Seerat Un Nabi Vol 3

Seerat Un Nabi Vol 3

سیرت النبی ﷺ (جلد سوم)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلیٰ سے یہ اعلان فرمایا کہ <span class="quranic">لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ </span><span class="c243">(الاحزاب: ۲۲) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے۔نیز محبت الٰہی کے حصول کی شرط اتباع نبویؐ کے ساتھ مشروط کردی۔</span> حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور ۵۲ سالہ دور خلافت میں سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا۔ آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی۔ حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرة النبی ؐ کو آپ کی جملہ کتب، تحریرات، خطابات و خطبات سے اخذ کرکے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے جو آٹھ جلدوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ ذیل میں پہلی چار جلدیں احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہیں۔


Book Content

Page 1

سیرت النبی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد سوم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL S PUBLICATIONS LTD سیرت النبی صلى الله علم (جلد سوم) Seerat-un-Nabisa - Volume 3 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad ra on the subject of the life of the Holy Prophetsa First published in UK in 2022 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-207-0 (Seerat-un-Nabisa - 8 Volume set)

Page 3

سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحم الصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 4

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود • اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید.بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلی سے یہ اعلان فرمایا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : 22) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے.نیز محبت الہی کے حصول کی شرط اتباع نبوی کے ساتھ مشروط کر دی.جس ہستی کے بلندی اخلاق کی گواہی خدائے ذوالجلال نے دی اور اسے ہمارے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اس عالی وجود کی سیرت کا بیان یقیناً محبت رسول کی علامت ہوگا کیونکہ آپ کی ذات صفات الہیہ کی مظہر اتم تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے حسن و احسان کے تذکرے صحابہ کی سیرت کا نمایاں پہلو اور سیرت کا بیان عاشقان رسول کا خاصہ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی محبت اور عشق میں ڈوب کر آپ کی سیرت بیان فرمائی اور برملا یہ اعلان فرمایا که بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد میں عشق مصطفی میلہ میں دیوانہ ہو چکا ہوں.اگر اس عشق اور دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں ایک سخت کا فرانسان ہوں.عشق و محبت رسول کی جو لو آپ کے سینہ میں جل رہی تھی آپ نے اس کو اپنی اولاد

Page 6

ii 66 اور اپنے متبعین میں بھی روشن کیا.پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کے بارہ میں پیشگوئی مصلح موعود میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت الہی اور عشق رسول کا جذبہ ورثہ میں بھی پایا اور پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق آپ حسن و احسان میں آپ کے نظیر تھے.حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور 52 سالہ دور خلافت میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا.آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی.حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرۃ النبی ﷺ کو آپ کی جملہ کتب تحریرات، صلى الله خطابات و خطبات سے اخذ کر کے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے اور اب اس کی تیسری جلد احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہے.

Page 7

جلد 3 صفحہ نمبر 1 4 5 16 27 111 125 127 128 129 132 133 140 146 161 فہرست عناوین عنوان بے سروسامانی کی حالت میں فتح کی پیشگوئی قرض خواہ سے رسول کریم ﷺ کا حسن سلوک علي سیرۃ النبی ﷺ کے جلسوں کا پروگرام عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبی دنیا کا محسن رسول کریم اللہ بہترین داعی الی اللہ رسول کریم ﷺ کا خدا کی محبت کی طرف بلانے کا خوبصورت انداز رسول کریم ہے اور عورتوں کے حقوق ایک اعتراض کا جواب کہ آپ کو اتنا بڑا قرآن کیسے یادرہ گیا رسول کریم ﷺ کا محاسبہ نفس رسول کریم ﷺ کو آسمانی خبریں ملنے کی مثال رسول کریم کی عظمت شان رسول کریم ﷺ کی عظمت کے قیام کے لئے دو اقدامات رسول کریم کے ایک انسان کی حیثیت میں رسول کریم علیے ایک نبی کی حیثیت میں سيرة النبي علي نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15

Page 8

جلد 3 صفحہ نمبر 171 201 207 208 210 213 214 215 217 218 220 222 223 224 226 228 238 ii عنوان توحید باری تعالیٰ کے متعلق رسول کریم علیہ کی تعلیم رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے دو زمانے آنحضرت علی کی قوت قدسیہ اور حضرت ابو ذر غفاری کا قبول اسلام آنحضور ﷺ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے رسول کریم ع کی اتباع سے اعلی کمالات رسول کریم ع کی قوت یقین رسول کریم ﷺ کی سیرت کے حوالے سے جماعت کو ایک نصیحت بچپن کی شادی کے بارہ میں سنتِ رسول الله رسول کریم ﷺ کی ذات جز و قرآن ہے غارِ حرا میں پہلی وحی رسول کریم ﷺ کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کی ترویج پہلی وحی میں تو راۃ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ رسول کریم ﷺ کے عشق الہی کی ایک دلیل رسول کریم ﷺ کی اتباع کی برکات مصائب و تکالیف میں کو ہ وقار رسول کریم ﷺ ایک ملہم کی حیثیت میں رسول کریم ﷺ ایک دشمن کی نظر میں سيرة النبي علي نمبر شمار 16 17 18 19 20 21 22 24 25 26 27 28 29 30 31 32

Page 9

جلد 3 صفحہ نمبر 242 260 261 262 263 270 272 275 278 280 282 285 304 334 335 337 397 405 iii سيرة النبي علي نمبر شمار 33 34 عنوان عرفانِ الہی اور محبت باللہ کا مرتبہ اور رسول کریم علے کسری ایران کی ہلاکت کی خبر دینا دنیاوی تعلیم کی ضرورت واہمیت عمل صالح کی نصیحت حضرت مسیح کو زندہ آسمان پر ماننے کا عقیدہ آنحضور ہ کی شان کے خلاف ہے رسول کریم ﷺ اور دیگر انبیاء کی قربانیوں میں فرق رسول کریم ﷺ کے اخلاق کے گہرے اثرات رسول کریم ﷺ کی شجاعت اور جانثار صحابہ ایک بے کس یتیم ز بر دست بادشاہ بن گیا کفار مکہ کی بد عہدی اور رسول کریم مے کی مکہ پر چڑھائی الله رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی ترقیات حریت انسانی کا قائم کرنے والا رسول علی رسول کریم ﷺ کے پانچ عظیم الشان اوصاف اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت شریعت محمدی کی فضیلت قرآن کریم کو لانے والے انسان کی فضیلت رسول کریم ع کی سادہ زندگی رسول کریم ﷺ نے صحیح تمدن کی بنیا د رکھی 35 36 37 38 39 40 41 42 43 45 46 47 48 49 50

Page 10

سيرة النبي علي نمبر شمار 51 52 53 54 55 56 57 58 59 الله iv عنوان رسول کریم ﷺ کی السلام علیکم کہنے کی عادت اور نصیحت رسول کریم علیہ کا زندہ خدا سے تعلق معاہدات کی پابندی الله سیرت رسول عملے کے متفرق پہلو صلى الله غزوہ حنین میں رسول کریم ﷺ کی شجاعت رسول کریم علیہ کے سمجھانے کا انداز رسول کریم علی کا راہ مولیٰ میں دکھ اٹھانا کسری کی ہلاکت کا معجزہ رسول کریم ﷺ کی سیرت کا سبق آموز واقعہ جلد 3 صفحہ نمبر 424 428 433 435 487 488 489 490 494

Page 11

سيرة النبي عليه 1 جلد 3 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بےسروسامانی کی حالت میں فتح کی پیشگوئی حضرت مصلح موعود 6 اپریل 1928ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.میں نے ایک فرانسیسی مصنف کی کتاب پڑھی ہے جس نے لکھا ہے میں اسلام کا سخت مخالف تھا اور میرے دل میں سخت تعصب تھا اسی بنا پر میں نے تاریخ اسلام کا مطالعہ شروع کیا.مگر جب میں تاریخ اسلام پڑھتے پڑھتے بانی اسلام کے زمانہ میں پہنچا تو ایک نظارہ میرے سامنے آیا جس نے میرے تعصب کو پاش پاش کر دیا اور میرے نقطہ نگاہ کو بدل دیا.اور وہ یہ تھا کہ میں اپنی قوت واہمہ کے ذریعہ 1300 سال پیچھے گیا اور میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک کچھی عمارت میں بیٹھے ہیں.ویسے ہی لباس والا ایک آدمی ان کے درمیان بیٹھا ہے.ان کے پاس کوئی ساز وسامان نہیں بلکہ ایک ایسے مکان میں بیٹھے ہیں جس پر کھجور کی شاخوں کی چھت ہے.میں اپنی قوت واہمہ کے ذریعہ ان کے پاس پہنچا اور سنا کہ کیا باتیں کر رہے ہیں تو مجھے معلوم ہوا وہ کہہ رہے ہیں کس طرح دنیا کو فتح کریں اور کس طرح ساری دنیا پر خدا کا دین پھیلا دیں.میں نے ان کی باتوں کو سنا اور پھر تاریخ کے دوسرے صفحات میں دیکھا کہ واقعہ میں چند سال کے بعد انہوں نے دنیا کو فتح کر لیا اور جس دین کو وہ خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اسے پھیلا دیا.اس وقت میرا دل ڈرا کہ ایسے لوگوں کو کس طرح کوئی جھوٹا کہہ سکتا ہے.کیا ہی لطیف نقشہ ہے جو اس مصنف نے کھینچا ہے.رسول کریم ﷺ کے یہی

Page 12

سيرة النبي عمال 2 جلد 3 الله واقعات نہیں جو اس نے بیان کئے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ حیران کن ہیں.دنیا کو فتح کرنے کی صاف پیشگوئی اس احزاب کی جنگ کے وقت کی گئی جب کہ بوجہ محاصرہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کو کئی دن سے فاقہ تھا.کئی صحابہ نے بتایا کہ انہیں سات سات دن سے فاقہ تھا اور انہوں نے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھے ہوئے تھے.رسول کریم ﷺ نے بھی فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا1.یہ حالت تھی جب صحابہ خندق کھودرہے تھے.دشمن پورے زور سے ان پر حملہ آور ہو رہا تھا اور دعویٰ کر رہا تھا کہ مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر لے جائے گا اور ان کو تباہ و برباد کر دے گا.جس وقت دشمن یہ دعویٰ کر رہا تھا خندق کھودتے ہوئے ایک ایسا پتھر نکلا جسے صحابہ نے توڑنا چاہا مگر باوجو د سخت کوشش کے وہ نہ ٹوٹا.آخر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ ایک پتھر بہت سخت نکلا ہے جو ہم سے ٹوٹتا صلى الله نہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا چلو ہم توڑتے ہیں.آپ ﷺ نے کدال لے کر پتھر پر ماری.پھر سخت تھا اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ چوٹ پڑنے پر پتھر سے آگ نکلتی ہے آگ کا شعلہ نکلا.رسول کریم علیہ نے اسے دیکھ کر کہا اللہ اکبر.صحابہ کو کچھ نہ سمجھے کہ کیا مراد ہے مگر چونکہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کا ادب ملحوظ رکھتے تھے بغیر دریافت کرنے کے انہوں نے بھی کہا اللہ اکبر.رسول کریم ﷺ نے دوبارہ کدال ماری اور پھر اسی طرح آگ نکلی.جسے دیکھ کر آپ نے دوبارہ اللہ اکبر کہا اور صحابہ نے بھی آپ صلى الله کی اتباع میں ایسا ہی کہا.رسول کریم ﷺ نے سہ بارہ کدال ماری جس سے آگ نکلی.آپ نے اللہ اکبر کہا صحابہ نے بھی یہ نعرہ لگایا.اس ضرب سے پتھر ٹوٹ گیا.رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے دریافت فرمایا تم نے کیوں اللہ اکبر کہا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا آپ نے جو کہا تھا اس لئے ہم نے بھی کہا.آپ نے کیوں کہا تھا ؟ آپ نے فرمایا جب پہلا شعلہ نکلا تو مجھے دکھایا گیا کہ قیصر کی حکومت پر تبا ہی آئی ہے اور مسلمانوں کو اس پر فتح حاصل ہوئی ہے.دوسری دفعہ جب شعلہ نکلا تو اس میں مجھے کسری کی

Page 13

سيرة النبي عمال 3 جلد 3 حکومت کی تباہی کا منظر دکھائی دیا اور تیسری مرتبہ غالباً غسان یا کسی اور قوم کے متعلق فرمایا 2.اُس وقت مسلمانوں کی کیسی نازک حالت تھی.چنانچہ منافقوں نے اُس وقت کہا بھی کہ کھانے کو تو روٹی نہیں ملتی اور پاخانہ پھرنے کے لئے جگہ نہیں مگر خواب قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو فتح کرنے کے دیکھے جا رہے ہیں.(الفضل 17 اپریل 1928 ء ) 1: السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 11 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 66 :2 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 12 مطبوعہ بیروت 2012 ، الطبعة الاولى

Page 14

سيرة النبي علي 4 جلد 3 قرض خواہ سے رسول کریم ﷺ کا حسن سلوک صل الله حضرت مصلح موعود 20 اپریل 1928ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.ایک دفعہ آپ نے ایک یہودی سے قرض لیا یا ضرورتا کوئی چیز ادھار منگائی اور کچھ دنوں تک روپیہ ادا نہ کر سکے.ایک دن وہ یہودی مسجد نبوی میں ہی آ گیا جہاں رسول کریم علے کے پاس اور مسلمان بھی بیٹھے ہوئے تھے.مدینہ میں رسول کریم عیے کی حکومت تھی مگر چونکہ وہ جانتا تھا کہ آپ میہ کے اخلاق بہت بلند ہیں اس لئے اس نے مسجد میں آکر سختی سے مطالبہ شروع کیا حتی کہ گالیوں پر اتر آیا.اس پر بعض صحابہؓ کو جوش آ گیا انہوں نے اٹھ کر مارنا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اسے کچھ نہ کہوا سے حق حاصل تھا کہ مطالبہ کرتا کیونکہ اس کا مجھ پر قرض تھا 1.اُس وقت بھی آپ کے پاس روپیہ نہ تھا مگر آپ نے فرمایا کہ فلاں شخص سے قرض لے آؤ تا کہ اس کا روپیہ ادا کیا جا سکے.چنانچہ رو پید ادا کر دیا گیا.اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا.اور کہنے لگا کہ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جس انسان کو رسالت کا دعوی ہے اس کے اخلاق کیسے ہیں.تو جس کا کچھ دینا ہو اس کے مقابلہ میں آواز اٹھانا بڑی بے شرمی ہے.چاہئے کہ انسان نرمی سے جواب دے، معذرت کرے اور جلد ادا کرنے کی فکر کرے.“ (الفضل 27 اپریل 1928ء ) عليسة 1:بخارى كتاب الاستقراض باب لصاحب الحق مقال صفحه 385 حدیث نمبر 2401 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 15

سيرة النبي علي 5 جلد 3 سیرۃ النبی ﷺ کے جلسوں کا پروگرام حضرت مصلح موعود 27 اپریل 1928ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.میں نے گزشتہ سال کے سالانہ جلسہ کی تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے آئندہ سال کے پروگرام میں علاوہ اور باتوں کے یہ بات بھی شامل ہو گی کہ جماعت کے تمام افراد خواہ وہ ہندوستان میں کسی جگہ کے رہنے والے ہوں اپنی اپنی جگہ 20 جون کو ایسے جلسے کرانے کی کوشش کریں جن میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے ان تین پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے.اول آپ کی پاکیزہ زندگی.دوسرے آپ کے دنیا پر احسانات اور تیسرے آپ کی دنیا کے لئے قربانیاں.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں اس تجویز میں یہ حکمت مدنظر ہے کہ سینکڑوں آدمی رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک کے متعلق لیکچر دینے کی خاطر اس بات کے لئے مجبور ہوں گے کہ آپ کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں اور اس طرح ایک ہزار مبلغ ایسا پیدا ہو جائے گا جو بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات پر مخالفین اسلام کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا دفاع علی وجہ البصیرت کر سکے اور بتا سکے کہ رسول کریم اے کی زندگی ایسی ہے جو اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب الله الله سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے.کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے؟ تو اسے کہا جائے گا دیکھ لوسورج چڑھا ہوا ہے.تو

Page 16

سيرة النبي عمر 6 جلد 3 کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس وقت تک جو انسان صلى الله پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریم ہے سے نیچے ہیں اور آپ سب پر فوقیت رکھتے ہیں.ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کے حالات کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہوسکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو.مثلاً ہمیں معلوم ہو کہ زید یہاں بیٹھا ہے.اب اگر بکر قسمیں کھا کھا کر کہے کہ وہ لاہور چلا گیا ہے تو ہم اس کی بات ہرگز نہ مانیں گے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ زید لاہور نہیں گیا بلکہ اس مجلس میں بیٹھا ہے.تو بگاڑے ہوئے حالات سے دھوکا وہی کھا سکتا ہے جسے صحیح علم نہ ہو.رسول کریم ﷺ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں.ایسے حملوں کے دفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں.جب وہ آپ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے.دیکھو اگر کوئی اس وقت جب کہ سورج چڑھا ہوا ہے یہ کہے کہ مجھے سورج نظر نہیں آتا تو اسے یہ نہ کہیں گے کہ ممکن ہے سورج نہ چڑھا ہوا ہو اور ہمیں سورج کے چڑھنے میں شک نہیں پیدا ہو جائے گا بلکہ یہ کہیں گے کہ تو اندھا ہے اس لئے تمہیں سورج نظر نہیں آتا.اگر کوئی یہاں بیٹھے ہوئے یہ کہے مجھے تو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے تو کوئی آنکھوں والا اس شبہ میں نہیں پڑ جائے گا کہ سورج نہیں چڑھا ہوا.بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ اس کی آنکھوں کو یک لخت ایسا صدمہ پہنچا ہے کہ وہ اندھا ہو گیا ہے.اسی طرح جو شخص رسول کریم میے کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھے آپ کی زندگی کے حالات تاریک ہی تاریک نظر آتے ہیں تو اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ اس کی آنکھیں نہیں رہیں.جسمانی آنکھیں نہیں بلکہ روحانی آنکھیں.یہ نہیں کہ اس کے کہنے پر آنکھوں

Page 17

سيرة النبي علي 7 جلد 3 والوں کو بھی شبہ پڑ جائے کہ ممکن ہے رسول کریم ﷺ کی ذات میں وہ نقص پائے جاتے ہوں جو آپ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.پس جس طرح اس وقت جبکہ صاف دن چڑھا ہوا ہے کوئی بادل وغیرہ نہیں اگر کوئی کہے کہ سورج نہیں چڑھا ہوا تو اسے کہا جائے گا آؤ دیکھو! سورج چڑھا ہوا ہے.اسی طرح رسول کریم ﷺ کی ذات والا صفات پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ لوگوں کو آپ کے حالات پڑھنے اور ان سے صحیح طور پر واقف ہونے کی طرف مائل کیا جائے.اس بات کو مدنظر رکھ کر یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس سال کم از کم ایک ہزار آدمی ایسا تیار کیا جائے جوان دشمنانِ اسلام کو جو اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں جواب دے سکے.اور چونکہ ارادہ ہے کہ یہ تحریک جاری رکھی جائے اور امید ہے کہ اس میں ہر سال پہلے سال کی نسبت زیادہ لوگ شامل ہوتے رہیں گے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں انسان مسلمانوں، ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں وغیرہ میں سے ایسے پیدا ہو سکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے صحیح حالات سے کماحقہ واقفیت حاصل کریں اور بجائے اس کے کہ اعتراض کرنے والوں کو ہم جواب دیں وہ خود اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو جواب دینے لگ جائیں گے.ایک تو یہ فائدہ اس تحریک سے مدنظر ہے.دوسرے یہ فائدہ مدنظر ہے کہ جلسہ میں اگر اوسطاً پانچ سو آدمی بھی شریک ہوں اور ہم اس سال ایک ہزار جگہوں پر جلسے کرا سکیں تو ایک دن میں کم از کم پانچ لاکھ انسان رسول کریم ﷺ کی زندگی کے صحیح حالات سے واقف ہو سکتے ہیں.اور اگر یہ تحریک جاری رہے تو پانچ دس سال کے اندر اندر مسلمانوں میں سے تو بہت بڑی تعداد میں مگر ہندوؤں، عیسائیوں ،سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں سے بھی اس قدر لوگ واقف ہو جائیں گے کہ پھر حالات کو بگاڑ کر اعتراض کرنے کی کسی کو بہت کم جرات ہو سکے گی اور اگر کوئی اعتراض کرے گا بھی تو اس کے ہم مذہب ہی اس کی تردید کر دیں گے.

Page 18

سيرة النبي علي 8 جلد 3 اس بات کو مد نظر رکھ کر 20 جون کی تاریخ ایسے جلسوں کے لئے مقرر کی گئی تھی.اس کے متعلق بعض کو یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ 20 جون کو محرم کی پہلی تاریخ ہوگی اور اس وجہ سے شیعہ اصحاب پورے طور پر اس تحریک میں حصہ نہ لے سکیں گے.تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سوال سنیوں کے دل میں پیدا ہوا ہے شیعوں میں پیدا نہیں ہوا.حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی ایسے اصحاب نے اپنے نام لکھائے ہیں جو شیعہ ہیں اور کئی شیعہ اصحاب ایسے ہیں جنہوں نے نہ صرف لیکچر دینے کی ذمہ داری لی ہے بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ جلسہ کو کامیاب بنانے کی پوری پوری کوشش کریں گے.تو بظاہر حالات معلوم نہیں ہوتے کہ شیعہ اصحاب کو اس تاریخ سے اختلاف ہوا اور خصوصاً جس فرقہ کی بنیاد محبتِ رسول اور محبتِ آلِ رسول پر ہو اس کے متعلق سمجھ میں نہیں آتا اسے الله رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار سے اس لئے صدمہ پہنچے کہ اس دن محرم شروع ہوگا.شیعہ اصحاب محرم میں جس بات سے صدمہ محسوس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگ ان دنوں میں خوشیاں منائیں.مگر یہ جلسے نہ تو رسول کریم ﷺ کی پیدائش پر خوشی منانے کے لئے ہوں گے نہ اور کسی قسم کی خوشی کے اظہار کے لئے بلکہ یہ تو علمی جلسے ہوں گے اور ان میں رسول کریم علی کی حقیقی شان دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی.آپ کی زندگی کے صحیح حالات سنائے جائیں گے.اور ان دنوں میں شیعہ اصحاب کی طرف سے بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ حضرت امام حسین اور دوسرے شہیدانِ کربلا کے حالات سے لوگوں کو واقف کریں.گویا ان ایام میں وہ بھی اہل بیت کے تاریخی حالات کو تازہ کرتے اور لوگوں کو سناتے ہیں.پھر جن کے ذریعہ اہل بیت کو ساری عزت اور توقیر حاصل ہوئی ان کا ذکر ہو تو اس پر شیعوں کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے.لیکن ایک اور مشکل ضرور ہے اور وہ یہ کہ چونکہ محرم کے ایام میں بعض جگہ فساد ہو جاتا ہے اس لئے محرم کی ان تاریخوں میں گورنمنٹ کی طرف سے بعض جگہ جلسے وغیرہ کرنے کی ممانعت ہو جاتی ہے.اس دقت کو دیکھتے ہوئے یہی مناسب سمجھا گیا

Page 19

سيرة النبي علي 9 جلد 3 ہے کہ جس جلسہ کی تجویز ہے وہ محرم سے پہلے کر لیا جائے اور اس کے لئے 17 جون کا دن مقرر کیا جاتا ہے جبکہ اتوار ہو گا اور چھٹی ہونے کی وجہ سے اس دن کسی کے لئے جلسہ میں شامل ہونے میں رکاوٹ نہ ہوگی.اور اگر محرم میں جلسہ ہونے کی وجہ سے کسی کے جذبات کو صدمہ پہنچ سکتا تھا تو اب اسے بھی صدمہ نہیں پہنچے گا اور وہ شامل ہو سکے گا.چونکہ اس جلسہ کی غرض یہ ہے کہ سارے مسلمان مل کر ان لوگوں کو جو رسول کریم کی ذات پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں یہ بتا دیں کہ ہم ایسے اعتراضوں سے بدظن نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کے والا و شیدا ہیں اس لئے تمام مسلمانوں کو ان جلسوں میں پوری کوشش سے شریک ہونا چاہئے اور انہیں کامیاب بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا چاہئے.پس آج ایک اعلان تو میں یہ کرتا ہوں کہ مجوزہ جلسے 20 جون کو نہیں بلکہ 17 جون کو ہوں گے.اس بات کی اطلاع سب دوستوں کو دے دی جائے اور ہر جگہ یہ اعلان کر دیا جائے.میں نے دفتر ڈاک میں بھی کہہ دیا ہے کہ ہر خط جو لکھا جائے اس میں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ جلسہ 20 جون کی بجائے 17 جون کو ہوگا اور دوست بھی جہاں جہاں خط لکھیں یہ اطلاع دے دیں.دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ ایسے جلسہ کے لئے کیوں نہیں رسول کریم نے کی پیدائش کا دن منتخب کیا گیا جب کہ اس دن پہلے سے مجالس میلاد منعقد کی جاتی ہیں.میں اس سوال کا جواب پہلے بھی دے چکا ہوں مگر اب چونکہ یہ پھر اٹھایا گیا ہے اس لئے پھر دے دیتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ یہ جلسہ کوئی ہماری مذہبی تقریب نہیں ہے اگر بر ہماری مذہبی تقریب ہوتی تو اس کے لئے ہم سب فرقوں کے مسلمانوں کو دعوت نہ دیتے.مثلاً جن لوگوں کے نزدیک نذریں نیازیں دینا مذہبی تقریب ہے وہ خود تو نیازیں دیں گے اور ان کی خوبیاں بیان کر کے دوسروں کو بھی ان کا قائل کرنے کی کوشش کریں گے مگر یہ نہیں ہوگا کہ کسی اہل حدیث مولوی صاحب کو دعوت دیں کہ آؤ ہماری نیاز میں شامل ہو جاؤ.اسی طرح ہم مسلمان ہندوؤں یا دوسرے غیر مذاہب صلى الله

Page 20

سيرة النبي علي 10 جلد 3 کے لوگوں کو اسلام کی خوبیاں بتائیں گے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے مگر کسی ہندو سے یہ نہ کہیں گے کہ آؤ ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ کیونکہ جب تک عقیدہ نہ بدل جائے مذہبی تقریبوں میں شامل ہونے کے لئے نہیں کہا جا سکتا.اسی طرح یہ ہماری کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے بلکہ علمی تقریب ہے.رسول کریم ﷺ کی شان اور رتبہ سے واقف کرنے کے لئے جلسے کئے جائیں گے اس لئے ضروری ہے کہ ایسا دن تجویز کیا جائے جس میں کسی کو اختلاف نہ ہو.رسول کریم ﷺ کی پیدائش کے دن جو جلسے کئے جاتے ہیں بعض لوگوں کی روزی کا ان پر مدار ہے وہ اس موقع پر تقریریں کرتے ہیں اور لوگ انہیں کچھ دے دیتے ہیں.اب اگر اس موقع پر اور لیکچرار تقریریں کریں گے تو ان لوگوں کی آمدنی میں فرق آ جائے گا.ممکن ہے کہ ان میں ایسے مخلص ہوں جو رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کے مقابلہ میں اپنی آمدنی کی پرواہ نہ کریں اور جو لوگ آپ کی شان کے متعلق تقریریں کرنا چاہیں ان کی تقریریں کرائیں مگر سارے کے سارے ایسے نہیں ہو سکتے اور اپنی آمدنی کے خیال سے مخالفت کریں گے اس وجہ سے وہ موقع مناسب نہیں سمجھا گیا.پھر ان مجالس میں خاص خاص باتیں بیان کی جاتی ہیں اور ایسے معجزے بیان کئے جاتے ہیں جنہیں کئی محقق تسلیم نہیں کرتے اور ان باتوں سے ہندوؤں وغیرہ کو کوئی فائدہ بھی نہ ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہو گا.مثلاً اگر ان مجالس میں ایسی باتوں پر زور ہو کہ گوہ نے آکر رسول کریم ﷺ سے باتیں کیں، درختوں اور پتھروں نے آپ کو سجدہ کیا تو ان سے غیر مسلم لوگ کچھ فائدہ نہ اٹھائیں گے کیونکہ ان سے بڑھ کر باتیں ان کے ہاں موجود ہیں.ان پر جن باتوں کا اثر ہو سکتا ہے وہ یہ ہیں کہ آپ کی ذات کیسی اعلی درجہ کی پاک تھی اور آپ نے کس طرح لوگوں کو پاک کیا.آپ پر لوگوں نے کیا کیا زیادتیاں کیں اور آپ نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا طریق اختیار کئے اور کس طرح تقویٰ پر قائم رہے.آپ نے دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے خود کیا کیا P

Page 21

سيرة النبي عمال 11 جلد 3 تکالیف برداشت کیں.اس قسم کی باتیں بیان کرنے سے ہندو اور دوسرے غیر مسلم لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.لیکن مجالس میلاد میں جس قسم کے وعظ کئے جاتے ہیں ان کا چھڑانا مشکل ہے.اور اگر ان مجالس میں صرف مسلمان ہی ہوں تو غیر مذاہب والے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے اس وجہ سے اس موقع کو ایسے لیکچروں کے لئے منتخب نہیں کیا گیا.پھر ایک اور بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے فرقے ہیں جو میلا د کو عبادت سمجھتے ہیں اور اس میں ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ ان کے نزدیک کھڑا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی کھڑا نہ ہو تو اسے اپنے مذہب کی ہتک سمجھتے ہیں.مگر کئی فرقے ایسے ہیں جو کھڑا ہونا ضروری نہیں سمجھتے جیسے اہلحدیث اور ہم احمدی.اگر ایسا جلسہ ہو اور اس میں اہلحدیث یا احمدی کھڑے نہ ہوں تو دوسرے لوگ برا منائیں گے اور اگر کھڑے ہو جائیں تو اپنے اصل کے خلاف کریں گے اور اس طرح تفرقہ پیدا ہو کر ممکن ہے لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جائے.ان وجوہات کے ماتحت میں نے ضروری سمجھا کہ اس قسم کا جلسہ میلاد کے دن نہ ہو بلکہ کسی دوسرے موقع پر ہو، تاکہ سارے مسلمان مل کر اس میں حصہ لے سکیں اور ان مولویوں کے لئے بھی مخالفت کی کوئی وجہ نہ ہو جو میلاد کے دن وعظ کرنا اپنا خاص حق سمجھتے ہیں.اس تشریح کے بعد کہ کیوں میلاد کے دن کو اس جلسہ کے لئے منتخب نہیں کیا گیا اور یہ بتا دینے کے بعد کہ تاریخ بدل دی گئی ہے دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صرف لیکچروں کی تیاری کے لئے نام دے دینا کافی نہیں ہے.یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور جب تک کسی بات کے متعلق پرو پیگنڈا نہ ہو اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی.اس وقت تک ایسے دوست تو بہت سے ہیں جنہوں نے لیکچروں کی تیاری کے لئے اپنے نام دیئے ہیں مگر اس بات کی ذمہ داری بہت کم لوگوں نے اٹھائی ہے کہ وہ اپنے ہاں اور ارد گرد کے دیہاتوں میں جلسے کرنے کے لئے لوگوں کو تیار کریں گے.چونکہ یہ بھی نہایت ضروری بات ہے اس لئے اس کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.اس وقت

Page 22

سيرة النبي عمال 12 جلد 3 ضرورت ہے ایسے احباب کی جو اس بات کا ذمہ لیں کہ وہ ایک ایک یا دو دو یا تین تین گاؤں میں جلسے کرائیں گے.اور ان کو اس کے لئے بعض ترکیبوں سے کام لینا چاہئے.مثلاً انہیں ایسے اصحاب کو جلسہ کے لئے صدر تجویز کر لینا چاہئے جن کے صدر ہونے میں لوگوں کو دلچسپی ہو.اور لوگوں کو کسی کے متعلق دلچپسی مختلف چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کے لئے جو جلسے ہوں ان میں مسلمانوں کو بغیر اس خیال کے کہ کون پریذیڈنٹ ہوتا ہے یا کون نہیں ہوتا شریک ہونا چاہئے مگر افسوس ہے تعلیم کی کمی کی وجہ سے ابھی مسلمانوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی اور سارے لوگ ایسے نہیں ہوں گے جو ان جلسوں میں پوری پوری دلچسپی لے کر اور شوق کا اظہار کر کے دنیا کو بتا دیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ایسی فدائی ہیں کہ دنیا ہمیں کسی طرح بھی آپ سے جدا نہیں کر سکتی.اس لئے ضرورت ہے کہ لوگوں کو ان جلسوں کی اہمیت بتانے کی کوشش کی جائے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کثرت سے کسی بات کے متعلق اشتہار دیئے جائیں تو اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں بار بار جو اس کے لئے بلایا جاتا ہے تو ضرور اس میں کوئی بات ہو گی.ایسے لوگ محض اعلان ، ڈھنڈورہ اور اشتہارات سے متاثر ہو کر آ جاتے ہیں.پھر کئی اس طرح متاثر ہوتے ہیں کہ اس چیز کی خوبی انہیں بتائی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ 17 جون کے جلسہ سے قبل مختلف محلوں اور مختلف موقعوں پر جلسے کر کے لوگوں کو بتایا جائے کہ کتنے عظیم الشان فوائد اس جلسہ سے مرتب ہو سکتے ہیں.اس کے لئے وہ خطبے سنائے جائیں جو میں نے اس بارے میں پڑھے ہیں.پھر عام لوگوں کو بڑے آدمیوں سے تعلق ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس جلسہ کی صدارت کے لئے ایسے آدمی تجویز کئے جائیں جنہیں لوگوں میں رسوخ اور اثر حاصل ہو ، لوگوں کو ان سے محبت ہو اور وہ لوگوں کے کام آنے والے ، ان کو فوائد پہنچانے والے اور ان سے وابستگی رکھنے والے ہوں.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جسے صدارت کے لئے چنا

Page 23

سيرة النبي علي 13 جلد 3 جائے اس میں اتنی قابلیت ہو کہ جلسہ کا انتظام کر سکے.لوگوں کی توجہ لیکچروں کی طرف قائم رکھ سکے اور تقریروں پر مفید طور پر تنقید کر سکے.اس وجہ سے ابھی سے ایسے لوگوں کا انتخاب شروع کر دینا چاہئے.اسی طرح جلسہ کی جگہ کے لئے بھی ابھی سے انتظام کرنا چاہئے.کئی دفعہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ فلاں جگہ مل جائے گی اور وہاں جلسہ کر لیں گے مگر دریافت کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس دن کسی اور وجہ سے رکی ہوئی ہو گی.اس طرح عین موقع پر بہت مشکل پیش آتی ہے.پس اگر کسی جگہ کسی ہال میں جلسہ کرنے کی تجویز ہو تو ابھی سے اس تاریخ کے لئے ہال کا انتظام کر لینا چاہئے.اور اگر کسی کھلی جگہ جلسہ کرنا ہو تو اس کے لئے بھی ابھی سے اجازت وغیرہ حاصل کر لینی چاہئے.ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وقت پر جگہ کا انتظام نہیں ہوسکتا اور پھر کہا جاتا ہے چلو مسجد وغیرہ میں جلسہ کر لیں اور اس طرح جلسہ کی اصل غرض حاصل نہیں ہو سکتی.اسی طرح اشتہار، اعلان اور ڈھنڈورہ کے متعلق بھی ابھی سے تیاری کرنی چاہئے.پھر یہ بھی ایک دوست کی تحریک ہے جس کی میں نے تصدیق کی ہے کہ جن کے مضامین اعلیٰ رہیں گے ان کو انعام میں سند اور تمغہ دیا جائے گا.اس کے لئے غیر مسلم لوگوں میں تحریک کرنی چاہئے اور ان کو مضمون تیار کرنے کے لئے کہنا چاہئے.اس وقت تک اس طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.اس کے متعلق درجن ڈیڑھ درجن کے قریب نام آئے ہیں جنہوں نے مضمون لکھنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے مگر یہ بہت تھوڑی تعداد ہے.برہمو سماج والے جب اپنے لیڈر کی پیدائش کا دن مناتے ہیں تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی لیکچر دینے کے لئے بلا لیتے اور ان سے لیکچر دلاتے ہیں.اگر مسلمان کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ رسول کریم علی جیسے انسان کے متعلق لیکچر دینے کے لئے دوسرے مذاہب کے لوگ تیار نہ ہو جائیں.اس کام کے لئے اچھے سے اچھے لیکچرار تیار ہو سکتے ہیں.بات یہ ہے کہ ہر قوم میں شریف ہوتے ہیں جو اپنی شرافت کے اظہار کے لئے موقع ڈھونڈتے ہیں.اسی طرح ہندوؤں اور عیسائیوں

Page 24

سيرة النبي عليه 14 جلد 3 صل الله صلى الله میں ایسے لوگ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھا ئیں مگر انہیں اس کے لئے کوئی موقع نہیں ملتا.اب یہ جلسے ان کے الله لئے موقع ہوگا اور وہ رسول کریم ﷺ کے حالات زندگی بیان کر کے آپ کی خوبیاں ظاہر کر سکیں گے اور جتنا لطف غیر مذاہب کے لوگوں کی طرف سے رسول کریم ﷺ کی خوبیوں کے اظہار پر آئے گا اتنا اپنوں کی طرف سے اظہار پر نہ آئے گا.ان کے لئے انعام بھی مقرر کیا گیا ہے.احباب ان کو تیار کرنے کی کوشش کریں.یہ بہت مفید کوشش ہوگی.اور پھر جب ان مضامین کی کتاب چھپ جائے گی جس میں ہندوؤں، سکھوں ، عیسائیوں، یہودیوں اور پارسیوں وغیرہ کے مضامین رسول کریم ع کی شان میں ہوں گے تو وہ کتاب غیر مسلموں پر اثر ڈالنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوگی.مگر اس طرف ابھی تک بہت کم توجہ کی گئی ہے حالانکہ دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.مدراس، بمبئی ، برار کے لوگوں نے بہت ہی کم توجہ کی ہے بلکہ یو.پی اور بہار میں بھی توجہ میں بہت کمی ہے.بنگال کا نام میں اس لئے نہیں لیتا کہ وہاں کے دوستوں نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ اس علاقہ میں جلسے کرائیں گے.بنگال کے احباب پنجاب اور صوبہ سرحد کے بعد عمدگی اور ہوشیاری سے کام کرنے کے لحاظ سے اپنا درجہ رکھتے ہیں اس لئے گو انہیں خود توجہ ہے مگر میں پھر کہوں گا وہ اپنی طرف سے پوری کوشش جاری رکھیں.پنجاب اور صوبہ سرحد کے احباب اگر چہ بہت جوش اور سرگرمی سے کام لے رہے ہیں لیکن چونکہ سب سے بڑی ذمہ داری انہی پر ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پنجاب میں پیدا ہوئے اور جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اُس وقت صوبہ سرحد پنجاب سے جدا نہ تھا بلکہ پنجاب کے ساتھ ہی تھا اس علاقہ کو اب بھی ہم پنجاب سے جدا نہیں سمجھتے اس لئے پنجاب کے ساتھ ہی صوبہ سرحد کے دوستوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے.چونکہ وقت بہت کم رہ گیا ہے اس لئے دوست اس بات کا انتظار نہ کریں کہ اس بارے میں اور اعلان کئے جائیں گے اور ان کو پڑھ کر وہ کوشش کریں گے.وہ

Page 25

سيرة النبي متر 15 جلد 3 خود بخود کوشش کریں اور دور دور تک اس جلسہ کی تحریک کو پھیلا دیں یہاں تک کہ ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جہاں یہ تحریک نہ پہنچے اور کوئی آدمی ایسا نہ رہے جس تک یہ بات نہ پہنچ جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.آمین (الفضل 4 مئی 1928ء)

Page 26

سيرة النبي علي 16 جلد 3 عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبی رسول کریم ﷺ کی سیرت اور شان کے حوالہ سے 12 جون 1928 ء کو الفضل کا ایک ضخیم خاتم النبیین نمبر شائع ہوا.یہ نمبر ممتاز علمائے سلسلہ،مشہور غیر از جماعت زعماء اور غیر مسلموں کے مضامین پر مشتمل تھا.ادارہ الفضل کی خواہش پر اس خاص نمبر کے لئے حضرت مصلح موعود نے درج ذیل مضمون رقم فرمایا:.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی الفضل کے خاص نمبر کے لئے مضمون لکھوں.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نمبر میں جو رسول کریم علیہ کے اعلیٰ درجہ اور ارفع شان کے اظہار کے لئے شائع ہونے والا ہے مضمون لکھنا ایک ثواب کا کام ہے.پس با وجود اس کے کہ ان دنوں میں سخت عدیم الفرصت ہوں اور پھر ساتھ ہی بیمار بھی ، ایک مختصر سا مضمون لکھنا ضروری سمجھتا ہوں.رسول کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ایسا شاندار ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ میں کس پہلو کو اختیار کروں اور کس کو چھوڑوں.اور انتخاب کی آنکھ خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے لیکن میں اس زمانہ کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مضمون کے لئے آپ کی زندگی کے احسن حصہ کو لیتا ہوں کہ کس طرح آپ نے دنیا کو اس غلامی سے نجات دلائی ہے جو ہمیشہ سے دنیا کے گلے کا ہار ہو رہی تھی اور وہ عورتوں کی غلامی

Page 27

سيرة النبي علي 17 جلد 3 ہے.رسول کریم ﷺ کی آمد سے پہلے عورتیں ہر ملک میں غلام اور مملوک کی طرح تھیں اور ان کی غلامی مردوں پر بھی اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ لونڈیوں کے بچے آزادی کی روح کو کامل طور پر جذب نہیں کر سکتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ سے عورت اپنی خوبصورتی یا خوب سیرتی کے زور سے بعض مردوں پر حکومت کرتی چلی آئی ہے لیکن یہ آزادی حقیقی آزادی نہ تھی کیونکہ یہ بطور حق کے حاصل نہ تھی بلکہ بطور استثنا کے تھی اور ایسی استثنائی آزادی کبھی صحیح جذبات کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہوسکتی.الله رسول کریم ﷺ کی بعثت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے ہوئی ہے اُس وقت تک کسی مذہب اور قوم میں عورت کو ایسی آزادی حاصل نہ تھی کہ اسے بطور حق کے وہ استعمال کر سکے.بے شک بعض ملک جہاں کوئی بھی قانون نہ تھا وہ ہر قسم کی قیود سے آزاد تھے لیکن اسے بھی آزادی نہیں کہا جا سکتا، اسے آوارگی کہا جائے گا.آزادی وہ ہے جو تمدن اور تہذیب کے قواعد کو پورا کرتے ہوئے حاصل ہو.ان قواعد کو توڑ کر جو حالت پیدا ہو وہ آزادی نہیں کہلا سکتی کیونکہ وہ بلند ہمتی پیدا کرنے کا موجب نہیں بلکہ پست ہمتی پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اور اس سے قبل عورت کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی جائیداد کی مالک نہ تھی، اس کا خاوند اس کی جائیداد کا مالک سمجھا جاتا تھا.اسے اس کے باپ کے مال میں سے حصہ نہ دیا جاتا تھا.وہ اپنے خاوند کے مال کی بھی وارث نہیں سمجھی جاتی تھی گو بعض ملکوں میں اس کی حین حیات وہ اس کی متولی رہتی تھی.اس کا نکاح جب کسی مرد سے ہو جاتا تھا تو یا تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کی قرار دے دی جاتی تھی اور کسی صورت میں اس سے علیحدہ نہیں ہو سکتی تھی اور یا پھر اس کے خاوند کو تو اختیار ہوتا تھا کہ اسے جدا کر دے لیکن اسے اپنے خاوند سے جدا ہونے کا کوئی حق حاصل نہ تھا، خواہ اسے کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو.خاوند اگر اس کو چھوڑ دے اور اس سے

Page 28

سيرة النبي عمال 18 جلد 3 سلوک نہ رکھے یا کہیں بھاگ جائے تو اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی قانون مقرر نہ تھا.اس کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اور اپنے آپ کو لے کر بیٹھی رہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو بھی پالے اور بچوں کو بھی پالے.خاوند کا اختیار سمجھا جاتا تھا کہ وہ ناراض ہو کر اسے مار پیٹ لے اور اس کے خلاف وہ آواز نہیں اٹھا سکتی تھی.اگر خاوند فوت ہو جائے تو بعض ملکوں میں وہ خاوند کے رشتہ داروں کی ملکیت سمجھی جاتی تھی.وہ جس سے چاہیں اس کا رشتہ کر دیں خواہ بطور احسان کے یا قیمت لے کر بلکہ بعض جگہ وہ خاوند کی جائیداد سمجھی جاتی تھی.بعض خاوند بیویوں کو فروخت کر دیتے تھے یا جوئے اور شرطوں میں ہار دیتے تھے اور وہ بالکل اپنے اختیارات کے دائرہ میں سمجھے جاتے تھے.عورت کا بچوں پر کوئی اختیار نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند سے زوجیت کی صورت میں نہ اس سے علیحدگی کی صورت میں.عورت گھر کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی اور دین میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کوئی درجہ نہیں رکھتی.دائمی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خاوند عورتوں کی جائیداد کو اڑا دیتے تھے اور اس کو بغیر کسی گزارہ کے چھوڑ دیتے تھے.وہ بیچاری اپنے مال میں سے صدقہ خیرات یا رشتہ داروں کی خدمت کرنے کی مجاز نہ تھی جب تک کہ خاوند کی مرضی نہ ہو اور وہ خاوند جس کے دانت اس کی جائیداد پر ہوتے تھے کبھی اس معاملہ میں راضی نہ ہوتا تھا.ماں باپ جن کا نہایت ہی گہرا اور محبت کا رشتہ ہے ان کے مال سے وہ محروم کر دی جاتی تھی حالانکہ جس طرح لڑکے ان کی محبت کے حقدار ہوتے ہیں اسی ج لڑکیاں ہوتی ہیں.جو ماں باپ اس نقص کو دیکھ کر اپنی لڑکیوں کو اپنی زندگی میں کچھ دے دیتے تھے ان کے خاندانوں میں فساد پڑ جاتا تھا کیونکہ لڑکے یہ تو نہ سوچتے تھے کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد وہ ان کی سب جائیداد کے وارث ہوں گے ہاں یہ ضرور محسوس کرتے تھے کہ ان کے ماں باپ ان کی نسبت لڑکیوں کو زیادہ دیتے ہیں.اسی طرح خاوند جس سے کامل اتحاد کا رشتہ ہوتا تھا اس کے مال سے بھی اسے محروم رکھا

Page 29

سيرة النبي عمال 19 جلد 3 جاتا.خاوند کے دور دور کے رشتہ دار تو اس کی جائیداد کے وارث ہو جاتے اور وہ عورت جو اس کی محرم راز اور عمر بھر کی ساتھی ہوتی جس کی محنت اور جس کے کام کا بہت سا دخل خاوند کی کمائی میں تھا وہ اس کی جائیداد سے محروم کر دی جاتی تھی.یا پھر وہ خاوند کی ساری ہی جائیداد کی نگران قرار دے دی جاتی لیکن وہ اس کے کسی حصہ میں تصرف سے محروم تھی.وہ اس کی آمد کو تو خرچ کر سکتی تھی لیکن اس کے کسی حصہ کو استعمال نہیں کر سکتی تھی اور اس طرح بہت سے صدقات جاریہ میں اپنی خواہش کے مطابق حصہ لینے سے محروم رہتی تھی.خاوند اس پر خواہ کس قدر ہی ظلم کرے وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی تھی یا جن قوموں میں جدا ہو سکتی تھی ایسی شرائط پر کہ بہت سی شریف عورتیں اس جدائی سے موت کو ترجیح دیتی تھیں.مثلاً جدائی کی یہ شرط تھی کہ خاوند یا عورت کی بدکاری ثابت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ظلم بھی ثابت کیا جائے.اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ بہت سی صورتوں میں جب عورت کا خاوند کے ساتھ رہنا ناممکن ہوتا تھا تو اسے کامل طور پر جدا کرنے کی بجائے صرف علیحدہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا جو خود ایک سزا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنی زندگی کو بے مقصد بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے.یا پھر یہ ہوتا تھا کہ خاوند جب چاہے عورت کو جدا کر دے لیکن عورت کو اپنی علیحدگی کا مطالبہ کرنے کا کسی صورت میں اختیار نہ تھا.اگر خاوند اسے معلّقہ چھوڑ دیتا یا ملک چھوڑ جاتا اور خبر نہ لیتا تو عورت کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اس کا انتظار عمر بھر کرتی رہے اور اسے اپنی عمر کو ملک اور قوم کے لئے مفید طور پر بسر کرنے کا اختیار نہ تھا.شادی کی زندگی بجائے آرام کے اس کے لئے مصیبت بن جاتی تھی.اس کا کام ہوتا کہ وہ خاوند اور بیوی دونوں کا کام بھی کرے اور خاوند کا انتظار بھی کرے.خاوند کا فرض یعنی گھر کے اخراجات کے لئے کمانا بھی اس کے سپرد ہو جاتا اور عورت کی ذمہ داری کہ بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش کرے یہ بھی اس کے سپر درہتا.ایک طرف قلبی تکلیف دوسری طرف مادی ذمہ داریاں.یہ سب اس بے کس جان کے لئے روا رکھی

Page 30

سيرة النبي علي 20 جلد 3 جاتی تھیں.عورتوں کو مارا پیٹا جاتا اور اسے خاوند کا جائز حق تصور کیا جاتا.خاوندوں کے مرنے کے بعد عورتوں کا زبر دستی خاوند کے رشتہ داروں سے نکاح کر دیا جاتا تھایا اور کسی شخص کے پاس قیمت لے کر بیچ دیا جاتا بلکہ خاوند خود اپنی عورتوں کو بیچ ڈالتے.پانڈوں جیسے عظیم الشان شہزادوں نے اپنی بیوی کو جوئے میں ہار دیا اور ملک کے قانون کے سامنے دروپدی 1 جیسی شریف شہزادی اُف نہ کر سکی.بچوں کی تعلیم یا پرورش میں ماؤں کی رائے نہ لی جاتی تھی اور ان کا بچوں پر کوئی حق نہ تسلیم کیا جاتا تھا.اگر ماں اور باپ میں جدائی واقع ہو تو بچوں کو باپ کے سپر د کیا جاتا تھا.عورت کا گھر سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کی زندگی میں نہ بعد.جب چاہتا خاوند اسے گھر سے نکال دیتا تھا اور وہ بے خانماں ہو کر اِدھر اُدھر پھرتی رہتی.رسول کریم ﷺ کے ذریعہ سے ان سب ظلموں کو یک قلم مٹا دیا گیا.آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے عورتوں کے حقوق کی نگہداشت خاص طور پر سپرد فرمائی ہے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ مرد اور عورت بلحاظ انسانیت برابر ہیں اور جب وہ مل کر کام کریں تو جس طرح مرد کو بعض حقوق عورت پر حاصل ہوتے ہیں اسی طرح عورت کو مرد پر بعض حقوق حاصل ہوتے ہیں.عورت اسی طرح جائیداد کی مالک ہو سکتی ہے جس طرح مرد ہو سکتا ہے اور خاوند کا کوئی حق نہیں کہ عورت کے مال کو استعمال کرے جب تک کہ عورت خوشی سے بطور ہد یہ اسے کچھ نہ دے.اس سے جبراً مال لینا یا اس طرح لینا کہ شبہ ہو کہ عورت کی حیا انکار سے مانع رہی ہے نادرست ہے.خاوند بھی جو کچھ بطور ہدیہ اسے دے وہ عورت کا ہی مال ہوگا اور خاوند اسے واپس نہیں لے سکے گا.وہ اپنی ماں اور اپنے باپ کے مال کی اسی طرح وارث ہو گی جس طرح کہ بیٹے اپنے ماں باپ کے وارث ہوتے ہیں.ہاں چونکہ خاندانی ذمہ داریاں مرد پر ہوتی ہیں اور عورت پر صرف اپنی ذات کا بار ہوتا ہے اس لئے اسے مرد سے آدھا حصہ ملے گا.اسی طرح ماں بھی اپنے بیٹے کے مال سے اسی طرح حصہ

Page 31

سيرة النبي عمار 21 جلد 3 پائے گی جس طرح باپ.گو مختلف حالات اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے کبھی باپ کے برابر اور کبھی کم حصہ اسے ملے گا.وہ اپنے خاوند کے مرنے پر اس کے مال کی بھی وارث ہو گی خواہ اولا د ہو یا نہ ہو کیونکہ اسے دوسرے کا دست نگر نہیں بنایا جا سکتا.اس کی شادی بے شک ایک پاک اور مقدس عہد ہے جس کا توڑنا بعد اس کے کہ مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے انتہائی بے تکلفی پیدا کر لی نہایت معیوب ہے لیکن یہ نہیں کہ اگر عورت اور مرد کی طبیعت میں خطر ناک اختلاف ثابت ہو یا مذہبی، جسمانی ، مالی، تمدنی طبعی مغائرت کے باوجود انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اس عہد کی خاطر اپنی عمر کو برباد کر دیں اور اپنی پیدائش کے مقصد کو کھو دیں.جب ایسے اختلافات پیدا ہو جائیں اور مرد اور عورت متفق ہوں کہ اب وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تو وہ اس معاہدہ کو بہ رضا مندی باطل کر دیں.اور اگر مرد اس خیال کا ہو اور عورت نہ ہو تو آپس میں اگر کسی طرح سمجھوتہ نہ ہو سکے تو ایک پنچایت ان کے درمیان فیصلہ کرے.جس کے دو ممبر ہوں ایک مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے.پھر اگر وہ فیصلہ کریں کہ ابھی عورت اور مرد کو اور کچھ مدت مل کر رہنا چاہئے تو چاہئے کہ ان کے بتائے ہوئے طریق پر مرد اور عورت مل کر رہیں.لیکن جب اس طرح بھی اتفاق نہ پیدا ہو تو مرد عورت کو جدا کر سکتا ہے.لیکن اس صورت میں اس نے جو مال اسے دیا ہے وہ اسے واپس نہیں لے سکتا بلکہ مہر بھی اسے پورا ادا کرنا ہو گا.برخلاف اس کے اگر عورت مرد سے جدا ہونا چاہے تو وہ قاضی سے درخواست کرے.اور اگر قاضی دیکھے کہ کوئی بداخلاقی کا محرک اس کے پیچھے نہیں ہے تو وہ اسے اس کی علیحدگی کا حکم دے اور اس صورت میں اسے چاہئے کہ خاوند کا ایسا مال جو اس کے پاس محفوظ ہو یا مہرا سے واپس کر دے.اور اگر عورت کا خاوند اس کے حقوق مخصوصہ کو ادا نہ کرے یا اس سے کلام وغیرہ چھوڑ دے یا اس کو الگ سلائے تو اس کی مدت مقرر ہونی چاہئے.اور اگر وہ چار ماہ سے زائد اس کام کا مرتکب ہو تو اسے مجبور کیا جائے کہ یا اصلاح کرے یا طلاق دے.اور اگر وہ

Page 32

سيرة النبي عليه 22 جلد 3 اس کو خرچ وغیرہ دینا بند کر دے یا کہیں چلا جائے اور اس کی خبر نہ لے تو اس کا نکاح فسخ قرار دیا جائے ( تین سال تک کی مدت فقہائے اسلام نے بیان کی ہے ) اور اسے آزاد کیا جائے کہ وہ دوسری جگہ نکاح کر لے.اور ہمیشہ خاوند کو اپنی بیوی اور بچوں کے خرچ کا ذمہ دار قرار دیا جائے.خاوند کو اپنی بیوی کو مناسب تنبیہ کا اختیار ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ تنبیہ سزا کا رنگ اختیار کرے تو اس پر لوگوں کو گواہ مقرر کرے اور جرم کو ظاہر کرے اور گواہی پر اس کی بنیاد رکھے اور سزا ایسی نہ ہو جو دیر پا اثر چھوڑ نے والی ہو.خاوند اپنی بیوی کا مالک نہیں ، وہ اسے بیچ نہیں سکتا نہ اسے خادموں کی طرح رکھ سکتا ہے.اس کی بیوی اس کے کھانے پینے میں اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کے ساتھ سلوک اپنی حیثیت کے مطابق اسے کرنا ہو گا اور جس طبقہ کا خاوند ہے اس سے کم سلوک اسے جائز نہ ہوگا.خاوند کے مرنے کے بعد اس کے رشتہ داروں کو بھی اس پر کوئی اختیار نہیں.وہ آزاد ہے ، نیک صورت دیکھ کر اپنا نکاح کر سکتی ہے، اس سے اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں.نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خاص جگہ پر رہے.صرف چار ماہ دس دن تک اسے خاوند کے گھر ضرور رہنا چاہئے تا اُس وقت تک وہ تمام حالات ظاہر ہو جائیں جو اس کے اور خاوند کے دوسرے متعلقین کے حقوق پر اثر ڈال سکتے ہیں.عورت کو اس کے خاوند کی وفات کے بعد سال بھر تک علاوہ اس کے ذاتی حق کے خاوند کے مکان میں سے نہیں نکالنا چاہئے تا اس عرصہ میں وہ اپنے حصہ سے اپنی رہائش کا انتظام کر سکے.خاوند بھی ناراض ہو تو خود گھر سے الگ ہو جائے عورت کو گھر سے نہ نکالے کیونکہ گھر عورت کے قبضہ میں سمجھا جاتا ہے.بچوں کی تربیت میں عورت کا بھی حصہ ہے.اس سے مشورہ لے لینا چاہئے اور اسے بچہ کے متعلق کوئی تکلیف نہیں دینی چاہئے.دودھ پلوانے ، نگرانی وغیرہ بچہ کے متعلق تمام امور میں اس سے پوچھ لینا چاہئے.اور اگر عورت اور مرد آپس میں نبھاؤ کو ناممکن پا کر جدا ہونا چاہیں تو چھوٹے بچے ماں ہی کے پاس رہیں.ہاں جب

Page 33

سيرة النبي علي 23 جلد 3 بڑے ہو جائیں تو تعلیم وغیرہ کے لئے باپ کے سپر د کر دیے جائیں.جب تک بچے ماں کے پاس رہیں ان کا خرچ باپ دے بلکہ ماں کو ان کے لئے جو وقت خرچ کرنا پڑے اور کام کرنا پڑے تو اس کی بھی مالی مدد خاوند کو کرنی چاہئے.عورت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور دینی انعامات بھی وہ ہر قسم کے پاسکتی ہے.مرنے کے بعد بھی وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات پائے گی اور اس دنیا میں بھی حکومت کے مختلف شعبوں میں وہ حصہ لے سکتی ہے.اور اس صورت میں اس کے حقوق کا ویسا ہی خیال رکھا جائے گا جس طرح کہ مردوں کے حقوق کا.یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے اُس وقت دی جب اس کے بالکل برعکس خیالات دنیا میں رائج تھے.آپ نے ان احکام کے ذریعہ عورت کو اس غلامی سے آزاد کرا دیا جس میں وہ ہزاروں سال سے مبتلا تھی.جس میں وہ ہر ملک میں پابند کی جاتی تھی.جس کا طوق ہر مذہب اس کی گردن میں ڈالتا تھا.ایک شخص نے ایک ہی وقت میں ان دیرینہ قیود کو کاٹ دیا اور دنیا بھر کی عورتوں کو آزاد کر دیا.اور ماؤں کو آزاد کر کے بچوں کو بھی غلامی کے خیالات سے محفوظ کر لیا اور اعلیٰ خیالات اور بلند حوصلگی کے جذبات کے ابھرنے کے سامان پیدا کر دیے.مگر دنیا نے اس خدمت کی قدر نہ کی.اس نے وہی بات جو احسان کے طور پر تھی اسے ظلم قرار دیا.طلاق اور خلع کو فساد قرار دیا، ورثہ کو خاندان کی بربادی کا ذریعہ، عورت کے مستقل حقوق کو خانگی زندگی کو تباہ کرنے والا.اور وہ اسی طرح کرتی چلی گئی اور کرتی چلی گئی اور تیرہ سو سال تک وہ اپنی نابینائی سے اس بینا کی باتوں پر ہنستی چلی گئی اور اس کی تعلیم کو خلاف اصول فطرت قرار دیتی چلی گئی.یہاں تک کہ وقت آگیا کہ خدا کے کلام کی خوبی ظاہر ہو اور جو تہذیب و شائستگی کے دعویدار تھے وہ رسول کریم مے کے تہذیب سکھانے والے احکام کی پیروی کریں.ان میں سے ہر ایک حکومت ایک ایک کر کے اپنے قوانین کو بدلے اور رسول کریم ﷺ کے بتائے

Page 34

سيرة النبي علي 24 جلد 3 ہوئے اصول کی پیروی کرے.انگریزی قانون جو طلاق اور خلع کے لئے کسی ایک فریق کی بدکاری اور ساتھ ہی ظلم اور مار پیٹ کو لازمی قرار دیتا تھا 1923 ء میں بدل دیا گیا اور صرف بدکاری بھی طلاق اور خلع کا موجب تسلیم کر لی گئی.نیوزی لینڈ میں 1912ء میں فیصلہ کر دیا گیا کہ سات سالہ پاگل کی بیوی کا نکاح فتح کیا جا سکتا ہے اور 1925 ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر خاوند یا بیوی عورت اور مرد کے حقوق کو ادا نہ کریں تو طلاق یا خلع ہو سکتا ہے اور تین سال تک خبر نہ لینے پر طلاق کو جائز قرار دیا گیا (بالکل اسلامی فقہاء کی نقل کی ہے مگر تیرہ سو سال اسلام پر اعتراض کرنے کے بعد ) آسٹریلیا کی ریاست کوئینز لینڈ میں پانچ سالہ جنون کو وجہ طلاق تسلیم کر لیا گیا ہے.ٹمانیا میں 1919ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ بدکاری، چار سال تک خبر نہ لینا ، بدمستی اور تین سال تک عدم توجہی ، قید، مار پیٹ اور جنون کو وجہ طلاق قرار دیا گیا ہے.علاقہ وکٹوریا میں 1923 ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ خاوند اگر تین سال خبر نہ لے، بدکاری کرے، خرچ نہ دے یا سختی کرے، قید، مار پیٹ، یا عورت کی طرف سے بدکاری یا جنون یا سختی اور فساد کا ظہور ہو تو طلاق اور ضلع ہوسکتا ہے.مغربی آسٹریلیا میں علاوہ اوپر کے قوانین کے حاملہ عورت کی شادی کو بھی فتح قرار دیا گیا ہے (اسلام بھی اسے ناجائز قرار دیتا ہے ).کیوبا جزیرہ میں 1918ء میں فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ بدکاری پر مجبور کرنا، مار پیٹ، گالی گلوچ ، سزا یافتہ ہونا، بدمستی، جوئے کی عادت، حقوق کا ادا نہ کرنا ، خرچ نہ دینا، متعدی بیماری یا باہمی رضا مندی کو طلاق یا خلع کی کافی وجوہ تسلیم کر لیا گیا ہے.اٹلی میں 1919ء میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ عورت اپنے مال کی مالک ہو گی اور اس میں سے صدقہ خیرات کر سکے گی یا اسے فروخت کر سکے گی (اس وقت تک

Page 35

سيرة النبي عمال 25 جلد 3 یورپ میں عورت کو اس کے مال کا مالک نہیں مانا جاتا تھا) میکسیکو امریکہ میں بھی اوپر کے بیان کردہ وجوہ کو طلاق و خلع کے لئے کافی وجہ تسلیم کر لیا گیا ہے.اور ساتھ ہی باہمی رضا مندی کو بھی اس کے جواز کے لئے کافی سمجھا گیا ہے.یہ قانون 1917ء میں پاس ہوا ہے.پرتگال میں 1915 ء میں، ناروے میں 1909 ء میں، سویڈن میں 1920 ، اور سوئٹزرلینڈ میں 1912 ء میں ایسے قوانین پاس کر دیئے گئے کہ جن سے طلاق اور خلع کی اجازت ہو گئی ہے.سویڈن میں باپ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال تک کی عمر تک بچہ کے اخراجات ادا کرے.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں گو قانون اب تک یہی کہتا ہے کہ بچہ پر باپ کا حق ہے لیکن عملاً اسلامی طریق پر اصلاح شروع ہو گئی اور حج عورت کے احساسات کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں اور مرد کو مجبور کر کے خرچ بھی دلوایا جاتا ہے.لیکن ابھی تک اس قانون میں بہت کچھ خامیاں ہیں گو مرد کے حقوق کی حفاظت زیادہ سختی سے کی گئی ہے.عورت کو اس کے مال پر تصرف بھی دلایا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی بعض ریاستوں میں یہ بھی قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ اگر خاوند اپاہج ہو جائے تو بیوی پر بھی اس کے اخراجات کا مہیا کرنا لازمی ہوگا.عورتوں کو ووٹ کے حقوق دیئے جا رہے ہیں اور ان سے قومی امور میں مشورہ لینے کے لئے بھی راہیں کھولی جا رہی ہیں لیکن یہ سب باتیں رسول کریم ع کے ارشادات کے پورے تیرہ سو سال کے بعد ہوئی ہیں اور ابھی کچھ ہونی باقی ہیں.بہت سے ممالک میں ابھی عورت کو باپ اور ماں اور خاوند کے مال کا وارث نہیں قرار دیا گیا.اور اسی طرح اور کئی حقوق باقی ہیں جن میں اسلام اب بھی باقی دنیا کی راہنمائی کر رہا ہے لیکن ابھی اس نے اس کی راہنمائی کو قبول نہیں کیا.لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب رسول کریم ﷺ کی راہنمائی کو ان معاملات میں بھی دنیا قبول کرے گی جس طرح اس نے اور معاملات میں قبول کیا.اور آپ کا جہاد عورتوں کی آزادی کے

Page 36

سيرة النبي عمال 26 جلد 3 تعلق اپنے پورے اثرات اور نتائج ظاہر کرے گا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - مرزا محمود احمد (الفضل 12 جون 1928ء) :1 دروپدی شہزادی ریاست پنجاب کے راجہ دروپد کی خوبصورت بیٹی جسے سوئمبر میں ارجن جیت کر لایا تھا.ارجن کی ماں کے مشورہ پر وہ پانچ پانڈو بھائیوں کی مشترکہ بیوی بنی.دروپدی کے پانچ شوہروں سے پانچ بیٹے تھے جنہیں مہا بھارت کی جنگ میں کوروں کے جرنیل نے قتل کر دیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 597 مطبوعہ لاہور 1987ء)

Page 37

سيرة النبي علي 27 27 دنیا کا محسن الله 1927ء میں ہندوؤں کی طرف سے ”رنگیلا رسول“ کتاب اور رسالہ ورتمان شائع کر کے رسول کریم علیہ کی شان اقدس میں گستاخی کی انتہا کی گئی.جن کے جواب میں حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کی کئی طریقوں سے راہنمائی فرمائی.ان اہم امور میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ملک بھر میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کے حوالہ سے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں مسلم اور غیر مسلم مقررین ایک دن تقاریر کریں.چنانچہ 17 جون 1928ء کو ملک بھر میں جلسہ ہائے سیرۃ النبی ہوئے.17 جون کو قادیان میں بھی ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا جس سے حضرت مصلح موعود نے درج ذیل خطاب فرمایا :.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ 1 - جلسہ کی غرض آج کا جلسہ اس غرض کے لئے منعقد کیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں وہ رواداری اور وہ ایک دوسرے کے احساسات کا ادب و احترام پیدا ہو جس کے بغیر نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے.ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم تمام ادیان کے بزرگوں اور ہادیوں کا ادب و احترام جلد 3

Page 38

سيرة النبي عمال 28 جلد 3 کریں.تمام وہ لوگ جن کو ان کی قومیں خدا کی طرف سے کھڑا کیا گیا تسلیم کرتی ہیں.تمام وہ لوگ جن کے متبعین کی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو انہیں خدا کا مرسل اور ما مور، اوتار یا بھیجا ہوا تسلیم کرتی ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی عزت کریں.ان کی ہتک سے اجتناب کریں اور اس تعلیم کے ماتحت ہم ہمیشہ ہی مختلف اقوام کے بزرگوں اور ان کے مذہب کے بانیوں کا ادب و احترام کرتے رہے ہیں.ہم یہودیوں کے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں.ہم عیسائیوں کے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں.ہم چینیوں کے بزرگوں کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں.ہم جاپانیوں کے بزرگوں کا ادب کرتے اور ہم اپنے ابنائے وطن ہندؤوں کے بزرگوں کی تعظیم کرتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں اپنی کسی نفسانیت کی وجہ سے نہیں کرتے ، کسی ذاتی فائدہ اور غرض کے لئے نہیں کرتے بلکہ واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اور دنیا کے لئے مامور سمجھ کر کرتے ہیں.اور ہم سمجھتے ہیں دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگ جب سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کریں گے تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کا قیام خواہ روحانی لحاظ سے ہو اور خواہ جسمانی لحاظ سے اسی پر ہے کہ اپنے خیالات اور اپنی زبانوں پر قابو رکھا جائے اور ایسے رنگ میں کلام کیا جائے کہ تفرقہ اور شقاق نہ پیدا ہو.شملہ میں برہمو سماج کا جلسہ میں پچھلے سال شملہ گیا.ان دنوں رام موہن رائے صاحب جو کہ کلکتہ کے بہت بڑے آدمیوں میں سے گزرے ہیں ان کی برسی تھی اور شملہ میں برہمو سماج کی طرف سے جلسہ ہونا تھا.مسٹر نائیڈ وے جو کہ ایک ہندو عورت لیڈر ہیں بڑی بھاری شاعرہ ہیں اور گاندھی جی کی طرح ہندو مسلمانوں میں ادب و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں اور بہت اثر رکھنے والی ہستی ہیں وہ مجھے ملنے کے لئے آئیں.انہوں نے ذکر کیا کہ رام موہن رائے کی برسی کا دن ہے اور برہمو سماج نے جلسہ کیا ہے.کیا یہ

Page 39

سيرة النبي عمال 29 جلد 3 اچھا نہ ہوگا کہ آپ بھی اس جلسہ میں چلیں اور تقریر کریں؟ گو میں نے برہمو سماج کے متعلق کچھ لٹریچر پڑھا ہوا تھا مگر مجھے رام موہن رائے صاحب کی ذات کے متعلق زیادہ واقفیت نہ تھی اس لئے میں حیران سا رہ گیا.لیکن معاً میرے دل میں خیال آیا کہ خواہ ان کے ذاتی حالات سے کتنی ہی کم واقفیت ہو مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ انہوں نے شرک کو مٹانے کی ایک حد تک کوشش کی ہے.تب میرا انشراح صدر ہو گیا اور میں نے کہا میں اس جلسہ میں آؤں گا.چنانچہ میں وہاں گیا.مسٹر الیں.آر.داس جو وائسرائے کی کونسل کے قانونی ممبر ہیں وہ اس جلسہ کے پریذیڈنٹ تھے اور بھی بہت سے معزز لوگ وہاں موجود تھے، مسز نائیڈو بھی تھیں، سر حبیب اللہ بھی تھے.اتفاق ایسا ہوا اور وہاں کی سوسائٹی کے لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی کہ سامعین کا اکثر حصہ اردو نہ جانتا تھا.مسز نائیڈو نے مجھ سے پوچھا کیا آپ انگریزی میں تقریر کریں گے؟ میں نے کہا انگریزی میں تقریر کرنے کی مجھے عادت نہیں.ولایت میں لکھ کر انگریزی تقریر کرتا رہا.مگر زبانی مختصراً چند الفاظ کہنے کے سوا باقاعدہ تقریر کا موقع نہیں ملا.مسٹر نائیڈو نے کہہ دیا اردو میں ہی تقریر کریں.لیکن چونکہ پریذیڈنٹ صاحب بالکل اردو نہ سمجھتے تھے اور حاضرین میں سے بھی 90 فیصدی بنگالی تھے جو اردو نہ جانتے تھے اس لئے میں نے تقریر نہ کی اور اس وجہ سے تقریر رہ گئی مگر میں تیار تھا.دراصل کسی کی خوبی کا نظر آنا بینائی پر دلالت کرتا ہے.اور خوبی کو نہ دیکھ سکنا نا بینائی کی علامت ہوتی ہے اور اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ کسی کی خوبی کا انکار نہ کرو اور دوسرے مذاہب کے جلسه میلاد بزرگوں کی تعظیم و تکریم کرو.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم علیہ کے متعلق مسلمانوں میں جلسے ہوتے ہیں مگر وہ خاص مذہبی رنگ کے ہوتے ہیں جیسے مولود کے جلسے.ان میں غیر مسلموں کے متعلق یہ امید رکھنا کہ وہ شامل ہوں بہت بڑی بات ہے.ان سے یہ امید تو کی جاسکتی ہے کہ وہ بانی اسلام کی خوبیاں سننے کے لئے آجائیں مگر یہ

Page 40

سيرة النبي عمال 30 جلد 3 کہ کسی جلسہ میں مذہبی رسوم کی پابندی بھی کریں یہ امید نہیں کی جاسکتی.وہ انسانی، علمی اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے تو ایسے جلسوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو رسول اللہ علے کے متعلق کئے جائیں مگر مذہبی نقطہ نگاہ سے نہیں شامل ہو سکتے.پس میں نے سمجھا کہ ہند و مسلمانوں میں جو بعد بڑھتا ہندو مسلم اتحاد کی تجویز جاتا ہے اسے روکنے کا یہی طریق ہے کہ ایسے جلسے لئے جائیں جن میں رسول کریم ﷺ کے متعلق مذہبی حیثیت سے جلسہ نہ کیا جائے بلکہ علمی حیثیت سے جلسہ کیا جائے.اگر لوگ دوسرے مذاہب کے لیڈروں کی خوبیاں دیکھ اور سن سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیاں وہ نہ دیکھے سکیں.ایسے جلسوں میں غیر مسلم لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اس طرح وہ خلیج جو روز بروز بڑھتی جاتی ہے دور ہو سکتی ہے اور ہندو مسلمانوں میں صلح ممکن ہو سکتی ہے.علاوہ ازیں خود مسلمانوں کو بھی رسول کریم علیہ کے حالات معلوم ہونے سے عقیدت اور اخلاص پیدا ہوسکتا ہے.پھر دوسرے مذاہب کے لوگ جب آپ کے صحیح حالات صلى الله صلى الله سنیں گے تو وہ ایسے لوگوں کو جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں روکیں گے.تحریک کی کامیابی یہ تحریک خدا کے فضل سے ایسے رنگ میں کامیاب ہوئی ہے کہ جو ہماری امیدوں سے بڑھ کر ہے.مثلاً کلکتہ میں بڑے.بڑے لیڈروں نے جیسے پین چندر پال جو گاندھی جی سے پہلے بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور سی.پی رائے وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی نے ایسے جلسہ کے اعلان میں اپنے نام لکھائے یا لیکچر دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے.اسی طرح اور کئی لیڈروں نے اپنے نام پیش کئے ہیں.مدراس کے ایک ہندو صاحب نے کئی ضلعوں میں ایسے جلسے کرانے کا ذمہ لیا ہے اور لکھا ہے کہ ہندوستان میں امن قائم کرنے کے لئے یہ بہت قیمتی چیز ہمیں مل گئی ہے.پھر درخواست کی ہے کہ ہر سال ایسے جلسے ہونے چاہئیں.اسی طرح تھیو سافیکل سوسائٹی نے مدراس میں جلسہ کرانے کا ذمہ لیا ہے.پھر لاہور میں

Page 41

سيرة النبي عمال 31 جلد 3 بڑے بڑے آدمیوں نے اس جلسہ کے اعلان پر دستخط کئے ہیں جیسے لالہ دُنی چند صاحب جو بہت بڑے کانگریسی لیڈر ہیں.پھر سکھوں کے بہت بڑے لیڈر سردار کھڑک سنگھ صاحب نے کہا ہے کہ اگر اس دن میں امرتسر میں ہوا تو وہاں کے جلسہ میں اور اگر سیالکوٹ میں ہوا تو اس جگہ جلسہ میں شامل ہوں گا.غرض اس تحریک کو مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم قوموں نے بھی احترام کی نظر سے دیکھا ہے اور نہ صرف احترام کی نظر سے دیکھا ہے بلکہ خواہش کی ہے کہ ایسے جلسے ہمیشہ ہونے چاہئیں تا کہ تفرقہ دور ہو اور میں سمجھتا ہوں اگر اس سال یہ تحریک کامیاب ہوئی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ امن قائم کرنے کے لئے نہایت مفید تحریک ہے.اور آئندہ ہر قوم اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی.پس اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اس مقصد کو پالیں جو کہ ایک ہی جیسا ہندوؤں کو بھی پیارا ہے اور مسلمانوں کو بھی ہے اور وہ ہندوستان کا امن اور ترقی ہے.17 جون کے لیکچروں کی بنیاد اس تمہید کے بعد میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں.میں نے اس وقت ایک آیت پڑھی ہے جو یہ ہے قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ.اس آیت میں رسول کریم ﷺ کا وہ دعویٰ پیش کیا گیا ہے جس پر میں نے آج کے لئے لیکچر رکھے ہیں.آج کے لیکچر کے میں نے تین موضوع قرار دیئے ہیں.(1) رسول کریم ﷺ کے احسانات (2) رسول کریم ﷺ کی قربانیاں صلى الله (3) رسول کریم ﷺ کا تقدس اس آیت میں یہ تینوں امور ہی بیان کئے گئے ہیں.گویا یہ ہیڈ نگ (Heading) میں نے اپنے پاس سے نہیں رکھے بلکہ قرآن کریم نے پیش کئے ہیں.رسول کریم علی

Page 42

سيرة النبي عمال 32 جلد 3 سے خدا تعالیٰ نے کہلایا ہے کہ تیرے ذریعہ دنیا پر احسان کئے گئے ہیں.تجھ سے دنیا کے لئے قربانیاں کرائی ہیں اور تجھ کو پاک کیا گیا ہے.صلوۃ کے معنی دعا اور رحمت کے ہیں.پس اس کے معنی نیک سلوک اور احسان کے ہوئے.نُسک کے معنی ذبح کر دینے کے ہیں.پس اس کے معنی سزا دینے کے ہوئے.مَحْيَايَ یعنی زندگی ذاتی آرام اور آسائش اور مَمَاة یعنی موت ذاتی قربانی کے معنی میں استعمال ہوا ہے.پس اس آیت میں یہ بتایا کہ کہو میری عبادت یا میرا لوگوں سے حسن سلوک ( یہ بھی صلوۃ کے معنی ہیں ) اور میرا قربانیاں کرنا اور میری اپنی زندگی اور اپنی موت یہ سب خدا ہی کے لئے ہے.پہلی چیز جو صَلَاتِی ہے اس میں لوگوں پر احسان کرنے کا دعویٰ کیا ہے.یعنی فرمایا میرے ذریعہ لوگوں پر احسان ہوئے ہیں.دوسرے نُسکی وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي میں بتایا کہ میرا مارنا یا مرنا یعنی قربانی کرنا یہ بھی خدا ہی کے لئے ہے.اس آخری جملہ میں تقدس کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ تقدس کے معنی پاک ہونے کے ہیں اور جو چیز خدا کے لئے ہوگی وہ پاک نہ ہوگی تو اور کونسی پاک ہوگی.پس اس آیت میں تینوں باتیں بیان کر دی گئی ہیں.ایک تو اس آیت میں دعوی بیان کیا گیا ہے اور دوسرے گر بھی بتا دیا ہے کہ احسان اور قربانی اور تقدس کی دلیل کیا ہوتی ہے.ایک خاص کر اس آیت میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ کسی شخص کے احسان یا قربانی یا تقدس کو دیکھتے وقت اس کے اعمال کے ٹکڑوں کو نہ لینا چاہئے بلکہ تمام زندگی پر نظر کرنی چاہئے اور اس کے اعمال کے مقصد کو دیکھنا چاہئے.صرف سزا کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ یہ شخص ظالم ہے درست نہیں.یا کسی تکلیف دہ عمل کو دیکھ کر یہ سمجھنا کہ یہ شخص ظالم ہے صحیح نہیں.کسی کو سزا دیتے ہوئے دیکھ کر کوئی کہے کہ یہ کتنا بڑا ظالم ہے تو بسا اوقات وہ اس کے متعلق رائے قائم کرنے میں غلطی کر جائے گا.مثلاً ہمارے سامنے اس وقت مدرسہ کی عمارت ہے.یہاں سے استاد کے بید ایک شخص گزرے اور دیکھے کہ ہیڈ ماسٹر ایک لڑکے کو بید لگا رہا ہے

Page 43

سيرة النبي عمال 33 33 اور وہ کہے یہ کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے تو یہ درست نہ ہوگا.کیونکہ اگر استاد کسی لڑکے کی شرارت پر اسے سزا نہ دے گا تو اس لڑکے کے ماں باپ کو حق ہوگا کہ وہ کہیں استاد نے اس کے لڑکے کو آوارہ کر دیا ہے اور اس کی اصلاح نہیں کی.اور ممکن ہے کہ لڑکا خراب ہو کر کہیں کا کہیں چلا جائے.مثلاً لڑکے نے چوری کی یا امتحان میں نقل کی یا کوئی بدکاری کی.اب اگر پیار و محبت سے سمجھانے پر وہ نہیں سمجھتا اور شرارت میں بڑھتا جاتا ہے جس پر استاد اسے سزا دیتا ہے تو یہ ظلم نہیں ہوگا بلکہ اس سے محبت اور ہمدردی ہوگی.پس دیکھنا یہ ہوگا کہ استاد نے لڑکے کو مارا کیوں ہے.صرف بید لگتے دیکھ کر یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے.اسی طرح کسی گھر میں کوئی ماں یا باپ ایسا نہ ہوگا جس نے کبھی اپنے بچے کو جھڑ کا نہ ہو یا تنبیہ نہ کی ہو یا مارا نہ ہو.مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سب ماں باپ ظالم ہوتے ہیں.وہ اپنے بچوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان سے پیار اور محبت رکھتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لئے جب ضرورت سمجھتے ہیں سزا بھی دیتے ہیں.ڈاکٹر کا نشتر اسی طرح کوئی شخص ہسپتال کے پاس سے گزرے اور دیکھے کہ ڈاکٹر نے نشتر نکالا ہوا ہے اور ایک شخص کے جسم کو چیر رہا ہے تو اسے کوئی عقلمند آدمی ظلم نہ کہے گا.دیکھنا یہ ہوگا کہ کیوں چیرا دیا گیا ہے.اگر ڈاکٹر چیرا دے کر پیپ نہ نکالتا یا گندہ حصہ کو جدا نہ کرتا تو وہ شخص مر جاتا.پس اگر ڈاکٹر کسی کے زخم سے پیپ نکالتا ہے یا اس کے پیٹ کو چیر کر پتھری نکالتا ہے یا اس کا کوئی دانت نکالتا ہے یا بعض دفعہ اس کا ہاتھ یا پاؤں یا ناک یا کان کاٹتا ہے تو وہ ظلم نہیں کرتا بلکہ رحم کرتا ہے.اور جو شخص یہ دیکھے گا کہ ڈاکٹر اس قسم کا کام کر رہا ہے وہ یہی کہے گا کہ اس نے احسان کیا ہے اور اس کے احسان ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ لوگ خود ڈاکٹروں کے پاس جاتے اور بڑی بڑی رقمیں دے کر اپنا ہاتھ یا پاؤں یا کوئی اور حصہ کٹواتے ہیں.اگر یہ رحم اور احسان نہ ہوتا تو روپیہ اس کے بدلے میں دے کر کیوں ایسا کراتے.کیا کبھی کوئی جلد 3

Page 44

سيرة النبي علي 34 جلد 3 اپنے پاس سے روپیہ دے کر بھی سزا لیا کرتا ہے.خدا تعالیٰ پر الزام پس دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کسی فعل کا مقصد کیا ہے.اس کی غرض فائدہ پہنچانا ہے یا تکلیف دینا.اور صرف سزا کو دیکھ کر یہ کہنا کہ ظلم کیا گیا ہے درست نہیں ہے.ورنہ دنیا کے سارے مجسٹریٹ ، سارے استاد، سارے ماں باپ، سارے ڈاکٹر ظالم قرار دینے پڑیں گے.بلکہ نَعُوذُ بِاللهِ خدا کو بھی ظالم کہنا پڑے گا کیونکہ ہم روز دیکھتے ہیں کہ وہ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی جان نکالتا ہے.وبائیں آتی ہیں، طوفان آتے ہیں، اگر صرف کسی تکلیف دہ فعل کو دیکھ کر اسے ظلم قرار دینا درست ہو سکتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِالله خدا بھی ظالم ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ کے ایسے فعل کی کوئی حکمت ہوتی ہے مثلاً یہی کہ ایک قوم کے نزدیک وہ پچھلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے یا ایک دوسری قوم کے نزدیک گناہوں سے بچانے کے لئے ہوتا ہے یا اگلے جہان میں ترقی دینے کے لئے ہوتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ ہر سزا کو دیکھ کر اسے ظلم نہیں کہا جا سکتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سزا آتی ہے چاہے اسے تاریخ کا نتیجہ سمجھو، چاہے اس دنیا کی زندگی کے اعمال کی جزا سمجھو، چاہے تنبیہ کے طور پر سمجھو، چاہے ترقی کا ذریعہ سمجھو مگر بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ظلم نہیں ہے بلکہ رحم ہے اور انسان کے فائدہ کے لئے ہے.فرض کسی انسان کے فعل میں کوئی سختی یا سزا یا موت یا قتل کا پایا جانا ظلم نہیں ہوتا.ظلم اُس وقت ہوتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ محبت اور شفقت، ہمدردی اور خیر خواہی کے طور پر نہیں بلکہ انتقام اور بدلہ لینے کے لئے سزا دی گئی ہے.اگر غصہ اور بے پرواہی ، بدلہ اور لذت انتقام کے لئے سزا دی جائے تو یہ فعل یا تو عبث ہوگا اور یا ظالمانہ کہلائے گا.لیکن اگر فعل کی غرض رضائے الہی ، اصلاح نفس سزا یافتہ یا حفاظت بنی نوع انسان یا حفاظت حقائق از لیہ ہوتو یہ فعل برا نہ ہوگا.

Page 45

سيرة النبي عمال 35 جلد 3 مذہبی لیڈروں کا لڑائی میں حصہ لینا چنانچہ ہم کہتے ہیں جتنے بڑے بڑے مذہبی لیڈر ہوئے ہیں انہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے.رامچند رجی نے لڑائی میں حصہ لیا.انہوں نے راون پر جو حملہ کیا اور اسے تباہ کیا یہ درست تھا کیونکہ وہ سبق دینا چاہتے تھے کہ کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہئے.ان کے اس مقصد کو دیکھ کر ہر عقلمند ان کے اس فعل کو درست کہے گا اور ان کی تعریف کرے گا.اسی طرح کرشن جی نے لڑائی میں حصہ لیا.لڑائی کرنے کی پر زور تحریک کی اور گیتا میں اس بات پر بڑا زور دیا کہ لڑائی کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.اور اچھے اغراض کے ماتحت لڑائی کرنا منع نہیں ہے.اور بتایا ہے کہ کرشن جی لڑائی کی تحریک خدا کے لئے ہی کر رہے تھے اس لئے ان کا فعل اچھا تھا برا نہ تھا.اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں.اگر چہ حضرت عیسی علیہ السلام کولڑائی کا موقع نہیں ملا مگر ان کے بعد میں آنے والے پیرؤوں نے لڑائیاں کیں اور حق کے لئے کیں.پس جو کام دنیا کی اصلاح اور فائدہ کے لئے کیا جائے اور نیک نیتی سے کیا جائے ، جائز حد تک کیا جائے وہ برا نہیں ہوتا بلکہ اچھا ہوتا ہے.یہی حال رحمت کا بھی ہے.رحم بھی اُسی وقت رحم کس حال میں اچھا ہے اچھا ہوتا ہے جب کہ نیک نیتی اور نیک ارادہ سے کیا جائے.مثلا ایک شخص کے پاس کسی کا لڑکا ہو جو روز بروز خراب ہوتا جائے مگر.وہ اسے کچھ نہ کہے اور کسی برائی سے نہ روکے تو کوئی شخص اسے اچھا نہ کہے گا.ہر ایک یہی کہے گا کہ اس نے بہت برا کیا، فلاں کے لڑکے کو خراب کر دیا.اسی طرح طبعی رحم بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ایک شخص میں بزدلی پائی جاتی ہے اور اس وجہ سے وہ کسی کو سزا نہیں دے سکتا تو یہ اس کی خوبی نہیں ، نہ قابل تعریف بات بلکہ یہ نقص ہے.اسی طرح اگر کوئی ریا کے طور پر رحم کرے، اس کے دل میں تو بغض بھرا ہو مگر ظاہر طور پر وہ رحم کا سلوک کرے تو یہ بھی قابل قدر نہ ہو گا.یا اگر نیک سلوک اس لئے کرتا ہو کہ اسے

Page 46

سيرة النبي عمال 36 96 جلد 3 کچھ حاصل ہو جائے تو یہ بھی قابل تعریف نہ ہوگا.جیسے شاعر لوگوں کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ کچھ مل جائے.لیکن اگر حسنِ سلوک، دلیل اور برہان کے ماتحت ہو،فکر کے نتائج میں ہو، دوسرے کے فائدہ کے لئے ہو کہ اس سے ان کی اصلاح ہوگی اور امن قائم ہوگا تو یہ قابل قدر چیز ہوگی.پھر نفس کے آرام کا بھی یہی حال ہے وہ جس مقصد کے لئے ہوگا نفس کا آرام اسی کے مطابق اس کا درجہ ہوگا.اگر وہ لذت نفس کے لئے ستی یا تکبر کے لئے یا آرام طلبی کی غرض سے ہو تو برا ہے.لیکن اگر حکمت کے ماتحت ہو، اظہار شکر کے لئے ہو تو اچھا ہے.مثلاً اگر کوئی اس لئے سوتا ہے کہ تازہ دم ہو کر خدا کے لئے یا بنی نوع انسان کے لئے زیادہ محنت سے کام کر سکے گا تو اس کا یہ آرام پانا قابل تعریف ہوگا.یا کوئی کھانا اس لئے کھاتا ہو کہ طاقت پیدا ہو اور دین یا دنیا کی خدمت کر سکوں تو یہ بھی قابل تعریف ہوگا.یا اچھے کپڑے اس لئے پہنتا ہو کہ اللہ نے اس پر جو احسان کیا ہے اسے ظاہر کرے، صفائی رکھے تو یہ اچھی بات ہے.اسی طرح اگر کوئی زہد اختیار کرے یعنی دنیا کی چیزوں کو چھوڑے تو وہ اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگ اس کی تعریف کریں تو یہ برافعل ہے.لیکن اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگوں کو نفع پہنچائے تو اچھا ہے.یا اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگ اسے پیر مان لیں تو یہ برا ہے.لیکن اگر لوگوں کے لئے قربانی کرتا ہے تو یہ اچھا ہے.پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو سزا دینا یا ان پر رحم کرنا، کسی کو مارنا یا خود مرنا یا زندہ رہنا اگر خدا کے لئے ہے تو اچھا فعل ہے اور اگر خدا کے لئے نہیں تو صلى الله پھر اچھا فعل نہیں ہے.رسول کریم ﷺ کی زندگی اس گھر کے ماتحت رسول کریم میلے کے اعمال کو دیکھنا چاہئے کہ آپ کی زندگی لوگوں کے فائدہ صلى کے لئے تھی یا اپنے فائدہ کے لئے.آپ کا مرنا اپنے لئے تھا یا لوگوں کے فائدہ کے

Page 47

سيرة النبي علي 37 جلد 3 لئے.آپ نے جو احسان کئے وہ اپنے فائدہ کے لئے تھے یا لوگوں کے فائدہ کے لئے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے جو احسان کئے وہ اپنے نفس کے لئے تھے تو پھر خواہ آپ کے دس ہزار احسان گنا دیئے جائیں یہ آپ کی کوئی خوبی نہ ہوگی.اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے کسی کو جو سزا دی وہ غصہ اور انتظام کے طور پر دی تھی تو بے شک یہ بری بات ہوگی.لیکن اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا اور یہ ایسی ہی سزا تھی جیسی خدا تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو دیتا ہے اور جو دوسروں کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے تو یہ قابل تعریف بات ہوگی.اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی زندگی اپنے ذاتی آرام و آسائش کے لئے خرچ کی تو یہ بری بات ہوگی.لیکن اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کی تو یہ مقدس زندگی ہوگی.اسی طرح آپ کی موت اپنے لئے ہوئی تو بری ہوگی لیکن اگر خدا کے لئے ہوئی تو مقدس ہوگی.بری قربانی دیکھو کئی دفعہ قربانی بھی بری ہو جاتی ہے.ہماری کتابوں میں لکھا ہے شخص آکر اسلامی لشکر میں شامل ہو گیا اور بڑے زور سے صلى الله لڑتا رہا.لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا یہ بڑی جانبازی سے لڑا ہے مگر رسول کریم علی نے کہا یہ جہنمی ہے.یہ بات سن کر ان لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور ایک شخص اس کے پیچھے چل پڑا.آخر وہ زخمی ہوا اور اس سے پوچھا گیا کہ تم کیوں لڑے ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں کسی نیک مقصد کے لئے نہیں لڑا بلکہ مجھے اس قوم سے بغض تھا اس کی وجہ سے لڑا تھا.تو رسول کریم ﷺ نے اس کے فعل کو پسند نہ کیا حالانکہ وہ آپ کی طرف سے لڑا تھا بلکہ آپ نے فرمایا چونکہ یہ صداقت کے لئے نہیں لڑا بلکہ نفسانیت کے لئے لڑا ہے اس لئے اس کا یہ فعل نا پسندیدہ ہے.غرض جب مقصد اور مدعا اچھا ہو سزا بھی اچھی ہوتی ہے اور احسان بھی اچھا ہوتا ہے.لیکن اگر مقصد خراب ہو تو سزا بھی خراب ہوتی ہے اور احسان بھی.

Page 48

سيرة النبي علي 38 صلات رسول اللہ علہ کا تقدس جلد 3 گواحسان اور قربانی میں ہی تقدس کا ذکر آ جاتا ہے کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھ کر کام کرنے کا نام ہی نقدس ہے.مگر میں اصولی طور پر بھی بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں.تقدس کا دعویٰ مصلحین کا سوال ہو تو سب سے پہلی چیز دعوی ہوتا ہے اور جب سب سے مقدم امر یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ انہوں نے خود بھی اس امر کا دعوی کیا ہے یا نہیں کہ جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کے متعلق ہمیں صاف لفظوں میں تقدس کا دعویٰ نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ فرمائیں کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ 4.ان کے سامنے یہ بات پیش کرو کہ میں بچپن سے تمہارے اندر رہا ہوں.بچہ تھا کہ تم میں رہتے ہوئے بڑا ہوا.تم نے میری ایک ایک بات دیکھی ہے.کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں نے کبھی جھوٹ اور فریب سے کام لیا؟ اگر کبھی نہیں لیا تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ آج میں تم سے کوئی فریب کر رہا ہوں.یہ رسول کریم ﷺ کا دعوی ہے کہ آپ پر لوگ کوئی عیب نہیں لگا سکتے.پس وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خدا پر آپ نے جھوٹ بولا.اس دعوی کا رد چونکہ آپ کے دشمنوں نے نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا کہ انہیں بھی آپ کے تقدس کا اقرار تھا.تقدس کے دعوی کا ایک اور ثبوت دوسری شہادت ایک اور ہے.یہ بھی قرآن کریم کی ہے اور قرآن کریم کے نہ ماننے والوں کے لئے گو دلیل نہیں لیکن اس سے دعویٰ ضرور ثابت ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُوْلُوْنَ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّلِمِيْنَ بِايْتِ اللهِ يَجْحَدُونَ 5 اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب

Page 49

سيرة النبي علي 39 جلد 3 کر کے فرماتا ہے ہمیں معلوم ہے کہ لوگ تجھے جھوٹا اور فریبی کہتے ہیں، مکار اور ٹھگ قرار دیتے ہیں ، طالب حکومت اور شوکت بتاتے ہیں.اور یہ باتیں تجھے بری لگتی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ یہ تجھے برا کہتے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ لوگ ہماری باتوں کا انکار کرتے ہیں.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی کے مذہب کو اگر کوئی برا بھلا کہے تو اسے اتنا جوش نہیں آتا جتنا اُس وقت آتا ہے جب کوئی اسے گالی دے.مگر یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نفس کی یہ حالت ہے کہ انہیں جو چاہیں کہہ لیں مگر خدا تعالیٰ کی باتوں کا انکار نہ کریں اور اس کی شان کے خلاف باتیں نہ کریں.گویا آپ کا غم و خون محض اللہ کے لئے تھا اپنی ذات کے لئے نہ تھا.اپنے متعلق اپنی شہادت اب ایک اور شہادت آپ کے تقدس کی پیش کرتا ہوں جو آپ کی اپنی شہادت ہے.عموماً اپنے متعلق اپنی شہادت کو وقعت نہیں دی جاتی لیکن یہ ایسی بے ساختہ شہادت ہے کہ جس کے درست تسلیم کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا.جب آپ کو پہلے پہل الہام ہوا تو آپ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے جو عیسائی تھے.ย عیسائیوں میں چونکہ الہامی کتاب تھی اور عربوں میں نہ تھی اس وجہ سے حضرت خدیجہ آپ کی بیوی ان کے پاس آپ کو لے گئیں تا ان سے اس کے متعلق مشورہ کریں.آپ نے ان سے ذکر کیا کہ مجھے اس اس طرح الہام ہوا ہے.ورقہ نے کہا تمہاری قوم تمہیں تمہارے وطن سے نکال دے گی.کاش! میں اُس وقت جوان ہوتا تو تمہاری مدد کرتا.یہ سن کر آپ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا اَوَ مُخْرِجيَّ هُمُ میں ہمیشہ لوگوں کا خیر خواہ رہا ہوں اور ان کی بھلائی کی کوشش کرتا رہا ہوں پھر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ یہ مجھے نکال دیں گے.یہ شہادت گو آپ کی اپنی شہادت ہے مگر ہر عقلمند کو ماننا پڑے گا کہ سچی ہے.

Page 50

سيرة النبي علي 40 40 جلد 3 کیونکہ ایسے موقع پر منہ سے نکلی ہے جب کہ کسی بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہوسکتا تھا.آپ فرماتے ہیں کیا یہ بھی ممکن ہے کہ میرے جیسے خیر خواہ اور ہمدرد کو نکال دیں.وہ لوگ مجھ سے محبت اور پیار کرتے ہیں، مجھے صدوق اور امین قرار دیتے ہیں، میری خیر خواہی کے قائل ہیں.پھر کس طرح ممکن ہے کہ نکال دیں.میں نے تو کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، کسی سے کبھی فریب نہیں کیا، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا.یہ بھی اس بات کی ایک شہادت ہے کہ آپ کی زندگی مقدس تھی کیونکہ آپ یہ خیال ہی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی یا یہ کہ قوم کے پاس آپ کو نکالنے کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے.بیوی کی شہادت چونکہ خاوند کی سب سے زیادہ راز دان بیوی ہوتی ہے اس لئے میں آپ کی پاکیزہ زندگی سے متعلق آپ کی بیوی کی بھی ایک شہادت پیش کرتا ہوں.یہ شہادت لوگوں کے سامنے نہیں دی گئی کہ اس میں بناوٹ کا شبہ ہو بلکہ علیحدہ گھر میں دی گئی ہے.الله رسول کریم ﷺ نے 25 سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ عمر کی عورت سے شادی کی.25 سال کی عمر میں مرد پورا جوان ہوتا ہے اور چالیس سالہ عورت بڑھاپے کی طرف جا رہی ہوتی ہے.اس عمر کا نوجوان اول تو پہلے ہی ایسے رشتہ کو نا پسند کرتا ہے اور اگر رشتہ ہو جائے تو نا گوار حالات رونما ہو جاتے ہیں.وجہ یہ کہ ایسی عمر میں مرد کی خواہشات اور ہوتی ہیں اور عورت کی اور.لیکن رسول کریم ﷺ نے اس نکاح کے 15 سال بعد نبوت کا دعویٰ کیا.اُس وقت حضرت خدیجہ کی عمر 55 سال کی تھی اور آپ کی عمر چالیس سال کی.اس پندرہ سال کے عرصہ میں حضرت خدیجہ نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ جب آپ کو الہام ہوا اور آپ اس بات سے گھبرا گئے کہ میں کہاں اور یہ درجہ کہاں اور آپ نے حضرت خدیجہ سے ذکر کیا تو انہوں نے آپ سے کہا گلا وَاللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ

Page 51

سيرة النبي علي 41 جلد 3 الْمَعْدُومَ وَ تَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَلَا يُسَلَّطُ اللَّهُ عَلَيْكَ الشَّيطِيْنَ وَالْاَوْهَامَ وَالْامَرَاءَ إِنَّ اللهَ اخْتَارَكَ لِهَدَايَةِ قَوْمِکَ.حضرت خدیجہ الہام نازل ہونے کا ذکر سن کر فوراً کہتی ہیں نہیں نہیں ! خدا کی قسم ! خدا کبھی آپ کو ضائع نہ کرے گا.آپ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں.کبھی کوئی بے کس آپ کو نظر نہیں آیا جس کا آپ نے بوجھ نہ اٹھایا ہو.سارے عرب میں یہ خوبیاں نہ تھیں آپ نے زندہ کیں.کوئی مسافر آپ کے پاس نہیں آیا جس کی مہمانی آپ نے نہ کی ہو.کسی پر جائز مصیبت نہیں پڑی جس کی مدد کے لئے آپ تیار نہ ہو گئے ہوں.پس کبھی آپ پر خدا تعالیٰ شیاطین کو مسلط نہ کرے گا اور کبھی خدا آپ کو مجنون نہ کرے گا.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنی قوم کی ہدایت کے لئے چن لیا ہے.یہ اس عورت کی گواہی ہے جس نے چالیس سال کی عمر میں چھپیں سالہ مرد سے شادی کی تھی اور اس مرد سے شادی کی تھی جو غریب تھا اور ایسی حالت میں شادی کی تھی کہ کئی لاکھ روپیہ کی وہ مالک تھی.پھر اس نے اپنی ساری دولت خاوند کے ہاتھ میں دے دی تھی اور اس خاوند کے حق میں ہے جس نے وہ ساری دولت غریبوں میں لگا دی تھی.ایسی حالت میں اس عورت کو اپنے خاوند کے متعلق شکایت کے بیسیوں مواقع پیدا ہو سکتے تھے.مگر جب حضرت خدیجہ نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ گھبرائے ہوئے ہیں کہ یہ بوجھ جو مجھ پر ڈالا گیا ہے مجھ سے کس طرح اٹھایا جائے گا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ کس طرح یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا آپ پر شیطانوں کو مسلط کر دے.مرد کا عورت سے بڑھ کر محرم راز کوئی نہیں ہوسکتا.پس یہ اس محرم راز کی شہادت ہے آپ کے تقدس کے متعلق.اور وہ بھی لوگوں کے سامنے نہیں کہ کہا جائے اپنے خاوند کی حمایت کے لئے اس نے ایسا کہا بلکہ الگ طور پر آپ کو تسلی دینے کے لئے کہتی ہے.یہ اتنی بڑی شہادت ہے کہ کسی کو اس کے انکار کی گنجائش نہیں ہوسکتی.

Page 52

سيرة النبي عمال 42 جلد 3 دوستوں کی شہادت یہ تو آپ کے تقدس کے متعلق آپ کی بیوی کی شہادت ہے.مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیویوں سے تو اچھا سلوک کرتے ہیں مگر اپنے ملنے جلنے والوں سے ان کا سلوک اچھا نہیں ہوتا.اس لئے کوئی کہہ سکتا ہے مان لیا بانی اسلام کی زندگی بیوی کے متعلق پاکیزہ تھی لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اپنے دوستوں کے متعلق بھی اچھی تھی اس لئے میں آپ کے دوستوں کی شہادت پیش کرتا ہوں.ان دوستوں میں سے ایک تو ایسے دوست کی شہادت پیش کرتا ہوں جو آپ پر ایمان لایا.اور ایک ایسے کی جو ایمان نہ لایا.جو دوست ایمان لایا وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے.ان کی گواہی یہ ہے جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا تو لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ پاگل ہو گئے ہیں یا آپ جھوٹ بولتے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اُس وقت مکہ سے باہر تھے.واپسی پر کسی دوست کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس شخص کی لونڈی نے آ کر کہا آپ نے سنا کیسا اندھیر ہو گیا ہے کہ خدیجہ کے خاوند محمد (ع) نے دعوی کیا ہے کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے اور میں نبی ہوں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر صلى الله صلى الله چپ چاپ اٹھے اور رسول کریم ہے کے پاس آئے.آکر دروازہ پر دستک دی.صلى الله رسول کریم ﷺ باہر نکل کر آئے اور چاہا کہ آپ کو اپنے دعویٰ سے خبر دار کریں کہ صلى الله انہوں نے کہا مجھے ایک بات پوچھ لینے دیں.آپ نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں.انہوں نے کہا بس، میں اور کچھ نہیں معلوم کرنا چاہتا.میں جانتا ہوں کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں آپ پر ایمان لاتا ہوں.رسول کریم علیہ فرماتے ہیں میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی اس میں کچھ کبھی پائی لیکن ابوبکر نے فوراً ہی میری بات کو قبول کر لیا 8.(اس سے مراد خاندان کے باہر کے لوگ ہیں ورنہ حضرت خدیجہ ، حضرت علی اور زید بن حارثہؓ جو بیٹوں کی طرح آپ کے گھر میں پلے تھے اس میں شامل نہیں.یہ لوگ فوراً ایمان لے آئے تھے.)

Page 53

سيرة النبي عمال 43 جلد 3 یہ دوست کی شہادت ہے کہ وہ کوئی دلیل، کوئی ثبوت ، کوئی معجزہ طلب نہیں کرتا.صرف اتنا کہتا ہے کہ یہ بتا دیجئے کیا آپ نے دعویٰ کیا ہے؟ اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دعویٰ کیا ہے تو ایمان لے آتا ہے.الله ایک اور دوست آپ کا حکیم ابن حزام تھا.وہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے قریب جا کر ایمان لایا.21 سال کے قریب وہ آپ کا مخالف رہا.مگر باوجود اس کے کہ اس نے آپ کے دعوی کو نہ مانا، تا ہم اتنا اخلاص رکھتا تھا کہ ایک بادشاہ کا مال جب مکہ میں آ کر نیلام ہوا تو ایک کوٹ جو کئی سو کی قیمت کا تھا اور لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اسے جب اس نے دیکھا تو کہنے لگا محمد (ﷺ) سے زیادہ یہ کسی کو نہ بجے گا.اس الله نے وہ کوٹ خرید لیا اور ہدیہ کے طور پر آپ کے لئے مدینہ میں لے کر آیا 9.اس اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کو غلطی لگ گئی ہے.مگر یہ نہ سمجھتا تھا کہ آپ فریب دے رہے ہیں.تبھی تو با وجود ایمان نہ لانے کے وہ آپ کے لئے ایک قیمتی تحفہ خرید کر مکہ سے مدینہ تین سومیل کی مسافت طے کر کے لے گیا.ایک غیر جانبدار کی شہادت لیکن بعض دفعہ دوست کی شہادت کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ دوست جو ہوا اس کی شہادت دوست کے حق میں ہی ہوگی اس لئے میں ایک غیر جانبدار کی شہادت پیش کرتا ہوں.وہ آپ کے بچپن کے متعلق ہے اور یہ ایک لونڈی کی شہادت ہے.ابو طالب کی لونڈی کہتی ہے جب بچپن میں آپ اپنے چا ابو طالب کے گھر آئے تو سارے بچے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے مگر آپ نے کبھی ایسی باتوں میں حصہ نہ لیا.کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر سارے بچے لپک پڑتے مگر آپ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے.جو کچھ دے دیا جاتا کھا لیتے ، خود کچھ نہ مانگتے 10.یہ آپ کے وقار، عزت نفس اور سیر چشمی کے متعلق شہادت ہے.

Page 54

سيرة النبي عليه 44 جلد 3 بہت بڑے دشمن کی شہادت مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک وقت اور ایک صلى الله حالت کے متعلق ہے اس لئے میں ایسی شہادت پیش کرتا ہوں جو رسول کریم ﷺ کے سب سے بڑے دشمن کی ہے اور بچپن سے لے کر ادھیڑ عمر تک کے زمانہ کے متعلق ہے.اس شخص نے آپ کی مخالفت میں ہر طرح سے حصہ لیا تھا.آپ پر پتھر پھینکے، آپ کے قتل کے منصوبے کئے.اس کا نام النضر بن الحارث تھا.یہ اُن 19 اشخاص میں سے تھا جو رسول کریم علیہ کے قتل کے منصوبہ میں شامل تھے.جب دعویٰ کے بعد لوگ مکہ میں آنے لگے اور رسول کریم ﷺ کے دعوئی کا چرچا پھیلا تو مکہ کے لوگوں کو فکر پیدا ہوئی کہ حج کا موقع آ رہا ہے، بہت سے لوگ یہاں آئیں گے اور ان کے متعلق پوچھیں گے تو ان کو کیا جواب دیں گے.اس کے لئے انہوں نے مجلس کی جس میں قریش کے بڑے بڑے سردار ا کٹھے ہوئے تا کہ سب مل کر ایک جواب سوچ لیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ اور سب ہی لوگ ہم کو جھوٹا سمجھیں.اُس مجلس میں مختلف جواب پیش کئے گئے.ایک شخص نے کہا یہ کہہ دو جھوٹا ہے اُس وقت النضر بن الحارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا قَدْ كَانَ مُحَمَّدٌ فِيُكُمُ غُلَامًا حَدَثًا أَرْضَاكُمْ فِيْكُمْ وَأَصْدَقَكُمْ حَدِيثًا وَأَعْظَمَكُمْ أَمَانَةً حَتَّى إِذَا رَأَيْتُمْ فِي صُدْغَيْهِ الشَّيْبَ وَجَاءَ كُمُ بِمَا جَاءَ كُمُ قُلْتُمُ سَاحِرٌ لَا وَاللَّهِ مَا هُوَ بِسَاحِرٍ 11 وہ بڑے جوش سے کہنے لگا جواب وہ سوچو جو معقول ہو.محمد تمہارے اندر پیدا ہوا.تمہارے اندر جوان ہوا.تم سب اسے پسند کرتے تھے اور اس کے اخلاق کی تعریف کرتے تھے.اسے سب سے سچا سمجھتے تھے.یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے سر میں سفید بال آگئے اور اس نے وہ دعویٰ کیا جو کرتا ہے.اب اگر تم کہو گے کہ وہ جھوٹا ہے تو اسے کون جھوٹا مانے گا.لوگ تمہیں ہی جھوٹا کہیں گے اس جواب کو چھوڑ کر کوئی اور جواب گھڑو.یہ دشمن کی گواہی ہے اور بہت بڑے دشمن کی گواہی ہے.پھر تائید کے لئے گواہی

Page 55

سيرة النبي علي 45 جلد 3 نہیں بلکہ ایسی مجلس میں پیش کی گئی ہے جو آپ کی مخالفت کے لئے منعقد کی گئی تھی اور اس لئے پیش کی گئی تھی کہ کس طرح لوگوں کو آپ کی طرف سے پھرایا جائے.خادم کی شہادت پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں.بیویوں سے بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں.بھائیوں سے بھی عمدگی سے پیش آتے ہیں.مگر اپنے نوکروں پر سختی کرتے ہیں.اس لئے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا سلوک نوکروں سے کیسا تھا.اس کے لئے ایک ایسے شخص کی شہادت پیش کی جاتی ہے جو بچپن سے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں رہا اور آپ کی وفات تک آپ کے پاس رہا.وہ شخص انس تھے.وہ بیان کرتے ہیں خواہ مجھ سے کوئی کام کتنا ہی خراب ہو جائے کبھی رسول کریم کے غصہ نہ ہوتے تھے اور نہ بری نظر سے دیکھتے تھے.پھر آپ نے مجھے کوئی کام ایسا نہیں بتایا جو میں نہ کر سکتا تھا.اور جو کام مجھے بتاتے آپ بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے اور آپ کبھی سخت کلامی نہ کرتے تھے 12.معاملہ کرنے والے کی شہادت پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں اور نوکروں سے بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں مگر جب کسی سے مشارکت مالی انہیں ہو جاتی ہے تو پھر ان کی حقیقت ظاہر الله ہو جاتی ہے.اس لئے رسول کریم ﷺ کے ساتھ جن لوگوں کو معاملہ پڑا ہم ان کی شہادت پر نگاہ ڈالتے ہیں.قیس بن سائب ایک شخص تھا جس سے رسول کریم ﷺ نے مل کر تجارت کی تھی.وہ مدتوں تک مسلمان نہ ہوا.فتح مکہ کے بعد وہ آپ کے پاس آیا اور کسی نے بتایا کہ یہ فلاں شخص ہے.آپ نے فرمایا میں تمہاری نسبت اسے زیادہ جانتا ہوں.اس سے مل کر میں نے تجارت کی تھی.اس نے کہا نِعْمَ الشَّرِيكُ لَا يُدَارِى وَلَا يُمَارِى وَلَا يُشَارِی 13 کہ اس سے اچھا شریک میں نے نہیں دیکھا.اس نے

Page 56

سيرة النبي علي 46 جلد 3 کبھی ٹھگی نہ کی ، کبھی کوئی شرارت نہ کی ، کبھی کوئی جھگڑا نہ کیا.وصال کے بعد کی شہادتیں پھر کہا جا سکتا ہے کہ آپ بڑے آدمی تھے زندگی میں لوگ ان سے ڈرتے تھے اور کوئی مخالفانہ بات نہ کہہ سکتے تھے.اس لئے میں اُس زمانہ کو لیتا ہوں جب کہ آپ فوت ہو گئے کہ اُس وقت آپ کے متعلق کیا شہادت ملتی ہے.دوسری بیوی کی شہادت اس زمانہ کے متعلق بھی پہلے میں آپ کی ایک بیوی کی شہادت پیش کرتا ہوں اور وہ حضرت عائشہؓ ہیں جو آپ کی 9 بیویوں میں سے ایک ہیں.کسی کی دو بیویاں ہوں تو اس کے متعلق شکایت پیدا ہو جاتی ہے مگر آپ کی 9 بیویاں تھیں اور بڑھاپے کی عمر کی تھیں.اور وہ بیویاں تھیں جن کو کبھی پیٹ بھر کھانا نہ ملا تھا.مگر کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا رسول کریم کے خلق کے متعلق تو کچھ بتائیے تو انہوں نے کہا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ 14 قرآن میں جن اخلاق حمیدہ کا ذکر ہے وہ سارے کے سارے آپ میں پائے جاتے تھے.حضرت عائشہ کی محبت کا یہ حال تھا کہ کسی نے انہیں دیکھا کہ روٹی کھا رہی ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.کیوں رو رہی ہیں؟ تو کہا کیوں نہ صا یہ کیا ، آ روؤں.رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے مگر کبھی چھنے آٹے کی روٹی میں پکا کر ان کو نہ کھلا سکی.اب جو میں ایسی روٹی کھا رہی ہوں تو میرے گلے میں پھنس رہی ہے.اس وقت اگر رسول کریم ﷺ ہوتے تو میں انہیں یہ روٹی کھلاتی.کسی کو جب ذرا آرام مل جاتا ہے تو وہ اپنے پیارے سے پیارے عزیزوں کو بھول جاتا ہے مگر حضرت عائشہ جو نو جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں، جنہیں کوئی دنیاوی آرام رسول کریم ﷺ کی زندگی میں حاصل نہ ہوا تھا وہ آپ کے اخلاق کی ایسی معتقد صلى الله صلى الله ہیں کہ جب انہیں اچھی چیز ملتی ہے تو کہتی ہیں کاش ! رسول کریم ﷺ ہوتے تو میں

Page 57

سيرة النبي عمال 47 جلد 3 انہیں کھلاتی.خلفاء کی شہادتیں پھر میں آپ کے خلفاء کی شہادت کو لیتا ہوں.عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی کا قائم مقام بنتا ہے تو اس کی مذمت کرتا ہے تا کہ اپنی عزت قائم کرے.سوائے اس کے جسے خاص روحانی اور اخلاقی تعلقات ہوں.حضرت ابوبکر کی شہادت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو رسول کریم اے کے پہلے خلیفہ ہوئے جب ان کے وقت میں سارے عرب میں بغاوت ہوگئی اور لوگوں نے کہہ دیا ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ ان لوگوں سے مقابلہ پیش آ گیا ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے وفات سے قبل جو لشکر روانہ کیا تھا اسے روک لیا جائے.پہلے بغاوت کو فرو کر لیا جائے اور پھر لشکر کو بھیجا جائے.مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی اتنی عظمت تھی کہ اپنے باپ کا نام لے کر کہنے لگے کیا ابن ابی قحافہ کی یہ طاقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے.خدا کی قسم ! اگر دشمن مدینہ میں آ کر ہماری عورتوں کو گھسیٹنے لگے تو بھی میں رسول کریم ﷺ کے بھیجے ہوئے لشکر کو نہیں روکوں گا15.اس واقعہ کو سن کر کوئی کہہ سکتا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی اسلام اپنے دعوی میں بچے تھے.ہم بھی کہتے ہیں بے شک صرف اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا مگر اس سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت راستباز اور متقی انسان تھے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے قول کا پاس ان کے شاگردوں کو غیر معمولی حد تک تھا.دوسری شہادت آپ کے دوسرے خلیفہ کی پیش کرتا حضرت عمرؓ کی شہادت ہوں اور وہ بھی موت کے وقت کی.جب حضرت عمر فوت ہونے لگے تو انہوں نے اس بات کے لئے بڑی تڑپ ظاہر کی کہ آپ کو

Page 58

سيرة النبي متر 48 جلد 3 رسول کریم ﷺ کے قدموں میں دفن ہونے کی جگہ مل جائے.چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپ کے پہلو میں دفن کیا جائے 16.حضرت عمر وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اور کسی نے نہیں کی.وہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عمرؓ کی تعریف کرتے ہیں.ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسول کریم علیہ کے قدموں میں اسے جگہ مل ﷺ جائے.اگر رسول کریم ﷺ کے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپ خدا کی رضا کے لئے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا انسان اس درجہ کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپ کے قدموں میں جگہ پائے.حضرت عثمان کی شہادت تیسری شہادت میں آپ کے تیسرے خلیفہ کی پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر آپ کی عزت و احترام ان کی نظر میں تھا.حضرت عثمان کے زمانہ میں بغاوت ہوگئی اور باغیوں نے یہ منصوبہ کیا کہ ان کو مار دیں.اُس وقت حضرت معاویہؓ ان کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ باغیوں کا خیال ہے کہ آپ کو مار کر کسی اور صحابی کو خلیفہ بنا لیں گے اس لئے آپ بڑے بڑے صحابہ کو باہر بھیج دیں.مگر اُس وقت جبکہ بغاوت پھیل رہی تھی اور حضرت عثمانؓ کو اپنی جان کا خطرہ تھا انہوں نے کہا اے معاویہ ! یہ کس طرح مجھ سے امید کی جاسکتی ہے کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے ان لوگوں کو مدینہ سے باہر بھیج دوں جنہیں محمد ﷺ نے جمع کیا تھا.گویا انہوں نے اپنی جان قربان کر دی مگر صحابہ کو باہر بھیجنے کے لئے تیار نہ ہوئے.اس لئے کہ ان کو محمد ﷺ نے جمع کیا تھا.کیا یہ ادب اور یہ احترام اس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جس نے ساری عمر

Page 59

سيرة النبي متر 49 جلد 3 رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہ کر آپ کی کوئی ٹھگی دیکھی ہو.حضرت علی کی شہادت حضرت علی چونکہ آپ کے عزیز ترین رشتہ دار تھے اور ان کی ساری زندگی ہی آپ کی صداقت کی شہادت میں شہادت کا نتیجہ پیش کی جاسکتی ہے اس لئے ان کے کسی خاص واقعہ کو بیان کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا.یاد رکھو شہادت اُسی وقت کے لوگوں کی ہوتی ہے.پس آپ کی بیوی کی شہادت پیش کی گئی کہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے.پھر آپ کے دوستوں، دشمنوں کی شہادت پیش کی گئی ہے.پھر وفات کے بعد کے زمانہ کے متعلق شہادت پیش کی گئی ہے.پھر کیا یہ ہوسکتا ہے کہ موقع کے لوگوں کی گواہی تو قابل اعتبار نہ سمجھی جائے اور بعد کے لوگ جو کہیں اسے درست مان لیا جائے؟ موقع صلى الله ہی کی گواہی اصل گواہی ہوتی ہے اور موقع کے دوست دشمن سب کہتے ہیں کہ محمد علی مقدس وجود تھے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کو مقدس نہ کہیں.خدا تعالیٰ کے لئے غیرت دوسرا ثبوت آپ کے تقدس کا وہ غیرت ہے جو آپ خدا تعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے.ایک مشہور واقعہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے کس قدر غیرت تھی.جب احد کی لڑائی ہوئی تو اس میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے.خود رسول کریم ﷺ بھی زخمی ہو گئے اور دشمنوں نے سمجھا کہ آپ کو انہوں نے مار ڈالا ہے.یہ سمجھ کر مکہ کے ایک سردار نے میدان جنگ میں بلند آواز سے کہا بتاؤ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا کوئی جواب نہ دو.کوئی جواب نہ پا کر اس نے کہا ہم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو مار دیا ہے.پھر اس نے کہا ابوبکر کہاں ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرما یا کوئی نہ بولو.اس نے کہا ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا ہے.پھر اس نے کہا عمر کہاں ہے؟ حضرت عمرؓ جوش سے بولنے لگے کہ میں تمہاری خبر لینے کے لئے موجود ہوں مگر آپ نے انہیں روکا کہ جواب مت دو.اس پر اس نے کہا ہم

Page 60

سيرة النبي علي 50 جلد 3 صلى الله نے عمر کو بھی مار دیا ہے.پھر اس نے کہا اُعُلُ هُبَل.اُعْلُ هُبَل هُبَل (جو مکہ کا ایک بت تھا ) کی شان بلند ہو.کیونکہ ہم نے بتوں کے مخالفوں کو مار دیا ہے.اس پر رسول کریم ﷺ جو بھی فرما چکے تھے کہ خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو کیونکہ مصلحت اسی میں تھی ، بہت سے مسلمان زخمی تھے اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لوٹ کر ان پر حملہ آور نہ ہوں، فرمانے لگے کہ جواب کیوں نہیں دیتے؟ کہو اللَّهُ أَعْلَى وَ أَجَلُّ اللَّهُ أَعْلَى وَ اَجَلُّ 17 - اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے.اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے.اب دیکھو کہ باوجود ایسے نازک موقع کے کہ بہت کثرت سے مسلمان زخمی پڑے تھے اور بظاہر مسلمانوں کو شکست ہو گئی تھی آپ نے خدا تعالیٰ کی توحید پر حرف آتے دیکھ کر خاموش رہنے کو پسند نہ کیا.حالانکہ اپنی موت کی خبر کی تردید نہ کرنے دی.اُس وقت بولنے کا صرف یہی نتیجہ نظر آتا تھا کہ دشمن حملہ کر کے سب کو مار ڈالے.مگر جب آپ نے خدا تعالیٰ کی تحقیر سنی تو فوراً جواب دینے کا ارشاد فرمایا.رسول کریم نے کے پیدا کردہ پھل تیسرا ثبوت آپ کی تقدیس کا وہ پھل ہیں جو آپ نے پیدا کئے اور صل اس کے لئے میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو پیش کرتا ہوں.متعصب سے متعصب عیسائی جو رسول کریم ﷺ پر ناپاک سے ناپاک حملے کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں ابوبکر اور عمر بہت اچھے انسان تھے.وجہ یہ کہ انہوں نے دنیا کے لئے اتنی قربانیاں کی ہیں کہ دشمن بھی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں.مگر جب دشمن یہ مانتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر بہت اعلیٰ انسان تھے جنہوں نے دنیا کو بے شمار فوائد پہنچائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مفید وجود نَعُوذُ بِاللہ ایک ٹھگ اور عیاش نے پیدا کر دیئے؟ وہ شخص جس کی نظر دوسروں کے مال پر ہو وہ کہاں ا انسان پیدا کر سکتا ہے جو اپنا مال بھی خدا کی راہ میں لٹا دیں.ٹھگوں سے ٹھگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور عیاشوں سے عیاش ہی بنتے ہیں.کبھی ٹھگوں سے نیک اور عیاشوں سے

Page 61

سيرة النبي م 51 جلد 3 الله منتقی نہیں بنائے جا سکتے.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ جن کے تقویٰ، جن کی دیانت، جن کے ایثار، جن کی سادگی اور جن کی قومی غمخواری کی تمام دنیا قائل اور مقر ہے رسول کریم ﷺ کی صحبت میں ہر وقت رہنے کے بعد اگر نَعُوذُ بِاللهِ یہ صفات آپ میں ان لوگوں سے ہزاروں گنے زیادہ نہیں پائی جاتی تھیں تو ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ظاہر کرنے والے ہوتے اور پھر یہ دعوی کرتے کہ یہ اخلاق ان کو رسول کریم ع کے سمندر میں سے ایک قطرہ کے برابر ملے ہیں.الله حضرت عثمان کی زندگی بھی حقیقتاً بے عیب تھی.گو بعض تاریخی غلطیوں کی وجہ سے لوگوں نے اسے اچھی طرح محسوس نہیں کیا.مگر حضرت علیؓ جو چوتھے خلیفہ ہیں اور نہ صرف خلیفہ ہی بلکہ بچپن سے آنحضرت ﷺ کی گود میں پلے تھے اور آپ کے گھر میں رہے تھے اور آپ کے داماد تھے ان کی نیکی ، ان کے زہد، ان کی بے نفسی اور ان کی پاکیزگی کے دشمنانِ اسلام بھی قائل ہیں.میں پوچھتا ہوں علی ان اعتراضات کی موجودگی میں جو آنحضرت ﷺ کی ذات پر کئے جاتے ہیں اوپر کی صفات کو کہاں سے پاسکتے تھے.اور اگر یہ اخلاق ان کے ذاتی تھے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے باوجود وہ حضرت رسول کریم ﷺ کے مخلص کیوں رہے.پھر ان چاروں خلفاء کی ہی شرط نہیں رسول کریم ﷺ نے ایک قوم کی قوم ایسی پیدا کر دی جو عدل و انصاف کی مجسمہ تھی.حتی کہ شام کے یہودیوں نے ہی نہیں مسیحیوں تک نے مسلمانوں کے شام کو چھوڑنے کا ارادہ معلوم کر کے ایک وفد بھیجا کہ ہمیں اپنے ہم مذہب مسیحیوں کی حکومت منظور نہیں آپ لوگ یہاں رہیں ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے.کیونکہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہماری جانیں اور ہماری عزتیں اور ہمارے مال محفوظ ہیں 18.اب خدا را غور کرو کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ میں غیر معمولی تقدس بلکہ تقدیس کی طاقت نہ ہوتی تو عرب کے غیر متمدن لوگ ڈاکوں اور جوئے اور شراب میں فخر محسوس کرنے والے اس قسم کا تغیر کہاں سے پیدا کر لیتے اور عرب کی

Page 62

سيرة النبي علي 52 جلد 3 زمین آسمان کی جائے فخر کیونکر ہو جاتی.آپ کے تقدس کے خلاف کچھ اعتراض بھی اہم اعتراضات کے جواب کئے جاتے ہیں.میں ان میں سے تین اہم اعتراضات کے جواب بھی اس موقع پر بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں.میورلکھتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بے شک بعض اصلاحات کیں لیکن تین خطرناک باتیں انہوں نے رائج کیں جو ان کی خدمات سے بہت زیادہ خطرناک تھیں.اور انہوں نے ان کی نیکیوں کے پلڑہ کو بالکل ہلکا کر دیا ہے اور وہ آپ کی تعلیم طلاق، کثرت ازدواج اور غلامی کے متعلق ہے.مسئلہ طلاق طلاق کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.یا تو اس پر بڑے زور شور سے اعتراض کئے جاتے تھے اور یا اب تمام ممالک میں اور تمام اقوام میں یہ مسئلہ جاری ہو رہا ہے اور دنیا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ طلاق کا جائز نہ ہونا بہت بڑا ظلم ہے بلکہ امریکہ تو طلاق کے جواز میں اسلامی احکام سے بھی آگے نکل گیا ہے.کثرت ازدواج باقی رہا بیویوں کے متعلق اعتراض.سو زیادہ بیویاں کرنا اپنی ذات میں تو قابل اعتراض فعل نہیں ہے.قابل اعتراض بات تو عیاشی ہے یعنی بعض عورتوں کی طرف ناجائز اور حد سے بڑھی ہوئی رغبت.عیاشی کے لوازمات عیاشی کے لئے یہ چیزیں ضروری ہوتی ہیں.(1) بڑا عیاش، شراب کا دلدادہ ہوتا ہے.(2 ) عمدہ کھانوں کا دلدادہ ہوتا ہے.(3) عمدہ سامانوں کا دلدادہ ہوتا ہے.(4 ) راگ و رنگ کا دلدادہ ہوتا ہے.(5 ) باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے.(6) پہلے سے زیادہ حسین عورتوں کو تلاش کرتا ہے اور کم عمر عورتیں تلاش کرتا ہے.(7) عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے.(8) عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے.(9) ان کی صحبت میں زیادہ وقت

Page 63

سيرة النبي علي صرف کرتا ہے.53 33 جلد 3 عیاش کی علامتیں یہ عیاش کی علامتیں ہوتی ہیں.کوئی عیاش ایسا نہ ہوگا جو شراب کو نا پسند کرتا ہو.کیونکہ عیاشی کے لئے غم و فکر سے علیحدگی ضروری ہوتی ہے.اور چونکہ ہر انسان کو کوئی نہ کوئی غم لگا ہوتا ہے اس لئے شراب پی کر خود فراموشی حاصل کی جاتی ہے.پھر عیاش کو عمد و کھانوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ شہوت بڑھے.پھر عیاش کو عمدہ سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ان کے ذریعہ شہوت کے خیالات پیدا ہوں.اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ راگ و رنگ ہو، گانا بجانا ہو، تاکہ شہوانی خیالات کو طاقت حاصل ہو.پھر عیاش با کرہ عورتوں کا متلاشی ہوتا ہے.کبھی یہ نہ ہوگا کہ کوئی عیاش باکرہ عورتوں کو چھوڑ کر دوسری عورتیں پسند کرے.اور باکرہ عورتوں سے بھی وہ کم عمر عورتوں کو تلاش کرتا ہے کیونکہ وہ کھیل تماشا ہی چاہتا ہے اور یہ کم عمری میں زیادہ ہوتا ہے.اسی طرح طبعا بھی جس قدر رغبت چھوٹی عمر کی عورتوں سے ہو سکتی ہے بڑی عمر کی عورت سے نہیں ہو سکتی.دوسرے مطلقہ یا بیوہ عورت کے متعلق یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ اس نے پہلے خاوند دیکھا ہوتا ہے ممکن ہے میں اس سے کمزور ہوں اور اس کی نظر میں میری سبکی ہو.پس وہ اس امتحان میں پڑنا نہیں چاہتا.پھر عیاش آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک سے ایک بڑھ کرحسین عورت اس کے قبضہ میں آئے.اسی طرح عیاش مرد عورت کو خوش کرنا اور اس کی خواہشات کو پورا کرنا ضروری سمجھتا ہے تا کہ وہ اس کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت کرے.وہ عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے.ایک کو چھوڑ دوسری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.دوسری کو چھوڑ کر تیسری کی طرف کیونکہ سب کی طرف توجہ کرنا اس کے مزے کو خراب کرتا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عیاش مرد عورتوں میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کی عیاشی کے میلان پورے ہی نہیں ہو سکتے.یہ 9 باتیں ایسی ہیں کہ ان

Page 64

سيرة النبي علي 54 54 جلد 3 کے بغیر یا کم سے کم ان میں سے بعض کے بغیر دنیا میں کوئی عیاش ہو نہیں سکتا.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ باتیں رسول کریم ﷺ میں پائی جاتی ہیں؟ پہلی چیز شراب ہے.سو دیکھو! کہ ایک محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی ذات ہے جنہوں نے دنیا میں شراب کو قطعاً حرام کیا ہے.پہلی اقوام میں شراب کو محدود کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اسے بالکل نہیں روکا گیا سوائے اسلام کے.اب سوچو کہ اگر آپ میں عیاشی کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ کی قوم اگر پہلے پانچ دفعہ شراب پیتی تھی تو آپ انہیں حکم دیتے کہ آٹھ دفعہ پیو.اور اگر آٹھ دفعہ پیتی ہوتی تو آپ انہیں کہتے کہ بارہ دفعہ پیا کرو.لیکن آپ نے شراب کو بالکل اور قطعاً حرام قرار دے دیا.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے شراب کو اس لئے حرام کیا کہ آپ کے تقدس پر لوگ حرف گیری نہ کریں کیونکہ آپ کے ملک کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے لوگ بھی اُس زمانہ میں شراب کو تقدس کے خلاف نہیں سمجھتے تھے.عرب کے کا ہن اور ایران کے موبد 19 اور روم کے پادری اور ہندوستان کے پنڈت شراب میں ایک وسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے اور شراب تقدس کے خلاف نہیں بلکہ شراب عبادات کا ایک جزو اور ریاضات کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی تھی.پس ایسے وقت میں پبلک او پینیئن (Opinion) کا خیال کر کے شراب کو حرام کرنے کا خیال بھی کسی شخص کے دل میں نہیں آ سکتا تھا.پس اگر عیاشی کا ایک خفیف سا میلان بھی آپ میں پایا جاتا جیسا کہ آپ کے دشمن خیال کرتے ہیں تو آپ شراب کو ہر گز منع نہ فرماتے بلکہ اپنے ملک کے رواج کو جو ملک کے بڑے اور چھوٹے کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا جاری رہنے دیتے.ہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آپ کو عیاشی کے لئے شراب کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ شراب کی ضرورت عموں کے غلط کرنے کے لئے ہوتی ہے اور آپ غموں سے آزاد تھے.مگر یہ دلیل پہلی دلیل سے بھی زیادہ بودی اور لچر ہوگی کیونکہ آپ کی زندگی

Page 65

سيرة النبي عمال 55 جلد 3 غموں کا ایک مرقع تھی ، جان کا ہیوں کی ایک نہ ٹوٹنے والی زنجیر تھی.نبوت کا دعوی پیش کرنے کے بعد سے آپ دنیا کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے.اپنے اور پرایوں کے حملوں کے ہدف بن گئے.دنیا آپ کے دکھ دینے میں صرف لطف ہی محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ وہ اسے ثواب دارین کا موجب خیال کرتی تھی.مکہ کے لوگ ہی نہیں بلکہ عرب کے لوگ، مشرک ہی نہیں بلکہ یہود و نصاری بھی آپ کو اپنے مذہب اور اپنی قومیت کے لئے ایک خطرناک وجود سمجھتے تھے.پس ہراک کی تلوار آپ کے خلاف اٹھ رہی تھی.ہر اک کی زبان آپ کی ہتک عزت کے لئے دراز ہو رہی تھی.ہراک کی آنکھ غصہ سے سرخ ہو ہو کر آپ پر پڑتی تھی.جب عرب آپ کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو تب بھی آپ کو امن نہ ملا.روم کی حکومت نے آپ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں.ایران کے بادشاہ نے آپ کے قتل کے احکام دیئے.گھر کے دشمن منافقوں نے اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کر دیں.غرض دنیوی لحاظ سے ایک شعلہ مارنے والی قبائتھی جو آپ کے لئے تیار کی گئی تھی.ایک گھڑی اور ایک ساعت راحت اور آرام کی آپ کے لئے میسر نہ تھی.حتی کہ وفات کے وقت بھی آپ ایک بہت بڑے دشمن کے مقابلہ کے لئے ایک جرار لشکر کو بھیج رہے تھے.ان مصائب اور ان آلام کے ہوتے ہوئے اور شخص ہوتا تو پاگل ہو جاتا مگر آپ بہادری سے ان مشکلات کا مقابلہ کر رہے تھے.پس اگر عیاشی کے لئے نہیں تو غموں ہی کے کم کرنے کے لئے آپ شراب کی اجازت دے سکتے تھے.مگر آپ نے شراب کو حرام اور قطعاً حرام کر دیا.پس کون کہہ سکتا ہے کہ آپ کو غم نہ تھے اس لئے آپ نے شراب کو حرام کیا.عمدہ کھانے پھر عیاش عمدہ کھانوں کا دلدادہ ہوتا ہے.عیاش لذیذ سے لذیذ اور صلى الله مقوی سے مقوی کھانے کھاتے ہیں تا کہ شہوت پیدا ہو.مگر محمد ملے کے گھر کا یہ حال تھا کہ جس دن آپ فوت ہوئے اُس دن شام کو آپ کے گھر فاقہ تھا.بعض اوقات آپ کو بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑا.آپ کے پاس جو

Page 66

سيرة النبي علي 56 جلد 3 کچھ آ تا اسلام کی ضرورتوں پر خرچ کر دیتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں بیسیوں وقت ایسے آئے کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملا.کئی وقت ایسے آئے کہ صرف کھجوریں کھا کر گزارہ کیا اور کئی وقت ایسے آئے کہ صرف پانی پی کر وقت گزارا.جس شخص کے کھانے پینے کی یہ حالت ہوا سے کون عیاش کہہ سکتا ہے.عمده سامان پھر عیاشی کے لئے عمدہ سامان جمع کئے جاتے ہیں تا کہ عیاشی میں لذت پیدا ہو.مگر رسول کریم ﷺ کے گھروں کا یہ حال تھا کہ بعض گھروں میں صرف بھیڑ بکری کی ایک کھال تھی جس پر میاں بیوی اکٹھے سو رہتے تھے.چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ہمارے گھر میں ایک ہی بستر تھا اور ہمیں اکٹھے سونا پڑتا.جب رات کو رسول کریم مے نماز کے لئے اٹھتے تو اسی بچھونے پر نماز پڑھتے اور مجھے اپنی ٹانگیں اکٹھی کر لینی پڑتیں 20.صلى الله باکرہ عورتیں پھر عیاش باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے.مگر رسول کریم علی نے بااختیار بادشاہ ہونے کی حالت میں کسی باکرہ سے شادی نہ کی.ہاں مکہ میں ایک باکرہ حضرت عائشہؓ سے شادی کی.مگر جب صاحب اختیار ہوئے تو ایک بھی نکاح کسی باکرہ سے نہ کیا.اگر آپ عیش پسند ہوتے تو کیا آپ باکرہ عورتوں سے شادی نہ کر سکتے ؟ کئی باکرہ عورتوں نے اپنے آپ کو نکاح کے لئے پیش بھی کیا مگر آپ نے کسی سے نکاح نہ کیا بلکہ ان کا نکاح دوسروں سے کرا دیا.حسین عورت کی تلاش پھر عیاش انسان پہلی عورت سے زیادہ حسین تلاش کرتا ہے جو پہلی عورتوں سے زیادہ اس کی شہوات کو پورا کر سکے.مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ کے درجہ کی آپ کی کوئی بھی بیوی نہ تھی.اگر آپ نَعُوذُ باللهِ عیاش ہوتے تو جو نکاح آپ نے بعد میں کئے وہ زیادہ حسین عورتوں سے کرتے.مگر ارونگ جیسا دشمن بھی آپ کے متعلق لکھتا ہے:.

