Language: UR
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلیٰ سے یہ اعلان فرمایا کہ <span class="quranic">لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ </span><span class="c243">(الاحزاب: ۲۲) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے۔نیز محبت الٰہی کے حصول کی شرط اتباع نبویؐ کے ساتھ مشروط کردی۔</span> حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور ۵۲ سالہ دور خلافت میں سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا۔ آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی۔ حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرة النبی ؐ کو آپ کی جملہ کتب، تحریرات، خطابات و خطبات سے اخذ کرکے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے جو آٹھ جلدوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ ذیل میں پہلی چار جلدیں احباب کے استفادہ کے لئے پیش ہیں۔
سیرت النبی ﷺ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد اول
ISLAM INTERNATIONAL S PUBLICATIONS LTD سیرت النبی صلى الله علم (جلد اول) Seerat-un-Nabisa - Volume 1 (Urdu) A collection of excerpts from the sermons, writings, and speeches of Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad ra on the subject of the life of the Holy Prophetsa First published in UK in 2022 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-207-0 (Seerat-un-Nabisa - 8 Volume set)
سید ناحضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدالمصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الحق وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّا.(اشتہار 20 فروری 1886ء)
i بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ آقائے دو جہاں، فخر موجودات ، رحمۃ للعالمین ، حبیب کبریا، احمد مجتبی، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلی سے یہ اعلان فرمایا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : 22) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے نیز محبت الہی کے حصول کی شرط اتباع نبوی کے ساتھ مشروط کر دی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاق عالیہ کی گواہی ان الفاظ میں دی ہے کہ اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:6) کہ یقینا تو بلند اخلاق پر فائز ہے.جس ہستی کے بلندئی اخلاق کی گواہی خدائے ذوالجلال نے دی اور اسے ہمارے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اس عالی وجود کی سیرت کا بیان یقیناً محبت رسول کی علامت ہوگا کیونکہ آپ کی ذات صفات الہیہ کی مظہر اتم تھی.آپ نے خود یہ اعلان فرمایا کہ میں اخلاق عالیہ کی تکمیل کی خاطر مبعوث کیا گیا ہوں.آپ نے مکارم اخلاق کے بہترین نمونے قائم کرنے کا حق ادا فرمایا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے حسن و احسان کے تذکرے صحابہ کی سیرت کا نمایاں پہلو تھے اور پھر سیرت رسول کا بیان عاشقان رسول کا خاصہ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی محبت اور عشق میں ڈوب کر آپ کی سیرت بیان فرمائی اور بر ملا یہ اعلان فرمایا کہ
ii بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کا فرم الله صلى الله اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد میں عشق مصطفی حملے میں دیوانہ ہو چکا ہوں.اگر اس عشق اور دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں ایک سخت کا فرانسان ہوں.آپ کا عشق رسول اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ عرش الہی سے اس کی سند آپ کو ان الفاظ میں عطا کی گئ هذا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللهِ ( تذکرہ صفحہ 34 ایڈیشن 2004 ء ) یعنی یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے محبت رسول ہے کی وجہ سے آپ کا گھر برکتوں سے معمور اور نور سے منور کر دیا اور نور کی مشکیں آپ کے گھر میں انڈیلی گئیں.ذکر مصطفی سے آپ کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں اور آپ اپنے محبوب کے لئے غیر معمولی غیرت بھی رکھتے تھے.آپ نے اپنی تحریر و تقریر، نظم و نثر ، اردو ، عربی صلى الله اور فارسی کلام میں اپنے معشوق محمد مصطفی عیہ کی مدح اور عالی مقام اور بلند مرتبت بیان کر کے عظیم الشان ورثہ چھوڑا ہے.عشق و محبت رسول کی جو لو آپ کے سینہ میں جل رہی تھی آپ نے اس کو اپنی اولا د اور اپنے متبعین میں بھی روشن کیا.پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کے بارہ میں پیشگوئی مصلح موعود میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ” وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت الہی اور عشق رسول کا جذ بہ ورثہ میں بھی پایا اور پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق آپ حسن و احسان میں آپ کے نظیر تھے.حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور 52 سالہ دور خلافت میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا.آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفی علم کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے ان کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور.وو
:= iii بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی اور خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی.صلى الله حضرت مصلح موعود نے 1913ء میں اخبار الفضل جاری فرمایا تو اس میں ایک عنوان سیرۃ النبی عے کے لئے مخصوص فرمایا جس میں انتہائی دلکش انداز میں آپ نے سیرۃ النبی کے مختلف پہلوؤں پر قلم اٹھایا.آپ کی کتب و تحریرات جو ” انوار العلوم“ کے عنوان سے شائع شدہ ہیں ، آپ کے خطبات جو’ خطبات محمود کے نام سے طبع شدہ ہیں اور آپ کی معرکۃ الآراء تفسیر کبیر کی جلدیں دشمنانِ اسلام کے لئے ننگی تلوار کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں.یہ عشق رسول کی طویل داستان پر مشتمل مواد ہے جو عیسائیوں ، ہندوؤں اور دیگر نادانوں کی طرف سے ناموس رسالت پر ہونے والے حملوں کا فاضلانہ، مدبرانہ حکیمانہ اور انگشت بدنداں کرنے والا جواب ہے.آپ کو اپنے آقا و مولیٰ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق اور محبت تھی اس کا اظہار اس تحریر سے لگا سکتے ہیں.آپ فرماتے ہیں :.نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم.اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے.وہ کیا جانے کہ محمد ﷺ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کرگئی ہے.وہ میری جان ہے، میرا دل ہے، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے، اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے.اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم بیچ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں.وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں.وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں.میرا حال مسیح موعود
iv کے اس شعر کے مطابق ہے کہ ؎ بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم (سیرة النبی ﷺ جلد اول ص 347 ،348) ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ سید نا حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرۃ النبی ﷺ کو حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے یکجائی صورت میں مرتب کرنے کی توفیق مل رہی ہے.سیرۃ النبی کا یہ مواد آپ کی جملہ کتب تحریرات ، خطابات و خطبات سے اخذ کیا گیا ہے اور ترتیب زمانی کے لحاظ سے اس کو مرتب کیا گیا ہے.سیرة النبی بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود پرا جیکٹ کا پس منظر یہ ہے کہ 2012ء میں امریکہ میں ایک خبیث الطبع عیسائی نکولا بیلے (Nakaula Basseley) نے قرآن کریم پر ایک فلم بنا کر اسلامی تعلیمات کو نہ صرف توڑ مروڑ کر پیش کیا بلکہ بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر گندے الزامات بھی لگائے.ایسے موقع پر بیشتر عالم اسلام نے تو حسب معمول جلسے جلوس اور ہڑتالوں سے احتجاج کیا لیکن جماعت احمد یہ عالمگیر کے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبات جمعہ فرمودہ 28،21 ستمبر اور 5 / اکتوبر 2012ء میں دین حق کا بھر پور دفاع فرماتے ہوئے عالمگیر جماعت احمدیہ کو توجہ دلائی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضمون اور کتب کثرت سے دنیا میں پھیلائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان سے دن کریں.28 ستمبر 2012 ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا:."ہمارا کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کریں.اس کے لئے مختصر اور دنیا کو آگاہ
V بڑی جامع کتاب " Life of Muhammad" یا دیباچہ تفسیر القرآن کا سیرت والا حصہ ہے اُس کو ہر احمدی کو پڑھنا چاہئے.اس میں سیرت کے قریباً تمام پہلو بیان ہو گئے ہیں یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضروری پہلو بیان ہو گئے ہیں.اور پھر اپنے ذوق اور شوق اور علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسری سیرت کی کتابیں بھی پڑھیں.اور دنیا کو مختلف طریقوں سے ، رابطوں سے، مضامین سے، پمفلٹ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان سے آگاہ کریں.اللہ تعالیٰ اس اہم کام اور فریضے کو سرانجام دینے کی ہر احمدی کو توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو عقل عطا فرمائے کہ اس کا ایک عقلمند طبقہ خود اس قسم کے بیہودہ اور ظالمانہ مذاق کرنے والوں یا دشمنیوں کا اظہار کرنے والوں کا رڈ کرے تاکہ دنیا بدامنی سے بھی بچ سکے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچ سکے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو." الفضل انٹر نیشنل 19 راکتو بر 2012 ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس تحریک کی روشنی میں طے پایا کہ سیرت و سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت مصلح موعود کی تحریرات ، تقاریر اور خطبات سے جملہ مواد کو جمع کیا جائے اور اس کی اشاعت کے سلسلہ میں حضور انور سے رہنمائی کی جائے کہ اس سارے مواد کو یکجائی صورت میں شائع کیا جائے.نیز حضرت مصلح موعود کی تلعالمین " اور " اُسوہ کامل " کو بھی علیحدہ علیحدہ یا اکٹھا شائع کیا تین کتب "دنیا کا محسن"، "رحمۃ جائے.تو حضور انور نے ارشاد فرمایا:.یہ تینوں ایک جلد میں شائع کریں.باقی دو تین جلدوں میں شائع کریں.“ حضور انور ایدہ اللہ کی ہدایت کی تعمیل میں جب اس کام کا آغاز کیا تو تقریباً ساڑھے تین ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل مواد تیار ہو گیا جس کو اب 8 جلدوں میں احباب کرام کی خدمت میں پیش کیا جائے گا.یہ اس سلسلہ کی پہلی جلد ہے.
صفحہ نمبر 1 4 5 7 8 10 11 13 15 23 28 31 36 38 45 i فهرست عناوین عنوان ملک عرب کی مخالفت اور رسول کریم ﷺ کی فتح پیشگوئیوں کا پورا ہونا رسول کریم ﷺ کی سچائی کی دلیل سچا عبد بلا واسطہ کلام کے حامل صلى الله رسول کریم ﷺ کی سچائی کا ایک ثبوت بہترین روحانی سوداگر صلى الله زمانہ کی حالت اور رسول کریم ﷺ کی بعثت رسول کریم علیہ اور راہ خدا میں پیش آمدہ مشکلات ساری دنیا کیلئے نجات دہندہ حضرت مسیح ناصری اور رسول کریم ﷺ کی زندگیوں کا موازنه رسول کریم ﷺ کا جینا اور مرنا بس خدا کے واسطے خاتم شان خاتم الانبیاء علی صلى الله رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی کا معیار - قرآن رسول کریم له جامع صفات حسنہ نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15
ii نمبر شمار 16 17 18 19 20 21 22 23 24 24 سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم عنوان رسول کریم و تو حید کے علمبردار رسول کریم مع بطور خاتم النبین جامع کمالات حسنه جنگ احزاب اور رسول کریم علی اللہ کی سیہ رسول کریم عملہ کا طریق وعظ رسول کریم کے مشن میں رکاوٹیں اور کامیابیاں رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متفرق پہلو صلى الله حج کے دن رسول کریم ﷺ ، صحابہ کرام اور صلحائے امت کیلئے بہت دعائیں کرو رسول کریم علی کی حس مزاح صلى الله شان خاتم الانبیاء ﷺ کی ایک جھلک صلى الله رسول کریم ﷺ کی اتباع سے قرب الہی کا حصول رسول کریم علیہ کی قوت قدسیہ رسول کریم ﷺ کی قرب وفات کا واقعہ رسول کریم ﷺ کی تدریجی ترقی صلى الله جمله فیوض رسول کریم ﷺ کی اتباع سے وابستہ ہیں فیضان خاتم النبین ع کیا نجات صرف اعمال پر موقوف ہے صفحہ نمبر 55 306 307 310 312 314 315 319 321 324 326 331 333 338 340 343 349 352 25 26 27 28 29 30 31 32 33
عنوان رسول کریم ﷺ کا عزم واستقلال سب سے زیادہ معزز انسان صلى الله رسول کریم ﷺ کے اسمائے گرامی صفحہ نمبر 353 359 365 374 379 380 390 392 394 396 400 402 404 406 413 416 418 صلى الله امتی نبی کا آنا رسول کریم کی ہتک نہیں بلکہ عزت کا باعث ہے ابو طالب کو آخری وقت تبلیغ رسول کریم ﷺ کے استغفار کی حقیقت رسول کریم ﷺ کے صحبت یافتہ مدینہ کے یہود کے ساتھ برتاؤ صلى الله رسول کریم ﷺ کے اسماء گرامی نمبر شمار 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 سیرت کے متفرق پہلو سب انسانوں سے ارفع مقام اور درود کی اہمیت 45 جنگ احزاب اور رسول کریم ﷺ کا کشف : 46 47 الله رسول کریم ﷺ اور عہد کی پابندی سلام کو رواج دینے کے بارہ میں رسول کریم ع کی تاکید تو کل کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کا اسوہ صلى الله رسول کریم ﷺ کو نوافل کا خیال رسول کریم علیہ کا طرز کلام 48 49 50
صفحہ نمبر 419 421 423 431 433 436 437 439 441 442 443 448 450 452 454 455 457 458 460 iv عنوان خدا کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ رسول کریم ع کی گہری فراست کا ایک واقعہ رسول کریم ﷺ کی شان صلى الله رسول کریم علیہ صفات باری کے مظہر اتم رسول کریم ﷺ کے احسانات کا ایک نقاضا صلى الله رسول کریم علی کا ازواج مطہرات سے مشورہ لینا صلى الله.رسول کریم یه کامل موحد رسول کریم ﷺ کی امتیازی خصوصیت صلى الله رسول کریم ﷺ کی آواز نے پوری دنیا کو بیدار کر دیا صل الله بہترین شارع شریعت عالی رسول کریم ع کی مجالس رسول کریم ﷺ کی قرآن سے محبت رسول کریم ﷺ کا وجود مجسم وعظ استقامت کے بارہ میں رسول کریم علیہ کے ارشادات صلى الله رسول کریم ع کے اعمال اور خدا کے آپ پر انعامات صلى الله رسول کریم ع کی گہری فراست کا ایک واقعہ رسول کریم علیہ کو لا محمد ود حمد ملے گی صلى الله رسول کریم ہے خدا کے سب سے بڑے عاشق رسول کریم ﷺ کا اپنے بعد امیر مقرر کرنا نمبر شمار 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69
V نمبر شمار 70 71 عنوان رسول کریم ہے اور روحانی لہریں رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی 72 دعوی سے قبل رسول کریم ﷺ کے مجاہدات کا رنگ 73 74 75 الله رسول کریم ﷺ بحیثیت بہترین معلم رسول کریم مے آزادی مذہب کے علمبردار تعلقات بین الاقوام کے بارہ میں اسلامی تعلیم اور رسول کریم ﷺ کا اسوہ صفحہ نمبر 461 466 467 469 471 474
سيرة النبي علي 1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلد 1 ملک عرب کی مخالفت اور رسول کریم علیہ کی فتح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے انبیاء کی مخالفت اور خدائی تائیدات کے حوالے سے ایک مضمون تحریر فرمایا جو کہ تفخیذ الاذہان مارچ 190 ء میں شائع ہوا.اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں :.غرضکہ ہر ایک نبی سے اس کی قوم مخالفت کرتی ہے اور آخر میں اس رسولِ خدا کی فتح اور مخالفین کی ذلت ہوتی ہے.اس موجودہ نسل کے اول پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام سے بھی مخالفت کی گئی تھی.وہ مخالفت کس نے کی؟ شیطان نے.كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ اَبى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ 1 یعنی سب نے فرمانبرداری کی مگر شیطان نے نہ کی.اس نے انکار کیا اور تکبر کیا کیونکہ وہ کافروں میں سے تھا.بعد ازاں جتنے پیغمبر، رسول یا نبی آئے ہیں سب کی مخالفت کی گئی جیسا کہ پہلے نبیوں سے بلکہ ان سے بدرجہا زیادہ.کیونکہ پہلے نبی صرف ایک قوم یا ملک کی طرف آئے تھے اور ہمارے نبی کریم ﷺ تمام دنیا کے لئے مامور ہو کر آئے تھے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَا دِ یعنی اے نبی کریم کہہ دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اس لیے ہمارے نبی ہے کی مخالفت میں ہر ایک شرارت جو ایک شریر اور بد باطن کے ذہن میں آسکتی تھی وہ عمل میں لائی گئی.لیکن انجام کار اس نبی اولوالعزم کی فتح ہوئی.ایک حق پسند کے لیے یہ بات سچائی اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور جبروت کے ظاہر کرنے کے لیے کیسی روشن اور
سيرة النبي علي 2 جلد 1 کھلی دلیل ہے کہ ایک عرب فرقہ بنی ہاشم میں سے اُس وقت جبکہ ایک آدمی بھی اس کے ساتھ نہیں اٹھ کر دعویٰ کرتا ہے کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں.اور خواہ کوئی بھی میری مخالفت کرے آخر کار فتح میرے ہی نام ہوگی.خدا تعالیٰ کا دین تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور یہ کعبہ جس میں بت پرستی کی جاتی ہے ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ اس میں واحد خدا کی پرستش کی جائے گی.تمام دنیا اپنا ناخنوں تک زور لگا لے لیکن خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہو کر ہی رہیں گی.وہ دعوی کرتا ہے کہ کوئی انسان مجھ کو مار نہیں سکتا.میرا حافظ ایک بڑا زبردست خدا ہے جو آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ کہ ان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا ہے.اور وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے.وہ وہی ہے جو کہ کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتا ہے یا ضرر دے سکتا ہے.اور ایک آواز مجھ کو اس کی طرف سے آتی ہے کہ گلا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ خبر دار ان لوگوں کی پیروی مت کر جو تجھے نماز اور دوسرے نیک کاموں سے روکتے ہیں.بلکہ اس واحد لاشریک کے سامنے اپنا سر جھکا دے اور اس کی فرمانبرداری کر اور قریب ہو جا.اور اس پر اس کی قوم جو کہ بت پرست اور مشرک ہے اس کی مخالفت کرتی ہے، اس کے پیروؤں کو ہلاک کیا جاتا ہے، خود اس کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں یہاں تک کہ اس سے اور اس کے پیروؤں سے بولنا تک منع اور حرام سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھوں کوئی چیز فروخت کرنا سخت گناہ ہے، ان کی ذرہ بھر بھی مدد کرنے والا کسی سخت سزا کا مستوجب ہے.لیکن وہی خدا جس کو کہ وہ لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے باوجود پہروں کے اس کو راتوں رات مکہ سے مدینہ کی طرف نکال کر لے جاتا ہے اور کفار باوجود اس کا پیچھا کرنے کے اور اس کے سر پر پہنچ جانے کے اس کو مار نہیں سکتے.اور آخر کار وہی شہر جس سے کہ وہ رات کو نکلتا ہے اور جہاں سے کہ اس کے پیرو نکالے جاتے ہیں اس کے قبضہ میں آتا ہے.اور وہ جو وہاں سے اکیلا نکلا تھا جب اس میں داخل ہوتا ہے دس ہزار سپاہی جرار اس کے ساتھ ہوتا
سيرة النبي ع 3 جلد 1 ہے جو اس کے ایک ذرا سے اشارہ پر اپنی جان دینے کے لئے طیار ہے.کروڑں کروڑ برکتیں ہوں اس نبی ﷺ پر جس نے ہم کو اسلام جیسا سچا اور سیدھا راستہ دکھایا.ایک وہ دن تھا کہ وہ پیشگوئی کرتا تھا کہ میرا نور دنیا میں پھیل جائے گا اور خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک ماننے والے چاروں طرف پھیل جائیں گے.اور اس کی اس بات کوسن کر اس کے شہر کے لوگ اس پر ہنسی کرتے تھے اور دیوانہ سمجھتے تھے.لیکن عقلمندوں نے دیکھ لیا کہ بعد ازاں ویسا ہی ظہور پذیر ہوا جیسا کہ اس نے کہا تھا.اور آج با وجود اس کے کہ اس زمانہ کو سب نبیوں نے بالا تفاق سب زمانوں سے برا اور گری ہوئی حالت کا 66 کہا ہے بفضل خدا کروڑوں انسان اس کے نام پر قربان ہونے کے لئے موجود ہیں.“ تفخیذ الا ذہان یکم مارچ 1906 ءصفحہ 5،4) 1: البقرة: 35 2: الاعراف: 159 3: العلق : 20
سيرة النبي علي 4 جلد 1 پیشگوئیوں کا پورا ہونا رسول کریم ﷺ کی سچائی کی دلیل انبیاء کی صداقت کو پر لکھنے کا ایک معیار ان کی پیشگوئیوں کا پورا ہونا بھی ہے.اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تشخیز الاذہان مارچ 1906 ء کے مضمون میں فرماتے ہیں:.غرضکہ ہر ایک قوم ایک نبی کی منتظر ہے اور اس کے لئے زمانہ بھی یہی مقرر کیا صلى الله جاتا ہے.ہمارے پیارے رسول محمد ﷺ نے جو نشانات اس نبی کی پہچان کے بتائے ہیں اور اس کے پہچاننے کے لئے جو جو آسانیاں ہمارے لیے پیدا کر دی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے رسول کریم ﷺ کا مرتبہ کس قدر بلند اور بالا تھا اور خدا تعالیٰ کس قدر اس رسول سے الفت رکھتا تھا اور اب بھی رکھتا ہے.اور ہزاروں پیشگوئیاں ہیں جو اب تک پوری ہورہی ہیں.اور دنیا دیکھ کر دنگ ہوگئی ہے کہ اللہ اللہ تیرہ سو برس پہلے اس نبی برحق نے ایسی ایسی باتوں کی خبر دی تھی کہ اس وقت وہم و گمان میں بھی ان کا آنا مشکل تھا.اور آج ہم ان باتوں کو پوری ہوتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.اور یہ باتیں اس نبی برحق کی سچائی کی کافی دلیل ہیں بلکہ ضرورت سے بھی بڑھ کر.66 ے کافی ہے سو چنے کو اگر اہل کوئی ہے.“ تفخیذ الا ذہان یکم مارچ 1906 ء صفحہ 8)
سيرة النبي علي 5 سچا عبد وو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے دسمبر 1906ء کے جلسہ سالا نہ میں جو تقریر فرمائی اور جو بعد میں چشمہ تو حید کے نام سے شائع ہوئی اس میں آپ نے رسول کریم ہے کو سچا عبد قرار دیتے ہوئے فرمایا :.آنحضرت لے بھی اسی خدا کے پیدا کئے ہوئے تھے اور ابوجہل بھی.مگر ابو جہل نے اپنی شرارت، فسق و فجور اور شرک سے اپنے آپ کو خدا کا بندہ ثابت نہ کیا بلکہ بتوں کا بندہ ثابت کیا اور انہی کی طرف داری میں اپنی جان تک قربان کی.مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے آپ کو خالص خدا کے لئے ہی کر دیا، شرک سے بکلی پر ہیز کیا اور اپنی عبادت اور قربانیاں سب خدا کے لئے ہی مخصوص رکھیں اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ ثابت کیا.پس خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ اُس کا انجام کیا ہوا اور اس کا کیا ؟ ابو جہل تو بدر کے میدان میں قتل کیا گیا اور ایک کنویں میں اس کی لاش پھینکی گئی اور اس کے مرتے وقت کی خواہش بھی پوری نہ ہوئی یعنی اس نے کہا تھا کہ میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹنا کیونکہ عرب کے معززین کی نشانی یہی ہوتی تھی.مگر کاٹنے والے نے اس کی گردن سر کے پاس سے کاٹ کر ثابت کیا کہ شیطان کے دوست کبھی کامیاب نہیں ہوتے.اور اُسی وقت دوسری طرف آنحضرت ﷺ کو وہ فتح نصیب ہوئی کہ وہ خدا تعالیٰ کی جنت کے وارث نہ صرف عقبی میں بلکہ اس دنیا میں بھی ثابت ہوئے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَادْخُلِی جَنَّتِی 1.پس وہ انسان جو خدا تعالیٰ سے کامل تعلق کرنا چاہے وہ شرک کو چھوڑ دے.کیونکہ خدا کو شرک پسند جلد 1
سيرة النبي علي 66 نہیں.“ 1: الفجر : 31 6 جلد 1 (چشمہ تو حید رسالہ صفحہ 13 ،14 مطبوعہ دین محمدی سٹیم پریس لاہور )
سيرة النبي علي 7 جلد 1 بلا واسطہ کلام کے حامل مارچ 1907 ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے رساله تشخیز الاذہان میں ایک مضمون ”محبت الہی“ کے عنوان سے تحریر فرمایا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا.اس مضمون میں خدا کے کلام کی ایک صورت پلا وسیلہ مکالمہ و مخاطبہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:..بزرگ اور اولیاء اس بات کے بھی قائل ہیں کہ بلا کسی وسیلہ کے بھی خدا کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ پر خاص طور سے مہربان ہوتا ہے.جیسا کہ نبی کریم ﷺ ایک ایسا نمونہ موجود ہیں کہ جو ہر وقت ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے.اور اگر چہ وہ فوت ہو گئے ہیں مگر پھر بھی ان کے معجزات ، نشانات اور پیشگوئیاں جو کہ ہر زمان اور ہر مکان میں پوری ہورہی ہیں ایک ایسی حجت ہے کہ جو ہر وقت ہمارے سامنے نبی کریم ﷺ کا زندہ وجود پیش کرتی ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ سے بلا کسی وسیلہ کے خدا تعالیٰ نے کلام کیا.جیسا کہ معراج کے موقع پر اور دیگر بہت سے موقعوں پر.اور یہی نہیں آپ تو بڑی شان کے آدمی تھے.آپ کے ادنی غلاموں پر خدا تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے ایسی شفقت فرمائی ہے کہ ان سے اس طرح پلا وسیلہ مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے.“ تفخیذ الاذہان مارچ 1907 ءصفحہ 34)
سيرة النبي علي 8 00 رسول کریم ﷺ کی سچائی کا ایک ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 26 مئی 1908 ء کو لاہور میں وفات پاگئے.آپ کی وفات پر مخالفین احمدیت بالخصوص ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب نے بعض اعتراضات کئے جن کے جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے تفخیذ الا ذہان جون، جولائی 1908ء میں دیئے.یہ مضمون جولائی 1908ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا.مضمون کا عنوان تھا ” صادقوں کی روشنی کون دور کر سکتا ہے.اس میں رسول کریم ﷺ کی سچائی کا ایک ثبوت دیتے ہوئے تحریر فرمایا:.اس جگہ میں اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اصل ثبوت سچائی کا پیشگوئیاں ہی نہیں بلکہ اور دلائل بھی ہیں جن سے ایک نبی کی سچائی کو ہم ثابت کر سکتے ہیں.کیونکہ پیشگوئیاں صرف وقتی ہوتی ہیں اور پھر محض قصے رہ جاتے ہیں جس سے آئندہ زمانہ کے لوگ بہت فائدہ اٹھا نہیں سکتے.بعد ازاں تعلیم رہ جاتی ہے.اور خود نبی کے وقت میں بھی ایسی اور راہیں ہیں جن سے اس کی سچائی ظاہر ہوتی ہے.مثلاً نبی کریم ﷺ کی سچائی کا ایک ثبوت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دیا ہے کہ قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرِيكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ 1 یعنی اے نبی ! تو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ آیات تمہارے سامنے نہ پڑھتا اور نہ تم کو ان کی خبر دیتا.پس تحقیق میں نے اس سے پہلے ایک عمر تم میں گزاری ہے پھر تم کیوں عقل نہیں کرتے.یعنی میں تم میں ایک لمبا عرصہ گزار چکا ہوں پھر تم میری سچائی میں کیا شک لاتے ہو.کیونکہ اگر مجھے پہلے جلد 1
سيرة النبي علي 9 جلد 1 افتراء کرنے کی عادت ہوتی تو اس موقع پر بھی تم شک کر سکتے تھے کہ اس کو کوئی الہام نہیں ہوتا بلکہ یہ خود بنا لیتا ہے.لیکن جب تم میرے پچھلے حالات سے واقف ہواور جانتے ہو کہ میں جھوٹا نہیں ہوں تو اس موقع پر کیوں یہ شک کرتے ہو.اور جب میں 66 انسانوں پر جھوٹ نہیں بولتا تھا تو کس طرح ممکن ہے کہ اب خدا پر جھوٹ بولوں.“ ( تفخیذ الا ذہان جون جولائی 1908ء) 1: يونس : 17
سيرة النبي علي 10 10 وو بہترین روحانی سوداگر صلى الله حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے 28 دسمبر 1908ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں جو خطاب فرمایا اس کا عنوان تھا ” ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.اس خطاب میں آپ نے جماعت کو خدا سے ایک سودا کرنے کی تلقین فرمائی اور اس ضمن الله میں رسول کریم ﷺ کو بہترین روحانی سوداگر کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرمایا:.سو ہم دیکھتے ہیں کہ آدم سے لے کر ہمارے نبی کریم مکہ تک بے شمار سوداگر ہو گزرے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اس سوداگری سے فائدہ ہی اٹھایا بلکہ جو شخص ان کے مقابلہ میں کسی اور جنس کا سوداگر بنا وہ ان کے سامنے ہلاک کیا گیا اور وہی کامیاب رہے.ان سوداگروں میں سے سب سے بڑے ہمارے آنحضرت ﷺ تھے.جب آپ نے اس تجارت کو شروع کیا تو آپ ایک یتیم بچے تھے کوئی آپ کو جانتا تک نہ تھا مگر خدا نے آپ کو در یتیم بنایا اور وہ مرتبہ دیا کہ اس وقت کروڑوں آدمی آپ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں آپ کو وہ چمک عنایت کی گئی کہ سورج کی روشنی ماند پڑ گئی.آپ کو اس تجارت سے اس قدر فائدہ پہنچا کہ اب تک کہ تیرہ سو برس گزر چکے ہیں آپ کے نام کی عزت کے لئے لوگ کوششیں کرتے ہیں.چنانچہ آج جو ہم لوگ اس جگہ اکٹھے ہوئے ہیں تو صرف اس لئے کہ اس برگزیدہ نبی کا نام دنیا سے مٹا جاتا ہے اسے پھر روشن کریں پس جبکہ آپ نے اس آیت کے موجب سودا کر کے اس قدر نفع اٹھایا تو ہمیں بھی چاہیے کہ جب کبھی کوئی سودا کریں تو دیکھ لیں کہ آیا ہم سے پہلے آنحضرت ﷺ نے سودا کیا تھا کہ نہیں تا کہ ہم بھی آپ کے قدم بقدم چل کر اسی طرح فائدہ اٹھائیں.“ الله ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں صفحہ 3) جلد 1
سيرة النبي علي 11 جلد 1 الله زمانہ کی حالت اور رسول کریم ﷺ کی بعثت د صلى الله آنحضرت معہ کی صفات حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تفخیذ الاذہان مئی، جون 1909ء میں تحریر فرماتے ہیں:.آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت لوگ مانتے تھے کہ دنیا میں فساد بڑی کثرت سے پھیل گیا ہے اور لڑائی دنگوں نے دنیا سے امن اٹھا دیا ہے.خونریزی سے زمین سرخ ہو رہی ہے، فسق و فجور کی کوئی حد نہیں رہی ، چوری اور ڈاکہ زنی کی کثرت ہوگئی ہے، شرک نے ہر ایک کے دل میں جگہ لے لی ہے، زمانہ کی حالت بہت نازک ہو رہی ہے اور یہ ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت ضرور ضرور ایک آدمی خدا کی طرف سے مبعوث ہونا چاہئے جو گمراہوں کو راستہ دکھائے ، اندھوں کو نور بخشے ، ظلمت کو دور کرے اور تکبر کے شیشہ کو چکنا چور کرے.پھر یہ بھی مانتے تھے کہ آپ کی تمام زندگی ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے.بچپن سے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رہی ہے، لڑکپن سے دنیا سے نفرت رہی ہے، عہد طفولیت سے سچائی کا خیال رہا ہے.اس بات کا بھی اقرار تھا کہ آپ کو جھوٹ سے سخت نفرت ہے، آپ کی زبان پر سچ کے سوا کبھی کچھ نہیں آیا ، بنی نوع انسان کی ہمدردی آپ کا شیوا ہے، بیواؤں کی خبر گیری آپ کا طریق ہے، مسافروں کی مدد کرنا آپ کی عادت میں داخل ہے، قیموں کی خبر گیری آپ اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر باوجود اس کے وہی بات کہے چلے گئے کہ جھوٹا ہے جھوٹا ہے.کم بختوں نے اتنا بھی تو نہ سمجھا کہ جو انسان پر جھوٹ نہیں بولتا وہ خدا پر کیوں افترا کرے گا.جو گمراہوں اور مسافروں کی مدد کرتا ہے وہ ہدایت یافتوں کو کیوں راستہ سے دور ڈالے گا.جس نے بیواؤں کی دستگیری
سيرة النبي علي 12 جلد 1 کی ہے وہ خاوند والیوں کو کیوں رانڈ کرے گا.جس نے یتیموں کی خبر گیری کی ہے وہ اس لڑکے کو جس کے والدین زندہ ہیں کیوں یتیم کرے گا.جس نے ذرا ذرا سے جھگڑوں کو بھی ناپسند کیا ہے اور لوگوں میں صلح کی بنیاد ڈالی ہے وہ اب دور از قیاس دعوی کر کے جیسا کہ وہ کہتے تھے دنیا میں فساد و خونریزی کی بنیاد کیوں ڈالے گا.ان کی اس مریض کی سی حالت تھی جو اپنی مرض سے واقف ہو اور پھر انکار کرے، جو ایک دوائی کے فائدہ کا اقرار کرے اور پھر بوجہ تلخی کے اس کے پینے سے انکار کرے.“ تشخیذ الا ذبان مئی، جون 1909 ، صفحہ 172، 173 ) 66
سيرة النبي علي 13 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع ل ل لو اور راہ خدا میں پیش آمدہ مشکلات انبیاء کرام کو خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تشخیذ الاذہان جولائی 1909ء میں تحریر فرماتے ہیں :.” جب کبھی ایک انسان یا جماعت نے اس کام کو پورا کرنے کا ارادہ کیا ہے اور خدا نے ان کو اس کام کے لئے چنا ہے تب ہی ایک سخت مخالفت اور عداوت کا سامنا ہوا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان نے جو کچھ کیا اور جن راہوں سے ان کو اس کام کے پورا کرنے کے لئے روکا وہ قرآن و احادیث سے ظاہر ہیں اور ہر ایک مسلمان ان سے واقف ہے.پھر حضرت نوح کے وقت میں جو جو رکاوٹیں پیش آئیں اور جن جن طریقوں سے ان کے مخالفین نے ان کے سلسلہ کو تباہ کرنا چاہا وہ سب پر ظاہر ہیں.پھر ان کے بعد حضرت ابراہیم ، حضرت اسحق ، حضرت موسی اور حضرت عیسی اور ان کے مریدین کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ مخفی نہیں.اور سب سے آخر میں ہمارے ہادی اور رہنما خاتم النبین محمد مصطفی ﷺ نے جب اس کام کو پورا کرنے کا ارادہ کیا اور خدائے تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اسے انجام دیں تو مخالفت اور شرارت کی حد ہوگئی.مکہ اور اس کے اطراف کے لوگوں نے دس برس تک آپ کو وہ تکلیفیں دیں کہ الامان الامان یہاں تک کہ بنی ہاشم سمیت آپ کو ایک پہاڑی میں تین سال تک محصور رہنا پڑا اور اہل ملک سے ہر قسم کے تعلقات ٹوٹ گئے.اور آپ کے ہاتھ کسی قسم کا سودا بیچنا یا آپ سے ہم کلام تک ہونا ممنوع قرار دیا گیا.چنانچہ طائف کا
