور فرماتے ہیں عائشہ! میری پیٹھ پر پیر رکھ کر فلاں نظارہ دیکھ لو 1.پھر آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو حضرت حسن جو ابھی چھوٹے بچے تھے آتے اور جب آپ سجدہ میں جاتے تو گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتے.جب آپ سجدہ کے بعد کھڑے ہونے لگتے تو انہیں اپنی گودی میں لے لیتے.پھر رکوع میں جاتے تو اتار دیتے اور جب پھر سجدہ میں جاتے تو وہ پھر آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے.صحابہ ایک دفعہ یہ دیکھ کر حضرت حسن پر ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا رہنے دو بچوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کے شفیق بنو 2.غرض گو دنیا جہان کے لئے محمد ﷺ قربانی کر رہے تھے اور دنیا جہان بھی آپ کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار تھی مگر حضرت حسنؓ کے ساتھ سلوک ایک جدا گانہ رنگ رکھتا تھا.جو سلوک آپ سے حسنؓ کرتے تھے کسی اور کا بچہ کرتا تو شاید وہ باپ اپنے بچہ کو مار مار کر ادھ موا کر دیتا.“ ( الفضل 4 دسمبر 1937 ء) 10 دسمبر 1937 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.جو عشق میں مخمور ہو کر عشقی نقل کرتا ہے وہی حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے.بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نماز میں بھی بعض دفعہ رسول کریم ﷺ کی طرف دیکھتے تھے کہ آپ
سيرة النبي علي 389 جلد 4 کس طرح نماز پڑھتے ہیں.یہ عشق کی نقل تھی دماغی اور عقلی نقل نہیں تھی.اس عشق میں بعض دفعہ والا معاملہ بھی ہو جاتا ہے.عشق است و ہزار بدگمانی ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسول کریم عملہ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ جب آپ سجدہ میں گئے تو آپ نے بہت دیر کردی اور سجدہ بہت لمبا ہو گیا.یہ دیکھ کر میرے دل میں وہم اٹھنا شروع ہو گیا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو.چنانچہ میں الله نے سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت حسن رسول کریم ﷺ کی گردن پر اس طرح بیٹھے ہیں جس طرح کوئی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے.یہ دیکھ کر میں پھر جلدی سے سجدہ میں چلا گیا.جب نماز ہو چکی تو باقی صحابہ نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ! کیا سجدہ میں حضور پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے کہ اس قدر دیر حضور نے کردی؟ یا خدانخواستہ کوئی تکلیف ہو گئی تھی؟ ہمیں تو سخت گھبراہٹ ہونے لگ گئی تھی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ خدا کے فضل سے کوئی تکلیف ہوئی ہے.یہ ہمارا بیٹا ہماری گردن پر سواری کرنے بیٹھ گیا تھا اور ہم نے کہا کہ چلو تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی سواری کرلے، اگر اسے ہٹایا تو اسے تکلیف ہوگی 3.“ ( الفضل 18 دسمبر 1937ء ) :1 بخاریى كتاب العيدين باب الحراب والدرق يوم العيد صفحہ 153 حدیث نمبر 950 مطبوعہ ریاض مارچ 1999ء الطبعة الثانية 2 كنز العمال جلد 13 صفحہ 669 حدیث نمبر 37706 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء(مفہوماً) 3 كنز العمال جلد 13 صفحہ 667 ، 668 حدیث نمبر 37702 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء (مفہوماً)
سيرة النبي علي 390 جلد 4 جملہ اخلاق کے جامع حضرت مصلح موعود 17 دسمبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے لئے لَكَرِهُونَ 1 بمقام مدح میں بیان کیا ہے.وہ جانتا تھا کہ کسی زمانہ میں ان پر یہ الزام لگایا جائے گا.جیسے آجکل یورپین مؤرخ کرتے ہیں کہ وہ لوگ لوٹ مارکو پسند کرتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ صحیح نہیں بلکہ وہ تو لڑائی کو دل سے ناپسند کرتے تھے اور صرف اس صورت میں لڑتے تھے کہ جب دیکھتے کہ اب کافروں نے ان کے لئے اس سے بچنے کا کوئی رستہ نہیں چھوڑا.تو یہ ان کی نیکی بیان کی گئی ہے کہ وہ مجبور ہو کر لڑتے تھے ورنہ وہ کسی کو دکھ دینا پسند نہیں کرتے تھے.چنانچہ اس کی عملی مثال رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں ملتی ہے.باوجود اس کے کہ آپ نے درجن بھر سے زیادہ لڑائیوں میں حصہ لیا اور باوجود اس کے کہ آپ شدید معرکوں میں جو بلحاظ قتل و خونریزی کے شدید تھے، اگر چہ ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد زیادہ نہ ہو، کمان کرتے رہے.مگر سوائے ایک کے کوئی شخص آپ کے ہاتھ سے مارا نہیں گیا اور وہ بھی اس لئے کہ اس نے خود آپ کے ہی ہاتھ سے مارے جانے پر زور دیا.آپ خود سے بھی مارنا پسند نہ کرتے تھے.صحابہ اس کے مقابلہ پر آتے مگر وہ سب سے کہتا کہ تم ہٹ جاؤ میرا مقابلہ محمد سے ہے اور میں تم میں سے کسی سے نہیں لڑوں گا.یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے آنے دو.ورنہ آپ پر نَعُوذُ بِاللهِ بزدلی کا الزام لگتا اور غیرت کے خلاف فعل سمجھا جاتا.اور جب وہ آگے آیا تو آپ نے اُسے قتل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اُس کے حملہ کو روکنے کے لئے نیزہ کی آنی چھوٹی
سيرة النبي علي 391 جلد 4 اور اسی سے اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا شدید درد پیدا کر دیا کہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ گیا اور بعد میں مر گیا 2.گویا اسے بھی آپ نے قتل نہیں کیا بلکہ صرف زخمی کیا اور یہ اتنی عظیم الشان بات ہے کہ دنیا کی کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ کوئی جرنیل اور کمانڈر اس قدر معرکوں میں شامل ہوا ہو اور اس کے ہاتھ سے صرف ایک ہی شخص مارا گیا ہو.تو صحابہ عام طور پر اور آنحضرت مہ خاص طور پر لڑائی کو نا پسند کرتے تھے مگر باوجود اس کے ان کو لڑائیاں کرنی پڑتی تھیں.اس لئے کہ دشمن ان کو مجبور کر دیتے تھے.الأمَاشَاءَ الله بعض اس کے برعکس بھی ہوں گے جو لڑائی کو پسند کرتے ہوں گے اور تیز طبیعت بھی ہوں گے مگر مستثنیات ہمیشہ قانون کو ثابت کرتی ہیں رد نہیں کرتیں.تو وہ اخلاق جو طبیعت کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں وہی نیکی کے کمال پر دلالت کرتے ہیں.طبیعت کے میلان کے مطابق جو نیکی ہو وہ کامل نیکی نہیں کہلا سکتی.مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو 3.اب اگر ان کا سارا کریکٹر اسی نقطہ کے گرد گھومتا ہے اور یہی بات ان کے ہر عمل میں نظر آتی ہے تو یہ کوئی اعلیٰ خوبی نہیں.اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کی تمام نیکیوں میں ان کے طبعی میلان کا دخل ہے.نیکی دراصل اسی کی ہوتی ہے جس کی زندگی میں ہر قسم کی نیکیاں پائی جائیں.جیسے ہمارے رسول کریم ﷺ کی ذات ہے.عفو میں آپ نے ایسا نمونہ دکھایا کہ اس سے بہتر عفونہیں ہوسکتا.لڑائی میں اس قدر دلیر تھے کہ آپ سے بڑھ کر کوئی دلیر نظر نہیں آتا.پالیسی میں اس قدر ذہین تھے کہ آپ سے بہتر تد بیر کرنے والا اور سپاہیوں کو لڑانے والا کوئی دوسرا نہیں ملتا.جب آپ تقریر کرتے تو ایسی کہ بڑے بڑے مقررین آپ کے سامنے بیچ نظر آتے.ایک دفعہ آپ تقریر کرنے کے لئے صبح کھڑے ہوئے تو شام تک تقریر کرتے رہے صرف نماز کے لئے بند کرتے اور نماز پڑھ کر پھر شروع فرما دیتے.مگر جب مختصر بات فرماتے تو ایسی کہ اس کی تفسیر میں کئی کتابیں لکھی جاسکیں.گویا ایک طرف آپ کے لیکچر میں اتنی
سيرة النبي عمال 392 جلد 4 وسعت نظر آتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری طرف اختصاراً کلام فرماتے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.جب آپ سخاوت کرتے تو انتہا درجہ کی حتی کہ صحابہ کا بیان ہے کہ آپ بالخصوص رمضان میں اس طرح سخاوت کرتے کہ جس طرح تیز آندھی چلتی ہے 4.اور پھر اس کے ساتھ ہی لَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا 5 پر آپ کا عمل تھا.یعنی سخاوت کو فضول اور رائیگاں نہ گنواتے اور نہ بے محل استعمال کرتے.حاتم طائی کی سخاوت تو تھی مگر بے محل کیونکہ وہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ والی سخاوت تھی.باپ کے مال پر اُس کا کیا حق تھا کہ اُسے تقسیم کر دیتا.اس کے مقابل پر آنحضرت ﷺ ایک طرف تو آپ اس قدرسخی تھے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان کے دنوں میں آپ اس طرح سخاوت کرتے کہ گویا تیز آندھی چل رہی ہے.مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک دفعہ آپ کی عزت کی اور کہا کہ آپ پانچ آدمیوں کو ساتھ لے آئیں.آپ نے پانچ آدمیوں کو ساتھ لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے.رستہ میں ایک چھٹا آدمی ساتھ شامل ہو گیا.بعض طبائع بے تکلف ہوتی ہیں اور ایسے لوگ خود بخو د ساتھ ہو جایا کرتے ہیں.جب آپ اس شخص کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا کہ اس نے صرف پانچ آدمیوں کی اجازت دی تھی ، چھ کی نہیں.گویا جب دوسرے کے حق کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے اس قدر احتیاط کی.یوں تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمی کھا سکتے ہیں مگر اُس وقت یہ نہیں فرمایا کہ پانچ کا کھانا چھ کھا لیں گے کیونکہ یہاں سخاوت کا نہیں بلکہ دوسرے کے حق کا سوال جب آپ قضا فرماتے تو یہی نظر آتا تھا کہ آپ بہترین قاضی ہیں اور ساری توجہ آپ کی اسی کام کی طرف ہے.لیکن جب تدریس فرماتے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا میلان اسی کی طرف ہے اور آپ بہترین مدرس ہیں.پھر جب آپ تربیت فرماتے تو یہی معلوم ہوتا کہ آپ بالکل ایسے ہیں جیسے تربیت کرنے والے اور بورڈنگوں وغیرہ کے افسر ہوتے ہیں اور گویا آپ صرف مربی ہیں.پھر جب مجلس میں
سيرة النبي علي 393 جلد 4 بیٹھتے تو صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص یہی خیال کرتا تھا کہ آپ میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور یہ نظر آتا تھا کہ آپ کو ان لوگوں کے سوا اور کسی کا بلکہ اپنے گھر والوں کا بھی کوئی خیال نہیں.لیکن جو نہبی گھر میں قدم رکھتے آپ کی بیویاں خیال کرتیں کہ آپ سے زیادہ محبت کرنے والا خاوند دنیا بھر میں نہیں ہوگا.آپ جب بچوں سے ملتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ایک خوش مذاق نوجوان ہیں اور بچوں سے کھیلنے میں ہی ساری لذت محسوس کرتے ہیں.کسی بچہ کو کندھے پر اٹھاتے ، کسی کو چھیڑتے ، کسی کو پیار فرماتے ہیں مگر جب بوڑھوں میں جاتے تو ایسا نظر آتا کہ بڑھاپا ہی بڑھاپا ہے.آپ کے منہ سے عقل اور تدبیر کے پھول جھڑتے ہیں.جب آپ دوستوں کی طرف توجہ کرتے تو معلوم ہوتا ہے ان کے سوا آپ کو کسی کا خیال تک نہیں.مگر جب دشمن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ بھی اتنا ہی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جتنا دوست.مختصر یہ کہ دنیا کی کوئی نیکی ایسی نہیں جس میں آپ نمایاں نظر نہیں آتے اور نیکی اسی کا نام ہے.یہ نیکی نہیں کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو، یہ تو طبیعت کا میلان ہے.نیکی یہی ہے کہ ایک تھپڑ کھا کر دوسرا آگے کرنے کے موقع پر آگے کر دیا جائے اور مقابلہ کرنے کے موقع پر مقابلہ کیا جائے.ہاتھ کھولنے کے موقع پر کھولا جائے اور بند رکھنے کے موقع پر بند رکھا جائے.دوستوں کے تحفظ کا سوال ہو تو اس کا خیال رکھا جائے اور دشمنوں سے انصاف کا موقع ہو تو اس کا.قضاء کے موقع پر بہترین قاضی بنا جائے اور لڑائی کے موقع پر بہترین جرنیل.تعلیم کا معاملہ ہو تو انسان معلم بنے اور تربیت کا وقت ہو تو مربی.اور اخلاق بیان کرنے کا وقت ہو تو عظیم الشان فلسفی نظر آئے.غرضیکہ ساری نیکیوں کا خیال رکھا جائے.یہی حقیقی اور کامل نیکی ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں طبیعت کا میلان نہیں ہو سکتیں.ایسی حالت میں ماننا پڑے گا کہ اگر کچھ چیزیں طبیعت کا میلان ہیں تو کچھ ایسی بھی ہیں جو محض نیکی کی خاطر اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جارہی
سيرة النبي عمال 394 ہیں.یہ چیز ہے جو دنیا میں نیکی کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے.“ 1: الانفال : 6 جلد 4 (الفضل 22 دسمبر 1937 ء ) 2 السيرة النبوية لابن هشام جلد 2 صفحہ 863 زیر عنوان مقتل ابی بن خلف مطبوعہ دمشق 2005 ء 3 متی باب 5 آیت 39 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور 2011ء 4 بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي صلى الله عليه وسلم صفحہ 306 حدیث نمبر 1902 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية 5: بنی اسرائیل : 27 6 مسلم كتاب الاشربة باب ما يفعل الضيف اذا تبعه صفحه 907 حدیث نمبر 5309 مطبوعہ ریاض اپریل 2000ء
سيرة النبي علي 395 جلد 4 رسول کریم ہے کے غیر معمولی یقین کے اثرات حضرت مصلح موعود 24 دسمبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.” دل کے اندر سے نکلی ہوئی بات دوسرے کے دل پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی اور انسان خواہ کس قدر مخالف ہو اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور اس میں انبیاء اور اولیاء کی کوئی تخصیص نہیں.عام مومن پر بھی جب اس قسم کا وقت آتا ہے تو اس کے ذریعہ قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی ایک مثال ہے جو اس امر کو خوب واضح کر دیتی ہے.حضرت عمر ا سلام کے سخت دشمن تھے.اتنے دشمن کہ وہ ایک دفعہ رسول کریم ع کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے چل پڑے.مگر ابھی رستہ میں ہی تھے کہ کسی نے ان سے پوچھا عمر ! کہاں جا رہے ہو؟ وہ کہنے لگے محمد (ع) کا کام تمام کرنے چلا ہوں.اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ وہ کہنے لگا اعتبار نہیں تو گھر جا کر دیکھ لو.چنانچہ وہ اپنے بہنوئی کے گھر گئے ، دیکھا تو دروازہ بند تھا اور اندر انہوں نے ایک صحابی کو بلایا ہوا تھا جس سے وہ قرآن مجید سن رہے تھے.حضرت عمرؓ نے دستک دی، انہوں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر اندر داخل ہو گئے اور پوچھا کہ بتاؤ کیا ہو رہا تھا ؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں.وہ کہنے لگے کہ کچھ کیوں نہیں کوئی بات ضرور ہے اور میں نے سنا ہے تم مسلمان ہو چکے ہو.یہ کہتے ہوئے وہ غصہ میں آگے بڑھے تا کہ اپنے بہنوئی کو ماریں.جب وہ مارنے لگے تو ان کی بہن اپنے خاوند کی محبت کے جوش میں ان کو بچانے کے لئے بیچ
سيرة النبي علي 396 جلد 4 میں آگئیں.اہلِ عرب کی یہ فطرت نہیں تھی کہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھا ئیں مگر حضرت عمرؓ چونکہ اپنے بہنوئی پر ہاتھ اٹھا چکے تھے اس لئے روک نہ سکے اور ضرب ماردی جو بجائے اپنے بہنوئی کے ان کی بہن کو جانگی اور ان کے جسم سے خون ٹپکنے لگا.یہ دیکھ کر ان کی بہن جوش میں آگئیں اور انہوں نے کہا عمر! پھر ہم مسلمان ہو چکے ہیں تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے کر لو.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ڈر کی وجہ سے مسلمان عام طور پر ان سے کھل کر گفتگو نہیں کرتے تھے.مگر اُس دن جب انہوں نے یقین اور وثوق بھرے ہوئے یہ الفاظ سنے کہ تم نے جو کرنا ہے کر لو ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور اب اسلام کو ہم ہرگز چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تو گو یہ الفاظ ایک کمزور فطرت عورت کے منہ سے نکلے تھے جو عام طور پر دوسرے کی حفاظت چاہتی ہے مگر جب اس عورت نے یہ کہہ دیا کہ میں عورت ہو کر یہ کہتی ہوں کہ اب ہم اسلام پر قائم ہو چکے ہیں تم نے جو کرنا ہے کر لو تو یہ یقین اور وثوق ان کے دل کو کھا گیا اور انہوں نے کہا اچھا مجھے بھی بتاؤ کہ تم کیا سن رہے تھے.انہوں نے کہا تم قسم کھاؤ کہ اس کی بے ادبی نہیں کرو گے.انہوں نے یقین دلایا کہ میں بے ادبی نہیں کروں گا.آخر انہوں نے اُس صحابی کو جسے انہوں نے مکان میں پوشیدہ کر دیا تھا اندر سے بلایا اور قرآن شریف سنانے کے لئے کہا.انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات پڑھ کر سنائیں.چونکہ وہ اس سے پہلے اسلام کی صداقت کے متعلق ایک یقین اور وثوق کا نظارہ دیکھ چکے تھے اور وہ یہ یقین بھری تبلیغ سن چکے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر اسلام کو نہیں چھوڑیں گے اور اس قسم کی تبلیغ انہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اس لئے قرآن کریم سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہاں سے اٹھ کر سید ھے رسول کریم ﷺ کی مجلس میں صلى الله پہنچے.بعض صحابہ اور رسول کریم ﷺ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے اور دروازہ بند تھا کہ حضرت عمرؓ نے دستک دی.آپ نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا عمر.صحابہؓ نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! یہ شخص بڑا خطرناک اور لڑا کا ہے دروازہ نہیں کھولنا چاہئے.ایسا.
سيرة النبي علي 397 جلد 4 نہ ہو کہ آپ کی کوئی بے ادبی کرے.مگر حضرت امیر حمزہ نے جو رسول کریم ﷺ کے چچا تھے اور بڑے بہادر انسان تھے کہا دروازہ کھولو ڈر کی کون سی بات ہے.اور رسول کریم صلى الله نے بھی فرمایا کہ کھول دو.جب صحابہ نے دروازہ کھولا تو رسول کریم ہے ان کا استقبال کرنے کے لئے دروازہ تک تشریف لے گئے اور جب حضرت عمر اندر داخل ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عمر! کیا اب تک تمہاری ہدایت کا وقت نہیں آیا ؟ وہ اُدھر اپنی بہن کے ایمان کا نظارہ دیکھ کر آئے تھے ، ادھر رسول کریم ﷺ کا جب یہ فقرہ انہوں نے سنا تو ان کا جسم سر سے لے کر پیر تک ہل گیا.کیونکہ اس فقرہ میں گو بظاہر دو چار لفظ ہیں مگر کیسا یقین اور وثوق ہے جو ان الفاظ سے ٹپک ٹپک کر ظاہر ہو رہا ہے کہ جس سچائی اور صداقت کو میں لے کر دنیا میں آیا ہوں اسے جلد یا بدیر دنیا مان کر رہے گی اور ہر ایک کا ایک وقت ہے جس میں اسے ہدایت ملے گی.مگر اے عمر ! کیا تیرا وقت ابھی نہیں آیا؟ اس فقرہ کا سننا تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل سے رہی سہی میل بھی دور ہوگئی.عمر جیسے سخت گیر انسان پر بے انتہا رقت طاری ہوگئی.بے اختیار ان کی چیخیں نکل گئیں اور وہ کہنے لگے يَا رَسُولَ اللهِ! میں تو خادم ہونے کے لئے آیا ہوں 1.دیکھو! یہ یقین کا اثر ہے جو حضرت عمرہ پر ظاہر ہوا اور جس نے ان کے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا.وہ پہلے بھی وہی قرآن سنتے تھے جو انہوں نے بعد میں سنا مگر جب ان کے کانوں میں ایک عورت کی یہ آواز پہنچی کہ میں ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں مگر اسلام کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ادھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ سنا کہ جس سچائی کو میں لے کر آیا ہوں ایک دن دنیا اسے ماننے پر مجبور ہوگی وہ اسے قبول کئے بغیر رہ نہیں سکتی.گویا واقعات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے رنگ میں پیش کیا کہ جس میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو اس یقین اور وثوق نے حضرت عمر کی حالت بالکل بدل ڈالی.اسی طرح تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک شریر اور مفسد شخص تھا جو گو مسلمان کہلاتا تھا
سيرة النبي عمال 398 جلد 4 مگر اسلامی احکام پر ہمیشہ بنسی اور تمسخر اڑاتا رہتا.لوگ اسے بہت سمجھاتے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا.کئی سال کے بعد ایک دفعہ لوگوں نے اسے دیکھا کہ وہ حج کر رہا ہے.یہ دیکھ کر لوگ اس کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تو تو حج پر ہنسی کرتا اور مخول اڑایا کرتا تھا مگر آج تو خود حج کرنے کے لئے آگیا یہ تغیر تیرے اندر کس طرح پیدا ہو گیا ؟ وہ کہنے لگا بے شک آپ لوگ مجھے سمجھایا کرتے تھے مگر ہدایت کا کوئی خاص وقت ہوتا ہے.ایک دن کا ذکر ہے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ گلی میں سے ایک شخص گزرا جو نہایت ہی درد ناک لہجہ میں یہ آیت پڑھتا جا رہا تھا کہ اَلَمُ يَأْنِ لِلَّذِينَ امَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ 2 کہ کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ڈر سے بھر جائیں.معلوم نہیں اُس کے دل کی اس وقت کیا کیفیت تھی اور اس کے اندر کس قدر سوز اور درد بھرا ہوا تھا کہ میں یہ آیت سنتے ہی تڑپ اٹھا اور میں اپنے گناہوں سے تو بہ کر کے حج کے لئے چل پڑا.تو صداقت اور یقین سے جو تبلیغ کی جاتی ہے اس میں اور دوسری باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور یہی وہ باتیں ہوتی ہیں جو دوسرے کے قلب کو بالکل صاف کر دیتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ سے واپس تشریف لائے تو ایک دشمن جس کے دو رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میں مارے گئے تھے اس نے اپنی تلوار لی اور رسول کریم ﷺ کے تعاقب میں چل پڑا.ایک جنگل میں جب اسلامی لشکر پہنچا تو تمام لوگ آرام کرنے کے لئے ادھر اُدھر منتشر ہو گئے.صحابہ گو رسول کریم ﷺ کا ہمیشہ پہرہ رکھتے تھے مگر اُس وقت انہوں نے خیال کیا کہ یہاں جنگل میں کون دشمن آنے لگا ہے اور سب اِدھر اُدھر درختوں کے نیچے سو گئے.رسول کریم ﷺ نے بھی اپنی تلوار ایک درخت کی شاخ میں لٹکا دی اور آرام کرنے کے لئے اُس درخت کے نیچے سو گئے.وہ شخص جو تعاقب میں تھا اسی موقع کا منتظر تھا.وہ جھٹ ایک جھاڑی کے پیچھے سے نکلا اور رسول کریم ﷺ کی تلوار اُس نے اٹھالی.الله
سيرة النبي عمال 399 جلد 4 آہٹ پاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی.اُس نے جب آپ کو جاگتے دیکھا تو تلوار سونت کر کہنے لگا بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے لیٹے لیٹے ایک اطمینان اور یقین سے فرمایا کہ اللہ.اللہ کا لفظ لوگ ہزاروں دفعہ استعمال کرتے ہیں مگر کون ہے جس کے الفاظ میں وہ اثر ہو جو رسول کریم ﷺ کے الفاظ میں تھا.آپ نے جس یقین اور وثوق سے یہ لفظ استعمال کیا وہ تلوار سے زیادہ تیزی کے ساتھ اس کے دل میں اتر گیا اور اس کا ایسا اثر اس پر پڑا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.رسول کریم علے نے فوراً وہ تلوار اٹھ کر پکڑ لی اور پھر اُس کے سر پر تلوار کھینچ کر فر ما یا بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے جواب دیا آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا اے نادان! تو نے پھر بھی سبق حاصل نہ کیا.کم از کم مجھ سے سن کر ہی تو یہ کہ دیتا اللہ مجھے بچائے گا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو وہ رسول کریم کے کو قتل کرنے کے لئے آیا تھا اور یا وہیں مسلمان ہو گیا3.تو دل سے نکلی ہوئی جو بات ہو اس کا رنگ بالکل اور قسم کا ہوا کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی بات پر ہی یقین نہ ہو تو اس ( الفضل 2 جنوری 1938ء) 66 نے اثر کیا کرنا ہے.“ 1: السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 صفحه 392 تا 396 مطبوعہ دمشق 2005 ء 2: الحديد : 17 3: البداية والنهاية الجزء الرابع صفحه 86 87 مطبوعہ قاهرة 2006ء عروسة
سيرة النبي علي 400 جلد 4 رسول کریم اے کے اموال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض صلی 27 دسمبر 1937ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.رُوِيَ أَنَّ رَجُلاً اَسْوَدَ مُضْطَرِبَ الْخَلْقِ غَائِرَ الْعَيْنَيْنِ نَاتِيَ الْجَبْهَةِ مُخْدَجَ الْيَدِ شَدِيدَ بَيَاضِ الشَّوُبِ يُقَالُ لَهُ عَمْرُو ذُوالْخُوَيْصِرَةِ أو أَوِ الْخُنَيْصِرَةِ وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُم بَعْضَ الْغَنَائِمِ فَقَالَ لَقَدْرَأَيْتُ قِسْمَةً مَّا اُرِيدَ بِهَا وَجُهُ اللهِ 1 یعنی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص جو کالے رنگ کا تھا، جس کے جسم کی بناوٹ میں بعض نقص تھے ، جس کی آنکھوں میں گڑھے پڑے ہوئے تھے ، جس کے ماتھے کی ہڈی باہر نکلی ہوئی تھی اور جس کے ایک ہاتھ میں بھی نقص تھا اور جو عام طور پر سفید لباس پہننے کا عادی تھا، جسے عمرو ذو الخُوَيْصِره يا حُنَيْصِرَہ کہا کرتے تھے رسول کریم ﷺ کی پیٹھ کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا.آپ اُس وقت غنیمت کے اموال مسلمانوں میں تقسیم فرما رہے تھے.جب آپ مال تقسیم کر چکے تو اُس نے گردن اٹھائی اور کہا آج میں نے مال کی وہ تقسیم دیکھی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو ہرگز مد نظر نہیں رکھا گیا.فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّدَ خَدَّاهُ وَقَال لَهُ وَيْحَكَ فَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلُ 2 یہ سن کر رسول کریم ﷺ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے یہاں تک کہ آپ کے کلے سرخ ہو گئے اور آپ نے فرمایا تیراستیا ناس ہو اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر دنیا میں اور کون عدل کرے گا.ثُمَّ قَالَ أَيَأْمَنُنِي اللهُ
سيرة النبي علي 401 جلد 4 عَزَّوَجَلَّ عَلَى اَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونَنِى وَقَامَ أَبُو بَكْرِو عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلى الرَّجُلِ لِيَقْتُلَاهُ فَوَجَدَاهُ يُصَلِّى فَلَمْ يَجُسُرَا عَلَى قَتْلِهِ ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ فَلَمْ يَجِدُهُ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ لَوْ قُتِلَ هَذَا مَا اخْتَلَفَ اثْنَان فِى دِينِ اللهِ إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ضِتُضِي هَذَا قَوْمٌ يَمُرُقُونَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ 3 پھر آپ نے فرمایا خدا نے تو ساری دنیا کی حفاظت و امانت کا کام میرے سپر د کر دیا ہے مگر تم مجھے اپنے تھوڑے سے مال میں بھی امین نہیں سمجھتے.یہ سن کر حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس شخص کی تلاش کی تاکہ اسے قتل کر دیں مگر انہوں نے دیکھا کہ وہ بڑی لمبی نماز پڑھ رہا ہے.یہ دیکھ کر ان کے دل میں خوف پیدا ہوا اور اُس کے قتل کی انہوں نے جرأت نہ کی.پھر حضرت علی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ میں اسے ضرور قتل کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا.رسول کریم ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اگر یہ شخص آج مارا جاتا تو اسلام میں آئندہ کبھی فتنہ پیدا نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کے دین کے بارے میں کبھی اختلاف پیدا نہ ہوتا.مگر اب اس قسم کے لوگ جو اس شخص کے طریق کی اتباع کرنے والے ہوں گے امت محمدیہ میں پیدا ہوں گے.وہ بظاہر بڑے دیندار ہوں گے، بڑی بڑی لمبی نمازیں پڑھنے والے ہوں گے مگر وہ دین.اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے.اگر میرے زمانہ میں یہ شخص ہلاک ہو جاتا تو آئندہ اس سے نفاق کا سلسلہ نہ چلتا مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں اسی قسم کے لوگوں کی وجہ سے اسلام میں فتنہ پیدا ہونے والا ہے.“ (الفضل 20 اگست 1964 ء ) 1 تا 3: بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام صفحہ 605 حدیث نمبر 3610 مطبوعہ ریاض اپریل 1999 ء الطبعة الثانية ( مفهوماً)