Page 67

سيرة النبي علي 57 جلد 3 "Upon this wife, thus chosen in the very blossom of her years, The Prophet doted more passionately than upon any of those whom he subsequently married-" 21 یعنی اس طرح چنی ہوئی یہ بیوی (عائشہ) جس سے آپ نے اس کے عنفوانِ شباب میں بیاہ کیا ہے ایسی تھی کہ جس پر نبی اپنی تمام دوسری بیبیوں سے جو بعد میں بیا ہی گئیں فریفتہ تھا.یہ ایک دشمن اور سخت دشمن کی شہادت ہے.اگر نَعُوذُ بِاللهِ آپ عیاش ہوتے تو آپ عائشہ کے بعد ان سے زیادہ خوبصورت نہایت نو جوانی کی عمر کی بیویوں کو تلاش کرتے.مگر آپ نے ایسا نہیں کیا.اور ایسی عورتوں سے شادی کی جو عائشہ کا مقابلہ اپنی عمر اور اپنی ظاہری خوبی کے لحاظ سے نہیں کرسکیں اور ایسی حالت میں شادی کی جب کہ آپ عائشہ کے والد کے اخلاص اور خود ان کے زہد اور تقویٰ کی وجہ سے عائشہ سے کمال محبت رکھتے تھے.کیا یہ عیاشی کہلا سکتی ہے؟ مزامیر پھر عیاشی کے لئے مزا میر ضروری ہوتے ہیں.مگر رسول کریم ہو نے ان کے متعلق فرما دیا ہے کہ یہ شیطانی آلے ہیں 22.یاد رکھو کہ ایسے لوگ تو ہو سکتے ہیں جو عیاش نہ ہوں اور باجے سنیں مگر کوئی ایسا عیاش نہیں ہو سکتا جو مزامیر نہ سنتا ہو.مگر محمد ہے وہ انسان تھے جو مزامیر کو مٹانے والے تھے.اگر آپ نَعُوذُ بِاللهِ عیاش ہوتے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ ایسا کرتے.صل الله پھر عیاش انسان عورتوں کی خواہشوں کا عورتوں کی خواہشوں کی پابندی پابند ہوتا ہے.مگر رسول کریم ﷺ کا یہ حال تھا کہ جب خیبر کا علاقہ فتح ہوا اور وہاں کے ٹیکس کی ایک معقول رقم آنے لگی اور مسلمانوں کے گھروں میں دولت اور فراوانی آ گئی تو آپ کی بیویوں نے بھی جن میں سے اکثر آسودہ حال گھرانوں کی لڑکیاں تھیں خواہش کی کہ ہم بہت تنگی میں گزارہ کرتی ہیں.اُس وقت تو ہم نے اس وجہ سے کچھ نہیں کہا کہ روپیہ تھا ہی نہیں

Page 68

سيرة النبي عمال 58 جلد 3 لیکن اب جب کہ روپیہ آ گیا ہے اور سب لوگوں کو حصہ ملا ہے ہماری آسودگی کا بھی انتظام ہونا چاہئے اور اس تنگ زندگی سے ہمیں بچانا چاہئے.تو اس خواہش کے جواب میں وہ انسان جسے کہا جاتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللہ عیاش تھا اور عورتوں کی صحبت میں اس نے عمر گزاری جو جواب دیتا ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ب يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَ أُسَرِحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنَتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا 23 - خدا تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی ! ان بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کے مال اور زینت کے سامان کی خواہش رکھتی ہو تو آؤ تم کو مال دے دیتا ہوں.مگر اس حالت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں.مال لے کر تم مجھ سے جدا ہو جاؤ.لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی محبت رکھتی ہو اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہو تو پھر ان اموال کا مطالبہ نہ کرو.اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان کے لئے جو پوری طرح خدا کے احکام کی پابندی کرنے والیاں ہوں گی بہت بڑے اجر مقرر کر چھوڑے ہیں.اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ میری زوجیت یا میری موجودگی میں تم کو مال نہیں مل سکتا.اگر میری زندگی میں مال لینا چاہتی ہو تو طلاق لے لو اور الگ ہو جاؤ کہ میری دینی ذمہ داریاں مالداروں کی زندگی کی برداشت نہیں کر سکتیں.لیکن اگر تم اس وقت صبر سے کام لو اور میرے ساتھ مل کر خدمت دین کو ترجیح دو تو پھر بھی تم کو مال مل جائے گا مگر میری وفات کے بعد ملے گا، میری موجودگی میں نہیں.چنانچہ آپ کی بیویوں کو مال ملے اور بہت ملے مگر آپ کی وفات کے بعد.اب دیکھو کہ اس طرح عورتوں کی خواہشات کو ٹھکرا دینے والا کیا عیاش کہلا سکتا ہے اور کیا کوئی عیاش اپنی بیویوں کی مال وزینت کی خواہش سن کر انہیں کہہ سکتا ہے کہ زینت کے سامان چاہئیں تو طلاق لے لو؟

Page 69

سيرة النبي علي 59 جلد 3 عورتوں میں بے انصافی پھر عیاش انسان عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے جسے خوبصورت سمجھے اس کی طرف زیادہ رغبت صلى الله رکھتا ہے اور باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے.مگر رسول کریم ﷺ کا یہ حال تھا کہ جب آپ بیمار ہوئے تو اس حالت میں بھی دوسروں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس بیوی کے ہاں چلے جاتے جس کی باری ہوتی.وفات سے تین دن قبل تک ایسا ہی کرتے رہے حتی کہ آپ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہ رو پڑیں اور آپ کی بیویوں نے بھی کہا کہ آپ ایک جگہ ٹھہر جائیے.ہم بخوشی اس کی اجازت دیتی ہیں.تب آپ ایک جگہ ٹھہر گئے 24.جو انسان بیویوں میں انصاف کرنے کا اس قدر پابند ہو کہ مرض الموت میں بھی دوسرے کے کندھوں کا سہارا لے کر ان کے ہاں باری باری جاتا ہوا سے کون عیاش کہہ سکتا ہے.عورتوں میں زیادہ وقت صرف کرنا پھر عیاش اپنا زیادہ وقت عورتوں کی صحبت میں گزارتا ہے.مگر آپ کی یہ حالت تھی کہ صبح سے شام تک باہر رہتے اور رات کو جب گھر جاتے تو کھانا کھا کر لیٹ جاتے اور پھر رات کو اٹھ کر عبادت کرتے.اس طرح بندھے ہوئے اوقات میں آپ کو عیاشی کے لئے کونسا وقت ملتا تھا.رسول کریم ﷺ کی شادیوں کی غرض پس آپ کی کئی بیویوں کو دیکھ کر صلى الله یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ عیاش تھے.دیکھنا یہ چاہئے کہ کس غرض کو مدنظر رکھ کر آپ نے شادیاں کیں.خدا کے لئے یا اپنے نفس کے لئے ؟ اگر خدا کے لئے کیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کا زیادہ بیویاں کرنا عیاشی کی دلیل ہے.میں ثابت کر چکا ہوں کہ آپ کا ایک سے زیادہ بیویاں کرنا نفس کی خواہشات کے لئے نہ تھا کیونکہ انہیں تو آپ نے پورا نہیں کیا.اس کی وجہ کوئی اور تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے جس کے مرد اور عورتیں سب شریعت سے بے خبر تھے.اس قوم میں آپ نے شریعت کو رائج

Page 70

سيرة النبي عمال 60 جلد 3 کرنا تھا.پس آپ نے مختلف خاندانوں کی بیویوں سے شادیاں کیں تاکہ وہ دین کے اس حصہ کو جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے سیکھ کر اپنی ہم جنسوں کو تعلیم دیں اور یہ ایک محض لہی غرض تھی.اور آپ کا زیادہ شادیاں کرنا اور ان میں انصاف قائم رکھنا ایک بہت بڑی قربانی تھا نہ کہ عیاشی.اور اب جب کہ میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ جس رنگ میں آپ نے عورتوں سے معاملہ کیا ہے وہ عیاشی نہیں بلکہ قربانی ہے تو یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کہ آپ نے اپنی امت کے انہی لوگوں کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے جو آپ کی طرح عورتوں سے معاملہ کر سکیں تو اس حکم سے کسی ظلم کی بنیاد نہیں پڑی بلکہ دنیوی ترقی کے لئے ایک بہت بڑی قربانی اور ملک کی اخلاقی درستی کے لئے ایک بہت بڑی تدبیر غلامی کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے.باقی رہا غلامی کا اعتراض.اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور بہت سے پہلوؤں پر بحث کا محتاج ہے.پس میں ایک صاف اور سیدھا طریق اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہوں.کہا جاتا ہے کہ آپ نے غلامی کو رائج کر کے دنیا پر بہت بڑا ظلم کیا ہے.میں کہتا ہوں کہ آؤ آپ کی زندگی پر غور کر کے دیکھ لیں کہ کیا آپ غلاموں کے حامی تھے یا غلامی کے حامی؟ اور یہ بھی کہ غلام آپ کے دوست تھے یا آپ کے دشمن؟ کیونکہ ہر ایک قوم اپنے فوائد کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہے.پہلی بات کو معلوم کرنے کے لئے میں آپ کی جوانی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.جب آپ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی ہے اُس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی اور اس عمر میں انسان کا دماغ حکومت کے خیالات سے بھرا ہوا ہوتا ہے.حضرت خدیجہ نے شادی کے بعد اپنا سب مال اور اپنے سب غلام آپ کے سپر د کر دئیے اور آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے سب غلاموں کو آزاد کر دیا.اب بتاؤ کہ یہ شخص جس نے جوانی کے ایام

Page 71

سيرة النبي عمال 61 جلد 3 میں دولت ہاتھ آتے ہی یہ کام کیا ہے غلامی کا حامی کہلا سکتا ہے یا غلاموں کا.غلاموں کی رائے پھر ایک مثل مشہور ہے کہ ماں سے زیادہ چاہنے والی کٹنی 25 کہلائے.اب سیدھی بات ہے کہ غلاموں سے زیادہ کسی صلى الله کو ان کی آزادی کا خیال نہیں ہو سکتا.دیکھنا یہ چاہئے کہ غلاموں کی رسول کریم علی کے متعلق کیا رائے تھی.اگر غلام آپ کو اپنا محسن رکھتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ آپ غلاموں کے محسن تھے نہ کہ غلامی کے حامی.اس کے متعلق میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہے کہ غلام آپ کے کیسے دلدادہ تھے.نبوت کی زندگی کے پہلے سات سال میں گل چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے تھے.ان میں سے کم سے کم پندرہ غلام تھے یا غلاموں کی اولاد تھے.گویا گل مومنوں کی تعداد میں تینتیس فیصدی غلام تھے اور مکہ کی آبادی کا لحاظ رکھا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی مومنوں سے نوے فیصدی غلام تھے.مکہ کی آبادی دس بارہ ہزار کی تھی جس میں چالیس پچاس آدمی ایمان لائے تھے اور زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو غلام وہاں ہوگا.پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ دس بارہ ہزار میں سے تھیں پینتیس آدمی ایمان لائے اور پانچ چھ سو آدمیوں میں سے پندرہ سولہ آدمی.کیا غلاموں کا اس کثرت سے آپ پر ایمان لانا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام آپ کو اپنا رہائی دہندہ سمجھتے تھے.غلاموں کا تکلیفیں اٹھانا یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم نے پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھا ئیں وہ غلام ہی تھے.رض خباب چنانچہ خباب بن الارت ایک غلام تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے.وہ نہایت ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے.لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے تھے حتی کہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر ان پر انہیں لٹا دیتے تھے اور اوپر سے

Page 72

سيرة النبي عمال 62 جلد 3 چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تھے تا کہ آپ کمر نہ ہلا سکیں.ان کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمہ تھا وہ رو پید ادا کرنے سے منکر ہو گئے.مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے آپ ایک منٹ کے لئے بھی متذبذب نہ ہوئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے.آپ کی پیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے.چنانچہ حضرت عمرؓ کی حکومت کے ایام میں انہوں نے اپنے گزشتہ مصائب کا ذکر کیا تو انہوں نے ان سے پیٹھ دکھانے کو کہا.جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں 26.اب غور کرو اگر محمد مه غلامی قائم کرنے کے لئے آتے تو چاہئے تھا کہ خباب زید آپ کی گردن کاٹنے کے لئے جاتا ، نہ یہ کہ آپ کی خاطر گرم کوئلوں پر لوٹتھا.پھر ایک اور غلام زید بن حارثہ تھے جو ایک عیسائی قبیلہ میں سے تھے.ان کو کسی جنگ میں قید کر کے غلام بنایا گیا تھا.وہ بکتے سکتے حضرت خدیجہ کے قبضہ میں آئے اور انہوں نے شادی پر سب جائیداد سمیت انہیں آنحضرت ﷺ کے سپرد کر دیا اور آپ نے انہیں آزاد کر دیا.جب ان کے رشتہ داروں کو پتہ لگا کہ وہ مکہ میں ہیں تو ان کا باپ اور چچا آئے اور رسول کریم ﷺ سے کہا ان کو آزاد کر دیں.آپ نے فرمایا میں نے آزاد کیا ہوا ہے جہاں چاہے چلا جائے.اس پر اس کے باپ نے کہا چلو بیٹا.مگر انہوں نے کہا آپ کی میرے حال پر بڑی مہربانی ہے مگر بات یہ ہے الله کہ محمد ﷺ سے پیارا مجھے کوئی نہیں ہے اس لئے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا 27.اب غور کرو ایک نوجوان پکڑا ہوا آتا ہے ماں باپ کی یاد کے نقش اس کے دل پر جمے ہوئے ہوتے ہیں مگر جب باپ آ کر اسے کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ چل ! تو وہ کہتا ہے مجھے محمد ﷺ کی صحبت سے اور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی.اس کے بعد وہ آپ کے دعوئی کے وقت آپ پر ایمان لاتا ہے اور آخر ایک دن اپنے خون سے حق رفاقت ادا کرتا ہے.اب بتاؤ کہ کیا یہ فدائیت اور محبت ایک غلام کو اس شخص سے ہو سکتی تھی جو

Page 73

سيرة النبي عمل غلامی کا حامی تھا.63 63 بلال نے ایک اور غلام تھے جن کا نام بلال تھا اور جو رسول کریم ﷺ کے جانی دشمن امیہ بن خلف کے غلام تھے.وہ ابتدائی ایام میں ہی رسول کریم ﷺ پر ایمان الله لے آئے.امیہ انہیں جلتی ریت پر لٹا دیتا تھا اور تو بہ کے لئے کہتا تھا مگر وہ ایمان سے صلى الله باز نہ آتے تھے.اب خدارا کوئی غور کرے کہ اگر رسول کریم ﷺ غلاموں پر ظلم کرنے والے ہوتے تو بلال، امیہ جیسے دشمنِ رسول کے گھر میں رہ کر آپ کے خلاف کیا کیا شوخیاں نہ کرتے.وہ ایسے دشمن کے گھر میں ہو کر اور ہر قسم کی مخالف باتیں سن کر بھی آپ پر ایمان لاتے ہیں اور بڑی بڑی تکالیف اٹھاتے ہیں.ان کا آقا اسی وجہ سے انہیں گرم ریت پر لٹا دیا کرتا اور وہ چونکہ عربی زبان زیادہ نہ جانتے تھے اس لئے وہ زیادہ تو کچھ نہ کہہ سکتے مگر احد احد کہتے رہتے تھے.یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے 28.اس پر ناراض ہو کر ان کا آقا انہیں اور تکالیف دیتا اور رسی ان کے پاؤں سے باندھ کر لڑکوں کے سپرد کر دیتا تھا.وہ انہیں گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے حتی کہ بلال کی پیٹھ کا چمڑا اتر جاتا تھا.مگر رسول کریم ﷺ کی محبت کا نشہ پھر بھی نہ اترتا تھا اور جس ایمان کی حالت میں ان پر مار پڑنی شروع ہوتی تھی اس سے بھی زیادہ ایمان پر اس مار کا خاتمہ ہوا کرتا تھا.اب غور کرو یہ محبت اس کے دل میں کس طرح پڑ سکتی تھی.اگر وہ محمد مانے کو غلاموں کا حامی اور آزاد کرانے والا نہ سمجھتا.اس کے سوا وہ کونسی چیز تھی جو اسے آپ کے دشمن کے گھر میں رہ کر بھی آپ کی طرف مائل کر رہی تھی.سمیہ چوتھا شخص ایک عورت لونڈی تھی جن کا نام سمیہ تھا.ابوجہل ان کو سخت دکھ دیا کرتا تھا تا کہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب ان کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئی تو ایک دن ناراض ہو کر اس نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو مار دیا 29.انہوں نے جان دے دی مگر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان کو نہ چھوڑا.اب سوچو کہ مرد تو مرد الله جلد 3

Page 74

سيرة النبي عمال 64 جلد 3 عورت لونڈیاں جو شدید ترین دشمنوں کے گھر میں تھیں انہوں نے کس قربانی کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا ہے.اگر وہ یہ دیکھتیں کہ رسول کریم وہ غلامی کے دشمن نہیں اس صلى الله کے حامی ہیں تو کیا صنف نازک میں سے ہوتے ہوئے وہ اس طرح آپ کے لئے اپنی جان قربان کر سکتی تھیں.عماری پانچویں مثال عمار کی ہے جو سمیہ کے بیٹے تھے.انہیں جلتی ریت پر لٹایا جاتا تھا 30.ایک غلام صہیب تھے جو روم سے پکڑے آئے.عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے.جنہوں نے ان کو آزاد کر دیا تھا وہ بھی رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے اور آپ کے لئے بہت سی تکالیف اٹھا ئیں.ابو فکیھہ ایک غلام تھے وہ بھی رسول کریم عے پر ابتدائی ایام میں ابو فكيهة ایمان لائے.انہیں بھی گرم ریت پر لٹایا جاتا.ایک دفعہ رسی باندھ کر انہیں کھینچا جا رہا تھا کہ پاس سے کوئی جانور گزرا.ان کے آقا نے ان کی طرف اشارہ کر کے انہیں کہا یہ تمہارا خدا ہے.انہوں نے کہا میرا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے.اس پر اس ظالم نے ان کا گلا گھونٹا اور پھر بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیا جس سے ان کی زبان باہر نکل آئی اور لوگوں نے سمجھا کہ مرگئے ہیں.دیر تک ملنے ملانے سے انہیں ہوش آئی 31.لبینڈ ایک کنیز تھیں.یہ بھی نہایت ابتدائی ایام میں اسلام لائیں.حضرت عمر اپنے اسلام لانے سے پہلے انہیں اسلام کی وجہ سے تکلیف دیا کرتے تھے.لبينة مگر یہ اپنے اسلام پر قائم رہیں.ر زن زنیرہ بھی ایک کنیز تھیں اور ابتدائی ایام میں ہی ایمان لائیں.حضرت عمرؓ زنيرة اپنے اسلام لانے سے پہلے انہیں ستایا کرتے 32.ابوجہل نے مار مار کر ان کی الله آنکھیں پھوڑ دیں.مگر باوجود اس کے انہوں نے رسول کریم ﷺ کی رسالت کا انکار نہ کیا.ابو جہل اسے دیکھ کر غصہ سے کہا کرتا تھا کہ کیا ہم اتنے حقیر ہو گئے ہیں کہ زنیرہ

Page 75

سيرة النبي علي نے تو سچا دین مان لیا اور ہم نے نہ مانا.59 65 جلد 3 نہدیہ اور ام عمیں اسی طرح نبید یہ اور ام عمیں دو کنیزیں تھیں جو سکی زندگی اورام عبیسی مصائب برداشت کئے.عامر" میں اسلام لائیں اور دونوں نے اسلام لانے کی وجہ سے سخت عامر بن فہیر کا بھی ایک غلام تھے جنہیں حضرت ابوبکر نے آزاد کر دیا.انہیں بھی اسلام لانے کی وجہ سے سخت تکالیف دی گئیں 33.حمامہ رضی اللہ عنہا بلال کی والدہ تھیں.یہ بھی اسلام لائیں اور اسلام کی خاطر حمامة انہوں نے تکالیف اٹھائیں 34.ان کے علاوہ اور غلام اور لونڈیاں بھی تھیں جو آپ پر ایمان لائیں اور اس کی وجہ سے انہوں نے سخت تکلیفیں اٹھائیں.غرض رسول کریم ﷺ کی نبوت کے ابتدائی سات سالوں میں گل چالیس افراد نے آپ کو مانا.جن میں سے کم سے کم 14 ، 15 غلام تھے اور انہوں نے آزا دلوگوں صلى الله سے زیادہ تکالیف اٹھا ئیں.اگر رسول کریم یہ غلامی قائم کرنے والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے دشمن ہوتے نہ کہ آپ پر ایمان لاتے.آپ پر غیر مسلم غلاموں کی ہمدردی علاوہ ان غلاموں اور لونڈیوں کے جو آ ایمان لائے مکہ کے اکثر غلام اور لونڈیاں آپ سے ہمدردی رکھتے تھے.چنانچہ حضرت حمزہ کے ایمان لانے کی موجب بھی ان کی ایک غیر مسلمہ لونڈی ہی تھی.جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ ابو جہل نے رسول کریم علیہ کو گالیاں دیں اور مارنے کے لئے اٹھا اور آپ کو بہت تکلیف دی.حضرت حمزہ جو رسول کریم کے چچا تھے اور ابھی ایمان نہ لائے تھے ان کی ایک لونڈی دیکھ رہی تھی.اسے بہت صدمہ ہوا اور سارا دن کڑھتی رہی.جب حضرت حمزہ گھر آئے تو کسی بات کا بہانہ ڈھونڈ کر اس نے طعنہ دیا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو دیکھتے نہیں تمہارے بھتیجے کو ابو جہل نے کس طرح دکھ دیا ہے.حضرت حمزہ شکار کے

Page 76

سيرة النبي علي 66 جلد 3 شائق تھے اور ادھر ادھر پھرنے میں وقت گزارتے تھے اور حالات سے زیادہ واقف نہ تھے.لونڈی سے یہ بات سن کر ان کا دل اندر ہی اندر گھائل ہو گیا.واقعہ کی تفصیل سنی اور غیرت سے بے تاب ہو کر باہر نکل آئے.مجلس کفار میں آئے ، ہاتھ میں تیر کمان تھا.لونڈی نے کچھ اس طرح واقعہ بیان کیا تھا کہ درد اور غصہ دونوں جذبات بے طرح 35 جوش میں تھے اور بات کرنے کی طاقت نہ تھی.مجلس میں آ کر ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور کمان پر سہارا لگا لیا.بار بار بات کرنا چاہتے تھے مگر شدت غم سے منہ سے بات نہ نکلتی تھی.اسی طرح کھڑے تھے کہ ابو جہل کی نگاہ پڑ گئی اور وہ بولا خیر ہے حمزہ ! تم تو اس طرح کھڑے ہو جس طرح انسان لڑائی پر آمادہ ہوتا ہے.اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ ٹوٹ پڑے، اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ ظالم ! تیرے ظلموں کی کوئی انتہا بھی ہے تو نے محمد (ﷺ) کو حد سے بڑھ کر ستایا ہے.لے! میں بھی مسلمان ہوتا ہوں اگر طاقت ہے تو آ مجھ سے لڑ لے! ابو جہل بھی مکہ کا سردار تھا اٹھ کر چمٹ گیا.لیکن اردگرد کے لوگوں نے دیکھا کہ یہ جھگڑا مکہ کو بھسم کر دے گا صلح کرا دی.اور اُس دن سے حضرت حمزہ کو اسلام کی طرف توجہ ہوگئی.ایک دو الله دن کے غور کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اسلام سچا ہے اور اپنے ایمان کا اعلان کر دیا.اسی طرح جب رسول کریم ع طائف گئے اور وہاں سے زخمی ہو کر واپس آئے تو ایک غلام نے ہی آپ سے ہمدردی کی اور آپ کی حالت کو دیکھ کر روتا رہا.بات یہ ہے کہ سب غلام جانتے تھے کہ آپ ان کو آزاد کرانے کے لئے آئے ہیں نہ کہ ان کی غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرنے کے لئے.اس لئے وہ سب آپ سے محبت رکھتے تھے اور آپ سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان کا شروع زمانہ میں ایمان لانا اور سخت تکالیف اٹھانا اور آخر تک ساتھ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ مکہ کے تمام غلام اور تمام لونڈیاں اس امر کو سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ علیہ کی تعلیم غلاموں کو آزاد کرانے والی ہے.تبھی ان میں سے سب سے سب کے سب جو سمجھدار تھے آپ پر ایمان صلى الله

Page 77

سيرة النبي علي 67 جلد 3 لائے.یا اگر اس کی جرات نہ کر سکے تو آپ کی مدد کرتے رہے اور آپ سے اظہار ہمدردی کرتے رہے.اور کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن لوگوں کا معاملہ ہے وہ تو رسول کریم علی کو غلاموں کا آزاد کرانے والا قرار دیتے ہیں اور جو لوگ نہ اُس وقت تھے اور نہ ان کو غلامی سے کچھ تعلق ہے اور نہ انہوں نے غلاموں کے آزاد کرانے میں کبھی بھی کوئی حصہ لیا ہے وہ غلامی کے متعلق آپ پر اعتراض کرتے ہیں.اس عملی کام کے علاوہ اس امر پر بھی غور کرنا چاہئے کہ رسول کریم ہے کے زمانہ سے پہلے غلامی کا رواج تھا اور کوئی ملک غلامی سے پاک نہ تھا.ہندوستان میں مجھے نہیں معلوم دوسری قسم کی غلامی تھی یا نہ تھی مگر اچھوت اقوام سب کی سب غلام ہی ہیں.وہ اعلیٰ پیشوں سے محروم ہیں اور ان کا فرض ہی برہمنوں کی خدمت مقرر کیا گیا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے لوگوں میں غلاموں کو کھانا ، کپڑا دینے کا رواج تھا یہاں جن لوگوں نے غلامی کا رواج دیا تھا انہوں نے کھانے، کپڑے سے بھی دست برداری دے دی تھی اور غلام کا فرض مقرر کیا تھا کہ وہ اپنے لئے بھی کمائے اور برہمنوں کی بھی خدمت کرے.ایران اور روم بھی غلامی میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے تھے.ان ممالک کے لوگوں نے غلامی کے دور کرنے کا کیا علاج مقرر کیا تھا؟ صلى الله کچھ بھی نہیں.یہ صرف محمد رسول اللہ علے کا لایا ہوا دین تھا جس نے یہ قانون بنایا کہ ہر آزاد کو قید کرنے والا قتل کا مجرم سمجھا جائے گا.پھر یہ شرط لگائی کہ غلام بنا نا صرف اس جنگ میں جائز ہے جو جنگ کہ دشمن اسلام صرف اس لئے کریں کہ مسلمانوں سے تلوار کے زور سے اسلام چھڑوائیں.حالانکہ اس تعلیم سے پہلے تمام ممالک میں سیاسی جنگوں کے قیدیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا.پھر یہ شرط لگا دی کہ ایسی مذہبی جنگ میں بھی جو قید ہو اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنے گھر کے لوگوں سے کرتے ہو.جو کھاتے ہو وہ کھلاؤ، جو پیتے ہو وہ پلاؤ، جو پہنتے ہو وہ پہناؤ.پھر یہ شرط کی کہ باوجود اس خاطر کے ہر اک غلام کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ جب وہ چاہے آزاد ہو جائے.ہاں

Page 78

سيرة النبي عمال 68 جلد 3 چونکہ وہ ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہوا ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی لیاقت کے مطابق خرچ جنگ ادا کر دے یا اس کے رشتہ دار کر دیں.پھر یہ شرط لگا دی کہ اگر غلام کے رشتہ دار یا اہل ملک اس کو نہ چھڑوا سکیں اور اس کے پاس روپیہ نہ ہوتو ہر غلام کا حق ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں اور اس کا آقا مجبور ہوگا کہ اس کی طاقت کے مطابق خرچ جنگ اس پر ڈال دے اور اسے نیم آزاد کر دے کہ وہ اپنی کمائی سے قسط وار رو پید ادا کر کے اپنے آپ کو آزاد کرائے.اور جس وقت یہ قسط مقرر ہواُسی وقت سے غلام کو عملاً آزادی حاصل ہو جائے.پھر یہ حکم دیا کہ جو غلام کو مارے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا غلام آزاد سمجھا جائے.پھر کئی گناہوں کا کفارہ غلاموں کو آزاد کرنا مقرر کیا تا کہ جو کوئی غلام رہ جائے وہ اس طرح آزاد ہو جائے.اور پھر اسی پر بس نہیں کی آخر یہ بھی حکم دے دیا کہ حکومت کے مال میں غلاموں کا بھی حق ہے حکومت کو چاہئے کہ ایک رقم ایسی مقرر کرے جس سے وہ غلام آزاد کراتی رہے.اب سوچو کہ غلامی تو ہر ملک میں رسول کریم ﷺ سے پہلے ہی پائی جاتی تھی آپ نے تو جاری نہیں کی.آپ نے جو کچھ کیا وہ یہ کیا کہ اس کا دائرہ محدود کر دیا اور پھر ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ عملاً غلام آزاد ہی ہو جائیں.مگر باوجود اس کے اگر اسلام کے ابتدائی زمانہ میں غلام باقی رہ گئے تھے تو اس کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ اسلامی احکام کے ماتحت ان سے آقا ویسا ہی سلوک کرنے پر مجبور تھا جیسے کہ اپنے نفس یا اپنے عزیزوں سے وہ کرتا تھا.اور غریب غلام جانتے تھے کہ ایک مسلمان کا غلام رہ کر اگر ان پر سو دو سو یا ہزار دو ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے تو آزاد رہ کر وہ سات آٹھ روپیہ سے زیادہ نہ کما سکیں گے اور اس میں انہیں اپنا کنبہ پالنا پڑے گا.پس بہت سے تھے جو اس غلامی میں آزادی سے زیادہ آسائش پاتے تھے اور اسلامی احکام سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی تنگ حالت کو بدلنا نہیں چاہتے تھے.پس رسول کریم مع غلامی کے قائم کرنے والے نہیں تھے بلکہ غلامی کے مٹانے والے تھے اور آپ سے بڑھ کر غلامی کے

Page 79

سيرة النبي علي 69 جلد 3 مٹانے میں اور کسی نے حصہ نہیں لیا بلکہ آپ کے کام سے ہزارواں حصہ کم بھی کسی نے کام نہیں کیا.رسول اللہ ﷺ کے احسانات اب میں آپ کے احسانات کی طرف آتا ہوں.لیکن احسانات بیان کرنے سے پہلے میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو احسانات اور قربانیوں دونوں کے متعلق کام آئے گا.یہ واقعہ مکہ کا ہے.عتبہ جو ایک بڑا سردار تھا آپ کے پاس آیا اور آ کر کہنے لگا کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ آپس میں خونریزی ہو اور بھائی بھائی سے جدا ہو جائیں ؟ اگر نہیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں اسے مان لو.وہ تجویز یہ ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی غرض ہے.اگر تمہیں مال حاصل کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اپنے اموال کا ایک حصہ تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں.اس طرح تم بہت بڑے مالدار بن جاؤ گے.اور اگر اس بات کی خواہش ہے کہ حکومت حاصل ہو تو ہم سب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنا سردار بنائیں.اور اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو جس عورت کو پسند کرو وہ ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں.اور اگر تم بیمار ہو تو بھی بتاؤ کہ ہم علاج کے لئے بھی تیار ہیں.غرض عزت چاہتے ہو تو عزت دینے کیلئے تیار ہیں، اگر بادشاہت چاہتے ہو تو بادشاہت دینے کے لئے، اگر عورت چاہتے ہو تو عورت دینے کے لئے اور بیمار ہو تو علاج کرنے کے لئے ہم تیار ہیں.مگر تم یہ کہنا چھوڑ دو کہ خدا ایک ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے تمہاری ان چیزوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں.میرا جواب سنو.یہ فرما کر آپ نے چند آیات قرآن کی تلاوت فرمائیں جن میں تو حید کی تعلیم تھی.ان آیات کو سن کر عتبہ پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے واپس جا کر کہا یہ نہ جھوٹا ہے اور نہ ساحر ہے ، اس کی مخالفت چھوڑ دو 36.

Page 80

سيرة النبي عمال 70 جلد 3 احسانات کی قسمیں اب میں آپ کے احسانات کا ذکر کرتا ہوں.احسان کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک احسان وقتی ہوتے ہیں اور دوسرے لمبے عرصہ کے لئے.پھر آگے ان کی دو قسمیں ہیں.(1) طبعی یعنی فطرت کے تقاضا کے ماتحت.جیسے ماں کے دل میں بچہ کی خدمت کا تقاضا ہوتا ہے.(2) عقلی یعنی ایسا احسان جو عقل کے تقاضا کے ماتحت ہو.مثلاً ایک مظلوم کو دیکھ کر رقم آ جاتا اور اس پر احسان کرنا.یا ایک شخص کو جاہل دیکھ کر اس پر رقم کر کے اسے علم پڑھا دینا.پھر آگے عقلی احسان کی بھی دو قسمیں ہیں.(1) ایسا احسان جس کا بدلہ لینے کی امید ہوتی ہے.مثلاً کسی کو علم پڑھاتے ہیں تو امید ہوتی ہے کہ وہ ہمارے خیالات کی آگے اشاعت کرے گا.(2) طبعی عقلی یعنی خواہش احسان تو بوجہ دلیل اور عقل کے ہوتی ہے مگر وہ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ طبعی کی طرح ہو جاتی ہے.انسان احسان کرنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے.اس کی آگے پھر دو قسمیں ہیں.ایک وہ احسان جو اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالے بغیر کیا جاتا ہے.جیسے کسی کے پاس مال ہو اور وہ کسی پر احسان کر کے اسے کچھ مال دے دے.دوسری قسم کا احسان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر دوسرے پر احسان کرتا ہے.مثلاً کسی کے گھر آگ لگی ہے اس میں کود کر اس کے مال کو یا اس کے گھر کے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے.یہ احسان کی قسمیں ہیں.ان کو مد نظر رکھ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ رسول کریم صلى الله نے صرف احسان ہی نہیں کیا بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ احسان کیا ہے.مثلاً آپ کے احسانات صرف عارضی نہیں ہیں ، اکثر دائمی ہیں.اور پھر آپ کے احسانات صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہیں جو آپ کے رشتہ دار تھے بلکہ آپ کے احسانات اپنے دوستوں سے نکل کر واقفوں اور ان سے بھی گزر کر نا واقفوں تک پھیل گئے ہیں.پھر یہ کہ آپ کے احسانات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی نفع کی آپ کو امید

Page 81

سيرة النبي عمال 71 جلد 3 نہ تھی بلکہ وہ ایسے ہی طبعی تھے جیسے کہ ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے.اور پھر صرف انتہائی جوش کے ماتحت اور عام احسان ہی آپ نے نہیں کئے بلکہ ساتھ اس کے یہ بات تھی کہ آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر وہ احسانات کئے ہیں اور ان کے بدلہ میں خطر ناک سے خطر ناک مشکلات میں اپنی جان کو ڈالا ہے.پس احسان کی تمام اقسام میں سے بہتر سے بہتر اقسام کا ظہور آپ سے ہوا ہے اور ایسے رنگ میں ہوا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی.اب میں آپ کے احسانات کی چند مثالیں بیان کرتا ہوں تا معلوم ہو سکے کہ آپ کے احسان کس اعلیٰ شان کے تھے.شرک کو دور کرنا پہلا احسان آپ کا شرک کو دور کرنا ہے.آپ نے ایک خدا کی پرستش دنیا میں قائم کی.اب تو سب دنیا اس بات کی قائل ہو رہی ہے کہ شرک برا ہے.مگر جب آپ مبعوث ہوئے تھے اُس وقت قائل نہ تھی.آپ نے سارے ملک کو اپنا دشمن بنا کر اور سخت سے سخت تکالیف برداشت کر کے اس صداقت کو قائم کیا اور نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنا ممنون احسان کیا.یہ احسان صرف مذہبی پہلو سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دنیوی پہلو بھی ہے اور یہ احسان دنیا کی دنیوی ترقی میں بھی محمد ہے.مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لوگ ان چیزوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے خدا سمجھنے لگیں تو کبھی بھی ان کے طبعی فوائد پر غور نہیں کریں گے اور ان کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کریں گے.لیکن جب لوگ ایک خدا کے قائل ہوں گے اور سب مخلوق کو انسان کے فائدہ کے لئے قرار دیں گے تو پھر ان کے فوائد کو حاصل کرنے اور ان کو اپنی خدمت میں لگانے کی بھی کوشش کریں گے اور اس طرح سائنس اور علم کی بھی ترقی ہوگی.پس رسول کریم ﷺ نے شرک کو دور کر کے اور توحید کی تعلیم دے کر نہ صرف ایک عظیم الشان مذہبی احسان دنیا پر کیا ہے بلکہ علمی ترقی کا بھی رستہ کھول دیا ہے.

Page 82

سيرة النبي علي 72 جلد 3 مذہب اور سائنس میں صلح دوسرا احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے مذہب اور سائنس کی لڑائی کو دور کر دیا ہے.آپ سے صلى الله لوگ سمجھتے تھے علم پڑھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے.رسول کریم یہ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ خیال قائم کیا کہ مذہب خدا کا کلام ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے.آگ جو جلاتی ہے تو اسے بھی خدا نے پیدا کیا ہے جس طرح اس نے اپنا کلام نازل کیا ہے.پس اگر مثلا گرمی کے خواص پر غور کیا جائے تو یہ خدا تعالیٰ کے فعل پر غور صلى الله ہوگا نہ کہ مذہب کے مخالف.غرض رسول کریم علی نے مذہب اور سائنس میں صلح کرا دی اور آپ نے فرمایا طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ 37 علم ، مذہب کے خلاف نہیں.میرے ہر ماننے والے پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے کہ علم پڑھے.اس وقت غیر مذاہب والے کہتے ہیں کہ مسلمان جاہل ہیں.مگر یہ ہمارا قصور ہے ہمارے رسول کا نہیں ہے.اس اعتراض سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں اور ہماری آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں.مگر اس سے ہمارے رسول پر کوئی حرف نہیں آتا.کیونکہ اُس وقت جب کہ مکہ والے علم حاصل کرنا ذلت سمجھتے تھے اور سارے مکہ میں صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے اور ان کو بھی صرف سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے علم پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی آپ نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ پڑھنا لکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے.پس اگر آجکل مسلمان جاہل ہیں تو یہ قصور ہمارا ہے ہمارے آقا کا نہیں ہے..اس نے یہی تعلیم دی ہے کہ علم سیکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے.اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے پچھلے علوم کو قائم رکھا اور نئے علوم کی بنیاد ڈالی جن سے آج دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے.اگر مسلمان پہلے علوم کی حفاظت نہ کرتے تو ارسطو کا فلسفہ اور بقراط کی حکمت آج کوئی نہ معلوم کر سکتا.مسلمانوں نے ان کی کتب کے ترجمے کرائے اور جب کہ ان حکماء کے اپنے اہل وطن ان سے غافل ہو گئے تھے ان کے درس اپنی یو نیورسٹیوں میں

Page 83

سيرة النبي علي 73 جلد 3 جاری کئے اور ان کتب کو محفوظ کر دیا اور پھر ان کے ذریعہ سے یہ علوم اور خود مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم پین میں پہنچے.اور اُس وقت جب کہ مسیحی علماء علوم کو پڑھنا کفر قرار دے رہے تھے جس طرح کہ آجکل بعض لوگ علوم جدیدہ کا پڑھنا کفر قرار دے رہے ہیں مسلمانوں کے ذریعہ سے یورپ کے نوجوانوں نے علوم کو سیکھا اور پھر ان پر مزید ترقی کر کے آجکل کے علوم کی بنیاد رکھی.چنانچہ ایک یورپین مصنف لکھتا ہے کہ اہل یورپ کب تک دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکتے اور یہ کہتے رہیں گے کہ مسلمانوں نے علم کی خدمت نہیں کی حالانکہ واقعہ یہ ہے اگر سپین میں مسلمانوں کے ذریعہ علوم نہ پہنچتے تو ہم آج جہالت کی نہایت ابتدائی حالت میں ہوتے.غرض رسول کریم ﷺ کی ہی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں علوم کی ترقی کا وہ تسلسل قائم رہا ہے جس کے بغیر علمی ترقی بالکل ناممکن تھی.علم ختم نہیں ہوتا تیسرا احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے بزور اس امر کی تعلیم دی کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا.دنیا میں لوگ ایک حد تک ترقی کر کے جب یہ کہتے ہیں کہ اب ترقی نہیں ہو سکتی تو علم مٹنا شروع ہو جاتا ہے اور تمام علوم اور قوموں کے تنزل کا موجب ہی یہ ہے کہ ایک حد تک پہنچ کر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ اس سے اوپر اور کیا ترقی ہوگی.رسول کریم ﷺے ہی وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے اس خطرناک مرض کو معلوم کیا اور دنیا کے سامنے پیش کر کے اس سے اسے بچایا اور بڑے زور سے تعلیم دی کہ علم خواہ کوئی ہو کبھی ختم نہیں ہوتا.پس ہمیشہ علم کی تحقیق کرتے رہو اور کبھی کسی جگہ پر ٹھہر نہ جاؤ.یہ کتنا بڑا نکتہ ہے.ہم لوگ اپنے ایمان کے لحاظ سے یہی مانتے ہیں کہ آپ سب سے بڑے عالم تھے.آپ سے بڑھ کر نہ کوئی عالم ہوا اور نہ ہوگا.مگر آپ بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رَبّ زِدْنِي عِلْمًا 38 اے خدا! میرا علم اور بڑھا.اس کا یہ مطلب ہے کہ محمدعلی بھی علم کے انتہائی مقام کو نہیں پہنچ سکے اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے غیر محدود راستوں پر برابر آگے ہی آگے بڑھتے رہے اور ہمیشہ

Page 84

سيرة النبي عمال 74 جلد 3 اضافہ علم کی خواہش آپ کے دل میں موجزن رہی.پس جب رسول کریم ﷺہے جو علم روحانی کے مکمل کرنے والے تھے دعا کرتے رہے کہ ان کا علم اور بڑھے تو کونسا علم ہوسکتا ہے جو ختم ہو جائے اور کونسا شخص ہو سکتا ہے جو کسی علم کو ختم کر لے.اور جب علم کی حد کوئی نہ رہی تو معلوم ہوا کہ اہل علم کا یہ فرض ہے کہ اپنے اپنے شعبہ میں ہمیشہ مزید ترقی کے لئے کوشش کرتے رہا کریں اور کسی مقام پر پہنچ کر یہ خیال نہ کریں کہ اب ترقی نہیں ہو سکتی بلکہ ہمیشہ ترقی ہوتی رہے گی اور نئے علوم نکلتے رہیں گے اور ایجادات ہوتی رہیں گی.ہر مرض کی دوا جس طرح رسول کریم ﷺ نے یہ احسان کیا ہے کہ علوم کسی مقام پر ختم نہیں ہوتے اسی طرح آپ کا یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے یہ تعلیم دی کہ ہر اک انسانی ضرورت کا خدا تعالیٰ نے علاج مقرر کیا ہے اور کوئی ضرورت حقہ نہیں جس کے پورا کرنے کا سامان نہ موجود ہو.چنانچہ آپ فرماتے ہیں لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاء 39 ہر مرض کا علاج خدا تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے.یہ تعلیم آپ نے اُس وقت دی تھی جب کہ طب میں ہزاروں بیماریوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے.اور آج بھی جب کہ طب اتنی ترقی کر گئی ہے اطباء کہتے ہیں کہ کئی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں.مگر رسول کریم ﷺ ایسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں کوئی طبیب نہ تھا فرماتے ہیں کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی دوا نہ ہو.تجسس کر و علاج پالو گے.آپ کے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں نے علم طب کی طرف توجہ کی اور بیسیوں بیماریوں کا علاج معلوم کر لیا.اور اب یورپ کے اطباء اس تعلیم کی صداقت کو ثابت کر رہے ہیں کہ مختلف لا علاج سمجھی جانے والی بیماریوں کا علاج تلاش کر رہے ہیں اور کئی بیماریوں کا علاج دریافت کر چکے ہیں.یہ تعلیم صرف امراض ہی کے متعلق نہیں بلکہ دوسری ضروریات کے متعلق بھی ہے اور اس اصل پر عمل کرنے والے ہمیشہ کامیابی کا منہ دیکھتے رہیں گے.

Page 85

سيرة النبي علي 75 جلد 3 اخلاقی ترقی کا مگر پانچواں احسان آپ کی وہ تعلیم ہے جو آپ نے اخلاقی ترقی کے متعلق دی ہے اور جس سے بدی کا قلع قمع ہو جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ انسان خواہ کیسی گندی حالت میں پہنچ جائے یہ نہ سمجھے کہ وہ نیک نہیں بن صلى الله سکتا.اس تعلیم کے ذریعہ سے رسول کریم علیہ نے مایوسی اور نا امیدی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے.آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر فرمایا إِنَّهُ لَا يَايْسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ 40 کہ خدا کی رحمت سے سوائے انکار کرنے والے کے اور کوئی مایوس نہیں ہوتا.اب دیکھو اس اصل کے ماتحت کس حد تک امید کا دروازہ کھل جاتا ہے.عام طور پر بدی اسی طرح پھیلتی ہے کہ جو شخص بدیوں میں مبتلا ہو چکا ہو وہ سمجھتا ہے کہ اتنی بدیاں کر لی ہیں تو اب میں کہاں نیک بن سکتا ہوں اور جب وہ یہ رائے قائم کر لیتا ہے تو وہ بدیوں میں بڑھتا جاتا ہے.لیکن اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ خواہ اس سے کتنی ہی بدیاں سرزد ہو چکی ہیں وہ نیک ہو سکتا ہے اور واپسی کا راستہ اس کے لئے بند نہیں ہے تو اس کے نیک بن جانے کا ہر وقت احتمال ہے.بچے دل سے جستجو کرنے والا مذکورہ بالا اصل کے ماتحت ہی رسول کریم : کا دنیا پر یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے یہ تعلیم ہے ضرور کامیاب ہو جاتا ہے دی ہے کہ بچی جستجو کبھی ضائع نہیں جاتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ یہ تعلیم دیا کرتے تھے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا 41 یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ملنے کے لئے کوشش کریں گے ہم ضرور ان کو ہدایت دے دیں گے.یعنی جو بھی سچے دل سے جستجو کرے گا وہ خدا کو پالے گا.یہ اور بات ہے کہ کس طرح سے خدا تعالیٰ ہدایت دے مگر دے گا ضرور.اور یہ کہنا کہ سکھ یا ہندو یا عیسائی کی دعا قبول نہیں ہوتی بالکل غلط ہے.طلب ہدایت کے متعلق ہر اک کی دعا قبول ہوتی ہے.اور اگر کوئی سچے دل سے جستجو

Page 86

سيرة النبي عمال 76 جلد 3 کرے تو ضرور اسے سیدھا رستہ دکھایا جائے گا.اور جب اس کی دعا اپنی حد کو پہنچ جائے گی تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا جن کی مدد سے وہ کشاں کشاں اس راستہ پر پڑ جائیں گے جس پر چل کر خدا تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوتا ہے.چھٹا احسان رسول کریم ﷺ کا یہ ہے کہ آپ نے قومی امتیازات کو مٹا مساوات کر انسانی مساوات کو قائم کیا ہے.آپ سے پہلے ہر قوم اپنے آپ کو اعلیٰ قرار دیتی تھی.عرب تحقیر کے طور پر کہتے کہ عجمی جاہل ہیں.ان کی ہمارے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے.مجھی ، عربوں کے متعلق کہتے تھے کہ عرب وحشی ہیں.رومی کہتے تھے ہم سب سے اعلیٰ ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا لَيْسَ لِلْعَرَبِيِّ فَضْلٌ عَلَى عَجَمِيّ إِلَّا بِالتَّقوى 142اے عربو! یاد رکھو تم کو دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی.تم بھی ویسے ہی ہو جیسے اور ہیں.سوائے اس صورت کے کہ تم خدا کے خوف میں دوسروں سے بڑھ جاؤ اور یہ فضیلت نسل کی وجہ سے نہ ہوگی بلکہ تقویٰ کی وجہ سے.اگر رسول کریم ﷺ کسی غیر قوم کے لوگوں کو یہ تعلیم دیتے کہ تمہیں دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں ہے تو کہا جا سکتا تھا کہ اپنی قوم کو بڑھانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں.مثلاً اگر کوئی شخص چوہڑوں اور چماروں میں سے کھڑا ہو کر کہے کہ اے پنڈ تو اور برہمنو ! تم کو کسی اور قوم پر فضیلت حاصل نہیں ہے.تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تعلیم مساوات قائم کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عزت قائم کرنے کے لئے ہے.لیکن اگر کوئی سید کھڑا ہو کر سیدوں کو کہے کہ تمہیں دوسروں پر انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فضیلت نہیں ہے تو کہا جائے گا کہ وہ اپنی قوم کو ایک سچی تعلیم دے کر ان پر احسان کر رہا ہے.رسول کریم ﷺ کے حکم کو دیکھو آپ نے ایسے ہی الفاظ میں نصیحت کی ہے جو آپ کی قوم کے درجہ کو گراتے ہیں نہ یہ کہ اوروں کے درجہ کو گرا کے اپنی قوم کا درجہ بڑھاتے ہیں.پس آپ کی تعلیم حقیقی مساوات کی تعلیم تھی.آپ یہ نہیں فرماتے کہ اے مجھیو! تم رومیوں یا عربوں سے بڑے نہیں ہو بلکہ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ تم دوسروں پر فضیلت کا

Page 87

سيرة النبي عمال 77 جلد 3 دعوئی نہ کیا کرو.پس آپ کی تعلیم مساوات کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی اور بنی نوع انسان پر ایک عظیم الشان احسان تھا.اسی ضمن میں آپ نے خدا تعالیٰ سے حکم پا کر کہا يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْتُكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ آتْقُكُمْ 43 تو کہہ دے کہ قو میں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں جس طرح دو مقابل کی ٹیمیں ہوتی ہیں.قومی مساوات کے ساتھ ساتھ آپ نے تمدنی درجہ میں بھی سب کو برابر کر دیا اور فرمایا سوائے ایسی قوموں کے جن کو حرام و حلال کا پتہ نہیں ہے باقیوں سے مل کر تم کھا پی سکتے ہو.یعنی جو صاف ستھرے لوگ ہوں یا جن کے ہاں کوئی معیار حلال وحرام کے لئے مقرر ہو ان سے کھانا پینا منع نہیں ہے.اسی طرح احکام انصاف میں برابری رکھ کر احکام انصاف میں مساوات آپ نے مساوات کو قائم کیا.خواہ کسی سے لڑائی ہو تو بھی اس کے متعلق انصاف کو قائم رکھا جائے گا.مثلاً کسی مسلمان کی کسی یہودی سے لڑائی ہو تو اس لڑائی میں مسلمان کو کوئی ترجیح نہ دی جائے گی.نہ معاملات میں اپنی قوم کو ترجیح دی جائے گی.جیسے مثلاً یہودیوں میں حکم ہے کہ یہودی سے سود نہ لومگر غیر سے لے لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے سب بندے برابر ہیں ، نہ کسی مسلمان سے سود لو نہ کسی اور سے.اگر سود ظلم ہے تو ایک یہودی سے لینا ایسا ہی برا ہے جیسا کہ مسلمانوں سے.مساوات کا ایک بے نظیر سبق اسی طرح آپ نے فرمایا ہے انصر اخاک اُنصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا 44 اے مسلمان ! تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم.یہ سن کر صحابہ حیران رہ گئے کہ مظلوم کی تو مدد کی جا سکتی ہے ظالم کی کیا مدد کی جائے اور انہوں نے کہا مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں

Page 88

سيرة النبی عمل 78 جلد 3 آ گیا مگر ظالم کی کس طرح مدد کی جائے.آپ نے فرمایا ظالم کی مدد اس طرح کرو کہ اسے ظلم سے روک دو.یہ واقعہ نہ صرف اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ نے انصاف اور مساوات کو قائم کیا ہے اور معاملات میں سب انسانوں کو برابر کیا ہے، یہ تعلیم نہیں دی کہ ہر حالت میں اپنے بھائی کا ساتھ دو بلکہ یہ تعلیم دی ہے کہ اگر بھائی ظلم کرے تو یہ خیال کر کے کہ اس کا مقابل غیر ہے بھائی کی مدد نہ کرو بلکہ ایسے وقت میں بھائی کی مدد یہی ہے کہ اس کا ہاتھ ظلم سے روکو کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں.بلکہ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی نہایت مقدس اور پاک تھی.اگر نَعُوذُ بِالله رسول کریم ﷺ ظالم ہوتے اور دوسروں کو نقصان پہنچانا جائز سمجھتے تو جب آپ نے یہ فرمایا تھا اُنصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُومًا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم تو اُس وقت مسلمان حیران کیوں رہ جاتے.اگر انہیں ظلم کی تعلیم دی جاتی تھی تو ان کے حیران رہ جانے کا کوئی موقع نہ تھا.وہ تو ایسی تعلیم کے سننے کے عادی تھے.لیکن وہ حیران ہوئے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انہیں روزانہ یہی تعلیم ملتی تھی کہ ظلم نہیں کرنا چاہئے.اور یہی وجہ تھی کہ جب انہیں یہ کہا گیا کہ اپنے ظالم بھائی کی مدد کر تو اس تعلیم کو عام تعلیم کے خلاف پا کر وہ گھبرا گئے اور اس کی تشریح طلب کی جو ایسی بے نظیر تھی کہ اس نے اخلاق فاضلہ کے لئے نئے دروازے کھول دیئے.عہد کا احترام اسی مساوات کی مثال کے طور پر آپ کا وہ طریق عمل پیش کیا جا سکتا ہے جو آپ معاہدات کی پابندی میں کرتے تھے.ایک دفعہ آپ لڑائی کے لئے جا رہے تھے.لڑائی کے وقت سب جانتے ہیں کہ ایک ایک آدمی کس قدر قیمتی ہوتا ہے.اُس وقت رستہ میں دو آدمی آپ کو ملے.آپ نے دریافت فرمایا کس طرح آئے ہو؟ انہوں نے کہا اسلام لانے کے لئے آئے ہیں.ہم مکہ سے آئے ہیں مگر وہاں کہہ آئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی مدد کے لئے نہیں جا رہے.آپ

Page 89

سيرة النبي م 79 جلد 3 نے فرمایا یہ کہہ کر آئے ہو تو ہمارے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہو.جب ان سے تم کہہ آئے ہو کہ ہم مسلمانوں کی مدد کو نہیں جا ر ہے تو اب ہمارے ساتھ ملنے سے وعدہ خلافی ہو جائے گی.پس اس سے بچو.یہ کیسا اعلیٰ سبق مساوات کا ہے.ہر چہ برخود مپسندی بر دیگراں مپسند.ایک خالی مقولہ ہے جس پر لوگ عمل نہیں کرتے ہاں زور بہت دیتے ہیں.مگر رسول کریم ﷺ نے اس پر ایسے بے نظیر طور پر عمل کیا ہے کہ اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی.ذرا غور کرو ایک ہزار دشمن کے مقابلہ کے لئے آپ جا رہے ہیں اور صرف تین سو آدمی آپ کے ساتھ ہیں.اُس وقت آپ کو دو آدمی ملتے ہیں جو تجربہ کا رسپاہی ہونے کی وجہ سے آپ کے لئے نہایت کارآمد ہیں مگر آپ انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیتے ہیں تا کہ ان کا عہد قائم رہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ عہد خواہ اپنے سے ہو یا غیر سے کس طرح آپ اس کی پابندی کراتے تھے.حتی کہ جو دشمن جنگ کر رہا ہو اس کے عہد کو بھی پورا کراتے تھے.تمدنی اور شرعی مساوات کے علاوہ آپ نے روحانی مساوات بھی قائم کی ہے چنانچہ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہراک قوم کے لئے روحانی بادشاہت پانے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب دنیا کے لئے بھیجا ہے.کوئی ادنیٰ ہو یا اعلیٰ خدا تعالیٰ کے لئے سب برابر ہیں.پس وہ اس کے دین میں داخل ہو سکتے ہیں اور اعلیٰ روحانی انعامات پاسکتے ہیں.قیام امن کے سامان ساتواں احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے سامان پیدا کئے ہیں جس کے ثبوت میں مندرجہ ذیل چند امور پیش کئے جاتے ہیں.ہر قوم کے بزرگوں کا ادب (الف) بہت سی لڑائیاں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے مذہب کو جھوٹا

Page 90

سيرة النبي عمال 80 جلد 3 سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سوائے ہمارے خدا تعالیٰ کو اور کوئی عزیز نہیں ہوا.باقی لوگ ازل سے خدا کے دروازہ سے دھتکارے ہوئے ہیں.اب یہ خیال فطرت کے بالکل مخالف ہے.خواہ کوئی کسی قوم کا ہو اور کسی ملک کا ہو وہ خدا تعالیٰ پر اپنا ایسا ہی حق سمجھتا ہے جیسا کہ دوسرا.پس اس قسم کے خیال سن کر جذ بہ حقارت بھڑک اٹھتا ہے اور جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا ہے.آپ نے اس جھگڑے کا یہ اعلان کر کے کہ اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ 45 بالکل بند کر دیا.یعنی کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کے نبی نہ گزرے ہوں.اس اعلان کے ذریعہ سے سب اقوام کے نبیوں کے تقدس کو قبول کر لیا گیا ہے اور وہ منافرت جو دائرہ ہدایت کے محدود کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اس اعلان کو مدنظر رکھنے والے کے دل سے دور ہو جاتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب مذاہب کی اصل سچائی ہے.پس با وجود اختلاف کے مجھے ان سے اتحاد ہے.سب مذاہب خدا کے قائم کئے ہوئے اور اسی کے جاری کئے ہوئے ہیں.پس ان سے بغض اور ان کا قطعی انکار خود خدا کے فضل کا انکار ہے.اب غور کرو آپ نے یہ کیسا امن قائم کرنے کا طریق بتایا ہے.ایک ہندو جب ہم سے پوچھتا ہے تم رامچندرجی کو کیسا سمجھتے ہو؟ تو ہم کہتے ہیں ہم انہیں خدا تعالیٰ کا بزرگ سمجھتے ہیں.یہ بات سن کر ایک ہندو ہم سے کس طرح ناراض ہوسکتا ہے.اسی طرح ہم جہاں جائیں ہمیں اس بات کی فکر نہ ہوگی کہ دوسروں کے بزرگوں میں کیڑے نکالیں.اگر کوئی بتائے کہ امریکہ یا افریقہ کے فلاں علاقہ میں خدا کا کوئی برگزیدہ گزرا ہے تو ہم کہیں گے ٹھیک ہے.قرآن نے اس کا علم پہلے ہی دے دیا تھا کہ ہر قوم میں ہادی گزرے ہیں.پس رسول کریم ﷺ نے اس تعلیم کے ذریعہ سے قیام امن کا ایک دروازہ کھول دیا ہے.کسی کی قابل عزت چیز کو برا نہ کہو (ب) دوسری وہ لڑائی جھگڑوں کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی قوم کے بزرگوں

Page 91

سيرة النبي عمال 81 جلد 3 کو تو برا بھلا نہیں کہتا لیکن اس کے اصولوں کو برا کہتا ہے.رسول کریم میے کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس فعل سے بھی روکا ہے.آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمُ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 46 فرمایا وہ چیزیں جنہیں دوسرے مذاہب والے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے بت وغیرہ ان کو بھی گالیاں مت دو.گو تمہارے نزدیک وہ چیزیں درست نہ ہوں مگر پھر بھی تمہارا حق نہیں ہے کہ انہیں سخت الفاظ سے یاد کرو کیونکہ اس طرح ان لوگوں کے دل دیکھیں گے اور پھر لڑائی اور فساد پیدا ہوگا اور وہ بھی بغیر سوچے تمہارے اصول کو برا بھلا کہیں گے اور خدا تعالیٰ کو ضد میں آ کر گالیاں دیں گے.یہ کتنی اعلیٰ تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے دی ہے.دوسرے مذاہب کے جو بزرگ سچے تھے ان کے متعلق تو فرمایا کہ انہیں مان لو.اور جو چیزیں سچی نہ تھیں ان کے متعلق کہہ دیا کہ انہیں برا بھلا نہ کہو.( ج ) تیسری بات لڑائی فساد پیدا کرنے والی یہ ہوتی ہے ہر مذہب میں خوبی کہ ہر مذہب والا دوسرے مذہب کے متعلق کہتا ہے کہ وہ قطعاً جھوٹا ہے اس میں کوئی خوبی نہیں ہے.رسول کریم ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے فرمایا وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرُى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصْرُى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَبَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ 47.فرمایا کیسا اندھیر بیچ رہا ہے.یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں.حالانکہ یہ دونوں کتاب الہی پڑھتے ہیں یعنی جب کتاب الہی پڑھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ہر اک چیز

Page 92

سيرة النبي عمال 82 جلد 3 میں خواہ وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خو بیاں بھی ہوتی ہیں اور جب کوئی چیز کسی فائدہ کی نہ رہے تو وہ بالکل مٹا دی جاتی ہے پس یہ کس طرح کہتے ہیں کہ دوسرے میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں.وہ مسلمان جو یہ کہتا ہے کہ ہندو مذہب میں عیب ہی عیب ہیں یا ہندو مسلمانوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں عیب ہی عیب ہیں یا عیسائی ہندوؤں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں عیب ہی عیب ہیں کوئی خوبی نہیں ہے انہیں غور کرنا چاہئے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عیسائیت دنیا میں قائم ہومگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو یا یہودیت قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو.ہندو دھرم قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو یا اسلام قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو.کوئی مذہب اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک اس میں کوئی خوبی نہ ہو.مگر یہ تعلیم صرف اسلام نے ہی دی ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرو.دراصل یہ بزدلی ہوتی ہے کہ دوسروں کی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے.نیک نیتی سے ماننے والے رسول کریم ﷺ نے امن کے قیام کا ایک یہ بھی ذریعہ اختیار کیا ہے کہ آپ نے دنیا کے سامنے اس صداقت کو بھی پیش کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ سب اقوام میں نبی آئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ہر مذہب میں کچھ خوبیاں ہیں بلکہ یہ امر بھی بالکل حق ہے کہ ہر مذہب کے پیروؤں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو اس مذہب کو سچا سمجھ کر مان رہے ہوتے ہیں نہ کہ ضد اور شرارت سے.پس یہ نیکی کی تڑپ جو ماننے والوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے نظر انداز نہیں کی جاسکتی.اور گو وہ غلطی پر ہوں مگر پھر بھی ان کی یہ سعی قابل قدر ہے.چنانچہ اس کی مثال رسول کریم ﷺ کے ایک عمل سے ملتی ہے.سب جانتے ہیں کہ اسلام شرک کا سخت مخالف ہے.مگر ایک دفعہ کچھ عیسائی رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور مسجد میں بیٹھ کر بحث کرتے رہے حتیٰ کہ ان کی

Page 93

سيرة النبي عمال 83 جلد 3 عليسة عبادت کا وقت ہو گیا اور عبادت کے لئے مسجد سے باہر جانے لگے.رسول کریم علی نے انہیں فرمایا یہاں ہی عبادت کر لو.چنانچہ انہوں نے بت اپنے سامنے رکھے اور عبادت کر لی 48.اور رسول کریم ﷺ سامنے بیٹھے دیکھتے رہے.اب دیکھو کہ انہوں نے تو صلیب یا بزرگوں کے بتوں کی پوجا کی لیکن رسول کریم ﷺ نے انہیں مسجد میں ایسا کرنے کی اجازت دی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ وہ لوگ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے ایسا کر رہے ہیں.پس ان کی اس تڑپ کی آپ نے قدر کی اور ان کی نیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں جو ذکر الہی کے لئے ہوتی ہے اپنی عبادت بجا لانے کی اجازت دی.جنگ کے حدود دنیا میں ایک باعث فساد کا یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کسی نہ کسی وجہ سے فساد پیدا ہو جائے تو لوگ اسے قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے اس وجہ فساد کو بھی دور فرمایا ہے اور جنگ میں بھی حدود قائم کر دی ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ سے حکم پا کر آپ نے فرمایا ہے کہ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ 49 کہ جب لڑائی ہو رہی ہو اور لڑنے والا دشمن لڑائی چھوڑ دے تو پھر اس سے لڑنا جائز نہیں ہے.کیونکہ یہ ایک قسم کی ندامت ہے اور اللہ تعالیٰ نادم کی ندامت کو ضائع نہیں کرتا بلکہ بخشش سے کام لیتا ہے اور رحم کرتا ہے.اسی طرح فرمایا کہ فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّلِمِيْنَ 50 سزا انہی کو دی جاتی ہے جو ظلم کر رہے ہوں.جو اپنی شرارت سے باز آ جائیں انہیں پچھلے قصوروں کی وجہ سے برباد نہیں کرتے جانا چاہئے.حریت ضمیر آٹھواں احسان رسول کریم ﷺ کا یہ ہے کہ آپ نے حریت ضمیر کے اصل کو قائم کیا ہے.علمی ترقی کی جڑ حریت ضمیر ہے.شک پیدا ہو اور اس شک کے مطابق تحقیق کی جائے اور جو صحیح نتیجہ نکلے اس کے مطابق اپنے خیال اور اپنے عمل کو بدلا جائے یہی سب ترقیات کی کنجی ہے.جب رسول کریم ﷺ پیدا ہوئے

Page 94

سيرة النبي عمال 84 جلد 3 ہیں اس وقت عرب خصوصاً اور دوسرے ممالک کے لوگ عموماً حریت ضمیر کی قدر نہ جانتے تھے.اُس وقت قرآن کریم نے اعلان کیا کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ 51 دین کے بارہ میں کچھ جبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہدایت اور گمراہی میں خدا تعالیٰ نے نمایاں فرق کر کے دکھا دیا ہے.پس جو سمجھنا چاہے وہ دلیل سے سمجھ سکتا ہے اس پر جبر نہیں ہونا چاہئے.ایک دفعہ عربوں نے خواہش کی کہ آپ سے سمجھوتہ کر لیں اور وہ اس طرح کہ ہم اللہ صلى الله کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں اور تم بتوں کی پرستش شروع کر دو.اس پر رسول کریم ہے نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق فرمایا کہ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِى دِيْنِ 52 جب میں بتوں کو جھوٹا سمجھتا ہوں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنے ضمیر کو قربان کر کے ان کی پرستش کروں اور تم واحد خدا کو نہیں مانتے تو تم اس کی پرستش کس طرح کر سکتے ہو.تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا.عورتوں کے حقوق نواں احسان آپ کا وہ ہے جو صنف نازک سے تعلق رکھتا صلى الله ہے.رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کئے جاتے تھے.اور عرب لوگ تو انہیں ورثہ میں بانٹ لیتے تھے.رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت عورتوں کے حقوق کو قائم کیا اور اعلان فرمایا کہ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ 53 عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے.پھر آپ نے اعلان فرمایا جس طرح مردوں کے لئے مرنے کے بعد انعام ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں.پھر عورتوں کے لئے جائیداد میں حصے مقرر کئے.اس کی اپنی جائیداد مقرر کی.انگلستان میں بھی آج سے 20 سال قبل عورت کی کوئی جائیداد نہ کبھی جاتی تھی.جو کچھ اسے باپ سے ملتا وہ بھی اس الله کا نہ ہوتا.مگر رسول کریم ﷺ نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ حکم دیا کہ عورت اپنے مال کی آپ مالک ہے.خاوند بھی اس کی مرضی کے خلاف اس سے مال نہیں

Page 95

سيرة النبي علي 85 جلد 3 لے سکتا.بچوں کی تربیت ، نکاح میں رضامندی اور اس قسم کے بہت سے حقوق آپ نے عورت کو عطا کئے.تو ہم کا انسداد دسواں احسان رسول کریم ﷺ کا صلى الله دسواں احسان رسول کریم ﷺ کا یہ ہے کہ دنیا میں جو تو ہم پائے جاتے تھے آپ نے ان کا انسداد کیا.آپ کی آمد سے جادو اور ٹونے کا بہت رواج تھا اور جانوروں سے اور ان کی بولیوں سے لوگ تفاؤل لیتے تھے اور قسم قسم کے وہموں میں مبتلا تھے.مگر جب کہ تعلیم یافتہ ملکوں کے لوگ وہم میں مبتلا تھے آپ نے ایک جاہل ملک میں پیدا ہو کر سب وہموں کو دور کر دیا اور اعلان کر دیا کہ یہ سب امور فضول اور لغو ہیں.خدا تعالیٰ نے ہراک امر کے لئے علم پیدا کیا ہے اس علم سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اس کے ذریعہ سے بیماریاں بھی دور ہوں گی اور ترقیات حاصل ہوں گی.لوگ کہتے ستاروں کی وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں.آپ نے فرمایا بے شک ان کا بھی اثر ہوتا ہے مگر یہ ستارے اپنی ذات میں کوئی مستقل حیثیت رکھتے ہوں یہ درست نہیں ہے.وہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں.ان کی گردشوں پر اپنے کام کو منحصر رکھنا فضول اور لغویات ہے.اسی طرح بلی ، کوا اور الو وغیرہ جانوروں سے شگون لینے کو آپ نے ناپسند فرمایا.اسی طرح قانون قدرت کی صحت کو تسلیم کر کے فرمایا لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا 54 ایک قانون خدا تعالیٰ نے جاری کیا ہے اس کے ماتحت چل کر ترقی کر لو.اس کے خلاف کرو گے تو ترقی نہ ہوگی.ایک دفعہ آپ کہیں جا رہے تھے کہ لوگ کھجور کے پیوند لگا رہے تھے.آپ نے فرمایا یہ کیا کر رہے ہو، اس کی کیا ضرورت ہے؟ پیوند لگانے والوں نے سمجھا آپ نے منع فرمایا ہے اور انہوں نے پیوند لگانے چھوڑ دیئے.اس سال کھجوروں کو پھل نہ لگے.انہوں نے آ کر رسول کریم ﷺ سے کہا آپ نے پیوند لگانے سے منع کیا تھا مگر پھل نہیں لگے.آپ نے فرمایا میں نے تو پوچھا تھا نہ یہ کہ منع کیا تھا.تم نے کیوں پیوند لگانے چھوڑ دیئے.تم لوگ ان امور کو مجھ سے زیادہ جانتے صلى

Page 96

سيرة النبي عمال 86 جلد 3 ہو 55.اسی طرح آپ کے بیٹے ابراہیم کی موت پر گرہن لگا تو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت پر گرہن لگا ہے.تو آپ نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا کہ گرہن خدا تعالیٰ کے ایک قانون سے تعلق رکھتا ہے اسے کسی کی موت اور حیات سے کیا تعلق ہے 56.سرمایہ اور مزدوری میں اتحاد گیارھواں احسان آپ کا دنیا پر یہ ہے کہ آپ نے سرمایہ دار اور مزدور کے تعلقات کو ایسے اصول پر قائم کیا کہ دنیا کی ترقی کے لئے رستہ کھل جاتا ہے اور سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے بالکل دور ہو جاتے ہیں.آپ نے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے دی ہے اس میں فیصلہ فرمایا ہے کہ ہر مالدار غریب کے ذریعہ کماتا ہے اس لئے اسے اپنے مال کا 1/40 حصہ غریبوں کے لئے الگ کر دینا چاہئے جو ان پر خرچ کیا جائے.لیکن اس کے خرچ کا اختیار گورنمنٹ کو ہوگا نہ کہ اس شخص کو یا اس کے ہاں کام کر نے والے مزدوروں کو.اس لئے کہ در حقیقت سرمایہ دار صرف اپنے ہی مزدوروں کے ذریعہ نہیں کماتا بلکہ اس کی کمائی پر تمام ملک کے مزدورں کی محنت کا اثر پڑتا ہے.پس چالیسواں حصہ کل سرمایہ کا سرمایہ دار سے وصول کر کے گورنمنٹ غرباء پر اس طرح خرچ کرے کہ کچھ تو اپاہجوں پر کرے اور کچھ ان پر جو اپنی آمد میں گزارہ نہیں کر سکتے اور کچھ غرباء میں سے جو ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں انہیں مدد دے کر تا کہ وہ اپنی حالت کو بدل سکیں.اس طرح رسول کریم ﷺ نے غرباء کی ترقی کے لئے راستہ کھول دیا ہے اور امرا کو ہمیشہ کے لئے امیر بنے رہنے سے روک دیا ہے.شراب کی ممانعت بارھواں احسان رسول کریم ﷺ نے دنیا پر یہ کیا ہے کہ آپ نے شراب کو بالکل روک دیا ہے.شراب کی برائیوں کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب سب دنیا اس کے نقائص کو تسلیم کر رہی ہے اور مختلف ملکوں میں اس کے کم کرنے یا بند کرنے کا انتظام ہو رہا ہے.چنانچہ

Page 97

سيرة النبي عمال 87 جلد 3 امریکہ والوں نے قانوناً اسے منع کر دیا ہے.ہمارے ملک کے لوگ بھی اس کی ممانعت پر زور دے رہے ہیں اور گو گورنمنٹ نے ابھی تک ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا لیکن امید ہے کہ مسلمانوں ، ہندوؤں اور مسیحیوں کی کوشش جاری رہی تو گورنمنٹ بھی تسلیم اور کر لے گی.صلى الله رسول کریم ﷺ کی قربانیاں اب میں رسول کریم ﷺ کی بعض قربانیوں کا ذکر کرتا ہوں.لیکن اس سے پہلے میں قربانی کی حقیقت کے متعلق کچھ تشریح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ آپ لوگ سمجھ سکیں کہ رسول کریم ﷺ کی قربانیاں کس شان کی تھیں.قربانی کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اصل قربانی یہ نہیں ہے کہ انسان سے کوئی چیز زبردستی چھین لی جائے بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کے نفع کے لئے ایسے حالات میں قربانی دی جاوے کہ اس سے بچنا انسان کے اختیار میں ہو.دنیا میں ہزاروں لوگ ہر روز مرتے ہیں مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ قربانی کرتے ہیں.ہزاروں لوگ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ قربانی کرتے ہیں اور اس کی یہی وجہ ہے کہ موت انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور ملک چھوڑنے والے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے فائدہ کے لئے ملک چھوڑتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی قربانیوں کو آپ لوگ دیکھیں گے کہ وہ ایسی ہی ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی مرضی سے پیش کیا اور لوگوں کے نفع کے لئے پیش کیا نہ کہ اپنے کسی فائدہ کے لئے.دائمی عمل پھر چی قربانیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں.ایک وہ قربانی ہے جو وقتی ہوتی ہے اور دوسری وہ جو دائمی ہوتی ہے.دائمی قربانی اعلیٰ ہے اور رسول کریم ﷺ کی قربانیوں میں یہی رنگ پایا جاتا ہے بلکہ آپ کی نسبت روایت ہے کہ آپ ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ وہی نیک کام اچھے ہوتے ہیں جو دائمی ہوں 57.پس ہمیشہ جب نیکی شروع کرو تو اسے ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرو.

Page 98

سيرة النبي علي 88 88 جلد 3 قربانیوں کی مزید اقسام قربانی کی ان دونوں قسموں کی آگے پھر دو تمیں ہیں.ایک قربانی جسے دوسرے وصول کرتے ہیں.(2) وہ قربانی جسے انسان خود پیش کرتا ہے.پہلی قسم کی قربانی یہ ہے کہ مثلاً لوگ اسے اس لئے ماریں کہ وہ صداقت کو چھوڑ دے مگر انسان نہ چھوڑے.اس کا نام ہم جبری قربانی رکھ لیتے ہیں.اور دوسری قربانی یہ ہے کہ انسان کے پاس مال ہو اور وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنی مرضی سے اسے خرچ کرے.اس کا نام ہم طوعی قربانی رکھ لیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے ابتلا دونوں ہی قسم کے تھے.آپ پر لوگوں نے جبر کیا اس لئے کہ آپ صداقت کو چھوڑ دیں مگر آپ نے اسے نہ چھوڑا.اسی طرح آپ نے بہت سی قربانیاں ایسی کیں کہ جن کے لئے واقعات نے آپ کو مجبور نہیں کیا تھا.پھر ان دونوں قسموں کی بھی آگے دو قسمیں ہیں:.(1) اشکراہی یعنی ایسی قربانی جو انسان واقعات سے مجبور ہو کر پیش کرتا ہے مگر اس کا دل اسے ناپسند کرتا ہے.اور (2) رضائی.یعنی ایسی قربانی کہ انسان واقعات سے مجبور ہو کر اسے پیش کرتا ہے مگر پھر بھی اس کا دل اسے پسند کرتا ہے.امراول کی مثال جنگ ہے کہ نیک لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی دنیا کے نفع کے لئے اسی نا پسندیدہ شے کو قبول کر لیتے ہیں.اور دوسری مثال لوگوں کی تعلیم کے لئے مال اور وقت خرچ کرنا ہے کہ اس قربانی کو وہ خوشی سے اور رغبت قلبی سے دینا پسند کرتے ہیں.یا قوم کی راہ میں موت ہے کہ اپنے آپ کو خود تو ہلاک نہیں کرتے ، جب جان دیتے ہیں تو لوگوں کے فعل کے نتیجہ میں دیتے ہیں مگر خواہش رکھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں موت آئے.پس یہ قربانی کو جبری ہے مگر ہے رضائی یعنی دل اسے پسند کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کی قربانیاں دونوں ہی قسم کی تھیں.آپ نے وہ قربانیاں بھی کیں جو استکرا ہی تھیں.یعنی لوگوں کے نفع کے لئے آپ نے ایسے کام کئے کہ جو آپ کو ذاتی صلى

Page 99

سيرة النبي عمال 89 جلد 3 طور پر ناپسند تھے.مگر دنیا کے قلع کے لئے آپ نے اپنے میلان کو قربان کر دیا جیسے آپ کی جنگوں میں شرکت.اور ایسی قربانیاں بھی کیں کہ جنہیں آپ طبعا پسند فرماتے تھے جیسے مال اور آرام کی قربانیاں.پھر قربانیوں کی یہ قسمیں بھی ہیں.ایک وہ قربانیاں جو کسی عارضی مقصد کے لئے ہوں.دوسری وہ قربانیاں جو کسی دائی صداقت کے لئے ہوں.دوسری قسم کی قربانیاں اعلیٰ ہوتی ہیں کیونکہ وہ تمام ذاتی نفعوں کے خیال سے بالا ہوتی ہیں.رسول کریم ﷺ کی قربانیاں جیسا کہ آپ لوگ دیکھیں گے اسی قسم کی تھیں.آپ نے کسی عارضی مقصد کے لئے قربانیاں نہیں کیں بلکہ دائمی صداقتوں اور بنی نوع انسان کی ابدی ترقی کے لئے قربانیاں کی ہیں.پس آپ کی قربانیاں کیا بلحاظ نیت کے اور کیا بلحاظ مقصد کے اور کیا بلحاظ قربانی کی کمیت اور کیفیت کے نہایت عظیم الشان ہیں بلکہ حیرت انگیز ہیں اور اگلوں اور پچھلوں کے لئے نمونہ.آپ نے خود ہی دنیا کے دائمی نفع کے لئے اور دائمی صداقتوں کے قیام کے لئے خوشی سے قربانیاں نہیں کیں بلکہ آپ نے اپنے اتباع کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ بھی خوشی سے قربانیاں کریں تا کہ دنیا ترقی کرے.چنانچہ آپ خدا تعالیٰ سے حکم پا کر فرماتے ہیں وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ 58 - ہم ضرور تمہارے ایمان کے کمال کو ظاہر کریں گے.اس طرح سے کہ تمہیں ایسے مواقع میں سے گزرنا پڑے گا کہ تمہیں صداقتوں کے لئے خوف اور بھوک کا سامنا ہوگا اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا.پس جو لوگ ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کریں گے اور کہیں گے کہ خدا کی چیز خدا کی راہ میں قربان ہو گئی انہیں خوشخبری دے کہ ان کی یہ قربانیاں ضائع نہ ہوں گی.لا

Page 100

سيرة النبي علي 90 جلد 3 قربانیوں کی شقیں جس طرح قربانیاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں اسی طرح وہ کئی شقوں کی بھی ہوتی ہیں مثلاً (1) شہوات کی قربانی یعنی شہوات کو مٹا دینا (2) جذبات کی قربانی یعنی جذبات کو مٹا دینا (3) مال کی قربانی (4) وطن کی قربانی یعنی وطن چھوڑ دینا (5) دوستوں کی قربانی (6) رشتہ داروں کی قربانی یعنی خدا کے لئے ان کو چھوڑ دینا (7) عزت کی قربانی یعنی خدا تعالیٰ اور دائی صداقتوں کے لئے ذلت کو برداشت کرنا یا عزت حاصل کرنے کے مواقع کو چھوڑ دینا ( 8 ) آرام کی قربانی (9) آسائش کی قربانی (10) آئندہ نسل کی قربانی.(11) رشتہ داروں کے احساسات کی قربانی (12) اپنی جان کی قربانی (13) دوستوں کے احساسات کی قربانی.اب میں یہ بتلاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ سب قسم کی قربانیاں کی ہیں.شہوات کی قربانی (1) شہوات کی قربانی.اس سے ثابت ہے کہ آپ نے جوانی کی عمر میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی.اور آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی بیوی آپ کو اپنی طرف مائل نہ رکھے بلکہ آپ دنیا کی ترقی کے متعلق کوششوں میں مشغول رہ سکیں.جس وقت آپ نے یہ شادی کی ہے اُس وقت آپ نے ابھی نبوت کا دعویٰ نہ کیا تھا اور مذہبی وجہ سے آپ سے اخلاص کی صورت پیدا نہ تھی.پس آپ سمجھتے تھے کہ جوان عورت کی خواہشات چاہیں گی کہ اس کی طرف توجہ کی جاوے اس لئے آپ نے ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی اور یہ آپ کی بہت بڑی قربانی تھی.آپ اُس وقت 25 سال کے جوان تھے اور آپ کی جسمانی حالت ایسی تھی کہ 63 سال کی عمر میں بھی صرف چند بال سفید آئے تھے اور آپ ایسے مضبوط تھے کہ آپ ہی نمازیں پڑھاتے تھے اور آپ ہی لشکروں کی کمان کرتے تھے.پس وہ شخص جو بڑھاپے میں بھی نہایت قوی تھا وہ بھر پور جوانی کے وقت نو جوان عورتوں کو چھوڑ کر ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے

Page 101

سيرة النبي عمال 91 جلد 3 اس لئے شادی کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت خدمت مخلوق میں لگا سکے.اس سے بڑھ کر شہوات کی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے.پھر جوانی کی عمر میں تو آپ نے ادھیڑ عمر کی عورت سے اس لئے شادی کی کہ وہ آپ کے سارے وقت پر قابو نہ پالے اور جب آپ ادھیڑ عمر کو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ اب عورتوں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو آپ سے مذہبی طور پر ا خلاص رکھتی ہے اور آپ کے ساتھ مل کر ہر قسم کی مذہبی قربانی کے لئے تیار رہے گی تو اُس وقت اس نیت سے کہ شریعت کے مختلف مسائل کو قوم میں رائج کر سکیں آپ نے کئی جوان عورتوں سے شادی کی اور اس بوجھ کو اٹھایا جو نو جوانوں کی بھی کمر توڑ دیتا ہے.گو یا دونوں زمانوں میں جوانی میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی آپ نے شہوات کی قربانی کی کیونکہ عائشہ کی شادی کے بعد دوسری عورتوں سے شادی ایک زبردست قربانی تھی.(2) جذبات کی قربانی آپ نے مختلف اوقات میں اپنے جذبات کی بھی قربانی کی ہے.چنانچہ اس کی ایک مثال وہ قربانی ہے جسے آپ نے عدل و انصاف کے قیام کے لئے پیش کیا.تاریخ میں آتا ہے کہ جنگ بدر میں آپ کے چچا عباس قید ہو گئے.حضرت عباس دل سے مسلمان تھے اور ہمیشہ حضرت کی مدد کیا کرتے تھے اور مکہ سے دشمنوں کی خبریں بھی بھیجا کرتے تھے.مگر کفار کے زور دینے پر ان کے ساتھ مل کر بدر کی جنگ میں شریک ہوئے.قید ہونے پر اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہی انہیں بھی رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا.چونکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور اُس زمانہ کے لحاظ سے ایسے سامان نہیں تھے کہ قیدیوں کے بھاگنے کی روک کی جا سکے اس لئے رسیاں خوب مضبوطی سے باندھی گئیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عباس جو نہایت ناز و نعم میں پلے ہوئے تھے اور امیر آدمی تھے اس تکلیف.کی تاب نہ لا سکے اور کراہنے لگے.ان کی آواز سن کر رسول کریم له کوسخت تکلیف

Page 102

سيرة النبي علي 92 جلد 3 ہوئی اور صحابہ نے دیکھا کہ آپ کبھی ایک کروٹ بدلتے ہیں کبھی دوسری اور انہوں نے سمجھ لیا کہ آپ کی اس بے چینی کا باعث حضرت عباس کا کراہنا ہے تو انہوں نے چپکے سے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں.تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کو ان کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپ نے پوچھا کہ عباس کو کیا ہوا ہے کہ ان کے کراہنے کی آواز نہیں آتی؟ صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کی تکلیف کو دیکھ کر ہم نے ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں.آپ نے فرمایا یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دو یا ان کی بھی سخت کر دو 59.یہ قربانی کیسی شاندار ہے.حضرت عباس آپ کے چا تھے اور محبت کرنے والے چچا.لیکن آپ نے پسند نہ فرمایا کہ ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں اور دوسرے قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی نہ کی جائیں کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جس طرح وہ میرے رشتہ دار ہیں اسی طرح دوسرے قیدی دوسرے صحابہؓ کے رشتہ دار ہیں اور ان کے دلوں کو بھی وہی تکلیف ہے جو میرے دل کو.پس آپ نے اپنے لئے تکلیف کو برداشت کیا تا کہ انصاف اور عدل کا قانون نہ ٹوٹے اور اُس وقت تک حضرت عباس کو آرام پہنچانے کی اجازت نہ دی جب تک دوسرے قیدیوں کے آرام کی بھی ضرورت نہ پیدا ہو جائے.آپ کی جذبات کی قربانیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ مخالفین آ.کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور آ کر کہا کہ اب بات برداشت سے بڑھ گئی ہے تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ کہ وہ یہ تو بے شک کہا کرے کہ ایک خدا کو پو جومگر یہ نہ کہا کرے کہ ہمارے بتوں میں کوئی طاقت بھی نہیں ہے.اگر تم اسے نہ روکو گے تو ہم پھر تم سے بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہوں گے اور ہر طرح کا نقصان پہنچائیں گے.یہ وقت ان کے لئے بڑی مصیبت کا وقت تھا.انہوں نے رسول کریم علی کو بلایا اور خیال کیا کہ میرے ان پر بڑے احسان ہیں یہ میری بات ضرور مان جائیں گے.جب آپ آئے تو انہوں نے کہا اب لوگ بہت جوش میں آگئے ہیں اور وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ تمہاری وجہ

Page 103

سيرة النبي علي 93 جلد 3 سے مجھے اور میرے سب رشتہ داروں کو تکلیف پہنچائیں گے.کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم بتوں کے خلاف وعظ کرنے سے رک جاؤ تا کہ ہم لوگ ان کی مخالفت سے محفوظ رہیں؟ اب غور کرو کہ ایک ایسا شخص جس نے بچپن سے پالا ہو، پھر چاہو اور محسن چا ہو اس کی بات کو جو اس نے سخت تکلیف کی حالت میں کہی ہو رد کرنے سے احساسات کو کس قدر ٹھیں اور صدمہ پہنچ سکتا ہے.چنانچہ قدرتأ رسول کریم ﷺ کو بھی اس مصیبت سے صدمہ پہنچا.ایک طرف ایک زبر دست صداقت کی حمایت دوسری طرف اپنے محسنوں کی جان کی قربانی.ان متضاد تقاضوں کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے.لیکن آپ نے فرمایا کہ اے چا! میں آپ کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھا سکتا ہوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میں خدا تعالیٰ کی توحید کا وعظ اور شرک کی مذمتوں کا وعظ چھوڑ دوں.پس آپ بے شک مجھ سے علیحدہ ہو جائیں اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیں.کوئی اور ہوتا تو یہ سمجھتا کہ دیکھو میں نے اس پر اس قدر احسان کئے ہیں مگر باوجود اس کے یہ میری بات نہیں مانتا.مگر ابوطالب رسول کریم ﷺ کے دل کو جانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ آپ اس قدر احسان کی قدر کرنے والے ہیں کہ اس وقت میری بات کو رد کرنا ان کے اخلاق کے لحاظ سے ایک بہت بڑی قربانی ہے اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں وہ اپنے نفس کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف اپنی قوم کی بہتری اور اسے گمراہی سے نکالنے کے لئے ہے.پس وہ بھی آپ کی اس قربانی سے متاثر ہوئے اور بے اختیار ہو کر کہا کہ میرے بھتیجے ! تو جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے جا! اور اپنا کام کر.میں اور میرے دوسرے رشتہ دار تیرے ساتھ ہیں اور تیرے ساتھ مل کر ہر ایک تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں 60.رشتہ داروں کے جذبات کی قربانی یہ قربانی اپنے جذبات کی قربانی سے بھی مشکل ہوتی ہے.لوگ اپنے جذبات تو مار سکتے ہیں لیکن اپنے عزیزوں کے جذبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کئی

Page 104

سيرة النبي علي 94 جلد 3 ماں باپ خود معمولی کپڑے پہنتے ہیں لیکن بچوں کو اعلی کپڑے پہناتے ہیں.خود معمولی کھانا کھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اعلیٰ کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی قربانیوں پر نظر مارنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے جذبات ہی کو دائمی صداقتوں کے قیام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے قربان نہیں کیا بلکہ اپنے رشتہ داروں کے جذبات کو بھی قربان کر دیا ہے.اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو بہت بڑی فتح ہوئی اور مسلمانوں کی آسودگی کے سامان پیدا ہو گئے تو آپ کی پیاری بیٹی فاطمہ نے آپ سے کہا کہ کام کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لوگوں کو اتنے اموال اور نوکر ملتے ہیں ایک لونڈی مجھے بھی دے دی جائے.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا یہ چھالے اس سے اچھے ہیں کہ اس مال سے تمہیں کچھ دوں.تم اس حالت میں خوش رہو کہ یہی خدا تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے 61.رسول کریم ﷺ کا بھی اس مال میں حق تھا اور آپ جائز طور پر اس سے لے سکتے تھے مگر آپ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی مسلمانوں کی ضرورت بہت بڑھی ہوئی ہے اس مال میں سے کچھ نہ لیا اور اپنی نہایت ہی پیاری بیٹی کی تکلیف کو برا دشت کیا.آپ کا اپنی بیویوں کے جذبات کی قربانی کرنے کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں.دوستوں کے جذبات کی قربانی اس کے متعلق میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.ان کی کسی صلى الله ع وساد یہودی سے گفتگو ہوئی.یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریم.فضیلت دی.اس پر حضرت ابو بکر کو غصہ آ گیا اور آپ نے اس سے سختی کی مگر جب یہ بات رسول کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ حضرت ابوبکر سے ناراض ہوئے اور فرمایا آپ کا حق نہ تھا کہ اس طرح اس شخص سے جھگڑتے 62.بظاہر یہ قربانی معمولی بات معلوم ہوتی ہے مگر عظمند جانتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے

Page 105

سيرة النبي عمال 95 95 جلد 3 لئے جو ہر وقت دشمنوں سے گھرا ہوا ہو دوستوں کے جذبات کا احترام کیسا ضروری ہوتا ہے.مگر آپ نے دوسرے لوگوں کو تکلیف سے بچانے کے لئے کبھی اپنے دوستوں کے جذبات کی پرواہ نہیں کی.اس قسم کی قربانی کی دوسری مثال کے طور پر میں صلح حدیبیہ کا ایک مشہور واقعہ پیش کرتا ہوں.اس صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا.لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جاوے گا.ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ ایک شخص ابو بصیر نامی مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا.اس کا جسم زخموں سے چور تھا بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے.اس شخص کے پہنچنے پر اور اس کی نازک حالت کو دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی کا ایک زبر دست جذ بہ پیدا ہو گیا.لیکن دوسری طرف کفار نے بھی اس کے اس طرح آنے میں اپنی شکست محسوس کی اور مطالبہ کیا کہ بموجب معاہدہ اسے واپس کر دیا جائے.مسلمان اس بات کے لئے کھڑے ہو گئے کہ خواہ کچھ ہو جائے مگر ہم اسے جانے نہ دیں گے.انہوں نے کہا ابھی معاہدہ نہیں ہوا اس لئے مکہ والوں کا کوئی حق نہیں کہ اس کی واپسی کا مطالبہ کریں.مگر چونکہ رسول کریم علیہ فیصلہ فرما چکے تھے کہ ہر مرد جو مکہ سے آئے گا اسے واپس کیا جائے گا آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دے دیا 63 اور مسلمانوں کے جذبات کو وفائے عہد پر قربان کر دیا.مال کی قربانی آپ کی مالی قربانی کے لئے کسی خاص واقعہ کی مثال دینے کی ضرورت نہیں.ہر اک شخص جانتا ہے کہ جب سے آپ کے پاس مال آنا شروع ہوا آپ نے اسے قربان کرنا شروع کر دیا.چنانچہ سب سے پہلا مال آپ کو حضرت خدیجہ سے ملا اور آپ نے اسے فوراً غرباء کی امداد کے لئے تقسیم کر دیا.

Page 106

سيرة النبي علي 96 جلد 3 اس کے بعد مدینہ میں آپ بادشاہ ہوئے تھے تو باوجود بادشاہ ہونے کے آپ نے حقوق نہ لئے اور سادہ زندگی میں عمر بسر کی اور جس قدر ممکن ہو سکا غرباء کی خبر گیری کی حتی کہ آپ نے کھانا تک پیٹ بھر کر نہ کھایا.صحابہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپ عام طور پر اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں تو انصار نے جو اپنے آپ کو اہل وطن ہونے کی وجہ سے صاحب خانہ خیال کرتے تھے یہ انتظام کیا کہ کھانا آپ کے گھر میں بطور ہدیہ بھجوا دیا کرتے.لیکن آپ اسے بھی اکثر مہمانوں میں تقسیم کر دیتے یا ان غرباء میں جو دین کی تعلیم کے لئے مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.یہاں تک کہ جب آپ فوت ہوئے تو اس دن بھی آپ کے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا 64 اور یہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ 65 اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ نے کوئی مال چھوڑا تھا اور اسے آپ نے صدقہ قرار دیا تھا بلکہ اس کا یہ مطلب تھا کہ ہمارے گھر میں اپنا مال کوئی نہیں ہے جو کچھ ہے وہ صدقہ کا مال ہے.پس اس کا مالک بیت المال ہے نہ کہ ہمارے گھر کے لوگ.دوسرے معنی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں کیونکہ اپنے سارے مال کی وصیت قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف پس اس حدیث کے یہ معنی کرنے کہ آپ نے اپنا ذاتی مال کوئی چھوڑا تھا اور اسے سب الله کا سب صدقہ قرار دیا تھا درست نہیں.غرض رسول کریم ﷺ کی ساری زندگی مالی قربانی کا ایک بے نظیر نمونہ تھی.عزت کی قربانی عزت کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے اور بہت کم لوگ اس کی جرات رکھتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں.مثلاً صلح حدیبیہ ہی کا واقعہ ہے کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو آپ نے لکھایا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور مکہ والوں کے درمیان ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ معاہدہ لکھ رہے تھے.کفار نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو کیونکہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اچھا اسے مٹا دو.

Page 107

سيرة النبي عمال 97 جلد 3 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو محبت رسول کے متوالے تھے کہا مجھ سے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ کا لفظ لکھ کر کاٹ دوں.آپ نے فرمایا کا غذ میری طرف کرو اور رسول اللہ کا لفظ اپنے ہاتھ سے آپ نے مٹا دیا 66.صلح اور امن کی خاطر اس قسم کی قربانی بہت کم لوگ کر سکتے ہیں.رسول کریم ﷺ اس وقت فاتح کی حیثیت میں تھے.آپ کا لشکر جنگ کے لئے بیتاب ہو رہا تھا کیونکہ وہ مکہ والوں کے بے جا مظالم کو دیکھ دیکھ کر جوش سے اہل رہا تھا.اہل مکہ اُس وقت بالکل بے بس تھے.ان کا لشکر تھوڑا اور ان کے مددگار دور تھے.پس ان کی ان ہتک آمیز باتوں کا علاج آپ فورا کر سکتے تھے.مگر آپ کے سامنے یہ بات تھی کہ وہ مقام کہ جسے خدا تعالیٰ نے اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہاں لوگ امن سے اکٹھے ہو کر اصلاح نفس اور اصلاح عالم کی طرف توجہ کر سکیں اس جگہ جنگ نہ ہو اور اس کی دیرینہ عزت کو صدمہ نہ پہنچے.پس اس کی خاطر ہر ایک ہتک کا کلمہ سنتے تھے اور خاموش ہو جاتے تھے.دوسری مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ اُس زمانہ میں مکہ میں غلاموں کو بہت الله ذلیل سمجھا جاتا تھا اور رسول کریم ﷺ کا قبیلہ بہت معزز تھا.بڑے بڑے قبیلوں والے اس قبیلہ کولڑ کیاں دینا فخر سمجھتے تھے.مگر رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی ایک آزاد شدہ غلام سے کر دی 67.یہ عزت کی کتنی بڑی قربانی تھی.آپ نے اس طرح عملی قربانی سے لوگوں کو سبق دیا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں.فرق صرف نیکی، تقویٰ ، اخلاص اور اخلاق سے پیدا ہوتا ہے.تیسری مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا آپ نے قرضہ دینا تھا.اس نے آ کر سخت کلامی شروع کی اور گوادائیگی قرض کی میعاد ا بھی پوری نہ ہوئی تھی مگر آپ نے اس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیجا کہ فلاں شخص سے جا کر کچھ قرض لے آؤ اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا.جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہ کو اس یہودی پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا

Page 108

سيرة النبي علي 98 98 جلد 3 دینے کے لئے تیار ہو گئے.مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ مت کہو کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ کرتا 68 جس وقت کا یہ واقعہ ہے اُس وقت آپ مدینہ اور اس کے گرد کے بہت سے علاقہ کے بادشاہ ہو چکے تھے اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپ کا اس یہودی کی سختی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھا.چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا.چوتھی مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو کئی دفعہ ایسے آدمیوں کے ماتحت کیا جو خاندانی لحاظ سے ادنیٰ تھے.چنانچہ زید بن حارثہؓ جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کے ماتحت آپ نے حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر طیار کو ایک فوج میں بھیجا 69.اسی طرح ابو لہب کے دو بیٹوں سے آپ کی دو بیٹیاں بیاہی ہوئی تھیں.اس نے دھمکی دی کہ اگر آپ توحید کی تعلیم ترک نہ کریں گے تو میں اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دوں گا مگر آپ نے پرواہ نہ کی اور اس بدبخت نے اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی70.اوپر کی مثالوں کے علاوہ مکہ میں آپ پر غلاظت ڈالی جاتی، منہ پر تھو کا جاتا، تھپڑ مارے جاتے ، آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر کھینچا جاتا اور ہر طرح ہتک کرنے کی کوشش کی جاتی مگر آپ یہ سب باتیں برداشت کرتے کہ خدا تعالیٰ کے نام کی عزت ہو.آپ مکہ میں صادق اور امین کہلاتے تھے.اپنی قوم کی ترقی کا بیڑا اٹھانے کے بعد آپ کا نام کا ذب اور جاہ طلب رکھا گیا.پہلی عزت سب مٹ گئی.پہلا ادب نفرت اور حقارت سے بدل گیا.مگر آپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا تا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم ہو اور دنیا جہالت اور تو ہم پرستی سے آزاد ہو.وطن کی قربانی دین ہر ایک کے لئے ایک عزیز چیز ہوتی ہے.لوگ اس کے لئے وطن اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کو بھی اپنا وطن عزیز تھا

Page 109

سيرة النبي عليه 99 99 جلد 3 اور آپ اسے چھوڑنا نہ چاہتے تھے.مگر آپ نے خدا کے لئے اس کی بھی قربانی کی.آپ کو وطن سے جو محبت تھی اس کا پتہ اس سے ملتا ہے کہ جب آپ وطن چھوڑ نے لگے تو آپ کو اس کا بہت صدمہ ہوا اور آپ نے درد ناک الفاظ میں مکہ کی طرف دیکھ کر اسے مخاطب کر کے کہا کہ اے مکہ! مجھے تو بہت ہی پیارا ہے مگر افسوس کہ تیرے رہنے والے مجھے یہاں نہیں رہنے دیتے 71.یہ تو وطن کی وہ قربانی تھی جو آپ نے مجبوری کی حالت میں کی.مگر اس کے بعد آپ نے وطن کی ایسی شاندار قربانی کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.مکہ سے نکالے جانے کے آٹھ سال بعد آپ پھر مکہ کی طرف واپس آئے اور اس دفعہ آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا.مکہ کے لوگ آپ کا مقابلہ نہ کر سکے اور مکہ آپ کے ہاتھوں پر فتح ہوا.اور آپ اسی مکہ میں جس میں سے صرف ایک ہمراہی کے ساتھ آپ کو افسردگی سے نکلنا پڑا تھا ایک فاتح جرنیل کی صورت میں داخل ہوئے.وہ لوگ جو آپ کو نکالنے والے تھے یا مارے جاچکے تھے یا اطاعت قبول کر چکے تھے اور مکہ آپ کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے ایک مضطرب ماں کی طرح تڑپ رہا تھا.لیکن باوجود اس کے کہ آپ کو اس شہر سے بہت محبت تھی اور وہاں خانہ کعبہ تھا آپ نے اسلام کی خاطر اور اس قوم کی خاطر جس نے تکلیف کے وقت آپ کو جگہ دی تھی اس کا دل رکھنے کے لئے مکہ کی رہائش کا خیال نہ کیا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے.یہ آپ کی وطن کی دوسری قربانی تھی.آرام کی قربانی آپ نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور ساری عمر اٹھا ئیں.ملکہ میں تو کفار دکھ دیتے ہی رہے مگر مدینہ میں بھی منافقوں نے آرام نہ لینے دیا.علاوہ ازیں آپ سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات تک کام میں لگے رہتے تھے.راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے.اس طرح آپ نے اپنی آسائش اور آرام کو قربان کر دیا.آپ نے نہ اچھے کپڑے پہنے، نہ اچھے کھانے کھائے.عورتوں نے مال کا مطالبہ کیا تو انہیں جواب دیا میری زندگی میں تو تمہیں مال نہیں مل سکتا.یہ

Page 110

سيرة النبي عمال 100 جلد 3 سب باتیں ایسی ہیں جو آرام کی قربانی سے تعلق رکھتی ہیں.رشتہ داروں کی قربانی آپ ﷺ کس طرح رشتہ داروں کی قربانی کے لئے تیار رہتے تھے اس کی مثال کے طور پر ایک تو اس واقعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت نے چوری کی.وہ ایک بڑے خاندان سے تھی.لوگوں نے اس کی سفارش کی.آپ اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ انصاف اور عدل کی خاطر میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا.اگر فاطمہ میری بیٹی سے بھی ایسا فعل سرزد ہو تو اسے بھی سزا دی جائے گی12.یہ واقعہ تو آپ کے قلبی خیالات پر دلالت کرتا ہے مگر عملی ثبوت بھی کثرت سے ملتے ہیں.مثلاً یہ کہ باوجود اس کے کہ صحابہ آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار تھے آپ خطرناک سے خطرناک مقامات پر اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے تھے.چنانچہ حضرت علیؓ کو ہر میدان میں آگے رکھتے ، اسی طرح حضرت حمزہ کو.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائیوں میں آپ کے عزیز ترین رشتہ دار مارے گئے.چنانچہ حضرت حمزہ احد کی لڑائی میں اور حضرت جعفر شام کے سریہ میں مارے گئے.اول الذکر آپ کے چچا اور ثانی الذکر آپ کے چا زاد بھائی تھے.جان کی قربانی جان کی قربانی بھی بہت بڑی قربانی ہے حتی کہ بعض لوگ غلطی سے صرف اسی قربانی کو قربانی سمجھ بیٹھے ہیں.آپ نے اس قربانی کو بھی خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے لئے پیش کیا.اشاعتِ حق کے لئے ہر خطرہ کو برداشت کیا.چنانچہ مکہ میں آپ پر اشاعت توحید کی وجہ سے مکہ والوں نے سخت سے سخت ظلم کیا اور آپ کے مارنے پر انعامات مقرر کئے مگر آپ نے ذرہ بھر بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی بلکہ ہمیشہ جان کے خطرہ سے استغنا کیا.چنانچہ آپ بے دھڑک ہو کر سخت سے سخت دشمنوں کے پاس تبلیغ کے لئے چلے جاتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ تن تنہا طائف تبلیغ کے لئے چلے گئے حالانکہ طائف ان لوگوں کے اثر کے نیچے تھا جو آپ کے سخت دشمن تھے.وہاں جا کر تبلیغ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے رؤسا

Page 111

سيرة النبي عمال 101 جلد 3 نے آپ کے پیچھے لڑکوں اور کتوں کو لگا دیا جو آپ پر پتھر پھینکتے تھے اور آپ کو کاٹتے تھے.وہ کئی میل تک آپ کا تعاقب کرتے آئے اور آپ پر اس قدر پتھر پڑے کہ آپ کا سب جسم لہولہان ہو گیا اور جوتیوں میں خون بھر گیا.آپ بعض دفعہ زخموں کی تکلیف اور خون کے بہنے کی وجہ سے گر جاتے تھے تو وہ کم بخت آپ کے بازو پکڑ کر آپ کو کھڑا کر دیتے تھے اور پھر مارنے لگتے 73.اسی طرح ایک دفعہ رات کے وقت شور پڑا اور سمجھا گیا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے.صحابہ اس شور کو سن کر گھروں سے نکل کر ایک جگہ جمع ہونے لگے کہ تا تحقیق کریں که شور کیسا ہے.اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ گھوڑے پر چڑھے ہوئے جنگل سے واپس آ رہے ہیں اور معلوم ہوا کہ آپ تن تنہا شور کی وجہ دریافت کرنے کے صلى الله لئے چلے گئے تھے تا ایسا نہ ہو کہ دشمن اچانک مدینہ پر حملہ کر دے74.ایک اور مثال جان کی قربانی کی غزوہ حنین کا واقعہ ہے.غزوہ حنین میں بہت سے ایسے لوگ شامل تھے جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے.فتح مکہ کے بعد قومی جوش کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے.ہوازن کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر وہ لوگ پسپا ہو گئے اور ان کے بھاگنے سے صحابہ کی سواریاں بھی بھاگ پڑیں اور چار ہزار دشمن کے مقابلہ میں صرف رسول کریم ﷺ اور بارہ صحابی رہ گئے.اُس وقت چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی اور وہاں کھڑے رہنے والوں کے مارے جانے کا سو فیصدی احتمال تھا.صحابہ نے چاہا کہ رسول کریم علیہ کو واپس لوٹائیں اور حضرت ابو بکر اور حضرت عباس نے گھوڑے کی باگ پکڑ کر واپس کرنا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ باگ چھوڑ دو اور بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گئے اور فرمایا اَنَا النَّبِيُّ لَا گذب 75 میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں.یعنی اس صورت میں میں اپنی جان کی کیا پرواہ کرسکتا ہوں.اُحد کی جنگ میں ایک بہت بڑا دشمن آپ پر حملہ کرنے کے لئے آیا.چونکہ وہ صلى الله

Page 112

سيرة النبي علي 102 جلد 3 تجربہ کار جرنیل تھا صحابہ نے اسے روکنا چاہا مگر آپ نے فرمایا آنے دو.وہ مجھ پر حملہ آور ہوا ہے میں ہی اس کا جواب دوں گا 76.جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تھے تو علاوہ جنگوں کے خفیہ حملے بھی آپ کی جان پر ہوتے رہتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ مکہ سے ایک شخص کو لالچ دے کر بھیجا گیا کہ آپ کو خفیہ طور پر مار آئے.یہ شخص اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوا اور گرفتار کر لیا گیا.یہود بھی آپ کے قتل کے درپے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ کو اپنے محلہ میں بلا کر پر پتھر پھینکنا چاہا مگر آپ کو معلوم ہو گیا اور آپ واپس تشریف لے آئے 77.ایک دفعہ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا.آپ نے ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو حقیقت پر آگاہ کر دیا 78.تبوک کی جنگ سے واپسی کے وقت چند منافق آگے بڑھ کر راستہ میں چھپ گئے اور آپ پر اندھیرے میں قاتلانہ وار کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطلع کر دیا.آپ نے ان لوگوں کو بھی چھوڑ دیا 79.غرض آپ پر بڑے بڑے خطرناک حملے کئے گئے اور 23 سال کے لمبے عرصہ میں ہر روز گویا آپ کو قتل کرنے کی تجویز کی گئی اور صرف اس وجہ سے کہ آپ تو حید کا وعظ کیوں کرتے تھے اور کیوں نیکی اور تقویٰ کی طرف بلاتے تھے.مگر آپ نے اپنی جان کو روز کھو کر صداقت کا وعظ کیا اور سچائی کو قائم کیا.تعجب ہے کہ لوگ ان لوگوں کو قربانی کرنے والے سمجھتے ہیں جنہیں ایک موقع جان دینے کا آیا اور ان کی جان چلی گئی مگر اس کی قربانی کا اقرار کرنے سے رکتے ہیں جس نے ہر روز سچائی کے لئے اپنی جان کو پیش کیا.گو یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے اس کی جان کو محفوظ رکھا.قربانی تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کا نام ہے.آگے ہلاکت نہ آئے تو اس میں اس شخص کا کیا قصور ہے جو ہر وقت اپنی جان کو قربانی کے لئے پیش

Page 113

سيرة النبي عمال کرتا رہتا ہے.103 جلد 3 صلى الله آئندہ نسل کی قربانی رسول کریم نے نے دنیا کی ترقی کے لئے اپنی ہی قربانی نہیں کی بلکہ اپنی آئندہ نسل کی بھی قربانی کی ہے اور یہ قربانی نہایت عظیم الشان قربانی ہے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر دیتے ہیں لیکن ان قربانیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولا د کو فائدہ پہنچ جائے.پس اولاد کی قربانی اکثر اوقات اپنی قربانی سے بھی شاندار ہوتی ہے.آپ نے اس قربانی کا بھی نہایت شاندار نمونہ دکھایا ہے.چنانچہ آپ نے حکم دیا ہے کہ صدقات کا مال میری اولاد کے لئے منع ہے 80.رسول کریم ﷺ جیسا دانا انسان اس امر کو خوب سمجھ سکتا تھا کہ زمانہ یکساں نہیں رہتا.میری اولاد پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے اور آئے گا کہ وہ لوگوں کی امداد کی محتاج ہو گی.لیکن باوجود اس کے آپ نے فرما دیا کہ میری اولاد کے لئے صدقہ منع ہے.گویا ایک ہی رستہ جو غرباء کی ترقی کے لئے کھلا ہے اسے اپنی اولاد کے لئے بند کر دیا اور اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ آپ نے خیال فرمایا کہ اگر صدقہ میری اولاد کے لئے کھلا رہا تو اسرائیلی نبیوں کی اولاد کی طرح میری امت کے لوگ بھی میرے تعلق کی وجہ سے صدقہ میری اولا د کو ہی زیادہ تر دیں گے اور مسلمانوں کے دوسرے غرباء تکلیف اٹھائیں گے.پس آپ نے دوسرے مسلمان غرباء کو تکلیف بچانے کے لئے اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیا اور گویا دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کر دیا.یہ کس قدر قربانی ہے اور کیسی شاندار قربانی ہے.اگر مسلمان اس قربانی کی حقیقت کو سمجھیں تو سادات کو کبھی تنگ دست نہ رہنے دیں کیونکہ اس طرح رسول کریم ﷺ نے دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولا د کو قربان کیا ہے.مسلمانوں کا بھی فرض ہے کہ اس قربانی کے مقابلہ میں ایک شاندار قربانی کریں اور جس دروازہ کو صدقہ کی شکل میں بند کیا گیا ہے اسے ہدیہ کی شکل میں کھول دیں.غرض محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے لئے ہر رنگ میں ایسی قربانیاں کیں جس کی

Page 114

سيرة النبي علي 104 جلد 3 نظیر کسی جگہ نہیں مل سکتی.آپ دنیا میں خالی ہاتھ آئے، باوجود بادشاہ ہونے کے خالی ہاتھ رہے اور خالی ہاتھ چلے گئے.زندگی میں تو دیتے ہی رہے وفات پانے کے بعد بھی سب کچھ لوگوں کو دے گئے.یعنی آپ کے بعد دوسرے لوگ تخت خلافت پر متمکن ہوئے.اللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى خُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - نصیحت یہ وہ وجود ہے جسے آج دنیا برا بھلا کہتی ہے اور جس کے روشن وجود کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب کے سنجیدہ اور شریف آدمی آنحضرت ﷺ کے احسانات اور قربانیوں اور پاکبازیوں کا علم حاصل کر کے آپ کا ادب کرنا سیکھیں گے اور آپ کو بنی نوع انسان کا محسن سمجھ کر آپ کو اپنا ہی سمجھیں گے جس طرح کہ وہ اپنے قومی نبیوں کو سمجھتے ہیں.اور مسلمان آپ کی زندگی کے حالات معلوم کر کے آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے اور اس عظیم الشان نعمت کی جو خدا تعالیٰ نے انہیں دی ہے ناشکری نہیں کریں گے.اور دین کی طرف سے بے توجہی کی بجائے دین کے احکام پر عمل کرنے کی اور عیش وعشرت کی بجائے قربانی اور دنیا کے لئے مفید بننے کی پوری کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ انہیں اس امر کی توفیق دے.وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1: الانعام: 163، 164 دنیا کا محسن ناشر بکڈ پوتالیف واشاعت قادیان) 2 نائیڈو سروجنی (1879ء - 1949 ء ) شاعرہ اور سیاستدان.حیدر آباد دکن میں بارہ سال کی عمر میں میٹرک کیا.بعد میں کیمبرج میں تعلیم پائی.بچپن سے انگریزی میں نظمیں لکھنی شروع کیں.ہندوستانی موضوعات پر رومانی اسلوب میں انگریزی نظمیں لکھ کر انگریزی ادب میں نمایاں شاعرہ کا لوہا منوالیا.ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں قومی خدمتگار کی حیثیت سے مشہور تھی.مہاتما گاندھی کے ساتھ عدم تعاون کی تحریک سے وابستہ ہوئی اور ملک کی سیاست سے گہرا تعلق قائم کیا.کئی دفعہ قید

Page 115

سيرة النبي علي 105 جلد 3 ہوئی.کانپور میں نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ 1925ء کی صدر منتخب ہوئی.ہندوستان کی آزادی کے بعد اتر پردیش کی گورنر مقرر ہوئی.اس کی بیٹی بد ما جا نائیڈ ومغربی بنگال کی گورنر رہی.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1706 مطبوعہ لاہور 1988ء) 3:بخارى كتاب القدر باب العمل بالخواتيم صفحه 1142 حدیث نمبر 6606 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4: يونس: 17 5: الانعام: 34 4953 6:بخارى باب كيف كان بدء الوحی صفحہ 1، 2، حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 7: بخارى كتاب التفسير تفسير سورة اقرا باسم ربک صفحہ 886 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 8: السيرة الحلبية جلد 1 صفحه 448 449 مطبوعه بيروت 2012 ء الطبعة الاولى 9: مسند احمد بن حنبل صفحہ 1050 حدیث نمبر 15397 مطبوعہ لبنان 2004 ء :10: السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 196 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى :11 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 347 348 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 12: بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق صفحہ 1054 حدیث نمبر 6038 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 13:مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 425 مطبوعہ بیروت 1398ھ میں یہ الفاظ ملتے ہیں كنت شریکی فکنت خیر شریک کنت لا تدارى ولا تمارى :14: مسند احمد بن حنبل صفحہ 1829 حدیث نمبر 25108 مطبوعہ لبنان 2004 ء :15: تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء :16: بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء في قبر النبي ﷺ صفحہ 223 224، حدیث نمبر 1392 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 116

سيرة النبي علي 106 جلد 3 17 بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد صفحہ 685،684 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :18 فتوح البلدان بلاذری صفحه 143 144 مطبوعہ قاهره 1319ھ :19 موبد : آتش پرستوں کا ملا.حکیم.فلاسفر.دانشمند ( علمی اردو لغت صفحه 1449 مطبوعه علمی کتب خانہ لاہور 1996ء) 20:بخارى كتاب الصلوة باب الصلاة على الفراش صفحہ 68 حدیث نمبر 382 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية Mahomet and his successors by Irving Vol.1 p:106 AB1 Prints:21 Publishing Co.New Delhi 22: مسلم كتاب اللباس باب كراهية الكلب والجرس صفحہ 946 حدیث نمبر 5548 مطبوعہ ریاض 2000 ، الطبعة الثانية 23: الاحزاب: 29، 30 :24: بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی اللہ صفحہ 756 حدیث نمبر 4450 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 25: کٹنی : چالاک ، عیاره ( فرہنگ آصفیہ جلد دوم صفحہ 499 مطبوعہ لاہور 2015ء) :26 اسد الغابة جلد 2 صفحہ 36 ، 37 مطبوعہ بیروت 2006 ، الطبعة الأولى :27 اسد الغابة جلد 2 صفحہ 188 تا 190 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 28 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 29: اسد الغابة جلد 5 صفحہ 470، 471 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 30: اسد الغابة جلد 3 صفحه 422 تا 424 مطبوعہ بیروت 2006ءالطبعة الاولى :31: اسد الغابة جلد 5 صفحہ 190 ، 191 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 32: سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 367 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى

Page 117

سيرة النبي علي 107 33: اسد الغابة جلد 2 صفحه 507 مطبوعه بيروت 2006ء الطبعة الاولى 34: اسد الغابة جلد 5 صفحه 408 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 35: بے طرح بے حد نہایت (فرہنگ آصفیہ جلد دوم صفحہ 430 مطبوعہ لاہور 2015ء) 36 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحه 340 تا 343 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى جلد 3 37: مقدمه ابن ماجه باب فضل العلماء و الحث على طالب العلم صفحہ 34 حدیث نمبر 224 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى ميں طلب العلم فريضة على كل مسلم کے الفاظ ہیں.115:46:38 39: مسلم كتاب السّلام باب لكل داء دواء صفحه 977 حدیث نمبر 5741 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 40: يوسف: 88 41: العنكبوت: 70 42:مسند احمد بن حنبل مترجم اردو جلد 10 صفحہ 838 حدیث نمبر 23885 مطبوعہ لاہور (مفہوما ) 43: الحجرات : 14 44 بخاری کتاب المظالم باب اعن اخاک صفحہ 394 حدیث نمبر 2443 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 45: فاطر: 25 46: الانعام: 109 47: البقرة: 114 48: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه 385 386 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء الطبعة الاولى 49: البقرة: 193 50: البقرة: 194

Page 118

سيرة النبي عليه 51: البقرة: 257 52: الكفرون: 7 53: البقرة: 229 54: الفتح: 24 108 جلد 3 :55 : مسلم كتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شر عاصفحہ 1039 حدیث نمبر 6128 مطبوعہ ریاض 2000 ، الطبعة الثانية 56 بخارى ابواب الكسوف باب الصلوة في كسوف الشمس صفحه 68 حدیث نمبر 1043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 57:بخارى كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل صفحہ 1121 حدیث نمبر 6462 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 58: البقرة: 156 157 59: اسد الغابة جلد 2 صفحه 530 مطبوعہ بیروت 2006 الطبعة الاولى 60 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 61: بخارى كتاب فرض الخمس باب الدليل على ان الخمس لنوائب رسول الله ع صفحہ 516 حدیث نمبر 3113 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 62 بخارى كتاب الخصومات باب مايُذْكَر فى الاشخاص صفحہ 387 388 حدیث نمبر 2411 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 63:بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 447 تا 450 حدیث نمبر 2731، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 64 : بخارى كتاب الرقاق باب فضل الفقر صفحه 1119 حدیث نمبر 6451 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 65: بخارى كتاب الفرائض باب قول النبي علة لانورث وما تركناه صدقة صفحه 1162

Page 119

سيرة النبي علي 109 جلد 3 حدیث نمبر 6730 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 66 بخارى كتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ما صالح فلان ابن فلان وفلان ابن فلان وان لم ينسبه الى قبيلته او نسبه صفحه 440 حدیث نمبر 2698 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 67: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 190 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 68:بخارى كتاب الاستقراض باب لصاحب الحق مقالا صفحہ 385 حدیث نمبر 2401 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 69:بخاری کتاب المغازی باب غزوة موتة صفحه 721 حدیث نمبر 4260 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 70 : طبقات ابن سعد (اردو) جلد 4 حصہ ہشتم صفحہ 279، 280 مطبوعہ کراچی 2012 ء :71: السيرة الحلبية الجزء الثاني صفحه 192 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 72 : بخاری کتاب الحدود باب اقامة الحدود على الشريف صفحہ 1170 حدیث نمبر 6787 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 73 : السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 53 ،54 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 74 : بخاری کتاب الادب باب حسن الخُلق صفحه 1054 حدیث نمبر 6033 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 75 : مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين ن صفحه 789 تا 790 حدیث نمبر 4612 تا 4616 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية 76 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحہ 864،863 مطبوعہ دمشق 2005 ء 77: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 975 مطبوعہ دمشق 2005 ء 78: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى صفحہ 1128 مطبوعہ دمشق 2005 ء 79: السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 276 مطبوعہ بیروت 2012 ء

Page 120

سيرة النبي علي 110 جلد 3 80 بخارى كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل صفحہ 241 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 121

سيرة النبي علي 111 جلد 3 رسول کریم ع ل ل ل لله بهترین داعی الی الله حضرت مصلح موعود 27 جولا ئی 1928ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.قُلْ هُذِهِ سَبِيلِ اَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَ سُبْحْنَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 1.اس کے بعد فرمایا رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں دو امور کا اعلان کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے.گویا صلى الله رسول کریم ﷺ کا دعوی دو نہایت چھوٹے سے جملوں میں بیان فرماتا ہے اور دنیا کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پہلی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے قُلْ هَذِهِ سَبِیلی کہہ دے یہ جو کچھ پہلے بیان ہوا ہے یہ میرا طریق اور راستہ ہے.چونکہ ہر انسان لمبے مضمون سے نتیجہ نکالنے کے قابل نہیں ہوتا اور جہاں بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تھوڑی عقل اور محدود سمجھ والوں کے لئے اجمال کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے پہلی آیات کے بعد فرمایا هذِهِ سَبِیلی وہ رستہ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اَدْعُوا اِلَی اللہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں.تو رسول کریم.فرمایا کہہ دے میرا یہ راستہ ہے جو پہلے بیان ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں.سَبِیلی کہہ کر پہلی بات یہ بیان کی کہ میں اس رستہ پر عامل ہوں.صرف یہ نہیں کہ لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں.پہلی چیز ایک مدعی کے لئے یہ ہوتی ہے کہ جس بات پر عمل کرنے کے لئے دوسروں سے کہتا ہو پہلے خود اس پر عامل ہو.اگر ایک شخص لوگوں کو ایک بات کی طرف بلاتا ہے مگر خود اس

Page 122

112 جلد 3 سيرة النبي عليه پر عمل نہیں کرتا تو اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.ہر انسان جو اس کی بات سنے گا یہی سمجھے گا کہ اگر اس بات میں خوبی ہوتی تو یہ خود بھی اس پر عمل کرتا.پس اگر کوئی شخص اعلیٰ اخلاق سکھائے ، اچھے معاملات کی تلقین کرے اور فلسفیانہ باتیں بتائے لیکن خودان کو رد کرتا جائے تو وہ کبھی نیکی پھیلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا.اگر ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ خدا کی طرف آؤ، خدا کے دین کے لئے قربانیاں کرو، اپنی قوم کے لئے قربانی اور ایثار دکھاؤ تو ضروری ہے کہ اپنے عمل سے بھی ان باتوں کا ثبوت دیں.زبان با اثر اُس وقت ہو سکتی ہے جب کہ انسان وہ کام خود بھی کرے جس کے کرنے کے لئے دوسروں سے کہے.اگر دوسروں سے تو کہے کہ قوم یا مذہب یا جماعت کی خاطر اولاد کو قربان کرو مگر خود اولاد کو ایسے رستہ پر لگائے جس سے دنیا کا فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اس کی بات کا کیا اثر ہو گا.اسی طرح جو شخص دوسروں سے کہے کہ خدا سے محبت کرو مگر آپ خدا کی محبت میں نہیں بلکہ دنیا کی محبت میں چور ہو تو ایسے انسان کی بات کا کیا اثر ہو گا.تو فرمایا هذِهِ سَبِیلِ اس میں صرف یہ نہیں بتایا کہ میں کس طرف بلاتا ہوں بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ جس طرف میں بلاتا ہوں اس طرف خود بھی جا رہا ہوں.پس اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کا نہ صرف دعوی پیش کیا ہے بلکہ آپ کا عمل بھی پیش کر دیا ہے.اور وہ رستہ یہ ہے اَدْعُوا إِلَى اللهِ اللہ کی طرف بلاتا ہوں.یہ ایک امتیازی نشان ہے رسول کریم ﷺ کی فضیلت کا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ باقی انبیاء خدا کی طرف نہ بلاتے تھے ، بلاتے ہوں گے مگر ان کی تعلیمیں چونکہ منسوخ ہو گئی ہیں ان سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ادْعُوا اِلَی اللہ کرتے تھے.توریت پڑھنے سے انسان اس بات سے تو متاثر ہوتا ہے کہ اس میں ایک حد تک خدا کی طرف بلایا گیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قومیت اور جتھہ بندی کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے اور یہ سکھایا گیا ہے کہ تم ساری دنیا سے معزز قوم ہو، سب سے ممتاز ہو، ساری خوبیاں تم میں جمع ہیں.گویا

Page 123

سيرة النبي متر 113 جلد 3 یہودیوں کی جتھہ بندی پر سارا زور صرف کیا گیا ہے.میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یقیناً حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کی یہ تعلیم نہ ہو گی لیکن بہر حال ان کی طرف جو منسوب کی جاتی ہے وہ ایسی ہے اور اس کے سوا کوئی اور ایسی تعلیم نہیں ہے جو ان کی بتائی جاتی ہو.پھر انجیل کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی اَدْعُوا اِلَى اللهِ کی سپرٹ نظر نہیں آتی.اس میں سارا زور اپنی قوم کو ابھارنے ، ان کی امید میں قائم کرنے یا پھر اپنی ذات کی طرف توجہ دلانے پر ہے.میں نہیں سمجھتا حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی تعلیم دی ہو مگر بہر حال ہمارے سامنے جو کچھ ہے وہ یہی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر زور دینے والی کتاب زبور ہے اسی لئے زیادہ تر عیسائی اپنے وعظوں میں زبور کو پیش کرتے اور اس پر زور دیتے ہیں.جتنے مشہور عیسائی واعظ ہیں وہ زبور کی آیات پڑھ کر ان پر اپنے وعظ کی بنیا د رکھتے ہیں.وجہ یہ کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے مگر وہاں بھی اَدْعُوا إِلَى اللهِ والی بات نظر نہیں آتی حضرت داؤڈ یہ نہیں بیان کر رہے کہ اللہ کی طرف آؤ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے.ایک کا تو یہ مطلب ہے کہ اپنی ذات کا فائدہ اٹھاؤ اور دوسری کا یہ ہے کہ اپنی ذات کا ہی فائدہ نہ اٹھاؤ بلکہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچاؤ.تو زبور میں بے شک محبت الہی کا ذکر ہے مگر وہ صرف حضرت داؤڈ سے مخصوص ہے اَدْعُوا اِلَی اللہ نہیں ہے.مگر قرآن کی جس سورۃ ، جس رکوع اور جس آیت کو دیکھو اس میں یہی نظر آئے گا کہ خدا تعالیٰ کو پیش کیا گیا اور ساری دنیا کے لئے پیش کیا گیا ہے.یعنی سب کو اس کی طرف جانے اور اس سے فیض حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے.یہ قرآن کریم کی اتنی بڑی خوبی ہے جو مخالفین کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.چنانچہ ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے میں نے پادریوں کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ قرآن ایک جھوٹی کتاب ہے اس وجہ سے مجھے اس کے پڑھنے کا خیال پیدا ہوا.

Page 124

سيرة النبي علي 114 جلد 3 لیکن جب میں نے قرآن پڑھا تو ایک بات نے مجھے مجبور کر دیا کہ اسے جھوٹا نہ کہوں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص کوئی جھوٹ بولتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے.وہ یا تو روپیہ حاصل کرنا چاہتا ہے یا قوم کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے یا ذاتی طور پر کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے.غرض کوئی نہ کوئی اس کی غرض ہوتی ہے.میں نے قرآن کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھا ہے مگر کوئی مقصد ایسا نہ نظر آیا.اگر اس میں ایسی تعلیم دی جاتی جس سے محمد (ع) کے پاس دولت جمع ہو جاتی یا ان کو حکومت حاصل ہو جاتی یا ان کی قوم کو دوسروں پر برتری دی جاتی یا کوئی اور ذاتی یا قومی فائدہ حاصل کرتا تو میں سمجھتا اس شخص نے فلاں غرض کے لئے جھوٹ بولا ہے مگر قرآن میں ایسی باتوں میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتی بلکہ شروع سے آخر تک یہی ذکر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرو، اس کی رضا حاصل کرو، اس کے حکم کے خلاف کوئی بات نہ کرو، اس کا قرب حاصل کرو اور جب ہم اس انسان کی ذات کی طرف دیکھتے ہیں جس نے یہ باتیں بیان کیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو کام بھی وہ شروع کرتا ہے خدا کا نام لے کر شروع کرتا ہے اسے ہم جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے.اگر اس کا نام جنون رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسے خدا کی محبت کا جنون تھا.یہ ایک غیر کی گواہی ہے اور اس شخص کی گواہی ہے جس نے قرآن کریم کو اس نظر سے دیکھا کہ اس کی قوم کے لوگ قرآن کو جھوٹا کہتے تھے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ قرآن بھی کہتا ہے اَدْعُوا اِلَى اللهِ اور ایک غیر شخص جس میں تعصب نہ تھا وہ بھی یہی کہتا ہے کہ اگر بانی اسلام کو کوئی جنون تھا تو وہ خدا کی محبت کے سوا اور کچھ نہیں تھا.تو فرمایا یہ رستہ ہے جس کی طرف میں بلاتا ہوں اور وہ خدا کی طرف جانے کا رستہ ہے.اب قرآن کریم کے اس مضمون اور دوسری مذہبی کتب کے مضمون کو دیکھو کتنا بڑا فرق نظر آتا ہے.رسول کریم ﷺ قرآن کریم شروع کرتے ہیں تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ 2 سے اور ختم کرتے ہیں تو قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ

Page 125

سيرة النبي عمال 115 جلد 3 النَّاسِ الهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ 3 پر.یعنی خدا تعالیٰ کا نام لے کر شروع کرتے ہیں، خدا ہی کے سپر د کر کے ختم کرتے ہیں.مگر انجیل کو دیکھو کس طرح شروع ہوتی ہے.فلاں سے فلاں پیدا ہوا اور فلاں سے فلاں.اس کا خدا تعالیٰ سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے سے کیا تعلق؟ اور پھر ختم ہوتی ہے تو اس طرح کہ حضرت مسیح نہایت مایوسی اور بے قراری کی حالت میں صلیب پر لٹکائے جاتے اور بالفاظ انجیل مار ڈالے جاتے ہیں.ظاہر ہے کہ انجیل نے اپنے اول اور آخر جو کچھ پیش کیا ہے وہ قرآن کریم کے مقابلہ میں بہت ادنی ہے.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع ہوتا ہے اور اللہ ہی کے نام پر ختم ہوتا ہے.گویا اللہ ہی کے نام سے برکت حاصل کر کے شروع کیا جاتا ہے اور اللہ ہی کے سپرد کر کے ختم کیا جاتا ہے.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ 4 اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کی سورتوں کا خلاصہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را میں نے تیرا نام لے کر کام شروع کیا تھا اور نیت یہی تھی کہ تجھے ہر بات میں مقدم رکھوں اور تیرے لئے اپنے آپ کو مٹا دوں اس نیت کے ساتھ میرا کام ختم ہوتا ہے.مگر میں یہ مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطیاں ہوئیں، کوتاہیاں ہوئیں اس لئے اپنی جان تیرے سپر د کرتا ہوں اب جو تو چاہے وہ کر.کیسی محبت کی اور کتنی درد کی تعلیم ہے.محبت ہے تو ایسی کہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کہنے کے بغیر کوئی کام ہی نہیں کیا جاتا.یہ کمال محبت ہے کہ کسی چیز کو چھونا بھی نہیں چاہتا جب تک خدا کا نام نہ لے لے.جیسے ماں ہر چیز کھانے کے وقت بچہ کو یاد کر لیتی ہے اسی طرح مومن ہر کام کرنے کے وقت خدا کو یاد کرتا ہے.پھر اس محبت سے وہ سوز اور گداز پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بالکل بے جان کی طرح خدا تعالیٰ کے سامنے ڈال کر کہتا ہے جو کچھ کرنا ہے تو نے ہی کرنا ہے.