سيرة النبي علي 14 جلد 1 صلى الله واقعہ جس میں آنحضرت ﷺ پر پتھر برسائے گئے اور آپ کا جسم مبارک لہولہان ہو گیا اور آپ کے پیچھے شریر اور بدمعاش آپ کو دکھ دینے کے لئے لگائے گئے ان تکالیف کی جو اُس وقت کے بدمعاشوں کے ہاتھوں آپ کو پہنچیں ایک کھلی مثال ہے.اس کے علاوہ وہ تکالیف جو آپ کے صحابہ کو اس راہ میں پیش آئیں ایک سخت سے سخت دل والے انسان کو کنیا دینے کے لئے کافی ہیں.ان کو بیٹا گیا اور لوٹا گیا اور بے عزت و بے حرمت کیا گیا اور ہر قسم کے عذاب دیئے گئے.صرف اس لئے کہ انہوں نے اسلام کو اختیار کیا تھا اور اس کے پھیلانے کے لئے اپنی جانیں بیچ دی تھیں.وہ قتل کئے گئے ، اپنے گھر بار سے نکالے گئے اور وطن سے بے وطن ہوئے ، ان کے بچے اور ان کی بیویاں ان کی آنکھوں کے سامنے بے رحمی سے ماردی گئیں.اور یہ سب صلى الله کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ ہم خواہ کچھ ہو دنیا میں اسلام کی پاک تعلیم کو پھیلائیں گے.چنانچہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ إِلَّا اَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ 1 یعنی ان سے دشمنی نہیں کی گئی مگر اس لئے کہ وہ خدائے عزیز وحمید پر ایمان لائے یعنی انہوں نے اسلام کی پیروی کی.اور احادیث سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ کفار مکہ نے آپس میں مشورہ کر کے نبی کریم ﷺ کو کہلا بھیجا کہ ہم آپ کی ہر ایک بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں مگر ہمارے بتوں کی برائی نہ کی جائے اور اس معاملہ میں خاموشی اختیار کی جائے.مگر اس کا جواب نبی کریم ﷺ نے یہی دیا کہ دنیا کی کوئی خواہش یا لالچ مجھے تبلیغ اسلام سے نہیں روک سکتی.پس یہ تمام تکلیفیں جو نبی کریم ﷺ یا صحابہ کو دی گئی تھیں ان کی اصل غرض یہی تھی کہ ان کو اسلام کی تبلیغ سے روکا جائے اور دین سے ہٹا کر دنیا کی طرف متوجہ کیا جائے.“ تفخیذ الاذہان جولائی 1909 ، صفحہ 220،219) - 1: البروج : 9 الله
سيرة النبي علي 15 جلد 1 ساری دنیا کیلئے نجات دہندہ پادری میکلین صاحب نے 4 دسمبر 1909ء کومشن کالج لاہور میں ایک لیکچر دیا تھا کہ نجات کیا ہے.اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اصیح الاول کے فرمان کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مضمون تحریر فرمایا جو 25 دسمبر 1909ء کو تشحیذ الاذہان میں ”نجات“ کے نام سے شائع ہوا.اس مضمون کی تمہید میں آپ نے اسلام اور بانی اسلام کو ساری دنیا کیلئے نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:.میں دیکھتا ہوں کہ تمہید بہت لمبی ہوتی جاتی ہے مگر پھر بھی ضروری ہے کہ میں قرآن شریف سے اس بات کا دعوی دکھاؤں کہ وہ سب دنیا کے لئے ہے اور یہ کہ آنحضرت ﷺ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لئے خاتم النبیین ہوکر مبعوث ہوئے ہیں.اور اب تک جس کو تیرہ سو برس گزر گئے ہیں یا آئندہ ، آپ کی غلامی سے منکر شخص کی رسائی در بارالہی میں نہیں ہوسکتی.چنانچہ اول ہی اول جو آیت ہم کو سورۃ فاتحہ میں نظر آتی ہے وہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ 1 ہے.جس کے معنی ہیں کہ سب تعریف ہے اس کے لئے جو سب دنیا کا رب ہے یعنی پرورش کرنے والا ہے.جس میں کہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ شکر کرو اس خدا کا جس نے وہ کتاب بھیجی کہ جس نے پہلی سب کتابوں کو موقوف کر کے جو مختلف قوموں کے لئے تھیں اس کتاب کو ارسال کیا کہ جور بوبیت عالمین کی صفت کے ماتحت اب سب دنیا کی ربوبیت کرے گی.اور خواہ کسی مقام کا رہنے والا آدمی ہوسب کے لئے اس نے اپنے دروازوں کو کھول دیا ہے.اور کسی دکھیارے کو رد نہیں کرتی اور کسی
سيرة النبي علي 16 جلد 1 سائل کو دھتکارتی نہیں.نہ کسی ملک کے ساتھ اپنے آپ کو مخصوص کرتی ہے.چنانچہ یہ وہ آیت ہے کہ مسلمان اس کو دن میں کم سے کم چالیس دفعہ تو پڑھ ہی چھوڑتے ہیں.علاوہ اس کے سورۃ انعام کے رکوع 2 میں خدا تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کہہ دے کہ أُوحِيَ إِلَى هُذَا الْقُرْآنُ لِأَنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ 2 یعنی وحی کیا گیا ہے میری طرف یہ قرآن تا کہ میں تم کو اس سے ڈراؤں اور اس کو ڈراؤں جس کو یہ پہنچے.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن ہر ایک شخص کے لئے ہے اور کسی قوم یا ملک کی خصوصیت نہیں.جس کے کان میں یہ پڑے وہی مخاطب ہے اور کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ میں تو اس کے مخاطبین میں سے نہیں ہوں.بلکہ جس کو یہ پہنچ جائے اسی کو آنحضرت ﷺ کے دعوی کی طرف جھکنا پڑے گا اور ستی یا شرارت پر کوئی عذر نہ سنا جاوے گا.چنانچہ اس آیت میں ایک پیشگوئی بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے کہ قرآن شریف کے منکرین کے لئے جو سزا ئیں بتائی گئی ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ جو شرارت کرے گا اور اس کتاب سے ٹھٹھا کرے گا وہ ہلاک ہو گا اور دنیا میں ذلیل ہو گا.وہ صرف اہل عرب کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں یہ جائے گا وہیں اس کے مقابلہ کرنے والے ذلیل وخوار ہوں گے.اور ان کے لئے بھی نذیر ہوگا.چنانچہ اس لئے فرمایا کہ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ یعنی تا کہ انذاری پیشگوئی تم کو بھی اور جن کو یہ پہنچے ان کو بھی سنا دی جائے.اور یہ قرآن شریف کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے اور آیت ہے کہ جس کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب نہیں ٹھہر سکتی.چنانچہ آتھم اور لیکھرام نے اس پیشگوئی کے مطابق اپنا انجام دیکھ لیا اور اس پیشگوئی کے شاہد بنے اور دیگر لوگوں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا.پس علاوہ اس کے کہ اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ قرآن شریف سب دنیا کے لئے ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس کو یہ پہنچے اس کے لئے یہ انذار ساتھ موجود ہے کہ اس شہنشاہی پروانہ سے اگر ٹھٹھا کرو گے تو آنحضرت عے اسی لئے آئے
سيرة النبي علي 17 جلد 1 تھے کہ سب دنیا کو کہہ دیں کہ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ - علاوہ ازیں سورۃ اعراف رکوع 20 میں ہے کہ قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعَا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ 3 یعنی ان کو کہہ دے کہ ایک دو کے لئے نہ کسی خاص قوم کے لیے اور نہ ہی کسی خاص ملک کے لئے بلکہ میں دنیا کے ہر گوشہ کے باشندوں کے لئے مبعوث ہو کر آیا ہوں.اور میرا بھیجنے والا اللہ ہے جو کہ آسمان و زمین کا بادشاہ ہے اور مالک ہے.اس لئے میری بات کو ہلکا مت خیال کرو بلکہ یاد رکھو کہ اگر تم نے میرا مقابلہ کیا تو لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ملک اسی کا ہے وہ تم سے فوراً چھین لے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا جس نے مقابلہ کیا وہ ذلیل ہوا اور علاوہ اور ذلتوں کے ملک بھی خالی کرنا پڑا.پھر آپ کے بچے متبعین حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کے زمانوں میں بھی جو کوئی سامنے آیا ذلیل ہوا اور خائب و خاسر ہوا.چنانچہ اُس وقت تو اور رنگ تھا اب بھی پادری صاحبان نے جس وقت سے اسلام کے بر خلاف منہ زوری کرنی شروع کی ہے اُس وقت سے یورپ سے پادریوں کی حکومت ملتی جاتی ہے اور اب صرف چند جگہ ہی رہ گئی ہے.ورنہ کل یورپ میں ان کا سکہ چلنا بند ہو گیا ہے.وہ طاقتیں جو کروڑوں روپیہ ان کی مدد کے لئے خرچ کرتی تھیں اب پیہ دینا تو الگ خود ان سے وصول کرنا چاہتی ہیں.انگلستان سے ان کا دخل اٹھ گیا.فرانس و پیجئیم سے ان کا دخل اٹھ گیا.جرمن سے ان کو جواب ملا.ایشیا میں ان کی ذلت ہوئی تو امریکہ نے ان کی اطاعت کا جوا اتار کر پھینک دیا.چنانچہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھو کہ جس وقت سے اسلام کے برخلاف انہوں نے زہر اگلنا شروع کیا ہے اور قرآن شریف کی ہتک پر کمر باندھی ہے تبھی سے ان پر تبا ہی آنی شروع ہوئی ہے.اور کہاں تو بادشاہ تک پادریوں سے ڈرتے تھے اور کہاں مذہب کے برخلاف فیصلے ہو رہے ہیں اور اگر پادری صاحبان کچھ چون و چرا کریں تو
سيرة النبي علي 18 جلد 1 گورنمنٹ تو الگ عوام تک بھی گر جا پھونک دیتے ہیں.لمبی تحقیقات تو تاریخوں سے ہوسکتی ہیں میں ایک واقعہ یہاں لکھ دیتا ہوں جس سے میری تصدیق ہوتی ہے.ڈاکٹر ہے.ایف آرنلڈ مسلم مشن سوسائٹی کے آنریری سیکرٹری کی کتاب ”اسلام اور عیسائیت سے جو کہ 1874ء میں چھپی ہے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے اول مسلمانوں کے برخلاف اگر کوئی باقاعدہ سو سائٹی تیار ہوئی ہے تو وہ 1822ء میں بیل (Biel) کے مقام پر ہوئی ہے (جو کہ غالباً سوئٹزر لینڈ میں ہے ) چنانچہ اس سوسائٹی نے ایک ہزار سے زائد مشنری ادھر ادھر بھیجے تھے مگر یہ سوسائٹی بہت جلد 1833ء میں گورنمنٹ کے حکم سے ملک بدر کی گئی.چنانچہ ڈاکٹر فنڈ ر جو میزان الحق کا مصنف ہے وہ بھی اس گروہ کے ساتھ یورپ سے بھیجا گیا تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فورا ہی اس سوسائٹی کو مفسد قرار دلوا کر ذلت کے ساتھ ملک بدر کرا دیا.مگر چونکہ پادری صاحبان نے نصیحت حاصل نہیں کی اس لئے آج ہم دیکھتے ہیں تو یورپ میں کہیں یونیٹیرین فرقہ کا زور ہے جو یسوع کی ابنیت پر سو سو قہقہہ لگا تا ہے تو کہیں فری تھنکر پیدا ہو گئے ہیں کہ جن کا کام ہی پادری صاحبان کو گالیاں دینا اور ان کے راز پوشیدہ کو ظاہر کرنا ہے.مگر یہ باتیں بھی کچھ نہ تھیں اگر یورپ مسیحیت پر قائم رہتا.مگر جو لوگ یورپ سے دنیا کو نجات دینے کے لئے نکلے تھے ان کے اپنے وطن میں اسی فیصد سے بھی زیادہ لوگ دہر یہ ہو گئے ہیں.اور اسی وجہ سے جہاں جہاں پادریوں کا کچھ اختیار تھا ان کو اس سے بے دخل کر دیا گیا ہے.یہ اس آیت کے ماتحت ہے کہ لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.بے شک سب کچھ خدا ہی کا ہے.وہ اس پاک کتاب پر ٹھٹھا کرنے والوں کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑتا مگر اس کو جو تو بہ کرے.تیسری آیت اس بارے میں سورۃ سبا کے رکوع 3 میں ہے کہ وَمَا اَرْسَلْنَك إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ 4 یعنی ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا مگر صرف اس لئے کہ اب تمام دنیا کے لئے ایک نبی کی ضرورت تھی اور
سيرة النبي علي 19 جلد 1 وہ اس بات کی محتاج تھی کہ بجائے الگ الگ نبی آنے کے ایک ہی نبی آئے جو کامل اور مکمل ہو ، جس کے وجود پر تمام دنیا کی ہدایت کا دارو مدار ہو اور جس کے توسط سے لوگ اس خالق حقیقی تک پہنچیں کہ جس تک پہنچنا تمام بزرگیوں سے بزرگ تر اور تمام انعامات سے بڑا انعام ہے.اس لئے ہم نے تجھ کو اس کام کے لئے چنا اور بشیر و نذیر بنا کر مبعوث کیا.مگر اکثر لوگ جانتے نہیں.اور تیری بے کسی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ شخص جو ایسا کمزور اور غیر مشہود ہے اس کی تعلیم اور ہدایت تمام دنیا میں کس طرح پہنچے گی اور کس طرح تمام دنیا کے لئے بشیر و نذیر ہو جائے گا.ایک ہمارا مقابلہ تو یہ کر نہیں سکتا پھر سب دنیا میں اس کے پیرو کس طرح پھیل جائیں گے اور یہ چند آدمی بڑھتے بڑھتے کل دنیا کا احاطہ کس طرح کر لیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے خیالات و اقوال کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ جب مخالفین اسلام نے آنحضرت ﷺ کا یہ قول سنا کہ میں سب دنیا کے لئے مبعوث ہوا ہوں اور سب کے لئے بشیر و نذیر ہو کر آیا ہوں اور میری تعلیم ہر جگہ پھیل جائے گی تو وہ حیران ہوئے وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ 5 یعنی اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا اور کب آپ کی بشارت اور آپ کا انذار تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور آپ کے دشمن ذلیل اور پیرو با عزت ہوں گے.اس پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُل لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُوْنَ ان کو کہہ دو کہ دوسروں سے تم کو کیا اپنی سنو کہ تمہارے لئے ایک یوم ( جو الہامی کتب میں ایک قلیل مدت سے مراد ہوتی ہے) کی مدت مقرر ہو چکی ہے.اب اس مدت کے اندر اندر تم کو انذار سنا دیا جائے گا.اور موقع بدر پر تم کو اس انکار کی حقیقت معلوم ہو جائے گی.باقیوں کا معاملہ خدا کے سپرد ہے جب ان کا موقع آئے گا ان تک بھی یہ کلام پہنچ جائے گا.ہاں تمہارا واقعہ ان کے لئے ایک عبرت کا کام دے گا.چنانچہ ان لوگوں نے بدر کے موقع پر اپنی قسمت کا انجام دیکھ لیا اور کچھ مدت کے اندر اندر ہی
سيرة النبي علي 20 جلد 1 اسلام دنیا میں پھیل گیا جو کہ ایک عقلمند کے لئے ایک بڑی آیت ہے جو مذکورہ بالا آیت الله کے مطابق پوری ہوئی.پھر چوتھی آیت میں جس میں آنحضرت ﷺ کے عہدہ کی میعاد بیان کی گئی ہے کہ کب تک آپ کا مذہب قائم رہے گا یہ ہے ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيْمًا.یعنی نہیں ہیں آنحضرت ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور رسول بھی کیسے کہ خاتم النبین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا جاننے والا ہے اور کوئی ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد اب کوئی شخص نہیں آئے گا کہ جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپ کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کرے بلکہ جس قدر اولیاء اللہ ہوں گے اور متقی اور پرہیز گار لوگ ہوں گے سب کو آپ کی غلامی میں ہی ملے گا جو کچھ ملے گا.اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ آپ کی نبوت نہ صرف اس زمانے کے لئے ہے بلکہ آئندہ بھی کوئی نبی اور نہیں آئے گا بلکہ اب ہمیشہ کے لئے آپ کی ہی تعلیم جاری رہے گی اور یہی لوگوں کی ہدایت کا موجب ہو گی.جو اس سے باہر نکلے گا وہ درگاہ الہی میں نہیں پہنچ سکے گا.اس جگہ ایک اور نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا مگر بظاہر اس جگہ اس کا جوڑ کوئی معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر باتیں بیان فرمائی ہیں وہ ظاہر ہیں.ان کے لئے یہ بتانا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا جاننے والا ہے کچھ ضروری نہ تھا.سواصل بات یہ ہے کہ یہاں آپ کے خاتم النبین ہونے کے متعلق ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت علی ے پہلے دنیا میں سینکڑوں نبی گزرے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں اور جنہوں نے بڑی بڑی کامیابیاں دیکھیں بلکہ کوئی صدی نہیں معلوم ہوتی کہ جس میں ایک نہ ایک جگہ
سيرة النبي علي 21 جلد 1 مدعی نبوت نظر نہ آتا ہو.چنانچہ کرشن ، رام چندر ، بدھ ، کنفیوشس ، زرتشت ، موسی اور عیسی تو ایسے ہیں کہ جن کے پیرو اب تک دنیا میں موجود ہیں اور بڑے زور سے اپنا کام کر رہے ہیں اور ہر ایک اپنی ہی سچائی کا دعویٰ پیش کرتا ہے.مگر آنحضرت ﷺ کے دعوئی کے بعد تیرہ سو برس گزر گئے ہیں کہ کسی نے آج تک نبوت کا دعوی کر کے کامیابی حاصل نہیں کی.آخر آپ سے پہلے بھی تو لوگ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے کامیاب ہوئے (جن کو ہم تو سچا ہی سمجھتے ہیں ) مگر آپ کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ کیوں بند ہو گیا، اب کیوں کوئی کامیاب نہیں ہوتا ؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی پیشگوئی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں.اب ہم اسلام کے مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کیا نشان ہو سکتا ہے کہ آپ کے دعوے کے بعد کوئی شخص جو مدعی نبوت ہوا ہو کامیاب نہیں ہوا.پس اس کی طرف اشارہ تھا کہ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمًا یعنی ہم نے آپ کو خاتم النبیین بنایا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہ آئے گا اور کوئی جھوٹا آدمی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرے گا کہ ہم اس کو ہلاک نہ کر دیں.چنانچہ یہ ایک تاریخی پیشگوئی ہے کہ اس کا رڈ کسی سے ممکن نہیں.اگر ہے تو ہمارے سامنے پیش کرو.مگر اس طرح نہیں کہ کسی نے دعوی کیا ہو اور لاکھ دو لاکھ اس کے پیرو ہو گئے.بلکہ ایسا آدمی کہ جس نے آنحضرت ﷺ یا آپ سے پہلے نبیوں کی طرح کامیابی حاصل کی ہو مگر کوئی نہیں جو ایسی نظیر پیش کر سکے.غرض قرآن شریف نے بڑے زور سے دعوی کیا ہے کہ میں تمام دنیا کے لئے آیا ہوں اور ہر زمانہ کے لئے ہوں مگر برخلاف اس کے جیسے کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں دوسری کتب کا یہ دعویٰ نہیں.اس لئے ان کا دعوی کرنا کہ ہم نجات سب عالم کے لئے پیش کرتے ہیں کسی طرح بھی درست نہیں اور ان کا کوئی اختیار نہیں کہ اپنی تعلیم غیر مذاہب کے سامنے پیش کریں.اور جب ان کو ان کی کتب اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتیں تو ہمارے سامنے ان کا اپنی نجات کو پیش کرنا ہی غلط ہے.کیونکہ ان کی نجات تو انہی تک
سيرة النبي علي 22 جلد 1 محدود ہے اور اسلام کی نجات سب دنیا کے لئے ہے.اور چونکہ خدا تعالیٰ رب العالمین 66 ہے اس لئے سچی بات یہ ہے کہ اصل نجات وہی ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.“ تفخیذ الاذہان اپریل 1910 ءصفحہ 146 تا153) 1: الفاتحة : 2 2: الانعام: 20 3: الاعراف: 159 4: سبا : 29 5: سبا : 30 6: سبا : 31 7: الاحزاب : 41
سيرة النبي علي 23 23 حضرت مسیح ناصری اور رسول کریم علیہ کی زندگیوں کا موازنہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ”نجات کا فلسفہ“ کے عنوان سے 1910ء میں تفخیذ الا ذہان میں سلسلہ وار مضامین تحریر کیسے جس میں آپ حضرت مسیح ناصری اور رسول اللہ ﷺ کی زندگیوں کا موازنہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :."رسول اللہ ﷺ اور مسیح کی زندگیوں کا نہایت مختصر الفاظ میں مقابلہ کر کے دکھلاتا ہوں کہ ان دونوں میں سے کس کو دوسرے پر فضیلت ہے.مسیح کی پیدائش جس ملک میں ہوئی ہے وہ اپنے وقت میں امن و امان کے لئے مشہور تھا.لیکن اس کے صلى الله برخلاف رسول اللہ ہے جس ملک میں پیدا ہوئے ہیں وہ اپنے فسادوں اور جنگوں کے لئے شہرہ آفاق تھا.اور ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھ کر ایک عظمند انسان خوب سمجھ سکتا ہے کہ آپ کو اس ملک کے درست کرنے کے لئے کیا کیا مشکلات پیش آ سکتی تھیں اور برخلاف اس کے مسیح کس امن و چین میں تھا.کیونکہ یروشلم پر اُس وقت رومیوں کی حکومت تھی جو کہ اپنے وقت میں قانون کی پابندی کے لئے ایک خاص شہرت رکھتے تھے اور ان کے ملک میں کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی شخص پر بلا قانون کے ظلم کر سکے.پس مسیح کا اس ملک میں پیدا ہونا اس کے لئے بہت سی آسانیوں کا باعث تھا کیونکہ گواس کے مخالف اس کی تعلیمات کے اور اس کی جان کے ہی مخالف ہوں لیکن جوش کے جلد 1
سيرة النبي علي 24 جلد 1 ماتحت اس پر حملہ نہیں کر سکتے تھے.اور گو وہ غضب میں اندھے بھی ہو جاتے مگر ان کے لئے بغیر قانون کی آڑ کے اور کوئی وسیلہ نہ تھا جس سے مسیح کو سیدھا کرسکیں.برخلاف اس کے رسول اللہ علیہ کو جس قوم سے واسطہ پڑا تھا وہ اپنے جوشوں کے پورا کرنے کے لئے بالکل آزاد اور مختار تھی اور کوئی قانون نہ تھا جو ایسے سخت سے سخت ارادوں کی روک تھام کر سکے.اور نہ صرف کوئی دنیاوی سلطنت یا قانون ہی اس کو اپنی حدود میں نہ رکھ سکتا تھا بلکہ کوئی شریعت بھی اس قوم کے پاس نہ تھی جو کہ اس کے دل پر حکومت کرتی ہو.اور نہ ہی علوم سے ان کو کچھ بہرہ تھا کہ اخلاق کی رہنمائی سے ہی وہ اپنے جوشوں سے باز رہتی.پس اگر مسیح کی قوم قیدی تھی تو یہ اس کے برخلاف آزاد تھی.اور اگر وہ بند تھی تو یہ کھلی تھی.اور اگر اس کے رستہ میں رکا وہیں تھیں تو یہ بے روک ٹوک تھی.اور اگر وہ اپنے جوشوں کے پورا کرنے سے قاصر تھی تو یہ قادر تھی اور وہ کسی شریعت کے جوئے یا عذاب کے خوف کے نیچے تھی تو یہ ان دونوں باتوں بری.پس جو اختیار کہ مسیح پر اس کی قوم کو تھا اس سے کہیں زیادہ رسول اللہ ﷺ پر آپ کی قوم کو تھا اور جو نقصان کہ مسیح کی قوم اس کو بسبب گونا گوں رکاوٹوں کے نہ پہنچا سکتی تھی وہ رسول اللہ ﷺ کی قوم اپنی آزادی کی وجہ سے پہنچا سکتی تھی.پھر مسیح قانون کی پناہ میں ہونے کے علاوہ اپنے ماں باپ کی پناہ اور اپنے بھائیوں کی حمایت میں تھا برخلاف اس کے رسول اللہ ﷺ کے والدین اور دادا آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور صرف ایک چا کی مدد آپ کے ساتھ تھی.پھر مسیح کی تعلیم وہی تھی جو کہ تو رات و زبور وغیرہ کی ہے لیکن رسول اللہ نے کفار کے اپنے طرز عمل کو ہی برا نہ کہتے تھے بلکہ ان کے معبودوں کو بھی حَصَبُ جَهَنَّم قرار دیتے تھے.جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مسیح کی قوم کو ان سے کچھ زیادہ اختلاف نہ تھا مگر رسول اللہ ﷺ کی قوم میں اور آپ میں ایک اختلافات کا سمندر حائل تھا جو ان کو آپ کی مخالفت کے لئے ہر دم ابھارتا تھا.پھر جو شخص مسیح کی پیروی کرتا تھا اسے سوائے گالیوں کے کچھ نقصان نہ پہنچتا تھا یا صلى الله صلى
سيرة النبي علي 25 جلد 1 زیادہ ہوا تو کہیں مار پیٹ پڑ جاتی تھی.لیکن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا نہ صرف عزیز و اقرباء سے قطع تعلق کر لینا تھا بلکہ اپنی جان سے بھی ناامید ہونا تھا.چنانچہ حواریوں کا زیادہ سے زیادہ پیٹنا ثابت ہے اور صحابہؓ کا نہ صرف مارکھانا بلکہ قتل ہونا پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے.اور پھر قتل بھی معمولی نہیں ایسے واقعات بھی ہیں کہ مرد کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے باندھ دی اور دوسری دوسرے سے اور پھر دونوں کو مختلف سمتوں میں چلا دیا.اور پھر مسیح کے ساتھ کی عورتوں کی نسبت تو گالی گلوچ بھی ثابت نہیں اور رسول اللہ ﷺ کو ماننے والی عورتوں میں سے بعض کا قتل اور ایسا قتل کہ ان کے فروج میں نیزہ مار کر مار دیا گیا ثابت ہے.پھر مسیح شہروں اور بستیوں میں کھلم کھلا وعظ دیتا پھرتا تھا اور رسول کریم میے کے مخالفین آپ کو اس قدر آزادی نہیں دیتے تھے بلکہ آپ کا اگے دیگے آدمیوں میں تبلیغ کرنا بھی وہ لوگ نا پسند کرتے تھے اور جہاں آپ کو دیکھتے زدو کوب کرنے سے نہ ٹلتے تھے.پھر اگر مسیح کہیں بھاگ جاتا تو وہ لوگ ایسے ناراض نہ تھے کہ اس کا پیچھا کرتے.لیکن رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ کا پیچھا لوگوں نے وہاں تک کیا.مسیح کے پکڑنے کا خیال اس کے مخالفین کو ایسا نہ تھا جتنا کہ آپ کے مخالفین کو آپ کے گرفتار اور قتل کرنے کا تھا.کیونکہ مسیح کے سر کا اس کے دشمنوں نے تمہیں درہم انعام مقرر کیا لیکن رسول اللہ کے لئے ایک سو اونٹ کا انعام اعلان کیا گیا.پھر مسیح کی جنگ یعنی زبانی بات چیت صرف یہودیوں سے تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سچائی سے سب دنیا کو اپنے مقابل پر لاکھڑا کیا تھا اور مسیح اپنی حکومت کی پناہ میں تھا اور رسول اللہ ہے کے مقابل نہ صرف آپ کی اپنی قوم تھی بلکہ اُس وقت کی دونوں زبر دست یعنی قیصر روما اور کسری کے ایران کی حکومتیں بھی آپ کے استیصال کا ارادہ رکھتی تھیں اور علاوہ ان کے عرب کے مسیحی اور یہودی بھی آپ کے ساتھ بیر رکھتے تھے.مگر باوجود ان تمام مشکلات کے جو رسول اللہ ہے کے راستہ میں تھیں اور ان خطرات کے جو آپ کی ہلاکت کے لئے اگر آپ (نعوذ باللہ ) صلى الله صلى الله
سيرة النبي علي 26 جلد 1 جھوٹے ہوتے کافی تھے آپ بڑھے اور پھولے اور پھلے اور دن رات آپ کا قدم آگے بڑھا.اور جو کوئی آپ کے مقابلہ میں آیا ہلاک ہوا.اور جو کوئی آپ پر گرا ہلاک ہوا اور جس پر آپ گرے اسے ہلاک کر دیا.آپ کے مخالفین کے گھر اجڑ گئے ، ان کی بستیاں ویران ہو گئیں، جس نے آپ پر تلوار چلائی قتل کیا گیا.ان کی بیویاں بیوہ ہو گئیں، ان کے بچے یتیم ہوئے ، ان پر رونے والا بھی کوئی نہ ملا.چیلیں اور کتے آپ کے اعداء کا گوشت کھا گئے.وہ دنیا و آخرت میں ذلیل کئے گئے اور کوئی نہ تھا جو ان کو بچاتا.وہ برباد کر دیئے گئے اور کوئی نہ نکلا جو ان کی مدد کو آتا.جنہوں نے آپ کو گمنام کرنا چاہا تھا وہ خود گمنام ہو گئے اور آج تک ان کے نام ونشان کا پتہ نہیں.آج کوئی ہے جو ابو جہل کی نسل ہونا اپنے لئے پسند کرے؟ کیا کوئی ہے جو عتبہ وشیبہ کے نام اپنے آباء میں لینا فخر سمجھے؟ وہ صنادید عرب جو اپنے ملک کے باپ کہلاتے تھے ان کی عمارتیں آپ کے سامنے گر گئیں، وہ آپ کی اطاعت میں سر کے بل گرائے گئے.ان کے ماتھوں پر غلامی کا داغ لگایا گیا، وہ بہادروں کا بہادر اور بادشاہوں کا بادشاہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ فتح کرنے گیا اور وہ بت جو خدائے واحد کے مقابلہ میں کھڑے کئے جاتے تھے اسی بندہ کے آگے سرنگوں کئے گئے اور اس کے زبر دست ہاتھوں ان کے ٹکڑے اڑا دیئے گئے.زمین سے لے کر آسمان تک اس کا نور چمکا اور خود خدا نے اس کے صدق پر شہادت دی اور اس کا رحیم کریم دل اپنے مخالفین کے لئے پیجا اور لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 1 کی دلکش آواز نے نہ صرف آپ کے مخالفین کے جسموں کو ہی بچا لیا بلکہ ان کی روحوں کو بھی ابدی دوزخ کے پھندے سے نجات دلا دی.لیکن یسوع باوجود ان آسانیوں کے جو میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ نہ اس کی قوم ایسی خطرناک تھی اور نہ اس کو اس سے ایسی دشمنی ہی تھی روز بروز کمزور ہی ہوتا گیا اور آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ شخص جو اپنے حواریوں کو بارہ تختوں کا وعدہ دیتا تھا اور ابن اللہ
سيرة النبي علي 27 جلد 1 ہونے کا دعویٰ کرتا تھا.اور اپنے آپ کو شہزادہ کہتا تھا، جو یہودیوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں کر رہا تھا، جو رومن سلطنت کی بھی کچھ حقیقت نہ سمجھتا تھا، جسے اپنی ترقیوں کی بڑی بڑی امیدیں تھیں اور جو آسمانی بادشاہت کے وعدے دے کر اپنے حواریوں کے حوصلہ کو بڑھا رہا تھا یہودیوں کے قبضہ میں پڑا اور کچھ ایسا پھنسا کہ آخر نہایت کرب واندوہ اٹھا کر سولی پر لٹکایا گیا.اور اُس وقت اس کے دشمنوں نے اس کے منہ پر تھوکا اور کانٹوں کا تاج پہنایا اور پانی کی جگہ سرکہ پلایا.اور اس بے بسی اور بے کسی کی حالت میں وہ چینیا اور ایلی ایلی لما سبقتنی 2 کی دردناک اور مایوسی کی مجسم آواز اس کے منہ سے نکلی اور بقول مسیحیوں کے ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا.اور ساتھ ہی ان تمام دعووں پر جو اس نے اپنی ذات کی نسبت اور حواریوں کے بارے میں کئے تھے پانی پھر گیا.اب بتاؤ کہ کیا وہ شخص جو باوجود سخت سے سخت مصیبتوں کے اور دشمنوں کے حملہ کے کامیاب ہوا خدا کا بیٹا کہلانے کا مستحق ہے یا وہ جو مقابلۂ چین اور آرام سے زندگی بسر کر رہا تھا اور جس کے راستہ میں کوئی سخت رکاوٹیں نہیں تھیں مگر باوجود اس کے ناکامی و نامرادی سے اس دنیا سے گزر گیا (بقول مسیحی صاحبان کے ).تشخیذ الا ذہان اگست 1910 ءصفحہ 305 تا 309) 1: السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 208 زیر عنوان فتح مكة شرفها الله تعالى مطبوعہ بیروت لبنان $2012 2 متی باب 27 آیت 46 صفحہ 957 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء
سيرة النبي علي 28 جلد 1 صلى الله رسول کریم ماہ کا جینا اور مرنا بس خدا کے واسطے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اپنی ایک تقریر میں جو ”بدر“ جنوری 1911ء میں شائع ہوئی رسول کریم میہ کے تمام اقوال وافعال اور اپنی ذات میں خدا میں فنا شدہ ہونے کے بارہ میں فرماتے ہیں:.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ 1 - یہ حال ہے اس شخص کا جس کا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے واسطے ہے.اس میں ایک تصوف کا نکتہ ہے وہ یہ کہ دو مدارج کا بیان ہے.فنا اور بقا.نُشک، نسیکہ قربانی کو کہتے ہیں اور کپڑوں کو جو میل لگا ہے اسے دھو کر صاف کرنا.صلوٰۃ زندگی کا باعث ہے.وہ اعلیٰ سے اعلیٰ عبادت جس سے انسان خدا تک پہنچتا ہے.اس کے بھی دو درجے ہیں.ایک تو اس حالت میں مومن آجاتا ہے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے اور ایک اس سے کم کہ یہ سمجھے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.جب انسان تن ، من ، دھن سے اللہ پر قربان ہو جاتا ہے تو فنا کے مقام سے گزر کر بقا کے درجے میں آتا ہے.صلوۃ کے مقابلہ میں مَحْيَايَ رکھا ہے اور نُسکی کے مقابلہ میں مَمَاتِي.ایسے شخص کو جو اپنی نفسانی خواہشات قربان کر دیتا ہے اور اپنے دل کو دھو کر پاک وصاف بنالیتا ہے ایسی زندگی عطا ہوتی ہے جس میں اسے خدا ہی خدا نظر آتا ہے.یہ ابراہیم کی صل الله شان ہے.رسول کریم ﷺ اعلان فرماتے ہیں کہ اس درجہ کو میں بھی پہنچ گیا.یہ ابرا ہیمی درجہ ہے کہ حکم ہوتا ہے بچہ کو ذبح کرو.آپ بغیر عذر کے اس پر طیار ہیں.حکم
سيرة النبي علي 29 جلد 1 ہوتا ہے بیوی بچہ کو جنگل میں چھوڑ آؤ آپ اس پر بھی تیار ہیں.رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابرا ہیم سے بڑھ کر لَا شَرِیکَ لَہ کو دکھایا.مکہ کے کفار، مدینہ کے منافق ، یہود، مجوس ، مصر کے قبطی ، شامی ، رسول اللہ ہے کے مخالف تھے.بڑے بڑے مقابلہ آپ کے ہوئے مگر آپ نے اپنی پاک تعلیم کو چھپایا نہیں بلکہ پانچ وقت چھتوں پر چڑھ چڑھ کر اس کے اعلان کی ہدایت فرمائی.آخر وہی شریر لوگ شرمسار ہو کر آپ کے حضور آئے.آپ نے پوچھا کہ تم سے کیا سلوک کیا جائے؟ تو گردنیں نیچی کئے ہوئے بولے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا.آپ نے فرمایا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 2 آپ کی ذات مجسم رحم تھی.طائف کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ میں کتنے میل دوڑ آیا اور مجھے معلوم نہ تھا کہ کدھر جا رہا ہوں.فرشتہ نے عرض کیا کہ اشارہ کی دیر ہے ابھی طائف کو الٹ دوں.آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں اللہ انہیں ٹیک کر دے گا 3.آپ نے اپنی تعلیم کو اپنے عقائد کو بھی نہیں چھپایا بلکہ پکار پکار کے کہا اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ میں خدا کا سب سے پہلا فرمانبردار اور اول درجہ کا مسلمان ہوں.ایک موقع کا ذکر ہے کہ آپ ایک درخت کے نیچے لیٹے تھے ایک شریر آیا اور آپ کی تلوار اٹھا کر بولا آپ کو کون بچا سکتا ہے؟ تو آپ نے بڑے وثوق کے ساتھ بلند آواز سے کہا اللہ.یہ سننا تھا کہ اس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار گر پڑی 4.ایک جنگ میں آپ اکیلے رہ گئے بڑا نازک وقت تھا.چاروں طرف دشمنوں کا نرغہ مگر آپ بڑی جرات کے ساتھ دشمنوں کے قریب ہو کر کہہ رہے ہیں اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب کہ دیکھو میں نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں.ہاں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں 5.یہ ہمارا پاک رسول مقتدا تھا جس نے نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے ہر فعل بتادیا کہ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ.رسول الله الله کے کمالات اس درجہ بلند تھے کہ اگر کوئی خدائی کے لائق ہو سکتا ہے تو رسول اللہ یہ تھے.مگر آپ کا اللهُ إِلَّا الله کے ساتھ ساتھ تعلیم دیتے ہیں کہ محمد اللہ کا فرستادہ ہے.پھر کفار کو
سيرة النبي علي 30 جلد 1 سنایا جاتا ہے یايُّهَا الْكَفِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَلَا أَنْتُمْ عَبدُونَ مَا أَعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُمْ وَلَا انْتُمْ عُبِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ هِ کہ میں تمہارے معبودان باطلہ کی پرستش نہیں کرتا.تمہارے لئے تمہارے اعمال کا بدلہ ہے اور میرے لئے میرے اعمال کا بدلہ.یہ فرق انشاء اللہ ظاہر ہو جائے گا.میں خدا کے فرمانبرداروں سے ہوں.کوئی حکم آئے گا میری گردن اٹھی ہوئی نہ پائے گا.“ 1: الانعام: 164،163 ( بدر 19 جنوری 1911 ءصفحہ 6) 2: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 207 208 زیر عنوان فتح مكة شرفها الله تعالى مطبوع بیروت لبنان 2014ء صلى الله 3: مسلم كتاب الجهاد باب ما لقى النبي اول صفحہ 800 ، 801 حدیث نمبر 4653 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 4: بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :5 مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين صفحہ 790 حدیث نمبر 4616 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 6: الكفرون : 2 تا 7
سيرة النبي علي 31 جلد 1 خاتم النبين الله صلى الله بدر 23 مارچ 1911ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ” خاتم النبیین“ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر فرمایا جس کا مکمل متن درج ذیل ہے:.”ہمارا ایمان ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ اپنے مخفی در مخفی تعلقات الہیہ کی وجہ سے اس بلند مقام تک پہنچ گئے تھے کہ آپ کے رتبہ کا سمجھنا ایک نہایت مشکل امر ہے.بڑے بڑے عظیم الشان انسان دنیا میں گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نفسوں کو ہی پاک نہیں کیا بلکہ قوموں کی قوموں کو سدھار دیا اور جو خدا تعالیٰ کے احکام میں ایسے منہمک ہوئے کہ بس فنا ہی ہو گئے.لیکن جس مقام پر آنحضرت ﷺ نے قدم مارا اُس تک کوئی نہیں پہنچ سکا.انسانی زندگی کا کوئی سا پہلو ہی لے لیں آپ بے نظیر ہی معلوم ہوتے ہیں.بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اور بے کسی ، بے بسی کی حالت سے لے کر ایک ملک کے بادشاہ ہونے تک کی مختلف حالتوں میں کوئی پہلو بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ جس میں آپ کے طریق عمل پر کسی قسم کی حرف گیری کا موقع ملے.بلکہ جہاں تک غور کریں کمال ہی کمال نظر آتا ہے.اکثر لوگوں میں جن کو بادی النظر میں کامل سمجھا جاتا ہے غور کریں تو بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن یہ ایک رسول اللہ ﷺ کی ہی ذات ہے کہ نظر کو کتنا ہی باریک کرتے چلے جاؤ آپ کی کمزوریاں نہیں بلکہ آپ کے کمال ہی کمال کھلتے چلے جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحی 1 یعنی آپ کبھی بھی ہوائے نفس سے کلام نہیں کرتے تھے بلکہ منشاء الہی کے ماتحت ہی آپ کے سب کام تھے.