سيرة النبي علي 402 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متفرق حصے علی 28 دسمبر 1937ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ایک خطاب فرمایا جو انقلاب حقیقی کے نام سے شائع ہوا اس میں رسول کریم ﷺ کی 66 الله سیرت کا درج ذیل الفاظ میں ذکر فر مایا :.حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں مذہب کی عمارت تکمیل کے قریب پہنچ گئی تھی مگر ابھی پوری تکمیل نہ ہوئی تھی.سو اس کام کے لئے سید ولد آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ دور دور محمدی ہے.جامع کمالات انبیاء محمد مصطفی یا آپ آدم بھی تھے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنا خلیفہ تجویز کیا اور صحیح تمدن کے قیام کا کام آپ کے سپرد کیا.آپ نوح بھی تھے کہ آپ کو فرمایا گیا إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوح 1 پس نوح والا پیغام بھی آپ کی وحی میں شامل تھا.آپ ابراہیم بھی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثُمَّ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 2 کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو ابراہیم بھی بن جا.کوئی کہے بن جا کہنا تو ایک حکم ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ واقعہ میں ابراہیم بن بھی گئے تھے ؟ سو ہم کہتے ہیں اس کا ثبوت بھی قرآن سے ہی ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل هذِهِ سَبِيلِي اَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحْنَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ 3 دیکھ لو وہی وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ والا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی قف
سيرة النبي عمال 403 جلد 4 آگیا اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ تو دنیا سے کہہ دے کہ توحید کامل کے علمبر دار ہونے کا مقام مجھے بھی عطا ہوا ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے قُلْ إِنَّنِي هَدينى رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ 4 لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دی ہے اس راستہ کی طرف جو ابرا ہیمی طریق ہے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے.اس جگہ مشرک کے معنی عام مشرک کے نہیں ہیں بلکہ ایسے شخص کے ہیں جو اپنے دل و دماغ کی طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگائے اور اسے پورا تو کل حاصل نہ ہو.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے طریق پر چلایا ہے تو سوال ہوسکتا تھا کہ ابراہیم نے تو اپنی تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے سپرد کر دی تھیں اور جب انہیں کہا گیا تھا کہ اسلم تو انہوں نے کہہ دیا تھا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ.کیا آپ نے بھی یہی کچھ کہا ہے؟ تو فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ وہی کام میں نے بھی کیا ہے اور میری نماز اور میرا ذبیحہ اور میری زندگی اور میری موت سب رب العلمین کے لئے ہوگئی ہیں اور میں اس طرح خدا تعالیٰ کا بن گیا ہوں کہ اب میرے ذہن کے کسی گوشہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی کا خیال باقی نہیں رہا.غرض یہاں لَا شَرِيكَ لَهُ سے مراد کامل توحید کا اقرار ہے اور آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تو کہہ دے کہ اس اعلیٰ تعلیم پر چلنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا ہے.یعنی میں ابراہیمی تعلیم پر نقل کے طور پر نہیں چل رہا بلکہ مجھے وہ تعلیم براہِ راست خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے.اور پھر فرمایا کہ تم لوگ تو اس شبہ میں ہو کہ میں ابراہیمی مقام پر ہوں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ابراہیم کے مقام سے بھی آگے نکل گیا ہوں اور میں کہتا ہوں اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ کہ پہلا مسلم میں ہوں یعنی ابراہیم بھی اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ کہنے والا تھا اور میں بھی
سيرة النبي عليه 404 جلد 4 یہی کہتا ہوں اور زمانہ کے لحاظ سے ابراہیم کو تقدم حاصل ہے اور بظاہر اول الْمُسْلِمِینَ وہ بنتا ہے لیکن تقدم زمانی اصل شے نہیں تقدم مقام اصل شے ہے اور اس کے لحاظ سے میں ہی اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ ہوں اور ابراہیم میرے بعد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موسوی کمالات پھر موسوی کمالات بھی آپ کے اندر پائے جاتے تھے.جیسے سورۃ مزمل میں فرمایا گیا ہے کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا مگر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ مشابہت ، مشابہت مماثلت نہیں ہے بلکہ اعلیٰ کی ادنیٰ سے مشابہت ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کو حضرت موسی کے مقابل پر جو امتیازات حاصل ہیں ان کو بھی قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے.مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور کو پیش کیا جاتا ہے.(1) خدا تعالیٰ نے موسی کی نسبت تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے موسی کو ایک ایسی کتاب دی جو تَفْصِيلَا لِكُلِّ شَيْءٍ تھی اور یہاں یہ فرمایا کہ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرى وَلكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ] کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ موسیٰ کو جب ایک مفصل ہدایت نامہ مل گیا تو اس کے بعد اب جو تعلیم تم پیش کر رہے ہو یہ جھوٹی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹی نہیں بلکہ پہلی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں اور اس کے ذریعہ سے وہ پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور اس میں تمام احکام موجود ہیں اور یہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا موجب ہے.پس جس کتاب کی خبر خود موسی کی کتاب نے دی ہے وہ بے کا رکس طرح ہوسکتی ہے.یقینا اس میں زائد خوبیاں ہیں تبھی تو موسی کی کتاب نے اس کی امید دلائی ورنہ موسی کی کتاب کے بعد اس کی کیا ضرورت تھی.(2) پھر موسی نے تو یہ کہا تھارَبِّ اَرِنِی اَنْظُرْ إِلَيْكَ اور خدا تعالیٰ نے اس
سيرة النبي عمال 405 جلد 4 کا جو جواب دیا وہ اجمالی جواب ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھا دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہیں دکھایا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی خدا تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ خدایا ! تو مجھے اپنا وجود دکھا بلکہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ ہم نے اسے اپنا چہرہ دکھا دیا.پس موسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو صرف ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی و کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم اس طرح آمنے سامنے کھڑے ہو گئے جس طرح ایک کمان دوسری کمان کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے اور ان کا ہر سرا دوسرے سرے کو دیکھ رہا ہوتا ہے.گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب ہوئے اور اتنے قریب ہوئے کہ جس طرح کمان کی دو نو کیں آمنے سامنے ہوتی ہیں اسی طرح میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم آمنے سامنے ہو گئے اور ہم دونوں میں اتصال ہو گیا.گویا جس امر کا موسی نے مطالبہ کیا تھا اُس سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی دکھا دیا.(3) تیسرا امتیاز اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسی پر یہ بخشا ہے کہ حضرت موسی کی نسبت تو یہ آتا ہے کہ كَلَّمَ اللهُ مُوسى تَحْلِیما 10 اور آنحضرت ﷺ کی نسبت فرماتا ہے اِنَّا اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّنَ مِنْ بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْراهِيمَ وَاسْمُعِيلَ وَإِسْحَقَ وَ يَعْقُوْبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيْسَى وَاَتُوْبَ وَيُونُسَ وَهُرُونَ وَسُلَيْمَنَ وَأَتَيْنَا دَاوُدَ زَبُوْرًا وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنُهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُم عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللهُ مُوسى تَكلِيْمًا 11 یعنی اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیری طرف نوح جیسی وحی بھی نازل کی ہے اور ان تمام نبیوں جیسی وحی بھی جو اس کے بعد ہوئے.اور ہم نے تجھ کو ابراہیم کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسمعیل کے کمالات
406 جلد 4 سيرة النبي عمال بھی دیئے ہیں اور الحق کے کمالات بھی دیئے ہیں اور یعقوب کے کمالات بھی دیئے اور یعقوب کی اولاد کے کمالات بھی دیئے ہیں اور عیسی کے کمالات بھی دیئے ہیں اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے کمالات بھی دیئے ہیں اور داؤد کو جوز بور ملی تھی وہ بھی ہم نے تجھے دی ہے.اور جو موستی سے ہم نے خاص طور پر بالمشافہ کلام کیا تھا وہ انعام بھی ہم نے تجھے دیا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ محمدی وحی موسٹی اور دوسرے نبیوں کی وحی کی جامع ہے.اس میں وہ خوبی بھی ہے جو نوٹ اور دوسرے انبیاء کی وحی میں تھی اور پھر موسٹی کی وحی کی طرح اس میں کلام لفظی بھی ہے بلکہ اس میں موسوی وحی سے بھی ایک زائد بات یہ ہے کہ موسی پر جو کلام اتر تا تھا اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے.جیسے ہم کسی کو کہیں کہ تم جاؤ اور فلاں شخص سے کہو کہ زید کو بخار چڑھا ہوا ہے تو بالکل ممکن ہے کہ وہ جائے اور زید مثلاً اس کا بھائی یا باپ ہو تو بجائے یہ کہنے کے کہ زید کو بخار چڑھا ہوا ہے یہ کہہ دے کہ میرے بھائی یا باپ کو بخار چڑھا ہوا ہے.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں گولفظی کلام اترتا تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں اسے لوگوں تک پہنچاتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چونکہ ترقی اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اور اب ایک ایسی شریعت نازل ہوئی تھی جو آخری اور جامع شریعت تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس وحی کے الفاظ بھی محفوظ رکھے جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنُهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ 12 کہ موسیٰ کے زمانہ میں تو کلام ہم نازل کرتے تھے اور پھر وہ اپنے الفاظ میں اس کلام کا مفہوم لکھ لیتا تھا اور گو مفہوم ہمارا ہی ہوتا تھا مگر الفاظ موسیٰ کے ہو جاتے تھے لیکن تیرے ساتھ ہمارا یہ طریق نہیں بلکہ اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارا کا ہے.جو ہم کہیں وہی لفظ پڑھتے جانا اور پھر اُسے لکھ لینا ، اپنے پاس سے اس کا ترجمہ نہیں کرنا.اسی طرح فرمایا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ 13 ہم
سيرة النبي علي 407 جلد 4 نے ہی یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کے لفظوں اور اس کی روح دونوں کے محافظ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر داس کی حفاظت کا کام نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسوی کمالات پھر آپ میں عیسوی کمالات بھی پائے جاتے تھے.عیسوی کمالات کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے وَأَيَّدْنُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ 14 کہ ہم نے اس کی روح القدس سے تائید فرمائی.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبَّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوْا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ 15 کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ خدا نے یہ کلام روح القدس کے ذریعہ سے نازل کیا ہے سچائی اور حق کے ساتھ تا مومنوں کو یہ مضبوط کرے اور اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور بشارتیں ہیں.پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ جو کہا تھا کہ شریعت لعنت ہے جس سے آپ کی غرض یہ تھی کہ محض ظاہر کے پیچھے پڑ جانا اور باطنی اصلاح کو ترک کر دینا ایک لعنت ہے اس کے لحاظ سے قرآن کریم نے بھی فرمایا فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ 16 کہ لعنت ہے ان پر اور عذاب ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو نماز کی روح سے غافل ہیں اور نماز محض لوگوں کے دکھاوے کے لئے پڑھتے ہیں.یہ وہی ویل کا لفظ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں استعمال کرتے ہوئے کہا کہ محض ظاہر شریعت کی اتباع لعنت ہے.آپ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ نماز لعنت ہے یا روزہ لعنت ہے یا صدقہ لعنت ہے یا غریبوں اور مساکین کی خبر گیری کرنا لعنت ہے بلکہ آپ کا یہ مطلب تھا کہ ظاہر میں نیکی کے اعمال کرنا اور باطن میں ان اعمال کا کوئی اثر نہ ہونا ایک لعنت ہے.مگر عیسائیوں نے غلطی سے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا کہ نماز لعنت ہے، روزہ لعنت ہے.اسی طرح فرمایا
سيرة النبي متر 408 جلد 4 لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ 17 کہ ظاہری قربانیاں جو تم کرتے ہو وہ خدا تعالیٰ کو نہیں پہنچتیں.بلکہ خدا تعالیٰ کو وہ اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت قربانی کی جاتی ہے اور وہ محبت الہی پہنچتی ہے جو اس قربانی کی محرک ہوتی ہے یہی تعلیم ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے دی.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالاتِ رُسُل تھے.آپ میں آدم کے کمالات بھی تھے، آپ میں نوح کے کمالات بھی تھے، آپ میں ابراہیم کے کمالات بھی تھے ، آپ میں موسقی کے کمالات بھی تھے اور آپ میں عیسی کے کمالات بھی تھے اور پھر ان سب کمالات کو جمع کرنے کے بعد آپ میں خالص محمدی کمالات بھی تھے.گویا سب نبیوں کے کمالات جمع تھے اور پھر اس سے زائد آپ کے ذاتی کمالات بھی تھے.پس جو دین آپ لائے وہ جامع جمیع ادیان ہوا اور اس کی موجودگی میں باقی مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کی ضرورت نہ رہی.“ 1: النساء : 164 2: النحل: 124 3: يوسف : 109 66 ( انقلاب حقیقی صفحہ 70 تا 76 مطبوعہ سٹیم پریس قادیان پبلشر مولوی عبدالرحمن انور ) 4: الانعام:162 تا 164 :5 المزمل : 16 6: الانعام: 155 7: يوسف : 112 8: الاعراف: 144 9: النجم : 10،9 10 : النساء: 165
سيرة النبي علي 11: النساء : 165،164 12: القيمة: 18، 19 13: الحجر: 10 :14: البقرة: 88 15: النحل: 103 :16: الماعون : 75 17: الحج: 38 409 جلد 4
سيرة النبي علي 410 جلد 4 تمدن اسلامی کے متعلق رسول کریم علیہ کی تعلیم 28 دسمبر 1937ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مصلح موعود کے خطاب المعروف انقلاب حقیقی میں تمدن اسلامی کے متعلق رسول کریم ﷺ کے درج ذیل ارشادات کا ذکر ملتا ہے آپ بیان فرماتے ہیں :.(1) اخلاق حسنہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (1) اِنَّ الْخُلُقَ وِعَاءُ الدِّينِ 1 کہ خُلق دین کا برتن ہے.اب تم خود ہی سمجھ لو کبھی برتن کے بغیر بھی دودھ رہا ہے؟ یہ تو ہوسکتا ہے کہ برتن ہومگر دودھ نہ ہو لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دودھ بغیر برتن کے باقی رہے.پس اخلاق حسنہ دین کا برتن ہیں.اگر کسی کے پاس یہ برتن نہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرے پاس ایمان کا دودھ ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں (2) إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأتَمِّمَ مَكَارِمَ الْاخْلَاقِ 2 کہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا اخلاق فاضلہ کو کامل کر کے قائم کروں.(2) معاملات پھر معاملات کے متعلق فرماتے ہیں أَشْرَفُ الْإِيمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ وَاشْرَقْ الْإِسْلَامِ أَنْ يُسْلَمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِكَ وَيَدِکَ 3 کہ اعلیٰ درجہ کا ایمان یہ ہے کہ لوگ تیرے ہاتھ سے امن میں رہیں اور کسی کو تجھ سے دکھ نہ پہنچے اور اعلیٰ درجہ کا اسلام یہ ہے کہ لوگ تجھ سے محفوظ رہیں یعنی تو نہ زبان سے ان سے لڑے اور نہ ہاتھ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچائے..
سيرة النبي علي 411 جلد 4 (3) خدمت قومی خدمت قومی کے متعلق فرماتے ہیں إِنَّ صَبُرَ أَحَدِكُمْ سَاعَةً فِي بَعْضِ مَوَاطِنِ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ يَعْبُدَ اللَّهَ اَرْبَعِينَ يَوْمًا 4 کہ اگر اسلام کی خدمت میں کوئی شخص تم میں سے ایک گھنٹہ خرچ کرتا ہے جس کا اسے کوئی ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا تو وہ چالیس دن کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرتا ہے.(4) رزق حلال رزق حلال کے متعلق فرماتے ہیں الْعِبَادَةُ عَشَرَةُ أَجْزَاءِ تِسْعَةٌ مِّنْهَا فِي طَلَبِ الْحَلَال 5 کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے دس حصے ہیں.ایک حصہ عبادت کا تو نماز، روزہ، حج اور زکوۃ ہے مگر عبادت کے و حصے رزق حلال کھانا ہے.گویا اگر تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو ، حج بھی کرتے ہو، زکوۃ بھی دیتے ہو لیکن اپنی تجارت میں دھوکا بازی کرتے ہو تو تم ایک حصہ دودھ میں 9 حصے ناپا کی ملا دیتے ہو اور اپنی تمام عبادت کو ضائع کر لیتے ہو.یا اگر تم کسی کو ایک پیسہ کی چیز دینے لگتے ہو اور تکڑی کا پلڑا ذرا سا جھکا دیتے ہو تو تم اس ذرا سی بے احتیاطی یا ذرا سی چالا کی اور ہوشیاری سے اپنے حلال مال میں وحصے گندگی کے ملا دیتے ہو اور اپنی ساری عمر کی عبادتوں کو ضائع کر لیتے ہو کیونکہ نماز ، روزہ کے احکام بجالا کر صرف دسواں حصہ حق کا ادا ہوتا ہے، باقی 9 حصے اللہ تعالیٰ کے حق کے رزق حلال کما کر ادا ہوتے ہیں.(5) چستی اور محنت چستی اور محنت سے کام کرنے کے متعلق فرماتے ہیں اِعْمَلُ عَمَلَ امُرِيُّ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَمُوتَ اَبَدًا وَاحْذَرُ حَذْرَامُرِيُّ يَخْشَى اَنْ يَّمُوتَ غَدَاءِ کہ جب تم دنیا کے کام کرو تو یا د رکھو اسلامی تعلیم اُس وقت یہ ہے کہ ایسی محنت اور ایسی چستی سے کرو گویا تم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور کبھی مرنا ہی نہیں.یہ نہ ہو کہ تم کہو کیا کام کرنا ہے مرتو جانا ہی ہے یا کیوں خواہ مخواہ محنت کریں انجام تو فنا ہی ہے.فرماتا ہے دنیا کے کام اس طرح نہیں بلکہ اس
سيرة النبي عليه 412 جلد 4 طرح کرد که گویا تمہیں موت کا خیال تک نہیں.وَاحْذَرُ حَذْرَامُرِيءٍ يَخْشَى أَنْ يَّمُوتَ غَدًا لیکن دین کے معاملہ میں اس طرح ڈرتے ڈرتے کام کرو گویا تم نے کل ہی مرجانا ہے.یہ دو مقام ہیں جو تمہیں حاصل ہونے چاہئیں.یعنی ایک طرف تم میں اتنی چستی اور اتنی پھرتی ہو کہ گویا تم نے کبھی مرنا ہی نہیں اور دوسری طرف اتنی خشیت ہو کہ گویا تم نے جینا ہی نہیں.(6) بنی نوع انسان کی خیر خواہی بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے متعلق فرماتے ہیں عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ فَإِن لَّمْ يَجِدُ فَلْيَعْمَلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ النَّاسَ : کہ ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے اور اگر کوئی کہے کہ میں تو غریب ہوں میں کہاں سے چندہ دوں.جیسے بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم سے کیا چندہ لینا ہے ہمیں تو تم چندہ دو کیونکہ ہم غریب ہیں تو فرمایا فَلْيَعْمَلُ بِيَدِہ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ قومی کام اپنے ہاتھ سے کرے کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ بھی نہیں ہیں.وہ زیادہ سے زیادہ یہی سکتا ہے کہ میرے پاس روپے نہیں تو فرمایا اچھا اگر روپے نہیں تو اپنے ہاتھ سے کام کرو.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ صرف مالداروں پر ہی فرض نہیں کیا بلکہ غرباء کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے اور فرمایا ہے کہ صدقہ دینا ہر انسان کا کام ہے جو مال دے سکتا ہے وہ مال دے اور جو مال نہیں دے سکتا وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے.اسی لئے تحریک جدید میں میں نے بتایا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرو اور اگر کوئی ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتا تو صرف دعا کرتا رہے کیونکہ اس صورت میں یہی اس کا کام سمجھا جائے گا.(7) صفائی صاف رہنے کے متعلق فرماتے ہیں النَّظَافَةُ مِنَ الْإِيْمَانِ 8 کہ صفائی رکھنا ایمان کا جزو ہے.پھر فرماتے ہیں اَخْرِجُوا مِنْدِيلَ الْعَمَرِ مِنْ بُيُوتِكُمْ فَإِنَّهُ مَبِيْتُ الْخَبِيْثِ وَ مَجْلِسُهُ ؟ کہ وہ دستر خوان جس کو چکنائی لگ گئی ہو
سيرة النبي علي 413 جلد 4 اسے اپنے گھروں سے نکال کر باہر پھینک دو کیونکہ وہ خبیث چیز ہے اور گندگی کا مقام ہے یعنی اس پر لکھیاں بیٹھتی ہیں، کیڑے آتے ہیں اور بیماریاں ترقی پکڑتی ہیں.مگر تعجب ہے کہ آج کل لوگ نیکی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کپڑے کو اُس وقت تک نہ دھویا جائے جب تک کہ وہ پھٹ نہ جائے.(8) صداقت صداقت کے متعلق فرماتے ہیں إِيَّاكُمْ وَ الْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ لَا يَصْلُحُ فِي الجِدٌ وَلَا بِالْهَزْلِ وَلَا يَعِدُ الرَّجُلُ صَبيَّةَ ثُمَّ لَا يَفِى لَهُ10 کہ اے لوگو! تم جھوٹ سے بچو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ جھوٹ نہ بنسی میں جائز ہے نہ سنجیدگی میں.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا محض ہنسی کی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھی جھوٹ قرار دیتے ہیں بلکہ آپ اس سے بھی زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ہدایت دیتے اور فرماتے ہیں لا يَعِدُ الرَّجُلُ صَبِيَّهُ ثُمَّ لَا يَفِى لَهُ کہ تم اپنے بچوں سے بھی جھوٹا وعدہ نہ کرو.تم بعض دفعہ بچے سے جب وہ رورہا ہو کہتے ہو ہم تجھے ابھی مٹھائی منگا دیں گے پھر جب وہ چپ ہو جاتا ہے تو تم اُسے کوئی مٹھائی منگا کر نہیں دیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایسا بھی مت کرو کیونکہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں.(9) کسب پھر کما کر گزارہ کرنا بھی اسلام کا جزو ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ صحابہ آئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ایک شخص رات دن عبادت میں لگا ہوا ہے، فرمائیے وہ سب سے اچھا ہوا یا نہیں ؟ انبیاء کا بھی کیسا لطیف جواب ہوتا ہے آپ نے فرمایا جب وہ رات دن عبادت میں لگا رہتا ہے تو کھاتا کہاں سے ہے؟ انہوں نے عرض کیا لوگ دیتے ہیں.آپ نے فرمایا تو پھر جتنے اُسے کھانے پینے کے لئے دیتے ہیں وہ سب اس سے بہتر ہیں.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سيرة النبي علي 414 جلد 4 مجلس میں بیٹھے تھے کہ پاس سے ایک نوجوان گزرا جو نہایت لمبا مضبوط اور قوی الجثہ تھا اور بڑی تیزی سے اپنے کسی کام کے لئے دوڑتا ہوا جا رہا تھا.بعض صحابہ نے اسے دیکھ کر تحقیر کے طور پر کوئی ایسا لفظ کہا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جا تیرا بُرا ہو اور کہا کہ اگر اس کی جوانی اللہ کے رستہ میں کام آتی تو کیسا اچھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا یہ کہنے کا کیا مطلب ہوا کہ تیرا بُرا ہو.جو شخص اس لئے تیزی سے کوئی کام کرتا ہے کہ اس سے اپنی بیوی کو فائدہ پہنچائے تو وہ خدا کی ہی راہ میں کام کر رہا ہے اور جو شخص اس لئے دوڑتا اور پھرتی سے کام کرتا ہے کہ اپنے بچوں کے کھلانے پلانے کا بندو بست کرے تو وہ خدا ہی کی راہ میں کام کر رہا ہے.ہاں جو شخص اس لئے دوڑتا ہے کہ لوگ اُس کی تعریف کریں اور اُس کی طاقتوں کی داد دیں تو وہ شیطان کی راہ میں کام کرتا ہے.مگر حلال روزی کے لئے کوشش کرنا اور کما کر گزارہ کرنا تو سبیل اللہ میں شامل ہے.(10) جائیداد کی حفاظت کا حکم اسی طرح اسلام نے جائیدادوں کی حفاظت کے متعلق خاص طور پر احکام دیئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی جائیداد بیچ کر کھا جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں اور وہ اس قابل ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو برکت دے.“ انقلاب حقیقی صفحہ 114 تا 118 مطبوعہ سٹیم پریس قادیان پبلشر مولوی عبد الرحمن انور ) 1: كنز العمال جلد 3 صفحہ 3 حدیث نمبر 5137 مطبوعہ دمشق 2012 ء الطبعة الاولى 2 كنز العمال جلد 3 صفحہ 16 حدیث نمبر 5217 مطبوعہ دمشق 2012 ء الطبعة الاولى 2 كنز العمال جلد 1 صفحہ 37 حدیث نمبر 65 مطبوعہ دمشق 2012 ء الطبعة الاولى 4: کنز العمال جلد 4 صفحہ 454 حدیث نمبر 11354 مطبوعہ دمشق 2012 ء الطبعة الاولى (مفهوماً) 5: کنز العمال جلد 3 صفحہ 352 حدیث نمبر 6891 مطبوعہ دمشق 2012ء الطبعة الاولى ( مفهوماً) الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاوّل صفحه 41 مطبوعه مصر 1321ه
سيرة النبي علي 415 جلد 4 7 : الجامع الصغير للسيوطى جلد 2 صفحه 52 مطبوعه مصر 1321ھ میں فيَنفع نفسه کے الفاظ ہیں.8: مسلم كتاب الطهارة باب فضل الوضوء صفحہ 114 حدیث نمبر 534 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية ميں الطهور شطر الایمان کے الفاظ ہیں.9: الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاوّل صفحہ 11 مطبوعہ مصر 1321ھ 10: مقدمه ابن ماجه باب اجتناب البدع و الجدل صفحه 7 حدیث نمبر 45 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 416 جلد 4 وو رسول کریم میہ کی قربانیاں رسول حضرت مصلح موعود 21 جنوری 1938 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس نے قربانیاں کی ہیں اور کون قربانیاں کر سکتا ہے لیکن آپ کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہی قربانیوں میں آپ اس جہان سے گزر گئے اور اس دنیا کی ترقیات کا زمانہ آپ کی زندگی میں نہیں آیا.قیصر اور کسری کے خزانے جو اُن قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھیں وہ جا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فتح ہوئے اور ان کا فائدہ زیادہ تر اُن لوگوں نے حاصل کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر میں ابو جہل اور ابوسفیان کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں ایمان لائے اور فتوحات کے زمانہ میں تھوڑے سے عرصہ کے لئے لڑائیوں میں بھی شامل ہوئے اور پھر فتوحات میں حصہ دار بن کر ہر قسم کی راحت و آرام حاصل کرنے والے ہو گئے.اور وہ جنہوں نے قربانیاں کی تھیں اور جو آسمان سے اس بہشت کو کھینچ کر لائے تھے وہ اپنے خدا کے پاس مدتوں پہلے جاچکے تھے یا ان چیزوں سے مستغنی ہو کر اپنے رب کی یاد میں بیٹھے تھے یا خدمت خلق میں مشغول تھے.“ (الفضل 25 جنوری 1938ء )
سيرة النبي علي 417 جلد 4 وو رسول کریم ﷺ کی سخاوت اور توکل کا مقام حضرت مصلح موعود 18 فروری 1938 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.اسلامی زمانہ میں نقد روپیہ جمع کی صورت میں بہت کم نظر آتا تھا گو کچھ جائیداد میں ضرور محفوظ کی گئی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو روپیہ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ آتا اسے تقسیم کر دیتے تھے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں روپیہ اس لئے جمع نہیں رکھتے تھے کہ آپ پر الزام نہ آئے مگر یہ غلط خیال ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نہ صرف اپنے گھر میں روپیہ جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے کوئی خزانہ بھی نہ بنایا ہوا تھا.جس قدر روپیہ آتا وہ آپ تقسیم فرما دیتے اور سمجھتے تھے کہ جب اور ضرورت ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور بھیج دے گا.یہ آپ کے تو کل کا اعلیٰ مقام تھا.ہر شخص یہ طریق اختیار نہیں کر سکتا مگر بہر حال منہاج نبوت یہی ہے کہ روپیہ جمع نہ ہو بلکہ خرچ ہوتا رہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کر لوگوں کے کندھوں سے پھاندتے ہوئے جلدی جلدی گھر تشریف لے گئے.صحابہ کچھ حیران سے ہوئے کہ اتنی جلدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیوں تشریف لے گئے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر کسی کام کے لئے واپس آئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کچھ مال بھیجا تھا جو میں نے تقسیم کر دیا.صرف دو دینار باقی تھے.میں نماز پڑھا کر جلدی جلدی گھر گیا اور مجھے خیال آیا کہ وہ اب تک کیوں پڑے ہیں چنانچہ میں اب انہیں تقسیم کر کے آیا ہوں 1.پس یہی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں روپیہ جمع نہیں