Page 126

سيرة النبي علي 116 جلد 3 یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے پیش کی اسے کون غلط کہہ سکتا ہے.مذہب کی غرض خدا تعالیٰ سے ملنا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے وہ غلط رستہ پر کہاں جا سکتا ہے.تو اَدْعُوا اِلَی اللہ میں یہ بتایا کہ مذہب کا خلاصہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے انسان کو چاہئے کہ اس میں زندگی بسر کرے.یہ بہت اعلیٰ طریق ہے مگر اس میں ایک کمی رہ جاتی ہے اس کی طرف آیت کے اگلے حصہ میں توجہ دلائی گئی ہے.محبت بے شک اچھی چیز ہے مگر یہ ایسی چیز ہے کہ اس میں ٹھو کر بھی لگ سکتی ہے.بہت لوگ محبت کی وجہ سے حقیقت کو بھول جاتے ہیں.پس خالی محبت مفید نہیں ہو سکتی محبت اور حقیقت مل کر کام آتی ہے.مثلاً اگر کسی کا بچہ پہاڑ پر سے گر پڑے تو بجائے اس کے کہ سوچ کر نیچے اترے اگر وہ محض محبت کے جوش میں پہاڑ سے کود پڑے گا تو ہوسکتا ہے کہ بچہ تو صحیح سلامت نیچے کھڑا ہو اور وہ مرجائے تو فرمایا اَدْعُوا اِلَی اللہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں مگر میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کہتے ہیں بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اسے مان لو بلکہ میں یہ کہتا ہوں عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي مِیں اور میرے پیچھے چلنے والے ایسے ہیں کہ انتہا درجہ کی محبت میں بھی ان کی عقلیں نہیں ماری جاتیں بلکہ قائم رہتی ہیں کیونکہ میری تعلیم کی بنیاد عقل اور دلیل پر قائم ہے.نیک نیست بے شک قابل قدر چیز ہے لیکن جب عقل کے خلاف ہو تو نقصان پہنچاتی ہے.اگر ایک شخص زہر کو تریاق سمجھ کر کھا لے تو وہ اپنی نیت کے اچھے ہونے کی وجہ سے بچ نہیں سکے گا.یا لوگ کشتے تیار کرتے ہیں اگر کوئی زہر کا کشتہ کسی کے لئے بڑی محبت اور اخلاص سے تیار کرے مگر وہ زہر کا اثر زائل کرنا نہ جانتا ہو تو اس کی محبت اور نیک نیتی کی وجہ سے وہ کشتہ کے زہر سے بچ نہیں سکے گا کیونکہ وہ عقل کے ماتحت تیار نہ ہوا ہو گا.تو اَدْعُوا الی اللہ میں بتایا کہ اسلام کی نبیاد محبت پر ہے مگر ساتھ ہی اسلام عقل کو بھی نہیں چھوڑتا اس لئے میں بھی عقل پر قائم ہوں اور میرے متبع بھی.پھر فرمایا وَ سُبْحْنَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.یہ پہلی دونوں باتوں کی

Page 127

سيرة النبي عمال 117 جلد 3 دلیلیں دیں.قرآن کریم کا قاعدہ ہے کہ بات کے آخر میں ایک یا دولفظوں میں خلاصه بیان کر دیتا ہے.یہاں دو دعوے پیش کئے گئے تھے اور خاتمہ پر دولفظوں میں ان کا ثبوت بیان کر دیا - هذِهِ سَبِيلِي اَدْعُوا إِلَى اللهِ کے متعلق سُبحن الله فرمایا کہ اللہ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے اور کامل ذات ہے.اَدْعُوا إِلَى اللهِ میں بتایا تھا کہ میں خدا کی طرف بلاتا ہوں.اس پر سوال ہوسکتا تھا کہ کیوں خدا کی طرف جائیں، اس میں کیا فائدہ ہے ؟ اس کے متعلق فرمایا سُبحن اللہ وہ ذات کامل اور پاک ذات ہے اگر تم کامل بننا چاہتے ہو تو کامل ذات کی طرف آؤ.یہ فطرتی تقاضا ہے کہ جو کام کیا جائے اس کا کوئی مقصد ہونا چاہئے اور خدا کی طرف جانے کا مقصد یہی ہے کہ کمال حاصل ہو اور یہ خدا ہی سے حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی کامل نہیں ہے اس لئے بتایا سبحان اللہ اللہ تمام عیوب سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے اور وہی کامل ہے اس لئے اسی کی طرف جانے سے کمال حاصل ہوسکتا ہے.دوسری بات جو یہ کہی تھی کہ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي اس کے متعلق فرمایا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ دلائل پر قائم ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ادھر ادھر نہیں مارا مارا پھرتا اس کے سامنے ایک گول (Goal) اور مقصد ہوتا ہے تمہاری بھی یہی حالت ہو جائے گی.مشرک کون ہوتا ہے؟ وہ کہ جو چیز دیکھتا ہے اسے اپنا معبود بنا لیتا ہے.اگر پہاڑ دیکھا تو اس کے آگے جھک گیا، دریا دیکھا تو اسے پوجنے لگ گیا، کوئی درندہ ملا تو اسے معبود بنا لیا گویا وہ ایک آوارہ گرد کی طرح ہوتا ہے یہ نہیں جانتا کہ خدا کس طرف جانے سے مل سکتا ہے.مگر مومن اس طرح نہیں کرتا اس کے سامنے ایک کامل اور واحد ذات ہوتی ہے اور وہ اس کے پانے کے لئے کوشش کرتا ہے.پس مومن اور مشرک میں فرق یہ ہے کہ مومن کی مثال اُس معالج کی طرح ہوتی ہے جو سائنٹیفک طریق پر علاج کرتا ہے جو مرض دیکھتا ہے اور اس کے مطابق دوا دیتا

Page 128

سيرة النبي علي 118 جلد 3 ہے.مگر مشرک پرانے زمانہ کی اس بڑھیا کی طرح ہوتا ہے جسے جو شخص کوئی علاج بتائے وہی کرنے لگ جاتی ہے.غرض مشرک ہمیشہ بصیرت کے خلاف چلتا ہے وہ اپنے اعمال کی بنیاد عقل پر نہیں رکھتا اس لئے کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف نکل جاتا ہے.دیکھو وہ لوگ جو ڈلہوزی پہنچنے کا رستہ جانتے ہوں وہ تو چلتے چلتے ڈلہوزی پہنچ جائیں گے مگر جو رستہ نہیں جانتے ان میں سے کوئی کہیں نکل جائے گا اور کوئی کہیں.پس عقل کے ماتحت جو کام کرتے ہیں وہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور جو یونہی چلتے ہیں ان میں سے بھی کوئی پہنچ سکتا ہے مگر زیادہ ضائع ہی ہو جاتے ہیں.صلى الله رسول کریم علیہ نے اس آیت میں دو دعوے کئے.ایک یہ کہ اَدْعُوا إِلَى اللهِ اور دوسرا یہ کہ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي - اس سے بہتر دعوے نہیں ہو سکتے اور نہ کسی نے آپ کے سوا کئے ہیں.دعوے یہ ہیں کہ میں خدا کی طرف بلاتا ہوں ، خدا کی محبت لوگوں میں پیدا کرتا ہوں پھر عقل سے منوا تا ہوں کسی قسم کا جبر نہیں کرتا.یہ وہ بہترین چیز ہے جو قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے.مگر ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اس سے نفع اٹھاتے ہیں؟ خواہ ایک چیز کتنی عمدہ ہو لیکن اگر ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو ہمارے لئے اس کا اچھا ہونا یا نہ ہونا برا بر ہے.کسی کو بخار چڑھا ہو اور اس کی جیب میں کو نین بھی ہومگر وہ خود نہ کھائے اور دوسروں کو بتائے کہ بخار دور کرنے کے لئے بہت مفید چیز ہے تو اس سے اسے کیا فائدہ ہوگا.اسی طرح ایک شخص کنویں کے پاس پیاسا بیٹھا ہومگر پانی نہ پئے تو اس کی پیاس کس طرح مجھ سکے گی.پس جب تک ہم قرآن کریم پر عمل نہ کریں وہ باتیں جو اس میں بیان کی گئی ہیں ان سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس آیت میں قرآن نے دو باتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ اللہ کی طرف بلاتا ہوں.اب ہمیں دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا ہماری زندگیاں ایسی ہیں کہ ہم لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں یا یہ کہ دوسرں کو بلانا تو الگ رہا خود ہی خدا کی طرف جاتے

Page 129

سيرة النبي عمال 119 جلد 3 ہیں.اگر غور کریں تو مسلمانوں میں سے بہت کم ہوں گے جو اس طرف توجہ کرتے ہوں.ان کے مقابلہ میں عیسائی اور دوسرے مذاہب والوں میں اپنے اپنے مذہب سے بہت زیادہ تعلق پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو بھی اپنے مذاہب کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اس وقت انگلستان میں دہریت کا بہت زور ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ دہریت نے عیسائیت کو بہت بگاڑ دیا ہے مگر باوجود اس کے ان لوگوں کو حضرت عیسی سے جو وابستگی ہے اس میں فرق نہیں آیا.وہ لوگ اس بات کو مذہب سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی سے محبت اور اخلاص رکھیں اور اسے چھوڑنے کے لئے وہ کسی صورت میں بھی تیار نہیں خواہ وہ عیسائی رہیں یا نہ رہیں دہر یہ بن جائیں یا کچھ اور حضرت عیسی سے انہیں جو تعلق ہے اس میں کمی آنے نہیں دیتے.اس میں وہ ایسے پختہ ہیں کہ عیسائیت کی تبلیغ کے مرکز آکسفورڈ اور کیمبرج سمجھے جاتے ہیں جہاں یو نیورسٹیاں ہیں اور جہاں نوجوان تعلیم پاتے ہیں.ہمارے بعض دوست وہاں گئے تو انہیں اس قسم کا لٹریچر ملا جو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے شائع کیا گیا تھا.وہاں انجمنیں بنی ہوئی ہیں جو سوالات بنا کر شائع کرتی ہیں اور لوگوں سے جواب حاصل کرتی ہیں.وہ سوالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جواب دینے والے مجبور ہوتے ہیں کہ عیسائیت سے 09- محبت کا اظہار کریں.اس کے مقابلہ میں ہمارے کالجوں کے طلباء کو دیکھو وہ کیا کرتے ہیں.یہی نہیں کہ دوسروں کو اسلام کی طرف متوجہ نہیں کرتے بلکہ خود ان کے دلوں میں شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں.بیشک اس کی ذمہ داری علماء پر پڑتی ہے کہ کیوں انہوں نے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جس سے اعتراض وارد ہوتے ہیں مگر اعتراض کرتے تو نوجوان ہی ہیں.پھر ان کی توجہ اسلامی احکام کی تعمیل کی طرف نہیں.ہزار میں سے پانچ سات نماز پڑھتے ہوں تو پڑھتے ہوں باقی نہیں.اُدھر عیسائیوں کو دیکھو ان کا مذہبی جوش دیکھ کر لطف آ جاتا ہے جہاں مسلمانوں کی مذہبی حالت دیکھ کر رقت پیدا

Page 130

سيرة النبي عمال 120 جلد 3 ہوتی ہے.جب یورپ میں جنگ عظیم جاری تھی تو ایک موقع پر فریقین نے انتہائی زور صرف کر دیا کیونکہ ہر ایک چاہتا تھا کہ اس سال لڑائی کا خاتمہ ہو جائے اس کے لئے بڑا سامان جمع کیا گیا اور ہر فر د جو بھی مل سکتا تھا اسے میدان جنگ میں لایا گیا.نہایت زبر دست جنگ شروع ہوئی.اُس وقت انگلستان کی جنگی کمیٹی کو تار پہنچا کہ اس وقت ہماری یہ حالت ہے کہ ہم دیوار سے پیٹھ لگا کر لڑ رہے ہیں اگر اس وقت ہم ذرا بھی ہل گئے تو کہیں ہمارا ٹھکانا نہ رہے گا.اُس وقت کیبنٹ میٹنگ ہو رہی تھی اور مشورہ کیا جا رہا تھا کہ لڑائی کے لئے کیا کیا سامان جمع کیا جائے اور کہاں کہاں بھیجا جائے کہ یہ تار پہنچا.لائڈ جارج اُس وقت وزیر اعظم تھے وہ تار لے کر کھڑے ہو گئے اور سب کو مخاطب کر کے کہنے لگے یہ تار آیا ہے اب باتوں کا وقت نہیں رہا اور اب وہ ایک ہی طریق اختیار کریں جو باقی رہ گیا ہے اور جس کے بغیر اور کوئی طریق نہیں ہے اور وہ یہ کہ خدا کے آگے جھک جائیں اور اس سے دعا کریں کہ ہم کامیاب ہوں.یہ کہہ کر سب کے سب جھک کر دعا کرنے لگ گئے.یہ اس قوم کی حالت ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے خدا کو چھوڑ دیا، جو مذہب ترک کر چکی ہے اور جو حقیقت مذہب سے ایسی ہی نا واقف ہے جیسے جانور فلسفہ سے ناواقف ہوتا ہے.یہ سب کچھ صحیح مگر باوجود اس کے اس میں ایک چیز قائم ہے اور وہ مذہب کا ادب ہے.باوجود اس کے کہ ان کا مذہب ان کی تسلی نہیں کر سکتا اور باوجود اس کے کہ ان کی دعاؤں میں قبولیت کا رنگ نہیں ہوتا وہ خدا کی بتلائی ہوئی دعائیں نہیں کرتے بلکہ اپنی عقل سے بنائی ہوئی کرتے ہیں مگر پھر بھی ان میں اپنے مذہب کا ادب اور احترام پایا جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ مذہبی باتوں پر ٹھٹھا کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں.یہودی مذہب کی حقیقت سے کس قدر دور ہو چکے ہیں لیکن باوجود اس کے میں نے ان کو دیکھا ہے دعائیں کرتے وقت عملاً ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.آج تک جب کبھی

Page 131

سيرة النبي عمال 121 جلد 3 مجھے وہ نظارہ یاد آ جاتا ہے تو میرا دل بے چین ہو جاتا ہے.میں نے یہودیوں کی اپنے مذہب سے جو تڑپ دیکھی وہ بہت ہی دردانگیز تھی.یروشلم میں ایک مسجد ہے.وہ مقام یہودیوں کے لئے ایسا ہی متبرک ہے جیسا ہمارے لئے خانہ کعبہ.مسلمانوں کے زمانہ میں جب یروشلم فتح ہوا تو عیسائیوں نے چاہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مقام کے اندر آ کر نماز پڑھیں مگر آپ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اندر نماز پڑھی تو مسلمان اس جگہ کو اپنی عبادت گاہ بنالیں گے اور آپ نے باہر نماز پڑھی 5.وہ مقام یہودیوں سے رومیوں نے چھین لیا تھا اور پھر ان سے عیسائیوں کے قبضہ میں آیا تھا اب اس مقام کو یہودیوں کے ہاتھ سے نکلے اٹھارہ سو سال کے قریب ہو چکے ہیں لیکن آج تک ہر جمعہ کے دن وہ لوگ اس مسجد کے پاس جاتے اور اس کی دیوار کو پکڑ کر چھینیں مار مار کر روتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ خدایا ! یہ مسجد ہمارے حصہ میں آ جائے.میں سمجھتا ہوں یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اُن دنوں میں جن میں وہاں میں ٹھہر جمعہ کا بھی دن تھا اور مجھے وہ نظارہ دیکھنے کا موقع ملا.میں نے جا کر دیکھا کہ بچے، بوڑھے ، عورتیں اور مرد بلک بلک کر رو ر ہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے.میں اس کیفیت کو نہیں بھول سکتا کہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی دونوں ہاتھوں سے دیوار کے ساتھ چمٹ کر اور زبان اس کے ساتھ لگا لگا کر اس بے تابی اور اضطراب کے ساتھ رو رہی تھی کہ خیال ہوتا تھا اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سر پیر کی ہوش نہیں ہے.اسی طرح میں نے ایک بڑھے کو دیکھا جس کی عمر نوے سال کے قریب ہو گی اس کی کمر ٹیڑھی ہو چکی تھی ، وہ کمزوری کی وجہ سے کھڑا نہ ہوسکتا تھا، اس کی داڑھی ناف تک لمبی تھی وہ بے اختیار ہو ہو کر اس طرح گرا پڑتا تھا کہ گویا ابھی اس کا اکلوتا بیٹا مرا ہے ، اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، اس کے ہاتھ لٹکے ہوئے تھے، اس کے

Page 132

سيرة النبي عمال 122 جلد 3 ہونٹ کانپ رہے تھے ، اس کا تمام جسم جذبات کی زندہ تصویر بنا ہوا تھا اور وہ بلبلا کر دعا مانگ رہا تھا.یہ کیفیت ہے ان قوموں کی جن میں خدا کا نام ہی نام رہ گیا ہے اور حقیقت مٹ گئی ہے.ان کے مقابلہ میں مسلمان ہیں جن کا زندہ خدا ہے اور جو زندہ رسول کے ماننے والے ہیں اور جو آج بھی خدا کے فضلوں کے اُسی طرح وارث ہو سکتے ہیں جس طرح پہلے ہوئے مگر نہ انہیں خدا کی طرف توجہ ہے نہ اس کے رسول کی طرف اور نہ اس قرآن کی طرف.اَدْعُوا إِلَى اللهِ پر عمل کرنا تو الگ رہا یعنی یہ کہ وہ تبلیغ کریں ان کی اپنی حالت ایسی ہے کہ اسلام سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی بعض خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے یہ وبال ان پر ڈال رکھا ہے.ورنہ سمجھ میں نہیں آتا جھوٹے مذاہب والوں میں تو اپنے اپنے مذہب کے لئے ایسی قربانیاں اور ایسے ایثار دکھانے والے پیدا ہوں مگر مسلمانوں میں نہ ہوں جنہیں خدا تعالیٰ نے قرآن ایسی کتاب دی جس کا مقصد اور مدعا ہی اَدْعُوا إِلَى اللهِ ہے.دوسری بات اس آیت میں رسول کریم ﷺ کی طرف سے یہ بیان کی گئی ہے کہ میں اور میرے متبع عقل اور دلیل پر چلتے ہیں مگر اب نظر یہ آتا ہے کہ مسلمان ہی عقل اور دلیل کو سب سے زیادہ چھوڑنے والے ہیں.اس وقت مسلمانوں کے علماء کے پاس اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو صرف روایت.رسول کریم ﷺ تو فرماتے ہیں علی بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی مگر یہ کہتے ہیں فلاں نے یہ بات لکھی ہے خواہ وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے ہم اس کو مانیں گے.خدا اور خدا کا رسول تو ایمان کی بنیاد عقل اور دلیل پر رکھتا ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں میں ہی عقل اور دلیل پر قائم نہیں ہوں بلکہ جو بھی میرا سچا متبع ہو گا وہ اپنے ایمان کو عقل اور دلیل پر قائم کرے گا ، وہ کبھی یہ نہ کہے گا کہ فلاں نے یوں کہا ہے اس لئے میں فلاں بات مانتا ہوں بلکہ وہ یہی کہے گا کہ عقل اور دلیل سے مجھے یہ بات معلوم ہو گئی ہے اس لئے مانتا ہوں.پس مومن یہ

Page 133

سيرة النبي علي 123 جلد 3 حریت اور آزادی دکھاتا ہے.وہ سارے واسطے مٹا دیتا اور براہ راست خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے.یہی ایک سچے مومن کی شان ہے.ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان کوئی واسطہ نہیں حتی کہ رسول جو سب سے بڑی چیز ہے اسے بھی ہم واسطہ نہیں صلى الله سمجھتے کیونکہ ہم مشرک نہیں.رسول کریم ﷺے ہمارے ہادی اور راہ نما ہیں مگر ہمارے اور خدا تعالیٰ کے درمیان بند دروازہ نہیں ہیں بلکہ کھلا دروازہ ہیں تا کہ ہم اس دروازہ میں سے گزر کر خدا تعالیٰ تک پہنچ جائیں.اس بات کو بیان کرنے کے لئے زیادہ تفصیل کی ضرورت ہے لیکن اس خطبہ سے دور چلا جاؤں گا اگر میں اس تفصیل کو بیان کروں.ہاں اتنا بتا دیتا ہوں کہ ہم میں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں یہ فرق ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے رستہ میں دربان مقرر کئے ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں ان سے ٹکٹ حاصل کرو تو آگے جا سکتے ہو.مگر اسلام یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ہر ایک کے لئے دروازہ کھلا ہے اور رسول ﷺ کا کام یہ ہے کہ بھولے بھٹکوں کو پکڑ پکڑ کر اس دروازہ کی طرف لائے.یہ ہے نبوت کے متعلق اسلامی تعلیم اور یہ ہے اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق.صلى الله تو باوجود اس کے کہ رسول کریم علیہ فرماتے ہیں میں اور میری جماعت بصیرت پر قائم ہیں اس زمانہ کے علماء مسلمانوں کو پرانے لوگوں کے افکار وحوادث کا ، ان کے خیالات کا اور ان کی روایات کا غلام بنائے رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں.پھر مسلمانوں کی روایات کا ہی نہیں یہودیوں اور عیسائیوں کی روایات کا بھی غلام بنا رکھا ہے.خدا کے نبیوں اور فرشتوں کے متعلق یہودیوں اور عیسائیوں کی روایات کی بنا پر ایسی ایسی باتیں تفسیروں میں لکھی ہیں جن کو کوئی شریف انسان پڑھ بھی نہیں سکتا مگر ان کے متعلق کہتے ہیں مسلمانوں کو ماننی چاہئیں کیونکہ تفسیر وں میں لکھی ہیں.فرشتے جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ، جو کچھ انہیں کہا جائے وہی 6 کرتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کرتے ان کی نسبت لکھا ہے کہ آسمان سے آدمی بن کر

Page 134

سيرة النبي عمال 124 جلد 3 اترے تھے اور ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے تھے اب بابل میں لٹکے ہوئے ہیں.یہودیوں کی کئی کتابوں میں لکھا ہے کہ فرشتے بھی گناہ کر سکتے ہیں مسلمانوں میں تو یہ جائز نہیں.اسی طرح عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کے سوا کوئی انسان پاک نہیں اس وجہ سے انہوں نے ایسی روایتیں گھڑ لیں جن میں سب انبیاء کو گناہ گار ٹھہرایا گیا.ان کو مسلمانوں نے لے کر کہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر الزام لگا دیا کہیں اور انبیاء پر 66 حتی کہ رسول کریم ﷺ کی ذات پاک پر الزام لگانے سے بھی باز نہ آئے.“ (الفضل 11 اگست 1928ء ) 1: يوسف: 109 2: الفاتحة: 1 3: الناس : 2 تا 7 4: الفلق : 2 5 تاریخ ابن خلدون الجزء الثانی صفحہ 220 مطبوعہ بیروت 1999ء 6: النحل: 51

Page 135

سيرة النبي علي 125 جلد 3 رسول کریم ع کا خدا کی محبت کی طرف بلانے کا خوبصورت انداز حضرت مصلح موعود 24 اگست 1928ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.حدیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ ایک جنگ کے بعد بیٹھے ہوئے تھے ، کچھ صحابہ بھی آپ کے پاس تھے.دیکھا گیا کہ ایک عورت میدان جنگ میں آئی ہے، اس نے ایک بچہ کو اٹھایا چھاتی سے لگا کر چھوڑ دیا اور آگے چل دی.پھر دوسرا بچہ جو اسے نظر آیا اسے اٹھا لیا اور چھاتی سے لگا کر چھوڑ دیا اور آگے چلی گئی.کئی دفعہ اس نے اسی طرح کیا حتیٰ کہ ایک بچہ اسے نظر آیا اسے اس نے اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا اور پھر آرام سے ایک جگہ بیٹھ گئی.دراصل اس کا بچہ کھویا گیا تھا وہ اپنے بچہ کی محبت کی وجہ سے جو بچہ دیکھتی اسے اٹھا لیتی اور پیار کرتی.چونکہ وہ اس کا اپنا بچہ نہ ہوتا اس لئے چھوڑ دیتی اور اپنے بچہ کی تلاش شروع کر دیتی یہاں تک کہ اسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اسے لے کر آرام سے بیٹھ گئی.رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا کس بے تابی سے اپنے بچہ کو تلاش کر رہی تھی.اب جس طرح اس کا دل اپنے بچہ کو پا کر مطمئن ہو گیا ہے بعینہ اسی طرح اللہ تعالیٰ اُس وقت خوش ہوتا ہے جب اس کا کوئی گمراہ بندہ اس کی طرف آ جاتا ہے 1.اُس وقت وہاں کئی لوگ بیٹھے تھے.کئی نے تو اس عورت کی طرف دیکھا بھی نہ ہو گا.کئی ایک نے یہ خیال کیا ہو گا کہ کوئی پاگل عورت ہے جو ایک بچہ کو اٹھاتی اور پھر

Page 136

سيرة النبي علي 126 جلد 3 چھوڑ دیتی ہے اور آگے چل پڑتی ہے پھر دوسرے بچہ کو اٹھا لیتی ہے.کئی ایک نے زیادہ سے زیادہ یہ سمجھا ہو گا کہ اس کا بچہ کھویا گیا تھا اس کی تلاش کر رہی تھی اور جب وہ مل گیا تو اسے لے کر آرام سے بیٹھ گئی مگر رسول کریم ﷺ کی نظر بہت اونچی گئی.آپ نے اس واقعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیا اور بتایا کہ مومن کو چاہیئے ہر بات سے 66 فائدہ اٹھائے اور غور کر کے نصیحت حاصل کرے.“ (الفضل 31 اگست 1928ء ) 1: بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله ومعانقته صفحه 1050 حدیث نمبر 5999 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 137

سيرة النبي علي 127 جلد 3 د رسول کریم ہے اور عورتوں کے حقوق حضرت مصلح موعود نے 23 نومبر 1928ء کے جمعہ کے خطبہ ثانیہ میں فرمایا :.اگر چہ خطبہ میں بولنا منع ہے مگر کسی نے سوال کیا ہے کہ عورتیں بھی ٹورنامنٹ دیکھنے جاتی ہیں.میرے خیال میں یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں.عورتیں کیوں نہ دیکھیں جب کہ انہوں نے بچے پیدا کرنے ہیں.رسول کریم ﷺ نے خود حضرت عائشہ کو حبشیوں کے کرتب دکھائے.پھر آپ ایک مرتبہ لڑائی سے واپس آ رہے تھے تو لشکر کے سامنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑھ گئیں.پھر ایک دفعہ آپ بڑھ گئے اور فرمایا عائشہ! تِلْكَ بِتِلْک یعنی یہ بدلا ہو گیا -1 - اگر عورتیں برقع پہن کر چل پھر سکتی ہیں تو وہاں جا کر بیٹھ جانے میں کیا حرج ہے.“ (الفضل 30 نومبر 1928ء) 1 ابوداؤد كتاب الجهاد باب فى السبق على الرجل صفحہ 373 حدیث نمبر 2578 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى ( کچھ الفاظ کے فرق کی ساتھ )

Page 138

سيرة النبي علي 128 جلد 3 ایک اعتراض کا جواب کہ آپ کو اتنا بڑا قرآن کیسے یادرہ گیا حضرت مصلح موعود 28 دسمبر 1928 ء اپنی تقریر بر موقع جلسہ سالانہ قادیان میں ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.وو صلى الله پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو اتنے کاموں اور شورشوں میں قرآن کریم یاد کس طرح رہ سکتا تھا.یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک واقعہ کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے.جب واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو یا د رہا اور شب و روز نمازوں میں سنایا جا تا رہا تو اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے سامنے پروفیسر مارگولیتھ نے یہ اعتراض کیا کہ اتنا بڑا قرآن کس طرح یا درہ گیا ؟ میں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپ کے سپرد ساری دنیا کی اصلاح کا کام کیا گیا تھا آپ اسے کیوں یاد نہ رکھتے ؟ میرے ایک لڑکے نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن یاد کر لیا ہے اور لاکھوں انسان موجود ہیں جنہیں سارے کا سارا قرآن یاد ہے.جب اتنے لوگ اسے یاد کر سکتے ہیں تو کیا و ہی نہیں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوا تھا.“ فضائل القرآن نمبر 1 صفحہ 23 ، 24 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963 ء)

Page 139

سيرة النبي علي 129 جلد 3 رسول کریم ﷺ کا محاسبہ نفس حضرت مصلح موعود 18 جنوری 1929ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.در حقیقت کسی انسان کا دل دکھانا ایک بہت بڑا جرم ہے اور رسول کریم صلی اللہ الوسة نے بھی ایسے معاملہ میں معافی مانگنے سے پر ہیز نہیں کیا.جب آپ فوت ہونے لگے تو صحابہ سے فرمایا اگر کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو اسے چاہئے کہ یہیں بدلہ لے لے.غور کرو یہ کتنی بڑی قربانی ہے.آپ خاتم النبین تھے اور آپ کی وہ شان تھی کہ صحابہ آپ کے ایک ایک لفظ کو خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت سمجھتے تھے.پس اگر رسول کریم ﷺ جیسا انسان اس علوشان کے باوجود اس امر کے لئے تیار ہوتا ہے کہ پنی غلطی کا اعتراف کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم لوگ اس کے لئے تیار نہ ہوں.چلتے ہوئے کسی کو ہماری ٹھوکر لگ جاتی ہے اور ہم اُس وقت کیا آسانی سے کہہ دیتے ہیں معاف کیجئے.پس جب چلتے چلتے ہم ذرا سی ٹھوکر پر معافی مانگ لیتے ہیں تو جب معافی مانگنے سے سینکڑوں لوگوں میں اختلاف مٹ سکتا ہو اس کے لئے ہم کیوں تیار نہ ہوں.میں نے رسول کریم ﷺ کی مثال دی ہے اور اپنی وفات کے موقع پر آپ نے فرمایا اگر کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو بتا دے اور بدلہ لے لے.اس پر ایک صحابی نے كبايَا رَسُولَ الله ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہوئی ہے اور میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں.ایک جنگ کے موقع پر آپ لشکر کی صف بندی کر رہے تھے اور کسی ضرورت سے آپ کو صف چیر کر نکلنا پڑا اور آپ کی کہنی مجھے لگی.وہ لوگ جنہیں رسول کریم ﷺ سے عشق تھا اور جن کے عشق کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ایک صحابی جنگِ اُحد میں بہت صلى الله

Page 140

سيرة النبي عمال 130 جلد 3 سخت زخمی ہوئے ، ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور ہڈیاں چور چور ہو گئیں ان کا ایک رشتہ دار بہت تلاش کے بعد اُن تک پہنچا اُس وقت ان کی زندگی کے صرف چند منٹ باقی تھے.رشتہ دار نے چاہا کہ ان کی زندگی کو بچانے کے لئے کچھ مدد کرے لیکن انہوں نے کہا کہ اب مدد کا موقع نہیں میرے پاس آؤ.جب وہ پاس گیا تو اس کا ہاتھ صلى اللهم اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں تمہارے ہاتھ کو رسول کریم ﷺ کا ہاتھ فرض کرتا ہوں اور اس سے مصافحہ کرتا ہوں تم رسول کریم ﷺ کو میرا سلام پہنچا دینا اور میں تم سے عہد لیتا ہوں کہ میرے تمام رشتہ داروں سے کہہ دینا میں مر رہا ہوں مگر دنیا کی سب سے قیمتی چیز یعنی محمد رسول اللہ کو تم میں چھوڑے جاتا ہوں.تمہیں خواہ کتنی ہی قربانیاں کرنی پڑیں کسی حالت میں بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑنا اور ہر طرح آپ کی حفاظت کرنا 1.ظاہر ہے کہ جب ایسے لوگوں نے اس صحابی کے منہ سے بدلہ لینے کے الفاظ سنے ہوں گے تو انہیں کس قدر جوش آیا ہو گا.اُن کی تلواریں میانوں سے تڑپ تڑپ کر باہر آ رہی الله ہوں گی اور وہ چاہتے ہوں گے کہ اس کی بوٹی بوٹی اڑا دیں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا لو تم بھی مجھے کہنی مار لو.اس صحابی نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله ! اُس وقت جب آپ کی گہنی مجھے لگی میرا جسم نگا تھا.اس پر آپ نے اپنا کرتا اٹھا کر اپنا جسم نگا کر دیا.وہ صحابی جھکا اور نہایت ادب سے اُس مقام پر بوسہ دیا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں چاہتا تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں اور حضور کے مظہر جسم کو بوسہ دے کر برکت حاصل کروں 2 لیکن یہ بات تو اس کے دل میں تھی رسول کریم ﷺ کو تو اس کا کوئی علم نہ تھا.آپ تو یہی سمجھتے تھے کہ یہ مجھے کہنی مارنا چاہتا ہے اور آپ نے اسی لئے اپنا جسم بھی ننگا کر دیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کسی ایسی بات کو قیامت پر اٹھا رکھنا نہیں چاہتے تھے.اور میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے مخالفوں میں ایسا اخلاص بلکہ اس کا ہزارواں حصہ بھی موجود ہوتا تو یہ جھگڑا کبھی پیدا ہی نہ ہوتا اور اب بھی اگر وہ اس فیصلہ

Page 141

سيرة النبي علي 131 جلد 3 پر آمادہ ہو جائیں تو نیک نتیجہ کی امید ہو سکتی ہے.“ ( الفضل 12 فروری 1929 ء ) 1: اسد الغابة في معرفة الصحابة الجزء الثاني سعد بن الربيع صفحه 250 ، 251 مطبوعہ بیروت 2006 ، الطبعة الأولى 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول ابن غزية و ضرب الرسول له في بطنه بالقدح صفحہ 687،686 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الأولى

Page 142

سيرة النبي علي 132 جلد 3 رسول کریم علیہ کو آسمانی خبریں ملنے کی مثال حضرت مصلح موعود 29 مارچ 1929 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.صلى الله رسول کریم عہ ایک دفعہ خطبہ بیان فرما رہے تھے کہ تین شخص آئے.ایک علومة صلى الله نے دیکھا کہ جگہ تو نہیں لیکن رسول کریم ﷺ کے قرب کی محبت سے مجبور ہو کر وہ کو دتا پھاند تا آگے آ بیٹھا.دوسرے شخص نے حیا کی اور جہاں اسے جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا.تیرے نے دل میں کہا یہاں تو کوئی آواز پہنچتی ہے اور کوئی نہیں پہنچتی ، یہاں بیٹھے رہنے سے کیا فائدہ چنانچہ وہ واپس چلا گیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے تین آدمیوں کی حالت کی خبر دی ہے.ایک آیا اور جگہ تلاش کر کے آگے آ پہنچا.خدا تعالیٰ نے فرمایا اس کے اخلاص کی برکت میں میں اسے اپنے قرب میں جگہ دوں گا.ایک اور آیا اس نے کہا آگے تو جگہ نہیں لیکن پیچھے ہٹنا بھی ٹھیک نہیں اور وہ وہیں بیٹھ گیا.خدا تعالیٰ نے فرمایا میں نے بھی اس کے گناہوں کی حیا کی.تیسرا آیا اور لوٹ گیا.خدا نے فرمایا جس طرح وہ اس مجلس سے لوٹ گیا میں نے اس سے منہ پھیر لیا 1 بظاہر یہ معمولی بات ہے لیکن چونکہ یہ افعال قلب سے پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات دل کی حالت پر ہی ہوا کرتے ہیں اس لئے جزا اور نتیجہ کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں کیونکہ اصل دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ دین کے معاملہ میں کس نے ستی کی اور کون آگے بڑھا.“ ( الفضل 5 اپریل1929ء) 1: بخاری كتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس و من رأى فرجة في الحلقة فجلس فيها صفحه 16 حدیث نمبر 66 مطبوعہ ریاض1999ءالطبعة الثانية

Page 143

سيرة النبي علي 133 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی عظمت شان حضرت مصلح موعود 12 اپریل 1929 ء کے خطبہ جمعہ میں راجپال کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وو دوسرا لاہور میں راجپال کے قتل کا واقعہ ہے یہ وہی شخص ہے جس نے ایک نہایت ہی دل آزار اور گندی کتاب شائع کی اور ماتحت عدالتوں سے سزا یاب ہونے کے بعد عدالت عالیہ کے ایک جج نے یہ کہہ کر اسے بری کر دیا تھا کہ موجودہ قانون اس کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کرتا.اس کے قتل کے شبہ میں ایک مسلمان پکڑا بھی گیا ہے اور اس پر مقدمہ چل رہا ہے.گورنمنٹ کا بھی یہی قانون ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جب تک کسی کا جرم ثابت نہ ہو اسے قاتل کہنا گناہ ہے.بہر حال قتل ہوا ہے اور قتل کرنے والا کوئی ضرور ہے اس سے انکار نہیں ہو سکتا.پہلے بھی دو دفعہ اس پر حملہ ہوا تھا اور یہ واقعہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے کئی بار مسلمانوں پر ہندوؤں نے حملے کئے اور قتل و خونریزی تک نوبت پہنچائی.پچھلے ہی دنوں لاہور میں نہتے مسلمانوں پر جبکہ وہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے ہندوؤں نے حملہ کر دیا جس سے غالباً چار پانچ آدمی مارے گئے اور کئی مجروح ہوئے.اسی طرح کئی مقامات پر مسلمانوں پر ہندوؤں نے حملے کئے.ملتان ، کٹار پور، آرہ، بہار، بنگال، مالا بار، دہلی ،ضلع گڑگانواں، ضلع انبالہ کے واقعات بتا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے لوگ مذہب کی حقیقت سے ناواقف ہیں.رسولوں کے دنیا میں آنے اور بچے مذہب کی غرض اگر کوئی ہو سکتی ہے تو یہی کہ انسان کو جرم کے ارتکاب سے پہلے روکا جائے.گورنمنٹ کا قانون مجرم کو

Page 144

سيرة النبي عمال 134 جلد 3 ارتکاب جرم کے بعد پکڑ کر سزا دیتا ہے لیکن مذہب کا کام یہ ہے کہ ارتکاب سے پہلے رو کے اور جو مذہب ارتکاب جرم سے روک نہیں سکتا اس کا کوئی فائدہ نہیں.روحانی اور دنیاوی قانون میں یہی فرق ہے کہ روحانی شریعت جرم کے پیدا ہونے سے پہلے روکتی ہے لیکن دنیاوی قانون جرم کے پیدا ہونے کے بعد مجرم کو سزا دے کر اس کے متعدی ہونے کو روکتا ہے.دونوں کے علیحدہ علیحدہ کام ہیں.اگر جسمانی قانون بعد میں سزا نہیں دیتا تو وہ بھی ناقص ہے اور اگر روحانی شریعت جرائم کو قلوب سے نکالنے کی کوشش نہیں کرتی تو وہ بھی بے فائدہ ہے.مذہب کی غرض انسان کے دل میں خشیت اللہ پیدا کرنا ہے جو مذہب اس غرض کو پورا نہیں کرتا وہ مذہب کہلانے کا ہرگز مستحق نہیں ہے.جو مذہب کبر، غرور، نخوت ، تذلیل، تحقیر، تو ہین سے نہیں روکتا وہ دراصل مذہب نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جسے جس قدر جلد دنیا سے مٹایا جا سکے بہتر ہوگا.مذہب وہی کہلا سکتا ہے جو کبر وغرور، نخوت ، تذلیل، تحقیر، تو ہین اور فتنہ وفساد کی تمام راہوں کو بند کرتا ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے جو آج کل رونما ہو رہے ہیں کوئی مذہبی یا سیاسی لیڈر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا مذہب اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور اس کے گرنے کا کوئی خدشہ نہیں.یہ ایک حقیقت ہے جن قوموں میں دوسروں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی طرف توجہ نہیں ہوتی ایسی قومیں اپنے ہاتھوں سے اپنی موت کے فیصلہ پر دستخط کرتی ہیں اور جو شخص اپنی قوم کے ایسے افراد کی پیٹھ ٹھونکتا ہے، ان کے لئے بہانے اور عذر تلاش کرتا ہے وہ اپنی قوم کا بدترین دشمن ہے.ناروا افعال پر جتنا بھی اظہارِ مذمت کیا جائے اُتنا ہی قومی خدمت ہے.جو مائیں محبت سے اپنی اولاد کے جرائم کو چھپاتی ہیں وہ مائیں خیر خواہ نہیں بلکہ اولاد کی دشمن ہوتی ہیں.ہمارے ملک میں ایک مشہور قصہ ہے کہ کسی عادی مجرم کو جب پھانسی پر لٹکایا جانے لگا تو اس نے ماں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا.اس پر اس خیال سے کہ بجائے کسی عمدہ

Page 145

سيرة النبي علي 135 جلد 3 کھانے سے یا کسی اور بات کے اُس نے آخری وقت میں اپنی ماں سے ملنے کی خواہش کی اُن افسروں نے جو وہاں متعین تھے خاص اثر محسوس کیا اور اُس کی ماں کو بلایا گیا.جب وہ آئی تو اس نے کہا ذرا میرے قریب کر دو میں کان میں ایک بات کہنی چاہتا ہوں.جب قریب کیا گیا تو اُس نے اپنی ماں کا گلا کاٹ لیا.لوگوں نے کہا کم بخت ! تو اس وقت میں بھی ایسے فعل سے باز نہ آیا جبکہ پھانسی پر لٹکنے لگا.اس نے کہا میں پھانسی پر لٹکتا ہی اس کی وجہ سے ہوں.بچپن میں جب میں چوری کیا کرتا تو یہ ماں میری پیٹھ ٹھونکا کرتی تھی.اگر یہ ایسا نہ کرتی تو عادی چور ہو کر آج میں اس نتیجہ کو نہ پہنچتا.اسی طرح مجرموں کی خواہ انہوں نے ہتک انبیاء کا جرم کیا ہو خواہ قتل کا، جو لیڈر پیٹھ ٹھونکتے ہیں وہ خود مجرم ہیں.قاتل ، ڈاکو اور وہ خبیث الفطرت اور گندے لوگ جو انبیاء کو گالیاں دیتے ہیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کی تعریف کی جائے.ان کی قوم اگر اپنے اندر دینداری، تقوی اور اخلاق رکھنے کی مدعی ہے تو اس کا فرض ہے کہ ایسے افعال کی پورے زور کے ساتھ مذمت کرے.اسی طرح اس قوم کا جس کے جو شیلے آدمی قتل کرتے ہیں خواہ انبیاء کی توہین کی وجہ سے ہی وہ ایسا کریں فرض ہے کہ پورے زور کے ساتھ ایسے لوگوں کو دبائے اور ان سے اظہارِ براءت کرے.انبیاء کی عزت کی حفاظت قانون شکنی سے نہیں ہو سکتی.وہ نبی بھی کیسا نبی ہے جس کی عزت کو بچانے کے لئے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں ، جس کے بچانے کے لئے اپنا دین تباہ کرنا پڑے.یہ سمجھنا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کے لئے قتل کرنا جائز ہے سخت نادانی ہے.کیا محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت اتنی ہی ہے کہ ایک شخص کے خون سے اس کی ہتک دھوئی جا سکے؟ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ہتک کی سزا قتل ہے.میں کہتا ہوں تاریخ سے کوئی ایک مثال ہی ایسی پیش کی جائے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کسی ایک انسان کو بھی محض آپ کو برا کہنے کی وجہ سے قتل کیا گیا ہو اور اُس قتل میں کسی پولیٹیکل جرم کا دخل نہ ہو.کوئی ثابت کرے کہ محض اس جرم میں کسی

Page 146

سيرة النبي علي 136 جلد 3 کو قتل کیا گیا.ہاں اگر کسی کے متعلق یہ شبہ ہوا کہ وہ غیر قوموں کو مسلمانوں پر چڑھا لائے گا اور سازشیں کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا تو یہ اور بات ہے.صرف توہین رسول کے جرم میں کبھی کوئی ایک شخص بھی قتل نہیں کیا گیا.اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کو کیوں زندہ چھوڑ دیا جاتا حالانکہ اس نے عَلَى الْإِعْلان کہا تھا کہ لَيُخْرِجَنَ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ1 کہ میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں ( نَعُوذُ بِاللهِ) سب سے زیادہ ذلیل یعنی رسول کریم ﷺ کو نکال دوں گا.محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس ایسی باتوں کی اطلاع بھی پہنچ جاتی تھی.پھر صحابہ نے یہ بھی کہا کہ اس کے ساتھیوں میں سے بعض کو قتل کر دیا جائے لیکن رسول کریم علیہ نے فرمایا نہیں ، لوگ کیا کہیں گے کہ محمد نے اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیا 2 اگر قتل جائز ہوتا تو وہ منافق جو آخری وقت تک مسلمانوں میں موجود رہے کس طرح زندہ رہ سکتے تھے.قرآن کریم میں صاف طور پر بیان ہے کہ منافق لوگ ہتک و تضحیک کرتے اور ٹھٹول بازی سے کام لیتے تھے.پس جب یہ ثابت ہے کہ ہتک کی جاتی تھی اور قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سی باتوں کا رسول کریم ﷺ کو علم بھی دیا جاتا تھا اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کو ایسے لوگوں کے نام بھی معلوم تھے.چنانچہ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایسے لوگوں کے نام حذیفہ بن الیمان کو بھی بتائے 3 حتی کہ صحابہ کا طریق تھا کہ رسول کریم ع کی وفات کے بعد جس شخص کا " جنازہ پڑھنے سے حذیفہ ا نکار کرتے وہ بھی انکار کر دیتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حذیفہ کو رسول کریم ﷺ نے منافقین کے نام بتا دیے تھے.اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف الله یہ کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی منافق موجود تھے بلکہ یہ بھی کہ آپ کی وفات کے بعد بھی تھے لیکن رسول کریم ﷺ کی ساری زندگی میں ان میں سے ایک شخص بھی قتل نہیں کیا گیا سوائے ان کے جن پر کوئی پولیٹیکل جرم ثابت ہو چکا ہو ، خالص تضحیک کرنے والا ایک شخص بھی قتل نہیں ہوا بلکہ صحابہ کے زمانہ میں بھی کوئی نہیں ہوا.اگر الله

Page 147

سيرة النبي علي 137 جلد 3 ایسے لوگوں کو قتل کر دینے کا حکم ہوتا تو حذیفہ کو چاہئے تھا تمام مسلمانوں کو بتا دیتے کہ فلاں فلاں لوگ منافق ہیں انہیں فوراً قتل کر دو کیونکہ اپنی قوم کا ہتک کرنے والا دوسروں سے بہت زیادہ مجرم ہوتا ہے.ایک مرتبہ ایک یہودی نے حضرت عمرؓ کے سامنے کہا میں قسم کھاتا ہوں موسی کی جسے خدا نے سارے انسانوں پر فضیلت دی ہے.حضرت عمرؓ نے اسے مارا.جب رسول کریم ﷺ کوخبر پہنچی تو آپ نے حضرت عمر سے کہا کہ کیوں مارا؟ ایسا نہیں چاہئے تھا 4.یہ نہیں کہا کہ تلوار کیوں نہ چلائی.غرض قتل پر صلى الله آمادہ ہو جانے کا طریق غلط ہے اور اس سے قوموں کے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں.پس میں مسلمانوں سے بھی اور ہندوؤں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ عاجل باتوں کی طرف نہ جائیں.مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر آ کر تھوک پڑتا ہے.مخالف خواہ کتنی ہی کوشش کریں محمد رسول اللہ ہے کے نور کو گردوغبار سے نہیں چھپا سکتے.اس نور کی شعاعیں دور دور پھیل رہی ہیں.تم یہ مت خیال کرو کہ کسی کے چھپانے سے یہ چھپ سکے گا.ایک دنیا اسلام کی معتقد ہو رہی ہے.پادریوں کی بڑی بڑی سوسائٹیوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہے کیونکہ اسلام کی سوشل تعلیم کی خوبیوں کے مقابلہ میں اور کوئی مذہب نہیں ٹھہر سکتا ہے.اسلام کا تمدن یورپ کو کھائے چلا جا رہا ہے اور بڑے بڑے متعصب اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسلام کو گالی دینے سے اسلام کی ہتک ہو گی وہ اگر عیسائی ہے تو عیسائی مذہب کا دشمن ہے، اگر سکھ ہے تو سکھ مذہب کا دشمن ہے اور اگر ہندو ہے تو ہندو دھرم کا دشمن.ہتک تو دراصل گالی دینے والے کی ہوتی ہے جسے گالی دی جائے اس کی کیا ہتک ہو گی.ہتک تو اخلاق کی بنا پر ہوتی ہے اگر کوئی شخص مجھے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنی بداخلاقی کا اظہار کرتا ہے اور اس طرح خود اپنی ہتک کرتا ہے.میں گالیاں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں تو اپنے بلند اخلاق کا اظہار کرتا ہوں جو میری عزت ہے.وہ مذہبی لیڈر جنہوں نے قوموں کی

Page 148

سيرة النبي م 138 جلد 3 ترقی کے لئے کام کیا خواہ کسی بڑے طبقہ میں یا ایک بہت ہی محدود طبقہ میں کیا ہو وہ قابل عزت ہیں اور انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی عزت کی جائے.جو قوم ایسا نہ کرنے والوں کی مدد کرتی ہے وہ خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کرتی ہے.اسی طرح وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو اُن کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے.میرے نزدیک تو اگر یہی شخص قاتل ہے جو گرفتار ہوا ہے تو اس کا سب سے بڑا خیر خواہ وہی ہو سکتا ہے جو اس کے پاس جائے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو تمہیں اب ملے گی ہی لیکن قبل اس کے کہ وہ ملے تمہیں چاہئے کہ خدا سے صلح کر لو.اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے بتا دیا جائے تم سے غلطی ہوئی.ہم تمہارے جرم کو کم تو نہیں کر سکتے لیکن بوجہ اس کے کہ تم ہمارے بھائی ہو تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ تو بہ کرو، گریہ وزاری کرو اور خدا کے حضور گڑ گڑاؤ.یہ احساس ہے جو اگر اس کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا کی سزا سے بچ سکتا ہے اور اصل سزا وہی ہے.ہند و مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں اور یہی طریق قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے اسی لئے میں نے ایسے جلسوں کی بنیاد رکھی تھی کہ تا رسول کریم ﷺ کی خوبیاں دنیا کے سامنے پیش کی جاسکیں.اور اگر دوسری قو میں بھی اپنے مذہبی پیشواؤں کے متعلق ایسا انتظام کریں تو بشر طیکہ کوئی پولیٹیکل فائدہ ان کے مد نظر نہ ہو ہم ان میں بھی ضرور شامل ہوں گے.ہمارا یہ سمجھ لینا کہ فلاں شخص خادم ملک و ملت تھا ہماری ہتک نہیں بلکہ یہ معنی رکھتا ہے کہ ہماری آنکھیں درست ہیں.یہی طریق ہے جس سے مختلف اقوام میں صلح ہو سکتی ہے کہ جس کسی نے کوئی خدمت کی ہے اس کا اعزاز کیا جائے اسی لئے میں نے ان جلسوں کی تحریک کی تھی.اور میں پھر کہتا ہوں کہ اگر ہندو اور سکھ بھی ایسا انتظام کریں اور وہ کسی سیاسی غرض سے نہ ہو تو ہم اس میں بھی ضرور حصہ لیں گے.ہم جسے نیک کام سمجھتے ہیں اس میں حصہ لینے

Page 149

سيرة النبي الله 139 جلد 3 کے لئے بخوشی تیار ہیں.میں امید کرتا ہوں مذہب سے دلچسپی رکھنے اور خدا کے دین کو دنیا میں قائم کرنے والے خواہ وہ ہندو ہوں یا سکھ یا ہماری طرح مسلمان سب مل کر کوشش کریں گے کہ ان فسادات کو دور کیا جائے اور فتنہ کو مٹایا جائے جن بزرگوں کا ادب و احترام ضروری ہے ان کا مناسب احترام کیا جائے اور جو باتیں قوموں کے اخلاق بگاڑنے کا موجب ہوں ان کی پورے زور سے مذمت کی جائے.گورنمنٹ کو بھی نصیحت کرتا ہوں گو معلوم نہیں وہ اسے قبول کرے گی یا نہیں یا اس پر کیا اثر ہو گا مگر میں اپنا فرض ادا کرتا ہو ا کہتا ہوں گورنمنٹ بھی عاجلہ کو چھوڑ دے.اسی طرح لیڈروں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ بھی عاجلہ کو چھوڑ دیں.قوموں کے معاملات دنوں میں طے نہیں ہوا کرتے.جو لوگ اس خیال سے کہ حکومت جلد مل جائے ملک میں بغاوت کراتے ہیں وہ دیانت اور نیکی کی جڑ کو کاٹنے والے ہیں اور تینتیس کروڑ انسانوں کے قاتل ہیں.اگر وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی عزت کریں تو صحیح راستہ اختیار کریں فریب سے عزت نہیں کرائی جاسکتی.دنیا آخر صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتی ہے اور ملامت کے قابل کی ملامت اور عزت کے مستحق کی عزت کرتی ہے.“ (الفضل 19 اپریل 1929ء) 1: المنفقون: 9 66 2:بخارى كتاب التفسير باب يقولون لئن رجعنا الى المدينة صفحه 871 حديث نمبر 4907 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3: اسد الغابة في معرفة الصحابة الجزء الاول حذيفة بن اليمان صفحه 487 مطبوعہ بیروت 2006 ء الطبعة الاولى 4:بخاری کتاب احادیث الانبياء باب وفاة موسى ذكره بعد صفحہ 572 حدیث نمبر 2408 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 150

سيرة النبي علي 140 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی عظمت کے قیام کے لئے دو اقدامات جب ہندوؤں کی طرف سے رسول کریم علیہ کی شان میں گستاخی کی گئی تو حضرت مصلح موعود نے اس کے جواب میں جو اقدامات کئے ان میں ایک بڑا قدم ربانیانِ مذاہب کے جلسوں کا انعقاد تھا.نیز الفضل کے خاتم النبیین نمبر کی اشاعت تھی.ان امور کا ذکر کرتے ہوئے آپ 26 اپریل 1929ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.وو دوسری بات یہ ہے کہ 2 جون 1929 ء کے جلسے قریب آ رہے ہیں.اس کے متعلق اخباروں میں جو اعلان وغیرہ ہوئے ہیں ان پر قریب ایک ہزار جلسوں کے انعقاد کی درخواستیں آئی ہیں میں امید کرتا ہوں کہ احباب قلتِ وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعداد بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں گے.اس سال میں نے قریباً چار ہزار جلسوں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن اگر اتنے نہ ہوسکیں تو اس سے زیادہ سے زیادہ قریب تعداد میں کرنے کی کوشش ہونی چاہئے.پچھلے سال ایک ہزار کے قریب جلسوں کا اعلان کیا گیا تھا اور وعدے صرف چار پانچ سو کے درمیان آئے تھے.لیکن جو رپورٹیں آئیں ان سے معلوم ہوا کہ آٹھ نو سو کے قریب جلسے ہوئے ہیں.بعض مقامات سے رپورٹیں نہیں بھی آئیں اس لئے خیال کیا جا سکتا ہے کہ ہزار کے قریب جلسے ضرور ہو گئے ہوں گے.اس سال ہزار کے وعدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے

Page 151

سيرة النبي عمال 141 جلد 3 اندازہ ہے کہ دو ہزار جلسے انشاء اللہ ہو جائیں گے.لیکن جو چیز حساب میں آ جائے اس پر جتنی تسلی ہو سکتی ہے اتنی اس پر نہیں ہو سکتی جو صرف اندازہ میں ہو اس لئے میں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان جلسوں کو کامیاب اور پُر رونق بنانے کے لئے پوری پوری جدوجہد کریں.پچھلے سال بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ مختلف لوگوں پر یہ ثابت کیا جائے کہ یہ جلسے ملک میں بلکہ دنیا میں امن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں.دنیا میں تمام لڑائیاں مذہبی اختلاف کی بنا پر ہیں.عیسائیت آج اگر چہ سیاست کے پیچھے چل رہی معلوم ہوتی ہے لیکن وہ بھی مذہبی اختلاف کے اثرات سے بچی ہوئی نہیں.عیسائی آپس میں اختلاف کے باوجود مل بیٹھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ وہ نہیں مل سکتے اور اسلام سے انہیں دشمنی بدستور ہے.یہ خیال غلط ہے کہ یورپ میں تعصب نہیں.ان میں تعصب ہے اور ضرور ہے لیکن بات صرف یہ ہے کہ اب یورپ مہذب ہو گیا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہمارے ملک میں بعض امراض کے لئے چریت پلایا جاتا ہے جو بہت کڑوی دوائی ہے لیکن یورپ والے چریت نہیں پلاتے بلکہ اس کا ایسنس (Essence)1 دیتے ہیں.یا جیسے کونین پر چینی چڑھا کر دے دی جاتی ہے وہ کونین تو ہوتی ہے لیکن Sugar Coated ہوتی ہے.اس کی اصلیت کو بناوٹ سے چھپا دیا جاتا ہے یہی حال آج یورپ کا ہے.ان میں تعصب ہے اور اس میں وہ افریقہ کے جنگلیوں یا افغانستان کے پٹھانوں سے کسی طرح بھی کم نہیں بلکہ ممکن.اپنے بڑھے ہوئے جذبات کے باعث پہلے سے بھی زیادہ تعصب ان میں پیدا ہو گیا ہو لیکن وہ چونکہ تعلیم میں بھی بڑھ گئے ہیں اس لئے وہ اسے عام طور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے.اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کو نین پر میٹھا چڑھا دیا جائے.لوگ سمجھتے ہیں یہ میٹھا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ کو نین ہوتی ہے.اس تمام تعصب کی جڑ مذہبی اختلاف ہے ہے.پادریوں نے کتابیں لکھ کر یورپ کو اسلام سے ایسا بدظن کر رکھا ہے کہ وہ صلى الله رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ) ایک نہایت بھیانک ہستی سمجھتے ہیں.عیسائی مذہب

Page 152

سيرة النبي عمال 142 جلد 3 سے صاف طور پر ثابت ہے کہ عورت کی روح نہیں لیکن پادری کئی سو سال سے انہیں یہی بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ اسلام کے نزدیک عورت میں روح نہیں ہوتی حالانکہ قرآن میں صاف طور پر موجود ہے کہ عورت بھی ایسی ہی ثواب کی مستحق ہے جیسا مرد.سینکڑوں عیسائی اب بھی ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مسلمان محمد (ع) کا بت بنا کر اس کی پرستش کرتے ہیں اور جب اسلامی عبادت کا سوال ہوگا فوراً ان کے ذہن میں یہی عبادت آ جائے گی بلکہ میں نے بڑے بڑے مصنفوں کی کتابوں میں یہی بات لکھی دیکھی ہے اور اسی تعصب کی وجہ سے عیسائی مسلمانوں سے الگ ہیں اور ان سے نہیں ملتے.اسی طرح اور قوموں میں بھی سخت اختلاف ہے.ہندو، پارسیوں اور چینیوں کو گندے اور نجس سمجھتے ہیں اور وہ ہندوؤں کو.غرضیکہ ہر قوم دوسری سے متنفر اور بدظن ہے.ان حالات میں ایسے جلسے جن کا مقصد یہ ہو کہ مختلف بانیانِ مذاہب کی خوبیاں لوگوں کو معلوم ہوں اتحاد و اتفاق کا موجب ہوں گے اور اگر یہ تحریک دنیا میں کامیاب ہو جائے تو امن قائم ہو جائے اور تعصب دور ہو جائے.ہم چونکہ رسول کریم ﷺ کو مانتے ہیں اس لئے ہمارا یہی کام ہے کہ آپ کی شان کے اظہار کے لئے جلسوں کا انتظام کریں لیکن اگر ہندو، حضرت کرشن ، رام اور بدھ کی لائف دنیا کے آگے پیش کرنے کے لئے جلسوں کا انتظام کریں تو ہمیں ان میں شمولیت سے انکار نہیں.اور میں سمجھتا ہوں اگر مختلف مقامات پر ایسے جلسے منعقد ہوتے رہیں تو دنیا میں بہت جلد صلى الله امن قائم ہو جائے.لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ یہ جلسے محض رسول کریم ع کے لئے ہی نہیں ہم چونکہ انہیں مانتے ہیں اس لئے انہیں ہی پیش کرتے ہیں.دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے بزرگوں کے لئے ایسا انتظام کریں ہم بھی ان میں ضرور شامل ہوں گے بشرطیکہ ان کا مقصد بھی یہی ہو جو ہم نے رکھا ہے اور کوئی سیاسی غرض ان کے مد نظر نہ ہو.ان کے بزرگوں کے متعلق بھی بہت سی غلط فہمیاں ہیں.مثلاً اگر گاؤں کے کسی جاہل مسلمان سے پوچھو کہ کرشن اور رام کون تھے تو وہ یہی کہے گا کہ ہندو تھے اور

Page 153

سيرة النبي علي 143 جلد 3 ہندو ہونے کے باعث انہیں کا فر خیال کرتا ہو گا لیکن وہ ان قربانیوں سے قطعاً ناواقف ہوگا جو انہوں نے بنی نوع انسان کی خاطر کیں.ان کی خدمات ملکی کا اسے کوئی علم نہیں اور وہ اُس عشق کی آگ سے بالکل بے خبر ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے ان کے اندر موجود تھی.پس اگر وہ بھی ایسے جلسوں کا انتظام کر کے رام کرشن ، بدھ ، زرتشت، کنفیوشس کی لائف تاریخی طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں کتھا کے طور پر نہیں بلکہ تاریخی واقعات سے ان کی خوبیاں لوگوں کے سامنے رکھیں تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے.اس موقع پر اخبار الفضل کا خاتم النبیین نمبر بھی شائع ہوتا ہے.افسوس ہے کہ دوستوں نے اس کی توسیع اشاعت کے لئے پوری توجہ نہیں کی.میرا خیال تھا کہ اس سال یہ پرچہ کم از کم پندرہ ہزار شائع کیا جائے لیکن اخبار والے گزشتہ سال کے تجربہ کی بنا پر اس قدر شائع کرنے کی جرات نہیں کر سکتے اس لئے ان کا ارادہ دس ہزار شائع کرنے کا ہے.اب چونکہ وقت بہت کم ہے اور چھپائی شروع ہونے والی ہے اگر آرڈر زیادہ نہ آئے تو ممکن ہے اس سے بھی کم چھپے اور پھر دوستوں کو محروم رہنا پڑے کیونکہ دوسرا ایڈیشن شائع نہیں ہو گا.اس لئے میں تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے علاقوں میں اس کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شائع کرنے کی کوشش کریں تا اگر زیادہ نہیں تو کم از کم دس ہزار ہی شائع ہو سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش تھی کہ ریویو دس ہزار چھپے.کیا ہماری جماعت میں اتنی بھی غیرت نہیں کہ اس خواہش کو سال کے ایک پرچہ کے متعلق ہی پورا کر سکے اور میں سمجھتا ہوں اگر ہم حضرت مسیح موعود کی خواہش کو اس ایک پرچہ کے متعلق ہی پورا کر دیں تو ممکن ہے خدا تعالیٰ ہماری اس قربانی کو دیکھ کر ہمیں سب کی اشاعت ہی دس ہزار کرنے کی توفیق عطا کر دے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کے خیال سے اس پر چہ کی اشاعت کم از کم دس ہزار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہے کہ بڑی بڑی جماعتوں نے اس طرف توجہ نہیں کی مثلاً لا ہور میں ہزار

Page 154

سيرة النبي عمال.144 وو جلد 3 دو ہزار پرچہ کا لگ جانا کوئی بڑی بات نہیں اگر سو والنٹیئر بھی ایسے ہو جائیں جن میں سے ہر ایک تہیہ کر لے کہ میں ہیں پرچے فروخت کروں گا تو بھی دو ہزار پرچے بک سکتے ہیں.اسی طرح کلکتہ، مدراس، لکھنؤ ، دہلی اور دوسرے ایسے شہروں میں جہاں آبادی ایک لاکھ سے زائد ہو اگر کوشش کی جائے تو بہت کامیابی ہو سکتی ہے.ان مقامات پر ہماری جماعتیں اگر چہ کم ہیں لیکن احباب جماعت اپنے دوسرے مسلم یا غیر مسلم دوستوں سے مدد لے سکتے ہیں.پس اگر کوشش کی جائے تو دس ہزار پر چہ ان بڑے بڑے شہروں میں ہی فروخت ہوسکتا ہے.اس طرح اگر ہر جماعت اس کے لئے کوشش کرنا اپنے لئے فرض کر لے تو میں ہزار پر چہ کا نکل جانا بھی بڑی بات نہیں لیکن اس کے لئے دلی کوشش کی ضرورت ہے." تو را اشنان مورا اشنان“ والی بات نہ ہونی چاہئے.کہتے ہیں کوئی برہمن نہانے کے لئے گیا، سردی بہت شدت کی تھی اور ٹھنڈے پانی میں نہانے کی اسے جرات نہ ہوتی تھی.راستہ میں اسے ایک دوسرا برہمن ملا جس سے اس نے پوچھا کہ تم نے ایسی سردی میں کس طرح اشنان کیا ؟ اس کے جواب میں اس نے کہا میں تو کپڑے اتار کر پانی میں داخل ہونے لگا تھا لیکن سردی سے ڈر گیا اور تو را اشنان مورا اشنان کہہ کر ایک کنکر پانی میں پھینک دیا.اس پر دوسرے برہمن نے کہا اچھا تو پھر ” تو را اشنان سومورا اشنان.پس اگر یہ تو را اشنان مورا اشنان والا معاملہ نہ ہو اور دوست یہ بات نہ کریں کہ اگر ایک نے کہہ دیا کہ اچھا میں کوشش کروں گا تو باقی سارا کام اس کے سپرد کر کے چپ چاپ بیٹھ جائیں بلکہ ہر ایک جماعت کا ہر فرد اس کے لئے کوشش کرے جہاں سو افراد کی جماعت ہو وہاں ہزار اور جہاں دو سو ہو وہاں دو ہزار اور ہر جگہ جماعت کی تعداد کے لحاظ سے سو، پچاس، دس، پانچ ، جتنے ممکن ہوں پرچے فروخت کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت بڑی تعداد میں اس کی اشاعت ہوسکتی ہے.لاہور میں ہماری جماعت کے تین چار سو افراد ہیں اور عورتیں بچے ملا کر پانچ سو سے بھی زیادہ تعداد ہو جاتی

Page 155

سيرة النبي علي 145 جلد 3 ہے.اسی طرح سیالکوٹ میں پانچ چھ سو اور عورتوں بچوں سمیت اس سے بہت زیادہ ہے، یہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پرچے فروخت کرنے کا ذمہ لیں اور اسی طرح ہر شہر اپنی حیثیت کے مطابق اس میں کوشش کرے تو اس پر چہ کا بہت بڑی تعداد میں نکل جانا کوئی بڑی بات نہیں.ضرورت صرف ارادہ اور نظام کی ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں تمام کاموں کو خواہ مالی ہوں یا نشر و اشاعت یا اور کسی قسم کے كَمَا حَقَّهُ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین 1:Essence: ست، خلاصہ، جو ہر جو اصل کی خصوصیت خاصہ کا حامل ہو.Oxford انگلش اردو ڈکشنری صفحہ 531 مطبوعہ 2013ء) الفضل 3 مئی 1929 ء)

Page 156

سيرة النبي علي 146 جلد 3 صلى الله رسول کریم ﷺ ایک انسان کی حیثیت میں الفضل نے 31 مئی 1929ء کو خاتم النبین نمبر نکالا.اس میں جماعت کے بزرگوں کے علاوہ غیر احمدی اکابر اور غیر مسلموں نے بھی رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر قابل قدر مضامین لکھے.حضرت مصلح موعود نے بھی اس نمبر کے لئے مندرجہ ذیل مضمون لکھا:.أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ بظاہر یہ ایک عجیب نبوت، کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے بات معلوم دیتی ہے کہ وہ شخص جسے انبیاء کے سردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اسے ایک انسان کی حیثیت میں بھی پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو.لیکن حق یہ ہے کہ باوجود نبوت کے دعویٰ کے کوئی شخص اس بات سے بالا نہیں ہو سکتا کہ اس کی انسانیت پر بحث کی جائے کیونکہ نبوت کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے اور انسانیت ہی کے کمالات کے ظہور کے لئے اس کا وجود پیدا کیا گیا ہے.میرے نزدیک یوں سمجھنا چاہئے کہ نبوت ایک بارش ہے جو فطرت انسانی کی مخفی طاقتوں کو ابھار کر باہر نکال دیتی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جس زمین پر وہ بارش خدا تعالیٰ کے انتخاب کے ماتحت نازل ہوگی وہ زمین اس بارش کے اثر کو

Page 157

سيرة النبي عليه 147 جلد 3 قبول کرنے کی سب سے زیادہ قابلیت رکھتی ہوگی اور انسانی کمالات کو سب سے زیادہ ظاہر کرے گی.اوپر کی بات کو پوری طرح واضح کرنے کامل نبی ، کامل انسان ہوتا ہے کے لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک انسانی فطرت گندی نہیں ہے جس کی اصلاح نبوت کرتی ہے بلکہ اسلام کے نزد یک فطرت انسانی ان تمام قابلیتوں کو بیچ کے طور پر اپنے اندر رکھتی ہے جن کا حصول انسان کے لئے ممکن ہے ہاں وہ اسی طرح بیرونی مدد کی محتاج ہے جس طرح آنکھ نور کی اور زمین بارش کی.پس نبوت کا یہ کام نہیں کہ وہ فطرت انسانی کے بعض خواص کو کاٹے بلکہ اس کا یہ کام ہے کہ وہ تمام خواص انسانی کو صحیح طور پر ابھارے.پس کامل نبی کا کامل انسان ہونا ضروری ہے.جب تک انسانیت کے تمام لطیف خواص کسی انسان میں صحیح طور پر نشو و نما نہ پائیں وہ نبی نہیں ہو سکتا اور جب تک وہ خواص اپنے اپنے دائرہ میں کمال کو نہ پہنچ جائیں وہ شخص نبی نہیں کہلا سکتا.بات تجربہ سے ثابت ہے کہ بعض لوگ خاص دائرہ میں خاص قابلیت کسی خاص بات میں غیر معمولی قابلیت رکھتے ہیں اور دنیا ان کی لیاقت کو دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے لیکن آخر کار وہ پاگل اور مجنون ہو کر مرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص دائرہ میں قابلیت کا ظہور انسانی کمال پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف بعض خواص انسانی کے ایک محدود دائرہ میں حد سے زیادہ ترقی کر جانے پر دلالت کرتا ہے.یہ امر بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جس کے اندر عشق کا مادہ ایسا غالب آ گیا ہو کہ دوسرے تمام جذبات پر وہ غالب ہو گیا ہو بجائے کسی انسان پر عاشق ہونے کے خدا تعالیٰ ہی کی محبت کی طرف متوجہ ہو جائے اور دنيا وَ مَا فِيهَا کو بھلا دے.مگر ایسا شخص کبھی بھی ان کمالات روحانیہ کو حاصل نہ کر سکے گا جو دوسرے لوگ حاصل کر سکتے ہیں.کیونکہ اس کا جذبہ محبت بگڑی ہوئی نفسی حالت

Page 158

سيرة النبي علي 148 جلد 3 کا نتیجہ ہے تندرست اور صحیح نشو ونما کا نتیجہ نہیں ہے.اس شخص کی حالت بالکل اس بیج کی سی ہوگی جو نہایت طاقتور زمین میں بویا جاتا ہے اور اس قدر جلد نشو و نما پا کر بڑا ہو جاتا ہے کہ اس کی بالیں دانوں سے محروم رہ جاتی ہیں وہ بھوسہ تو بہت کچھ دے دیتا ہے مگر دانہ اس سے بہت کم نکلتا ہے.اس کے مقابلہ میں جو شخص تمام انسانی کمالات کو ہے.ظاہر کرنے والا ہوگا اس کی نشو ونما تمام خواص فطرت پر مشتمل ہوگی اور ان کے اندر ایک خاص تناسب ہوگا.ہر ایک خاصہ فطرت اس نسبت سے ترقی کرے گا جس نسبت سے کہ اسے ترقی کرنی چاہئے.مثلاً سزا دینے کی طاقت بھی اس کی نشو و نما پائے گی اور رحم کی بھی اور عفو کی بھی اور برداشت کی بھی اور موازنہ کی بھی کہ یہ پانچوں جذبات جرائم کے متعلق فیصلہ کرتے وقت ضروری ہوتے ہیں.ان میں سے ایک جذ بہ بھی اپنی حد مناسب سے کم ہو جائے تو انسانیت ناقص ہو جائے گی اور کمالات انسانیہ کا ظہور ناممکن رہ جائے گا.چونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور علم النفس کے بار یک مطالعہ کے بغیر اس کا سمجھ میں آنا بغیر تفصیل کے مشکل ہے اور وہ چند کالم جن میں میں نے اس مضمون کو ختم کرنا ہے اس کے لئے کافی نہیں.اس لئے میں ایک دو مثالوں کے ذریعہ سے اس امر پر روشنی ڈال کر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.وفاداری کا جذبہ مثال کے طور پر میں وفاداری کے جذبہ کو لیتا ہوں ہر شخص اسے پسند کرتا ہے لیکن یہی جذبہ اگر بدصحبت کے متعلق استعمال ہوتو کیسا سخت مضر ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے.دو شخص ایک جرم میں شریک ہوتے ہیں ایک کی ضمیر ایک وقت میں اسے ملامت کرنے لگتی ہے لیکن اس کی وفاداری کی روح جو مواز نہ نیک و بد کی طاقت سے بڑھی ہوئی تھی اس کی اندرونی آواز کو خاموش کرا دیتی ہے اور اس کے کان میں کہہ دیتی ہے کہ بے وفا نہیں ہونا چاہئے جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب مجھے اپنے دوست کا ساتھ دینا چاہئے.

Page 159

سيرة النبي عمر 149 جلد 3 اولاد کی محبت کا جذبہ یا مثلاً اولاد کی محبت ایک اچھا جذبہ ہے اور بقائے عالم کے زبر دست اسباب میں سے ہے لیکن اگر کسی شخص کے اندر یہی جذبہ ترقی کر جائے اور باقی جذبات کو دبا دے تو یہی ایک گناہ بن جاتا ہے اور اولا د کو بھی گناہ کا عادی بنا دیتا ہے.غرض کسی ایک یا بعض خواص فطرت انسانی کا کمال، حقیقی کمال نہیں ہوتا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ بعض حالتوں میں وہ ایک خطرناک نقص کی صورت بن جائے.اور نہ ایسا کمال بنی نوع انسان کے لئے نمونہ بن سکتا ہے کیونکہ نمونہ وہی بن سکتا ہے جو طبعی ترقی کا مظہر ہو.غیر طبعی ترقی دوسرے کے لئے نمونہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس کا حاصل کرنا دوسروں کے لئے ناممکن ہوتا ہے اور نمونہ کے لئے شرط ہے کہ اس کی نقل کرنا ہماری طاقت میں ہو.صلى الله رسول کریم ﷺ کا رتبہ بحیثیت انسان اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اس امر کے متعلق اپنی تحقیق کو پیش کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ بحیثیت انسان کے کیا رتبہ رکھتے تھے.انسانی تقاضے نبوت کے منافی نہیں جو کچھ میں او پر لکھ آیا ہوں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (1) نبوت کمالات انسانیہ کے صحیح ظہور کا نمونہ پیش کرنے کیلئے آتی ہے.(2 ) پس کامل نبی کے لئے کامل انسان ہونا ضروری ہے.(3 ) اگر کوئی شخص بعض خواص انسانی کو ان کی انتہائی صورت میں دکھاتا ہے تو یہ اس کے کامل انسان ہونے کی علامت نہیں بلکہ بسا اوقات یہ امر اس کے نظام عصبی کی ظاہر یا مخفی خرابی کی علامت ہوسکتا ہے.ان امور کو سمجھ لینے کے بعد یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ انسانی تقاضوں کے پورا کرنے کو نبوت کے منافی سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں.حق یہ ہے کہ نبوت ایک ذہنی کیفیت ہے اور انسانی تقاضوں کا صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنا اس کیفیت کا عملی ظہور ہے جس کے بغیر نمونہ کامل نہیں ہوسکتا.نبی ہماری فطرت کو

Page 160

سيرة النبي عليه 150 جلد 3 بدلنے کیلئے نہیں آتا بلکہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح اور متناسب طور پر پورا کر نے کیلئے ہمیں عملی سبق دینے کے لئے آتا ہے.پس فطرت کے تقاضوں کا کلی ترک اگر بعض دوسرے شخصوں کے لئے جائز بھی ہو سکتا ہے تو نبی کے لئے نہیں کیونکہ وہ نمونہ ہے امت کے لئے اور جس قدر تقاضوں کو وہ ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اپنے نمونہ کو نامکمل کر دیتا ہے.انسانوں کے لئے کامل نمونہ رسول کریم علیہ کو اس روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس طرح کامل نبی تھے کامل انسان بھی تھے اور آپ کے اہم کاموں نے آپ کو انسانی جذبات سے غافل نہیں کر دیا تھا بلکہ ان کے ساتھ ہی ساتھ آپ انسانی تقاضوں کو بھی ایسے رنگ میں پورا کر رہے تھے کہ تمام انسانوں کے لئے ایک کامل نمونہ قائم ہو رہا تھا.اچھا کھانا فطرت انسانی کے کمالات سے ناواقف لوگوں میں یہ عام خیال ہے کہ اچھا کھانا ایک حیوانی فعل ہے اور اعلیٰ روحانی مقامات کے منافی ہے لیکن وہ فطرت انسانی جسے خدا نے پیدا کیا ہے اس کے بالکل برخلاف ہے.کھانوں کا انسانی اخلاق سے ایک گہرا تعلق ہے اور مختلف کھانے اپنے نباتی احساسات کو انسانی جسم میں جا کر اخلاقی میلانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کھانے میں میانہ روی کی تو بے شک تعلیم دیتے تھے لیکن عمدہ کھانے سے آپ نے کبھی نہیں روکا بلکہ جب کبھی کسی نے عمدہ کھانا دعوت میں پیش کیا آپ نے اسے استعمال فرمایا.ہاں یہ شرط لگا دی کہ کھانے کے متعلق ان امور کو مدنظر رکھو (1) ایسی طرح کھانے کی چیزوں کو ضائع نہ کرو کہ غرباء کو تکلیف ہو (2) جس وقت ملک میں قحط ہو اور لوگ تکلیف میں ہوں غذا سادہ کر دو تا کہ تمہارے بہت سے کھانوں میں غرباء کا ایک کھانا بھی ضائع نہ ہو جائے.(3) سوائے حقیقی ضرورت کے کھانوں کا ذخیرہ جمع نہ کرو تاغر باء اپنے حصہ سے محروم نہ رہ جائیں.

Page 161

سيرة النبي علي 151 جلد 3 خوش طبعی انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا خوش طبعی بھی ہے.جنسی انسان کے طبعی جذبات میں سے ہے.ایک اچھا انسان جو اپنے ہم جنسوں کیلئے و بال جان نہ بننا چاہتا ہو اس کے لئے خوش مذاق ہونا بھی شرط ہے.لیکن دنیا کو یہ ایک وہم ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہو اس کے لئے نہایت سنجیدہ مزاج اور خاموش رہنے والا ہونا ضروری ہے.مسکراہٹ اس کے درجہ کو گراتی ہے اور ہنسی اس کے تقویٰ کو برباد کر دیتی ہے لیکن انسانیت پر غور کرنے والا انسان جانتا ہے کہ ہنسی اور خوش طبعی کو انسانی تمدن سے خارج کر کے وہ ایک ایسا ڈھانچہ رہ جاتا ہے جو تمام خوشنمائیوں سے معرا ہو.رسول کریم ملی با وجود اپنی تمام سنجید گیوں کے اور عارضی خوشیوں سے بالا ہونے کے اور باوجود اپنے اس عظیم الشان دعوی کے جو ان کے درجہ کو معمولی انسان سے غیر محدود طور پر اونچا کر دیتا تھا اس طبعی جذ بہ کو دبانے کی کبھی کوشش نہ کرتے تھے.آپ کے درجہ کی بلندی اور رفعت میں سے پھوٹ پھوٹ کر خوش طبعی کا انسانی جذبہ ایسے خوشنما طور پر نکل رہا تھا کہ دیکھنے والے کو حیرت ہوتی تھی.وہ جو ایک تند اور سخت مزاج حاکم کو دیکھنے کی امید رکھتا تھا ایک خوش مذاق اور مسکراتے ہوئے چہرہ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا.مجلس اصحاب میں بیٹھے جہاں اعلیٰ تعلیمات کا درس دیا جاتا تھا لوگوں کی کوفت کو دور کرنے اور ملال کو کم کرنے کے لئے لطائف بھی بیان ہوتے چلے جاتے تھے.کبھی اپنے اصحاب سے پاکیزہ نفسی بھی ہوتی جاتی تھی.بچے آ جاتے تو ان کو بہلانے کے لئے کوئی چڑیا چڑے کا قصہ بھی بیان ہو جا تا تھا.کبھی بچہ کو خوش کرنے کے لئے اس کے منہ پر پانی کا باریک چھینٹا دیا جاتا تو اہل خانہ کی دلجوئی کے لئے عرب کی مروجہ کہانیوں میں سے کوئی کہانی بھی سنا دی جاتی تھی مگر ہاں ان سب امور کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی جاتی تھی کہ (1) ہنسی اس رنگ میں نہ کرو کہ دوسرے کی تحقیر یا دل شکنی ہو (2) نسی کو پیشہ یا عادت نہ بناؤ اور اس غرض سے ہنسی نہ کرو کہ لوگ ہنسیں بلکہ جس وقت طبیعت خود بخود اپنے آپ کو پُر کیف رنگ میں ظاہر کرنا چاہے اسے ایسا

Page 162

سيرة النبي عمال 152 جلد 3 کرنے دو (3) ہنسی اور مذاق میں جھوٹ نہ ہو بلکہ صداقت کا پہلو محفوظ ہوتا ادنی طبعی جذبات کے ظہور کے وقت اعلیٰ طبعی جذبات کا خون نہ ہوتا چلا جائے.صفائی پسندی انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا صفائی پسندی کا ہے.جسم کو صاف رکھنا ، منہ کو صاف رکھنا، کپڑوں کو صاف رکھنا اور ایسی اشیاء.کا استعمال کرنا جو ناک کی قوت کو صدمہ نہ پہنچانے والی ہوں بلکہ اس کے لئے موجب راحت ہوں اس تقاضا کو بھی لوگوں نے غلطی سے تقویٰ اور نیکی کی اعلیٰ راہوں پر چلنے والوں کے طریق کے خلاف سمجھا ہے اور ایک ایسی راہ اختیار کر لی ہے کہ یا تو خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ طبیب اشیاء فضول جائیں یا خدا کے بندے جو ان طیب اشیاء کو استعمال کریں گنہ گار ٹھہریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بناوٹی نیکی اور جھوٹے تقویٰ کی چادر کو بھی چاک کر دیا اور حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاک رہنے کو پسند کرتا ہے.آپ جہاں رہتے اکثر غسل فرماتے.کئی امور کے ساتھ غسل کو آپ نے واجب قرار دے دیا.چونکہ انسان اپنے گھر کے اشغال کی وجہ سے صفائی میں سستی کر بیٹھتا ہے اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے میاں بیوی کے تعلقات کے ساتھ غسل کو واجب قرار دیا.پانچوں نمازوں سے پہلے آپ ان اعضا کو دھوتے جو عام طور پر گردو غبار کا محل بنتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس امر پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتے.کپڑوں کی صفائی کو آپ پسند فرماتے.جمعہ کے دن دھلے ہوئے کپڑے پہن کر آنے کا حکم دیتے اور خوشبو کو خود بھی پسند فرماتے اور اجتماع کے مواقع کے لئے خوشبو کا لگانا پسند فرماتے.جہاں اجتماع ہونا ہو چونکہ مختلف قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں متعدی بیماریوں کے اثرات کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا آپ وہاں خوشبودار مصالحہ جات اور ان جگہوں کو صاف رکھنے کا حکم دیتے.بد بودار اشیاء سے پر ہیز فرماتے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے کہ بد بودار اشیاء کھا کر اجتماع کی جگہوں میں آئیں.غرض جسم کی صفائی ، لباس کی پاکیزگی اور ناک کے احساس کا

Page 163

سيرة النبي عليه 153 جلد 3 آپ پورا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیتے.ہاں یہ ضرور فرماتے کہ جسم کی صفائی میں اس قدر منہمک نہ ہو جاؤ کہ روح کی صفائی کا خیال ہی نہ رہے اور لباس کی پاکیزگی کا اس قدر خیال نہ رکھو کہ ملک وملت کی خدمت سے محروم ہو جاؤ اور غریب لوگوں کی صحبت سے احتراز کرنے لگو اور کھانے میں اس قدر احتیاط نہ کرو که ضروری غذا ئیں ترک ہو جائیں.ہاں یہ خیال رکھو کہ اہل مجلس کو تکلیف نہ ہو تا کہ اچھے شہری بنو اور لوگ تمہاری صحبت کو ناگوار نہ سمجھیں بلکہ اسے پسند کریں اور اس کی جستجو کریں.لوگوں نے کہا کہ صفائی اور خوشبو سے بچو کہ وہ جسم کو پاک مگر دل کو نا پاک کرتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ حُبّبَ إِلَيَّ....اَلطَّيِّبُ 1 اور إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ 2 مجھے خوشبو کی محبت بخشی گئی اور یہ کہ خدا تعالیٰ ظاہری اور باطنی صفائی رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے.مرد و عورت کا تعلق عورت و مرد کا تعلق بھی ایک ایسا طبعی تقاضا ہے کہ دنیا کا تمدن اس پر مبنی ہے اور وہ گویا دنیا کی ترقی کے لئے بمنزلہ ہے بنیاد کے ہے مگر عجیب بات ہے کہ دنیا کے ایک کثیر حصہ نے اسے بھی روحانیات کے خلاف سمجھ رکھا ہے.وہ عورت جو نسل انسانی کے چلانے کی ذمہ وار ہے، جس کے بغیر انسان ایک کٹا ہوا جسم معلوم ہوتا ہے جو کسی کام کا نہیں ، جو مرد کے لئے بطور لباس کے ہے اور جس کے لئے مرد بطور لباس کے ہے اس عورت کو ہاں اس عورت کو ایک نا پاک شے قرار دیا جاتا تھا اور خدا رسیدہ انسان کے لئے جائے اجتناب سمجھا جاتا تھا اور اس طرح گویا پاکیزگی کو انسانیت کے مخالف قرار دے کر خود پاکیزگی کے درخت پر ہی تبر رکھا جاتا تھا.کیا یہ سچ نہیں کہ انسان ہی حقیقی پاکیزگی کا برتن ہے اور برتن کے بغیر الله لطیف اشیاء محفوظ رہ ہی نہیں سکتیں.رسول کریم ﷺ نے خدا کو پا کر انسان کو نہیں بھلایا.آپ نے شادیاں کیں اور اپنے ملک کے فائدہ اور مسلمانوں کے فائدہ اور بعض دفعہ خود بیویوں کے فائدہ کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور نہ صرف

Page 164

سيرة النبي مله 154 جلد 3 شادیاں کیں بلکہ جذبات محبت سے اپنی بیویوں کو محروم نہیں کیا اور ان سے اس طرح معاملہ کیا کہ ان میں سے ہراک نے یہ سمجھا کہ گویا آپ اسی کے لئے ہیں.آپ خدا کے تھے اور خدا آپ کا تھا مگر آپ نے کہیں یہ ظاہر نہیں کیا کہ گویا خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا سے نرالا پا کر چن لیا بلکہ آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ بہتر انسان کو اپنے لئے چنتا ہے چونکہ آپ بہتر انسان بن گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو اختیار کر لیا.بیوی کی محبت خدا کی رحمت ہے دنیا نے کہا کہ تم اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو چھوڑ دو، اہلی تعلقات کی بنیاد کو اکھاڑ کر پھینک دو تب تم خدا سے ملو گے مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے کہا نہیں ! بلکہ تم اپنے اہل ہی کے ذریعہ سے خدا سے مل سکتے ہو.دنیا کا ہر ایک ذرہ خدا کی پیدائش ہے اور ہر اک ذرہ تم کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور جس چیز کو اس نے جس قدر خوبصورت بنایا ہے اسی قدر واضح طور پر وہ خدا تعالیٰ کے رستہ کیلئے دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کی اعلیٰ مخلوقات میں سے عورتیں بھی ہیں اسی وجہ سے حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْيَاكُمْ النِّسَاءُ 3 مجھے دنیوی چیزوں میں سے بیویوں کی محبت خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تحفہ کے ملی ہے اور خَيْرُ كُم خَيْرُكُمُ اهلِيكُم A تم میں سے بہتر لوگ وہی ہو سکتے ہیں جو اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ نیک سلوک کریں اور ان کے احساسات کا خیال رکھیں.کیا ہی عجیب فرق ہے دنیا نے کہا کہ خدا نے عورت کو ایک خوبصورت سانپ بنا کر پیدا کیا ہے اور انسان کو ہوشیار کیا ہے کہ اس کی خوبصورتی کی طرف نہ دیکھے بلکہ صلى الله اس کے زہر سے بچے.محمد رسول اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیویوں سے محبت کروں اور جو رحمتیں اس نے مجھ پر کی ہیں ان میں سے ایک رحمت یہ ہے کہ میرے دل میں اپنی بیویوں کی محبت پیدا کر دی گئی ہے.لوگوں نے کہا کہ عورتوں سے دور بھا گو اور ان کے فریبوں سے بچو مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں سے محبت کرو اور ان سے محبت کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچو کیونکہ جس طرح

Page 165

سيرة النبي علي 155 جلد 3 خدا تعالیٰ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت بنائی ہے اسی طرح بیوی کی دعا کو بھی اپنے قرب کا ذریعہ بنایا ہے پس اس کے دل کو خوش کر و خدا تعالیٰ تم سے خوش ہو گا.بیویوں کے احساسات کا خیال رکھو آپ عملا اس حکم پر عمل کرتے ، اپنی بیویوں کے سب احساسات کا خیال رکھتے ، گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے ،ان سے پیار کرتے ، ان کی دلد ہی کے لئے باریک در بار یک راہیں تلاش کرتے.ایک بیوی نے ایک گلاس سے پانی پیا تو اسی جگہ پر منہ رکھ کر خود پانی پی لیا.ایک بیوی کو جو یہود میں سے تھی دوسری نے غصہ میں یہودن کہہ دیا تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں کہتیں کہ میں یہو دن نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کی اولاد ہوں.اگر کوئی بیمار ہوتی تو آپ اس کی بیماری کو اپنی بیماری سمجھتے اور اس سے بھی زیادہ اس کے درد کو محسوس کرتے ، ان کے جذبات کا خیال رکھتے اور انہیں اپنے عزیزوں سے جدا نہ کرتے بلکہ تعلق بڑھانے میں مدد کرتے.اپنی ایک بیوی ام حبیبہ کے گھر میں آپ داخل ہوئے وہ اپنے بھائی معاویہؓ کو جو بعد میں بادشاہ اسلام ہوئے پیار کر رہی تھیں.آپ نے اس امر کو نا پسند نہیں فرمایا بلکہ محبت کی نگاہوں سے دیکھا اور بہن بھائی کی محبت کو طبعی تقاضوں کا ایک خوبصورت جلوہ تصور فرماتے ہوئے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا ام حبیبہ! کیا معاویہ تمہیں پیارا ہے؟ ام حبیبہ نے جواب دیا ہاں.فرمایا اگر یہ تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے.بیوی کا دل اس جواب کوسن کر کس قدر خوشی سے اچھلا ہوگا کہ میرے رشتہ داروں کو یہ غیریت کی نگاہ سے نہیں بلکہ میری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ جو مجھے جس قدر پیارا ہو اسی قدر ان کو بھی پیارا ہوتا ہے گویا وہی نظارہ ہے کہ:.ه من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی مگر باوجود انسانیت کے اس کامل اور اتم نظارہ کے محمد علی کو کلی طور پر اور سر سے پا تک اپنے خدا کے تھے.اور اپنی بیویوں کو بھی اسی کا اور خالص اسی کا بنانا چاہتے تھے.

Page 166

سيرة النبي علي 156 جلد 3 بقائے نسل کا جذبہ انسانی فطرت بقائے نسل کے جذبہ سے نہایت ہی گہرے طور پر رنگین ہے.جو نہی ایک عورت کامل جوان ہوتی ہے اولاد کی خواہش خواہ الفاظ میں پیدا نہ ہو مگر تاثیرات کے ذریعہ سے ظاہر ہونے لگتی ہے.صحیح القومی مرد خواہ کسی قدر ہی آزاد کیوں نہ ہوا اپنی علیحدگی کی گھڑیوں میں اس کی طرف ایک زبر دست رغبت پاتا ہے مگر باوجود اس کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا رسیدوں کو اولاد سے کیا تعلق.وہ نہیں سمجھتے کہ اگر اولا د سے ان کو تعلق نہیں تو اولاد کی تربیت جو نسل انسانی کا ایک اہم ترین فرض ہے اس میں دنیا کا رہنما کون ہے.رسول کریم اللہ کے اولاد ہوئی اور آپ نے اس اولاد پر فخر کیا.اس کی محبت کو چھپایا نہیں اسے خدا کی ایک رحمت قرار دیا.اولاد سے بے تعلقی کا اظہار نہیں کیا اس کی طرف توجہ کی اور اس کی تربیت کا خیال رکھا.اس سے بے اعتنائی نہیں ظاہر کی بلکہ اس سے محبت کرنے کو خدا تعالیٰ کے مقدس فرائض میں سے قرار دیا.جب وہ ناسمجھ تھی اس کی پرورش کی ، جب وہ چھوٹی تھی اس کی تربیت کی ، جب وہ بڑی ہوئی اسے تعلیم دلائی اور جب وہ اپنے گھر بار کی مالک ہوئی اس کا ادب کیا اور اپنی محبت کا مقر اسے بنایا.ایک دفعہ آپ کا ایک نواسہ بیمار ہوا اس کے دیکھنے کیلئے آپ کی صاحبزادی نے آپ کو بلایا اس کی حالت اُس وقت سخت تکلیف کی تھی اور زندگی کی آخری گھڑیوں کو نہایت اضطراب اور دکھ کے ساتھ وہ طے کر رہا تھا.آپ نے اسے ہاتھوں میں لیا اور اس کے اضطراب کو دیکھا، آنکھیں فرط محبت اور وفور رحمت سے پرنم ہو گئیں.ایک شخص جو اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ نبی کے لئے یہی ضروری نہیں کہ ہمیں خدا کی با تیں سکھائے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ ہمارے لئے کامل نمونہ ہوانسانیت کا مکمل نقشہ ہو بشریت کا ، اس امر کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور بے اختیار ہو کر بولا یا رسول اللہ ! آپ تو ہمیں صبر کا سبق دیتے ہیں اور آج خود آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں.آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا تمہارا دل شاید رحم سے خالی ہوگا مجھے تو

Page 167

سيرة النبي عمال 157 جلد 3 اللہ تعالیٰ نے رحم دل بنایا ہے.کیا لطیف سبق ایک ہی فقرہ میں دے دیا کہ اولاد کی محبت اور ان کی تکلیف کا احساس تو انسانیت کے اعلیٰ جذبات میں سے ہے خدا کا نبی ان جذبات سے خالی کیونکر ہو سکتا ہے.وہ دوسروں کے لئے اس میں بھی نمونہ ہے جس طرح اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں نمونہ ہے.اولاد کی تکریم آپ کی اولاد میں سے آخر عمر میں صرف حضرت فاطمہ زندہ رہ گئی تھیں.جب کبھی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپ کھڑے ہو جاتے ، بوسہ دیتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے.آپ کی اولا د کھیلتی ہوئی پاس آ جاتی تو گود میں اٹھا لیتے ، پیار کرتے اور ان کی عمر کے مطابق نصیحت کرتے اور اخلاق کا کوئی عمدہ سبق دیتے.غرض آپ نے اس جذبہ انسانیت میں بھی ایک اعلیٰ نمونہ ہمارے لئے قائم کیا ہے.ہاں اولاد کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ یہ تعلیم بھی دیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کہ اولاد کی محبت انسان کو اس کے ان فرائض سے غافل نہ کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد ہیں اور نہ خود اولاد کی اصل ذمہ داری کو جو اعلیٰ پرورش، اعلیٰ تربیت، اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ رہنمائی پر مشتمل ہے اس کی نظروں سے اوجھل کر دے.صحت کی درستی اور ورزش کا خیال انسانی روح اور جسم کا ایسا جوڑ ہے کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثر ڈالے الله بغیر نہیں رہ سکتی.رسول کریم ﷺ نے اس امر میں بھی ہمارے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے اور نیکی اور تقویٰ کو صحت کی درستی اور ورزش کا خیال رکھنے کے خلاف نہیں قرار دیا ہے.تاریخ بتاتی ہے کہ آپ اکثر شہر سے باہر باغات میں جا کر بیٹھتے تھے.گھوڑے کی سواری کرتے تھے.اپنے صحابہ کو کھیلوں وغیرہ میں مشغول دیکھ کر بجائے ان پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے ان کی ہمت بڑھاتے تھے.ایک دفعہ آپ نے اپنے احباب کو تیر اندازی کا مقابلہ کرتے دیکھا تو خود بھی اس مقابلہ میں شامل ہونے کی

Page 168

سيرة النبي علي 158 جلد 3 خواہش ظاہر کی.مرد تو مرد رہے آپ عورتوں کو بھی ورزش کرنے کی ترغیب دیتے تھے.چنانچہ کئی دفعہ آپ اپنی بیویوں کے ساتھ مقابلہ پر دوڑے اور اس طرح عملاً عورتوں اور مردوں کو ورزش جسمانی کی تحریک کی.ہاں آپ اس امر کا خیال ضرور رکھتے تھے کہ انسان کھیل ہی کی طرف راغب نہ ہو جائے اور اس امر کی تعلیم دیتے تھے کہ ورزش مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے نہ کہ خود مقصد.غرض انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں رسول کریم دنیا کے لئے اسوہ حسنہ نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھا کر اور بے نظیر مثال قائم کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ آپ کی زندگی دنیا کے لئے ایک اسوہ حسنہ تھی کیونکہ اگر آپ صرف خدا تعالیٰ کی عبادت یا اعلیٰ فلسفیانہ تعلیمات کی اشاعت کی طرف متوجہ ہوتے تو ہر اک سمجھ دار انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر معمولی دل و دماغ کے انسان تھے اور ان جذبات سے عاری تھے جو عام انسان کے دل میں موجزن رہتے ہیں اور اس وجہ سے باوجود اپنے اعلیٰ تقویٰ کے وہ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ نہیں بن سکتے لیکن آپ کی ساری زندگی اس شبہ کا ازالہ کرتی ہے.آپ ہماری ہی طرح کے جذبات رکھتے تھے اور ہماری ہی طرح کی ذمہ داریاں.اور پھر آپ ان ذمہ داریوں سے بزدلانہ طور پر آنکھیں نہیں بند کر لیتے تھے بلکہ آپ ان ذمہ داریوں کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور ان کے ادا کرنے کو اپنا مذہبی فرض سمجھتے تھے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے تھے کہ ہر اک انسان محسوس کرتا تھا اور کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ اس نمونہ کی تقلید سے وہ کسی عذر اور بہانے سے بچ نہیں سکتا.یہاں ایک ایسا شخص ہے جو اسی کی طرح کے جذبات اور اسی کی طرح کے احساسات لے کر پیدا ہوا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات کو کچلتا نہیں بلکہ انہیں ایک بہادر آدمی کی طرح پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.ایک ایسا انسان ہے جس کے راستہ میں وہ سب مشکلات ہیں جو

Page 169

سيرة النبي عمال 159 جلد 3 دوسرے انسانوں کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں اور وہ ان سب مشکلات کو دور کرتا ہوا اپنا بوجھ خود اٹھائے ہوئے تقویٰ اور طہارت کے اس پل پر سے جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے نڈر اور بے خوف گزر جاتا ہے اور ایک آنچ ہاں ایک خفیف سی آنچ بھی اسے نہیں آتی.ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا قدم نہیں لڑکھڑاتا.پس جب وہ انسان، ہمارے جیسا انسان، اس کام کو جسے لوگ ناممکن خیال کرتے تھے اور کرتے ہیں اس خوبی سے سرانجام دے سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کا م کو نہ کرسکیں.رسول کریم ﷺ کی انسانیت صلى الله خدا تعالیٰ کس لطیف پیرایہ میں محمد رسول اللہ کی انسانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کی طرف کلام الہی میں اشارہ جب وہ فرماتا ہے کہ آكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ انْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ 5 کیا لوگوں کو اس پر تعجب آتا ہے کہ ہم نے انہی میں سے پر یہ کہتے ہوئے وحی نازل کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر اور ان لوگوں کو جو مان لیں خوشخبری دے کہ ان کے رب کے حضور میں انہیں ایک ہمیشہ قائم رہنے والا درجہ حاصل ہے.محمد رسول اللہ ہم میں سے ایک انسان ہے اسی لئے اس کے نقش قدم پر چلنے میں ہمیں کوئی عذر نہیں ہوسکتا.جو امر اس کے لئے ممکن ہے وہ دوسرے انسانوں کے لئے بھی ممکن ہے.وہ ایسا نبی نہیں جو انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے مقام کو حاصل کرتا ہے بلکہ ایسا نبی ہے جو انسانیت کو کامل کرتے ہوئے اور اس کے دروازہ میں سے گزرتے ہوئے نبی بنتا ہے.اس کا ایک ہاتھ خدا کی طرف ہے جو اس کا پیدا کرنے والا اور اسے ترقیات عطا فرمانے والا ہے اور وہ اس کی برکتوں اور اس کے فضلوں کو مانگتا ہے اور دوسرا ہاتھ اپنے ہم جنسوں اور بھائیوں کی طرف ہے جنہیں وہ ہمت کرنے اور اپنے پیچھے پیچھے چلے آنے اور خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کا وعدہ دے رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ گان

Page 170

سيرة النبي م 160 جلد 3 قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی کا مظہر ہے.خدا کی لاکھوں کروڑوں برکتیں نازل ہوں تجھ پر اے کامل انسان ! جس نے ہمیں شش و پنج کی زندگی سے نجات دلا کر اس یقین پر قائم کیا کہ انسانیت تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ وہ تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ اور خدا تعالیٰ کے وصال کا ایک موجب ہے.تیرا درجہ بلند ہو کہ تو جس قدر خدا کے قریب ہوا اسی قدر ہمارے نزدیک ہوا.یقیناً تو ہمارا ہے اور ہم تیرے ہیں.وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الفضل 31 مئی 1929 ء) 66 1 : نسائى كتاب عشرة النساء صفحہ 469 حدیث نمبر 3391 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى 2: البقرة: 223 3 نسائى كتاب عشرة النساء صفحہ 469 حدیث نمبر 3391 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 4: ابن ماجه ابواب النکاح باب حسن معاشرة النساء صفحہ 283 حدیث نمبر 1977 ء مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى میں "خيركم خير کم لاهله“ کے الفاظ ہیں 5: يونس : 3 6: النجم : 10

Page 171

سيرة النبي علي 161 جلد 3 ہوا:.رسول کریم علیہ ایک نبی کی حیثیت میں حضرت مصلح موعود کا درج ذیل مضمون 31 مئی 1929 ء کے الفضل میں شائع أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ اہم مضامین پر اخبار میں قلم اٹھانے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ ان کے کسی ایک پہلو پر روشنی ڈال دی جائے ورنہ جو مضامین کہ سینکڑوں صفحات کے محتاج ہیں انہیں ایک دو صفحات میں لے آنا یقیناً انسانی طاقت سے بالا ہے.میں بھی مذکورہ بالا مضمون کے متعلق جو اپنی تفصیلات کے لئے بیسیوں مجلدات کا محتاج ہے بلکہ پھر بھی ختم نہیں ہوسکتا یہی طریق اختیار کروں گا.خدا تعالیٰ کا کلمہ انبیا ء خدا تعالیٰ کا کلمہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا 1 تو کہہ دے کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے میرے کلمات کی توضیح اور تشریح کی جائے تو سمند رختم ہو جائیں گے مگر میرے کلمات کے کمالات کا بیان ختم نہ ہوگا.خواہ اس قدر سیا ہی ہم اور بھی کیوں نہ پیدا کر دیں.غرض نبوت کا مضمون تو ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے مگر موقع کے لحاظ سے اس کا ایک قطرہ پیش کیا جا سکتا ہے.

Page 172

سيرة النبي علي 162 جلد 3 نبی کے کام قرآن کریم نے نبی کے چار کام مقرر فرمائے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں اس کا اشارہ ہے ان کی دعا قرآن کریم میں یوں نقل ہے رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتُبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ 2 اے ہمارے رب ! اہل مکہ میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما جو انہی میں سے ہو اور ان کو تیرے نشانات سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے اور انہیں پاک کرے.ایک سرسری نگہ ڈالنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ نبی کے کاموں کا ایک بہترین نقشہ ہے جو اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھینچ دیا ہے.نبی کا کام (1) اللہ تعالیٰ کی آیات کا سنانا.(2) کتاب کا سکھانا.(3 ) حکمت کی باتوں کی تعلیم دینا اور (4) لوگوں کے نفوس کو پاک کرنا ہے.کیا اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں کوئی اور نقشہ نبی کے کاموں کا کھینچا جا سکتا ہے؟ آؤ اب ہم دیکھیں کہ ان کاموں کے مطابق رسول کریم ﷺ کیسے ثابت ہوتے ہیں.نبی کا پہلا کام آیات سنانا پہلا کام نبی کا آیات کا سنانا بتایا گیا ہے.آیت کے معنی عربی زبان میں عبرت اور دلیل کے ہوتے ہیں.جو چیز کسی اور چیز کی طرف راہنمائی کرے وہ آیت ہے.پس آیات کے سنانے کا یہ مطلب ہوا کہ ایسی باتیں بتائیں جو امور غیبیہ پر ایمان لانے کا موجب ہوں کیونکہ امور غیبیہ ایسے امور ہیں کہ انسان ان تک خود نہیں رسائی پا سکتا.خدا تعالیٰ کا وجود سب ، مقدم ہے بلکہ ایک ہی حقیقی وجود ہے مگر وہ اس قدر وراء الورا ہے کہ اس تک پہنچنا انسانی طاقت سے بالا ہے.اُس تک پہنچنے کا ذریعہ محض وہ دلائل اور براہین اور وہ عرفان اور مشاہدہ ظہور صفات الہیہ ہو سکتا ہے جو ہمیں اس کے قریب کر دے اور اس کے وجود کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی شک باقی نہ چھوڑے.یہی حال قانون قدرت کے ظہور کا اور ملائکہ کا اور رسالت کا اور کلام الہی کا اور بعثت مابعد الموت کا ہے.ان میں سے

Page 173

سيرة النبي علي 163 جلد 3 ایک چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کی سمجھ انسان کو براہ راست ہوسکتی ہے.بلکہ ان میں سے ہر ایک شے ایسے دلائل کی محتاج ہے جو ہمیں روحانی اور عقلی طور پر ان کے قریب کر دیں.ان سے ہمیں ایسا اتصال بخش دے کہ گویا ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.امور مذکورہ بالا کی اہمیت اس امر سے ثابت ہے کہ جس قدر بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں ان امور پر ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور کسی نہ کسی نام کے نیچے ان امور کو اپنے معتقدات میں شامل رکھتے ہیں خواہ تشریحات میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو.پس جو شخص بھی ان امور پر ایمان لانے کو ہمارے لئے آسان کر دیتا ہے اور ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جس جگہ کھڑے ہو کر ان امور کا گویا ایسا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی وہ نبوت کے کام کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے.صفات الہی کا بیان رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر جب ہم غور کرتے ہیں اور آپ کے کام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ مذکورہ بالا کام کو آپ نے ایسے بے نظیر طریق پر کیا ہے کہ اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی.خدا تعالیٰ کے وجود کے متعلق سب سے پہلی چیز اس کی صفات کا بیان ہے.ایک غیر محدود ہستی ہونے کے لحاظ سے وہ اپنی صفات ہی کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے.اگر کوئی شخص صفات الہیہ کو اس طرح بیان نہیں کرتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالی کی عظمت دلنشین ہو اور دوسری طرف عقل ان کا اس حد تک ادراک کر سکے جس حد تک کہ ان کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے ممکن ہو وہ ہرگز خدا تعالیٰ تک بندوں کو پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.تو حید الہی رسول اللہ اللہ نے جو صفات خدا تعالی کی بیان کی ہیں وہ ایسی ہیں ﷺ کہ ایک طرف تو عقل انسانی ان سے تسلی پا جاتی ہے دوسری طرف وہ ایک غیر محدود اور قادر اور خالق ہستی کے بالکل شایان شان ہیں.آپ ایک طرف

Page 174

سيرة النبي عمال 164 جلد 3 خدا تعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہوروں اور جلووں سے پاک ثابت کرتے ہیں اور اس کی توحید پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ تمام آلائشوں اور نقصوں سے اسے پاک قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کی محبت اور اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچانے کی خواہش کو ایسے واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دل محبت سے بھر جاتا ہے اور عقل مطمئن ہو جاتی ہے مگر آپ اسی پر بس نہیں کرتے آپ اس اصل کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ امور جن پر ایمان لانا انسان کی نجات کے لئے ضروری ہو ان پر ایمان لانے کی بنیا د صرف عقلی دلیل پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مشاہدہ پر ہونی چاہئے تا کہ دل شک وشبہ کے احتمال سے بھی پاک ہو جائے اور آپ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات اس کے خاص بندوں کے لئے ایسے خاص رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ ان کے معجزانہ ظہور کو دیکھ کر انسان کا دل یقین کی آخری کیفیات سے لبریز ہو جاتا ہے.ملائکہ کی حقیقت ملائکہ کے متعلق جہاں ایک طرف آپ نے ان لوگوں کے خیالات کو رد کیا ہے جو ان کے وجود ہی کے منکر ہیں وہاں ان لوگوں کے خیالات کو بھی رد کیا ہے جو انہیں بادشاہی درباریوں کی حیثیت میں پیش کرتے ہیں.اور بتایا ہے کہ ملائکہ نظام عالم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ میں اسی طرح ضروری وجود ہیں کہ جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب.وہ ایک مادی خدا کے دربار کی رونق نہیں ہیں بلکہ ایک غیر مادی خدا کے احکام تکوین کی پہلی کڑیاں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلے پوری طرح ان پر قائم ہیں اور جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت نہیں ہو سکتی اسی طرح ملائکہ کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن ہے.قانون قدرت کیا ہے؟ آپ نے قانون قدرت کو ایسا قریب الفہم کر دیا کہ مادی علل و اسباب کا دیکھنے والا سائنس دان اور عقلی موجبات کی موشگافی کرنے والا فلسفی اور روحانی اثرات پر نگہ رکھنے والا صوفی اور

Page 175

سيرة النبي عمال 165 جلد 3 موٹی موٹی باتوں سے نتیجہ نکالنے والا عامی یکساں طور پر تسلی پا گیا.ہر اک نے اسے اپنے اپنے نقطۂ نگاہ سے دیکھا، غور کیا اور اطمینان کا سانس لیا اور محمد رسول اللہ ع کے دعویٰ کی تصدیق کر دی.کیونکہ مختلف پہلوؤں سے غور کرنے کے بعد جب ایک ہی نتیجہ نکلے تو اس نتیجہ کی صحت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا.رسالت اور کلام الہی کی ضرورت آپ نے رسالت اور کلام الہی کی ضرورت اور قانون قدرت کی مثالوں سے ثابت کیا وہ خدا جس نے جسمانی آنکھ کے لئے سورج کو پیدا کیا ہے کس طرح ممکن ہے کہ روحانی آنکھ کو کام کرنے کے قابل بنانے کے لئے اس نے روحانی سورج اور روحانی نور پیدا نہ کیا ہو.حالانکہ جسمانی آنکھ کا تعلق تو ایک محدود عرصہ سے ہے لیکن روحانی بینائی کا اثر انسان کی تمام آئندہ زندگی پر ہے خواہ اس دنیا کی ہو خواہ اگلے جہاں کی.بَعْث مَا بَعْدَ الْمَوْت بَعْث مَا بَعْدَ الْمَوت کے متعلق بھی آ.آپ نے مختلف پیرایوں سے بحث کی اور ایسے رنگ میں اسے پیش کیا کہ وہ ایک خالص علمی مسئلہ کی بجائے ایک عملی مسئلہ بن گیا.انسانی اعمال ایک زبر دست جزا کے طالب ہیں اور وہ جزا اس امر کی مقتضی ہے کہ اسے دوسروں کی نگہ سے مخفی رکھا جائے کیونکہ اس عظیم الشان جزا کے ظاہر ہو جانے پر انسانی اعمال اختیاری نہیں رہیں گے بلکہ ایک رنگ میں غیر اختیاری ہو جائیں گے.عالم آخرت ایک نئی دنیا نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں مادیات کے اثر سے آزاد ہو کر انسانی روح اسی راستہ پر بلا روک ٹوک چلنا شروع کر دیتی ہے جو اس نے اپنے اعمال کی داغ بیل ڈال کر اپنے لئے تیار کیا تھا.خدا تعالیٰ ایک غم وغصہ سے پُر بادشاہ نہیں.اس کی صفات کے تقاضے نے انسان کو پیدا کیا تھا اور وہی صفات اس امر کی متقاضی ہیں کہ انسان آخر کار اپنے مقصد کو پا جائے اور کوئی پہلے

Page 176

سيرة النبي علي 166 جلد 3 اور کوئی پیچھے آخر اس وجود سے پیوست ہو جائے جس وجود کی رحمت اسے عالم وجود میں لائی تھی.غرض ہر اک مخفی مسئلہ کو جس پر ایمان کی بنیاد تھی وہم اور شک کے بادلوں سے نکال کر ایک چمکتے ہوئے سورج کی روشنی کے نیچے آپ نے رکھ دیا تا کہ ہر شخص اپنی عقل کی آنکھ سے اسے دیکھ سکے اور اپنے روحانی ادراک سے اسے چھو سکے اور وہم اور وسوسہ سے نکل کر یقین اور اطمینان حاصل کر سکے.نبی کا دوسرا کام تعلیم کتاب دوسرا کام بھی کا تعلیم کتاب ہے.اس کام کو بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیا ہے کہ کسی اور وجود میں اس کی مثال نہیں ملتی.آپ نے سب سے اول تو یہ بتایا کہ شریعت ایک فضل ہے انسان اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کی بہتری کیلئے اس امر کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس پر اپنی مرضی کا اظہار کرے تا کہ اس روحانی سفر میں جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے کاموں کی بنیاد شک اور وہم پر نہ ہو بلکہ یقین اور وثوق پر ہو.شریعت ایک بوجھ نہیں جو آگے ہی بوجھ سے دبے ہوئے انسان کو کچلنے کے لئے اس کے سر پر رکھ دیا گیا ہے، وہ کسی سزا کا نتیجہ نہیں بلکہ محبت کے تقاضے کے ماتحت اس کا نزول ہوا ہے اور ان مخفی گڑھوں اور یکدم چکر کھا جانے والے موڑوں اور سر بلند اور سیدھی پہاڑیوں اور تیز اور سرعت سے بہنے والی ندیوں اور حد سے جھکی ہوئی شاخوں اور کانٹے دار جھاڑیوں اور گندگی اور میلے کے ڈھیروں سے مطلع کرنے کے لئے اتاری گئی ہے جو اس لمبے سفر میں انسان کے لئے تکلیف کا موجب اور اسے اس کے سفر کو بآرام طے کرنے سے محروم کر دینے کا باعث ہو سکتی ہیں.وہ نہ سزا ہے نہ امتحان بلکہ رہنما ہے اور ہادی.اس کا کوئی حکم خدا تعالیٰ کی شان کو بڑھانے والا نہیں بلکہ ہر اک حکم انسان کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے.

Page 177

سيرة النبي عمال 167 جلد 3 عالمگیر شریعت آپ نے دنیا کے سامنے یہ ایک نیا طریق پیش کیا کہ شریعت عالمگیر ہونی چاہئے اور اس میں مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ رکھا جانا چاہئے.جو کتاب کہ مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ نہیں کرتی وہ گویا دنیا کے ایک حصہ کو نجات پانے سے بالکل محروم کر دیتی ہے اور اس طرح خود اس غرض کو معدوم کر دیتی ہے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا.شریعت کے دو اہم امور تیسرا اصل کتاب کی تعلیم میں آپ نے یہ مدنظر رکھا کہ شریعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ دو اہم ضرورتوں کو پورا کرے.ایک طرف تو اس میں ان تمام ضروری امور کے متعلق ہدایت ہو جن کا مذہبی ، روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ تعلق ہے اور دوسری طرف انسان کی ذہنی ترقی کے لئے اس میں گنجائش ہو اور وہ انسانی دماغ کو بالکل جامد بنا کر اس میں سڑاندھ نہ پیدا کر دے.ان دو اصول کے ماتحت آپ نے ان دو خطرناک راستوں کو بند کر دیا جو حقیقی روحانیت کو تباہ کرنے کا باعث بن جایا کرتے ہیں یعنی اباحت کے راستہ کو بھی جو انسان کے روحانی مفاد کو مادی لذات کی قربان گاہ پر قربان کروا دیا کرتا ہے اور تقلید جامد کے راستہ کو بھی جو انسانی دماغ کو ایک سڑے ہوئے تالاب کی طرح بنا کران بد بوؤں کا مرکز بنا دیتا ہے جو نشو ونما کی تمام قابلیتوں کو جلا کر رکھ دیتی ہیں.نبی کا تیسرا کام تعلیم حکمت تیرا کام نبی کا تعلیم حکمت ہے.رسول کریم ہ نے اس کام میں بھی ایک بے نظیر مثال قائم کی ہے.آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باوجود خدا تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے بے نظیر اظہار کے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ جو چاہے حکم دے اور کسی کو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مجال نہ ہو.وہ اگر قادر ہے تو غنی بھی ہے، کسی حکم میں خود اس کا اپنا فائدہ مدنظر نہیں ہوتا.اور پھر وہ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم نہیں دیتا جس میں کہ کوئی حکمت نہ ہو.پس کسی تعلیم کے خدا تعالیٰ کی

Page 178

سيرة النبي عمال 168 جلد 3 طرف منسوب ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس کی جزئیات تمام حکمتوں سے اور اس کے احکام تمام علتوں سے خالی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہونا ہی اس امر کا ضامن ہے کہ وہ بات ضرور حکمتوں سے پُر اور مقاصد عالیہ سے وابستہ ہے ورنہ وہ حکیم اور فنی ہستی اس کا حکم کیوں دیتی.اس اصل کے ماتحت آپ نے اپنی تمام تعلیم کی حکمتیں ساتھ ساتھ بیان فرمائی ہیں.ہر اک بات جس کا حکم دیا ہے اس کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کے کرنے کے کیا فوائد ہیں اور اس کے نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں اور ہر اک بات جس سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ اس کے کرنے سے کیا نقصانات ہیں اور اس کے نہ کرنے میں کیا فوائد ہیں.پس آپ کی تعلیم پر عمل کرنے والا اپنے دل میں انقباض نہیں محسوس کرتا بلکہ ایک جوش اور خوشی محسوس کرتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ مجھے جو حکم دیا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً فائدہ ہے اور جس امر سے مجھے روکا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً نفع ہے اور یہ بشاشت اس کے اندر ایک ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دیتی ہے کہ شریعت پر عمل کرنا اسے ناگوار نہیں گزرتا بلکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ایک ضروری فرض سمجھتا ہے اور اسے ایک چٹی نہیں خیال کرتا بلکہ ایک عظیم الشان رحمت خیال کرتا ہے.نبی کا چوتھا کام ، تزکیہ نفس چوتھا کام ایک نبی کا تزکیہ نٹس ہے یعنی لوگوں کے دلوں کو پاک کر کے ان کے اندر ایسی قابلیت پیدا کرنا کہ وہ خدا تعالیٰ سے اتصال تام حاصل کر سکیں اور اس کے فیوض کو اپنے نفس میں جذب کر کے بقیہ دنیا کے لئے اس کے مظہر اور اس کی قدرتوں کی جلوہ گاہ بن سکیں.رسول کریم ﷺ نے اس کام کو اس احسن طریق پر پورا کیا ہے کہ دوست تو دوست آپ کے دشمن بھی اس کام کے قائل ہیں.جس ملک میں آپ پیدا ہوئے اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے اس کی جو حالت تھی وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں.خود اُس زمانہ کی عام حالت بھی اچھی نہ تھی.عرب جو آپ کا ملک تھا اس کے سوا دوسرے

Page 179

سيرة النبي علي 169 جلد 3 ممالک بھی مذہبی ، اخلاقی، علمی اور عملی حالت میں اچھے نہ تھے گویا ایک رات تھی جو سب دنیا پر چھائی ہوئی تھی.اول تو پہلے مذاہب کی پاک تعلیموں کو ہی لوگوں نے بگاڑ دیا تھا دوم جو کچھ پہلی تعلیموں میں سے موجود تھا اس پر بھی عمل نہ تھا.مذہب تو ایک بالا چیز ہے معمولی انسانیت بھی مردہ ہو چکی تھی اور شرافت مفقود ہو رہی تھی.شرک و بدعت اور گندی رسوم، ایک دوسرے کا حق مارنا، فسق و فجور، ظلم قتل و غارت، بے شرمی اور بے حیائی، جہالت، ستی ، نکما پن، تفرقہ ، شراب خوری ، جوئے بازی، کبر خود پسندی، غرض ہر اک عیب اُس وقت موجود تھا اور اس کے مقابل کی ہر ایک نیکی مفقود تھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی مٹ گیا تھا اور اس کے ارتکاب پر بجائے شرمندگی محسوس کرنے کے فخر کیا جاتا تھا.اُس زمانہ میں پیدا ہو کر رسول کریم ﷺ نے اس قوم کو اپنی تربیت کے لئے چنا جو اس تاریک زمانہ میں بھی سب قوموں سے گناہ اور بدی میں بڑھی ہوئی تھی.نظام حکومت اس کے اندر اس قدر مفقود تھا کہ اسے سب سے زیادہ فخر اپنی لا مرکزیت پر تھا.اس قوم کے اندر اپنی پاکیزگی کی روح آپ نے پھونکنی شروع کی.جیسا کہ قاعدہ ہے جس چیز کو جی نہ چاہے انسان اس کا مقابلہ کرتا ہے لوگوں نے آپ کا مقابلہ شروع کیا اور سخت ہی مقابلہ کیا مگر آپ استقلال اور صبر سے اپنا کام کرتے چلے گئے اور لوگوں کی مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کی.ماریں کھائیں، گالیاں سنیں، طعنے سہے، سب کچھ برداشت کیا مگر دنیا کی گمراہی کو برداشت نہ کیا.آخر ایک ایک کر کے لوگوں کے دلوں پر فتح پانی شروع کی.سالہا سال تک یہ مقابلہ جاری رہا، بڑے بڑے قوی دل، دل ہار گئے مگر آپ نے دل نہ ہارا.جس طرح پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے بہتے بہتے نرمی سے ، ملائمت سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آخرایسی نشیب والی جگہیں پیدا کر لیتا ہے جن پر سے وہ آسانی کے ساتھ بہہ سکے اسی طرح آپ نے اپنے نیک نمونہ سے اور مؤثر وعظ سے دنیا کی اصلاح کا کام جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ پاکیزگی اور طہارت کی خوبی کے دل قائل ہو گئے.

Page 180

سيرة النبي علي 170 جلد 3 روحانی مُردوں نے اپنے اندر ایک نئی روح ، سوئے ہوؤں نے تمازت آفتاب، بیماروں نے صحت کے آثار اور کمزوروں نے ایک طاقت کی لہر اپنے اندر محسوس کرنی شروع کی ، دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا.جہاں ظلم اور تعدی کی حکومت تھی وہاں عدل اور انصاف کا دور دورہ ہو گیا.جہاں جہالت کے بادل چھا رہے تھے وہاں علم کا سورج چمکنے لگا.جہاں برودت اور جمود جسے بیٹھے تھے وہاں امن اور سعی کی گرم بازاری ہو گئی.نسل انسانی نے سانس لیا، کروٹ بدلی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی.اس معجزانہ تغیر پر نظر ڈالی جو محمد رسول اللہ علیہ کی بے نفس جد و جہد نے پیدا کر دیا تھا اور بے اختیار ہو کر چلا اٹھی کہ بے شک تو نبی ہے بلکہ نبیوں کا سردار.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلى ال مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ وَ اخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.خاکسار مرزا محمود احمد ( الفضل 31 مئی 1929ء) 1: الكهف: 110 2: البقرة: 130

Page 181

سيرة النبي علي 171 جلد 3 توحید باری تعالیٰ کے متعلق رسول کریم ﷺ کی تعلیم حضرت مصلح موعود کی تحریک کے مطابق 2 جون 1929 ء کو سارے ہندوستان میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کے حوالہ سے جلسے ہوئے جن میں غیر مسلم اصحاب نے بھی تقاریر کیں.حضرت مصلح موعود نے اس پروگرام کے مطابق قادیان کے ایک بڑے جلسہ میں تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل تقریر فرمائی:.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر دوبارہ اس تحریک پر عمل کرنے کی توفیق عطا کی جو میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ ملک کے امن اور اس میں صلح کے قیام کا موجب ہوگی.میں نے پچھلے سال اس مہینہ میں گو اسی تاریخ تو نہیں اسی موقع پر ان جلسوں کی غرض بیان کی تھی جو کہ ایک ہی دن میں سارے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر بھی اس غرض سے منعقد کئے گئے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے مبارک حالات بیان کئے جائیں.میں نے بتایا تھا کہ اس قسم کے جلسے علاوہ اس کے کہ ان کے ذریعہ ایک عظیم الشان تاریخی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے مختلف قوموں میں صلح اور آشتی کا موجب ہوں گے.اس سال بعض ہندو لیڈروں کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آیا ان کے بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کئے جائیں تو ہماری جماعت ان جلسوں میں اسی رنگ میں شریک ہوگی جس طرح وہ شریک ہو رہے ہیں؟ میں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ ان جلسوں کی غرض جب یہ بھی ہے کہ مختلف اقوام میں اتحاد اور رابطہ پیدا کیا جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ جب دوسری اقوام ان بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کریں جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان

Page 182

سيرة النبي عمال 172 جلد 3..پیدا کر دیئے تو ہماری جماعت کے لوگ ان جلسوں میں شامل نہ ہوں.ہماری جماعت کے لوگ بڑی فراخ دلی اور پورے وسعت حوصلہ اور بڑے شوق سے ان میں شامل ہوں گے.میں نے گزشتہ سال کے جلسہ پر جو تقریر کی اس میں مثال کے طور پر بیان کیا تھا کہ جب میں شملہ گیا تو وہاں ایک جلسہ برہمو سماج کا ہوا جس میں شمولیت کے لئے مسٹر نائیڈو نے مجھے بھی دعوت دی اور میں اس میں شامل ہوا.مجھے تقریر کے لئے بھی کہا گیا لیکن چونکہ تمام کے تمام حاضرین انگریزی سمجھنے والے تھے اور بہت قليل التعداد ایسے لوگوں کی تھی جوار دو سمجھ سکتے تھے اور مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کا ملکہ نہ تھا اس مجبوری کی وجہ سے میں تقریر نہ کر سکا ورنہ میں نے کہہ دیا تھا کہ تقریر کروں گا.چونکہ ابھی تک اس قسم کے جلسوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا اس لئے پوری طرح ان پر عمل نہیں شروع ہوا.لیکن جب بھی ایسے جلسے کئے گئے اور حضرت کرشن ، حضرت رامچندر یا اور بزرگوں کے حالات بیان کئے گئے ، انہوں نے دنیا میں جو اصلاحیں کی ہیں وہ پیش کی گئیں، انہوں نے خود تکلیفیں اٹھا کر دوسروں کو جو آرام پہنچایا ان کے لئے جلسے کئے گئے تو کوئی احمدی نہ ہوگا جو شوق اور محبت سے ان میں شامل نہ ہوگا.لیکن یہ ضروری ہے کہ انبیاء کا ذکر انبیاء کے طور پر کیا جائے اور قومی مصلحین کا ذکر اسی رنگ میں ہوگا نہ کہ انبیاء کے رنگ میں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر قوم کی طرف سے اپنے مذہبی بزرگوں کے متعلق اس قسم کے جلسے ہوں تو وہ بھی یقیناً ہمارے ان جلسوں کو بہت پُر لطف اور بہت دلچسپ بنا دیں گے کیونکہ اس طرح آپس میں بہت زیادہ تعاون کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور جس قدر محنت اور کوشش ہمیں اب ان جلسوں کے انعقاد کے متعلق کرنی پڑتی ہے اُس وقت اتنی نہ کرنی پڑے گی.جب دیگر مذاہب کے لوگ دیکھیں گے کہ ان کے جلسوں میں ہر جگہ ہماری جماعت کے لوگ شامل ہوتے ہیں، محبت اور شوق سے ان کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہیں، کھلے دل سے ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں تو یقیناً ہمارے جلسوں میں ان کی شمولیت پہلے سے بہت زیادہ

Page 183

سيرة النبي علي 173 جلد 3 ہوگی اور بہت زیادہ اخلاص اور محبت سے ہوگی.مجھے اس بات سے نہایت خوشی ہے کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ جلسے ہو رہے ہیں.پچھلے سال ہندوستان کے مختلف مقامات کے لوگوں نے پانچ سو جلسے کرنے کا وعدہ کیا تھا.مگر اس سال 1900 سے زیادہ جلسوں کے وعدے آچکے ہیں.پچھلے سال ایک ہزار کے قریب جلسے ہوئے تھے.اس سے اندازہ لگا کر کہا جا سکتا ہے کہ اس سال چار پانچ ہزار جگہ لوگ اس مبارک تقریب پر جمع ہوں گے.انسانی آنکھ دور تک نہیں دیکھ سکتی اور میری آنکھ بھی اس نظارہ کو نہیں دیکھ سکتی جو سارے ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی آج رونما ہے.لیکن خدا نے جو روحانی آنکھ پیدا کی ہے اس سے میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس سے دل خوشی سے بھرتا جا رہا ہے اور نظر آ رہا ہے کہ یہی جلسے ایک دن فتنہ و فساد کو مٹا کر امن و اتحاد کی صحیح بنیاد قائم کر دیں گے.اس سال نہ صرف یہ کہ جلسے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ منعقد ہوں گے بلکہ پہلے سے زیادہ مقتدر اور معزز لوگوں نے ان میں حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے.کل ہی کلکتہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹرسین گپتا نے جو کلکتہ کے نہایت معزز آدمی ہیں شمولیت کا وعدہ کیا ہے اور بڑے بڑے لوگوں نے اشتہار میں اپنے نام لکھائے ہیں.بہت سی اعلیٰ طبقہ کی خواتین نے بھی جلسہ میں شریک ہونے کا اشتیاق ظاہر کیا ہے.پچھلے سال تو بنگال کی ایک مشہور خاتون نے جوایم.اے ہیں اس بات پر اظہار افسوس کیا تھا کہ ہمارے طبقہ کو ان جلسوں میں زیادہ حصہ لینے کا موقع کیوں نہ دیا گیا.اسی طرح اور مقامات کے معززین کے متعلق بھی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں کہ انہوں نے جلسہ کے اعلانات میں اپنے نام لکھائے ،شمولیت جلسہ کے وعدے کئے اور ہر طرح جلسہ کو کامیاب بنانے میں امداد دی.اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے.پچھلے سال رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تین پہلوؤں کو لیا گیا تھا اور میں نے بھی ان پر اظہار خیالات کیا تھا.اس سال ان کے علاوہ دو اور پہلو

Page 184

سيرة النبي علي 174 جلد 3 یز کئے گئے ہیں اور وہ یہ کہ :.(1) توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور اس پر زور.(2) غیر مذاہب کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور تعامل.گو دوسرے مقامات پر یہی طریق رکھا گیا ہے کہ مختلف مضامین پر مختلف لوگ اظہار خیالات کریں لیکن اس مقام ( قادیان) کے مخصوص حالات کی وجہ سے پچھلے سال بھی یہی طریق تھا کہ تینوں مضامین پر میں نے ہی اظہار خیالات کیا تھا اور اب بھی یہی ارادہ ہے کہ اِنشَاءَ اللهُ دونوں مضامین پر میں ہی بولوں گا.مجھے افسوس ہے کہ اس تقریب کی اہمیت کے لحاظ سے جتنا لمبا کلام اور جس طرز کا کلام ہونا چاہئے تھا بوجہ بیماری اور کھانسی میں اتنا لمبا بیان نہیں کر سکوں گا اس لئے مجبوراً اختصار کے ساتھ اہم پہلو لے کر اظہار خیالات کروں گا.میں سب سے پہلے توحید کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.لوگوں میں یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ توحید کے متعلق مختلف مذاہب میں اصولی اختلاف پایا جاتا ہے.مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کئی مذاہب ایسے ہیں جو توحید کے قائل نہیں مگر یہ درست نہیں ہے.یہ اور بات ہے کہ توحید کی تفصیل اور تشریح میں اختلاف ہو مگر اصولی طور پر تمام مذاہب کے لوگ توحید کے قائل ہیں.حتیٰ کہ جن مذاہب کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ تو حید کے خلاف ہیں وہ بھی دراصل توحید کے قائل ہیں.میں نے ہندوؤں ، سکھوں ، یہودیوں، زرتشتیوں، عیسائیوں، بدھوں کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور اسلام تو ہے ہی اپنا مذہب اس کا مطالعہ سب سے زیادہ کیا ہے.ان سب کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ساری اقوام اور تمام مذا ہب توحید کے لفظ پر جمع ہیں اور سب کے سب اس کے قائل ہیں.عام م خیال کرتے ہیں کہ عیسائی تو حید کے قائل نہیں مگر میں نے عیسائیوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ مسلمان توحید کے قائل نہیں توحید کے اصل قائل ہم (عیسائی) ہیں.سلمان

Page 185

سيرة النبي متر 175 جلد 3 اسی طرح میں نے ہندوؤں کی کتب میں پڑھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تو حید کے قائل اور دوسروں کو اس کے خلاف بتاتے ہیں.یہی حال دوسرے مذاہب کا ہے.اس سے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لفظ تو حید کے سب قائل ہیں.باقی تشریحات میں اختلاف ہے.اور جب کوئی قوم خود اقرار کرتی ہو کہ وہ توحید کی قائل ہے تو پھر اس کے متعلق یہ کہنا کہ قائل نہیں درست نہیں ہو سکتا اور سب اقوام اور سب مذاہب کے لوگوں کا توحید کا قائل ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ مسئلہ باقی دنیا کی نظر میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی ایک ہی غرض پیش کرتے ہیں.اور وہ یہ کہ بندوں کا خدا سے تعلق پیدا کرنا.خواہ اس ہستی کا نام خدا ر کھ لیا جائے یا گاڈ (God) یا پرمیشور یا ایز داس سے بندہ کا تعلق پیدا کرنا مذہب کی غرض ہے.اب صاف بات ہے کہ اگر کوئی مذہب تو حید پر قائم نہ ہو تو یقیناً وہ اپنے پیرؤوں کو اور طرف لے جائے گا اور اس کا پیرو اس مقصد کے حاصل کرنے سے محروم ہو جائے گا جو مذہب کا ہے.جب تک ایک نقطہ نہ ہو جس پر پہنچنا مقصود ہو اُس وقت تک تمام کوششیں بے کار جاتی ہیں اور ساری اقوام اس پر متفق ہیں کہ ایک ہی نقطہ ہے جس تک سب کو پہنچنا ہے.بعض قو میں گو بتوں کو پوجتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہم بتوں کی اس لئے پوجا کرتی ہیں کہ وہ خدا تک ہمیں پہنچا دیں.غرض ہر مذہب والا اپنے مذہب کی غرض خدا تک پہنچنا قرار دیتا ہے اور اگر کوئی خدا تک نہ پہنچے تو ہر مذہب والا سمجھے گا کہ وہ اصل مقصد کے پانے سے محروم رہ گیا.اس کے دوسرے لفظوں میں یہی معنی ہیں کہ جسے تو حید کا راز معلوم نہ ہوا وہ محروم رہ گیا.میں نے جیسا کہ بتایا ہے ایسے جلسوں کی غرض مختلف اقوام میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا ہے اس لئے میں ایسے رنگ میں اپنا مضمون بیان کروں گا کہ کسی پر حملہ نہ ہو بلکہ ہمارا مذ ہب جو کچھ بتاتا ہے اسے پیش کیا جائے.ہمارا عقیدہ اور مذہب ہے کہ دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں وہ سب کے سب خدا کی طرف سے قائم کئے گئے ہیں.

Page 186

سيرة النبي عمال 176 جلد 3 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نہ کوئی نبی ، اوتار، رشی اور منی نہ گزرا ہو.یہ بات آپ نے اپنے پاس سے نہیں لکھی بلکہ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے.رسول کریم ﷺ کا یہی خیال تھا اور پرانے آئمہ کا بھی یہی مذہب تھا.اس عقیدہ کی موجودگی میں یہ کہنا کہ تو حید پہلے نہ تھی صلى الله بلکہ رسول کریم ﷺکے لائے تھے قرآن کریم کی تردید کرنا ہے.جب قرآن بتاتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو یقیناً ہر قوم میں تو حید بھی قائم ہوئی.اگر آج کسی قوم میں توحید نہیں یا رسول کریم ہے جس وقت مبعوث ہوئے اُس وقت نہ تھی تو اس سے صرف یہ معلوم ہوا کہ اُس وقت وہ قوم تو حید سے تہی دست ہو چکی تھی نہ یہ کہ اس قوم میں جو نبی آیا اس نے تو حید کی تعلیم نہ دی تھی.پس ہر وہ مذہب جو خدا تعالیٰ کو مانتا ہے اس میں توحید کی تعلیم دی گئی.ہاں اس پر سب اقوام متفق ہیں کہ جس زمانہ میں رسول کریم ے آئے اُس وقت تو حید مٹ چکی تھی.چنانچہ ہندوؤں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اُس وقت دنیا میں بڑی خرابی پیدا ہو چکی تھی ، مذہبی حالت بہت خراب ہو چکی تھی.عیسائیوں کی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا اور لکھا ہے کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کی وجہ ہی یہ ہوئی کہ عیسائی قوم سے توحید جاتی رہی تھی.عیسائیوں نے اسلام میں تو حید دیکھ کر اسے قبول کر لیا.یہی بات زرتشتی کہتے ہیں کہ اُس زمانہ میں چونکہ زرتشتی لوگ تو حید چھوڑ چکے تھے انہیں مسلمانوں کی پیش کردہ تو حید پسند آگئی اور وہ مسلمان ہو گئے.غرض یہ سب مذاہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اُس وقت شرک پھیل گیا تھا، دنیا میں توحید نہ رہی تھی رسول کریم ﷺ نے اُس زمانہ میں پیدا ہو کر ایسے مقام میں پیدا ہو کر جو توحید سے بالکل ناواقف تھا وہاں کوئی مذہب ہی نہ تھا، کوئی ایسی کتاب نہ تھی جس کے متعلق کہا جاتا ہو کہ خدا کی طرف سے ملی ہے.بلکہ وہ لوگ سمجھتے تھے ہمارے بزرگ جو بات کہہ گئے وہی مذہب ہے.حالانکہ مذہب وہی کہلا سکتا ہے جس کے ماننے والوں کے پاس ایسی کتاب ہو جس کے متعلق ان کا

Page 187

سيرة النبي علي 177 جلد 3 اعتقاد ہو کہ پر میشور یا خدا نے نازل کی ہے.غرض رسول کریم ﷺ ایسی قوم میں پیدا ہوئے جس کا کوئی مذہب نہ تھا.وہ نہ وید کو الہامی مانتی تھی نہ توریت کو ، نہ انجیل کو نہ رند کو.ایسے ملک اور ایسی قوم میں پیدا ہو کر رسول کریم علیہ نے تو حید کو ایسے کامل اور ایسے اعلیٰ رنگ میں پیش کیا کہ آپ کے مخالف بھی اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں.پہلی چیز جو توحید کے قیام کے لئے رسول کریم علی نے پیش فرمائی وہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے متعلق دنیا نے اب بھی نہیں سمجھا کہ اس کا توحید سے کیا تعلق ہے.وہ نکتہ یہ ہے کہ رسول کریم علیہ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اعلان کیا کہ ساری دنیا میں نبی آتے رہے ہیں.بظاہر اس امر کا توحید سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ بغیر اس امر کو تسلیم کرنے کے تو حید ثابت ہی نہیں ہو سکتی.بغیر یہ ماننے کے کہ مصر، ایران، ہندوستان، چین، جاپان، یورپ، امریکہ میں خدا نے نبی پیدا کئے تو حید کامل نہیں ہوسکتی.رسول کریم ﷺ نے آکر اس پر بڑا زور دیا ہے.چنانچہ قرآن میں آتا ہے اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ 1 کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خدا کا کوئی نبی نہ آیا ہو.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا ءِ کہ ہم 2 ہے نے ہر قوم میں رسول بھیجا.اس کے ساتھ ہی تو حید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت و ہم نے رسول اس لئے بھیجے کہ وہ لوگوں کو سکھائیں اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ سے بچو.پس رسول کریم ﷺ نے دنیا میں یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم میں ہی صداقت آئی باقی ساری دنیا کو خدا نے چھوڑے رکھا تھا.حق یہ ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں نبی اور رسول نہ آئے ہوں.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح اس بات کا توحید سے تعلق ہے.جب کوئی قوم یہ خیال رکھے کہ ہمارے اندر ہی خدا نے نبی یا اوتار بھیجے دوسری اقوام میں

Page 188

سيرة النبي علي 178 جلد 3 نہیں بھیجے تو اس سے یہ بھی خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہما را خاص خدا ہے جو دوسروں کا خدا نہیں اور یہ خیال جب ہر ایک قوم میں پیدا ہو جائے گا تو دنیا میں قومی خداؤں کا احساس پایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے متعلق یہ وسیع نظر یہ کہ ایک ہی خدا سب کا خالق ہے پیدا نہ ہوگا.ہر قوم یہ محدود خیال رکھے گی کہ ایک ایسا خدا ہے جو ہماری قوم کا خدا ہے باقیوں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق محدود خیال پیدا ہوتا ہے.حالانکہ جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم میں مصلح آئے.ہندوؤں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسروں کی بھلائی اور بہتری کی خاطر اپنے آپ پر مصائب کے پہاڑ گرا لئے ، تکالیف کے بھنور میں پڑ کر ڈوبتی ہوئی دنیا کو ترالیا.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی ایسے انسان پیدا ہوئے جن کی زندگیاں خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف تھیں.دنیا کی اور اقوام میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ جب جب ان کی دینی اور روحانی حالت خراب ہوئی، خدا کی طرف سے ان میں ایسے انسان پیدا کئے گئے جنہوں نے ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا.پس جب سب اقوام میں ایک ہی قسم کے فساد کے وقت ایک ہی قسم کا علاج کیا گیا تو کیوں نہ مانا جائے کہ ایک ہی ہستی کی طرف سے یہ سارے انسان بھیجے گئے تھے اور جب یہ خیال کیا جائے تو کسی انسان کے ذہن میں قومی خدا کا تصور نہیں پیدا ہوتا بلکہ رَبُّ الْعَلَمِيْن کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے.یہ سمجھنا کہ خدا کا ہماری قوم کے ساتھ ہی تعلق رہا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں رہا.ہم میں جب خرابی پیدا ہوئی اُس وقت اس نے اپنا کوئی پیارا بھیج دیا مگر کسی اور قوم میں نہ بھیجا اس سے ایک قومی خدا کا تصور ذہن میں آتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مختلف اقوام اپنا اپنا خدا الگ سمجھتی اور کہتی ہیں ہمارا خدا ایسا ہے اور فلاں قوم کا خدا ایسا.حتی کہ یہاں تک بھی لکھ دیا گیا کہ ہمارے خدا نے فلاں قوم کے خدا پر فتح پائی.گویا اپنے جیتنے کو انہوں نے اپنے خدا کا دوسروں کے خدا پر جیتنا قرار دیا.اس کی وجہ یہی ہے انہوں نے سمجھا نہیں کہ ہر قوم میں مصلح آتے

Page 189

سيرة النبي علي 179 جلد 3 ہیں اور ہر قوم کی ہدایت کے سامان خدا تعالیٰ کرتا رہا ہے.اس بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف سخت جھگڑا کرتے رہے ہیں.لیکن اگر یہ سمجھ لیں کہ ہر قوم میں نبی اور مصلح آتے رہے ہیں تو ان میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ سب کا ایک ہی خدا ہے گو اس کے نام مختلف رکھ لئے گئے ہیں.اب تو ناموں کی وجہ سے بھی الگ الگ خدا سمجھے جاتے ہیں.بچپن کا ایک واقعہ ابھی تک مجھے یاد ہے.ایک لڑکے نے مجھ سے باتیں کرتے کرتے کہا ہندوؤں کا خدا کیسا خدا ہے.میں نے کہا جو ہمارا خدا ہے وہی ان کا خدا ہے.کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے ان کا خدا تو پر میشور ہے.میں نے کہا خدا تو وہی ہے ہندوؤں نے نام اور رکھا ہوا ہے.یہ سن کر وہ بڑا حیران ہوا.دراصل بات وہی ہے جو مثنوی والے نے لکھی ہے.انہوں نے لکھا ہے چار فقیر تھے جو مانگتے پھرتے تھے.کسی نے انہیں ایک سکہ دے کر کہا جاؤ جو چیز کھانے کو جی چا ہے جا کر خرید لو.ایک نے کہا ہم انگور لیں گے ، دوسرے نے کہا انگور نہیں عنب لیں گے، تیسرے نے کہا دا کھ لیں گے، چوتھے نے ترکی زبان کا ایک لفظ استعمال کیا کہ وہ لیں گے.اس پر ان کا جھگڑا ہو گیا.ہر ایک کہنے لگا جو چیز میں کہتا ہوں وہ خریدو.وہ جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا.اس نے پوچھا کیوں لڑتے ہو؟ ہر ایک نے اپنا قصہ سنایا.وہ چاروں زبانیں جانتا تھا بات سمجھ گیا.اس نے کہا آؤ میں سب کو اس کی پسند کی چیز خرید دیتا ہوں.اس نے جا کر انگور خرید دیئے اور انہیں دیکھ کر سب خوش ہو گئے.اسی طرح قوموں نے ایک ہی خدا کے نام تو اپنی اپنی زبان میں رکھے تھے لیکن حالت یہ ہوگئی کہ مختلف ناموں سے مختلف خدا سمجھے جانے لگے اور ہر قوم نے اپنا خدا علیحدہ قرار دے لیا اور یہ سمجھ لیا کہ خدا نے ہمارے لئے فلاں نبی یا ریشی بھیجا اور باقی سب لوگوں کو چھوڑ دیا.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا سب کے لئے خدا نے نبی بھیجے.ان کے مختلف نام رکھ لینے سے ان میں فرق نہیں پڑ سکتا.وہ سب بچے اور خدا کے

Page 190

سيرة النبي علي 180 جلد 3 صلى الله پیارے تھے.غرض اس مسئلہ کو دنیا میں قائم کر کے رسول کریم علیہ نے تو حید کو مضبوط بنیاد پر قائم کر دیا.دوسرا مسئلہ جس کا تعلق لوگوں نے مسئلہ توحید سے نہیں سمجھا لیکن وہ بھی نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے وہ عالمگیر مذہب پیش کرنا ہے.جب مختلف مذاہب کے لوگوں میں خرابیاں پیدا ہوگئیں اور وہ اپنے اپنے مذہب کی اصل تعلیم کو چھوڑ چکے تو ان میں سے ہر ایک نے یہ خیال کر لیا کہ ہماری قوم ہی ہدایت پاسکتی ہے اور کوئی قوم اس نعمت سے مستفیض نہیں ہو سکتی.جب سب قومیں اپنی اپنی جگہ یہ مجھی بیٹھی تھیں اُس وقت رسول کریم نے یہ اعلان فرمایا کہ ساری دنیا کے لئے ہدایت پانے کا رستہ خدا تعالیٰ نے کھلا رکھا ہے.چنانچہ اپنے مشن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر آپ نے اعلان فرمایا کہ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعًا 4 یہ نہیں کہ ہدایت کا دروازه صرف عربوں کے لئے کھلا ہے باقی اقوام کے لئے نہیں.مجھے خدا نے رسول بنا کر ساری دنیا کے لئے بھیجا ہے اور سب اقوام ہدایت پاسکتی ہیں.اب غور کرو جب یہ خیال پیدا کیا جائے گا کہ سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے تو سب کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ جاگزیں ہو جائے گا.لیکن اگر یہ خیال پیدا کیا جائے کہ صرف عربوں کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے ہندوستانیوں کے لئے یا ایرانیوں کے لئے یا چینیوں کے لئے نہیں تو پھر یہ خیال پیدا ہوگا کہ ان کا خدا کوئی اور ہے، وہ خدا نہیں جو عربوں کا ہے.پس عالمگیر مذہب پیش کرنے سے توحید کا بہت بڑا خیال پیدا ہو جاتا ہے اور یہی خیال رسول کریم ﷺ نے آ کر پیدا کیا ہے.آپ نے اعلان فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.کسی قوم کا انسان ہو وہ میرے ذریعہ ہدایت پا سکتا ہے، روحانی مدارج طے کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.اس طرح آپ نے قومی خدا کا خیال مٹا دیا اور اس کی بجائے عالمگیر خدا پیش کیا جس سے اصل تو حید قائم ہوئی.چنانچہ آپ کی بعثت کے بعد تمام دنیا کے

Page 191

سيرة النبي علي 181 جلد 3 الله ادیان میں پھر تو حید کی طرف رغبت پیدا ہوگئی اور پیدا ہوتی چلی جارہی ہے.یہ تو مذہبی نقطہ نگاہ تھا.ان دو اصول کے ساتھ رسول کریم ﷺ نے تو حید کے مسئلہ کو مضبوط کیا.یوں کہنے سے کہ خدا ایک ہے لوگ نہ مان سکتے تھے جب تک ان کے دماغ میں ایسے احساسات نہ پیدا کئے جاتے کہ خدا تعالیٰ سب کا ہے اور سب کے لئے اس کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے.رسول کریم علیہ نے یہ بھی احساس پیدا کئے.یہ تو مذہبی نقطہ نگاہ تھا.ایک دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی رسول کریم ﷺ نے اس مسئلہ کو پیش فرمایا ہے.اور وہ اس طرح کہ کمپیریٹو ریلیجن (Comparative Religion) (یہ ایک نیا علم نکلا ہے کہ سب مذاہب کے اصول کو جمع کر دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مذاہب میں کتنی باتیں مشترک ہیں.مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ سب مذاہب میں خدا کا خیال مشترک ہے ) والوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ مذہب میں بھی اسی طرح ارتقا ہوتا چلا آیا ہے جس طرح دنیا میں.وہ کہتے ہیں ہر چیز میں آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے.مذہب نے بھی آہستہ آہستہ ترقی کی ہے.جسے وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پہلے انسان خدا کو نہ مانتے تھے بلکہ عناصر کی پرستش کرتے تھے اور عناصر کو خدا کاظل قرار دیتے تھے.جب انسانوں نے ترقی کی تو عناصر کی بجائے ارواح کو خدا کاظل ماننے لگے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے ایک خدا کے خیال پر قائم ہوئے.اسی لئے وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو نہیں منوایا بلکہ دنیا نے آہستہ آہستہ خدا کا کھوج نکال لیا.یہ ان میں سے ان لوگوں کا قول ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں.وہ کہتے ہیں جس طرح مٹی کا تیل انسانوں نے کوشش کرتے کرتے نکال لیا وہ خود بخود نہ نکلا تھا اسی طرح خدا تو موجود تھا مگر کسی کو معلوم نہ تھا.آخر ترقی کرتے کرتے اس کا پتہ لگا لیا گیا ، وہ خود ظاہر نہ ہوا.لیکن جو خدا تعالیٰ کے قائل ہی نہیں وہ کہتے ہیں خدا کوئی نہیں.دنیا نے اپنی عقل سے ایک نقشہ تجویز کر لیا ہے جسے خدا کہا جاتا ہے.اس خیال کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ کسی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو سکتا ہے.ان.

