Seerat Un Nabi Vol 2

Seerat Un Nabi Vol 2

سیرت النبی ﷺ (جلد دوم)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلیٰ سے یہ اعلان فرمایا کہ <span class="quranic">لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ </span><span class="c243">(الاحزاب: ۲۲) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے۔نیز محبت الٰہی کے حصول کی شرط اتباع نبویؐ کے ساتھ مشروط کردی۔</span> حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور ۵۲ سالہ دور خلافت میں سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا۔ آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی۔ حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرة النبی ؐ کو آپ کی جملہ کتب، تحریرات، خطابات و خطبات سے اخذ کرکے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے جو آٹھ جلدوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ ذیل میں پہلی چار جلدیں احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہیں۔


Book Content

Page 1

سیرت النبی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد دوم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD سیرت النبی صلى الله علم (جلد دوم) Seerat-un-Nabisa - Volume 2 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmadra on the subject of the life of the Holy Prophetsa First published in UK in 2022 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-207-0 (Seerat-un-Nabisa - 8 Volume set)

Page 3

سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احد المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الحق وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلی سے یہ اعلان فرمایا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : 22 ) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے.نیز محبت الہی کے حصول کی شرط اتباع نبوی کے ساتھ مشروط کر دی.جس ہستی کے بلندی اخلاق کی گواہی خدائے ذوالجلال نے دی اور اسے ہمارے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اس عالی وجود کی سیرت کا بیان یقیناً محبت رسول کی علامت ہوگا کیونکہ آپ کی ذات صفات الہیہ کی مظہر اتم تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے حسن و احسان کے تذکرے صحابہ کی سیرت کا نمایاں پہلو اور سیرت کا بیان عاشقان رسول کا خاصہ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی محبت اور عشق میں ڈوب کر آپ کی سیرت بیان فرمائی اور برملا یہ اعلان فرمایا کہ بعد از خدا بعشق محمد مختمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کا فرم یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد میں عشق مصطفی ﷺ میں دیوانہ ہو چکا ہوں.اگر اس عشق اور دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں ایک سخت کا فرانسان ہوں.عشق و محبت رسول کی جو لو آپ کے سینہ میں جل رہی تھی آپ نے اس کو اپنی اولاد

Page 6

66 اور اپنے متبعین میں بھی روشن کیا.پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کے بارہ میں پیشگوئی مصلح موعود میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت الہی اور عشق رسول کا جذ بہ ورثہ میں بھی پایا اور پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق آپ حسن و احسان میں آپ کے نظیر تھے.حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور 52 سالہ دور خلافت میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا.آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی.حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرۃ النبی ﷺ کو آپ کی جملہ کتب تحریرات، صلى الله خطابات و خطبات سے اخذ کر کے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے اور اب اس کی دوسری جلد احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہے.

Page 7

جلد 2 صفحہ نمبر 1 16 19 20 25 27 28 40 41 43 49 55 61 64 65 66 الله فهرست عناوین عنوان رسول کریم علیہ اور اصلاح معاشرہ رسول کریم علیہ پر اعتراض کا خطرناک نتیجہ رسول کریم علیہ کی قربانیاں رسول کریم علیہ کے تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب صلى الله رسول کریم علی کی غیرت ایمانی رسول کریم ﷺ کی صداقت کی دلیل سب نبیوں سے افضل اور پیارا نبی صلى الله رسول کریم ﷺ کا اپنی نبوت کی بابت حلف صل الله رسول کریم ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت عقیدہ حیات مسیح رسول کریم ع کی ہتک صلى الله سیرت نبوی علی کی چند جھلکیاں شان خاتم النبین ﷺ کا اظہار صلى الله ہمارے پیشوا خاتم الانبیاء ﷺ کا اسوہ حسنہ رسول کریم ﷺ کا بلند مقام اور ضروری نصیحت صلى الله رسول کریم ﷺ اور عہد کی پابندی الله رسول کریم ﷺ کا تعلق باللہ سيرة النبي علم نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

Page 8

جلد 2 صفحہ نمبر 68 71 72 73 76 78 79 886 86 88 91 98 102 106 107 109 112 114 116 سيرة النبي عمال نمبر شمار 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 عنوان السلام علیکم کی اہمیت رسول کریم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں رسول کریم ع کی قدر شناسی رسول کریم ع کے ابتلا میں حکمت رحمة للعالمين علي کسوف و خسوف کے متعلق حضور علی شرک سے پاک نبی رسول کریم ہے اور نزول جبریل صد الله رسول کریم علیہ پر درود بھیجنے کی برکات رسول کریم ﷺ کا ایک حکم اور صحابہ کا فوری عمل غیر موافق حالات میں کامیابی رسول کریم علیہ کیلئے خدا کی غیرت خاتم الانبیاء علیہ کی حقیقت مصائب میں رسول کریم علیہ کی کیفیت درود کے الفاظ کی ترتیب میں حکمت رسول کریم علیہ کا ہر فعل عبادت تھا رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں کی فدائیت رسول کریم عے پر اعتراض کا خطرناک نتیجہ صل الله رسول کریم ع کے چند نمایاں اخلاق

Page 9

جلد 2 صفحہ نمبر 118 123 125 129 132 134 136 139 146 147 149 150 152 154 155 157 سيرة النبي عمال نمبر شمار 35 عنوان رسول کریم ہے اور حضرت موسی کی مماثلت اور آنحضرت ﷺ کی افضلیت رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی صلى الله صفت خالقیت اور صفت شافی کا ظہور رسول کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی صفت حفیظ، ہستی باری تعالی سے متعلق رسول کریم کی ایک حدیث کا مفہوم رسول کریم ﷺ پر خدا تعالیٰ کی تجلی رسول کریم علیہ جسمانی بیماریوں کے عظیم معالج صفت رب العالمین کے کامل مظہر خدائی صفات کے کامل مظہر رسول کریم مے کا توکل تربیت اولاد سے متعلق رسول کریم ﷺ کا اسوہ رسول کریم علیہ کی دعا کی کیفیت رض رسول کریم ﷺ کا حضرت ابوہریرہ سے پیار اور ایک معجزه رسول کریم ﷺ اور معاہدات کی پابندی رسول کریم کا استغفار اشاعتِ اسلام کے لئے جوش صلى الله نور محمدی علی 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50

Page 10

جلد 2 صفحہ نمبر 158 160 162 168 173 178 180 182 183 184 186 188 189 192 195 198 201 204 سيرة النبي علي نمبر شمار 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 صلى الله iv عنوان رسول کریم ﷺ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی رسول کریم علیہ کا بحیثیت محتاط ترین قاضی الله رسول کریم ﷺ کی اعلیٰ وارفع شان رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کے منافی عقیدہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا تقاضا رسول کریم ﷺ کا اپنی بیوی سے مشورہ کرنا رسول کریم علیہ کا تو کل علی اللہ رسول کریم ﷺ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی آنحضور یہ ایک عبد شکور صلى الله عسرویسر میں حمد الہی کرنے والا نبی علی معذوروں ، مجبوروں کی حوصلہ افزائی کرنے والا نبی صلى الله رسول کریم علیہ کے مشورہ اور فیصلہ کا طریق رسول کریم علیہ کا اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک صلى الله رسول کریم علے اور آپ کے ساتھیوں کی معجزانہ ترقی الله رسول کریم ﷺ کی اطاعت بوجہ اسوہ اور نمونہ کے ہے غیر مسلموں سے برتاؤ کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کی صلى الله رسول کریم عه شارح شریعت الله رسول کریم ﷺ کی آمد کی ایک غرض

Page 11

صفحہ نمبر جلد 2 206 214 222 229 233 262 265 268 269 271 285 290 291 293 294 296 سيرة النبي علي نمبر شمار 69 70 حقوق نسواں کے علمبردار V عنوان مسلم شہری کے فرائض کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کی ہدایات اسلامی حکومت کے فرائض کے بارہ میں رسول کریم کی ہدایات آقا اور ملازمین کے تعلقات سے متعلق تعلیم آنحضرت کے حالات زندگی اور تعلیمات رسول کریم ﷺ کو تین چیزیں بہت پسند تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کی کیفیت صلى الله کفار کی ہدایت کے لئے رسول کریم ﷺ کی تڑپ صلى الله جنگ بدر میں رسول کریم ﷺ کا ایک معجزہ رسول کریم ﷺ کے مقبرہ اور دیگر شعائر اللہ کی حفاظت کی اہمیت رسول کریم ﷺ پر درود پڑھنے کی حکمت و اہمیت رسول کریم ﷺ کا پر حکمت فیصلہ رسول کریم ﷺ کے قرب وصال کا ایک واقعہ رسول کریم ﷺ کے یہی اعمال اور اُن کا اجر صل الله رسول کریم ﷺ کی ابتدائی حالت اور عروج صلى الله رسول کریم ع کے حسن سلوک کا نتیجہ 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84

Page 12

سيرة النبي علي نمبر شمار 85 86 87 88 89 90 91 vi عنوان رسول کریم ﷺ کی ذکر الہی کی ایک سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا خوفی ہمارا عشق رسول علي آنحضرت ﷺ کا مقام محمود صلى الله رسول کریم ﷺ کی پر حکمت تبلیغ کا نتیجہ مکہ کی حفاظت کی اہمیت رسول کریم علیہ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب صفحہ نمبر 298 299 300 304 315 316 319 جلد 2 92 93 94 95 96 عروسة بھی بیدار نہ ہوں گے؟ رسول کریم ﷺ کی بلندشان کفار کے مظالم کے مقابلہ میں رسول کریم ہے کا رد عمل صد الله رسول کریم ﷺ کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر ناپاک حملوں کا جواب کتاب ”رنگیلا رسول“ کا جواب 97 کیا آپ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں؟ 98 99 اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے رسول کریم ہے کے بیان فرمودہ تو کل کے معنی 100 ہندوؤں کی رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخی پر تبصرہ 101 102 فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض صل الله نبی کریم ﷺ کی محبت پیدا کرنے کا طریق 329 334 337 358 369 384 396 408 409 421 434

Page 13

سيرة النبي علي نمبر شمار vii 103 104 105 عنوان رسول کریم ﷺ کی ہتک کے ازالہ کا طریق رسول کریم ع کا خوف خدا صلى الله رسول کریم ﷺ کے پہرہ کی حکمت 106 مسلم آؤٹ لگ کا واقعہ 107 سیرت رسول علیہ کے حوالے سے ایک منصوبہ 108 رسول کریم ﷺ کے افعال کی اقسام 109 رسول کریم ﷺ کی سیرت کے بارہ میں ہندوستان میں جلسوں کا پروگرام صلى الله 110 رسول کریم ﷺ کے مسنون خطبہ جمعہ تواتر سے پڑھنے میں حکمت 111 سیرة النبی ﷺ کے جلسے جلد 2 صفحہ نمبر 439 451 453 454 458 463 465 478 488

Page 14

Page 15

سيرة النبي الله 1 جلد 2 بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ صلى الله رسول کریم علیہ اور اصلاح معاشرہ حضرت مصلح موعود نے تشحید الاذہان اکتوبر 1919ء میں فضیلت الاسلام علیٰ صلى الله صلى الله دین الاقوام کے نام سے ایک مضمون رقم فرمایا.اس میں آپ نے رسول کریم ہے کے ذریعہ معاشرہ میں ہونے والی اصلاحات و تعمیرات کا بایں الفاظ تذکرہ فرمایا :.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہر عقلمند تسلیم کرے گا.اسی اصل کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کو لانے والے ہمارے آنحضرت محمد ﷺہے ہیں.آپ نے جو کام کیا، آپ نے جو درخت لگا یا اس کے نتائج اور اس کے پھل کیسے ہیں.اگر اس کے پھل شیریں اور نہایت خوش ذائقہ ہوئے تب ہم تسلیم کر لیں گے کہ یہ درخت واقعی آسمانی ہے.لیکن اگر یہ نہ ہوا تو ہم مان لیں گے کہ یہ اصل کے مطابق پورا نہ اترا.اس کے لئے ہمیں دو باتیں سوچنی چاہئیں.اول آنحضرت ﷺ نے دنیا میں ظاہری کیا کیا تغیر کیا، مذہب میں کیا اصلاح کی ، تمدن میں کیا کی ، رسوم و عادات میں کیا کی، اخلاق میں کیا کی.دوسرے یہ کہ وہ مقصد اصلی یعنی خدا کو پالینا ، اس میں کہاں تک کامیابی ہوئی.اب اس کے لئے کسی قدر تفصیل کی ضرورت ہے.عرب کی حالت قبل از اسلام میں نے بتایا ہے کہ ہمیں اصولی طور پر دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے دنیا میں

Page 16

سيرة النبي عمال 2 جلد 2 چاہئے.کیا وہ کیسا ہے اس کے لئے آنحضرت مے کے قبل عرب کی حالت کو دیکھنا بت پرستی عرب وہ لوگ ہیں جن کے مذہب کی کیفیت یہ ہے کہ بت پرستی میں گھرے ہوئے ہیں.اور خاص کر بت پرستی کا مرکز ہے.اور وہ لوگ بت پرستی کو معیوب نہیں سمجھتے بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں.اور شرک وہ نجاست ہے جس کو تمام مذاہب کے لوگ برا خیال کرتے ہیں ان میں خواہ کتنا ہی شرک ہو مگر وہ مشرک کہلانا پسند نہیں کرتے.میں اس وقت بحث کے لئے نہیں بلکہ تذکرۂ کہتا ہوں کہ عیسائی لوگ باوجود تثليث فی التوحید اور توحید فی التثلیث کے مسئلہ پر عقیدہ رکھنے کے مدعی ہیں کہ موحد وہی ہیں اور باقی تمام لوگ مشرک ہیں.پس شرک وہ بری چیز ہے جس کو مشرک بھی اپنی طرف منسوب کرنا نہیں چاہتے.اور مکہ جس جگہ واقع ہے وہ ایک بے آب و گیاہ وادی ہے، وہاں کوئی زراعت نہیں ہوتی ، وہاں باغات نہیں، وہاں کے لوگوں کی روزی ہی بت پرستی اور بت پرستانی پر ہے.اور پھر وہ اس بت پرستی کو معیوب نہیں خیال کرتے بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم اتنے خداؤں کے بندے ہیں.ان کی علمیت کی یہ حالت ہے کہ لکھنا پڑھنا معیوب اور ننگ خیال کیا جاتا ہے.ان کی عادات ایسی بگڑی ہوئی ہیں اور ان کی رسوم اس قسم کی فتیح ہیں کہ کچھ بیان نہیں کیا جا سکتا.مثلاً :.شراب خوری پر فخر وہ شراب پیتے ہیں.ایسے آدمی ڈھونڈے بھی نہیں ملیں گے جو شراب پر فخر کریں مگر عرب شراب پینے پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میری معشوقہ ! ان آٹھ وقتوں کے علاوہ جن میں میں شراب پیتا ہوں صبح کو اُس وقت کہ ابھی میرے دوست سوئے ہوئے ہوں تو بیدار ہو کر مجھے شراب پلانا تا کہ میں اپنی شراب نوشی کے باعث ان پر فخر کروں.آج بھی شراب نوشی ہوتی ہے اور بکثرت ہوتی ہے.چنانچہ لندن کی شراب نوشی کے متعلق اندازہ کیا گیا ہے کہ

Page 17

سيرة النبي عمال 3 جلد 2 لندن میں جس قدر شراب پندرہ سال میں پی جاتی ہے اگر اس کو جمع کر کے لنڈھایا جائے تو اس سے ایک دریا بہہ نکلے.باوجود اس قدر شراب نوشی کے لندن اپنی شراب نوشی پر فخر نہیں کرتا.اس میں شراب نوشی ایک گالی خیال کی جاتی ہے.چنانچہ ڈرنکرڈ (Drunkard) کا لفظ وہاں بطور گالی کے استعمال ہوتا ہے.مگر عرب شراب نوشی کو معیوب نہیں جانتا.وہ شراب نوش کو گالی نہیں دیتا بلکہ دوستوں میں فخر کے طور پر کہتا ہے کہ میں زیادہ شراب پیتا ہوں.قمار بازی پر فخر پھر جوئے بازی ہے آج بھی دنیا میں بڑے بڑے جوئے باز ہیں اور بہت بڑی بڑی جوئے بازی ہوتی ہے اور بڑی بڑی لاٹریاں پڑتی ہیں.جوئے بازی کی اس کثرت کے باوجود یورپ جوئے بازی کو فخر نہیں جانتا.مگر عرب جوئے بازی کو بھی معیوب خیال نہیں کرتا.وہ جوا کھیلتا ہے اور ہارتا ہے پھر دوستوں کے مجمع میں فخریہ اظہار کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جو ایسا جوا کھیلنے والا ہوں اور اتنی دفعہ ہارا ہوں.وہ اپنی رسوم کا اتنا پابند ہے کہ دنیا کی متمدن قوموں پابندی رسوم جاہلیت سے ملنے کے باوجود بھی ان فتیح رسوم سے کنارہ کش.نہیں ہوتا.ان میں رواج تھا کہ جب ایک شخص فوت ہوتا تو اس کے لڑکے اپنی سوتیلی ماؤں کو ترکہ کے طور پر تقسیم کرتے اور بطور بیویوں کے اپنے استعمال میں لاتے.وہ ایرانیوں سے ملتے ہیں جو ایک متمدن ہیں.وہ رومیوں سے تعلقات تجارت کے باعث ملتے ہیں جو ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم ہے.اس میل ملاپ کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ ان رسوم فتیح کو چھوڑ دیتے.مگر ان میں اور ترقی کرتے ہیں اور ان رسوم میں بڑھتے جاتے ہیں.وحشت و درندگی ان کی درندگی کی یہ کیفیت ہے کہ مثلا کسی کھیت میں کہتیا نے بچے دیے یا کسی فاختہ نے انڈے دیئے ہیں کسی کا اونٹ ادھر

Page 18

سيرة النبي علم 4 جلد 2 سے گزرا یا کسی بچہ نے اینٹ مار دی وہ بچہ مر گیا اور انڈے پھوٹ گئے.اس اتفاقی واقعہ نے ان کے جذبات درندگی کو بھڑکا دیا اور انہوں نے بڑھ کر اس اونٹ کو مار دیا اور بچہ کی گردن اڑا دی.اور کہا کہ ہماری ہتک کی گئی کہ ہمارے کھیت میں انڈے دینے والی فاختہ کے انڈے توڑ دیئے گئے اور کتیا کا پلہ مار دیا گیا.پھر ان میں تلوار چلتی ہے اور ایک آدھ دن یا ایک مہینہ یا ایک آدھ سال میں ختم نہیں ہوتی برسوں گزر جاتے ہیں.چنانچہ بعض لڑائیاں ایک صد سال تک چلی ہیں.یورپ میں ”ہنڈرڈ ائر وار ہوئی ہے اس کی وجہ یہی تھی جو میں نے بتائی.پھر وہ تربیت کے اتنے دلدادہ تھے کہ ذراسی بات میں ان کی ہتک عزت خودسری ہو جاتی تھی.عرب کا ایک بادشاہ ہوا ہے اس نے عرب کے بہت سے ملک کو فتح کیا.اس کو خیال ہوا کہ اب میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور میری اطاعت سے کوئی شخص آزاد نہیں ہو سکتا.ایک دن اس نے اپنے دربار میں کہا کہ کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ وہ اور اس کی ماں میری ماں کی خدمت وفرمانبرداری نہ کرے.اس کو کہا گیا کہ ہاں قریب ہی فلاں قبیلہ کا ایک شخص ہے وہ آپ کی اور اس کی ماں آپ کی ماں کی فرمانبرداری نہیں کریں گے.اس بات کی آزمائش کے لئے بادشاہ نے اس کو اور اس کی ماں کو بطور مہمان بلایا.اپنے خیمہ میں ٹھہرایا اور اس کی ماں کو اپنی ماں کے پاس دوسرے خیمہ میں بھیج دیا.بادشاہ نے ماں کو سکھا دیا تھا کہ کسی حکمت عملی سے اس سے کوئی کام لینا.جب باہر کھانا بھیجنے کا وقت آیا تو بادشاہ کی ماں کھانا کھانے لگی تو اس شخص کی ماں سے کہا کہ فلاں برتن پکڑا نا تا کہ میں باہر کھانا لگا کر بھیج دوں.اس پر وہ عورت کھڑی ہو گئی اور اپنے قبیلہ کا نام لے کر کہنے لگی کہ کیا تم میں کوئی بھی غیرت دار نہیں رہا کہ آج تمہارے سردار کی ماں کی بے عزتی کی گئی.جونہی اس شور کی آواز باہر مردانے خیمہ میں گئی اس کے بیٹے نے اس بات کی تحقیق نہیں کی کہ حقیقت کیا ہے فوراً اٹھا اور بادشاہ کی تلوار لے کر اسی سے بادشاہ کی گردن اڑا دی اور کہا کہ تحقیق بعد میں

Page 19

سيرة النبي عمال 5 جلد 2 کروں گا پہلے اپنی ماں کی بے عزتی کا بدلہ لے لوں.چنانچہ اس سے فارغ ہو کر زرو جواہر لے کر چلتا بنا.یہ عالم تھا عرب کی آزادی اور حریت کا کہ وہ کسی کے اتنا کہہ دینے کو کہ برتن پکڑا دینا اپنی ہتک عزت خیال کرتا تھا اور کہنے والے کی جان لئے بغیر نہ ٹلتا تھا.عرب کے ملک کی یہ کیفیت تھی جب اس میں نبی کریم ﷺ مبعوث ہوئے.صلى الله نبی کریم ﷺ نے عرب کی کایا پلٹ دی اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے اس ملک کی ان تمام بد عادات ، بد عقائد، بدرسوم کو کس طرح بدل کر انہیں کیا سے کیا بنا دیا.سب سے پہلے ان کے مذہب کو لیتے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ وہ بت پرست تھے اور پھر بت پرستی عرب سے مٹادی تلہ والوں کی سبیل معاش بھی بت پرستی ہی تھی اور آنحضرت ﷺ کا جس خاندان سے تعلق تھا وہ گویا مجاور تھا ان بتوں کا.اب غور کرنا چاہئے کہ وہ لوگ جن کا گزارہ ہی بتوں کے چڑھاوے پر ہو اور ان کے لئے اور کوئی سبیل معاش نہ ہو علاوہ مذہبی طور پر ایک بڑی بات ہونے کے کہ اپنے قدیم خیال کا ترک کرنا مشکل ہوتا ہے ان کی دنیا کے لئے بھی کتنا کٹھن کام تھا.لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے اس بت پرستی کو اس جگہ سے ایسا اڑا دیا کہ اس کا نشان تک مٹا دیا.اور آج تک اس بت پرستی کے محو کرنے کے نشان کے طور پر ایک مؤذن کہتا ہے اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ لوگ جن کی معاش ہی بتوں پر تھی بتوں سے سخت بیزار ہو گئے اور کوئی سخت سے سخت مصیبت بھی ان کو بت پرستی پر مائل نہ کر سکی.شراب چھڑا دی وہ شراب نوش تھے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اپنی شراب نوشی پر فخر کیا کرتے تھے اور چار پائی سے نہیں اٹھتے تھے جب

Page 20

سيرة النبي عل الله 6 جلد 2 تک شراب نہ پی لیں.ان سے شراب نوشی چھڑائی اور کس طرح چھڑائی کہ دنیا اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی.لکھا ہے کہ شراب کی حرمت کا جس دن حکم نازل ہوا ہے رسول کریم ﷺ کی طرف سے ایک شخص مدینہ کی گلیوں میں منادی کرتا پھرتا تھا کہ آج شراب حرام ہوگئی.اُس وقت ایک جگہ ایک مجمع بیٹھا شراب پی رہا تھا.جونہی کہ منادی کی آواز ان کے کان میں پہنچی ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ پوچھو تو یہ کیا کہتا ہے.دوسرے نے کہا کہ میں یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ اتنی دیر بھی لگاؤں کہ جاؤں اور جا کر اس سے پوچھوں.جب وہ کہتا ہے کہ شراب حرام ہو گئی تو تحقیق بعد میں کروں گا پہلے ان قدحوں اور مٹکوں کو توڑ دوں.چنانچہ اس نے ان تمام گھڑوں کو توڑ پھوڑ دیا.اب سوچنا چاہئے کہ اول تو شراب ان لوگوں کی ایسی محبوب و مطلوب کہ وہ آنکھ نہیں کھولنا چاہتے جب تک اسے پی نہ لیں ، ایسی محبوب چیز کو ان سے چھڑایا جاتا ہے.پھر ایک شراب نوش جس وقت کہ وہ شراب نوشی میں مشغول ہو اس سے یہ خواہش کرنا کہ شراب چھوڑ دو سخت مشکل ہے اور میں نہیں جانتا کہ کوئی شرابی جبکہ شراب میں مشغول ہو اُس وقت اسے کہا جائے کہ شراب چھوڑ دو تو وہ چھوڑ دے.مگر محمد رسول اللہ علیہ ایسے لوگوں میں جو شراب کے پروانے ہیں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے منہ سے حرمت شراب کا حکم سن کر نہیں ، ایک رستہ چلتے کی زبان سے سن کر کہ آج آنحضرت ﷺ نے شراب حرام کر دی تمام شراب کے برتن توڑ پھوڑ دیتا ہے.کیا یہ ایک معجزہ نہیں؟ میں کہتا ہوں وہ پہلا شخص جس نے کہا تھا کہ دریافت کر لو اس کی یہ حالت ہونا بھی آنحضرت ﷺ کا معجزہ ہے کیونکہ شراب کی حالت میں اتنے ہوش کہاں ہوتے ہیں کہ کوئی تحقیق کرے.اس کے مقابلہ میں آج ہم یورپ اور امریکہ کی حالت کو دیکھتے ہیں کہ ان کے ڈاکٹر اور اہل علم شیخ رہے ہیں کہ شراب بری چیز ہے اور اس کا استعمال اسی حد تک چاہئے جہاں تک طاقت قائم رکھ سکے مگر لوگ

Page 21

سيرة النبي ع 7 جلد 2 ہیں کہ دن بدن شراب میں غرق ہوتے جا رہے ہیں.امریکہ میں شراب کی مخالفت ہوئی اور جنگ کے دوران میں ان لوگوں نے اس کو چھوڑا بھی.مگر اب امریکہ والے کہتے ہیں ولسن (Wilson) ( پریذیڈنٹ ) ہوتا کون ہے جو ہم سے شراب چھڑائے.وہ شراب کی مضرات سے واقف ہیں.وہ قائل ہیں کہ شراب ان کی نسلوں کو کمزور اور ان کی دماغی حالتوں کو ضعیف کر رہی ہے اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ شراب کے باعث موتیں زیادہ ہوتی ہیں مگر وہ لوگ نہیں چھوڑ سکتے.اور جب بڑی جد و جہد سے کچھ دنوں کے لئے چھوڑتے ہیں تو حکام کو کہتے ہیں تم کون ہو جو ہم سے چھڑا ؤ.گویا وہ ان کی عادت ان سے علیحدہ نہیں ہو سکتی.عادت کے مقابلہ میں تمام علوم ، تمام تجارب پیچ ہیں.مگر محمد رسول اللہ اللہ اس قوم سے جو شراب پر فخر کرنے والی ہے شراب پینا چھڑاتے ہیں اور اس طرح چھڑاتے ہیں کہ گویا وہ قوم شراب کا نام تک بھول جاتی ہے.کیا یہ معجزہ نہیں؟ پھر وہ سوتیلی ماؤں کو نکاح میں لاتے تھے اور زنا پر فخر کرتے تھے.ان کو کہہ دیا گیا حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ أُمَّهُتُكُمْ 1 تمہاری سب قسم کی مائیں تم پر حرام ہیں خواہ وہ سوتیلی ہوں یا حقیقی اور وہ اس حکم کو بلا چون و چرا تسلیم کرتے اور جن کے قبضہ میں ایسی عورتیں ہیں ان کو اپنے سے علیحدہ کر دیتے ہیں.اطاعت کا مادہ عرب جیسی اکھڑ قوم میں پھر ان کی سب سے بڑی بات ان کی حریت تھی اور اس پر وہ ایسا فریفتہ و گرویدہ تھے کہ اگر کوئی شخص ان کو کہہ دیتا تھا کہ مجھے فلاں چیز پکڑا دو اور اس کہنے میں کسی عظمند کے نزدیک کوئی بے عزتی نہیں مگر ان کی بے عزتی ہو جاتی تھی اور وہ اس بات سے بگڑ کر بادشاہوں تک کی گردن اڑا دیتے تھے آنحضرت ان میں اتنا تغیر پیدا کر دیتے ہیں گویا کہ ان کی ہستیوں کو بدل دیا اور انہیں اور مخلوق سے انسان بنا دیا.میں چند واقعات بیان کرتا ہوں جس سے پتہ لگے گا کہ وہ حریت کے دلدادہ محمد رسول اللہ علی کے حکموں پر طرح نثار ہوتے ہیں اور اس صلى الله

Page 22

سيرة النبي علم جان شاری کو فخر خیال کرتے ہیں.صحابہ میں جوش عقیدت صلى الله 8 جلد 2 جب آنحضرت ﷺ مکہ سے مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دفعہ آپ مسلمانوں کے ساتھ عمرے کے لئے مکہ کی طرف گئے.کفار مکہ نے آپ کو اجازت نہ دی کہ آپ عمرہ کریں.اس لئے وہاں صلح کرنی پڑی جس کا نام صلح حدیبیہ ہے.کفار کا ایک آدمی جو اپنے تیں خیال کرتا تھا کہ وہ آداب ملاقات کا واقف اور شاہی درباروں کے قوانین کا ماہر ہے کفار کا سفیر بن کر آنحضرت اللہ کے حضور حاضر ہوا اس دعوی کے ساتھ کہ میں جاتے ہی اپنے رعب واثر سے جو چاہوں محمد (ع) سے منوا لوں گا.وہ آیا اور آ کر اس نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ بیٹا ! ( عرب میں قاعدہ تھا کہ بڑے لوگ دوسروں کو اپنا بیٹا کہا کرتے تھے اسی کے مطابق اس نے اپنے آپ کو بڑا قرار دے کر آنحضرت ﷺ کو چھوٹا قرار دیا اور حضور کو بیٹا کہا ) تو ان لوگوں کی مدد پر نہ بھول یہ لوگ جو کہیں کہیں سے جمع ہو گئے ہیں جب وقت پڑے گا تجھے چھوڑ چھاڑ کر پرے ہو جائیں گے اور اس نازک وقت میں ہمیں جو تیری قوم کے ہیں تیرے کام آئیں گے.کیا تو ان کی خاطر ہم سے بگاڑتا ہے؟ اسی قسم کی باتوں کے درمیان اس نے اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا.ایک صحابی جو پاس کھڑے تھے انہوں نے تلوار کے قبضہ سے اس کے ہاتھ کو پرے کر دیا.پھر اس نے ہاتھ لگایا پھر انہوں نے اسی طرح قبضہ کا ٹھو کہ اس کے ہاتھ پر دیا.اتنے میں نماز کا وقت آیا آنحضرت ﷺ نے وضو کیا.وہ شخص خود جا کر اپنے لوگوں میں بیان کرتا ہے کہ تم محمد (ﷺ) کے مقابلہ کے خیال کو چھوڑ دو.اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں.کیونکہ وہ لوگ تو اس پر اس طرح فدا ہیں کہ پروانہ اُس طرح شمع پر قربان نہیں ہوتا.میں نے دیکھا کہ وہ ( محمد ) وضو کر نے لگا.وضو کے پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر نہیں گرنے پایا سب کا سب اس کے ساتھی اپنے جسم پر ، اپنے مونہوں پر تبرک کے

Page 23

سيرة النبي عمال 9 جلد 2 طور پر مل لیتے تھے.جس کے ساتھیوں کی فدائی کی یہ کیفیت ہے ان کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے.میں نے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں مگر ان کے خدام اور ملازمین کی بھی یہ کیفیت نہیں دیکھی 2.ایک اور واقعہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے مکہ صحابہ میں روح فدویت سے مدینہ کو ہجرت کی تو مدینہ والوں نے معاہدہ کیا کہ اگر کوئی شخص مدینہ پر چڑھ کر آئے گا تو ہم مدافعت کریں سے لیکن اگر آپ کو شریروں کی شرارت کے انسداد کے لئے باہر جانا پڑے تو ہم نہیں جائیں گے.یہ ایک سمجھوتہ تھا جو آپس میں ہو گیا تھا لیکن دشمن وہاں بھی آپ کو چین سے بیٹھنے نہیں دینا چاہتا تھا.بار بار مدینہ پر بھی چڑھ چڑھ کر آتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ ضروری معلوم ہوا کہ دشمن کے شر کے دفعیہ کے لئے آنحضرت ﷺ باہر نکلیں.اُس وقت آپ نے مدینہ کے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا مجھے باہر دشمن کے مقابلہ کے لئے جانے کی ضرورت ہے مگر آپ لوگ اپنے معاہدہ کی رو سے مجبور نہیں کہ میرے ساتھ باہر جائیں.مدینہ کے مسلمانوں میں سے ایک بڑے سردار نے کہا کہ حضور ! آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں.ہم آپ کے مرید ہیں ہم موسٹی کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ جا تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم وہ ہیں کہ ہم آپ کے دشمن کے ساتھ آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے، دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو پامال نہ کر لے.آپ اگر سمندر میں گھوڑا ڈال دیں تب بھی ہمارے گھوڑے کی باگ نہیں رکے گی بلکہ جہاں آپ کا اشارہ ہو گا وہیں ہم جائیں گے 3.بچوں میں جان شاری یہ بڑوں کا حال ہے بچوں کی یہ کیفیت ہے کہ بدر کے موقع پر جبکہ مسلمانوں کی تعداد کفار کے ہزار کے مقابلہ میں تین صد تھی ایسا واقعہ ہوا کہ ایک صحابی جو بہت بڑے جری تھے خود بیان

Page 24

سيرة النبي علي 10 جلد 2 کرتے ہیں کہ اس دن میرے دل میں جوش تھا اور میں چاہتا تھا کہ ان کفار نا نجار سے ان کے مظالم کا بدلہ لوں.کیونکہ ان کا ایک ایک ظلم ہمیں یاد آ رہا تھا.مگر جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دو چودہ چودہ سالہ لڑکوں کو دیکھا اور ان کو دیکھ کر میرے تمام حوصلے پست ہو گئے.کیونکہ قاعدہ ہے کہ انسان کے دائیں بائیں جب مضبوط اور بہادر ہوں تو وہ اپنی شیخ کے جو ہر دکھا سکتا ہے ورنہ اس کو ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ کوئی پیچھے سے مجھ پر حملہ ہی نہ کر دے پس ان کو اپنے دائیں بائیں بچے دیکھ کر رنج ہونا قدرتی امر تھا.لیکن وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ ان میں سے ایک نے میرے کہنی ماری اور آہستہ سے کہا ( تا کہ دوسرا بھائی نہ سن پائے ) کہ چچا ! کفار کی فوج میں ابو جہل کون سا ہے؟ اس کے متعلق سنا ہے کہ وہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کا بڑا دشمن ہے اور اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی ہیں.میں اس کی جرات پر حیران ہو ہی رہا تھا کہ اسی طرح دوسرے نے میرے کہنی ماری اور اسی طرح آہستہ سے کہا ( تا کہ دوسرا بھائی نہ سن پائے ) کہ چا! ابو جہل کہاں ہے؟ سنا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بڑا دشمن ہے اور اس نے حضور کو بہت دکھ دیئے ہیں.میں ان کی اس جرات پر متعجب ہوا اور یہ ان کی اتنی بڑی جرات تھی کہ میرے دل میں بھی ابو جہل کے متعلق خیال نہ تھا.میں نے ان کو اشارہ کیا میرے اشارہ کرتے ہی وہ اس طرح جھپٹے جس طرح عقاب اپنے شکار پر جھپٹتا ہے.ابھی جنگ شروع نہ ہوئی کہ ان دونوں نے اپنے حملوں سے اس کو گھائل کر دیا 4 یہ جوشِ فدویت و فدا کاری صرف مردوں تک عورتوں میں فدا کاری ہی محدود نہ تھا بلکہ عورتوں میں بھی اطاعت اور جان نثاری کی وہ سپرٹ پیدا ہو گئی تھی جس کی نظیر نہیں.چنانچہ ایک موقع پر جب یہ مشہور ہوا کہ آنحضرت علہ شہید ہو گئے تو ایک عورت گھر سے نکل پڑی.ایک صحابی جو

Page 25

سيرة النبي الله 11 جلد 2.مدینہ کو واپس آ رہے تھے ان سے ملی اور پوچھا کہ آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟ وہ چونکہ آنحضرت ﷺ کو زندہ دیکھ گئے تھے اس لئے مطمئن تھے انہوں نے کہا کہ اے عورت ! تیرا بھائی فوت ہو گیا.اس عورت نے کہا کہ میں تجھ سے آنحضرت عے کے متعلق دریافت کرتی ہوں.انہوں نے کہا تیرا باپ بھی فوت ہو گیا.اس نے کہا کہ باپ کے متعلق دریافت نہیں کرتی آنحضرت ﷺ کے متعلق بتاؤ ان کا کیا حال ہے.اس نے کہا کہ تیرا خاوند بھی فوت ہو گیا.اس عورت نے غصہ سے کہا کہ میں تجھے آنحضرت ﷺ کے متعلق پوچھتی ہوں !! آخر اس شخص نے کہا کہ آپ تو زندہ ہیں.اس نے کہا الْحَمْدُ لِلهِ اگر آپ زندہ ہیں تو باپ، خاوند، بھائی وغیرہ کے فوت ہو جانے کا کچھ غم نہیں 5.اب غور کرنا چاہئے کہ وہ عرب جو کسی کے اتنا کہنے کو کہ " برتن پکڑانا اپنی ہتک عزت خیال کرتا تھا نبی کریم ﷺ کے اشاروں پر جان و مال فدا کرتا ہے اور فخر نہیں کرتا.پھر عرب وہ لوگ ہیں جن کو اپنے وطن سے بہت محبت ہے حتی کہ وہ بدوی کہلاتا ہے اور بدوی کے معنی جنگلی کے ہیں وہ جنگل بہ جنگل پھرتا ہے.ایران و روم کے سرسبز میدانوں میں نہیں اپنے ہی بے آب و گیاہ ملک کے جنگلوں میں چکر لگاتا ہے صلى الله محمد ﷺے کے لئے وہ اپنے ایسے محبوب وطن کو بھی چھوڑ دیتا ہے اور خوشی سے چھوڑتا ہے، پرواہ نہیں کرتا.کیا یہ کا یا پلٹ دینا معجزہ نہیں؟ اب غور کرنا چاہئے کہ مجموعی طور پر ان تمام خرابیوں کو دور کرنا اور بالکل ہی کا یا پلٹ دینا کیا یہ معجزہ نہیں ؟ میں کہتا ہوں کہ اگر تمام انبیاء کے کاموں کو ان کے مقابلہ میں رکھا جائے تو ان کے کارنامے ان کارناموں کے مقابلہ میں گرد ہیں.دنیا کی تاریخ اصلاح اس کی نظیر مطلق مطلق پیش نہیں کر سکتی.یہ تو وہ حالت ہے جو ان کی اسلام کے بعد ہوئی.

Page 26

سيرة النبي علي 12 جلد 2 صرف ایک آیت قرآنی میں بے نظیر جامع تعلیم اب ہم اسلام کے بعض احکام کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے معلم ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں 6 فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى : که اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل کا اور پھر احسان کا اور پھر اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبى کا.اب سوچنا چاہئے کہ عدل کیا چیز ہے.عدل کہتے ہیں برابری کے معاملہ کو یعنی جو اپنے لئے پسند کرتے ہو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو اور جو اپنے لئے نا پسند سمجھتے ہو اسے دوسروں کے لئے بھی ناپسند قرار دو.یہ عدل ہے.پھر فرماتا ہے اسی پر بس نہ کرو بلکہ احسان کا معاملہ کرو.یعنی جتنا کسی کا حق ہو اس سے زیادہ دو.پھر فرمایا اس احسان کے درجہ کو آخری درجہ قرار نہ دو بلکہ چاہئے کہ لوگوں سے ایسا سلوک کرو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے کرتی ہے.احسان کرنے میں کوئی غرض پوشیدہ ہوسکتی ہے مگر ماں کے بچہ کو دودھ پلانے میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی.بلکہ دیکھا گیا ہے کہ بعض نالائق لڑ کے کسی دنیاوی درجہ کو پہنچ کر ماں باپ کی عزت نہیں کرتے مگر ماں باپ اس پر بھی ان سے محبت کرتے ہیں تو یہ درجہ وہ ہوتا ہے جس میں کسی غرض کی وجہ سے کسی سے سلوک نہیں کیا جاتا.اس لئے فرمایا کہ لوگوں سے نیک سلوک کرو اور ایسا ہی کرو جیسا کہ ماں باپ اپنی اولا د سے کرتے ہیں.اب ہم اس تعلیم پر غور کرتے ہیں کہ کیا یہ تعلیم ایسی ہے جو صرف کانوں کو خوش لگتی ہے یا واقعی اس پر عمل بھی کیا جا سکتا ہے.اس کے لئے میں صرف کفار عرب نے حبشہ تک صحابہ کا پیچھا کیا ایک ہی واقعہ کا ذکر کروں گا.پہلے میں یہ دکھاتا ہوں کہ کفار نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے اتباع سے سلوک کیا کیا.جب آپ مکہ میں تھے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر طرح طرح کے ستم

Page 27

سيرة النبي علي 13 جلد 2 توڑے جاتے تھے.جب مکہ میں آپ کے ساتھیوں پر ظلموں کی حد ہوگئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک قافلہ کو حبشہ بھیج دیا.کفار عرب کا وفد بھی حبشہ میں پہنچا اور کوشش کی کہ کسی طرح ان مسلمانوں کو یہاں بھی امان نہ ملے.اس کے لئے انہوں نے یہ چال چلی کہ امرا کو بڑے بڑے تھے دیئے کہ کسی طرح بادشاہ تک ان کی رسائی ہو.چنا نچہ انہوں نے بادشاہ کے دربار میں بار پایا اور کہا کہ ان لوگوں کو نکال دو.اس نے کہا کہ میں نہیں نکالتا.خدا نے اسے سمجھ دی تھی.امرا بھی کفار عرب کے ہم نوا تھے.اس نے ان کو بھی صاف جواب دیا.خدا نے اس کے دل میں رحم ڈال دیا تھا.یہ بادشاہ جب بچہ تھا تو اس کا چچا اس کے تخت پر قابض ہو گیا تھا اور اس کے امرا اس کے چچا کے طرف دار تھے.آخر اس نے اپنے چچا کا فیصلہ کیا اور اپنا حق حاصل کیا.جب امرا نے مسلمانوں کے خلاف کوشش کی تو اس نے کہہ دیا کہ میں تمہاری پر واہ نہیں کرتا.تم وہی ہو جنہوں نے میرا حق غصب کر کے میرے چچا کی طرفداری کی تھی.اس طریق میں نا کامی دیکھ کر انہوں نے بادشاہ کے حضور کہا کہ یہ لوگ مفسد ہیں اور اپنے دین سے پھر گئے ہیں اور حضرت مسیح کی توہین کرنے والے ہیں.بادشاہ نے مسلمانوں سے پوچھا.انہوں نے صاف کہا کہ فساد ہمارا کام نہیں ہم نہایت امن پسند ہیں حقیقت یہ ہے کہ انہی لوگوں نے ہمیں ہمارے وطن سے نکالا ہے اور وہاں ہم پر طرح طرح کے ظلم کئے ہیں.آخران ظلموں کی تاب نہ لا کر ہم نے اپنے عزیز وطن کو چھوڑ دیا اور تیرے ملک میں آئے ہیں.باقی رہا دین سے بے دین ہونا یہ بھی صحیح نہیں.ہمارا دین بت پرستی تھا.ہم لوٹ مار کے عادی اور سخت اخلاقی گناہوں میں مبتلا تھے.ہم میں ایک نبی برپا ہوا اور اس نے ہماری ان تمام وحشیانہ عادات کو انسانیت کے ساتھ بدل دیا.حضرت مسیح کی ہم عزت کرتے اور انہیں خدا کا ممسوح اور نبی اور رسول اور برگزیدہ یقین کرتے ہیں.مگر ہمارے نزدیک وہ خدا نہ تھے.یہ باتیں سن کر بادشاہ متاثر ہوا اور کفار کے وفد کو لوٹا دیا اور مسلمانوں کو امن و امان کے ساتھ وہاں رہنے کی اجازت دی.

Page 28

سيرة النبي عالم 14 جلد 2 کفار مکہ کے مظالم مسلمانوں پر غرض کفار مکہ نے مسلمانوں پر مظالم کئے اور بہت کئے.عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مارے اور دو مختلف طرفوں پر اونٹوں کو کھڑا کیا اور ایک پیر ایک عورت کا ایک اونٹ سے باندھ دیا دوسرا دوسرے سے اور دونوں اونٹوں کو مخالف سمتوں کی طرف دوڑا دیا.عورت دو ٹکڑے ہو کر گر پڑی.انہوں نے جنگ میں کام آنے والے مسلمانوں کو مشغلہ بنایا ، آنکھیں نکال دیں ، کان ناک کاٹ دیئے اور پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکال کر چبایا اور اس سے بھی بڑھ بڑھ کر ظلم کئے.پھر آپ جانتے ہیں کہ اگر ایک شخص کی محنت کو برباد کیا جائے اس کو کتنا غم اور رنج ہوتا ہے.کفار کے ایک قبیلہ نے کہا کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں ہمیں معلم چاہئیں.آپ نے کئی قاریوں کو ان کی تعلیم کے لئے بھیج دیا اور انہوں نے ان تمام کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا.آپ کہتے ہیں کہ تلوار چلائی گئی.میں کہتا ہوں کہ اگر ان سے بدلہ لیا جاتا تو وہ مستحق تھے.اس واقعہ سے آپ غور کر سکتے ہیں کہ آنحضرت علے کو کتنا رنج ہونا چاہئے تھا کیونکہ آپ کے طیار کئے ہوئے لوگ بے دردی اور دھو کے کے ساتھ قتل کر ڈالے گئے.پھر آپ کی ذات پر طرح طرح کے ظلم کئے.بارہا چاہا کہ آپ کو قتل کر دیں ، آپ کو زہر دے کر مارڈالیں اور آپ پر پتھر گرا کے ہلاک کر دیں.پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کی مستورات اور آپ کے معزز اور بڑے صحابہ کی مستورات پر الزام لگائے گئے اور شعر کہے گئے جن میں یہ مضمون ہوتا تھا کہ ہمارا فلاں عورت سے تعلق ہے.ایک طرف تو یہ تمام مظالم ہیں.فاتح ہو کر آنحضرت ﷺ کا نیک سلوک دوسری طرف آپ جب فتح مکہ کرتے ہیں تو ان کے اس سوال پر کہ ہم سے کیا کیا جائے گا؟ فرماتے ہیں لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ : جاؤ ہم نے تمہاری تمام غلطیاں معاف کیں.غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک طرف تو

Page 29

سيرة النبي ع 15 جلد 2 ایسے عنید دشمن ہیں اور ان کے مظالم بیروں از شمار ہیں مگر آپ جب ان پر قابو پاتے ہیں تو یکسر معاف کر دیتے ہیں.آپ کہتے ہیں تلوار کے ذریعہ فتح کیا.میں کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے تلوار چلائی انہیں کسی تلوار نے فتح کیا ؟ پھر اگر یہ سچ بھی ہو تو کیا وہ اس تلوار کے مستحق نہ تھے ؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پر دین قبول کرانے کے لئے تلوار نہیں چلائی گئی.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب مسلمان مکہ کے دروازوں پر پہنچے تو مسلمانوں کے ایک سپہ سالار نے کہا کہ اب دیکھنا ہم ان کفار کو ان کے مظالم کا کیسا صلى الله بدلہ چکھاتے ہیں مگر مسلمانوں کے سردار محمد مصطفی ﷺ نے اس آواز کو پسند نہ کیا اور ان کے طالب عفو ہونے پر ان کے تمام ظلموں کو کلیۂ بھلا دیا.کیا اس تعلیم پر عمل نہیں کر کے دکھایا جو لفظوں میں دی گئی؟ کیا یہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلا ہے؟ یا کوئی اور ہی چیز تھی جس نے یہ تغیر پیدا کئے اور ان پتھروں کو موم کر دیا.یہ تمام وہ باتیں ہیں جو 66 مجموعی طور پر نبی کریم ﷺ نے پیدا کیں جن کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی.“ 1 : النساء : 24 تفخیذ الا ذبان اکتوبر 1919ء صفحہ 12 تا 24) 2:بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحہ 448 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 675 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 4:بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرا صفحه 673 حدیث نمبر 3988 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 880 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 6: النحل: 91 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 370 تا 386 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 8: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 207 208 زیر عنوان فتح مكه شرفها الله تعالى مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء

Page 30

سيرة النبي الله 16 جلد 2 رسول کریم ﷺ پر اعتراض کا خطرناک نتیجہ وو حضرت مصلح موعود 14 نومبر 1919ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم ہے ایک جنگ میں تشریف لے گئے جب کوٹے تو غنیمت میں حضور نے مہاجرین کو کسی قدر مال زیادہ دیا اور اس پر انصار کے ایک گروہ میں سے کسی نے کہہ دیا کہ خون تو اب تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن مال لے گئے مہاجرین.اسی مجمع میں انصار میں سے ایک وہ شخص بھی بیٹھے تھے جنہوں نے حضور کی صحبت اٹھائی تھی وہ حضور کے پاس گئے اور خبر دی کہ ایک مجمع میں ایسی گفتگو ہوئی ہے.بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب ان کے عزیز سے کوئی غلطی ہو تو وہ اس پر پردہ ڈالا کرتے ہیں مگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا.حضور نے انصار کو بلایا اور کہا کہ میں نے اس قسم کی خبر سنی ہے کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے کہا کہ بے شک درست ہے مگر یہ کہنے والے بڑے لوگ نہیں بچے ہیں.حضور نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے انصار ! تم کہہ سکتے تھے کہ یہ گھر سے نکالا ہوا اکیلا آیا.ہم نے اس کا ساتھ دیا اور اُس وقت ساتھ دیا جب اس کے وطن والے اس کے دشمن تھے.پھر ہم نے اس کے دشمنوں کو زیر کیا.اب جب یہ فتح یاب ہوا تو اس نے اپنے بھائیوں کو مال دے دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا.پھر فرمایا مگر اس کے مقابلہ میں تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ایک جنگ جس سے مہاجرین تو مال و اسباب اور اونٹ وغیرہ لے کر گھروں کو گئے اور مدینہ والے اللہ کے رسول کو ساتھ لے گئے.مگر اب جو الفاظ تمہارے منہ سے نکلے ہیں ان کا نتیجہ تم سن لو کہ دنیا میں تمہارے لئے کوئی عزت نہیں حوض کوثر پر ہی آکر مجھ سے مطالبہ کرنا 1.

Page 31

سيرة النبي عالم 17 جلد 2 صل الله چنانچہ ان لفظوں کا نتیجہ دیکھ لو کہ تیرہ سو برس میں انصار کی کوئی بھی حکومت نہیں ہوئی.حالانکہ انصار وہ لوگ ہیں جن پر حضرت نبی کریم ﷺ کو بڑا اعتبار تھا.غزوہ حنین میں بعض نوجوانوں نے بڑا بول بولا اور ان میں عجب آ گیا.خدا تعالیٰ نے اس موقع پر ان کو تنبیہ کرنی چاہی اور میدان میں ان کا قدم اکھڑ گیا حالانکہ مسلمانوں کی تعداد اُس وقت بارہ ہزار سے زیادہ تھی اور دشمن کی تعداد دو تین ہزار سے زیادہ نہ تھی.اُس وقت ایسی حالت ہوئی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے گھوڑے کدھر جارہے ہیں.میدان میں اُس وقت صرف رسول کریم اللہ اور سات آٹھ اور شخص باقی رہ گئے تھے.اُس وقت حضرت عباس آگے بڑھے اور آنحضرت عیہ کے گھوڑے کی باگ کو پکڑ لیا اور کہا کہ حضور ! اب پلٹ چلیں اب مقابلہ کا وقت نہیں.حضور ﷺ نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدان میں آکر پیچھے نہیں ہٹا کرتے.چونکہ حضرت عباس کی آواز بلند تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے انہی کو کہا کہ انصار کو آواز دو کہ اے انصار ! تمہیں خدا کا رسول بلاتا ہے.اس وقت جبکہ سب فوج تتر بتر ہو گئی تھی آپ مہاجرین کو آواز نہیں دیتے بلکہ آپ انصار کو پکارتے ہیں.حضرت عباس نے آواز دی.صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا صور اسرافیل پھونکا جا رہا ہے اور یہ عباس کی آواز نہیں بلکہ خدا کی آواز ہے.تمام لوگ پلیٹ پڑے اور گھوڑوں اور اونٹوں کو پیچھے پھیرنا شروع کر دیا لیکن حالت اُس وقت یہ تھی کہ اونٹ مہار کے کھینچنے سے دوہرے ہو ہو جاتے لیکن واپس نہ پلٹتے.آواز دم بدم بلند ہوتی گئی اس پر جو اونٹ اور گھوڑے پھرتے نہ تھے ان کے سواروں نے تلواریں کھینچ کر ان کی گردنیں اڑا دیں اور پیدل ہو کر حضور کی طرف آگئے 2.الله پس اس واقعہ پر ابھی چند دن نہ گزرے تھے کہ وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر ہوا اور ان چند لفظوں نے کیا نتیجہ پیدا کیا؟ چونکہ انصار مومن تھے اس لئے دنیاوی نتیجہ سے محروم رہے اور خدا نے ان کا ایمان بچا لیا مگر دیکھو انہوں نے کن دقتوں سے یہ رتبہ

Page 32

سيرة النبي علم 18 جلد 2 حاصل کیا تھا اور کھونے میں ذرا بھی دیر نہ لگی.“ ( الفضل یکم دسمبر 1919ء) صلى الله 1: بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبيل يعطى المؤلفة قلوبهم صفحه 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه 1240 زیر عنوان رجوع الناس بنداء العباس مطبوعہ دمشق 2005ء

Page 33

سيرة النبي الله 19 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی قربانیاں حضرت مصلح موعود اپنے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1919 ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان میں فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ جو یہ فرماتے ہیں کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ 1 اس میں قربانی سے مراد بکروں کی قربانی نہیں بلکہ جسمانی اور نفس کی قربانی ہے.اور صلاتي کا لفظ مَحْيَايَ کے مقابلہ میں ہے اور نُسکی کا لفظ مماتی کے مقابلہ میں بیان کیا گیا ہے.یعنی یہ پچھلے لفظوں کی تشریح کرتا ہے.صلاتي کے لئے فرمایا مَحْيَايَ یعنی نماز کے مقابلہ میں زندگی کو رکھا کہ رسول کریم صلى الله ہ فرماتے ہیں نماز پڑھنے سے میں نے زندگی حاصل کی اور خدا کو پالیا ہے.اور نُسکی کے مقابلہ میں مَمَاتِي یعنی نفس کی قربانی کو رکھا ہے.اس میں رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کو قتل کر دیا مگر ایسا قتل کیا کہ اس سے ہزاروں زندہ ہو گئے.تو جب تک انسان اپنے نفس کو قتل نہ کرے اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا عبد نہیں کہلا سکتا.اور خدا تعالیٰ کے لئے جب تک ”میں“ نہ ٹوٹے کوئی انسان عبد نہیں ہوسکتا کیونکہ ”میں“ کہنے والا عبد نہیں سمجھا جاسکتا.“ 66 ( خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1919 ء صفحہ 56،55) 1: الانعام: 163

Page 34

سيرة النبي الله 20 20 رسول کریم علیہ کے تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب تعدد ازدواج کے حوالہ سے رسول کریم اللہ پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود اپنے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1919 ء بر موقع جلسه سالا نہ قادیان میں فرماتے ہیں :." الله ان معاملات میں سے ایک خاص معاملہ تعدد ازدواج کا ہے.میں ہی شاید وہ شخص ہوں جو قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعود کی تحریروں سے استدلال کر کے احمد یہ سلسلہ میں سے اس کی تائید میں زور دیتا رہا ہوں.لیکن اس وقت میں اس کا ایک دوسرا پہلو دکھانا چاہتا ہوں.میں اس پر اس لئے زور دیا کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ پر مخالفین اعتراض کیا کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ شہوت رانی کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کئے تھے.اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو دکھلا دیں که رسول کریم ﷺ کی یہ شہوت رانی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی قربانی تھی.جب کوئی ایک سے زیادہ بیویاں کرتا ہے تب اس کو پتہ لگتا ہے کہ یہ کتنی بڑی مشکل بات ہے.رسول کریم ﷺ پر تو یہ اعتراض کر دیا گیا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ شہوت رانی کے لئے زیادہ بیویاں کیں مگر میں تجربہ کے بعد جانتا ہوں کہ دوعورتوں کے ساتھ ہی مساوی معاملہ کرنے میں کس قدر نفس کی قربانی کرنی پڑتی ہے.اور یہ رسول کریم ﷺ ہی کی شان تھی کہ آپ نے 9 کے ساتھ مساوی معاملہ کیا.شہوت رانی تو یہ ہے کہ ایک کو چھوڑ کر دوسری عورت کو اپنے پاس رکھا جائے نہ یہ کہ ایک شخص جو سب کو مساوی حقوق دیتا ہے ، مساوی سلوک کرتا ہے اسے شہوت ران کہا جائے.کیونکہ یہ کھلی بات ہے کہ جب جلد 2

Page 35

سيرة النبي ع 21 جلد 2 ایک انسان کی کئی بیویاں ہوں تو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت ہوگی اور بعض دفعہ ہو سکتا ہے کہ کسی ایک عورت سے کسی سبب سے نفرت بھی ہو مگر باوجود اس کے جو شخص اپنی سب بیویوں سے یکساں سلوک کرتا ہے ایسے شخص کو کس طرح شہوت ران کہا جا سکتا ہے.کیا نفس کی قربانی کے معنی شہوت رانی ہوتے ہیں ؟ اگر نہیں تو ایک سے زیادہ بیویوں سے مساوی سلوک کرنا بہت بڑی نفس کی قربانی ہے.اور جو شخص مذہبی، قومی، یا ملی فوائد کو مدنظر رکھ کر یہ بوجھ اٹھاتا ہے وہ فدائے قوم سمجھا جائے گا نہ کہ شہوت ران.اور جو شخص اپنی ذاتی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ایک سے زیادہ نکاح کرتا ہے لیکن سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہے وہ بھی شہوت ران نہیں بلکہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا انسان کہلائے گا.غرض میں نے جو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر زور دیا ہے تو صرف اس غرض سے کہ اس سے اسلام کے اس حکم کو صاف کیا جائے اور رسول کریم ﷺ پر سے اعتراض مٹایا جائے.وَاللهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ.مگر میں دیکھتا ہوں تعدد ازدواج کے متعلق مسلمانوں کا برا نمونہ کہ مسلمان ہی اس مسئلہ میں برانمونہ دکھا کر دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن رہے ہیں.عیسائیوں کی عورتیں آکر مسلمان عورتوں کو کہتی ہیں کہ مسلمان دوسری شادی کر کے عورتوں پر بڑا ظلم کرتے ہیں اور سو میں سے ننانوے مسلمان عورتیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ ہاں واقعہ میں ہم پر یہ بہت بڑا ظلم ہے اور یہ کہہ کر وہ کافر ہو جاتی ہیں کیونکہ شریعت اسلام پر ظلم کا الزام لگاتی ہیں.مگر میں پوچھتا ہوں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہی جن کی وجہ سے عورتوں کو اس اعتراض کا موقع ملا اور وہی جنہوں نے اپنی نفس پرستی کی وجہ سے دشمنوں کو محمد ملنے پر اعتراض کا موقع دیا اور اسلام پر ہنسی اڑائی.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص دو بیویاں کر کے ان سے مساوی سلوک نہیں

Page 36

سيرة النبي علي 22 جلد 2 کرتا قیامت کے دن وہ ایسے حال میں اٹھے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ہوگا اور آدھا نہیں 1.اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ آدھا دھڑ کون سا ہوگا ؟ وہ جس میں دل ہے یا وہ جس میں دل نہیں.پس یہ وہ حکم ہے جس پر مخالفین کی طرف سے بڑے شور سے اعتراض کئے جاتے ہیں اور جس کے متعلق مسلمان اپنے عمل سے مخالفین کو اعتراض کرنے کا موقع دے رہے ہیں.رسول کریم ﷺ نے بیویوں کے حقوق کے متعلق خاص تاکید فرمائی ہے اور اس معاملہ میں اس قدر تشدد کیا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں تھے اور نماز کے لئے بھی باہر نہیں آسکتے تھے تو اپنی سب بیویوں کو جمع کر کے کہا کہ اگر تمہاری اجازت ہو تو میں کسی ایک گھر میں رہوں.یہ تھی آپ کی احتیاط.اس کو نادان اور اندھی دنیا شہوت رانی کہتی ہے.چنانچہ سب نے اجازت دی 2 اور خدا نے چاہا کہ وہ آپس میں سے اسی کو چنیں جس کو خدا نے سب پر فضیلت دی تھی اور وہ عائشہ تھیں.حضرت عائشہ کے گھر جانے کے تین چار روز بعد آپ فوت ہو گئے.بیویوں کے متعلق یہ طرز عمل تھا اس انسان کا جس پر اعتراض کئے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے کرائے جاتے ہیں کیونکہ مسلمانوں میں سے آدھا حصہ عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل نہیں کیا جاسکتا.اور صرف عورتیں ہی نہیں کہتیں مرد بھی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا.کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمانوں میں سے ایک سے زیادہ عورتیں کرتے ہیں وہ ان میں عدل نہیں کرتے.پس سوچے اور غور کرے وہ مسلمان اور سوچے اور غور کرے وہ احمدی جو عیسائیوں کو کہتا ہے کہ تمہارے مذہب میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جس پر عمل نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ خود اپنے عمل سے بتاتا ہے کہ اسلام میں بھی ایسی تعلیم ہے جس پر عمل نہیں ہو سکتا.رسول کریم ﷺ پر ایک بیوی کے بعض نادان بعض حدیثوں کی بنا پر صلى الله کہہ دیا کرتے ہیں کہ رسول کریم متعلق اعتراض اور اس کا جواب ﷺ نے بھی ایک بیوی کے گھر

Page 37

سيرة النبي علي 23 جلد 2 صلى الله اس لئے جانا چھوڑ دیا تھا کہ وہ بوڑھی ہو گئی تھیں حالانکہ حدیثوں سے یہی ثابت ہے کہ اس عورت نے خود رسول کریم ﷺ کو کہا تھا کہ میں اپنی باری عائشہ کو دیتی ہوں 3.بے شک روایت کیا جاتا ہے کہ اس بیوی کے دل میں ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ صلى الله ایسا نہ ہو کہ رسول کریم ہے مجھے بوجہ بڑھاپے کے طلاق دے دیں اور ممکن ہے یہ بات درست ہو.عورتیں بعض دفعہ اپنی کمزوری کے باعث اس قسم کے وہموں میں مبتلا ہو جاتی ہیں مگر رسول کریم ﷺ کے دل میں یہ خیال کبھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہوا.آپ کی عمر کا ایک ایک لحظہ اور ایک ایک دقیقہ اس افترا کی تردید کرتا ہے، اس بہتان کو رد کرتا ہے اور اس خیال کو دھکے دیتا ہے.بد بخت ہے وہ انسان جو محمد رسول اللہ ﷺ کا متبع کہلا کر ایسا خیال دل میں لاتا ہے اور اندھا ہے وہ آدمی جو محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو دیکھتے ہوئے پھر اس پر یقین کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کی شادی چھپیس برس کی عمر میں حضرت خدیجہ سے ہوئی تھی اور اُس وقت حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال کی تھی.حضرت خدیجہ چونسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئیں اور اُس وقت آنحضرت علی اللہ کی عمر 49 سال کی تھی.مگر دوست اور دشمن شاہد ہیں کہ آپ نے حضرت خدیجہ سے ایسا برتاؤ کیا جس کی نظیر دنیا میں بہت کم ملتی ہے.حضرت سودہ سے آپ کی شادی حضرت خدیجہ کے بعد ہوئی اور ان کی وفات 54 ہجری میں ہوئی ہے.چونکہ ان کی عمر کا صحیح اندازہ مجھے معلوم نہیں میں سن وفات سے اندازہ لگا تا ہوں کہ اگر وہ سو سال کی عمر میں فوت ہوئی ہوں تو 44 سال جو وہ رسول کریم ع کے بعد زندہ ہیں نکال کر ان کی عمر آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت 56 سال بنتی ہے.اب کیا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ وہ شخص جس نے پچاس سالہ عمر میں 64 سالہ بیوی سے نهایت و فادارانہ گزارہ کیا تھا وہ اپنی 63 سالہ عمر میں 56 سالہ بیوی کو اس لئے طلاق دینے پر آمادہ ہو جاوے گا کہ وہ بوڑھی ہوگئی ہے.اِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّبِينٌ - پس اگر اس روایت میں کوئی حقیقت ہے تو حضرت سودہ کے خیال سے زیادہ

Page 38

سيرة النبي علي 24 جلد 2 وقعت اسے حاصل نہیں.اور عورتوں میں اس قسم کے خیال پیدا ہو جانا قابل تعجب صلى الله نہیں.رسول کریم ﷺ کا یہ ہرگز خیال نہیں تھا.پس وہ مسلمان جو ایک سے زیادہ بیویاں کرتے ہیں ان کو اسلام کی تعلیم کے مطابق عمل کر کے دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور شہوت رانی اور نفس پرستی کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے تا مخالفین اسلام کو حرف گیری کا موقع نہ ملے.“ خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1919 ء صفحہ 65 تا 69) 1 ترمذی ابواب النكاح باب ماجاء فى التسوية بين الضرائر صفحہ 276 حدیث نمبر 1141 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى صل الله 2 بخاری کتاب المغازى باب مرض النبيلة ووفاته وقول الله تعالی انک میت وانهم ميتون صفحہ 755 حدیث نمبر 4442 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: بخارى كتاب النكاح باب المرأة تهب يومها من زوجها لضرتها وكيف يقسم ذالک صفحہ 932 حدیث نمبر 5212 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 39

سيرة النبي الله 25 جلد 2 رسول کریم علیہ کی غیرت ایمانی حضرت مصلح موعود نے 7 جنوری 1920ء کو قادیان میں بعد نماز عصر ایک تقریر فرمائی جو 26 جنوری 1920 ء کے الفضل میں شائع ہوئی.اس میں رسول کریم ﷺ کی غیرت ایمانی کا ذکر بایں الفاظ ملتا ہے:.ایک مسلم کے لئے ایک مذہبی آدمی کے لئے مذہب غیرت کی چیز ہے.اس کو جب غیرت آتی ہے تو مذہبی معاملہ میں غیرت آتی ہے اور اس کے ماتحت جو کام مذہب کا اس سے کرانا ہو وہ اس کو کرے گا سوائے اس کام کے جس میں خدا کی طرف سے روک پیدا کر دی جائے.اسی غیرت کے ماتحت بڑے بڑے کام ہوئے ہیں.چنانچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب نے جھوٹا نبوت کا دعویٰ کیا اور اس نے رسول کریم علے سے مقابلہ بھی کیا تھا اور حضور کی زندگی میں نصف ملک کا مطالبہ کیا تھا.اس وقت حضور کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ میں تو اس کو یہ بھی نہیں دوں گا1.“ ( الفضل 26 جنوری 1920ء) اسی لیکچر میں رسول کریم ﷺ کی غیرت ایمانی کا یہ واقعہ بھی مذکور ہے.فرمایا:.رسول کریم علیہ کے پاس عرب کے نمائندے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ کو دولت کی تمنا ہے تو عرب کی آدھی دولت حاضر کرتے ہیں.اگر عورت چاہتے ہیں تو جو عورت پسند ہو وہ پیش کرتے ہیں.اگر حکومت چاہتے ہیں تو ہم بادشاہ ماننے کو تیار ہیں.مگر آپ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں.گویا کہ وہ بتوں کی غیرت کے لئے ننگ و ناموس بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہیں مگر نبی کریم ﷺ کی غیرت ,, 66

Page 40

سيرة النبي علي 26 جلد 2 بھی دیکھنے کے قابل ہے.فرماتے ہیں اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دو تو بھی میں شرک کے خلاف وعظ کہنے سے باز نہ رہوں گا2 دونوں نے غیرت دکھائی.مگر سچی غیرت غالب آئی.وہی سچی غیرت جو لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ کے لئے دکھائی گئی.“ (الفضل 26 جنوری 1920ء) 1: بخارى كتاب المغازى باب قصة الاسود العنسي صفحه 742 حدیث نمبر 4378 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005 ء

Page 41

سيرة النبي الله 27 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی صداقت کی دلیل رسول لیکچر فرمودہ 7 جنوری 1920ء میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کی ایک دلیل فرانسیسی مصنف کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.الله جیسی رسول کریم عملے کے وقت ابتدائی حالت تھی ویسی ہی بعینہ ہماری آج سے بیس سال قبل تھی اور اب بھی قریباً ویسی ہی ہے.رسول کریم میوہ کے اس زمانہ کی نسبت فرانس کا ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ محمد (ﷺ) کی ایک بات عجیب تھی.لوگ کہتے ہیں وہ جھوٹا تھا مگر میں کہتا ہوں کہ وہ کیسے جھوٹا ہوسکتا ہے.اس کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا.ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کو غلطی لگی تھی.وہ لکھتا ہے کہ میں اس نظارہ کو دل میں لاکر حیران ہو جاتا ہوں کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی تھی جو بارش کے وقت لیکنے لگ جاتی تھی اور نمازیوں کو کیچڑ میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی اس میں بیٹھ کر کچھ لوگ جن کو تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا بھی میسر نہیں تھا یہ باتیں کرتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آجاویں گے اور جو دین ہم پھیلانا چاہتے ہیں اس کو پھیلا دیں گے اور پھر باوجود اس بے بضاعتی کے وہ اپنی بات کو پورا کر کے دکھا دیتے ہیں.یہ ایک معمولی بات نہیں بلکہ غیر معمولی ہے.اس بات کو سوچنا (الفضل 26 جنوری 1920ء) 66 چاہیے."

Page 42

سيرة النبي عمال 28 28 سب نبیوں سے افضل اور پیارا نبی حضرت مصلح موعود نے لاہور کے احمدی تاجروں کی درخواست پر 19 جنوری 1920 ء کو بیرون دہلی دروازہ میں صداقت احمدیت“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.صل الله اس میں رسول کریم ﷺ کا دیگر انبیاء سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا :.الله ”دنیا میں بہت سے انبیاء گزرے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے اور بزرگ تھے اور اس کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے ہمارے سردار ہیں.ہم ان کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ توفیق دے اپنے نبی کریم ﷺ کے علاوہ ان کو بھی درودوں میں شامل کر لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مالک اور خالق کے پیارے ہیں تو ہمارے بھی پیارے ہیں.ان کو ہمارے مالک اور خالق خدا نے عزت دی ہے اور جن کو اس نے عزت دی ہے ان کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے.پس ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا احترام کرتے ہیں خواہ ان کا نام ہمیں قرآن کریم کے ذریعہ معلوم ہوا یا قرآن نے ان کا نام نہیں لیا.قرآن کے اس مقرر کردہ اصول کے ماتحت کہ وَاِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرُ 1 کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں نذیر نہ آیا ہو ہم سب کی عزت کرتے ہیں اور جہاں جہاں کوئی نبی آیا ہے اس کا احترام کرتے ہیں.فضیلت رسول الله له بر جملہ انبیاء لیکن باوجود اس اقرار کے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان سب نبیوں اور سب انسانوں کے جو آج تک پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے سردار جلد 2

Page 43

سيرة النبي علي 29 جلد 2 اور ان سے افضل اور اعلیٰ رسول کریم ﷺے ہیں.جب سے دنیا کا آغاز ہوا ہے اُس وقت سے لے کر کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا جو محمد ﷺ کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے اور کسی ذاکر نے خدا تعالیٰ کا اتنا ذکر اپنی زبان پر جاری نہیں کیا کہ اس مقام پر قدم رکھ سکے جہاں محمد ﷺ کا قدم تھا.خواہ کوئی نبی ہو یا غیر نبی ، رسول ہو یا غیر رسول، کوئی ہو، کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی تمدن کی اتباع کرنے والا ہو، کوئی زبان بولنے والا ہو صل الله محمد ﷺ کے مقابلہ میں ہرگز نہیں کھڑا ہو سکتا.صداقت عظمت رسول ع یہ صرف دعوی نہیں بلکہ صداقت اور صلى الله حقیقت ہے جس کے دلائل موجود ہیں.خالی دعوئی تو ہر شخص پیش کر سکتا ہے.ایک ہندو بھی کہہ سکتا ہے کہ تمہارا کیا حق ہے کہ محمد ) (ع) سب سے افضل ہے.ہمارے اوتارسب سے اعلیٰ ہیں.ہم احمدیت کے رو سے تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوؤں میں بھی اوتار گزرے ہیں مگر یہ نہیں مان سکتے صلى الله کہ محمد ملے سے کوئی اوتا رافضل گزرا ہے.مگر ایک ہندو کا حق ہے کہ وہ دعوی کرے کہ ہمارا فلاں اوتا رسب انسانوں سے افضل ہے.اسی طرح ایک عیسائی بھی کہتا ہے کہ یسوع مسیح محمد (ع) سے افضل ہے.یہودی بھی کہتا ہے کہ حضرت موسی سب سے افضل ہیں.اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے بزرگوں کو سب سے افضل بتاتے ہیں.لیکن ان کے اور ہمارے دعوی میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دعوی کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں مگر ان کے پاس اپنے دعوی کا کوئی ثبوت نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا نبی یا ہمارا اوتار یا ہمارا خداوند مسیح سب سے افضل ہے مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتے اور ہم جو کہتے ہیں کہ رسول کریم نے سب سے افضل ہیں تو اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں جو روز روشن کی طرح ظاہر ہے.ہاں اگر ہمارے پاس بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح ثبوت اور دلائل نہ ہوتے تو ہمارا بھی حق نہ تھا کہ یہ دعویٰ کرتے مگر خدا کے فضل سے ہمارے پاس ثبوت اور دلائل

Page 44

سيرة النبي علي 30 جلد 2 موجود ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں لیکن دوسرے لوگ محض ضد اور تعصب سے ایسا دعویٰ کرتے ہیں.ان کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنی ہی چیز کو اچھا کہے اور دوسروں کے پاس خواہ اس سے اچھی چیز موجود ہوا سے برا قرار دے.کرشمہ اُلفت و محبت کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا ایک دن جبکہ اس کا دربار لگا ہوا تھا اس نے اپنے ایک غلام کو ٹوپی دی اور کہا جولڑ کا سب سے خوبصورت ہو اس کے سر پر رکھ دو.وہ ٹوپی لے کر گیا اور اپنے میلے کھیلے لڑکے کے سر پر رکھ آیا جس کے ہونٹ بہت موٹے تھے، ناک بہہ رہی تھی اور آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں.بادشاہ نے اس سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا؟ اس نے کہا بادشاہ سلامت! مجھے یہی لڑکا سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے اس لئے اسی کے سر پر ٹوپی رکھ آیا ہوں.تو یہ عام قاعدہ ہے کہ اپنی ہی چیز کو اعلیٰ اور سب سے افضل قرار دیا جاتا ہے.کہتے ہیں کسی نے مجنوں کو کہا تھا کہ لیلی کوئی خوبصورت عورت نہیں ہے اس سے اعلیٰ درجہ کی اور کئی عورتیں ہیں تم اس پر کیوں مر رہے ہو؟ مجنوں نے کہا تمہاری نظر میں وہ خوبصورت نہ ہوگی اس کو میری آنکھوں سے دیکھو تو معلوم ہو.تو جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اس کا درجہ سب سے بڑھاتا ہے اور اس کو سب سے اعلیٰ قرار دیتا ہے.اسی طرح دوسرے مذاہب والے اپنے اپنے بزرگوں کو جو سب سے اعلیٰ اور افضل بتاتے ہیں تو محض محبت اور تعلق کی وجہ سے بتاتے ہیں مگر ان کے افضل اور اعلیٰ ہونے کا جب ان سے ثبوت طلب کیا جائے تو کچھ پیش نہیں کر سکتے.ثبوت صرف ہمارے پاس ہے جو ہم رسول کریم ﷺ کے سب سے اعلیٰ اور افضل ہونے کے متعلق پیش کر سکتے ہیں.ہمارے پاس رسول کریم ﷺ کے افضل ہونے کے ثبوت اور دلائل تو اتنے ہیں کہ اگر ان کو ہم پیش کرنا شروع کریں تو سالہا سال کا عرصہ درکار ہے.قرآن کریم سارے کا سارا رسول کریم علیہ کی افضلیت کے ثبوتوں سے بھرا ہوا ہے.زمین و آسمان آپ کی افضلیت کی شہادت دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ جو الله

Page 45

سيرة النبي علي 31 جلد 2 ہر ایک چیز کا خالق ہے اور اس کی تمام مخلوق شہادت پیش کر رہی ہے مگر چونکہ اس قدر وسیع باتوں کا سمجھنا اور اس وقت ان کا پیش کرنا آسان نہیں ہے اس لئے میں ایک ہی دلیل کو لیتا ہوں جو بہت بڑی ہے اور جس کا سمجھنا ہر ایک انسان کے لئے نہایت آسان ہے.وہ دلیل جو حضرت مسیح کے قول میں بیان کی گئی ہے چائی پر کھنے کا معیار حضرت مسیح انجیل میں فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے 2 جب کسی درخت کو پھل لگتے ہیں تو ان کے ذریعہ اس کی خوبی اور برتری معلوم ہوسکتی ہے.یہ ایک بالکل سچا واقعہ اور نیچر کا مقرر کردہ قاعدہ ہے جس کو حضرت مسیح نے بیان کیا ہے.مثلاً آم کے درخت کو کیکر کے درخت پر کیا فضیلت ہے؟ یہی کہ آم شیریں پھل دیتا ہے لیکن کیکر نہیں دیتا.پھر آم کے درختوں کی ایک دوسرے سے کیونکر قیمت بڑھتی ہے؟ اسی طرح کہ کوئی درخت کم پھل دیتا ہے اور کوئی زیادہ کسی کے پھل شیریں ہوتے ہیں اور کسی کے کھٹے.تو پھلوں کی وجہ سے ہی ایک درخت کو دوسرے درخت پر فضیلت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ایک کی قیمت دوسرے کی قیمت سے بڑھتی ہے.یہی حال اور دوسرے درختوں کا ہوتا ہے کہ جس غرض اور جس کام کے لئے وہ ہوتے ہیں اس کو جو اعلیٰ طور پر پورا کرتا ہے اس کو دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے اور جو اس غرض کو پورا نہیں کرتے ان کی کچھ فضیلت نہیں رہتی.دیکھو آم کا درخت پھل دینے چھوڑ دیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں ایک ایسے درخت کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو کوئی پھل نہیں دیتا کیونکہ اس کی لکڑی آم کی لکڑی کی نسبت مضبوط اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے.تو آم، انار اور اور درختوں کی قیمت ان کے پھلوں کی شیرینی پر لگتی ہے.مقابلہ آنحضرت علی بر دیگر انبیاء اس اصل کے ماتحت ہم محمد صلى الله رسول اللہ علی اور دوسرے

Page 46

سيرة النبي علم 32 جلد 2 انبیاء کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیا محمد ﷺ کو یہ فضیلت حاصل ہے یا نہیں کہ آپ کی تعلیم پھل اور نتائج کے لحاظ سے دوسروں سے اعلیٰ ہے.اگر آپ کی تعلیم کے پھل دوسرے انبیاء کی تعلیموں سے زیادہ اور اعلیٰ درجہ کے ہوں تو پھر آپ اعلیٰ اور افضل ہونے میں بھی شک و شبہ نہیں رہ جاتا لیکن اگر آپ کی تعلیم کے پھل اور ثمرات اور فوائد پہلے نبیوں کی تعلیموں سے کم ہوں تو آپ بھی ان نبیوں سے کم درجہ کے ہوں گے.صل الله اس اصل کے ماتحت ہم رسول کریم ﷺ کی تعلیم کو دیکھتے ہیں اور موٹی موٹی چند ایک مثالیں لیتے ہیں کہ آدمی کو درختوں کی طرح میوے نہیں لگا کرتے بلکہ اس کے پھلوں سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جو تعلیم وہ دیتا ہے اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوتا ہے اور اس کی تعلیم سے کیسے لوگ تیار ہوتے ہیں.اس بات کا موازنہ کرنے کے لئے ہم تین نبیوں کو لیتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ 3 کہ میں آدم کے تمام بیٹوں کا سردار ہوں.اس دعوی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ہم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی اور آنحضرت ﷺ کا مقابلہ کرتے ہیں.حضرت موسی اور حضرت عیسی خدا تعالیٰ کے نبی تھے جیسا کہ خود خدا تعالیٰ نے بتایا ہے اس لئے ان کے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پیارے ہونے سے کس طرح انکار کیا جاسکتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کا محمد میے کے مقابلہ میں کیا درجہ ہے؟ اس کے لئے ہم ان کے پھلوں کو دیکھتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ حضرت موسی کی تعلیم کو کیسے پھل لگے اور حضرت عیسی کی تعلیم کو کیسے اور رسول کریم ﷺ کی تعلیم کو کیسے.یہ سب انبیاء چونکہ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے تھے اس لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کس نبی نے اپنی تعلیم کے ذریعے ایسی جماعت تیار کی جو تقویٰ اور طہارت میں سب سے بڑھ گئی اور کوئی جماعت اس کا مقابلہ نہ کر سکی.جس نبی کی تیار کردہ جماعت ایسی ثابت ہو جائے گی وہ سب سے بڑھ جائے گا خواہ وہ عیسی ہو خواہ موسی.اگر محمد عے کی

Page 47

سيرة النبي عل الله 33 جلد 2 تیار کردہ جماعت قربانی اور ایثار، تقویٰ و طہارت، نیکی اور بھلائی میں سب سے بڑھ کر ثابت ہو تو خواہ دنیا کچھ کہے اور کسی کو افضل ٹھہرائے دلائل اور ثبوت ہی پکار پکار کر کہیں گے کہ محمد ﷺ ہی سب سے افضل ہیں اور کوئی نہیں جو ان کی شان کو پہنچ سکے.اثرات تعلیم رسول و تعلیم انبیاء، اب ہم ان انما علیم السلام کی تعلیموں کے نتائج کا موٹا سا مقابلہ کرتے ہیں.حضرت موسی آئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کو تبلیغ کی.کسی قوم اور جماعت کی فرمانبرداری اور اطاعت کا پتہ مشکلات اور مصائب کے وقت ہی لگا کرتا ہے.قصہ مشہور ہے کہ ایک پور بیا مر گیا اور اس کی بیوی نے ماتم شروع کیا کہ ہائے فلاں.اس نے اتنا روپیہ لینا تھا وہ کون لے گا؟ ایک دوسرا پور بیا بولا ”اری ہم“.پھر اس نے کہا فلاں جائیداد کا کون انتظام کرے گا ؟ اسی نے کہا ”اری ہم “.اسی طرح کہتے کہتے جب اس نے یہ کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا ؟ تو کہنے لگا میں ہی بولتا جاؤں کوئی اور بھی بولے گا یا نہیں ؟ تو ایسے تو بہت لوگ ہوتے ہیں جو لینے اور فائدہ اٹھانے کے وقت آگے بڑھتے ہیں لیکن مشکل کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں.اس لئے اصل قربانی اور محبت کا پتہ مشکلات کے وقت ہی لگتا ہے.حضرت موسی کی جماعت کا ایک واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام واقعہ قرآن میں آتا ہے اور بائبل میں بھی مذکور ہے.اس لئے جب کہ نہ مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں اور نہ عیسائی تو پھر اور کسی کو اس کا انکار کرنے کا کیا حق ہے.واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسی کو ایک ایسی قوم سے مقابلہ آپڑا جو بڑی زبر دست اور طاقتور تھی.تو حضرت موسی نے اپنی قوم کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کا حکم دیا مگر ان کی قوم نے یہ دیکھ کر کہ ہمارا دشمن بڑا طاقتور ہے کہا کہ اس سے ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں.حضرت موسیٰ نے کہا تم خدا کا نام لے کر چلو تو سہی خدا ہمیں مدد دے گا.اس کے جواب میں انہوں

Page 48

سيرة النبي علي 34 جلد 2 نے کہا اے موسی ! ہم تو اس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہرگز نہ جائیں گے.تیرا خدا اور تُو جا اور جا کر لڑ و4.بائبل سے ثابت ہے کہ حضرت موسی کی جماعت کا ایک بہت قلیل حصہ مقابلہ کے لئے تیار ہوا اور باقی ساری کی ساری قوم پیچھے رہ گئی 5.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسی کی جماعت کے اکثر حصہ کی حالت یہ ہوئی کہ اس نے ان کو کہہ دیا کہ تو اور تیرا خدا جا کر لڑو ہم نہیں جائیں گے.ان کے بعد ہم حضرت عیسی کی ایک واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام طرف آتے ہیں.وہ دنیا میں آئے اور انہوں نے لوگوں کی اصلاح کی جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے.مگر اس وقت ہمیں مقابلہ کر کے یہ دیکھنا ہے کہ ان کا کام رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں کیسا تھا.ان کی جماعت میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ جب دشمن نے حضرت عیسی کو پکڑنا چاہا تو اُس وقت ان کے بڑے حواری سے جس کو انہوں نے اپنی جماعت کا امام بنایا ہوا تھا جب پوچھا گیا کہ تو عیسی کو جانتا ہے؟ تو اس نے یہ دیکھ کر کہ میں بھی پکڑا جاؤں گا کہا کہ میں تو اس پر لعنت کرتا ہوں 6 تو بجائے اس کے کہ وہ اس وقت یہ کہتا کہ ہاں میں اسے جانتا ہوں جو اس کا حال ہوگا وہی میرا ہو گا.وہ کہتا ہے کہ میں اسے جانتا ہی نہیں اور پھر اس پر بس نہیں کرتا بلکہ لعنت کرتا ہے.ایک واقعہ نبی اکرم مع ان واقعات کے مقابلہ میں رسول کریم میں نے کی تیار کردہ جماعت کو دیکھتے ہیں.رسول کریم ہے اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور مدینہ آ کر مدینہ والوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو مدینہ والے اس کے مقابلہ میں لڑیں گے اور اگر باہر جا کر لڑنا پڑا تو ان پر لڑ نا فرض نہ ہوگا لیکن جب احد کی لڑائی کا وقت آیا اور دشمن نے مدینہ پر حملہ کرنا چاہا تو صحابہ میں مشورہ ہوا اور یہ قرار پایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑیں تا کہ لڑائی کے لئے کھلا میدان مل جائے.لیکن مشکل یہ تھی

Page 49

سيرة النبي علي 35 جلد 2 کہ دشمن کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.دشمن کے پاس تین ہزار تجربہ کا رسپاہی تھے اور مسلمانوں کے صرف ایک ہزار آدمی تھے جن میں سے اکثر لڑائی سے ناواقف تھے.کیونکہ مدینہ کے لوگ لڑائی کرنا نہ جانتے تھے.وہ زمینداری اور زراعت میں مصروف رہتے تھے اور جس طرح ہمارے ملک میں رواج ہے کہ غلطی سے پیشوں کی وجہ سے لوگوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے اسی طرح ان کو حقیر سمجھا جاتا تھا اور ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ کیا لڑیں گے.یہ لوگ بھی اس ایک ہزار کی تعداد میں شامل تھے.پھر اس میں تین سو لوگ ایسے تھے جو منافق تھے اور جن کو سب مسلمان جانتے تھے کہ ہمیں گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں.اس لئے مسلمان سمجھتے تھے کہ ہماری تعداد دشمن کے مقابلہ میں بہت تھوڑی ہے.رسول کریم ﷺ نے صحابہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ مشورہ دو باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کریں یا اندر سے ہی؟ آخر فیصلہ ہوا کہ باہر جا کر مقابلہ کرنا چاہئے.آپ نے بدر کے موقع پر بھی فرمایا تھا کہ ہاں مشورہ دو جس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ انصار بولیں کہ ان کا کیا ارادہ ہے کیونکہ ان سے معاہدہ تھا کہ اگر باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا تو وہ نہ جائیں گے.اس پر ایک انصاری اٹھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ ہم بولیں ہم نے جب آپ کو خدا کا رسول مان لیا تو اب کیا ہے اگر آپ ہمیں کہیں گے کہ سمندر میں گھوڑے ڈال دو تو ہم ڈال دیں گے 7 ہم موسی کی جماعت کی طرح نہ کہیں گے کہ جا تُو اور تیرا خدا جا کر لڑو.بلکہ جب تک دشمن ہماری لاشوں کو روند کر آپ تک نہیں آئے گا ہم اسے نہیں آنے دیں گے 8.مَابِهِ الْاِمتیاز کی تین شہادت یہ تھا پھل محمد علیہ کی تعلیم کا اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اب دیکھ لوکس کے پھل اعلیٰ ہیں.آیا موسی کے جنہوں نے کہہ دیا تھا کہ تُو اور تیرا خدا جا کر لڑو ہم نہیں جائیں گے یا عیسی کے جس کے خاص حواری نے ان پر لعنت کی تھی یا محمد ﷺ کے

Page 50

سيرة النبي ع 36 جلد 2 جنہوں نے باوجود باہر جا کر نہ لڑنے کا معاہدہ کیا ہوا تھا یہ کہا کہ اگر دشمن آپ تک پہنچے گا تو ہماری لاشوں کو روند کر ہی پہنچے گا.جیتے جی ہم اسے آپ تک نہ آنے دیں گے.کوئی کہہ سکتا ہے جوش میں آکر لوگ اس طرح کہہ ہی دیا کرتے ہیں لیکن جب مصیبت آپڑتی ہے تب یہ جوش قائم نہیں رہتا مگر انہوں نے یہ زبان سے ہی نہ کہا بلکہ لڑائی میں بھی گئے اور خدا تعالیٰ نے ان کے دعوی کو سچا کرنے کے لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ رسول کریم ہے دشمن کے نرغے میں گھر گئے اور ایسے خطرناک طور پر صلى الله گھر گئے کہ عام خبر مشہور ہوگئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.اس وقت ان لوگوں کی کیا حالت ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک انصاری حضرت عمرؓ سے جنہوں نے سر نیچے ڈالا ہوا تھا آکر پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ وہ کہتے ہیں رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے.یہ سن کر وہ انصاری کہتے ہیں کہ اگر محمد ہے اس دنیا سے چلے گئے ہیں تو ہمارے یہاں رہنے کا کیا فائدہ.چلو! ہم بھی چلیں اور لڑ کر مر جائیں.یہ کہہ کر وہ گئے اور لڑ کر مارے گئے اور اس سختی سے لڑے کہ جب ان کی لاش کو دیکھا گیا تو اس پرستر زخم لگے ہوئے تھے 9.پھر اور اخلاص کا نمونہ دیکھئے جب دشمن تیر پر تیر رسول کریم ے کو مار رہا تھا تو چند صحابہ آپ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے جن کی پیٹھیں تیروں سے چھلنی ہو گئیں.کسی نے ایک صحافی سے پوچھا جب تم پر تیر پڑتا تھا تو کیا تم اف بھی نہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا میں اُف اس لئے نہ کرتا تھا کہ کہیں میرا جسم نہ ہل جائے صلى اور تیر رسول کریم ﷺ پر جا پڑے..اخلاص مستورات مؤمنین یہ تو لڑنے والوں کا حال تھا جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ مرد بہادر ہوا ہی کرتے ہیں مگر یہ اخلاص مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ عورتوں میں بھی ایسا ہی پایا جاتا تھا.یہی لڑائی جس میں مشہور ہوا کہ رسول کریم ہے شہید ہو گئے جب ختم ہوئی اور لوگ مدینہ کو واپس لوٹے تو ادھر مدینہ کے بچے اور عورتیں رسول کریم ﷺ کی شہادت کی خبر سن کر

Page 51

سيرة النبي علي 37 جلد 2 الله دیوانہ وار باہر نکلے.لڑائی سے واپس آنے والے لوگ آگے آگے جا رہے تھے ان میں سے ایک عورت بے تحاشا آ کر پوچھتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟ اس الله کے دل میں چونکہ رسول کریم عملے کے متعلق اطمینان اور تسلی تھی اس نے اس بات کو معمولی سمجھ کر کہا تمہارا باپ مارا گیا.عورت نے کہا میں نے پوچھا ہے کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا تمہارا بھائی مارا گیا.عورت نے کہا میں یہ پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے.عورت صلى الله صلى الله صلى الله صلى الله صلى الله نے کہا میری بات کا تم کیوں جواب نہیں دیتے ، میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ کے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں.یہ سن کر اس عورت نے کہا شکر صلى الله ہے خدا کا.اگر رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں تو ہمیں اور کسی کی پرواہ نہیں 10.اس بات کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس نے عورتوں کا جزع فزع دیکھا ہو کہ اگر کسی عورت کا ایک دن کا بچہ بھی مر جاتا ہے تو کس قدر روتی ہے.مگر اس عورت کا سارے کا سارا خاندان کہ جس پر اس کا آسرا تھا مارا جاتا ہے وہ کہتی ہے کہ اگر رسول الله ﷺ زندہ ہیں تو کوئی حرج نہیں.یہ رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ تھی جس نے مردوں اور عورتوں میں ایسا اخلاص بھر دیا اور یہ آپ کے سب سے افضل ہونے کا ثبوت ہے جو اور کوئی قوم اپنے نبی کے متعلق پیش نہیں کر سکتی.پس ثابت ہو گیا که محمد اللہ ہی سب انبیاء سے افضل ہیں اور آپ کا درجہ ہر بات میں دوسروں سے بڑھ کر ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے جو جماعت تیار کی اس کے مردوں،عورتوں حتی کہ بچوں میں ایسا اخلاص اور محبت پائی جاتی ہے جس کا نمونہ اور کہیں نہیں مل سکتا.دومسلم بچوں کی بہادری بدر کی لڑائی میں دو پندرہ پندرہ برس کے لڑکوں صلى الله نے بڑی کوشش سے رسول کریم ﷺ سے لڑائی میں شامل ہونے کی اجازت حاصل کی.ایک صحابی کہتے ہیں کہ لڑائی کے وقت یہ دونوں لڑکے میرے دائیں بائیں کھڑے تھے اور میں یہ خیال کر رہا تھا کہ آج میں کس

Page 52

سيرة النبي الله 38 جلد 2 طرح لڑوں گا.میرے ساتھ اگر بہادر سپاہی ہوتے تو میں لڑسکتا اب کیا کروں گا.میں ابھی اس خیال میں تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری اور جب میں اس کی طرف صلى الله متوجہ ہوا تو اس نے پوچھا ابو جہل کہاں ہے جو رسول کریم ﷺ کو بہت دکھ دیا کرتا ہے.میں ابھی اس کو جواب نہیں دینے پایا تھا کہ دوسرے نے آہستہ سے پوچھا تا دوسرا نہ سن لے چا! ابو جہل کون سا ہے؟ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کو ماروں.یہ صحابی عبد الرحمن بن عوف تھے جو بڑے بہادر اور جری تھے.وہ کہتے ہیں کہ یہ خیال میرے دل میں بھی نہ تھا کہ میں ابو جہل کو ماروں.مگر میں نے ابھی ابو جہل کی طرف اشارہ ہی کیا تھا کہ دونوں لڑکے میرے دائیں اور بائیں سے چیل کی طرح جھپٹے اور دشمن کے لشکر میں گھس کر ابو جہل کو جا ما را 11.دیکھو یہ پندرہ پندرہ برس کے لڑکے تھے.اس نور کے بغیر جو ان کو حاصل تھا اس عمر کے لڑکے کیا کرتے ہیں؟ یہی کہ شہر کے لڑکے انگریزی کھیلیں کھیلتے ہیں اور گاؤں کے لڑکے دیہاتی کھیلیں.مگر وہ اپنی جان کی کھیل کھیلتے ہیں اور ایسی بہادری سے کھیلتے ہیں کہ بڑے بڑے بہادر حیران ہو جاتے ہیں.یہ نظارہ ایک عقلمند اور سمجھدار انسان کو بہت بڑے نتیجہ پر پہنچاتا ہے اور وہ یہ کہ محمد یہ سب انبیاء وہ سے افضل تھے اور کوئی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پھر قرآن بھی یہی کہتا ہے اور خود رسول کریم بھی یہی فرماتے ہیں کہ میں سب انسانوں کا سردار ہوں.جب ہم اس نتیجہ پر پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ جو نبی سب سے افضل ہے وہی سب سے خدا کا پیارا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ رسول اللہ سے پیار اور محبت کے متعلق فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 12 محمد تو ہمارا ایسا محبوب ہے کہ جو اس کی فرمانبرداری کرے وہ بھی ہمارا محبوب ہو جاتا ہے.“ 1: فاطر: 25 ( صداقت احمدیت صفحه 1 تا 13 مطبوعہ قادیان بارثانی) 2 متی باب 7 آیت 16 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1922ء

Page 53

سيرة النبي علي 39 جلد 2 3: ابن ماجه كتاب الزهد باب ذكر الشفاعة صفحه 629،628 حدیث نمبر 4308 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 4: المائدة : 25 5: استثناء باب 1 آیت 26 تا 33 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1922ء متی باب 26 آیت 74 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1922ء 87 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 675 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 9: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 862 زیر عنوان شأن انس بن النضر مطبوعہ دمشق $2005 :10 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 880 زیر عنوان شأن المرأة الدينارية : مطبوعہ دمشق 2005 ء 11: بخاری کتاب المغازى باب فضل من شهد بدراً صفحه 673 حدیث نمبر 3988 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 12: آل عمران: 32

Page 54

سيرة النبي الله 40 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا اپنی نبوت کی بابت حلف رسول کریم ﷺ کی سیرت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود اپنے لیکچر فرمودہ 19 جنوری 1920ء میں فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ کا ادب جس انسان کے دل میں ہوتا ہے اس کی عجیب حالت ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم معدے کے پاس آیا اور آ کر کہا آپ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نبی ہیں.آپ نے فرمایا میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا کا نبی ہوں.یہ سن کر اس نے کہا میں آپ کو قبول کرتا ہوں.یہ بھی ادب کی ایک حد ہے لیکن یہ ادب بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے عام لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے دعوی کو چھوڑ کر باقی خوبیاں تو مانتے جاتے ہیں لیکن دعوی کی طرف توجہ نہیں کرتے.“ ( صداقت احمدیت صفحہ 15 مطبوعہ قادیان بار دوم )

Page 55

سيرة النبي الله 41 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت حضرت مصلح موعود نے بریڈ لاء ہال لاہور میں 15 فروری 1920ء کو ایک تقریر کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے“ کے عنوان سے فرمائی.اس میں آپ نے صحابہ کرام کے اندر جرات، اخلاص اور دلیری جو کہ رسول کریم ﷺ نے ان کے اندر پیدا کی تھی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.”دنیا کی جو عمر اس وقت کے موجودہ علوم کے رو سے تجویز کی گئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا صرف تیرہ سو سال ہوئے ہیں کہ عرب کے ملک میں جو دنیا کے تمام آرام و آرائش کے سامانوں سے معرا اور خالی تھا ایک ایسا شخص پیدا ہوا جو ظاہری علوم کے لحاظ سے اپنا نام لکھنا بھی نہ جانتا تھا.اس پر خدائے ذوالجلال نے اپنا جلوہ ڈالا اور اس کے منہ سے ایک آواز بلند کروائی اور دنیا کو اس کے ذریعہ اپنی محبت اور پیار کی اطلاع دی.وہ شخص اور اس کی پیدا کی ہوئی جماعت کیسی تھی اور کن امنگوں کو لے کر اٹھی تھی ، اس کی ہمت کتنی بلند تھی اور اس کے حوصلے کس قدر وسیع اور کتنے بڑھے ہوئے تھے اس کا پتہ اس چھوٹے سے معاملہ سے لگ سکتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کہ مردم شماری کرو کہ مسلمان کتنے ہیں.چونکہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اس لئے بہت کم لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے جو چند سو سے زیادہ نہ تھے.مگر وہ ہمت اور جرأت، وہ اخلاص اور دلیری جو محمد ﷺ نے اپنے پیروؤس میں ڈال دی تھی اور وہ امنگیں اور آرزوئیں جو ان کے دلوں میں موجزن تھیں وہ معمولی نہ تھیں.چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا

Page 56

سيرة النبي عالي 42 جلد 2 کہ مسلمانوں کی مردم شماری کرو اور کی گئی تو کل سات سو مسلمان نکلے.تاریخ میں آتا ہے کہ گل سات سو مسلمان جو اس زمانہ کی طاقتوں کا لحاظ کر کے اتنے قلیل تھے کہ ان کو ایک جماعت کہنا بھی مشکل تھا ان کے حو صلے اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ایک صحابی نے رسول کریم ﷺ کو کہا کہ یہ جو آپ نے مردم شماری کرائی ہے اور ہم سات سو نکلے ہیں کیا اب بھی آپ کو خطرہ ہے کہ ہمیں دنیا مٹا سکتی ہے اور ہم دنیا سے مٹ سکتے ہیں 1.یہ کبھی نہیں ہوسکتا.ساری دنیا کو روحانی طور پر فتح کرنے والوں کی یہ تعداد تھی مگر ان کی ہمت اور جرات اتنی بلند تھی کہ کہتے ہیں کہ کیا ہم سات سو ہو کر دنیا سے مٹ سکتے ہیں اور اتنی تعداد کو دنیا مٹا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.دراصل یہ وہ تعداد نہیں بول رہی تھی اور یہ آواز اس تعداد کی طرف سے نہیں آ رہی تھی اس بات کو کوئی عقل مند تسلیم نہیں کر سکتا یہ وہ ایمان، وہ یقین اور وہ اخلاص بول رہا تھا جو ان کے دلوں میں تھا اور اس اخلاص کو لے کر جب وہ اٹھے اور اس ہمت بلند کے ساتھ اٹھے تو تمام دنیا میں پھیل گئے اور کوئی روک ان کے راستہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکی.“ غیر مطبوعہ تقریر فرموده 15 فروری 1920 ء از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) :1 مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالایمان صفحه 75 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 57

سيرة النبي الله 43 جلد 2 عقیدہ حیات مسیح رسول کریم ﷺ کی ہتک اسلامی عقائد صحیحہ کے پر کھنے کا معیار تقریر ( مطبوعہ مارچ 1920 ء) میں حضرت مصلح موعود حیات مسیح کے عقیدہ کو رسول کریم ﷺ کی افضلیت کے منافی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :."حضرت عیسی کی وفات سے رسول کریم اب دیکھئے اس زمانہ میں جس انسان نے خدا کی طرف صلى الله ماہ کی عزت بڑھتی ہے یا حیات سے سے ہونے کا دعوی کیا اس صلى الله نے پہلی بات یہ پیش کی ہے کہ حضرت عیسی جن کو خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا فوت ہو گئے ہیں اور میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے آیا ہوں.اس کے متعلق ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات میں اور ان کے دوبارہ آکر رسول کریم ﷺ کی امت کی اصلاح کرنے میں رسول کریم ﷺ کی عزت ہے یا ہتک؟ اگر ہتک ہو تو ہم اس عقیدہ کو ہرگز درست تسلیم نہ کریں گے کیونکہ رسول کریم کی افضلیت ہر طرح سے دلائل کے ساتھ ثابت ہے.دیگر مذاہب کے لوگوں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اپنے بزرگوں کو جو افضل نہیں ہیں سب انسانوں سے افضل قرار دیتے ہیں مگر ہمیں تو خدا تعالیٰ نے سردار ہی ایسا دیا ہے کہ اس کی جتنی بھی عزت و توقیر کریں تھوڑی ہے اور اس کو سب سے افضل کہنا بالکل سچ ہے.لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس بات کو مدنظر رکھ کر بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں اور کہیں کے کہیں نکل گئے ہیں.اس وقت ہم اس بات کو لیتے ہیں کہ حضرت عیسی کی وفات میں رسول کریم ﷺ کی

Page 58

سيرة النبي الله 44 جلد 2 افضلیت ہے یا ان کی زندگی میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ نے ان کے دشمنوں سے بچانے کے لئے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اس وقت تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے 63 سال کی عمر میں وفات دے دی اور آپ اسی زمین میں مدفون ہیں.آپ کو اپنی زندگی میں کئی تکلیفیں پیش آئیں.مکہ سے آپ کو نکلنا پڑا.لڑائیوں میں آپ کو زخم لگے.دشمنوں نے آپ کو تنگ کیا.لیکن اس ساری زندگی میں خدا تعالیٰ نے انہیں آسمان چھوڑ پہاڑ پر بھی نہ اٹھایا.حضرت عیسی پر تو جب ایک مشکل وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا لیکن محمد ﷺ پر دکھ پر دکھ آئے ، مصیبتوں پر مصیبتیں پڑیں مگر خدا تعالیٰ نے انہیں اسی زمین میں رکھا آسمان پر نہ اٹھایا.اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد نے کی تو یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ رات اور دن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے سوا انہیں کوئی کام ہی نہیں اور خدا تعالیٰ کے سوا انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا.حتی کہ عیسائی بھی کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کو اور تو خواہ کچھ کہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا، سوتا جاگتا ، صبح و شام، شادی غمی حتی کہ میاں بیوی کے تعلقات میں، کپڑے پہنتے وقت ، پاخانہ پھرتے وقت غرض کہ ہر گھڑی اور ہر لحظہ میں خدا کا ہی نام لیتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا کے متعلق اسے جنون تھا.تو وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی محبت میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک عیسائی کہتا ہے کہ خدا کا اس کو جنون ہو گیا تھا اس کی تو خدا تعالی مشکلات اور تکالیف میں اس طرح مدد نہیں کرتا کہ آسمان پر اٹھائے لیکن حضرت عیسی کو جب ذرا تکلیف آتی ہے تو خدا انہیں آسمان پر اٹھا لیتا ہے.پھر محمد کو تو دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لئے راتوں رات مکہ سے جانا اور ایک غار میں چھپنا پڑتا ہے مگر حضرت عیسی کے لئے خدا تعالیٰ مکان کی چھت پھاڑ کر انہیں آسمان پر اٹھا لیتا ہے.اب بتاؤ ان دونوں میں سے خدا تعالیٰ کا زیادہ پیارا اور عروسة

Page 59

سيرة النبي علي محبوب کون ہوا ؟ 45 جلد 2 اس سے تو خدا تعالیٰ پر الزام حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے سے خدا پر الزام آتا ہے کہ جب مرے علی پیار اور محبت میں سب سے بڑھ گئے تھے تو کیوں خدا تعالیٰ نے ان سے سب سے زیادہ پیار اور محبت ظاہر نہ کی اور ان کے مقابلہ میں کیوں حضرت عیسی سے اپنی محبت اور پیار کا زیادہ ثبوت دیا.چاہئے تو یہ تھا کہ جب محمد کے پیار میں سب سے بڑھ گئے تھے تو خدا تعالیٰ بھی انہی کے ساتھ اپنی زیادہ محبت کا ثبوت دیتا اور مشکلات کے وقت انہیں آسمان پر اٹھا لیتا.صحابہ کے دل میں آنی طور پر یہ بات آئی بھی ہے کہ یہ انسان ایسا نہیں ہے کہ زمین پر وفات پائے.چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے وفات پائی تو حضرت عمر جیسا جلیل القدر صحابی تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ جس نے یہ کہا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا.وہ تو آسمان پر گئے ہیں اور پھر آئیں گے.اُس وقت اس کے خلاف کہنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی اور سب خاموش ہو گئے کہ اتنے میں حضرت ابو بکر آئے اور سیدھے اندر چلے گئے.جب جا کر دیکھا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں تو باہر آ گئے اور لوگوں کو بلا کر کہا سنو ! وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ 1 که محمد نہیں تھے مگر اللہ کے رسول.آپ سے پہلے رسول فوت ہو گئے.اگر آپ بھی فوت ہو گئے تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ یہ رسول ہی تو ہیں خدا نہیں.اگر خدا ہوتے تو ہمیشہ زندہ رہتے.پھر انہوں نے کہا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ سن لے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرتا.اور جو محمد کی عبادت کرتا ہے وہ دیکھ لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.اس طرح انہوں نے بتایا کہ جو یہ کہتا ہے کہ الله

Page 60

سيرة النبي ع 46 جلد 2 رسول کریم ﷺ فوت نہیں ہوئے وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے جس پر موت نہیں آ سکتی.رسول تو پہلے بھی فوت ہو گئے ہیں اور یہ بھی فوت ہو گئے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ واقعہ میں رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے صلى الله ہیں اور یہ بات میرے ذہن میں آنی تھی کہ میں لڑکھڑا کر گر پڑا2.اُس وقت پھر حضرت حسان مرثیہ پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں جئے.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِئُ فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ 3 ہمارا تو سب کچھ محمد (ﷺ) ہی تھا جب وہ فوت ہو گیا تو ہمیں کیا کوئی مرے یا صلى الله پس اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ کی افضلیت اسی صورت میں ثابت علیہ ہو سکتی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ سے پہلے کوئی رسول زندہ نہیں رہا.ورنہ ایک سچا مومن کس طرح یہ برداشت کر سکتا ہے کہ محمد ہو تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسی اس وقت تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہوں.طبعی عمر کے متعلق تو ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی نبی کو زیادہ دے دے اور کسی کو کم مگر غیر طبعی طور پر ایک نبی کو زندہ بٹھائے رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو چونکہ اس نبی کی زیادہ ضرورت تھی اس لئے اس کو زندہ رکھا ہے اور دوسرے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لئے اسے وفات دے دی.اس سے رسول کریم ﷺ کی شان پر اتنا بڑا حملہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان اس کو ٹھنڈے دل سے برداشت نہیں کر سکتا.کیا خدا حضرت عیسی کو زندہ اٹھا لینے پر قادر نہیں عام لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ حضرت عیسی کو آسمان پر زندہ رکھنے پر قادر نہیں؟ ہم کہتے ہیں قادر ہے مگر

Page 61

سيرة النبي عالم 47 جلد 2 دیکھنا یہ ہے کہ اس کی کوئی قدرت ظاہر کس طرح ہوتی ہے.اس کی قدرت یہ ہے کہ محمد ﷺ کی افضلیت ظاہر کرے.پھر اس کے خلاف کس طرح ہوسکتا ہے.لیکن میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت بھی حضرت عیسی کو اس طرح سنبھال کر رکھنے کے خلاف ہے.دیکھو! ایک غریب آدمی اپنے کپڑوں کو خواہ وہ کتنے پرانے ہوں سنبھال کر رکھتا ہے تا کہ پھر کام آئیں لیکن امیر اپنے پرانے کپڑے اوروں کو دے دیتا ہے.اسی طرح غریب انسان ایک دفعہ کا پکا ہوا کھانا سنبھال کر رکھتا ہے کہ پھر کھا لوں گا لیکن امیر ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب بھوک لگے گی اُس وقت پھر تازہ پکوالوں گا.اب حضرت عیسی کو سنبھال کر رکھنے کا یہ مطلب ہوا کہ خدا سے اتفاقاً حضرت عیسی ایک بہت اعلیٰ درجہ کے نبی بن گئے تھے اور پھر وہ کوئی ایسا نبی نہیں بنا سکتا تھا اس لئے ان کو سنبھال کر زندہ آسمان پر رکھ دیا کہ جب دنیا میں فتنہ و فساد پھیلے گا تو ان کو بھیج دوں گا.پہلے تو میں نے بتایا ہے کہ حضرت عیسی کو زندہ ماننے میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے.اب اس سے ظاہر ہے کہ ان کو زندہ ماننے والے خدا تعالیٰ کی ہتک تک بھی پہنچ گئے.کسی نے کہا ہے :.زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا اس طرح حضرت عیسی کو زندہ مان کر خدا تعالیٰ پر حملہ کر دیا گیا.ہم کہتے ہیں کیا وہ خدا جس نے حضرت عیسی کے بعد محمد یا ہے جیسا عظیم الشان نبی پیدا کیا وہ پھر حضرت عیسی جیسا نبی نہیں پیدا کر سکتا تھا ؟ ضرور کر سکتا تھا.پس اس کو ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسی کو زندہ رکھ کر اپنی قدرت پر حرف آنے دیتا.غرض حضرت عیسی کی حیات کا حیات مسیح کے عقیدہ کی بنیاد کب پڑی عقیدہ نہ صرف اسلام اور رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی ہتک کرنے والا ہے.اور اس کی بنیاد اس وقت پڑی جبکہ مسلمانوں میں عیسائی شامل ہونے لگے.ان کی وجہ

Page 62

سيرة النبي عالم 48 جلد 2 سے مسلمانوں میں بھی یہ عقیدہ داخل ہو گیا ور نہ کئی بڑے بڑے بزرگوں کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں.تو غلطی میں آ کر مسلمانوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا ورنہ مجھے خیال بھی نہیں آتا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر ایسا عقیدہ رکھتا.دراصل انہوں نے اس طرف خیال ہی نہیں کیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.اگر انہیں علم ہوتا کہ اس 66 سے رسول کریم ﷺ کی سخت ہتک ہوتی ہے تو وہ کبھی اسے اختیار نہ کرتے.“ 1: آل عمران: 145 ریویو آف ریلیجنز مارچ 1920 ، صفحہ 94 تا 99) 2:بخاری کتاب المغازی باب مرض النبى الله و ووفاته صفحه 757 حدیث نمبر 4454 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3 شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه 103 مطبوعہ بیروت 1994 الطبعة الثانية

Page 63

سيرة النبي الله 49 جلد 2 صلى الله سیرت نبوی ﷺ کی چند جھلکیاں حضرت مصلح موعود نے 10 اپریل 1920 ء کو سیالکوٹ کے ایک پبلک جلسہ میں تقریر فرمائی جس میں سیرت نبوی ﷺ پر حسب ذیل انداز میں روشنی ڈالی.فرمایا:.”رسول کریم عمل ہے جن کی طرف تمام مسلمان کہلانے والے لوگ خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ اُس زمانہ کی نسبت آپ کے دوست و دشمن سب اقرار کرتے ہیں کہ اُس سے بڑھ کر تاریک زمانہ تاریخ میں نہیں پایا جاتا.وہ زمانہ تاریکی اور جہالت، بے دینی اور خدا تعالیٰ سے دوری کے لحاظ سے تمام گزشتہ زمانوں سے بڑھا ہوا تھا.ہر مذہب اور ہر ملت میں ایسا اختلال اور کمزوری واقع ہوگئی تھی کہ علاوہ اس بات کے کہ کون سا مذہب سچا ہے اور کون سا جھوٹا اخلاقی طور پر ہر ایک مذہب کے مدعی ایسے گر گئے تھے کہ کوئی مذہب اپنے پیروؤں پر فخر نہیں کر سکتا تھا.اس زمانہ میں دنیا کی درستی اور اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ نے رسول کریم مبعوث فرمایا.رسول کریم ع کی عظم جس طرح وہ زمانہ سب سے زیادہ تاریک، علي سب سے زیادہ جہالت اور سب سے زیادہ صلى الله خدا تعالیٰ سے دوری کا زمانہ تھا اسی طرح اُس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے سب انبیاء سے بڑا بنایا اور سب سے زیادہ چمکتا ہوا نو ر اور روشنی آپ کو دی کیونکہ جتنی بڑی مرض ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا علاج کیا جاتا ہے.جتنی بھوک ہوتی ہے اسی

Page 64

سيرة النبي الله 50 جلد 2 کے مطابق کھانا تیار کیا جاتا ہے اور جتنا لمبا قد ہوتا ہے اسی کے مطابق لباس تیار کیا جاتا ہے.ایک ہوشیار اور سمجھدار درزی طویل القامت انسان کے لئے ایک چھوٹے بچہ کے قد کے مطابق لباس تیار نہیں کرتا.ایک قابل اور عظمند ڈاکٹر کسی خطر ناک بیماری کے لئے بے تو جہی سے نسخہ نہیں لکھتا نہ اتنی مقدار میں دوائی تجویز کرتا ہے جس سے مریض کو کچھ فائدہ نہ ہو بلکہ کافی مقدار میں تجویز کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کی عظمت کی وجہ پس جبکہ دنیا کے تمام کے تمام مؤرخ اور سب سمجھدار لوگ خواہ وہ کسی مذہب اور کسی ملت سے تعلق رکھتے ہوں تسلیم کرتے ہیں اور اس زمانہ کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ اُس زمانہ میں سب سے زیادہ تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی تھی ، سب لوگ اپنے اپنے مذہب کو چھوڑ چکے تھے، ان کے اخلاق و عادات بگڑ چکی تھیں تو ایسے خطر ناک زمانہ میں ضروری تھا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے وہی انسان آتا جو سب سے زیادہ نیکی اور تقویٰ، پاکیزگی اور طہارت میں بڑھا ہوا ہوتا.کیونکہ جب ایک معمولی درزی لمبے قد کے لئے چھوٹا کپڑا نہیں سیتا ، ایک معمولی طبیب خطر ناک بیماری کا معمولی علاج تجویز نہیں کرتا تو وہ خدا جو علیم ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے وہ کس طرح دنیا کی ایسی خطرناک حالت کو معمولی سمجھتا اور کسی معمولی انسان کو بھیج دیتا.پس جبکہ یہ اقرار کر لیا گیا کہ اس زمانہ میں مرض حد سے بڑھا ہوا تھا تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُس وقت اصلاح کے لئے جو رسول آیا وہ بھی سب سے بڑا تھا.رسول کریم اللہ کا انکار اور پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جتنا وہ رسول بڑا تھا اتنا ہی اس کا انکار بڑا اور خطرناک ہے.کس قدر خطر ناک ہے کیونکہ کوئی نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کے پھینکنے اور قدر نہ کرنے والا اتنا ہی زیادہ الزام کے نیچے ہوتا ہے.پس جبکہ محمد علی سب سے بڑی نعمت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑے انسان ہیں مخلوق

Page 65

سيرة النبي ع 51 جلد 2 تو ان کا رد کرنا بھی بہت بڑی ہلاکت اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والی بات ہے.صلى الله رسول کریم ﷺ کی صداقت کے نشانہ پھر جب رسول کریم ﷺ کا انکار بہت بڑی لعنت اور خدا تعالیٰ سے دوری کا باعث ہے ( ہمارے ملک میں لعنت گالی سمجھی جاتی ہے لیکن عربی میں دور ہو جانے کو کہتے ہیں ) تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لئے بڑے بڑے نشان بھی رکھے ہوں تا کہ ان کے ذریعہ لوگ آپ کو پہچان سکیں.ورنہ اگر ایسا نہ ہو تو قیامت کے دن لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جب ان کا اتنا بڑا دعوی تھا اس کے لئے دلائل اور نشان بھی بڑے بڑے ہونے چاہئیں تھے.لیکن چونکہ ایسا نہ تھا اس لئے ہم ان کے نہ ماننے کی وجہ سے کسی الزام کے نیچے نہیں ہیں تو عقل سلیم تسلیم کرے گی اور ہر مسلمان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کی صداقت کے ثبوت پہلے انبیاء سے بڑے ہونے چاہئیں کیونکہ آپ کی آمد تمام دنیا کے لیے رحمت تھی اور آپ کا دعویٰ سب انبیاء سے بڑھ کر تھا.الله قرآن کریم میں صداقت اس بات کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس نے رسول کریم علی رسول کریم ﷺ کے نشان کی صداقت کے کیا ثبوت دیئے ہیں.الله اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کے متعلق فرماتا ہے اَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيْنَةٍ مِنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهِ كِتَبُ مُوسَى إِمَامًا وَ رَحْمَةً أوليك يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرُ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَاتَكَ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبَّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ 1 فرماتا ہے اس نبی کا انکار کوئی معمولی بات نہیں.کسی مذہب کا انسان ہو اس کا فرض

Page 66

سيرة النبي عالم 52 جلد 2 ہے کہ اس پر ایمان لائے اگر وہ خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے.اس پر سوال ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اس کے ماننے سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے؟ فرماتا ہے اس کے تین ثبوت ہیں اَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهِ كِتُبُ مُوسَى اِمَامًا وَرَحْمَةً تین زمانے ہوتے ہیں.ایک ماضی ، دوسرا حال ، تیسرا مستقبل.یہ تینوں زمانے شہادت دے رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ خدا کی طرف سے ہے.پس جس کی صداقت کے لئے زمانہ ماضی ، زمانہ حال اور زمانہ مستقبل پکار رہا ہو اس کا کون عقلمند انکار کر سکتا ہے.زمانہ حال کی شہادت فرماتا ہے سب سے پہلے زمانہ حال کے لوگ ہوتے ہیں کہ وہی ایمان لانے والے ہوتے ہیں اس کے متعلق فرماتا ہے اَفَمَنْ كَانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ کہ اس زمانہ میں ایسے ثبوت موجود ہیں جو اس رسول کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں.یہاں تو مختصر طور پر فرما دیا اور دوسری جگہ اس کی یوں تفصیل کی ہے کہ دیکھو! خدا اس کی تائید کر رہا اور اسے دشمنوں پر غلبہ دے رہا ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے.زمانہ مستقبل کی شہادت پھر آئندہ زمانہ کے متعلق فرمایا يَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ کہ آئندہ زمانہ میں بھی خدا کی طرف سے ایک ایسا گواہ آئے گا جو اس کی صداقت کو ثابت کرے گا اور اس کے سچے ہونے کی گواہی دے گا.رسول کریم عملے کے وقت کے جو لوگ تھے ان پر آپ کے نشان حجت تھے.مگر سوال ہوسکتا تھا کہ جو بعد میں آئیں گے ان کے لئے کون سے نشان حجت ہوں گے؟ اس لئے فرمایا ایک ایسا شاہد آئے گا جو اپنے آنے کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ثابت کرے گا اور اس رسول کی سچائی کی گواہی دے گا.تو اس آیت میں فرمایا کہ زمانہ حال کے لئے تو اس کے نشان حجت ہیں اور زمانہ مستقبل کے لئے ایک اور شخص مبعوث کیا جائے گا جو اس وقت دنیا پر اس کی

Page 67

سيرة النبي عالي 53 صداقت ظاہر کر دے گا.یہ تو زمانہ حال اور مستقبل کے متعلق ہوا.جلد 2 اور زمانہ ماضی کے متعلق فرماتا ہے وَمِنْ قَبْلِهِ كِتُبُ زمانہ ماضی کی شہادت موسی.اس سے پہلے زمانہ کے متعلق موسی کی کتاب شہادت دے رہی ہے.اس میں شہادت موجود ہے کہ بنی اسمعیل سے ایک ایسا نبی کھڑا ہوگا کہ جو اس کا انکار کرے گا اسے سزا دی جائے گی 2.صداقت کے عقلی اور نقلی ثبوت پس یہ ہیں رسول کریم ﷺ کی صداقت کے ثبوت.دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جو کہتے ہیں عقلی ثبوت پیش کئے جائیں.ان کے لئے فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ نشان ہیں اور یہ بینات اپنے ساتھ رکھتا ہے ان کو دیکھ کر اس کی صداقت کو تسلیم کرو.دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ نفلی طور پر صداقت کا ثبوت دو.ان کو فرماتا ہے تمہاری کتابوں میں موجود ہے کہ آئندہ ایک نبی آئے گا اور وہ یہی ہے.پھر آئندہ آنے والے لوگ تھے ان کے متعلق فرمایا جب دنیا خدا کو چھوڑ کر گمراہی میں مبتلا ہو جائے گی اور اس رسول کا انکار کرے گی اُس وقت ایسا انسان آئے گا جو نشان دکھلائے گا اور ان نشانوں سے اس رسول محمد علیہ کی صداقت ثابت کر دے گا.موجودہ زمانہ میں رسول کریم ﷺ کا انکار اب ہمیں موجودہ زمانہ کو دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں رسول کریم ﷺ کا انکار کیا جا رہا ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے زمانہ میں ایک انسان آئے گا مگر وہ خود نہیں کھڑا ہوگا بلکہ خدا تعالیٰ اس کو الله کھڑا کرے گا ورنہ یوں تو ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.یہ صاف بات ہے کہ کسی امر کے متعلق گواہ کی اسی وقت ضرورت ہوتی ہے جب اس کا انکار کیا جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں اس زمانہ

Page 68

سيرة النبي علي 54 جلد 2 میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کا انکار کیا جا رہا ہے یا نہیں.گو واقعات سے کتنی ہی آنکھیں بند کر لی جائیں تاہم ہر ایک شخص کو جو ضد اور تعصب کی آلائشوں سے پاک صلى الله ہوگا تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس قدر سختی کے ساتھ اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کا انکار کیا جا رہا ہے اس قدر پہلے کبھی نہیں کیا گیا.‘ ( تقریر سیالکوٹ صفحہ 1 تا 6) 1:هود: 18 2: استثناء باب 18 آیت 18 ، 19 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1922ء

Page 69

سيرة النبي الله 55 جلد 2 شان خاتم النبین ﷺ کا اظہار ع 11 اپریل 1920ء کو حضرت مصلح موعود کے قیام سیالکوٹ کے دوران ایک غیر از جماعت دوست نے ایک دعوت کے موقع پر آپ سے یہ سوال کیا کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے رسول کریم علیہ کی کیا فضیلت ظاہر ہوئی ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے جو تقریر فرمائی وہ دسمبر 1922ء میں ” خاتم النبین ﷺ کی شان کا اظہار کے عنوان سے شائع ہوئی.اس تقریر کے بعض حصے درج ذیل ہیں :.حضرت مرزا صاحب کا حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے صلى الله دعوی نبوت ہے.دنیا میں رسول کریم کی فضیلت عزت ایک نسبتی امر ہے اور علوم اس کا اظہار اسی طرح ہوتا ہے کہ اس کے متعلقات کو دیکھا جائے مثلاً جمعدار کا لفظ ہے.ایک فوج کا جمعدار ہوتا ہے اور ایک میونسپلٹی کے چوہڑوں کا.ان میں سے فوج کا جمعدار کیوں معزز سمجھا جاتا ہے؟ اسی لئے کہ اس کے ماتحت معزز افسر اور سپاہی ہوتے ہیں.لیکن میونسپلٹی کے محکمہ صفائی کے جمعدار کے ماتحت چوہڑے ہوتے ہیں.تو کسی کی بڑائی کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس کے نیچے بڑے بڑے آدمی ہوں.دیکھو! ایک 9 فٹ لمبی چیز کیوں بڑی ہوتی ہے؟ اسی لئے کہ اس کے نیچے 7 فٹ 8 فٹ اور ساڑھے آٹھ فٹ تک کی ویسی ہی چیزیں رکھی جاسکتی ہیں.تو بڑائی کے یہی معنی ہیں کہ اس کے جو ماتحت ہوں ان کو دیکھا جائے جس قدر کسی کے ماتحت بڑے ہوں گے اسی قدر اس کا درجہ بڑا ہو گا ورنہ بڑائی کوئی چیز نہیں ہوسکتی.

Page 70

سيرة النبي الله 56 جلد 2 اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں 1 اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ ہمارا ایسا محبوب ہے کہ جو اس سے محبت کرے وہ بھی ہمارا محبوب بن جاتا ہے 2.اب اگر رسول کریم ﷺ کے آنے پر یہ خیال کر لیا جائے کہ نبوت جو خدا تعالیٰ کا ایک انعام اور فضل ہے وہ رسول کریم ہے کے آنے سے بند ہو گیا ہے تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ ایک دریا بہہ رہا ہو اور بڑا پہاڑ اس میں گر کر اس کو بند کر دے.گویا یہ کہنا پڑے گا کہ رسول کریم ہے کے آنے صلى الله سے قبل دریائے نبوت جاری تھا لیکن رسول کریم و نعوذ باللہ اس میں پہاڑ کی طرح آپڑے اور اس کو روک دیا.اب اگر پھسل کر اس دریا کا پانی نکل جائے تو نکل جائے ور نہ پہلے کی طرح وہ نہیں بہہ سکتا.لیکن یہ رسول کریم ﷺ کی فضیلت اور عظمت کی علامت نہیں بلکہ عظمت کی علامت تو یہ ہے کہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ فیضانِ نبوت جاری ہو.پس اگر آپ کا درجہ بڑا ہے اور واقعہ میں بڑا ہے تو ضروری ہے کہ آپ کے ماتحت بھی بڑے بڑے انسان آپ کی امت سے پیدا ہوں.مثلاً یہ جو کہتے ہیں کہ فلاں جرنیل ہے تو اس کی عظمت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ کرنیل اس کے صلى الله ماتحت ہوتے ہیں.پس رسول کریم ہے کے غلاموں میں سے جتنے بڑے بڑے انسان پیدا ہوں اتنی ہی آپ کی زیادہ عظمت کا اظہار ہو گا.ہاں اگر کوئی رسول کریم ﷺ کی غلامی سے آزاد ہو کر اور آپ کی اتباع چھوڑ کر نبی ہونے کا دعوی کرے تو اس سے آپ کی ہتک ہو گی لیکن حضرت مرزا صاحب تو کہتے ہیں بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم3 کہ خدا کے بعد میں محمد عدلیہ کے عشق میں سرشار ہوں اگر اس کا نام کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کا فر ہوں.کیا ایسے نبی کے متعلق کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ

Page 71

سيرة النبي عمال 57 جلد 2 کی ہتک کرنے والا ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ ایسے نبی تو جتنے بھی آئیں ان کے آنے سے صلى الله رسول کریم ﷺ کی فضیلت ظاہر ہوگی.پھر ایک حدیث میں آتا ہے لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا الْبَاعِي 4 کہ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو ان کے لئے سوائے اس کے چارہ نہ ہوتا کہ میری اتباع کرتے.اس حدیث کے متعلق عیسائی اور یہودی کہہ سکتے ہیں کہ یونہی بیٹھے بیٹھے دعوی کر دیا اس کا کیا ثبوت ہے کہ اگر عیسی اور موسی زندہ ہوتے تو ان کی اتباع کرتے.اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کا جواب دیں اور وہ جواب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی امت سے ایک انسان کو کھڑا کر کے اس کا نام موسی اور عیسی رکھ دیا اور وہ آپ کا غلام کہلایا.اس نے آکر چیلنج دیا کہ آؤ جو کچھ موسی اور عیسی کو دیا گیا تھا وہ مجھ میں دیکھ لو.لیکن یہ کوئی میری فضیلت نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی فضیلت ہے کیونکہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ آپ ہی کے طفیل اور آپ ہی کی وجہ سے ملا ہے.پس اس صلى الله طرح حضرت مرزا صاحب نے رسول کریم ع کی عظمت ظاہر کی ہے.آخری نبی کا مطلب اب رہا یہ کہ رسول کریم ہو تو آخری نبی تھے اس کے ہے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ آخری کے یہ معنی نہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا بلکہ یہ ہیں کہ آپ جیسا کوئی نبی نہیں ہوگا جو شان ، جو رتبہ، جو درجہ آپ کو حاصل ہے وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا.اور آپ سے علیحدہ ہو کر کوئی نبی نہیں بن سکے گا جیسا کہ رسول کریم ﷺ کی دوسری حدیث اس کی تصدیق کرتی ہے.صلى الله رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے میری مسجد آخری مسجد ہے 5 اب کیا رسول کریم ﷺ کی مسجد کے بعد دنیا میں اور مسجدیں بنائی گئیں یا نہیں ؟ اگر بنائی گئیں تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہوا ؟ یہی کہ یہ مسجد میں غیر نہیں رسول کریم ع کی مسجد کے نقش کے مطابق ہی بنائی گئی ہیں.یہی بات ہم کہتے ہیں کہ اگر ایسا نبی آئے جو رسول کریم ﷺ میں صلى الله.