سيرة النبي عمال 418 جلد 4 رکھتے تھے بلکہ آپ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ میں خزانہ سرکاری میں بھی روپیہ جمع نہیں کیا کروں گا.چنانچہ جس قدر روپیہ آتا آپ اُسی وقت تقسیم کر دیتے.البتہ بعض اوقات کچھ رکھ بھی لیتے مگر بالعموم آپ کا طریق یہی تھا کہ اپنے پاس کچھ نہ رکھتے " الفضل 26 فروری 1938ء ) :1 بخاری كتاب الزكوة باب من احب تعجيل الصدقة من يومها صفحه 231 حديث نمبر 1430 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 419 جلد 4 رسول کریم علی کا صحابہ سے مشورہ لینا حضرت مصلح موعود 18 مارچ 1938 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر مسلمانوں کو یہ بتانے کے کہ کوئی جنگ ہوگی انہیں ساتھ لے کر مدینہ سے چل پڑے.بدر کے مقام کے قریب پہنچ کر آپ نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ ہم میں اور کفار میں ایک جنگ ہوگی.پس بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ اس پر مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! رائے کیا ہوتی ہے، چلیے اور دشمن کا مقابلہ کیجئے ہم ہر وقت لڑنے کے لئے تیار ہیں.مگر جب مہاجر خاموش ہو جاتے تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مشورہ دو.اس پر پھر کوئی مہاجر کھڑا ہوتا اور وہ کہتا حضور ! ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں.مگر جب وہ خاموش ہو جاتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مشورہ دو.آخر انصار سمجھ گئے کہ مشورہ دو سے مراد یہ ہے کہ ہم بولیں اور اپنی رائے پیش کریں.دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم مدینہ سے باہر آپ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ، ہاں مدینہ کے اندر آپ کے ذمہ دار ہیں.پس چونکہ اس معاہدہ کے بعد انصار پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی اور وہ مدینہ سے باہر آپ کی مدد کرنے میں آزاد تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو! مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله ! کیا آپ ہم سے پوچھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر اس نے عرض کیا یا رَسُولَ الله ! آپ کی مراد شاید اُس
سيرة النبي عمال 420 جلد 4 معاہدہ سے ہے جو ہم نے اُس وقت کیا تھا جب آپ مدینہ تشریف لائے تھے.آپ نے فرمایا ہاں.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! وہ معاہدہ اُس وقت کا تھا جب ہمیں آپ کی رسالت کا مقام معلوم نہیں تھا، ہم نے اُس وقت نادانی سے یہ معاہدہ کیا مگر يَا رَسُولَ الله ! اب تو ہم آپ کے مقام کو خوب پہچان چکے ہیں اور اب سوال یہ ، نہیں کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ حضور کیا حکم دیتے ہیں.يَا رَسُولَ الله ! چلیے جدھر چلتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.پھر اس نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهُ ! سامنے سمندر ہے اگر اس میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں 1.یعنی کفار سے لڑائی کے وقت تو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید ہم فتح پا جائیں اور زندہ واپس آجائیں مگر ہم تو ایسی قربانی کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جس میں موت ہی موت دکھائی دیتی ہے.ایک اور صحابی کہتے ہیں میں سولہ لڑائیوں میں شامل ہوا.گیارہ بارہ لڑائیوں میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا مگر باوجود اس کے کہ میں اتنا بڑا ثواب حاصل کر چکا ہوں میرا جی چاہتا ہے کہ کاش! میرے منہ سے صرف وہ فقرہ نکلتا جو اس صحابی کے منہ سے نکلا اور لڑائیوں میں میں بے شک شامل نہ ہوتا کیونکہ اس ایک فقرے کا ثواب سولہ لڑائیوں کے ثواب سے میرے نزدیک زیادہ ہے 2.اب دیکھو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اپنی جانیں قربان کیں اور اس قربانی کے پیش کرتے وقت انہوں نے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی مگر اس کے مقابلہ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لئے گئے اور کفار نے روک لیا اور آپس میں بعض شرائط ہو ئیں تو ان صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہوکر مسلمانوں کے
سيرة النبي علي 421 جلد 4 پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا.یہ معاہدہ ابھی لکھا ہی جارہا تھا کہ ایک مسلمان مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا.اُس کا جسم بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے زخموں سے چور تھا ، اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور پاؤں میں بیڑیاں.اُسے دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی کا ایک زبر دست جذ بهہ پیدا ہو گیا.دوسری طرف کفار نے مطالبہ کیا کہ اسے واپس کیا جائے.یہ دیکھ کر مسلمان اس بات کے لئے کھڑے ہو گئے کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اسے جانے نہیں دیں گے اور اپنے ہاتھوں اسے موت کے منہ میں نہیں دھکیلیں گے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب معاہدہ ہو چکا ہے اور اسے واپس کیا جائے گا ، خدا کے رسول جھوٹ نہیں بولا کرتے.چنانچہ آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دیا 3 اور مسلمانوں کے جذبات کو قربان کر دیا.یہ نظارہ دیکھ کر مسلمانوں کو اتنی کوفت ہوئی کہ وہ مجنون سے ہو گئے.چنانچہ جب معاہدہ ہو چکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا قربانیاں کر دو مگر اُس وقت ایک صحابی بھی قربانی کرنے کے لئے نہیں اٹھا.حالانکہ ان میں ابو بکرؓ بھی موجود تھے ، ان میں عمرہ بھی موجود تھے ، ان میں عثمان بھی موجود تھے، ان میں علی بھی موجود تھے.غرض وہ سب صحابہ ان میں موجود تھے جن میں سے مسلمانوں کا کوئی فرقہ کسی کو اور کوئی کسی کو بڑا قرار دیتا ہے مگر ان میں سے ایک بھی تو کھڑا نہیں ہوا اور سب خاموش بیٹھے رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ آپ نے حکم دیا مگر صحابہ نے نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ وفورِ جذبات سے مجبور ہو کر اس کی تھوڑی دیر کے لئے تعمیل نہ کی.چونکہ یہ خفیف سی دیر بھی پہلی مثال تھی آپ اپنے خیمہ میں گئے اور اپنی ایک بیوی سے جو ساتھ تھیں فرمایا میں نے آج ایک ایسی بات دیکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی.انہوں نے عرض کیا يَارَسُولَ الله ! کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے صحابہ میں کبھی اطاعت کے
سيرة النبي علي 422 جلد 4 لحاظ سے کمی نہیں دیکھی مگر آج میں نے انہیں حکم دیا کہ قربانیاں کر دو تو ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھا.ام المومنین فرمانے لگیں يَا رَسُولَ الله ! آپ جانتے ہیں انہیں کیسا صدمہ ہوا ہے.وہ اس صدمہ سے پاگل ہورہے ہیں.آپ کسی سے بات نہ کریں اور خاموشی سے اپنی قربانی کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ نہایت ہی نیک مشورہ سنا تو آپ نے اسے پسند کیا اور خاموشی سے اپنی قربانی کے پاس گئے اور اُسے ذبح کر دیا.اخلاص آخر اخلاص ہی ہوتا ہے، بے شک صبر کی آزمائش بڑی تلخ تھی اور ایک لمحہ کے لئے صحابہ میں ہچکچاہٹ پیدا ہوئی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص جس کے اشارہ پر وہ اپنی جانیں قربان کرتے رہے ہیں، جس کی تعلیم کے ماتحت انہوں نے نہ صرف اپنی زندگیوں کو بلکہ اپنے باپوں ، اپنی ماؤں، اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کو قربان کر دیا تھا آج وہ اس خاموشی سے بغیر اس کے کہ ہم میں سے کسی کو اپنی مدد کے لئے بلائے قربانی کرنے جا رہا ہے تو یک دم اُن کے دل پگھل گئے اور بے اختیار دوڑ دوڑ کر انہوں نے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کر دیے 4.“ (الفضل 23 مارچ 1938ء ) :1 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 صفحه 675 زیر عنوان استيثاق الرسول من امر الانصار مطبوعہ دمشق 2005 ء 2:بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى اذ تستغيثون ربكم صفحہ 668 حديث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3 بخارى كتاب الصلح باب الصلح مع المشركين صفحه 441 حدیث نمبر 2700 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4 بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 449 حدیث نمبر 2731، 2732 مطبوع رياض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 423 جلد 4 ایک غریب شخص کو رسول کریم منہ کی نصیحت 20 جون 1938 ء کو حضرت مصلح موعود نے ایک نکاح کا اعلان کرتے ہوئے کسی دوست کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے مالی تنگی کی حالت میں شادی کرو تو تنگی دور ہو جاتی ہے یہ بھی ایک وسوسہ ہے.میں نے انہیں اس کا یہ جواب دیا کہ رسول کریم و کار مطلب نہیں کہ ہر انسان جو دوسری شادی کرے اس کا مال بڑھ جاتا ہے.ہم نے دیکھا ہے بیسیوں لوگ دوسری شادی کرتے ہیں اور وہ تنگ دست ہو جاتے ہیں اور عورت کو منحوس کہنے لگ جاتے ہیں.اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں کہ ایک شخص نے دوسری شادی کی تو وہ نوکری سے برطرف ہو گیا یا تجارت میں گھاٹا پڑ گیا یا اس قسم کی اور کوئی تکلیف اسے پہنچی.ہمارے عام محاورہ میں بھی یہ استعمال ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے دوسری شادی کی تو اس کی حالت گر گئی.در حقیقت اس شخص کے متعلق رسول کریم ﷺ کو کشفی طور پر یا رویا میں معلوم ہوا ہوگا کہ شادی کرنے کے بعد اس کی حالت اچھی ہو جائے گی.چنانچہ جب وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اپنا حال عرض کیا تو آنحضرت ﷺ نے اسے دوسری شادی کرنے کے لئے ارشاد فرمایا.جب اس نے دوسری شادی کی اور اس کی حالت نہ سدھری تو پھر رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا تو چونکہ رسول کریم ﷺ کوعلم تھا کہ اس کے لئے جو بھلائی مقدر ہے وہ شادی ہی میں ہے اس لئے آپ نے فرمایا ایک اور شادی کر لو.اس نے تیسری شادی کر لی پھر بھی اس کی حالت اچھی نہ ہوئی.وہ پھر رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور الله
سيرة النبي عمال 424 جلد 4 عرض کیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور شادی کرو.چنانچہ اس نے کر لی اس کے کچھ صلى الله عرصہ بعد ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا تو اس شخص نے بتایا کہ اب میری تنگی دور ہوگئی ہے اور آرام ہی آرام ہے.بعض دفعہ کشف اور رؤیا کے بغیر بھی اپنی فراست سے مومن ایک بات کہتا ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہے.یہاں ایک شخص بہائی عورت بیاہ کر لایا، وہ اسے میرے پاس لایا.اُس وقت میں گول کمرہ میں بیٹھا کرتا تھا اور کہا آپ اسے تبلیغ کریں.مجھے اُس وقت ایسا معلوم ہوا میری اور اس کی روحیں آپس میں ٹکراتی ہیں.مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے جسم سے ایک چیز نکل کر اس سے ٹکراتی ہے اس سے میں نے معلوم کر لیا کہ یہ عورت ہدایت نہیں پائے گی.چنانچہ وہ مدتوں یہاں رہی اور احمدی نہ ہوئی.“ ( الفضل 25 جون 1938 ء )
سيرة النبي علي 425 جلد 4 فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ کا فیصلہ رسول حضرت مصلح موعود 15 جولائی 1938ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.و فتح مکہ کے وقت ایک انصاری نے جو ایک دستہ فوج کے افسر تھے اور جن کا نام غالبًا عبادہ بن صامت تھا ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب دیکھو مکہ میں چل کر ہم تمہاری کیسی خبر لیتے ہیں اور جو جو تکلیفیں تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو پہنچائی ہیں ان کا کس طرح انتقام لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اسے فوج کی کمانڈ سے علیحدہ کر کے معمولی سیاہی بنا دیا اور اس کے بیٹے کو اس کی جگہ افسر مقرر کر دیا 1.لیکن کیا تم سمجھتے ہو یہ الفاظ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت عبادہ کے متعلق نفرت کا جذبہ پیدا ہوا ہوگا ؟ آخر عبادہ کو ابوسفیان سے کیا عداوت تھی؟ وہ کفر کے زمانہ میں شاید ابوسفیان کا نام بھی نہ جانتے ہوں گے مگر جب اسلام لانے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو کیا کیا اذیتیں پہنچائی ہیں تو ان کا دل جوش سے بھر گیا اور فتح مکہ کے قت غلطی سے ان کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اب دیکھو گے ہم تم سے کس طرح انتقام لیتے ہیں.پس گو انہوں نے یہ الفاظ کہے اور غلط طور پر کہے مگر کون شخص کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ اپنی ذات کے لئے کہے.انہوں نے یہ الفاظ محض اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جوش میں کہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں سزا دی اور اتنی سخت سزا دی کہ انہیں افسری سے ہٹا کر سپاہی بنا دیا.آج اگر کسی
سيرة النبي علي 426 جلد 4 جرنیل کو سپاہی بنا دیا جائے تو وہ فورا استعفیٰ دے کر بھاگ جائے مگر انہوں نے خوشی سے اس سزا کو قبول کیا لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے یا کوئی بھی مسلمان ہے جو یہ واقعہ پڑھ کر عبادہ بن صامت سے نفرت کر سکے؟ وہ ان کے فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا، وہ ان کے فعل کو روکنے کی کوشش کرے گا مگر وہ اس امر کو نذر انداز نہیں کرسکتا کہ انہوں نے اپنے لئے نہیں بلکہ گونادانی سے کیا مگر پھر بھی خدا کے لئے یہ فعل کیا.“ ( الفضل 22 جولا ئی 1938 ء ) :1 السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 181 182 مطبوعہ بیروت لبنان 2012ء کے مطابق یہ صحابی سعد بن عبادہ تھے.
سيرة النبي علي 427 جلد 4 سیرت نبوی کے دو پہلو حضرت مصلح موعود نے 31 جولائی 1938ء کو قادیان میں تحریک جدید کے مطالبات پر تقریر کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا.اس واقعہ صلى الله سے رسول کریم ع کی صحابہ سے شفقت اور ایثار کا بھی سبق ملتا ہے:.عليسة حضرت ابو ہریرۃ نے ایک دفعہ کسریٰ شاہ ایران کا رومال اپنی جیب میں سے نکالا اور اس سے اپنی تھوک پونچھ لی.پھر کہنے لگے بخ بخ ابو هريرة واہ واہ ابو ہریرہ !! کبھی تجھے جو تیاں پڑا کرتی تھیں اور آج تو کسریٰ کے رومال میں تھوک رہا ہے.لوگوں نے پوچھا آپ نے یہ کیا بات کہی ہے؟ انہوں نے کہا مجھے رسول کریم علی کی باتیں سننے کا اس قدر اشتیاق تھا کہ میں مسجد سے اٹھ کر کبھی باہر نہ جاتا کہ ممکن ہے رسول کریم علی تشریف لے آئیں اور آپ میرے بعد کوئی ایسی بات کہہ جائیں جسے میں نہ سن سکوں اور چونکہ میں اسی شوق میں ہر وقت مسجد میں پڑا رہتا تھا اس لئے کئی کئی دن کے فاقے ہو جاتے اور شدت ضعف کی وجہ سے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی.لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی پڑی ہوئی ہے اور چونکہ عرب میں یہ دستور تھا کہ وہ مرگی والے کو جوتیاں مارا کرتے تھے اس لئے جب میں بے ہوش ہو جاتا تو لوگ میرے سر پر جو تیاں مارنی شروع کر دیتے حالانکہ اُس وقت بھوک کی شدت کی وجہ سے مجھے غشی ہوتی تھی اور کمزوری کے مارے میری آواز بھی نہیں نکل سکتی تھی 1.پھر انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ میں بھوک سے اتنا تنگ ہوا کہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں اٹھ کر مسجد کے دروازہ پر آ کر کھڑا ہو گیا کہ شاید میری شکل
سيرة النبي عليه 428 جلد 4 دیکھ کر ہی کوئی شخص سمجھ جائے کہ مجھے بھوک لگی ہوئی ہے اور وہ مجھے کھانے کے لئے کچھ دے دے.اتنے میں حضرت ابو بکر وہاں سے گزرے اور میں نے ان کے سامنے ایک آیت پڑھی جس میں غریبوں کی خبر گیری کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے اور عرض کیا کہ اس کے ذرا معنی کر دیں.انہوں نے اس آیت کے معنی کئے اور آگے چل دیئے.اس واقعہ کا ان کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ باوجود یکہ جس زمانہ میں انہوں نے یہ بات سنائی اُس وقت رسول کریم یہ بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت ابو بکر" بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت عمرؓ کا زمانہ تھا پھر بھی وہ اُس وقت غصہ سے کہنے لگے.ہوں! گویا مجھے اس آیت کے معنے نہیں آتے تھے اور حضرت ابوبکر کو زیادہ آتے تھے.میں نے تو یہ آیت ان کے سامنے اس لئے پیش کی تھی کہ میری شکل دیکھ کر انہیں میری طرف توجہ پیدا ہو مگر انہوں نے معنی کئے اور آگے چل دیئے.پھر حضرت عمر گزرے اور ان کے سامنے بھی میں نے یہی آیت پیش کی انہوں نے بھی اس کے معنی کئے اور آگے چل پڑے.حضرت ابو ہریرہ پھر بڑے غصہ سے کہتے ہیں ہوں ! گویا مجھے اس آیت کے معنی نہیں آتے تھے اور حضرت عمر زیادہ جانتے تھے.میں نے تو اس لئے آیت ان کے سامنے پیش کی تھی کہ وہ سمجھ جاتے کہ میں بھوکا ہوں مگر وہ معنی کر کے آگے چل پڑے.اسی حالت میں میں حیران کھڑا تھا کہ پیچھے سے ایک نہایت محبت بھری آواز آئی کہ ابو ہریرہ ! میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم ﷺ کھڑے تھے.آپ نے مجھے فرمایا معلوم ہوتا ہے تمہیں بھوک لگی ہے.گویا رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ کی پیٹھ میں سے وہ چیز دیکھ لی جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ابو ہریرہ کے منہ سے نہیں دیکھ سکے تھے.پھر آپ نے فرمایا ادھر آؤ.حضرت ابو ہریرہ گئے تو صلى الله رسول کریم علے دودھ کا ایک پیالہ لے کر باہر نکلے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں دودھ دیکھ کر میں بڑا خوش ہوا اور سمجھا کہ اب اکیلا اسے خوب سیر ہو کر پیوں گا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابوہریرہ ! مسجد میں جاؤ اور اگر کوئی اور بھی بھوکا ہو تو اسے بلا :
سيرة النبي عمال 429 جلد 4 صلى لاؤ.حضرت ابو ہریرۃ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا کہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ مجھ اکیلے کو یہ تمام دودھ مل جائے گا مگر اب تو اوروں کو بھی بلا لیا گیا ہے نہ معلوم میرے لئے دودھ بچے یا نہ بیچے.خیر میں مسجد میں گیا تو وہاں چھ آدمی اور مل گئے.میں نے کہا اب مصیبت آئی.آگے تو یہ خیال تھا کہ اگر ایک آدمی ملا تو خیر آدھا دودھ وہ پی لے کا آدھا میں پی لوں گا مگر یہاں تو اکٹھے چھ مل گئے ہیں.یہ اگر پینے لگے تو میرے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا مگر چونکہ رسول کریم میہ کا حکم تھا اس لئے میں ان کو ساتھ لے کر گیا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ چھ بھی میری طرح بھو کے بیٹھے ہیں.اس موقع پر رسول کریم ﷺ نے انہیں کیا عجیب سبق دیا.آپ نے فرمایا ابو ہریرہ! یہ دودھ کا پیالہ لو اور پہلے ان میں سے ایک کو پلاؤ.حضرت ابو ہریرۃا کہتے ہیں میں نے دل میں کہا بس اب میں مارا گیا میرے لئے بھلا کیا بچے گا.چنانچہ پہلے ایک نے پینا شروع کیا اور پینتا چلا گیا.میں نے سمجھا شاید یہ شرافت کر کے کچھ دودھ چھوڑ دے تو میرے پینے کے کام آ جائے مگر جب وہ پی چکا تو رسول کریم ﷺ نے وہ پیالہ دوسرے کو دے دیا، پھر تیسرے کو، پھر چوتھے ، پانچویں اور چھٹے کو اور میں کانپتا چلا جاؤں کہ نہ معلوم صلى الله میرے لئے بھی کچھ بچتا ہے یا نہیں.آخر جب وہ سب پی چکے تو رسول کریم مے نے مجھے پیالہ دیا اور میں نے دیکھا کہ وہ اسی طرح لبالب بھرا ہوا ہے جس طرح پہلے تھا.آخر میں نے دودھ پینا شروع کر دیا اور پیتا چلا گیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بھر گیا اور میں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! اب میں سیر ہو گیا.آپ نے فرمایا نہیں اور پیو.چنانچہ میں نے پھر پینا شروع کر دیا اور جب بہت پی چکا تو میں نے پھر کہا کہ يَا رَسُولَ الله ! اب تو پیٹ بھر گیا ہے.آپ نے فرمایا نہیں اور پیو.چنانچہ میں نے پھر پیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میری انگلیوں کی پوروں میں سے بھی دودھ پھوٹ کر نکل رہا ہے.آخر میں نے کہا یا رَسُولَ الله ! اب تو میرے پیٹ میں کوئی گنجائش نہیں رہی.رسول کریم نے ہنس کر پیالہ مجھ سے لے لیا اور خود بقیہ دودھ پی گئے 2.اس طرح
سيرة النبي عمال 430 جلد 4 رسول کریم ﷺ نے انہیں یہ سبق دیا کہ گو تم نے زبان سے سوال نہیں کیا مگر چونکہ اپنی شکل سے تم نے دوسروں سے مانگا ہے اس لئے تمہیں سب کے بعد حصہ دیا جائے گا.یہ واقعہ سنا کر حضرت ابو ہریرہ فرمانے لگے یہ میری حالت تھی.مگر آج میری حالت کیا ہے؟ آج یہ حالت ہے کہ جس رومال میں میں نے تھوکا ہے یہ کسری شاہ ایران کا رومال ہے اور رومال بھی ایسا قیمتی ہے کہ کسری اسے ہر وقت اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا تھا بلکہ اپنے سالانہ جشن کے موقع پر یہ رومال لیتا تھا مگر آج وہ اس قدر قیمتی رومال میرے ہاتھ میں ہے اور میں کس بیدردی سے اس میں تھوک رہا ہوں.یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اس میں تھوکا تو مجھے اپنی گزشتہ حالت یاد آ گئی اور میں نے کہا بخ بخ ابو هريرة آج تو تیری بڑی شان ہے.اب اگر ابو ہریرہ کو ان قربانیوں کے وقت جو انہوں نے اسلام کے لئے ابتدائی زمانہ میں کیں یہ معلوم ہوتا کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ایک دن کسری کے رومال میں تھوکیں گے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ان قربانیوں سے بھی بڑھ کر اسلام کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو جاتے.اگر ابوسفیان کو پتہ ہوتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کے نتیجہ میں اس کا لڑکا معاویہ ایک دن عرب کا بادشاہ بننے والا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بجائے مخالفت کرنے کے وہ صلى الله تلوار لے کر محمد رسول اللہ ﷺ کے لشکر کے آگے آگے چلتا.مگر وہ کیوں لڑ رہا تھا ؟ صرف اسی لئے کہ اسے مستقبل کا علم نہیں تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کل کیا ہونے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 3 اگر تم اپنے مستقبل سے آگاہ ہو جاؤ.اگر ہم وہ پردہ اٹھا دیں جو اس وقت تمہاری آنکھوں پر پڑا ہوا ہے، اگر تمہیں نظر آنے لگے کہ تمہارے کالے کلوٹے بچے جن کی آنکھوں میں گید بھری ہوئی ہے اور ناک ان کے بہہ رہے ہیں کسی دن دنیا کے بادشاہ بننے والے ہیں تو تم قربانیاں کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر لو.مگر ہم تمہیں وہ بتاتے نہیں صرف اتنا بتا دیتے ہیں کہ ان قربانیوں کا نتیجہ تمہارے لئے بہت بہتر ہو گا اور اگر تمہیں اپنا مستقبل نظر
سيرة النبي علي 431 جلد 4 آ جائے تو تم ان قربانیوں کو بالکل حقیر اور ذلیل سمجھو.“ ( الفضل 16 جون 1959 ء ) 1: بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر النبي الله صفحه 1261 حدیث نمبر 7324 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي اول صفحہ 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3: التوبة: 42
سيرة النبي علي 432 جلد 4 وو رسول کریم ع کا خوف خدا حضرت مصلح موعود 23 ستمبر 1938 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک روز مجلس لگی ہوئی تھی اور آپ اپنی وفات کے متعلق ہی ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ہر انسان جو اس دنیا میں کسی کو دکھ دیتا ہے اس کی سزا خدا تعالیٰ کے حضور پائے گا اور میں نہیں چاہتا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں اس لئے میری خواہش ہے کہ جسے مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو وہ اس کا بدلہ آج ہی مجھ سے لے لے.اس بات کا صحابہ پر جو اثر ہو سکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس کا قیاس وہی کر سکتا ہے جسے کسی سے سچی محبت ہو.یہ بات سن کر ان کو ایسا معلوم ہوا جیسا کہ کسی نے ان کے سینوں میں خنجر گھونپ دیا ہو اور وہ بے تاب ہو کر رونے لگے لیکن ایک صحابی نے کہا يَا رَسُولَ الله ! فلاں موقع پر آپ نے مجھے کہنی ماری تھی ، آپ جنگ کے لئے صفیں درست کر رہے تھے، راستہ تنگ تھا اور گزرتے ہوئے آپ کی کہنی مجھے لگی تھی.آپ نے فرمایا تم مجھے کہنی مارلو.اس صحابی نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! میں اُس وقت ننگے بدن تھا اور آپ نے گرتا پہن رکھا ہے.اس پر آپ نے اپنا گرتا اٹھا دیا.اُس وقت صحابہ کی جو حالت ہوگی وہ ظاہر ہے.ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اُدھر ہو تو اس شخص کو ٹکڑے کر دوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب ایسا تھا کہ کسی کو بولنے کی جرات نہ تھی.جب آپ نے گرتا اوپر اٹھایا تو وہ صحابی آگے بڑھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر اُسی جگہ بوسہ
سيرة النبي علي 433 جلد 4 دیا اور کہا کہ يَارَسُولَ الله! آپ آپ اب ہم سے جدا ہونے والے ہیں.یہ آخری موقع تھا میں نے چاہا کہ اس سے فائدہ اٹھا کر آپ کے جسم کو چھو تو لوں 1.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخرت کی سزا سے ڈرتے ہیں تو پھر اور کون ہے 66 جو یہاں کی سزا کو سخت کہہ سکے.‘“ (الفضل 4 اکتوبر 1938ء) 1 مجمع الزوائد جلد 8 كتاب علامات النبوية باب فى وداعه صفحه 598 تا 601 حدیث نمبر 14253 مطبوعہ بیروت 1994ء
سيرة النبي علي 434 جلد 4 رسول کریم ﷺ اور امن عائم علية حضرت مصلح موعود نے 11 دسمبر 1938 ء کو سیرت النبی ﷺ کے جلسہ قادیان میں درج ذیل تقریر کی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ایک ایسا وجود ہے جو دنیا کی نظروں کو آپ ہی آپ اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے.دنیا میں لوگوں کی توجہ کو کھینچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.لوگ اس کام کے لئے بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں مگر پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں.بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید دولت دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے گی اور وہ دولتوں کے انبار لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی دنیا کی توجہ اُن کی طرف نہیں کھنچتی.زیادہ سے زیادہ چند چوروں، ڈاکوؤں ، حریصوں اور لالچیوں کی نگاہیں اُن کی طرف اٹھ جاتی ہیں ، چند خوشامدی ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں مگر وہ جن کی رائے کوئی وقعت رکھتی ہے ان کی طرف سے بالکل غافل اور لا پرواہ رہتے ہیں.پھر بعض لوگ عجیب قسم کے دعوے کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شاید اس وجہ سے لوگ ان کی طرف توجہ کریں مگر اول تو لوگ ان کی بات سنتے ہی نہیں اور اگر سنیں تو پر معنی مسکراہٹ کے ساتھ آگے گزر جاتے ہیں اور کوئی خاص توجہ ان کی طرف نہیں کرتے.پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے دعووں سے شاید لوگوں کی توجہ وہ اپنی طرف کھینچ سکیں گے.چنانچہ وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں.رسول تو دنیا میں بہت گزرے ہیں مگر چونکہ اپنے زمانہ میں رسول بھی ایک بہت بڑی ہستی ہوتا ہے اس لئے وہ رسالت کا دعوی کر دیتے ہیں اور جب اس طرح بھی کام نہیں چلتا تو خدائی کے دعویدار بن جاتے ہیں مگر پھر بھی