Page 192

سيرة النبي عمال 182 جلد 3 کے نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے تو حید کے متعلق عظیم الشان تغیر پیدا کیا ہے.کیونکہ ارتقا کے مسئلہ کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ دنیا نے آہستہ آہستہ ترقی کی لیکن توحید کے متعلق ساری ترقی آپ کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھی.آپ نے توحید کی جو تشریح فرمائی اس کے بعد کوئی نئی تشریح آپ کے زمانہ میں یا آپ کے بعد نہیں نکلی.اس لئے ماننا پڑے گا کہ خیال انسانی کا ارتقا آپ کی ذات میں آ کر مکمل ہوا اور دنیا کے لئے آپ ہی مقصد اعظم تھے.جب آپ مبعوث ہو گئے تو پھر تو حید مکمل ہو گئی اور آپ نے توحید کی وہ تشریح پیش کر دی کہ اس کے بعد کسی اور تشریح کی ضرورت نہ رہی.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ع سے پہلے جتنے رشی، منی اور رسول گزرے انہوں نے توحید کو ناقص طور پر پیش کیا کیونکہ تو حید کو ناقص رنگ میں پیش کرنے والا نبی ہی نہیں ہو سکتا.جو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی ہو کر آیا اس نے مکمل تو حید پیش کی.مگر اپنے زمانہ کے لحاظ سے مکمل پیش کی.اگر مسئلہ ارتقا کو تسلیم کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ رسول کریم عملے کے وقت تو حید کا نقطہ کمال کو پہنچ گیا اور ہمیشہ کے لئے مکمل ہو گیا.صلى الله علمی لحاظ سے مسئلہ تو حید کی اہمیت اب میں علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت پیش کرتا ہوں :.اول: علم سائنس میں بغیر توحید کے ترقی نہیں ہوسکتی.سائنس اس قانون کی دریافت کا نام ہے جو دنیا میں جاری ہے.مثلاً یہ کہ آگ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے.غرض خواص اشیاء جو ایک مقررہ رنگ میں چلتے ہیں ان کا دریافت کرنا سائنس ہے.اب اگر آگ کسی اور خدا نے پیدا کی ہو درخت کسی اور خدا نے ، پہاڑ کسی اور نے ، تو یہ چیزیں آپس میں موافقت نہیں رکھیں گی بلکہ ایک دوسری سے ٹکراتی رہیں گی.لیکن جب یہ تسلیم کیا جائے کہ پر میشور ایک ہی ہے اور سب چیزیں اسی کے ماتحت

Page 193

سيرة النبي عليه 183 جلد 3 ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ سب کے لئے ایک ہی قانون جاری ہے.اور یہ بغیر ایک خدا کے ہو نہیں سکتا.اگر دنیا کی تمام اشیاء کے لئے ایک ہی ہستی قانون جاری کرنے والی نہیں تو پھر سائنس باطل ہے.اب پانی میں بجھانے اور آگ میں جلانے کی خاصیت ہے.اگر آگ پیدا کرنے والا خدا اور ہو اور پانی پیدا کرنے والا اور ، اور وہ اپنی اپنی پیدا کردہ چیزوں کی خاصیتیں بدل دیں تو کیا کام چل سکتا ہے؟ مثلاً ایک خدا نے مگنیشیا اس لئے بنایا کہ جلاب لگائے اور دوسرے خدا نے معدہ ایسا بنایا کہ مگنیشیا کے اثر کو قبول کر لے.لیکن اگر وہ معدہ کی اس خاصیت کو بدل دے تو پھر خواہ کوئی کتنا مکنیشیا پیٹے جلاب ہی نہ لگیں گے.غرض بغیر تو حید ماننے کے سائنس چل ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی دنیا میں ترقی ہو سکتی ہے.دوم: بغیر تو حید کے علم کی تحقیق کی جرات بھی کسی کو نہیں ہو سکتی.کیونکہ اگر یہ سمجھا جائے کہ اور چیزوں میں بھی خدائی طاقتیں ہیں تو ان کی تحقیقات کرنے کی کیونکر جرات کی جائے گی.مثلاً جو شخص کسی چیز کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ بھی رب ہے، اسے چیر نے پھاڑنے کے لئے کس طرح تیار ہو سکے گا.لیکن جب یہ عقیدہ ہو کہ ایک ہی خدا ہے جس نے باقی سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو پھر انسان ان اشیاء کی تحقیقات کریں گے اور اس طرح علوم میں ترقی ہو گی.چنانچہ رسول کریم ﷺے کے توحید پر زور دینے کے بعد علوم میں اس قدر ترقی ہوئی جس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ملتی.رسول کریم ﷺ کے زمانہ سے لے کر 1300 سال کے اندر اندر علوم نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جو پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوئی.یہ تو حید کی وجہ سے ہی علوم نے ترقی کی.جب لوگوں نے یہ سمجھا کہ تمام چیزوں کا ایک ہی خدا ہے اور اس نے سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو اس سے علوم میں ترقی کرنے کے دروازے کھل گئے.ہر چیز کے متعلق تحقیقات شروع ہو گئی.ان پہلوؤں کے علاوہ جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے رسول کریم ﷺ نے اور

Page 194

سيرة النبي عمال 184 جلد 3 طرح بھی تو حید کو قائم کیا ہے.یعنی اصولی طور پر تو حید کی تعلیم دی ہے.آپ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ تو حید کو مان لو بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح مانو.اسی طرح آپ نے یہی نہیں فرمایا کہ شرک نہ کرو بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ کس طرح شرک نہ کرو اور کس طرح اس سے بچو.پھر آپ نے صرف یہ نہیں کہا کہ تو حید کو مان لو بلکہ تو حید کے دلائل دے کر کہا ہے کہ اسے مانو.اسی طرح آپ نے صرف یہی نہیں کہا کہ شرک نہ کرو بلکہ دلائل دے کر شرک کی برائی سمجھائی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں شرک کے متعلق آتا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ - وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدُ 5 - اس میں چار اقسام کا شرک پیش کر کے اس کا رد کیا گیا ہے.فرما یا شرک چار طرح کیا جا سکتا ہے.اول شرک احدیت کے لحاظ سے کہ خدا کی ذات ایسی کوئی اور ذات قرار دی جائے.یہ درست نہیں کیونکہ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللہ ایک ہی ہے، کوئی اس کا ہم پایہ نہیں.دوم یہ کہ صفات کے لحاظ سے خدا کا شریک مقرر کیا جائے.یہ بھی نادرست ہے کیونکہ اللهُ الصَّمَدُ صد وہ ہے جس کی مدد کے بغیر کوئی چیز قائم نہ رہ سکے.اللہ تعالیٰ کا سہارا اس کی صفات کے ذریعہ ہی ہوتا ہے.اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خیال کرنا شرک ہے کہ کوئی اور ہستیاں بھی ہیں جن کی مدد کے بغیر کوئی چیز زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی یا کوئی کام نہیں ہوسکتا.سوم یہ کہ کوئی خیال کرے خدا ایک زمانہ میں تھا مگر پھر فوت ہو گیا اور آگے اس کی اولا د چل پڑی یہ بھی شرک ہے.اس سے خدا تعالیٰ میں یہ نقص ماننا پڑتا ہے کہ وہ فنا ہو جاتا ہے.یہ ازلیت کے لحاظ سے شرک ہے..چہارم یہ کہ کسی کو خدا کا ہمسر مانا بھی شرک ہے.یعنی یہ کہ کسی دوسرے کو خدا نے اپنی طاقتیں دے دیں اور وہ اس طرح خدا کے برابر ہو گیا.یہ بھی شرک ہے.یہ چار اقسام شرک کی ہیں.دنیا کے سارے شرک ان کے اندر آ جاتے ہیں.

Page 195

سيرة النبي عمال 185 جلد 3 ج.پھر توحید کے متعلق فرمایا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سَنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَئُ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ عَلى عَظِيمُ ) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ وہ اپنی ذات میں زندہ ہے اور دوسروں کو زندہ رکھتا ہے لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ پھر اس کے کاموں میں وقفہ نہیں پڑتا.اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے کاموں میں وقفہ پڑ جاتا ہے تو وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے.کیونکہ وقفہ ماننے کا یہ مطلب ہوا کہ اگر خدا کا تعلق دنیا سے نہ رہے تو بھی دنیا اپنے آپ چل سکتی ہے.تو فرمایا لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ کہ اسے نیند یا اونگھ کبھی نہیں آئی.لَهُ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ہر ایک چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے.انسان کو چاہیئے ہر چیز کے متعلق یہی سمجھے کہ اس کا اصل مالک خدا ہی ہے اور کسی کا اختیار اس پر نہیں ہے.مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ پھر یہ بھی تسلیم کرے کہ بے شک دعائیں قبول کرنے کا سلسلہ خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ہے مگر یہ خیال نہ کرے کہ کوئی خدا سے کوئی بات زور سے منوا سکتا ہے.خدا خود کسی امر کے متعلق اجازت دے کہ لواب مانگو تو انسان مانگ سکتا ہے ورنہ نہیں.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وہ جانتا ہے جو ہو چکا یا جو ہوگا.تو حید کے لئے علم کامل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ علم کامل کے بغیر تصرف کامل نہیں ہوسکتا.پس خدا تعالیٰ کے متعلق علم کامل کا ماننا ضروری ہے.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ اور کوئی انسان خدا کے دیئے ہوئے علم کے بغیر کچھ نہیں حاصل کر سکتا.پس انسان سمجھے جو کچھ اسے حاصل ہونا ہے خدا ہی سے حاصل ہوتا ہے.آگے فرمایا وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ اس کی کرسی ساری زمین اور آسمانوں پر چھا گئی.کرسی وہ مقام ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے.مطلب یہ کہ ہر ذرہ جو حرکت کرتا

Page 196

سيرة النبي عمال 186 جلد 3 ہے خدا کے تصرف کے ماتحت کرتا ہے اس کے مانے بغیر بھی تو حید کامل نہیں ہوسکتی.آگے فرمایا وَلَا يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وہ جو حفاظت کر رہا ہے اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا، ہمیشہ جاری رہے گی.وَهُوَ الْعَلِيُّ باوجود اس کے کہ ہر ذرہ ذرہ سے اس کی قدرت ظاہر ہو رہی ہے، وہ اتنا بلند ہے کہ کوئی خود بخود اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتا.الْعَظِیمُ مگر وہ بلندی پر ہی نہیں کہ کوئی اس کی کنہ تک نہ پہنچ سکے بلکہ وہ عظیم بھی ہے.قدرتوں کے ظہور سے اتنا روشن ہے کہ ہر شخص جو کوشش کرے اسے پا سکتا ہے.ہر شخص بڑی جلدی اس تک پہنچ سکتا اور اس کا وصل حاصل کر سکتا ہے.پس بتایا کہ توحید کامل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے کامل اتحاد اور وصال ہو جائے.جب کوئی خدا کو پالے اُس وقت اسے توحید کامل حاصل ہوگئی.گو یا اتصال کا نام ہی تو حید ہے.یہ وہ تو حید ہے جو رسول کریم علیہ نے پیش کی ہے کہ اسی دنیا میں خدا سے صلى الله ایسا وصل ہو جائے کہ انسان کا اپنا وجود مٹ جائے اور خدا ہی خدا باقی رہے.تو حید کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کو ایک بتانا اور ایک قرار دینا.یعنی اپنی زبان کے اقرار کے علاوہ اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنا کہ خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں.اگر خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسان کی مرضی مطابقت نہیں رکھتی ، اگر خدا تعالیٰ کے ارادوں سے انسان کے ارادے نہیں ملتے تو وہ توحید کا سچا اقرار نہیں کرتا.اصل توحید یہ ہے کہ الله انسان اپنے وجود کو مٹا کر دکھاوے کہ خدا تعالیٰ ہی کی مرضی دنیا میں چلتی ہے.پھر رسول کریم ﷺ نے دلائل سے شرک کا رد فر مایا ہے.آپ نے شرک کے رد میں ایک دلیل یہ دی کہ کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو.ہر ایک چیز دوسری کی محتاج ہے.آسمان سے پانی برستا ہے اس کا تعلق سورج سے ہے.گرمی پانی کو بخارات بنا کر اڑاتی ہے اور اس طرح بادل بنتے ہیں.پھر اس سے زمین کی گردش کا تعلق ہے.اسی طرح ہر چیز کا ایک سلسلہ چلتا ہے.دہلی میں ایک بزرگ گزرے ہیں ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک شاگرد سے پوچھا

Page 197

سيرة النبي علي 187 جلد 3 میاں ! تمہیں لڈو کھانا آتا ہے؟ اس نے کہا یہ کونسی مشکل بات ہے.لڈو اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا.انہوں نے فرمایا نہیں یہ کھانے کا طریق نہیں، کسی دن لڈو آئے تو تمہیں بتائیں گے کس طرح کھانا چاہئے.ایک دن کسی نے لڈو لا کر پیش کئے تو انہوں نے شاگرد کو بلا کر پاس بٹھا لیا اور ایک لڈو اٹھا کر رومال پر رکھ لیا.اس سے ایک تھوڑا سا ٹکڑا تو ڑا اور کہنا شروع کیا میاں غلام علی ! ( یہ ان کے شاگرد کا نام تھا) تمہیں پتہ ہے اس لڈو کی تیاری کیلئے خدا تعالیٰ نے کتنے سامان پیدا کئے ؟ اس میں تھی پڑا، میٹھا پڑا، میدہ پڑا اور کتنی چیزیں پڑیں.پھر ان چیزوں کی تیاری میں کتنے سامان کئے گئے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھائے.آگے ان کی تشریح کرنی شروع کر دی.ساتھ ساتھ ہر بات پر محویت میں سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ کہتے جاتے تھے.اس میں ظہر سے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا اور اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے.غرض کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو خود بخود بغیر کسی دوسری چیز کے سہارے کے قائم ہو.ہر ایک کا ایک سلسلہ چلتا ہے.ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے بیسیوں سامان پہلے سے موجود ہوتے ہیں.اگر بچہ پیدا کرنے والا کوئی اور خدا ہو اور اس کی ضروریات پیدا کرنے والا کوئی اور تو پھر بچہ کے لئے اس کی ضروریات کا کس طرح انتظام ہوتا.بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے اس کی ضروریات کا انتظام موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے جو بچہ کو پیدا کرنے والا اور اس کے لئے انتظام کرنے والا ہے.اسی طرح سب جگہ ایک ہی انتظام اور ایک ہی قانون جاری ہے جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے.اور بھی بیسیوں دلائل ہیں لیکن انہیں میں اس وقت چھوڑتا ہوں.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے توحید کی اشاعت کے لئے کیا کیا.اس کے لئے بھی صرف ایک بات پیش کرتا ہوں.آپ سے لوگوں کی ساری دشمنی تو حید ہی کے پھیلانے کی وجہ سے تھی.ایک دفعہ کفار نے آپ کو کہلا بھیجا اگر مال

Page 198

يرة النبي علي 188 جلد 3 چاہتے ہو تو ہم تمہیں مال جمع کر دیتے ہیں، اگر حکومت چاہتے ہو تو تمہیں اپنا حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں، اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو سارے عرب میں سے خوبصورت عورت پیش کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر دماغ خراب ہو گیا ہے تو اس کا علاج کرنے کے لئے بھی تیار ہیں مگر تم ہمارے بتوں کے خلاف کچھ نہ کہو.جب یہ پیغام ایک رئیس نے آپ کو پہنچایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ میری بے نفس خدمت کی ان لوگوں نے کیا قیمت ڈالی ہے اور جواب میں فرمایا اگر سورج کو میرے دائیں رکھ دو اور چاند کو بائیں اور کہو تو حید چھوڑ دوں تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا.پیغام لانے والا آپ کا بڑا سخت دشمن تھا مگر آپ کا جواب سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے جو باتیں اس کے منہ سے سنی ہیں ان کی وجہ سے کہتا ہوں اس کی مخالفت چھوڑ دوور نہ تباہ ہو جاؤ گے.غرض آپ کو دشمنوں کی طرف سے تمام تکلیفیں توحید کی اشاعت کی وجہ سے دی گئیں.آپ کو مارا جاتا ، کتے اور لڑکے آپ کے پیچھے ڈالے جاتے.ایک دفعہ آپ طائف گئے تو وہاں کے لوگوں نے اس قدر مارا کہ آپ سر سے لے کر پاؤں تک لہولہان ہو گئے.آپ تکلیف کی وجہ سے گر پڑتے لیکن جب اٹھتے تو وہ لوگ پھر آپ پر پتھر پھینکتے.ایسی حالت میں بھی آپ کے منہ سے یہی نکلتا خدایا ! ان لوگوں کو معاف کر دے کہ یہ حقیقت سے بے خبر ہیں.ان تمام حالات میں سے گزرتے ہوئے آپ نے توحید کی تبلیغ کو نہیں چھوڑا اور یہی کہتے رہے کہ خواہ یہ کچھ کریں میں توحید کی تبلیغ نہیں چھوڑ سکتا.پھر جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس وقت بھی یہی کہتے فوت ہوئے.میرے بعد شرک نہ کرنا.اور میں تو سمجھتا ہوں رسول کریم ع کی پیدائش کے وقت بھی خدا تعالیٰ نے اپنی توحید کا ثبوت آپ کے والد کو قبل از ولادت اور والدہ کو جلد بعد از ولادت فوت کر کے دیا.آپ کی بے کسی کی ابتدا اور شاندار انجام خود خدا تعالیٰ کی توحید کا بڑا ثبوت تھا.

Page 199

سيرة النبي علي 189 جلد 3 اب میں مضمون کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قوموں سے کیا سلوک کیا اور ان کے متعلق کیا تعلیم دی.رسول کریم ہے نے نہایت واضح طور پر یہ تعلیم دی ہے کہ کسی کی خوبی کا انکار نہیں کرنا چاہئے اور یہ بھی کہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں جن کا انکار کرنا ظلم ہے.چنانچہ قرآن میں آتا ہے وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرُى عَلَى شَيْ وَقَالَتِ النَّصْرِى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الكتب 7 فرمایا کیسے ظلم کی بات ہے، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں اور یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں حالانکہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں.کیا اس میں کوئی بھی خوبی نہیں.تو رسول کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ دوسروں کی خوبی کو تسلیم کرنا چاہئے.جو شخص کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں کوئی خوبی نہیں وہ غلطی کرتا ہے.رسول کریم ﷺ نے یہ ایسی اعلیٰ تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ تمام اقوام کے دل رکھ لئے ہیں.کسی کے مذہب کے متعلق یہ کہنا کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں اس مذہب کے پیروؤں کے لئے الله بہت تکلیف دہ بات ہے.اس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ہر قوم کی خوبی تسلیم کرو.اس طرح آپ نے تمام قوموں پر بہت بڑا احسان کیا ہے.دوم :.آپ نے فرمایا کسی مذہب کے افراد کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ اپنے مذہب کو فریب سے مانتے ہیں.باوجود اس کے کہ پہلے مذاہب بگڑ چکے ہیں تاہم ان کے ماننے والوں میں سے اکثر انہیں دل سے سچا سمجھتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں بعض یہود اور نصاریٰ کی تعریف آئی ہے.یہودیوں کے متعلق آتا ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر انہیں پہاڑ کے برابر بھی سونا دے دو تو وہ اس میں خیانت نہ کریں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں ایسے لوگ تھے جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے تھے.آج کل مسلمانوں میں بھی یہ نقص پیدا ہو گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دیگر مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذاہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور باوجود اس کے ان کو نہیں

Page 200

سيرة النبي متر 190 جلد 3 چھوڑتے.حالانکہ ہندوؤں ، عیسائیوں، یہودیوں میں سے 99 فیصدی ایسے ہیں جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ ان میں ایسے لوگ ہیں جو خدا کا ذکر سن کر رونے لگ جاتے ہیں، خشیت سے ان کے دل بھر جاتے ہیں.کیا ایسے لوگ اپنے مذہب کو فریب سے ماننے والے ہو سکتے ہیں؟ یہ تعلیم دے کر رسول کریم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کے احساسات کا ادب اور احترام کرنا سکھایا ہے.تیسری تعلیم رسول کریم ﷺ نے یہ دی ہے کہ آپ نے حکم دیا سب قوموں کے متعلق تسلیم کرو کہ ان میں انبیاء آئے.اس بات پر اجمالی طور پر ایمان لاؤ کہ سب اقوام میں نبی آئے.اس طرح آپ نے انٹرنیشنل لاء(International Law ) کو مذہب میں جاری کر دیا.گزشتہ جنگ کے دوران میں روس کی حکومت میں تبدیلی ہو گئی جس پر باقی حکومتیں اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتیں.روسی اس کے لئے منتیں کرتے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی.بعض لوگ کہیں گے دوسری حکومتوں کے تسلیم کر لینے سے کیا فائدہ ہوتا ہے کہ روسی اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں.بات یہ ہے اس میں بہت بڑے فائدے ہوتے ہیں.جس حکومت کو دوسری حکومتیں تسلیم کر لیں اسے بین الاقوامی قانون کے فوائد حاصل ہونے لگ جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے تمام مذاہب کے حقوق کو تسلیم کیا اور یہ قرار دیا کہ سب مذاہب خدا کی طرف سے ہیں.ان مذاہب کی غلط باتوں سے اختلاف بھی کیا، ان کا مقابلہ بھی کیا مگر ان کے ماننے والوں کے احساسات کا احترام کیا اور ان کے حقوق قائم کئے.یہ بہت بڑا حق تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو دیا.چوتھی تعلیم آپ نے یہ دی کہ جب کسی قسم کی بحث ہو تو گالیوں پر نہ اتر آؤ.چنانچہ آتا ہے لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ 8 جب دوسری قوموں سے جھگڑا ہو تو وہ ہستیاں جنہیں تم نہیں مانتے ، خواہ

Page 201

سيرة النبي علي 191 جلد 3 انہیں خدا کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہو انہیں تم برا نہ کہو، ورنہ وہ بھی اس خدا کو گالیاں دیں گے جسے تم مانتے ہو.اس طرح رسول کریم علیہ نے سخت کلامی سے روکا ہے.پانچویں بات آپ نے یہ فرمائی کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہیں کرنا چاہئے.رسول کریم ﷺ سے پہلے سمجھا جاتا تھا جس قوم سے مذہبی اختلاف ہو صلى الله اس پر حملہ کر کے اس کو تباہ کرنے کا حق حاصل ہے.لیکن رسول کریم ﷺ نے اس کے خلاف حکم دیا چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ فرمایا وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا تم جنگ کر سکتے ہومگر انہی سے جو تم پر حملہ آور ہوں.مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کبھی کسی پر حملہ نہ کرنا.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے غیر مسلموں کو حریت ضمیر عطا کی کہ خواہ کسی کا کوئی الله مذہب ہو اس وجہ سے کسی کو حق نہیں کہ اسے مارے یا نقصان پہنچائے.چھٹا سلوک آپ نے یہ کیا کہ تمام دنیا کے لئے ہدایت کا رستہ کھول دیا.پہلے کہا جاتا تھا کہ ہدایت صرف ہماری قوم کے لئے ہے مگر رسول کریم ﷺ نے سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھول دیا اور اپنی قوم اور دوسری قوموں میں کوئی فرق نہیں رکھا.چنانچہ فرمایا إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعَ میں دنیا کی سب اقوام کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں ، سب کو ہدایت کا رستہ دکھا سکتا ہوں.ساتواں حق غیر مسلم اقوام کا یہ قرار دیا کہ فرمایا عہد وہی قائم نہیں رکھنا چاہئے جو اپنی قوم کے اندر ہوا ہو بلکہ خواہ کسی قوم سے عہد ہو اسے قائم رکھنا چاہئے.لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہوتی ہے اور اس غلطی میں وہ مسلمان بھی مبتلا ہو گئے ہیں جو قرآن کریم پر متد بر نہیں کرتے کہ غیروں سے جو عہد ہو اسے توڑ دینا کوئی حرج کی بات نہیں ہے.مگر رسول کریم ﷺ نے اس کے خلاف حکم دیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَإِمَّا تَخَافَنَ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء 10 کہ اگر کوئی قوم عہد توڑ دے تو اسے بتا دینا چاہئے کہ تم نے عہد توڑ دیا ہے اب ہم پر بھی عہد کی

Page 202

سيرة النبي عمال صل الله 192 جلد 3 پابندی نہیں، یونہی اس پر حملہ نہیں کر دینا چاہئے.چنانچہ ابوسفیان جب مکہ سے آیا اور آ کر اس نے کہا اب میں نئے سرے سے عہد کرتا ہوں تو اس موقع پر اگر رسول کریم خاموش رہتے تو اچانک حملہ کر سکتے تھے مگر آپ نے فرمایا ابوسفیان ! تم نے یہ اعلان کیا ہے میں نے نہیں کیا اور اس طرح بتا دیا کہ ہم حملہ کریں گے.اس کے مقابلہ میں آج کل کیا ہوتا ہے؟ یہ کہ جب کسی پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو اس قسم کے اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں.پیچھے اٹلی نے جب ترکی پر حملہ کیا تو اس حملہ سے تین دن قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے آج کل ایسے اچھے تعلقات ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے.یہ اس لئے تھا تا کہ تر کی بالکل غافل رہے.مگر ابوسفیان نے جب اعلان کیا اُس وقت رسول کریم علی خاموش رہتے تو آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوتی تھی.مگر آپ خاموش نہ رہے اور فرما دیا یہ تمہارا اعلان ہے ، ہمارا نہیں.اس طرح ان کو بتا دیا کہ ہم حملہ کریں گے.آٹھویں آپ نے یہ تعلیم دی کہ مسلم اور غیر مسلم کے تمدنی حقوق ایک قرار دیئے.یہ بات صرف رسول کریم ﷺ نے قائم کی جو آپ سے پہلے نہ تھی.یہودیوں کو یہ حکم تھا کہ تم اپنے بھائیوں یعنی یہودیوں سے سود نہ لو دوسروں سے لے لیا کرو.مگر رسول کریم علیہ نے فرمایا سود نہ یہودیوں سے لو، نہ عیسائیوں سے، نہ مسلمانوں سے، غرض کسی سے بھی سود نہ لو.سب سے ایک سلوک کرنے کا حکم دیا.اس طرح الله رسول کریم ﷺ نے تمدنی سلوک کے بارے میں مسلم اور غیر مسلم کو ایک قرار دیا.نویں تعلیم یہ دی کہ غلاموں کی آزادی میں بھی مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں رکھا.کہا جائے گا قرآن میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا حکم آتا ہے.مگر یہ حکم اسی موقع کے لئے ہے جہاں مسلمانوں کو نقصان اور صدمہ پہنچا ہو ورنہ عام طور پر سب غلاموں کی آزادی کا آپ نے حکم دیا.جنگ حنین کے موقع پر سینکڑوں غلام جو پکڑے آئے باوجود اس کے کہ وہ دشمن تھے انہیں آپ نے آزاد کر دیا.

Page 203

سيرة النبي علي 193 جلد 3 دسویں تعلیم غیر مسلموں کے متعلق آپ نے یہ دی کہ جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں مسلمانوں پر زیادہ بوجھ رکھا جائے اور دوسروں پر کم.(1) مسلمان لڑائی میں شامل ہوں.(2) عشر یعنی دسواں حصہ پیداوار کا دیں.(3 ) زکوۃ دیں.یعنی جمع مال کا حصہ دیں.یہ خدمات مسلمانوں کے لئے رکھی گئیں اور غیر مسلموں کے لئے اڑھائی روپیہ کے قریب فی کس ٹیکس رکھا جو مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے.اور پھر اسی وجہ سے مسلمانوں پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری رکھی گئی ہے.آج کل یورپ میں دس دس روپیہ فی کس ٹیکس لگا ہوا ہے اور بعض ممالک میں اس سے بھی زیادہ ہے.مگر رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کے لئے زیادہ ٹیکس رکھا اور جنگی خدمات بھی ان کا فرض قرار دیا.لیکن دوسروں کے لئے ٹیکس بھی کم رکھا اور جنگی خدمات سے بھی آزاد کر دیا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم علیہ نے غیر مذاہب کے انسانوں کے متعلق اپنا عمل کیا رکھا.اس کے لئے دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے.الله صلى پہلی مثال یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے غیر قوم کے نیک انسانوں کا عملاً احترام کیا.لکھا ہے طی قوم سے جب جنگ ہوئی تو کچھ مشرک بطور قیدی پکڑے آئے.ان میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی.اس نے رسول کریم ﷺ سے کہا آپ جانتے ہیں میں کس کی بیٹی ہوں.آپ نے فرمایا کس کی بیٹی ہو؟ اس نے کہا میں اس شخص کی بیٹی ہوں جو مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آیا کرتا تھا یعنی حاتم کی.وہ مسلمان نہ تھا لیکن چونکہ لوگوں سے اچھا سلوک کرتا تھا اس لئے اس کی وجہ سے اس کی بیٹی کو رسول کریم علیہ نے آزاد کر دیا.اس کا بھائی گرفتاری کے خوف سے بھاگا پھرتا تھا.آپ نے اُسی وقت اسے روپیہ اور سواری دے کر کہا جا کر بھائی کو لے آؤ.وہ گئی اور اسے لے آئی.اس پر اس سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا.اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے عملی طور پر غیر مذاہب کے لوگوں کی

Page 204

سيرة النبي مله 194 جلد 3 خوبیوں کا اعتراف کیا اور اس وجہ سے اچھا سلوک کیا.دوسری مثال نصاریٰ نجران کا واقعہ پیش کرتا ہوں.نجران کے نصاری صلى الله رسول کریم ہے سے بحث کے لئے آئے.انہوں نے ایسے رنگ میں بحث کی کہ تاریخوں میں آتا ہے بے ادبی سے گفتگو کرتے رہے.جب گفتگو کرتے کرتے اٹھ کر اس لئے جانے لگے کہ ان کی نماز کا وقت آ گیا تھا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہیں نماز ادا کر لو.چنانچہ انہوں نے مسجد میں ہی اپنی صلیبیں نکالیں اور انہیں سامنے رکھ کر عبادت کر لی 11.آج دیکھو کس طرح مسجدوں اور مندروں کے متعلق لڑائیاں ہوتی ہیں.مگر رسول کریم ﷺ نے عیسائیوں سے کہا کہ مسجد میں اپنے طریق سے عبادت کر لو.رسول کریم علیہ کے اسی اسوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اعلان کیا تھا کہ لندن کی مسجد میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی آزادی کے ساتھ آنے کی اجازت ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس بات کو پیش کر کے کہا یہ مسجد نہیں دھرم سالہ ہے.غرض یہ عملی سلوک ہے غیر اقوام سے رسول کریم ﷺ کا کون کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ لوگوں کی جانیں لینے کے لئے اور ان پر ظلم کرنے کے لئے آئے تھے.جو جانیں لینے کے لئے آیا کرتا ہے کیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مسجد میں صلیبیں پوجنے کی اجازت دے سکتا ہے.اور مسجد بھی وہ جس کے متعلق آپ نے اخِرُ الْمَسَاجِدِ 12 فرمایا اور جس میں نماز پڑھنے پر دیگر مساجد کی نسبت بہت زیادہ ثواب رکھا گیا ہے.اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے نبی کی موجودگی میں اور اس نبی کی موجودگی میں جو خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لئے آیا ، نصاریٰ صلیبیں رکھ کر عبادت کرتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کیا حرج ہے بے شک کر لو.آج بڑے بڑے حوصلہ والوں کی بھی اتنی جرات نہیں کہ اپنی عبادت گاہوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے دیں.تیسری مثال یہ ہے کہ آپ ہمسایوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں اچھا

Page 205

سيرة النبي علي 195 جلد 3 سلوک کرنے کا حکم دیتے اور اس کے متعلق اتنا زور دیتے کہ صحابہ ہر وقت اس کی پابندی یا در رکھتے.لکھا ہے کہ ابن عباس ایک دفعہ گھر میں آئے.انہوں نے دیکھا کہیں سے ان کے ہاں گوشت آیا ہے.انہوں نے گھر والوں سے پوچھا اپنے ہمسائے یہودی کو گوشت بھیجا ہے یا نہیں؟ آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ گھر والوں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا رسول کریم ع سے میں نے سنا ہے جبرائیل نے اتنی دفعہ ہمسایہ کے حق کی تاکید کی کہ میں نے سمجھا اسے وراثت میں شریک کر دیا جائے گا.یہ عملی سلوک تھا رسول کریم ﷺ کا جو آپ نے غیر مذاہب کے لوگوں سے روا رکھا.آپ لوگوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت ابو بکر کے سامنے کسی یہودی نے کہا موسیٰ کی قسم! جسے خدا نے سب نبیوں پر علوم فضیلت دی.اس پر حضرت ابو بکر نے اسے طمانچہ مار دیا.جب یہ معاملہ رسول کریم علی کے پاس آیا تو آپ نے حضرت ابوبکر جیسے انسان کو زجر کی.غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے ، رسول کریم ﷺ پر حضرت موسی کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسے طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابو بکر جیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آ جاتا ہے اور وہ اسے طمانچہ مار بیٹھتا ہے مگر رسول کریم ہے اسے ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کیوں تم نے ایسا کیا.اسے حق ہے جو چاہے عقیدہ رکھے.چوتھی مثال فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور اس نے گوشت میں زہر ملا دیا.جب آپ کے سامنے رکھا گیا تو ایک صحابی بشر نے اس میں سے کھا لیا.مگر آپ کو الہاماً معلوم ہو گیا اس لئے آپ نے لقمہ اٹھا کر پھر رکھ دیا.آپ نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کھانے میں تو زہر ہے.اس نے کہا آپ کو کس نے بتلا دیا.آپ نے ایک ہڈی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس نے.یہودن نے کہا میں نے اس لئے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کے سچے نبی ہیں تو آپ کو یہ بات

Page 206

سيرة النبي عليه 196 جلد 3 معلوم ہو جائے گی.اگر جھوٹے ہیں تو دنیا کو آپ کے وجود سے نجات حاصل ہو جائے گی.آپ نے یہ سن کر فرمایا اسے کچھ نہ کہو.حالانکہ وہ صحابی بشر فوت ہو گئے.آپ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا صحابی فوت ہو گیا مگر آپ نے عورت ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا.حالانکہ اس نے آپ کی اور آپ کے مخلص صحابہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس طرح اسلام کو بیخ و بن سے اکھیڑ نا چاہا تھا.یہ کتنا بڑا اسلوک تھا.پانچویں مثال جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو حکم دیتے کسی قوم کی عبادت گاہیں نہ گرائی جائیں.ان کے مذہبی پیشواؤں کو نہ مارا جائے.عورتوں پر اور صلى الله بوڑھوں ، بچوں پر حملہ نہ کیا جائے.رسول کریم علیہ کے زمانہ سے پہلے یہ رواج تھا کہ پادریوں اور صوفیوں کو مار ڈالا جاتا تھا.رسول کریم ﷺ نے اس سے روک دیا.اگر آپ دیگر مذاہب کے ایسے دشمن ہوتے جیسے مخالفین آپ کو قرار دیتے ہیں تو کیا آپ یہ حکم دیتے کہ ان مذاہب کے راہنماؤں کو چھوڑ دیا جائے.آپ تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ان کو مارا جائے.مگر آپ نے فرمایا جو تلوار لے کر حملہ کرتا ہے اسے مارو لیکن جو لوگ مذہبی کاموں میں لگے ہوئے ہوں ان کو نہ مارو.چھٹی مثال دنیا میں طریق ہے کہ جن لوگوں سے جنگ ہوتی ہے ان کے احساسات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور مفتوح اقوام کو ہر طرح دبانے اور ان کے جذبات کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے.انگریزی حکومت بڑی مہذب کہلاتی ہے مگر آج تک لاہور میں لارنس کا مجسمہ ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا ہے جس کے نیچے ہندوستانیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے.قلم کی حکومت چاہتے ہو یا تلوار کی ہر ہندوستانی سمجھتا ہے اس میں اہل ہند کی ہتک کی گئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے اگر تم قلم کی حکومت نہ مانو گے تو تلوار کے زور سے تم پر حکومت کی جائے گی.

Page 207

سيرة النبي عمال 197 جلد 3 ہندوستانیوں نے اس مجسمہ کے ہٹائے جانے کے لئے بڑا زور بھی لگایا مگر گورنمنٹ نے نہیں مانا.رسول کریم علیہ کی شان دیکھئے مکہ والوں نے آپ پر کس قدر ظلم کئے تھے.متواتر 13 سال مکہ والے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کرتے رہے.عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا.رسیوں سے باندھ کر تپتی ریت پر گھسیٹا گیا.بھٹیوں سے کو ئلے نکال کر ان پر مسلمانوں کو لٹایا گیا.پتھریلی زمین پر گھسیٹا گیا.بعض مردوں اور عورتوں کی آنکھیں نکال دی گئیں اور یہاں تک ظلم کئے گئے کہ آخر رسول کریم علیہ کو اپنا پیارا وطن چھوڑنا پڑا.وہاں بھی ان لوگوں نے آپ کو چین نہ لینے دیا.وہاں کے لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا.قیصر اور کسریٰ کی حکومتوں کو اشتعال دلایا.مگر جب ایسی قوم کے خلاف آپ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ چڑھائی کر کے جاتے ہیں تو ابوسفیان آ جاتا ہے، اُس وقت مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے اہل مکہ کے سارے مظالم ایک ایک کر کے آ رہے ہیں، ان کا خون جوش سے ابل رہا اور وہ سمجھ رہے ہیں آج ہم اپنے بھائیوں کے خون کے ایک ایک قطرہ کا بدلہ لیں گے.اُس وقت فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر کہتا ہے آج مکہ والوں کی خیر نہیں ہم ان کے ظلموں کا ان سے بدلہ لیں گے.اس پر ابوسفیان آگے بڑھ کر شکایت کرتا ہے کہ اس شخص نے ہمارا دل دکھایا ہے (کس کا؟ شدید دشمن بالمقابل لشکر کے کمانڈر کا ) رسول کریم ﷺ نے اس پر اس شخص کو بلوایا اور فرمایا آپ کو معزول کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے کفار مکہ کے احساسات کا خیال نہیں رکھا.دیکھوا بھی معلوم نہیں کہ مکہ والے کیا رویہ اختیار کریں گے ، لڑائی کا کیا نتیجہ رونما ہو گا مگر مکہ والوں کے ایک سردار کے یہ کہنے پر کہ فلاں افسر نے ہمارا دل دکھایا ہے ایک کمانڈر کو معزول کر دیا جاتا ہے.کیا دنیا کی تمام جنگوں کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دکھائی جا سکتی ہے؟ کمانڈر چھوڑ نائیک (Naik) اور لانس نائیک (Lance Naik) کی مثال بھی نہیں دکھائی جا سکتی کہ اسے اس لئے سزا دی گئی ہو کہ اس نے میدان جنگ

Page 208

سيرة النبي م 198 جلد 3 میں کھڑے ہو کر کہا ہو آج ہم دشمن کی خوب خبر لیں گے اور اسے پوری پوری شکست دیں گے.اب میں اپنی تقریر ایک واقعہ کا ذکر کر کے ختم کرتا ہوں.مخالفوں کی طاقت کو کچلنے کا آخری موقع فتح مکہ تھا.مگر دیکھو کس محبت اور پیار کا معاملہ آپ نے ان لوگوں سے کیا.مغربی تاریخوں میں ایک مشہور شخص ابراہیم لنکن ہوا ہے.اس کے زمانہ میں دو گروہوں میں لڑائی ہوئی.ایک کہتا کہ غلامی قائم رہنی چاہئے مگر دوسرا گروہ اسے ظلم قرار دے کر مٹانا چاہتا.ابراہیم لنکن مٹانے والوں میں سے تھا.اس کی بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب دوسرے فریق کو شکست ہوئی اور اسے فتح تو وہ سر نیچے کئے ہوئے گیا.کہتے ہیں وہ دعا کر رہا تھا کہ فیصلہ ہو گیا.فوجوں نے اسے کہا کہ بینڈ بجاتے ہوئے جانا چاہئے مگر اس نے کہا نہیں اس طرح دوسروں کا دل دکھے گا.یہ اس کی خاص خوبی بیان کی جاتی ہے.مگر وہ ایسا شخص تھا جسے ان لوگوں نے کوئی ذاتی دکھ نہ الله دیا تھا.لیکن رسول کریم ﷺ جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو ان لوگوں کی غداری کی وجہ.سے حملہ آور ہوئے تھے اور ان دشمنوں پر حملہ کرنے گئے تھے جنہوں نے قریباً ربع صدی تک مسلمانوں پر ظلم کئے تھے.جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بے حد دکھ دیئے تھے.مگر جب مکہ کے قریب پہنچے تو سب کمانڈروں کو جمع کیا اور فرمایا جب تم مکہ میں داخل ہو گے میں ساتھ نہ ہوں گا تم نے کسی کو مارنا نہیں.اور جب مکہ نظر آیا اور آپ نے مخالفوں کی طرف سے لڑائی کے سامان نہ دیکھے تو سجدہ میں گر گئے.کہا گیا ہے که لینکن دعا کرتا ہوا گیا تھا مگر اس کی اور رسول کریم ﷺ کی ایک حالت نہ تھی.جو دکھ اہل مکہ نے آپ کو دیئے تھے ان کا لاکھواں حصہ بھی لنکن کو نہ دیا گیا تھا.مگر آپ نے قوم کو خونریزی سے بچالیا.مسلمانوں کے چارلشکر گئے مگر آپ کسی لشکر کے ساتھ نہ گئے بلکہ اکیلے گئے تاکہ شان نہ ظاہر ہو.اور جا کر کعبہ میں نماز پڑھی اور اعلان کر دیا کہ جو شخص گھر میں بیٹھا رہے گا اسے معاف کیا جاتا ہے.اس کے بعد مکہ کے لوگ آپ کے پاس

Page 209

سيرة النبي الله 199 جلد 3 آئے.وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ اپنے مذہب پر قائم تھے اور وہ لوگ تھے جنہوں نے 13 سال کے ہر منٹ میں آپ کو مارنے کی کوشش کی تھی.اور اس کے بعد سات سال تک دوسو میل دور جا کر آپ کی تباہی کی کوشش کرتے رہے تھے.ان سے پوچھا جاتا ہے بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے ؟ اگر ان کے جسموں کا قیمہ بھی کر دیا جاتا تو یہ ان کے جرموں کے مقابلہ میں کافی سزا نہ تھی.مگر جب انہوں نے کہا ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 13 جاؤ تمہیں معاف کیا جاتا ہے اور کوئی گرفت نہیں کی جاتی.یہ وہ خاتمہ ہے جو اس جنگ کا ہوا جو آپ کے قدیمی دشمنوں اور آپ کے درمیان ہوئی.وہ لوگ جو کہتے ہیں اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا وہ سن لیں اگر کوئی شخص یہ کہلانے صلى الله کا مستحق ہے کہ اس نے تلوار کے مقابلہ میں عفو سے کام لیا تو وہ محمد ﷺ ہی ہے.اگر عمر بھر کے ظلموں اور دکھوں کو کسی نے بخش دیا تو وہ محمد ﷺ ہی کی ذات تھی.میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے مقدس وجود پر کوئی اعتراض کرنے کی بجائے اس کے مخالف بھی اس کی تقدیس کریں گے.اب آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ آپس کا تفرقہ دور ہو اور آپس میں ایسی صلح کریں کہ ایک دوسرے کے حقوق نہ لیں بلکہ بھائی بھائی بن کر اور ایک دوسرے کے حقوق دیتے ہوئے صلح کریں.“ 66 1: فاطر: 25 2، 3: النحل : 37 4: الاعراف: 159 5: الاخلاص : 2 تا 5 6: البقرة: 256 7: البقرة: 114 الفضل 5، 7، 8 دسمبر 1944ء)

Page 210

سيرة النبي علي 8: الانعام: 109 9: البقرة: 191 10 : الانفال : 59 200 جلد 3 :11: زرقانی مؤلفہ علامہ محمد عبد الباقی جلد 4 صفحہ 41 مطبوعہ مصر 1327 ھ 12 : مسلم كتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة والمدينة صفحه 583 حدیث نمبر 3376 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 13: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى ماقالة عليه السلام على باب الكعبة صفحه 1205 ، 1206 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولی میں اذهبوا انتم الطلقاء“ کے الفاظ ہیں.

Page 211

سيرة النبي علي 201 جلد 3 رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے دوزمانے 16 اگست 1929ء کو سفر کشمیر کے دوران یاڑی پورہ کشمیر میں بعد نماز ظہر وعصر حضرت مصلح موعود نے ایک تقریر فرمائی.اس تقریر میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کا درج ذیل الفاظ میں ذکر فر مایا :.وو الله رسول کریم عمل ہے جب مبعوث ہوئے تو عرب میں کوکوئی بادشاہ نہیں تھا مگر ہر علاقہ میں بڑے بڑے لوگ تھے جو اپنے اپنے علاقہ پر حکومت کرتے تھے.مدینہ میں، طائف میں ، حضرموت میں، یمن وغیرہ میں غرض ہر علاقہ میں رئیس تھے.جب آپ نے نبوت کا پیغام پہنچایا تو آپ کی باتوں میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو بری ہو.آپ نے ایک بات بھی ایسی نہ کہی جس سے مخالفین یہ نتیجہ نکالتے کہ یہ شخص اپنی بڑائی چاہتا ہے اور ہمیں گرانا چاہتا ہے.اگر رسول کریم ﷺ نے نماز کا حکم دیا تو اس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہ تھا، سراسر دوسروں کا ہی فائدہ تھا.اگر آپ نے حقیقی مالک کو راضی کرنے کی تعلیم دی تو جو لوگ اس تعلیم پر چلتے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیتے ان کی اپنی ذاتوں کو ہی فائدہ پہنچتا رسول کریم کو کیا فائدہ ہوتا.اگر رسول کریم ﷺ نے زکوۃ دینے کا حکم دیا تو اس میں بھی لوگوں کا ہی فائدہ تھا نہ کہ آپ کا.آپ نے تو سیدوں کو زکوۃ لینے سے منع کر دیا حالانکہ سیدوں میں بھی غریب ہوتے ہیں.تو نہ صرف آپ زکوۃ کے مال سے مجتنب رہے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی فرما گئے کہ ان کے لئے زکوۃ کا مال جائز نہیں 1.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا.اس میں آپ کو کیا

Page 212

سيرة النبي علي 202 جلد 3 فائدہ حاصل ہوتا تھا ، کونسی جاگیر مل جاتی تھی یہ صرف لوگوں کے فائدہ کے لئے آپ نے تعلیم دی.اسی طرح چوری کرنے سے منع فرمایا.اس سے بھی آپ کی ذات کو کچھ فائدہ نہ صلى الله تھا صرف لوگوں کے بھلے کے لئے فرمایا.آنحضرت عے کے گھروں میں تو بعض اوقات کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا تھا اس حالت میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے جو چوری سے منع فرمایا تو اس لئے کہ تا آپ کے گھر محفوظ رہیں بلکہ یہ حکم صرف لوگوں کے اموال کی حفاظت کیلئے دیا.اسی طرح آپ نے ظلم کرنے سے منع فرمایا.یہ حکم بھی اس لئے دیا تا لوگ ایک دوسرے کے ظلم سے بچیں ورنہ آنحضرت مہ خود تو علیحدگی میں عبادت کر کے اپنا وقت گزارتے تھے.پس جو بھی تعلیم رسول کریم ﷺ نے لوگوں کو دی نہ تو اس میں کوئی برائی تھی اور نہ آپ کی اس میں کوئی ذاتی غرض تھی.آپ نے جھوٹ سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی ، چوری سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی ، بدکاری سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی ، عرب لوگ شراب سے ست رہتے تھے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی مگر با وجود اس کے پھر بھی لوگوں نے آپ کو سخت تکلیفیں دیں.آپ کے ماننے والوں پر ایسے ظلم وستم ڈھائے کہ وہ ہمیشہ مصائب کا تختہ مشق بنے رہے.ان تکالیف سے تنگ آ کر بعض صحابہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ہجرت کر کے حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہوئے مگر مکہ والوں کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی کہ چار پانچ سو کوس پر بھی وہ اپنے غریب ہم وطنوں کو آرام سے بسنے دیں.انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو تحفے بھیج کر اس بات کے لئے رضامند کرنا چاہا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے لیکن جب یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی تو بعض ان میں سے حبشہ پہنچے.ان میں سے ایک عمرو بن عاص بھی تھے جو بعد میں بہت بڑے صحابی ہوئے انہوں نے مصر فتح کیا تھا.انہوں نے جا کر حبشہ کے بادشاہ سے کہا یہ لوگ ہمارے غلام ہیں اور بغاوت کر کے وہاں

Page 213

سيرة النبي علي 203 جلد 3 بھاگ آئے ہیں.بادشاہ منصف مزاج تھا اس نے مسلمانوں کو بلایا اور دریافت کیا آپ لوگوں پر کیا الزام ہے؟ انہوں نے جواب دیا اے بادشاہ! ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم لوگ چوری کیا کرتے تھے ، بدکاری میں مبتلا تھے، شرک کے گناہ سے ملوث تھے، ہر قسم کا دعا فریب کرتے تھے کہ خدا کا ایک برگزیدہ پیدا ہوا اس نے ہمیں ان باتوں سے روکا.ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور یہ سب برائیاں چھوڑ دیں بس یہی ہمارا قصور ہے.یہ تقریر ایسے رقت بھرے الفاظ میں کی گئی کہ بادشاہ اور در باری سب رو پڑے اور بادشاہ نے انہیں واپس دینے سے انکار کر دیا.جب اس طرح بھی اہل مکہ کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا تو عمرو بن عاص نے اپنے ساتھی سے کہا اب میں درباریوں کو ان کے خلاف اکساتا ہوں.چنانچہ اس نے درباریوں کو تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ بادشاہ کو یہ کہہ کر مخالف بنائیں کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں.بادشاہ عیسائی تھا اسے اس طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی.دوسرے دن درباریوں نے بادشاہ سے کہا اے بادشاہ! یہ لوگ نہ صرف مکہ والوں کے دشمن ہیں بلکہ تمہارے بھی دشمن ہیں کیونکہ یہ حضرت عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں.بادشاہ نے پھر مسلمان مہاجرین کو بلایا اور اس بارے میں دریافت کیا.انہوں نے کہا ہم لوگ حضرت عیسی کو خدا کا نبی مانتے ہیں اور دل سے ان کی تعظیم کرتے ہیں.ہاں ہم انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے اور سورۃ مریم کی آیات سنائیں.بادشاہ نے ان کا جواب سن کر ایک تنکا اٹھایا اور خدا کی قسم کھا کر کہا میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام کو اس سے زیادہ اس تنکے کے برابر بھی نہیں سمجھتا.در باری یہ سن کر بادشاہ کے خلاف سخت برافروختہ ہو گئے مگر بادشاہ نے انہیں وہ واقعہ یا د دلا یا جب کہ وہ اس کے باپ کی وفات پر اسے قتل کر کے اس کے چا کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے 2.مگر خدا نے کچھ ایسے سامان کر دیئے کہ بادشاہت اسے مل گئی.بادشاہ نے کہا کہ تم لوگوں کا مجھ پر کچھ احسان نہیں یہ خدا کا مجھ پر احسان ہے.بادشاہت کے

Page 214

سيرة النبي علي 204 جلد 3 جانے کا مجھے کچھ بھی ڈر نہیں وہ خدا جس نے مجھے بادشاہت عطا کی میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور یہ ظلم جو تم مجھ سے کرانا چاہتے ہو ہر گز نہیں کروں گا.ایک وقت تو یہ حالت تھی لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا جب کہ یہ اسلام، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کے دشمن مسلمان ہوئے اور اخلاص میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کی.یہی عمرو بن عاص جب مسلمان ہو گئے تھے تو اپنے متعلق کہنے لگے مجھ پر دو زمانے آئے ایک اسلام کی مخالفت کا اور ایک موافقت کا.مخالفت کے زمانہ میں میں نبی کریمہ سے ایسا بغض رکھتا تھا کہ حقارت سے کبھی چہرہ نہیں دیکھتا تھا پھر موافقت کا زمانہ آیا اس میں نبی کریم ﷺ کی محبت اس قدر دل میں جاگزیں ہوئی اور آپ کا جلال ایسا تھا کہ میں رعب کی وجہ سے آپ کے چہرہ کی طرف نگاہ نہیں کر سکتا تھا.ابو جہل کا لڑکا عکرمہ تھا پہلے مخالفت کرتا رہا،لڑائیوں میں سرگرم حصہ لیتا تھا مگر جب اسلام اختیار کیا تو ہر طرح کی قربانیاں کیں، جان و مال سے دریغ نہ کیا اور اسلام کی اس قدر خدمت کی کہ اپنا پورا جان نثار ہونا ثابت کر دیا.غرضیکہ وہ دشمنان اسلام جو سخت مخالفت پر تلے رہتے تھے آخر کا رانہوں نے حقانیت کو مانا اور مان کر ہر طرح کی قربانیوں میں حصہ لیا.اسی طرح ایک وقت تو وہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کو گھروں سے باہر اور نکلنا دشوار تھا، اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر گزارہ کرنا پڑتا تھا تا کہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں.لیکن پھر وہ بھی زمانہ آیا کہ آنحضرت علے فاتح کی حیثیت سے ایک جرار لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے.اس طرح وہ دن آیا کہ دشمن کو دروازے بند کر لینے پڑے اور کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ باہر نکل سکے.وہ لوگ جو غریب سمجھے جاتے تھے اور جو اتنے مظلوم تھے کہ کوئی ان کی فریاد کو نہیں پہنچتا تھا اُس وقت وہ فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے اور اُس دن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کو دکھا دیا کہ کس طرح چھوٹے بڑے بنائے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے کر دیے جاتے ہیں.

Page 215

سيرة النبي عمال 205 جلد 3 پھر آنحضرت ﷺ کی وفات پر جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو ان کے باپ سے کسی نے کہا ابوبکر مسلمانوں کا خلیفہ ہو گیا.اس پر وہ تعجب سے پوچھنے لگے کون ابوبکر ؟ کیا ابو قحافہ کا بیٹا ؟ جب ان کو یقین دلایا گیا کہ وہی خلیفہ ہوئے ہیں تو وہ دریافت کرنے لگے کیا بنو ہاشم نے ان کو مان لیا ہے؟ بنو عبدالشمس، بنو عبدالمطلب وغیرہ نے ان کی اطاعت اختیار کر لی ہے؟ جب کہا گیا کہ ہاں سب نے مان لیا ہے تو حضرت ابوبکر کے والد نے اگر چہ وہ پہلے سے اسلام میں داخل تھے مگر کمزور ایمان رکھتے تھے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام سچا ہے 3.یہ آنحضرت ﷺ کی ہی قوت قدسیہ کا اثر ہے کہ ان قبائل نے ابوبکر کی اطاعت اختیار کر لی اور نہ ابوبکر کی کیا حقیقت تھی.پھر حضرت ابو ہریرہ کو دیکھو.فتوحات کے زمانہ میں ایک دن ریشمی رومال میں تھوک کر کہنے لگے واہ واہ ابو ہریرہ.ایک وہ زمانہ تھا کہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو جانے پر لوگ مرگی کے خیال سے جوتیاں مارا کرتے تھے اور ایک یہ زمانہ ہے ریشمی رومالوں میں تھوکتے ہو.پاس بیٹھنے والوں نے یہ بات سن کر پوچھا آپ نے کیا الله فرمایا؟ کہنے لگے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تا کہ ب آپ باہر تشریف لائیں اور کچھ فرما ئیں تو میں سن سکوں اس وجہ سے میرے کھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا.بعض دفعہ سات سات فاقے کرنے پڑتے تھے اور بعض اوقات شدت بھوک کے سبب بے ہوشی طاری ہو جاتی اور اس بے ہوشی کو مرگی خیال کیا جاتا اور عرب کے رواج کے ماتحت اس کا علاج جو نیوں سے کیا جاتا.ایک دفعہ جب کہ بھوک نے بہت ستایا تو میں نے صدقہ کی آیت نکال کر حضرت ابو بکر کے پیش کی.انہوں نے اس کا مطلب بیان کیا اور چل دئیے.اسی طرح حضرت عمرؓ کے پیش کی.انہوں نے بھی مطلب بیان کیا اور چل دیئے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں جب وہ مطلب بیان کر کے چل پڑتے اور آیت کے پیش کرنے سے میری غرض کو نہ

Page 216

سيرة النبي عمال 206 جلد 3 سمجھتے تو میں اپنے دل میں کہتا کیا یہ معنی مجھے معلوم نہ تھے یہ مجھ سے بہتر تو نہیں جانتے.اس اثناء میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ابو ہریرہ ! کیا بھوک لگی ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں.اس پر آپ نے مسجد کے دوسرے غرباء کو بھی بلانے کے لئے فرمایا.چنانچہ جب میں سب کو بلا کر لے گیا تو آپ نے دودھ کا ایک پیالہ نکالا اور پلانا شروع کیا مگر مجھے چھوڑ کر پہلے دوسروں کو پلانے لگ گئے.اس پر میں دل میں کڑھا کہ بھوک سے تو میں مر رہا تھا ایک پیالہ دودھ ہے وہ دوسرے پینے لگ گئے ہیں مجھے کیا ملے گا.آنحضرت علیہ نے سب کو پلا کر مجھے فرمایا ابوہریرہ ! اب تم پیو.میں نے پیا.حضور نے فرمایا اور پیو.پھر میں نے پیا.اس طرح حضور نے مجھے کئی بار پلایا حتی کہ پیٹ میں ذرا بھی گنجائش باقی نہ رہی.یہ واقعہ سنا کر حضرت ابوہریرہ فرمانے لگے اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ ایک تو وہ زمانہ تھا کہ میرا یہ حال تھا اور ایک یہ زمانہ ہے کہ جب خدا نے فضل کیا.آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے مطابق فتوحات ہوئیں اور میں ایران کے بادشاہ کے رومال میں تھوکتا ہوں 4.حضرت ابو ہریرہ فتوحات کے زمانہ میں مصر کے گورنر بھی بنا دیئے گئے تھے.“ الفضل 12 نومبر 1929 ء ) 1: بخارى كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر صفحه 241 242 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول مقالة المهاجرين في عيسى عند النجاشي صفحہ 387،386 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 3:اسد الغابة في معرفة الصحابة الجزء الثالث عبد الله بن عثمان(ابوبکر) خلافته صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الأولى 4: بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي صلى الله عليه وسلمو اصحابه صفحہ 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 217

سيرة النبي علي 207 جلد 3 آنحضرت مہ کی قوت قدسیہ اور حضرت ابوذرغفاری کا قبول اسلام حضرت مصلح موعود نے 16 اگست 1929ء والے لیکچر میں حضرت ابوذرغفاری کا بایں الفاظ تذکرہ فرمایا :.”حضرت ابوذر غفاری کا قصہ حدیث میں آتا ہے جب انہوں نے آنحضرت علی کی نسبت سنا تو وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی تعلیم کو سن کر اسلام میں داخل ہو گئے.چونکہ آپ کا قبیلہ سخت مخالف تھا اس لئے آنحضرت عیہ سے اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہی.آپ نے اجازت دے دی.اس کے بعد کچھ دن وہ حضور کی صحبت میں رہے اور اس قدر اسلام کی محبت ان کے اندر موجزن ہوئی کہ وہ سردارانِ مکہ کے سامنے جا کر بلند آواز سے کہنے لگے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ.اس پر انہیں اس قدر زدو کوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش گئے.حضرت عباس جو ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے وہاں سے گزرے اور انہیں یہ کہہ کر چھڑایا کہ جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے؟ غفار قبیلہ کا ہے اور اگر وہ تمہارے مخالف ہو گئے تو تمہاری ساری تجارت بند ہو جائے گی اور کوئی چیز تمہارے پاس نہیں پہنچ سکے گی.اس دن تو وہ چھوٹ گئے لیکن دوسرے دن پھر اسی طرح کیا اور پھر مار کھائی.پہلے تو وہ اپنے قبیلہ میں جا کر اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہتے تھے مگر ایمان نے ایسا جوش مارا کہ انہوں نے مکہ ہی میں اشاعتِ اسلام شروع کر دی.“ (الفضل 12 نومبر 1929ء)

Page 218

سيرة النبي علي 208 جلد 3 آنحضور ﷺ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے 1929 ء میں دورہ کشمیر کے دوران حضرت مصلح موعود کو ایک دن کے لئے جموں میں ٹھہر نا پڑا.چنانچہ 30 ستمبر 1929 ء کو احباب جموں نے حضور کے لئے ایک تبلیغی تقریر کا اہتمام کیا.جس کا عنوان تھا ”ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہئے.آپ نے اس تقریر میں سیرت رسول کریم علیہ پر بھی روشنی ڈالی جو درج ذیل ہے:.”میرے نزدیک مذہب کی غرض فتنہ و فساد پیدا کرنا نہیں بلکہ مذہب دلوں کی صفائی کے لئے ہوتا ہے.اگر فتنہ غرض ہوتی تو اسے شیطان باحسن طریق سرانجام دے سکتا تھا.مگر مذہب کی ہرگز یہ غرض نہیں.صلى حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جنہوں نے اپنی جوانی کی زندگی اپنی قوم کی بھلائی میں خرچ کی کوئی عقلمند ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ آپ بڑھاپے کی عمر میں فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے.آنحضرت ﷺ کے متعلق تاریخ میں ایک واقعہ درج ہے جو اگر چہ عام مؤرخین کی نظر سے پوشیدہ ہے مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے.وہ جنگ احد کا واقعہ ہے جب کہ آنحضرت ﷺ کے دانت شہید ہوئے.اُس وقت ابوسفیان نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہے؟ ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کہاں ہے؟ عمر (رضی اللہ عنہ ) کہاں ہے؟ یعنی سب مارے گئے ہیں.اُس وقت حضرت عمرؓ الله جواب دینے لگے کہ میں تمہارے مارنے کے لئے موجود ہوں مگر آنحضرت ﷺ نے روکا اور اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کہنے دیا.لیکن ابو سفیان نے کہا اُعْلُ هُبَل، اُعْلُ هبل تو اُس وقت آنحضرت علیہ سے برداشت نہ ہو سکا اور فرمایا کیوں نہیں کہتے اللهُ

Page 219

سيرة النبي علي 209 جلد 3 أَعْلَى وَ اَجَلُ 1.غرض آپ نے ہرگز اپنی ذات نہ منوائی نہ اپنی بڑائی چاہی بلکہ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے.پس میں ان واقعات کی موجودگی میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا صلى الله کہ آنحضرت ﷺ اپنی بڑائی دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے تھے.“ ( الفضل 3 دسمبر 1929 ء ) 1: بخاری کتاب المغازى باب غزوة احدصفحہ 684 ، 685 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 220

سيرة النبي علي 210 جلد 3 رسول کریم علیہ کی اتباع سے اعلی کمالات 30 ستمبر 1929 ء کے لیکچر بمقام جموں میں حضرت مصلح موعود نے مزید فرمایا :." آنحضرت عل استاد تھے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی اتباع سے اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات حاصل ہو سکتے ہیں.دیکھو استاد کا کمال کیا یہ ہوتا ہے کہ اس کی نسبت کہا جائے یہ ایسا کامل ہے کہ اس کا کوئی شاگرد پرائمری سے بڑھ نہیں سکتا یا یہ کہ یہ ایسا کامل ہے کہ اس کے شاگرد بی اے اور ایم اے ہیں.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سے نبوت مل سکتی ہے.سورۃ فاتحہ میں جو أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ آیا ہے اس کی دوسرے مقام پر اس طرح توضیح کی گئی ہے کہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا 1 اس آیت میں مُنْعَم عَلَيْهِ گروہ کے چار درجے بیان فرمائے گئے ہیں.نبی ، صدیق ، شہید، صالح.یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آنحضرت ﷺ کی پیروی سے انسان یہ چار درجے حاصل کر سکتا ہے.دوسرے انبیاء اور آنحضرت ﷺے میں ایک یہ بھی فرق ہے کہ پہلے انبیاء کی اتباع سے ج الله نبی نہیں بن سکتے تھے صدیق اور شہید ہو سکتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کو وہ کمال حاصل تھا کہ حضور کی اتباع سے نبی بھی بن سکتے ہیں.بعض لوگ ناواقفیت کے باعث یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں مع کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ نبی نہ ہوں گے نبیوں کے ساتھ ہوں گے.مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے یہ مَعَ صرف النَّبِيِّنَ کے ساتھ ہی نہیں بلکہ الصَّدِيقِيْنَ الشُّهَدَاءِ ، 6

Page 221

سيرة النبي علي 211 جلد 3 الصلحین سب کے ساتھ بھی ہے اور اگر ان کے معنی درست تسلیم کئے جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ نبی نہ ہوں گے، نبیوں کے ساتھ ہوں گے.صدیق نہ ہوں گے بلکہ صدیقوں کے ساتھ ہوں گے.شہید نہ ہوں گے بلکہ شہداء کے ساتھ ہوں گے.صالح نہ ہوں گے بلکہ صالحین کے ساتھ ہوں گے.لیکن اگر غور کیا جائے تو ان معنی سے تو امت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.یہاں مَعَ بمعنی مِن یعنی ” سے“ کے ہے.قرآن کریم میں یہ استعمال موجود ہے.چنانچہ آیا ہے تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ 2 یعنی نیکوں میں سے کر کے مار، یہ معنی نہیں کہ جب کوئی نیک بندہ مرنے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ وفات دے دے.پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع سے مقام نبوت بھی حاصل ہو جاتا ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع سے جو نبی بنے گا اس کی نبوت دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں ہوتی ہے آنحضرت ﷺ کی نسبت سے وہ امتی ہوتا ہے.پس ایسی نبوت کے حصول میں آنحضرت مے کی کسر شان نہیں.حدیث میں آیا ہے لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِي3 یعنی اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا.پس اگر نبی کے ماتحت ہونے سے کسر شان ہوتی تو رسول کریم عمل یہ نہ فرماتے.حضرت مرزا صاحب با وجود دعوی نبوت کے امتی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے اور آنحضرت علی صلى الله کی غلامی کے اظہار میں عزت سمجھتے تھے.چنانچہ آپ کا یہ مشہور شعر ہے:.کرامت گر چه بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد اسی طرح آپ اپنے فارسی الہامی قصیدہ میں فرماتے ہیں:.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم

Page 222

سيرة النبي علي 212 جلد 3 آپ نے آنحضرت ﷺ کی وہ نعتیں لکھیں جن کا پہلی نعتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں.آپ سے پہلے کی کہی ہوئی نعتیں صرف زلفوں، گیسوؤں کے ذکر پر مشتمل ہوتی تھیں اور کہ آنحضرت علی کا سایہ نہ تھا وغیرہ.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی نعتیں کہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا.ان نعتوں کا مواز نہ صرف مطالعہ سے ہوسکتا ہے.“ (الفضل 3 دسمبر 1929 ء ) 1: النساء: 70 2: ال عمران: 194 :3 اليواقيت و الجواهر مؤلفه الامام شعرانی جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1321ھ

Page 223

سيرة النبي علي 213 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی قوت یقین حضرت مصلح موعود 4 اکتوبر 1929 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.پس یاد رکھو یقین اور ایمان کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.دنیا میں تعداد سے اتنا کام نہیں نکلتا جتنا جراتِ ایمانی سے.مؤمن جس وقت خدا پر یقین رکھتے ہوئے مستانہ وار لکھتا ہے تو لوگوں کی آنکھیں خود بخود اس کے آگے جھکتی چلی جاتی ہیں.جنگ حنین میں رسول کریم عملے کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے اور مقابل پر چار ہزار تیرانداز تھے.لیکن آپ الله صد الله صلى الله انا النبي لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب کہتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے.اُس وقت کیا چیز تھی جو کفار کو اس بات سے رو کے ہوئے تھی کہ بڑھ کر آپ کے گرد حلقہ کر کے گرفتار کر لیتے ، کیوں اُن کی تلوار میں میانوں سے نہیں نکلتی تھیں؟ وہ رسول کریم ﷺ کا یہی یقین اور وثوق تھا کہ خدا میرا مددگار ہے اور وہ مجھے نقصان نہیں پہنچنے دے گا.جس طرح ایک اثر دہا کے سامنے پرندہ مسحور ہو جاتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا اسی طرح وہ لوگ بھی مسحور تھے.پس اپنے اندر ایمان پیدا کرو، اسلام پیدا کرو اور یقین پیدا کرو پھر میں ضامن ہوں کہ دنیا کی کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی.جب تک کسی کے اندر ایمان نہ ہو اُسی وقت تک وہ بزدل ہوتا ہے لیکن جس (الفضل 11 اکتوبر 1929ء) 66 کے ساتھ خدا ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.“ 1 بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى و يوم حنين اذ اعجبتكم صفحہ 729 حدیث نمبر 2864 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 224

سيرة النبي علي 214 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی سیرت کے حوالے سے علی جماعت کو ایک نصیحت 28 دسمبر 1929 ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.اس وقت میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض مقامات کے متعلق شکایت آئی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متعلق جلسوں کے انعقاد میں چونکہ غیر احمدیوں سے کام لینا پڑا اس لئے بعض لوگوں میں مداہنت پیدا ہوگئی ہے.میں کسی کا نام نہیں لیتا مگر ایسے لوگ خود اپنے نفسوں میں غور کر لیں.اگر اصل چیز ہی مٹ جائے تو پھر ایسے جلسوں اور ان میں تقریروں کا کیا فائدہ.ایسے جلسوں کے لئے مسلمانوں کے پاس جاؤ اور انہیں کہو آؤ یہ ہمارا متحدہ کام ہے تم بھی اس میں شامل ہو جاؤ.اگر وہ شامل ہوں تو بہتر ورنہ ان کی منتیں اور خوشامد میں نہ کرو.اگر وہ رسول کریم ﷺ کی تعریف اور شان کے اظہار کے لئے جلسوں میں شامل ہوں گے تو برکات حاصل کریں گے اور اس کا فائدہ انہیں خود پہنچے گا.ہمارا ان کے شامل ہونے سے کوئی فائدہ نہیں.لیکن یاد رکھو! ان کی بے جا رضامندی کے لئے اپنا دین تباہ نہ کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہاری ہدایت میں کسی کے گمراہ ہونے کی وجہ سے فرق آتا ہے تو گمراہ ہونے والے کی پرواہ نہ کرو تم میں اگر کسی جگہ کوئی اکیلا ہی ہو اور اس کے ساتھ کوئی شامل نہ ہو تو وہ جنگل کے درختوں کے سامنے جا کر محمدعلی کی تعریف کرنا شروع کر دے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اپنی ذمہ داری سے بری سمجھا جائے گا اور اس کا نتیجہ بھی نکلے گا.“ الفضل 7 جنوری 1930ء)

Page 225

سيرة النبي علي 215 جلد 3 بچپن کی شادی کے بارہ میں سنتِ رسول 28 دسمبر 1929ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچپن کی شادی کے بارہ میں سنت پر درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی :.بعض ایسی اجازتیں ہیں جن کا شریعت نے ضمناً ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں شریعت کا جز و بنا لیا ہے اور کہہ دیا ہے یہ باتیں کرو تو ان کے متعلق یہ یہ حکم ہے.ان اجازتوں میں کسی کا دخل دینا بہت زیادہ برا ہے.بچپن کی شادی بھی انہی میں سے ہے.شریعت نے اس کی اجازت دی اور اس کے لئے بعض احکام بیان کئے کہ لڑکی بالغ ہو کر چاہے تو ایسی شادی سے انکار کر سکتی ہے.پھر اسی اجازت کی ایک قسم یہ ہے کہ رسول کریم علی اللہ نے اس پر خود عمل کیا ہو اور بچپن کی شادی ایسی ہی اجازت ہے کہ رسول کریم می نے اس پر عمل کیا.یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ بچپن میں نکاح کیا.اور 12 سال کی عمر میں ان کا رختصانہ ہو گیا.یہ صحیح ہے کہ عرب میں بلوغت جلد ہو جاتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے قومی اعلیٰ درجہ کے تھے الله لیکن ان کی عمر 12 سال کی تھی جب رسول کریم ﷺ کے ہاں تشریف لے گئیں.اب اگر ان کی عمر کے متعلق یہ انتظار کیا جاتا کہ 17 ، 18 سال کی ہو جاتی تو صرف ایک سال انہیں رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہنے کا موقع ملتا اور دین کی بہت سی باتیں نامکمل رہ جاتیں.مگر جو عرصہ انہیں ملا اس میں انہوں نے دین کی بڑی خدمت کی.اسی لئے ضروری تھا کہ رسول کریم علیہ کے پاس انہیں ایسے وقت میں خدا تعالیٰ

Page 226

سيرة النبي علي 216 جلد 3 لا تا کہ وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل کر کے دنیا کو فائدہ نہیں پہنچاسکتیں اس لئے انہیں جلد بالغ کر دیا.تو جس بات پر رسول کریم ﷺ نے عمل کیا اور جائز قرار دیا اس سے قطعاً روکنا بہت اہم ہے.میں تو اس کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ بچپن کی شادی سے روکو مگر عارضی جب تک کہ مسلمان اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، قطعی الفضل 7 جنوری 1930ء) مت روکو.“

Page 227

سيرة النبي علي 217 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی ذات جزو قرآن ہے 29 دسمبر 1929ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر فضائل القرآن“ کے عنوان سے حضرت مصلح موعود نے جو تقریر فرمائی اس میں سیرت نبوی کا درج ذیل پہلو بھی بیان فرمایا :.میں رسول کریم ﷺ کو قرآن کریم سے باہر نہیں سمجھتا.آپ بھی قرآن کا جزو ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَلَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِيْنُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ 1- یعنی یہ قرآن يقينا رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے.یہ قرآن رُوحُ الامین لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تا کہ تو انذار کرنے والوں کی مقدس جماعت میں شامل ہو جائے.پس ایک قرآن لفظوں میں نازل ہوا ہے اور ایک قرآن رسول کریم علی صلى الله کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے.اس وجہ سے رسول کریم ﷺ پر کوئی حملہ در حقیقت قرآن کریم پر ہی حملہ ہو گا.“ 1: الشعراء: 193 تا 195 ( فضائل القرآن نمبر 2 صفحہ 34 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء)

Page 228

سيرة النبي علي 218 جلد 3 غارِ حرا میں پہلی وحی 29 دسمبر 1929 ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.”سب سے پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تھی جب جبرائیل رسول کریم ﷺ کو نظر آیا اور اس نے کہا اقرا یعنی پڑھ.اس کے جواب میں رسول کریم ﷺ نے فرما یا ما اَنَا بِقَارِيَّ 1 میں پڑھنا نہیں جانتا.مطلب یہ تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر نہ ڈالا جائے.کیونکہ اُس وقت آپ کے سامنے کوئی کتاب تو نہیں رکھی گئی تھی جسے آپ نے پڑھنا تھا بلکہ جو کچھ جبرائیل بتا تا وہ آپ کو زبانی کہنا تھا.اور یہ آپ کہہ سکتے تھے مگر آپ نے انکسار کا اظہار کیا.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے آپ ہی کو چنا تھا اس لئے بار بار کہا کہ پڑھو.آخر تیسری بار کہنے پر آپ نے پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا.اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ - اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ - الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ - عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ 2.کیا ہی مختصر سی عبارت اور کتنے تھوڑے الفاظ ہیں مگر ان میں وہ حقائق اور معارف بیان کئے گئے ہیں جو اور کتابوں میں ہرگز نہیں پائے جاتے.دوسری کتابوں کو دیکھو تو وید یوں شروع ہوتے ہیں.اگئی میئر ھے پر وہتم“.آگ ہماری آتا ہے.بائبل کو دیکھو تو اس میں زمین و آسمان کی پیدائش کا یوں ذکر ہے :.ابتدا میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا.اور زمین ویران اور سنسان تھی 66 اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا.اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی 3.“

Page 229

سيرة النبي عليه 219 جلد 3 انجیل کی ابتدا اس طرح ہے:.ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا.یہی ابتدا میں خدا 66 کے ساتھ تھا 4.“ لیکن قرآن کریم اس دلیل کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے کہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ.اے محمد ! ( ع ) تم ان لوگوں کے معلم بن جاؤ اور پڑھو اس خدا کے نام کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ہاں اے محمد ! پڑھ کہ تیرے پڑھتے پڑھتے خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو جائے گی.“ فضائل القرآن نمبر 2 صفحہ 52 53 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء) ل صلى الله.1 بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله عله صفحه 1 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: العلق : 2 تا 6 3: پیدائش باب 1 آیت 1، 2 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 2011ء 4 یوحنا باب 1 آیت 1، 2 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 2011ء

Page 230

سيرة النبي علي 220 جلد 3 رسول کریم مے کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کی ترویج 29 دسمبر 1929 ء کے لیکچر بعنوان فضائل القرآن بر موقع جلسہ سالانہ میں حضرت مصلح موعود دفرماتے ہیں:.ایک اور پیشگوئی اس وحی میں قرآن کے متعلق یہ کی کہ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ 1 یعنی اس کتاب کے ذریعہ نہ صرف یہ ثابت ہو گا کہ تیرا رب سب سے بالا ہے اور باقی ساری ہستیاں اس کے تابع ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگا کہ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ تیرے رب نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے.یعنی آئندہ تحریر کا عام رواج ہو جائے گا.وہ مکہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے ، جہاں کے بڑے بڑے لوگ لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے ، شعراء اپنے شعر صرف زبانی یاد کراتے تھے اور اگر انہیں کہا جائے کہ اشعار لکھوا دیے جائیں تو اسے اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے کہ لوگ ان کے اشعار زبانی یاد رکھتے ہیں جب قرآن نازل ہوا تو ان میں ایک عظیم الشان تغیر آ گیا.یہاں تک کہ صحابہ میں کوئی ان پڑھ نہ ملتا تھا.سو میں سے سو ہی پڑھے لکھے تھے.تو فرمایا الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ اس کتاب کے ذریعہ دوسرا عظیم الشان تغییر یہ ہو گا کہ لوگوں کی توجہ علوم کی طرف پھیر دی جائے گی.چنانچہ آپ کی بعثت کے معا بعد لکھنے کا رواج ترقی پذیر ہوا.صحابہ نے لکھنا پڑھنا شروع کیا.مدینہ میں آپ نے سب بچوں کو تعلیم

Page 231

سيرة النبي عمال 221 جلد 3 دلوائی یہاں تک کہ عرب کا بچہ بچہ پڑھ لکھ گیا بلکہ اسلام کے ذریعہ سے یونانی کتب بھی محفوظ ہو گئیں.غرض قلم کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی.1: العلق : 5 ( فضائل القرآن نمبر 2 صفحہ 55 ، 56 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء)

Page 232

سيرة النبي علي 222 جلد 3 پہلی وحی میں تو راۃ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ 29 دسمبر 1929ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ - اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ - عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمُ يَعْلَمُ 1- ان چند آیات میں پہلے تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ فرمایا اقرا بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ.پڑھ اس کلام کو.مگر جب پڑھنے لگو تو یہ کہہ لینا کہ میں اللہ کا نام لے کر اسے پڑھتا ہوں.اس میں استثناء باب 18 کی آیت 18، 19 کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ:.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا.اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو 66 میں اس کا حساب اس سے لوں گا.“ پس بِاسْمِ رَبِّک میں موسٹی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کے مثیل موسی ہونے کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے اور نبوت کے تسلسل کا ذکر کیا گیا فضائل القرآن نمبر 2 صفحہ 75 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء) ہے.1: العلق : 2 تا 6 2: استثناء باب 18 آیت 18 ، 19 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لا ہور مطبوعہ 2011ء

Page 233

سيرة النبي علي 223 جلد 3 صلى الله رسول کریم میوے کے عشق الہی کی ایک دلیل 29 دسمبر 1929ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے محمد کے متعلق خواہ کچھ کہو لیکن اس کے کلام میں خدا ہی خدا کا ذکر ہے.وہ جو بات پیش کرتا ہے اس میں خدا کا ذکر ضرور لاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہے.".66 ( فضائل القرآن نمبر 2 صفحہ 80 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء)

Page 234

سيرة النبي علي 224 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی اتباع کی برکات 29 دسمبر 1929ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.ج ” جہاں رسول کریم ﷺ کا ذکر کیا وہاں فرمایا وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا : یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر خدا تعالیٰ کے انعامات نازل ہوئے یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں.گویا پہلے نبیوں کی اطاعت سے تو صرف صدیق اور شہداء بنتے تھے مگر اس نبی کی اطاعت سے نبوت کا درجہ بھی حاصل ہو سکتا ہے.حضرت داؤڈ اور حضرت عیسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے نبوت ملی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا اور بار بار اس کا اعلان کیا کہ مجھے محض رسول کریم ﷺ کی غلامی میں درجہ نبوت حاصل ہوا ہے.انبیاء اور صدیقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہاں مَعَ الَّذِينَ آیا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اور اس رسول کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اسے انبیاء کی معیت حاصل ہو گی.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر نبی بننے کی نفی کی جائے گی تو اس کے ساتھ ہی صدیق ، شہید اور صالح بننے کی نفی

Page 235

سيرة النبي عليه 225 جلد 3 بھی کرنی پڑے گی.اور یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ امت محمدیہ میں اب کوئی صدیق ، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا.لیکن اگر صالحیت ، شہادت اور صدیقیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر نبوت کا انعام بھی حاصل ہوسکتا ہے.لیکن اس پر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم کا کوئی لفظ حکمت کے بغیر نہیں ہے تو پھر یہاں مع کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی.جیسا کہ دوسری جگہ مَعَ الَّذِينَ نہیں رکھا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ صدیق اور شہید ہوں گے اسی طرح یہاں بھی کہا جا سکتا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مع رکھ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس رسول کی اطاعت کرنے والے صرف صدیق ہی نہیں ہوں گے بلکہ سب امتوں کے صدیقوں کی خوبیاں ان میں آجائیں گی.صرف شہید ہی نہیں ہوں گے بلکہ پہلے سب شہیدوں کی صفات کے جامع ہوں گے.صرف صالح ہی نہیں ہوں گے بلکہ پہلے صالحین کی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں گے.اسی طرح جو نبی آئے گا وہ پہلے سب نبیوں کی خوبیوں اور کمالات کا بھی جامع ہو گا.پس مع نے رسول کریم ﷺ کی اطاعت کے نتیجہ کو بڑھا دیا ہے گھٹایا نہیں اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے جو مرتبہ 66 حاصل ہوتا ہے وہ پہلے لوگوں کے مراتب سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے.“ 1: النساء: 70 فضائل القرآن نمبر 2 صفحہ 118 ، 119 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء)

Page 236

سيرة النبي علي 226 جلد 3 صلى الله مصائب و تکالیف میں کوہ وقار خطبہ جمعہ فرمودہ 7 مارچ 1930 ء میں حضرت مصلح موعود رسول کریم ﷺ کے مصائب اور تکالیف میں عزم و استقامت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:." رسول کریم مے کو بھی تکالیف پیش آئیں.آپ پر ایسے ایسے مصائب آئے کہ آج کوئی انسان انہیں پڑھ کر اپنے آنسو نہیں روک سکتا لیکن با وجود اس کے کہ آپ سید ولد آدم تھے ، خاتم النبین تھے ، تمام نبیوں کے سردار تھے اور باوجود اس کے کہ آپ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پیارے تھے کہ اس نے اپنی محبت کو آپ میں مرکوز کر دیا اور فرما دیا اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله 1.اور اپنی محبت کے تمام دروازے بند کر دیے سوائے اس کے جو محمد ع میں سے ہو کر آتا تھا.مگر آپ کو مصیبت پر مصیبت آئی، فاقہ پر فاقے ہوئے ، آپ نے اپنے محبوبوں اور عزیزوں کو بھوک پیاس سے اپنے سامنے تڑپتے دیکھا، تین سال تک محصور رہے، جہاں کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا اور درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں ہمیں آٹھ آٹھ دن پاخانہ نہیں آتا تھا اور جب آتا تھا تو بکری کی مینگنیوں کی طرح کا آتا کیونکہ کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا اور ہم درختوں کے پتے کھاتے تھے 2.یہ حالت تین سال تک رہی.پھر اس کے معاً بعد عزیز ترین وجود آپ سے جدا ہو گیا یعنی آپ کی محبوب اور غمگسار بیوی فوت ہو گئیں.پھر اور تکالیف آ ئیں اور اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو لمبا کرتا گیا کیونکہ وہ دنیا کو دکھانا چاہتا تھا کہ اس کا سب سے زیادہ محبوب اس کے لئے

Page 237

سيرة النبي علي 227 جلد 3 66 سب سے زیادہ تکالیف برداشت کر رہا ہے.“ ( الفضل 18 مارچ 1930ء ) 1: آل عمران:32 2:بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعد بن ابی وقاص صفحہ 628 حدیث نمبر 3728 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 238

سيرة النبي علي 228 جلد 3 صلى الله رسول کریم ﷺ ایک ملہم کی حیثیت میں حضرت مصلح موعود نے رسول کریم عہ ایک مہم کی حیثیت میں “ کے عنوان پر ایک مضمون تحریر فرمایا جو الفضل 25 اکتوبر 1930 ء کے شمارہ میں شائع ہوا.آپ تحریر فرماتے ہیں:.’ہر انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کی کئی حیثیتیں ہوتی ہیں.مثلاً ایک نبی کی ، ایک رسول کی ، ایک ملہم کی ، ایک مامور کی ، ایک آمر کی ، ایک معلم کی اور ایک مربی کی.ہر ایک حیثیت اپنی ذات میں ایک قیمتی جو ہر اور دلفریب چیز ہوتی ہے جسے دیکھ کر انسان بے اختیار ہو جاتا ہے اور اس کا دل اس اقرار پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے تمام افعال کسی زبر دست طاقت کے تصرف کے ماتحت ہیں.میں اس وقت رسول کریم ع کے ملہم ہونے کی حیثیت کو لیتا ہوں کہ اس میں بھی آپ نہ صرف دوسری دنیا سے بلکہ سب نبیوں سے بڑھے ہوئے تھے.ملہم ہونے کی حیثیت میں جس چیز کو ہمیں دیکھنا چاہئے وہ نبی پر نازل ہونے والا کلام ہے.اس کلام کی حیثیت کے مطابق ہم نبی کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں.کیونکہ کلام اسی قدر طاقتیں اپنے ساتھ لے کر آتا ہے جس قدر کام کی اس سے امید کی جاتی ہے.اگر یہ صحیح ہے کہ نبی کا ہتھیار اس کا کلام ہوتا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ضرورت کے مطابق ہی ہتھیا را سے دیا جائے گا.اگر بڑے دشمن کا مقابلہ ہے اور بہت بڑی فتوحات اس کے ذمہ لگائی گئی ہیں تو یقیناً بہت کاری ہتھیارا سے دینا ہوگا تا کہ وہ اپنا کام کر سکے.لیکن تعجب ہے کہ دنیا نے اس صاف اور سیدھی صداقت کو نہیں سمجھا اور کئی بے وقوف کہہ دیا کرتے ہیں

Page 239

سيرة النبي علي 229 جلد 3 کہ نبی کریم ﷺ کو سوائے قرآن کریم کے کوئی معجزہ نہیں ملا اور اس سے انہیں یہ بتانا مطلوب ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بھلا کیا معجزہ ہونا تھا.پس اگر اس کے سوا کوئی معجزہ نہیں ملا تو گویا کوئی معجزہ ہی نہیں ملا.لیکن یہ خیال ان لوگوں کا محض نا سمجھی یا حماقت پر مبنی ہے.اول تو یہ درست نہیں کہ قرآن کریم کے سوا رسول کریم ﷺ کو کوئی اور نشان نہیں ملا.آپ کی زندگی کا تو ہر پہلو ایک معجزہ تھا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر معجزات دیئے کہ سب انبیاء کو مجموعی طور پر بھی اس قدر منجزات نہ ملے ہوں گے.لیکن اگر ہم فرض کر لیں کہ اور کوئی معجزہ آپ کو نہیں ملا تب بھی قرآن کریم کا معجزہ سب معجزات سے بڑھ کر ہے اور وہ ایک ہی آپ کے سب نبیوں پر برتر ہونے کا ثبوت ہے.چونکہ بعض لوگوں کو یہ خیال ہے کہ جب قرآن کریم کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس کی زبان بہت فصیح ہے اس وجہ سے یہ لوگ قرآن کریم کے مختلف عیوب بیان کرتے رہتے ہیں اور اس کوشش میں ایسی ایسی احمقانہ حرکات کر بیٹھتے ہیں کہ ہنسی آ جاتی ہے.چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب ”سوان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں لکھتے ہیں کہ پانچویں سال سے دسویں سال قبل ہجرت میں رسول کریم ﷺ نے قرآن کریم میں یہودی کتب کے مضامین بیان کرنے شروع کئے اور اس وجہ سے قرآن کریم کا وہ پہلا انداز بیان نہ رہا اور بڑی مشکل سے یہودی روایات کو عربی زبان میں داخل کرنے کے آپ قابل ہوئے اور چونکہ دن کو تو آپ کو فرصت نہیں ہوتی تھی اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر آپ محنت سے وہ ٹکڑے تیار کرتے ہوں گے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات يَايُّهَا الْمُزَّمِّلُ - قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا - نِصْفَةَ أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيْلًا - اَوْزِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيْلًا - إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا - إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيْلًا - إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا - وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ

Page 240

سيرة النبي عمر 230 جلد 3 اِلَيْهِ تَبْتِيلًا 1 - غالباً اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں.سر میور محقق تو بہت ہیں لیکن تعجب ہے کہ انہیں اس قدر بھی خیال نہیں آیا کہ یہ آیات مسلمہ طور پر پہلے سالِ نبوت کی ہیں اور سورۃ مز مقتل جس کا وہ حصہ ہیں نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ہے بلکہ بعض محققین تو اس سورۃ کو ابتدائی سورتوں میں سے سمجھتے ہیں.پس جو سورۃ کہ ابتدائی زمانہ میں اتری ہے اس میں اس محنت کا ذکر جو پانچویں یا دسویں سال میں بقول ان کے رسول کریم ﷺ کو کرنی پڑی خود ایک معجزہ ہے کیونکہ کون شخص پانچ چھ سال بعد کی ایسی بات بنا سکتا ہے جو اس کے اختیار میں نہ ہو.خلاصہ یہ کہ دشمنان اسلام اس معجزہ کو ہلکا کر کے دکھانے کے لئے اس قدر کوشش کرتے رہتے ہیں کہ خود وہ کوشش ہی اس امر کا ثبوت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے اس معجزہ کو وہ دل میں تسلیم کرتے ہیں.ورنہ اس قدر گھبراہٹ اور تشویش کی کیا ضرورت تھی.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی کتاب اپنی ذات میں معجزہ نہیں ہے.بلکہ اس کے نزول سے پہلے وہ بے شک اپنے زمانے کے لوگوں کے لئے معجزہ ہوں گی لیکن اس سورج کے طلوع کے بعد وہ ستاروں کی طرح مدھم پڑ گئیں.اب حال یہ ہے کہ جو قصے ان کتب میں پائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ سے تو وہ اسلام کا مقابلہ کر لیتے ہیں کیونکہ قصوں میں جس قد رکوئی چاہے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لے لے.اگر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ سے کسی شفا کا ذکر کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں ایک مسیحی دس قصے سنا دے گا اور اگر اس پر استعجاب کا اظہار کیا جائے تو جھٹ کہہ دے گا کہ اگر تمہاری روایت قابل تسلیم ہے تو میری کیوں نہیں؟ لیکن اگر اس سے یہ کہا جائے کہ رسول کریم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے اور یہ زندہ معجزہ ہے.اس کی بنیاد روایتوں پر نہیں بلکہ حقیقت پر ہے.تو اس کے جواب میں سوائے خاموشی کے اور ان کے پاس کچھ نہیں رہتا.وہ اپنی کتابوں کو پیش نہیں کر سکتے.کیونکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کتب محرف و مبدل ہیں اور اگر بعض ضدی اسے.

Page 241

سيرة النبي علي 231 جلد 3 تسلیم نہیں کرتے تو کم سے کم تاریخی ثبوت اس قدر زبر دست موجود ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا.وید کے نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے کہ مختلف نسخے مل کر کئی نئے وید بن جاتے ہیں.آخر کانٹ چھانٹ کر ایک نسخہ تیار کیا گیا ہے.توریت کا یہ حال ہے کہ اس میں یہاں تک لکھا موجود ہے کہ پھر موسی" مر گیا اور آج تک اس جیسا کوئی نبی پیدا نہیں ہوا2 حالانکہ اس کتاب کی نسبت کہا جاتا ہے کہ خود موٹی پر نازل ہوئی تھی.دوسری کتب بائبل کی ایسی ہیں کہ اختلافات کی وجہ سے ایک حصہ کی دوسرے حصہ سے شکل نہیں پہچانی جاتی.انجیل میں خود مسیحی آئے دن تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں اور کبھی کسی آیت کو صحیح قرار دے کر اس میں داخل کر لیتے ہیں دوسرے وقت میں اسے ردی قرار دے کر پھینک دیتے ہیں.اور اب تو بعض بابوں تک کی صفائی ہونے لگی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ الحاقی باب ہیں.مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر انجیل کسی معتبر ذریعہ سے پہنچی تھی تو الحاق کا زمانہ انیس سو سال تک کس طرح لمبا ہو گیا؟ معنوں کے فرق کو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلوں نے معنی نہیں سمجھے ہم نے سمجھ لئے ہیں.لیکن ظاہر الفاظ کے متعلق ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ پچھلوں نے ان کو داخل کر دیا اور اب موجودہ نسلوں نے انیس سو سال بعد حقیقت کو معلوم کر لیا.جو لوگ ان بابوں اور آیتوں پر عمل کرتے رہے ان کی زندگیاں تو برباد گئیں اور ان کا عرفان تو تباہ ہوا.وہ کتاب آسمانی جس میں دو ہزار سال تک زائد ابواب اور زائد آیات شامل رہیں اس پر بنی نوع انسان کیا یقین کر سکتے ہیں.اور آئندہ کے لئے کیا اعتبار ہو سکتا ہے کہ کچھ اور ابواب خارج نہ کر دئیے جائیں.ممکن ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے کہ جس طرح بعض محققین کا خیال ہے کہ ساری انجیل میں صرف ایلِی اِبلِی لِمَا سَبَقْتَنِی، یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا کا ایک فقرہ ہے جسے مسیح کے منہ سے نکلا ہوا کہا جاسکتا ہے.اس فقرہ کو انجیل قرار دے کر سب حصوں کو اڑا دیا جائے.مگر یہ

Page 242

سيرة النبي علي 232 جلد 3 چھوڑ دیا " والا فقرہ ملانے کا موجب کب ہوسکتا ہے؟ غرض دوسرے سب مذاہب کی الہامی کتب ایسی مخدوش حالت میں ہیں کہ اس مقابلہ کی طرف آنے سے ان کے مبلغوں کی روح کا نپتی ہے.اور یہی حال دوسری کلام کی خوبیوں کا ہے.اس وجہ سے کلام کے معجزہ کی طرف یہ لوگ کبھی نہیں آتے.حالانکہ کلام کا معجزہ دوسرے معجزوں سے زبر دست ہوتا ہے کیونکہ اس کا ثبوت ہر وقت پیش کیا جا سکتا ہے.جب کہ دوسرے معجزات ایسے ہیں کہ روایات کے غبار میں غائب ہو جاتے ہیں اور جب تک دوسرے شواہد ساتھ نہ ہوں سچے اور جھوٹے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کلام کا معجزہ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کئی شاخیں رکھتا ہے اور قرآن کریم کا معجزہ ان تمام شاخوں میں مکمل اور اکمل ہے.لیکن ایک اخبار کے مضمون میں اس قدر گنجائش نہیں ہو سکتی کہ ہر ایک بات بیان کر دی جائے.نہ ہر امر تفصیل سے بیان ہوسکتا ہے.اس لئے میں صرف اس معجزہ کے دو پہلوؤں کو اختصار سے بیان کرتا ہوں.اور چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی اور کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی مدعی ہے تو اس کے پیرو اس معجزہ کے مقابلہ میں اسے پیش کریں اور دیکھیں کہ کیا ان کی کتاب ایک ذرہ بھر بھی اس کتاب کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ پہلی مثال جو میں پیش کرنی چاہتا ہوں الفاظ قرآنیہ ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ 3 ہم ہی نے اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جو چیز اپنی غرض کو پورا کر رہی ہوتی ہے ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں.اور جب وہ اس غرض کو پورا کرنے سے جس کے لئے اسے بنایا یا اختیار کیا گیا تھا رہ جاتی ہے تو ہم اسے پھینک دیتے ہیں.پس اس میں کیا شک ہے کہ اگر کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو جب تک اس کی ضرورت دنیا میں ہواس

Page 243

سيرة النبي عمال 233 جلد 3 کی حفاظت ہونی چاہئے اور جب اس کی حفاظت بند ہو جائے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی ضرورت دنیا میں باقی نہیں رہی اس لئے اسے پھینک دیا گیا ہے.قرآن کریم جس قوم میں نازل ہوا وہ علم سے خالی تھی.اس کے مقابلہ میں دوسری کتب سماویہ ایسی اقوام میں نازل ہوئیں کہ جن میں لکھنے پڑھنے کا کافی رواج موجود تھا.لیکن باوجود اس کے وہ کتب محفوظ نہ رہ سکیں.لیکن قرآن کریم اب تک اسی طرح صلى الله موجود ہے جس طرح کہ وہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت تھا.اور یہ حفاظت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اس کے لئے خاص آسانیاں حاصل تھیں جو دوسری کتب کو حاصل نہیں تھیں.نہ یہ حفاظت اس وجہ سے ہے کہ اب تک اس کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا گیا.جس سے یہ امکان باقی رہ جائے کہ شاید جب اس کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو اس کے نقائص معلوم ہو جائیں.کیونکہ ایک سو سال سے مسیحی مبشرین بائبل کی بدنامی دھونے کیلئے قرآن کریم کی تاریخ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور اس قسم کی عرق ریزی سے کام لے رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کو ان کی نسبت معلوم نہ ہو تو شاید وہ یہ خیال کرے کہ قرآن کریم کی محبت مسیحی مبشروں کو عام مسلمانوں سے زیادہ ہے.لیکن باوجود اس عرق ریزی کے وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اس کی عبارت میں ایک لفظ بھی ایسا ثابت کر سکیں کہ جو زائد ہو اور اصل قرآن کریم میں نہ ہو.ہزاروں قوموں اور سینکڑوں ملکوں میں مسلمان بستے ہیں اور سب کے پاس قرآن کریم ہوتا ہے لیکن آج تک ایک بھی ایسی مثال نہیں نکل سکی کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو.ڈاکٹر منگانا نے اپنی طرف سے بڑی کوشش کر کے تین قدیم نسخے قرآن کریم کے تلاش کئے تھے لیکن ان کے بعض اوراق چھاپنے سے ان کی ایسی پردہ دری ہوئی کہ مزید اشاعت کا خیال ہی انہوں نے دل سے نکال دیا.کیونکہ ان کے شائع کردہ ورقوں سے ثابت ہو گیا کہ وہ کوئی صحیح نسخے نہ تھے بلکہ کسی جاہل نو آموز کی طرز تحریر کی غلطیاں تھیں اور اس کو غلطی نہیں کہتے.غلطی وہ ہوتی ہے جسے قوم صحیح تسلیم کر کے دھو کے

Page 244

سيرة النبي علي 234 جلد 3 میں آ جائے.اس قسم کے نسخوں کی تلاش کسی قدیم زمانہ میں کرنے کی کیا ضرورت ہے اس کے لئے تو آسان راہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کی خراب چھپی ہوئی کتاب میں سے غلط آیات نکال کر کہہ دیا جائے کہ دیکھو قرآن کریم میں اختلاف ہے.چنانچہ ایک پادری سیالکوٹ میں ایسا تھا بھی جو مختلف نسخے قرآن کریم کے اپنے پاس رکھتا تھا اور جو کوئی غلطی اسے ملتی اس پر نشان لگا لیا کرتا تھا.پھر جو مسلمان اسے ملتا اسے دکھاتا تھا کہ تم تو کہتے ہو کہ قرآن کریم محفوظ ہے حالانکہ اس قرآن میں یہ لفظ یوں لکھا ہے اور اس دوسرے میں یوں لکھا ہے.اس کا دماغ اس طرف نہیں گیا کہ ایک تو تلے آدمی کو نوکر رکھ چھوڑتا اور اس سے قرآن پڑھوا کر سنوا تا اور کہتا کہ دیکھو قرآن کریم میں تغیر ہوسکتا ہے.اس نادان نے یہ نہیں سوچا کہ غلطی وہ ہوتی ہے جس سے قوم دھوکا کھا جائے.ور نہ وہ بھول چوک جس کو خود لکھنے والا بھی دوبارہ پڑھنے سے معلوم کر لے کہ یہ غلطی تھی ، حفاظت کے خلاف نہیں.اس کی حفاظت تو انسانی دماغ میں اور دوسرے نسخوں میں موجود ہے اور اس سے کوئی نقصان عقیدہ یا تفسیر کو نہیں پہنچتا کیونکہ اس غلطی کی بنا پر کوئی شخص ترجمہ یا تفسیر غلط نہیں کرسکتا.قرآن کریم کو اس بارے میں جو حفاظت حاصل ہے اس کے متعلق میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا.میں صرف ان لوگوں کی شہادت پیش کرتا ہوں کہ جو پکے مسیحی ہیں اور جنہوں نے پورا زور لگایا ہے کہ کسی طرح قرآن کریم کی حفاظت پر وہ کوئی اعتراض کر سکیں.لیکن آخر مجبور ہو کر ان کو ماننا پڑا ہے کہ سب اعتراض فضول اور لغو ہیں قرآن کریم آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح کہ اُس وقت محفوظ تھا جب رسول کریم ﷺ دنیا سے جدا ہوئے تھے.سرولیم میور کی شہادت سرولیم میور اپنی کتاب ” دی کران“ (القرآن ) میں لکھتے ہیں :.زید کا نظر ثانی کیا ہوا قرآن آج تک بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہے.اس

Page 245

سيرة النبي علي 235 جلد 3 احتیاط سے اس کی نقل کی گئی ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں صرف ایک ہی نسخہ قرآن کا استعمال کیا جاتا ہے 4." جو اختلاف قرآن کریم کے نسخوں میں نظر آتا ہے وہ قریباً سب کا سب زیروں، زبروں اور وقف وغیرہ کے متعلق ہے لیکن چونکہ زیر، زبر اور وقف کی علامت سب بعد کی ایجاد ہیں وہ اصل قرآن کریم کا حصہ ہی نہیں ہیں اور نہ اس کا جو زید نے جمع کیا تھا 5.یہ بات یقینی ہے کہ زید نے جمع قرآن کا کام پوری دیانتداری سے کیا تھا اور علی اور ان کی جماعت کا جو بدقسمت عثمان کے مخالف تھے اس قرآن کو تسلیم کر لینا ایک یقینی ثبوت ہے کہ وہ قرآن اصلی تھا.یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظاً لفظاً وہی ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا تھا 7.ایک مومن کی دلیل خواہ کس قدر ہی زبردست ہو لیکن دل میں شبہ رہتا ہے کہ شاید اس نے مبالغہ سے کام لیا ہوگا.لیکن یہ اس شخص کی تحریر ہے جس نے پورا زور لگایا ہے کہ اسلام اور بانی اسلام کی شان کو گرا کر دکھائے.خدا ہی جانتا ہے کہ اس اقرار صداقت کے وقت سر میور کا دل کس قد رغم وغصہ کا شکار ہو رہا ہوگا.لیکن چونکہ انہیں گریز کا کوئی موقع نہ ملا اس لئے انہیں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا اقرار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نظر نہیں آیا.اس شہادت کو دیکھنے کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ دشمن بھی اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن کریم ہر قسم کے دخل سے پاک ہے اور إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ کی پیشگوئی نہایت وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی ہے اور یہ اس کی عبارت کا معجزہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کی مثال کوئی اور کتاب پیش نہیں کرسکتی.

Page 246

سيرة النبي علي 236 جلد 3 قرآن کریم کے مفہوم کی حفاظت کا معجزہ دوسری مثال کے طور پر میں مفہوم کو پیش کرتا ہوں.اسی آیت کے ایک دوسرے کلام کی حفاظت کئی طرح ہوتی ہے.اس کے لفظوں کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے مفہوم کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے اثر کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی.میں لفظوں کے علاوہ اس کے مفہوم کی حفاظت کے معجزہ کو پیش کرتا ہوں.بالکل ممکن ہے کہ ایک کتاب کے لفظ تو ایک حد تک موجود ہوں لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے والے لوگ نہ مل سکیں.جیسے کہ وید ہیں کہ خواہ بگڑے ہوئے نسخے ہوں لیکن بہر حال اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ تو موجود ہے.لیکن ویدوں کی زبان اب دنیا سے اس قدرمٹ چکی ہے کہ کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وید کی عبارت کا مطلب کیا ہے.شرک اور توحید، تو ہم پرستی اور ستارہ پرستی اور طب اور شہوانی تعلقات کی باریکیاں اور ہر قسم کی متضاد باتیں اس سے نکالی جاتی ہیں.لفظ ایک ہوتے ہیں معنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.ایک قوم وام مارگ کی تعلیم اس سے نکالتی ہے تو دوسری ویدانت کی.اور اختلاف مفہوم میں نہیں بلکہ ترجمہ میں ہوتا ہے اور ایک جگہ نہیں بلکہ شروع سے لے کر آخر تک سارے ہی وید میں اختلاف ہوتا ہے.لیکن قرآن کریم کی زبان ایسی محفوظ ہے کہ گو بعض جگہ پر ایک لفظ کے مختلف معانی کی وجہ سے معنوں کا اختلاف ہو جائے لیکن اول تو وہ اختلاف محدود ہوتا ہے دوسرے اس کا حل خود قرآن کریم میں موجود ہوتا ہے.یعنی اس کے غلط معنی کرنے ممکن ہی نہیں ہیں کیونکہ قرآن کریم اپنی تفسیر خود کرتا ہے.اور اگر کوئی شخص غلط معنی کرے تو دوسری جگہ کسی اور آیت سے ضرور اس کے معنوں کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے اور اس طرح وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں.

Page 247

سيرة النبي علي 237 جلد 3 قرآن کریم کی ایک آیت یعنی قرآن کریم کے مفہوم کے سمجھنے کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی.دوسری کی حفاظت کرتی ہے ہم نے خود ہی اس کے اندر ایسا سامان پیدا کیا ہوا ہے کہ غلطی فوراً پکڑی جاتی ہے اور غلطی کرنے والا اپنے معنوں کی قرآن کریم کے دوسرے حصوں سے تطبیق پیدا نہیں کر سکتا.یہ قرآن کریم کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کی مثال بھی کسی اور کتاب میں نہیں مل سکتی.دوسری کتب اس طرح لکھی ہوئی ہیں کہ اگر ایک حصہ کے معنوں کو بدل دیا جائے تو دوسرے حصے ہر گز اس غلطی کو ظاہر نہیں کرتے لیکن قرآن کریم کی ہر آیت کی حفاظت کرنے والی دوسری آیتیں موجود ہوتی ہیں.جب کوئی شخص غلطی کرتا ہے تو فوراً وہ دوسری آیات اس غلطی کو ظاہر کر دیتی ہیں اور اس طرح غلطی کرنے والا پکڑا جاتا ہے.غرض رسول کریم ﷺ بطور ملہم بھی سب ملہموں سے افضل ہیں کیونکہ آپ کا الہام زندہ ہے اور اس قدر زبر دست معجزانہ اثرات اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی اور الہام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور کوئی اور کتاب آپ کی کتاب کے مقابلہ میں نہیں (الفضل 25 اکتوبر 1930ء) 66 ٹھہر سکتی.“ 1: المزمل : 2 تا 9 2: استثناء باب 34 آیت 10 مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور 2011 ء 3: الحجر : 10 4 تا 7 : دی کران مصنفه سرولیم میورصفحہ 39 ، 40 مطبوعہ لندن 1878ء

Page 248

سيرة النبي علي 238 جلد 3 رسول کریم عہ ایک دشمن کی نظر میں حضرت مصلح موعود نے رسول کریم ﷺ ایک دشمن کی نظر میں“ کے عنوان پر مضمون تحریر فرمایا جو الفضل 25 اکتوبر 1930ء کے شمارہ میں شائع ہوا.آپ تحریر صلى الله فرماتے ہیں:.سرولیم میور کے سی.ایس.آئی.جو یو.پی کے ایک سویلین تھے اور آخر ترقی کرتے کرتے یو.پی کے لیفٹیننٹ گورنر ہو گئے انہوں نے ایک کتاب آنحضرت عمر کے سوانح پر لکھی ہے جو اس موضوع پر مغربی لوگوں کی کتابوں میں سے اگر بہترین نہیں تو بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے.سرولیم میور اسلام اور بانی اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے ہیں.مسلمانوں کے ساتھ مراسم اور حکومت کے ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ اپنے قلم کو بہت حد تک روکے رکھتے ہیں لیکن ان کے متعصبانہ خیالات پھر بھی ان کی تحریر میں سے چھن چھن کر نکل ہی آتے ہیں.رسول کریم عملے کے متعلق جو زہر انہوں نے اگلا ہے اور جو نیش زنی انہوں نے کی ہے وہ قابل تعجب نہیں کیونکہ برتن میں سے وہی ٹپکتا ہے جو کچھ اس کے اندر ہوتا ہے مگر اس امر پر حیرت ضرور ہے کہ رسول کریم ﷺ کا حسن کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں بھی شناخت و عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی اس حسن دل آویز کی دید میں محو ہوتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں.مسیحیت کا یہ تیر انداز مجنونانہ طور پر آنحضرت ﷺ کی ذات پر تیر پھینکنے کے بعد جب والہا نہ رنگ میں زمین کی طرف جھکتا ہوا نظر آتا ہے کہ انہی خون کے قطروں کو جو اسی کے تیروں سے زمین پر گرے

Page 249

سيرة النبي عمال 239 جلد 3 تھے ادب واحترام کے ساتھ چاٹ لے تو دل میں گدگدیاں ہوئے بغیر نہیں رہتیں.اُس وقت یہ شخص عداوت و استعجاب کے متضاد جذبات کا مجسمہ نظر آتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بادل کی طرح قدرت نے آگ اور پانی ایک ہی جگہ پر جمع کر دیئے ہیں.جب وہ حالت جاتی رہتی ہے تو پھر یہ شخص پہلے کی طرح تیراندازی میں مشغول ہو جاتا ہے.بہت سے دشمنانِ اسلام کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ زمانہ کی پیدائش تھے.یعنی آپ نے زمانہ کو متغیر نہیں کیا بلکہ اس زمانہ کے حالات نے آپ کے وجود کو پیدا کیا.عرب کے لوگ اپنی حالت سے تنگ آچکے تھے.عیسائیت ان کی ارواح کو گرما رہی تھی.وہ ایک نئی شکل اختیار کرنے کے لئے تیار تھے.ضرورت صرف ایک سانچے کی تھی جس میں وہ پڑ جائیں اور ڈھل جائیں.وہ سانچہ بھی حالات زمانہ کے ماتحت آپ ہی آپ تیار ہو رہا تھا.وہ سانچہ محمد ﷺ کی ذات تھی.عرب کے قلوب اس میں پڑے اور ایک نئی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک نیا نام پا کر دنیا میں پھیل گئے ، نہ محمد نے کوئی نیا قانون دنیا میں پیش کیا نہ دنیا نے ان کے ذریعہ سے کوئی نیا تغیر پیدا کیا.میور بھی اپنی جبلی حالت کے ماتحت اسی خیال کی تائید کرتا چلا جاتا ہے.لیکن کبھی نسیم محمدی جہالت کی سرزمین سے اس کے پاؤں اکھیڑ دیتی ہے اور وہ لرزتے ہوئے ، کانپتے ہوئے ، غوطے کھاتے ہوئے مگر بہر حال زمین سے اوپر ایک نئی دنیا میں پرواز کرنے لگتا ہے.ایسی ہی گھڑیوں میں سے ایک گھڑی میں اس کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں :.یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لازمی نتیجہ تھی ، ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے بار یک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالی شان کپڑا تیار ہو گیا ہے یا یہ کہنا کہ جنگل کی بے تراشی لکڑیوں میں سے ایک شاندار جہاز تیار ہو گیا ہے یا پھر یہ کہنا کہ کھردری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیار ہو گیا

Page 250

سيرة النبي عمال 240 جلد 3 ہے.اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جاتے اور اپنے متبعین کو ان دونوں مذاہب کی سادہ تعلیم پر کار بند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمد یا ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جاتا جو عرب کے گرجا کی بنیاد رکھنے والا قرار لیکن جہاں تک انسانی عقل کام دیتی ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلاطم پیدا نہ کرسکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کوئی معقول حصہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا.لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ نے اپنے انتہائی کمال کے ساتھ ایک ایسی کل ایجاد کی کہ جس کی موقع کے مناسب ڈھل جانے والی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم کی پراگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میں بدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں.ایک عیسائی کو وہ ایک عیسائی نظر آتے تھے.ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے.ایک مکہ کے بت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یافتہ عبادت گزار تھے اور اسی طرح ایک لاثانی ہنر اور ایک بے مثال دماغی قابلیت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کوئی بت پرست تھا، یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبور کر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے.یہ فعل اس صناع کا ہوتا ہے جو اپنا مصالح آپ تیار کرتا ہے اور یہاں اس مصالح کی مثال چسپاں نہیں ہوتی جو کہ آپ ہی آپ بن جاتا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں جو اپنے صناع کو خود تیار کرتا ہے.یہ محمد کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا.یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلامی روح تھی جس 66 نے محمد کو بنایا 1.“ میور خواہ ہوا میں اُڑے یا زمین پر چلے پھر میور ہی ہے.اس کا ڈنک اس کے

Page 251

سيرة النبي علي 241 جلد 3 صلى الله ساتھ ہے.لیکن باغ محمد کے پھولوں سے چوسا ہوا شہد بھی اس کی زبان سے ٹپک رہا ہے.وہ لاکھ کہے کہ اسلام آنحضرت ﷺ کا تیار کردہ ہے.وہ دشمن ہے اور دشمنی اس کا شیوہ.لیکن یہ صداقت جو اس کے قلم سے نکل گئی ہے اب ہزار کوشش سے بھی وہ اور اس کے ساتھی اس کو لوٹا نہیں سکتے کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہیں کیا بلکہ محمد ﷺ نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے.اور یہ کام سوائے خدا کے فرشتوں کے اور کوئی نہ کر سکتا.زمینی راہنما زمین کی پیدائش ہوتے ہیں.یہ انسانی راہنما ہی ہوتے ہیں جو نئی زمین پیدا کر جاتے ہیں کیونکہ جو خالق کی طرف سے آتا ہے وہی نئی خلق پر ( الفضل 25 اکتوبر 1930ء) قدرت پاتا ہے.66 The life of Mohammad by Sir William Muir, Introduction XC VIII, :1 Topic Arabia before Mohammad.Edition Edinburgh 1923.

Page 252

سيرة النبي علي 242 جلد 3 عرفانِ الہی اور محبت باللہ کا مرتبہ صا الله اور رسول کریم علی جب ہندوؤں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انتہائی دل آزار کتاب ”رنگیلا رسول اور رسالہ ” در تمان“ شائع ہوئے تو حضرت مصلح موعود نے 1927ء میں یہ تحریک جاری فرمائی کہ سارے ہندوستان میں ایک دن جلسہ کر کے رسول کریم ﷺ کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے.اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر 26 اکتوبر 1930ء کا دن سیرۃ النبی کے جلسوں کے لئے مقرر ہوا.حضرت مصلح موعود نے قادیان کے جلسہ میں اُس روز جو تقریر کی وہ درج ذیل ہے.آپ فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ کی تعریف کرنا بے شک ایک مسلمان اپنے مذہب کے لحاظ صلى الله سے ثواب کا کام سمجھتا ہے اور غیر مذاہب والے بھی جنہیں رسول کریم علیہ کے حالات پڑھنے کا موقع ملا ہو اور جو صداقت کے اظہار کی جرات رکھتے ہوں اظہارِ صداقت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ رسول کریم علیہ کی تعریف و توصیف کریں.مگر ایک چیز ہے جسے ہم کسی صورت میں بھی قربان نہیں کر سکتے اور کسی کے لئے بھی قربان نہیں کر سکتے ، خواہ وہ رسول کریم ﷺ کی ذات ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس لئے کوئی بات ایسی نہیں کہنی چاہئے جس میں شرک کا ایک شائبہ بھی پایا جاتا ہو.ہمیں محمد ﷺ کی ذات سے محبت اس لئے ہے کہ آپ کی ذات خدا نما ہے.اگر خدا نمائی کو آپ کی ذات سے علیحدہ کر دیا جائے تو پھر آپ بھی ایسے ہی انسان ہیں جیسے دوسرے

Page 253

سيرة النبي عمال 243 جلد 3 انسان.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعض اشعار میں بے شک ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں رسول کریم ﷺ کی روح کو مخاطب کیا ہے مگر ملہم اور غیر ملہم کے کلام میں فرق ہوتا ہے.ملہم جسے مخاطب کرتا ہے اسے اپنی آنکھ سے اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں نے جاگتے ہوئے حضرت علی، حضرت حسینؓ اور حضرت فاطمہ سے باتیں کیں.پس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اے رسول اللہ ! یہ بات یوں ہو تو یہ سچ ہے لیکن وہ جسے یہ حالت حاصل نہیں وہ اگر یہ کہتا ہے کہ اے رسول اللہ ! آپ کی مجھ پر نظر عنایت ہو تو غلط کہتا ہے.نظر عنایت خدا ہی کی ہوتی ہے.ہم مشرک نہیں اس لئے ہم خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں.خواہ محمد علی کی ذات ہی کیوں نہ ہو.ہماری جماعت کے شاعروں کو اپنے کلام میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے ”گر حفظ مراتب 66 صلى الله علوس نہ کنی زندیقی.“ حفظ مراتب کرنا ہمارا فرض ہے.پس ضروری ہے کہ جس امر کی حفاظت کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں ہر حال میں اس کی حفاظت کریں.لیکن اگر وہی چیز جس کی حفاظت کے لئے رسول کریم ﷺ کھڑے ہوئے اسے ضائع کر دیتے ہیں تو پھر رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے." اس کے بعد میں اصل مضمون کو لیتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے خصوصیت سے مقرر کیا گیا ہے اور جو یہ ہے کہ عرفان الہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریم علی دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے.‘ عرفان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہچاننے اور شناخت کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت کم از کم ایک مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ وراء الورا ہستی ہے اور مجسم نہیں.اس لئے ممکن نہیں کہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ سکیں یا انسانی ہاتھ اسے چھوسکیں یا دوسرے ظاہری حواس اسے محسوس کر سکیں.پس وہ ذات جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ

Page 254

سيرة النبي علي 244 جلد 3 وہ نہ آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے نہ ہاتھوں سے چھوٹی جاسکتی ہے اس کے پہچاننے کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے.اس صورت میں یقینی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پہچاننے کا وہ مفہوم نہیں ہوسکتا جو دوسری چیزوں کے پہچاننے کا ہوتا ہے.مادی چیزوں کے پہچانے کا طریق یہ ہے کہ ہم انہیں آنکھوں سے دیکھتے یا زبانوں سے چکھتے یا کانوں سے سنتے یا ہاتھوں سے چھوتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں جو دیکھنے، سننے، سونگھنے یا چکھنے سے معلوم ہو سکے.چنانچہ وہ ذات خود اپنے متعلق فرماتی ہے نی لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ 1 کہ وہ ایسی ذات ہے جسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں مگر وہ خود آنکھوں تک پہنچ جاتی ہے.پس جب ہم اسے دیکھ نہیں سکتے تو پھر پہچاننے کے لئے کوئی اور ذریعہ اختیار کرنا ہوگا اور وہ ذریعہ یہی ہے کہ جو ہستی خالق ہے اور جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ وہ سارے جہان کی خالق ہے اس کی پہلی شناخت اپنی ذات سے ہوگی.کیونکہ جو چھوا، چکھا، دیکھا اور سنا نہ جا سکے اس کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ اس کے کام دیکھیں.اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز ہماری اپنی ذات ہی ہے.پس سب سے پہلی شناخت خدا تعالیٰ کی اپنی ذات میں ہی انسان کر سکتا ہے.اور جو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسے پہچان لیتا ہے.اسی لئے صوفیاء کہتے ہیں مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا.دوسری شناخت کی صورت یہ ہے کہ دوسری کامل چیزوں میں خدا کو دیکھا جائے.میں نے خدا تعالیٰ کی شناخت کے طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے کامل چیزوں کو مقدم رکھا ہے.حالانکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہو گی اتنی ہی زیادہ آسانی کے ساتھ دیکھی جا سکے گی.مگر یہ درست نہیں کیونکہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی وراء الورا ہوتی چلی جائے گی.اس لئے کامل چیزوں میں خدا کا دیکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی پہچان کی

Page 255

سيرة النبي عمال 245 جلد 3 پہلی صورت تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ نظر آ جائے.یہ سب سے بالا و بلند مقام ہے.اس سے دوسرا مقام یہ ہے کہ کامل انسانوں میں خدا نظر آ جائے.اور تیسرا مقام یہ ہے کہ باقی انسانوں میں خدا نظر آئے.کامل انسان میں خدا تعالیٰ کا دیکھنا مشکل ہے.مگر عام انسانوں میں خدا کو دیکھنا بھی آسان نہیں.ایک انسان اگر جنگل میں کوئی خوشکن سبزہ زار دیکھے تو بے اختیار سُبحَانَ اللهِ کہے گا اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ پھر جائے گی.لیکن اس سے بہتر اس کا ہمسایہ ہوگا مگر اس سے لڑتا جھگڑتا رہے گا.وہ سبزہ میں تو خدا کو دیکھ لے گا لیکن ہمسایہ میں اسے نظر نہ آئے گا.وہ گانے والی چڑیا کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کا جلوہ محسوس کرے گا مگر بولنے والے انسان میں اسے کچھ نہ نظر آئے گا کیونکہ رقابت کی وجہ سے اس میں دیکھنا مشکل ہوتا ہے تو یہ تیسرا درجہ ہے.اس سے اتر کر چوتھا درجہ باقی مخلوق میں خدا تعالیٰ کو دیکھنا ہے.اس میں بھی خدا تعالیٰ کی رؤیت کے اعلیٰ مقامات ہیں.پھر پانچواں مقام یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھائے.ہر کمال جو انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کے دو درجے ہوتے ہیں.ایک یہ کہ انسان خود اسے سمجھے.دوسرے یہ کہ دوسروں کو سمجھا سکے.ایک طالب علم خود جس قدر جغرافیہ اور تاریخ سمجھ سکتا ہے اسے اگر کہا جائے کہ اسی قدر دوسرے لڑکوں کو سمجھا دو تو وہ نہیں سمجھا سکے گا.پس پانچواں مقام یہ ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھا سکے.وقت کی کمی کی وجہ سے میں مضمون کو مختصر کر رہا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کی شناخت کے اور بھی مقام ہیں.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی کو پہچان لینے کی علامتیں کیا ہوتی ہیں.بعض لوگ دوسروں کو پہچان لیتے ہیں مگر وہ خود نہیں پہچانے جاتے.انسانوں میں اس قسم کا معاملہ روز ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اور بندہ میں اس طرح نہیں ہو سکتا.کیونکہ بندہ کا علم محدود ہوتا ہے وہ پہچاننے والوں کو پہچاننے سے محروم ہوسکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ سب کو جانتا ہے.اس لئے جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لے تو خدا تعالیٰ بھی اپنی پہچان فوراً اس پر ظاہر کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ سب کو پہچانتا ہے مگر.

Page 256

سيرة النبي علي 246 جلد 3 بندوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لئے اپنے مقام کو ان سے مخفی رکھتا ہے.لیکن جب بندہ اس کی تلاش کرتا اور اسے پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی بندے پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں.پس خدا تعالیٰ کو بندہ کے پہچاننے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بندہ کو پہچان لے.جب بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے جواب میں پہچانتا ہے.عام عرفان کے متعلق رسول کریم ﷺ نے ایک آیت پیش فرمائی ہے.اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں میں پہلے وہ پیش کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُل إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُجْبُكُمُ اللهُ 2 کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.اس آیت میں پانچ باتیں بیان کی گئی ہیں.اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو انسان پاسکتا ہے.پہلے جتنے بزرگ گزرے ہیں جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے خدا کو پا لیا تو انہوں نے غلط نہ کہا بلکہ بالکل درست کہا کیونکہ انسان خدا کو پا سکتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله اگر تم خدا تعالیٰ کو ملنے کی خواہش رکھتے ہو تو آؤ اس کا ذریعہ میں تمہیں بتاؤں کہ کس طرح مل سکتے ہو.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ انسان کو مل سکتا ہے.دوسری جگہ اس بات کی اس طرح تصدیق کی گئی کہ فرمایا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا الَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہِ جو ہم تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ ہمیں پالیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور زمانہ میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے کہا کہ خدا مل گیا.مثلاً ایران میں حضرت زرتشت نے کہا.ہندوستان کے کئی بزرگوں حضرت کرشن ، حضرت رام چندر، حضرت بدھ کے کلام کو دیکھا جائے تو صاف طور پر یہ ذکر ملتا ہے کہ خدا کو ہم نے پا لیا.چین میں کنفیوشس ایسے ہی بزرگ گزرے ہیں.شام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مل جاتے ہیں.عرب 3

Page 257

سيرة النبي عليه 247 جلد 3 میں حضرت صالح اور حضرت ہوڈ پائے جاتے ہیں.غرض جہاں بھی جائیں ایسے انسان وہاں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے کہا کہ وہ خدا کو مل گئے اور خدا انہیں مل گیا.یہ ایسی پختہ اور اتنی عام فہم بات ہے کہ اگر اس کا انکار کیا جائے تو دنیا میں کوئی صداقت رہتی ہی نہیں.کیونکہ اگر یہ لوگ جھوٹے ہو سکتے ہیں تو پھر دنیا میں اور کوئی سچا نہیں ہوسکتا.غرض الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا میں خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو مجھ سے ملنے کی کوشش کرتا ہے وہ مجھے پالیتا ہے.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُدَيْرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُونَ 4 خدا اپنی باتوں کو اندازہ سے رکھتا ہے اور جہاں جہاں کے متعلق کوئی چیز ہوتی ہے وہاں کھولتا اور تشریح کرتا ہے تا کہ اس کے بندوں کو اپنے رب کے لِقا پر یقین ہو جائے.پس پہلی بات جو رسول کریم ﷺ نے اس آیت کے ذریعہ دنیا کو بتائی وہ یہ ہے کہ خدا بندوں کو مل سکتا ہے.دوسری بات یہ فرمائی کہ عرفان حاصل کرنے کے لئے سنجیدگی اور کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ فرمایا فَاتَّبِعُونِی خدا کے ملنے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا.تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ عرفان کے حصول کے لئے صحیح راہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور اس کے لئے عارف کی اتباع کی ضرورت ہے چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ 5 صادقین کے ساتھ مل جاؤ.چوتھی بات یہ فرمائی کہ وہ صحیح راہنما محمد رسول اللہ ﷺے ہیں.اس کا اشارہ ”نبی“ میں کیا گیا ہے کہ میری اتباع کرو تب خدا ملے گا.پانچویں بات یہ بتائی يُحْبِبْكُمُ الله کہ انسان اللہ کا محبوب ہو جائے گا.انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کا پیدا ہونا اور بات ہے لیکن جب تک خدا کی محبت انسان کی محبت کے جواب میں نہ اترے وہ عارف نہیں کہلا سکتا.خواہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی کتنی محبت ہو.کیونکہ محبوب کا مل جانا اس کی محبت کی علامت ہوتی

Page 258

سيرة النبي علي 248 جلد 3 ہے.پس خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو مل جاتا اور ان سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسا اپنے مقرب سے کیا جاتا ہے.اس طرح بندہ کو اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کے صحیح ہونے کا علم ہو جاتا ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور مقربین جیسا سلوک نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہمارے دل میں بھی خدا کی سچی محبت نہیں ہے.بھلا یہ کبھی ممکن ہے کہ دو دلوں میں سچی محبت بھی ہو اور ان کے ملنے میں کوئی روک بھی نہ ہو اور پھر وہ آپس میں نہ ملیں.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت ہو، جس کے پیدا ہونے پر خدا تعالیٰ بھی اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ اسے نہ ملے.جب خدا تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے اور اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ اپنے بندہ تک آ سکے تو پھر ناممکن ہے کہ وہ نہ آئے.اسی محبت کا نام عرفان ہے جس کے بعد خدا تعالیٰ مل جاتا ہے اور انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کو کیسا عرفان حاصل تھا.پہلا عرفان یہ ہے کہ اپنی ذات میں انسان خدا تعالیٰ کو دیکھے.یہ سب سے کامل عرفان ہے گواس کے بھی آگے بڑے بڑے درجے ہیں.رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو عرفان دیا صلى الله تھا اس کی ایک مثال بتا تا ہوں.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی پہچان کیسی حاصل تھی.جب مکہ کے لوگوں نے رسول کریم ﷺ پر انتہا درجہ کے مظالم شروع کر دیئے اور ان کی وجہ سے دین کی اشاعت میں روک پیدا ہونے لگی تو ا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں.آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر بھی مکہ چھوڑنے کیلئے تیار ہو گئے.اس سے پہلے کئی دفعہ انہیں جانے کے لئے کہا گیا مگر آپ رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ ہوئے.جب رسول کریم جانے لگے تو حضرت ابو بکر کو بھی آپ نے ساتھ لے لیا.جب آپ رات کے وقت روانہ ہوئے تو ایک جگہ جو میں نے بھی دیکھی ہے پہاڑ میں معمولی سی غار ہے.جس کا منہ دو تین گز چوڑا ہوگا اس میں جا کر ٹھہر گئے.جب مکہ کے لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ

Page 259

سيرة النبي علي 249 جلد 3 الله چلے گئے ہیں تو انہوں نے آپ کا تعاقب کیا.عرب میں بڑے بڑے ماہر کھو جی ہوا کرتے تھے.ان کی مدد سے تعاقب کرنے والے عین اُس مقام پر پہنچ گئے جہاں رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر بیٹھے تھے.خدا کی قدرت کہ غار کے منہ پر کچھ جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی تھیں.اگر وہ لوگ شاخوں کو صلى الله ہٹا کر اندر دیکھتے تو رسول کریم علیہ اور حضرت ابوبکر بیٹھے ہوئے نظر آ جاتے.جب کھوجی وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں اس سے آگے نہیں گئے.خیال کرو اُس وقت کیسا نازک موقع تھا.اُس وقت حضرت ابوبکر گھبرائے مگر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے لئے.اُس وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَاہِ.گھبراتے کیوں ہو، خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اگر رسول کریم ہے خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں نہ دیکھتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے نازک وقت میں گھبرا نہ جاتے.قوی سے قوی دل گردہ کا انسان بھی دشمن سے عین سر پر آجانے سے گھبرا جاتا ہے.مگر رسول کریم ہے کے بالکل قریب بلکہ سر پر آپ کے دشمن کھڑے تھے اور دشمن بھی وہ جو تیرہ سال سے آپ کی جان لینے کے درپے تھے اور جنہیں کھوجی یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں، اس جگہ سے آگے نہیں گئے.اُس وقت رسول کریم علے فرماتے ہیں لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللهَ مَعَنَا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپ نے یہ کہا.آپ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی اس لئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا.عروسة ایک دوسرے موقع پر رسول کریم ﷺ کا عرفان اس طرح ظاہر ہوا کہ مکہ کے قریب کا ایک آدمی تھا جس کا ابو جہل کے ذمہ کچھ قرضہ تھا.اس نے ابوجہل سے قرضہ مانگنا شروع کیا مگر وہ لیت و لعل کرتا رہا.اُس زمانہ میں مکہ کے شرفاء نے ایک سوسائٹی

Page 260

سيرة النبي علي 250 جلد 3 : صلى الله بنائی ہوئی تھی جس کا کام یہ تھا کہ جو لوگ مظلوم ہوں ان کی امداد کرے.اس میں رسول کریم ﷺ بھی شامل تھے.وہ شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ صلى الله ابوجہل نے میرا روپیہ مارا ہوا ہے آپ مجھے اس سے حق لے دیں.رسول کریم علی نے اسے یہ نہ کہا کہ ابو جہل میرا دشمن ہے میرے خلاف شرارتیں کرتا رہتا ہے بلکہ کہا آؤ میرے ساتھ چلو.آپ ابو جہل کے ہاں گئے.اُس وقت مخالفین کی شرارتیں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ جب رسول کریم نے گھر سے باہر نکلتے تو آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے ، بیہودہ آوازے کستے ، ہنسی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس آدمی کو لے کر ابوجہل کے محلہ میں گئے اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دی.جب ابو جہل نے دروازہ کھولا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخص جس کا میں اس قدر دشمن ہوں وہ یہاں کس طرح آ گیا.اس نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص صلى الله کا روپیہ دینا ہے؟ ابو جہل نے کہاں ہاں دینا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا دے دو.اُس پر اتنا رعب طاری ہوا کہ وہ دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور فوراً روپیہ لا کر دے دیا.اس کے بعد کسی نے اس سے پوچھا تم تو کہا کرتے تھے کہ محمد کو جس قدر ذلیل کیا جائے اور جتنا دکھ دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے پھر تم نے اس سے ڈر کر روپیہ کیوں دے دیا ؟ اس نے کہا آپ لوگ جانتے نہیں میری اُس وقت یہ حالت تھی کہ گویا میرے سامنے شیر کھڑا ہے.اگر میں نے ذرا انکار کیا تو مجھے پھاڑ ڈالے گا.اس لئے میں ڈر گیا اور فوراً روپیہ دے دیا..اب دیکھو رسول کریم ﷺ کا اشد ترین دشمن کے گھر چلے جانا اور اس سے روپیہ کا مطالبہ کرنا اسی لئے تھا کہ آپ سمجھتے تھے خدا تعالیٰ کی ذات مجھ میں جلوہ گر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی مجھ پر حملہ کر سکے.تیسرے موقع کی مثال یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک جنگ سے واپس آ رہے

Page 261

سيرة النبي عمال 251 جلد 3 تھے کہ دو پہر کے وقت جنگل میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے.دوسرے صحابی علیحدہ علیحدہ جگہوں میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص جس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ آپ کو قتل کئے بغیر واپس نہ لوٹوں گا اور جسے دوران جنگ میں حملہ کرنے کا موقع نہ ملا تھا آیا اور درخت سے لٹکی ہوئی تلوارا تار کر رسول کریم ﷺ کو جگا کر کہنے لگا اتنی مدت سے میں تمہاری تلاش میں تھا اب مجھے موقع ملا ہے بتاؤ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے اسی طرح لیٹے لیٹے بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کئے فرمایا مجھے اللہ بچا سکتا ہے 8.یہ الفاظ بظا ہر معمولی معلوم ہوتے ہیں اور کئی لوگ ان کی نقل کر کے یہ کہہ سکتے ہیں مگر ان کا نتیجہ بتاتا ہے کہ ان میں کیسی صداقت تھی.جب آپ نے فرمایا مجھے اللہ بچا سکتا ہے تو حملہ آور کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار گر گئی.اُس وقت آپ اٹھے اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہا اب بتاؤ تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا آپ ہی رحم صلى الله کریں تو میں بچ سکتا ہوں.اسے رسول کریم ﷺ سے سن کر بھی اللہ یاد نہ آیا.مگر صلى الله رسول کریم ﷺ نے اسے کہا جاؤ اور چھوڑ دیا.یہ عرفان الہی کا ہی نتیجہ تھا اور جب تک کامل عرفان حاصل نہ ہو اُس وقت تک اس طرح نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح ایک اور جنگ کے موقع پر جسے حنین کی جنگ کہتے ہیں اور جس میں کچھ نو مسلم اور کچھ غیر مسلم بھی شامل تھے جب لڑائی شروع ہوئی تو باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی اور دشمن کی تعداد چار ہزار.مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ایسی شکست ہوئی کہ وہ کہتے ہم اونٹوں کو پیچھے کی طرف موڑتے اور نکیل کھینچنے سے ان کے سر پیٹھ کے ساتھ جا لگتے مگر جب چلاتے تو آگے کی طرف ہی دوڑتے.اُس وقت رسول کریم ع کے اردگر دصرف بارہ آدمی رہ گئے.بعض صحابہؓ نے اُس وقت رسول کریم ﷺ کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور واپسی کے لئے کہا.عليم مگر آپ نے انہیں جھڑک دیا اور حضرت عباس کو کہا لوگوں کو آواز دو کہ جمع ہو جائیں اور خود دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے.

Page 262

سيرة النبي علي 252 أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبِ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ جلد 3 و میں جھوٹا نبی نہیں ہوں.میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.یہ ایسا وقت تھا جب کہ وہ جانباز مسلمان سپاہی جو نہایت قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے سارے عرب کو شکست دے چکے تھے بارہ ہزار کی تعداد میں ہوتے ہوئے چار ہزار کے مقابلہ سے بھاگ نکلے تھے.جب رسول کریم ﷺ کے ارد گرد صرف چند آدمی رہ گئے تھے، جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے آپ آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے.اُس وقت آپ نے یہ سمجھا کہ میرا یہ فعل دیکھ کر لوگ مجھے ہی خدا نہ سمجھ لیں.اس لئے آپ نے فرمایا میں نبی ہوں.ہاں اپنے اندر خدا کو دیکھ رہا ہوں.لوگ مجھے خدا دیکھ رہے ہوں گے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ میں نبی ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں، خدا نہیں ہوں.یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفان کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.پھر کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان زندگی بھر دھوکا میں مبتلا رہتا ہے مگر موت کے وقت اس پر اصل بات کھل جاتی ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملہم جو دماغ کی خرابی کی وجہ سے الہام کا دعویٰ کرتے ہیں مرنے سے قبل معافی کے خط لکھ دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ غلطی میں مبتلا تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفان اس درجہ کمال پر تھا کہ آپ کی آخری گھڑیوں کے متعلق لکھا ہے اُس وقت آپ کی زبان پر اس مفہوم کے الفاظ تھے کہ خدا تعالیٰ یہود اور عیسائیوں پر لعنت کرے.انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا 10 اس موقع سے یہود اور عیسائیوں کا کیا تعلق تھا.سننے والے تو مسلمان تھے پھر رسول کریم ﷺ نے یہ کیوں فرمایا؟ اس لئے کہ مسلمان آپ کی قبر کو ایسا نہ بنا لیں.اور اس کا خطرہ اس وجہ سے تھا کہ آپ کو معلوم تھا کہ لوگوں نے مجھ میں خدا کو دیکھا ہے.اور اس بات کا یقین آپ کو آخر وقت میں بھی تھا.صلى الله غرض رسول کریم و عرفان الہی کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور

Page 263

سيرة النبي علي 253 جلد 3 اپنے اندر خدا تعالیٰ کا ایسا جلال دیکھتے تھے کہ سمجھتے تھے آپ پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا.بیسیوں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں مگر اختصار کے لئے انہیں چھوڑتا ہوں.اس موقع پر میں یہ بھی بتا دوں کہ ایک قسم کی دلیری کا اظہار سنگ دلی کی وجہ سے بھی بعض لوگ کر دیا کرتے ہیں.ایک ڈاکٹر نے سنایا کہ ایک زمیندار کو آپریشن کرنے کیلئے کلور و فارم دینا چاہا تو اس نے کہا اس کی ضرورت نہیں میں یونہی آپریشن کرا لوں گا.چنانچہ اس نے بغیر کلوروفارم کے آپریشن کرا لیا تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تکلیف اور دکھ بآسانی برداشت کر لیتے ہیں مگر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں رحمت کا مادہ نہیں ہوتا.اس بارے میں جب ہم رسول کریم میے کے متعلق دیکھتے ہیں تو آپ کی طبیعت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا آپ کی طبیعت پر بہت بڑا اثر ہوتا تھا.حدیثوں میں آتا ہے جب کبھی زور کی آندھی یا بارش آتی تو رسول کریم ﷺہ گھبرا جاتے.پس ایک طرف تو رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے استغناء اور صفات کو دیکھتے تو آپ کے قلب کی نرمی آندھی اور بارش آنے پر بھی ظاہر ہو جاتی اور دوسری طرف بڑی سے بڑی تکلیف کی بھی کوئی پرواہ نہ کرتے.غرض رسول کریم ﷺ کے دل میں نرمی اور رافت تھی اور اس کثرت سے تھی کہ معمولی معمولی واقعات پر آپ کے آنسو نکل آتے تھے.پس آپ نے مصائب اور شدائد کے مقابلہ میں جس قوت اور حوصلہ کا اظہار کیا اس کی وجہ قساوت قلبی نہ تھی بلکہ وہ عرفان الہی کا نتیجہ تھا.صلى الله صلى الله دوسرا درجہ عرفان کا یہ ہوتا ہے کہ کامل ذاتوں میں خدا تعالیٰ کو پہچانا جائے.یہ بھی بہت بڑا کام ہے.دنیا میں کئی لوگ عارف ہوتے ہیں مگر ان کی پہچان اپنے تک ہی رہ جاتی ہے.کامل عارف کی مثال تیز نظر والے کی ہوتی ہے.ایک انسان دس گز پر کوئی چیز دیکھ سکتا ہے.دوسرا نہیں گز پر دیکھ سکتا ہے.کوئی سو گز پر، کوئی دو سو گز اور بعض میل میل دور سے ایک چیز کو پہچان لیتے ہیں.ان میں سے کس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تیز نظر والا ہے؟ اسی کے متعلق جو زیادہ دور سے ایک چیز کو پہچان لیتا

Page 264

سيرة النبي عليه 254 جلد 3 ہے.خدا تعالیٰ چونکہ مجسم نہیں اس لئے وہ دوسری چیزوں میں نظر آتا ہے.اور ان چیزوں میں سے ایک کامل انسان ہے.اب ہم دیکھتے ہیں خدا تعالیٰ کی ذات جن کامل بندوں میں پوشیدہ ہوتی ہے ان میں دیکھنے کی رسول کریم ﷺ کی نظر کیسی تھی.دنیا کے جس ملک کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے اسی کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کے ماننے والے ہوتے ہیں.مگر وہ اپنے بزرگوں تک ہی ساری بزرگی ختم قرار دے دیتے ہیں.ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت رام چندر جی کو خدا کا اوتار مانتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوا اور کسی ملک میں کوئی اوتار نہیں ہوا.اسی طرح چین، ایران کے لوگ اور یہودی وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے ہیں باقی سب جھوٹے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں کو دیکھتے تو ہیں مگر قریب والوں کو ہی دیکھ سکتے ہیں.ان میں عرفان تو ہے مگر بالکل قریب کی چیز کو دیکھنے کا.غرض تمام قوموں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دوسری کامل ذاتوں میں دیکھتی چلی آئی ہیں مگر ان کا یہ دیکھنا محدود ہے.یا تو وہ بالکل قریب کے بزرگ کو یا اپنے ہی حلقہ کے بزرگ کو دیکھتی ہیں اس سے باہر نہیں دیکھ سکتیں.لیکن خدا تعالی ساری دنیا کا خدا ہے اور تمام کے تمام انسان اسی کے بندے ہیں تو ضروری ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم میں وہ ظاہر ہوا ہو.اور ہر قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہوں جن میں خدا تعالیٰ نے جلوہ نمائی کی ہو.ایک طرف تو یہ بات ہے اور دوسری طرف یہ کہ جس چیز کو انسان ایک جگہ دیکھ کر پہچان لیتا ہے اسی قسم کی چیز اگر دوسری جگہ ہو تو اسے بھی پہچان سکتا ہے.اگر کوئی شخص ملیح آباد میں آم کو دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے تو وہ کابل میں آم کو دیکھ کر بھی پہچان لے گا اور ایران میں بھی.لیکن اگر کسی کے سامنے انگلستان میں آم رکھا جائے اور وہ کہے یہ آم نہیں ہے تو کون کہے گا کہ اس شخص کو آم کی پہچان ہے.پہچان لینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ جہاں وہ چیز نظر آئے پہچان لی جائے.کسی نے کہا ہے

Page 265

سيرة النبي عليه 255 بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت را می شناسم جلد 3 اپنے معشوق سے کہتا ہے تم کسی قسم کے بھی کپڑے پہن لو میری نظر سے تم چھپ نہیں سکتے.مجھے تمہارے قد کا اندازہ ہے اس لئے میں تمہیں ہر قسم کے کپڑوں میں پہچان لیتا ہوں.جب ایک مجازی عاشق اپنے معشوق کی محبت میں اتنی ترقی کر جاتا ہے اور معشوق کے قد کا اندازہ ایسا صحیح طور پر لگا لیتا ہے کہ ایک بال بھر بھی فرق نہیں آنے دیتا تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک حقیقی عاشق اپنے معشوق کو جہاں دیکھے نہ پہچان لے.غرض عرفان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ عارف جہاں بھی خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھے پہچان لے.یہ کیا پہچان ہوئی کہ اگر خدا کو اللہ کہا جائے تو پہچان لے لیکن کوئی گاڈیا پر میشور کہے تو نہ پہچانے.حقیقی عرفان یہی ہے کہ کسی نام، کسی شکل اور کسی لباس میں وہ چیز ہو تو اسے پہچان لیا جائے.خدا تعالیٰ کا حسن، اس کا جلال اور اس کے کرشمے ہر گوشہ اور ہر حصہ دنیا میں نظر آنے چاہئیں.اس بات کو مدنظر رکھ کر ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں تو پرانے زمانہ میں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک انسان جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سیاہ فام تھا.سیاہ فام ہو اس سے ہمیں کیا.ہمیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دل گورا تھا.وہ ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے اور ملک کی حالت خراب دیکھ کر کڑھتا ہے.اہل ملک کو جوئے ، شراب اور دوسرے گندوں میں مبتلا پا کر ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کے لئے تیار کرتا ہے کہ خون سے ہر قسم کے گندے اور نا پاک داغوں کو دھو دیں.لوگ اس کی باتیں سنتے اور اس پر ہنستے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کا اوتار کہتا ہے مگر انسانوں کی گردنوں پر تلوار میں چلا کر ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے.حتی کہ اس کو ماننے والے بھی اسے کہتے ہیں کیا خدا خون سے خوش ہوتا ہے کہ انسانوں کے خون بہائے جائیں ؟ مگر وہ انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور سارے ہند میں وہ آگ لگا دیتا ہے کہ اس وقت تینتیس کروڑ نہ سہی لیکن.