Page 72

سيرة النبي عل الله 58 جلد 2 شامل ہو نہ کہ آپ سے الگ تو اس میں رسول کریم ﷺ کی کوئی ہتک نہیں اور اس کا آنا رسول کریم ﷺ کے آخر الانبیاء ہونے کے خلاف نہیں.لیکن اگر کوئی ایسا نبی بھی نہیں آسکتا تو پھر رسول کریم ﷺ کی مسجد کے بعد کوئی مسجد بھی نہیں بنائی جاسکتی کیونکہ اس.7 صلى الله حدیث میں رسول کریم علیہ نے اپنی مسجد کو آخری مسجد قرار دیا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ جوں جوں کسی قوم کا حوصلہ پست ہوتا جاتا ہے وہ بڑے مدارج کا حاصل کرنا محال سمجھ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرنا شروع کر دیتی ہے لیکن انبیاء صلى الله اپنی جماعتوں کے لئے چھوٹے مقاصد قرار نہیں دیتے اور رسول کریم علیہ نے تو اپنی امت کو بہت بڑے درجہ کی طرف لے جانا چاہا ہے.چنانچہ سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ : اور دوسری جگہ اس کی تشریح کر دی ہے کہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس کو نبی صدیق اور شہید بنایا جاتا ہے.ایک مسلمان روز کم از کم پچاس دفعہ یہ دعا مانگتا ہے اور چونکہ اسلام سب سے اعلیٰ مذہب ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کا مطمح نظر بھی سب سے اعلیٰ قرار دیا ہے اور یہ اسی طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے غلام اس کی طرف بڑھیں.پہلے مسلمانوں میں اس قسم کی کمزوری اور پست ہمتی نہ تھی جیسی کہ آج کل پائی جاتی ہے.چنانچہ پہلے کئی بزرگوں نے صاف طور پر لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے اور عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنے والا مسیح نبی ہوگا اور رسول کریم ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ وہ نبی ہوگا.اب اگر رسول کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے سے آپ کی ہتک ہوئی تو یہ کیوں فرماتے.بات اصل میں یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی امت سے آپ کی اتباع میں کسی نبی کے آنے سے ہتک نہیں بلکہ عزت ہے.اب تک رسول کریم ﷺ کی امت سے صدیق ، شہید اور صالح.لوگ پیدا ہوتے رہے اور اب حضرت مرزا صاحب کے آنے سے یہ بھی ثابت ہو گیا الله

Page 73

سيرة النبي علي 59 جلد 2 کہ رسول کریم ﷺ کی اطاعت سے نبوت بھی حاصل ہو سکتی ہے اور یہ فضیلت صرف آپ ہی کو حاصل ہے.حضرت موسی کی امت میں سے بھی نبی ہوئے ہیں مگر وہ ان کی صلى الله غلامی اور اتباع سے نہیں ہوئے بلکہ علیحدہ مستقل طور پر ہوئے ہیں.لیکن رسول کریم میے کو خدا تعالیٰ نے وہ درجہ عطا کیا ہے کہ آپ کی اتباع سے نبی بن سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنا نام امتی نبی رکھا ہے بلحاظ اس کے کہ آپ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے نبی تھے اور بلحاظ اس کے کہ آپ کو رسول کریم ﷺ کی امت میں ہونے کی وجہ سے نبوت ملی امتی تھے.میں نہیں سمجھ سکتا اس سے رسول کریم علیہ کی کیونکر ہتک ہوتی ہے.اس طرح تو آپ کے درجہ کے اور بھی بلند ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ جتنا بڑا کسی کا غلام ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ بڑا اس کا آقا ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے8 تو خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو نبی بنا کر ثابت خاتم النبین کے معنی کر دیا کہ رسول کریم ﷺ شہنشاہ ہیں اور خاتم النبین صلى الله کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں.چنانچہ امام بخاری کتاب المناقب میں ختم نبوت کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پشت پر مہر تھی.اس تشریح سے ظاہر ہے کہ ختم کے معنی مہر ہیں نہ کہ ختم کر دینے کے.اور مہر تصدیق کے لئے ہوا کرتی ہے جس سے مُہر لگانے والے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے.ورنہ آخر ہونا تو کوئی فضیلت نہیں ہے.فضیلت یہی ہے کہ جس جس نبی پر رسول کریم ﷺ کی تصدیقی مہر صلى الله لگ گئی وہ سچا ثابت ہو گیا.جس قدر انبیاء مانے جاتے ہیں کیا اگر رسول کریم ﷺ ان کی نبوت کی تصدیق نہ کرتے تو آج مسلمان ان کو نبی مانتے ؟ ہرگز نہیں.اس سے صلى الله معلوم ہوا کہ گزشتہ انبیاء کی نبوت کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ رسول کریم علی کی تصدیقی مُہر ان پر ہو.اسی طرح آئندہ بھی وہی نبی ہوگا جو آپ کی مہر کی تصدیق

Page 74

سيرة النبي عمال 60 جلد 2 رکھے گا.اس سے آپ کی بہت بڑی عظمت اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہے اس لئے ہم 66 نے حضرت مرزا صاحب کو قبول کیا ہے.“ ( خاتم النبین کی شان کا اظہار صفحہ 12 تا 16 مطبوعہ قادیان 1922ء) 1 بخارى كتاب المناقب باب خاتم النبيين صفحه 595 حدیث نمبر 3534 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 آل عمران : 32 3: ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 185 ایڈیشن 2008ء 4 اليواقيت والجواهر مؤلّفه امام عبد الوہاب شعرانی جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1321 ھ 5 مسلم كتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة والمدينة صفحه 583 حديث نمبر 3374 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية 6: الفاتحة: 6، 7 7: النساء : 70 8: دافع البلاء روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 240 ایڈیشن 2008ء و بخارى كتاب المناقب باب خاتم النبوة صفحه 595 حدیث نمبر 3541 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 75

سيرة النبي الله 61 جلد 2 صلى الله ہمارے پیشوا خاتم الانبیاء ﷺ کا اسوہ حسنہ حضرت مصلح موعود نے 12 اپریل 1920 ء کو سیالکوٹ کی مستورات سے پنجابی زبان میں خطاب فرمایا.16 اپریل 1920 ء کے الفضل میں اس کا اردو ترجمہ شائع صلى الله ہوا.اس خطاب میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.”دیکھو! جب محمد رسول اللہ ﷺ آئے اور آکر کہا کہ خدا ایک ہے اور کوئی اس کا صلى الله شریک نہیں ہے اُس وقت ان کے سارے رشتہ دار بتوں کے آگے سجدے کرتے اور ان کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتے تھے.اکثر عورتوں کو معلوم ہوگا کہ مجاوروں کا گزارہ لوگوں کی منتوں پر ہی ہوتا ہے.احمدیت سے پہلے تم میں سے کئی عورتیں خانقاہوں پر جاتی ہوں گی یا جن کو احمدیت کی تعلیم سے ناواقفیت ہے اور جو اپنے مذہب میں کمزور ہیں ممکن ہے وہ اب بھی جاتی ہوں.انہوں نے دیکھا ہوگا کہ مجاوروں کی آمدنی انہی لوگوں کے ذریعہ ہوتی ہے جو وہاں جاتے ہیں.تو مکہ والے بتوں کے مجاور تھے انہوں نے کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے جن پر لوگ دور دور سے آکر نذریں چڑھاتے تھے جنہیں وہ آپس میں بانٹ لیتے تھے.یا لوگ بتوں کی پرستش کے لئے وہاں جمع ہوتے اور وہ تجارت کے ذریعہ ان سے فائدہ اٹھاتے تھے اس لئے بتوں کو چھوڑ دینے سے وہ سمجھتے تھے کہ ہم بھو کے مر جائیں گے.رسول کریم ﷺ کے سارے رشتہ دار ایسے ہی تھے جن کا گزارہ بتوں پر تھا.مگر رسول کریم ﷺ جب کھڑے ہوئے تو آپ نے کسی رشتہ دار کی پرواہ نہ کی اور بڑے زور کے ساتھ کہہ دیا کہ صرف خدا ہی ایک معبود ہے باقی سب معبود جھوٹے ہیں.یہ بات آپ کے رشتہ داروں کو بہت بری لگی اور انہوں

Page 76

سيرة النبي ع 62 جلد 2 صلى.نے آپ کو تکلیفیں دینا شروع کر دیں.ایک دن رسول کریم ﷺ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور لوگوں کو بلایا.جب لوگ آگئے تو کہا تم جانتے ہو میں جھوٹ بولنے والا نہیں.انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر موجود ہے جو مکہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو تم مان لو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مان لیں گے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا عذاب تم پر آنے والا ہے تم اس سے بچ جاؤ اور شرک کر کے خدا تعالیٰ کے عذاب کے مستوجب نہ بنو.یہ بات سن کر وہ گالیاں دیتے چلے گئے اور کہنے لگے یہ تو سودائی ہو گیا ہے 1.رسول کریم علیہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور پہلے کی طرح ان کو شرک سے روکتے رہے.اس پر لوگ جمع ہو کر رسول کریم ﷺ کے چچا کے پاس گئے اور جا کر کہا اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ یہ ہمارے بتوں کی مذمت کرتا ہے ، باز آ جائے.رسول کریم ﷺ کے چچا نے لوگوں سے کہہ دیا کہ جو بات وہ سچے دل اور پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے اسے وہ کس طرح چھوڑ سکتا ہے.آخر بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگ رسول کریم ﷺ کے پاس جائیں اور جا کر کہیں کہ جو کچھ تم کہو گے ہم مان لیں گے لیکن تم بتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دو.چنانچہ لوگ گئے اور جا کر کہا کہ ہم قوم کی طرف سے آئے ہیں اور تم بہت اچھے آدمی ہو ہم نہیں سمجھتے تم قوم کو تباہ ہونے دو گے ہم تمہارے پاس ایک پیغام لائے ہیں اس کو قبول کرو تا کہ تفرقہ نہ پڑے اور ہماری قوم تباہ نہ ہو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا سناؤ کیا پیغام لائے ہو.انہوں نے کہا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر تمہیں مال کی ضرورت ہو تو ہم تمہیں مال جمع کر کے دے دیں.اور اگر تم کسی اعلیٰ گھرانے میں رشتہ کرنا چاہتے ہو تو امیر سے امیر گھرانہ کی اچھی سے اچھی عورت سے رشتہ کر دیتے ہیں اور اگر یہ چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری باتیں مانیں تو ہم لکھ دیتے ہیں کہ جس طرح سے تم کہو گے اسی طرح ہم کریں گے.اگر تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں 2 مگر تم یہ نہ کہو کہ ایک ہی خدا ہے الله

Page 77

سيرة النبي ع 63 جلد 2 اور کوئی معبود نہیں ہے.اس کا جواب رسول کریم ﷺ نے کیا دیا؟ یہ کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر بھی رکھ دو تو پھر بھی میں تمہاری یہ بات نہ 66 مانوں گا.“ ( الفضل 16 اپریل 1920ء) 1 : بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الشعراء باب وانذر عشیرتک الاقربین صفحه 836 حدیث نمبر 4770 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2: البداية والنهاية جلد 2 صفحه 92 مطبوعہ قاهره 2006ء 3 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى

Page 78

سيرة النبي الله 19 64 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا بلند مقام اور ضروری نصیحت حضرت مصلح موعود 12 اپریل 1920 ء کے خطاب میں مستورات کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وو پھر میں تمہیں نصیحت یہ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان رکھو.سب صلى الله سے بڑے رسول محمد ملے ہیں ان سے بڑا درجہ کسی رسول کو نہ دو.ہمارے ملک میں مسلمانوں نے اپنی جہالت سے حضرت عیسی کو بڑا درجہ دے رکھا ہے.کہتے ہیں کہ صل الله حضرت عیسی تو آج تک زندہ ہیں اور محمد ﷺ فوت ہو گئے ہیں.پھر کہتے ہیں حضرت عیسی مُردے زندہ کیا کرتے تھے مگر رسول کریم ﷺ نے کوئی مردہ زندہ نہیں کیا.پھر صلى الله ان کے نزدیک حضرت عیسی تو آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں لیکن رسول کریم زمین میں دفن ہیں.حضرت عیسی کے متعلق اس قسم کی جتنی باتیں کہتے ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ سب سے بڑا رسول محمد ﷺ ہے.اگر....کوئی رسول مُردوں کو زندہ کرتا تو وہ آپ ے ہوتے لیکن مسلمان نادانی سے اس قسم کی باتیں حضرت عیسی کی طرف منسوب کر کے ان کا درجہ رسول کریم ﷺ کے درجہ سے بڑھاتے ہیں.تم ہرگز اس طرح نہ کرو اور سب سے بڑا درجہ رسول کریم ﷺ کا سمجھو.ان کے تم پر بہت بڑے عروسة صلى الله احسان ہیں اس لئے ان پر ایمان لاؤ اور ان کے مقابلہ میں کسی اور کو کسی بات میں فضیلت نہ دو.ان پر درود بھیجو.درود دعا ہوتی ہے جس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اے صلى الله خدا! رسول کریم ﷺ نے ہم پر جس قدر احسان کئے ہیں ان کا بدلہ ہم کچھ نہیں دے سکتے آپ ہی ان کو بدلہ دیں.“ ( الفضل 16 اپریل 1920ء )

Page 79

سيرة النبي الله 65 جلد 2 رسول کریم ﷺ اور عہد کی پابندی حضرت مصلح موعود کا ایک مضمون جو کہ ریویو آف ریلیجنز مئی 1920 ء میں الله شائع ہوا اس میں آپ نے معاہدات کی پابندی کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کے الله طرز عمل کے بارہ میں تحریر فرمایا :.اب میں رسول کریم ﷺ کے فیصلوں اور تشریحات سے اور صحابہ کے طریق عمل سے ثابت کرتا ہوں کہ ان آیات کا اُس وقت بھی یہی مطلب سمجھا گیا تھا جو میں نے بیان کیا ہے.چنانچہ امام ابو جعفر طحاوی اپنی کتاب شرح معانی الآثار میں لکھتے ہیں کہ اِنَّ النَّب ال الله أتِيَ بِرَجُلٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ قَدْ قَتَلَ مُعَاهِدًا مِّنْ أَهْل الذِمَّةِ فَاَمَرَ بهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ وَقَالَ أَنَا أَوْلى مَنْ وَفِي بذمته 1 - یعنی رسول کریم ﷺ کے پاس ایک مسلمان لا یا گیا جس نے ایک کا فرکو جو اسلامی حکومت کی رعایا تھا قتل کر دیا تھا.آپ نے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ عہد کی نگہداشت رکھنے والا ہوں.ریویو آف ریلیجنز مئی 1920 ءصفحہ 184 ) 1 شرح معانی الآثار جلد 2 باب المؤمن يقتل الكافر متعمدا صفحه 107 مطبوعہ ملتان 1987ء

Page 80

سيرة النبي الله 66 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا تعلق باللہ حضرت مصلح موعود نے 18 جون 1920ء کو قادیان میں خطبہ عید الفطر و ہوئے فرمایا:.” ہم نے حضرت صاحب (سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود - ناقل ) کی زندگی کو دیکھا ہے ، نبی کریم ﷺ کی زندگی کو پڑھا ہے اور اولیائے امت کے حالات بھی پڑھے ہیں وہ مشکل سے مشکل اور آفت سے آفت میں یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.رسول کریم علیہ کا ایک واقعہ تاریخوں میں مذکور ہے.ایک دفعہ حضرت رسول کریم وہ ایک جنگل میں سوئے ہوئے تھے آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی کہ ایک بدوی آیا اور اس نے تلوار درخت سے اتار کر بے نیام کر لی اور آپ کے سر پر کھڑا ہو کر کہنے لگا تلوار تیرے قبضہ میں نہیں ، ساتھی تیرے پاس نہیں، بتا تجھ کو اب کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے نہایت اطمینان سے فرمایا مجھ کو اللہ بچا سکتا ہے.اس شخص کی نظر ظاہر پر تھی مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی نظر باطن پر تھی اس لئے آپ کو کوئی خوف وخطر نہ تھا.آپ نے سادگی اور اطمینان سے کہہ دیا مجھے خدا بچا سکتا ہے.اس شخص پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کانپ گیا تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی 1.اُس وقت آپ نے تلوار اٹھالی اور کہا اب تو بتا تجھ کو کون بچا سکتا ہے؟ اس کو رسول کریم کا جواب سن کر بھی اس کی نقل کرنے کی جرات نہ ہوئی کیونکہ اس میں وہ بصیرت کہاں تھی اس لئے اس نے کہا کہ آپ ہی رحم کریں اور مجھے چھوڑ دیں 2 پس چونکہ رسول کریم ﷺ کا خدا تعالیٰ سے تعلق تھا اس لئے شمشیر برہنہ بھی آپ کے قلبی آرام صلى الله الله

Page 81

سيرة النبي ع اور اطمینان پر کوئی اثر نہ ڈال سکی." 67 جلد 2 ( الفضل 28 جون 1920 ء ) 1: بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 فتح الباری کتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع جلد 8 صفحہ 432 مطبوعہ مصر 1959ء

Page 82

سيرة النبي الله 68 جلد 2 السلام علیکم کی اہمیت رسول کریم عمل اللہ کے ارشادات کی روشنی میں حضرت مصلح موعود یکم اکتوبر 1920ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.اسلام نے تاکید کی ہے اور قرآن میں بھی آیا ہے فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُبْرَكَةً طَيِّبَةً 1 کہ جب گھروں میں داخل ہو تو سلام کرو.اس میں خوبی یہ ہے کہ یہ نہیں فرما یا فَسَلِّمُوا عَلَى اِخْوَانِكُمْ بلکہ یہ فرما یا عَلَى اَنْفُسِكُمُ کہ اس کا فائدہ تمہارے اپنے ہی نفسوں پر ہوگا.یہ ایک ایسا حکم ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے ماتحت ہر مسلمان کو دوسرے - الله مسلمان سے ملتے وقت بجا لانا چاہئے.چونکہ اس کا موقع ہر وقت ملتا رہتا ہے اس لئے عام طور پر لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ ایسا ضروری ہے کہ رسول کریم علی نے فرمایا ہے یہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور فرمایا ہے مسلمانوں کے اتفاق واتحاد کی بنیاد اسی پر قائم ہے.چنانچہ فرمایا آپس میں سلام کرو، سلام سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت کے ذریعہ ہی جنت میں داخل ہونا ہے 2.“ (الفضل 7اکتوبر 1920ء) اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا:.”سب سے پہلی چیز جو بندہ کو خدا تعالیٰ کی ملاقات کے وقت دی جاتی ہے وہ یہی سلام ہے.جبریل رسول کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ کو سلام کہا اور رسول کریم علی 66

Page 83

سيرة النبي عمال 69 جلد 2 ان کو دیکھ کر سلام کہتے ہیں.ان سے بڑا کون سا انسان ہے جسے سلام کہنے کی ضرورت نہ ہو مگر بہت لوگ ہیں خصوصاً انگریزی تعلیم یافتہ جو سلام کو بہت حقیر چیز سمجھتے ہیں.وہ صلى الله اپنے عمل سے رسول کریم ہے ، جبریل حتی کہ خدا تعالیٰ سے بھی اپنے آپ کو بڑا قرار 6 دیتے ہیں کیونکہ جس حکم کو بہت سی حکمتوں کے ماتحت خدا تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے صلى الله بلکہ اپنی ذات کے لئے بھی رکھا ہے اور جس کی تاکید رسول کریم ﷺ نے کی ہے اور خود جبریل کو کہا ہے اس سے یہ لوگ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے ہیں.اول تو صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیتے ہیں یا اتنا بھی نہیں کرتے.یا ایک دوسرے سے یوں ملیں گے مولوی صاحب اور اس کے جواب میں کہہ دیا جائے گا بھائی صاحب.یا یہ کہ سناؤ جی کیا حال ہے؟ اسی قسم کے فقروں کو انہوں نے سلام سمجھ لیا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ تین انگلیاں ملا دیں گے اور یہ مصافحہ ہو جائے گا لیکن شریعت کا یہ حکم نہیں.شریعت نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہنا ضروری قرار دیا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس کو اتفاق واتحاد کی جڑ ٹھہرایا ہے اور نجات کا ستون بنایا ہے.رسول کریم ﷺ سے ایک صلى الله صلى الله دفعہ دریافت کیا گیا کہ بہتر اسلام کیا ہے؟ تو آپ نے خاص حکموں میں سے بتایا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور کسی کو جانو یا نہ جانو سلام کہنا 3.یہ دونوں باتیں اتفاق و اتحاد کی جڑ ہیں.آج میں خطبہ کو یہیں بند کرتا ہوں کیونکہ وقت زیادہ ہو چکا ہے مگر تا کید کرتا ہوں کہ یہ ایک خاص حکم ہے جو اسلام نے دیا ہے اور جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے.صحابہ اس کے اس قدر پابند تھے کہ ایک دن عبد اللہ ایک صحابی کے پاس آئے اور کہا آؤ بازار چلیں.صحابی نے سمجھا کوئی کام ہوگا چل پڑا لیکن وہ بازار میں سے گھوم کر یونہی چلے آئے ، نہ کوئی کام کیا اور نہ کوئی چیز خریدی.دو تین دن کے بعد پھر آئے اور کہا آؤ بازار چلیں.اس صحابی نے کہا اُس دن آپ نے نہ کچھ خریدا اور نہ کام کیا آج کوئی کام ہے؟ انہوں نے کہا میں بازار اس لئے جاتا ہوں کہ بھائی

Page 84

سيرة النبي علي 70 جلد 2 ملتے ہیں، وہ ہم کو سلام کہتے ہیں ہم اُن کو سلام کہتے ہیں.4.“ (الفضل 7 اکتوبر 1920ء) 1: النور:62 2:مسلم کتاب الایمان باب بیان انه لايدخل الجنة صفحه 44 حدیث نمبر 194 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 3: بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام صفحہ 5 حدیث نمبر 12 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :4 مشكوة المصابيح جلد 2 كتاب الآداب باب السلام الفصل الثالث صفحہ 168 حدیث نمبر 4664 مطبوعہ بیروت لبنان 2003 ء

Page 85

سيرة النبي الله 71 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی قدر شناسی حضرت مصلح موعود نے یکم اکتوبر 1920ء کے خطبہ جمعہ میں آنحض قدرشناسی کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا :.”رسول کریم مے کے لئے پیشاب اور پاخانہ کے وقت ابن عباس لوٹا رکھ دیتے تھے.اتنی سی بات کے لئے آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے وہ دعا کی جو جنگوں پر جانے والوں کے لئے بھی نہیں فرمائی.چنانچہ ان کے لئے تو فرمایا اللَّهُمَّ فَقْهُهُ فِي الدین 1 مگر لڑائی پر جانے والوں کے لئے یہ نہیں فرمایا.(الفضل 17اکتوبر 1920 ء ) 1: بخارى كتاب الوضوء باب وضع الماء عند الخلاء صفحہ 30 حدیث نمبر 143 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 86

سيرة النبي الله 72 جلد 2 رسول کریم علیہ کے ابتلا میں حکمت رسول صلى الله حضرت مصلح موعود 22 اکتوبر 1920 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.آنحضرت ﷺ کو بدر اور احد وغیرہ مقامات پر جو تکالیف پہنچی تھیں وہ اس لئے نہ تھیں کہ منافقین اور کفار پر آنحضرت عیہ کے ایمان کی پختگی ظاہر کی جاتی یا خود آنحضرت ﷺ کو آپ کے ایمان کا پتہ بتایا جاتا کیونکہ آپ ﷺ کے ایمان کا پتہ تو غار حرا میں ہی لگ گیا تھا بلکہ ان کی غرض یہ تھی کہ دشمنوں کو آگاہ کر دیا جاتا کہ محمد ﷺ ہمارا ایسا مقبول اور پیارا بندہ ہے کہ تمہارا اس کو تکالیف دینا اور تمہارا اس کو مٹانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا.تمہاری ہر قسم کی شرارتوں اور مظالم کے مقابلہ میں یہ بڑھے گا اور تم 66 اس کے مقابلہ میں ناکام رہو گے.“ (الفضل 28 اکتوبر 1920ء)

Page 87

سيرة النبي عالم 73 جلد 2 رحمة للعالمين مع الله حضرت مصلح موعود نے 27 اکتوبر 1920ء کو چاند گرہن کے موقع پر بعد نماز مغرب قادیان میں تقریر فرمائی جو کہ الفضل 4 نومبر 1920 ء کے شمارہ میں شائع ہوئی.اس میں آپ نے رسول کریم ﷺ کے اسوہ کے متعلق فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق فرمایا ہے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 1 کہ مومن کو خوف اور حزن نہیں ہوتا.لیکن کیا سمجھتے ہو کہ مومنوں کو رنج ، تکلیف اور دکھ نہیں ہوتا جس طرح اور وں کو ہوتا ہے؟ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کو ہوتا ہے کیونکہ دوسروں کو صرف اپنا ہی درد دکھ ہوتا ہے لیکن مومنوں کو سب کا ہوتا ہے.کسی شاعر نے کہا ہے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس نے تو شاعرانہ طور پر کہا ہے مگر مومن اور سچے مومن کے دل میں فی الواقعہ سارے جہان کا درد ہوتا ہے اور اس مصرعہ کا پورا پورا مصداق ہوتا ہے.دنیا میں کہیں کچھ ہو مومن کو اس کا صدمہ پہنچتا ہے.کیونکہ وہ انسان کو انسان کی حیثیت سے نہیں دیکھتا، حیوانات کو حیوانات کی حیثیت میں نہیں دیکھتا ، نباتات کو نباتات کی حیثیت سے نہیں دیکھتا، جمادات کو جمادات کی حیثیت سے نہیں دیکھتا، زمین کو زمین کی حیثیت سے نہیں دیکھتا ، آسمان کو آسمان کی حیثیت سے نہیں دیکھتا، چاند کو چاند کی حیثیت سے اور سورج کو سورج کی حیثیت سے نہیں دیکھتا بلکہ دنیا کی ہر چیز کو اپنے رب کی علامت دیکھتا اور ہر ایک چیز میں اسے خدا کا جلوہ نظر آتا ہے اور سب کے ساتھ

Page 88

سيرة النبي ع 74 جلد 2 اپنے آپ کو وابستہ پاتا ہے.اور جتنا ایمان میں ترقی کرتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا درد بڑھتا جاتا ہے.وہ تمام دنیا کو اور دنیا کے ذرے ذرے کو ، چاند اور سورج کو دیکھتا اور ان سے لذت حاصل کرتا ہے حتی کہ ہر انسان خواہ کافر ہی ہو اور اس کو مار رہا ہو اس میں بھی اپنے خدا کا نشان دیکھتا اور محظوظ ہوتا ہے.اس سے بھی اس کے دل میں خدا کی محبت کا جذبہ موجزن ہوتا اور خدا کی صنعت دیکھ کر شکر بجا لاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء ہر چیز کو دیکھ کر خدا کی حمد اور تعریف کرتے ہیں.زمین میں، آسمان میں اور ہر چھوٹی سے چھوٹی اور ادنیٰ سے ادنی چیز میں ان کو خوبصورتی نظر آتی ہے اور جیسی ہمدردی دنیا کی ان کے دل میں ہوتی ہے اور کسی کے دل میں نہیں ہوتی.انسان تو انسان حیوانوں کی تکلیف کو دیکھ کر بھی کڑھتے اور درد محسوس کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ گدھے کے منہ پر نشان دیکھ کر بہت سخت بددعا کی اور فر مایا ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اگر نشان لگانا ہو تو پیٹھ پر لگانا چاہئے 2.پھر حیوانوں کی تکلیف کے متعلق فرمایا کہ ان کو نہیں دینی چاہئے.اور شریعت میں رکھا کہ ایک جانور کو ذبح کرتے وقت دوسرے کو سامنے نہ رکھنا چاہئے تا کہ وہ تکلیف محسوس نہ کرے.اور پھر فرما یا جانور کو باندھ کر نشانہ نہیں لگانا چاہئے.تو باوجود اس کے کہ آپ انسانوں کے لئے نبی تھے مگر چونکہ رحمۃ للعالمین تھے اس لئے جانوروں کے متعلق بھی ہدایات دیں کہ ان کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہئے.تو مومن کے دل میں ہر ایک کا دکھ اور درد ہوتا ہے اور اگر اس کو کوئی پتھر بھی مارتا ہے تو گو اس کے جسم کو دکھ پہنچتا ہے مگر اس کا دل اس میں بھی راحت محسوس کرتا ہے.وہ دیکھتا ہے کہ مارنے والا بھی میرے رب ہی کی مخلوق ہے اور اگر چہ وہ شرارت سے مارتا ہے لیکن اگر نہ مارتا تو اس موقع پر صبر کر کے میں نے جو ثواب حاصل کیا ہے وہ حاصل نہ کر سکتا.رسول کریم مع طائف میں گئے اور لوگوں نے آپ کو پتھر مارے.اُس وقت فرشتہ آیا اور اس نے کہا اگر کہیں تو میں اس زمین کا تختہ الٹ دوں.آپ نے فرمایا

Page 89

سيرة النبي ع 75 جلد 2 نہیں.میں نہیں چاہتا یہ لوگ ہلاک ہو جائیں ،ممکن ہے ہدایت پا جائیں.3.“ 1: البقرة: 39 (الفضل 4 نومبر 1920 ء ) :2 مسلم كتاب اللباس والزينة باب النهي عن ضرب الحيوان صفحه 947 حدیث نمبر 5553 مطبوعہ ریاض 2000ءالطبعة الثانية 3 مسلم كتاب الجهاد باب ما لقى النبي الله صفحه 800 ، 801 حدیث نمبر 4653 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية.

Page 90

سيرة النبي عمال 76 جلد 2 کسوف و خسوف کے متعلق حضور ﷺ کی تعلیم حضرت مصلح موعود نے اپنے لیکچر فرمودہ 127اکتوبر 1920 ء برموقع چاند گرہن قادیان میں تقریر کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ کی کسوف و خسوف سے متعلق تعلیم بیان کرتے ہوئے فرمایا:.یہی دیکھو گرہن کی حالت ہے.دنیا میں ستاروں کے متعلق قسم قسم کے خیالات ہیں.بعض ایسی قومیں ہیں جو انہیں معبود کہتی ہیں.بعض نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا تعلق بڑے بڑے آدمیوں سے ہوتا ہے اور ان میں تغیر کسی بڑے انسان کے تغیرات سے ہوتا ہے.اس قسم کے خیالات کو سامنے رکھ کر جب ایک مومن اور مسلمان دیکھتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کس طرح ان اوہام باطلہ سے اسے نکال کر اصل اور صحیح حقیقت بتا دی تو اس کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے.دنیا میں دیکھا گیا ہے اگر کسی کو کوئی چھوٹی سی علمی بات معلوم ہو جائے تو اسے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے لیکن جس کو یہ معلوم ہو کہ جو کام بھی وہ کرتا ہے، جو حرکت بھی اس سے سرزد ہوتی ہے، جو عقیدہ بھی وہ رکھتا ہے وہ صحیح علم کی بنا پر ہے وہ کس قدر خوش ہو گا.پس رسول کریم ﷺ نے جو تعلیم دی ہے وہ ایسی پاک اور ایسی صحیح ہے کہ اس کو دیکھ کر بے اختیار انسان کے دل سے خدا کے شکر کے کلمات نکلتے ہیں.گرہن کے متعلق ہی دیکھو.رسول کریم ہے کے بیٹے کی وفات کے دن جب ہوا اور لوگوں نے خیال کیا کہ اس کی وجہ بچہ کی وفات ہے تو آپ نے فرمایا یہ نہیں یہ خدا تعالیٰ کی آیت ہے جو اس کے قانون کے مطابق ظاہر ہوتی ہے1.اس موقع

Page 91

سيرة النبي عمال 77 جلد 2 پر خدا تعالی کی تسبیح و تحمید کرو.یہ ارشاد فرمانے کی وجہ یہی تھی کہ مومن کو علم کی چاشنی لگا دی جائے اور جس کو کسی چیز کی چاشنی لگ جائے وہ اس کو چھوڑتا نہیں.پس چاند گرہن ایک نشان ہے جس سے سبق حاصل کرنے کی طرف شریعت نے متوجہ کیا ہے اور ادھر ان اوہام سے بچایا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہیں.اور ساتھ ہی یہ سبق دیا ہے کہ ہاتھ میں آئی ہوئی چیز اگر جانے لگے تو اسے جانے نہ دو بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور گر جاؤ اور اُس وقت تک نہ اٹھو جب تک اسے واپس نہ لے لو.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تک گرہن نہ ہے تسبیح اور تحمید میں لگے رہو.لیکن معلوم ہوتا ہے آج کا گرہن بہت زیادہ دیر تک رہے گا اور نماز بھی پڑھنی ہے اور کئی لوگ کمزور اور بیمار ہیں جو بہت زیادہ دیر کھڑے نہیں ہو سکتے اس لئے اتنا وقت نماز کے لئے رکھا ہے.لیکن جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ نماز کے بعد بھی تسبیح و تحمید کریں اور اس احساس کو پیدا کریں جو رسول کریم علی نے ایسے موقع پر مومن کے دل میں پیدا کرنا چاہا ہے.“ (الفضل 4 نومبر 1920ء) 1: بخارى ابواب الكسوف باب الصلواة في كسوف الشمس صفحہ 167 حدیث نمبر 1043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 92

سيرة النبي عالم 78 جلد 2 شرک سے پاک نبی حضرت مصلح موعود نے دسمبر 1920 ء میں پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ایک مضمون رقم فرمایا جس میں آپ نے تحریر فرمایا:.”میرا اس بات پر بھی یقین ہے کہ بعثت کے بعد تو الگ رہا بعثت سے پہلے بھی رسول کریم ﷺ نے ایک آن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا شریک کسی کو نہیں بنایا اور جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے بھی مشرکوں کے کہنے سے ان کے تین دیوتاؤں کو مان لیا وہ تاریخ سے ناواقف اور حقیقت سے جاہل ہیں.وہ اپنے دعوی کا ثبوت پیش کریں تو ہم باہر سے نہیں خود ان کے دیئے ہوئے دلائل سے ہی ان کے دعویٰ کا باطل ہونا ثابت کر دیں گے.إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَی (الفضل 13 دسمبر 1920ء )

Page 93

سيرة النبي الله 79 جلد 2 رسول کریم علی اور نزول جبریل 66 حضرت مصلح موعود نے 28 ، 29 دسمبر 1920ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں جو خطاب فرمایا وہ ملائکۃ اللہ کے نام سے شائع ہوا.اس خطاب میں آپ نے رسول کریم ہے اور جبریل کے تعلق کے حوالہ سے لطیف انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.صلى الله اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جبرائیل کے نازل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنا عکس ڈالتا ہے تو جس قدر انسان ایسے ہوئے ہیں کہ ان پر جبرائیل کا عکس پڑتا تھا وہ سب ایک جیسے ہونے چاہئیں.رسول کریم علیہ حضرت موسی ، حضرت عیسی ان سب کا ایک ہی درجہ ہونا چاہئے.مگر یہ غلط ہے کیونکہ عکس مختلف ہوتے ہیں اور اس کے لئے یہی نہیں دیکھا جاتا کہ عکس کس کا ہے؟ بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ عکس کس پر پڑا ہے.لوہے کی چادر پر سورج کا جو عکس پڑے گا وہ اور شان کا ہو گا اور شیشے پر جو عکس پڑے گا وہ اور شان کا.بیشک جبرائیل ایک ہی تھا اور اس کا عکس بھی ایک ہی ہے مگر آگے جتنے جتنے قلب مصفی تھے اتنی ہی اس کی شکل اعلیٰ درجہ کی دکھائی دی.یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ جبرائیل ایک ہی تھا آگے جن پر عکس پڑا وہ الگ الگ درجہ کے صلى الله تھے.موسی موسی ہی تھا اور محمد ( ﷺ ) محمد ہی.اور یہی وجہ ہے کہ رسول کریم علی سب انبیاء سے اعلیٰ رہے اور درجہ والے قرار پائے کہ ایک ہی نے سب نبیوں پر عکس ڈالا ورنہ اگر عکس ڈالنے والے الگ الگ ہوتے تو کہا جاتا کہ رسول کریم ﷺ پر عکس ڈالنے والا چونکہ اعلیٰ درجہ کا تھا اس لئے آپ کو اعلیٰ درجہ حاصل ہوا اور دوسرے انبیاء صلى الله

Page 94

سيرة النبي عمال رکھتا الله 80 جلد 2 پر عکس ڈالنے والے ایسے نہ تھے اس لئے وہ رسول کریم ﷺ سے کم درجہ پر رہے.اگر ان پر بھی وہی عکس ڈالتا جس نے رسول کریم عے پر ڈالا تو وہ اسی درجہ کو حاصل کر لیتے الله جو رسول کریم ﷺ کو حاصل ہوا.لیکن اب چونکہ ایک ہی عکس ڈالنے والا ہے اس لئے ان کے مدارج میں جو فرق ہے وہ ان کے اپنے اپنے قلب کی صفائی سے تعلق ہے.کیونکہ ایک ہی چیز جب مختلف چیزوں پر برابر اثر ڈالے تو ان کے اپنے اپنے ظرف کے مطابق نتیجہ مرتب ہوگا.جبکہ جن پر عکس پڑے ان کے اندرونے میں فرق ہو تو باوجود ایک شے کا ہی عکس پڑنے کے پھر بھی نتیجہ میں فرق ہو گا.اور یہی رسول کریم ﷺ کی سب انبیاء پر فضیلت ہے کہ آپ کا سینہ سب سے اعلیٰ اور مصفی تھا اور اس پر جو عکس پڑا وہ سب سے بڑھ کر تھا.اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ کبھی فیضان کی نوعیت کے لحاظ سے اس کے نام مختلف رکھ دیئے جاتے ہیں یوں وہ روح القدس کا ہی فیضان ہوتا ہے اور فیضان کی نوعیت قلب کی صفائی کے مطابق ہوتی ہے.دیکھو! جب سورج کا عکس لینا ہو اور معلوم ہو کہ اس کے لئے شیشہ بہت بہتر ہے تو اسی پر لیں گے نہ کہ لوہے کے ٹکڑے پر لیں گے.چونکہ رسول کریم ﷺ کا قلب بہترین قلب تھا اس لئے آپ پر فیضان کا جو عکس پڑا وہ چونکہ سب سے اعلیٰ اور بڑھ کر تھا اس لئے وہی قیامت تک رہے گا اور اس طرح فیضان کی نوعیت بدل گئی.دیکھو! حضرت مسیح کو جبرائیل کے فیضان کی شکل کشف میں کبوتر کی دکھائی گئی لیکن رسول کریم ﷺ کے پاس یہ فیض آدمی کی شکل میں آیا جو بہت اعلیٰ اور اکمل فیضان تھا.تو فیضان کی نوعیت کا بھی فرق ہوتا ہے اسی نوعیت کے فرق کی وجہ سے جبرائیل کے کئی نام ہیں.روح القدس ، روح الامین وغیرہ.روح القدس جبرائیل کا نام اُس کلام پاک کی وجہ سے ہے جو وہ نازل کرتا ہے اور روح الامین اس کا لقب اُس کلام پاک کے نازل کرنے کی وجہ سے ہے جس کی ہمیشہ اس نے حفاظت بھی کرنی الله

Page 95

سيرة النبي علي 81 جلد 2 تھی اور جس کلام کو ہر قسم کے نقص سے محفوظ رکھنا اس کا فرض تھا.یہ نام جبرائیل کے لئے اسی فیضان کی وجہ سے ہے جو رسول کریم ﷺ پر پڑا.گو یا جبرائیل رسول کریم صلى الله صلى الله کا منون احسان ہے کہ آپ کے سبب اسے ایک اور خطاب ملا.غرض دوسرے انبیاء پر روح القدس کے رنگ میں جبرائیلی پر تو پڑا لیکن رسول کریم ﷺ پر روح الامین کے رنگ میں پر تو پڑا جس کا یہی کام نہیں کہ پاکیزگی پیدا کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ پاکیزگی ہمیشہ کے لئے قائم بھی رکھی جائے.روح الامین میں قدوسیت بھی آگئی اور اس کے ساتھ ہی ہمیشگی بھی پائی گئی اس لئے یہ نام روح القدس کی نسبت اعلیٰ ہے.ملک افضل ہے یا انسان؟ اب میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ ملک افضل ہے یا انسان؟ کیونکہ پیچھے جو اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عیسی ، موسی ، رسول کریم ﷺ جبرائیلی پر تو سے الله اس درجہ کو پہنچے تو اس کے متعلق کسی کے دل میں خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ افضل ہوا جس نے ان پر پر تو ڈالا نہ کہ وہ جو اس کے پرتو سے اعلیٰ مقام پر پہنچے.یا د رکھنا چاہئے کہ باوجود اس کے کہ حضرت عیسی ، حضرت موسی اور رسول کریم ہے پر جبرائیل کا پر تو پڑا یہ جبرائیل سے اعلیٰ ہیں اور اس کے کئی وجوہ ہیں.(1) جبرائیل بے شک پر تو ڈالنے والا ہے مگر بطور واسطہ کے ورنہ اصل عکس ڈالنے والا خدا ہی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ سورج کا عکس شیشے پر پڑے اور اس سے کسی اور چیز پر پڑے.جبرائیل خدا تعالیٰ سے نور اخذ کر کے آگے ڈالتا ہے نہ کہ اپنی ذات سے اور واسطہ کبھی اعلیٰ ہوتا ہے اور کبھی ادنی.اعلیٰ کی مثال تو شیشے کی ہے جس پر سورج کا عکس پڑے.شیشہ اس چیز سے اعلیٰ ہوگا جس پر اس کے واسطہ سے عکس پڑے گا.اور ادنی کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ چٹھی لکھ کر چپڑاسی کو دے

Page 96

سيرة النبي عمال 82 جلد 2 کہ فلاں وزیر کو پہنچا دے وہ نہیں جانتا کہ چٹھی میں کیا ہے یا کیا نہیں، اس کا کام پہنچا دینا ہے.یا مثلاً اس کے ہاتھ زبانی پیغام بھی کہلا بھیجے تب بھی وزیر جو کچھ اس سے کہے گا وہ پیغا مبر سے اکمل مفہوم ہو گا.اس مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا پر تو جبرائیل کے ذریعہ نبی پر پڑے مگر جبرائیل کو معلوم ہی نہ ہو کہ کیا ہے.اس کا پتہ حدیث سے بھی لگتا ہے.معراج کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک مقام پر جا کر جبرائیل نے رسول کریم ﷺ کو کہا آگے آپ ہی جائے میں نہیں جا سکتا 1.تو جبرائیل کے ذریعہ جو کچھ پہنچایا گیا وہ ایسا ہے جیسا کہ کسی کو ایک پیغام دے کر کسی کے پاس بھیجا جائے جس میں سے کچھ تو وہ سمجھ لے اور کچھ ایسے اشارے ہوں جنہیں وہی سمجھ سکتا ہو جس کے پاس پیغام بھیجا گیا یا وہ سمجھ سکتا ہے جس نے پیغام بھیجا.اسی طرح جبرائیل کو جو کچھ دیا گیا وہ لے تو گیا مگر اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں خدا اور رسول ہی سمجھ سکتے ہیں.یہ مثال تو ایسی ہے کہ جبرائیل جو کچھ لے گیا اسے وہ سمجھ نہ سکتا تھا.اس کے علاوہ وہ حصہ جو جبرائیل سمجھ سکتا تھا اس میں بھی رسول کریم ﷺ اس سے بڑھے ہوئے صلى الله تھے.اس کو مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں.دو آدمی بخار میں مبتلا ہوں اور دونوں کو کو نین دی جائے تو بسا اوقات ایک کو تو جھٹ اثر ہو جائے گا اور ایک کو دیر میں ہوگا.ایسا کیوں ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ یہ فرق ان دونوں کی ذاتی قوتوں کی وجہ سے پڑے گا.جس کے جسم میں ایسے مادے ہوں گے کہ جو کونین پر غالب آجائیں اس پر کم اور دیر سے ہوگا اور جس کا جسم صاف ہوگا اس پر فوراً اثر ہوگا اور بخار اتر جائے گا.یہ مثال تو دفع شر کی قوتوں کے اختلاف کی ہے.جلب خیر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے.دو آدمی ایک ہی خوراک کھاتے ہیں ایک بہت موٹا اور مضبوط ہو جاتا ہے اور دوسرا اس قدر فائدہ نہیں اٹھاتا.گو بسا اوقات وہ پہلے سے غذا، مقدار میں بھی زیادہ کھا لیتا ہے.اسی طرح وہ تعلیم جس کو دونوں یعنی جبرائیل اور رسول کریم ﷺ سمجھتے

Page 97

سيرة النبي ع 83 جلد 2 تھے اس میں بھی رسول کریم ﷺ افضل تھے کیونکہ وہ رسول کریم ﷺ پر آپ کے قومی کے مطابق اثر ڈالتی تھی اور حضرت جبرائیل پر ان کے قومی کے مطابق.یہ بات اس طرح اور زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتی ہے کہ میں اس وقت یہ مضمون اردو میں بیان کر رہا ہوں اور ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے مگر ہر ایک، ایک جیسا نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہر ایک پر ایک جیسا اثر ہوتا ہے.پھر قلب کا اثر بھی بات پر جا پڑتا ہے.دیکھو سورۃ فاتحہ ہی ہے کوئی شخص اسے پڑھتا ہے تو اس کی جھیلیں نکل جاتی ہیں اور کوئی پڑھتا ہے تو اس کے چہرہ پر بشاشت آجاتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جس کے قلب کے اندر رونے کا مادہ ہوتا ہے اور وہ مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اسے پڑھ کر سمجھتا ہے خدا ہی ہے جو میری مصیبت کو دور کر سکتا ہے اور اس سے اس کی چینیں نکل جاتی ہیں.لیکن دوسرا شخص جو کامیابیوں کو اپنے گردو پیش پاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا ہی میری حفاظت کرنے والا ہے کون ہے جو مجھے تباہ کر سکے.اس سے اس کے پڑھنے سے چہرہ پر بشاشت آجاتی ہے.تو ایک ہی بات کا قلب کی حالت کے لحاظ سے مختلف اثر ہوتا ہے.پس وہ کلام جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا وہ ان بشری قوی سے مل کر جو آپ کے اندر تھے اور نتیجہ اور مطلب پیدا کرتا اور جبرائیل کے اندر چونکہ اور قوی تھے اس لئے ان کے ساتھ مل کر اور نتیجہ پیدا ہوتا.اور یہ صاف بات ہے کہ مختلف چیزوں کی ترکیب سے مختلف نتائج پیدا ہوا کرتے ہیں.مثلاً چونا ہے اس پر اینٹیں رکھ دی جائیں تو کچھ نہیں ہوگا لیکن اگر پانی ڈالا جائے تو آگ پیدا ہو جائے گی کیونکہ چونا اور پانی کے ملنے سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کرتا ہے.تو باوجود اس کے کہ جو کچھ رسول کریم عالی و لیلی جبرائیل کے ذریعہ سے اترا اسے جبرائیل سمجھتے تھے مگر جو قومی رسول کریم ﷺ کو حاصل تھے وہ ان کو حاصل نہ تھے اس لئے ایسا نہ سمجھ سکتے تھے جیسا رسول کریم ع سمجھتے اور اسی وجہ سے رسول کریم ﷺ کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے.“ صلى الله ملائکۃ اللہ صفحہ 68 72 مطبوعہ قادیان بار دوم )

Page 98

سيرة النبي علي = 84 آپ مزید فرماتے ہیں :.الله ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے لئے شیطان مقرر نہیں.صحابہ نے پوچھا کیا آپ بھی؟ آپ تو محفوظ ہوں گے؟ فرمایا ہاں میں بھی ایسا ہی ہوں مگر مجھے خدا نے طاقت دی ہے اور میں شیطان پر غالب آ گیا ہوں جب مجھے وہ کوئی تعلیم دیتا ہے تو نیکی کی ہی دیتا ہے برائی کی نہیں دیتا..اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ ایک ایک شیطان ہر انسان کے لئے مقرر ہے اور رسول کریم کا شیطان نیکی کی تحریک کرتا تھا.اگر وہ الگ وجود تھا اور اس نے بدی کی تحریک چھوڑ کر نیکی کی تحریک شروع کر دی تھی تو پھر وہ شیطان کس طرح رہا؟ پھر تو وہ فرشتہ ہو گیا.اگر کہو کہ وہ پہلے شیطان تھا لیکن جب نیکی کی تحریک کرنے لگا تو فرشتہ ہو گیا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ رسول کریم ﷺ نے اس کی نیکی کی تحریک کرنے کا ذکر کرتے وقت بھی اسے شیطان ہی کہا ہے.اگر اس کا یہ جواب دیا جائے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کا نام شیطان اس کی پہلی حالت کی وجہ سے رکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس نے شیطنت کو چھوڑ دیا تھا تو یہ عظیم الشان اثر تو اس کے اندر محمد رسول اللہ علہ کے ذریعہ ہوا.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ سَلَّطَنِی.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر تسلط دے دیا.پس اس کا اسلام تو رسول کریم ﷺ کی وجہ سے تھا پھر اس کو یہ درجہ کہاں سے ملا کہ وہ رسول کریم ہے کے دل میں نیک تحریکیں کرنے لگا.کیونکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں وہ مجھے نیک تحریکیں کرتا ہے.پس یہ معنے اس کے بالبداہت غلط ہیں اور اس کے اور ہی معنے ہیں جو یہ ہیں کہ وہ عام اثرات شیطان کے جو ہر ایک انسان پر پڑ رہے ہیں اور جن سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ان کے متعلق آنحضرت می فرماتے ہیں کہ جب شیطان کا کوئی ایسا اثر مجھ پر آکر پڑتا ہے تو وہ نیکی ہو جاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے گندہ پانی جب فلٹر میں سے صلى الله الله جلد 2

Page 99

سيرة النبي علي 85 جلد 2 گزرتا ہے تو صاف ہو جاتا ہے اسی طرح رسول کریم عے پر آ کر جو برا اثر پڑتا وہ آپ کے ذریعہ نیک ہو جاتا.یا اس کی مثال گنے پہیلینے والے بیلینے کی ہے کہ جب اس میں گنا رکھا جاتا ہے تو رس ایک طرف نکل آتی ہے اور چھلکا دوسری طرف گر پڑتا ہے.اسی طرح رسول کریم ﷺ پر جب کوئی ایسی بات پڑتی جو پاک نہ ہوتی اس کی ناپا کی علیحدہ ہو جاتی اور باقی پاک رہ جاتی اور اسی کا نام آپ نے یہ رکھا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.غرض شیطانی تحریکوں کو بھی نیک استعمال کیا جاسکتا ہے.“ ملائکۃ اللہ صفحہ 100 101 مطبوعہ قادیان بار دوم ) 1: السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 128 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 2: مسلم كتاب صفات المنافقين باب تحريش الشيطان صفحہ 1225 ،1226 حدیث نمبر 7110 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية

Page 100

سيرة النبي الله 86 جلد 2 رسول کریم ملی پر درود بھیجنے کی برکات رسول کریم ﷺ پر درود بھیجنے کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے اپنی تقریر بعنوان ”ملا لگتہ اللہ فرمودہ 29 دسمبر 1920 ء میں فرمایا :.وو دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ پر درود بھیجے اور یہ بھی قرآن سے معلوم b ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 1 اللہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر ہر وقت برکتیں بھیج رہے ہیں اور جب وہ برکتیں بھیجتے ہیں تو مومنو! تمہارا بھی.کام ہے کہ تم بھی برکتیں بھیجو.اس کے متعلق سوال ہوسکتا ہے کہ یہ بات بیشک مانی کہ اس آیت میں رسول کریم ﷺ پر درود بھیجنے کا حکم ہے مگر یہ کس طرح معلوم ہوا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ملائکہ سے تعلق ہو جاتا ہے.اس کا ثبوت قرآن سے ہی ملتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَبِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّوْرِ اے مومنو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو اور صبح و شام تسبیح کرو.وہ خدا ہی ہے اور اس کے ملائکہ جو تم پر درود بھیجتے ہیں تا کہ تم کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاویں.ایک جگہ تو حکم دیا ہے کہ چونکہ خدا اور ملائکہ اس نبی پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو اور دوسری جگہ یہ فرمایا کہ خدا اور ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں.پہلی آیت کے مطابق یہاں بھی یہ چاہئے تھا کہ چونکہ خدا اور ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی

Page 101

سيرة النبي عمال 87 جلد 2 ایک دوسرے پر درود بھیجو لیکن یہ نہیں کہا گیا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلی بات مستقل حکم کا رنگ رکھتی تھی یعنی چونکہ خدا اور ملائکہ اس رسول پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو اور دوسری آیت میں اس فعل کی جزا بتائی کہ چونکہ تم نے اس حکم کی تعمیل کی اس لئے اس کی جزا میں خدا اور رسول ان پر بھیجنے لگ گئے.گویا وہاں تو رسول کریم ﷺ کے درجہ کی وجہ سے درود کا حکم دیا گیا تھا اور یہاں اس کی جزا کو بیان کیا گیا ہے اور چونکہ جزا کے بدلے میں پھر اور حکم نہیں دیا جاتا اس لئے آگے یہ نہیں فرمایا کہ تم دوسرے بندوں پر بھی درود بھیجو مثلاً جب ہم روپیہ دے کر کپڑا خریدیں تو کپڑا دینے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے جو کپڑا دیا ہے اس کا تم نے کوئی بدلہ نہیں دیا.تو پہلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ خدا اور ملائکہ اس رسول پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.مگر مومنوں کے لئے یہی فرمایا کہ ہم اور ملائکہ ان پر درود بھیجتے ہیں اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں پر درود بھیجو.غرض اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ پر درود بھیجنے سے ملائکہ کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے.پس جو لوگ رسول کریم ﷺ پر درود بھیجیں گے ان کی ملائکہ سے ایک نسبت ہو جائے گی اور اس طرح ان سے تعلق ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ صلحاء نے رسول کریم ﷺ پر درود بھیجے کو بڑا اعلی عمل قرار دیا ہے.اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ دعا جس میں خدا کی حمد اور مجھ پر درود نہ ہو وہ دعا قبول نہیں ہوگی 3 اس کا یہی مطلب ہے کہ جس دعا میں خدا تعالیٰ کی حمد اور رسول کریم ﷺ پر درود ہوگا وہ زیادہ ملائکۃ اللہ صفحہ 104 ، 105 مطبوعہ قادیان بار دوم ) قبول ہوگی.“ 1: الاحزاب : 57 2 الاحزاب : 42 تا 44 3 ترمذی ابواب الدعوات باب فى ايجاب الدعاء صفحه 794،793 حدیث نمبر 3476، 3477 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى

Page 102

سيرة النبي الله 88 88 رسول کریم ﷺ کا ایک حکم اور صحابہ کا فوری عمل مسیحی ممالک اور ترک شراب“ کے عنوان سے حضرت مصلح موعود کا ایک مضمون ریویو آف ریلیجنز فروری 1921 ء میں شائع ہوا.اس میں شراب کی حرمت کے فرمان اور اس پر صحابہ کے ردعمل کا بیان کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں:.اس شراب کے نشہ میں مخمور رہنے والی قوم اور شراب کو اپنا ایک ہی دل لگی کا ذریعہ سمجھنے والی جماعت میں ایک دن محمد رسول اللہ اللہ نکلتے ہیں اور مختصر اور صاف لفظوں میں خدا تعالیٰ کا یہ حکم سنا دیتے ہیں کہ شراب کے نقصانات چونکہ اس کے نفع سے زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اس کو حرام کر دیا ہے.پس ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اس سے پر ہیز کرے اور اس کا بنانا، بیچنا، پینا، پلانا ترک کر دے.اور اس حکم کو سن کر وہ شراب کے شیدائی اپنا سر نیچا ڈال لیتے ہیں اور ایک کے منہ سے بھی اس کے خلاف آواز نہیں نکلتی.ہر ایک ان میں سے شرح صدر سے اس حکم کو قبول کر لیتا ہے اور اس وقت کے بعد شراب کا گلاس کسی ایک فرد کے بھی منہ کے قریب نہیں جاتا.صلى الله وہ لوگ مہلت نہیں مانگتے.قلت و کثرت کا سوال نہیں اٹھاتے کیونکہ محمد رسول اللہ ہے نے ان کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس چیز کی زیادتی حرام ہے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے.ان میں لیکچروں کی ضرورت پیش نہیں آتی.شراب کی برائیاں ذہن نشین کرنے کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ اسلام نے ان کے ذہنوں کو جلا دے دی تھی کہ حق بات کی طرف توجہ دلانا ان کے لئے کافی ہوتا تھا اور تعصب اور خود بینی سے ان کو اس قدر دور کر دیا تھا کہ اپنی غلطیاں خود بخود ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی جلد 2

Page 103

سيرة النبي عمال 89 جلد 2 تھیں.پس کسی لیکچرار کے لیکچر یا میجک لنترن (Magic Lantern) کی تصاویر کی ان کو ضرورت نہ تھی.ان کے لئے صرف ایک اشارہ کافی تھا ، ایک لفظ بس تھا اور سب معاملہ آپ ہی آپ ان کے لئے واضح ہو گیا تھا.ان کا اپنا نفس ان کے لئے لیکچرار تھا اور گوشہ ہائے دماغ میجک لنٹرن کے پردے جن پر سے وہ عقل کی آنکھوں کے ساتھ خوب اچھی طرح ان بدمستیوں کے نظاروں کو دیکھ سکتے تھے جو شراب نوشی کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں وہ جھوٹی تصویروں کے محتاج نہ تھے سچا نقشہ ان کی رہنمائی کے لئے کافی تھا.اسلام کے اس دوحرفہ حکم کا جو اثر شراب نوشی پر ہوا اس کی بہترین مثال ذیل کا واقعہ ہے جو مسلم ، مسند احمد بن حنبل اور ابن جریر کی روایات سے ماخوذ ہے.حضرت انس جو رسول کریم ﷺ کے خدام میں سے تھے اور مدینہ کے رہنے والے تھے بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ابوطلحہ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی ، بہت سے دوست جمع تھے اور میں شراب پلا رہا تھا.دور پر دور چل رہا تھا اور نشہ کی آمد کی وجہ سے ان کے سر جھکنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے.بعض لوگوں نے کہا کہ اٹھ کر دریافت کرو کہ یہ بات درست بھی ہے یا نہیں ؟ مگر بعض دوسروں نے کہا کہ نہیں پہلے شراب بہا دو پھر دیکھا جاوے گا اور مجھے حکم دیا کہ میں شراب کا برتن تو ڑ کر شراب بہا دوں.چنانچہ میں نے ایک سوٹا مار کر وہ گھڑا جس میں شراب تھی توڑ دیا.اور اس کے بعد وہ لوگ کبھی شراب کے نزدیک نہیں گئے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اثر لوگوں کے دلوں پر کیا تھا.مجلس شراب میں جبکہ لوگ نشہ میں ہیں ایک شخص کے خبر دینے پر بلا تحقیق شراب کا بہا دینا کوئی معمولی بات نہیں اور اس کی اہمیت کو وہ اقوام زیادہ سمجھ سکتی ہیں جو شراب کی عادی ہیں.کیونکہ جب دور سے دیکھنے والے ان کی اس حالت کو ایک عجیب حیرت

Page 104

سيرة النبي ع 90 جلد 2 کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو خود ان کے دل ضرور اس حالت کی خصوصیت کو اچھی طرح محسوس کرتے ہوں گے.“ ریویو آف ریلیجنز فروری 1921 ءصفحہ 83،82) 66

Page 105

سيرة النبي الله 91 جلد 2 غیر موافق حالات میں کامیابی حضرت مصلح موعود نے 9 مارچ 1921ء کو مالیر کوٹلہ میں حضرت نواب محمد علی خان.وو صاحب کے شہر والے مکان میں ایک تقریر فرمائی جو موازنہ مذاہب کے نام سے شائع شدہ ہے.اس میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کا اس پہلو سے ذکر ملتا ہے کہ آپ نے غیر موافق حالات میں کامیابی حاصل کی.چنانچہ فرمایا :.جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اُس وقت آپ کی دنیاوی حیثیت کوئی بڑی نہ تھی.ابھی آپ شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد فوت ہو گئے تھے اور بہت چھوٹی عمر تھی کہ ماں فوت ہو گئی.آپ کو کوئی بڑا تر کہ بھی نہیں ملا تھا اس کے بارے میں متفرق روایتیں ہیں.زیادہ سے زیادہ جو کچھ آپ کو ملا وہ ایک اونٹ اور پانچ بکریاں تھیں.آپ کی کوئی ذاتی تجارت نہیں تھی بلکہ بڑی عمر ہوئی تو حضرت خدیجہ کی تجارت کرنے لگے اور نفع ان کو دیتے تھے اور وہ کچھ معاوضہ آپ کو دے دیتی تھیں.عرب میں کوئی حکومت نہ تھی مگر مکہ والوں نے جو دارالندوہ قائم کر رکھا تھا اس کے بھی آپ ممبر نہ تھے.دنیاوی علوم آپ نے حاصل نہ کئے تھے.آپ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا.اس تمام ضعف اور کمزوری پر طرفہ یہ کہ جب آپ نے دعوی کیا تو تمام عرب مخالف ہو گیا.آپ وہ بات کہتے تھے جو جمہور عرب کے خلاف تھی اور عرب اس کو ماننے میں اپنی ہلاکت دیکھتے تھے.صلى الله آنحضرت عل اور مسٹر گاندھی دنیا میں بڑے بڑے فاتح ہوئے ہیں اور لوگ بھی ہوئے ہیں جن کے

Page 106

سيرة النبي عمال 92 جلد 2 ساتھ لوگ چل پڑے.مثلاً آج ہمارے ہندوستان میں مسٹر گاندھی ہی ہیں ان کی جے کے نعرے بھی آج ہندوستان میں لگائے جاتے ہیں.ممکن ہے کہ کوئی کہہ دے کہ الله آنحضرت مے کے ساتھ اگر دنیا ہوگئی تو کیا ہوا مسٹر گاندھی کے ساتھ بھی تو لوگ ہو ہی گئے ہیں.اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ آنحضرت ﷺ اور مسٹر گاندھی میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ آنحضرت معہ عرب سے وہ بات منوا رہے تھے جو عرب ماننے کے لئے تیار نہ تھا مگر مسٹر گاندھی وہ بات کہتے ہیں جس کا مطالبہ خود ہندوستان کر رہا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی زمیندار کے پیٹ میں درد ہونے لگا.کسی نے کچھ علاج بتلایا کسی نے کچھ.ایک شخص نے جو زمینداری کا ایک اوزار لئے کھڑا تھا کہا کہ اس کو گرو گھول کر پلا دو.مریض نے جب یہ بات سنی تو کہا کہ ہائے اس کی بات کوئی نہیں سنتا.تو وہ بات جو مسٹر گاندھی کہہ رہے ہیں لوگوں کے مطلب کی اور ان کی منشاء کے مطابق ہے اس لئے اس کو ماننے کے لئے تیار ہیں.ایک اور مثال ہے جو اگر چہ فرضی ہے مگر حقیقت کو ظاہر کرتی ہے.ایک بزرگ نے لکھا ہے ایک اونٹ کہیں جارہا تھا آگے سے چوہا ملا اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور جدھر اونٹ جارہا تھا ادھر ہی چل پڑا.تھوڑی دور جا کر چوہے نے خیال کیا کہ میں ہی اس کو چلا رہا ہوں.آخر ایک دریا پر پہنچے اور وہاں اونٹ رک گیا.چوہے نے کہا چل ! اس نے کہا نہیں چلتا.جب تک میرا دل چاہا میں چلا اب دل نہیں چاہتا میں نہیں چلوں گا.تو چونکہ ان لیڈروں کی زبان سے وہی نکل رہا ہے جو لوگ چاہتے ہیں اس لئے اگر لوگ ان کے پیچھے چل رہے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے مکہ والوں کے چڑھاووں کی حفاظت کی فکر نہیں کی ، ان کے بتوں کی حفاظت نہیں کی جن پر چڑھاوے چڑھتے تھے اور جن سے ان کی گزر اوقات ہوتی تھی بلکہ آپ نے ان کے اس چڑھادوں کے رزق کو بند کر دیا اور کہہ دیا کہ ان خداؤں کو چھوڑو اور ایک خدا کو مانو.پس مسٹر گاندھی وغیرہ لیڈروں کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی گاڑی یا موٹر جدھر

Page 107

سيرة النبي عالم 93 جلد 2 جارہی ہو وہ چلتی جائے اور ایک شخص پیچھے ہاتھ رکھ دے اور کہے کہ میں اس کو چلا رہا ہوں.لیکن آنحضرت ﷺ نے جدھر گاڑی چل رہی تھی ادھر سے اس کا رُخ پلٹ کر ) دوسری طرف کو پھیر دیا.زرتشتی دو خداؤں کے قائل تھے.آپ نے ان سے یہ عقیدہ چھڑوایا.عیسائی حضرت مسیح ناصری کو اپنے گناہوں کا کفارہ بنا کر اپنی نجات ان کی صلیبی موت میں جانتے تھے اور اسی پر بھروسہ کئے بیٹھے تھے آپ نے اس کے خلاف آواز بلند کی جو ان کے وہمی باغات کو جلا کر خاکستر کر گئی.صلى الله قوم نے آنحضرت ﷺ سے کیا سلوک کیا آپ کی قوم آپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہ تھی بلکہ آپ کے خلاف کھڑی ہوگئی اور تیرہ سال تک آپ کو بے شمار تکالیف دیتی رہی.پھر وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہوتے ان پر نئے سے نئے مظالم توڑے گئے اور عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر چیرا گیا.گرم ریت پر لٹائے گئے اور ان کو مارا گیا اور اتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور جب ان کو ہوش آتی بتوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا مگر پھر بھی جب وہ خدا کا ہی نام لیتے تو ان کو اور عذاب دیتے.اس فتنہ کا حال حضرت علیؓ کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ذر غفاری نے جب سنا کہ مکہ میں ایک شخص نے خدا کا رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے اپنے بھائی کو بھیجا.لوگوں نے آنحضرت ﷺ تک اس کو پہنچنے نہ دیا اور واپس چلا گیا.پھر وہ خود آئے مگر کسی سے پوچھتے بھی نہ تھے کہ کوئی دھوکا نہ دے دے.حضرت علیؓ سے ملاقات ہوئی.بڑی ردوکت کے بعد انہوں نے اپنا مقصد ظاہر کیا کہ میں آنحضرت ﷺ کو دیکھنے آیا ہوں.حضرت علیؓ نے ان کو کہا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ.جب کوئی غیر شخص نظر آئے گا تو میں جھٹ ایک طرف ہو کر بیٹھ جایا کروں گا اور تم آگے نکل جایا کرو.اسی طرح حضرت ابوذر حضرت علیؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے حضور پہنچے اور ایمان لے آئے.مگر ان پر یہ اثر ہوا کہ ایمان لا کر خاموش نہ رہ سکے.مکان

Page 108

سيرة النبي عمال 94 جلد 2 نکلتے ہوئے کلمہ شہادت زور سے پڑھا.اس پر مشرکین جمع ہو گئے اور آپ کو مارنے لگے اور آپ بیہوش ہو گئے.بعض لوگوں نے آپ کو چھڑا دیا اور اسی طرح ہوش آنے پر آپ نے پھر ایسا ہی کیا.لوگ پھر مارنے لگے 1.ایسی ایسی مصیبتیں تھیں جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کو پہنچائی گئیں.ان حالات میں آپ کے اصحاب کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور کفار نے ان کا وہاں تک تعاقب کیا مگر وہاں کے دربار میں جب مسلمان پیش ہوئے اور انہوں نے صفائی.اپنے عقائد بتائے تو کفار کو مجبوراً واپس آنا پڑا.لیکن ابھی مصائب کا خاتمہ نہیں ہو گیا.آپ کو پھر تکالیف پہنچائی گئیں اور آپ نے حضرت ابو بکر کو ساتھ لے کر مکہ سے ہجرت کی.پھر کفار نے پیچھا کیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی.اس حالت میں کون کہہ سکتا تھا کہ جس کے چند ساتھیوں کی جمعیت بھی منتشر ہوگئی اور جس کو وطن سے بے وطن ہونا پڑا وہ کبھی غالب ہوگا.جب آپ مدینہ میں پہنچے تو ان لوگوں نے وہاں بھی آرام نہ لینے دیا بار بار چڑھ کر گئے.چنانچہ ایک دفعہ جنگ صلى الله احزاب میں دس ہزار کی جمعیت لے کر مدینہ پر چڑھ آئے اور آنحضرت ﷺ کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنا پڑی.صحابہ کے ساتھ آپ بھی خندق کی کھدائی کے کام میں شریک تھے.احادیث و تاریخ سے ثابت ہے کہ جب آپ نے کدال چلائی اور ایک پتھر پر لوہا پڑا اور اس میں سے شعلہ نکلا تو آپ نے بلند آواز سے کہا اللہ اکبر ! صحابہ نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا.دوسری دفعہ آپ نے کدال ماری اور پھر شعلہ نکلا.پھر آپ نے بلند آواز سے کہا اللہ اکبر اور صحابہ نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا.تیسری دفعہ پھر آپ نے کدال چلائی اور شعلہ نکلا آپ نے زور سے اللہ اکبر کہا اور صحابہؓ نے بھی کہا.پھر آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم نے کیوں اللہ اکبر کہا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ چونکہ حضور نے اللہ اکبر کہا تھا اس لئے ہم نے بھی کہا ورنہ ہم نہیں جانتے کہ کیا بات ہے.اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں.آپ نے فرمایا

Page 109

سيرة النبي علي 95 جلد 2 جب میں نے پہلی دفعہ کدال ماری اور شعلہ نکلا تو مجھے دکھایا گیا کہ مجھے قیصر کے ملک پر فتح حاصل ہوئی اور دوسری دفعہ معلوم ہوا کہ کسریٰ کے ملک پر اور تیسری دفعہ حیرہ کے بادشاہوں کی حکومت زیروز بر ہوتی دکھائی گئی 2.جب آپ نے یہ فرمایا تو منافقین اور مخالفین نے ہنسنا شروع کر دیا کہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ پاخانہ پھرنے کی تو ان کو اجازت نہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ قیصر وکسری کی سلطنتیں ہمیں ملیں گی اور ہم ان پر قابض ہوں گے 3.لیکن ان کی ہنسی جھوٹی ثابت ہوئی اور خدا کی بات پوری ہوئی اور اس سے ثابت ہو گیا کہ اسلام سچا ہے اور اس کی یہ دلیل ہے کہ یہ جن گھروں میں ہے وہ بلند کئے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.خدا تعالیٰ نے سورۃ احزاب میں مسلمانوں کی حالت کا نقشہ یہ کھینچا ہے کہ زمین با وجود فراخی کے ان کے لئے تنگ ہو گئی تھی اور دنیا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مسلمان اب پس جائیں گے.اُس وقت خدا ان کو بشارت دیتا ہے کہ تم مخالفین کو پیس دو گے اور دنیا کی حکومت تمہاری ہی ہوگی.چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہدِ مبارک میں شام فتح ہوا.یہ ترقی اور یہ شان اور ادنیٰ حالت سے بلندی پر قدم کا پہنچنا ثبوت ہے اس بات کا کہ اسلام سچا ہے.کیونکہ خدا نے بتایا تھا کہ ایسا ہوگا اور ایسا ہی ہوا اور دشمن سے دشمن کو اقرار کرنا پڑا کہ ہاں اسلام نے ترقی کی اور اس کی ترقی کی اُس وقت پیشگوئی کی گئی تھی جبکہ مسلمانوں کو اپنے گھر میں بھی کوئی آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا.مگر پھر حکومت آئی اور غریبوں اور فقیروں کو خدا تعالیٰ نے حکومتیں دیں.حضرت ابو ہریرہ کا واقعہ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ کا واقعہ ہے کہ جب وہ ایک علاقہ کے گورنر بنائے گئے اور ان کے پاس کسری کا ایک رومال تھا جب کھانسی آئی تو انہوں نے اس رومال سے منہ صاف کیا اور کہا بخ بخ ابو هريرة 4.اس کے معنے ہیں واہ واہ ابو ہریرہ.آج تو کسری کے

Page 110

سيرة النبي عمال 96 جلد 2 رومال میں ٹھوکتا ہے مگر ایک وقت تو تیری یہ حالت تھی کہ تجھ پر دنوں فاقے گزرتے تھے اور تو حضرت ابوبکر کے پاس جاتا تھا کہ وہ بڑے صدقہ کرنے والے تھے اور ان سے آیت صدقہ کے معنے پوچھتا تھا اور وہ بتاتے تھے.حالانکہ معنے تجھ کو بھی آتے تھے.پھر حضرت عمرؓ کے پاس جاتا اور وہ بھی کچھ نہ کھلاتے.آخر حضرت نبی کریم علی کے پاس آتا اور آپ چہرہ سے ہی پہچان جاتے اور پوچھتے ابو ہریرہ ! بھوک لگی ہے؟ اور پھر آپ دودھ کا پیالہ منگواتے اور مجھ سے پہلے اور لوگوں کو پینے کو دیتے اور میں خیال کرتا کہ مستحق زیادہ میں تھا آخر مجھ کو ملتا اور میں سیر ہوتا 5.اسی طرح کئی فاقے گزر جاتے اور لوگ مجھے مرگی زدہ خیال کر کے مارتے لیکن آج یہ حال ہے کہ گردن کش بادشاہوں کے خاص درباری رومالوں میں تو تھوکتا ہے.یہ کامیابی ، یہ عروج ، یہ رفعت کوئی معمولی نہیں ہے.فرانس کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ میں حیران رہ جاتا ہوں جب میں یہ سوچتا ہوں کہ کھجور کے ایک ادنی درجہ کے چھپر کے نیچے چند آدمی بیٹھے ہیں جن کے جسم پر پورا کپڑا نہیں اور پیٹ بھی سیر نہیں.وہ باتیں یہ کرتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو کرلیں گے اور وہ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں.پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آنحضرت ﷺ جو مذہب لائے وہ حق ہے کیونکہ اس کے لئے جونشان رکھا گیا تھا وہ پورا ہو گیا.“ الفضل و مئی 1921 ء ) 1: بخاری کتاب مناقب الانصار باب اسلام ابی ذر الغفاری صفحہ 648 حدیث نمبر 3861 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 11 مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الاولى 3: السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 12 مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الاولى 4: ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء في معيشة اصحاب النبي عل صفحہ 539 حدیث نمبر 2367 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى

Page 111

سيرة النبي علي 97 جلد 2 5:بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي الله واصحابه و تخليهم من الدنيا صفحہ 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 112

سيرة النبي الله 98 98 جلد 2 رسول کریم ﷺ کیلئے خدا کی غیرت موازنہ مذاہب فرموده 9 مارچ 1921ء میں حضرت مصلح موعود نے آنحضرت ﷺ کیلئے خدا کی غیرت کا ان الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے فرمایا:.ایک موٹا مسئلہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کی حالت کا پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسے ہیں.مسلمانوں نے یہ مان لیا ہے کہ محمد رسول اللہ علیہ تو خاک کے نیچے مدفون ہیں اور حضرت مسیح کو ذرا تکلیف پیش آئی تو خدا نے ان کو آسمان پر چڑھا لیا اور ان کے دشمنوں کو انہیں ہاتھ تک نہیں لگانے دیا.میں کہتا ہوں اگر آسمان پر رکھے جانے کا صل الله کوئی اہل تھا تو وہ ہمارے نبی محمد رسول اللہ کے تھے لیکن یہ لوگ اس کو پسند نہیں کرتے صلى الله اور آنحضرت علے کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ مدفون زیر زمین ہیں اور مسیح کے لئے بڑے پُر جوش قلب سے کہتے ہیں کہ وہ آسمان پر ہیں.جب انہوں نے عیسائیوں الله کے مقابلہ میں حضرت نبی کریم عملے کی اس طرح ہتک کی تو خدا تعالیٰ نے بھی ان کو ذلیل کر دیا اور فیصلہ کر دیا کہ جس طرح یہ حضرت عیسی کو آنحضرت علی سے بڑھاتے ہیں اسی طرح ہم ان کو عیسی کے نام لیواؤں کے مقابلہ میں گرا دیں گے اور خاک میں ملا دیں گے.پس خدا کی غیرت نے محمد رسول اللہ ﷺ کی اس ہتک کو گوارا نہ کیا اس لئے اس نے ان مسلمانوں کو ذلیل کیا اور عیسائیوں کو ان پر غالب کر دیا.یہ لوگ جوش سے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بگڑی ہوئی امت کو مسیح ناصری سنواریں گے.خدا نے کہا بہت اچھا ہم مسیح کے ماننے کے مدعیوں کو ہی تم پر مسلط کرتے ہیں.پس جو کچھ ان کے ساتھ ہورہا ہے آنحضرت ﷺ کی ہتک کا نتیجہ ہے

Page 113

سيرة النبي علي 99 99 جلد 2 اور جب تک یہ حضرت عیسی کو آنحضرت ﷺ سے افضل مانتے رہیں گے ذلیل رہیں گے.کیونکہ خدا نے ان کو یہ سزا دی ہے اس لئے اس سزا میں ان کے گھروں کو عزت دینے کی بجائے ذلیل کیا جائے گا اور برباد کیا جاوے گا.انہوں نے حضرت عیسی کو خدا بنایا کہ وہ زندہ ہیں، نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ، مر دوں کو زندہ کرتے ہیں اور جانور پیدا کرتے ہیں.جب ان کی یہ حالت ہو گئی تو خدا تعالیٰ ان کی کیسے مدد کر سکتا تھا.قرآن کی حفاظت کے وعدے کا ایفاء اب ایک اور سوال ہے کہ خدا نے وعدہ کیا تھا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ 1 دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا نے اسلام کی حفاظت اور قرآن کریم کی حفاظت کا کیا سامان کیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے تو سامان کیا ہے مگر لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.خدا ان کو مجبور کرے گا کہ وہ ادھر متوجہ ہوں.خدا نے ایک شخص کو اسلام کی خدمت کے لئے اور اس کو تمام دنیا کے مذاہب کے مقابلہ میں بلند کرنے کے لئے مبعوث کیا ہے.وہ شخص حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہیں.جن کو ہم مانتے ہیں کہ وہ آنے والے مسیح نبی اللہ اور مہدی ہیں.انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کریں گے اور اس کے مخالفوں کے سراس کے آگے جھکا دیں گے اور ہم اس کے آثار دیکھ رہے ہیں.دنیا ان پر طرح طرح کے اتہام لگاتی خدا نے اسلام کے لئے کیا کیا ہے.مخالف ان کو دجال، فریبی اور کا ذب اور کیا کیا نام دیتے ہیں.مگر یہ عجیب بات ہے کہ اسلام جو خدا کا پیارا مذہب ہے وہ تو مٹ رہا تھا اور ہر طرف سے دشمنوں کے نرغے میں تھا خدا تعالیٰ نے بجائے اس کی حفاظت کے ایک اور ایسا شخص بھیج دیا جو اس کو مٹائے اور اس کو نابود کر دے.کیا یہ خدا کی اسلام سے محبت کا ثبوت ہے یا عداوت کا ؟ اگر اسلام خدا کا پیارا مذہب ہے جیسا کہ واقعہ میں ہے تو ضرور تھا کہ اس مصیبت اور آفت کے وقت میں خدا تعالیٰ

Page 114

سيرة النبي ع 100 جلد 2 اس کی خدمت اور حفاظت کے لئے کوئی پاک انسان مبعوث کرتا نہ کہ الٹا اس کو پاؤں تلے روندنے کے لئے نعوذ باللہ ایک اور دجال کو بھیجتا.حضرت مرزا صاحب کو لوگ نہ مانیں ، انہیں گالیاں دیں، انہیں بدتر سے بدتر ٹھہرائیں مگر اتنا تو سوچیں کہ خدا نے اسلام کے لئے کیا یہی کیا جبکہ اسلام ڈوب رہا تھا ایک اور ڈبونے والا بھیج دیا ؟ محبت کا تو تقاضا یہ تھا کہ خدا اس کی حفاظت کے سامان کرتا اور اسے دشمنوں سے بچاتا.مهر مادری مشہور قصہ ہے مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور دو عورتیں جھگڑتی ہوئی آئیں.ان میں سے ایک عورت کے بچے کو بھیڑیے نے کھا لیا.وہ دوسری کے بچے کو اپنا بتلاتی تھی اور کہتی تھی کہ اس کا بچہ مارا گیا ہے.اُس وقت معاملہ بہت ٹیڑھا تھا.حضرت سلیمان نے کہا کہ چھری لاؤ میں ابھی فیصلہ کرتا ہوں.بچے کو کاٹ کر آدھا ایک کو دے دیتا ہوں اور آدھا دوسری کو.اُس وقت جس عورت کا بچہ تھا فوراً بے تاب ہو کر بول اٹھی کہ یہ بچہ میر انہیں اسی کا ہے، اسی کو دے دیا جائے مگر دوسری خاموش رہی.حضرت سلیمان نے کہا کہ یہ بچہ اسی کا ہے جو کہتی ہے کہ میرا نہیں 2 کیونکہ اس کو اس سے ہمدردی پیدا ہوئی اور دوسری کو کچھ اثر نہ ہوا.پس مسلمان رسول اللہ ﷺ کے بچے کہلاتے ہیں اور دین خدا کا ہے.مگر لوگ اس پر غالب آرہے ہیں اور دمبدم اس پر پتھروں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں.ایسی حالت میں بجائے پتھروں سے بچانے کے خدا ایک اور پتھر پھینکنے والے کو بھیج دیتا ہے.کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ بات ہو سکتی ہے؟ اس خیال کے لوگوں سے تو ہندہ ابوسفیان کی بیوی ہی زیادہ سمجھدار رہی جب اور عورتوں کے ہمراہ وہ آنحضرت ﷺ کی بیعت کرنے لگی اور آنحضرت ﷺ نے شرک نہ کرنے کا اقرار کرایا تو وہ بے اختیار بول اٹھی کہ کیا ہم اب بھی شرک کریں گے حالانکہ ہم نے بتوں کی اس قدر مدد کی مگر ان سے کچھ نہ ہو سکا.اور آپ اکیلے تھے مگر آپ نے خدا سے اس قدر نصرت پائی.اگر یہ بت کچے ہوتے تو آپ کس طرح کامیاب ہو سکتے تھے.

Page 115

سيرة النبي عالي 101 جلد 2 پس جب اسلام خدا کا پیارا ہے اور اس کی نصرت و حفاظت کا وعدہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا بجائے اظہار محبت کے اس کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کرتا.آج وہ لوگ جن کی ساری عزت ہی رسول کریم عام مسلمان اور احمدی صلى الله کی اولاد ہونے کے باعث تھی عیسائی ہو کر آنحضرت ﷺ کو گندی سے گندی گالیاں دیتے ہیں اور لکھوکھبا انسان عیسائی ہو چکے ہیں مگر خدا تعالیٰ کو کوئی حمایت اسلام کا خیال نہ پیدا ہوا.مسلمانوں کا ایک یہ خیال کہ حضرت عیسی زندہ ہیں اور آنحضرت معہ فوت ہو گئے یہی ایک ایسا خیال ہے جو اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں ٹھہر نے نہیں دے سکتا اور کوئی مسلمان واعظ عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا عیسی زندہ ہے اور محمد فوت ہو گئے اُس وقت مسلمانوں کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں.مگر حضرت مرزا صاحب نے ایسے وقت میں اسلام کی یہ خدمت کی اور اپنے شاگردوں کو ایسا تیار کیا کہ ان کے آگے سے پادری اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح لَا حَولَ سے شیطان.عیسائیوں کے مقابلہ میں ہمارا ایک لڑکا چلا جائے تو پادری گھبرا کر وہاں سے چلے جاتے ہیں.“ 1: الحجر : 10 66 (الفضل 9 مئی 1921 ء ) 2:بخارى كتاب الفرائض باب اذا ادعت المرأة ابنا صفحه 1167 حدیث نمبر 6769 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 116

سيرة النبي الله 102 جلد 2 خاتم الانبیاء ﷺ کی حقیقت علي 2 مئی 1921 ء کو جونا گڑھ ( گجرات کاٹھیا واڑ ) سے ایک صاحب نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی.اس کو نصائح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :.”ہمارا دعوی ہے کہ رسول کریم ﷺ آخری نبی ہیں.کیا بلحاظ اس کے کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب (قرآن کریم) کے بعد کوئی کتاب نہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بعد کوئی شریعت نہیں.لیکن اسی سے ہم ایک اور نتیجہ پر پہنچے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جو چیز ہمیشہ رکھنے کے لئے ہوتی ہے اس میں اگر کوئی نقص پیدا ہو جائے تو اس کی فوراً اصلاح کی جاتی ہے.مثلاً وہ کپڑا جو کئی سال پہنا ہو اس میں اگر سوراخ ہو جائے تو فوراً رفو کرایا جاتا ہے لیکن جو کپڑا اتار کر کسی کو دے دینا ہو اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.پس چونکہ یہ شریعت آخری شریعت ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جب اس میں کوئی رخنہ پڑے فوراً خدا تعالیٰ اس کی طرف توجہ کرے کیونکہ اس شریعت نے قیامت تک چلنا ہے.اگر بدل جانا ہوتا تو پھر ایسی ضرورت نہ تھی لیکن چونکہ یہ دین، یہ کتاب اور یہ رسول ہمیشہ کے لئے ہے اس لئے اس کے متعلق جو کمزوریاں پیدا ہو جائیں ان کا دور کرنا صلى الله ضروری ہے.اس کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ رسول کریم ع کے بعد ہمیشہ ایسے وقت کہ جب دین میں فتنہ برپا ہو ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو اس کی اصلاح کریں گے.رسول کریم ﷺ کے غلام کی شان اس کے ساتھ ہی ہم یہ اعتقاد بھی صلى الله علیہ رکھتے ہیں چونکہ رسول کریم علی

Page 117

سيرة النبي ع 103 جلد 2 درجہ عظمت اور عرفان میں سب انبیاء سے بڑھے ہوئے ہیں اس لئے آپ کے شاگردوں اور غلاموں میں سے جو لوگ دین کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوں گے وہ پہلے انبیاء کی امتوں میں سے کھڑے ہونے والوں سے بڑھ کر ہوں گے.رسول کریم علی نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ خدا ان سے کلام کرتا تھا اس امت میں بھی ایسا ہی ہوگا 1.اس سے معلوم ہوا کہ پہلے انبیاء کے ذریعے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم علیہ کے کمالات گزشتہ تمام انبیاء کے کمالات سے بڑھ کر ہیں تو اسی وجہ سے ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ پہلے انبیاء کی امتوں میں جو ایسے لوگ پیدا ہوئے جن سے خدا تعالیٰ کلام کرتا تھا وہ محدث تھے مگر رسول کریم ﷺ کی امت میں نبی بھی ہوا جو امتی ہو کر نبی تھا.وہ نبیوں میں جاکر ان کی صف میں کھڑا ہوگا اور بعض سے اپنی شان میں بڑھ کر بھی ہوگا مگر پھر بھی رسول کریم علی کا امتی ہی ہوگا.اس کی مثال ایسی ہے کہ کالج کا ایک لڑکا چھوٹے مدارس کا خواہ ممتحن مقرر ہو جائے لیکن جب کالج میں آئے گا بحیثیت ایک شاگرد کے ہی ہوگا“.(الفضل 30 مئی 1921ء) پھر آپ اس نو مبائع کو رسول کریم میے کے بلند کردار سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ کے اعلیٰ کردار کا اثر دیکھئے حضرت ابوبکر نے رسول کریم ﷺ کو ایک ہی دلیل سے مانا ہے اور پھر کبھی ان کے دل میں آپ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں پیدا ہو.اور وہ ایک دلیل یہ تھی کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بچپن سے دیکھا صلى الله تھا اور وہ جانتے تھے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی شرارت نہیں کی کبھی گندی اور نا پاک بات آپ کے منہ سے نہیں نکلی.بس یہی وہ جانتے تھے اس سے زیادہ نہ وہ کسی شریعت کے جاننے والے تھے کہ اس کے بتائے ہوئے معیار سے رسول کریم کے کو

Page 118

سيرة النبي عالم 104 جلد 2 علوس صلى الله سچا سمجھ لیا، نہ کسی قانون کے پیرو تھے.انہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ خدا کا رسول کیا ہوتا ہے اور اس کی صداقت کے کیا دلائل ہوتے ہیں.وہ صرف یہ جانتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے جھوٹ کبھی نہیں بولا.وہ ایک سفر پر گئے ہوئے تھے جب واپس آئے تو راستہ میں ہی کسی نے انہیں کہا کہ تمہارا دوست محمد ﷺ) کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.انہوں نے کہا کیا محمد ( ﷺ ) یہ کہتا ہے؟ اس نے کہا ہاں.انہوں نے کہا پھر وہ جھوٹ نہیں بولتا جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے کیونکہ جب اس نے کبھی بندوں پر جھوٹ نہیں بولا تو خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا.جب اس نے انسانوں سے کبھی ذرا بد دیانتی نہیں کی تو اب ان سے اتنی بڑی بددیانتی کس طرح کرنے لگا کہ ان کی روحوں کو تباہ کر دے.صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر نے رسول کریم ﷺ کو مانا اور اسی کو خدا تعالیٰ نے بھی لیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے لوگوں کو کہہ دو فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ 3 میں ایک عرصہ تم میں رہا اس کو دیکھو.اس میں میں نے تم سے کبھی غداری نہیں کی پھر اب میں خدا سے کیوں غداری کرنے لگا.یہی وہ دلیل تھی جو حضرت ابو بکر نے لی اور کہہ دیا کہ اگر وہ کہتا ہے کہ خدا کا رسول ہوں تو سچا ہے اور میں مانتا ہوں.اس کے بعد نہ کبھی ان کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوا اور نہ ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش آئی.ان پر بڑے بڑے ابتلا آئے ، انہیں جائیداد میں اور وطن چھوڑنا اور اپنے عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر رسول کریم ﷺ کی صداقت میں کبھی شبہ نہ ہوا.ایک اور صحابی کا ذکر ہے رسول کریم علیہ کا ایک یہودی سے لین دین کا معاملہ تھا اس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا اسے سن کر صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! یہی درست ہے جو آپ فرماتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے کہا یہ معاملہ تو میرے اور اس کے درمیان ہے تم کو کس طرح معلوم ہے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ درست ہے؟ صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! جب آپ خدا کے متعلق باتیں بتاتے ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ کچی ہیں تو اب جبکہ آپ ایک بندہ کے متعلق فرماتے ہیں تو یہ جھوٹ کس طرح

Page 119

سيرة النبي عمال 105 جلد 2 ہوسکتا ہے.اسی وجہ سے میں نے کہا ہے کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں درست ہے.یہ صلى الله سن کر رسول کریم ﷺ نے اس صحابی کے متعلق فرمایا اس کا ایسا ایمان ہے کہ جہاں دو آدمیوں کی شہادت کی ضرورت ہو وہاں اس ایک کی ہی کافی سمجھی جائے 4.ان لوگوں کے دلوں میں رسول کریم علیہ کی صداقت کیوں اس طرح گڑ گئی تھی اور کیوں ان کے دل میں کوئی شک و شبہ نہیں پیدا ہوتا تھا ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں رسول کریم علیہ کی صداقت کے دلائل معلوم ہو گئے تھے.“ (الفضل 30 مئی 1921 ء) 66 1: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى الله باب مناقب عمر بن الخطاب صفحہ 620 حدیث نمبر 3689 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 448 449 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 3: يونس: 17 4: ابوداؤد كتاب القضاء باب اذا علم الحاكم صدق شهادة الواحد صفحہ 518 حدیث نمبر 3607 مطبوعہ ریاض 1999 ، الطبعة الاولى

Page 120

سيرة النبي الله 106 جلد 2 مصائب میں رسول کریم ہے کی کیفیت عمل حضرت مصلح موعود نے 8 جولائی 1921ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.ر نبی کریم ﷺ پر بہت مصائب آئے مگر ان سے آپ پر کبھی خوف طاری نہیں ہوا.آپ کو جنگ احد کے وقت کفار نے پکارا کہ محمد (ﷺ) کہاں ہے؟ آپ نے صحابہ کو جواب دینے سے منع فرمایا.پھر کفار نے ابو بکر وعمر کو پکارا اور آپ نے خاموشی کا ہی حکم دیا.مگر جب کفار نے پکارا اُعْلُ هُبل - اُعْلُ هُبل تب نبی کریم ﷺ کی غیرت جوش میں آئی اور آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں جواب دیتے الله اغلی وَاجَلُّ 1.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی اپنی ذاتی اور اپنی جماعت کی عزت کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ آپ کے مد نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے نام کی عزت رہی ہے.مومن مشکلات اور مصائب کے وقت زیادہ بہادر اور دلیر ہو جاتا ہے کیونکہ جو خدا کا ہو جاتا ہے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوتا.اگر اس پر مصیبتیں اور تکلیفیں دوسروں سے زیادہ آئیں تو بھی وہ سلامت رہتا ہے اور آگے سے بھی بڑھ کر اپنے فرض کو ادا کرتا ہے.ہر ایک کام کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ کام اس مقصد کے خلاف اور اس سے دور لے جانے والا تو نہیں جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.یہی خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی معرفت حاصل کرنے کا راز اور گر ہے.‘“ (الفضل 5 ستمبر 1921ء) 1 بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد صفحہ 685،684 حدیث نمبر 4043 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 66

Page 121

سيرة النبي عالم 107 جلد 2 درود کے الفاظ کی ترتیب میں حکمت حضرت مصلح موعود نے 22 جولا ئی 1921ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." قرآن کریم کے ہر ایک لفظ میں اتنی حکمتیں ہیں کہ ہر ایک آدمی ان تک نہیں پہنچ سکتا.آج ایک موٹی سی بات بیان کرتا ہوں.اس کا دوسرا حصہ پھر انشاء اللہ کبھی موقع ہوا تو بیان کروں گا.درود شریف سب مسلمان پڑھتے ہیں مگر اس کا اصل مفہوم اکثر نہیں سمجھتے.ان کو معلوم نہیں کہ ان کے درود پڑھنے سے نبی کریم ﷺ کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور ان کے اپنے ایمان کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے.ایک بچہ روپے، ہیرے، جواہر کی قدر نہیں کرے گا مگر روٹی کے ٹکڑے کو منہ میں ڈال لے گا.اس وقت میں درود کے ظاہری الفاظ کو لے کر ان کی خوبی سناتا ہوں.درود میں صل پہلے رکھا ہے اور بارِک بعد میں.مسلمانوں کو شاذ ہی خیال آیا ہوگا کہ صَلِّ پہلے کیوں اور بَارِكْ بعد میں کیوں ہے اور اس ترتیب میں خوبی کیا ہے.جو شخص غور کرے گا اور علم سے اس پر نگاہ ڈالے گا اس پر اس کی حقیقت ظاہر ہو جاوے گی.عربی میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ کے معنی ہوئے اے اللہ ! تو رسول کریم ﷺ کے لئے دعا کر.اب دعا دو قسم کی ہوتی ہے.ایک وہ شخص دعا کرتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ دوسرے سے التجا کرتا ہے جیسے ماں باپ یا دوست سے مدد طلب کرنا.اور دوسرے اس شخص کی دعا ہوتی ہے جس کا اپنا اختیار ہوتا ہے.اس کے معنی ہیں کہ وہ خود عطا کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ بادشاہ ہے.کبھی مانتا ہے کبھی نہیں.خدا تعالیٰ کی دعا کے معنی ہیں کہ وہ ہوا، پانی، زمین، پہاڑ غرضیکہ سب مخلوق کو کہتا ہے کہ میرے بندے کی

Page 122

سيرة النبي ع 108 جلد 2 تائید کرو.پس اللهُمَّ صَلِّ کے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ ! تو ہر ایک نیکی اور بھلائی اپنے رسول کے لئے چاہ.ایک ہی دفعہ کا پڑھا ہوا درود اگر قبول ہو جاوے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے.ورنہ انسان جو دعا خود تجویز کرے گا اس کی مثال ایسی ہوگی کہ کسی فقیر نے ایک ڈپٹی سے سوال کیا.اس نے اس کو روپیہ یا آٹھ آنے دیئے.فقیر نے دعا دی کہ خدا تعالیٰ تجھے تھانے دار کرے.دراصل تو یہ بد دعا تھی مگر اس نے اپنی عقل سے یہی سمجھا.بندہ اپنی عقل سے جو چاہے گا وہ ضرور ناقص ہوگا.اس لئے بندہ خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ تو چاہ کیونکہ تیرا علم کامل ہے.بَارِک برکۃ سے نکلا ہے.اس کے معنی اکٹھا ہونا ، جمع ہونا ہیں.اسی لئے بركة تالاب کو کہتے ہیں جہاں پانی جمع ہوتا ہے.اللَّهُمَّ بَارِک کے معنی ہوئے صلى الله اے اللہ ! تو نبی کریم ﷺ کے لئے اپنی رحمتیں ،فضل اور انعامات جو تو نے ان پر کئے ہیں ان کو اتنا بڑھا کہ سارے جہاں کی رحمتیں اور برکتیں ان پر اکٹھی ہو جاویں.صلّ بطور پیج کے ہے اور بَارِک اس سے بڑھ کر ترقی ہے.یہ ترتیب نہایت ہی اعلیٰ اور اتم ہے.اسی طرح قرآن کریم کی ترتیب بھی احسن واکمل ہے.ایسی باتوں پر غور کرنے سے انسان کو عرفان ملتا ہے.جب انسان ایسی باتوں پر غور کرتا ہے تو اس کا ایمان ترقی کرتا ہے.دوسرے لوگوں کی مثال اندھوں کی طرح ہوتی ہے وہ پڑھتے ہیں اور سمجھتے (الفضل 5 ستمبر 1921ء) نہیں.“

Page 123

سيرة النبي الله 109 جلد 2 رسول کریم اللہ کا ہر فعل عبادت تھا حضرت مصلح موعود 4 نومبر 1921 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:- اس میں شبہ نہیں کہ خدا کا فضل ہی ہوتا ہے جس سے نجات ہوتی ہے اور کوئی شخص اپنے عمل کی بنا پر دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ نجات پائے گا.کیونکہ سب سے بڑے عامل اور سب سے بڑے خدا کے فرمانبردار محمد کیے ہیں آپ بھی اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں صلى الله کرتے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم مے سے حضرت عائشہ صدیقہ نے سوال کیا کہ آپ تو اعمال سے ہی بہشت میں جائیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں عائشہ! صلى الله میں بھی خدا کے فضل سے ہی جاؤں گا 1.پس جب محمد ہے جیسا انسان جس کا ہر ایک سانس، جس کا چلنا پھرنا عبادت میں داخل تھا، جس کا سونا اور جا گنا عبادت میں گنا جاتا تھا، جس کی ہر حرکت و سکون عبادت تھی حتیٰ کہ جس کا پاخانے پیشاب کے لئے جانا اور اپنی بیویوں کے پاس جانا بھی عبادت تھا.اتنا بڑا عبادت گزار انسان جب کہتا ہے کہ میں اپنے اعمال سے بہشت میں نہ جاؤں گا بلکہ خدا کے فضل سے تو اور کون ہے جو کہے صلى الله کہ میں عمل سے بہشت میں داخل ہو جاؤں گا.یہ مت خیال کرو کہ رسول کریم کا ہر فعل کیسے عبادت میں داخل ہو گیا.کیونکہ ان کے متعلق خدا نے یہ بتایا ہے کہ ان کی ہر ایک حالت عبادت تھی.ناواقف کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ہر حرکت کیسے عبادت ہوگئی مگر تم یاد رکھو کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ محمد ﷺ کا ہر فعل عبادت تھا.ہاں آپ کے سوا کسی کا ہر ایک فعل عبادت نہیں.آنحضرت ﷺ کے متعلق خدا نے فرمایا لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ : کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کے ہر فعل صلى الله صلى الله

Page 124

سيرة النبي عمال 110 جلد 2 میں ایک نمونہ ہے.کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے عمل سے بتلائیں کہ کونسا فعل جائز ہے اور کونسا نا جائز ، کونسا مستحسن ہے اور کونسا مکر وہ اور کونسا حلال ہے اور کونسا حرام.پس رسول کریم ﷺ کا ہر ایک کام ایک بیان ہے اور ایک ڈسکرپشن (Description) ہے.مثلاً آپ کا نماز پڑھنا نہ صرف خدا کے ایک حکم کی تعمیل تھی بلکہ اعلان تھا کہ یہ فرائض ہیں، یہ سنتیں ہیں اور یہ نوافل ہیں جو فرائض کے علاوہ ہیں اور جن کا پڑھنا قرب الہی کے لئے ضروری ہے.آپ کا کھانا کھانا اعلان تھا کہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں وہ حلال ہے اور جن چیزوں کو آپ نہیں کھاتے تھے وہ کھانے کے ناقابل تھیں.پس رسول کریم ﷺ کا ہر فعل چونکہ نمونہ بنایا گیا ہے لوگوں کے لئے اس لئے آپ جن چیزوں کو جائز بتاتے تھے اور استعمال فرماتے تھے یہ عبادت تھی.اسی طرح جن سے منع فرماتے تھے اور استعمال نہ کرتے تھے یہ بھی عبادت میں شامل تھے.غرض آپ کا ہر فعل عبادت تھا کیونکہ خدا کے حکم کے ماتحت تھا.چنانچہ اس کی ایک مثال ہے کہ ایک شخص نے عصر کی نماز کا وقت دریافت کیا.ظاہر ہے کہ اول وقت پر نماز پڑھنا مستحسن ہے مگر آنحضرت ﷺ نے اتنی دیر کی کہ وقت نہایت تنگ ہو گیا 3 آپ کا نماز میں یہ دیر کرنا بھی عبادت تھا.کیوں؟ اس لئے کہ آپ یہ سبق دے رہے تھے کہ اگر انسان کسی وجہ سے کسی وقت اول وقت میں نماز نہ پڑھ سکے تو اگر آخری وقت تک پڑھ لے تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی.غرض فرائض میں اعلان تھا ، واجبات میں اعلان تھا ، نوافل وسنن میں اعلان تھا کہ یہ سب کچھ عبادت الہی ہے.اس حالت پر بھی آپ فرماتے ہیں کہ خدا کے فضل سے بہشت میں جائیں گے.پھر ہم لوگ جن کے اعمال تھوڑے ہیں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال سے بہشت میں چلے جائیں گے.اس سے تمہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ فضل کیسی ضروری چیز ہے مگر وہ محض دعوی سے حاصل نہیں ہوتا اس کے حصول کے لئے بھی کسی چیز کی ضرورت ہے.محض

Page 125

سيرة النبي ع دعوی ایمان سے کچھ نہیں بنتا.“ 111 جلد 2 ( الفضل 14 نومبر 1921ء ) 1: بخارى كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل صفحہ 1122 حدیث نمبر 6467 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: الاحزاب:22 ابن ماجه كتاب الصلوة باب ابواب مواقيت الصلوة صفحه 95،94 حدیث نمبر 667 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى

Page 126

سيرة النبي الله 112 جلد 2 رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں کی فدائیت حضرت مصلح موعود نے 11 نومبر 1921ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.خدمت دین کا کام ملازموں کے سپرد نہیں ہوسکتا بلکہ اصحاب کے سپر د ہوسکتا ہے.صحابی وہ ہے جو صرف صحبت چاہتا ہے.وہ کوئی مقررہ رقم نہیں مانگتا.محمد ہے کے وقت میں جو لوگ تھے اور جنہوں نے خدمت دین کی وہ مال کے لئے آپ کے پاس نہ آئے تھے.ان میں سے وہ لوگ جو مرتے ہوئے دولت پیچھے چھوڑ گئے وہ اس دولت کے لئے نہ آئے تھے.نہ بادشاہت ان کا مقصد تھا نہ گورنریاں.یہ دولت اور رتبے جو ان کو ملے محض بطور تحفہ تھے نہ کہ بطور بدلہ کے.وہ لوگ صرف محمد اللہ کی صحبت چاہتے صلى الله تھے.وہ اصحاب تھے ملازم نہ تھے.وہ محمد ﷺ کا ہر ایک کام کرنے کو تیار تھے جس کو ملازم نہیں کر سکتا.بادشاہ کا پاخانہ بھی اگر ہو تو اس کو اٹھاتے ہوئے بھنگی تک ایک نفرت محسوس کرتا ہے مگر ان لوگوں کو موقع پڑے تو اس کے اٹھانے میں بھی کراہت نہ تھی.نہ صرف کراہت نہ تھی بلکہ فخر سمجھتے تھے.صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ والوں نے اپنے میں سے ایک امیر کو شرا ئط صلح کے تصفیہ کے لئے بھیجا.وہ آیا اور اس نے کہا کہ کیا تم ان لوگوں پر جو تمہارے گرد جمع ہیں بھروسہ کرتے ہو.وقت پر یہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے.بھروسہ بھائیوں پر ہوتا ہے.کیا تم ان کی خاطر بھائیوں سے بگاڑتے ہو؟ اس نے تو یہ کہا مگر ان لوگوں کی جو اصحاب تھے ملازم نہ تھے کیا حالت تھی ؟ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے تھوک کو صلى الله زمین پر نہ گرنے دیتے تھے بلکہ ہاتھوں پر لیتے اور جسم پر مل لیتے تھے اور وضو کے پانی

Page 127

سيرة النبي عل الله 113 جلد 2 کا ایک قطرہ تک زمین پر نہ جانے دیتے.ہر ایک اسے حاصل کرنا چاہتا تھا اور ایسی حالت تھی کہ قریب تھا کہ اس کشمکش میں ان میں تلوار چل جائے.وہ واپس گیا اور جا کر کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ کے دربار دیکھے ہیں مگر ان کے درباری بھی اتنے جاں نثار 66 نہ تھے جتنے محمد (ع) کے ساتھی ہیں 1.“ الفضل 21 نومبر 1921ء) 1 بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد و المصالحة مع اهل الحرب صفحه 447، 448 حدیث نمبر 2731 ، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 128

سيرة النبي الله 114 جلد 2 و, رسول کریم ﷺ پر اعتراض کا خطرناک نتیجہ حضرت مصلح موعود 9 دسمبر 1921 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم یہ ایک دفعہ مال تقسیم کر رہے تھے کہ کسی کو جوش آیا کہ آپ نے صلى الله الله فلاں کو نہیں دیا.عرض کی کہ فلاں کو کچھ نہیں ملا.رسول کریم ﷺ نے کوئی توجہ نہ کی.پھر اس نے کہا، پھر آپ نے توجہ نہ کی.پھر کبھی رسول کریم ﷺ مال تقسیم کرتے وقت ایسے شخص کو دے دیتے جو کمزور ایمان والا ہوتا.فتح مکہ کے بعد جو مال آئے وہ آپ نے مکہ والوں کو دے دیئے حالانکہ جنگ کر کے خون بہانے والے جو تھے ان کو نہ دیئے.اس موقع پر ایک کمزور نے کہہ بھی دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال اوروں کو دے دیا گیا ہے.اس پر رسول کریم ﷺ نے ان لوگوں کو بلوایا اور کہا انصار! تم کہہ سکتے ہو کہ جب محمد ( ﷺ ) اکیلا تھا ، اس کی قوم نے اس کو رد کر دیا تھا اُس وقت ہم اس کو لائے اور جب کوئی اس کی مدد نہ کرتا تھا ہم نے اس کی مدد کی ، ہم نے اس کے لئے خون بہائے.لیکن جب لوٹ کا مال آیا تو اس نے اپنے ہم قوموں کو دے دیا.اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا اس بات کا اور پہلو بھی ہے اور اگر چا ہو تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد (ﷺ) ہمارے پاس آیا، ہمارے گھر آیا اور جب اس کا وطن فتح ہوا تو اس کی قوم والے تو اونٹ بکریاں لے گئے اور ہم محمد (ﷺ) کو ساتھ لے آئے.اب جو چا ہو کہو.میرے خیال میں اس سے زیادہ زجر کوئی نہیں ہو سکتی تھی.یہ کافر اور فاسق نام رکھ دینے سے بھی زیادہ سخت تھی کہ تم اونٹ لے جانا چاہتے ہو یامحمد (ﷺ) کو.

Page 129

سيرة النبي عل الله 115 جلد 2 محمد (ع) مکہ والا تھا، مکہ اس کا وطن تھا مگر وہ مکہ نہیں گیا مدینہ گیا.اس پر انصار رو پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! کسی نادان نوجوان نے یہ بات کہی ہے.آپ نے فرمایا جو بات کہی گئی وہ تو کہی گئی اب تم دنیاوی ترقی کی امید نہ رکھنا اور حوض کوثر پر ہی آکر مجھ سے مانگنا 1.اور ایسا ہی ہوا.پھر دنیاوی ترقی ان کو نہیں ملی.ہم مغل اور پٹھان جو پیچھے آئے ہمیں خدا نے دنیا کی حکومت دے دی مگر وہ انصار جنہوں نے رسول کریم ﷺ کے لئے اور آپ کے ساتھ اپنے خون بہائے ان کو ایک ریاست بھی نہ دی صرف ایک فقرہ کی وجہ سے.“ (الفضل 19 دسمبر 1921ء) 1: بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى الله يعطى المولفة قلوبهم صفحه 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية

Page 130

سيرة النبي الله 116 جلد 2 رسول کریم علیہ کے چند نمایاں اخلاق حضرت مصلح موعود 23 دسمبر 1921ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.الله تمام احباب کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے جو ہدایات ہماری زندگی کی درستی اور نفع اور فائدہ کے لئے دی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے 1.اکرام ضیف آجکل ذلیل بات سمجھی جاتی ہے لیکن یہ ایسے اعلیٰ درجہ کے رکنوں میں سے ہے کہ اس کے پابند کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ضائع نہیں کرتا.رسول کریم ﷺ پر جب وحی ہوئی تو آپ کو طبعا گھبراہٹ ہوئی کہ الہام کبھی انعام کے طور پر ہوتا ہے کبھی ابتلا کے طور پر.اس لئے آپ نے گھبرا کر اپنی بیوی سے ذکر کیا کہ ایسے نظارے دیکھے ہیں اور اس قسم کی آوازیں سنی ہیں مجھے ڈر آتا ہے.حضرت خدیجہ نے کہا کہ میرے نزدیک یہ خیر ہے كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ 2 ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تجھے ضائع کرے.اب سوال ہوتا ہے کہ کیوں نہ کرے؟ ان باتوں میں سے ایک بات کے متعلق حضرت خدیجہ فرماتی ہیں آپ میں مہمان نوازی اور غرباء کی ہمدردی کی صفت پائی جاتی ہے.حضرت خدیجہ کی یہ بات کیسی سچی تھی.دنیا آنحضرت میے کے مقابلہ میں آئی لیکن ہر حالت میں حضرت خدیجہ کا یہ فقرہ سنہری حرفوں میں آسمانوں پر لکھا ہوا نظر آتا ہے كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ - رسول کریم ﷺ کے اخلاق اور آپ کی خوبیاں جتنی انواع واقسام کی تھیں ان کا اندازہ نہ تھا پھر بھی حضرت خدیجہ کا ان چند کو لینا جن میں اکرام ضیف بھی ہے اس

Page 131

سيرة النبي عمال 117 جلد 2 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان باتوں میں سے ہے کہ جن کا آپ کو بہت خیال رہتا تھا.اس بات کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقرب بنانے میں مهمان نوازی بھی دخل رکھتی ہے.رسول کریم ﷺ پر جو فیضان اترے وہ پہلی زندگی کا نتیجہ تھے.محمد ( ﷺ ) پر ظلماً وحی نہیں اتاری گئی کہ خدا نے یونہی بغیر کسی وجہ کے اپنی وحی سے آپ کو عزت بخشی بلکہ محمد ﷺ کا آئینہ ایسا تھا کہ اس میں خدا کا چہرہ نظر آتا تھا.محمد ﷺ کو اس درجہ پر پہنچانے والی بات مہمان نوازی بھی تھی.گویا دنیا پر جو یہ احسان ختم نبوت کا ہوا اس میں ایک ہاتھ مہمان نوازی کا بھی ہے.“ (الفضل 26 جنوری 1922ء) 1 بخارى كتاب الادب باب من كان يؤمن بالله واليوم الآخر صفحه 1052 حدیث نمبر 6019 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية 2 بخاری کتاب التفسير تفسير اقرأ باسم ربک الذی خلق صفحہ 886 حدیث نمبر 4953 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 132

سيرة النبي الله 118 جلد 2 رسول کریم ﷺ اور حضرت موسی کی مماثلت اور آنحضرت عمل کی افضلیت حضرت مصلح موعود نے دسمبر 1921ء میں مولوی محمد علی صاحب کی انگریزی کتاب The Split کے جواب میں آئینہ صداقت“ کے عنوان سے کتاب لکھی.اس میں رسول کریم ہے اور حضرت موسی کی مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.صلى الله حضرت مسیح موعود صرف ایک ہی مثیل نہیں ہیں بلکہ آپ کے آقا آنحضرت علی بھی ایک نبی کے مثیل ہیں یعنی حضرت موسی کے.مگر باوجود اس کے آپ کے صحابہ کے ساتھ اسی رنگ میں معاملہ نہیں ہوا جس رنگ میں کہ حضرت موسی کے صحابہ سے.اور نہ آپ کے صحابہؓ نے حضرت موسی کے صحابہ کا سا نمونہ دکھایا.اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کا مثیل موسی ہونا ان الفاظ میں بیان کرتا ہے إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا 1 ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جس طرح کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو حضرت موسیٰ کا مثیل اور مشابہ قرار دیا ہے.توریت بھی یہی کہتی ہے.خدا تعالیٰ حضرت موسی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے ”میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا.“

Page 133

سيرة النبي ع 119 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی اور حضرت پس آنحضرت ﷺے موسی کے مثیل اور صلى الله اس سے مشابہ تھے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ موسی کی کامیابیوں کا مقابلہ جہاں آپ کو حضرت موسی سے بہت سی مشابہتیں ہیں وہاں آپ کی کامیابیاں حضرت موسی سے بڑھی ہوئی ہیں.حضرت موسی سے بھی ایک وعدہ کیا گیا تھا کہ کنعان کی زمین ان کو دی جاوے گی تا کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ٹھہرنے کا مقام ہو.آنحضرت ﷺ کو بھی ایک وعدہ دیا گیا تھا کہ حرم ( حوالی مکہ) کی سرزمین ان کو دی جاوے گی تا ہمیشہ کے لئے ان کے ٹھہرنے کا مقام ہو.مگر حضرت موسی جب اس ملک کے فتح کرنے کے لئے چلے تو با وجود اس کے کہ ان کی قوم نے ان سے پوری مدد کا وعدہ کیا تھا عین موقع پر انہوں نے موسی کو یہ جواب دیا کہ یموسى إِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ 3 یعنی اے موسیٰ ! ہم اس زمین میں کبھی داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اس میں اس کے پہلے قابض لوگ موجود ہیں.پس تو اور تیرا رب جاؤ اور ان سے جا کر لڑو ہم تو یہ بیٹھے ہیں.حتی کہ حضرت موسی کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے اور لڑائی کا ارادہ چھوڑنا پڑا.اس کے مقابلہ میں ہمارے آنحضرت علے جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کا انصار سے یہ معاہدہ تھا کہ صرف اُس وقت کہ ہم پر مدینہ میں کوئی حملہ آور ہو تمہارا فرض ہوگا کہ تم ہماری مدد کرو اور یہ معاہدہ، بیعت عقبہ کے وقت جو انصار سے آپ نے ہجرت کرنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں لی تھی کیا تھا.چنانچہ مشہور مؤرخ ابن ہشام لکھتا ہے کہ انصار نے رسول اللہ صلى الله سے معاہدہ کیا تھا کہ یا رسول اللہ! إِنَّا بُرَاءٌ مِنْ ذِمَامِكَ حَتَّى تَصِلَ إِلَى دِيَارِنَا فَإِذَا وَصَلْتَ إِلَيْنَا فَأَنْتَ فِي ذِمَّتِنَا نَمُنَعُكَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْهُ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَ نَا4.یعنی یا رسول اللہ ! مدینہ سے باہر ہم آپ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں.ہاں مدینہ پہنچ کر ہم آپ کے ذمہ دار ہیں.ہم جن باتوں سے اپنے بیٹوں اور عورتوں صلى الله

Page 134

سيرة النبي عالم 120 جلد 2 کو بچاتے ہیں آپ کو بھی بچائیں گے.یعنی جس طرح اپنی جانیں دے کر ہم اپنی اولا د اور بیویوں کو قید اور قتل ہونے سے بچاتے ہیں آپ کو بھی بچائیں گے.پس جب بدر کی جنگ ہوئی اور آپ نے ارادہ کیا کہ دشمن کو روکنے کے لئے ہم آگے نکل کر اس کا مقابلہ کریں تو لکھا ہے كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّفُ أَنْ لَا تَكُونَ الأَنْصَارُ تَرى عَلَيْهَا نَصْرَهُ إِلَّا مِمَّنْ دَهَمَهُ بالْمَدِينَةِ مِنْ عَدُوِّهِ وَ اَنَّ لَيْسَ عَلَيْهِمْ أَنْ يُسِيُرَبِهِمْ إِلَى عَدُوٌّ مِّنْ بِلَادِهِمْ فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ سَعْدُ بنُ مَعَادٍ وَاللهِ لَكَأَنَّكَ تُرِيدُنَا يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَجَلُ قَالَ فَقَدُ امَنَّا بِكَ وَصَدَّقْنَاكَ وَ شَهِدْنَا اَنَّ مَا جِئْتَ بِهِ هُوَ الْحَقُّ وَ أَعْطَيْنَاكَ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَنَا وَ مَوَاثِيْقَنَا عَلَى السَّمْع وَ الطَّاعَةِ فَامُضِ يَارَسُولَ اللَّهِ لِمَا أَرَدْتَ فَنَحْنُ مَعَكَ فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَوِ اسْتَعْرَضْتَ بِنَا هَذَا الْبَحْرَ فَخُضْتَهُ لَخُضُنَاهُ مَعَكَ مَا تَخَلَّفَ مِنَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَمَا نَكْرَهُ أَنْ تَلْقَى بِنَا عَدُوَّنَا غَدًا إِنَّا لَصُبُرٌ فِى الْحَرْبِ صُدُقَ فِي اللّقَاءِ لَعَلَّ اللَّهَ يُرِيكَ مِنَّا مَا تَقِرُّبِهِ عَيْنُكَ فَسِرُبنَا عَلَى بَرَكَةِ اللهِ 5 یعنی رسول کریم صلى الله ے خوف کرتے تھے کہ کہیں انصار یہ خیال نہ کرتے ہوں کہ ان پر رسول اللہ ﷺ کی مدد صرف اُسی وقت فرض ہے جب کوئی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو اور یہ کہ ان پر رسول اللہ ﷺ کی نصرت کا حق نہیں جبکہ آپ ان کو ان کے علاقہ سے باہر کسی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے لے جانا چاہیں.پس جب آپ نے کہا لوگو! تمہارا کیا مشورہ ہے؟ تو سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم تو آپ پر ایمان لا چکے ہیں اور آپ کی تصدیق کر چکے ہیں اور اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اسی وجہ سے ہم نے آپ سے پختہ عہد اور اقرار کئے ہیں کہ ہم آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں صلى الله

Page 135

سيرة النبي ع 121 جلد 2 گے.پس یا رسول اللہ ! چلئے جدھر چلتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہوں گے.اور اسی خدا کی قسم جس نے آپ کو سچی تعلیم دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہم کو اس سمندر کی طرف لے جاویں ( بحیرہ احمر کی طرف اشارہ ہے جو عرب کے ساحل پر ہے ) اور اس کے اندر داخل ہو جاویں تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا.اور ہم اس بات کو نا پسند نہیں کرتے کہ آپ ہمیں لے کر کل ہی دشمنوں کا مقابلہ کریں.ہم لڑائی میں صابر اور جنگ میں ثابت قدم ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ آپ جنگ میں ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی.پس چلئے خدا تعالیٰ کی برکت کے ساتھ یا رسول اللہ.رسول کریم ﷺ کے صحابہ اور حضرت اس جواب اور اس جواب صلى الله کا جو حضرت موسی کی قوم موسی کے ساتھیوں کے جواب میں فرق نے باوجود وعد ہ مدد کے دیا تھا مقابلہ کرو اور دیکھو کہ کیا ان دونوں جماعتوں سے زیادہ کوئی اور دو قومیں متفاوت الحالات معلوم ہوتی ہیں.مگر اس جواب سے بھی زیادہ عجیب جواب وہ ہے جو مقداد بن عمرو نے دیا.کیونکہ اس میں انہوں نے وہی الفاظ بتغیر مناسب دہرائے ہیں جو حضرت موسی کی قوم نے حضرت موسی کو دیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ وَاللَّهِ لَا نَقُولُ لَكَ كَمَا قَالَتْ بَنُواِسْرَائِيلَ لِمُوسى فَاذْهَبُ أنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قعِدُونَ - وَلَكِنْ اِذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا مَعَكُمَا مُقَاتِلُونَ؟ خدا کی قسم ! ہم تجھے وہ جواب نہیں دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسی کو دیا تھا کہ جاتو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہمارا جواب تو یہ ہے کہ چلئے آپ اور آپ کا رب دشمن کا مقابلہ کریں ہم آپ کے ساتھ مل کر دشمنوں سے لڑیں گے.صلى الله یہ فرق تو اصحاب موسٰی اور اصحاب آنحضرت عﷺ کا ہے.خدا کے معاملہ میں بھی ہم یہی فرق دیکھتے ہیں.حضرت موسی بغیر اس موعودہ زمین میں داخل ہونے کے

Page 136

سيرة النبي عمال 122 جلد 2 اپنی جماعت سمیت اس زمین کے سامنے ہی خیمہ ڈالے ہوئے فوت ہو گئے اور آگے صلى الله ان کی اولاد کے ہاتھ پر وہ وعدہ پورا ہوا.مگر آنحضرت علی نہایت شان و شوکت کے ساتھ اپنے صحابہ کی جماعت میں گھرے ہوئے جس طرح چاند ہالہ کے اندر ہوتا ہے مکہ میں بذات خاص فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اور ہمیشہ کے لئے وہ ملک آپ کو دیا گیا.1: المزمل: 16 ( آئینہ صداقت صفحه 11 تا 15 مطبوعہ قادیان 1921ء) 2 استثناء باب 18 آیت 18 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 3: المائدة: 25 4 تا 6 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 675 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى

Page 137

سيرة النبي الله 123 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی صلى الله جلسہ سالانہ 1921ء کے موقع پر 27 دسمبر کو ہستی باری تعالیٰ“ کے عنوان سے حضرت مصلح موعود نے خطاب فرمایا اس میں رسول کریم میہ کی پاک سیرت کے بیان میں فرمایا:.اسی طرح ہم رسول کریم ﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں کہ آپ کے دشمنوں نے اقرار کیا کہ آپ صادق اور امین تھے اور آپ پر انہوں نے کوئی الزام نہ لگایا بلکہ دشمن سے دشمن نے بھی آپ کی طہارت اور پاکیزگی کی شہادت دی.چنانچہ مکہ میں ایک مجلس ہوئی کہ باہر سے جب لوگ مکہ میں آئیں گے اور محمد (ﷺ) کے متعلق پوچھیں گے تو ان کو کیا جواب دیں گے.سارے مل کر ایک جواب بنا لو تا کہ اختلاف نہ ہو.آگے ہی ہم بدنام ہو رہے ہیں کہ ایک کچھ کہتا ہے اور دوسرا کچھ کہتا ہے اس لئے حج پر جولوگ آئیں گے انہیں کہنے کے لئے ایک بات کا فیصلہ کر لو.اس پر ان میں سے ایک نے کہا یہ کہہ دینا کہ جھوٹ کی عادت ہے جو کچھ کہتا ہے سب جھوٹ ہے.یہ سن کر ایک شخص جس کا نام نضر بن حارث تھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا یہ بات نہیں کہنی چاہئے.اگر یہ کہو گے تو کوئی نہیں مانے گا اور لوگ جواباً کہیں گے کہ كَانَ مُحَمَّدٌ فِيكُمُ غُلَامًا حَدَثًا اَرْضَاكُمْ فِيْكُمْ وَ اَصْدَقَكُمْ حَدِيثًا وَأَعْظَمَكُمْ أَمَانَةً حَتَّى إِذَا رَأَيْتُمْ فِي صُدْغَيْهِ الشَّيْبَ وَجَانَكُمْ بِمَا جَانَكُمْ بِهِ قُلْتُمْ سَاحِرٌ لَا وَاللَّهِ مَا هُوَ بِسَاحِرٍ 1 محمد نے تم میں جوانی کی عمر بسر کی ہے اور اُس وقت وہ تم سب سے زیادہ نیک عمل سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ سچا سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ امانت کا پابند تھا یہاں تک کہ جب اس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے اور وہ تمہارے

Page 138

سيرة النبي ع 124 جلد 2 پاس وہ تعلیم لایا جو وہ لایا ہے تو تم کہنے لگ گئے کہ وہ جھوٹا ہے.خدا کی قسم ! ان حالات میں وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.چنانچہ اس شخص کے اس جواب پر سب نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور اس اعتراض کی بجائے اور بات سوچنے لگے.کیسی سچی بات تھی جو اس شخص نے پیش کی.اگر پہلے کبھی رسول کریم ﷺ کی طرف انہوں نے جھوٹ منسوب کیا ہوتا تو اب کوئی مان سکتا تھا.لیکن جب پہلے وہ ساری عمر آپ کو صادق کہتے رہے تھے تو پھر یکدم جھوٹ کے الزام کو کون سچا مان سکتا تھا.صلى الله اسی طرح ہر قل نے جب ابوسفیان سے رسول کریم علیہ کے متعلق پوچھا کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟ تو اس نے کہا آج تک تو نہیں بولا2 اور کہا کہ آج تک کا لفظ میں نے اس لئے لگایا تا کہ شبہ پڑسکے کہ شاید آئندہ بولے.الله اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں کو بلایا اور جب وہ جمع ہو گئے تو فرمایا کیا اگر میں تمہیں کہوں کہ فلاں وادی میں ایک فوج جمع ہے جو تم پر حملہ کرنے والی ہے تو مان لو گے ؟ انہوں نے کہا ہاں مان لیں گے 3 حالانکہ مکہ والوں کی بے خبری میں اس قدر فوج اس قدر قریب جمع نہیں ہو سکتی تھی.پس ان لوگوں کا اس قسم کی بات بھی جو بظاہر ناممکن الوقوع ہو آپ کے منہ سے سن کر ماننے کے لئے تیار ہو جانا بتاتا ہے کہ آپ کی صداقت پر ان لوگوں کو اس قدر یقین تھا کہ وہ یہ ناممکن خیال کرتے تھے کہ آپ جھوٹ بول سکیں یا دھوکا دے سکیں.‘‘ (ہستی باری تعالیٰ صفحہ 50،49) 1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 347 348 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 2 بخارى كتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله علا صفحہ 3 حدیث نمبر 7 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 66 صلى الله.3 بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الشعراء باب وانذر عشيرتک الاقربین صفحہ 836 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 139

سيرة النبي الله 125 جلد 2 رسول کریم علیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی صفت حفیظ، صفت خالقیت اور صفت شافی کا ظہور لیکچر ہستی باری تعالی فرمودہ 27 دسمبر 1921ء میں حضرت مصلح موعود نے رسول کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی صفت حفیظ ، صفت خالقیت اور صفت شافی صلى الله کے ظہور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.حفیظ کا ظہور چوتھی مثال میں خدا تعالیٰ کی صفت حفیظ کی پیش کرتا صفت ہوں.تمام نبیوں نے شہادت دی ہے کہ خدا حفیظ ہے.اب آؤ دیکھیں کہ کیا کوئی حفیظ ہستی ہے جو قانون قدرت کے علاوہ حفاظت کرتی ہے؟ اگر کوئی ایسی ہستی ثابت ہو جائے تو ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ موجود ہے.میں اس صفت کے ثبوت میں رسول کریم ﷺ کے وجود کو پیش کرتا ہوں.مکہ والوں نے آپ کو مارنا چاہا خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر اطلاع دی اور فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ.آپ وہاں سے روانہ ہو گئے لیکن بعض مصالح کی وجہ سے راستہ میں ٹھہر نا پڑا.قریب کے پہاڑ کی ایک غار میں جس کا منہ چند فٹ مربع ہے اور جسے غار ثور کہتے ہیں آپ ٹھہر گئے.مکہ والے تلاش کرتے کرتے اس جگہ تک جا پہنچے.عربوں میں کھوج لگانے کا علم بڑا یقینی تھا اور یہ ان کے لئے ضروری تھا کیونکہ وہ جنگی لوگ تھے اگر اس کے ذریعہ اپنے دشمنوں کا پتہ نہ لگایا کرتے تو تباہ ہو جاتے.رسول کریم ﷺ کی تلاش میں بھی کھوجی لگائے گئے اور وہی پتہ لگاتے ہوئے اس غار تک مکہ والوں کو

Page 140

سيرة النبي عل الله 126 جلد 2 لے آئے.وہاں آکر انہوں نے کہا کہ یا تو محمد ( ﷺ ) یہاں ہے یا پھر آسمان پر چڑھ گیا ہے اس سے آگے نہیں گیا.جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو نیچے آپ بھی سن رہے تھے.حضرت ابوبکر کو ڈر پیدا ہوا کہ میں اکیلا کیا کرسکوں گا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ خدا کے رسول کو پکڑ لیں.لیکن جس شخص کے متعلق آپ ڈر رہے تھے اور جو شخص حقیقتا مکہ والوں کو مطلوب تھا وہ اس خوف کے وقت میں فرماتا ہے لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا 1 غم نہ کھا خدا ہمارے ساتھ ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ کھوجی جن کی بات پر ان لوگوں کو بہت ہی یقین ہوتا تھا وہ کہتے ہیں کہ آپ اس جگہ آئے ہیں مگر کوئی آگے بڑھ کر غار کے اندر نہیں جھانکتا اور یہ کہہ کر کہ یہاں ان کا ہونا ناممکن ہے لوگ واپس چلے جاتے ہیں.میں جب مکہ گیا تھا تو اس غار کو دیکھنے کے لئے بھی گیا تھا لیکن اوپر چڑھتے ہوئے میرا سانس پھول گیا اور میں وہاں تک نہ جاسکا دوسرے آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھ آئے.اس نے آکر بتایا کہ اس غار کا منہ اچھا چوڑا ہے ایک چارپائی کے قریب ہے لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ ہر اک بات اس کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ آپ اس غار میں ہیں اور وہ لوگ اس قدر جوش سے آپ کی تلاش میں آئے تھے مگر باوجود آپ کی گرفتاری کی دلی خواہش کے اور واقعات کے آپ کے وہاں موجود ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ان کو اس قدر توفیق نہ ملی کہ ذرا جھک کر غار میں دیکھ لیتے.ان کے سامنے کوئی توپ نہیں تھی جس کا انہیں ڈر ہو سکتا تھا نہ کوئی اور روک اور مشکل تھی.لیکن ان میں سے کوئی بھی غار کو نہیں دیکھتا اور سارے واپس چلے جاتے ہیں.آپ کے إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کہنے کے بعد ان لوگوں کا اس طرح خائب و خاسر چلے جانا کیا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ آنحضرت ایک زبردست طاقت کی حفاظت میں تھے.“ ہستی باری تعالیٰ صفحہ 65، 66 ) صفت خالقیت کا ظہور پانچویں مثال کے طور پر میں صفت خلق کو بیان کرتا ہوں.یہ بات واضح ہے کہ اگر تمام تخلیق کے

Page 141

سيرة النبي الله 127 جلد 2 علاوہ جو دنیا میں ایک مقررہ قاعدہ کے ماتحت ہو رہی ہے ایک خاص تخلیق بھی ثابہ ہو جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی قدرت میں ہے کہ جو چاہے پیدا کرے اور یہ خدا تعالیٰ کے موجود ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہوگا.اس صفت کے ثبوت کے طور پر میں رسول کریم ﷺ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.آپ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے کہ آپ کے ساتھیوں کے پاس جو پانی تھا وہ ختم ہو گیا.اتنے میں آپ نے دیکھا کہ ایک عورت پانی لئے جارہی ہے.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہاں سے پانی کتنے فاصلہ پر ہے؟ اس نے کہا تین منزل پر.چونکہ ایک لشکر آپ کے پاس تھا اور پانی ختم ہو چکا تھا آپ نے اس سے پانی کا مشکیزہ لے لیا اور اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر لوگوں کو پانی دے دیا.اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت دی کہ سب کی ضرورت بھی پوری ہوگئی اور اس عورت کے لئے بھی پانی بیچ رہا.یہ ایک زبر دست نشان صفت خالقیت کے ثبوت میں ہے اور اس واقعہ کے سچے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب اس واقعہ کو اس کی قوم نے معلوم کیا تو وہ سب کی سب ہستی باری تعالیٰ صفحہ 67 68 ) 66 مسلمان ہو گئی 2.“ صفت شافی کا ظہور ”ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر شفا بعض مریضوں کو ملتی ہے بغیر اس کے کہ طبعی ذرائع استعمال ہوں.یا ان موقعوں پر شفا ملتی ہے کہ جب طبعی ذرائع مفید نہیں ہوا کرتے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے واقعات میں سے اس قسم کی شفا کی ایک مثال جنگ خیبر کے وقت ملتی ہے.خیبر کی جنگ کے دوران میں ایک دن آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ خیبر کی فتح اس شخص کے لئے مقدر ہے جس کے ہاتھ میں میں جھنڈا دوں گا.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب وہ وقت آیا تو میں نے گردن اونچی کر کر کے دیکھنا شروع کیا کہ شاید مجھے ہی رسول کریم جھنڈا دیں مگر آپ نے انہیں اس کام کے لئے مقرر نہ فرمایا.اتنے

Page 142

سيرة النبي عالم 128 جلد 2 میں حضرت علی آئے اور ان کی آنکھیں سخت دکھ رہی تھیں.آپ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور آنکھیں فوراً اچھی ہو گئیں اور آپ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا 66 دے کر خیبر کی فتح کا کام ان کے سپرد کیا 3.“ (ہستی باری تعالیٰ صفحہ 70) 1 السيرة الحلبية جلد2 صفحه 206 مطبوعه بيروت 2012ء الطبعة الأولى 2 بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام صفحہ 599 حدیث نمبر 3571 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3:بخاری کتاب المغازی باب غزوة خيبر صفحہ 715 حدیث نمبر 4210 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 143

سيرة النبي الله 129 جلد 2 ہستی باری تعالی سے متعلق رسول کریم مے کی ایک حدیث کا مفہوم حضرت مصلح موعود ہستی باری تعالی، لیکچر فرمودہ 27 دسمبر 1921ء میں خدا تعالیٰ کی ذات کی شکل وصورت سے متعلق رسول کریم ﷺ کی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :." خدا تعالیٰ کے متعلق یہ سوال بھی پیدا کیا خدا کی کوئی صورت شکل ہے؟ ہوتا ہے کہ کیا اس کی کوئی صورت شکل بھی ہے؟ اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ اس کی کوئی صورت شکل نہیں.صورت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایک جسم ہے جو مختلف حصے رکھتا ہے اور ہر ایک حصہ کی ایک حد بندی ہے مگر خدا سب حد بندیوں اور سب تقسیموں سے پاک ہے اس لئے اس کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی.صورت صرف مادی اشیاء کے لئے ہوتی ہے بلکہ ان میں سے بھی کثیف مادی اشیاء کی.خدا کوئی جسم نہیں رکھتا بلکہ جسموں اور مادے کا خالق ہے.حدیث میں خدا کی صورت اس بیان پر سوال ہو سکتا ہے کہ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی صورت ہے ان بتانے کا کیا مطلب ہے؟ احادیث کا کیا مطلب ہے؟ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن رسول کریم کے باہر نکلے اور آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے غلام کو مار رہا ہے.اس پر آپ نے فرمایا انَّ اللهَ خَلَقَ ادَمَ عَلَى صُورَتِهِ 1 که آدم کو خدا

Page 144

سيرة النبي عمال 130 جلد 2 صلى الله نے اپنی صورت پر بنایا پس چاہئے کہ اس کی صورت کا ادب اور احترام کرو.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی صورت ہے ورنہ رسول کریم ﷺ کیوں فرماتے کہ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے تم اس کی صورت کا ادب اور احترام کرو.یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کے دو معنی ہیں.ایک تو یہ ہے کہ صورت کے معنی عربی میں وصف اور صفت کے بھی آتے ہیں اس لئے اِنَّ اللهَ خَلَقَ ادَمَ عَلى صُورَتِہ کے یہ معنی ہوئے کہ خدا نے آدم کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے.جیسے فرما یا عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا 2 یعنی خدا نے اپنی وہ ساری صفات جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں آدم کو سکھا ئیں.یعنی انسان کو خدا نے ایسا دماغ دیا کہ جو اس کی صفات کو جلوہ گر کر سکے.وہ شخص چونکہ اپنے غلام کے منہ پر مار رہا تھا اور ممکن تھا کہ اس کے دماغ کو صدمہ پہنچے اس لئے رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایا کہ اس طرح نہ مارو اور جس سے وہ غرض جس کے لئے انسان بنایا گیا ہے وہ باطل ہو جائے گی.چنانچہ دوسری حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا منہ پر نہیں مارنا چاہئے 2.وجہ یہ کہ دماغ مرکز ہے ساری صفات کا اور اس کو صدمہ پہنچنے سے صفات کا ظہور رک جاتا ہے.اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدا کی صفات کا ادب کرو خدا نے انسان کا دماغ اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کی صفات اخذ کرے.مگر تم منہ پر مارتے ہو جس سے خطرہ ہوتا ہے کہ دماغ کو جو اس کے بالکل قریب ہے صدمہ جائے اور انسان کی عقل کو نقصان پہنچ جائے جس سے وہ اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرنے سے ہی محروم ہو جائے.اس حدیث کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں عَلى صُورَتِهِ سے مراد عَلَى صُورَةِ الإنسان ہو.یعنی آدم کو اس کے مناسب حال شکل پر پیدا کیا.اس صورت میں اس حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ وہ زور سے مار رہا تھا اس لئے ممکن تھا کہ غلام کا کوئی عضو ٹوٹ جاتا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدا نے تو اس کو اس کے مناسب حال

Page 145

سيرة النبي عمال 131 جلد 2 شکل دی تھی کیا اب تم اس کو درست کرنے لگے ہو؟ گویا تعریضاً فرمایا کہ اس طرح مار کر ایک بے کس آدمی کی شکل بگاڑ دینے کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ سے تو اس کی شکل کے بنانے میں غلطی ہو گئی تھی اب تم اس غلطی کی اصلاح کرنے لگے ہو.اس صورت میں یہ زجر کا کلام ہے اور اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ خدا کی کوئی صورت اور شکل ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے.“ ہستی باری تعالیٰ صفحہ 96 تا 98) 1: مسند احمد بن حنبل مترجم جلد 4 صفحہ 80 حدیث نمبر 7414 مطبوعہ لٹل سٹار پرنٹرز لاہور 2: البقرة:32 3:ابو داؤد كتاب الحدود باب في ضرب الوجه في الحد صفحہ 634 حدیث نمبر 4493 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الأولى

Page 146

سيرة النبي الله 132 جلد 2 رسول کریم ﷺ پر خدا تعالیٰ کی تجلی حضرت مصلح موعود اپنے خطاب ہستی باری تعالی فرمودہ 27 دسمبر 1921ء میں رسول کریم ﷺ پر خدا تعالیٰ کی تجلی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے اس مقام پر حضرت موسی کو بتایا تھا کہ ہمارا ایک رسول محمد (ع) تیرا مثیل ہو کر مگر تجھ سے بہت اعلیٰ شان میں آئے گا.اس خبر کو معلوم کر کے حضرت موسی کے دل میں طبعاً یہ خواہش پیدا ہوئی کہ دیکھوں تو سہی اس پر خدا تعالیٰ کا کس رنگ میں جلوہ ہوگا اور انہوں نے خواہش کی کہ مجھے بھی جلوہ محمدی دکھایا جائے میں بھی تو دیکھوں کہ اُس وقت آپ کس شان سے ظاہر ہوں گے؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا تو اس کے جلوہ کو برداشت نہیں کر سکے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کی خواہش تو پوری کر دی مگر وہ اسے برداشت نہ کر سکے لیکن رسول کریم علیہ نے اس جلوہ کو برداشت کر لیا کیونکہ آپ کا وہ اصل مقام تھا.(ہستی باری تعالی صفحہ 166) پھر حضرت مصلح موعود دفرماتے ہیں:.رؤیت الہی کے حصول کا طریق دیکھو خدا تعالی کے انبیاء کیسے وو لطیف اشارات سے استدلال کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کو صبح بھی تجلی ہوگی اور شام کو بھی.اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ے کا علم کس قدر وسیع تھا اور آپ کی نظر کہاں سے کہاں پہنچتی تھی.ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تم خدا کی رؤیت چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز کی خوب پابندی کرو 1.معلوم ہوتا ہے کہ اس سے رسول کریم ﷺ نے استدلال کیا ہے کہ ان نمازوں کی وجہ