سيرة النبي علي 32 جلد 1 ج پھر فرمایا کہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمی 2 یعنی آپ نے جو کچھ پھینکا وہ آپ کا پھینکا ہوا نہ تھا بلکہ اللہ نے پھینکا تھا.اسی طرح ارشاد ہوا ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ 3 یعنی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانیاں اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے جو رب العالمین ہے.غرضیکہ آپ نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے منشا کے آگے اس طرح ڈال دیا تھا کہ آپ کی ساری زندگی میں ایک نمونہ بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ آپ نے کبھی اپنی بڑائی بھی چاہی ہو.چنانچہ اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم النبین کے مرتبہ پر قائم کر کے آپ پر ہر قسم کی نبوتوں کا خاتمہ کر دیا.اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے ایک ہی دروازہ کھلا رکھا گیا ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کا دروازہ ہے.ایک زمانہ تھا جبکہ مختلف ممالک میں مختلف قوموں کے لئے انبیاء آتے تھے اور ایک کا دوسرے سے کچھ تعلق نہ ہوتا تھا لیکن آپ کی بعثت کے بعد کوئی شخص مامور نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس پر رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی مہر نہ ہو.صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.آپ کے کمالات اس حد تک پہنچے کہ آپ کے بعد کوئی مامور من اللہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ آپ کی اس پر اتباع کی مہر نہ ہو.بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ آپ کے کمالات اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات کی ان منازل تک پہنچ گئے کہ آپ کی اتباع کی برکت سے ایسے ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں کہ جو بڑے بڑے انبیاء کا مرتبہ رکھتے تھے.چنانچہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانُبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل 4 اور آپ کا فیض قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا.کسی نبی کا سوسال ، کسی کا دوسوسال تک، کسی کا ہزار، کسی کا دو ہزار سال تک سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد ان کا نور تاریک دلوں کو روشن نہ کر سکا.لیکن آپ کا نور جب تک کہ دنیا قائم ہے لاکھوں، کروڑوں انسانوں کے دلوں کو منور کرتے ہوئے سلوک کی اعلیٰ سے اعلیٰ راہوں کو طے کراتا رہے گا.آپ کو دوسرے انبیاء ورسل پر ہزاروں فضیلتیں ہیں مثلاً یہ کہ آپ کے لائے ہوئے دین کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صلى الله
سيرة النبي علي 33 جلد 1 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا 5 اور یہ خصوصیت کسی اور مذہب میں موجود نہ تھی بلکہ وہ خاص خاص حالات کے ماتحت ہوتے تھے.پھر آپ کے مبارک نام کو کلمہ توحید کے ساتھ شامل کیا گیا ہے جو فضیلت کسی نبی کو نہیں دی گئی.یہ بھی آپ کے ختم نبوت پر ایک دلیل ہے.آپ پر جس زبان میں کلام الہی اُترا ہے وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی.یہ فضیلت بھی کسی اور مذہب کے بانی کو نہیں ملی.موسی مسیح، زرتشت، بدھ ، ویدوں کے رشی ، کسی مدعی رسالت کی زبان اب تک محفوظ نہیں اور کسی ملک میں بھی نہیں بولی جاتی.جس کی وجہ سے نہ معلوم ان کی کتب میں اب تک کس قدر تغیر ہو چکے ہیں.آپ کو وہ صحابہ ملے کہ کسی اور کو نہیں ملے.جانثار سپاہی ، فرمانبردار، مدبر، محتاط راوی ، مخلص ، حافظ قرآن پاک ،بیان، نیک ذریت ، کامل خلفاء، کوئی چیز بھی تو نہیں کہ جس سے آپ محروم رہے ہوں اور جو آپ کی تعلیم کے پھیلنے میں رکاوٹ کا باعث ہوئی ہو.اس کی وجہ کہ آپ خاتم النبیین کیوں ہوئے؟ یہ ہے کہ آپ گل صفات الہیہ کے مظہر تھے اور پہلے انبیاء ایسے نہ تھے.چنانچہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ دَنَا فَتَدَنٰی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنی یعنی آپ اللہ تعالیٰ سے ایسے قریب ہوئے کہ قوسین ملائی جاویں تو ان کے درمیان فاصلہ رہتا ہے، اتنا فاصلہ آپ میں اور اللہ تعالیٰ میں رہ گیا ( یعنی کوئی فاصلہ نہ رہا) یہاں تک کہ وہ بھی نہ رہا اور آپ اس سے بھی قریب ہو گئے.یعنی آپ نے اپنی کمان رکھی ہی نہیں خدا کی ہی کمان میں اپنی کمان کو داخل کر دیا اور اس طرح جہاں خدا تعالیٰ کا تیر چلا وہیں آپ کا چلا اور جس کی حمایت میں چلا آپ کا تیر بھی اسی کی حمایت میں چلا ، تو گویا گل صفات الہیہ کے آپ مظہر ہو گئے.چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ اُوتِيْتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ یعنی ہر قسم کے کمالات
سيرة النبي علي 34 جلد 1 مجھے دیئے گئے ہیں.جس کی تائید قرآن شریف کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ وَعَلَّمَ ادَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا 8.پس آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے مظہر تھے جن کا تعلق انسان کی ترقیات سے ہے اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ خاص خاص زمانوں میں خاص خاص ملکوں میں خدا تعالیٰ کی خاص خاص صفات کا ظہور ہوتا ہے.پس پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ایک خاص صفت الہیہ کے ظہور کے وقت اُس زمانہ کے نبی کے کمالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے ایک اور نبی بھیج دیا جاتا تھا لیکن اب خواہ کسی زمانہ میں کسی ملک یا قوم پر کسی صفت الہیہ کا ظہور ہوتا ہو تو رسول اللہ ہے کے کمالات اس صفت کو اخذ کر کے دنیا پر پھیلانے کے لئے موجود ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اب کسی ایسے نبی یا رسول کے بھیجنے کی ضرورت نہیں رہی جو آپ سے الگ ہو کر اپنا سلسلہ قائم کرے بلکہ جو کمالات بھی کہ انسان حاصل کر سکتا ہے وہ آپ ہی کے اتباع صلى الله سے کرسکتا ہے.لیکن باوجود ان کمالات کے جو آپ میں پائے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی عبودیت ظاہر کرنے کے لئے فرماتا ہے.مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ و تا ایا نہ ہو کہ وہ کمزور فطرتیں جو آپ سے بہت ادنیٰ درجہ کے انسانوں کو بھی خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیتی رہی ہیں آپ کی شان کو دیکھ کر آپ کو بھی کوئی ایسا ہی خطاب نہ دے دیں.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ ( بدر 23 مارچ 1911 ء صفحہ 2) مجيد 1: النجم: 54 2: الانفال : 18 3: الانعام : 163 4 مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ 138 مطبوعہ 1330ھ
سيرة النبي ع 5: المائدة : 4 6: النجم : 9، 10 35 جلد 1 : مسلم كتاب المساجد باب المساجد ومواضع الصلوة صفحه 213 حدیث نمبر 1171 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 8: البقرة : 32 9: آل عمران : 145
سيرة النبي علي 36 36 جلد 1 صلى الله شانِ خاتم الانبیاء علی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دور میں اخبار وطن“ اور ”المنیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اصیح الاول پر اعتراض کیا گیا کہ آپ نے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں ایک نہایت معمولی فرق پر اختلاف ڈلوا دیا.اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاح نے حضرت خلیفہ اول کی منظوری سے تشحیذ الاذہان اپریل 1911ء میں مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے“ کے عنوان سے مضمون لکھا.اس مضمون میں آپ نے رسول کریم ﷺ کی شان خاتم الانبیاء پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا :.غرضیکہ اے عزیز و! ہمارا ایمان ہے کہ حضرت صاحب خدا کے مرسل تھے اور مامور من اللہ تھے اور ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء ہمیشہ بھیجتا رہتا ہے اور نہ معلوم اور کتنے انبیاء آگے بھیجے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ حضرت نبی کریم محمد رؤوف رحیم رسول اللہ خاتم النبیین کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آئے گا اور آپ ہر قسم کی نبوتوں کے خاتم ہیں اور آئندہ جس کو اللہ تعالیٰ تک رسوخ ہو گا وہ آپ ہی کی اطاعت کے دروازہ سے گزر کر ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحِبُكُمُ اللهُ 1 اور اسی میں آپ کی عزت ہے.کیونکہ کیا وہ شخص معزز کہلا سکتا ہے جس کے ماتحت کوئی بھی افسر نہ ہو؟ بلکہ معزز وہی ہوتا ہے جس کے ماتحت بہت سے افسر ہوں.دنیا میں ہی دیکھ لو کہ تم ”بادشاہ کے لقب کو زیادہ معزز جانتے ہو یا شہنشاہ“ کے لقب کو.پس شہنشاہ کا لفظ
سيرة النبي علي 37 جلد 1 اس لئے کہ اس میں بادشاہوں پر حکومت کا مفہوم پایا جاتا ہے، بادشاہ پر معزز ہے ادنی نہیں.اسی طرح ایسی نبوت جس کے ماتحت اور نبوتیں بھی ہوں اُس نبوت سے اعلیٰ اور افضل ہے جس کے ماتحت اور نبوت کوئی نہ ہو.کیا وہ شخص زیادہ معزز ہوگا جو صلى الله در بارشاہی تک انسان کو پہنچا دے یا جو دروازہ پر ہی لے جا کر چھوڑ دے.پس ہمارا یقین ہے کہ محمد رسول اللہ ہی لیے اپنی امت میں سے لوگوں کو اٹھا کر اعلیٰ مقامات پر پہنچا دیتے ہیں اور آپ کے ماتحت ہزاروں نبی ہوں گے جو آپ کے ایک ایک لفظ کو قابل اطاعت جانیں گے اور آپ کی محبت اور فرمانبرداری کو ذریعہ نجات یقین کریں گے.کیا یہ زیادہ معزز درجہ ہے یا وہ جو ہمارے مخالف پیش کرتے ہیں؟ پس ہم اسی اصل کے ماتحت حضرت مسیح موعود کو بموجب احادیث صحیح نبی اور مامور مانتے ہیں اور اس اعتقاد سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں فرق نہیں آتا بلکہ اور بھی اعلیٰ ثابت ہوتی ( تفخیذ الا ذہان اپریل 1911ء) 66 ہے.1: آل عمران : 32
سيرة النبي علي 38 جلد 1 صلى رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی کا معیار - قرآن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جلسہ سالانہ قادیان 1911ء کے موقع پر جو تقریر فرمائی وہ مدارج تقوی“ کے نام سے 1919 ء میں شائع ہوئی.اس لیکچر کی تمہید میں آپ نے رسول کریم ﷺ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے 66 وو " حضرت مسیح ناصری فرماتے ہیں ” درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے 1.یہ ایسا پکا، سچا اور ایسا پاک کلمہ ہے کہ اس میں زمانے کے تغیرات ،ملکوں، حکومتوں ، علموں اور سائنسوں کے تغیرات نے ذرا بھی تبدیلی نہیں پیدا کی.1900 برس گزر گئے لیکن اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فقرہ ” درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے‘ بالکل صحیح ہے.جب میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کو اسی جملہ میں مرکوز دیکھتا ہوں تو یہ فقرہ مجھے بڑا مزہ دیتا ہے.واقعی درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.دیکھو آم کا درخت ہے.اس میں اگر ایسے پھل نہیں لگتے جس سے لوگ نفع اٹھائیں تو وہ آم کس کام کا.اگر وہ شیریں پھل دیتا ہے تو آم ہے ورنہ ایک لکڑی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.اسی طرح اگر انگور کی بیل میں انگور عمدہ لگتے ہیں تو وہ انگور ہے ور نہ محض ایک گھاس ہے.صلى رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی کا معیار ہمارے رسول اللہ ﷺ کی ذات علیہ پر بہت سے اعتراض کئے جاتے
سيرة النبي علي 39 جلد 1 ہیں اور بعض بے باک شریر آپ کو بدیوں میں ملوث بتا کر اس سورج کو چھپانا چاہتے ہیں جس سے تمام جہان روشن ہے.میں دیکھتا ہوں کہ یہی فقرہ آپ کے چال چلن کی بریت کے لئے کافی ہے کیونکہ انسان جس قسم کا ہو اسی قسم کی باتیں کیا کرتا ہے.اس کے متعلق مجھے ایک قصہ یاد آیا ہے.رابعہ بصری ایک مشہور بزرگ عورت گزری ہیں.ان کے سامنے چند آدمیوں نے مسجد میں دنیا کی مذمت کی اور اس قدر مذمت کی کہ عصر کا وقت آ گیا.عصر کے بعد پھر اس طائفہ نے دنیا کی مذمت شروع کر دی.آپ نے غضب ناک ہو کر کہا کہ یقیناً تم دنیا کے طالب ہواسی لئے دنیا کا ذکر کرتے ہو کیونکہ انسان کو جو چیز پسند ہو اسی کا ذکر کرتا ہے.بعض اوقات محبوب کے شکوہ میں وہی مزہ آتا ہے جو اس کی تعریف میں آیا کرتا ہے.غرض انسان کو جس سے محبت ہو اسی کا اکثر ذکر کرتا ہے.یہی اصل ہاتھ میں لے کر رسول کریم ﷺ کی زندگی پاک ثابت کرنے کو میرے لئے قرآن مجید کافی ہے.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یوں تو عیسائیوں نے آپ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور مسلمانوں نے مجاہد النبی میں جو کچھ لکھا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے لیکن ایک معترض کہے گا کہ یہ دونوں نا قابلِ اعتبار ہیں.ایک مسلمان نے خوش اعتقادی سے کہنا ہی ہوا کہ آپ کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف لگی رہتی تھی اور ایک عیسائی کا مذہبی فرض ہے کہ اس کے خلاف کہے.پس تاریخ معیار نہیں.ہاں قرآن شریف ضرور قابل اعتماد ہے جو تبدیل نہیں ہوا.عیسائیوں اور صلى الله یہودیوں کے خیال میں نبی کریم ﷺ کا اپنا بنایا ہوا ہواور مسلمانوں کے نزدیک خدا کا کلام.دونوں صورتوں میں نبی کریم ﷺ کی زندگی پاک اور مطہر ثابت ہوتی کیونکہ ان پاک خیالات کا منبع وہی قلب ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو.اگر کوئی قلب اس قسم کے پاک و جامع کلام کا اہل ہوتا تو آدم سے لے کر آپ کے زمانہ تک کسی اور نبی پر یہ القاء ہوتا.ابراہیم بھی خدا کو بہت پیارا تھا ،موسی“ بھی صلى ہے.
سيرة النبي علي 40 جلد 1 بہت پیارا تھا عیسی بھی.مگر ان پیاروں میں سے کسی کو وہ کلام نہ دیا بلکہ اپنے سب سے پیارے نبی عربی ﷺ کو دیا.انسان کی فطرت میں بھی یہ امر ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ ، عمدہ سے عمدہ چیز اپنے پیارے بچے کے لئے رکھتا ہے.پس خدا نے بھی اپنا لا ثانی کلام اپنے اسی بندے کو دینا تھا جو سب پیاروں سے زیادہ پیارا تھا نہ کہ کسی گندوں سے بھرے ہوئے انسان کو.جیسا کہ نَعُوذُ باللہ مخالفین کا آنحضرت عے کے بارے میں گمان ہے.غور کرنے کی بات ہے کہ قرآن مجید کا کوئی رکوع بلکہ کوئی آیت عظمت و جبروتِ انہی کے ذکر سے خالی نہیں.جس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو کس قدر تعلق و اخلاص اللہ تعالیٰ سے تھا.پھر مختلف حالات و اوقات کے متعلق جو احکام ہیں ان پرغور کریں تو بھی آپ ﷺ کی پاک و مطہر زندگی کا ثبوت ملتا ہے.جب ہم کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے دیکھو کیا کرنے لگے ہو پہلے بسم اللہ کہہ لو.جب کھانا کھا چکتے ہیں تو حکم ہوتا ہے الْحَمْدُ لِلہ کہ لو ورنہ ناشکری ہوگی.اس ذات کا شکر ضروری ہے جس نے رزق بخشا، صحت بخشی، معدہ دیا، دانت دیئے.اسی طرح جب ہم کوئی کام شروع کرنے لگتے ہیں تو وہ خیر خواہ ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ تمہارا علم ناقص ہے 2 تمہاری قوت میں کمزوری ہے پس اس پاک و قدوس، قادر و مقتدر سے مدد مانگ کر شروع کرو، استخارہ کرلو.نکاح کے لئے يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ 3 سنا کر خدا کا ڈر یاد دلا دیا.اسی طرح جب ہم صبح کے وقت نیند سے اٹھتے ہیں تو ہم کو حکم ہوتا ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے خدا کی تسبیح وتحمید و تقدیس کرلو.پھر جب سورج ڈھلنے لگتا ہے تو یادِ خدا کا حکم ہوتا ہے تا کہ تمہاری روحانیت کا آفتاب اسی طرح زائل نہ ہو جائے.پھر عصر کے وقت جب آفتاب کی حدت بہت کچھ کم ہو جاتی ہے تو پھر خدا کے حضور گڑ گڑانے کا حکم دیا.پھر جب سورج ڈوب جاتا ہے تو اس وقت بھی دعا کا حکم ہے کہ الہی ! جس طرح یہ جسمانی سورج ڈوب گیا ہے روحانی سورج نہ ڈوب جائے اور ہم انوار خداوندی سے محروم نہ رہ جائیں.پھر جب بالکل اندھیرا پڑ جاتا ہے تو پھر
سيرة النبي علي 41 جلد 1 اس نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ 4 کے حضور کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے ایسا نہ ہو کہ ہم طرح طرح کی ظلمات میں رہ کر تباہ ہو جائیں.یہ تعلیم ، یہ پاک تعلیم کیا کسی گندے انسان کے دل سے نکل سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ یہ اسی شخص کے پاک قلب سے نکل سکتی ہے جس کی زندگی نہایت مطہر اور سارے جہان کے لئے نمونہ ہو.یا درکھو جو شخص دنیا کو جس قدر دین کی طرف متوجہ کرتا ہے یقیناً وہ اسی قدر خدا کا والہ وشیدا ہے.پس یہ تعلیم کہ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے ، چلتے پھرتے ہر وقت خدا کو یاد رکھو اس اخلاص ، اس محبت ، اس عشق ، اس پیار ، اس شیفتگی کا پتہ دیتی ہے جو نبی کریم ﷺ کو خدا سے تھی.پھر اسی تعلیم کا اثر دیکھ کر مسلمانوں کے بچے ، بوڑھے، جوان ، عورتیں سب اسی رنگ میں رنگین ہیں.کوئی بچہ گرتا ہے تو فوراً منہ سے حَسْبُكَ اللهُ، جب کوئی خوشی ہوتی ہے تو زبانیں پکار اٹھتی ہیں اَلْحَمْدُ لِلہ.آخر یہ بات کس نے ان کے دل میں ڈالی ؟ رسول کریم ﷺ نے.انسان اپنے پیارے کا نام کسی نہ کسی بہانے سے الله ضر ورسننا چاہتا ہے.پس نبی کریم ﷺ کا پیارا تو خدا تھا.آپ نے ہر حرکت وسکون ، ہر قول وفعل سے پہلے پیارے کا نام بتا دیا.سب سے نازک خطر ناک موقع تو انسان کے لئے وہ ہوتا ہے جب شہوت کا بھوت اس کے سر پر سوار ہو.جس وقت انسان سب کچھ بھول کر صرف اسی خیال میں محو ہو جاتا ہے.اور جب وہ دنیا اور دنیا کے پیاروں سے الگ ہو کر ایک پیارے میں منہمک رہ جاتا ہے تو ایسے جوش کے وقت بھی نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہوتا ہے کہ اللهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْنَاةِ پڑھ لیا کرو.غرض کسی دلیل کی ضرورت نہیں ، تاریخی شہادت کی حاجت صلى الله نہیں.صرف قرآن مجید ثابت کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ہر قول و فعل خدا کے لئے تھا اور آپ ﷺ کی زندگی پاک و مطہر تھی.قرآن مجید سے پہلے اَعُوذُ پڑھنے کی تعلیم میں حکمت لوگ مذاہب بناتے ہیں
سيرة النبي علي 42 جلد 1 کوئی کہتا ہے گدی بن جائے ، کسی کو حکومت کا شوق ہوتا ہے، کسی کو دولت جمع کرنے کا خیال.غرض مختلف وجوہات ہیں جن سے لوگ دین اختیار کرتے ہوں گے.کوئی عیسائی بنتا ہے تو اسے یہ بھی خیال آتا ہوگا کہ میرے ضلع کے ڈپٹی یا میرے صوبہ کے لیفٹیننٹ گورنر یا میرے ملک کے وائسرائے خوش ہو جائیں گے.مگر محمد رسول الله ل ل ا ل ل ہو ہی تو دیتا ہے جس سے خدا کا قرب ، خدا کی خوشنودی حاصل ہو.وہ اپنے پیرؤوں کو تعلیم دیتے وقت ارشاد فرماتا ہے کہ شاید تمہارے دل میں کوئی وسوسہ آ جائے اس لئے اَعُوذُ اور بسم اللہ پڑھ لینی چاہیے.جن کو محض اپنا مذہب پھیلانے کا شوق ہوتا ہے وہ تو کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں داخل ہو خواہ کسی طرح.مگر یہاں ارشاد ہے کہ یہ دروازہ عشق الہی کا ہے اس میں شیطانی ملونی سے نہ آؤ بلکہ شیطان پر لعنت بھیج کر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ کر.پھر یہ اَعُوذُ نہ صرف ابتدا میں ہے بلکہ انتہا میں بھی یہی ارشاد ہوتا ہے کہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ 6 پڑھ لو.جس سے یہ مراد ہے کہ الہی میں نے تیری کتاب کو پڑھا ہے.ممکن ہے کہ کئی قسم کے قصور سرزد ہوئے ہوں.اپنی عظمت کا خیال آگیا ہو کہ میں صوفی بن جاؤں، لوگ مجھے بزرگ کہیں.میرے پاؤں چومیں ، پس اپنے رب کی پناہ میں آکر عرض کرتا ہوں کہ محض اسی کی محبت ہو جس کی خاطر میں لوگوں کو اس کی تلقین کروں.قرآن مجید کی تعلیم کا خلاصہ یوں تو سارا قرآن تقوی کی تعلیم سے لبریز ہے مگر جو آیت میں نے آپ لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے اس میں بھی ایک خاص رنگ میں تقویٰ کی ہی تعلیم دی گئی ہے.جس سے اس بات کا ثبوت مل سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی کیسی پاک اور تقویٰ سے لبریز تھی.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ پاک تعلیم اسی کو مل سکتی تھی جو خود تقولی سے معمور ہو.اس لئے اس کتاب سے رسول اللہ ﷺ کی قلبی کیفیت ہم معلوم کر سکتے ہیں.کیا ہی خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے یہ پاک کلام خود رسول اکرم ﷺ کے منہ سے سنا.دیکھو دہلی
سيرة النبي علي 43 جلد 1 میں دربار ہوا، بادشاہ سلامت نے جو کچھ فرمایا وہ اخباروں کے ذریعے کئی کانوں تک پہنچ گیا.مگر جو لذت ان لوگوں کو آئی ہو گی جنہوں نے خود بادشاہ کے منہ سے سنا وہ ان لوگوں کو نہیں آسکتی جنہوں نے اخباروں میں پڑھا.پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ قرآن مجید ایسا پاک اور مؤثر کلام ہے کہ تیرہ سو برس گزر جانے پر بھی اپنے اندر ایک ایسی لذت رکھتا ہے کہ پاک دل مومن تو متوالے ہو جاتے ہیں.“ صلى الله ( مدارج تقویٰ صفحہ 2 تا 6 مطبع ضیاء الاسلام قادیان اکتوبر 1919ء) رسول کریم ﷺ کے مخالفین کی ذات پس سن رکھو کہ جو نافرمانیوں سے اور خدا کے ماً موروں سے شوخیاں کرنے سے باز نہیں آتے ان کو منوایا جائے گا.دیکھو عرب کے لوگوں نے کم ہٹیں نہیں کیں مگر رسول اللہ اللہ کے مقابلہ میں ان کی کچھ پیش نہ گئی.وہی لوگ جو باعزت کہلاتے تھے آخر ذلیل و حقیر ہوئے اور ایسے کاٹ دیئے گئے کہ بے نام و نشان رہ گئے.ابو جہل سید العرب تھا.محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں کیا وہ اڑ سکا؟ پھر یہاں تک خدا کے پاک بندے کو کامیابی ہوئی کہ ہر ایک بستی میں سید کہلانے والا کوئی نہ کوئی موجود ہے.مگر ابو جہل کی نسل سے کوئی نہیں بنتا.باوجودیکہ نسل اس کی موجود ہے مگر اس کی طرف منسوب ہونا عار کا موجب سمجھا جاتا ہے.سید کیا ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کے لڑکے کی نہیں صلى الله بلکہ لڑکی کی اولاد ہیں.مگر لوگ کہتے ہیں کچھ بھی ہو کسی طرح رسول اللہ ﷺ سے ہمارا تعلق تو بنا رہے.گو قرآن مجید میں اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَنفُسِكُمْ 7 آیا ہے اور ابوجہل کی اولاد ہونا کوئی بری بات نہیں مگر پھر بھی لوگ پسند نہیں کرتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے خدا کے مامور کا مقابلہ کیا.پس وہ ذلیل و حقیر ہوا.“ مدارج تقویٰ صفحہ 11، 12 مطبع ضیاء الاسلام قادیان اکتوبر 1919ء) 1: متی باب 7 آیت 16 تا20 صفحہ 930 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 2 بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة صفحہ 1108 حدیث نمبر 6382
سيرة النبي علي مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3: النساء : 2 4: النور : 36 44 جلد 1 5: بخاری کتاب الوضوء باب التسمية على كل حال وعند الوقاع صفحه 30 حديث نمبر 141 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية الناس : 2 7: الحجرات : 14
سيرة النبي علي 45 جلد 1 صلى الله رسول کریم له جامع صفات حسنہ صلى الله مسٹر ڈبلیو اے شیڈ نامہ نگار مسلم ورلڈ نے اپنے ایک مضمون میں رسول کریم ہے کی ذات پر نہایت گندے اور بے ہودہ الزامات عائد کئے.ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ اپریل 1913 ء ریویو آف ریلیجنز میں تحریر فرمایا:.ر مسلم ورلڈ کا نامہ نگار لکھتا ہے کہ اسلام ایک جامع الاضداد مذہب ہے اور اس کے بانی کے سوانح کی پیچیدگی نتیجہ ہے اُن متضاد قوی کا جو اس کے اخلاق کا حصہ ہیں نَعُوذُ باللہ ).مذہبی جوش کے ساتھ سیاسی امنگیں ، تقویٰ کے جوش کے ساتھ اپنے مطالب کے پورا کرنے میں خلاف اخلاق ذرائع کا استعمال، بدی سے تنفر اور پھر ذاتی تعیش ، آپ ان باتوں کے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) جامع تھے.متضاد قوی ہر آدمی کی زندگی میں پائے جاتے ہیں سوائے ایک (مسیح) کے محمد (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَبَّحَ اللهُ وَجْهَ مُخَالِفِيْهِ) کی زندگی میں ان قومی کا اظہار دائی جنگ نہیں بلکہ صلح کے رنگ میں ہوا ہے.(عَلَى الْقَائِلِ مَا عَلَيْهِ) اس بات سے نامہ نگار یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ چونکہ مسلمان ایسے پیشوا کے پیرو ہیں اس لئے لازماً ان میں بھی اس قسم کے عیوب پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ پادری جو ان میں رہتے ہیں سچائی کے طریقوں کو چھوڑ کر بعض دفعہ مکروفریب سے مسیحیت کی اشاعت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ تبلیغ کا جوش ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے کیونکہ وہ مصالحت اضداد کے عادی ہو جاتے ہیں.ان اعتراضات
سيرة النبي علي 46 جلد 1 کا جواب دینے سے پہلے میں اس قدر کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو عیوب نامہ نگار نے ہماری طرف منسوب کئے ہیں وہ تو ابھی زیر بحث ہیں اور ہم ان کے ماننے کے لئے تیار نہیں لیکن کم سے کم ہمیں ان کے مضمون کے پڑھنے سے اتنی خوشی ضرور ہوئی ہے کہ آخر کا ر کچھ نہ کچھ لوگ مسیحیوں میں ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو گو دلیری کے ساتھ نہیں لیکن د بے منہ سے پادریوں کی ان تلبیسانہ کارروائیوں کے اقرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ جن سے وہ مشرقی ممالک میں تبلیغ مسیحیت میں مدد لیتے ہیں.اور اس کے لئے میں مسٹر ڈبلیو اے شیڈ کا خاص طور پر شکر یہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ وہ بغیر مسلمانوں پر الزام دیئے اس قسم کے اقرار کرنے کی اخلاقی جرات اپنے اندر پیدا کریں گے.اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ نامہ نگار مسلم ورلڈ نے صلى الله رسول اللہ ﷺ پر یہ الزامات لگا کر اس بات کا کافی ثبوت دے دیا ہے کہ وہ کن اخلاق کا آدمی ہے.ایک ایسے انسان پر جو تمیں کروڑ سے زائد انسانوں کا پیشوا اور سردار ہے جو اس کے نام پر جان دینے کے لئے تیار ہیں ایسی دریدہ دلیری ہی سے الزام لگانا اور الزام بھی وہ جو نہایت رذیل اخلاق کی قسم سے ہوں اور پھر ان کا کوئی ثبوت نہ دینا یہ مسٹرشیڈ ہی کا کام تھا اور اب اگر مسلمان خود انہیں ان کی آنکھ کے شہتیر کی طرف متوجہ کریں تو انہیں کوئی شکایت کی وجہ نہیں ہونی چاہئے.ان بے ثبوت دعاوی میں سے پہلا دعویٰ یہ ہے کہ رسول اللہ کے نعوذ باللہ ایک طرف تو مذہبی جوش رکھتے تھے اور دوسری طرف ان کا دل سیاسی امنگوں سے پُر تھا.اور یہ دونوں متضاد جوش ان کے اندر کام کررہے تھے.فتوحات اور حکومت نبوت کے منافی نہیں اگر نامہ نگار کی سیاسی امنگوں سے یہ مراد ہے کہ آپ نے مختلف شہروں اور علاقوں کو فتح کیا اور تمام عرب کی اقوام کو اپنی اطاعت ہلے سہو کتابت معلوم ہوتا ہے غالباً دیدہ دلیری‘ مراد ہے.(مرتب)
سيرة النبي علي 47 جلد 1 کے جھنڈے تلے لائے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس میں اعتراض کی کونسی وجہ ہے اور کیوں مذہبی جوش اس بات کا مقتضی ہے کہ فتوحات ملکی کو چھوڑ دیا جائے.دنیا کو گمراہی اور فساد میں دیکھ کر اور طرح طرح کی بدکاریوں میں مبتلا پا کر اگر ایک نیک دل اور پاک انسان ان کے عیوب کو دور کرنے کے لئے اور ان کی انتظام حکومت کو درست کرنے کے لئے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس میں کونسی بات ہے جو مذہبی جوش کے برخلاف ہے.اگر حکومت اور سلطنت ایک مذہبی آدمی کے لئے مناسب نہیں ہے اور اس کی لائن سے علیحدہ ہے تو موسی سے شام کا خدا نے کیوں وعدہ کیا اور کیوں یہ بتایا کہ جب تک بنی اسرائیل میرے احکام پر چلتے رہیں گے انہیں ان ممالک کی حکومت دی جائے گی.اور کیوں حضرت داؤد جو مسیحیوں کے مورث اعلیٰ ہیں سالہا سال تک یہودا کے فرمان کے ماتحت بنی اسرائیل پر حکومت کرتے رہے.اور پھر بنی اسرائیل کی حکومت جانے پر کیوں یرمیاہ اور دانیال اور حز قیل وغیرهم انبیاء بنی اسرائیل رات دن بدرگاه قادر مطلق اس حکومت کی واپسی کے لئے دعائیں کرتے رہے.اور اگر حکومت کا اپنے ہاتھ میں لا نا بشر طیکہ اشاعت نیکی مقصود ہو مذہبی جوش یا نبوت کے منافی نہیں اور یہ دونوں باتیں متضاد نہیں تو ہمارے آنحضرت لعلیا لیلی کیا الزام ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم نبی کریم اے کی فتوحات کی وجوہات صلى الله ے کے ہاتھ میں حکومت اس لئے نہیں آئی کہ آپ نے اس کی خواہش کی اور اس کے حصول کے لئے کوششیں کیں بلکہ بجبوری آپ کو ایسا کرنا پڑا.جب تیرہ سال تک اہل مکہ کے مظالم برداشت کرتے کرتے مسلمان تنگ آگئے اور حکم الہی کے ماتحت آپ نے مدینہ منورہ کو ہجرت کی اور پھر بھی اہل مکہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور وہاں بھی حملے کرنے شروع کئے تو اندفاعی طور سے خود حفاظتی کے لئے آپ نے ان کا مقابلہ کیا اور ان مقابلوں میں
سيرة النبي علي 48 جلد 1 خدائے تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اور دشمنوں کو شکست ہوئی اور انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنے علاقے آپ کے ہاتھ میں چھوڑنے شروع کئے تو کیا آپ ان مفتوحہ علاقوں کو بھی کفار مکہ کے سپرد کر دیتے یا یہودیوں کے یا قیصر و کسری کے حوالہ کر دیتے ؟ ایسے انسان کی نسبت جس نے سالہا سال تک مظالم اعداء برداشت کئے ہوں اور اُف نہ کی ہو اور آخر تنگ آکر خود حفاظتی کے لئے تلوار اٹھائی ہو یہ کہنا کہ اس کا دل سیاسی امنگوں سے پُر تھا اور یہ اُس کے مذہبی جوش کے منافی تھا کیسے ظلم کی بات ہے.آپ کا تلوار اٹھانا سیاسی امنگوں کی خاطر نہ تھا اگر آپ نے سیاسی امنگوں کی خاطر یہ سب کا رروائیاں کی تھیں اور نعوذ باللہ آپ کا دل حصولِ جاہ وجلال کا خواہشمند تھا تو کس لئے ؟ ان ترقیوں اور فتوحات سے اپنے لئے کیا لیا؟ کیا کوئی جابرانہ حکومت قائم کی یا شہنشاہی کا لقب قبول کیا ؟ اپنے لئے دولت و مال جمع کر لیا یا آرام و آسائش کی زندگی کے سامان جمع کئے؟ اپنے رہنے کے لئے عظیم الشان محل تیار کئے؟ اپنے رشتہ داروں کے لئے لاکھوں روپیہ کی جائیدادیں وقف کر دیں؟ یا اپنے خاندان میں حکومت قائم کی؟ آخر کونسا فائدہ تھا جو آپ نے ان فتوحات یا ترقیات سے اٹھایا ؟ سوائے اس کے کہ دشمن کے ظلم سے تنگ آکر تلوار اٹھائی اور جب اسے مغلوب کر لیا تو ہر قسم کی مراعات و رحم سے اس کے ساتھ سلوک کیا اور باوجو دان ترقیوں اور جاہ وجلال کے اپنا یہ حال تھا کہ بے بستر کے زمین پر لیٹتے تھے اور بعض دفعہ گھر میں کھانے کو روٹی تک نہ ہوتی تھی.اور بعض دفعہ صرف جو کی روٹی پر کفایت کرتے تھے.گھر کے کام خود کر لیا کرتے تھے اور کچھ عار نہ تھا.نہ کوئی باڈی گارڈ تھا اور نہ نوکروچا کر، نہ چوکی نہ پہرہ.اگر سیاسی امنگیں آپ کے دل میں ہوتیں تو جس وقت اہل مکہ نے مل کر آپ
سيرة النبي علي 49 جلد 1 کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ ہم آپ کی ہر خواہش کو منظور کرنے کے لئے تیار ہیں یہاں تک کہ اپنا سردار اور بادشاہ بنانے سے بھی انکار نہیں 1 تو آپ فوراً ان کی درخواست منظور کر لیتے لیکن شاید مسٹر شیڈ کو معلوم نہیں کہ اُس وقت آپ نے کیا جواب دیا.آپ نے یہی جواب دیا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں لاکھڑا کرو تو بھی میں شرک کی مخالفت سے باز نہیں آسکتا.میں تمہارے ان لالچوں کی کیا پرواہ کرتا ہوں 2.پھر جب قبیلہ بنی عامر بن صعصہ کے ایک سردار (اس کا نام بحیرہ ابن فراس تھا) نے آپ سے عرض کی کہ ہماری سب قوم آپ کے ساتھ ہونے کو تیار ہے صرف آپ اتنا وعدہ کریں کہ اپنے بعد مجھے خلیفہ بنادیں تو آپ نے کیا جواب دیا.اس کی درخواست کو قطعاً نا منظور کر دیا اور قطعاً ایک لمحہ کے لئے بھی اس کی طرف توجہ نہ کی 3 اگر سیاسی امنگیں آپ کے اندر کام کر رہی ہوتیں تو اس سے بہتر اور کیا موقع ہوسکتا تھا.اس تجویز میں تو اپنے مذہب کے خلاف بھی کوئی بات نہیں ماننی پڑتی تھی بلکہ نہایت آسانی سے عرب پر حکومت کا ایک راہ نکل آتا تھا.لیکن کیا آپ نے اس لئے انکار کر دیا کہ آپ اپنی اولاد کے لئے حکومت کو رکھنا چاہتے تھے؟ آپ کے عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ باعث نہیں تھا کیونکہ آپ نے اپنا خلیفہ بنو ہاشم میں سے نہیں مقر ر کیا.مگر میں مسیح کو دیکھتا ہوں تو اس میں یہ دونوں باتیں جمع ہیں.وہ کہتا ہے کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزر جانا اس سے آسان ہے کہ کوئی دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو 4.لیکن اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہ دولت انسان کے دین کے لئے مضر ہے اور اس سے وہ خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا پھر وہ کہتا ہے اب جس کے پاس بٹوا ہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہیں اپنے کپڑے بیچ کے تلوار خریدے 5 اور ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ ” پلاطس نے اس
سيرة النبي علي 50 جلد 1 سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تو سچ کہتا ہے ؟ پھر یہی نہیں بلکہ یوحنا باب 22 سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بادشاہت کے خلیفہ بھی مقرر کر چکا تھا اور بنی اسرائیل کی بارہ قوموں پر حکومت کرنے کے لئے اس نے بارہ حواریوں کو بادشاہ مقرر کیا تھا.یسوع کا ایک طرف تو دنیا سے اس قدر اظہار نفرت ، دوسری طرف تلواروں کے خریدنے کا حکم دینا، آسمانی بادشاہت کی تلقین ، بنی اسرائیل کی بادشاہت کا دعوی ، داؤد کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا.کیا یہ باتیں ثابت نہیں کرتیں کہ وہ مسٹرشیڈ ہی کی دلیل کے رو سے متضاد قوی کا جامع تھا ؟ اور گو ایک طرف مذہبی تلقین میں مشغول تھا لیکن دوسری طرف یہودیوں کو حکومت کا جوا اتار کر پھینک دینے کی تعلیم دیتا تھا.یسوع نے گو بعد گرفتاری کہا ہے کہ اگر میری مراد بادشاہت سے دنیاوی بادشاہت ہوتی تو میرے نوکر میرے گرفتار کرنے والوں کا مقابلہ کیوں نہ کرتے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اول تو بارہ آدمی ایک جم غفیر کا مقابلہ ہی کیا کر سکتے تھے اور پھر یہ دعوئی ہی غلط ہے پطرس نے ایک آدمی کے کان پر تلوار مار کر اس کا کان کاٹ دیا.دوسری بات جو رسول کریم ﷺ کے چال چلن میں نامہ نگار مسلم ورلڈ کو عجیب نظر آئی ہے یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ میں تقویٰ کا خیال تھا لیکن ساتھ ہی اپنے مطالب کے حصول میں ناجائز وسائل کی پرواہ نہ کرتے تھے لیکن آج تک کوئی تاریخ ایسی نہیں صلى الله ہے کہ جو رسول کریم ﷺ پر اس قسم کا الزام ثابت کر سکے.پہلے دو حوالے ہی جو میں دے آیا ہوں اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ آپ ناجائز وسائل سے کیسے محترز تھے.جس وقت عربوں نے آپ سے شرک کی مخالفت ترک کرنے کی درخواست کی تھی اور آپ کو اپنا بادشاہ بنالینے کی لالچ دی تھی کیا اُس وقت ممکن نہ تھا کہ آپ عارضی طور سے ان کی بات مان لیتے اور رفتہ رفتہ ان پر اپنا رعب بٹھا کر جو چاہتے منوا لیتے.یا جب سردار قبیلہ بنی عامر بن صعصہ نے آپ سے درخواست کی کہ