Page 266

سيرة النبي علي 256 جلد 3 لاکھوں انسان تو بستے ہوں گے ، اس آگ میں کود پڑتے ہیں اور وہ ایسی جنگ کراتا ہے جو آج تک نہایت ہولناک جنگ سمجھی جاتی ہے.اسے اپنے ملک کے لوگ نہیں پہچان سکتے لیکن دور عرب میں جہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا، جہاں کے بسنے والے اس کی قوم کو برا سمجھتے تھے مکہ کی چھوٹی سی بستی میں بیٹھا ہوا انسان آنکھ اٹھا کر مشرق کی طرف دیکھتا ہے تو اسے ایک ایسا چہرہ نظر آتا ہے جسے لوگ سیاہ کہتے ہیں.مگر اسے وہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے.اور کہتا ہے اس دُور ملک میں اپنے محبوب کو اس میں جلوہ گر دیکھا.وہاں بھی میرا خدا ظاہر ہوا اور اس جگہ بھی اس نے جلوہ نمائی کی.ایک ایسے ملک میں جس سے اس کی قوم کو نہ صرف کوئی تعلق نہ تھا بلکہ عداوت تھی اور ایسے انسان میں جسے اس کی اپنی قوم گمراہ خیال کرتی تھی.رسول کریم علیہ نے خدا کا نظارہ دیکھ لیا.اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے جلوہ کو دیکھنے کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے.پھر اسی ہندوستان میں ایک اور مثال دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا ہے.اسے ہر قسم کی نعمتیں حاصل ہیں.باپ پیدا ہوتے ہی اسے الگ محل میں بند کرا دیتا ہے کیونکہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس کا لڑکا حکومت کو چھوڑ چھاڑ کر گھر سے نکل جائے گا.اس وجہ سے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس بچہ کی نظر سے کوئی دکھ اور مصیبت کا نظارہ نہ گزرے.آخر وہ بچہ ایک دن کسی طرح اس محل سے باہر نکلا.اور بادشاہ نے حکم دے دیا کہ جدھر سے گزرے وہاں کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے.مگر خدا کی مرضی راستہ میں ایک اپاہج پڑا ہوا مل گیا.لوگوں نے اسے الگ ڈال دیا.مگر شہزادہ اسے دیکھ کر ٹھہر گیا اور پوچھا یہ کیا چیز ہے، میں نے تو ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی.مصاحبین نے شہزادہ کی توجہ اس سے ہٹانی چاہی مگر اس پر بڑا اثر ہوا اور اس نے اصرار سے اپاہج کی حالت دریافت کی اور کہا ایسی چیز ہمارے محل میں تو نہیں ہوتی.آخر وہ محل میں گیا اور اپاہج کے متعلق سوچتا رہا.کئی دن کے بعد پھر سیر کے لئے نکلا.بادشاہ نے مصاحبین کو تاکید کردی کہ کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے.

Page 267

سيرة النبي علي 257 جلد 3 مگر جس طرف سے گزر رہا تھا ادھر سے ایک جنازہ نکلا جس پر اس کی نظر پڑ گئی.اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟ ساتھ والوں نے بتایا ایک انسان مر گیا ہے.یہ اس کی لاش ہے.یہ سن کر وہ پھر فکر میں پڑ گیا.تیسری بار پھر جب سیر کے لئے نکلا تو ایک بڑھا دیکھا جو بہت کمزور اور ضعیف ہو چکا تھا.اس نے جب پوچھا یہ کیا ہے تو اسے بتایا گیا کہ انسان بڑی عمر کا ہو کر اس طرح ہو جاتا ہے.ان نظاروں کے دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سمجھا اس دنیا کا آرام و آسائش سب بیچ ہے.کوئی ایسی راہ نکالنی چاہئے کہ انسان ان دکھوں سے بچ جائے.اس کی شادی ہو چکی تھی اور اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا.مگر ایک رات وہ بیوی اور بچہ کو سوتے چھوڑ کر محل سے باہر نکل گیا اور مدتوں خدا تعالیٰ کی تلاش میں پھرتا رہا.آخر اس نے خدا تعالیٰ کو پالیا اور اس کا نام بدھ یعنی عقل مجسم ہوا.اُس وقت اس کے ملک کے لوگوں نے اس کی صداقت بھری باتوں کا انکار کیا اور اب بھی کئی لوگ انکار کرتے ہیں.مگر اس عارف نے جو عرب کی سرزمین میں پیدا ہوا بتا دیا اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ : 11 اس انسان میں بھی خدا کا جلوہ تھا.غرض دنیا کے ہر حصہ میں ایسے وجود ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان میں خدا تعالیٰ کا حسن جلوہ گر تھا اور خدا ان کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوا.مگر انسانوں کے دلوں کے بغض اور کینے ، عداوتیں اور دشمنیاں دوسری قوموں کے خدا رسیدہ لوگوں کے دیکھنے میں روک بن رہی ہیں.ان سب روکوں کو دور کرتے ہوئے محمد علی فرماتے ہیں یہ غلط ہے کہ خدا نے صرف ہندوستان میں اپنے آپ کو ظاہر کیا یا صرف ایران میں اپنا جلوہ دکھایا بلکہ خدا ہر جگہ اور ہر ملک میں ظاہر ہوا.ایسا عرفان کہ جہاں صلى الله خدا تعالیٰ نے اپنا جلوہ دکھا یا وہ محمد علیہ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا.وہ بے نظیر عرفان ہے جس کی مثال نہیں ملتی محمد ﷺ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دور شمال میں خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھا اور جنوب میں خدا تعالیٰ کے پیاروں کو پایا.دور مشرق اور مغرب میں خدا نما انسان دیکھے اور سینکڑوں ہزاروں سال کے بعد دیکھے.یہ ہے وہ

Page 268

سيرة النبي عليه عرفان جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے 258 بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت را می شناسم جلد 3 خواہ خدا بدھ کی شکل میں یا کنفیوشس کی شکل میں یا زرتشت کی شکل میں یا کرشن اور رام چندر کی شکل میں یا موسی اور عیسی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں جلوہ گر ہوا رسول کریم ﷺ نے دیکھ لیا.بعض لوگ کہتے ہیں محمد علی نے گزشتہ انبیاء سے آخر میں پیدا ہوئے تو اس سے انہیں کیا فضیلت حاصل ہو سکتی ہے.میں کہتا ہوں ذرا سوچو تو سہی ساری دنیا خدا کی اولاد کی طرح ہے.اگر چہ باپ بیٹے کے نقشوں میں بڑا فرق ہوتا ہے مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں ضروری جھلک پائی جاتی ہے اور بیٹے کی باپ سے مشابہت ظاہر ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی جو تمام انسانوں کا خالق ہے اس کی مشابہت بھی مخلوق سے ہونی چاہئے.اور اعلیٰ درجہ کے بندوں سے زیادہ اس کی مشابہت ہونی چاہئے.یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک چھوٹا بھائی گم ہو جائے اور جب کہیں ملے تو بڑا بھائی اسے پہچان لے مگر اس سے چھوٹا جو گم ہونے والے کے بعد پیدا ہوا وہ اگر گم ہونے والے بھائی کو پہچان لے تو ان میں سے ا کون بڑا عارف ہو گا؟ یقیناً وہی بڑا عارف ہوگا جس کے دیکھنے سے بھی پہلے اس کا بھائی گھر سے نکل گیا تھا.مگر جب اس نے دیکھا تو اسے فوراً پہچان لیا.ایک بھائی دوسرے بھائی کو کس طرح پہچانتا ہے؟ اسی طرح کہ اس میں اپنے باپ کی کچھ نہ کچھ صلى الله مشابہت پالیتا ہے اور اس طرح بھائی کا پہچاننا باپ کا پہچانا ہوتا ہے.جب محمد عدی نے اپنے بعض نبی بھائیوں کو بعد میں آ کر پہچان لیا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ جس جس میں بھی یہ مشابہت پائی جائے گی اسے رسول کریم ﷺ نے پہچان لیا.اس میں صرف محمد ﷺ نے پہچان لیا.اس میں صرف محمد عہ ہی مخصوص ہیں.اور انبیاء نے اپنے اندر خدا تعالیٰ کو پہچانا مگر رسول کریم ﷺ نے اپنے ہی اندر خدا تعالیٰ کو نہ پہنچانا بلکہ

Page 269

سيرة النبي عمال 259 جلد 3 دوسروں میں بھی پہچانا اور اپنے زمانہ سے بہت عرصہ قبل آنے والوں میں پہنچانا.اس سے بڑھ کر عارف اور کون ہوسکتا ہے.چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے.اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں.ذکرِ حبیب جتنا بھی ہو حبیب ہی ہوتا ہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ محمد ﷺ میں ہو کر ہم بھی دنیا میں صلح اور امن قائم کر سکیں.اور جس طرح رسول کریم ﷺ نے ہر چیز میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اسی 66 طرح ہم بھی ہر چیز میں خدا کو دیکھیں اور پہچان لیں.(الفضل 8، 11 نومبر 1930ء ) 1: الانعام: 104 2: ال عمران: 32 3: العنكبوت: 70 4: الرعد: 3 5: التوبة: 119 6 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي باب مناقب المهاجرين و فضلهم صفحه 613 حدیث نمبر 3652 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية : السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول امرا لأراشى الذي باع اباجهل ابله صفحه 440 تا 442 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 8: بخارى كتاب الجهاد باب من علق سيفه بالشجر فى السفر عند القائلة صفحه 481 حدیث نمبر 2910 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 9 بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى ويوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم صفحہ 729 حدیث نمبر 4315 مطبوعہ ریاض 1999 ، الطبعة الثانية صلى الله 10: بخاری کتاب المغازی باب مرض النبى له و وفاته صفحه 755 حدیث نمبر 4441 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 11 : فاطر: 25

Page 270

سيرة النبي علي 260 جلد 3 کسری ایران کی ہلاکت کی خبر دینا 27 دسمبر 1930ء کو جلسہ سالانہ مستورات سے خطاب کے دوران حضرت مصلح موعود صلى الله نے رسول کریم ﷺ کے کسری ایران کی ہلاکت کی خبر دینے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.آنحضرت ﷺ کے متعلق واقعہ ہے کہ دنیوی حالت نہایت غربت میں تھی.ہاں ظاہری حالت بے بسی کی سی.مگر باوجود اس ظاہری بے سروسامانی کے ایران کے بادشاہ کے پاس آپ کی نبوت اور ترقی کی رپورٹیں برابر پہنچتی تھیں اور وہ آپ سے باوجود بادشاہ ہونے کے خائف تھا.آخر اس نے عرب کے گورنر کو آپ کی گرفتاری کا حکم بھیجا.آدمی شاہی حکم لے کر آپ کے پاس آئے اور صاف صاف عرض کر دیا اور کہا کہ نافرمانی نہ کیجئے بے چون و چرا ہمارے ہاتھ اپنے آپ کو دے دیجئے.بادشاہ بہت بڑا ہے اس کے حکم کی تعمیل میں ایران چلیے اسی میں آپ کا بھلا ہے.آپ نے فرمایا کہ کل اس کا جواب دوں گا.دوسرے دن آپ نے ان سے فرمایا سنو ! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا.جاؤ واپس.انہوں نے واپس جا کر من وعن گورنر کو کہہ دیا.گورنر حیران ہو گیا.وہ ایران کی ڈاک کا منتظر رہا یہاں تک کہ وہی اطلاع اس کو پہنچی کہ خود اس کے بیٹے نے اس کو قتل کر دیا اور اسی رات جس رات آپ نے فرمایا تھا.خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارا باپ بڑا ظالم تھا ہم نے اس کو مار دیا.اب ہم خود بادشاہ ہیں.ہمارے باپ نے از راہ ظلم عرب کے ایک شخص کو قتل کا حکم دیا ہے.اب چونکہ وہ مار دیا گیا ہم اس کے حکم کو منسوخ کرتے ہیں 1.“ (مصباح جنوری 1931ء) 66 1 تاريخ الطبرى الجزء الثانی صفحه 133 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الخامسة

Page 271

سيرة النبي علي 261 جلد 3 صلى الله دنیاوی تعلیم کی ضرورت واہمیت 28 دسمبر 1930ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.”دنیا میں بہت سے کام جو انفرادی طور پر نہیں ہو سکتے باہمی تعاون سے ہو سکتے ہیں.ہم نے دنیا میں جو عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے متعلق جب تک ہم ہر رنگ میں جماعت کی نگرانی نہ کریں وہ صحیح طور پر سرانجام نہیں دیے جا سکتے.رسول کریم نے ان قیدیوں کا جو جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تھے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں 1.وہ لوگ کوئی دینی تعلیم نہ دے سکتے تھے بلکہ صرف مروجہ علوم ہی سکھا سکتے تھے مگر رسول کریم ﷺ نے اس کا بھی انتظام فرمایا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی ضروری سمجھی.ہمیں بھی دین کے ساتھ جماعت کی دنیوی ترقی کا بھی خیال رکھنا چاہئے.ہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے اور جہاں دنیا 66 دین میں روک ثابت ہو وہاں اسے ترک کر دینا چاہئے.“ (فضائل القرآن نمبر 3 صفحہ 131 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء) 1 مسند احمد بن حنبل صفحه 193 حدیث نمبر 2216 مطبوعہ لبنان 2004 ء

Page 272

سيرة النبي علي 262 جلد 3 عمل صالح کی نصیحت 28 دسمبر 1930 کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.ایک دفعہ رسول کریم علیہ جہاد کے لئے گئے.رمضان کا مہینہ تھا.کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے.جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے.یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے 1.پس اسلام کہتا ہے جہاں کھانا مفید ہے اور اس سے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گناہگار ہوگا.دیکھو رسول کریم ہے جب رات کو صلى الله سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں.وہ باری باری رات کو آپ الله الله کے مکان کا پہرہ دیتے.اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم ﷺ کا کام تھا.اور صحابہ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپ کی حفاظت کا انتظام کرتے کیونکہ رسول کریم ﷺ کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ بالله رسول کریم ہ اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے.پہرہ آپ کے لئے ضروری تھا اور اس کا مقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہوتا.“ ( فضائل القرآن نمبر 3 صفحہ 147 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء) 1: صحیح مسلم کتاب الصيام باب اجر المفطر في السفر اذا تولّى العمل صفحه 457 حدیث نمبر 2622 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 273

سيرة النبي علي 263 جلد 3 و, حضرت مسیح کو زندہ آسمان پر ماننے کا عقیدہ آنحضور ﷺ کی شان کے خلاف ہے علی حضرت مصلح موعود نے دعوت الی اللہ کو موثر بنانے کے لئے ”ندائے ایمان کے عنوان سے اشتہارات کا ایک سلسلہ جاری فرمایا.اس کا پہلا نمبر 17 جنوری 1930 ء کو لکھا.درج ذیل اشتہار اس سلسلہ کا دوسرا نمبر ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک کچھ ایسی کفر توڑ ہے کہ ہر شخص جس کے دل میں کفر کی کوئی رگ ہو آپ سے دشمنی رکھتا ہے اور آپ کی مقدس ذات پر حملہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ کی ترقی میں اس کا زوال اور آپ کی زندگی میں اس کی موت ہے.اسی وجہ سے جس قدر حملے رسول کریم ﷺ کی ذات پر ہوئے ہیں اور کسی نبی پر خواہ عرب کا ہو یا شام کا، ہندوستان کا ہو یا ایران کا نہیں ہوئے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے دشمنان اسلام آپ پر حملہ کرنے میں ایک حد حم تک معذور ہیں کیونکہ اسلام کے ذریعہ سے ان کے مکروں اور حیلوں کا تانا بانا ٹوٹتا ہے اور ہر ایک کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے.لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو اسلام سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں، قرآن کریم پر ایمان ظاہر کرتے ہیں، درود پڑھتے اور سلام بھیجتے ہیں لیکن باوجود اس کے رسول کریم ﷺ کی ذات پر حملہ کرنے سے نہیں ڈرتے اور ایسے عقائد پھیلاتے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات کی سخت ہتک ہوتی ہے اور اس طرح عوام الناس کے دلوں سے آپ کی محبت کم کرتے ہیں.

Page 274

سيرة النبي عمال 264 جلد 3 اس قسم کے لوگوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو آئے دن عیسی علیہ السلام کی زندگی کا وعظ کرتے پھرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ چوتھے آسمان پر بجسد عنصری بیٹھے ہیں اور کسی زمانہ میں آسمان سے اتر کر لوگوں کو اپنا تابع بنائیں گے.آہ! یہ لوگ کبھی خیال نہیں کرتے کہ وہ رسول جس کے احسانوں تلے ان کا بال بال دبا ہوا ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے سب انسانوں سے افضل قرار دیا ہے اور جو اپنی قوت قدسیہ میں کیا ملائکہ اور کیا انسان سب پر فضیلت لے گیا ہے اس ذریعہ سے وہ اس کی ہتک کرتے ہیں اور ایک ایسے شخص کو جو اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ کی غلامی میں فخر محسوس کرتا آپ کے وجود پر فضیلت دیتے ہیں.یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی شخص نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے تکلیف نہیں اٹھائی.آپ مکہ میں تیرہ سال تک ایسی تکلیفات برداشت کرتے رہے ہیں کہ ایسی تکلیفات کا ایک سال تک برداشت کرنا بھی انسان کی کمر توڑ دیتا ہے اور آپ کے اتباع اور جاں نثار مرید بھی نا قابل برداشت ظلموں کا تختہ مشق بنے رہے ہیں.اس کے مقابل پر مسیح علیہ السلام اور ان کے حواریوں کی قربانیاں کیا ہستی رکھتی ہیں.وہ اپنی جگہ کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے مقابلہ میں کچھ بھی قیمت نہیں رکھتیں.اول تو حضرت مسیح کا زمانہ تبلیغ ہی گل تین سال بتایا جاتا ہے.پھر اس قلیل زمانہ میں بھی سوائے دو چار گالیوں اور ہنسی مذاق کے اور کوئی تکلیف نہیں جو ان کے مخالفوں نے انہیں دی ہو.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی وقت میں تین سال تک ایک تنگ وادی میں محصور رکھا گیا ، کھانا پینا بند کیا گیا ، آپ سے خرید و فروخت کرنے والوں پر ڈنڈ مقرر کیا گیا.غرض اس قدر دکھ دیئے گئے کہ آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا ان تکالیف کی سختی کی وجہ سے بیمار ہو کر فوت ہو گئیں.کھانے کی تنگی کی وجہ سے آپ کے صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم پتے کھانے پر مجبور ہوتے تھے جس

Page 275

سيرة النبي عمال 265 جلد 3 کی وجہ سے بکری کی مینگنیوں کی طرح ہمیں پاخانہ آتا تھا.بیسیوں دفعہ آپ کی اور آپ کے اتباع کی جانوں پر حملے کئے گئے ، پتھر مارے گئے ، گلا گھونٹا گیا ، غلاظتیں پھینکی گئیں، غرض کون سی تکلیف تھی جو آپ پر نہ آئی ہولیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہوتا رہا کہ فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ 1 جس طرح ہمارے پکے ارادے والے بندے صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تو بھی صبر سے کام لے اور استقلال کے ساتھ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر.لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود ان حالات سے واقف ہونے کے مسلمان کہلانے والے اور علم کا دعوی کرنے والے یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جب سولی پر لٹکانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے جھٹ کسی اور شخص کو ان کی شکل کا بنا کر یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑوا دیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا.اگر یہ امر صحیح ہے تو کیا مسیحیوں کا حق نہیں کہ وہ دعوی کریں کہ ہمارا را ہنما تمہارے نبی سے افضل تھا کہ تمہارے نبی کو تو تیرہ سال تک مکہ میں اور پانچ سال تک مدینہ میں زبر دست تکالیف کا سامنا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مصیبت میں پڑا رہنے دیا اور کوئی خاص مدد نہ کی لیکن ہمارے را ہنما پر ایک ہی دفعہ لوگوں نے ہاتھ ڈالنا چاہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے چوتھے آسمان پر جا بٹھایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی تکلیف برداشت نہ کرنے دی.اے اسلام کا درد رکھنے والو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرنے والو! کبھی آپ نے سوچا بھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اس طرح آسمان پر بٹھا کر آپ کے علماء نے اسلام پر کس طرح ظلم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر ہتک کی ہے؟ اسی طرح کیا کبھی آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ حضرت مسیح کے اس قدر لمبے عرصہ سے آسمان پر زندہ موجود ہونے کے عقیدہ سے ان علماء نے مسیحیت کو کس قدر طاقت بخشی ہے؟ کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے آسمان

Page 276

سيرة النبي عمال 266 جلد 3 پر زندہ رکھا ہوا ہے وہ یقیناً اس شخص سے افضل ہونا چاہئے جسے ایک معمولی سی عمر دے کر اللہ تعالیٰ نے وفات دی اور پھر جبکہ ساتھ یہ بھی مانا جائے کہ وہ صرف آپ ہی زندہ نہیں بلکہ دوسرے مردوں کو بھی زندہ کیا کرتا تھا جیسا کہ مسلمانوں میں اس وقت عام عقیدہ ہے تو پھر اس امر میں کوئی بھی شبہ نہیں رہتا کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ حضرت مسیح حضرت نبی کریم ع سے افضل تھے.مگر کیا خدا تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم اس عقیدہ کی تائید کرتی ہے؟ ہر گز نہیں.قرآن کریم اس عقیدہ کو دھکے دیتا ہے اور سر تا پا اس کی تردید کرتا ہے.وہ تو کھول کھول کر بتاتا ہے کہ رسول کریم ہ سب نبیوں کے سردار ہیں اور سب نبیوں سے یہ عہد لیا جاتا رہا ہے کہ اگر آپ کا عہد پائیں تو آپ کی مدد کریں اور تائید کریں اور آپ پر ایمان لائیں 2.پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ سرداری کی خلعت تو نسبتاً چھوٹے درجہ کے آدمی کو دے دی جائے اور سردار کو اس سے محروم کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اگر فی الواقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں اور مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھانی لعنتی کا کام ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً سب نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں اور کوئی انسان اس زمین پر نہ پیدا ہوا ہے نہ ہوگا جو آپ کے درجہ کو پہنچ سکے.باقی سب انسان آپ سے درجہ میں کم ہیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کا جو مقام آپ کو ملا ہے اور خدا تعالیٰ جو غیرت آپ کے لئے دکھاتا تھا وہ مقام کسی کو نہیں ملا اور وہ غیرت خدا تعالیٰ نے اور کسی کے لئے نہیں دکھائی.مسیح کیا تھا ؟ وہ موسوی سلسلہ کے نبیوں میں سے ایک نبی تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو تو موسوی سلسلہ کے سب نبی مل کر بھی نہیں پہنچ سکتے.پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام کو تو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کے لئے آسمان پر اٹھا لیتا اور رسول کریم ﷺ کو چھوڑ دیتا کہ لوگ ان پر پتھر برسا برسا کر زخمی اور لہولہان کریں اور سنگ باری کر کے آپ

Page 277

سيرة النبي عالي 267 جلد 3 کے دندان مبارک توڑ دیں حتی کہ آپ بے ہوش ہو کر گر جائیں جیسا کہ احد کی جنگ کے موقع پر ہوا.بخدا ایسا نہیں ہو سکتا.اگر خدا تعالیٰ نے کسی کو آسمان پر اٹھانا ہوتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھاتا اور اگر اس نے کسی کوصدیوں تک زندہ رکھنا ہوتا تو وہ آپ کو زندہ رکھتا.پس نادان ہیں وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کو خدا تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اب تک زندہ موجود ہیں کیونکہ یہ عقیدہ نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ہے بلکہ مسیحیت کو اس سے طاقت حاصل ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں بہتک ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ ظالم ہے کہ جو اعلیٰ سلوک کا مستحق تھا اس سے تو اس نے ادنی سلوک کیا اور جو ادنی سلوک کا مستحق تھا اس سے اس نے اعلیٰ سلوک کیا.اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ زمین پر بے بس تھا تبھی تو اس نے مسیح علیہ السلام کو بچانے کیلئے آسمان پر اٹھا لیا.حالانکہ اگر مسلمان غور کرتے تو یہ آسمان پر اٹھانے کا عقیدہ تو مسیحیوں نے اپنی نادانی سے گھڑا ہے کیونکہ محرف مبدل کتاب میں لکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت ابھی زمین پر نہیں آئی 3.چنانچہ مسیحی لوگ اب تک دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہو.لیکن اسلام تو اس عقیدہ کو کفر قرار دیتا ہے.وہ تو صاف الفاظ میں سکھاتا ہے کہ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ 4 آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی کے قبضہ میں ہے.پس اگر مسیحی یہ عقیدہ رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا تو وہ تو مجبور ہیں کیونکہ ان کے عقیدہ کی رو سے زمین پر خدا تعالیٰ کی بادشاہت نہ تھی اس وجہ سے ان کے نزدیک وہ زمین پر مسیح کی حفاظت کرنے سے بے بس ہوگا.مگر مسلمانوں کو کیا ہوا کہ مسیحیوں کی نقل میں انہوں نے بھی خواہ مخواہ مسیح علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا دیا حالانکہ ان کے خدا کی بادشاہت تو جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہے.اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ یہودیوں سے ڈر کر اپنے نبی کو

Page 278

سيرة النبي علي 268 جلد 3 آسمان پر اٹھا لیتا.وہ اسی زمین میں اس کی حفاظت کر سکتا تھا اور اس کے دشمنوں کو تباہ کر سکتا تھا.غرض جس قدر بھی غور کیا جائے حضرت مسیح کو آسمان پر زندہ ماننے میں خدا تعالیٰ کی بھی اور رسول کریم ﷺ کی بھی ہتک ہے اور مسیحیت نے اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا ہے اور لاکھوں مسلمان اس عقیدہ کی وجہ سے ٹھوکر کھا کر مسیحی ہو گئے ہیں.پس اب بھی وقت ہے کہ مسلمان کچھ جانیں اور خلاف اسلام اور خلاف عقل عقیدہ کو چھوڑ کر تو بہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی سمجھائیں ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا جرم معمولی جرم نہیں.انہیں سمجھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کو سپرد کرنی ہیں نہ کہ مولویوں کو.پس پیشتر اس کے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے چاہئے کہ سب مسلمان ایک زبان ہو کر اس گندے اور ہتک رسول کرنے والے عقیدہ کو اپنے دل سے نکال دیں تا کہ مسیحیت کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے اور مسیح کو مرنے دیں کہ اس کے مرنے کے ساتھ ہی مسیحیت کی موت اور اسلام کی حیات ہے.کیا کوئی دردمند انسان ہے جو اپنے علاقہ میں مسیح کو مار کر اسلام کو زندہ کرے.یقیناً جو ایمان کی وجہ سے نہ کہ نیچریت کی وجہ سے ایسا کرے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کو پالے گا اور خدا تعالیٰ اسے اپنی مرضی کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے گا.وَ آخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان اگر آپ اسلام کا درد اور اپنی قوم کی خیر خواہی مدنظر رکھتے ہیں تو ہر مسلمان کہلانے والے کی ہمدردی کرنا اپنا فرض سمجھیں.جہاں تک ہو سکے مسلمان تاجروں سے مال خریدیں اور اپنی اولادوں کے دل میں خیال پیدا کریں کہ مسلمان بہادر ہوتا

Page 279

سيرة النبي علي 269 ہے.وہ کسی قوم کے فرد یا مجموعہ سے نہیں ڈرتا.“ مرزا محمود احمد جلد 3 ندائے ایمان نمبر 2 مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) 1: الاحقاف : 36 2: ال عمران: 82 متی باب 6 آیت 9 ، 10 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور 2011ء 4 الجاثية: 28 ، الفتح : 15

Page 280

سيرة النبي علي 270 جلد 3 صلى الله رسول کریم ﷺ اور دیگر انبیاء کی قربانیوں میں فرق صلى الله الله حضرت مصلح موعود 23 جنوری 1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.”رمضان اپنے اندر بڑی برکتیں رکھتا ہے اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی عید ہے.کیا لطیف فرق ہے محمد رسول اللہ ﷺ اور دوسرے انبیاء کی قربانی میں.حضرت ابراہیم کی قربانی بڑی تھی لیکن اس کے بدلہ میں کیا ملا.اس کی یاداس طرح قائم کی گئی کہ کھاؤ اور پیو لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے بدلے میں امت محمدیہ کے لئے بھی ایک قربانی رکھی گئی.اور وہ یہ کہ روزے رکھو اور فاقے کرو.گویا محمد رسول اللہ ﷺ کی عید قربانی میں ہی تھی.باقی انبیاء اپنی قربانیوں کے نتیجہ میں کھاتے پیتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا.حتی کہ اپنی اولاد کے لئے بھی صدقہ حرام فرما دیا 1.پس رمضان آپ کی قربانی کی عید ہے جس طرح عید الاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی.اور عید الفطر مسلمانوں کی قربانی کی عید ہے اور سب سے بڑی رمضان کی عید ہے.اگر چہ دوسری دونوں عیدیں بھی بڑی ہیں مگر ان سب سے بڑھ کر رمضان ہے.جب محمد رسول اللہ ﷺ کی قربانی کی یاد کے لئے انسان کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے بڑھ کر اور کوئی عید نہیں ہو سکتی.ہر چیز کی خوشی اس کے فوائد کی مقدار کے مطابق ہوتی ہے.اگر ایک چیز کے ہزار فائدے ہوں اور دوسری کے لاکھ تو لاکھ فوائد والی چیز ملنے پر پہلی سے بہت زیادہ خوشی ہو گی.چونکہ سب سے بڑھ کر نعمت قرآن کریم ہے اس لئے جس وقت اس کا نزول ہوا وہ نہایت ہی قیمتی اور بابرکت ہے.عید الفطر کا تو یہ -

Page 281

سيرة النبي عمال 271 جلد 3 مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم نے ہمارے رسول کی خوشی میں خوشی منائی آداب ہم تمہاری خوشی میں خوشی مناتے ہیں لیکن اصل عید رمضان ہی ہے.خوشی میں لوگ کیا کیا کرتے ہیں؟ یہی کہ ایک دوسرے کو عطیے دیتے اور آپس میں احسان کرتے ہیں الله اور حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ رمضان میں تمام وقتوں سے زیادہ صدقہ دیا کرتے اور احسان کیا کرتے تھے.ان دنوں میں آپ کے صدقہ دینے کی مثال تیز آندھی کی طرح ہوتی تھی 2.اس سے معلوم ہوا کہ آپ اسے عید سمجھتے تھے.جس طرح تہواروں کے موقع پر بادشاہ اور رؤساء لوگوں کو عطیے دیتے ہیں اسی طرح رسول کریم ہ رمضان میں مخلوق کو پہلے سے بھی زیادہ فیض پہنچاتے تھے کیونکہ آپ کی عید اسی میں تھی کہ خدا تعالیٰ کے لئے اور بنی نوع کے لئے قربانی کریں.“ صلى الله 66 ( الفضل 29 جنوری 1931 ء ) 1: بخارى كتاب الزكواة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النحل صفحہ 241 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض1999ءالطبعة الثانية 2: بخاری كتاب الصوم باب أجود ماكان النبى الله يكون فى رمضان صفحہ 306 حدیث نمبر 1902 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 282

سيرة النبي علي 272 جلد 3 رسول کریم علیہ کے اخلاق کے گہرے اثرات وو حضرت مصلح موعود نے 13 فروری 1931 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.صلى الله رسول کریم و اگر لوہے کی تلوار سے دنیا کو فتح کرتے تو آپ ﷺ کی وفات کے بعد یہ تلوار زنگ آلود ہو جاتی.مگر چونکہ آپ نے اخلاق کی تلوار سے دنیا کو فتح کیا اور نئی زندگی عطا کی اس لئے چودہ سو سال کے قریب گزر جانے کے بعد بھی آپ علی کی تلوار اسی طرح لوگوں کو اپنے آگے جھکا رہی ہے جس طرح پہلے زمانے میں جھکاتی تھی.ہم لوگ کون ہیں؟ وہی جنہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی تلوار نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے ذبح کیا.ہم لوگ وہ بکریاں ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے وہ چھری اپنی گردنوں پر چلوائی اس لئے ہمیں نئی زندگی عطا کی گئی لیکن جن کی گردنوں پر وہ زبر دستی چلائی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے مرجاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے انبیاء گڈریا اور رائی ہوتے ہیں اور تمام دنیا ان کے سامنے بکریوں کی مانند ہوتی ہے.جو لوگ اپنی مرضی سے اپنی گردنوں پر تلوار چلاتے ہیں انہیں نئی زندگی عطا کی جاتی ہے لیکن جن گردنوں پر وہ خفگی اور ناراضگی سے چلائی جائے وہ ہمیشہ کے لئے نابود ہو جاتے ہیں.ہمیں اپنے حالات اور تکالیف یا د کر کے اتنا دکھ نہیں پہنچتا جتنا محمد رسول اللہ ﷺ کی تکالیف اور مصائب کا حال پڑھ کر ہوتا ہے.وہ حالات یاد کر کے آج بھی ہچکی بندھ جاتی ہے.ایک چھوٹی سی بات ہے.رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کو ترقیات حاصل ہوئیں اور ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان مہیا ہو گئے تو ایک دفعہ ایک عورت نے حضرت عائشہ کو دیکھا آپ عمدہ آئے صلى الله

Page 283

سيرة النبي علي 273 جلد 3 کی روٹی کھا رہی تھیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا میں یہ روٹی کھا تو رہی ہوں کیونکہ خدا کی نعمت ہے مگر تکلیف بھی محسوس کر رہی ہوں کیونکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چکیاں نہ ہوتی تھیں.ہم پتھروں پر دانے گوٹ کر آٹا بناتے تھے جو بہت موٹا ہوتا تھا اور اس کی روٹیاں رسول کریم لے کھایا کرتے تھے.اگر آپ یہ آج زندہ ہوتے تو ہم یہ روٹیاں آپ ﷺ کو کھلاتے 1.اگر چہ ترقی کا زمانہ آ گیا اور رسول کریم ﷺ پر تکالیف اور مصائب کا زمانہ گزر گیا پر یہ تکالیف ہمیں ہی نظر آتی ہیں آپ انہیں تکالیف نہ سمجھتے تھے مگر حضرت عائشہ کے گلے کو عمدہ آئے والی روٹی پکڑ لیتی تھی اور آپ کے آنسو رواں ہو جاتے تھے.اب اس کا ہم پر بھی اثر ہوتا ہے اور میں تو جب یہ واقعہ پڑھتا ہوں یا بیان کرتا ہوں تو میرے گلے میں بھی کوئی چیز پھنے لگتی ہے.حالانکہ بظاہر یہ امر ہنسی کے قابل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اب اس زمانہ کو چودہ سو سال گزر چکے.خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ پر بعد میں بہت فضل بھی کئے ، آپ ﷺ کو وفات سے قبل فتوحات بھی دیں، طاقت دی، پھر آپ کے غلاموں کو طاقت اور بادشاہت عطا کی ، وہ بڑے بڑے بادشاہوں کے تخت پر متمکن ہوئے اور ان کے زیور اور لباس آپ ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق غریب مسلمانوں میں تقسیم کئے گئے.گویا بالکل نئے حالات پیدا ہو گئے مگر آج بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی تکلیف کا کوئی واقعہ پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دل کو مسلنے لگ گئی ہے.یہ بظاہر ایک مجنونانہ سی بات ہے مگر کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس جنون کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو؟ دنیا کی تمام عقلیں اس جنون پر قربان اور دنیا کی تمام خوشیاں اس رنج پر فدا کرنے کے قابل نظر آتی ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ایسے اخلاق دیے کہ اس چھری نے آج چودہ سو سال کے بعد بھی ہم سب کو ذبح کر رکھا ہے.آپ ﷺ کے اخلاق آج بھی ہمارے دلوں پر اپنا اثر ڈال رہے ہیں.گویا آپ ﷺ کے اخلاق وائرلیس کا سب

Page 284

سيرة النبي مله 274 جلد 3 سے بڑا آلہ تھا.وائرلیس کا آلہ دس پندرہ ہزار میل پر خبر پہنچا سکتا ہے مگر رسول کریم کے اخلاق وائرلیس کا ایسا زبردست آلہ ہیں کہ نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ آج چودہ سوسال بعد بھی وہ خبر برابر چلی جا رہی ہے.دراصل یہ ہے صحیح رمضان جو نہ صرف اپنے اندر گرمی پیدا کر دے بلکہ دوسروں کے دلوں کو بھی گرما دے.اور ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بھی اسی گرمی سے گرما دیں.مومن کو ہر بات میں لوگوں سے آگے ہونا چاہئے اور اسے صبر نہیں آنا چاہئے جب تک سب سے بالا مقام پر نہ پہنچ جائے.مومنانہ غیرت یہ کس طرح گوارہ کر سکتی ہے کہ نہ ماننے والے ماننے والوں سے کسی بات میں آگے بڑھ جائیں.لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مومن تو دنیا میں صرف چند لاکھ ہوں اور منکر کروڑوں کی تعداد میں ہوں.کیا کوئی زندہ قوم اس ذلت کو برداشت کر سکتی ہے.پس تم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے کہلاتے ہو اور آپ کے ذریعہ محمد رسول اللہ علیہ کے سپاہیوں میں داخل ہو چکے ہو تمہارا فرض ہے کہ اُس وقت تک دم نہ لو جب تک تمام دنیا کو آپ ﷺ کی غلامی میں داخل نہ کر لو.پھر کیا کوئی غیرت مند مومن یہ بات برداشت کر سکتا ہے کہ جو اخلاق محمد ﷺ دنیا میں پیدا کرنا چاہتے تھے وہ تو دنیا سے مفقود ہو جائیں اور ان کی جگہ اور باتیں لے لیں.کیا یہ گرمی کہلا سکتی ہے گرم جوشی آگے نکلنے کا نام ہے.ٹھنڈی چیز ہمیشہ دب کر رہتی ہے.گرمی تو ابل ابل کر باہر نکلتی ہے جس طرح ہنڈیا اُبلتی ہے.رمضان کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کا بندہ ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ اُبل رہا ہے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہم اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے لئے اسی طرح اُبل رہے ہیں جس طرح اُبلنے کا حق ہے.“ صلى (الفضل 19 فروری 1931ء) 1 ترمذى ابواب الزهد باب ما جاء في معيشة النبي صلى الله عليه وسلم واهله صفحہ 588 حدیث نمبر 2356 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى

Page 285

سيرة النبي علي 275 جلد 3 رسول کریم علیہ کی شجاعت اور جانثار صحابہ حضرت مصلح موعود 3 اپریل 1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.عبد الرحمن بن عوف جو پرانے تجربہ کار اور مشہور جرنیل تھے انہیں ان میں سے ایک لڑکے نے کہنی مار کر دریافت کیا چا! وہ ابو جہل کون ہے جس نے مکی زندگی میں رسول کریم ﷺ کوسخت از بیتیں پہنچائی ہیں؟ وہ کہتے ہیں میں افسوس کر رہا تھا کہ آج ہمیں ان تمام تکالیف کا بدلہ لینے کا موقع ملا ہے جو کفار نے رسول کریم ﷺ کو اور ہمیں پہنچائیں مگر میرے دائیں بائیں دولڑ کے ہیں.اگر مضبوط آدمی ہوتے تو ان کی مدد سے میں بھی نمایاں کام کرتا مگر اب انہوں نے میری کیا مدد کرنی ہے الٹا مجھے ان کی مدد کرنی پڑے گی اور ان کی حفاظت کا خیال رکھنا پڑے گا.وہ اسی خیال میں تھے کہ ایک نے ان سے پوچھا ابو جہل کون ہے؟ معاً اُسی وقت دوسرے لڑکے نے بھی آہستگی سے کہنی مار دی تا کہ اس کا دوسرا ساتھی نہ سن لے اور پوچھا چچا! ابوجہل کون ہے؟ وہ حیران رہ گئے اور انہوں نے خیال کیا میں نے غلط سمجھا تھا کہ یہ بچے ہیں یہ کچھ نہیں کرسکیں گے بلکہ یہ دراصل کفار کے لئے مصیبت ہیں، بلا ہیں اور عذاب ہیں جو خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں.انہوں نے انگلی اٹھائی اور اشارہ سے بتایا کہ وہ ابوجہل ہے.اس کے آگے اور پیچھے عرب کے مشہور جرنیل کھڑے تھے، چاروں طرف سے وہ لوگوں میں گھرا ہوا تھا مگر ان کے انگلی اٹھانے کی دیر تھی کہ وہ دونوں بچے یوں جھپٹے جس طرح ایک چیل بوٹی پر جھپٹا مارتی ہے یا ایک شکرا اپنے شکار پر جھپٹتا ہے.ان میں سے ایک تو راستہ ہی میں مارا گیا مگر دوسرا پہنچ گیا اور اس

Page 286

سيرة النبي علي 276 جلد 3 نے ابو جہل کی گردن پر تلوار مار کر اسے ایسا زخمی کر دیا کہ وہ بعد میں ہلاک ہو گیا 1.یہ وہ جنگ تھی جس میں مسلمانوں کے پاس سامان بہت کم تھا حتی کہ بعض تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اسلحہ بھی پورے نہ تھے.بعض کے پاس تلواریں بھی نہ تھیں.ایسے بے سامان اپنے سے تین گنا دشمن کے ساتھ لڑے اور عرب کے بڑے بڑے صنادید جو آنحضرت عالیہ کے مقابل پر ہمیشہ لڑتے رہے تھے یا تو مارے گئے یا بری طرح شکست کھا کر میدان سے بھاگ گئے.مگر ایک اور لڑائی الله ہوئی جو رسول کریم ﷺ کی موجودگی میں اور آپ ﷺ کی زندگی میں ہی ہوئی.اس میں اسلامی لشکر بارہ ہزار تھا اور کفار تین چار ہزار کے قریب مگر جس وقت اسلامی لشکر بڑھ رہا تھا دشمن کے تیر انداز دروں میں چھپے ہوئے تھے انہوں نے اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی اور اتنے زور سے تیر برسائے کہ بارہ ہزار کا لشکر تین چار ہزار لشکر کے مقابلہ میں بھاگ نکلا اور رسول کریم ﷺ کے پاس ان بارہ ہزار میں سے صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایسے خطرے کی حالت پیدا ہو گئی کہ صحابہؓ نے سمجھا اس وقت ہماری سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ ہم رسول کریم ہٹا لیں.چنانچہ بعضوں نے آپ ﷺ کی سواری کی باگوں کو تھام لیا اور آگے بڑھنے سے روکا اور چاہا کہ آپ کے پیچھے ہٹیں مگر آپ نے فرمایا چھوڑ دو! نبی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹا یا کرتا.آپ نے اپنی سواری آگے بڑھائی اور فرمایا أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ صلى الله أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں مگر خدا کا نبی اور رسول ہوں میں جھوٹا نہیں.پھر آپ نے حضرت عباس کو فرمایا آواز دواے انصار ! خدا اور اس کا رسول تمہیں بلاتا ہے.انہوں نے آواز دی.ایک انصاری کا بیان ہے کہ نو مسلم دو ہزار کے قریب تھے جو کہا کرتے تھے اب ہمیں خدمت بجا لانے کا موقع ملنا چاہئے اور آگے ہو کر لڑنا چاہئے.چونکہ وہ لوگ اسلام میں حدیث العہد تھے اور ایمان میں پختہ نہیں تھے اس لئے جب تیر

Page 287

سيرة النبي عمال 277 جلد 3 بر سے تو وہ پیچھے کی طرف بھاگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باقی لشکر بھی بھاگنے لگا اور ان کے گھوڑے بھی بدک کر میدان سے بھاگ نکلے.صحابہ اپنے گھوڑوں کو موڑتے تھے مگر وہ نہیں مڑتے تھے.جس وقت حضرت عباس کی آواز انہوں نے سنی تو وہ کہتے ہیں ہمیں یوں معلوم ہوا جس طرح ایک فرشتہ قیامت کے دن صور پھونک رہا ہے.جتنے زور سے کوئی شخص اپنی سواری کو موڑ سکتا تھا اس نے موڑا اور جن سے نہ ہو سکا وہ اپنی سواریوں سے کود پڑے اور تلواروں سے ان کی گردنیں اڑا دیں.اور تھوڑی ہی دیر میں وہ صلى الله رسول کریم علیہ کے گرد جمع ہو گئے 3.“ ( الفضل 19 اپریل 1931 ء ) 1 بخاری کتاب فرض الخمس باب من لم يخمس الاسلاب صفحہ 521 حدیث نمبر 3141 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 ترمذی ابواب الجهاد باب ما جاء فى الثبات عند القتال صفحہ 405 حدیث نمبر 1688 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 3 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني رجوع الناس بنداء العباس صفحه 1240 مطبوعہ دمشق $2005

Page 288

سيرة النبي علي 278 جلد 3 ایک بے کس یتیم زبردست بادشاہ بن گیا حضرت مصلح موعود اپنے مضمون محررہ 23 اگست 1931ء میں رسول کریم ﷺ کا درج ذیل الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں:.رسول کریم علیہ آئے اور آپ کو اور آپ کے صحابہ کو شدید قربانیاں جو تمام قسم کی قربانیوں پر مشتمل تھیں اور جو اپنی نظیر آپ ہی تھیں ، ایک نہایت قلیل عرصہ میں ادا کرنی پڑیں.اور خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کے مطابق اپنے فضل بھی اعلیٰ درجہ کے اور غیر معمولی ایک نہایت قلیل عرصہ میں نازل کئے جن کو دیکھ کر دنیا اب تک انگشت بدنداں ہے.ایک یتیم بچہ جس کو گاؤں کی کوئی غریب دا یہ بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھی.جس کی ساری پونچی ایک اونٹ تھا اور وہ بھی اس کی بلوغت سے پہلے نہ معلوم کس طرح ادھر ادھر ہو گیا تھا.جس نے چالیس سال کی عمر تک گوشہ تنہائی میں گزارے تھے.جو نہ پڑھنا جانتا تھا نہ لکھنا اور جس نے جب اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو سب سے زیادہ اس کے عزیز رشتہ دار ہی اس کے مخالف ہو گئے تھے.جس کے وطن کا ہر فرد اس کے خون کا پیاسا تھا.جو کچلا گیا ، پیسا گیا اور دکھ دیا گیا.اور جس کے مٹانے کے لئے اپنے اور بیگانے سب جمع ہو گئے اور گویا بڑوں اور چھوٹوں نے متحدہ طور پر اسے مٹانے کا تہیہ کر لیا.جسے رات کی تاریکی میں اپنے وطن کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ خیر باد ہ کر ایک اجنبی بستی میں جہاں اس کے دوستوں کی تعدا دسوسوا سو آدمی سے زائد نی تھی جانا پڑا، ہاں وہی شخص صرف سات سال کے عرصہ میں ایک زبر دست بادشاہ ہو

Page 289

سيرة النبي علي 279 جلد 3 گیا.جس نے نہ صرف عرب کے مختلف قبائل کو جمع کر دیا بلکہ عرب کے باہر بھی اس کی حکومت کا دامن وسیع ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ جو پہلے اس کے خون کے پیاسے تھے ان کے دلوں پر اسے ایسی حکومت عطا ہوئی کہ وہ اپنی جانیں اور اپنے مال سب ہی کچھ اس پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.“ 66 (الفضل 29 اگست 1931 ء )

Page 290

سيرة النبي علي 280 جلد 3 کفار مکہ کی بد عہدی اور رسول کریم میے کی مکہ پر چڑھائی مظلوم کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں حضرت مصلح موعود نے متعدد کوششیں کیں.اسی سلسلہ میں الفضل 3 ستمبر 1931 ء میں ایک اشتہار شائع کیا.اس میں آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک ایسا ہی واقعہ گزرا ہے جس سے اس امر کی حقیقت خوب کھل جاتی ہے.صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک شرط یہ ہوئی تھی کہ عرب کے جو قبائل چاہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جائیں اور جو چاہیں مکہ والوں سے.دونوں فریق کا فرض ہے کہ نہ صرف آپس میں لڑائی سے بچیں بلکہ جو لوگ دوسرے فریق کے ساتھ مل جائیں ان سے بھی نہ لڑیں.مکہ والوں نے اس میں بدعہدی کی اور ایک قبیلہ جو مسلمانوں کا حلیف بن گیا تھا اس پر انہوں نے اپنے دوست قبیلہ کی حمایت میں رات کو حملہ کر دیا.ان لوگوں نے رسول کریم ہے شکایت کی اور آپ نے اپنے دوست قبیلہ کی حمایت میں مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا.ادھر مکہ والے چونکہ معاہدہ توڑ چکے تھے اس لئے انہیں بھی فکر ہوئی اور انہوں نے ابوسفیان کو جواب تک اسلام نہ لائے تھے مدینہ روانہ کیا کہ جا کر کسی طرح رسول کریم کی ناراضگی کو دور کریں.انہوں نے آ کر مسجد نبوی میں یہ اعلان کر دیا کہ چونکہ میں صلح حدیبیہ کے وقت مکہ میں موجود نہ تھا اور معاہدہ پر میرے دستخط نہ تھے میں یہ

Page 291

سيرة النبي عمال 281 جلد 3 اعلان کرتا ہوں کہ معاہدہ آج سے سمجھا جائے گا.چونکہ دوسرے فریق یعنی رسول کریم کی طرف سے تصدیق نہ تھی سب صحابہ اس پر ہنس پڑے کہ یہ کیسا بے وقوفی کا اعلان ہے.جب تک ہم لوگ بھی اس امر کو تسلیم نہ کریں صرف ان کے کہنے سے کیا بنتا ہے اور ابوسفیان سخت شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے 1.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس اعلان کے رسول کریم ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق مکہ فتح ہو گیا.“ ( الفضل 3 ستمبر 1931ء) 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني خروج ابي سفيان الى المدينة للصلح و اخفاقه صفحه 1189 مطبوعہ دمشق 2005ءالطبعة الاولى

Page 292

سيرة النبي علي 282 جلد 3 رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی ترقیات 12 ستمبر 1931 ء بعد نماز مغرب بیت احمد یہ سیالکوٹ میں سورۃ الفرقان آیت 78 کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.پھر اس آیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ بندہ کو نہ پکارتا تو اس کا کیا حشر ہوتا.بندوں کے خدا کو پکارنے کی مثال تو اہل یورپ میں دی جا چکی ہے یا ہندوستان میں ہندوؤں کی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی اور خدا کے بندوں کو پکارنے کی مثال اس کے نبیوں کی ہے.رسول کریم ع گوشتہ گمنامی میں پڑے تھے اور غار حرا میں عبادتیں کیا کرتے تھے.علا آپ نے وہ تمام ذرائع جو دنیوی ترقی کے ہیں ترک کر رکھے تھے.مگر آپ کے پاس خدا تعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اس نے کہا اٹھ ! خدا تجھے بلاتا ہے.اور پھر اس گوشئہ گمنامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بادشاہ بنا دیا اور ایسی ترقی عطا کی کہ مذہب و ملک اور تمدن و معاشرت سب پر آپ کا رنگ چھا گیا.حتی کہ آپ کے غلام یو نیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کئے بغیر اور لیبارٹریز میں تجربات کرنے کے بغیر ہی ہرفن میں دنیا کے استاد بن گئے اور جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا تمام دنیا سے آگے بڑھ گئے.ایک صحابی کا بیان ہے رسول کریم علیہ نے مجھے ایک اشرفی دی کہ قربانی کے لئے بکری لے آؤ.میں نے سوچا مدینہ میں تو اس رقم سے ایک ہی بکری ملے گی مگر کسی گاؤں سے دومل جائیں گی اس لئے میں نے ایک گاؤں سے ایک اشرفی میں دو بکریاں خریدیں.جب واپس آیا تو مدینہ میں کسی نے پوچھا کیا بکری فروخت کرو گے؟

Page 293

سيرة النبي علي 283 جلد 3 میں نے کہا ہاں اور ایک بکری ایک اشرفی میں اس کے پاس فروخت کر دی.پھر رسول کریم ﷺ کے پاس جا کر بکری بھی اور اشرفی بھی پیش کر دی اور آپ کے دریافت فرمانے پر سب حال کہہ سنایا.آپ نے اس کی ہوشیاری کو دیکھ کر اس کے لئے دعا فرمائی.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود یہ کہ عرب ایرانیوں اور رومیوں جیسے تاجر نہ تھے مگر وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ اگر میں نے مٹی بھی خریدی تو وہ سونے کے بھاؤ بک گئی.لوگ زبر دستی روپیہ میرے پاس تجارت کے لئے چھوڑ جاتے تھے اور میں لینے سے انکار کرتا رہتا تھا 1.یہ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ 2 کے دوسرے معنی ہیں.اس میں اپنے کسی ہنر یا محنت کا دخل نہ تھا.یہ خدا تعالیٰ کی اپنی آواز تھی جس کے ذریعہ رسول کریم ﷺے بڑھے اور آپ کے ساتھ ہی آپ کے وابستگان دامن بھی بڑھتے چلے گئے.جیسے اگر کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اس کا کوٹ، پاجامہ اور دوسرے پار چات بھی سوار ہو جائیں گے.ان لوگوں نے یہاں تک ترقی کی کہ ایک واقعہ لکھا ہے حضرت ابو ہریرہ کسی علاقہ کے گورنر مقرر ہوئے.یہ کسریٰ کے خزانوں کی فتوحات کا زمانہ تھا جس میں ابو ہریرۃا کو ایک رومال ملا جو کسرگی دربار میں آتے ہوئے زینت کے طور پر ہاتھ میں رکھا کرتا تھا.ابو ہریرہ کو جو چھینک آئی تو اس رومال سے ناک صاف کر لیا اور پھر فر مایا واہ ابو ہریرہ ! کبھی تو وہ دن تھے کہ تو بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مرگی کا دورہ ہو گیا ہے تیرے سر میں جوتیاں مارا کرتے تھے اور آج یہ دن ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تو تھوکتا ہے 3.حضرت ابو ہریرۃ بہت بعد میں ایمان لائے تھے یعنی رسول کریم ﷺ کی وفات سے صرف تین سال قبل.اس کمی کو پورا کرنے الله کیلئے آپ مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے تا رسول کریم ﷺ کی ہر ایک بات سن سکیں.اس وجہ سے ان کو بعض اوقات سات سات فاقے آ جاتے.لوگ سمجھتے انہوں نے کھانا کھا لیا ہو گا اور ان سے دریافت نہ کرتے.وہ شدت بھوک کی وجہ سے بے ہوش

Page 294

سيرة النبي علي 284 جلد 3 ہو جاتے اور لوگ مرگی کا دورہ سمجھ کو جوتیاں مارتے کیونکہ اہل عرب میں یہ رواج تھا.تو کبھی یہ حال تھا اور پھر اس قدر ترقی حاصل ہوئی کہ کسری جیسے زبردست حکمران کی زینت و آرائش کا رومال آپ کے ناک صاف کرنے کے کام آتا تھا.یہ لولا دُعَاؤُكُمْ کی دوسری مثال ہے.جب رسول کریم یہ آگے بڑھے تو آپ کے وابستگان دامن بھی ترقی کر گئے.جیسے وائسرائے کے دربار میں بڑے بڑے رؤسا اور معززین بھی بعض اوقات نہیں جا سکتے لیکن اس کا بیرا جا سکتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والے بھی ترقی کر جاتے ہیں.“ (الفضل 27 ستمبر 1931ء) 1 صحابی کا نام عُروہ بخاری کتاب المناقب باب سؤال المشركين صفحه 611 حدیث نمبر 3642 مطبوعہ 1999ء مکتبہ دار السلام رياض الطبعة الثانية 2: الفرقان: 78 3:ترمذى ابواب الزهد باب ما جاء في معيشة اصحاب النبي علل صفحہ 539 حدیث نمبر 2365 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى

Page 295

سيرة النبي علي 285 جلد 3 صلى الله حریت انسانی کا قائم کرنے والا رسول علی روز نامہ الفضل قادیان نے 8 نومبر 1931ء کو خاتم النبین نمبر نکالا.اس میں حضرت مصلح موعود کا درج ذیل مضمون شائع ہوا.آپ تحریر فرماتے ہیں:.غلامی کا سوال ایسا پیچیدہ سوال ہے کہ بہت ہی کم لوگوں نے اس کو سمجھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے بلکہ افسوس ہے کہ اکثر لوگوں نے اس سوال کی پیچیدگی کو بھی محسوس نہیں کیا اور بغیر غور اور فکر کے اس کے متعلق رائے قائم کرنی شروع کر دی ہے.غلامی نہ ہر زمانہ اور ہر ماحول میں بری قرار دی جاسکتی ہے اور نہ اسے کوئی شخص ایک جنبش قلم سے روک سکتا ہے.جو شخص بھی نیچر کا یا ماضی کے ایک لمبے سلسلے کے پیدا کئے ہوئے ماحول کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے بغیر اس کے کہ اصولی طور پر اس کی تمام جزئیات کا علاج کرے وہ یقیناً اپنے ہاتھ سے اپنی ناکامی کی بنیاد رکھتا ہے.اور عارضی طور پر اگر وہ دنیا کی نگاہوں میں مقبول بھی ہو جائے تو ہو جائے لیکن ضرور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس کا حسن بدصورتی اور اس کی کامیابی ناکامی نظر آنے لگے گی.اگر ہم غلامی کے سوال پر ٹھنڈے انسانی تمدن کے مدارج کا ایک درجہ دل سے غور کریں اور اس بات کو نظر انداز کر دیں کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے اور ناموں پر فدا ہونے والے لوگ جو حقیقت پر غور کرنے کے عادی نہیں ہم پر کیا فتویٰ لگائیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ غلامی در حقیقت انسانی تمدن کے مدارج کے وسیع سلسلے میں سے ایک درجہ ہے اور اسے

Page 296

سيرة النبي علي کلی طور پر دنیا سے مٹایا نہیں جاسکتا.286 جلد 3 غلامی کا مفہوم غلامی کا کیا مفہوم ہے؟ یہی کہ ایک شخص دوسرے کی مرضی کے پورے طور پر تابع ہو جاتا ہے یا تابع کر دیا جاتا ہے.اب اگر ایک شخص کا دوسرے کی مرضی کے تابع ہو جانا ایک برافعل ہے تو جس طرح کلی طور پر تابع ہونا برافعل ہے اسی طرح جزئی طور پر تابع ہونا بھی برا فعل ہوگا.جزئی غلامی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا سب کارخانہ اس جزئی غلامی پر قائم ہے.بچہ جس وقت سکول میں جاتا ہے سکول کے نظام کے ماتحت ہوتا ہے.اس نظام کے قائم کرنے میں اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی، اس کے اوقات کے متعلق اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی ، اس کے استادوں کے انتخاب میں اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی ، اگر وہ اس نظام کو تو ڑتا ہے تو اسے بدنی سزا تک بھی دی جاتی ہے.اب اس بچہ میں اور ایک غلام میں کیا فرق ہے؟ یہی نا کہ غلام چوبیں گھنٹے کا غلام ہوتا ہے اور یہ صرف پانچ چھ گھنٹے کے لئے غلام بنتا ہے.اور یا یہ فرق ہے کہ غلام کی خدمات کا نفع دوسرا شخص اٹھاتا ہے اور اس طالب علم کی خدمت کا نفع خود اسی کو پہنچتا ہے.مگر جبر اور نظام کی اندھا دھند پابندی جو غلامی کے مفہوم کا جزو اعلی ہے وہ یہاں بھی موجود ہے.غلامی کی تمام صورتیں بری نہیں پس ہم اس نظارہ کو دیکھ کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سارے وقت کی غلامی اور وہ غلامی جو دوسرے کے فائدہ کیلئے ہو بری ہے لیکن وہ غلامی جو عارضی ہو اور اس کا فائدہ خود ہم کو پہنچتا ہو وہ بری نہیں.لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ غلامی اپنی ذات میں تمام صورتوں میں بری ہے.بچہ کی غلامی لیکن طالب علم سے بھی بڑھ کر ہم کو ایک اور غلامی معلوم ہوتی ہے اور وہ وہ غلامی ہے جو بچوں سے ماں باپ کراتے ہیں.ہر بچہ اپنی

Page 297

سيرة النبي علي 287 جلد 3 جوانی کے زمانہ تک کلی طور پر اپنے ماں باپ کی مرضی کے تابع ہوتا ہے.اگر کماتا ہے تو اس کے مالک اس کے ماں باپ ہوں گے ، اگر وہ گھر کے کام کاج میں مدد دیتا ہے تو اس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاتی، گھر کے نظام میں اس کی کوئی آواز نہیں ہوتی، کھانے پینے ، پہنے کے متعلق وہ اپنے ماں باپ کا تابع ہوتا ہے، اس کی آئندہ زندگی کی داغ بیل ڈالنے کے لئے اس سے کوئی رائے نہیں پوچھی جاتی ، اس کے ماں باپ ہی اس کے لئے ایک پروگرام بناتے ہیں اور اس پر اسے چلاتے ہیں.غرض کیا اطاعت کے لحاظ سے، کیا حریت ضمیر کے لحاظ سے، کیا ملکیت کے لحاظ سے اور کیا آزادی اعمال کے لحاظ سے، ہر انسان دس بارہ سال کی عمر تک کلی طور پر اپنے ماں باپ کے ماتحت ہوتا ہے اور اس میں اور ایک غلام میں کوئی فرق نہیں ہوتا.کون سی غلامی بری ہوتی ہے اگر کوئی شخص کہے کہ بچہ کو ماں باپ نہایت پیار اور محبت سے رکھتے ہیں، جو خود کھاتے ہیں اس کو کھلاتے ہیں، جو خود پہنتے ہیں اس کو پہناتے ہیں.پھر بچہ کا بچپن کا زمانہ سمجھ کا زمانہ نہیں ہوتا اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کے لئے اور دنیا کے لئے نقصان کا موجب ہوگا.اس کے ماں باپ اسے جن باتوں کے لئے مجبور کرتے ہیں وہ خود اس کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں.تو میں کہوں گا کہ معلوم ہوا غلامی اُسی وقت بری ہوتی ہے جب اپنے میں اور غلام میں کوئی فرق کیا جائے اور جب غلام کے فائدہ کا پروگرام مدنظر نہ رکھا جائے، جب غلام کی عقل پختہ اور فہم صحیح ہومگر با وجود اس کے اس کو مجبور کیا جائے ورنہ بچے اور ماں باپ کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے بغیر قید کے غلامی کو برا نہیں کہا جا سکتا.ملازموں کی غلامی تیسری قسم کی غلامی کی مثال ملازمتوں میں ملتی ہے.ملازمتوں میں بھی انسان بعض دفعہ یا بعض اعمال میں کلی طور دوسرے کے ماتحت ہوتا ہے یا بعض اوقات میں کلی طور پر دوسرے.پر دوسرے کے تابع ہوتا.ہے

Page 298

سيرة النبي مله 288 جلد 3 مگر اس کا نام کوئی غلامی نہیں رکھتا حالانکہ ملازمت اور غلامی میں کوئی فرق نہیں ہے.شاید یہ کہا جائے کہ ملازم اپنی مرضی سے دوسرے کی ملازمت اختیار کرتا ہے اس لئے وہ غلام نہیں ہوتا اور غلام پر جبراً قبضہ کیا جاتا ہے اس لئے ہم اس کو ملازم سے الگ سمجھتے ہیں.لیکن یہ امتیاز صحیح نہیں.اس لئے کہ اس امتیاز کے ماتحت یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اپنی مرضی سے فروخت کر دے تو ایسے شخص کا غلام بنانا جائز ہے لیکن اگر یہ بھی نا جائز ہے تو ماننا پڑے گا کہ مرضی کی غلامیاں بھی غلامیاں ہی ہوتی ہیں.اگر کوئی کہے کہ غلام اور ملازم میں یہ فرق ہے کہ نو کر اپنی مرضی سے ملا زمت چھوڑ سکتا ہے لیکن غلام ایسا نہیں کر سکتا.تو پھر ہمیں یوں کہنا پڑے گا کہ وہ غلامی بری ہے جس کا طوق اپنی مرضی سے اتارا نہ جا سکے لیکن وہ غلامی حقیقی نہیں ہے جس کا طوق ہم اپنی مرضی سے اپنی گردن سے اتار سکیں.بہر حال اویر کی مثالوں غلامی تمدن انسانی کا جُزو لاینفک ہے سے یہ ضرور ثابت ہوگا کہ غلامی تمدن انسانی کا ایک جز ولا ینفک ہے اور یہ کہ غلامی کا مفہوم اس وقت تک دنیا میں نہایت مہم رہا ہے.اگر ہم اس کی تشریح کریں تو ہمیں دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑے گی.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا میں غلامی موجود ہے اور موجود رہے گی اور اس کے بغیر دنیا کا گزارہ چل نہیں سکتا اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ غلامی بھی دنیا کی اور چیزوں کی طرح بعض حالات میں اچھی ہوتی ہے اور بعض حالات میں بری.بعض شرطوں کے ساتھ جائز اور ان شرطوں کے بغیر نا جائز.ہم بغیر قیود کے نہ اس کی مذمت کر سکتے ہیں اور نہ اس کو جائز قرار دے سکتے ہیں.دنیا میں غلامی کی بنیاد کس طرح پڑی اس تمہید کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ غلامی کی بنیاد دنیا میں کس طرح پڑی.انسانی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی پیدائش کی ابتدا میں جبکہ

Page 299

سيرة النبي علي 289 جلد 3 انسانی دماغ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اور جبکہ اخلاق کی باریکیوں سے بھی انسان واقف نہ ہوا تھا اور ان کی عادت اس میں نہ پڑی تھی.اُس وقت جبکہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے رستہ میں روک پاتا تھا تو اس روک کے دور کرنے کا وہ صرف ایک علاج سمجھتا تھا.وہ علاج یہ تھا کہ اپنے مد مقابل کو قتل کر ڈالے.کیونکہ اُس دور میں ابھی انسان میں یہ سمجھنے کی قابلیت نہ تھی کہ جب ایک دوسرا شخص مجھے اپنے رستہ سے ہٹانا چاہتا ہے تو بغیر اس کے کہ میں اس شخص کو اپنے رستہ سے ہٹا دوں میری حفاظت کا اور کونسا رستہ ہوسکتا ہے.پس اُس زمانہ میں قتل ایک علاج تھا جو خود حفاظتی کا ایک انتہائی کامل ذریعہ سمجھا جاتا تھا.اُس زمانہ میں وہ قتل جولڑائی کے نتیجہ میں ہو کسی صورت میں بھی معیوب نہ تھا کیونکہ جو شخص اپنے دشمن کو قتل نہ کرتا وہ یقیناً خود قتل کیا جاتا سوائے اس صورت کے کہ باہمی صلح ممکن ہو.پس اُس زمانہ میں نیک اور بدا قوام جب کسی دوسری قوم سے جنگ کرنے پر مجبور ہوتی تھیں تو جب صلح کا امکان نہ ہوتا تھا تو نہ صرف جنگ میں اپنے دشمنوں کو مارتی تھیں بلکہ جنگ کے بعد بھی جو دشمن ہاتھ آ سکتے ان کو قتل کر دیتی تھیں.اُس وقت کے حالات کے ماتحت یہ باتیں بری نہ تھیں بلکہ خود حفاظتی کے قانون کے ماتحت نہایت ضروری تھیں.اور اُس وقت کے معیار اخلاق کے ماتحت صرف وہی اقوام ظالم کہلاتی تھیں جو عورتوں اور بچوں کو بھی مار ڈالتی تھیں.اس کے بعد ایک نیا دور چلا اور اخلاق کا معیار بلند ہو گیا.اب یہ فرق کیا جانے لگا کہ صرف وہی شخص مارے جانے چاہئیں جو فتنوں کے بانی ہوں.باقی لوگوں کو اگر ایسی صورت میں زندہ رکھا جا سکے کہ وہ ہماری تباہی کا موجب نہ ہوں تو انہیں زندہ رہنے کا موقع دینا چاہئے.چونکہ ابھی دنیا کا تمدن کامل نہیں ہوا تھا اور نظام حکومت ایسا پیچیدہ نہ تھا جیسا کہ اس زمانہ میں ہے اُس زمانہ میں یہ انتظام کیا گیا کہ جس قوم سے جنگ ہو اس کے افراد کو قید کر لیا جائے اور چونکہ نہ حکومت قیدیوں کا خرچ برداشت کر سکتی ہے اور نہ ان کے لئے قید خانے مہیا کر سکتی ہے اس لئے انہیں ملک کے مختلف

Page 300

سيرة النبي علي 290 جلد 3 افراد کے قبضہ میں دے دیا جائے کہ وہ ان کی نگرانی رکھیں اور اس خرچ کے بدلہ میں جو انہیں ان قیدیوں پر کرنا پڑے ان سے کام لیا جائے.چونکہ اُس وقت کا نقطہ نگاہ یہی تھا کہ ہمارا ہر دشمن در حقیقت ہمارا آئندہ قاتل ہے اس لئے جب کوئی اس قسم کا قیدی بھاگتا تھا تو اس کے معنی یہی لئے جاتے تھے کہ یہ اپنے علاقہ میں جا کر پھر ہمارے خلاف لڑائی کا جوش پیدا کرے گا اور ہمیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا اس لئے اُس زمانہ کے نقطہ نگاہ سے ہر قیدی جو بھاگتا تھا اسے قتل کیا جاتا تھا.اور اگر ہم اُس وقت کے نقطہ نگاہ سے اس سوال پر نظر ڈالیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ گو آج یہ فعل ظالمانہ نظر آئے مگر اُس وقت کے حالات کے ماتحت سوسائٹی کی حفاظت کے لئے یہ ایک ضروری فعل تھا.صنعت و حرفت کی داغ بیل کس طرح رکھی گئی دنیا نے اس کے اوپر پھر ترقی کی اور غلاموں کے وجود کو تمدن کا ایک جزو بنا لیا.یعنی وہ پیشے جن میں مشاقی صبر، استقلال اور لمبی محنت کے نتیجے میں پیدا ہوتی تھی ان قیدیوں یعنی غلاموں کے سپرد کئے گئے اور اس طرح صنعت و حرفت جو اس وقت تمدن و ترقی کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں کی داغ بیل رکھی گئی.یہی وجہ ہے کہ قدیم الایام سے صنعت و حرفت ذلیل پیشے خیال کئے جاتے ہیں اور اہل صنعت و حرفت دوسری قوموں کی نسبت ادنی خیال کئے جاتے ہیں.کیونکہ جو کام کلی طور پر غلاموں کے سپرد ہوں گے وہ لازماً غلاموں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حقیر خیال کئے جائیں گے.اس زمانہ میں صنعت و حرفت سے تعلق رکھنا گویا اپنے غلام ہونے کا ثبوت دینا تھا.جب غلامی کا دور کم ہوا اور صنعت و حرفت کو آزا دلوگوں نے بھی اختیار کر لیا تو بوجہ اس کے کہ اکثر پیشہ ور جو گو خود غلام نہ تھے مگر غلاموں کی اولاد تھے حقیر خیال کئے جاتے تھے اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی جو ان کی طرح پیشہ اختیار کرتے تھے ذلیل

Page 301

سيرة النبي عمال سمجھے جاتے تھے.291 جلد 3 غلامی کی بنیاد ظلم پر ہیں بلکہ تم پر رکھی گئی مذکورہ بالا تاریخی واقعات سے یہ معلوم ہوگا کہ غلامی کی بنیاد ظلم پر نہیں بلکہ رحم پر رکھی گئی ہے اور اس کے قیام کا اصل محرک جنگ میں شامل ہونے والے لوگوں کو قتل ہونے سے بچانے کا خیال تھا.جس وقت تک لوگوں کی یاد میں پہلا نقطہ نگاہ تازہ رہا اُس وقت تک تو لوگ اس تحریک کو نیک اور شاہراہ ترقی کی طرف ایک صحیح قدم سمجھتے رہے.جب ایک لمبے عرصہ کے بعد پہلا نقطہ نگاہ بھول گیا تو پھر یہی فعل ایک سزا سمجھا جانے لگا.خصوصاً جبکہ انسانی دماغ ترقی کر رہا تھا اور اخلاق کی مزید باریکیاں معلوم ہونے کے سبب سے ایک حصہ انسانوں کا اس بات کی طرف مائل تھا کہ اپنے دشمن کے ضرر سے بچنے کے لئے اور ذرائع بھی اختیار کئے جاسکتے ہیں، پس ہمیں ان کی تلاش کرنی چاہئے.غلامی کی ناجائز صورتیں غلامی کی ان صورتوں کے علاوہ جو کہ اپنے اپنے وقت میں جائز تھیں بعض ناجائز صورتیں بھی پیدا ہو گئیں مثلاً یہ کہ جب لوگوں نے دیکھا کہ لوگوں کو غلاموں سے کام لینے کی عادت ہوگئی ہے اور وہ ان کے لئے بڑی بڑی رقمیں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے آزاد لوگوں کو یا ان کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر بیچنا شروع کیا اور ایک ملک سے پکڑ کر دوسرے ملک میں لے جا کر بیچ دیتے تھے اور اس طرح لاکھوں روپیہ کماتے تھے.یہ صورت انسانی تمدن کے مختلف دوروں میں کبھی بھی معقول نہیں سمجھی گئی اور ہمیشہ اسے ناپسندیدہ اور نامناسب ہی قرار دیا گیا.چونکہ غلامی کی ابتدا اس خیال پر تھی کہ انسان کو غلام اس کے فائدہ کے لئے بنایا جاتا ہے یعنی اس کو قتل سے بچانے کے لئے اس لئے اس نقطہ نگاہ کے ماتحت دنیا میں ایک اور طریق غلامی کا بھی ایجاد ہو گیا کہ بعض لوگ خود اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو بیچ

Page 302

سيرة النبي علي 292 جلد 3 ڈالتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک مالدار آدمی کے پاس فروخت ہو جانے پر ان کی یا ان کے بچوں کی حالت اچھی ہو جائے گی.جہاں تک میں خیال کرتا ہوں اُس زمانہ کے نقطہ نگاہ کے ماتحت یہ بات بھی کوئی معیوب نہ تھی کیونکہ عمر بھر بھو کے رہنے، بیماریوں میں مبتلا رہنے اور اپنے بیوی بچوں کو بھوکا تڑپتے دیکھنے سے یہ بات اُس وقت کے تمدن کے لحاظ سے بہتر معلوم ہوتی تھی کہ کوئی شخص اپنی ساری عمر کی خدمت کا اقرار ب شخص سے کر لے اور اس کے بدلہ میں کوئی دوسرا شخص اس کی رہائش اور اس کے کھانے پینے کا ذمہ وار ہو.میری یہ تمہید اور غلامی کی تاریخ پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسانی سوسائٹی پر بعض دور ایسے آتے ہیں جبکہ غلامی ضروری ہو جاتی ہے اور یہ کہ غلامی کے اصل نقائص یہ ہیں :.(1) کہ انسان کی آزادی بالکل مسلوب ہو جائے.(2) اس کی قید اس کے فائدہ کے لئے نہ ہو.( 3 ) جبکہ انسان کو اس وقت مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی برائی اور بھلائی پہچان سکتا ہو.(4) جبکہ آزادی کا حصول اس کے اختیار میں نہ ہو.(5) جبکہ غلام اور آقا کے تعلقات کی بنیاد حسن سلوک پر نہ ہو.غلامی کس طرح مٹ سکتی ہے اگر کوئی ایسا قانون ہو جو ان سب باتوں کا لحاظ کرے تو وہی قانون صحیح طور پر غلامی کو دنیا سے مٹا سکے گا.کیونکہ جب تک غلامی کی ضرورتوں کو جو بعض دفعہ ایک آزاد انسان کو بھی غلام بننے پر مجبور کر دیتی ہیں دور نہ کیا جائے اُس وقت تک غلامی کلی طور پر دنیا سے نہیں مٹ سکتی.اور جب تک ایسے لوگوں کو جو اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھ سکیں اور دنیا کے تمدن کے تختے کو الٹنے کی کوشش میں ہوں ان کو خطرناک جرائم کی سزا میں بعض قیود اور حد بندیوں کے نیچے نہ لایا جائے اُس وقت تک نہ غلامی مٹ سکتی ہے نہ دنیا میں

Page 303

سيرة النبي علي امن قائم ہوسکتا ہے.293 جلد 3 غلامی کو مٹانے کے لئے اصول افسوس کہ ان امور کو مدنظر رکھے بغیر دنیا نے غلامی کو مٹانا چاہا ہے اور بغیر مغز کے صلى الله رسول کریم نے بیان کئے ایک قشر تیار کر کے اس پر خوش ہو رہی ہے حالانکہ غلامی اب بھی موجود ہے اور موجود رہے گی.اس کی بعض صورتیں مٹائی نہیں جاسکتیں اور مٹائی نہیں جاسکیں گی کیونکہ وہ اچھی صورتیں ہیں بری نہیں.اور بعض صورتیں ظاہراً مٹادی گئی ہیں حقیقتاً موجود ہیں اور اُس وقت تک موجود رہیں گی جب تک کہ سوسائٹی کے تمدن کی بنیاد ان اصول پر نہ رکھی جائے گی جن سے غلامی کی روح مٹ سکتی ہے اور وہ اصول صرف اور صرف اسلام نے بیان کئے ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ علیہ نے ان کی بنیاد رکھی ہے.سرولیم میور کا اعتراض باوجود اس کے سرولیم میور جیسے ناواقف لوگ یہ کہتے ہیں کہ معمولی اہمیت والے معاملات کو نظر انداز کر کے اسلام سے تین بہت بڑے عیب پیدا ہوئے ہیں جو ہر ملک اور ہر زمانہ میں رائج رہے ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ قرآن پر مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے.اول کثرت ازدواج ، طلاق اور غلامی کے مسائل.یہ پبلک کے اخلاق کی جڑ پر تبر رکھتے ہیں اور اہلی زندگی کو زہر آلود بناتے ہیں اور سوسائٹی کے نظام کو تہ و بالا کرتے ہیں 1.مگر حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے ہی ان تینوں عیوب کے دور کرنے کا طریق بتایا ہے.اس طریق کو نظر انداز کر دو تو یقیناً ایک عیب کی اصلاح کرتے ہوئے دوسرا عیب پیدا ہو جائے گا اور اس کی اصلاح کرتے ہوئے پھر تیسرا پھر چوتھا.اور ایک گڑھے سے بچنے کی کوشش میں انسان دوسرے گڑھے میں گرے گا جو پہلے سے بھی زیادہ گہرا ہو گا.یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر اس

Page 304

سيرة النبي م 294 جلد 3 طریق کی طرف لوٹے گا جسے محمد رسول اللہ علیہ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے قائم کیا.غلامی کے متعلق اسلام کی کامل تعلیم میں وہ اصول بیان کر چکا ہوں جن کی بنا پر انسانی آزادی پر قید لگانی پڑی ہے اور وہ اصول بھی بیان کر چکا ہوں جن کی بنا پر انسانی آزادی پر قید لگانا ضروری ہے.اور میں یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ غلامی کی حقیقی تعریف یہی ہے کہ انسان کی آزادی کو سلب کر کے اس کو بعض قیود کا پابند کر دیا جائے.اگر ان تینوں امور کے متعلق میری رائے صحیح ہے اور جہاں تک میرا مطالعہ اور میراعلم جاتا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ غلامی کے متعلق اصولی طور پر غور کرنے والے تمام لوگ ان تینوں باتوں میں مجھ سے متفق ہیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے غلامی کے متعلق جو تعلیم دی ہے اس کے کامل اور اکمل ہونے کے متعلق کسی شخص کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.غلامی کو اسلام نے کس طرح مٹایا پہلے میں غلامی کی ان اقسام کو لیتا ہوں صلى الله جو غلامی کے مشہور طریق سے جدا ہیں.پہلا طریق یہ ہے کہ کسی آزاد کو ز بر دستی پکڑ کر بیچ ڈالا جائے.اس کے متعلق رسول کریم نے یہ تعلیم دی ہے کہ آزاد کو فروخت کرنے والا واجب القتل ہے.چنانچہ نجد کے کچھ عیسائیوں نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ ہمیں بعض ہماری ہمسایہ قوموں نے بغیر کسی جنگ کے قید کر کے غلام بنایا ہوا ہے.حضرت عمر نے ان کو آزاد کر دیا اور فرمایا کہ اگر یہ جرم اسلام سے پہلے کا نہ ہوتا تو میں اسلامی احکام کے مطابق ان آزادوں کے قید کرنے والوں کو قتل کی سزا دیتا.جو شخص اس قسم کی غلامی کے نتائج پر غور کرے وہ اس بات کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس رنگ میں انسان کو قید کر کے اس کے بیوی بچوں اور وطن سے جدا کر دینا ایک نہایت ہی فتیح فعل ہے.اور اس کی سزا یقینا قتل ہی ہونی چاہئے.کیونکہ ایسا شخص ہزاروں جانوں کو قتل کرتا ہے.

Page 305

سيرة النبي علي 295 جلد 3 دوسرا طریق دوسرے ایک ناجائز طریق دنیا میں غلامی کا یہ تھا کہ غلام بنانے کے لئے اپنی ہمسایہ قوم پر حملہ کر دیتے یا مال و دولت لوٹنے کے لئے حملے کرتے تھے اور ساتھ ہی آدمیوں کو غلام بنا لیتے تھے.اسلام نے اس کو بھی رد کیا اور یہ قاعدہ بنا دیا کہ کسی قوم کو دوسری قوم پر اس وقت تک حملہ کرنے کا حق نہیں جب تک کہ وہ یہ ثابت نہ کر دے کہ اس کے بعض حقوق اس قوم نے تلف کر دیئے ہیں اور جب تک کہ ہمسایہ قوموں کو اس بات کا موقع نہ دے دیا جائے کہ وہ دونوں فریق میں اصلاح کی کوشش کریں لیکن ایسی جنگ کے بعد بھی غلام بنانے کی اجازت نہیں.صرف اس بات کی اجازت ہے کہ جس حق پر لڑائی تھی وہ اس کو دلا دیا جائے یا جو ا اخراجات وغیرہ اس پر ہوئے ہیں وہ اس کو کلی طور پر یا ان کا کچھ حصہ دلا دیا جائے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۚ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ 2.اور اگر مومنوں سے دو قو میں آپس میں لڑنے پر آمادہ ہوں تو ان میں صلح کرا دو.پھر اگر اس صلح کے بعد بھی ایک دوسری کے خلاف زیادتی سے کام لے تو جو قوم زیادتی کرتی ہے اس کے خلاف سب قوموں کومل کر جنگ کرنی چاہئے.یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئے.پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو دوبارہ ان میں عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دو.اللہ تعالیٰ یقیناً انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام نے دنیوی جھگڑوں میں یونہی حملہ کر دینے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ سب سے پہلے دوسری اقوام کو بیچ میں ڈال کر صلح کرنے کا حکم دیا ہے.اگر کوئی قوم دوسری قوم کا حق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر سب قوموں کو اس کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اور لڑائی کا انجام پھر صلح پر رکھا.

Page 306

سيرة النبي عمال 296 جلد 3 جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ غلامی یا دوسرے کے حقوق کے تلف کرنے کی صورت بالکل ناممکن ہو جائے گی.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اس جگہ مومنوں کے متعلق احکام ہیں.مومنوں کا لفظ صرف اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ مومن ہی قرآن کریم کے احکام کو مانیں گے ور نہ اصولی طور پر دنیا کی سب قو میں ان احکام پر عمل کر سکتی ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں.تیسری صورت جو غلامی کے عام مشہور قاعدہ کے علاوہ دنیا میں تیسرا طریق رائج ہو گئی تھی یہ تھی کہ لوگ اپنے آپ کو یا اپنے بیوی بچوں کو بیچ ڈالا کرتے تھے.اسلام نے اس طریق کو بھی بالکل روک دیا ہے اور ایک عام حکم دے دیا ہے کہ کسی آزاد کو غلام نہیں بنایا جا سکتا خواہ اس کی مرضی سے یا بغیر مرضی کے.لیکن میں بتا چکا ہوں کہ بعض حالات میں آزادی سے غلامی بہتر ہوتی ہے.ایک آزاد شخص جو بیمار ہے یا جسے کوئی ملازمت کا کام نہیں مل سکتا یا اور کوئی اسی قسم کی بات پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ روزی نہیں کما سکتا ، وہ آزاد رہتے ہوئے جو تکلیف اٹھائے گا بعض حالات میں غلامی میں اس سے کم تکلیف پہنچے گی.اسی طرح جو تکلیف اس کے بچے اس کے پاس اٹھائیں گے بالکل ممکن ہے کہ بعض حالات ایسے پیدا ہو جائیں کہ غلامی میں اس سے کم تکلیف اسے پہنچے.پس یہ حکم کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو نہیں بچ سکتا اُس وقت تک مفید اور قابل عمل نہیں کہلا سکتا جب تک کہ ان مشکلات کا بھی علاج نہ سوچا جائے جو اس حالت میں پیدا ہوتی ہیں.اس زمانہ میں تمدنی ترقی کے ماتحت اس حکم کو تو لوگوں نے اختیار کر لیا ہے لیکن اس کے ساتھ جو مشکلات وابستہ ہیں ان کا کوئی علاج نہیں کیا.مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کا علاج بھی بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں ہر فرد کا کھانا مہیا کرنا اور اس کا ضروری لباس اور اس کے لئے رہائش کا انتظام حکومت پر یا بالفاظ دیگر ساری قوم پر

Page 307

سيرة النبي عمال 297 جلد 3 واجب قرار دیا گیا ہے.اور اس طرح اس ضرورت کو جو آزاد کو غلام بنانے پر مجبور کرتی ہے باطل کر کے غلامی کی ایک شق کا قلع قمع کر دیا گیا ہے.دنیوی جنگوں میں کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا اس کے بعد اب میں وہ صورت لیتا ہوں جو غلامی کی جائز صورت کبھی جاتی رہی ہے اور جو یہ ہے کہ کسی شکوہ یا شکایت پر دو تو میں آپس.میں لڑ پڑیں اور ان میں سے غالب آنے والی قوم مغلوب کے افراد کو قید کر کے اپنا غلام بنا لے.اس قسم کی غلامی میں سے اسلام نے اس غلامی کو تو اڑا دیا ہے جو دنیوی جنگوں کے نتیجے میں رائج تھی اور اس کے متعلق وہی تعلیم دی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اول تو دنیوی جنگیں نہ ہی ہوں اور اگر ہوں تو ان کا اختتام صلح پر ہونا چاہئے اور محض حقوق کے تصفیہ پر ہونا چاہئے اور غلام وغیرہ نہیں بنانے چاہئیں.ان جنگوں کا اصول اسلام نے یہ رکھا ہے کہ دوسری بے تعلق قوموں کو بھی ان میں حصہ لینا چاہئے تا کہ کوئی قوم بھی تعدی نہ کر سکے.مذہبی جنگوں میں غلام بنانے کی ممانعت دوسری قسم کی جنگیں مذہبی جنگیں ہیں.ان کے متعلق اسلام نے جو حکم دیا ہے وہ یہ ہے لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِى دِينِ 3 اور فرمایا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ 4 یعنی ہر ایک کا دین اس کے ساتھ ہے اور دلیل اور صحیح طریق عمل واضح کر دینے کے بعد کسی کو ایک دوسرے پر جبر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.اگر ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی کوئی شخص ہدایت کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کا نقصان اس کو پہنچے گا.دوسروں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر زور دیں اور اسے مجبور کر کے اپنے مذہب میں داخل کریں.پس اپنا مذہب منوانے کے لئے جنگ کرنے کا سلسلہ اسلام نے بالکل روک دیا ہے اور اس طرح حملہ کر کے غلام بنانے کا طریق دنیا سے مٹا دیا ہے.

Page 308

سيرة النبي علي مظلوم قوم کے لئے اجازت 298 جلد 3 مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شخص اسلام کی تعلیم پر عمل کرے اور چونکہ مذہبی حملے عام طور پر کمزور قوموں پر ہوا کرتے ہیں خصوصاً ایسے مذاہب کے پیروؤں پر جو جدید ہوتے ہیں اور ان سے ہمدردی حملہ آور قوم کے علاوہ دوسری قوموں میں بھی نہیں ہوتی اس لئے دنیوی جنگوں کے متعلق جو قانون تھا وہ یہاں پر چسپاں نہیں ہوسکتا.ایسے موقع پر حملہ آور قوم کی ہم مذاہب اقوام یا وہ اقوام جو اس کی ہم مذہب تو نہ ہوں لیکن دوسری قوم کے مذہب سے شدید اختلاف رکھتی ہوں اس مظلوم قوم کی تائید کے لئے کبھی نہیں نکلیں گی.پس ضروری تھا کہ اس مظلوم قوم کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار دیا جاتا جس سے وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی اور حملہ آور قوم کے دل میں بھی کوئی ڈر باقی رہتا.پس اس کے لئے اسلام نے یہ اجازت دی کہ اگر ایک قوم اپنا مذہب منوانے کے لئے کسی دوسری قوم پر حملہ کرے تو اس کے قیدیوں کے ساتھ عام جنلی قیدیوں کی نسبت کسی قدر مختلف سلوک کیا جائے.اور وہ یہ سلوک ہے کہ اس کے قیدیوں کو فروخت کرنے کی اجازت ہو تا کہ وہ مظلوم قوم جس پر حملہ کی وجہ ہی اس کا کمزور ہونا تھا قیدیوں کی پرورش کے بار کے نیچے دب کر اور بھی تباہ نہ ہو جائے.اس صورت کا نام خواہ غلامی رکھ لو خواہ قید کی کوئی دوسری نوعیت قرار دے لو بہر حال اسلام نے اس کو جائز رکھا ہے.مگر کوئی عقل مند انکار نہیں کر سکتا کہ ایک کمزور قوم پر اس غرض سے حملہ کرنے والا کہ اسے اس کی واحد دولت یعنی تعلق باللہ سے محروم کر دے اور شیطان کی ابدی غلامی میں دے دے یقیناً اس بات کا مستحق ہے کہ اسے بتایا جائے کہ آزادی کا چھن جانا کیسا تکلیف دہ ہے.جو شخص حریت ضمیر انسان سے چھینتا ہے اگر اسے کچھ عرصہ کے لئے جسمانی حریت سے محروم رکھا جائے تو یقیناً یہ سزا اس کے فعل سے کم ہے.ضروری شرائط باوجود اس کے کہ جس جرم کی سزا میں اسلام نے فردی قید کو جائز رکھا ہے وہ بہت شدید ہے اور اس کی سزا بہت کم ہے پھر بھی

Page 309

سيرة النبي عمال 299 جلد 3 اس نے ایسی قیود مقرر کر دی ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ قید غلامی کے اس مفہوم سے باہر نکل جاتی ہے جو عام طور پر دنیا میں سمجھا جاتا ہے.کیونکہ اسلام نے ان قیدیوں کے لئے یہ شرائط مقرر کی ہیں :.(1) ہر شخص جس کے پاس وہ قیدی رہیں وہ انہیں وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی کچھ پہنائے جو خود پہنتا ہے.(2) کوئی شخص انہیں بدنی سزا نہ دے.(3) ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جو وہ کر نہ سکتے ہوں.(4) ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس کے کرنے سے مالک خود کراہت کرتا ہو.بلکہ مالک کو چاہئے کہ وہ کام میں ان کے ساتھ شریک ہو.(5) اگر وہ آزادی کا مطالبہ کریں تو انہیں فوراً آزادی دی جائے بشرطیکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر دیں.(6) فدیہ کی ادائیگی میں بھی یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی گھر سے مالدار نہیں ہے اور اس کے رشتہ دار فدیہ دے کر اسے نہیں چھڑا سکتے تو وہ مالک سے ٹھیکہ کر لے کہ فلاں تاریخ تک اتنی قسطوں میں میں یہ رقم ادا کر دوں گا.اس سمجھوتے پر مالک مجبور ہوگا اور اسی دن سے یہ قیدی اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا اور جو کچھ کمائے گا اس کا ہو گا.صرف اپنے وقت معین پر مقررہ قسط ادا کرتا رہے گا.جس دن اصل رقم ادا ہو جائے گی یہ پورے طور پر آزاد سمجھا جائے گا.(7) غلام کو حق دیا گیا ہے کہ جب کوئی مالک اس کے ساتھ نا مناسب سلوک کرتا ہو تو وہ مجبور کر کے اپنے آپ کو فروخت کرالے.آزادی سلب کرنے کی اجازت کس صورت میں دی ان قوانین سے یہ بات ثابت

Page 310

سيرة النبي عمال 300 جلد 3 ہے کہ اول اسلام نے انسانی آزادی سلب کرنے کی اسی وقت اجازت دی ہے جبکہ اس میں اپنی خیر و شر سمجھنے کی طاقت باقی نہ رہی ہو گویا کہ اس کی مثال ایک بچہ کی سی ہے کیونکہ جو شخص تلوار کے ذریعہ سے دوسروں کو اپنا ہم خیال بنانا چاہتا ہے وہ انسان کی ذہنی ترقی کو جو اس کی پیدائش کا اصل مقصود ہے روکتا ہے اور بنی نوع انسان کو اس عظیم الشان مقصد سے محروم کرنا چاہتا ہے جس مقصد کے حصول کے لئے کروڑوں جانوں کو ضائع کر دینا بھی وہ معمولی قربانی سمجھے ہیں.پس اس قسم کی نادانی کرنے والا انسان یقیناً بچوں سے بدتر ہے اور یقیناً اس امر کا مستحق ہے کہ ایک عرصہ تک اسے قید و بند میں رکھا جائے.لیکن جس وقت حکومت ایسی کمزور ہو کہ وہ با قاعدہ سپاہی نہ رکھ سکتی ہو اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ واری فردا فردا پڑتی ہو اس وقت قیدیوں کے رکھنے کا بہترین طریق یہی ہو سکتا ہے کہ ان کو افراد میں تقسیم کر دیا جائے تا کہ وہ ان سے اپنے اخراجات جنگ وصول کر لیں.جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہو اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فردا فردا نہ پڑتا ہو تو اس وقت جنگی قیدی تقسیم نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے.اسلام نے غلامی کے نقائص کس طرح دور کئے ماتحتی کی بری صورتوں میں سے ایک یہ صورت تھی کہ ماتحت کے ساتھ ذلت کا سلوک کیا جائے اور اس وجہ سے غلامی بری کہلاتی ہے.لیکن جب اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ مالک جوخود کھائے وہ غلام کو کھلائے اور جو پہنے وہ غلام کو پہنائے اور اس سے وہ کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور وہ کام نہ لے جو آقا اس کے ساتھ خود مل کر کرنے کے لئے تیار نہ ہو اور اسے مارے نہیں اگر مارے تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گا تو ایسے غلام کی حالت ایک چھوٹے بھائی یا بچہ کی طرح ہے.اگر چھوٹا بھائی یا بچہ غلام نہیں کہلا سکتا تو یہ شخص بھی غلامی کی عام تعریف سے باہر نکل آتا ہے.

Page 311

سيرة النبي علي 301 جلد 3 تیسرا نقص غلامی میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انسان ہمیشہ کے لئے ایک بات کا پابند ہو جاتا ہے.اس کا بھی اسلام نے علاج کر دیا ہے کیونکہ غلام کا حق رکھا ہے کہ وہ اپنا فدیہ دے کر آزاد ہو جائے.اور اگر وہ اپنا فدیہ یکدم ادا نہیں کر سکتا تو اپنے مالک سے قسطیں مقرر کر لے.اور جس وقت وہ قسطیں مقرر ہو جائیں اُسی وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہو گا جیسا دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا.پس ہر ایسا قیدی جو مذہبی جنگ میں گرفتار ہوتا ہے اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ آزادی حاصل کر لے.اور جب آزادی کا حصول اس کے اپنے اختیار میں ہے تو اس قسم کی قید غلامی کی ناجائز شقوں میں کس طرح شامل کی جاسکتی ہے.قرآن کریم نے غلام کے لئے دو ہی صورتیں رکھی ہیں.اِمَامَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءَ 5 مذہبی جنگ میں جب کوئی شخص قید ہو تو یا اس کو بطور احسان چھوڑ دیں یا فدیہ لے کر چھوڑ دیں.پس یہ صورت اسلام میں جائز ہی نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر اس کو غلام رکھا جائے.ہاں یہ ایک صورت رہ جاتی ہے کہ نہ تو کوئی شخص فدیہ دے سکتا ہو اور نہ مالک بغیر فدیہ کے آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہو.کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ جو رقم اس نے جنگ میں خرچ کی تھی اس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو.ایسی صورت کے لئے قرآن کریم نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتُبَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَاتُوهُمْ مِنْ مَّالِ اللَّهِ الَّذِى أَتُكُم یعنی وہ لوگ جو کہ تمہارے قیدیوں میں سے چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ قسطیں مقرر کر لی جائیں اور انہیں آزاد کر دیا جائے تو ان کے فدیہ کی رقم کی قسطیں مقرر کر لو.اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں.بلکہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے ان کی مدد کرو یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تا کہ اس کے ذریعہ سے روپیہ کما کر وہ اپنا فدیہ ادا کرنے کے قابل ہو جائیں.

Page 312

سيرة النبي عمال 302 جلد 3 جو لوگ اس کی بھی قابلیت نہ رکھتے ہوں ان کے لئے اسلام نے نصیحت فرمائی ہے کہ مالدار لوگ انہیں آزاد کرائیں اور حکومت انہیں آزاد کرائے.لیکن جو لوگ کسی طرح بھی کمائی نہ کر سکتے ہوں اور آزاد ہو کر سوال کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو ان کے متعلق مالک کو یہی حکم ہے کہ وہ انہیں پاس رکھے اور ان کی خبر گیری کرے.اپنے کھانے میں سے اسے کھلائے اور اپنے کپڑے میں سے انہیں پہنائے.اسلام میں کوئی غلامی نہیں ہر شخص جو ان احکام کو پڑھے معلوم کر سکتا ہے کہ غلامی کا جو مفہوم دنیا میں پایا جاتا ہے اس کے رو سے اسلام میں کوئی غلامی رائج نہیں.ہاں فلسفیانہ اصول پر جو غلامی کی تشریح کی جاتی ہے اور جس کے ماتحت غلامی اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی اور ضروری بھی ہو سکتی ہے اور غیر ضروری بھی اس غلامی کی بعض قسمیں اسلام نے جائز رکھی ہیں.یعنی وہ جو اچھی ہیں اور ضروری ہیں اور جن کا ترک کرنا کوئی عقلمند انسان پسند نہیں کر سکتا اور جن کے ترک کرنے سے دنیا میں فساد اور فتنہ پیدا ہوتا ہے اور حقیقی آزادی ملتی ہے اور دنیا کی ترقی میں روک پیدا ہوتی ہے.اور جو غلامی کے برے طریق ہیں ان سے اسلام نے روکا ہے اور دوسرے لوگوں کی طرح صرف روکا ہی نہیں بلکہ غلامی کے ان طریقوں کے موجبات اور محرکات کا بھی علاج کیا ہے تا کہ انسان مجبور ہو کر ان غلامیوں میں مبتلا نہ ہو.پس مبارک ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود حقیقی آزادی دینے والا انسان جنہوں نے اس غلامی کو جو دنیا کے لئے مضر تھی مٹایا اور دنیا کو حقیقی آزادی عطا کی.وہ نادان جو لفظاً غلامی کو مٹاتے ہیں اور عملاً اسے قائم کرتے ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو چاند پر تھوکتا ہے.لیکن چاند پر تھوکا خود ان کے اپنے منہ پر پڑتا ہے.عقلمند آدمی محسوس کرتے ہیں کل سب دنیا معلوم کر لے گی کہ حقیقی آزادی اس تعلیم میں ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے دی ہے اور دنیا

Page 313

سيرة النبي عمال 303 جلد 3 کو نجات دینے والی ہستی صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے.وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ " 66 ( الفضل 8 نومبر 1931ء) The Coran by William Muir Page57,58,61 Published in London 1878:1 2: الحجرات: 10 3: الكفرون : 7 4 البقرة: 257 5 : محمد : 5 6: النور: 34

Page 314

سيرة النبي علي 304 جلد 3 رسول کریم ﷺ کے پانچی عظیم الشان اوصاف 8 نومبر 1931ء کو جماعت احمد یہ لاہور نے بریڈ لاء ہال لاہور میں ایک وسیع جلسہ کیا جس میں بڑی کثرت سے لوگ شامل ہوئے.اس جلسہ میں لالہ رام چند منچندہ اور مولوی محمد بخش مسلم نے بھی سیرت کے حوالے سے تقاریر کیں.حضرت مصلح موعود نے اس موقع پر درج ذیل تقریر فرمائی :.مجھے کئی دن سے بخار اور نزلہ کی شکایت ہے اور بیماری کی وجہ سے میں یہ خیال کرتا تھا کہ آج لاہور میں اس مقدس مضمون کے متعلق جو میرے نزدیک نہ صرف مسلمانوں کیلئے مقدس اور ضروری ہے بلکہ تمام دنیا کیلئے اور تمام مذاہب کیلئے مفید اور بابرکت ہے کچھ بیان نہ کر سکوں گا.لیکن بعض حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ میں نے مناسب سمجھا خواہ گلے کی تکلیف اور بخار کی شکایت ہو تھوڑا بہت بلند یا پست آواز سے جس قدر بول سکوں بولوں اور اپنے صوبہ کے مرکز میں اس تحریک کے متعلق جس کی ابتدا میں نے کی ہے کچھ بیان کروں اور بتاؤں کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے.میں مختلف جماعتوں کی نظر میں اس اعتراض کے نیچے ہوں کہ بہت سے فتنے جو ملک میں پیدا ہوئے ان کی تحریک مجھ سے ہوئی ہے.اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور یوں بھی آج کل حریت کا زمانہ ہے اس لئے ہر شخص آزاد ہے کہ جو عقیدہ یا رائے چاہے رکھے اس لئے جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں جب تک ان کی تسلی نہ ہو جائے ان کا حق ہے کہ اپنے خیال پر قائم رہیں.مگر جس طرح وہ آزاد ہیں کہ میری نیت کے متعلق جو رائے چاہیں قائم کریں اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ جس بات کو حق سمجھوں اس کے

Page 315

سيرة النبي علي 305 جلد 3 مطابق عمل کروں.پچھلے چند سالوں میں میں نے دیکھا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ اب ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں پر بھی حملے کئے جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جہاں دینی تعلقات خراب ہوتے ہیں وہاں دنیوی تعلقات بھی منقطع ہو جاتے ہیں.میں نے اس صورت حالات پر غور کیا کہ کیا ایسی تجویز ہوسکتی ہے کہ یہ تعلقات بہتر ہو جائیں اور اسلامی نقطہ نگاہ سے مجھے بہترین ذریعہ یہی نظر آیا کہ ایسی تحریک کی جائے کہ اپنے پیشوا، ہادی، راہنما اور درحقیقت ہمارے دین و دنیا کے درست کرنے والے کے متعلق غیر اقوام سے درخواست کی جائے کہ آپ کے بعض احباب کو ہمارے آقا کے اندر عیب ہی عیب نظر آتے ہیں، کیا کوئی ایسا بھی ہے جو خو بیوں کو دیکھ سکے.اور اگر کوئی ایسا ہے تو وہ مسیح پر آ کر ان خوبیوں کو بیان کرے تا مسلمانوں کو یقین ہو کہ اگر بعض لوگ حضور کے عیوب بیان کرنا اپنا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں تو چند ایسے بھی ہیں جو آپ کے اعلیٰ اوصاف اور خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں میں جو جوش اور ناراضگی اس وجہ سے ہے کہ دوسری اقوام ہمارے آقا کی تو ہین کرتی ہیں وہ کم ہو جائے اور بین الاقوامی تعلقات بہتر ہو سکیں.یہ پہلا قدم ہے اور دوسری اقوام کا بھی حق ہے کہ ہم سے مطالبہ کریں کہ ہمارے پیشواؤں کی خوبیاں آ کر بیان کرو اور میں سمجھتا ہوں جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ ایک ہی سٹیج پر مختلف اقوام کے لوگ ایک دوسرے کے ہادیوں کی الله خوبیاں بیان کریں گے.اگر ہندو اور سکھ حضرت نبی کریم ﷺ کے متعلق نیک خیالات کا اظہار کریں گے تو مسلمان ان کے پیشواؤں کے متعلق بھی ایسا ہی کریں گے اور مسلمانوں کیلئے یہ امر کوئی مشکل نہیں کیونکہ ان کو تعلیم دی گئی ہے کہ آنحضرت علی پہلے جو ہادی گزرے ہیں وہ بہت اعلیٰ صفات اپنے اندر رکھتے تھے اور کوئی ملک ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے خالی چھوڑا ہو بلکہ ہر ملک میں نبی مبعوث کئے ہیں.اور جب ایسے جلسے کثرت سے کئے جائیں گے تو ملک کی حالت بہت بہتر ہو جائے گی اور ایک

Page 316

سيرة النبي عليه 306 جلد 3 دن ایسا آئے گا کہ آج جیسی جھوٹ کی فضا کی بجائے ہم صداقت کی فضا میں پرورش پا رہے ہوں گے.میں سمجھتا ہوں کوئی شخص ایسا نہیں جسے دوسروں کے بزرگوں میں کوئی خوبی نظر نہ آتی ہو اور اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ یقیناً جھوٹ کی فضا میں پرورش پا رہا ہے.میں تو جس مذہب کی مذہبی کتاب کو بھی دیکھتا ہوں اس میں خوبیاں پاتا ہوں اور میرا مذہب مجھے یہی بتاتا ہے کہ جب کوئی چیز کلیہ بری ہو جائے تو وہ دنیا میں ہر گز نہیں رہ سکتی اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ہے.قرآن کریم تو شراب کے متعلق بھی یہی کہتا ہے کہ اس میں بھی بعض خوبیاں ہیں، ہاں اس کی برائیاں ان سے زیادہ ہیں.جو مذہب شراب کے متعلق بھی یہ رائے رکھتا ہو کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ان مذاہب کے متعلق جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں انسانیت کو اس کی حدود کے اندر رکھا اور شر وفساد کو دور کیا یہ کہے کہ ان کے اندر کوئی خوبی نہیں.پس ہندوستان کیلئے وہ دن بہت بابرکت ہوگا جب لوگ دوسرے مذاہب کی برائیاں دیکھنے کی عادت کو ترک کر کے خوبیاں دیکھنے کے عادی ہو جائیں گے.بعض دوست یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میرا کوئی حق نہیں کہ ایسی تحریک کروں کیونکہ میں آنحضرت علم کے محبوں میں سے نہیں ہوں.میں سمجھتا ہوں رسول کریم ع کی طرف منسوب ہونے والوں کو حضور ہی کا یہ جملہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ 1 کیا تم نے دل چیر کر دیکھ لیا ہے؟ دنیا میں اس سے زیادہ ظلم کوئی نہیں ہو سکتا کہ کسی کی طرف وہ باتیں منسوب کی جائیں جنہیں وہ خود تسلیم نہ کرتا ہو.لیکن اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ صحیح ہے تو رسول کریم نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت بعض وقت فاسق سے بھی لے لیا کرتا ہے 2.اگر ایک دہر یہ آکر ان باتوں کی تعریف کرے جنہیں میں مانتا ہوں تو اس کے معنی سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ یہ نور اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ غیر بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.پس اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ میرے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت نہیں تو بھی میرے منہ سے تعریف صلى الله ع

Page 317

سيرة النبي عليه 307 جلد 3 الله صلى الله سن کر خوش ہونا چاہئے کہ غیر بھی رسول کریم ﷺ کی خوبیوں کے معترف ہیں.خود رسول کریم ﷺ نے اپنے ان اوصاف کو جو غیروں نے بیان کئے روایت کیا ہے.چنانچہ آپ جب شام گئے تو ایک یہودی نے آپ کی تعریف کی.آپ نے خود اس کا ذکر کیا ہے اور اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جو ہمارا ہم خیال نہیں وہ رسول کریم علے کی تعریف ہی نہ کرے تو اس طرح خود آپ کی ذات پر اعتراض کا دروازہ کھل جاتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ صرف وہی تعریف کرے جو ایمان لا چکا ہو لیکن یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں.اس طرح دوسری اقوام کے نیک طینت لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے اور جب منہ بند ہو جائیں تو دلوں پر بھی مہر لگ جایا کرتی ہے.میرا ارادہ تھا جب میں بیمار نہیں تھا کہ آج بیان کروں رسول کریم نے سلطنت اور بادشاہت کا کیا انتظام تجویز فرمایا لیکن بیماری کی وجہ سے حالت ایسی ہوگئی ہے کہ اتنا لمبا مضمون بیان نہیں کر سکتا اس لئے اختصار کے ساتھ آپ کے وہ چند ایک کیریکٹر جو قرآن کریم کی ایک آیت میں بیان کئے گئے ہیں بیان کروں گا.اس میں مختلف مضامین آ گئے ہیں مگر چونکہ میں اجمالی رنگ میں بیان کروں گا اس لئے مضمون اتنا لمبا نہ ہو سکے گا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ 3.یہ کیا مختصر آیت ہے مگر اس میں آپ کے پانچ زبردست اوصاف بیان کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے پاس رسول آیا ہے من أَنْفُسِكُمْ جو تم ہی میں سے ہے.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے.حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ تمہاری بہتری کیلئے حریص ہے بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے طریق پر چلیں ان کے ساتھ رافت کا سلوک کرتا ہے.

Page 318

سيرة النبي عمال 308 جلد 3 اس آیت میں پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ رسول ہیں یعنی بھیجے ہوئے ہیں.اس میں آپ کی زندگی کا ایک ایسا کیریکٹر بیان کیا گیا ہے جو بہت سے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے اسی وجہ سے یورپین مصنفین نے خصوصیت کے ساتھ آ کی ذات پر اعتراض کئے ہیں.وہ وصف جو رسول میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں بڑائی کے خواہش مند نہیں آپ کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ لوگ میری تعریف کریں.آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ پیچھے رہیں اور دنیوی عزت آپ کی طرف منسوب نہ ہو سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مجبور کرتا تھا کہ یہ عزت آپ کو دے.رسالت سے قبل صداقت ، جرأت وحوصلہ، ہمدردی خلق ، محبت ، ملنساری ، ہمت ، علم کی طرف میلان ، لوگوں کی ترقی کی خواہش غرضیکہ سب صفات حسنہ آپ کے اندر موجود تھیں مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ آپ نے کبھی بڑائی کی خواہش کی ہو.باوجودیکہ آپ کے اندر وہ تمام قوتیں موجود تھیں جو آپ کو دنیا کا سردار بنا سکتی تھیں.اگر آپ رسول نہ ہوتے تو بھی سب سے بڑے لیڈر بن سکتے تھے کیونکہ وہ تمام قابلیتیں جو لیڈر بننے کیلئے ضروری ہوتی ہیں آپ کے اندر موجود تھیں مگر ہم آپ کو سیاسی ، تعلیمی ، اقتصادی میدان کے لیڈروں میں نہیں دیکھتے بلکہ غار حرا میں محبوب حقیقی کی یاد میں مصروف پاتے ہیں اور اس پر نظر کر کے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ذات میں باوجود ہر قسم کی قابلیت رکھنے کے بڑائی تلاش کرنے کا مادہ نہ تھا.چالیس سال کی عمر تک آپ آگے نہیں آئے.اس کے بعد جب آئے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی اور طاقت نے مجبور کر کے آپ کو آگے کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ جَاءَ كُمُ رَسُولُ یعنی تمہیں یہ محسوس کرنا چاہئے کہ شخص جو کلام پیش کرتا ہے اس کے دل میں اپنی بڑائی حاصل کرنے کی خواہش نہیں بلکہ جب ہم نے اسے بھیجا تو یہ مجبور ہو کر آیا.یہ ایک ایسا کیریکٹر ہے کہ تمام انبیاء کے کیریکٹر اس سے مشابہ ہیں اس لئے رسول کریم ﷺ کا یہ کیریکٹر سمجھنے میں کسی.

Page 319

سيرة النبي عليه 309 جلد 3 قوم کو دقت پیش نہیں آ سکتی.جن مثالوں کی بنا پر ان قوموں نے حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت کرشن ، حضرت بدھ ، حضرت زرتشت کو تسلیم کیا ہے اور مانا ہے کہ ہماری خیر خواہی کے جذبات سے متاثر ہو کر وہ آگے آئے تھے کیا وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں وہ انہیں تسلیم نہ کریں.ایک موٹی مثال ہندوستان کے بزرگوں میں سے حضرت بدھ کی ہمارے سامنے ہے.ہمارے ایک ہندو دوست لالہ رام چند منچندہ صاحب نے ابھی اپنی تقریر میں شکایت کی ہے کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک میری قابلیت تھی کیونکہ سنسکرت تو میں جانتا نہیں باقی ہند ولٹریچر کا میں نے کافی مطالعہ کیا ہے لیکن اس نگاہ سے ہر گز نہیں کہ عیب جوئی کروں بلکہ اس نیت سے کہ چونکہ میرے آقا نے کہا ہے ہر جگہ خوبیاں موجود ہیں اس لئے دیکھوں کہ اس میں کیا خوبیاں ہیں؟ اور میں نے وید، گیتا، رامائن اور گوتم بدھ سب کی تعلیمات میں خوبیاں دیکھی ہیں.چاہے عقائد مختلف ہوں مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان بزرگوں کو دنیا کی عمارت میں بہت اہم مقام حاصل ہے اور انہوں نے اس کی ترقی میں بہت حصہ لیا ہے.گوتم بدھ جب بعض واقعات سے متاثر ہو کر اپنے گھر سے نکلے تو ان کی چہیتی بیوی سو رہی تھی انہوں نے اسے جگا کر ملنا تک پسند نہ کیا کہ شاید اس کی محبت بھری نگاہیں رکاوٹ کا موجب ہو جائیں اور آپ گھر سے یہ اقرار کر کے نکل گئے کہ جب تک خدا کو نہ پالوں نہیں لوٹوں گا.اب وہ کون ہندو یا مسلمان ایسا سخت دل ہو سکتا ہے جس کی چشم ان واقعات کو پڑھ کر پر نم نہ ہو جائے.آپ جہاں جہاں جا سکتے تھے گئے.گیا 4 میں جب آپ نے روحانی ترقیات حاصل کیں تو لوگ آئے تھے کہ ہمیں اپنا شاگرد بنا لومگر آپ انکار کرتے تھے حتی کہ جب فکر میں گردن جھکائے رہنے والے کو خدا تعالیٰ کی آواز نے اٹھایا اور کہا جا کر لوگوں کو تبلیغ کرو تب انہوں نے تلقین شروع کی.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم

Page 320

سيرة النبي عمال 310 جلد 3 میں وقار اور عزت رکھنے کے باوجود لیڈری کی خواہش نہ کی بلکہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو یہ حکم ملا تو آپ نے یہی کہا کہ بہتر ہو اگر یہ خدمت میرے بھائی ہارون علیہ السلام کے سپرد کر دی جائے اور جب خدا تعالیٰ نے آپ کو ہی منتخب کیا تو صلى الله آپ آگے بڑھے.اسی طرح رسول کریم ﷺ کو جب الہام ہوا کہ اقرا تو آپ نے فرمایا مَا اَنَا بِقَارِي حالانکہ تفاسیر کی کتب میں لکھا ہے کہ اس وقت کوئی لکھی ہوئی چیز نہ تھی جو آپ کو پڑھنے کے لئے دی گئی.صرف منہ سے یہ الفاظ کہلوائے گئے تھے اور جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اصرار کے ساتھ تین دفعہ یہی کہا تو آپ نے پڑھا.جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ خود لیڈری نہیں چاہتے تھے بلکہ خدا چاہتا تھا کہ آپ کو دنیا کا راہنما بنائے اور جسے خدا بنانا چاہے اسے کون روک سکتا ہے.اس کیریکٹر میں آپ دوسرے انبیاء سے ایسے مشابہ ہیں کہ اگر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے مقدس رہنماؤں اور انبیاء کے حالات پر نظر کریں تو فوراً انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول کریم ﷺ کا یہ کیریکٹر انبیاء سے ملتا ہے دنیا داروں سے نہیں ملتا.دوسری خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ یعنی یہ تم میں سے ہی ہے.تم میں سے ہونا بظاہر معمولی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی وجہ سے آپ را ہنماؤں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں.انبیاء اپنے آنے کی غرض ہمیشہ یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی راہنمائی کریں اور اچھا نمونہ پیش کر سکیں اور ظاہر ہے کہ اگر نمونہ ان حالات سے نہیں گزرا، اس قسم کی حرصیں اور روکیں اسے پیش نہیں آئیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں تو وہ نمونہ نہیں ہوسکتا.اسی مشکل کی وجہ سے عیسائی یہ خیال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے تھے مگر انسان کے وجود میں آئے.ہند و صاحبان کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ خدا کے اوتار انسانی یا دوسری مخلوقات کے بھیس میں دنیا میں آتے رہے ہیں تا وہ دنیا کے لئے نمونہ ہو سکیں.گویا تمام مذاہب اس اصل کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحیح نمونہ ہم جنس

Page 321

سيرة النبي عمال 311 جلد 3 : صلى الله ہی ہوسکتا ہے اگر چہ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی اور ہماری طاقتوں میں تفاوت ہوتا ہے.تو رسول کریم ﷺ کی ایک اور صفت اس آیت میں یہ بیان کی گئی کہ آپ مِنْكُمُ ہیں یعنی انسانوں میں سے ہیں.خدا تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ کہہ دے اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ 5 جس کا یہ مطلب ہے کہ تم جن حالات سے فرداً فرداً گزرتے ہو محمد رسول اللہ ﷺ ایسا کامل نمونہ ہے کہ ان سب سے گزر کر تمہاری راہنمائی کر رہا ہے.اس میں باقی انبیاء سے آپ کی شان بالا نظر آتی ہے.ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ایک اعلیٰ درجہ کے نبی تھے لیکن یہ نہیں کہ آپ ہر زمانہ اور ہر قسم کے لوگوں کیلئے نمونہ تھے.مثلاً آپ کی شادی ثابت نہیں اس لئے شادی شدہ لوگوں کی متاہلانہ زندگی میں آپ کوئی راہنمائی نہیں کر سکتے.آپ بادشاہ نہیں ہوئے کہ آج بادشاہ کہہ سکیں مسیح ہمارے لئے بھی نمونہ ہے.مگر اَنْفُسِكُمْ میں غریب، امیر ، بادشاہ ، رعایا ، مظلوم سب شامل ہیں اور یہ سب کے لئے بولا جا سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے دنیا کی قو مو! تم خواہ کسی پیشہ، کسی مقام اور کسی درجہ کی حالت میں ہو، کوئی جماعت ایسی نہیں کہ جس کے حالات سے محمد رسول اللہ اللہ نہ گزرا ہو.بادشاہ، غریب، طاقتور، مظلوم، شادی شده، صاحب اولاد، مزدور، زراعت و تجارت پیشہ غرضیکہ تم کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہو ہم تمہیں کہتے ہیں لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ تم میں سے کوئی یہ خیال نہ صلى الله کرے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس کی مشکلات نہیں جانتا.بادشا ہو! تم یہ خیال نہ کرو کہ اس پر وہ ذمہ داریاں نہیں تھیں جو بادشاہوں سے تعلق رکھتی ہیں.مظلومو! تم یہ خیال نہ کرو کہ وہ ہماری حالت کو کہاں سمجھ سکتا ہے.وہ تم میں سے ہر ایک کی حالت سے خود گزر چکا ہے اور تمام ضروریات و مشکلات کو سمجھتا ہے اور سب کے احساسات سے بخوبی واقف ہے اور سب کے لئے علاج پیش کرتا ہے.اب میں چند ایک مثالوں سے بتاتا ہوں کہ کس طرح رسول کریم ﷺ نے ہر

Page 322

سيرة النبي علي 312 جلد 3 حالت میں اعلیٰ و اکمل نمونہ دکھا یا.سب سے پہلے میں آپ کی پہلی زندگی کو لیتا ہوں.آپ پر یتیمی کی حالت گزری، آپ کے والد پیدائش سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے اور بہت چھوٹی عمر میں والدہ کا بھی انتقال ہو گیا مگر دادا کی زیر نگرانی جو باپ کا قائمقام تھا آپ نے بتا دیا کہ اخلاق کیسے ہونے چاہئیں.یتیم کی حالت دو قسم کی ہوتی ہے یا تو بچہ بہت ہی سر چڑھ جاتا ہے یا بہت ہی پڑ مردہ.اگر اس کے نگران ایسے لوگ ہوں جو اس کی دلجوئی کے خیال سے ہر وقت لاڈ ہی کرتے رہیں تو اس کی اخلاقی حالت بہت گر جاتی ہے اور اگر وہ ایسے لوگوں کی تربیت میں ہو جو سمجھیں کہ ہمارا بچہ تو یہ ہے نہیں اور وہ تشدد کریں تو یتیم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے.مگر بچپن میں ہی رسول کریم ﷺ کا نمونہ ایسا تھا کہ آپ کے ہمجولی بیان کرتے ہیں گھر میں کسی چیز کیلئے آپ چھینا جھپٹی نہ کرتے تھے بلکہ وقار کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے حتی کہ بچی خود بلا کر آپ کا حصہ دیتیں پھر آپ وقار کے ساتھ ہی اس کا استعمال کرتے.آپ کی رضاعی والدہ کا بیان ہے کہ آپ میں ایسی سعادت تھی کہ بچے بھی حیران رہ جاتے تھے.رضاعی بھائی بیان کرتے ہیں آپ لغو کھیلیں نہ کھیلتے ، مذاق کر لیتے تھے مگر جھوٹی باتوں سے سخت نفرت تھی.اس زمانہ میں ایسی ہمدردی آپ میں تھی کہ چھوٹے بچے بھی آپ کو اپنا سردار مجھتے تھے غرضیکہ آپ کی بچپن کی زندگی ایسی پاکیزہ تھی کہ یورپ کے متعصب لوگ بھی لکھتے ہیں اس زندگی کا ایسا غیر معمولی ہونا ثابت کرتا ہے کہ آپ مجنون تھے.گویا یہ نئی بات انہوں نے دریافت کی ہے کہ جس بچے کے اخلاق اچھے ہوں ، عادات و خصائل عمدہ ہوں وہ مجنون ہوتا ہے.آپ والدین سے بہت محبت کا معاملہ کرتے تھے.جس قسم کا حسن سلوک آپ نے ابوطالب اور ان کی بیوی سے کیا ہے اس کی نظیر اس کے سگے بیٹوں میں بھی نہیں ملتی.فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کس مکان میں ٹھہریں گے؟ آپ نے بغیر کسی قسم کے غصہ کے فرمایا عقیل نے کوئی مکان باقی چھوڑا ہے کہ اس میں ٹھہریں.یعنی چا زاد بھائیوں نے سب بیچ دیئے ہیں.آپ نے

Page 323

سيرة النبي عمال 313 جلد 3 نہ صرف یہ کہ باپ کی محبت کو ابو طالب کے متعلق قائم رکھا بلکہ تعلیم دی کہ ماں باپ کو اف کا کلمہ بھی نہ کہو.یہی وہ سلوک ہے جو آپ نے اپنے چچا سے کیا.نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ کی زندگی کا ایک عجیب واقعہ ہے.مکہ کی مخالفت انتہا پر پہنچ گئی ہے، رؤسائے قریش نے ابوطالب کو دھمکی دی ہے کہ اگر تم نے محمد کو نہ روکا تو تمہیں بھی نقصان اٹھانا پڑے گا.ابوطالب اس دھمکی سے گھبرا گئے.جب رسول کریم ﷺے گھر آئے تو انہوں نے بلا کر کہا بیٹا ! ملکہ کے رئیس اس طرح کہتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کر لو جس سے ان کی بھی دلجوئی ہو جائے.میں سمجھتا ہوں آنحضرت ﷺ کی افسردگی کی گھڑیوں میں سے یہ سخت ترین گھڑی تھی.ایک طرف وہ شخص تھا جس نے نہایت محبت سے پالا تھا اور جس کے پاؤں میں کانٹا لگنا بھی آپ گوارا نہ کر سکتے تھے اسے ساری قوم ذلیل کرنے اور نقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہی تھی.دوسری طرف خدا تعالیٰ کی صداقت کا اظہار تھا.آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے کہا چچا! میں ساری تکالیف برداشت کرلوں گا مگر خدا کا پیغام پہنچانے سے نہیں رہ سکتا.ابو طالب اس بات سے بخوبی واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ اس راہ میں اگر آپ کو اپنے خون کا آخری قطرہ بھی گرانا پڑے تو آپ اس سے دریغ نہ کریں گے.انہوں نے آپ کا جواب سن کر کہا جا! جو تجھے خدا نے کہا ہے لوگوں کو پہنچا میں تیرے ساتھ ہوں.یہ وہ بہترین نمونہ ہے جو حالت یتیمی میں آپ نے دکھایا.اور اس سے بہتر نمونہ کیا کوئی دکھلا سکتا ہے.اس کے بعد آپ جوان ہوئے.لوگ اس عمر میں کیا کچھ نہیں کرتے.عرب میں اس وقت کوئی قانون نہ تھا.کوئی اخلاقی ضابطہ نہ تھا.لوگ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہمارا فلاں کی عورت یا لڑکی سے ناجائز تعلق ہے.ان حالات میں رہنے والے نو جوانوں سے کوئی شخص اعلیٰ اخلاق کی توقع ہی نہیں کر سکتا.مگر آپ نے ایسی گندی فضا کے باوجود جوانی میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ لوگ آپ کو امین اور صدوق کہتے تھے.یہ کہنا

Page 324

سيرة النبي عمال 314 جلد 3 کہ آپ جھوٹ نہ بولتے تھے آپ کی ہتک ہے کیونکہ آپ صداقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ تھے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور صداقت کا مقام جھوٹ نہ بولنے سے اوپر ہے.پس آپ کا یہی کمال نہیں کہ جھوٹ نہ بولتے تھے بلکہ صدوق کہلاتے تھے.آپ کے کلام میں کسی قسم کا اخفا، پردہ دری یا فریب نہ ہوتا تھا.یہی وجہ تھی کہ آپ جو کہہ دیتے لوگ اسے تسلیم کر لیتے.عیسائی مؤرخین تک نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ آپ کی پہلی زندگی سچائی کی زندگی تھی.آپ نے اہل مکہ سے سے کہا اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے یا نہیں ؟ سب نے کہا ہاں ہم مان لیں گے.حالانکہ ویران علاقہ تھا اور صفا و مروہ پر چڑھ کر دور دور نظر جاتی تھی.ایسی حالت میں آپ کی بات ماننے کے صاف معنی یہی تھے کہ وہ اپنی آنکھوں کو جھوٹا سمجھتے حالانکہ وہ دیکھ رہے ہوتے کہ کوئی لشکر نہیں مگر آپ کی صداقت کا انکار نہ کر سکتے.وہ سب کے سب اپنی آنکھوں کو جھوٹا سمجھنے کیلئے تیار تھے مگر یہ نہیں کہ سکتے تھے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں.اور جب سب نے یہ اقرار کر لیا تو آپ نے فرمایا خدا نے مجھے تمہاری ہدایت و اصلاح کیلئے بھیجا ہے.اس کا ان لوگوں نے انکار کر دیا.پھر آپ کی صداقت کے متعلق ایک سخت دشمن کی گواہی ہے.اہل مکہ کو جب خیال ہوا کہ حج کے موقع پر لوگ جمع ہوں گے تو عین ممکن ہے آپ ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ ملالیں اس پر وہ لوگوں کو آپ سے بدظن کرنے کی تجویزیں سوچنے لگے.کسی نے کہا یہ مشہور کر دو کہ یہ شاعر ہے، کسی نے کہا یہ کہو جھوٹا ہے، کسی نے کہا مجنون ہے.اُس وقت ایک سخت دشمن نے جو آخر دم تک مخالفت کرتا رہا کہا بہا نہ وہ بناؤ جسے لوگ ماننے کیلئے تیار بھی ہوں.جب تم یہ کہو گے کہ جھوٹا ہے تو کیا لوگ یہ نہ پوچھیں گے کہ آج تک تو تم اس کی راستبازی اور صداقت شعاری کے قائل تھے اب یہ جھوٹا کیسے ہو گیا.اس لئے عذر ایسا بناؤ جسے لوگ مان جائیں مگر وہ کوئی عذر نہ گھڑ سکے.