سيرة النبي عمال 435 جلد 4 دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی.مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے جو آج کل کے مدعیان میں سے ہے خط لکھا جس میں اُس نے مجھے بہت کچھ کو سا اور کہا کہ میں یہ نہیں کہتا آپ میرے دعوے کی تصدیق کریں ، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ میری تعریف کریں مگر یہ کیا ہے کہ میں متواتر اشتہار شائع کر رہا ہوں اور آپ اس کی تردید بھی نہیں کرتے.میں نے اُسے جواب دیا کہ لوگوں میں تردید کرنے کی روح کا پیدا ہو جانا بھی خدا کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے جو آپ کو میسر نہیں.مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ دنیا خواہ مخالفت کرے خواہ موافقت بہر حال وہ آپ کی طرف توجہ کرنے پر مجبور رہی ہے اور مجبور ہے.جو مخالفت کرنے والے ہیں وہ تو مخالفانہ جذبات سے پُر ہی ہیں مگر جن کے دلوں میں محبت ہے وہ اس رنگ کی محبت ہے کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اُن کے کانوں میں پڑتا ہے اُن کے دلوں میں عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اندر کوئی تلاطم پیدا ہو گیا ہے.اس تلاطم کا انداز ہ دوسرے لوگ نہیں لگا سکتے.صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور آپ کو پہچانا.مگر دیکھنے سے میری مراد صرف جسمانی طور پر دیکھنا نہیں بلکہ میری مراد ان لوگوں سے ہے جنہوں نے عقل کی آنکھوں سے آپ کو دیکھا اور عرفان کی آنکھ سے آپ کو پہچانا.جب کبھی وہ رسول کریم ﷺ کا نام سنیں یا جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کے پاس سے گزریں اُس وقت ان کی کیفیت بالکل اور ہو جاتی ہے اور وہ یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ مادی دنیا سے جدا ہو کر ایک اور عالم میں آگئے ہیں.دو سال کے قریب کی بات ہے میں کراچی گیا تو وہاں ایک دن کچھ ایسی ہوا چلی جو عرب کی طرف سے آ رہی تھی.معا اُس ہوا نے میرے دل میں ایک حرکت پیدا کر
سيرة النبي علي 436 جلد 4 دی اور میں نے کہا یہ ہوا اُدھر سے آ رہی ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رہا کرتے تھے.پھر میں انہی خیالات میں محو ہو گیا اور اُس وقت آپ ہی آپ ایک دو شعر میری زبان پر جاری ہو گئے جن کو اُسی وقت میں نے لکھ لیا.ان اشعار میں سادہ الفاظ میں اپنے جذبات کا میں نے اظہار کیا ہے، شاعرانہ تعلیاں نہیں.بعد میں چونکہ میں اور کاموں میں مصروف ہو گیا اس لئے میں نے جس قدر اشعار کہے تھے اُسی قدر رہے اور اُن میں اضافہ نہ ہو سکا.بہر حال جب وہ ہوا آئی تو میں نے کہا ہوائیں آ رہی ہیں سمندر مرے دل کو بہت گرما رہی ہیں عرب جو ہے مرے دلبر کا مسکن ہوئے خوش اُس کی لے کر آ رہی ہیں بشارت دینے سب خورد و کلاں کو اچھلتی کودتی وہ رہی ہیں جا رہی حقیقت یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کے قلوب میں محبت نے ایک ایسا پلٹا کھایا ہے کہ وہ پہلی محبتیں جو دلوں میں پائی جاتی تھیں.اُن کا نقشہ ہی بدل گیا ہے.محبت کا مادہ ایک فطرتی مادہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی قلب میں اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ بندے کو اپنے رب کی طرف توجہ دلائے.جب تک اصل چیز نہیں ملتی انسان درمیانی چیزوں سے اس جذ بہ کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں دیکھا کہ ایک عورت بہت ہی اضطراب اور اضطرار کے ساتھ ادھر اُدھر پھر رہی ہے وہ جہاں کوئی بچہ دیکھتی اُسے اٹھاتی، سینہ سے لگاتی اور پھر دیوانہ وار تلاش میں مصروف ہو جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی اور آپ اُسے دیکھتے رہے.جہاں اسے کوئی بچہ نظر آتا وہ اسے اٹھاتی ، سینہ سے لگاتی اور پھر آگے کی طرف
سيرة النبي علي 437 جلد 4 چل دیتی یہاں تک کہ اُسے ایک بچہ نظر آیا جسے اُس نے سینہ سے لگایا اور پھر وہ اسے سینہ سے چمٹائے اس میدانِ جنگ میں ایسے اطمینان سے بیٹھ گئی کہ اُسے خیال ہی نہ رہا کہ یہاں جنگ ہو رہی ہے.وہ دنیا وَمَافِیھا سے بے خبر اپنے بچہ کو گود میں لئے میدانِ جنگ میں بیٹھی رہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا جب تک اسے اپنا بچہ نہیں ملا تھا یہ اس کی یاد میں ہر بچہ کو اٹھاتی ، اسے پیار کرتی اور اپنے سینہ سے چمٹاتی مگر اسے تسکین نہیں ہوتی تھی لیکن جب اسے اپنا بچہ مل گیا تو اس نے اسے اپنے سینہ سے لگالیا اور یوں بیٹھ گئی کہ دنیا وَمَافِیهَا کی اسے کوئی خبر نہ رہی.پھر آپ نے فرمایا جس طرح اس عورت کو اپنے بچہ کے ملنے سے خوشی ہوئی ہے ایسی ہی خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اس کا کوئی گنہگار بندہ تو بہ کر کے اُس کی طرف رجوع کرتا ہے 1.اس مثال سے جہاں اور کئی قسم کے سبق ملتے ہیں وہاں ایک سبق اس سے یہ بھی ملتا ہے کہ جب تک حقیقی محبوب نہیں ملتا انسان عارضی طور پر دوسرے محبوبوں سے دل لگا کر اپنے دل کی جلن دور کرنے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح اللہ اور اُس کے رسول کی محبت کا جذبہ جو حقیقی ہے جب تک پیدا نہیں ہوتا انسان دوسری محبتوں سے اپنے دل کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اسے حقیقی محبوب جو خدا ہے مل جاتا ہے تو اُس وقت وہ سمجھتا ہے کہ جس چیز کا نام لوگوں نے عشق مجاز رکھا ہوا ہے وہ بالکل بے حقیقت ہے.ایک دفعہ اس خیال کے ماتحت میں نے ایک شعر اس کے متعلق بھی کہا جو یہ ہے نظر آ رہی ہے چمک وہ حسنِ ازل کی شمع حجاز میں کہ کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا قیس عشق مجاز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے اندر خدائی نور دیکھنے کے بعد دنیا کی محبتیں ایسی سرد ہو گئی ہیں کہ ان میں کوئی لطف نہیں رہا.جب تک محبوب حقیقی کا جلوہ
سيرة النبي علي 438 جلد 4 نظر نہیں آیا تھا دنیا عشق مجازی سے تسلی پاتی تھی مگر جب محبوب حقیقی کا چہرہ اُس نے دیکھ لیا تو مجازی محبوب اس کی نگاہ میں حقیر ہو گئے.یہی وہ نکتہ ہے جس کو ایک بزرگ صحابی نے نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شعروں کا بہت شوق تھا.ایک دفعہ انہوں نے تمام گورنروں کے نام چٹھی لکھی کہ عرب کے جس قدر مشہور شعراء ہیں اُن سے کہو کہ وہ اپنا تازہ کلام مجھے بھجوائیں.ایک گورنر کو جب یہ چٹھی پہنچی تو اس نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ یہاں کون کون سے بڑے شاعر ہیں.ان لوگوں نے دو شاعروں کے نام بتائے جن میں ایک سبعہ معلقات کے شعراء میں سے تھے.اس گورنر نے ان دونوں شاعروں کو لکھا کہ حضرت عمر نے آپ لوگوں کا تازہ کلام منگوایا ہے کچھ اشعار کہہ کر بھیج دو.اس پر دوسرے شاعر نے ایک تازہ نظم بنا کر بھیج دی مگر یہ شاعر جن کا نام لبید تھا اور جو عرب کے بہترین شاعروں میں سے تھے اُن شاعروں میں سے کہ جب وہ مکہ میں آتے تو علماء و ادباء کا ہجوم اُن کے گرد ہو جاتا اور سب انہیں باپ کی سی حیثیت دیتے انہوں نے جواب میں لکھا کہ میرا قصیدہ تو یہ ہے الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ 2 - گورنر کو اُن کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لکھا کہ میں نے حضرت عمرؓ کا آپ کو پیغام بھجوایا ہے یہ میرا پیغام نہیں، آپ ضرور اپنا تازہ کلام مجھے بھیجیں تا میں حضرت عمرؓ کو بھجوا دوں.انہوں نے پھر لکھا که تازه کلام یہی ہے الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.اس پر گورنر نے اُن کو سزا دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا کہ ایک شاعر نے تو چند شعر بھجوائے ہیں جو میں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں مگر لبید نے آپ کے پیغام کے جواب میں قرآن کریم کی چند ابتدائی آیات لکھ کر بھیجوا دی تھیں جس پر میں نے
سيرة النبي عمال 439 جلد 4 انہیں جرمانہ کیا ہے اور ان کا وظیفہ بند کر دیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گورنر پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا لبید نے تو ہم کو سبق دیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد شعر و شاعری سب ختم ہو گئی اور اب جو کچھ ہے قرآن ہی ہے مگر تم نے بجائے انہیں کوئی انعام دینے کے الٹا ان کا وظیفہ بند کر دیا ہم حکم دیتے ہیں کہ ان کا وظیفہ دگنا کر دیا جائے.حقیقت یہی ہے کہ جو کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کے آنے کے بعد دنیا کی تمام تر توجہ کا مرکز تعلیمی لحاظ سے وہ کلام ہو گیا جو آپ لائے اور نمونہ کے لحاظ سے آپ کی ذات ہوگئی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ دنیا کے لئے اسوہ تھے اور آپ کے وجود ہی کو دنیا اپنے آگے رکھ کر چل سکتی تھی.اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہ تھا.یہ مضمون جو اس وقت میرے سامنے ہے اتنے پہلوؤں پر مشتمل ہے کہ کسی ایک تقریر یا مضمون میں اسے بیان نہیں کیا جا سکتا.یہ ایک سمندر ہے اور اتنا وسیع مضمون ہے کہ کئی سالوں تک اس کے مختلف پہلوؤں پر تقریریں کی جاسکتی ہیں پس یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی ایسا مضمون بیان کیا جائے جس میں بالاستیعاب تمام باتیں آجائیں ہاں اصولی طور پر چند باتیں بیان کی جا سکتی ہیں اس لئے میں بھی اصولی رنگ میں چند باتیں اس عنوان کے متعلق بیان کر دیتا ہوں.امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ کوشش کرتی چلی آئی ہے.یا تو دنیا بیرونی امن کے لئے جدو جہد کرتی ہے یا جب بیرونی امن کے لئے جدو جہد نہیں کر رہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہو چکی ہوتی ہے تو اندرونی امن کے لئے جدو جہد کرتی ہے.چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اور عالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتا ہے کہ اور تو ہمیں سب کچھ میسر ہے مگر دل کا امن نصیب نہیں.پس امن صرف بیرونی ہی نہیں ہوتا بلکہ دل کا بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اُس وقت تک ظاہری امن کوئی حقیقت نہیں رکھتا.مثلاً اس
سيرة النبي عمال 440 جلد 4 عورت کی مثال لے لو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اگر اسے ہر قسم کی دنیوی نعمتیں میسر ہوتیں ، عالیشان محل میں وہ رہتی ، ہزاروں خادم اُس کے پاس موجود ہوتے ، ہر قسم کے کھانے اس کے ارد گرد ہوتے ، عمدہ لباس اُس کے زیب تن ہوتا، دولت کی فراوانی ہوتی ، آرائش کا سامان اُس کے پاس بکثرت ہوتا لیکن فرض کرو اس کا بچہ گمشدہ ہوتا تو وہ کھویا ہوا بچہ اس کے امن کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتا اور دولت کے انبار، آرائش کے سامان ، کھانے پینے کی اشیاء کی کثرت ، خدمت گاروں کی موجودگی اور عالیشان محل میں قیام اس کے دل کو ذرا بھی چین نہ دے سکتے.سو ظا ہری امن اپنی ذات میں اُس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک باطنی امن اس کے ساتھ نہ ہو.ہمیشہ وہی امن ، امن کہلا سکتا ہے جو ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے امن دینے والا ہو.اس وقت دنیا میں ہم عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ امن کے خواہشمند ہیں لیکن امن ان کو میسر نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مختلف الانواع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو اُس وقت تک سب لوگ مطمئن نہیں ہو سکتے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں ان متضاد خواہشوں اور متضادضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح ہو سکتا ہے؟ ایسے متضاد اور مخالف خیالات کی موجودگی میں تبھی امن قائم ہو سکتا ہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو جو امن دینے کا ارادہ رکھتی ہو.اگر یہ بات نہ ہو تو کبھی امن میسر نہیں آ سکتا.ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذرا ادھر اُدھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہولہان ہو جاتے ہیں.کسی کے کلے پر زخم ہوتا ہے ، کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں، کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، کسی کی آنکھ سوجی ہوئی ہوتی ہے مگر جب
سيرة النبي علي 441 جلد 4 ماں باپ آتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی پو پلی شکلیں بنا کر بیٹھ جاتے ہیں گویا وہ لڑائی جھگڑے کو جانتے ہی نہیں اس لئے کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں.پس در حقیقت امن اُس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جو امن کی متمنی ہو اور جو دوسروں کو امن دینا چاہتی ہو اور ایسے قوانین نافذ کرنا چاہتی ہو جو امن دینے والے ہوں اور وہی شخص حقیقی امن دینے والا قرار پاسکتا ہے جو اس ہستی کی طرف لوگوں کو بلائے.یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والا بھی ہے.چنانچہ سورۃ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جو نام گنائے گئے ہیں ان میں سے ایک نام یہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلم 3 اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تو لوگوں کو توجہ دلا اُس خدا کی طرف جو بادشاہ ہے، پاک ہے اور السلام یعنی دنیا کو امن دینے والا اور تمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے.یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یا فساد کریں بلکہ وہ امن شکن کو سزا دیتے اور امن قائم رکھنے والے بچے سے پیار کرتے ہیں اس طرح تمہارے اوپر بھی ایک خدا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں ، تمہارے ارادے مختلف ہیں ، تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں ، تمہاری خواہشیں مختلف ہیں اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہو کر امن شکن حرکات پر تیار ہو جاتے ہومگر یا درکھو خدا ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتا ، وہ سلام ہے جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اُس وقت تک وہ اس کا محبوب نہیں ہوسکتا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدا نہیں کر دیا کرتی کیونکہ بالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کے لئے نہیں ہوتی.چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں دولت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت
سيرة النبي علي 442 جلد 4 بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے اچھی چیز ہے اور جب وہ کہتے ہیں صحت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے معنی بھی یہ نہیں ہوتے کہ میرے دشمن کی صحت اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے صحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق تو انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ نادار اور کمزور ہو.اسی طرح جب لوگ عزت و رتبہ کے متمنی ہوتے ہیں تو ہر شخص کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے.پس جب دنیا کا یہ حال ہے تو خالی امن کی خواہش بھی فساد کا موجب ہوسکتی ہے کیونکہ جو لوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ اس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اور ان کی قوم کو امن حاصل رہے ورنہ دشمن کے لئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹا دیں.اب اگر اس اصل کو رائج کر دیا جائے تو دنیا میں جو بھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوں کا امن ہوگا ساری دنیا کا نہیں ہوگا.اور جو ساری دنیا کا امن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلا سکتا.حقیقی امن تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ ساری دنیا کے لئے امن چاہتی ہے اور جو میرے ملک کے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے ملکوں کے لئے امن چاہتی ہے.اور اگر میں صرف اپنے لئے یا صرف اپنی قوم کے لئے یا صرف اپنے ملک کے لئے امن کا متمنی ہوں تو اس صورت میں مجھے اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی.جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہو جائے تبھی امن قائم ہوسکتا ہے ور نہ نہیں.پس الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی ارادوں کو پاک وصاف کر دیا اور یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اُس وقت تک کام بھی درست نہیں ہوسکتا.دنیا میں اس وقت جتنے فساد اور لڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں.وہ منہ سے جو باتیں کرتے ہیں ان کے مطابق اُن کی خواہشات نہیں اور ان کی خواہشات کے مطابق اُن کے اقوال و افعال نہیں.آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بری چیز ہے
سيرة النبي م 443 جلد 4 لیکن اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تو یہ بری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف سے جنگ کی ابتدا ہو تو یہ کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی اور یہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے.وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارا فائدہ ہے ہم ان باتوں پر عمل کریں گے مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تو اسے رد کر دیں گے.پس یہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کو لا سکتا ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن سے رہیں.جب ہمارا یہ عقیدہ ہوگا تو اُس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کو عام نفع پہنچانے والی ہوں گی ، اُس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ساری دنیا پر اس کا کیا اثر ہے.یوں تو دنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو برباد کرتی رہتی ہے لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایسا کرنے کی جرات اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر میں نے ایسا کیا تو ایک بالا ہستی مجھے کچل کر رکھ دے گی.جیسے ایک بچہ جب دوسرے کا کھلونا چھین لیتا ہے تو وہ اپنے لئے امن حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کا امن چھینا جاتا ہے اور ایک تو خوش ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا رو رہا ہوتا ہے.ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیں گے؟ وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے بلکہ جس بچہ نے کھلونا چھینا ہوگا اس سے کھلونا واپس لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جو دوسرے کے امن کو برباد کر کے حاصل کیا جاتا ہے وہ کبھی قائم رہنے والا نہیں اور حقیقی امن وہی ہے جو ایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیا ہو.غرض حقیقی امن اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی تسلیم نہ کی جائے اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالی امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی پیش کیا ہے اور اسی نے کہا ہے اَلْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ.
سيرة النبي علي 444 جلد 4 اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتا ہے کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی کا پتہ مل گیا تو انسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان بھی کیا ہے یا نہیں.کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیں کیا تو یہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس بات کا امکان ہوسکتا ہے کہ بجائے امن کے فساد پیدا کر دیں.پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں رکھ سکتی جب تک ایک بالا ہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جو امن قائم کرنے میں ممد اور معاون ہوں کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو تو انسان با وجود اس آرزو کے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا.پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تو معلوم ہو لیکن اُس خواہش کو پورا کرنے کا طریق معلوم نہ ہو تب بھی ہما را امن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اور طریق اختیار کریں اور اس کا منشا کوئی اور طریق اختیار کرنا ہو.پس ہمارے امن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بالا ہستی ہمیں کوئی ایسا ذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والا ہو.سو اس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایسا ذریعہ بتایا ہے یا نہیں تو سورۃ بقرۃ میں ہمیں اس کا جواب نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّاه یعنی یہ جو آسمان پر سلام خدا کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جو دنیا کو امن دینے والا ہوتا سو ہم نے بیت اللہ کو مدرسہ بنایا ہے یہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہوں گے اور امن کا سبق سیکھیں گے.پس ہمارے خدا نے صرف خواہش ہی نہیں کی ،صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کرو ورنہ میں تم کو سزا دوں گا بلکہ اس دنیا میں اُس نے امن کا ایک مرکز بھی قائم کر دیا اور وہ خانہ کعبہ ہے.فرماتا ہے یہاں لوگ
سيرة النبي علي 445 جلد 4 آئیں گے اور اس مدرسہ سے امن کا سبق سیکھیں گے.پھر یہ کہ اس مدرسہ کی تعلیم کیا ہوگی؟ اس کے لئے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان فرما دیا کہ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورُ وَ كِتُبُ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلام 5 یعنی اے لوگو! تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے تم کو یہ پتہ نہیں تھا کہ تم اپنے خدا کی مرضی کو کس طرح پورا کر سکتے ہو اس لئے دنیا میں ہم نے تمہارے لئے ایک مدرسہ بنا دیا ہے مگر خالی مدرسہ کام نہیں دیتا جب تک کتابیں نہ ہوں.پس فرمایا قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللهِ نُورُ وَكِتَبٌ مُّبِينٌ خدا کی طرف سے تمہاری طرف ایک نور آیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور اس کے ساتھ ایک کتاب مبین ہے، ایسی کتاب جو ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے.پس خدا تعالیٰ نے اسلام کے لئے امن کا مدرسہ بھی قائم کر دیا ، امن کا کورس بھی مقرر کر دیا اور مدرس امن بھی بھیج دیا.مدرس امن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور امن کا کورس وہ کتاب ہے جو یھدِی بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلْمِ کی مصداق ہے.جو شخص خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس کتاب کو پڑھے اس میں جس قدر سبق ہیں وہ سُبُلَ السّلمِ یعنی سلامتی کے راستے ہیں اور کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں جس پر عمل کر کے انسانی امن بر باد ہو سکے.ایک بالا ہستی کا وجود ہمارے ارادوں کو درست کرتا ہے، مدرسہ کا قیام ہماری عملی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اس کتاب کی عملی تفسیر ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے وہ کتاب بھیج دی ہے جس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن سے امن حاصل ہوسکتا ہے.اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کس کے لئے ہے؟ اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَمٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصطفى 6 یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو کہہ الْحَمْدُ لِلَّهِ سب تعریف اُس اللہ کے
سيرة النبي علي 446 جلد 4 لئے ہے جس نے دنیا میں امن قائم کر دیا اور انسان کی تڑپ اور فکر کو دُور کر دیا اور کہو وَسَلَمٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى وہ بندے جو خدا تعالیٰ کے پسندیدہ ہو جائیں اور اپنے آپ کو اس کی راہ میں فدا کر دیں اُن کے لئے بھی امن پیدا ہو جائے گا اور وہ بھی با امن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے.یہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ تمام لوگ جو آپ کی اتباع کرنے والے اور آپ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہیں ان کے لئے کامل امن ہے اور وہ اپنی زندگی کے کسی شعبہ میں بھی بدامنی نہیں دیکھ سکتے.پھر سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب خدا سلام ہے تو اس کی طرف سے امن ساروں کے لئے آنا چاہئے نہ کہ بعض کے لئے کیونکہ اگر خالی اپنوں کے لئے امن ہو تو یہ کوئی کامل امن نہیں کہلا سکتا.اس کا بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جواب دیتا ہے فرمایا وَقِيلِهِ يُرَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ لا يُؤْمِنُوْنَ فَاصْفَحُ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلْمٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ 7 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسی تعلیم لے کر آئے ہیں جو ساروں کے لئے ہی امن کا موجب ہے اور ہر شخص کے لئے وہ رحمت کا خزانہ اپنے اندر پوشیدہ رکھتی ہے مگر افسوس کہ لوگ اس کو نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس تعلیم کے خلاف لڑائیاں اور فساد کرتے ہیں جو ان کے لئے نوید اور خوشخبری ہے.یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ خدایا ! میں اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کر آیا تھا مگر اِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ لَا يُؤْمِنُونَ یہ قوم جس کے لئے میں امن کا پیغام لایا تھا یہ تو مجھے بھی امن نہیں دے رہی.امن کے معنی ایمان لانے کے بھی ہوتے ہیں اور امن کے معنی امن دینے کے بھی ہوتے ہیں.قِيْلِهِ يُرَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ لَا يُؤْمِنُونَ میں اس امر کا ذکر ہے کہ ہمارا نبی ہم سے پکار پکار کر کہتا ہے کہ خدایا! باوجودیکہ میں اپنی قوم کے لئے امن کا پیغام لایا تھا وہ اس کی قدر کرنے کی بجائے میری مخالفت پر کمر بستہ ہوگئی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے میرے امن کو
سيرة النبي علي 447 جلد 4 برباد بالکل بر باد کر دیا ہے.مگر فرمایا فَاصْفَحْ عَنْهُم ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابھی ان لوگوں کو تیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لئے وہ غصہ میں آ جاتے اور تیری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں تو ان سے درگزر کر کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کے لئے ہی بھیجا ہے وَ قُل سلم اور جب تجھ پر یہ حملہ کریں اور تجھے ماریں تو تو یہی کہتا رہ کہ میں تو تمہارے لئے سلامتی لایا ہوں فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ عنقریب دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دنیا کے لئے امن لایا تھا لڑائی نہیں لایا تھا.گویا وہ امن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے وہ صرف مومنوں کے لئے ہی امن نہ رہا بلکہ سب کے لئے امن ہو گیا.پھر صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی نہیں بلکہ عام مومنوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجُهِلُونَ قَالُوْا سَلْمَّا ه وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کو نہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں تو مومن کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں چاہے تم ہمارا برا ہی کیوں نہ چا ہو.جب دشمن کہتا ہے کہ تم کیسے گندے عقائد دنیا میں رائج کر رہے ہو تو وہ کہتے ہیں یہ گندے عقائد اور بیہودہ باتیں نہیں بلکہ سلامتی کی باتیں ہیں.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہی نہیں بلکہ مومنوں کے لئے بھی ہے اور صرف مومنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے.پھر سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ سلامتی عارضی ہے یا مستقل؟ کیونکہ یہ تو ہم نے مانا کہ ایک السّلم خدا سے امن لا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو دیا مگر بعض امن عارضی بھی ہوتے ہیں جن کے نیچے بڑی بڑی خرابیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جیسے بخار کا مریض جب ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اُسے بڑا آرام محسوس ہوتا ہے مگر دومنٹ کے بعد یکدم اُس کا بخار تیز ہو جاتا ہے اور کہتا ہے آگ لگ گئی ہے.پھر برف پیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آرام آ گیا مگر یکدم پھر اُسے بے چینی شروع ہو جاتی ہے.پس سوال ہوسکتا ہے کہ.