سيرة النبي علي 51 جلد 1 وہ ان کو اس شرط پر ماننے کے لئے تیار ہیں کہ آپ اپنے بعد اسے خلیفہ بنائیں تو ہوسکتا تھا کہ آپ اس کی بات کو قبول کر لیتے اور بعد میں جب دخل جم جاتا تو جو چاہتے کرتے لیکن یہ شرارت آمیز خیالات آپ کے دل میں پیدا تک نہیں ہوئے.ناجائز وسائل سے کام لینے والے آدمی ضرور پُر اسرار ہوتے ہیں لیکن آپ کوئی راز نہ رکھ سکتے تھے سب کارروائی کھلے بندوں ہوتی تھی.آپ کا سخت مخالف ابوسفیان خود ایک مسیحی بادشاہ کے سامنے کہتا ہے کہ آپ پر سوائے اس دعوی کے کبھی جھوٹ کی تہمت نہیں لگی اور نہ آپ نے کبھی عہد کے خلاف کیا..اور حکومتوں میں سب سے زیادہ ناجائز وسائل جن سے وہ کام لیتی ہیں یہی ہوتے ہیں کہ جھوٹ بولا جائے اور عہدوں کی پابندی نہ کی جائے جس کا یورپ اس وقت کامل نمونہ ہے.پھر آپ نے بڑے زور کے ساتھ عربوں میں دعویٰ کیا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا میں تم میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں میرے چال چلن پر کچھ اعتراض تو کرو.مگر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اعتراض کر سکے.ہاں اگر آپ یہ بات یسوع کی بابت کہتے تو ہم کسی قدر ماننے کے لئے تیار بھی ہو جاتے کیونکہ یسوع نے اپنے دعاوی کے منوانے کے لئے عجیب عجیب طریقے اختیار کئے.جن میں سے مُردوں کا زندہ کرنا، پانی کا شراب بنا دینا 9 بھوتوں کا نکالنا 10 اور اسی طرح بھوتوں کا سؤروں کے گلہ پر چھوڑ دینا 11 ایسی باتیں نہیں کہ جن سے یسوعی ناواقف ہوں اور جو ایک شعبدہ باز کے شعبدہ سے زیادہ نہیں معلوم ہوتیں اور صرف اپنی تعلیم کے پھیلانے کے لئے جہان کو دکھائی گئیں.ہمارے آنحضرت ﷺ نے تو اپنے مقصد یعنی اشاعت توحید کے حصول کیلئے جو طریق فیصلہ پیش کیا یعنی قرآن شریف وہ اب بھی موجود ہے اور اگر مسٹر شیڈ یا کسی اور پادری کو اس دعوی کے پر کھنے کا خیال ہو تو ہم بڑی خوشی سے صرف قرآن شریف سے ہی دلائل دے کر اسلام کے دعاوی کو ثابت کر سکتے ہیں وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ.تیسری بات مسٹر شیڈ نے یہ لکھی ہے کہ آپ بدیوں سے متنفر بھی تھے لیکن پھر
سيرة النبي علي 52 جلد 1 نعوذ باللہ ذاتی تعیش میں مبتلا تھے.جس شخص نے چھپیں سال تک شادی نہ کی ہو اور با وجود جوان و طاقتور ہونے کے اس پر اس کے سخت سے سخت مخالف کوئی الزام نہ لگا سکے ہوں.جس نے شادی کرنے پر ایک اپنی عمر سے بڑی بیوہ سے نکاح کیا ہو.لاکھوں روپیہ جس کے ہاتھ میں سے گزرا ہو لیکن اس نے باوجود حق کے اس روپے کے استعمال سے قطعی پر ہیز کیا ہو.ایک عظیم الشان سلطنت کا مالک ہوتے ہوئے اس کے گھر میں ایک ملازم تک نہ ہو، اس کی بیویاں خود ہی گھر کا کام کرتی ہوں اور وہ بھی اس میں ہاتھ بٹاتا ہو، جو کی روکھی روٹی اور صرف سکھائے ہوئے گوشت پر گزارہ کرتا ہو، جس کے گھر میں کبھی تین دن متواتر آگ نہ جلی ہو، دنیا کے بادشاہ اس سے ڈرتے ہوں اور قوموں کا وہ فاتح ہولیکن بجائے مخملی فرشوں ، نرم بستروں اور ایرانی قالینوں کے ننگے بورے پر سوتا ہو، دن کو لوگوں کی خدمت اور رات کو کھڑے کھڑے خدا کی عبادت میں گزارتا ہو، کیا اس کی نسبت ذاتی تعیش کا الزام لگایا جاسکتا ہے.اگر مسٹر شیڈ میں ذرا بھی قوتِ انصاف ہوتی تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے.پھر جب خواہش تعیش یا آرام طلبی آپ میں تھی ہی نہیں تو اضداد کیونکر جمع ہوئے.رسول کریم ﷺ کے خلاف یسوع کی زندگی کو اگر ہم دیکھیں تو اس میں سے اضداد بے شک مجتمع نظر آتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ قرار دیتا ہے کہ گناہ سے بچنے میں ہی نجات ہے اور بدیوں سے بچنے کی لوگوں کو ترغیب دیتا ہے اور دنیا سے بے تو جہی ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف ہم اسے دیکھتے ہیں کہ خوب شرا ہیں اڑاتا ہے، اکثر عورتوں کی صحبت میں رہتا ہے اور بازاری عورتوں کے ہاتھوں عطر اور تیل لگواتا ہے.حالانکہ خود انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ئے پینی نیکوں کا کام نہیں کیونکہ لکھا ہے وہ ( یوحنا ) خدا کے حضور بزرگ ہوگا اور نہ ئے اور نہ کوئی نشہ پیئے گا 12.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ئے سے بچنا پر ہیز گاری میں داخل ہے اور یسوع نے تو نہ صرف
سيرة النبي علي 53 جلد 1 خود پی بلکہ اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے اور وں کو بھی پلائی جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف اپنا مال ہی نہیں دوسروں کے مال کے کھانے سے بھی اس نے پر ہیز نہیں کیا.چنانچہ لکھا ہے کہ ”صبح کو جب وے بیت عینا سے باہر آئے اس کو بھوک لگی اور دور سے انجیر کا ایک درخت پتوں سے لدا ہوا دیکھ کے وہ گیا کہ شاید اس میں کچھ پائے.جب وہ اس پاس آیا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا.تب یسوع نے اس سے خطاب کر کے کہا کہ کوئی تجھ سے پھل کبھی نہ کھاوے.اور اس کے شاگردوں نے یہ سنا 13 اور نہ صرف بغیر اجازت مالک درخت یسوع نے پھل کھانے چاہے بلکہ جب اسے بے ثمر پایا تو اس پر لعنت کی جو اس کے حد سے بڑھے ہوئے غضب پر دلالت کرتا ہے.پس اگر بدی سے تنفر اور ذاتی تعیش کی دو متضاد صفات کسی میں جمع ہیں تو وہ یسوع ہے نہ کہ ہمارے آنحضرت ع 66 ریویو آف ریلیجنز اپریل 1913 ء صفحہ 128 تا 135 ) 1: البداية والنهاية جلد 2 صفحه 92 مطبوعہ قاهره 2006 ء 2 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 480 مطبوعہ دمشق 2005 ، الطبعة الاولى 4: لوقا باب 18 آیت 25 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 5: لوقا باب 22 آیت 36 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 6 مرقس باب 15 آیت 2 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 7: بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي صفحه 2 ،3 حدیث نمبر 7 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 8: يونس: 17 9: یوحنا باب 2 آیت 6 تا 9 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 10: مرقس باب 1 آیت 23 تا 26 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء
سيرة النبي علي 54 11 متی باب 8 آیت 28 تا 32 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 12: لوقا باب 1 آیت 15 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 13: مرقس باب 11 آیت 12 تا 14 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء جلد 1
سيرة النبي علي 55 جلد 1 سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 18 جون 1913 ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے الفضل جاری فرمایا جس میں آپ نے رسول کریم ﷺ کی سیرت پر ہفتہ وار مضامین لکھنے شروع کئے جس کا سلسلہ آپ کی خلافت کے آغاز میں بھی جاری رہا.ان مضامین کو بعد میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے کتابی شکل میں تمہید شائع کیا گیا.تاریخ کے بڑے بڑے پہلوؤں میں سے ایک بہت بڑا پہلو تاریخ بنانے والوں کا حال بھی ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے.اگر تاریخی واقعات ہمیں یہ علم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں باتوں کا انجام نیک یا بد نکلتا ہے تو تاریخ کے بنانے والوں کی سیرت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ کس قسم کی سیرت کے لوگوں سے کیسے کیسے واقعات سرزد ہوتے ہیں اس لیے تاریخ اسلام کے باب میں سب سے پہلے میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ تاریخ اسلام کے بانی کی سیرت بیان کروں کہ جس پر سب مسلمان جان و دل سے فدا ہیں اور جس کی نسبت خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 1 پس تاریخ اسلام کو پڑھ کر جو نتائج انسان نکال سکتا ہے اور جو جو فوائد اس سے حاصل کر سکتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر اس پاک انسان کی سیرت پر غور کر کے نفع اٹھا سکتا ہے.سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھنے کے مختلف طریق ہیں.اول تو یہ کہ عام تاریخوں سے لکھی جاوے.دوسرے یہ کہ احادیث سے جمع کی جاوے.تیرے
سيرة النبي علي 56 جلد 1.یہ کہ قرآن شریف سے اقتباس کی جاوے.پہلا ما خذ تو بہت ادنی ہے کیونکہ اس میں دوست دشمن کی رائے کی تمیز کرنا ایک مشکل بلکہ محال کام ہے.دوسرا مأخذ یعنی حدیث سے واقعات کا جمع کرنا زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ مؤرخین کی طرح محدثین ہر ایک سنی سنائی بات کو نہیں لکھ دیتے بلکہ روایت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک برابر چلاتے ہیں اور پھر روایت کرنے والوں کے چال چلن کو خوب پر کھ کر ان کی روایت نقل کرتے ہیں.تیسرا طریق قرآن شریف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھنے کا ہے اور یہ سب سے اعلیٰ ، اکمل اور تمام نقصوں سے پاک ہے لیکن یہ کام بہت ذمہ داری کا ہے اس لیے سر دست میں نے پہلے اور تیسرے ماخذ کی بجائے دوسرے ماخذ کو اختیا ر کیا ہے.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کسی وقت قرآن شریف سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھنے کا ارادہ ہے لیکن چونکہ اختصار اور صرف اعلیٰ درجہ کی روایات کا درج کرنا ہی مقصود ہے اس لیے احادیث میں سے بھی میں نے صرف بخاری کو چنا ہے اور یہ مختصر سیرت صرف بخاری جیسی معتبر کتاب سے لی ہے اور اس کے سوا کسی اور حدیث سے مدد نہیں لی.باوجود اس کے کہ صرف بخاری کی احادیث سے جو اَصَحُ الْكُتُب میں نے یہ سیرت اختیار کی ہے پھر بھی اختصار پر اختصار سے کام لیا ہے اور اس کو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک باب سمجھنا چاہیے ورنہ اس بحر بے کنار کو عبور کرنا تو کچھ آسان کام نہیں.چونکہ پیاروں کی ہر ایک بات پیاری ہوتی ہے اور ان کی شکل و شباہت، چال ڈھال اور لباس و خور و نوش کا طریق بھی دلکش اور محبت افزا ہوتا ہے اس لیے ابتدا میں میں انہی باتوں کو بیان کروں گا.سیرت کے ساتھ اگر صورت اور عادات بھی مل جا دیں تو وہ آدمی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.ہے
سيرة النبي علي 57 جلد 1 پہلا باب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ، لباس، عمر اور بعض دیگر طریق عمل.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فِدَاهُ نَفْسِی) مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد عبداللہ فوت ہو چکے تھے.آ آپ کو آپ کی والدہ آمنہ اور دادا عبدالمطلب نے پرورش کیا.لیکن یہ دونوں بھی آپ کی صغرسنی ہی میں فوت ہو گئے جس کے بعد آپ کے چچا ابو طالب آپ کے نگران رہے.آپ نے تریسٹھ سال کی عمر پائی اور ساری عمر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے میں اور اس کے نام کو دنیا میں بلند کرنے میں خرچ کی.دنیا میں نہ کوئی ویسا پیدا ہوا اور نہ ہو گا.تمام انسانی کمالات آپ پر ختم ہو گئے.تقویٰ کی سب راہیں آپ نے طے کیں اور محبت الہی کے تمام دروازوں میں سے گزرے.حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے دربار کی رسائی کے لیے آپ کی اتباع کو شرط قرار دیا.آپ کا حلیہ آپ میانہ قامت تھے نہ بہت لمبے اور نہ پستہ قد.آپ کا رنگ بہت خوبصورت تھا.نہ تو بالکل سفید جیسے سرد ممالک کے لوگوں کا ہوتا ہے اور نہ گندم گوں.آپ کے بال نہ تو گھونگرالے تھے اور نہ بالکل سید ھے بلکہ کسی قدرخم دار تھے.آپ کے بالوں کا رنگ کسی قدر سرخی مائل تھا اور بڑھاپے میں کچھ بال کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہو گئے تھے باقی بال کا لے ہی
سيرة النبي علي 58 جلد 1 ہے.سر کے بال آپ لمبے رکھتے تھے جو کانوں کی کو تک آتے تھے.آپ ہمیشہ بالوں میں کنگھی کرتے اور آخر عمر میں مانگ بھی نکالتے تھے.سر میں تیل یا خوشبو لگانا بھی آپ کی عادت میں داخل تھا.آپ کا جسم بہت نازک اور ملائم تھا.آپ کے جسم میں سے خوشبو آتی تھی.آپ کا سینہ چوڑا تھا اور دونوں کندھوں کے درمیان بہت فاصلہ تھا.آپ کے ہاتھ پاؤں موٹے تھے اور ہتھیلیاں خوب چوڑی تھیں.آپ سوتی کپڑے کو اور خصوصاً دھاری دار کو زیادہ پسند فرماتے تھے اور اسی قسم کے کپڑے میں آپ دفن بھی کیے گئے تھے لیکن درحقیقت جس قسم کا کپڑا ہوتا آپ اسے استعمال کر لیتے.اپنے آقا کی ہر ایک نعمت کا شکر کرتے.بات کرنے کا طریق حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات بات تین دفعہ دہراتے تا کہ لوگ اچھی طرح سمجھ جاویں اور سلام بھی تین دفعہ کرتے 2.اسی طرح حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ بات ایسی آہستگی کے ساتھ کرتے کہ اگر کوئی چاہے تو آپ کے لفظ گن لے 3 اور جس طرح دوسرے لوگ جلدی جلدی بات کرتے ہیں آپ ایسا نہ کرتے تھے.کھانے پینے کے متعلق آپ تمام طیب اشیاء کھاتے تھے لیکن اس بات کا لحاظ رکھتے تھے کہ وہ صدقہ نہ ہوں.حتی کہ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میں بعض دفعہ گھر جاتا ہوں اور وہاں بستر پر کوئی کھجور پڑی دیکھتا ہوں تو پہلے تو کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں صدقہ نہ ہو پھینک دیتا ہوں 4.اس بات سے اس وقت کے مسلمانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ سے کس قدر پر ہیز کرتا تھا.اب تو بعض لوگ اچھا بھلا مال رکھتے ہوئے بھی صدقہ کے لینے میں مضائقہ نہیں کرتے.حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جب کوئی چیز آپ کو دیتا آپ پوچھتے.اگر ہد یہ ہوتی تو خود بھی استعمال فرماتے
سيرة النبي علي 59 جلد 1 ور نہ آس پاس کے غرباء میں تقسیم کر دیتے.آپ کی خوراک ایسی سادہ تھی کہ اکثر کھجور اور پانی پر گزارہ کرتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ کے انصار ہمسائے دودھ تحفہ بھیجتے تو اکثر ہم لوگوں کو پلا دیتے.لیکن باوجود اس قدر سادگی کے طیبات سے پر ہیز نہ تھا اور جھوٹے صوفیوں کی طرح آپ طیبات کو ترک نہ کر بیٹھے تھے بلکہ آپ عمدہ سے عمدہ غذائیں جیسے مرغ وغیرہ بھی کھا لیتے تھے.پانی پیتے وقت آپ کی یہ عادت تھی کہ تین دفعہ بیچ میں سانس لیتے اور یکدم پانی نہ چڑھا جاتے.نہ صرف اس میں آپ کا وقار پایا جاتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.گوشت کو آپ پسند فرماتے تھے لیکن اس کا زیادہ استعمال نہ تھا کیونکہ سادہ زندگی کی وجہ سے آپ کھجور اور پانی پر ہی کفایت کر لیتے.ایک صحابی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کے سامنے کدو پکا کر رکھا گیا تو آپ نے اسے بہت پسند فرمایا.ان تمام کھانوں کے ساتھ آپ اصل مالک کو نہ بھولتے بلکہ خدا کا نام لے کر کھانا شروع کرتے اور دائیں ہاتھ سے کھاتے اور اپنے آگے سے کھاتے اور جب کھا چکتے تو فرماتے کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدَا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِي وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنِّى عَنْهُ رَبَّنَاءِ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں.بہت بہت تعریفیں ، پاک تعریفیں ، برکت والی تعریفیں.ایسی تعریفیں کہ جو ایک دفعہ پر بس کرنے والی نہ ہوں.جو چھوڑی نہ جاویں جن کی ہمیشہ عادت رہے.اے ہمارے رب ! یعنی مولا تیرا شکر تو میں بہت بہت کرتا ہوں پر تو بھی مجھ پر رحم کر اور آج کے انعام پر ہی بس نہ ہو جائے بلکہ تو ہمیشہ مجھ پر انعام کرتا رہ اور میں ہمیشہ تیرا شکر کرتا رہوں.اس دعا پر غور کرو اور دیکھو کہ کھانا کھاتے وقت آپ کے دل میں کیا جوش موجزن ہوں گے اور کیا شکر کا دریا پھوٹ کر بہہ رہا ہو گا.پھر اس پر بھی غور کرو که لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ یعنی تمہارے لیے رسول کریم ﷺ ایک بہتر سے بہتر نمونہ ہے جس کی تمہیں پیروی کرنی چاہیے.
سيرة النبي علي 60 60 عادات باب دوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ، لباس اور کھانے پینے کا طریق لکھنے کے بعد مناسب سمجھتا ہوں کہ اب کچھ آپ کی بعض عادات پر بھی لکھا جاوے.ہر انسان کچھ نہ کچھ عادات کے ماتحت کام کرتا ہے.ہاں بعض تو نیک عادات کے عادی ہوتے ہیں اور بعض بد کے.شریر اپنی شرارت کی عادتوں میں مبتلا ہوتا ہے تو شریف نیک عادات کا عادی.ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دو عادات جو میں اس جگہ بیان کرتا ہوں ان سے معلوم ہوگا کہ آپ کس قدر یمن و نیکی کی طرف متوجہ تھے اور کس طرح ہر معاملہ میں میانہ روی کو اختیار فرماتے تھے.ہنسی کا طریق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے انسان کامل بنایا تھا.تمام نیک جذبات آپ میں پائے جاتے تھے اور ہر خوبی کو اپنے موقع اور محل پر استعمال فرماتے اور ایسا طریق اختیار کرتے جس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی خلق ضائع نہ ہو جائے.بعض بناوٹی صوفیاء کا قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسے تکلفات اور مشقتوں میں اپنے آپ کو ڈال لیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے انہیں کئی پاک جذبات اور کئی طیبات کو ترک کرنا پڑتا ہے.بعض کھانے میں خاک ملا لیتے ہیں.بعض گندی ہو جانے اور سڑ جانے کے بعد غذا استعمال کرتے ہیں.بعض سا را دن سر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں اور ایسی شکل بناتے ہیں کہ گویا کسی ماتم کی خبر سن کر بیٹھے ہیں اور ہنسنا تو در کنار بشاشت کا اظہار بھی حرام سمجھتے ہیں.لیکن ہمارا سردار صلی اللہ علیہ وسلم جسے خدا جلد 1
سيرة النبي علي 61 جلد 1 نے انسانوں کا رہنما بنایا تھا وہ ایسا کامل تھا کہ کسی پاک جذ بہ کو ضائع ہونے نہ دیتا.ہنسی کے موقع پر ہنستا ، رونے کے موقع پر روتا ، خاموشی کے موقع پر خاموش رہتا اور بولنے کے موقع پر بولتا.غرض کوئی صفت اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کی کہ جسے اس نے ضائع ہونے دیا ہو اور اپنے عمل سے اس نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کی خدائی کو مٹانے نہیں بلکہ قائم کرنے آیا ہے اور یہی اس کی ادا ہے جو ہر طبیعت اور مذاق کے آدمی کو موہ لیتی ہے اور کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ بے اختیار دل اس پر قربان ہوتا ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ہنستے بھی تھے لیکن اعتدال سے اور ہنسی کے وقت آپ کی طبیعت پر سے قابو نہ اٹھتا بلکہ جنسی طبعی حالت پر رہتی.چنانچہ فرماتی ہیں کہ ما رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجُمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح گلا پھاڑ کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آنے لگ جائے بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے یعنی آپ کی ہنسی ہمیشہ ایسی ہوتی تھی کہ منہ نہ کھلتا تھا اور آپ افراط و تفریط دونوں سے محفوظ تھے.نہ تو ہنسی سے بکلی اجتناب تھا اور نہ قہقہہ مار کر ہنتے کہ جس میں کئی قسم کے نقص ہیں.آجکل تو میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان امراء میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ وہ اس زور سے قہقہہ مارتے ہیں کہ دوسرا سمجھے کہ شاید چھت اڑ جائے گی اور اس طرح وہ آجکل کے پیرزادوں کی ضد ہیں.دائیں جانب کا لحاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فِدَا هُ نَفْسِی کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ ہمیشہ دائیں طرف کا لحاظ رکھتے.کھانا کھاتے تو دائیں ہاتھ سے.لباس پہنتے تو پہلے دایاں ہاتھ یا دایاں پاؤں ڈالتے.جوتی پہنتے تو پہلے دایاں پاؤں پہنتے.غسل میں پانی ڈالتے تو پہلے دائیں جانب.غرض کہ ہر ایک کام میں دائیں جانب کو پسند فرماتے حتی کہ جب آپ کوئی چیز مجلس میں بانٹنی چاہتے تو پہلے دائیں جانب سے شروع فرماتے اور اگر اس قدر ہوتی کہ صرف
سيرة النبي عل 62 جلد 1 ایک آدمی کو کفایت کرتی تو اُسے دیتے جو دائیں جانب بیٹھا ہوتا.اور اس بات کا اتنا لحاظ تھا کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ حَلَبْتُ لِرَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةَ دَاجِنٍ فِي دَارِي وَشِيْبَ لَبَنُهَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي فِي دَارِى فَأَعْطِيَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَشَرِبَ مِنْهُ حَتَّى إِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِيْهِ وَعَلَى يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ وَعَنْ يَمِيْنِهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ عُمَرُ وَخَافَ أَنْ يُعْطِيَهُ الْأَعْرَابِى أَعْطِ أَبَا بَكْرٍ يَا رَسُوْلَ اللهِ عِندَكَ فَأَعْطَاهُ الْأَعْرَابِيُّ الَّذِي عَلى يَمِيْنِهِ ثُمَّ قَالَ الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ 7 یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری کا جو گھر میں رہتی تھی دودھ دو ہا اور اس کے بعد دودھ میں اس کنویں سے پانی ملا یا گیا جو میرے گھر میں تھا.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پیالہ دیا گیا اُس وقت آپ کے بائیں جانب حضرت ابوبکر اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا.آپ نے اس میں سے کچھ پیا پھر جب پیالہ منہ سے ہٹایا تو حضرت عمرؓ نے اس خوف سے کہ کہیں اس اعرابی کو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھا نہ دے دیں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابو بکر آپ کے پاس بیٹھے ہیں انہیں دے دیجیے گا.لیکن آپ نے اس اعرابی کو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھا وہ پیالہ دیا اور فرمایا کہ دایاں دایاں ہی ہے..اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دائیں جانب کا کتنا لحاظ رکھتے تھے جو آپ کی پاک فطرت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرتِ انسانی میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دینا رکھا ہے اور اکثر ممالک کے باشندے باوجود آپس میں کوئی تعلق نہ رکھنے کے اس معاملہ میں متحد ہیں اور دائیں کو بائیں پر ترجیح دیتے ہیں.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت نہایت پاک تھی اس لیے آپ نے اس بات کی بہت احتیاط رکھی.ایک اور حدیث بھی آپ کی اس عادت پر روشنی ڈالتی ہے.سہل ابن سعد
سيرة النبي علي 63 جلد 1 فرماتے ہیں کہ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِيْنِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ وَالْأَشْيَاحُ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا غُلَامُ أَتَأْذَنُ لِيْ أَنْ أُعْطِيَهُ الأشْيَاحَ قَالَ مَا كُنتُ ِلأُوثِرَ بِفَضْلِى مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُوْلَ اللهِ الا الله فأَعْطَاهُ إِيَّاهُ 8.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالہ لایا گیا جس میں سے آپ نے کچھ حصہ پیا.اُس وقت آپ کے دائیں جانب ایک نو جوان بیٹھا تھا جو سب حاضرین مجلس میں سے صغير السن تھا اور آپ کے بائیں طرف بوڑھے سردار بیٹھے تھے.پس آپ نے اُس نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان ! کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں ؟ اس نوجوان نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ کے تبرک کے معاملہ میں کسی اور کے لیے اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا.اس پر آپ نے وہ پیالہ اُسی کو دے دیا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دائیں طرف کا ایسا لحاظ رکھتے کہ بائیں طرف کے بوڑھوں کو پیالہ دینے کے لیے آپ نے اول اُس نوجوان سے اجازت طلب فرمائی اور اس کے انکار پر اس کے حق کو تسلیم کیا.ہر معاملہ میں خدا کا ذکر لاتے آپ کو خدا تعالیٰ سے کچھ ایسی محبت اور پیار تھا کہ کوئی معاملہ ہو اس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ضرور کرتے.اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، کھاتے پیتے ، غرض کہ ہر موقع پر خدا کا نام ضرور لیتے جس کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر کیا جائے گا.یہاں صرف اس قدر لکھنا ہے کہ یہ بات بھی آپ کی عادات میں داخل تھی کہ سونے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو ملا کر دعا فرماتے.پھر سب بدن پر ہاتھ پھیر لیتے.چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ كَانَ إِذَا أوى إلى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَتْ فِيْهِمَا فَقَرَأَ فِيْهِمَا قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ وَ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ
سيرة النبي علي 64 جلد 1 وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ و یعنی آپ ہر شب سب اپنے بستر پر جاتے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے.پھر ان میں پھونکتے اور قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے.پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے بدن پر ہاتھ ملتے اور ابتدا سر اور منہ اور جسم کے اگلے حصہ سے فرماتے اور تین دفعہ ایسا ہی کرتے.ذرا ان تین سورتوں کو باترجمہ پڑھو اور پھر سوچو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غنا پر کتنا ایمان تھا.کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے بغیر اپنی زندگی خطرہ میں سمجھتے تھے.
سيرة النبي علي 65 جلد 1 باب سوم اخلاق پر مجموعی بحث پیشتر اس کے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پاکیزہ کا فرداً فرداً ذکر کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون پر ایک مجموعی حیثیت سے بھی روشنی ڈالوں جس سے پڑھنے والے کو پہلے ہی سے تنبیہ ہو جائے کہ کس طرح آپ ہر پہلو سے کامل تھے اور اخلاق کی تمام شاخوں میں آپ دوسروں کی نسبت بہت آگے بڑھے ہوئے تھے.اس بات کے مفصل ثبوت کے لیے تو انسان کو احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ جب آپ کا سلوک صحابہ سے اور ان کا عشق آپ سے دیکھا جائے تو بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے مرحبا احمد مکی مدنی العربی دل و جاں با دفدایت چه عجب خوش لقمی لیکن اس جگہ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عرب ایک وحشی قوم تھی اور وہ کسی کی اطاعت کرنا حتی الوسع عار جانتی تھی اور اسی لیے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا انہیں گوارہ نہ تھا بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے.یہاں تک کہ قیصر و کسرای کی حکومتیں ان کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھیں لیکن ان کی وحشت اور آزادی کی محبت کو دیکھ کر وہ بھی عرب کو فتح کرنے کا خیال نہ کرتی تھیں.عمرو بن ہند جیسا زبر دست بادشاہ جس نے اردگرد کے علاقوں پر بڑا رعب جمایا ہوا تھا وہ بھی بدوی قبائل کو روپیہ وغیرہ سے بمشکل اپنے قابو میں لا سکا تھا اور پھر بھی یہ حالت تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر وہ اسے صاف جواب دے دیتے تھے اور اس کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ ہم
سيرة النبي علي 66 جلد 1 تیرے نو کر نہیں کہ تیری فرمانبرداری کریں.چنانچہ لکھا ہے کہ عمر و بن ہند نے اپنے سرداروں سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے سے عار کرے؟ اس کے مصاحبوں نے جواب دیا کہ ایک شخص عمر و بن كلثوم ہے اور عرب قبیلہ بنی تغلب کا سردار ہے اس کی ماں بے شک آپ کی ماں کی خدمت سے احتراز کرے گی اور اسے اپنے لیے عار سمجھے گی.جس پر بادشاہ نے ایک خط لکھ کر عمر و بن كلثوم کو بلوایا اور لکھا کہ اپنی والدہ کو بھی ساتھ لیتے آنا کیونکہ میری والدہ اسے دیکھنا چاہتی ہے.عمرو بن کلثوم اپنی والدہ اور چند اور معزز خواتین کو لے کر اپنے ہمراہیوں سمیت بادشاہ کے خط کے بموجب حاضر ہو گیا.بادشاہ کی والدہ نے حسب مشورہ اس کی والدہ سے کچھ کام لینا تھا.دونوں زنان خانہ میں بیٹھی ہوئی تھیں.والدہ شاہ نے کسی موقع پر سادگی کے ساتھ کہہ دیا کہ ذرا فلاں قاب 10 مجھے اٹھا دو.عمر و بن کلثوم کی والدہ لیلی نے جواب دیا کہ جسے ضرورت ہو خود اٹھا لے.اس پر والدہ شاہ نے مکر راصرار کیا لیکن لیلی نے بجائے اس حکم کی تعمیل کے زور سے نعرہ مارا کہ وَا اَذِلَّاهُ يَا بَنِی تَغْلَبَ اے بنی تغلب ! دوڑ و کہ تمہاری ذلت ہوگئی ہے.اس آواز کا سننا تھا کہ اس کے بیٹے عمر و بن کلثوم کی آنکھوں میں تو خون اتر آیا.بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا گھبرا کر اٹھا.چونکہ اپنے پاس تو کوئی ہتھیار نہ تھا اِدھر اُدھر دیکھا کہ بادشاہ کی تلوار کھونٹی کے ساتھ لٹک رہی تھی.اُس کی طرف جھپٹا اور تلوار میان سے نکال کر ایک ہی وار سے بادشاہ کا سراڑا دیا لیکن اس سے بھی جوشِ انتقام نہ اترا.باہر نکل کر سپاہیوں کو حکم دیا کہ شاہی مال و متاع کوٹ لو.بادشاہ کی سپاہ تو غافل تھی اس کے سنبھلتے سنبھلتے لوٹ لاٹ کر صفایا کر دیا اور اپنے وطن کی طرف چلا آیا.چنانچہ اپنے ایک قصیدہ میں اس شاعر نے عمر و بن ہند کو مخاطب کر کے اپنے آزاد ہونے کا ذکر یوں کیا ہے.اَبَا هِنْدِ فَلَا تَعْجَلُ عَلَيْنَا وَانْظِرْنَا نُخَبِّرُكَ الْيَقِيْنَا اے ابا ہند! تو ہمارے معاملہ میں جلدی نہ کر اور ہمیں ڈھیل دے ہم تجھے یقینی
سيرة النبي علي بات بتائیں گے.67 جلد 1 بِأَنَّا نُوُرِدُ الرأيَاتِ بِيْضًا وَنُصْدِرُهُنَّ حُمُرًا قَدْ رَوِيْنَا وہ یہ کہ ہم سفید جھنڈوں کے ساتھ جنگ میں جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو وہ جھنڈے خون سے سرخ وسیراب ہوتے ہیں.وَأَيَّامٍ لَّنَا غُرٍ طِوَالٍ عَصَيْنَا الْمَلِكَ فِيهَا أَنْ نَدِينَا اور بہت سے ہمارے مشہور اور دراز معر کے ہیں کہ ہم نے ان میں بادشاہ کی نافرمانی کی تا اس کے مطیع نہ ہو جائیں.وَرِثْنَا الْمَجْدَ قَدْ عَلِمَتْ مَعَدٌ نُطَاعِنُ دُوْنَهُ حَتَّى يَبِيْنَا عرب جانتے ہیں کہ ہم بزرگی کے وارث ہیں اپنے شرف کے لیے لڑتے ہیں الله تا کہ وہ ظاہر ہو جائے.أَلَا لَا يَعْلَمُ الْأَقْوَامُ أَنَّا تَضَعُضَعُنَا وَأَنَّا قَدْ وَنِيْنَا خبردار! تو ہمیں یہ نہ سمجھ کہ ہم کمزور اور سست و کاہل ہو گئے ہیں.الا لَا يَجْهَلَنْ أَحَدٌ عَلَيْنَا فَنَجْهَلَ فَوقَ جَهْلِ الْجَاهِلِينَا خبردار ! کوئی ہم پر جہالت سے ظلم نہ کرے ورنہ ہم ظالموں کے ظلم کا سخت بدلہ دیں گے.جائیں.بِأَيِّ مَشِيْئَةٍ عَمُرَو بْنَ هِنْدِ نَكُونُ لِقَيْلِكُمْ فِيْنَا قَطِيْنَا کس وجہ سے عمرو بن ہند تو چاہتا ہے کہ ہم تیرے گورنر کے فرمانبردار ہو تُهَدِّدُنَا وَتُوُعِدُنَا رُوَيْدًا مَتَى كُنَّا لِأُمِّكَ مَقْتَوِيْنَا تو ہمیں ڈراتا ہے اور دھمکاتا ہے جانے بھی دے.ہم تیری ماں کے خادم کب ہوئے تھے.فَإِنَّ قَنَاتَنَا يَا عَمُرُو أَعْيَتُ عَلَى الْأَعْدَاءِ قَبْلَكَ اَنْ تَلِيْنَا 11
سيرة النبي علي 68 جلد 1 اے عمرو! ہمارے نیزوں نے انکار کیا ہے.تجھ سے پہلے بھی کہ دشمنوں کے لیے نرم ہو جائیں.ان اشعار کو دیکھو کس جوش کے ساتھ وہ بادشاہ کو ڈانٹتا ہے اور اپنی آزادی میں فرق آتا نہیں دیکھ سکتا.جو حال بنی تغلب کا ان اشعار سے معلوم ہوتا ہے وہی حال قریباً قریباً سب عرب کا تھا اور خصوصاً قریشِ مکہ تو کسی کی ماتحتی کو ایک دم کے لیے بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ انہیں کعبہ کی ولایت کی وجہ سے جو حکومت گل قبائل عرب پر تھی اس کی وجہ سے ان کے مزاج دوسرے عربوں کی نسبت زیادہ آزاد تھے بلکہ وہ ایک حد تک خود حکومت کرنے کے عادی تھے.اس لیے ان کا کسی شخص کی حکومت کا اقرار کر لینا تو بالکل امر محال تھا.یہ وہ قوم تھی کہ جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور پھر ایسے رنگ میں کہ آپ نے ان کی ایک نہیں، دو نہیں تمام رسوم و عادات بلکہ تمام اعتقادات کا قلع قمع کرنا شروع کیا جس کے بدلہ میں ان کے دلوں میں آپ کی - نسبت جو کچھ بغض و کینہ ہو گا وہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے.مگر آپ کے اخلاق کو دیکھو کہ ایسی آزاد قوم باوجود ہزاروں کینوں اور بغضوں کے جب آپ کے ساتھ ملی ہے اسے اپنے سر پیر کا ہوش نہیں رہا.وہ سب خودسری بھول گئی اور آپ کے عشق میں کچھ ایسی مست ہوئی کہ وہ آزادی کے خیال خواب ہو گئے.اور یا تو کسی کی ماتحتی کو برداشت نہ کرتی تھی یا آپ کی غلامی کو فخر سمجھنے لگی.اللہ اللہ ! بڑے بڑے خونخوار اور وحشی عرب مذہبی جوش سے بھرے ہوئے ، قومی غیرت سے دیوانہ ہو کر ، آپ کے خون کے پیاسے ہو کر آپ کے پاس آتے تھے اور ایسے رام ہوتے تھے کہ آپ ہی کا کلمہ پڑھنے لگ جاتے.حضرت عمرؓ جیسا تیز مزاج گھر سے یہ تہیہ کر کے نکلا کہ آج اس مدعی نبوت کا خاتمہ ہی کر کے آؤں گا.غصہ سے بھرا ہوا تلوار کھینچے ہوئے آپ کے پاس آتا ہے لیکن آپ کی نرمی اور وقار و سکینت اور اللہ تعالیٰ پر ایمان دیکھ کر آپ کو قتل تو کیا کرنا تھا خود اپنے نفس کو قتل
سيرة النبي علي 69 جلد 1 کر کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا.کیا کوئی ایک نظیر بھی دنیا میں ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ایسی آزاد اور خونخوار قوم کو کسی نے ایسا مطبع کیا ہو اور وہ اپنی آزادی چھوڑ کر غلامی پر آمادہ ہو گئی ہو اور ہر قسم کی فرمانبرداری کے نمونے اس نے دکھائے ہوں.اگر ایسی کوئی قوم پائی جاتی ہو تو اس کا نشان و پتہ ہمیں بتاؤ تا ہم بھی تو اس کے حالات سے واقف ہوں.لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی مصلح ایسے وسیع اخلاق لے کر دنیا میں نہیں آیا جیسا کہ ہمارا آقاع.اور اس لیے کسی مصلح صلى الله کی جماعت نے ایسی فدائیت نہیں دکھائی جیسے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے.چنانچہ بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے واقعات میں مسور بن مخرمہ کی روایت ہے کہ جب آپ حدیبیہ میں ٹھہرے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوکتے تھے تو صحابہؓ اچک کر آپ کا تھوک اپنے منہ اور ہاتھوں پرمل لیتے تھے اور جب آپ وضو کر نے لگتے تو وضو کے بچے ہوئے پانی کے لینے کے لیے اس قدر لڑتے کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کر دیں گے.اور جب آپ کوئی حکم دیتے تھے تو ایک دوسرے کے آگے بڑھ کر اس کی تعمیل کرتے اور جب آپ بولنے لگتے تو سب اپنی آوازوں کو نیچا کر لیتے.اور صحابہ کے اس اخلاص اور محبت کا ان ایلچیوں پر جو گفتگو کے لیے آئے تھے ایسا اثر پڑا کہ انہوں نے اپنی قوم کو واپس جا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ کی مخالفت سے باز آجائیں 12.اسی طرح بخاری میں لکھا ہے کہ جنگ احد پر جانے کے متعلق جب آپ نے انصار سے سوال کیا تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو جواب دیا یا رسول اللہ ! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت موسی کے ساتھیوں کی طرح کہہ دیں گے کہ فَاذْهَبُ انْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ 13 یعنی تو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں دشمنوں سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.بلکہ خدا کی قسم ! ہم تیرے آگے بھی اور پیچھے بھی اور دائیں بھی اور بائیں بھی تیرے دشمنوں سے مقابلہ کریں گے.اے چشم بصیرت.