Page 147

سيرة النبي ع 133 جلد 2 علوم سے ہی تجلی ہوگی کیونکہ خدا فعل پر نتیجہ مرتب کرتا ہے.صبح کی نماز کے فعل پر صبح کی صلى الله رؤیت اور عصر کی نماز کے فعل پر پچھلے پہر کی رؤیت ہوگی.اسی وجہ سے رسول کریم نے نے فرمایا ہے کہ صبح اور عصر کی نمازوں کی خوب پابندی کرو.اس کے یہ معنی نہیں کہ چونکہ رسول کریم ﷺ نے ان نمازوں کا خاص حکم دیا ہے اس لئے باقی چھوڑی بھی جاسکتی ہیں.ان نمازوں کے متعلق تاکید کرنے سے صرف یہ مراد ہے کہ چونکہ ان دونوں اوقات میں انسان کے پچھلے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے ان اوقات کی نماز کو باجماعت ادا کرنے کے لئے خاص تعہد کرنا چاہئے ورنہ یہ مراد نہیں کہ دوسری نمازوں کی (ہستی باری تعالیٰ صفحہ 173 ) اہمیت کم ہے.“ 1: بخارى كتاب مواقيت الصلوة باب فضل صلاة العصر صفحه 93 حدیث نمبر 553 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 148

سيرة النبي الله 134 جلد 2 رسول کریم ہے جسمانی بیماریوں کے عظیم معالج حضرت مصلح موعود ہستی باری تعالی خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1921 ء میں رسول کریم ﷺ کے جسمانی بیماریوں کے عظیم معالج ہونے کے حوالے سے فرماتے ہیں :." اب میں اس امر کی مثالوں سے تشریح کرتا ہوں.مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ ان کے علاج معلوم تھے اور بعض کے نہیں.اور آج سے پہلے بعض بیماریوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ لاعلاج ہیں.حالانکہ لاعلاج کا لفظ ایک بیہودہ لفظ ہے کیونکہ اگر خدا قادر مطلق ہے تو کوئی بیماری لاعلاج کس طرح ہو سکتی ہے ؟ ہاں اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ فلاں بیماری کا علاج ہمیں معلوم نہیں تو اور بات ہے ورنہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں بیماری کا کوئی علاج ہی نہیں تو وہ مشرک ہے وہ خدا کو قادر مطلق نہیں مانتا.آج تک بعض بیماریوں کے متعلق لوگ لکھتے چلے آئے ہیں کہ لاعلاج ہیں، لاعلاج ہیں مگر محمد ہے جنہیں یہ لوگ اُمّی کہتے ہیں انہوں نے فرمایا مَا مِنْ دَاءٍ إِلَّا لَهُ دَوَاءٌ إِلَّا ال و : : : : کہ کوئی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو.یہ آپ نے کیوں کہا؟ اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ خدا شافی ہے اس لئے سب بیماریوں کا علاج ہونا چاہئے.اب دیکھو رسول کریم ﷺ نے 1300 سال پہلے وہ نکتہ دریافت کر لیا جو یورپ نے آج بھی نہیں کیا.محمد ہے اس وقت جبکہ طب کا علم نہایت محدود تھا فرماتے ہیں یہ نہ کہنا کہ فلاں بیماری کا کوئی علاج نہیں یہ بیوقوفی کی بات ہے.تم دریافت کرنے میں لگے رہو اس کا علاج ضرور نکل آئے گا.اگر خدا شافی ہے تو اس نے اس مرض کا علاج بھی

Page 149

سيرة النبي ع 135 جلد 2 صلى الله ضرور قانون قدرت میں رکھا ہو گا تم کوشش کرو اور اسے تلاش کر لو.دیکھو شافی صفت کا علم رکھنے پر رسول کریم ﷺ کا نقطہ نگاہ اپنے ہم عصروں سے بلکہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کے نقطہ نگاہ سے بھی کس قدر بدل گیا.دوسرے لوگ تو یہ خیال کرتے تھے اور آپ کے بعد بھی اب تک یہی خیال کرتے رہے کہ جو باتیں ہمیں معلوم ہو چکی ہیں ان سے بڑی اور کیا ہوسکتی ہیں مگر رسول کریم ﷺ جن کے علم کی بنیاد صفات الہیہ کے علم پر تھی باوجود اُمّی ہونے کے فرماتے ہیں کہ یہ کہہ دینا کہ اس مرض کا علاج نہیں بالکل غلط ہے.علاج ہر اک شے کا موجود ہے دریافت کرنا تمہارا کام ہے.آپ کے اس ارشاد کے مقابلہ پر علم کا دعویٰ رکھنے والوں کی مایوسی کہو یا تعلی کہو کس قدر حقیر ، کس قدر ذلیل اور کس قدر زشت و بدصورت معلوم ہوتی ہے.کجا علم کے دعوئی کے باوجود یہ کہنا کہ گود نیا کے آرام کے سب سامان میسر نہیں آتے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سامان پیدا ہی نہیں کئے گئے اور کجا رسول کریم ﷺ کا یہ دعویٰ کہ یہ کہنا کہ علم طب ختم ہو گیا ہے جہالت ہے.ابھی تو ہر بیماری کا علاج نہیں نکلا حالانکہ ہر بیماری کا علاج اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے آپ کے مقابلہ پر دوسرے مدعیان علم کی حالت بالکل اُس مینڈک کی حالت کی طرح معلوم ہوتی ہے جو کنویں کو ہی بہت بڑا سمجھتا ہے اور آپ کی حالت یوں معلوم ہوتی ہے کہ گویا سمندر بھی آنکھوں میں نہیں بچتا.“ ہستی باری تعالیٰ صفحہ 178 179 ) 1 : مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 132 حدیث نمبر 18646 مطبوعہ لاہور میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں.تَدَاوَوُا عِبَادَ اللَّهِ فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُنْزِلُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ مَعَهُ شِفَاءً إِلَّا الْمَوْتَ وَالْهَرَم.“ ،،

Page 150

سيرة النبي عمال 136 جلد 2 صفت رب العالمین کے کامل مظہر حضرت مصلح موعود ہستی باری تعالیٰ خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1921 ء میں صلى الله رسول کریم علیہ کو خدا تعالیٰ کی صفت رب العالمین کا کامل مظہر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.صفت رحمانیت کو حاصل کرنے پر جب بندہ پر خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جلوہ کرتی ہے تو اُس میں پھر ایک نیا جوش پیدا ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اور اوپر چڑھے.اُس وقت اس کے لئے اگلی منزل آسان ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ آؤ اب میں رب العالمین کی صفت کا بھی جلوہ گاہ بنوں.رب کا کام جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ماں باپ کے کام سے مشابہ ہوتا ہے.ماں باپ یہ نہیں کیا کرتے کہ دودھ گھر میں رکھ دیں کہ بچہ آپ تلاش کر کے پی لے گا بلکہ وہ یہ کرتے ہیں کہ بچہ کو خود تعتمد سے دودھ پلاتے ہیں اور اگر وہ نہ پئے تو جبر آ پلاتے ہیں.اسی طرح جب بندہ اس مقام پر آتا ہے تو لوگوں کے پیچھے پڑپڑ کر انہیں ہدایت منواتا ہے اور اسی پر کفایت نہیں کرتا کہ صرف وعظ کر دے.رسول کریم ﷺ کی نسبت آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ طائف میں تشریف لے گئے.وہاں کے لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے اور آپ واپس آگئے.آتے ہوئے رستہ میں ایک جگہ ستانے لگے.باغ والے نے اپنے غلام کے ہاتھ کچھ میوہ آپ کے لئے بھیجا.آپ نے میوہ کی طرف تو کم ہی توجہ کی اس غلام ہی کو تبلیغ کرنے لگ گئے 1 اور آپ کا یہ ہمیشہ دستور تھا کہ جہاں مکہ کے لوگ جمع ہوتے آپ وہاں چلے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے.حج کے لئے جو لوگ آتے ان کے خیموں میں تشریف لے

Page 151

سيرة النبي علي 137 جلد 2 جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے اور اس طرح نہیں کہ کوئی مل گیا تو اسے تبلیغ کر دی بلکہ آپ تلاش کرتے پھرتے اور ڈھونڈ کر انہیں حق پہنچاتے جس طرح ماں باپ بچے کو تلاش کر کر کے کھلاتے پلاتے ہیں کہ بھوکا نہ رہ جائے.غرض اس صفت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو دنیا کا باپ یا ماں فرض کرے اور لوگوں کے فائدے کا خود خیال رکھے اور خواہ لوگ اس کی بات نہ بھی مانیں تب بھی ان کے پیچھے پڑا ر ہے.جب انسان اپنے قلب کو ایسا بنا لیتا ہے تو ایسے آدمی کو ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے کچھ لے سکتے ہیں ان پر وہ جبر بھی کر سکتا ہے اور سزائیں بھی دے لیتا ہے اور اس طرح ان کی تربیت کرتا ہے اور ان کی اصلاح کرتا ہے.وہ کچھ لوگوں کو منتخب کر کے ان کو سکھاتا ہے.جب وہ مر جاتا ہے تو جن کو اس نے سکھایا ہوتا ہے وہ دوسروں کو سکھاتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور وہ اسی نسل کا باپ نہیں ہوتا جس کو سکھاتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کا بھی باپ ہوتا ہے.جس طرح رسول کریم وہ آج بھی ہمارے باپ ہیں جس طرح کہ صحابہ کرام رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ کے باپ تھے.اس مقام کا انسان اپنی ہمدردی کو کسی مذہب کے آدمیوں سے محدود نہیں کرتا بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کا ہمدرد ہوتا ہے اور سب کا سچا خیر خواہ ہوتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس کے کامل اور اکمل مظہر محمد رسول اللہ ﷺ تھے اور آپ کے سوا اور کوئی نہیں.وجہ یہ ہے کہ رب العالمین کا کامل مظہر وہی ہوسکتا ہے جو پہلوں کی بھی تربیت کرے اور پچھلوں کی بھی اور یہ مقام سوائے رسول کریم کے کسی کو حاصل نہیں.آپ ہی ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب آدم ابھی مٹی میں تھا اُس وقت میں خاتم النبین تھا 2 آپ اس لئے پہلوں کی تربیت کرنے والے نہیں کہ آپ نے براہ راست ان کو سکھایا بلکہ اس لئے کہ پہلے نبی اس لئے آئے تھے کہ لوگوں کو محمد م کی تربیت کے نقطہ تک لے جائیں.پس رسول کریم ﷺ ہی کامل طور پر

Page 152

سيرة النبي عالم 138 جلد 2 الله رب العالمین کی صفت کے مظہر تھے اور یہی وہ درجہ ہے جس کا پانے والا الْحَمدُ کا مستحق ہوتا ہے اور اسی لئے رسول کریم ﷺ کا نام محمد رکھا گیا کہ سب تعریفیں آپ میں جمع ہوگئیں.اور یہ ناممکن تھا کہ بغیر محمد نام کے خاتم النبین نبی ہوتا پس آپ کا نام بھی آپ کے خاتم النبین ہونے پر دلالت کرتا ہے.“ نیز فرمایا:.ہستی باری تعالیٰ صفحہ 203 تا 205) ایک اور سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جب کہ نبی رب العالمین صفت کے مظہر ہوتے ہیں تو بد دعا یا مباہلہ کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی خود بخود ایسا کبھی نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ طائف میں گئے اور وہاں کے لوگوں نے آپ کو مارا اور آپ واپس آگئے تو پہاڑ کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اگر حکم ہو تو پہاڑ اکھاڑ کران لوگوں پر گرا دوں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہیں اور آپ نے دعا کی یا اللہ ! اس قوم کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں.اسی طرح کہا یا اللہ ! ان کو ہلاک نہ کر شاید ان کی اولا د مسلمان ہو جائے 3.“ ہستی باری تعالیٰ صفحہ 206 207 ) 1 : سیرت ابن ہشام جلد نمبر 1 صفحہ 476 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 2: مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 127 حدیث نمبر 17380 مطبوعہ لاہور 3: مسلم كتاب الجهاد باب مالقى النبي الله صفحه 801،800 حدیث نمبر 4653 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 153

سيرة النبي عالم 139 جلد 2 خدائی صفات کے کامل مظہر پر برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ ویلز دسمبر 1921ء میں ہندوستان کے دورے آئے.حضرت مصلح موعود نے ان کی ہندوستان آمد کے موقع پر تحفہ شہزادہ ویلز کے م سے ایک کتاب تصنیف فرما کر ان کو بھجوائی.اس کتاب میں بائبل کے حوالہ جات سے آنحضرت ﷺ کو خدائی صفات کا کامل مظہر ثابت کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :.دوسری غرض ان کی آمد کی جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں یہ تھی کہ خدا کی بادشاہت کی منادی کریں جیسا کہ لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے دعویٰ کی ابتدا ہی سے یہ منادی کرنی اور یہ کہنا شروع کیا کہ تو بہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی 1.66 اور آخر زمانہ میں بھی وہ یہی کہتا رہا کیونکہ جب اس نے حواریوں کو تبلیغ کا کام سپرد کیا تو تب بھی ان کو یہی ہدایت دی کہ چلتے ہوئے منادی کرو اور کہو کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی 2.“ اور جیسا کہ لوقا کی روایت کے مطابق یہ کہا کہ ان سے کہو کہ خدا کی بادشاہت تمہارے نزدیک آئی 3.“ خدا کی بادشاہت سے مراد مسیح علیہ السلام کی آمد نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اپنی عمر بھر اس پر زور دیتے رہے کہ ان کی آمد ایسی ہے جیسے بیٹے کی آمد اور خدا کی آمد اُس وقت ہوگی جب لوگ ان کو پھانسی دے دیں گے.چنانچہ وہ اس واقعہ کو تمثیل میں یوں بیان

Page 154

سيرة النبي عمال کرتے ہیں:.140 جلد 2 66 دو کسی شخص نے ایک انگور کا باغ لگا کے اسے باغبانوں کے سپرد کیا اور مدت تک پردیس میں جارہا اور موسم پر ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تا کہ وے اس انگور کے باغ کا پھل اس کو دیں لیکن باغبانوں نے اس کو پیٹ کے خالی ہاتھ پھیرا.پھر اس نے دوسرے نوکر کو بھیجا انہوں نے اس کو بھی پیٹ کے اور بے عزت کر کے خالی ہاتھ پھیرا.پھر اس نے تیسرے کو بھیجا انہوں نے گھائل کر کے اس کو بھی نکال دیا.تب اس باغ کے مالک نے کہا کہ کیا کروں، میں اپنے پیارے بیٹے کو بھیجوں گا شاید اسے دیکھ کر دب جائیں.جب باغبانوں نے اسے دیکھا، آپس میں صلاح کی اور کہا کہ یہ وارث ہے آؤ اس کو مار ڈالیں کہ میراث ہماری ہو جائے.تب اس کو باغ کے باہر نکال کے مارڈالا.اب باغ کا مالک ان کے ساتھ کیا کرے گا ؟ وہ آوے گا اور ان باغبانوں کو قتل کرے گا اور باغ اوروں کو سونے گا ہے.اس تمثیل میں باغ سے مراد وہ ہدایت ہے جو خدا تعالیٰ نے قائم کی اور باغ بنانے والا موسی تھا جو خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کر کے اس کے جلال کے اظہار کے لئے دنیا میں آیا اور باغ کے باغبانوں سے مراد بنی اسرائیل تھے اور نوکر جو میوہ کا حصہ لینے گئے وہ انبیاء تھے جو موسٹی کے بعد بھیجے گئے اور بیٹا خود حضرت مسیح تھے جو سب کے بعد میں آئے مگر موسی کے بعد کے نبیوں میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب اور پیارے تھے لیکن بنی اسرائیل نے ان کی بھی قدر نہ کی اور ان کو صلیب پر چڑھا دیا تو پھر اس تمثیل کے مطابق ہی ہونا رہ گیا کہ وہ نبی ظاہر ہو جس کا ظہور گویا خدا تعالیٰ کا ظہور تھا اور وہ پچھلی سنت کے برخلاف بنی اسرائیل میں سے نہ ہو بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے ہو جس کی نسبت حضرت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں " کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا

Page 155

سيرة النبي عمال 141 جلد 2 وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوہ لاوے دی جائے گی.جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ 66 66 گرے گا اسے پیس ڈالے گا 5.“ اور جس کے حق میں موسی نے خبر دی تھی کہ خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنھیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا.“ یہ جو نوشتوں میں لکھا گیا اس کا پورا ہونا ضرور تھا ورنہ خدا کے برگزیدوں موسی اور مسیح پر جھوٹ کا حرف آتا تھا کیونکہ کہا گیا تھا کہ ”ٹو جان رکھ کہ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہوتو وہ بات خداوند نے نہیں کہی بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے..“ مگر جو کچھ برگزیدوں نے کہا تھا وہ حرف بحرف پورا ہوا اور بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسمعیل کی اولاد میں سے خدا تعالیٰ نے موسی کی مانند ایک نبی بر پا کیا جس کے ذریعہ سے ہدایت کا باغ بنی اسرائیل سے لے کر مسلمانوں کے سپرد کیا گیا اور وہ جسے راج گیروں نے رد کیا تھا کونے کا پتھر ہوا.جو اس پر گرا یعنی جو اس کے شہر پر جا کر حملہ آور ہوا وہ بھی چکنا چور ہوا اور جس پر وہ گرا یعنی جس پر اس نے جا کر حملہ کیا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوا.اور جس نے اس کی بات نہ سنی اس سے خدا نے اس کا حساب لیا.اس وجود سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ خود فرماتے ہیں کہ یہ نبی ان کے صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد آئے گا.اور نہ کلیسیا اس سے مراد ہو سکتا ہے کیونکہ کلیسیا نبی نہیں ہے اور نوشتے بتاتے

Page 156

سيرة النبي علي 142 جلد 2 ہیں کہ وہ آنے والا ایک نبی ہوگا جو موسٹی کی مانند خدا کے جلال کا ظاہر کرنے والا ہوگا اور شریعت اس کے داہنے ہاتھ میں ہوگی اور وہ مکہ کی پہاڑیوں پر سے جو فاران کہلاتی ہیں دس ہزار قد وسیوں سمیت خدا کے دشمنوں پر حملہ آور ہوگا.جیسا کہ لکھا ہے کہ:.” خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت وو 66 ان کے لئے تھی." کلیسیا نہ نبی ہے نہ فاران سے وہ جلوہ گر ہوئی اور نہ دس ہزار قد وسیوں سمیت وہ دنیا میں آئی.یہ فاران سے جلوہ گر ہونے والا خدا کا مظہر وہی سردار انبیاء، سرور کائنات ، سَيِّدُ وُلدِ آدَم ، کامل و اکمل و مکمل و مکمل ، حامد واحمد ومحمد ومحمود وجود تھا جس کی قوم کو اس کے بنوئم نے خدا کی بادشاہت سے ہمیشہ کے لئے محروم قرار دیا اور جسے اس کی قوم کے سرداروں نے ردی کر کے اپنے میں سے نکال پھینکا مگر آخر وہی کونے کا پتھر ہوا.اور یا تو صرف ایک ہمراہی سمیت اسے مکہ چھوڑ کر وطن سے بے وطن ہونا پڑا تھا یا اسے خدا نے وہ ترقی دی کہ جب اس کو اور اس پر ایمان لانے والوں کو مٹانے کے لئے اور نیست و نابود کرنے کے لئے اس کی قوم کے لوگ دوسو میل کا فاصلہ طے کر کے ایک زبر دست لشکر کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے تو جیسا کہ مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا اس مظہر شان خدا پر جو گرا وہ پاش پاش ہو گیا.ایک قلیل اور بے سامان جماعت کے ہاتھوں سے تجربہ کار جرنیلوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست دلوائی اور ذلیل کروایا.اور پھر جب بار بار کے عفو کے بعد بھی اس کے دشمن باز نہ آئے اور معاہدہ پر معاہدہ کر کے توڑنے لگے تو خدا تعالیٰ نے یہ دکھانے کے لئے کہ اس کی فتوحات اسی وجہ سے نہیں ہیں کہ وہ اپنے گھر کے قریب ہوتا ہے اور اس کے دشمن ایک لمبا سفر کر کے اپنے گھروں سے دور اس سے لڑنے آتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی تائید سے

Page 157

سيرة النبي ع 143 جلد 2 ہیں اس کو حکم دیا کہ وہ خود دشمن کے قلعوں پر حملہ کرے اور وہ جس طرف گیا فتح و ظفر نے اس کی رکابوں کو آکر تھام لیا اور دشمن اپنے گھروں میں بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور حضرت مسیح کے کلام کا دوسرا پہلو پورا ہوا کہ وہ جس پر گرا اسے اس نے چکنا چور کر دیا.یہ فاران سے دس ہزار قد وسیوں سمیت آنے والا، آتشی شریعت اپنے داہنے ہاتھ میں رکھنے والا جس کے ذریعہ سے نفس کے تمام گند جل جاتے ہیں اور جو کھوٹے دلوں کو صاف کر کے کھرا سونا بنا دیتی ہے جس کی نسبت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں کہ :.” میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.“ وہ جس کی غلامی پر انبیاء کو بھی فخر ہے وہ ہی بانی اسلام مثیل موسیقی مگر موسیقی سے اپنی تمام شان میں بالا محمد رسول اللہ ﷺہے ہیں جنہیں آج دنیا میں ظالم اور بٹ مار کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے خونریزی سے سطح زمین کو رنگ دیا اور ایسا ہونا ضرور تھا کیونکہ تمام انبیاء کے مخالفین کے دل ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر ایک بات کے دونوں پہلوؤں کو برا کہتے ہیں.وه یوحنا کھاتا پیتا نہیں آیا اور وے کہتے ہیں کہ اس پر ایک دیو ہے.ابن آدم کھاتا پیتا آیا اور وے کہتے ہیں کہ دیکھو ایک کھاؤ اور شرابی اور محصول لینے والوں اور 66 گنہگاروں کا یار 10.“ مسیح ناصری بلا تلوار کے آیا اور بلا کسی گناہ کے صلیب پر لٹکایا گیا اور انہوں نے اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا اور صلیب پر انکار یا اور جنسی سے شور مچایا کہ اے یہودیوں کے بادشاہ ! سلام 11 اور بڑے بڑے عالموں نے ٹھٹے مار مار کر کہا 12.

Page 158

سيرة النبي علي 144 جلد 2 اس نے اوروں کو بچایا پر آپ کو نہیں بچا سکتا.اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پر سے اتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے.اس نے خدا پر بھروسہ رکھا.اگر وہ اس کو چاہتا ہے تو وہ اب اس کو چھڑاوے.کیونکہ وہ کہتا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں 13.66 اور کہا کہ تو جو ہیکل کا ڈھانے والا اور تین دن میں بنانے والا ہے آپ کو بچا.66 اگر تو خدا کا بیٹا ہے صلیب پر سے اُتر آ14.“ مگر محمد رسول اللہ اللہ جو خدا تعالیٰ کے جلال و جمال کا کامل مظہر تھا جب اس نے شریر اور سرکش انسان کو اس کے حد سے بڑھ جانے اور اخلاق اور دیانت بلکہ انسانیت کو بکلی ترک کر دینے پر سزا دی تو اس زمانہ کے عالموں نے جو فقیہوں اور فریسیوں کے قائم مقام ہیں مسیح کی مثال کو یاد سے بھلاتے ہوئے اس پر آوازے کسے کہ دیکھو وہ خدا کا نبی کہلاتا ہے اور اس کا مظہر اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے لیکن پھر اس کی تلوار دشمن کے سر پر اٹھتی ہے اور وہ اپنے مخالف کو تہہ تیغ کرتا ہے.کیا راستبازوں کی یہی علامتیں ہوتی ہیں؟ اور صادق یہی نمونہ دکھایا کرتے ہیں؟ کیوں اس نے عفو سے کام نہ لیا ؟ اور کیوں بخشش کا دامن لوگوں کے سروں پر نہ ڈالا ؟ اور یہ معترض یہ نہیں دیکھتے کہ اس نے قدرت پر عفو کا نمونہ دکھایا اور قابو پا کر چھوڑ دیا اور گلے میں رسی ڈال کر آزاد کر دیا اور حلق پر چھری رکھ کر زندگی بخشی اور اس قدر گنا ہوں کو معاف کیا کہ اگر اس کا عفو ہزار نبی پر بھی تقسیم کیا جائے تو سب اپنے عفو سے زیادہ حصہ پالیں.ہاں جس طرح خدا تعالیٰ جو رحم کا سرچشمہ اور عفو کا منبع ہے اصلاح کے لئے نہ دکھ دینے کے لئے شریر کو پکڑتا اور سزا دیتا ہے اس نے بھی ایسا ہی کیا تا خدا کا کامل مظہر قرار پائے اور موسی کا مثیل ٹھہرے.اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آج یہی معترض جو اس کی دفاعی جنگوں پر حرف گیری کرتے ہیں زور زور سے اپنے گلے پھاڑتے اور آسمان کو سر پر اٹھا لیتے کہ دیکھو وہ موٹی کا مثیل بنتا ہے لیکن

Page 159

سيرة النبي الله 145 جلد 2 66 دس ہزار قدوسی اس کے ساتھ نظر نہیں آتے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے اس کے ساتھ حملہ آور ہوں اور شریر کو اس کی شرارت کی سزا دیں اور خدا کی بادشاہت کو زمین پر قائم کریں.“ تحفہ شہزادہ ویلز صفحه 22 تا 30 کریمی پریس لاہور مطبوعہ مارچ 1922ء) 1 متی باب 4 آیت 17 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 2 متی باب 10 آیت 7 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 3: لوقا باب 10 آیت 9 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 4 : لوقا باب 10 آیت 9 تا 16 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 5 متی باب 21 آیت 42 تا 44 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 6: استثناء باب 18 آیت 17 تا 19 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 7: استثناء باب 18 آیت 22 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء : استثناء باب 33 آیت 2 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 9: یوحنا باب 16 آیت 12 ، 13 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 10: متی باب 11 آیت 18 ، 19 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 11: یوحنا باب 19 آیت 2 ، 3 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 12 منتی باب 27 آیت 29 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 13 متی باب 27 آیت 42 ، 43 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء 14: متی باب 27 آیت 43،42 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ 1870ء

Page 160

سيرة النبي عالم 146 جلد 2 رسول کریم کا توکل الله حضرت مصلح موعود 24 فروری 1922 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والوں کی مدد ایسے راہ سے ہوتی ہے کہ جس کا علم بھی نہیں ہوتا.رسول کریم ﷺ ایک جنگل میں تھے.صحابہؓ آپ کے اردگرد رہا کرتے تھے، آپ سے جدا نہ ہوتے تھے مگر اس دفعہ آپ جنگل میں دور رہ گئے.ایک درخت کے نیچے سو گئے.تلوار درخت سے لٹکا دی.اتنے میں ایک کافر پہنچا.آپ ہی کی تلوار بے نیام کر کے آپ کو اٹھایا اور کہا کہ اب آپ کو کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ بچائے گا.اسی جملہ نے اس پر ایسا اثر کیا اور ایک بجلی کی روسی دوڑ گئی جس سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی 1 آپ نے اٹھا کر کہا کہ اب تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا کہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں.اگر وہ مومن ہوتا تو رسول کریم ﷺ سے سبق لیتا مگر اس نے کہا آپ ہی رحم کریں.آپ نے اس کو چھوڑ دیا 2.پس خدا کی قدرت وسیع ہے اس پر بھروسہ کرنے والا ضائع نہیں ہوتا.محمد ﷺ وطن سے نکلے.بے وطن ہوئے.مکہ والے آپ کو نکال کر اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوئے لیکن مدینہ والوں کے دل آپ کی طرف خدا نے مائل کر دیئے اور آٹھ سال میں آپ کے دشمن آپ کے رحم کے محتاج ہوئے.“ صلى الله (الفضل 9 مارچ 1922ء) 1: بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 فتح البارى كتاب المغازى باب غَزْوَة ذات الرِّقاع جلد 8 صفحہ 432 حاشیہ مطبوعہ مصر 1959ء

Page 161

سيرة النبي الله 147 جلد 2 تربیت اولا د سے متعلق رسول کریم علیہ کا اسوہ حضرت مصلح موعود نے تربیت اولاد سے متعلق رسول کریم ﷺ کا اسوہ بیان کرتے ہوئے ایک دوست کو تحریر فرمایا:.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فرماتا ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا اپنے آپ کو بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی دوزخ کی آگ سے بچاؤ.اور فرماتا ہے وَأمُرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ے اپنے اہل کو نماز کا حکم دے اور اس پر اصرار کر.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ 3 - تم میں سے ہر ایک شخص ایک چرواہے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے ان لوگوں کی روحانی تربیت کے متعلق سوال کیا جائے گا جو اس کے نیچے رکھے گئے تھے.جس طرح کہ مالک اپنے چرواہے سے جانوروں کے متعلق دریافت کرتا ہے کہ اس نے ان کو کس حالت میں رکھا.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ہے کے ساتھ آپ کے نواسہ کھانا کھانے لگے تو آپ نے ان کو باوجود چھوٹی عمر کے نصیحت کی کہ كُلُّ بِيَمِينِكَ وَمِمَّا يَلِيُكَهِ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ.اور ایک دفعہ زکوۃ کی ایک کھجور آب آپ کے نواسہ نے منہ میں ڈال لی تو آپ نے منہ میں انگلی ڈال کر زور سے کھینچ کر نکال لی اور فرمایا آل محمد پر صدقہ حرام کیا گیا ہے 5.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ بچہ کودینی امور پر کار بند کرنے کے لئے اگر سختی بھی کی جائے تو مناسب ہے.“ 1: التحريم : 7 ( الفضل 13 اپریل 1922ء)

Page 162

سيرة النبي علي 133:4:2 148 جلد 2 3: بخارى كتاب النكاح باب المرأة راعية فى بيت زوجها صفحه 930 حدیث نمبر 5200 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4: بخارى كتاب الأطعمة باب التسمية على الطعام صفحه 960 حدیث نمبر 5376 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية میں الفاظ بدیں طور ہیں.کل بیمینک و کل مما یلیک 66 5:بخارى كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل صفحہ 242،241 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 163

سيرة النبي الله 149 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی دعا کی کیفیت 19 مئی 1922 ء کو حضرت مصلح موعود رمضان المبارک کے تناظر میں الله رسول کریم ﷺ کی دعا کی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.بہت ہیں جو دعا کرتے ہیں مگر ان کی آنکھیں، ان کا دل، ان کا دماغ، ان کا سینہ دعا کا مؤید نہیں ہوتا.ان کی آنکھیں پر نم نہیں ہوتیں.ان کا دل پکھل نہیں رہا ہوتا.ان کا دماغ یکسو ہو کر خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.ان کا سینہ جوش سے اہل نہیں رہا ہوتا.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی دعا اسی طرح ہوا میں اڑ جاتی ہے جس طرح گرد اڑ جاتی ہے.رسول کریم ﷺ سے زیادہ آزاد اور آپ سے بڑھ کر زیادہ خر کون ہو گا.مگر آپ کی نسبت آتا ہے کہ آپ جب دعا کرتے تھے تو بعض اوقات آپ کے سینہ سے اس طرح آواز نکل رہی ہوتی تھی جس طرح کہ ہنڈیا اہل رہی ہے 1 اور اس قدر روتے تھے کہ ریش مبارک تر ہو جاتی تھی.مگر بہت لوگ ہیں جو اپنی عادتوں کے مطابق خدا تعالیٰ سے بھی تکبر کرتے ہیں اور دعاؤں میں رونا نا پسند کرتے ہیں.“ ( الفضل 22 مئی 1922ء ) 1 شمائل الترمذى باب ماجاء فى بكاء رسول الله ل اللہ صفحہ 27 مطبوعہ کراچی 1380 ھ لا

Page 164

سيرة النبي الله 150 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا حضرت ابو ہریرہ سے پیار اور ایک معجزہ حضرت مصلح موعود 29 مئی 1922 ء کو قادیان میں عید الفطر کے خطبہ میں فرماتے ہیں :.حضرت ابو ہریرہ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک جگہ کے گورنر تھے ان کے پاس کسری کا در باری رومال تھا کھانسی جو آئی تو اس رومال میں تھوکا اور کہا واہ واہ ! ابو ہریرہ کسری کے رومال میں تھوکتا ہے.لوگوں نے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ حضرت ابو ہریرہ نے کہا میں رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کے لئے مسجد نبوی میں پڑا رہتا تھا اور میں کسی وقت بھی مسجد سے دور جانا اس لئے پسند نہ کرتا تھا کہ شاید کسی وقت رسول کریم آئیں اور میں نہ ہوں اور کوئی بات سننے سے رہ جائے.اس حال میں بعض اوقات یہ حالت ہو جاتی کہ بھوک کے مارے میرے منہ سے بات نہیں نکل سکتی تھی اور بھوک میں ہی سات سات وقت گزر جاتے.چونکہ صحابہ سوال نہیں کرتے تھے اس لئے حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بھوک سے بیتاب ہو گیا اور اتنے میں حضرت عمر گزرے میں نے اس سے آیت صدقہ کے معنے پوچھے.انہوں نے بتائے اور چلے گئے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کیا میں اس آیت کے معنے نہیں جانتا تھا؟ میرا تو یہ مطلب تھا کہ وہ میری حالت دیکھیں اور کھانے کے لئے دیں.پھر حضرت ابوبکر آئے.میں نے ان سے بھی اسی آیت کے معنے پوچھے.وہ بڑے صدقہ کرنے والے

Page 165

سيرة النبي عل الله 151 جلد 2 صلى الله تھے مگر انہوں نے بھی معنے بتائے اور چلے گئے.لیکن کیا میں اس آیت کے معنے نہیں جانتا تھا؟ اتنے میں حضرت نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے میرا چہرہ دیکھ کر فرمایا ابو ہریرہ! تم بھوکے ہو.آپ کے پاس دودھ کا پیالہ تھا آپ نے فرمایا دوسرے غرباء کو بھی جمع کر لو اور ہم سب سات تھے.آپ نے فرمایا پہلے اُن کو پلاؤ.میں ڈرا کہ یہ دودھ ختم نہ ہو جائے مگر ان سب نے پیا اور قسم ہے خدا کی پیالہ اسی طرح بھرا ہوا تھا.پھر مجھے دیا.میں نے خوب سیر ہوکر پیا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور پیو.میں نے پیا.آپ نے فرمایا اور پیو.میں نے اور پیا اور یہاں تک میں نے پیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ میرے ناخنوں سے دودھ نکل جائے گا1.پھر بعض اوقات میری فاقہ سے یہ حالت ہوتی تھی کہ میں بیہوش ہو کر گر جاتا تھا.لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی ہوگئی ہے اور عرب میں قاعدہ تھا کہ مرگی والے کو جوتے مارتے تھے کہ اس سے ہوش آ جائے.لوگ یہ نہ سمجھتے تھے کہ بھوک کی وجہ سے میرا یہ حال ہوا ہے اس لئے مجھے مارتے تھے.یا تو میری یہ حالت تھی یا اب یہ حال ہے کہ کسریٰ جو آدھی دنیا کا بادشاہ تھا اس کے خاص درباری رومال میں میں تھوکتا ہوں.(الفضل 8 جون 1922ء) صلى الله 66 1:بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي علم و اصحابه صفحه 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2:بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب باب ما ذكر النبي الا الله صفحه 1261 حدیث نمبر 7324 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 166

سيرة النبي الله 152 جلد 2 رسول کریم ﷺ اور معاہدات کی پابندی اور الله الله حضرت مصلح موعود نے 30 جون 1922 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." رسول کریم ﷺ نے صلح حدیبیہ کی.اُس وقت بعض مسلمانوں نے کہا کہ یہ دب کر صلح کی گئی جیسا کہ ہمارے متعلق کہا جاتا ہے.بعض صحابہ کا خیال تھا کہ اسلام کے حقوق کی پوری حفاظت نہیں کی لیکن محمد ﷺ نے جو کچھ کیا تھا وہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق کیا اس لئے آپ کو اس سے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا.اس معاہدے کی دوشرطیں ایسی تھیں جن کو کمزور خیال کیا جاتا تھا.ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص صلى الله مرتد ہو جائے اور آنحضرت علی سے جدا ہو کر مکہ والوں کے پاس چلا جائے تو وہ واپس نہ لیا جائے گا.اور اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر آنحضرت ﷺ کے پاس چلا آئے تو آپ اس کو مکے والوں کے پاس واپس کر دیں گے 1.بظاہر یہ کمزوری کی شرط تھی.مکہ والوں میں سے بعض شخص مسلمان ہو کر مکہ سے بھاگ آئے اور ان کے تعاقب میں مکہ کے لوگ آئے.جب وہ مسلمان آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو کافروں نے کہا کہ آپ کا معاہدہ ہے کہ آپ مکہ سے آنے والوں کو واپس کر دیں گے اپنے معاہدہ کو پورا کیجئے.آپ نے فرمایا نبی معاہدہ شکن نہیں ہوتے آپ اس کو لے جائیں.وہ لے گئے 2ے مگر اس نے ایک کو موقع پا کر راستہ میں قتل کر ڈالا اور دوسرا بھاگ گیا.پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ آپ نے اپنا معاہدہ پورا کر دیا اب میں خود بیچ کر آیا ہوں.آپ نے فرمایا تم چلے جاؤ ہم معاہدہ کے خلاف نہیں کر سکتے 3.وہ وہاں سے بھاگ کر شام کے اس راستہ پر بیٹھ گیا جہاں سے ا

Page 167

سيرة النبي ع 153 جلد 2 مکہ والوں کے قافلے گزرتے تھے اور مکہ سے اور نو مسلم بھی آ آ کر اس سے ملتے گئے اور چونکہ ان سے ان کی جنگ تھی اس لئے انہوں نے مکہ والوں کے قافلے لوٹنے شروع کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ والوں نے خود عرض کیا کہ آپ ان کو بلا لیجئے اور ہم اس شرط سے باز آئے 4.دوسری شرط یہ تھی کہ جو قوم جس سے ملنا چاہے وہ اس سے مل جائے.ان کو خیال تھا کہ لوگ آنحضرت ﷺ سے خوف کی وجہ سے ملتے ہیں.جب ہم نے شرط منوالی تو سب لوگ آپ سے جدا ہو کر ہم سے مل جائیں گے مگر جب یہ شرط ہوئی تو کچھ قبیلے آپ سے مل گئے اور کچھ مکہ والوں سے مل گئے اور یہ بھی شرط تھی کہ ایک دوسرے کے حلیف پر بھی حملہ نہیں کیا جائے گا مگر مکہ والوں نے آنحضرت ﷺ کی ایک حلیف قوم پر شب خون مارا اور ان کے بہت سے آدمیوں کو قتل اور زخمی کیا.یہ کوئی پوشیدہ رہنے والی بات نہ تھی.آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے مکہ پر چڑھائی کردی.وہ جگہ جہاں آپ کو عمرے کے لئے بھی داخل نہیں ہونے دیتے تھے اس میں آپ بحیثیت ایک فاتح کے داخل ہوئے 5.مکہ والے اس پر اعتراض نہیں کر سکتے تھے.آنحضرت ﷺ نے مکہ والوں سے غداری نہیں کی بلکہ مکہ والوں نے معاہدہ شکنی میں غداری سے کام لیا اور وہی صلح جس کو وہ اپنے لئے فتح سمجھتے تھے ان کے لئے وبال ہو گئی.پس جو خدا کے احکام پر عمل کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی فلاح و بہبود کے خود سامان کر دیتا ہے.یہ خیال نہ کرو کہ جو قربانی کرتا ہے اور اپنے حقوق خدا کے لئے چھوڑتا ہے وہ تباہ ہو جائے گا.جو خدا عفو کی تعلیم دیتا ہے وہ ظالم کے ظلم کے نقصان 66 سے بھی بچا سکتا ہے.“.( الفضل 6 جولائی 1922 ء ) 1 تا 4: بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 450،449 حدیث نمبر 2731، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 5 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 1181 تا 1190 مطبوعہ دمشق 2005 ء

Page 168

سيرة النبي عالم 154 جلد 2 رسول کریم مہ کا استغفار علی حضرت مصلح موعود نے رسول کریم اللہ کے استغفار کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.وو رسول کریم ﷺ نے یہ جوفر مایا ہے کہ جب میں کسی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو ستر بار استغفار پڑھتا ہوں 1 اس کا مطلب لوگوں نے غلط سمجھ کر یہ خیال کیا ہے کہ گویا نعوذ باللہ آپ بھی گنہگار تھے.حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنے متعلق استغفار نہ پڑھتے تھے.وجہ یہ کہ چونکہ آپ کا قلب بہت ہی صاف تھا اس لئے جب آپ مجلس میں بیٹھتے تو لوگوں کے جس قسم کے حالات ہوتے ان کا اثر رسول کریم ﷺ تک پہنچتا.اور جب کسی کا برا اثر آپ تک پہنچتا تو آپ استغفار کرتے کہ اس میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے.پھر جب دوسرے کا اثر پہنچتا تو پھر آپ استغفار کرتے.کیونکہ نبی کو اپنے پیروؤں کی اصلاح کا خیال ہوتا ہے اور جب کسی میں کوئی کمزوری دیکھتا ہے تو اس کا دل دکھتا ہے.پس رسول کریم ہے جو استغفار کرتے تھے وہ دوسروں کی حالت کی وجہ سے ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کر دے اور ان کی کمزوریوں کو دور کر دے.اور ستر بار استغفار سے مراد کثرت سے استغفار کرنا ہے کیونکہ ستر کا عدد عربی میں کثرت کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ گن کر آپ ستر دفعہ استغفار کرتے تھے.“ (الفضل 4 ستمبر 1922ء) 1: بخارى كتاب الدعوات باب استغفار النبي الله صفحه 1097 حدیث نمبر 6307 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 169

سيرة النبي عمال 155 جلد 2 و, اشاعت اسلام کے لئے جوش حضرت مصلح موعود اپنی جماعت کو تبلیغ اسلام کا فریضہ نبھانے کی طرف توجہ.دلاتے ہوئے رسول کریم میہ کی مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.دیکھو لوگ گندی چیز اٹھانے کے لئے دوسرے کو کہتے ہیں اور اچھی چیز کے متعلق ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میں اٹھاؤں.پھر اسلام سے بڑھ کر پاک اور اعلی چیز اور کیا ہو سکتی ہے.پس اشاعت اسلام کے متعلق یہ مت سمجھو کہ خلیفہ کا کام ہے ہر شخص خدا کے حضور خلیفہ ہے اور ہر شخص اسلام کے لئے ذمہ وار ہے.پس تم اس کو پھیلانے کے لئے دیوانوں جیسا جوش پیدا کرو اور سب سے مقدم اس فرض کو سمجھو.دیکھو کیا رسول کریم یہ دولت نہ کما سکتے تھے ؟ آپ کو کمانے کا ایسا طریق آتا تھا کہ آپ دو ہی دفعہ تجارت کے لئے گئے اور حضرت خدیجہ اعلیٰ درجہ کی امیر ہو گئیں.پھر انہوں نے اپنا سارا مال رسول کریم ﷺ کے سپر د کر دیا.اگر آپ چاہتے تو اس مال کے ذریعہ تجارت کر کے عرب میں سب سے زیادہ مالدار بن جاتے مگر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہر وقت اور ہر گھڑی دین کی اشاعت میں صرف کیا کرتے تھے.اس سے بظاہر کیا فائدہ تھا جو آپ حاصل کر رہے تھے.ادھر منافق آپ کو تکالیف پہنچانے میں لگے رہتے ادھر کا فر دکھ دینے میں کمی نہ کرتے تھے.کوئی ادھر سے حملہ کرتا کوئی ادھر سے.مگر آپ کا یہ حال تھا کہ مال و دولت کے حاصل ہونے پر بھی آپ خالی ہاتھ گھر چلے جاتے.حنین میں ہی بعض اعراب نے آپ کے گلے میں پٹکے ڈال کر کہا کہ ہمیں مال دو.اس پر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ساری الله

Page 170

سيرة النبي عالم 156 جلد 2 وادی بھی دولت کی ہوتی تو میں تم کو دے دیتا.اب میرے پاس کچھ نہیں کہ تمہیں دول 1.66 ( الفضل 7 ستمبر 1922 ء ) 1: بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى الله يعطى المؤلفة قلوبهم صفحه 523 حدیث نمبر 3148 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 171

سيرة النبي عالم 157 جلد 2 نور محمدی عله ایک صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت اقدس میں عریضہ تحریر کیا جس میں یہ مسئلہ برائے دریافت عرض کیا کہ غیر احمدی اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قبل اس کے کہ کوئی فلک یا ملک یا کوئی اور چیز پیدا کرتا نور محمدی کو پیدا کیا.اور دوئم یہ کہ رسول کریم ﷺ کا نور بشکل طاؤوس یا طوطے کے تھا اور وہ چالیس ہزار سال کے بعد پانی سے نکلا.اور اس نے پروں کو جھاڑا پھر اس سے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے گرے.ان قطروں سے وہ نبی پیدا ہوئے جو کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں.میں اس مسئلہ کا قائل نہیں حضور کیا فرماتے ہیں.اس کے جواب میں حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمایا:.صلى الله یہ باتیں غلط روایات کی بنا پر لوگوں میں مشہور ہیں.باقی نور محمدی اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے بنا.یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان میں محمد ﷺ جیسا انسان پیدا ہونے کی قابلیت رکھی تب اسے پیدا کیا.پس اس لحاظ سے وہ پہلے بنا تھا.“ (الفضل 25 ستمبر 1922ء)

Page 172

سيرة النبي الله 158 جلد 2 رسول کریم علیہ کی دعوئی سے پہلے کی زندگی الله حضرت مصلح موعود 6 اکتوبر 1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.و آنحضرت ﷺ کی کونسی چیز تھی جو مخالفین پر اثر کرتی تھی.وہ قرآن کریم سے ابتداء متاثر نہیں ہوئے بلکہ وہ محمد ﷺ کی پہلی زندگی تھی.آپ ان میں رہے تھے، آپ کی دیانت، آپ کی راستبازی اور ہمدردی خلائق اور ایثار تھا جو ان پر اثر کرتا تھا.دعویٰ سے پہلے آپ ان کو شرک سے منع نہیں کرتے تھے کیونکہ حکم خداوندی نہ تھا لیکن آپ خود مشرک نہ تھے.آپ کے طور طریقہ کی خوبی ہی تھی جس کا اثر تھا اور یہ اثر اندر ہی اندر کھاتا جاتا تھا اور وہ اس کے مقابلہ میں آنکھیں نہیں اٹھا سکتے تھے.آپ مکہ کے قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور ایک ایک قبیلہ کا نام لے کر بلایا.جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے ان کے سامنے ایک مشکل سوال رکھا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس کے پیچھے ایک لشکر ہے تو تم مان لو گے؟ یہ ایک ناممکن امر تھا کیونکہ مکہ کے لوگ اونٹ چراتے تھے اور اس کے لئے پندرہ پندرہ میل تک دور نکل جاتے تھے.یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ ایک لشکر اور بہت بڑا لشکر مکہ کے قریب آکر ایک اوٹ میں ہو رہتا اور مکہ والوں کو پتہ بھی نہ لگتا.مگر ان لوگوں نے آپ کے اس ناممکن سوال کے جواب میں کہا اور آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر تو کہے تو مان لیں گے کیونکہ ہم نے کبھی تجھے کو جھوٹ بولتے نہیں سنا اور تو ہمیشہ دیانت دار رہا ہے، تو ہمیشہ سچ بولتا رہا ہے.آپ نے فرمایا اچھا میں کہتا ہوں کہ خدا ایک ہے شرک بری چیز ہے.اگر تم شرک نہ چھوڑو گے تو تم پر عذاب آئے گا 1.اس بات نے ان پر اثر نہ کیا بلکہ آپ کی اس زندگی نے

Page 173

سيرة النبي الله 159 اثر کیا جو آپ نے قبل دعوی ان لوگوں میں گزاری.جلد 2 جب آپ نے دعوی کیا تو چونکہ مکہ عرب کے لوگوں کا مرکز تھا اس لئے وہاں کے چند سر بر آوردہ لوگوں نے جمع ہو کر تجویز کی کہ باہر سے لوگ آئیں گے اگر ہم ان کو آپ کے متعلق مختلف باتیں بتائیں گے تو ہماری رائے کو غلط سمجھیں گے.چاہئے کہ مل کر ایک فیصلہ کریں اور وہی جواب دیا کریں.ان میں سے ایک شخص نے جواب دیا کہ ہم کہہ دیا کریں کہ وہ جھوٹا ہے.اُسی وقت دوسروں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم نے اس کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اور ہم اس کو صادق اور امین کے طور پر ہی پیش کیا کرتے تھے.اب اس کو جھوٹا کیسے کہیں گے وہ لوگ تو ہمیں کو زم کہیں گے 2.یہ چیز تھی جو ان کو جھکائے ہوئے تھی.“ (الفضل 19 اکتوبر 1922ء) 66 1: بخاری كتاب التفسير تفسير سورة الشعراء باب وانذر عشیرتک الاقربین صفحہ 836 حدیث نمبر 4770 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 316، 347 348 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى

Page 174

سيرة النبي الله 160 جلد 2 رسول کریم مالی بحثیت محتاط ترین قاضی 1922 ء میں حضرت مصلح موعود نے والی افغانستان امیر امان اللہ خان کو ایک پیغام بھیجا جو 1924ء میں دعوۃ الامیر کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا.اس پیغام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بھی ضمناً ذکر کیا گیا ہے.رسول کریم ه محتاط ترین قاضی بھی تھے اس حوالے سے حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ سے زیادہ عارف اور کون ہوگا.آپ اپنی نسبت فرماتے ہیں إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَى وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَلَعَلَّ بَعْضُكُمْ أَنْ يَكُونَ الْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضِ فَإِنْ قَضَيْتُ لاَحَدٍ مِّنكُمُ بِشَيْءٍ مِنْ حَقٌّ أَخِيهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِّنَ النَّارِ فَلَا يَأْخُذُ مِنْهُ شَيْئًا 1.یعنی تم میں سے بعض لوگ میرے پاس جھگڑا لاتے ہیں اور میں بھی آدمی ہوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی تم میں سے دوسرے کی نسبت عمدہ طور جھگڑا کرنے والا ہو.پس اگر میں تم میں سے کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں تو میں اسے ایک آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں اسے چاہئے کہ اسے نہ ا ہے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اسامہ بن زید کو رسول کریم ﷺ نے ایک فوج کا افسر بنا کر بھیجا.ایک شخص کفار میں سے ان کو ملا جس پر انہوں نے حملہ کیا.جب وہ اس کو قتل کرنے لگے تو اس نے کلمہ شہادت پڑھ دیا مگر باوجود اس کے انہوں نے اسے قتل کر دیا.جب رسول کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا ہے؟ اس پر اسامہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ ڈر سے اسلام

Page 175

سيرة النبي ع 161 جلد 2 ظاہر کرتا تھا.آپ نے فرمایا الا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ 2 تو نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہ دیکھا.یعنی تجھے کیا معلوم تھا کہ اس نے اظہار اسلام ڈر سے کیا تھا یا سچے دل سے کیونکہ دل کا حال انسان سے پوشیدہ ہوتا ہے.“ ( دعوۃ الا میر صفحہ 3 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) 1 ترمذى ابواب الاحكام باب ما جاء فى التشديد على من يقضى له بشيء صفحه 324 حدیث نمبر 1339 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 2 : مسند احمد بن حنبل جلد 10 صفحہ 274 حدیث نمبر 22145 مطبوعہ لاہور

Page 176

سيرة النبي الله 162 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی اعلی وارفع شان دعوۃ الا میر کتاب میں حضرت مصلح موعود حیات مسیح کے عقیدہ کو ہتک رسول قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ کے بعد ہمیں خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ سے محبت ہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو سب انبیاء سے بڑا درجہ دیا ہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمیں جو کچھ ملا ہے آپ ہی سے ملا ہے اور جو کچھ آپ نے ہمارے لئے کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی اور کسی انسان نے خواہ نبی ہو یا غیر نبی ہمارے لئے نہیں کیا.ہم آپ سے زیادہ کسی اور انسان کو عزت نہیں دے سکتے.ہمارے لئے یہ بات سمجھنی بالکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصری کو زندہ آسمان پر چڑھا دیں اور محمد رسول اللہ علیہ کو زیر زمین مدفون سمجھیں اور پھر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھیں کہ آپ مسیح سے افضل بھی ہیں.کس طرح ممکن ہے کہ وہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذرا سا خطرہ دیکھ کر آسمان پر اٹھا لیا ادنیٰ درجہ کا ہو اور وہ جس کا دور دور تک دشمنوں نے تعاقب کیا مگر خدا تعالیٰ نے اسے ستاروں تک بھی نہ اٹھایا اعلیٰ ہو.اگر فی الواقعہ مسیح علیہ السلام آسمان پر ہیں اور ہمارے سردار و آقا زمین میں مدفون ہیں تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی موت نہیں اور ہم مسیحیوں کو منہ بھی نہیں دکھا سکتے.مگر نہیں یہ بات نہیں خدا تعالیٰ اپنے پاک رسول سے یہ سلوک نہیں کر سکتا.وہ احکم الحاکمین ہے یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو سَيِّدُ وُلدِ آدم بھی بناتا اور پھر مسیح علیہ السلام سے زیادہ محبت کرتا اور ان کی تکالیف کا زیادہ خیال رکھتا.جب اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کے قیام کے لئے ایک دنیا کو

Page 177

سيرة النبي عالم 163 جلد 2 زیر و زبر کر دیا اور جس نے آپ کی ذرا بھی ہتک کرنی چاہی اسے ذلیل کر دیا تو کیا ہوسکتا تھا کہ خود اپنے ہاتھ سے وہ آپ کی شان کو گرا تا اور دشمن کو اعتراض کا موقع دیتا ؟ میں تو جب یہ خیال بھی کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ تو زیرزمین مدفون ہیں اور حضرت مسیح ناصری آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میری جان گھٹنے لگتی ہے اور اسی وقت میرا دل پکار اٹھتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا نہیں کر سکتا.وہ محمد رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا تھا وہ اس امر کو ہرگز پسند نہیں کرتا تھا کہ آپ تو فوت ہو کر زمین کے نیچے مدفون ہوں اور حضرت مسیح علیہ السلام زندہ رہ کر آسمان پر جا بیٹھیں.اگر کوئی شخص زندہ رہنے اور آسمان پر جا بیٹھنے کا مستحق تھا تو وہ ہمارے نبی کریم سے تھے اور اگر وہ فوت ہو گئے ہیں تو گل نبی فوت ہو چکے ہیں.ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی اعلی شان اور آپ کے ارفع درجہ کو دیکھتے اور مقام کو پہچانتے ہوئے کس طرح تسلیم کر لیں کہ جب ہجرت کے دن جبل ثور کی بلند چٹانوں پر حضرت ابو بکرؓ کے کندھوں پر پاؤں رکھ کر آپ کو چڑھنا پڑا تو خدا تعالیٰ نے کوئی فرشتہ آپ کے لئے نہ اتارا لیکن جب مسیح علیہ السلام کو یہودی پکڑنے آئے تو اس نے فوراً آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور چوتھے آسمان پر آپ کو جگہ دی.اسی طرح ہم کیونکر مان لیں کہ جب غزوہ احد میں آنحضرت علیہ کو دشمنوں نے صرف چند احباب میں گھر ا پایا تو اُس وقت تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہ کیا کہ آپ کو کچھ دیر کے لیے آسمان پر اٹھا لیتا اور کسی دشمن کی شکل آپ کی سی بدل کر اس کے دانت تڑوا دیتا بلکہ اس نے اجازت دی کہ دشمن آپ پر حملہ آور ہو، آپ کالمیت زمین پر بے ہوش ہو کر جا پڑیں اور دشمن نے خوشی کے نعرے لگائے کہ ہم نے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دیا ہے لیکن مسیح علیہ السلام کے متعلق اسے یہ بات پسند نہ آئی کہ ان کو کوئی تکلیف ہو اور جو نہی کہ یہود نے آپ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اس نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور آپ کی جگہ آپ کے کسی دشمن کو آپ کی شکل میں بدل کر صلیب پر

Page 178

سيرة النبي علي لٹکوا دیا.164 جلد 2 ہم حیران ہیں کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ایک طرف تو آنحضرت ﷺ سے محبت کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کی عزت پر حملہ کرتے ہیں.اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جو لوگ آپ کی محبت سے مجبور ہو کر آپ پر کسی کو فضیلت دینے سے انکار کر دیتے ہیں ان کو دکھ دیتے ہیں، ان کے اس فعل کو کفر قرار دیتے ہیں.کیا کفر محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کے قائم کرنے کا نام ہے؟ کیا بے دینی آپ کے حقیقی درجے کے اقرار کا نام ہے؟ کیا ارتداد آپ سے محبت کو کہتے ہیں؟ اگر یہی کفر ہے، اگر یہی بے دینی ہے، اگر یہی ارتداد ہے تو خدا کی قسم ! ہم اس کفر کو لوگوں کے ایمان سے اور اس بے دینی کو لوگوں کی دینداری سے اور اس ارتداد کولوگوں کے ثبات سے ہزار درجہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور اپنے آقا اور سردار حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہمنوا ہو کر بلا خوف ملامت اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ بعد از خدا بعشق محمد مخمر م گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم 1 سب کو آخر ایک دن مرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونا ہے اور اسی کے ساتھ معاملہ پڑنا ہے پھر ہم لوگوں سے کیوں ڈریں؟ لوگ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرتے ہیں اور اسی سے محبت کرتے ہیں اور اس کے بعد سب سے زیادہ محبت اور ادب ہمارے دل میں آنحضرت ﷺ کا ہے.اگر دنیا کی ساری عزتیں اور دنیا کے سارے تعلقات اور دنیا کے تمام آرام آپ کے لئے ہمیں چھوڑنے پڑیں تو یہ ہمارے لیے آسان ہے مگر آپ کی ذات کی ہتک ہم برداشت نہیں کر سکتے.ہم دوسرے نبیوں کی ہتک نہیں کرتے مگر آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ اور آپ کے علم اور آپ کے عرفان اور آپ کے تعلق باللہ کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کبھی بھی نہیں مان سکتے کہ آپ کی نسبت کسی اور نبی سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیار تھا.اگر ہم ایسا کریں تو ہم سے زیادہ قابل سزا اور کوئی نہیں ہو گا.ہم آنکھیں رکھتے ہوئے اس بات کو کس طرح باور کر لیں

Page 179

سيرة النبي علي 165 جلد 2 کہ عرب کے لوگ جب محمد رسول اللہ ﷺ سے کہیں کہ اَوْ تَرْقُ فِي السَّمَاءِ وَلَنْ تُؤْمِنَ لِرَقِيَّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتبًا نَّقْرَؤُهُ 2.یعنی ہم تجھے نہیں مانیں گے جب تک کہ تو آسمان پر نہ چڑھ جائے اور ہم تیرے آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ تو کوئی کتاب بھی آسمان پر سے نہ لائے جسے ہم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ آپ سے فرمائے کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا 3.ان سے کہہ دے کہ میرا رب ہر کمزوری سے پاک ہے میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں لیکن حضرت مسیح کو وہ آسمان پر اٹھا کر لے جائے.جب محمد رسول اللہ ﷺ کا سوال آئے تو انسانیت کو آسمان پر چڑھنے کے مخالف بتایا جائے لیکن جب مسیح کا سوال آئے تو بلا ضرورت ان کو آسمان پر لے جایا جائے.کیا اس سے یہ نتیجہ نہ نکلے گا کہ مسیح علیہ السلام آدمی نہیں تھے بلکہ خدا تھے؟ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذلک.یا پھر یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ رسول کریم ﷺ سے افضل تھے اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارے تھے مگر جب کہ یہ بات اظهر من الشمس ہے کہ آنحضرت علی سب رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں تو پھر کس طرح عقل باور کر سکتی ہے کہ آپ تو آسمان پر نہ جائیں بلکہ اسی زمین پر فوت ہوں اور زمین کے نیچے دفن ہوں لیکن مسیح صلى الله علیہ السلام آسمان پر چلے جائیں اور ہزاروں سال تک زندہ رہیں.پھر یہ سوال صرف غیرت ہی کا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی صداقت کا بھی سوال ہے.آپ فرماتے ہیں کہ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی 4- اگر موسی و عیسی زندہ ہوتے تو میری اطاعت کے سوا ان کو کوئی چارہ نہ تھا.اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو پھر آپ کا یہ قول نَعُوذُ بِالله باطل ہو جاتا ہے کیونکہ آپ لوگان “ کہ کر اور موسی کے ساتھ عیسی کو ملا کر دونوں نبیوں کی وفات کی خبر دیتے ہیں.پس نبی کریم ﷺ کی شہادت کے بعد کس طرح کوئی شخص آپ کی امت میں سے کہلا کر یہ یقین رکھ سکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.اگر وہ

Page 180

سيرة النبي الله 166 جلد 2 زندہ ہیں تو آنحضرت ﷺ کی صداقت اور آپ کے علم پر حرف آتا ہے.کیونکہ آپ تو ان کو وفات یافتہ قرار دیتے ہیں.رسول کریم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ سے اس مرض میں جس میں آپ فوت ہوئے فرمایا کہ اِنَّ جِبُرِیلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً وَ إِنَّهُ عَارَضَنِى بِالْقُرْآنِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَ أَخَبَرَنِي أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَّبِيٍّ إِلَّا عَاشَ نِصْفَ الَّذِي قَبْلَهُ وَ اَخْبَرَنِى اَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَ مِائَةَ سَنَةٍ وَلَا أَرَانِيُّ إِلَّا ذَاهِبًا عَلَى رَأسِ السِّيِّينَ 5 یعنی جبرائیل ہر سال ایک دفعہ مجھے قرآن سناتے تھے مگر اس دفعہ دو دفعہ سنایا ہے اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس سال کی عمر تک زندہ رہے تھے.پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی.اس روایت کا مضمون الہامی ہے کیونکہ اس میں رسول کریم ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بیان فرماتے بلکہ جبرائیل علیہ السلام کی بتائی ہوئی بات بتاتے ہیں جو یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال کی تھی.پس لوگوں کا یہ خیال کہ آپ بتیس تینتیس سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے تھے غلط ہوا کیونکہ اگر حضرت مسیح اس عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے تھے تو آپ کی عمر بجائے ایک سو بیس سال کے رسول کریم ﷺ کے زمانے تک قریباً چھ سو سال کی بنتی ہے اور اس صورت میں چاہئے تھا کہ رسول کریم کم سے کم تین سو سال تک عمر پاتے مگر آنحضرت ﷺ کا تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جانا اور الہاماً آپ کو بتایا جانا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ثابت کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور آسمان پر آپ کا بیٹھا ہونا رسول کریم ﷺ کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور آپ کے الہامات اسے رد کرتے ہیں.اور جب امر واقعہ یہ ہے تو ہم لوگ کسی کے کہنے سے کس طرح صلى اللهم عروسة

Page 181

سيرة النبي عل الله 167 جلد 2 حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کے قائل ہو سکتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کو چھوڑ سکتے ہیں.“ 1 : در متین فارسی صفحه 112 مطبوعه باراول 3،2: بنی اسرائیل: 94 ( دعوۃ الا میر صفحہ 13 تا 16 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) 4: اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1351ھ 5 شرح مواهب الدنیہ مؤلفه امام زرقانی جلد 1 صفحہ 35 مطبوعہ مصر 1325 ھ

Page 182

سيرة النبي الله 168 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کے منافی عقیدہ حضرت مصلح موعود دعوۃ الامیر کتاب میں ہی مسلمانوں میں حضرت رسول کریم کی قوت قدسیہ کے منافی را نج مسیح کی آمد ثانی کے عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :.مسیح ناصری کے دوبارہ واپس آنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حرف آتا ہے، آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ پر بھی حرف آتا ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی دوبارہ دنیا میں واپس آنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلی تمام امتیں جب بگڑتی تھیں تو ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں میں سے ایک شخص کو کھڑا کر دیتا تھا مگر ہمارے آنحضرت ﷺ کی امت میں جب فساد پڑے گا تو اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء میں سے ایک نبی کو واپس لائے گا خود آپ کی امت میں سے کوئی فرد اس کی اصلاح کی طاقت نہیں رکھے گا.اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں تو ہم یقیناً مسیحیوں اور یہودیوں سے رسول کریم عملے کی دشمنی میں کم نہ ہوں گے کیونکہ وہ بھی رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ پر معترض ہیں اور اس عقیدے کے ساتھ ہم بھی آپ کی قوت قدسیہ پر معترض ہو جاتے ہیں.جب چراغ جل رہا ہو تو اس سے اور چراغ یقینا روشن ہو سکتے ہیں.وہ بجھا ہوا چراغ ہوتا ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہیں ہو سکتا.پس اگر رسول کریم ﷺ کی امت پر کوئی زمانہ ایسا بھی آنا ہے کہ اس کی حالت ایسی بگڑ جائے گی کہ اس میں سے کوئی شخص اس کی اصلاح کے لئے کھڑا نہیں ہو سکے گا تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اُس وقت رسول کریم ﷺ کا فیضان بھی نَعُوذُ بِاللهِ

Page 183

سيرة النبي ع 169 جلد 2 مِنْ ذلِک ختم ہو جائے گا.کون مسلمان اس بات کو نہیں جانتا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو حضرت موسیٰ کا سلسلہ چلانا منظور تھا اُس وقت تک آپ ہی کے اتباع میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو آپ کی امت کی اصلاح کرتے رہے لیکن جب اسے یہ منظور ہوا کہ آپ کے سلسلے کو ختم کر دے تو اس نے آپ کی قوم میں سے نبوت کا سلسلہ بند کر کے بنو اسماعیل میں سے نبی بھیج دیا.پس اگر رسول کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی موسوی سلسلہ سے آئے گا تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِک رسول کریم ﷺ کے سلسلہ کو بھی ختم کر دے گا اور کوئی اور سلسلہ جاری کرے گا.اور نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ اُس وقت کمزور ہو جائے گی اور آپ کا فیضان کسی امتی کو بھی اس امر کے لئے تیار نہ کر سکے گا کہ وہ آپ سے نور پا کر آپ کی امت کی اصلاح کرے اور اسے راہ راست پر لا و افسوس ہے کہ لوگ اپنے لئے تو ضرورت سے زیادہ غیرت دکھاتے ہیں اور کسی قسم کا عیب اپنی نسبت منسوب ہونا پسند نہیں کرتے لیکن خدا کے رسول کی طرف ہر ایک عیب دلیری سے منسوب کرتے ہیں.اس محبت کو ہم کیا کریں جو منہ تک رہتی ہے مگر دل میں اس کا کوئی اثر نہیں اور اس ولولے کو کیا کریں جو اپنے ساتھ کوئی ثبوت نہیں رکھتا.اگر فی الواقعہ لوگ رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتے تو ایک منٹ کے لئے بھی پسند نہ کرتے کہ ایک اسرئیلی نبی آکر آپ کی امت کی اصلاح کرے گا.کیا کوئی غیرت مند اپنے گھر میں سامان ہوتے ہوئے دوسرے سے مانگنے جاتا ہے یا طاقت ہوتے ہوئے دوسرے کو مدد کے لیے بلاتا ہے؟ وہی مولوی جو کہتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ رسول کریم ﷺ کی امت کے لئے اور اس کو مصائب سے بچانے کے لیے مسیح ناصری علیہ السلام آئیں گے اپنی ذاتوں کے لئے اس قدر غیرت دکھاتے ہیں کہ اگر بحث میں ہار بھی رہے ہوں تو اپنی ہار کا اقرار نہیں کرتے اور کسی دوسرے کو اپنی

Page 184

سيرة النبي عمال 170 جلد 2 مدد کے لیے بلانا پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی خود بخود ان کی مدد کے لئے تیار ہو جائے تو اس کا احسان ماننے کے بجائے اس پر ناراض ہوتے ہیں کہ کیا ہم جاہل ہیں کہ تو ہمارے منہ میں لقمہ دیتا ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی نسبت کس بے پرواہی سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کی مدد کے لئے ایک دوسرے سلسلے سے نبی بلوایا جائے گا اور خود آپ کی قوت قدسیہ کچھ نہ کر سکے گی.آہ! کیا دل مر گئے ہیں یا عقلوں پر پتھر پڑ گئے ہیں؟ کیا سب کی سب غیرت اپنے ہی لئے صرف ہو جاتی ہے اور خدا اور اس کے رسول کے لئے غیرت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا؟ کیا سب غصہ اپنے دشمنوں پر ہی صرف ہو جاتا ہے اور خدا اور اس کے رسول پر حملہ کرنے والوں کے لئے کچھ نہیں بچتا ؟ ہم سے کہا جاتا ہے کہ کیوں تم ایک اسرائیلی نبی کی آمد کے منکر ہومگر ہم اپنے دلوں صلى الله کو کہاں لے جائیں اور اپنی محبت کے نقش کس طرح مٹائیں ہمیں تو محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت سے بڑھ کر کسی اور کی عزت پیاری نہیں، ہم تو ایک منٹ کیلئے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ محمد رسول اللہ علیہ کسی اور کے ممنون احسان ہوں، ہمارا دل تو ایک منٹ کے لئے بھی اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن جب تمام مخلوق از ابتدا تا انتہا جمع ہوگی اور عَلی رُؤُوسِ الاشهاد ہر ایک کے کام بیان کئے جائیں گے اُس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کی گردن مسیح اسرائیلی کے احسان سے جھکی جا رہی ہو گی اور تمام مخلوق کے سامنے بلند آواز سے فرشتے پکار کر کہیں گے کہ جب محمد رسول اللہ کی قوت قدسیہ جاتی رہی تو اُس وقت مسیح اسرائیلی نے ان پر احسان کر کے جنت میں سے نکلنا اپنے لئے پسند کیا اور دنیا میں جا کر ان کی امت کی اصلاح کی اور اسے تباہی سے بچایا.ہم تو اس امر کو بہت پسند کرتے ہیں کہ ہماری زبانیں کٹ جائیں بہ نسبت اس کے کہ ایسی ہتک آمیز بات رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کریں اور ہمارے ہاتھ شل ہو جائیں بجائے اس کے کہ ایسے کلمات آپ کے حق میں تحریر کریں.محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ، آپ کی قوت قدسیہ کبھی باطل نہیں

Page 185

سيرة النبي علي 171 جلد 2 صلى الله ہو سکتی.آپ خاتم النبین ہیں آپ کا فیضان کبھی رُک نہیں سکتا ، آپ کا سرکسی کے احسان کے آگے جھک نہیں سکتا بلکہ آپ کا احسان سب نبیوں پر ہے.کوئی نبی نہیں جس نے آپ کو منوایا ہو اور آپ کی صداقت آپ کے منکروں سے منوائی ہو.لیکن کیا لاکھوں کروڑوں انسان نہیں جن سے محمد رسول اللہ ﷺ نے باقی انبیاء کی نبوت منوائی ہے؟ ہندوستان میں آٹھ کروڑ مسلمان بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے بہت ہی تھوڑے ہیں جو بیرونی ممالک کے رہنے والے ہیں باقی سب ہندوستان کے باشندے ہیں جو کسی نبی کا نام تک نہ جانتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا کر ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ پر ایمان لے آئے ہیں.اگر اسلام ان کے گھروں میں داخل نہ ہوا ہوتا تو آج وہ ان نبیوں کو گالیاں دے رہے ہوتے اور ان کو جھوٹے آدمیوں میں سے سمجھ رہے ہوتے جس طرح کہ ان کے باقی بھائی بندوں کا آج تک خیال ہے.اسی طرح افغانستان کے لوگ اور چین کے لوگ اور ایران کے لوگ کب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کو مانتے تھے ان سے ان انبیاء کی صداقت کا اقرار آنحضرت ﷺ نے ہی کرایا ہے.پس آپ کا سب گزشتہ نبیوں پر احسان ہے کہ ان کی صداقت لوگوں پر مخفی تھی آپ ﷺ نے اس کو ظا ہر فر ما یا مگر آپ پر کسی کا احسان نہیں.آپ پر اللہ تعالیٰ وہ دن بھی نہیں لائے گا جب آپ کا فیضان بند ہو جائے اور کوئی دوسرا نبی آکر آپ کی امت کی اصلاح کرے.بلکہ جب کبھی بھی آپ کی امت کی اصلاح کی ضرورت پیش آئے گی اللہ تعالیٰ آپ ہی کے شاگردوں میں سے اور آپ ہی کے امتیوں میں سے ایسے لوگ جنہوں نے سب کچھ آپ ہی سے لیا ہو گا اور آپ ہی سے سیکھا ہو گا مقرر فرمائے گا تا کہ وہ بگڑے ہوؤں کی اصلاح کریں اور گمشدوں کو واپس لائیں اور ان لوگوں کا کام آپ ہی کا کام ہوگا کیونکہ شاگرد اپنے استاد سے علیحد ہ نہیں ہوسکتا اور امتی اپنے نبی سے جدا نہیں قرار دیا جا سکتا.ان کی گردنیں آپ کے احسان کے آگے جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے دل صلى الله

Page 186

سيرة النبي علي 172 جلد 2 آپ کی محبت کی شراب سے لبریز ہوں گے اور ان کے سر آپ کے عشق کے نشے سے سرشار ہوں گے.“ ( دعوۃ الا میر صفحہ 22 تا 25 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ )

Page 187

سيرة النبي الله 173 جلد 2 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا تقاضا حضرت مصلح موعود کتاب ”دعوۃ الا میر میں امت محمدیہ میں سے رسول کریم ہے کی اتباع سے کسی کا نبوت پانا حضور ﷺ کی قوت قدسیہ کی دلیل ہے کی بابت تحریر وو فرماتے ہیں:.چوتھا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد سلسلہ وحی اور سلسلہ نبوت کو جاری سمجھتے ہیں.یہ اعتراض بھی یا تو قلت تذبر کا نتیجہ ہے یا عداوت و دشمنی کا.اصل بات یہ ہے کہ ہمیں تو الفاظ سے کوئی تعلق نہیں جس بات میں خدا اور اس کے رسول کی عزت ہو ہمیں تو وہی پسند ہے.ہم کبھی ایک منٹ کے لئے بھی اس امر کو جائز نہیں سمجھتے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص آئے جو آپ کی رسالت کو ختم کر دے اور نیا کلمہ اور نیا قبلہ بنائے اور نئی شریعت اپنے ساتھ لائے یا شریعت کا کوئی حکم بدل دے یا جو لوگوں کو رسول کریم ﷺ کی اطاعت سے نکال کر اپنی اطاعت میں لے آئے یا آپ رسول کریم ﷺ کی اطاعت سے باہر ہو یا کچھ بھی فیض اس کو رسول کریم ع کے توسط کے بغیر ملا ہو.اگر ایسا کوئی آدمی آئے تو ہمارے نزدیک اسلام باطل ہو جاتا ہے اور محمد رسول اللہ علیہ سے اللہ تعالیٰ کے جو وعدے تھے جھوٹے ہو جاتے ہیں.لیکن ہم اس امر کو بھی کبھی پسند نہیں کر سکتے کہ رسول کریم ﷺ کے وجود کوایسا سمجھا جائے کہ گویا آپ نے تمام فیوض الہی کو روک دیا ہے اور آپ بجائے دنیا کی ترقی میں محمد ہونے کے اس کے راستہ میں روک بن گئے ہیں اور گویا نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ آپ بجائے دنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے اسے وصول إِلَی الله صلى الله

Page 188

سيرة النبي علي 174 جلد 2 کے اعلیٰ مقامات سے محروم کرنے والے ہیں.جس طرح پہلا خیال اسلام کے لئے تباہ الله کرنے والا ہے اسی طرح یہ دوسرا خیال بھی رسول کریم ﷺ کی ذات پر ایک خطرناک حملہ ہے اور ہم نہ اسے قبول کرتے ہیں اور نہ اسے برداشت کر سکتے ہیں.ہمارا یقین ہے کہ رسول کریم ﷺ دنیا کے لئے رحمت تھے اور ہمارا پکا یقین ہے کہ یہ بات ہر ایک آنکھ رکھنے والے کو نظر آ رہی ہے.آپ نے آ کر دنیا کو فیوض سماوی سے محروم نہیں کر دیا بلکہ آپ کے آنے سے اللہ تعالیٰ کے فیوض کی روانی پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی ہے.اگر پہلے وہ ایک نہر کی طرح بہتے تھے تو اب ایک دریا کی طرح بہتے ہیں کیونکہ پہلے علم اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا اور علم کامل کے بغیر عرفان کامل بھی حاصل نہیں ہوسکتا اور اب علم اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے.قرآن کریم میں وہ کچھ بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کی کتب میں بیان نہیں کیا گیا تھا.پس رسول کریم ﷺ کے طفیل لوگوں کو عرفان میں زیادتی حاصل ہوئی ہے اور عرفان میں زیادتی کی وجہ سے اب وہ ان اعلیٰ مقامات پر پہنچ سکتے ہیں جن پر پہلے لوگ نہیں پہنچ سکتے تھے.اور اگر یہ ایمان نہ رکھا جائے تو پھر رسول کریم ﷺ کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت رہ جاتی ہے.پس ہم الله اس قسم کی نبوت سے تو منکر ہیں جو رسول کریم ﷺ سے آزاد ہو کر حاصل ہوتی ہو اور اسی وجہ سے ہم رسول کریم ﷺ کے بعد مسیح ناصری کی آمد سے منکر ہیں مگر ہم اس قسم کی نبوت کی نفی نہیں کر سکتے جس سے رسول کریم ﷺ کی عزت بالا ہوتی ہو.اے امیر! اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو مہبط انوار بنائے اور آپ کے سینے کو حق کی قبولیت کیلئے وسیع کرے.وہی نبوت پہلے نبی کے سلسلے کو ختم کر سکتی ہے جو شریعت والی نبوت ہو اور وہی پہلے نبی کی شریعت کو منسوخ کر سکتی ہے جو بلا واسطہ حاصل ہو لیکن جو نبوت کہ پہلے نبی کے فیض سے اور اس کی اتباع سے حاصل ہو اور جس کی غرض پہلے نبی کی نبوت کی اشاعت ہو اور اس کی عظمت اور اس کی بڑائی کا اظہار ہو وہ پہلے نبی کی ہتک کرنے والی نہیں بلکہ اس کی عزت کو ظاہر کرنے والی ہے اور اس قسم کی نبوت

Page 189

سيرة النبي علي 175 جلد 2 قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور عقل سلیم اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس امت میں حاصل ہو سکتی ہے.اور اگر یہ نبوت اس امت کو حاصل نہ ہو تو پھر اس امت کو دوسرے نبیوں کی امتوں پر کوئی فضیلت نہیں رہتی.: رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ محدث حضرت موسی علیہ السلام کی امت میں بھی بہت سے گزرے ہیں 1.پس اگر آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ بھی انسان کو محدثیت کے مقام تک ہی پہنچا سکتی ہے تو پھر آپ کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت رہی اور آپ سَيِّدُ وُلدِ آدَم اور نبیوں کے سردار کیونکر ٹھہرے.خیر الرسل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ میں بعض ایسے کمالات پائے جائیں جو پہلے نبیوں میں نہیں پائے جاتے تھے اور ہمارے نزدیک یہ کمال آپ میں ہی ہے کہ پہلے انبیاء کے امتی ان کی قوت جذب سے صرف محدثیت کے مقام تک پہنچ سکتے تھے مگر رسول کریم ﷺ کے امتی مقام نبوت تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور یہی آپ کی قوت قدسیہ کا کمال ہے جو ایک مومن کے دل کو آپ کی محبت اور آپ کے عشق کے جذبہ سے بھر دیتا ہے.اگر آپ کے آنے سے اس قسم کی نبوت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے تو پھر آپ کی مدد دنیا کے لئے ایک عذاب بن جاتی ہے اور قرآن کریم کا وجود بے فائدہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کی بعثت سے پہلے تو انسان بڑے بڑے درجوں تک پہنچ جاتا تھا مگر آپ کی بعثت کے بعد وہ ان درجوں کے پانے سے روک دیا گیا اور یہ ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم سے پہلی کتب تو نبوت کا درجہ پانے میں محمد ہوا کرتی تھیں یعنی ان کے ذریعہ سے انسان اس مقام تک پہنچ جاتا تھا جہاں اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے مقام کی تربیت کے لئے چن لیتا تھا لیکن قرآن کریم پر عمل کر کے انسان اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا.اگر فی الواقعہ یہ بات ہو تو اللہ تعالیٰ کے سچے پرستاروں کے دل خون ہو جائیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جائیں کیونکہ وہ تو رحمة للعالمین اور سید الانبیاء کی آمد پر یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب ہماری روحانی ترقیات

Page 190

سيرة النبي الله 176 جلد 2 کے لئے نئے دروازے کھل جائیں گے اور اپنے محبوب رب العالمین کے اور بھی قریب ہو جائیں گے لیکن نتیجہ نَعُوذُ باللهِ مِنْ ذَلِک یہ نکلا کہ آپ نے آ کر جو دروازے پہلے کھلے تھے ان کو بھی بند کر دیا.کیا کوئی مومن رسول کریم ﷺ کی نسبت اس قسم کا خیال ایک آن واحد کے لئے بھی اپنے دل میں آنے دے سکتا ہے؟ کیا کوئی آپ کا عاشق ایک ساعت کے لئے بھی اس عقیدہ پر قائم رہ سکتا ہے؟ بخدا آپ برکت کا ایک سمندر تھے اور روحانی ترقی کا ایک آسمان تھے جس کی وسعت کو کوئی نہیں پا سکتا.آپ نے رحمت کے دروازے بند نہیں کر دیئے بلکہ کھول دیئے ہیں اور آپ میں اور پہلے نبیوں میں یہ فرق ہے کہ ان کے شاگرد تو محدثیت تک پہنچ سکتے تھے اور نبوت کا مقام پانے کیلئے ان کو الگ تربیت کی ضرورت ہوتی تھی مگر آنحضرت عے کی شاگردی میں ایک انسان نبوت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اور پھر بھی آپ کا امتنی رہتا ہے اور جس قدر بھی ترقی کرے آپ کی غلامی سے باہر نہیں جا سکتا.اس کے درجہ کی بلندی اسے امتی کہلانے سے آزاد نہیں کر دیتی بلکہ وہ اپنے درجہ کی بلندی کے مطابق آپ کے احسان کے بار کے نیچے دیتا جاتا ہے کیونکہ آپ قرب کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جس تک دوسروں کو رسائی نہیں ہوئی اور آپ نے اس قدر بلندی کو طے کر لیا ہے جس تک دوسروں کا ہاتھ بھی نہیں پہنچا اور آپ کی ترقی اس سرعت سے جاری ہے کہ واہمہ بھی اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے.پس آپ کی امت نے بھی آپ کے قدم بڑھانے سے قدم بڑھایا ہے اور آپ کے ترقی فرمانے سے ترقی کی ہے.رسول کریم ﷺ کا یہ مقام جو اوپر بیان ہوا ہے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس قسم کی نبوت کا سلسلہ آپ کے بعد جاری سمجھیں کیونکہ اس میں آپ کی عزت ہے اور اس کے بند کرنے میں آپ کی سخت ہتک ہے.کون نہیں سمجھ سکتا کہ لائق استاد کی علامت یہ ہے کہ اس کے لائق شاگرد ہوں اور بڑے بادشاہ کی علامت یہ ہے کہ اس کے

Page 191

سيرة النبي عمال 177 جلد 2 ما تحت بڑے بڑے حکمران ہوں.اگر کسی استاد کے شاگر دادنیٰ درجے کے ہیں تو اسے کوئی لائق استاد نہیں کہہ سکتا اور اگر کسی بادشاہ کے ماتحت ادنیٰ درجے کے لوگ ہوں تو اسے کوئی بڑا بادشاہ نہیں کہہ سکتا.شہنشاہ دنیا میں عزت کا لقب ہے نہ کہ ذلت اور حقارت کا.اسی طرح وہ نبی ان نبیوں سے بڑا ہے جس کے امتی نبوت کا مقام پاتے ہیں اور پھر بھی امتی ہی رہتے ہیں.“ ( دعوۃ الا میر صفحہ 32 تا 35 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) 1: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي باب مناقب عمر بن الخطاب صفحہ 618 حدیث نمبر 3677 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 192

سيرة النبي الله 178 جلد 2 رسول کریم علیہ کا اپنی بیوی سے مشورہ کرنا حضرت مصلح موعود نے 27 دسمبر 1922ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.صلى الله ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے رویا میں دیکھا کہ آپ عمرہ کر رہے ہیں.آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید اسی سال عمرہ کرنا ہے.چونکہ مکہ والے ستاتے تھے اور مدینے والے جانہیں سکتے تھے یہ رویا سن کر کئی ہزار آدمی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے.کئی ہزار کے مجمع کو ساتھ لے کر رسول کریم عمل ہے جب مکے کے پاس پہنچے تو مکے والوں نے کہا کہ ہم ہرگز نہیں جانے دیں گے.لوگ کہیں گے کہ محمد (رسول اللہ ) کئی ہزار کے مجمع کو لے کر گئے تو سکے والے ڈر گئے ہماری تو ناک کٹ جائے گی.کئی تدبیریں کی گئیں اور فیصلہ کی یہ صورت ہوئی کہ دونوں طرفوں کے بڑے بڑے سردار اکٹھے ہو کر فیصلہ کریں.آخر فیصلہ کرنے سے یہ بات قرار پائی کہ مدینہ والے اس سال چلے جاویں اور اگلے سال آدیں.اس فیصلہ سے صحابہ کرام بہت رنجیدہ صلى الله ہوئے کہ رسول کریم علیہ نے کفار کی یہ شرط کیوں مان لی.پھر رسول کریم علی نے فرمایا کہ قربانی کے لئے جو کچھ لائے ہو یہیں پر قربانی کر دو.مگر کوئی نہ اٹھا حتی که رسول کریم ﷺ نے تین دفعہ کہا مگر پھر بھی سب بیٹھے رہے.یہ حال دیکھ کر رسول کریم ﷺ کو بہت فکر ہوا کہ کہیں اس واقعہ سے لوگوں پر ابتلا نہ آ جاوے.آخر آپ اٹھ کر گھر گئے اور اپنی ایک بیوی سے پوچھا کہ کیا کیا جاوے؟ یہ آج پہلی دفعہ ہے کہ میں بات کہوں اور لوگ نہ کریں.آپ کی بیوی نے کہا کہ آپ اب ان

Page 193

سيرة النبي علي 179 جلد 2 سے کچھ نہ کہیں.سید ھے چلے جاویں اور جا کر اپنی قربانی کے گلے پر چھری پھیر دیں.چنانچہ آپ گئے اور اپنے اونٹ کے گلے پر نیزہ مارا.یہ دیکھ کر سب لوگ اس طرح کھڑے ہوئے کہ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مجھ سے کوئی اور پہلے نہ ہو جائے 1 کیونکہ صرف ان کے دل ٹوٹے ہوئے تھے.رسول کریم ﷺ کو قربانی کرتے دیکھ کر سب اٹھ کھڑے ہوئے.تو ایک عورت کے مشورے کی بدولت یہ مشکل حل ہو گئی.“ ( الفضل 22 جنوری 1923 ء ) 1:بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 447 تا 449 حدیث نمبر 2731، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 194

سيرة النبي الله 180 جلد 2 رسول کریم عملہ کا توکل علی اللہ حضرت مصلح موعود نے 28 دسمبر 1922 ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز جو خطاب فرمایا وہ نجات کے نام سے شائع شدہ ہے.اس میں آپ رسول کریم کے توکل علی اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ کے متعلق ہی دیکھ لو کفا ر آپ کا کھوج لگاتے لگاتے غار حرا تک پہنچ گئے اور وہاں جا کر کھوجی نے کہہ دیا کہ یا تو وہ آسمان پر چلا گیا ہے اور یا یہیں ہے.ان میں کھوجی کی بات کا بڑا لحاظ کیا جاتا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ کی جان اُس وقت سخت خطرہ میں تھی مگر رسول کریم عملے کو ذرہ بھی گھبراہٹ نہ ہوئی.آپ نے باوجود اس کے کہ آپ کی جان کفار کو اصل مطلوب تھی اور ابوبکر کو صرف اس لئے تلاش کرتے تھے کہ وہ آپ کی مدد کرتے تھے آپ نے ابوبکر کو تسلی دینی شروع کی اور کہا کہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا 1 ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اسی طرح کل ہی میں نے سنایا تھا آپ سوئے ہوئے تھے کہ ایک کافر نے آپ کی تلوار اٹھالی اور آپ کو قتل کرنا چاہا لیکن آپ ذرہ بھی نہ گھبرائے اور اس کے سوال پر کہ اب آپ کو کون بچا سکتا ہے؟ نہایت تسلی سے جواب دیا کہ اللہ 2.اس غیر معمولی حالت اطمینان کو دیکھ کر اس کا فر پر اس قدر دہشت طاری ہوئی کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی 3.“ ( نجات صفحہ 67 ، 68 ناشر الشرکۃ الاسلام لمیٹڈ ربوہ ) 1: السيرة الحلبية جلد 2 صفحه 206 مطبوعه بيروت 2012 الطبعة الاولى

Page 195

سيرة النبي علي 181 جلد 2 2: بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4136،4135 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية :3 فتح البارى كتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع جلد 8 صفحہ 432 حاشیہ مطبوعہ مصر $ 1959

Page 196

سيرة النبي الله 182 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی صلى الله.حضرت مصلح موعود اپنے خطاب جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1922ء میں فرماتے ہیں:.اسلام رسول کریم ﷺ کے متعلق کہتا ہے کہ لوگوں کو کہہ دے! فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ 1 - رسول کریم ﷺ کا یہ دعویٰ مخالفین کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اے محمد ! ان کو کہہ دے کہ میں تم میں ہی پیدا ہوا، تم میں ہی جوان ہوا اور تم میں ہی بڑھاپے کو پہنچا.تم ہی بتلاؤ کیا تم میرا کوئی عیب پکڑ سکتے ہو؟ پھر اگر رسول کریم ﷺ کی یہی حیثیت ہوتی کہ آپ نے کوئی گناہ نہ کیا ہوتا مگر آپ کی نیکیاں بھی نہ ہوتیں تو وہ کہہ دیتے کہ ہمیں کیا پتہ ہے تم پہلے کیسے تھے ہم تمہارے گناہ تلاش نہیں کرتے رہے مگر رسول کریم ﷺ کا وجود ان کے سامنے نمایاں تھا اور آپ کی نیکیوں کے وہ قائل تھے اس لئے کچھ نہ کہہ سکے.یہاں سے ایک شخص محمد نصیب پیغامیوں میں چلا گیا ہے اس نے لکھا کہ میں نے اتنی عمر قادیان میں گزاری ہے کیا کسی کو میرے گناہ کا پتہ ہے؟ ہم کہتے ہیں یہاں تمہاری ہستی ہی کیا تھی کہ کسی کو تمہارے عیب کی طرف توجہ ہوتی.یوں تو ایک چوہڑا بھی اٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ کوئی میرا عیب تو بتاؤ ؟ تو اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری ایسی نمایاں زندگی تھی کہ نہ صرف یہ کہ میں گناہوں سے بچا بلکہ میں نے ایسے اعلیٰ کام کئے اور زندگی کا ایسا پاکیزہ نمونہ دکھا یا کہ تم نجات صفحہ 71 ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ) خود اعتراف کرتے ہو.“ 1 يونس: 17

Page 197

سيرة النبي الله 183 جلد 2 آنحضور عہ ایک عبد شکور حضرت مصلح موعود نے 28 دسمبر 1922ء کے خطاب میں رسول کریم میوہ کے بہترین شکرگزار ہونے کے حوالہ سے فرمایا:.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کہا کہ آپ کو تو خدا تعالیٰ نے سب کچھ معاف کر دیا پھر آپ تہجد کی نماز میں اس قدر کیوں کھڑے ہوتے ہیں کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟1 اس سے معلوم ہوا کہ عمل خدا تعالیٰ کے ملنے کے لئے ہی نہیں کئے جاتے بلکہ شکریہ کے طور پر بھی کئے جاتے ہیں اور جب رسول کریم صلى الله جیسا انسان بھی جو سب نیکوں کا سردار ہے اعمال سے مستغنی نہیں ہوتا تو اور لوگ کس طرح مستغنی ہو سکتے ہیں ؟“ (نجات صفحہ 115 ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ) 1 بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم صفحہ 856 حدیث نمبر 4837 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 198

سيرة النبي عمال 184 جلد 2 عسرویسر میں حمد الہی کرنے والا نبی علی صلى الله تحریک شدھی ملکانہ کے سلسلہ میں ہدایات کے دوران حضرت مصلح موعود نے رسول کریم ﷺ کے عسر ویسر میں حمد الہی کرنے کے حوالہ سے فرمایا:.و جس وقت آنحضرت عیے مکہ میں تشریف رکھتے تھے اُس وقت آپ کو وہاں کھلے طور پر نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ تھی.مسلمان عورتیں گرم ریت پر لٹائی جاتی تھیں اور ان کی شرم گاہوں میں نیزے مارے جاتے تھے.مسلمان تپتے ہوئے پتھروں پر لٹائے جاتے تھے اور ایسے ایسے عذاب دے کر ان کو اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا تھا.وہ ایسا وقت تھا کہ مسلمان گلیوں میں بھی نہ پھر سکتے تھے اور ناچار ان کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی.اُس وقت اللہ تعالی محمد ﷺ کو کہتا ہے الْحَمْدُ لِلہ پڑھ اور آپ نے پڑھا اور سچے دل سے پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں.میرے ارد گرد تو خوشیاں ہی خوشیاں ہیں کوئی رنج نہیں کوئی دکھ نہیں.کوئی وجہ نہیں کہ میں اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 1 نہ کہوں.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اس وقت ان حالات میں کوئی اور خوش ہو سکتا تھا؟ ہرگز نہیں.مگر جہاں ابتدا الْحَمْدُ سے ہوئی وہاں اخیر بھی آخِرُ دَعُوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 2 پر ہے.چنانچہ خدا کے فضلوں نے ثابت کر دیا کہ کون راستی پر تھا اور کس کو طاقت اور فو قدرت حاصل ہوئی تھی.آپ کے مخالف اور مخالفتیں سب اڑ گئیں اور سکھ مسلمانوں کے لئے ہی رہ گیا ہے.دنیا وی راحت میں دوسرے بھی شریک تھے لیکن روحانی راحت اور آرام کا مسلمانوں کے سوا کہیں پتہ نہ تھا.کیونکہ گو وہ خود کو چاروں طرف سے دشمنوں

Page 199

سيرة النبي ع 185 جلد 2 میں گھرا ہوا دیکھتے تھے مگر اپنے دل کو مطمئن پاتے تھے اس لئے کہ خدا کی مدد انہی کے 66 شامل حال تھی.“ 1: الفاتحة : 2 2: يونس: 11 الفضل 19 مارچ 1923 ء )

Page 200

سيرة النبي عالم 186 جلد 2 معذوروں، مجبوروں کی حوصلہ افزائی کرنے والا نبی تحریک شدھی ملکانہ کے سلسلہ میں ہدایات کے دوران حضرت مصلح موعود نے اُن واقعات کا بھی ذکر فرمایا جن میں رسول کریم ﷺ نے معذوروں اور مجبوروں کی ,, الله حوصلہ افزائی فرمائی.چنانچہ فرمایا:.رسول کریم ﷺ ایک دفعہ جب جنگ کو جا رہے تھے تو فرمایا سنو ! کسی وادی میں سے تم نہیں گزرتے کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو مدینہ میں رہتے ہوئے تمہارے ساتھ نہیں ہوتے.کسی لڑائی میں تم شامل نہیں ہوتے کہ وہ اس میں شریک نہیں ہوتے اور تمہارے لئے کوئی اجر نہیں جو اس میں ان کا حصہ نہ ہو.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ کس طرح؟ فرمایا اس لئے کہ وہ لوگ عذر اور مجبوری کی وجہ سے پیچھے رہتے ہیں ورنہ ان کے دل تمہارے ہی ساتھ ہوتے ہیں 1.پس وہ جو کسی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں وہ ان کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں جو میدان میں کام کرنے کے لئے گئے جبکہ ان کے دل ان کے ساتھ شریک ہوں.وہ ان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جبکہ دعائیں 66 ان کے ساتھ پھر رہی ہوں.“ پھر آپ فرماتے ہیں :.ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے داماد کو جنگ پر جانے سے اس لئے روک دیا کہ آپ کی بیٹی بیمار تھی اور اس کی خبر گیری ضروری تھی.یہ بات اس کو شاق گزری تو آپ نے فرمایا تم بھی ثواب میں ایسے ہی شریک ہو جیسے جنگ پر جانے والے 2.گو یہ دنیاوی کام تھا جس کی وجہ سے اسے پیچھے رہنا

Page 201

سيرة النبي ع 187 جلد 2 پڑا لیکن چونکہ رسول اللہ اللہ کے حکم کے ماتحت تھا اس لئے وہ بھی ثواب میں (الفضل 6 جولائی 1923 ء ) شریک سمجھا گیا.“ 1:بخارى كتاب المغازى باب نزول النبي علا الله الحجر صفحه 753 حدیث نمبر 4423 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 1321 مطبوعہ دمشق 2005 ء

Page 202

سيرة النبي الله 188 جلد 2 رسول کریم ہے کے مشورہ اور فیصلہ کا طریق حضرت مصلح موعود 16 مارچ 1923ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.اُحد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ لیا کہ مخالفین سے کس جگہ مقابلہ کیا جائے.اندر سے یا باہر چل کر.آپ کا منشاء تھا کہ اندر سے مقابلہ کیا جائے مگر وہ لوگ جو بدر کے موقع پر جہاد میں حصہ نہیں لے سکے تھے چاہتے تھے کہ اس موقع پر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئیں.آپ نے ان کی خاطر یہ بات منظور کر لی.ادھر صحابہ کو خیال ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء مبارک باہر تشریف لے جا کر مقابلہ کا نہ تھا اس لئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زرہ پہن کر تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی کہ آپ کا جس طرح منشاء ہو اسی طرح کیا جائے.بہتر ہے کہ اندر ہی سے مقابلہ ہو.آپ نے فرمایا اب وہ وقت گزر گیا خدا کے نبی زرہ پہن کر پھر نہیں اتارا کرتے.حالانکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ہو گیا تھا کہ آپ کا ایک رشتہ دار شہید ہو گا خود آپ کو تکلیف ہوگی مگر آپ نے فرمایا کہ اب زرہ نہیں اتاری جاسکتی بلکہ اب باہر ہی چلنا ہو گا 1.“ ( الفضل 26 مارچ 1923 ء ) 1: السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 478 479 مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الأولى

Page 203

سيرة النبي الله 189 جلد 2 وو رسول کریم علیہ کا اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک حضرت مصلح موعود 27 اپریل 1923ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.حدیث میں آتا ہے کہ جس کوزے سے حضرت عائشہ صدیقہ پانی پیتی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ منہ لگا کر پانی پیتے تھے 1.اگر کوئی شخص اس واقعہ کو دیکھ کر یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ میں نعوذ باللہ کیا برکت ہو گی کیونکہ آپ تو عائشہ سے برکت ڈھونڈتے تھے تو یہ اس کی نادانی ہوگی کیونکہ آپ کا اس جگہ منہ لگا کر پانی پینا بحیثیت نبی کے نہ تھا بلکہ خاوند کے تھا.پس اس طرح آپ نے نمونہ قائم کر دیا کہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک اور ان کی دلجوئی اور خاطر داری یوں کی جاتی ہے.اسی طرح آپ بعض بچوں کے باپ تھے.لڑکے تو آپ کے بچپن کی حالت میں فوت ہو گئے تھے، لڑکیاں تھیں.ان لڑکیوں کےلڑکے آپ کے نواسے تھے.وہ آپ کی کمر پر چڑھ جاتے تھے اور آپ ان کو اٹھاتے تھے.کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ان بچوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کر دی کہ آپ نماز پڑھتے تھے اور وہ آپ کی کمر پر چڑھ گئے اور انہوں نے آپ کو گھوڑا بنایا.پس یہ حالت نبوت کے لحاظ سے نہیں ہے، یہ حیثیت آپ کی محمد نبی کی نہیں تھی محمد ﷺ نانا کی تھی کیونکہ حسن وحسین رضی اللہ عنہما آپ کے نواسے تھے.پس آپ ان کا نانا ہونے کی حیثیت سے ان کے ناز اٹھاتے تھے کیونکہ ماں باپ کی طرح نانا نانی بھی اپنے نواسوں کے ناز اٹھایا کرتے ہیں.

Page 204

سيرة النبي علي 190 جلد 2 پھر آپ کے والدین تو زندہ نہ تھے مگر ایسے رشتہ دار تھے جو آپ کے لئے قابل عزت تھے.چنانچہ آپ ان کا لحاظ کرتے تھے.جہاں آپ کی حیثیت نبوت اور رسالت تقاضا کرتی تھی کہ آپ پر ایک شخص سے عدل و انصاف کا سلوک کریں وہاں آپ ان تعلقات کو بھی فراموش نہ کرتے تھے.جنگ بدر میں حضرت عباس مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہو گئے تھے.عمر کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس میں چنداں فرق نہ تھا.حضرت عباس چند مہینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے تھے.اور حضرت عباس کی بھی یہ کیفیت تھی کہ جب بڑائی چھوٹائی کا ذکر کرتے تو یوں کرتے کہ بڑے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں مگر پیدا پہلے میں ہوا تھا.غرض بلحاظ چچا ہونے کے حضرت عباس کی حیثیت باپ کی تھی.جب آپ قید ہو کر آئے تو دوسرے قیدیوں کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے تھے.ایسی سختی سے جکڑے ہوئے تھے کہ وہ حرکت نہ کر سکتے تھے.اس سے ان کو تکلیف ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی تکلیف برداشت نہ ہو سکتی تھی.آپ بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے.ایک صحابی نے یہ حالت دیکھی اور عرض کیا کہ عباس کے بند ڈھیلے کردوں؟ فرمایا جو سب قیدیوں سے سلوک ہے اس سے وہ ممتاز نہیں کئے جا سکتے.آخر صحابہؓ نے سب قیدیوں کے بند ڈھیلے کئے 2 جس سے انہوں نے آرام کیا اور آپ بھی آرام فرما سکے.آپ نے عدل و انصاف میں فرق نہ آنے دیا.گو حضرت عباس کا فر نہ تھے دل سے مسلمان تھے مگر چونکہ کفار کی طرف سے آئے تھے اس لئے آپ کے ساتھ سلوک کفار جیسا ہی آپ نے کیا.بحیثیت بھیجے کے آپ کو حضرت عباس کی تکلیف سے تکلیف تھی مگر بحیثیت مسلمانوں کے حاکم اور بادشاہ کے آپ نے حضرت عباس سے کوئی علیحدہ سلوک نہیں کیا سوائے اس کے جو سب سے کیا گیا.تو ایک بات کو دیکھ کر فتویٰ نہیں دیا جا سکتا.رسول کریم ﷺ حضرت عباس کا ادب کرتے تھے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ سے حضرت عباس کا رتبہ

Page 205

سيرة النبي علم 191 جلد 2 بڑا تھا.ایک حیثیت پر دوسری کا قیاس نہیں کیا جاسکتا.رسول کھاتا پیتا بھی ہے.اگر صحت کمزور ہو تو نبی کو زیادہ پیاس بھی لگ سکتی ہے.بھوک بھی زیادہ لگ سکتی ہے.نبی کی جسمانی کمزوری کی حالت میں ایک غیر نبی تنومند میں زیادہ قوتِ برداشت ہو سکتی ہے لیکن ان باتوں سے اس کی نبوت کی شان پر حرف نہیں آ سکتا.بشر ہونے کے لئے بشری حالتیں ہوتی ہیں اور نبوت کی حیثیت میں نبوت کی.پس نبی جو باتیں بشری تقاضا سے کرتا ہے وہ اس کی ہتک نہیں اور وہ باتیں اور ہوں گی جو نبی ہونے کی حیثیت ( الفضل 7 مئی 1923ء) سے کرے گا.“ 1:ابو داؤد كتاب الطهارة باب فى مؤاكلة الحائض صفحه 47 حدیث نمبر 259 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الأولى 2: اسد الغابة جلد 2 صفحه 530 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى

Page 206

سيرة النبي الله 192 جلد 2 رسول کریم میں اور آپ کے ساتھیوں کی معجزانہ ترقی حضرت مصلح موعود نے 27 جولائی 1923 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا تعالیٰ کے حضور جو درجہ حاصل تھا اور آپ کو جو قرب الہی میسر تھا اس کے باعث دنیا کے سارے ہی وجودوں سے آپ بڑے تھے.لیکن اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبوت سے پہلے کوئی خصوصیت حاصل نہ تھی.آپ کا جو بھی درجہ تھا وہ آپ کو خدا کے حضور حاصل تھا.ور نہ اپنے شہر میں نہ آپ کے پاس دولت تھی ، نہ مال تھا، نہ اسباب تھا ، نہ جتھا تھا، نہ طاقت تھی حتی کہ جب آپ نے نکاح کیا تو معمولی گزارہ کے لئے بھی آپ کے پاس مال نہ تھا بلکہ اپنی بیوی جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور سب سے پہلے ایمان لانے کا درجہ نصیب ہوا اس نے اپنا سارا مال آپ کے سپر د کر دیا.ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود محنت کر کے گزارہ کرتے تھے.حضرت خدیجہ جن سے آپ کی شادی ہوئی آپ کا مال لے کر آپ تجارت کے لئے گئے 1.اور اس کے نفع سے گزارہ کرتے تھے.نہ آپ زمیندار تھے.اور زمینداری تو مکہ میں ہوتی ہی نہیں.نہ آپ کے پاس گھوڑے یا اونٹوں کے گلے تھے.بے شک آپ کو لوگ صادق کہتے تھے 2 مگر صادق کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے پاس مال بھی تھا.بے شک آپ کو لوگ امین کہتے تھے 3.مگر اس کے معنے تو یہ ہیں کہ آپ

Page 207

سيرة النبي ع 193 جلد 2 دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے تھے نہ کہ آپ کے پاس بھی مال تھا.بے شک آپ کو لوگ نیک کہتے تھے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ لوگ آپ کی اطاعت بھی کریں.چنانچہ جب آپ کو خدا نے کہا کہ اٹھ اور ان لوگوں کو ڈرا تو وہی لوگ جو آپ کو نیک کہتے تھے آپ کے مخالف ہو گئے.تو دنیاوی لحاظ سے آپ کے پاس کچھ بھی نہ تھا اور ظاہری سامان جن سے دنیا میں رتبہ اور درجہ حاصل ہوتا ہے وہ آپ کے پاس نہ تھے مگر جب خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس وادی غیر ذی زرع سے ایک ایسا انسان اٹھاؤں جو دنیا کو ایک خدا کی طرف کھینچ لائے اور ایک مرکز پر جمع کر دے تو کوئی روک نہ سکا.آپ کا وجود گویا ایک پیج تھا جو بڑھتے بڑھتے ایک بڑا درخت بن گیا اور آپ ہی دنیا کے بادشاہ نہ بن گئے بلکہ آپ کے غلام بھی بادشاہ ہو گئے.حضرت ابوبکر کے متعلق آتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور حضرت ابوبکر کے والد کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے پوچھا اب کیا انتظام ہوگا ؟ ان کو بتایا گیا کہ ابوبکر خلیفہ ہو گیا ہے.اس پر انہوں نے کہا کونسا ابوبکر ؟ جب کہا گیا آپ کا بیٹا تو انہوں نے کہا کیا ابو قحافہ کا بیٹا ؟ گویا ان کے خیال میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ان کا بیٹا بھی خلیفہ ہو سکتا ہے.حالانکہ جب حضرت ابوبکر کا نام لیا گیا تو قدرتی طور پر انہیں اپنے بیٹے کا خیال آنا چاہئے تھا.مثلاً اگر عبد اللہ نام کا بادشاہ ہو اور اسی نام کا ایک شخص کا بیٹا ہو تو جب اسے کہا جائے عبد اللہ آ گیا تو وہ یہ نہیں خیال کرے گا کہ بادشاہ آ گیا بلکہ یہی سمجھے گا کہ اس کا بیٹا آ گیا.پس قدرتی طور پر انہیں اپنے بیٹے کے متعلق خیال آنا چاہئے تھا مگر انہوں نے پوچھا کون ابوبکر ؟ وہ بہت بعد میں اسلام لائے تھے.جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا تو انہوں نے کہا کہ مجھے آج ہی پتہ لگا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا اثر ہے کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو عربوں نے سردار مان لیا ہے 4.حضرت ابوبکر جس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اس کا کوئی جتھا نہ تھا اور سیاسی طور پر کمزور تھا.یوں تو لوگ انہیں نیک سمجھتے تھے ، وہ ان کے لڑائی جھگڑوں میں صلح صفائی

Page 208

سيرة النبي عالم 194 جلد 2 کرا دیا کرتے تھے مگر چونکہ ان کا جتھا نہ تھا اس لئے سرداری کے قابل نہ سمجھے جاتے تھے.مگر آپ کو یہ رتبہ حاصل ہو گیا.تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ایسے خاندان جو بہت ہی کمزور تھے ان کو بھی حکومت حاصل ہوگئی.پس خدا تعالیٰ کا جب منشاء ہوتا ہے تو وہ کمزوروں کو بڑھا دیتا اور ان کے ذریعے ایسے ایسے عظیم الشان کام کراتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے بڑا درجہ رکھنے والے لوگ بھی نہیں کر سکتے.اور نبیوں کے آنے کی غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ کمزور کو بڑھا کر بڑا بنا ئیں.“ ( الفضل 3 اگست 1923 ء ) 1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحه 229 230 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 2 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 347 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 3: سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 240 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 4: اسد الغابة جلد 3 صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى

Page 209

سيرة النبي الله 195 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی اطاعت بوجہ اسوہ اور نمونہ کے ہے حضرت مصلح موعود 17 اگست 1923 ء کے خطبہ جمعہ میں ایک لطیف نکتہ یوں بیان فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ سے بندہ کا براہ راست تعلق ہوتا ہے حتی کہ رسول کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا.بعض صوفیا نے لکھا ہے کہ بندہ اور خدا کا ایسا تعلق ہوتا ہے کہ پیر نہیں جانتا اس کے مرید کا خدا سے کیا تعلق ہے اور مرید کو علم نہیں ہوتا کہ اس کے پیر کا خدا سے کتنا تعلق ہے کیونکہ بندہ اور خدا کا تعلق بلا واسطہ ہوتا ہے.اگر بالواسطہ ہوتا تو پیر کو بتایا جاتا کہ تمہارے فلاں مرید کا خدا سے یہ تعلق ہے اور فلاں کا یہ.مگر ہر انسان کا تعلق خدا سے براہ راست ہوتا ہے اور جب براہ راست ہوتا ہے تو دین کی سب باتیں ہر ایک بندہ سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں بھی کوئی واسطہ نہیں.مثلاً یہ نہیں کہ نماز اس لئے پڑھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے بلکہ اس لئے پڑھے کہ خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا ہے اور ہم کو بھی کہا ہے.روزہ اس لئے نہ رکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے بلکہ اس لئے رکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا نے کہا ہے اور ہم کو بھی خدا نے کہا ہے.پس جب رسول بھی وسیلہ نہیں ہوتے تو اور کوئی وجود تو ہو ہی نہیں سکتا.رسولوں سے اتر کر خلفاء اور مجددین ہوتے ہیں.یہ کس طرح وسیلہ ہو سکتے ہیں.پس در حقیقت

Page 210

سيرة النبي علي 196 جلد 2 ہر مومن خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اور براہ راست ساری ذمہ داریاں پاتا ہے.اب سوال یہ ہو سکتا ہے کہ پھر خدا کے رسولوں اور خلفاء کی اطاعت کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن ان کی اطاعت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی سفارش کے بغیر خدا تعالیٰ کسی کی بات نہیں سنتا.وہ خدا اور بندہ کے درمیان وسیلہ نہیں بلکہ نمونہ ہوتے ہیں.وسیلہ تو یہ ہوتا ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا نیک اور پر ہیز گار ہو جب تک وسیلہ نہ کہے خدا اس سے نہیں ملے گا اور نمونہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں انسان نیک اور خدا کا مقرب ہے ہم بھی ویسے بنیں.تو انبیاء نمونہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کامل اور اکمل وجود ہوتے ہیں.وہ گویا خدا کا مجسم کلام ہوتے ہیں.جس طرح خدا کے کلام کو لفظوں میں قرآن میں پڑھ لیا اگر اس کو شکل میں دیکھنا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا مجسم کلام بن گئے اس لئے جس طرح خدا کے کلام کی اتباع ہمارے لئے ضروری ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی ضروری ہے کیونکہ آپ لوگوں کے لئے نمونہ ہیں اور نمونہ کو دیکھ کر انسان بہت جلدی سمجھ سکتا ہے.مثلاً اگر کسی کو وضو کرنے کا طریق سکھانا ہو تو وہ زبانی بتانے سے اتنی جلدی نہیں سیکھ سکے گا جتنی جلدی کر کے دکھانے سے سیکھ جائے گا.تو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اطاعت کرتے ہیں یا آپ کے ذریعہ جو حکم دیئے گئے ہیں وہ اس لئے نہیں کہ آپ خدا اور ہمارے درمیان وسیلہ ہیں بلکہ اس لئے کہ آپ خدا کے احکام کا نمونہ اور تفسیر ہیں.اور چونکہ آپ کے نمونہ کو دیکھے بغیر ہم خدا کے کلام کو سمجھ نہیں سکتے اس لئے آپ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ 1 کہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا وہ قرآن کو پڑھ لے.گویا انہوں نے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قرار دے دیا.کیونکہ قرآن میں کوئی صفت اور کوئی خوبی ایسی بیان نہیں ہوئی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی.اور قرآن میں کوئی عیب، کوئی شرعی برائی اور گناہ اور کوئی کبھی جو بیان ہوئی وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 211

سيرة النبي علم 197 جلد 2 میں نہیں پائی جاتی.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تفسیر ہیں اور ہر رسول اپنے اوپر نازل ہونے والے خدا کے کلام کی تفسیر ہوتا ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاتی ہے کیونکہ آپ ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں نہ اس لئے کہ آپ خدا اور ہمارے درمیان وسیلہ ہیں.جہاں کوئی شخص آپ سے جدا ہوا وہ قرآن کریم سے جدا ہو گیا کہ آپ مجسم قرآن ہیں.پس آپ کی اطاعت بوجہ اسوہ اور نمونہ کے ہے.“ 1: مسند احمد بن حنبل صفحہ 1829 حدیث نمبر 25108 مطبوعہ لبنان 2004 ء ( الفضل 24 اگست 1923ء )

Page 212

سيرة النبي الله 198 جلد 2 غیر مسلموں سے برتاؤ کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کی تعلیم رسول علیل 14 نومبر 1923ء کو حضرت مصلح موعود نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک بہت بڑے مجمع میں بریڈ لاء ہال لاہور میں تقریر فرمائی جو پیغام صلح کے عنوان سے شائع شدہ ہے.اس لیکچر میں آپ نے اسلام اور بانی اسلام کی تعلیم اور آپ کے نمونہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.شرک جس کو اسلام نے بدترین گناہ قرار دیا ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی کہا ہے کہ اگر تیرے ماں باپ مشرک ہوں تو بھی ان سے تعلق منقطع نہ کر بلکہ ان سے حسن سلوک کر اور اچھے تعلقات رکھ.یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے.اب ہم رسول کریم ﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں.ایک دفعہ حضرت ابو بکر کی لڑکی کے پاس جو رسول کریم ﷺ کی بیوی کی بہن تھیں ان کی والدہ آئی تو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں آئی ہے اور چاہتی ہے کہ میں اس سے کچھ سلوک کروں مگر وہ کافر ہے کیا میں اس سے سلوک کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں کر یہ دنیاوی معاملہ ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے 1.پھر حضرت عمرؓ جیسے انسان جن کے متعلق مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ خشونت والے تھے اور اپنی پہلی حالت میں تلوار لے کر رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے ان کے متعلق آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان کو ایک جبہ دیا جو

Page 213

سيرة النبي عمال 199 جلد 2 ریشمی تھا.انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں نے ایک دفعہ آپ کو ریشمی جبہ دیا تھا گر آپ نے اس کو پسند نہ فرمایا تھا اب مجھے آپ نے ریشمی بجبہ دیا ہے کہ میں اس کو پہن لوں؟ آپ نے فرمایا میں نے پہننے کے لئے نہیں دیا کسی کو تحفہ دے دو یا بیچ ڈالو.اس پر انہوں نے اپنے اس بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا اور کا فر تھا دے دیا.“ (پیغام صلح صفحہ 5) نیز فرمایا:.لوگوں سے ان کا کوئی مسلّمہ مذہبی اصل نہ چھڑایا جائے.اب ہندو، مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دومگر سوال یہ ہے کہ گائے اگر متبرک ہے تو ہندوؤں کے نزدیک ہے مسلمان اس کا گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیں.جب اسلام ان کو اس کی اجازت دیتا ہے یہ مطالبہ قطعاً جائز نہیں ہے.ایسی حالت میں اسلام کی تعلیم دیکھو.مسلمانوں نے کفار سے ایک معاہدہ لکھوایا جس میں آنحضرت کے نام کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ لکھا.کفار نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم تو ان کو رسول اللہ نہیں مانتے اس لئے یہ الفاظ نہیں ہونے چاہئیں.جب یہ بات رسول کریم کے سامنے پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا بے شک یہ الفاظ کاٹ دو3.حالانکہ صحابہؓ کو ایسا کرنا گوارا نہ تھا.اسی طرح ایک صحابی کہتے ہیں میں نے ایک یہودی کو یہ کہتے سنا کہ خدا نے موسی کو سب پر فضیلت دی ہے.یہ سن کو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اسے مارا.جب رسول کریم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا تم نے کیوں اسے مارا وہ تو اپنا (پیغام صلح صفحہ 28 ) 1:بخارى كتاب الادب باب صلة الوالد المشرك صفحه 1047 حدیث نمبر 5978 مطبوعہ ریاض 66 عقیدہ بیان کر رہا تھا.“ 1999 الطبعة الثانية 2: بخارى كتاب اللباس باب الحرير للنساء صفحه 1029 حدیث نمبر 5841 مطبوعہ ریاض

Page 214

سيرة النبي علي 1999 الطبعة الثانية 200 جلد 2 3: بخارى كتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ما صالح فلان ابن فلان صفحه 440 حدیث نمبر 2699 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4: بخارى كتاب الديات باب اذا لطم المسلم يهوديا عند الغضب صفحہ 1191 حدیث نمبر 6917 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 215

سيرة النبي الله 201 جلد 2 رسول کریم له شارح شریعت حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ پانچ نمازوں کا ذکر قرآن کریم میں کہاں ہے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:.و صلى الله قرآن کریم میں اصول دین بیان فرمائے ہیں اور اس کی تشریح اور تفصیل کو رسول کریم عملے کے اوپر وحی خفی کے ذریعہ سے یا وحی غیر متلو کے ذریعہ سے ظاہر کیا ہے.جب ہم رسول کریم ﷺ کے ذریعہ سے اس تشریح کوسن لیتے ہیں تو وہ مسئلہ اپنی تفصیلی صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے.قرآن کریم میں آیا ہے کہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ ، اَقِيْمُوا الصَّلوةَ 2 تم نماز پڑھو.یہ قرآن کریم نے نہیں بتایا کہ نماز کس طرح پڑھو.اس معاملہ میں تفصیلی نماز جو تھی وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے سپرد کی کہ وہ بیان فرمائیں.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ نہیں نماز کی تفصیل قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم کے بعض الفاظ سے جہاں سجدہ رکوع وغیرہ کا ذکر آتا ہے استدلال کرتے ہیں کہ ان میں نماز کا ذکر ہے حالانکہ قرآن میں اس طرح سارے کے سارے اس ترتیب کے ساتھ اکٹھے کہیں بھی بیان نہیں اور پھر اگر ان ارکان کا متفرق ذکر ہے تو یہ کہیں بھی ذکر نہیں کہ یہ فرض نماز کا جز ہے.اگر اس طرح رکوع اور سجدہ کے ذکر سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ نماز ہے اور نماز کی تشریح قرآن میں آ گئی ہے تو قرآن کریم میں تو یہ بھی ذکر ہے کہ مومن اپنے پہلو پر ذکر کرتے ہیں تو نماز میں ایک شاخ پہلو کی بھی نکالنی چاہئے.اگر سجدہ کے ذکر سے یہ نکال لیا جا سکتا ہے کہ یہی تشریح قرآن میں بیان کی گئی ہے تو عَلَى جُنُوبِهِمْ 3 کے لفظ سے یہ بھی

Page 216

سيرة النبي علي 202 جلد 2 نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سارے پہلو کے بل لیٹ جائیں اور خدا کا ذکر کیا کریں مگر اہل قرآن ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھتے ہوں.کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ جو رکوع اور سجود کو قرآن کا رکن بناتے ہیں تو محض ہم لوگوں کی نماز کی نقل سے ورنہ اگر یہ نماز نہ ہوتی تو وہ یہ نتیجہ بھی نہ نکال سکتے.حکم تو وہ ہوتا ہے جو بغیر نمونہ دیکھنے کے بھی سمجھ میں آ جائے.مکمل تو ہم تب سمجھتے.پہلے وہ ہماری نماز دیکھتے لیتے ہیں پھر اس کے ٹکڑوں کو قرآن سے نکالنے بیٹھتے ہیں.بات تو تب ہے کہ بغیر اس نماز کے دیکھنے کے ان ٹکڑوں سے کوئی نماز بنا دیوے.یہ کوئی نہیں کر سکتا.نماز کی تکمیل صرف سنت سے ہی معلوم ہوتی ہے.اگر کوئی کہے تو پھر قرآن نامکمل ہوا.تو ہمارا یہ جواب ہے کہ قرآن نامکمل نہیں ، قرآن مکمل ہے اور اس میں ہر ایک بات موجود ہے.بلکہ قرآن نے یہ فرما دیا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 4 تو قرآن نے ساری رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو قرآن میں شامل کر لیا.جب قرآن کریم نے یہ فرمایا کہ جہاں سے کافر لوٹتے ہیں وہاں سے تم بھی حج میں لوٹا کرو اور باوجود اس کے کہ اتنا حصہ مسئلہ کا ہمیں کافروں سے پوچھنا پڑا لیکن سکھانے والے کا فرنہیں ہوئے بلکہ قرآن ہوا.صلى الله عليه اسی طرح جب قرآن کریم پر بیان فرما دیا کہ محمد رسول اللہ علیہ کو شارع مشرح مقرر کر دیا ہے اس کے عمل کو دیکھ لو یہی ہمارا منشاء ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی نمازیں قرآن کی ہی بتائی ہوئی نمازیں ہوئیں.قرآن ہی نے ہمیں ان کی طرف بھیجا صلى الله ہے ہم اپنی مرضی سے ان کی طرف نہیں گئے.اگر قرآن یہ نہ کہتا کہ محمد رسول اللہ یہ کا عمل ہی خدا کا منشاء ہے تو ہم کبھی محمد رسول اللہ ﷺ کے عمل کی طرف نہ دیکھتے.پس پانچوں نمازیں قرآن میں ہیں بھی اور نہیں بھی.ہیں تو اس طرح کہ قرآن کریم نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور پھر کہہ دیا کہ تفصیل جا کے رسول اللہ ﷺ کے عمل میں دیکھ لو.اور نہیں اس طرح کہ جس ترتیب اور جس طریق پر نمازیں ہم لوگ پڑھتے ہیں اس ترتیب

Page 217

سيرة النبي علم 203 اور تفصیل کے ساتھ تفصیلاً کہیں قرآن میں نہیں بیان کی گئیں.1: البقرة : 4 2: النور : 57 3 آل عمران : 192 4: الاحزاب : 22 جلد 2 الفضل 19 فروری 1924ء)

Page 218

سيرة النبي الله 204 جلد 2 رسول کریم علیہ کی آمد کی ایک غرض 1924 ء میں لندن میں ویمبلے نمائش کے موقع پر ایک مذہبی کا نفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں دنیا کے چوٹی کے مذہبی علماء کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کے بارہ میں لیکچر دیں.اس کا نفرنس میں امام جماعت احمد یہ حضرت مصلح موعود کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.آپ نے اس کانفرنس کے لیے 24 مئی تا 6 جون احمدیت یعنی حقیقی اسلام ،، کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی.اس کتاب میں سیرت النبی ﷺ پر متعدد جگہ روشنی ڈالی گئی ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.و, قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم علیہ کی آمد کی ایک غرض یہ بیان فرماتا ہے کہ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطيبتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبِيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمُ 1 یہ نبی حکم دیتا ہے اچھی باتوں کا اور روکتا ہے بری باتوں سے یعنی کامل شریعت لایا ہے.پھر فرماتا ہے یہ رسول کریم ہے حلال کرتا ہے پاک اور نفع رساں چیزوں کو اور حرام قرار دیتا ہے ان چیزوں کو جو بے فائدہ ہیں.یعنی اس کی شریعت بطور چنٹی اور سزا کے نہیں بلکہ ہر اک حکم اپنے اندر کوئی نفع یا ازالہ ضرر رکھتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ جن کو یہ اتا رہی نہ سکتے تھے اگر اتارتے تو سزا ملتی اتارتا ہے یعنی رسوم جو کہ بوجھ بھی ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے انسان ان کو اتار نہیں سکتا کیونکہ جانتا ہے کہ قوم ناراض ہو جائے گی اور رہنا بھی مشکل ہو جائے گا.پھر فرماتا ہے کہ اور

Page 219

سيرة النبي ع 205 جلد 2 یہ رسول وہ طوق اتارتا ہے جو انہوں نے پہنے ہوئے تھے یعنی ان عادات کو دور کرتا ہے جو بطور رسم کے تو نہ تھیں لوگ تو ان کے ترک کرنے پر سزا نہیں دیتے تھے مگر یہ خودان کو صلى الله اتارنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے کس طرح ایک ایسی قوم میں سے جو شراب کی ایسی عادی تھی کہ آدھی رات کو اٹھ کر شراب پینا شروع کرتی تھی اور عشاء کے وقت تک شراب پیتی ہی جاتی تھی ایک حکم سے شراب کو مٹا دیا اور اس طرح مٹایا کہ پھر شراب نے بطور قومی شربت کے قدم نہ رکھا.اب اس وقت سائنس نے اس کی مضرتوں کو بہت ہی واضح کر دیا ہے اور عام طور پر ڈاکٹر اس کے مخالف ہوتے جاتے ہیں مگر پھر بھی بعض حکومتیں باوجود سخت کوشش کے اس کا رواج 66 اچھی طرح نہیں مٹا سکیں.“ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 176 ، 177 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1977ء) 1: الاعراف: 158

Page 220

سيرة النبي عالم 206 جلد 2 حقوق نسواں کے علمبردار احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں حضرت مصلح موعود نے عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے مغرب کے اعتراضات کو مدنظر رکھ کر رسول کریم ﷺ کو حقوق نسواں کا بہترین علمبر دار قرار دیا ہے.آپ رقم فرماتے ہیں:.چونکہ کئی مجبوریاں ایسی پیش آ جاتی ہیں جیسے بقائے نسل یا بقائے صحت یا ضروریات سیاسی وغیرہ جن میں ایک سے زیادہ شادیوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں کی بھی اجازت دی ہے مگر شرط یہ ہے کہ بیویوں میں انصاف قائم رکھا جائے.لباس میں، خوراک میں، جیب خرچ میں، تعلقات وسلوک میں بیویوں سے بالکل یکساں برتا ؤ ہو.باری باری ایک ایک عورت کے پاس خاوند رہے اور اگر ایسا نہ کرے تو رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کا حال ایسا ہی ہو گا کہ گویا وہ آدھے دھڑ کے ساتھ اٹھا ہے 1.کثرت ازدواج پر عام طور پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اسی طرح طلاق پر، لیکن عجیب بات ہے کہ مغرب طلاق کی وجہ سے خدا کے مقدسوں کو پانچ چھ سوسال گالیاں دینے کے بعد اس بات کا قائل ہو رہا ہے کہ طلاق کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ملک کا تمدن برباد ہو رہا ہے.کاش کہ وہ پہلے ہی سوچتا اور خدا کے برگزیدوں پر اعتراض کا خنجر نہ چلاتا اور کم سے کم بدکلامی نہ اختیار کرتا تا آج کی شرمندگی کا دن اسے میسر نہ آتا.مگر افسوس ہے کہ یورپ اب بھی اسلام کے قانون کو جس میں سب پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے ایک طرف طلاق کو جس قدر ہو سکے روکا

Page 221

سيرة النبي علي 207 جلد 2 گیا ہے اور دوسری طرف آخری علاج کے طور پر اس کی اجازت بھی دی گئی ہے اختیار نہیں کرنا چاہتا اور خدا کی بات کو چھوڑ کر خود نئے قوانین بنانا چاہتا ہے جس کا نتیجہ ابھی سے خراب نکلنا شروع ہو گیا ہے اور طلاق کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی سے نکاح کا وہ تقدس جو اہلی زندگی کی روح رواں ہے برباد ہو رہا ہے اور خطرہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ بنیا دکھوکھلی ہو کر اوپر کی عمارت کو بھی صدمہ پہنچا دے.اب رہا کثرت ازدواج کا مسئلہ اس کی طرف ابھی تک مغرب نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی لیکن آخر اس کو ایسا کرنا پڑے گا کیونکہ قدرت کے قوانین کا مقابلہ دیر تک نہیں کیا جا سکتا.لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک عیاشی کا ذریعہ ہے لیکن اگر اسلام کے احکام پر غور کیا جائے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ عیاشی نہیں بلکہ قربانی ہے اور قربانی بھی عظیم الشان قربانی.عیاشی کسے کہتے ہیں؟ اسی کو کہ انسان اپنے دل کی خواہش کو پورا کرے مگر اسلامی احکام کے ماتحت ایک سے زیادہ شادیوں میں دل کی خواہش کس طرح پوری ہوسکتی ہے؟ اسلام حکم دیتا ہے کہ ایک بیوی خواہ کتنی بھی پیاری ہو اس کے ساتھ ظاہری معاملہ میں فرق نہ کرو.تمہارا دل اسے خواہ اچھا لباس پہنانے کو چاہتا ہو مگر تم اس کو وہ لباس نہیں پہنا سکتے جب تک کہ دوسری کو بھی ویسا ہی لباس نہ پہناؤ.تمہارا دل خواہ اسے عمدہ کھانا کھلانے یا اس کے پاس نوکر رکھ دینے کو چاہتا ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے جب تک کہ ایسا ہی سلوک دوسری بیوی سے نہ کرو.تمہارا دل خواہ ایک بیوی کے گھر کتنا ہی رہنے کو چاہتا ہو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے جب تک اسی قدر تم دوسری بیوی کے پاس نہ رہو یعنی برابر کی باری مقرر کرو.پھر تمہارا دل ایک بیوی سے خواہ کس قدر ہی اختلاط کو چاہتا ہو اسلام کہتا ہے بے شک تم اپنے دل کی خواہش کو پورا کرو مگر اسی طرح تمہیں اپنی دوسری بیوی کے پاس جا کر بیٹھنا ہو گا.غرض سوائے دل کے تعلق کے جو کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا سلوک، معامله امداد، خیر خواہی کسی امر میں فرق کرنے کی اجازت نہیں ہے.کیا یہ

Page 222

سيرة النبي علي 208 جلد 2 زندگی عیاشی کی کہلا سکتی ہے یا یہ قوم اور ملک کے لئے یا ان فوائد کے لئے جن کے لئے دوسری شادی کی جاتی ہے ایک قربانی ہے اور قربانی بھی کتنی بڑی قربانی.کیسا دکھ اور صدمہ ہوتا ہے یہ د دیکھ کر کہ جو لوگ اسلامی احکام سے ایک ذرہ بھر بھی واقفیت نہیں رکھتے وہ صرف یہ سن کر کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں یہ اعتراض کر بیٹھے ہیں کہ آپ کے اخلاق نَعُوذُ بِاللہ بعد میں آکر خراب ہو گئے تھے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے ملک اور قوم کی بہتری کے لئے شادیاں کیں اور آپ کے انصاف کا حال پڑھ کر انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.چنانچہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ آپ کو عدل کا اس قدر خیال تھا کہ آپ مرض کے شدید بخار کی حالت میں دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر جب کہ آپ کے پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے ایک بیوی کے گھر سے دوسری بیوی کے گھر جاتے تھے.حتی کہ وفات سے چند دن پہلے آپ کی بیویوں نے درخواست کی کہ آپ کو تکلیف ہوتی ہے آپ ایک ہی گھر میں آرام سے رہیں اور خود ہی انہوں نے عائشہ کا گھر تجویز کیا ہے.بعض ایک سے زیادہ شادیوں کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر یہ ظلم نہیں کیونکہ ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں جب شادی نہ کرنا ظلم ہو جاتا ہے.ایک عورت جو پاگل ہو جائے ، کوڑھی ہو جائے یا اس کی اولاد نہ ہو اُس وقت اس کا خاوند کیا کرے؟ اگر وہ دوسری شادی نہیں کرے گا اور کسی بد کاری وغیرہ میں مبتلا ہو گا تو یہ اس کا اپنی جان اور سوسائٹی پر ظلم ہو گا اور اگر وہ کوڑھی ہے تو اپنی جان پر ظلم ہو گا.اگر اولا د نہیں ہوئی تو قوم پر ظلم ہو گا.اور اگر وہ پہلی عورت کو جدا کر دے تو یہ حد درجہ کی بے حیائی اور بے وفائی ہو گی کہ جب تک وہ تندرست رہی یہ اس کے ساتھ رہا اور جب وہ اس کی مدد کی سب اوقات سے زیادہ محتاج تھی اس نے چھوڑ دیا.غرض بہت سے مواقع ایسے پیش آتے ہیں کہ دوسری شادی جائز ہی نہیں کہ یہ بہت کمزور لفظ ہے بلکہ ضروری نہیں بلکہ ایک قومی فرض ہو جاتا ہے.