سيرة النبي علي 448 9 جلد 4 محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو امن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے وَاللهُ يَدْعُوا اِلى دَارِ السَّلْمِ و کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ موجودہ زمانہ کے لئے ہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا امن ہے جو مرنے کے بعد بھی چلتا چلا جاتا ہے اور جو اس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ دیتا ہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے گویا یہ زنجیر ایک مکمل زنجیر ہے.اس کے ماضی میں ایک سلام ہستی کھڑی ہے ، اس کے حال میں امن ہے کیونکہ ایک مدرسہ امن جاری ہو گیا ہے.ایک مدرس امن خدا تعالیٰ نے بھیج کر امن کا کورس بھی مقرر کر دیا اور عملی طور پر ایک ایسی جماعت تیار کر دی جو إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلما کی مصداق ہے.پس اس کے ماضی میں بھی امن ہے اور اس کے حاضر میں بھی امن ہے پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے کیونکہ وَاللهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلْمِ مرنے کے بعد وہ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی پس یہ ساری زنجیر مکمل ہو گئی اور کوئی پہلو b تشنہ تکمیل نہیں رہا.اس کے بعد امن حقیقی کے قیام کے ذرائع کا سوال آتا ہے.سو اس کے متعلق بھی قرآن کریم روشنی ڈالتا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے فرماتا ہے وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَالَمْ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمُ سُلْطَنَّا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 10 کہ میرے دل کا امن کس طرح بر باد ہو جائے ان بتوں کو دیکھ کر جن کو تم خدائے واحد کا شریک قرار دے رہے ہو وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللهِ مَالَمْ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَّا حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طور پر مطمئن ہو اور خطرہ تمہارے اردگرد ہے.پس اگر تم عدم علم اور جہالت کے باوجود مطمئن ہو اور تمہارا عدم علم تم کو امن دے سکتا ہے تو تم کس طرح
سيرة النبي علي 449 جلد 4 سمجھ سکتے ہو کہ میرا کامل علم مجھے امن نہیں بخش سکتا.فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ تم بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کس کو امن حاصل ہوگا اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم حماقت کی باتیں نہ کرو اور عقل و خرد سے کام لو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کون مامون ہے اور کون غیر مامون.اس جگہ امن کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو عظیم الشان گر بیان کئے ہیں.اول یہ کہ توحید کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک تو حید قائم نہ ہوگی اُس وقت تک لڑائیاں جاری رہیں گی.شرک کا صرف اتنا ہی مفہوم نہیں ہوگا کہ کوئی ایک کی بجائے تین خداؤں کا قائل ہو بلکہ جب باریک در باریک رنگ میں شرک شروع ہوتا ہے تو کئی کئی قسم کا شرک نظر آنے لگ جاتا ہے اس کے علاوہ جب مختلف مذاہب کی تعلیمیں مختلف ہیں ، ان کے خیالات مختلف ہیں تو اس حالت میں امن اُس وقت تک قائم ہی نہیں ہو سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مؤاخات پیدا نہ ہو اور حقیقی مواخات ایک خدا کے بغیر نہیں ہو سکتی.دنیا میں اس بات پر تو لڑائیاں ہو جاتی ہیں کہ ایک کہتا ہے میرا دادا فلاں عظمت کا مالک تھا اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا دادا ایسا تھا مگر کبھی تم نے بھائیوں کو اس بات پر لڑتے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک دوسرے کو کہے میں شریف النسب ہوں اور تم نہیں.اسی طرح جب دنیا میں توحید کامل ہوگی تبھی اس قسم کی لڑائیاں بند ہوں گی.پس اخوت و مساوات کا جوسبق تو حید سے حاصل ہوتا ہے اور کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتا.چنانچہ رسول کریم ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق دشمن بھی یہ اقرار کرتا ہے کہ اخوت کا جو سبق آپ نے دیا وہ کسی اور نے نہیں دیا.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کا سبق الگ کر کے نہیں دیا بلکہ آپ نے اصل میں توحید کا سبق دیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں اخوت پیدا ہوگئی.مثلاً جب میں نماز میں کہوں اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 11 سب تعریف اُس اللہ کی ہے جو عیسائیوں کا بھی رب ہے، ہندوؤں کا بھی رب ہے اور یہودیوں کا بھی
سيرة النبي عمال 450 جلد 4 رب ہے تو میرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح ہو سکتی ہے کیونکہ میں رب العلمین کے لفظ کے نیچے تمام قوموں ، تمام نسلوں اور تمام مذہبوں کو لے آتا ہوں.میں جب نماز میں اَلْحَمدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتا ہوں تو دوسرے الفاظ میں میں یہ کہتا ہوں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْمَذَاهِبِ كُلِهَا یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام مذاہب کا رب ہے.اسی طرح جب میں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہتا ہوں تو اس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْأَقْوَامِ كُلِهَا یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام اقوام کا رب ہے.اسی طرح جب میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتا ہوں تو اس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ الْحَمُدُ لِلَّهِ رَبِّ الْبَلادِ كُتِهَا یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام ملکوں کا رب ہے اور جب کہ میں تمام اقوام ، تمام ملکوں اور تمام لوگوں میں حسن تسلیم کروں گا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ میں ان سے عداوت رکھ سکوں.پس اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میں بتا دیا گیا ہے کہ اگر حقیقی توحید قائم ہو اور رب العلمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں رہے اور ایک طرف تو وہ ان کی بربادی کی خواہش رکھے اور دوسری طرف ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف بھی کرے.دوسرا نکتہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ نازل فرمایا ہے کہ مَالَمْ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَّا یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتا ہے جب انسان فطرتی مذہب کو چھوڑ کر رسم و رواج کے پیچھے چل پڑتا ہے.اگر انسان طبعی اور فطرتی باتوں پر قائم رہے تو کبھی لڑائیاں اور جھگڑے نہ ہوں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام دین فطرت ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ جو دینِ فطرت ہوگا وہی دنیا میں امن قائم کر سکے گا اور وہی مذہب امن پھیلا سکے گا جس کا ایک ایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں ہو.آخر یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اُس تعلیم کی طرف بلائے جس کا جواب ہماری فطرت میں نہیں اور جس
سيرة النبي علي 451 جلد 4 کی قبولیت کا مادہ پہلے سے خدا نے ہمارے دماغ اور ہمارے ذہن میں نہیں رکھا.پس فرمایا مَالَمْ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطنًا تم کہہ دو کہ تم ان تعلیموں کے پیچھے چل رہے ہو جو فطرت کے خلاف ہیں اور میں تم کو ان باتوں کی طرف بلاتا ہوں جو تمہاری فطرت میں داخل ہیں اب جوں جوں انسان اپنی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کرے گا اُس کا دل پکار اٹھے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کتاب ہے وہ بالکل سچی ہے کیونکہ اس کا دوسرا نسخہ میرے ذہن میں بھی ہے.اس طرح آہستہ آہستہ دنیا ایک مرکز پر آ جائے گی اور ایک ہی خیال پر متحد ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں امن قائم ہو جائے گا.اب ایک اور سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدرس امن ہیں، بے شک آپ نے امن کا مدرسہ دنیا میں جاری کر دیا، بے شک امن کا کورس خدا نے مقرر کر دیا، بے شک اسلام نے تعلیم وہ دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جسے دیکھ کر انسانی فطرت پکار اٹھتی ہے کہ واقعہ میں یہ صحیح تعلیم ہے مگر کیا لڑائی بالکل ہی بری چیز ہے؟ قرآن کریم اس کا بھی جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ فرمایا وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ 12 کہ بے شک امن ایک قیمتی چیز ہے، بے شک اس کی تعلیم خدا نے انسانی دماغ میں رکھی ہے مگر کبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہو جاتا ہے اور انسانی عقیدے مرکز سے اتنے پرے ہٹ جاتے ہیں کہ وہ امن سے بالکل دور جا پڑتے ہیں اور نہ صرف امن سے دور جا پڑتے ہیں بلکہ حریت ضمیر کو بھی باطل کرنا چاہتے ہیں.فرماتا ہے ایسی حالت میں امن کے قیام اور اس کو وسعت دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جو شرارتی ہیں ان کا مقابلہ کیا جائے.پس وہ جنگ امن مٹانے کے لئے نہیں بلکہ امن قائم کرنے کے لئے ہوگی.جیسے اگر انسان کے جسم کا کوئی عضو سر گل جائے تو فیس خرچ کر کے بھی انسان
سيرة النبي عمال 452 جلد 4 ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ اس عضو کو کاٹ دو.اسی طرح کبھی ایسے گروہ دنیا میں پیدا ہو جاتے ہیں جو سرطان اور کینسر کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ ان کا آپریشن کیا جائے تا وہ باقی حصہ قوم کو بھی گندہ اور ناپاک نہ کر دیں.پس فرمایا وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ اگر بعض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوں کو دور نہ کرتا تو نَفَسَدَتِ بجائے امن قائم ہونے کے فساد بڑھ جاتا.جس طرح سپاہیوں کو بعض دفعہ لاٹھی چارج کا حکم دیا جاتا ہے اسی طرح بعض دفعہ ہم بھی اپنے بندوں کو اجازت دیتے اور انہیں کہتے ہیں جاؤ اور لاٹھی چارج کرواس لئے کہ نَفَسَدَتِ اگر لاٹھی چارج نہ کیا جاتا تو ساری دنیا کا امن برباد ہو جاتا.وَلَكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِيْنَ 13 یعنی اللہ صرف ایک قوم کو ہی امن نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ساری دنیا کو با امن دیکھنے کا خواہشمند ہے اور چونکہ ان لوگوں سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے تا ساری دنیا میں امن قائم ہو.بے شک اس کے نتیجہ میں خود ان لوگوں کا امن مٹ جائے گا مگر دنیا میں ہمیشہ موازنہ کیا جاتا ہے جب ایک بڑا فائدہ چھوٹے فائدے سے ٹکرا جائے تو اُس وقت بڑے فائدہ کو لے لیا جاتا ہے اور چھوٹے فائدہ کو قربان کر دیا جاتا ہے.اسی طرح کثیر حصہ دنیا کے امن کی خاطر ایک قلیل گروہ سے جنگ کی جاتی ہے اور اُس وقت تک اُسے نہیں چھوڑا جاتا جب تک وہ خلاف امن حرکات سے باز نہ آجائے.یہ ایک مختصر سا ڈھانچہ اُس تعلیم کا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام امن کے سلسلہ میں دی.میں نے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح دنیا میں امن قائم کیا اور کس طرح بدامنی کے اسباب کا آپ نے قلع قمع کیا.پس آپ کا وجود دنیا کا سب سے بڑا محسن ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت کہ یاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 14 آپ پر درود بھیجیں اور کہیں اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ
سيرة النبي علي 453 جلد 4 وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارِكُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى ال مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ریویو آف ریلیجنز قادیان - جون 1939 ، صفحہ 3 تا 19 ) 1: بخارى كتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته صفحه 1050 حدیث نمبر 5999 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: البقرة : 2 تا 4 3: الحشر : 24 4: البقرة: 126 5 : المائدة : 17،16 6: النمل : 60 7 : الزخرف : 89، 90 8: الفرقان: 64 9: يونس: 26 10: الانعام : 82 11: الفاتحة : 2 12 13: البقرة : 252 14: الاحزاب : 52
سيرة النبي علي 454 جلد 4 رشتہ داروں سے سلوک 27 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.صلى الله رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کس قدر اپنے رشتہ داروں کے جذبات کا خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ گھر میں تشریف لائے دیکھا کہ آپ کی بیوی اُمّ حبیبہ (جو ابو سفیان کی بیٹی تھی ) کی ران پر اپنے بھائی کا سر ہے اور وہ ان کے بالوں سے کھیل رہی ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اُمّ حبیبہ! کیا آپ کو معاویہ بہت پیارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں.آپ نے فرمایا مجھے بھی بہت پیارا ہے.“ (مصباح جنوری 1939ء)
سيرة النبي علي 455 جلد 4 رسول کریم ﷺ کی شجاعت رسول 27 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا :.حنین کی جنگ میں جبکہ چار ہزار مشاق تیرانداز آپ پر تیروں کی بارش برسا صلى الله رہا تھا اور رسول کریم ﷺ کے گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے اُس وقت صحابہ آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں يَارَسُولَ اللہ ! یہاں کھڑے رہنے کا موقع نہیں، آپ کی زندگی کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے، آپ کسی محفوظ مقام میں چلیں، جب دشمن کے حملہ کا زور ٹوٹ جائے گا تو ہم پھر اسلامی لشکر کو جمع کر کے اس پر حملہ کردیں گے.چنانچہ بعض صحابہ اسی جوش میں آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں مگر رسول کریم علیہ فرماتے ہیں چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو اَنَا النَّبِيُّ لا كَذِب 1 میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں.“ (الفضل مسیح موعود نمبر 28 مارچ 1958 ء) 1: بخارى كتاب الجهاد والسير باب من قاد دابة غيره فى الحرب صفحہ 474 حدیث نمبر 2864 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 456 جلد 4 حیات مسیح کا عقیدہ رسول کریم مے کی ہتک ہے 27 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا :.صلى الله حیات مسیح کا عقیدہ ایسا خطر ناک ہے کہ خدا کی اس میں عزت نہیں ، رسول کریم کی اس میں عزت نہیں، حضرت عیسی علیہ السلام کی اس میں عزت نہیں صرف مولویوں کی عزت ہے مگر خدا اور اس کے رسولوں کے مقابلہ میں ان مولویوں کی عزت کی کیا حقیقت ہے کہ کوئی باغیرت مسلمان اس کا خیال رکھ سکے.مگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی اصلاح کر لی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی اور اب امتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے انہیں ہی امتی بنا کر نہیں بھیجا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متبعین میں سے ایک شخص کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کر دے گا.وہ آپ کے نور میں سے نور لے گا اور آپ کی معرفت میں سے معرفت اور اس طرح وہ آپ کا غلام اور خادم بن کر لوگوں کو پھر اسلام پر قائم کرے گا اور آپ کسی موسوی نبی کے شرمندہ احسان نہیں ہوں گے.یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جن سے یہ مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے.باقی رہا نبوت کا مسئلہ سو اس کے متعلق بھی مخالف علماء لوگوں کو سخت مغالطہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرک فی النبوۃ ہے.ان کا مفہوم اس اصطلاح سے یہ ہوتا ہے کہ گویا ہم نے حضرت مرزا صاحب کو نبوت میں رسول کریم ﷺ کا شریک بنا لیا ہے : حالانکہ یہ بھی درست نہیں کیونکہ نبوت کو جس رنگ میں وہ پیش کرتے ہیں اس رنگ میں
سيرة النبي علي 457 جلد 4 ہم اسے مانتے ہی نہیں.وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسی نبوت کے مدعی ہیں جس سے رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اس لئے وہ آپ کی نبوت کو شرک فی النبوۃ قرار دیتے ہیں اور چونکہ شرک کا لفظ ایک مسلمان کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ” بیل کے لئے سرخ چیتھڑا اس لئے شرک فی النبوۃ کے الفاظ سنتے ہی مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو! کتنا بڑا اندھیر ہے کہ احمدی شرک فی النبوۃ کرتے ہیں.حالانکہ جو لوگ اسے شرک قرار دیتے ہیں وہ شرک کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں.شرک ایک تو ظاہری رنگ میں ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی انسان کو یا کسی اور چیز کو سجدہ کر دینا یہ تو ہر صورت میں منع ہے.لیکن باطنی شرک ہمیشہ نسبتی ہوتا ہے.اگر جتنی محبت تم خدا سے کرتے ہو اتنی ہی محبت تم کسی نبی سے کرتے ہو تو تم مشرک ہو.لیکن اگر محبتوں کے نمبر ہوں کوئی روپیہ جتنی محبت ہو، کوئی اٹھنی جتنی محبت ہو، کوئی چوٹی جتنی محبت ہو، کوئی دوئی جتنی محبت ہو اور کوئی کوڑی جتنی محبت ہو تو اس صورت میں شرک کی تعریف بالکل بدل جائے گی.اگر خدا کی محبت تمہارے دل میں دو آنے کے برابر ہے اور تم دو یا اڑھائی آنہ محبت حضرت عیسی علیہ السلام سے یا کسی اور نبی سے کرتے ہو تو یہ شرک ہوگا لیکن اگر یہ محبت ڈیڑھ آنہ کے برابر ہے تو یہ شرک نہیں ہو گا.اس کے مقابلہ میں اگر کسی کو حضرت عیسی علیہ السلام سے اڑھائی آنے کے برابر محبت ہے اور خدا سے اسے ایک روپیہ کے برابر محبت ہے تو باوجود اس کے کہ یہ محبت پہلے شخص کی محبت سے زیادہ ہو گی پھر بھی یہ شرک نہیں کہلائے گی.کیونکہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی محبت اس کے دل میں پہلے شخص سے زیادہ ہے تو خدا کی محبت اس سے بھی زیادہ ہے.شرک تب ہوتا جب دونوں محبتیں ایک مقام پر ہوتیں.مگر جب دونوں ایک مقام پر نہیں تو شرک کس طرح ہو گیا.اب یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان رسول کریم علیہ سے جو محبت رکھتے ہیں اس کی کسی اور نبی کے ماننے والوں میں نظیر نہیں مل سکتی.اور جو سچے مومن ہوں ان کا دل تو اللہ تعالیٰ اتنا وسیع بنا دیتا ہے کہ صلى الله
سيرة النبي عمال 458 جلد 4 ان کی محبت زمین و آسمان پر حاوی ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک موٹی بات دیکھ لو حضرت عیسی علیہ السلام پر جب ایک ابتلا کا وقت آیا تو ان کے تمام حواری بھاگ گئے بلکہ ایک نے تو آپ پر لعنت ڈالی اور کہا کہ میں نہیں جانتا مسیح کون ہے.مگر رسول کریم پر کوئی تکلیف کا وقت نہیں آیا جب کہ صحابہ نے اپنے خون نہ بہا دیئے ہوں.بدر کی جنگ کا جب وقت آیا تو رسول کریم ﷺ نے تمام مہاجرین اور انصار کو اکٹھا کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.اس کی ضرورت یہ پیش آئی کہ جب رسول کریم مکے مدینہ میں تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر مدینہ میں آکر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر باہر جا کر کسی دشمن سے مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ آپ کی ضرور مدد کریں.اس موقع پر چونکہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں مدینہ سے باہر دشمن کا مقابلہ ہونا تھا اس لئے آپ نے سمجھا کہ ممکن ہے انصار کا اس موقع پر اس معاہدہ کی طرف خیال چلا جائے.پس آپ نے ان کا ارادہ معلوم کرنے کے لئے فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو اس پر مہاجرین ایک ایک کر کے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ مشورہ کیا ؟ آپ چلیں اور جنگ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں.مگر جب بھی کوئی مہاجر بیٹھ جاتا رسول کریم ﷺ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.انصار اُس وقت تک خاموش تھے کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ ضرور لڑنا چاہئے تو مہاجرین کہیں یہ خیال نہ کریں کہ یہ لوگ ہمارے بھائیوں اور رشتے داروں کو مروانا چاہتے ہیں.پس وہ اُس وقت تک خاموش رہے مگر جب رسول کریم ﷺ نے بار بار فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! شاید آپ کی مراد ہم سے ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ شاید آپ کی مراد اس معاہدہ سے ہے جو ہم نے آپ کی مدینہ کی تشریف آوری کے متعلق کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں.انہوں نے کہا
سيرة النبي متر 459 جلد 4 يَارَسُولَ اللهِ! جس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت ہم نے آپ کی شان کو پورے طور پر پہچانا نہیں تھا اور غلطی سے یہ معاہدہ کر لیا مگر اس کے بعد جب آپ ہم میں رہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کی کیا شان ہے.پس اب اس معاہدے کا کوئی سوال ہی نہیں.سامنے سمندر تھا انہوں نے اس سمندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا يَارَسُولَ اللَّهِ! اگر آپ حکم دیں کہ اس سمندر میں کود جاؤ تو ہم اپنے گھوڑے اس سمندر میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور يَا رَسُولَ اللهِ! آپ جنگ کا کیا پوچھتے ہیں خدا کی قسم ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے 1.پھر ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بدر کے میدان میں پہنچے تو صحابہ نے ایک اونچی جگہ بنا کر رسول کریم ﷺ کو وہاں بٹھا دیا اور پھر انہوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹنی کس کے پاس ہے.چنانچہ سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹنی لے کر انہوں نے رسول کریم ﷺ کے قریب باندھ دی.رسول کریم ہے نے اسے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم تمام کے تمام اس جگہ شہید نہ ہو جائیں.ہمیں اپنی موت کا تو کوئی غم نہیں يَا رَسُولَ اللهِ! ہمیں آپ کا خیال ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو.ہم اگر مر گئے تو اسلام کو کچھ نقصان نہیں ہو گا لیکن آپ کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے پس ضروری ہے کہ ہم آپ کی حفاظت کا سامان کر دیں.يَا رَسُولَ اللهِ ! حضرت ابوبکر کو ہم نے آپ کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا ہے اور یہ ایک نہایت تیز رفتار اونٹنی آپ کے قریب باندھ دی ہے.اگر خدانخواستہ ایسا وقت آئے کہ ہم ایک ایک کر کے یہاں ڈھیر ہو جائیں تو يَا رَسُولَ اللہ ! یہ اونٹنی موجود ہے اس پر سوار ہو جائیے اور مدینہ پہنچ جائیے.وہاں ہمارے کچھ الله
سيرة النبي عمال 460 جلد 4 اور بھائی موجود ہیں انہیں معلوم نہ تھا کہ جنگ ہونے والی ہے اگر معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوتے.آپ ان کے پاس پہنچ جائیے وہ آپ کی حفاظت کریں گے اور دشمن کے شر سے آپ محفوظ رہیں گے 2.یہ کتنی شاندار قربانی ہے جو صحابہؓ نے پیش کی.اس کے مقابلہ میں کیا نمونہ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے پیش کیا اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی محبت کی گرد کو بھی پہنچے تھے.پس یقیناً صحابہ رسول کریم عمل سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے مگر وہ مشرک صلى الله نہیں ہو گئے تھے کیونکہ خدا کی وہ محبت جو رسول کریم ﷺ نے ان کے دلوں میں قائم کی تھی وہ اس سے بھی بہت اونچی اور بہت بلند تھی.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں جتنی محبت خدا سے کی جاتی تھی اتنی ہی محبت رسول کریم ﷺ سے کی جائے تو بھی یہ شرک نہیں ہوسکتا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کی محبت کا معیار اور زیادہ بلند کر دیا اور اس کو اتنا اونچا کر دیا کہ آپ کی محبت بھی اس کے مقابلہ میں بیچ ہو جاتی ہے.پس آج رسول کریم علیہ سے اتنی محبت کرنا جتنی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں خدا سے کی جاتی تھی شرک نہیں.کیونکہ خدا کی محبت آج اور زیادہ بلند ہو چکی ہے.لیکن اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی حضرت عیسی علیہ السلام سے اتنی محبت کرتا جتنی وہ خدا سے کرتا تھا تو یہ شرک ہوتا.جیسے آج کوئی رسول کریم می سے اتنی محبت کرے جتنی وہ خدا سے کرتا ہے تو یہ شرک ہے.یہی حال نبوت کا ہے.ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا درجہ ہر روز بڑھتا ہے اور کوئی دن آپ پر ایسا نہیں آتا جب آپ پہلے مقام سے اور زیادہ آگے نہیں نکل جاتے.چنانچہ میں نے جس وقت یہ تقریر شروع کی تھی اُس وقت رسول کریم ﷺ جس مقام قرب پر فائز تھے میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس وقت وہ اُس مقام سے بہت زیادہ آگے نکل چکے ہیں.کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں رسول کریم ﷺ کے درجہ میں ترقی نہیں ہوتی اور کوئی وقت صلى الله الله علوم
سيرة النبي علي 461 جلد 4 ایسا نہیں جب آپ کے مدارج بلند نہیں ہوتے.مگر ہمارے مخالف کنویں کے مینڈک صلى الله کی طرح یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تیرہ سو سال سے ایک مقام پر بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ آپ روز بروز درجہ میں بڑھ رہے ہیں.اور جب ہر لمحہ آپ کے درجات میں ترقی ہو رہی ہے تو لازماً آپ کا پیرو بھی درجات میں ترقی کرتا جائے گا اور آپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا ان مقامات سے گزرتا جائے گا جن مقامات سے آپ گزر چکے ہیں لیکن آپ کا پیرو اور نقش قدم پر چلنے کا دعوی کرتے ہوئے وہ کبھی آپ کے برابر نہیں ہو سکتا اور نہ آپ سے آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ آپ کے درجات میں ہر لحہ ترقی ہو رہی ہے اور آپ کا متبع اور پیر و جتنا بھی آگے بڑھے گا وہ بہر حال آپ کے پیچھے ہی رہے گا اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام باوجود نبوت کے مقام پر فائز ہونے کے کبھی آپ کے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ نے یہ مقام آپ کی کامل پیروی سے حاصل کیا ہے.یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں بیان فرمایا ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 3 صلى الله یعنی اے محمد رسول اللہ ! ( ع ) لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو نبی کس طرح ہو گیا میں تو نبی اس لئے ہوا کہ تو خیر رُسُل ہے.تو جتنا جتنا آگے بڑھتا ہے اتنا اتنا میں بھی بڑھتا چلا جاتا ہوں.پس تو آگے ہے اور میں پیچھے.مگر مولوی کہتے ہیں کہ یہ شرک فی النبوة ہو گیا.حالانکہ یہ شرک کس طرح ہو گیا جب کہ تیرے مقام کو میں حاصل ہی نہیں کر سکتا اور جبکہ میری ترقی تیری ترقی پر منحصر ہے.پس رسول کریم ﷺ تو ہر روز بلکہ ہر لمحہ اپنے درجہ میں بڑھ رہے ہیں مگر یہ مخالف و ہیں ہاتھ مار رہے ہیں.اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی اندھا کسی دعوت میں شریک ہوا اس کے ساتھ ایک سو جا کھا بیٹھ گیا.اندھے نے خیال کیا کہ یہ تو سو جا کھا ہے اور میں اندھا یہ ضرور زیادہ
سيرة النبي عمار 462 جلد 4 کھا جائے گا.چنانچہ اس نے جلدی جلدی لقمے لینے شروع کر دیئے.تھوڑی دیر کے بعد اس نے خیال کیا کہ میری یہ حرکت تو اس نے دیکھ لی ہو گی اور ضرور اس نے بھی اس کا کوئی علاج تجویز کر لیا ہو گا چنانچہ یہ خیال آنے پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اٹھا اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دیئے.اب دوسرا شخص اس اندھے کی یہ حرکت دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہا تھا اور بجائے کچھ کھانے کے وہ اس اندھے کی حرکات کو دیکھ رہا تھا.مگر اس اندھے نے سمجھا کہ اس نے ضرور اب کوئی اور تجویز زیادہ کھانے کی سوچ لی ہو گی.یہ خیال آتے ہی اس نے تھالی پر ہاتھ مار کر اسے اٹھا لیا اور کہنے لگا بس اب میرا ہی حصہ ہے.یہی ان لوگوں کی حالت ہے نہ حقیقت کو سوچتے ہیں نہ اصلیت کو مدنظر رکھتے صلى الله ہیں.رسول کریم ملے تو کہیں پہنچ گئے اور یہ بیٹھے کہہ رہے ہیں کہ شرک فی النبوۃ ہو گیا، شرک فی النبوۃ ہو گیا حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے بادشاہ چلتا ہے تو ساتھ ہی پہریدار بھی چلنے لگ جاتا ہے، جب بادشاہ ٹھہرتا ہے تو پہریدار بھی رک جاتا ہے.اب اگر کوئی کہے کہ یہ پہریدار کیسا گستاخ ہے ابھی تھوڑی دیر ہوئی جہاں بادشاہ کھڑا تھا وہاں اب یہ بھی کھڑا ہے تو وہ جاہل اور احمق ہی کہلائے گا.اسی طرح محمد رسول اللہ یہ تو ہر گھڑی آگے بڑھ رہے ہیں اور آپ کے آگے بڑھنے کی وجہ سے ہی آپ کے امتیوں کو ترقی ہوتی ہے مگر یہ شور مچاتے چلے جاتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے شرک فی النبوۃ ہو گیا.تو ختم نبوت کا مسئلہ کوئی ایسا مشکل نہیں مگر لوگوں نے خواہ مخواہ اس میں الجھن ڈال رکھی ہے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اتنا بلند ہے کہ کوئی انسان وہاں تک نہیں پہنچ سکتا.ہاں آپ کی فرمانبرداری ، آپ کی غلامی اور آپ کی کامل اتباع میں اگر کوئی شخص نبوت کا مقام حاصل کر لے تو اس میں آپ کی ہتک نہیں کیونکہ وہ بہر حال رسول کریم ﷺ کا غلام ہو گا.پس یہ مسائل ایسے نہیں کہ جن میں کوئی پیچیدگی ہو.سیدھی سادی باتیں ہیں.لیکن اگر یہ