سيرة النبي علي 70 جلد 1 رکھنے والو! اے فہیم دل رکھنے والو! خدا را ذرا اس جواب کا اُس جواب سے مقابلہ تو کرو جوحضرت موسی کو اُن کی امت نے دیا اور اس عمل سے بھی مقابلہ کر و جو حواریوں سے حضرت مسیح کے گرفتار ہونے کے وقت سرزد ہوا.اور پھر بتاؤ کہ کیا اس قربانی ، اس فدائیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارا رسول ﷺ ایسے اخلاق رکھتا تھا کہ جن کی نظیر دنیاوی بادشاہوں میں تو خیر تلاش کرنی ہی فضول ہے دینی بادشاہوں یعنی نبیوں میں بھی نہیں مل سکتی.اور اگر کوئی نبی ایسے اخلاق رکھتا تو ضرور اس کی امت بھی اس پر اس طرح فدا ہوتی جس طرح آپ پر.مگر اس اخلاق کے مقابلہ کے ساتھ عربوں کی آزادی کو بھی ضرور مد نظر رکھنا چاہیے.اس موقع پر میں ایک اور نظیر دینی بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جس سے مردوں کے علاوہ عورتوں کے اخلاص کا نمونہ بھی ظاہر ہو جائے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ فَقَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ أَهْلِ حِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَى أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظهُرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَى أَنْ يَعِزُّوْا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ 14 یعنی ہند عتبہ آئی اور اس نے حضرت رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! روئے زمین پر کوئی خیمہ والا نہ تھا جس کی نسبت میں آپ سے زیادہ ذلت کی خواہشمند ہوں اور اب روئے زمین پر کوئی گھر والا نہیں جس کی نسبت میں آپ کے گھر والوں سے زیادہ عزت کی خواہشمند ہوں.اس عورت کی طرف دیکھو یا تو وہ بغض تھا یا ایسی فریفتہ ہو گئی اور اس کی وجہ سوائے اُن اخلاق کریمہ اور اُس نیکی اور تقوی کے کیا تھی جو آپ میں پائے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ بھی اس کی یہی وجہ بیان فرماتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے فَيَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ 15 غرض کہ ان اخلاق حسنہ کا ایسا نیک اثر پڑا کہ ایک ایک کر کے تمام عرب قبیلے آپ کی خدمت میں آ حاضر
سيرة النبي علي 71 جلد 1 ہوئے.بھلا اس واقعہ کا عمرو بن ہند کے واقعہ سے مقابلہ تو کر کے دیکھو ہیں تفاوت را از کجا است تا به کجا.“ صلى الله اس وقت تک تو میں نے آنحضرت رسول کریم علیہ کے اخلاق حسنہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو آپ کے کے متعلق آپ کی بیوی کی گواہی صحابہ کی فدائیت سے ثابت کیا ہے اب ایک اور طریق سے اس امر پر روشنی ڈالتا ہوں.آدمی کا سب سے زیادہ تعلق اپنی بیوی سے ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس روزانہ بہت سا وقت خرچ کرنا پڑتا ہے اور بہت سی ضروریات میں اس کے ساتھ مشارکت اختیار کرنی پڑتی ہے اس لیے یہ تو ممکن ہے کہ انسان باہر لوگوں کے ساتھ تکلف کے ساتھ نیک اخلاق کے ساتھ پیش آ سکے اور ایک وقت کے لیے اُس گند کو چھپالے جو اُس کے اندر پوشیدہ ہولیکن یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ کوئی اپنی برائیوں اور بدخلقیوں کو اپنی بیوی سے پوشیدہ رکھ سکے کیونکہ علاوہ ایک دائمی صحبت اور ہر وقت کے تعلق کے بیوی پر مرد کو کچھ اختیار بھی ہوتا ہے اور اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی فطری بداخلاقی کا اکثر اوقات اس کے سامنے ہے اظہار کر دیتا ہے.پس انسان کے اخلاق کا بہتر سے بہتر گواہ اس کی بیوی ہوتی جس کا تجربہ دوسرے لوگوں کے تجربہ سے بہت زیادہ صحیح مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق جو گوا ہی حضرت خدیجہ نے دی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک اخلاق کو ثابت کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے اور اس کے بعد کسی زائد شہادت کی ضرورت نہیں رہتی.حضرت عائشہ وحی کی ابتدا بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جب پہلی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے اور غار حرا سے گھر کی طرف لوٹے اور آپ کا دل دھڑک رہا تھا.حضرت خدیجہ کے پاس آ کر آپ نے فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو جلد کپڑا اوڑھا دو.جس پر آپ پر کپڑا ڈالا گیا یہاں تک کہ آپ کا کچھ خوف کم ہوا اور آ.-
سيرة النبي علي 72 جلد 1 نے سب واقعہ حضرت خدیجہ کو سنایا اور فرمایا کہ مجھے تو اپنی نسبت کچھ خوف پیدا ہو گیا ہے.اس بات کو سن کر جو کچھ حضرت خدیجہ نے فرمایا وہ یہ ہے كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ 16 یعنی سنو جی میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں اُن پر عامل ہے.مہمانوں کی خدمت کرتا ہے اور کچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتا ہے.اس کلام کے باقی حصوں پر تو اپنے وقت پر لکھوں گا سر دست حضرت خدیجہ کی گواہی کو پیش کرتا ہوں جو آپ نے قسم کھا کر دی ہے یعنی تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ کی گواہی کو کافی تھی لیکن اپنے کلام کو قسم کے ساتھ مؤکد کر کے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام اخلاق حسنہ پائے جاتے ہیں حتی کہ وہ اخلاق بھی جو اُس وقت ملک میں کسی اور آدمی میں نہیں دیکھے جاتے تھے.یہ گواہی کیسی زبر دست اور کیسی صاف ہے اور پھر بیوی کی گواہی اس معاملہ میں جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں نہایت ہی معتبر ہے.حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ گل اخلاق حسنہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں آپ میں پائے جاتے تھے.حضرت خدیجہ کی گواہی پیش کرنے کے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم کی گواہی اپنے اخلاق کی نسبت کی گواہی اپنی نیک سیرتی کی نسبت پیش کرتا ہوں.شاید اس پر بعض لوگ حیران ہوں کہ اپنی نسبت آپ گواہی کے کیا معنی ہوئے.لیکن یہ گواہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بے تکلفی سے اور بغیر پہلے غور کے دی ہے کہ موافق تو الگ رہے مخالف کو بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں ہونا چاہیے.اس حدیث میں جس میں حضرت خدیجہ کی گواہی کا ذکر ہے آگے چل کر لکھا
سيرة النبي علي 73 جلد 1 ہے کہ حضرت خدیجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور انہیں گل حال سنایا.انہوں نے سن کر کہا کہ یہ فرشتہ جو آپ پر نازل ہوا ہے یہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی پر نازل فرمایا تھا اور فرمایا کہ يَا لَيْتَنِيْ فِيْهَا جَدَعٌ لَيْتَنِى أَكُوْنُ حَيَّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجيَّ هُمُ 17 یعنی اے کاش کہ میں اُس وقت جوان و توانا ہوں.اے کاش! کہ میں اُس وقت زندہ ہوں جبکہ تجھے تیری قوم نکال دے گی.رسول اللہ علیہ نے سن کر فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ اس گفتگو سے اور خصوصاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے کہ کیا مجھے میری قوم نکال دے گی؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اندر کیسا صاف تھا.اور جب آپ نے ورقہ بن نوفل سے یہ بات سنی کہ آپ کو اہل مکہ نکال دیں گے تو آپ کو اس سے سخت حیرت ہوئی کیونکہ آپ اپنے نفس میں جانتے تھے کہ مجھ میں کچھ عیب نہیں.اور اگر آپ ذرہ بھر بھی اپنی طبیعت میں تیزی پاتے تو اس قدر تعجب کا اظہار نہ فرماتے لیکن ورقہ کی بات سن کر اس پاک فطرت انسان کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ ہیں ! کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ اسے کیا معلوم تھا کہ بعض خبیث الفطرت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ہر نور کی مخالفت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ تو اس بات پر حیران تھا کہ اس پاک زندگی اور اس دردمند دل کے باوجود میری قوم مجھے کیونکر نکال دے گی.اخلاق حمیدہ کی تفصیل اخلاق پر ایک مجملاً بحث کرنے کے بعد اب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا تفصیلاً بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن پیشتر اس کے کہ میں فرداً فرداً آپ کے اخلاق کا بیان کروں ان کی تقسیم کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ اس تقسیم کو مدنظر رکھ کر ناظرین پر یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاوے کہ تمام کے تمام شعبہ ہائے اخلاق میں
سيرة النبي ع 74 جلد 1 آپ کمال کو پہنچ گئے تھے اور ہر حصہ زندگی میں آپ کے اخلاق اپنا جلوہ دکھا رہے تھے اور کوئی صنف خوبی کی باقی نہ رہی تھی جس میں آپ نے دوسرے تمام انسانوں کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑ دیا.میں نے جہاں تک غور کیا ہے انسان کے تعلقات تین طرح کے ہوتے ہیں.سب سے پہلا تعلق تو اس کا خدا سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کا خالق و رازق ہے.اس کے فضل کے بغیر اس کا ایک دم آرام سے نہیں گزرسکتا بلکہ آرام تو الگ رہا اس کی زندگی ہی محال ہے.اس کے احسانات کی کوئی حد نہیں ہر ایک لمحہ میں اس کے فضلوں کی بارش ہم پر ہو رہی ہے.کمزور سے کمزور، ضعیف سے ضعیف حالت سے اس نے ہمیں اس حد کو پہنچایا ہے اور عقل وخرد بخش کرگل مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے.اس لیے اگر اس کے ساتھ ہمارے تعلقات درست نہ ہوں، اگر ہمارے اخلاق تعلق باللہ میں ادنی ہوں اور اس کے احسانات کو ہم فراموش کر دیں تو ہم سے زیادہ کوئی ذلیل نہیں.خالق کے بعد ہمارا تعلق مخلوق سے ہے کہ ان میں بھی کوئی ہمارا محسن ہے، کوئی ہمارا معلم ہے، کوئی ہمارا مہربان ہے، کوئی دردخواہ ہے، کوئی ہمارے آرام و آسائش میں کوشاں ہے، کوئی ہماری محبت اور توجہ کا محتاج ہے، کوئی اپنی کمزوریوں اور اپنی گری ہوئی حالت اور اپنے ہم سفروں سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہم سے نصرت و مدد کا متمنی ہے.غرضیکہ ہزاروں طریق سے ہزاروں آدمی ہم سے متعلق ہیں اور اگر ہمارے معاملات ان سے درست نہ ہوں ، اگر ان سے بدخلقی سے پیش آئیں تب بھی دنیا کا امن و امان جاتا رہتا ہے اور فساد و بغاوت میں ترقی ہوتی ہے.پس اگر ہمارے اخلاق مخلوق سے درست نہ ہوں تو ہم ایک ڈاکو کی طرح ہیں جو دنیا سے اس کے امن و آرام کا متاع لوٹتا اور غارت کرتا ہے.تیسرا تعلق ہمارا خود اپنے نفس سے ہے کہ یہ بھی ہماری بہت سی تو جہات کا محتاج ہے اور جس طرح ہمارا خالق سے منہ موڑنا یا مخلوق سے بداخلاقی.پیش آنا نہایت مضر اور مخرب امن ہے اسی طرح ہمارا اپنے نفس سے بدسلوکی کرنا ނ
سيرة النبي علي 75 جلد 1 اور اخلاق رذیلہ سے پیش آنا نہایت خطرناک اور باعث فساد ہے.پس وہی انسان کامل ہو سکتا ہے کہ جو ان تینوں معاملات میں کامل ہو اور ان اصناف میں سے ایک صنف میں بھی کمزوری نہ دکھلائے.اگر ان تینوں اقسام اخلاق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اکثر انسان جو اخلاق میں کامل سمجھے جاتے ہیں بہت سی کمزوریاں رکھتے ہیں.اور اگر ایک قسم کے اخلاق میں انہیں کمال حاصل ہے تو دوسری قسم میں انہیں کوئی دسترس نہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور پاک بندوں کا گروہ ہی نکلے گا کہ جو ان تینوں اقسام اخلاق میں کمال رکھتا ہے اور کسی خوبی کو اس نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا.اور جب آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا مطالعہ غور سے کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ تمام صاحب کمال لوگوں کے سردار تھے اور باوجود اس کے کہ دنیا میں بہت سے صاحب کمال لوگ گزرے لیکن جس رنگ میں آپ رنگین تھے اس کے سامنے سب کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور جن خوبیوں کے آپ جامع تھے اُن کا عشر عشیر بھی کسی اور انسان میں نہیں پایا جاتا.عجب نوریست در جانِ محمد عجب لعلیست در کان محمد ندانم کیے تھے در دو عالم که دارد شوکت و شان محمد ہم اس بات سے قطعاً منکر نہیں ہیں کہ آپ کے پہلے بھی اور آپ کے بعد بھی بڑے بڑے صاحب کمال پیدا ہوئے ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُن کی مثال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دیے اور سورج کی ہے اور سمندر اور دریا کی ہے کیونکہ وہ دلربا، یکتا ان تمام خوبیوں کا جامع تھا جو مختلف اوقات میں مختلف صاحب کمال لوگوں نے حاصل کئے.آپ نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے احکام کی اطاعت میں ایسا محو کر دیا تھا کہ دنیا میں اس کے روشن مظہر ہو گئے تھے اور وہ تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللهِ کہنے والا انسان خود اس قول کا کامل نمونہ تھا.
سيرة النبي علي 76 جلد 1 زاں نمط شد محو دلبر کز کمال اتحاد پیکر او شد سراسر صورت رب رحیم بوئے محبوب حقیقی میدمدزاں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم میں ان تینوں اقسامِ اخلاق میں سے پہلے تو اُس کے اخلاق حسنہ میں سے وہ حصہ بیان کروں گا کہ جس سے آپ کا تعلق باللہ بدرجہ کمال ثابت ہوتا ہے.پھر وہ حصہ جس سے آپ کے نفس کی پاکیزگی اور کمال ثابت ہوتا ہے اور آخر میں وہ حصہ جس سے مخلوق سے آپ کے تعلق کی کیفیت کھلتی ہے.اخلاص باللہ.خشیت الہی آپ کی خشیت الہی کا ثبوت ایک دعا سے خوب ملتا ہے.آپ کی ایک دعا انسان جس وقت لوگوں سے جدا ہو کر دعا مانگتا ہے تو اس وقت اسے کسی بناوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور اُس وقت کے خیالات اگر کسی طرح معلوم ہو جائیں تو وہ اس کے بچے خیالات ہوں گے کیونکہ وہ ان خیالات کا اظہار تخلیہ میں کرتا ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اَللّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالِ وَأَعُوْذُ بكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ اللهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيْدُ مِنَ الْمَغْرَمِ؟ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّتَ فَكَذَبَ وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ 18 اے میرے خدا! میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں مسیح الدجال کے فتنہ سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے.اے میرے رب! میں پناہ مانگتا ہوں گناہوں سے اور قرضہ سے.اس دعا کو سن کر ایک شخص نے پوچھا کہ آپ قرضہ سے اس قدر کیوں پناہ مانگتے ہیں؟ فرمایا کہ جب انسان قرضدار ہو جاتا ہے تو بات کرتے وقت جھوٹ بول جاتا ہے اور
سيرة النبي علي 77 جلد 1 وعدہ کر کے اس کے خلاف کرتا ہے.کیسی پاک دعا ہے آپ کے اندرونہ پر کیسی روشنی ڈالتی ہے اور اس سے کیسا کھلا کھلا ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کیسے خائف تھے.کس طرح اُس کے حضور گرتے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے.پھر اُسی سے عرض کرتے کہ مجھ سے تو کچھ نہیں ہوسکتا تو خود ہی فضل کر.خدا تعالیٰ کے غنا سے خوف بڑوں اور چھوٹوں میں کیا فرق ہوتا ہے.جن کے پاس کچھ ہوتا ہے وہ کیسے منکسر المزاج ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے انسان اور ختم نبوت کا دعوی ، قرآن شریف جیسی کتاب اتر رہی ہے، نصرت الہی کی وہ بھر مار ہے کہ دشمن و دوست حیران ہیں.ہر گھڑی پیار و محبت کے اظہار ہو رہے ہیں حتی کہ بارگاہ خداوندی سے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 19 کا حکم جاری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی شان میں فرماتا ہے کہ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ 20 اور اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی 21 لیکن خشیت الہی کا یہ حال ہے کہ آپ فرماتے ہیں وَاللَّهِ مَا أَدْرِكْ وَأَنَا رَسُوْلُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي 22 خدا کی قسم! میں نہیں جانتا با وجود اس کے کہ میں خدا کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا.سچ ہے کہ جسے جتنا قرب شاہی نصیب ہوتا ہے اُسی طرح وہ خائف بھی زیادہ ہوتا ہے.اُدھر تو اس بادشاہ دو جہاں کا اللہ تعالیٰ کی خشیت میں یہ کمال تھا ادھر ہم آجکل فقراء کو دیکھتے ہیں کہ ذرا کوئی بات ہوئی اور کہتے ہیں کہ اُلٹا دوں طبقہ زمین و آسمان.ایک ہاتھ میں سوٹا اور ایک ہاتھ میں کشکول گدائی لیے پھرتے ہیں، بدن پر ہندو فقیروں کی طرح راکھ ملی ہوئی ہوتی ہے، معرفتِ الہی سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں، قرآن شریف پر عمل تو الگ رہا ایک آیت بھی پڑھ نہیں سکتے لیکن دعاوی دیکھو تو کہو کہ نَعُوذُ باللہ اللہ تعالیٰ سب کا روبار خدائی انہیں سپر د کر کے آپ علیحدہ ہو گیا ہے.یہ تو جہلاء کا گروہ ہے، پیروں کی بھی ایسی ہی حالت ہے.
سيرة النبي علي 78 جلد 1 بعض تو فقط اپنی بہشت تو الگ رہی اپنے دستخطی رقعوں پر دوسروں کو بھی بہشت دلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم کرے اور ہمیں اس پاک رسول کی اطاعت کی توفیق دے کہ اس کے بغیر نجات نہیں.بدر کا واقعہ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدر خوف تھا.جنگ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کے مقابلہ میں آپ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے تائید الہی کے آثار ظاہر تھے.کفار نے اپنے قدم جمانے کے لیے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لیے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہو گئی.اسی طرح اور بھی تائیدات سماوی ظاہر ہو رہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بیتاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فرماتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے.چنانچہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي قُبَّةِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ الْيَوْمِ فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ فَقَالَ حَسُبُكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ فَقَدْ أَلْحَحُتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُوْلُ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ 23 نبی کریم جنگ بدر میں ایک گول خیمہ میں تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے خدا! میں تجھے تیرے عہد اور وعدے یاد دلاتا ہوں اور ان کے ایفا کا طالب ہوں.اے میرے رب! اگر تو ہی ( مسلمانوں کی تباہی ) چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا.اس پر حضرت ابو بکر نے آپ
سيرة النبي علي 79 جلد 1 کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بس کیجیے.آپ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کر دی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت زرہ پہنی ہوئی تھی آپ خیمہ سے باہر نکل آئے اور فرمایا کہ ابھی ان لشکروں کو شکست ہو جائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ یہ وقت ان کے انجام کا وقت ہے اور یہ وقت ان لوگوں کے لیے نہایت سخت اور کڑوا ہے.اللہ اللہ ! خوف خدا کا ایسا تھا کہ باوجود وعدوں کے اس کے غنا کا خیال تھا لیکن یقین بھی ایسا تھا کہ جب حضرت ابوبکر نے عرض کی تو بآواز بلند سنا دیا کہ میں ڈرتا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مجھے علم ہو چکا ہے کہ دشمن شکست کھا کر ذلیل وخوار ہو گا اور ائمۃ الکفر یہیں مارے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.جس جگہ پر عذاب آچکا ہو وہاں آپ نہ ٹھہر تے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اس قدر خائف تھے اور اُس کا تقویٰ آپ کے دل میں ایسا مستولی تھا کہ نہ صرف آپ ایسے افعال سے محفوظ تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو اور نہ صرف لوگوں کو ایسے افعال میں مبتلا ہونے سے روکتے تھے بلکہ آپ اُن مقامات میں ٹھہر نا برداشت نہ کرتے تھے جس جگہ کسی قوم پر عذاب آچکا ہو اور ان واقعات کو یا د کر کے اُن افعال کو آنکھوں کے سامنے لا کر جن کی وجہ سے وہ عذاب نازل ہوئے آپ اس قدر غضب الہی سے خوف کرتے کہ اُس جگہ کا پانی تک استعمال کرنا آپ مکر وہ جانتے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں لَمَّا نَزَلَ الْحِجُرَ فِي غَزْوَةِ تَبُوْكَ أَمَرَهُمْ أَنْ لَا يَشْرَبُوْا مِنْ بِتْرِهَا وَلَا يَسْتَقُوْا مِنْهَا فَقَالُوْا قَدْ عَجَنَّا مِنْهَا وَاسْتَقَيْنَا فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَطْرَحُوْا ذَلِكَ الْعَجِيْنَ وَيُهْرِيْقُوْا ذَلِكَ الْمَاءَ24 جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر مقام حجر پر اترے آپ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی نہ پئیں اور نہ پانی بھریں.یہ حکم سن کر صحابہ نے جواب دیا کہ ہم نے اس پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے.آپ نے
سيرة النبي علي 80 جلد 1 حکم دیا کہ اس آٹے کو پھینک دو اور اس پانی کو بہا دو.اس خوف الہی کو دیکھو اور دنیا کے سب راستبازوں کی زندگیوں کا اس پاک نبی کی زندگی سے مقابلہ کرو کہ اس میں خوف الہی کس قدر زیادہ تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پہلے میں ذکر کر چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نسبت فرماتے تھے کہ اعمال پر بھروسہ نہ کرتے وَمَا أَدْرِكْ مَا يُفْعَلُ بِی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا.اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ آپ کبھی اس بات کا دعویٰ نہ کرتے کہ اپنے اعمال کے زور سے جنت کے وارث بن جائیں گے بلکہ ہمیشہ یہی تعلیم دیتے کہ خدا کے فضل سے جو کچھ ملے گا ملے گا اور اپنی نسبت بھی یہی فرماتے کہ میری نجات بھی خدا کے ہی فضل سے ہو گی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ لَنْ يُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ قَالُوْا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ لَا وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ بِفَضْلِ وَرَحْمَةٍ فَسَدِدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا يَتَمَثْنى أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ خَيْرًا وَإِمَّا مُسِيْئًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ 25 فرماتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہیں داخل کرے گا.لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہ ہوں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہ ہوں گا بلکہ خدا کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لیں گے تو میں جنت میں داخل ہوں گا.اس لیے تم نیکی کرو اور سچائی سے کام لو اور خدا کی نزد یکی کو تلاش کرو.اور تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو شاید وہ نیکی میں اور ترقی کرے اور اگر بد ہے تو شاید اس کی توبہ قبول ہو جائے اور اسے خدا کی رضا کے حاصل کرنے کا موقع مل جائے.
سيرة النبي علي 81 جلد 1 اس حدیث سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خشیت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی قدرت، بڑائی اور جلال کا کیسا صحیح اندازہ لگایا تھا اور کس طرح آپ کے دل پر حقیقت منکشف تھی کہ آپ ان اعمال کے ہوتے ہوئے بھی اُس بادشاہ کی غنا سے ایسے خائف تھے کہ فرماتے کہ خدا کا فضل ہی ہو تو نجات ہو اور نہ اس کے فضل کے بغیر نجات کیونکر ہو سکتی ہے.علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ اسلام نجات کو اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کے فضل کا نتیجہ قرار دیتا ہے.ہاں اعمالِ صالحہ خدا کے فضل کے جاذب ہوتے ہیں اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نجات خدا کے فضل سے ہے اس لیے تم نیکی اور تقویٰ سے کام لو.معلوم ہوا کہ نیکی اور اعمالِ صالحہ فضل کے جاذب ہیں.چنانچہ ایک دوسری حدیث میں اس کی اور تشریح ہو جاتی ہے.حضرت ابو ہریرہ ہی اس حدیث کے بھی راوی ہیں اور اس میں انہوں نے پہلی حدیث سے اتنا زیادہ بیان فرمایا ہے وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا وَشَيْئًا مِنَ الدُّلْجَةِ وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا 20 یعنی خدا کے فضل کے سوا نجات نہیں.اسی لیے صبح کے وقت عبادت کرو اور شام کے وقت بھی اور کچھ رات کے وقت بھی اور خوب قصد کرو.پوری طرح سے قصد کرو جنت میں پہنچ جاؤ گے.اس حدیث سے صاف کھل جاتا ہے کہ اپنے اعمال کو فضل کا جاذب قرار دیا ہے.استغفار کی کثرت لوگ گناہ کرتے ہیں اور پھر جرات کرتے ہیں اور خدا کا خوف ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا اور ایسے سنگدل ہو جاتے ہیں کہ کبھی ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد نہ بن جائیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے میں نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ تم تو بہ واستغفار کیا کرو اور نیکی میں ترقی کرو.اس نے مجھے جواب دیا کہ کیا آپ مجھے گندا جانتے ہیں؟ کیا میں گناہ گار ہوں کہ آپ مجھے نیکی اور تقویٰ اور استغفار کے لیے کہتے ہیں؟ میں یہ بات سن کر حیران ہی ہو گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے اتنا نا واقف ہے اور
سيرة النبي علي 82 جلد 1 اُس کے جلال سے اتنا بے خبر ہے کہ اسے اتنی بھی نہیں سمجھ کہ اُس بادشاہ سے انسان کو کیسا خائف رہنا چاہیے.دنیاوی بادشاہوں کے مقربین کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی خدمت وخوشامد کے باوجود بھی اُن سے یہی عرض کرتے رہتے ہیں کہ اگر کچھ قصور ہو گیا ہو تو عفو فر ما ئیں.بے شک بہت سے لوگ حتی المقدور نیکی کا خیال رکھتے ہیں مگر پھر بھی انسان سے خطا کا ہو جانا کچھ تعجب کی بات نہیں.رسول کریم ﷺ کو دیکھو کیسی معرفت تھی ، کیسی احتیاط تھی ، کس طرح خدا تعالیٰ سے خائف رہتے تھے اور باوجود اس کے کہ تمام انسانوں سے زیادہ آپ کامل تھے اور ہر قسم کے گنا ہوں سے آپ پاک تھے ،خود اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ و نگہبان تھا مگر باوجود اس تقدیس اور پاکیزگی کے یہ حال تھا کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خائف رہتے ، نیکی پر نیکی کرتے ، اعلیٰ سے اعلیٰ اعمال بجالاتے ، ہر وقت عبادت الہیہ میں مشغول رہتے مگر باوجود اس کے ڈرتے اور بہت ڈرتے.اپنی طرف سے جس قدر ممکن ہے احتیاط کرتے مگر خدا تعالیٰ کے غنا کی طرف نظر فرماتے اور اُس کے جلال کو دیکھتے تو اس بارگاہ صمدیت میں اپنے سب اعمال سے دستبردار ہو جاتے اور استغفار کرتے اور جب موقع ہوتا تو بہ کرتے.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ وَاللَّهِ إِنِّي لاسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ فِى الْيَوْم أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً 27 میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خدا کی قسم! میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی کمزوریوں سے عفو کی درخواست کرتا ہوں اور اس کی طرف جھک جاتا ہوں.رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گناہوں سے پاک تھے نہ صرف اس لیے کہ انبیاء کی جماعت مَعْصُوم عَنِ الْإِثْمِ وَالْجُرُمِ ہوتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ انبیاء میں سے بھی آپ سب کے سردار اور سب سے افضل تھے.آپ کا اس طرح استغفار اور تو بہ کرنا بتاتا ہے کہ خشیت الہی آپ پر اس قدر غالب تھی کہ آپ اس کے
سيرة النبي علي 83 جلد 1 جلال کو دیکھ کر بے اختیار اس کے حضور میں گر جاتے کہ انسان سے کمزوری ہو جانی ممکن ہے تو مجھ پر اپنا فضل ہی کر.وہاں تو یہ حیثیت تھی اور یہاں یہ حال ہے کہ ہم لوگ ہزاروں قسم کے گناہ کر کے بھی استغفار و توبہ میں کوتاہی کرتے ہیں اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَآتُوبُ إِلَيْهِ.موت کا خیال صلى الله آنحضرت یہ موت سے کسی وقت غافل نہ رہتے اور خشیت الہی آپ پر اس قدر غالب تھی کہ ہر روز یہ یقین کر کے سوتے کہ شاید آج ہی موت آجاوے اور آج ہی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا پڑے.اس لیے آپ ایک ایسے مسافر کی طرح رہتے تھے جسے خیال ہوتا ہے کہ ریل اب چلی کہ چلی.وہ کبھی اپنے آپ کو ایسے کام میں نہیں پھنسا تا کہ جسے چھوڑنا مشکل ہو.آپ بھی ہر وقت اپنے محبوب کے پاس جانے کے لیے تیار رہتے اور جو دم گزرتا اسے اُس کے فضل کا نتیجہ سمجھتے اور موت کو یاد رکھتے.حذیفہ بن الیمان فرماتے ہیں كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَضَعَ يَدَهُ تَحْتَ خَدِهِ ثُمَّ يَقُوْلُ اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَأَحْيَا وَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْرُ 28 رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے بستر پر لیٹتے اپنے رخسار کے نیچے اپنا ہاتھ رکھتے اور فرماتے اے میرے مولا ! میرا مرنا اور جینا تیرے ہی نام پر ہو اور جب سو کر اٹھتے تو فرماتے شکر ہے میرے رب کا جس نے ہمیں زندہ کیا مارنے کے بعد.اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر رات جب بستر پر جاتے تو اپنی طرف سے حساب ختم کر جاتے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو تب بھی تیرے ہی نام پر میری زندگی ہو.اور جب اٹھتے تو خدا تعالیٰ کے احسان پر حمد کرتے کہ میں تو اپنی طرف سے دنیا سے علیحدہ ہو چکا تھا تیرا ہی فضل ہوا کہ تو نے پھر مجھے زندہ کیا اور میری عمر میں برکت دی.