Page 325

سيرة النبي علي 315 جلد 3 اپنی جوانی کے زمانہ کے متعلق خود رسول کریم ﷺ کا بیان ہے کہ دو مواقع ایسے آئے کہ میں نے کوئی تماشا وغیرہ دیکھنے کا ارادہ کیا.جیسے مداری وغیرہ کا کھیل ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ سو گیا.تو آپ کی جوانی ایسی پاکیزہ ہے کہ اور کہیں نظر نہیں آتی.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کے واقعات عام طور پر معلوم نہیں ہوتے مگر آپ کی زندگی کے تمام حالات پوری طرح محفوظ ہیں.اس کے بعد ہم آپ کی زندگی کے اخلاقی پہلو اور غرباء کی امداد کو لیتے ہیں تو اس میں بھی آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا.مکہ کے بعض اشخاص نے مل کر ایک ایسی جماعت بنائی جو غریب لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور چونکہ اس کے بانیوں میں سے اکثر کے نام میں فضل آتا تھا اس لئے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے.اس میں آپ بھی شامل ہوئے.یہ نبوت سے پہلے کی بات ہے.بعد میں صحابہ نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ یہ کیا تھی؟ آپ سمجھ گئے کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ آپ تو نبی ہونے والے تھے آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہو گئے جس میں دوسروں کے ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا تھا.آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی کوئی اس کی طرف بلائے تو میں شامل ہونے کو تیار ہوں 6.گویا غرباء کی مدد کے لئے دوسروں کی ماتحتی سے بھی آپ کو عار نہیں تھی.ایک غریب شخص نے ابو جہل سے کچھ قرضہ لینا تھا اور وہ غریب سمجھ کے ادا نہیں کرتا تھا وہ حلف الفضول کے لیڈروں کے پاس گیا کہ دلوا دو.مگر ابو جہل سے کہنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا.آخر وہ شخص ان ایام میں جب آپ نبوت کے مقام پر فائز ہو چکے تھے آپ کے پاس آیا کہ آپ بھی حلف الفضول کے ممبروں میں سے ہیں ابو جہل سے میرا قرضہ دلوا دیں.یہ وہ زمانہ تھا جب ابو جہل آپ کے قتل کا فتویٰ دے چکا تھا اور مکہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا.آپ فوراً ساتھ چل پڑے اور جا کر ابو جہل کا دروازہ کھٹکھٹایا.اس نے پوچھا کون ہے؟ آپ نے فرمایا محمد.وہ گھبرا گیا کہ کیا معاملہ

Page 326

سيرة النبي علي 316 جلد 3 ہے.فوراً آکر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا اس غریب کا روپیہ کیوں نہیں دیتے.اس نے کہا ٹھہرئیے ابھی لاتا ہوں اور اندر سے روپیہ لا کر فوراً دے دیا.لوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ یہ ڈر گیا ہے.مگر اس نے کہا میں تمہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہوا.جب میں نے دروازہ کھولا تو ایسا معلوم ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں اور بائیں دو دیوانے اونٹ کھڑے ہیں جو مجھے نوچ کرکھا جائیں گے.کوئی تعجب نہیں یہ معجزہ ہو.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ صداقت کا بھی ایک رعب ہوتا ہے.غرضیکہ ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح اپنے عمل سے دکھا دیا کہ غربت میں بھی انسان کے اندر کیسی اخلاقی جرات ہونی چاہئے.جب آپ نے حضرت خدیجہ سے شادی کی تو اس وقت کوئی مال آپ کے پاس نہ تھا.بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے والد نے پانچ بکریاں اور ایک دو اونٹ آپ کے لئے چھوڑے اور بعض اس سے بھی انکار کرتے ہیں.بہر حال اگر ورثہ میں آپ کو کوئی جائیداد ملی بھی تو وہ ایسی قلیل تھی کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.مگر پھر بھی آپ کی طبیعت میں حرص بالکل نہ تھی اور سیر چشمی کمال کو پہنچی ہوئی تھی.اپنے حالات کے لحاظ سے آپ کے لئے حرص کی گنجائش تھی مگر آپ کا لقب امین تھا.اس وقت بھی ممکن ہے یہاں لاہور میں ہی سینکڑوں ایسے لوگ ہوں جن کے پاس اگر کوئی امانت رکھی جائے تو وہ اسے واپس کر دیں گے مگر دنیا انہیں امین نہیں کہتی کیونکہ امین وہی کہلا سکتا ہے جو خطرناک امتحانوں سے گزر کر بھی امانت کو قائم رکھے.اگر ایک شخص کے پاس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارا ایک ہزار اگر وہ واپس کر دے تو یہ کوئی خوبی نہیں مگر رسول کریم ﷺ کو سخت مالی امتحانوں سے گزرنا پڑتا تھا اور باوجود اس کے آپ کے پاس سب کی مالی و جانی امانتیں محفوظ رہتی تھیں اور آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آپ کی طبیعت میں بے حد استغنا تھا.حتی کہ آپ کی قوم نے آپ کو امین کا خطاب

Page 327

سيرة النبي عمال 317 جلد 3 دے دیا.آپ کو دولت بھی ملی اور لاکھوں روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ نے اپنی حالت ویسی ہی رکھی.ایک دفعہ صدقات کا کچھ روپیہ آیا اور اسے تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار کسی کونے میں گر گیا آپ کو اٹھانے کا خیال نہ رہا.نماز پڑھانے کے بعد جب یاد آیا تو لوگوں کے اوپر سے پھاندتے ہوئے جلدی سے گھر گئے.صحابہ نے دریافت کیا يَا رَسُولَ الله ! کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا کہ اس طرح ایک دیناررہ گیا تھا اور میں چاہتا تھا جس قدر جلدی ممکن ہو اسے تقسیم کروں.دولت ہونے کے با وجود آپ غریبوں کے ساتھ مل کر رہتے تھے.صحابہؓ کو شکایت تھی کہ بعض ان میں سے امیر ہیں.آپ نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کیا تمہیں پسند نہیں کہ میں اور تم ایک گروہ میں ہوں.تو مال و دولت کے باوجود آپ نے ایسی سیر چشمی اور استغنا ظاہر کی کہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ جو کچھ آتا آپ خدا کی راہ میں تقسیم کر دیتے تھے حالانکہ گھر کی حالت یہ تھی کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کئی کئی مہینے ہمارے گھروں میں کھانا نہیں پکتا تھا.اونٹنی کا دودھ پی لیتے یا کھجوریں کھا لیتے تھے یا کوئی ہمسایہ کھانا یا دودھ بھیج دیتا تو وہ استعمال کر لیتے تھے اور کبھی فاقہ سے ہی رہتے تھے اور یہ اس زمانہ کی حالت ہے جب کثرت سے مال و دولت آ رہی تھی 10.حیرت ہے کہ اسی زمانہ کی زندگی کے متعلق بعض عیسائی مصنفین لکھتے ہیں کہ آپ کے پاس دولت آئی تو آپ بگڑ گئے حالانکہ آپ کی حالت یہ تھی کہ جب وفات پائی تو زره چند صاع جو کے عوض رہن تھی.غرضیکہ آپ پر غربت اور دولتمندی دونوں زمانے آئے مگر آپ نے ہر حالت میں اچھا نمونہ دیکھا.آپ کو روپیہ ملا مگر پھر بھی آپ نے غربت کو قائم رکھا.آپ مجرد رہے اور ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دنیا حیران ہے.آپ نے 25 برس کی عمر میں شادی کی جو عرب میں بڑی عمر ہے کیونکہ وہاں 16 ، 17 برس کا آدمی پورا بالغ ہو جاتا ہے اور اس عمر میں بھی جب آپ نے شادی کی تو چالیس سال کی ایک بیوہ کے ساتھ.گویا اس زمانہ میں جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہوتا ہے

Page 328

سيرة النبي علي 318 جلد 3 آپ نے ایسی عورت سے شادی کی جو اپنا زمانہ گزار چکی تھی.پھر شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت آپ کے حوالے کر دی مگر آپ نے سے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ اس کے سب غلاموں کو آزاد کر دیا.گویا جب آپ نے شادی نہ کی تھی اُس وقت بھی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جب کی تو بھی ایسا نمونہ دکھایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کی شادی پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نو سال کی عمر میں شادی کی جو ظلم ہے اول تو یہ بھی غلط ہے.عمر کے بارہ میں مختلف روایتیں ہیں اور متحقق یہی ہے کہ اُس وقت آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی.اگر چہ بعض روایتوں میں سترہ سال بھی ہے لیکن تیرہ سال ہی صحیح ہے اور یہ بھی چھوٹی عمر ہی ہے اور ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف خود انہیں ہی ہو سکتی تھی ، عیسائی مصنفین کو تکلیف ہونے کی کوئی وجہ نہیں.تیرہ سال کی عمر میں آپ کی شادی ہوئی اور نو سال بعد آنحضرت ﷺ کا انتقال ہو گیا.گویا بائیس برس کی عمر میں ہی آپ بیوہ ہو گئیں.اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی عمر اس شادی کی وجہ سے بر باد ہو گئی.مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل کی گہرائیوں کو ہم ٹولتے ہیں تو اس میں آنحضرت ﷺ کی محبت کا بہت گہرا نقش پاتے ہیں.سالہا سال گزر جاتے ہیں اور آپ کے پاس کثرت سے روپیہ آنے لگتا ہے اور ثابت ہے کہ ایک ایک دن میں لاکھ لاکھ روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ کی سادگی میں فرق نہیں آیا اور آپ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا.ایک دن صبح سے شام تک آپ نے قریباً ایک لاکھ روپیہ تقسیم کر دیا.اس پر ایک سہیلی نے کہا آپ روزہ سے تھیں افطاری کے لئے چار آنہ رکھ لیتیں تو کیا اچھا ہوتا.آپ نے جواب دیا کہ تم نے پہلے کیوں نہ یاد دلایا.اگر آنحضرت ﷺ کی محبت کا نقش اس قدر گہرا نہ ہوتا تو آپ روپیہ ملنے پر ضرور یہ طریق بدل دیتیں مگر حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ آپ میدہ کی روٹی کھانے لگیں.نرم نرم

Page 329

سيرة النبي علي 319 جلد 3 پھلکے تھے مگر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کسی ہمجولی نے دریافت کیا تو فرمایا میں صلى الله اس لئے روتی ہوں کہ اگر آج آنحضرت علی زندہ ہوتے تو یہ نرم نرم پھلکے انہیں کھلاتی.غور کرو یہ کتنا گہرا نقش ہے.کتنے ہیں جو وفات کے بعد مرنے والوں کو اس طرح یا د رکھتے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بتا تا ہے کہ آپ کا دل آنحضرت ﷺ کی محبت سے لبریز تھا.بعض بد باطن کہتے ہیں آپ نعوذ باللہ عیاش تھے.کیا عیاش لوگوں کی بیویاں ان کی موت کے بعد اسی طرح ان کے ساتھ اظہار محبت کرتی ہیں؟ وہ تو نفرت اور حقارت سے انہیں دیکھتی ہیں اور ان کی موت کو اپنی نجات سے تعبیر کرتی ہیں.غرضیکہ شادی کے زمانہ میں بھی آپ نے نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا.چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہم دیکھتے ہیں آپ ﷺ بیویوں سے ایسا برتاؤ کرتے جو محبت کے ازدیاد کا موجب ہو.حتی کہ پیالہ کی جس جگہ منہ لگا کر وہ پانی پیتیں بعض اوقات آپ بھی وہیں ہونٹ لگا کر پیتے اور فرماتے یہ محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے 11.اگر کسی اونچی جگہ چڑھنا ہوتا تو آپ اپنے گھٹنے کا سہارا دیتے.یورپ کے وہ نادان لوگ جو آج اعتراض کرتے اور کہتے ہیں عورت کی عزت کے لئے یہ ضروری ہے جب رسول کریم علیہ سے ایسی بات دیکھتے ہیں تو اسی کی بنا پر آپ کو عیاش کہہ دیتے ہیں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں اولاد ہو جانے کی حالت میں لوگ دوسروں کی خدمت اور ان کے حقوق کی حفاظت سے غافل ہو جاتے ہیں.مگر آپ اس پہلو میں بھی اس قدر محتاط تھے کہ ایک دفعہ صدقہ کی کھجور میں آئیں.حضرت امام حسنؓ اس وقت بچہ تھے آپ نے کھجور منہ میں ڈالی مگر آپ نے منع فرما دیا اور کہا یہ غربیوں کا حق ہے 12.غور کرو آج کتنے لوگ ہیں جو اس قدر احتیاط کرتے ہیں.بچوں کی بات پر عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے نادان بچہ ہے.مگر آپ کی بڑھاپے کی اولاد ہے اور زیادہ نہیں صرف ایک کھجور منہ میں ڈال لیتا ہے مگر آپ اس کے منہ سے نکال لیتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ

Page 330

سيرة النبي عمال 320 جلد 3 غریبوں کا حق ہے.فاطمہ آپ کی پیاری بیٹی تھیں اور آپ کی اولاد میں سے صرف وہی زندہ رہیں.پھر اس کے علاوہ آپ ایسی نیک خو تھیں کہ جس کی مثال چراغ لے کر ڈھونڈیں تو نہ مل سکے گی.وہ نہایت افسردگی کی حالت میں آپ کے پاس آتی اور اپنے ہاتھوں میں چھالے جو چکی پینے کی وجہ سے پڑ گئے تھے دکھاتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ اب اس قدر مال و دولت آ رہی ہے ایک غلام یا لونڈی مجھے بھی دی جائے جو مجھے مدد دیا کرے.آپ جواب میں فرماتے ہیں کہ فاطمہ آؤ اس سے بہتر چیز تمہیں دوں اور چند کلمات سکھا دیتے ہیں 13.میں پوچھتا ہوں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو ایسے جذبات کا اظہار کرتے ہیں.نرینہ اولا د تو آپ کی فوت ہو چکی تھی اور اس لحاظ سے گویا آپ بے اولاد تھے.صرف ایک فاطمہ باقی تھی وہ ایسی تکلیف کا اظہار کرتی اور آپ یہ جواب دیتے ہیں.کیا اس سے یہ ثابت نہیں کہ آپ ہر حالت میں بے نظیر انسان تھے؟ دشمنوں کے ظلم سہنے میں بھی آپ نے کمال دکھایا.لوگ پتھر مار مار کر خون آلود کر دیتے ہیں، آپ پر لا کر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دیتے ہیں، جب آپ طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو مکہ والوں نے انہیں پہلے ہی کہلا بھیجا کہ ایک دیوانہ آتا ہے ان ظالموں نے آپ کے پیچھے چھوٹے چھوٹے لڑکے اور کتے ڈال دیئے.لڑکے پتھر مارتے تھے.پھر آپ جانتے ہیں شکاری کتے کتنے سخت ہوتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ آپ سر سے پاؤں تک زخمی ہو گئے.واپس آتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ اگر چاہو تو فوراً ان لوگوں کو سزا دی جائے مگر آپ فرماتے ہیں نہیں یہ لوگ نادانی سے ایسا کرتے ہیں 14.جب کبھی ضرورت پیش آتی آپ فوراً ان دشمنوں کی امداد کرتے.کوئی نہیں جو آپ کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا اور آپ نے انکار کر دیا ہو.دشمن آتے اور آپ ان کی ہر طرح خاطر داری کرتے.وہ شہر جہاں سے رات کے وقت چھپ کر آپ کو بھا گنا پڑا، جہاں کے لوگوں نے آپ کے پیارے صحابہ کو اونٹوں سے باندھ

Page 331

سيرة النبي عمال 321 جلد 3 باندھ کر چیر ڈالا ، وہ لوگ جنہوں نے عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں شہید کر ڈالا ، جلتی ریت پر ڈال ڈال کر ہلاک کیا جب مغلوب ہونے کے بعد آپ کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 15 - ایک شدید دشمن نے جبکہ آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی اور آپ سور ہے تھے تلوار ہاتھ میں لے کر آپ کو جگایا اور کہا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ.اس لفظ کی عظمت اور ایمان کی طاقت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے اٹھا کر کہا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اس کمبخت نے آپ کے عمل سے بھی سبق نہ سیکھا اور کہا آپ ہی چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں.آپ نے اسے چھوڑ دیا اور کہا جاؤ چلے جاؤ 16.غرض اس قدر ثبوت ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.آپ کی زندگی میں ہر کے نمونے موجود ہیں.ایک جنگ میں آپ نے ایک عورت کو زخمی دیکھا.با وجود یکہ وہ جنگ میں شامل تھی مگر آپ اس قدر غصہ ہوئے کہ صحابہ کا بیان ہے اس قدر غصہ کبھی نہ ہوئے تھے.جب بھی اسلامی لشکر باہر جاتا آپ ارشاد فرماتے کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، ناکاروں، بیماروں اور راہبوں، پادریوں وغیرہ پر ہرگز حملہ نہ کیا جائے.آپ قاضی تھے مگر ایسے کہ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا.آپ جرنیل تھے مگر جنگ میں آپ سے کسی قسم کی غلطی آج تک ثابت نہیں ہوسکی بلکہ کئی فنون جنگ آپ نے دنیا کو سکھائے ہیں.آپ مبلغ تھے مگر چڑ چڑے نہیں.لڑائی یا سخت کلامی کرنے والے نہیں.مبلغین میں عام طور پر شوخی اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے مگر آپ میں یہ بات نہ تھی بلکہ ہمیشہ محبت سے مخالفوں کی بات سنتے.صلح کے موقع پر آپ نے ایسی شرائط پر صلح کی کہ اس سے نرم شرائط ممکن نہیں.مگر جنگ ایسی بہادری سے کرتے کہ حنین کے موقع پر سارا لشکر بھاگ گیا.چونکہ اس موقع پر غیر مسلم حلیف بھی آپ کے ساتھ تھے اور ان میں اتنا جوش نہ تھا اس لئے سب بھاگ گئے.صرف بارہ آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے اور ان میں سے بعض نے آپ کے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور کہا اس

Page 332

سيرة النبي عمال 322 جلد 3 وقت یہاں ٹھہر نا ہلاکت کے منہ میں جانا ہے.مگر آپ نے فرمایا چھوڑ دو میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا.اور ایسی خطرہ کی حالت میں بھی آپ کہتے ہوئے آگے بڑھتے گئے.انَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب 17 صلى الله احد کی جنگ میں ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو خون سے تر بتر تھا، ہر طرف سے اس پر حملے ہو رہے تھے اور وہ اکیلا ہی سب کا مقابلہ کر رہا تھا.جب میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ رسول کریم ع تھے.ایسے جری کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ آپ نے بزدلی سے صلح کی.صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ سخت جوش میں تھے، ان کی تلوار میں پھڑک رہی تھیں مگر آپ نے فرمایا کہ ہم صلح کر لیں گے 18.آپ نے تجارت بھی کی ہے اور ایسی کہ حضرت خدیجہ کے غلام کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا ایماندار کوئی نہیں دیکھا.سب سے زیادہ نفع آپ کو ہوتا تھا.آپ کی چیز میں اگر کوئی نقص ہوتا تو آپ خود ہی اس کو ظاہر کر دیتے.نتیجہ یہ تھا کہ گا ہک تلاش کر کے آپ سے مال خریدتے تھے.آپ کا غریبوں اور چھوٹوں سے معاملہ ایسا احسان کا تھا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی گردن میں رسی ڈال دی کہ مجھے کچھ مال دو.آپ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ صرف یہ جواب دیا کہ میں بخیل نہیں ہوں.اگر میرے پاس ہوتا تو میں ضرور دے دیتا 19.اُس وقت آپ کے دس ہزار صحابی آپ کے پاس موجود تھے.اگر آپ ذرا سا بھی اشارہ کر دیتے تو وہ اس کی گردن اڑا دیتے.مگر آپ نے ذرا بھی خفگی کا اظہار نہیں کیا.غور کرو کون ہے جو اپنے چھوٹوں سے ایسا سلوک کرے.ایک دفعہ حاتم طائی کے قبیلہ کے لوگ آئے تا حالات دیکھ کر اندازہ کریں کہ

Page 333

سيرة النبي علي 323 جلد 3 مسلمانوں سے صلح کر لینی چاہئے یا جنگ.ان کے سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ نبی ہیں یا بادشاہ.اس نے دیکھا کہ ایک بڑھیا آئی اور آپ کو اپنے ساتھ علیحدہ لے جا کر کھڑی ہو گئی اور دیر تک باتیں کرتی رہی آپ اس کے پاس کھڑے رہے.اس سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ شخص بادشاہ نہیں نبی ہے.دوسری قوم کے سفراء پاس بیٹھے ہیں مگر آپ اس وقت تک پوری توجہ سے ایک بڑھیا کی باتیں سنتے رہے جب تک وہ خود نہ چلی گئی.پھر بڑے لوگوں نے بھی آپ سے باتیں کیں مگر ان سے بھی اعلیٰ نمونہ پیش کیا 20.کسری نے اپنے گورنر کو کہلا بھیجا کہ اس شخص کو پکڑ کر میرے پاس بھیج دواس نے اپنے آدمی آپ کے پاس بھیجے.انہوں نے آ کر آپ سے کہا کہ آپ چلیں ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی جان بخشی ہو جائے مگر انکار سخت نقصان کا موجب ہو گا.کسری اُس وقت آدھی دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ عرب کو تباہ کر دے گا.آپ نے جواب کے لئے ایک دن مقرر کیا اور جب مقررہ وقت پر وہ جواب کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا جا کر اپنے گورنر سے کہہ دو کہ میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے.انہوں نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے اگر آپ کی بات سچی ہوئی تو آپ بیشک نبی ہیں.چند روز کے بعد ایران سے ایک جہاز آیا جس میں گورنر کے نام ایک خط تھا جس پر نئی مہر تھی.وہ حیران ہوا کہ کیا معاملہ ہے.کھولا تو اس میں لکھا تھا اپنے باپ کے ظلموں سے تنگ آ کر ہم نے اسے قتل کر دیا ہے.اس نے عرب کے ایک شخص کے متعلق ایسا ظالمانہ حکم دیا تھا اسے بھی منسوخ سمجھو 21.غور کرو کہ غریب بڑھیا سے تو وہ معاملہ ہے اور کسری جیسے جابر بادشاہ سے یہ کہ جا کر کہہ دو ہم تمہاری بات نہیں مانتے.غیر قوموں کے لوگوں سے سلوک یہ ہے کہ سلمان فارسی آتے ہیں اور غیر لوگوں میں ہونے کی وجہ سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں.آپ ان کی دلجوئی کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ فرماتے ہیں سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ 22 سلمان

Page 334

سيرة النبي عمال 324 جلد 3 ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے.اس کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح امن میں نہ سمجھتا ہو گا.غرضیکہ ہر شخص خواہ وہ کن حالات میں ہو آپ کے متعلق کہہ سکتا ہے کہ 6 آپ ہم میں سے ہیں.لیکن جو مثالیں میں نے اوپر پیش کی ہیں ان کی بنا پر مسلمان تو کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہم میں سے ہیں مگر ایک غیر مسلم کس طرح یہ کہ سکتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ سب گزشتہ بزرگوں کی ضروری اور اچھی تعلیم اس میں ہے اور اس لحاظ سے ہر غیر مسلم بھی کہہ سکتا ہے کہ محمد ﷺ ہم میں سے ہے.دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ آپ نے تمام گزشتہ انبیاء کی تصدیق کی.خدا تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ 23 اور جب ہر قوم میں نبی ہوئے ہیں اور ادھر صلى الله آپ نے فرمایا کہ تمام انبیاء بھائی بھائی ہیں تو ماننا پڑے گا کہ محمد علی ، حضرت رام، کرشن، موسی، عیسی، زرتشت، کنفیوشس علیهم السلام سب کے بھائی تھے اور اس طرح ہندوستانی، ایرانی، مصری ، جاپانی، چینی ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ مُحَمَّدٌ مِنْ أَنْفُسِنَا کیونکہ آپ سب انبیاء کی اسی طرح تصدیق کرتے ہیں جس طرح خود ان کے ماننے والے کرتے ہیں.پس اس قول میں محمد رسول اللہ ﷺ اور ساری اقوام شامل ہیں اور ہر ایک قوم کہہ سکتی ہے کہ محمد ﷺ ہم میں سے ہے.بعض عیسائی آپ کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپ ایک اچھے عیسائی تھے.مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ اچھے عیسائی ، موسائی، بدھ سب کچھ تھے کیونکہ آپ مسلمان تھے اور مسلمان کے معنے ہی یہ ہیں جو سب صداقتوں کو ماننے والا ہو.پس جہاں قرآن کا یہ دعوی ہے کہ محمد تو تم میں سے ہے صلى وہاں آپ کی زندگی کا ہر شعبہ اس دعویٰ کی دلیل ہے.تیسری صفت جو قرآن کریم نے آپ کی بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ عَزِیز عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ تمہارے اوپر تکلیف اس پر گراں گزرتی ہے.عزیز میں صرف شاق کا مفہوم ہی نہیں بلکہ یہ عزت سے نکلا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں بڑی چیز

Page 335

سيرة النبي علي 325 جلد 3 دیکھنا چاہتا ہے.میں بتاتا ہوں کہ کس طرح غیر قوموں کی تکلیف کے متعلق بھی آپ کو خیال رہتا تھا اور اس طرح اپنوں کو اخلاق کے بلند مقام پر آپ دیکھنا چاہتے تھے.ایک دفعہ ایک یہودی سے حضرت ابوبکر کی گفتگو ہو رہی تھی.اس نے حضرت موسی کو صلى الله آنحضرت ﷺ پر فضیلت دی اور آپ نے اسے تھپڑ مار دیا.وہ شکایت لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آیا.آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا مجھے یونہی دوسروں پر فضیلت نہ دیا کرو 24.بعض نادان کہتے ہیں یہ پہلا زمانہ تھا جب آپ واقعی اپنے آپ کو حضرت موسی سے افضل نہ سمجھتے تھے حالانکہ یہ سراسر غلط ہے.آپ کو پہلے دن سے ہی اپنے مقام اور افضل ہونے کا علم تھا.اس میں تو آپ نے اپنی امت کو سبق دیا ہے کہ ایسی باتیں نہ کیا کرو جس سے دوسروں کو تکلیف ہو.دیکھو کس قدر دوسروں کے احساسات کا احترام مدنظر ہے.آپ نے بتایا کہ میری فضیلت کا اظہار وعظ ونصیحت کے طور پر کیا کرو.لڑائی کے وقت یا غصہ کی حالت میں نہ کرو.پھر آپ نے فرمایا کہ دوسروں کے بزرگوں کی عزت کرو اور ان کی مذمت نہ کیا کر و 25 بلکہ قرآن نے تو غیر اللہ معبودوں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ 26 یعنی دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہا کرو کیونکہ وہ نادانی سے خدا کو برا کہہ کر خواہ مخواہ عذاب کے پنجے میں گرفتار ہوں گے.کس قدر انصاف کا خیال ہے.پھر غیر یعنی دشمن سے سلوک یہ ہے کہ فرمایا لڑائی میں بھی انصاف کیا کرو.جتنی تعدی دوسرا تم پر کرتا ہے تم بھی اتنی ہی کرو اس سے زیادہ نہ کرو.اور جب دوسرا صلح کی درخواست کرے تو خواہ لڑائی تمہارے ہی حق میں ہو فوراً صلح کر لو.اور تاریخ میں کوئی مثال ایسی نہیں کہ کسی نے مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ہو اور انہوں نے انکار کر دیا ہو.صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علیؓ نے مسودہ لکھا کہ اس معاہدہ میں ایک طرف محمد رسول اللہ ہیں.کفار نے اس پر اعتراض کیا.آپ نے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو.حضرت علیؓ نے عرض کیا

Page 336

سيرة النبي علي 326 جلد 3 میں کس طرح مٹا سکتا ہوں.آپ نے اپنے ہاتھ سے یہ الفاظ کاٹ دیئے 27.حالانکہ صاف بات تھی آپ کہہ سکتے تھے کہ یہ میرے دستخط ہیں تمہارے تو نہیں مگر آپ نے دوسروں کے احساسات کا پورا پورا لحاظ رکھا اور ہر حالت میں صلح کر لی.آپ جس وقت مبعوث ہوئے اس وقت دنیا میں غلام، عورت اور Depressed Classes ان تینوں پر سخت ظلم ہوتا تھا.آپ نے سب کو آزادی بخشی.آپ چونکہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّم تھے اس لئے اس ظلم اور تعدی کو برداشت نہ کر سکے اور جب تک سب کو آزاد نہ کیا آپ کو چین نہیں آیا.اس زمانہ میں جبکہ غلام کو جان سے بھی مار دیا جاتا تو کوئی ظلم نہ سمجھا جاتا تھا آپ نے حکم دیا کہ جو شخص کسی غلام کو مارے گا تو اس کا غلام آزاد سمجھا جائے گا.پھر فرمایا جیسا خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جیسا خود پہنو ان کو پہناؤ.وہ کام ان سے نہ لو جو خود کرنا پسند نہ کرتے ہو مثلاً چوہڑوں وغیرہ کا کام اور جو کام انہیں دو اس میں ان کی مدد کرو.اور اس طرح وہ تمام تکالیف جو غلاموں کو تھیں آپ نے دور کر دیں.پھر غلاموں کے متعلق فرمایا إِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءَ 28 یعنی یا تو انہیں بطور احسان چھوڑ دو یا تاوان وصول کر کے چھوڑ دو.غلامی صرف جنگی قیدی کی صورت میں جائز رکھی اور دنیا میں کون ہے جو جنگی قیدی کو بغیر تاوان لئے چھوڑ دے.آپ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ ساری عمر کے لئے کسی کو غلام رکھنا قطعاً نا جائز ہے.اس وقت تک رکھ سکتے ہو کہ جب تک وہ تاوان ادا نہ کرے اور یا اسے بطور احسان نہ چھوڑ دو.اور جنگی قیدی بنا لینے کا حکم دینے کی وجہ سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ - اگر سزا نہ رکھی جائے تو ایک قوم یا خود مٹ جاوے گی یا دوسرے اسے مٹا دیں گے.پھر عورتیں فروخت کر دی جاتی تھیں، انہیں بطور ورثہ تقسیم کیا جاتا تھا، لڑکیاں زندہ درگور کر دی جاتی تھیں ، عورتوں کو بیحد ذلیل اور بے عزت سمجھا جاتا تھا مگر آپ نے فرمایا خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله 29 اور اس طرح عورتوں پر تمام مظالم کا انسداد کر دیا.تفصیلات میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا یہ اصولی تعلیم ہے.لڑکیوں کے متعلق

Page 337

سيرة النبي علي 327 جلد 3 فرمایا جس کے پاس دولڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے، انہیں اعلیٰ اخلاق سکھائے ، لکھائے ، پڑھائے اس کا گھر جنت میں ہو گا 30 ماؤں کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اف تک نہ کہو 31 بہنوں کو وراث بنایا.گویا عورتوں کی تکلیف بھی آپ سے نہ دیکھی گئی اور ان کو بھی آزادی دی.تیسری Depressed Classes جو ہیں ان کے متعلق فرمایا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَنْفُكُمْ 32 یہ مت خیال کرو کہ فلاں اعلیٰ و فلاں ادنی ہے.خدا کے نزدیک مکرم وہی ہے جو زیادہ متقی ہو.ان غریبوں کو جو مظالم کے پنجوں میں پھنسے ہوئے تھے یہ کہہ کر اٹھایا کہ خدا کے نزدیک معزز و مکرم وہی ہے جس کے اخلاق اعلیٰ ہوں اور جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہو.غور کرو! کتنا عظیم الشان اعلان ہے.چند ایک جملے ہیں مگر تمام پست اقوام کو پستی سے نکال کر بلند ترین مقام پر کھڑا ہونے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے.آج بھی ان اقوام سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص یہاں موجود ہو تو میں اسے کہوں گا کہ تمہاری تکلیف بھی محمد رسول اللہ ﷺ سے نہ دیکھی گئی اور آپ کا دل دکھا اور آپ نے تمہاری آزادی کا اعلان بھی کر دیا.بعض اقوام قابلیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتی ہیں اور دوسروں کو اپنے سے ادنیٰ و حقیر.مثلاً آج کل امریکہ والے اپنے آپ کو Superman سمجھتے ہیں.آپ نے اس تکلیف سے بھی روکنے کا انتظام کیا اور فرمایا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُوْنُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ 33 یعنی کوئی قوم اپنی ترقی کی وجہ سے دوسری کو کمتر نہ سمجھے بالکل ممکن ہے کل وہ گر جائے اور دوسری بڑھ جائے کیونکہ یہ سلسلہ دنیا میں ہمیشہ جاری ہے.آج کوئی قوم ترقی کرتی ہے اور کل کوئی.اس لئے ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھو.غرض ایسی اعلیٰ درجہ کی مساوات قائم کی کہ دنیا جس ذلت میں پڑی تھی اس سے اسے چھڑا دیا اور یہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ کی صفت کا ظہور ہے.چوتھی بات آپ کے متعلق یہ فرمائی کہ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ زبر دست امتیاز

Page 338

سيرة النبي عمال 328 جلد 3 ہے.دنیا میں عام دستور ہے کہ لوگ ایک اصول کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ دوسروں کو اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان.آج کل طبیب لوگ ڈاکٹروں کی تحقیر کرتے ہیں اور ڈاکٹر اطبا کی مذمت، ہومیو پیتھک والے ایلوپیتھی کو برا کہتے ہیں.ان کا خیال ہے کہ جب خدا نے بعض چیزوں میں ایسی خصوصیات رکھی ہیں کہ ذراسی دوا سے فائدہ ہو جائے تو یہ لوگ انسان کے دشمن ہیں جو اتنی بڑی بڑی Doses دیتے ہیں انہوں نے دنیا کی صحت کا ستیا ناس کر دیا ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے سب چیزوں میں فوائد رکھے ہیں.لالہ لاجپت رائے کی صحت خراب تھی.انہوں نے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کرایا کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر حکیم نابینا صاحب سے علاج کرایا اور انہیں شفا ہو گئی.اسی طرح ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو پتھری تھی.انہیں بھی ڈاکٹروں کے علاج سے صحت نہ ہوئی اور حکیم نابینا صاحب کے علاج سے وہ صحت یاب ہو گئے.پھر بعض مریض ایسے ہیں کہ طبیب سالہا سال علاج کرتے رہے مگر آرام نہ ہوا اور ڈاکٹری علاج سے دنوں میں فائدہ ہو گیا.اگر انسان کی زندگی کی قدر ان لوگوں کے مدنظر ہوتی تو چاہئے تھا اپنے اپنے اصل کے ہی پیچھے نہ پڑے رہتے بلکہ اگر ڈاکٹری علاج میں کوئی کوتاہی ہوتی تو ڈاکٹر خود کہہ دیتا کسی طبیب سے بھی مشورہ کر لو اور طبیب ڈاکٹر کے پاس جانے کی رائے دیتا لیکن حالت یہ ہے کہ مریض خواہ مر جائے ہر ایک اپنی سائنس کو ہی برتر ثابت کرنے کی فکر میں رہتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ بندوں کا فائدہ ہو.یہ نہیں کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم ہے تو خواہ ٹانگیں سوکھ جائیں ضرور کھڑے ہی ہو کر پڑھو بلکہ بیٹھ کر بلکہ ضرورت کے وقت لیٹ کر بھی پڑھ سکتے ہو.پھر یہ نہیں کہ ضرور سال میں پچاس روپیہ صدقہ کرو.اگر نہیں تو چھپیں ہیں، پندرہ، دس جس قدر توفیق ہو کر سکتے ہو.اگر بالکل توفیق نہ ہو تو دل کی نیکی ہی کافی ہے.غرضیکہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ تم بھی بدل سکتے ہو.میں اس وقت تفصیلات چھوڑتا ہوں.آپ نے روزہ، حج، صلى الله

Page 339

سيرة النبي م 329 جلد 3 زکوۃ وغیرہ سب کیلئے Alternatives رکھے ہیں.صدقہ اور جہاد وغیرہ احکامات کے بغیر بھی انسان خدا تعالیٰ کو راضی کر سکتا ہے.ایک دفعہ آپ جہاد پر جا رہے تھے اور فرمایا بعض لوگ ایسے ہیں جو اگر چہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں مگر ہم کسی وادی میں نہیں ہوتے مگر وہ ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور وہ ثواب میں برابر ہمارے شریک ہیں.صحابہ نے عرض کیا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تکالیف ہم اٹھائیں اور وہ ثواب میں ہمارے شریک ہو جائیں.آپ نے فرمایا یہ وہ لولے لنگڑے، اندھے اور معذور لوگ ہیں جو عدم شمولیت کی وجہ سے دلوں میں بے حد ملول ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں ثواب سے محروم نہیں رکھنا چاہتا 34.غرض آپ کی تعلیم میں ہر انسان اور اس کی ہر حالت کا علاج موجود ہے.یہ نہیں کہ خواہ کیسی مصیبت ہوا ایک خاص اصول کی پیروی ضروری ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ انسان کی نجات مقصود ہے.پانچویں بات یہ فرمائی بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِیم دنیا میں ایک مرض یہ ہے کہ جب کوئی شخص دنیا پر یا کسی خاص قوم پر کوئی احسان کرتا ہے تو پھر وہ توقع رکھتا ہے کہ لوگ میرا شکر یہ ادا کریں ، میری قدر کریں اور کہیں کہ آپ نے بڑا احسان کیا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بجائے ایسی امید اور توقع کے یہ رسول جو لوگ اس کی بات مانتے ہیں یہ خود ان کی خدمت کرتا ہے، احسان کر کے خود ممنون ہوتا ہے،شکر کے مواقع پیدا کر کے خود مشکور ہوتا ہے اور اس مقام پر وہی شخص کھڑا ہوسکتا ہے جو خود بڑائی کی خواہش نہ رکھتا ہو بلکہ رسول ہو اور خدا کی طرف سے مجبور کر کے اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہو.افسوس ہے کہ اس وقت میں زیادہ تفصیل سے نہیں بول سکتا کیونکہ ایک تو کمزوری محسوس ہونے لگی ہے اور دوسرے میں دیکھتا ہوں دھوپ بھی زرد ہوتی جارہی ہے اور وقت زیادہ ہو گیا ہے.پھر کئی ایک باتیں میں بیان کر چکا ہوں اور میرا خیال ہے کئی لوگ اس پر مزید غور کر کے اور نکات بھی نکال سکتے ہیں.اگر کسی کے دل میں یہ

Page 340

سيرة النبي عليه 330 جلد 3 تحریک یعنی اور غور کر کے نئی باتیں پیدا کرنے کی طرف توجہ ہو جائے تو یہ بھی بہت کامیابی ہے.وگر نہ پھر کبھی اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو خود ہی کسی موقع پر بیان کروں گا.خاتمہ پر ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں کہ اختلاف دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکتا.اور جب تک مسلمان اس کوشش میں رہیں گے کہ اختلاف مٹا کر صلح کریں وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے.صلح اسی اصول پر ہوسکتی ہے جو رسول کریم ﷺ نے سکھایا ہے کہ اختلافات کو قائم رکھ کر صلح کرو.پس اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہئے متحدہ امور میں اکٹھے ہو جائیں کیونکہ کامیابی کا صرف یہی راستہ ہے.“ (الفضل 24 نومبر ، 6 دسمبر 1931ء).66 1 : مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر بعد قوله لا اله الا الله صفحه 56 حدیث نمبر 277 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية میں افلا شققت عن قلبہ“ کے الفاظ ہیں 2:بخارى كتاب الجهاد والسير باب ان الله يؤيد الدين بالرجل الفاجر صفحه 507،506 حدیث نمبر 3062 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: التوبة: 128 :4 گیا.ہندوستان کا تجارتی شہر.یہاں کا وشنو مندر قابل ذکر ہے.بودھ گیا جو گوتم بدھ کے نروان کا مقام تھا قریب ہی ہے.( اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1299 مطبوعہ لاہور 1988 ء) 5 الكهف : 111 6: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول حديث رسول الله الله عن حلف الفضول صفحه 172 ، 173 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 7 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول امر الاراشى الذى باع اباجهل ابله صفحه 441، 442 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 8:بخاری کتاب الاذان باب من صلى بالناس فذكر حاجة فتخطاهم صفحه 139 حديث نمبر 851 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 341

سيرة النبي عليه 331 جلد 3 9: بخارى كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي صلى الله عليه وسلم و اصحابه صفحه 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 10:بخارى كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي الله واصحابه صفحه 221 حدیث نمبر 1382 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 11: مسند احمد بن حنبل مترجم اردو جلد 11 مسند عائشہ صفحہ 101 حدیث نمبر 24854 مکتبہ رحمانیہ لاہور الله عليه وسلم 12: بخارى كتاب الزكوة باب ما يذكر فى الصدقة للنبي صلى وسلم واهله صفحه 242 حدیث نمبر 1491 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية 13 ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء في التسبيح والتكبير والتحميد عند المنام صفحہ 778 حدیث نمبر 2408 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى :14: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول سعى الرسول الى ثقيف يطلب النصرة صفحہ 474 475 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الأولى :15: السيرة الحلبية الجزء الثالث فتح مكة شرّفها الله تعالى صفحه 207 208 مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الاولى 16 بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 17: بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى و يوم حنين اذا اعجبتكم كثرتكم صفحہ 729 حدیث نمبر 4316 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 18: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى بيعة الرضوان صفحه 1107،1106 مطبوعہ دمشق 2005ءالطبعة الاولى 19 تاريخ الطبرى الجزء الثانى امر اموال هوازن وعطايا المؤلفة قلوبهم منها صفح 174 ، 175 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الخامسة

Page 342

سيرة النبي عليه 332 جلد 3 صلى الله :20: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانى قدوم عدى على الرسول عالية واسلامة صفحه 1383 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الأولى 21 تاريخ الطبرى الجزء الثانى ذكر خروج رسل رسول الله الى الملوک صفحه 133 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الخامسة 22 اسد الغابة في معرفة الصحابة الجزء الثانى سلمان الفارسی صفحہ 313 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 23: فاطر: 25 24: مسلم كتاب الفضائل باب من فضائل موسى صفحه 1044 حدیث نمبر 6153 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 25 ابن ماجه كتاب الادب باب اذا اتاكم كريم قوم فاكرموه صفحه 531 حدیث نمبر 3712 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 26: الانعام: 109 27 تاريخ الطبري المجلد الثاني ذكر الخبر عن عمرة النبي علا صفحہ 123 مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الخامسة 28: محمد : 5 29 سنن ابن ماجه ابواب النكاح باب حسن معاشرة النساء صفحه 283 حدیث نمبر 1977 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 30 مسلم كتاب البر والصلة والادب باب فضل الاحسان الى البنات صفحه 1146 حدیث نمبر 6695 مطبوعہ ریاض 2000 ، الطبعة الاولى :31 بنی اسرائیل: 24 32: الحجرات : 14 33: الحجرات : 12

Page 343

سيرة النبي عمال 333 :34:بخارى كتاب المغازى باب نزول النبي صلى حدیث نمبر 4423 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى الله جلد 3 عليه وسلم الحجر صفحه 753

Page 344

سيرة النبي علي 334 جلد 3 اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت حضرت مصلح موعود 20 نومبر 1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.صلى الله پس مخلوق پر ثابت کرو کہ تم بزدل نہیں ہو.جنگ احد کے موقع پر رسول کریم علی صحابہ کو لے کر ایک محفوظ مقام پر بیٹھے تھے کہ ابوسفیان نے پکارا کیا تم میں محمد علی ہے؟ آپ نے فرمایا جواب مت دو.پھر اس نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کا نام لیا مگر آپ نے فرمایا جواب مت دو.اس پر اس نے خیال کیا کہ یہ سب مارے گئے اور کہنے لگا اُشلُ هبل اسے سن کر آپ ضبط نہ کر سکے اور فرمایا اب بولو اللهُ أَعْلَی وَ أَجَلُّ 1 اپنے نفسوں کی صلى الله خاطر تو ضبط سے کام لیا مگر جونہی خدا کا نام آیا آپ ﷺے خاموش نہ رہ سکے.یورپین مصنف یہ تو لکھتے ہیں کہ آپ پہلے اس وجہ سے نہ بولتے تھے کہ خطرہ تھا مگر آگے یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر آپ ع کی غیرت نے کیوں خاموشی گوارہ نہ کی.دشمن خطرہ سے بچنے کے لئے غیرت کا ذکر نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ خدا کا نام جب سنا تو سب خطرات کو آپ نے فراموش کر دیا.“ ( الفضل 26 نومبر 1931ء) 1: بخارى كتاب المغازى باب غزوة احمد صفحہ 685،684 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 345

سيرة النبي علي 335 جلد 3 شریعت محمدی کی فضیلت حضرت مصلح موعود نے 28 دسمبر 1931ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں فضائل القرآن کے سلسلہ کا چوتھا خطاب فرماتے ہوئے رسول کریم ﷺ کی سیرت کے بارہ میں درج ذیل امور بیان فرمائے :.سمجھنا چاہئے کہ یہ کیا فضیلت ہے.اگر حضرت موسیٰ چاہتے تو وہ بھی کلام اللہ کو الگ جمع کر سکتے تھے.اگر تورات سے حضرت موسی کا کلام اور انجیل سے حضرت عیسی کا کلام نکال لیا جائے تو کیا یہ کتابیں قرآن کریم کے برابر ہو جائیں گی ؟ میں کہوں گا نہیں.کیونکہ اگر حضرت موٹی ایسا کر سکتے تو کیوں نہ کر دیتے.اگر حضرت موٹی کیلئے ممکن ہوتا کہ الفاظ والی وحی کو الگ کر کے کتاب بنا دیتے تو کیوں نہ کر دیتے.اسی طرح اگر حضرت عیسی کے لئے ممکن ہوتا تو وہ بھی کیوں نہ کر دیتے.یہ فضیلت صرف الله رسول کریم ﷺ کو ہی حاصل ہے کہ ساری کی ساری شریعت آپ ﷺ کو وحی کے الفاظ میں عطا ہوئی.باقی سب انبیاء کی کتب میں کچھ کلام الہی تھا، کچھ نظارے تھے اور کچھ مفہوم جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا.اگر وہ نظاروں اور مفہوم کے حصہ کو علیحدہ کر دیتے تو ان کی کتابیں نامکمل ہو جاتیں کیونکہ ان کا سارا دین کلام اللہ میں محصور نہیں.کچھ رویا اور کشوف ہیں اور کچھ وحی خفی کے ذریعہ سے تھا.اگر وہ کلام اللہ کو الگ کرتے تو ان کا دین ناقص رہ جاتا.برخلاف اس کے قرآن کریم میں سب دین آ گیا ہے.اور کلام اللہ میں ہی سب دین محصور ہے.پس قرآن کے سوا اور کسی نبی کی کتاب کا نام کلام اللہ ہو ہی نہیں سکتا.یہ نام صرف قرآن کریم کا ہی ہے.

Page 346

سيرة النبي عمال 336 جلد 3 اصل بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اکمل بنانا تھا، اسلام کو اکمل دین اور قرآن کو آخری کلام بنانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اسے ایسا محفوظ بنا تا کہ کوئی مطلب فوت نہ ہو.اور اس کی ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ عالم الغیب خدا کے الفاظ میں سب کچھ بیان ہو.رویا اور کشوف میں جھگڑے اور اختلاف پڑ جاتے ہیں.اس لئے شریعت اسلامیہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں اتار کر اس کا نام کلام اللہ رکھا.“ فضائل القرآن نمبر 4 صفحہ 214 ، 215 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء)

Page 347

سيرة النبي علي 337 جلد 3 قرآن کریم کو لانے والے انسان کی فضیلت 28 دسمبر 1931ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے کتب سابقہ پر قرآن کریم کی افضلیت کے بارہ میں خطاب فرمایا جس میں رسول کریم علی کی سیرت پر درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی :.وو ہر کلام جو نازل ہوتا ہے اس کی عظمت اور افضلیت اس لانے والے کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے جس کے ذریعے وہ آتا ہے.کیونکہ پیغامبر پیغام کی حیثیت سے بھیجے جاتے ہیں.مثلاً ایک بادشاہ جس نے اپنے کمرہ کی صفائی کرانی ہے وہ چوبدار سے کہے گا کہ صفائی کرنے والے کو بلاؤ.لیکن اگر اسے یہ کہنا ہوگا کہ فلاں بادشاہ کو ملاقات کیلئے بلاؤ تو چوبدار سے نہیں کہے گا بلکہ وزیر سے کہے گا اور وہ یہ پیغام پہنچائے گا کہ بادشاہ کی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات کریں.غرض پیغام کی افضلیت پیغامبر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.سفراء جو بادشاہوں کے خطوط لے کر جاتے ہیں ان کے متعلق بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بلند پایہ رکھنے والے ہوں.اسی طرح اعلیٰ درجہ کے کلام کو سمجھانے کے لئے اعلیٰ درجہ کے علم کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کوئی کتاب علمی لحاظ سے بہت بلند مرتبہ رکھتی ہو تو اس کو پڑھانے والے کے لئے بھی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوگی.ایم.اے کے طلباء کو پڑھانے والا معمولی قابلیت کا آدمی نہیں ہو سکتا.اگر کسی جگہ کوئی پرائمری پاس پڑھانے کے لئے بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ ابتدائی قاعدہ پڑھایا جائے گا.اگر انٹرنس پاس بھیجا جاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ چوتھی پانچویں جماعت کو پڑھائے گا.اگر گر یجو یٹ بھیجا جاتا ہے تو نویں

Page 348

سيرة النبي عليه 338 جلد 3 دسویں کو پڑھائے گا.اور اگر مشہور ڈگری یافتہ بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ بڑی جماعتوں کے لئے ہے.اسی طرح الہامی کتاب لانے والے کی شخصیت سے بھی کتاب کی افضلیت یا عدم افضلیت کا پتہ لگ جاتا ہے.لیکن اگر خود کتاب ہی اس کی افضلیت ثابت کر دے تو یہ اور بھی اعلیٰ بات سمجھی جائے گی کہ اس نے اس شق میں بھی خود ہی ثبوت دے دیا اور کسی اور ثبوت کی محتاج نہ ہوئی.غرض چونکہ اس انسان کے چلن کا جس پر کتاب نازل ہوئی ہو کتاب کی اشاعت پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے وہی کتاب کامل ہو سکتی ہے جو اس کے کریکٹر کو نمایاں طور پر پیش کرے تا کہ لوگ اس کے منبع کی نسبت شبہ میں نہ رہیں.پس یہ ثابت کرنے کے لئے کہ قرآن کا منبع مشتبہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی زبان پر جاری ہوا ہے یہ ضروری ہے کہ قرآن ثابت کرے کہ اس کے لانے والا ایک مقدس اور بے عیب انسان تھا کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو باوجود کتاب کے کامل وافضل ہونے کے انسان کے دل میں ایک شبہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کا لانے والا کیسا انسان تھا اور دوسرا شبہ یہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کتاب نے اس کے پہلے مخاطب پر کیا اثر کیا.اگر اس پر اچھا اثر نہیں کیا تو ہم پر کیا اثر کرے گی.اور اگر اس نے اپنے پہلے مخاطب کو فائدہ نہیں پہنچایا تو ہمیں کیا پہنچا سکے گی.پس کتاب کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے ہمیں کتاب لانے والے کے اخلاق پر اور لانے والے کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے اس کے پیش کردہ خیالات پر ضرور بحث کرنی ہوگی.قرآن کریم کو یہ فضیلت بھی دوسری کتب پر حاصل ہے یعنی اس کا لانے والا انسان دوسرے انسانوں سے خواہ وہ کوئی ہوں افضل ہے.اور مزید افضلیت یہ ہے که قرآن کریم اس دلیل کے محفوظ رکھنے میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہے اس دلیل کو بھی خود اس نے ہی محفوظ کر دیا ہے.یہاں تک کہ میور جیسا متعصب انسان بھی لکھتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات کا بہترین منبع قرآن ہے 1.اس موقع پر وہ

Page 349

سيرة النبي عمال 339 جلد 3 حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن یعنی رسول کریم ﷺ کے اخلاق کے متعلق قرآن کو دیکھ لو.آپ کے تمام اخلاق قرآنی معیار کے مطابق تھے.پس قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کم از کم ایک شخص اپنے معیار کے مطابق پیدا کر لیا ہے اس لئے ہم اس کی تعلیم کے متعلق یہ شبہ نہیں کر سکتے کہ (1) وہ قابل عمل نہیں (2) یا یہ کہ اس نے اپنے لانے والے کی اصلاح نہیں کی تو دوسروں کی کیا کرے گا.کیونکہ محمد علیہ نے اس پر عمل کیا اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن گئے.پس کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ قرآن نے لانے والے کو کیا فائدہ پہنچایا کہ ہمیں پہنچائے گا.میں نے جو یہ بتایا ہے کہ الہامی کتاب کی افضلیت کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس کا لانے والا دوسروں سے افضل ہو یہ بھی قرآن خود ہی بیان کرتا ہے.اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کی پہلی زندگی بھی پاک اور کامل ہونی چاہئے اور دعوی کے بعد کی زندگی بھی مطابق وحی ہونی چاہئے.پہلی زندگی کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا.وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُّؤْ مِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللهِ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ - فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَّهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۚ وَمَنْ يُرِدْ اَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَضَعَدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 3 - فرمایا: 'ان لوگوں کے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوئی نشان پیش کرتا ہے تو کہتے ہیں ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں وہی کچھ نہ ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملا.یعنی وحی اور الہام.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہر ایک پر وحی رسالت نازل کی جائے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کسے رسول بنانا چاہئے.وہ اس کے احوال، اس کے افکار اور اس کے عادات دیکھتا ہے.جو سب سے اعلیٰ ہو اسے

Page 350

سيرة النبي عمال 340 جلد 3 رسالت کا منصب دیتا ہے.تم جو یہ کہتے ہو کہ تمہیں بھی وہی کچھ ملنا چاہئے جو رسولوں کو ملتا ہے کیا تم اپنی حالت کو نہیں دیکھتے.تم تو گندے ہو اور گندوں کو ذلت ہی ملا کرتی ہے.رسالت تو بہت بڑی عزت ہے یہ پاک اور اعلیٰ پایہ کے انسان کو ملتی ہے.تم کو تو تمہارے مکروں کی وجہ سے عذاب ملے گا.اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے.وہ نیک کام کرتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا پہاڑ پر چڑھ رہا ہے.جولوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان سے سلوک کرتا ہے.اس میں بتایا کہ (1) رسول بناتے وقت اللہ تعالیٰ اس آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا ہے.پس مجرموں کو رسالت نہیں مل سکتی انہیں تو ذلت ملے گی.رسالت تو بڑی بھاری عزت ہے.(2) جو رسول بنتا ہے وہ پہلے بھی اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے.الہی احکام کی فرمانبرداری اس کی طبیعت میں داخل ہوتی ہے اور نیک تحریکوں کو قبول کرنے میں وہ پیش پیش ہوتا ہے.یہ گویا قرآن نے گر بتایا کہ انبیاء کی پہلی زندگی اعلیٰ ہونی چاہئے.بیشک ایک ایسا ص ولی ہوسکتا ہے جو ایک زمانہ تک عیوب میں مبتلا رہا ہو اور بعد میں اس نے تو بہ کر لی ہو.لیکن نبوت کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہی خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی طہارت اسے حاصل ہو.(2) اور نبوت کی زندگی کے متعلق فرمایا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْتَمُوْنَ 4 جن لوگوں کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ رات دن اپنے اعمال سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا پاک ہے.یعنی انہیں جس قدر قرب عطا ہو اسی قدر وہ فرمانبردار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اپنے ہر عمل سے ظاہر کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا نے یونہی انہیں نہیں چنا.گویا وہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کی پاکیزگی ظاہر کرتے ہیں اور اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ خدا نے غلط انتخاب نہیں کیا.

Page 351

سيرة النبي عمال 341 جلد 3 عليسة رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول کریم میں ہے بے کی ذات کے متعلق بھی اس عام قاعدہ نبوت سے پہلے کی پاکیزہ زندگی کے پورا ہونے کا کہیں ذکر ہے؟ سو اس امر کے متعلق کہ رسول کریم ﷺ کی دعوئی سے پہلی زندگی بالکل پاک اور عیب تھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا اَدْرِيكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ فرمایا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ کتاب پڑھ کر تمہیں نہ سناتا.یعنی اگر اللہ چاہتا تو کتاب ہی نہ بھیجتا اور نہ تمہیں اس تعلیم سے آگاہ کرتا.تمہیں علم ہے کہ میری زندگی کیسی پاکیزہ گزری ہے.معمولی عمر نہیں بلکہ چالیس سال کا لمبا عرصہ.تم اسے جانتے ہو اور اس پر کوئی عیب نہیں لگا سکتے.پھر کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اب میں نے جھوٹ بنا لیا.یہ پہلی زندگی کے متعلق رسول کریم کا اعلان ہے اور کفار کے مقابلہ میں اعلان ہے جس کا وہ انکار نہیں کر سکتے تھے.صلى الله رسول کریم ﷺ کی اتباع میں خدا تعالیٰ کا قرب نبوت کی زندگی کے متعلق ہم قرآن کریم میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ؟ یہ رسول اس بات کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ قرآن نے اس کی زندگی پر کیا اثر کیا.اور یہ کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے نمونہ ہے جس کی انہیں پیروی کرنی چاہئے.ممکن ہے کوئی کہے کہ باقی انبیاء بھی ایسے ہی ہوں گے اس لئے قرآن کی ایک اور آیت میں پیش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيم 1.یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو ان سے کہہ دے ( یہ الفاظ بھی رسول کریم ع کی کتنی شان بلند کا اظہار کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنی طرف سے نہیں

Page 352

سيرة النبي علي 342 جلد 3 الله ہو کہتا بلکہ رسول کریم ﷺ کے منہ سے کہلواتا ہے تا کہ دنیا کے لئے ایک چیلنج ہو.گویا اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک چیلنج دیا اور کہا ان سے کہو ) اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے اور تمہارے دل میں تڑپ ہے کہ اس کے محبوب بن جاؤ تو آؤ میں تمہیں ایسا گر بتاؤں کہ تم عاشق ہو کر معشوق بن جاؤ اور وہ یہ ہے کہ فَاتَّبِعُونِی جس طرح میں کام کرتا ہوں تم بھی کرو.یہاں اَطِیعُونِی نہیں فرمایا بلکہ فَاتَّبِعُونِی فرمایا ہے یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو جیسے محمد رسول اللہ و عمل کر رہے ہیں ویسے ہی تم بھی کرو.یہ نہیں فرمایا کہ محمد رسول اللہ ہے جو حکم دیں اس کی تعمیل کرو.اس جگہ اتباع کا لفظ ہے جس کے معنی ”قفی اثرہ کے ہوتے ہیں یعنی اس کے نقش قدم پر چلا.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کا لفظ تو آتا ہے مگر اتباع کا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ شرائع سے بالا ہے.لیکن رسول کیلئے اتباع اور اطاعت دونوں الفاظ آتے ہیں.یعنی وہ حکم بھی دیتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے.پس فَاتَّبِعُونی کے یہ معنی ہیں کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اطاعت الہی سے محبوب الہی بن گیا ہوں اگر تم بھی میرے جیسے کام کرو گے تو تم بھی محبوب الہی بن جاؤ گے.گویا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا دوسرا نام رسول کریم علیہ کے اعمال رکھا ہے.66 اس کے بعد میں ان بعض اعتراضات مخالفین اسلام کے اعتراضات کا رڈ صلى الله کو لیتا ہوں جو رسول کریم ﷺ کی ذات پر کئے گئے ہیں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآن کریم نے ان کو رد کر کے آپ کے بے عیب اور کامل ہونے کو ثابت کیا ہے.کیونکہ قرآن نے رسول کریم ﷺ کی پاکیزگی ثابت کرنے کا فرض خود اپنے ذمہ لیا ہے کسی بندہ پر نہیں چھوڑا.پہلا اعتراض جو رسول کریم ﷺ کی زندگی پر ہو سکتا تھا وہ یہ ہے کہ آپ کے دعوی کے موجبات و محرکات کیا تھے ؟ یا یہ کہ قرآن پیش کرنے کا اصل باعث کیا تھا ؟ کوئی کہتا آپ نَعُوذُ بِاللہ پاگل ہیں کوئی کہتا اسے جھوٹی خواہیں آتی ہیں، کوئی کہتا ساحر ہیں، الله

Page 353

سيرة النبي عليه 343 جلد 3 کوئی کہتا جھوٹ بولتے ہیں کوئی کہتا کا ہن ہیں.غرض مختلف قسم کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے.یہی خیالات آج تک چلتے چلے آتے ہیں.جب بھی کوئی صلى الله مصنف رسول کریم علیہ کے خلاف لکھتا ہے تو یہی کہتا ہے آپ جھوٹے تھے اور کوئی کہتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ مجنون تھے.پہلا اعتراض میں سب سے پہلے جنون کے اعتراض کو لیتا ہوں.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی پاکیزہ تھی کہ منکر اس کے متعلق کوئی حرف گیری نہیں کر سکتے تھے اس لئے جب آپ کا کلام سنتے تو یہ نہ کہہ سکتے کہ آپ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہتے کہ پاگل ہے.چونکہ مشرکانہ خیالات ان لوگوں کے دلوں میں گڑے ہوئے تھے ادھر وہ سمجھتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے ان دونوں باتوں کے تصادم سے یہ خیال پیدا ہو جا تا کہ اس کی عقل ماری گئی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَالُوا يَا يُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُونٌ : جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پیش کیا تو لوگوں نے حیران ہو کر کہ اب کس طرح انکار کریں یہ کہ دیا کہ اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کا کلام اترا ہے تیرا دماغ پھر گیا ہے اور تو پاگل ہو گیا ہے اس کا جواب قرآن کریم میں اس طرح دیا گیا ہے کہ ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ وَ إِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُونَ بايكُمُ الْمَفْتُونُ و.لوگ تجھے پاگل کہتے ہیں مگر ہم دوات اور قلم کو تیری سچائی کے لئے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.پاگل آخر کسے کہتے ہیں؟ اسے جس کی عقل عام انسانوں کی عقل کی سطح سے نیچے ہوتی ہے.ورنہ پاگلوں میں بھی کچھ نہ کچھ عقل تو ہوتی ہے.وہ کھانا کھاتے اور کپڑا پہنتے اور پانی پیتے ہیں.پاگل انہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ادنی معیار عقل جو قرار دیا جاتا ہے اس سے ان کی عقل کم ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو پاگل کہنے والوں کے متعلق فرماتا ہے تم اسے پاگل

Page 354

سيرة النبي مله 344 جلد 3 کہتے ہو مگر سب سے زیادہ عقلمند لکھنے پڑھنے والے عالم سمجھے جاتے ہیں اور مصنفین کو بڑا دانا تسلیم کیا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں ان عقلمندوں کی باتیں مقابلہ کیلئے لاؤ.دنیا کی تمام کتا ہیں جو اب تک لکھی جا چکی ہیں انہیں اکٹھا کر کے لاؤ.یہ نہیں فرمایا کہ جو اپنی طرف سے لوگوں نے لکھی ہیں بلکہ فرمایا جو لکھی گئی ہیں گو یا مذہبی اور آسمانی کتابیں بھی لے آؤ یا اعلیٰ درجہ کے علوم کی کتابیں جو لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں وہ نکال کر لاؤ.اگر یہ سب کی سب کتابیں اس کے مقابلہ میں پیچ ثابت ہوں تو انہیں ماننا چاہئے کہ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو مجنون نہیں ہے.دیکھو! یہ کتنا بڑا دعوئی ہے اور کتنی زبر دست دلیل ہے.یہ اُس زمانہ کے لوگوں کو دلیل دی.اور بعد میں آنے والوں کو یہ دلیل دی کہ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنِ - آئندہ بھی جو لوگ تجھے پاگل کہیں گے ہم انہیں کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اب تو تمہارے سامنے نہیں مگر اس کے کارناموں کے نتائج تمہارے سامنے ہیں.پاگل جو کام کرتا ہے اس کی کوئی جز انہیں ہوتی.کیا جب کوئی پاگل بادشاہ بن جاتا ہے تو اسے کوئی ٹیکس ادا کیا کرتا ہے یا ڈاکٹر بن جاتا ہے تو کوئی اس سے علاج کراتا ہے یا کوئی نبی بنتا ہے تو کوئی اس کا مرید بنتا ہے؟ مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق فرمایا کہ ہم اس کے کاموں کا وہ اجر دیں گے جو کبھی کا ٹا نہیں جائے گا.کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جب اس کے اعمال کا اجر نہ مل رہا ہوگا.جب بھی کوئی پاگل ہونے کا اعتراض کرے اس کے سامنے یہ بات رکھ دی جائے کہ پاگل کے کام کا تو نتیجہ اُس وقت بھی نہیں نکلتا جب وہ کر رہا ہوتا ہے مگر رسول کریم علیہ کے متعلق دیکھو کہ کئی سو سال گزر جانے کے بعد بھی نتائج نکل رہے ہیں.پھر فرمایا ہم ایک اور بات بتاتے ہیں وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ.پاگل کو پاگل کہو تو وہ تھپڑ مارے گا لیکن عقلمند برداشت کر لے گا.اگر یہ لوگ تجھے پاگل سمجھتے تو تیری مجلس میں آکر تجھے پاگل نہ کہتے بلکہ تجھ سے دور بھاگتے.یہ جو تیرے سامنے تجھے الله

Page 355

سيرة النبي علي 345 جلد 3 پاگل کہتے ہیں یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تو پاگل نہیں ہے اور آئندہ آنے والوں کے لئے یہ ثبوت ہے کہ یہ پاگل کہنے والوں کے متعلق تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے برا بھلا کہنے پر چپ رہو.کیا ایسا بھی کوئی پاگل ہوتا ہے جو صرف آپ ہی پاگل کہنے والوں کے مقابلہ میں اپنے جوش کو نہ دبائے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہ ہدایت کر جائے کہ مخالفوں کو برا بھلا نہ کہنا ؟ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ پس عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ باتِكُمُ الْمَفْتُونُ تم دونوں میں سے کون گمراہ ہے.اس دلیل میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ پاگل کو کبھی خدائی مدد نہیں ملتی.محمد رسول اللہ صلی اللہ لیہ وسلم خدا تعالیٰ کی مدد سے کامیاب ہو رہے ہیں پھر ان کو پاگل کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے.دوسرا اعتراض دو برا اعتراض رسول کریم ہی ہے پر اس حالت میں کیا گیا جب ﷺ مخالفین نے دیکھا کہ پاگل کہنے پر عقلمند لوگ خود ہمیں پاگل کہیں گے.جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جسے پاگل کہتے ہیں اس نے تو نہ کسی کو مارا ہے نہ پیٹا بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق دکھائے ہیں.پس انہوں نے سوچا کہ کوئی اور بات بناؤ.اس پر انہوں نے کہا اسے پریشان خوا میں آتی ہیں اور ان کی وجہ سے دعوی کر بیٹھا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَاءِ 10 کہتے ہیں اس کا کلام أَضْغَاثُ أَخْلَامٍ ہے کچھ مشتبہ کسی خوابیں ہیں جو اسے آتی ہیں.یعنی آدمی تو اچھا ہے، اس کی بعض باتیں پوری بھی ہو جاتی ہیں لیکن بعض بری باتیں بھی اسے دکھائی دیتی ہیں.جنون اور أَضْغَاتُ اَحْلَامِ میں یہ فرق ہے کہ جنون میں بیداری میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے لیکن أَضْغَاتُ میں نیند میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے.چونکہ مخالفین دیکھتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے معاملات میں کوئی نقص نہیں اس لئے کہتے کہ جنون سے مراد ظاہری جنون نہیں بلکہ خواب میں اسے ایسی باتیں نظر آتی ہیں.اس کا جواب قرآن کریم

Page 356

سيرة النبي متر 346 جلد 3 یہ دیتا ہے کہ لَقَدْ اَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَبَّا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ 11 جن لوگوں کو أَضْغَاتُ اَخلاءِ ہوتی ہیں کیا ان کی خوابوں میں قومی ترقی کا بھی سامان ہوتا ہے؟ پراگندہ خواب تو پراگندہ نتائج ہی پیدا کر سکتی ہے مگر اس پر تو وہ کتاب نازل کی گئی ہے جو تمہارے لئے عزت اور شرف کا موجب ہے.کیا دماغ کی خرابی سے ایسی ہی تعلیم حاصل ہوتی ہے؟ تم اپنے آپ کو عقلمند کہتے ہو کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے ؟ تیسرا اعتراض پھر بعض اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ هذا سحر 12 کہ یہ جادو گر ہے.سحر کے معنی عربی زبان میں جھوٹ کے بھی الله ہوتے ہیں.مگر مخالفین نے رسول کریم ﷺ کو الگ بھی جھوٹا کہا ہے اس لئے اگر اس کے معنی جھوٹ کے ہوں تو اس کا جواب علیحدہ ہوگا.دوسرے معنی سحر کے یہ ہوتے ہیں کہ باطن میں کچھ اور ہو اور ظاہری شکل میں کچھ اور دکھائی دے.اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے وَاِنْ يَّرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ 13 اگر یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا کوئی نشان دیکھتے ہیں تو اعراض کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.یہ بڑا پرانا جادو ہے.آگے فرماتا ہے حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ 14 قرآن میں تو حکمت بالغہ ہے.قرآن میں ایسے مضامین ہیں جو دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں.سحر کے معنی تو یہ ہیں کہ ظاہر کو مسخ کر دیا جائے اور باطن آزاد ر ہے.مگر قرآن کا اثر تو یہ ہے کہ ظاہر کی بجائے دلوں کو بدلتا ہے اس لئے اسے سحر نہیں کہہ سکتے.یہ حکمت بالغہ ہے یعنی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جو دور تک اثر کرنے والی ہیں.یہ اندرونی جذبات اور افکار پر اثر ڈالتی ہیں مگر ان لوگوں کو یہ انذار فائدہ نہیں دیتا.چوتھا اعتراض پھر بعض نے کہا کہ یہ ساحر تو معلوم نہیں ہوتا ہاں مسحور ضرور ہے.یعنی خود تو بڑا اچھا ہے لیکن کسی نے اس پر سحر کر دیا ہے اس لئے یہ ایسی باتیں کہتا پھرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَالَ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ

Page 357

سيرة النبي مله 347 جلد 3 إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا 15 یعنی ظالم لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک مسحور کی اتباع کر رہے ہیں.کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی عقل ماری گئی ہے.اس آیت سے پہلے ملائکہ کے نزول کے متعلق معترضین کا مطالبہ ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور خزانے عطا کرتے ہیں ( ملائکہ سے الہام اور خزانے سے معارف قرآن مراد تھے ) تو مخالفین نے کہا کہ دیکھو اسے جو ملائکہ نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسحور ہے.فرشتے ہمیں نہیں نظر آتے ، خزانے ہمیں نہیں دکھائی دیتے مگر یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور خزانے مل رہے ہیں، کہاں ملے ہیں؟ یہ سحر کا ہی اثر ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے.اسی طرح اور بہت سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَيْكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِى أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُدُّوا كَبِيرًا يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلبِكَةَ لَا بُشْرَى يَوْمَبِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا - وَقَدِمْنَا إلى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْتُهُ هَبَاءَ مَّنْثُورًا - اَصْحَبُ الْجَنَّةِ يَوْمَذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَ اَحْسَنُ مَقِيلًا - وَ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَيْكَةُ تَنْزِيلًا - اَلْمُلْكُ يَوْمَهِذِهِ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَفِرِيْنَ عَسِيرًا 16 یعنی یہ نادان کہتے ہیں کہ یہ مسحور ہے اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں فرشتے نظر نہیں آتے.ہمیں کیوں خزانے دکھائی نہیں دیتے.لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَبِكَةُ ہم پر وہ فرشتے کیوں نہیں اترتے جن کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اترتے ہیں.اَوْنَرٰی رَبَّنَا یا یہ کہتا ہے کہ میں اپنے رب کو دیکھتا ہوں ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا.یہ جاہل خیال کرتے ہیں کہ ہمیں چونکہ یہ چیزیں نظر نہیں آتیں اس لئے یہ جو ان کے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو مسحور ہے.مگر یہ اپنے نفسوں کو نہیں دیکھتے.کیا ایسے گندوں کو خدا نظر آ سکتا ہے؟ انہوں نے بڑی سرکشی سے کام لیا ہے.

Page 358

سيرة النبي عمال 348 جلد 3 يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَيْكَةَ لَا بُشْرَى يَوْمَبِذٍ لِلْمُجْرِمِینَ.ان کو بھی فرشتے نظر آئیں گے مگر اور طرح.جب انہیں فرشتے نظر آئیں گے تو یہ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور کہیں گے کہ کاش! یہ ہمیں دکھائی نہ دیتے.اس دن مجرموں کے لئے خوشخبری نہیں ہوگی بلکہ یہ گھبرا کر کہیں گے کہ ہم سے پرے ہی رہو.اسی طرح ہم بھی ان کو نظر تو آئیں گے مگر انعام دینے کیلئے نہیں بلکہ قدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْتُهُ هَبَاءَ مَّنثُورًا.ہم ان کو تباہ کرنے کیلئے ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے اور ان کی حکومت کو باریک ذروں کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے.اور وہ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک مسحور کے پیچھے چل رہے ہیں ان کے لئے وہ بڑی خوشی کا دن ہوگا.اَصْحَبُ الْجَنَّةِ يَوْمَبِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَاَحْسَنُ مَقِيْلًا.ان کو نہایت اعلیٰ جگہ اور آرم دہ ٹھکانا ملے گا.اس کی آگے تفصیل بیان کی ہے کہ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَئِكَةُ تَنْزِيلًا.اس دن آسمان سے بارش برسے گی اور بہت سے فرشتے اتارے جائیں گے جیسے بدر کے موقع پر ہوا.اَلْمُلْكُ يَوْمَبِذِ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ.اُس دن مکہ کی حکومت تباہ کر دی جائے گی اور حکومت محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دے دی جائے گی.وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَفِرِيْنَ عَسِيرًا اور مکہ کی فتح کا دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا.باقی رہے خزانے سو ان کے متعلق فرمایا وَقَالَ الرَّسُوْلُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا 17 ہمارا یہ رسول قیامت کے دن اپنے خدا سے کہے گا کہ اے میرے رب ! انہوں نے اگر حکومت نہ دیکھی تھی تو اس کے متعلق اعتراض کر لیتے ،خزانے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے ، فرشتے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے مگر یہ قرآن کو دیکھ کر کس طرح انکار کر سکتے تھے.مگر افسوس کہ اتنے بڑے قیمتی خرانہ کا بھی انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ یہ تو ان کو دکھائی دینے والی چیز تھی.سورۃ بنی اسرائیل میں بھی یہ ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محور کہا جاتا تھا

Page 359

سيرة النبي علي 349 جلد 3 چنانچہ فرماتا ہے اِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا 18 یعنی ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم ایک مسحور کی پیروی کر رہے ہو.پھر اس جگہ اور سورۃ فرقان میں بھی اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے اُنْظُرُ كَيْفَ ضَرَبُوْالَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا 19.یعنی دیکھ یہ کیسی باتیں تیرے لئے بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ سارا زور تیرے پیش کردہ کلام کے رد میں لگا رہے ہیں اور نا کامی اور نامرادی کی وجہ سے ان کی جانیں نکلی جا رہی ہیں مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس پر کسی جادو کا اثر ہے.اگر یہ بات ہے تو پھر اس کمزور کے مقابلہ سے یہ لوگ کیوں عاجز آ رہے ہیں.مسحور تو دوسروں کا تابع ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو اپنے تابع کر رہا ہے اور دوسرے تمام لوگ اس کے مقابل پر عاجز ہیں.صلى الله مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اعتراض میں مسلمان بھی کافروں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ رسول کریم پر ایک دفعہ جادو کر دیا تھا اور اس کے اثرات بڑے لمبے عرصہ تک آپ پر رہے.اور اس میں وہ امام بخاری کو بھی گھسیٹ لائے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں وہ صاف طور پر پڑھتے ہیں وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 20 خدا تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملہ سے محفوظ رکھے گا.اگر لوگ رسول کریم ﷺ پر سحر کر سکتے تھے تو پھر يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کس طرح درست ہوا ؟ ہم تو دیکھتے ہیں رسول کریم ہے تو الگ رہے آپ ﷺ کے غلاموں پر بھی کوئی سحر نہیں کر سکتا.ایک شخص نے ایک احمدی دوست سے بیان کیا کہ میں مسمریزم میں بڑا ماہر ہوں.ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب کے پاس جا کر ان پر مسمریزم کروں اور لوگوں کے سامنے ان سے عجیب و غریب حرکات کراؤں.یہ خیال کر کے میں ان کی مجلس میں گیا اور ان پر توجہ ڈالنے لگا مگر وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا.پھر میں نے اور زور لگایا مگر پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا.آخر الله

Page 360

سيرة النبي عمال 350 جلد 3 میں نے سارا زور لگایا اور کوشش کی کہ آپ پر اثر ڈالوں مگر اُس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک شیر مجھ پر حملہ کرنے لگا ہے.یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا اور واپس چلا آیا.لاہور جا کر اس نے حضرت مسیح موعود کو خط لکھا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ بہت بڑے ولی اللہ ہیں.کسی نے اسے کہا کہ تم نے ولی اللہ کس طرح سمجھ لیا.ہوسکتا ہے وہ مسمریزم میں تم سے زیادہ ماہر ہوں.اس نے کہا مسمرائیزر کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاموش ہو کر دوسرے پر توجہ ڈالے.مگر وہ اس وقت دوسروں سے باتیں کرتے رہے تھے اس لئے وہ مسمرائیز رنہیں ہو سکتے.پانچواں اعتراض ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ کا ہن ہیں.کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو مختلف علامات سے آئندہ کی خبریں بتاتے ہیں.چنا نچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ 21 لوگ تجھے کا ہن کہتے ہیں حالانکہ تیرا کلام ایسا نہیں.مگر یہ لوگ بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے.یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جہاں دو جگہ مسحور کا ذکر آیا ہے وہاں دونوں جگہ یہ آیت بھی ساتھ آئی ہے کہ اُنظُرُ كَيْفَ ضَرَبُوْالَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا.اسی طرح کا ہن کا لفظ بھی دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ ذکر کا لفظ ساتھ ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کا ہن اور مذکر دونوں اضداد میں سے ہیں.چنانچہ سورۃ طور رکوع 2 میں آتا ہے فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنِ وَلَا مَجْنُونِ 22 ان لوگوں کو نصیحت کر کیونکہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ کا ہن ہے نہ مجنون.یعنی کا ہن مڈگر نہیں ہو سکتا اور مڈگر کا ہن نہیں ہوسکتا.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کا ہن در حقیقت ارڈ پوپو کی قسم کے لوگوں کو کہتے ہیں جو بعض علامتوں وغیرہ سے اخبار غیبیہ بتاتے ہیں.چونکہ رسول کریم یہ غیب کی اخبار بتاتے تھے بعض نادان آپ ﷺ کو کا ہن کہہ دیتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی اخبار تو محض اخبار ہوتی ہیں اور اس کی اخبار تذکیر کا پہلو رکھتی ہیں اور اصلاح نفس اور اصلاح قوم سے تعلق صلى الله

Page 361

سيرة النبي علي 351 جلد 3 رکھتی ہیں پھر یہ کا ہن کیونکر ہوا.کاہنوں کی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کو ایک نے بتائی تھی.مولوی صاحب نے ایک دفعہ پردہ میں بیٹھ کر ایک ارڈ پوپو کو اپنا ہاتھ دکھایا.اس نے آپ کو عورت سمجھ کر خاوند کے متعلق باتیں بتانی شروع کر دیں.جب وہ بہت کچھ بیان کر چکا تو مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنی داڑھی اس کے سامنے کر دی.یہ دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور پھر کبھی اس محلہ میں نہیں آیا.غرض کا ہنوں کی خبریں محض خبریں ہی ہوتی ہیں کہ فلاں کے ہاں بیٹا ہوگا ، فلاں مر جائے گا ان میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار نہیں ہوتا.مگر محمد رسول اللہ ہے جو صلى الله خبریں بتاتے ہیں ان کو کاہنوں والی خبریں نہیں کہا جا سکتا.یہ تو ایمان کو تازہ کرنے والی اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں.رسول کہتا ہے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں جو میرا مقابلہ کرے گا وہ ناکام رہے گا اور جو مجھے مان ہے لے گا جیت جائے گا.مگر کوئی کا ہن یہ نہیں کہہ سکتا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُونَ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کا ہن کا قول ہے.ان کی عقل ایسی ماری گئی ہے کہ اتنی پیشگوئیاں سنتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی قدرت اور جبروت کا اظہار ہے مگر پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے.دوسرا روّ اس کا یہ فرمایا فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ وَمَالَا تُبْصِرُونَ اِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِيْنَ 23.یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کو بھی جسے تم دیکھتے ہو اور اس کو بھی جسے تم نہیں دیکھتے.یعنی اس کے ظاہری اور باطنی دونوں حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قرآن ایک عزت والے رسول کا کلام

Page 362

سيرة النبي عمال 352 جلد 3 ہے.ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بات میں کا ہن اور شاعر دونوں مشترک ہوتے ہیں.شاعر بھی بڑے بڑے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور سب کچھ بیان کرنے کے بعد ہاتھ پھیلا دیتا ہے.اسی طرح کا ہن بھی خبریں بتا کر مانگتا پھرتا ہے.مگر فر مایا یہ رسول تو ایسا ہے جو اپنے پاس سے خرچ کرتا ہے کا ہن تو دوسروں سے مانگتا ہے.یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کو رسول کریم ﷺ کا کلام قرار دیا گیا ہے.یہاں رسول کہہ کر اس شبہ کو رد کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں کیونکہ رسول وہی ہوتا ہے جو دوسرے کا پیغام لائے.اگر محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی طرف سے بیان کرتا تو آپ کا کلام سمجھا جا تا مگر یہ تو رسول ہے.تیسری دلیل یہ دی کہ کا ہن تو اپنے اخبار کو اپنے علم کی طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے جفر، رمل، تیروں اور ہندسوں وغیرہ سے یہ یہ باتیں معلوم کی ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی طرف اپنی خبروں کو منسوب نہیں کرتا.مگر یہ رسول کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے کلام پا کر سناتا ہوں اور یہ اپنے کلام کو تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ کہتا ہے.یہاں یہ بھی بتا دیا کہ کا ہن ایسی باتیں بیان کرنے کی وجہ سے اس لئے سزا نہیں پاتا کہ وہ خدا پر تقول نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے بیان کرتا ہے.مگر رسول کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے میں بیان کرتا ہوں.اگر رسول جھوٹا ہو تو فوراً نتباہ کر دیا جاتا ہے.پس یہ کا ہن نہیں ہے بلکہ خدا کا سچا رسول ہے اور اس پر جو کلام نازل ہوا ہے یہ رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے.اگر کہو کہ یہ اس طرح اپنی کہانت کو چھپاتا ہے تو یاد رکھو کہ جان بوجھ کر ایسا کرنے والا کبھی سزا سے نہیں بچ سکتا.اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جو اسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا.

Page 363

سيرة النبي علي 353 جلد 3 چھٹا اعتراض ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ شاعر ہیں.چنانچہ سورۃ انبیاء رکوع اول میں آتا ہے بَلْ هُوَ شَاعِر 24 کہ یہ صحیح باتیں بیان کر کے لوگوں پر اثر ڈال لیتا ہے.اس کا جواب سورۃ یسین رکوع 5 میں یہ دیا کہ وَ مَا عَلَّمْنُهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِى لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيَّا وَ يَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَفِرِيْنَ 25 یعنی ہم نے اسے شعر نہیں سکھایا.اور یہ تو اس کی شان کے مطابق بھی نہیں ہے.یہ تو ذِکر اور قرآن ہے.کھول کھول کر باتیں سنانے والا ہے.یہ اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ اسے جس میں روحانی زندگی ہے ڈرائے اور کافروں پر حجت تمام ہو جائے.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اول قرآن شعر نہیں.ان لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ نثر کو شعر کہتے ہیں.دوم اگر کہیں کہ مجازی معنوں میں شعر کہتے ہیں کیونکہ شعر کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اندر سے باہر آئے اور شعر کو اس لئے شعر کہا جاتا ہے کہ وہ جذبات کو ابھارتا ہے تو اس کا جواب یہ دیا کہ وَمَا يَنْبَغِی لَهُ یہ تو اس کی شان کے ہی مطابق نہیں کہ اس قسم کی باتیں کرے.اس کی ساری زندگی دیکھ لو.شاعر کی غرض اپنے آپ کو مشہور کرنا ہوتی ہے مگر یہ تو کہتا ہے مِثْلُكُمُ میں تمہارے جیسا ہی انسان ہوں.پھر شاعران لوگوں کی مدح کرتا ہے جن سے اس نے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے مگر یہ تو کہتا ہے کہ میں تم سے کچھ نہیں لیتا ، نہ کچھ مانگتا ہوں.پس شاعری اور اس کا لایا ہوا کلام آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتے.سوم پھر اس میں ذکر ہے حالانکہ شعر ذکر نہیں ہوتا.یعنی شاعر اندرونی جذبات کو ابھارتا ہے،شہوت اور حسن پرستی کا ذکر کرتا ہے مگر یہ ایسی باتوں کی مذمت کرتا ہے.چہارم پھر یہ ایسا کلام ہے جو فطرت کے اعلیٰ محاسن کو بیدار کر کے جن کی فطرت صحیح ہوتی ہے انہیں بدیوں سے بچاتا ہے اور جو مردہ ہوتے ہیں ان پر حجت تمام کرتا ہے.حالانکہ شاعر جذبات بہیمیہ کو ابھارتا ہے.پس اسے مجازی طور پر بھی شعر نہیں کہہ سکتے.

Page 364

سيرة النبي علي 354 جلد 3 ساتواں اعتراض ساتواں اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ معلم ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمُ الله رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّمْ مَّجْنُونُ 26.فرمایا ان نامعقولوں کو کہاں سے نصیحت حاصل ہوگئی حالانکہ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کے معارف بیان کرنے والا رسول آیا مگر یہ لوگ اس سے منہ پھیر کر چلے گئے اور کہہ دیا کہ اسے کوئی اور سکھا جاتا ہے اور مجنون ہے.مطلب یہ کہ یہ ایسا نادان ہے کہ لوگ اس کو اس کے باپ دادا کے دین کے خلاف باتیں بتا جاتے ہیں اور یہ آگے ان کو بیان کر دیتا ہے.بعض لوگ رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرتے تھے اور اب تک کرتے ہیں کہ قرآن نہ آپ پر نازل ہوا نہ آپ نے بنایا بلکہ کوئی اور شخص ان کو سکھا دیتا تھا.مکہ والے کہتے تھے کہ مکہ کا ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کس طرح اپنی قوم کے بتوں کی مذمت کر سکتا ہے اور ان کے مقابلہ میں دوسری قوم کے نبیوں کی تعریف کر سکتا ہے اسے کوئی اور اس قسم کی باتیں سکھا جاتا ہے.جب وہ حضرت موسی کی تعریف قرآن میں سنتے تو کہتے کہ کوئی یہودی سکھا گیا ہے اور جب حضرت عیسی کی تعریف سنتے تو کہتے کوئی عیسائی بتا گیا ہے.اس میں ان کو اس بات سے بھی تائید مل جاتی کہ قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں.اس جگہ مجنون حقیقی معنوں میں نہیں آیا بلکہ غصہ کا کلام ہے کیونکہ معلم اور مجنون یکجا نہیں ہو سکتے.مطلب یہ کہ پاگل ہے اتنا نہیں سمجھتا کہ لوگ اسے اپنے مذہب اور قوم کے خلاف باتیں سکھاتے ہیں.قرآن کریم میں دو اور جگہ بھی یہ ذکر آیا ہے.سورۃ محل رکوع 14 میں ہے قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوْا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌّ لِسَانُ الَّذِي صلى الله يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَالِسَانُ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ 27 - فرمایا اے محمد ! (ع) تو مخالفوں سے کہہ دے کہ قرآن کو روح القدس نے اتارا ہے تیرے رب کی طرف

Page 365

سيرة النبي عمال 355 جلد 3 سے ساری سچائیاں اس میں موجود ہیں اور اس لئے اتارا ہے کہ مومنوں کے دل مضبوط ہوں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو.اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کسی اور نے قرآن سکھایا ہے مگر جس کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے ( عجمی وہ ہوتا ہے جو عرب نہ ہو یا عرب تو ہو مگر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح عربی میں بیان نہ کر سکے ) اور یہ جو کلام ہے یہ تو زبان عربی میں ہے اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ خوب کھول کھول کر بیان کرنے والی.دوسری جگہ فرماتا ہے وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا افْكُ افْتَرَيَهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَآءُ وَظُلْمًا وَّ زُورًا وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السّرَّ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا 28 یعنی یہ لوگ کہتے ہیں که قرآن خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنا لیا ہے اور اس بنانے میں کچھ اور بھی لوگ اس کی مدد کرتے ہیں.یہ بات کہنے میں انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے اور بڑا افترا باندھا ہے وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں پرانے قصے ہیں جولکھوا لیتا ہے.یعنی دو جماعتیں ہیں ایک مضمون بناتی ہے اور ایک لکھ لکھ کر دیتی ہے.فَهِيَ تُمْلَی عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا پھر اس کی مجلس میں اسے خوب پڑھتے ہیں تا کہ یاد ہو جائے قُل اَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَ فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ کہہ دے اسے خدا نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جاننے والا ہے.اِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا وہ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس اعتراض میں آج کل عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں اور بڑے بڑے مصنف مزے لے لے کر اسے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیا پتہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے.وہ عیسائی اور یہودی ہی تھے جو باتیں بنا کر ان کو دیتے تھے.چونکہ اب بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور اسے بہت

Page 366

سيرة النبي علي 356 جلد 3 اہمیت دی جاتی ہے اس لئے میں کسی قدر تفصیل سے اس کا جواب بیان کرتا ہوں.مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اسے بشر سکھاتا ہے اس بشر سے مراد جبر 29 رومی غلام تھا جو عامر بن حضرمی کا غلام تھا.اس نے تو رات اور انجیل پڑھی ہوئی تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ تکلیف دینے لگے تو آپ اس کے پاس جا کر بیٹھا کرتے تھے.اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا.دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ فرا اور زجاج کہتے ہیں کہ حویطب ابن عبد العزیٰ کا ایک غلام عائش یا یعیش نامی پہلی کتب پڑھا کرتا تھا.بعد میں پختہ مسلمان ہو گیا اور رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آتا تھا.اس کی نسبت لوگ یہ الزام لگاتے تھے.مقاتل اور ابن جبیر کا قول ہے کہ ابوفکیہ پر لوگ شبہ کرتے تھے ان کا نام لیا تھا.مذہبا یہودی تھے اور مکہ کی ایک عورت کے غلام تھے.بہتی اور آدم بن ابی ایاس نے عبداللہ بن مسلم الحضر می سے روایت کہ ت لکھی ہے کہ ہمارے دو غلام بیار اور جبر نامی تھے دونوں نصرانی تھے اور عین التجر کے رہنے والے تھے.دونوں لوہار تھے اور تلوار میں بنایا کرتے تھے اور کام کرتے ہوئے انجیل پڑھا کرتے تھے.رسول کریم ﷺ وہاں سے گزرتے تو ان کے پاس ٹھہر جاتے.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک غلام سے لوگوں نے پوچھا کہ إِنَّكَ تُعَلَّمُ مُحَمَّدًا فَقَالَ لَا هُوَ يُعَلِّمُنِی.کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو سکھاتے ہو؟ اس نے کہا میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتا ہے.ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک انجمی رومی غلام مکہ میں تھا اس کا نام بلعام تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام سکھایا کرتے تھے.اس پر قریش کہنے لگے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو سکھاتا ہے 30 مسیحی مورخ لکھتے ہیں کہ غالباً آپ نے بحیرہ راہب سے سیکھا تھا.چونکہ مسیحی تاریخوں میں بحیرہ کا کہیں پتہ نہیں ملتا اس وجہ سے ابتداء تو وہ اس کے وجود سے ہی منکر تھے لیکن اب مسعودی کی ایک روایت کی وجہ سے وہ اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور اس اعتراض کے رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں.وہ روایت

Page 367

سيرة النبي علي 357 جلد 3 یہ ہے کہ بحیرہ کو مسیحی لوگ سرگیس (Sergius) کہا کرتے تھے اور Sergius نامی ایک پادری کا پتہ مسیحی کتب میں مل جاتا ہے.پس اب وہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے سیکھ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نعوذ باللہ قرآن بنا لیا.سیل (Sale) اس خیال کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بحیرہ کا مکہ جانا ثابت نہیں اور یہ خیال کہ آپ نے جوانی میں دعویٰ سے بہت پہلے بحیرہ سے قرآن سیکھا ہو عقل کے خلاف ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مسیحیت کا کچھ علم سیکھا ہو.و ہیری ان روایتوں سے خوش ہو کر کہتا ہے کہ خواہ ناموں میں اختلاف ہی ہو لیکن یہ روایت اتنی کثرت سے آتی ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بعض مسیحی اور یہودی آتے تھے اور یہ کہ انہوں نے ان کی گفتگو سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا اور جواب کی کمزوری بتاتی ہے کہ کچھ دال میں کالا کالا ضرور ہے ورنہ یہ کیا جواب ہوا کہ اس کی زبان انجمی ہے.ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بنا دیتا ہو اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے عربی میں ڈھال لیتے ہوں (وہ اپنے اس خیال کی تصدیق میں آرنلڈ کو بھی پیش کرتا ہے ) اس کے بعد ا.وہ لکھتا ہے :."It is because of this that we do not hesitate to reiterate the old charge of deliberate imposture." 31 یعنی ہم یہ پرانا الزام دہراتے ہوئے اپنے دل میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جان بوجھ کر جھوٹ بنایا.اوپر کے مضمون سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ اس اعتراض کو خاص اہمیت دیتے تھے اور ان کے وارث مسیحیوں نے اس اہمیت کو اب تک قائم رکھا ہے.میں پہلے مسیحیوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں اور اس شخص کو جواب میں پیش کرتا ہوں جسے عیسائی خدا کا بیٹا کہتے ہیں.حضرت مسیح پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ ان کے ساتھ شیطان کا

Page 368

سيرة النبي عليه 358 جلد 3 تعلق ہے اور دیوؤں کو اس کی مدد سے نکالتے ہیں.چنانچہ لکھا ہے :.وو پھر وہ ایک گونگی بدروح کو نکال رہا تھا اور جب وہ بدروح اتر گئی تو ایسا ہوا کہ گونگا بولا اور لوگوں نے تعجب کیا.لیکن ان میں سے بعض نے کہا یہ تو بدروحوں کے سردار بعل زبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے.بعض اور لوگ آزمائش کے لئے اس سے ایک آسمانی نشان طلب کرنے لگے مگر اس نے ان کے خیالوں کو جان کران سے کہا کہ جس کسی بادشاہت میں پھوٹ پڑے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے.اور اگر شیطان بھی اپنا مخالف ہو جائے تو اس کی بادشاہت کس طرح قائم رہے گی.کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو 66 بعل زبول کی مدد سے نکالتا ہے 32.یہاں حضرت مسیح نے ایک قانون پیش کیا ہے.جب ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ شیطان کو شیطان کی مدد سے نکالتے ہیں تو انہوں نے کہا شیطان شیطان کو کیوں نکالے گا ؟ اس قانون کے ماتحت غور کر لو کہ کیا قرآن کسی یہودی یا عیسائی کا بنایا ہوا نظر آتا ہے؟ اگر کسی عیسائی کا بنایا ہوا ہوتا تو عیسائیت کے رد سے کس طرح بھرا ہوا ہوتا ؟ اور اگر کسی یہودی نے بنایا ہوتا تو اس میں یہودیت کا کس طرح رد ہوتا ؟ عیسائیت کا کوئی فرقہ بتا دو اس کا رد قرآن سے دکھا دیا جائے گا.اسی طرح کوئی یہودی فرقہ پیش کرو اس کا رد قرآن میں موجود ہے.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کوئی عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کی آپ تردید کرے گا؟ قرآن پورے طور عیسائیت کو رد کرتا ہے.ہم دور نہیں جاتے پہلی سورۃ میں ہی قرآن نے عیسائیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں.پہلی سورۃ جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی یہ ہے صلى الله اقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى اَنْ رَّاهُ اسْتَغْنَى إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعُى أَرَعَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا

Page 369

سيرة النبي علي 359 جلد 3 صَلَّى أَرَعَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى أَرَءَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى اَلَمْ يَعْلَمُ بِأَنَّ اللهَ يَرَى كَلَّا لَبِنْ لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةِ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةِ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدُ وَاقْتَرِب 33.یہ سورۃ جو سب سے پہلی سورۃ ہے اسی میں عیسائیت کے تمام مسائل کو رد کر دیا گیا ہے.پہلا حملہ عیسائیت پر یہ ہے کہ فرمایا خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.عیسائیت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان کی فطرت میں گناہ ہے.عیسائیت کہتی ہے انسان فطرتا گناہگار ہے اور عمل سے نیک نہیں بن سکتا اس لئے مسیح کو جو پاک اور بے عیب تھا صلیب پر چڑھا دیا گیا.اسی طرح وہ انسانوں کے گناہ اپنے اوپر اٹھا کر قربان ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.انسان کی فطرت میں خدا کی محبت رکھی گئی ہے اور اس کی بناوٹ میں ہی خدا سے تعلق رکھا گیا ہے.اس طرح عیسائیت کا پہلا عقیدہ باطل کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ کفارہ کوئی چیز نہیں ہے.اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ انسان گناہ گار ہے لیکن اسلام شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان نیک ہے اور اس کی فطرت میں خدا سے محبت رکھی گئی ہے نہ کہ گناہ.دوسرا جواب یہ دیا کہ اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ خدا جو تیرا رب ہے اس کی یہ شان ہے کہ دوسری چیزوں میں جو صفات پائی جاتی ہیں ان سب سے اعلیٰ صفات اس میں جلوہ گر ہیں.عیسائیت کہتی ہے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں وہ گناہگار کو نہیں بخش سکتا مگر اسلام کہتا ہے جب انسان اپنے قصور وار کو بخش سکتا ہے اور انسان میں عفو کی صفت ہے تو خدا کیوں نہیں بخش سکتا اور اس میں کیوں یہ صفت نہیں.اس میں تو بدرجہ اتم یہ صفت ہے کیونکہ وہ اکرم ہے.یعنی تمام صفات حسنہ میں سب سے بڑھ کر ہے.تیسرا رد یہ کیا کہ فرمایا عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَهُ يَعْلَمُ.عیسائیت کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ شریعت لعنت ہے.لیکن قرآن نے بتایا کہ شریعت میں وہ باتیں ہیں جو انسان عقل سے دریافت نہیں کر سکتا.انسان اپنی کوشش سے شرعی احکام نہیں بنا سکتے اس لئے

Page 370

سيرة النبي علي شریعت آتی ہے.360 جلد 3 b چوتھی زرعیسائیت پر یہ کی کہ فرمایا كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى - اَنْ رَّاهُ اسْتَغْنَى انسان بڑا ہی سرکش ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا کی شریعت کی ضرورت نہیں میں خود اپنی راہ نمائی کے سامان مہیا کرلوں گا.یہ کہنے والے بہت نا معقول لوگ ہیں.پانچواں رد یہ کیا کہ فرمایا كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ.ایسے لوگوں کی باتیں کبھی نہ سنا اور اللہ کی خوب عبادت اور فرمانبرداری کرنا.رسول کریم ﷺ کو فرمایا کہ کسی راہب کی بات نہ سننا جو شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے بلکہ خدا کی فرمانبرداری میں لگا رہ.گویا نجات اور قرب الہی کا ذریعہ بجائے کسی کفارہ پر ایمان لانے کے سجدہ یعنی فرمانبرداری یا بالفاظ دیگر اسلام کو قرار دیا ہے.پس قرآن کی تو پہلی سورۃ نے ہی مسیحیت کو رد کیا ہے اور بادلیل رد کیا ہے.اسی طرح سورۃ فاتحہ میں عیسائیت اور یہودیت کو رد کیا گیا ہے.پھر کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کے خلاف خود دلائل بتایا کرتے تھے؟ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں.یا تو عیسائی راہب اپنے مذہب کو ماننے والا ہوگا یا نہ ماننے والا.اگر ماننے والا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اپنے مذہب کی تائید کرتا نہ کہ اس کے خلاف با تیں بتا تا.اور اگر نہ ماننے والا تھا اور سمجھتا تھا کہ جو باتیں اس کے ذہن میں آئی ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی ہیں تو اس نے ان کو خود اپنی طرف منسوب کر کے کیوں نہ پیش کیا.اسے چاہئے تھا کہ اپنے نام پر کتاب لکھتا نہ کہ لکھ کر دوسرے کو دے دیتا.اب میں ان آیتوں اور ان میں مذکور جوابات کو لیتا ہوں.سورۃ نحل کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اسے کوئی اور آدمی سکھاتا ہے.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ وہ شخص تو عجمی ہے اور قرآن کی زبان عربی ہے.و ہیری کہتا ہے کہ یہ جواب بالکل بودا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے.مضمون وہ عجمی بنا کر دیتا تھا آگے عربی میں وہ خود ڈھال لیتے تھے.لیکن

Page 371

سيرة النبي علي 361 جلد 3 سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے دوسرے جواب بھی ایسے ہی بودے ہوتے ہیں.اگر قرآن کی دوسری باتیں ارفع اور اعلیٰ ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ جواب بھی ضرور اعلیٰ ہوگا اور جو مطلب ہم سمجھتے ہیں وہ غلط ہوگا.دوسرے اگر یہ جواب بے جوڑ تھا تو کیوں مکہ والوں نے اسے رد نہ کر دیا اور کیوں وہیری والا جواب انہوں نے نہ دیا.ان کا تو اپنا اعتراض تھا اور وہ اپنے اعتراض کا مطلب وہیری وغیرہ سے بہتر سمجھتے تھے.وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو بے معنی جواب ہے.مگر کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ مکہ والوں نے کہا ہو یہ جواب بے جوڑ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جو.اعتراض تھا اس کا جواب انہیں صحیح اور مسکت مل گیا تھا اسی لئے وہ خاموش ہو گئے.اب رہا یہ امر کہ اچھا پھر سوال و جواب کا مطلب کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں کفار کا سوال ایک نہ تھا بلکہ دو تھے اور ان سوالوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی قرآنی جواب کو بے جوڑ قرار دے دیا گیا ہے.ان میں سے ایک کا ذکر سورۃ نحل میں ہے اور دوسرے کا سورۃ فرقان میں.سورۃ محل کا وہ سوال نہیں جو سورۃ فرقان کا ہے اور سورۃ فرقان میں وہ نہیں جو سورۃ نحل میں ہے.چنانچہ سورۃ نحل میں یہ اعتراض نقل ہے کہ ایک عجمی شخص آپ کو سکھاتا ہے.قرآن کریم نے اس کا نام نہیں لیا مگر یہ کہا ہے کہ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ اِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ 34 کہ وہ جس کی طرف قرآن کو منسوب کرتے ہیں وہ مجھی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کسی خاص شخص کا نام لیتے تھے.پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ شخص معروف تھا اور مسلمان بھی اس شخص کا نام جانتے تھے.سورۃ فرقان کی آیت اس سے مختلف ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کسی خاص آدمی کا نام لئے بغیر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک جماعت رسول کریم ع کو سکھاتی صلى الله ہے اور رات دن آپ کے پاس رہتی ہے اور آپ بعض دوسرے لوگوں سے اس جماعت کے بتائے ہوئے واقعات کو لکھوا لیتے ہیں.یہ فرق نمایاں ہے.ایک میں ایک خاص شخص کا ذکر ہے اور دوسری میں غیر معین

Page 372

سيرة النبي عمال 362 جلد 3 جماعت کا ذکر ہے.ایک میں صرف سیکھنے کا ذکر ہے اور دوسری میں بعض لوگوں سے لکھوانے کا بھی ذکر ہے.ایک میں محض تعلیم کا ذکر ہے اور دوسری میں پہلوں کے واقعات اور خیالات کے نقل کرنے کا ذکر ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں جگہ جواب الگ الگ دیا گیا ہے.یہ فرق اتنے نمایاں ہیں کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے.الله اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے دعوی کیا تو شروع میں ہی بعض غلام آپ پر ایمان لے آئے تھے.وہ پہلے بت پرست یا عیسائی یا یہودی تھے.انہیں جب صبح و شام فرصت ملتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پہنچ جاتے اور دوسرے صحابہ کے ساتھ دین سیکھتے اور نمازیں پڑھتے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکان پر یہ اجتماع ہوتا تھا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ ایک دن اپنے گھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے کے ارادہ سے نکلے.کسی نے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمد جو صابی ہو گیا ہے اس کی خبر لینے جا رہا ہوں.اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.انہوں نے کہا کیا ہو گیا ہے؟ اس نے بتایا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں.یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر گئے اور جا کر دستک دی.اس وقت ایک صحابی ان کو قرآن پڑھا رہے تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ عمرؓ ہیں تو صحابی کو چھپا دیا گیا اور بہن اور بہنوئی سامنے ہوئے.انہوں نے پوچھا کہ کس طرح آئے ہو؟ عمر نے کہا بتاؤ تم کیا کر رہے تھے؟ میں نے سنا ہے تم بھی صابی ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا یہ غلط ہے ہم تو صابی نہیں ہوئے.عمر نے کہا میں نے تو خود تمہاری آواز سنی ہے تم کچھ پڑھ رہے تھے اور بہنوئی پر حملہ کر دیا.یہ دیکھ کر بہن آگے آگئی اور ضرب اس کے سر پر پڑی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا.اس پر انہوں نے بڑے جوش سے کہا ہم مسلمان ہو گئے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں.تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو.جب حضرت عمرؓ نے یہ حالت دیکھی تو چونکہ وہ ایک بہادر

Page 373

سيرة النبي عمال.363 جلد 3 انسان تھے اور ان کا وار ایک عورت پر پڑا جو ان کی بہن تھی اس سے انہیں سخت شرمندگی محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا کہ تم جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھاؤ.اس نے کہا تم مشرک اور ناپاک ہو پہلے جا کر نہاؤ پھر بتائیں گے.چنانچہ وہ نہائے اور رہا سہا غصہ بھی دور ہو گیا.اس کے بعد قرآن کی جو آیات پڑھ رہے تھے وہ انہیں سنائی گئیں.حضرت عمرؓ کا دل ان کو سن کر پکھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ.اس وقت وہ صحابی جن کو انہوں نے چھپایا ہوا تھا وہ بھی باہر آگئے.حضرت عمرؓ نے کہا بتاؤ تمہارا سردار کہاں ہے میں اس کے پاس جانا چاہتا ہوں.انہیں بتایا گیا کہ فلاں گھر میں مسلمان جمع ہوتے ہیں.حضرت عمر وہاں گئے.وہاں رسول کریم علیہ اور بعض صحابہ موجود تھے اور دروازہ بند تھا.جب حضرت عمرؓ نے دستک دی تو صحابہ نے پوچھا کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے صلى الله اپنا نام بتایا تو صحابہ نے ڈرتے ہوئے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا عمر آیا ہے.دروازہ کے سوراخ سے انہوں نے دیکھا کہ تلوار ان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا دروازہ کھول دو.جب عمر اندر داخل ہوئے تو رسول کریم نے ان کا کرتہ پکڑ کر کہا عمر کس نیت سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا اسلام قبول کرنے کیلئے.آپ نے فرمایا اللہ اکبر 35.یہ سن کر باقی صحابہ نے بھی زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ صحابہ کو دین سکھانے کے لئے الگ مکان میں بلا لیتے.چونکہ آپ دروازہ بند کر کے بیٹھتے تھے تا کہ کفار شرارت نہ کریں اس لئے کفار کے نزدیک اس قسم کا اجتماع بالکل عجیب بات تھی.وہ خیال کرتے تھے کہ وہاں قرآن بنایا جاتا ہے.اور چونکہ انبیاء سابق کے بعض واقعات کی طرف قرآن کریم میں اشارہ تھا وہ یہ خیال کرتے کہ مسیحی اور یہودی غلام یہ باتیں ان لوگوں کو بتاتے ہیں اور دوسرے صحابہؓ سے رسول کریم علی لکھوا لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے کہ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ صلى الله

Page 374

سيرة النبي عمر 364 جلد 3 افْتَريهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَخَرُونَ فَقَدْ جَآءُ وَ ظُلْمًا وَ زُورًا یعنی منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بنا لیا گیا ہے اور کچھ لوگ اس میں مدد دیتے ہیں مگر ان کا یہ اعتراض بالبداہت ظلم اور جھوٹ پر مبنی ہے.کیونکہ کیا مسیحی غلام ایسا کر سکتے ہیں کہ خود اپنے دین پر ہنسی کرائیں ؟ آخر انہیں اس کی کیا ضرورت ہے اور کیا فائدہ ہے کہ وہ اسی بات پر رات دن ماریں کھائیں اور گرم ریت پر گھیٹے جائیں اور ایک بے فائدہ فریب میں شامل ہوں.پس ایسے مخلص لوگوں پر یہ اعتراض کر کے ان لوگوں نے ظلم اور جھوٹ سے کام لیا ہے.یہ ناممکن ہے کہ ایسے لوگ ایسا جھوٹ بناسکیں.دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ جن کو تم پرانے قصے سمجھتے ہو وہ قصے نہیں بلکہ آئندہ کے متعلق خبریں اور پیشگوئیاں ہیں.چنانچہ فرماتا ہے قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمواتِ وَالْاَرْضِ تو کہہ دے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں سے واقف ہے.کوئی انسان ایسا کلام نہیں بنا سکتا.یہ تو غیب کی باتیں ہیں اور غیب خدا ہی جانتا ہے.اب ان جوابوں کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور مضبوط ہیں اور و ہیری کا خیال کس قدر بے معنی ہے.اگر یہاں بھی وہی اعتراض سورۃ نحل والا ہوتا تو اس کا وہی جواب کیوں نہ دیا جاتا جو وہاں دیا گیا ہے.آخر کیا وجہ تھی کہ اگر یہی سوال سورۃ نحل میں تھا تو اس کا جواب بقول و ہیری کے بیہودہ دیا جا تا.ایک شخص جو صحیح جواب جانتا ہے اور وہ جواب دے بھی چکا ہے اسے وہ جواب چھوڑ کر اور جواب دینے کی کیا ضرورت تھی.پس یہ جواب لغو نہیں بلکہ معترضین کی اپنی سمجھ ناقص ہے.اصل بات یہ ہے کہ سورۃ نحل میں یہ سوال ہی نہیں کہ کوئی اسے مضمون بنا دیتا ہے بلکہ یہ ذکر ہے کہ نادان لوگ ایک ایسے شخص کی نسبت یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محمد رسول اللہ کوسکھاتا ہے جو خود بھی تھا.یعنی اپنا مفہوم اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا تھا صرف تھوڑی سی عربی جانتا تھا.( مجھی کے یہ بھی معنی ہیں کہ جو اپنا مفہوم اچھی طرح ادا نہ کر سکے چنانچہ لغت میں یہ معنی بھی لکھے ہیں )

Page 375

سيرة النبي عمال 365 جلد 3 اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ دوسرے کا قول انسان دو طرح نقل کر سکتا ہے.ایک تو اس طرح کہ اس کا مطلب سمجھ کر اپنے الفاظ میں ادا کر دے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اس کے الفاظ رٹ کر ادا کر دے.جیسے طوطا میاں مٹھو کہتا ہے.نقل انہی دو طریق سے ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم جانتے ہو کہ جس شخص کی طرف تم یہ بات منسوب کرتے ہو وہ اپنا مطلب عربی زبان میں پوری طرح ادا نہیں کر سکتا.پس جب وہ مطلب ہی بیان نہیں کر سکتا تو وہ رسول کریم ﷺ کو مضامین کس طرح سمجھاتا ہے کہ وہ عربی میں اس کو بیان کر دیتے ہیں.یہ جواب ہے آدھے حصے کا.دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ اس کے قول کو نقل کیا جاتا.مگر یہ کس طرح ہوسکتا تھا.وہ تو عبرانی میں کہتا تھا اور اس کی بات اگر دہرائی جاتی تو عبرانی میں ہوتی.مگر قرآن تو عبرانی یا یونانی میں نہیں جس میں تو ارت یا انجیل لکھی ہوئی ہیں بلکہ عربی میں ہے.پس جب نہ وہ شخص اپنا مطلب عربی میں ادا کر سکتا ہے نہ قرآن کسی دوسری زبان کی نقل ہے تو اس کی طرف یہ کتاب کس طرح منسوب کی جاسکتی ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اُس وقت تک تو رات اور انجیل کا کوئی ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا.چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ کو عبرانی اس لئے پڑھوائی گئی کہ وہ تورات وانجیل پڑھ سکیں.دوسرا ثبوت اس کا یہ ہے کہ مفسرین دنیا بھر کے علوم کا ذکر تفسیروں میں کرتے ہیں مگر جب بائبل کا حوالہ دیتے ہیں تو بالعموم غلط دیتے ہیں.جس کی وجہ یہی تھی کہ عربی میں بائبل نہ تھی وہ سن سنا کر لکھتے اس لئے غلط ہوتا.تیسرا ثبوت یہ ہے کہ بخاری میں ورقہ بن نوفل کے متعلق لکھا ہے کہ گان يَكْتُبُ الكِتب بِالْعِبْرَانِي 36 وہ عبرانی میں تو رات لکھا کرتے تھے.گویا اُس وقت توریت اور انجیل عربی میں نہ تھی.پس یقیناً وہ غلام عبرانی یا یونانی میں انجیل پڑھتا تھا اور عربی میں اس کا مفہوم بیان نہ کر سکتا تھا.اس طرح اس اعتراض کو رد کر دیا گیا.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ جبیر نے کہا تھا کہ بَلْ هُوَ يُعَلِّمُنِی.جبیر

Page 376

سيرة النبي عمال 366 جلد 3 آخر کار مسلمان ہو گیا تھا.عبداللہ بن ابی سرح نے مرتد ہونے پر اس کا راز کفار کو بتا دیا صلى الله تھا اور وہ اسے سخت تکالیف دیتے تھے.آخر فتح مکہ پر آنحضرت علی نے روپیہ دے کر اسے آزاد کروا دیا.اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا میں نہیں سکھا تا بلکہ وہ مجھے سکھاتے تھے.آٹھواں اعتراض آٹھواں اعتراض یہ تھا کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اور اس کی طرف سے اسے کلام حاصل ہوتا ہے.اور گو کفار کا کوئی قول اس اعتراض کے متعلق نقل نہیں کیا گیا مگر اس اعتراض کے اشارے ضرور پائے جاتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيْطِيْنُ 37 شيطان اس کلام کو لے کر نہیں اترے.اسی طرح فرماتا ہے وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَنٍ رَّجِيهِ 38 یہ شیطان رجیم کا قول نہیں ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا یہ بھی اعتراض تھا کہ اس پر شیطان اترتا ہے.افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اعتراض کو اور پکا کر دیا ہے اور کفار کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے.وہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار جمع ہو کر رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے پاس ادنی درجہ کے لوگ آتے ہیں اور بڑے لوگ آپ کی باتیں نہیں سنتے.اگر آپ دین میں کچھ نرمی کر دیں تو ہم لوگ آپ کے پاس آ کر بیٹھا کریں اس طرح دوسرے لوگ بھی آپ کے پاس آنے لگیں گے.اس پر رسول کریم عیے کو خیال آیا کہ اگر ایسا کر دیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ مان لیں گے.( مجھے کیا ہی لطف آیا اس شخص کے اس فقرہ سے جس کا نام نولڈ کے ہے ) وہ لکھتا ہے ” معلوم ہوتا ہے یہ روایت بنانے والے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے جیسا ہی بیوقوف سمجھتے تھے ، غرض رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ دین میں نرمی کرنے کا خیال آیا.اتنے میں آپ نماز پڑھنے لگے اور سورۃ نجم پڑھنی شروع کی.اُس وقت شیطان ن أَفَرَيْتُمُ اللتَ وَالْعُزَّى وَمَنَوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى 39 کے بعد یہ کلمات عروس

Page 377

سيرة النبي علي 367 جلد 3 آپ کی زبان پر جاری کر دیئے کہ وَ تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرتَجی.کیا تم نے لات اور عزیٰ اور منات کی حقیقت نہیں دیکھی.یہ بہت خوبصورت دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی بڑی امید ہے.چونکہ سورۃ نجم کے صلى الله آخر میں سجدہ آتا ہے رسول کریم علیہ نے سجدہ کیا تو سب کفار نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کر دیا کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ آپ نے دین میں نرمی کر دی ہے اور بتوں کو مان لیا ہے.اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ابن حجر جیسے آدمی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے.گو تاریخی طور پر یہ روایت بالکل غلط ہے اور میں ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ محض جھوٹ ہے مگر اس وقت میں کسی تاویل میں نہیں پڑتا.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن اس کے متعلق کیا کہتا ہے اور کیا واقعہ صلى الله میں رسول کریم علی سے ایسا ہوا ؟ اس موقع پر میں ایک مسلمان بزرگ کا قول بھی بیان کرتا ہوں جو مجھے بے انتہا پسند ہے میں تو جب بھی یہ قول پڑھتا ہوں ان کیلئے دعا کرتا ہوں.یہ بزرگ قاضی عیاض ہیں.وہ فرماتے ہیں شیطان نے رسول کریم علیہ پر تو کوئی تصرف نہیں کیا البتہ بعض محدثین کے قلم سے شیطان نے یہ روایت لکھوا دی ہے.گویا اگر شیطان کا تسلط کسی پر کرانا ہی ہے تو کیوں نہ محدثین پر کرایا جائے رسول کریم ﷺ کو درمیان میں صلى کیوں لایا جائے.بعض نادان کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے سورۃ نجم پڑھتے ہوئے یہ آیتیں بھی پڑھ دیں.اس پر جبریل نازل ہوا اور اس نے کہا آپ نے یہ کیا کیا.میں تو یہ آیتیں نہیں لایا تھا یہ تو شیطان نے جاری کی ہیں.یہ معلوم کر کے رسول کریم ﷺ کو سخت فکر ہوا.خدا تعالیٰ نے اس فکر کو یہ کہ کر دور کر دیا کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ ۚ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِى

Page 378

سيرة النبي عليه 368 جلد 3 b الشَّيْطنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ أَيتِهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 40 فرمایا تم سے پہلے بھی کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں بھیجا گیا کہ جب اس کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو تو شیطان نے اس میں دخل نہ دے دیا ہو.پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی بات کو مٹا دیتا ہے اور جو اس کی اپنی طرف سے ہوتی ہے اسے قائم رکھتا ہے.کہتے ہیں جب یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو رسول کریم ﷺ کی تسلی ہو صلى الله گئی.تسلی کس طرح ہوئی ؟ اسی طرح جس طرح اس بڑھیا عورت کی ہو گئی تھی جس سے کسی نے پوچھا کہ کیا تم یہ چاہتی ہو کہ تمہارا کبڑا پن دور ہو جائے یا یہ کہ دوسری عورتیں بھی تمہاری طرح کبڑی ہو جائیں ؟ اس نے کہا مجھ پر تو دوسری عورتوں نے جس قدر ہنسی کرنی تھی کر لی ہے اب باقی عورتیں بھی کبڑی ہو جائیں تا کہ میں بھی ان پر ہنسوں.اس روایت کو درست قرار دینے والوں کے نزدیک رسول کریم مے کی کس طرح تسلی ہوئی.اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کہہ دیا کہ تم پر ہی شیطان کا قبضہ نہیں ہوا سب نبیوں پر ہوتا چلا آیا ہے.یہ سن کر رسول کریم ﷺ کا فکر دور ہو گیا.کتنی نامعقول بات ہے.ان لوگوں نے کبھی اتنا بھی نہ سوچا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان کا ہر نبی اور رسول پر قبضہ پالینا بڑی حکمت کی بات ہے اور پھر علیم کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے.میں بیان کر رہا تھا کہ ایک بزرگ کے قول سے مجھے بڑا مزہ آتا ہے ان کا نام قاضی عیاض ہے وہ اس قسم کی روایتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے یہ تو لگ گیا کہ شیطان کا تصرف ہوا مگر رسول کریم ﷺ پر نہیں بلکہ ان روایتوں کو نقل الله کرنے والوں کی قلموں پر ہوا ہے.یہ بہت ہی لطیف بات ہے.قرآن کریم نے اس کا جو جواب دیا ہے وہ اسی جگہ موجود ہے جہاں کہتے ہیں

Page 379

سيرة النبي ما 369 جلد 3 کہ شیطان نے آیتیں نازل کیں یعنی تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لتر تجی کے بعد کہتے ہیں کہ یہ آیات اتریں.اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى تِلْكَ اِذَا قِسْمَةٌ ضِيْزُى إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءُ سَمَّيْتُمُوْهَا أَنْتُمْ وَابَاؤُكُمْ مَّا أَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطن 41 - فرمایا کیا تم اپنے لئے تو بیٹے قرار دیتے ہو اور خدا کے لئے لات، منات اور عزئی بیٹیاں.یہ کس قدر بھونڈی تقسیم ہے جو تم نے کی.یہ نام تم نے اپنے طور پر رکھ لئے ہیں خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئے.خدا نے تو ان بتوں کے لئے اتارا ہی کچھ نہیں.کیا ان آیات کے بعد کوئی شخص ان فقروں کو درمیان میں شامل سمجھ سکتا پس یہ آیات ہی بتا رہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل نہیں ہو سکتے.آخر کفار عربی تو ہے؟ جانتے تھے.اس کے علاوہ مندرجہ ذیل آیتیں بھی اس حصہ کو رد کر رہی ہیں.فرمایا وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيطِيْنُ وَمَا يَنْبَغِى لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ 42.یعنی اس میں شیطانی کلام کا اس قدر رد ہے کہ اسے شیطان اتا ر ہی کس طرح سکتا ہے.پھر اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا چاہیں تو ملا ہی نہیں سکتے.کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی جو کچھ ملائیں گے بے جوڑ ہوگا جیسا کہ یہاں ہوا ہے.پھر آگے چل کر فرماتا ہے هَلْ أَتَيْتُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيْطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيْهِ يُلْقَوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُهُمْ كُذِبُونَ 43 - کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس طرح اترتے ہیں؟ شیطان کا تعلق ہر آفاک اور آنیم کے ساتھ ہوتا ہے.یعنی جو بڑا جھوٹ بولنے والا اور گنہگار ہو اس سے شیطان کا تعلق ہوتا ہے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق تو تم خود کہتے ہو کہ اس سے بڑھ کر سچا اور کوئی نہیں.اس کے امین ہونے کے بھی تم قائل ہو.پھر اس پر شیطان کا تصرف کس طرح ہو سکتا ہے.پھر فرماتا ہے اِنَّ الشَّيطِيْنَ لَيُوْحُونَ إِلَى أَوْلِيْهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ 44 کہ شیطان تو اپنی وحی شیطانوں کی

Page 380

سيرة النبي عمال 370 طرف کرتا ہے تا کہ وہ تم سے جھگڑیں ، مومنوں کی طرف نہیں کرتا.جلد 3 اب دیکھو وہ روایتیں جو بیان کی جاتی ہیں رسول کریم ﷺ پر کیسا خطرناک الزام لگاتی ہیں.شیطان تو اپنے دوست کو ہی کہے گا کہ یہ ہتھیار لے جا اور لڑ.کسی مسلمان کو وہ اپنے خلاف کس طرح بتائے گا.اسی طرح سورۃ محل رکوع 13 میں آتا ہے اِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَنُّ عَلَى الَّذِيْنَ امَنُوْا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ إِنَّمَا سُلْطَنُهُ عَلَى الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِيْنَ هُمُ بِهِ مُشْرِكُونَ 45 - یعنی شیطان کا مومنوں پر کوئی تسلط نہیں ہوسکتا جو خدا پر توکل رکھتے ہیں.شیطان کی حکومت تو انہی پر ہوتی ہے جو اس کے دوست ہوتے صلى الله ہیں اور اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں.محمد یہ تو ساری عمر شرک کا رد کرتے رہے ان سے شیطان کا کیا تعلق ہوسکتا ہے.نواں اعتراض نواں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ شخص مفتری اور کذاب ہے.ط سورۃ حق میں آتا ہے دشمنوں نے کہا هذَا سُحِرَ كَذَّابٌ 46 اسی طرح سورۃ محل میں آتا ہے قَالُوا إِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ 47 مخالف کہتے ہیں کہ تو مفتری ہے اللہ تعالیٰ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتُبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ اَمْ يَقُولُونَ افْتَرِيهُ قُلْ فَأْتُوْا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَ ادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ 48 - فرمایا ! یہ قرآن خدا کے سوا کسی اور سے بنایا ہی نہیں جا سکتا.اس کے اندر تو پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کی تصدیق ہے.پھر اس کے اندر الہامی کتابوں کی تفصیل ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں.یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے پاس سے بنالی ہے.ان سے کہو کہ تم اس جیسی کوئی ایک ہی سورۃ لے آؤ.اکیلے نہیں سب کو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم واقعہ میں سچے ہو..

Page 381

سيرة النبي علي 371 جلد 3 قرآن کریم کے متعلق پانچ دعوے اس آیت میں پانچ دعوے قرآن کریم کے متعلق پیش کئے گئے ہیں.اول یہ کہ قرآن اپنی دلیل آپ ہے اور اسے خدا کے سوا کوئی بنا ہی نہیں سکتا.اس میں ایسے امور ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں یعنی امور غیبیہ.فرماتا ہے قُل لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا الله 49 کہ آسمان اور زمین میں خدا کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا.مطلب یہ کہ قرآن میں غیب کی باتیں ہیں اور یہ خدا کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا.دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.تیسرا یہ کہ اس میں پہلی کتابوں کی تشریح ہے.چوتھا یہ کہ ہر امر کو دلیل کے ساتھ ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا.پانچواں یہ کہ قرآن خدا کی صفت رب العالمین کے ماتحت نازل ہوا ہے تا کہ اس کا فیضان سب قوموں کیلئے وسیع ہو.فرماتا ہے اگر قرآن افترا ہے تو ان پانچ صفات والی کوئی سورۃ پیش کرو.اگر ان صفات والی سورۃ لے آؤ گے تو ہم مان لیں گے کہ انسان ایسی کتاب بنا سکتا ہے.لیکن اگر تم سارے مل کر بھی نہ بنا سکو تو معلوم ہوا کہ ایسی کتاب کوئی انسان نہیں بنا سکتا.اس سے معلوم ہوا کہ جس سورۃ (یونس ) میں یہ دعوے کئے گئے ہیں اس سے پہلے جس قدر قرآن اتر چکا تھا اس میں یہ پانچ باتیں پائی جاتی تھیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا قرآن کے اس حصہ میں یہ پانچوں باتیں ہیں؟ اگر ہیں تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن میں وہ باتیں ہیں جو خدا کے سوا کوئی نہیں علم غیب جانتا.یعنی قرآن میں علم غیب ہے.اس کے لئے جب ہم قرآن کریم

Page 382

سيرة النبي عمال 372 جلد 3 کو دیکھتے ہیں تو اس کی نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ایک سورۃ کوثر ہے جو ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ 50.رسول کریم ﷺ کے متعلق دشمن کہا کرتا کہ یہ ابتر ہے، اس کی کوئی نرینہ اولا د نہیں ، اس کے بعد اس کا جانشین کون بنے گا.اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتا ہے کہ تو ابتر نہیں بلکہ تیرا دشمن ابتر ہے.رسول کریم ہے کس طرح ابتر نہیں اور آپ کا دشمن کس طرح ابتر ہے؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیرے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ ہم تجھے ایک عظیم الشان جماعت دیں گے جو روحانی طور پر تیری فرزند ہوگی اور اس میں بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے انسان ہوں گے.پھر فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ.اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اس خوشی میں خوب نمازیں پڑھ ، دعائیں کر اور قربانیاں کر.پھر جب ہم تیری جماعت کو اور بڑھانے لگیں تو تو اور عبادت کر اور قربانیاں کر کیونکہ ہم تیری روحانی نسل کو بڑھانے والے ہیں.اور یہ روحانی نسل اس طرح بڑھے گی کہ ابوجہل کا بیٹا چھینیں گے اور تجھے دے دیں گے.وہ ابتر ہو جائے گا اور تو اولاد والا ہوگا.یہی حال دوسروں کا ہوگا.ان کے بیٹے چھین چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کے بیٹے رسول کریم ع کو دیئے گئے اور وہ روحانی لحاظ سے ابتر ہو گئے.یہی وجہ تھی کہ جوں جوں رسول کریم ﷺ کو کامیابی ہوتی گئی کفار زیادہ تکلیفیں دیتے گئے.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا جو سورۃ کوثر میں بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ انبیاء رکوع 4 میں ذکر کیا ہے.فرماتا ہے أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغُلِبُونَ 51 - فرمایا کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ ہم ان کے ملک کو اس کے کناروں کی طرف سے چھوٹا کرتے جارہے ہیں اور ہر روز ان کی اولا دیں محمد رسول اللہ ﷺ کو دے رہے ہیں.کیا اس

Page 383

سيرة النبي عمال 373 جلد 3 سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ غالب آئیں گے.وہ غالب کس طرح آ سکتے ہیں جب کہ ہم ان کے جگر گوشے کاٹ کاٹ کر تیرے حوالے کرتے جا رہے ہیں.اور انہی ابتر کہنے والوں کے بچے اور عزیز اسلام میں داخل ہو کر اس کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں اور کفار کو بے اولاد اور آنحضرت ﷺ کو با اولا د ثابت کر رہے ہیں.چنانچہ مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں کے جو بیٹے اور بھتیجے رسول کریم علیہ کو دیئے گئے ان میں حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت ابو عبیدۃ، حضرت ارقم بن ابی ارقم ، حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت سعید بن زید تھے یہ لوگ ابتدا میں ہی ایمان لے آئے تھے.اور وہ رؤ سا جو رسول کریم ع کو دکھ دینے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے یہ ان کے بیٹے اور بھانجے اور بھتیجے تھے.ان کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے کفار کو اور زیادہ غصہ آتا کہ یہ اپنے باپ دادا کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تائید کرتے ہیں.حضرت عثمان بن مظعون، ولید بن مغیرہ کے عزیز تھے اور اس نے ان کو پناہ دی ہوئی تھی.حضرت عثمان ایک دن باہر جارہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان پر سخت ظلم کیا جا رہا ہے مگر آپ کو کسی نے کچھ نہ کہا.انہوں نے ولید کے پاس جا کر کہا کہ میں اب آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو اس طرح دکھ دیا جائے اور میں آپ کی پناہ میں محفوظ رہوں.اللہ تعالٰی مومن کے ایمان کی آزمائش کرتا ہے.ادھر انہوں نے پناہ ترک کی اور ادھر یہ حادثہ پیش آ گیا کہ لبید جو ایک بہت بڑے شاعر تھے ایک مجلس میں شعر سنا رہے تھے کہ ایک شعر انہوں نے پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر چیز خدا کے سوا تباہ ہونے والی ہے اور ہر نعمت آخر میں زائل ہونے والی ہے.جب لبید نے پہلا مصرع پڑھا تو حضرت عثمان نے کہا ٹھیک ہے.اس پر لبید نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا کہ ایک بچہ میرے کلام کی داد دے رہا ہے.اسے اس نے اپنی ہتک سمجھا اور کہا اے مکہ والو !

Page 384

سيرة النبي علي 374 جلد 3 پہلے تو تم میں ایسے بد تہذیب لوگ نہ تھے اب تمہیں کیا ہو گیا ہے.انہوں نے کہا یہ بے وقوف بچہ ہے اسے جانے دیں.حالانکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے قرآن سنا ہوا تھا اور اب ان کے نزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں رہ گئی تھی.بلکہ خود لبید نے مسلمان ہونے پر یہی طریق اختیار کیا.حضرت عمر نے ایک دفعہ اپنے ایک گورنر کو کہلا بھیجا کہ مجھے بعض مشہور شعراء کا تازہ کلام بھیجو اؤ.جب ان سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات لکھ کر بھیج دیں.جب لبید نے دوسرا مصرع پڑھا اور کہا کہ ہر نعمت زائل ہونے والی ہے تو عثمان نے کہا یہ غلط ہے.جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوں گی.یہ سن کر اسے طیش آ گیا اور اس نے اہل مجلس سے کہا کہ تم نے میری بڑی ہتک کرائی ہے.اس پر ایک شخص نے عثمان کو برا بھلا کہا اور اس زور سے مکا مارا کہ ان کی ایک آنکھ نکل گئی.ولید کھڑا دیکھ رہا تھا.اس نے کہا دیکھا! میری پناہ میں سے نکلنے کا یہ نتیجہ ہوا.اب بھی پناہ میں آ جاؤ.حضرت عثمان نے کہا پناہ کیسی میری تو دوسری آنکھ بھی انتظار کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلے 52.ان کے فوت ہونے پر رسول کریم ﷺ نے انہیں بوسہ دیا اور آپ کی آنکھوں سے اُس وقت آنسو جاری تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہوا تو آپ نے فرمایا الْحِقُ بِسَلْفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَطْعُونِ 53 یعنی ہمارے صالح الله عزیز عثمان بن مظعون کی صحبت میں جا.پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب دوسرا دھوئی قرآن کریم کے متعلق یہ کیا گیا ہے کہ یہ پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے.چنانچہ استثناء باب 18 آیت 15 میں آتا ہے:.خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا 54.

Page 385

سيرة النبي علي 375 جلد 3 اس میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ نبی جو آنے والا ہے وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے ہوگا گویا وہ اولا دابراہیم علیہ السلام میں سے ہی ہوگا نہ کہ کسی غیر قوم سے.پھر اس کی علامت یہ بتائی کہ:.” جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقعہ نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی 55.اب دیکھو قرآن کی باتیں کیسی پوری ہوئیں اور اس کی بیان کردہ پیشگوئیاں کس صلى اللهم طرح کچی نکلیں.کفار نے جب رسول کریم ﷺ کے متعلق کہا کہ اس کی اولاد نہیں تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہم اسے اولاد دیں گے اور ابتر کہنے والوں کی اولاد ہی چھین کر دے دیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی.حضرت مسیح نے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے سے انکار کیا ہے.چنانچہ یوحنا باب 1 آیت 21 میں لکھا ہے:.انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں.کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں.“ اسی طرح اعمال باب 3 میں لکھا ہے کہ وہ نبی مسیح کی بعثت ثانی سے پہلے اور بعثت اول کے بعد ظاہر ہوگا.بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ:.سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے باتیں کیں ان سب نے ان 66 صلى دنوں کی خبر دی ہے 56.یہ پیشگوئی رسول کریم ﷺ کے ذریعہ پوری ہوئی.کیونکہ آپ ان کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے.اسی طرح یسعیاہ آنے والے نبی کی خبر دیتے ہوئے کہتے ہیں :.تب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو

Page 386

سيرة النبي علي 376 ایک نئے نام سے کہلائے گا جسے خداوند کا مونہہ خود رکھ دے گا 57.جلد 3 سوائے اسلام کے دنیا میں کوئی مذہب نہیں جس کا نام خدا تعالیٰ نے رکھا ہو.چنانچہ اسلام کے متعلق ہی فرمایا ہے وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ، دوسری پیشگوئی بھی اسی کے ساتھ لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ :.58 " تو آگے کو متروکہ نہ کہلائے گی اور تیری سرزمین کا کبھی پھر خرابہ نام نہ ہوگا بلکہ 66 تو حفیضیاہ کہلائے گی‘ 59.یہ پیشگوئی بھی اسلام کے متعلق ہی ہے.چنانچہ مکہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ دَخَلَهُ كَانَ مِنَّا 60 جو اس میں داخل ہو وہ امن میں آجاتا ہے.پھر حضرت مسیح کہتے ہیں :.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا 61.اب دیکھو اس میں کتنی علامتیں رسول کریم ﷺ کی بیان کی گئی ہیں :.اول یہ کہ آنے والا نبی ایسی تعلیم دے گا جو مسیح تک کسی نے نہیں دی.گویا وہ سب سے بڑھ کر تعلیم دے گا.(2) وہ ساری باتیں کہے گا یعنی کامل تعلیم دے گا اور اس کے بعد اور کوئی اس سے بڑھ کر تعلیم نہیں لائے گا.( 3 ) وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا بلکہ کلام اللہ لائے گا.(4) اس کلام اللہ میں آئندہ کی خبریں ہوں گی.(5) وہ کلام مجھے ( یعنی مسیح ) پر دشمنوں کے عائد کردہ الزامات کو دور کرے گا.یہ سب باتیں رسول کریم ﷺ پر صادق آتی ہیں.پہلی بات حضرت مسیح نے

Page 387

سيرة النبي علي 377 جلد 3 یہ فرمائی تھی کہ وہ نبی ایسی تعلیم لائے گا جو پہلے کوئی نہیں لایا.قرآن کریم اس کے متعلق فرماتا ہے عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ 62 یعنی قرآن کریم کے ذریعہ وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں جو کسی اور کو معلوم نہیں.دوسری بات حضرت مسیح نے یہ بیان کی تھی کہ وہ ساری باتیں بتائے گا.قرآن کریم میں اس کے متعلق آتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ 63 آج سارا دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے.پھر سورۃ کہف رکوع 8 میں آتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ 64 ہم نے اس قرآن میں ہر ضروری بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کر دیا ہے.تیسری بات حضرت مسیح نے یہ بتائی تھی کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ خدا تعالیٰ اسے جو کچھ بتائے گا اسے پیش کرے گا.قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ إِلَّا وَخى تولى 65 - یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خدا ہی کا کلام پیش کرتا ہے.باقی سب کتابوں میں انبیاء کی اپنی باتیں بھی ہیں صرف قرآن ہی ایک ایسا کلام ہے جو سارے کا سارا خدا کا کلام ہے.پانچویں بات حضرت مسیح نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نبی ان الزامات کو دور کرے گا جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں.اس کے متعلق سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح کو نعوذ باللہ ولد الزنا کہا گیا تھا اور لعنتی قرار دیا گیا تھا قرآن نے ان الزامات کی پوری تردید کی.کتب سماویہ کی تفصیل اب میں تیسری بات بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کتب سماویہ کی تشریح اور تفصیل بیان کرنے والا ہے.اس میں علوم روحانیہ کو کھول کر بیان کیا گیا ہے اور انہیں کمال تک پہنچایا گیا ہے.میں اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں.تو رات میں لکھا تھا:.تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان ، آنکھ کا بدلہ آنکھ ، دانت کا بدلہ دانت، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پاؤں کا بدلہ پاؤں ہو گا 66 اور انجیل میں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ :.

Page 388

سيرة النبي علي 378 جلد 3 تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کر نہ لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے.اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لے جائے اس کے ساتھ دوکوس چلا جا 67.مگر قرآن کریم نے کہا ہے وَجَزْؤُا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا ط وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ 68 - یعنی شرارت کے مطابق بدی کا بدلہ لے لینا تو جائز ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس میں دوسرے کی اصلاح مدنظر رکھے اللہ تعالیٰ اسے خود اجر دے گا.اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.تو رات نے ایک حصہ تو بیان کیا تھا اور دوسرا چھوڑ دیا تھا اور انجیل نے دوسرا حصہ بیان کیا اور پہلا حصہ چھوڑ دیا.قرآن کریم نے اس تعلیم کو مکمل کر دیا.فرمایا بدی کا بدلہ لے لینا جائز ہے لیکن جو شخص معاف کر دے ایسی صورت میں کہ بدی نہ بڑھے اس کا اجر اللہ پر ہے.ہاں جو ایسے طور پر معاف کرے کہ معافی دینے پر ظلم بڑھ جائے تو اس سے خدا ناراض ہوگا کیونکہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.صدقہ و خیرات اور مرد وعورت کے تعلقات کے متعلق تفصیلی احکام گزشتہ سال کے مضمون میں بیان کر چکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ پہلی کتب میں ان امور کے متعلق صرف مختصر احکام دیئے گئے ہیں مگر قرآن کریم نے ہر ایک حکم کی غرض اور اس کے استعمال کی حدود وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں.قرآن کریم کی چوتھی خصوصیت یہ بیان کی دلائل و براہین سے مزین کلام کہ لَا رَيْبَ فِيهِ 69 ہر ایک امر کو دلیل سے بیان کرتا ہے اور شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا.شک ہمیشہ ابہام سے پیدا ہوتا ہے مگر قرآن کریم کے دعوؤں کی بنیاد مشاہدہ پر ہے.قرآن میں ہستی باری تعالیٰ ، ملائکہ، دعا،

Page 389

سيرة النبي علي 379 جلد 3 نبوت، انبیاء کی ضرورت، قضا و قدر، حشر و نشر ، جنت و دوزخ ، نماز و روزہ، حج و زکوۃ اور معاملات وغیرہ کے متعلق دلائل بیان کئے گئے ہیں یونہی دعوے نہیں کئے گئے.مثلاً جنت کے متعلق آتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ 70 ہم یہ نہیں کہتے کہ مرنے کے بعد تمہیں جنت ملے گی اور تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد کیا معلوم جنت ملے گی یا نہیں.قرآن اسی دنیا میں جنت کا ثبوت پیش کرتا ہے اور مومنوں کو اسی دنیا میں جنت حاصل ہو جاتی ہے.اس کا ثبوت یہ دیا کہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ 71 یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہیں ان پر فرشتے اترتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ تم غم نہ کرو تم کو جنت کی بشارت ہو.گویا اسی دنیا میں انہیں خدا سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے اور جب خدا کا کلام مل گیا تو ریب کہاں رہ گیا.قرآن کریم کے ذریعہ صفت رَبُّ الْعَالَمِینَ کا ظہور پانچویں بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم کا اس حالت میں نزول ہوا کہ اس سے رَبُّ الْعَالَمِینَ کی صفت کا ظہور ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں ہر فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے.بعض انسانوں میں غصہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انہیں عفو کی طرف توجہ دلائی جائے.بعض میں دیوٹی اور بے غیرتی ہوتی ہے انہیں غیرت کی تعلیم دی گئی.انجیل نے اس کا خیال نہیں رکھا.اس نے ہر حال میں عفو کی تعلیم دی ہے اور تورات نے عفو کا خیال نہیں رکھا ہر حالت میں سزا دینے پر زور دیا ہے.مگر قرآن نے دونوں قسم کے لوگوں کا خیال رکھا ہے.پھر ہر زمانہ کا خیال رکھا ہے اور تمام دنیا کو دعوت دی ہے.چنانچہ فرمایا قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا 72.کہہ دے اے لوگو! میں سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.