سيرة النبي عليه 463 جلد 4 صلى الله سے با تیں بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئیں تو وہ ایک موٹی بات دیکھ لے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کو عزت اور شان و شوکت حاصل ہے یا وہ کسمپرسی کی حالت میں ہے؟ اگر اسلام اس وقت اُسی شان اور اُسی شوکت کے ساتھ قائم ہے جس شان اور شوکت کے ساتھ وہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قائم تھا تو بیشک علاج کی کوئی ضرورت نہیں.لیکن اگر یہ دکھائی دے رہا ہو کہ مسلمان قرآن سے بے بہرہ ہیں، اس کی تعلیم سے غافل ہیں، بادشاہتیں مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتی رہیں، حکومتیں ضائع ہو گئیں تو ہر شخص صلى الله اپنے دل میں خود ہی سوچے اور غور کرے کہ خدا نے اس وقت رسول کریم ع کی عزت کو بلند کرنے کا کیا سامان کیا ہے.وہ اسلام جو رسول کریم ﷺ کو اپنی جان بھی زیادہ عزیز تھا اس پر حملے پر حملے ہو رہے ہیں مگر مسلمان کہتے ہیں کہ اس کے علاج کی کوئی ضرورت نہیں.بلکہ خدا اگر کہے کہ میں کسی کو اصلاح کے لئے بھیجتا ہوں تو یہ مولوی کہنے لگ جاتے ہیں کہ نہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں.پس اگر اسلام اچھی حالت میں ہے تو بے شک کہہ دو کہ حضرت مرزا صاحب نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹے تھے لیکن اگر قرآن کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ چکی ہے، اسلام سے وہ غافل ہو گئے ہیں اور عملی حالتوں میں وہ بالکل سست ہو گئے تو پھر ماننا پڑے گا کہ آپ سچے تھے اور آپ نے عین وقت پر آ کر اسلام کو دشمنوں کے نرغہ سے بچایا.ورنہ اگر اس زمانہ میں بھی اسلام کی مدد کے لئے خدا تعالیٰ نے توجہ نہیں کی تو وہ کب کرے گا.آج خود مسلمان کہلانے والے اسلامی تعلیموں پر عمل چھوڑ چکے ہیں اور وہ خدا کا محبوب جو اولین و آخرین کا سردار ہے اس پر عیسائی ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں ، ہندو ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں ، سکھ ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں.وہ خدا کا رسول جو سارے انسانوں میں سے مقدس ترین انسان ہے جو سید ولد آدم ہے اور جس کی بلند شان تک نہ کوئی پہنچا اور نہ کوئی آئندہ پہنچ سکتا ہے اس کی عزت کو اس طرح پارہ پارہ کیا جا رہا ہے کہ گویا اس کی کوئی قیمت ہی نہیں.یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑ کی اور اس نے
سيرة النبي عمال 464 جلد 4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہر اُس ہاتھ کو تو ڑ دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صلى الله خلاف اٹھا، ہر اُس زبان کو کاٹ دیا جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کے خلاف بدزبانی اور بدگوئی کا ارادہ کیا اور آئندہ بھی ہر وہ ہاتھ توڑ دیا جائے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ صلى الله علیہ وسلم کے خلاف اٹھے گا.اور ہم جانتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں رسول کریم ہے کی ایک ذرہ بھر بھی محبت ہے وہ آج نہیں تو کل ہمارے پاس آئے گا.ہم سپاہی ہیں جو محمد رسول اللہ علیہ کے سامنے آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں.جس طرح انصار نے کہا تھا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے اسی طرح ہم آپ کے آگے بھی لڑ رہے ہیں اور آپ کے پیچھے بھی لڑ رہے ہیں، آپ کے دائیں بھی لڑ رہے ہیں اور آپ کے بائیں بھی لڑ رہے ہیں.ہمارے آدمی دنیا کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس لئے پھیلے ہوئے ہیں کہ تا محمد رسول اللہ علیہ کی عزت دنیا میں قائم کریں.پس وہ لوگ جو ہم پر تیر چلاتے ہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ بے شک تیر چلاتے چلے جائیں ہم ان کے تیروں سے ڈرنے والے نہیں.بیشک وہ اس وقت زیادہ ہیں اور ہم تھوڑے مگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ذرہ بھر بھی محبت ہے وہ آج نہیں تو کل ہم سے ضرور ملے گا اور جو ہم سے نہیں ملتا وہ رسول کریم ﷺ کا سچا عاشق نہیں کہلا سکتا.اس کا دل مردہ ہے اور مردہ کو لے کر ہم نے کیا کرنا ہے.“ الفضل مسیح موعود نمبر 28 مارچ 1958 ء) 1: السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 376 باب غزوة بدر الكبرى مطبوعہ بیروت لبنان2012ء 2: السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 صفحہ 681 زیر عنوان بناء العريش لرسول الله مطبوعہ دمشق 2005 ء آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 226 مطابق ایڈیشن 2008 ء ن صلى الله
سيرة النبي علي 465 جلد 4 رسول کریم عہ اور عورتوں کے حقوق الله 28 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے سیر روحانی“ کے عنوان سے خطاب فرمایا اس خطاب میں ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ اور عورتوں کے حقوق پر بایں الفاظ روشنی ڈالی :.غرض خُلِقْنَ مِنْ ضِلع کے یہی معنے ہیں کہ عورت مرد پر اعتراض ضرور کرتی رہے گی ، ان میں محبت بھی ہوگی، پیار بھی ہوگا ، تعاون بھی ہوگا،قربانی کی روح بھی ہو گی مگر روزمرہ کی زندگی میں ان میں آپس میں نوک جھونک ضرور ہوتی رہے گی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو اگر سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی 1 یعنی اگر تم چاہو کہ وہ تمہاری بات کی تردید نہ کرے تو اُس کا دل ٹوٹ جائے گا.اُسے اعتراض کرنے دیا کرو کیونکہ عورت کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر تم بالکل ہی اُس کی زبان بندی کر دو گے تو وہ جانور بن جائے گی اور عقل اور فکر کا مادہ اُس میں سے نکل جائے گا.یہ تمدن کا ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا.آپ کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق تھا.چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے گئے اور آپ نے باہر ہی رہائش اختیار کر لی.حضرت عمر کی لڑکی چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں اس لئے انہیں بھی یہ اطلاع پہنچ گئی.حضرت عمرؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے پاس
سيرة النبي علي 466 جلد 4 ایک گاؤں تھا وہاں آپ رہتے اور تجارت وغیرہ کرتے رہتے ، انہوں نے ایک انصاری سے بھائی چارہ ڈالا ہوا تھا اور آپس میں انہوں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ انصاری مدینہ میں آجاتا اور مدینہ کی اہم خبریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سن کر حضرت عمرؓ کو جا کر سنادیتا اور کبھی حضرت عمرؓ مدینہ آ جاتے اور وہ انصاری پیچھے رہتا اور آپ اُس کو باتیں بتا دیتے.غرض جو بھی آتا وہ تمام باتیں معلوم کر کے جاتا اور دوسرے کو بتاتا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ الہام ہوا ہے، آج آپ نے مسلمانوں کو یہ وعظ فرمایا ہے غرض اس طرح ان کی دینی تعلیم بھی مکمل ہو جاتی اور ان کی تجارت بھی چلتی رہتی.ایک دن وہ انصاری مدینہ میں آیا ہوا تھا اور حضرت عمرؓ پیچھے تھے کہ عشاء کے قریب اُس انصاری نے واپس جا کر زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور کہا کہ ابن خطاب ہے؟ ابن خطاب ہے؟ حضرت عمر کہتے ہیں میں نے جب اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سنی اور اُس نے زور سے میرا نام لے کر دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے سمجھا کہ مدینہ میں ضرور کوئی حادثہ ہو گیا ہے.اُن دنوں یہ افواہ زوروں پر تھی کہ ایک عیسائی بادشاہ مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے سمجھا ہے.اس بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے چنانچہ میں فوراً اپنا کپڑا سنبھالتا ہوا باہر نکلا اور میں نے اُس سے پوچھا کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں گھبرا کر مدینہ کی طرف چل دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ اپنے گھر سے باہر آ گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.میں نے عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! لوگ کہتے ہیں آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے.آپ نے فرمایا نہیں میں نے تو کسی کو طلاق نہیں دی.میں نے کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ.پھر میں نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ کو میں ایک بات سناؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں سناؤ.میں نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ہم لوگ مکہ میں اپنے سامنے عورت کو
سيرة النبي علي 467 جلد 4 بات نہیں کرنے دیتے تھے لیکن جب سے میری بیوی مدینہ میں آئی ہے وہ بات بات میں مجھے مشورہ دینے لگ گئی ہے.ایک دفعہ میں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے اگر پھر کبھی تو نے ایسی حرکت کی تو میں تجھے سیدھا کر دوں گا.تو وہ مجھے کہنے لگی تو بڑا آدمی بنا پھرتا ہے میں نے تو دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ کو مشورہ دے لیتی ہیں پھر کیا تو ان سے بھی بڑا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیتا اور ڈانٹتا ہے؟ میں نے کہا ہیں ! ایسا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں واقعہ میں ایسا ہوتا ہے.میں نے کہا تب میری بیٹی کی خیر نہیں.یہ بات سن کر میں اپنی بیٹی کے پاس گیا اور اُسے کہا دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی.اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوال جواب کیا تو وہ کسی دن تجھے طلاق دے دیں گے.حضرت عائشہ پاس ہی تھیں وہ میری بات سن کر بولیں تو کون ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے معاملات میں دخل دینے والا ، چلو یہاں سے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات سن کر ہنس پڑے اور آپ کا غصہ جاتا رہا2 اور حضرت عمرؓ کی بھی اس واقعہ کے سنانے سے یہی غرض تھی کہ کسی طرح آپ ہنس پڑیں اور آپ کی ناراضگی جاتی رہے.تو بعض قوموں میں یہ رواج ہے کہ وہ سمجھتی ہیں عورت کا یہ حق نہیں کہ وہ مرد کے مقابلہ میں بولے مگر عورت ہے کہ وہ بولے بغیر رہ نہیں سکتی.اسے کوئی بات کہو وہ اس میں اپنا مشور ہ ضرور پیش کر دے گی کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے.پھر خواہ تھوڑی دیر کے بعد وہ مرد کی بات ہی مان لے مگر اپنا پہلو کچھ نہ کچھ اونچا ہی رکھنا چاہتی ہے اور مرد کے مشورہ پر اپنی طرف سے پالش ضرور کرنا چاہتی ہے.عورتوں کے حقوق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لئے لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ تم عورت کی روح کو کچلنے کی کوشش نہ کیا کرو.اس کے اندر یہ ایک فطرتی مادہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قدر رقابت رکھتی اور طبعاً ایک حد
سيرة النبي عمال 468 جلد 4 تک اس کے مخالف رائے دینے کی خواہشمند ہوتی ہے پس اگر اس کی بحث غلط بھی معلوم ہوا کرے تو اس کی برداشت کیا کرو کیونکہ اگر تم اسے چپ کرا دو گے تو یہ اس کی فطرت پر گراں گزرے گا اور وہ بیمار ہو جائے گی.کیسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی مگر لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنی کر لئے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے.“ سیر روحانی نمبر 1 صفحہ 44 تا 46 مطبوعه الشركة الاسلامیہ لمیٹڈر بو ہ1954 ء) 1:بخارى كتاب احاديث الانبياء باب خلق ادم وذريته صفحه 553 حدیث نمبر 3331 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: بخاری کتاب التفسير باب تبتغی مرضات ازواجک صفحه 873 حدیث نمبر 4913 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية ( حضرت عائشہ کی بجائے حضرت ام سلمہ کا ذکر ہے )
سيرة النبي علي 469 جلد 4 صلى الله رسول کریم ﷺ کا بیان فرموده نکته حضرت مصلح موعود 3 فروری 1939ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں: ”ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں تک اسلام کی تعلیم کو محفوظ رکھتا چلا جائے اور درحقیقت اسی غرض کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ کی انجمن قائم کی ہے تا جماعت کو یہ احساس ہو کہ اولاد کی تربیت ان کا اہم ترین فرض ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکتہ ایسے اعلیٰ طور پر بیان فرمایا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدم اصلاح لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ آئندہ نسل کی مائیں بننے والی ہوتی ہیں اور ان کا اثر اپنی اولاد پر بہت بھاری ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی اُس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہوتی اور جو قوم مردوں اور عورتوں دونوں کی اصلاح کی فکر کرتی ہے وہی خطرات سے بالکل محفوظ ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکتہ کو کیا ہی لطیف پیرا یہ میں بیان فرمایا ہے.آپ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے تھے صحابہ آپ کے گرد حلقہ باندھے تھے.آپ نے فرمایا جس مسلمان کے گھر تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت 66 کرے تو اُس مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے 1.“ الفضل 17 فروری 1939ء) 1: ابو داؤد كتاب الادب باب في فضل من عال يتامى صفحه 723 حدیث نمبر 5147 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الاولى
سيرة النبي علي 470 جلد 4 وو رسول کریم اللہ کے صدق کا اثر حضرت مصلح موعود 17 فروری 1939 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا وہ معلوم ہوتا ہے کوئی موٹی عقل کا آدمی تھا جس نے اسلام پر غور کیا مگر اسلام کی صداقت اُس پر کسی طرح منکشف نہ ہوئی مگر پھر اُس کے دل میں شبہ بھی پیدا ہو جاتا کہ اگر اسلام سچا ہی ہوا تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چونکہ صدوق مشہور تھے اور ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اس لئے اُس نے فیصلہ کیا کہ اس امر کا بھی آپ سے ہی فیصلہ کرائے اور اُسی شخص سے جو مدعی ہے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو شخص مدعی ہے اُسی سے وہ پوچھنے آتا ہے کہ کیا آپ واقعہ میں مدعی ہیں یا یونہی کہہ رہے ہیں؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا قائل نہیں تھا اس لئے اُس نے آتے ہی کہا کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں تو خدا کی قسم کھا کر مجھے اُس کا جواب دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جو بات تم دریافت کرنا چاہتے ہو دریافت کرو.اُس نے کہا آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا ہے اور کیا واقعہ میں خدا نے آپ کو رسول بنایا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے ہی رسول بنا کر بھیجا ہے.اُس نے کہا اگر یہ بات ہے تو ہاتھ لائیے میں ابھی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.“ (الفضل 15 مارچ 1939ء)
سيرة النبي علي 471 جلد 4 ,, صحابہ کی دلجوئی اور حسِ مزاح حضرت مصلح موعود 10 مارچ 1939ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.پھر ایک کھیل یہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے آ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا.جس کی آنکھیں اس طرح بند کر دی جائیں اُس کا حق ہوتا ہے کہ پہچانے اور ہاتھ کو ہاتھ لگا کر پہچانے.اس طرح ہاتھوں کے لمس سے پہچاننے کی مشق ہوتی ہے.یہ کھیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی بہت بدصورت اور کر یہہ المنظر تھے ، قد چھوٹا تھا اور جسم پر بال بڑے بڑے تھے.ایک دفعہ وہ بازار میں مزدوری کر رہے تھے ، پسینہ بہہ رہا تھا اور گرمی کی وجہ سے سخت گھبرائے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی لڑ پڑیں گے.پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے ، آپ کو اُن کی حالت پر رحم آیا اور اُن کی دلجوئی کرنا چاہی اور اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے جس کے معنے یہ تھے کہ بتاؤ کون ہے؟ اُنہوں نے ہاتھ پر ہاتھ پھیرا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بہت نرم تھا اس لئے وہ پہچان گئے اور مذاق کے لئے آپ کے جسم مبارک کے ساتھ اپنا پسینہ والا جسم ملنے لگے اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے پہچان لیا ہے 1.“ 66 ( الفضل 28 مارچ 1939ء) 1 شمائل الترمذى باب ما جاء فى صفة مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم صفحه 19 20 مطبوعہ کراچی 1380ھ
سيرة النبي علي 472 جلد 4 شادی بیاہ کے معاملہ میں رسول کریم علیہ کی سادگی حضرت مصلح موعود نے 15 اپریل 1939 ء کو حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی صاحبزادی امتہ اللہ بیگم صاحبہ کا پیر صلاح الدین صاحب سے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.اسلام نے نہایت سادہ طریق پر شادیاں کرنے کا حکم دیا تھا.چنانچہ خود رسول کریم ﷺ کی اپنی لڑکی کا بیاہ دیکھو وہ کیسا سادہ تھا.مسجد میں صحابہ جمع ہیں، رسول کریم ﷺ تشریف لاتے ہیں اور اپنی لڑکی حضرت فاطمہ کا حضرت علیؓ سے نکاح کا اعلان فرماتے ہیں.پھر چند عورتیں لڑکی کو رخصت کر کے لانے کے لئے آپ کے گھر جاتی ہیں.آپ نے دودھ کا پیالہ منگوایا اپنی لڑکی اور داماد کو پلایا اور دعا کر کے لڑکی کو رخصت کر دیا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ لڑکیوں کو کچھ دینا ہی نہیں چاہئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اُس وقت رسول کریم معدے کی حالت ایسی ہی تھی کہ آپ کچھ دے نہیں سکتے تھے.در حقیقت اس میں آپ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جیسی جیسی تمہاری حالت ہوا کرے ویسا ہی معاملہ کر لیا کرو.اسی طرح آج کل بڑی شان و شوکت سے ولیمے کئے جاتے ہیں خواہ اپنی حیثیت الله اس قسم کے ولیموں کو برداشت نہ کر سکتی ہو.دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے اس موقع کے لئے کیا حکم دیا ہے آپ فرماتے ہیں اَولِم وَلَوْ بِشَاةٍ 1 کہ ایک بکری ذبح کر کے ولیمہ کر دو اور لوگوں کو کھانا کھلا دو.
سيرة النبي عمال 473 جلد 4 اسی طرح مہر ہے لوگ اب اپنی حیثیت سے بہت بڑھ چڑھ کر مہر باندھتے ہیں بلکہ ہمارے ملک میں تو لاکھوں تک بھی مہر باندھے جاتے ہیں.مگر وہ مہر صرف باندھے ہی جاتے ہیں ان کے ادا کرنے کی کوئی نیت نہیں ہوتی.اس وقت جس نو جوان کا نکاح ہے ان کے والد پیرا کبر علی صاحب کا نکاح بھی میں نے ہی پڑھا تھا اس میں مہر دس ہزار روپیہ تھا.میں جب نکاح پڑھنے لگا تو میں نے پیر صاحب سے کہا کہ اگر یہ مہر دینے کی نیت ہے تو اتنا مہر باندھیں ورنہ کم کر دیں.اس پر وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا حضور ! اب میں نیت کرتا ہوں کہ یہ مہر ضرور ادا کر دوں گا.شاید خدا نے ان کی اُس وقت کی نیت اور نیک ارادہ کرنے کی وجہ سے بعد میں ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ انہوں نے دس ہزار روپیہ مہر ادا کر دیا.مگر لوگ تو ایسی حالت میں مہر باندھتے ہیں کہ وہ خود کنگال ہوتے ہیں اور گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہوتا یہاں تک کہ نکاح کے دو جوڑے بھی بننے سے قرض لے کر لاتے ہیں مگر مہر دیکھو تو کیا ہوگا تین گاؤں، ایک ہاتھی ، اتنے گھوڑے اور اتنے روپے وغیرہ.میں نے خود تو کوئی ایسا واقعہ نہیں سنا مگر مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی لکھتے ہیں جو میں نے پڑھا ہے کہ مہر میں اتنی مکھیوں کے پر اور اتنے مچھروں کے انڈے بھی شامل ہوتے تھے.گویا یہ ان کی بڑائی کا نشان ہوتا ہے اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ادھر ہماری بیٹی کی شادی ہوئی اور پھر سارا ملک مکھیوں کے پر اور مچھروں کے انڈے جمع کرنے میں لگ جائے گا.مگر دیکھو رسول کریم ﷺ کے پاس ایک عورت آتی ہے اور آکر کہتی ہے یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنے آپ کو حضور کے لئے ہبہ کرتی ہوں.آپ فرماتے ہیں مجھے تو حاجت نہیں مگر ہم کسی اور نیک مرد سے تمہاری شادی کرا دیں گے.اسی مجلس میں سے ایک اور شخص اٹھ کر عرض کرتا ہے یا رسول اللہ ﷺ ! مجھ سے کرا دیجئے.آپ نے پوچھا کچھ پاس بھی ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ پاس تو کچھ نہیں.آپ نے کہا لوہے کی انگوٹھی ہی سہی.معلوم ہوتا ہے وہ صحابی بھی بہت ہی غریب تھا اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ !
سيرة النبي متر 474 جلد 4 لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں.آپ نے کہا اچھا قرآن شریف کی کچھ سورتیں ہی یاد ہیں؟ اس نے جواب دیا ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں.آپ نے فرمایا چلو قرآن کریم کی تین سورتیں ہی مہر میں یاد کرا دینا.“ ( الفضل 31 اگست 1960ء ) 1 بخاری كتاب النكاح باب الوليمة ولو بشاة صفحه 924 حدیث نمبر 5167 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: بخاری کتاب النکاح باب عرض المراة نفسها على الرجل الصالح صفحہ 915 حدیث نمبر 5121 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 475 جلد 4 رسول کریم علیہ کی زندگی پر مختصر نظر حضرت مصلح موعود نے 11 مئی 1939 ء کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور صاحبزادی نصیرہ بیگم صاحبہ کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.رسول کریم ﷺ کو ہی دیکھ لو کہ آپ نے کیسے تکلیف دہ حالات میں پرورش پائی.آپ کے والد آپ کی پیدائش سے ہی پہلے فوت ہو چکے تھے اور آپ کی والدہ آپ کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد وفات پاگئیں اور آپ کامل طور پر یتیمی کی حالت میں آگئے.اس کے بعد آپ کچھ عرصہ تک اپنے دادا حضرت عبدالمطلب کے پاس رہے اور جب وہ وفات پاگئے تو اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں آگئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ بڑی محبت اور پیار کا سلوک کیا اور آپ کے جذبات اور احساسات کا ہر طرح خیال رکھا مگر آپ کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ جب آپ کے چچا کے گھر میں کھانا تقسیم ہوتا تو تاریخیں بناتی ہیں کہ آپ کبھی بڑھ کر اپنی چچی سے کھانا نہیں مانگا کرتے تھے بلکہ خاموشی سے ایک کونہ میں کھڑے ہو جاتے.دوسرے بچے شور مچاتے اور اچھل اچھل کر اپنی والدہ سے چیزیں لیتے مگر آپ ایک گوشہ میں خاموشی کے ساتھ کھڑے رہتے 1.گویا سمجھتے میرا اس گھر میں کیا حق ہے اگر یہ لوگ مجھے کچھ کھلاتے پلاتے ہیں تو درحقیقت مجھ پر احسان کرتے ہیں ورنہ میرا حق نہیں کہ میں ان سے کچھ مانگ سکوں.غرض آپ نے اپنے بچپن کا زمانہ انتہائی تکلیف دہ حالات میں گزارا اور پھر بڑے ہوئے تو مکہ والوں نے آپ کو اپنے مظالم کا تختہ مشق بنالیا.لیکن پھر ایک دن آیا
سيرة النبي عمال 476 جلد 4 صلى الله جب کہ وہی جو اپنے آپ کو لاوارث سمجھتا تھا ، جو اپنے چا کے گھر میں بھی اپنا کوئی حق نہیں سمجھتا اور جسے مکہ والوں نے بھی انتہائی دکھ دیا تھا مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوا اور اس نے قریش سے مخاطب ہو کر کہا کہ بتاؤ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ انہوں نے کہا آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.تب آپ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 2.جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں میں نے تمہیں معاف کر دیا.حالانکہ مکہ والوں نے آپ سے جو سلوک کیا تھا وہ ایسا ظالمانہ تھا کہ آج بھی تاریخ میں ان واقعات کو پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ لَا تَشْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے معنے یہ نہیں ہوتے کہ وہ مقام حاصل ہو گیا جو ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں کو حاصل تھا.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے صرف اتنے معنے تھے کہ رسول کریم علیہ نے انہیں معاف کر دیا.ور نہ جو مقام ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں کو حاصل تھا وہ مکہ والوں کو حاصل نہ ہوا.مکہ والوں کی تو یہ کیفیت تھی کہ جب رسول کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی کہ جا اور لوگوں کو خدائی عذاب سے ہوشیار کر تو رسول کریم علیہ نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ مجھے خدا نے تمہاری ہدایت کے لئے بھیجا ہے اگر تم خدائی عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو میری آواز سنو اور خدائے واحد کے پرستار بن جاؤ.اس پر تمام لوگ آپ کو پاگل اور جھوٹا کہتے ہوئے منتشر ہو گئے 3.اور انہوں نے آپ کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی.اس کے مقابلہ میں حضرت ابو بکر کی یہ حالت تھی کہ جب رسول کریم ہے نے دعوی نبوت کیا تو اُس وقت وہ تجارت پر باہر کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے.جب آپ مکہ میں واپس آئے اور دو پہر کے وقت سانس لینے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے گھر میں لیٹے تو ایک لونڈی دوڑی ہوئی آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی ہائے ہائے ! تیرا دوست تو آج پاگل ہو گیا ہے.حضرت ابو بکر نے کہا کون سا دوست؟ اس نے کہا محمد ( ) اور کون سا.حضرت ابو بکر کہنے لگے تمہیں کیونکر پتہ لگا کہ وہ پاگل ہو گیا
سيرة النبي عمال علوم صلى الله 477 جلد 4 ہے؟ وہ کہنے لگی آج اس نے قوم کے ندوہ میں اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے میرے پاس آتے اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں.حضرت ابوبکر لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنی چادر سنبھالی.ہمارے ملک میں جیسے ساڑھیاں ہوتی ہیں اس قسم کی چادر اہل عرب بھی اپنے اردگرد لپیٹ لیا کرتے تھے اور ایک حصہ کا تو نہ بند بنا لیتے اور دوسرا اوپر لپیٹ لیتے.انہوں نے جلدی سے چادر درست کی ، جوتی پہن لی اور سیدھے رسول کریم عملے کے دروازہ پر پہنچے اور دستک دی.رسول کریم کے باہر تشریف لائے تو آپ نے کہا اے میرے دوست ! کیا یہ سچ ہے کہ تو کہتا ہے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟ رسول کریم نے اس خیال سے کہ آپ کو ٹھوکر نہ لگے چاہا کہ ابو بکر کو پہلے یہ مسئلہ سمجھا لوں اور پھر کوئی اور بات کروں چنانچہ آپ نے فرمایا ابوبکر !دیکھو بات یہ ہے.حضرت ابوبکر نے کہا میں نے آپ سے ایک سوال کیا ہے آپ کا فرض صرف اتنا ہے کہ میرے سوال کا جواب دیں آپ مجھے کوئی اور بات نہ بتائیں.میں نے آپ سے صرف یہ سوال کیا ہے کہ کیا یہ درست ہے کہ فرشتے آپ پر نازل ہوتے اور آپ سے کلام کرتے ہیں؟ صلى الله رسول کریم علیہ نے پھر چاہا کہ جواب دینے سے پہلے میں ان کو مسئلہ سمجھا لوں تا کہ ٹھوکر نہ لگے چنانچہ آپ نے فرمایا ابوبکر ! دیکھو بات یہ ہے.حضرت ابوبکر نے کہا میں آپ کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے ہاں یا نہ میں جواب دے دیں.اب رسول کریم ہے کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ آپ جواب دے دیتے چنانچہ آپ نے فرمایا ابوبکر پھر بات تو یہی ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کے دل میں اس خیال سے افسردگی پیدا ہوئی کہ ابوبکر میرا پرانا دوست تھا یہ بھی میرے ہاتھ سے گیا.مگر جب آپ نے کہا ابوبکر ! بات تو یہی ہے کہ فرشتے مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں تو حضرت ابوبکر نے کہا آپ گواہ رہیں کہ میں آپ پر ایمان لایا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابوبکر ! تم مجھے بات تو پوری کر لینے دیتے.حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ!