Page 223

سيرة النبي علي 209 جلد 2 میاں بیوی کے تعلقات کے بعد اولاد پیدا ہوتی ہے جو تمدن کی گویا دوسری اینٹ ہیں.اولاد کے متعلق اسلام نے یہ حکم دیا کہ ان کی عمدگی سے پرورش کی جائے.والدین پر ان کا پالنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا فرض ہے.ان کو خرچ کی تنگی کی وجہ سے مار دینا جیسا کہ وحشی قبائل میں رواج تھا بصورت لڑکیوں کے بوجہ تکبر کے مار دینا جیسا کہ کئی جنگی قوموں میں دستور تھا منع ہے.اولاد کی پیدائش کے متعلق حکم دیا کہ خاوند اگر چاہے کہ اس کے اولاد نہ ہو تو اس کے لئے عورت سے اجازت لینا ضروری ہو گا بغیر عورت کی اجازت کے اولا د کو روکا نہیں جاسکتا.پھر فرمایا کہ بچوں کو علم اور اخلاق سکھائے جائیں اور بچپن سے ان کی تربیت کی جائے تا کہ وہ بڑے ہو کر مفید بن سکیں.اولاد کے درمیان بھی یکساں سلوک کرنے کا حکم دیا.بچپن میں ان کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق سلوک تو خیر اور بات ہے مگر جب وہ بڑے ہو جائیں تو حکم دیا کہ جو تحفہ دے وہ سب کو دے ورنہ کسی کو نہ دے.اولا د کو تربیت کی خاطر اگر مارنا پڑے تو حکم دیا کہ منہ پر نہ مارے کہ تمام آلاتِ حواس اس میں جمع ہیں اور ان کے نقصان سے بچہ کی آئندہ زندگی پر اثر پڑتا ہے.لڑکیوں کی تربیت کے متعلق خاص حکم ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہو اور وہ اس کی اچھی طرح تربیت کرے تو اس کا یہ کام اس کو آگ سے بچانے والا ہو گا 3.یعنی لڑکیوں کی اچھی طرح تربیت کرنی اور اُن سے حسن سلوک کے سبب سے اللہ تعالیٰ اس سے اچھا معاملہ کرے گا.اسی طرح آپ نے فرمایا جس شخص کے ہاں لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہوں یا اس کے ذمے بھائیوں یا بہنوں کی پرورش ہو اور وہ ان کو علم سکھائے اور اچھی طرح ان کی ضروریاتِ زندگی کا انتظام کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس شخص کو جنت دے گا 4.یعنی وہ اس کام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید فضل کو جذب کرے گا نہ یہ کہ خواہ وہ اور کوئی بدی کرے اس کا اثر اس کی روحانیت پر کوئی نہ ہوگا.اسی طرح فرمایا

Page 224

سيرة النبي عالم 210 جلد 2 جس کے گھر لڑکی ہو اور وہ نہ اسے قتل کرے نہ اسے ذلیل کر کے رکھے نہ لڑکوں کو اس پر فضیلت دے تو خدا تعالیٰ اسے جنت دے گا.اولاد کی صحت کا خیال رکھنے کا خاص حکم دیا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اے لوگو! اپنے بچوں کو مخفی طور پر قتل نہ کرو 5.کیونکہ مرد کا عورت سے ایام رضاعت میں ملنا جوانی میں جا کر بچے کے قومی کو نقصان دیتا ہے یعنی ان دنوں میں اس کا اثر خاص طور پر ظاہر ہوتا ہے.اس ارشاد سے ایک عام قانون بچہ کی صحت کے خیال کا نکلتا ہے کیونکہ اس غرض کے لئے اگر شہوات طبعیہ کو روکنا پسند کیا گیا ہے تو دوسری قربانیاں تو اس سے ادنی ہی ہیں.اہلی زندگی میں ایک سوال ورثہ کا ہے اس میں اسلام نے ایسی مکمل تعلیم دی ہے کہ تمام غیر متعصب لوگ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اس کی خوبی اور اس کی حکمت کو تسلیم کرتے ہیں.اول تو اسلام نے ورثہ کے معاملہ میں عورتوں کو بھی حصہ دار مقرر کیا ہے.دوسرے والدین کو حصہ دار مقرر کیا ہے.سوم خاوند اور بیوی کو حصہ دار مقرر کیا ہے.اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رشتہ دار عقلاً ضرور وارث ہونے چاہئیں.علاوہ مذکورہ بالا ہدایتوں کے شریعت اسلام حکم دیتی ہے کہ وارثوں کو ان کے ورثہ سے محروم نہ کیا جائے.پس کوئی شخص اپنے مال سے وارثوں کو محروم نہیں کرسکتا.ہاں مرنے والے کو یہ حق دیا ہے کہ اپنے مال میں سے ایک مثلث وصیت کر دے اس سے زیادہ مال وصیت کرنے کا کسی کو حق نہیں کیونکہ اس سے وارثوں کی حق تلفی ہوتی ہے.مگر ساتھ ہی یہ حکم ہے کہ وصیت وارث کے حق میں نہیں کی جاسکتی.وارثوں کو وہی حصہ ملے گا جو ان کے لئے مقرر ہو چکا ہے.غیر وارث کو حصہ دیا جا سکتا ہے.عورت کا حصہ مرد سے اکثر حالتوں میں نصف رکھا ہے جن میں برابر رکھا ہے وہاں خاص حکمتوں کے ماتحت کیا گیا ہے.بعض لوگ اس فرق میں بے انصافی دیکھتے ہیں حالانکہ عورتوں کے حقوق اب تک بھی محفوظ نہیں ہیں.صرف اسلام ہی ہے جس

Page 225

سيرة النبي ع 211 جلد 2 نے عورتوں کو پورے حق دلائے ہیں.اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے ماں پر خرچ کی کوئی ذمہ داری نہیں رکھی تمام اخراجات مرد پر رکھے ہیں.اس وجہ سے مرد کی مالی ذمہ داری بہ نسبت عورت کے بہت زیادہ ہوتی ہے.پس وہ زیادہ حصہ کا مستحق تھا.بچوں کی پرورش، بیوی کی پرورش مرد کے ذمہ ہے.عورت اگر نکاح کرے گی تو اس کا اور اس کی اولاد کا خرچ اس کے خاوند کے ذمہ ہوگا.اگر نہ کرے گی جسے اسلام پسند نہیں کرتا تو وہ اکیلی جان ہو گی.مگر مرد اگر نکاح کرے گا اور اسی کا اسلام اسے حکم دیتا ہے تو اسے اپنی بیوی اور بچوں کا خرچ برداشت کرنا ہو گا.پس مرد کا عورت سے دُگنا حصہ مرد کی رعایت کے طور پر یا عورتوں کی ہتک کے طور پر نہیں ہے بلکہ واقعات کو مدنظر رکھ کر یہ حکم دیا گیا ہے اور عورتوں کو اس میں ہرگز نقصان نہیں بلکہ وہ شاید پھر بھی فائدہ میں رہتی ہیں.“ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 184 تا 188 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1977ء) اسی تعلق میں مزید تحریر فرماتے ہیں :.عورت اور مرد کے عام تعلقات کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مردوں کو عورتوں کے آرام کا خیال رکھنا چاہئے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نماز کے بعد تھوڑی دیر بیٹھے رہتے تا کہ پہلے عورتیں آرام سے گزر جائیں.جب وہ گزر جاتیں تو پھر آپ اٹھتے اور دوسرے مرد بھی آپ کے ساتھ اٹھتے ؟.سفر میں جب لوگ اونٹوں کو تیز کرتے تو آپ فرماتے کہ شیشوں کا بھی خیال رکھو.یعنی عورتیں ساتھ ہیں وہ تمہاری طرح الله تکلیف برداشت نہیں کرسکتیں اس لئے آہستہ چلو تا ان کو تکلیف نہ ہو.خاوندوں کو حکم دیا کہ سفر سے واپس آتے ہوئے گھر میں اچا نک داخل نہ ہوں بلکہ دن کے وقت اور پہلے سے مطلع کر کے آئیں تا کہ عورتیں گھر کی اور بدن کی صفائی کا اہتمام کر لیں 8.عورتوں کے متعلق یہ بھی حکم دیا کہ ان کو ان کے بچوں سے جدا نہ کیا جائے.

Page 226

سيرة النبي الله 212 جلد 2 جس میں ایک عام قاعدہ بتایا ہے کہ عزیزوں اور رشتہ داروں کو آپس میں جدا نہ کرنا چاہئے بلکہ ان کو آپس میں ملنے کا موقع دیتے رہنا چاہئے.آپس کے تعلقات کو قطع کرنے والے سب امور سے منع فرمایا ہے مثلاً یہ کہ کوئی کسی شخص پر الزام نہ لگائے اور اگر کوئی بدکاری کا الزام لگائے اور اس کو ثابت نہ کر سکے تو اسے سخت سزا دی جائے.اسی طرح حکم دیا کہ نکاح پر نکاح کی درخواست نہ دے10.اگر معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص کسی جگہ رشتہ کی تحریک کر رہا ہے تو گوا سے معلوم ہو کہ اگر میں درخواست دوں تو مجھے کامیابی کی زیادہ امید ہے اُس وقت تک خاموش رہے جب تک پہلی درخواست کا فیصلہ نہ ہو جائے.“ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 190 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1977ء) 1: ترمذى ابواب النكاح باب ماجاء فى التسوية بين الضرائر صفحہ 276 حدیث نمبر 1141 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 2: بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي اول صفحہ 756 حدیث نمبر 4450 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3:بخارى كتاب الادب باب رحمة الولد صفحہ 1049 حدیث نمبر 5995 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4 ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فى النفقة على البنات والاخوات صفحه 446 حدیث نمبر 1916 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 5 ابن ماجه كتاب النكاح باب الفیل صفحہ 288 حدیث نمبر 2012 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى بخاری كتاب الاذان باب صلاة النساء خلف الرجال صفحہ 141،140 حدیث نمبر 870 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 227

سيرة النبي علي 213 جلد 2 : مسلم كتاب الفضائل باب رحمته عليه النساء صفحه 1025 حدیث نمبر 6036 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 8:بخارى كتاب النكاح باب طلب الولد صفحہ 936 حدیث نمبر 5245 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 9:ابوداؤد كتاب الطلاق باب من احق بالولد صفحه 330 حدیث نمبر 2276 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 10:بخارى كتاب النكاح باب لا يخطب على خطبة اخيه صفحه 920 حدیث نمبر 5142 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 228

سيرة النبي عالم 214 جلد 2 مسلم شہری کے فرائض کے بارہ میں رسول کریم ع کی ہدایات مسلم شہری کے فرائض کے حوالہ سے رسول کریم ﷺ نے کیا ہدایات دی ہیں اس ضمن میں حضرت مصلح موعود اپنی کتاب " احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں رقم فرماتے ہیں:.ایک مسلمان شہری کے جو کام اسلام نے مقرر کئے ہیں اب میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں.ایک حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ ہر ایک آدمی محنت کر کے کھائے اور ست نہ بیٹھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہترین رزق وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے مہیا کرے اور فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ کی محنت سے اپنا رزق پیدا کرتے تھے 1.ایک فرض مسلم شہری کا اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ وہ سوال نہ کرے.رسول کریم ہے اس امر کے متعلق خاص طور پر خیال رکھتے تھے اور ہمیشہ سوال سے لوگوں کو منع کرتے رہتے تھے 2.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سوال صرف تین شخصوں کو جائز ہے.ایک اس شخص کو جو فقر سے نکلنے کی بہت کوشش کرتا ہے مگر اسے کوئی کام ہی نہیں ملتا یا وہ بالکل کام کر ہی نہیں سکتا.دوسرے وہ شخص جس پر کوئی ایسی چٹی پڑ گئی ہو جو اس کے خیال و گمان سے باہر تھی پس ایسے شخص کے لئے چندہ جمع کیا جا سکتا ہے اور تیسرے ان لوگوں کے لئے سوال جائز ہے کہ جن پر کوئی

Page 229

سيرة النبي عالم 215 جلد 2 قومی جرمانہ آپڑا ہو.یعنی کسی شخص نے کوئی خون وغیرہ کر دیا ہو اور قوم پر تاوان پڑ گیا ہو تو وہ لوگ سوال کر سکتے ہیں.ایک فرض مسلم شہری کا یہ ہے کہ جو شخص اس کے سامنے سے آئے اسے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہے 4.جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تم پر سلامتی ہو.گویا ہر وقت تعلقات فِی مَا بَین کی درستی کی کوشش کرتا رہے.پھر جو شخص آتا ہوا ملے اور وہ واقف اور دوست ہو تو مسلم شہری کا فرض یہ ہے کہ اس سے مصافحہ کرے5.اسی طرح مسلم شہریوں کے یہ فرائض مقرر کئے گئے ہیں کہ جو لوگ اپنے محلہ کے یا دوسرے واقفوں میں سے بیمار ہوں ان کی عیادت کے لئے جائیں اور ان کی تسلی اور تشفی کریں.گھر میں گھسیں تو پہلے اجازت لے لیں.پہلے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہیں.اگر گھر میں کوئی ہو اور جواب دے کہ اس وقت نہیں مل سکتا تو بلا ملال کے واپس چلے جائیں.اگر کوئی نہ ہو تو بھی واپس چلے جائیں 6.اگر ان کے سامنے کوئی شخص کوئی ایسی بات کہہ دے جو کسی دوسرے شخص کے خلاف ہو تو اس کو دبا دیں اور اس شخص تک نہ پہنچائیں جس کو کہی گئی ہے ورنہ رسول کریم علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بات اسی نے کہی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ کہنے والے کی مثال تو ایسی تھی کہ اس نے تیر مارا اور لگا نہیں اور جس نے اس کو وہ پہنچا دی جس کے حق میں کہی گئی تھی اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس نے تیراٹھا کر اس شخص کے سینے میں چھو دیا.اسی طرح مسلم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اس کے جنازے کی تیاری میں مدد دیں اور قبر تک لے جائیں اور دفنائیں..لیکن سب کے جانے کی ضرورت نہیں اگر بقدر ضرورت آدمی چلے جائیں تو یہ کافی ہوگا.لیکن اگر کوئی بھی نہ جائے تو سب گنہگار ہوں گے.اس فرض کی ادائیگی کا مسلمان اس قدر خیال رکھتے تھے کہ صحابہ کے زمانہ کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مذاہب کے لوگوں تک کے جنازوں کے ساتھ مسلمان جاتے تھے.صلى الله

Page 230

سيرة النبي عل الله 216 جلد 2 اسی طرح مسلم شہریوں کا فرض ہے کہ ایسی باتیں جو وقار کے خلاف ہوں اور لوگوں کو تکلیف دینے والی ہوں نہ کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مسلمان بازاروں اور الله گلیوں میں وقار کے ساتھ چلتے ہیں 8.رسول کریم ﷺ نے کسی شخص کو دیکھا کہ ایک جوتی پہنے ہوئے چل رہا ہے تو آپ نے اسے منع فرمایا اور فرمایا کہ یا آدمی دونوں جوتیاں پہنے یا ایک بھی نہ پہنے.مسلم شہریوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ راستوں یا لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں میں کوئی غلاظت نہ پھینکیں اور ان کو گندہ نہ کریں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس شخص پر خدا کی ناراضگی نازل ہوتی ہے جو الله راستوں میں پاخانہ کرتا ہے یا درختوں کے نیچے جہاں لوگ آکر بیٹھتے ہیں 10.اسی طرح مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ راستوں اور پبلک جگہوں کو صاف رکھنے کی کوشش کرے اور جس قدر مردان کے صاف کرنے میں دے سکتا ہے دے.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص راستہ میں سے لوگوں کو ایذا دینے والی چیزیں ہٹاتا ہے اس پر خدا کا فضل نازل ہوتا ہے 11.مسلم شہری کا ایک یہ بھی فرض ہے کہ اگر وہ چیزیں فروخت کرے تو ضرر رساں چیزوں کو فروخت نہ کرے.مثلاً سڑی ہوئی یا موسم کے لحاظ سے بیماریاں پیدا کرنے والی چیزوں کو.اس کے لئے یہ کہنا کافی نہیں کہ لوگ جان کر اور سوچ سمجھ کر ان چیزوں کو لیتے ہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ خود لوگوں کی صحت کا خیال رکھے اور ایسی چیزوں کو فروخت ہی نہ کرے.مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ پبلک جگہوں پر بلند آواز سے نہ لڑے اور جھگڑے نہیں اور لوگوں کے امن اور آرام میں خلل نہ ڈالے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ ایسی جگہیں کہ جن کو لوگ استعمال کرتے ہیں ان کو گندہ نہ کرے.مثلاً کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے یا اور کوئی غلاظت ان میں نہ پھینکے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ گندہ کلام منہ پر نہ لائے اور نہ پبلک جگہوں پر کوئی ایسا فعل کرے جولوگوں کو ایذا دیتا

Page 231

سيرة النبي الله 217 جلد 2 ہو.مثلاً نگا نہ پھرے یا اور ایسی ہی کوئی حرکت نہ کرے.پھر اسلام ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ایک مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اچھی باتیں سکھاتا رہے اور بد باتوں سے روکتا رہے مگر نرمی اور محبت سے سکھائے تا لوگ جوش میں آکر حق سے اور بھی دور نہ ہو جائیں.اور مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو علم سکھائے اور جو کچھ اُسے معلوم ہو اُسے چھپائے نہیں بلکہ لوگوں تک اس کا فائدہ عام کرے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی علم کو چھپا تا ہے اور باوجود لوگوں کے پوچھنے کے ظاہر نہیں کرتا اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ کی لگام ہو گی 12.اس حکم کا یہ مطلب نہیں کہ جو ایجادیں وغیرہ لوگ کریں ان کو لوگوں پر ظاہر کر دیں اور خود فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ علم کو دنیا سے ضائع نہ ہونے دیں اور اس کو چھپائیں نہیں ورنہ فائدہ اٹھانا جائز اور درست ہے اور پیٹنٹ یا رجسٹری کے رواج سے تو علوم کی حفاظت کا ایک دروازہ کھل ہی گیا ہے.مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ بہادر بنے لیکن ظالم نہ ہو.وہ نہ کمزوروں پر، نہ عورتوں پر، نہ بچوں پر، نہ اور کسی پر ظلم کرے بلکہ وہ جانوروں تک پر ظلم نہ کرے.چنانچہ لکھا ہے کہ عبداللہ جو حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی کے لڑکے تھے انہوں نے ایک دفعہ چند نو جوانوں کو دیکھا کہ زندہ جانوروں پر نشانہ پکار رہے ہیں.جب ان لوگوں نے آپ کو دیکھا تو بھاگ گئے.آپ نے فرمایا خدا ان پر ناراض ہوا جنہوں نے یہ کام کیا.میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا خدا اس پر ناراض ہوا جس نے کسی جاندار چیز کو نشانہ بنایا 13 یعنی باندھ کر یا پر وغیرہ تو ڑ کر.ورنہ یوں شکار اسلام صلى میں منع نہیں.اسلام کا یہ حکم کیسا لطیف ہے جس کی تیرہ سوسال سے تعلیم دی جاتی رہی ہے جو ابھی بعض متمدن ممالک کے ذہنوں میں داخل نہیں ہوئی کیونکہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا بعض مغربی ممالک میں زندہ کبوتروں پر نشانے پکانے کی ایک لہر چلی تھی اور بعض جگہ اسے

Page 232

سيرة النبي علي جبراً روکنا پڑا تھا.218 جلد 2 اسی طرح لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک گدھے کو دیکھا کہ اس کے منہ پر داغ دیا ہوا تھا.آپ ﷺ نے اسے نا پسند فرمایا اور فرمایا کہ منہ پر جانور کو زیادہ صلى الله تکلیف ہوتی ہے آئندہ داغ ران پر دیا جائے 14.اور آپ علیہ کے حکم سے ہی ران پر داغ دینے کا رواج چلا.اسی طرح آپ نے دیکھا کہ کسی نے قمری کے بچوں کو پکڑ لیا.آپ نے فرمایا کہ اس طرح اسے بچوں کی وجہ سے تکلیف نہ دو.فوراً بچے اڑا دو 15.اور آپ نے فرمایا کہ جانوروں پر رحم کرنے اور بھوک میں کھلانے اور پیاس میں پلانے پر بھی خدا تعالیٰ رحم کرتا ہے.پھر مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس علاقہ میں کوئی وبائی بیماری ہو وہاں کے لوگ دوسرے شہروں میں نہ جائیں اور دوسرے لوگ اس علاقہ میں نہ آئیں 16.کیا ہی لطیف حکم ہے جسے آج قرنطینہ کے نام سے ایک نئی ایجاد قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس حکم کی ابتدا اسلام سے شروع ہوئی ہے.اگر اس حکم پر لوگ عمل کریں تو نہ قرنطینہ کے قیام کی ضرورت رہتی نہ سرکاری نگرانیوں کی.خود بخود ہی وبائیں دب سکتی ہیں.مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ جس وقت وہ اپنے ہمسایہ کو مصیبت میں اور مشکل میں دیکھے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے مال سے اسے بقدر ضرورت قرض دے اور اُس وقت جبکہ وہ مصیبت میں مبتلا ہے اس سے یہ حساب نہ کرنے بیٹھے کہ تو مجھے اس کے بدلہ میں کیا دے گا کیونکہ اس کے اخلاق وسیع اور اس کا حوصلہ بلند ہونا چاہئے.اسے تکلیف اور دکھ کے اوقات میں لوگوں کا مددگار ہونا چاہئے اور اپنے بھائیوں کی مدد سے اپنا فرض سمجھنا چاہئے.اسے محنت سے اپنی روزی کمانی چاہئے نہ که صرف روپیہ قرض دے کر اور لوگوں کو ان کی تکلیف کے وقت اپنے قبضہ میں لا کر یا

Page 233

سيرة النبي عل الله 219 جلد 2 اسراف کی عادت پیدا کر کے.مسلم شہری کا ایک یہ بھی فرض ہے کہ وہ قومی اور ملکی فرائض کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار رہے اور اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتا ہی نہ کرے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ 17 - جو شخص اپنے مال کی حفاظت کے لئے مارا جاتا ہے وہ خدا کے حضور میں مقبول ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم لوگ کیوں لڑنے سے انکار کرتے ہو حالانکہ تمہارے بھائی اور بہنیں دوسرے لوگوں کے ظلم کے نیچے دبے ہوئے ہیں 18.مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ کسی کو ہلاک ہوتا دیکھے تو اس کو بچائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کہا گیا ہے کہ اس پر سخت عذاب اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہو گی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل ہوتا ہوا دیکھتا ہے اور خاموش کھڑا رہتا ہے اور اس کے بچانے کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ خدا کی لعنت کے نیچے ہے.پس ڈوبتوں کو بچانا، آگوں کو بجھانا، زلزلوں، کانوں کے پھٹنے، مکانوں کے گرنے ، ریلیوں کے ٹکرانے اور بجلیوں کے گرنے کے وقت لوگوں کی مدد کرنی اور ہر ایک مصیبت میں جس میں اس کی مدد لوگوں کی جان بچا سکتی ہے ان کی جان کو بچانا ایک مسلم کا فرض ہے ورنہ وہ خدا کے حضور میں جوابدہ ہوگا اور وہ خدا کے فضل کو کبھی حاصل نہیں کرے گا.اسی طرح ایک مسلم شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کی طرف ہنسی کے ساتھ بھی ہتھیار کا منہ نہ کرے 19.یہ حکم رسول کریم ﷺ نے لوہے کے ہتھیاروں کے متعلق دیا ہے.پس بارود سے چلنے والے ہتھیاروں کے متعلق تو اور بھی سختی سے یہ حکم چسپاں ہوتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اس حکم پر عمل نہ کرنے کے سبب سے سینکڑوں آدمیوں کی محض غلطی سے جانیں جاتی رہتی ہیں.پھر مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ کبھی ہمت نہ ہارے اور مایوس نہ ہو بلکہ مصائب

Page 234

سيرة النبي عمال 220 جلد 2 اور تکالیف میں ایک پہاڑ کی طرح کھڑا رہے.حوادث کی آندھیاں چلیں اور آفات کی موجیں اٹھ اٹھ کر اس سے ٹکرائیں مگر وہ مقابلہ سے نہ گھبرائے بلکہ ان کو دبانے کی کوشش کرے.یہاں تک کہ یا تو اسے موت آ جائے یا وہ ان مشکلات کو زیر کر کے اپنے لئے کامیابی کا راستہ کھول لے.وہ بزدلی سے اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے خود کشی نہیں کرتا کیونکہ اس کا مذہب اسے اس بزدلی سے روکتا ہے اور نڈر اور بہادر بننے 66 کی تعلیم دیتا ہے.‘“ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 191 تا 196 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1977ء) 1 بخاری کتاب البیوع باب كسب الرجل و عمله بيده صفحه 333 حدیث نمبر 2072 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2 بخاری كتاب الزَّكوة باب الاستعفاف عن المسئلة صفحہ 238 حدیث نمبر 1469 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 3: نسائى كتاب الزَّكوة باب الصدقة لمن تحمل بحمالة صفحه 357 حدیث نمبر 2581 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى 4: بخارى كتاب الاستئذان باب السلام للمعرفة صفحه 1085 حدیث نمبر 6236 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 5: بخارى كتاب الاستئذان باب المصافحة صفحه 1090 حدیث نمبر 6263 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 6 بخارى كتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان ثَلاثًا صفحہ 1090 حدیث نمبر 6263 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 7:بخارى كتاب الجنائز باب من انتظر حتى تدفن صفحه 212 حدیث نمبر 1325 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 8: الفرقان: 64

Page 235

سيرة النبي علي 221 جلد 2 و مسلم كتاب اللباس باب النهي عن اشتمال الصماء صفحه 939 حدیث نمبر 5500 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 10 : ابن ماجه كتاب الطهارة باب النهي عن الخلاء على قارعة الطريق صفحہ 50 حدیث نمبر 328 تا 330 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 11:بخارى كتاب الاذان باب فضل التهجير الى الظهر صفحه 107 حدیث نمبر 652 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 12: مقدمه ابن ماجه باب من سُئِلَ عن علم فكتمه صفحه 40 حدیث نمبر 261 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى :13: مسلم كتاب الصيد باب النهي عن صبر البهائم صفحہ 873 حدیث نمبر 5062،5061 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية 14 : مسلم كتاب اللباس باب النهى عن ضرب الحيوان فى وجهه صفحه 947 حدیث نمبر 5553 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية :15: ابوداؤد كتاب الجنائز باب الامراض المكفرة للذنوب صفحہ 452 453 حدیث نمبر 3089 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الأولى 16:بخاری کتاب الطب باب مايُذْكَرُ في الطاعون صفحه 1012 حدیث نمبر 5728 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 17:بخارى كتاب المظالم باب من قاتل دون ماله صفحه 401 حدیث نمبر 2480 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 18: النساء: 76 :19 : مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن الاشارة بالسلاح الى مسلم صفحہ 1142 حدیث نمبر 6668 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية

Page 236

سيرة النبي الله 222 جلد 2 اسلامی حکومت کے فرائض کے بارہ میں رسول کریم ع کی ہدایات اسلامی حکومت کے فرائض کے حوالہ سے رسول کریم ﷺ نے جو ہدایات دی ہیں ان کی بابت حضرت مصلح موعود اپنی کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں تحریر فرماتے ہیں :.,, سب سے پہلا فرض جو اسلام حکومت پر مقرر کرتا ہے یہ ہے کہ حکومت رعایا کے فوائد اور منافع اور ضروریات اور اتفاق اور اخلاق اور حفاظت اور معیشت اور مسکن کی ذمہ دار ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِى مَالِ سَيّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ 1 - تم میں سے ہر ایک مثل گڈریے کے ہے اور ان لوگوں یا چیزوں کے متعلق پورا ذمہ دار ہے جو اس کے سپرد کئے گئے ہیں.بادشاہ کے سپرد ایک جماعت کی گئی ہے اور وہ ان کا ہر طرح ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور ہر مرد کے سپر د ایک خاندان ہے اور وہ اس خاندان کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور عورت کے سپر د اولاد کی تربیت اور گھر کی حفاظت ہے اور وہ اس کی ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور نوکر کے سپر د اس کے آقا کی جائیداد اور مال ہے اور وہ اس کا ذمہ دار اور

Page 237

سيرة النبي علم جوابدہ ہے.223 جلد 2 اس حکم سے ظاہر ہے کہ اسلام نے بادشاہ کومثل گڈریے کے قرار دیا ہے جس کے سپرد مالک ایک ریوڑ کرتا ہے.پس جس طرح اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسے بکھرنے اور پراگندہ نہ ہونے دے، بھیڑیے کے حملہ سے بچائے ، اس کی صحت کا خیال رکھے، خوراک کا خیال رکھے ، مکان کا خیال رکھے، غرض ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھے اسی طرح حکومت اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے لوگوں کو تفرقہ اور فساد اور ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور بیرونی حملوں سے بچائے اور ان کی تمام ضروریات کا فکر رکھے خواہ وہ علوم کے متعلق ہوں، خواہ تربیت کے، خواہ خوراک کے، خواہ رہائش کے، خواہ صحت کے، خواہ اور کسی قسم کی ہوں.یہ تعلیم تو عام ہے اس کے علاوہ تفصیلی فرائض یہ ہیں کہ اسلامی حکومت اس امر کی ذمہ وار رکھی گئی ہے کہ وہ ہر ایک شخص کے لئے خوراک، لباس اور مکان مبیا کرے.یہ ادنیٰ سے ادنی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا حکومت کے ذمہ ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ چیز ہی جس کی حفاظت اس کے سپرد کی گئی ہے زندہ نہیں رہ سکتی.مکان اور خوراک کے بغیر جسمانی زندگی محال ہے اور لباس کے بغیر اخلاقی اور تمدنی زندگی محال ہے.اصولی احکام جن کو میں پہلے بیان کر چکا ہوں ان کا جو مفہوم مسلمانوں نے سمجھا اور جس طرح ان پر تفصیلی ضروریات کے مطابق عمل کیا وہ میرے نزدیک مثالوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا.میں نے بتایا ہے کہ انسانی ضروریات کا ان لوگوں کے لئے مہیا کرنا جو ان کو مہیا نہیں کر سکتے اسلامی حکومت کا فرض ہے اس کے متعلق حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ نہایت ہی مؤثر اور کا شف حقیقت ہے.ایک دفعہ حضرت مرا خلیفہ ثانی باہر تجسس کر رہے تھے کہ کسی مسلمان کو کوئی تکلیف تو نہیں مدینہ دار الخلافہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک

Page 238

سيرة النبي عالم 224 جلد 2 گاؤں مرار نامی ہے وہاں دیکھا کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آ رہی ہے.اُدھر گئے تو دیکھا ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رور ہے ہیں.اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ دو تین وقت کا فاقہ ہے کھانے کو کچھ پاس نہیں.بچے بہت بیتاب ہوئے تو خالی ہنڈیا چڑھا دی تا یہ بہل جائیں اور سو جائیں.حضرت عمرؓ یہ بات سن کر فوراً مدینہ کی طرف واپس آئے آٹا ، گھی ، گوشت اور کھجوریں لیں اور ایک بوری میں ڈال کر اپنے خادم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دے.اس نے کہا حضور ! میں جو موجود ہوں میں اٹھا لیتا ہوں.آپ نے جواب دیا بے شک تم اس کو تو اٹھا کر لے چلو گے مگر قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا ؟ 2 یعنی ان کی روزی کا خیال رکھنا میرا فرض تھا اور اس فرض میں مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے اس لئے اس کا کفارہ یہی ہے کہ میں خود اٹھا کر یہ اسباب لے جاؤں اور ان کے گھر پہنچاؤں.چونکہ سارے ملک کی خبر ملنی مشکل ہوتی ہے اس لئے اسلامی حکومت میں یہ انتظام ہوتا تھا کہ سب ملک کی مردم شماری کی جاتی تھی اور پیدائش اور موت کے رجسٹر مقرر کئے گئے تھے اور ان کی غرض آج کل کی حکومتوں کی طرح حکومت کے خزانوں کا بھرنا نہیں بلکہ خزانوں کا خالی کرنا ہوتی تھی.ان رجسٹروں کے ذریعے سے ملک کی عام حالت معلوم ہوتی رہتی تھی اور جو لوگ محتاج ہوتے ان کی مدد کی جاتی.مگر اسلام جہاں غرباء کی خبر گیری کا حکم دیتا ہے وہاں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں سستی اور کاہلی کو بھی مٹاتا ہے.ان وظائف کی یہ غرض نہ تھی کہ لوگ کام چھوڑ بیٹھیں بلکہ صرف مجبوروں کو یہ وظائف دیئے جاتے تھے ورنہ سوال سے لوگوں کو روکا جاتا تھا.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک سائل دیکھا اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی.آپ نے اس سے آٹا لے کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ 3.اسی طرح یہ ثابت ہے کہ سوالیوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا.دوسرا فرض حکومت کا عدل کا قائم کرنا ہے.حکومت کا کام ہے کہ قضا کا

Page 239

سيرة النبي عمال 225 جلد 2 اعلیٰ درجہ کا انتظام کرے.اسلام نے اس کا خاص طور پر حکم دیا ہے اور قضا کے لئے یہ احکام مقرر کئے ہیں کہ وہ کسی کی رعایت نہ کریں، رشوت نہ لیں، ان کے پاس کوئی سفارش نہ کی جائے اور نہ وہ سفارش کو قبول کریں.شہادت اور ثبوت پر مقدمہ کا فیصلہ کریں، شہادت اور ثبوت مدعی سے طلب کریں ورنہ مدعا علیہ سے قسم لیں.شہادت کے موقع پر دیکھ لیں کہ شہادت دینے والے لوگ ثقہ اور معتبر ہیں جھوٹے اور او باش نہیں ہیں.قاضیوں کے متعلق حکم دیا کہ وہ لائق اور کام کے قابل ہوں.قاضیوں کے فیصلہ کے متعلق یہ حکم دیا کہ گو قاضی غلطی کر سکتا ہے مگر چونکہ فی مابین اختلافات کا فیصلہ انسانوں نے ہی کرنا ہے جو غلطی سے پاک نہیں ہیں اور چونکہ اگر جھگڑا کسی جگہ پر جا کر ختم نہ ہو تو فساد بڑھتا ہے اس لئے قاضیوں کے فیصلہ کو سب فریق کو قبول کرنا ہو گا خواہ اس کو غلط مانیں یا صحیح.اور جو شخص اس امر میں چون و چرا کرے اور قضا کے فیصلہ کی ہتک کرے وہ ہرگز ایک مسلم شہری نہ سمجھا جائے کیونکہ وہ نظام سلسلہ کو درہم برہم کرتا ہے.کمزوروں اور ناسمجھوں کو اپنے حقوق کے سمجھنے میں مدد دینے کے لئے مفتیوں کا ایک سلسلہ جاری کیا جو قانون کے واقف ہوں مگر شرط یہ رکھی کہ یہ مفتی صرف حکومت ہی مقرر کر سکتی ہے اپنے طور پر کوئی شخص مفتی نہیں بن سکتا.ان فیصلوں کا اجرا حکومت کے اختیار میں رکھا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان کے اجرا میں رحم یا لحاظ سے کام نہ لیا جائے خواہ کوئی بڑا آدمی ہو خواہ چھوٹا.حتی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی چوری کرے تو میں اس کو بھی سزا دینے سے دریغ نہیں کروں گا 4.حضرت عمر نے اپنے لڑکے کو ایک جرم میں خود اپنے ہاتھ سے کوڑے صلى لگائے 5.ایک فرض حکومت کا یہ مقرر کیا گیا ہے کہ ملک کی عزت اور آزادی کی حفاظت کرے.قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو ! سرحدوں پر ہمیشہ مضبوط چوکیاں بنائے رکھو 6.جو دوسری حکومتوں کے مقابلہ میں ملک کی حفاظت کریں اور امن اور

Page 240

سيرة النبي ع 226 جنگ میں برابر استقلال سے اس امر کا تعہد کرو.جلد 2 ایک فرض حکومت کا حفظانِ صحت کا خیال ہے.چنانچہ راستوں اور پبلک جگہوں الله وغیرہ کی صفائی کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو حکم دیتا ہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ 1.علاوہ قلبی اور جسمانی صفائی کا خیال رکھنے کے گندگی اور غلاظت کو عام طور پر دور کر.یعنی اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ پبلک صفائی کا خیال رکھے.رسول کریم ﷺ ہمیشہ صحابہ کو مقرر فرماتے تھے کہ وہ آوارہ کتوں کو مار دیں تا ان کے جنون کی وجہ سے لوگوں کو نقصان نہ پہنچے.ایک فرض اسلامی حکومت کا یہ ہے کہ وہ ملک کی تعلیم کا انتظام کرے.اللہ تعالیٰ الله نے قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے فرائض میں سے ایک فرض تعلیم مقرر فرمایا ہے.فرماتا ہے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ و.احکام ضرور یہ اور ان کی حکمت کا سکھانا اس رسول کا کام ہے.کتاب سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم میں علم ہیئت ، علم نباتات علم تاریخ علم الاخلاق، علم طب، علم حیوانات وغیرہ کا ذکر ہے اور ان کی طرف توجہ دلائی ہے.پس کتاب کے سکھانے میں ان علوم کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلى كُلِّ مُسْلِمٍ 10 - رمسلمان پر علم پڑھنا فرض ہے اور آپ ہمیشہ اس امر کا خیال رکھتے تھے.بدر میں جو پڑھے لکھے لوگ قید ہوئے آپ نے ان سے معاہدہ کیا کہ بجائے روپیہ دے کر آزاد ہونے کے وہ مسلمان بچوں کو پڑھائیں 11.ایک فرض حکومت اسلام کا یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کرے جو پیشہ تو جانتے ہیں لیکن ان کے پاس کام کرنے کو روپیہ نہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اسلامی بیت المال میں سے ایک حصہ ایسے لوگوں کے لئے مقرر کیا ہوا ہے.ایک فرض یہ ہے کہ وہ اندرونی امن کو قائم رکھے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ

Page 241

سيرة النبي ع 227 جلد 2 اسلامی حکومت کا فرض مقرر کرتا ہے کہ وہ امن کو قائم رکھے اور سخت مذمت ان لوگوں کی بیان کرتا ہے جو لوگ فساد کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ ایسے حاکم جن کی غفلت یا ظلم سے فساد پھیلتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور میں سخت مجرم ہیں 12.رسول کریم ﷺ نے اسلامی حکومت کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ ایک عورت اکیلی سینکڑوں میل کا سفر کرتی چلی جائے اور اس کو کسی قسم کا خطرہ نہ ہو 13.ایک فرض اس کا یہ مقرر کیا گیا ہے کہ وہ ملک کی خوراک کا انتظام رکھے.ابتدائی خلفاء کے زمانہ میں اس امر کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور خلفاء خود خوراک کے جمع رکھنے کا تعہد کرتے تھے اور جب غلہ کی کمی ہوتی تھی تو ہر شخص کے لئے پر چی جاری کرتے تھے جس کے ذریعہ سے وہ سرکاری سٹوروں میں سے غلہ خرید سکے تا ایسا نہ ہو کہ بعض لوگ زیادہ غلہ جمع کر لیں اور باقی محروم رہیں.ایک فرض یہ مقرر کیا ہے کہ راستوں کی درستی کا خیال رکھیں تا کہ سفروں اور ادھر سے اُدھر جانے میں آسانی ہو.چنانچہ ابتدائی زمانہ اسلام میں جبکہ گاڑیاں نہیں تھیں صرف پیدل چلتے تھے یہ حکم تھا کہ راستے کم سے کم ہیں فٹ چوڑے بنائے جائیں مگر یہ ایک اصول بتایا گیا ہے کہ راستے چوڑے رکھوانے چاہئیں.اس زمانہ میں چونکہ گاڑیاں اور موٹریں بکثرت چلتی ہیں اس لئے آجکل اسی نسبت سے راستوں کو زیادہ چوڑا رکھوانا ضروری ہوگا.“ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 208 تا 212 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1977ء) 1 بخاری کتاب الجمعة باب الجمعة فى القرى والمدن صفحه 143 144 حدیث نمبر 893 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: کنز العمال جلد 2 صفحہ 649،648 حدیث نمبر 35978 مطبوعہ دمشق 2012ء الطبعة الاولى 3: الاحكام السلطانية لامام ابو الحسن علی بن محمد بن حبيب بصرى الماوردی صفحہ 235 مطبوعه مصر

Page 242

سيرة النبي علي 228 جلد 2 4:بخارى كتاب الحدود باب اقامة الحدود على الشريف والوضيع صفحه 1170 حدیث نمبر 6787 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 5: كنز العمال جلد 12 صفحہ 664 ، 665 حدیث نمبر 36014 مطبوعہ دمشق 2012 ، الطبعة الاولى 6: آل عمران: 201 7 المدثر : 6 8: مسلم كتاب المساقاة باب الامر بقتل الكلاب صفحه 686 حدیث نمبر 4018 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 9: الجمعة : 3 10: مقدمه ابن ماجه باب فضل العلماء صفحہ 34 حدیث نمبر 224 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى 11: زرقانی جلد 2 صفحہ 324 مطبوعہ بیروت 1994ء 12: البقرة : 206 13 بخارى كتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام صفحہ 603 حدیث نمبر 3595 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 243

سيرة النبي عالم 229 جلد 2 آقا اور ملازمین کے تعلقات سے متعلق تعلیم و رسول کریم ﷺ نے ملازمین سے جس حسن سلوک کی تعلیم دی ہے اس کے متعلق حضرت مصلح موعود اپنی کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں تحریر فرماتے ہیں:.اسلام سے پہلے آقا اور ملازم کی حیثیت ایک بادشاہ اور رعایا کی حیثیت ہی سمجھی جاتی تھی اور اس وقت بھی باوجود خیال کے بدل جانے کے عملاً یہی نظارہ ہمیں نظر آتا ہے مگر اسلام اس کا علاج ہمیں بتا تا ہے.وہ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ ایک آقا جس طرح روپیہ دیتا ہے اسی طرح ایک نو کر اپنا وقت اور اپنی جان دیتا ہے اس لئے لوگوں کا حق نہیں کہ وہ ان سے جابر بادشاہوں والا سلوک کریں اور جب کہ اسلام نے بادشاہوں کے ان حقوق کو بھی منسوخ کر دیا جو عا دتا اور رسما ان کو حاصل تھے تو پھر آقا اور ملازم کے ان غیر منصفانہ تعلقات کو وہ کب جائز رکھ سکتا تھا جو اسلام سے پہلے دنیا میں قائم تھے.چنانچہ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ آقا اپنے ملازم کو گالی نہ دے اور نہ مارے بلکہ ملازم تو الگ رہا غلام کے متعلق بھی اسلام یہی حکم دیتا ہے کہ نہ اس کو گالی دی جائے اور نہ مارا جائے ( اس جگہ ضمناً میں اس امر کا بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی احکام غلامی کے متعلق بھی لوگوں کو سخت غلط فہمی ہے.اسلام اس طرح غلامی کو جائز نہیں قرار دیتا جس طرح کہ دوسرے مذاہب جائز قرار دیتے ہیں.اسلامی احکام کی رو سے کسی قوم میں سے غلام بنا نا صرف اُسی وقت جائز ہوتا ہے (1 ) جبکہ وہ اس لئے کسی دوسری قوم سے لڑے کہ اس سے جبراً اس کا مذہب چھڑا دے.(2) جبکہ وہ لوگ جن کو غلام بنایا گیا ہو عملاً اپنی ظالمانہ اور خلاف انسانیت جنگ میں شامل

Page 244

سيرة النبي عمال 230 جلد 2 ہوں.(3) جبکہ وہ لوگ جن کو غلام بنایا گیا ہو اس مظلوم قوم کا جس سے وہ اس کی جان سے پیاری چیز مذہب چھڑانا چاہتے تھے خرچ جنگ ادا کرنے کے لئے تیار نہ ہوں.اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی جنگ دنیاوی ہو یا وہ شخص جس کو غلام بنایا گیا ہے جنگ میں شامل نہ ہو یا جنگ میں تو شامل ہو مگر خرچ جنگ میں سے اپنا حصہ ادا کرنے کے لئے تیار ہو تو ایسے شخص کو غلام بنانے یا غلام رکھنے کو اسلام ایک خطر ناک جرم قرار دیتا ہے.اور ہر ایک شخص خیال کر سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس لئے تلوار اٹھاتا ہے کہ دوسرے سے جبراً اس کا مذہب چھڑوا دے جس کی نسبت اس دوسرے شخص کا یہ یقین ہے کہ وہ نہ صرف اس کے اس دنیا میں کام آنے والا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ہمیشہ اسی مذہب نے اس کو ابدی ترقیات دلانی ہیں اور پھر جب پکڑا جائے تو اس خرچ کو ادا کرنے سے وہ خود یا اس کی قوم کے لوگ انکار کر دیں جو اس قوم کو کرنا پڑا تھا جس پر ایسا ظالمانہ حملہ کیا گیا تھا تو وہ ضرور اس امر کا مستحق ہے کہ اس کی آزادی اس سے چھین لی جائے.اسلام در حقیقت ایسے شخص کو جو مذہب بزور شمشیر پھیلانا چاہتا ہے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ پر دوسرے کے عقائد میں دخل دینا چاہتا ہے انسانیت سے خارج قرار دیتا ہے اور بنی نوع انسان کے لئے اسے ایک خطرناک وجود قرار دیتا ہے اس لئے اُس وقت تک کہ اس کے اندر حقیقی ندامت پیدا ہوا سے اس کی آزادی سے محروم کرتا ہے.ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے ہمارے پاس ایک لونڈی تھی ہم میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے اس کو ایک تھپڑ مار دیا.رسول کریم ﷺ نے حکم فرمایا کہ اسے آزاد کر دو 1.اسی طرح ایک اور صحابی فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ایک غلام کو مارنے لگا مجھے اپنے پیچھے سے ایک آواز آئی جسے میں پہچان نہ سکا.اتنے میں میں نے دیکھا کہ رسول کریم سے چلے آرہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اے ابو مسعود ! جس قدر تجھ کو اس غلام پر مقدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ تجھ پر خدا کو مقدرت حاصل ہے.وہ صل الله

Page 245

سيرة النبي علي 231 جلد 2 کہتے ہیں ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کوڑا جا پڑا اور میں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے.آپ نے فرمایا اگر تو اسے آزاد نہ کرتا تو آگ تیرا منہ جھلستی 2.اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے نوکر سے وہ کام نہ لے جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خو د ساتھ لگ کر کام کرائے 3.اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا نوکر کھانا پکا کر اس کے سامنے رکھے تو اصل حق تو یہ ہے کہ وہ اسے ساتھ بٹھا کر کھلائے اگر ایسا نہ کر سکے تو کم سے کم اس میں سے اس کو حصہ دے دے کیونکہ آگ کی تکلیف تو اسی نے اٹھائی ہے 4.مزدوری کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری اس کو ادا کر دی جائے 5.اور اس کے حق کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو شخص مزدور کو اس کا حق ادا نہیں کرتا قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا6.جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی مالک مزدور کی مزدوری نہ دے تو حکومت کا فرض ہے کہ اس کو دلوائے.اسی طرح ایک حق مزدور کا شریعت نے یہ مقرر کیا ہے کہ اگر اس کو مزدوری کافی نہیں دی جاتی تو وہ حکومت کے ذریعہ سے اپنی داد رسی کرائے.اور اگر مزدور سیاسی یا تمدنی حالات کی وجہ سے مجبور ہوں کہ اس آقا کے ساتھ کام کریں تو حکومت کا فرض ہوگا کہ دونوں فریق کا حال سن کر مناسب فیصلہ کرے.“ ( احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 213 تا 215 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1977ء) 1: مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک صفحہ 730 حدیث نمبر 4302 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 2: مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک صفحہ 732 حدیث نمبر 4308 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية

Page 246

سيرة النبي علي 232 جلد 2 3: مسلم كتاب الايمان باب اطعام المملوک صفحہ 732 حدیث نمبر 4313 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 4:مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوک صفحہ 732 حدیث نمبر 4317 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5 ابن ماجه كتاب الرهون باب اجر الاجراء صفحہ 350 حدیث نمبر 2443 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 6 ابن ماجه كتاب الرهون باب اجر الاجراء صفحه 350 حدیث نمبر 2442 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى

Page 247

سيرة النبي الله 233 جلد 2 آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی اور تعلیمات حضرت مصلح موعود کے قیام یورپ 1924 ء کے دوران انگلستان میں نو جوانوں صلى کی ایک انجمن نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ رسول کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیم کے بارہ میں تقریر فرمائیں.اسے قبول فرماتے ہوئے آپ نے ایک مضمون لکھا جو 28 ستمبر 1924ء کو ساؤتھ فیلڈ لندن میں بزبان انگریزی حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا.حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں :.صدر جلسہ! میرے عزیز نوجوانانِ انگلستان!! بہنو اور بھائیو!!! مجھے نہایت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے اس شخص کے حالات اور تعلیم بیان کرنے کا موقع دیا ہے جو انسانوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور عزیز ہے اور جو نہ صرف بڑی عمر کے لوگوں کا راہنما ہے بلکہ چھوٹے بچوں کا بھی راہنما ہے.ہر انسان کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور کئی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھ کر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے.میں آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کی تعلیم کے متعلق اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے روشنی ڈالوں گا کہ نوجوان اور بچے اس سے کیا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.صلى الله آپ ﷺ کی جائے پیدائش تیرہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ 20 اپریل 571ء کو عرب کے ملک میں بحیرہ احمر کے مشرقی کناروں کے قریب ساحل سمندر سے 40 میل کے فاصلہ پر مکہ نامی گاؤں میں ایک لڑکا پیدا ہوا.ایک معمولی بچہ، اس قسم کا بچہ جس قسم کے بچے کہ دنیا میں روز

Page 248

سيرة النبي الله 234 جلد 2 پیدا ہوتے ہیں مگر مستقبل اس کے لئے اپنے اخفا کے پردہ میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھا.اس بچہ کی والدہ کا نام آمنہ تھا اور باپ کا نام عبد اللہ اور دادا کا نام عبد المطلب.اس بچہ کی پیدائش اس کے گھر والوں کے لئے دلوں میں دو متضاد جذبات پیدا کر رہی تھی ، خوشی اور غم کے جذبات.خوشی اس لئے کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جس سے ان کی نسل دنیا میں قائم رہے گی اور نام محفوظ رہے گا.اور غم اس وجہ سے کہ وہ بچہ اپنی ماں کو ایک نہایت ہی محبت کرنے والے خاوند کی اور اپنے دادا کو ایک نہایت ہی اطاعت گزار بیٹے کی جو اپنے بچہ کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ چکا تھا، یاد دلا رہا تھا.اس کی شکل اور شباہت ، اس کا سادگی سے مسکرانا ، اس کا حیرت سے اس نئی دنیا کو دیکھنا جس میں وہ بھیجا گیا تھا، غرض اس کی ہر ایک بات ، اس نوجوان خاوند اور بیٹے کی یاد کو تازہ کرتی تھی جو سات ماہ پہلے اپنے بوڑھے باپ اور جوان بیوی کو داغ جدائی دے کر اپنے پیدا کرنے والے سے جا ملا تھا.مگر خوشی ، غم پر غالب تھی کیونکہ اس بچہ کی پیدائش سے اُس مرنے والے کا نام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.دادا نے اس بچہ کا نام جو پیدائش سے پہلے ہی یتیم ہو چکا تھا محمد رکھا اور اس یتیم بچہ نے اپنی والدہ اور اپنے چچا کی ایک خادمہ کے دودھ پر پرورش پانی شروع کی.م آپ ع کی پرورش مکہ کے لوگوں میں رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو گاؤں کی عورتوں کو پرورش اور دودھ پلانے کے واسطے دے دیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بچہ کی پرورش شہر میں اچھی طرح نہیں ہو سکتی اور اس طرح صحت خراب ہو جاتی ہے.مکہ کے ارد گرد کے تمھیں چالیس میل کے فاصلہ کے گاؤں کے لوگ وقتاً فوقتاً شہر میں آتے اور بچوں کو لے جاتے اور جب وہ پال کر واپس لاتے تو ان کے ماں باپ پالنے والوں کو بہت کچھ انعام دیتے.

Page 249

سيرة النبي ع 235 جلد 2 محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد جب یہ لوگ آئے تو ان کی والدہ نے بھی چاہا کہ آپ کو بھی کسی خاندان کے سپرد کر دیں مگر ہر ایک عورت اس بات کو معلوم کر کے کہ آپ یتیم ہیں آپ کو لے جانے سے انکار کر دیتی.کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ دن باپ کے بچہ کی پرورش پر انعام کون دے گا.اس طرح یہ آئندہ بادشاہوں کا سردار ہونے والا بچہ ایک ایک کے سامنے پیش کیا گیا اور سب نے اس کے لے جانے سے انکار کر دیا.صلى الله مگر خدا تعالیٰ کی آپ ﷺ کی دائی حلیمہ کا عجیب و غریب واقعہ قدرتیں بھی عجیب ہوتی ہیں اس نے اس مبارک بچہ کی والدہ کا دل رکھنے کے لئے اور اس بچہ کے گاؤں میں پرورش پانے کے لئے اور سامان کر چھوڑے تھے.یہ لوگ جو بچے لینے کے لئے آئے تھے ان میں سے غریب عورت حلیمہ نامی بھی تھی.جس طرح محمد ( ﷺ ) ایک ایک عورت کے سامنے کئے جاتے تھے اور رد کر دیے جاتے تھے اسی طرح وہ عورت ایک ایک گھر میں جاتی تھی اور رد کر دی جاتی تھی.چونکہ وہ غریب تھی اور کوئی شخص پسند نہ کرتا تھا کہ اس کا بچہ غریب کے گھر پرورش پا کر تکلیف اٹھائے.یہ عورت مایوس ہو گئی تو اپنے ساتھ والوں کے طعنوں کے ڈر سے اس نے ارادہ کیا کہ وہ آپ کو ہی لے جائے چنانچہ وہ آپ کو ہی ساتھ لے گئی.آپ ﷺ کی والدہ کی وفات جب آپ نے کچھ ہوش سنبھالی تو آپ کی دائی آپ کو آپ کی ماں کے پاس چھوڑ گئی.وہ آپ کو اپنے ماں باپ کے گھر مدینہ لے گئیں اور وہاں کچھ عرصہ رہ کر جب مکہ کی طرف واپس آ رہی تھیں تو راستہ میں ہی فوت ہو گئیں اور محمد کے چھ سال کی عمر میں اپنی ماں کی محبت بھری گود سے بھی محروم رہ گئے.کسی نے آپ کو مکہ آپ کے دادا کے پاس پہنچا دیا جو دو سال کے بعد جب آپ آٹھ سال کے ہوئے فوت ہو گئے اور آپ کو آپ کے چا ابو طالب نے اپنی کفالت میں لے لیا.اس طرح یکے بعد دیگرے اپنے محبت

Page 250

سيرة النبي عالم 236 جلد 2 کرنے والوں کی گود سے آپ جدا ہوتے رہے حتی کہ آپ جوانی کو پہنچے.غریب گھرانے میں پرورش جن گھروں میں آپ نے پرورش پائی وہ امیر گھر نہ تھے.وہاں میز بچھا کر کھانا نہیں ملتا تھا بلکه مالی، حالی اور ملکی رواج کے ماتحت جس وقت کھانے کا وقت آتا بچے ماں کے گرد جمع ہو کر کھانے کے لئے شور مچا دیتے اور ہر ایک دوسرے سے زیادہ حصہ چھین لے جانے کی کوشش کرتا.آپ کے چا کی نوکر بیان کرتی ہے کہ آپ کی یہ عادت نہ تھی.جس وقت گھر کے سب بچے چھینا جھپٹی میں مشغول ہوتے آپ ایک طرف خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور اس بات کا انتظار کرتے کہ بچی خود ان کو کھانا دے اور جو کچھ آپ کو دیا جاتا اسے خوش ہو کر کھا لیتے.صادق اور امین جب آپ کی عمر میں سال کی ہوئی تو آپ ایک ایسی سوسائٹی میں شامل ہوئے جس کا ہر ایک ممبر اس امر کی قسم کھاتا تھا کہ اگر کوئی مظلوم خواہ کسی قوم کا ہو اسے مدد کے لئے بلائے گا تو وہ اس کی مدد کرے گا یہاں تک کہ اس کا حق اس کو مل جائے.اور اس نوجوانی کی عمر میں آپ کا یہ مشغلہ تھا کہ جب کسی شخص کی نسبت معلوم ہوتا کہ اس کا حق کسی نے دبا لیا ہے تو آپ اس کی مدد کرتے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کر دیتا.آپ کی سچائی ، امانت اور نیکی اس عمر میں اس قدر مشہور ہوگئی کہ لوگ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے.حضرت خدیجہ سے شادی جب اس نیکی کا چرچا بہت ہونے لگا تو 25 سال کی عمر میں آپ کو مکہ کی ایک مالدار تا جر عورت خدیجہ نے نفع پر شراکت کا فیصلہ کر کے تجارت کے لئے شام کو بھیجا اور آپ کے ساتھ ایک غلام بھی گیا.اس سفر میں آپ کی نیکی اور دیانتداری کی وجہ سے اس قدر نفع ہوا کہ پہلے خدیجہ کو کبھی اس قدر نفع نہ ملا تھا اور آپ کے نیک سلوک اور شریفانہ برتاؤ کا ان کے غلام پر جس کو انہوں نے ساتھ بھیجا تھا اس قدر اثر ہوا کہ وہ آپ کو نہایت ہی پیار

Page 251

سيرة النبي الله 237 جلد 2 کرنے لگا اور اس نے حضرت خدیجہ کو سب حال سنایا.ان کے دل پر بھی آپ کی نیکی کا اس قدر اثر ا ہوا کہ انہوں نے آپ سے شادی کی درخواست کی اور آپ نے اسے منظور کر لیا.اُس وقت حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال کے قریب تھی اور آپ کی عمر صرف 25 سال 1.غلاموں کو آزاد کرنا خدیجہ نے نکاح کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جس قدر مال ان کے پاس تھا اور غلام ان کی خدمت میں تھے سب آپ کے سامنے پیش کر دیئے اور کہا کہ یہ سب کچھ اب آپ کا ہے اور آپ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کر دیا اور اس طرح اپنی جوانی میں وہ کام کیا جو اس سے پہلے بوڑھے بھی نہیں کر سکتے تھے.گوشہ تنہائی میں عبادت کی عادت آپ اپنے ملک کی خرابیوں کو دیکھ کر بہت افسردہ رہتے تھے اور بالعموم شہر سے تین میل کے فاصلہ پر حرا“ نامی پہاڑ کی چوٹی پر ایک پتھروں کی غار میں بیٹھ کر اپنے ملک کی خرابیوں اور شرک کی کثرت پر غور کیا کرتے تھے اور اس جگہ ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے.اس عبادت میں آپ کو اس قدر لطف آتا تھا کہ آپ کئی دفعہ کئی کئی دن کی غذا گھر سے لے کر جاتے تھے اور کئی کئی دن اس غار میں رہتے تھے.40 سال کی عمر میں الہام الہی کا نزول آخر جب کہ آپ 40 سال کی عمر کے تھے آپ پر خدا کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کر اور اس سے علم کی ترقی اور روحانی عزت اور اُن علوم کے حصول کے لئے دعا کر جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھے.آپ کی طبیعت پر اس وحی کا ایسا اثر ہوا کہ آپ گھبرا کر گھر آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے ایسا الہام ہوا ہے میں ڈرتا ہوں کہ یہ میری آزمائش ہی

Page 252

سيرة النبي الله 238 جلد 2 نہ ہو.حضرت خدیجہ نے جو آپ کی ایک ایک حرکت کا غور سے مطالعہ کرتی تھی اس بات کوسن کر جواب دیا کہ نہیں! ہر گز نہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اس طرح آپ کو ابتلا میں ڈالے.حالانکہ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور جو لوگ کام نہیں کر سکتے ان کی مدد کرتے ہیں اور آپ سے وہ اخلاق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اور کسی سے ظاہر نہیں ہوتے اور آپ مہمانوں کی خوب خاطر و مدارات کرتے ہیں اور جو لوگ مصائب میں مبتلا ہیں ان کی مدد کرتے ہیں 2.یہ اُس عورت کی رائے ہے جو آپ کی پہلی بیوی تھی اور جو آپ کے تمام اعمال سے واقف تھی اور اُس سے زیادہ سچا گواہ اور کون ہوسکتا ہے کیونکہ انسان کی حقیقت ہمیشہ تجربہ سے معلوم ہوتی ہے اور تجربہ جس قدر بیوی کو خاوند کے حالات کا ہوتا ہے دوسرے کو نہیں ہو سکتا.مگر آپ کی تکلیف اس تسلی سے دور نہ ہوئی اور حضرت خدیجہ نے یہ تجویز کی کہ آپ میرے بھائی جو بائبل کے عالم میں سے ملیں اور ان سے پوچھیں کہ اس قسم کی وحی کا کیا مطلب ہوتا ہے.ورقہ بن نوفل یہودی کا تصدیق کرنا چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور ورقہ بن نوفل سے جو حضرت خدیجہ کے رشتہ میں بھائی تھے جا کر پہلے ان کو سب حال سنایا.انہوں نے سن کر کہا کہ گھبرائیں نہیں تمہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی جس طرح کہ موسی کو ہوا کرتی تھی اور پھر کہا کہ افسوس کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں کاش! کہ میں اُس وقت جوان ہوتا جب خدا تعالیٰ تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کرے گا اور تیری قوم تجھے شہر سے نکال دے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو رات دن دنیا کی بہتری کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور سب اہل شہر ان سے خوش تھے اس امر کو سن کر حیران ہوئے اور حیرت سے دریافت فرمایا کہ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں ! کبھی کوئی شخص اس

Page 253

سيرة النبي ع 239 جلد 2 قدر بڑے پیغام کو لے کر نہیں آیا جو تو لایا ہے کہ اس کی قوم نے اس پر ظلم نہ کیا ہو اور اس کو دکھ نہ دیا ہو 3 اس سلوک اور محبت کی وجہ سے جو آپ لوگوں سے کرتے تھے ، اس محبت کے سبب سے جو آپ کو ہر ایک آدمی کے ساتھ تھی اور اس خدمت کے ماتحت جو آپ اپنے شہر کے غرباء کی کرتے تھے یہ بات کہ شہر کے لوگ آپ کے دشمن ہو جائیں گے آپ کو عجیب معلوم ہوئی مگر مستقبل آپ کے لئے کچھ اور چھپائے ہوئے تھا.توریت کی پیشگوئی پوری ہوئی اس واقعہ کے چندہی ماہ کے بعد آپ کو پھر وحی ہوئی.اس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ سب لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلائیں اور بدی کو دنیا سے مٹائیں اور شرک دور کریں اور نیکی اور تقویٰ کو قائم کریں اور ظلم کو دور کریں.اس وحی کے ساتھ آپ کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا گیا.اور آپ کے ذریعہ سے استثناء باب 18 آیت 18 کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میں تیرے بھائیوں میں تجھ سا ایک نبی بر پاکروں گا.آپ بنوا سماعیل میں سے تھے جو بنی اسرائیل کے بھائی تھے اور آپ اسی طرح ایک نیا قانون لے کر آئے جس طرح کہ حضرت موسٹی ایک نیا قانون لے کر آئے تھے.دعوی نبوت پر لگانے ، بیگانے ہو گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا عہدہ ملنا تھا کہ یکدم آپ کے لئے دنیا بدل گئی.وہ لوگ جو پہلے محبت کرتے تھے نفرت کرنے لگے اور جو عزت کرتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.جو تعریف کرتے تھے مذمت کرنے لگے اور جو لوگ پہلے آپ کو آرام پہنچاتے تھے تکلیف پہنچانے لگے.مگر چار آدمی جن کو آپ سے بہت زیادہ تعلق کا موقع ملا تھا وہ آپ پر ایمان لائے یعنی خدیجہ آپ کی بیوی، علی آپ کے چازاد بھائی اور زیڈ آپ کے آزاد کردہ غلام اور ابوبکر آپ کے دوست.اور ان سب کے ایمان کی دلیل اُس وقت یہی تھی کہ آپ جھوٹ نہیں بول سکتے.ان چاروں میں سے حضرت ابوبکر کا ایمان لانا عجیب تر تھا.جس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ

Page 254

سيرة النبي ع 240 جلد 2 آپ نبوت کا دعوی کریں اُس وقت حضرت ابو بکر مکہ کے ایک رئیس کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے.اس رئیس کی لونڈی آئی اور اس نے آکر بیان کیا کہ خدیجہ کو معلوم نہیں کہ کیا ہو گیا ہے.وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند اسی طرح نبی ہیں جس طرح حضرت موسی تھے.لوگ اس خبر پر ہنسنے لگے اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو پاگل قرار دینے لگے مگر حضرت ابوبکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے اُسی وقت اٹھ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی دعوی کیا ہے؟ آپ نے بتایا ہاں ! اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے.حضرت ابوبکر نے بغیر اس کے کہ کوئی اور سوال کرتے جواب دیا کہ مجھے اپنے باپ کی اور ماں کی قسم ! کہ تو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں نہیں مان سکتا کہ تو خدا پر جھوٹ بولے گا پس میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول ہیں 4.اس کے بعد ابو بکر نے ایسے نوجوانوں کو جمع کر کے جوان کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے سمجھانا شروع کیا اور سات آدمی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.یہ سب نوجوان تھے جن کی عمر 12 سال سے لے کر 25 سال تک تھی.ایمان لانے والوں پر مصائب کے ہجوم سچائی کا قبول کرنا آسان کام نہیں.مکہ کے لوگ جن کا گزارہ ہی بتوں کے معبدوں کی حفاظت اور مجاورت پر تھا وہ کب اس تعلیم کو برداشت کر سکتے تھے کہ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم دی جائے.جو نہی ایمان لانے والوں کے رشتہ داروں کو معلوم ہوا کہ ایک ایسا مذہب مکہ میں جاری ہوا ہے اور ان کے عزیز اس پر ایمان لے آئے ہیں انہوں نے ان کو تکلیف دینی شروع کی.حضرت عثمان کو ان کے چچانے باندھ کر گھر میں قید کر دیا اور کہا کہ جب تک اپنے خیالات سے تو بہ نہ کرے میں نہیں

Page 255

سيرة النبي عمال 241 جلد 2 چھوڑوں گا.اور زبیر ایک اور مومن تھے جن کی عمر 15 سال کے قریب تھی.ان کو ان کے رشتہ داروں نے قید کر لیا اور تکلیف دینے کے لئے جس جگہ ان کو بند کیا ہوا تھا اس میں دھواں بھر دیتے تھے مگر وہ اپنے ایمان پر پختہ رہے اور اپنی بات کو نہ چھوڑا 5.ایک اور نو جوان کی والدہ نے ایک نیا طریق نکالا اس نے کھانا کھانا چھوڑ دیا اور کہا جب تک تو اپنے آباء کی طرح عبادت نہیں کرے گا اُس وقت تک میں کھانا نہیں کھاؤں گی مگر اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں دنیا کے ہر معاملہ میں ماں باپ کی فرمانبرداری کروں گا مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں ان کی نہیں مانوں گا کیونکہ خدا تعالیٰ کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے 6.غرض سوائے ابو بکر اور خدیجہ کے آپ پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے سب نوجوان تھے جن کی عمر 15 سال سے لے کر 25 سال تک کی تھیں.پس یوں کہنا چاہئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے بوجہ یتیم ہونے کے نہایت چھوٹی عمر سے اپنے لئے راستہ بنانے کی مشق کی جب ان کو خدا تعالیٰ نے مبعوث کیا تو اُس وقت بھی آپ کے گرد نوجوان ہی آکر جمع ہوئے پس اسلام اپنی ابتدا کے لحاظ سے نوجوانوں کا دین تھا.اہل مکہ کوعلی الاعلان تبلیغ چونکہ ہر نبی کے لئے عام تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے آپ نے ایک دن ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر مختلف گھرانوں کا نام لے کر بلانا شروع کیا.چونکہ لوگ آپ پر بہت ہی اعتبار کرتے تھے سب لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے اور جو لوگ خود نہ آ سکتے تھے انہوں نے اپنے قائم مقام بھیجے تا کہ سنہیں کہ آپ کیا کہتے ہیں.جب سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اے اہل مکہ! اگر میں تم کو یہ ناممکن خبر دوں کہ مکہ کے پاس ہی ایک بڑا لشکر اترا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ یہ بات بظاہر ناممکن تھی کیونکہ مکہ اہل عرب کے نزدیک ایک متبرک مقام تھا اور یہ خیال بھی نہیں ہو

Page 256

سيرة النبي الله 242 جلد 2 سکتا تھا کہ کوئی قوم اس پر حملہ کرنے آئے گی اور پھر یہ بھی بات تھی کہ مکہ کے جانور دور دور تک چرتے تھے اگر کوئی لشکر آتا تو ممکن نہ تھا کہ جانور چرانے والے اس سے غافل رہیں اور دوڑ کر لوگوں کو خبر نہ دیں.مگر باوجود اس کے کہ یہ بات ناممکن تھی سب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بات ضرور مان لیں گے کیونکہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے.آپ نے فرمایا کہ جب تم گواہی دیتے ہو کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو میں تم کو بتا تا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں اس کا پیغام تم کو پہنچاؤں اور یہ سمجھاؤں کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا.یہ بات سنتے ہی لوگ بھاگ گئے اور کہا کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے یا جھوٹا ہےZ.تمام شہر میں شور پڑ گیا اور جولوگ آپ پر ایمان لائے تھے ان پر نہایت سختیاں ہونے لگیں.بھائی نے بھائی کو چھوڑ دیا، ماں باپ نے بچوں کو نکال دیا، آقاؤں نے نوکروں کو دکھ دینا شروع کیا، چودہ چودہ پندرہ پندرہ سالہ نوجوانوں کو جو کسی رسم و رواج کے پابند نہ تھے بلکہ مذہب کی تحقیق میں اپنی عقل سے کام لیتے تھے اور اسی لئے جلد آپ پر ایمان لے آتے تھے ان کے ماں باپ قید کر دیتے اور کھانا اور پانی دینا بند کر دیتے تا کہ وہ تو بہ کر لیں مگر وہ ذرہ بھی پرواہ نہ کرتے تھے اور خشک ہونٹوں اور گڑھوں میں گھسی ہوئی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے.یہاں تک کہ ماں باپ آخر اس ڈر سے کہ کہیں مر نہ جائیں ان کو کھانا پینا دے دیتے.نوجوانوں پر تو رحم کرنے والے لوگ موجود تھے مگر جو غلام آپ پر ایمان لائے ان کی حالت نہایت نازک تھی.اور یہی حال دوسرے غرباء کا تھا جن کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا.غلاموں کو لوہے کی زرہیں پہنا دیتے تھے اور پھر ان کو سورج کے سامنے کھڑا کر دیتے تھے تا کہ موسم گرم ہو کر ان کا جسم جھلس دے ( یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ عرب کا سورج تھا نہ کہ انگلستان کا ) بعض کی لاتوں میں رسیاں ڈال کر ان کو زمین پر گھسیٹتے تھے.بعض دفعہ لوگ لوہے کی سیخیں گرم کر کے ان سے مسلمانوں کا جسم جلاتے تھے اور بعض دفعہ سوئیوں سے ان کے چمڑوں کو اس طرح

Page 257

سيرة النبي علي 243 جلد 2 چھید تے تھے جس طرح کہ کپڑا سیتے ہیں مگر وہ ان سب باتوں کو برداشت کرتے تھے اور عذاب کے وقت کہتے جاتے تھے کہ وہ ایک خدا کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتے.ایک عورت جو نہایت ہی پختہ مسلمان تھی اس کے پیٹ میں نیزہ مار کر اس کو مار دیا گیا.آپ پر لوگوں کے ظلم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت دکھ دیتے تھے ، گوڈرتے بھی تھے کیونکہ آپ کے خاندان کی مکہ میں بہت عزت تھی.لوگ آپ کو گالیاں دیتے ، بعض دفعہ نماز میں جب آپ سجدہ کرتے تو سر پر اوجھری ڈال دیتے 10 کبھی سر پر راکھ پھینک دیتے.ایک دفعہ آپ سجدہ میں تھے کہ ایک شخص آپ کی گردن پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا اور دیر تک اس نے آپ کو اس طرح دبائے رکھا.ایک دفعہ آپ عبادت کے لئے خانہ کعبہ میں گئے تو آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹنا شروع کر دیا 11.مگر باوجود ان مخالفتوں کے آپ تبلیغ میں لگے رہتے اور ذرا پرواہ نہ کرتے.آپ کا تعلیم دینا جہاں بھی لوگ بیٹھے ہوتے آپ وہاں جا کر ان کو تعلیم دیتے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی ، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے.نہ زمین میں نہ آسمان میں، اس کا کوئی شریک نہیں.اس پر ایمان لانا چاہئے اور اس سے دعائیں مانگنی چاہئیں.وہ لطیف ہے اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا.اس میں سب طاقتیں ہیں.اسی نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور جب لوگ مر جاتے ہیں تو ان کی روحیں اسی کے پاس جاتی ہیں اور ایک زندگی ان کو دی جاتی ہے.اور چاہئے کہ اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کریں اور اس سے تعلق کو مضبوط کریں اور اس کے قریب ہونے کی خواہش کریں اور اپنے خیالات اور اپنی زبان کو پاک کریں.کوئی جھوٹ نہ بولے، قتل نہ کرے، فساد نہ کرے، چوری نہ کرے، ڈاکہ نہ مارے، عیب نہ لگائے ، طعنہ نہ دے، بد کلامی نہ کرے، ظلم نہ کرے، حسد نہ کرے اور اپنے وقت کو اپنے آرام اور

Page 258

سيرة النبي علم 244 جلد 2 عیاشی میں صرف نہ کرے بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور بہتری میں گزارے اور محبت اور اُنس کی اشاعت کرے.مشرکوں کی حالت کا نقشہ یہ تعلیم تھی جو آپ دیتے مگر باوجود اس کے کہ یہ تعلیم اعلیٰ درجہ کی تھی لوگ آپ پر ہنتے.مکہ کے لوگ سخت بت پرست تھے اور سینکڑوں بت بنا کر اپنے معبد میں رکھے ہوئے تھے جن کے سامنے وہ روزانہ عبادت کرتے تھے اور جن کے آگے باہر سے آنے والے لوگ نذرانے چڑھاتے تھے جن پر کئی معزز خاندانوں کا گزارہ تھا.ان لوگوں کے لئے ایک خدا کی عبادت بالکل عجیب تعلیم تھی وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کیوں انسان کی شکل میں کسی پتھر کے بت میں ظاہر نہیں ہوسکتا.وہ ایک نہ نظر آنے والے خدا کا تخیل ناممکنات سے سمجھتے تھے.پس جب وہ آپ کو دیکھتے ، ہنتے اور کہتے کہ دیکھو! اس شخص نے سب خداؤں کو اکٹھا کر دیا ہے کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ کئی خداؤں کے ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہتے ہیں کہ ایک ہی خدا ہے اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ انہوں نے اب سب خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک ہی بنا دیا ہے اور اپنی اس غلط فہمی کی بیہودگی کو آپ کی طرف منسوب کر کے خوب قہقہے لگاتے.بعث بعد الموت کا عقیدہ بھی ان کے لئے عجیب تھا.وہ ہنستے اور کہتے کہ یہ شخص خیال کرتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو پھر زندہ ہوں گے.حبشہ کو ہجرت کرنا جب مسلمانوں کی تکلیفیں بہت بڑھ بڑھ گئیں تو صحابہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اجازت دے دی کہ وہ حبشہ کو جو اُس وقت بھی ایک مسیحی حکومت تھی ہجرت کر کے چلے جاویں.چنانچہ اکثر مسلمان مرد و عورت اپنا وطن چھوڑ کر افریقہ کو چلے گئے.مکہ والوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا.بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیں تا کہ ہم ان کو سزا دیں.مسیحی بادشاہ بہت ہی منصف مزاج تھا جب اس کے پاس وفد پہنچا تو اس

Page 259

سيرة النبي ع 245 جلد 2 نے دوسرے فریق کا بھی بیان سننا پسند کیا اور مسلمان دربارِ شاہی میں بلائے گئے.واقعہ نہایت ہی درد ناک ہے.ہم قوموں کے ظلموں سے تنگ آ کر اپنے وطن کو خیر باد کہنے والے مسلمان ابی سینیا کے بادشاہوں کے دربار میں اس خیال سے پیش ہوتے ہیں کہ اب شاید ہم کو ہمارے وطن کو واپس کرایا جائے گا اور ظالم اہل مکہ اور بھی زیادہ ظلم ہم پر کریں گے.جب وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے پوچھا کہ تم میرے ملک میں کیوں آئے ہو؟ مسلمانوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ! ہم پہلے جاہل تھے اور ہمیں نیکی اور بدی کا کوئی علم نہ تھا، بتوں کو پوجتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید سے ناواقف تھے.ہر اک قسم کے برے کام کرتے تھے، ظلم، ڈاکہ قتل، بدکاری ہمارے نزدیک معیوب نہ تھے.اب اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مبعوث کیا، اس نے ہمیں ایک خدا کی پرستش سکھائی اور بدیوں سے ہمیں روکا، انصاف اور عدل کا حکم دیا، محبت کی تعلیم دی اور تقویٰ کا راستہ بتایا تب وہ لوگ جو ہمارے بھائی بند ہیں انہوں نے ہم پر ظلم کرنا شروع کیا اور ہم کو طرح طرح کے دکھ دینے شروع کئے ہم آخر تنگ آ کر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور تیرے ملک میں آئے ہیں.اب یہ لوگ ہمیں واپس لے جانے کے لئے یہاں بھی آگئے ہیں ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اپنے خدا کے پرستار ہیں.شاہِ حبشہ کا واپس کرنے سے اس تقریر کا بادشاہ پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا.مکہ انکار اور صحابہ کی مدد کرنا کے وفد نے درباریوں سے ساز باز کر کے پھر دوسرے دن بادشاہ کے سامنے وہی سوال پیش کیا اور کہا کہ یہ حضرت مسیح کو گالیاں دیتے تھے.بادشاہ نے پھر دوبارہ مسلمانوں کو بلایا.انہوں نے جو اسلام کی تعلیم مسیح کے متعلق ہے بیان کی کہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کا پیارا اور نبی مانتے ہیں.ہاں ہم انہیں کسی طرح بھی خدائی کے قابل نہیں جانتے کیونکہ ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ ایک ہے.اس بات پر درباری جوش میں آگئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کو سزا دے مگر بادشاہ

Page 260

سيرة النبي عمال 246 جلد 2 نے کہا کہ یہی میرا عقیدہ ہے اور اس عقیدہ کی وجہ سے ان لوگوں کو ظالموں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتا.پھر درباریوں سے کہا کہ مجھے تمہارے غصہ کی بھی پرواہ نہیں.میں خدا کو بادشاہت پر ترجیح دیتا ہوں 12.ہے اہل مکہ کا آپ کے پچھا کونگ کرنا اورال کے رسول کی یہ کہا ہے کو اور اہل مکہ نے رسول کریم ع زیادہ تکلیفیں دینی شروع کیں اور آکر آپ کے چچا کو جو مکہ کے بڑے رئیس تھے اور ان کی وجہ سے لوگ آپ کو زیادہ دکھ دینے سے ڈرتے تھے کہا کہ آپ کسی اور رئیس کا لڑکا اپنا لڑکا بنا لیں اور محمد ﷺ کو ہمارے حوالہ کر دیں تاہم اس کو سزا دیں.انہوں نے کہا یہ عجیب درخواست ہے تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے لڑکے کو لے کر اپنا مال اس کے حوالہ کر دوں اور اپنے لڑکے کو تمہارے حوالہ کر دوں کہ تم اسے دکھ دے دے کر مار دو؟ کیا کوئی جانور بھی ایسا کرتا ہے کہ اپنے بچہ کو مارے اور دوسرے کے لڑکے کو پیار کرے؟ جب اہل مکہ ناامید ہوئے تو انہوں نے درخواست کی کہ اچھا آپ اپنے بھتیجے کو یہ سمجھائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس قدر زور نہ دیا کرے اور یہ نہ کہا کرے کہ بتوں کی پرستش جائز نہیں اور جو کچھ چاہے کہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو ان کے چچانے بلا کر کہا کہ مکہ کے رؤسا ایسا کہتے ہیں کیا آپ ان کو خوش نہیں کر سکتے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ آپ کے مجھ پر بہت احسان ہیں مگر میں آپ کے لئے خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.اگر آپ کو لوگوں کی مخالفت کا خوف ہے تو آپ مجھ سے الگ ہو جائیں مگر میں اس صداقت کو جو مجھے خدا سے ملی ہے ضرور پیش کروں گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی قوم کو جہالت میں مبتلا دیکھوں اور خاموش بیٹھا رہوں 13.صلى الله تبلیغ توحید سے روکنے کی ایک اور کوشش جب اہل مکہ کو اس سے بھی امیدی ہوئی تو انہوں نے ایک رئیس کو اپنے میں سے چنا اور اس کی معرفت آپ کو کہلا بھیجا کہ آپ یہ بتائیں کہ

Page 261

سيرة النبي عل الله 247 جلد 2 ملک میں یہ فساد آپ نے کیوں مچا دیا ہے؟ اگر آپ کی یہ غرض ہے کہ آپ کو عزت مل جائے تو ہم سب شہر میں سے آپ کو معزز قرار دے دیتے ہیں.اگر مال کی خواہش ہے تو ہم سب شہر کے لوگ اپنے مالوں کا ایک ایک حصہ الگ کر کے دے دیتے ہیں جس سے آپ سارے شہر سے زیادہ امیر ہو جائیں گے.اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں.اگر شادی کی خواہش ہے تو جس عورت سے آپ چاہیں آپ کی شادی کرا دی جائے گی.مگر آپ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم نہ دیں 14.جس وقت وفد نے یہ پیغام آپ کو آ کر دیا آپ نے فرمایا کہ دیکھو! اگر سورج کو میرے ایک طرف اور چاند کو میرے دوسری طرف لا کر کھڑا کر دو یعنی یہ دنیا کا مال تو کیا ہے اگر چاند اور سورج کو بھی میرے قبضہ میں دے دو تب بھی میں اس تعلیم کو نہ چھوڑوں گا 15.مخالفین کا تبلیغ میں روکیں ڈالنا اور مقاطعہ کرنا اس وقت تک کل 80 آدمی رسول کریم علی پر ایمان لائے تھے مگر جب مکہ کے ظلموں کی خبر باہر پہنچی تو لوگوں نے تحقیقات کے لئے مکه آنا شروع کیا.اس پر اہل مکہ بہت گھبرائے اور انہوں نے شہر کی سڑکوں پر پہرے مقرر کر دیئے کہ کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل نہ سکے اور ارادہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں.اس پر آپ کے چا اور دیگر رشتہ دار آپ سمیت ایک وادی میں چلے گئے تا کہ آپ کی حفاظت کریں.پس جب اس طرح بھی کام چلتا نہ دیکھا تو سب اہل مکہ نے معاہدہ کر لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان اور تمام مسلمانوں کا مقاطعہ کیا جائے اور کوئی شخص ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز فروخت نہ کرے اور نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق کیا جائے اور نہ ان سے کبھی صلح کی جاوے جب تک وہ آپ کو قتل کے لئے نہ دے دیں.

Page 262

سيرة النبي عل الله 248 جلد 2 مکہ ایک اکیلا شہر ہے اس کے ارد گرد 40 میل تک اور کوئی شہر نہیں.پس یہ فیصلہ سخت تکلیف دہ تھا.مکہ والوں نے پہرے لگا دیے کہ کوئی شخص ان کے ہاتھ کوئی کھانے کی چیز فروخت نہ کرے.اور برابر تین سال تک اس سخت قید میں آپ کو رہنا پڑا.راتوں کے اندھیروں میں پوشیدہ طور پر جس قدر غلہ وہ داخل کر سکتے تھے کر لیتے مگر پھر بھی اس قدر نگرانی میں وہ لوگ کہاں تک انتظام کر سکتے تھے.بہت دفعہ کئی کئی دن جھاڑیوں کے پتے اور شاخوں کے چھلکے کھا کر ان کو گزارہ کرنا پڑتا تھا.ایک صحابی کہتے ہیں کہ اُن تکلیف کے دنوں میں سب کی صحبتیں خراب ہو گئیں اور بہت دست لگ گئے.ہفتہ نہیں، دو ہفتہ نہیں، تین سال متواتر وہ بہی خواہ بنی نوع انسان اپنے ماننے والوں کے ساتھ صرف اس لئے دکھ دیا گیا کہ وہ کیوں خدائے واحد کی پرستش اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے مگر اس نے ان تکالیف کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی.تین سال کی متواتر تکلیف کے بعد بعض رؤسائے مکہ کی انسانیت اس ظالمانہ فعل پر بغاوت کرنے لگی اور انہوں نے اس معاہدہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا گیا تھا چاک کر دیا 16 اور آپ اس وادی سے نکل کر باہر آ گئے مگر آپ کے بوڑھے چچا اور وفادار بیوی ان صدمات کے اثر سے نہ بچ سکے اور کچھ دنوں کے بعد فوت ہو گئے 17.اہل طائف کو تبلیغ اہل مکہ کی بے پروائی کو دیکھ کر آپ نے عرب کے دوسرے شہروں کی طرف توجہ کی اور طائف کے لوگوں کو خدائے واحد پرستش کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے.طائف مکہ سے 60 میل کے فاصلہ پر ایک پرانا شہر ہے.اس شہر کے لوگوں کو جب آپ نے خدا کا کلام سنایا تو وہ مکہ والوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے.پہلے انہوں نے گالیاں دیں پھر کہا کہ شہر سے نکل جاویں.جب آپ واپس آ رہے تھے تو بدمعاشوں اور کتوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا.پتھر پر پتھر چاروں طرف سے آپ پر پڑتے اور کتے پیچھے دوڑتے تھے ، سر سے

Page 263

سيرة النبي ع 249 جلد 2 پاؤں تک آپ خون سے تر بہ تر تھے.مگر اُس وقت اُن ظالموں کی نسبت جو خیالات آپ کے دل میں موجزن تھے وہ اِن الفاظ سے ظاہر ہیں جو اس سنگساری کے وقت آپ کی زبان پر جاری تھے.آپ خون اپنے جسم سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے خدا ! ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ میں جو کچھ ان لوگوں کو کہتا ہوں سچ اور درست ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اچھا سمجھ کر کر رہے ہیں اس لئے تو ان پر ناراض نہ ہو اور ان پر عذاب نازل نہ کر بلکہ ان کو سچائی کے قبول کرنے کی توفیق دے 18.تکلیف کے وقت میں کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ کہے گئے ہیں کیا ان سے بڑھ کر ہمدردی کی مثال کہیں مل سکتی ہے؟ حج کے موقع پر اہل مدینہ کا تعلیم حاصل کرنا کا چھپا نہیں رہتا.آپ کی تعلیم کی خبریں باہر مشہور ہوئیں اور میٹرب نامی ایک شہر کے لوگ ( جسے اب مدینہ کہتے ہیں ) حج کے لئے مکہ آئے تو آپ سے بھی ملے.آپ نے ان کو اسلام کی تعلیم دی اور ان کے دلوں پر الیسا گہرا اثر ہوا کہ انہوں نے واپس جا کر اپنے شہر کے لوگوں سے ذکر کیا اور 70 آدمی دوسرے سال تحقیق کے لئے آئے جو سب اسلام لے آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ ان کے شہر میں چلے جائیں مگر آپ نے اُس وقت ان کی بات پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا.ہاں وعدہ کیا کہ جب ہجرت کا موقع ہوگا آپ مدینہ تشریف لائیں گے.مدینہ کی طرف ہجرت جب اہل مکہ کو معلوم ہوا کہ اب باہر بھی آپ کی تعلیم پھیلنی شروع ہوئی ہے تو انہوں نے ہر قبیلہ میں سے ایک ایک آدمی چنا تا کہ سب مل کر آپ کو قتل کر دیں.اور یہ اس لئے کیا کہ اگر آپ کی قوم اس کو نا پسند کرے تو وہ سب قوموں کے اجتماع سے ڈر کر بدلہ نہ لے سکیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بتا دیا تھا.آپ اُسی رات مکہ سے نکل کر ابو بکر کو ساتھ لے کر

Page 264

سيرة النبي عالم 250 جلد 2 مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں کے لوگوں پر اسلام کی تعلیم کا ایسا اثر ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں قریباً سب مدینہ کے لوگ اسلام لے آئے اور آپ کو انہوں نے اپنا بادشاہ بنا لیا اور اس طرح وہ کونے کا پتھر جسے اس شہر کے معماروں نے رڈ کر دیا تھا مدینہ کی حکومت کا تاج بنا.اس ترقی کے زمانہ میں زمانہ ترقی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی آپ نے اپنا شغل تعلیم اور وعظ ہی رکھا اور اپنی سادہ زندگی کو کبھی نہیں چھوڑا.آپ کا شغل یہ تھا کہ آپ لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی تعلیم دیتے.اخلاق فاضلہ اور معاملات کے متعلق اسلامی احکام لوگوں کو سکھلاتے.پانچ وقت نماز خود آ کر مسجد میں پڑھاتے (مسلمانوں میں بجائے ہفتہ میں ایک مرتبہ عبادت کرنے کے پانچ دفعہ روز مسجد میں جمع ہو کر عبادت کی جاتی ہے ) جن لوگوں میں جھگڑے ہوتے آپ فیصلہ کرتے.ضروریات قومی کی طرف توجہ کرتے جیسے تجارت، تعلیم ، حفظان صحت وغیرہ.اور پھر غرباء کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے.حتی کہ جن لوگوں کے گھروں میں کوئی سود الا دینے والا نہ ہوتا ان کے لئے سودالا دیتے.پھر باوجود ان سب کاموں کے کبھی بچوں کے اندر قومی روح پیدا کرنے کے لئے ان میں جا کر شامل ہو جاتے اور ان کو ان کی کھیلوں میں جوش دلاتے.جب گھر میں داخل ہوتے تو اپنی بیویوں سے مل کر گھر کا کام کرنے لگتے اور جب رات ہوتی اور سب لوگ آرام سے سو جاتے تو آپ آدھی رات کے بعد اٹھ کر رات کی تاریکی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے یہاں تک کہ بعض مرتبہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جاتے 19.حضرت رسول اکرم ﷺ کی تعلیم کا خلاصہ جو مذہبی تعلیم آپ دیتے صلى الله.تھے اس کا خلاصہ یہ تھا:.(1) آپ اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے باقی

Page 265

سيرة النبي عل الله 251 جلد 2.جو کچھ بھی ہے خواہ فرشتے ہوں خواہ انسان سب اسی کی مخلوق ہے.یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ہتک ہے کہ وہ انسانوں کے جسم میں آ جاتا ہے یا اس سے کوئی اولاد ہوتی ہے یا وہ بتوں میں داخل ہو جاتا ہے وہ ان سب باتوں سے پاک ہے.وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے.جس قدر مصلح گزرے ہیں سب اس کے بندے تھے، کسی کو الوہیت کی طاقتیں حاصل نہ تھیں.سب کو اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور صرف اسی سے دعائیں مانگنی چاہئیں.اسی پر اپنے تمام کاموں کا بھروسہ رکھنا چاہئے.(2) یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانوں کو ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی اور اخلاقی اور تمدنی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے وہ ہمیشہ دنیا میں اس غرض کو جاری رکھنے کے لئے نبی بھیجتا رہا ہے اور ہر قوم میں بھیجتا رہا ہے.آپ اس امر کے سخت مخالف تھے کہ نبوت کو کسی ایک قوم میں محدود رکھا جاوے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ پر جانبداری کا الزام آتا ہے جس سے وہ پاک ہے اور دنیا کی ہر قوم کے نبیوں کی تصدیق کرتے تھے.(3) آپ اس امر پر زور دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ کی ضروریات کے مطابق اپنا کلام نازل کرتا رہا ہے.اور آپ کا دعویٰ تھا کہ آخری زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے اور اس بنا پر آپ قرآن کریم کو سب پہلی کتابوں سے مکمل سمجھتے تھے اور اس کی تعلیم کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے.(4) آپ کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی ہستی کا یقین دلانے کیلئے ہمیشہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور ان کے لئے نشان دکھاتا رہتا ہے اور آپ دعویٰ کرتے تھے کہ جو لوگ بھی آپ کی تعلیم پر عمل کریں گے وہ اپنے تجربہ سے ان باتوں کی صداقت معلوم کر لیں گے.اور میں اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل درست ہے.اور میں نے خود بھی اسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنی ہیں جس طرح موسیٰ اور مسیح کے زمانہ کے لوگ سنتے تھے اور خدا تعالیٰ نے کئی دفعہ مجھے ایسے نشان دکھائے ہیں جو انسانی طاقت سے بالا تھے.

Page 266

سيرة النبي عمال 252 جلد 2 (5) آپ کہتے تھے کہ بچے مذہب کی علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی زندگی کے سامان کرتا ہے اور فرماتے تھے کہ اسلام کو انسانی خیالات کی تعدی سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبی بھیجتا رہے گا جو اس کی حفاظت کریں گے.چنانچہ ابھی ایک نبی احمد ہندوستان میں اسی غرض سے ظاہر ہوا ہے اور میں اس کا خلیفہ ہوں اور میرے ساتھی اس کی جماعت میں سے ہیں.(6) آپ فرماتے تھے کہ باوجود مذہبی اختلافات کے لوگوں کو آپس میں محبت سے رہنا چاہئے اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے جھگڑنا نہیں چاہئے کیونکہ اگر کسی کے پاس سچائی ہے تو اسے لڑنے کی کیا ضرورت ہے وہ سچائی کو پیش کرے خود ہی لوگ متاثر ہوں گے.چنانچہ آپ اپنی مسجد میں عیسائیوں کو بھی عبادت کرنے کی اجازت دیتے تھے اور یہ ایسی وسیع حوصلگی ہے کہ اُس وقت کے لوگ تو الگ رہے آجکل کے لوگ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتے.(7) آپ اس امر پر بہت زور دیتے تھے کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں.ایک روحانی اور ایک جسمانی.اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ایسے وابستہ ہیں کہ الگ نہیں ہو سکتے.جسمانی حصہ روحانی حصہ پر اثر ڈالتا ہے اور روحانی جسمانی پر.پس آپ کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ بغیر دلی پاکیزگی کے ظاہری عبادتیں فائدہ نہیں دے سکتیں اور یہ بھی کہ ظاہری عبادتوں کے بغیر خیالات کی بھی تربیت نہیں ہو سکتی.اس لئے کامل تربیت کے لئے انسان کو دونوں باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.(8) آپ انسان کی اخلاقی طاقتوں کے متعلق یہ تعلیم دیتے تھے کہ سب انسان پاک فطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں اور جو خرابی پیدا ہوتی ہے وہ پیدائش کے بعد غلط تعلیم یا تربیت سے پیدا ہوتی ہے.پس آپ بچوں کی نیک تربیت اور اعلی تعلیم پر خاص طور پر زور دیتے تھے.

Page 267

سيرة النبي عالي 253 جلد 2 (9) آپ اس امر پر بھی زور دیتے تھے کہ اخلاق کی اصل غرض انسان کی اپنی اور دوسرے لوگوں کی اصلاح ہے پس اخلاق فاضلہ وہی ہیں جس سے انسان کا نفس اور دوسرے لوگ پاکیزگی حاصل کریں.پس آپ کبھی تعلیم کے ایک پہلو پر زور نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ ہر چیز کے سب پہلوؤں کو بیان کرتے تھے.مثلاً یہ نہیں کہتے تھے کہ نرمی کرو، عفو کرو بلکہ یہ فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص تم کو تکلیف دے تو یہ سوچو کہ اس شخص کی اصلاح کس بات میں ہے.اگر وہ شخص شریف الطبع ہے اور معاف کرنے سے آئندہ ظلم کی عادت کو چھوڑ دے گا اور اس نمونہ سے فائدہ حاصل کرے گا تو اسے معاف کر دو.اور اگر یہ دیکھو کہ وہ شخص بہت گندہ ہو چکا ہے اور اگر تم اسے معاف کرو گے تو وہ یہ سمجھ لے گا کہ اس شخص نے مجھ سے ڈر کر مجھے سزا نہیں دی یا نہیں دلوائی اور اس وجہ سے وہ بدی پر دلیر ہو جائے گا اور اور لوگوں کو بھی دکھ دے گا تو اسے اس کے مُجرم کے مطابق سزا دو.کیونکہ ایسے شخص کو معاف کرنا دوسرے ناکردہ گناہ لوگوں پر ظلم ہے جو ایسے شخص کے ہاتھ سے تکلیف اٹھا رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکتے ہیں.(10) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ کبھی کسی دوسری حکومت پر حملہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ جنگ صرف بطور دفاع کے جائز ہے اور اُس وقت بھی اگر دوسرا فریق اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر صلح کرنا چاہے تو صلح کر لینی چاہئے.(11) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ انسان کی روح مرنے کے بعد ترقی کرتی چلی جاوے گی اور کبھی فنا نہ ہو گی حتیٰ کہ گنہگار لوگ بھی ایک مدت اپنے اعمال کی سزا بھگت کر خدا کے رحم سے بخشے جائیں گے اور دائمی ترقی کی سڑک پر چلنے لگیں گے.کفار کی مدینہ پر چڑھائی اہل مکہ نے جب دیکھا کہ مدینہ میں آپ کو اپنی تعلیم کے عام طور پر پھیلانے کا موقع مل گیا ہے اور لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگے ہیں تو انہوں نے متواتر مدینہ پر چڑھائیاں کرنی شروع کیں مگر ان لشکر کشیوں کا نتیجہ بھی ان کے حق میں برا نکلا اور

Page 268

سيرة النبي الله 254 جلد 2 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے بھی برتری ثابت ہوئی کیونکہ گو بڑی بڑی تیاریوں کے بعد مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا اور مسلمان ہر دفعہ تعداد میں ان سے کم تھے ، عموماً ایک مسلمان تین اہل مکہ کے مقابلہ پر ہوتا تھا مگر پھر بھی غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور اہل مکہ کو شکست ہوئی.بعض دفعہ بے شک مسلمانوں کو عارضی تکلیف بھی پہنچی مگر حقیقی معنوں میں کبھی شکست نہیں ہوئی.اور ان لشکر کشیوں کے دو نتیجے نکلے.ایک تو یہ کہ بجائے اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تباہ ہوتے آپ سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے اور دوسرے یہ کہ ان لڑائیوں میں آپ کو کئی ایسے اخلاق دکھانے کا موقع ملا جو بغیر جنگوں کے مخفی رہتے اور اس سے آپ کی اخلاقی برتری ثابت ہو گئی.اسی طرح یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ آپ نے کیسی وفاداری اور قربانی کی روح ایک مُردہ قوم میں پھونک دی تھی.جنگ احد کا دردناک واقعہ چنانچہ مثال کے طور پر میں احد کی جنگ کا واقعہ بیان کرتا ہوں.مدینہ آنے کے تین سال بعد کفار نے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے مدینہ پر حملہ کیا.مدینہ مکہ سے 200 میل کے فاصلہ پر ہے.دشمن اپنی طاقت پر ایسا نازاں تھا کہ مدینہ تک حملہ کرتا ہوا چلا آیا اور مدینہ سے 8 میل پر احد کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو روکنے کے لئے گئے.آپ کے ساتھ ایک ہزار سپاہی تھے.آپ نے جو احکام دیئے اس کے سمجھنے میں ایک دستہ فوج سے غلطی ہوئی.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو پہلے فتح ہو چکی تھی دشمن پھر لوٹ پڑا اور ایک وقت ایسا آیا کہ دشمن نے زور کر کے مسلمانوں کو اس قدر پیچھے دھکیل دیا کہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کے نرغے میں رہ گئے.آپ نے جرات اور دلیری کا یہ نمونہ دکھایا کہ باوجود اس کے کہ اپنی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی مگر آپ پیچھے نہ ہٹے اور دشمن کے مقابلہ پر کھڑے رہے.جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہے اور

Page 269

سيرة النبي علم 255 جلد 2 وہیں کھڑے ہیں تو انہوں نے یک دم حملہ کر کے آپ تک پہنچنا چاہا لیکن صرف چودہ آدمی آپ تک پہنچ سکے.اُس وقت ایک شخص نے ایک پتھر مارا اور آپ کا سر زخمی ہو گیا اور آپ بے ہوش ہو کر نیچے گر گئے اور آپ کو بچاتے ہوئے کئی اور مسلمان قتل ہو کر آپ پر جا گرے اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں 20.وہ لوگ ایک عاشق کی طرح تھے کئی لوگ میدان جنگ ہی میں ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے اور رونے لگے.ایک مسلمان جس کو اس امر کا علم نہ تھا وہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید ہو گئے ہیں.اس نے کہا تو آؤ! اس سے بڑھ کر لڑنے کا موقع کب ہوگا ؟ جہاں وہ ہمارا محبوب گیا ہے و ہیں ہم جائیں گے.یہ کہہ کر تلوار ہاتھ میں لے کر دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑا اور آخر مارا گیا.جب اس کی لاش کو دیکھا گیا تو 70 زخم اس پر لگے تھے 21.ایک وفادار صحابی کا واقعہ جو لوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے جب آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے سے نکالا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.اُس وقت پھر لشکر اسلام جمع ہونا شروع ہو گیا اور دشمن بھاگ گیا.اُس وقت ایک مسلمان سپاہی اپنے ایک رشتہ دار کو نہ پا کر میدان جنگ میں تلاش کرنے لگا.آخر اسے میدان جنگ میں اس حالت میں پایا کہ اس کی دونوں لاتیں کئی ہوئی تھیں اور سب جسم زخمی تھا اور اس کی آخری حالت معلوم ہوتی تھی.اس کو دیکھتے ہی اس زخمی نے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ آپ خیریت سے ہیں.یہ بات سن کر اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور اس نے کہا کہ اب میں خوشی سے جان دوں گا.پھر اس عزیز کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میری ایک امانت صلى الله ہے وہ میرے عزیزوں کو پہنچا دینا اور وہ یہ ہے کہ ان سے کہنا کہ محمد رسول اللہ علی خدا تعالیٰ کی امانت ہے اس کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے.دیکھنا اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرتا.اور یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے جان دے دی 22.

Page 270

سيرة النبي علي 256 جلد 2 ایک وفادار مومن عورت کا واقعہ یہ تو مردوں کی وفاداری کا حال ہے عورتیں بھی اس سے کم نہ تھیں.مدینہ میں بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں اور سب عورتیں اور بچے شہر سے نکل کر میدان جنگ کی طرف گھبرا کر چل پڑے تھے.اتنے میں ان کو اسلامی لشکر ملا جو خوشی آپ سمیت واپس لوٹ رہا تھا.ایک عورت نے ایک سپاہی سے آگے بڑھ کر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اسے چونکہ معلوم تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس نے اس کی پرواہ نہ کی اور اسے کہا کہ تیرا باپ مارا گیا ہے.اس عورت نے کہا کہ میں تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھتی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پوچھتی ہوں.اس نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور کہا کہ تیرے دونوں بھائی بھی مارے گئے ہیں.اس نے پھر چڑ کر کہا کہ میں تجھ سے بھائیوں کے متعلق نہیں پوچھتی.اس نے کہا کہ وہ تو خیریت سے ہیں.اس پر اس عورت نے کہا کہ الْحَمْدُ لِلهِ اگر آپ زندہ ہیں تو سب دنیا زندہ ہے.مجھے پرواہ نہیں کہ میرا باپ مارا گیا ہے یا میرے بھائی مارے گئے ہیں 23.یہ اخلاص اور یہ محبت اس کامل نمونہ کے بغیر جو آپ نے دکھایا اور اس گہری محبت کے بغیر جو آپ کی بنی نوع انسان سے تھی کس طرح پیدا ہو سکتا اسی طرح ایک دفعہ اسلامی لشکر ایک رسول کریم ﷺ کی استقامت اور پہاڑی میں سے گزر رہا تھا جس کے صحابہؓ کی بطور نمونہ ایک اور مثال دونوں طرف دشمن کے تیر انداز چھپے ہوئے تھے.مسلمانوں کو اس جگہ کا علم نہ تھا.ایک تنگ سڑک درمیان سے گزرتی تھی.جب اسلامی لشکر عین درمیان میں آگیا تو دشمن نے تیر مارنے شروع کئے.اس اچانک حملہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ گھوڑے اور اونٹ ڈر کر دوڑ پڑے اور سوار بے قابو ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار ہزار دشمن تیر اندازوں کے اندر صرف 16 آدمیوں

Page 271

سيرة النبي الله 257 جلد 2 سمیت رہ گئے باقی سب لشکر پراگندہ ہو گیا.آپ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.جو ساتھی باقی رہ گئے تھے وہ گھبرا گئے اور اتر کر آپ کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں اور کہا حضور ! اس وقت دشمن فاتحانہ بڑھا چلا آ رہا ہے، اسلامی لشکر بھاگ چکا ہے، آپ کی جان پر اسلام کا مدار ہے پیچھے بیٹے تا کہ اسلامی لشکر کو جمع ہونے کا موقع ملے.آپ نے فرمایا کہ میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور پھر بلند آواز سے کہا میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں 24، کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے.یہ کہہ کر دشمن کے لشکر کی طرف ان 16 آدمیوں سمیت بڑھنا شروع کیا جو آپ کے ساتھ رہ گئے تھے مگر دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچا سکا.پھر آپ نے ایک شخص کو جو بلند آواز والا تھا کہا کہ بلند آواز سے کہو کہ اے اہل مدینہ ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.ایک مائی کہتا ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ اُس وقت سخت ڈرے ہوئے تھے اور بھاگے جاتے تھے ہم ان کو واپس موڑتے تھے اور وہ مڑتے نہ تھے.جس وقت یہ آواز آئی اُس وقت یکدم ہماری حالت ایسی ہو گئی گویا ہم مُردہ ہیں اور خدا کی آواز ہمیں بلاتی ہے.وہ کہتا ہے کہ اس آواز کے آتے ہی میں بے تاب ہو گیا.میں نے اپنے اونٹ کو واپس لے جانا چاہا مگر وہ باگ کے کھینچنے سے دُہرا ہو جاتا تھا مگر مڑتا نہ تھا.میرے کان میں یہ آواز گونج رہی تھی کہ خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.جب میں نے دیکھا کہ اونٹ مجھے دور ہی دور لئے جاتا ہے تو میں نے تلوار نکال کر اس کی گردن کاٹ دی اور پیدل دیوانہ وار اس آواز کی طرف بھاگ پڑا اور بے اختیار کہتا جاتا تھا کہ حاضر ہوں حاضر ہوں 25.وہ کہتا ہے کہ یہی حال سب لشکر کا تھا.جو سواری کو موڑ سکا وہ اس کو موڑ کر آپ کے پاس آ گیا اور جو سواری کو نہ موڑ سکا وہ سواری سے کود کر پیدل دوڑ پڑا.جو یہ بھی نہ کر سکا اس نے سواری کو قتل کر دیا اور آپ کی طرف دوڑ پڑا.اور چند ہی منٹ میں سب لوگ اسی طرح آپ کے گرد جمع ہو گئے جس طرح کہ کہتے ہیں کہ مُردے اسرافیل کے صور پر قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے.

Page 272

سيرة النبي عالم 258 جلد 2 جنگ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات آپ لڑائی میں ہمیشہ تاکید کرتے تھے کہ مسلمان کبھی پہلے خود حملہ نہ کرے ہمیشہ دفاعی طور پر لڑے.اور یہ کہ عورتوں کو نہ ماریں، بچوں کو نہ ماریں ، پادریوں کو نہ ماریں ، بوڑھے اور معذوروں کو نہ ماریں ، جو ہتھیار ڈال دیں ان کو نہ ماریں، درخت نہ کاٹیں، عمارتیں نہ گرائیں، قصبوں اور گا ؤں کو نہ ٹوٹیں اور اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی نے ایسی غلطی کی ہے تو اس پر سخت ناراض ہوتے 26.فتح مکہ کے بعد حضور اللہ کا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہل مکہ پر تھی تو یا مکہ کے لوگ کانپ رہے تھے کہ اب نہ معلوم سلوک اپنے دشمنوں سے ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا.مدینہ کے لوگ جنہوں نے خودان تکلیفوں کو نہ دیکھا تھا جو آپ کو دی گئیں مگر دوسروں سے سنا تھا وہ آپ کی تکلیف کا خیال کر کے ان لوگوں کے خلاف جوش میں بھرے ہوئے تھے.مگر آپ جب مکہ میں داخل ہوئے تو سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو! آج میں اُن سب قصوروں کو جو تم نے میرے حق میں کئے ہیں معاف کرتا ہوں تم کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی 27.اگر جنگیں نہ ہوتیں اور آپ کو بادشاہت نہ ملتی تو آپ کامل نمونہ کس طرح دکھاتے اور انسانی اخلاق کے اس پہلو کو کس طرح دکھاتے.اخلاق کے دونوں پہلوؤں کا ذکر غرض کہ جنگوں نے بھی آپ کے اخلاق کے ایک پہلو پر سے پردہ اٹھایا اور آپ کی صلح اور امن سے محبت اور آپ کے رحم کو ظاہر کیا کیونکہ سچا رحم کرنے والا اور عفو کرنے والا وہی ہے جسے طاقت ملے اور وہ رحم کرے.اور سچائی وہی ہے جسے دولت ملے اور وہ اسے تقسیم کرے.آپ کو خدا تعالیٰ نے ظالم بادشاہوں پر فتح دی اور آپ نے ان کو معاف کر دیا.آپ کو اس نے بادشاہت دی اور آپ نے اس بادشاہت میں

Page 273

سيرة النبي علي 259 جلد 2 بھی غربت سے گزارہ کر کے اور سب مال حاجت مندوں میں تقسیم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپ غرباء کی خبر گیری کی تعلیم اس لئے نہیں دیتے تھے کہ آپ کے پاس کچھ تھا نہیں بلکہ آپ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے.مرض الموت میں آپ کی آخری نصیحت آپ نے زندگی کے ہر ایک لحہ کو خدا کے لئے تکلیف اٹھانے میں خرچ کیا ہے اور گویا آپ روز ہی خدا کے لئے مارے جاتے تھے.63 سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور بیماری کی حالت میں بھی آپ کو یہی خیال تھا کہ کہیں لوگ میرے بارے میں شرک نہ کرنے لگیں.چنانچہ بیماری موت میں آپ بار بار گھبرا کر فرماتے تھے کہ خدا برا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت کی جگہ بنا لیا ہے.یعنی ان نبیوں کو الوہیت کی صفات دے کر ان سے دعائیں وغیرہ مانگتے تھے 28.جس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان ایسا نہ کریں.اسی طرح شرک کی تردید کرتے ہوئے آپ اپنے پیدا کرنے والے سے جاملے.صلى الله باوجود اس کے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان محمد ﷺ کی پرستش آپ کی بعثت کا نتیجہ کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ شرک مٹانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.انہوں نے اپنی سب عمر اسی کام میں خرچ کی ہے اور دنیا میں جو خیالات توحید کے نظر آتے ہیں وہ سب ان کی اور ان کے متبعین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہیں.“ رسول کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیم مطبوعہ 1924ء) 1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 229 تا 231 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 2: بخاری کتاب التفسير تفسیر اقرأ باسم ربک صفحہ 886 حدیث نمبر 4953 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3:بخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي صفحه 1 ،2 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 274

سيرة النبي علي 260 جلد 2 4: السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 448 449 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 5: الاصابة في تمييز الصحابة الجزء الثاني صفحه 457 مطبوعہ بیروت 1995ء 6 تفسیر قرطبی جلد 13 صفحہ 328 مطبوعہ بیروت 1985ء :7 بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الشعراء باب وانذر عشیرتک الاقربین صفحہ 836 حدیث نمبر 4770 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 8: اسد الغابة جلد 5 صفحہ 471 مطبوعہ بیروت 2006ءالطبعة الاولى و: اسد الغابة جلد 5 صفحه 470 ، 471 مطبوعہ بیروت 2006ء الطبعة الاولى 10 : بخارى كتاب مناقب الانصار باب مالقى النبي الا اللهم صفحہ 646 حدیث نمبر 3854 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية الله 11:بخاری کتاب مناقب الانصار باب مالقى النبي الله صفحه 747 حدیث نمبر 3856 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :12 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 370 تا 387 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 13 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312 313 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 14 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 341 تا 343 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الأولى 15 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى :16 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 426 تا 429 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى :17 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 470 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 18 مسلم كتاب الجهاد باب مالقى النبي و صفحہ 800 ، 801 حدیث نمبر 4653 مطبوعہ ریاض 801،800 2000ء الطبعة الثانية ( مفهوما ) صلى الله 19: بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفرلک ذنبک صفحہ 856 حدیث نمبر 4837 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية الله ما تقدم من 20: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 862 زیر عنوان بلاء قتادة وحديث عينه

Page 275

سيرة النبي علي مطبوعہ دمشق 2005 ء 261 جلد 2 21 بخارى كتاب الجهاد باب قول الله عزوجل من المؤمنين صفحه 464 465 حدیث نمبر 2805 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 22 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 875 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 23:السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثاني صفحه 880 زیر عنوان شأن المرأة الدينارية مطبوعہ دمشق 2005 ء 24: مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين صفحه 789، 790 حدیث نمبر 12 46 تا 4616 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 25: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحہ 1240 زیر عنوان رجوع الناس بنداء العباس مطبوعہ دمشق 2005 ء 26: مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 615 حدیث نمبر 16088 مطبوعہ لا ہور 27 : السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 207 ، 208 زیر عنوان فتح مكة شرفها الله تعالى مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء 28:بخاری کتاب المغازی باب مرض النبى الله ووفاته صفحه 755 حدیث نمبر 4441 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 276

سيرة النبي الله 262 جلد 2 رسول کریم ﷺ کو تین چیزیں بہت پسند تھیں 1924ء میں جب حضرت مصلح موعود سفر یورپ سے واپس تشریف لائے تو 24 نومبر 1924ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں بعد نماز عصر حضرت مولانا شیر علی صاحب کے سپاس نامہ کے جواب میں آپ نے تین چیزوں کا ذکر فرمایا جو رسول کریم ﷺ کو بہت پسند تھیں فرمایا :.اب دیکھو خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا بندوں کو حکم ہے مگر خدا تعالیٰ یہی نہیں کہتا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کی مخلوق سے بھی محبت کرو اور رسول کریم می فخر کرتے ہیں کہ تین چیزیں مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں اور ان سے میں محبت کرتا ہوں.چنانچہ فرماتے ہیں حُبّبَ إِلَى مِنْ دُنيَاكُمْ ثَلاتُ الطَّيِّبُ وَالنِّسَاءُ وَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة 1.کہ مجھے ایک تو خوشبو کی محبت ہے، ایک عورتوں کی اور ایک نماز کی.اب اگر غور سے دیکھا جائے تو ان تین چیزوں کی کامل محبت رسول کریم علی میں پائی جاتی ہے اور اس قدر پائی جاتی ہے کہ اس کی نظیر اسلام کے سوا اور کسی مذہب میں نہیں ملتی.طبیب سے مراد خوشبو اور صفائی ہے اور نبی کریم ﷺ سے پہلے کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں صفائی پر اس قدر زور دیا گیا ہو جس قدر اسلام نے دیا ہے.پہلے مذاہب میں یہی کمال سمجھا جاتا تھا کہ انسان میلا اور گندا رہے.آج تک کئی پادری ناخن تک نہیں اُتر واتے اور جتنی زیادہ غلاظت ان کے ناخنوں میں ہو اتنے ہی زیادہ خدا رسیدہ سمجھے جاتے ہیں وہ سالہا سال تک نہاتے نہیں.لیکن محمد علیہ فرماتے ہیں طیب یعنی صفائی نہایت ضروری ہے اور اس بات کو آپ نے ہی قائم فرمایا اور اس صلى الله

Page 277

سيرة النبي عالم 263 جلد 2 سے محبت کرتے تھے.پھر فرماتے ہیں مجھے عورتوں کی محبت ہے.یہاں نساء کا لفظ ہے ازواج کا نہیں.یعنی بیویوں کا ذکر نہیں بلکہ عام عورتوں کا ذکر ہے.اور آپ فرماتے ہیں کہ کوئی مذہب نہیں آیا جس نے عورتوں کے حقوق اور فوائد کی اس طرح نگہداشت کی ہو جس طرح میں کرتا ہوں.پہلے مذاہب نے عورتوں کے حقوق دبائے ہوئے ہیں کوئی ان سے ہمدردی نہیں کرتا مگر میں ان کے حقوق قائم کروں گا اور میں ان کی ترقی کا بھی اسی طرح خیال رکھوں گا جس طرح مردوں کی ترقی کا.پھر فرمایا قُرَّةُ عَيْنِى فِى الصَّلوة کہ نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے.یہ بھی خاص امتیاز ہے جو اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلہ میں حاصل ہے.دنیا میں کوئی قوم نہیں جس میں نماز کی طرح عبادت میں باقاعدگی رکھی گئی ہو.پچھلے تمام مذاہب ظاہری حرکات پر زور دیتے رہے یا ان میں عبادت کے اوقات اتنے فاصلہ پر رکھے گئے ہیں کہ روحانیت کمزور ہو جاتی ہے مگر صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے کہ جس کے ماننے والوں کو ایک دن میں پانچ وقت عبادت کے لئے بلایا جاتا ہے اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے.عیسائی اور ہندو ہفتہ میں ایک بار عبادت کے لئے جاتے ہیں.ممکن ہے ان میں سے بعض لوگ رات دن عبادت کرتے ہوں مگر یہ اجتماعی عبادت کا ذکر ہے.ایک دن میں کئی بار عبادت کرنے کا حکم رسول کریم نے ہی دیا ہے.پھر صلوٰۃ کے معنی دعا کے بھی ہیں اور اس طرح رسول کریم ﷺ نے دعا پر زور دیا ہے.دوسرے مذاہب کی عبادتوں میں ظاہری باتوں پر زور دیا گیا ہے اور ان کے ذریعہ عبادت میں لذت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.مثلاً آریوں اور عیسائیوں میں گانا بجانا ہوتا ہے مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مجھے ایسی عبادت عطا ہوئی ہے کہ اسی میں لذت ہے اور ایسی لذت ہے جس کا کوئی مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا.پس یہ محبت ہے جو رسول کریم ﷺ کو دی گئی.اب کیا رسول کریم ﷺ خوشبو ، عورتوں اور صلوٰۃ سے محبت کرنے کی وجہ سے ( نَعُوذُ بِاللهِ) مشرک ہو گئے تھے؟ ہرگز الله صلى الله

Page 278

سيرة النبي عمال 264 جلد 2 نہیں.بات یہ ہے کہ محبت ایسی چیز ہے جو مشترک رکھی گئی ہے اور نہ صرف یہ پسند کیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ محبت کرو.حتی کہ یہ مومن کے لئے نشان رکھا گیا ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے پسند کرے جس کے معنی یہ ہیں کہ سب سے محبت کرے.پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو تا کہ محبت بڑھے 2.تو محبت کا پیدا کرنا اسلام کی اغراض میں سے ہے اور اس کے متعلق اعتراض حقیقت سے دور ہے.ایسا اعتراض کوئی سمجھدار اور تعلیم یافتہ انسان کس طرح کرسکتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ حسد سب کچھ کرا لیتا ہے.وہ کچھ اور تو کر ہی نہیں سکتا اس لئے وہ اعتراض کر کے اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے.“ ( الفضل 4 دسمبر 1924ء) 1 : نسائى كتاب عشرة النساء باب حب النساء صفحہ 469 حدیث نمبر 3391 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الأولى حبب الى من الدنيا النساء والطيب و جعلت قرة عيني في الصلوۃ.“ کے الفاظ ہیں.2 كنز العمال جلد 6 صفحہ 110 حدیث نمبر 15055 مطبوعہ دمشق 2012ء

Page 279

سيرة النبي الله 265 جلد 2 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کی کیفیت 13 دسمبر 1924ء کو حضرت مصلح موعود نے مسجد اقصیٰ میں ایک پُر درد خطاب فرمایا جس میں رسول کریم ﷺ کی سیرت کے حوالہ سے یہ بات بیان فرمائی کہ ہموم و عموم میں حضور کی کیا کیفیت ہوتی تھی.فرمایا:.وو صلى اللهعمه حدیث میں آتا ہے جب رسول اللہ علیہ کے چا فوت ہوئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.آپ کو کہا گیا کہ اپنے چا کو دیکھ لیں مگر آپ نے جواب دیا کہ میں ان کی اس حالت کو دیکھ نہیں سکتا.یہ وہ شخص ہے جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ صلى الله ہے.پھر حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم عہ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ایسے غمگین رہے کہ اس کے بعد بارہ سال تک آپ زندہ رہے.اس عرصہ میں جب کبھی حضرت خدیجہ کا آپ ذکر فرماتے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جایا کرتے تھے.جب آپ اس کے کسی رشتہ دار کو دیکھ لیتے تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی.اور جب ان کی سہیلیوں کو دیکھتے تو بھی آپ بے اختیار ہو جاتے.حتی کہ آپ کی دوسری بیویوں میں رشک پیدا ہو جاتا اور حضرت عائشہ فرماتیں کہ آپ اس بڑھیا کو یا دکر کے کیوں اتنا بیتاب ہو جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تم نہیں جانتیں کہ اس نے کتنی خدمت اور فرمانبرداری میری مشکلات کے وقت میں کی 1.پھر ایک دفعہ نبی کریم ﷺ اپنے نواسہ پر روئے تو ایک جاہل نے آپ کو کہہ دیا رسول ہو کر پھر روتے ہیں تو حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے شقی القلب نہیں بنایا.تجھے اگر شقاوت حاصل ہے تو نہ رویا کر2.