Page 390

سيرة النبي عمال 380 جلد 3 پس قرآن کریم سے پہلی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے ساری دنیا کو دعوت دی ہو.انہوں نے دوسری قوموں کیلئے رستے بند کر دیے.حضرت مسیح کا انجیل میں یہ قول میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں موجود ہے کہ:.بھیجا گیا ، 73.اور یہ کہ:.لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں 74.گویا مسیح نے بنی اسرائیل کے سوا کسی اور کو ہدایت دینے سے انکار کر دیا.مگر قرآن میں سب قوموں کے ماننے کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان جمع کر دیئے.مثلاً (1) سارے نبیوں کی تصدیق کی.اس سے سب کے دلوں میں بشاشت پیدا کر دی.لیکن اگر کوئی ہندو عیسائی ہو تو اسے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بدھ اور کرشن جھوٹے ہیں.اور اگر کوئی عیسائی ہندو ہو تو اسے حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کو جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے.مگر کتنی خوبی کی بات ہے کہ قرآن نے کہہ دیا اِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ 75 ہم نے اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم) تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ہماری طرف سے نذیر نہ بھیجا گیا ہو.اس بنا پر رسول کریم ﷺ نے تمام اقوام سے کہہ دیا کہ مجھے قبول کر کے تمہیں اپنے بزرگوں کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں.وہ بھی سچے تھے.ہاں ان میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ ان کی تعلیم اُس زمانہ کے لئے مکمل تھی جس میں وہ آئے لیکن میں جو تعلیم لایا ہوں یہ ہر زمانہ کے لئے مکمل ہے.دوسری دلیل رسول کریم ﷺ کے مفتری نہ مفتری ہمیشہ نا کام ہوتا ہے ہونے کی قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ مفتریوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے اولیكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِيْنَ فِي

Page 391

سيرة النبي علي 381 جلد 3 الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اَوْلِيَاء ُ يُضْعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ أُولَبِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُونَ 76 - یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی جھوٹ پیش کرتا ہے حالانکہ اس قسم کا جھوٹ بنانے والے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں اور وہ عذاب سے ہر گز بچ نہیں سکتے.ان کا عذاب لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جاتا ہے اور وہ سچی بات سننے کی بھی طاقت نہیں رکھتے کجا یہ کہ وہ سچی باتیں خود بنا سکیں.وہ عذاب سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں.اور جب دنیا میں ان کا یہ حال ہوتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا.صلى الله اس میں بتایا کہ مفتریوں کی تو یہ علامت ہوتی ہے کہ ان پر عذاب نازل ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ ﷺ پر تو کوئی عذاب نہیں آیا بلکہ خدا نے اس کی مدد کی ہے.دوسری علامت مفتری کی یہ ہوتی ہے کہ اس کا عذاب بڑھتا جاتا ہے مگر اس رسول کی تو ہر گھڑی پہلی سے اچھی ہے.(3) پھر مفتری کو اپنی تعلیم بدلنی پڑتی ہے مگر کیا اس نے بھی کبھی قرآن کی کوئی بات بدلی.پھر یہ مفتری کس طرح ہو سکتا ہے.وَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی کا صحیح مفہوم دوسرا الزام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ لگایا گیا ہے کہ آپ نعوذ باللہ نبوت سے پہلے ضال تھے اور بعد میں بھی گناہ آپ سے سرزد ہوتے رہے.ان الزامات کی بنا خود قرآن کریم ہی کی بعض آیات کو قرار دیا گیا ہے.ضال کے متعلق تو یہ آیت پیش کی جاتی ہے کہ وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى 77 ہم نے تجھے ضال پایا پھر ہدایت دی.اس کا جواب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے ضلالت کی کلی طور پر نفی کر دی ہے.فرماتا ہے وَالنَّجْمِ

Page 392

سيرة النبي علي 382 جلد 3 إِذَا هَوَى مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوَی 78 ہم نجم کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.مجھم اس بوٹی کو کہتے ہیں جس کی جڑ نہ ہو.فرمایا ہم اس بوٹی کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی جڑ نہیں ہوتی جب کہ وہ گر جاتی ہے.یعنی وہ جتنا اونچا ہونا چاہتی ہے اسی قدر گرتی ہے.اس شہادت سے تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا یہ صاحب کبھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ راستہ سے دور ہوا.ضَل ظاہری گمراہی کے لئے آتا ہے اور اغوى باطنی فساد کے لئے جو فساد اعتقاد سے پیدا ہو.فرمایا جو بے جڑ کی بوٹی ہواس پر تو جتنے زیادہ دن گزریں اس میں کمزوری آتی جاتی ہے.اگر محمد رسول اللہ علیہ کا خدا سے تعلق نہ ہوتا تو اس کی جڑ مضبوط نہ ہوتی اور یہ کمزور ہوتا جاتا اور خرابی پیدا ہو جاتی.مگر تم دیکھتے ہو کہ جوں جوں دن گزر رہے ہیں اسے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل ہو رہی ہے اور یہ دن رات ظاہری اور باطنی طور پر ترقی حاصل کر رہا ہے.اگر ضلالت اس کے اندر ہوتی تو اس پر ضلالت والا کلام نازل ہوتا.مگر اس پر جو کلام نازل ہوا ہے اسے دیکھو کیا اس میں کوئی بھی ہوائے نفس کا نشان ملتا ہے؟ اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا.لیکن اس کا کلام تو پُر شوکت اور قادرانہ کلام پر مشتمل ہے.شیطانی تعلقات والا انسان دنیا پر تصرف کیسے حاصل کر سکتا ہے.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ ضحی میں بیان کیا ہے فرماتا ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لكَ مِنَ الأولى 79 تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہے.اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہاں تو کہا کہ تیری ہر پچھلی گھڑی پہلی گھڑی سے اچھی ہوتی ہے لیکن اسی سورۃ میں کہہ دیا کہ تو گمراہ تھا.آیا پچھلی گھڑی کا پہلی سے اچھی ہونا ضلالت کی دلیل ہوتا ہے؟ سورۃ ابراہیم رکوع 4 میں آتا ہے اَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيْبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ 80 کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کیسی باتیں بیان کرتا ہے.پاک کلمہ کی مثال ایک پاک درخت کی سی ہوتی

Page 393

سيرة النبي علي 383 جلد 3 ہے جس کی جڑ میں بڑی مضبوطی ہوتی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں.اسی طرح صادق کی علامت یہ ہے کہ اس کی تعلیم ترقی کرتی ہے اور اس کی جماعت بڑھتی جاتی ہے.اب یہ رسول جو دن رات ترقی کر رہا ہے اگر ضلالت پر ہوتا تو جتنی زیادہ تعلیم بناتا اسی قدر زیادہ نقص ہوتے.مگر اس کے کلام کی زیادتی تو اس کی 82 تعلیم کومکمل بنا رہی ہے.پھر بتایا اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا.مگر اس کا کلام تو ایسا ہے کہ وہ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوْحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى 81 = اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ اس کا پیش کردہ کلام صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے اور اس کو یہ کلام بڑی قوتوں والے خدا نے سکھایا ہے.ایک اور آیت بھی اس امر کو حل کرتی ہے.سورۃ بنی اسرائیل رکوع 8 میں آتا ہے وَ اِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِى أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِى عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذَا لَا تَخَذُوكَ خَلِيْلًا 22 فرمایا قریب تھا کہ کہ لوگ تجھے عذاب میں مبتلا کر دیں.عام طور پر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ رسول کو پھسلا لیں مگر وہ رسول کریم ﷺ کو کہاں پھسلا سکتے تھے.اس کے تو یہ معنی ہیں کہ قریب ہے کہ یہ لوگ تجھے سخت عذاب دیں اس کلام کی وجہ سے جو تجھ پر وحی کیا گیا ہے تا کہ تو اس سے گھبرا کر کچھ تبدیلی کر لے.اور اگر ایسا ہو تو یہ ضرور تجھے دوست بنا لیں.لیکن ان کا خیال ایک جنون ہے وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا 83 اگر ہم نے قرآن نہ بھی نازل کیا ہوتا تو بھی تیری فطرت ایسی پاک ہے کہ یہ بات تو بڑی ہے.تیری ان سے مشابہت پھر بھی معمولی سی ہوتی.مگر اب تو تجھے وحی الہی نے ایک صحیح راستہ دکھا دیا ہے اب ان کی یہ خواہش کس طرح پوری ہوسکتی ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ پھر وَوَجَدَكَ ضَائًا فَهَدی کا کیا مطلب ہوا.سواس

Page 394

سيرة النبي عليه 384 جلد 3 کا جواب خود اسی سورۃ میں موجود ہے.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک زبردست دلیل دی گئی ہے.فرماتا ہے وَالضُّحَى وَالَّيْلِ إِذَا سَجى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلی 84.اے دنیا کے لوگوسنو ! عین دو پہر کے وقت کو اور رات کو جب وہ خوب ساکن ہو جاتی ہے اور اس کی تاریکی چاروں طرف پھیل جاتی ہے ہم اس بات کی شہادت میں پیش کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا اور نہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ہم کبھی ناراض ہوئے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ دو پہر اور آدھی رات اس بات کی کس طرح دلیل ہیں کہ محمد اللہ سے خدا کبھی ناراض نہیں ہوا اور نہ اس نے آپ کو چھوڑا.یہ ظاہر ہے کہ یہاں ظاہری دن رات مراد نہیں بلکہ مجازی دن رات مراد ہیں.اور یہ محاورہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے کہ رات اور دن سے خوشی اور رنج اور ہوش اور غفلت کا زمانہ مراد لیا جاتا ہے.رات تاریکی ، مصیبت اور جہالت کو کہتے ہیں اور دن ترقی ، روشنی اور علم کے زمانہ کو کہتے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تیری عمر کی ان گھڑیوں کو بھی پیش کرتے ہیں جو خوشی کی تھیں اور ان کو بھی پیش کرتے ہیں جو رنج کی تھیں اور تیرے ہوش کے زمانہ کو بھی اور بچپن کے زمانہ کو بھی جو جہالت کا زمانہ ہوتا ہے.پھر اس زمانہ کو بھی جو نبوت سے پہلے کا تھا اور اسے بھی جب نبوت کا سورج طلوع ہو کر نصف النہار پر آ گیا.تجھ پر وہ زمانہ بھی آیا جب کہ تو دایہ کی گود میں تھا.پھر وہ زمانہ بھی آیا جو شباب کی تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ زمانہ بھی آیا جب جذبات سرد ہو جاتے ہیں.پھر وہ زمانہ بھی آیا جب کہ ہر طرف تیرے دشمن ہی دشمن تھے اور تیرے لئے دن بھی رات تھا.پھر وہ زمانہ آیا جب ساری قوم تجھے امین اور صادق کہتی تھی.ان سب زمانوں کو دیکھ لو.کیا کوئی وقت بھی ایسا آیا ہے جب خدا تعالیٰ نے تیری نصرت سے ہاتھ روکا ہو؟ اس کی ناراضگی کسی رنگ میں تجھ پر ظاہر ہوئی ہو؟ بعض لوگ آرام اور عزت حاصل ہونے پر بگڑ جاتے ہیں.مگر تجھے جب امن ہوا، امیر بیوی ملی ، تیری قوم

Page 395

سيرة النبي عمال 385 جلد 3 نے تیری عزت کی ، اُس وقت بھی تو نے اچھے کام کئے.پھر وہ زمانہ آیا کہ خدا نے اپنا کلام تجھ پر اتارا تب بھی تو فرمانبردار رہا.گویا تیری ہر آنے والی گھڑی پہلی سے اعلیٰ اور بہتر رہی ہے اور خدا کی تائید اور اس کی پسندیدگی بڑھتی چلی گئی.اب دیکھو رسول کریم ﷺ کی صداقت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے.عجیب بات ہے خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس کی ساری زندگی بچپن سے لے کر آخر تک دیکھ لو.ایک لمحہ بھی اس کے لئے گمراہی کا نہیں آیا اور خدا تعالیٰ نے اسے نہیں چھوڑا.مگر نادان مخالف کہتے ہیں کہ آپ گمراہ تھے.اگر یہی گمراہی ہے تو ساری ہدایت اس پر قربان کی جاسکتی ہے.پھر فرماتا ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى.تیرا ہر قدم ترقی کی طرف چلتا گیا.بچپن میں انسان بے گناہ ہوتا ہے.اگر نعوذ باللہ رسول کریم علی بڑے ہو کر گمراہ ہو گئے تو آخرت اولی سے بہتر نہ ہوئی.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری ہر اگلی گھڑی پہلے سے اچھی تھی اور جب ہر ا گلی گھڑی اچھی تھی تو ضلالت کہاں سے آ گئی.پھر فرماتا ہے وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضُى 85.عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے ایسے انعام دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا.اس کے متعلق ہم قرآن کریم سے دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی وہ کونسی خواہش تھی جس کے پورا ہونے سے آپ خوش ہو سکتے ا تھے.سورۃ کہف رکوع 1 میں آتا ہے فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا 86 - اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کر رہا ہے کہ لوگ ہمارے کلام پر ایمان کیوں نہیں لاتے.یہ خواہش تھی رسول کریم ﷺ کی کہ آپ کی قوم خدا تعالیٰ کے کلام کو مان لے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى تو نے دیکھا ہے کہ تیری ہر گھڑی کو ہم نے پہلی سے اچھا رکھا پھر کیا تمہاری یہ بات ہم رد کر دیں گے کہ تیری قوم ہدایت پا جائے.ہمیں اس خواہش کا بھی علم ہے اور اسے بھی ہم پورا کر دیں گے.پھر فرمایا اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوى 87.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم)

Page 396

سيرة النبي عمال 386 جلد 3 یتیم تھا جب پیدا ہوا.اس یتیمی کے وقت سے خدا نے تم کو اپنی گود میں لے لیا.گویا کوئی وقت خدا کی گود سے باہر آپ پر آیا ہی نہیں.اوی کے معنی ہیں قرب میں جگہ دی.فرمایا اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوى کیا خدا نے تم کو یتیم پا کر اپنے پاس جگہ نہیں دی؟ وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی اب اس کے معنی اگر یہ کئے جائیں کہ تجھے گمراہ پایا پھر ہدایت دی تو یہ معنی یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے.پس اس کے یہی معنی ہیں کہ ہم نے تجھ میں محبت کی تڑپ دیکھی اور دنیا کی ہدایت کا سامان دے دیا.ان معنوں کی تائید ایک اور آیت سے بھی ہوتی ہے.جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے تو انہیں گھر والوں نے کہا تَاللهِ اِنَّكَ لَفِي ضَلَلِكَ الْقَدِيمِ 88 یوسف کی پرانی محبت تیرے دل سے نکلتی ہی نہیں.تو ابھی تک اسی پرانی محبت میں گرفتار ہے.وہ لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کو گمراہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ یوسف علیہ السلام کی محبت میں کھویا ہوا سمجھتے تھے.اس لئے ضلال کا لفظ انہوں نے شدت محبت کے متعلق استعمال کیا.پس وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَی کے یہ معنی ہیں کہ جب تو جوان ہوا اور تیرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خدا سے ملے بغیر میں آرام نہیں پا سکتا تو ہم نے تجھے فوراً آواز دی کہ آجا میں موجود ہوں.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) تجھے معلوم ہے کہ جب ہم نے ہدایت دی تو وہ تیرے نفس کے لئے ہی نہ تھی بلکہ ساری دنیا کیلئے تھی.پس لوگ تیرے پاس آئے اور مختلف طبائع کے لوگ آئے.پھر ہم نے ان کی کفالت کیلئے قرآن کے ذریعہ تجھے وہ رزق دیا جو ہر فطرت کے انسان کیلئے کافی تھا.پس وَوَجَدَكَ عَابِلًا فَأَغْنى 89 اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے کثیر العیال پایا اور اپنے فضل سے غنی کر دیا.فَاما الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ 90 پس اب تو بھی ان پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا کہ ان کی طاقتیں کچلی جائیں نہ اتنی رعایت کرنا کہ بگڑ جائیں.اس آیت میں ضال کے مقابل پر سائل رکھا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہاں بھی ضال

Page 397

سيرة النبي علي 387 جلد 3 سے مراد خدا کی محبت کے طلبگار کے ہیں.بہر حال فرمایا کہ جب کوئی تمہارے پاس ہدایت حاصل کرنے کیلئے آئے تو انکار نہ کرنا بلکہ وہ ہدایت جو ہم نے تجھے دی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچانا.ضال کے جو معنی میں نے اس وقت کئے ہیں اس کے خلاف کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی.ہم نے تجھے نال پایا اور اس کے نتیجہ میں ہدایت دی.اور دوسری طرف فرماتا ہے وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفُسِقِینَ 91 کہ فسق کے نتیجہ میں کبھی ہدایت نہیں ملا کرتی.پھر ضال کے معنی گمراہ کس طرح کئے جا سکتے ہیں.b پھر فرماتا ہے وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْ مِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أوتِ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِيْنَ أَجْرَمُوا صَغَارُ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ 92.جب ان کے پاس کوئی نشان آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اسے نہیں مان سکتے جب تک ہمیں ویسا ہی کلام نہ ملے جو رسولوں کو ملا.اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے.یہ گنہ گار لوگ ہیں ان کو تو ذلت ہی ملے گی.اس آیت میں صاف طور پر بتا دیا کہ گناہ کے نتیجہ میں ذلت حاصل ہوتی ہے نہ کہ ہدایت.ذَنب اور استغفار کی حقیقت پھر یہ جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نعوذ باللہ گنہگار تھے اس کے لئے ذنب اور استغفار کے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں.لیکن عام طور پر لوگوں نے اس کے معنی نہیں سمجھے.استغفار کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ جو مشکلات کسی کے رستہ میں حائل ہوں ان کو ڈھانپ دیا جائے.اسی طرح ذنب کے معنی گناہ کے بھی ہوتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کے بھی.پس غفر کے معنی ڈھانکنے اور ذنب کے معنی زوائد کے ہیں.جب رسول کریم ﷺ کے متعلق استغفار کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد آپ کے رستہ کی

Page 398

سيرة النبي علي 388 جلد 3 مشکلات کا دور ہونا ہوتا ہے اور جہاں ذنب کا لفظ آتا ہے وہاں زوائد کا دور کیا جانا مراد ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لو سورۃ نساء رکوع 16 میں پہلے جنگ کا ذکر ہے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيْبًا وَ اسْتَغْفِرِ الله 93 اے محمد رسول اللہ جب ہم حکومت دیں گے تو کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دین کی باتوں میں خیانت سے کام لیں گے اور کجی کا راستہ اختیار کریں گے ان سے لڑنے کی طرف توجہ نہ کرنا بلکہ بجائے اس کے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنا کہ ان کی یہ کمزوری دور ہو جائے.(2) سورۃ مومن رکوع 6 میں بھی پہلے إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا 94 فرما کر نصرت کا ذکر کیا ہے اور پھر واسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ 95 میں استغفار اور تسبیح کا حکم دیا ہے.سورۃ محمد رکوع 2 میں بھی پہلے ساعت کے آنے کا ذکر ہے یعنی فتح کا اور پھر وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ فرماتا ہے.(4) سورۃ نصر میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے.اور پھر آتا ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ 96 (5) سورۃ فتح میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے اور پھر غفر کا.فرمایا اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَرَ جو ان سب حوالوں میں فتح کے ساتھ ذنب یا استغفار کا ذکر ہے.یعنی یا تو فتح کے وعدہ کے بعد یا فتح کے ذکر کے بعد.چار جگہوں میں تو فتح کے وعدہ کے ساتھ استغفار کا ذکر کیا ہے اور ایک جگہ فتح مبین کا ذکر ہے اور وہاں نِیغْفِر کہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تیری دعاسنی گئی اور ہم نے عام فتوحات کی بجائے تجھے فتح مبین عطا کی ہے تا کہ تیرے ذنب بخشے جائیں.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کسی کو فتح ونصرت کا ملنا کیا گناہ ہے اور ہر جگہ فتح کے ساتھ یہ الفاظ کیوں آئے ہیں ؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ استغفار اور ذنب کسی اور قسم کا ہے.اگر گناہ مراد تھا تو چاہئے تھا کہ کسی گناہ کا ذکر کیا جاتا مگر ایسا تو ایک جگہ بھی نہیں کیا گیا.بلکہ بجائے اس کے یہ بتایا کہ ہم تجھے فتح ونصرت دیتے ہیں تو استغفار کر.اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس کے معنی کچھ اور ہیں.اور وہ یہ کہ

Page 399

سيرة النبي عمال 389 جلد 3 کے ساتھ جو لوگ سلسلہ بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کی تربیت پوری طرح نہیں ہو سکتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے زوال کا وقت اسی دن سے شروع ہو جاتا ہے جب کہ فتوحات شروع ہوتی ہیں اور لوگوں کی تربیت اچھی طرح نہیں ہو سکتی.جب لاکھوں مسلمان ہو گئے اور وہ سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے تو ان کی تربیت ناممکن تھی اس لئے فرمایا یہ بات بشریت سے بالا ہے کہ اتنے لوگوں کی پوری طرح تربیت کی جا سکے.ان کی تربیت خدا ہی کر سکتا ہے اس لئے دعائیں کر کہ خدایا! تو ہی ان کی نیک تربیت کا سامان پیدا فرما.اور پھر خوشخبری دی کہ ہم نے تمہاری دعائیں سن لی ہیں.إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا تيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ.ہم تجھ کو جو فتح عظیم دیں گے وہ ایسی صورت میں دیں گے کہ وہ فتح مبین ہو گی ، حق و باطل میں تمیز کر دینے والی ہوگی اور صرف جسموں پر ہی نہیں ہوگی بلکہ دلوں پر بھی ہوگی.لوگ منافقت سے اسلام میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ دین کے شوق کی وجہ سے ہوں گے.اور یہ فتح ہم نے اس لئے دی ہے کہ تربیت کا پہلو مضبوط ہو جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کر کے تربیت کے پہلو کو مضبوط کر دیا اور ایسے نائب آپ کو بخشے جو ہمیشہ کیلئے دین کے محافظ ہو گئے.دیکھ لو ایک تو وہ وقت تھا کہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مکہ چھوڑ کر اس لئے بھاگ گیا کہ جہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہو وہاں میں نہیں رہ سکتا.مگر پھر وہ وقت آیا کہ وہ مسلمان ہوا اور ایسا مخلص مسلمان ہوا کہ ایک جنگ میں دشمن چن چن کر صحابیوں کو مار رہے تھے.عکرمہ نے کہا یہ بات مجھ سے دیکھی نہیں جاتی کوئی ہے جو دشمن کے مقابلہ کیلئے میرے ساتھ چلے.اس طرح کچھ آدمی ساتھ لئے اور جرنیل سے اجازت لے کر دشمن پر جس کی تعداد ساٹھ ہزار تھی حملہ کر دیا اور معین قلب پر حملہ کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگ گئے.اُس وقت عکرمہ کو دیکھا گیا تو وہ دم تو ڑ رہے تھے.ان کی پیاس محسوس کر کے جب پانی لایا گیا تو انہوں نے کہا

Page 400

سيرة 390 جلد 3 پہلے میرے ساتھی کو پانی پلاؤ.اس ساتھی نے دوسرے کی طرف اشارہ کر دیا اور دوسرے نے تیسرے کی طرف.وہ سات نوجوان تھے جو زخموں کی وجہ سے دم توڑ رہے تھے مگر کسی نے پانی کو منہ بھی نہ لگایا اور ہر ایک نے یہی کہا کہ پہلے فلاں کو پلاؤ مجھے بعد میں پلا دینا.جب سب نے انکار کر دیا تو وہ پھر عکرمہ کے پاس آیا.دیکھا تو وہ فوت ہو چکے تھے.اس کے بعد اس نے دوسروں کو دیکھا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے 98.غرض خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو صرف ظاہری فتح ہی عطا نہیں فرمائی بلکہ ظاہری فتح کے ساتھ قلوب کی فتح بھی عطا کی.رسول کریم اللہ کا بلند ترین مقام پھر قرآن نہ صرف یہ کہ رسول کریم صلى الله کو بے گناہ قرار دیتا ہے بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان قرار دیتا ہے.فرماتا ہے اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارا نبی گنہگار ہے.اگر دشمن ایسا کہتے ہیں تو وہ سکتے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ تو بڑے اعلیٰ اخلاق والا ہے.پھر فرمایا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ووالے محمد رسول اللہ ! کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا.پھر فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 100 تمہارے لئے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ ہے اس کے پیچھے چل کر تم نجات پاسکتے ہو.پھر اس سے بھی بڑا درجہ آپ کا یہ بیان فرمایا کہ آپ دوسروں کو پاک کرنے والے ہیں.فرماتا ہے كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُوْلًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمُ 101.ہم نے تم میں سے ہی ایک رسول بھیجا ہے.جو ہماری آیتیں پڑھ کر تمہیں سناتا ہے اور گناہگاروں کو پاک بنا تا ہے.

Page 401

سيرة النبي عمال 391 جلد 3 پھر اس سے بڑھ کر فرما یا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ 102 - تو کہہ دے کہ اے ماننے والو یا مجھ پر اعتراض کرنے والو! اگر تم اللہ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو آؤ اس کا طریق میں تمہیں بتاؤں.جس طرح میں عمل کرتا ہوں اسی طرح تم بھی عمل کرو.پھر اللہ تعالیٰ تم کو بھی اپنا محبوب بنا لے گا.پھر اس سے بھی آگے ترقی کی اور فرمایا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو وہ ہے کہ اس پر جو کلام نازل ہوا ہے اسے بھی ہم کسی نا پاک کو چھونے نہیں دیتے.پھر کیا اس کلام کو لانے والا ناپاک ہو سکتا ہے.چنانچہ فرمایا اِنَّهُ لَقُرْآنُ كَرِيمُ فِي كِتُبِ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ 103.یہ قرآن بڑی عظمت والا ہے.یہ اس جگہ خدا نے رکھا ہے جہاں کوئی گندہ شخص اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا اور اسے مطہر کے بغیر کوئی چھو ہی نہیں سکتا.پھر جس پر یہ کلام نازل ہوا اسے ناپاک کس طرح کہہ سکتے ہو.پھر فرمایا ہم نے اسے وہ کتاب دی ہے جس کو آج ہی نہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی نا پاک نہیں چھو سکے گا.بِأَيْدِى سَفَرَةِ كِرَامِ بَرَرَةٍ 104.یہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی جو دور دور سفر کرنے والے اور نہایت معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہوں گے.“ 66 فضائل القرآن نمبر 4 صفحہ 218 تا 272 ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ 1963ء) Life of Mahomet by William Muir Page xxvii,xxviii published in:1 London 1861.2 مسند احمد بن حنبل مترجم اردو جلد 11 مسند عائشہ صفحہ 168 حدیث نمبر 25108 مکتبہ رحمانیہ لاہور 3: الانعام : 125، 126 4 : حم السجدة : 39

Page 402

سيرة النبي عليه 5: يونس: 17 6: الاحزاب : 22 7: ال عمران : 32 8: الحجر : 7 9: القلم :2 تا 7 10: الانبياء: 6 11: الانبياء : 11 5::12 13: القمر : 3 14: القمر : 6 :15: الفرقان: 9 16: الفرقان: 22 تا 27 17: الفرقان: 31 18: بنی اسرائیل: 48 19: الفرقان: 10 20: المائدة: 68 21: الحاقة : 43 22: الطور: 30 23: الحاقة: 39 تا 48 24: الانبياء: 6 25: يس : 71،70 26: الدخان: 14 ،15 392 جلد 3

Page 403

سيرة النبي علي 27: النحل: 104،103 28: الفرقان: 5 تا 7 393 جلد 3 29: جبر: حضر موت کے ایک عیسائی خاندان کا غلام.حضور اے جبر کے مکان کے پاس بیٹھا کرتے تھے.اس کے بارہ میں کفار نے کہا کہ وہ حضور ﷺ کو قرآن سکھاتا ہے.بعد میں یہ بھی مشرف بہ اسلام ہو گیا.اسلامی انسائیکلو پیڈیا صفحہ 650 مطبوعہ 2000 ء لا ہور ) 30 : روح المعانى المجلد السابع سورة النحل زير تفسير آيات 88 تا 128 صفحہ 635 مطبوعہ دارالحد بیث قاہرہ مصر 2005 ء A Comprehensive Commentary on the Quran E.M Wherry.Sipara :31 XIV, Chapter XVI, page 47.Printed 2000 by Routled Ge, Oxon.32: لوقا باب 11 آیت 14 تا 18 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 33: العلق : 2 تا آخر 34: النحل : 104 :35: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول حدیث ام عبد الله عن اسلام عمر صفحہ 393 تا 396 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى صلى الله 36:بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صفحه 1 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 37: الشعراء: 211 38: التكوير: 26 39: النجم:21،20 40: الحج : 53 41: النجم : 22 تا 24 42 الشعراء: 212،211

Page 404

سيرة النبي علي 43: الشعراء: 222 تا 224 44: الانعام: 122 45: النحل: 101،100 46 ص : 5 47: النحل: 102 48: يونس : 39،38 49: التمل: 66 50: الكوثر : 2 تا 4 51: الانبياء : 45 394 جلد 3 52:السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحہ 421 422 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 53: اسد الغابة في معرفة الصحابة الجزء الثالث عثمان بن مظعون صفحہ 328،327 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 54: استثناء باب 18 آیت 18 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 55: استثناء باب 18 آیت 22 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 56: اعمال باب 3 آیت 24 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 57 یسعیاہ باب 62 آیت 2 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 58: المائدة : 4 59: یسعیاہ باب 62 آیت 4 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 60: ال عمران: 98 61: یوحنا باب 16 آیت 12 ،13 پاکستان بائیل سوسائٹی لاہور 2011ء 62: العلق : 6 63: المائدة : 4

Page 405

سيرة النبي علي 64: الكهف : 55 65: النجم : 54 395 66: استثناء باب 19 آیت 21 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 67 متی باب 5 آیت 38 تا 41 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 68: الشورى: 41 69: البقرة : 3 70: الرحمن : 47 :71: حم السجدة: 31 72: الاعراف: 159 73: منتی باب 15 آیت 24 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 74 متی باب 15 آیت 26 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 75:فاطر:25 76: هود: 21 تا 23 77: الضحى 8 78: النجم:2 ،3 79: الضحي: 5 80: ابراهيم: 25 81: النجم : 4 تا 6 82: بنی اسرائیل: 74 83 بنی اسرائیل: 75 84: الضحى : 2 تا 4 85: الصحي: 6 جلد 3

Page 406

سيرة النبي علي 86: الكهف : 7 87: الصحي: 7 88: يوسف : 96 89: الضحي : 9 90: الضحى: 11،10 91: المائدة: 109 92: الانعام: 125 93: النسآء: 107،106 94: المؤمن:52 95: المؤمن: 56 96: النصر : 4 97: الفتح : 2، 3 396 جلد 3 98: الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد 3 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت 1995 ء الطبعة الاولى 99:الانشراح:2 100: الاحزاب : 22 101: البقرة : 152 102: ال عمران : 32 103: الواقعة: 78تا80 104 : عبس: 16 ، 17

Page 407

سيرة النبي علي 397 جلد 3 رسول کریم علیہ کی سادہ زندگی کی 6 نومبر 1932 ء کو روز نامہ الفضل قادیان نے سیرت خاتم النبین سنمبر شائع کیا جس میں حضرت مصلح موعود کا درج ذیل مضمون شائع ہوا:.”ہمارے ہادی اور راہنما آنحضرت علی چونکہ رحمۃ للعالمین ہو کر اسوہ حسنہ آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کل دنیا کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اس لئے آپ نے ہمارے لئے جو نمونہ قائم کیا وہی سب سے درست اور اعلیٰ ہے اور اس قابل ہے کہ ہم اس کی نقل کریں.آپ نے اپنے طریق عمل سے ہمیں بتایا ہے کہ جذبات نفس جو پاک اور نیک ہیں ان کو دبانا تو کسی طرح جائز ہی نہیں بلکہ ان کو تو ابھارنا چاہئے اور جو جذبات ایسے ہوں کہ ان سے گناہوں اور بدیوں کی طرف توجہ ہوتی ہو ان کا چھپانا نہیں بلکہ ان کا مارنا ضروری ہے.پس اگر تکلف سے بعض ایسی باتیں نہیں کرتے جن کا کرنا ہمارے دین اور دنیا کے لئے مفید تھا تو ہم غلط کار ہیں اور اگر وہ باتیں جن کا کرنا دین اسلام کے رو سے ہمارے لئے جائز ہے صرف تکلف اور بناوٹ سے نہیں کرتے ، ورنہ دراصل ان کے شائق ہیں، تو یہ نفاق ہے اور اگر لوگوں کی نظروں میں عزت و عظمت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو خاموش اور سنجیدہ بناتے ہیں تو یہ شرک ہے.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایسا ایک بھی نمونہ نہیں پایا جاتا جس سے معلوم ہو کہ آپ نے ان تینوں اغراض میں سے کسی کے لئے تکلف یا بناوٹ سے کام لیا بلکہ آپ کی زندگی نہایت سادہ اور صاف معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عزت کو لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ عزت و ذلت کا

Page 408

سيرة النبي علي مالک خدا کو ہی سمجھتے تھے.398 جلد 3 دینی پیشواؤں میں تصنع جو لوگ دین کے پیشوا ہوتے ہیں انہیں یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں اور ذکر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوں اور خاص طور پر تصنع سے کام لیتے ہیں تا لوگ نہایت نیک سمجھیں.اگر مسلمان ہیں تو وضو میں خاص اہتمام کریں گے اور بہت دیر تک وضو کے اعضاء کو دھوتے رہیں گے اور وضو کے قطروں سے پر ہیز کریں گے، سجدہ اور رکوع لمبے لمبے کریں گے، اپنی شکل سے خاص حالت خشوع و خضوع ظاہر کریں گے اور خوب وظائف پڑھیں گے.مگر آنحضرت عی با وجود اس کے کہ سب سے اتقی اور اور ع تھے اور آپ کے برابر خشیت اللہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے آپ ان سب باتوں میں سادہ تھے اور آپ کی زندگی بالکل ان تکلفات سے پاک تھی.بچہ کے رونے پر نماز میں جلدی ابی قتادہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صل الله نے فرمایا إِنِّي لَاقُومُ فِي الصَّلَوةِ أريدُ أنْ أطَوّلَ فِيْهَا فَاسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَاتَجَوَّزُ فِي صَلوتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ اَشُقَّ عَلَى أُمِّه 1 یعنی میں بعض دفعہ نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ نماز کو لمبا کر دوں مگر کسی بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز کو اس خوف سے کہ کہیں میں بچہ کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں نماز مختصر کر دیتا ہوں.کس سادگی سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم بچہ کی آواز سن کر نماز میں جلدی کر دیتے ہیں.آجکل کے صوفیا تو ایسے قول کو شاید اپنی ہتک سمجھیں کیونکہ وہ تو اس بات کے اظہار میں اپنا فخر سمجھتے ہیں کہ ہم نماز میں ایسے مست ہوئے کہ کچھ خبر ہی نہیں رہی اور گو پاس ڈھول بھی بجتے رہیں تو ہمیں کچھ خیال نہیں آتا.مگر آنحضرت ﷺ ان تکلفات سے بری تھے.آپ کی عظمت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تھی نہ کہ انسانوں نے آپ کو معزز بنایا تھا.یہ خیال وہی کر سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنا عزت دینے والا سمجھتے ہوں.

Page 409

سيرة النبي علي جوتیوں سمیت نماز پڑھنا 399 جلد 3 حضرت انس.سے روایت ہے کہ اَنَّهُ سُئِلَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يُصَلِّى صلى الله فِي نَعْلَيْهِ قَالَ نَعَمُ 2 یعنی آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم ﷺ جوتوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے بچتے تھے.اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ وہ مسلمان جو ایمان اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں اگر کسی کو اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو شور مچا دیں اور جب تک کوئی ان کے خیال کے مطابق کل شرائط کو پورا نہ کرے وہ دیکھ بھی نہیں سکتے.مگر آنحضرت ﷺ جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں آپ کا یہ طریق تھا بلکہ آپ واقعات کو دیکھتے تھے نہ تکلفات کے پابند تھے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے طہارت اور پاکیزگی شرط ہے.اور یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے پس جو جوتی پاک ہو اور عام جگہوں پر جہاں نجاست کے لگنے کا خطرہ ہو پہن کر نہ گئے ہوں تو اس میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنے میں کچھ حرج نہیں اور آپ نے ایسا کر کے امت محمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا کہ انہیں آئندہ کے لئے تکلفات اور بناوٹ سے بچا لیا.اس اسوہ حسنہ سے ان لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے جو آج کل ان باتوں پر جھگڑتے ہیں اور تکلفات کے شیدا ہیں.جس فعل سے عظمت الہی اور تقویٰ میں فرق نہ آئے اس کے کرنے پر انسان کی بزرگی میں فرق نہیں آسکتا.بن بلائے دعوت میں آنے والے کے لئے اجازت طلب کرنا حضرت ابو مسعود الانصاری سے روایت ہے قَالَ كَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبِ وَ كَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَامٌ فَقَالَ اصْنَعُ لِى طَعَامًا اَدْعُو رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ

Page 410

سيرة النبي عمل 400 جلد 3 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَةٍ وَهذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَعَنَا فَإِنْ شِئْتَ اذِنْتَ لَهُ وإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ قَالَ بَلْ اَذِنْتُ لَهُ 3 آپ نے فرمایا کہ ایک شخص انصار میں تھا اس کا نام ابو شعیب تھا اور اس کا ایک غلام تھا جو قصائی کا پیشہ کرتا تھا.اسے اس نے حکم دیا کہ تو میرے لئے کھانا تیار کر کہ میں رسول اللہ ﷺ کو چار اور آدمیوں سمیت کھانے کیلئے بلاؤں گا.پھر اس نے رسول اللہ علیہ سے بھی کہلا بھیجا کہ حضور علی کی اور چار اور آدمیوں کی دعوت ہے.جب آپ اس کے ہاں چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا.جب آپ اس کے گھر پر پہنچے تو اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پانچ آدمیوں کو بلایا تھا اور یہ شخص بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے.اب بتاؤ کہ اسے بھی اندر آنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! اجازت ہے.تو آپ اس کے سمیت اندر چلے گئے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح بے تکلفی سے معاملات کو پیش کر دیتے.شاید آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو چپ ہی رہتا مگر آپ دنیا کے لئے نمونہ تھے اس لئے آپ ہر بات میں جب تک خود عمل کر کے نہ دکھاتے ہمارے لئے مشکل ہوتی.آپ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ سادگی ہی انسان کے لئے مبارک ہے اور ظاہر کر دیا کہ آپ کی عزت تکلات یا بناوٹ سے نہیں تھی اور نہ آپ ظاہری خاموشی یا وقار سے بڑا بننا چاہتے تھے بلکہ آپ کی عزت خدا کی طرف سے تھی.گھر کے اخراجات میں سادگی آپ کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی اور وہ اسراف اور غلو جو امرا اپنے گھر کے اخراجات میں کرتے ہیں آپ کے ہاں نام کو نہ تھا بلکہ ایسی سادگی سے زندگی بسر کرتے کہ دنیا کے بادشاہ اسے دیکھ کر ہی حیران ہو جائیں اور اس پر عمل کرنا تو الگ رہا یورپ کے بادشاہ شاید یہ بھی نہ مان سکیں کہ کوئی ایسا بادشاہ بھی تھا جسے دین کی بادشاہت بھی

Page 411

سيرة النبي علي 401 جلد 3 نصیب تھی اور دنیا کی حکومت بھی حاصل تھی مگر پھر بھی وہ اپنے اخراجات میں ایسا کفایت شعار اور سادہ تھا اور پھر بخیل نہیں بلکہ دنیا نے آج تک جس قدرسخی پیدا کئے ہیں ان سب سے بڑھ کر سخی تھا.امرا کی حالت جن کو اللہ تعالی مال و دولت دیتا ہے ان کا حال لوگوں سے پوشیدہ نہیں.غریب سے غریب ممالک میں بھی نسبتاً امراء کا گروہ موجود ہے.حتی کہ جنگلی قوموں اور وحشی قبیلوں میں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ امرا کا ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں میں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جو فرق نمایاں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.خصوصاً جن قوموں میں تمدن بھی ہوان میں تو امرا کی زندگیاں ایسی پر عیش و عشرت ہوتی ہیں کہ ان کے اخراجات اپنی حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.عرب سرداروں کی حالت آنحضرت ﷺے جس قوم میں پیدا ہوئے وہ بھی فخر وکیلا میں خاص طور پر مشہور تھی اور حشم و خدم کو مایہ ناز جانتی تھی.عرب سردار با وجود ایک غیر آباد ملک کے باشندہ ہونے کے بیسیوں غلام رکھتے اور اپنے گھروں کی رونق کے بڑھانے کے عادی تھے.عرب کی دو ہمسایہ قوموں کے بادشاہوں کی حالت عرب کے اردگرد دو قو میں ایسی بستی تھیں کہ جو اپنی طاقت و جبروت کے لحاظ سے اُس وقت کی گل معلومہ دنیا پر حاوی تھیں.ایک طرف ایران اپنی مشرقی شان و شوکت کے ساتھ اپنے شاہانہ رعب و داب کو گل ایشیا پر قائم کئے ہوئے تھا تو دوسری طرف روم اپنے مغربی جاہ وجلال کے ساتھ اپنے حاکمانہ دست تصرف کو افریقہ اور یورپ پر پھیلائے ہوئے تھا.اور یہ دونوں ملک عیش و طرب میں اپنی حکومتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور آسائش و آرام کے ایسے ایسے سامان پیدا ہو چکے تھے کہ بعض باتوں کو تو اب اس زمانہ میں بھی کہ

Page 412

سيرة النبي علي 402 جلد 3 آرام و آسائش کے سامانوں کی ترقی کمال درجہ کو پہنچ چکی ہے نگاہ حیرت سے دیکھا جاتا ہے.دربار ایران میں شاہان ایران جس شان و شوکت کے ساتھ بیٹھنے کے عادی تھے اور اس کے گھروں میں جو کچھ سامان طرب جمع کئے جاتے تھے اسے شاہ نامہ کے پڑھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور جنہوں نے تاریخوں میں ان سامانوں کی تفصیلوں کا مطالعہ کیا ہے وہ تو اچھی طرح سے ان کا اندازہ کر سکتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ دربار شاہی کے قالین میں بھی جواہرات اور موتی ٹنکے ہوئے تھے اور باغات کے نقشہ کو زمردوں اور موتیوں کے صرف سے تیار کر کے میدان دربار کو شاہی باغوں کا مماثل بنا دیا جاتا تھا.ہزاروں خدام اور غلام شاہ ایران کے ساتھ رہتے اور ہر وقت عیش وعشرت کا بازار گرم رہتا تھا.رومی بادشاہ بھی ایرانیوں سے کم نہ تھے اور وہ اگر ایشیائی شان وشوکت کے شیدا نہ تھے تو مغربی آرائش و زیبائش کے دلدادہ ضرور تھے.جن لوگوں نے رومیوں کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ رومیوں کی حکومتوں نے اپنی دولت کے ایام میں دولت کو کس کس طریق پر خرچ کیا ہے.پس عرب جیسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں دوسروں کو غلام بنا کر حکومت کرنا فخر سمجھا جاتا تھا اور جو روم و ایران جیسی مقتدر حکومتوں کے درمیان واقع تھا کہ ایک طرف ایرانی عیش و عشرت اسے لبھا رہی تھی تو دوسری طرف رومی زیبائش و آرائش کے سامان اس کا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے آنحضرت ﷺ کا بادشاہ عرب بن جانا اور پھر ان باتوں میں سے ایک سے بھی متاثر نہ ہونا اور روم و ایران کے دام تزویر سے صاف بچ جانا اور عرب کے بت کو مار کر گرا دینا کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر پھر بھی کوئی دانا انسان آپ کے پاک بازوں کے سردار اور طہارت النفس میں کامل نمونہ ہونے میں شک کر سکے.نہیں ! ایسا نہیں ہو سکتا.

Page 413

سيرة النبي عمال 403 جلد 3 گھر کا کام خود کرنا علاوہ اس کے کہ آپ کے اردگرد بادشاہوں کی زندگی کا نمونہ تھا وہ ایسا نہ تھا کہ اس سے آپ وہ تاثرات حاصل کرتے جن کا اظہار آپ کے اعمال کرتے ہیں.یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا درجہ دے دیا تھا کہ اب آپ تمام مخلوقات کے مرجع افکار ہو گئے تھے اور ایک طرف روم آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اور دوسری طرف ایران آپ کے ترقی کرنے والے اقبال کو شک وشبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور دونوں متفکر تھے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے اس لئے دونوں حکومتوں کے آدمی آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ شروع تھا.ایسی صورت میں بظاہر ان لوگوں پر رعب قائم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ آپ بھی اپنے ساتھ ایک جماعت غلاموں کی رکھتے اور اپنی حالت ایسی بناتے جس سے وہ لوگ متاثر اور مرعوب ہوتے مگر آپ نے کبھی ایسا نہ کیا.غلاموں کی جماعت تو الگ رہی گھر کے کام کاج کے لئے بھی کوئی نوکر نہ رکھا اور خود ہی سب کام کر لیتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت لکھا ہے کہ اَنَّهَا سُئِلَتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ قَالَتْ كَانَ يَكُونُ فِى مِهْنَةِ أَهْلِهِ تَعْنِي فِي خِدْمَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلوةُ خَرَجَ إِلَى الصَّلوة 4 يعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم نے گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ اپنے اہل کی مہنت کرتے تھے یعنی خدمت کرتے تھے.پس جب نماز کا وقت آ جاتا تو آپ نماز کے لئے باہر چلے جاتے تھے.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس سادگی کی زندگی بسر فرماتے تھے اور بادشاہت کے باوجود آپ کے گھر کا کام کاج کرنے والا کوئی نوکر نہ ہوتا بلکہ آپ اپنے خالی اوقات میں خود ہی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مل کر گھر کا کام کاج کروا دیتے.اللہ اللہ کیسی سادہ زندگی ہے، کیا بے نظیر نمونہ ہے، کیا کوئی انسان بھی ایسا پیش

Page 414

سيرة النبي علي 404 جلد 3 کیا جا سکتا ہے جس نے بادشاہ ہو کر یہ نمونہ دکھایا ہو کہ اپنے گھر کے کام کے لئے ایک نوکر بھی نہ ہو.اگر کسی نے دکھایا ہے تو وہ بھی آپ کے خدام میں سے ہوگا.کسی وسرے بادشاہ نے جو آپ کی غلامی کا فخر نہ رکھتا ہو یہ نمونہ کبھی نہیں دکھایا.ایسے بھی مل جائیں گے جنہوں نے دنیا سے ڈر کر اسے چھوڑ ہی دیا.ایسے بھی ہوں گے جو دنیا میں پڑے اور اسی کے ہو گئے.مگر یہ نمونہ کہ دنیا کی اصلاح کے لئے اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر بھی اٹھائے رکھا اور ملکوں کے انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھی مگر پھر بھی اس سے الگ رہے اور اس سے محبت نہ کی اور بادشاہ ہو کر فقر اختیار کیا.یہ بات آنحضرت علی اور آپ کے خدام کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی.جن لوگوں کے پاس کچھ تھا ہی نہیں وہ اپنے رہنے کے لئے مکان بھی نہ پاتے تھے اور دشمن جنہیں کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے تھے کبھی کہیں اور کبھی کہیں جانا پڑتا تھا ان کے ہاں کی سادگی کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں.جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے شان و شوکت سے کیا رہنا ہے.مگر ملک عرب کا بادشاہ ہو کر لاکھوں روپیہ اپنے ہاتھ سے لوگوں میں تقسیم کر دینا اور گھر کا کام کاج بھی خود کرنا یہ وہ بات ہے جو اصحاب بصیرت کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے بغیر نہیں رہ سکتی.“ (الفضل 6 نومبر 1932ء) صلى الله 1:بخارى كتاب الاذان باب من اخف الصلوة عند بكاء الصبى صفحہ 116 حدیث نمبر 707 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2 بخاری كتاب الصلوة باب الصلوة فى النعال صفحه 68 حدیث نمبر 386 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: بخارى كتاب الاطعمة باب الرجل يتكلف الطعام لاخوانه صفحه 969 حدیث نمبر 5434 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4 بخارى كتاب الاذان باب من كان فى حاجة اهله فاقيمت الصلوة فخرج صفحه 110 حدیث نمبر 676 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 415

سيرة النبي علي 405 جلد 3 رسول کریم ﷺ نے صحیح تمدن کی بنیا د رکھی الله 6 نومبر 1932ء کو قادیان میں سیرت النبی ﷺ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت مصلح موعود نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے:.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ 1 - پیچش کی وجہ سے مجھے طبی اجازت تو نہیں تھی کہ اس موقع پر کچھ کہتا لیکن دنیا میں انسان ہر وقت دلیل کے تابع نہیں ہوتا بلکہ کبھی جذبات کے تابع بھی ہوتا ہے اور یہ جذبات اور عقل کا جال ایسے رنگ میں پھیلا ہوا ہے کہ اس میں صحیح امتیاز اور فرق کرنا بہت ہی مشکل ہے.پس میرے جذبات نے عقل کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسے یہی جواب دیا کہ تیرے لئے ایسے حکم چلانے کے اور بہت سے مواقع ہیں آج ہمیں اپنا کام کرنے دو.تم اپنے لئے کوئی اور موقع تلاش کر لینا.اور اس میں شبہ کیا ہے کہ ایسے وجود کے ذکر کے موقع پر جس کی زندگی جہاں ایک طرف عقل و خرد کی بہترین مثال ہے وہاں اس کے ذریعہ جذبات کا بھی نہایت پاکیزہ طور پر ظہور ہوا اور یہ جذباتی تمثال ایسی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ

Page 416

سيرة النبي عليه 406 جلد 3 ے ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما دنیا میں خالی عقل نے کبھی زندگی نہیں پائی.زندگی ہمیشہ عشق نے پائی ہے، جذبات نے پائی ہے.دنیا میں بڑے بڑے فلاسفر اور عاشق گزرے ہیں لیکن جو حکومت عشاق نے لوگوں کے دلوں پر کی وہ فلاسفروں کو حاصل نہ ہوئی.انبیاء میں حقیقی عشق کی جو مثالیں ہیں انہیں نظر انداز کر دو اور مجازی عشق ہی کو لے لو.دنیا میں کتنے آدمی ہیں جو ارسطو یا افلاطون کی باتوں کو جانتے ہیں یا ان کا نام بھی جانتے ہیں مگر کتنے ہیں جو مجنوں اور لیلیٰ کو جانتے ہیں اور کتنے ہیں جو ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہ ہوگا جہاں شاعر نہ ہوں اور یہ شاعر کون ہیں؟ لیلی اور مجنوں کے شاگرد.اور ان میں سے ان کو الگ کر کے جن کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں علیحدہ کر دیا ہے اور جو دین کی خدمت یا اسے تازہ کرنے کے لئے شعر لکھتے ہیں باقی تمام وہی ہیں جو لیلی و مجنوں کی نقل کرنا چاہتے ہیں.اگر چہ وہ لیلی و مجنوں نہیں ہوتے لیکن تم جس وقت ان کا کلام سنو گے تو ایسا معلوم ہوگا گویا انہوں نے کبھی کھانا ہی نہیں کھایا، کبھی تکیہ سے سر نہیں اٹھایا کہ ساری رات ان کی آنکھیں نہ کھلی رہی ہوں اور ان کی آنکھیں کبھی خشک نہیں ہوئیں، جگر اور دل ان کے جسم میں ہے ہی نہیں ، مدتیں ہوئیں کچھ خون بن کر اور کچھ پانی بن کر بہہ چکا ہے اور وہ جیتا جاگتا وجود ہے جو تمہارے سامنے بیٹھا ہوگا ، کئی دفعہ مرا اور دفن ہو چکا اور اس کے معشوق نے آ کر اس کی قبر کو ٹھکرا دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لیلی و مجنوں کو بھی عشق میں پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے.تو جتنے دلوں پر عشق نے قبضہ کیا ہے عقل نے نہیں کیا.پس ایسا انسان جس نے عقل کے میدان میں ہی اپنی برتری ثابت نہیں کی بلکہ جذبات کے میدان میں بھی سب عاشقوں سے آگے بڑھ گیا حتیٰ کہ کوئی بھی عاشق عشق میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس کے ذکر کے موقع پر عقل کی بات ماننے سے آج اس نے انکار کر دیا.

Page 417

سيرة النبي علي 407 جلد 3 صلى الله خدا تعالیٰ کے عشق کو جانے دو کیونکہ وہ عام لوگوں کی رسائی سے بالا ہوتا ہے، انسانی عشق کو لے لو.مجنوں کیا تھا؟ ایک عورت کا عاشق تھا.اس کا عشق با غرض تھا وہ اس سے متمتع ہونا چاہتا تھا.اس کے حسن سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا.مگر اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کا عشق جو دنیا سے تھا وہ کسی فائدہ کی غرض سے نہ تھا تمتع کے خیال سے نہ تھا اور پھر وہ ایک دو سے نہیں، دوستوں اور پیاروں سے نہیں،حسینوں سے نہیں بلکہ سب سے تھا بلکہ بدصورتوں سے زیادہ تھا.قرآن کریم میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ صلى الله فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 2 اے محمد ! (ع) شاید تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا.ان خوبصورتوں کے لئے نہیں جنہوں نے ابو بکر اور عمر کی طرح ایمان لا کر اپنے چہروں کو منور کر لیا تھا بلکہ ان بدصورت اور بھونڈی شکل کے لوگوں کے لئے جنہیں دیکھ کر گھن آتی تھی، جنہیں دیکھ کر روحانی شخص کو متلی ہو جاتی تھی جیسے عتبہ، شیبہ، ابو جہل وغیرہ تو ان کے عشق میں مرا جاتا ہے کہ کیوں ان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.مجنوں کا عشق اس کے مقابلہ میں کیا ہے.اس نے اس سے محبت کی صلى الله جس کی شکل اسے پسند تھی لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کا عشق ان لوگوں سے بھی تھا جن کی روحانی شکل آپ کو نا پسند تھی.پس ایسا جذباتی انسان جس کا عشق کسی ایک سے نہیں ساری دنیا سے وابستہ ہے، آج ہی کے لوگوں سے نہیں بلکہ آئندہ زمانوں سے بھی ہے جیسا کہ فرمایا وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی محمد رسول الله علی صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو ہی فائدہ پہنچانا نہیں چاہتا بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے مفید بننا چاہتا ہے.پس غور کرو جذباتی دنیا میں اس کا وجود کتنا عظیم الشان ہے اس کے عشق کی انتہا ہی نہیں.وہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سلگاتا ہے.پھر اس سے آسمانوں کی طرف پرواز کرتا ہے اور اس کی روح خدا کے آستانہ پر جا گرتی ہے اور اس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے چنگاری لیتی ہے گویا محدود محبت غیر محدود محبت کو

Page 418

سيرة النبي عليه 408 جلد 3 کھینچتی ہے اور پھر دنیا میں آتی ہے اور بعینہ اسی طرح جس طرح مشرق سے نکل کر آفتاب کی شعائیں روئے زمین پر پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں اس کی محبت بھی پھیلتی ہے.مشرق و مغرب، گورے اور کالے، خوبصورت اور بدصورت سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے.پھر وہ مکان کی حد بندیوں کو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی ہیں مگر وہ محبت ختم نہیں ہوتی اور نہ ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو دنیا سے اٹھا لے.پھر یہ ایک وقت کی بات نہیں یوں تو ہر نیک بندے پر محبت کے ایام کبھی کبھی آتے ہیں.حضرت نظام الدین اولیاء کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کے ساتھ جا رہے تھے راستہ میں ایک خوبصورت لڑکا گزرا آپ نے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لیا.اس پر شاگردوں نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا کہ شاید اس میں جلوہ الہی ہو.ایک شاگرد جو آپ کے خاص منظور نظر تھے انہوں نے ایسا نہ کیا باقیوں نے اس پر چہ میگوئیاں شروع کیں.آگے چلے تو ایک بھٹیاری بھٹی میں آگ جلا رہی تھی اور پتوں کی آگ کے شعلے جیسا کہ بہت بلند ہوتے ہیں نکل رہے تھے جو ایک خوبصورت نظارہ پیش کر رہے تھے.آپ کھڑے ہو کر اسے دیکھتے رہے پھر جھکے اور شعلہ کو بوسہ دیا.اُس وقت اس شاگرد نے بھی شعلہ کو چوما جس نے لڑکے کو نہیں چوما تھا لیکن باقی شاگر دکھڑے رہے اور کسی کو جرات نہ ہوئی.اس پر انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے خوبصورت بچے کو چوما تھا کیونکہ چھوٹا بچہ سب کو پیارا لگتا ہے حالانکہ خواجہ صاحب کو اس میں خدا کا جلوہ نظر آتا تھا اس لئے انہوں نے چوما تھا لیکن مجھے چونکہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے نہ چوما.اب اس آگ میں مجھے نظر آیا اور میں نے اسے چوم لیا اور یہاں آپ کی اتباع کی لیکن وہاں میری آنکھیں نہ کھلیں اس لئے نہ کی لیکن تم نے ہوا و ہوس کے ماتحت بچہ کو چوما تھا.تو وقتی طور پر ہر بزرگ پر ایسا وقت آتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت سے وہ لبریز ہو جاتا ہے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت وقتی نہ تھی.وہ آپ کی روح اور جسم کا ایک حصہ تھی

Page 419

سيرة النبي عمر 409 جلد 3 جس کا پتہ اس سے لگتا ہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَ النَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا ويعنى خدا یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا.گویا آپ کے دل میں تڑپ تھی کہ یہود و نصاریٰ کیوں اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں اور پھر اپنے ماننے والوں کو تنبیہ کی کہ وہ ایسا نہ کریں.گویا سکرات موت کے وقت بھی آپ کے اندر مسلمان اور کفار دونوں کی محبت کا جلوہ تھا.ایک طرف یہود و نصاری کو شرک سے بچانے کا درد تھا اور دوسری طرف یہ درد تھا کہ یہی غلطی میرے ماننے والے بھی نہ کریں.غرض آپ کی ساری زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کے لئے ہمدردی رکھتے تھے.آج کے لئے جو مضامین مقرر کئے گئے ہیں وہ دو ہیں ایک یہ کہ آنحضرت کے نے تمدن کی بنیاد مستحکم اصول پر رکھی اور دوسرے یہ کہ آپ نے احکام کی حکمتیں بیان کیں.یہ دونوں اکٹھے بھی بیان ہو سکتے ہیں اور الگ الگ بھی.لیکن میں اکٹھا ہی بیان کروں گا.میرے نزدیک تو وہ شخص جس کے دل میں انسان کی محبت ہے یعنی بنی نوع انسان کی ایک فرد یا بعض افراد کی نہیں بلکہ سب کے سب کی اس کے کام یقیناً ایسی حکمت پر مبنی ہوں گے جو فائدہ کا موجب ہو.انسان تبھی بے عقلی کا کام کرتا ہے جب وہ اپنے خود ساختہ اصول کو مقدم رکھے اور بنی نوع انسان کے فائدہ کو مؤخر کرے.ایسا شخص جب بھی کوئی فیصلہ کرے گا ضرور نامعقول باتیں کرے گا.لیکن جو بنی نوع انسان کا فائدہ چاہتا ہے اس کے اصول میں بعض اوقات تغیر و تبدل بھی ہوگا.مثلاً ایک بچہ بیمار ہے طبیب اور ماں باپ دونوں کا اس سے تعلق ہے.اگر ڈاکٹر کی دوائی سے فائدہ نہیں پہنچتا تو ماں باپ چاہیں گے کہ کسی طبیب کو بھی مشورہ کے لئے بلا لیں لیکن ڈاکٹر کہے گا کہ اگر طبیب کو بلاتے ہو تو میں جاتا ہوں.کیوں؟ اس لئے کہ اسے بچہ کی جان بچانے سے کوئی غرض نہیں وہ صرف اپنے اصول کی برتری منوانا چاہتا

Page 420

سيرة النبي الله 410 جلد 3 ہے.یہی حال اطبا کا ہے.حضرت خلیفہ اول ایک واقعہ سنایا کرتے تھے (اب تو اطباء بھی انگریزی ادویہ کا استعمال کرنے لگ گئے ہیں مگر پہلے ان کا تعصب ڈاکٹروں سے بھی بڑھا ہوا تھا) ایک رئیس کا بچہ بیمار تھا اس نے آپ کو بھی بلایا.آپ فرماتے میں گیا تو سول سرجن بھی وہاں موجود تھا.وہ تھرما میٹر لگا کر ٹمپریچر دیکھنا چاہتا تھا مگر ان کا خاندانی طبیب کہہ رہا تھا میں جاتا ہوں.انگریزی ادویہ تمام گرم خشک ہوتی ہیں تھرما میٹر سے بچہ مر جائے گا.رئیس نے آپ سے کہا حکیم صاحب کو سمجھا ئیں.آپ نے کہا حکیم صاحب! بے شک انگریزی ادویہ گرم خشک ہوتی ہیں مگر یہ دوائی نہیں یہ تو آلہ ہے.لیکن حکیم صاحب کہاں مانتے تھے کہنے لگے انگریزوں کی ہر چیز گرم خشک ہوتی ہے میں یہاں نہیں ٹھہر سکتا.اب کوئی ماں باپ ایسا نہیں کر سکتے.انہیں اس سے غرض نہیں ہوگی کہ طب یونانی جیتی ہے یا انگریزی.ان کا مقصود تو یہ ہوگا کہ جس طرح بھی ہو بچے کی جان بچ جائے اس لئے ماں باپ کی رائے زیادہ صحیح ہوتی ہے اور الا ما شاء الله عام طور پر لوگ اس بات کو خوب جانتے اور رکھتے ہیں کہ اچھا ڈاکٹر اور اچھا وکیل کون سا ہوتا ہے.تو جو شخص بنی نوع انسان کی محبت اپنے دل میں رکھے گا اس کے اصول یقیناً صحیح ہوں گے.قطع نظر اس سے کہ الہی کلام صحیح ہونا چاہئے.اگر فلسفیانہ نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احساس دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ وسیع ہے.کیونکہ جتنی محبت ہو اتنا ہی زیادہ اس چیز کا مطالعہ ہوگا اور اس لئے اس کا فائدہ بھی زیادہ ملحوظ رہے گا اور جس کے دل میں بنی نوع انسان کا عشق ہوگا اس کے اصول کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوگی اور وہی بات ہوگی کہ ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق جس کے دل میں عشق کی لوگی ہوگی اسے ہر دم یہی خیال ہوگا کہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے اور یہی مقصد پیش نظر رہے گا کہ اپنے معشوقوں کو دکھ درد سے بچایا جائے.اُس وقت یہ بات ہوگی کہ

Page 421

سيرة النبي علي 411 ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما جلد 3 اور ایسا شخص جس کا دل عشق سے زندہ ہو وہ اپنے پیچھے ایسی باتیں چھوڑے گا جو صلى الله کبھی مٹ نہیں سکتیں.پس رسول کریم ﷺ نے جو اصول الہاماً بتائے یا الہام سے استنباط کر کے بتائے ان کا استحکام عشق کے مطابق ہے اور عشق چونکہ غیر محدود استحکام رکھتا ہے اس لئے ان اصول کا استحکام بھی غیر محدود ہے اور چونکہ ان کی بنیاد عشق ہے اس لئے کہنا پڑے گا که اسلامی اصول کی بنیاد حکمت پر ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے سیدھے چلتے جاؤ وہاں تمہیں فلاں چیز ملے گی.اب سیدھے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرف بھی انسان منہ کرے آگے سیدھا ہی ہوگا لیکن ایک اور شخص ہے جو ایک راستہ بتاتا ہے اور ساتھ ہی نقشہ دے دیتا ہے کہ اس کے مطابق چلے جاؤ اب اس پر عمل کرنے سے کامیابی ہوگی.لیکن غیر معین بات کبھی کامرانی کا موجب نہیں ہو سکتی.فرض کرو ایک جرنیل حکم دیتا ہے کہ بہر حال تم نے فلاں جگہ پہنچنا ہے لیکن ایک جرنیل ساتھ ہی مزید راہنمائی کیلئے یہ بھی بتا دیتا ہے کہ پیش آمدہ متوقع مشکلات پر کس طرح قابو پایا جائے نتیجہ یہ ہوگا کہ بہر حال پہنچنے کا حکم دینے والے کی فوج کو جہاں کوئی روک پیش آئے گی مشکل میں پڑ جائے گی لیکن دوسرے کو زیادہ کامیابی ہوگی کیونکہ اس کے احکام حکمت پر مبنی ہوں گے اور دوام ہمیشہ حکمت سے ہی حاصل ہوتا ہے.پس یہ دونوں مضمون مشترک ہیں اس لئے میں تمدن کی بعض باتوں کو لے لیتا ہوں اور ان کے اندر ہی دوسری باتیں بھی آ جائیں گی.تمدن کے معنی ہیں مدنیت، شہریت، چند آدمیوں کا مل کر رہنا.جب چند آدمی مل کر رہیں تو کئی قسم کی دقتیں پیش آتی ہیں کیونکہ ہر شخص کی خواہشات دوسرے کے تابع نہیں ہوتیں اور بسا اوقات ٹکرا جاتی ہیں.مثلاً ایک پھول ہے.دو آدمیوں کی خواہش ہے کہ اسے حاصل کریں.اب اگر وہ مل کر رہنا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا قانون ہونا

Page 422

سيرة النبي علي 412 جلد 3 چاہئے جو یہ بتائے کہ وہ کون لے.اکٹھے مل کر رہنے کے لئے کوئی اصول مقرر کر کے ان پر چلنا ہوگا وگر نہ سر پھٹول جاری ہو جائے گی اور اسی غرض سے دنیا نے کئی انتظام کئے ہیں.تمدن کے دوام کیلئے عورت مرد مل کر رہتے ہیں جو میاں بیوی کہلاتے ہیں وہ آئندہ نسل کی ذمہ داری اپنے سر پر لیتے ہیں اسے خاندان کہا جاتا ہے.پھر محلہ والوں کے ساتھ تعلقات کو نظام میں لانے کے لئے اور قوانین کی ضرورت ہے.پھر ان قوانین پر عمل کرانے کے لئے راجہ یا نواب یا بادشاہ کی ضرورت ہوتی ہے.پھر ایک دوسرے سے لین دین ، شادی نمی ، موت پیدائش وغیرہ معاملات کے لئے آئین وضوابط ضروری ہیں اس کے لئے قضا یا جوں وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے.گویا ان قوانین کا نام جن سے بنی نوع انسان آرام سے رہ سکیں اور باہمی جھگڑے دور ہو جائیں تمدن ہے.اس کے متعلق پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس انتظام کو لوگ قبول کیوں کریں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قانون فلاں نے اس لئے بنایا ہے کہ مجھے نقصان پہنچائے میں اسے نہیں مانتا.تمدن قائم کرنے والے کہتے ہیں ایسی مشکلات کو دور کرنے کیلئے بادشاہ چاہئے جس کے پاس فوج اور پولیس ہو تاکہ لوگوں کو سزا دے کر ٹھیک کر دے.مگر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس جن کے پاس زیادہ زور ہوگا وہی حکومت کرے گا.اگر یہ اصول صحیح مان لیا جائے تو رعایا میں سے جس کا زور چلے گا وہ بھی چلائے گا اسے پھر ہم کس اصول کی بنا پر روک سکیں گے.اور یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آج تک دنیا نہیں دے سکی.یہی وجہ ہے کہ بغاوت کو دور کرنے یا اسے ناجائز منوانے کیلئے دنیا کے پاس کوئی دلیل نہیں.جو دلیل دی جائے باغی وہی بادشاہ پر چسپاں کر دیتے ہیں.گویا جو تمدن کی بنیاد ہے اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ کیوں ایک دوسرے کی بات مانیں اور کیوں اپنا حق چھوڑ دیں.اس کا جواب دنیا معلوم نہیں کر سکی لیکن رسول کریم ﷺ نے اس سوال کا جواب دیا ہے.فرمایا دیکھو تمہارے تمدنی اختلافات کی بنیاد یہ ہے کہ ہم کیونکر یہ مان لیں کہ جس

Page 423

سيرة النبي عمال 413 جلد 3 کے ہاتھ میں فیصلہ کرنے کا کام ہے وہ منصف اور عادل ہے ممکن ہے وہ دشمن سے سختی اور دوست سے نرمی کا برتاؤ کرے پھر کس طرح تسلیم کر لیں کہ وہ صحیح فیصلہ کرے گا.آپ نے فرمایا یہ دلیل ٹھیک ہے.واقعہ میں لوگوں کے فوائد اس طرح ہیں، کوئی کسی کا رشتہ دار ہے، کسی کی کسی سے دوستی اور کسی سے دشمنی اور بعض سے منافرت اس لئے ان حالات کی موجودگی میں انسانوں کے قواعد قابل اعتماد نہیں ہو سکتے اور وہ یقیناً غلط ہیں.دراصل تمدن کی بنیاد الہام پر ہونی چاہئے اور تمدنی قوانین اس ذات کی طرف سے ہونے چاہئیں جس کی نہ کسی سے رشتہ داری ہے اور نہ کسی سے دشمنی.عورتوں سے پوچھو کہتی ہیں مردوں کے ہاتھ میں چونکہ قانون بنانا ہے اس لئے جس طرح چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں.ہندوستانی کہتے ہیں ملکی قوانین انگریزوں نے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائے ہوئے ہیں اس لئے ہم سول نافرمانی کرتے ہیں.گاندھی جی کہتے ہیں ہم انگریزوں کا قانون نہیں مانتے وہ ہمارے مخالف ہیں.مگر خدا تعالیٰ کے قوانین کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا.خدا تعالیٰ کو اس سے غرض نہیں کہ لنکا شائر کا کپڑا فروخت ہو یا نہ ہو اور ہندوستان کی روئی بلکے یا نہ بکے، نہ اسے کسی ملک کے نمک سے سروکار ہے اس کے نزدیک سب یکساں ہیں اس لئے رسول کریم نے آ کر فرمایا اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ 4 خدا ہی آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے.سب چیزیں اسی سے طاقت پاتی ہیں.وہ جس قانون کو جاری کرتا ہے وہ ایسے سرچشمہ سے نور حاصل کرتا ہے کہ جو لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ 5 جو نہ شرقی ہے نہ غربی.گویا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر بتایا کہ دنیا میں کبھی امن نہیں ہوسکتا جب تک تمدن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو.باقیوں نے کہا ہم تمدنی قوانین بنائیں گے اور اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے تمدنی امور میں دخل دیا ہے.اب وہ لوگ دھکے کھا کھا کر وہیں آ رہے ہیں جہاں اسلام لانا چاہتا ہے.تعلقات خواہ میاں بیوی کے ہوں یا ماں باپ کے، بھائی بھائی کے ہوں یا بہن

Page 424

سيرة النبي م 414 جلد 3 صلى الله بھائی کے، رعایا اور راعی کے ہوں یا مختلف حکومتوں کے سب میں دنیا اسلام کی طرف آ رہی ہے.پس پہلی بنیاد جو تمدن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے رکھی وہ یہ تھی کہ تمدن کی بنیاد الہام پر ہونی چاہئے وَإِلَّا بعض کو شکوہ رہے گا کہ بعض کی رعایت کی گئی ہے.اب صرف یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جو تمدن رسول کریم ﷺ نے پیش کیا وہ خدا کی طرف سے ہے یا نہیں.لیکن یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ واقعی خدا کی طرف سے ہے اس پر رعایت کا شبہ نہیں ہو سکتا.دنیا میں جو قوانین لوگ بناتے ہیں ان کے متعلق تو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ بنانے والے کو اس کا حق بھی تھا یا نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق اس قسم کا اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا.اور جب یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قانون فی الواقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.اسلام نے جملہ تمدنی امور کے متعلق ایسے قوانین بنائے ہیں کہ ان میں کوئی رخنہ یا نقص نہیں نکالا جا سکتا اور ایسی تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ انسانوں کا باہم مل کر بیٹھنا ممکن ہو گیا ہے.دنیا میں تمدنی امور میں پہلی چیز شادی یعنی میاں بیوی کے تعلقات ہیں اسی سے نسل انسانی چلتی ہے.اس کے متعلق ہی اسلامی تعلیم کو اگر دیکھ لیا جائے تو ہمارے دعویٰ کی تصدیق ہو جاتی ہے.دنیا میں شادی عام طور پر یا تو زور سے کی جاتی ہے یا محبت سے.زور سے شادی دو قسم کی ہوتی ہے یا تو مرد ز بر دستی کسی عورت سے شادی کرلے اور یا لڑکی کے والدین زبردستی جس سے چاہیں شادی کر دیں.بابل کی حکومت میں یہی قانون رائج تھا کہ لڑکیاں جب جوان ہو جاتیں تو والدین انہیں مارکیٹ میں لا کر اس لئے کھڑا کر دیتے کہ ہم نے اسے پال پوس کر جوان کیا ہے اب کون اس کی زیادہ قیمت دیتا ہے اور جو ان کی منشا کے مطابق قیمت دے دیتا وہ لے جاتا ، لڑکی کو اس میں کوئی اختیار نہ تھا.ہمارے ملک میں بھی یہی رواج ہے.یہاں اگر چہ مارکیٹ میں تو نہیں لے جاتے مگر گھر میں قیمت لے لیتے ہیں.اگر کہو کہ لڑکی کو مارکیٹ میں لے جاؤ تو کہیں گے استغفر اللہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے لیکن یوں گھر میں

Page 425

سيرة النبي عمال 415 جلد 3 روپیہ لے لیں گے حالانکہ یہ حماقت ہے.اگر قیمت ہی لینی ہے تو زیادہ سے زیادہ لینی چاہئے.غالب نے کہا ہے ے وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو یعنی اگر مجھے سر ہی پھوڑنا ہے تو اے معشوق تیرے دروازہ پر ہی کیوں پھوڑوں.جہاں چاہوں پھوڑ سکتا ہوں.اسی طرح اگر لڑکیوں کو بیچنا ہی ہو تو زیادہ قیمت پر مارکیٹ میں کیوں نہ لے جائیں.ہمارے ملک میں نوے فیصدی زمیندار لڑکیوں کو بیچتے ہیں اس کے لئے با قاعدہ سودا کرتے ہیں اور دوسو، چارسو، پانچ سو، ہزار غرض کہ جس قدر بھی قیمت مل سکے وصول کرتے ہیں.وہ اپنی لڑکیوں کے لئے اچھا خاوند تلاش نہیں کرتے بلکہ جو زیادہ پیسہ دے اور اس طرح بسا اوقات جوان لڑکیاں بوڑھوں سے، شریف بدمعاشوں سے لائق نالائقوں سے اور عقلمند بیوقوفوں سے بیاہ دی جاتی ہیں.گویا ایک طریق زور سے شادی کر دینے کا تو یہ ہے کہ ماں باپ قیمت لے کر جہاں چاہیں لڑکی کو بیاہ دیں.اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے خاوند کی اگر موت بھی ہو جائے تو لڑکی آزاد نہیں ہو سکتی اسے خاوند کے بھائی یا کسی اور رشتہ دار سے بیاہ دیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے قیمت ادا کر کے اسے خریدا ہوتا ہے.اور بیوہ ہو جانے کی صورت میں اگر ماں باپ اسے اپنے گھر لاتے ہیں تو چوری یا کسی حیلہ سے کیونکہ بصورت دیگر جہاں لڑکی بیاہی ہوتی ہے وہ ادا کردہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس طرح ایسی لڑکی نہ صرف خاوند کی زندگی میں بلکہ اس سے آزادی کے بعد بھی قید ہی ہوتی ہے.دوسرا طریق یہ ہے جو ہندوؤں یا انگریزوں میں بھی رائج تھا کہ مرد جبر سے لے جائے.بڑے بڑے راجے مہاراجے اپنی لڑکیوں کو پیش کر دیتے کہ کون اسے چھین کر لے جاتا ہے اسے سوئمبر کی رسم کہا جاتا.بڑے بڑے راجے مہاراجے امیدوار ہو کر آتے.طاقتوں کا مظاہرہ کرتے اور جو سب کو مغلوب کر لیتا وہ اس لڑکی کا

Page 426

سيرة النبي عليه 416 جلد 3 خاوند ہو جاتا.خواہ وہ بدصورت ہی ہو یا جاہل یا نقائص اخلاقی اپنے اندر رکھتا ہو.انگریزوں میں لڑکی کی مرضی سے شادی کا دستور ہے مگر وہ مرضی بھی غیر مرضی کے برابر ہے.وہاں یہ طریق ہے کہ لڑکی لڑکا آپس میں ملیں ، ایک دوسرے سے محبت کریں اور جب پسند آ جائے تو شادی کر لیں.کسی اور کا اس میں دخل نہیں ہوتا.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے چونکہ جذبات کی دنیا سب کے دنیا سب پر غالب ہے اس طریق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہنگامی جذبات کے ماتحت وہ اخلاق و شرافت وغیرہ تمام اوصاف بھول جاتے ہیں.صرف مال اور حسن وغیرہ کو دیکھ کر شادی کر لیتے ہیں اور جذبات جب ابھرتے ہیں تو عقل اور ہوش و حواس کھو دیتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے چور، ڈاکو اپنے آپ کو شریف اور امیر زادہ ظاہر کر کے امرا کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں اور پھر نتباہ کر دیتے ہیں.سات آٹھ سال کا عرصہ ہوا اخباروں میں ایک شادی کا بہت چرچا رہا.جرمنی میں ایک شخص آیا اور اس نے اپنے آپ کو روس کا شہزادہ ظاہر کر کے قیصر جرمنی کی ہمشیرہ سے شادی کر لی حالانکہ وہ فی الواقعہ کسی باورچی خانہ میں برتن مانجھنے والا تھا جس نے کسی نہ کسی طریق سے روپیہ حاصل کر کے یہ فریب کیا جو جلد ہی ظاہر ہو گیا.تو محض اپنی مرضی کی شادی کا انجام بھی اچھا نہیں ہوسکتا کیونکہ اس حالت میں اخلاق اور شرافت وغیرہ امور کو کوئی نہیں دیکھتا مال و دولت یا حسن پر لٹو ہو جاتے ہیں.اسلام نے شادی کے متعلق جو تعلیم دی اس سے پہلے شادی کی حکمت بتائی اور پھر بتایا کہ شادی کیونکر کرنی چاہئے.میاں بیوی کی ذمہ داریاں کھول کھول کر بیان کیں ، نتائج بتائے اور پھر بتایا کہ شادی دونوں کی مرضی سے ہونی چاہئے مگر اس طرح کہ اس میں ماں باپ کی مرضی بھی شامل ہو.اکیلے ماں باپ بھی اپنی مرضی سے اپنی لڑکی کی شادی نہیں کر سکتے مگر لڑ کی بھی صرف اپنی مرضی سے ان کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتی.اگر صرف ماں باپ کی مرضی ہو تو بعض ماں باپ ایسے بھی ہوں گے جو صرف روپیہ دیکھیں گے لیکن لڑکی تو یہ بھی دیکھے گی کہ میری ساری ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتا ہے یا

Page 427

سيرة النبي علي 417 جلد 3 عل وسام نہیں.بعض شکلوں کو ہی بعض لڑکیاں برداشت نہیں کر سکتیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک لونڈی تھی جس نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے اپنے خاوند کی شکل اچھی نہیں لگتی.پھر ایک اور عورت کے متعلق آتا ہے کہ اس نے کہا یا رسول اللہ ! ( ) میں اس شخص کے ساتھ جس سے میری شادی کی گئی ہے رہنا گوارا نہیں کر سکتی.چنانچہ آپ نے علیحدگی کا حکم دے دیا 6.تو بسا اوقات بعض آدمیوں کی شکل سے عورتوں کو صلى الله طبعا نفرت ہوتی ہے.لڑکی ان باتوں کو دیکھ سکتی ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے شادی کی بنیاد اس امر پر رکھی کہ دونوں کی مرضی سے ہو ماں باپ کی بھی اور لڑکی کی بھی.اب سوال یہ ہے کہ اگر دونوں کی مرضی نہ ملے تو کیا کیا جائے.اگر لڑکی کو وہ پسند ہو مگر ماں باپ اپنے اغراض کے ماتحت وہاں اس کی شادی نہ کریں تو اسلام نے لڑکی کو اختیار دیا ہے وہ عدالت میں جا کر درخواست دے سکتی ہے کہ میرے والد اپنے اغراض کے ماتحت مجھے اچھے رشتہ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور عدالت تحقیقات کے بعد اسے اجازت دے سکتی ہے کہ شادی کر لے.گویا اس طرح سب کے حقوق محفوظ کرنے کا انتظام کر دیا گیا.لڑکی اور ماں باپ دونوں کی مرضی کو ضروری رکھا اور اس طرح کا رشتہ یقیناً مبارک ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی شادیاں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں.یورپ میں نوے فیصدی شادیاں ناکام ہوتی ہیں.حتی کے وہاں یہ لطیفہ مشہور ہے کہ اگر کوئی مرد و عورت اکٹھے جا رہے ہوں تو کہتے ہیں یا تو یہ میاں بیوی نہیں یا ان کی شادی پر ابھی ایک ماہ نہیں گزرا.لیکن مسلمانوں میں نوے فیصدی شادیاں کامیاب ہوتی ہیں.ہندوستان میں دیکھ لو غیر قوموں کی عورتیں زیادہ نکلتی اور اغوا ہوتی ہیں سوائے ان قوموں کی عورتوں کے جن کی مالی یا اخلاقی حالت لوگوں نے خراب کر دی ہے.غرض اسلام نے زوجیت کے تعلق کی ابتدا ایسے اصول پر رکھی کہ اس کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی.پھر دھو کے بازی سے بچنے کیلئے یہ حکم دیا کہ نکاح علی الاعلان ہو.جو علی الاعلان نہیں وہ نکاح ہی نہیں.اس سے بھی بہت سے فسادات.

Page 428

سيرة النبي علي 418 جلد 3 کا انسداد ہو جاتا ہے.پوشیدہ طور پر تو کوئی غلط بات ظاہر کر کے دھوکا بھی دے سکتا ہے لیکن اعلان سے عام طور پر عیوب کھل جاتے ہیں.پھر تمدنی خرابیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مرد چونکہ کماتا ہے دولت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے وہ نا جائز طور پر عورت کو خرچ وغیرہ سے تنگ کر سکتا ہے اور عورت کو اس کا محتاج رہنا پڑتا ہے.یورپ نے اس کا یہ علاج تجویز کیا ہے کہ وہ نوکریاں کرنے لگ گئی ہیں نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ بعض ملکوں کی نسلیں کم ہونا شروع ہوگئی ہیں اور بعض ملکوں میں دس سال کے اندر چار، پانچ فیصدی نسل کم ہوگئی ہے.اسلام نے اس کا علاج یہ رکھا ہے کہ ہر شخص کی حیثیت کے مطابق عورت کا مہر مقرر کر دیا علاوہ اخراجات کے.گویا مہر عورت کا جیب خرچ ہے دوسری سب ضرورتیں پھر بھی خاوند کے ذمہ ہیں اور مہر اس کے علاوہ ہے.جس سے وہ ان ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے جو وہ خاوند کو نہیں بتانا چاہتی.مثلاً اس کے والدین غریب ہیں اور وہ ان کی مدد کرنا چاہتی ہے لیکن ساتھ ہی خاوند پر اپنی یہ خواہش ظاہر کر کے اس کی نظروں میں خود ذلیل ہونا اور والدین کو ذلیل کرنا نہیں چاہتی.یا مثلاً اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے بھائیوں کو تعلیم دلانا چاہتی ہے اور ساتھ ہی اس کی غیرت یہ بھی برداشت نہیں کرتی کہ خاوند کا احسان برداشت کرے اس لئے اسلام نے پہلے دن سے عورت کے ہاتھ میں مال دے دیا.جس دن شادی ہوتی ہے خاوند کا مال کم ہو جاتا ہے کیونکہ اسے مہر کے علاوہ اور بھی اخراجات کرنے پڑتے ہیں لیکن نکاح کے ساتھ ہی عورت کا مال بڑھ جاتا ہے.گویا وہ اسی دن سے اس لحاظ سے خاوند کے بے جا تصرف سے آزاد ہو جاتی ہے اور اس طرح جو جھگڑے وغیرہ یورپ میں پیدا ہو رہے ہیں اسلام نے پہلے دن سے ہی ان کا انسداد کر دیا.پھر مرد و عورت کے تعلقات میں ایک وجہ فساد یہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں میرا بچہ نہیں اور یہ ایک ایسا نازک معاملہ ہے جس کا علاج کوئی نہیں کیونکہ اس بات کا کسی کے پاس کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی فی الواقعہ باہم ملے.بعض لوگوں

Page 429

سيرة النبي عمال 419 جلد 3 نے اس کے لئے بعض ذرائع تجویز کئے لیکن وہ نہایت گندے ہیں.مثلاً بعض اقوام میں یہ رواج ہے کہ ملوث پار چات دکھاتے ہیں لیکن یہ نہایت ہی خطرناک طریق ہے اور اس میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ بعض عورتوں کا خون نکلتا ہی نہیں اور چونکہ سب لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے گندے کپڑوں کی نمائش سے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ عورت بدکا رتھی حالانکہ وہ ایسی نہیں ہوتی.شریعت اسلامیہ نے اس کے لئے کیا لطیف طریق رکھا ہے اور وہ یہ کہ جب میاں بیوی ملیں تو اگلے روز ولیمہ کی دعوت کی جائے.اس طرح بغیر ایک لفظ منہ سے نکالے یہ اعلان ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی آپس میں مل گئے ہیں.پھر ایک بات اسلام نے یہ رکھی کہ نکاح سے قبل استخارہ کر لو.رسول کریم علی نے ہرا ہم امر میں استخارہ کا حکم دیا ہے بالخصوص شادی کے بارے میں 1.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلد بازی کے برے انجام سے انسان بچ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کر سکتا ہے.جلد بازی سے بھی کئی جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ بڑا اچھا رشتہ ہے آج ہی کر لو لیکن مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ ان کے عیوب ظاہر نہ ہونے پائیں.لیکن اگر سات روز تک استخارہ کیا جائے تو اس عرصہ میں اور لوگوں سے بھی شادی کا ذکر آئے گا اور اس طرح بات کھل جائے گی.پھر استخارہ کی وجہ سے جذبات دب جاتے ہیں اور انسان روحانی تصرف کے ماتحت ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت اس کے علاوہ ہے.شادی کے بعد پھر میاں بیوی کے تعلقات شروع ہو جاتے ہیں.اس میں بھی اسلام کا دیگر مذاہب کی تعلیم سے تصادم ہوتا ہے.باقی سب مذاہب اسے ناپاک قرار دیتے ہیں وہ اس کی اجازت بھی دیتے ہیں مگر اس کے باوجود اسے ادنی اور ذلیل قرار دیتے اور شادی نہ کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فطرت سے مجبور ہو کر ان تعلقات کو قائم بھی کیا جاتا ہے مگر چونکہ دل میں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ناپاک

Page 430

سيرة النبي عمال 420 جلد 3 تعلقات ہیں اس لئے دل پر زنگ لگتا رہتا ہے کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں.گاندھی جی نے لکھا ہے میں جب بھی بیوی کے پاس جاتا تو میرے دل پر ایک بوجھ ہوتا کہ میں برا کام کر رہا ہوں.آخر ہم نے قسم کھائی کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے.یہ ہندو دھرم کی تعلیم کا اثر تھا.ایک طرف تو فطرت میں ایسا جذبہ ہے، پھر اولاد کی خواہش ہوتی ہے، صحت کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے لیکن دوسری طرف یہ خیال ہوتا ہے کہ بری بات ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ کام کرتے بھی ہیں اور دل سیاہ ہوتا جاتا ہے کہ ہم برا کام کر رہے ہیں.اسلام نے بتایا کہ یہ خیال غلط ہے.اگر اس خیال کے ماتحت تعلقات قائم کرو گے تو بچہ کے دل میں بھی یہ خیال ہو گا اور گناہ کی مہر لے کر رحم مادر سے نکلے گا.اس کی بنیاد ہی گناہ پر ہوگی اور وہی مثال ہوگی کہ خشت اول چوں نہر معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج بچے کی پیدائش کی بنیاد ہی جب گند پر ہوگی تو اس کا دل کبھی پاک نہ ہو سکے گا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ تعلقات پاکیزہ ہیں اور جو شادی نہیں کرتا وہ غلطی کرتا ہے.رہبانیت پسندیدہ چیز نہیں جس شخص نے شادی نہ کی اور وہ مر گیا فَهُوَ بطال اس کی عمر ضائع گئی.غرض آپ نے بتایا کہ یہ تعلق گندہ نہیں بلکہ انسانی صحت اور دماغی ترقی کا منبع ہے.میاں بیوی گویا پاکیزہ محبت کا مدرسہ اور محبت کی پہلی کڑی ہیں اور اسلام نے یہ کہہ کر کہ یہ پاکیزہ تعلقات ہیں گناہ کے احساس کو مٹا دیا.گناہ کے احساس کی وضاحت کے لئے ایک مثال دے دیتا ہوں.فرض کرو کہ ایک شخص کہیں سفر پر جا رہا ہے اسٹیشن پر آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا بعد میں بیوی کو خیال آیا کہ میاں کو کھانے کی تکلیف ہوگی اس نے کھانا تیار کر کے کسی کے ہاتھ اسٹیشن پر بھیج دیا.گاڑی روانہ ہو رہی تھی اور وہ بمشکل کھانے کو اس ڈبہ میں رکھ سکا جس میں میاں بیٹھا ہے لیکن اسے

Page 431

سيرة النبي عمال 421 جلد 3 اطلاع نہ دے سکا.دوران سفر میں اسے بھوک لگتی ہے اور وہ کھانا کھانے لگ جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے یہ احساس ہے کہ ممکن ہے یہ کسی اور کا ہو.اس صورت میں اگر چہ کھانا اسی کا ہے لیکن اس احساس کی وجہ سے اس کے دل پر چوری کا زنگ لگتا جائے گا.تو اصل چیز احساس ہوتا ہے اور اسلام نے ان تعلقات سے گناہ کے احساس کو مٹا دیا.اور پھر یہ بتایا کہ شادی محبت کے اجتماع کا نام ہے اور چونکہ محبت جب پورے جوش پر ہو تمام دوسرے تعلقات دب جاتے ہیں اس لئے شریعت نے حکم دیا کہ جب میاں بیوی ملیں تو دعا کریں اللهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَ جَيِّبِ الشَّيْطَنَ مَا رَزَقْتَنَا یعنی اے اللہ ! ہمیں بھی شیطان سے بچا اور اس میل کے نتیجہ میں اگر کوئی اولاد ہونے والی ہے تو اسے بھی بچا.میاں بیوی کی محبت پاک ہی سہی مگر ایسا نہ ہو کہ ادنی خیالات اعلیٰ پر غالب آجائیں اور اس طرح محبت کے جذبات کے غلبہ کے باعث جس نقصان کا احتمال ہوسکتا تھا اس کا بھی انسداد کر دیا.پھر اس موقع پر جس قدر توجہ ایک دوسرے کی طرف ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں روحانی طاقتیں باہر کی طرف جاتی ہیں.میاں بیوی کا یہ تعلق ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے میں جذب ہونے کی کوشش کرتا ہے.اس کے نتیجہ میں ایسی رو پیدا ہوتی ہے کہ دماغی تو جہات کو ایک ہی طرف بدل دیتی ہے اس کے لئے اسلام نے غسل رکھا تا ایسا نہ ہو کہ دماغ اس طرف لگا رہے بلکہ جسم ٹھنڈا ہو کر بھاپ بند ہو جائے.گویا غسل ان نقائص کو دور کرنے کے لئے ہے جو باہم ملنے سے قدرتی طور پر پیدا ہو سکتے تھے.اور غسل کے ذریعہ پھر ان طاقتوں کو مجتمع کر دیا تا دوسری طرف ان کو لگایا جا سکے.پھر ان تعلقات کو محدود کیا.بعض حالتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں میاں بیوی کا آپس میں ملنا درست نہیں ہوتا.بعض شرائع نے ایسی حالت کو گند قرار دیا ہے اور تورات کا حکم ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو اسے الگ رکھا.جائے اور ہاتھ تک نہ لگایا جائے.بعض نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر وقت مرد و عورت مل سکتے ہیں لیکن یہ دونوں باتیں تمدن کے لئے تباہ کن ہیں.اگر بالکل علیحدہ کر دیا جائے

Page 432

سيرة النبي علي 422 جلد 3 تو عورت حقیر اور ذلیل خیال کی جائے گی اور اگر ملنے کی اجازت ہو تو یہ دونوں کی صحت کے لئے تباہ کن ہے اس لئے اسلام نے یہ تعلیم دی کہ هُوَ اذَّی و تکلیف کی چیز ہے.اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے.لیکن عورت ایسی ہی پاک ہے جیسے تم.گویا ایک طرف تو علیحدگی کا حکم دیا تا قوتیں پھر نشو و نما پائیں اور دوسری طرف گند کے نقصانات سے آگاہ کر دیا.پھر بہت سے فتنے اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ بعض مذاہب میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کی روح اور ہے اور مرد کی اور بلکہ بعض عیسائیوں میں تو یہ خیال بھی ہے کہ عورت کی روح ہوتی ہی نہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا مِنْ اَنْفُسِكُمْ 10 ا جیسی روح تمہاری ہے ویسی عورتوں کی ہے.اب دیکھو کیسی امن کی تعلیم ہے عام طور پر اس لئے لڑائی جھگڑا ہوتا ہے کہ مرد سمجھتے ہیں عورت میں حس ہوتی ہی نہیں اچھا کھانا، پہننا، سیر و تفریح سب اپنے لئے ہے.ایسے لوگ عورت کو جب چاہیں مار پیٹ لیں گے اور بلا وجہ اپنی سیادت جتاتے رہیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں حس نہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے پنجاب میں تو عام طور پر عورت کو جوتی سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن کریم نے بتایا کہ مِنْ اَنْفُسِكُمْ تم میں اور عورت میں کوئی فرق نہیں.جس طرح بری بات تمہیں بری لگتی ہے اس طرح اس کو بھی بری محسوس ہوتی ہے اور اسے بھی تمہاری طرح ہی اچھی باتوں کی خواہش ہے.یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اور ابھی میں نے اس کا پہلا حصہ ہی بیان کیا ہے مگر چونکہ مغرب کا وقت ہو چکا ہے اس لئے اسے بند کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ رسول کریم ﷺ کی اصلی شان کو دنیا میں پیش کرسکیں تا وہ لوگ بھی جو اس سے اس وقت دور ہیں قریب ہو جائیں اور ساری دنیا اس اخوت میں پروئی جائے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور وہ لڑائی جھگڑے دور ہو جائیں جنہوں نے ایک آدم کی اولا د کو دو کیمپوں میں تو

Page 433

سيرة النبي علي 66 کر رکھا ہے.‘“ 1: الجمعة : 2 تا 5 2: الشعراء : 4 423 جلد 3 ( الفضل 15 نومبر 1932ء ) 3 بخاری کتاب الجنائز باب مایکره من اتخاذ المساجد علی القبور صفحه 212 حدیث نمبر 1330 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4: النور : 36 5: النور : 36 6 سنن ابن ماجه ابواب النكاح باب من زوج ابنته وهي كارهة صفحه 268 حديث نمبر 1873 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 7: بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة صفحہ 1108 حدیث نمبر 6382 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 8: بخارى كتاب الدعوات باب ما يقول اذا اتى اهله صفحه 1109 حدیث نمبر 6388 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 9: البقرة: 223 10: النحل : 73

Page 434

سيرة النبي علي 424 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی السلام علیکم کہنے کی عادت اور نصیحت حضرت مصلح موعود 16 دسمبر 1932ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.صلى الله رسول کریم ﷺ کو سلام اس قدر پیارا تھا کہ آپ نہ صرف خود کرتے بلکہ دوسروں کو بھی تاکید کرتے اور فرماتے کہ جو سلام کرتا ہے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور آدمی کا دماغ ، ہاتھ ، کان سب مشغول ہوں تب بھی وہ منہ سے سلام کہہ کر دس نیکیاں حاصل کر سکتا ہے.گویا دوسرے کام میں مشغول ہوتے ہوئے بھی وہ دس نیکیاں حاصل کر سکتا ہے.فرض کرو تم دس گناہ کرتے ہو.اگر ایک سلام محبت سے کر دو تو وہ سب زائل ہو جائیں گے بشرطیکہ گناہ بھی ایسا ہو جیسا سلام کرنے کی نیکی ہے.رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ایک شخص آیا اس نے کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ.آپ نے فرمایا عشر.دوسرا آیا اور کہا اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ.آپ نے فرمایا عِشْرُونَ.تیرا آیا اور کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.آپ نے فرمایا ثَلاثُونَ.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا جس نے السّلامُ عَلَيْكُمُ کہا اس کے نام دس نیکیاں جس نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ الله کہا اس کے نام ہیں نیکیاں اور جس نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةٌ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کہا اس کے نام میں نیکیاں لکھی گئیں 1.اور جب ایک لفظ سے دس نیکیاں ملتی ہوں تو وہ کون بے وقوف ہے جو نہ لے.سلام کا جواب بھی اونچی آواز سے

Page 435

سيرة النبي عمال 425 جلد 3 دینا چاہئے.ہاں ایک اور صورت ہے مثلاً میں اب پانچ منٹ میں یہاں تک پہنچ سکا ہوں اس اثنا میں قریباً اڑھائی سو لوگوں نے مصافحے کئے ہوں گے اور پھر کئی ایسے ہاتھ تھے جن کے ہاتھ دوسروں سے ملے ہوئے تھے.رسول کریم ع کا طریق تھا کہ ایسے موقع پر آپ تین دفعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہہ دیتے.کیونکہ سب کو علیحدہ علیحدہ جواب دینا ایسے موقع پر مشکل ہوتا ہے اس لئے اکٹھا ہی جواب دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو کھڑے ہو کر ہر ایک کو جواب دینا تکلیف مالا يطاق بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے.مگر یہ موقع ہر بار مجھے بھی پیش نہیں آتا اور دوسروں کو تو بالکل ہی نہیں آتا ہو گا اور ایسی صورت کے سوا سلام کا جواب ضرور دینا چاہئے.بلکہ رسول کریم ﷺ تو اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ اکثر آپ خود ابتدا کرتے تھے.چونکہ آپ معلم تھے اس لئے اگر بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو بھی اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے اور اس طرح انہیں سلام کہنا سکھاتے.لیکن اگر ایک ہیڈ ماسٹر گزرتا ہے بچے اسے سلام کہتے ہیں اور وہ جواب نہیں دیتا تو وہ یہی سمجھیں گے کہ جواب نہیں دینا چاہئے.کیونکہ بچے وہی کرتے ہیں جو بڑوں کو کرتا دیکھیں.ہمارے گھر میں چونکہ عام طور وہ دیکھتے ہیں اس لئے ایسی عادت ہو گئی ہے کہ جب میں جاتا ہوں اس کثرت کے ساتھ السّلامُ عَلَيْكُمُ کہنے لگ جاتے ہیں کہ مجھے بعض اوقات انہیں ڈانٹنا پڑتا ہے.باری باری بچے ابا جان! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ ابا جان ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ایک دور ختم ہو جائے تو دوبارہ شروع کر دیتے ہیں.لیکن اگر ماں باپ یا ہیڈ ماسٹر کو وہ دیکھیں کہ سلام نہیں کرتے تو وہ بھی اس کے عادی نہیں ہو سکتے.پس ناظر ، ہیڈ ماسٹر، استاد اور دوسرے افسروں کو چاہئے کہ پہلے خود سلام کیا کریں تا دوسروں کو رغبت ہو.حضرت انس رسول کریم ﷺ کے خادم تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم علیہ نے فرمایا جب گھر میں آؤ تو السّلامُ عَلَيْكُم کی اس سے گھر والوں کو تمہیں اور تمہارے اہل بیت کو برکت ملے گی 2.اور محبت بڑھانے

Page 436

سيرة النبي علي 426 جلد 3 کا ذریعہ ہے.بظاہر یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے جس میں اس خاص سلامتی کا ذکر ہے جس کے متعلق قرآن میں آتا ہے کہ جب قیامت کے دن جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کہے گا سَلَامٌ عَلَيْكُمُ طِبْتُمُ یعنی جو سلامتی تمہارے لئے مقدر تھی وہ یہی ہے.گویا جب ہم اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے ہیں تو اس سلامتی کے ملنے کی دعا کرتے ہیں جس کا وعدہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے.غرض یہ ایک دعا ہے جس کے معنی ہیں کہ تمہاری نیکیاں زیادہ ہوں، خدا تعالیٰ تمہاری بدیوں کو مٹائے ، تمہیں جنت میں داخل کرے اور اس کے فرشتے تمہیں سلام پہنچائیں.چکڑالوی اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کے بجاۓ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ کہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ قرآن میں نہیں آیا.لیکن مجھ سے اگر کوئی پوچھے تو میں کہوں گا کہ اگر کوئی شخص ساری عمر بلکہ اس کی اولاد بھی مجھے سَلَامٌ عَلَيْكُمْ کہتی رہے تو میں ایک بار کے اَلسَّلامُ عَلَيْكُم کی قیمت بھی اس سے بہت زیادہ سمجھوں گا.کیونکہ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ میں اپنا سلام ہے اور السَّلَامُ عَلَيْكُمْ میں اللہ تعالیٰ کا سلام ملنے کی دعا ہے.پس یہ معمولی چیز نہیں.سلام کہنا اور جواب دینا قوم میں اتحاد و اتفاق اور برکت کا موجب ہے اور نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی ہے.اور جو برکت ذرا سی زبان ہلا دینے سے ملتی ہوا سے نہ لینا بڑی حماقت ہے.اگر چہ ایسی شکایت میں اتنا مبالغہ ہے کہ جو جھوٹ کی حد تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر بھی شکایت کرنے والے پاگل نہیں ہیں اور بعض ایسے لوگوں کی طرف سے بھی شکایت پہنچی ہے جن کی راستبازی میں شبہ کی گنجائش نہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں دو چار ایسے لوگ ضرور ہیں جن میں یہ نقص ہے.اور جن میں یہ نقص ہو میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسے دور کریں اور مفت نیکی حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں.صحابہ تو نیکی کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے اگر کوئی شخص کسی مومن کا جنازہ پڑھے اور میت کے ساتھ قبرستان تک جائے تو اسے بہت بڑا ثواب ملتا ہے.اس پر صحابہ نے کہا

Page 437

سيرة النبي علي 427 جلد 3 کہ تم نے ہمیں یہ پہلے کیوں نہ بتا دیا 3.گویا نیکی کے لئے ان کے اندر ایسا جوش پایا جا تا تھا کہ وہ ناراض ہوئے کہ ہمیں پہلے کیوں نہ یہ بتا دیا تا ہم نیکی کے اتنے مواقع سے محروم نہ رہتے.ان صحابہ نے بہت محنت کی ، مشقتیں اٹھائیں اور رسول کریم علی کے اعمال اور کلمات جو حصولِ ثواب کا ذریعہ ہیں جمع کر کے ہمارے لئے آسانی پیدا کر دی.اور اب یہ حالت ہے کہ گویا کھانا تیار ہو چکا ہے اور ہم نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لینا ہے.اگر ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے تو بہت قابل افسوس امر ہے.یا د رکھو یہی نوافل قرب الہی کا ذریعہ ہوتے ہیں.نماز روزہ وغیرہ عبادات تو عذاب سے سے بچنے کا ذریعہ ہیں مگر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مل کر انسان کو خدا تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل کرنے کا موجب بن جاتی ہیں.“ ( الفضل 22 دسمبر 1932 ء ) 66 1:ترمذى ابواب الاستئذان والاداب باب ما ذكر في فضل السلام صفحہ 610 حدیث نمبر 2689 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 2 ترمذی ابواب الاستئذان والاداب باب ما جاء فى التسليم اذا دخل بيته صفحه 612 حدیث نمبر 2698 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى :3 ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء في فضل الصلوة على الجنازة صفحه 251 حديث نمبر 1040 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى

Page 438

سيرة النبي علي 428 جلد 3 رسول کریم اللہ کا زندہ خدا سے تعلق خدا رسول حضرت مصلح موعود 23 دسمبر 1932 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.بدر کی جنگ کے موقع پر صرف تین سو مسلمان سپاہی تھے اور ان میں سے بھی بہت سے ناتجربہ کار اور جنگی فنون کے لحاظ سے حقیر سمجھے جاتے تھے.ان میں مہاجرین کی تعداد کم تھی اور انصار زیادہ تھے اس طرح مسلمان سپاہیوں کا اچھا خاصہ حصہ ایسا تھا جو جنگی فنون سے ناواقف تھا.یہ مدینہ کے وہ لوگ تھے جن کا کام زیادہ تر کھیتی باڑی تھا.عرب کے لوگ ایسے لوگوں کو حقیر سمجھا کرتے تھے کیونکہ عرب میں عزت تلوار کی وجہ سے حاصل ہوا کرتی تھی.چونکہ وہ تلوار کے دھنی نہ تھے اس لئے حقیر اور ذلیل سمجھے جاتے.جب بدر کی جنگ کے موقع پر عرب کے بعض جرنیل مقابل میں نکلے تو اُس وقت کے طریق کے مطابق جو یہ تھا کہ پہلے اکیلے اکیلے نبرد آزمائی کرتے اور پھر فوج، فوج پر حملہ کر دیتی.عتبہ، شیبہ اور ولید تین جرنیل مکہ والوں کی طرف سے میدان میں آئے اور انہوں نے کہا هَلْ مِنْ مُّبَارِزِ ؟ کیا تم میں سے کوئی ہے جو ہما را مقابلہ کرے؟ انصار اُس وقت یہ خیال کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے کیونکہ ہم آپ کو اپنے ہاں لائے ہیں اس لئے پیشتر اس کے کہ مہاجرین میں سے کوئی نکلتا تین انصاری مسلمانوں میں سے نکل آئے.جن میں سے دو پندرہ پندرہ برس کے نوجوان تھے.کفار کے جرنیلوں نے پوچھا تم کون ہو؟ اُس وقت قاعدہ یہ ہوتا تھا اور اب بھی ہے کہ داڑھی والے ڈھاٹا باندھ لیتے تھے.انہوں نے اسی طرح کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی شکلیں پہچانی نہ جاتی تھیں.تاریخوں والے غلطی سے لکھتے ہیں

Page 439

سيرة النبي عمال 429 جلد 3 کہ وہ نقا میں اوڑھ کر جنگ کیا کرتے تھے حالانکہ کبھی نقاب ڈال کر بھی لڑائی کی جاسکتی ہے؟ چونکہ ان کی داڑھیاں ہوتی تھیں اس لئے وہ ڈھائے باندھ لیتے جس کی وجہ.سے ان کے چہرے پوشیدہ ہو جاتے.جب یہ انصاری نوجوان نکلے اور مقابلہ کرنے والوں نے پوچھا تم کون ہو؟ کیونکہ وہ پہچانتے نہ تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم انصار میں سے ہیں.اس پر وہ بول اٹھے کہ تعجب ہے مکہ سے نکل کر ہماری قوم کے لوگ ایسے بد تہذیب ہو گئے ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں بجائے سپاہیوں کے زمینداروں کو بھیجتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم لڑنے کے لئے تیار نہیں ہم مکہ کے سردار ہیں ہمارے ساتھ سردار ہی آکر لڑیں.وہ لوگ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں واپس آگئے اور کہا یا رسول اللہ ! وہ تو اس بنا پر لڑائی سے انکار کر رہے ہیں.فرمایا اچھا الله تمہاری بجائے اور آدمیوں کو بھیجا جاتا ہے.تب رسول کریم ﷺ نے تین سپاہی بھیجے جن میں سے ایک حضرت علیؓ اور ایک حضرت حمزہ تھے.جب یہ گئے تو کفار نے پھر پوچھا کہ تم کون ہو؟ کیونکہ ڈھائے باندھے ہوئے تھے اور شکلیں نظر نہیں آتی تھیں.انہوں نے بتایا کہ ہم علی اور حمزہ ہیں تیسرے کا نام مجھے یاد نہیں رہا1.اس پر انہوں نے کہا ہاں اب تم ہمارے مد مقابل ہو ہم تم سے لڑیں گے.یہ واقعہ اس لئے بتایا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر خود دشمن محسوس کرتا تھا کہ مسلمانوں میں سے ایک بڑی تعداد فنون جنگ سے ناواقف ہے اور ایسی نا واقف کہ مکہ والے آپ ہی ان سے لڑائی کرنا اپنی ہتک خیال کرتے.یہ حالات تھے جو مسلمانوں کے متعلق پائے جاتے تھے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے کلّی طور پر مایوسی نظر آ رہی تھی.ادھر مکہ کے لوگوں کو اپنی طاقت وقوت پر اتنا گھمنڈ تھا کہ بعض ان میں سے اپنے ساتھیوں سے اپیل کرتے کہ آخر یہ مسلمان ہمارے رشتہ دار ہی ہیں ان سے نہیں لڑنا چاہئے.گویا مکہ والے اسے لڑائی نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خیال کرتے تھے کہ ہم چند منٹوں میں ہی ان سب کو قتل کر دیں گے اس لئے کہتے اپنے کمزور بھائیوں کو میدان میں مار ڈالنا اچھی بات نہیں..

Page 440

سيرة النبي علي 430 جلد 3 صلى الله غرض جنگی لحاظ سے مسلمانوں کی یہ حالت تھی مگر رسول کریم ﷺے بجائے اس کے کہ میدان جنگ کے متعلق فکر کرتے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے اور بار بار آپ پر رقت کا عالم طاری ہو جاتا اور آپ فرماتے اے خدا! یہ شیطان سے تیری فوج کی آخری جنگ ہے.اگر اس میں تیرے مومن بندوں نے شکست کھائی اور یہ مارے گئے تو پھر تیرے نام لیوا دنیا سے مٹ جائیں گے.پس اے خدا! میں تیری توحید اور تفرید کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تو ان کو کامیاب کر2.غرض لوگ جس وقت نیزے کی انی تیز کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ تلواروں کے جھنکارنے میں مشغول ہوتے ہیں جب وہ دیگر آلات حرب کو درست کر رہے ہوتے ہیں اُس وقت محمد ﷺ کی نظر میں اگر کوئی تلوار، اگر کوئی نیزہ اور اگر کوئی تیر کام کرنے والا تھا تو وہ اللہ اور اس کے حضور عاجزانہ دعا تھی.یہ وہ حقیقی عبادت ہے جس کی اسلام بہت تاکید کرتا ہے.عبادت وہ نہیں کہ انسان کبھی مندر میں گیا یا کبھی مسجد میں اور پھر ذراسی ٹھوکر لگنے پر اپنے ایمان کی ساری پونچھی فروخت کر ڈالی اور کہہ دیا کہ جاؤ ہم ایسے اسلام کو قبول نہیں کر سکتے.بلکہ عبادت وہ ہے کہ جس وقت انسان کے چاروں طرف عبادت سے روکنے والے اسباب اکٹھے ہوں اس وقت سب سے زیادہ عبادت پر زور دے اور سمجھے کہ اگر کوئی ذریعہ نجات دینے والا ہے تو وہ عبادت ہی ہے.یہ تو قومی خطرہ کی مثال تھی اب میں ایک نفسی خطرہ کی مثال بھی سنا دیتا ہوں.رسول کریم ﷺ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے کہ دشمنوں میں سے ایک شخص نے قسم کھائی کہ محمد ﷺ کو ضرور قتل کروں گا.آپ راستہ میں ایک جگہ قیلولہ کے لئے ٹھہرے اور ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے.باقی تمام صحابی بھی مختلف جگہوں میں آرام کرنے کے لئے پھیل گئے.انہیں اس امر کا خیال نہیں تھا کہ کوئی دشمن ہمارے تعاقب میں آ رہا ہے.رسول کریم ﷺے درخت کے نیچے سور ہے یا اونگھ رہے تھے کہ دشمن نے تلوار کھینچ کر آواز دی مگر نہ معلوم اسے کیا خیال آیا کہ اس نے جگا کر پوچھا بتاؤ

Page 441

سيرة النبي علي 431 جلد 3 علومة اب تمہیں کون میرے حملہ سے بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ.جس یقین کے ساتھ ، جس وثوق کے ساتھ ، جس عبادت اور استعانت کے خیال کے ساتھ آپ کی زبان ے یہ فقرہ نکلا اس کا یہ اثر ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہ منزلیں مارتا ہوا اپنی قسم پوری کرنے کے لئے آیا تھا اور باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ اپنی زندگی میں سے یہ پہلا موقع حاصل ہوا ہے اس کا ہاتھ لرز گیا اور تلوار ہاتھ سے گر گئی.اس پر رسول کریم کے نے وہی تلوار ہاتھ میں اٹھائی اور فرمایا بتا اب تجھے میرے حملہ سے کون بچا سکتا ہے؟ اس شخص کو رسول کریم ﷺ سے سن کر بھی سمجھ نہ آئی اور کہنے لگا آپ ہی رحم فرمائیں.صلى الله رسول کریم ﷺ نے فرمایا جاؤ چلے جاؤ تمہارا خون اس قابل نہیں کہ محمد ہے اسے بہائے 3.اور آپ سمجھ گئے جس شخص کے دل میں خدا نہیں اس کی زبان پر بھی وہ نہیں آسکتا.یہ اس زندہ خدا کی عبادت کا کرشمہ تھا جسے اسلام نے پیش کیا ہے.اس کے مقابلہ میں مصنوعی عبادات کا نتیجہ بھی دیکھ لو.فتح مکہ کے موقع پر تمام کفار سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لئے کامیابی کا کوئی راستہ نہیں اور یہ کہ تمام دروازے ان کے لئے بند ہو چکے.ایسے موقع پر میں ایک ایسے فرد کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جو کفر میں بہت بڑھا ہوا تھا.رسول کریم معہ فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لے رہے تھے اور آپ کے ارد گرد ہجوم تھا آپ نے اعلان کرا دیا تھا کہ بعض شریروں کو مکہ بھی پناہ نہیں دے سکتا وہ جہاں بھی کہیں مل جائیں انہیں قتل کر دیا جائے.ان میں سے ایک ہندہ بھی تھی.بیعت لیتے وقت آپ نے کہا کہو ہم شرک نہیں کریں گی.عورتوں نے کہا ہم شرک نہیں کریں گی.اس پر ہندہ جو بڑی دلیر اور بہادر عورت تھی اور جس نے بعد میں اپنی جرات اور بہادری کا ثبوت بھی پیش کر دیا اور جو چوری چھپے بیعت کے لئے آئی ہوئی تھی.جب رسول کریم ﷺ نے یہ اقرار لینا چاہا کہ ہم شرک نہیں کریں گی تو وہ بول اٹھی کہ کیا اب بھی کوئی شرک کر سکتا ہے جبکہ ہم نے سارا زور لگایا مگر تو اکیلا ہو کر جیت گیا اور ہمارے معبود ہمارے کسی کام نہ آئے.کیا اتنے بڑے نشان کے بعد بھی

Page 442

سيرة النبي علي 432 جلد 3 کوئی شرک پر قائم رہ سکتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کون ہے ، ہندہ ہے؟ ہندہ نے عرض کیا ہاں ہندہ.جانتی تھی کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس پر کوئی تلوار نہیں اٹھ سکتی.پس اس نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا.(الفضل 27 دسمبر 1932ء) 1: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول دعاء عتبة الى المبارزة صفحه 685 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 2 بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى اذ تستغيثون ربّكم صفحه 668 حديث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3:بخارى كتاب الجهاد و السير باب من علق سيفه بالشجر في السفر عند القائلة صفحہ 481 حدیث نمبر 2910 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 443

سيرة النبي علي 433 جلد 3 معاہدات کی پابندی 27 دسمبر 1932ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.د رسول کریم یہ معاہدات کی اس قدر پابندی کرتے تھے کہ جب آپ جنگ بدر کے لئے تشریف لے گئے تو صرف تین سو سپاہی آپ کے ساتھ تھے.اُس وقت دو مسلمان مکہ سے بھاگ کر آپ کے لشکر میں آ ملے جو بڑے جری اور بہادر تھے.تین سو کی تعداد کے لحاظ سے ان دو کی شمولیت بہت بڑی امداد تھی لیکن جب انہوں نے کہا کہ جس وقت ہم آ رہے تھے اُس وقت کفار نے ہمیں پکڑ لیا تھا اور پھر اس عہد پر چھوڑا کہ ہم ان کے مقابلہ پر نہ لڑیں گے مگر وہ کفار تھے ان سے معاہدہ کیا حقیقت رکھتا ہے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہیں اس کی پابندی ضروری ہے اور ان کو لڑائی میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی 1.اسی طرح رسول کریم ﷺ کے ایک داماد جب مسلمان ہو گئے تو وہ مکہ گئے اور جن کا مال ان کے پاس تھا ان سب کو واپس دے کر پھر آئے.انہوں نے کہا میں اگر چاہتا تو مدینہ میں ہی رہ جا تا مگر میں اس لئے آیا کہ تم یہ نہ کہو مسلمان ہو گیا ہے اور دیانت سے کام نہیں لیا 2.“ الفضل 15 جنوری 1933ء) 1: مسلم كتاب الجهاد والسير باب الوفاء بالعهد صفحه 797 حدیث نمبر 4639 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية

Page 444

سيرة النبي علي 434 جلد 3 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول اسلام ابى العاص بن الربيع صفحه 720 721 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الأولى

Page 445

سيرة النبي علي 435 جلد 3 سیرت رسول علیہ کے متفرق پہلو 28 دسمبر 1932ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے فضائل القرآن کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے سیرت رسول ﷺ کے متفرق پہلو بیان کرتے ہوئے فرمایا :.رسول کریم ﷺ نے تیرہ سو سال ہوئے دعوی کیا کہ میں خدا کی طرف.ہوں.آپ نے دعوی کیا کہ زمین و آسمان پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور آپ نے یہ بھی دعوی کیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات میری تائید میں ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پیدائش کے ساتھ ہی وہ دنیا جو ایک نظام کے ماتحت چل رہی تھی اس میں ایسے تغیرات رونما ہونے لگ جاتے ہیں جو آسمانی کلام کے ماتحت ہوتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اسی ہستی کے احکام کے ماتحت چل رہی ہے جس کی طرف سے قرآن آیا.بعثت محمدی کے متعلق حضرت ابراہیم کی دعا اس کے ثبوت کے لئے کس طرح آسمان اور زمین کی بادشاہت ایک ہستی کے ماتحت چل رہی ہے میں آج سے چار ہزار سال پیچھے جاتا ہوں.آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں بلند کرتے ہوئے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ 1.یعنی اے خدا! ہم تجھ سے یہ دعا

Page 446

سيرة النبي علي 436 جلد 3 کرتے ہیں کہ اس ملک میں جو ہماری آئندہ نسل پھیلے گی اس میں سے تو ایک رسول بھیج جس کے یہ کام ہوں کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِك وہ تیری آیات انہیں پڑھ کر سنائے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب شریعت کی باتیں انہیں سکھائے وَالْحِكْمَةَ اور احکام کی حکمتیں ان پر واضح کرے وَيُزَ كَيْهِمْ اور انہیں پاک کرے اور بدیوں سے بچائے.یہ دعا چار ہزار سال پہلے ایسی جگہ پر کی گئی جہاں نہ غلہ پیدا ہوتا تھا اور نہ کسی تم کی کھیتی.زمزم کا چشمہ جو نشان کے طور پر قائم ہوا اس کا پانی بھی کھاری ہے جسے ہندوستانی نہیں پی سکتے.اس کھاری پانی کے چشمہ کے پاس چند گھر آباد تھے.وہاں پتھروں کا ایک مکان بناتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! جو لوگ یہاں پیدا ہوں ان میں تو اپنا ایک رسول بھیج جو تیری ہستی کے دلائل انہیں بتائے ، لوگوں کو تیری شریعت سکھائے ، اس شریعت کی حکمت یعنی باریکیاں بتائے کہ شریعت پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہے.پھر ان کو پاک بنائے.اس دعا پر اگر غور سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل امور کی خبر دی گئی ہے.اول اس عرصہ تک کہ اس نبی کی بعثت کی ضرورت پیش آئے مکہ قائم رہے گا.اب طبعی صورت تو یہ ہے کہ آندھیاں آتی ہیں جو شہروں کے شہر برباد کر دیتی ہیں.زلزلے آتے ہیں جو بڑے بڑے شہروں کو تو دہ خاک بنا دیتے ہیں.مگر یہاں پہلے سے خبر دے دی گئی کہ تمام قسم کے حادثات اس آبادی کو اجاڑ نہ سکیں گے اور آخر ایسا ہی ہوا.دوسری بات یہ بتائی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ کہا یہ گیا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ.اس سے معلوم ہوا کہ اس رسول کے آنے تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل موجود ہوگی.دنیا کے اکثر گھرانے ایسے ہوتے ہیں کہ زیادہ.

Page 447

سيرة النبي عمال 437 جلد 3 زیادہ تین چار سو سال تک ان کی نسل چلتی ہے اور پھر مٹ جاتی ہے.مگر حضرت صلى الله ابراہیم اور اسمعیل کے متعلق یہ کہا گیا کہ دو ہزار سال تک یعنی رسول کریم ع کے آنے تک ان کی نسل بہر حال قائم رہے گی.بیماریوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو تباہ نہ کرسکیں.لڑائیوں اور جنگوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کا خاتمہ نہ کریں.اسی طرح ہر قسم کے حادثات پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو مٹا نہ دیں.اولاد کی اولاد ہوتی چلی جائے گی اور یہ نسل ہمیشہ قائم رہے گی.تیسری بات اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ابراہیم کی نسل میں سے ایک رسول آئے گا حالانکہ کوئی شخص دعوئی کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی نسل میں کس قسم کے انسان پیدا ہوں گے.چوتھی بات یہ بتائی گئی کہ وہ اس قوم کی کایا پلٹ دے گا اور وہ لوگ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف منتقل ہو جائیں گے.کتنے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو پاک ہے کر سکتے ہیں.ایک شاگرد کو ایک استاد پاک نہیں کر سکتا.بوعلی سینا کے متعلق مشہور کہ وہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کو ایک کتاب پڑھا رہے تھے.پڑھتے پڑھتے ایک شاگرد نے کہا کہ آپ تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بھی بڑھ کر ہیں.بوعلی سینا مومن آدمی تھے مگر علم النفس کے ماہر تھے.انہوں نے سمجھا کہ ممکن ہے اس وقت اگر میں اسے سمجھاؤں تو اس کی سمجھ میں بات نہ آئے اور یہ ضد میں اور گمراہ ہو جائے اس لئے چپ رہے.لیکن ایک دن جب کہ سردی کا موسم تھا اور تالاب کا پانی سخت سردی سے جما ہوا تھا انہوں نے اس شاگرد سے کہا کہ کپڑے اتارو اور تالاب میں کود پڑو.اس نے کہا آپ یہ کیسی احمقانہ بات کر رہے ہیں.کیا میں پانی میں کود کر مر جاؤں؟ انہوں نے کہا اُس دن تو تم مجھےمحمد علے سے بھی بڑا کہہ رہے تھے اور آج اتنی بات بھی نہیں مانتے.محمد یہ تو وہ تھے کہ آپ کے ماننے والوں نے کبھی نہ کہا کہ ہم مر جائیں گے.

Page 448

سيرة النبي علي 438 جلد 3 بلکہ آپ جو کہتے تھے فوراً اس پر عمل کرتے خواہ موت سامنے نظر آتی اور خوشی خوشی آپ کے لئے جانیں دے دیتے.غرض یہ کتنی بڑی بات بتائی کہ وہ ایک دو کی نہیں بلکہ قوم کی قوم کی کایا پلٹ دے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے دو ہزار سال بعد مکہ موجود تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل موجود تھی.ہو سکتا تھا کہ نسل موجود ہوتی مگر انہیں پتہ نہ ہوتا کہ کس کی اولاد ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ بائبل میں بھی ذکر کر دیا کہ یہ ابراہیم کی نسل ہے.اس طرح ان میں یہ احساس بھی قائم رکھا کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں.پھر ان میں رسول کریم ﷺے پیدا ہوئے ، آپ نے نبوت کا دعوی کیا اور اس قوم کی کایا پلٹ دی.رسول کریم مال کے بارہ پھر ہم کچھ اور نیچے آ جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے وجود کو پھر میں حضرت موسی کی پیشگوئی دنیاکے سامنے لایا جاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چھ سو سال گزرنے کے بعد حضرت موسی علیہ السلام ظاہر ہوتے ہیں.اور وہ آپ کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ بات بتاتے ہیں :.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا 2.اس سے ابراہیمی دعا کی تصدیق کی گئی.حضرت اسحاق حضرت اسمعیل کے بھائی تھے اور حضرت موسی حضرت اسحاق کی اولاد تھے اور رسول کریم اللہ حضرت اسمعیل کی اولاد سے.گویا ان کے بھائیوں سے رسول کریم ﷺ کو کھڑا کیا گیا اور اس طرح رسوسال کے بعد پھر ابراہیمی وعدہ کا تکرار کیا گیا.گویا اس میں پھر حضرت اسمعیل کی نسل کے قائم رہنے اور ان میں سے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی خبر دی جاتی ہے.پھر اس شخص کے متعلق ایک اور امر بیان کیا جاتا ہے کہ:.

Page 449

سيرة النبي عمال 439 جلد 3 خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.3.سینا وہی پہاڑ ہے جسے قرآن شریف میں طور کہا گیا ہے.اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ظہور مراد ہے.شعیر سے بعض نے حضرت مسیح مراد لئے ہیں.مگر یہ ان پہاڑوں کا نام بھی ہے جس میں سے گزر کر حضرت موسی آئے اور انہوں نے دشمن پر فتح پائی تھی.اس لئے یہاں بھی حضرت موسی علیہ السلام مراد ہیں.آگے فرماتا ہے ” فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا.اس میں بھی دو باتیں بتائی گئی ہیں.اول یہ کہ وہ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوگا.دوم یہ کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا.یہ دونوں باتیں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں.جس طرح پہلی دو بھی ایک ہی کے متعلق ہیں.پھر بتایا کہ آتشی شریعت اس کے ساتھ ہوگی.اس میں یہ خبر ہے کہ وہ فاران کی پہاڑیوں سے جو مکہ کے گرد کے پہاڑ ہیں دس ہزار قد وسیوں سمیت آئے گا اور آتشی شریعت اس کے ہاتھ میں ہوگی.اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ( 1 ) وہ نبی مکہ سے نکالا جائے گا کیونکہ پہلے بتایا کہ وہ مکہ میں پیدا ہوگا.پھر کہا کہ دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ مکہ سے نکالا جائے گا.(2) یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوگا.(3) یہ کہ اس کے ساتھ دس ہزار سپاہی ہوں گے.(4) یہ کہ وہ لوگ قدوسی ہوں گے یعنی يُزَكِّيهِمْ کے مصداق ہوں گے.(5 ) یہ کہ اس کے ساتھ گناہ سوز شریعت ہوگی.یہ يُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ کا ترجمہ ہے.جب انسان کو معلوم ہو کہ فلاں حکم کے ماننے میں میرا فائدہ ہے تو اس پر عمل کرتا ہے.شریعت کا لفظ الکتب سے اور گناہ سوز کا

Page 450

سيرة النبي عمال 440 جلد 3 مفهوم حكمة سے نکلتا ہے.کیونکہ حکمت معلوم کرنے کے بعد انسان گناہ کے نزدیک جانے سے احتراز کرتا ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ پورا ہوا.فاران کی پہاڑیاں تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مکہ کی پہاڑیاں ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ وادی فاطمہ میں (وادی فاطمہ مکے اور مدینے کے درمیان ایک پڑاؤ ہے ) گل جذیمہ یعنی پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے ہیں تو لڑکے اور بچے بھی یہی کہیں گے کہ مِنْ بَرِيَّةِ فَارَانَ یعنی دشتِ فاران سے 4.بائبل میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں جن سے اشارہ ثابت ہوتا ہے کہ وادی فاران یہی ہے.رسول کریم ﷺ کے بارہ میں اس کے بعد اور چار سو سال صلى الله گزرتے ہیں اور حضرت سلیمان حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیشگوئی علیہ السلام آتے ہیں تو وہ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی تعریف کے گیت گاتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں.اے یروشلم کی بیٹیو! ( یعنی بنی اسرائیل) میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ اگر تمہیں میرا محبوب ( مراد صلى الله رسول کریم ﷺ ) مل جائے تو تم اسے کہیو کہ میں عشق کی بیمار ہوں“ 5.وہ جواب دیتی ہیں.تیرے محبوب کو دوسرے محبوبوں کی نسبت سے کیا فضیلت ہے.اے تو جو عورتوں میں جمیلہ ہے تیرے محبوب کو دوسرے محبوب سے کیا فضیلت ہے جو تو ہمیں ایسی قسم دیتی ہے.اس پر وہ فرماتے ہیں:.” میرا محبوب سرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے.اس کا سر ایسا ہے جیسے چوکھا سونا.اس کی زلفیں بیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں.اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جواب دریا دودھ میں

Page 451

سيرة النبي عمال 441 جلد 3 نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں.اس کے رخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی ابھری ہوئی کیاریوں کی مانند ہیں.اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوائر ٹپکتا ہے.اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے ہیں.اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں.اس کے پیرایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پائیوں پر کھڑے کئے جائیں.اس کی قامت لبنان کی سی.وہ خوبی میں رشک سرو ہے.اس کا منہ شیرینی ہے.ہاں وہ سرا پا عشق انگیز ہے.(عبرانی میں لکھا ہے وہ محمد یم ہے ) اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی 66 ہے.گویا حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس امر کی تاکید کرتے ہیں کہ جب وہ محبوب آئے تو اسے مان لینا.اور پھر خود ہی سوال پیدا کر کے کہتے ہیں کہ اس میں یہ یہ خوبیاں ہوں گی.ان آیات میں بعض باتیں تو شاعرانہ رنگ رکھتی ہیں اور بعض رسول کریم ہے کے خلیہ سے قطعی طور پر ملتی ہیں.مثلاً لکھا ہے اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں.انگریزی بائبل میں یہ الفاظ آتے ہیں.g‘His locks are wary.اور یہی حلیہ حدیثوں میں بیان ہوا ہے.چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں لَمْ يَكُنُ رَسُولُ الله الا الله بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَ بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبُعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبُطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلاو.یعنی رسول کریم ہے نہ تو بہت لمبے قد کے تھے نہ بہت چھوٹے بلکہ آپ میانہ قد وقامت رکھنے والوں میں سے تھے.اسی طرح آپ کے سر کے بال نہ تو سخت گھنگر الے تھے جیسے حبشیوں کے ہوتے ہیں اور نہ ہی بالکل سیدھے تھے بلکہ اس طرح گھنگر الے تھے جس طرح کنگھی کرنے سے بال نیچے سے ذرا خمیدہ ہوجائیں اور مڑ جائیں.یہی حضرت سلیمان نے کہا کہ آپ کے بال لمبے ہوں گے یعنی زلفیں ہوں گی مگر بال کچھ پیچ دار ہوں گے.رسول کریم علیہ کے سر کے بال کانوں کی لو تک آتے تھے.گویا لمبے

Page 452

سيرة النبي علي 442 جلد 3 بال ہونے کے ساتھ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ بال نہ پیچ دار ہوں گے اور نہ بالکل سیدھے اور یہی حضرت علی بیان کرتے ہیں.پھر حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کا رنگ سرخ و سفید بیان کرتے ہیں اور حضرت علی رسول کریم عملے کے رنگ کے متعلق فرماتے ہیں ابيَضُ مُشْرَب 10 اور مُشْرَب کے معنی لغت والے یہ لکھتے ہیں کہ ایسا سفید رنگ جس میں سرخی ملی ہوئی ہو 11.پھر حضرت سلیمان نے یہ فرمایا کہ وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوگا یعنی چھوٹے قد کا نہ ہوگا.اور رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا قد ایسا تھا جو لمبائی کی طرف مائل تھا.گویا حضرت سلیمان کی بیان کی ہوئی سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں اور رسول کریم ﷺ کی زلفیں تو اس قدر مشہور ہیں کہ لوگ ان کے متعلق شعر کہا کرتے ہیں.رسول کریم اللہ کے بارہ میں یسعیاہ نبی کی پیشگوئی اب ہم کچھ اور نیچے چلتے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سات سو سال بعد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد یسعیاہ نبی کے زمانہ میں آتے ہیں.یہ پھر حضرت ابرا ہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان کی بات کو دہراتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.”ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی.اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے عجیب، مشیر، خدائے قادر ، ابدیت کا باپ (انگریزی میں ہے Everlasting Father یعنی ہمیشہ رہنے والا باپ) سلامتی کا شہزادہ.اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی.وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بند و بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی 12.

Page 453

سيرة النبي علي 443 جلد 3 اس میں بتایا کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ کہیں گے عجیب ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا 13 نے یہ کتاب سنی ہے جو عجیب اور نرالی قسم کی ہے.متی باب 21 آیت 42 میں بھی حضرت مسیح نے رسول کریم ﷺ کا نام عجیب رکھا ہے.چنانچہ آتا ہے.” یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب 14.دوسری بات یہ کہی گئی تھی کہ اس کا نام مشیر ہوگا یعنی وہ مشورے دینے والا ہوگا.اب ہم دیکھتے ہیں کیا رسول کریم ﷺ کے سوا کوئی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہو کہ لوگ اس سے مشورے لیتے تھے ؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجُولُكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 15 - اے مومنو! تمہاری عادت ہے کہ تم رسول سے مشورے لیا کرتے ہومگر رسول کا وقت بڑا قیمتی ہے تمہیں چاہئے کہ جب مشورہ لو تو مسکینوں کے لئے صدقہ کیا کرو.یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا.اور اگر تم میں سے کوئی صدقہ نہ کر سکے تو اللہ اس کی کمزوری کو دور کرنے والا ہے.حدیثوں میں آتا ہے بعض اوقات رسول کریم ﷺے جار ہے ہوتے تو کوئی بڑھیا آپ کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی کہ مجھے آپ سے مشورہ لینا ہے.مسجد میں بھی لوگ آپ سے مشورہ کرنے کیلئے کھڑے ہو جاتے.ایک دفعہ ایک شخص اتنی دیر آپ سے باتیں کرتا رہا کہ مسجد میں جو لوگ نماز پڑھنے آئے تھے وہ سو گئے.تیسرا نام خدائے قادر بتایا گیا ہے.توریت میں خدا کا لفظ مجازی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچہ لکھا ہے ” پھر خداوند نے موسی سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کیلئے خدا سا بنایا‘ 16.متی باب 21 آیت 40 میں حضرت مسیح مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.” جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.“

Page 454

سيرة النبي عليه 444 جلد 3 گو یا رسول کریم علیہ کے آنے کو حضرت مسیح نے خدا کا آنا بتایا.اب ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ میں نے تجھے فرعون کیلئے خدا سا بنایا اسی طرح صلى الله رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا 17.یعنی جس طرح ہم نے موسی کو فرعون کیلئے خدا سا بنا کر بھیجا تھا اسی حیثیت سے ہم نے تجھے دنیا کیلئے بھیجا ہے.چوتھا نام آپ کا ابدیت کا باپ بتایا گیا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے النَّبِيُّ أولى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُةٌ أُمَّهُتُهُمْ 18.یعنی نبی کا تعلق مومنوں کے ساتھ باپوں سے بھی زیادہ ہے اور اس کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں.جب رسول کریم ﷺ کی بیویاں مائیں ہوئیں تو رسول کریم ﷺ باپ ہوئے.سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع میں آتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ 19.محمد صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو کسی کے باپ نہیں لیکن روحانی باپ ہیں رسول ہونے کی وجہ سے اور ابدی باپ ہیں خاتم النبین ہونے کی وجہ سے.پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ بتایا گیا ہے.عبرانی میں بادشاہ کی جگہ شہزادہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں.اس کا اپنے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ سلامتی کا بادشاہ.اور سلامتی اسلام ہے اس لئے اصل نام یہ ہوا کہ اسلام کا بادشاہ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ھو سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ 20.یوں بھی رسول کریم ﷺ بادشاہ تھے.فتح مکہ پر مکہ والوں کو آپ نے بلا کر کہا بتا ؤ اب تم سے کیا سلوک کیا جائے ؟ تو انہوں نے کہا آپ وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.اس پر آپ نے فرمایا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 21 - جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں.اس طرح بھی آپ نے سلامتی ہی دکھائی.

Page 455

سيرة النبي عمال 445 جلد 3 پھر چھٹی بات آپ کے متعلق یہ بیان کی گئی ہے کہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے ابد تک بندو بست کرے گا.یہ بھی رسول کریم ﷺ کی امت کے متعلق پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ شام اور فلسطین پر قبضہ انہیں حاصل ہوگا.پھر اسی کتاب میں ہم عرب کی بابت الہامی کلام پڑھتے ہیں کہ:.عرب کے صحرا میں تم رات کو کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا.ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا 22.اس جگہ یہ پیشگوئی بیان کی کہ جو آنے والا نبی ہوگا جب وہ اپنے وطن سے نکالا جائے گا تو ہجرت کے ایک سال بعد اس کی قوم اس پر حملہ کرے گی.ایک رات میدان میں سوئیں گے اور صبح کو جنگ ہوگی جس میں دشمن شکست کھائے گا اور اس کے بڑے بڑے بہادر مارے جائیں گے.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم ﷺ کی ذات میں بدر کی جنگ سے پوری ہوئی.اب دیکھو اس میں کتنی باتیں بیان کی گئیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ (1) پہلے اس رسول کو مکہ والے اپنے شہر سے نکالیں گے اور (2) پھر لڑائی کے لئے مکہ والے آئیں گے.اگر وہی جس نے یسعیاہ پر یہ کلام نازل کیا تھا دنیا پر قابض نہ تھا اور دنیا اس کے ہاتھ میں نہ تھی تو اس نے کیوں اہل مکہ سے پہلے رسول کریم ﷺ کو مکہ سے نکلوایا اور ایک سال کے بعد کس نے ان کو حملہ کرنے کے لئے نکالا.(3 ) پھر جب انہوں نے حملہ کیا تو اس حملہ میں سارے سردار شامل ہوئے.کہا جاتا ہے کہ مکہ کا کوئی

Page 456

سيرة النبي عمال 446 جلد 3 گھر ایسا نہ تھا جس کا کوئی نہ کوئی آدمی اس جنگ میں شریک نہ ہوا ہو.(4) پھر اس جنگ میں بڑے بڑے سردار مارے گئے.ان باتوں سے ظاہر ہے کہ خیالات پر اور تلواروں پر اسی کا قبضہ تھا جس نے یسعیاہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی کرائی تھی.مکہ میں اس جنگ کی وجہ سے ایسی تباہی آئی کہ ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا اور اس ڈر سے کہ لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ان کو حکما رونے سے منع کر دیا گیا.ایک شخص کے تین بیٹے تھے اور وہ متینوں اس جنگ میں مارے گئے.وہ اندر چُھپ چُھپ کر روتا تھا مگر اس کی تسلی نہ ہوتی تھی.ایک دن ایک شخص کا اونٹ گم ہو گیا اور وہ رونے لگ گیا.اس شخص نے اس کے رونے کی آواز سن کر کسی سے کہا دیکھ ! کیا ئین ڈالنے کی اجازت مل گئی ہے؟ اور پھر فوراً باہر نکل کر پیٹنے لگ گیا اور زور زور سے ٹین ڈالنے لگا.غرض ہجرت کے عین ایک سال بعد بدر کی جنگ ہوئی اور اس میں قیدار کے بڑے بڑے جنگجو اور بہادر مارے گئے اور شکست کھا کر بھاگے.اور تیما جسے عرب تہامہ کہتے ہیں اس میں ماتم برپا ہو گیا.پھر یسعیاہ نبی ہی کہتے ہیں دیکھ میں نے اسے قوموں کے لئے گواہ مقرر کیا بلکہ لوگوں کا ایک پیشوا اور فرمانروا.دیکھ تو ایک گروہ جسے تو نہیں جانتا بلا دے گا اور وے گرو ہیں تجھے نہیں جانتیں.خداوند تیرے خدا اور اسرائیل کے قدوس کے لئے جس نے تجھے جلال بخشا تیرے پاس دوڑتی آئیں گی 23.اس میں یہ باتیں بتائیں کہ (1) وہ لوگوں کے لئے گواہ ہوگا.(2) لوگوں کیلئے پیشوا اور (3) فرمانروا ہوگا (4) ایسی قومیں اس پر ایمان لائیں گی جنہوں نے -23% بنی اسرائیل کے نام نہ سنے ہوں گے اور نہ بنی اسرائیل نے ان کے.لوگوں کے لئے گواہ ہونے کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے هُوَ سَقْكُم الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُوْلُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ 24.یعنی ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے.اس زمانہ میں بھی اور پہلے بھی تا کہ یہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم باقی دنیا پر گواہ ہو اور اس رسالت کو قیامت تک

Page 457

سيرة النبي علي 447 جلد 3 لئے چلے جاؤ.گویا وہی الفاظ جو بائبل میں آتے ہیں قرآن کریم میں بھی آئے ہیں.پیشوا اور فرمانروا کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 25 - یعنی اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا 26 چاہتے ہو تو میری فرمانبرداری اختیار کرو.میں تمہارا پیشوا اور فرمانروا ہوں.چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ دوسری قومیں اس رسول پر ایمان لاویں گی.سواس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعا 20 یعنی تو ساری دنیا سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اب دیکھ لو ہم میں سے کوئی کسی قوم کا ہے اور کوئی کسی قوم کا.اور یہ قو میں نہ عربوں کو جانتی تھیں اور نہ عرب انہیں جانتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں سب ایک ہوگئی ہیں.پھر یسعیاہ باب 62 آیت 2 تا 5 میں ہی لکھا ہے ” تب قو میں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا منہ خود تجھے رکھ دے گا اور تو حفیظاہ کہلائے گی اور تیری سرزمین بھولا ہ.کیونکہ خدا وند تجھ سے خوش ہے اور تیری زمین خاوند والی ہوگی 27.66 اس میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے زمانہ میں اس کی قوم حفیظاہ کہلائے گی اور اس کی زمین بعو لاہ.سارے بادشاہ اس کی شوکت دیکھیں گے اور اس کا نام رکھا جائے گا.پھر لکھا ہے ” تب وہ مقدس قوم اور خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے اور تو مطلوبہ کہلائے گی اور وہ شہر جو ترک کیا نہ گیا 28.صلى یہ سب باتیں رسول کریم ﷺ کے وجود میں پائی جاتی ہیں.مثلاً (1) کہا گیا ہے کہ وہ ایک نئے نام سے کہلائے گا جسے خداوند کا منہ خود رکھ دے گا.چنانچہ یہ نیا نام اسلام ہے جو خدا تعالیٰ نے خود رکھا اور ارشاد فرمایا که هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ

Page 458

سيرة النبي علي 448 جلد 3 خدا نے خود تمہارا نام مسلم رکھا ہے.حقیقت یہی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا نام خدا نے رکھا ہو.نہ موسوی مذہب کا کوئی نام رکھا گیا اور نہ عیسوی مذہب کا.بلکہ ان کے پیروؤں کو بھی کبھی اپنا نام نہ سوجھا.مگر یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا خود نام رکھے گا اور یہ بات صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے.دوسری بات یہ بتائی کہ اس کی قوم کو خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی.چنانچہ آتا ہے کہ وہ قوم حفیظاہ کہلائے گی.یہ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تم سے راضی ہوا اور قرآن کریم میں آتا ہے وَالشبقُونَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَجِرِينَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ 20 یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے والے جو ابتدا میں ہی جلد ایمان لے آئے اور مہاجرین اور انصار بھی جو بعد میں آئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے.گویا قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ خدا مسلمانوں سے خوش ہوا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بھی خدا سے خوش ہوئے.تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا گھر بعولاہ کہلائے گا.یعنی اس کی حفاظت کی جائے گی اور اس کی زمین خاوند والی کہلائے گی یعنی کبھی تباہ نہ ہوگی.اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے وَالصُّورِ.وَكِتَبٍ مَّسْطُورٍ فِي رَقٌ مَّنْشُورٍ - وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُودِ 30 - فرمایا ہم تم کھا کر کہتے ہیں طور کی یعنی طور شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کتاب کو بھی بطور شہادت پیش کرتے ہیں جو لکھی ہوئی ہے اور ہمیشہ لکھی جائے گی.اور اس خانہ کعبہ کی بھی قسم کھاتے ہیں جو ہمیشہ معمور رہے گا اور دور دور سے لوگ اس کی طرف آتے رہیں گے.اور اس چھت کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ہمیشہ بلند رہے گی یعنی اس کی عزت ہمیشہ قائم رہے گی.گویا بتایا کہ نہ صرف یہ گھر ہمیشہ معمور رہے گا اور کروڑوں انسان اس سے تعلق

Page 459

سيرة النبي علي 449 جلد 3 رکھیں گے بلکہ بلند و بالا لوگ تعلق رکھیں گے اور اس کی عزت قیامت تک قائم رہے گی.غرض قرآن نے یہ خبر دی کہ بیت اللہ قائم رہے گا، اس سے اعلیٰ درجہ کے لوگ تعلق رکھیں گے اور مکہ سے تعلق رکھنے والی کتاب کا چشمہ کبھی ختم نہ ہوگا.چوتھی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی.قرآن کریم کا یہ بھی دعوی ہے چنانچہ فرمایا بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامِ بَرَرَةِ 31.یہ قرآن ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہوں گے.ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ بعض اوقات خرابی بھی تو آسکتی ہے پھر یہ کتاب ہمیشہ مقدس لوگوں کے ہاتھ میں کیسے رہی.سو قرآن نے اس کا جواب بھی دے دیا ہے کہ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتُبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِيْنِ - وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ 32 - فرمایا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خدا نے امیوں میں رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ ان کو اللہ کی آیتیں سنائے اور پاک کرے اور کتاب کی تعلیم دے اور حکمت سکھائے.اس کے بعد جب مسلمانوں میں خرابی پیدا ہوگی تو وأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم خدا اس رسول کو ایک دوسری قوم میں بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں گویا یہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی.کیونکہ اس میں اصلاح کرنے والے آتے رہیں گے.پانچویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے.قرآن میں بھی آتا ہے وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ 33 یعنی دنیا کی گردنوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں اور بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں.الله محمد رسول اللہ ﷺ کو ہم نے اس لئے بھیجا کہ ان بیڑیوں کو کاٹ دے اور لوگوں کو ان بندھنوں سے نجات دے.اس طرح وہ چھڑائے ہوئے کہلائیں گے.چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بستی مطلوبہ کہلائے گی.قرآن کریم بھی فرماتا

Page 460

سيرة النبي عمال 450 جلد 3 ہے وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا 34 یعنی قیامت تک کیلئے یہ بات مقرر کر دی گئی ہے کہ جسے طاقت ہو وہ اس بستی میں جائے اور حج کرے کہ یہ بستی مطلوبہ ہے.رسول کریم ع کے بارہ پھر ہم اور آگے چلتے ہیں تو حقوق نبی فرماتے صلى الله ہیں ” خدا تیمان سے اور وہ جو قدوس ہے کو ہ فاران میں حقوق نبی کی پیشگوئی سے آیا.سلاہ اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی.....مری اس کے آگے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی.وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزا دیا.اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا.اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے جھنس گئیں.اس کی قدیم را ہیں یہی ہیں.میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے......سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے.تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جواڑے اور تیرے بھالے کی چمکاہٹ کے سبب تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کر گیا.تو نے نہایت غصے ہو کے قوموں کو روند ڈالا ہے.تو اپنی قوم کو رہائی دینے کیلئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کیلئے نکل چلا.تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سرکو کچل ڈالتا ہے.سلاہ تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا.وے مجھے پراگندہ کرنے کو آندھی کی طرح نکل آئے.ان کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جاویں ہر چند انجیر کا درخت نہ پھولے اور تاکوں میں میوے نہ لگیں......تس پر بھی میں خداوند کی یاد میں خوشی کروں گا.میں اپنی نجات کے خدا کے سبب خوش وقت ہوں گا 35.اس میں پہلی پیشگوئی تو یہ کی گئی ہے کہ خدا تیمان سے ظاہر ہوا.تیمان کے معنی عبرانی مفسر جنوب کی سرزمین کے کرتے ہیں اور عرب فلسطین سے جنوب کی طرف ہی

Page 461

جلد 3 سيرة النبي علي 451 ہے.لیکن عرب لوگ ایک وادی تہامہ کہتے ہیں اور مکہ کو اس وادی تہامہ میں شامل سمجھتے ہیں.قاموس میں لکھا ہے وَتِهَامَةُ بالكَسْرِ مَكَّةُ شَرَّفَهَا اللَّهُ تَعَالَى وَأَرْضٌ مَّعْرُوفَةٌ 36.یعنی تہامہ سے مراد مکہ مکرمہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے شرف کو بڑھائے اور ایک معروف زمین بھی ہے.تاج العروس میں لکھا ہے وَمِنْ اَسْمَائِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الهَامِيُّ لِكَوْنِهِ وُلِدَ بمَكَّةَ 37 - یعنی رسول کریم ﷺ کے ناموں میں سے ایک نام تھامی بھی ہے کیونکہ آپ کی ولادت مکہ میں ہوئی.بائبل والے تیمان کو صرف جنوبی علاقہ قرار دیتے ہیں اور تیما کو حضرت اسمعیل کا ایک بیٹا قرار دیتے ہیں جو عرب میں آباد تھا.پس گو وہ مکہ کو تہامہ نہ قرار دیں لیکن عرب کا ایک حصہ ہونے سے انہیں بھی انکار نہیں ہوسکتا.اور یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک وقت ایک قوم ایک جگہ آباد ہو اور پھر اٹھ کر ذرا ہٹ کر دوسری جگہ بس گئی ہو.دوسرے یہ ذکر ہے کہ وہ فاران سے ظاہر ہوا.اور فاران بھی حضرت اسمعیل کے ایک بیٹے کا نام ہے اور وہ بھی عرب میں تھا.ان کے علاقہ کو یورپین جغرافیہ والے تسلیم کرتے ہیں کہ عرب میں تھا گو اسے بھی فلسطین کے پاس پاس بتاتے ہیں.لیکن اس بارہ میں خود عربوں کی شہادت زیادہ معتبر تسلیم کی جائے گی بہ نسبت دوسری قوموں کے.اور عرب لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیانی جنگل کو بر یہ فاران کہتے ہیں.چنانچہ جیسا کہ بتایا چکا ہے وادی فاطمہ نامی پڑاؤ پر اگر پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھا جائے کہ تم یہ کہاں سے لائے ہو تو یہی کہتے ہیں کہ ہم بر یہ فاران یعنی دشت فاران سے لائے ہیں.تاج العروس میں لکھا ہے وَفِي الْحَدِيثِ ذُكِرَ جَبَالُ فَارَانَ وَهُوَ اسْمٌ لِجِبَالِ مَكَّةَ بِالْعِبْرَانِی کہ حدیث میں فاران کے پہاڑوں کا جو ذکر آتا ہے اس سے مراد مکہ کی پہاڑیاں ہیں اور یہ نام عبرانی زبان میں مستعمل ہے.پھر دوسری اور تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ آسمان اس کی شوکت سے چھپ گیا اور.