سيرة النبي عليه 478 جلد 4 میں نے آپ کو پوری بات اس لئے نہیں کرنے دی کہ جب میں نے ہمیشہ آپ کو صادق اور راست باز پایا ہے تو اب میں اپنے ایمان کو دلیلوں سے کیوں خراب کروں 4.اب یہ کیونکر ممکن تھا کہ ابو بکر اور وہ لوگ برابر ہو جا ئیں جو فتح مکہ کے وقت رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے.بے شک رسول کریم علیہ کا عفو وسیع تھا، بے شک آپ نے انہیں لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ دیا مگر لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہنا بالکل اور چیز ہے اور ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی اور ان دوسرے صحابہ کا مقام بالکل الله اور چیز ہے جو ابتدائی زمانہ میں رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے.صلى الله ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں کے مقام کا اندازہ تم اس سے لگا سکتے ہو کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اس دوران میں حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر پر ہاتھ ڈالا اور ان کا کپڑا پھٹ گیا.حضرت عمرؓ کو خیال گزرا کہ اگر رسول کریم ﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تو آپ ناراض ہوں گے.ادھر کسی شخص نے انہیں خبر دی کہ حضرت ابو بکر کو اس نے رسول کریم علی کی خدمت میں جاتے دیکھا ہے حالانکہ حضرت ابو بکر اُس وقت گھر گئے تھے رسول کریم صلى الله کی خدمت میں نہیں گئے تھے.یہ دوڑے دوڑے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ علی ! آج مجھ سے ایک غلطی ہوگئی ہے میں ابو بکڑ سے صلى الله لڑ پڑا ہوں.اتنے میں کسی شخص نے حضرت ابو بکر کو جا کر خبر دی کہ عمر رسول کریم می کے پاس پہنچ گئے ہیں اور خبر نہیں وہ بات کو کس رنگ میں بیان کریں.حضرت ابوبکر بھی جلدی سے روانہ ہوئے اور رسول کریم علیہ کی مجلس میں پہنچے.جب آپ دروازے صلى میں سے داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کے چہرہ پر شدت غضب کے آثار ہیں اور آپ حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو ! کیا تم میرا اور اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑو گے جس نے مجھے اُس وقت قبول کیا جب ہر شخص کے دل میں کبھی پائی جاتی تھی.اور حضرت عمرؓ نہایت رقت اور زاری کی حالت
سيرة النبي عمال 479 جلد 4 میں کہہ رہے تھے کہ يَا رَسُولَ الله ﷺ ! میرا قصور تھا.اتنے میں حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور وہ رسول کریم اللہ کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے يَارَسُول اللہ ﷺ ! عمر کا قصور نہیں قصور میرا ہی تھا.(الفضل 3 مئی 1961ء ) صلى الله 66 1: السيرة الحلبية جلد 1 صفحه 196 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء 2:السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 207 208 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء 3: بخارى كتاب التفسير تفسير آيت تَبَّتُ يَدَا أَبِي لَهَبٍ صفحہ 891 حدیث نمبر 4971 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4 السيرة الحلبية الجزء الاول صفحہ 446 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء صلى الله الله 5 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي ا باب قول النبي الله لو كنت متخذاً خليلاً صفحہ 614 حدیث نمبر 1 ر3661 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 480 جلد 4 رسول کریم علیہ کا بچپن حضرت مصلح موعود نے 11 مئی 1939 ء کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور صاحبزادی نصیرہ بیگم صاحبہ کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :.الله یہاں ایک خاندان کے آگے پیچھے دو شادیاں ایسی ہوئی ہیں جن میں دونوں لڑکیاں بے ماں ہیں.یعنی میری لڑکی امتہ القیوم کی والدہ بھی فوت ہو چکی ہے اور نصیرہ بیگم کی والدہ بھی عرصہ ہوا فوت ہو چکی ہے.ان شادیوں کا تصور کر کے میرا ذہن اس طرف گیا کہ بے شک یہ جذبات کو ابھارنے اور افکار میں ایک انگیخت پیدا کرنے والی چیز ہے مگر اس غم پر غالب آنے کی قوت بھی رسول کریم ﷺ کے نمونہ کو دیکھ کر صلى الله پیدا ہو سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ ہماری بچیاں تو بے ماں کی ہیں مگر محمد ﷺ کی والدہ بھی بچپن میں فوت ہو چکی تھیں اور ان کے والد بھی وفات پاچکے تھے اور اس طرح وہ بے باپ اور بے ماں کے تھے.پھر آپ کو پرورش کرنے والے ایسے لوگ نہیں ملے جیسے پرورش کرنے والے ہماری بچیوں کو ملے ہیں.گو اپنی نسبت کچھ کہنا معیوب سا دکھائی دیتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی بچی کا اس حد تک خیال رکھا ہے جس حد تک کوئی باپ اپنی بچی کا خیال رکھ سکتا ہے.اسی طرح میں جانتا ہوں کہ مرزا عزیز احمد صاحب نے بھی اپنی لڑکی کا بہت خیال رکھا ہے مگر محمد رسول اللہ علیہ کی پرورش کرنے والے ان کے چچا تھے اور چچا کے متعلق بھتیجا یہی سمجھا کرتا ہے کہ اگر وہ مجھے پالتا ہے تو مجھ پر احسان کرتا ہے.اپنی ماں اور اپنے باپ پر تو وہ اپنا حق سمجھتا ہے مگر کسی دوسرے سے اسے چیز مانگتے ہوئے حجاب آتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ میں
سيرة النبي علي 481 جلد 4 صلى الله اس سے کیوں مانگوں میرا کوئی حق تو نہیں.تو وہ حالت جو رسول کریم ﷺ کی تھی اور وہ بے بسی کی کیفیت جو اس امر سے ظاہر ہوتی ہے کہ رسول کریم سے الگ ایک گوشے میں کھڑے رہتے اور اگر کچھ کھانے کو ملتا تو لے لیتے ، نہیں تو زبان سے کچھ نہ کہتے.ہماری بچیوں کی حالت اس سے بدرجہا بہتر رہی.مگر پھر رسول کریم ع کی حالت بھی بدل گئی اور اس میں اتنا زبر دست اور عظیم الشان تغیر آ گیا کہ آپ ہی دنیا کے مالک بن گئے اور تمام جہان آپ کے قدموں میں گر گیا.اسی طرح ان بچیوں اور ان سے تعلق رکھنے والوں کے بھی اختیار میں ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ترقی کر سکتے ہیں اور بہت زیادہ عزت اور عظمت حاصل کر سکتے ہیں.اگر وہ خدا تعالیٰ کے ہو جائیں تو ان کو بھی عزت مل سکتی ہے اور ان کے غم اور دکھ بھی خوشی سے بدل سکتے ہیں.“ 66 ( الفضل 3 مئی 1961 ء )
سيرة النبي علي 482 جلد 4 رسول کریم علیہ کا وسعت حوصلہ حضرت مصلح موعود 8 ستمبر 1939ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.کیا ہی عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور کفار صلح کے لئے شرائط پیش کر رہے تھے.صحابہ اپنے دلوں میں ایک آگ لئے بیٹھے تھے اور ان کے سینے ان مظالم کی تپش سے جل رہے تھے جو کفار کی طرف سے ہیں سال سے ان پر کئے جارہے تھے، ان کی تلواریں میانوں سے باہر نکلی پڑتی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح موقع آئے تو ان مظالم کا جو انہوں نے اسلام پر کئے ہیں بدلہ لیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کی باتیں سنیں اور جب یہ تجویز ان کی طرف سے پیش ہوئی کہ آؤ ہم آپس میں صلح کر لیں تو آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم صلح کر لیتے ہیں.اُنہوں نے کہا که شرط یہ ہے کہ اس سال تم عمرہ نہیں کر سکتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اس سال ہم عمرہ نہیں کریں گے.پھر انہوں نے کہا کہ دوسرے سال جب آپ عمرہ کے لئے آئیں تو یہ شرط ہو گی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا مجھے یہ شرط بھی منظور ہے.پھر اُنہوں نے کہا کہ آپ کو مسلح ہو کر مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی.آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم مسلح ہو کر مکہ میں داخل نہیں ہوں گے.صلح کا معاہدہ طے ہو رہا تھا اور صحابہ کے دل اندر ہی اندر جوش سے اہل رہے تھے.وہ غصہ سے تلملا رہے تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صلح نامہ لکھنے کے لئے مقرر کیا
سيرة النبي عمال 483 جلد 4 گیا.اُنہوں نے جب یہ معاہدہ لکھنا شروع کیا تو اُنہوں نے لکھا کہ یہ معاہدہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ہے اور دوسری طرف مکہ کے فلاں فلاں رئیس اور مکہ والوں کی طرف سے ہے.اس پر کفار بھڑک اٹھے اور اُنہوں نے کہا ہم ان الفاظ کو برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو رسول اللہ نہیں مانتے.اگر مانتے تو ان سے لڑائی کس بات پر ہوتی.ہم تو ان سے محمد بن عبد اللہ کی حیثیت سے معاہدہ کر رہے ہیں محمد رسول اللہ کی حیثیت سے معاہدہ نہیں کر رہے.پس یہ الفاظ اس معاہدہ میں نہیں لکھے جائیں گے.اُس وقت صحابہ کے جوش کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ غصہ سے کانپنے لگ گئے.اُنہوں نے سمجھا اب خدا نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات نہیں مانیں گے اور ہمیں ان سے لڑائی کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جائے گا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں معاہدہ میں سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دینا چاہئے.علی ! اس لفظ کو مٹا دو مگر حضرت علیؓ ایسے انسان جو فرمانبرداری اور اطاعت کا نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھے ان کا دل بھی کانپنے لگ گیا ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ لفظ مجھ سے نہیں مٹایا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لاؤ مجھے کاغذ دو اور کاغذ لے کر جہاں رسول اللہ کا لفظ لکھا تھا اسے ( الفضل 14 ستمبر 1939 ء) 66 اپنے ہاتھ سے مٹا دیا 1.“ :1 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه 1107 ، 1108 زیر عنوان امر الهدنه مطبوعه دمشق $2005
سيرة النبي علي 484 جلد 4 الہی وعدوں کے پورا کرنے کے لئے رسول کریم یہ کی قربانیاں اور دعائیں وو حضرت مصلح موعود 13 اکتوبر 1939 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.با وجود وعدے کے باوجود الہی فیصلہ کے، باوجود الہی مشیت اور ارادہ کے اُس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت نازل نہیں ہوتی جب تک تمام کی تمام قوم قربانی کے لئے تیار نہیں ہو جاتی اور اگر کوئی قربانی کے لئے تیار نہ ہو تو باوجود وعدوں کے وہ انعامات اس قوم کو نہیں دیئے جاتے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ بدر کے لئے نکلے تو گل تین سو تیرہ صحابہ آپ کے ساتھ تھے.وہ بھی ایسے جو فنونِ جنگ سے نا آشنا اور ساز وسامان سے تہی دست تھے.صحابہ کا پہلے یہ خیال تھا کہ ہماری ایک تجارتی قافلہ سے مڈ بھیڑ ہو گی مگر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ تجارتی قافلہ سے نہیں بلکہ ملکہ کی مسلح فوج سے مسلمانوں کا مقابلہ ہو گا.اُن سپاہیوں سے مقابلہ ہو گا جو آزمودہ کار ہیں اور ساز وسامان سے آراستہ و پیراستہ ہیں.یہ چونکہ پہلی لڑائی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو! خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ ہمارا مکہ والوں سے مقابلہ ہو گا اس لئے میں تم سے مشورہ لینا چاہتا ہوں.حالات ایسے ہیں کہ ہمیں بہت زیادہ خطرات کا اندیشہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ لوگوں سے مشورہ لے لیا جائے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مشورہ لینے کی
سيرة النبي علي 485 جلد 4 یہ تحریک صحابہؓ کے ایمانوں کو ظاہر کرنے کے لئے ہی کی ہو.بہر حال جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات پیش کی تو یکے بعد دیگرے مہاجرین اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! آپ ہم سے کیا مشورہ پوچھتے ہیں؟ آپ ہمیں حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں.مگر جب ایک مہاجر اپنی رائے کا اظہار کر کے بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس پر پھر کوئی اور مہاجر کھڑا ہوتا اور کہتا يَارَسُولَ الله ! مشورہ کیا پوچھتے ہیں ہمیں حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے حاضر ہیں.جب وہ بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.آخر جب بار بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فقرہ کو دہرایا تو انصار سمجھ گئے کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار کریں.چنانچہ ایک انصاری کھڑا ہوا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کی مراد شاید ہم انصار سے ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے ، میری مراد تم ہی سے ہے.اس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! شاید آپ کا اشارہ اس معاہدہ کی طرف ہے جو ہم نے آپ کے مدینہ آنے پر کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں.بات دراصل یہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو انصار سے آپ کا یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو لڑائی میں انصار مہاجرین کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر کسی دشمن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقابلہ کرنا ہوا تو انصار اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں.چونکہ اس موقع پر مدینہ سے باہر جنگ ہو رہی تھی اس لئے آپ نے چاہا کہ انصار کو اُن کا معاہدہ یاد دلا دیا جائے اور پھر اس کے بعد وہ جو مشورہ چاہیں دیں.پس جب اُس انصاری نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللَّهُ کیا آپ کی مراد اس معاہدہ سے ہے جو ہم نے آپ کے مدینہ آنے پر کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا يَارَسُولَ اللہ ! ہمیں اُس وقت آپ کی حیثیت کا علم نہیں تھا
سيرة النبي علي 486 جلد 4 اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آپ کس پائے کے انسان ہیں اس لئے ہم نے لاعلمی میں ایک ایسا معاہدہ کر لیا جس میں آپ کی شان اور بزرگی کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا گیا مگر یا رسول اللہ ! اب تو ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہیں.سامنے سمندر تھا ( دو تین منزل کے فاصلہ پر یہ نہیں کہ نظر آتا تھا ) اُس کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگا یا رسول اللہ ! اگر آپ حکم دیں کہ ہم اس بے کنار سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں تو ہم بغیر ہچکچاہٹ اور بغیر ایک ذرہ بھر تر ڈو کے اپنے گھوڑے اس سمندر میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں.پھر اس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! اگر جنگ ہوئی تو ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا اور کوئی دشمن اُس وقت تک آپ کے پاس نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے 1.اب دیکھو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جب خدا کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا اور کفار پر ہمیں غلبہ عطا کرے گا تو ہماری جانوں کو کیوں خطرہ میں ڈالا جاتا ہے بلکہ اُنہوں نے ہر ممکن قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.وہ اس اعتراض کو جانتے تھے جو موٹٹی کی قوم نے کیا اور غالباً اس انصاری نے اس خیال سے کہ ممکن ہے ہم میں سے بھی بعض کمزور ایمان والے یہ سمجھیں کہ جب خدا کا ہم سے فتح کا وعدہ ہے تو ہم سے جانی قربانی کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے واقعہ کو ہی دہرایا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم موسی کی قوم کی طرح نہیں جس نے حضرت موسی سے کہہ دیا تھا کہا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هُهُنَّا قُعِدُونَ 2 جا تو اور تیرا خدا دشمن سے لڑتے پھریں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ يَا رَسُولَ اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور کسی دشمن کو اُس وقت تک آپ کے پاس پہنچنے نہیں دیں گے تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.اب صحابہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم کیوں لڑیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس قسم کے
سيرة النبي عمال 487 جلد 4 وعدے تدبیر کامل کے بعد پورے ہوا کرتے ہیں.پھر اسی لڑائی میں باوجود کامیابی کے وعدے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اتنی دعا کی کہ آخر آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ اے خدا! مسلمانوں کی تھوڑی سی جماعت اس وقت دشمن کی ایک کثیر جماعت کے مقابلہ میں ہے.اے اللہ ! اگر یہ لوگ بھی مارے گئے تو پھر دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہے تھے اُنہوں نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو انہیں چبھا اور اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا خدا کا ہم سے یہ وعدہ نہیں کہ ہم فتح پائیں گے؟ آپ نے فرمایا بے شک خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا مگر خدا غنی بھی ہے اور بندے کا پھر بھی یہی کام ہے کہ وہ دعا میں لگا رہے 3.پس باوجود کامیابی کے وعدہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تدبیریں بھی کیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ئیں بھی کیں اور اس سوز ، اس درد اور اس گھبراہٹ کے ساتھ کیں کہ آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اے خدا! اگر آج تیری یہ جماعت ماری گئی تو فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا 4.زمین میں تیری کبھی پرستش نہیں ہو گی.تو کیا ہمارے ساتھ جو وعدے ہیں وہ اُن وعدوں سے زیادہ اہم ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے گئے تھے.زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ انہی وعدوں کا یہ تسلسل ہے.مگر ان وعدوں کے متعلق ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بڑی بڑی قربانیاں کیں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مدینہ اگر ابوجہل کے قبضہ میں آ گیا تو پھر بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں، اللہ ہماری حفاظت کرے گا.“ (الفضل 21 اکتوبر 1939ء) :1 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 376 باب غزوة بدر الكبرى مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء 2: المائدة: 25
سيرة النبي علي 488 جلد 4 3 مستدرك الحاكم كتاب معرفة الصحابة رضى الله عنهم باب مناقب مقداد بن عمرو الكندى دار الكتب العلمية بيروت لبنان الطبعة الاولى 1990ء 4 تفسير طبری زیر آیت اذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم جز13 صفحہ 410 مطبوعہ 2000ء
انڈیکس آیات قرآنیہ احادیث مضامین اسماء مقامات کتابیات 3 6 9 15 25 ایه 27
320 3 الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ آیات قرآنیہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (149) وَأَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا 275 رَسُولًا (80) (2) 449 فَانِي قَرِيبٌ (187) 46 (165.164) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى (229) 381 كَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكُلِيمًا (4) 106 وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ (252) (165) 451 المائدة 405.402 405 445 286 130 448 344 404 403 البقرة الم ذَلِكَ الْكِتَابُ (402) الا وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ قَدْ جَاءَ كُمْ مِّنَ اللَّهِ نُوْرٌ (252) 438 أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ ال عمران (48) 343 إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ (16) 452 فَاذْهَبُ أَنْتَ وَرَبُّكَ (25) وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ وَاذْقَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ فَاتَّبِعُونِي (32) 335 (68) (55) 320 وَاصْطَفَكِ عَلَى نِسَاءِ الانعام الْعَلَمِينَ (43) أَيَّدْنَاهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ 342 وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمُ (88) 407 كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ (82) وَاذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ (111) 343 كُلَّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ (126) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ (145) (130) 444 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ 115 لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ 315،135 - تَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ (155) (88.87) قُلْ اِننِي هَدَنِي رَبِّي 136 (164162) (165) 403 النساء 168 الاعراف إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ (59) 343 اسلام (132) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وسَطًا ( 144 )
407 402 392 345 369 32 32 408 102 447 4 رَبِّ أَرِنِي أَنظُرُ إِلَيْكَ (144) إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ يونس النحل 404 فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ (17) (103) 273-140 جَمِيعًا ( 159 ) 190 وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلام ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ (124) 448 بنی اسرائیل لَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا (27) لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ علم (37) الكهف 140.130 (26) الانفال لَكْرِهُونَ (6) 390 | هود مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ (18) 375 يوسف قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي ادْعُوا إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ 402 (111) الانبياء 404 372 (18) وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ (34) التوبة لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا إِلَى اللهِ (109) مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى (112) 217.190-20 الرعد وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَا نَأْتِي الْأَرْضَ يَنْسِلُونَ (97) 221 (42) و الحج ابراهيم لَنْ يَّنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا 221 غَيْرِ ذِي زَرْعٍ (38) (38) 222 350 | النور الحجر لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرُيَّاً إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ (36) 430 (10) 406 الفرقان إِنَّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا 265 (96) 329 سلمًا (64) (40) فَانْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ (40) وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا (40) انفِرُوا خِفَافًا (42) ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ (42) عَفَا اللَّهُ عَنْكَ (43)
404 5 دنی فَتَدَلَّى (10،9) 405 إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمُ الحديد 445 أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ (16) القيمة 398 إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ النمل قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَّمٌ (60) الروم تخشع (17) ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ الحشر (19.18) 406 وَالْبَحْرِ (42) 278 الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ الاعلى الاحزاب (24) 441 بَلْ تُؤْثِرُونَ (18،17) 278 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ الجمعة إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولى (22) 296 يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ (20.19) 278 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ (2) 113 الانشراح 189 190 407 فاطر إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا وَسَلِّمُوا (57) 452 هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (3) (42) 114 يُعَلِّمُهُمُ الْكِتب (3) 121 | العلق نَذِيرٌ (25) 106 | التحريم اقْرَءُ باسم رَبِّكَ الزخرف اِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ (3.2) وَقِيْلِهِ يُرَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ (5) 163 - الماعون 313-219 446 | قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمُ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (75) 99 النصر 385 إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ (462) (7) يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (7) 120 المزمل (90.89) الفتح يَدُ اللَّهَ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (11) النجم
6 احادیث الاخلاق 410 مَا أَنَا بِقَارِءٍ 157 أَخْرِجُوا مِنْدِيْلَ الْغَمْرِ مِنْ بُيُوتِكُمُ 412 حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 258 أَشْرَفَ الْإِيمَانِ أَنْ نامیک 410 الْإِيمَانِ خ 304.181 حدیث بالمعنى أَصْحَابِي كَالنَّجُوم 284 خُلِقْنَ مِنْ ضلع 465 ( ترتیب بلحاظ صفحات) 411 ع اعْمَلُ عَمَلَ امْرِي الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ 255 عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ الْعِبَادَةُ عَشْرَةُ أَجْزَاءِ 411 بَنِي إِسْرَائِيلَ 34 صبر تو وہ ہے جو شروع میں کیا جائے انَا النَّبِيُّ لَا كَذِب ،145، 169 ، عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ 412 اے عورت صبر کر 455.308.254 ف 104 فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّةِ 342 أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي 410 فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ الْخُلُقَ وعَاءُ الدِّينِ 487 إِنَّ صَبْرَ أَحَدِكُمْ سَاعَةً 411 فَمَنْ يُعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلُ 400 النَّظَافَةُ مِنَ الْإِيمَانِ 412 اگر کسی نے دوزخی دیکھنا ہو 15 15 293.22 23 24 29 اعمال نیت پر موقوف اللہ نے مجھے رحم دل بنایا الہی ! ان پر رحم کر 1 چھوڑو میرے گھوڑے کی باگ 30 343 وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 258 إِنِّي مُفَاخِرٌ بِكُمُ 472 لِكُلِّ دَاءِ دَوَاءٌ أَوْلِمُ وَلَوْ بِشَاةٍ إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ 413 لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 107 آخری زمانہ میں اسلام کے آثار لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ 321 | الافلاك بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ بُعِثْتُ لا تَمِّمَ مَكَارِمَ م 380.373 مٹ جائیں گے اسلام جب شروع ہوا اس کی حیثیت مسافران تھی 31 31
7 سب کھڑکیاں بند کی جائیں میری تمہاری مثال ایسی ہے 124 خاموش رہو 219،43 | ایمان کامل نہیں ہوسکتا 125 جواب کیوں نہیں دیتے خدا تعالیٰ کا ایک بندہ تھا 43 مجھے چھوڑ دو 252.195 145 اگر خدا کے سوا میں کسی کو خلیل عباس! بلند آواز سے پکارو 145 ، آج ہجرت کا حکم ہو گیا بناتا 314.219.43 اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر لعنت یہ سمندر ہے 251.194.194 309 میں فوت ہو جاؤں گا 149 اولاد کی عزت کرو 215 228 229 جمع ہونے کے لحاظ سے مسجد سے کرے 44 ہمارے خدا نے اس کے خدا بہتر کوئی جگہ نہیں 149 اس کے ساتھ نکاح کرو صلہ رحمی کرو 96 98 کو مار دیا 230 اے انصار ! خدا کا رسول تمہیں کچھ لوگ مدینہ میں ایسے بلاتا ہے 151 تمہارے ملنے کا نتیجہ تقویٰ ہو 98 100 جو کچھ لینا ہے حوض کوثر پر جس شخص کی دولڑ کیاں ہوں سورۃ یسین پڑھو تجارت میں دھوکا نہیں کرنا چاہئے 99 100 لینا 307.305.152 پہلے لوگوں کو آروں سے چیرا گیا 153 یہ میرے رب کا تازہ انعام ہیں میں نے تین بار نعرہ بلند کیا کفار کالشکر سر بمہر ہو گیا تکلیفوں سے نہ گھبراؤ 233 235 236 238 اگر وسعت ہے تو سب کو دو 100 ہے 158 کوئی مولود نہیں ہے جسے جواموال آئیں جب تک تو چپ تھا اللہ ہمارے ساتھ ہے فلاں کا فرفلاں جگہ مارا جائے گا 106 112 118 اگر دشمن میری دائیں طرف سورج کھڑا کریں 325،299،247 شیطان نے نہ چھوا ہو 162 ہمارے لیے عقیل نے کوئی گھر میں نیزے سے آنکھ پھوڑ دیتا 164 چھوڑا ہی نہیں 253 تمہیں کون بچاسکتا ہے 231،174 چھوڑ دو میرے گھوڑے کی 118 میں مدینہ کے ناپوں، پیمانوں میں برکت چاہتا ہوں باگ 254.253 182
8 دنیاوی باتیں آپ مجھ سے زیادہ مکہ والوں نے میرے رہنے کے اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ 399 257 لیے جگہ نہیں چھوڑی 304 وہ سب اس سے بہتر ہیں جانتے ہیں اے میرے رب ! یہ لوگ نہیں صرف ابو بکر کی کھڑ کی کھلی جو شخص تیزی سے کام کرتا جانتے کہ میں کون ہوں 260 | رہے 314 ہے اگر یہ تباہ ہو گئے تو کون ایمان پانچ عیوب میں سے ایک چھوڑ لوگو! مجھے مشورہ دو لائے گا 261 | دو 326 413 414 <458.419 مکہ والو! تمہارے ساتھ کیا سلوک جب تک آپ خاموش رہے 328 الی تنگی شادی کرو تو دور ہوتی کیا جائے؟ 267 | خدا کے رسول دھوکا نہیں کیا میں اس مال میں سے کچھ نہیں کرتے دے سکتا 359 271 جاؤ اور قربانیوں کو ذبح کرو 360 | ماں کی خدمت کیا کرو 283 جانور کو باندھ کر مت رکھو جہاد فی سبیل اللہ کیا کرو 283 جانور کو پیٹھ پر داغ لگاؤ 381 381 485 424.423 428 429 432 ہے ابو ہریرہ ! مسجد میں جاؤ ابو ہریرہ! اور پیو تم مجھے کہنی مارلو جس طرح عورت کو بچہ ملنے سے خوشی ہوتی ہے جس مسلمان کے گھر تین لڑکیاں لوگو! کیا تم میرا اور اس شخص کا اصل ہجرت وہ ہے جو خدا کے جانور کو کند چھری سے ذبح نہ لئے ہو 294 کرو 381 جس شخص سے کوئی ہدایت کسی جانور کو دوسرے جانور کے ہوں پاتا ہے 296 | سامنے مت ذبح کرو یہ خدا کی دین ہے 302 عائشہ ! میری پیٹھ پر بیٹھ کر فلاں میں خدا کے فضل سے جنت میں نظاره کرد جاؤں گا 303 | اسے آنے دو کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ اے عمر ! کیا اب تک ہدایت کا 381 388 390 پیچھا نہ چھوڑو گے 437 469 478 بنوں 303 وقت نہیں آیا ؟ 397