Page 280

سيرة النبي عالم 266 جلد 2 ایک دفعہ حضرت عائشہ سخت بیمار ہوئیں اور بیماری کی شدت کے باعث آہ آہ کرنے لگیں.تو آپ نے ایک رنگ میں ان کو ایسا کرنے سے منع فرمایا.لیکن حضرت عائشہ نے ذرا غصہ سے کہا کہ آپ کو کیا، میں مر جاؤں گی تو آپ اور شادی کرلیں گے.اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا! اگر تم ایسا کہتی ہو تو میں ہی پہلے مروں گا 3.چنانچہ آپ کا اُس وقت کا یہ کہا ہوا پورا ہو گیا اور آپ کی وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پہلے ہوئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا ہمیشہ غم رہا.پھر جب حضرت جعفر شہید ہوئے تو تقریر کرتے ہوئے آپ کی گالوں پر تار تار آنسو جاری تھے اور آپ نے فرمایا کہ جعفر شہید ہو گئے اور اب زید نے علم اٹھایا ہے.پھر فرمایا اب زیڈ شہید ہو گئے اور یہاں تک کہ پھر سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ نے علم اٹھایا اور دشمنوں کو شکست ہو گئی 4.جب جنگ سے خبر آئی کہ فلاں فلاں شخص شہید ہوئے ہیں تو ان کے رشتہ دار اپنے گھروں میں روتے تھے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آہ! جعفر پر رونے والا بھی کوئی نہیں.بعض نادان عورتوں نے حکم سمجھ کر ان کے گھر میں جا کر پیٹنا شروع کر دیا.حضرت حمزہ کی شہادت پر برابر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور تھمتے نہیں تھے.ان کی وفات کے سالہا سال بعد جب ان کا قاتل وحشی آپ کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا تو بے شک مسلمان ہے اور میں تجھے معاف کرتا ہوں لیکن میرے سامنے نہ آیا کر میں تجھے دیکھ نہیں سکتا.حالانکہ وحشی ہی وہ شخص تھا جو عین لشکر کفار کے قلب میں اُس وقت گھس گیا جبکہ باقی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی اور لوگ اس کو بھی پیچھے ہٹنے کے لئے کہہ رہے تھے لیکن اس نے کہا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا.جب تک میں حضرت حمزہ کے قتل کے عوض میں کسی بڑے کا فر سردار کو نہ قتل کروں گا اُس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا.چنانچہ اس نے اُس وقت مسیلمہ کو قتل کر دیا.یہ اس کے ایمان اور اخلاص کا حال تھا مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو میرے سامنے نہ آیا کر میں تجھے

Page 281

سيرة النبي الله 66 نہیں دیکھ سکتا 5.“ 267 ( الفضل 3 جنوری 1925ء) جلد 2 1 بخاری کتاب مناقب الانصار باب ترويج النبي خديجة وفضلها رضى الله تعالى عنها صفحہ 641 حدیث نمبر 3818 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية صلى الله 2:بخاری كتاب الجنائز باب قول النبي علا يعذب الميت صفحہ 205 حدیث نمبر 1284 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3:بخارى كتاب المرضى باب مارخص للمريض صفحه 1003 حدیث نمبر 5666 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4:بخاری کتاب المغازى باب غزوة موتة صفحه 722 حدیث نمبر 4262 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5: بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ صفحہ 689 حدیث نمبر 4072 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 282

سيرة النبي عالم 268 جلد 2 کفار کی ہدایت کے لئے رسول کریم ﷺ کی تڑپ 25 اپریل 1925ء کو قادیان میں خطبہ عید الفطر میں حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.پس کامیابیوں اور فتوحات کے ساتھ جو غم اور تکالیف ہوتی ہیں ان میں بھی لذت ہوتی ہے.اور وہ قوم جو خدا کی ہو جاتی ہے وہ بھی غموں میں مبتلا ہوتی ہے بلکہ دوسروں سے بہت زیادہ مبتلا ہوتی ہے کیونکہ اس کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اسے بہت بڑی خوشی اور فرحت بھی ہوتی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متعلق فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 1 تجھے دنیا کے کفر پر اتناغم ہے کہ قریب ہے تو اس غم سے ہلاک ہو جائے.گویا خدا تعالیٰ غم کو چھری تصور کر کے فرماتا ہے کہ وہ کاٹتے کاٹتے گردن کے پچھلے چھڑے تک چلی گئی ہے.لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر رسول کریم ﷺ کو ساری دنیا کی بادشاہت دے کر کہا جاتا کہ آپ اس غم کو جانے دیں تو آپ اسے تسلیم کر لیتے ؟ ہرگز نہیں.اگر ایسا ہوتا تو اس سے رسول کریم کو سخت غصہ آتا.1: الشعراء: 4 ( الفضل 5 مئی 1925ء)

Page 283

سيرة النبي الله 269 جلد 2 جنگ بدر میں رسول کریم علیہ کا ایک معجزہ اوائل جولائی 1925 ء میں حضرت مصلح موعود نے ایک تقریر فرمائی جو مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت“ کے عنوان سے شائع شدہ ہے.اس خطاب میں آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.خدائی تیر اور اس کی کیفیت وہ ایک خدائی تیر ہوتا ہے جو کبھی خطا نہیں جاتا بلکہ دلوں کے اندر گھس جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے چلائے ہوئے تیر کبھی خطا نہیں جاتے.دیکھو موت بھی خدا کے تیروں میں سے ایک تیر ہے اِنَّ الْمَنَايَا لَا تَطِيشُ سِهَا مُهَا 1.یہی وجہ ہے کہ جس وقت موت آتی ہے تو کوئی روک نہیں سکتا.بدر کی جنگ میں بھی خدا نے اپنا تیر چلایا تھا جبکہ صحابہ کی مٹھی بھر جماعت نے کفار کے بڑے لشکر کو سخت ہزیمت دے دی تھی.اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریت کی مٹھی پھینکی تھی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ تو نے نہیں پھینکی بلکہ ہم نے پھینکی ہے 2.پھر خدا کے پھینکنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹی پھینکی اور اُدھر زور سے آندھی چلی جس سے ریت اور کنکر اُڑ اُڑ کر کفار کی آنکھوں میں پڑنے شروع ہو گئے کیونکہ جدھر سے آندھی آئی کفار کا اُس طرف منہ تھا اور صحابہ کی اس طرف پشت تھی.پھر ہوا کا رخ مطابق ہونے کی وجہ سے صحابہ کا نشانہ بھی خوب لگتا تھا اور ان کے تیروں میں زیادہ تیزی اور طاقت بھی پیدا ہو گئی.اس کے مقابلہ میں کفار کا مخالف ہوا کی وجہ سے نشانہ خطا جاتا تھا کیونکہ آندھی نے ان کی آنکھوں کو اس قابل نہ چھوڑا تھا کہ وہ نشانہ لگا سکتے ، نتیجہ یہ ہوا

Page 284

سيرة النبي عمال 270 جلد 2 کہ تین سو بے ساز و سامان مسلمانوں نے ایک ہزار با ساز وسامان کفار کو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر رکھ دیا.“ 1: السبع المعلقات القصيدة الرابعة صفحہ 52 مطبوعہ دہلی 2 : الانفال : 18 ( الفضل 14 جولائی 1925 ء)

Page 285

سيرة النبي الله 271 جلد 2 رسول کریم ﷺ کے مقبرہ اور دیگر شعائر اللہ کی حفاظت کی اہمیت حضرت مصلح موعود 27 نومبر 1925 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.مکہ اور مدینہ میں بہت سی قبریں بنی ہوئی ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ان میں سے پچاس فیصد سے بھی زیادہ فرضی ہیں اور یہ محض ڈھکونسلے ہیں کہ یہاں فلاں صحابی دفن ہوئے اور یہاں فلاں صحابیہ.جب میں حج کے لئے وہاں گیا تو میں ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا.لوگوں نے بعض قبریں یونہی بنا رکھی ہیں، کوئی تاریخی ثبوت ان کے متعلق نہیں ہے اور خود وہاں کے اہل علم لوگوں کا خیال ہے کہ ان میں سے چند قبریں اصلی اور بچی ہیں باقی سب فرضی.وہ جن لوگوں کے قبضہ میں ہیں وہ ان کے متعلق عجیب عجیب قسم کی برکتوں کا ذکر کرتے ہیں.مگر یہ برکتیں ان برکتوں کے طور پر ہیں جو مندر کی برکتوں کی طرح ہوتی ہیں یا جو عقیدہ کے طور پر مانی جاتی ہیں اور ان کی کوئی اصلیت نہیں ہوتی اور ان کی مثال بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح کہ یہاں پیروں کی گدیاں ہوتی ہیں.مگر اس صورت میں بھی یہ مناسب اور جائز نہیں کہ سختی اور تشدد سے کام لیا جائے بلکہ ان لوگوں کو ایسی تعلیم دینی چاہئے کہ انہیں ترک کر دیں.مگر خانہ کعبہ میں اگر ایسا ہو تو جو حکومت ہوگی میرے نزدیک اس کا فرض ہو گا کہ وہ وہاں سے لوگوں کو اس قسم کی باتوں سے روک دے اور مسجد نبوی بھی ایسی ہی ہے اس میں بھی اس قسم کی باتیں ہوں تو اس کے متعلق بھی حکومت کا فرض ہے

Page 286

سيرة النبي عمال کہ روک دے.272 جلد 2 بعض لوگ جب دوسری قبروں کے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شرک کا منبع بن رہی ہیں تو انہیں آنحضرت ﷺ کے مقبرہ کے متعلق بھی یہی خیال گزرتا ہے کہ اس سے بھی شرک پیدا ہوتا ہے مگر اس کے متعلق ان کا یہ خیال کرنا غلطی ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ صلى الله کے مزار مبارک پر جو گنبد بنایا گیا ہے وہ اس لئے نہیں کہ اس سے روضہ کی شان بڑی بنا کر پرستش کی جائے بلکہ وہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ شرک نہ ہو.رسول کریم ﷺ کی قبر کو چھپانے کے لئے اس پر گنبد بنایا گیا تھا.پس اس گنبد سے یہ قیاس کرنا کہ اس سے شرک پیدا ہوتا ہے سراسر غلطی ہے.وہ تو بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قبر کو چھپا دیا جائے تا کہ آنکھوں کے سامنے ہونے کی وجہ سے ایسے جذبات نہ پیدا ہو جائیں جو مشر کا نہ حرکات سرزد کرا دیں.جبکہ اس کی غرض ہی یہ تھی کہ آپ کی قبر کو چھپا دیا جائے تا اس کے ذریعہ شرک نہ پھیلے تو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے شرک پھیلتا ہے میری رائے میں کہنے والوں کی کمی تدبر اور قلت عقل پر دلالت کرتا ہے.پس میں پھر کہتا ہوں کہ کسی اعزاز کے لئے آنحضرت علی کی قبر پر گنبد نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا اور اس غرض کے لئے بنایا گیا کہ تا آپ کی قبر چھپی رہے.الله کسی اعزاز کے لئے رسول کریم ﷺ کی قبر گنبد کی محتاج نہیں.اعزاز اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ بجائے خود ہے اور کسی بیرونی کوشش سے نہیں ہوسکتا.پس اس کے لئے کسی سے نہیں ہو سکتا.پر گنبد کی یا کسی اور شے کی ضرورت نہ تھی.آنحضرت ﷺ جب زندہ تھے اُس وقت صحابہ آپ کی حفاظت کرتے تھے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد دشمنوں سے بچانے کے لئے آپ کے جسم مبارک کی حفاظت مسلمان نہ کریں.جس طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی میں دشمن تھے اسی طرح آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے دشمن ہیں جو آپ کے جسم مبارک کو بے حرمت کرنے کی نا پاک خواہش رکھتے ہیں.وہ لوگ جو روضہ مبارک

Page 287

سيرة النبي ع 273 جلد 2 کو بے حرمت کرنے کی ناپاک خواہش رکھتے ہیں ، وہ لوگ جو روضہ مبارک پر اعتراض کرتے ہیں اور کسی صورت میں بھی اس کا بنانا جائز نہیں قرار دیتے کیا وہ حدیثوں میں نہیں پڑھتے کہ صحابہ باری باری آنحضرت علی کے مکان پر پہرہ دیتے تھے.کئی حدیثیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صحابہ کرام آپ کی ہر وقت اور ہر طرح حفاظت کرتے تھے.پھر کیا حدیثوں میں یہ نہیں ہے کہ جب رسول کریم ﷺہ جنگ میں جاتے تھے تو صحابی آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں رہتے تھے اور آپ کی ہر ممکن ذریعہ سے حفاظت کرتے کیونکہ سب سے زیادہ زور دشمنوں کا آپ ہی کی ذات پر ہوتا تھا اور سب سے بہادر وہی سمجھا جاتا تھا جو آپ کے قریب رہتا تھا 1.تو جب آپ زندہ تھے اور آپ کے جسم کی حفاظت کی از حد ضرورت تھی تو جب آپ وفات پاگئے اُس وقت آپ کے جسم کی حفاظت کی کیوں ضرورت نہیں.پس آپ کی قبر پر جو گنبد ہے وہ حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے نہ کہ احترام کے لئے ، اور نہ اس بات کے لئے کہ اسے شرک کا منبع بنایا جائے.یہ آپ کی قبر کے گنبد میں اور دوسری قبروں کے قبوں میں فرق ہے.مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ زید یا بکر کی قبر پر جو گنبد بنایا گیا ہے وہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس طرح اس قبر کا احترام قائم ہو.زید بکر عمر کی قبریں شاید اس طرح احترام کی محتاج ہوں لیکن آنحضرت ﷺ کی قبر اس قسم کی احتیاج سے مستغنی ہے.پس اس پر جو گنبد بنایا گیا ہے وہ صرف حفاظت کے لئے ہے اور کون ہے ایسا شخص جو مسلمان کہلاتا ہو اور پھر ہر وہ بات کرنے کے لئے تیار نہ ہو جو آپ کے جسم کی حفاظت کے لئے ضروری ہو.یا جو بات آپ کے جسم کی حفاظت کے واسطے کی گئی اس کو رد کرنے کی کوشش کرے.یقیناً کوئی ایسا مسلمان نہ ہوگا جو آپ کے جسم کی حفاظت نہ کرنا چاہتا ہو یا جس طریق سے اس کی حفاظت کی گئی ہو اس کو نا پسند کرتا ہو.اگر مخالفوں کی ان کوششوں اور ان منصو بہ بازیوں پر نظر کی جائے جو رسول کریم ﷺ کی قبر سے آپ کے جسم مبارک کو نکال لینے کے متعلق کی گئیں تو آپ کے جسم کی صلى

Page 288

سيرة النبي ع 274 جلد 2 حفاظت کا سوال اور بھی اہم ہو جاتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ آپ کے جسم کی حفاظت کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے.دشمنوں کی طرف سے اس قسم کی کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ سرنگ لگا کر آپ کے جسم کو قبر میں سے نکال لیا جائے اور عجائب گھر میں رکھا جائے.ایسا ہی اور بیسیوں قسم کے منصوبے دشمنوں کی طرف سے ہوتے رہتے ہیں.ایسی حالت میں آپ کی قبر کی حفاظت کرنا اور اس پر گنبد بنا کر اسے محفوظ کر دینا شرک نہیں ہو گا بلکہ عین اسلام ہو گا.مسلمان آنحضرت ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا محبت کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ جس کے ساتھ محبت کی جائے اس کے مرنے کے بعد اس سے محبت کرنا چھوڑ دیا جائے ؟ خالص محبت کے تو یہ معنی ہیں کہ جس طرح زندگی میں اس کے ساتھ محبت کی جائے اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کے ساتھ محبت کی جائے.یہ نہیں کہ جب تک وہ زندہ رہا محبت کرتے رہے اور جب وہ مر گیا تو محبت بھی مرگئی.پھر یہاں تو معاملہ ہی اور ہے.یہاں نہ صرف رسول کریم ﷺ کی محبت کا سوال ہے بلکہ آپ کے احسانات کا بارگراں بھی ہمارے سروں پر ہے.اس صورت میں کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم آپ کے بعد آپ کے جسم مبارک کی كَمَاحَقُهُ حفاظت کریں.آپ کی تو یہ شان ہے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكُمُ اللهُ 2 یعنی اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا سے محبت کرو تو اس کا یہ طریق ہے کہ اس کے رسول سے محبت کرو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تمہارے ساتھ محبت کرے گا.پس آپ ﷺ سے دراصل محبت کرنے والا وہی شخص ہو گا جو خدا کے بعد ہر ایک چیز سے صلى الله بڑھ کر آپ سے محبت کرنے والا ہو.اگر ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات ثابت کر دینی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے سوا ہمارے دلوں میں اور کسی چیز کی محبت آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر نہیں.کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ

Page 289

سيرة النبي عمال 275 جلد 2 الله آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ﷺ مجھے بہت پیارے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا جان سے بھی بڑھ کر میں پیارا ہوں؟ حضرت عمرؓ نے کہا ایسا تو نہیں.آپ نے فرمایا کہ جب تک میں تمہیں جان سے بڑھ کر پیارا نہ لگوں تب تک تمہارا ایمان بھی کامل نہیں ہو سکتا.تو جب ایمان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ ﷺ کی محبت سب سے زیادہ ہو تو پھر کیونکر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے جسم سے اگر محبت نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں.پس کیا بلحاظ آپ کے احسانات کے اور کیا بلحاظ اس ایمان کے جو ہم میں پیدا کیا گیا ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے جسم کی حفاظت آپ کی وفات پانے کے بعد بھی اسی طرح اور اسی محبت سے کریں جس طرح اور جس محبت کے ساتھ کہ آپ کی زندگی میں آپ کے جسم اور جان کی حفاظت کی جاتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے جسم کی حفاظت کرنا یہی ہے کہ اسے دشمنوں کی منصوبہ بازیوں اور ان کی شرارتوں سے بچایا جائے.مجھے حیرت ہے کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وفات کے بعد رسول کریم ہے کے مزار کی حفاظت کی ضرورت نہیں اور اس کے احترام کی حاجت نہیں.حالانکہ ان کے بڑے تو بڑے اگر ایک بچہ بھی مر جاتا ہے تو وہ اس کے بے جان جسم کی حفاظت کے لئے سب کچھ ہی کرتے ہیں.کیا ایک چند دن کا چھیچھڑا بھی جو مر جاتا ہے اس کے جسم کو احتیاط کے ساتھ زمین میں دفن نہیں کیا جاتا اور اس کی قبر کی حفاظت نہیں کی جاتی ؟ اگر کی جاتی ہے تو کیا یہ شرک ہے؟ کیا ہم پسند کرتے ہیں کہ کوئی جا کر ہمارے بچہ کی قبر کھود ڈالے؟ اگر کوئی ایسا کرے تو اُس وقت ہمیں تکلیف نہیں ہو گی ؟ پس اگر ایک بچے کی قبر کو ملیا میٹ کرنے کے لئے کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا ہے تو ہمارا جوش انتہائی درجہ پر آجاتا ہے اور وہ محبت جو اس کے لئے ہمارے دل میں مرنے کے بعد بھی ہوتی ہے ہمیں مضطرب کر دیتی ہے تو جب ایک بچے کے لئے جس کی کوئی بھی قدر و قیمت نہیں ہوتی ہمیں جوش آجاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے مزار کے لئے جن کی

Page 290

سيرة النبي ع 276 جلد 2 ا قدر و قیمت کی کوئی حد ہی نہیں ہمیں جوش پیدا نہ ہو.پس وہ موحد قوم جس نے شرک کی بعض کڑیوں کو توڑ دیا اس پر غور کرے اور دیکھے کہ وہ اپنے اس فعل سے کیا بات ثابت کر رہی ہے اور حفاظت کے سوال کو کس حد تک مد نظر رکھ رہی ہے.یہاں تو ایک گنبد کے لئے شور برپا ہے مگر میں کہتا ہوں حفاظت کے لئے اگر ایک سے زیادہ گنبد بھی بنانے پڑیں تو بنانے چاہئیں.جس قدر بھی ہم آپ کے جسم کی حفاظت کر سکیں اتنی کرنی چاہئے.آج کل ہوائی جہازوں اور توپ کے گولوں اور دیگر اس قسم کی ایجادوں سے پل بھر میں ایک عالم کو تباہ کر دیا جا سکتا ہے.اس لئے آپ کی قبر کی حفاظت کا سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے.پس اگر ان ہوائی جہازوں ، توپ کے گولوں اور سرنگوں وغیرہ کے ذریعے آپ کے جسم کو نکال لے جانے کے منصوبوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اور بھی گنبد بنانے پڑیں اور اگر اور بھی ایسی تدابیر اختیار کرنی پڑیں جن سے كَمَا حَقُۂ حفاظت ہو جائے تو وہ شرک نہیں ہوگا بلکہ عین اسلام ہوگا.بیشک جو حکومت وہاں ہو وہ ان لوگوں کو جو مشرک ہوں شرک کرنے سے رو کے یا ان کو وہاں سے نکال دے مگر مزار رسول اللہ علہ کی حفاظت کے پورے سامان کئے ﷺ جائیں.پس اگر ابن سعود ایسا کریں یعنی آنحضرت علی کے مزار کی حفاظت ہر طرح ہیں اور ایسا ہی دوسرے ضروری مقامات کی بھی تو ہمیں ان سے اتفاق ہے کیونکہ لوگ ایک حد تک اصلاح کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں.ان چیزوں سے جو مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے بنائی جاتی ہیں یا جن کی غرض نصیحت یا عبرت دلانا ہوتی ہے ہمیں ایک حد تک اتفاق بھی ہے اور ایک حد تک اختلاف بھی.اتفاق تو اس لئے ہے کہ یہ حفاظت کی غرض اور بعض دوسری مفید غرضوں کے لئے بنائی جاتی ہیں اس لئے یہ ضروری ہیں.اور اختلاف ان کی پرستش کے متعلق ہے اور شرک پھیلنے کے لئے ہے.اور یہ اختلاف خود حنفیوں میں بھی ان مقامات کے متعلق موجود ہے.لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک گروہ ان کے ذریعے شرک میں

Page 291

سيرة النبي عمال 277 جلد 2 پھنس رہا ہے.پس ہمارا حق ہے کہ ہم انہیں سمجھا ئیں اور اس غلط طریق سے جسے وہ اختیار کر رہے ہیں بچائیں.باقی یہ کہنا کہ چونکہ حضرت عمر نے اس درخت کو جس کے نیچے صلح حدیبیہ کے وقت بیعت ہوئی تھی کاٹ ڈالا تھا اس لئے قبوں کو بھی گرا دینا چاہئے درست نہیں.معلوم نہیں اُس وقت کیا حالات تھے اور حضرت عمرؓ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی اور اس درخت کے قائم رہنے سے وَاللهُ اَعْلَمُ ان کے نزدیک کیا خطرہ تھا.اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ حضرت عمرؓ نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا اس لئے ہم اب تمام مقبروں اور تمام قبوں اور تمام قبروں اور تمام ان مقامات کو گراتے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اس صلى الله قابل ہیں کہ قائم رہیں.خواہ رسول اللہ ا نے ہی کسی کی بنیاد کیوں نہ رکھی ہو یا خواہ خدا تعالیٰ نے ہی اسے اپنے شعائر میں سے کیوں نہ قرار دیا ہو.پس ایسی باتیں اس قوم کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں جو شرک کے مٹانے کا دعویٰ رکھتی ہو.کیونکہ شرک تو اس لئے مٹایا جاتا ہے کہ توحید پھیلے لیکن جب تو حید ہی کو پھیلانے کے ذرائع منقطع کئے جائیں تو پھر یہ بات کہ ہم شرک کو مٹاتے ہیں صرف دعوئی ہی دعویٰ رہ جاتی ہے.پس میں کہتا ہوں کہ شرک کو مٹاؤ لیکن شرک کو مٹاتے الله ہوئے رسول کریم ﷺ کے نشانات اور شعائر اللہ نہ گراؤ.اور ان مقامات کو ملیا میٹ نہ کرو کہ جن کو دیکھ کر ایک شخص کے دل میں توحید کی لہر پیدا ہوتی ہے.پس وہ قوم جو اہلحدیث کہلاتی ہے اور جس کا بڑا دعویٰ شرک کی بیخ کنی ہے وہ بالضرور شرک کے مٹانے کے لئے کوشش کرے اور ہم اس کوشش میں اس کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہ کرے کہ شعائر اللہ پر ہی کلہاڑا رکھ دے یا ان مقامات کی بنیادوں میں ہی پانی پھیر دے جن سے روایات اسلامی وابستہ ہیں.لیکن اگر اس کا یہی عقیدہ ہے کہ سب قبروں کو گرا دیا جائے اور سب مقبروں کو مسمار کر دیا جائے حتی کہ آنحضرت ﷺ کے مزار پر جو گنبد ہے اسے بھی ہٹا دیا جائے تو پھر میں کہتا ہوں کہ انہیں صفا و مروہ کو بھی

Page 292

سيرة النبي عمال 278 جلد 2 مٹا دینا چاہئے جن پر حضرت ہاجرہ بے قراری کے ساتھ دوڑیں اور ان کی تنتبع میں اب بھی حج کے موقع پر لوگ ان کے درمیان دوڑتے ہیں.پھر خانہ کعبہ کو بھی گرا دینا چاہئے کہ اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا اور پرانی روایات کو برقرار رکھنے کے لئے بنایا.اور ایسا ہی دوسرے ان سب مقامات کو بھی گرا دینا چاہیے جن پر خدا کا جلال ظاہر ہوا کیونکہ لوگ ان کو مقدس سمجھتے اور ان کا احترام کرتے ہیں.ان مقامات پر لوگ اس لئے جاتے ہیں کہ دلوں میں روحانیت پیدا کریں اور یہ خیال کر کے کہ یہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے.اس لئے ان کا قائم رہنا توحید الہی پر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے نہ کہ مضر.پس وہ قوم جو مقابر وغیرہ کو گرا دینا چاہتی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ دیکھے لوگ کس نیت سے وہاں جاتے ہیں.ان کی نیت میں روحانیت پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ یہ وہ مقام ہے جس پر خدا کا جلال ظاہر ہوا تھا اور یہ وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ علیہ کی خدا نے مدد کی تھی، یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہ نے خدا کے لئے خطرات میں قیام کیا تھا تو ان کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے.ان کے اندر روحانیت بڑھتی ہے.ان کے دلوں میں خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے.اگر لوگوں کا ان مقامات پر جانا شرک ہے تو سب سے پہلے خانہ کعبہ کو اڑا دو کہ لوگ وہاں بھی جاتے ہیں.پھر صفا اور مروہ کو مٹا دو کہ حضرت ہاجرہ کی اسی بے کلی اور اضطراب کی یاد میں لوگ اب بھی وہاں دوڑتے ہیں.جو انہیں اپنے بچے کے لئے پانی تلاش کرتے وقت ہوئی تھی اور جس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہاجرہ ! جا آرام سے بیٹھ ! ہم نے تیرے بچے کے لئے پانی پیدا کر دیا.کیونکہ جب دوسری جگہوں پر محض جانا شرک ہے تو ان جگہوں پر جانا بھی شرک ہو سکتا ہے.پس ان کے ساتھ ان کو بھی گرا دینا چاہئے.مگر میں پھر کہتا ہوں کہ لوگ وہاں شرک کے لئے نہیں جاتے.وہ ان مقامات کے اعزاز و اکرام کے لئے ان پر نہیں جاتے.ان کی نیت روحانیت پیدا کرنے کی ہوتی ہے.اگر احترام اور

Page 293

سيرة النبي علي 279 جلد 2 اعزاز و اکرام کے لئے لوگ جاتے تو جو تیاں پہن کر صفا و مروہ پر کیوں دوڑتے پھرتے.پھر وہاں لوگ کھاتے پیتے بھی ہیں اور وہیں چھلکے بھی پھینک دیتے ہیں.پس اگر محض اعزاز و اکرام مد نظر ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے کہ اس مقام پر جوتے پہنے چلے جاتے اور وہیں چھلکے پھینکتے اور کوڑا کرکٹ بھی پھیلاتے.پس وہ اس لحاظ سے وہاں جاتے ہیں کہ یہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا تھا.گرانے اور منہدم کرنے کا عقیدہ رکھنے والوں کے پاس بڑی سے بڑی دلیل اس شجر کی ہے جس کے نیچے رسول کریم ﷺ نے بیعت رضوان لی.مگر وہ واقعات اس وقت ہمارے سامنے نہیں جو حضرت عمرؓ کے وقت میں پیش آئے اور نہ ہی وہ واقعات اس وقت موجود ہیں.میں اُس وقت کے حالات کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میں یہ بات بغیر کسی قسم کے ڈر کے کہتا ہوں کہ میرے سامنے اگر یہ واقعہ ہوتا اور مجھ سے اس کے کاٹنے کے متعلق پوچھا جاتا تو میں یہی کہتا کہ اس درخت کو ہرگز نہیں کاٹنا چاہئے.اگر کوئی اس کے ذریعہ شرک کرتا ہے تو ا سے روکنا چاہئے لیکن اس صلى الله درخت کو جس پر خدا کا جلال ظاہر ہوا اور جس کے نیچے آنحضرت علی کی صداقت کا ایک اور نشان نظر آیا مطلقاً نہیں کاٹنا چاہئے بلکہ اس کی حفاظت کرنی چاہئے کہ وہ دیر تک قائم ، رہ سکے.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے میں پھر کہتا ہوں کہ ان حالات کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس درخت کو نہیں کاٹنا چاہئے تھا.ہاں شرک کے پھیلنے کا اگر کوئی خطرہ اس کے وجود سے پیدا ہو گیا تھا تو اسے دور کیا جاسکتا تھا.ممکن ہے کوئی ایسا ہی خطرہ پیدا ہو گیا ہو جس سے اس کا نہ رکھنا ہی حضرت عمرؓ نے مناسب جانا ہو.ورنہ کسی معمولی سی بات کے لئے حضرت عمرؓ جیسے انسان سے یہ امید نہیں ہوسکتی کہ وہ اس درخت کو کاٹ دیتے.یہ درخت جس کے بچے صلح حدیبیہ کے سے اہم موقع پر بیعت لی گئی معمولی درخت نہیں بلکہ شعائر اللہ میں سے تھا اور شعائر اللہ سے جس حد تک ایمان میں تازگی

Page 294

سيرة النبي علي 280 جلد 2 اور دلوں میں روحانیت پیدا ہوتی ہے اس کا اعتراف اہلحدیث گروہ کو بھی ہوگا.پس جو شخص اس کے پاس اس نیت سے جاتا کہ ایمان میں مضبوطی پیدا ہو اور خدا تعالیٰ کے جلال کے ظاہر ہونے کی جگہ کو دیکھنے سے روحانیت پیدا کرے میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک نیک کام کرتا.پس میں یقین کرتا ہوں کہ جو کوئی بھی اس درخت کے پاس اسے شعائر اللہ سمجھ کر جاتا ہوگا وہ ایمان سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتا ہوگا نہ کہ شرک کرتا ہوگا.صفا اور مروہ اور بعض دوسرے مقامات شعائر اللہ میں سے ہیں اور جوان پر اعتراض کرتا ہے وہ ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم پر کرتا ہے.کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ صفا اور مروہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان پر میرا نشان ظاہر ہوا اور یہ شعائر اللہ میں سے ہیں.یہاں حضرت ہاجرہ اکیلی دوڑی تھیں جہاں میلوں تک پانی نہ تھا.اور اُس وقت جو بیقراری اور اضطراب انہیں تھا اس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ ہاجرہ ! صبر کر تو نے میرے لئے وطن کو چھوڑا میں تیرے لئے یہاں پانی پیدا کرتا ہوں.پس خدا نے اس مقام پر کہ جہاں سینکڑوں میلوں تک پانی نہ تھا حضرت ہاجرہ اور ان کے بچہ کے لئے ان کے اضطراب اور بے چینی کو دیکھ کر پانی پیدا کیا.اور پانی پیدا نہیں کیا بلکہ اپنا نشان دکھلایا کہ میں قادر مطلق ہوں اور یہ میری قدرت میں ہے کہ میں ان مضطرب اشخاص کے لئے لق و دق میدان میں بھی کہ جہاں لوگ پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں اپنی قدرت سے پانی پیدا کرسکتا ہوں.پس وہاں حضرت ہاجرہ اضطراب میں دوڑیں اور دوڑتے ہوئے اسی اضطراب کے ساتھ خدا تعالیٰ سے عرض بھی کرتی رہیں کہ تو ہی ہے جو کچھ کر سکتا ہے.سوان کی یہ حالت زار خدا کے رحم کو جوش میں لانے والی ہوئی جس کے ذریعہ اس کا جلال دنیا پر آشکارا ہوا.پس وہاں کا تو پتھر اک نشان ہے اور پھر ان پہاڑیوں کے متعلق تو خود خدا نے بھی فرما دیا ہے کہ وہ شعائر اللہ میں سے ہیں.اب جس طرح صفا و مروہ پر خدا کا نشان ظاہر ہوا اور وہ شعائر اللہ.

Page 295

سيرة النبي ع 281 جلد 2 بن گئے اسی طرح وہ درخت بھی شعائر اللہ بن گیا جس کے نیچے آنحضرت عے کے ہاتھ پر حدیبیہ کے موقع پر بیعت کی گئی.پس ان مقامات پر جہاں جہاں خدا کا نشان ظاہر ہوا جانے سے ایک شخص کے دل میں روحانیت پیدا ہوتی ہے.اس کے ایمان میں تازگی آتی ہے.اس کے اندر خشیت اللہ پیدا ہو جاتی ہے.وہ نصیحت کا اگر موقع ہو تو نصیحت پکڑتا ہے اور عبرت کا اگر موقع ہو تو ان سے عبرت حاصل کرتا ہے.اگر کسی کو اس کے ساتھ اتفاق نہیں اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان مقامات سے یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں تو کیا وہ اس بات سے بھی انکار کر سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قبروں پر جایا کرو تا عبرت حاصل ہو 3.پھر قبروں پر دعائیں مانگنے کے لئے بھی فرمایا ہے اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ قبروں پر جا کر دعائیں کیا کرتے تھے 4.رسول اللہ یہ مشرک نہیں تھے.آپ تو شرک مٹانے کے لئے آئے تھے اور آپ نے ایسا ہی کیا.پس آپ کا ایسا کرنا ضرور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کام شرک نہیں بلکہ اس سے روحانیت بڑھتی اور خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے کیونکہ قبروں پر جا کر جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ یہ انجام ہے انسان کا تو اسے عبرت حاصل ہوتی ہے کہ ایک دن میرا بھی یہ انجام ہوگا.اس سے اس کے دل میں خدا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے.بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان جو اپنی طاقت اور اپنی دولت کے لحاظ سے فرعون بنا پھرتا ہے جب وہ قبروں میں سے گزرتا ہے تو اسے اپنا انجام یاد آ جاتا ہے اور وہ فرعونیت کو چھوڑ دیتا ہے.یا اس پر کسی کی نصیحت کا اثر نہیں ہوتا تھا یا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دل میں خشیت خدا پیدا ہو جاتی ہے.اس کا دل نرم ہو جاتا ہے اور وہ ان سب چیزوں کو فانی اور اپنی ہستی اور زندگی کو زوال پذیر سمجھ کر خدا کے آگے جھک جاتا ہے اور ایسی عبرت حاصل کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک حیرت ناک تغیر پیدا ہو جاتا ہے.پس یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ایسے مقامات کا اثر انسان کی طبیعت پر ہوتا ہے.

Page 296

سيرة النبي الله 282 جلد 2 حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ آنحضرت عليه مع صحابہ جب اس مقام پر سے گزرے جہاں قوم ثمود پر عذاب نازل ہوا تھا تو فرمایا اس رستہ سے نہ گزرو.اور اگر گزرتے ہو تو روتے ہوئے گزرو.اور اگر کسی نے اس حصہ کے پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے تو اسے پھینک دو کیونکہ یہاں خدا کا عذاب نازل ہوا تھا 5.اس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ سے جہاں خدا کا عذاب نازل ہوا آپ نے اسی طرح خوف کھایا جس طرح کہ آپ علیہ نے اس جگہ سے خوشی حاصل کی جہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا.اب اگر کوئی کہے کہ جگہوں میں کیا گھس گیا ہے کہ ان کی طرف خاص توجہ کی جائے اور ان کا احترام کیا جائے تو یہ اس کی غلطی ہو گی.اسے نہیں معلوم کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت انہیں اپنے بعض نشان دکھانے کے لئے مخصوص کر لیا اور ان میں سے بعض کو شعائر اللہ قرار دے دیا.پس جب خدا تعالیٰ ان کو مخصوص کرتا ہے تو کیا بندہ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس جگہ خدا کا جلال ظاہر ہو اُس جگہ کی عزت کرے اور جس جگہ پر اس کا غضب بھڑ کا اور عذاب نازل ہوا ہو اُس جگہ سے خوف کھائے.خدا تعالیٰ جب خود بعض مقامات کو شعائر اللہ میں سے قرار دیتا ہے تو یہی بات اس امر کے لئے کافی ہے کہ شعائر اسلام کا احترام ضروری ہے.پھر یہی نہیں کہ یونہی ان مقامات کا احترام ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت بھی ہے.اور وہ حقیقت یہی ہے کہ ان میں اگر عبادت کی جائے تو به نسبت دوسرے مقامات کے ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے.وہاں جب ایک شخص جاتا ہے اور وہ جب اس بات کا خیال کرتا ہے کہ یہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا تھا اور یہاں خدا نے اپنا نشان دکھایا تھا تو اس کے دل کی عجیب حالت ہو جاتی ہے.ایک شخص جب خانہ کعبہ میں عبادت کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کجا یہ عظیم الشان شہر اور کجا وہ جنگل جہاں پانی کا نام ونشان نہ تھا.وہ دیکھتا ہے کہ اس بے آب و گیاہ میدان میں کیونکر خدا نے یہ شہر بسایا.تو کیا اس کے ایمان میں کوئی تازگی پیدا نہیں ہوتی ؟ اور

Page 297

سيرة النبي علي 283 جلد 2 اس کی روحانیت میں کچھ اضافہ نہیں ہوتا ؟ اور کیا جہاں وہ پہاڑ سامنے ہوں کہ جن پر خدا جلوہ آرا ہوا ، جہاں وہ ٹیلے نظر میں ہوں کہ جن پر خدا کا جلال ظاہر ہوا، جہاں وہ ریتلا میدان دھیان میں ہو جس پر خدا کے کئی نشان ظاہر ہوئے ، جہاں وہ مقامات نگاہ کے نیچے ہوں کہ جن پر خدا نے آنحضرت ﷺ کی مدد و نصرت کی وہاں عبادت کرنے سے جو لطف آ سکتا ہے وہ اور جگہ آ سکتا ہے؟ پھر کیا ان چیزوں کا احترام ضروری ہے یا نہیں؟ کیا ان کی حفاظت اور ان کے قیام کے لئے کوشش کرنا مناسب ہے یا غیر مناسب؟ وہابیوں نے بیشک شرک کو مٹا یا مگر ہم یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے کہ اس شرک کو مٹاتے مٹاتے انہوں نے شعائر اللہ کی بے حرمتی بھی کی اور پھر حضرت عیسی کے ایک بت کو بھی قائم رکھا جسے آخر ہم نے تو ڑا.پس وہابیوں سے بڑھ کر ہم شرک کے دشمن ہیں.ہم نے نہ صرف حضرت عیسی کے بت کو جسے وہابیوں نے بھی چھوڑ دیا تھا تو ڑا بلکہ اس کے سوا اور بھی بت توڑے اور اور بھی کئی قسموں کے شرکوں کو مٹایا ہے مگر ان بتوں کو توڑتے اور ان شرکوں کو مٹاتے ہوئے ہم نے شعائر اللہ کی بے حرمتی نہیں کی اور کسی رنگ میں جبر نہیں کیا اور نہ ہی جبر کرنا ہم جائز سمجھتے ہیں.پھر ہم نے ان کی طرح یہ بھی نہیں کیا کہ شعائر اللہ کے اندر جو عظمت ہے اس کا انکار کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ یہ شرک ہے.کیونکہ شعائر اللہ کو ہی اگر شرک کہیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ خدا نے خود ( نعوذ باللہ ) شرک کو پھیلایا اور ایسا شاید وہابی بھی نہ کہیں.گو عملاً ان کے فعل کا یہی نتیجہ نکلتا ہے.پس ہم تو وہابیوں سے بڑھ کر شرک کے دشمن ہیں.پس شعائر اللہ اگر شرک ہیں تو مکہ معظمہ اور مسجد نبوی بھی پھر شرک ہے.ان کی طرح ان کو بھی گرادینا چاہئے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان مقامات میں عبادت کرنے کا زیادہ ثواب آیا ہے.بہ نسبت دوسری مسجدوں کے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا زیادہ ثواب

Page 298

سيرة النبي عالم 284 جلد 2 ہے اور پھر صفا و مروہ اور منی میں بھی ثواب ہوتا ہے.“ ( الفضل 5 دسمبر 1925ء) 1: مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين صفحہ 790 حدیث نمبر 4616 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 2: آل عمران: 32 3 ابن ماجه كتاب الجنائز صفحه 223 224، حدیث نمبر 1569 تا 1571 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الأولى 4 : مسلم كتاب الجنائز باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء صفحہ 391 حدیث نمبر 2255 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 5: بخاری کتاب المغازى باب نزول النبى الحجر صفحہ 752 حدیث نمبر 4420،4419 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 299

سيرة النبي الله 285 جلد 2 رسول کریم ﷺ پر درود پڑھنے کی حکمت و اہمیت وو حضرت مصلح موعود 4 دسمبر 1925ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.درود دراصل اُس احسان کا اقرار ہے جو آنحضرت ﷺ نے ہم پر کیا اور احسان کا اقرار انسان کے لئے ازحد ضروری ہے.کبھی کسی شخص کے اعمال میں پاکیزگی نہیں پیدا ہوسکتی جب تک وہ اپنے احسان کرنے والے کا احسان مند نہیں ہوتا کیونکہ تمام صفائی اعمال میں احسان مندی سے ہی پیدا ہوتی ہے.اس لئے ہمارے الله لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم کثرت سے درود پڑھیں تا کہ ہم آنحضرت ﷺ کے احسانوں کے لئے آپ کے احسان مند ہوں اور پھر ہمارے اعمال میں بھی پاکیزگی اور صفائی پیدا ہو.جو شخص کسی کے احسانوں کے لئے اپنے محسن کا احسان مند نہیں ہوتا وہ فتنہ وفساد کا بیج بوتا ہے کیونکہ نا احسان مندی اور ناشکر گزاری ہمیشہ فساد و جھگڑے پیدا کرتی ہے.غور کر کے دیکھ لو جتنی لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں وہ نا احسان مندی سے ہی ہوتے ہیں.پس ہمیں احسان فراموش نہیں بننا چاہئے.آنحضرت ﷺ کے بے شمار احسان ہم پر ہیں ہمیں ان کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کا اقرار کرتے رہنا چاہئے.آنحضرت ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ کے بعض لوگوں نے اس سے برا منایا.حالانکہ آپ کے بہت سے احسان ان پر تھے مگر ان لوگوں نے ناشکری کی اور طعن وغیرہ کرنے شروع کر دیئے.اگر چہ بعض ان میں دبی زبان سے کرتے تھے مگر ایسے لوگوں نے آپ کے احسانوں کی ناشکری ضرور کی.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ

Page 300

سيرة النبي عمال 286 جلد 2 ناشکری کا بیج بڑھتا بڑھتا ان کو منافق بنا گیا.اگر مدینہ کے تمام لوگ آپ کی قدر کرتے تو یہ منافق بھی نہ پیدا ہوتے.مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ آنحضرت کی شکر گزاری کرتے اور جان و مال کو قربان کر دیتے الٹا طعن کرنے شروع کر یئے.طعن کی زبان ناشکری سے ہی کھلتی ہے.انسان طبعی طور پر جن کا شکر گزار ہوتا ہے ان کو کبھی طعن نہیں کرتا.وہ مرد جو بیوی کا شکر گزار ہو کبھی نہیں دیکھو گے کہ وہ طعن کرتا ہو یا بیوی کی شکایت کرتا ہو.اسی طرح وہ بیوی جو خاوند کی احسان مند ہو کبھی اسے طعن نہیں کرتی اور کبھی کسی سے اس کا گلہ نہیں کرتی.ایسا ہی ایک بیٹا اگر باپ کا احسان مند ہے اور اس کے احسانوں کی قدر کرتا ہے اور ان کے لئے اس کا شکر گزار ہے تو وہ کبھی کسی کے پاس اپنے باپ کا شکوہ نہیں کرے گا.یہی حال روحانی امور کا ہے کہ اگر شکر گزاری ہو تو کوئی شخص زبانِ طعن نہیں کھولتا.آنحضرت ﷺ کے احسانوں کی قدر اگر انہیں ہوتی تو مدینہ کے بعض لوگوں میں ناشکری نہ پیدا ہوتی اور وہ منافق نہ بنتے.پس رسول اللہ ﷺ کے احسانوں کو یاد کرتے ہوئے خدا سے کہنا چاہئے کہ ہم تو ان کا کچھ بدلہ نہیں دے سکتے تو ہی ان کا عوض رسول کریم ﷺ کو دے اور اس کا اجر آپ کو عطا فرما.یہی درود کا مطلب ہے.پس چاہئے کہ اس کی کثرت اختیار کی جائے اور اس کے ذریعہ اپنی احسان مندی کو بہترین صورت میں ظاہر کیا جائے.میں نے بتایا ہے کہ درود رسول کریم علیہ کے احسانوں کو یاد کرنا اور اپنی احسان صلى الله مندی جتانا اور خدا سے اس کا عوض دینے کی درخواست کرنا ہے.آنحضرت ﷺ کے بعد ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی بے شمار احسانات ہیں اس لئے درود میں ان کو بھی شامل کرنا چاہئے.ایک یہی کیا کم احسان حضرت مسیح موعود کا ہم پر ہے کہ آپ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا پتہ ہم کو ملا.آج لوگوں نے جھوٹی اور بناوٹی

Page 301

سيرة النبي علي 287 جلد 2 اور ہتک آمیز روایتوں سے آنحضرت علی کو کچھ کا کچھ بنا دیا تھا.نہ صرف یہ بلکہ مختلف قسم کی باتوں سے آپ کی اصل شان کو ہی گھٹا دیا تھا اور بعض ایسی غلط اور بے ہودہ باتیں آپ کی طرف منسوب کر رکھی تھیں جو ہرگز آپ کے شایان شان نہ تھیں.غرض لوگوں کی غلط روایتوں نے آپ کو پس پردہ چھپا دیا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر ان سب پردوں کو اٹھا دیا اور اس مبارک اور خوبصورت چہرہ پر سے تمام پردے اٹھا کر ہمیں دکھا دیا.پس یہ کیا کم احسان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ آپ نے آکر آنحضرت ﷺ کی اصل شان کو ظاہر فرما دیا اور ان سب باتوں سے آپ کو پاک کر دیا جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی تھیں.پس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی شامل کرنا چاہئے.اور بھی احسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہیں اور بے شمار احسان ہیں.پس ہمارا یہ بھی فرض ہونا چاہئے کہ ہم ان کو بھی درود میں شامل کریں.ہم مختلف اوقات میں آنحضرت علے پر درود پڑھیں اور اس درود میں آپ کے خلیفہ مسیح اور مہدی کو بھی شامل کریں اور ان پر بھی درود پڑھیں تا ان کے احسانوں کا بھی اقرار ہوا اور شکر یہ ادا ہو سکے.پھر یہی نہیں کہ درود میں صرف احسان کا اقرار یا شکر یہ ہی ہے بلکہ اس میں ہمارا بھی فائدہ ہے اور اس فائدہ کو اگر الگ بھی کر دیا جائے جو اقرار احسان سے حاصل ہوتا ہے تو بھی درود ہمارے فائدہ کی چیز ہے.کیا ہم درود میں یہ نہیں کہتے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ َو عَلَى الِ مُحَمَّدٍ ؟ پھر کیا ہم خود آل میں شامل نہیں ؟ یقیناً ہم بھی آل میں شامل ہیں اور اس صورت میں درود نہ صرف آنحضرت ﷺ کے احسانوں کا اقرار ہے بلکہ اپنے لئے بھی ایک دعا ہے.صلى الله پھر ہم درود میں اور دعاؤں میں رسول کریم ہے کے لئے یہ دعا تو نہیں کرتے وساد کہ الہی ! تو ان کو جائیداد دے، باغ دے، زمین دے، مکان دے، دولت دے.یہ

Page 302

سيرة النبي علي 288 جلد 2 چیزیں تو آنحضرت ﷺ نے اس دنیا میں جمع نہ کیں پھر وہاں آپ کو ان کی کیا ضرورت ہے.جب دنیا میں جہاں سے ان چیزوں کا تعلق ہے آپ نے ان کی پرواہ نہیں کی ، آپ نے مال نہیں جمع کیا ، جائیداد نہیں بنائی، باغ نہیں لگائے محل نہیں تیار کئے تو اگلے جہان میں آپ کو ان کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے.پس ہم اگر آپ کے لئے دعا کرتے ہیں تو یہی کہ آپ کے روحانی مدارج میں ترقی ہو.خدا آپ کو اور بھی ترقی دے.اور یہ صاف بات ہے کہ جب آپ روحانیت میں ترقی کریں گے تو امت بھی آپ کے ساتھ ترقی کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے :.تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے پس جوں جوں آنحضرت علیہ آگے بڑھیں گے توں توں ہم بھی بڑھیں گے.اس لئے درود نہ صرف آپ کے مدارج بڑھنے کے لئے ہے بلکہ ہمارے لئے بھی ہے.پھر درود سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جو شخص درود کثرت سے پڑھتا ہے اس کی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں.دنیا میں یہ طریق ہے کہ اگر کسی سے کچھ کام کرانا ہوتا ہے تو اس کی پیاری چیز سے پیار کیا جاتا ہے.کسی عورت سے اگر کوئی کام کرا نا ہو تو اس کے بچہ کو پیار کرو.اگر ایک باپ سے کوئی کام کروانا ہو تو اس کے بچے سے محبت کرو.پھر دیکھو وہ کیسا مہربان ہوتا ہے.فقیر بھی جب خیرات لینے کے لئے دروازہ پر جاتا ہے تو یہ صدا کرتا ہے مائی ! تیرے بچے جیئیں.کیونکہ فقیر بھی جانتے ہیں کہ اس صدا کا ماں پر بہت اثر ہوتا ہے.جب ماں یہ آواز سنتی ہے تو دوڑی آتی ہے اور فقیر کو خیرات دیتی ہے.دیکھو! اس آواز کو سنتے ہی جو اس کے پیارے بچے کے لئے ایک دعا ہوتی ہے وہ کس طرح دوڑی آتی ہے.اسی طرح درود پڑھنے والے شخص کے متعلق جب خدا دیکھتا ہے کہ اس نے اس کے پیارے کے لئے دعا کی تو کہتا ہے تو

Page 303

سيرة النبي علي 289 جلد 2 نے میرے پیارے کے لئے دعا کی ، آ! میں تیری دعا بھی قبول کرتا ہوں.پس جو شخص کثرت سے درود پڑھتا ہے وہ نہ صرف آنحضرت ﷺ کے احسانوں کا اقرار کرتا ہے بلکہ اپنی دعائیں بھی قبول کرواتا ہے.ہمیں چاہئے کہ کثرت سے آنحضرت عمر درود پڑھیں اور اس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شامل کریں.ہم مسجدوں میں جب آئیں تب بھی درود پڑھیں اور گھروں میں جب جائیں تب بھی الله آنحضرت ﷺ پر درود پڑھیں.“ (الفضل 11 دسمبر 1925 ء)

Page 304

سيرة النبي الله 290 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا پر حکمت فیصلہ حضرت مصلح موعود 15 جنوری 1926ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.”ہم دیکھتے ہیں رسول کریم علے سفر کر رہے ہیں، لوگوں کے پاس کھانا کم ہو جاتا ہے، سفرا بھی لمبا ہے اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ مزید کھانا مہیا کرسکیں یا کہیں سے خرید سکیں.بعض کے پاس کچھ کھانا رہ گیا ہے اور بعض کا بالکل ختم ہو گیا ہے.اُس وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس جس کے پاس کچھ ہے لا کر رکھ دو.اب وہ کسی کا نہیں ساری جماعت کا ہے.اُس وقت جس کے پاس جو کچھ تھا اس نے لا کر آپ کے سامنے رکھ دیا 1 اور ایک نے بھی نہ کہا کہ اگر دوسرے مرتے ہیں تو مرنے دو ہماری الفضل 26 جنوری 1926ء ) 66 جانیں تو ہمارے کھانے سے بچنے دو.“ 1 بخاری كتاب الشركة باب الشركة فى الطعام والنهد صفحہ 402 حدیث نمبر 2484 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 305

سيرة النبي الله 291 جلد 2 رسول کریم ﷺ کے قرب وصال کا ایک واقعہ وو حضرت مصلح موعود 2 اپریل 1926ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ کے وصال کا وقت جب قریب آیا اور آپ نے بعض رؤیا کی بنا پر معلوم کر لیا کہ میری وفات قریب ہے تو آپ نے مجلس میں فرمایا میں چاہتا ہوں مجھ پر کسی کا حق نہ رہے اس لئے اگر کسی کو مجھ سے کوئی ایسی تکلیف پہنچی ہو جو نا جائز ہو تو آج مجھ سے اس کا بدلہ لے لے تا قیامت کے دن مجھ پر اس کا حق نہ رہے.صحابہؓ نے مختلف کیفیات قلبی کے ماتحت اس بات کو مختلف رنگ میں سمجھا اور فائدہ اٹھایا.کسی نے تو اس سے یہ سمجھا کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب ہے، کسی نے سمجھا کیا اعلیٰ بات فرمائی ہے.کسی نے سمجھا کیا اعلیٰ سبق دیا ہے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا.غرض ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میں فائدہ اٹھایا کہ اسی دوران میں ایک صحابی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! ایک دفعہ مجھے آپ سے تکلیف پہنچی تھی میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں.یہ سن کر صحابہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہو گا.انہوں نے خیال کیا ہوگا اس نے کیسی بیہودہ بات کہی ہے اور رسول کریم علی کی کس قدر گستاخی کی ہے.کئی اس پر دانت پیستے ہوں گے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت ہی اسے اپنا بدلہ لینے کا خیال آیا اور اس کا اس نے مطالبہ کر دیا.رسول کریم علیہ نے فرمایا اچھا بتاؤ کیا بات ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! ایک دفعہ آپ جنگ کے موقع پر صف بندی فرما رہے تھے تو آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگی تھی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوتم بھی مارلو.اس نے کہا یا رسول اللہ ! اُس وقت میرا بدن ننگا تھا مگر آپ کے جسم پر کپڑا ہے.آپ نے

Page 306

سيرة النبي علي 292 جلد 2 کپڑا اٹھا دیا اور کہا لو اب مارلو.یہ دیکھ کر اس صحابی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے رسول کریم ﷺ کے جسم مطہر کو بوسہ دیتے ہوئے کہا میں نے سمجھا تھا حضور کی وفات قریب ہے پھر اس مبارک جسم کے دیکھنے کا موقع نہ ملے گا اس لئے ایک دفعہ تو ( الفضل 16 اپریل 1926 ء ) اسے چوم لوں 1.66 1: مجمع الزوائد كتاب علامات النبوة باب في وداعه جلد 8 صفحہ 598 تا 601 حدیث نمبر 14253 مطبوعہ بیروت 1994ء

Page 307

سيرة النبي الله 293 جلد 2 رسول کریم ہے کے الہی اعمال اور اُن کا اجر حضرت مصلح موعود نے 23 جولائی 1926ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا :."دیکھو آنحضرت علیہ نے جو بھی کام دنیا میں کیا سراسر دنیا کی بھلائی کے لئے کیا مگر باوجود اس کے آپ نے کبھی کوئی صلہ طلب نہیں کیا بلکہ یہی فرماتے رہے ہم اس کا اجر نہیں مانگتے.باوجود اس کے کہ آنحضرت ﷺ نے اجر طلب نہیں کیا خدا نے آپ کو دیا.یہ جو ہزار ہا انسان آپ پر درود پڑھتے ہیں یہ اجر ہی ہے.اگر آپ وہ کام نہ کرتے جو آپ نے دنیا کے لئے کئے تو کون آپ پر درود بھیجتا.غرض آپ کو اجر تو ملا لیکن آپ کے دل میں یہ خواہش نہ تھی کہ ملے ،مگر اللہ تعالیٰ دلاتا ہے.اس کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بندوں کو نا شکر انہیں بتانا چاہتا.غرض مومن اگر کوئی کام کرتا ہے تو اس کے اجر کے لئے سوال نہیں کرتا لیکن خدا تعالیٰ جب اسے دلاتا ہے تو پھر انکار بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انکار سے کفرانِ نعمت لازم آتا ہے.مگر ایک شخص سجدہ تو عرش پر کرتا ہے مگر اس کی خواہشات ملتی نہیں.جو لذت اسے درود و وظائف سے حاصل ہوتی ہے وہ دراصل بھنگ پینے والوں کی لذت کے برابر ہے.حقیقی روحانیت اس تعلق باللہ کا نام ہے جس سے بلاواسطہ ایک شخص اپنا تعلق خدا کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور جس سے رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ فرشتوں کو بھی درمیان سے ہٹا دیا جاتا ہے.چنانچہ معراج میں یہی ہوا.ایک مقام پر پہنچ کر جبرائیل بھی رک گئے.مگر یہ بات اور اد کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتی.ان طریقوں پر عمل کرنے سے ہو سکتی ہے جو شریعت نے مقرر کئے ہیں.(الفضل 3 اگست 1926ء)

Page 308

سيرة النبي الله 294 جلد 2 رسول کریم مے کی ابتدائی حالت اور عروج حضرت مصلح موعود 29 اکتوبر 1926 ء کے خطبہ میں فرماتے ہیں:.اس نقشہ کو دیکھو جس میں نبی کریم ﷺ ایک سادہ لباس میں خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے جاتے ہیں اور پھر اس نقشہ پر بھی نگاہ ڈالو کہ فوجوں کے جھرمٹ میں آپ وہاں داخل ہوتے ہیں.پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ آپ تن تنہا رہ گئے اور آپ کو دیکھ کر آپ کے عزیز بھی، آپ کے دوست بھی کترا جاتے.وہ وقت بھی آیا کہ آر کو تکلیفیں دی گئیں.وہ وقت بھی آیا کہ آپ کی ذلت و رسوائی کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی.لوگ آپ کو برا بھلا کہتے ، گالی گلوچ نکالتے ، دست درازی کرتے ، حالانکہ خودان کا یہ حال تھا کہ چوری وہ کرتے ، ڈا کے وہ ڈالتے ، مال اٹھا لے جانا ان کے نزدیک معمولی بات ہوتی اور کمزوروں پر ظلم کرنا کوئی عیب ہی نہ شمار کیا جاتا.خود تو یہ حال تھا لیکن وہ نبی کریم ﷺ کو اذیتیں پہنچاتے اور یہ سمجھتے کہ ہم معزز ہیں علی اور یہ غیر معزز.یہ صرف اس لئے تھا کہ وہ لوگ تو خدا کو جانتے ہی نہ تھے اور اس کو بھلا بیٹھے تھے.لیکن آپ اللہ تعالیٰ کو مانتے اور خدا سے منسوب شدہ گھر میں خدا کی عبادت کے واسطے داخل ہوتے.آپ کی ابتدائی حالت میں کوئی آپ پر میلا ڈالتا ، کوئی دھکا دیتا ، کوئی گلے میں پڑکا ڈالتا.غرض کوئی تکلیف نہ ہوتی جو پہنچائی نہ جاتی اور کوئی سخت سلوک نہ تھا جو آپ کے ساتھ کیا نہ گیا.کیا اُس وقت کی حالت کے دیکھنے سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج جس کو ذلیل سمجھا جاتا ہے وہی دنیا میں سب سے زیادہ عزت دار ہو گا ؟ آج جس کے گلے میں پڑکا ڈالا جاتا ہے وہی ہوگا جس کے آگے دنیا

Page 309

سيرة النبي عمال 295 جلد 2 کے بڑے بڑے لوگوں کی گردنیں جھک جائیں گی؟ آج جس کے بدن پر میلا ڈالا جاتا ہے اسی کے پسینے کی جگہ لہو بہانے کے لئے سینکڑوں انسان تیار ہو جائیں گے؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے اس تن تنہا شخص کے قدموں میں دنیا آگرے گی؟ کیا کوئی سیاح اُس وقت کی آپ کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ آپ دنیا میں بڑھیں گے؟ کیا کوئی ہندوستانی سیاح جسے ادھر جانے کا اتفاق ہوتا اور جسے آپ کی اس کمزور حالت کے دیکھنے کا موقع ملتا اس بات کو جان سکتا تھا کہ یہ دنیا میں مشہور ہو جائے گا ؟ اس کی تعلیم دنیا کے ہر گھر میں پھیل جائے گی اور ملکوں کے ملک اس کی اطاعت کے جوئے کے نیچے آجائیں گے؟ ہرگز نہیں.اس کے گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ وہ شخص جسے ہر شخص پاگل خیال کرتا اس قدر بڑھے گا کہ دنیا کے عظمند، دنیا کے طاقتور، دنیا کے عزت دار اس کی غلامی کو فخر سمجھیں گے.مگر وہ بڑھا، اس کی تعلیم دنیا کے گھر گھر میں پھیل گئی ، بڑے بڑے بادشاہ اس کی غلامی کو فخر سمجھنے لگ گئے.اور یہ سب اس لئے ہوا کہ اس نے نہایت تاریکی کے دنوں میں خدا کا نام لیا اور خدا نے اسے روشن کرنے ( الفضل 9 نومبر 1926ء) کا وعدہ کیا.“ جسے

Page 310

سيرة النبي الله 296 جلد 2 رسول کریم اللہ کے حسن سلوک کا نتیجہ حضرت مصلح موعود 19 نومبر 1926 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.پس جو کام محبت اور اخلاص سے ہو سکتا ہے وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں ہوسکتا.محبت کے ہاتھ کا دنیا کی کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.تلوار میں وہ کام نہیں کرتیں جو محبت کام کرتی ہے.حضرت نبی کریم ﷺ کے ہی ایک زمانہ کو دیکھ لوجس میں دس سال تک مسلمانوں نے تلواریں اٹھا ئیں.لیکن اُس زمانہ میں اسلام اس طرح نہیں پھیلا جس طرح کہ اُس وقت پھیلا جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ موقع دیا کہ جس میں مسلمان محبت کا اظہار کر سکتے تھے.جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ اور طاقت دی تو اُس وقت مسلمانوں نے محبت کا اظہار کیا.جب آنحضرت ﷺ نے مکہ کو فتح کیا تو آپ نے کفار مکہ سے پوچھا کہ 23 سالہ مظالم جو تم نے مسلمانوں پر کئے ، آج بتاؤ! تم سے کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے وہی جواب دیا جو ایسے وقت میں مجبوری کے ماتحت مفتوح و مجرم قو میں دیا کرتی ہیں کہ آپ ہمیں معاف کر دیں.یہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ ایک طبعی بات تھی اور وہ ایک شکست خوردہ کی آواز تھی.لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے اس جواب کے خلاف کہا جو عام طور پر فاتح شخص دیا کرتا ہے.عام طور پر تو یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ابھی تم نے کیا دیکھا ہے لیکن حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کچھ تم نے کہا ہے ٹھیک ہے.لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 1 جاؤ! آج تم پر کوئی ملامت نہیں.بس پھر کیا تھا اس ایک فقرہ نے چند منٹ کے اندر وہ کام کیا جو دس سال کی جنگیں نہ کر سکیں.وہ لوگ جو

Page 311

سيرة النبي علي 297 جلد 2 صلى الله گھروں میں دروازے بند کئے بیٹھے تھے ، عورتیں اور بچے بھی مارے خوف کے کانپ رہے تھے کہ اب معلوم نہیں کیا ہو گا ، اب ہمارے مظالم کی ہمیں کیا کیا سزائیں ملیں گی اور مکہ کا ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا جب آنحضرت علی کی طرف سے اس حیات بخش اعلان کو سنا تو تمام لوگ بھاگتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے قدموں پر آ گرے.کس حیرت اور تعجب کے ساتھ مکہ کے لوگوں نے وہ آوازیں سنی ہوں گی جو مکہ کی گلیوں میں ایک سرے سے دوسرے تک پھیل گئیں اور حیات بخش کلام نے ان کے اندر کیا تغیر پیدا کیا ہوگا.اب دیکھو تلواریں وہ کام نہ کر سکیں جو محبت کے تیر نے کام کیا.لَا تَشْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا ایک ہی تیر مکہ کے دلوں کو فتح کرتا ہوا چلا گیا.پھر جس وقت اطراف مکہ میں یہ آواز پہنچی تو وہ بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر ایمان لانے میں مقابلہ کر رہے تھے کیونکہ وہ تو مکہ کی تباہی کی خبر کے منتظر تھے.لیکن اس کے بالکل خلاف جب انہوں نے یہ سلوک دیکھا تو ان کے دل بالکل بے اختیار ہو گئے.“ (الفضل 30 نومبر 1926ء) 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 207، 208 زیر عنوان فتح مكة شرفها الله تعالى مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء

Page 312

سيرة النبي الله 298 جلد 2 رسول کریم علیہ کی ذکر الہی کی ایک سنت حضرت مصلح موعود 28 جنوری 1927ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.اذکار میں سے ایک وہ ذکر ہے جو سوتے وقت کیا جاتا ہے.نبی کریم ﷺ ہمیشہ سوتے وقت آیت الکرسی ، سورۃ اخلاص، سورۃ فلق اور سورۃ ناس جو قرآن کریم کی آخری سورتیں ہیں تین دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور پھر ہاتھ اپنے جسم پر پھیرا کرتے تھے.آپ ہاتھوں پر پھونک کر ہاتھوں کو جسم پر اس طرح پھیرتے کہ سر سے شروع کرتے اور جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے وہاں تک پھیر تے 1.یہ آنحضرت ﷺ کی سنت ہے.جس کام کو آپ نے دینی کام سمجھ کر باقاعدہ اور ہمیشہ جاری رکھا اسے سنت کہتے ہیں.چونکہ یہ ذکر بھی آپ ہمیشہ کیا کرتے تھے اس لئے اس سنت کی پابندی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.پس ذکر کو بھی یہ خیال کر کے نہیں چھوڑنا چاہئے کہ یہ ایسا ضروری نہیں جس کے نہ کرنے سے جہنم میں چلے جائیں گے اور نہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ صرف یہی ذکر جنت میں جانے کے لئے کافی ہے اور اس کے ساتھ اور اعمال کی ضرورت نہیں.جب نبی کریم ﷺ جیسا انسان اپنی ترقیات کے لئے ان اذکار کا محتاج تھا تو تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ ہمیں ایسے اذکار کی ضرورت نہیں.آنحضرت ﷺ کی یہ سنت تھی کہ آپ ہمیشہ سوتے وقت آیت الکرسی اور تینوں قل تین دفعہ پڑھتے اور پھر ہاتھوں پر پھونک مار کر جسم پر ہاتھ پھیرتے.“ ( الفضل 8 فروری 1927ء ) 1: بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل المُعوذات صفحہ 899 حدیث نمبر 5017 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 313

سيرة النبي الله 299 جلد 2 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا خوفی حضرت مصلح موعود 18 فروری 1927 ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.آنحضرت ﷺ کے متعلق لکھا ہے کہ جس وقت تیز ہوا چلتی یا بادل اٹھتا یا بارش ہوتی یا آندھی آتی یا طوفان آتا تو آپ گھبرا جاتے اور بسا اوقات اس گھبراہٹ سے کئی کئی بار آپ گھر کے اندر باہر آتے جاتے اور فرماتے معلوم نہیں خدا تعالیٰ کی اس ہوا یا اس بارش یا اس آندھی سے کیا منشا ہے 1.آپ کی اس گھبراہٹ کو دیکھ کر بعض لوگ یہ سمجھتے کہ یہ کوئی بڑا ہی گھر، دلا اور کمزور انسان ہے کہ ان روز مرہ کی باتوں سے بھی گھبرا جاتا ہے.مگر آپ فرماتے پہلی قوموں پر عذاب آئے ہیں.اب معلوم نہیں کہ یہ طوفان یا یہ بارش یا یہ ہوا عذاب کے رنگ میں ہے یا رحمت کے رنگ میں.تو مومن ہر تغیر میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان دیکھتا ہے اور شقی کی ان کی طرف آنکھ ہی نہیں اٹھتی.“ ( الفضل یکم مارچ 1927ء) 1: بخارى كتاب التفسير.تفسير سورة الاحقاف صفحہ 853 حدیث نمبر 4829 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 314

سيرة النبي عالم 300 جلد 2 ہمارا عشق رسول عل الله جب ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات بڑھنے لگے تو حضرت مصلح موعود نے 2 مارچ 1927ء کو بریڈ لاء ہال لاہور میں ایک تقریر فرمائی جو کہ ہند و مسلم فسادات ، اُن کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل“ کے عنوان سے شائع ہوئی.اس تقریر میں حضرت مصلح موعود کے عشق رسول اور جماعت احمدیہ کا والہانہ اظہار سامنے آتا ہے.آپ فرماتے ہیں :.شرد ہانند جی کے قاتل کو میں نے بھی برا کہا اور مسلمانوں نے بھی کہا، دوسرے ملکوں کے مسلمانوں نے بھی کہا لیکن اس ہماری شرافت کا نتیجہ کیا نکلا!! ہم نے تو ہندوؤں سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ قاتل نے برافعل کیا ہے لیکن ہندوؤں نے الٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینی شروع کر دی ہیں.اول تو یہ منطق نرالی ہے کہ اگر ایک مسلمان کہلانے والے نے مارا تو سب نے مارا.اگر ایک اس فعل کی وجہ سے برا ہے تو مسلمان سب برے ہیں لیکن اس کو تسلیم کر کے بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم سب برے سہی ، قاتل سہی، جس قدر چاہو برا کہو، ہمیں سزا دے لو، ہمارے ساتھ سختی کر لو، ہمیں گالیاں چھوڑ گولیاں مارلو لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دو، اس کو برا نہ کہو، اس کی شان میں گستاخی نہ کرو.ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن نہیں اگر برداشت کر سکتے تو اس مقدس ہستی کی تو ہین نہیں برداشت کر سکتے.اس پاک وجود کے متعلق گالیاں نہیں برداشت کر سکتے.ہاں وہ جس نے دنیا میں امن قائم کیا ، امن کی تعلیم دی، وحشی انسانوں کو انسان بنا دیا اور دنیا کو اندھیرے سے نکال کر

Page 315

سيرة النبي علي 301 جلد 2 روشنی میں کھڑا کر گیا اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ ظالم اور مفسد تھا اور یہ فعل اس کی تعلیم کا نتیجہ ہے ہم کون ہیں؟ یاد رکھو! ہم وہ لوگ ہیں جن کے ایک ایک آدمی کو مخالفین پکڑ کر لے گئے ، اس کو سخت ایذا ئیں پہنچا ئیں، تکلیفیں دیں یہاں تک کہ اس کے جسم میں سوئیاں چھوٹی گئیں ، اس کے سامنے ایک سولی لٹکائی گئی اور اسے بتایا گیا یہ تمہارے لئے ہے.ان تکلیفوں کے درمیان اس سے پوچھا گیا کیا تم چاہتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے سبب تمہیں یہ تکلیفیں پہنچ رہی ہیں یہاں ہوتا اور ان تکلیفوں میں مبتلا ہوتا اور تم گھر میں آرام کرتے ؟ یہ بات سن کر وہ نہایت اطمینان اور سکون سے مسکراتا ہوا کہتا ہے تم تو کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ہوں اور یہ کہ کیا میں پسند کر سکتا ہوں کہ تکالیف ان کو پہنچ رہی ہوں اور میں اپنے گھر آرام سے بیٹھا ہوا ہوں لیکن مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا چھے اور میں گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں 1..غرض ہمارے جسم کا ہر ذرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہونے کا متمنی ہے.ہماری جان بھی اسی کے لئے ہے، ہمارا مال بھی اسی کے واسطے، ہم اس پر راضی ہیں بخدا راضی ہیں.پھر کہتا ہوں بخدا راضی ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بچے قتل کر دو.ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمارے اہل وعیال کو جان سے مار دو لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دو.ہمارے مال لوٹ لو، ہمیں اس ملک سے نکال دو لیکن ہمارے سردار حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک اور توہین نہ کرو، انہیں گالیاں نہ دو.اگر یہ سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے تم جیت سکتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ گالیاں دینے سے تم رک نہیں سکتے تو پھر یہ بھی یاد رکھو کہ کم سے کم ہم تمہارا اپنے آخری سانس تک مقابلہ کریں گے اور جب تک ہمارا ایک آدمی بھی زندہ ہے وہ اس جنگ کو ختم نہیں کرے گا.

Page 316

سيرة النبي علي صلى الله 302 جلد 2 میں نے قادیان سے بھی حضرت نبی کریم علی پر الزام مت دھرو اعلان کیا تھا کہ شرد ہانند جی " کے قتل کا فعل بہت برافعل ہے اور جس نے کیا اس نے کوئی اچھا کام نہیں کیا لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی فعل ہے اسلام کو اس سے کوئی تعلق نہیں اور اسلام کو اس سے ملزم نہیں ٹھہرایا جا سکتا.مگر میں یہاں تک دیکھتا ہوں کہ آریوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور یہ اور بھی آگے بڑھے یہاں تک کہ ہمارے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس پر ہم اپنی عزت ، اپنی آبرو، اپنی جان ، اپنا مال اپنی اولادغرضیکہ ہر ایک شے قربان کرنے کو تیار ہیں پہلے سے بھی زیادہ گالیاں دینے لگ گئے ہیں.میں بھی چونکہ مسلمان ہوں اور خدا کے فضل سے ان مسلمانوں میں سے ہوں جنہیں خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی خدمت کے لئے چن لیا میرے دل میں درد ہے اور سب سے بڑھ کر درد ہے.میں نے جب دیکھا قادیان سے جو ہمدردی کی آواز میں نے اٹھائی تھی اس پر کان نہیں دھرا گیا تو میں نے محسوس کیا مجھے قادیان سے باہر جا کر یہ آواز لوگوں تک پہنچانی چاہئے اور میں اسی درد کو لے کر لاہور آیا ہوں اور میں اسی درد سے یہ لیکچر دے رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اسے توجہ سے سنیں اور جو میں کہتا صلى الله ہوں اسے مانیں.اور میں سوائے اس کے کیا کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں نہ دو اور ایک شخص کے فعل سے جسے ساری قوم بر ملا برا کہہ رہی ہے اس کی ساری قوم اور ہماری قوم کے پیشوا اور ہادی کو اس کا مجرم نہ ٹھہراؤ.اگر آپ لوگوں کی عورتوں اور بیویوں اور بچوں اور ماؤں اور باپوں اور رشتہ داروں کو گالیاں دی جائیں اور ان پر عیب لگائے جائیں حالانکہ ان میں عیب ہوتے بھی ہیں تو کیا آپ خاموش رہ سکتے ہیں اور آرام سے بیٹھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہم سے ہی یہ توقع ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جنہیں ہم اپنی جان و مال، عزیزوں رشتہ داروں سے کہیں زیادہ عزیز سمجھتے ہیں گالیاں سنیں اور خاموش رہیں اور آرام سے بیٹھے

Page 317

سيرة النبي علي 303 جلد 2 رہیں؟ یقیناً ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے جب تک آپ لوگ تسلیم نہ کر لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیں گے.گالیاں دینے والوں سے صلح نہیں ہوسکتی ہم لڑیں گے نہیں اور نہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ہے کہ لڑا جائے مگر ہم صلح بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے پیارے رسول کو گالیاں دی جاتی ہیں.ہماری اُس وقت تک اس شخص سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے صلح نہیں ہو سکتی جب تک وہ گالیاں ترک نہ کرے.بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود نے بھی ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میں جنگل کے سانپوں سے صلح کرلوں گا لیکن اگر نہیں کروں گا تو ان لوگوں سے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ، ان پر نا پاک حملے کرتے اور ان کے حق میں طرح طرح کی بدزبانی کرتے ہیں 2.ہم صلح پسند ہیں لیکن ہم اس بات کو بھی پسند کرنے والے نہیں کہ صلح و آشتی کی تعلیم دینے والے کو برا کہا جائے.ہم بہرے تھے اس نے ہمیں کان دیئے، ہم گونگے تھے اس نے ہمیں زبانیں دیں، ہم اندھے تھے اس نے ہمیں آنکھیں دیں، ہم راہ سے بھولے ہوئے تھے اس نے ہمیں راہ دکھائی.خدا را! اسے گالیاں نہ دو.غور کرو اس نے شرد ہانند جی کو مارا نہیں اور نہ مروایا ہے اس کا اس معاملے میں کوئی دخل نہیں پھر اسے کیوں گالیاں دیتے ہو.جس نے مارا ہے اسے پکڑ لو.ایک کو نہیں بہتوں کو پکڑ لو جیسا کہ تم نے پکڑا بھی اور ایک کو مار بھی ڈالا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دو.“ 66 (ہندو مسلم فسادات، اُن کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل صفحہ 55 تا 60 مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور 1927ء ) 1 : اسد الغابة في معرفة الصحابه جلد 2 صفحه 229 230 مطبوعہ بیروت 1285 ھ 2 پیغام صلح صفحہ 21 روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 489

Page 318

سيرة النبي عالم 304 جلد 2 صلى الله آنحضرت علیہ کا مقام محمود حضرت مصلح موعود 29 اپریل 1927 ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں:.مسلمان اذان کے بعد ہر روز ایک دعا پڑھتے ہیں مگر تعجب کی بات ہے کہ اس دعا پر انہوں نے کبھی اس طرح غور نہیں کیا جس طرح انہیں کرنا چاہئے.اگر انہوں نے غور کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا! جس نے اس کامل دین کو دنیا میں قائم کیا ہے، جس میں کوئی نقص نہیں اور وہ آواز بلند کی جس میں تمام روحانی بیماریوں کا علاج موجود ہے ایسے طریقوں سے دنیا کو اپنی طرف بلایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی کامل آواز ہو نہیں سکتی.پھر دنیا میں ایسی عبادت قائم کی ہے جو ہمیشہ راسخ رہے گی اور اس کا نفع اور فوائد ایسے وسیع ہوں گے کہ ان میں کبھی کمی نہیں ہو گی.حقیقی فوائد جو عبادت کے ہیں وہ نماز سے ہی پہنچیں گے اور وہ سچی راہنمائی جو انسانوں کے لئے مقصود ہے صرف اسی آواز سے ہوتی رہے گی جو رسول کریم نے بلند کی.پس اے خدا! جس نے یہ دونوں چیزیں قائم کی ہیں یعنی ایک وہ دعوت جس کی وجہ سے لوگ ہمیشہ اسلام میں جمع ہوتے رہیں گے اور ایک وہ روحانی روشنی کا مینار نماز جس سے لوگ تیری طرف راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے ہم ان دو کا واسطہ دے کر کہتے ہیں جب یہ دونوں چیزیں تو نے محمد رسول اللہ کے ذریعہ قائم کیں تا کہ انسان کی کامل اصلاح ہو جائے اور وہ تیرا قرب پاسکے تو اے خدا ! جس طرح تیرے اس رسول نے ہمارے لئے تیرا قرب پانے کا رستہ کھول دیا ہے تو بھی اس کو اور زیادہ قرب عطا فرما اور جس طرح اس نے مسلمانوں کو صلى الله

Page 319

سيرة النبي عالم 305 جلد 2 برتری کے مقام کی طرف بلایا تو بھی اس کو اور برتری بخش.یعنی ایک تو اس کو اپنا ذاتی قرب عطا کر اس لئے کہ اس نے ہمارے لئے تیرے قرب کی راہیں کھولیں اور دوسرے اس کا مرتبہ بلند کر کیونکہ ہمارے لئے اس نے بلند مرتبہ پانے کا راستہ قائم کیا.پس تو اس کو وہ مقام دے جس پر آج تک اور کوئی نہ پہنچا ہو اور وہ مقام مقامِ محمود ہی ہے.یہ اس دعا کا مطلب ہے جو ہر مسلمان اذان کے بعد پڑھا کرتا ہے.ادھر مسلمانوں کے شاعر فخریہ کہا کرتے ہیں ہم اس رسول کے ماننے والے ہیں جسے خدا نے مقام محمود عطا کیا.مسلمانوں کے خطیب منبروں پر کھڑے ہو کر کہا کرتے ہیں رسول کریم ﷺ کو وہ مقام ملا جو دوسرے انبیاء کو نہیں ملا.لیکن عجیب بات ہے باوجود اس کے کہ روزانہ کئی کئی مرتبہ اس دعا کو پڑھتے ہیں جس میں رسول کریم ﷺ کے مقام محمود پانے کا ذکر ہے لیکن انہوں نے بھی نہیں سوچا کہ مقام محمود ہے کیا.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ احمدی اذان کے بعد دعا نہیں مانگتے حالانکہ یہ غلط ہے.احمدی دعا مانگتے ہیں اور احمدیوں سے بڑھ کر کوئی اور دعائیں مانگنے والا نہیں.ہاں وہ بناوٹ کے طور پر دعائیں نہیں کیا کرتے کہ الفاظ تو رئیں اور مطلب نہ سمجھیں.وہ دعا کرتے ہیں اور مطلب و مفہوم سمجھ کر کرتے ہیں.مگر وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ احمدی اذان کے بعد دعا نہیں پڑھتے ان کی اپنی یہ حالت ہے کہ وہ اس دعا کے مفہوم پر غور نہیں کرتے اور صرف رسم کے طور پر لفظوں کو طوطے کی طرح رہتے ہیں.اتنا تو سوچنا چاہئے آخر وجہ کیا ہے کہ اسلام اور نماز کا واسطہ دے کر یہ دعا مانگی جاتی ہے.اگر اس کا نماز کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تو ایسے موقع کے لئے اسے کیوں رکھا گیا جبکہ نماز کے لئے لوگوں کو پکارا جاتا ہے.پھر اگر وہ مقام محمود جنت کا کوئی مقام جو اللهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوةِ الْقَائِمَةِ اتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ ہے

Page 320

سيرة النبي ع 306 جلد 2 صلى الله الْمِيعَادَ 1 میں مانگا جاتا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ اے خدا ! تو وہ مقام آنحضرت عے کو عطا کر کیونکہ اس کے لئے ہماری دعاؤں کی ضرورت نہیں وہ تو آپ کو پہلے ہی مل چکا ہے.پھر اب اس کے متعلق انسانی کوشش کا دخل ہی کیا رہ گیا.دنیا کے وعدے تو ٹل سکتے ہیں کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے وہ ٹلا دیئے جائیں لیکن جو بات پوری ہو چکی ہو وہ نہیں مل سکتی.پس جنت کا مقام محمود تو رسول کریم ﷺ کومل چکا.پھر اس کے متعلق یہ کہنا کہ ” اے خدا! تو آپ کو وہ مقام عطا کر!‘ بے فائدہ بات ہے.دیکھو! ہم یہ کبھی نہیں دعا کرتے کہ اے خدا! تو رسول کریم کو کوثر عطا کر.اسی طرح ہم یہ بھی دعا نہیں کرتے کہ تو دوسرے اعلیٰ اعلیٰ مقام آپ کو دے لیکن ہم مقام محمود کے لئے ہر روز دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! تو آنحضرت ﷺ کو مقامِ محمود عطا کر.جب رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے تو اب کونسا خطرہ ہے کہ شاید مقام محمود آپ کو نہ ملے.آنحضرت ﷺ کو جو مقام محمود جنت میں ملنے والا تھا مل گیا.جس طرح اور اعلیٰ اعلیٰ مقامات آپ کو مل گئے اسی طرح مقام محمود بھی آپ کو مل گیا.پس اگر وہ مقام محمود جو اس دعا میں مانگا جاتا ہے جنت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو اس کا تو تیرہ سو سال پہلے فیصلہ ہو چکا اور وہ رسول کریم ﷺ کومل چکا ہے.پھر اب اس کے متعلق درخواست کرنے کا کیا مطلب؟ صلى الله حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس دعا میں آنحضرت ﷺ کے لئے جو مقام محمود مانگتے ہیں وہ مقام جنت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایسے رنگ میں تعلق رکھتا ہے کہ ہمارے اعمال کا بھی اس میں دخل ہے.ور نہ اگر دخل نہ ہوتا تو ہمارے دعا مانگنے کی کیا ضرورت تھی.پس یہ جو خطرہ ہے کہ شاید رسول کریم ﷺ کو مقام محمود نہ مل سکے وہ یہ ہے کہ ایک مقام محمود وہ بھی ہے جو الله.امت محمدیہ کے اعمال کے ذریعہ رسول کریم علیہ کو ملنا ہے اور چونکہ یہ خطرہ اسی کے متعلق ہے کہ شاید ہماری کمزوریوں کی وجہ سے رسول کریم ﷺ اس سے محروم رہ جائیں

Page 321

سيرة النبي علي 307 جلد 2 اس لئے مسلمان اس مقام محمود کے لئے دعا مانگتے ہیں نہ اس کے لئے جو جنت سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ وہ تو آپ کو پہلے ہی مل چکا ہے.یہ ہے اس دعا کی حکمت جسے مسلمانوں نے اس وقت تک نہیں سمجھا.ہم مانتے ہیں کہ قیامت میں بھی آنحضرت عے کے لئے ایک مقام محمود مقرر ہے لیکن اس کے لئے ہماری دعاؤں کی ضرورت نہیں.وہ تو آپ کو مل چکا.ہاں جس کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہ ہمارے اعمال کے بدلے میں آپ کو ملنا ہے.جو مقام محمود جنت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور جو آپ کومل چکا ہے اس کے لئے نہ کسی دعا کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی بددعا سے وہ اب آپ سے واپس لیا جا سکتا ہے.جس طرح کوثر آپ کو ملا، جس طرح دوسرے مقامات آپ کو ملے اسی طرح وہ بھی آپ کو مل گیا.مگر وہ مقام محمود جس کے لئے دعا مانگی جاتی ہے وہ اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے آنحضرت ﷺ کو یہ مقام محمود مل سکتا ہے.اگر مسلمان خدا تعالیٰ کی باتوں پر سے اندھے ہو کر نہ گزر جاتے ، اگر مسلمان خدا کے رسول نے جو دعا سکھائی ہے اس کی حقیقت کو سمجھتے تو جان لیتے کہ کسی شخص کے لئے دو طرح کے ذرائع مقام محمود پر پہنچنے کے لئے ہوا کرتے ہیں.پہلا یہ کہ دشمن اس کے نیست و نابود ہو جائیں اور یوں اس کی مذمت کرنے والے ہی نہ رہیں اور جب مذمت کرنے والے ہی نہ ہوں گے تو صرف تعریف کرنے والے رہ جائیں گے.اس طرح اسے مقام محمود حاصل ہو جائے گا.دوسرا طریق یہ ہے کہ دشمن کے لئے گرفت کا کوئی موقع نہ رہے یعنی اس کی زندگی اس قسم کی ہو کہ دشمن اس پر کوئی اعتراض نہ کر سکے.یہ صورت اگر ہو تو پھر بھی اس کی تعریف ہی ہوتی ہے.یہ دوطریق ہیں جن سے مقام محمود پر کوئی شخص کھڑا ہوسکتا ہے.ان دو کے سوا تیسرا اور کوئی طریق نہیں جس سے کوئی شخص مقام محمود پر کھڑا ہو سکے.اگر کسی کے دشمن نیست و نابود نہیں ہو گئے ، اگر اس کے مخالف اس کے ہم خیال نہیں ہو گئے تب بھی اس کی تعریف نہ ہوگی اور وہ

Page 322

سيرة النبي ع 308 جلد 2 صلى الله مقام محمود پر نہ ہو گا.اور اگر اس کا کام نامکمل ہے تب بھی اس پر اعتراض ہوتے رہیں گے اور لوگ گرفت کرتے رہیں گے.پس یہ دو باتیں ہیں جن سے کسی شخص کی حمد میں فرق آتا ہے کہ یا تو اس کے کام میں نقص ہو اور وہ غیر مکمل ہو یا اس کے دشمن قائم صلى الله رہیں.اب ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھ کر دیکھو کہ کیا رسول کریم ﷺ دنیا کے لحاظ سے مقام محمود پر پہنچ گئے ؟ اور دعوت تامہ اور صلوٰۃ قائمہ جو اس مقام محمود کے پانے کے دو ذریعے ہیں کیا مسلمانوں نے ان دونوں پر پورا پورا عمل کیا ؟ اگر نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ کو وہ مقام محمود حاصل ہونے میں جو ہمارے اعمال سے وابستہ ہے مسلمانوں کی بستیاں اور کوتاہیاں روک بنی ہوئی ہیں.ایک شخص جب یہ دعا پڑھتا ہے تو یہ کہتا ہے اے خدا! تو نے ایسی بدا کی ہے جو تامہ ہے، جو لوگوں کو تیری طرف بلاتی ہے یہ تبلیغ ہے.دوسری بات صلوۃ قائمہ ہے جس سے اصلاح نفس مراد ہے.قائم اسے کہتے ہیں جس کا نفع قائم رہے اور اس کی ضرورت مندی نہ ہو.کہتے ہیں بازار قائم ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے خوب سودا بکتا ہے.اسی طرح صلوٰۃ قائم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ اس کے فائدے قائم رہتے ہیں.ان دونوں باتوں کو دیکھ کر ہم دعا کرتے ہیں اے خدا! جس کے وجود کے ذریعہ ہمیں یہ فائدے نصیب ہوئے اسے زیادہ قرب عطا کر اور اس کو وہ مقام محمود دے جو ہمارے اعمال کے ذریعہ ملنا ہے.غرض اس دعا میں ایک طرف تو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے اور دوسری طرف اندرونی اصلاح کی طرف متوجہ کیا ہے.اگر مسلمان اس کو سمجھ لیں اور تبلیغ کے کام میں لگ جائیں تو دنیا مسلمان ہوسکتی ہے.اس طرح جب رسول کریم ﷺ کے حکم کو برا کہنے والا کوئی نہ رہے گا تو آپ اس مقام محمود پر کھڑے ہو جائیں گے جس کے لئے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی گئی ہے یعنی آپ کو مقام محمود حاصل ہو جائے گا.خدا مسلمانوں کو توفیق دے کہ رسول کریم علیے ان کے ذریعے اس مقام محمود پر کھڑے ہو

Page 323

سيرة النبي الله 309 جلد 2 جائیں.یہ وہ کام ہے جس میں اگر مسلمان غفلت کریں تو رسول کریم ﷺ کو مقام محمود حاصل نہیں ہو سکتا.باقی جو قیامت کے دن کا مقام محمود ہے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور وہ تو آپ کو مل چکا ہے.جو آپ کو ملنے والا ہے اور جو اذان اور نماز کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ ساری دنیا کو تبلیغ کر کے آپ کے ثنا خوانوں میں داخل کرنا اور اپنی اصلاح کرنا ہے.اذان تبلیغ کی قائم مقام ہے اور نماز اصلاح کی قائم مقام.پس مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ ایک طرف تبلیغ کریں اور دوسری طرف اصلاح نفس.پھر آنحضرت ﷺ اس مقام محمود پر پہنچ سکتے ہیں جو ہمارے اعمال سے تعلق رکھتا ہے.تبلیغ ہو اور اس حد تک ہو کہ دنیا کے سب لوگ آپ کی تعریف کرنے والے ہو جائیں اور کوئی بھی برائی اور مذمت کرنے والا باقی نہ رہے.پھر اصلاح نفس ہو اور اس درجہ تک ہو کہ دشمن اور سخت سے سخت مخالف بھی اگر ایک مسلمان کو دیکھیں تو اس کی تہذیب، اس کی شائستگی، اس کے تقویٰ ، اس کی طہارت اور اس کے تزکیہ کو دیکھ کر کہہ اٹھیں واہ واہ ! ! کیا ہی اچھا اور اعلیٰ نمونہ ہے.اور مبارک ہے وہ استاد جس نے ان کو ایسا بنایا.لیکن اگر تبلیغ نہ کی جائے تو آنحضرت ﷺ کی تعریف کرنے والوں کا دائرہ بہت محدود ہو جائے گا اور مذمت کرنے والوں کا دائرہ بہت بڑھ جائے گا.اور جو تعریف کرنے والے ہوں گے ان میں سے بھی بہت مذمت کرنے والوں کی طاقت سے ڈر کر تعریف نہ کریں گے.اس طرح آپ کی مذمت کرنے والے تو بڑھتے رہیں گے اور تعریف کرنے والے کم ہوتے جائیں گے.اور جب تعریف کرنے والوں کی کمی ہو اور مذمت کرنے والوں کی کثرت تو کس طرح رسول کریم عملے کے متعلق کہا جا سکتا الله ہے کہ دنیا کے لحاظ سے آپ کو مقام محمود حاصل ہو گیا.آنحضرت ﷺ کو مقام محمود تک پہنچانے کے دو ہی ذریعے ہیں اور وہ یہ کہ دوسروں میں تبلیغ اور اپنی اصلاح نفس.جو شخص تبلیغ کو کمال درجے تک پہنچا تا ہے

Page 324

سيرة النبي علي 310 جلد 2 اور نفس کی اصلاح رات دن کرتا رہتا ہے وہ تو حقدار ہے کہ کہے اے خدا! تو رسول کریم عملے کو مقام محمود پر کھڑا کر.لیکن جو شخص نہ تبلیغ کرتا ہے اور نہ اپنے نفس کی اصلاح اس کا حق نہیں کہ کہے وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا.کیا اس کی دعا اس کے منہ پر نہ ماری جائے گی کہ کیا سری گلی چیز لایا ہے؟ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں تو ان میں تبلیغ نہیں کرتا، ان کو اسلام میں نہیں لا تا اور نہ اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کو مقام محمود عطا کر.یہ تو تمہارا کام ہے کہ تم رسول کو اس مقام پر کھڑا کرو.پس یہ ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی دعا تھی جس میں مسلمانوں کو ان کی زندگی کا سارا کام بتا دیا گیا تھا.مگر افسوس کہ الله مسلمان دن میں کئی بار پڑھنے کے باوجود اس کی حقیقت سے غافل ہیں.اسلام کے ابتدائی ایام میں اس کی طرف توجہ ہوئی لیکن بعد میں سینکڑوں سال سے غفلت ہو رہی ہے.اب احمدی جماعت نے پھر اس زمانہ میں اس کی طرف توجہ کی ہے.مگر یہ سارے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس وقت وہ اس دعوۃ تامہ میں لگ جائیں.مسلمان کہتے ہیں اسلام وہ تلوار ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا پھر کیا مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اس تلوار کو لے کر گھروں سے نکلیں لیکن مسلمان اس طرف سے غافل ہیں.کیا ایک شخص جو جانتا ہے کہ میرے ہتھیار تیز ہیں اور میری تلوار کا کاٹا بچتا نہیں وہ دشمن کے حملہ کرنے کے موقع پر گھر میں بیٹھا رہتا ہے؟ اگر واقعہ میں مسلمانوں کو یقین ہوتا کہ یہ وہ تلوار ہے جس کا کاٹا بچتا نہیں تو وہ ضرور اسے استعمال کرتے.وہ مونہوں سے ہزار دفعہ اتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ ہیں.و کہتے رہیں کہ اے خدا! تو آنحضرت ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت دے.مگر اس کا کیا فائدہ جب تک وہ ایسے کام نہیں کرتے جن سے رسول کریم ﷺ کو یہ مقام محمود مل سکتا ہے.سوچو! آنحضرت ﷺ کو وہ مقام کیونکر ملے جس کا تعلق ہم سے ہے جب کہ ہماری طرف سے اس کے لئے کوشش نہیں ہوتی.ایک جرنیل ایسے وقت میں جب لڑائی ہو ا.وہ

Page 325

سيرة النبي عالم 311 جلد 2 رہی ہو اپنے گھر کے دروازے بند کرے، زرہ اتار دے، ہتھیار الگ کر دے، چار پائی پر لیٹ جائے ، لحاف اوڑھ لے اور منہ سے کہے ہمارے بادشاہ کا ملک وسیع ہو جائے ، اسے فتح حاصل ہو تو کون اسے عقلمند اور بادشاہ کا خیر خواہ کہے گا.جب جنگ شروع ہے تو اس کا فرض ہے کہ ہتھیار لگا کر باہر آئے اور لڑے.پھر یہ کہے تو بادشاہ کا خیر خواہ کہلائے گا.ورنہ اگر گھر میں بیٹھا رہتا ہے تو وہ انعام کا مستحق نہیں ، سزا کا مستحق ہے اور اس لائق ہے کہ سر بازار اس کے جوتے لگائے جائیں کیونکہ وہ جنگ کے وقت لحاف اوڑھ لیتا اور صرف منہ سے کہتا ہے ہمارے بادشاہ کا ملک وسیع ہو.صرف منہ سے کہنے سے بادشاہ کا ملک وسیع نہیں ہو گا بلکہ جنگ کرنے سے ہوگا.اگر وہ سچا ہے تو اسے چاہئے تھا کہ تلوار لے کر باہر آتا اور دشمن سے لڑتا.لیکن بغیر لڑنے کے جو ایسا کہتا ہے جھوٹ کہتا اور سزا کے لائق.ہے.وسیلہ اور فضیلت یہ ہے کہ تبلیغ اور اصلاح کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کو وہ مقام محمود حاصل ہو جو پہلے نبیوں کو نہیں ملا.اور یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مثلاً اگر حضرت موسی دس آدمیوں کے متعلق کہیں کہ ان کو میرے ذریعہ ہدایت ہوئی تو محمد رسول اللہ ﷺ کئی ہزار کو پیش کر دیں کہ ان کو میرے ذریعے ہدایت ہوئی ہے.حضرت موسی اگر ایک کروڑ کو لائیں تو آنحضرت ﷺے دس کروڑ کو لا کھڑا کریں کہ ان کو میرے ذریعے ہدایت ہوئی ہے اور میرے ذریعے انہوں نے اصلاح پائی ہے.کیا یہ فضیلت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے سے حاصل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں.یہ تبلیغ اور نفس کی اصلاح سے ہی حاصل ہو گی.دیکھو ایک شخص زمین میں دانہ ڈالتا نہیں اور غلہ کے لئے دعا کرتا ہے تو صرف دعا سے اس کا غلہ کیسے بڑھے گا.مسلمان بھی جب تک کام نہ کریں اور جب تک تبلیغ نہ کریں کیسے بڑھ سکتے ہیں.مسلمانوں نے اگر پہلے نہیں سمجھا تو اب اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور دنیا کا کوئی کونہ نہ رہ جائے جس میں پہنچ کر وہ تبلیغ اسلام نہ کر

Page 326

سيرة النبي علم 312 جلد 2 رہے ہوں.اگر آنحضرت ﷺے ساری دنیا کی اصلاح کی تعلیم لائے تھے اور یقیناً لائے تھے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس رنگ میں اپنی اصلاح کریں کہ دنیا کے لوگ پکار اٹھیں محمد رسول اللہ ﷺ کیسے انسان تھے جنہوں نے اس قسم کے لوگ پیدا کر دیئے.مگر افسوس ہے کہ مسلمان اپنی اصلاح کرتے ہیں اور نہ تبلیغ.صلى الله یہ زمانہ اسلام پر بہت نازک زمانہ ہے اس میں خصوصیت سے آنحضر حملے ہو رہے ہیں.جس طرح بھی ممکن ہو دشمن آپ کی ہر بات پر اعتراض کر کے اسے بڑی مشکل میں پیش کر رہے ہیں.رنگیلا رسول کے مصنف کو اگر 18 ماہ کی قید ہوگئی تو صلى الله کیا اور اگر دس سال کی قید ہو جائے تو کیا.کیا اس سے رسول کریم علیہ مقامِ محمود پر کھڑے ہو جائیں گے؟ یہ تو ایک سرکاری حج نے فیصلہ کیا ہے کہ رنگیلا رسول کے مصنف کو سزا دے کر ظاہر کیا کہ محمد رسول اللہ ہی ہے ان باتوں کے مستحق نہیں جو آپ کے متعلق کہی گئیں.مگر یاد رکھو! رسول کریم علیہ انگریزوں کی یا کسی اور کی دی ہوئی تعریف کے ذریعہ مقام محمود نہیں پاسکتے.سینکڑوں ہزاروں گالیاں دینے اور مذمت کرنے والوں میں سے اگر ایک شخص کو سزا مل گئی تو کیا ہوا.اس طرح نہ وہ گالیاں دینی چھوڑے گا اور نہ ہی ایسے لوگ پیدا ہونے میں کمی ہوگی.اس کا تو ایک ہی ذریعہ ہے کہ ا اگر مسلمان اپنے طریق سے یہ بات ثابت کر دیتے ، اپنے چال چلن سے یہ بات ثابت کر دیتے ہیں، اپنے تقویٰ اور دینداری سے یہ بات ثابت کر دیتے کہ وہ متقی اور پر ہیز گار ہیں، وہ دیانتدار ہیں، محنتی ہیں ، کوشش کرنے والے ہیں اور علوم وفنون میں ترقی کرنے والے ہیں تو لوگ خود ہی تعریف کرتے اور خود ہی آنحضرت ﷺ کی خوبیاں بیان کرتے.پھر اگر ہزار رنگیلا بھی نکلتے تو ان کا کوئی اثر نہ ہوتا.یا اگر مسلمان تبلیغ کے لئے کھڑے ہو جاتے اور ان لوگوں میں سے جو اعتراض کرتے ہیں لاکھوں کو مسلمان بنا لیتے تو مذمت کرنے والے کم اور مدح کرنے والے زیادہ ہو جاتے اور آنحضرت ﷺ کی حمد بڑھنی شروع ہو جاتی.صلى الله

Page 327

سيرة النبي ع 313 جلد 2 الله میں اس موقع پر خصوصیت سے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ کھڑے ہو جائیں.ایک مکمل غدا اور ایک کامل عبادت ان کو دی گئی ہے جس کے نتائج یقینی ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.کیونکہ ان سے اگر فائدہ اٹھایا جائے گا تو آنحضرت ملے کی مذمت کرنے والوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور مدح کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی.یہی وہ طریق ہے جس سے تم رسول کریم ﷺ کو مقام محمود پر کھڑا کر سکتے ہو.اور یہ تمہارے اختیار میں ہے چاہو تو آپ کو اس منبر پر کھڑا کر دو جس پر آپ کی تعریف ہو اور چاہو تو اس جگہ پر آپ کو لے آؤ جہاں آپ کی مذمت ہو.لیکن اس صورت میں تمہارا یہ دعا مانگنا کہ اے خدا! آنحضرت ﷺ کو مقام محمود پر کھڑا کر تمسخر ہوگا ، ہتک ہو گی اور بے عزتی ہوگی.میں اپنی جماعت کے سوا باقی مسلمانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ پہلے نہیں سمجھے تو آج میرے ذریعے اس دعا کو سمجھ لیں اور اس شخص کے ذریعے اس دعا کو سمجھ لیں جسے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کا مطلب سمجھایا اور جس کے دل میں اسلام کا درد ہے.اس میں ان کی کوئی ہتک نہیں.اگر وہ میرے ذریعہ اس دعا کو سمجھ لیں گے تو پھر بھی وہ معزز کے معزز ہی رہیں گے.لیکن دشمنوں کی یہ بدسلو کی دیکھ کر بھی وہ اگر اب اس طرف توجہ نہ کریں تو دو ہرے مجرم ہوں گے.ایک پہلے کام نہ کرنے کے اور دوسرے اس وقت غفلت کرنے کے اور اس دعا کو نہ سمجھنے کے.پس میں پھر ان سے کہتا ہوں کہ اگر اسلام کا دردان کے اندر ہے تو وہ اس دعا کے مطلب کو مجھ سے سمجھ لیں اور پھر اس پر عمل کریں.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اس کے دین کے لئے کوشش کرنے والے ہوں ، تقویٰ حاصل کرنے والے ہوں اور ان برکتوں کو جو اسلام لایا دنیا میں پھیلا دیں اور آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچا دیں.( کیونکہ اس طرح آپ کی خدمت کرنے والے کم ہو صلى الله

Page 328

سيرة النبي علي 314 جلد 2 جائیں گے اور دین کو پھیلانے والے اور آنحضرت ﷺ کی مدح کرنے والے زیادہ (الفضل 10 مئی 1927 ء ) ہوں گے.1: بخارى كتاب الاذان باب الدعاء عند النداء صفحه 102 حدیث نمبر 614 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 329

سيرة النبي الله 315 جلد 2 وو رسول کریم علیہ کی پر حکمت تبلیغ کا نتیجہ حضرت مصلح موعود 6 مئی 1927ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :.رسول کریم ﷺ کے خلاف جس قدر مظالم بڑھتے گئے آپ تبلیغ پر زیادہ زور دیتے گئے.اسی طرح اب مسلمانوں کو بھی اس پر زور دینا چاہئے.دیکھو خود رسول کریم علیہ کو دشمنوں نے کس قدر تکالیف دیں.آپ کے آدمی مارے گئے.کیسے کیسے عالی شان صحابہ اور مخلص صحابیات قتل کی گئیں مگر رسول کریم ﷺ نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا.جب صحابہ اور صحابیات کو مارا گیا رسول کریم ﷺے بھی یہی کر سکتے تھے جواب مسلمان کر رہے ہیں مگر آپ نے یہ نہیں کیا بلکہ تبلیغ پر اور زیادہ زور دیا اور اتنا زور دیا کہ وہ جو آپ کو پتھر مارنے والے تھے وہ آپ کے دست راست بن گئے اور تبلیغ کے کام میں ہاتھ بٹانے والے ہو گئے.“ (الفضل 13 مئی 1927ء) 66

Page 330

سيرة النبي عالم 316 جلد 2 مکہ کی حفاظت کی اہمیت ہندو جب مکہ پر اپنا جھنڈا گاڑ نے کے خواب دیکھ رہے تھے حضرت مصلح موعود نے 13 مئی 1927ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.وو پس جب کوئی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ مکہ پر اپنا مذہبی جھنڈا گاڑے گی تو دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان کو بھی دنیا میں زندہ نہ چھوڑے گی اور ایک بھی اسلامی حکومت نہ باقی رہنے دے گی.کیونکہ جب تک کوئی اسلامی حکومت باقی ہو یا ایک ہی سچا مسلمان زندہ ہو اپنی جان دے دے گا مگر زندہ رہ کر کبھی گوارا نہ کرے گا کہ مکہ پر اوم کا جھنڈا کسی کو گاڑنے دے.پس جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ یہ کوئی مذہبی سوال نہیں اگر یہ مذہبی سوال ہوتا تو مختلف مذاہب والے جن میں ایک دوسرے سے زمین و آسمان کا فرق ہے وہ مسلمانوں کے خلاف کیوں مل جاتے.دراصل یہ سیاسی سوال ہے.ورنہ جینیوں اور سکھوں کا ہندوؤں سے کیا تعلق !! یہ لوگ اسلام کی نسبت ہندو مذہب کے زیادہ دشمن ہیں.ان کے اتحاد سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہبی سوال نہیں بلکہ سیاسی ہے.پس اوم کے جھنڈے سے مراد اوم کا جھنڈا نہیں بلکہ ہندوؤں کی حکومت اور بنوں کی حکومت کا جھنڈا ہے جسے مکہ پر گاڑنا چاہتے ہیں.اب میں پوچھتا ہوں ایسی حالت میں کسی اسلامی فرقہ کو جو دوسرے فرقہ کو کافر ہی سمجھتا ہو ا تحاد کرنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے.ہندوؤں کے ان ارادوں کا کہ مکہ پر اپنی حکومت کا جھنڈا گاڑنا ہے احمدی یا غیر احمدی، شیعہ یاسنی کے سوال سے کیا تعلق.

Page 331

سيرة النبي عمال 317 جلد 2 فرض کر لوشیعیت ہی کچی ہے.لیکن جب مکہ پر ہندوؤں کا جھنڈا جا گڑے گا تو کیا شیعیت باقی رہ جائے گی ؟ یا احمدیت سچی ہے ہمارے عقیدہ کی رو سے.کیا وہ باقی رہ جائے گی ؟ یا اگر حنفیت سچی ہے تو وہ باقی رہ جائے گی؟ یاد رکھو کوئی اسلامی فرقہ بھی باقی نہیں رہ جائے گا سب مٹیں گے.یہ کہہ دینا کہ مکہ کی حفاظت خدا کا کام ہے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں سخت نادانی ہے.کیا خدا کا کا م محمد علیہ کی حفاظت کرنا نہ تھا؟ اور کیا مکہ کی حفاظت کی طرح ہی قرآن کریم میں آپ کے متعلق نہیں آتا کہ واللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 1 پھر کیا صحابہؓ آپ کا پہرہ نہیں دیتے تھے ؟ حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قبیلہ کے لوگ آتے اور آ کر آپ کا پہرہ دیتے.حالانکہ اس وقت مدینہ پر اسلامی حکومت تھی اور ایسے جان نثار موجود تھے کہ جب جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم اللہ نے مسلمانوں سے پوچھا تمہاری کیا منشاء ہے تو اُس وقت ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! جو آپ کی مرضی وہی ہماری مرضی ہے.ایک اور صلى الله مہاجر نے بھی یہی کہا.اُس وقت تک انصار کم اور مہاجر زیادہ تھے اور رسول کریم ہے انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے.آپ نے فرمایا نہیں رائے دو.میں رائے پوچھتا ہوں.اُس وقت انصار نے سمجھا کہ ہم سے پوچھتے ہیں.ابتدا میں ان سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ شرط تھی کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو ہم لڑیں گے لیکن مدینہ سے باہر جا کر نہیں لڑیں گے.اب باہر جا کر لڑنا تھا اس لئے ان سے پوچھا گیا تھا.ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! وہ زمانہ اور تھا جب ہم نے آپ سے معاہدہ کیا تھا.جب ہم نے آپ کو خدا کا سچا رسول مان لیا تو پھر معاہدہ کیسا.آپ تو یہاں فرماتے ہیں اگر آپ کہیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے 2.آپ کے دائیں اور بائیں لڑیں گے اور آپ تک کوئی دشمن اُس وقت تک نہ پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے گا 3.پھر حدیثوں سے ثابت ہے سب سے بہا در صحابی وہ سمجھا جاتا تھا جو دورانِ جنگ

Page 332

سيرة النبي علي 318 جلد 2 میں رسول کریم ﷺ کے پاس کھڑا ہو کر لڑتا تھا کیونکہ حملہ کا سارا زور اس جگہ ہوتا تھا.میں پوچھتا ہوں جب خدا تعالیٰ نے آپ کے متعلق يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ فرمایا ہے تو پھر حفاظت کی کیا ضرورت تھی ؟ چاہئے تھا صحابہ آپ کو آگے کر دیتے اور خود پیچھے بھاگ جایا کرتے.مگر ایسا نہیں کیا جاتا تھا بلکہ حفاظت کی پوری پوری کوشش کی الله جاتی تھی.پس یہ کہنا کہ مکہ کی حفاظت کی ہمیں ضرورت نہیں سخت نادانی کی بات ہے.مکہ اور مدینہ خواہ کتنی ہی محترم جگہ ہوں محمد عے سے بڑھ کر نہیں ہو سکتیں.مدینہ کی برکت کیوں ہے؟ محمد ﷺ کی برکت کی وجہ سے.اسی طرح مکہ کی برکت کیوں ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے.پس جن کی وجہ سے ان مقامات کو برکت حاصل ہوئی وہ زیادہ مبارک ہیں یا یہ جگہیں ؟ مکہ حقیقتا کیا ہے؟ اینٹ پتھروں کی عمارتوں کا مجموعہ ہے.مگر محمد یہ تو خدا تعالیٰ کا زندہ نور تھے ، ان کے مٹنے سے ایمان اور نور مٹتا تھا.مگر مکہ کے مٹنے سے کیا مٹ جاتا.پس اگر کسی کی حفاظت کی ضرورت تھی تو وہ رسول کریم ﷺ کا وجود تھا.بے شک مکہ اور مدینہ کی حفاظت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا ہے مگر رسول کریم علیہ کی حفاظت کے وعدہ سے زیادہ نہیں.اور اگر محمد میے کی حفاظت کے لئے ظاہری تدبیریں ضروری تھیں تو مکہ کی حفاظت کے لئے کیوں نہیں.“ ( الفضل 20 مئی 1927 ء) صلى الله 1: المائدة: 68 2 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 675 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 3: بخاری کتاب المغازی باب قول الله اذ تستغيثون ربكم صفحہ 668 حدیث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية

Page 333

سيرة النبي الله 319 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے؟ ایک ہندو دیوی شرن شرما نے رسالہ ” ورتمان امرتسر میں رسول کریم ہے کے بارہ میں ایک لغو اور ہتک آمیز مضمون لکھا.حضرت مصلح موعود نے اس کا جواب دیتے ہوئے 29 مئی 1927 ء کو ایک مضمون لکھا جو درج ذیل ہے :.و مسیحی اور آریہ جس طرح سالہا سال سے بانی اسلام عَلَيْهِ السَّلَامُ فَدَتُهُ نَفْسِي وَ اَهْلِی کے خلاف زہرا گلتے چلے آ رہے ہیں اسے وہ لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں جو ان کی کتب کے پڑھنے کے عادی ہیں.وہ کتب اس قدر گندے الفاظ سے پُر ہیں کہ ایک مسلمان کے لئے ان کا پڑھنا ناممکن ہو جاتا ہے لیکن چونکہ مسلمان ان کتب سے عام طور پر واقف نہیں ہوتے انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کتب کے مصنفین ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کس قسم کے خیالات کی اشاعت کر رہے ہیں اور اس وجہ سے ان میں وہ بیداری بھی نہیں پیدا ہوتی جو قومی زندگی کے لئے ضروری ہے.وہ اپنی ذمہ داری سے غافل رہتے ہیں اور اسلام کی خدمت اور رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کا خیال ایک دبی ہوئی چنگاری کی طرح ان کے سینوں میں مخفی رہتا ہے.اسی نقص کو دیکھ کر بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنی کتب میں ان گالیوں کو نقل کر کے جو مسیحی اور آریہ مصنفین کی کتب میں ہمارے مقدس رسول کو دی گئی ہیں مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہا تھا لیکن افسوس کہ بعض انسانی فطرت کے

Page 334

سيرة النبي ع 320 جلد 2 ناواقفوں نے اس کا نام بے ادبی رکھا اور اس کے خلاف شور مچایا حالانکہ کفار کی گالیوں کو قرآن کریم بھی نقل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے زیادہ رسول کریم ﷺ کی عزت کی نگہداشت رکھنے والا اور کون ہوگا.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس گہری عداوت کی رو سے جو اندر ہی اندر مختلف مذاہب کے پیروؤں کے دلوں میں پیدا کی جا رہی تھی ناواقف رہے اور جبکہ دوسری اقوام اسلام کی دشمنی کے خیالات میں پل کر ہوشیار ہو رہی تھیں مسلمان غفلت کی نیند سو رہے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ دوسری اقوام کے دلوں میں ہماری نسبت کیا خیالات پیدا کئے جا رہے ہیں.ان فتنہ انگیز مصنفوں کی جرات بھی اس غفلت کی وجہ سے بڑھتی گئی اور آخر رنگیلا رسول، مسلمانوں کا خدا اور و چتر جیون جیسی کتب شائع ہونے لگیں جو زبان درازی اور فحش کلامی میں پہلی کتب سے بھی سبقت لے گئیں.اگر مسلمان پہلے ہی ہوشیار ہو جاتے ، اگر وہ پہلے ہی اس مرض کے علاج کی طرف توجہ کر لیتے تو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.مگر افسوس کہ علاج سے بے پرواہی کی گئی اور باطل پرستی کی روح اور بھی دلیر ہوگئی اور اس نے مذکورہ بالا کتب سے بھی بڑھ کر قدم مارا.پہلے تجربہ کی بنا پر یہ یقین کر لیا گیا کہ مسلمان کا دل لوہے کا ہے، اس کا کلیجہ پتھر کا ہے ، وہ ہر اک حملہ کو برداشت کر سکتا ہے، اس کی غیرت قصہ ماضی ہو چکی ہے اور اس کا عزم حکایت گزشتگان بن چکا ہے.چنانچہ آج مجھے اس تازہ حملہ کو مسلمانوں کے سامنے رکھنے کا نا خوشگوار فعل ادا کرنا پڑا ہے.ممکن ہے بعض لوگ مجھے بھی گالیاں دیں کہ میں نے دشمن کے اقوال نقل کر کے رسول کریم ﷺ دَتْهُ نَفْسِی وَ اَهْلِی کی بنک کی ہے.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ گو لوگ مجھے گالیاں ہی دیں لیکن ہر اک شخص جو رسول کریم ﷺ کی محبت کا ایک ذرہ بھی دل میں رکھتا ہے وہ اس حملہ کی حقیقت کو معلوم کر کے بیدار ہو جائے گا.پس میں اس ذلت کو جو رسول کریم ﷺ کی عزت کے قیام کے لئے اور مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی خاطر برداشت کرنی پڑے بخوشی قبول کرتا ہوں.

Page 335

سيرة النبي الله 321 جلد 2 66 یہ تازہ حملہ رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات پر ایک مضمون کی صورت میں رساله ورتمان امرتسر میں شائع ہوا ہے.اس کا لکھنے والا کوئی دیوی شرن شرما ہے جس نے ایک ڈرامہ کی صورت میں معراج نبوی کی نقل میں ایک مضمون شائع کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس میں ”محمد“ کی بجائے ”مہامند کر کے بیان کیا ہے اور حضرت عائشہ کا نام بگاڑ کر’ آشہ“ لکھا ہے اور حضرت زینب کا نام ”جنبھی اور حضرت علی کا نام "مرتضی سے بگاڑ کر مرتیو نجا“ رکھ دیا ہے مگر ان ناموں کے بگاڑنے سے بھی تمسخر مراد ہے.یہ کوشش مقصود نہیں کہ مسلمان حقیقت کو نہ سمجھیں اور ان کا دل نہ دکھے کیونکہ جو واقعات اس قصہ میں بیان ہیں وہ سب کے سب اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ ہر اک شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی گالیاں دی گئی ہیں اور کوئی خیالی قصہ مذکور نہیں ہے.شروع میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ایک نورانی جسم آسمان کی سیر کرانے کے لئے میرے پاس آیا اور میرے لئے ایک سواری لا یا جسے دنیا کے لوگ سن سنا کر ” براق کہتے ہیں.میں اس سواری میں بیٹھ کر پہلے جنت کی سیر کے لئے گیا.وہاں میں نے سری رامچند ر، سری کرشن ، شنکر آچاریہ، دسوں گورو اور پنڈت دیانند، پنڈت لیکھر ام اور سوامی شردھانند کو دیکھا.اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ میں نے دوزخ کے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور وہاں میں نے دیکھا کہ ایک دراز ریش بڑھا، برہنہ بدن آگ میں تپی ہوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، بہت سی بر ہنہ عورتیں اس کے گرد حلقہ کئے تھیں جو نہایت ہی حسین تھیں مگر بدن زخموں کی کثرت سے چھلنی ہو رہے تھے جن سے پیپ بہہ رہی تھی.پیاس کی شدت سے بڑھے کی زبان لٹک رہی تھی.پانی نایاب تھا اس لئے بار بار وہی پیپ پیتا تھا لیکن پیاس نہ بجھتی تھی.وہاں اور بھی مرد د عورت تھے.لیکن بڑھے کے نزدیک ایک سب سے زیادہ حسین لڑکا اور ایک نوجوان بیٹھے تھے.پھر لکھتا ہے کہ میرے پہنچنے پر بڑھا میرے پاؤں پر گر کر بولا وو

Page 336

سيرة النبي علي 322 جلد 2 66 اللہ مجھے بخشو.کئی سالوں سے عذاب میں مبتلا ہوں.میری شفاعت کرو.“ میں نے کہا ”مہامند ! تم تو خود کو شفیع کہا کرتے تھے اب میری شفاعت کی کیا ضرورت ہے.‘‘ مہامند نے جواب دیا.”یا حبیب اللہ! میں آپ سے وعدہ کر کے پھر گیا....خدا کے نام پر ان سب عورتوں کی عصمت دری کی....اب رحم کیجئے.خطا معاف کیجئے.میری شفاعت کیجئے.‘ میں : ” یہ امر ناممکن ہے خدا کی سزا میں کمی بیشی میرے احاطہ اختیار سے باہر ہے.میں شفیع نہیں ہوں.‘‘ بڈھا مایوس ہو کر بیہوش ہو گیا.تب اس لڑکی اور ایک عورت نے میرے پاؤں پکڑ لئے....میں نے لڑکی کا سر اٹھا کر کہا "آشہ تم کیوں اضطراب میں ہو تمہارا خاوند تو شفیع ہے.“ آشہ: ” ! يا حبيب الله ! کیا اپنی نفسانی خواہشات کی آگ، خدا کے نام پر کثیر التعداد عورتوں کی عصمت دری کرنے والا انسان بھی شفیع ہو سکتا ہے اور جس کی جان نزع کے وقت آسانی سے نہیں نکلتی تھی میری جوٹھی مسواک کے تھوک سے جس کی تکلیف کم ہوئی تھی وہ میرا شفیع نہیں ہو سکتا.اب میں بخوبی سمجھتی ہوں.“ میں : ”لیکن آشتہ تمہارا گناہ بھی نا قابل معافی ہے.مہامند کے مرنے کے بعد علم ہو جانے پر تمہیں یہ راز طشت از بام کر دینا چاہئے تھے مگر تم نے دنیا کی حرص میں اس کی تبلیغ کی اس لئے اور سزا بھگتو.اس کے بعد دوسری عورت بولی.لیکن حضور! میں قطعی بے قصور ہوں.میں اپنے خاوند کی خوشی سے ان کی نفس پرستی کا شکار ہوئی.‘ میں : جبھی کیوں جھوٹ بولتی ہے مہامند تیرا سسر تھا تو نے اپنے خاوند جنت کو کیوں نہ بتایا کہ عالم بالا کے فرشتوں کے سامنے شادی ہونے کا دعویٰ بالکل غلط ہے اور صریح دھوکا ہے.تو بھی مقررہ میعاد تک عذاب کا مزہ چکھ.آگے حضرت علیؓ کے متعلق بھی لکھا ہے لیکن میں اسے نہیں سمجھا اس لئے اسے چھوڑتا ہوں.ہر اک مسلمان اس امر کو سمجھ سکتا ہے کہ اس افسانے کے پردہ میں رسول کریم ہے کی وفات کے واقعہ، حضرت عائشہ کے آپ ع کو مسواک چبا کر دینے کے واقعہ

Page 337

سيرة النبي عل الله 323 جلد 2 اور حضرت زینب کے نکاح کے واقعہ کی طرف اشارہ کر کے افترا اور جھوٹ کی نجاست پر منہ مار کر اور اصل واقعات کو بگاڑ کر رسول کریم ﷺ اور امہات المومنین صلى الله رَضِيَ اللهُ عَنْهُنَّ کو ایسی گندی گالیاں دی گئی ہیں کہ شاید ایک چوڑھا بھی اس قسم کی گالیاں دینے سے دریغ کرے گا.لیکن ان دشمنانِ اسلام کو آج ہماری ساری قوم کا اس قدر بھی پاس نہیں رہا جس قدر کہ ایک معمولی آدمی کے احساسات کا ہوتا ہے اور اس قسم کے مصنفین میں اس قدر بھی شرافت نہیں رہی جس قدر کہ ایک چوڑھے میں ہوتی ہے.کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آ سکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بے کسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ فَدَتْهُ نَفْسِی وَ اَهْلِی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ ان پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے؟ اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا ؟ ہماری جانیں حاضر ہیں، ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں، جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدا را نبیوں کے سردار محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دے کر ، آپ کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس ذات بابرکات سے ہمیں اس قدر تعلق اور وابستگی ہے کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم کبھی صلح نہیں کر سکتے.ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز نہیں

Page 338

سيرة النبي الله 324 جلد 2 ہوسکتی جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں.بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائیکورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے صل الله رسول مہ کو گالیاں دے لیں لیکن وہ یا درکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا ایک اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت ہے.وہ اپنی طاقت کی بنا پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانونِ قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے.اور قانونِ قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوئی ہے اسے برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا.اور اب جبکہ ہند و صاحبان کی طرف سے ہمارے رسول پاک کی اس قدر ہتک کی گئی ہے کہ جس کا واہمہ بھی آج سے پہلے ہمیں نہیں ہوسکتا تھا اور جبکہ باقی قوم نے ان لوگوں کو ملامت نہیں کی بلکہ ان کا ساتھ دیا ہے تو اب مسلمانوں سے اُس وقت تک صلح کی امید رکھنی اور محبت کی توقع رکھنا بالکل فضول اور عبث ہے جب تک یہ لوگ اپنے افعال پر ندامت کا اظہار نہ کریں.آہ! میں انسانی فطرت کے اس نا پاک اظہار کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ہم لوگ تو ہند و رشیوں اور ہندو بزرگوں کا ادب کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ کا برگزیدہ تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ لوگ ہمارے آقا اور سردار کے متعلق اس قسم کے گندے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اس ناپاک فعل سے ذرا بھی نہیں شرماتے.مگر میرے نزدیک اس میں ان کا قصور نہیں.وہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں اب غیرت نہیں رہی.وہ کبھی کبھی بیجا جوش تو دکھا بیٹھتے ہیں لیکن غیرت جو مستقل عمل کو ابھارنے والی ہے ان میں کم ہے اس لئے وہ دلیر ہو رہے ہیں اور وہی تدابیر اختیار کر رہے ہیں جو سپین میں مسیحیوں نے اختیار کی تھیں.اور وہ یہ تھیں کہ جب انہوں نے ارادہ کر لیا کہ سپین سے مسلمانوں کو نکال دیا جائے تو انہوں نے اپنی قوم کو ابھارنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا کہ بعض لوگ مساجد میں مسلمانوں کا لباس پہن کر چلے جاتے اور جب مسلمان جمع ہو جاتے تو

Page 339

سيرة النبي ع 325 جلد 2 وہ ایک یا ایک سے زیادہ آدمی کھڑے ہو کر بے نقط گالیاں رسول کریم ﷺ کو نکا لنے لگ جاتے.مسلمان ان کی تدبیر سے واقف نہ تھے بعض جو شیلے نو جوان ان کو قتل کر دیتے تو وہ سب ملک میں شور مچا دیتے کہ دیکھو اس طرح ظالمانہ طور پر مسیحیوں کو مارا جاتا ہے.اس کارروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب قوم بیدار ہو گئی اور اس میں ایک آگ بھڑک اٹھی اور اس جوش سے فائدہ اٹھا کر مسیحی ریاستوں نے مسلمانوں کو جو پہلے ہی کمزور ہو رہے تھے ملک سے نکال دیا.یہی تدبیر مذکورہ بالا قسم کی ہندو مصنفین استعمال کر رہے ہیں.ہ مسلمانوں کو اس قدر جوش دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان آپے سے باہر ہو کر خونریزی پر اتر آئیں اور اس طرح انہیں اپنی سنگھٹن میں مدد ملے.لیکن کیا مسلمان اس دھو کے میں آئیں گے؟ آخر سوامی شردھانند کے قتل سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا؟ خونریزی ہرگز کوئی نفع نہیں دے سکتی.وہ اخلاقی اور تمدنی طور پر قوم کو سخت نقصان پہنچاتی ہے.پس مسلمانوں کو اس قسم کی تحریروں سے ضرور واقف ہونا چاہیئے لیکن اپنے جوشوں کو دبا کر غیرت پیدا کرنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ آخر رسول کریم ﷺ پر اس قدر شدید حملوں کی ہندوؤں کو جرات کیوں ہوئی ہے؟ اگر وہ اس امر پر غور کریں گے تو انہیں معلوم ہو گا کہ اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ان کے نزدیک مسلمان آپ کے ناخلف فرزند ہیں.پس وہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کی جرات نہیں.پس اگر مسلمان رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں تو ان کا صل الله فرض ہے کہ وہ ہند و قوم پر ثابت کر دیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کی عزت کے قیام کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہیں.اور اگر وہ اس امر کے لئے تیار ہوں تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس قسم کے حملوں کا دفعیہ صرف اورصرف تین طرح ہوسکتا ہے.(1) اپنی عملی حالت کی اصلاح سے.تا کہ ہمارے عمل کو دیکھ کر ہر اک دشمن اسلام یہ کہنے پر مجبور ہو کہ جس استاد کے یہ شاگرد ہیں اس کی زندگی کیا ہی شاندار اور مزکی ہوگی.(2) تبلیغ کے ذریعہ سے.تا کہ جو لوگ گالیاں دینے والے ہیں ان کی تعداد

Page 340

سيرة النبي عل الله 326 جلد 2 خود بخود کم ہونے لگے اور جو پہلے گالیاں دیتے تھے اب درود پڑھنے لگیں.مکہ کے لوگوں کی گالیاں کس طرح دور ہوئیں؟ اسی طرح کہ وہ اسلام کو قبول کر کے درود بھیجنے لگے.پس اب بھی اس دریدہ دہنی کا یہی علاج ہوسکتا ہے.اس تدبیر سے ہراک شریف الطبع تو اسلام کی خوبیوں کا شکار ہو جائے گا اور شریر الطبع جن کو اپنی تعداد پر گھمنڈ ہے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر خود ہی ان طریقوں سے باز آجائیں گے.(3) تیسرا طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمدنی حالت کو درست کیا جائے.ان ہند و مصنفین کو اس امر پر بھی گھمنڈ ہے کہ ان کی قوم دولتمند ہے اور گورنمنٹ میں اسے رسوخ حاصل ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ بات سچی ہے.مگر اس کی وجہ خود مسلمانوں کی غفلت ہے.مسلمان جو کچھ کماتے ہیں اسے خرچ کر دیتے ہیں اور اکثر ہندوؤں کے مقروض ہیں اور ایک ارب کے قریب روپیہ سالانہ مسلمان ہندوؤں کو سود میں ادا کرتے ہیں اور اشیائے خوردنی کی خرید میں اس کے علاوہ روپیہ ادا کرتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو لوگ روز بروز دولتمند ہورہے ہیں اور مسلمان روز بروز گر رہے ہیں.وہ طاقتور ہو رہے ہیں اور یہ کمزور.پنجاب جہاں ایک ہندو کے مقابلہ میں دو مسلمان ہیں وہاں بھی ہندوؤں کے دس روپیہ کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس بمشکل ایک ہے اور ملازمتوں میں بھی دو دو تین تین ہندوؤں کے مقابلہ میں ایک ایک مسلمان بمشکل ملتا ہے.پس اس حالت کو بدلنا مسلمانوں کا اہم فرض ہے.ہراک جو رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتا ہے جو چاہتا ہے کہ آپ کو گالیاں نہ دی جائیں اس کا فرض ہے کہ بجائے وحشت دکھا کر اسلام کو بدنام کرنے کے صحابہ کرام کی طرح غیرت دکھائے اور دائمی قربانی سے اسلام کو طاقت دے.ہر اک مسلمان کو چاہئے کہ جس طرح ہندو مسلمانوں سے چُھوت کرتے ہیں وہ بھی ہندوؤں سے چُھوت کرے اور سب کھانے کی چیزیں مسلمانوں ہی کے ہاں سے خریدے.اور دوسری اشیاء کے لئے

Page 341

سيرة النبي علي 327 جلد 2 بھی ممکن حد تک مسلمانوں کی دکانیں کھلوانے کے لئے کوشش کرے اور ان کی امداد کا خیال رکھے.بائیکاٹ کو میں ذاتی طور پر نا پسند کرتا ہوں لیکن یہ بائیکاٹ نہیں بلکہ ترجیح ہے اور ترجیح پر کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا.میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت ہر اک وہ شخص جو اسلام سے محبت کا دعویٰ رکھتا ہے اب غفلت کی نیند کو ترک کر کے عمل کے میدان میں آجائے گا اور ہندوؤں کی تمدنی غلامی سے آزاد ہونے اور دوسروں کو آزاد کرانے کی پوری کوشش کرے گا.تا کہ ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ رسول کریم ﷺ کی کچی غیرت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور وہ آپ کی عزت کے قیام کے لئے مستقل قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر مسلمان اس کام پر آمادہ ہو جائیں گے تو یقیناً وہ ہندو جو دل سے برے نہیں ہیں لیکن بعض شوریدہ سر لوگوں کے شور سے ڈرے ہوئے ہیں اس خطرہ کو محسوس کریں گے جو تمدنی طور پر ان کے سامنے پیش ہے اور وہ خود ہی ان لوگوں کو باز رکھیں گے اور حکومت کو بھی یہ احساس ہوگا کہ مسلمان بھی سنجیدگی سے کسی کام کے کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں اور محض وقتی جوش کا شکار نہیں ہوتے اور اس کے افسروں کے دلوں میں بھی مسلمانوں کا احترام پیدا ہوگا اور وہ خیال کریں گے کہ یہ ایک عظمند قوم ہے اور اپنے جوشوں کو دبا کر اور امن کے قیام کو اپنا اولین مقصد قرار دے کر اپنے مذہبی فوائد کی نگہداشت کرتی ہے.اے بھائیو! میں دردمند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑ پڑتا ہے.جولڑ پڑتا ہے وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے.بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اس کو پورا نہ کر لے اس سے پیچھے نہیں ہوتا.پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کرلو.اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.اور تیسرے یہ کہ

Page 342

سيرة النبي علي 328 جلد 2 آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے بکلی آزاد نہ ہو جائیں.اور جب آپ یہ عہد کر لیں تو پھر ساتھ ہی اس کے مطابق اپنی زندگی بھی بسر کرنے لگیں.یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہند و مصنفین کی طرف سے رسول کریم ﷺ فَدَتْهُ نَفْسِي وَ أَهْلِی کو دی جاتی علوم ہیں.اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بدامنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں.ورنہ اس وقت تو وہ نہ اپنے کام کے ہیں نہ دوسروں کے کام کے.اور وہ قوم ہے بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کر سکتی.کیا کوئی دردمند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو؟ وَ آخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور "29-05-1927 (الفضل 10 جون 1927ء)

Page 343

سيرة النبي عالم 329 جلد 2 رسول کریم ﷺ کی بلندشان ہند و رسالہ ” در تمان“ نے رسول کریم علیہ کی شان میں گستاخانہ طرز عمل اختیار کیا.اس کے جواب میں 10 جون 1927ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.پچھلے دنوں میں نے درس کے موقع پر قادیان میں ایک رسالہ کا ذکر کیا تھا جس میں رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات کے متعلق اس قدر گندے الفاظ استعمال کئے گئے تھے جو کسی شریف الطبع انسان کی زبان اور قلم سے نہیں نکل سکتے.ایسے الفاظ کا استعمال خود استعمال کرنے والے کی گندی فطرت پر تو دلالت کرتا ہے لیکن ان کا اثر اس شخص پر کچھ نہیں پڑ سکتا جس کو برا کہا گیا.مگر باوجود اس کے ہر اس شخص کا جو اس ذات سے تعلق محبت رکھتا ہو جسے برے الفاظ سے یاد کیا گیا ہو فرض ہے کہ وہ اپنے محبوب اور محسن کی ہتک کے برخلاف آواز اٹھائے.گوجیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کی گالیوں کا اثر آنحضرت ﷺ پر نہیں پڑ سکتا.چاند پر تھوکنے والا چاند پر تھوک نہیں ڈال سکتا.وہ تھوک اس کے ہی منہ پر پڑتی ہے.آنحضرت ﷺ کی شان تو وہ ہے جس کے سامنے چاند اور سورج بھی گرد ہیں.ایک غیر متلو الہام کے ذریعہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْافُلاكَا اگر تیرے جیسے عظیم الشان انسان کی پیدائش مدنظر نہ ہوتی تو میں زمین اور آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا.پس زمین اور آسمان کی پیدائش جس وجود کی وجہ سے ہوئی اسے گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا اس کی ہتک نہیں بلکہ اس شخص کی اپنی ہتک ہے جو گالیاں دیتا اور برا بھلا

Page 344

سيرة النبي عمال کہتا.330 جلد 2 لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس فطری تقاضا کی وجہ سے میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی.اور خدا کا فضل ہے کہ وہ رسالہ ضبط ہو گیا اور اس مضمون کا لکھنے والا اور اس رسالہ کا ایڈیٹر دونوں گرفتار ہو گئے.اور بعد میں ہمارا اشتہار بھی ضبط ہو گیا.لیکن ہمارے سامنے یہ بات نہیں کہ زید یا بکر قید ہو جائے.اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.ہمیں فائدہ اگر ہے تو اس میں کہ کوئی ایسی ناپاک آواز سننے والا نہ رہے جیسی اس رسالہ میں بلند کی گئی ہے.کیونکہ قاعدہ ہے کہ دنیا میں کوئی آواز نہیں اٹھتی جب تک اس کے اٹھانے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس آواز کو سننے والے موجود ہیں.پس ہمارا فائدہ اس میں نہیں کہ کوئی قید ہو جائے بلکہ اس میں ہے کہ کوئی اس آواز کو سننے والا نہ رہے.جس شخص کے پیچھے خدا تعالی کی آواز محرک کے طور پر نہیں ہوتی وہ کوئی ایسی آواز نہیں اٹھاتا جسے قبول کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں سوائے اس کے کہ وہ پاگل ہو.پس ورتمان“ کے ایڈیٹر اور اس کے نامہ نگار جیسے لوگ جب گندے اور ہتک آمیز فقرے استعمال کرتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پبلک میں سے ایک حصہ ضرور ان کے فعل کو بنظر استحسان دیکھے گا اور اسے کار ثواب سمجھے گا.پس جنہوں نے مضمون لکھا اور شائع کیا اور جنہوں نے اسے بنظر استحسان دیکھا ان میں فرق یہ ہے کہ پہلوں نے اپنے خیالات کو ظاہر کر دیا اور دوسروں نے انہیں دماغ پر کندہ کیا ہوا تھا.یہ دونوں ہمارے لئے برابر ہیں.کسی وفات یافتہ شخص کے متعلق ایک جماعت کا یہ سمجھتے رہنا کہ وہ چور ہے اور ایک جماعت کا اسے ظاہر کر دینا اس کی حقیقی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے برابر ہے.اصل چیز دل ہے.اگر دلوں میں کسی کے حسن کی قدر نہیں اور اس کا اعتراف

Page 345

سيرة النبي عمال 331 جلد 2 نہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ حسن جلوہ گر نہیں ہوا.پس جب تک کہ قلوب کی اصلاح نہ کی جائے اور ان میں یہ یقین نہ پیدا کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی ایسی پاک ہے کہ اس کا نمونہ دنیا میں ملنا ناممکن ہے اُس وقت تک ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے.اگر ایسے اشخاص کو جو آپ ﷺ کے متعلق برے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ہتک آمیز فقرے لکھتے ہیں جیسے کہ ور تمان“ اور اس کے نامہ نگار نے لکھے.دو نہیں ، دس نہیں ، سونہیں، پچاس ہزار سال کے لئے بھی گورنمنٹ قید کر سکتی ہو اور ایسا کر دے تو اس سے ایک مسلمان کو کوئی خوشی نہیں ہو سکتی کیونکہ جس شخص نے رسول کریم ﷺ کے متعلق الله الله اپنے برے خیالات کو ظاہر کیا ہے اس نے رسول کریم ﷺ کے متعلق کوئی نیا پہلو اختیار نہیں کیا بلکہ صرف ہمارے احساسات کو صدمہ پہنچایا ہے اس لئے اس کے قید ہونے سے رسول کریم ﷺ کی عزت نہیں بڑھتی بلکہ جو صدمہ ہمارے احساسات کو پہنچایا گیا تھا اس کا ازالہ ہوتا ہے.چنانچہ گورنمنٹ کا قانون بھی اسی پر دلالت کرتا ہے.گورنمنٹ کا قانون یہ نہیں کہ ایک معزز شخص کو برا کہنے پر ایسا آدمی سزا پاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ چونکہ وہ اس بزرگ کے ماننے والوں کے دلوں کو تکلیف دیتا ہے اس لئے اسے سزا دی جاتی ہے.پس سزا رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمارے احساسات کی حفاظت کے لئے ہے اور جو شخص رسول کریم علی کی بدگوئی کرنے والے کی سزا پر خوش ہو جاتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کی عزت پر اپنے صلى الله احساسات کو مقدم کرتا ہے.ہمیں کسی کے قید ہونے پر نہیں بلکہ اس امر پر خوشی ہونی چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق جو لوگوں کو بدظنیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ دور ہو جائیں اور اپنی تمام تر کوششیں ہمیں اسی امر کے لئے صرف کر دینی چاہئیں.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو بھی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے لئے یہ کوئی خوشی نہیں کہ ”ورتمان“ کا ایڈیٹر یا اس کا نامہ نگار قید ہو جائیں اور پھر یہ بھی تو ابھی معلوم نہیں کہ

Page 346

سيرة النبي ع 332 جلد 2 وہ ضرور ہی قید ہوں.ہو سکتا ہے کہ وہ قید نہ ہوں کیونکہ صوبہ کی عدالت عالیہ کا ابھی ایک فیصلہ ہو چکا ہے جس میں ایک ایسا ہی شخص بری کر دیا گیا ہے اور اگر ماتحت عدالتیں انہیں قید بھی کر دیں تو ممکن ہے کہ ان کے فیصلہ کے خلاف اپیل ہو اور وہ کسی ایسے حج کے سامنے پیش ہو جو اس مضمون کے متعلق یہی سمجھتا ہو کہ اس سے منافرت پیدا نہیں ہوتی تو ایسا حج پھر یہی فیصلہ کر دے گا جو صوبہ کے اعلیٰ حاکم نے حال ہی میں کیا اس لئے ہمارے لئے اس وقتی خوشی میں فائدہ نہیں.الله اگر ہم رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتے ہیں تو ہماری خوشی اس میں ہونی چاہئے کہ ہم دنیا سے رسول کریم ﷺ کی نسبت شکوک وشبہات کو دور کرنے میں کامیاب ہوں.سچی محبت قربانی کا مطالبہ کرتی ہے.کسی شخص کے قید ہو جانے میں ہم کون سی قربانی کرتے ہیں.قید گورنمنٹ کراتی ہے.پس اس فعل میں اگر کوئی خوبی ہے تو اس کی مستحق گورنمنٹ ہے نہ کہ مسلمان.مسلمان تب ہی سرخرو ہو سکتے ہیں جب کہ وہ رسول کریم ﷺ کی محبت کا عملی ثبوت دیں اور آپ علیہ کی عزت کے قیام کے لئے اپنے اوقات اور اپنے اموال خرچ کر کے دکھا ئیں.جو شخص صرف کسی کے قید ہونے صلى الله پر تسلی پا جاتا ہے اور رسول کریم ﷺ کی عزت کے قیام کے لئے خود کوئی کوشش نہیں کرتا وہ اپنے محبت کے دعوئی میں جھوٹا ہے اور اس کی محبت کی خدا تعالیٰ کے نزدیک اور اہل دل کی نگاہ میں ایک ذرہ بھر قدر نہیں.پس میں عام مسلمانوں کو عموماً اور اپنی جماعت کے لوگوں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ ہمیں یہ مقصد سامنے رکھنا چاہئے کہ اسلام پھیلے اور آنحضرت ﷺ کی براءت ہو.قطع نظر اس بات کے کہ وہ اشخاص قید ہوتے ہیں یا نہیں ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے گالیاں تو دے لیں اور یہ گالیاں اب واپس نہیں ہوسکتیں.اس لئے بجائے اس کے کہ ہم یہ دیکھیں کہ وہ قید ہوتے ہیں یا نہیں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کے خیالات کو تبدیل کریں.اور میں کئی بار اعلان کر چکا ہوں کہ وہ کوشش

Page 347

سيرة النبي الله 333 جلد 2 تین طریق سے ہو سکتی ہے.اول تبلیغ کے ذریعے.دوم اپنے نفس کی اصلاح سے.سوم اقتصادی اور تمدنی حالت کی درستی سے.یہ تین باتیں ہیں جن سے لوگوں کے خیالات تبدیل ہو سکتے ہیں.ان لوگوں کو دولت اور روپیہ کا گھمنڈ ہے اور وہ اس زور اور گھمنڈ کی بنا پر مسلمانوں کو بالکل ذلیل خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہمارے غلام بلکہ غلاموں کے بھی غلام ہیں.اس لئے ایسی گندی تحریریں شائع کرنے والے مسلمانوں کو تکلیف دینے یا صدمہ پہنچانے میں کوئی خوف نہیں محسوس کرتے.کیونکہ جانتے ہیں کہ ان کی قوم لاکھوں روپے مقدمات پر خرچ کرنے کے لئے تیار ( الفضل 8 جولائی 1927ء) ہے.66 1 : موضوعات کبیر ملاعلی قاری صفحہ 59 مطبوعہ دہلی 1346ھ

Page 348

سيرة النبي الله 334 جلد 2 صلى الله کفار کے مظالم کے مقابلہ میں رسول کریم علی کارد عمل عليسة دو صلى الله حضرت مصلح موعود 17 جون 1927ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم ہے کے زمانہ میں دشمنوں نے طرح طرح سے آپ کو دکھ دیئے.آپ پر اتہام لگائے ، آپ کے ماننے والوں کو تنگ کیا، ان پر ظلم کئے لیکن رسول کریم نے صحابہ کو اس بات سے روک دیا کہ وہ ان کے مقابلہ میں اپنے ہاتھ ، اپنی زبان یا کان استعمال کریں.اس وجہ سے صحابہؓ نے دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے ہاتھ نہ استعمال کئے ، ان کو گالیاں نہ دیں، ان سے غصہ کے چہرے نہ بنائے اور اگر چہرہ بنایا گیا تو اسلام نے اسے ناپسند کیا.اور یہی کہا کہ دشمنوں کے مظالم کے مقابلہ میں تمہارے چہروں پر مسرت اور زبانوں پر خوشی کے کلمات ہوں اور تمہارے ہاتھ ان کی بہتری کے لئے کام کریں.چنانچہ صحابہ نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے تبلیغ اسلام پر زور دیا.ان کے لئے خدا تعالیٰ کی نصرت آئی.لیکن اس کے لئے انہیں تدبیریں کرنی پڑیں.حدیثوں میں آتا ہے جب تک مسلمانوں کو غلبہ حاصل نہیں ہوا اُس وقت تک انہوں نے کفار کے ہاتھوں کا کھانا نہ کھایا اور سالہا سال تک ان کا کھانا منع رہا.اس کی یہ تھی کہ گو کفار کی تعداد ان سے زیادہ تھی اور کفار بہت طاقتور بھی تھے تو بھی انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ لینا ہو گا مسلمانوں سے ہی لیں گے.اگر اس تدبیر پر عمل نہ کیا جاتا اور مسلمان کفار سے خرید وفروخت کرنے سے نہ رکتے تو مسلمان بالکل کنگال اور

Page 349

سيرة النبي ع 335 جلد 2 بے حال ہو جاتے.پس اُس وقت رسول کریم علیہ نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ دشمنوں سے لڑو، ان کو گالیاں دو، ان پر غصہ کا اظہار کرو بلکہ یہ کہا کہ جو تد بیر تمہاری تباہی کی یہ کر رہے ہیں کہ تمہارا بائیکاٹ کر رکھا ہے یہی تم بھی ان کے متعلق کرو.اس کا نتیجہ کم از کم یہ تو ہو گا کہ مسلمانوں کی دولت مسلمانوں کے ہی گھروں میں رہے گی.چنانچہ اس طرح مسلمانوں کے اموال محفوظ رہے.اسی طرح اور جس قدر معاملات رسول کریم صلى الله ے کے زمانہ میں ہوئے ان میں آپ نے اسی احتیاط سے کام لیا.صلح حدیبیہ کے وقت جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو حضرت علی نے رسول کریم علی کی طرف سے لکھا کہ محمد رسول اللہ یوں کہتا ہے.کفار نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم تو انہیں رسول نہیں سمجھتے.اگر رسول سمجھتے تو لڑتے کیوں.اس لئے رسول اللہ کے الفاظ نہ ہوں.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ کاٹ دو.حضرت علیؓ نے کہا مجھ سے تو یہ نہیں ہوسکتا.آپ نے فرمایا لاؤ میرے پاس اور آپ نے انگوٹھے سے وہ الفاظ مٹا دیئے 1 اور کفار کی بات مان لی.اس طرح ان کو اس تدبیر میں لے آئے جو بالآخران کی تباہی کا موجب ہو گئی.اور وہ یہ تھی کہ کفار نے چاہا تھا کہ مکہ سے جولوگ اسلام قبول کریں وہ رسول کریم ﷺ کے پاس مدینہ نہ جائیں اور اگر جائیں تو آپ ان کو واپس بھیج دیں.بظاہر یہ ایک ہلاکت کی بات نظر آتی ہے مگر رسول کریم ﷺ نے اسے منظور کر لیا.اس سے صحابہ میں جوش پیدا ہوا کہ اس شرط کا قبول کرنا مسلمانوں کی ہتک ہے کیونکہ معاہدہ یہ قرار پایا تھا کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اسے مکہ واپس آ جانے کی اجازت ہو.لیکن اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو وہ مسلمانوں کے پاس مدینہ نہ جائے اور اگر جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے.صحابہ کو اس پر بہت جوش آیا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو کافر ہو جائے اسے ہمیں کیا کرنا ہے جہاں چاہے چلا جائے.اور جو مسلمان ہو گا وہ جہاں ہوگا وہیں تبلیغ کرے گا اس لئے جو مسلمان مکہ میں رہیں گے وہ اوروں کو مسلمان بنا ئیں گے 2.