Page 462

سيرة النبي عمال 452 جلد 3 زمین اس کی حمد سے معمور ہوگئی.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم ﷺ کے وجود سے پوری ہوئی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيَّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 38 - یعنی اللہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر آسمان سے درود بھیج رہے ہیں اس لئے اے مومنو! تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو.گویا آسمان آپ کی شوکت سے چھپ گیا.حدیث میں آتا ہے آسمان میں ایک بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں جہاں ملائکہ نہ ہوں.اور چونکہ سب کے سب ملائکہ رسول کریم ﷺ پر درود بھیج رہے ہیں اس لئے رسول کریم ﷺ کی شوکت سے سارا آسمان چھپ گیا.آگے بتایا کہ ہم نے بھی زمین کو اس کی حمد سے معمور کرنا ہے اس لئے اے مسلمانو! اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس نبی پر درود و سلام بھیجو.آسمان کی شوکت کے متعلق ہمارا کام تھا وہ ہم نے کر دیا.اب زمین کو حمد سے معمور کرنا تمہارے سپرد ہے.تم اٹھتے بیٹھتے محمد (ﷺ) پر درود بھیجو.اور اس طرح صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا پر عمل کرو.غرض دونوں باتیں پوری ہو گئیں.آسمان سے فرشتے رسول کریم ﷺ پر درود الله : بھیجتے ہیں اور زمین پر مسلمان.اور پھر زمین کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہیں اس طرح زمین بھی رسول کریم علیہ کی حد سے معمور ہوگئی.چوتھی پیشگوئی یہ بیان کی کہ مری اس کے آگے آگے چلی.اس کے معنی یہ ہیں کہ جدھر اس نے توجہ کی اُدھر ہی دشمن ہلاک ہو گئے.یہ پیشگوئی حضرت عیسی پر چسپاں نہیں ہوسکتی کیونکہ مری ان کے آگے نہ چلی بلکہ بقول عیسائیاں وہ مری کے آگے چلے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ دشمنوں سے بچائے گئے لیکن عیسائی کہتے ہیں ان کے دشمنوں نے انہیں صلیب پر مار دیا.پانچویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ اس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی.بائبل کے مفسر کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاں جائے گا وبا آئے گی.مگر خدا کے کسی مقدس کی یہ علامت نہیں ہوتی.بعض بائبل کے نسخوں میں خصوصاً عربی نسخوں میں لکھا

Page 463

سيرة النبي عليه 453 جلد 3 صلى الله الله ہے وَعِنْدَ رِجُلَيْهِ خَرَجَتِ الْحُمَّى 39 کہ اس کے پاؤں کے پاس سے بخار نکل گیا یعنی جہاں اس کا پاؤں پڑے گا وہاں سے بخار نکل جائے گا.گویا آتشی وبا سے مراد بخار ہے.یہ بات بھی رسول کریم علیہ کے متعلق نہایت وضاحت سے پوری ہوئی.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بخار کی بڑی شدت تھی.حتی کہ اسے یثرب اسی لئے کہتے تھے کہ وہاں ملیر یا بخار بڑی شدت سے ہوتا تھا.جب صحابہ وہاں ہجرت کر کے گئے تو سب کو بخار آنے لگا.اور صلى الله رسول کریم علیہ کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی 40 قرآن کریم میں بھی مدینہ کا نام میثرب آتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ قَالَتْ طَابِفَةٌ مِّنْهُمْ يَاهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا 41 اور یثرب کے معنی عیب اور ہلاکت کے ہیں.جب الله رسول کریم علم مدینہ تشریف لے گئے اور صحابہ بخار سے بیمار ہو گئے تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ کو گھبراہٹ پیدا ہوئی اور آپ نے یہ دعا کی کہ اللهُمَّ الْعَنُ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَ عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَ أُمَيَّةَ بْنَ خَلْفٍ كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ 42.اے خدا! شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو تباہ کر جنہوں نے ہمیں مکہ کی زمین سے نکال کر بخار کی سرزمین میں پہنچا دیا.پھر فرمایا صَحْحُهَا لَنَا وَانْقُلُ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ 43 - یعنی اے خدا! میں دعا کرتا ہوں کہ تُو یہاں سے بخار کو نکال دے اور جھہ کی طرف بھیج دے.حدیثوں میں آتا ہے کہ صلى الله اس کے بعد مدینہ سے بخار دور ہو گیا اور رسول کریم علیہ نے فرمایا اب اسے یثرب نہ کہو کیونکہ اس میں عیب اور سزا اور ڈانٹ کے معنی پائے جاتے ہیں بلکہ اسے طیبہ کہو.غرض رسول کریم ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے سے وہاں سے بخار نکل گیا اور اس کی ہوا آج تک نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے.یہ خبر تھی جو اس پیشگوئی میں دی گئی.چھٹی پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزا دیا.اس " کے ایک تو ظاہری معنی ہیں وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ کا حلیہ لکھا گیا ہے اس میں ایک :

Page 464

سيرة النبي علي 454 جلد 3 دوسرے بات یہ بیان کی گئی ہے کہ إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ فِي صَبَبٍ 44 - جب آپ چلتے تو آپ کا پاؤں زمین پر اس طرح پڑتا کہ گویا پاؤں دھنس گیا ہے.معنی لرزانے کے یہ ہیں کہ آپ کا بے حد رعب تھا.خود رسول کریم فرماتے ہیں نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهُرٍ 45.یعنی ایک ایک مہینہ کے فاصلہ تک کے لوگ آپ کے رعب سے لرزتے تھے.قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَّا نِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِّنَ اللهِ فَآتُهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ ق الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِى الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَأُولِي الْأَبْصَارِ 46 فرمایا وہ خدا ہی ہے جس نے اہلِ کتاب کے کفار کو ان کے گھروں سے نکالا.تمہیں گمان تک نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے.وہ بھی کہتے تھے کہ ہمارے قلعے ہمیں بچالیں گے مگر محمد رسول اللہ ہے کے رعب نے ان کو تباہ کر دیا.وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو تباہ کرنے لگے اور وہ بھاگ گئے.غرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو یہ طاقت عطا کی کہ جہاں دشمن کے مقابلہ کیلئے جاتے لوگ آپ کے رعب سے لرز جاتے.ساتویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں اس پر چڑھ آئیں گی لیکن جب وہ مقابلہ کرے گا تو بھاگ جائیں گی.جنگِ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا جس کے متعلق سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبُ : 47 میں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ قو میں جمع ہوکر حملہ کریں گی مگر پھر بھاگ جائیں گی.آٹھویں پیشگوئی یہ کی گئی کہ " قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے پھنس گئیں.“ پہاڑ سے مراد بڑے بڑے آدمی، بادشاہ اور حکمران 66

Page 465

سيرة النبي عمال 455 جلد 3 ہوتے ہیں.رسول کریم میے کے مقابلہ میں جب قیصر و کسری آئے تو کس طرح اُن کا نام و نشان مٹ گیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِع.قَالَهُ مِنْ دَافِعَ - يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءِ مَوْرًا - وَتَسِيْرُ الْجِبَالُ سَيْرًا - فَوَيْلٌ يَوْمَبِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ 48 - کہ ہم اسلام کی ترقی کے متعلق جن باتوں کی خبریں دے رہے ہیں وہ ہو کر رہیں گی.کوئی انہیں روک نہیں سکتا.جب آسمان لرزہ کھا کر پھٹ جائے گا اور پہاڑ اپنی پوری رفتار کے ساتھ چلیں گے اس دن جھٹلانے والوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا.گویا قرآن بھی اس پیشگوئی کی تائید کرتا ہے.معلوم ہوتا ہے لوگوں کو بھی حبقوق نبی کی اس پیشگوئی کا خیال تھا.کیونکہ قرآن کریم میں قیامت کا نقشہ کھینچتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَقَدْ أَتَيْنَكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا.مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وِزْرا 49 کہ ہم نے تمہیں یہ قرآن دیا ہے جو اس کا انکار کرے گا قیامت کے دن سزا پائے گا.اس کے بعد فرماتا ہے وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَ بِّيٌّ نَسْفًا - فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا.لا تَرى فِيهَا عِوَجًا وَلَا اَمْنًا يَوْمَبِذٍ يَتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا 50.یعنی کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا کیا حال ہوگا تو کہہ دے کہ میرا رب ان کو اکھیڑ کر پھینک دے گا اور ان کو ایک ایسے چٹیل میدان کی صورت میں چھوڑ دے گا کہ نہ تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی.اُس دن لوگ بچے امام کے پیچھے چل پڑیں گے جس کی تعلیم میں کوئی کبھی نہ ہوگی اور آواز میں خدائے رحمان کیلئے دب جائیں گی یعنی ادب والی آواز کے سوا تم کوئی اور آواز نہ سنو گے.مفسرین کہتے ہیں ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ قیامت کے دن پہاڑ اڑائے جائیں گے مگر یہاں پہلے قیامت کا ذکر آپکا ہے جس میں بتایا ہے کہ اُس وقت زمین و آسمان نہ رہیں گے.اور جب زمین و آسمان نہ رہیں گے تو پھر پہاڑوں کے علیحدہ -

Page 466

سيرة النبي عمال 456 جلد 3 ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو اس کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ اتنی بڑی بڑی موجودہ حکومتیں کہاں جائیں گی؟ اس کے جواب میں بتایا کہ تباہ ہو جائیں گی.پھر يَتَّبِعُونَ الدَّاعِی بھی بتاتا ہے کہ یہاں مراد اگلا جہان نہیں کیونکہ مومن تو اس جہان میں بھی ایسے داعی کے پیچھے ہوتے ہیں اور کافروں کے متعلق آتا ہے کہ وہ آخرت میں ساتھ جانا چاہیں گے تو انہیں واپس کر دیا جائے گا.اور پھر فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِى الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا 51 کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہاں بھی اندھا ہوگا.اُس وقت کفار کہاں ایمان لائیں گے وہ تو وہاں بھی گمراہ ہی ہوں گے.پھر داعی کے پیچھے کیونکر چلیں گے.پس مراد یہی ہے کہ ان حکومتوں کو تباہ کر دیا جائے گا اور جو لوگ اس وقت دشمن ہیں وہ ایمان لے آئیں گے.چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو سارے دشمن ایمان لے آئے.پس جبال سے مراد بڑے آدمی اور سردارانِ قوم اور سلاطین ہیں کہ جن کے مارے جانے اور جن کے نظام کو توڑ دیئے جانے پر اسلام کی اشاعت مقدر تھی.نویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.عربی بائبل میں بیت کی جگہ بلیه یعنی مصیبت لکھا ہے اور پردے کانپ جاتے تھے کی جگہ انگریزی میں Did tremble کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کوشان کیا ہے؟ بائبل والے کہتے ہیں کہ کوشان کے معنی کوش میں رہنے والا قبیلہ ہے جو عراق عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے.بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ نمرود کے باپ کا نام کوش تھا اور تاریخ سے ثابت ہے کہ کوش قبیلہ کے لوگ چھ سو سال تک عراق پر حکومت کرتے رہے.مدیان شمالی عرب کا ساحل سمندر کے پاس کا ایک شہر ہے جو مصر سے شام یا عرب کو جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا.ہے.قرآن کریم میں اسے مدین کہا گیا ہے.رسول کریم ﷺ کے وقت میں

Page 467

سيرة النبي عمار صلى الله 457 جلد 3 حکومت قیصر میں شامل تھا اور شام کے صوبہ کے نیچے تھا.ان دونوں ملکوں پر رسول کریم ﷺ کے خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حملہ ہوا اور دونوں حکومتوں کو تباہ کر کے اسلامی حکومت قائم کر دی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتح در حقیقت رسول کریم ﷺ ہی کی فتح تھی.کیونکہ آپ نے فرمایا قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں.اور جنگ احزاب کے موقع کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا تھا.صحابہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا.آپ تشریف لائے فَقَالَ بِسمِ اللهِ ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَةً فَكَسَرَ ثُلُثَهَا وَقَالَ اللهُ اَكْبَرُ أعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الشَّامِ وَاللَّهِ إِنِّي لَابُصُرُ قُصُورَهَا الْحُمُرِ السَّاعة ثُمَّ ضَرَبَ الثَّانِيَةَ فَقَطَعَ القُلْتَ الْآخَرَ فَقَالَ اللهُ أَكْبَرُ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ فَارِسَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَبْصُرُ قَصْرَ الْمَدَائِنِ الْأَبْيَضَ ثُمَّ ضَرَبَ الثَّالِثَةَ وَقَالَ بِسْمِ اللهِ فَقَطَعَ بَقِيَّةَ الْحَجَرِ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الْيَمَنِ وَاللهِ اِنّى لَابُصُرُ أَبْوَابَ صَنْعَاءَ مِنْ مَكَانِي هَذَا السَّاعَةَ 52 صلى الله یعنی رسول کریم ﷺ نے بسم اللہ کہہ کر کدال اپنے ہاتھ میں لی اور اُسے زور سے پتھر پر مارا تو اس میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور پتھر کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا.اس پر الله رسول کریم ﷺ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللهُ أَكْبَرُ مجھے حکومت شام کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں اس کے سرخ محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.پھر دوسری دفعہ رسول کریم ﷺ نے اس کدال کو پتھر پر مارا تو پھر اس میں سے شعلہ نکلا اور پتھر کا ایک اور حصہ ٹوٹ گیا.اس پر پھر آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا الله اكبر مجھے ایران کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں مدائن کے سفید محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال ماری جس سے پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور باقی پتھر بھی ٹوٹ گیا.اس پر آپ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر مجھے یمن کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم !

Page 468

سيرة النبي عمال 458 جلد 3 میں صنعاء کے دروازے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.غرض حبقوق نبی کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ آنے والا شام ، عراق اور مدائن کو فتح کر لے گا.قرآن کریم بھی ان جنگوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُوْنَ فَإِنْ تُطِيْعُوا يُؤْتِكُمُ اللهُ أَجْرًا حَسَنًا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا 53 یعنی اعراب میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑے گئے ہیں تو ان سے کہہ دے کہ تم ضرور ایک ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے بلائے جاؤ گے جو فنونِ جنگ میں بڑی ماہر ہے اور تم ان سے اُس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں اور مسلمان نہ ہو جائیں.پس اگر تم اُس وقت خدا کی آواز پر لبیک کہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو بڑا اچھا اجر دے گا.اور اگر تم اس حکم سے روگردانی اختیار کرو گے جس طرح تم نے اس سے پہلے روگردانی کی تھی تو اللہ تعالیٰ تم کو دردناک عذاب دے گا.اس آیت میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی اب باہر سے اور قو میں آئیں گی جو ان سے بھی زیادہ لڑنے والی ہوں گی اور ان سے تمہارا مقابلہ ہو گا.مگر ان جنگوں کا بھی آخری نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جائیں گے.اس سے معلوم ہوا کہ عرب سے باہر بھی جنگیں ہونی ضروری تھیں.چنانچہ قیصر وکسری کے - ساتھ اسلامی فوجوں کی جنگیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ بخشا.دسویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے.تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جواڑے اور تیرے بھالے کی چمکا ہٹ کے سبب.تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کرے گا.تو نے نہایت غصے ہو کر قوموں کو روند ڈالا ہے.“ سورج اور چاند کا ٹھہر جانا یہ محاورہ ہے روحانی اور جسمانی سلسلوں کے نظام کے ٹوٹ جانے کا.سورج دنیوی اور چاند روحانی سلسلوں کا نشان ہے.جب خیبر فتح ہوا

Page 469

سيرة النبي عمال 459 جلد 3 صلى الله اور حضرت صفیہ کی شادی رسول کریم ﷺ سے ہوئی تو انہوں نے رسول کریم علی سے کہا مجھے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ میری شادی آپ سے ہو گی.آپ نے فرمایا کس طرح ؟ انہوں نے کہا میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں آگرا ہے.اس کا ذکر میں نے اپنی ماں سے کیا تو اُس نے مجھے تھپڑ مارا اور کہا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے 54.پس چاند سے مراد مذہبی حکومت ہے اور سورج سے مراد د نیوی حکومت.مطلب یہ تھا کہ رسول کریم ﷺ سے پہلے کے روحانی اور جسمانی دونوں نظام ٹوٹ جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دونوں سابقہ نظام رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد ٹوٹ گئے.روحانی طور پر سب فیض آپ کے سلسلہ کے بعد بند ہو گئے اور جسمانی طور پر آپ کے اتباع نے سب حکومتوں کو خواہ کسی ملک کی تھیں تباہ کر دیا اور دنیا کا نظام ہی بدل ڈالا.بائبل کی اگلی آیت اسی کی تفسیر ہے.گیارھویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ تو اپنی قوم کو رہائی دینے کے لئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کیلئے نکل چلا.تو بنیاد کو گردن تک نگا کر کے شریر کے گھر کے سرکو کچل ڈالتا ہے.تو نے اس کے سرداروں میں سے اُسے جو عالی درجہ کا تھا اُسی کے بھالوں سے مارڈالا.وہ مجھے پراگندہ کرنے کیلئے آندھی کی طرح نکل آئے.اُن کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نکل جائیں." اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ موعود جنگ کے لئے نکلے گا تا کہ اپنی کمزور قوم کو ظالموں سے رہائی دلائے.اور اس میں یہ بھی بتایا کہ دشمن بھی جنگ کیلئے نکلے گا کیونکہ لکھا ہے کہ وہ پراگندہ کرنے کیلئے آندھی کی طرح نکل آئے.گویا ادھر سے یہ اور اُدھر سے وہ نکلیں گے اور دونوں کی مٹھ بھیڑ ہوگی.دشمن چاہے گا کہ غریب اور کمزور ,, قوم کو دھوکا سے تباہ کر دے مگر وہ خود تباہ ہوگا اور موعود کامیاب ہوگا.اب دیکھو کتنی تفصیل سے اس میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے حالات اور بدر کی جنگ کی تفصیل بیان کی گئی ہے.مکہ والے رسول کریم ہے کے مقابلہ کیلئے عتبہ کی

Page 470

سيرة النبي عمار 460 جلد 3 کمان میں نکلے.ابو جہل سیکنڈ اِن کمان تھا.جب عتبہ مارا گیا تو ابوجہل نے کمان سنبھال لی.غرض مکہ والے رسول کریم ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کو تباہ کرنے کیلئے نکلے.ادھر رسول کریم ﷺ کو جب ان کے ارادہ کا علم ہوا تو آپ کبھی نکلے تا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کر کے مدینہ کو تباہ نہ کر سکے.قرآن کریم میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا 55.فرمایا اے مسلمانو! اللہ کے رستہ میں لڑائی کرنے میں تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے جب کہ کچھ کمزور مرد، عورتیں اور بچے ہم سے دعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس ظالم بستی سے نکال اور ہماری امداد کے لئے کسی کو کھڑا کر.آگے فرماتا ہے فَقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرْضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللهُ اَنْ يَكُفَّ بَأسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللَّهُ اَشَدُّ بَأْسًا وَاَشَدُّ تَنْكِيْلا 56 - یعنی اے محمد ! ( ﷺ ) تو نکل کھڑا ہو.کوئی اور جائے یا نہ جائے تو چل.ہاں مسلمانوں کو تحریص دلا.اگر وہ شامل ہو جائیں تو ثواب کے مستحق ہوں گے نہیں تو عذاب کے.مگر تو ضرور چل.اس پیشگوئی میں یہ بھی ذکر تھا کہ وہ فخر سے نکلے اور چوری چھپے کمزوروں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنے کا ارادہ کیا.قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ 57 یعنی اے مسلمانو! بدر کے موقع پر نکلنے والے کفار کی طرح نہ بنو جو اتراتے ہوئے نکلے تھے.پھر وہ ظاہر کچھ دکھاتے تھے اور اندر سے ان کی نیت اور تھی.ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ ایک قافلہ کو بچانے چلے ہیں مگر ان کی نیت مدینہ منورہ کو تباہ کرنے کی تھی.

Page 471

سيرة النبي عمال 461 جلد 3 بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نَعُوذُ باللهِ قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے.اگر یہی بات تھی اور کفار اس قافلہ کو بچانے چلے تھے تو پھر اس کا کیا مطلب کہ وہ تکبر کرتے نکلے اور پھر یہ کہتے کچھ تھے اور ان کا اندرونی منشا کچھ اور تھا.وہ چاہتے یہ تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچائیں.بھلا قافلہ کو بچانے سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا سکتے تھے.یہ عجیب لطیفہ ہے کہ بائبل کہتی ہے کہ دشمن چوری سے نکلے اور اُن کی غرض یہ تھی کہ چپکے سے اس قوم کو جو کمزور تھی تباہ کر دیں اور قرآن بھی ان کی غرض يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بیان کر کے بائبل کی تصدیق کرتا ہے.لیکن مؤرخ کہتے ہیں کہ کفار صرف اپنے ایک قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے اور رسول کریم ﷺ قافلہ کو لوٹنے کیلئے آئے تھے.بائبل اور قرآن دونوں کا بیان ایک ہے اور مؤرخ جو کچھ کہتے ہیں وہ بالکل غلط ہے.کفار نے قافلہ کو بچانے کا صرف بہانہ صلى الله بنایا تھا.ان کی غرض مدینہ پر حملہ کرنا تھی تا کہ مسلمانوں کو تباہ کر دیں.ابو جہل کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی بارھویں پیشگوئی.اب اس پیشگوئی کے درمیان کے دو فقرے جنہیں جو بڑی شان سے پوری ہوئی میں نے چھوڑ دیا تھا اُن کا ذکر کرتا ہوں.اور وہ یہ ہیں تو بنیاد کو گردن تک نگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے.تُو نے اس کے سرداروں میں سے اُسے جو عالی درجہ کا تھا اُس کے بھالوں سے مارڈالا.اس پیشگوئی میں اس قدر استعارہ استعمال کیا گیا ہے کہ بظاہر مضمون کا سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اگر ہم غور کریں تو معنی کھل جاتے ہیں.یہ تو صاف بات ہے کہ بنیاد کی گردن کوئی نہیں ہوتی ، نہ شریر کے گھر کا کوئی سر ہے.پس اس کے کوئی اور معنی کرنے ہوں گے.سو ہم دوسرے حصہ کو دیکھتے ہیں تو اُس میں اس کی تشریح موجود ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے.جب یہ حل

Page 472

سيرة النبي عمال 462 جلد 3 ہو گیا تو اب بنیاد کی گردن کو ننگا کرنا بھی آسان ہو گیا.اس نقطہ نگاہ سے جب اس پیشگوئی پر غور کیا جائے تو ہمیں اس کا پہلا فقرہ یہ نظر آتا ہے کہ ”تو بنیادکو گردن تک نگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ بنیاد کو گردن تک ننگا کرنے کے کیا معنی ہیں؟ بائبل والے کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد کو ننگا کر دے.مگر جب بنیاد کا لفظ موجود تھا تو پھر گردن تک کہنے کے کیا معنی؟ اور بنیاد کی گردن کا کوئی محاورہ نہیں ہے.جب گردن کا ذکر ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ کسی انسان کے متعلق ہے.اور بنیاد عام محاورہ میں اس نیچے کی چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز رکھی ہو.انگریزی میں Base عمارت کی بنیاد کو بھی کہتے ہیں اور سر کی جڑ کو بھی کہتے ہیں جہاں سر گردن سے ملتا ہے.عبرانی میں Base کا لفظ ہی ہے.پس سر کا نچلا حصہ چونکہ گردن پر رکھا ہوتا ہے اس لئے وہ بنیاد ہے اور مطلب یہ ہے کہ گردن تک نچلے ا حصہ کو ننگا کیا جائے گا.پھر شریر کے گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے کیونکہ شریر کے گھر کا سر کوئی اور چیز نہیں ہوتی پس اسے جڑ سے کاٹ دے گا.ان معنوں کی اگلے فقرہ سے بھی تصدیق ہوتی ہے.آگے آتا ہے تو نے اُس کے سرداروں میں سے جو عالی درجہ کا تھا اُس کے بھالوں سے مار ڈالا.اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ پہلے فقرہ میں کسی دشمن کے قتل کی کیفیت بیان ہوئی ہے.پس بنیاد کوگردن تک ننگا کرنے کے معنی یقیناً سرکو گدی تک ننگا کرنے کے ہیں.اور بتایا گیا ہے کہ جب وہ نبی کمزوروں کو بچانے کے لئے ایک طرف سے نکلا اور دوسری طرف سے اس کے دشمن غریبوں کو مسل ڈالنے کے خیال پر فخر کرتے ہوئے نکلے تو آپس میں جنگ ہوئی اور اس جنگ میں جو دشمنوں کا سردار تھا اُسے اُس نبی یا اُس کے کسی تابع نے گردن تک ننگا کر کے اُسی کے ہتھیار سے مارڈالا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا بدر کی جنگ میں جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ کسی سردار کے سر کو اس کی گردن کلی کر کے گدی سے کاٹ دیا گیا ہو.جب

Page 473

سيرة النبي م 463 جلد 3 ہم بدر کی جنگ کا حال پڑھتے ہیں تو ہمیں لفظ بلفظ ایسا ہی ایک واقعہ ملتا ہے.تاریخوں میں لکھا ہے جب جنگ شروع ہوئی اور صحابہ مقابل پر کھڑے ہوئے تو ان میں دو کم سن لڑ کے بھی تھے.یہ جنگی قاعدہ ہے کہ بہادر لڑنے والے اس بات کی احتیاط رکھتے ہیں کہ ان کے دائیں بائیں بھی بہادر ہوں تا کہ وہ پوری بے فکری سے جنگ میں نمایاں حصہ لے سکیں.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ ہمارے دل کفار کی تکالیف سے بھرے ہوئے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ آج ان سے خوب بدلہ لیں گے مگر جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دولڑ کے کھڑے ہیں تو میرا دل بیٹھ گیا کہ آج کیا لڑنا ہے جب کہ دونوں پہلو اتنے کمزور ہیں.لیکن ابھی یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری اور میرے کان میں آہستہ سے تا کہ دوسرا لڑ کا نہ سن لے کہا چا! سنا ہے ابو جہل بڑا شریر ہے، مسلمانوں کو بہت دکھ دیتا ہے وہ کونسا ہے؟ میں اسے مارنا چاہتا ہوں.وہ کہتے ہیں باوجود اس بہادری کے جو میں رکھتا تھا مجھے یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ میں ابو جہل کو مار دوں.لیکن ابھی وہ لڑکا مجھ سے بات کر ہی رہا تھا کہ دوسرے نے مجھے کہنی ماری اور چپکے سے پوچھا چا! وہ ابو جہل کون ہے جو مسلمانوں کو بہت تنگ کرتا ہے.میرا جی چاہتا ہے کہ میں اسے ماروں.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں اُن کی بات سن کر سخت حیران ہوا.ابھی تھوڑی سی جنگ ہوئی تھی کہ عقبہ مارا گیا اور ابو جہل کمانڈر بنا تھا.میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا وہ ابوجہل ہے.وہ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں لڑ کے چیل کی طرح جھپٹا مار کر پہرہ میں سے گزرتے ہوئے اس پر جا پڑے اور اسے گرا دیا 58.پہرہ کے سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا اور ایک کا ہاتھ کاٹ دیا جو تسمہ سے لگ رہا تھا.اس نے اس پر پاؤں رکھ کر اسے علیحد کر دیا کہ لڑائی میں حارج نہ ہو.ابو جہل گر گیا تھا اور اسے زخم آئے تھے مگر مرا نہ تھا.رسول کریم علیہ نے جب پوچھا کہ ابو جہل کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تو عبد اللہ بن مسعودؓ اس کا پتہ لگانے کیلئے نکلے.جب وہ گئے تو دیکھا کہ ابو جہل گرا پڑا

Page 474

سيرة النبي عمال 464 جلد 3 ہے.انہوں نے اسے کہا اے دشمن خدا! آج بھی تو ذلیل ہوا ہے یا نہیں؟ اس نے جواب دیا ایک سردار قوم کو اس کی قوم مار دے تو اس میں کیا ذلت ہے.انہوں نے اس پر حملہ کیا لیکن چونکہ ان کی تلوار چھوٹی تھی اور اس کے پاس بھی تلوار تھی اس لئے کامیاب نہ ہو سکے.آخر اس کے ہاتھ پر ان کی تلوار لگی اور اس کی تلوار گر گئی.انہوں نے اس کی تلوار اٹھالی اور اسے مارنے لگے.اس نے کہا دیکھ! میں سردار قوم ہوں میری گردن لمبی کر کے کاٹنا تا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے دیکھ کر ڈرے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اس سے اور زیادہ غصہ آیا.انہوں نے پیچھے سے ہو کر اس کی گردن پکڑ لی اور اس کا خُو داٹھا کر سر کے عین نیچے سے اس کی گردن کو ننگا کیا اور اسی کی تلوار سے اس کا سرکاٹ دیا 59.اور اس طرح اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوئی اور حبقوق نبی کی یہ پیشگوئی کہ ” تو بنیاد کوگردن تک نگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے.تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا‘ لفظاً لفظاً پوری ہوئی.اب دو سوال باقی رہتے ہیں.ایک یہ کہ پیشگوئی میں ہے کہ تو نے دشمن کو مارا لیکن مارا عبداللہ بن مسعودؓ نے.اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کے متبع کا کام در حقیقت رسول کا ہی ہوتا ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ پیشگوئی میں بھالا آیا ہے مگر عبداللہ بن مسعودؓ نے تلوار سے مارا.اس کا جواب یہ ہے کہ اردو بائبل میں بھالا لکھا ہے، انگریزی میں ٹیڑھی لکڑی ، فارسی میں سونٹا اور عربی میں تیر.اس اختلاف سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عبرانی لفظ کے معنی نہ بھالا ہیں ، نہ تیر، نہ سونٹا بلکہ ہتھیار کے ہیں جس کا ترجمہ مختلف متر جموں نے مختلف کر دیا ہے.یہ میرا خیال ہی نہیں بائبل کا ایک مفسر بھی تفسیر بائبل میں لکھتا ہے :."This were better translated thou didst smite through with his own weapons the head of his chieftains."60

Page 475

سيرة النبي علي وو 465 جلد 3 یعنی صحیح مطلب یہ ہے کہ اُسی کے ہتھیار سے اُس کی گردن کاٹ دی.تیرھویں پیشنگوئی یہ تھی کہ " ہر چند کہ انجیر کا درخت نہ پھولے ٹس پر بھی میں خداوند کی یاد میں خوشی کروں گا.اس میں بتایا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہ ہوگا.بنی اسرائیل کی مثال بائبل میں انجیر سے دی گئی ہے.چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح نے ایک انجیر کے درخت پر لعنت کی کہ اسے پھل نہ لگیں 61.اور اس کی تفسیر مسیحی مفسر یہی کرتے ہیں کہ یہودی قوم کا خدا سے تعلق کٹ جائے.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حبقوق نبی کہتا ہے کہ یہود جن میں سے وہ خود ہے تباہ ہو جائیں گے.لیکن پھر بھی مجھے اس نبی کے ذریعہ خدا کے نام کا روشن ہونا اپنی قومی ترقی سے زیادہ پسند ہے اور میں اپنی قومی تباہی کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے جلال کی وجہ سے بخوشی برداشت کرلوں گا.رسول کریم میہ کے بارہ میں اس کے بعد ہم کچھ اور صدیاں پیچھے چلتے صلى الله ہیں جب کہ حضرت مسیح ناصری کا زمانہ حضرت مسیح ناصرتی کی پیشگوئی آتا ہے.وہ انگورستان کی تمثیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں.پس جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.انہوں نے اس سے کہا ان برے آدمیوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اس کو پھل دیں.یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا.یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی.اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا 62.دوسری جگہ حضرت مسیح فرماتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا 66

Page 476

سيرة النبي علي 466 جلد 3 تمہارے لئے فائدہ مند ہے.کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا.لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا.اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا.گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے.راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا.اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.وہ میرا جلال ظاہر کرے گا.اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا 63.ان پیشگوئیوں میں حضرت مسیح نے مندرجہ ذیل باتیں بتائی ہیں :.اول یہ کہ ایک مثیل موسی آئے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کا آنا ایک شرعی نبی کے آنے پر جو مثیل موسی ہو دلالت کرتا ہے.(2) یہ کہ وہ بنی اسرائیل سے نہ ہوگا (3) یہ کہ اس کی قوم میں ہمیشہ برگزیدہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو قوم کی ہدایت کا موجب ہوں گے.(4) یہ کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہو گا.یعنی اس پر سب شریعتیں ختم ہو جائیں گی.(5) یہ کہ اس کا مقابلہ دوسری اقوام سے ہو گا.لیکن خواہ اس پر کوئی حملہ کرے یا وہ کسی پر حملہ کرے دونوں صورتوں میں وہ کامیاب رہے گا.(6) یہ کہ وہ تسلی دینے والا ہو گا.(7) یہ کہ وہ دنیا کو تین چیزوں سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے یعنی بوجہ مسیح کو نہ ماننے کے گناہ کے وہ لوگوں پر الزام لگائے گا.یہاں گناہ محدود معنوں میں لیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ ایک قوم کو مسیح کے انکار کی وجہ سے اور دوسری کو راستی سے یعنی مسیح کو چھوڑ بیٹھنے کی وجہ سے.اور تیسری کو عدالت سے یعنی اس وجہ سے کہ وہ لوگ شیطان سے تعلق رکھتے ہوں گے قصور وار ٹھرائے گا.گویا یہود انکار مسیح، نصاری غلو در مسیح

Page 477

سيرة النبي عمال 467 جلد 3 اور دیگر اقوام شیطانی تعلقات کی وجہ سے مجرم قرار دی جائیں گی.اور سب ہی دنیا اس کے آنے پر مجرم قرار پائے گی.(8) یہ کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہ کہی گئی ہوں گی.(9) یہ کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی.(10) یہ کہ اس کی کتاب میں صرف خدا کا کلام ہو گا اور وہ آئندہ کے لئے بھی روحانی ترقی کا رستہ کھلا رکھے گی.(11) یہ کہ وہ کتاب مسیح کو عیب سے مبرا کرے گی.(12) یہ کہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دے گی یعنی اس کے کلام کو پورا کر کے اس کے باخدا ہونے کا ثبوت پیش کرے گی.یہ ساری کی ساری باتیں رسول کریم ﷺ میں نہایت شان سے پوری ہوئیں.اول آپ مثیل موسی تھے اور آپ نے دعویٰ کیا کہ آپ میں خدا ظاہر ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ 64 یعنی وہ لوگ جو صلى الله b تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری نہیں بلکہ خدا کی بیعت کرتے ہیں.دوسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ موعود بنی اسرائیل میں سے نہ ہو گا.رسول کریم بنی اسرائیل میں سے نہ تھے بلکہ بنی اسمعیل میں سے تھے.تیسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ کی قوم کی ہدایت کے سامان ہمیشہ ہو تے رہیں گے چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی اللہ تعالیٰ رسول کو ایک دوسری قوم میں بھی بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے.پھر حدیثوں میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِاةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا 65 یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں تجدید دین کے لئے اپنے پاک بندوں کو کھڑا کرتا رہے گا.چوتھی بات یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہو گا جسے سب معماروں

Page 478

سيرة النبي عمال 468 جلد 3 الله نے رد کر دیا.یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ بنی اسرائیل ہمیشہ بنی اسمعیل کو محروم الارث قرار دیتے رہے مگر رسول کریم ﷺ نے خود بھی دعوی کیا ہے کہ آپ کونے کا پتھر ہیں.چنانچہ فرما یا إِنَّ مَثَلِی وَ مَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِى كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنِي بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَاَجْمَلَهُ إِلَّا مَوضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَتَعَجَّبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبَنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ 66 فرمایا میری اور پہلے انبیا ء کی مثال ایک ایسے مکان کی سی ہے جسے ایک شخص نے بنایا اور اسے خوب سجایا مگر اس کے ایک کو نہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رکھی.لوگ آتے اور اس مکان کو دیکھنے کے لئے اس کا چکر کاٹتے اور تعجب سے کہتے یہاں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے.میں وہ کونے کی اینٹ ہوں جس سے اس مکان کی تکمیل ہوئی اور خاتم النبین ہوں.کونے کے پتھر کے بھی یہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ دو دیواروں کو آپس میں ملاتا ہے اور دیوار کے معنی قرآن میں روحانی سلسلہ کے ہوتے ہیں.چنانچہ سورۃ کہف میں حضرت موسی نے دیوار کی مثال بنی اسرائیل سے دی ہے.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ ان صلى الله دو دیواروں سے کیا مراد ہے جن کو رسول کریم علیہ نے کو نہ کا پتھر بن کر ملایا.سو ایک دیوار تو پہلے انبیاء کی تھی جو مختلف شریعتوں کے تابع تھے اور ایک دیوار قرآن کی تھی.صلى الله رسول کریم یہ ان دونوں کے اتصال کا ذریعہ ہیں کیونکہ آپ ہی کے ذریعہ آپ کی امت پہلے انبیاء کو مانتی ہے اور آپ ہی کے ذریعہ سے آئندہ آنے والے مامور پہلے نبیوں سے تعلق پیدا کرتے ہیں.دیکھ لو دوسری قوموں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن رسول کریم ﷺ کے ذریعے مسلمانوں کا تمام اقوام عالم سے تعلق قائم ہے.ہندوؤں کے سوا اور کسی قوم کا حضرت کرشن سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا رسول کریم صلى الله کے توسط سے ان سے بھی ہے.کیونکہ قرآن میں آیا ہے اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِير 67 اگر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ سے یہ معلوم نہ ہوتا کہ ہر قوم میں

Page 479

سيرة النبي علي 469 جلد 3 نبی آئے تو ہمیں کیا علم تھا کہ کرشن جی بھی خدا کی طرف سے تھے.پھر دیکھو یہود کو زرتشی قوم سے کوئی تعلق نہیں.وہ ایک علیحدہ دیوار کھڑی ہے مگر رسول کریم ﷺ نے اس قسم کی ہر دیوار کو ملا دیا.زرتشت کی ساختہ دیوار سے اسلامی دیوار وابستہ ہے اور دوسرے انبیاء کی دیواروں سے بھی اسلامی دیوار وابستہ ہے.پس کونے کے پتھر کے معنی یہ ہیں کہ آپ آئندہ آنے والے لوگوں اور پچھلی قوموں میں واسطہ پیدا کر دیں گے.پہلی دیوار میں الگ الگ کھڑی تھیں.حضرت موسی کی دیوار علیحدہ تھی ، حضرت عیسی کی علیحدہ ، حضرت کرشن کی علیحدہ.مگر محمد رسول اللہ نے ہر دیوار میں کونے کا پتھر بن گئے اور آپ نے سب کو یہ کہہ کر ملا دیا کہ سب نبی خدا کی طرف سے ہیں اور سب کا ایک ہی سلسلہ ہے.پانچویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ کا مقابلہ سب دنیا سے ہو گا.آپ پر حملے کئے جائیں گے اور آپ سبھی حملے کریں گے مگر دونوں صورتوں میں وہ نبی ہی جیتے گا.اس میں یہ نہیں کہا کہ وہ جیتے گا بلکہ یہ کہا اگر یہ حملہ کرے گا تو بھی جیتے گا اور اگر دشمن تیار ہو کر حملہ کریں گے تو بھی یہی جیتے گا.چنانچہ جنگ احزاب، اُحد اور بدر میں دشمن چڑھ کر آ گیا مگر ان میں بھی دشمن ہی کچلا گیا.اور فتح مکہ، خیبر اور تبوک کی جنگ میں آپ گئے اور ان میں بھی دشمن کچلا گیا.چھٹی بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ تسلی دینے والے ہوں گے.اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا کو تسلی کی ضرورت تھی یا نہیں؟ اگر ضرورت تھی تو کیا ان اقوام کو ان کے مذاہب تسلی دے سکتے تھے؟ سواس بارے میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذاہب اپنے ماننے والوں کے لئے تسلی کا باعث نہ رہے تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو سب مذا ہب اس سے خالی تھے اور قلبی اطمینان ان میں سے کسی کو حاصل نہ ہو سکتا تھا.چنا نچہ کوئی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل گناہ کی معافی کی قائل نہ تھی.ہندو کہتے

Page 480

سيرة النبي عمال 470 جلد 3 که بر میشور کسی کا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا.وہ ہر چھوٹے بڑے گناہ کی سزا دیتا ہے پر اور انسان کو مختلف جونوں میں جانا پڑتا ہے.اور سارے گناہوں کی سزا جونوں میں پڑ کر بھگت لینے کے بعد بھی پر میشور ایک نہ ایک گناہ رکھ لیتا ہے اور پھر اس کی پاداش میں نجات سے محروم کر دیتا ہے.اس وجہ سے ہند و اپنے مذہب کے ذریعہ تسلی نہ پاسکتے تھے.زرتشتی اور مسیح ابدی دوزخ کے قائل تھے.اس عقیدہ کے ماتحت جس انسان سے ایک دفعہ بھی کوئی گناہ ہو جائے وہ یہی سمجھتا تھا کہ ابدی دوزخ میں جانا پڑے گا اور اس وجہ سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا تھا.یہود بھی کسی کو تسلی نہ دیتے تھے.وہ کہتے تھے نجات صرف یہود کیلئے ہے باقی سب کیلئے ہلاکت ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی امید کی کمر ٹوٹ چکی تھی.کوئی مذہب ابتدا میں ہی ناامیدی کے گڑھے میں گرا دیتا، کوئی درمیان میں لاکر منجدھار میں چھوڑ دیتا، کوئی آخر میں ابدی دوزخ میں جھونک دیتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر سب کو تسلی دلائی.(1) جو گناہ کی معافی کے قائل نہ تھے انہیں بتایا کہ تناسخ کے چکر کی ضرورت نہیں خدا تعالی بڑا رحیم وکریم ہے وہ گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمُ 68 یعنی اے رسول ! تو سب بندوں کو کہہ دے کہ مجھے خدا نے تسلی دینے والا بنایا ہے.اس لئے وہ لوگ جنہوں نے کوئی گناہ کیا ہے انہیں خبر دے دے کہ اللہ کی رحمت سے ناامیدمت ہو.تو بہ کرو تو وہ گناہ بخش دے گا کیونکہ وہ غفور اور رحیم ہے.b (2) پھر اس نے ان قوموں کی طرف منہ کیا جو کہتی ہیں کہ جو گنہگار مر گئے ان کیلئے ہمیشہ کا جہنم ہے.اور سنایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے.چنانچہ سورۃ اعراف آیت 157 میں آتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ.پھر فرما یا فَأَمَّهُ هَاوِيَةٌ 89 ، یعنی جہنم ماں کی طرح ہے.ماں کے پیٹ میں بچہ ہمیشہ نہیں

Page 481

سيرة النبي علي 471 جلد 3.رہتا.جب تک ناقص ہوتا ہے پیٹ میں رہتا ہے اور جب کامل ہو جاتا ہے پیٹ سے نکال دیا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے جہنم ماں کی طرح ہے.جب ان لوگوں کے گند دور ہو جائیں گے جن کو اس میں ڈالا جائے گا اور ان کی صفائی ہو جائے گی تو ہم ان کو جنت میں بلا لیں گے.پس دوزخ صرف ایک تکمیل اور علاج کا مقام ہے.آخر سب خدا تعالیٰ کی بخشش کے نیچے آجائیں گے.اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قوموں کو بھی تسلی دی جو یہ سمجھتی تھیں کہ گناہ گار ہونے کی حالت میں مرنے پر ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا پڑے گا.(3) پھر وہ تو میں جو یہ کہتی تھیں کہ سوائے ہمارے اور کسی کے لئے نجات نہیں ان کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو فرمایا کہ لوگوں کو تسلی دے دے کہ یہ غلط خیالات ہیں.جیسے یہود نے نادانی سے کہہ دیا کہ ہمارے سوا کوئی نجات نہیں پاسکتا اور نسلاً یہ نجات ہمارے حصہ میں ہی آئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص ہے.نجات ہم نے دینی ہے اور ہما را دروازہ سب کے لئے کھلا ہے.چنانچہ فرما یا قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَا 20 یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں.پس ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں بلکہ ہر قوم اس میں برابر کی حقدار ہے.اب انسان کے دل میں ایک اور خوف پیدا ہوتا ہے کہ اچھا آپ آگئے اور آپ کے ذریعہ سب کے لئے نجات کا دروازہ بھی کھل گیا جس کے لئے ہم بڑے ممنون ہیں مگر ہمیں اپنے باپ دادا سے محبت ہے ان کی کیا حالت ہو گی ؟ مسیحیت کہتی ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ کفارہ پر ایمان نہیں لائے.یہودی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ سوائے یہود کے اور کسی کے لئے نجات نہیں.زرتشتی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے.ہندو بھی یہی کہتے ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہہ دو وَ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ تم اپنے باپ دادوں کے

Page 482

سيرة النبي علي 472 جلد 3 متعلق مت ڈرو.ان کے وقت بھی ہم نے نبی بھیجے تھے اگر انہوں نے ان انبیاء کو قبول کر لیا تھا تو خدا انہیں جنت میں لے جائے گا.یہ آباء کے متعلق ان کو تسلی دی.اب یہ وسوسہ باقی رہتا تھا کہ انسان گناہ سے تو بچ ہی نہیں سکتا پھر نجات کیسے ہوگی؟ اس کے لئے فرمایا یہ وسوسہ بھی دور کر دو اور ان سے کہو لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ - ثُمَّ رَدَدْنَهُ اَسْفَلَ سَفِلِينَ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصANAL فَلَهُم اَجر DOWNLOAD LOW 71 اے محمد ! ( ع ) ان کو تسلی دے الصَّلِحَتِ غَيْرُ مَمْنُونٍ کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ انسان کی فطرت گندی ہے وہ جھوٹ بولتا ہے.ہم نے انسان کو نیک فطرت دے کر بھیجا ہے.جب انسان خطا کرتا ہے تب ہم اسے نچلے درجہ میں بھیجتے ہیں ورنہ بڑے بڑے انعام دیتے ہیں.گناہ ایک باہر سے آنے والی چیز ہے.اصل میں انسان کے اندر نیکی ہی رکھی گئی ہے.غرض اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو تسلی دلائی.جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے نجات کا دروازہ بند ہے انہیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کی دعوت دی.جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نیک نہیں ہو سکتے انہیں نیکی کی امید دلائی.جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ ایک دفعہ گناہ کر لیا تو پھر اس کے وبال سے نجات نہیں ان میں تو بہ کا اعلان کیا.جولوگ یہ خیال کرتے تھے کہ گنہگار مر گئے تو ہمیشہ کے لئے گئے.انہیں دوزخ کے ایک درمیانی سٹیج ہونے کا علم دیا.غرض آپ حقیقی معنوں میں دنیا کو تسلی دلانے والے تھے.یہ تو دوسروں کے متعلق فرمایا.اس کے بعد اپنے لوگوں کی باری آئی.ان کو تسلی کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد سنایا کہ خُــذ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلوتَكَ سَكَن لَّهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيه 72 فرمایا جب وہ رسول دنیا کو تسلی دے گا تو اس کی امت والے کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے ہی دن حاصل کر چکے ہیں پھر ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا ان سے مساکین کے لئے چندے لو اور اس طرح ان کو پاک

Page 483

سيرة النبي عليه 473 جلد 3 کرو اور ان کی ترقی مدارج کیلئے دعائیں کرو کہ جس کیلئے تو دعا کرتا ہے اس کے لئے تسلی ہی تسلی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ تیری دعا سنے کیونکہ وہ سمیع ہے.اور اگر بعد میں آنے والی امت کہے کہ ہمارے لئے کیا ہے تو ان سے کہو خدا علیم ہے.اب بھی تمہارے لئے وہ دعا موجود ہے اور تم اس سے حصہ لے سکتے ہو.اس طرح ان کے لئے بھی تسلی کا سلسلہ جاری کر دیا.ساتویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ رسول دنیا کو تین طرح مجرم قرار دے گا.(1) گناہ سے (2) راست بازی سے (3) عدالت سے.یعنی ایک قوم سے کہے گا کہ یہ مسیح کا انکار کرنے والے ہیں اس لئے مجرم ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے b لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ 73 یعنی بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا ان پر داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی تھی.اس طرح غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں حضرت مسیح کا انکار کر نے والوں کو مغضوب قرار دے کر ان سے پناہ مانگی گئی ہے.(2) راستبازی سے اس طرح مجرم قرار دیا کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد نصاری نے انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ تم نے راستبازی تو اختیار کی یعنی مسیح کو قبول کیا لیکن پھر صحیح راستہ کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں نکل گئے.اس لئے تمہارا نام ضال رکھا گیا ہے.جیسا کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 74 سے ظاہر ہے.(3) باقی قوموں کو آپ نے عدالت سے مجرم قرار دیا یعنی اس وجہ سے کہ وہ شرک کی مرتکب ہوئیں اور تو حید کو جو عدل کا طریق تھا انہوں نے ترک کر دیا اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک کا نام غیر عدل رکھا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ 75 ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس طرح اندازہ نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا.اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَيْكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ

Page 484

سيرة النبي علي 474 جلد 3 مهْتَدُونَ 76 وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا انہی لوگوں کیلئے امن مقدر ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں.احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ يَا رَسُولَ الله ! ہر شخص تھوڑا بہت ظلم تو کر بیٹھتا ہے.آپ نے فرمایا اس جگہ ظلم سے مراد شرک ہے 77.- غرض اس پیشگوئی کے مطابق ہر قوم جو اہل کتاب میں سے ہے آپ نے اسے مثیل یہود قرار دے کر مغضوب یا مثیلِ نصاری قرار دے کر ضال قرار دیا.اور جو قو میں اہل کتاب نہ تھیں ان کے متعلق عدالت کو اس رنگ میں استعمال کیا کہ فرمایا ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا اور شرک کا ارتکاب کر کے صحیح راستہ سے منحرف ہوگئی ہیں.گویا گناہ کا لفظ جو انجیل میں استعمال ہوا ہے وہ تفریط کے مترادف ہے راستی افراط کے مترادف اور عدالت توحید سے بے اعتنائی کے مترادف ہے.اور تین ہی گروہ قرآن کریم نے قرار دیئے ہیں.آٹھویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہیں کہی گئیں.قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ 78 تمہیں وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں جو نہ تمہیں معلوم تھیں اور نہ تمہارے باپ دادا کو.ان باپ دادا میں حضرت موسئی بھی شامل ہیں.نویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی.یہ بھی قرآن کریم میں دعویٰ کیا گیا ہے فرماتا ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا 79 آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا.دسویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہی ا کہے گا.یعنی اس کا کلام کلی طور پر الہام پر مشتمل ہوگا.یہ پیشگوئی صرف قرآن کریم پر

Page 485

سيرة النبي عمال 475 جلد 3 ہی چسپاں ہوتی ہے ورنہ انجیل اور تورات میں تو حواریوں کا کلام بھی درج ہے.قرآن کریم میں آتا ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى 80 یعنی وہ اپنی ہوا و ہوس سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ کہتا ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے.پھر آتا ہے وَاِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلمَ اللهِ 81 مشرکین میں سے اگر کوئی کہے کہ مجھے پناہ دو میں خدا کی باتیں سننا چاہتا ہوں تو تم اسے بلاؤ تا کہ وہ کلام اللہ سن لے.گیارھویں بات یہ بتائی تھی کہ وہ میرا جلال یعنی بزرگی ظاہر کرے گا.یہ بھی رسول کریم عملے میں موجود ہے.سورۃ بقرۃ میں آتا ہے وَأَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَاَيَّدُنَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ B2 یعنی ہم نے عیسی بن مریم کو کھلے کھلے نشانات 82 دیئے اور روح القدس کے ذریعہ اس کی تائید کی.پھر آتا ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا - بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا 83 کہ ان لوگوں نے عیسی کو قتل نہیں کیا اور نہ صلیب پر چڑھا کر مارا.ہاں صلیب پر چڑھایا ضرور تھا اور وہ ان کے لئے مصلوب کے مشابہ بنا دیا گیا تھا.وہ لوگ جو اس بات میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً شک میں پڑے ہوئے ہیں.ان کو اس بات کے متعلق کوئی یقینی علم نہیں وہ صرف ایک وہم کی پیروی کر رہے ہیں.انہوں نے ہرگز حضرت عیسی کو نہیں مارا بلکہ اللہ نے اس کو اپنے حضور میں بڑی عزت اور رفعت بخشی تھی.( گویا آپ نے حضرت عیسی کی وہی بزرگی ظاہر کی جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے ) اور کیوں خدا ایسا نہ کرتا وہ عزیز اور حکیم ہے یعنی ضروری تھا کہ حضرت عیسی کے منکرین صلیب پر لٹکاتے مگر یہ بھی ضروری تھا کہ وہ صلیب پر فوت نہ ہوتے اس لئے کہ اللہ عزیز اور حکیم ہے.چونکہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اس لئے ضروری تھا کہ صلیب پر چڑھاتے.

Page 486

سيرة النبي عمال 476 جلد 3 بارھویں بات یہ بتائی کہ وہ میسیج کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دکھائے گا یعنی صلى الله مشاہدہ کرا دے گا.جو فوت ہو گیا اسے تو رسول کریم ﷺے دکھا نہیں سکتے تھے.اسے اسی طرح دکھایا کہ فرمایا میری امت میں سے ایک سپہ سالار کھڑا ہو گا جس کا نام صحیح ہوگا اور اس طرح عملاً مسیح کی راستبازی کو ثابت کر دے گا.کیونکہ اتنے بڑے آدمی کو اس سے مشابہت دینا یہی معنی رکھتا ہے کہ مسیح بھی بزرگ اور برگزیدہ ہستی تھی.چنانچہ حضرت مرزا صاحب جو مسیح موعود ہیں انہوں نے مسیح کی تصویر کھینچ کر دکھا دی.قانون شریعت اور قانون طبعی کی اب دیکھو یہ نشان کتنا عظیم الشان ہے.کتنا لمبا سلسلہ چلتا ہے.حضرت با ہم مطابقت کا حیرت انگیز سلسلہ ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام تک جو دو ہزار سال کا زمانہ ہے تغیرات ہوتے رہتے ہیں.پھر حضرت مسیح کے سلسلہ چھ سو سال کے عرصہ میں بھی تغیرات ہوتے ہیں اور آخر وہ صلى الله انسان ظاہر ہوتا ہے جو ان کا مصداق تھا.اگر صرف رسول کریم ع دعوی کرتے اور شریعت لے آتے تو لوگ کہتے یہ کلام آپ نے خود بنالیا ہے مگر یہاں تو قانون شریعت اور قانون طبعی صدیوں ہاتھ میں ہاتھ دے کر چل رہے ہیں اور ثابت ہو رہا ہے کہ ہمارا خدا آسمان کا ہی بادشاہ نہیں بلکہ زمین کا بھی بادشاہ ہے.قانون شریعت کہتا ہے کہ مکہ میں ایک نبی آئے گا اور قانون طبعی اس کے لئے سامان مہیا کرتا ہے.تباہی اور ہلاکت کی آندھیاں چلتی ہیں، قوموں کی قو میں تباہ ہو جاتی ہیں ، وبائیں آتی ہیں اور قوموں کو ہلاک کر کے چلی جاتی ہیں، زمانہ کی گردشیں آتی ہیں اور قوموں کا نام ونشان مٹادیتی ہیں یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر قریش ان تمام آفات سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کی تائید ہوتی ہے.ابرہہ مکہ پر چڑھائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مکہ اور اہل مکہ کو میں تباہ و برباد کر دوں گا مگر خود اس کا لشکر تباہ ہو جاتا ہے اور وہ ناکام و نامرادلوٹ جاتا اور راستہ میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے.کیونکہ قانون طبعی کہتا ہے کہ میں اس قوم کو نہیں مٹنے

Page 487

سيرة النبي علي 477 جلد 3 دوں گا.قوموں میں تغیرات آتے ہیں، مرد نامرد پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح خاندانوں کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں یہ تغیر نہیں آتا.اس لئے کہ آپ کی نسل بڑھے اور ترقی کرے.عیسائی کہتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ کی تباہی کی خبر دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی ان میں تباہی کے آثار پیدا ہو چکے تھے.مگر ان کی تباہی کی خبر تو یسعیاہ اور حبقوق نے بھی دی تھی اور کئی ہزار سال پہلے دی تھی جب کہ قیصر و کسریٰ کا کہیں نام ونشان بھی نہ تھا.اور پھر قانون قدرت نے ان صلى الله کی تباہی کے سامان اُس وقت پیدا کئے جب محمد رسول اللہ یہ ظاہر ہو گئے.اسی طرح جب رسول کریم ہے ظاہر ہوئے تو ہوسکتا تھا کہ مکہ سے نکالے نہ جاتے.اگر نکالے گئے تھے تو آپ کی قوم آپ پر حملہ نہ کرتی.اگر حملہ کرتی تو شکست نہ کھاتی مگر یہ سب کچھ ہوا.اب غور کرو یہ کس نے کرایا ؟ اسی طرح ممکن تھا کہ ابو جہل حملہ نہ کرتا.اگر اس نے کیا تو عبداللہ کو غصہ نہ دلاتا تا کہ وہ اس کی گردن چھوٹی نہ کاٹے.مگر اس کے لئے اسباب پیدا ہوئے.یہ اسباب کس نے پیدا کئے؟ ان سے صاف نظر آتا ہے کہ دو ہزار سال سے زمین و آسمان کی بادشاہت ایک ساتھ چل رہی تھی.آسمان سے یہ حکم ہو گیا کہ ابراہیم کی نسل کو قائم رکھنا.تباہی و بربادی کی آندھیاں آتیں تو انہیں کہہ دیا جاتا کہ دیکھنا! مکہ پر کوئی آنچ نہ آئے.اسی طرح نبی کریم ﷺ کا حلیہ اتنا عرصہ قبل بتا دینا اور پھر اس کا ہو بہو پورا ہونا، یہ سب باتیں قانون طبعی کے ماتحت تھیں.اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کے نتیجہ میں فرماتا لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ 84 - اے خدا کے منکرو! غور تو کرو کیا.قانون آپ ہی آپ چل رہا ہے؟ میں دو ہزار سال کی ہسٹری پیش کر کے بتا تا ہوں کہ خدا ہے اور یقینا ہے لِلهِ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ 85 سے خدا کا ثبوت ملتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے متعلق فرمایا کہ اس وقت خدا خود آ جائے گا یعنی آپ کے وجود سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملے گا.اور ساتھ

Page 488

سيرة النبي متر 478 جلد 3 ہی انہوں نے اپنے پیرؤوں سے یہ بھی کہا کہ دعائیں مانگو کہ اے خدا! جیسی تیری آسمان پر بادشاہت ہے ویسی ہی زمین پر بھی آئے.یعنی تم ہمیشہ دعائیں مانگتے صلى الله رہو کہ محمد رسول اللہ کے ظاہر ہوں.دعائیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ مے کے زمانہ میں دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان اور زمین کا خدا ایک ہی ہے.اس میں نہ صرف دہریوں کا رد ہے بلکہ جینیوں اور آریوں کا بھی رد ہے.جینی کہتے ہیں کہ روحیں ترقی کرتے کرتے آپ ہی اونچی ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ غلط ہے ہم خود تغییرات کرتے کرتے کامل روح پیدا کرتے ہیں.آریہ کہتے ہیں دنیا میں خدا کا تصرف نہیں مادہ اور روح آپ ہی آپ سب کچھ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے دنیا کا سارا انتظام ہمارے احکام کے ماتحت چلتا ہے اور ہر قسم کے تغیرات ہم خود پیدا کرتے ہیں.طبعی قانون پر خدائے واحد کی حکومت ذرا غور کرو قانون شریعت کا قانونِ قدرت نے ایک صلى الله زمانہ دراز تک کس طرح ساتھ دیا اور کس طرح اس کے ماتحت چلا.رسول کریم علی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قریباً پونے تین ہزار سال بعد پیدا ہوئے.کیا یہ طبعی قانون پر حکومت نہیں کہ اس وقت تک حضرت اسمعیل کی اولاد جاری رہے گی.حضرت ابرا ہیم اور حضرت اسماعیل کا نام ایسا روشن ہوگا کہ ان کی اولا داس بات کو یا در کھے گی کہ وہ ان کی اولاد ہے.مکہ قائم رہے گا.اس میں ایک خاص شخص اس خاص حلیہ کا پیدا ہو گا.اس کی قوم اس کا مقابلہ کرے گی اور اسے گھر سے نکال دے گی.وہ نبی حضرت موسی کی طرح صاحب شریعت ہوگا.وہ پہلے کمزور ہو گا اور گھر سے نکالا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ اسے جماعت دے گا ، وہ مصائب برداشت کرے گا اور صبر کرے گا لیکن اس کی قوم کا اس پر ظلم بڑھتا جائے گا.آخر دشمن خفیہ تدبیر کرے گا کہ اس کے کمزور ساتھیوں کو تباہ کر دے اور فخر کرتا ہوا آئے گا.یہ واقعہ اس کی ہجرت کے ایک

Page 489

سيرة النبي عمال 479 جلد 3 سال بعد ہو گا.جب مقابلہ ہو گا تو میدان اس کے ہاتھ رہے گا اور دشمن کے اکثر سردار مارے جائیں گے.ان میں سے رئیس المکفرین عالی خاندان والا اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں اس طرح مارا جائے گا کہ اسی دشمن کے ہتھیار سے ایک شخص اس کی گردن تک سر کو ننگا کر کے اس کا سر کاٹ دے گا.اس کا قد اونچا لیکن بدنما اونچا نہ ہو گا.وہ چلتے وقت زور سے قدم مارے گا (زمین اس کے قدموں سے لرزے گی ) اس کا رنگ سفید لیکن سرخی مائل ہو گا.اس کے بال گھنگر الے ہوں گے لیکن بالکل گھنگر الے نہیں، ان میں بیچ پڑے ہوں گے.اس کا کلام شیریں ہو گا لیکن سچائی پر مشتمل ہونے کے سبب سے لوگوں کو تلخ معلوم ہو گا.اس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہو گا.آخر وہ ایک دن فاران کی پہاڑیوں سے ہوتا ہوا مکہ پر حملہ آور ہو گا.دس ہزار سپاہی جو نہایت نیک و پاک ہوں گے اس کے ساتھ ہوں گے اور وہ مکہ کو فتح کر لے گا.اس کے بعد ملک اس پر ایمان لے آئے گا.اُس کے کام ایسے شاندار ہوں گے کہ لوگ انہیں دیکھ کر عجیب کہہ اٹھیں گے.وہ نہایت با اخلاق ہوگا اور غریب ومسکین اُس سے مشورہ کرنے میں نہ جھجکیں گے.اُس کے کلام میں اُسے مثیل موسی کہا جائے گا.اُس کی قوم کے کاموں سے خدا تعالیٰ خوش ہوگا.وہ انہیں مقدس بنائے گا اور ہمیشہ انہیں مقدس بنانے کے سامان پیدا کرتا رہے گا.اُس کے مذہب کا نام نیا ہوگا اور خدا تعالیٰ خود وہ نام انہیں دے گا اور اس میں سلامتی کا لفظ پایا جائے گا ( سلامتی کا شہزادہ یعنی سردار اسلام اس کا لفظی ترجمہ ہے ) اُس کے شہر کو ہمیشہ آباد رکھا جائے گا اور لوگ دور دور سے اُس کا قصد کر کے آئیں گے.وہ جس طرف رخ کرے گا لوگ مرعوب ہوں گے.قومیں اُس پر مل کر حملہ کریں گی لیکن شکست کھائیں گی.( سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (86).اور اُس کے دشمن ہلاک ہوں گے.اُس کا مقابلہ ایک طرف شامی حکومت سے اور ایک طرف ایرانی حکومت سے یعنی قیصر و کسریٰ سے ہوگا اور دونوں شکست کھائیں گی.اُس کے آنے کے بعد پہلی ورد

Page 490

سيرة النبي عمال 480 جلد 3 سلطنتیں اور پہلے دینوں کی برکت مٹ جائے گی اور ترقی رک جائے گی.(عیسائیت نے بظاہر ترقی کی ہے لیکن پہلے عیسائیت نے بذریعہ تلوار بڑھنا چاہا اور بذریعہ تلوار روکی گئی.اب بذریعہ تبلیغ بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے تو حضرت مسیح موعود مقابلہ کیلئے پیدا ہو گئے ) اُس کی قوم میں ہمیشہ مصلح پیدا ہوتے رہیں گے.وہ اگلے اور پچھلے لوگوں میں بمنزلہ ایک واسطہ کے ہوگا.اُس کی تعلیم سلامتی کی تعلیم ہوگی.وہ کسی خاص قوم کے لئے نہ ہوگی بلکہ سب کے لئے ہوگی.اُس کا رویہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ کے طور پر ہوگا.اور دوسری اقوام اُس کے اثر سے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر لیں گی.اُس کی تعلیم کے ذریعہ سے بے حکمت اور رسمی احکام کو مٹا کر با حکمت تعلیم دی جائے گی.اُس کی تعلیم میں ہر قسم کے ضروری امور بیان ہوں گے اور وہ بالکل مکمل ہوگی جس کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہ رہے گی.اُس کی تعلیم کا ماحصل یہ ہوگا کہ وہ نجات کا راستہ ہر قوم اور ہر حالت کے لوگوں کے لئے کھولے گا اور افراط و تفریط اور شیطانی غلامی سے لوگوں کو بچائے گا.(غیر الہامی مذہب کلی طور پر شیطان کے قبضہ میں ہیں) وہ فطرتِ انسانی کی نیکیوں کو ابھارے گا.اس کی کتاب خالص الہام پر مشتمل ہوگی ایک لفظ بھی دوسرا اُس میں موجود نہ ہو گا.وہ گزشتہ انبیاء پر سے الزامات کو دور کرے گا خصوصاً حضرت مسیح کی پاکیزگی ایک خاص نمونہ کے ذریعہ لوگوں کو عملاً دکھا دے گا.یہ اخبار ایسی ہیں کہ جو ایک وقت میں نہیں دی گئیں.ایک وقت میں ان کے سامان نہیں پیدا کئے گئے.قوموں اور شہروں کا زندہ رہنا ہزاروں سال کے طبعی تصرفات کا نتیجہ ہے.ایک خاص خلیہ کے شخص کا پیدا ہونا خاص علم الحیوانات کا نتیجہ ہے.دشمنوں اور دوستوں کے دل میں اُن خیالات کا پیدا ہونا جو مذکور تھے خالص علم النفس کے ماتحت تغیرات کا نتیجہ ہے.دشمنوں کا زیر ہونا خاص سیاسی تغیرات کا نتیجہ ہے.(مسیحی کہتے ہیں کہ قیصر و کسری پہلے سے کمزور تھے.ہم کہتے ہیں اس سے ثابت

Page 491

سيرة النبي عمال 481 جلد 3 ہوا کہ آپ کی مدد کے لئے پیدائش سے بھی پہلے سے سامان ہورہے تھے ) اس طرح خاص تعلیم اور اس کی تفصیلات خاص آسمانی تو جہات کا نتیجہ ہیں.غرض صاف طور پر یہ سلسلہ آسمانی اور زمینی بادشاہت کے ایک ہونے پر دلالت کرتا ہے اور ان سب امور کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ آسمانی اور زمینی بادشاہتوں کا اتحاد ایک بالا اور بالا رادہ ہستی کا ثبوت دے رہا ہے.فَسُبْحَانَ اللَّهِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ.یہ میں نے ہی نہیں کہا بلکہ حضرت مسیح ناصرٹی بھی اس دلیل میں میرے ساتھ متفق ہیں.چنانچہ حضرت مسیح کی یہ دعا کہ ” تیری بادشاہت آئے.تیری مراد جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی آئے 87.اس سے حضرت مسیح کا یہی مطلب ہے کہ ظہور محمد علی کیلئے دعا کرو کہ اسی کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت کا ظہور زمین پر ہوگا.اب دیکھو یسعیاہ باب 9 اور حضرت مسیح کی پیشگوئی متی باب 21 کس رنگ میں پوری ہوئی 88 محمد ﷺ کی آمد کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ خدائے قادر ہوگا اور مالک ارض و سما ء ہوگا (یعنی باغ کا مالک ).اس کے یہی معنی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زبر دست ثبوت اور آسمانی اور زمینی نظاموں کا ایک بالا رادہ ہستی کے ہاتھ میں ہونے کا ثبوت آپ کی ذات میں ملے گا.اور ان کے ذریعہ سے لوگ قطعی طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم حاصل کریں گے.پس آپ کا آنا خدا کا آنا ہوگا.“ 1: البقرة: 130 (الفضل 21 فروری 1933ء) 2: استثناء باب 18 آیت 18 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء 3 استثناء باب 33 آیت 2 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1870ء 4 فصل الخطاب جلد 2 صفحہ 38 مطبع مجتبائی دہلی 1305ھ 5: غزل الغزلات باب 5 آیت 8 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 6: غزل الغزلات باب 5 آیت 9 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء(مفہوما )

Page 492

سيرة النبي عمال 482 غزل الغزلات باب 5 آیت 16 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء (مفہوما ) جلد 3 "His Locks are bushy and black as a ravan" (The Song of Songs, :8 Chapter V verse:11.The Holy Bible Victorian street London 1903.9، 10: شمائل الترمذى باب ماجاء فی خلق رسول اللہ مطبع مجتبائی دہلی ایڈیشن 1342ھ :11 لسان العرب زیر لفظ ” شرب ، صفحہ 65 مطبوعہ دارالحدیث قاهرة 2013 ء :12: یسعیاہ باب 9 آیت 6، 7 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء 13: الجن:2 14 متی باب 21 آیت 42 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 15 : المجادلة: 13 16: خروج باب 7 آیت 1 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء :17 المزمل: 16 18: الاحزاب : 7 19: الاحزاب: 41 20: الحج : 79 21:السيرة الحلبية الجزء الثالث زير عنوان فتح مكة شرفها الله تعالى صفحہ 208،207 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء 22: یسعیاہ باب 21 آیت 13 تا 17 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء 23: یسعیاہ باب 55 آیت 4 ، 5 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء (مفہوما ) 24: الحج: 79 25 ال عمران: 32 26: الاعراف : 159 27: یسعیاہ باب 62 آیت 2 تا 5 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء

Page 493

سيرة النبي علي 483 28: یسعیاہ باب 62 آیت 12 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870 ء ( مفہوما ) 29: التوبة: 100 30: الطور : 2 تا 7 31: عبس: 17،16 32: الجمعة: 4،3 33: الاعراف: 158 34: ال عمران: 98 جلد 3 35: حبقوق باب 3 آیت 3 تا 18 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء ووه 36: القاموس جلد 2 زیر حرف ”مُر ، مطبوعہ لکھنو 1302ھ 37: تاج العروس جزء 8 صفحہ 215 مطبوعہ مصر 1307 38: الاحزاب : 75 39: حبقوق الاصبحاح الثالث آیت 5 الكتاب المقدس صفحه 903 الطبعة السابعة بيروت 1894ء 40:بخارى كتاب فضائل المدينة باب كراهية النبي لعل الله ان تعرى المدينة صفحه 303 ، 304 حدیث نمبر 1889 ء مطبوعہ ریاض مارچ 1999 ء الطبعة الثانية 41: الاحزاب : 14 صلى الله 43،42:بخارى كتاب فضائل المدينة باب كراهية النبي علة ان تعرى المدينة صفحه 303 ، 304 حدیث نمبر 1889 ء مطبوعہ ریاض مارچ 1999ء الطبعة الثانية 44:شمائل الترمذى باب ماجاء فی خلق رسول الله ل اللہ صفحہ 36 حدیث نمبر 7 مطبوعہ بیروت $2000 صل الله 45 بخاری کتاب الصلوة باب قول النبي علي جعلت لى الارض مسجدا و طهورا صفحہ 76 حدیث نمبر 438 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية 46: الحشر : 3

Page 494

سيرة النبي عليه 47: القمر: 46 48: الطور : 8 تا 12 101.100:45:49 109106::50 51: بنی اسرائیل : 73 484 جلد 3 52: مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 119 حاشیہ مطبوعہ میمنہ مصر 1313ھ 53: الفتح : 17 54 : الاصابة في تمييز الصحابة الجزء الرابع صفحه 347 مطبعة السعادة بجوار محافة مصر 1328ھ 55: النساء : 76 56: النساء:85 57: الانفال : 48 58:بخارى كتاب المغازى باب فضل من شهد بدرا صفحه 673،672 حدیث نمبر 3988 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية :59 : شرح مواهب اللدينة جلد 2 صفحہ 296 ، 297، مطبوعہ بیروت لبنان 1996ء The Old Testament with a brief commentry by various Authors :60 London.Habakkuk Chapter 3 Verse 14.1 6: متی باب 21 آیت 19 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 62 متی باب 21 آیت 40 تا 44 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء 63: یوحنا باب 16 آیت 7 تا 14 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہورمطبوعہ 1906ء 64: الفتح : 11 65 ابوداؤد كتاب الملاحم باب ما يذكر فى قرن المائة صفحه 602 حدیث نمبر 4291

Page 495

سيرة النبي علي 485 جلد 3 مطبوعہ ریاض اپریل 1999 الطبعة الاولى صلى الله 66:بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبيين علا صفحہ 595 حدیث نمبر 3535 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 الطبعة الثانية 67: فاطر: 25 68: الزمر : 54 69: القارعة : 10 70: الاعراف: 159 71 : التين : 5 تا 7 72: التوبة : 103 73: المائدة : 79 74: الفاتحة:7 75: الانعام:92 76: الانعام: 83 77 بخاری کتاب التفسير تفسير سورة لقمان باب لا تشرك بالله ان الشرك لظلم عظیم صفحہ 389 حدیث نمبر 4776 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 ء الطبعة الثانية 78: الانعام:92 79:المائدة:4 80: النجم : 54 81: التوبة : 6 82: البقرة: 88 83: النساء : 158 159 84:البقرة: 108 ،التوبة: 117

Page 496

سيرة النبي علي :85: المائدة: 121 ، الشورى : 50 86: القمر : 46 486 87: لوقا باب 11 آیت 2 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہورمطبوعہ 1906ء جلد 3 88: یسعیاہ باب 9 آیت 6 متی باب 21 آیت 33 تا 41 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء

Page 497

سيرة النبي علي 487 جلد 3 غزوہ حنین میں رسول کریم ﷺ کی شجاعت صلى الله 28 دسمبر 1932ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے فضائل القرآن کے نام سے جاری سلسلہ خطابات کو جاری رکھتے ہوئے جو خطاب فرمایا اُس میں آپ آنحضرت ﷺ کی غزوہ حنین میں شجاعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.غزوہ حنین میں جب صحابہ کی سواریاں بدک گئیں اور رسول کریم ﷺ کے پاس صرف 12 آدمی رہ گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ ذرا پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ دشمن کا شدید حملہ ہے.جس صحابی نے آپ کی سواری کے جانور کو پکڑا ہوا تھا اسے آپ نے فرمایا چھوڑ دو اور پھر سواری کو ایڑ لگا کر آگے بڑھے اور فرمایا :.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب 1 اور باوجود یکہ اس وقت چاروں طرف سے تیر برس رہے تھے مگر آپ کو نہ لگے.تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت جو اسباب پیدا ہوتے ہیں وہ نظر ( الفضل 21 فروری 1933ء) نہیں آتے.“ 1: بخارى كتاب الجهاد والسير باب من قاد دابة غيره فى الحرب صفحہ 474 حدیث نمبر 2864 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 498

سيرة النبي علي 488 جلد 3 رسول کریم علیہ کے سمجھانے کا انداز 30 دسمبر 1932ء کو بیت نور قادیان میں انجمن انصار اللہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.بدر کی جنگ میں ایک عورت کا بچہ گم ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جنگ کے بعد وہ گھبرائی ہوئی پھرتی، کبھی ادھر جاتی اور کبھی اُدھر ، آخر تلاش کرتے کرتے اُسے اُس کا بچہ مل گیا ، وہ اُسے اپنی چھاتی سے لگا کر ایک طرف بیٹھ گئی ، اُس کے چہرہ سے خوشی کے آنسو اور اطمینان کے آثار ظاہر ہوئے ، تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا اس عورت کی طرف دیکھو یہ کس طرح گھبرائی ہوئی پھرتی تھی اور اب اسے بچہ ملنے کے بعد کیسا اطمینان ہو گیا.پھر آپ نے 66 فرمایا اس ماں کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی.ب گنہگار بندہ اُس کے حضور تو بہ کرتا ہے 1.“ الفضل 8 جنوری 1933 ء ) 1: بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله ومعانقته صفحه 1050 حدیث نمبر 5999 مطبوعه رياض الطبعة الثانية

Page 499

سيرة النبي علي 489 جلد 3 رسول کریم علیہ کا راہ مولیٰ میں دکھ اٹھانا 30 دسمبر 1932ء کو بیت نور قادیان میں انجمن انصار اللہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.اگر اللہ تعالیٰ کے لئے گالیاں کھانا ذلت ہے تو نَعُوذُ بِاللهِ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ نبی بھی اس سے حصہ پاتے رہے کیونکہ انبیاء کو ہمیشہ گالیاں دی جاتی رہیں.پس گالیاں ذلت کا سامان نہیں بلکہ عزت کا باعث ہیں.کوئی شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر گالیاں کھانے والا نہیں ہو سکتا.آج تک رنگیلا رسول وغیرہ کتابیں جو شائع ہوئیں وہ انہی گالیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے.اگر گالیاں کھانا ذلت ہے تو کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خدا نے ذلت کے سامان پیدا کئے ؟ نہیں بلکہ خدا کے لئے گالیاں کھانا عزت ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس عزت کا سب سے بڑھ کر سامان ہوتا رہا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کا کیا بگاڑا تھا جو انہیں لوگوں کی طرف سے گالیاں ملتیں.آپ کا اگر کوئی جرم تھا تو یہی کہ آپ شیطان کے سب سے بڑے دشمن تھے.پس وہ گالیاں گالیاں نہیں تھیں بلکہ اس بات کا اقرار تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے ایک نور لائے ہیں جسے اندھی دنیا 66 قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.پس وہ اپنے عناد کو گالیوں کی صورت میں ظاہر کرتی.“ (الفضل 8 جنوری 1933ء )

Page 500

سيرة النبي علي 490 جلد 3 وو کسری کی ہلاکت کا معجزہ حضرت مصلح موعود 20 جنوری 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.صلى الله رسول کریم ہے کے زمانہ میں یہود کی خفیہ ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ایران کے بادشاہ کو جو آج کل کی انگریزی حکومت کی طرح نصف کرہ عالم پر قابض تھا اور تمام ایشیا میں اس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اسے رسول کریم ﷺ کے متعلق خیال پیدا ہوا کہ وہ میرے مخالف ہیں اور شاید میری سرحد پر فساد کرنا چاہتے ہیں.اس نے اپنے یمن کے گورنر کے نام خط لکھا کہ میں نے سنا ہے عرب میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے، تم فوراً اسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو.ایرانی حکومت کا جو دبد بہ اور رعب اُس زمانہ میں تھا اور جس قدر شوکت اسے حاصل تھی اس کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے گرفتاری کے لئے کوئی فوج بھیجنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ صرف تین آدمی بھیج دیئے اور انہیں حکم دیا کہ جا کر اس شخص کو لے آؤ.ساتھ ہی نصیحت کی کہ شاید عرب کا باشندہ ہونے کی وجہ سے وہ کسریٰ کی شان و شوکت سے ناواقف ہو اس لئے اسے کہنا کہ وہ بغیر کسی حجت اور قیل وقال کے آ جائے.میں کسری کے پاس اس کی سفارش کروں گا اور کہوں گا کہ اگر اس کا قصور بھی ہے تو معاف کر دے.وہ لوگ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور آ کر اپنا یہ مقصد بیان کیا کہ ہم اس لئے آئے ہیں کہ تا آپ کو گورنریمن کے پاس حاضر کیا جائے.آپ نے فرمایا میں تیسرے دن اس کا جواب دوں گا.انہوں نے کہا ہم خیر خواہی سے آپ کو کہتے ہیں کہ کسی نے کسری کے پاس آپ کی جھوٹی شکایت کر دی ہے.اگر آپ گورنر یمن کے پاس حاضر

Page 501

سيرة النبي عليه 491 جلد 3 صلى الله ہو جائیں گے تو وہ آپ کی سفارش کا وعدہ کرتے ہیں.آپ نے پھر وہی جواب دیا اور فرمایا میں تیسرے دن اس کا جواب دوں گا.آپ مدینہ میں تھے اور کسری مدائن میں.مدینہ اور مدائن کے درمیان بیسیوں مضبوط قلعے تھے جن میں دس دس پندرہ پندرہ ہزار فوجی تھے.مدائن کو فتح کرتے وقت باوجود اس کے کہ اسلامی لشکر سیلاب کی طرح بڑھتا چلا جاتا تھا پھر بھی سالہا سال لگے اور ہزار ہا مسلمان ایک ایک لڑائی میں شہید ہوئے.مگر باوجود اس کے کہ ہزاروں آدمیوں کے مارے جانے کے بعد مدائن فتح ہوا اور باوجود اس کے کہ اس کو فتح کرنے میں سالہا سال لگے آج تک مسلمان اس فتح کو معجزہ قرار دیتے ہیں اور یورپ اس کی تو جیہیں کرتا ہے.پس اگر اُس وقت رسول کریم ع کو وہی شوکت حاصل ہوتی جو حضرت عمرؓ کے وقت مسلمانوں کو حاصل تھی اور اگر آپ اس گستاخی کے جواب میں کسری پر حملہ بھی کرتے تو بھی مدائن کو فتح کرنے میں کئی سال لگتے.اور ممکن تھا کہ اس فتح کے بعد کسری کسی اور علاقہ میں بھاگ جاتا یا کہیں چھپ جاتا اور اس طرح مسلمانوں کے حملہ سے محفوظ رہتا غرض انسانی تدابیر کے ساتھ اگر یہ بات ممکن بھی ہوتی تب بھی اس کے لئے سالوں چاہیں تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور جب تیسرے دن وہ لوگ جواب کیلئے حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تم جاؤ.اس زمانہ میں کسری کی رعایا اسے خداوند کہہ کر یاد کیا کرتی تھی گویا وہ ان کا مجازی خدا تھا اور ہمیشہ بات کرتے وقت وہ کسری کو خداوند کہتے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارا خداوند یوں کہتا ہے.آپ نے بھی اسی تلازمہ 1 کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا جاؤ! میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ آج کی رات اس نے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے.وہ لوگ یہ الفاظ سن کر کانپ اٹھے اور کہنے لگے شاید یہ دیوانہ ہو گیا ہے جو کسریٰ کی طاقت سے اس قدر ناواقف انہوں نے کہا آپ اپنے آپ پر اور اپنے ملک پر رحم کریں کسری کی فوجیں عرب کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گی.آپ نے فرمایا میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا.میرا وہی ہے.

Page 502

سيرة النبي عليه 492 جلد 3 جواب ہے جا کر گورنر سے کہہ دو.وہ لوگ واپس چلے آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا که یا تو وہ شخص دیوانہ ہے اور یا خدا کا نبی.گورنر کہنے لگا ہم انتظار کریں گے.اگر اس کی یہ بات سچی نکلی تو وہ واقعہ میں خدا کا نبی ہوگا اور ہم اس کی اطاعت میں جلدی کریں گے.غرض اس نے انتظار کیا.یہاں تک کہ ایران کے جہاز وہاں پہنچے اور ایران کے بادشاہ کا خط گورنر یمن کے نام آیا.اس زمانہ میں جیسا کہ دستور تھا گورنر چند قدم بڑھ کر آگے آیا.اس نے ایلچی سے خط لیتے ہوئے اسے بوسہ دیا، سینہ سے لگایا اور پھر اسے کھولا.مگر جب اس نے خط اپنے ہاتھ میں لیا تو معاً اُس کا رنگ متغیر ہو گیا کیونکہ اس پر اس بادشاہ کی مہر نہیں تھی جو اس وقت حکمران تھا جبکہ وہ گورنر بنایا گیا تھا بلکہ اس کے بیٹے کی مہر تھی.اس نے خط کھولا تو اس میں لکھا تھا ہم نے اپنے باپ کے ظلموں کو دیکھ کر اور یہ محسوس کر کے کہ رعایا اس سے سخت تنگ ہے اسے فلاں دن قتل کر دیا ہے اور اب ہم تخت حکومت کے وارث ہیں.گورنریمن نے جب حساب لگایا تو اسے معلوم ہوا کہ جس رات کسر کی قتل ہوا وہ وہی رات تھی جب رسول کریم علیہ نے بتلایا تھا کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے.پھر آگے لکھا تھا ہمارے باپ نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق بھی ایک ظالمانہ حکم جاری کیا تھا ہم اسے بھی منسوخ کرتے ہیں اس بارے میں قطعاً کوئی کارروائی نہ کی جائے 2.ا صلى الله اب کجا مدینہ اور کجا مدائن ! سینکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے.درمیان میں بیسیوں ایسی چھاؤنیاں ہیں جو فوجوں سے پُر ہیں اور جن کا مقابلہ متمدن حکومتوں سے بھی نہیں ہوسکتا تھا.چنانچہ قیصر کی حکومت بھی اپنی شوکت کے باوجود مدائن کو فتح کرنے سے الله قاصر رہی.اگر رسول کریم ﷺ کے پاس تو پیں بھی ہوتیں تو کہاں تک مار کرتیں.مگر دعا تھی جو آسمان پر گئی اور وہاں سے مدائن پر بم گرا جس نے کسریٰ کو ہلاک کر دیا.ہوائی جہازوں کے بم اِدھر اُدھر گر سکتے ہیں مگر دعا کا ہم کبھی خطا نہیں کرتا اور ہمیشہ نشانہ :

Page 503

سيرة النبي علي پر بیٹھتا ہے.“ 493 جلد 3 (الفضل 26 جنوری 1933ء ) 1: تلازمہ مضمون کی رعایت سے الفاظ کا استعمال ( فیروز اللغات اردو جامع صفحه 373 مطبوعہ فیروز سنز لاہور 2010ء) 2 طبری جلد 3 صفحہ 247 تا 249 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1987ء

Page 504

سيرة النبي علي 494 جلد 3 رسول کریم ﷺ کی سیرت کا سبق آموز واقعہ وو صلى الله حضرت مصلح موعود 17 فروری 1933 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.رسول کریم علیہ کے زمانہ میں وحشی ایک حبشی تھا.اس نے اپنے کفر کے زمانہ الله میں ایک ایسی حرکت کی جس سے رسول کریم ﷺ کو سخت صدمہ پہنچا.پھر کچھ مدت کے بعد وہ اسلام میں داخل ہو گیا.اسلام بذات خود تمام گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے.مگر رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایا تم میرے سامنے نہ آیا کرو 1.وہ تو بہ کر چکا تھا گناہ اس کے معاف ہو چکے تھے پھر بھی اس کا ایک فعل اس پر ایسا داغ لگا چکا تھا جس کا مٹانا اس کے لئے زندگی میں قریباً ناممکن تھا.رسول کریم ﷺ جانتے تھے کہ میرا فرض ہے کہ میں اس کے لئے دعائیں کروں لیکن ممکن ہے یہ میرے سامنے آ جائے اور اس کے آنے پر میری دعا میں روک واقع ہو جائے کیونکہ اس نے ایک عظیم الشان خادم اسلام 2 کو شہید کیا تھا.“ الفضل 26 فروری 1933ء ) 1 بخاری کتاب المغازى باب قتل حمزة بن عبد المطلب صفحہ 689 حدیث نمبر 4072 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 حضرت حمزه (مرتب)

Page 505

3 9 11 19 30 32 انڈیکس آیات قرآنیہ احادیث کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات

Page 506

Page 507

460 388 475 3 الفاتحة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (1) 114 آیات قرآنیہ فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّلِمِيْنَ وَمَالَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِي (194) 83 سَبيل الله (76) إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ لَا تَكُنْ لِلْخَائِنِيْنَ خَصِيْماً (107.106) وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ (159.158) المائدة الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) 376 474،377 وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 349 (68) لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا 153 422 84 185 297.84 غَيْرِ الْمَغْضُوبِ (223) (7) 473 هُوَ أَذًى(223) البقرة وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ لَا رَيْبَ فِيهِ (3) (229) 378 اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ (88) وَاتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (256) 475 لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (108) (257) 477 آل عمران وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ (79) 473 النصرى (114) 189.81 فاتبعوني (32) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ (130) 435-162 كَمَا أَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ 226، الْفَسِقِينَ (109) 447،391،341،246 لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ وَالْأَرْضِ (121) 387 477 (152) (98) 390 450 مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا الانعام قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ ( 156 157) 89 (98) (34) 376 38 وَقَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ (191) 191 النساء فَإِن انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (194) 211 الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ (83) 474.473 وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِة.473 (92) 224-210 (70) 83 (193)

Page 508

4 التوبة يوسف وَ إِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ إِنَّهُ لَا يَايْنَسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ 474 عُلِمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا (92) لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (104) (6) 244 (88) 475 75 لَا تَسَبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ (109) إِنَّ الشَّيطِيْنَ لَيُوْحُونَ والشبقُونَ الأَوَّلُوْنَ تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلِكَ (122) (100) 325.190.81 (103) 369 448 | الْقَدِيمِ ( 96 ) 386 خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ قُلْ هَذِهِ سَبِيْلِي أَدْعُوا 472 إِلَى اللهِ (109) 111 وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ كُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِينَ الرعد (126-125) 387-339 (119) 247 يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِلُ الْآيَتِ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُوْلٌ مِنْ (164-163) 27 أَنْفُسِكُمْ (128) (3) 307 247 ابراهيم الاعراف رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (157) وَيَضَع عَنهُمْ إِصْرَهُمْ (158) قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي يونس أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ 470 أَوْحَيْنَا (3) (25) 159 382 الحجر رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ (159) قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ وَقَالُوْا يَايُّهَا الَّذِي نُزِّلَ 449 (17) 341 عَلَيْهِ الذِّكْرُ ( 7 ) 343 فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ (10) 232 (17) 447.379.180 38 النحل 177 471 وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ وَلَقَدْ بَعَثْنَا ( 37 ) يُفترى ( 38 39) يَفْعَلُوْنَ مَا يُوْمَرُوْنَ (51) 123 370 مِنْ أَنفُسِكُمْ (73) 422 هود إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلطَانٌ أُولَئِكَ لَمْ يَكُونُوا (101-100) 370 مُعْجِزِيْنَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ 370 (102) 381.380 460 (2321) 191 الانفال وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا (48) وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ (59)

Page 509

5 قُلْ نَزَّلَهُ رُوْحُ الْقُدُسِ وَيَسْتَلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ وَقَالَ الظَّلِمُوْنَ إِنْ تَتَّبِعُوْنَ 347-346 349 347 (9) 455 اُنظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ (10) 73 وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا (22 تا 27) (109106) 354 رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا الانبياء (115) 361 (104-103) لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُوْنَ (104) بنی اسرائیل إِذْ يَقُوْلُ الظَّلِمُوْنَ (48) مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى (73) 456 وَإِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَکَ بَلْ قَالُوْا أَضْغَاتُ أَحْلَامٍ وَقَالَ الرَّسُوْلُ يُرَبِّ 349 (6) (31) 353.345 لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُم كِتَابًا فِيْهِ لَوْ لَا دُعَاتُكُمْ ذِكْرُكُم (11) أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ 346 (78) 348 283 (74) 383 (45) 372 وَلَوْلَا أَنْ تَبَّتْنَكَ (75) 383 الحج هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ الكهف الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (4) وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 407 (49) 444 فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (195193) 217 وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ (7) وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ (55) 385 (53) 377 وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيطِيْنُ 368.367 (212-211) 369-366 النور 369 371 قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتب (110) أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (111) طة وَقَدْ آتَيْنَكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْراً 161 (34) هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ (224222) 301 النمل اللَّهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَواتِ 311 (36) الفرقان 413 وَالْأَرْضِ (66) العنكبوت وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِنْ هذا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا 246-75 (70) 355 (5تا7) 455 (101-100)

Page 510

الاحزاب النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِيْنَ (7) 6 الزمر الفتح قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرْفُوْا انَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (54) 444 (3.2) 470 388 إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ (11) 467 إِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ (14) 453 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُوْلِ اللَّهِ أسْوَةً (22) 390.341 المؤمن وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا (52) 388 وَالْأَرْضِ (15) وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبكَ (56) 388 قُلْ لِلْمُخَلَّفِيْنَ (17) 267 458 يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ (30.29) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ (41) إِنَّ اللَّهَ وَ مَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ (75) فاطر إِنَّا أَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا ونَذِيرًا (25) اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا 380 نَذِيرٌ (25) 257،177،80 ، حم السجدة إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا 58 (31) (24) 379 85 الحجرات فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ 444 (39) 452 وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 340 (10) 295 الشورى لَا يَسْخَرْ قَوْمٍ مِنْ قَوْمٍ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (12) 327 (41) 378 إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ الدخان اتقكم (14) 327.77 انى لَهُمُ الذِّكْرَى الطور 448 يس وَمَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ (71.70) هذَا سَاحِرٌ (5) (15.14) 468-324 الاحقاف 354 وَالطُّوْرِ ( 2 تا 7) إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِع (1208) فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ (30) (36) 353 محمد إِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً 370-346 (5) 265 النجم وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ (3.2) 326-301 455 350 382-381

Page 511

384 382 7 وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى (64) 475.383.377 أَفَرَءَ يْتُمُ اللَّتَ (21،20) 366 الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأُنْثَى (24122) كَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ المنفِقُون الضحى لَيُخْرِجَنَّ الْاعَزُّ (9) 136 وَالضُّحى (2 تا 4) القلم وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولى (5) 369 نَ وَالْقَلَمِ وَمَايَسْطُرُوْنَ وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ 343 (30) 160-159 (2 تا 7) الحاقة فترضی (6) 385 أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاوَى القمر وَإِنْ يَرَوْا آيَةً (3) حِكْمَةٌ بَالِغَةً (6) فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ (7) 381 346 346 (39تا 48) 351 وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَىٰ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ (46) 454 وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنِ (8) 381 (43) الرحمن وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جستن (47) الواقعة إِنَّهُ لَقُرْآنَ كَرِيمٌ 350 (9) وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَاغْنى 386 الجن فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ 379 إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (2) 443 (11،10) 386 المزمل الانشراح يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ أَلَمُ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (800-78) (92) 391 230.229 (2) 390 المجادلة يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمْ (13) الحشر هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ (3) الجمعة إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا التين (16) 443 444 لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ (75) 472 بِأَيْدِي سَفَرَةٍ العلق (17.16) 454 449،391 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ التكوير (2) تا آخر ) 218، 222، 358، 377.359 366 يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا هُوَ بِقَوْل شَيْطَاه (26) 449.405 (2 تا 5)

Page 512

115 115 114 8 لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَلِيَ دِيْنِ (7) 470 372 النصر 297.84 فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ (4) 388 الاخلاص الفلق قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (2) الناس قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (52) 184 (2 تا 7) القارعة فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ (10) الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ الكفرون (462)

Page 513

9 اخِرُ الْمَسَاجِدِ 194 احادیث سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ أَعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الشَّامِ 457 | صَحِحْهَالَنا الْحِقِّ بِسَلْفِنَا الصَّالِحِ 374 323 453 b حدیث بالمعنى ( ترتیب بلحاظ صفحات ) اللَّهُ أَعْلَى وَاجَلُّ 50، 334 طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةً على اسے حق حاصل تھا کہ مطالبہ کرتا 4 اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ 421 | كُلِّ مُسْلِمٍ اللهُمُ الْعَنْ شَيْبَةَ 453 ع أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب 213،101، عائشة تِلْكَ بِتِلْكَ 487-322-276-252 ل 72 127 جہنمی ہے مزامیر شیطانی آلے 37 57 تم ان امور کو زیادہ جانتے ہو 86،85 لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا 249 | گرہن خدا کے قانون سے 78.77 لِكُلِّ دَاءِ دَوَاء أَنصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُوْمًا إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثْ إِنَّ مَثَلِي وَ مَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ 468 إِنِّي لَا قُوْمُ فِي الصَّلوةِ اوَ مُخْرِجيَّ هُمْ ح حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْيَاكُمْ خ ثُمَّ لَاهْلَهِ 74 تعلق رکھتا ہے 467 لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى 409 398 39 لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَىٰ ده حيين اچھا اسے مٹادو 86 96 96 211 اگر میری بیٹی فاطمہ سے یہ فعل 76 اللہ اُس وقت خوش ہوتا ہے 125 لَيْسَ لِلْعَرَبِيِّ فَضْلٌ عَلَى سرزد ہو عَجَمِي م 100 153 154 مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ 326.154 ن 249 اگر کسی کو مجھ سے تکلیف پہنچی 129 خدا نے مجھے تین آدمیوں کی نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ 454 | خبردی 132 خدایا ان لوگوں کو معاف کر دے 188 هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ 306 اگر سورج کو میرے دائیں رکھ دو 188

Page 514

10 کی تاکید کی جبرائیل نے اتنی دفعہ ہمسایہ کے حقوق اللہ دین کی خدمت فاسق سے سلام سے دس نیکیاں 195 بھی لیتا ہے 306 اگر کوئی جنازہ پڑھے 424 426 خدا تعالیٰ یہود اور عیسائیوں پر لعنت دوسروں کے بزرگوں کی عزت کرو یہ شیطان سے آخری جنگ ہے 430 کرے 325 252 آسمان میں بالشت بھر جگہ نہیں 452 میرے خدا نے تمہارے خدا کو دیا کرو مار دیا 260 آزاد کو فروخت کرنے والا واجب القتل ہے 294 مجھے یونہی دوسروں پر فضیلت نہ جود ولڑکیوں کی تربیت کرے 327 جس نے شادی نہ کی وہ بطال ہے 420 ظلم سے مراد شرک ہے 325 اس عورت کی طرف دیکھو 474 488

Page 515

11 مضامین اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں 137 آیا آزادی آزادی وہ ہے جو تہذیب اور تمدن انعامات اسلام کی تعلیم قیدیوں کیلئے 299 | اللہ تعالیٰ کے انعامات دل کی حالت اسلامی اصول کی بنیاد حکمت پر پر ہی ہوا کرتے ہیں 411 کے قواعد کے اندر ہو احسان احسانات کی اقسام اختلاف اختلاف کو قائم رکھ کر صلح کرو 17 70 330 ہے اطاعت اطاعت اور اتباع میں فرق اعتراضات مخالفین اسلام کے حضور پر اختلاف دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکتا 330 اعتراضات کا رد بادشاه 342 عرب کے نواحی بادشاہوں کی شان و شوکت 374342 بزرگ 132 402.401 ہر قوم کے بزرگوں کا ادب ضروری اخلاق اخلاقی ترقی کا گر کھانوں کا انسانی اخلاق سے گہرا تعلق ؟ استخاره شادی میں استخارہ کی اہمیت استغفار استغفار کے معنی اسلام اسلام کی بنیاد محبت پر ہے یورپ کے بڑے بڑے متعصب 75 150 419 387 116 الله اللہ تمام عیوب سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے ہ شخص جو کوشش کرے خدا کا وصال حاصل کر سکتا ہے امن 117 80.79 پادری 186 پادریوں نے کتابیں لکھ کر یورپ کو اسلام سے بدظن کیا ہے قیام امن کا طریق 138 139 قرآن کریم کے خلاف سیالکوٹ امین امین وہ ہے جو خطرناک امتحانوں کے پادری کی سازش پیشگوئی سے گزر کر امانت قائم رکھے 316 بے سروسامانی کی حالت میں فتح انسان کامل نبی کامل انسان ہوتا ہے 147 141 234 کی پیشگوئی 1 تا 3 پیغام

Page 516

186 186 129 75 76.75 12 توحید توحیدا تصال کا نام ہے 337 تمام مذاہب تو حید کے قائل ہیں جب کوئی خدا کو پالے تو اسے کامل جسے تو حید کا راز معلوم نہ ہوا وہ محروم 174 تو حید حاصل ہوگئی ج رہ گیا تو حید ہر قوم میں قائم ہوئی 175 176 جرم کسی انسان کا دل دکھا نا بڑا جرم عالمگیر مذہب پیش کرنے سے توحید کا بہت بڑا خیال پیدا ہو جاتا ہے 180 جستجو تو حید کے بغیر علم سائنس ترقی نہیں سچی جستجو ضائع نہیں جاتی کر سکتا 183.182 سچے دل سے جستجو سے سیدھا راستہ ضرور دکھایا جائے گا 196182 جلسے سیرت کے جلسوں کو کامیاب بنانے کی تجاویز 11 تا 14 بانیان مذاہب کے متحدہ ہندوستان میں جلسوں کی تفصیل 140 تا143 142.141 بانیان مذاہب کے جلسے امن قائم کرنے کا ذریعہ سیرت کے جلسوں کا مقصد مختلف اقوام میں اتحاد پیدا کرنا 175 214 جماعت احمدیہ سیرت کے حوالہ سے جماعت کو 183 183 183 186 186 74 پیغام کی افضلیت پیغامبر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے تجس تجسس کر وعلاج پالو گے 84.83 398 ترقیات کی چابی ترقیات تصنع دینی پیشواؤں میں تصنع تقدس 88 38 تو حید کی اہمیت علمی لحاظ سے تقدس کے معنی تمدن تمدن کے معنی مدنیت 411 ہو سکتی توحید کے بغیر دنیا میں کوئی ترقی نہیں تمدن ان قوانین کا نام جن سے تو حید کی وجہ سے علوم میں ترقی کے بنی نوع انسان آرام سے رہ سکیں 412 دروازے کھلے تمدن کے دوام کیلئے عورت مرد تو حید کے بغیر علمی تحقیق کی کسی کو مل کر رہتے ہیں 412 جرات بھی نہیں ہو سکتی تمدن کی بنیاد الہام پر ہونی چاہیے تو حید کے معنی خدا کو ایک بتانا، 414،413 | ایک قرار دینا تو حید کامل یہ ہے کہ خدا سے کامل تنزل علوم اور قوموں کے تنزل کا ایک اتحاد اور وصال ہو جائے موجب 73 | توحید یہ ہے کہ انسان اپنے وجود نصیحت کو مٹا کر رکھ دے 186

Page 517

182 346 401 34032 426 13 حریت ضمیر حریت ضمیر علمی ترقی کی جڑ ہے حکومت حکومت کے ذمہ ہرفرد کا کھانا، رہائش لباس خ 83 لائیڈ جارج کی دعا کی طرف توجہ 120 علم سائنس میں بغیر تو حید کے ترقی 471 نہیں ہوسکتی دوزخ دوزخ تکمیل اور علاج کی جگہ ز ہیں 296 | ذنب کے معنی ذنب 387 سحر سحر کے معنی عربی میں جھوٹ بھی سردار عرب سرداروں کی حالت سزا ہرسز اظلم نہیں ہے سلام سلام کہنا ، جواب دینا قوم میں اتحاد و برکت کا باعث ش خدا رحم رحم کس حال میں اچھا ہے قوموں نے ایک خدا کے نام اپنی زبان میں رکھے 179 رسالت 35 توہین رسالت کے جرم میں کسی کو خدا سب کا ہے،سب کے لئے رحمت کا دروازہ کھلا ہے خدا بندوں کو مل سکتا ہے خوبیاں 181 247 ہر ایک چیز میں خوبیاں ہیں 82،81 خوش مزاجی خوش مزاجی اچھے انسان کیلئے شرط ہے دعا قتل نہیں کیا گیا رمضان رمضان اپنے اندر بڑی برکتیں رکھتا ہے زبان 151 باعمل کی زبان بااثر ہے س سائنس طلب ہدایت کے لئے ہر ایک کی دعا سائنس اس قانون کی دریافت کا قبول ہوتی ہے 75 نام ہے جو دنیا میں جاری ہے 136 270 شادی شادی کے طریق مختلف معاشروں میں 4160414 شادی کے بارہ میں اسلامی تعلیم 421 416 112 | یورپ میں نوے فیصد شادیاں نا کام ہوتی ہیں 182 417 شادی محبت کے اجتماع کا نام ہے 421 شرک مشرک کون ہے 117 شرک کی چار اقسام اور ان کا رد 184

Page 518

14 شرک کے رد میں ایک دلیل 186 جماعت کو شرک سے بچنے کی تلقین 243 شعر شعر کو شعر کہنے کی وجہ صادق صادق کی جماعت بڑھتی ہے 353 383 ع عارف عارف کون ہے عبادت عبادت کے لئے طہارت اور پاکیزگی شرط عرفانِ الہی 247 399 صادق کی ایک علامت اس کی تعلیم عرفان کے معنی شناخت کرنا ، پہچاننا 243 383 جوا اپنی ذات میں خدا کو پہچانتا ہے خدا بھی اُسے پہچان لیتا ہے 244 ترقی کرتی ہے صحابہ کا عشق رسول 129 130 عرفان الہی کے طریق 244 245 صحابہ کو نیکی کا قابل رشک عرفانِ الہی کے لئے کوشش کی خیال 427،426 | ضرورت صنعت و حرفت عرفانِ الہی کے لئے عارف کی صنعت و حرفت کی داغ بیل کس اتباع کی ضرورت طرح رکھی گئی 290 آنحضرت عرفان الہی کے 247 247 ہمیشہ زندگی عقل نے نہیں عشق نے پائی 406 عشق غیر محمد و داستحکام رکھتا ہے 411 علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے علم مذہب کے خلاف نہیں علم ختم نہیں ہوتا عورت عورت ہمیشہ مردوں پر خوبصورتی یا 72 لله الله الله 72 73 خوب سیرتی سے حکومت کرتی رہی 17 رسول کریم سے پہلے عورت پر مظالم کی تفصیل 20017 عورتوں کے حقوق اسلامی شریعت کی روسے 23020 عورتوں کے حقوق کے بارہ میں یورپین ممالک اور امریکہ کے فیصلے ایک عورت کا واقعہ 25.24 125 b طلباء کامل راہنما عزت 247 عورتیں ٹورنامنٹ دیکھ سکتی ہیں 127 عورت کے حقوق کسی کی قابل عزت چیز کو برا نہ کہو سکولوں اور کالجوں کے طلباء کی 119 عزت کی قربانی بہت بڑی قربانی خراب حالت ظ ہے عشق ظلم کیا ہے 34 = 81.80 96 عہد کا احترام عیاش کی علامتیں عبد عیاش 422 79.78 60053

Page 519

15 ہے عیاشی کے لوازمات عید 52 غلامی کا مفہوم جزئی غلامی کونسی غلامی بری ہوتی ہے سب سے بڑی عید رمضان کی عید 270 ملازموں کی غلامی 286 287 288-287 286 اسلام میں کوئی غلامی نہیں 302 ق قانون اصل عید رمضان ہی ہے 271 غلامی تمدن انسانی کا جزولاینفک ہے انگریزی قانون میں تبدیلی 24 288 قرآن کے نزول سے بڑھ کر کوئی عید نہیں غلامی کی بنیاد کس طرح پڑی 270 عیسائی غلامی کی بنیا در تم پر رکھی گئی 2900288 291 عیسائیوں کا مذہبی جوش دیکھ کر لطف آجاتا ہے 119 292 سورۃ علق میں عیسائیت کے تمام مسائل کور د کر دیا سورۃ فاتحہ میں عیسائیت یہودیت 359 کارد 360 غلامی کے متعلق اسلامی تعلیم غ غلامی کو اسلام نے کس طرح مٹایا 294 غلامی کی ناجائز صورتیں 291 292 غلامی کے نقائص غلامی کس طرح مٹ سکتی ہے 293 غلامی کو مٹانے کے اصول نبی کریم نے بیان کیے 293 294 روحانی اور دنیا وی قانون میں 134.133 قانونِ شریعت اور قانون طبعی کی 481 476 طبعی قانون پر خدائے واحد کی 4810478 قرآن قرآن کے بارہ میں فرانسیسی مصنف کی رائے قرآن اور انجیل کا فرق قرآن کا معجزہ سب معجزوں سے بڑھ کر 114.113 115 فرق باہم مطابقت 229 غریب غلام بنانے کے لئے ہمسایہ قوموں ہر مالدار غریب کے ذریعہ کماتا ہے 86 پر حملہ کرنانا جائزہ 295.294 اسلام نے غلامی کو ناممکن بنا دیا 295 قرآن اسی طرح موجود ہے جیسا نبی کریم کی وفات کے وقت تھا 233 غلام غلامی جنگوں میں کسی کو غلام نہیں بنایا غلاموں کا تکلیف اٹھانا 61 تا 65 جا سکتا غلاموں کی نبی کریم سے ہمدردیاں 69065 ابتدائی غلام آنحضرت کے گھر نمازیں پڑھتے بچہ کی غلامی 362 287.286 297 حفاظت قرآن کے لئے سرولیم میور کی شہادت 235.234 236 قرآن اپنی تفسیر خود کرتا ہے مذہبی جنگوں میں غلام بنانے کی ممانعت اسلام نے غلامی کے نقائص کس طرح دور کیے 297 302*300 قرآن کے مفہوم کی حفاظت کا معجزہ 236 قرآن کی ایک آیت دوسری کی حفاظت کرتی ہے 237

Page 520

16 صرف قرآن ہی کلام اللہ ہے 335 کا ہن قرآن کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ کا ہن اور شاعر کی خصوصیات اس کو لانے والا انسان دوسرے انسانوں سے افضل ہے قرآن میں دلوں پر اثر کر نے والے مضامین 338 346 قرآن کے پانچ دعوے 371 تا 380 قرآن پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب 374 تا 377 قرآن کتب سماویہ کی تفصیل بیان کرتا ہے کفار 352 مباشرت کے آداب محبت الہی 422 419 محبت الہی کے متعلق 15 ہم امور 246 کفار مکہ کے مسلمانوں پر مظالم 197 انسانی فطرت میں محبت الہی رکھی کلام اعلیٰ درجہ کے کلام کو سمجھانے کیلئے اعلیٰ محبوب الہی کی علامت مقربین درجہ کے علم کی ضرورت گ 337 والا سلوک ہے 359 248.247 مذہب انذاہب مذہبی لیڈروں کا لڑائی میں حصہ 35 گرم جوشی مذہب خدا کا کلام اور دنیا خدا کا فعل 72 377 378 گرم جوشی آگے نکلنے کا نام ہے 274 قرآن کے ذریعہ صفت رب العالمین کا ظہور قرب الہی 380.379 چھوٹی چھوٹی باتیں قرب الہی کا ذریعہ 427 ل لڑائی ہر مذہب میں خوبی 189،82،81 کوئی مذہب اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک اس میں خوبی نہ ہو 82 116 مذہب کی غرض خدا سے ملنا اچھے اغراض کے ماتحت لڑائی کرنا 35 مذہب کا خلاصہ اللہ کی محبت ہے 116 مذہب مجرم کو جرم کے ارتکاب سے قبل روکتا ہے 134.133 منع نہیں ہے لڑکی قربانی اٹھارہ سالہ یہودی لڑکی کی دعا قربانی کی اصلیت قربانیوں کی اقسام قربانیوں کی شقیں 87 90087 90 کرتے وقت گریہ وزاری مذہب کی غرض خشیت اللہ پیدا کرنا 134 121 لونڈی تمام مذاہب کی غرض بندوں کا خدا سے تعلق پیدا کرنا 175 لونڈیوں کے بچے آزادی کی روح ک مذہب نے آہستہ آہستہ ترقی کی 181 کو جذب نہیں کر سکتے 17 کامل سب مذاہب خدا کی طرف سے 190 مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی کامل چیزوں میں خدا کا دیکھنا زیادہ مباشرت پر حملہ کرنا نا جائز ہے 191 مشکل ہوتا ہے 244

Page 521

382 32 32 17 مذہب دلوں کی صفائی کے لئے ہوتا مومن کو ہر بات میں لوگوں سے آگے ہے 208 | ہونا چاہئے ہر مذہب کی کتاب میں خوبیاں 306 مزامیر عیاشی کے لئے مزا میر ضروری ہوتے ہیں مسلمان 57 نجم 274 نجم اس بوٹی کو کہتے ہیں جس کی جڑ نہ ہو ن نبوت / انبیاء نک کے معنی نبوت فطرت انسانی کی طاقتوں کو ابھار کر باہر نکال دیتی ہے نبوت کمالات انسانی میں سے 73 نبوت اور ولایت میں فرق 146 نسک مسلمانوں کے ذریعہ یورپ کے ایک کمال ہے 147،146 | سارے مال کی وصیت قرآنی تعلیم جوانوں نے علم سیکھا مسلمانوں نے بیسیوں بیماریوں کا نبی فطرت کے تقاضوں کو متناسب علاج معلوم کر لیا 340 74 طور پر پورا کرنے کیلئے آتا ہے 150 مسلمانوں کی نسبت دوسرے لوگ نبی کے چار کام 162 162 166 167 اپنے مذہب کی طرف بلاتے ہیں 119 نبی کا پہلا کام آیات سنانا مسلمانوں کی حالت یہودونصاریٰ نبی کا دوسرا کام تعلیم کتاب سے بھی گری ہوئی ہے 119 تا122 نبی کا تیسرا کام تعلیم حکمت مسلمانوں کی مذہبی حالت دیکھ کر نبی کا چوتھا کام تزکیہ نفس 168 تا 170 رقت پیدا ہوتی ہے 119 120 نبی ہر قوم میں آئے مسلمان وہ ہے جوسب صداقتوں نبی کریم سے پہلے ہر ملک میں نبی آئے 176 305 161 کے خلاف ہے ولیمه ولیمہ کی حکمت DO ہدایت ہدایت میں ہر قوم برابر کی حقدار ہے ہدیہ شرک کی حالت میں حکیم بن حزام کا حضور کوھد یہ 96 96 419 471 43 کو مانے 324 مفتری انبیاءخدا کا کلمہ ہوتے ہیں انبیاء کی پہلی زندگی اعلیٰ ہونی مفتری ہمیشہ ناکام ہوتا ہے 380 ، 381 چاہئے 340 یقین مومن مومن ہر کام میں خدا کو یاد کرتا ہے 115 مومن اور مشرک میں فرق 118،117 نجات اور قرب الہی کا ذریعہ فرمانبرداری 360 یقین اور ایمان کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی نجات 213

Page 522

122-121 18 یہود یہودیوں کی اپنی عبادت گاہ سے ایک بوڑھے یہودی کا دعا سے یہودی جب دعا ئیں کریں ان کی بے نظیر محبت آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں 120 ایک اٹھارہ سالہ یہودی لڑکی کی دعا کرتے وقت گریہ وزاری 121 بے انتہا پیار 121

Page 523

19 اسماء 250-249 478.451.438*435 اس کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی افلاطون 461 تا465 النصر بن الحارث 406 44 155 65 453.63 425.399.45 375 30 357.356 349 351 195 72 65.63 356 437 356 365 356 357 آیا آدم بن ابی ایاس آرنلڈ ابراہیم علیہ السلام - حضرت 124 438435.375.270.162 <478 476.442 ابوذر غفاری.حضرت 207 ام حبیبہ ، حضرت ابوسفیان.حضرت 192، 197 ام عبس 280،208، 281 ، 334 | امیہ بن خلف 400 198 | ابوطالب.حضرت 312،92،43 ابراہیم (نبی کریم کا بیٹا ) 374،86 ابوشعیب ابراہیم مشکن ابن جبیر ابن حجر 356 367 | ابوعبیدہ، حضرت 313 انس، حضرت ایلیاه 373 | بین چند ریاں ابن عباس.حضرت 195، 356 ابوفکیہ.حضرت 356،64 | بحیرہ راہب ابوبصیر 95 | ابو قحافہ 47، 205 بخاری ، امام ابوبکر صدیق.حضرت 47،42، ابولہب 98 برہان الدین جہلمی ، حضرت 94،65،56، 101، 195 ،208 | ابو مسعود انصاری 334،249،248، 407، ابوہریرہ.حضرت 399 467 ان کا دلچسپ واقعہ بشر صحابی بقراط آپ کا یہودی کو تھپڑ مارنا 325،94 کسری کے رومال میں تھوکنا بلال ، حضرت ان کے خلیفہ بننے پر باپ کی حیرت 205 | ارسطو 284.283.206.205 ابو جہل 63 تا66، 204 ، 275 ، ارقم بن ارقم 389،372،315، 460،407 | ارونگ 477 اسحق.حضرت اس کا رسول کریم سے مرعوب ہونا اسمعیل، حضرت بلعام 406،72 | بوعلی سینا 373 56 438 375 ج جبر ( رومی غلام ) جبير

Page 524

20 جعفر طیار، حضرت حاتم طائی حبقوق 100.98 224، 473،445،442 | سلیمان،حضرت دروپدی، شہزادی 20 دنی چند، لالہ 31 سمیہ ، حضرت 193 سی، پی رائے 477 حذیفہ بن الیمان ، حضرت 136، راجپال 137 رامائن 319 رام چندر ، حضرت 35، 142،80 سیل 133 309 سین گپتا 4420440 64.63 30 357 173 حسن ، حضرت امام حسین ، حضرت امام حکیم بن حزام، حضرت حمامہ.حضرت حمزہ ، حضرت ان کا قبول اسلام حويطب خ خباب.حضرت خدیجہ، حضرت راون 258.254.246.172.143 243.8 324 43 65 429.100 66.65 373 356 246.143 زبیر حضرت زجاج زرتشت، حضرت 356 شیبه 453.428.407 رام چند میچنده ، لالہ 309،304 35 صالح حضرت صفیہ.حضرت مہیب ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت 247 459 64 373 ع 62.61 ย 469،324،309،258 | عائش 42،39 زنیرہ، حضرت 318،316،264،95،62،60 زید بن حارثہ ، حضرت 64 عائشہ حضرت 322 356 48.46 272.215.127.91.57.56 62.42 453.403.339.317 235.234.98 318 آپ کی حضور کے بارہ میں شہادت واس، الیس ، آر داود، حضرت 41،40 | سرگیس 29 113 سعد بن وقاص ، حضرت سعید بن زید ، حضرت سلمان فارسی ، حضرت 357 373 373 323 آپ کی غیر معمولی سخاوت آپ کی حضور سے غیر معمولی محبت عامر بن حضرمی عامر بن فہیر کا.حضرت عباس، حضرت 319.318 356 65 92.91

Page 525

21 277.276.251 374، 491،457،407 آپ کا امتی ہونے پر فخر 211 عبدالرحمن بن عوف ، حضرت 275 آپ کا عیسائیوں کی مفتوحہ مسجد آپ کی نعتیں بے نظیر 211 212 463،373 میں نماز نہ پڑھنا 121 آپ کو نبوت کا درجہ حضور کی عبداللہ بن ابی سرح 366 آپ کا غلام آزاد کرنا عبد اللہ بن جدعان عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن مسلم الحضر می 294 64 آپ کے قبول اسلام کا واقعہ 362.463 477.464 356 عبد المطلب ، حضرت 252، 276 363 غلامی سے ملا مسمریزم کے ایک ماہر کا آپ عمر و بن عاص ، حضرت 202 تا 204 کے مقابلہ میں ہارنا عیاض قاضی 368،367 | غلام علی میاں 115.113.35 224.211.203.124.119 453.428.407.69 463.460.459 309.267 264.258.231 357.354.335.324.311 235.51.50 ف فاطمہ ، حضرت 224 350.349 187 59 243.157.100.94 عثمان ، حضرت 375،358 تا 377، 439،380 آپ کا حضور سے لونڈی کا مطالبہ 481.477 475.452.443 373 آپ کی حضور کے بارہ میں شہادت عیسی کو آسمان پر اٹھانے کا عقیدہ فرا 48 خدا کی بنک 267 268 | فرعون عثمان بن مظعون ، حضرت مسیح کی موت میں اسلام کی راہ خدا میں تکلیف اٹھانا 374،373 حیات ہے عقیل 312 حضرت عیسی کی حضور کے بارہ 268 320 356 444.443 45 قیس بن سائب 4760465 قیصر 455،416،197،3،2 $480.479.477.458.457 492.142.35 ک کرشن.حضرت $258.254.246.172.143 415 204 میں پیشگوئی $389 390.50.49.42 غ غالب عکرمہ،حضرت ان کا اور ساتھیوں کا ایثار علی ، حضرت 96 100،98 ،235 ،243، 325 غلام احمد قادیانی حضرت مرزا 14 عمار، حضرت ย 476-274-272-243-176 442.441.429 64 عمر فاروق ، حضرت 47 تا 62،50 | آپ کی ریویو کے بارہ میں خواہش 480 469.468.380.324.309 143.334.208.205.137.64

Page 526

22 کسری 2، 3، 284،283،197 | مجنوں 477.458.457.455.260 406 407 غار حرا میں پہلی وحی 218 219 محمد مصطفیٰ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پہلی وحی میں تو رات کی پیشگوئی 479 480 آپ کے بارہ میں پیشگوئیاں کی طرف اشارہ کسری کی ہلاکت کا معجزہ 323 حضرت موسی کی پیشگوئی 493 490 کوہ صفا پر پیغام 438تا440 قریش کا وفدا بوطالب کے پاس 222 314 کنفیوشس ، حضرت 246،143 حضرت سلیمان کی پیشگوئی اور حضور کا جواب 313،93،92 کھڑک سنگھ 258 324 31 یسعیاہ کی پیشگوئی حبقوق کی پیشگوئی 442 تا 451 مشرکین مکہ کا حضور کو لالچ دینا 69 442 440 188.187 450 تا465 حضور کی مکہ پر چڑھائی 281،280 حضرت مسیح ناصری کی پیشگوئی آپ کی امتیازی خصوصیات گاندھی 28، 420،413،30 گوتم بدھ ، حضرت 143،142 حلیہ سوانح 465 تا 476 آپ پہلے اور آئندہ انسانوں پر فوقیت رکھتے ہیں 440 تا 442 آپ نے شرک کو دور کر کے علمی 380،258،246 | حضور کا بچپن 312،43 ترقی کا راستہ کھول دیا اس کی زندگی کے اہم واقعات 256 بچپن میں چھینا جھپٹی نہ کرتے آپ نے مذہب و سائنس میں 257 312،43 صلح کروادی 6 71 72 خدا کو پانے کی خواہش میں سفر 309 جوانی میں صادق وامین آپ نے مایوسی کی جڑ کاٹ 313 تا316 | دی 315 | کرنے کے سامان کئے لائنڈ جارج.اس کی دعا کی جوانی میں بھی آپ نے تماشہ آپ نے دنیا میں امن قائم طرف توجہ 120 نہ دیکھا لاجپت رائے ، لالہ 328 حلف الفضول کے ذریعہ غرباء آپ نے ہر قوم کیلئے روحانی کی ہمدردی 316،315 بادشاہت کا دروازہ کھلا رکھا لبيد مارگولیتھ 374.373 64 حضور سے قبل تو حید مٹ چکی تھی آپ نے وجہ فساد کو دور کیا 407.406 128 75 79 79 83 176 | آپ نے حریت ضمیر قائم کی 83 ، 302285 341 نبوت سے پہلے کی زندگی

Page 527

23 آپ نے غرباء کی ترقی کیلئے راستہ آپ نے انٹر نیشنل لاء کو مذہب کھول دیا 422 405 86 | میں جاری کر دیا 190 آپ کا عشق ساری دنیا سے حضور کی قربانیاں نوع انسان کی آپ نے سب کیلئے ہدایت کا وابستہ تھا ابدی ترقی کیلئے 89 دروازہ کھول دیا 191 آپ کی بعثت کے متعلق 407 حضور کے نور کی شعائیں دور دور آپ کی بعثت کے بعد لکھنے کا حضرت ابراہیم کی دعا 435 تا 438 137 رواج ترقی پذیر ہوا 220 | آپ ساری دنیا کوتسلی دینے تک پھیل رہی ہیں 4730469 آپ نے صفات الہیہ کو بے نظیر آپ کے ذریعہ ہر قسم کے علوم والے طریق سے بیان کیا 163 ، 164 کی ترویج 220 221 آپ کے ذریعہ جملہ انسانوں آپ نے ملائکہ کے متعلق حقیقی آپ کے زمانہ میں قلم کا استعمال کیلئے نجات کا دروازہ کھلا تصور پیش کیا 164 | کثرت سے ہوا 221.220 472.471 آپ نے قانون قدرت کو آپ سب ملہموں سے افضل ہیں سیرت مقدسه 164 237 | اسوه حسنه قریب الفہم کر دیا آپ ہرمخفی مسئلہ کو وہم اور شک سے آپ جیسا کوئی انسان نہ پیدا ہوا حضور کی زندگی کا ہر پہلو شاندار نکال کر یقین کی طرف لائے 166 نہ ہوگا 266 ہے ہر قوم کا انسان آپ کے ذریعہ آپ کو بغیر کسی خواہش کے خدا انسانوں کیلئے کامل نمونہ روحانی مدارج طے کر سکتا ہے نے لیڈر بنایا 310 16 1600150 180 181 آپ اپنوں کو بلند مقام پر دیکھنا زندگی کے مختلف شعبوں میں آپ 325 نے اعلیٰ نمونہ دکھایا خیالِ انسانی کا ارتقاء آپ کی چاہتے تھے ذات میں مکمل ہوا 181 ، 182 آپ نے پست اقوام کو اٹھایا 327 آپ نے ہر حالت میں اعلیٰ نمونہ 182،181 | 158 397.312.311 آپ کی بعثت کے بعد علوم نے شریعت محمدی کی فضیلت 335 336 دکھایا اس قدر ترقی کی جو پہلے زمانہ قرآن کو لانے والے انسان کی سیرت نبوی کے مختلف پہلو میں نہ ہوئی 183 | فضلیت 337 تا 391 | حضور کا فاقہ 56.55 آپ پہلے انسان ہیں جنہوں نے آپ کا بلند ترین مقام 390 391 | حضرت عباس اور دوسرے قیدیوں تمام مذاہب کے حقوق کو تسلیم کیا 190 حضور نے صحیح تمدن کی بنیا درکھی کی رسیاں ڈھیلی کرنا 92.91

Page 528

24 جس راستہ کی طرف بلا یا اس 304 تا330 | آپ کی شجاعت اور جانثار صحابہ پر خود عمل کیا 111 112 رسالت سے قبل سب صفات حسنہ آپ کی خوش طبعی 2770275 151 آپ میں تھیں 308 آپ کی شجاعت اور توکل 430 آپ نے خدا کو پا کر انسان کو نہیں صاحب دولت ہونے پر اخلاق 317 بھلایا نواسے سے پیار 317 غزوات میں خلق عظیم 153 صدقہ کی تقسیم میں احتیاط 156 طائف والوں سے سلوک 320 جنگ بدر میں گریہ وزاری اولاد سے پیار 156 157 دشمنوں کے ظلم سہنے میں کمال جنگ احزاب میں فاقہ 157 199189 نمونہ دکھایا 320 تا 322 جنگ خندق میں کدال سے پتھر بہترین تاجر حضرت فاطمہ کو بوسہ دینا دوسری قوموں سے سلوک حاتم طائی کی بیٹی سے سلوک 193 حضرت عثمان بن مظعون سے پیار فتح مکہ کے موقع پر کفار سے سلوک 321.199** 197 322 توڑنا 431 430 2 2 بہترین صلح جو 325 326 جنگ حنین میں شجاعت 251 252 487.322.321.276 374 جنگ میں دشمن سے حسن سلوک 321 حضور کی سادہ زندگی 397 تا 404 جنگوں میں اعلیٰ نمونے 322،321 آپ کا حضرت ابو ہریرہ کو دودھ کا پیالہ پلانا آپ کی قوت یقین غار ثور میں تو کل 206 213 249 بچہ کے رونے پر نماز میں جلدی 398 جنگ حنین میں سینکڑوں غلام تکلفات سے پاک زندگی آزاد کئے 398تا 400 فرانسیسی مصنف کی شہادت اخلاق کی شہادتیں کے واقعات 400،399 شہادتوں کی تفصیل حضور کی بے تکلفی اور سادگی جب زور کی بارش آتی آپ گھبرا جاتے 253 رمضان میں غیر معمولی صدقات گھر کے اخراجات میں سادگی 400 اپنی شہادت 271 گھر کا کام خود کرتے 403 دوستوں کی شہادت آپ کے اخلاق کے گہرے اثرات سلام سے پیار 424 ایک غیر جانبدار کی شہادت 192 1 49038 40.39 43.42 43 272 تا 274 سلام میں پہل کرتے 425 | معاملہ کرنے والے کی شہادت 45 حضور کے پانچ عظیم الشان اوصاف بچوں کو سلام کرتے 425 خادم کی شہادت حضور اور معاہدات کی پابندی 433 445

Page 529

25 وصال کے بعد کی شہادتیں 46 حسن سلوک کا واقعہ 323 رسول کریم ایک نبی کی حیثیت 47 حضور کی سیرت کا سبق آموز حضرت ابوبکر کی شہادت حضرت عمرہ کی شہادت 48،47 | واقعہ حضرت عثمان کی شہادت حضرت علی کی شہادت 48 49 494 میں 1700161 حضور بہترین داعی الی اللہ 124111 رسول اللہ کے احسانات حضور کا خدا کی طرف بلانے 69 تا 87 کا انداز 488.126.125 دشمن کی نظر میں مقام 44 45 حضور کے احسانات کا وسیع دائرہ 70 حضور کے نزدیک شریعت کا تصور 238 تا 241 ، 314 | احسان کی اقسام میں سے بہتر سے سیرت نبوی کے واقعات بہتر اقسام کا آپ سے ظہور ہوا 71 حضور کا تزکیہ نفوس کے لحاظ قرض خواہ سے حسن سلوک 4 پہلا احسان شرک دور کرنا ایک یہودی کی سخت کلامی کا ایک احسان ، یہ زور دینا کہ علم ختم جواب 98،97 نہیں ہوتا 71 74.73 بہادری کے واقعات 101 102 ایک احسان ، یہ اصول کہ بچی جستجو ایک دشمن کا آپ کو جگا کر قتل کی ضائع نہیں جاتی 75 سے اعلیٰ کردار 166 170168 توحید باری تعالیٰ کے متعلق رسول کریم میہ کی تعلیم 1990171 آپ نے تو حید کو مضبوط بنیاد پر قائم کر دیا کوشش کرنا 250 251، 321 ، یہ اصول کہ ہر انسانی ضرورت کا آپ نے توحید کے دلائل دے 180 430 431 | علاج تو کل علی اللہ کے واقعات پانچواں احسان ابو جہل سے ایک شخص کا قرض کو قائم کرنا 74 کر کہا کہ اسے مانو 75 آپ نے دلائل سے شرک کا 76 توحید کی اشاعت کے لئے 248 253 ایک احسان انسانی مساوات رد فر مایا 184 186 چھڑانا 249، 250، 315 316 ایک احسان، آپ انبیاء کی تصدیق آپ کے اقدامات 187 تا 199 324 322 دیگر احسانات 86،85،84،79 سائل کا گردن میں رسی ڈالنا کرتے ہیں اور صبر ایک بڑھیا کی باتیں توجہ سے سننا 323 غیر قوموں کے لوگوں سے فریضہ نبوت 87 آپ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے 209.208 آخری وقت شرک سے بچنے کی تلقین آپ کی تعلیم 409.252

Page 530

26 آپ کی تعلیم مساوات کا اعلیٰ اٹھانا نمونہ تھی 55 آئندہ نسل کی قربانی 77 توحید کی راہ میں تکالیف 188 ، 489 اولاد کیلئے صدقہ حرام کیا آپ نے تعلیم کی حکمتیں بیان دشمنوں کے خفیہ حملے 102 امام حسن کو کھجور کھانے سے کیں 168 طائف میں دشمنوں کا سلوک 188 روکنا آپ نے سخت کلامی سے روکا آپ سے زیادہ کسی نے خدا کے دین حضرت فاطمہ کو غلام دینے سے 190 191 کیلئے تکلیف نہیں اٹھائی 265،264 | انکار ہمسایوں سے اچھے سلوک کی مصائب و تکالیف میں کوہ وقار 195.194 آپ نے سیدوں کو زکوۃ دینے سے منع فرمایا قربانیاں غلاموں کی آزادی 226 227 عورتوں کو غلامی سے نجات دینے والانبي 103 270 319 320 26016 201 قربانیوں کی تفصیل 87 تا 104 غلاموں کی رائے حضور کے متعلق 61 | آپ کی ہر تعلیم دوسروں کیلئے حضور کی قربانیوں میں دائمی رنگ غلاموں کی آزادی میں مسلم مفید تھی 202،201 پایا جاتا ہے 87 غیر مسلم کے امتیاز کو ختم کیا عورتوں کے بارہ میں تعلیم 326، شہوات کی قربانی 91،90 آپ نے غلامی کو مٹانے کیلئے 327 | جذبات کی قربانی 91 تا 93 | اصول بیان کئے آپ کی تعلیم میں ہر انسان اور اس رشتہ داروں کے جذبات کی آپ حقیقی آزادی دینے والے کی حالت کا علاج موجود ہے 328 قربانی نصائح اہدایات 94،93 | انسان 192 293 302 329 دوستوں کے جذبات کی قربانی غلاموں کے بارہ میں تعلیم 326 95.94 تقدس 38 کھانے کے بارہ میں ہدایات 150 مال کی قربانی 96،95 | رسول اللہ کا تقدس ہنسی کے بارہ میں ہدایات 151، عزت کی قربانی 96 تا 98 | تقدس کے دعوی کا ثبوت 39،38 152 وطن کی قربانی 98 99 خدا کے لئے غیرت 334،50،49 51 جنگ کے بارہ میں ہدایات 196 آرام کی قربانی 100،99 آپ کی پاکیزہ زندگی تکالیف و مصائب رشتہ داروں کی قربانی 100 آپ کا محاسبہ نفس 129 تا 131 | حضور کا دشمن کے ہاتھوں دکھ جان کی قربانی 100 تا 102 آپ کے عشق الہی کی ایک دلیل

Page 531

27 223 تھا 229 | بچپن کی شادی کے بارہ میں عرفانِ الہی اور محبت باللہ کا رتبہ آپ کے معجزات انبیاء کے مجموعی سنت رسول 2590242 معجزات سے زیادہ 229 | آپ نے عمدہ کھانوں سے عرفانِ الہی میں بلند ترین مقام بیکس یتیم ز بر دست بادشاه کبھی نہیں روکا 248 تا 253 | بن گیا آپ کی پاکیزگی ثابت کرنے کا کسری کی ہلاکت کا معجزہ فرض قرآن نے اپنے ذمہ لیا 342 279-278 493 490 216.215 150 حضور کی صفائی پسندی 153،152 صحت کی درستی اور ورزش کا 158.157 آپ کا نماز سے پیار آپ کا زندہ خدا سے تعلق 403 حقوق العباد رسول کریم اور عورتوں کے حقوق 127 428 4327 آپ نے مسلم اور غیر مسلم کے آپ کو آسمانی خبروں کا ملنا 132 تمدنی حقوق ایک قرار دیے 192 آپ ایک مہم کی حیثیت میں اسلامی حکومت میں غیر مسلموں 228 تا 237 کے حقوق کا خیال رکھا کسری کی ہلاکت کی خبر دینا 260 از دواجی زندگی 193 خیال جونیوں سمیت نماز پڑھنا حضور کی عادت کہ صحابہ کودین سکھانے کیلئے الگ مکان میں بلاتے 399 363 سلام کہنے کی عادت 424 تا 427 غیروں اور دشمنوں سے سلوک غیر مسلموں کی حضور سے ہمدردی 69065 قوت قدسیه حضور کی شادیاں 153 نجران کے عیسائیوں کو مسجد میں حضور کے پیدا کردہ پھل 51،50 شادیوں کی غرض 59 60 عبادت کی اجازت 194،83،82 آپ کی اتباع سے اعلی کمالات بیماری میں بیویوں کا خیال 59 آپ نے دیگر مذاہب کے لوگوں اور قرب الہی 210 تا 341،212 پھوپھی زاد بہن کی شادی غلام کا ادب اور احترام سکھایا 97 | آپ نے غیر مسلموں کو حریت ضمیر 342 | سے کر دی عطا کی آپ اور ساتھیوں کی ترقیات ازدواجی زندگی کے بارہ میں 282 تا 284 تعلیم و عمل 153 تا 155 آپ نے غیر مذاہب کے 190 191 195 احساسات کا خیال رکھا حضور کی ایک صحابی کو دعا اور اثر 283 آپ کی پاک ازدواجی زندگی 318 319 آپ کا زہر کھلانے والی عورت معجزات آپ کی زندگی کا ہر پہلو ایک معجزہ عادات اور سنن کو معاف کرنا 196.195

Page 532

28 عہد کی پابندی 350 تا 352 | حضور کے ذنب اور استغفار کی دشمن کے ساتھ بھی عہد کی پابندی آپ شاعر ہیں، جواب 353 | حقیقت 390*387 79،78 آپ کو کوئی اور سکھاتا ہے، آپ نے جو اصول بتائے ان 354 تا366 | کا استحکام عشق کے مطابق ہے 411 غیر مسلموں سے کئے گئے عہد کی جواب 191 192 خطرناک اعتراض حضور کے ساتھ پاسداری کی تعلیم حضور اور معاہدات کی پابندی 433 مساوات مساوات کا ایک بے نظیر سبق 77 77 لوگوں کا حضور سے مشورہ لینا 443 شیطان کا تعلق ہے 366 تا370 آپ کی عظمت کے قیام کیلئے شخص مفتری اور کذاب ہے 374 370 نبوت سے پہلے ضال ہونے کی احکام انصاف میں مساوات 1450140 328 304 دو اقدامات محمد اقبال، ڈاکٹر سر محمد بخش مسلم مولوی تردید 3900381 اعتراضات کے جواب محمود احمد، حضرت مرزا بشیر الدین متفرقات آپ پر حملوں کا جواب یہ ہے مصلح موعود رسول کریم اور آپ کے صحابہ کے کہ لوگ حضور کے حالات خود سیرت کے جلسوں کی تحریک 5 تا 15 پڑھیں 7.6 حضور پراہم اعتراضات کے جواب 69052 ہے دو نمونے مسیح کو زندہ آسمان پر ماننے کا عقیدہ حضور کی شان کے خلاف اسفار 138 برہمو سماج کے جلسہ میں شرکت 29 آپ کو اتنا بڑا اقرآن کیسے یا در با 128 رسول کریم کی ذات جز و قرآن دعوی کے موجبات حضور کو جنون تھا اس کا جواب 342 ہے 217 شملہ کا سفر محمد ” کے حالات کا بہترین منبع آپ کا عیسائیوں اور یہودیوں 343 تا 345 قرآن ہے ولیم میور کا اعتراف 338 کی دعا کی طرف توجہ سے متاثر پریشان خوابوں کا اعتراض اور حضور میں لیڈر بننے کی تمام ہونا جواب 345 346 قابلیتیں موجود تھیں 308 بیان کردہ واقعات اس اعتراض کا جواب کہ آپ پر حضور ایک انسان کی حیثیت سے کسی نے جادو کر دیا 346 تا 350 کا ہن ہونے کا اعتراض ، جواب حضور کا پہرہ 146 تا 160 بیان کردہ قصے 262 172 121.120 179.128 187.186 135.134 179.144 206 201 سیرت کے جلسوں پر شکر وحمد 173 2690263

Page 533

28 ، 29 ورقہ بن نوفل 365.39 52 ولید بن مغیرہ 428،374،373 293.230.229 361.360.357 364 ولیم میور و ہیری 172.29.28 29 آپ کا جملہ مذاہب کا مطالعہ 174 موہن رام حضور سے عشق آپ کی قاضی عیاض کیلئے دعا 273 | میور نائیڈو 368.367 مسعودی 356 نجاشی ،اس کا مسلمانوں کی حمایت مظہر جان جاناں.ان کے لڈو کا اعلان کھانے کا واقعہ 186 187 نظام الدین اولیاء 204202 معاویہ ، حضرت 155،48 ان کے شاگردوں کا واقعہ 356 | نمرود مقاتل منگانہ، ڈاکٹر موسی ، حضرت 233 نورالدین خلیفه امسیح ، 408 456 D ہارون، حضرت 310 ہندہ، اس کا قبول اسلام 432،431 ہوں، حضرت ی ،113،94 حضرت حکیم مولانا 440،422 یسعیاہ ،حضرت 247.442.375 446.445 477 386 199 444.386 آپ کا بیان کردہ واقعہ نولڈ کے 410 366 یعقوب ، حضرت نہدیہ ، حضرت 65 یوسف، حضرت 494 وحشی 224-222-211.195.137 324.309.258.246.231 438.380.354.335.325 469466.444442.439 479.478.474

Page 534

30 30 آیا آره 133 | پرتگال مقامات 25 روس آسٹریلیا 24 | پنجاب 422،14 | روم 416.190.67.64.55.54 4030401 آکسفورڈ 119 اٹلی 192،24 | ترکی افریقہ 401.141.80 افغانستان 141 | تسمانیہ 192 445 24 سپین سرحد سوئٹزرلینڈ 73 14 25 امرتسر 31 ج سیالکوٹ 282،234،145،31 انبالہ امریکہ 327،87،80،52،25 انگلستان 84 ، 119 ، 120 ، 254 ایران 54، 206،177،67،55 جایان 133 جحفه جرمنی جموں 177 453 416 210.208 سینا 439 شام 307-263-100.51 458.457.456.445 $263.260-257.254.246.490.457.4030*401.323 492 490.401 ایشیا چین 254،177 | شمله 439 172 شملہ میں برہمو سماج کا جلسہ 28، 29 جبشه 202 ص حضرموت 201 صنعا 458 b 201.100.66 458.456 دہلی 133 ، 144 ، 186 طائف ڈلہوزی 118 | عراق 414 14 14 173.133.14 133.14 بابل برار بمبئی بنگال بہار

Page 535

72 133 254 25 25 25 24 22 24 31 عرب 168 ، 252،249،246، سارے مکہ میں سات آدمی $280.279.263.260.256 $428.402-323.313.283 لاہور 133،30،6 ،144،143 پڑھے لکھے تھے 196، 316،304 | ملتان 459،458،451،450،445، لبنان 441 ملیح آباد 490 لکھنو 144 میکسیکو عين التجر 356 | لندن 194 ناروے مالا بار 133 | نیوزی لینڈ 492.491.458.457 مدراس 14 ، 30 ، 144 وکٹور 440.439 451.450.445 فاران فلسطین DO ہندوستان 54،31،30،15،5 246-242.177.173.171.67 306.282.263.157*254 417.413.309 99.98.96.47.43.4 174.171.128.27 قادیان $265.220.201.102-101 262 261.242.218.217.440.433.428.282.280.397.337.335.285.268 492 491.460.453.451 489-488-435-433.405 مصر 456،206،202،177 ی 61.55.50.44.43.42 254 95.91.78.69.66.65.62 133 کابل کنار پور شمیر کلکتہ کوئینز لینڈ کیمبرج کیوبا گڑگانواں گیا $198.197.192.162.102| 208.201 یاری پورہ 28، 30، 144 ، 173 202 تا 204 ، 207، 220، 240 | پروهم 24 | 264،257،256،249،248، پالسار 201 440.121 356 یمن 492،490،457،201 315313.281.280.265 119 24 | 436،433،431،429،428، یوپی 238 137.120.74.73.25 451.449.446*444.440 312-282-193-177.141 476.460.459.456.453 133 491.418.417.401.400 479 309

Page 536

ف فضائل القرآن 487،435،217 ق 451 309.35 179 263 242.27 309.231.177 قاموس 32 کتابیات 421.379377.365.356 475.443 234 489.242.27 143 | گیتا ز مثنوی ، مولانا روم ندائے ایمان ورتمان (رساله) وید 113 177 229 1 الفضل 161،143،140،16 ، انجیل 397.285.280.238 113 ، 177 ، 219 ، 231 | دی کران رنگیلا رسول 器 380377.365.356.335 475.465 بائبل 218، 365،233،231.451.447.441.440.438 462،461،459،456،452، زبور خدا کی طرف متوجہ 465،464 کرنے پر زور ژ زند 365.349 356 451 بخاری بیہقی تاج العروس تورات 112 ، 177 ، 231 ، 335 سوانح محمد

Page 536