9 ابتلا ابتلا اور مصیبتیں مومن کا خاصہ ہیں 19 احمدی احمدیوں کی وسعت قلبی مضامین اسلام اور دنیوی حکومتوں میں اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے 286 فرق 127 128 | صفات اسلام کے بارہ میں انگریز مصنف اللہ تعالی تمام صفات حسنہ میں کی رائے 131 | منفرد ہے لعالمین ← اسلام اس غیرت سے زندہ ہوتا ہے اللہ رب الع 91 جو کبھی مٹ نہ سکے 202 | صفت ربوبیت احمدیوں کے عشق رسول کی پہچان یہ عقیدہ کہ اللہ امن دینے والا ہے اللہ کی صفت رحمانیت کے دو طریق اخلاق 179 176 50 72 94.93 95.94 صرف اسلام نے پیش کیا ہے 443 صفت مالک یوم الدین 106 107 اسلام دین فطرت ہے 450 چار صفات کو دنیا میں جلوہ گر دیکھو وہ اخلاق جو طبیعت کے خلاف ظاہر اسلام نے سادہ طریق پر شادیوں ہوں وہی نیکی کے کمال کی دلیل کا حکم دیا 391 ہیں اعمال 474 472 گے الہام 114.113 الہام کا دروازہ اب بھی کھلا ہے 103 اخلاق حسنہ دین کا برتن ہیں 410 اعمال کے دو قسم کے بدلے ہوتے اللہ نے ہر دماغ میں الہام پانے ارادے جب تک ارادے درست نہ ہوں ہیں الله 211 کی قابلیت رکھی ہے الہام کے لیے امید اور تو کل بھی کام درست نہیں ہو سکتا 442 خدا کی ہستی کے متعلق دلائل ہر انسان ضروری ہے کی فطرت میں ہیں 116 امراض اسلام اسلام کی صداقت کی زبر دست دلیل 8 ہستی باری تعالیٰ کا فلاسفر کے نزدیک شدیدا مراض اور ان کا علاج اسلام خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ثبوت مذہب ہے 116 104 امن ہمارا خدا وسیع طاقتوں اور قدرتوں جب تک دل کا امن نہ ہو ظاہری امن 184 کوئی حقیقت نہیں رکھتا اسلام تصنع کو پسندید ہ نہیں سمجھتا 37 والا ہے 104 3تا5 439
10 امن کے لئے دنیا ہمیشہ کوشش کرتی اولیاء 439 سینکڑوں اولیاء بعض صحابہ سے بلند رہی دنیا میں امن تبھی قائم ہوسکتا ہے جب ساری دنیا ایک ہستی کے تابع ہو 440 442 وہی حقیقی امن ہے جو ظاہر اور باطن کو امن دینے والا ہو امن کا مرکز خانہ کعبہ 440 444 اہل اللہ 147 تو حید تمام ترقیات کا گر ہے تمام اعلیٰ مقاصد تو حید کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو حید کامل کے لیے رسالت کامل سمجھنا ضروری جو لوگ خدا کے ہو جاتے ہیں ان کے 50 279 281 143 تو حید وہی ہے جو حضور ﷺ نے دل نرم ہو جاتے ہیں ایمان قیام امن کے دو عظیم گر 449 | ایمان جنون اور موت ایک ہی چیز قیام امن کے لیے جنگ کی ضرورت اهنگ 451 ہے امنگ بیماریوں کا مقابلہ کرتی ہے 241 بچپن کی نیکی کسی کے اختیار میں نہیں امنگیں بیماریوں کو دبا لیتی ہیں 241 ہوتی 204 141 بیان فرمائی ہے توحید سے اخوت و مساوات کا سبق حاصل ہوتا ہے توکل 380 449 تو کل اور بہادری میں فرق 248 ،249 ج جائداد 414 51037 اسلام نے جائیدادوں کی حفاظت کے خاص احکام دیئے سیرت کے جلسوں کے متعلق اہم ہدایات جلوس سیرت النبی کے جلوس کی شرائط 40 تا 42 جلوسوں میں مشرکانہ طریق نہ اختیار کریں جماعت احمدیہ 46 92.91 جماعت احمدیہ کو نصیحت 302*300 413 312 412 انبیاء انبیاء کی بعثت کے دواوقات 138 ایک گیارہ سالہ بچے کا انبیاء کا وجود دنیا کے لیے تعویذ 379 واقعہ انصاری بچوں سے جھوٹا وعدہ نہ کرو ایک انصاری کی تقریر بدر کے موقع بزرگ 119، 120 ایک بزرگ کا واقعہ ایک انصاری کا اعتراض تقسیم غنائم 212-211 پر تحریک جدید اولاد تحریک جدید کے دو مطالبے توحید اولاد کی محبت خدا کی ظلمی محبت ہے 228 ، 229
11 جماعت احمدیہ کی مساعی رسول کریم کی عظمت کے قیام کے 163160 جماعت احمدیہ لَا إِلهُ إِلَّا الله کے ماٹو کو ہر وقت سامنے رکھے 287 دجال و دجال کا مقصد دنیاوی آرام کو حاصل کرنا دعا قبولیت دعا کے تین امور جماعت احمدیہ ہی رسول کریم میر کے مقام کا عرفان رکھتی ہے جماعت احمدیہ کا حضور ﷺ کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑنا دعا کا تعلق اللہ اور بندے کے درمیان ماں بچے جیسا بغیر دعا کے انسان کے ایمان کو کامل 356.334 356.355 نہیں کیا جا سکتا دل 286 255 255 256 سچائی بچے کو بھی دلیر بنا دیتی ہے 377 سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے سيرة النبي 1928 میں پہلی دفعہ یوم نبی منایا گیا 378 111 سیرت النبی کے جلوسوں کے اثرت 111 ش شادی شادی بیاہ کے لیے اہم ہدایات 97،96 شاگرد جنگ ایک شخص کا اپنے نفس کے لئے دل سے نکلی ہوئی بات دوسروں کے شاگرد کا کام آقا کی طرف منصوب جنگ کرنا $294.293 جنون راستباز دنیوی جنون میں عقل ماری جاتی راستباز ساری دنیا کے مقابلہ میں دل پر اثر کیے بغیر نہیں رہتی 395 ہوتا ہے شرافت عربوں میں شرافت کا مادہ تھا شرک 338 260 ہے.مذہبی جنون میں تیز ہوتی ہے 204 رسول جھوٹ جھوٹ کسی حالت میں بھی جائزہ نہیں 413 کو بہت سے عذابوں سے بچاتا ہے شیعہ خ 379 شرکیہ کلمات سے بچنے کی تلقین 43 تا45 اکیلا کھڑا ہو جاتا ہے شہید کے معنی داروغہ رسول کا جسمانی قرب بھی انسان 372 373 شیعوں میں تعزیوں کا رواج کیسے 344 38.37 خدام الاحمدیہ سچائی شیعوں کے تعزیہ پر یورپین مصنفین خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض 469 ہنسی اڑاتے ہیں 40
279 90 00 12 کا بوسہ لینا 433،432 ایک عورت کا حضور ﷺ سے عشق 134 ص ایک صحابی کا پُر حکمت طریق سے مبر صدقہ صبر سے کام لینا چاہئے 112 صحابه صحابی ایک صحابی کا شراب کے مٹکے کو توڑنا اسلام اور عورتوں کے صدقہ دینا ہر انسان کا کام ہے 412 حقوق 383*381 صدیق حضرت عمر کی بہن کا یقین اور وثوق 396 128 | صدیق وہ ہے جو نبی سے کامل اتحاد ایک عورت کی بچے سے دیوانہ وار محبت صحابہ کا عشق رسول 133 تا 139 ، رکھتا ہو صحابہ کا بلند مقام 155، 180 ، 206 صلح حديبيه 147 صلح حدیبیہ کا ایک واقعہ صحابہ کی فدائیت اور قربانیاں 153 صلح حدیبیہ کی شرائط صحابہ کا جنگ بدر سے قبل حضور ما صلح حدیبیہ بھاری امتحان کی حفاظت کا انتظام کرنا 169 ابتدائی صحابہ کی قربانیاں 172،171 طب جنگ احد میں ایک صحابی کی شجاعت اور شہادت ایک چھوٹے قد کے صحابی کا جنگ میں جانے کا جذبہ ایک صحابی کا حضور اے کے حکم کی 193 249 222 28 358 361 437.436 سے شادی کا اظہار 473 غ سستی اور غفلت بہت بڑی لعنت ہے غیرت ہماری غیرت خدا کے لئے ہونی علم طب عربوں سے پوشیدہ تھا 21 علم طب میں ترقی الیکٹروہومیو پیتھی کے طریق علاج 806 چاہئے نے طب کے دائرہ عمل کو وسیع کر دیا 6 فتنہ ظ 239 252 32 تعمیل میں غلام آزاد کرنا صحابہ ڈول سے لڑائی کو نا پسند کرتے 371 390 صحابہ کی فدائیت اور اخلاص 420 486.460 458 سب سے بڑا فتنہ مسیحیت فساد ظلم توجہ کھینچنے کا موجب ہوتا ہے 165 فساد اصل دل کا ہوتا ہے ق ع عشق قرآن صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کا جو عشق میں مخمور ہو کر نقل کرے وہی قرآن کی ہر آیت بے شمار خوبیوں کی جوش 422 420 کامیابی حاصل کرتا ہے 388 جامع ہے
13 قرآن کریم کے ایک ایک حرف کے نیچے معارف قرب الہی ایک قرآنی آیت کے سننے سے لڑکیاں مسلمان ایک شریر کے اندر تبدیلی 397 398 لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں مسلمانوں میں سے روح اسلام 354 469 ابتدائی مسلمانوں کی تکالیف مٹ گئی مقدم اصلاح لڑکیوں کی ہے 34 361.262 ماٹو قرب الہی انسانی زندگی کا مقصد 93 ہمارا ما لولا اله الا الله محمد ک کفار رسول الله مادیات کفار مکہ کی حضرت ابوطالب کے حضور ﷺ نے مادیات کو مذہب مشرک کون ہے مصائب مصائب قرب الہی کے حصول کا ذریعہ 403 287.275 274 پاس آمد اور دھمکی کلمہ طیبہ 378،377 سے جدا کر دیا مباہلہ 257 معجزات مسلمانوں کے فرضی یہ جملہ قرآن سے اخذ کیا گیا اور مباہلہ کی شرائط 178 179 | معجزات قرآن کے سب مضامین کا حامل محبت ہے ہندوؤں کے فرضی معجزات 351.350 352 279 محبت الہی تمام نیکیوں کی جڑ 47 ملیریا کلمہ طیبہ اسلامی تعلیم کا انسانی محبت چھوٹی سے چھوٹی باتوں ملیر یا سستی پیدا کرتا ہے خلاصہ 279 تا 281 سے ظاہر ہوتی ہے 256 ملیریا کی وجوہات 239 241 گ گمراہی مذہب محبت کا مادہ ایک فطرتی مادہ ہے 436 بڑھتی ہوئی گمراہی کا علاج 463 مذہب کا اصل مقصد گنوار 93.92 سب مذاہب کا اتفاق ہے کہ انسانی مومن گنوار لٹھ بازاور خدا کے سپاہی میں زندگی کا اصل مقصد قرب الہی ہے 93 حقیقی بہادری مومن میں ہی ملتی فرق 253 | مرض ہے مہر پرانے زمانے کے عجیب وغریب 473 261 مرض کا بڑھنا شفا کا مادہ پیدا مومن کو ایک ہی وقت میں بہادر کر دیتا ہے 166 اور رحیم ہونا چاہئے 261
مومن فراست سے ایک بات کہتا ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہے 424 14 نصرت الہی کی شرط 484 | قرار دیتے ہیں ن نیکی اسی کی ہوتی ہے جس میں ہر ہومیو پیتھک قسم کی نیکیاں ہوں 391 ہو میو پیتھک علاج نے طبی دنیا میں نکاح نکاح کی بنیاد دین پر رکھو 97 نصرت الہی واقعہ ایک ہند و کا واقعہ حقیقی نصرت اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے 13 نصرت الہی اس وقت آتی ہے جب وصل الہی سب تدابیر انتہاء کو پہنچ جائیں 237 و م پیدا کیا.ی 47 48 یا جوج ماجوج ایک شخص کا حضور ﷺ کی صداقت یا جوج ماجوج سے مراد بائبل کے معلوم کرنے کا عجیب واقعہ 22 23 مطابق مسیحی لوگ تمام مذاہب وصل الہی کو اصل مقصد ماجوج سے مرا د روس ہے 92 6 32 32
15 اسماء 476،318 تا 478 | واقعات آدم: حضرت.70.63 Li 408.402-270.72 ابرہہ.اس کا کعبہ پر حملہ اور لشکر کی تباہی ابراہیم ، حضرت 1870185 $162.70 270-184.182180.362.344.278 408.405 402 بعثت رسول کے لئے آپ کی بچپن میں بتوں کو سجدہ کرنے دعا 116.115 4310427 حضور ﷺ کی وفات پر ردعمل 134، اسحاق حضرت 344،162،70 ، 315.314.135 406 حضور علیہ کے خطبہ پر رونا 219 | اسماعیل حضرت 405،345،328 سورۃ نصر کے نزول پر رونا 313 افضل حق چوہدری ان کا اور حضرت عمرؓ کا جھگڑا 209، اکبر علی پیر 479،479، الیاس حضرت آپ کا ایک واقعہ 328 البیع حضرت ابو جہل صلى الله 416،131،44،9 امتہ القیوم بیگم صاحبزادی اس کا حضور علیہ سے مرعوب ہونا امتہ اللہ بیگم ( بنت میر محمد 173،172 | اسماعیل) ابوسفیان 27 ، 106 ، 416،194، ام حبیبہ - حضرت 179 473 345 345 480 472 454 406.345 425، 454،430 | ایوب.حضرت سے انکار 245.244 جنگ احد میں فخریہ تعلیاں 251، ابو بکر حضرت 44،43،21،20، 252 $207.195.194.173.117 بین چندر پال 111 251.220.218215 ابوطالب، حضرت 475،267، کفار مکہ کا ان کے پاس بوعلی سینا.ان کا 331.308.290.262.252 واقعہ 118، 128،127،119 آنا 245 378،377،248 366.361.338*336 478.428.421.401 بیاس جی 68 صلى الله ان کا حضور علی کو بلانا 298 ج صلى الله حضور ﷺ پر ایمان کا واقعہ 142،141 ، 197 ، 198 ، آخری بیماری میں ایمان نہ لانا 248 ان کی وفات کا سبب 262 | جابر بن عبد اللہ.حضرت ابو ہریرہ ، حضرت.ان کے جعفر حضرت.321 26024
حاتم طائی حبیب الرحمان مولوی حسام الدین احراری حسان بن ثابت حضرت 392 179 180 135 16 راجرز.ڈاکٹر 7 رام چندر.حضرت 68 69 ،72 ، صالح، حضرت رستم ( پہلوان ) 385.348.73 346 صلاح الدین پیر ظ ز ظفر احمد مرزا 181 472 حسن حضرت امام 388،39 | زرتشت، حضرت حسین.حضرت حلیمہ حضرت 282.39.38 108.75072 480.475 316 زکریا، حضرت 345،85 عائشہ ، حضرت 290،44،26، حمزہ.حضرت 11 ، 267 ، 397 زید بن حارثہؓ، حضرت خ 25.24 388.366.342 ان کا حضور ﷺ کے اخلاق سے ان کا سر درد میں حضور سے خالد بن ولید حضرت 331،25 خدیجہ.حضرت 342-267 متاثر ہونا 317 318 | مکالمہ عبادہ بن صامت، حضرت حضور عنہ کی پہلی وحی پر آپ کو سراقہ.اس کا حضور ایک تسلی دینا 159، 196 ، 197 | تعاقب حضور ﷺ کی امانت سے متاثر سلطان احمد ، حضرت مرزا ہونا 316 317 ان کی ایک روایت آپ کی وفات کا سبب 166 ،262 سلمان فارسی ، حضرت 130 203 235 $270 406.384.345.321 سلیمان، حضرت داؤد.حضرت.71.70 384-362-345.270.73 ش 406 داؤد غزنوی 179 شہاب الدین سہروردی شعیب، حضرت 39.38 147 181 228 حضور علیہ کا ان کو برطرف کرنا 425، 426 عباس، حضرت 145،27، 150، 309-272 271.151 عبد الرحمان بن عوف، حضرت 138 عبدالقادر جیلانی، حضرت سید 147، 184 عبد اللہ بن رواحہ ، حضرت 24 ،25 عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن ابی 292 367*365 عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت 138 ، 139
17 عبدالمطلب ، حضرت 145، 169 ، آپ کی یہودی سے گفتگو 277 ، آپ کا عشق رسول 160 ،335 278 | حضور کے بارہ میں 475.309 ابر ہ کی گفتگو کا جواب 185 تا 187 صلح حدیبیہ پر ان کا جوش 360 361 غیرت ایمانی عثمان، حضرت 478،421،291 آپ کو شعروں کا شوق تھا 438 آپ کی بعثت کا مقصد ان کا مٹی میں چار رکعت پڑھنا 138 ، آپ کا حضور لیہ سے دلچسپ بیان کرده واقعه عزرا ، حضرت عزیز، حضرت عزیز احمد ، حضرت مرزا 139 | مکالمہ 161.160 183 264 465 تا 467 | آپ کے الہامات 287، 379 70 عیسی ، حضرت 64،63،61،45 ، آپ کا مقام 280 480 380.379 71 تا126،102،76،73 ، آپ کو جو ملاحضور ﷺ کی غلامی 136 تا181،176،139، سے ملا عطاء اللہ شاہ بخاری 179 180 ، 184 ، 189، 253، 280 ، 282، آپ کی آمد عین وقت پر عقیل عکرمہ، حضرت 185 363،362،353،348،345 ، غلام رسول را جیکی 408 406-402.391.384|363.253 331 ہتک عیسی کا جواب 162 163 علی حضرت ،216، 421،331، حیات مسیح میں حضور کی ہتک 335 483.482.478.472 عمرؓ، حضرت 136 ، 193 تا 195 ، $292.252.251.219.209 416.401.338*336 479.478.428.421 حضرت عمر کا قبول اسلام 9 تا 11 397*395 غالب 4640*456.336 غ 165 غلام احمد قادیانی، حضرت مرزا 21 ، فاطمہ ، حضرت ف 461 463 228 472.342 ان کی حضور سے لونڈی کے کے لئے درخواست اور جواب 271 فرزند علی خان مولوی ق تھیں 22 369.368 قیصر 286،236،190،148، <4745.42.41.35.34 199.191.131.108 224.218.203 202 $282.278 270.264.263 314.135 حضور ﷺ کی وفات پر رد عمل 134، آپ کے چچا کا واقعہ 117،116 310،283 تا312 ،336 تا | کرشن، حضرت 457.456.353.349.339 416.69.68 385.348.108.73.72
18 کسری 323،286،236،190، تسلی 159، 196 ،197 ایک فرمان نبوی لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاء گاماں پہلوان 416، 427، 430 وحی کے بعد انذار اور تبلیغ 476 کی تشریح 346.345 کفار مکہ کی ابوطالب کے ذریعہ آپ نے اپنی تعلیم کو سب دھمکی کا جواب 1 تا8 247 | مخلوقات کے لئے عام کر دیا 102 ابوطالب کا حضور ﷺ کو سمجھانا 298 ، امتیاز رنگ و نسل کی ممانعت کی گوتم بدھ ،حضرت 72،69 تا74، ل 108.76 378 ابوطالب کے جواب میں حضور آپ نے ہر شعبہ زندگی کے کا جواب 299، 378 متعلق تعلیم دی 103 115 لبید شاعر کی قرآن کریم سے سفر ہجرت 215 216 مادیات میں اصلاح کی تعلیم 256 بے نظیر محبت 438 439 غار ثور میں قیام 118،117 ، جانوروں سے حسن سلوک کی $261 217.216.173.130 381 161 | بیعت رضوان 291 292 غلاموں کے بارہ میں تعلیم 383، 369 دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ میں حضور کے مزدور اور آقا کے متعلق آپ مناسب حال فیصلے 29، 30 کی تعلیم آپ نے مشاہدات کے ساتھ تمدن اسلامی کے متعلق آپ کی خدا کو دنیا کے سامنے پیش کیا 119 384 384 4140410 لوط، حضرت لیکھرام مجنوں کا لیلیٰ کے کتے سے پیار 368 ، محمد مصطفی حضرت خاتم الانبیاء سوانح تبلیغ کرنا 248 | تربیت رسول کریم ﷺ کی زندگی پر مختصر نظر استقلال 296 تا 299 صبر کی نصیحت اور انداز تربیت 238 حضور علی کا بچپن 480،475، حضور کا دعوت الی اللہ کا طریق مصائب 481 300 301 طائف کا ابتلاء 260،143،16 دعوی سے قبل کی زندگی 316 تا 318 تعليمات راہ مولیٰ میں حضور کا مصائب پہلی وحی اور حضرت خدیجہ کی 4790475 حضور کا ابوطالب کو آخری وقت ( نیز دیکھئے احادیث نبویہ) دعوت الی اللہ میں حیرت انگیز حضور کا انداز تربیت 233 ،234
19 اٹھانا 19 ، 273 274 جنگ احد میں حضور کا زخمی ہونا 133 حکم اور اس کا انجام 204، 205 ، گلے میں پڑکا ڈال کر مارنے کی جنگ احد میں حضور کی مصیبت 192 کوشش 213 330 تا 332 | نصرت الہی 231 231 230 حضور پر مظالم اور بائیکاٹ 166 ، جنگ احد میں حضور کی وفات کی حضور کے ابتلا اور نصرت الہی 13، 261،167 | افواه 222214.167165-14 251.192.133 حضور پر یکی زندگی میں مظالم 266 جنگ احد میں حضور کی ہدایت پر حضور کی خطرناک مخالفت اور نصرت الہی عمل نہ کرنے کا نتیجہ 330 تا332 مظالم کے واقعات 175171 ایک عورت کا آپ کو زہر دینا 130 ، جنگ احزاب میں پتھر توڑنے میں جنگ بدر میں نصرت الہی 375 173.131 آپ کو پتھر گرا کر مارنے کی مشکل اور حضور کا توڑنا 235 طائف سے واپسی پر عرب سردار کے دل میں درد پیدا ہونا 376 260 جنگ احزاب میں کشفی نظارہ 322 323 237*235 207 طائف سے واپسی پر عیسائی غلام کا انگور کھلانا رسول کریم پر خدا تعالیٰ کا 261.30 احسان کوشش 174.173.131 تلوار سے قتل کرنے کی کوشش 174، جنگ احزاب کی مشکلات 399.398.231 منافقوں کا تبوک کے موقع پر اور نصرت الہی حضور کو مارنے کی کوشش جنگ حنین میں حضور کو خط 174 حضور کی صاحبزادی پر بزدل جنگ حنین میں حضور کی بہادری حفاظت دشمن کا حملہ 274 حضور کے رشتہ داروں کا جائداد 151 150 146*144.254.253.170168 پر قبضہ 363 جنگیں 191189 حضور اور حفاظت الہی 231،230 بکثرت واقعات سے ثابت ہے 308 309 310 کہ فرشتے آپ کی حفاظت کرتے رسول کریم کے مخالفین سے خدا جنگوں میں حضور کا خلق عظیم 18،17 کا سلوک 372 تا 374 حضور کا بے نظیر مقام آپ نے جنگوں میں بھی انسانوں مخالفین کا انجام کے حقوق قائم رکھے 382 383 حضور کے مخالفوں کی ناکامی 130 مقام جنگ بدر میں عباس کی تکلیف سے کراہنا رسول کریم کی عظمت و احترام و 130 1880176 131 | حضور سب کے لئے خوبیوں کے 272 دودشمنوں کی ناکامی 365 تا 367 جامع 108 جنگ بدر میں دعا 487 شاہ ایران کا حضور کی گرفتاری کا تمام کمالات کے جامع 362 تا364
20 جملہ اخلاق کے جامع 390 تا 394 101 انسانیت کے لئے رحمت 60 تا 65 حضور کا دین جامع جمیع ادیان 408 موت کے بعد ربوبیت 101 نسل انسانی کے لئے رحمت 65 تا 68 جامع کمالات انبیاء 402 تا 404 روحانی ربوبیت 102،101 | گزشتہ انبیاء کے لئے حضور میں موسوی کمالات حضور اور عیسوی کمالات عام ربوبیت 102 ،103 | رحمت 74068 404 تا 407 صفت رحمیت کے مظہر اتم 104 ، پہلی کتب کے لئے رحمت 74 تا 77 407 408 | صفت مالک یوم الدین 105 انسانی ضمیر کے لئے رحمت 77 تا 81 معذوروں کے لیے رحمت 81 تا 84 حضور منبع ہدایت ہیں 136 تا 139 کے مظہر 106 107 آئندہ نسلوں کے لئے حضور بہترین مصلح 255 تا 258 صفت قدوسیت کے مظہر صفات باری کے مظہر اتم | 120، $107 377،108تا386 | صفت عزیز کے کامل مظہر اللہ تعالیٰ کی چار صفات اور حضور آپ اور توحید کے چار کام 113 تا 121 | آپ کے ذریعہ توحید کامل کا صفت رب العالمین اور حضور قیام 121 121 2870275 95 تا103 ،386380 آپ کی ذات سے ہی تو حید قائم حضور اور نوجوانوں کی ربوبیت 96، ہوئی 281.280 100،99،97 | آپ تو حید کے اعلیٰ مقام پر تھے 380 حضور کی نکاح کے بارے میں آپ تو حید کے کامل مظہر تھے 380 ربوبیت 98،97 حضور کی شان رحمت بیوی کی آمد کے موقع پر ربوبیت 98 آپ رحمۃ للعالمین 87052 بچہ کی پیدائش کے موقع پر آسمان کے لئے رحمت 52 تا 55 99،98 | فرشتوں کے لئے رحمت 55 تا 57 ربوبیت مقیموں کی ربوبیت 99 دنیوی امور میں ربوبیت 100 زمانہ کے لئے رحمت مرنے والے کی ربوبیت 100، زمین کے لئے رحمت | 386.385 57 60057 رحمت 87084 حضور کا درجہ ہر روز بڑھتا ہے 460 سیرت نبوی مبر حضور کے صبر کا نمونہ 328،15، پیاروں کی وفات پر حضور حضور کا صبر و تحمل کا نمونہ 329 26024 213 غیرت ایمانی 192،164 تا195، 254251 175168.131 455 شجاعت حضور کی شجاعت اور توکل 250*244 سینکڑوں واقعات سے ظاہر ہے
21 کہ آپ بہادری کے بلند مقام پر اعتراضات دور کئے 384 385 سے آزاد پیدا کیا 248 آپ نے دنیا کے ہر گنہ گار پر حضور کے حکیمانہ فیصلے فائز تھے رواداری احسان کیا حضور کی مذہبی رواداری 126 ، 232 حضرت ابو ہریرۃ سے نجران کے وفد کو مسجد میں عبادت کی اجازت قربانی 232.126 شفقت 13 له یه 27 386 آپ نے بھی جلوس نہیں نکالا 28 حضور احتیاط میں سب سے 428 تا430 بڑھے ہوئے تھے خطرات کے موقع پر حضور کا ایک بدصورت صحابی سے پیار 471 عورت آپ نے تمام تر زندگی میں قربانی عورت کے قتل پر ناپسندیدگی 262 271 حضور اور عورتوں کے 382،381، طرز عمل شراب کی ممانعت 148 149.148 128 انصار کے سامنے تقریر 212،211 پیش کی حضور کی قربانیاں اور دعائیں حضور کی رحمدلی سخاوت اور توکل امن رسول کریم اور امن عالم 4870484 269*260 418.417 4530434 موجودہ زمانہ کی خرابیوں کا علاج حقوق حضور کا کشفی نظارہ 236،235 468 465 اہل وعیال بطور بادشاه نمونه 272 270 اہل وعیال سے آپ نے بادشاہت سے کوئی محبت 228 389،388،229 دنیاوی فائدہ حاصل نہ کیا بیوی سے سلوک 228 ، 256 ، 388 حضور پر بھی تنگی اور فراخی کے زمانے آتے رہے نماز کی حالت میں حضرت حسن حضور کی زندگی میں بار یک در کا پیٹھ پر بیٹھنا 229، 389،388 والده بار یک اخلاقی پہلو حضور کے ارشادات میں 31 تا 35 اپنی رضائی والدہ سے محبت 228 لڑائی میں کلمہ پڑھنے والے کو محسن اعظم آپ نے غرباء کی امداد کا مکمل انتظام کیا رشته دار رشتہ داروں سے سلوک 104 رضائی بہن کی وجہ سے اس کی 454 مارنے پر ناراض ہونا حضور کے طرز عمل سے وقار کا مفہوم 271 271 256 266 290-289 207 208 | عبادت سے پاؤں سوج جانا 303 حضور کا غلاموں پر احسان 371 قوم سے سلوک سیرت نبوی.جامع نقشہ 384 385 رسول کریم کو اللہ نے تمام حکومتوں حضور کے گزشتہ انبیاء پر احسانات آپ نے گزشتہ انبیاء پر سے حضور کا مسیلمہ کذاب اور کفار مکہ کو جواب 325.324 حضور کی بعثت انسانوں کی طرف
22 نہ کہ جنوں کی طرف 321،320 419 تا 422 | متفرق واقعات حضور کا رویا طواف کعبہ کے جنگ بدر سے قبل مشورہ 484 | توکل بارہ میں 358 صلح حديبيه صداقت کا واقعہ 21.20 23.22 نیزہ کی انی سے ایک شخص کا مارا رسول کریم کی سیرت صلح حدیبیہ ہمدردی خلق کا واقعہ 124،123 390 391 | کی روشنی میں 358 تا 361 آپ کی مجلس کا واقعہ جانا حضور لڑائی کو نا پسند کرتے تھے 390 ، صلح حدیبیہ کی کڑی شرائط کو ماننا 482، اکیلا گھوڑے پر باہر نکلنے کا 391 ایک دفعہ صبح سے شام تک تقریر اثرات 483 | واقعہ کھانے کے وقت بچپن میں 391 | حضور کی دعاؤں اور اخلاق کے ایک طرف بیٹھنا 112 131 316 کرتے رہے دود ینار کی تقسیم کے لئے جلدی اثرات 9 تا 12 حضور کی زندگی کے متفرق سے نماز پڑھانا 417 حضور کے نمونہ کے واقعات 2080206 ایک غریب کو نصیحت 424،423 اثرات 118 تا 120 حضور کی زندگی کا اثر انگیز حضور کے بیان فرمود وہ عظیم الشان حضور کی عملی زندگی کے واقعہ 312*309 196 تا 198 | حضور کی قوت قدسیہ 127 تا 129 حضور کے غیر معمولی یقین کے مظلوم کی دادرسی کا واقعہ 173،172 395 تا 399 آپ کی طرف سے اچھے 202تا205 حضور کا وجود دنیا کی نظروں کو اپنی سلوک کا بدلہ نکات 469،465 | اثرات معجزات عشق رسول اور حضور کا ایک معجزہ اثرات آپ کا زندہ معجزہ آپ کے متبع پر طرف کھینچتا ہے تازه کلام انترنا دودھ کے پیالے میں برکت 428، فتح مکہ مشورہ لینا 434 حضور کا تذلل 353 حضور کے صدق کا اثر 470 | حضور کی وطن اور اہل وطن سے محبت 207 303 305.304 429 مکہ میں فاتحانہ داخلہ 476 کفار مکہ کی دھمکیوں کے جواب فتح مکہ کے موقع پر سالار لشکر کو میں عزم صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک بیوی معزول کرنا 27 حضور کا خوف خدا 378 432 سے مشورہ 360، 421 422 فتح مکہ کے موقع پر آپ کا حضور کا وسعت حوصلہ 483،482 حضور کا صحابہؓ سے مشورہ ایک فیصلہ 425 426 | متفرقات
23 کی سادگی حضور کی صداقت کے تین سیرت کے متفرق حصے 402 تا 408 سے پیار ،، 224 225 سے پڑھا ہے" حضور پر ایک انصاری کا اعتراض حیات مسیح کا عقیدہ حضور کی ہتک آپ پر جنگ حنین کے ایک واقعہ ہے اور بھیانک نتیجہ 150 تا 152، 304تا401،400،307 | عشق رسول شادی بیاہ کے معاملہ میں حضور صحابہ کا عشق رسول اور 474 472 فدائیت 310308 456 تا 464 | کا غیر معمولی اثر آپ کا عشق رسول 436،435 139133 حضور کی وفات پر صحابہ کی بیان کردہ واقعات 118،105، 282 281.128.127.119 369.368.350*347 137 دلائل 142140 حالت 315313 حضور کی عبادت کی صحابہ کی آپ سے دیوانہ وار برکات 158156 محبت 370368 جب بارش ہوتی آپ باہر نکل کر چیلنج آپ کا اخبار نویسوں کو چیلنج 354، بیان کردہ قصے 286،95 ، 287، 355 محمد اسحاق ، حضرت میر منہ کھول دیتے 352 350 158 ان کا ایک واقعہ 349، 350، 210 محمد اسمعیل ، حضرت میر محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین 243 سوانح خلاف تھے 117 حضور کے پیدا کردہ اخلاق 209 حضور کی محنت ہائے شاقہ 239 تا مصلح موعود آپ سے قبل لوگ شرک کے حضور کا اپنی بیویوں سے ناراض چین ہو کر باہر رہائش اختیار کرنا 465 بچپن کا واقعہ ہوکر رسول کریم کی عظمت کے قیام بچپن کا رویا آپ کا احمدیوں کو اعلیٰ مراتب 218 کی طرف بلانا 184 آپ کا ایک روحانی تجربہ 312 310 424 435 کے لئے جماعت احمدیہ کی آپ کا سیالکوٹ جلسہ میں لیکچر 30 آپ کو ایک مدعی کا خط 160 163 آپ کا غار ثور کے قریب جانا 216 ایک یہودی کا آپ کو خط (اس مساعی رسول کریم کے بارہ میں الزامات آپ کا سفر قصور 347 348 کا قبول اسلام اور حضور پر کا جواب 199 تا 201 | حضور سے تعلق درود) 329.328 رسول کریم اور مقامات مقدسہ میں نے جو کچھ پڑھا رسول کریم مریم علیہ السلام حضرت 342،3، 351 472 بیان کردہ لطائف 462،461،97 متفرق مگر اہم امور آپ کا ایک حلفیہ اعلان 201،199 آپ کا توکل 220 آپ کے زمانہ میں احمدیت کی ترقی 339.338
406 106 333 181 345.72 38 70 24 355 نذیر احمد دہلوی مولوی 473 مسیلمہ کذاب 324 ، 367 نصیرہ بیگم صاحبزادی 480،475 ہر قل مظہر علی اظہر معاویہ، حضرت رض 179 | نوح حضرت 70 ، 362،270 ، ہندہ، اس کی بیعت 454.430 408،405،402،363 ہوں، حضرت ی 217،184، 221 | سختی ،حضرت معین الدین چشتی حضرت خواجہ 147 نورالدین، خلیفہ اول ملا کی (نبی) منوجی موسی حضرت 72 68 ان کے بیان کردہ واقعات 102، یزید 70، 71 ، | 103 ، 246 ، 247، 281 282 | يسعياه 136،134،73، 181 ، 184 ، آپ کا ایک سبق آموز واقعہ 246 ، یعقوب، حضرت.70 406.344.162 376-345-267.70 406 یوسف، حضرت یونس، حضرت 247 196 $345.76 DO 345.320.314.278.270 406404.363.362 408، 486 ورقہ بن نوفل نجاشی 120 ہارون حضرت
290.275 338 25 مقامات ف چ 340،338 فرانس فلسطین فیصل آباد 126، 127، 130 ، 143.140.133 215.185.20 236 105 | قادیان 51،43،41،40،36، 160 148.112.111.89 آیا افریقہ 161 ،162، 340،338 چین افغانستان 338.13 امریکہ 127،8،7 128 ، حبشہ 339.338.162.161 انگلستان.161.32.22 276 ،290 | دہلی ایٹر 351 س ایران 205،204،2، سان فرانسسکو 427،338،323،230، 430 سری نگر ایشیا 241،239 | سماٹرا سیالکوٹ بغداد بمبئی بنگال بھیرہ پنجاب 350.202 351.350 111.13 ش شام b 185 184.182180 8 $224.204 203-201-200 | 351 330-322-313.304.226 340*338 427.410.402.400.349|30 465.456 454.434 338 قادیان کے قیام کا مقصد مکہ مدینہ کی عظمت کا قیام 183 246 | طائف 143،30،29،16 ، قادیان کی احمدی آبادی 111.36 で عراق 144، 260، 261، 350 | سات ہزار قصور 252 347.113 435.232 38 351 340 عراق میں سردی بہت پڑتی ہے 127 کراچی 13 ،338 | کربلا 351 جاپان جاوا 338 تا 340 | عرب جرمنی 290 | علی گڑھ
484 482 183 180 138 26 338 گورداسپور 179،36 | مکہ 27، 115 تا 118 ، 120 ، مکہ ومدینہ، قادیان سے بلندشان 131،130 ،138 ، 139 ، 144، رکھتے ہیں 161،15،13، 179 ، 150 تا 152 ، 155 تا 158، منصوری لاہور 172 171167.166 345 184 183 182180 232 DO 92 تا 186، 196، 197، 200، نجران 217 212 211.207.206 119.118.26.25 مدراس مدینہ 162 111.38.2 246 245.225.224.218 148.135.134.131.128 346-290-258.244.181 266-261-260-253-252 180.173.169.155.152 182 تا 185، 190، 200، 267 268 ، 271 ، 291 ، 297 ، ہندوستان میں فساد کا اصل باعث 91 306 304 301.299 215 214-212-211.205 328.324.317.316.309 235.233.230.225.224 ی 232.230.204 271،267،236، 299 ، 305 ، 333، 350 359 360 ، یمن سرسبز مقامات میں سے ہے 185.338.241.162.6 378.353.339 372.369.365*363 365.363.328.309.306 425.421.420-377-373 459.458-420-419.366 478.476.475.466.438 487.485.466.465
47 406 184 85.84 , 27 27 کتابیات آیا انقلاب حقیقی 402 در مین احسان (اخبار) اخبار احسان کے الزام کا جواب 356334 الفضل 52،31،1، 199 ،275 بائیل 96.32 بخاری 312،138 | زبور تورات 328،75 منہاج الطالبين حقیقۃ الوحی 349 وید 277 76 انجیل