Page 350

سيرة النبي الله 336 جلد 2 علومة صلى الله اب دیکھو اس معاملہ میں کیا نتیجہ نکلا.کفار کی تباہی کا موجب یہی معاہدہ بن گیا.اور وہ اس طرح کہ مکہ کے بعض لوگ مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو کر کفار کی تکلیفوں سے بچنے کے لئے مدینہ آ گئے.ان کو واپس لے جانے کے لئے کفار کے آدمی رسول کریم ہے کے پاس آئے اور واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا.رسول کریم نے ان کو واپس کر دیا مگر وہ رستہ سے چھوٹ کر پھر بھاگ آئے.جب پھران کو لینے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے تو معاہدہ کی رو سے ہمیں بھیج دیا تھا اب ہم ان سے چھوٹ کر آ گئے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں تم چلے جاؤ.وہ چلے تو گئے لیکن مکہ جانے کی بجائے مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ٹھہر گئے.اور جب اور لوگوں کو بھی پتہ لگا کہ وہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو وہ بھی آنے لگ گئے اور ان کی ایک جماعت بنی شروع ہو گئی.چونکہ وہ کفار کے ستائے ہوئے تھے اس لئے شام کی طرف جو قافلے جاتے ان سے چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی.آخر مکہ والوں نے مجبور ہو کر رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس بلا لو.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ان کو بلا لیا 3.یہ بھی ایک تدبیر تھی جس سے فتح مکہ کی بنیاد رکھی گئی.اگر اُس وقت صحابہ لڑ پڑتے اور اس تدبیر کو قبول نہ کرتے تو فتح نہ ہوتی.پس فتح ہمیشہ دماغ کے ذریعہ ہوتی ہے.اور چونکہ دماغ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسان کے سارے جسم پر حکومت کرے اس لئے جس طرح بے سر کی کوئی فوج کامیاب نہیں ہوسکتی اسی طرح بے سر کا کوئی انسان بھی کامیاب نہیں ہو سکتا.“ ( الفضل 24 جون 1927ء ) 1: بخاری کتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ما صالح فلان صفحہ 440 حدیث نمبر 2698 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3،2:بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد في 450،449 حدیث نمبر 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 351

سيرة النبي الله 337 جلد 2 رسول کریم علیہ کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض 1927ء میں ایک دریدہ دہن شخص راجپال نے ایک کتا بچہ ”رنگیلا رسول“ کے نام سے شائع کیا جس میں رسول کریم ﷺ کی سیرت پر ناپاک حملے کئے گئے.اس سے مسلمانوں کو شدید ذہنی اذیت پہنچی.حکومت کی طرف سے مقدمہ چلا کر اسے کچھ قید کی سزا ہوئی لیکن اپیل پر کنور دلیپ سنگھ حج ہائی کورٹ نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی تو ہین قانون کی زد میں نہیں آتی.جس پر لاہور کے انگریزی رسالہ ”مسلم آؤٹ لگ“ Muslim Outlook) میں اداریہ شائع ہوا جس میں جج کے فیصلہ پر تنقید کی گئی.اس پر اخبار کے مالک مولوی نور الحق صاحب اور پرنٹر سید دلاور شاہ صاحب احمدی پر توہین عدالت کا مقدمہ چلا کر چھ ماہ قید اور جرمانہ کی سزا ہوئی.اس پر حضرت مصلح موعود نے 23 جون 1927 ء کو مندرجہ ذیل مضمون لکھا:.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ ابھی پانچ ہی دن ہوئے کہ سید دلاور شاہ صاحب بخاری اپنے ایک عزیز کے ساتھ اس نوٹس کے متعلق جو ہائی کورٹ کی طرف سے مستعفی ہو جاؤ“ والے مضمون کے متعلق انہیں ملا تھا میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے دریافت کیا کہ انہیں اس

Page 352

سيرة النبي عمال 338 جلد 2 موقع پر کیا کرنا چاہئے.اور ضمناً ذکر کیا کہ بعض لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ اظہار افسوس کر دینا چاہئے.میں نے انہیں کہا کہ ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں لیکن جبکہ ایک مضمون آپ نے دیانت داری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر ایک مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور کیا ہوسکتا ہے.یہ رسول کریم ﷺ کی محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی کے معارض بیان پر بغیر آواز اٹھانے کے نہیں رہ سکتے.میں قانون تو جانتا نہیں اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لیں مگر میری طرف سے آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب میں یہ لکھوا دیں کہ اگر ہائی کورٹ کے بچوں کے نزدیک کنور دلیپ سنگھ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہوں.جیسا کہ سب احباب کو معلوم ہے اس مضمون کو نہایت خوبصورت الفاظ میں سید دلاور شاہ صاحب نے اپنے جواب کے آخر میں درج کر دیا اور مؤمنانہ غیرت کا تقاضا یہی تھا کہ وہ اپنا حقیقی جواب وہی دیتے جو انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں دیا.الله قانون کا حیرت انگیز نقص کل خبر آگئی ہے کہ اس مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا ہے اور سید دلاور شاہ صاحب بخاری ایڈیٹر مسلم آؤٹ لگ کو چھ ماہ قید اور ساڑھے سات سو روپیہ جرمانہ ہوا ہے اور مولوی نور الحق صاحب پر و پرائٹر کو تین ماہ قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ ہوا ہے.ہمیں قانون کے اس نقص پر تو حیرت ہے کہ رسول کریم ﷺ فِدَاهُ نَفْسِی وَ رُوحِی کی عزت پر نا پاک سے نا پاک حملہ کرنے والوں پر تو مہینوں مقدمہ چلے اور آخر میں براءت ہو اور ہائی کورٹ

Page 353

سيرة النبي علي 339 جلد 2 کے متعلق ایک ایسی بات لکھنے پر جو صرف تاویلا اس کی ہتک کہلا سکتی ہے آٹھ دن کے اندر اندر دو معزز شخص جیل خانہ میں بھیج دیئے جائیں یہ میں تفاوت رہ از کجاست تا به کجا !!.قید ہونے والوں کی بہادری ہمارے بھائی آج جیل خانہ میں ہیں لیکن اپنے نفس کے لئے نہیں، اپنی عزت کے لئے نہیں، کسی دیوی غرض کے لئے نہیں ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ حکومت کو کمزور کرنا چاہتے تھے نہ اس لئے کہ وہ کسی کے حق کو دبانا چاہتے تھے بلکہ صرف اس لئے کہ انہوں نے رسول کریم علیہ کی عزت کے لئے غیرت کا اظہار کیا.ان کی یہ بہادرانہ روش ہمیشہ کے لئے یادگار رہے گی کہ دونوں نے سارا بوجھ اپنے ہی سر پر اٹھانے کی کوشش کی ہے اور دوسرے کی براءت کی کوشش کی ہے.اس مصیبت کی آگ میں سے یہ ایک ایسی خوشبو اٹھی ہے کہ باوجود صدمہ زدہ ہونے کے دماغ معطر ہو رہا ہے.گورنمنٹ کے جیل خانے بے وفاؤں اور غداروں کے لئے تیار کئے گئے تھے لیکن آج انہیں دو وفادار شخص جنہوں نے دو جہان کے سردار سے بھی وفاداری کی اور گورنمنٹ کی بھی وفاداری کی زینت دے رہے ہیں.کیا مسلم آؤٹ لگ نے عدالت کی توہین کی محترم جان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان دونوں صاحبان نے یہ کہہ کر کہ یہ فیصلہ غیر معمولی ہے اور غیر معمولی حالات میں ہوا ہے اور اس کی تحقیق ہونی چاہئے عدالت عالیہ کی ہتک کی ہے.مگر میرے نزدیک عدالت عالیہ کی یہ رائے درست نہیں.یہ کہنا کہ جن حالات میں یہ فیصلہ ہوا ہے اس سے لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں اس لئے اس کی تحقیق کرنی چاہئے اور یہ کہنا کہ جج نے کوئی بددیانتی کی ہے اس میں بہت بڑا فرق ہے.اور میں خیال کرتا ہوں کہ عدالت عالیہ پنجاب بیسیوں مقدمات میں اس فرق کو تسلیم کر چکی ہو گی.کیا اس میں

Page 354

سيرة النبي علي 340 جلد 2 کوئی شک ہے کہ ملک معظم کی وفادار رعایا کے کروڑوں افراد اس فیصلہ پر جس کا حوالہ مسلم آؤٹ لگ نے دیا حیران و انگشت بدنداں ہیں اور کیا عدالت عالیہ کا یہ فرض نہیں کہ جب ملک کی ایک بڑی تعداد ایک فیصلہ پر حیران ہو اور خود گورنمنٹ بھی جو اس قانون کی وضع کرنے والی ہے اس کے عجیب اور خلاف امید ہونے کا اظہار کرے تو اس کے متعلق ایسے حالات بہم پہنچائے کہ جس سے پبلک کی تسلی ہو اور اس کی گھبراہٹ دور ہو سکے.اس میں کیا شک ہے کہ ملک کا امن عدالت عالیہ پر اعتبار سے قائم رہ سکتا ہے.پس اس وجہ سے عدالت عالیہ کو معمولی شکوک کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور انسانی فطرت کی کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.عدالت عالیہ کو خواہ کسی فیصلہ کی صحت پر کس قدر ہی یقین ہو سزا نا درست ہے اور وہ ایک حج کی دیانت پر خواہ کس قدر ہی اعتماد رکھتی ہو اس سے پبلک کی تسلی تو نہیں ہو جاتی اور اس سے پبلک میں عدالت عالیہ کا وقار تو قائم نہیں ہو جاتا.پس عدالت عالیہ کو ایسے مواقع پر خود ہی پبلک کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے اور اس خیال سے تسلی نہیں پالینی چاہئے کہ لوگوں کے خیالات غلط ہیں.خیالات خواہ کس قدر ہی غلط ہوں مگر جب وہ پیدا ہو جا ئیں تو بے امنی پیدا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتے اور عدالت کا فرض ہے کہ نہ صرف لوگوں کے خیالات کی درستی کی غرض سے بلکہ خود اپنی عزت کو صدمہ سے بچانے کے لئے وہ کوئی ایسی تدبیر اختیار کرے جس سے لوگوں کے شبہات کے دور ہونے کا موقع نکل آئے.مسلم آؤٹ لگ نے صرف اس قسم کی تدبیر اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا.پس فاضل ججان کا اس کے ایڈیٹر اور مالک کو سزا دینا اور سخت سزا دینا میری رائے میں درست نہ تھا.آؤٹ لگ کا مطالبہ ہائی کورٹ کی خدمت تھی اس میں کوئی بہن ہیں کہ اس مقدمہ کے متعلق

Page 355

سيرة النبي علي 341 جلد 2 غیر معمولی واقعات موجود تھے.دفعہ 153 - الف ہر صوبہ کی گورنمنٹ کے نزدیک ایک خاص مفہوم رکھتا تھا اور پبلک اس مفہوم سے متفق تھی.غالباً مختلف صوبوں میں مختلف گورنمنٹیں اس دفعہ کے ماتحت اگر مقدمات چلا نہ چکی تھیں تو لوگوں کو اس امر کی دھمکی ضرور دے چکی تھیں اور لوگ بھی اس کا یہی مفہوم سمجھ کر معافیاں مانگ مانگ کر اپنی جان بچا رہے تھے.اگر ایک ہی وقت میں قانون کی وضع کرنے والی جماعت اور جن کے لئے وہ قانون بنا تھا سب کے سب اس قانون کے ایک معنوں پر متفق تھے بلکہ جیسا کہ ایک بعد کے فیصلہ سے معلوم ہوا ہے ایک ہمسایہ صوبہ کی عدالت عالیہ بھی اس قانون کا وہی مفہوم لیتی تھی تو کیا اس صورت میں پبلک میں ہیجان پیدا ہونا ایک لازمی امر نہ تھا؟ کیا پبلک اس موقع پر یہ نتیجہ نہیں نکالے گی کہ غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی فیصلہ ہوا ہے؟ اور کیا خود ہائی کورٹ کی عزت کے قیام کے لئے اس امر پر روشنی ڈالنا ہائی کورٹ کے لئے ضروری نہ تھا؟ اگر بغیر اس کے کہ کنور صاحب پر بددیانتی کا الزام لگایا جائے پبلک کے لئے یہ فیصلہ استعجاب و حیرت کا موجب تھا تو پھر مسلم آؤٹ لگ کا مطالبہ عدالت عالیہ کی ایک بہت بڑی خدمت تھی نہ کہ جرم جس کی پاداش میں اسے سزا دی جائے.معاملہ کی حقیقی حیثیت اگر معاملہ کسی معمولی قانون کی تشریح کا ہوتا تو اور بات تھی مگر یہاں تو معاملہ یہ تھا کہ ایک قانون کے ایک معنے سالہا سال سے ثابت شدہ سمجھے گئے تھے ، گورنمنٹ کی نظر میں بھی اور پبلک کی نگاہ میں بھی اور کنور صاحب نے ان مسلّمہ معنوں کو غلط قرار دیا تھا.پس ایسے وقت میں اگر مسلم آؤٹ لگ نے اپنی آواز اٹھائی خصوصاً اس حال میں کہ اس فیصلہ سے مسلمانوں کے دل مجروح ہو رہے تھے تو اگر فاضل ججان کے نزدیک وہ آواز بے موقع بھی تھی تو زیادہ سے زیادہ اسے نامناسب قرار دینا چاہئے تھا نہ یہ کہ وہ اس قدر سخت سزا دیتے.پھر ہائی کورٹ کو دیکھنا چاہئے کہ کیا اس سزا سے ہائی کورٹ کی وہ عزت قائم ہوگئی جسے وہ

Page 356

سيرة النبي عمال 342 جلد 2 قائم کرنا چاہتا تھا ؟ اس سزا کے بعد تو مسلمانوں کے دل اور بھی غم وغصہ سے بھر گئے ہیں اور وہ پہلے تو صرف ایک حج کے فیصلہ کی نوعیت پر معترض تھے اب عدالت عالیہ کے بہت سے جوں کے متفقہ فیصلہ کے وہ اپنے مفاد اور منشائے قانون کے سخت خلاف سمجھ رہے ہیں.پس بجائے فائدہ کے اس فیصلہ سے نقصان پہنچا ہے اور خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.کنور صاحب کا فیصلہ اور مسلمانوں کا جوش میں کنور صاحب کے فیصلہ کے متعلق صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک فاضل جوں نے اس امر کو نہیں سمجھا کہ کنور صاحب کے فیصلہ کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں جوش کیوں ہے.اگر وہ ایک مسلمان کی حیثیت میں اپنے آپ کو فرض کرتے جس طرح کہ مسٹر جسٹس دلال نے اپنے آپ کو فرض کیا تھا تو یقیناً وہ صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتے.گو اس وقت تک مسلمان اس کو واضح الفاظ میں بیان نہ کر سکتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلہ میں ہر ایک مسلمان اپنی ہتک محسوس کرتا ہے.وہ یہ نہیں خیال کرتا کہ اس فیصلہ سے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی گئی ہے کیونکہ کنور صاحب نے صاف لکھا ہے کہ آپ کی نسبت ہتک آمیز الفاظ لکھنے والے کو سزاملنی چاہئے.( گو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس فیصلہ سے آپ کی ہتک کا دروازہ کھل گیا ہے ) مگر وہ یہ ضرور خیال کرتا ہے کہ اس فیصلہ کا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان کو یہ تو حق ہے کہ اگر اسے کوئی شخص گالی دے تو اس پر وہ ناراض ہو لیکن اسے اس شخص سے نفرت کرنے پر کا حق نہیں ہے جو رسول کریم ﷺ کو گالی دے.اگر اس موقع پر منافرت پیدا ہوتی ہے تو یہ اس کی اشتعال انگیز طبیعت کا نتیجہ ہے اس کے فطرتی تقاضوں کا نتیجہ نہیں ہے.مسلمان اور حب رسول میں اب ایک مسلمان کے نزدیک یہ خیال کہ اس کی اللہ علیہ نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر خود اسے گالی دی جائے تو اسے غصہ آ جانا چاہئے لیکن اگر محمد رسول اللہ ﷺ کو گالی دی جائے تو اس

Page 357

سيرة النبي عالم 343 جلد 2 کے دل میں جائز طور پر منافرت کے جذبات نہیں پیدا ہونے چاہئیں اس کی سب سے بڑی ہتک ہے.وہ اسے بے غیرتی کا اور سب سے بڑی بے غیرتی کا الزام سمجھتا ہے اور ایک منٹ کے لئے بھی اس کو برداشت نہیں کر سکتا.حق یہ ہے کہ ہر سچا مسلمان اپنی صلى الله ذات کے متعلق سخت کلامی کو اکثر اوقات معافی کے قابل سمجھتا ہے لیکن رسول کریم علی فِدَاهُ نَفْسِي وَ رُوحِی کے متعلق ایک ادنیٰ کلمہ گستاخی کا سن کر بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا.اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ ایسا کلمہ استعمال کرنے والا اپنی قوم کی تائید اپنے ساتھ شامل رکھتا ہے تو وہ اس قوم کو بھی نہایت ہی حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.پس جب ایک مسلمان یہ سنتا ہے کہ ایک فاضل حج قانون منافرت بین الاقوام کے معنے صرف لیتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بحیثیت قوم کچھ نہ کیا جائے اور یہ کہ رسول کریم ﷺے کے خلاف کچھ کہنا باعث منافرت نہیں کہلا سکتا تو وہ اس میں اپنی ہتک سمجھتا ہے اور اپنے ایمان پر حملہ خیال کرتا ہے اور حج کی نیت اچھے ہونے یا برے ہونے کا اس میں کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر فاضل ججان ہائی کورٹ مسلمانوں کے اس احساس کو مدنظر رکھتے تو انہیں مسلم آؤٹ لگ کے مضمون کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو جاتا.مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مضمون کے مختلف پہلوؤں پر غور نہیں کیا اور یہی سمجھ لیا کہ اس میں ایک حج پر بد نیتی کا الزام لگایا گیا ہے اور ایک ایسا فیصلہ کر دیا جس سے مسلمانوں کے دل اور بھی مجروح ہو گئے ہیں اور ان کی طبائع میں اور بھی جوش پیدا ہو گیا ہے.اور اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی کریں جو ان کے نزدیک صرف اسلام کی عزت کی حفاظت کے لئے جیل خانہ گئے ہیں.اور ہر سچا مسلمان اُس وقت تک صبر نہیں کرے گا جب تک کہ وہ اس بارہ میں اپنے فرض کو ادانہ کرے.اب ہمیں کیا کرنا چاہئے فیصلہ کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.

Page 358

سيرة النبي علي 344 جلد 2 اور پیشتر اس کے کہ میں اپنے خیالات کو بیان کروں میں ان تین امور پر جو اس وقت تک بطور علاج کئے گئے بحث کرنی چاہتا ہوں.عدالتوں سے مقاطعہ ایک علاج بعض لوگوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ ہم عدالت عالیہ سے مقاطعہ کریں.میرے نزدیک علاج وہ ہوتا ہے جس کا ہمیں فائدہ پہنچے.لیکن اگر اس علاج پر غور کیا جائے تو بجائے فائدہ کے ہمیں اس سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس امر کے متعلق تو خود فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جو ہماری ذات سے تعلق رکھتا ہو لیکن جو امر دوسروں کی ذات سے تعلق رکھتا ہو اس پر ہماری نیتوں کا کچھ اثر نہیں ہوسکتا.مسلمانوں کو تین قسم کے مقدمات پیش آ سکتے ہیں.ایک وہ مقدمات جو باہم مسلمانوں میں ہوں.خواہ مالی حقوق کے متعلق ہوں یا فوجداری ہوں.مگر قابل دست اندازی پولیس نہ ہوں.ایسے مقدمات تو قطع نظر اس فیصلہ کے مسلمانوں میں آپس میں ہی طے ہونے چاہئیں.اگر ہم اپنے جھگڑے خود فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے تو ہم در حقیقت اس نظام اسلامی سے بے بہرہ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم فرمایا تھا.ہماری جماعت بڑی سختی سے اس امر کا لحاظ رکھتی ہے کہ تمام مالی مقدمات اور تمام فوجداری اختلافات جن کو برطانوی عدالت میں لے جانے کے ہم قا نو نا پابند نہیں اپنی جماعت کے قاضی ہی طے کریں.اس قسم کے ایک واقعہ کے متعلق پچھلے دنوں اخبارات میں ایک مضمون بطور اعتراض شائع ہوا تھا.مگر میرے نزدیک یہ امر قابل اعتراض نہیں بلکہ قومی اتحاد کے لئے ضروری ہے اور قومی دولت اس سے محفوظ رہ جاتی ہے.دوسری قسم کے مقدمات وہ ہو سکتے ہیں جو گو دو مسلمان فریق میں ہوں لیکن قابل دست اندازی پولیس ہوں اور قابل راضی نامہ ہوں.اور تیسری قسم کے مقدمات وہ ہیں جو مسلمانوں اور غیر قوموں میں ہوں.ان دونوں قسم کے مقدمات

Page 359

سيرة النبي ع 345 جلد 2 میں ہی عدالت کا مقاطعہ ، مقاطعہ کہلا سکتا ہے.لیکن کیا ایسا مقاطعہ ہم سے ممکن ہے؟ ایک وقت میں ایسے سینکڑوں کیس عدالت میں داخل ہوتے ہیں جن کا ہزاروں مسلمانوں پر اثر پڑتا ہے.پس کیا یہ بات اسلام کے فائدہ کی ہوگی کہ ہزاروں غریب مسلمان اس مقاطعہ کی وجہ سے جیل خانہ میں جائیں اور ہزاروں مسکینوں، غریبوں، بیواؤں، یتیموں کے حقوق عدم پیروی کی وجہ سے تلف ہو کر غیر قوموں کو مل جائیں؟ اس طریق کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ مسلمان جو آگے ہی اقتصادی طور پر تباہ ہو رہے ہیں بالکل تباہ ہو جائیں گے.پس ہمیں اس تدبیر کو ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے رسول کریم علیہ کی عزت کی حفاظت کی صورت پیدا نہیں ہوتی.تکرار فعل دوسرا طریق یہ بتایا جا تا ہے کہ مسلمان اس فعل کو متواتر کریں جو مسلم آؤٹ لگ والوں نے کیا ہے.میرے نزدیک یہ طریق بھی مسلمان علاوہ قانون شکنی کے پہلے یہ فعل قانون شکنی نہ تھا لیکن اب ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد یہ فعل قانون شکنی ہو گیا ہے ) اپنی ذات میں بے فائدہ ہے.ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہائی کورٹ اس امر کا پابند نہیں کہ اس شخص پر مقدمہ چلائے جو اس کی نظر میں عدالت کی ہتک کرنے والا ہے.اگر وہ اس کا پابند ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ لاکھوں ن مسلم آؤٹ لگ کی نقل کریں.ہائی کورٹ کہاں تک لوگوں کو جیل خانہ میں ڈالے گا.آخر تنگ آ جائے گا.لیکن جب کہ وہ ہر ایک پر مقدمہ چلانے کا پابند نہیں تو وہ صرف یہ طریق اختیار کرے گا کہ بڑے بڑے لوگوں کو پکڑے گا دوسروں کے فعل کو نظر انداز کر دے گا.اس سے صرف مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور کچھ فائدہ نہ ہو گا.مثلاً مسلمانوں کے لاہور میں چار روزانہ اخبارات ہیں اگر روزانہ ان میں مسلم آؤٹ لگ کے نوٹ کے ہم معنی نوٹ شائع ہوں تو ہر روز چار آدمیوں پر ہائیکورٹ مقدمہ چلائے گا.ان چار آدمیوں کو یا آٹھ آدمیوں کو روزانہ گرفتار کر کے بھی ہائی کورٹ کو کیا نقصان پہنچے گا.اور پھر اس طریق سے اسلام کو کیا فائدہ ہوگا.اگر چھوٹے چھوٹے آدمیوں کو

Page 360

سيرة النبي علي 346 جلد 2 اس امر کے لئے آگے بھیجا گیا تو یہ قابل شرم ہو گا اور انتہائی درجہ کی قومی غداری ہوگی.اور اگر بڑے بڑے سب لوگ اس طرح جیل خانوں میں چلے گئے تو اسلام کو نقصان پہنچانے والے اور بھی خوش ہوں گے.انہیں ہندوستان میں اسلام کو نقصان پہنچانے اور اپنی من مانی کا رروائیاں کرنے کا اور بھی موقع مل جائے گا.پس یہ تدبیر بھی قابل عمل نہیں ہے.سکھوں کی کو ششوں پر قیاس نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہاں عملی جدوجہد تھی.وہ ایک گوردوارہ میں زبردستی گھس جاتے تھے.اگر سر کار سب کو نہ پکڑتی تو گوردوارہ ہاتھ سے جاتا تھا.اگر پکڑتی تو جیل خانے کفایت نہ کرتے تھے.لیکن یہاں تو صرف بعض الفاظ کے دہرانے کا سوال ہے.بغیر کسی قسم کے نقصان کے خطرہ کے ہائی کورٹ ہزاروں آدمیوں کے فعل کو نظر انداز کر سکتا ہے.سول نافرمانی تیسری تدبیر سول نافرمانی بتائی جاتی ہے.علاوہ اس کے کہ میں اس تدبیر کا مذہباً مخالف ہوں عقلاً بھی میرے نزدیک اس تدبیر کو اختیار کرنا درست نہیں.سول نافرمانی ہائی کورٹ کے خلاف نہ ہو گی بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ہو گی اور گورنمنٹ کا اس معاملہ میں کوئی قصور نہیں ہے.گورنمنٹ اس وقت اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہے.گورنر صوبہ بڑے زور دار الفاظ میں ہائی کورٹ کے فیصلہ پر استعجاب ظاہر کر چکے ہیں اور اس کو منسوخ کرانے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں.وہ بے شک بوجہ غیر مذہب کے پیرو ہونے کے اور قانون کی الجھنوں کے اس طرح جلدی سے عمل نہیں کر سکتے جس طرح کہ ہمارے دل چاہتے ہیں لیکن وہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ان کا مقصد اور ہمارا مقصد اس قانون کے بارہ میں ایک ہی ہے.پس سول نافرمانی کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم گورنمنٹ کو جو اس معاملہ میں ہم سے اتفاق رکھتی ہے اپنا مخالف بنا لیں.لیکن سول نافرمانی چونکہ گورنمنٹ کے خلاف ہوگی وہ اس چیلنج کو قبول کئے بغیر نہیں رہ سکے گی اور اس طرح ہم اپنے ہاتھوں سے ہندوؤں کے تیار کردہ گڑھے میں گر جائیں گے جس میں ہمیں گرانا ان کی عین خواہش ہے.

Page 361

سيرة النبي عل الله 347 جلد 2 ہمیں ایک لمحہ کے لئے بھی اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا جھگڑا اس وقت ہندوؤں سے ہے اور ان میں بھی درحقیقت آریہ سماجیوں سے.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں کامل آزادی نہیں حاصل کر سکتے جب تک کہ مسلمان اس ملک میں باقی ہیں.وہ ہندوستان میں برہمنگ قانون کو جاری کرنا چاہتے ہیں جو برطانوی اور اسلامی قانون آزادی کے بالکل برخلاف ہے.اور وہ جانتے ہیں کہ اس اختلاف کی وجہ سے جب بھی ہندو اپنے مقصد کو پورا کرنا چاہیں گے انگریز اور مسلمان مل کر ان کے راستہ میں روک بنیں گے.وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان دو طاقتوں کے مقابلہ میں وہ کچھ نہیں کر سکتے.پس وہ پہلے مسلمانوں کو کمزور کر کے نکما کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد وہ انگریزوں سے نپٹیں گے.مگر اس تحریک کے بانی ہوشیار بھی بہت ہیں.وہ مسلمانوں اور انگریزوں کو لڑوانا چاہتے ہیں اور بسا اوقات انگریز ان کے فریب میں آکر مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں.اور بعض اوقات مسلمان کسی بات پر مشتعل ہو کر انگریزوں کو اپنا مخالف خیال کرنے لگتے ہیں.مگر ہمیں اس دھو کے میں نہیں آنا چاہئے.میرے نزدیک انگریزوں اور مسلمانوں کے اکثر اختلافات کا اب فیصلہ ہو چکا ہے.آئندہ تمدنی جنگ میں یہ دونوں مل کر اپنے اپنے حقوق کی حفاظت اچھی طرح کر سکتے ہیں.انگلستان کی نجات مسلمانوں سے صلح رکھنے میں ہے اور مسلمانوں کا فائدہ انگریزوں سے تعاون کرنے میں.ہم سب دنیا سے نہیں لڑ سکتے.رسول کریم ﷺ نے بھی مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے معاہدہ کیا تھا1.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم تدابیر اختیار نہ کریں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ باوجود بیسیوں قسم کے عیوب کے انگریزی قوم تمام موجودہ غیر اسلامی اقوام سے ہمارے زیادہ قریب ہے اور درحقیقت دوسری قوم صرف روسیوں کی ہے جو اسلام کوسختی سے مٹا رہی ہے جیسا کہ احمدی مبلغوں اور دوسرے بہت سے ایسے مسلمانوں کی عینی شہادت سے ثابت ہے جو پہلے برطانوی حکومت کے سخت دشمن تھے.مگر میں کہتا ہوں کہ جو لوگ سیاسی طور پر میرے اس خیال

Page 362

سيرة النبي ع 348 جلد 2 سے متفق نہ ہوں ان کو بھی ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ اس موجودہ مسئلہ میں ہمیں برطانیہ کے قائم مقاموں سے کوئی جنگ نہیں ہے.میری سکیم جس قدر پیش کردہ تجاویز ہیں ان کے نقائص بیان کرنے کے بعد میں اپنی تجاویز کو پیش کرتا ہوں.میرے نزدیک ہمیں قدم اٹھانے سے یہ غور کر لینا چاہئے کہ ہمارا مقصد اس وقت کیا ہے.میرے نزدیک ہمارا مقصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت ہے.مسلم آؤٹ لگ کا معاملہ اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا ایک ظہور ہے.پس ہمیں بجائے اس پر اپنا زیادہ وقت خرچ کرنے کے اس سے جس قدر ممکن ہو فائدہ اٹھانا چاہئے.مسلم آؤٹ لگ کے فیصلہ نےمسلمانوں کی آنکھیں ان کی بے بسی کے متعلق کھول دی ہیں.لوہا گرم ہے اس کو اس طرح گوٹنا ہمارا کام ہے کہ اس سے اسلام کے لئے کارآمد اشیاء تیار ہوسکیں.ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اس کام کو جاری ہی نہ رکھیں بلکہ ترقی دیں جو مسلم آؤٹ لگ کرتا تھا.اور اس کے لئے میں اپنی جماعت کی طرف سے آٹھ سو روپیہ کی امداد کا اعلان کرتا ہوں.میرے نزدیک کم سے کم پانچ ہزار روپیہ اس کام کے لئے جمع کر دینا چاہئے اور یہ روپیہ مسلم آؤٹ لک کی ترقی پر خرچ ہونا چاہئے اور مسلم آؤٹ لگ کے خریداروں کے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.ہندوؤں کو یہ جرات کیوں ہوئی ؟ اس کے بعد اصل معاملہ کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوسرے بزرگان اسلام کو عموماً اور حضرت رسول کریم علیہ کو خصوصاً گالیاں دینے کی جرات ہندوؤں کو صرف ان کے اقتصادی اور تمدنی غلبہ کی وجہ سے ہے.وہ اس غلبہ کے بعد ہماری غیرت کو مٹا کر ہمیں شو در بنانا چاہتے ہیں.میں ان پر اعتراض نہیں کرتا.ہر ایک قوم کا حق ہے کہ اپنے مفاد کے لئے ہر ممکن جد و جہد کرے لیکن ساتھ ہی ہر اس قوم کا بھی جس کے مفاد کے خلاف اس کے کاموں کا اثر پڑتا ہو حق ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کرے.

Page 363

سيرة النبي الله 349 جلد 2 اگر ہندوؤں کا حق ہے کہ وہ اپنی دولت کو بڑھانے کے لئے مسلمانوں سے چھوت چھات کریں اور اپنی قوم کی ہرممکن ذریعہ سے پرورش کریں تو کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہ ہو.مجھے تعجب آتا ہے کہ ہندوخود چھوت چھات کرتے ہیں اور سنگھٹن کی تائید میں لیکچر دیتے پھرتے ہیں لیکن جس وقت مسلمان وہی کام کرتے ہیں تو شور مچا دیتے ہیں کہ دیکھو یہ ملک کے امن کو بگاڑتے ہیں.گویا ان کے نزدیک ہر کوشش جو مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے کی جائے وہ ملک کے امن کے خلاف ہے.مگر ہم نے اس امن کو کیا کرنا ہے جس سے ہماری ہستی ہی مٹ جائے اور پھر اس فساد کے ذمہ دار ہندو لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی بیداری کی وجہ سے پیدا ہو نہ کہ مسلمان.وہ شخص جو اپنے حقوق کی حفاظت کرتا ہے وہ کس طرح مفسد کہلا سکتا ہے.مفسد وہ ہو گا جو اسے اس کے جائز حق کے لینے سے روکتا ہے.اصل میں یہ شور ہی بتاتا ہے کہ ہندو قوم اس تدبیر سے سب سے زیادہ گھبراتی ہے.پس صلى الله اس تدبیر پر ہمیں سب سے زیادہ زور دینا چاہئے اور اس زمانہ میں رسول کریم علی کی حفاظت کے لئے سب سے پہلی جدو جہد ہماری یہی ہونی چاہئے کہ ہم ہندوؤں سے چھوت چھات کریں.مسلمانوں کا روپیہ آنحضرت عل میں تمام ان مسلمانوں سے جو رسول کریم ﷺ کی محبت دل میں کے خلاف خرچ کیا جا رہا ہے رکھتے ہیں پوچھتا ہوں کہ کبھی انہوں نے یہ بھی خیال کیا ہے کہ رنگیلا رسول، و چتر جیون اور ورتمان وغیرہ قسم کی کتب اور رسالے انہی کے روپیہ سے چھاپے جاتے ہیں اور انہی کے روپیہ سے ان کتب کے لکھنے والوں کی مدافعت کی جاتی ہے.اگر ان میں واقعہ میں رسول کریم ﷺ کے لئے غیرت ہے تو وہ کیوں وہ ہتھیار ہندوؤں کو مہیا کر کے دیتے ہیں جن سے وہ رسول کریم ﷺ کی عزت پر حملہ کرتے ہیں.مسلمانوں کی تمدنی بر بادی ہی ان

Page 364

سيرة النبي عل الله 350 جلد 2 سب خرابیوں کی ذمہ وار ہے اور اس کا دور کرنا ان کا سب سے پہلا فرض ہے.اپنے رو پیر کو محفوظ کر کے وہ دیکھیں تو سہی کہ کس طرح مخالفین اسلام کی طاقت آپ ہی آپ ٹوٹ جاتی ہے اور خودان میں پھوٹ پڑ جاتی ہے.جو لوگ آج مسلم آؤٹ لگ کے بہادر ایڈیٹر اور جری مالک کے پیچھے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہیں میں ان سے کہتا ہوں آپ کا کام جیل خانہ کے باہر ہے.ان چیزوں میں ہندوؤں سے چھوت چھات کرو جن میں ہندو چُھوت کرتے ہیں اور دوسری چیزوں میں مسلمانوں کی مدد کرو تو یہ بہترین تدبیر ہو گی جس سے آپ ان جیل میں جانے والوں کی مدد کر سکیں گے اور ان کے کام کو کامیاب بنا سکیں گے.چاہئے کہ اس وقت سب جگہ کے مسلمان اس امر پر اتفاق کر لیں کہ جلد سے جلد ہر قسم کی دکانیں مسلمانوں کی نکل آئیں اور جہاں تک ہو سکے مسلمان ان ہی سے سودے خریدیں.بائیکاٹ کے طور پر نہیں بلکہ صرف ہندوؤں کی تدابیر کے جواب کے طور پر اور اپنی قوم کو ابھارنے کے لئے.اے بھائیو! یا درکھو کہ صرف جلسوں میں ریزولیوشن پاس کرنے سے کچھ نہ بنے گا کیونکہ ان کا کوئی مادی اثر نہیں.جیل خانوں میں جانے سے کچھ نہیں بنے گا کیونکہ اس میں خود ہمارا اپنا نقصان ہے.عقلمند وہ کام کرتا ہے جس سے اس کا فائدہ ہو اور اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ اس میں ہے کہ مسلمانوں کی تمدنی حالت کو درست کیا جائے.ان کی اپنی دکانیں کھولی جائیں.آڑھت بالکل ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور اس سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے.ہمیں مسلمانوں کی آڑھت کی دکانیں کھلوانے کی مسلمانوں کی آڑھت پوری کوشش کرنی چاہئے.جب تک آڑھت کی وکا نہیں نہیں کھلیں کی کبھی مسلمان زمیندار اور دکاندار نہیں پنپ سکتے.اندھیر ہے کہ جو روپیہ اس وقت ہند و تبلیغ پر خرچ ہو رہا ہے اس کا کافی حصہ مسلمانوں کے گھروں سے

Page 365

سيرة النبي عمال 351 جلد 2 خاص اس غرض سے جاتا ہے.عام طور پر ہندو آڑھتی ہر مسلمان زمیندار سے ہر سودے کے وقت ایک مقررہ رقم لیتا ہے کہ اتنی گئو شالہ کے لئے ہے، اس قدر دھرم ارتھ کے لئے ، اتنی تیموں کے لئے.اور اس سے مراد مسلمان یتیم خانے اور مسلمانوں کے کام نہیں ہوتے بلکہ خاص ہندوؤں کے کام ہوتے ہیں.اب غور کرو کہ پنجاب میں کس قدر رقم مسلمان خالص ہندو کاموں کے لئے دیتے ہیں.پس جب تک مسلمان ان رقوم کو بند نہ کریں گے اور اپنی رقوم کو اسلام کی ترقی کے لئے خرچ نہیں کریں گے وہ پرو پیگنڈا جو رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات کے خلاف ہو رہا ہے کبھی بند نہ ہو گا.لوگ کہتے ہیں مٹھائیاں و برف وغیرہ کہاں سے لیں.میں کہتا ہوں اے بھائیو! تمہارے بھائی اسلام کی عزت کے لئے برفوں سے نہیں اپنے بیوی بچوں کی صحبتوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں کیا تم برف اور مٹھائی ترک نہیں کر سکتے.اور کیا مسلمان کا دماغ اور سب کام کر سکتا ہے مگر یہ کام نہیں کر سکتے.دوسرا کام جو حقیقی کام ہے لیکن ابتداء اس کا اثر ہندوؤں پر ایسا نہ ہو گا جیسا کہ پہلے کام کا ، وہ تبلیغ اسلام ہے.ہندوؤں کو رسول کریم علی کی ذات کے خلاف حملہ کرنے کی جرات صرف اس خیال سے ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں خالص ہندو مذہب قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.اگر ہم تبلیغ کے کام کو خاص زور سے اختیار کریں تو اسلام میں ایسی طاقت ہے کہ کوئی مذہب اس کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتا.پس یقیناً اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت جلد بہت سی ہندو اقوام جو برہمنک اصول مدارج سے تنگ آ چکی ہیں اسلام میں داخل ہونے لگیں گی اور ہندوؤں کو معلوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو ہندو بنا لینے کا خیال تبلیغ اسلام بالکل وہم ہے اور خود بخود ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا.سیاسی حقوق کا فیصلہ تیسری تدبیر یہ ہے کہ مسلمان اپنے سیاسی حقوق کا استقلال سے مطالبہ کریں.میں حیران ہوں کہ مسلمان

Page 366

سيرة النبي عمال 352 جلد 2 کس طرح اس امر پر راضی ہو گئے کہ پچپن فیصدی آبادی کے باوجود چالیس فیصدی حقوق انہوں نے طلب کئے لیکن ملے اب تک وہ بھی نہیں.مسلمانوں کی یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی کہ وہ ملازمتوں کو حقیر چیز خیال کرتے تھے.ملازمت اگر ایسی ہی حقیر ہوتی تو ہندو جو ایک بیدار قوم ہے کیوں اس طرح اس کی خاطر اپنی تمام تر طاقت خرچ کر دیتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ ملازمت اپنی ذات میں بڑی شے نہیں لیکن اس کا واسطہ تمدنی ترقی سے اس قدر ہے کہ اس میں کمی یا زیادتی قوم کو تباہ کرسکتی یا بنا سکتی ہے.ملازمت کے سوا قو می گزارہ کا ذریعہ یا زراعت ہے یا ٹھیکہ داری یا صنعت و حرفت.مگر کیا زراعت کی کامیابی نہروں ،تحصیل کے عملہ اور جوڈیشری پر موقوف نہیں؟ ٹھیکہ داری پبلک ورکس، ریلوے اور نہروں سے متعلق نہیں؟ اور تجارت اور صنعت و حرفت گورنمنٹ سپلائی کے ساتھ وابستہ نہیں ؟ جن لوگوں کے پاس ملازمتیں ہوں گی وہی ان کاموں میں ترقی کریں گے اور کر رہے ہیں.جس قدر بڑے بڑے مالدار ہندو اس وقت ہیں ان میں سے اکثر کو دیکھ لو کہ ان کی ترقی کا پہلا زینہ سرکاری ٹھیکہ داری پاؤ گے اور اس کا باعث ہندو افسر ہوگا.پس مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اپنی تعداد کے مطابق یا کم سے کم پچاس فیصدی تک اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی متواتر کوشش کریں اور اُس وقت تک بس نہ کریں جب تک کہ یہ حق ان کو مل نہ جائے.میں نے سنا ہے کہ ملازمتیں تو الگ رہیں تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پیشہ سکھانے والے کالجوں میں مسلمان کل چالیس فیصدی داخل کئے جائیں.اگر یہ صحیح ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان کبھی اپنے حق کو حاصل ہی نہ کر سکیں.کیونکہ جو لوگ چالیس فیصدی کالجوں میں داخل کئے جائیں گے وہ پچپن فیصدی یا پچاس فیصدی حق پانے کے قابل کبھی ہو ہی نہیں سکتے.پس چاہئے کہ مسلمان ایک ایک کر کے ہر ایک صیغہ کے متعلق نہ ختم ہونے والی جد و جہد کریں اور اُس وقت تک بس نہ

Page 367

سيرة النبي الله 353 جلد 2 کریں جب تک ان کے حقوق انہیں مل نہ جائیں.اگر انہیں اپنے اوپر رحم نہیں آتا تو کم سے کم اپنی آئندہ نسلوں پر رحم کریں اور انہیں دائگی غلامی میں نہ چھوڑیں.اتحاد عمل اور اس کا طریق یہ تینوں تجویزیں اس وقت مسلمانوں کے آزاد ہونے کے لئے نہایت ضروری ہیں.لیکن ان پر کبھی کامیابی سے عمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگ اکٹھے نہ ہو جائیں.مسلمانوں کی ناکامی ان کے تفرقہ کا نتیجہ ہے.وہ مخالفین اسلام کے دھو کے میں آکر آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹتے رہتے ہیں اور دشمن ہنستا ہے کہ میں خود انہی کے ہاتھوں ان کو تباہ کرا دوں گا.آؤ آج سے فیصلہ کر لو کہ خواہ کس قدر ہی اختلاف مذہبی یا سیاسی ہو غیر قوموں کے مقابلہ میں ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے.ہمارے مذہبی، سیاسی، تمدنی، اقتصادی اختلاف ہمیں آپس میں مل کر کام کرنے سے نہیں روکیں گے.ہم اپنے مذہب پر قائم رہیں اور محبت سے اس کی تلقین کریں.اپنا کوئی اصل نہ ترک کریں نہ کسی سے ترک کرائیں.لیکن ہم باوجود ہزاروں اختلافات کے اس امر کو نہ بھولیں کہ ایک نقطہ ہے جس پر ہم سب جمع ہو جاتے ہیں.اور ایک مقام ہے جہاں آ کر ہم سب بسیرا کر لیتے ہیں.وہ نقطہ کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ہے اور وہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک ہے.پس مخالفین اسلام کے مقابلہ کے لئے ہم سب کو جمع ہو جانا چاہئے تا کہ ہمارا اختلاف ہماری تباہی کا موجب نہ ہو.یہ اتحاد ایسا ہو کہ ہم اس میں سے کسی کو باہر نہ رہنے دیں.خلافتی یا خوشامدی ، لیگ کا ماننے والا یا کانگرسی، عدم تعاونی یا ملازم سرکار، کسی کو بھی ہم اپنے سے دور نہ کریں کیونکہ اس عظیم الشان جدوجہد میں ہمیں ہر ایک میدان کے سپاہی کی ضرورت ہے.خلافتی کی بھی ہمیں اسی طرح ضرورت ہے جس طرح خوشامدی کی.ابھی سے ہر ایک اپنا اپنا کام کر سکتا ہے.اس لئے چاہئے کہ مفید تجویز کسی کی طرف سے پیش ہو، خواہ وہ ہمارا کس قدر ہی دشمن ہو ہم سب مل کر اس کی تائید کریں اور

Page 368

سيرة النبي الله 354 جلد 2 ایک زبان ہو کر سارے ہندوستان میں اس کی دھوم مچا دیں.اور جن لوگوں سے ہمیں اختلاف بھی ہو گو ان کے خیالات کی ہم تردید کریں لیکن استہزا سے کام نہ لیں اور تذلیل نہ کریں تا کوئی شخص بھی ہمارا ہاتھ سے جاتا نہ رہے.اخبارات کو مضبوط کرنے کی ضرورت میں نے ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے چھ اضلاع میں مبلغ مقرر کئے ہیں اور باقی ضلعوں میں مقامی انجمنوں کے ذریعہ سے کام کروا رہا ہوں.ان لوگوں سے علاوہ چھوت چھات کی تحریک کرنے ، تمدنی آزادی کی ترغیب دینے اور مل کر کام کرنے کی تحریص دلانے کے یہ بھی کام لیا جائے گا کہ تمام مسلم اخبارات کی اشاعت کی تحریک بھی وہ ہر جگہ کریں کیونکہ پریس کی مضبوطی قوم کی آواز کے بلند کرنے کے لئے ضروری ہے.اُس وقت تک مسلمانوں کی ترقی مشکل ہے جب تک کہ مسلمانوں کا پریس نہایت مضبوط نہ ہو.اور اسی طرح یہ تحریک بھی کرائی جائے گی کہ مسلمان زمیندار اور تاجر اپنا کام مسلمان وکلاء کو دیا کریں تا کہ مسلمان وکلاء آزاد ہو کر کام کر سکیں.یہ پیشہ آزاد ہے مگر بوجہ کام کی کمی کے مسلمان وکلا ء اس طرح کام نہیں کر سکتے جس طرح کہ ہند و وکلاء کر سکتے ہیں.عام اعلان کی ضرورت ان تمام تدابیر پر عمل کرنے کے لئے میرے نزدیک تمام اسلامی سوسائٹیوں، انجمنوں، اخباروں، رسالہ جات اور جماعتوں کی طرف سے سب سے پہلے یہ اعلان ہو جانا چاہئے کہ ہم اسلام کے عام فوائد کے معاملہ میں اپنے اختلافات سے قطع نظر کر کے آپس میں مل کر کام کیا کریں گے تا کہ عوام الناس میں بھی ادھر توجہ پیدا ہو جائے اور وہ سمجھ لیں کہ اب کام کرنے کا وقت آ گیا ہے اور یکدم سب مقامات پر عملی جدو جہد شروع ہو جائے.ایک اہم جلسہ کی تجویز اس کا مناسب ذریعہ علاوہ اوپر کے اعلان کے جس کا میں اپنی طرف سے تو اس مضمون میں وعدہ شائع کر دیتا

Page 369

سيرة النبي عالم 355 جلد 2 ہوں یہ بھی ہے کہ مسلم آؤٹ لگ کے ایڈیٹر اور مالک کے قید ہونے کے مثلاً پورے ایک ماہ بعد یعنی 22 جولائی کو جمعہ کے دن ہر مقام پر ایک جلسہ کیا جائے جس میں مسلمانوں کی اقتصادی اور تمدنی آزادی کے متعلق مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے اور سب سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کا کام جاری کریں گے.اور ہندوؤں سے ان امور میں چھوت چھات کریں گے جن میں ہندو ان سے چھوت چھات کرتے ہیں.اسی طرح یہ کہ وہ اپنی تمدنی اور اقتصادی زندگی کے لئے پوری سعی کریں گے، اپنے قومی حقوق کو قوانین حکومت کے ماتحت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے، اسلامی فوائد میں سب مل کر کام کریں گے اور اسی دن ہر مقام پر ایک مشتر کہ انجمن بنائی جائے جو مشترکہ فوائد کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے.اسی طرح اس دن تمام لوگ مل کر گورنمنٹ سے درخواست کریں کہ ہائی کورٹ کی موجودہ صورت مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہے اور ان کی ہتک کا موجب.پچپن فیصدی آبادی والی قوم کے گل دو حجج ہیں اور ان میں سے ایک سروس سے لیا ہوا اور ایک صوبہ سے باہر سے لایا ہوا.اس میں مسلمان اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.یہ سمجھنا کہ ہر شعبہ کے لئے مسلمان قابل سے قابل مل سکتے ہیں لیکن حج نہیں مل سکتا ہماری سمجھ سے باہر ہے.گورنمنٹ نے جو کچھ کیا انصاف ہی سے کیا ہو گا مگر ہمارے نزدیک اس معاملہ میں مسلمانوں کے حقوق پر کافی غور نہیں کیا گیا اور اس کا ازالہ جلد سے جلد ضروری ہے اور اس کے لئے ہم با ادب یہ درخواست کرتے ہیں کہ کم سے کم ایک مسلمان حج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے اور مقرر کیا جائے اور اسے نہ صرف مستقل کیا جائے بلکہ دوسرے جوں سے اس طرح سینئر کیا جائے کہ سر شادی لال صاحب کے بعد وہی چیف جج ہو.اسی طرح ایک جلسہ میں حاضرین سے دستخط لے ایک محضر نامہ کی ضرورت کر ایک محضر نامہ تیار کیا جائے کہ ہمارے نزدیک مسلم آؤٹ لگ کے ایڈیٹر اور مالک نے ہرگز عدالت عالیہ کی ہتک نہیں کی بلکہ جائز

Page 370

سيرة النبي عل الله 356 جلد 2 نکتہ چینی کی ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے نز دیک طبعی تھی اس لئے ان کو آزاد کیا جائے اور جلد سے جلد کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلہ کو مستر د کرا کے مسلمانوں کی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنی بے ادبی بھی برداشت نہیں کر سکتے دلجوئی کی جائے.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کم سے کم پانچ چھ لاکھ مرد و عورت کے دستخط یا انگو ٹھے اس محضر نامہ پر ہوں تا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ اس کے باہر بھی اس کا اثر ہو.اور اس کا ایک طبعی اثر مسلمانوں کے دماغوں پر ایسا پڑے کہ دوسرے امور میں جدو جہد بھی ان کے لئے آسان ہو جائے.یہ محضر نامہ ابھی سے تیار ہونا شروع ہو جانا چاہئے.اس سے لوگوں کو کام کرنے کا موقع بھی مل جائے گا اور لوگوں پر اثر بھی اچھا ہوگا.میرے نزدیک ایک ماہ بعد کی تاریخ رکھنی اس لئے مناسب ہے کہ تا اس عرصہ میں تمام ملک کو اس غرض کے لئے بیدار کیا جا سکے.جلسہ جمعہ کی نماز کے بعد آسان ہوگا.لیکن جس جگہ قانوناً جلسہ کو روک دیا جائے اس جگہ نماز جمعہ کے خطبہ میں امام ان باتوں کو بیان کر سکتا ہے اس طرح قانون کے مقابلہ کے بغیر کام ہو جائے گا.قوم کی قربانی ضروری ہے میرے نز دیک فی الحال یہی تدابیر مناسب ہیں.گو بہت سے لوگ اس وقت بہت جوش رکھتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ کامیابی کے لئے ساری قوم کی قربانی ضروری ہوتی ہے.صرف چند آدمیوں کی قربانی زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتی.پس ہمیں سب مسلمانوں کو تیار کرنا چاہئے اور اس کے لئے بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے.جب کام شروع کیا جائے گا تب معلوم ہوگا کہ کس قدر مشکلات راستہ میں آئیں گی.اور جن کو ناجائز فوائد کے حاصل کرنے سے روکا جائے گا کس کس طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.میں آخر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ وہ تجاویز ہیں جو میرے ذہن میں آئی ہیں.باقی مسلمان بھائی خود بھی غور کر لیں اور جو تجاویز بھی مفید ہوں انہیں

Page 371

سيرة النبي ع 357 جلد 2 اختیار کیا جا سکتا ہے.لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اگر اس پروگرام کو اختیار کیا جائے تو إِنْشَاءَ اللهُ مفید ہو گا اور ایک ایسی روچل جائے گی کہ جس سے کام لے کر بہت سے مفاسد کی اصلاح ہو سکے گی ورنہ ہم تو اس کی طرف توجہ کر ہی رہے ہیں اور إِنْشَاءَ اللهُ کریں گے.22 جولائی یا جس تاریخ پر بھی اتفاق ہو اس کے آنے تک ہمیں ہر ممکن ذریعہ سے اس تحریک کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ جو غرض اس تحریک سے ہے وہ پوری ہو سکے.میں مضمون ختم کرنے سے پہلے پھر تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ الله رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے ہماری جماعت ہر جائز اور مطابق اسلام قربانی کرنے کے لئے تیار ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی توفیق عطا فرمائے.خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان 23 جون 1927 ء (الفضل یکم جولائی 1927ء) 1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحه 560 تا 563 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى

Page 372

سيرة النبي الله 358 جلد 2 رسول کریم علیہ کی ذات اقدس پر نا پاک حملوں کا جواب حضرت مصلح موعود نے 24 جون 1927 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.قُلْ إِنْ كَانَ أَبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِيْنَ 1 - اس آیت کو اُس خطبہ جمعہ میں جو میں نے ڈلہوزی کے مقام پر پڑھا تھا تلاوت کرتے ہوئے مجھے معلوم نہ تھا کہ ہماری جماعت کے ایک فرد کو بھی اسی قسم کا ایک موقع پیش آنے والا ہے جس نے اسی آیت کے حکم کے ماتحت اپنے آرام و آسائش کو رسول کریم اللہ کی عزت کے لئے قربان کر دیا.اللہ تعالیٰ کے ابتلاؤں اور آزمائشوں کی خواہش کرنا اسلام کے بالکل خلاف ہے لیکن جب کسی کی خدا تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہو اور وہ اس میں پورا اترے تو ایسا انسان اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اسے مبارک دی جائے کہ اس نے حق ادا کیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ2 اور فرماتا ہے خدا کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ مت کہو ، وہ زندہ ہیں.جو خدا کی راہ میں جان دیتا ہے اسے کیوں مردہ کہہ کر دوسروں کے دلوں میں ڈر اور خوف پیدا کرتے ہو.اللہ تعالیٰ کی

Page 373

سيرة النبي عل الله 359 جلد 2 رضا کے لئے اور اس کے دین کی عظمت کے لئے تکلیف اٹھانا خوشی اور مسرت کا موجب ہے.ایسا انسان اتنا ہمدردی کا مستحق نہیں جتنا مبارکباد کا مستحق ہے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں جوش پیدا ہوتا ہوگا کہ اس وقت جب کہ رسول کریم ﷺ کی عزت پر نا پاک سے ناپاک حملے کئے جا رہے ہیں اور آپ کی عزت کی حفاظت کے لئے موجودہ قانون میں کوئی طاقت نہیں ہے وہ کیا صلى الله کریں.کون سی قربانیاں کریں جن سے رسول کریم ﷺ کی عزت دشمنوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائے.میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر وہ شخص جس نے بچے طور پر احمد بیت کو قبول کیا ہے رشک کرتا ہو گا ان لوگوں پر جن کو خدا تعالیٰ کے رستہ میں تکلیف اٹھانے کا موقع ملا اور وہ اس بات کی تڑپ رکھتا ہو گا کہ اسے بھی خدا تعالیٰ ایسے کام کرنے کی توفیق دے جن سے اس کا ایمان کھرا ثابت ہو.اور خود اس پر بھی اور دوسروں پر بھی ظاہر ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کی قدرت، اس کی طاقت پر اسے ایسا یقین ہے کہ کوئی خطرہ اور کوئی خدشہ اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا.لیکن ایسے سب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قوانین اور اس کی حکمتوں کے ماتحت صبر سے کام لینا پڑتا ہے.اس زمانہ میں جس طرح متواتر رسول کریم ﷺ کی ہتک کثرت سے کی جارہی اور کثرت سے پھیلائی جا رہی ہے اس کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی.آپ کے خلاف گندی کتابیں پہلے بھی لکھی گئیں مگر وہ دل آزاری میں اتنی بڑھی ہوئی نہ تھیں جتنی اب ہیں.اس کی دو وجہیں ہیں.ایک تو یہ کہ اُن کی اشاعت اتنی نہ ہوئی جتنی اس وقت کی جاتی ہے.دوسرے اُس وقت لکھنے والے محض گالیوں پر اکتفا کرتے تھے مگر اب ایسے سائنٹیفک طریق استعمال کئے جاتے ہیں کہ ان کی بدزبانیوں کی قلب پر چوٹ پڑتی ہے.پس کیا بلحاظ تواتر کے اور کیا بلحاظ مضامین کے اور کیا بلحاظ اشاعت کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ قوم کی قوم ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑی ہے پہلے زمانہ کے

Page 374

سيرة النبي عالم 360 جلد 2 حملوں سے بہت بڑھے ہوئے ہیں.حالانکہ موجودہ حالت ان باتوں کی متقاضی نہ تھی جو اسلام کے خلاف دشمن کر رہے ہیں.پہلے جب رسول کریم ﷺ کے خلاف کتابیں لکھی جاتی تھیں اُس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تعلیم کہ تمام دنیا میں نبی آئے قائم نہ ہوئی تھی بلکہ اس وجہ سے آپ پر کفر کے فتوے دیئے جاتے تھے.مگر پھر آپ کی اس تعلیم نے گھر کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج وہ لوگ جو اس وجہ سے آپ پر کفر کے فتوے لگاتے تھے اسے اسلام کی طرف سے پیش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا بیشتر حصہ اس بات پر قائم ہو گیا ہے کہ ہندوؤں کے بزرگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے اور ان کی ہتک نہ کرنی چاہئے.لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس وقت جب کہ مسلمان ہندوؤں کے بزرگوں کی تعریف کی طرف متوجہ ہورہے ہیں ایسی کتابیں آریوں کی طرف سے شائع ہو رہی ہیں جن میں مسلمانوں کی دل آزاری کی جارہی ہے.ان حالات میں اگر مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے متعلق نفرت اور غصہ کی لہر پیدا ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن میں مسلمانوں سے کہوں گا کہ ہر غصہ کے وقت جو لہر دل میں پیدا ہو اس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ کس بات کے لئے غصہ اور جوش پیدا ہوا ہے.اگر جوش اور غصہ اپنے نفس کے لئے پیدا ہوا ہے تو پھر جونس کے اسے مان لینا چاہئے.اگر ہمارا میڈا وغضب اپنی ذات کے لئے ہے تو پھر جو نفس کہتا ہے کرنا چاہئے اور اگر نفس کہتا ہے گالیاں دو تو گالیاں دینی چاہئیں، اگر نفس غصہ ہونے کے لئے کہتا ہے تو غصہ ہونا چاہئے لیکن ہمارا غصہ، ہمارا غضب، ہماری غیرت اور ہمارا جوش اپنے نفس اور اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ جس کی ہتک کی جاتی ہے وہ ایسی اعلیٰ تعلیم لے کر آیا کہ یہ گالیاں دینے والے اس تعلیم کے کناروں تک تو کیا اس کی ادفی حد تک بھی نہیں پہنچے.اور اگر ہمارا جوش اس لئے ہے کہ وہ انسان جسے دشمن بدنمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کے بغیر کوئی انسانیت ہی نہیں اور کوئی روحانی رتبہ ہی نہیں.پھر اگر ہمارا جوش اور غصہ اس لئے ہے کہ جس

Page 375

سيرة النبي ع 361 جلد 2 انسان پر حملے کئے جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا اعلیٰ سے اعلیٰ اور بہترین نمونہ ہے جس سے بڑھ کر انسان میں طاقت ہی نہیں ، اگر صحیح ہے تو پھر غصہ اور جوش کے وقت ہمارے مدنظر یہ بات رہنی چاہئے کہ اس غصہ پر بھی اسی انسان کی حکومت قائم ہو جس کی حکومت ہمارے سکون اور اطمینان پر ہے.اسی طرح اگر ہمارا غصہ اور جوش اسلام کے لئے ہے تو وہ اسلامی احکام کے ماتحت ہونا چاہئے اور اسلام جہاں یہ کہتا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے لئے غیرت دکھاؤ ، اسلام جہاں یہ حکم دیتا ہے کہ جس دل میں خدا اور رسول کی محبت کسی اور چیز سے کم ہے اس میں ایمان ہی نہیں وہ خدا کے غضب کے نیچے ہے جس کا اسے انتظار کرنا چاہئے کہ وہ آئے اور اسے تباہ کر ڈالے وہاں اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ اعلیٰ اخلاق کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑو.خواہ غصہ میں ہو یا آرام میں.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان خطرناک دنوں میں اپنے جوشوں کو قابو میں رکھیں اور بجائے کسی اور طرح نکالنے کی کوشش کرنے کے اس طرح نکالیں جس سے اسلام کو فائدہ پہنچے.دیکھو! راجباہوں کے ذریعہ بھی پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے مگر بند تو ڑ کر آنے والا پانی کھیتی کو تباہ اور برباد کر دیتا ہے اور راجباہ کا پانی کھیت کو سیراب کرتا ہے.اسی طرح غصہ کی حالت کی کارروائی ایسی ہوتی ہے جیسے نہر کا کنارہ ٹوٹ جانے سے پانی کا نکلنا یا دریا کا اچھل پڑنا.کوئی انسان اس بات پر خوش نہیں ہو سکتا کہ دریا میں طغیانی آئی کیونکہ طغیانی بر بادی اور تباہی کا موجب ہوتی ہے.اسی طرح غصے کی کارروائی بھی تباہی لاتی ہے.جوش اور غیرت قابل قدر جذبات ہیں مگر اسی حد تک کہ عقل پر پردہ نہ ڈالیں.اگر پردہ ڈالیں تو انسان صحیح طور پر کام نہیں کر سکتا.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل کام کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.جو لوگ جلدی جوش میں آجاتے ہیں وہ جلدی ٹھنڈے بھی ہو جاتے ہیں اور جو جوش میں کم آتے ہیں وہی کام کرتے ہیں.اس خطرناک وقت میں جس سے زیادہ خطرناک وقت رسول کریم ہے.

Page 376

سيرة النبي علم 362 جلد 2 محبت رکھنے والی قوم کے لئے سمجھنا مشکل ہے جب ایک قوم کی قوم دیدہ دانستہ مسلمانوں کو بھڑ کانے کے لئے ان کی محبوب ترین ہستی کو گالیاں دیتی ہے اس وقت مسلمانوں کے حال کو وہی سمجھ سکتا ہے جو انسانی فطرت سے واقف ہو.کتنی مشکل بات ہے.اگر مسلمان گالیوں کا جواب گالیوں سے دیتے ہیں تو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور اگر چپ رہتے ہیں تو ان کی آئندہ نسل میں بے غیرتی پیدا ہونی لازمی ہے.کیونکہ جو قوم اپنے بزرگوں کے متعلق گالیاں سن کر چپ رہتی ہے اس میں بے غیرتی پیدا ہو جاتی ہے.غرض آج اگر مسلمان آریوں کی گالیوں کے مقابلہ میں چپ رہتے ہیں تو آئندہ نسلیں بے حیا اور بے غیرت ہو سکتی ہیں.اور اگر جوش اور غصہ کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے لئے صحیح اظہار کا موقع نہیں ملتا.مسلمانوں اور ہندوؤں کی اپنی حکومتیں نہیں کہ ایک دوسرے پر فوج لے کر چڑھ دوڑیں.دونوں غیر قوموں کے ماتحت ہیں اور جب کہ ہمارے نزدیک محمد ﷺ کو گالیاں دینا بدترین فعل ہے اس حکومت کے نزدیک معمولی بات ہے بلکہ ممکن ہے حکومت کے بعض عمال کے نزدیک اچھی بات ہو.بعض شریف الطبع انگریز رسول کریم ﷺ کے خلاف بد زبانی سن کر غصہ صلى الله میں آجاتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کی عزت کا خیال رکھنا ضروری سمجھتے ہیں.گو اس طرح نہیں جیسے مسلمان.مگر پھر بھی کئی ایسے ہو سکتے ہیں جو حیران ہوتے ہوں کہ محمدعلی کو گالیاں دینا کونسی ایسی بات ہے جس پر مسلمان اس قد رغم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں.ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے کس قدر مشکلات ہیں.قانون ہمارے اختیار میں نہیں کہ اس کے ذریعہ جوش نکال سکیں اور خاموش اس لئے نہیں رہ سکتے کہ آئندہ نسلیں تباہ نہ ہو جائیں اور ان میں بے غیرتی نہ پیدا ہو جائے.قانون ایک ایسی قوم کے ہاتھ میں ہے جس کے احساسات شریفانہ طور پر خواہ ہمارے ساتھ کتنے ہی ملتے ہوں مگر ہمارے جیسے نہیں ہو سکتے.اس وجہ سے بسا اوقات کسی امر کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلا نا بے فائدہ ہوتا ہے.اور بسا اوقات حکام سمجھتے ہیں یہ ذرا ذرا سی بات پر

Page 377

سيرة النبي عمال 363 جلد 2 چڑنے والے لوگ ہیں ورنہ یہ بھی کوئی بات ہے جس کی شکایت کر رہے ہیں.اس حالت میں ہمارے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے جذبات و احساسات کو اپنے قبضہ میں رکھیں.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اور ان دوسرے مسلمانوں کو جو.میری باتیں توجہ سے سنتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہتا ہوں کہ اس وقت جوش میں لانے اور بھڑ کانے والی باتیں مفید نہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جوش کو قابو میں رکھ کر مستقل قربانی کی جائے.جو لوگ اسلام کے لئے مستقل قربانی نہیں کر سکتے ان کا جوش حقیقی جوش نہیں ہے بلکہ دھوکا اور فریب ہے.ابھی ہمارا ایک بھائی اور اس کا ایک رشتہ دار قید خانہ میں گئے ہیں محض اس لئے کہ انہوں نے ہائیکورٹ کے جوں کے نزدیک ایک حج کی ہتک کی ہے.میں ہرگز ان جوں سے اتفاق نہیں کرتا اور میرے نزدیک مسلم آؤٹ لگ (Muslim OutLook) نے ہرگز ہتک نہیں کی.میں تو یہ کہتا ہوں بجائے اس کے کہ مسلم آؤٹ لگ کو اس مضمون کی وجہ سے سزا دی جاتی جوں کو چاہئے تھا کہ اس کی آواز کی قدر کرتے جو رسول کریم ﷺ کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے اٹھائی گئی تھی.مگر جوں کا ادھر ذہن منتقل نہ ہوا بلکہ اس طرف گیا کہ مسلم آؤٹ لگ نے حج کی ہتک کی ہے.اس وجہ سے مسلم آؤٹ لگ کے ایڈیٹر و پرنٹر کو سزا دے دی.حالانکہ جوشخص اس مضمون کو ٹھنڈے دل سے پڑھے گا یا ان جذبات کو مدنظر رکھ کر پڑھے گا جو ایک مسلمان کے ہوں وہ ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں حج کی ہتک کس طرح ہوئی ہے.میرے نزدیک مسلم آؤٹ لگ کا یہ جرم نہیں تھا بلکہ اس نے قابل تعریف بات کی تھی کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق غیرت دکھائی تھی.ہر مذہب کے آدمی کو اس کی قدر کرنی چاہئے تھی کہ آؤٹ لگ کا ایڈیٹر اپنے رسول کے متعلق وفا دار انسان ہے اور وفاداری پر کوئی ناراض نہیں ہوا کرتا.مگر جوں کے نزدیک یہی بات ثابت ہوئی کہ اسے سزا دینی چاہئے.اس وجہ سے مسلمانوں میں اور جوش پیدا ہو گیا.اور اب ان کے سامنے

Page 378

سيرة النبي الله 364 جلد 2 یہ معاملہ آگیا کہ ایک ہائی کورٹ کے جج کی ہتک کے الزام میں تو ہائی کورٹ نے ایک ہفتہ کے اندر اندر سزا دے دی لیکن رسول کریم ع کی ہتک کرنے والا دو اڑھائی سال مقدمہ بھگت کر بالکل بری ہو گیا.جو ایک ایسا امر ہے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی طبائع میں جوش پیدا ہونا لازمی بات ہے.وہ حیران ہیں اس قانون اور اس انتظام پر کہ ایک حج کی ہتک کا اثر تو ہائی کورٹ پر اتنا پڑا کہ ہفتہ کے اندر اندر ایڈیٹر اور پرنٹر مسلم آؤٹ لگ کو جیل خانہ میں بھیج دیا مگر محمد ﷺ کی ہتک کرنے والا مہینوں آزاد پھرتا رہا اور آخر بالکل آزاد ہو گیا.پھر یہاں کہنے والا تو صرف یہ کہتا ہے کہ حج کو مستعفی ہو جانا چاہئے اور اس کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ کن حالات کے ماتحت یہ فیصلہ ہوا.مگر وہاں گندی سے گندی گالیاں دی گئی ہیں پھر جس انسان کو گالیاں دی گئی ہیں وہ ہستی ہے کہ جس کے لئے کروڑوں انسان قربان ہونے کے لئے تیار ہیں اور جس کے تقدس پر کروڑوں انسان یقین رکھتے ہیں.لیکن جس کی ہتک کا مجرم ایڈیٹر مسلم آؤٹ لگ قرار دیا گیا ہے اس سے ایک آدمی بھی اس قسم کا اخلاص نہیں رکھتا.پھر ایک طرف گندی گالیاں ہیں اور دوسری طرف یہ کہ جن حالات میں فیصلہ کیا گیا ہے ان کی تحقیقات کی جائے.بے شک اس کے سخت معنی بھی ہو سکتے ہیں جو جوں نے لئے ہیں مگر اچھے بھی ہو سکتے ہیں.میں کوئی قانون دان نہیں مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے عدالتیں شک کا فائدہ ملزم کو ہی دیتی ہیں مگر مسلم آؤٹ لگ“ کے مقدمہ میں ایسا نہیں ہوا اور مسلمانوں کی طبائع میں ہیجان پیدا ہونا قدرتی بات ہے.لیکن پھر بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اسلام اور شریعت کی عزت کو قائم رکھنا ہے تو اسلام جب یہ کہتا ہے کہ حکومت کے قانون کی پابندی کرو تو ضرور کرنی چاہئے.اگر ہمارے جوش اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں تو اس کے قانون کی پابندی کرنا بھی ہمارا فرض صلى الله ہے.رسول کریم علیہ سے ہماے دوستم کے تعلقات ہو سکتے ہیں.ایک حقیقی جو آپ کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوں اور دوسرے وہ جو ورثہ میں ملے ہوں یعنی ماں باپ

Page 379

سيرة النبي عل الله 365 جلد 2 کی طرف سے رسول کریم ﷺ کی محبت ملی ہو.اب اگر ہم جوش اور غصے کی حالت الله میں رسول کریم ﷺ کی تعلیم کو بھول جاتے ہیں تو آپ سے ہمارا تعلق حقیقی نہیں ہوگا بلکہ ورثہ کا ہوگا.لیکن اگر جوش کے وقت ہم آپ کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہیں تو پھر ہمارا آپ سے حقیقی تعلق ہو گا.اور یہی فخر اور خوشی کی بات ہے.وہ محبت کوئی محبت نہیں جو ماں باپ سے ورثہ میں ملی ہو.محبت وہی ہے جو اپنے دماغ اور عقل سے ملی ہو.اس وقت میں اپنی جماعت کو اور دوسرے انسانوں کو جن میں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہزاروں میری بات کو توجہ سے سن رہے اور قبول کر رہے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس وقت اسلام پر سب سے زیادہ نازک زمانہ آیا ہوا ہے.اس وقت تمہیں یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ ہم محمد ﷺ کی تعلیم پر چلتے ہوئے کسی قسم کے فساد کے لئے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مکمل شریعت دی ہے اور مکمل دماغ دیا ہے.اس کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ مسلمان عقل سے کام نہیں لے سکتے دیوانہ پن ہے.کیا خدا تعالیٰ نے ہمیں کوئی الله ایسے سامان نہیں دیئے کہ ہم محمد ﷺ کی تعلیم پر چلتے ہوئے آپ کی عزت کو بچا سکیں ؟ اگر فی الواقعہ نہیں دیئے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ محمد ﷺ کو چھوڑ دیا ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ آپ کی عزت کے بچانے کے لئے کوئی سامان نہ دیجیے ہوں.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت دکھا ئیں مگر ساتھ ہی یہ بھی دکھا دیں کہ ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اس سے مغلوب نہیں ہوتا.جب مسلمان یہ دکھا دیں گے تو دنیا ان کے مقابلہ سے خود بخود بھاگ جائے گی کیونکہ دنیا دار اسی کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہیں جس کی نسبت جانتے ہیں کہ اس کا نفس اس کے قابو میں نہیں.چھوٹے بچوں سے فطرت صحیح کا خوب پتہ لگتا ہے.بچے اسی کو چڑاتے ہیں جو ان کی باتوں سے چڑے.بچے چڑنے والے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی نہ چڑے تو پیچھے نہیں پڑتے.مجھے یاد ہے بچپن میں لڑکے مجھے میاں صاحب میاں صاحب کہتے تھے.اور میاں چونکہ ملا کو کہتے ہیں

Page 380

سيرة النبي علي 366 جلد 2 اور اس کے متعلق شعر بنائے ہوئے ہیں وہ مجھے سنا سنا کر پڑھتے.تین چار دن پڑھتے رہے لیکن جب میں نے ان کی طرف توجہ نہ کی تو پھر وہ مایوس ہو کر خود بخود ہی ہٹ صلى الله گئے.اگر اُس وقت میں غصہ کا اظہار کرتا تو مدتوں بچوں کے لئے کھیل بنا رہتا.اب اگر مسلمان بچے طور پر اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اس طرح غیرت دکھا ئیں اور اقرار کریں کہ ہم ان لوگوں سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھیں گے جو رسول کریم علیہ کو گالیاں دیتے ہیں یا جو ان کے ساتھی ہیں اور ایسے لوگوں سے سودا خریدنا قطعاً بند کر دیں گے ہاں مصیبت کے وقت ان کی ہمدردی کرنے کے لئے تیار رہیں گے لیکن سودا ایک پیسے کا نہ خریدیں گے.اگر مسلمان اس پر پورے طور پر عمل کریں تو تھوڑے ہی دنوں میں ہندوؤں کی آنکھیں کھول سکتے ہیں.لیکن اگر وہ اس کی بجائے لڑنا شروع کر دیں اور گورنمنٹ کو دھمکیاں دینے لگیں تو نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے.میرے نزدیک گورنمنٹ کا اس بارے میں اتنا قصور نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے.یہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے اور گورنمنٹ مجبور ہے کہ اس کا احترام کرے.ورنہ گورنر خود اعلان کر چکا ہے کہ یہ فیصلہ گورنمنٹ کے لئے حیرت کا موجب ہے.اس زمانہ میں سکھا شاہی نہیں بلکہ قانون کے مطابق خواہ غلط ہو یا صحیح کام چلتا ہے.پس گورنمنٹ کا اس میں قصور نہیں.ہائی کورٹ کے لئے جو قانون بنایا گیا ہے گورنمنٹ اس کا احترام کرنے کے لئے مجبور ہے.اور آج جو بات ہائی کورٹ میں ہمارے خلاف ہوئی ہے کل وہی دوسروں کے خلاف ہوسکتی ہے.وہی ہائی کورٹ فیصلہ کرے گی کہ ہندوؤں کے بزرگوں کے خلاف اگر کوئی لکھے تو وہ بھی قابل سزا نہ ہو گا.اس میں شبہ نہیں کہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ غلط ہے اور ہمیں یہ بات بری لگتی ہے.ہم اس عقل کو کوڑی کے برابر بھی نہیں سمجھتے جس کے نزدیک جسٹس دلیپ سنگھ کی ہتک کے لئے تو قانون موجود ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی ہتک کے لئے کوئی قانون نہیں.مگر قانون کا احترام امن کے قیام کے لئے ضروری ہے اور بعض باتوں کو برداشت کرنے کی

Page 381

سيرة النبي عل الله ضرورت ہے.367 جلد 2 اس وقت جو کچھ ہوا اس میں میرے نزدیک گورنمنٹ نہیں بلکہ ہائی کورٹ کی غلطی ہے.مگر یہ ہندوؤں کا فریب ہے کہ مسلمانوں کو گورنمنٹ کے خلاف جوش دلا رہے ہیں تا کہ مسلمان گورنمنٹ سے لڑ کر تباہ ہو جائیں اور پھر حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں آجائے.یہ ہندوؤں کا فریب ایسا ہی ہے جیسا ایک زمیندار نے سید ، مولوی اور ایک عام آدمی ان تینوں کے ساتھ کیا تھا.ہندو چاہتے ہیں کہ پہلے مسلمانوں کو گورنمنٹ سے لڑوائیں اور اس طرح تمام مسلمانوں کو تباہ کر دیں.پھرا کیلے رہ کر گورنمنٹ کا مقابلہ کریں.اب گورنمنٹ بھی بیوقوف ہو گی اگر وہ اس دھو کے میں آ جائے اور مسلمان بھی بیوقوف ہوں گے اگر وہ یہ دھوکا کھا جائیں.مسلمانوں میں سے جو لوگ عقلمند ہیں انہیں فکر ہونی چاہئے کہ ہندوؤں کے اس جال کو توڑ دیں.اسی طرح انگریزوں میں سے جو عقلمند ہیں انہیں چاہئے کہ ہندو نوازی کو ترک کریں.گورنمنٹ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک مسلمانوں سے صلح نہ رکھے اور مسلمان محفوظ نہیں ہو سکتے جب تک گورنمنٹ سے صلح نہ رکھیں.ہندوستان کے وہ افسر جو مینڈک کی طرح وسیع نظر نہیں رکھتے انگریزی قوم کے دشمن ہیں اور وہ مسلمان جو اپنے عارضی فوائد کی خاطر مسلمانوں کے مستقل فوائد کو قربان کر رہے ہیں مسلمانوں کے اصل قائم مقام نہیں ہیں.اس وقت میں مسلمانوں کو سب سے بڑی نصیحت یہی کروں گا کہ حکومت کا مقابلہ نہ کریں اس کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا.پہلے ہندو، مسلمان دونوں مل کر گورنمنٹ کا مقابلہ کر چکے اور اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں.پھر اکیلی مسلمان قوم گورنمنٹ اور ہندوؤں کے مقابلے میں کیا کر سکتی ہے.چونکہ اب نہایت نازک وقت ہے اس لئے مسلمانوں کو عقل سے کام لینا اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنا چاہئے ورنہ بجائے اسلام کی طاقت کا موجب بننے کے اس کی کمزوری کا باعث بن جائیں گے اور بجائے خدا تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے اس کی ناراضگی کے مورد ہو جائیں گے.

Page 382

سيرة النبي الله 368 جلد 2 اس وقت میں اپنی جماعت کو جو یہاں رہتی ہے اس خطبہ کے ذریعے اور جو باہر رہتی ہے اسے خطبہ کے چھپنے پر آگاہ کرتا ہوں.میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو بڑا جوش عطا کیا ہے مگر بات جب ہے کہ مستقل کام کا ارادہ کر لیا جائے.یہ خوشی کی بات ہے کہ ایسے جوش کی حالت میں بھی ہماری جماعت آپے سے باہر نہیں ہوئی.اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ احمدی قوم نے وہ تعلیم جذب کرنی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ہندو، گورنمنٹ کو ہم سے بدظن کریں گے اور بدظن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض افسر ناراض بھی ہو جائیں.مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں.اگر اسلام کی خدمت کرتے ہوئے گورنمنٹ ہندوؤں کے کہنے سے قید نہیں بلکہ پھانسی پر چڑھا دے تو ہم پرواہ نہ کریں گے لیکن ہم قانون کی پابندی کریں گے اور امن قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور مسلمانوں سے بھی کہیں گے کہ فوری طور پر جوش میں نہ آؤ بلکہ اسلام کی خدمت کے لئے مستقل طور پر کوشش کر و.صرف ریزولیوشن پاس کر دینے سے کچھ نہیں بنتا.میرا یہ مطلب نہیں کہ ریزولیوشن پاس کرنا اچھا نہیں.یہ بھی مفید ہو سکتے ہیں مگر یہ کہ صرف ریزولیوشن پاس کیا جائے مفید نہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ کام کر کے دکھا ئیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس وقت وہ صحیح رستے پر چلنے کی ہمیں توفیق دے اور رسول کریم عملہ کی تعلیم پر عمل کرنے کے ایسے ذرائع بتائے کہ ہم اسلام کی 66 عظمت دنیا میں قائم کرسکیں اور مسلمانوں کی گری ہوئی حالت کو اٹھا سکیں.“ ( الفضل 5 جولائی 1927 ء) 1: التوبة: 24 2: الاحزاب: 24

Page 383

سيرة النبي الله 369 جلد 2 کتاب ”رنگیلا رسول“ کا جواب حضرت مصلح موعود نے یکم جولائی 1927 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.پچھلے دنوں رسول کریم ﷺ کے متعلق جو کسی گندہ دہن انسان نے ایک کتاب رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی اس پر جب مسلمانوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ایسی دل آزار تحریروں کو قانونا بند کرنا چاہئے کیونکہ وہ مختلف اقوام ہند کے درمیان منافرت اور تباغض پیدا کرتی ہیں تو اس پر بعض ہندو اخبارات نے اور خصوصاً ملاپ“ اور ”پر تاپ“ نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کو ایسی تحریروں کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلانے کی کیا ضرورت ہے اور مسلمان اس بات پر کیوں ناراض ہوتے ہیں کہ قانون میں اس قسم کی تحریروں کے لکھنے والوں کے لئے کوئی دفعہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ان کو سزا دی جا سکے.کیونکہ قانون میں اگر نقص ہے تو اس کا اثر ہندوؤں، سکھوں ، عیسائیوں، یہودیوں، سناتنوں سب پر پڑے گا.چونکہ کسی ایسی دفعہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے جس کے ذریعہ ایسی تحریروں کو روکا جا سکے مختلف مذاہب کے بانیوں پر حملے کئے جا سکتے ہیں اور ان کے اعزاز اور احترام کے خلاف جائز و نا جائز نکتہ چینی کی جا سکتی ہے اس لئے مسلمانوں ہی کے لئے خطرہ نہیں کہ ان کے بزرگوں کے خلاف سخت تحریریں شائع ہوتی ہیں بلکہ ایسا ہی خطرہ ہندوؤں کے لئے بھی ہے.ایسا ہی خطرہ سکھوں کے لئے بھی ہے.ایسا ہی خطرہ عیسائیوں کے لئے بھی ہے.ایسا ہی خطرہ یہودیوں کے لئے بھی ہے.اگر یہ لوگ اس قسم کی دفعہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے شور نہیں مچا ر ہے، کوئی شکوہ نہیں کر رہے تو مسلمانوں کے شور مچانے کی کیا

Page 384

سيرة النبي عل الله 370 جلد 2 وجہ ہو سکتی ہے.اگر کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلہ کے اثر سے سناتنیوں، آریوں ، سکھوں ، عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے اعتراض کا کوئی موقع نہیں تو پھر مسلمانوں کے لئے کہاں موقع ہے.جس طرح مسلمانوں کے بزرگوں کے خلاف دل آزار تحریریں شائع کرنے کا رستہ کھلا ہے اسی طرح دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے خلاف بھی تو رستہ کھلا ہے.پھر خود ہی اس کی توجیہ کی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کا اس کے متعلق شور مچانا اور گورنمنٹ کو قانون کے اس نقص کی طرف توجہ دلانا بتا تا ہے کہ جب دوسرے مذاہب والوں کو اپنے بزرگوں کے خلاف کسی قسم کی نکتہ چینی کا خوف نہیں تو مسلمانوں کے نبی کی زندگی میں ایسی باتیں موجود ہیں جن پر نکتہ چینی ہونے سے مسلمان ڈرتے ہیں.گویا ان کے نزدیک چونکہ مسلمان سب سے زیادہ راجپال کے فیصلہ کے خلاف شور مچار ہے ہیں اور اس قسم کی تحریروں کو روکنے کے لئے قانون بنانے کے متعلق سب سے زیادہ زور دے رہے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ان کے دلوں میں یقین ہے کہ ان کے نبی کی زندگی ایسی خراب ہے کہ لوگ اس پر اعتراض کر سکتے ہیں اور کریں گے مگر وہ قانون میں کوئی ایسی دفعہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا منہ بند نہ کر سکیں گے.اس وجہ سے مسلمان شور مچارہے ہیں تا کہ قانون کے ذریعہ ایسے لوگوں کی زبان بند کرا دیں.میں ایسے لوگوں سے اس حد تک تو متفق ہوں کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے زیادہ زور سے آواز اٹھائی ہے مگر جو نتیجہ اس سے نکالا گیا ہے وہ سرتا سر غلط ہے.اگر مسلمانوں نے اس فیصلہ کے خلاف جوش کا اظہار کیا اور غم و غصہ دکھایا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ متعدد ہند و مصنف ایسے پائے گئے جو شرافت اور انسانیت کے مطالبات سے قطع نظر کر کے رسول کریم ﷺ پر ایسے گندے اور کمینے حملے کر رہے ہیں جن کو کوئی شریف انسان برداشت نہیں کر سکتا.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس مذہب کے بانی کے خلاف ایسے گندے اعتراض کئے جائیں گے اسی کے

Page 385

سيرة النبي علي 371 جلد 2 پیروؤں میں جوش اور غصہ پیدا ہوگا.ورنہ جن کے مذہب کے بانیوں کو گالیاں نہیں دی جاتیں ان میں جوش اور غصہ کیوں پیدا ہو.پس یہ کہنا کہ مسلمانوں میں کیوں جوش پیدا ہوا ہے اس کی وجہ یہ وجہ یہ ہے کہ رنگیلا رسول، ورتمان اور و چتر جیون کتابیں مسلمانوں ہی کے خلاف لکھی گئی ہیں.ہندوؤں یا عیسائیوں یا آریوں کے خلاف نہیں لکھی گئیں.اگر اسی قسم کی کتابیں ہندوؤں اور آریوں کے خلاف لکھی جاتیں اور اسی طرح پے در پے لکھی جاتیں تو ان میں ایسا جوش پیدا ہوتا جس کا مٹانا مشکل ہو جاتا.مگر اب زخم مسلمانوں کو لگا ہے، سینے مسلمانوں کے فگار ہیں ہندوؤں کو کیا ہوا ہے کہ وہ شور مچائیں.الله پس اس وقت مسلمان جو شور مچارہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلمان اس بات سے ڈرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر اعتراض ہو سکتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو ہندوؤں کی طرف سے گالیاں دی گئیں اور آپ کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی ہے.لیکن ہندوؤں کے بزرگوں کے خلاف مسلمانوں نے کچھ نہیں لکھا اور نہ گالیاں دی ہیں.ایسی حالت میں ہندوؤں کا مسلمانوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ شور کیوں مچاتے ہیں ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کو گالیاں دے اور جب وہ اسے کہے کیوں گالیاں دیتے ہو یہ شرافت کا فعل نہیں تو گالیاں دینے والا کہے دیکھو! میں تمہیں گالیاں دینے سے منع نہیں کرتا پھر تم کیوں منع کرتے ہو.ہندوؤں کے اس وقت خاموش رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بڑے وسیع الحوصلہ ہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندومسلمانوں کے خلاف نہایت کمینے اور گندے فعل جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں اور ان میں شرافت اور انسانیت نہیں رہی.یہ اصرار ان کا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کی بدکاری پر ناراض ہو تو بدکاری کرنے والا کہے تم ناراض کیوں ہوتے ہو تم بھی کر لو.کیا ایسے شخص کو وسیع الحوصلہ کہا جائے گا؟ اس وقت مسلمانوں میں اس لئے جوش ہے کہ ان کے نبی کو برا کہا جاتا ہے اور دوسرے خاموش ہیں تو اس لئے کہ ان کے بزرگوں کو برا نہیں

Page 386

سيرة النبي علي 372 جلد 2 کہا گیا.مسلمان اگر شور مچا رہے ہیں تو اس لئے کہ ان کے سینوں پر زخم لگے ہوئے ہیں اور دوسرے اگر خاموش ہیں تو اس لئے کہ انہیں کوئی زخم نہیں لگا.پس یہ ان کے وسیع الحوصلہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ان کی خود غرضی کا ثبوت ہے.وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت حملہ مسلمانوں پر ہو رہا ہے.ورنہ اگر یہی حملہ ان کے مذاہب کے بانیوں اور ان کے بزرگوں پر ہوتا تو میں پوچھتا ہوں وہ شور مچاتے یا نہیں؟ موجودہ حالت میں اس طرح وسعت حوصلہ ثابت کرنا یا یہ کہنا کہ ان کے بزرگوں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا غلط ہے.اس وقت مسلمانوں کے شور مچانے کی دو وجہیں ہیں.اول تو یہ کہ ان پر حملہ کیا گیا ہے اور جس پر حملہ کیا جاتا ہے وہ شور مچاتا ہے.دیکھو! میں نے نہایت تہذیب اور متانت کے ساتھ مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ ہندو چھ سو سال سے اور اُس وقت سے جب کہ وہ ہمارے غلام تھے، ہمارے درباروں میں ہمارے آگے سجدے کیا کرتے تھے ہم سے چھوت چھات کر رہے ہیں، ہمارے ہاتھ کی چیز کھانا گناہ سمجھتے ہیں.تو آج جب کہ مسلمان ہندوؤں کی اس چھوت چھات کی وجہ سے تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ کھانے پینے کی چیزیں مسلمانوں سے خریدیں ، ہندوؤں سے نہ خریدیں اور جس طرح ہندوان کے ہاتھ کی چیزیں نہیں کھاتے وہ بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی نہ کھائیں.اس پر ہندو ایسے سیخ پا ہو رہے ہیں کہ جس ہندو اخبار کو اٹھاؤ اس میں یہی رونا رویا گیا ہے کہ قادیانی لوگ ہندوؤں سے چھوت چھات کرنے کی تلقین کر کے فتنہ پھیلا رہے ہیں اور امام جماعت احمد یہ اس طرح شرارت کر رہا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شرارت ہے تو کیا تمہارے رشیوں، منیوں اور تمہارے باپ دادوں نے مسلمانوں سے چھوت چھات کرنے کا حکم دے کر یہی شرارت نہیں کی؟ پھر اب تم کیوں ناراض ہوتے ہو؟ اگر مسلمانوں کا بدلے کے طور پر ہندوؤں کے ہاتھ کی چیزیں نہ کھانا شرارت ہے تو پھر تمہارا کیا حال ہے جو چھ سوسال سے مسلمانوں کے ہاتھ کی چیزیں کھانے سے پر ہیز کر رہے ہو.

Page 387

سيرة النبي عل الله 373 جلد 2 میں نے اس بات کا اس لئے ذکر کیا ہے تا یہ بتاؤں کہ ایک ایسی بات جو تمدنی لحاظ سے مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری ہے اس کے متعلق تحریک کرنے سے ہندو اس قدر ناراض ہو رہے ہیں جس کی کوئی حد نہیں.میں پوچھتا ہوں اس پر تم کیوں ناراض ہوتے ہو؟ کیا اسی لئے نہیں کہ اس کا اثر تمہاری ذات پر پڑتا ہے؟ تمہاری پوری کچوری 1 پر پڑتا ہے؟ اگر تمہیں اپنی پوری کچوری کے نہ بکنے کی وجہ سے اس قدر غصہ آ سکتا ہے تو خود ہی سوچ لو جب محمد ﷺ کی ذات پر حملہ کیا جائے گا اُس وقت مسلمانوں کو کس قدر غصہ اور جوش آئے گا.وہ قوم جو اپنے دہی بڑوں، اپنے پکوڑوں اور اپنی جلیبیوں پر اس قدر غصہ اور جوش کا اظہار کر سکتی ہے اس کا کیا حق ہے کہ مسلمانوں کے پیارے آقا اور محسن کو گالیاں دے اور پھر کہے مسلمان کیوں شور مچاتے ہیں.اس کے حوصلہ اور وسعت قلب کا اسی سے پتہ لگ گیا ہے کہ وہ بات جو جواب کے طور پر مسلمانوں کو شروع کرنے کے لئے کہی گئی ہے اسی کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ مرزا قادیانی کی شرارت ہے.لیکن یہی لوگ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں صلى الله اور پھر کہتے ہیں مسلمان کیوں شور مچاتے اور کیوں گورنمنٹ سے کہتے ہیں کہ دل آزار تحریروں کو روکنے کے لئے قانون بنائے.اور پھر خود ہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمان سمجھتے ہیں ان کے رسول کی ذات میں نقص پائے جاتے ہیں.میں کہتا ہوں مسلمانوں کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں.وہ اگر شور مچاتے ہیں تو اس لئے کہ ہندو نا پاک حملے کرتے ہیں اور ان کو برا لگتا ہے.باقی رہا یہ کہنا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ کوئی غصہ نہیں دکھاتے اس لئے معلوم ہوا ان میں وسعت حوصلہ بہت زیادہ ہے اور وہ اپنے مذہب پر حملوں کو فراخ دلی سے برداشت کر سکتے ہیں درست نہیں.بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی انسانیت مرچکی ہے اور ان میں احساس ہی نہیں رہا کہ شرافت کیا ہوتی ہے.دیکھو! یہ عام بات ہے کہ اگر کسی شریف آدمی کے سامنے دوسرے کے باپ کو گالیاں دی جائیں تو وہ گالیاں دینے والے کو منع کرے گا کہ ایسا نہ کرو، یہ شرافت سے

Page 388

سيرة النبي علم 374 جلد 2 بعید ہے.اگر وہ لوگ جو بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف آریوں کی گالیوں پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ان میں بھی انسانیت ہوتی اور ملک میں امن قائم رکھنا ضروری سمجھتے تو جب آریوں نے رسول کریم ﷺ کو گالیاں دی تھیں سکھ ، یہودی ، عیسائی اور دیگر مذاہب والے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان سے کہتے تمہاری یہ خلاف انسانیت حرکت ہم برداشت نہیں کر سکتے ، یہ کونسی شرافت ہے کہ تم مسلمانوں کے رسول کو گالیاں دے رہے ہو.اب اگر دوسرے مذاہب والوں نے یہ نہیں کیا تو یہ ان کی بے غیرتی اور بے ہودگی کا ثبوت ہے نہ کہ وسعت حوصلہ اور فراخ دلی کا.لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی غلط ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ نہیں بولے.میں جانتا ہوں خود ہندوؤں میں ایسے لوگ ہیں جو آریوں کی بدزبانیوں کو سخت نا پسند کرتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں میں ایسے لوگ ہیں جو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک عیسائی اخبار نے ایک مضمون بھی اس بارے میں لکھا تھا.سکھوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو آریوں کی بدزبانیوں کو نا پسند کرتے ہیں.چنانچہ ابھی چند دن ہوئے سیالکوٹ میں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا.اس میں جب ہمارے ایک مبلغ نے ورتمان“ کا مضمون پڑھ کر سنایا تو معلوم ہوا کئی سکھوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے.بات اصل یہ ہے کہ جس قوم میں شرافت ہو وہ ایسے افعال پر اظہار نفرت کرنے پر مجبور ہو گی.ایسے تمام ہندوؤں ،سکھوں، عیسائیوں، پارسیوں کے ہم ممنون ہیں جو انسانیت کے قدر دان اور غیر شریفانہ افعال پر اظہار نفرت کرنے والے ہیں.اور دوسرے خواہ وہ کسی قوم کے ہوں جنہوں نے اظہار نفرت نہیں کیا ان کے متعلق کہتے ہیں انہوں نے سمجھا نہیں کہ انسانیت کا فرض ادا کرنے میں انہوں نے کس قدر کوتا ہی کی ہے اور انہوں نے خیال نہیں کیا کہ آج اگر مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں تو کل ایسا ہی وقت ان پر بھی آسکتا ہے ہے.یہ بات نہ سمجھتے ہوئے وہ انسانیت کے فرض کی ادائیگی سے قاصر رہے ہیں.پھر ایک اور وجہ ہے جس سے مسلمان شور مچا رہے ہیں اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو

Page 389

سيرة النبي علم 375 جلد 2 منع کیا گیا ہے دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو برا کہنے سے.ان کو بتایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے آنے سے پہلے تمام قوموں میں انبیاء آتے رہے ہیں.اس وجہ سے ایک مسلمان جہاں رسول کریم ﷺ کی عزت کرتا ہے وہاں حضرت یحیی حضرت موسی ، حضرت ابراہیم ، حضرت نوح ، حضرت حزقیل، حضرت دانیال کا بھی ادب کرتا ہے.اسی طرح اور مذاہب کے بزرگوں کے نام اگر چہ قرآن میں نہیں آئے مگر قرآن کہتا ہے سب قوموں میں نبی بھیجے گئے.اس لئے ایک مسلمان زرتشت، کرشن ، رام چندر اور تمام ان بزرگوں کو جن کا دوسری اقوام ادب کرتی ہیں ان کی عزت کرتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے ان میں سے سارے یا بعض ایسے ہیں جو اپنی اپنی قوم کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے تھے.اس وجہ سے اور قوموں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان کی بدزبانیوں کا جواب نہیں دے سکتے ورنہ مسلمان ایسا جواب دے سکتے ہیں کہ ان معترضین کو اپنے گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہو جائے.ویدوں میں دیوتاؤں اور رشیوں کے جو حالات لکھے ہیں اور گیتا میں کرشن کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں.کیا ہندوؤں کی کتابوں میں یہ نہیں لکھا کہ ایک رشی ایک عورت پر عاشق ہو گیا اور اس کی ایسی حالت ہوگئی جو مرد عورت کے ملنے سے ہوتی ہے.اس پر اس نے دھوتی اتار کر رکھی تو اس دھوتی سے بچہ پیدا ہو گیا.پھر انہی کتابوں میں رکمنی کا جو واقعہ لکھا ہے وہ کس سے پوشیدہ ہے کہ کرشن جی اسے لے کر بھاگ جاتے ہیں.اسی طرح ان کتابوں میں اور جو سینکڑوں نہایت شرمناک واقعات درج ہیں وہ ہماری نظروں سے پوشیدہ نہیں.مگر ہم جانتے ہیں ان بزرگوں کی طرف جو گندے واقعات منسوب کئے گئے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں.انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں دنیا میں صداقت قائم کی تھی اور وہ لوگوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے کیونکہ ہمیں قرآن بتاتا ہے کہ ہر قوم میں خدا نے نبی بھیجے.اس وجہ سے ہم سب قوموں کے بزرگوں کو پارسا سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف زبان درازی نہیں

Page 390

سيرة النبي علي 376 جلد 2 کرنا چاہتے.ورنہ ہم ہندوؤں کی اپنی کتابوں سے ہی وہ وہ واقعات لکھ سکتے ہیں کہ ہندوؤں کے لئے مجلسوں میں بیٹھنا مشکل ہو جائے.پس ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے خلاف بدزبانی کریں.لیکن اگر ہندوؤں کی طرف سے متواتر اسی طرح حملے جاری رہے تو ہمیں حملے کے طور پر نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے کہ ایسی باتوں سے کس قدر دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے بتانا پڑے گا کہ ہندوؤں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے.ہمارے پاس اتنا ذخیرہ ہے کہ اگر ہند و باز نہ آئے اور گورنمنٹ نے ان کو نہ روکا تو ہمیں بھی وہ پیش کرنا پڑے گا اور ہمارے پاس اس کے لئے اتنا سامان ہے جو سارے ہندوستان کو جلا دینے کے لئے کافی ہے.ہندوستان کے کسی گوشہ کا کوئی رشی منی جسے ہند و پوجتے ہیں ایسا نہیں جس کے متعلق ہندوؤں ہی کی کتابوں میں ایسے واقعات موجود نہ ہوں جن کی کسی جگہ ہر گز مثال نہیں مل سکتی.اگر ہندوؤں نے اس گندی اور نا پاک جنگ کو بند نہ کیا اور بلا وجہ ناپاک حملوں سے باز نہ آئے اور ہندو قوم نے ایسے گندے لوگوں سے اظہار نفرت نہ کیا اور گورنمنٹ نے بھی ان فتنہ انگیز لوگوں کو نہ روکا تو یہ بتانے کے لئے کہ کس طرح مسلمانوں کے دل دکھتے ہیں نہ کہ ہندوؤں کے بزرگوں کی ہتک کرنے کے لئے ( کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ باتیں ان بزرگوں میں نہ ہوں گی ) ہم بھی کتابیں لکھیں گے اور ہر زبان میں انہیں شائع کریں گے.اس کے بعد میں اس کتاب کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس نے سارے ہندوستان میں آگ لگا رکھی ہے.ہندو تو کہتے ہیں کہ مسلمان ”رنگیلا رسول، و چتر جیون اور ورتمان“ کا جواب نہیں دے سکتے اور ڈرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ ان گندی گالیوں اور بدزبانیوں کا جواب ہی کیا ہوسکتا ہے جو ان ناپاک کتابوں میں دی گئی ہیں.کیا ان میں کوئی علمی مضمون ہے جس کا جواب دیا جائے اور کیا اس قسم کے اعتراض ہر انسان پر نہیں ہو سکتے جس قسم

Page 391

377 جلد 2 سيرة النبي علي کے ان کتابوں میں کئے گئے ہیں.آریہ خدا کے تو قائل ہیں پھر روس کے ملک میں جو خدا پر اعتراض کئے جاتے ہیں ان کے پاس ان کے کیا جواب ہیں؟ روسی جو د ہر یہ ہیں تھیڑوں میں خدا کو مجرم کے طور پر دکھاتے اور لینن کو حج بنا کر اس کے سامنے پیش کرتے ہیں اور دنیا میں جو حادثات ہوتے ہیں ان کو جرم کے طور پر پیش کر کے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ اتنا بڑا مجرم ہے.اور پھر سزا دیتے ہوئے کہتے ہیں خدا کا خاتمہ ہو گیا اور اب لینن کی پُر انصاف حکومت قائم ہوگئی ہے.تو ایسے رنگ میں بد زبانی کرنے والے تو خدا کے متعلق بد زبانی سے بھی نہیں رکتے اور گالیوں کے لئے دلائل کی ضرورت ہی کونسی ہوتی ہے.اسی طرح کتاب راجپال اور ورتمان میں کونسی دلیل ہے جس کا ہم جواب دیں.اس کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ایسے بدزبانوں کی یا ان کی قوم کے لوگوں کی شرافت ابھرے اور وہ اس بد زبانی سے باز آجائیں یا پھر گورنمنٹ رو کے ورنہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں فساد ہوں گے.رسول کریم اللہ کی عزت کے متعلق مسلمانوں میں اس وقت بے انتہا جوش ہے.باوجود اس کے کہ میں متواتر توجہ دلا رہا ہوں کہ مسلمان امن سے رہیں اور فتنہ پرداز لوگوں کی شرارتوں سے مشتعل نہ ہوں اور باوجود اس کے کہ مسلمان میری باتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی اس قسم کے خطوط آتے ہیں کہ آپ کیوں مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کرتے ہیں.آپ ہمیں وہ کچھ کر لینے دیں جو ہمارا دل چاہتا ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ اس وقت کس طرح مسلمانوں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی محبت موجزن ہے.ایسی حالت میں آریوں کا یہ کہنا کہ مسلمان اس لئے شور مچا رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں ان کے رسول کی زندگی میں رنگیلا پن پایا صلى الله جاتا ہے.آگ پر تیل ڈالنا نہیں تو اور کیا ہے.اس جملہ میں رسول کریم ﷺ کی اور زیادہ ہتک ہے کیونکہ کتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کرنے والے نے جو کچھ لکھا اپنی طرف سے لکھا اور جو نا پاک کلمات کہے اپنی طرف سے کہے.لیکن ” پرتاپ یہ کہتا ، د

Page 392

سيرة النبي عمال 378 جلد 2 ہے کہ مسلمانوں کے اپنے دل بھی مانتے ہیں کہ ان کے رسول کی زندگی میں ایسے نقص پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے جائز طور پر نکتہ چینی کی جاسکتی ہے.گویا کتاب رنگیلا رسول“ شائع کرنے والا تو یہ لکھتا ہے کہ اس کے اپنے نزدیک یہ نقص آپ میں پائے جاتے ہیں.مگر پرتاپ یہ کہتا ہے کہ مسلمان خود بھی مانتے ہیں کہ ان کے رسول میں نقص پائے جاتے ہیں.اب میں اس کتاب کو لیتا ہوں.اس کتاب کا لکھنے والا رسول کریم ﷺ کا نام رنگیلا رکھتا ہے.اور رنگیلا ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو عواقب زمانہ کا خیال نہ رکھتا ہو، اپنی زندگی عیش و عشرت میں گزارتا ہو، انجام اور عاقبت کو کچھ وقعت نہ دیتا ہو.چنانچہ ہندوستان کے ایک بادشاہ محمد شاہ کا نام رنگیلا رکھا گیا تھا.جس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس پر غنیم چڑھ کر آیا اور اس کی خبر اس تک بذریعہ تحریر پہنچائی گئی تو اس نے اس کاغذ کو شراب کے پیالہ میں ڈال دیا.آخر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا.اس وجہ سے اس کا نام رنگیلا ہو گیا کیونکہ اس نے عواقب پر نظر نہ کی بلکہ شراب و کباب اور عورتوں کی صحبتوں میں مصروف رہا.رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ رنگیلا کہہ کر یہی الزام اس کتاب والا آپ پر لگاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا رسول کریم ﷺ پر کوئی عقلمند ایسے الزام لگا سکتا ہے.ہر شخص جو آپ کی زندگی کے حالات سے واقف ہو جانتا ہے کہ سوائے اس شخص کے جو خودشراب کی ترنگ میں ایسی کتاب لکھے اور کوئی یہ الزام آپ پر نہیں لگا سکتا.اور یہ دیکھا گیا ہے کہ شرابی جب شراب پی کر مخمور ہو جاتے ہیں تو دوسروں سے کہتے ہیں ہم تو ہوش میں ہیں تم نشہ میں ہو.یہی اس شخص کا حال ہے جس نے یہ کتاب لکھی.واقعی اس نے شراب کے نشہ میں یا فطرت کی گندگی کی وجہ سے اپنے نفس کے عیب اس مصفی آئینہ میں دیکھے جس سے بڑھ کر نہ کوئی مصفی آئینہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا.جس طرح ایک بدشکل اور سیاہ رو جب شیشہ میں اپنی شکل دیکھے تو سمجھے کہ یہ شیشہ کا قصور ہے اسی طرح

Page 393

سيرة النبي عمال 379 جلد 2 اس کی حالت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کتاب کا مصنف خود رنگیلا ہے جسے نہ خدا کا خوف ہے نہ دنیا کا ڈر.ورنہ رسول کریم علیہ کی زندگی کو جب دیکھا جائے تو اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں نظر آتا جس میں رنگیلا پن کا شائبہ بھی پایا جائے اور اس بات کو دشمن بھی مانتے ہیں.میں نے بتایا ہے رنگیلا اسے کہا جاتا ہے جو شراب میں بدمست رہے اور اس طرح زندگی بسر کرے کہ بدمستی یا لا ابالی میں کسی وجہ سے دنیا کے غموں کو اپنے پاس نہ آنے دے.پس پہلی چیز رنگیلے شخص کے لئے بدمستی ہے.لیکن ہر شخص جسے عقل سے ذرا بھی مس ہو وہ جانتا ہے کہ دنیا سے شراب کا مٹانے والا ایک ہی شخص ہے یعنی محمد.اگر نعوذ باللہ آپ میں رنگیلا پن ہوتا تو اُس وقت جب کہ اس کتاب کے لکھنے والے کے باپ دادا مٹکوں کے منکے شراب کے اڑاتے تھے بلکہ دیوی دیوتاؤں کو بھی پلاتے تھے اُس وقت محمد علی یہ شراب کی ممانعت کا حکم نہ دیتے.مگر اُس زمانہ میں کہ آپ کی قوم دن رات شراب میں مست رہتی تھی آپ نے شراب کی ممانعت کا حکم دیا.آپ کے اس حکم کا اثر اور تصرف دیکھو.کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھے شراب پی رہے تھے اور نشہ کی حالت میں تھے کہ باہر سے آواز آئی شراب حرام کر دی گئی.اُس وقت ایک شخص نے جو اس مجلس میں شامل تھا کہا اٹھ کر پوچھو تو سہی کہ اس بات کی تفصیل کیا ہے.مگر اس نشہ کی حالت میں ایک دوسرا شخص سونا اٹھا کر شراب کے مٹکے پر مارتا ہے اور کہتا ہے کہ جب ایک شخص کہہ رہا ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے تو اب میں پہلے مشکا توڑوں گا پھر پوچھوں گا کہ کیا کہتا ہے.آواز یہ آئی ہے کہ محمد علی نے شراب حرام کر دی.اگر یہ بات غلط بھی ہے تو بھی میں پہلے مٹکا توڑوں گا پھر اس کی تصدیق کروں گا.چنانچہ وہ مٹکا تو ڑ دیتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کیا رسول کریم ﷺ نے شراب حرام کردی؟ جب بتایا جاتا ہے کہ ہاں آپ نے شراب حرام کر دی تو سب پکار اٹھتے ہیں اچھا ہم نے شراب چھوڑ دی.

Page 394

سيرة النبي عالم 380 جلد 2 میں پوچھتا ہوں کیا وہ انسان جس نے شراب کو ایک ملک کے ملک سے ایک حکم کے ساتھ ایسے طور پر مٹا دیا کہ پھر کسی نے اس کا نام نہ لیا اور اس قوم سے شراب چھڑائی کہ جو کم سے کم دن رات آٹھ دفعہ شراب پیتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے اس کی طرف رنگیلا پن منسوب کیا جا سکتا ہے؟ اگر وہ رنگیلا کہلا سکتا ہے تو ہندوؤں کے بزرگ جو شراب سے منع نہیں کرتے تھے بلکہ خودشرا ہیں پیتے تھے کیا کہلائیں گے؟ رنگیلا پن کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ایسا انسان انجام کی کوئی فکر نہ رکھے.لیکن محمد ﷺ کی تعلیم کو پڑھو اور پھر بتاؤ کیا اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے.اس کتاب میں جو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی دیکھو کس طرح انسان کو بار بار موت یاد دلائی گئی ہے اور کس طرح آپ اپنے ماننے والوں کو تلقین فرماتے ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے موت کو یاد کرو.کیا دنیا کی کوئی کتاب ایسی ہے جو عاقبت سے اتنا ڈراتی ہو جتنا قرآن کریم ڈراتا ہے؟ قرآن کریم کا حجم ویدوں سے، بائبل سے اور ژرند اوستا سے بہت کم ہے اور میرے نزدیک تمام ان کتابوں سے کم ہے جنہیں خدا کی سمجھا جاتا ہے.مگر میں چیلنج دیتا ہوں کہ جس قدر قرآن میں انجام اور عاقبت کے متعلق ڈرایا گیا ہے اس کا چوتھا حصہ ہی کسی اور کتاب سے نکال کر دکھا دیا جائے تو میں اپنی شکست تسلیم کرلوں گا.اگر کوئی نہیں دکھا سکتا تو میں پوچھتا ہوں کیا جس انسان میں رنگیلا پن پایا جائے اور جو انجام سے لا پرواہ ہو اس کے حرکات وسکنات میں ، اس کی گفتگو میں، اس کی تعلیم میں کیا اس قدر انجام کا خیال رکھنے کی تعلیم ہوسکتی ہے؟ پھر رنگیلا پن میں عورتوں سے تعلق بھی شامل ہے.لیکن ذرا بتایا تو جائے کہ دنیا میں کونسی کتاب اور کونسا مذ ہب اور کونسا انسان ایسا ہے جس نے پردہ کا حکم دیا ہو اور اُس وقت دیا ہو جب کہ عورت و مرد آپس میں خلا ملاح رکھتے ہوں ، عورتوں کی صحبتوں سے لذت اٹھاتے ہوں، بغیر کسی جھجک اور حجاب کے کھلے طور پر ایک دوسرے سے ملتے ہوں.کیا ان سب باتوں سے روک کر پردہ کا حکم جاری کرنا اور یہ کہنا کہ مرد و

Page 395

سيرة النبي الله 381 جلد 2 عورت اس طرح ایک دوسرے سے نہ ملا کریں کسی رنگیلے کی تعلیم ہو سکتی ہے؟ اگر نَعُوذُ باللهِ رسول کریم محلے میں رنگیلا پن ہوتا تو چاہئے تھا کہ آپ کہتے عورتوں مردوں کو خوب محفلیں گرم کرنی چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے کوئی پر ہیز نہیں کرنا چاہئے.آپس میں خوب جنسی تسفر کرنا چاہئے.مگر آپ نے یہ فرمایا کہ مرد و عورت علیحدہ علیحدہ رہیں اور نامحرم کی شکل تک نہ دیکھیں.کیا اس کو رنگیلا پن کہا جا سکتا ہے؟ پھر رنگیلا پن کی یہ خاصیت ہے کہ جس میں پایا جائے وہ کسی قسم کی ہیبت اور خوف کو اپنے اوپر مستولی نہیں ہونے دیتا.مگر رسول کریم ﷺ کی ذات کو دیکھو.صبح و شام، رات دن خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کثرت سے کرتے ہیں کہ فرانس کا ایک مشہور مصنف لکھتا ہے محمدعلی لے کے متعلق خواہ کچھ کہو مگر اس کی ایک بات کا مجھ پر اتنا اثر ہے کہ میں اسے جھوٹا نہیں کہہ سکتا.اور وہ یہ کہ رات دن، اٹھتے بیٹھتے سوائے خدا کے نام کے اس کی زبان سے کچھ نہیں نکلتا اور ہر لمحہ اور ہر گھڑی وہ خدا کی عظمت اور اس کی محبت کو پیش کرتا ہے.وہ لکھتا ہے میں کس طرح مان لوں کہ یہ شخص جو سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کو پیش کرنے والا ہے خدا پر افترا باندھتا ہے.اب یہ ایک دشمن کی گواہی ہے جس نے رسول کریم ﷺ کی زندگی کو تنقید کے طور پر مطالعہ کیا.پس جب کہ رسول کریم علی صد الله ہر وقت اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ ایک بالا ہستی ہے، اس کی شان اور عظمت بیان کرتے رہے، اس کے جلال اور جبروت سے ڈراتے رہے تو کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ آپ میں (نَعُوذُ بِاللهِ) رنگیلا پن پایا جاتا تھا.پھر میں کہتا ہوں رنگیلا پن کا موقع کھانے پینے یا مرد عورت کے تعلقات کا ہے.مگر اس وقت بھی رسول کریم ﷺ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ جب کھانے بیٹھو تو خدا کا نام لو.جب کوئی چیز پینے لگو تو خدا کا نام لو کہ یہ سب چیزیں اسی نے تم کو عطا کی ہیں.اسی

Page 396

سيرة النبي عالم 382 جلد 2 طرح جب مرد و عورت کے تعلقات ہوتے ہیں اور جب عیش وعشرت کرنے والے چاہتے ہیں کہ کسی قسم کا فکر ان کے پاس نہ آئے اور اسی غرض کے لئے شراب پیتے ہیں اُس وقت کے متعلق بھی آپ فرماتے ہیں یہ وقت بھی خدا تعالیٰ کو بھولنے کا نہیں.اس وقت تم دعا کرو کہ تمہارے ملنے کا نتیجہ برا نہ پیدا ہو بلکہ اچھا پیدا ہو.پس جو انسان میاں بیوی کے جائز تعلقات کے وقت بھی کہتا ہے رنگیلا پن مت اختیار کرو بلکہ اس موقع پر بھی خدا کو یاد رکھو، جو پردہ کا حکم دے کر عورتوں کو بالکل مردوں سے علیحدہ رہنے کا حکم دیتا ہے، جو شراب کا پینا قطعاً چھڑا دیتا ہے کیا اسے ان مذاہب کے پیروؤں کا جن میں شراب پینا جائز ہے، جن میں مرد اور عورتیں آزادی سے خلا ملا رکھتے ہیں، جن میں رنگیلا پن کی ساری باتیں پائی جاتی ہیں حق ہے کہ ایسے انسان پر اعتراض کریں؟ کیا ان اقوام کا فرد رسول کریم ﷺ کو رنگیلا کہہ کر اپنے سیاہ چہرہ کو آپ کے مصفی آئینہ میں نہیں دیکھتا ؟ یقیناً وہ اپنا ہی گند دیکھتا ہے یا پھر وہ پاگل خانہ میں بھیجے جانے کے قابل ہے.وہ شخص جو اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم ﷺ نے شراب پینے سے بالکل روک دیا، پردہ کا حکم جاری کر دیا، کھانے پینے اور مرد وعورت کے جائز تعلق کے وقت خدا کو یاد رکھنے کی تلقین کی ، موت کو ہر وقت سامنے رکھنے کی ہدایت کی ، ہر وقت خدا کے جلال سے ڈرنے اور اس کی رحمت کی امید رکھنے کا سبق پڑھایا اور باوجود بادشاہ ہونے کے بغیر چھنے اور پتھروں سے کوٹ کر بنے ہوئے آئے پر گزارہ کیا آپ کی طرف رنگیلا پن منسوب کرتا ہے وہ اگر اول درجہ کا خبیث اور جھوٹا نہیں تو اول درجہ کا پاگل ضرور ہے اور پاگل خانہ میں بھیجنے کے قابل ہے.ان حالات کے ماتحت جو قوم رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرتی اور الزام لگاتی ہے اس کے دماغ میں نقص اور عقل میں فتور ہے یا وہ ملک میں فتنہ پیدا کرنا چاہتی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اگر ایسی قوم پاگل ہو گئی ہے تو خدا تعالیٰ اس کے جنون کو دور کرے اور اگر شرارت کر رہی ہے تو اس کے فتنے کو مٹائے.ورنہ اگر یہی حالت رہی تو اتنے فتنے

Page 397

سيرة النبي عمال 383 جلد 2 66 رونما ہوں گے جن کا مٹانا نہ گورنمنٹ کی طاقت میں ہوگا اور نہ پبلک کی طاقت میں.“ الفضل 23 اگست 1927 ء ) 1: کچوری: ماش کی دال بھری ہوئی پوری جو کڑھائی میں تلی جاتی ہے.( فرہنگ آصفیہ جلد دوم مطبوع لاہور 2015ء) 2 : خلا ملا: مخلوط.گھلا ملا.خلوت اور جلوت کا شریک.نہایت دوستی اور ارتباط کے موقع پر بولتے ہیں.(فرہنگ آصفیہ جلد اول صفحه 811 مطبوعہ لاہور 2015ء)

Page 398

سيرة النبي الله 384 جلد 2 کیا آپ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں؟ راجپال کی کتاب ”رنگیلا رسول“ اور اس کے بعد کے واقعات کی وجہ سے ہندوستان میں جو حالات پیدا ہوئے حضرت مصلح موعود نے ان کے بارہ میں مسلمانوں کی راہنمائی فرماتے ہوئے جولائی 1927ء میں یہ مضمون لکھا:.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ جس سرعت سے ہندوستان میں حالات بدل رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آج مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے.ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان سو بھی سکتا ہے لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اگر سونا بھی چاہیں تو ان کے لئے ناممکن ہے.خدا تعالیٰ کے فرشتے انہیں مار مار کر اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے سخت دل دشمن کو ان پر مسلط کر دیا ہے تا کہ وہ ان کی نیند کو ان پر حرام کر دے.اب اُن کے لئے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار کرنا لازمی ہے.یا تو بیدار ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھیں یا مرکز زمین کو اپنے وجود سے پاک کر دیں.سب درمیانی راہیں آج ان پر بند ہیں اور سب دوسرے دروازے آج ان کے لئے مقفل ہیں.کتاب ”رنگیلا رسول“ کے فیصلے نے ہندوؤں میں سے ان لوگوں کو جو بزرگان دین کی ہتک میں لذت محسوس کرتے ہیں اور خدا کے پیاروں کو گالیاں دینا ان کی غذا ہے اس قدر دلیر کر دیا ہے کہ وہ خدا کے برگزیدہ رسول اور نبیوں کے سردار اور

Page 399

سيرة النبي علي 385 جلد 2 بزگی و طہارت کے مجسمہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فِدَاهُ أَبِى وَ أُمِّی پر ایک سے ایک بڑھ کر نا پاک حملے کر رہے ہیں اور ان کی فطرت اس غلاظت اور نجاست پر منہ مارنے سے کراہت نہیں کرتی.حالانکہ یہ ایسا گندہ فعل ہے کہ انسانیت اس کے خیال سے کانپتی ہے اور شرافت ایسے ذکر سے نفرت کرتی ہے.شریف الطبع لوگ تو معمولی آدمی کو گالیاں دینے سے بھی دریغ کرتے ہیں کجا یہ کہ اس قسم کے مصنف اس پاکباز کو گندے سے گندے الفاظ سے یاد کرتے ہیں جس پر طہارت کو فخر ہے اور پاکیزگی کو ناز.,, کتاب ”رنگیلا رسول“ اور ” و چتر جیون سے یہ ہولی شروع ہوئی.کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلے سے جرات پا کر ورتمان“ نے اس ظلم کو اور بڑھایا.اور اس کے بعد پے در پے پرتاپ“ اور ”ملاپ وغیرہ کے ایڈیٹروں نے اپنی دریدہ دینی کا ثبوت دیا.اس ناپاک حملے کے جواب میں مسلمانوں نے کیا کیا اور اس کا کیا بدلہ ملا !! وہ ظاہر ہے.مسلم آؤٹ لگ میں کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلے پر جرح کی گئی تو ایڈیٹر اور مالک ہتک عدالت کے مجرم میں قید خانے میں ڈال دیئے گئے.وہ ہندوستان کی سرزمین جس پر کل تک محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام حکومت کر رہے تھے آج اس کی عزت کی حفاظت کرنے والے عدالت عالیہ کی ہتک کے مرتکب قرار پا کر قید خانے کی دیواروں کے پیچھے محبوس ہیں.یہ کیوں ہے؟ اسی لئے کہ مسلمانوں نے اپنے فرائض کو بھلا دیا اور اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال دیا.خدا تعالیٰ ظالم نہیں.وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ 1 - اللہ تعالیٰ یقینا کسی قوم سے اس کی نعمتیں نہیں چھینتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ان نعمتوں کے استحقاق سے محروم نہیں کر دیتی.پس اے مسلمانو! اپنے حال پر غور کرو اور اپنی مشکلات پر نظر ڈالو.ایک دن وہ تھا کہ خدا کی نصرت تم کو کرہ ارض کے کناروں تک لے جارہی تھی اور آج تم دوسری قوموں کا فٹ بال بن رہے ہو.جس کا جی چاہتا ہے پیر مار کر تمہیں

Page 400

سيرة النبي علي 386 جلد 2 کہیں کا کہیں پھینک دیتا ہے.ایک وقت وہ تھا کہ تمہارے رحم پر تمام دنیا تھی اور تم دنیا سے رحم کا سلوک کرتے تھے لیکن آج تم دنیا کے رحم پر ہو اور دنیا تم سے رحم کا سلوک نہیں کرتی.آہ! وہ دن کیا ہوئے جب تم دنیا کے رکھوالے تھے اور کیا ہی اچھے رکھوالے تھے.ہر قوم اور ملت کے بے کس تمہاری حفاظت میں آرام سے زندگی بسر کرتے تھے.تمہارا نام انصاف کا ضامن تھا اور تمہاری آواز عدل کی کفیل.مگر آج تم لاوارث اور بے یار و مددگار ہو.اپنی عزت کی حفاظت تو الگ رہی اس پاک ذات کی عزت کی حفاظت بھی تم سے ممکن نہیں جس پر تمہارے جسم کا ہر ذرہ فدا ہے اور جس کی جوتیوں کی خاک بننا بھی تمہارے لئے فخر کا موجب ہے.آسمان تمہارے لئے تاریک ہے اور زمین تمہارے لئے تنگ ہے.اے بھائیو! کیا کبھی آپ نے اس امر پر غور کیا کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی اپنی سستیوں اور غفلتوں کا نتیجہ ہے ورنہ خدا تعالیٰ ہرگز ظالم نہیں.یہ دن کبھی بھی نہ آتے اگر مسلمان اپنی سستیوں اور غفلتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کرتے اور اپنی اصلاح کی فکر کرتے.لیکن اب بھی کچھ نہیں گیا.اگر اب بھی آپ لوگ ہمت سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ سے صلح کر کے بجائے اس پر الزام لگانے کے اور یہ کہنے کے کہ اس نے ہمیں ذلیل کر دیا ہے اپنے عیب اور نقص کو محسوس کرنے لگیں اور اپنی سستیوں اور غفلتوں کو ترک کر دیں تو یقیناً یہ مصائب کا زمانہ بدل جائے گا اور یہ مشکلات کے بادل پھٹ جائیں گے.اے بھائیو! آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر عقل اور تدبیر سے کام لینے کے موجودہ مشکلات دور نہیں ہو سکتیں.ہوگا وہی جس کے مستحق ہمارے اعمال ہمیں بنائیں گے.اس وقت حالت یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ انگریزی قانون کی رو سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت سے سخت ہتک کرنے والا شخص بھی قابل سزا نہیں.یہ فیصلہ ہمارے نزدیک غلط ہے.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ صوبہ کی اعلیٰ عدالت کے ایک رکن نے یہ فیصلہ کیا ہے.اور جب تک یہ

Page 401

سيرة النبي علم 387 جلد 2 فیصلہ نہ بدلے اُس وقت تک یہی فیصلہ ملک کا قانون ہے.مسلم آؤٹ لگ نے اس فیصلہ پر جرح کی اور اس کے ایڈیٹر اور مالک کو ہتک عدالت کے جرم میں قید خانے میں داخل کر دیا گیا ہے.اب ہمارا کام یہ ہے کہ :.(1) ان لوگوں کو قید سے رہا کرائیں کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت میں قید کیا گیا.(2) فیصلے کو جلد سے جلد بدلوائیں.(3) ان حالات کی اصلاح کرائیں جن کی وجہ سے اس قسم کی ہتک آمیز تحریرات لکھی گئیں اور ان کے لکھنے والے بری کئے گئے.آپ خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہم اکیلے ہی ہندوستان کے باشندے ہیں.حکومت انگریزوں کے اختیار میں ہے اور ہندوستان کی آبادی کا اکثر حصہ ہندو ہے.پس ہم خود کچھ کر نہیں سکتے اور گورنمنٹ کو بھی دخل دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے فیصلے کا آبادی کے دوسرے حصہ اور زیادہ حصہ پر کیا اثر پڑتا ہے.پس بغیر اس کے کہ ہم حسن تدبیر سے کام لیں ہمارے لئے کامیابی ناممکن ہے.اور اگر ہم جوش میں اپنے آپ کو ہلاک بھی کر دیں تو اس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے کا دروازہ اور بھی کھل جائے گا.پس ہمیں چاہئے کہ اپنی عقل کو قائم رکھتے ہوئے ان تدابیر کو اختیار کریں جو موجودہ مشکلات کو حل کر دیں اور مسلمانوں کی موجودہ ذلت کو عزت سے بدل دیں.آپ سب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ گورنر صاحب پنجاب نے بڑے زور دار الفاظ میں کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلہ کے خلاف آواز بلند کی تھی اور اس پر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ ضرور یا تو اس فیصلے کو بدلوائیں گے یا پھر قانون کی اصلاح کرائیں گے تا کہ آئندہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کی کسی کو جرات نہ

Page 402

سيرة النبي علي 388 جلد 2 ہو.اس عرصے میں ورتمان کے رسالے میں ایک مضمون شائع ہوا اور میں نے اس کی طرف ایک اشتہار کے ذریعہ سے توجہ دلائی اور گورنمنٹ نے اس رسالہ کو ضبط کرنے کے علاوہ اس کے ایڈیٹر اور مضمون نگار پر مقدمہ چلا دیا.یہ مقدمہ اب ہائی کورٹ میں پیش ہے اور اس کے فیصلے پر یا تو قانون کی وہ تشریح قائم ہو جائے گی جو اب تک سمجھی جاتی رہی ہے یا پھر گورنمنٹ قانون کی تشریح کر دے گی کہ آئندہ کسی حج کو اس قانون کے وہ معنے کرنے کا موقع نہ ملے جو کہ کنور دلیپ سنگھ صاحب نے کئے تھے.میں نے قانون دان لوگوں سے معلوم کیا ہے کہ کتاب ”رنگیلا رسول“ کے مصنف کے خلاف پریوی کونسل میں اپیل نہیں ہو سکتی.کیونکہ پر یوی کونسل یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اس کے سامنے ایسے ہی مقدمات آنے چاہئیں جن میں کسی شخص کی بریت یا سزا میں تخفیف کی خواہش کی گئی ہو اور سزا کی زیادتی یا سزا دینے کے متعلق اپیلوں کو سننے کے لئے وہ تیار نہیں.پس یہی راستہ گورنمنٹ کے لئے کھلا تھا کہ وہ ایک نیا مقدمہ چلائے اور اس کا موقع اُسے ورتمان“ کے مضمون سے مل گیا ہے اور الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ موقع میرے ذریعہ سے بہم پہنچا دیا.ان حالات میں آپ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں ہماری تکلیف کا موجب گورنمنٹ نہیں بلکہ جیسا کہ گورنر صاحب صاف کہہ چکے ہیں گورنمنٹ اس معاملہ میں مسلمانوں کو مظلوم مجھتی ہے اور ان سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن وہ ہند و جو اس وقت فساد کے درپے ہیں چاہتے ہیں کہ کسی طرح گورنمنٹ سے ہمیں لڑا کر اپنا کام نکالیں اور گورنمنٹ کی نظروں میں مسلمانوں کو فسادی ثابت کر کے اس کی ہمدردی کو اپنے حق میں حاصل کر لیں.اے بھائیو! آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو اسلام کے لئے کس قدر مشکلات پیدا ہو جائیں گی.بے شک بعض لوگ کہہ دیں گے کہ ہم جانیں دے دیں گے مگر میں کہتا ہوں کہ کیا بے فائدہ جان دے دینے سے اسلام کا نفع ہو گا یا نقصان؟ یقیناً جس طرح موقع پر جان دینے

Page 403

سيرة النبي عمال 389 جلد 2 سے گریز کرنے والا آدمی مجرم ہے اسی طرح وہ شخص بھی مجرم ہے جو بے موقع جان دے کر اسلام کی طاقت کو کمزور کرتا ہے.ہر شخص جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے اسلام کی چھت کے نیچے کا ایک ستون ہے اور اس کا ٹوٹنا اسلام کے لئے مضر.پس ہر ایک شخص جو بے جا جوش میں آکر اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے اسلام کو نقصان پہنچانے والا ہے نہ کہ فائدہ پہنچانے والا.پس میں خلوص دل اور گہری محبت کے جذبات سے متاثر ہو کر آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہی وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کا ہے.اسلام کی حالت پر نظر کرتے ہوئے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مسلمانوں کے فوائد کا خیال کرتے ہوئے آج ہر قسم کے ایسے افعال سے اجتناب کریں جو گو آپ کے جوشوں کو تو نکال دیں لیکن اسلام کی طاقت کو نقصان پہنچا دیں.اے بھائیو! وہ دو بہادر اور وفادار جو آج قید خانے کو زینت دے رہے ہیں ان میں سے ایک یعنی مسلم آؤٹ لگ“ کا ایڈیٹر میرا روحانی فرزند ہے اور ایک مخلص احمدی ہے اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ کس بہادری سے اس نے غیرت اسلامی کا ثبوت دیا ہے.اس کا اور اس کے بھائی کا قید میں رہنا مجھے جس قدر شاق گزر سکتا ہے اس کا انداز ہ دوسرے لوگ نہیں کر سکتے.اسی طرح میری صحت کمزور ہے اور آج کل تو روزانہ بخار ہوتا ہے مگر اس حالت میں بھی دن اور رات موجودہ اسلامی مشکلات کی فکر میں اور ان کے دور کرنے کی تدابیر میں لگا رہتا ہوں.پس میں جو کچھ کہتا ہوں محض اسلام کی عزت اور آپ لوگوں کے فائدہ کے لئے کہتا ہوں.خدا اور اس کے رسول کے لئے جس وقت جان دینا ہی ضروری ہوگا اُس وقت اگر میں زندہ ہوا تو اِنشَاءَ اللهُ تَعَالٰی میں سب سے آگے ہوں گا اور خدا کے فضل سے کسی کو آگے نکلنے نہیں دوں گا.لیکن عقل کہتی ہے کہ اس وقت ہمارے فوائد اس امر سے وابستہ ہیں کہ ہم حُسنِ تدبیر سے اور گورنمنٹ کے ساتھ صلح رکھ کر اپنے مقاصد کو حاصل کریں.