سيرة النبي علي 84 جلد 1 صلى الله ایک اور مثال جس طرح مذکورہ بالا دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ہر وقت موت کو یاد رکھتے تھے اسی طرح مذکورہ ذیل دعا بھی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ اپنی زندگی کی ہر گھڑی کو آخری گھڑی جانتے تھے.اور جب آپ سونے لگتے تو اپنے رب سے اپنے معاملہ کا فیصلہ کر لیتے اور گویا ہر ایک تغیر کے لیے تیار ہو جاتے.چنانچہ براء بن عازب کی روایت ہے کہ كَانَ رَسُولَ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اوى إِلَى فِرَاشِهِ نَامَ عَلَى شِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجْهُتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ 29 فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر جا کر لیٹتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے.پھر فرماتے اے میرے رب ! میں اپنی جان تیرے سپرد کرتا ہوں.اپنی سب توجہ تیری ہی طرف پھیرتا ہوں.میں اپنا معاملہ تیرے ہاتھوں میں دیتا ہوں.اور اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں.تجھ سے نفع کا امیدوار ہوں.تیری بڑائی اور استغنا سے خائف بھی ہوں، تیرے غضب سے بچنے کے لیے کوئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی نجات کا مقام ہے مگر یہی کہ تجھ ہی سے نجات و پناہ طلب کی جائے.میں اس کتاب پر جو تُو نے نازل کی ہے اور اس رسول پر جو تُو نے بھیجا ہے ایمان لاتا ہوں.لوگ اپنی دکان کو بند کرتے وقت اُس کا حساب کر لیتے ہیں مگر خدا سے جو حساب ہے اسے صاف نہیں کرتے.مگر کیسا برگزیدہ وہ انسان تھا جو صبح سے شام تک خدا کے فرائض کے ادا کرنے میں لگا رہتا اور خود ہی انہیں ادا نہ کرتا بلکہ ہزاروں کی نگرانی بھی ساتھ ہی کرتا تھا کہ وہ بھی اپنے فرائض کو ادا کرتے ہیں یا نہیں مگر رات کو سونے سے پہلے اپنی تمام کوششوں اور عبادتوں سے آنکھ بند کر کے عاجزانہ اپنے مولیٰ کے حضور میں اس طرح حساب صاف کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا کہ گویا اس نے کوئی خدمت
سيرة النبي علي 85 جلد 1 کی ہی نہیں اور اُس وقت تک نہ سوتا جب تک اپنی جان کو پورے طور سے خدا کے سپرد کر کے دنیا وَ مَا فِيْهَا سے براءت نہ ظاہر کر لیتا اور خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دے لیتا.لطیفہ الله اس دعا سے ایک عجیب نکتہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ کو اپنی نبوت پر اس قدر یقین کامل تھا کہ آپ عین تنہائی میں ہر روز سوتے وقت خدا کے سامنے اقرار فرماتے کہ مجھے اپنی نبوت پر ایمان ہے اور اسی طرح قرآن شریف پر بھی ایمان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی تعلیم کو لوگوں کے لیے ہی قابل عمل نہیں جانتے تھے بلکہ سب سے پہلے اپنے نفس کو کہتے تھے کہ یہ حکم خدا کا آیا ہے اور اس کا رسول یوں کہتا ہے کہ اس پر ایمان لا.اسی لیے تو آپ فرماتے ہیں کہ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَيْكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.آپ ابتلا ؤں اور عذابوں بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو فتنوں میں ڈالتے ہیں اور اس سے پناہ مانگتے رہتے طرح اپنے نفس کا امتحان کرتے ہیں مگر یہ لوگ بعض دفعہ ان فتنوں میں ایسے گرتے ہیں کہ پھر سنبھلنے کی طاقت نہیں رہتی اور بجائے ترقی کرنے کے ان کا قدم نیچے ہی نیچے چلا جاتا ہے.کچھ آدمی ایسے ہوتے ہیں جو خود بڑے بڑے کام طلب کرتے ہیں کہ ہمیں اگر ایسی مصیبت کا موقع ملے تو ہم یوں کریں اور یوں کریں اور اس طرح دین کی خدمت کریں لیکن رسول کریمﷺ کی سنت اس کے خلاف ہے.آپ کبھی پسند نہ فرماتے تھے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ سے ابتلاؤں کی خواہش کرے کیونکہ کوئی کیا جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا.ممکن ہے کہ خدا کی غیرت اسے تباہ کر دے.ممکن ہے کہ اس کے اپنے اعمال کی کمزوری اس کے آگے آ جائے.ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر تسلط پا کر اسے خراب کر دے اور یہ گمراہ ہو جائے.چنانچہ آپ خود بھی بجائے ابتلاؤں کی آرزو کرنے کے ان سے بچنے کی دعا
سيرة النبي علي 98 86 جلد 1 کرتے تھے.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ صلى الله الأغدَاءِ 30 رسول کریم ﷺ ہمیشہ خدا سے پناہ مانگتے تھے کہ مجھ پر کوئی ایسی مصیبت نہ آئے جو میری طاقت سے بڑھ کر ہو.کوئی ایسا کام نہ پیش آ جائے کہ جس کا نتیجہ ہلاکت ہو.اور کوئی خدا کا فیصلہ ایسا نہ ہو کہ جس کو میں نا پسند کروں.اور کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو کہ جس سے میرے دشمنوں کو خوشی کا موقع ملے.اس دعا سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کیسی خشیت الہی تھی اور آپ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کیسا کمزور جانتے اور کبھی اپنی بڑائی کے لیے اور اپنے ایمان کے اظہار کے لیے کسی بڑے کام یا ابتلا کی آرزو نہ فرماتے.اور یہی حقیقی ایمان ہے جس کی اقتدا کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ - رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا بھی ہے جو آپ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے طلب فرماتے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل پر کس قدر خوف الہی تھا.ابو موسی فرماتے ہیں آپ ہمیشہ دعا فرماتے تھے کہ اَللَّهُمَّ اغْفِرُ لِي خَطِيئَتِيْ وَجَهْلِي وَإِسْرَافِى فِى أَمْرِى وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنَى اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِى هَزَلِى وَجدِى وَخَطَئِي وَعَمْدِى وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِی 31 اے اللہ ! میرے اعمال کے نتائج بد سے مجھے محفوظ رکھ اور میری خطاؤں کے نتائج سے بھی.میں اگر اپنی نا واقفیت کی وجہ سے کوئی کام جو کرنا ہو نہ کروں یا کوئی کام جس حد تک مناسب تھا اُس سے زیادہ کر بیٹھوں اور جسے تو میری نسبت زیادہ جانتا ہے تو اس کے نتائج سے بھی مجھے محفوظ رکھ.اے اللہ ! اگر کوئی بات میں بے دھیان کہہ بیٹھوں یا متانت سے کہوں، غلطی سے کہوں یا جان کر کہوں اور یہ سب کچھ مجھ میں ممکن ہے.پس تو ان میں سے اگر کسی فعل کا نتیجہ بد نکلتا ہو تو اُس سے مجھے محفوظ رکھیو.حضرت عائشہ رسول کریم ﷺ کی ایک اور دعا بھی بیان فرماتی ہیں اور وہ بھی
سيرة النبي علي.87 الله جلد 1 اس بات پر شاہد ہے کہ جو ایمان وخشیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی اس کی نظیر کسی اور انسان میں نہیں مل سکتی.انسان دعا اُس سے مانگتا ہے جس پر یقین ہو کہ یہ کچھ کر سکتا ہے.ایک موجد جو بتوں کی بیکسی سے واقف ہے کبھی کسی بت کے آگے جا کر ہاتھ نہیں پھیلائے گا کیونکہ اسے یقین ہے کہ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے لیکن ایک بت پرست اُن کے آگے بھی ہاتھ جوڑ کر اپنا حالِ دل کہہ سناتا ہے کیونکہ اسے ایمان ہے کہ یہ بت بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک ذریعہ ہیں.فقیر بھی اس بات کو دیکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص کچھ دے گا یا نہیں.اور جس پر انہیں یقین ہو کہ کچھ دے گا اُس سے جا کر طلب کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی اس سے کچھ مانگتا ہے جس پر اسے ایمان ہو کہ اس سے ملے گا.رسول کریم ﷺ کا ہر وقت خدا سے امداد طلب کرنا ، نصرت کی درخواست کرنا اور اٹھتے بیٹھتے اُسی کے کواڑ کھٹکھٹانا، اسی سے حاجت روائی چاہنا کیا اُس بے مثل یقین اور ایمان کو ظاہر نہیں کرتا جو آپ کو خدا پر تھا.اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا دل یادِ الہی اور خشیت ایزدی سے ایسا معمور و آباد تھا که توجہ الی المخلوق کا اس میں کوئی خانہ خالی ہی نہ تھا.اگر یہ بات کسی اور انسان میں بھی پائی جاتی تھی اور اگر کوئی اور شخص بھی آپ کے برابر یا آپ کے قریب بھی ایمان رکھتا تھا اور خدا کا خوف اُس کے دل پر مستولی تھا تو اُس کے اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے میں بھی خشیت الہی کے یہ آثار پائے جانے ضروری ہیں مگر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ زمین کے ہر گوشہ میں چراغ لے کر گھوم جاؤ، تاریخوں کی ورق گردانی کرو، مختلف مذاہب کے مقتداؤں کے جیون چرتر ، سوانح عمریاں اور بایو گرافیاں پڑھ جاؤ مگر ایسا کامل نمونہ کسی انسان میں نہ پاؤ گے.اور وہ خوف خدا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ایک قول سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ حزم واحتیاط جو آپ کے ہر ایک فعل سے ٹپکتی ہے اُس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پایا جانا محال ہے.وہ دعا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ ہے اللهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ
سيرة النبي علي 88 جلد 1 وَالْهَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنى وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ اللّهُمَّ اغْسِلُ عَنِّي خَطَايَايَ بِمَاءِ التَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقَّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ التَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَبَاعِدُ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ 32 اے میرے رب! میں تجھ سے سستی اور شدید بڑھاپے اور گناہوں اور قرضہ اور قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب اور دوزخ کے فتنہ اور اس کے عذاب اور دولت کے فتنہ کے نقصانوں سے پناہ مانگتا ہوں اور اسی طرح میں غربت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں.اے میرے اللہ ! میری خطاؤں کو مجھ سے برف اور اولوں کے پانی کے ساتھ دھو دے اور میرے دل کو ایسا صاف کر دے کہ جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل سے صاف کر دیا ہے اور مجھ میں اور گناہوں میں اتنا فاصلہ حائل کر دے جتنا تو نے مشرق و مغرب میں رکھا ہے.اے وہ انسان ! جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت ہے تو بھی ذرا اس دعا کوغور سے پڑھا کر اور دیکھ کہ وہ گناہوں سے کس قدر متنفر تھے.وہ بدیوں سے کس قدر بیزار تھے.وہ کمزوریوں سے کس طرح بری تھے.وہ عیبوں سے کس قدر پاک تھے اور ان کا دل خشیت الہی سے کیسا پر تھا.فَتَدَبَّرُ وَاهْتَدِ بِهَدَاهُ.غیرت دینی اس بات کے بتانے کے بعد کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کا ہر فعل خشیت الہی کی ایک زندہ مثال ہے میں آپ کی غیرت دینی کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں.بہت سے لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھاتے ہیں مگر یہ اخلاق اُسی وقت تک ظاہر ہوتے ہیں جب تک انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.ذرا اُن کے منشاء
سيرة النبي علي 89 جلد 1 کے خلاف کوئی بات ہو ان کی آنکھیں لال پیلی ہو جاتی ہیں اور منہ سے جھاگ آنی شروع ہو جاتی ہے.اور اگر اشارہ بھی کوئی انہیں ایسی بات کہہ بیٹھے جس میں وہ اپنی ہتک سمجھتے ہوں تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے بلکہ ہر ممکن سے ممکن طریق سے اُس کا بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور جب تک مد مقابل سے بدلہ نہ لے لیں انہیں چین نہیں آتا.مگر انہی لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ جب خدا اور رسول کی کوئی ہتک کرتا ہے تو اسے بڑی خوشی سے سنتے ہیں اور ان کو وہ قطعاً بری نہیں معلوم ہوتی.اور ایسی مجلسوں میں اٹھنا بیٹھنا نا پسند نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی وقت ان سے بھی کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور اس طرح ان کا دین برباد ہو جاتا ہے.جتنے اخلاق اخلاق اور تہذیب تہذیب پکارنے والے لوگ ہیں اُن کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لوضروران میں یہ بات پائی جائے گی کہ دوسروں کے معاملہ میں اور خصوصاً دین کے معاملہ میں غیرت کے اظہار کو وہ بدخلقی اور بدتہذیبی قرار دیتے ہیں مگر اپنے معاملہ میں ان کا معیار اخلاق ہی اور ہے اور وہاں اعلیٰ اخلاق سے کام لینا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے.مومن انسان کا کام اس کے بالکل برخلاف ہونا چاہیے اور اسے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اپنے معاملات میں دکھانا چاہیے اور حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ بہت سے موقعوں پر چشم پوشی سے ہی کام لے اور جب تک عفو سے کام نکل سکتا ہو اور اس کا خراب نتیجہ نہ نکلتا ہوا سے ترک نہ کرے لیکن دین کے معاملہ میں قطعاً بے غیرتی کا اظہار نہ کرے اور ایسے تمام مواقع جن میں دین کی ہتک ہوتی ہو ان سے الگ رہے اور ایسی تمام مجلسوں اور صحبتوں سے پر ہیز کرے کہ جن میں دین کی ہتک اور اس سے ٹھٹھا ہوتا ہو اور دین پر جس قدر اعتراض ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کرے.اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو معلوم ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قدوسیت قائم کرنے کی نسبت اپنے نفس پر سے اعتراضات دور کرنے کے لیے زیادہ کوشاں رہتا ہے اور جتنا اسے اپنی
سيرة النبي علي 90 جلد 1 صفائی کا خیال ہے اُتنا خدا تعالیٰ اور دینِ حق کی تنزیہہ کا خیال نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس معاملہ میں بھی عام انسانوں سے بالکل مختلف ہے اور آپ بجائے اپنے نفسانی معاملات اور ذاتی تکالیف پر اظہارِ غضب و غصہ کے نہایت ملائمت اور نرمی سے کام لیتے اور اگر کوئی اعتراض کرتا تو اُس پر خاموش رہتے اور جب تک خاموشی سے نقصان نہ پہنچتا ہو کبھی ذبّ اعتراضات کی طرف توجہ نہ کرتے.مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں آپ بڑے با غیرت تھے اور یہ بھی برداشت نہ کر سکتے تھے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ہتک کرے اور جب کوئی ایسا موقع پیش آتا آپ فوراً اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کرتے یا اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے احکام سے لا پرواہی کرتا تو اسے سخت تنبیہ کرتے.حتى حضرت براء بن عازب سے روایت ہے فرمایا کہ جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرِّجَالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ وَكَانُوْا خَمْسِيْنَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَقَالَ إِنْ رَأَيْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوْا مَكَانَكُمُ هَذَا أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ وَإِنْ رَأَيْتُمُوْنَا هَزَمُنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلَا تَبْرَحُوْا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ فَهَزَمُوْهُمْ قَالَ فَأَنَا وَاللهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشُدُدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ وَأَسْوقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللهِ بْن جُبَيْرٍ الْغَنِيْمَةَ أَى قَوْمِ الْعَنِيْمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنتَظِرُوْنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيْتُمُ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوْا وَاللهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيْبَنَّ مِنَ الْغَنِيْمَةِ فَلَمَّا أَتَوْهُمُ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِيْنَ فَذَالِكَ إِذْ يَدْعُوْهُمُ الرَّسُوْلُ فِي أُخْرَاهُمُ فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ إِثْنَى عَشَرَ رَجُلًا فَأَصَابُوْا مِنَّا سَبْعِيْنَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِيْنَ وَمِائَةَ سَبْعِيْنَ أَسِيْرًا وَسَبْعِيْنَ قَتِيَّلًا فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ أَفِي الْقَوْمِ
سيرة النبي علي 91 جلد 1 مُحَمَّدٌ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ ثُمَّ قَالَ أَفِى الْقَوْم ابْنُ أَبِى قُحَافَةَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ أَفِى الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَدْ قُتِلُوْا فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ إِنَّ الَّذِيْنَ عَدَدْتَ لأحياء كُلُّهُمْ وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوْءُ كَ قَالَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرُبُ سِجَالٌ إِنَّكُمُ سَتَجِدُوْنَ فِى الْقَوْمِ مُثْلَةَ لَمُ امُرُ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِى ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِرُ أَعْلُ هُبَل أَعْلُ هُبَل قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا تُجِيْبُوْهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ مَا نَقُوْلُ؟ قَالَ قُوْلُوْا الله أغلى وَأَجَلُّ قَالَ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا تُجِيْبُوْهُ؟ قَالُوْا يَارَسُوْلَ اللهِ مَا نَقُوْلُ؟ قَالَ قُوْلُوْا اللَّهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمُ 33 یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیادہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن عبد اللہ بن جبیر کو مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانو را چک رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں.اور اگر تم یہ معلوم کر لو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اُس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا.اس کے بعد جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی.حضرت براء فرماتے ہیں خدا کی قسم! میں دیکھ رہا تھا کہ عورتیں کپڑے اٹھا اٹھا کر بھاگ رہی تھیں اور ان کی پنڈلیاں تنگی ہو رہی تھیں.اس بات کو دیکھ کر عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم ! غنیمت کا وقت ہے غنیمت کا وقت ہے.تمہارے ساتھی غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو؟ اس پر عبداللہ بن جبیر نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھول گئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! ہم بھی ساری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے.جب لشکر سے آ کر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھاگے.(اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت
سيرة النبي علي 92 جلد 1 نازل ہوئی ہے کہ یاد کرو جب رسول تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا ) اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا.اُس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا.ستر قتل ہوئے تھے اور ستر قید کیے گئے تھے.غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابوسفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد ہے؟ اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریم ﷺ نے لوگوں کو منع کر دیا کہ وہ جواب نہ دیں.اس کے بعد ابوسفیان نے تین دفعہ بآواز بلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کر کہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب ہے؟ پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں.اس بات کو سن کر حضرت عمر برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن ! تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب کے سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو نا پسند کرتا ہے ابھی باقی ہے.اس جواب کوسن کر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہو گیا.اور لڑائیوں کا حال ڈول کا سا ہوتا ہے.تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤ گے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے.میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا لیکن میں اس بات کو نا پسند بھی نہیں کرتا.پھر فخریہ یہ کلمات بآواز بلند کہنے لگا اُعْلُ هُبَل اُعْلُ هُبَل یعنی اے ہبل ! تیرا درجہ بلند ہو.اے ہبل ! تیرا درجہ بلند ہو.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا کہو کہ خدا تعالیٰ ہی سب سے بلند رتبہ اور سب سے زیادہ شان والا ہے.ابوسفیان نے یہ بات سن کر کہا ہمارا تو ایک بُت عُمر کی ہے اور تمہارا کوئی عربی نہیں.جب صحابہؓ خاموش رہے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض
سيرة النبي علي 93 جلد 1 کیا یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا انہیں کہو کہ خدا ہمارا دوست و کارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں.الله اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے باغیرت تھے.ابوسفیان اپنی جھوٹی فتح کے نشہ میں مخمور ہو کر زور سے پکارتا ہے کہ کیا آپ زندہ ہیں؟ لیکن آپ اپنی جماعت کو منع فرماتے ہیں کہ تم ان باتوں کا جواب ہی نہ دو اور خاموش رہو.ایک عام آدمی جو اپنے نفس پر ایسا قابو نہ رکھتا ہو ایسے موقع پر بولنے سے کبھی باز نہیں رہ سکتا اور لاکھ میں سے ایک آدمی بھی شاید مشکل سے ملے جو اپنے دشمن کی جھوٹی خوشی پر اس کی خوشی کو غارت کرنا پسند نہ کرے.لیکن چونکہ ابو سفیان اس دعوئی سے رسول کریم ﷺ کی ذات کی ہتک کرنا چاہتا تھا اور یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں نے ان کو قتل کر دیا ہے اس لیے رسول کریم ﷺ نے نہ صرف خود جواب نہ دیا بلکہ صحابہ کو بھی منع کر دیا.مگر جو نہی کہ ابوسفیان نے خدا تعالیٰ کی ذات پر حملہ کیا اور سر میدان شرک کا اعلان کیا اور بجائے خدا تعالیٰ کی عظمت بیان کرنے کے ہبل بت کی توصیف کی تو آپ برداشت نہ کر سکے اور صحابہ کو حکم دیا کہ اسے جواب دو کہ خدا کے سوا اور کوئی نہیں جو عظمت و جلال کا مالک ہو.پھر جب اس نے یہ ظاہر کیا کہ عزمی ہمارا مددگار ہے آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اسے کہہ دو کہ ہمارا خدا مددگار ہے اور ہم کسی اور کی مدد نہیں چاہتے اور یہ بات بھی خوب یاد رکھو کہ خدا ہماری مدد کرے گا اور تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا.اللہ اللہ اپنے نفس کے متعلق کیا صبر ہے اور خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی کیسی غیرت ہے.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.کعب بن مالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت دینی کے ظاہر کرنے کے لیے اگر چہ پچھلی مثال بالکل کافی تھی لیکن میں اس جگہ
سيرة النبي علي 94 جلد 1 ایک اور واقعہ بھی لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس سے خوب روشن ہو جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف دشمنوں کے مقابلہ میں غیرت دینی کا اظہار فرماتے تھے بلکہ دوستوں سے بھی اگر کوئی حرکت ایسی ہوتی جس سے احکام الہیہ کی ہتک ہوتی ہو تو آپ اس پر اظہارِ غیرت سے باز نہ رہتے اور اس خیال سے خاموش نہ رہتے کہ یہ ہمارے دوستوں کی غلطی ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے.حضرت کعب ابن مالک فرماتے ہیں لَمُ أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزُوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوْكَ غَيْرَ أَنِيْ كُنتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَلَمْ يُعَاتِبُ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهَا إِنَّمَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيْدُ عِيْرَ قُرَيْشٍ حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيْعَادٍ وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِيْنَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا كَانَ مِنْ خَبَرِى أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ حِيْنَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ وَاللهِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِي قَبْلَهُ رَاحِلَتَانِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ وَلَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيْدُ غَزْوَةً إِلَّا وَرَى بِغَيْرِهَا حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ غَزَاهَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِى حَرِّشَدِيْدِ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيْدًا وَمَفَازًا وَعَدُوًّا كَثِيرًا فَجَلَّى لِلْمُسْلِمِيْنَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوْا أُهْبَةَ غَرُوهِمُ فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِى يُرِيْدُ وَالْمُسْلِمُوْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابٌ حَافِظٌ يُرِيْدُ الدِيْوَانَ قَالَ كَعْبٌ فَمَا رَجُلٌ يُرِيْدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَن سَيَخْفى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلُ فِيْهِ وَحُى الله وَغَزَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِيْنَ طَابَتِ السَّمَارُ وَالظَّلَالُ وَتَجَهَّزَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُوْنَ مَعَهُ
سيرة النبي علي 95 جلد 1 من فَطَفِقْتُ أَغْدُوْ لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا فَأَقُولُ فِى نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اشْتَدَّ النَّاسَ الْجِدُّ فَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُوْنَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِى شَيْئًا فَقُلْتُ أَتَجَهَّرُ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ فَعَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُوْا لَّا تَجَهَّزَ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَلَمُ أَقْضِ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلُ بِي حَتَّى أَسْرَعُوْا وَتَفَارَطَ الْغَزْرُ وَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ وَلَيْسَى فَعَلْتُ فَلَمْ يُقَدَّرُ لِى ذَلِكَ فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطُفْتُ فِيْهِمْ أَحْزَنَنِي أَنِّي أَرَى إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوْصًا عَلَيْهِ النِّفَاقُ أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ الضُّعَفَاءِ وَلَمْ يَذْكُرُنِى رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ رُكَ فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِى الْقَوْمِ بِتَبُوكَ مَا فَعَلَ كَعَبٌ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ يَارَسُوْلَ اللهِ حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَنَظَرُهُ فِيْ عِطْفِهِ فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِئْسَ مَا قُلْتَ وَاللهِ يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا عَلِمُنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا فَسَكَتَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّهُ تَوَجَّهَ قَافَلا حَضَرَنِى هَمِّى فَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَاسْتَعَنْتُ عَلى ذلِكَ بِكُلِّ ذِي رَأْي مِنْ أَهْلِيْ فَلَمَّا قِيْلَ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَخْرُجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَيْءٍ فِيْهِ كَذِبٌ فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ وَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَيَرُكَعُ فِيْهِ رَكْعَتَيْن ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُوْنَ فَطَفِقُوْا يَعْتَذِرُوْنَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُوْنَ لَهُ وَكَانُوْا بِضْعَةً وَثَمَانِيْنَ رَجُلًا فَقَبلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ
سيرة النبي ع 90 96 جلد 1 وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمُ إِلَى اللَّهِ فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسَّمَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ تَعَالَ فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِى مَا خَلْفَكَ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعُتَ ظَهْرَكَ فَقُلْتُ بَلَى إِنِّي وَاللهِ يَا رَسُوْلَ اللهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَن سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرِ وَاللهِ لَقَدْ أُعْطِيْتُ جَدَلًا وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُتُ لَئِنُ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبِ تَرْضَى بِهِ عَنِيْ لَيُوْشِكَنَّ اللَّهُ يُسْخِطَكَ عَلَى وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيث صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيْهِ إِنِّيْ لا رُجُوْ فِيْهِ عَفْوَ اللَّهِ لَا وَاللهِ مَا كَانَ لِى مِنْ عُذْرِ وَاللَّهِ مَا كُنتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِيْنَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمُ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُوْنِيْ فَقَالُوْا لِي وَاللهِ مَا عَلِمُنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا وَلَقَدْ عَجَزُتَ أَنْ لَا تَكُوْنَ اعْتَذَرُتَ إِلَى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ إِلَيْهِ الْمُتَخَلِفُوْنَ قَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ فَوَاللَّهِ مَازَالُوْا يُؤَنِّبُوْنِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأَكَذِبَ نَفْسِي ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي أَحَدٌ قَالُوْا نَعَمُ رَجُلَان قَالَا مِثْلَ مَا قُلْتَ فَقِيْلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ فَقُلْتُ مَنْ هُمَا؟ قَالُوْا مُرَارَةُ بْنُ الرَّبيع الْعَمُرِيُّ وَهَلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ فَذَكَرُوْا لِيْ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيْهِمَا أُسْوَةٌ فَمَضَيْتُ حِيْنَ ذَكَرُوْهُمَا لِيْ وَنَهى رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِيْنَ عَنْ كَلامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْن مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَتَغَيَّرُوْا لَنَا حَتَّى تَنكَّرَتْ فِي نَفْسِي الْأَرْضُ فَمَا هِيَ الَّتِي أَعْرِفْ فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِيْنَ لَيْلَةً فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُؤْتِهِمَا يَبْكِيَانِ وَأَمَّا أَنَا
سيرة النبي علي 97 جلد 1 فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْم وَأَجْلَدَهُمْ فَكُنتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلَاةَ الْمُسْلِمِيْنَ وَأَطُوْفُ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ وَاتِي رَسُوْلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَأَقُولُ فِي نَفْسِيْ هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَةِ السَّلَامِ عَلَيَّ أَمْ لَا ثُمَّ أُصَلَّى قَرِيْبًا مِنْهُ فَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي أَقْبَلَ إِلَيَّ وَإِذَا الْتَفَتُ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَى ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرُتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِى قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَى السَّلَامَ فَقُلْتُ يَا أَبَا قَتَادَةَ أَنْشُدُكَ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُنِي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ؟ فَسَكَتَ فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدَتُهُ فَسَكَتَ فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدَتُهُ فَقَالَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي بِسُوْقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيْعُهُ بِالْمَدِينَةِ يَقُوْلُ مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْب بن مَالِكِ فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيْرُوْنَ لَهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ نِي دَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ فَإِذَا فِيْهِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِيْ أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلُكَ اللهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ فَالْحَقُّ بِنَا نُوَاسِكَ فَقُلْتُ لَمَّا قَرَأْتُهَا وَهذَا أَيْضًا مِنَ الْبَلَاءِ فَتَيَمَّمُتُ بِهَا التَّنُّوْرَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتُ أَرْبَعُوْنَ لَيْلَةً مِنَ الْخَمْسِيْنَ إِذَا رَسُوْلُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فَقَالَ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ فَقُلْتُ أُطَلِقُهَا أَمُ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ لَا بَلِ اعْتَزِلُهَا وَلَا تَقْرَبُهَا وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَى مِثْلَ ذَلِكَ فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي الْحَقِيْ بِأَهْلِكِ فَتَكُوْنِيْ عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللهُ فِى هَذَا الْأَمْرِ قَالَ كَعْبٌ فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هلالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ إِنَّ
سيرة النبي علي 98 جلد 1 هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ قَالَ لَا وَلكِنْ لَا يَقْرَبُكِ قَالَتْ إِنَّهُ وَاللهِ مَا بِهِ حَرَكَةً إِلَى شَيْءٍ وَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا فَقَالَ لِيْ بَعْضُ أَهْلِيْ لَوِ اسْتَأْذَنُتَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لا مُرَأَةِ هلال بن أُمَيَّةَ أَنْ تَخُدُمَهُ فَقُلْتُ وَاللهِ لَا أَسْتَأْذِنُ فِيْهَا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيْنِيْ مَا يَقُوْلُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيْهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌ فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالِ حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُوْنَ لَيْلَةً مِنْ حِيْنَ نَهى رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلامِنَا فَلَمَّا صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صُبُحَ خَمْسِيْنَ لَيْلَةً وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ قَدْ ضَاقَتُ عَلَى نَفْسِيْ وَضَاقَتْ عَلَى الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخ أَوْفَى عَلى جَبَلٍ سَلْعِ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبُ بُنَ مَالِكِ أَبْشِرُ قَالَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَقَدْ عَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاء فَرَجٌ وَاذَنَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللهِ عَلَيْنَا حِيْنَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُوْنَنَا وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَى مُبَشِّرُوْنَ وَرَكَضَ إِلَيَّ رَجُلٌ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ فَأَوْفَى عَلَى الْجَبَلِ وَكَانَ الصَّوتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ فَلَمَّا جَاءَ نِي الَّذِى سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُ إِيَّاهُمَا ببُشْرَاهُ وَاللهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا وَانْطَلَقْتُ إلى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوُجًا فَوْجًا يُهَسِّتُوْنَنِي بِالتَّوْبَةِ يَقُوْلُوْنَ لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ قَالَ كَعْبٌ حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ فَقَامَ إِلَى طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ يُهَرُولُ حَتَّى صَافَحَنِيْ وَهَنَّانِيْ
سيرة النبي علي 99 60 جلد 1 وَاللهِ مَا قَامَ إِلَى رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ غَيْرُهُ وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ قَالَ كَعْبٌ فَلَمَّا سَلَّمُتُ عَلَى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبْرُقْ وَجُهُهُ مِنَ السُّرُورِ أَبْشِرُ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ قَالَ قُلْتُ أَمِنْ عِندِكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ أَمُ مِنْ عِنْدِ اللهِ قَالَ لَا بَلْ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَكَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجُهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ 34 حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی لڑائی میں پیچھے نہیں رہا.سوائے غزوہ تبوک کے.ہاں جنگ بدر میں پیچھے رہا تھا اور اس کی یہ وجہ تھی کہ آنحضرت ﷺ قریش کے قافلہ کو مد نظر رکھ کر گئے تھے (کسی بڑی جنگ کی امید نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں سے بغیر قبل از وقت تعین وقت و مقام کرنے کے لڑوا دیا.ہاں میں لیلتہ عقبہ میں موجود تھا.جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا عہد کیا تھا اور مجھے جنگ بدر اُس رات سے بڑھ کر محبوب نہیں کہ میں لوگوں میں ذکر کروں کہ میں بھی جنگ بدر میں شریک تھا گو کہ عوام میں جنگ بدر لیلۃ عقبہ سے زیادہ ہی سمجھی جاتی ہے.خیر تبوک کے واقعہ کے وقت میرا یہ حال تھا کہ میں نسبتاً زیادہ مضبوط اور سامان والا تھا اور کسی جنگ کے وقت میرے پاس دوسواری کی اونٹنیاں اکٹھی نہیں ہوئیں مگر اُس وقت میرے پاس دو اونٹنیاں موجود تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب جنگ کو جاتے تو اپنی منزل مقصود کو ظاہر نہ کرتے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ گرمی سخت تھی اور سفر دور کا تھا اور راستہ میں غیر آباد جنگل تھے اور بہت سے دشمنوں سے پالا پڑنا تھا اس لیے آپ نے مسلمانوں کو خوب کھول کر بتا دیا تا کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہو جائیں اور وہ طرف بھی بتا دی جس طرف جانے کا ارادہ تھا.اُس وقت مسلمان بہت ہو چکے تھے اور اُن کا رجسٹر کوئی نہ تھا اس لیے جو لوگ اس لڑائی میں غیر حاضر رہنا صلى الله چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جب تک رسول کریم ﷺ کو وحی نہ ہو ان کا غیر حاضر رہنا مخفی ہی
سيرة النبي علي 100 جلد 1 رہے گا اور موسم کا یہ حال تھا کہ میوہ پک چکا تھا اور سایہ بھلا معلوم ہوتا تھا.غرض کہ رسول کریم ﷺ نے اور مسلمانوں نے جنگ کی تیاری شروع کی اور میں بھی ہر صبح جنگ کی تیاری کے مکمل کرنے کے لیے نکلتا تا میں بھی ان کے ساتھ تیار ہو جاؤں مگر صلى پھر کوٹ آتا اور کچھ کام نہ کرتا.اسی طرح دن گزرتے رہے اور لوگوں نے محنت سے سامان سفر تیار کر لیا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ اور مسلمان ایک صبح روانہ بھی ہو گئے اور ابھی میں نہ تیار تھا.پھر میں نے کہا کہ اب میں ایک دو دن میں تیاری کر کے آپ سے جا ملوں گا.ان کے جانے کے بعد دوسرے دن بھی میں گیا مگر بغیر تیاری کے واپس آ گیا اور اسی طرح تیسرے دن بھی میرا یہی حال رہا اور اُدھر لشکر جلدی جلدی آگے نکل گیا.میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ جاؤں اور اُن سے مل جاؤں اور کاش میں صلى ایسا ہی کرتا مگر مجھ سے ایسا نہ ہو سکا.پھر جب رسول کریم ﷺ کے جانے کے بعد میں باہر نکلتا اور لوگوں میں پھرتا تو مجھے یہ بات دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے یا تو وہ تھے جو منافق سمجھے جاتے تھے یا وہ ضعفاء جن کو خدا نے معذور رکھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک مجھے یاد نہیں کیا جب تک کہ تبوک نہ پہنچ گئے.وہاں آپ نے پوچھا کہ کعب بن مالک کہاں ہے؟ بنی سلمہ کے ایک آدمی (عبد اللہ بن انیس) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ اپنے حسن و جمال ( یا لباس کی خوبی) پر اترا کر رہ گیا (آپ کے ساتھ نہیں آیا ) یہ سن کر معاذ بن جبل نے کہا تو نے بری بات کہی.خدا کی قسم یا رسول اللہ ! ہم تو اس کو اچھا آدمی (سچا مسلمان ) سمجھتے ہیں.آنحضرت ﷺ خاموش ہو رہے.کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جب یہ خبر آئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے کوٹے آ رہے ہیں تو میرا غم تازہ ہو گیا.جھوٹے جھوٹے خیال دل میں آنے لگے ( یہ عذر کروں ، وہ عذر کروں) مجھ کو یہ فکر ہوئی کعب ! اب کل آپ کے غصے سے تو کیونکر بچے گا؟ میں نے اپنے عزیزوں میں سے جو جو عقل والے تھے اُن سے بھی مشورہ لیا.جب یہ خبر آئی کہ آپ مدینہ کے قریب آن پہنچے اُس وقت سارے جھوٹے
سيرة النبي ع 101 جلد 1 خیالات میرے دل سے مٹ گئے اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ جھوٹی باتیں بنا کر میں آپ کے غصے سے بچنے والا نہیں.اب میں نے یہ ٹھان لیا ( جو ہونا ہو وہ ہو ) میں تو سیچ سیچ کہہ دوں گا.خیر صبح کے وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے.آپ کی عادت تھی جب سفر سے تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جاتے وہاں ایک دوگانہ ادا فرماتے (آپ نے مسجد میں دو گانہ ادا فرمایا ) پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھے.اب جو جو (منافق) لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور لگے اپنے اپنے عذر بیان کرنے اور قسمیں کھانے.ایسے لوگ 80 سے کچھ اوپر تھے.آپ نے ظاہر میں اُن کا عذرمان لیا، اُن سے بیعت لی ، اُن کے واسطے دعا کی ، ان کے دلوں کے بھید کو خدا پر رکھا.کعب کہتے ہیں میں بھی آیا میں نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ مسکرائے.مگر جیسے غصے میں کوئی آدمی مسکراتا ہے.پھر فرمایا آؤ.میں گیا.آپ کے سامنے بیٹھ گیا.آپ نے پوچھا کعب! تو کیوں پیچھے رہ گیا ؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی.میں نے عرض کیا.بے شک اگر کسی دنیا دار شخص کے سامنے میں اس وقت بیٹھا ہوتا تو باتیں بنا کر اس کے غصے سے بچ جاتا.میں خوش تقریر بھی ہوں مگر خدا کی قسم ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپ کو خوش کرلوں تو کل اللہ تعالیٰ (اصل حقیقت کھول کر ) پھر آپ کو مجھ پر غصے کر دے گا (اس سے فائدہ ہی کیا ہے ) میں سچ ہی کیوں نہ بولوں.گو آپ اس وقت سچ بولنے کی وجہ سے مجھے پر غصہ کریں گے مگر آئندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی مجھ کو امید تو رہے گی.خدا کی قسم! ( میں سراسر قصور وار ہوں ) زور، طاقت، قوت ، دولت سب میں کوئی میرے برابر نہ تھا اور میں یہ سب چیزیں ہوتے ہوئے پیچھے رہ گیا.یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب نے سچ سچ کہہ دیا.کعب ! اب ایسا کر تو چلا جا، جب تک اللہ تعالیٰ تیرے بارہ میں کوئی حکم نہ اتارے.میں چلا.بنی سلمہ کے کچھ لوگ اٹھ کر میرے پیچھے ہوئے اور کہنے لگے خدا کی قسم! ہم کو تو معلوم نہیں کہ تو نے اس سے پہلے بھی کوئی قصور کیا ہو.تو نے اور لوگوں کی طرح جو پیچھے رہ
سيرة النبي علي 102 جلد 1 گئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بہانہ کیوں نہ کر دیا.اگر تُو بھی کوئی بہانہ کرتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تیرے قصور کے لیے کافی ہو جاتی.وہ برابر مجھ کو لعنت ملامت کرتے رہے.قسم خدا کی اُن کی باتوں سے پھر میرے دل میں آیا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس لوٹ کر چلوں اور اپنی اگلی بات ( گناہ کے اقرار ) کو جھٹلا کر کوئی بہانہ نکالوں.میں نے اُن سے پوچھا اچھا اور بھی کوئی ہے جس نے میری طرح قصور کا اقرار کیا ہو؟ انہوں نے کہا ہاں دو اور بھی ہیں.انہوں نے بھی تیری طرح گناہ کا اقرار کیا ہے.اُن سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے جو تجھ سے فرمایا ہے.میں نے پوچھا وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقعی.انہوں نے ایسے دو نیک شخصوں کا بیان کیا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو چکے تھے اور جن کے ساتھ رہنا مجھ کو اچھا معلوم.ہوا.خیر جب انہوں نے ان دو شخصوں کا نام بھی لیا ( تو مجھ کو تسلی ہوئی ) میں چل دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو منع کر دیا خاص کر ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے اور دوسرے لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے (جنہوں نے جھوٹے بہانے کیسے تھے ) اُن کے لیے یہ حکم نہیں دیا.اب لوگوں نے ہم سے پر ہیز شروع کیا ( کوئی بات تک نہ کرتا ) بالکل کورے ہو گئے (جیسے کوئی آشنائی ہی نہ تھی ) ایسے ہی پچاس راتیں (اسی پریشان حالی میں ) گزریں.میرے دونوں ساتھی ( مرارة اور ہلال) تو روتے پیٹتے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور میں جوان مضبوط آدمی تھا تو مصیبت پر صبر کر کے) باہر نکلتا.نماز کی جماعت میں شریک ہوتا.بازاروں میں گھومتا رہتا مگر کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آتا.آپ نماز پڑھ کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے.میں آپ کو سلام کرتا پھر مجھے شبہ رہتا آپ نے اپنے (مبارک) ہونٹ ہلا کر مجھ کو سلام کا جواب بھی دیا یا نہیں.پھر میں آپ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھتا رہتا اور دزدیدہ نظر سے آپ کو دیکھتا آپ کیا
سيرة النبي علي 103 جلد 1 کرتے ہیں.جب میں نماز میں ہوتا تو مجھ کو دیکھتے اور جب میں آپ کو دیکھتا تو آپ منہ پھیر لیتے.جب اسی طرح ایک مدت گزری اور لوگوں کی روگردانی دوبھر ہو گئی تو میں چلا اور ابو قتادہ اپنے چچا زاد بھائی کے باغ کی دیوار پر چڑھا.اُس سے مجھ کو بہت محبت تھی.میں نے اُس کو سلام کیا تو خدا کی قسم اُس نے سلام کا جواب تک نہ دیا.میں نے کہا ابو قتادہ ! تجھ کو خدا کی قسم تو مجھ کو اللہ اور اس کے رسول کا ہوا خواہ سمجھتا ہے (یا نہیں) جب بھی اُس نے جواب نہ دیا.میں نے پھر قسم دے کر دوبارہ یہی کہا لیکن جواب ندارد.پھر تیسری بار قسم دے کر یہی کہا تو اُس نے یہ کہا کہ اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں.بس اُس وقت تو (مجھ سے رہا نہ گیا ) میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور پیٹھ موڑ کر دیوار پر چڑھ کر وہاں سے چل دیا.میں ایک بار مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا اتنے میں ملک شام کا ایک (نصرانی ) کسان ملا جو مدینہ میں اناج بیچنے لایا تھا وہ کہہ رہا تھا لوگو ! کعب بن مالک کا بتلاؤ.لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا.اس نے غسان کے بادشاہ کا (جو نصرانی تھا) ایک خط مجھ کو دیا.مضمون یہ تھا مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے پیغمبر صاحب نے تم پر ستم کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسا ذلیل نہیں بنایا ہے نہ بیکار ( تم تو کام کے آدمی ہو ).تم ہم لوگوں سے آن کر مل جاؤ.ہم تمہاری خاطر مدارات بخوبی کریں گے.میں نے جب یہ خط پڑھا تو (اپنے دل میں کہنے لگا ) یہ ایک دوسری بلا ہوئی.میں نے وہ خط لے کر آگ کے تنور میں جھونک دیا.ابھی پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزری تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا ( خزیمہ بن ثابت ) میرے پاس آیا.کہنے لگا آنحضرت ﷺ کا یہ حکم ہے تم اپنی جورو ( عمیرہ بنت جبیر ) سے بھی الگ رہو.میں نے پوچھا کیا اس کو طلاق دے دوں یا کیسا کروں؟ اس نے کہا نہیں اس سے الگ رہو صحبت وغیرہ نہ کرو.میرے دونوں ساتھیوں کو بھی یہی حکم کیا.آخر میں نے اپنی جورو سے کہہ دیا نیک بخت! تُو اپنے کنبے والوں میں چلی جا.وہیں رہ جب تک اللہ میرا کچھ فیصلہ نہ کرے (وہ چلی
سيرة النبي علي 104 صلى الله جلد 1 گئی ).کعب نے کہا ہلال ابن امیہ کی جورو ( خولہ بنت عاصم ) آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! ہلال ابن امیہ ( میرا خاوند ) بوڑھا پھونس ہے.اگر میں اُس کا کام کرتی رہوں تو کیا آپ اس کو برا سمجھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ( کام کاج کرنے میں کوئی قباحت نہیں) پر وہ تجھ سے صحبت نہ کرے.اس نے کہا خدا کی قسم ! وہ تو کہیں چلتا پھرتا بھی نہیں ہے.جب سے یہ واقعہ ہوا ہے تب سے برابر رو دھو رہا ہے.آج تک وہ اسی حال میں ہے.کعب نے کہا مجھ سے بھی میرے بعض عزیزوں نے کہا تم بھی اگر اپنی جورو کے باب میں آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگو ( کہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے ) تو مناسب ہے جیسے آنحضرت ﷺ نے ہلال بن امیہ کی جورو کو خدمت کی اجازت دی ( تم کو بھی اجازت دیں گے ) کعب نے کہا میں تو خدا کی قسم کبھی اس باب میں آنحضرت ﷺ سے اجازت نہیں مانگنے کا.کیونکہ مجھ کو معلوم نہیں کہ آنحضرت عل کیا فرما ئیں اجازت دیں یا نہ دیں) میں جوان آدمی ہوں ہلال کی طرح ضعیف اور ناتواں نہیں ہوں) خیر اس کے بعد دس راتیں اور گزریں اب پچاس را تیں پوری ہو گئیں.اُس وقت سے جب سے آپ نے لوگوں کو ہم سے سلام کلام کی ممانعت فرما دی تھی پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا تو جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُم 35 میرا دل تنگ ہو رہا تھا اور زمین اتنی کشادہ ہونے پر بھی مجھ پر تنگ ہو گئی تھی.اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑ پر چڑھ کر پکار رہا تھا ( یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ) کعب بن مالک ! خوش ہو جا.یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھ کو یقین ہو گیا.اب میری مشکل صلى الله دور ہوئی اور آنحضرت ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد لوگوں کو خبر کر دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا قصور معاف کر دیا.اب لوگ خوشخبری دینے میرے پاس اور میرے دونوں ساتھیوں مرارہ اور بلال) کے پاس جانے لگے.ایک شخص (زبیر بن عوام ) گھوڑا کراتے
سيرة النبي علي 105 جلد 1 ہوئے میرے پاس آئے اور قبلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا پہاڑ پر چڑھ گیا ( حمزہ بن عمر و اسلمی ) اور پہاڑ پر کی آواز گھوڑے سے جلد مجھ کو پہنچ گئی.خیر جب یہ خوشخبری کی آواز مجھ کو پہنچی میں نے (خوشی میں آن کر) کیا کیا.دو کپڑے جو میرے پاس تھے وہ اتار کر اُس کو پہنا دیئے اُس وقت کپڑوں کی قسم سے میرے پاس یہی دو کپڑے تھے اور میں نے (ابو قتادہ سے ) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت ﷺ کے پاس چلا.رستے میں فوج در فوج لوگ مجھ سے ملتے جاتے تھے اور مجھ کو مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے اللہ کی معافی تم کو مبارک ہو.کعب کہتے ہیں جب میں مسجد میں پہنچا دیکھا تو آنحضرت علیے بیٹھے ہیں ، لوگ آپ کے گرد ہیں.طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ مجھ کو دیکھ کر دوڑ کر اٹھے اور مصافحہ کیا.مبارکباد دی.خدا کی قسم ! مہاجرین میں سے اور کسی نے اٹھ کر مجھ کو مبارکباد نہیں دی.میں طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ احسان کبھی بھولنے والا نہیں.کعب کہتے ہیں جب میں نے آنحضرت ﷺ کو سلام کیا میں نے دیکھا آپ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا.آپ نے فرمایا کعب! وہ دن تجھ کو مبارک ہو جو اُن سب دنوں سے بہتر ہے جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ معافی اللہ کی طرف سے ہوئی یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا نہیں اللہ کی طرف سے ہوئی (اس نے خود معافی کا حکم اتارا ) آنحضرت ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ کا علوم چہرہ چاند کی طرح روشن ہو جا تا ہم لوگ اس کو پہچان لیتے.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی فطرت کیسی پاک اور مطہر تھی اور کس طرح آپ ہر رنگ میں کامل ہی کامل تھے.بے شک بعض آدمی ہوتے ہیں جو غیرت دینی رکھتے ہیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض تو دشمنوں کے مقابلہ میں اظہارِ غیرت کر دیتے ہیں مگر دوستوں کے معاملہ میں اظہار غیرت نہیں کر سکتے.اور بعض دوستوں پر اظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دشمنوں کے سامنے دب جاتے ہیں.مگر رسول کریمی ایسے کامل انسان تھے کہ خواہ دین کی ہتک یا احکام الہیہ سے بے پروا ہی دوست سے ہو
سيرة النبي علي 106 جلد 1 یا دشمن سے برداشت نہ کر سکتے تھے اور فوراً اس کا ازالہ کرنا چاہتے.ادھر تو طبیعت کی نرمی کا یہ حال تھا کہ گالیوں پر گالیاں ملتی ہیں اور تکلیفیں دی جاتی ہیں مگر آپ پر واہ بھی نہیں کرتے اور اُدھر خدا کے معاملہ میں غیرت کا یہ حال تھا کہ جب ابوسفیان آپ کی ہتک کرتا رہا تو کچھ پرواہ نہ کی.مگر جب شرک کے کلمات منہ پر لایا تو فرمایا اسے جواب دو.یہ تو دشمن کا حال تھا.دوستوں کے معاملہ میں بھی ایسے ہی سخت تھے.منافق جنگ سے پیچھے رہ گئے تو کچھ پرواہ نہ کی.ایک مومن نے جو اس حکم الہی کے بجالانے میں سستی کی تو آپ نے کس قدر غیرت سے کام لیا اور باوجود اس کے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان ایام ناراضگی میں بھی کعب بن مالک کو کنکھیوں سے دیکھتے رہتے.اخلاص باللہ.قیام حدود آنحضرت ﷺ کی غیرت دینی جس وضاحت سے مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتی ہے اس پر کچھ اور زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں.اب میں آپ کے ایک اور خلق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا معاملہ خدا تعالیٰ سے کیسا پاک تھا اور کس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خیال رہتا تھا.انسان فطرتا کسی کی مصیبت کو دیکھ کر رحم کی طرف مائل ہو جاتا ہے.بہت سے لوگ جب کسی مجرم کو سزا ملتی دیکھتے ہیں تو باوجود اس علم کے کہ اُس سے سخت جرائم سرزد ہوئے ہیں اُن کے دل کو دکھ پہنچتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس شخص سے جرم تو ہو ہی گیا ہے اور یہ تائب بھی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو اچھا ہے.لیکن یہ ایک کمزوری ہے اور اگر اس جذبہ سے متاثر ہو کر مجرموں کو چھوڑ دیا جائے تو گناہ اور جرائم بہت ہی بڑھ جائیں.فطری رحم کے علاوہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم ہو تو لوگ عام طور پر نہیں پسند کرتے کہ اسے سزا ملے اور اس کی بڑائی سے متاثر ہو کر چاہتے ہیں کہ اسے کسی طرح
سيرة النبي ع 107 جلد 1 چھوڑ دیا جائے بلکہ بڑے دولتمند یا کوئی دنیاوی وجاہت رکھنے والے آدمی تو روپیہ اور اثر خرچ کر کے ایک ایسی جماعت اپنے ساتھ کر لیتے ہیں کہ جو مشکلات کے وقت ان کا ساتھ دیتی ہے اور باوجود قانون کی خلاف ورزی کے اپنے جتھے کی مدد سے اپنے جرائم کے اثر سے بچ جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ کی غیرت دینی ان قوموں میں جن کے اخلاق گر جاتے ہیں اور جن کے افراد میں طرح طرح کی بدیاں آجاتی ہیں ان میں خصوصاً یہ رواج عام ہو جاتا ہے کہ بڑے لوگ قانون کے خلاف عمل کر کے بھی بچ جاتے ہیں اور صرف غرباء ہی سزا پاتے ہیں.صلى الله رسول کریم ہے اس بات کے سخت مخالف تھے اور آپ کا جو معاملہ خدا کے ساتھ تھا اور جس طرح آپ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہتے تھے اس کے لحاظ سے آپ کبھی پسند نہ کرتے تھے کہ احکام شریعت سے امراء کو مستثنیٰ کر کے غرباء ہی کو اس کا مکلف سمجھا جائے بلکہ آپ با وجود ایک رحیم دل اور ہمدرد طبیعت رکھنے کے ہمیشہ احکامِ شریعت کے جاری کرنے میں محتاط رہتے اور مجرمین کو سزا سے بچنے نہ دیتے اور جس طرح آپ غرباء کو سزا دیتے امراء بھی اُسی طرح احکامِ شریعت کے ماتحت جکڑے جاتے اور اس معاملہ میں آپ بڑے غیور تھے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ بَنِي مَخْرُوْمٍ سَرَقَتْ فَقَالُوْا مَنْ يُكَلِّمُ فِيْهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَجْتَرِءُ أَحَدٌ أَنْ يُكَلِّمَهُ فَكَلَّمَهُ أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ كَانَ إِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الشَّرِيْفُ تَرَكُوْهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الضَّعِيْفُ قَطَعُوْهُ لَوْ كَانَتْ فَاطِمَةُ لَقَطَعْتُ يَدَهَا 36 بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اس پر لوگوں نے چاہا کہ کون ہے جو رسول کریم ﷺ سے اس عورت کے معاملہ میں سفارش کرے لیکن کسی نے اس کی جرات نہ کی ( کیونکہ رسول کریم می حدود کے قائم کرنے میں بڑے
سيرة النبي علي 108 جلد 1 سخت تھے ) آخر اسامہ بن زید نے رسول کریم مے سے ذکر کیا مگر آپ نے جواب دیا کہ بنی اسرائیل کی عادت تھی کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے مگر جب کوئی غریب چوری کرتا تو اس کا ہاتھ قطع کر دیتے.مگر میرا یہ حال ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کا خدا سے کیا تعلق تھا اور واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں خلیفہ تھے کیونکہ خلیفہ اُسی کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کو دنیا میں جاری کرے اور یہ رسول کریم ﷺ ہی تھے کہ جو بغیر کسی کے خوف ملامت کے حدود اللہ کا قیام کرتے اور کسی کی رعایت نہ کرتے.صلى الله بغیر اذنِ الہی کوئی کام نہ کرتے رسول کریم ہے کے جو تعلقات اللہ تعالیٰ سے تھے اور جس طرح آپ نے خدا سے معاملہ صاف رکھا ہوا تھا اُس پر یہ بات بھی روشنی ڈالتی ہے کہ آپ اپنے تمام کاموں میں پہلے یہ دیکھ لیتے کہ خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہ ہوتا آپ کسی کام کے کرنے پر دلیری نہ کرتے.چنانچہ مکہ سے باوجود ہزاروں قسم کی تکالیف کے آپ نے ہجرت نہیں کی.ہاں صحابہ کو حکم دے دیا کہ اگر وہ چاہیں تو ہجرت کر جائیں اور لوگوں کی شرارت کو دیکھ کر صحابہ کو ہجرت کرنی بھی پڑی اور بہت سے صحابہ حبشہ کو اور کچھ مدینہ کو ہجرت کر گئے اور صرف حضرت ابو بکر اور حضرت علی اور رسول کریم ﷺ یا اور چند صحابہ مکہ میں باقی رہ گئے.کفار مکہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسول کریم ﷺ سے فطرتاً زیادہ بغض و عداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی تھی.وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپ کو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی اس لیے یہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرت علہ کو زیادہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپ اپنے دعاوی سے باز آ جائیں لیکن باوجود ان مشکلات کے
سيرة النبي علي 109 جلد 1 آپ نے صحابہ کو تو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خود ان دکھوں اور تکلیفوں کے باوجود مکہ سے ہجرت نہ کی کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اذن نہ ہوا تھا.چنانچہ جب حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ میں ہجرت کر جاؤں؟ تو آپ نے جواب دیا عَلَی رِسُلِكَ فَإِنِّى أَرْجُو أَن يُؤْذَنَ لِی آپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے.اللہ اللہ کیا پاک انسان تھا.دکھ پر دکھ ، تکالیف پر تکالیف پہنچ رہی ہیں سب ساتھیوں کو حکم دے دیتا ہے کہ جاؤ جس جگہ امن ہو چلے جاؤ لیکن خود اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور با وجود مخالفت کے اس بات کا منتظر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم آئے تو میں اُس پر کار بند ہوں.کیا کسی انسان میں یہ ہمت ہے؟ کیا کوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف ایسا متوجہ ہو کہ ایسے خطر ناک مصائب کے اوقات میں بھی دشمنوں کی مخالفت کو برداشت کرتا جائے اور جب تک خدا کا حکم نہ ہو اپنی جگہ نہ چھوڑے؟ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دعوی ہی نہیں ہے بلکہ واقعہ میں آپ اُس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہوا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں فَبَيْنَمَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيْرَةِ قَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ هَذَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِّعًا فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِيْنَا فِيْهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فِدَى لَهُ أَبِيْ وَأُمِّيْ وَاللَّهِ مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرٌ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَدَخَلَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ أَخْرِجُ مَنْ عِندَكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَقَالَ أَبُو بَكْرِ الصَّحَابَةَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمُ 37 ہم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ عین دو پہر کے وقت رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور سر لپیٹا ہوا تھا.آپ اُس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے.حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فدا
سيرة النبي علي 110 جلد 1 ہوں آپ اس وقت کسی بڑے کام کے لیے آئے ہوں گے.عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جولوگ بیٹھے ہیں اُن کو اٹھا دو.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے قسم ہے کہ وہ آپ کے رشتہ دار ہیں.آپ نے فرمایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے بھی ساتھ ہی جانے کی اجازت دیجیے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت اچھا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اُس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہوا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرنا.کیسا ایمان کیسا یقین ، کیسا پاک تعلق ہے فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ - اخلاص باللہ.تو کل علی اللہ واقعہ ہجرت بھی ایک عجیب ہولناک واقعہ ہے.سارا عرب صلى الله واقعہ ہجرت مخالف اور خون کا پیاسا تھا مگر رسول کریم ﷺہ صرف ایک ساتھی لے کر مدینہ کی طرف چل پڑے.راستہ میں تمام وہ قومیں آباد تھیں جو مذہب کی مخالفت کی وجہ سے آپ کو مارنے کی فکر میں رہتی تھیں اور صرف قریش کے ڈر کے مارے خاموش تھیں لیکن اب وہ وقت آ گیا تھا جب قریش خود آپ کے قتل کے درپے تھے اور کل قبائل عرب کو تسلی تھی کہ اگر ہم نے اس شخص کو قتل کر دیا تو قریش کو ناراضگی کی کوئی وجہ نہ ہوگی اور صرف یہی نہیں کہ قریش کی مخالفت کا خوف نہ رہا تھا بلکہ قریش نے رسول کریم ﷺ کو مکہ سے غیر حاضر دیکھ کر آپ کے قتل پر انعام مقرر کر دیا تھا اور مدینہ کے راستہ میں جس قدر قبائل آباد تھے انہیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ جو شخص الله رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر کو زندہ یا مردہ لے آئے گا اُسے سوسو اونٹ فی کس
سيرة النبي علي 111 جلد 1 انعام ملے گا.عرب کے قبائل جن کی زندگی ہی لوٹ مار پر بسر ہوتی تھی اور جو آتش حسد سے پہلے ہی جل بھن کر کوئلہ ہو رہے تھے اس موقع کو کب ہاتھ سے جانے دے سکتے تھے ہر طرف آپ کی تلاش شروع ہوئی اور گویا ہر قدم پر جو آپ اٹھاتے خوف تھا کہ کسی خون کے پیاسے دشمن سے پالا پڑے گا.ایسے موقع پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان بھی دل ہار بیٹھتا ہے اور آخری جدو جہد سے بھی محروم ہو جاتا ہے.اور اگر نہایت دلیر اور خلاف معمول کوئی نہایت قوی دل انسان بھی ہو تو اُس پر بھی خوف ایسا مستولی ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر ایک حرکت سے اس کا اظہار ہوتا ہے.میں نے بڑے بڑے بہادروں کے واقعات پڑھے ہیں لیکن ایسے موقع پر اُن کی جو حالت ہوتی ہے اس کا رسول کریم ﷺ کے واقعہ سے مقابلہ بھی کرنا جائز نہیں ہوسکتا.تاریخ دان جانتے ہیں کہ بھاگتے ہوئے نپولین کا کیا حال تھا اور اس کے چہرہ پر حسرت کے کیسے بین آثار پائے جاتے تھے.وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمایوں کس طرح بار بار اپنے آپ کو دشمن کے ہاتھوں میں سپر د کر دینے کے لیے تیار ہو جاتا تھا اور اگر اُس کے ساتھ چند نہایت وفادار جرنیل نہ ہوتے تو وہ شاید ایسا کر بھی دیتا.اسی طرح اور بہت سے بڑے بہادر جرنیل گزرے ہیں جن پر مشکلات کے ایام آئے ہیں اور وہ ایسے اوقات میں جب دشمن اُن کے چاروں طرف اُن کی جستجو میں پھیل گیا گھبرا گئے ہیں لیکن رسول کریم ہے ان دنیا وی لوگوں میں سے نہ تھے.آپ کی نظریں دنیا کی طرف نہیں لگی ہوئی تھیں بلکہ آپ کی آنکھ خدا کی طرف اٹھی ہوئی تھی.دنیا کے اسباب آپ کے مدنظر نہ تھے اور آپ یہ خیال نہ کرتے تھے کہ ایسے وقت میں میں تن تنہا صرف ایک ساتھی کے ساتھ کیا کر سکتا ہوں اور ایسے خطرناک راستہ میں اگر دشمن آ جائے تو اس کے مقابلہ کے لیے میرے پاس کیا سامان ہیں بلکہ آپ یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے ساتھ وہ خدا ہے جو ہمیشہ سے اپنے نیک بندوں کا محافظ چلا آیا ہے اور جس کے وار کا کوئی دشمن مقابلہ نہیں کر سکتا.وہ خدا جو نوح کا خدا، ابراہیم کا خدا، صلى الله
سيرة النبي علي 112 جلد 1 موسی کا خدا، یونس کا خدا، ایوب کا خدا، داؤڈ کا خدا، سلیمان کا خدا، مسیح کا خدا تھا وہی میرا خدا ہے.اُس کی طاقتیں کبھی زائل نہیں ہوتیں اور وہ ایک دم کے لیے غافل نہیں ہے.سراقہ بن مالک بن جعشم لالچ اور دشمنی سے دیوانہ ہو کر آتا ہے اور دور سے دیکھ کر آپ کی طرف گھوڑا دوڑا دیتا ہے اس کے دل میں امید دریا کی طرح لہریں مارتی ہے.وہ نہ صرف اپنے مذہب کی توہین کرنے والے کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر اپنے سوختہ دل کو تسکین دینا چاہتا ہے بلکہ دوسو اونٹ کا انعام، جو اسے اپنی قوم میں ایک بہت بڑا رتبہ دینے کے لیے کافی تھے اس کی ہمت کو اور بھی بلند کر دیتا ہے.جس طرح شکاری اپنے شکار کو دیکھ کر لپکتا ہے اُسی طرح وہ رسول کریم علے کو دیکھ کر آپ کی طرف لپکتا ہے اور تیر کمان ہاتھ میں لے کر چاہتا ہے کہ آپ پر وار کرے.وہ اکیلا نہیں بلکہ ایک نعرہ مار کر وہ اپنے اردگرد ہزاروں آدمیوں کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ رسول کریم ہے اس وقت اُسی کے علاقہ سے گزر رہے ہیں لیکن آپ اُس وقت کیا کرتے ہیں، کیا بھاگ جاتے ہیں، کیا ڈر کر اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں ، کیا آپ کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں ، کیا ان کے حواس بیکار ہو جاتے ہیں، کیا اسے قتل کر کے راہِ فرار اختیار کرنے کا ارادہ کرتے ہیں؟ نہیں! وہ خدا پر توکل کرنے والا انسان ان میں سے ایک بات بھی نہیں کرتا اور سراقہ کی اتنی پر واہ بھی نہیں کرتا جتنی ایک بیل کی کی جاتی ہے.حضرت ابوبکر با وجود اُس جرات اور بہادری کے، با وجود اُس ایمان اور یقین کے، باوجود اُس تو کل اور بھروسہ کے جو آپ میں پایا جاتا تھا مڑ مڑ کر دیکھتے جاتے ہیں کہ سراقہ اب ہمارے کس قدر نزدیک آ گیا ہے لیکن رسول کریم ﷺ اس کی پر واہ بھی نہیں کرتے اور گھبرانا اور دوڑنا تو الگ،خوف و ہراس کا اظہار تو جدا ، آپ نے ایک دفعہ منہ پھیر کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا جس نے سراقہ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں کہ میں کس انسان کا پیچھا کر رہا ہوں اور وہ مدت العمر اس نظارہ کو اپنے حافظہ سے نہیں مٹا سکا بلکہ اس خلاف معمول
سيرة النبي علي 113 جلد 1 واقعہ نے اُس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ ہمیشہ اسے بیان کرتا تھا اور کہتا تھا کہ سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ لَا يَلْتَفِتُ وَأَبُو بَكْرٍ يُكْثِرُ الالتفات 38 یعنی میں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم ﷺ کے اس قدر نزدیک ہو گیا کہ میں رسول کریم ﷺ کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺے دائیں بائیں بالکل نہیں دیکھتے ہاں حضرت ابو بکر بار بار دیکھتے صلى الله جاتے تھے.اللہ اللہ ! خدا تعالیٰ پر کیسا بھروسہ ہے.دشمن گھوڑا دوڑا تا ہوا اس قدر نزدیک آ گیا ہے کہ آپ کی آواز اُس تک پہنچ سکتی ہے اور آپ تیر کی زد میں آگئے ہیں مگر آپ ہیں کہ گھبراہٹ کا محسوس کرنا تو الگ رہا قرآن شریف پڑھتے جاتے ہیں.اُدھر حضرت ابوبکر بار بار دیکھتے جاتے ہیں کہ اب دشمن کس قدر نز دیک پہنچ گیا ہے.کیا اس بھروسہ اور توکل کی کوئی اور نظیر بھی مل سکتی ہے؟ کیا کوئی انسان ہے جس نے اس خطرناک وقت میں ایسی بے تو جہی اور لا پرواہی کا اظہار کیا ہو؟ اگر آپ کو دنیاوی اسباب کے استعمال کا خیال بھی ہوتا تو کم سے کم اتنا ضرور ہونا چاہیے تھا کہ آپ اُس وقت یا تو سراقہ پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے یا وہاں سے تیز نکل جانے کی کوشش کرتے لیکن آپ نے ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں اختیار کی.نہ تو آپ تیز قدم ہوئے اور نہ ہی آپ نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح سراقہ کو مار دیں.بلکہ نہایت اطمینان کے ساتھ بغیر اظہارِ خوف و ہراس اپنی پہلی رفتار پر قرآن شریف پڑھتے ہوئے چلے گئے.وہ کونسی چیز تھی جس نے اُس وقت آپ کے دل کو ایسا مضبوط کر دیا ؟ کونسی طاقت تھی جس نے آپ کے حوصلہ کو ایسا بلند کر دیا ؟ کونسی روح تھی جس نے آپ کے اندر اس قسم کی غیر معمولی زندگی پیدا کر دی؟ یہ خدا پر توکل کے کرشمے تھے.اس پر بھروسہ کے نتائج تھے.آپ جانتے تھے کہ ظاہری اسباب میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.دنیا کی طاقتیں مجھے ہلاک نہیں کر سکتیں کیونکہ آسمان پر ایک خدا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے جو
سيرة النبي علي 114 جلد 1 ان سب اسباب کا پیدا کرنے والا ہے.پس خالقِ اسباب کے خلاف اسباب کچھ نہیں کر سکتے.یہ تو کل آپ کا ضائع نہیں گیا بلکہ خدا نے اسے پورا کیا اور سراقہ جو دوسو اونٹ کے لالچ میں آیا تھا آپ سے معافی مانگ کر واپس چلا گیا اور خدا نے اُس کے دل پر ایسا رعب ڈالا کہ اُس نے اپنی سلامتی اس میں سمجھی کہ خاموشی سے واپس چلا جائے بلکہ اس نے اور تعاقب کرنے والوں کو بھی واپس کو ٹا دیا.صلى الله غار ثور کا واقعہ جب رسول کریم ﷺ کو کم ہوا کہ آپ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کو جائیں تو آپ اور حضرت ابوبکر ایک رات کو مکہ سے نکل کر جبل ثور کی طرف چلے گئے.یہ پہاڑ مکہ سے کوئی چھ سات میل پر واقع ہے.اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار ہے جس میں دو تین آدمی اچھی طرح آرام کر سکتے ہیں اور بیٹھ تو اس سے زیادہ سکتے ہیں.جب کفار نے دیکھا کہ آپ اپنے گھر میں موجود نہیں ہیں، باوجود پہرہ کے خدا کے فضل سے دشمنوں کے شر سے صحیح و سالم نکل گئے ہیں اور دشمن با وجود کمال ہوشیاری اور احتیاط کے خائب و خاسر ہو گئے تو انہوں نے کوشش کی کہ تعاقب کر کے آپ کو گرفتار کر لیں اور اپنے غضب کی آگ آپ پر برسائیں اور فوراً ادھر اُدھر آدمی دوڑائے.کچھ آدمی اپنے ساتھ ایک کھوجی لے کر چلے جس نے آپ کے قدموں کے نشانات کو معلوم کر کے جبل ثور کی طرف کا رخ کیا.جب جبل ثور پر پہنچے تو اس نے بڑے زور سے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ لوگ اس جگہ سے آگے نہیں گئے بلکہ پہاڑ ہی پر موجود ہیں.کھوجی عام طور سے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں اور گورنمنٹ کے محکمہ پولیس والے بھی ان سے بہت کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ طریق انسان کے دریافت کرنے کا ایک بہت پرانا طریق ہے خصوصاً ان ممالک میں جہاں جرائم کی کثرت ہو.اس طریق سے بہت کچھ کام لینا پڑتا ہے اس لیے غیر مہذب ممالک میں اور ایسے ممالک میں کہ جہاں کوئی باقاعدہ حکومت نہ ہو اس فن کی بڑی قدر و قیمت ہوتی
سيرة النبي علي 115 جلد 1 ہے اور جہاں زیادہ ضرورت ہو وہاں اس فن کی ترقی بھی ہو جاتی ہے اس لیے عرب اور اس قسم کے دیگر ممالک میں جہاں رسول کریم ﷺ فِدَاهُ أَبِي وَ أُمِّي ) سے پہلے کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی اور جرائم کی کثرت تھی یہ پیشہ بڑے زوروں پر تھا.نہایت قابل وثوق سمجھا جاتا تھا.پس کھوجی کا یہ کہہ دینا کہ آپ ضرور یہاں تک آئے ہیں ایک بہت بڑا ثبوت تھا اور ایسی حالت میں غار کے اندر بیٹھے ہوؤں کا جو حال ہونا چاہیے وہ سمجھ میں آ سکتا ہے.وہ کیسا وقت ہو گا جب رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر دونوں بغیر سلاح و ہتھیار کے غار ثور کے اندر بیٹھے ہوں گے اور دشمن سر پر کھڑا باتیں بنا رہا ہو گا.غار ثور کوئی چھوٹی سی غار نہیں جس کا منہ ایسا تنگ ہو کہ جس میں انسان کا گھسنا مشکل سمجھا جائے یا جس کے اندر جھانکنا مشکل ہو بلکہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانکنے سے آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کوئی اندر بیٹھا ہے یا نہیں.پس ایسی حالت میں دنیاوی اسباب کے لحاظ سے مشرکین مکہ کے لیے یہ بات بالکل قرین قیاس بلکہ ضروری تھی کہ وہ کھوجی کے کہنے کے مطابق ذرا آنکھیں جھکا کر دیکھ لیتے کہ آیا رسول کریم ﷺ غار میں تو نہیں بیٹھے.اور یہ کوئی ایسا عظیم الشان کام نہ تھا کہ جسے وہ لا پرواہی سے چھوڑ دیتے کہ ایسے ضعیف خیال کی بنا پر اتنی محنت کون برداشت کرے.پس ایسے انسانوں کا جو ایسے خطرہ کی حالت میں اس غار میں بیٹھے ہوئے ہوں گھبرانا اور خوف کرنا بالکل فطرت کے مطابق ہوتا اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بہادر سے بہادر انسان بھی اُس وقت خوف نہ کرتا.لیکن اگر کوئی ایسا جری انسان ہو بھی جو ایسے وقت میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرے اور بے خوف بیٹھا رہے اور سمجھ لے کہ اگر دشمن نے پکڑ بھی لیا تو کیا ہوا آخر ایک دن مرنا ہے تو بھی یہ امر بالکل فطرت انسانی کے مطابق ہوگا کہ ایسا آدمی جو ایسے مقام پر ہو کم سے کم یہ یقین کر لے کہ یہ لوگ ہمیں دیکھ ضرور لیں گے کیونکہ عین سرے پر پہنچ کر اور ایسی یقینی شہادت کے باوجود غار میں نظر بھی نہ ڈالنا بالکل اسباب کے
سيرة النبي علي خلاف ہے.116 جلد 1 مگر ہمارا رسول فِدَاهُ اَبِيْ وَأُمِّی کیا کرتا ہے؟ حضرت ابو بکر فرماتے ہیں كُنتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ فَإِذَا أَنَا بِأَقْدَامِ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللهِ لَوْ أَنَّ بَعْضَهُمْ طَأْطَأَ بَصَرَهُ رَانَا قَالَ أُسْكُتُ يَا أَبَا بَكْرِ اثْنَانِ اللَّهُ ثَالِتُهُمَا 39 میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ غار میں تھا میں نے اپنا سر اٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے.اس پر میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر کوئی نظر نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا چُپ اے ابی بکر ! ہم دو ہیں ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے.(پھر وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں) اللہ اللہ ! کیا تو کل ہے.دشمن سر پر کھڑا ہے اور اتنا نز دیک ہے کہ ذرا آنکھ نیچی کرے اور دیکھ لے لیکن آپ کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہے کہ باوجود سب اسباب مخالف کے جمع ہو جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے.خدا تو ہمارے ساتھ ہے پھر وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں؟ کیا کسی ماں نے ایسا بچہ جنا ہے جو اس یقین اور ایمان کو لے کر دنیا میں آیا ہو؟ یہ جرات و بہادری کا سوال نہیں بلکہ تو کل کا سوال ہے ،خدا پر بھروسہ کا سوال ہے.اگر جرات ہی ہوتی تو آپ یہ جواب دیتے کہ خیر پکڑ لیں گے تو کیا ہوا ہم موت سے نہیں ڈرتے مگر آپ کوئی معمولی جرنیل یا میدانِ جنگ کے بہادر سپاہی نہ تھے آپ خدا کے رسول تھے اس لیے آپ نے نہ صرف خوف کا اظہار نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر کو بتایا کہ دیکھنے کا تو سوال ہی نہیں ہے خدا ہمارے ساتھ ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم اپنے گھروں سے نکلے ہیں پھر ان کو طاقت ہی کہاں مل سکتی ہے کہ یہ آنکھ نیچی کر کے ہمیں دیکھیں.یہ وہ تو کل ہے جو ایک جھوٹے انسان میں نہیں ہوسکتا، جو ایک پر فریب دل میں
سيرة النبي علي 117 جلد 1 نہیں ٹھہر سکتا.شاید کوئی مجنون ایسا کر سکے کہ ایسے خطرناک موقع پر بے پرواہ رہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ مجنون فقدانِ حواس کی وجہ سے ایسا کہہ تو لے لیکن وہ کون ہے جو اس کے مجنونانہ خیالات کے مطابق اس کے متعاقبین کی آنکھوں کو اس سے پھیر دے اور متعاقب سر پر پہنچ کر پھر اس کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں.پس رسول کریم ﷺ کا تو کل ایک رسولا نہ تو کل تھا اور جسے خدا تعالیٰ نے اسی رنگ میں پورا کر دیا.آپ نے خدا تعالیٰ پر یقین کر کے کہا کہ میرا خدا ایسے وقت میں مجھے ضائع نہیں کرے گا اور خدا نے آپ کے تو کل کو پورا کیا اور آپ کو دشمن کے قبضہ میں جانے سے بچا لیا اور اسے اس طرح اندھا کر دیا کہ وہ آپ کے قریب پہنچ کر خائب و خاسر لوٹ گیا.یہ وہ تو کل ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.حضرت موسی سے بھی ایک موقع پر اس قسم کے توکل کی نظیر ملتی ہے لیکن وہ مثال اس سے بہت ہی ادنی ہے کیونکہ حضرت موسی کے ساتھیوں نے فرعونیوں کو دیکھ کر کہا کہ اِنَّا لَمُدْرَكُونَ ہم ضرور گرفتار ہو جائیں گے.اس پر حضرت موسی نے جواب میں کہا اِنَّ مَعِيَ رَبِّ سَيَهْدِينِ 40 لیکن رسول کریم ﷺ کا تو کل ایسا کامل تھا کہ اس نے آپ کے ساتھی پر بھی اثر ڈالا اور حضرت ابوبکر نے موسائیوں کی طرح گھبرا کر یہ نہیں کہا کہ ہم ضرور پکڑے جائیں گے بلکہ یہ کہا کہ اگر وہ نیچی نظر کریں تو دیکھ لیں.اور یہ ایمان اُس پر تو کا نتیجہ تھا جو نور نبوت اُس وقت آپ کے دل پر ڈال رہا تھا.دوسرے حضرت موسیٰ کے ساتھ فوج تھی اور ان کے آگے بھاگنے کی جگہ ضرور موجود تھی لیکن رسول کریم ﷺ کے ساتھ نہ کوئی جماعت تھی اور نہ آپ کے سامنے کوئی اور راستہ تھا.اسی طرح اور بھی بہت سے فرق ہیں جو طوالت کی وجہ سے میں اس جگہ بیان نہیں کرتا.الله آپ کی ایک دعا رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ پر ایسا تو کل تھا کہ ہر مصیبت اور مشکل کے وقت اُسی پر نظر رکھتے اور اُس کے سوا ہر شے