Page 404

سيرة النبي الله 390 جلد 2 اے بھائیو! اس وقت ہندوستان میں اسلام کی زندگی اور موت کا سوال پیش ہے اور اس وقت ہماری ذرا سی کو تا ہی ہمیں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا دے گی.پس اس بیداری کو جو خدا تعالیٰ نے مسلمانوں میں پیدا کی ہے رائیگاں نہ جانے دو.چاہئے کہ ہم اس شخص کی طرح کام نہ کریں کہ جسے سوتے سے جگایا جاتا ہے تو اٹھ کر جگانے والے کو مار کر پھر لیٹ جاتا ہے بلکہ ہماری بیداری حقیقی بیداری ہو اور ہم ان کاموں میں بڑے زور سے لگ جائیں جو اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے لئے ضروری ہیں.اسلام کی زندگی آپ کی موت سے نہیں بلکہ آپ کی زندگی سے وابستہ ہے.یہ نہ خیال کرو کہ اس وقت تک ہماری زندگی سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا ہے کیونکہ اس وقت تک آپ کی زندگی غفلت کی زندگی تھی حقیقی زندگی نہ تھی.اسلام کے لئے زندگی بسر کر کے دیکھو تو تھوڑے ہی دنوں میں سب غلامی کے بند ٹوٹنے لگ جائیں گے اور ذلت کی گھڑیاں جاتی رہیں گی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں غیرت کا چشمہ پھوڑ دیا ہے جو روز بروز ایک زبر دست دریا کی شکل میں تبدیل ہوتا جاتا ہے.اس دریا کے پانی کو پھیلنے نہ دو کہ وہ اس طرح ضائع ہو جائے گا اور پھر یہ دن میسر نہ ہوں گے.اس دریا کو اس کے کناروں کے اندر رہنے دو اور اسلام کے دشمنوں کے کھودے ہوئے گڑھوں کی وجہ سے جو آبشاریں بن رہی ہیں ان سے بجلی لے کر ایک نہ دینے والی طاقت پیدا کرو تا خدا آپ پر راضی ہو اور آئندہ آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں.میرے نزدیک ہر ایک اسلام کا درد رکھنے والے کا اس وقت یہ فرض ہے کہ اس موقع پر بجائے وقتی جوش دکھانے کے وہ یہ عہد کرے کہ وہ آئندہ قرآن کریم کو اپنا ہادی بنائے گا اور اسلام کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے گا اور مسلمانوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے گا اور مسلمانوں کی ہر قسم کی مدد کے لئے آمادہ رہے گا اور اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں سے لڑائی جھگڑے کو بند کر دے گا اور خواہ وہ اس کے

Page 405

سيرة النبي عل الله 391 جلد 2 کتنے دشمن ہوں وہ انہیں اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں پر ترجیح دے گا اور تبلیغ اسلام کو اپنا مقدم فرض سمجھے گا.اور اس کے متعلق مالی اور جسمانی اور اخلاقی امداد پر کمر بستہ رہے گا.اور ہندوؤں سے ان تمام امور میں چھوت چھات سے کام لے گا جن میں وہ مسلمانوں سے چُھوت چھات کرتے ہیں.اور حتی الامکان مسلمانوں سے ہی سودا خریدنے کی کوشش کرے گا.اور مسلمانوں کی ہر قسم کی دکانیں کھلوانے کا ہمیشہ خیال رکھے گا.اور سود سے پر ہیز کرے گا.اور اگر وہ اس خلاف شرع کام میں مبتلا ہو چکا ہے تو اپنے علاقہ میں کو آپریٹو ( Co-operative) سوسائٹی کھلوا کر اس سے لین دین رکھے گا تا کہ ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہو جائے اور رفتہ رفتہ سود کی لعنت سے بھی بچ سکے.اور اگر وہ ملازم ہے تو حتی الامکان مسلمانوں کے پامال شدہ حقوق انہیں دلوانے کی کوشش کرے گا.اور اگر ایسے مقدمات پیش آتے ہیں تو وہ مقدور بھر مسلمان وکیلوں کے پاس جائے گا.اور ان مٹھی بھر مسلمان حکام کی عزت کی حفاظت کا ہمیشہ خیال رکھے گا کہ جنہیں بردارانِ وطن ہر طرح کا نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اور اسلامی اخبارات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں ہر ممکن طریق سے حصہ لے گا.اور مسلمانوں میں صلح اور آشتی پھیلانے اور ان میں سے تفرقہ دور کرنے کی کوشش کرتا رہے گا.یہ وہ کام ہے جس کی اسلام کو اس وقت سخت ضرورت ہے.اور یہ وہ قربانی ہے جس سے اسلام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے.یہ کام یقینا لڑ کر مر جانے سے ہزار درجے بڑھ کر مشکل ہے.پنجاب کے ہر شہر میں جوش سے بڑھ بڑھ کر جان دینے والے آدمی ایک دن میں ہی پیدا کئے جا سکتے ہیں لیکن اس قربانی کے لئے جو لمبی اور نہ ختم ہونے والی قربانی ہے بہت ہی کم آدمی اس وقت میسر آ سکتے ہیں.لیکن اسلام کو فتح اسی طرح نصیب ہوگی اور اسے غلبہ اسی طرح حاصل ہو گا.پس اس کی طرف توجہ کرو اور خدا پر توکل کر کے اٹھ کھڑے ہو.جوست ہیں انہیں ہوشیار کرو اور جو سور ہے ہیں انہیں جگاؤ اور جو کمزور

Page 406

سيرة النبي علي 392 جلد 2 ہیں انہیں سہارا دو اور جو روٹھے ہوئے ہیں انہیں مناؤ.اور خدا کی راہ میں ہر ایک ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ کہ عزت وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملتی ہے اور معزز وہی ہے جس کی قوم معزز ہوتی ہے.یادر ہے کہ دنیا کی تمام دولتیں اور تمام عزتیں آپ کو اُس وقت تک حقیقی عزت نہیں بخش سکتیں جب تک کہ آپ کی سب قوم معزز نہیں ہو جاتی.یہ تو اصلی کام ہے.باقی رہا وقتی کام سو اس کے لئے میرے نزدیک بہترین تجویز یہ ہے کہ اول تو جلد سے جلد ایک وفد ہز ایکسیلنسی (His Excellency) گورنر پنجاب کے پاس جائے اور انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائے کہ مسلم آؤٹ لگ کے ایڈیٹر اور مالک کو فوراً آزاد کیا جائے اور اس وفد میں ہر فرقہ کے لوگ اور تمام پنجاب کے نمائندے شامل ہوں.میں نے اس غرض سے ہز ایکسیلنسی کو چٹھی بھی لکھوائی ہے.میں نہیں سمجھتا کہ اس وفد کو ملنے سے انہیں کیا عذر ہو سکتا ہے.پس ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ ہمارے معقول مطالبے کو منظور کرنے میں گورنمنٹ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا.اور اگر بفرض محال اس میں کوئی دقت محسوس ہوئی تو اس کے متعلق اس وقت کے پیدا ہونے پر غور کیا جا سکے گا.دوسری تدبیر یہ ہے کہ ایک محضر نامہ تمام پنجاب اور دہلی اور سرحدی صوبہ کے لوگوں کی طرف سے گورنمنٹ کے پیش کیا جائے جس میں اس سے پُر زور مطالبہ کیا جائے کہ وہ کنور دلیپ سنگھ صاحب حج ہائی کورٹ پنجاب کے فیصلے کے اثر کو مٹا کر فوراً اس امر کا انتظام کرے کہ آئندہ رسول کریم ﷺ کی شان میں کوئی شخص ایسے الفاظ استعمال نہ کرے جو اس مصنف کے خبث باطن اور نا پاک فطرت کو نہایت ہی گندے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل شکنی کا موجب ہوں.بلکہ نہ صرف آپ کے لئے بلکہ تمام مذاہب کے بزرگوں کی عزت کی حفاظت کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرے.اسی طرح گورنمنٹ سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ وہ صلى

Page 407

سيرة النبي الله 393 جلد 2 کنور دلیپ سنگھ صاحب کو جن کے فیصلہ متعلقہ کتاب ”رنگیلا رسول“ کی وجہ سے صوبے کی اکثر آبادی کو ان پر اعتماد نہیں رہا اس عہدہ جلیلہ سے الگ کر کے مسلمانوں کی بے چینی کو دور کرے.نیز یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ مسلم آؤٹ لگ کے مدیر اور مالک کو قید سے رہا کر دیا جائے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے در حقیقت ہائی کورٹ کی عزت کو بچانے کی کوشش کی ہے نہ کہ اس کے انتہار کو مٹانا چاہا ہے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے ان کی قید کا حکم دے کر اپنے ہاتھوں اپنی عزت کو سخت صدمہ پہنچایا ہے اور چونکہ اس وقت ہائی کورٹ میں ہندوستانی جوں میں سے اکثریت ہندوؤں کی ہے اور پنجاب کے مسلمانوں کی اس بات میں سخت ہتک ہے کہ مسلمان بیرسٹروں میں سے ایک بھی حج مقرر نہیں بلکہ ایک حج تو سروس سے لیا گیا ہے اور ایک حج یوپی سے بلایا گیا ہے حالانکہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی 55 فیصدی ہے اور اکثر مقدمات مسلمانوں کے ہی ہوتے ہیں.پس مسلمانوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں اور کم سے کم ایک مسلمان حج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے فوراً مستقل طور پر مقرر کیا جائے اور جو موجودہ مسلمان حج ہیں انہیں اگر گورنمنٹ رکھنا چاہتی ہو تو انہیں فوراً مستقل کر دے.اور یا انہیں واپس کر کے ان کی جگہ دوسرے مسلمان حج مقرر کئے جائیں تا مسلمانوں کی بے چینی دور ہو اور چاہئے کہ اگلا چیف حج پنجاب کا مسلمان بیرسٹر جج مقرر ہو.اسی طرح یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ پنجاب جس میں اکثر حصہ آبادی کا مسلمان ہیں اس میں مسلمانوں کو پچیس فیصدی ملازمتیں بھی حاصل نہیں ہیں بلکہ بعض صیغوں میں تو دس فیصدی بھی مسلمان اعلیٰ ملازم نہیں ملیں گے.اس کا خطرناک اثر مسلمانوں کے تمدن اور ان کے حقوق کی حفاظت پر پڑتا ہے.پس جس قدر جلد ممکن ہو مسلمانوں کو کم سے کم نصف ملازمتیں دی جائیں تا کہ ان کے حقوق کی حفاظت ہو سکے.یہ محضر نامہ چھپ کر تیار ہے.میرے نزدیک اس پر کم سے کم پانچ چھ لاکھ

Page 408

سيرة النبي عالم 394 جلد 2 مسلمانوں کے مرد ہوں یا عورتیں دستخط ہونے چاہئیں.یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ حکومت ہند اور حکومت برطانیہ کے اوپر اثر کئے بغیر نہیں رہے گی اور یہ محضر نامہ بھی دستخطوں کی تکمیل کے بعد ایک وفد کے ذریعہ گورنمنٹ کے سامنے پیش ہونا چاہئے.میں امید کرتا ہوں کہ ایک بہت بڑا وفد جو سب فرقوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگا جب اسے پیش کرے گا تو گورنمنٹ اس متفقہ مطالبہ کو رد نہیں کر سکے گی کیونکہ ملک کا فائدہ اور گورنمنٹ کی مضبوطی بھی اسی امر میں ہے کہ وہ ان مطالبات کو جلد سے جلد پورا کرے.جو لوگ اس محضر نامہ پر دستخط کرانے کی خدمت کو اپنے ذمہ لینا چاہیں وہ مجھے یا صیغہ ترقی اسلام قادیان کو اطلاع دیں تا ان کے نام مطبوعہ فارم بھجوا دئیے جائیں.اسی طرح میری یہ تجویز ہے کہ 22 جولائی بروز جمعہ بعد از نماز جمعہ پنجاب، دہلی اور سرحدی صوبہ کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں تمام فرقہ ہائے اسلامی کا ایک مشترکہ جلسہ کیا جائے جس میں اوپر کے امور کی تائید میں ریزولیوشن پاس کئے جائیں اور تاروں اور خطوں کے ذریعہ سے گورنمنٹ کو اسلامی حقوق کی حفاظت کی طرف توجہ دلائی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر حقیقی اصلاح کے کام کے ساتھ ساتھ ان تدابیر پر عمل شروع کیا جائے تو اِنشَاءَ اللہ یقیناً مسلمانوں کو کامیابی ہو گی.یہ کام اتنی بڑی محنت اور قربانی کو چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان ان میں کامیاب ہو جا ئیں تو دنیا سمجھ لے گی کہ اب ان کا مقابلہ ناممکن ہے.اور ان کی آواز اس قدر کمزور نہ رہے گی جس قدر کہ اب ہے بلکہ ہر ایک ان کی آواز سے ڈرے گا اور اس کا ادب کرے گا اور اس پر کان رکھے گا.اے بھائیو! میں نے اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنے فرض کو ادا کر دیا.اب کام کرنا آپ کے اختیار میں ہے.وقت کم اور کام بہت ہے.چاہئے کہ اسلام کے لئے درد رکھنے والے لوگ آج سے ہی اس کام کو ہاتھ میں لیں اور علاوہ تبلیغی اور تمدنی اصلاح کے کاموں کے محضر نامہ پر دستخط کرانا اور 22 جولائی کے جلسے کے لئے

Page 409

سيرة النبي ع 395 جلد 2.تیاریاں شروع کر دیں.محضر نامے پر کم سے کم پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخط ہونے چاہئیں.اور جلسوں میں اس قدر لوگ جمع ہونے چاہئیں کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں.یاد رکھیں یہ اسلام کی زندگی اور موت کا سوال ہے.آپ اپنے عمل سے جواب دیں.کیا اسلام آپ کے نزدیک زندہ رہنا چاہئے یا نہیں؟ منہ کے دعووں سے کچھ نہیں بنتا.ایک لمبی اور تکلیف دہ قربانی کی ضرورت ہے.اور دنیا آپ کے منہ کے الفاظ سے نہیں بلکہ آپ کے اعمال سے دیکھے گی کہ آپ کو اسلام سے کس قدر محبت ہے.میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کا کیا جواب ہو گا.ہاں میں سمجھتا ہوں ہر ایک مسلمان کا اس وقت ایک ہی جواب ہو گا اور وہی جواب ہو گا جو حج کے موقع پر ہمارے بھائی دے چکے ہیں یعنی لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ.اے خدا! ہم تیرے دین کی خدمت اور تیرے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حاضر ہیں.حاضر ہیں.حاضر ہیں.وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور (الفضل 15 جولائی 1927ء) 1: الرعد: 12

Page 410

سيرة النبي الله 396 جلد 2 اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے 17 جولائی 1927 ء کو حضرت مصلح موعود کا لکھا ہوا یہ مضمون بھی پہلے مضامین کی ایک کڑی ہے.اس میں آپ نے رسول کریم ﷺ پرحملہ کرنے والوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو متحد ہو کر کام کرنے کی تلقین کی چنانچہ رقم فرمایا :.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ میں متواتر اعلان کر چکا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی حفاظت صرف اس امر میں ہے کہ وہ ان امور میں کہ جو سب مسلمانوں میں مشترک ہیں متحد ہو کر کام کریں اور اپنی طاقت کو ضائع نہ ہونے دیں.اس جدو جہد کے نتیجہ میں جو ہم نے پچھلے دنوں کی ہے خدا کے فضل سے مسلمانوں میں اس قدر بیداری پیدا ہو چکی ہے کہ اہل ہنود دل ہی دل میں گڑھ رہے ہیں اور ایسی تجاویز سوچ رہے ہیں جن کے ذریعہ سے مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کر دیں.میں نے پہلے بھی مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں تمام ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو دشمنوں کو ہنسنے کا موقع دیں اور ہماری طاقت کو پراگندہ کر دیں.تمام احباب جانتے ہیں کہ ہماری طرف سے تمام مسلمان کہلانے والوں کے ایک مشتر کہ جلسہ کرنے کی تحریک ایک ماہ سے کی جا رہی ہے اور خدا کے فضل.اس کام میں جو ہمارا ذاتی نہیں ہے بلکہ اسلام کا ہے تمام بہی خواہانِ اسلام ہم سے مل

Page 411

سيرة النبي علي 397 جلد 2 کر کام کر رہے ہیں.ان جلسوں کے لئے شروع دن سے بائیس جولائی کی تاریخ اور نماز جمعہ کے بعد کا وقت مقرر تھا.لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ خلافت کمیٹی کی طرف سے حال ہی میں ایک اعلان ہوا ہے کہ ان کی طرف سے بھی بائیس جولائی کو اسی وقت جلسے کئے جائیں.انقلاب مؤرخہ 17 جولا ئی صفحہ 7 ب کالم 4) میرا خیال ہے کہ اس تاریخ کے مقرر کرتے وقت کارکنانِ خلافت کے ذہن میں یہ بات نہ ہو گی کہ ایسے جلسے پہلے مقرر ہو چکے ہیں ورنہ وہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں میں پورے اتحاد کی ضرورت ہے بائیس جولائی کو الگ جلسے مقرر نہ کرتے.مگر اب جب کہ ان کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے میں مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے خواہش کرتا ہوں کہ چونکہ ہماری طرف سے ایک ماہ سے اعلان ہو رہا تھا اور تیاری مکمل ہو چکی ہے اور متواتر اخباروں اور پوسٹروں کے ذریعہ سے تحریک ہوتی رہی ہے اور بعض اہم مقامات کی طرف واعظ بھی بھیجے جاچکے ہیں اور ہزاروں روپیہ کا خرچ برداشت کیا جا چکا ہے اس لئے خلافت کمیٹی مہربانی فرما کر اپنے جلسوں کو یا تو کسی دوسرے دن پر ملتوی کر دے یا کم سے کم وقت ہی بدلا دے.مثلاً یہ کہ جن جلسوں کا انتظام ہم نے کیا ہے وہ جمعہ اور عصر کے درمیان ہوں گے تو وہ بعد از مغرب اپنے جلسے مقرر کر دے.اگر اس قدر خرچ اور محنت سے اور نیز سب فرقوں کے سر بر آوردہ لوگوں کے مشورہ کے ساتھ جلسوں کا انتظام نہ ہو چکا ہوتا تو میں خود ہی جلسہ کی تاریخیں بدل دیتا کیونکہ وقت اور دن کی نسبت اتحاد بہت زیادہ اہم شے ہے.لیکن ایک ماہ کی مسلسل تیاری کے بعد ہمارے لئے اس قدر مجبوریاں ہیں کہ ہمارے لئے دن اور وقت کا بدلنا بہت مشکل ہے.خصوصاً اس لئے کہ جو جلسے بائیس کو ہماری تحریک پر مقرر ہوئے ہیں وہ صرف ہماری جماعت کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ شیعہ ، سنی، اہل حدیث ، حنفی ، احمدی سب کی طرف سے مشتر کہ جلسے ہیں.

Page 412

سيرة النبي علم 398 جلد 2 دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں بائیس تاریخ کوئی مذہبی تاریخ نہیں کہ اس سے جلسے ادھر ادھر نہ کئے جا سکتے ہوں اس لئے بجائے اس کے کہ طاقت کو منتشر کیا جائے اور دشمنوں کو ہنسی کا موقع دیا جائے کیوں نہ دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں اور طاقت کو پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے.اگر ایک ہی وقت میں مسلمانوں کی کچھ جماعت ایک طرف اور کچھ دوسری طرف جاتی ہوئی نظر آئی تو ہندو لوگ کہیں گے کہ رسول کریم مے کی حفاظت کے معاملہ میں بھی یہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور اس سے اسلام کی عزت کو جو صدمہ پہنچے گا اس کا اندازہ ہر اک اسلام کا درد رکھنے والا انسان خود ہی لگا سکتا ہے.ہندوؤں کو جو دلیری اور جرات اس سے حاصل ہو گی اس کا خیال کر کے میرا دل کانپ جاتا ہے اور میری روح لرز جاتی ہے.اس آفت و مصیبت کے زمانہ میں کہ اسے کربلا کا اسلام کیلئے کر بلا کا زمانہ زمانہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ کفر و ضلالت کے لشکر محمد رسول اللہ اللہ کے لائے ہوئے دین کو اسی طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ جس طرح کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ کو یزید کی فوجوں نے گھیرا ہوا تھا.آہ! آج اسلام کی وہی حالت ہے جو ذیل کے شعر میں بیان ہوئی ہے کہ ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین اشتراک عمل کی دعوت پس میں امید کرتا ہوں کہ مرکزی خلافت کمیٹی اپنے فیصلہ میں مندرجہ بالا تبدیلی کر کے دشمنان اسلام کے دلوں پر ایک کاری حربہ چلائے گی اور ان کی تازہ امیدوں کو خاک میں ملا دے گی اور مقامی انجمن ہائے خلافت بھی اپنے جلسوں کو کسی اور وقت اور دن پر ملتوی کر دیں گی

Page 413

سيرة النبي علي 399 جلد 2 اور ان جلسوں کو جو تمام اسلامی فرقوں اور سوسائٹیوں کی طرف سے مشترک طور پر ہونے والے ہیں ان میں اپنے مقررہ وقت پر منعقد ہونے میں مزاحم نہ ہوں گی بلکہ مددگار اور شریک بنیں گی.سول نافرمانی کے تباہی خیز نقصانات بحران احباب کو جو سول تا فرمانی کو اس وقت کی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ یہ خیال در حقیقت گاندھی جی کا پھیلایا ہوا ہے اور اس کے عیب و ثواب پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا.میرے نزدیک اگر غور کیا جائے تو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے موجودہ حالات میں سول نافرمانی سے زیادہ خطر ناک اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی اور یقیناً اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت پہلے سے بھی خراب ہو جائے گی اور عدم تعاون کے دنوں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا تھا اور جس کے اثر کو وہ کئی سالوں میں جا کر بمشکل دور کر سکے ہیں اس سے بھی زیادہ اب نقصان پہنچ جائے گا.اے بھائیو! ہمیں سوچنا چاہئے اس وقت ہمارا مقابلہ ہندوؤں سے ہے کہ اس وقت ہمارا مقصد کیا ہے اور پھر اس کے مطابق ہمیں علاج کرنا چاہئے کیونکہ دانا وہی ہوتا ہے جو تشخیص کے بعد مرض کا علاج شروع کرتا ہے.اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارا اس وقت مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی جو ہتک کی جاتی ہے اس کا سد باب کریں اور آپ کی عزت کی حفاظت کا مقدس فرض جو ہم پر عائد ہے اس کو بجالائیں؟ اگر میرا یہ خیال درست ہے تو کیا پھر پہلی بات کی طرح یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ ہتک ہندوؤں کی طرف سے کی جا رہی ہے نہ کہ گورنمنٹ کی طرف سے؟ پس ہما را مقابلہ ہندوؤں سے ہے نہ کہ گورنمنٹ سے.گورنمنٹ تو اس وقت حتی الوسع ہماری مدد پر کھڑی ہے اور ہمیں ان اخلاقی ذمہ داریوں کے ماتحت جو اسلام نے ہم پر عائد کی ہیں ان کا شکر یہ ادا کرنا

Page 414

سيرة النبي علم 400 جلد 2 چاہئیے نہ کہ ان کی مخالفت کرنی چاہئے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائی کورٹ کے ایک جج کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہندوؤں کو اور بھی دلیری ہو گئی ہے اور انہوں نے پہلے سے بھی سخت حملے اسلام پر شروع کر دیئے ہیں.لیکن پھر کیا یہ بھی درست نہیں کہ گورنمنٹ اس فیصلہ کو بدلوانے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور غیر معمولی ذرائع سے جلد سے جلد اس مفسدہ پردازی کا ازالہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور ہز ایکسیلینسی (His Excellency گورنر پنجاب نے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں نہایت پر زور الفاظ میں مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان گندے مصنفوں کے خلاف ناراضگی کا اظہار اور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تعجب کا اظہار کیا ہے.جب حالات یہ ہیں تو پھر کیا اخلاق ، کیا عقل اور کیا فوائد اسلام ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم سول نافرمانی کو جو ہندوؤں کے خلاف نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ہے اختیار کریں اور کیا اس ذریعہ سے ہند و رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے سے باز آ جائیں گے؟ سول نافرمانی اسلام اور مسلمانوں مگر علاوہ اس کے کہ سول نافرمانی اس موقع پر اخلاق کے خلاف ہے وہ اسلام اور کے فوائد کے خلاف ہے مسلمانوں کے فوائد کے بھی خلاف ہے.سول نافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار نہ ہوں.سول نافرمانی دوغرضوں کیلئے ہو سکتی ہے:.1.جب کہ ہم کوئی کام کرنا چاہیں جسے گورنمنٹ منع کرتی ہو.2.جب کہ ہم گورنمنٹ کو کسی کام کے کرنے سے روکیں یا اس سے کوئی کام کروانا چاہیں.صورت اول میں اس قدر کافی ہوتا ہے کہ بہت سے آدمی اس کام کو کرنے لگیں کہ جس سے گورنمنٹ روکتی ہو.اگر گورنمنٹ ان کو رد کے تو وہ نہ رکیں حتی کہ گورنمنٹ مجبور ہو جائے کہ انہیں گرفتار کرے.چونکہ گورنمنٹ لاکھوں آدمیوں کو قید میں ڈال

Page 415

سيرة النبي علي 401 جلد 2 نہیں سکتی اس لئے جو امور معمولی ہوتے ہیں اور گورنمنٹ کے قیام کا ان سے تعلق نہیں ہوتا وہ ان میں لوگوں کے مطالبہ کو پورا کر کے اپنے حکم کو واپس لے لیتی ہے.اس صورت میں کامیابی کے لئے اس قدر تعداد آدمیوں کی چاہیئے کہ جن کو گورنمنٹ جیل خانوں میں رکھ ہی نہ سکے.جب گورنمنٹ کی طاقت سے قیدی بڑھ جاتے ہیں تو اسے دینا پڑتا ہے.مگر یہ صورت تبھی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب کسی ایسے کام کے کرنے کا ہم ارادہ کریں جس کی گورنمنٹ اجازت نہیں دیتی.دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ سے لوگ کوئی مطالبہ پورا کرانا چاہیں یا دوسرے لوگوں کو کسی کام سے روکنا چاہیں.اس صورت میں چونکہ ان کا کام کچھ ہوتا ہی نہیں ، انہیں سول نافرمانی کے لئے کوئی اور چیز تلاش کرنی پڑتی ہے.مثلاً وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب تک گورنمنٹ ہمارا مطالبہ پورا نہیں کرے گی ہم اسے لگان نہیں دیں گے یا ٹیکس نہیں دیں گے.اس صورت میں بھی قریباً ساری کی ساری قوم کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جن کی جائیدادیں گورنمنٹ اپنے حق کے لئے قرق کرائے، اگر ان کی جائیدادوں کو دوسرے لوگ خرید نے پر تیار ہو جائیں تو گورنمنٹ کا کیا نقصان ہوگا ، انہی لوگوں کا اپنا نقصان ہوگا.غرض کوئی صورت بھی ہو سول نافرمانی بغیر سارے ملک کے اتفاق کے یا کم سے کم ایک بڑے حصہ کے اتفاق کے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی.پچھلے چند سالوں میں جرمنی کے لوگوں نے فرانسیسیوں کے خلاف اس علاقہ میں جو فرانس والوں نے لے لیا تھا سول نافرمانی کی تھی.مگر وہ باوجود ایک قوم اور بڑے تعلیم یافتہ ہونے کے کامیاب نہ ہو سکے اور آخر مجبوراً انہیں اپنا رویہ بدلنا پڑا.مگر جو سامان جرمنوں کو حاصل تھے وہ مسلمانوں کو حاصل نہیں اور پھر سب ملک میں صرف وہی آباد نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں ایک بڑی تعداد سکھوں اور ہندوؤں کی بھی ہے.پس سول نافرمانی سے گورنمنٹ کے کام نہیں رکیں گے بلکہ صرف یہ نتیجہ ہو گا کہ جو تھوڑی بہت تجارت اور زمیندارہ

Page 416

سيرة النبي عالم 402 جلد 2 مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے وہ بھی ہندوؤں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور یہی اس وقت ہندوؤں کی خواہش ہے.ہم سول نافرمانی کی صورت میں رسول کریم ہے کی عزت کی حفاظت نہیں کریں گے بلکہ اپنی طاقت کو کمزور کر کے اور اپنے دشمن بڑھا کر لوگوں کو آپ کی ہتک کا اور موقع دیں گے.سول نافرمانی کیلئے لاکھوں جیسا کہ میں بہتا آیا ہوں سول نافرمانی بغیر لاکھوں آدمیوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی.پس اب آدمی کہاں سے آئیں گے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ لاکھوں آدمی سول نافرمانی کرنے والے کہاں سے آئیں گے.کیا اپنے نو جوانوں کو جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہم اس کام کیلئے پیش کریں گے یا اپنے تاجروں کو یا اپنے زمینداروں کو یا اپنے پیشہ وروں کو؟ ان میں سے کسی ایک کو اس کام کے لئے پیش کرو نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک پیدا ہو گا.طالب علم اگر اس کام کے لئے آگے بڑھے تو مسلمان جو تعلیم میں آگے ہی پیچھے ہیں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے اور ہماری ایک نسل بالکل بے کار ہو جائے گی.اگر تاجروں یا پیشہ وروں کو جیل خانہ بھجوایا گیا تو ہندوؤں کو اس سے اور بھی فائدہ پہنچے گا اور مسلمان اور بھی زیادہ سختی سے اقتصادی طور پر ان کے غلام بن جائیں گے اور دس مسلمان جو روٹی کھاتے ہیں وہ بھی اپنے کام سے جائیں گے.اگر زمیندار قید خانوں میں بھیجے گئے تب بھی ہندوؤں کو عظیم الشان فائدہ پہنچے گا.غرض بغیر لاکھوں آدمیوں کو سول نافرمانی پر لگانے سے کام نہیں چل سکتا اور اس قدر تعداد میں مسلمان اگر سول نافرمانی کے لئے تیار بھی ہو جائیں تو یقیناً مسلمانوں کی طاقت پنجاب میں بالکل ٹوٹ جائے گی اور ہم جو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوں تا کہ ہماری آواز میں اثر پیدا ہو اور بھی زیادہ پست حالت کو پہنچ جائیں گے اور کہیں ہمارا ٹھکانہ نہیں رہے گا.بے شک اگر صرف شغل کرنا ہمارا مقصد ہو تو چند ہزار آدمی اس کام پر لگ کر شور

Page 417

سيرة النبي الله 403 جلد 2 پیدا کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہمارا مقصد اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے تو یہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ سب ملک میں مسلمان ہی نہ بستے ہوں اور جب تک سب کے سب سول نافرمانی پر آمادہ نہ ہوجائیں.اور چونکہ صورت حالات اس کے برخلاف ہے اس لئے سول نافرمانی سے کامیابی کی امید رکھنا بالکل درست نہیں.جیل میں جانے والوں کے بال بچے کیا کریں گے پھر ہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جو لوگ جیل خانوں میں جائیں گے ان کے رشتہ داروں کا گزارہ کس طرح ہوگا.مسلمانوں کے پاس حکومت نہیں کہ وہ جبر یہ ٹیکس سے سب کے گزارہ کی صورت پیدا کر لیں گے.جو لوگ قید ہوں گے ان کے رشتہ دار یقینا قرض پر گزارہ کریں گے اور وہ قرض ہندو بنئے کے پاس سے انہیں ملے گا جس کی وجہ سے وہی لوگ جو اسلام کی مدد کیلئے نکلیں گے در حقیقت اسلام کو اور زیادہ کمزور کر دینے کے موجب ہو جائیں گے.یہ امر بھی نہیں بھلایا عدم تعاون کے بعد سول نافرمانی ہونی چاہئے ان کی سول نافرمانی سول جاسکتا ہمیشہ عدم تعاون کے بعد ہوتی ہے.تعاون اور سول نافرمانی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے.میں مسٹر گاندھی سے بہت اختلاف رکھتا ہوں لیکن ان کی یہ بات بالکل درست تھی کہ انہوں نے پہلے عدم تعاون جاری کیا اور اس کا دوسرا قدم سول نافرمانی رکھا.ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ مدد نہ کرنے اور نافرمانی کرنے میں فرق ہے.مدد نہ کرنا ادنیٰ درجہ کا انقطاع ہے اور نافرمانی اعلیٰ درجہ کا انقطاع ہے.اور یہ ممکن نہیں کہ ہم ادنی انقطاع کئے بغیر اعلیٰ انقطاع کر دیں.جو لوگ سول نافرمانی کریں گے جب ان کو گورنمنٹ سزا دینے لگے گی تو کیا پچاس ساٹھ ہزار مسلمان جو سرکاری ملازمت میں ہے وہ

Page 418

سيرة النبي عالم 404 جلد 2 سرکاری حکم کے ماتحت سول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا یا نہیں؟ اگر وہ مقابلہ نہیں کرے گا تو سب کو ملا زمت چھوڑنی پڑے گی اور عدم تعاون شدید صورت میں شروع ہو جائے گا اور میدان بالکل ہندوؤں کے لئے خالی رہ جائے گا.اور اگر ملازم طبقہ سول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا تو کیا یہ جنگ گھر میں ہی نہ شروع ہو جائے گی ؟ پولیس، فوج اور عدالتوں کے ملازم اگر خود مسلمانوں پر دست درازی کریں گے تو کیا آپس میں ایک دوسرے سے تنافر پیدا ہو گا یا نہیں؟ اور کیا ان چالیس پچاس ہزار ملازموں کے رشتہ دار جو چالیس پچاس لاکھ سے کم نہ ہوں گے دوسرے لوگوں سے جو ان کو برا بھلا کہیں گے برسر پیکار ہوں گے یا نہیں؟ اور کیا اس کے نتیجہ میں ہر گاؤں اور ہر شہر میں مسلمانوں میں ایک خطرناک جنگ شروع ہو جائے گی کہ نہیں ؟ غرض سول نافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پہلے عدم تعاون نہ جاری کیا جائے.سول نافرمانی جاری کرنے سے پہلے سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ فوج سے، پولیس اور ایگزیکٹو اور جوڈیشل غرض ہر قسم کی ملازمتوں سے علیحدہ ہو جائیں تا کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑنا نہ پڑے اور سب ملک کے مسلمان آپس میں دست و گریبان نہ ہو جائیں.لیکن کیا حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کا اس میں فائدہ نہ ہوگا ہاں ہندوؤں کا فائدہ ہوگا.ایک مسلمان کی جگہ دس ہندو اور سکھ بھرتی ہونے کے لئے تیار ہوں گے اور مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی.سول نافرمانی کیلئے تیار ہونے والوں کو کیا کرنا چاہئے خلاصہ یہ کہ سول نافرمانی کا تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار ہوں اور جب کہ پہلے عدم تعاون کا فیصلہ کر لیا جائے ورنہ سوائے شور کرنے کے کچھ فائدہ نہ ہوگا.پس جو لوگ سول نافرمانی کیلئے تیار ہوں میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ ذرا زیادہ ہمت

Page 419

سيرة النبي عمال 405 جلد 2 دکھا ئیں اور جو وقت ان کے پاس فارغ ہوا سے تبلیغ اسلام پر خرچ کریں.اگر دو چار ہزار آدمی تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہو اور ادنی اقوام کے گھروں پر جا کر شفقت اور ہمدردی سے ان کو اسلام کی دعوت دے تو اسلام کو کس قدر فائدہ ہوسکتا ہے.اگر لوگ ملک میں پھر کر زمینداروں کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں اور ہندو بنئے سے سودی قرض لینے سے منع کریں تو اسلام کو کس قدر تقویت پہنچ سکتی ہے.اگر وہ اپنے فارغ وقت کو اپنے جاہل بھائیوں کو دین کی باتیں سمجھانے اور قومی ضروریات سے واقف کرانے پر لگا ئیں تو قومیت کو کس قدر نفع حاصل ہوسکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ فارغ ہیں تو ہزاروں گاؤں جن میں سب سودا ہندو بنئے سے لیا جاتا ہے وہاں جا کر وہ ایک دکان کھول لیں اور اس طرح مسلمانوں کو ہندو دکاندار کے ذلت آمیز سلوک سے محفوظ کریں تو قومی احساس میں کس قدر ترقی ہوسکتی ہے.کام کرنے کا وقت ہے نہ جیل خانہ جانے کا ہیں اے دوستو! یہ کام کا پس وقت ہے، جیل خانہ میں میں جانے کا وقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اس وقت بیداری پیدا کر دی ہے اس بیداری سے فائدہ حاصل کرو.یہ دن روز نصیب نہیں ہوتے پس ان کی ناقدری نہ کرو.خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرو کہ اس نے دشمن کے ہاتھوں آپ لوگوں کو بیدار کر دیا.اب جلد سے جلد اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے کاموں میں لگ جاؤ.اس وقت ہر ایک جو مسلمان کہلاتا ہے اس کے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے.جیل خانہ میں لوگوں کو بھرنے کا موقع نہیں بلکہ ان کو ان میں سے نکالنے کا موقع ہے.دشمن آپ لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کرگھبرا رہا ہے.وہ محسوس کر رہا ہے کہ اب آپ نے اس کے مخفی حملہ سے بچنے کا صحیح ذریعہ معلوم کر لیا ہے.پس وہ تلملا رہا ہے اور اپنے شکار کو ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر سٹپٹا رہا ہے.ایک تھوڑی سی ہمت ، ایک تھوڑی سی کوشش ، ایک تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ہے کہ صدیوں کی پہنی ہوئی

Page 420

سيرة النبي عمال 406 جلد 2 زنجیریں کٹ جائیں گی اور اسلام کا سپاہی اپنے مولی کی خدمت کے لئے پھر آزاد ہو جائے گا اور ہندوؤں کی غلامی کے بند ٹوٹ جائیں گے.اے بھائیو! ہمت اور استقلال سے اور صبر سے اپنی دینی اور تمدنی اور اقتصادی حالت کی درستی کی فکر کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سچے دل سے جھک جاؤ اور اس کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کر دو اور اس کے ارادوں کے سامنے اپنے ارادوں کو چھوڑ دو.اور اس کے کلام کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دو اور اس کی شریعت کو اپنا شعار بناؤ.اور اس کے ہر ایک اشارہ پر عمل کرنے کیلئے تیار رہو اور اپنے نفس کو بالکل مار دو.تب وہ اپنا وعدہ الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا 1 کے ماتحت آپ کو اس راستہ پر چلائے گا جو اس کی مرضی کے مطابق ہے.اور اپنی نصرت کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھائے گا اور آپ کے بازو کو قوت بخشے گا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کرے گا اور ہر اک میدان میں خواہ علمی ہو ، خواہ تمدنی ہو، خواہ اقتصادی ہو آپ کو فتح دے گا.متواتر قربانی کی ضرورت ہاں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ متواتر اور لگا تار قربانی کی جائے اور عقل سے کام لیا جائے اور خدا تعالیٰ کی نصرت پر نظر رکھی جائے اور بے فائدہ جوش سے اپنی قوتوں کو ضائع نہ کیا جائے اور خواہ مخواہ دشمن کے تیار کردہ گڑھوں میں نہ گرا جائے.وہ لوگ جو مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں وہ گورنمنٹ سے ہمیں لڑوا کر ہماری طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں.اور اس وقت جو مسلمانوں کی توجہ مذہبی، اقتصادی، تمدنی آزادی کی طرف ہو رہی ہے اس کا رُخ دوسری طرف پھیرنا چاہتے ہیں.مگر میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان اس دھو کے میں نہیں آئیں گے.گورنمنٹ نے پیچھے جو کچھ بھی کیا ہو اس وقت وہ مسلمانوں کی جائز مدد کر رہی ہے.اور اگر کسی جگہ بعض مجسٹریٹ مسلمانوں کی تکلیف کا موجب ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ گورنمنٹ کی پالیسی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مجسٹریٹوں کے دل ان ہندوؤں کی باتوں سے متاثر

Page 421

سيرة النبي عمال 407 جلد 2 ہیں کہ جو ملک میں امن دیکھنا پسند نہیں کرتے.پس ہمیں وقتی جوش سے متاثر ہو کر اپنے اصل کام کو نہیں بھولنا چاہئے.آج سے ہمارا فرض ہو کہ تبلیغ کریں، مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت کو درست کریں اور جس حد تک ممکن اور مذہباً جائز ہو مسلمانوں میں سے اختلاف کے مٹانے کی اور مستقل جدو جہد کے ساتھ ان جائز حقوق کو جن کے ہم اس ملک کے باشندہ ہونے کے لحاظ سے مستحق ہیں حاصل کریں.اور اس کے لئے پہلا قدم آپ کا 22 جولائی کے جلسوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب بنانا ہے.میں اب اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ہر اک دوسری بات کو فراموش کر کے آپ صرف اس امر کو مدنظر رکھیں گے کہ آج اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے.1: العنكبوت: 70 والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان (الفضل 20 جولائی 1927ء)

Page 422

سيرة النبي الله 408 جلد 2 رسول کریم علیہ کے بیان فرمودہ توکل کے معنی حضرت مصلح موعود نے 29 جولائی 1927ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.صلى رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ ایک وفد آیا.آپ نے ان میں سے ایک شخص سے دریافت کیا (چونکہ آپ کھلی جگہ بیٹھے ہوئے تھے شاید آپ نے دیکھ لیا ہو.اس لئے پوچھا تم نے اونٹ کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس نے کہا خدا پر توکل کر کے یوں ہی چھوڑ آیا ہوں.آپ نے فرمایا جاؤ! پہلے اس کا گھٹنا باندھو پھر خدا تعالیٰ پر توکل کر و 1 پہلے اپنی طرف سے پوری تدبیر کرو اور پھر کہو خدا پر توکل کیا ہے.پس رسول کریم ﷺ نے خود تو کل کے معنے بتا دیئے کہ پوری تدبیر کے بعد خدا پر بھروسہ ( الفضل 9 اگست 1927 ء ) صلى الله کرنے کا نام تو کل ہے.“ 1: ترمذى ابواب صفة القيامة باب حديث اعقلها و توكل صفحہ 572 حدیث نمبر 2517 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى

Page 423

سيرة النبي عالم 409 جلد 2 ہندوؤں کی رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخی پر تبصرہ حضرت مصلح موعود نے 5 اگست 1927 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.”ہندو مسلمانوں کے درمیان پچھلے دنوں جو اختلاف پیدا ہوا ہے اس کے جائز و نا جائز ہونے کو نظر انداز کر کے اس بات کے متعلق کوئی بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی بہبودی اور دنیا کے امن کے قیام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے فساد اور فتنے ضرور مضر ہوتے ہیں.لیکن جس طرح لڑائی کو ہر شخص ناپسند کرتا ہے اور جس طرح جنگ ہمیشہ سے بری سمجھی گئی اسی طرح دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے لوگ جن کے اخلاق کے سامنے دنیا نے سر جھکا دیئے جنگ کی ضرورت کے قائل بھی رہے ہیں.اور نہ صرف قائل رہے ہیں خود جنگوں میں حصہ لیتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے جنگیں برپا کی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے مطابق بعض چیزیں اچھی اور بعض بری ہوتی ہیں.میرا اپنا خیال تو یہی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ہر چیز ہی موقع کے لحاظ سے اچھی اور بری ہوسکتی ہے لیکن اگر ہر چیز کے لئے یہ خیال نہ بھی کیا جائے تو بہت سی چیزوں کے متعلق تو یہ کہنا ضرور ٹھیک ہے.پس تلوار کی لڑائی بھی اور بندوقوں کی جنگ بھی اور توپوں کی بوچھاڑ بھی بعض موقعوں پر اچھی اور بعض پر بری ہوتی ہے.لیکن بعض جگہ انصاف کے قیام کے لئے تلوار کا اٹھانا ضروری ہوتا ہے.بعض جگہ امن کے قیام کے لئے اک فتنہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بظاہر جو چیز اُس وقت

Page 424

سيرة النبي ع 410 جلد 2 فتنہ معلوم ہوتی ہے درحقیقت دنیا کی بہتری اور بھلائی کا باعث ہوتی ہے.اسی طرح موجودہ فتنہ جو ہندو مسلمانوں کے جھگڑوں کا پیدا ہوا ہے گو اس کے بواعث کیسے ہی خطرناک اور اخلاق و دیانت سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں آئندہ امن کے قیام میں بہت مدد دے سکتا ہے.ہاں اس فتنہ کا لمبا ہوتے جانا بعض لحاظ سے ضرور ضرر رساں ہے.پس جلد یا بدیر دنیا کو یا کم از کم ہندوستان کے لوگوں کو سوچنا پڑے گا کہ اس فتنہ کے دور کرنے کے ذرائع کیا ہیں.یہ قدرتی بات ہے کہ جب ایک قوم کو دوسری قوم سے اپنے افعال کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے تو خواہ دیانتداری سے یا بد دیانتی سے سچائی پر اپنی آواز کو مبنی کر کے یا فریب سے مدد لیتے ہوئے وہ قوم ایک رنگ میں ندامت کا اظہار کرتی ہے.بسا اوقات اس ندامت کے اظہار میں منصو بہ اور مکر پوشیدہ ہوتا ہے.اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو صلح کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے اس لئے نہیں بڑھا تا کہ صلح کرنا چاہتا ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے مناسب موقع نہ دیکھا تھا جس وقت کہ جنگ کی بنیاد رکھی.اب مجھے دوسرے وقت کا انتظار کرنا چاہئے اور اس وقت صلح کر کے اپنا پیچھا چھڑانا چاہئے.ایسے وقت میں صلح کے لئے جو کچھ وہ کہتا ہے وہ صرف الفاظ ہوتے ہیں جو حقیقت سے خالی ہوتے ہیں اور خالی الفاظ کی صلح پر قوم کی زندگی کی بنیاد قائم نہیں کی جاسکتی.پس صلح کے متعلق جب سوال اٹھایا جائے تو اس پر بہت احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہے.اس وقت جب کہ ہندوؤں میں یہ احساس پیدا ہو کہ انہوں نے بانی اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے میں غلطی کی ہے اور وہ ظاہر کریں کہ صلح پر آمادہ ہیں تو اسلام کی تعلیم تقاضا کرے گی کہ مسلمان اس آمادگی پر نفرت کا اظہار نہ کریں بلکہ خود بھی آمادگی کا اظہار کریں.چونکہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ جلد یا بدیر وہ وقت آنے والا ہے جب صلح کا سوال پیدا ہو گا.اس لئے ہمیں پہلے سے سوچنا چاہئے کہ ایسے موقع پر کن شرائک سے ہمیں صلح کرنی چاہئے اور کیسی صلح سے اجتناب کرنا چاہئے.

Page 425

سيرة النبي عالي 411 جلد 2 بہت سے کمزور طبع انسان جو محض جھگڑے کو دیکھ کر دشمن کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں جب دیکھتے ہیں دشمن صلح کے لئے کہتا ہے تو کہہ دیتے ہیں اب جھگڑے کی کیا بات ہے صلح کر کے جھگڑا ختم کرنا چاہئے.لیکن یہ امر ان لوگوں کی بزدلی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ جرات پر.یہ اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ ان کے اخلاق اعلیٰ ہیں بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ہمت کی کمی ہے.جو لوگ دین کی باتوں کو محض الفاظ کی صلح پر قربان کر کے صلح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وہ بیوقوف ہوتے ہیں.دیکھو بنو نضیر نے جب رسول کریم ﷺ کے حملے کے وقت محسوس کیا کہ آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور ان کی یہ امیدیں پاش پاش ہو گئیں کہ منافق مدد کریں گے تو انہوں نے فوراً کہلا بھیجا کہ ہم اپنے کئے پر نادم ہیں اور اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہیں ہم سے صلح کر لی جائے.اُس وقت رسول کریم ﷺ نے یہ نہ فرمایا کہ اچھا تم نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہم تم سے صلح کرتے ہیں.کیونکہ جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ایسے افعال تھے جن کے لئے لفظی ندامت کافی نہ تھی.ان کی صرف ایک غلطی نہ تھی بلکہ بیسیوں غلطیاں رسول کریم ﷺ کی نظر میں تھیں.اور وہ ایسی نہ تھیں جنہیں اجتہاد کی کمزوری کی غلطی کہا صلى الله جا سکے بلکہ وہ غلطیاں ایسی تھیں جن میں کمینہ پن، غداری و خفیہ سازش کی آمیزش تھی.اتنے لمبے تجربے اور اتنی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ایسی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو وقتی جوش کے ماتحت نہیں آ سکتی تھیں بلکہ غداری اور سازش کے نتیجہ میں تھیں ان کی وجہ سے رسول کریم ﷺ ان لوگوں کے لفظوں پر اعتبار نہ کر سکتے تھے اور نہ آپ نے اعتبار کیا.جب انہوں نے کہا ہم صلح کرتے ہیں تو ان امور پر نظر ڈالتے ہوئے اور ان کے اطوار و اعمال کا تجربہ سامنے رکھتے ہوئے آپ نے کہا ہم بھی صلح کے لئے تیار ہیں مگر ہم اس صلح پر کسی نیک نتیجہ کا مدار نہیں رکھ سکتے جو صرف اتنی ہو کہ لڑائی بند ہو جائے.اگر تمہارا اس سے یہ مطلب ہے کہ پہلے کی طرح ہماری بغل میں بیٹھے رہو اور جب موقع ملے چھری چلاتے رہو تو اس کے لئے ہم تیار نہیں.اب صلح اسی پر ہوسکتی

Page 426

سيرة النبي علم 412 جلد 2 ہے کہ دس دن کے اندر اندر تمام قلعے خالی کر دو.یہ وہ احتیاط تھی جو دنیا میں صلح کی سب سے بڑی خواہش رکھنے والے انسان نے کی.دنیا میں اگر کوئی سب سے زیادہ امن قائم کرنے والا اور صلح رکھنے والا انسان ہو الله سکتا ہے تو وہ محمد ہے تھے.مگر آپ نے بھی یہ نہیں کیا کہ جب دشمن نے کہا صلح کر لو تو آپ نے کہا کرلو بلکہ آپ نے دیکھا ان لوگوں نے کسی وقتی جوش کے ماتحت نہیں بلکہ سالہا سال کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کے نتیجہ میں جنگ کی ، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں، باہر کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا، ہر قسم کے منصوبے کئے.جب اتنے لمبے عرصہ میں انہوں نے خدا کا کوئی خوف نہ کیا اور کسی شرافت کا ثبوت نہ دیا تو آئندہ ان سے کیا توقع ہو سکتی ہے.ان حالات میں آپ نے صلح تو کی مگر ایسی شرائط پر کی کہ آئندہ کے لئے خطرہ نہ رہے.اس وقت جو جھگڑا ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہے اس کے متعلق بھی ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا یہ وقتی جوش کے ماتحت پیدا ہوا.کسی ایک آدمی نے اٹھایا یا سالہا سال کی کوششوں ، تدبیروں اور منصوبہ بازیوں کا نتیجہ ہے اور قوم کی قوم اس کے پیچھے ہے.اگر ایک لمحہ کے لئے بھی حالات پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر بہت بڑے بڑے اور بہت سے لوگوں کا دخل ہے اور یہ منصوبہ بیسیوں سال سے چلا صلى الله آ رہا ہے.رسول کریم ﷺ اور اسلام کی ہتک آج نہیں کی گئی بلکہ آج سے بہت عرصہ پہلے سے یہ نا پاک فعل عمل میں لایا جا رہا ہے.کہا جاتا ہے میر قاسم علی صاحب نے ”انیسویں صدی کا مہرشی“ کے نام سے جو کتاب شائع کی اس کی وجہ سے ”رنگیلا رسول“ لکھا گیا جو انیسویں صدی کے مہرشی" کا جواب ہے.اس طرح یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ فتنہ کی ابتدا مسلمانوں نے کی اور مسلمانوں نے ہندوؤں کو بھڑکا یا لیکن یہ قطعاً غلط ہے.اسلام کے خلاف نیا سلسلہ کتابوں کا شدھی کی تحریک کے ساتھ شروع ہوا.اُن دنوں میر صاحب کی کتاب سے پہلے کئی گندی کتابیں اور رسالے اسلام، اسلام کے خدا اور

Page 427

سيرة النبي ع 413 جلد 2 رسول کے متعلق آریوں کی طرف سے شائع کئے گئے.پس ”رنگیلا رسول’انیسویں صدی کے مہری کے جواب میں نہیں لکھی گئی بلکہ انیسویں صدی کا مہرشی“ ان کتابوں ، رسالوں اور ٹریکٹوں کے جواب میں شائع کی گئی جو آریوں نے اسلام کے خلاف شائع کئے اور جن میں نہایت ناپاک اور گندی گالیاں دیں.پھر وہ ان گندے الزامات کے جواب میں ہے جو شدھی کے میدان میں اسلام پر لگائے گئے.جس گندے پیرائے میں اور جس خطرناک رنگ میں ملکانہ کے علاقہ میں اسلام کو پیش کیا جاتا تھا اور بانی اسلام پر جس طرح گندے الزامات لگائے جاتے تھے وہ چاہتا تھا کہ آریوں کو جواب دیئے جائیں.پس اگر ایک ایسے شخص نے جس کے مذہب پر اور جس کے ہادی پر ایسے گندے اعتراضات کئے گئے پتھر کے مقابلہ میں پتھر سے جواب دیا تو ہر گز کسی آریہ کا حق نہیں کہ یہ کہے ”رنگیلا رسول ” انیسویں صدی کے مہرشی“ کے جواب میں لکھی گئی.بلکہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں انیسویں صدی کا مہرشی‘ ان کتابوں اور ان رسالوں کے جواب میں لکھی گئی جو ملکانوں میں آریوں نے شائع کئے اور ان تقریروں کے جواب میں لکھی گئی جو اسلام کے خلاف ہر جگہ آریوں کی طرف سے کی جاتی ہیں اور ان حملوں کا جواب ہے جو اسلام کی مقدس ہستیوں پر کئے جاتے ہیں.پس یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے کہ ابتدا مسلمانوں کی طرف سے ہوئی.موجودہ فتنہ میں بھی ابتدا آریوں کی طرف سے ہی ہوئی.اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس جھگڑے سے پہلے ایک رنگ میں مذہبی امن قائم ہو گیا تھا جب کہ ہند و مسلمان مشترکہ طور پر سیاسی میدان میں کود پڑے تھے.ہندو مسلمان ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہنے لگ گئے تھے.اس وجہ سے اک دوسرے کے خلاف مذہبی گالیاں بند ہو گئی تھیں اور وہ پہلی جنگ جو رولٹ ایکٹ سے پہلے جاری تھی ختم ہو چکی تھی.پھر نئی جنگ شروع ہوئی جس کی ابتدا آریوں کی طرف سے ملکانوں کے علاقہ میں کی گئی.ان کے اعتراضوں کے جواب بعض مسلمانوں نے دیئے لیکن پھر بھی اگر

Page 428

سيرة النبي عمال 414 جلد 2 دیکھا جائے تو آریوں کی دو کتابوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی ایک کتاب نکلے گی.مسلمانوں کا اگر چہ دفاعی پہلو تھا اور دفاع کرنے والے کو اعتراضوں کے جواب میں زیادہ لکھنا پڑتا ہے مگر پھر بھی آریوں کی طرف سے بہت زیادہ کتابیں لکھی گئیں.اور اگر اس سے پہلے زمانہ کی طرف جائیں تو وہاں بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہل آریوں کی طرف سے ہوئی.سب سے پہلی کتاب جو آریوں کے متعلق لکھی گئی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ ہے.آریہ کہتے ہیں براہین احمدیہ سے اس جنگ کی ابتدا ہوئی.مگر یہ بالکل غلط ہے.وہ کتاب موجود ہے اس میں نہ صرف یہ کہ گالیاں نہیں بلکہ اس میں یہ اصل پیش کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف گالیاں نہیں دینی چاہئیں.کسی مذہب کے خلاف گندے اور نا پاک اعتراض نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں.اس اصل کے ماتحت حضرت مرزا صاحب نے آریوں کو فرمایا میں تین سو دلائل اسلام کی صداقت کے پیش کروں گا تم ان کو توڑ کر دکھاؤ.جو انہیں توڑ دے گا اسے دس ہزار روپیہ انعام دوں گا.پس براہین احمدیہ ہی وہ پہلی کتاب ہے جس نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اپنے مذہب کی خوبیاں پیش کرنی چاہئیں.جس کتاب نے اعتراضوں کا دروازہ بند کر دیا اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے لڑائی کی ابتدا ہوئی کس طرح درست ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ کہ جب ہم براہین احمدیہ کے متعلق دیکھتے ہیں کہ کیوں لکھی گئی تو اس میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ اس کی وجہ وہ گندی گالیاں ہیں جو آریوں کی طرف سے دی جاتی ہیں.پس کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب سے گالیوں کی ابتدا ہوئی.یہ تو آریوں کی گالیاں روکنے کے لئے اور انہیں تہذیب و شرافت سکھانے کے لئے لکھی گئی.اگر کوئی کہے کہ آریوں کی وہ گالیاں کہاں ہیں جو براہین احمدیہ سے پہلے دی گئیں ؟ تو اسے اندرمن کی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں.پس یہ

Page 429

سيرة النبي عالم 415 جلد 2 کہنا کہ براہین احمدیہ سے گالیوں کی ابتدا ہوئی جھوٹ ہے.عیسائیوں کی گالیاں تو دوسو سال پہلے سے چلی آ رہی ہیں مگر اندر من وغیرہ کی گالیاں براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے کی ہیں.سب سے پہلے کی ہیں.سب سے پہلی کتاب جو آریوں کے دفاع میں لکھی گئی براہین احمدیہ ہے اور وہ اس لئے لکھی گئی کہ آریہ گالیاں دیتے تھے اور اس میں کہا گیا کہ دوسروں پر گندے اعتراض نہ کرو بلکہ اپنے مذاہب کی خوبیاں پیش کرو.پس ابتدا بھی آریوں کی طرف سے ہوئی اور اب بھی فتنہ آریوں نے اٹھایا.بعض دفعہ آریہ کہہ دیا کرتے ہیں تحفتہ الہند وغیرہ کتابیں مسلمانوں کی طرف سے شائع کی گئیں جن میں ہندوؤں کے مذہب پر حملے کئے گئے.مگر یہ بھی غلط ہے.ان میں ہندوؤں پر حملے نہیں کئے گئے بلکہ ہندوؤں کی اپنی روایتیں نقل کی گئی ہیں اور آریوں کا کوئی حق نہیں کہ ان کو اعتراض کے طور پر پیش کریں.کیونکہ جن مسائل پر ان کتابوں میں اعتراض کئے گئے ہیں ان پر بہت سخت الفاظ میں پنڈت دیانند صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے.پھر وہ کتابیں اسلام پر نا پاک حملے کرنے کی وجہ کس طرح ہو سکتی ہیں.ان مسائل پر خود پنڈت دیا نند نے بہت سخت الفاظ میں اعتراض کئے ہیں.جوش اس بات پر آتا ہے جسے انسان سچا سمجھتا ہو اور دوسرا اس پر گندے اعتراض کرے.مگر وہ بات جسے کوئی شخص سچا ہی نہ مجھے بلکہ اس کا رشی اس پر سخت اعتراض کرے اس پر اگر کسی مسلمان نے اعتراض کیا تو اسے اسلام پر حملہ کرنے کی وجہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے.غرض نا پاک اعتراضوں اور گندی گالیوں کی ابتدا آریوں کی طرف سے ہوئی جو جاری رہی.یہاں تک کہ 1907 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لاہور کی آریہ پر تھی ”ند ہی سبھا نے مرزا یعقوب بیگ صاحب سے خط لکھایا کہ آپ بھی 66 اس سبھا کے جلسے میں پڑھے جانے کے لئے مضمون لکھیں.اس پر آپ نے لکھوایا کہ ایسا نہ ہو آریہ اس جلسے میں اسلام اور بانی اسلام کو گالیاں دیں اس کے متعلق تسلی ہو جانی چاہئے.اس پر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے لکھا کہ آریوں نے اطمینان

Page 430

سيرة النبي علي 416 جلد 2 دلایا ہے کہ جلسے میں قطعاً کسی پر حملہ نہ کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنا مضمون لکھ کر بھیج دیا جس میں کوئی حملہ نہ تھا بلکہ اس میں لکھا تھا کہ ہم ہندو بزرگوں کی عزت کرتے ہیں.مگر باوجود وعدہ کرنے کے جسے کوئی شریف انسان تو ڑا نہیں کرتا اور دو بار خود زبان دینے کے جسے کوئی شریف انسان واپس نہیں لیا کرتا آریوں نے سینکڑوں آدمیوں کے سامنے رسول کریم ﷺ کے متعلق (نعوذ باللہ ) صلى الله ڈاکو اور فاسق کے ناپاک الفاظ استعمال کئے.یہ وہ شرافت تھی جو آریوں نے اس مضمون کے مقابلے میں اختیار کی جو حضرت صاحب نے ان کے جلسے میں پڑھنے کے لئے بھیجا تھا اور جس میں ان کے بزرگوں کی تعظیم و تکریم کا ذکر تھا.غرض ہم شروع سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ اس قوم کی بد زبانی کی عادت چلی آتی ہے اور اس پر وہ اپنی نجات کا انحصار جھتی ہے.پس جس قوم کی ساری ہسٹری گالیوں سے بھری ہوئی ہو، جس نے سب مذاہب کے بزرگوں کو گالیاں دی ہوں ، جس نے اپنی قوم کے بزرگوں کو بھی گالیاں دینے سے نہ چھوڑا ہو اس کے صرف منہ سے کہہ دینے سے کہ وہ صلح کرتی ہے ہم کس طرح صلح کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.پس میرے نزدیک صلح تو ضرور ہونی چاہئے مگر اس سے پہلے کچھ شرائط بھی ضروری ہیں.کم از کم ہماری جماعت ان شرائکہ کی پابندی کرا لینا ضروری سمجھتی ہے.اور میں امید کرتا ہوں دوسرے مسلمان بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ آریوں کا صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہیں اس کے لئے کچھ شرائط کا ہونا ضروری ہے.میرے نزدیک سب سے پہلی شرط جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دونوں قوموں کی طرف سے اس بات کا اقرار ہونا چاہئے کہ کوئی کتاب ایسی نہ لکھی جائے گی جس میں دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے متعلق دریدہ دہنی سے کام لیا جائے یا ایسے اعتراض کئے جائیں جن میں ان کی تخفیف و تذلیل ہو نہ کہ کسی مسئلہ کا حل.اگر کوئی شخص ایسی

Page 431

سيرة النبي علي 417 جلد 2 کتاب لکھے گا تو اس کی قوم ذمہ دار ہو گی کہ اس کتاب کو جلا دے اور لکھنے والے کا بائیکاٹ کر دے اور لوگ اس سے تعلق نہ رکھیں.نہ بیاہ شادیوں میں بلائیں، نہ موت فوت میں شامل کریں ، نہ رشتہ لیں نہ دیں.میں اپنی جماعت کی طرف سے اس قسم کا معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر کوئی احمدی ایسی کتاب لکھے تو ہم اس کا بالکل بائیکاٹ کر دیں گے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ اور دوسرے بزرگوں کی عزت کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی ایسا نہ ہو گا جو اس معاہدہ کے لئے تیار نہ ہو.اور جب قوم کی قوم ایسا معاہدہ کرے پھر کوئی جرات نہیں کر سکتا کہ ایسی کتاب لکھے.پس صرف اس قسم کے الفاظ کہ مادر ہند کو اتحاد کی ضرورت ہے ہمیں آپس میں رواداری سے رہنا چاہئے ، ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرنا چاہئے ہمارے لئے کافی نہیں بلکہ ہمارے پاس کوئی ایسی بات ہونی چاہئے کہ جو فتنہ اٹھائے اسے مناسب سزا دی جا سکے.اگر ہندو اس بات کا اقرار کریں کہ ایسے شخص کا بائیکاٹ کر دیا جائے گا اور جو اس سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا یا ہمدردی کرے گا اس کا بھی بائیکاٹ کر دیا جائے گا تو اس صورت میں بیشک صلح کی ایک شرط پوری ہو جاتی ہے.مگر اس کے علاوہ اور بھی شرطیں ہیں.مثلاً یہ کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے چھوت چھات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.وہ جاہل لوگوں سے کہتے ہیں دیکھو! ہم مسلمانوں سے چھوت چھات کرتے ہیں کیونکہ ہم ان سے معزز ہیں اور مسلمان ہماری چیزوں سے پر ہیز نہیں کرتے اس لئے کہ وہ ادنی ہیں.سات سو سال سے ہند و مسلمانوں سے یہ سلوک کرتے آئے ہیں جس کی مسلمانوں نے پرواہ نہ کی.مگر اب چونکہ اس بات کو مذہبی رنگ میں استعمال کیا گیا ہے اس لئے اب ہم اس سلوک پر راضی نہیں ہو سکتے.ہو سکتا ہے کہ ہندو ہمیں علیحدہ طور پر کہہ دیں کہ ہم تم سے چھوت چھات نہیں کریں گے.مگر ہم اس پر راضی نہ ہوں گے اور نہ اس پر راضی ہوں گے کہ کوئی ہند و کسی مسلمان کے ساتھ بیٹھ کر کھا پی لے بلکہ ہند و.

Page 432

سيرة النبي عل الله 418 جلد 2 علی الاعلان مسلمانوں کے ساتھ کھائیں اور آئندہ کے لئے اقرار کریں کہ مسلمانوں سے چھوت چھات نہیں کریں گے.لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر اس مسئلہ کو صلح کی شرائط میں ہی نہ رکھیں.جس طرح ہندو ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں اور ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے اسی طرح ہمارے چھوت چھات کرنے پر وہ کوئی اعتراض نہ صلح کی تیسری شرط ایک اور ہے.چونکہ ہماری قوم چھوت چھات کی وجہ سے گرتی جارہی ہے اور ذلت برداشت کر رہی ہے اس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اس ذلت کو دور کرنے کے لئے کوئی طریق اختیار کریں.یہ جو چوڑھے چمار یا اور ا چھوت اقوام کے لوگ نظر آتے ہیں، گاؤں کے پاس علیحدہ جھونپڑیوں میں رہتے اور خود بھی اپنے آپ کو ادنی اور ذلیل سمجھتے ہیں ایک وقت تھا ہندوستان کی بادشاہت ان کے قبضہ میں تھی.یہاں کے حکمران تھے.مال دولت ان کی ملکیت تھی.لیکن جب آریہ ہندوستان میں آئے اور یہاں کے لوگوں کو شکست دے کر ان پر غالب آ گئے تو ان سے چھوت چھات شروع کر دی.یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ چند ہزار سال کے بعد ان لوگوں کی حالت ایسی ذلیل ہو گئی جو نظر آ رہی ہے.یہ لوگ کیوں شہروں سے باہر پنڈوروں میں رہتے ہیں؟ اس لئے کہ چھوت چھات انہیں باہر رہنے پر مجبور کرتی ہے.اگر مسلمانوں کے متعلق بھی ہندوؤں کا یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو ایک دن مسلمان بھی اس حالت پر پہنچ جائیں گے جو چوڑھے چماروں کی ہے.اب چوڑھوں سے کہ کر دیکھ لو کہ آؤ ہماری مجلس میں بیٹھو تو وہ کہیں گے نہیں جی ہم دور ہی اچھے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں سال کے سلوک سے ان کے نفس بالکل مر گئے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ایک دوست نے سنایا جب شو د رانند صاحب یہاں آئے اور انہوں نے تقریر کی تو چونکہ چوڑھوں کے متعلق تھی اس لئے ایک چوڑھے کے آنے پر اس کو کہا گیا آگے آکر بیٹھو! مگر جوں جوں اسے آگے آنے کے لئے کہا جائے وہ اور

Page 433

سيرة النبي علي 419 جلد 2 جائے.اس وقت جب کہ دوسری قومیں اپنے حقوق کا پُر زور مطالبہ کر رہی ہیں چوڑھے چماروں کو اگر اپنے پاس بیٹھنے کے لئے بھی کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم دور ہی اچھے ہیں یہ ہزاروں سال کے بائیکاٹ اور چھوت چھات کی وجہ سے ہے کہ یہ لوگ عزت نفس سے بھی محروم ہو گئے ہیں.اگر آج اس بات کا فیصلہ نہ کیا گیا تو مسلمانوں کو بھی اسی ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرنا پڑے گا جس میں چوڑھے اور سانسی گرے ہوئے ہیں.اگر مسلمان آنکھیں کھول کر دیکھیں تو اب بھی انہیں معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ کس حالت کو پہنچ چکے ہیں.آج سے ایک سو سال پہلے وہ ہندوستان کے بادشاہ تھے اور بادشاہوں کے پاس مال و دولت محکوم کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے.مگر آج ہر جگہ مسلمان ہندوؤں کے دست نگر ہیں جس کی وجہ سوائے چھوت چھات کے اور کچھ نہیں.پس اگر سو سال کے اندر اندر بادشاہ قوم کی یہ حالت ہو سکتی ہے کہ وہ قریباً غلاموں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہے تو سوسال کے بعد اس کی حالت چوڑھوں اور چماروں سے بھی بدتر ہو جائے گی.چوڑھوں نے تو ہندوؤں کی کچھ باتیں اختیار کر لی ہیں اس لئے ہندو ان پر رحم کرتے ہیں مگر مسلمانوں پر قطعاً رحم نہ کریں گے.پس ہماری صلح کی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ ہمارے حقوق جو گورنمنٹ نے دیئے یا آئندہ دے وہ ہماری آبادی اور اہمیت کے لحاظ سے دیئے جائیں اور ہندو ان میں روک نہ بنیں.اگر مسلمانوں کو وہ حقوق نہ ملے تو نتیجہ یہ ہوگا که مسلمان روز بروز گرتے جائیں گے.صلح کے یہ معنی نہیں کہ مسلمان ذلت اور نکبت کے گڑھے میں گر جائیں اور اپنے حقوق چھوڑ دیں بلکہ یہ ہیں کہ مسلمان بھی زندہ رہیں اور معزز طور پر زندہ رہیں.پس ہماری یہ تین شرطیں ہوں گی جن پر ہم صلح کر سکتے ہیں.(1) ہر قوم پر ذمہ داری ہو گی کہ اگر کوئی شخص پہلی شرط کی خلاف ورزی کرے گا تو قوم اس کا بائیکاٹ کرے گی اور جو نہ کریں گے ان کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا.اگر یہ نہ کیا

Page 434

سيرة النبي ع 420 جلد 2 جائے تو اس قوم کے لیڈر ذمہ دار ہوں گے کہ وہ ایک مقررہ رقم بطور تاوان کے دیں.کوئی کہے نبیوں اور بزرگوں کی ہتک کا ازالہ تاوان سے کس طرح ہوسکتا ہے خواہ کوئی لا کھ روپیہ دے دے.یہ صحیح ہے مگر ہم ایسے روپیہ سے رسول کریم ﷺ کی زندگی کے صحیح حالات شائع کریں گے اور اس طرح ان اعتراضات کا ازالہ کریں گے.دوسری شرط یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں سے چھوت چھات چھوڑ دیں یا اسے صلح میں نہ سمجھیں.تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق آبادی کے لحاظ سے حاصل ہوں اور ہندو ان میں روک نہ بنیں بلکہ مددگار ہوں.اگر یہ تین شرطیں ہندوؤں کو منظور ہوں تو ہم سب سے پہلے صلح کے لئے تیار ہیں.مگر صلح وہی کریں گے جس کے نتیجے میں قوم ذلیل نہ ہو.مسلمان چوڑھے چمار نہ بنیں.ہم نے فیصلہ کیا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم جو ہندوستان میں پیدا ہوئے یا باہر سے یہاں آئے اسلام کے جھنڈے کو کھڑا کریں اور اس کے لئے قوم کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے.ورنہ اگر مسلمان چوڑھے چماروں کی طرح ہو جائیں تو پھر اسلام کا جھنڈا کون کھڑا کرے گا.پس آج یا کل یہ سوال اٹھے گا کہ ہند و مسلمانوں میں صلح ہو اس لئے پہلے ہی یہ باتیں میں پیش کرتا ہوں.اگر ہند و صاحبان انہیں مان لیں تو آج صلح ہو سکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہندو لیڈر بجائے مسلمانوں کو گالیاں دینے کے اور ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے کے ان تجویزوں پر غور کریں گے جو خاص ہمدردی اور محبت سے پیش کی گئی ہیں.اور اس کے لئے جسے مادر ہند کہتے ہیں اور جس کی ترقی کے لئے جان و مال قربان کر دینے کا دعویٰ رکھتے ہیں اگر واقعہ میں ہندوستان کا دردان کے دل میں ہے اور وہ سچے دل سے ہندوستان کی ترقی چاہتے ہیں تو آئیں ان باتوں پر غور کریں اور ان کے مطابق صلح کریں.“ (الفضل 30 اگست 1927ء)

Page 435

سيرة النبي عمال 421 جلد 2 فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض ہند و رسالہ ” ورتمان“ میں ایک مضمون ”سیر دوزخ کے عنوان سے چھپا جو رسول کریم ﷺ کی ہتک پر مشتمل تھا.مسلمانوں کے احتجاج پر ایڈیٹر رسالہ اور مضمون نگار پر مقدمہ چلا اور انہیں عدالت سے سزا ہوئی.اس موقع پر 10 اگست 1927 ء کو حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے یہ مضمون لکھا:.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ صلى الله ورتمان کے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا اور سیر دوزخ کا مضمون لکھنے والا اور اس کا چھاپنے والا دونوں ایک سال اور چھ ماہ کے لئے دنیا کی دوزخ میں ڈال دیئے گئے.لوگ خوش ہیں.بعض لوگ مجھے مبارک باد کے تار دے رہے ہیں اور بہت سے خطوط کے ذریعہ سے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں.مگر میرا دل غمگین ہے.میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا اپنے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو نہیں قرار دیتا.میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.میں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.میں ایک دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا بلکہ میں اگلے اور پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے

Page 436

سيرة النبي علي 422 جلد 2 که کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو چلا دینے کے لئے آیا تھا نہ کہ مارنے کے لئے.وہ لوگوں کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے اور وہ زمین کو آباد کرنے کے لئے آیا تھا نہ کہ ویران کرنے کے لئے.اللہ تعالیٰ آسمان سے اس کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ أَمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ 1 - اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلاتے ہیں.غرض محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے نہ کہ موت میں.پس میں اپنے نفس سے شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دو شخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں اور بدبختی کی مُمبر انہوں نے اپنے ماتھوں پر لگا لی ہے اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے.کیوں اس کے زندگی بخش جام کو پی کر ابدی زندگی نہ پاتے اور اس صداقت کا ان تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے.پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش در حقیقت مسلمانوں کی تبلیغی ستی کا نتیجہ ہے.قانونِ ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ کہ دل کا.اور میرے لئے اُس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ ﷺ کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپ کی محبت قائم نہ ہو جائے.لوگوں کے مونہوں پر مُہر لگانے صلى الله سے محمد رسول اللہ ﷺ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.یہ تو صرف ہمارے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت تو اس میں ہے کہ دل اس کی محبت کے جذبات سے پُر ہوں اور آنکھیں اس کے فراق میں نمناک اور زبانیں اس کی تعریف میں گویا." اگر ” سیر دوزخ کا مضمون لکھنے والا اور اس کے چھاپنے والا دونوں قید ہو گئے ہیں تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمارے جذبات کو جو صدمہ پہنچا تھا اس کا بدلہ لے لیا

Page 437

سيرة النبي علم 423 جلد 2 گیا ہے.لیکن اے مسلمان کہلانے والے! اس بات کو مت بھول کہ جو کچھ ان دونوں نے لکھا اور شائع کیا ہے وہ کروڑوں آدمیوں کے دلوں میں ہے اور جب تک اس کو مٹایا نہ جائے اُس وقت تک محمد رسول اللہ ﷺ فِدَاهُ أَبِي وَ أُمِّی کی عزت قائم نہیں ہو سکتی.پس تو خوش نہ ہو کہ اگر تو سچا مؤمن ہے تو تیری خوشی اپنے انتقام میں نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے انتقام میں ہے.اور وہ انتقام یہ ہے کہ تو اُس وقت تک سانس صلى اللهم صلى الله نہ لے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا منکر باقی ہے.تو اس پر خوش نہ ہو کہ تو نے محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت میں دنیا کو ماردیا بلکہ اس پر خوش ہو کہ تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں دنیا کو زندہ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بخش آواز کو بعید ترین حصص دنیا میں پہنچا دیا.آہ! ہم کس بات پر خوش ہیں.کیا اس بات پر کہ انگریزی حکومت نے جو مذہباً عیسائی ہے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے اور بیسیوں آدمی مقرر کر کے رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کی اور اس بات کا ہمیں خیال بھی نہیں آتا کہ اس عزت کی حفاظت کے لئے ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور نہ کچھ کرنے کی فکر ہے.ہمیں دوسروں کے کئے پر کیا خوشی ہو سکتی ہے اور ان کی غفلت پرشکوہ کا کیا حق پہنچتا ہے جبکہ ہم خود محمد رسول اللہ علیہ کی عزت کی حفاظت سے غافل ہیں.مسیحی ایک انسان کو خدا منوانے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں اور جانوں کو خطرہ میں ڈال کر اور کروڑوں روپیہ سالانہ خرچ کر کے اپنے مذہب کی تلقین کرتے پھرتے ہیں.ہندو جو اب تک اپنے مذہب کی تعریف بھی نہیں کر سکے اور جن کے فرقوں کا باہمی اختلاف اس سے بھی بڑھا ہوا ہے جتنا کہ ان کے بعض فرقوں اور اسلام یا مسیحیت میں ہے لاکھوں روپے خرچ کر کے ہر صوبہ میں پر چار کر رہے ہیں اور شدھی کی رو چل رہی ہے.لیکن اے مسلمان کہلانے والو ! جن کے نبی کی زبان پر خدا تعالیٰ نے خود یہ الفاظ جاری کئے کہ یايُّهَا النَّاسُ اِنّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعَا.اے تمام بنی نوع انسان ! میں

Page 438

سيرة النبي عل الله 424 جلد 2 اللہ کی جانب سے تم سب کی طرف پیغام ہدایت دے کر بھیجا گیا ہوں.اور جن کی اپنی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ 3.تم سب سے بہتر امت ہو کہ جن کو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تم نیکی کو دنیا میں پھیلاتے ہو اور بدی سے لوگوں کو باز رکھتے ہو.تم بتاؤ کہ تم نے نور اسلام اور پیغام محمد ﷺ کی اشاعت کے لئے کیا کیا ؟ اگر آپ لوگ اپنے فرض کو ادا کرتے تو آج دنیا میں رسول کریم علی یم ﷺ اور اسلام پر حملہ کرنے والا کوئی نظر نہ آتا.دنیا پر اسلام کی حکومت ہوتی اور تمام دل نگین محمد سے منقش ہوتے ، بجائے گالیوں کے اس مقدس ہستی پر درود بھیجا جاتا.اگر آپ لوگوں کو اشاعت اسلام اور شریعت کے قیام کے لئے قربانی کرنے کی جرات نہیں تو پھر دوسروں کی حرکات کا گلہ کیا اور گورنمنٹ کی مدد سے رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت پر فخر کیسا !! الله کیا آپ لوگوں میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ پہلے اسے زہر دیا جائے اور پھر علاج کر کے اسے بچا لیا جائے ؟ وہ ڈوب جائے اور پھر لوگ اسے نکال لیں؟ یا اس کا مال چور لے جائیں اور پھر پولیس اس مال کو برآمد کر دے؟ اگر آپ اسے پسند نہیں کرتے بلکہ یہ پسند کرتے ہیں کہ آپ کو زہر دیا ہی نہ جائے اور آپ سلامتی سے سمندر کے کنارے پر کھڑے رہیں یا تختہ جہاز پر امن سے بیٹھے ہوئے ہوں اور آپ کا مال گھروں میں محفوظ رہے اور کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے تو بخدا یہ بتائیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق آپ اس امر پر کیوں خوش ہوتے ہیں کہ پہلے لوگ انہیں گالیاں دیں اور پھر جیل خانوں میں چلے جائیں.کیوں یہ کوشش نہیں کرتے کہ لوگ انہیں گالیاں ہی نہ دیں.اور یہ کام بغیر اشاعتِ اسلام اور اصلاح نفس کے ہو ہی نہیں سکتا.پس اٹھو اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو اسلام کی اشاعت کے لئے اور اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کے لئے خرچ کرو.پھر دیکھو کہ کس طرح دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے اور

Page 439

سيرة النبي عالم 425 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا نور دنیا کے چاروں کونوں میں درخشاں نظر آتا ہے.اب بھی وقت ہے کہ اپنی پچھلی ستی کا کفارہ کرو اور اپنی غفلتوں کو ترک کر دو اور قومی ہمدردی کا نقش اپنے دل میں جماؤ اور ہر اک مسلمان کہلانے والے کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دو.اور چھوت چھات جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت تباہ ہو رہی ہے اسے ہندوؤں کے مقابلہ پر اُس وقت تک اختیار کرو جب تک کہ وہ اس کو مسلمانوں کے متعلق نہ چھوڑیں.اور اپنے اخلاق کی درستی کرو اور درندگی اور وحشت کو چھوڑ کر استقلال اور حکمت سے کام کرنے کی عادت ڈالو.اور نفس پرستی کے خیالات کو دلوں سے نکال دو.اور پھر اس دروازہ کی طرف دوڑو جس کے سوا تمہارے لئے کہیں پناہ نہیں.اور اس بارگاہ میں حاضر ہو جس کے سوا تمہارا کوئی چارہ کا رنہیں.اور ایک پختہ عہد اور نہ ٹوٹنے والا اقرار کرو کہ آئندہ اپنے مال اور اپنی جان اور اپنی ہر اک چیز کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اشاعت اسلام کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار رہو گے اور اپنی خواہشات اور اپنی اُمنگوں اور اپنے اہل وعیال کے آرام اور اپنے حاضر و مستقبل کے فوائد کو خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کر دو گے اور سادہ اور پاک زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو گے.کیونکہ وہ شخص جو میدانِ جنگ کی طرف جانے سے پہلے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتا میدانِ جنگ میں بھی کچھ نہیں کرسکتا.پس سادہ زندگی اور اسراف سے پر ہیز اور خدمت دین کی عادت ڈال کر اس جہاد عظیم کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو جو اسلام کو پیش آنے والا ہے.اور یا د رکھو کہ جب تک وقت سے پہلے اس کے لئے تیاری نہیں کرو گے تو خواہ کیسے ہی مخلصانہ ارادے ہوں اور نیک نیتیں ہوں وقت پر کچھ نہ بن سکے گا اور اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کر سکو گے.ہو پس اے بھائیو! ورتمان“ کے ایڈیٹر اور مضمون نگار کی قید پر خوش بلکہ سمجھو کہ ان کی قید ہمارے لئے ایک تازیانہ ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ ہم خود تو تبلیغ اسلام کر کے رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت نہ کر سکے لیکن ایک غیر مذہب

Page 440

سيرة النبي ع 426 جلد 2 کی گورنمنٹ نے اپنے قانون کے ذریعہ سے آپ کی عزت کی حفاظت کی.میرا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ سے اس بارہ میں مدد نہیں لینی چاہئے کیونکہ باوجود پر ہیز کے اگر مرض پیدا ہو تو علاج کرنا ہی پڑتا ہے.لیکن میرا یہ مطلب ہے کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کے قانون پر ہی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ مجرم کو نہیں روک سکتا بلکہ صرف مجرم کو سزا دیتا ہے.اور خود تبلیغ اسلام اور شریعت کے قیام کے کام پر اس طرح زور دینا چاہئے کہ دل محبتِ رسول سے بھر جائیں اور کوئی شخص آپ کو برا سمجھنے والا باقی ہی نہ رہے.مذکورہ بالا اہم فرض کی طرف توجہ دلانے کے بعد میں عزتِ رسول کے تحفظ کے بارہ میں ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ گوجیسا کہ میں او پر لکھ چکا ہوں عزت رسول کریم ﷺ کا تحفظ خود ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہماری کوششوں پر منحصر ہے.لیکن پھر بھی چونکہ بعض لوگ نصیحت کو نہیں مانتے اور جرم کے ارتکاب پر دلیر ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو روکنے کے لئے قانون کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہمیں ” مقدمہ ورتمان“ کے فیصلہ پر بے فکر نہیں ہو جانا چاہئے.کیونکہ گو اس فیصلہ نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ دفعہ 153 - الف میں ان لوگوں کی سزا کے لئے بھی قانون مہیا کر دیا گیا ہے کہ جو مقدس ہستیوں کو گالیاں دے کر ان کے پیروؤں کا دل دُکھاتے ہیں لیکن اس قانون میں ابھی بہت سی خامیاں ہیں کہ جب تک وہ دور نہ ہوں گی ملک میں امن قائم نہ ہو سکے گا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہمت کی کمر کس کر کھڑے ہو جائیں اور اُس وقت تک آرام نہ کریں جب تک کہ وہ خامیاں دور ہو جائیں اور ایک مکمل قانون بن جائے جس کے ڈر سے وہ شریر الطبع لوگ جو دلیل اور برہان کی قدر نہیں کرتے اپنے خبث باطن کے اظہار سے رکے رہیں اور ان آسمانِ روحانیت کے ماہتابوں پر خاک ڈالنے کی کوشش نہ کریں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے پاک کیا اور جن کے کندھوں پر اپنے تقدس کی چادر اس نے ڈال دی.ہمارا فرض ہے کہ

Page 441

سيرة النبي الله 427 جلد 2 یک آواز ہو کر گورنمنٹ کو توجہ دلائیں کہ وہ قانون کو ایسا مکمل کر دے کہ آئندہ اس کی کمزوری کی وجہ سے ملک میں فتنہ پڑنے کا اندیشہ نہ رہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ خود اس کام کو کرنا نہیں چاہتی.( گورنمنٹ نے جس ہمدردی سے ورتمان اور راجپال کے مقدموں میں کام کیا ہے وہ بتاتا ہے کہ وہ پورے طور پر ہمارے جذبات سے ہمدردی رکھتی ہے اور اس کی ان خدمات کا شکر یہ نہ ادا کرنا اول درجہ کی اخلاقی کمزوری اور کمینگی ہوگی.اور میں اس اشتہار کے ذریعہ سے بھی اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے گورنمنٹ پنجاب اور صوبہ سرحدی کا اور خصوصاً سر ہیلی کا اس ہمدردی پر شکر یہ ادا کرتا ہوں جو اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں سے ظاہر کی اور یقیناً کہ سکتا ہوں کہ ان کی حکمت عملی نے ملک کو خطرناک فسادات میں پڑنے سے بچانے میں بہت بڑی مدد دی ہے ) میرا یہ مطلب ہے کہ چونکہ یہ قانون مختلف مذاہب کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ گورنمنٹ کو مسلمان اپنے منشاء سے اطلاع دیں تا کہ اسے اپنی ذمہ داری کے ادا کرنے میں آسانی ہو اور وہ اہل ملک کی خواہش کے مطابق قانون بنا سکے.شاید بعض لوگوں کو خیال گزرے کہ اس سے پہلے قانون کی ترمیم کے متعلق جو مطالبہ کیا جا رہا تھا میں اس میں کیوں شریک نہیں ہوا اور کیوں’ورتمان“ کے مقدمہ کے پہلے قانون کے مطابق چلانے پر میں زور دیتا رہا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک اس مقدمہ کا پہلے قانون کے مطابق ہونا ضروری تھا اور اُس وقت قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کرنا قومی مصلحت کے خلاف تھا کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ اگر اس مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے ہم قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے اور کوئی قانون - پاس ہو جاتا تو اس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ معزز جج صاحبان ورتمان“ کے مقدمہ کا فیصلہ اس قانون کے ماتحت کر دیتے اور دفعہ 153.الف کے متعلق بحث کرنے کی ضرورت نہ رہتی اور یہ تسلیم کیا جاتا کہ کنور دلیپ سنگھ صاحب کا فیصلہ بالکل صحیح تھا حالانکہ ہم یہ

Page 442

سيرة النبي علم 428 جلد 2 جانتے تھے کہ وہ فیصلہ غلط ہے اور اس فیصلہ کے قائم رہنے میں مسلمانوں کی سخت ہتک تھی.پس اُس وقت میں اس مطالبہ کو نا جائز سمجھتا تھا اور میرا یہ خیال تھا اور صحیح خیال تھا کہ موجودہ قانون کی تشریح پہلے ہو جانی چاہئے اور یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کنور صاحب کا فیصلہ درست نہ تھا.اس کے بعد ہمیں قانون کے نقص کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ قانون میں نقص یہ نہیں کہ دفعہ 153.الف راجپال اور ورتمان کے ایڈیٹر کو سزا دینے کے لئے کافی نہیں جیسا کہ کنور صاحب کا خیال تھا بلکہ اس میں اور نقصان ہیں.پس اب جب قانون کی تشریح ہوگئی ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قانون، بانی مذہب اور مذہب پر حملہ کرنے والوں کو دو علیحدہ مُجرموں کا مرتکب نہیں قرار دیتا تو اب ضروری ہے کہ قانون کی اصلاح کی جائے اور ان دوسرے نقصوں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے یہ قانون اس غرض کو پورانہیں کر سکتا جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے.ہم اس قانون کے نقص کے دیر سے شا کی ہیں.چنانچہ 1897ء میں بانی سلسلہ احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مذہبی فتن کو دور کرنے کے لئے اسے ایک زیادہ مکمل قانون بنانا چاہئے.لیکن افسوس کہ لارڈ ایٹکن نے جو اُس وقت وائسرائے تھے اس تجویز کی طرف مناسب توجہ نہ کی.اس کے بعد سب سے اول 1914 ء میں میں نے سراڈ وائر کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ گورنمنٹ کا قانون مذہبی فتن کے دور کرنے کے لئے کافی نہیں اور جب تک اس کو مکمل نہ کیا جائے گا ملک میں امن قائم نہ ہوگا.انہوں نے مجھے اس بارہ میں مشورہ کرنے کے لئے بلایا لیکن جس تاریخ کو ملاقات کا وقت تھا اس سے دو دن پہلے استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب امام جماعت احمد یہ فوت ہو گئے اور دوسرے دن مجھے امام جماعت منتخب کیا گیا.چونکہ وہ جماعت کے لئے ایک سخت فتنہ کا وقت تھا میں سرا ڈوائر سے مل نہ سکا اور بات یونہی رہ گئی.

Page 443

سيرة النبي الله 429 جلد 2 اس کے بعد 1923ء میں میں سرمیکلیکن سابق گورنر پنجاب سے ملا اور انہیں اس قانون کے نقصوں کی طرف توجہ دلائی.مگر باوجود اس کے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں انہوں نے یہ معذرت کر دی کہ اس امر کا تعلق گورنمنٹ آف انڈیا سے ہے اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس کے بعد میں نے پچھلے سال ہز ایکسیلنسی گورنر جنرل کو ایک طویل خط میں ہندوستان میں قیام امن کے متعلق تجاویز بتاتے ہوئے اس قانون کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن افسوس کہ انہوں نے محض شکریہ تک ہی جواب کو محدود رکھا اور باوجود وعدہ کے کہ وہ ان تجاویز پر غور کریں گے غور نہیں کیا.میرے اس خط کا انگریزی ترجمہ چھ ہزار کے قریب شائع کیا گیا ہے اور تمام حکام اعلیٰ، سیاسی لیڈروں، اخباروں، پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے سر بر آوردہ لوگوں کو جا چکا ہے اور کلکتہ کے مشہور اخبار ”بنگالی نے جو ایک متعصب اخبار ہے لکھا ہے کہ اس میں پیش کردہ بعض تجاویز پر ہندو مسلم سمجھوتے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے.سر مائیکل اڈوائر اور ٹائمنز آف لندن کے مسٹر براؤن نے ان تجاویز کو نہایت ضروری تجاویز قرار دیا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور دوسرے سر بر آوردوں نے ان کی اہمیت کو تسلیم کیا.لیکن افسوس کہ ان حکام نے جن کے ساتھ ان تجاویز کا تعلق تھا ان کی طرف پوری توجہ نہ کی.جس کا نتیجہ وہ ہوا جو نظر آ رہا ہے.ملک کا امن برباد ہو گیا اور فتنہ وفساد کی آگ بھڑک اٹھی.یہ بتا چکنے کے بعد کہ بزرگانِ دین کی عزت کی حفاظت کے متعلق میں شروع سے ہی کوشش کرتا چلا آیا ہوں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ موجودہ قانون میں کیا کیا نقص ہیں.(1) موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم قرار دیتا ہے جو بہ نیت فتنہ کوئی مضمون لکھے، براہ راست انبیاء کی ہتک کو مُجرم نہیں قرار دیتا.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا کہ راجپال کے مقدمہ کی طرح ہمیشہ ہی عدالتوں میں یہ بحث رہے گی کہ کسی

Page 444

سيرة النبي عالي 430 جلد 2 شخص نے فساد ڈلوانے کی نیت سے کتاب لکھی تھی یا نہیں یا اس سے فساد کا احتمال ہوسکتا تھا یا نہیں یا دو قوموں میں فساد پڑ سکتا تھا یا نہیں؟ اور اگر کوئی حج اس رائے کا ہو جائے کہ فساد ڈلوانے کی نیت نہ تھی یا یہ خیال کر لے کہ ان حملوں کی وجہ سے فساد نہیں پڑسکتا تھا یا یہ کہ دو قوموں میں فساد نہیں پڑ سکتا تھا تو پھر خواہ کیسی ہی گندی کتاب لکھی گئی ہو اس کے لکھنے والے پر کوئی گرفت نہیں ہو سکے گی.پس قانون میں ایک ایسی دفعہ زیادہ ہونی چاہئے جس کی رو سے ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی یا کسی مذہب کے بانی کی یا نبی کی بہتک کرے یا اس پر تمسخر اڑا ئے خواہ فساد کا احتمال ہو یا نہ ہوا سے سزا دی جا سکے کیونکہ اگر فساد کے احتمال پر سزا کی بنیاد رکھی گئی تو تو میں اپنے بانیوں اور بزرگوں کی ہتک کرنے والوں کو سزا دلوانے کے لئے فساد کے آثار پیدا کرنے پر مجبور ہوں گی اور یہ ناقص قانون بجائے امن پیدا کرنے کے فساد پیدا کرنے کا موجب ہوتا رہے گا اور اس کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ جو تو میں اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق فساد سے احتراز کریں گی ان کے بزرگوں کی ہتک سے روکنے کے لئے کوئی قانون ہی نہ ہو گا اور یہ سخت ظلم کی بات ہوگی.(2) دوسر انقص اس قانون میں یہ ہے کہ اس قانون کے ماتحت صرف گورنمنٹ ہی مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس وجہ سے کسی ایسی کتاب یا رسالے جن میں گندے سے گندے حملے بزرگانِ دین پر کئے جاتے ہیں ان پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور اس کے نتیجہ سے فساد بڑھتا ہے.اگر ایسا رسالہ ہندوؤں نے لکھا ہوتا ہے اور گورنمنٹ اس پر مقدمہ نہیں چلاتی تو مسلمانوں کا غصہ بڑھتا ہے.اور اگر مسلمانوں کی طرف سے ایسا رسالہ شائع ہوتا ہے اور اس پر نوٹس نہیں لیا جاتا تو ہندوؤں کا غصہ بڑھتا ہے.اور اس وجہ سے فساد کے مٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.پس ضروری ہے کہ اس قانون کی اصلاح اس طرح کی جائے کہ علاوہ گورنمنٹ کے اس بزرگ کے پیرو بھی جس کی ہتک کی گئی ہو اس جنگ کرنے والے پر تالش کر سکیں اور اسے سزا دلوا سکیں.راجپال کے

Page 445

سيرة النبي عالم 431 جلد 2 مقدمہ میں گورنمنٹ کے خلاف مسلمانوں کے جوش کی بڑی وجہ یہی تھی کہ پر یوی کونسل میں کیوں اپیل نہیں کی جاتی.اگر خود مقدمہ چلانے کی اجازت ہوتی تو مسلمان خود اس کام کو کر سکتے تھے اور گورنمنٹ کے خلاف کوئی جوش نہ پیدا ہوتا.پس قانون کی یہ اصلاح ضروری ہے کہ بزرگان دین کے پیروؤں کو بھی ان کی ہتک کرنے والوں پر نالش کرنے کی اجازت ہے تا کہ اگر گورنمنٹ کسی پر مقدمہ چلانا مناسب نہ سمجھے تو بجائے ایجی ٹیشن کے لوگ خود مقدمہ چلا کر شریر کو اس کے کردار کی سزا دلا سکیں.جب تک یہ اصلاح نہ ہوگی گورنمنٹ پر رعایا کے مختلف حصے خواہ مخواہ ناراض رہیں گے اور اسے کبھی امن حاصل نہیں ہو گا.بے شک اس تبدیلی قانون میں بعض نقائص بھی ہیں لیکن ان کا علاج ہو سکتا ہے جیسا کہ میں نے اپنے خط بنام وائسرائے میں ثابت کیا (3) تیسری اصلاح جس کی اس قانون میں ضرورت ہے یہ ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک مقدمہ نہ چلایا جائے جب تک کہ اصل کتاب والے پر بشر طیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو مقدمہ نہ چلایا جائے.اس وقت یہ ہو رہا ہے کہ ایک شخص پر گورنمنٹ مقدمہ چلا دیتی ہے حالانکہ اس نے ایک نہایت گندی کتاب کا جواب لکھا ہوتا ہے.اس کو چھوڑ دیتی ہے جس نے حملہ میں ابتدا کی ہوتی ہے.مگر شرط یہ ہونی چاہئے کہ دوسری کتاب پہلی کتاب کا حقیقی جواب ہو نہ کہ نئی مستقل کتاب.(4) چوتھا نقص اس قانون میں یہ ہے کہ یہ قانون صوبہ دار ہے.ایک صوبہ کا اثر دوسرے پر نہیں پڑتا.مثلاً ورتمان“ جسے گورنمنٹ نے ضبط کیا ہے اس کی ضبطی صرف پنجاب، سرحد اور یو پی میں ہوئی ہے.اگر ہندو اسے بنگال، بمبئی، مدراس، بہار وغیرہ میں شائع کرتے رہیں تو اس میں ان پر کوئی مجرم عائد نہیں ہوتا حالانکہ سارا ہندوستان ایک ہے.ایک جگہ کی کتاب کا بداثر سارے ملک پر پڑتا ہے.پس قانون یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبہ کی گورنمنٹ ضبط

Page 446

سيرة النبي الله 432 جلد 2 رے تو سب صوبوں کی حکومتیں قانوناً مجبور ہوں کہ وہ اپنے صوبوں میں بھی اس کتاب کا چھپنا یا شائع ہونا بند کر دیں.یا اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبہ کی گورنمنٹ کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کر دے جس کا سب صوبوں پر اثر ہو.ورنہ موجودہ قانون کی رو سے اس قسم کی شرانگیز کتابیں یکے بعد دیگرے مختلف صوبوں میں چھپ کر شائع ہوسکتی ہیں اور جب تک کہ سب صوبوں میں ان کا چھپنا بند ہو اُس وقت تک ملک میں خون کا دریا بہہ سکتا ہے.چنانچہ اس وقت بھی ملک کے قانون کے لحاظ سے راجپال کی کتاب بنگال، بمبئی ، مدراس اور برہما میں چھاپ کر شائع کی جاسکتی ہے اور یہ بات قانون کے خطرناک نقص پر دلالت کرتی ہے.غرض موجودہ قانون میں یہ نقص ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے اور جب تک ان کا ازالہ نہ ہوگا نہ بزرگانِ دین کی عزتوں کی حفاظت ہو سکے گی اور نہ ملک میں امن قائم ہوگا.پس چاہئے کہ ہندوستان کے تمام شہروں سے مشتر کہ جلسے کر کے مندرجہ بالا نقصوں کی طرف اپنی اپنی گورنمنٹوں کی معرفت ہندوستان کی حکومت کو توجہ دلائی جائے تا ایسا نہ ہو کہ ”ورتمان کے فیصلہ سے مطمئن ہو کر گورنمنٹ قانون میں اصلاح کا خیال چھوڑ دے یا ایسی اصلاح کرے جو ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والی نہ ہو.میں امید کرتا ہوں کہ تمام مسلمان اول الذکر کام کی طرف تو خود فوری توجہ کریں گے اور دوسری بات کی نسبت اپنی اپنی گورنمنٹوں کی معرفت گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں گے اور اپنے منشا سے آگاہ کریں گے اور چونکہ یہ کام امن کے کے لئے ہے اور خود گورنمنٹ کو بدنامی سے بچانا ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو اہلِ ملک کی خواہش کے مطابق قانون کی تبدیلی سے انکار نہیں ہو گا.ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دوسرا کام گو عارضی ہے لیکن پہلا کام ایک مستقل کام ہے اور اُس وقت تک پورا نہ ہو گا جب تک کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں کی

Page 447

سيرة النبي علي 433 جلد 2 مشتر کہ کمیٹیاں ہر قصبہ اور ہر شہر میں قائم نہ ہو جائیں گی.پس اے بھائیو! اٹھو اور اس قسم کی کمیٹیاں جلد سے جلد قائم کرو.ہمت اور استقلال سے خدا کے دین کی اشاعت اور قوم کی ترقی کے لئے کھڑے ہو جاؤ.تب خدا خود آسمان سے تمہاری مدد کے لئے آئے گا اور اس کا نور تمہارے آگے آگے چلے گا.وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1: الانفال: 25 2: الاعراف : 159 3 آل عمران: 111 والسلام خاکسار مرز امحمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان 66 10 اگست 1927 ء“ فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض مطبوعہ قادیان )

Page 448

سيرة النبي الله 434 جلد 2 نبی کریم ﷺ کی محبت پیدا کرنے کا طریق 11 ستمبر 1927 ء کو الفنسٹن (Elphinstone) ہال شملہ میں نواب سر ذوالفقار علی خان صاحب کی زیر صدارت جلسہ میں حضرت مصلح موعود نے 3 گھنٹے کی تقریر فرمائی.موضوع ” مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں“ تھا.دسمبر 1927ء میں یہ تقریر لیکچر شملہ“ کے عنوان سے شائع ہوئی.اس میں آپ نے آنحضرت علی کی عظیم قربانیوں کے بیان کے بعد مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ:.صلى الله میرے ایک رشتہ دار یہاں شملہ میں ایک معزز عہدہ دار ہیں.انہوں نے اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ مجھے ایک مسئلہ کے متعلق شبہات پیدا ہوئے.میں نے اپنے محلہ کی مسجد کے امام سے پوچھا کہ ایک اسلام کے نہ ماننے والے نے یہ اعتراض کئے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا اور مجھے سمجھا تا یہ کہا کہ تیرے باپ کے پاس جا کر کہتا ہوں.میں نے اسی دن سے عہد کر لیا کہ کسی مولوی سے پوچھنا ہیں.یہ ایک مثال نہیں میں ایسے بہت سے واقعات سے واقف ہوں.میرے پاس تو تعلیم یافتہ لوگ آتے ہیں اور وہ اپنے اعتراضات پیش کرتے ہیں.میں آزادی سے ان کو پوچھنے کا حق دیتا ہوں اور جواب دیتا ہوں.اس لئے کہ کانشنس کی آواز کو دبا نہیں سکتے.اگر ہم شبہات اور اعتراضات کا جواب نہ دیں گے تو خود ان کو اسلام اور قرآن سے متنفر کریں گے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اگر مسلمان اس کے لئے تیار نہیں کہ اپنی اولا د کو مرتد نہ کریں اور انہیں اس کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کو حقیقی مسلمان

Page 449

سيرة النبي عل الله 435 جلد 2 بنانے کے لئے ہر وقت مستعد اور فکرمند رہنا چاہئے تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ عقل خداداد کی روشنی میں قرآن کریم سکھائیں.اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اسلام صرف کتاب میں رہ جائے گا.یہ فلسفہ کا زمانہ ہے میں یہ نہیں کہتا کہ فلسفہ یا سائنس کے نام سے ڈر جانا چاہئے قرآن کریم کا فلسفہ ہی سچا فلسفہ ہے اور محض سائنس یا فلسفہ کے نام سے ہر بیوقوفی کی بات مان لو.میں خود مثلاً ڈارون کی تھیوری کو نہیں مانتا اور میں نے دیکھا ہے کہ اس کے ماننے والے میرے سوالات کا جواب نہیں دے سکتے.پس حقیقی علوم اور سائنس قرآن کریم کے خلاف نہیں.یہ کمزوری ہوگی اگر ان سے کوئی ب جاوے.نبی کریم ﷺ کی محبت پیدا کرنے کا فرض پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کو علیہ پڑھیں ، سمجھیں اور اس پر عمل کریں طریق اور مسلمانوں کا موجودہ عمل تا کہ رسول کریم ﷺ کی محبت دلوں میں پیدا ہو.رسول کریم ﷺ کی محبت کے لئے ضرورت ہے کہ آپ کی ان قربانیوں کو بیان کریں جو آپ نے قوم اور انسان کے لئے کی ہیں.جوں جوں انسان ان قربانیوں پر غور کرے گا آپ کے ساتھ محبت اور وفا کا ایک گہرا تعلق پیدا ہوتا جائے گا.مگر اب مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ آپ کی قربانیوں پر تو غور نہیں کرتے.وہ یا تو آپ کی مدح و ثنا کرتے وقت آپ کے بالوں اور چہرہ کی تعریف کریں گے اور یا آپ کے خوارق اور معجزات ایسے رنگ میں بیان کریں گے کہ سننے والے کو ہنسی آجاوے.مثلاً وہ کہیں گے کہ درختوں نے آپ کو سجدہ کیا یا آپ سے گوہ نے کلام کیا.ایک شخص جو صحیح تاریخ کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف پڑھتا ہو وہ کس طرح ان باتوں کو تسلیم کرے گا.اور صحیح حدیث میں جب ایسی باتوں کا نشان نہ ملے تو کیا جواب ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی، اخلاقی اور روحانی معجزات کیا کم ہیں؟ وہ اتنے اور ایسے ہیں کہ کبھی ختم نہیں ہوتے اور ہر زمانہ میں ان کی صداقت ثابت ہے.

Page 450

سيرة النبي الله 436 جلد 2 ,, 66 ، اب یہ گوہ کے کلام کرنے کا معجزہ ، اس میں کیا خوبی ہے جبکہ واقعات کے خلاف ہو.یہ بہت سیدھی بات ہے.تاریخ میں ایک شخص کا نام ”ضب“ لکھا ہے.مگر علماء ہو.اس کا خیال نہیں کرتے اور کہہ دیتے ہیں کہ گوہ بول پڑی.اسی طرح وہ شخص جس کے سامنے درخت سجدہ میں گر پڑا ہو، عجوبہ کے طور پر اس کا ادب تو بڑھ سکتا ہے مگر تاریخ میں آکر اس کا وقار کم ہو جائے گا.پس ایسی چیز پیش کرنی چاہئے جو ایک حقیقت رکھتی ہو.اس لئے میں تاکید کرتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھانے کے لئے آپ کی قربانیاں پیش کرو.ہماری کتابوں کے طومار کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انجیل کا یہ فقرہ اثر کرتا ہے کہ لوگوں کے گناہوں کے لئے آیا ہوں.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام نہایت ہی اعلیٰ ہے اور آپ کی قربانیاں بے نظیر ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان قربانیوں کو قرآن کریم نے ایک لفظ میں بیان کیا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 1 تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس غم میں کہ لوگ کیوں مومن نہیں ہوتے.یہ کتنی بڑی قربانی ہے.آپ مخلوق کی نجات اور ان کو خدا تک پہنچانے کے لئے کس قدر فکرمند رہتے تھے.آپ کی روزانہ زندگی کو جب ہم دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے.جب ان واقعات کو بیان کیا جائے گا تو کوئی بھی ہو خواہ ہندو یا عیسائی، پارسی ہو یا یہودی وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ چیز ہے جو محبت پیدا کر سکتی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات خود پڑھنے چاہئیں اور پڑھانے چاہئیں.ایسے مضمون نہیں کہ آپ کی زلفیں ایسی تھیں اور آنکھیں ایسی تھیں بلکہ آپ کی نیکی ،آپ کا تقویٰ مخلوق کی خدمت کا جوش، دشمنوں کے سخت سے سخت رنج دہ سلوک کے باوجود ان سے نیکی اور ہمدردی.دعا کی طرف توجہ پھر دعا اور خشیت الہی کی طرف توجہ ہو.آنحضرت مے نے فرمايا الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ2 اور زندگی کے ہر شعبہ اور

Page 451

سيرة النبي عمال 437 جلد 2 66 حالت اور وقت کے لئے آپ نے دعا ئیں تعلیم فرمائیں.مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ آج وہ سب سے زیادہ دعا سے عملاً متنفر ہیں.عیسائی سب سے زیادہ دعا کی طرف متوجہ ہیں اور ہندو بھی کم نہیں.(لیکچر شملہ صفحہ 13 تا 15 مطبوعہ قادیان 1927ء) رسول کریم ﷺ کی بعثت کی ایک فرض رسول کریم ﷺ کی بعثت کی صلى الله ایک غرض رسومات کو ختم کرنا ہے اس کی بابت حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.میں دیکھتا ہوں کہ بہت سا روپیہ فضول رسوم میں ضائع ہوتا ہے.ان تمام رسومات کو ترک کر دو.محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت میں خدا تعالیٰ محلِ انعام میں فرماتا ہے کہ آپ کی بعثت ان رسوم کے توڑنے کے لئے ہے.وہ رحمۃ للعلمین ہو کر آئے ہیں.پھر جو چیز رحمت کا باعث تھی مسلمان اسے چھوڑ کر وہی پھانسی اپنے گلے میں الله کیوں ڈالتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی آمد کی غرض یہ ہے کہ ان تمام فضول اور بے جا رسوم سے جنہوں نے گردنوں میں طوق ڈال دیئے تھے آزاد کر دیں اور ان زنجیروں سے نجات دلائی مگر ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے.یہ کس قدر شرم کا مقام ہے.مسلمانوں کے بہت سے قرضوں اور فضول خرچیوں کی اصلاح اسی ایک امر سے ہوسکتی ہے.میرے استاد حضرت خلیفہ اول اپنے جود وسخا کی وجہ سے مشہور تھے اور لوگ آپ کے پاس اس غرض کے لئے آتے رہتے تھے.ایک مرتبہ ایک شخص دہلی سے آیا کہ میری لڑکی کی شادی ہے.آپ نے فرمایا کہ میں اس قدر روپیہ تمہاری لڑکی کی شادی کے لئے دوں گا جس قدر رسول کریم ﷺ نے اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کیا.اس نے کہا کہ میری تو ناک کٹ جائے گی.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ رسول اللہ ہے کی تو نہ کٹی اور تمہاری باوجود کٹ جانے کے کہ تم مانگنے کے لئے یہاں آئے ہوا ایسی شادی کرتے ہوئے کٹتی ہے.

Page 452

سيرة النبي علي 438 جلد 2 66 غرض فضول رسومات کو چھوڑ دو لیکچر شملہ صفحہ 37،36 مطبوعہ قادیان 1927ء) 1: الشعراء: 4 2 ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الدعاء صفحہ 770 حدیث نمبر 3371 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى

Page 453

سيرة النبي الله 439 جلد 2 و, رسول کریم کی بہتک کے ازالہ کا طریق حضرت مصلح موعود نے 28 اکتوبر 1927 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.پچھلے دنوں ہندوؤں کی بعض کا رروائیوں کی وجہ سے جو اشتعال مسلمانوں میں پیدا ہوا اس کے متعلق میں نے متعدد اشتہار شائع کئے اور اپنی طرف سے وہ صحیح طریق بیان کیا جس پر عمل کر کے مسلمان کامیاب ہو سکتے ہیں.اور میں نے مسلمانوں کو متواتر نصیحت کی تھی کہ وہ ہر قسم کے فتنے اور فساد سے بچیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں.مجھے ان اشتہارات پر کئی گالیوں کے خطوط آئے.کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ تم بزدل ہو.رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں.آپ ایک طرف تو مسلمانوں کو رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے بلاتے ہیں اور دوسری طرف اس علاج سے روکتے ہیں جو رسول اللہ الیہ کو گالیاں صلى الله دینے والوں کا ہوسکتا ہے.میں نے ان لوگوں کو خطوط کے ذریعہ بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنے خیال میں غلطی پر ہیں.رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت الله ظالمانہ افعال کے ذریعہ نہیں ہو سکتی بلکہ آپ کی عزت کی حفاظت ایک مستقل، غیر متزلزل، با امن، پُر جوش ، اور پُر اخلاص جد و جہد سے ہوسکتی ہے جس میں کوئی وقفہ نہ ہو، کوئی سستی نہ ہو، کوئی کمزوری نہ ہو.اور میں سمجھتا ہوں میرے ان خطوط کا اثر ان لوگوں پر ہوا.گو وہ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر میری بات نے ان کے دل پر اثر کیا کیونکہ ان لوگوں میں سے کسی کے متعلق ایسی خبر معلوم نہیں ہوئی کہ اس نے کوئی ایسی حرکت کی ہو جو خلاف قانون ہو.اس سے معلوم ہوا کہ اگر ان لوگوں نے

Page 454

سيرة النبي عمال 440 جلد 2 میرے اشتہارات سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا تو میرے خطوط کے ذریعہ نفع ضرور حاصل کیا.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض نے اس سبق کو جو میں نے انہیں دیا تھا بھلا دیا.انہوں نے میری نصیحت کی قدر نہ کی اور میری حکمت کی علت غائی کو نہ سمجھا.اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے جس طرح نادان دوست اپنے دوست کی امداد کے لئے اٹھتا ہے.ان کی مدد بالکل اسی طرح تھی جس طرح کہتے ہیں کسی نے ریچھ سے دوستانہ ڈالا ہوا تھا اور ان کے بہت گہرے تعلقات تھے.ریچھ اس شخص کی بہت خدمت کیا کرتا تھا.ایک دن وہ کہیں باہر کام کو گیا اس کی ماں جو بیمار تھی اس کے پاس ریچھ کو بٹھا گیا اور اشارے سے بتا گیا کہ مکھیاں اڑاتا رہے.انسان کے ہاتھ میں جس قسم کی چک مختلف قسم کے کام کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے ویسی ریچھ کے پنجہ میں کہاں ہو سکتی ہے.ریچھ لکھیاں اڑاتا مگر وہ پوری طرح نہ اڑتیں.اس پر اس کے دل میں جوش پیدا ہوتا کہ میرا آقا اور محسن مجھے کہہ گیا تھا کہ مکھیاں اڑاتا رہوں مگر یہ اڑتی نہیں.ایک مکھی جو آنکھ پر بیٹھی تھی اسے اس نے بار بارا ڑ ایا مگر ادھر اڑے ادھر پھر آ بیٹھے.ریچھ نے سمجھا اس طرح تو یہ باز نہ آئے گی پاس ایک بڑا پتھر پڑا تھا اسے اٹھا لایا اور عورت کے منہ پر دے مارا تا کہ مکھی مر جائے.سیکھی تو شاید اڑ گئی ہو مگر اس شخص کی ماں پتھر سے مر گئی.ریچھ نے اپنے خیال میں مکھی اڑائی تھی اور اپنے آقا اور محسن سے اخلاص اور محبت کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے اس غرض اور مقصد کو ضائع کر دیا جس کے لئے اسے مکھیاں اڑانے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.پس بعض مسلمانوں نے ایسی تدابیر اختیار کیں جو نیک نامی کا موجب نہیں ہوئیں بلکہ اعتراض کا باعث بن گئی ہیں.اسلام دفاع اور خود حفاظتی سے نہیں روکتا لیکن اسے جائز قرار نہیں دیتا کہ بغیر دفاع کی حالت کے اور بغیر خود حفاظتی کی ضرورت کے یونہی کسی پر حملہ کر دیا جائے.مگر پچھلے دنوں دو واقعات ایسے ہوئے جن میں بیان کیا گیا

Page 455

سيرة النبي عمال 441 جلد 2 ہے کہ بعض مسلمانوں نے بعض ہندوؤں پر حملہ کیا.وہ مسلمان اپنے گھروں اور اپنے محلوں سے چلے اور ہندوؤں کے محلوں اور ان کی درگاہوں پر جا کر انہوں نے حملہ کیا اور اس طرح ان کو زخمی کیا اور ایک کے متعلق تو کہا جاتا ہے اسے مار ڈالا.شاید وہ اپنے نزدیک (اگر انہوں نے یہ فعل کیا ہے ) خیال کرتے ہوں گے کہ انہوں نے اسلام کی خدمت کی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ بھی جو اسلام کی طرف سے تلوار چلانے کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھتے تھے وہ بھی اب کھلے الفاظ میں ایسے لوگوں کے افعال سے حقارت اور نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور بعض مسلمانوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہم شرم کے مارے گرد نہیں اونچی نہیں کر سکتے.میں کہتا ہوں انہوں نے صحیح لکھا ہے اور اگر واقعہ میں ان میں یہی احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ شرم کے مارے گردنیں اونچی نہیں کر سکتے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ انہوں نے برافعل کیا بلکہ میرے لئے یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ جو شخص اسلام کی عزت کی حفاظت کی خاطر ایسا جوش رکھتا ہے اور ہر وہ بات جو اسلام کی بدنامی کا موجب ہو اس پر شرم محسوس کرتا ہے تو یہ اس کی اسلام سے محبت کی علامت ہے.میں نے جب یہ واقعہ پڑھا کہ اس طرح ایک ہندو پر حملہ ہوا ہے تو اُس وقت میں شملہ میں تھا.اُس وقت میں نے ہر مجلس میں اس فعل پر اظہار نفرت کیا.ہندوؤں کے سامنے کم ،صرف ایسے ہندوؤں کے سامنے جنہوں نے اس کے متعلق سوال کیا اور مسلمانوں کے سامنے زیادہ کیونکہ میرے نزدیک اس امر کی تعلیم کی ضرورت مسلمانوں کو تھی کہ ان کے دلوں میں اسلام کی حمیت، حمیت جاہلیہ کے طور پر پائی جاتی ہے اس سے زیادہ نہیں.میرا خیال ہے اس قسم کا دوسرا حملہ میرے قادیان میں آجانے کے بعد ہوا.اسے بھی میں نے سخت نا پسند کیا.درحقیقت ہمارا یہ حق تو نہیں کہ یہ کہ سکیں کہ جن کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حملہ کیا وہ مجرم تھے یا نہیں.لیکن ایک بات ہے جوکھٹکتی ہے اور وہ ان کے اپنے بیانات ہیں جو انہیں مجرم بناتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ ہندومسلمانوں کی دشمنی کی

Page 456

سيرة النبي علم 442 جلد 2 وجہ سے جھوٹے گواہ بنالئے جاتے ہیں.لیکن اس بات کے تسلیم کرنے میں یہ دقت ہے کہ ان لوگوں کے اپنے بیانات ایسے ہیں جو ان پر الزام لگاتے ہیں.پس اس حالت صلى الله ہے میں کہ وہ اپنی زبان سے ایک رنگ میں اقرار جرم کرتے ہیں ہمارے لئے مشکل کہ ہم مجسٹریٹوں کے فیصلوں پر اعتراض کریں یا انہیں غلط قرار دیں.پس جہاں تک ہماری عقل جاتی ہے ہم مجسٹریٹوں کے فیصلہ کی تصدیق کرنے پر مجبور ہیں اور یہ کہنے سے نہیں رک سکتے کہ اگر فی الواقعہ ملزموں نے یہ فعل کیا ہے تو نہایت نا پسندیدہ اور قابل اعتراض فعل کیا ہے.ہاں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پچھلی تحریروں کی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ ہندوؤں کے اشتعال دلانے سے ایسا ہوا ہے جیسا کہ ایک ملزم نے اپنے بیان میں کہا بھی ہے کہ میں دکان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ہندوؤں نے رسول کریم کی ہتک کی اور اس پر لڑائی ہوگئی تو پھر ان کا جرم، جرم نہیں رہتا بلکہ خود حفاظتی ہو جاتی ہے.اگر کچھ لوگ کسی پر حملہ کر دیں تو اس کے ہاتھوں کسی کا زخمی ہو جانا خود حفاظتی ہو گی.لیکن اس بات کو ان کے اپنے بیان ہی رد کرتے ہیں اور جب تک ان کے وہ بیان موجود ہیں جو انہوں نے عدالت میں دیئے ہم مجبور ہیں کہ تسلیم کریں کہ ان کی خود حفاظتی کی حالت نہ تھی بلکہ جیسا کہ مجسٹریٹ نے فیصلہ کیا ہے انہوں نے غلط خیال اور غلط عقیدہ کے ماتحت ایک نادان کی دوستی کے رنگ میں حملہ کیا اور اسلام ایسے حملہ کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے.اور میرے نزدیک ان کے اس فعل نے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ نقصان پہنچایا ہے کیونکہ دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو جوش اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے.مسلمان واقف ہیں کہ ان کے دشمنوں کی قلمیں بہت تیز اور ان کی زبانیں لمبی ہیں.وہ سینکڑوں انسانوں کے خون بہا کر اور ہزاروں گھروں کو جلا کر ، بہت سے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوائیں بنا کر اپنے قلموں کی تیزی اور اپنی زبانوں کی لمبائی کی وجہ سے دنیا میں مجرم قرار نہیں پائے.مسلمانوں کے پاس نہ قلمیں ہیں نہ زبانیں، نہ روپیہ نہ رسوخ.اس لئے خواہ

Page 457

سيرة النبي عمال 443 جلد 2 کوئی مجرم ہو ان کی قوم اور مذہب کا جرم سمجھا جاتا ہے اور اعتراض ساری قوم اور مذہب پر کیا جاتا ہے.کمزور قو میں ہمیشہ اس مصیبت میں مبتلا رہتی ہیں کہ ہر قسم کے عیوب ان کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں اور ان کے افراد کے عیوب بھی ان کے مذہب اور قوم پر چسپاں کئے جاتے ہیں.یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے.کوئی فعل کوئی مسلمان کرے اس کا الزام تمام مسلمانوں اور اسلام پر لگایا جاتا ہے.وہی فعل جو ہزاروں ہندو، ہزاروں سکھ اور ہزاروں عیسائی کر رہے ہیں ان کی قوم اور مذہب پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جاتا.جب کوئی ہندو ایسا فعل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ایک شریر نے ایسا کیا.جب ایک عیسائی وہ فعل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ایک شخص نے ایسا کیا.جب ایک سکھ ایسا فعل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ایک سکھ نے ایسا کیا.لیکن جب مسلمان کہلانے والوں میں سے کسی سے ایسا فعل سرزد ہو تو اس کے متعلق یہ عنوان رکھے جاتے ہیں اسلامی گنڈے کا فعل ، قرآن کی تعلیم کا نتیجہ، محمد کی تعلیم کا اثر.عیسائیوں کے جرم انجیل و توریت کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے.ان کے برے افعال کو حضرت مسیح علیہ السلام سے نسبت نہیں دی جاتی.ہندوؤں کے جرائم ویدوں کی تعلیم ا نتیجہ نہیں بتایا جاتا.حضرت رائم اور کرشن کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے.سکھوں میں سے اگر کوئی جرم کرے تو گرنتھ صاحب کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا نہ سکھ گروؤں کی تعلیم کا اثر قرار دیا جاتا ہے.مگر مسلمان کہلانے والوں کے جرم قرآن کریم کی صلى الله طرف اور رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ مسلمان کمزور ہیں اور کوئی ان کی بات پوچھنے والا نہیں.مگر مسلمانوں کو تو چاہئے کہ اپنی بے بسی اور بے کسی کو سمجھتے ہوئے ایسے افعال سے بچیں جن سے اسلام اور رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر نا واجب اور ناجائز حملہ کا دروازہ کھلتا ہو.وہ انسان جو ایک فرد کے جرم کو ساری قوم کی طرف منسوب کرتا ہے وہ ایک قاتل اور حملہ آور سے بھی زیادہ ظالم ہے کیونکہ حملہ آور ایک انسان پر حملہ کرتا ہے مگر اس نے ساری

Page 458

سيرة النبي ع 444 جلد 2 عليسة قوم پر حملہ کیا.اور ساری قوم پر حملہ کرنے کا جرم ایک انسان پر حملہ کرنے کے جرم سے بہت زیادہ وزن رکھتا ہے.میں وہ الفاظ نہیں پاتا، اپنی زبان میں اتنی قدرت نہیں رکھتا اور اپنی گویائی میں یہ طاقت نہیں دیکھتا کہ جن الفاظ ، جس قدرت اور جس طاقت کے ساتھ ان لوگوں کے فعل پر حقارت اور نفرت کا اظہار کروں جنہوں نے بعض لوگوں پر اس لئے حملہ کیا کہ ان کا اس قوم سے تعلق تھا جس کے افراد نے اسلام یا رسول کریم کی بہتک کی یا جو ایسے لوگوں کے دوست اور مددگار تھے.لیکن اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر میں اپنے آپ کو اس بات کے ناقابل پاتا ہوں کہ ان لوگوں کے فعل کی تحقیر اور تذلیل کر سکوں جنہوں نے افراد کے فعل کو اسلام کی طرف، رسول کریم کی طرف منسوب کیا.انہوں نے فرد پر حملہ کرنے والوں کو برا کہا مگر قوم پر حملہ کرنے والوں کو برا نہ سمجھا.اگر حملہ کرنے والوں کے متعلق ان کا جوش حقیقی اور مخلصانہ ہوتا تو وہ ویسا ہی جوش ان کے خلاف بھی دکھاتے جنہوں نے افراد کے الزام کو ساری قوم پر لگایا.ان کی غیرت اور جوش بتاتا ہے کہ وہ حمیت جاہلیت کا جوش تھا، خدا کے لئے اور حق کے لئے نہ تھا.اگر ہندوؤں پر بعض افراد نے بلا وجہ حملہ کیا تو یہ ان کی غلطی تھی.اسلام اور بانی اسلام کی طرف اس کا منسوب کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہوسکتا.اس غلطی کا وہی ذمہ دار ہے جو ارتکاب کرتا ہے.اسے اگر اس دنیا میں شرم دامن گیر نہیں ہوتی یا وہ سزا نہیں پاتا تو مرنے کے بعد کی زندگی میں جس کے ہندو بھی قائل ہیں ( گووہ یہ کہتے ہیں کہ مختلف جونوں میں جانا پڑتا ہے ) اسے بدترین جون میں ڈالا جائے گا.اور اگر حشر نشر کا عقیدہ صحیح ہے اور میرے نزدیک یہی صحیح ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے اس لئے اگر کوئی اس دنیا کی گورنمنٹ کی سزا سے بچ جائے تو وہاں محفوظ نہ رہ سکے گا.اگر چہ ہندوؤں کی یہ روش نہایت ہی افسوس ناک ہے لیکن ہمیں ان کا معاملہ خدا کے سپرد کرنا چاہئے.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے لئے قتل کو حقارت کی نظر سے دیکھیں اور اگر کوئی اس کا مرتکب ہو تو اس سے ہمدردی نہیں ہونی

Page 459

سيرة النبي علي 445 جلد 2 چاہئے.مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اگر کسی کو خواہ مخواہ مجرم بنایا جائے تو مسلمان ہندوؤں سے اس لئے ہمدردی کا اظہار کریں کہ اپنے اخلاق کی وسعت دکھا ئیں.بعض لوگ منافق ہوتے ہیں جو اپنی قوم پر جرم لگاتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اخلاق کی اصلاح چاہتے ہیں مگر واقعات خود بخود بولتے اور ایسے لوگوں کے چہرے آپ ہی ان کی حالت بتا دیتے ہیں.مثلاً وہی شخص جسے راجپال پر حملہ کرنے والا کہا جاتا ہے اپنے گھر بیٹھا ہوتا اور راجہاں اس پر حملہ کرتا اس وقت خود حفاظتی میں خود زخمی ہو جاتا یا اسے زخمی کر دیتا اور مسلمان کہتے اس نے بہت برا کیا تو میں کہتا ایسے مسلمان منافق ہیں جو ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں پر الزام لگا رہے ہیں اور اپنے نفاق کو اپنے بھائی کی دشمنی کے پردہ میں چھپا رہے ہیں.اور جسے وہ روشنی سمجھ رہے ہیں وہ روشنی نہیں بلکہ روغن قاز ہے یا تارکول ہے جس سے اپنا چہرہ سیاہ کر رہے ہیں.لیکن جہاں بات بالکل عیاں نہ ہو بلکہ کچھ اخفا ہو وہاں قوم کا فرض ہے کہ جو افراد پھنس گئے ہوں ان کی مدد کرے.مثلاً جس طرح ایک شخص کا بیان ہے کہ میں پاس سے گزر رہا تھا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی سنی اس پر میری ان سے لڑائی ہوگئی.یہ ایسا بیان ہے جو امکان رکھتا ہے کہ درست ہو.گو اس کے بعد کا بیان اسے مجرم بنانے کے لئے کافی ہے مگر جہاں بیان کے درست ہونے کا امکان ہوایسی حالت میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ مدد کریں اور جب تک جرم ثابت نہ ہو امداد سے پہلو تہی نہ کریں.لیکن ایک جرم بالبداہت ظاہر ہوتا ہے.جیسے راجپال نے کتاب شائع کی اور ہندوؤں نے اس کی مدد کی.یہ ظالمانہ فعل کیا.اسی طرح اس قسم کا کیس جس طرح کا سوامی شردھانند کا تھا اس میں مدد کرنا میں نامناسب سمجھتا ہوں.اس مقدمہ میں ایک احمدی بیرسٹر بلائے گئے جس پر میں نے ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ کم از کم میرے نزدیک ملزم کا جرم ثابت تھا.ایک مرا ہوا آدمی پایا گیا.عین اس موقع پر ملزم کو پکڑا گیا جس کے ہاتھ میں پستول تھا اور اسی پستول کی گولیاں مقتول کے جسم سے نکلیں.ایسی

Page 460

سيرة النبي عالي 446 جلد 2 حالت میں کون امید کر سکتا ہے کہ سوامی شردھانند کے رشتہ داروں نے انہیں خود مارکر ایک شخص کو پکڑ لیا.یہ عقل کے خلاف ہے.ملزم کا وہاں ہونا، عین موقع پر پکڑا جانا، اس کے ہاتھ میں پستول ہونا، پستول کی گولیوں کا مقتول کے جسم سے نکلنا، یہ ایسے واقعات نہیں ہیں کہ جرم ثابت نہ ہو.ایسی مثال میں مجرم کی مدد کرنا میرے نزدیک جائز نہیں.ہاں عدالت کا فرض ہے کہ اس کے لئے وکیل مقرر کرے تا کہ کیس ان ڈیفنڈ ڈ (Undefended) نہ رہے.لیکن جہاں ایسا کھلا کیس نہ ہو جیسا کہ راجپال اور عبدالرشید کا تھا وہاں مسلمانوں کا حق ہے کہ ملزم کی مدد کریں.پس میرے نزدیک یہ غلطی ہوئی.پیشتر اس کے کہ لاہور کے مقدمات میں مجرم ثابت ہوں ملزموں کو اپنی حفاظت کا موقع نہیں دیا گیا اور ان کی طرف سے وکیل مقرر نہیں کیا گیا.صرف ایسے واقعات کا جمع ہو جانا جن سے جرم کا اشتباہ ہو مجرم قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتا.اور اس کے ساتھ ملزم کے دفاع کے حقوق نہیں جاتے رہتے.لیکن ارتکاب جرم کے یقین تک پہنچنے کے بعد مجرم کی مدد کرنا جائز نہیں ہے.اور لاہور کے جو دونوں ملزم تھے ان کے متعلق یقین کا موقع نہ تھا.یقین اسی وقت ہوا جب مجسٹریٹ نے تحقیقات کی.میرے نزدیک مسلمان وکلاء سے غلطی ہوئی کہ وہ ان ملزموں کی مدد کے لئے کھڑے نہ ہوئے.اور پھر دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کھڑے نہ ہونے پر فخر کیا.انہیں مقدمہ کے شروع ہونے کے وقت ضرور امداد دینی چاہئے تھی.ہاں جب جرم ثابت ہو جاتا تو مقدمہ چھوڑ سکتے تھے.جن واقعات کا اس وقت ذکر ہے ان میں الزام ثابت نہ ہوا تھا کہ قانونی امداد نہ دی گئی.جس کا یہ مطلب ہے کہ بیسیوں ایسے لوگ پکڑے جائیں گے جنہوں نے کوئی جرم نہ کیا ہو گا مگر مسلمان ان کی امداد کرنا چھوڑ دیں گے اور وہ مصائب اور آلام میں گرفتار ہو جائیں گے.میرے نزدیک یہ بہت بڑی غداری ہو گی.جب کسی کے اپنے بیان سے جرم ثابت ہوتا ہے تو اس کی امداد کرنا ظالمانہ فعل ہے.لیکن جب تک جرم ثابت نہ ہو بغیر مدد کے چھوڑ دینا

Page 461

سيرة النبي عمال 447 جلد 2 قومی غداری ہے.باقی یہ کہنا کہ ان مقدمات میں سزا سخت دی گئی ہے اگر جرم ثابت ہے تو پھر سزا سخت نہیں.میرے خیال میں اس سے بھی سخت ہونی چاہئے تھی.کوئی وجہ نہیں کہ بغیر اشتعال اور بغیر خود حفاظتی کے کسی کو قتل کیا جائے.یہ بہت بڑا ظالمانہ فعل ہے.کسی نے مجھ سے کہا ان مجرموں کو بہت سخت سزا دی گئی ہے.میں نے کہا ذرا اپنے او پر قیاس کر لو.اگر تمہارے کسی آدمی پرحملہ ہو تو تم حملہ آور کے لئے کیسی سزا چاہو گے.غرض جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزموں کی مدد کرنا قومی فرائض میں سے ہے نہ کہ قومی رعایت.ہاں جب جرم ثابت ہو جائے تو مدد کرنا شریعت کے خلاف ہے.ہمارا نقطہ خیال یہ ہے کہ ان لوگوں کا جرم شروع میں ثابت نہ تھا.اُس وقت ان کو مسلمانوں کی طرف سے قانونی مددملنی چاہئے تھی.اگر انہوں نے خود کسی کو وکیل کھڑا نہیں کیا تو یہ ان کا کام تھا لیکن اگر انہوں نے وکیل کھڑا کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے ان کا مقدمہ لینا منظور نہ کیا تو انکار کرنے والوں نے قومی غداری کی.اور سزا کے متعلق ہماری یہ رائے ہے کہ جہاں ایسے جرم ثابت ہو جائیں وہاں ضرور سخت سزا دینی چاہئے تا کہ دوسروں کے لئے عبرت کا موجب ہو اور نادان لوگ قوم کو بدنام نہ کریں.اس میں اسلام اور مسلمانوں ہی کا فائدہ ہے کہ دوسرے سخت سزاؤں سے ڈر کر اس قسم کے افعال کے مرتکب نہ ہوں گے اور مسلمانوں کے لئے بدنامی کے سامان نہ پیدا کریں گے.ہمیں جو کچھ کہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ مجرم تھے یا نہیں.ہمیں اس کے لئے اپیل یا دوسرے طریقوں سے کوشش کرنی چاہئے.لیکن جب جرم ثابت ہو جائے خواہ شریعت کے قانون کی رو سے یا گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت تو اس صورت میں سزا کو سخت نہیں کہیں گے.ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جرم ثابت نہیں پھر سزا کیوں دی گئی لیکن جب جرم ثابت ہو جیسا کہ میرے نزدیک یہاں ثابت ہے ( میں یہ نہیں کہتا کسی اور کے نزدیک بھی ثابت ہے یا نہیں ) تو پھر ضروری ہے کہ سزا سخت ہو بلکہ ایسے لوگوں نے چونکہ اسلام کو بدنام کیا ہے اس لئے ہماری خواہش ہے کہ اور بھی سخت ہو.ان لوگوں

Page 462

سيرة النبي علي 448 جلد 2 نے نہ صرف اسلام کو بدنام کیا ہے بلکہ ان کے افعال کا ایک اور نہایت خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سے مسلمان ڈر گئے ہیں اور انہوں نے وہ جد و جہد چھوڑ دی ہے جو اپنی اصلاح اور ترقی کے لئے شروع کی تھی اور جس کی بنیاد میرے ذریعہ پڑی تھی مسلمان اسے چھوڑ بیٹھے ہیں.ان واقعات کو دیکھ کر کہ مسلمان پکڑے گئے اور ان کو سزائیں ملیں کمزور طبائع یونہی ڈر گئی ہیں کہ ہم بھی کہیں پکڑے نہ جائیں اور کسی مصیبت میں پھنس نہ جائیں.ورنہ جو امن کے ساتھ رہتا اور خود حفاظتی کرتا ہے اسے کون پکڑ سکتا ہے اور کون سزا دے سکتا ہے اور اسے ڈرنے کی کیا وجہ ہے.اس میں شبہ نہیں کہ دشمنی اور عداوت کی وجہ سے بے گناہ بھی پکڑے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو اس طرح پکڑنے کی وہ لوگ کوشش کریں گے جن کو مسلمانوں کی جائز جد و جہد سے نقصان پہنچے گا اور جن کے وہ فوائد بند ہو جائیں گے جو مسلمانوں سے حاصل کرتے تھے.میں نے دیکھا ہے اگر کوئی زمیندار کسی کی زمین پر پانچ چھ سال قابض رہے اور جب زمین والا اس سے زمین مانگے تو غصہ اور ناراضگی کا اظہار کرتا ہے.مگر ہندوؤں نے تو سینکڑوں سال سے مسلمانوں کے حقوق اور اموال پر قبضہ کیا ہوا تھا وہ اب کیوں ناراض نہ ہوں گے.مگر اس سے مسلمانوں کو ڈرنا نہیں چاہئے.لیکن جیسا کہ مجھے اطلاعیں پہنچ رہی ہیں مسلمان اب ڈر گئے ہیں اور خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ یونہی گورنمنٹ پکڑ کر انہیں جیلوں میں ڈال دے گی.گورنمنٹ بھی انسانوں پر مشتمل ہے اور وہ بھی غلطی کر سکتی ہے.مگر یہ بھی تو ہے کہ گورنمنٹ میں سب راجپال نہیں بیٹھے ہوئے.بہر حال قانون موجود ہے ایک غیر قوم حکمران ہے جو عقلمند ہے.معاملات کی تہہ تک پہنچ سکتی ہے.بے شک گورنمنٹ کے محکموں میں ہندوؤں کا رسوخ ہے، ان کی کثرت ہے مگر ہر معاملہ کی تحقیقات ہو گی ، ثبوت پیش کئے جائیں گے.ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہ تھی.مگر کمزور طبائع بھی ہوتی ہیں وہ ڈر گئی ہیں.اس طرح ان مجرموں نے اس کام میں روک ڈال دی ہے اور اس کے مقابلہ

Page 463

سيرة النبي علي 449 جلد 2 میں اپنے افعال سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ ہندوؤں کو فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ کسی قوم کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے اس کی مظلومیت کے واقعات بڑے مؤثر ہوتے ہیں.عیسائیوں کو دیکھو! حضرت مسیح کی مظلومیت انیس سو سال سے ان کو قوت اور طاقت دے رہی ہے.اسی طرح شیعوں کو دیکھو! حضرت امام حسین کی شہادت نے ان کو کس قدر تقویت دی ہے.اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو ان کو یہ ترقی حاصل نہ ہو سکتی.تو مظلومیت کی حکایت کمزور قوم کو بھی طاقت ور اور زبر دست بنا دیتی ہے.پس یہ واقعات جو ہوئے اسلام کے لئے مضر اور ہندوؤں کے لئے مفید ہیں.کسی نے کہا ہے خدا مجھے نادان دوستوں سے بچائے.میں مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے واقعات کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھیں تا کہ آئندہ کسی اور کو جرات نہ ہو.ہاں جب تک جرم ثابت نہ ہو اُس وقت تک چھوڑ دینا غداری ہے کیونکہ ممکن ہے ملزم بے گناہ ہو اس نے جرم نہ کیا ہو.اُس وقت ہمدردی اور امداد سے انکار کرنا قومی غداری ہے.اگر انہوں نے خود مدد نہیں مانگی تو پھر مدد دینے والوں کا قصور نہیں لیکن مدد مانگنے پر مدد نہ دینے والے ضرور قصور وار ہیں اور اگر انہوں نے مدد مانگی نہیں تو پھر یہ فخر کرنا کہ ہم نے ان کو مدد نہیں دی یہ نا درست ہے.لیکن جب جرم ثابت ہو گیا اس وقت یہ کہنا کہ سزا سخت ہے ناجائز ہے.میرے نزدیک سزا اور سخت دینی چاہئے تھی تا کہ آئندہ لوگ ایسے جرائم نہ کریں.یہ بات اسلام کے لئے مفید اور ہندوؤں کے لئے مضر ہے.جتنی سزا ہو گی اتنی ہی ہندوؤں کے لئے مضر ہو گی کیونکہ اس طرح ان کا غصہ کم ہو جائے گا کہ انتقام لے لیا گیا مگر ہمارے لئے مفید ہو گی.میں ہر طرح اخلاقی، طبعی، سیاسی اور تمدنی طور پر غور کرنے سے اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بزدلوں سے ایسے افعال ہوتے ہیں کوئی بہادر اور دلیر انسان ایسا نہیں کرتا.اس لئے ایسے لوگ سختی سے ڈر بھی جلدی جاتے ہیں اور ان کے ڈرنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ ایسے واقعات نہ ہوں گے.پس اسلامی نقطہ نگاہ سے تو ہم یہی کہیں گے کہ اور بھی زیادہ

Page 464

سيرة النبي ع 450 جلد 2 سزا ہو.باقی قانون جو سزا دے سکتا ہے حکام اتنی ہی دیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ اسلام کی خدمت ایسے مستقل طریق سے کریں جس میں تزلزل نہ واقع ہو.ان کا استقلال اور ثبات نہ جائے.وہ ایسے کاموں میں دخل نہ دیں جو شریعت کے خلاف ہوں.انہیں اتنا تو سوچنا چاہئے کیا شریعت ہمیں بے بس چھوڑ دے گی اور اسلام بغیر ہتھیار چھوڑ دے گا.ہر جرم کو روکنے کے لئے اسلام میں شرافت اور امن کے ساتھ استعمال کرنے والے ذرائع موجود ہیں.مثلاً تمدنی ترقی کا ذریعہ ایسا ہے کہ اس سے ہم اس قوم کی آنکھیں کھول سکتے ہیں جو ہمارے مذہب پر نا پاک حملے کرتی ہے.ایسے ذرائع کو چھوڑ کر فساد پھیلانے والے طریق اختیار کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے جو اسلام کی ترقی کے لئے مفید ہیں اور ایسے لوگوں کو ہدایت دے جو اپنے نفسانی جوش کے ماتحت اسلام کی بدنامی کا موجب ہو جاتے ہیں.“ (الفضل 8 نومبر 1927ء) ا

Page 465

سيرة النبي عالم 451 جلد 2 رسول کریم اللہ کا خوف خدا حضرت مصلح موعود 23 دسمبر 1927ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کا طریق تھا کہ آپ ہر جگہ اور ہر موقع سے اس کے مطابق عبرت حاصل کرتے اور صحابہ کو اس طرف توجہ دلاتے.ایک دفعہ جنگ کے لئے جا صلى الله رہے تھے کہ رستہ میں ایک ایسی قوم کے کھنڈر پڑے جس پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا.رسول کریم ﷺ نے دیکھا لوگ اس جگہ آرام سے بیٹھے اور کھانے پکانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.ان کھنڈرات کو دیکھ کر آپ پر گہرا اثر ہوا.اور آپ نے صحابہ سے فرمایا یہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا ہے یہاں سے خشیت پیدا ہونی چاہئے.اور فرمایا یہاں سے جلدی سامان اٹھا لو اور نکل چلو 1.اس وقت جو لوگ آٹے میں پانی ڈال چکے تھے انہیں فرمایا آٹا پھینک دو.غرض اس جگہ سے آپ نے جلدی چلنے کا حکم دیا اور فرمایا جہاں خدا کا عذاب نازل ہوا ہو وہاں نہیں ٹھہر نا چاہئے.خدا کا عذاب صرف اسی خاص جگہ نازل نہیں ہوا تھا ہر جگہ اور ہر بستی میں ایسے مقام نظر آ سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے غضب کے مورد ہو چکے ہیں.کئی گھر ایک جگہ ایسے آباد نظر آتے ہیں کہ سارا گاؤں یا سارا شہر ان کی آبادی پر حیرت ظاہر کرتا ہے.مگر ان پر ایسی تباہی آتی ہے کہ کوئی انسان ان میں باقی نہیں رہتا.اس خاندان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے.اس کے آثار بالکل ناپید ہو جاتے ہیں.ایسے گھروں سے بھی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے.مگر ہمیں گھروں کو بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں.اگر اپنی حالت پر ہی نظر ڈالیں ، اگر ہم صرف یہی دیکھیں کہ ہم کیا چیز تھے اور اب کیا ہیں تو صاف نظر آ جاتا ہے

Page 466

سيرة النبي علي 452 جلد 2 کہ ہر مسلمان ایک مٹا ہوا نشان ہے.آج ہی میں نے ان عورتوں کو جو جلسہ کی کارکن ہیں اور جنہوں نے عورتوں کے متعلق جلسہ میں انتظام کرنا ہے نصیحت کرتے وقت کہا تھا کہ ہمارے لئے کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں چھ سو سال تک ایک مسلمان چپڑاسی کی بھی کوئی بہتک کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.لیکن اب یہی ملک ہے جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری شنوائی کے حلقہ کے اندر محمد رسول اللہ علیہ کو بھی گالیاں دی جاتیں اور ہمیں بھی برا بھلا کہا جاتا ہے مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے.پھر کیا ہندوستان کی چپہ چپہ زمین ہمارے لئے عبرت کی جگہ نہیں ہے؟ پس ہمارے اپنے وجود ہی ہمارے لئے عبرت کی جگہ ہیں.ہم کن باپ دادوں کی اولاد ہیں؟ ان کی کہ جو اٹھے تو کوئی طاقت ان کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکی اور جب انہوں نے اپنی گردنیں اونچی کیں تو دنیا کی گردنیں ان کے آگے جھک گئیں.مگر اب ہر شعبہ زندگی میں مسلمان ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں.“ ( الفضل 3 جنوری 1928ء) 1 بخاری کتاب المغازی باب نزول النبى الله الحجر صفحہ 752 حدیث نمبر 4419، 4420 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية

Page 467

سيرة النبي الله 453 جلد 2 رسول کریم ع کے پہرہ کی حکمت جلسہ سالانہ قادیان 27 دسمبر 1927ء میں حضرت مصلح موعود نے رسول کریم کے پہرہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر دین کے لئے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کی خواہش اور کس کو ہو سکتی ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کا خطرہ ہوتا تو صحابہ آپ کی حفاظت کرتے اور قبیلہ قبیلہ کے لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی اجازت دیتے.اور اُس وقت جبکہ لوگ پہرہ دے رہے ہوتے آپ بعض اوقات ان سے باتیں کرنے کے لئے باہر تشریف لے آتے تا کہ ان کا دل خوش ہو.چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احتیاط کرنے کا حکم ہے اس لئے ہم بھی احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہیں ورنہ ایسی باتیں مومن کے لئے خوشی کا باعث ہوتی ہیں.ہم خدا تعالیٰ کے پرستار ہیں اور اس خدا کے پرستار ہیں جو ہر قسم کی طاقت اور قوت رکھتا ہے.کسی انسان کے پرستار نہیں ہیں اس لئے جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے کام، اپنے آپ چلاتا ہے اور ان کے لئے آپ سامان پیدا کرتا ہے، بندوں پر خدا تعالیٰ کے کاموں کا انحصار نہیں ہوتا.بندوں میں سے سب سے بڑا درجہ رسول کا ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے کاموں کا انحصار رسول پر بھی نہیں ہوتا.پھر خلیفہ کیا!! خلیفہ تو رسول کا غلام ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ اپنا کام آپ چلاتا ہے کوئی رہے یا نہ رہے، کوئی بچے یا نہ بچے اس کا کام چلتا ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا.‘ تقریر دلپذ یر صفحہ 4 مطبوعہ قادیان 1928ء)

Page 468

سيرة النبي عالم 454 جلد 2 مسلم آؤٹ لگ کا واقعہ حضرت مصلح موعود نے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1927ء میں مسلم آؤٹ لگ کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:.اسی دوران میں مسلم آؤٹ لگ“ کا واقعہ پیش آ گیا.اس اخبار میں ایک ایسا مضمون شائع ہوا جس میں سختی سے ایک ہائی کورٹ کے ایک حج کے اس فیصلہ پر جو راج پال کے متعلق کیا گیا تھا جرح کی گئی تھی.میں اُس وقت بھی حقیقی طور پر اس مضمون میں بعض غلطیاں محسوس کرتا تھا اور اب بھی محسوس کرتا ہوں مگر جس بنا پر ایڈیٹر اور پرنٹر مسلم آؤٹ لگ پر مقدمہ چلایا گیا وہ غلط تھی.وہ مضمون اس وجہ سے لکھا گیا تھا کہ اس فیصلہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہر ایک شخص کو چھوڑا جا سکتا ہے اور مسلمانوں کے لئے امن کی کوئی صورت نہیں.اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کو دیکھنا چاہئے تھا کہ وہ مضمون کیسی حالت میں لکھا گیا اور آیا اس میں ہائی کورٹ کی ہتک مقصود ہے یا اپنے ٹھیس لگے ہوئے جذبات کا اظہار ہے.پس گو میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس مضمون کا لہجہ ایسا نہ تھا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا مگر جس بنا پر مقدمہ چلایا گیا وہ درست نہ تھی.چونکہ اس مضمون کی وجہ سے مسلم آؤٹ لگ کے پروپرائیٹر اور ایڈیٹر کو سزا دے دی گئی اس لئے مجھے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلانی پڑی کہ جو کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کے خلاف آواز اٹھائے وہ تو فوراً جیل خانہ بھیجا جا سکتا ہے اور ہتک کرنے والا ہر قسم کی سزا سے محفوظ رہ سکتا ہے.

Page 469

سيرة النبي الله 455 جلد 2 ،، دو مسلم آؤٹ لگ کے مضمون میں اس امر پر اظہار ناراضگی کیا گیا تھا کہ قابل جج کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دینا اور بات ہے اور قوم میں نفرت پیدا کرنا اور امر ہے.گویا حج نے یہ قرار دیا تھا کہ اگر کسی کے باپ کو گالی دی جائے تو اس سے اس شخص کو جوش پیدا ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کے رسول کو گالی دی جائے تو پھر جوش نہیں پیدا ہوسکتا.ہم ایک ہندوستانی حج سے جومسلمانوں کے مذہبی جذبات اور احساسات سے واقفیت رکھتا تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق مسلمانوں کے اخلاص اور محبت سے آگاہ تھا اس قسم کے فیصلہ کی توقع نہ رکھتے تھے.مگر عجیب بات ہے کہ وہ ہندوستانی ہو کر، ہندوستان میں رہ کر، ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے واقف ہو کر یہ خیال کرتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی جائیں تو اس سے مسلمانوں میں نفرت اور حقارت کے جذبات نہیں پیدا ہو سکتے اور نہ جائز طور پر فساد پیدا ہوسکتا ہے لیکن اگر خود ان کو گالیاں دی جائیں تو پھر جائز طور پر فساد ہوسکتا ہے.یہ اس حج کی ناواقفیت تھی جس پر مسلم آؤٹ لگ نے جرح کی تھی نہ ہائی کورٹ پر حملہ کیا تھا.میرے نزدیک ہائی کورٹ پر حملہ کرنا سخت نا جائز ہے اور اگر ایسا کیا جاتا تو میں کبھی تائید نہ کرتا لیکن یہ بات ہی نہ تھی.ایک حج کی بطور حج ہتک نہ کی گئی تھی بلکہ اس بات کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی کہ ایک ایسا شخص جو مسلمانوں میں رہتا، مسلمانوں کے مذہبی عقائد سے واقفیت رکھتا، ان کے مذہبی جذبات اور احساسات کو سمجھتا تھا اس نے یہ فیصلہ کیونکر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک سے مسلمانوں میں جائز طور پر جوش نہیں پیدا ہوسکتا.آخر جب ایڈیٹر مسلم آؤٹ لگ“ کو سزا دی گئی تو میں نے 22 جولائی کو ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے جلسہ کرنے کی تحریک کی.مجھے خیال تھا کہ عام طور پر مسلمان اس تحریک کی مخالفت کریں گے اور جلسہ نہیں ہونے دیں گے اس وجہ سے میں تحریک لکھ لینے کے بعد اپنے مضمون میں سے اسے کاٹنے لگا تھا لیکن پھر

Page 470

سيرة النبي عمال 456 جلد 2 مجھے یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی طرف سے تو یہ تحریک لکھی نہیں خدا تعالیٰ نے مجھ سے لکھائی ہے وہی اس کو کامیاب بنانے کا سامان کرے گا.پھر اگر چہ اس کی مخالفت کی گئی مگر با وجود اس کے سارے ہندوستان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس تحریک کے ماتحت 22 جولائی کو جلسے کئے گئے.مسلمانوں میں خاص بیداری پیدا ہوگئی اور اخباروں نے لکھا کہ ایسا شاندار مظاہرہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا.اس سے مسلمانوں کو محسوس ہو گیا کہ اگر وہ مل کر آواز اٹھائیں تو وہ پُر شوکت اور پُر ہیبت ہو سکتی ہے.اسی دوران میں اس کام کو مضبوط بنانے کے لئے انجمن ترقی اسلام کی بنیا د رکھی گئی تا کہ اس کے ذریعہ ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو عام اسلامی کاموں میں مدد دے سکیں.چنانچہ مختلف فرقوں کے ایسے ایک ہزار آدمیوں نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو ہمارے سلسلہ سے سخت مخالفت رکھتے تھے حتی کہ کسی احمدی سے مصافحہ کرنا بھی جائز نہ سمجھتے تھے.چنانچہ یو.پی کے ایک پیر صاحب نے لکھا کہ میں آپ کے سلسلہ کے سخت خلاف تھا اور کسی احمدی سے بات کرنا بھی جائز نہ سمجھتا تھا مگر اب سیاسی اور تمدنی معاملات میں گلی طور پر اپنے آپ کو آپ کے اختیار میں دیتا ہوں.غرض ہر طبقہ کے لوگ اس انجمن میں داخل ہوئے.ان میں رؤسا بھی ہیں، علماء بھی ہیں، پیر بھی ہیں، انگریزی خوان بھی ہیں اور ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے.اور اس تحریک کو اس قدر کامیابی ہوئی ہے کہ پہلا اشتہار دس ہزار کی تعداد میں مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا تھا مگر اس میں سے بھی کچھ بچ رہا لیکن آخری اشتہار اس سلسلہ کا جو شائع ہوا وہ سات ہزار شائع کیا گیا اور پہلے ہی دن ختم ہو گیا.اگر اس انتظام کو اور مضبوط بنایا جائے تو دس لاکھ اشتہار بھی پورے نہ ہوسکیں اور ایک ماہ میں تمام مسلمانوں کو بیدار کیا جاسکتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کا بہت اچھا نتیجہ نکلا اور مسلمانوں کو

Page 471

سيرة النبي عالم 457 جلد 2 محسوس ہو گیا کہ ان کی تمدنی اور سیاسی نجات آپس کے اتحاد میں ہے اور ان میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ کامیابی مل کر کام کرنے سے ہی ہو سکتی ہے.“ ( تقریر دلپذیر صفحہ 11 تا 14 مطبوعہ قادیان 1928ء)

Page 472

سيرة النبي الله 458 جلد 2 سیرت رسول عے کے حوالے سے ایک منصوبہ 27 دسمبر 1927ء کے خطاب میں ہی حضرت مصلح موعود نے رسول کریم کی سیرت اور آپ پر حملوں کے دفاع کا اعلان کرتے ہوئے ایک سکیم کا اعلان فرمایا:.”اب میں آخری بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو نہایت اہم ہے.دیکھو ساری مصیبت مسلمانوں کے لئے یہ ہے کہ وہ استقلال سے کام نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالف دلیر ہوتے جاتے ہیں.جو دشمن اٹھتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے لگ جاتا ہے.ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا حملہ ہوتا ہے مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ جس طرح بچے آپس میں کہتے ہیں آؤ چور چور کھیلیں، اس کھیل کے لئے ایک پولیس مین بن جاتا ہے دوسرا چور بن جاتا ہے چور کو پکڑ کر سزا دی جاتی ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ چور اور پولیس مین بننے والے ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر چلے جاتے ہیں.اسی طرح مسلمان کرتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت پر حملہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں آؤ رسول اللہ ﷺ کی عزت کا کھیل کھیلیں.اُس وقت ان میں بڑا جوش ہوتا ہے مگر دوسرے وقت بالکل ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.اگر مسلمانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی عزت کا احساس ہو تو کبھی آپ کی عزت کی حفاظت سے غافل نہ ہوں.پچھلے دنوں جب آریوں کی طرف سے پے در پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف حملے ہوئے اور میں نے مسلمانوں کو اس کے مقابلہ کے لئے صحیح طریق عمل

Page 473

سيرة النبي علي 459 جلد 2 بتایا تو کئی خطوط میرے پاس آئے جن میں لکھا تھا کہ تم نے بہت بزدلی سے کام لیا ہے جو یہ لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنے والے کو مارنا نہیں چاہئے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بینک کرے اسے کیوں مارنا نہیں چاہئے.آپ مسلمانوں کو اس بزدلی کی تعلیم نہ دیں.ایک دو خطوط جن میں پتہ درج تھا میں نے انہیں قائل بھی کیا کہ ان کی رائے غلط ہے مگر اب یہ حالت ہے کہ ان لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی حفاظت کا خیال بھی نہیں رہا اور وہ آپ کی ہتک کرنے والوں کے دوست بن گئے ہیں.ہم خود چاہتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں میں صلح ہو اور ملک کی ترقی کے لئے ہندو مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کرنے والی کوئی بات نہ ہو.کیا کوئی ہے جو اس بات کی ذمہ داری لے کہ اب ہندوؤں کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی نا پاک کتاب شائع نہ ہوگی اور اسلام پر دل آزار حملے نہ کئے جائیں گے؟ اب نہ تو ایسے حملوں کا احتمال جاتا رہا ہے اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا کوئی سامان ہوا ہے پھر ہندو مسلمانوں میں اتحاد کس طرح ہو سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر کیوں حملہ کی جرات پیدا ہوتی ہے اور کیوں اس نا پاک فعل کے ارتکاب کی دلیری کی جاتی ہے؟ اس کی دو وجہیں ہیں.ایک یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو ایسے برے طور پر پادریوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ غیر مسلم لوگ واقعہ میں آپ سے بغض اور نفرت رکھتے ہیں اور اکثر حصہ ایسا ہے کہ چاہے وہ منہ سے آپ کو گالی نہ دے مگر دل میں سمجھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اس وجہ سے آپ کے خلاف نا پاک حملے کئے جاتے ہیں.دوسری وجہ یہ ہے کہ خود مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے دنیا کے سامنے آپ کی ذات کو ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ

Page 474

سيرة النبي علم 460 جلد 2 پ کے متعلق کسی کو محبت اور اخلاص نہیں پیدا ہوسکتا.اس سال میں قصور گیا تو وہاں ایک ہندو نے مجھے سے ایسی باتیں کیں جنہیں سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا.اس نے کہا یہ کیا بات ہے کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب کوئی مولوی تعریف کرتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ آپ کی زلفیں ایسی خوبصورت تھیں، آپ کی آنکھیں ایسی رسیلی تھیں، آپ کے عارض ایسے دلکش تھے.مذہبی تفوق کو زلفوں اور آنکھوں کی خوبصورتی سے کیا تعلق ، اس کے لئے مذہبی خوبیاں پیش کرنی چاہئیں.بات یہ ہے که مسلمان خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات سے ناواقف ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر جو حملے کئے جاتے ہیں ان کو دور کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ غیر مسلموں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے متعلق بہترین پرو پیگنڈا کیا جائے.میں اس کے لئے کئی تجویز میں پیش کرتا ہوں..(1) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائف میاں بشیر احمد صاحب نے لکھنی شروع کی تھی معلوم نہیں اب انہوں نے اسے کیوں چھوڑا ہوا ہے.اس وقت تک جو مختصر سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں ان سے یہ بہت اعلیٰ اور عمدہ ہے.اگر وہ اسے مکمل کریں تو کوشش کر کے اس کی بکثرت اشاعت کی جائے.میاں بشیر احمد صاحب ہمت کریں اور اسے مکمل کر دیں.(2) اس سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے متعلق دو اور کتابیں لکھی جائیں.ایک کتاب تو ایسی ہو جس میں لڑکوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے ایسے واقعات بتائے جائیں جس سے وہ سبق حاصل کریں اور دوسری ایسی ہو جس میں لڑکیوں کے متعلق آپ کی زندگی کے سبق آموز اور نصیحت خیز واقعات ہوں.میں نے دیکھا ہے عیسائیوں نے حضرت مسیح کی زندگی کے متعلق کئی رنگ کی

Page 475

سيرة النبي علي 461 جلد 2 کتابیں لکھی ہیں.کوئی لڑکوں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے کوئی لڑکیوں کو، کوئی عورتوں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے کوئی مردوں کو، کوئی بوڑھوں کو.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے حالات لکھنے جو بیٹھتا ہے وہ یہی لکھتا ہے فلاں سن میں آپ پیدا ہوئے ، اتنی لڑائیاں لڑیں ، اتنے کا فرمارے اور فلاں سن میں فوت ہو گئے.اس سال یہ تین کتابیں لکھی جائیں جن میں سے ایک کے لکھنے کا میں وعدہ کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو لڑکوں کے متعلق سوانح کا جو حصہ ہے وہ میں لکھوں گا.اس کے ساتھ ہی میں ایک اور وعدہ بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سیرت احادیث کی بنا پر لکھنی شروع کی تھی اس کا کچھ حصہ شائع ہوا تھا اور اس قدر پسند کیا گیا کہ مخالفین تک نے اقرار کیا تھا کہ تیرہ سو سال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی سیرت ایسی دلکش نہیں لکھی گئی.میں کوشش کروں گا کہ اسے بھی مکمل کر دوں.اس کے میں نے تین حصے کئے تھے ان میں سے تیسرا حصہ لکھنا باقی ہے اور اس کے سارے نوٹ لکھ رکھے ہیں میں اسے بھی مکمل کرنے کی کوشش کروں گا.تیسری کتاب جولڑکیوں کے متعلق ہے وہ میری کتاب کے نمونے کے بعد کوئی دوست لکھیں یا اگلے سال میں خود ہی اسے لکھوں گا.“ اس موقع پر مولانا مولوی عبد الماجد صاحب پروفیسر عربی بھاگلپور کالج نے وعدہ کیا کہ یہ کتاب وہ لکھیں گے.یہ ایک نہایت ہی اہم کام ہے لیکن اس کے علاوہ ایسی کوشش کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق مسلمانوں میں جو تھوڑی بہت بیداری پیدا ہوئی ہے اسے قائم رکھا جائے.اس کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.تجویز یہ ہے کہ 20 جون کے دن جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی حفاظت کرنے والے شخص کو سزا دی گئی تھی سارے ہندوستان میں

Page 476

سيرة النبي عله 462 جلد 2 تین مضامین پر تقریریں ہوں.(1) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا قربانیاں کیں.(2) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی یعنی کس طرح آپ نے نبیوں بلکہ نبیوں کے سردار والی زندگی بسر کی.(3) آپ نے بنی نوع انسان پر کیا احسان کیا ہے.ان مضامین پر تقریریں کرنے والے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہے.ہر جگہ کے تعلیم یافتہ احمدی احباب کو چاہئے کہ اپنے نام پیش کریں.کم از کم ایک ہزار آدمی کی ضرورت ہے جو جنوری میں ہی اپنے نام پیش کر دیں تا کہ چھ ماہ کے عرصہ میں ان کو تیار کیا جائے.اس کے لئے تمام ہندوستان کے ہر علاقہ کے احمدیوں کو تیاری کرنی چاہئے تا کہ جون کو تمام ہندوستان میں یہ لیکچر کا میابی سے ہوں.“ ( تقریر دلپذیر صفحہ 46 تا49 مطبوعہ قادیان 1928ء)

Page 477

سيرة النبي الله 463 جلد 2 رسول کریم علیہ کے افعال کی اقسام 28 دسمبر 1927 ء کو حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے“ کے عنوان سے ایک خطاب فرمایا.اس خطاب میں حضرت مسیح موعود کے ایک کارنامے کے حوالہ سے رسول کریم ﷺ کے افعال کی اقسام یوں بیان فرماتے ہیں:.صلى الله " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کا ازالہ یوں فرمایا ہے کہ رسول کریم لے کے افعال کئی قسم کے ہیں.ایک وہ اعمال ہیں جو آپ ہمیشہ کرتے اور جن کے کرنے کا آپ نے دوسروں کو بھی حکم دیا اور فرمایا اس طرح کیا کرو.ان کا کرنا واجب ہے.(2 ) وہ اعمال جو عام طور پر آپ کرتے اور دوسروں کو کرنے کی نصیحت بھی کرتے.یہ سنن ہیں.(3) وہ اعمال جو آپ کرتے اور دوسروں کو فرماتے کہ کر لیا کرو تو اچھے ہیں.یہ مستحب ہیں.(4) وہ اعمال جنہیں آپ مختلف طور پر ادا کرتے ان کا سب طریقوں سے کرنا جائز ہے.(5) ایک وہ اعمال ہیں جو کھانے پینے کے متعلق تھے ان میں نہ آپ دوسروں کو کرنے کے لئے کہتے اور نہ کوئی ہدایت دیتے.آپ ان میں عرب کے رواج پر عمل کرتے.ان احکام میں ہر ملک کا انسان اپنے ملک کے رواج پر عمل کر سکتا ہے.رسول کریم ﷺ کے سامنے گوہ لائی گئی جو آپ نے نہ کھائی.اس پر پوچھا گیا کہ اس کا کھانا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں، حرام نہیں مگر ہمارے ہاں لوگ اسے کھاتے نہیں.اس لئے میں بھی اسے نہیں کھا تا 1.اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جن امور میں شریعت ساکت ہو اور رسول کریم ﷺ کا حکم

Page 478

سيرة النبي عالم 464 جلد 2 ثابت نہ ہو انہیں حتی الوسع ملک کے دستور اور رواج کے مطابق کر لینا چاہئے تا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہو.ایسے امور سنت نہیں کہلاتے.جوں جوں ملک 66 کے حالات کے ماتحت لوگ ان میں تبدیلی کرتے جائیں اس پر عمل کرنا چاہئے.“ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے صفحہ 104 ، 105 مطبوعہ ربوہ 1956ء) 1: بخارى كتاب الذبائح و الصيد باب الضب صفحہ 984 حدیث نمبر 5537 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 479

سيرة النبي الله 465 جلد 2 رسول کریم علیہ کی سیرت کے بارہ میں ہندوستان میں جلسوں کا پروگرام حضرت مصلح موعود نے 6 جنوری 1928 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.میں پہلے اس خطبہ کے ذریعہ تمام دوستوں کو ان امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں جن کو میں نے اس سال کے پروگرام میں شامل کیا ہے.پروگرام میں تو اور بھی باتیں ہیں لیکن خصوصیت سے تین باتیں ایسی ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.پہلی بات جس کا اس سال کے پروگرام میں ذکر تھا یہ تھی کہ اس سال 20 جون کو تمام ہندوستان میں رسول کریم علیہ کی عزت کی حفاظت کے لئے جلسے کئے جائیں.یعنی رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تین اہم مسائل پر تمام ہندوستان میں ہر جگہ اس تاریخ کو یا اس تاریخ سے شروع کر کے چند دنوں میں خاص طور پر روشنی ڈالی جائے وہ تین صلى الله اہم پہلو یہ ہیں.1 - رسول کریم ع کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں 2.رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی 3.رسول کریم ع کے دنیا پر احسانات چونکہ لوگوں کو آپ پر حملہ کرنے کی جرات اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ناواقف الله ہیں.اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سوانح پر اس کثرت

Page 480

سيرة النبي علي 466 جلد 2 سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے.جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا.واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا.پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم ہے کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے.اور اس کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تاکہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں.اس غرض کے لئے میں نے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ کم از کم ایک ہزار آدمی ایسا ہونا چاہئے جو ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے تیاری کر سکے تاکہ 20 جون کو جلسہ کر کے لیکچر دئیے جائیں.اور میں نے خواہش کی تھی کہ دوست جنوری کے اندر اندر اس بات کی اطلاع دیں تا کہ ابھی سے ان کو مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جاسکیں اور لیکچروں کے لئے تیار کیا جا سکے.ان لیکچروں سے جو نتیجہ نکلے گا اسے اگر الگ رہنے دیا جائے تو ایک ہزار آدمی کو اس بات کے لئے تیار کر لینا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی سیرت کے اہم پہلوؤں پر عمدگی سے لیکچر دے سکیں یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام ہے.اور اگر ہم صرف یہی کر سکیں کہ ایک ہزار آدمی ایسا تیار کر لیں تو یہی بہت بڑی دین کی خدمت ہوگی.اور اس طرح ہم اگلے سال دو ہزار پھر تین ہزار پھر چار ہزار ایسے لوگ تیار کرنے کے قابل ہو جائیں گے جو رسول کریم ﷺ کی زندگی پر نہایت قابلیت سے لیکچر دے سکیں گے..ایک ہزار آدمی جو ایسے تیار ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا لیکچر سننے والے ایک ایک ہزار آدمی بھی سمجھے جائیں گوگئی مقامات پر دس بارہ ہزار تک بھی جمع ہو سکتے ہیں تو

Page 481

سيرة النبي علم 467 جلد 2 دس لاکھ آدمیوں کو سنا سکتے ہیں.اور وہ آگے اگر دس دس آدمیوں سے لیکچر کی باتیں کریں تو ایک کروڑ تک وہ باتیں پہنچ سکتی ہیں.اور چند سال کے اندر ہندوستان میں کوئی بشر ایسا نہیں رہ سکتا جس کے کانوں تک رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی کے صحیح حالات نہ پہنچ چکے ہوں.یہ ایسا شاندار اور عظیم الشان کام ہے جس کا خیال ہی کر کے طبیعت میں جوش اور روح میں لذت پیدا ہوتی ہے.پس جو دوست یہ کام کرنا چاہیں وہ جنوری کے اندر اندر اپنے ارادہ سے مجھے اطلاع دیں تا کہ ضروری ہدایات ان کو دی جاسکیں.چونکہ ممکن ہے جلسہ کے شور وشغب کی وجہ سے احباب اس بات کو بھول گئے ہوں اس لئے خطبہ کے ذریعہ پھر اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس کے لئے ضروری نہیں کہ ہماری جماعت کے ہی لوگ ہوں جو شخص بھی رسول کریم کے سے محبت رکھنا ، آپ کی عزت کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتا اور اس کام کو کار ثواب سمجھتا ہے اس سے میں خواہش کروں گا کہ اگر وہ اس کام کے لئے اپنا وقت قربان کر سکتا ہے، اگر اس کام کو مفید سمجھتا اور اسے خدمت اسلام قرار دیتا ہے تو اپنا نام پیش کرے.ہم اسے لیکچروں کی تیاری میں ہر طرح سے مدد دینے کے لئے تیار بلکہ اس کے ممنون بھی ہوں گے.مگر میں کہتا ہوں ایسے آدمیوں کے لئے مسلمان کہلانے والوں کی بھی خصوصیت نہیں.رسول کریم ﷺ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.ان کی زبانی رسول کریم ﷺ کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہو گا.پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کو قدر کی نگاہ

Page 482

سيرة النبي عالم سے دیکھا جائے گا.468 جلد 2 چونکہ رسول کریم ﷺ کے حالات زندگی لوگوں نے ایسے طریق پر لکھے ہیں جو صحیح لائف لکھنے کا طریق نہ تھا.وہ آپ کا حلیہ اور معجزات لکھتے رہے جو زمانہ گزر جانے کے بعد قصے رہ گئے اور اب صحیح حالات بیان کرنے کے لئے تیاری اور محنت کی ضرورت ہے اس لئے جس قدر جلد ہو سکے نام پیش کر دیئے جائیں تا کہ تیاری شروع کرا دی جائے.دوسری بات یہ ہے کہ میں نے اعلان کیا تھا اس سال دس پاروں کا درس گیارہویں پارہ سے لے کر بیسویں تک جولائی کے مہینہ میں دوں گا.پہلے دس پاروں کا درس 1922 ء میں ہو چکا ہے.اس کے متعلق میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر پچاس آدمی باہر سے درس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں تو میں درس دینے کے متعلق اعلان کر دوں گا.چار پانچ کی طرف سے تو درخواستیں آ بھی چکی ہیں لیکن کم از کم پچاس کی ضرورت ہے جو باہر کے ہوں.اگر اتنے آدمی ہو گئے تو خدا کے فضل سے توفیق ملنے، صحت کے اچھے ہونے اور موافق حالات کے پیدا ہونے پر درس دینے کا اعلان کر دوں گا اس کے لئے بھی دوستوں کی جلد درخواستیں آجانی چاہئیں.تیسری بات ریز روفنڈ ہے اس سال جو پروگرام رکھا گیا ہے اس پر بہت کچھ خرچ ہو گا.تمام ہندوستان میں جلسہ کرنے کے لئے لوگوں کو تیار کرنے کی خاطر کم از کم سات آٹھ پوسٹروں کی ضرورت ہو گی.اور چونکہ اس کام کے لئے ہر فرقہ اور علاقہ کے مسلمانوں کو تیار کرنا ہے اس لئے بنگالی میں بھی پوسٹر شائع کرنے کی ضرورت ہے، تامل میں بھی ، ہندی میں بھی ، مرہٹی میں بھی اور دوسرے علاقوں کی زبانوں میں بھی.اس قسم کا پہلا پوسٹر جو تمام مسلمانوں میں اس کام کی تحریک کرنے کے لئے ضروری ہے جنوری یا زیادہ سے زیادہ فروری میں شائع ہو جانا چاہئے اور کم از کم ساٹھ ستر ہزار کی

Page 483

سيرة النبي علي 469 جلد 2 تعداد میں شائع ہونا چاہئے جس کے لئے بہت بڑے اخراجات کی ضرورت ہے.اس کے بعد خط و کتابت اور دوسری ہدایات بھیجنے کے لئے اور سارے ہندوستان میں بھیجنے کے لئے بڑے خرچ کی ضرورت ہے.پس جب تک بہت جلد بلکہ جنوری میں ہی ایک بڑی رقم نہ آجائے اس کام میں ہاتھ ڈالنا نہایت خطر ناک ہو گا.وہ دوست جنہوں نے سالانہ جلسہ پر ریز رو فنڈ جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ کچھ نہ کچھ جنوری میں پھر فروری میں اور مارچ میں جمع کر کے بھیج دیں تا کہ سہولت کے ساتھ اس کام میں ہاتھ ڈالا جا سکے.اس کے بعد ایک سوال کے متعلق جو پچھلے ہفتہ میرے سامنے پیش ہوا میں اس وقت روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.ایک دوست نے لکھا کہ 1925 ء کے خطبہ میں میں نے درود کے متعلق روشنی ڈالی تھی جس سے بہت لوگوں نے فائدہ اٹھایا تھا.مگر وہ کہتے ہیں ایک سوال ہے جس پر روشنی نہ ڈالی گئی تھی جو کہ ضروری ہے.وہ سوال یہ ہے کہ درود میں یہ دعا سکھائی گئی ہے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - ای طرح یہ دعا ہے اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.حالانکہ رسول کریم کا درجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا ہے.ایک بڑے درجہ والے کے لئے یہ دعا کرنا کہ اسے وہ کچھ ملے جو اس سے چھوٹے درجہ والے کو ملا اور نہ صرف ایک دفعہ بلکہ یہ دعا کرتے ہی چلے جانا اور قیامت تک کرتے چلے جانا یہ ایک معمہ اور چیستان ہے جس کا حل ضروری ہے.واقعہ میں اگر اس بات کی حقیقت پر غور نہ کریں تو یہ بات ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی فقیر تھا ایسے لوگ چونکہ ادھر ادھر پھرتے رہتے اور کوئی مستقل ٹھکانا نہیں رکھتے اس لئے علی العموم پولیس کی دست برد میں آتے رہتے ہیں اور تھانیدار کو سب سے زیادہ اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں.کہتے ہیں اس نے

Page 484

سيرة النبي عالم 470 جلد 2 ایک ای.اے سی سے کچھ مانگا مگر اس نے مانگنے سے زیادہ اسے دے دیا.اس فقیر کا دل دعا کی طرف مائل ہوا اور اس نے اس کے لئے یہ دعا کی کہ خدا تمہیں تھانیدار بنا دے.چونکہ اس کے نزدیک یہی درجہ سب سے بڑا تھا کیونکہ جہاں وہ جاتا تھا سپا ہی اس کے پیچھے پڑ جاتے اور تھانیدار کے سامنے پیش کر دیتے.صلى الله پس رسول کریم ﷺ کے لئے یہ دعا کرنا کہ آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا درجہ دیا جائے ایسی ہی دعا ہے جیسے ای.اے.سی کے لئے یہ کہا گیا تھا کہ خدا تمہیں تھانیدار بنا دے اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح یہ دعا نہیں بلکہ بددعا معلوم ہوتی ہے.میرا خیال ہے میں نے کئی دفعہ اس کے متعلق بیان کیا ہے مگر سوال کرنے والے ایسے دوست ہیں جو اخباروں سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریریں پڑھنے والے ہیں.ممکن ہے ان کے حافظہ کی غلطی ہو اور ان کو میری بیان کردہ باتیں یاد نہ رہی ہوں یا ممکن ہے میں نے ایسی وضاحت نہ کی ہو جس کی ضرورت ہو اس لئے پھر بیان کرتا ہوں.بات یہ ہے کہ اعتراض دو جگہ پڑا کرتے ہیں.ایک تو وہاں جو محل اعتراض ہو اور دوسرے ایسی جگہ جو محلِ اعتراض نہ ہو.جو محل اعتراض جگہ ہوتی ہے وہاں بھی دو صورتیں ہوتی ہیں.اول یہ کہ اعتراض غلط ہو اور دوسری یہ کہ اعتراض صحیح ہو مگر وہ بات نادرست ہو جس پر اعتراض پڑتا ہے.مگر درود تو رسول کریم ﷺ نے سکھایا ہے اور آپ نے ہی نہیں سکھایا بلکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر کیا ہے.اب ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ درود میں غلطی ہے اس وجہ سے دوسرا پہلو ہی اختیار کرنا پڑے گا کہ ایسی جگہ پر اعتراض کیا جاتا ہے جو محل اعتراض نہیں ہے.اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک یہ کہ جن معنوں کے لحاظ سے اعتراض کیا جاتا ہے وہ غلط ہیں یا یہ کہ وہ معنی تو صحیح ہیں مگر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ غلط ہے.مگر ہم جتنا بھی غور کرتے ہیں یہ اعتراض غلط معلوم نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام

Page 485

سيرة النبي علي 471 جلد 2 سے افضل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کھلے لفظوں میں سب انبیاء سے افضل آپ کو بتایا ہے کیونکہ اکمل اور اتم دین آپ کو ہی دیا گیا.اور ممکن نہیں کہ بڑا کام چھوٹے کے سپرد کیا جائے اور چھوٹا کام بڑے آدمی کے.بڑا کام بڑے کو ہی دیا جاتا ہے اور چھوٹا چھوٹے کو.کبھی کوئی عقلمند یہ نہ کرے گا کہ گھسیارے کا کام تو ایک تعلیم یافتہ آدمی کے سپرد کر دے اور دفتر کا کام گھسیارے کے سپر د.کوئی بادشاہ یہ نہیں کرے گا کہ وزیر کا کام ایک معمولی آدمی کے سپر د کر دے اور وزیر کو کسی ادنی سے کام پر لگا دے حتی کہ وہ یہ بھی نہ کرے گا کہ وزیر اعظم بننے کے لائق انسان کو وزیر بنالے اور وزیر کو وزیر اعظم بنا دے.جب کوئی انسان اس طرح نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ سے کس طرح ممکن ہے کہ جو نبی خاتم النبین ہونے کی قابلیت رکھتا تھا اسے نبی بنا دے اور جو نبی ہونے کی قابلیت رکھتا تھا اسے خاتم النبین کا درجہ دے دے.اگر یہ مانا جاتا ہے کہ رسول کریم کا کام سب انبیاء سے بڑا تھا، آپ کو کامل شریعت دی گئی ، آپ کو وہ مقام شفاعت عطا ہوا جو کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا تو پھر یہ سمجھنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یا کسی اور نبی کو آپ پر فضیلت حاصل تھی یہ رسول کریم ﷺ پر ہی اعتراض نہیں بلکہ صلى الله خدا تعالیٰ پر اعتراض ہے کہ اس نے رسول کریم ﷺ کو کام تو سب انبیاء سے بڑھ کر سپر د کیا مگر سب سے بڑا درجہ نہ دیا.صلى الله علق پس میں یہ مانتا ہوں کہ اعتراض غلط نہیں ہے.مگر اس صورت میں ہمارے لئے یہی پہلو رہ جاتا ہے کہ جو معنی سمجھے جاتے ہیں وہ غلط ہیں اور اصل معنی ومفہوم کچھ اور ہے.اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اعتراض کس لحاظ سے پڑتا ہے.اعتراض پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت ابراہیم کی ذاتی فضیلت کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ذات چونکہ اعلیٰ ہے اس لئے درود میں یہ دعا کرنے سے کہ آپ کی ذات کو وہ کچھ دیا جائے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام

Page 486

سيرة النبي علي کو دیا گیا اس سے آپ کی ہتک ہے.صلى الله 472 جلد 2 مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ذاتی فضیلت کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہوا کرتی ہیں جو درجہ کی بلندی کا ثبوت ہوتی ہیں اور جب کہ ذاتی فضیلت کے لحاظ سے اعتراض پڑتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں درود پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کریم ﷺ نے درود پڑھنے کا طریق بھی بتایا ہے تو پھر دیکھنا یہ چاہئے کہ کس طرح اور کس لحاظ سے رسول کریم ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور درود پر اعتراض نہیں پڑتا.قرآن کریم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق دو قسم کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں.ایک تو ذاتی ہیں مثلاً یہ کہ ابراہیم علیم ہے، اواب ہے، صدیق ہے، خدا کا مقرب ہے ان فضیلتوں کے لحاظ سے لازم ماننا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھ کر تھے ورنہ آپ خاتم النبین اور سید ولد آدم نہیں ہو سکتے.مگر ایک چیز حضرت ابراہیم میں ایسی پائی جاتی ہے جو ان کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ ان کی قوم کی فضیلت ہے.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ 1 کہ ہم نے ابراہیم کو ہی نبوت نہیں دی تھی بلکہ اس کی ذریت کو بھی بڑا درجہ دیا تھا اس میں نبوت رکھ دی تھی.یہ وہ فضیلت ہے جو حضرت ابراہیم کی نسل کو خاص طور پر حاصل ہوئی کہ اس میں نبوت رکھی گئی.اس کے ساتھ ہی ہم ایک اور بات دیکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی ہے کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ 2 کہ میرے اور اسمعیل کی اولاد سے امت مسلمہ پیدا کر دے.اب دیکھو حضرت ابراہیم تو یہ دعا مانگتے ہیں کہ ان کو امت مسلمہ ملے مگر خدا تعالیٰ اس دعا کو اس رنگ میں قبول کرتا ہے کہ ہم نبیوں کی جماعت پیدا کریں گے.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے جو مانگا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ نے دیا.اس سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ یہ کہ خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ سلوک تھا کہ آپ نے جو مانگا خدا تعالیٰ نے اس سے

Page 487

سيرة النبي عمال 473 جلد 2 بڑھ کر دیا.سوائے اس کے جو اس کی سنت اور قضا کے مقابلہ میں آ کر ٹکرانے والا تھا ایسے موقع پر بے شک انکار کر دیا.ورنہ ان سے یہ معاملہ ہوا کہ انہوں نے مانگے مسلم اور خدا تعالیٰ نے دیے نبی.اب یہی بات رسول کریم علیہ کے متعلق سمجھو اور درود کے یہ معنی کرو کہ خدایا! جو معاملہ تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا وہی محمدعلی سے کرنا.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو مانگا اس سے بڑھ کر ان کو دیا اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے جو مانگا اس سے بڑھ کر دینا.اب درجہ کے لحاظ سے فرق یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عرفان کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں اور رسول کریم ﷺ نے اپنے عرفان کے مطابق کیونکہ جتنی جتنی معرفت ہوتی ہے اس کے مطابق مطالبہ کیا جاتا ہے.ایک چھوٹا بچہ چیجی‘ مانگتا ہے لیکن جب ذرا بڑا ہوتا ہے تو مٹھائی مانگنے لگتا ہے.جب جوان ہونے پر آتا ہے تو اچھے کپڑے طلب کرتا ہے.جوان ہو کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ماں باپ اس کی کسی اچھی جگہ شادی کریں.پھر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے جائیداد کا حصہ دے دیا جائے.غرض جوں جوں عرفان بڑھتا ہے مطالبہ بھی بڑھتا جاتا ہے.اسی طرح جتنا کسی کا خدا تعالیٰ کے متعلق عرفان ہوتا ہے اسی کے مطابق وہ دعا کرتا ہے.جب رسول کریم علیہ عرفان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھے ہوئے تھے تو یقینی بات ہے کہ آپ کی دعائیں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں سے بڑھی ہوئی ہوں گی اور درود میں جو دعا مانگی جاتی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہوا.الہی ! حضرت ابراہیم نے آپ سے جو مانگا الله صلى الله انہیں آپ نے اس سے بڑھ کر دیا اب محمد ﷺ نے جو مانگا انہیں بھی مانگنے سے بڑھ کر عطا کیجئے.دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملا محمد اللہ کو اس سے بڑھ کر دیا جائے.اور وہ چیز جس کے لئے حضرت ابرا ہیم سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کو دینے کی دعا کی گئی ہے یہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے امت مسلمہ مانگی ان کی نسل میں نبوت قائم کر دی گئی.رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کے

Page 488

سيرة النبي ع 474 جلد 2 لئے ان سے بڑھ کر دعا کی اس لئے آپ کی امت کو ان کی امت سے بڑھ کر نعمت دی جائے.اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے درود کو دیکھو تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کتنے عظیم الشان مدارج کے حصول کے لئے اس میں دعا سکھائی گئی ہے.اور جب ہم درود پڑھتے ہیں تو رسول کریم عے پر احسان نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں رسول کریم ﷺ کی امت کی ترقی کی دعا ہے.اور اتنی جامع دعا ہے کہ اس سے بڑھ کر خیال میں بھی نہیں آ سکتی.اس میں یہ سکھایا گیا کہ وہ رحمتیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئیں ان سے بڑھ کر رسول کریم می کے ذریعہ نازل کی جائیں.یعنی جس طرح ان کو مانگنے سے بڑھ کر دیا گیا اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جو کچھ مانگا اس سے بڑھ کر دیا جائے.چونکہ وسعت فیض کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ کی دعائیں بڑھی ہوئی تھیں اس لئے ان سے بڑھ کر دینے کا یہ مطلب ہوا کہ آپ کی شان سب سے بڑھی ہوئی تھی.دیکھو! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواہش کی کہ ایک بچہ ملے جو نسل چلائے مگر خدا تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں فرمایا میں تیری نسل کو اتنا بڑھاؤں گا کہ جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے اسی طرح وہ بھی گئی نہ جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.رسول کریم ﷺ نے ایک بچہ نہ مانگا بلکہ یہ فرما یا اِنِّی مُكَائِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ 3 کہ میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی زیادہ امت دی.پس درود کی دعا کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی دعائیں ان کی امت کے متعلق اس سے بڑھ کر قبول ہوئیں جس قدر کہ کی گئی تھیں اسی طرح امت محمدیہ کو کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے ان دعاؤں سے بڑھ کر دیا جائے جو رسول کریم علیہ نے کی ہیں.اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے درود کیوں رکھا مسلمان یہ دعائیں کر

Page 489

سيرة النبي عمال 475 جلد 2 سکتے تھے کہ جو کچھ پہلی امتوں کو ملا اس سے بڑھ کر انہیں دیا جائے.میرے نزدیک درود کے ذریعہ دعا سکھانے میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو یہ دھوکا الله لگنے والا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو جو کچھ ملا وہ محمد ﷺ کی ذریت کو نہیں مل سکتا.حضرت ابراہیم کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ہم تمہاری ذریت میں نبوت رکھتے ہیں مگر مسلمانوں نے یہ دھوکا کھانا تھا کہ امت محمد یہ اس نعمت سے محروم کر دی گئی ہے اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی تھی اس لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو ملا اس سے بڑھ کر رسول کریم ہے کی امت کو ملے اور اس میں نبوت بھی آگئی.پس جب کوئی مسلمان درود کی دعا پڑھتا ہے تو گویا یہ کہتا ہے کہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ کا جو وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تھا وہ محمد ﷺ کی امت میں بھی پورا ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چونکہ جسمانی ذریت بھی تھی اور رسول کریم ﷺ کا کوئی جسمانی بیٹا نہ تھا اس لئے خیال کیا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا وہ یہاں پورا نہ ہو گا اس خیال کو دور کرنے کے لئے درود کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ اے مسلمانو! تم ہی محمد ﷺ کی ذریت ہو تمہیں یہ انعام دیا جا سکتا ہے.پس درود میں یہ دعا کی جاتی ہے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم کی امت کو دیا گیا اس سے بڑھ کر ہمیں دے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی امت میں جو نبی آئے وہ ابراہیمی سلسلہ کے نبیوں سے بڑھ کر ہو.ہاں ان میں یہ بھی فرق ہوگا کہ رسول کریم ﷺ کی روحانی ذریت میں نبوت رکھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جسمانی ذریت میں.اس میں بھی رسول کریم ﷺ کا کمال ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اگر مومن سے کسی کو جسمانی رشتہ ہو تو اس کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے اس وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل کو جو نبوت ملی اس میں جسمانی رشتہ کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا مگر رسول کریم ﷺ کی امت پر جو فیض

Page 490

سيرة النبي ع 476 جلد 2 ہوا وہ صرف روحانی تعلق کی وجہ سے اور روحانیت میں کمال حاصل کرنے کے باعث ہوا.پس درود مسلمانوں کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ تمہارے اندران فیوض سے بڑھ کر جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی امت پر جاری ہوئے جاری رہیں گے اور یہ دعا مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تھی کہ تمہیں وہ کچھ ملنا ہے جو مانگنے سے بڑھ کر ہوگا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایسا ہی ہوا.رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر عرفان کس کو ہوسکتا ہے اور آپ نے اپنی امت کے لئے کیا کیا دعائیں نہ کی ہوں گی.مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ آپ کی امت الله سے یہ دعا کراتا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے مانگنے سے بڑھ کر دیا اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جو دعائیں کیں ان سے بڑھ کر دیا جائے.یہ کیسی جامع دعا ہے.اس سے بڑھ کر کوئی کیا مانگ سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ صوفیا کہتے چلے آئے ہیں کہ روحانی ترقی کا گر درود ہے.یہ سن کر نادان کہتے ہیں کہ محمد کے لئے رحمت اور برکت درود میں مانگی جاتی ہے اپنے لئے اس میں کیا ہے کہ اس کے ذریعہ روحانی ترقی ہو سکتی ہے.مگر درود دراصل اپنے ہی لئے دعا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت دے کر اس دعا کی وسعت اور جامعیت کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا ہے.پس درود بہترین دعا ہے اور اس پر جتنا زور دیا جائے اتنا ہی تھوڑا ہے.میں سمجھتا ہوں اس نکتہ کو یا درکھ کر اگر کوئی درود پڑھے گا تو اسے دعاؤں میں خاص لطف اور مزا آئے گا کیونکہ اب پڑھنے والے کے لئے اس کے الفاظ کوئی چیستاں اور معمہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے کھلا ہوا راستہ ہے.غور وفکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ خدا اور رسول کی طرف سے جتنی باتیں سکھائی گئی ہیں ان میں بڑی حکمتیں ہیں.انسان اپنی نادانی سے انہیں قابل اعتراض

Page 491

سيرة النبي عله 477 مجھتا ہے مگر وہ بڑی بڑی برکتیں اپنے اندر رکھتی ہیں." 1: العنكبوت: 28 2: البقرة: 129 جلد 2 الفضل 10 تا 13 جنوری 1928ء ) 3: نسائی کتاب النکاح باب كراهية تزويج العقيم صفحه 446 حدیث نمبر 3229 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى

Page 492

سيرة النبي الله 478 جلد 2 رسول کریم ہے کے مسنون خطبہ جمعہ تواتر سے پڑھنے میں حکمت حضرت مصلح موعود نے 20 جنوری 1928ء کو مسنون خطبہ جمعہ کی تفسیر اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عِبَادَ اللهِ رَحِمَكُمُ اللهُ.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.أَذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرُكُمْ وَادْعُوهُ 66 يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ اس کے بعد فرمایا :.جمعہ کی نماز کا وہ خطبہ جو کہ دوسرے حصہ میں پڑھا جاتا ہے وہ بھی درحقیقت ایک حصہ ہی ہے خطبہ جمعہ کا لیکن اب وہ محض رسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے.چونکہ وہ عربی میں ہے اور مسلمان عام طور پر عربی سے ناواقف ہو گئے ہیں اس لئے اس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ٹونے اور جادو کی رسوم میں سے ایک رسم ہے.حالانکہ وہ رسم نہیں ہے بلکہ اپنے اندر بہت بڑی حقیقت رکھتا ہے اور اس کو سنت کے طور پر

Page 493

سيرة النبي علي 479 جلد 2 رسول کریم ﷺ کا متواتر پڑھنا بتاتا ہے کہ وہ جمعہ کے ساتھ خاص خصوصیت رکھتا ہے ورنہ ہر جمعہ میں اس کو دہرانے کی کیا ضرورت تھی.ایک حصہ خطبہ جمعہ کا تو ایسا ہے جو بدلتا رہتا ہے مگر ایک وہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی سنت اور طریق ہے کہ اسے آپ بار بار دہراتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور اس حصہ خطبہ کا جمعہ کے ساتھ خاص تعلق ہے.اور آج میں اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں کیونکہ بوجہ عربی میں اس خطبہ کے ہونے کے شاید بہت سے لوگ اس کے مضامین اور مطالب سے غافل ہوں.اس حصہ خطبہ کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے اپنی غلطیوں پر چشم پوشی کی استدعا کرتے ہیں، اس کے وعدہ، اس کی نصرت، اس کی مدد، اس کی استعانت اور اس کی بخشش پر یقین رکھتے ہیں.اور پھر وہ یقین اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ ہم اپنے کاموں کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہو جاتے ہیں.یا یہ کہو کہ حقیقی طور پر واقف ہو جاتے ہیں اور پورے طور پر سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے کاموں کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے.ہماری تمام تدابیر ایک مردہ چیز سے زیادہ نہیں بلکہ مردہ بھی نہ کہو وہ ہماری آزمائش کے لئے ہیں اور بالکل اسی طرح ہوتی ہیں جس طرح بعض سوار خصوصاً کشمیریوں کو میں نے دیکھا ہے کہ گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے لاتیں مارتے جاتے ہیں.وہ اس کا نام گھوڑے کے لئے کوڑا قرار دیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ ان کو عادت ہو گئی ہے.ہمارے ملک میں تو گھوڑے پر چڑھنے والے کسی کسی وقت جب گھوڑا است ہو لاتیں مارتے ہیں مگر کشمیر میں عادت ہو گئی ہے.بچہ باپ کو دیکھتا چلا آ رہا ہے اور اس طرح یہ عادت ہی پڑ گئی ہے کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بلا ضرورت لاتیں بلاتے رہے ہیں.اب اگر کوئی یہ خیال کرے کہ گھوڑا نہیں دوڑتا بلکہ سوار اپنی ٹانگوں کے ذریعے دوڑا رہا ہے تو یہ اس کی غلطی ہو گی.اسی طرح مومن کا ایمان اتنی ترقی کر جاتا ہے کہ وہ سمجھ لیتا ہے میری کوششیں تو ایسی ہیں جیسے ایک کشمیری سوار لاتیں

Page 494

سيرة النبي ع 480 جلد 2 مارتا ہے میرے کاموں میں میری تدابیر کو کوئی دخل نہیں ہے یہ حقیقی تو کل ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مومن کام چھوڑ دیتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے تو پوری کوشش کرتا ہے مگر اپنی کوششوں کو کامیابی کا ذریعہ نہیں سمجھتا.وہ یقین کرتا ہے کہ مجھے جو تدبیر کے لئے کہا گیا ہے یہ میرا امتحان ہے اور آزمائش ہے تا کہ دیکھا جائے کہ میں تدبیر کے ساتھ حقیقت کو تو نہیں بھول جاتا جیسے بچہ حقیقت کو بھول جاتا ہے.بچہ کو ماں اپ یا کوئی اور رشتہ دار جب گردن پر اٹھا کر کہتے ہیں کہ تو اونچا ہو گیا تو بچہ چونکہ نادان ہوتا ہے اس لئے سمجھنے لگ جاتا ہے کہ فی الواقعہ وہ اونچا ہو گیا ہے.اس کی شکل ، اس کی بات چیت اور اس کی مسرت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اونچا یقین کر رہا ہے.بعینہ اسی طرح انسان کے اعمال کی حقیقت ہوتی ہے مگر وہ اعمال نہیں جو گرانے والے ہوتے ہیں.دیکھو بچہ کو ماں باپ اونچا تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اس کا قد چھوٹا بھی کر دیں.پس اس مثال سے کوئی یہ نہ سمجھے برے افعال بھی اسی طرح ہوتے ہیں.اعمال بد کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ٹھوکریں کھانا.اور ٹھوکریں کھانے کے لئے مدد کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ضرورت بلند ہونے کے لئے ہوتی ہے.پس تو کل کا یہ مقام ہے کہ تدابیر کچھ نہیں کرسکتیں جو کچھ کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ باتیں جو اس خطبہ میں بیان کی گئی ہیں یہ اتحاد جماعت کے ساتھ کس طرح تعلق رکھتی ہیں.جس قدر اعتراض اور جھگڑے کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور ایک جگہ جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہیں.اگر ایک آدمی الگ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے تو اس نے کس سے لڑنا ہے.ایک دوسرے سے ملنے پر عیب چینی کی جاتی ہے، لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور جس طرح عیب گیری اور ظلم و فساد ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح شرک بھی ملنے سے پیدا ہوتا ہے.دوسروں پر اتکال انسان اُسی وقت کر سکتا ہے جبکہ دوسرے اس کے سامنے

Page 495

سيرة النبي ع 481 جلد 2 موجود ہوں.اگر کوئی پاس ہی نہ ہو تو اتکال کہاں سے پیدا ہوگا.تو ہمیشہ ملاقات کے نتیجہ میں انسان میں شرک بھی پیدا ہوتا ہے اور نَسْتَعِینہ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.پھر عیب جوئی کے بعد انسان خود گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور گناہ بھی اشتراک اور اجتماع میں ہی ہوتا ہے.گناہ کیا ہے؟ یہی کہ کسی کا حق لینا اور کسی کا حق نہ دینا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب دوسرے لوگوں کے ساتھ انسان ملے، ان کے اجتماع میں رہے.پھر گناہ کے نتیجہ میں انسان کا تعلق خدا تعالیٰ سے ٹوٹتا ہے.جتنا کوئی گناہوں میں مبتلا ہوتا جاتا ہے اتنا ہی خدا سے دور ہوتا جاتا ہے.ایک وقت تو انسان بندوں کی عیب چینی کرتا ہے مگر بعض دفعہ بندوں کو ہی خدا سمجھ کر ان سے ہی مدد مانگنے لگتا ہے.اس کا سہارا خدا تعالیٰ پر نہیں رہتا.ان تمام باتوں سے بچنے کے لئے وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ میں اشارہ ہے.پھر انسان کے نفس کے اندر ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ گناہوں کا ارتکاب کرنے لگ جاتا ہے.پہلے جو کچھ بیان کیا یہ تو افعال ہیں ان کے بعد بدی کی طرف میلان پیدا ہو جاتا ہے.گناہ آپ ہی آپ سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں یہ شرورنفس کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفس کو پاک بنایا ہے.قرآن کریم میں خدا تعالی نے متعدد بار بیان فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کے نفس کو پاک بنایا.پس چونکہ انسان کا نفس بالکل پاک ہوتا ہے اس لئے شروع میں بدی اس میں باہر سے آتی ہے پھر آہستہ آہستہ بدی کی عادت پڑ جاتی ہے اس کے بعد بدی نفس سے پیدا ہونے لگ جاتی ہے.ان تمام باتوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہی ہوسکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے جو لوگ تعلق پیدا کر لیتے ہیں انہیں یہ ساری باتیں نظر آنے لگ جاتی ہیں.وہ سمجھتے ہیں اَلْحَمْدُ لِله بے عیب ذات خدا تعالیٰ ہی کی ہے.جس طرح کسی اور میں عیب ہیں اسی

Page 496

سيرة النبي ع 482 جلد 2 طرح ہم میں بھی ہیں پھر کسی کی عیب چینی کیوں کریں.حضرت مسیح نے کیا سچ فرمایا ہے دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آ جاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا 1 یہی حال عیب چین کا ہوتا ہے اسے اپنا کوئی عیب نظر نہیں آتا مگر دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں.اور نہ صرف عیب نظر آتے بلکہ خواہ مخواہ دوسروں کی طرف عیب منسوب کرنے لگ جاتا ہے اور ہر بات میں عیب نکالتا ہے.کسی کو کچھ کھاتے دیکھا تو کہہ دیا اس نے چوری کی ہو گی.اگر کسی نے غلطی سے کوئی بات کہہ دی تو کہہ دیا اس نے جھوٹ بولا ہے غرض اس میں عیب چینی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اس کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ انسان سمجھے بے عیب خدا ہی ہے انسانوں میں کمزوریاں ہوتی ہیں مجھ میں بھی ہیں اس لئے مجھے کسی اور کی عیب چینی نہیں کرنی چاہیئے.پھر شرک اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ انسان دوسروں پر بھروسہ رکھتا ہے اور ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے.اس کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ وہ سمجھے خدا ہی مدد دے سکتا ہے اس کے سوا اور کوئی مدد نہیں دے سکتا.نَسْتَعِيْنُه اس سے ہی مدد مانگتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ ہی کی ہدایت سے انسان بخشش پا سکتا ہے ورنہ ایسے ایسے مخفی گڑھے ہوتے ہیں کہ انسان ان میں گر جائے تو کبھی نکل نہ سکے اس لئے فرمایا نَسْتَغْفِرُهُ خدا ہی سے بخشش مانگتے ہیں.پھر اللہ ہی کے فضل سے ایمان نصیب ہوسکتا ہے.اگر خدا کی طرف سے وحی نہ آئے تو کیا انسان ہدایت پاسکتا ہے؟ اس کے متعلق فرمایا نُؤْمِنُ به هم خدا پر ایمان لاتے ہیں.پھر تو کل بھی خدا ہی کی طرف سے حاصل ہوتا ہے.بندہ تو اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنا سہارا آپ نہیں لے سکتا.خدا ہی سہارا دیتا ہے تب وہ قائم رہ سکتا ہے.اس لئے فرمایا وَ نَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ ہم خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں.جن لوگوں کو اتنی باتیں حاصل ہو جاتی ہیں پھر انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں زبردستی ہدایت دیتا ہے بلکہ یہ ہے کہ جن کو یہ پانچوں باتیں یعنی ،حمد، استعانت استغفار، ایمان اور توکل حاصل ہو جاتا ہے ان کو کوئی گمراہ

Page 497

سيرة النبي ع 483 جلد 2 نہیں کر سکتا اور جن کو یہ باتیں نصیب نہ ہوں وہ ہدایت نہیں پا سکتے.یہی مطلب ہے مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلا هَادِيَ لَهُ کا.بات یہ ہے کہ جن کو یہ معلوم نہیں کہ تمام عیبوں سے پاک خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے وہ دوسروں کی عیب چینی سے کس طرح باز رہ سکتے ہیں.یا جن کو یہ معلوم نہ ہو کہ حقیقی مدد خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے مل سکتی ہے وہ شرک سے کس طرح بچ سکتے ہیں.یا جن کو اپنے گناہوں کا پتہ نہ ہو وہ استغفار کس طرح کر سکتے ہیں.یا جن کو یہ پتہ نہ ہو کہ ایمان خدا تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ لایا جا سکتا ہے وہ کس طرح وحی کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں.یا جن کو یہ معلوم نہ ہو کہ تو کل خدا ہی کی ذات پر کیا جا سکتا ہے وہ کس طرح حقیقی تو کل کو سمجھ سکتے ہیں.یہ امور بیان کرنے کے بعد وہ ہدایت جو رسول کریم ﷺ نے اپنے الفاظ میں بیان کی تھی ایک آیت کے ذریعہ اسے بیان کیا ہے.پہلے تو یہ بتایا تھا کہ جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.پھر بتایا جب یہ پانچ باتیں کسی میں پیدا ہو جائیں تو اجتماع میں وہ جھگڑے فساد سے بچ جاتا ہے.اب عملی حالت کے متعلق بتایا ہے کہ انسان کو چاہیئے عدل و احسان اور ایتاء ذِي الْقُرُبی کی عادت ڈالے اور اس کے ساتھ فحشاء، منکر اور بغی سے رکے.یعنی ایسی باتیں جو اپنی ذات میں عیب ہوں یا ایسی باتیں جو لوگوں کو بھی عیب نظر آئیں یا ایسی باتیں جن میں لوگوں کے حقوق تلف ہوتے ہوں ان سے رکے.غرض جس انسان کے اندر یہ پانچ ایمانی اور چھ عملی حالتیں پیدا ہو جائیں اس سے پھر کسی قسم کا فساد سرزد نہیں ہو سکتا وہ جہاں جائے گا امن ہی قائم کرے گا.دیکھو! صلى الله رسول کریم مے میں یہ باتیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں یہی وجہ ہے کہ آپ جہاں بھی جاتے امن قائم کر دیتے.اُس وقت جب کہ ابھی آپ پر وحی ہونی شروع نہیں ہوئی تھی اہل مکہ خانہ کعبہ تعمیر کرنے لگے اور یہ سوال پیدا ہو گیا کہ حجر اسود اٹھا کرکون قبیلہ رکھے.چونکہ لڑا کے لوگ تھے اس وجہ سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے.آخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو

Page 498

سيرة النبي الله 484 جلد 2 شخص سب سے پہلے سامنے نظر آئے اس سے فیصلہ کرایا جائے اور رسول کریم ﷺ نظر آئے.آپ کو دیکھ کر سب امین امین پکار اٹھے کیونکہ اس نام سے آپ کو بعثت سے قبل پکارا جاتا تھا.آپ کے سامنے جب اس معاملہ کو رکھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ معمولی بات ہے.آپ نے چادر منگائی اور پتھر کو اس پر رکھ دیا اور پھر فرمایا سب قوموں کے لوگ چادر کے کنارے پکڑ لیں 2.تو وہ آدمی جو اپنے اندر یہ پانچ ایمانی اور چھ عملی حالتیں پیدا کر لیتا ہے وہ جہاں جاتا ہے لڑائی جھگڑے مٹاتا ہے.لڑائی وہی لوگ کرتے ہیں جن میں یہ حالتیں پیدا نہیں ہوتیں.وجہ یہ کہ لڑنے اور فساد کرنے والا اخلاق یا ایمان میں کمزور ہوتا ہے تبھی اس سے ایسی باتیں سرزد ہوتی ہیں.یہ وہ خطبہ ہے جو ہر جمعہ میں پڑھا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ جتنا اجتماع زیادہ ہو اسی قدر لڑائی جھگڑے کے سامان زیادہ جمع ہو جاتے ہیں اس لئے ان فسادات سے بچنے کے جو ذرائع ہیں وہ بھی استعمال کرنے ہئیں.دیکھو! جس آدمی کے گھر ایک شخص کھانا کھانے والا ہوتا ہے وہ ایک کے کھانے کا انتظام کرتا ہے.جس کے گھر دس آدمی ہوں وہ دس کے کھانے کی فکر رکھتا ہے.اسی طرح جب تھوڑا اجتماع ہو تو اتنی احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی زیادہ اجتماع کے وقت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب تم اجتماع میں جاؤ تو سب سے پہلے اپنے نفس کو دیکھو کہ اس میں تو کوئی نقص نہیں.تم اپنے اندر حمد، استعانت، استغفار، ایمان اور توکل پیدا کرنے کی کوشش کرو.پھر عدل، احسان اور ایتَاءِ ذِى الْقُرْبَى پر عمل کرو اور فحشاء، منکر اور بغی سے بچو.جب ایسا کرو گے تو کبھی فساد پیدا نہیں ہوگا کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.جب لوگ ان باتوں پر عمل کریں گے تو دین میں مضبوط ہوں گے اور لڑائی جھگڑا نہیں کریں گے.لڑائی فساد کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ایمان میں کمزوری ہوتی ہے جس کا اظہار لڑائی جھگڑے کی صورت میں

Page 499

سيرة النبي عمال 485 جلد 2 ہوتا ہے.ایک عارضی اور وقتی جھگڑا ہوتا ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے.وہ تو خدا تعالیٰ کے نبیوں میں بھی ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت موسی اور حضرت ہارون میں ہو گیا تھا.یہاں وہ لڑائی جھگڑا مراد ہے جس سے دلوں میں بغض اور کینہ پیدا ہو جائے.اختلاف طبائع اور بات ہوتی ہے یہ تو میاں بیوی، باپ بیٹے میں بھی پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک سیکنڈ بھی نہیں گزرتا کہ آپس میں محبت کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں.پس اسے لڑائی جھگڑا نہیں کہا جا سکتا ایسا جھگڑا تو بندہ اور خدا تعالیٰ میں بھی ہو جاتا ہے.اصل لڑائی جھگڑا یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے متعلق بغض و کینہ پیدا ہو جائے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہ ہو.ایک دوسرے سے ملنا نہ چاہے.ایسی حالت میں ایک دوسرے کی نیکیاں بھی برائیاں معلوم ہونے لگتی ہیں.اگر ایک شخص چندہ دیتا ہے تو دوسرا سمجھتا ہے ریا کاری سے دے رہا ہے.اگر نمازیں پڑھتا ہے تو کہتا ہے محض دکھاوے کی نمازیں پڑھتا ہے.غرض ہر بات میں عیب گیری کرنا اور دل میں بغض و کینہ رکھنا یہ لڑائی ہے جو مومن نہیں کرتا کیونکہ مومن کا دل بغض اور کینہ کا حامل کبھی نہیں ہو سکتا.جب کسی کے دل میں کسی سے بغض پیدا ہو تو وہ خیال کرے کہ ضرور اس کے ایمان میں نقص آ گیا ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ بغض اور ایمان ایک جگہ جمع ہوں.یہ خطبہ ہے جس میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ جمعہ کے دن چونکہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور اس بات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ ہم اکٹھے ہیں اور ایک ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک ہونے کے لئے یہ باتیں پائی جانی چاہئیں.اگر یہ نہیں پائی جاتیں تو تم اکٹھے نہیں اور نہ ایک ہو تمہارا اکٹھا ہونا منافقت ہے.وہ لوگ جو اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق بغض رکھتے اور ساری جماعت پر اتہام لگاتے ہیں وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.میں یہ برداشت کر ہی نہیں سکتا کہ کوئی جماعت پر الزام لگائے.میری عادت نہیں کہ مجلس میں کسی فرد کو مخاطب کر کے غصہ کا اظہار کروں مگر جب کوئی جماعت پر الزام لگاتا ہے تو پھر میں برداشت نہیں کر

Page 500

سيرة النبي عالم 486 جلد 2 سکتا کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک الہی سلسلہ ہو اور اس کے اکثر افراد گندے ہوں.اگر اکثر افراد گندے ہیں تو وہ سلسلہ جھوٹا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ پر اعتراض پڑتا ہے کہ اس نے ایک گندے شخص کو اپنے سلسلہ کی باگ سپرد کر دی اور یہ الْحَمْدُ لِلہ کے بالکل خلاف بات ہے.پس جمعہ کے خطبہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ تم خود یہ مظاہرہ کرتے ہو کہ ہم ایک ہیں مگر کیا تمہارے دل بھی یہ گواہی دیتے ہیں کہ تم ایک ہو.اگر تم ایک دوسرے کی عیب چینی کرتے ہو، اگر جماعت کے لوگوں کو گندا سمجھتے ہو تو پھر تم اکٹھے بیٹھنے سے ایک نہیں ہو سکتے.کیا اگر میں اور مولوی ثناء اللہ صاحب ایک جگہ اکٹھے بیٹھے ہوں تو ایک ہو جائیں گے؟ ایک ہونے کے لئے دلوں کا اتحاد ضروری ہے.صلى الله پس رسول کریم ﷺ نے یہ خطبہ بتایا ہے جس میں ایک آیت بھی لی ہے اور بتایا ہے کہ ظاہری اجتماع کے ساتھ دل بھی اکٹھے ہونے چاہئیں، دوسروں کی عیب چینی چھوڑ دینی چاہئے ، دوسروں پر اتکال چھوڑ دینا چاہئے.اس طرح بھی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.جب کوئی شخص سمجھتا ہے کہ فلاں نے میرا کام کرنا تھا اور جب وہ نہیں کرتا تو ناراض ہو جاتا ہے.اگر وہ یہ سمجھتا کہ خدا تعالیٰ نے ہی میرا کام کرنا ہے تو کسی کے متعلق اسے ناراضگی نہ پیدا ہوتی.عام طور پر لڑائی دو طرح سے ہی ہوتی ہے.ایک تو یہ کہ فلاں میں یہ عیب ہے دوسرے اس طرح کہ فلاں نے میری مدد نہیں کی.اس خطبہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم یہ سمجھو کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور وہی عیبوں سے پاک ہے اور وہی انسان کو امداد دے سکتا ہے تو پھر لڑائی جھگڑے نہ ہوں.غرض یہ خطبہ جو نہایت وسیع مطالب اپنے اندر رکھتا ہے ان کو مدنظر رکھنا چاہئے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے لوگوں کو تو فیق عطا کرے کہ ان کے دل ایک ہوں.ان کا ظاہری اجتماع کا مظاہرہ نفاق کی حرکت نہ ہو بلکہ حقیقت میں وہ ایسی رستی میں بندھے ہوئے ہوں جسے کاٹنے کی کسی بڑے سے بڑے اور

Page 501

سيرة النبي الله شریر سے شریر دشمن کو بھی طاقت نہ ہو.“ 487 1 : لوقا باب 6 آیت 41 بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1994ء جلد 2 (الفضل 27 جنوری 1928ء) 2 السيرة النبوية لابن هشام الجزء الاول صفحہ 239 240 زیر عنوان اختلاف قريش فيمن يضع الحرب مطبوعہ دمشق 2005 ء

Page 502

سيرة النبي عالم 488 جلد 2 صلى الله سیرة النبی ﷺ کے جلسے حضرت مصلح موعود نے 27 جنوری 1928ء کے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا :.میں نے یہ تحریک کی ہے کہ 20 جون 1928ء کو تمام ہندوستان میں جلسے کئے جائیں جن میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تین عظیم الشان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے.اور یہ جلسے تمام ہندوستان کے علاقوں میں اور ہر زبان بولنے والے لوگوں میں کئے جائیں.میں نے ایک ہزار آدمی کا اندازہ لگایا ہے جو بڑے بڑے شہروں اور میں لیکچر دے سکیں.آدمیوں کے لحاظ سے تو میں سمجھتا ہوں جس رفتار سے لوگ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اور جس طرح اپنوں اور دوسروں میں تحریک ہو رہی ہے وہ امید افزا ہے.اس وقت تک اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کی طرف سے بھی درخواستیں آئی ہیں اور کل کی ڈاک میں ایک ہندو کی طرف سے پہلی درخواست پہنچی ہے اور بعض دوستوں کی طرف سے اطلاعیں آئی ہیں کہ کئی ہندو، سکھ اور عیسائی تیاری کر رہے ہیں.اس سے خیال ہے کہ اگر زیادہ نہیں تو پچاس، ساٹھ یا ممکن ہے سو تک ایسے غیر مسلم اصحاب بھی اپنے آپ کو پیش کر سکیں جو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے پاکیزہ پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے تیار ہوں.لیکن اس کام کی اہمیت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں ابھی تک اس کے لئے پورے طور پر کوشش نہیں کی گئی.پنجاب میں ہماری جماعت خدا کے فضل سے اس طرح پھیلی ہوئی ہے کہ ہر شہر اور بڑے قصبہ میں نہایت آسانی کے ساتھ لیکچر کا انتظام کیا جا سکتا ہے.یو.پی اور بہار میں بھی یہ انتظام کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے.

Page 503

سيرة النبي الله 489 جلد 2 بہار میں یو.پی سے بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ بہار میں زیادہ جماعت ہے.اور اس میں قابل آدمی اور ایسے آدمی جو دینی کام کرنے کے لئے وقت دے سکتے ہیں موجود ہیں.یو.پی میں دو چار جگہوں کے علاوہ ایسے آدمی موجود نہیں ہیں جو اس طرح کام کر سکیں مگر اس صوبہ کی زبان چونکہ اردو ہے وہاں بھی آسانی سے کام کیا جا سکتا ہے.صوبہ سرحد میں خدا کے فضل سے ہماری نہایت زبردست جماعت ہے.گواس علاقہ کے باشندوں کی نسبت سے کم ہے مگر پنجابی جو اس علاقہ میں رہتے ہیں ان کو ملا کر اچھی تعداد ہے.وہاں کے باشندے ایسے ہیں جو خاص خوبی رکھتے ہیں اور ایک بات میں نے ان میں ایسی دیکھی ہے جو اور جگہوں میں بہت کم نظر آئی ہے.کئی جگہ دیکھا گیا ہے کہ اگر وہاں آپس میں اختلاف ہو جائے تو ایک حصہ جماعت کا کام چھوڑ بیٹھتا ہے لیکن اگر سرحدی صوبہ میں کسی جگہ ایسا اختلاف پیدا ہو تو کوئی حصہ کام نہیں چھوڑتا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جوش سے دونوں کام کرتے اور ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتے ہیں.میرے نقطہ نگاہ سے اور میرا نقطہ نگاہ اس بارے میں زیادہ محفوظ ہے کیونکہ میں ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے ان باتوں کو خوب سمجھ سکتا ہوں جو جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہیں میں سمجھتا ہوں کہ صوبہ سرحد کی جماعتوں میں یہ بہت بڑی خوبی ہے.پس گوصوبہ سرحد میں جماعت کم ہے مگر ایسے قابل اور سرگرم کا رکن موجود ہیں جن کے لئے جلسوں کا انتظام کرنا کوئی مشکل نہیں ہے.اسی طرح صوبہ بنگال ہے.تعداد کے لحاظ سے پنجاب کے بعد بنگال کی جماعت ہی ہے اور کام کرنے کے لحاظ سے بھی وہاں احمدی بہت جوش رکھتے ہیں انہوں نے اپنے علاقہ میں آرگنائیزیشن خوب کی ہوئی ہے.علاقہ سندھ میں بھی انتظام کیا جا سکتا ہے.گو اس علاقہ کی زبان مختلف ہے مگر وہاں چونکہ کئی سال سے ہماری طرف سے تبلیغ ہو رہی ہے اس وجہ سے وہاں انتظام کرنا

Page 504

سيرة النبي ع 490 جلد 2 بھی آسان ہے.مگر ان علاقوں کو چھوڑ کر سارا علاقہ بھی ، مدراس، برار، میسور، بڑوده وغیرہ ریاستیں ان علاقوں میں ہماری جماعتیں نہایت قلیل تعداد میں ہیں اور جہاں جماعتیں قلیل تعداد میں ہیں وہاں ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ وہاں کی زبانیں ہماری زبان سے مختلف ہیں.یو.پی اور بہار میں جماعتیں کم ہونے کے باوجود انتظام آسان ہے کیونکہ ان علاقوں میں اردو زبان بولی جاتی ہے.مگر جہاں تامل، تلنگو ، مرہٹی ، مالا باری زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں انتظام کرنا زیادہ مشکل ہے.مگر جلسے تبھی مفید ہو سکتے ہیں جب ہزار کی تعداد میں نہیں بلکہ کم از کم ہزار بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں ہوں.اگر صرف ہزار کی تعداد میں جلسے کرنے ہوں تو صرف دوضلعوں گورداسپور اور سیالکوٹ میں کئے جا سکتے ہیں.مگر فائدہ اور اثر تبھی ہوسکتا ہے جب ہزار بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جلسے ہوں اور ہر زبان میں ہوں.اسی طرح برہما میں بھی انتظام مشکل ہے کیونکہ وہاں کی زبان اور ہے اور جماعت کم ہے.پس نہایت ضروری ہے کہ ہر علاقہ کی احمدی جماعتیں اس کے متعلق خاص کوشش کریں اور اپنے اپنے علاقہ میں مرکزی جماعتیں قائم کریں.یہ کام جس کی تحریک کی گئی ہے کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑا ہے اور اس کے لئے بہت وقت اور بہت بڑی قربانی کی ضرورت ہے.کسی جگہ صرف جلسہ کر دینا کافی نہیں ہوگا.ہر جگہ میلاد کے جلسے ہوتے ہیں مگر ان کا لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور ان میں نئی زندگی نہیں پیدا ہوتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ میلاد کی نوعیت اور ہے.میلاد میں مسلمان محض ثواب کے لئے جمع ہو جاتے ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ نہیں آتے.مگر یہ جلسہ جس کی تحریک کی گئی ہے اس لئے ہے کہ دوسروں کو اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے.پھر میلاد کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ رسول کریم ﷺ کے وجود کو اس دنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ بعض مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو رسول کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.مگر ہمارے ان جلسوں کی غرض یہ ہوگی

Page 505

سيرة النبي علي 491 جلد 2 کہ رسول کریم ﷺ کی ذات کو غیر مذاہب کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کو بتایا صلى الله جائے کہ ہمارے رسول کریم ﷺ پر ان کا اعتراض کرنا فضول ہے.یہ کونے کا پتھر ہے جو اس پر گرے وہ بھی چور چور ہو جاتا ہے اور جس پر یہ گرے وہ بھی چور چور ہو جاتا صلى الله ہے.ایک زمانہ وہ تھا جب کہ رسول کریم ﷺ زندہ تھے اس وقت آپ جس پر گرتے چور چور ہو جاتا.اب یہ زمانہ آیا کہ لوگ آپ پر گرتے ہیں.اب ان کو یہ بتانا ہے کہ آپ چونکہ کونے کا پتھر ہیں اس لئے جو آپ پر گرے وہ بھی چور چور ہو جاتا ہے.یہی نہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی زندگی میں جس پر حملہ کرتے اُس پر فتح پاتے بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ پر جو حملہ کرے گا وہ بھی مغلوب ہی ہوگا.اس کے لئے ہماری جماعت کو ایسی بادشند سخت بگولہ اور پُر زور طوفان بننا ہو گا جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگوں کو ہلا دے.پس ان جلسوں اور میلاد کے جلسوں میں بہت بڑا فرق ہے.ایک سو سال کے میلاد بلکہ پانچ سو سال کے میلاد بلکہ ہزار سال کے میلا د بھی وہ کام نہیں کر سکتے جو یہ جلسے جو میرے مدنظر ہیں کر سکتے ہیں.میلاد آقا اور غلام کے تعلقات کا اقرار ہے اور وہ بھی علیحدگی میں.مگر یہ جلسے اس اقرار کے لئے ہوں گے کہ ہمارا آقا ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم اسے چھپا کر رکھیں.ہم اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں آؤ ا سے دیکھ لو اور اس کی خوبیوں کو پرکھ لو.پس میلا د تو ایسی محبت کا اظہار ہے جو گھر میں بچہ سے کی جائے مگر یہ جلسے ایسا کھلا چیلنج ہے جیسے سپاہی میدان جنگ میں کھڑا ہو کر دیتا ہے اور کہتا ہے آؤ میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر یہ چیلنج ایک مذہب کا دوسرے مذہب کو نہیں نہ اسلام کا دوسرے مذاہب کو ہے بلکہ یہ ایک مقدس ہستی کا دوسرے بنی نوع انسان کو ہے اس لئے ہم یہ چیلنج دینے والوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں بلکہ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ اس طرح ہم دنیا کو یہ بتائیں گے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کا رسول ماننے والے ہی چیلنج نہیں دیتے بلکہ جو اس حد تک آپ کو نہیں مانتے جو ماننے کا حق ہے وہ بھی چیلنج دے

Page 506

سيرة النبي علي 492 جلد 2 رہے ہیں.ایک تو ان جلسوں کا یہ مقصد ہے جو کسی اور جلسہ سے پورا نہیں ہوسکتا.دوسرا مقصد ایک اور ہے جس میں مسلمانوں کا چیلنج دنیا کو ہے.پہلی صورت میں رسول کریم ﷺ کا چیلنج دنیا کی ہستیوں کو ہے اس میں اور لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے لوگوں کا اکثر حصہ شریر ہوتا ہے میرے نزدیک اکثر لوگ شریف ہیں.اسی طرح میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں ہندوؤں میں سے اکثر لوگ شریر ہیں بلکہ میں ان میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوؤں میں سے اکثر شریف ہیں.اسی طرح میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں عیسائیوں میں سے اکثر حصہ شریر ہے بلکہ ان میں سے ہر جو یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا اکثر حصہ شریف ہے.مگر بات یہ ہے کہ شریفوں کا طبقہ دوسروں سے دبا ہوا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ان کی دبی ہوئی آواز کو بلند کریں.ان جلسوں کے ذریعہ ہندوؤں کی وہ کثرت جو اپنے اندر شرافت رکھتی ہے اور صلح کے لئے تیار ہے اس کو جرات دلائیں گے اور اس کے حوصلے بڑھائیں گے تا کہ ایسے لوگوں کے سامنے آنے سے مذہب اور ملک پر اثر پڑے.فتنہ انگیز لوگ دب جائیں اور ملک میں امن قائم ہو سکے.اسی طرح عیسائیوں اور یہودیوں کی کثیر تعداد جو شریف اور امن پسند ہے مگر دوسروں سے دبی ہوئی ہے اس کو بلند کریں گے تا کہ شریروں کی آواز دب جائے اور شریفوں کی کثیر تعداد کھڑی ہو جائے.پس ان جلسوں کے ذریعہ ہمارا ان لوگوں کو جو فتنہ انگیز ہیں چیلنج ہو گا.ہم انہیں بتا ئیں گے ہم اس لئے کھڑے ہوئے ہیں کہ شریروں کو دبا دیں اور شریفوں کی جو ہر قوم و مذہب میں کثرت سے پائے جاتے ہیں مدد کریں تا کہ ملک میں امن قائم ہو.پھر ہما را چیلنج ان لوگوں کو ہو گا جو رسول کریم ﷺ کی ذات پر حملہ کرتے صلى الله ہیں.ہم انہیں کہیں گے تمہاری غرض اگر یہ ہے کہ مسلمان محمد رسول اللہ ﷺ سے جدا ہو جائیں تو یہ غلط ہے.ہم اور زیادہ آپ کے قریب ہوں گے اور کوئی انسانی ہاتھ

Page 507

سيرة النبي ع 493 جلد 2 ے سے ہمیں الگ نہیں کر سکتا.یہ مقاصد خاموش جلسوں سے پورے نہیں ہو سکتے جو ان کے لئے آگ کی ضرورت ہے مگر وہ آگ نہیں جو جلا دیتی ہے بلکہ وہ آگ پکانے والی ہے.پس ہم آگ پیدا کریں گے مگر فساد اور لڑائی کی آگ نہیں بلکہ وہ آگ جس سے عمدہ غذائیں پکتی ہیں تا کہ امن قائم ہو.اس کے لئے بڑی بھاری آرگنائیزیشن کی ضرورت ہے اور تمام قوموں سے تعاون کی ضرورت ہے زیادہ تر ان صوبوں میں جن کی زبانیں ہم سے مختلف ہیں.یو.پی ، بہار، پنجاب اور سرحد میں بھی ضرورت ہے مگر زیادہ تر بمبئی ، مدراس، سی پی، برہما، مالا بار کے متعلق ہے.ان علاقوں کی احمدی جماعتوں کو اپنی مرکزی انجمنیں بنانی چاہئیں.یوں بھی ایسی مرکزی انجمن کی ضرورت ہے.صوبہ بنگال کے احمدیوں نے ایسی انجمن بنائی ہوئی ہے.اسی طرح دوسرے تمام صوبوں میں بھی ہونی چاہئیں.پھر دوسری انجمنوں کو خواہ وہ ہندوؤں کی ہوں یا سکھوں کی ، عیسائیوں کی ہوں یا پارسیوں کی تعاون کے لئے کہنا چاہئے.پھر اپنے اپنے صوبوں کے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کی لسٹ بنا کر دیکھنا چاہئے کہ ان میں سے ہر ایک میں 20 جون 1928 ء کو جلسے کرنے کا انتظام ہو گیا ہے یا نہیں.اور کالجوں کے طلباء کو تیار کرنا چاہئے.اس تحریک کے مذہبی، اخلاقی اور تمدنی فوائد کے علاوہ سیاسی فوائد بھی ہیں.پس ضرورت ہے ایک نظام کی.یہاں مرکز میں بھی اس کام کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہے کیونکہ خط و کتابت کثرت سے کی جائے گی.مختلف زبانوں میں اشتہار شائع کئے جائیں گے.بہت سی زبانیں جاننے والے یہاں موجود ہیں وہ اگر اپنے آپ کو اس لئے پیش کریں کہ روزانہ کچھ گھنٹے وہ اس کام کے لئے دیا کریں گے تو بغیر زائد عملہ کے بہت سا کام ہو سکتا ہے مگر جو اپنے نام پیش کریں وہ ایسے ہوں جو کام کرنے والے ہوں.بعض ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ٹیپ کے مصرعہ کی طرح یہ طریق اختیار کیا ہوا ہے کہ جب میری طرف سے کوئی تحریک ہو وہ اپنا نام پیش کر دیں مگر کبھی کام نہیں

Page 508

سيرة النبي عمال 494 جلد 2 کرتے.اس طرح نام پیش کرنا فضول ہے.وہ لوگ اپنے نام لکھا ئیں جو کام کریں.ہر زبان کے لوگ اگر اپنے آپ کو پیش کریں تو مفید ہوسکتا ہے کیونکہ اس طرح خط و کتابت کے ذریعہ تمام ملک میں جوش کی لہر پیدا کی جاسکتی ہے.اگر ان جلسوں کا یہی نتیجہ نکل آئے کہ ایک ہزار مسلمان رسول کریم ﷺ کی لائف پڑھ لیں تو کتنا فائدہ ہوگا.اس کے لئے وہ سیاسی آدمی بھی تیار ہو جائیں گے جو عام مذہبی جلسوں میں نہیں جاتے اور جب وہ اس مضمون پر لیکچر دینے کے لئے تیاری کریں گے تو رسول کریم ﷺ کی محبت ان میں پیدا ہو جائے گی.پس میں یہاں کی جماعت اور باہر کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی سے اس بات کا انتظام کریں کہ ہر جگہ اور ہر طبقہ کے لوگ لیکچر دے سکیں.یوں تو ایک ہزار آدمی یہاں سے اور اردگرد کے گاؤں سے مہیا ہو سکتے ہیں اور کوئی تعجب نہیں قادیان سے ہی ایک ہزار آدمی ایسے مل جائیں لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوگا.یہاں سے لوگ کلکتہ، مدراس، ڈھاکہ اور رنگون نہیں جا سکتے.اور اگر ان علاقوں میں یہاں سے آدمی بھیجیں تو چار پانچ سال کی آمدنی ان کے آمد ورفت کے خرچ پر ہی صرف ہو جائے.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقہ میں مرکزی جماعتیں پیدا ہوں اور وہ اپنے علاقوں کے لئے خود آدمی کھڑے کریں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ٹریکٹ اور ہدایات شائع کریں مگر ان کو پھیلانا دوسری جماعتوں کا کام ہے.(الفضل 3 فروری 1928ء)

Page 509

Page 510

3 5 8 00 16 انڈیکس 23 25 آیات قرآنیہ احادیث کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات

Page 511

Page 512

182.104 51 385 99 12 165 147 201 3 آیات قرآنیہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا (17) 58 (70) الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) اهْدِنَا الصِّرَاط (76) المائدة 184 58 (25) يَمُوسَى إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا هود أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ البقرة وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 119 (18) يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (4) 201 (68) عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا الانعام 317 | الرعد إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ (32) فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ (39) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ (158) (129) 130 قُلْ إِنَّ صَلاتِي (163) الاعراف 73 - يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ 472 يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ (12) 19 الحجر إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ (10) 204 (59) ال عمران النحل 423 إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ) الانفال (91) (32) 274،38 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (25) 422 بنی اسرائیل كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ (111) 424 التوبة أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ (94) وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ طة (145) عَلَى جُنُوبِهِمْ ( 192 ) (24) 45 201 358 يونس النساء أخِرُ دَعُوهُمُ أَن الْحَمْدُ لله حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ (24) وَأُمُرُ أَهْلَكَ (133) النور أَقِيمُوا الصَّلوةَ (57) (11)7 184

Page 513

226 147 118 226 4 فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا (62) 68 أسْوَةٌ (22) 202،109 | الجمعة الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (4) العنكبوت فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (24) 436،268 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (44042) وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النِّبُوَّةَ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ (28) الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (57) 472 358 86 يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ (3) التحريم قُوا أَنْفُسَكُمُ (7) المزمل إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا 86 (16) فاطر اِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ المدثر وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ (25) 28 (6) 406 (70) الاحزاب لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ

Page 514

5 الا شققت عن قلبه 161 احادیث لَولاک لَمَا خَلَقْتُ 329 میری مسجد آخری مسجد الدعاء مخ العبادة 436 | مَا مِنْ دَاءِ م وہ نبی ہوگا 134 میں جھوٹ بولنے والا نہیں الله اعلى و اجل 106 مَن قُتِل دون مالِهِ 219 مجھ کو اللہ بچا سکتا ہے اللَّهُمَّ فَقَهُهُ فِي الدِّينِ أَنا سَيِّدُ وَلُدِ آدَم 71 32 حدیث پالمعنى آپس میں سلام کرو بہتر اسلام.سلام کہنا ان الله خلق آدم على ترتیب بلحاظ صفحات) اگر نشان لگانا ہو صورته ان جبريل إنكم تختصمون إِنِّي مُكَاثِر بكم الامم 129 166 160 474 حوض کوثر پر مجھ سے مطالبہ کرنا 16 یہ خدا کی آیت ہے 115 جب تک گرہن نہ ہے خدا کے نبی پیچھے نہیں ہٹتے 17 میں شیطان پر غالب آ گیا انصار کو آواز دو 17 وہ دعا جس میں حمد درود نہ ہو 57 57 58 62 66 68 69 74 76 77 84 87 حبب الى طلب العلم فريضة 262 b 226 سلوک نہ کرے جو شخص دو بیویاں کر کے مساوی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ 103 21 22 جہاں دو آدمیوں کی شہادت کی اگر تمہاری اجازت ہو 22 | ضرورت 105 اگر سورج کو میرے خدا کے فضل سے جنت میں 109 دائیں كلكم راع 147 222.147 مجھے مشورہ دو خدا کی قسم میں نبی ہوں لَو كَانَ مُوسَى وَ عِيْسَى مردم شماری کرو 165،57 میں خاتم النبین ہوں 247.63.26 35 40 41 56 مومن مہمان کا اکرام کرے 116 خیبر کی فتح اس شخص کے لئے ہے 127 صبح اور عصر کی نماز کی پابندی کرو 133

Page 515

6 جب آدم مٹی میں تھا 137 اللہ اس کو جنت دے گا 210 داغ ران پر دیا جائے یا اللہ اس قوم کو پتہ نہیں 138 اپنے بچوں کو قتل نہ کرو 210 جس علاقے میں وبائی بیماری آل محمد پر صدقہ حرام 147 گھر میں اچانک داخل نہ ہوں 211 ہو ہم معاہدہ کے خلاف نہیں 152 شیشوں کا بھی خیال رکھو 211 ہتھیار کا منہ نہ کرے ستر باراستغفار کرتا ہوں 154 | نکاح پر نکاح کی درخواست نہ جو کسی کو قتل ہوتا دیکھے 212 اگر میری بیٹی چوری کرے اگر ساری وادی دولت کی ہوتی موسی کی امت میں بہت محدث گزرے دی جائے 155 156 بہترین رزق وہ ہے 214 آوارہ کتوں کو ماریں 218 218 219 219 225 226 سوال تین شخصوں کا جائز 214 ایک عورت اکیلی سفر کرے 227 175 جنازے کی تیاری میں مدددی 215 اسے آزاد کرد و کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں 183 واپس چلے جائیں 215 اے ابو مسعود تجھ پر خدا کو 230 کسی وادی سے تم نہیں گزرتے 186 اس نے تیر مارا 215 | مقدرت حاصل ہے 230 231 215 | نوکر سے وہ کام نہ لے اب زرہ نہیں اتاری جاسکتی 188 مسلم مصافحہ کرے | کافرہ والدہ سے حسن سلوک خدا کی ناراضگی نازل ہوتی ہے 216 اگر نوکر کھانا پکا کر رکھے 198 | دونوں جو تیاں 231 231 216 جو شخص مزدور کا حق نہیں دیتا 231 میں حرج نہیں میں نے جبہ پہننے کے لیے نہیں جو راستہ سے تکلیف دہ چیز اگر تم کو میں یہ ناممکن خبر دوں 241 دیا یہ الفاظ کاٹ دو 198 | ہٹائے 216 میں خدا کو نہیں چھوڑ سکتا 199 خدا ان پر ناراض ہوا 217 تو ان پر ناراض نہ ہو تم نے اسے کیوں مارا 199 جو شخص کسی علم کو چھپاتا ہے 217 میں خدا کا نبی ہوں 246 249 257 وہ آدھے دھڑ کے ساتھ اٹھا ہے 206 خدا رحم کرتا ہے 218 | ہدیہ دیا کرو جس گھر میں لڑکی پیدا ہو 209 | بچے اڑا دو 218 تم نہیں جانتیں 264 265

Page 516

317 382 392 460 473 7 مجھے خدا نے شقی القلب نہیں جعفر پر کوئی رونے والانہیں 266 تمہاری کیا منشا ہے بنایا 265 جب تک میں جان سے پیارا نہ تم دعا کرو پہلے میں مروں گا 266 | لگوں 275 گھٹنا باندھو پھر تو کل دشمنوں کو شکست ہوگئی 266 قبروں پر جایا کرو 281 | سامان اٹھالوا اور نکل چلو میرے سامنے نہ آیا کرو 266 | کہنی مارلو 291 میں گوہ نہیں کھاتا

Page 517

8 مضامین پیدا نہیں ہوتی جب تک وہ احسان اسلام پر نازک زمانہ کرنے والے کا احسان مند نہ ہو 285 کیا آپ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں؟ اخبارات کو مضبوط کرنے کی اسلام کی زندگی آپ کی زندگی آیا آریہ اخبارات ناپاک اعتراضات اور گالیوں کی ابتدا آریوں سے ہوئی ضرورت آریوں سے صلح کی شرائط 416 تا 419 اخلاق ابتلا 414 312 395384 354 سے وابستہ ہے اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس اخلاق فاضلہ کا مقصد پاکیزگی 253 امر میں ہے؟ ابتلاؤں کی خواہش کرنا اسلام کے اخلاق فاضلہ کسی حالت میں نہ اسلام کیلئے کر بلا کا زمانہ ہے خلاف ہے اتحاد 358 | چھوڑو اسلام 390 407*396 361 اسلام کے خلاف کتابوں کا نیا سلسلہ 398 شدھی کی تحریک سے شروع ہوا 412 ملک کی ترقی کیلئے ہند و مسلم اتحاد اسلام سب سے اعلیٰ مذہب ہے 58 اسلامی حکومت ضروری ہے احمدی 459 اسلام نے مسلمانوں کا صح نظر اسلامی حکومت کے فرائض 222 تا 227 اعلی قرار دیا ہے احمدیوں سے بڑھ کر اور کوئی دعائیں اسلام میں شکار منع نہیں مانگنے والا نہیں احسان 305 58 | اسلامی حکومت کی قضا کیلئے 217 ہدایات 225.224 اسلام ستی اور کاہلی کو مٹاتا ہے 224 اسلامی حکومت خوراک کا انتظام اسلام سے پہلے آقا اور ملازم کی حیثیت 229 رکھے اعمال احسان کا اقرار انسان کیلئے از حد اسلام بزور شمشیر مذہب پھیلانے اعمال میں صفائی احسان مندی 285 کو انسانیت سے خارج قرار دیتا سے ہوتی ہے ضروری ہے احسان فراموش نہیں ہونا چاہئے 285 ہے جو حسن کا احسان مند نہیں ہوتا وہ فتنہ کا اسلام صفائی پر زور دیتا ہے 285 اسلام پانچ وقت نمازوں کی تعلیم بیچ ہوتا ہے کسی شخص کے اعمال میں پاکیزگی دیتا ہے 230 262 اللہ تعالیٰ 223 285 تمام نبیوں کی گواہی.خدا حفیظ ہے 125 263 | اللہ سب حد بندیوں سے پاک ہے 129

Page 518

9 کیا خدا کی کوئی صورت اور شکل ہے؟ ایمان 129 ایمان کی ترقی کا گر 106 اسلام کے خلاف شورش مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے رؤیت الہی کے حصول کا طریق 132 ایمان والوں پر مصائب کا تعدد ازدواج نجوم 240 241 تعدد ازدواج کے متعلق مسلمانوں کا 422 تعلق باللہ خدا سے بندہ کا براہ راست تعلق ایمان کا تقاضا کہ حضور سے محبت ہو 274 برانمونہ 22.21 تعدد ازدواج کے بارہ میں اسلامی ہوتا ہے 195 209206 پیر نہیں جانتا مرید کا خدا سے کیا بادشاہ تعلق ہے مرید نہیں جانتا کہ پیر کا خدا سے کتنا تعلق ہے 195 مسلم بچوں میں درمیان وسیلہ نہیں ،نمونہ ہیں 196 بڑائی انبیاء بڑائی کے معنی اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں 195 | بادشاہ مثل گڈریا کے 223 کی اجازت دی رسول اور خلفا ء خدا اور بندہ کے جاں نثاری 38،37،10،9 اللہ کی رضا کیلئے تکلیف اٹھانا خوشی کا موجب ہے توکل 206 تعدد ازدواج ایک قربانی ہے 207 تکلیف 359.358 55 انبیاء ہر چیز کو دیکھ کر خدا کی تعریف بیت المال کرتے ہیں انجمن انجمن ترقی اسلام میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے 74 اسلامی بیت المال پیشہ وروں کو 456 روپیہ دے پادری تو کل کی تشریح 392، 480،479 ج 226 جبرائیل جبرائیل کے کئی نام ہیں 60 80 جذبات پادریوں کے گندہ ہونے کی مثالیں 262 جذبات کو قابورکھنے کا وقت 363،361 پریس جلسے 347 پریس کی مضبوطی قوم کی آواز بلند 22 جولائی کے جلسوں کی تحریک کرنے کیلئے ضروری ہے 354 کوزبردست کامیابی 456 انگریز انگریزی قوم ہمارے زیادہ قریب ہے اولاد اولاد کے بارہ میں اسلامی تعلیم 209 اولا د کومنہ پر نہ مارا جائے 209 تبلیغ جنگ جنگ احد میں صحابہ کا اخلاص 36

Page 519

10 جنگ احد تفصیل 254، 256 | اسلامی حکومت اندرونی امن قائم چ چوہڑے ایک وقت میں ہندوستان کی بادشاہت ان کے قبضے میں تھی چوہڑوں کے بارہ میں واقعہ چوہڑے چماروں کے الگ رہنے کی وجہ.چھوت چھات حکومت 418 418 418 رکھے اسلامی حکومت راستوں کی درستی کا خیال رکھے خ خاتم النبین خاتم النبیین کے معنی 226 | درود اس احسان کا اقرار ہے جو حضور نے ہم پر کیا 227 درود میں مسیح موعود کو بھی شامل کیا 59 خاتم الانبیاء کی حقیقت 102 تا 105 خلیفہ اخلفاء شخص خدا کے حضور خلیفہ ہے 155 جائے 107 286 289286 درود سے دعا ئیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں 288 درود کی ایک الجھن کاحل 477469 در و د روحانی ترقی کا گر دعا اذان کے بعد کی دعا کی حکومت رعایا کے حقوق کی ذمہ دار 222 خلفاء خود خوراک جمع کرنے کا تعہد تشریح حکومت اسلامیہ حکومت اسلامیہ کے اہم کرتے 227 476 314t304 دماغ فرائض دماغ سارے جسم پر حکومت کرنے 227 222 حکومت اسلامیہ اور قضا کا قیام درجه کیلئے ہے اور ہدایات 225.224 جس قدر کسی کے ماتحت بڑے ہوں حکومت اسلامیہ کا فرض عدل کا گے اسی قدر اس کا درجہ بڑا ہوگا 55 قیام 224 | درخت رسول رسول کا کام احکام ضرور یہ اور ان 336 اسلامی حکومت ملک کی عزت اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے 31 آزادی کی حفاظت کرے 225 | ورود اسلامی حکومت حفظان صحت کا خیال درود قبولیت دعا کا ذریعہ رکھے اسلامی حکومت ملک کی تعلیم کا انتظام کرے 87 226 درود سے ملائکہ سے تعلق قائم ہوتا ہے 87 کی حکمت سکھانا رسومات رسومات کو چھوڑنے کی تلقین 226 438.437 صلحاء نے درود کو بڑا اعلیٰ قرار دیا ہے 87 عربوں کا رسوم کا خطر ناک پابند ہونا 3 226 | درود کے الفاظ کی ترتیب میں

Page 520

11 رنگیلا لفظ رنگیلا کی تشریح رنگیلا اسے کہتے ہیں جو شراب میں بد مست رہے 378 379 سول نافرمانی عدم تعاون کے بعد مسلم شہری کے فرائض 214 تا220 درست سول نافرمانی والوں کو کیا کرنا چاہئے رنگیلا پن کی دوسری خصوصیت 380 سیرت رسول علی 403 404 مسلم شہری سوال نہ کرے مسلم شہری سلام کہے 405،404 مسلم شہری ضرر رساں چیزیں فروخت نہ کرے رنگیلا وہ ہے جسے اپنے انجام کی فکر سیرت رسول کے حوالہ سے ایک نہ ہو رنگیلا پن میں عورتوں سے تعلق شامل ہے 380 380 رنگیلا پن کا موقع کھانے پینے کا ہے 380 رنگیلا کسی خوف کو اپنے اوپر مستولی نہیں ہونے دیتا سچائی سچائی پر کھنے کا معیار 381 31 منصوج مسلم شہری ظالم نہ ہو مسلم شہری بہادر بنے 214 215 458 تا462 مسلم شہری دکھ کے اوقات میں لوگوں کا مددگار ہو مسلم شہری کے اخلاق اور حوصلہ بلند 216 217 217 218 218 مسلم شہری قربانی کرے 218 219 208 | مسلم شہری کسی کو ہلاک ہوتا دیکھے تو اُسے بچائے شادی ہونا چاہئے ضرورت کے وقت دوسری شادی نہ کرنا ظلم ہے شراب پر عربوں کا فخر مسلم شہری مصائب میں پہاڑ کی لندن شراب نوشی پر فخر نہیں کرتا طرح کھڑا رہے امام حسین کی شہادت نے شیعوں کو شرک بدترین گناه 198 تقویت دی 219 219 449 سلسلہ احمدیہ یہ ناممکن ہے کہ ایک الہی سلسلہ ہو اور اس کے اکثر افراد گندے ہوں 486 سول نافرمانی ہم شرک کے وہابیوں سے زیادہ شمن ہیں شعائر الله سول نافرمانی کے نقصانات سول نافرمانی مسلمانوں کے فوائد کے خلاف 399 400 283 صحابہ صحابہ میں جوش عقیدت شعائر اللہ کو دیکھ کر خشیت اللہ پیدا صحابہ میں روح فدویت ہوتی ہے 278 صحابہ کا جنگ احد میں اخلاص سول نا فرمانی کیلئے لاکھوں لوگ کہاں صلح حدیبیہ والا درخت شعائر اللہ 279 ابتدائی صحابہ پر کفار کے سے آئیں؟ 402 شہری 9.8 9 36 185.184.94.93

Page 521

12 صحابی وہ ہے جو صرف صحبت چاہتا ہے صحابہ غیر مذاہب کے جنازوں میں شامل ہوتے صحابہ کا حبشہ کو ہجرت کرنا صحابہ کا وفدشاہ حبشہ کے دربار میں اور تقریر طلاق ایک وفا دار عورت کا واقعہ 112 مغرب طلاق کا قائل ہو رہا ہے 206 عیسائی عیسائی سب سے زیادہ دعا کی طرف متوجہ ہیں 215 244 245 عادت ع عادت کے مقابلہ میں تمام علوم بیچ ہیں 7 عرفان شاہ حبشہ کا صحابہ کی مدد کرنا 245 ،246 حضور کے طفیل لوگوں کے عرفان عیسائیوں کو مسیح کی مظلومیت انیس صحابہ حضور کا پہرہ دیتے 453،273 میں زیادتی 256 437 غصے کی کارروائی تباہی لاتی ہے 361 174 سو سال سے طاقت دے رہی ہے 449 عشق غلام غلامی عشق رسول 300 تا303 غلاموں کو مارنے کی ممانعت 130.129 230-229 ایک صحابی کے ایمان کا واقعہ ایک وفا دار صحابی کا واقعہ 105.104 255 ایک صحابی کی استقامت 256 ، 257 صحابیہ عورتوں کی فدائیت صلح 11،10 علم کو دنیا سے ضائع نہ ہونے دیں 217 غلام بنانے کی شرائط عمل ہندوؤں سے صلح کا طریق کار 416 عمل شکریہ کے طور پر بھی کیے جاتے صلح حدیبیہ کی شرائط 152 153 ہیں عورت 183 اسلام بلا وجہ غلام بنانے کو خطرناک مجرم قرار دیتا ہے ضرورت عورتوں کے مشورہ کی اہمیت 179.178 ضرورت کے مطابق بعض چیزیں عورتوں کو اسلام نے ورثہ کا حصہ دار اچھی اور بعض بری ہوتی ہیں 409 | بنایا طعن b عورتوں کو اسلام نے پورے حقوق دیئے 210 211.210 230 غیرت ایمانی غیرت ایمانی کے ماتحت بڑے بڑے کام ہوئے ہیں فتح ف 25 25 فتح ہمیشہ دماغ کے ذریعہ ہوتی ہے 336 مردوں کو عورتوں کے آرام کا خیال بعض جگہ امن کے قیام کیلئے فتنہ طعن کی زبان ناشکری سے نکلتی ہے 286 رکھنا چاہئے 211 پیدا کرنے کی ضرورت ہے 409

Page 522

فساد 13 ناشکر گزاری فساد پیدا کرتی ہے 285 قلب کا اثر بات پر پڑتا ہے قمار بازی قانون ق 3 گالی گلوچ آقا! اپنے ملازم کو گالی نہ دے 229 قمار بازی پر عربوں کو فخر تھا 3 گالیاں دینے والوں سے صلح نہیں قانون کا حیرت انگیز نقص 339،338 | قوانین بزرگان دین کے متعلق قانون میں نقائص قرآن کریم ہو سکتی 303 کفار کی گالیوں کو قرآن نقل کرتا ہے 320 قوانین قدرت کا مقابلہ دیر تک نہیں 429 تا 433 | ہوسکتا قید ایک آیت قرآنی میں بے نظیر جامع قید ہونے والوں کی بہادری قرآن کی حفاظت کا وعدہ قرآن نے اصول دین بیان فرمائے 12 99 کفار ک 207 339 جو قوم بزرگوں کے متعلق گالیاں سن کر چپ رہتی ہے اُس میں بے غیرتی پیدا ہو جاتی ہے گرین چاند گرہن ایک نشان ہے 201 کفار مکہ کے مسلمانوں پر مظالم 14 لڑائی قرآن کریم کا فلسفہ سچا فلسفہ ہے 435 کفار مکہ کا ابو طالب کے پاس جانا 62 عربوں کا خطر ناک لڑا کا مزاج قرب الہی کفار مکہ کا حضور کے چچا کو تنگ کرنا 246 لڑائی کو ہر شخص نا پسند کرتا ہے قرب الہی کے حصول کا راز اور گر 106 کفار مکہ کی توحید سے روکنے کی قرب الہی کیلئے مہمان نوازی بھی کوشش لڑکیاں 246 247 لڑکیوں کی تربیت کی فضیلت 117 | کفار مکہ کی حضور کو لالچ 247 | لذت کفار مکہ کی مدینہ پر چڑھائی 253 ، 254 عبادت میں ایسی لذت ہے جس 362 77 4.3 409 209 19 کفار مکہ کے حضور پر مظالم 334 کا کوئی مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا 263 دخل رکھتی ہے قربانی قربانی سے مراد قرنطینه صلح حدیبیہ کا معاہدہ.کفار کی تباہی قرنطینہ ایک نئی ایجاد 218 کا موجب قصے کورٹ 336 مجرم مجرم کی امداد کر نا ظالمانہ فعل 440،100،92،33،30 | ہائی کورٹ پر حملہ کرنا جائز ہے 455 ہے 447.446

Page 523

14 محبت مسلمانوں کی ناکامی تفرقہ کا نتیجہ مقام محمود محبت قربانی کا مطالبہ کرتی ہے 332 ہے 353 مقام محمود کے دو طریق 310،309 434 73 74 74 106 132 195 299 59 عقل سے ملی ہو محبت وہی ہے جو اپنے دماغ اور مسلمان اپنا کام مسلمان وکلاء کو دیں 354 مسلمانوں کی ترقی کا ذریعہ پریس 354 مولوی 365 ایک مولوی کا واقعہ مسلمان حکومت کا مقابلہ نہ کریں 367 مسلمانوں کے دلوں میں اللہ نے مومن ہر آدمی محنت کر کے کھائے 214 مخالفین غیرت کا چشمہ پھوڑ دیا 390 مومن کو ہر چیز میں خدا کا جلوہ نظر آتا مسلمانوں کیلئے سول نافرمانی ہے مخالفین احمدیت کے بارہ میں موجودہ حالات میں خطرناک 399 | مومن کو دوسروں کا دکھ تمام لوگوں جماعت احمدیہ کو نصیحت 269 مسلمانوں کا اہم فرض.فیصلہ ورتمان سے زیادہ 434 تا 437 | اس کا درد بڑھتا ہے مسلمانوں کو نصائح 421 تا433 مومن کا جتنا ایمان ترقی کرتا ہے مومن مصائب میں زیادہ بہادر اور دلیر ہوتا ہے 437 کے بعد مدارج جب کسی قوم کا حوصلہ پست ہو مسلمان سب سے زیادہ دعا سے بڑے مدارج کا حاصل کرنا اُسے متنفر ہیں محال ہوتا ہے 58 مشرک مستورات مومن مستورات کا اخلاص مسلمان 37.36 مسلمان حضور کی محبت کا عملی ثبوت دیں 332 مسلمان اور حب رسول 343،342 مومن کو صبح بھی تجلی ہوگی اور شام کو بھی مکہ کے مشرکوں کی حالت کا نقشہ 244 ہر مومن خدا سے براہ راست تعلق مصائب رکھتا ہے ابتدائی صحابہ کے مصائب 245،244 مومن ہر تغیر میں خدا کی قدرت کا مصائب کا علاج مظلومیت 386 نشان دیکھتا ہے مہر مسلمانوں کی آڑھت کی دکانیں کسی قوم کی ترقی کیلئے مظلومیت مہر تصدیق کیلئے ہوا کرتی ہے کے واقعات مؤثر ہوتے ہیں 449 کھلوانے کی تجویز 350 مسلمان سیاسی حقوق کا استقلال سے مفتی مطالبہ کریں 1 35 مفتی صرف حکومت مقرر کر سکتی ہے 225 اجراء نبوت حضور کی عظمت کی علامت ہے 177173

Page 524

216 218 15 نبی.انبیاء حضور کی اتباع سے نبی بن سکتے ہیں 59 ایک واقعہ اور مسلمانوں کو وقار 438434 وقار کے خلاف بات نہ کریں 0 ہمسایہ ہمسایہ کو قرض دو ہندو 470.469 4.3 نصائح فقیر کا واقعہ وحشت عربوں کی وحشت ورثه ورثہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم 210 وسیله وسیلہ کیا ہے؟ 195 ہندوؤں سے چھوت چھات کریں 349 ہند و مسلمانوں سے سات سوسال سے چھوت چھات کرتے ہیں 417 191 58 5.4 نبی کی بشریت انبیاء جماعتوں کیلئے چھوٹے مقاصد نہیں قرار دیتے واقعات عربوں کی خودسری کا واقعہ

Page 525

16 اسماء ابوذر غفاری ، حضرت ابو جہل آ آدم علیہ السلام، حضرت ابوسفیان 130.129.32 ابوطالب، حضرت آمنہ حضرت 234 ابوطلحہ ، حضرت ابوقحافہ حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت 10 ،38 | جعفر حضرت 93 124.100 235 89 حہ قیل، حضرت 266 て 375 حسان بن ثابت ، حضرت 193 حضور کی وفات پر مرثیہ حسن ، حضرت امام حسین ، حضرت امام 46 189 449.398 189 235 266 $23 151 150.96.95 428 اڈوائر اسامہ بن زید، حضرت 160 | حلیمہ، حضرت 375-318-278.171.141 4760469 ابن مسعود 230 | اسمعیل، حضرت 472،141 ان کا عجیب وغریب واقعہ ابن عباس 71 امان اللہ خان، امیر 160 | حمزہ ، حضرت ابن ہشام 119 | اندرمن ابوبکر صدیق، حضرت انس ، حضرت ایٹکن ،لارڈ 415.414 89 428 خدیجہ حضرت 238.236.192.155.91 265.241 بخاری ، حضرت امام 59 پہلی وحی میں حضور کوتسلی 239،116 375 214 342 338.337 415.321 براؤن ، مسٹر 429 بشیر احمد، حضرت مرزا 460 دانیال، حضرت داؤد، حضرت دلال، جسٹس ثناء اللہ ، مولوی ج 486 ولا ورشاہ، سید دیانند، پنڈت 150-126-106.103.96.95 $239.198.193.180.163 249.240 آپ کا قبول اسلام آپ کی تبلیغ سے بیعتیں 240 239.104.103 240 حضور کی وفات پر تقریر 46.45 خلیفہ بننے پر باپ کی حیرت 193 ابو جعفر طحاوی 65

Page 526

دیوی شرن شر ما ڈارون راجپال 321.319 }; 435.377.370.337 17 شنکر اچاریہ 321 خدمت خلق کا ایک واقعہ 223 ،224 شیر علی ،حضرت مولانا 262 | ایک سوالی کی تربیت ض 224 آپ کا اپنے بیٹے کو کوڑے لگانا 225 427،384تا448،445،430 عائشہ، حضرت 29.13 عیسی ، حضرت 436 79.64.57.35.34.32.31 101.99.98.93.81.80 166.165.163.144139 رام 251.245.174.171.168 $196.189.183.109.23.22 443 رام چندر ، حضرت 322.321.266.265.208 375.321 482.460.449.443.283 رام دیو، پروفیسر 78 عباس، حضرت ز 190 عیسی کی وفات سے حضور عبدالرحمن بن عوف ، حضرت 38 کی عزت بڑھتی ہے 48043 زبیر، حضرت 241 عبدالرشید 446 حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے سے عبد الله زرتشت ، حضرت زید، حضرت زینب، حضرت 375 266.239 323.321 69 خدا پر الزام 47045 عبداللہ ، حضرت کیا خدا حضرت عیسی کوزندہ حضور کے والد 234 اٹھانے پر قادر نہیں 47.46 س سعد بن معاد 120 عبدالمطلب ،حضرت سلیمان ، حضرت 100 عثمان ، حضرت 235 240 سودہ ، حضرت 23 علی ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت 217 حیات مسیح کے عقیدہ کی بنیاد عبدالماجد بھاگلپوری 461 کب پڑی 48.47 غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت مرزا غ ش.252.164.118.101*99.20 335-322-321.239.128.93 416 414.368.360.319 شادی لال ،سر 355 عمر، حضر شردھانند $217.198.150.106.96.36 300 279-277-275.274 446.445.325.321.302 آپ کے دعوی نبوت سے حضور کی فضیلت آپ امتی نبی ہیں حضور کی وفات پر رد عمل 46،45 57055 59

Page 527

18 آپ کے ہم پر بے شمار احسانات آپ نے حضور کے چہرہ 286 مبارک سے پردے ہٹائے 287 مسلمانوں کا جوش 238.237.116 342 ورقہ بن نوفل کی تصدیق کوہ صفا پر اعلان 238 158.62 گاندھی 403.399.92.91 اہل مکہ کا حضور کے چچا کو آپ آپ کا عشق رسول 303 لیکھرام کے خلاف اکسانا 321 طائف کا سفر اور تبلیغ 246 آپ کا 1907ء میں آریوں لیلی 30 249.248.136 کے جلسہ میں مضمون 415 416 لیفن 377 طائف میں تکلیف اٹھانا 248.75.74 گورنمنٹ کو مذہب کے بارہ میں قانون کی تلقین مجنوں شعب ابی طالب میں تکالیف 30 428 248 محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، ف حضرت خاتم الانبیاء فاطمہ ، حضرت پاک زندگی 124.123 فرعون 166 118 دعوئی سے پہلے کی زندگی مدینہ کی طرف ہجرت 249 250 جنگ احد میں تکلیف اٹھانا 36 ، 254 بنونضیر سے صلح کی شرائط 412،411 مرض الموت میں نصیحت 259 182.159.158 ق سوانح قرب وصال کا ایک واقعہ قاسم علی ،حضرت میر آپ کی جائے پیدائش 233 ، 234 قیصر 113،96،95 | والدہ کی وفات حضور کی عمر 63 سال 292.291 44 پرورش 236-235 236.234 داعی الی اللہ کرشن، حضرت 321، 443،375 بچپن میں کھانے پر نہ جھپٹنا 236 نبوت پر حلفیہ اعلان کسری 151 150 113.96.95 کنور دلیپ سنگھ آپ کا تجارت کرنا 192 صادق و امین کہلانا گوشہ تنہائی میں عبادت 484.236.159 237 356.342.341.338.337 392.388.387.385.370 حضرت خدیجہ سے شادی 393، 428،427 پہلی وحی پر خوف 237.236.23 116 کنور دلیپ سنگھ کا فیصلہ اور حضرت خدیجہ کی آپ کو تسلی بطور داعی الی اللہ 40 156.155 اہل مکہ کو اعلانی تبلیغ 241 242 کفار کی ہدایت کی تڑپ 268 دعوت الی اللہ میں دیوانہ وار کوشش کفار کار و عمل 137.136 آپ کی قوم کی آپ سے بدسلوکی 95093

Page 528

19 دعویٰ نبوت پر لگا نے بیگانے آپ کی تعلیمات غیر مسلموں بیویوں سے حسن سلوک 239 سے سلوک کے متعلق 198 ، 199 آخری سانس تک بیویوں کا ہو گئے آپ پر لوگوں کے ظلم 243 آقا اور ملازمین کے متعلق خیال رکھنا 229 تا 231 | رشته دار 189 208 106 جنگ کے بارہ میں تعلیمات 258 حضور کارشتہ داروں سے مصائب میں کیفیت 336334 بیویوں کے حقوق کے بارہ میں تعلیم حسن سلوک 22 | نواسوں سے پیار 190.189 189 شہری کے فرائض کے بارہ حضرت عباس کے بندھن ڈھیلے آپ کی استقامت 256 ، 257 کفار کے مظالم کے مقابلہ میں آپ کا رد عمل حضور کی پر حکمت تبلیغ کا نتیجہ 315 آپ کی ابتدائی حالت اور عروج میں تعلیم بارہ میں تعلیم عظیم الشان مصلح اور مربی 295.294 2200214 کرنا اسلامی حکومت کے فرائض کے حضور کی معاہدات کی 227 222 ہستی باری تعالیٰ کے متعلق آپ کا فرمان رسول کریم اور اصلاح معاشرہ 1 تا 15 حضور کے کام کے نتائج 1 تا 15 آپ نے عربوں کی شراب تو کل کے بارہ میں فرمان 1310129 پابندی رض 190 153.152.65 حضرت ابو ہر میدہ سے پیار آپ کی قدرشناسی 408 حضور کی غیرت ایمانی حضور کی قربانیاں فاتح 117.116 سیرت و اخلاق نبوی آپ کے چند نمایاں چھڑادی 5تا7 اخلاق آپ نے عرب کی کایا پلٹ سیرت نبوی کی چند جھلکیاں 49 تا 54 دی عرب سے بہت پرستی مٹادی 1105 5 حضور کے اخلاق کے دونوں پہلوؤں کا ظہور عربوں میں اطاعت کا مادہ پیدا کیا 7 آپ کی تربیت یافتہ جماعت 42.41 آپ کی قرآن کی تفسیر آپ کا عدل و انصاف 259.258 196 190 151.150 71 25 19 فاتح ہو کر آپکا نیک سلوک 15،14 زمانہ ترقی میں اسوہ دشمنوں سے حسن سلوک 250 258 حضور کے حسن سلوک کا نتیجہ 297.296 آپ کے اعلیٰ کردار کا اثر 105103 132 85079 238.237 بدر کے قیدیوں سے حسن سلوک 226 آپ کا ایک حکم اور صحابہ کا فوری عمل تعلیمات نبوی حضور کی زندگی اور تعلیم 90088 259*233 آپ کی تعلیم کا خلاصہ 250 تا 253 جنگ احد میں استقامت 256 آپ کی غلاموں سے ہمدردی اور حضور کا تعلق باللہ سلوک غلاموں کو آزاد کرنا 230 229.131.130 237 آپ پر خدا کی تجلی نزول جبریل الہام الہی کا نزول

Page 529

20 آپ کے ذریعہ صفت حفیظ آپ کا عورتوں سے مشورہ حضور کے رویا وکشوف 178،95،94 | کا ظہور 126.125 آپ کا تو کل 146 ، 180 آپ کے ذریعہ صفت خالقیت اغیار کی آراء 127 | ایک سفیر قریش کا حضور کے آپ کی خدا کیلئے غیرت کا ظہور 98 تا101 | آپ کا سینہ سب سے اعلیٰ اور مصفی 80 در بار کا نقشہ 179.178 113.112 عسرویسر میں حمد الہی کرنے والا پ کے ذریعہ صفت شافی دشمنوں کی شہادت 124،123 185.184 کا ظہور 127 فرانس کے ایک مصنف کی نبی آپ کا ہر فعل عبادت تھا حضور بطور قاضی 1110109 161.160 حضور کا خوف خدا 451.299.282 ممتاز ترین نبی آپ صفت رب العالمین رائے کے مظہر 136 تا 138 | معجزات صفات باری کے غیر موافق حالات میں مظہر اتم 139 تا 145 | کامیابی حضور خاتم الانبیاء حضور اور آپ کے ساتھیوں کی 381 96091 55تا102،60 تا 105 | معجزانہ ترقی آپ کا مقام محمود 304 تا 314 پانی میں برکت کا معجزہ سب نبیوں سے پیارا اور افضل نبی نور محمدی 38028 بہترین اسوہ 194.192 127 157 آپ کے لعاب دہن سے 61 تا 63 حضرت علی کی آنکھوں کو شفا 128 رسول کریم کی اعلیٰ وارفع شان حقوق نسواں کا بہترین علمبردار جنگ بدر میں آپ کا معجزہ 269 333329.1670162 تمام انبیاء کے مقابلہ میں آپ کے شرک سے پاک نبی کارنامے آپ کی قوت قدسیہ آپ کے 11 211206 78 خدا کا بہترین شکر گزار بندہ 183 افضل ہونے کا ثبوت 37 معالج کھانے میں برکت کا واقعہ 290 فیضان آپ نے امت کو بڑے درجہ 58 کی طرف لے جانا چاہا جسمانی بیماریوں کے عظیم آپ پر درود کی برکات 87،86 134 ، 135 آپ کے غلاموں کی معذوروں کی حوصلہ افزائی 103.102 75073 حضور کی تیار کردہ جماعت کی دوسرے انبیاء کی جماعتوں کرنے والا نبی شان 186 187 | رحمة للعالمين پر فضیلت 32 تا 38 ، 112 113 آپ کو ہر طرح کا لالچ دیا گیا 62 متفرقات حضور اور حضرت موسی کی زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق رسول کریم کا استغفار کامیابیوں کا مقابلہ 119 تا 121 دعاؤں کی تعلیم 436 437 حضور کی تین پسندیدہ چیزیں آپ کے ذریعہ صفات باری کا ظہور آپ کے مشورہ کا طریق 188 154 263.262

Page 530

21 صلح حدیبیہ میں آپ کا اپنے ہاتھوں آپ کی صداقت کی دلیل 27 آپ کی عزت دنیا کے احیاء سے رسول اللہ کا لفظ کا شنا 199 ، 335 آپ کی صداقت کے نشان 51 تا 54 میں ہے آپ شارح شریعت 201 تا 203 ہندوؤں کی حضور کی شان 422 حضور کی محبت پیدا کرنے کا میں گستاخی پر تبصرہ 409 تا420 شادیاں تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب 20 تا 24 | طریق 435 رسول کریم کی محبت کا دعویٰ آپ نے ملک اور قوم کی بہتری آپ پر درود پڑھنے کی حکمت و کرنے والے اب بھی بیدار 208 اہمیت 285 تا 289 | نہ ہوں گے؟ 328319 کیلئے شادیاں کیں رسول کریم کی ایک سنت 298 حضور کا انکار کس قدر خطر ناک حضور کی سیرت کے بارہ میں 50، 51 ہندوستان میں جلسوں کا آپ کے مسنون خطبہ جمعہ نتائج کا حامل کو تواتر سے پڑھنے میں حضور کے الہی اعمال اور ان 487.478 216 حکمت آپ پر اعتراض کا خطرناک 115.114.1816 آپ کی عظمت کی وجہ 50 294.293 پروگرام 477 C465 494*488 آپ کے مقبرہ کی حفاظت کی محمد شاہ رنگیلا ( ہندوستان کا بادشاہ ) اہمیت 284 271 آپ کی اطاعت کی وجہ 195 تا 197 بنک رسول کی محمد ظفر اللہ خان ، سر آپ کا مقام اور ایک نصیحت 64 عقیدہ حیات مسیح حضور کی ہتک ہے محمد علی خان، نواب آپ کے غم کی کیفیت 265 تا 267 آپ کی دعا کی کیفیت 48043 149 اس زمانہ میں حضور کی ہتک کثرت آپ کی قوت قدسیہ کے سے کی جارہی ہے 168 تا 172 ہندوستان میں حضور کی ہتک کی بھی تاریخ 359 412 محمد علی ،مولوی محمد نصیب محموداحمد خلیفتہ امسیح الثانی مصلح الموعود، حضرت مرزا بشیر الدین 378 233 91 118 182 راہ حق میں جان دینے کی تمنا 389 173 تا 177 حضور کی پتک کے ازالہ کے 439 تا 450 آپ کا سفر حج آپ کا سفر لاہور حضور پر حملہ کے دفاع کیلئے منافی عقیده آپ کی قوت قدسیہ کا تقاضا آپ کے ابتلا میں حکمت 72 طریق آپ کے پہرہ میں حکمت 453 تدابير آپ کے افعال کی اقسام 464،463 | ہمارا فرض آپ کی بعثت کی حضور کی ذات اقدس پر غرض 204 ، 437 | نا پاک حملوں کا جواب 358 تا368 328-325 آپ کا سفر شملہ حضور کی عزت کا تحفظ اور آپ کا قصور جانا 357*337 271.126 302 441 460 429 گورنر پنجاب سے ملاقات آپ کے بچپن کے واقعات 366.365

Page 531

266 238 7 139 280.278 485 124 100 427 375 398 415 143 22 آپ کا عشق رسول آپ کی ہندوستان میں جلسوں کی 163 تا 165 ، 169 تا 172 الہی تحریک 456 وحشی مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر سے مسیلمہ کذاب 25، 266 ورقہ بن نوفل اظہار محبت 389 | مقداد بن عمرو اسیران راہ مولیٰ سے پیار 339 موسی ، حضرت | حضور کی عزت کے حوالہ 121 59.57.53.35**32.29.9 ولسن، صد ر ا مریکہ ویلز شهزاده سے آپ کے مشورے 337 تا 357 118،81،79 119 ،132 ، 140 تا آپ کی تین تجاویز 387 | 144 ،165 ، 169، 175،171 ، ہاجرہ، حضرت مسلمانوں کو ہندوؤں کے حوالہ سے 199، 238، 251، 375،311 ہارون ، حضرت تجاویز 407*396.391 485 ہرقل آپ کی مسلمانوں کو تبلیغ میکلیکن سر 429 | ہندہ کی تلقین 433 421 ہیلی ،سر مقدمه در تمان پر رد عمل 421 تا 433 نضر بن حارث 123 آپ کی کوششوں سے ورتمان ضبط ہوا.ایڈیٹر اور مضمون نگار گرفتار 330 نوخ ، حضرت تعدد ازدواج پر زور دینا 20 | نورالحق ، مولوی مسلمانوں کا ہندوؤں پر حملہ اور آپ کا رد عمل 4500439 375 337 338 | یزید یعقوب بیگ مرزا يوحنا ، حضرت نورالدین خلیفه امسیح الاول، حضرت حکیم 437.428

Page 532

افریقہ 244 | جرمنی افغانستان 160 ، 171 جونا گڑھ امرتسر 321،319 | چین امریکہ 7،6 جبشه انگلستان 23 23 مقامات ج، چ، ح 401 102 171 شام شعیر شملہ 336.236.152.95 142 441.434 ص، ط ، ع 284 صفا ایران برار 347-242-233.139 244،184،94،13 245 طائف 248،138،136،74 وہ ڈر عرب 233 171،11 | دہلی 28، 392، 394، 437 عرب کی حالت قبل از اسلام 1 تا 5 ڈلہوزی 490 | ڈھاکہ بر ہما 493،490،432 رنگون بڑودہ 490 روس بمبئی 493،490،432،431 | روم بنگال 493،489،432،431 س ،ش بہار 493.490.489.488.431 461 326.324 بھاگلپور پنجاب 355.351.339 402.400.394*391.387 489.488.431.429.427 493 سپین سرحد سندھ سی پی سینا 358 ف،ق 494 | فرانس قادیان 79،76،73،66،25، 401.381.96 494 377 $268.262.182.178.150 11 453.441.394.329.302 494 460 326 493.489.431 489 374.61.55.49 490 493 142 کنگ کربلا کنعان گجرات کا ٹھیاواڑ گورداسپور 398 494.429 119 102 490.395

Page 533

24 +367.256.354.351.347 224 $390.387.384.378.376 413 <429.420.419.418.410 34.1512.9.8.5.2 مرار لاہور 198،41،28 ،300، ملکانه 446-415.345.337.302 <456.455.452.432.431 115112.9491-62-61.44 233.204.3.2.467.466.465.462.461 142 136-126122-119 لندن 488.469.468 ی یوپی 489،456،431،393، 493.490.159.158.153.152.146 493 233.199.192.184.178 91.254.253.249*240-236 $490.432.431 $297.296-283-271-258 494.493 3634.11.9.8.6 مالا بار مالیر کوٹلہ مدراس مادر بیشه 335،326 ، 336 یوپی کے ایک مخالف پیر کی 89 ، 94 ،115، 119 ،146 ،186 ، مکہ بے آب و گیاہ وادی 2 تمدنی معاملات میں حضرت 249،235،224،223، 250، مکہ کی حفاظت 316 تا 318 | مصلح موعود کی حمایت 271،258،256،254،253، مٹی 285 286 ،317 318 ،335 ، 236 | میسور اہل مدینہ کا تعلیم حاصل کرنا 249 اہل مدینہ کا حج کے موقع پر ایمان ہندوستان ( انڈیا، بھارت) لانا 249 284 490 *346-300-252-171.139.92 یورپ 456 206.134.6.4.3 262.233 یورپ جوئے پر فخر نہیں کرتا 3

Page 534

25 کتابیات میں پہلی کتاب آیا بنگالی (اخبار) آئینه صداقت 118 415 429 دعوة الامير ابن جریر 89 احمدیت یعنی حقیقی اسلام پرتاپ 385،378،377،369 206،204 ، 214، 222 ، 229 | پیغام صلح اسلامی عقائد صحیحہ کے پر کھنے کا معیار 43 61،25 | تحریک شدھی ملکانه 198 413 184 173.168.162.160 رنگیلا رسول 312، 320، 337، 412.388.385.384.349 الفضل انجیل تحفة الهند 415 رنگیلا رسول کا جواب 369 تا 383 انقلاب 443.31 397 تحفه شهزاده ویلز 139 ریویو آف ریلیجنز 88.65 انیسویں صدی کا مہرشی 412 413 تشحیذ الا ذہان تقریر دلپذیر تورات تو رات کی پیشگوئی 1 453 443.118 239 زند اوستا 380 بائیل 380.238.139.34.33 براہین احمدیہ ٹائمنز آف لندن براہین احمدیہ نے اعتراضات کا دروازہ بند کیا 414 429 شرح معانی الآثار گرنتھ براہین احمدیہ کا پس منظر آریوں حضرت مسیح موعود کے کارنامے 463 | گیتا کی گالیاں براہین احمدیہ آریوں کے دفاع 414 خ خاتم النبیین کی شان کا اظہار 55 لوقا 65 59 443 375 139

Page 535

لیکچر شملہ مسلم صحیح مسلمانوں کا خدا مسلم آؤٹ لگ 434 مسند احمد بن حنبل 89 320.345.343.341.338.337 385.363.355.350.348 393.392.389.387 ملائكة الله ملاپ موازنہ مذاہب نجات 26 349-331-329.321.319 89 385.377-376-374-371 8679 $427.426.425.421.388 385.369 432.431.428 91 ہندو مسلم فسادات.اُنکا علاج 300 انگریزی 180 THE SPLIT 118 مسلم آؤٹ لگ کا مطالبہ ہائیکورٹ و چتر جیون کی خدمت تھی 385 376 371.349.320 341.340 مسلم آؤٹ لک کا واقعہ 454 تا 457 ورتمان

Page 535