سيرة النبي علي 118 جلد 1 سے توجہ ہٹا لیتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ آجکل کے صوفیاء کی طرح اسباب کے تارک نہ تھے کیونکہ اسباب کا ترک گویا خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہتک کرنا اور اس کی پیدائش کو لغو قرار دینا ہے.لیکن اسباب کے مہیا کرنے کے بعد آپ بکلی خدا تعالیٰ پر تو کل کرتے اور گو اسباب مہیا کرتے لیکن اُن پر بھروسہ اور تو کل کبھی نہ کرتے تھے اور صرف خدا ہی کے فضل کے امیدوار رہتے اور صرف اُسی کے فضل کے امیدوار رہتے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آپ ہر ایک گھبراہٹ کے وقت فرماتے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيم 41 کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے.وہ رب ہے بڑے تخت حکومت کا.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ آسمانوں کا رب ہے.وہ زمین کا رب ہے.وہ بزرگ تخت کا رب ہے.( یعنی میرا بھروسہ اور تو کل تو اُسی پر ہے) اپنی اولا د کو صدقہ سے محروم کر دیا اسلام کے عظیم الشان احکام میں سے زکوۃ اور صدقہ کے احکام ہیں.ہر مسلمان پر جس کے پاس چالیس سے زائد روپے ہوں اور اُن پر سال گزر جائے فرض ہے کہ ان میں سے چالیسواں حصہ وہ خدا کی راہ میں دے دے.یہ مال محتاجوں اور غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو کسی سبب سے اپنی حوائج کو پورا کرنے سے قاصر ہوں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا ابناء السبیل کو مدد دی جاتی ہے.اس کے محصلوں کی تنخواہ بھی اسی میں سے ہی نکلتی ہے.غرض کہ محتاجوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شریعت اسلام نے یہ قاعدہ جاری کیا ہے اور اس میں بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد مد نظر ہیں لیکن اس کا ذکر بے موقع ہے.زکوۃ کے علاوہ جو ایک وقت مقررہ پر سرکار کے خزانہ میں داخل ہو کر غرباء میں تقسیم کیے جانے کا حکم ہے صدقہ کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہر ایک ذی استطاعت کو مناسب ہے کہ وہ اپنے طور پر اپنے
سيرة النبي ع 119 جلد 1 غریب بھائیوں کی دستگیری کرے اور حتی الوسع ان کی امداد میں دریغ نہ کرے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اور بعد میں بھی جب تک اسلامی حکومت رہی چونکہ الله زکوۃ با قاعدہ وصول کی جاتی تھی اس لیے ایک کثیر رقم جمع ہو جاتی تھی اور خزانہ شاہی کی ایک بہت بڑی مدتھی اور اگر رسول کریم ﷺ چاہتے تو اپنی اولاد کے غرباء کا اس رقم میں سے ایک خاص حصہ مقرر کر سکتے تھے جس کی وجہ سے سادات ہمیشہ غربت سے بچ جاتے اور افلاس کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتے لیکن رسول کریم ﷺ کے سینہ میں وہ دل تھا جو تو کل علی اللہ سے پُر تھا اور آپ کی توجہ غیر اللہ کی طرف پھرتی ہی نہ تھی.اس قدر رقم کثیر خزانہ میں آتی تھی اور تھی بھی غرباء کے لیے.کسی کا حق نہ تھا کہ اس کی تقسیم ظلم سمجھی جاتی.ایسی حالت میں اگر آپ اپنی اولاد کے لیے بصورت غربت ایک حصہ مقرر کر جاتے تو یہ بات نہ لوگوں کے لیے قابلِ اعتراض ہوتی اور نہ کسی پر ظلم ہوتا.لیکن وہ باغیرت دل جو آپ کے سینہ میں تھا اور وہ متوکل قلب جو آپ رکھتے تھے کب برداشت کر سکتا تھا کہ آپ صدقہ و زکوۃ پر اپنی اولاد کے لیے صورت گزارہ مقرر کرتے.پھر آپ کو تو یقین تھا کہ خدا تعالیٰ ان کا متکفل ہو گا اور خود ان کی مدد کرے گا.آپ کے دل میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ان کے لیے کسی سامان کے مہیا کرنے کی مجھے ضرورت ہے اس لیے آپ نے اپنی اولاد کے لیے اس رقم میں سے کوئی حصہ ہی مقرر نہ کیا.اللہ اللہ ! ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت ہوتی ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنی اولا د اور رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان کر جائیں لیکن آپ نے نہ صرف خود ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اپنی اولاد کے لیے زکوۃ میں سے کوئی حصہ نہ مقرر کیا بلکہ ان کو بھی خدا پر توکل کرنے کا سبق سکھایا اور انہیں حکم دے دیا کہ تمہارے لیے اس مال سے فائدہ اٹھانا ہی ناجائز ہے.زکوۃ کے علاوہ جو لوگ اپنے پاس سے صدقات دیتے ہیں ممکن تھا کہ سادات کو
سيرة النبي علي 120 جلد 1 وہ اس میں شریک کر لیتے لیکن رسول کریم ﷺ نے اپنی اولاد کو ایسا تو کل کا سبق دینا چاہا کہ اسے صدقات سے بھی محروم کر دیا اور زکوۃ وصدقہ دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ میری اولا د اور اولاد کی اولاد کے لیے زکوۃ وصدقہ کا لینا نا جائز ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالتَّمْرِ عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ فَيَجِيءُ هذَا بِتَمُرِهِ وَهَذَا مِنْ تَمُرِهِ حَتَّى يَصِيْرَ عِنْدَهُ كَوْمًا مِنْ تَمْرٍ فَجَعَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَلْعَبَان بذلِكَ التَّمْرِ فَأَخَذَ أَحَدُهُمَا تَمْرَةً فَجَعَلَهَا فِي فِيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجَهَا مِنْ فِيْهِ فَقَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْكُلُوْنَ الصَّدَقَةَ 42 کھجور کے کٹنے کے وقت رسول کریم ﷺ کے پاس کھجور میں لائی جاتی تھیں.ہر ایک اپنی اپنی کھجوریں صلى الله لاتا تھا اور رسول کریم ﷺ کے آگے رکھ دیتا یہاں تک کہ آپ کے پاس ایک ڈھیر ہو جاتا.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حسن اور حسین رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا اُن کھجوروں سے کھیلنے لگے اور ان میں سے ایک نے ایک کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی.پس اُن کی طرف رسول کریم ﷺ نے دیکھا اور کھجور ان کے منہ سے نکال دی اور فرمایا کہ تجھے علم نہیں کہ آل محمد مصدقہ نہیں کھایا کرتے.اللہ اللہ ! کیسی احتیاط ہے.کیا ہی تو کل ہے.ایک کھجور بچے نے منہ میں ڈال لی تو اس میں حرج نہ تھا.لیکن آپ کا تو کل ایسا نہ تھا جیسا کہ عام لوگوں کا ہوتا ہے.آپ چاہتے تھے کہ بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں وہ ایمان اور توکل پیدا کر دیں کہ بڑے ہو کر وہ کبھی صدقات کی طرف توجہ نہ کریں اور خدا کی ہی ذات پر بھروسہ رکھیں.صلى الله رسول کریم ع کی جائیداد نہ صرف یہ کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی اولا د کو صدقہ سے محروم کر دیا بلکہ خود بھی
سيرة النبي علي 121 جلد 1 کوئی ایسی جائیداد نہیں چھوڑی جس سے آپ کے بعد آپ کی بیویوں اور اولاد کی پرورش اور گزارہ کا انتظام ہو سکتا.ممکن تھا کہ یہ خیال کر لیا جاتا کہ گو آپ نے اپنی آل کے لیے ہمیشہ کے لیے کوئی سامان نہیں مہیا کیا لیکن اپنے موجودہ رشتہ داروں کے لیے کوئی سامان کر دیا.لیکن یہ بھی نہیں ہوا.اور جس وقت فوت ہوئے ہیں اُس وقت آپ کے گھر میں کوئی روپیہ نہیں تھا.عمرو بن حرث فرماتے ہیں مَا تَرَكَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرُهَمًا وَلَا دِيْنَارًا وَلَا عَبْدًا وَلَا أَمَةً وَلَا شَيْئًا إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ وَسَلَاحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً 43 رسول كريم علي نے اپنی وفات کے وقت کچھ نہیں چھوڑا.نہ کوئی درہم ، نہ دینار ، نہ غلام ، نہ لونڈی اور نہ کچھ اور چیز سوائے اپنی سفید خچر اور اپنے ہتھیاروں کے اور ایک زمین کے جسے آپ صدقہ میں دے چکے تھے.یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کی حیثیت ایک بادشاہ کی تھی اور آپ چاہتے تو اپنے رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان کر سکتے تھے اور کم سے کم اس قدر روپیہ چھوڑ جانا تو آپ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ جس سے آپ کی بیویوں اور اولاد کا گزارہ ہو سکے.آپ کے پاس صرف خزانہ کا روپیہ ہی نہ رہتا تھا کہ جس کا اپنی ذات پر خرچ کرنا آپ گناہ تصور فرماتے تھے اور اس کا ایک جبہ بھی آپ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ خود آپ کی ذات کے لیے بھی آپ کے پاس بہت مال آتا تھا اور صحابہؓ اُس اخلاص اور عشق کے سبب جو انہیں آپ سے تھا بہت سے تحائف پیش کرتے رہتے تھے اور اگر آپ اس خیال سے کہ میرے بعد میرے رشتہ دار کس طرح گزارہ کریں گے ایک رقم جمع کر جاتے تو کر سکتے تھے لیکن آپ کے وسیع دل میں جو خدا تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کا جلوہ گاہ تھا ، جو یقین و معرفت کا خزانہ تھا یہ دنیاوی خیال سما بھی نہیں سکتا تھا.جو کچھ آتا آپ اسے غرباء میں تقسیم کر دیتے اور اپنے گھر میں کچھ بھی نہ رکھتے حتی کہ آپ کی وفات نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کا بندہ جو دنیا سے نہیں بلکہ خدا
سيرة النبي علي 122 جلد 1 سے تعلق رکھتا تھا دنیاوی آلائشوں سے پاک اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا گیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيدٌ.رسول کریم ﷺ کی نہایت پیاری بیٹی موجود تھیں اور اُن کی آگے اولاد تھی اور اولاد کی اولاد اپنی ہی اولاد ہوتی ہے مگر آپ نے نہ کوئی مال اپنی بیویوں کے لیے چھوڑا اور نہ اولاد کے لیے.ہاں بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ ہماری بیویاں اور اولا د خود دولتمند ہیں ہمیں ان کے گزارہ کی کچھ فکر نہیں.مگر یہاں یہ معاملہ بھی نہ تھا.آپ کی بیویوں کی کوئی ایسی جائیداد الگ موجود نہ تھی کہ جس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں.نہ ہی آپ کی اولا د آسودہ حال تھی کہ جس سے آپ بے فکر ہوں.ان کے پاس کوئی جائیداد، کوئی روپیہ، کوئی مال نہ تھا کہ جس پر دنیا سے بے فکر ہو جائیں ایسی صورت میں اگر آپ ان لوگوں کے لیے خود کوئی اندوختہ چھوڑ جاتے تو کسی شریعت، کسی قانونِ انسانیت کے خلاف نہ ہوتا اور دنیا میں کسی انسان کا حق نہ ہوتا کہ وہ آپ کے اس فعل پر اعتراض کرتا.لیکن آپ اُن جذبات اور خیالات کے ماتحت کام نہیں کرتے تھے جو ایک معمولی آدمی کے دل میں موجزن ہوتے ہیں.آپ کے محسوسات اور محرکات ہی اور تھے.آپ نے خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اور اس کے فضلوں کی وسعت کو جانتے تھے.آپ کو یقین تھا کہ میں اپنے پیچھے اگر مال چھوڑ کر نہیں جاتا تو کچھ حرج نہیں میری وفات کے بعد میرے پسماندگان کا ایک نگران ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی ، جو کبھی غافل نہیں ہوتا ، جو اپنے پیاروں کو ان کی مصیبتوں کے وقت کبھی نہیں چھوڑتا ، جو ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار رہتا اور ضرورتوں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے پورا کر نے کے سامان کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ کے وسیع خزانوں کو دیکھتے ہوئے آپ اس بات کو ایک سیکنڈ کے لیے بھی پسند نہیں کر سکتے تھے کہ اپنے پسماندگان کے لیے خود کوئی سامان کر جائیں.خدا پر
سيرة النبي علي 123 جلد 1 آپ کو تو کل تھا اور اُس پر بھروسہ کرتے تھے اور یہ وہ تو کل کا اعلیٰ مقام ہی تھا کہ جس پر قائم ہونے کی وجہ سے دنیا داروں کے خلاف آپ کی توجہ بجائے دنیاوی سامانوں.کے آسمانی اسباب پر پڑتی تھی.جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں رسول کریم ﷺ کو کسی کام مسیلمہ کا دعویٰ میں بھی دنیا اور اہلِ دنیا کی طرف توجہ نہ تھی اور ارضی اسباب کی طرف آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے بلکہ ہر کام میں آپ کی نظر خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگی رہتی کہ وہی کچھ کرے گا.گویا کہ تو کل کا ایک کامل نمونہ تھے جس کی نظیر نہ پہلے صلى الله انبیاء میں ملتی ہے نہ آپ کے بعد آپ کے سے تو کل والا کوئی انسان پیدا ہوا ہے.مسیلمہ کے نام سے سب مسلمان واقف ہیں اس شخص نے رسول کریم ع کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت میں سخت مقابلہ کیا تھا.اگر چہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی یہ شخص نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا تھا مگر مقابلہ اور جنگ حضرت ابوبکر کے لشکر سے ہی ہوا اور انہی افواج قاہرہ نے اس کو شکست دی.مسیلمہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایک لشکر جرار لے کر آپ کے پاس مدینہ میں آیا اور آپ سے اس بات کی درخواست کی کہ اگر آپ اسے اپنے بعد خلیفہ بنا لیں تو وہ اپنی جماعت سمیت آپ کی اتباع اختیار کر لے گا اور اسلام کی حالت چاہتی تھی کہ آپ اس ذریعہ کو اختیار کر لیتے اور اس کی مدد سے فائدہ اٹھا لیتے لیکن جس پاک وجود کو خدا تعالیٰ کی طاقت پر بھروسہ اور تو کل تھا اور وہ انسانی منصوبوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کر سکتا تھا آپ نے اس کی درخواست کو فوراً ردکر دیا.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَقُوْلُ إِنْ جَعَلَ لِيْ مُحَمَّدٌ الْأَمُرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسِ وَفِي يَدِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
سيرة النبي علي 124 جلد 1 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَريْدٍ حَتَّى وَقَفَ عَلى مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ فَقَالَ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا وَلَنْ تَعُدُوَ أَمُرَ اللهِ فِيْكَ وَلَئِنُ أَدْبَرُتَ لَيَعْقِرَنَّكَ اللهُ وَإِنِّي لَأَرَاكَ الَّذِي أُرِيْتُ فِيْهِ مَا رَأَيْتُ وَهَذَا ثَابِتُ ابْنُ قَيْسِ يُجِيْبُكَ عَنِّى ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ أُرَى الَّذِي أُرِيْتُ فِيْهِ مَا رَأَيْتُ فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَأَهَمَّنِيْ شَأْنُهُمَا فَأُوْحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَن انْفُخُهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارًا فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِيْ أَحَدُهُمَا الْعَنُسِيُّ وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةُ 44 - رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں اور اُس وقت وہ اپنے ساتھ اپنی قوم میں سے ایک جماعت کثیر لایا تھا.رسول کریم مے یہ بات سن کر اس کی طرف آئے اور ثابت بن قیس بن شماس آپ کے ساتھ تھے اور رسول کریم ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ کا ٹکڑا تھا.آپ آئے یہاں تک کہ مسیلمہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھا تھا آپ نے فرمایا کہ اگر تو مجھ سے یہ شاخ بھی مانگے تو میں تجھے نہ دوں اور جو کچھ خدا نے تیرے لیے مقدر کیا ہے تو اُس سے آگے نہیں بڑھے گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائے گا تو اللہ تعالیٰ تیری کونچیں کاٹ دے گا اور میں تو تجھے وہی شخص پاتا ہوں جس کی نسبت مجھے وہ نظارہ دکھایا گیا تھا جو میں نے دیکھا.اور یہ ثابت ہیں میری طرف سے تجھے جواب دیں گے.پھر آپ وہاں سے چلے گئے.صلى الله حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا ہے کہ میں تو تجھے وہی شخص پاتا ہوں جس کی نسبت وہ نظارہ دکھایا گیا تھا جو میں نے دیکھا.اس پر مجھے حضرت ابو ہریرہ نے بتایا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک دفعہ
سيرة النبي علي 125 جلد 1 میں سو رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرے دونوں ہاتھوں میں دو کڑے ہیں جو سونے کے ہیں ان کا ہونا مجھے کچھ نا پسند سا معلوم ہوا.اس پر مجھے خواب میں وحی نازل ہوئی کہ میں ان پر پھونکوں.جب میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے.پس میں نے تعبیر کی کہ دو جھوٹے ہوں گے جو میرے بعد نکلیں گے ایک تو عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ پر کیسا یقین تھا اور آپ خدا تعالیٰ کی مدد پر کیسے مطمئن تھے.آپ کے چاروں طرف کافروں کا زور تھا جو ہر وقت آپ کو دکھ دینے اور ایذا پہنچانے میں مشغول رہتے تھے اور جن جن ذرائع سے ممکن ہوتا آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے.قیصر و کسری بھی اپنے اپنے حکام کو آپ کے مقابلہ کے لیے احکام پر احکام بھیج رہے تھے.بنی غسان لڑنے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے.ایرانی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو حسد و حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے.ہر ایک حکومت اس نئی تحریک پر شک و شبہ کی نگاہیں ڈال رہی تھی.ایسے وقت صلى الله میں جب تک ایک لشکر جرار آنحضرت ﷺ کے اردگرد جمع نہ ہوتا آپ کے لیے اپنے دشمنوں کی زد سے بچنا بظا ہر مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا.مدینہ منورہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی فتوحات نے آپ کو ہر ایک آس پاس کی حکومت کے مد مقابل کھڑا کر دیا تھا اور دور بین نگاہیں ابتدائے امر میں ہی اس بڑھنے والی طاقت کو تباہ کر دینے کی فکر میں تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ طاقت اگر اور زیادہ بڑھ گئی تو ہمارے بڑے بڑے قصور 45 کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان عظیم الشان مظاہروں کے مقابلہ کے لیے جو کچھ بھی تیاری کرتے کم تھی.انسانی عقل ایسی حالت میں جس طرح دوست و دشمن کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہے اور جن جن تدابیر سے غیروں کو بھی اپنے اندر شامل کرنا چاہتی ہے وہ تاریخ کے پڑھنے والوں کو آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہیں.لیکن وہ میرا پیارا زمینی نہیں بلکہ آسمانی تھا.بڑھتے ہوئے لشکر اور دوڑتے
سيرة النبي علي 126 جلد 1 ہوئے گھوڑے، اٹھتے ہوئے نیزے اور چمکتی ہوئی تلوار میں اس کی آنکھوں میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھیں.وہ ملائکہ آسمانی کا نزول دیکھ رہا تھا اور زمین و آسمان کا پیدا کنندہ اس کے کان میں ہر دم تسلی آمیز کلام ڈال رہا تھا.اس کا دل یقین سے پُر اور سینہ ایمان سے معمور تھا.غرضیکہ بجائے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرنے کے اس کا تو کل خدا پر تھا.پھر بھلا ان مصائب سے وہ کب گھبر ا سکتا تھا.اس نے مسیلمہ اور اس کے لشکر پر روسہ کرنا ایک دم کے لیے بھی مناسب نہ جانا اور صاف کہہ دیا کہ خلافت کا دھوکا دے کر تجھے اپنے ساتھ ملانا اور تیری قوم کی اعانت حاصل کرنی تو علیحدہ امر ہے ایک کھجور کی شاخ کے بدلہ میں بھی اگر تیری حمایت حاصل کرنی پڑے تو میں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں.اس غیور دل کی حالت پر غور کرو.اس متوکل انسان کی شان پر نظر ڈالو.اس یقین سے پُر دل کی کیفیت کا احساس اپنے دلوں کے اندر پیدا کر کے دیکھو کہ کس یقین اور توکل کے ماتحت وہ مسلمہ کو جواب دیتا ہے.کیا کوئی بادشاہ ایسے اوقات میں اس جرأت اور دلیری کو کام میں لاسکتا ہے؟ کیا تاریخ کسی گوشت اور پوست سے بنے ہوئے انسان کو ایسے مواقع میں سے اس سلامتی سے نکلتا ہوا دکھا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آپ کی زندگی سے مقابلہ کرنا ہی غلط ہے کیونکہ آپ نبی تھے.اگر آپ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے تو انبیاء سے.مگر جوشان آپ کو حاصل ہے اس کی نظیر انبیاء میں بھی نہیں مل سکتی کیونکہ آپ کو سب انبیاء پر فضیلت ہے.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ مسیلمہ کو جواب دیتے وقت رسول کریم ﷺ کے یہ مد نظر نہ تھا کہ آپ حکومت کے حق کو اپنی اولاد کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کا انکار توکل علی اللہ کے باعث نہیں بلکہ اپنی اولاد کی محبت کی وجہ سے قرار دیا جاتا لیکن رسول کریم ﷺ نے اپنی اولاد کو اپنے بعد اپنا جانشین نہیں بنایا
سيرة النبي علي 127 جلد 1 بلکہ حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا انکار کسی دنیاوی غرض کے لیے نہ تھا بلکہ ایک بے پایاں یقین کا نتیجہ تھا.اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مسیلمہ کذاب کی مدد حاصل کرنا بظا ہر مذہبی لحاظ سے بھی مضر نہ تھا کیونکہ اگر وہ یہ شرط پیش کرتا کہ میں آپ کی اتباع اس شرط پر کرتا ہوں کہ آپ فلاں فلاں دینی باتوں میں میری مان لیں تو بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ اپنی بات کی بیچ کی وجہ سے آپ نے اس کے مطالبہ کا انکار کر دیا لیکن اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ وہ مذہب میں تبدیلی چاہتا تھا.پس آپ کا انکار صرف اُس تو کل اور یقین کا نتیجہ تھا جو آپ کو خدا تعالیٰ پر تھا.ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ آپ اگر چاہتے تو اُسی وقت مسیلمہ کو پکڑ کر مروا دیتے کیونکہ گو وہ ایک کثیر جماعت کے ساتھ آیا تھا مگر پھر بھی مدینہ میں تھا اور آپ کے ہاتھ کے نیچے.لیکن اس معاملہ میں بھی آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا کہ وہ خود اس موذی کو ہلاک کرے گا.اللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيْدٌ.
سيرة النبي علي 128 جلد 1 اخلاص باللہ.یا دالہی رسول کریم ﷺ کی عادت عروسة خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو جوش آجاتا تھی کہ بہت آرام اور آہستگی سے کلام کرتے تھے اور آپ کے کلام میں جوش نہ ہوتا تھا بلکہ بہت سہولت ہوتی تھی لیکن آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ جہاں خدا تعالیٰ کا ذکر آتا آپ کو جوش آجاتا تھا اور آپ کی عبارت میں ایک خاص شان پیدا ہو جاتی تھی.چنانچہ احادیث کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے آتے ہی آپ کو جوش آ جاتا تھا اور آپ کے لفظ لفظ سے معلوم ہوتا تھا کہ عشق الہی کا دریا آپ کے اندر لہریں مار رہا ہے آپ کے کلام کو پڑھ کر محبت کی ایسی پٹیں آتیں کہ پڑھنے والے کا دماغ معطر ہو جاتا.اللہ اللہ ! ! آپ صحابہ میں بیٹھ کر کس پیار سے باتیں کرتے ہیں، ان کی دلجوئی کرتے ہیں، ان کی شکایات کو سنتے ہیں.پھر صحابہ ہی کا کیا ذکر ہے کافر و مومن آپ کی ہمدردی سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہر ایک تکلیف میں آپ مہربان باپ اور محبت کرنے والی ماں سے زیادہ ہمدرد و مہربان ثابت ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں جہاں اس کا اور غیر کا مقابلہ ہو جائے آپ بے اختیار ہو جاتے ہیں.محبت ایسا جوش مارتی ہے کہ رنگ ہی اور ہو جاتا ہے.سننے والے کا دل ایک ایسی وابستگی پاتا ہے کہ آپ ہی کا ہمرنگ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی وہ عظمت بیان کرتے ہیں کہ دل بے اختیار اس پر قربان ہونا چاہتا ہے.وہ ہیبت بیان کرتے ہیں کہ بدن کانپ اٹھتا ہے.وہ جلال بیان کرتے ہیں کہ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایسا خوف دلاتے
سيرة النبي علي 129 جلد 1 ہیں کہ مومن انسان کا دل تو خوف کے مارے پکھل ہی جاتا ہے.پھر ایسی شفقت و محبت کا بیان کرتے ہیں کہ ٹوٹے ہوئے دل جڑ جاتے ہیں اور گری ہوئی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں.اللہ اللہ ! آپ کے عام کلام کا مقابلہ اگر اُس کلام سے کریں کہ جس میں بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو زمین و آسمان کا فرق معلوم دیتا ہے.گویا خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپ کا رواں رواں اس کی طرف جھک جاتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کے احسانات کو یاد کرنے لگتا ہے اور زبان ان کی ترجمان ہوتی ہے.نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم علیہ سے سنا کہ فرماتے تھے الْحَلَالُ بَينَ وَالْحَرَامُ بَيْنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوْشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكِ حِمى أَلَا إِنَّ حِمَى اللهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً صَلَحَت صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ 46 حلال بھی بیان ہو چکا ہے اور حرام بھی بیان ہو چکا اور ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ مشابہ ہیں انہیں اکثر لوگ نہیں جانتے.پس جو کوئی شبہات سے بچے اس نے اپنی عزت اور دین کو بچالیا اور جو کوئی ان شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی رکھ کے اردگر داپنے جانوروں کو چرا تا ہے قریب ہے کہ اپنے جانوروں کو اندر ڈال دے.خبردار! ہر ایک بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے.خبردار! اللہ تعالیٰ کی رکھ اس کی زمین میں اس کے محارم ہیں.خبر دار ! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو سب جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سب جسم خراب ہو جاتا ہے.خبردار! اور وہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے.اس عبارت کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں اُس وقت
سيرة النبي علي 130 جلد 1 اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک دریا امڈ رہا تھا.آپ دیکھتے تھے کہ ایک دنیا اس پاک ہستی کے احکام کو توڑ رہی ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے محتر ز ہے.لوگ اپنے نفوس کے احکام کو مانتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے ارشادات کی تعمیل نہیں کرتے.پھر آپ کو خدا تعالیٰ سے جو محبت تھی اس کے رو سے آپ کب برداشت کر سکتے تھے کہ لوگ اس پیارے رب کو چھوڑ دیں.ان خیالات نے آپ پر یہ اثر کیا کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی عظمت کا ذکر کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ دنیاوی بادشاہوں کی اطاعت کے بغیر انسان سکھ نہیں پا سکتا تو پھر اُس قادر مطلق کی نافرمانی پر کب سکھ پا سکتا ہے جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے.میں جب مذکورہ بالا حدیث کو پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ آپ کس جوش کے ساتھ خدا کو یاد کرتے ہیں.بناوٹ سے یہ کلام نہیں نکل سکتا.اس خالص محبت کا ہی نتیجہ تھا جو آپ خدا سے رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو اس قدر جوش آ جاتا اور آپ چاہتے کہ کسی طرح لوگ ان نافرمانیوں کو چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگ جائیں.اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حیرت تھی کہ لوگ کیوں اس طرح دلیری سے ایسے کام کر لیتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو.جس کام میں کسی حاکم کی ناراضگی کا خیال ہو لوگ اس کے کرنے سے بچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی خوف نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کی نافرمانی سے کچھ نقصان نہ ہو گا لیکن رسول کریم علیہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہی اصل ناراضگی ہے اور انسان کو چاہیے کہ نہ صرف گناہوں سے بچے بلکہ اُن کاموں سے بھی بچے کہ جن کے کرنے میں شک ہو کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز.کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان کاموں کے کرنے پر ہلاک ہو جائے اور وہ اسے خدا تعالیٰ کے رحم کے استحقاق سے محروم کر دیں.خدا تعالیٰ کے نام پر یہ جوش اور اس قدرا ظہارِ خوف و محبت ظاہر کرتا ہے
سيرة النبي علي 131 جلد 1 کہ آپ کے دل میں محبت الہی اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ ہر ایک انسان کی طاقت ہی نہیں کہ اس کا اندازہ بھی کر سکے.ذکر الہی کی تڑپ پچھلی مثال سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاد الہی کے وقت آپ کو کس قدر جوش آتا اور کس قدر محبت سے مجبور ہو کر آپ کے کلام میں خاص شان پیدا ہو جاتی تھی.اب میں ایک اور واقعہ بتاتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد کا نہایت ہی شوق تھا اور آپ عبادات کے بجالانے میں كَمَا حَقُّه مشغول رہتے تھے.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادر نہ تھے اس لیے آپ نے حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب حضرت ابو بکر نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لیے نکلے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ يُهَادِى بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَانِي أَنْظُرُ رِجُلَيْهِ يَخُطَّانِ الْأَرْضَ مِنَ الْوَجَعِ فَأَرَادَ أَبُوْبَكُرٍ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَأَوْمَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ ثُمَّ أُتِيَ بِهِ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ فَقِيْلَ لِلْأَعْمَشِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَبُوْبَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاتِهِ وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ 47 کہ حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ خفت محسوس کی پس آپ نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپ کے قدم زمین سے چھوتے جاتے تھے.آپ کو دیکھ کر حضرت ابو بکر نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں.اس ارادہ کو معلوم کر کے رسول کریم علیہ نے ابو بکر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو.پھر آپ کو وہاں لایا گیا اور آپ حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھ گئے.اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھنی
سيرة النبي علي 132 جلد 1 شروع کی اور حضرت ابو بکر نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکر کی نماز کی اتباع کرنے لگے.الله اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسی ہی خطرناک بیماری ہو خدا تعالیٰ کی یا د کو نہ بھلاتے.عام طور پر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ذرا تکلیف ہوئی اور سب عبادتیں بھول گئیں اور نماز با جماعت اور دوسرے شرائط کی ادائیگی میں تو اکثر کوتا ہی ہو جاتی ہے لیکن آپ کا یہ حال تھا کہ معمولی بیماری تو الگ رہی اس مرض میں کہ جس میں آپ فوت ہو گئے اور جس کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کو بار بارغش آ جاتے تھے اٹھنے سے قاصر تھے لیکن جب نماز شروع ہو گئی تو آپ برداشت نہ کر سکے کہ خاموش بیٹھ رہیں.اُسی وقت دو آدمیوں کے کاندھے پر سہارا لے کر باوجود اس کمزوری کے کہ قدم لڑکھڑاتے جاتے تھے نماز با جماعت کے لیے مسجد میں تشریف لے آئے.بے شک ظاہراً یہ بات معمولی معلوم ہوتی ہے لیکن ذرا رسول کریم ﷺ کی اس حالت کو دیکھو جس میں آپ مبتلا تھے ، پھر اُس ذکر الہی کے شوق کو دیکھو کہ جس کے ماتحت آپ نماز کے لیے دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر تشریف لائے تو معلوم ہوگا کہ یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ آپ کے دل میں ذکر الہی کا جو شوق تھا اس کے اظہار کا ایک آئینہ تھا.ہر ایک صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ ذکر الہی آپ کی غذا تھی اور اس کے بغیر آپ اپنی زندگی میں کوئی لطف نہ پاتے تھے.اسی کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے کہ جن چیزوں سے مجھے محبت ہے ان میں سے ایک قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَوةِ 48 یعنی نماز میں میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں.شریعت کے لحاظ سے آپ کا باجماعت نماز پڑھنا یا مسجد میں آنا کوئی ضروری امر نہ تھا کیونکہ بیماری میں شریعتِ اسلام کسی کو ان شرائط کے پورا کرنے پر مجبور نہیں کرتی لیکن یہ عشق کی شریعت تھی یہ محبت کے احکام تھے بے شک شریعت آپ کو اجازت دیتی تھی کہ آپ گھر میں ہی نماز ادا فرماتے لیکن آپ کو ذکر الہی سے جو محبت تھی وہ مجبور کرتی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو آپ ہر ایک ہر
سيرة النبي علي 133 جلد 1 تکلیف برداشت کر کے تمام شرائط کے ساتھ ذکر الہی کریں اور اپنے پیارے کو یاد کریں.جب اس تکلیف کی حالت میں آپ کو ذکر الہی سے یہ وابستگی تھی تو صحت کی حالت میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آپ کس جوش کے ساتھ اپنے پیارے کے ذکر میں مشغول رہتے ہوں گے.میں پیچھے لکھ چکا ہوں کہ رسول کریم علی کو اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق تھا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپ کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا اور یہ کہ آپ کو خدا تعالیٰ سے ایسی محبت تھی کہ تندرستی اور بیماری میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہی آپ کی غذا تھا.اب میں ایک اور واقعہ یہاں درج کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ جہاں تک ہو سکتا لوگوں میں خدا تعالیٰ کے ذکر کی عادت پیدا کرتے.في حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ذَهَبَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيْمَ ؟ قَالَ نَعَمُ فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ فَجَاءَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ الصَّلَاةِ فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِى الصَّتِ فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِى صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيْقَ الْتَفَتَ فَرَاى رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن امُكُتُ مَكَانَكَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ فَحَمِدَ اللهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذلِكَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّتِ وَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لابن أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ اللهُ عَنْهُ يَدَيْهِ
سيرة النبي علي 134 جلد 1 وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لِيْ رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيْقَ مَنْ رَابَهُ شَيْءٌ فِى صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحُ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ وَإِنَّمَا التَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ 49 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمر و بن عوف میں گئے تا کہ ان میں صلح کروائیں پس نماز کا وقت آگیا اور مؤذن حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور کہا کہ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ میں اقامت کہوں؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں.پھر حضرت ابوبکر نماز کے لیے کھڑے ہوئے.اتنے میں رسول کریم ﷺ تشریف لے آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے.آپ صف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور پہلی صف میں جا کر کھڑے ہو گئے.جب آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو لوگ تالیاں پیٹنے لگے ( تا حضرت ابوبکر کو معلوم ہو جائے ) لیکن حضرت ابوبکر نماز میں کسی دوسری طرف کچھ توجہ نہ فرماتے.جب تالیاں پیٹنا صلى الله تطویل پکڑ گیا تو آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول کریم ﷺ تشریف لائے ہیں.رسول کریم اللہ نے آپ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو.اس پر حضرت ابو بکڑ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اس عزت افزائی پر خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا اور حمد کی.پھر آپ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں مل گئے اور رسول کریم علی آگے بڑھے اور نماز پڑھائی.سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ اے ابوبکر ! جب میں نے حکم دیا تھا تو پھر آپ کو کونسی چیز مانع ہوئی کہ نماز پڑھاتے رہتے.حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ ابن ابی قحافہ کی کیا حیثیت تھی کہ رسول کریم ﷺ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھاتا.پھر آپ نے (لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ) فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ تم لوگوں نے اس قدر تالیاں پیٹیں.جسے نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے اسے چاہیے کہ سُبْحَانَ اللهِ کہے کیونکہ جب وہ سُبْحَانَ اللهِ کہے گا تو خود ہی اس کی طرف توجہ ہو گی اور تالیاں پیٹینا تو عورتوں کا کام ہے.اس حدیث سے اگر چہ اور بہت سے سبق ملتے ہیں لیکن اس جگہ مجھے صرف ایک
سيرة النبي علي 135 جلد 1 صلى الله امر کی طرف متوجہ کرنا ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت علی کی تمام عمر کی کوشش یہی تھی کہ جس جس طرح سے ہو سکے لوگوں کی زبان پر خدا کا نام جاری کیا جائے.خود تو جس طرح آپ ذکر میں مشغول رہتے اس کا حال میں بیان کر چکا ہوں مگر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر ایک کی زبان پر یہی لفظ دیکھنا چاہتے تھے.آپ کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے اگر صحابہ نے تالیاں بجائیں تو یہ اُن کا ایک رواج تھا اور ہر ایک ملک میں اطلاع عام کے لیے یا متوجہ کرنے کے لیے لوگ تالیاں بجاتے ہیں.آج کل بھی جلسوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی لیکچرار کی کوئی بات زیادہ پسند آئے تو اس پر تالیاں پیٹتے ہیں تا کہ لوگوں کو توجہ پیدا ہو کہ یہ حصہ لیکچر خاص توجہ کے قابل ہے.پس تالیاں بجانا اس کام کے لیے رائج ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی یاد الہی سے محبت دیکھو کہ آپ نے دیکھا کہ بعض دفعہ ضرورت تو ہوتی ہے کہ لوگوں کو کسی کام کی طرف متوجہ کیا جائے پھر کیوں نہ اسی ضرورت کے موقع پر بجائے اس بے معنی حرکت کے لوگوں کو اس طرف لگا دیا جائے کہ وہ اپنے خیالات اور جوشوں کے اظہار کے لیے بجائے تالیاں بجانے کے سُبْحَانَ اللهِ کہہ دیا کریں.کم سے کم ایسے موقع پر ہی خدا کا ذکر ان کی زبان پر جاری ہوگا.یہ وہ حکمت و فلسفہ ہے جسے دنیا کے کسی رہنما اور ہادی نے نہیں سمجھا اور کوئی مذہب نہیں جو اس حکم کی نظیر پیش کر سکے کہ اس نے بھی بجائے لغویات کے لوگوں کو ایسی تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہو کہ جو اُن کے لیے مفید ہو سکے.تالیاں بجانا بے شک جذبات انسانی کا ترجمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ ایسا ہی ترجمان ہے کہ جیسے ایک گونگے کے خیالات کا ترجمہ اس کے اشارات ہو جاتے ہیں کیونکہ تالیاں بجانے سے صرف اسی قدر معلوم ہو سکتا ہے کہ اُس کے دل میں کوئی جوش ہے اور یہ اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہے یا یہ کہ کسی کو غلطی پر دیکھ کر اسے اس کی غلطی پر متنبہ کرنا چاہتا ہے لیکن اس سے زیادہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.لیکن رسول کریم ﷺ صرف اسی پر اکتفا نہ
سيرة النبي علي 136 جلد 1 کر سکتے تھے.آپ ایک طرف تو کل لغویات کو مٹانا چاہتے تھے دوسری طرف آپ کے دل میں یہ جوش موجزن رہتا کہ خدا تعالیٰ کے نام کی کثرت ہو اور ہر ایک مجلس اور مقام میں اُسی کا ذکر کیا جائے اس لیے آپ نے بجائے ان بے معنی اشارات کے جن سے گواشارۃ حصول مطلب ہو جاتا تھا ایسے الفاظ مقرر کیے کہ جن سے نہ صرف حصولِ مطلب ہوتا ہے بلکہ انسان کی روحانیت میں ازدیاد کا باعث ہے اور عین موقع کے مناسب ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کا ذکر بھی ہو جاتا ہے.یا د رکھنا چاہیے کہ انسان جب کبھی کسی شے کی طرف توجہ کرتا ہے یا اسے نا پسند کرنے کی وجہ سے یا پسندیدگی کے باعث.تو ان دونوں صورتوں میں سُبْحَانَ اللَّهِ کے کلمہ کا استعمال نہایت با موقع اور بامحل ہے.اگر کسی انسان کے کسی فعل کو نا پسند کرتا ہے تو سُبْحَانَ اللہ اس لیے کہتا ہے کہ آپ سے کوئی سہو ہوا ہے.سہو سے تو صرف خدا کی ہی ذات پاک ہے ورنہ ہر ایک انسان سے سہو ممکن ہے.اس مفہوم کو سمجھ کر آدمی اپنی غلطی پر متنبہ ہو جاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی عمدہ کام کرلے تو اس میں بھی سُبحَانَ اللہ کہا جاتا ہے جس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام نقصوں سے پاک ہے اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اسے بھی پاک ہی پیدا کیا ہے.یہ کام جو کسی سے سرزد ہوا ہے یا یہ قول جو کسی کی زبان پر جاری ہوا ہے اپنی خوبی اور حسن میں خدا تعالیٰ کی پاکیزگی اور طہارت یاد دلاتا ہے جو تمام خوبیوں کا پیدا کرنے والا ہے.غرض کہ سُبْحَانَ اللہ کا کلمہ اُس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لیے توجہ دلائی جاتی ہے اور افسوس اور خوشی دونوں کا اظہار اس سے ایسی عمدگی سے ہوتا ہے جو اور کسی کلمہ سے نہیں ہو سکتا.پس اس کلمہ کے مقابلہ میں تالیاں بجانا اور سیٹیاں مارنا بالکل لغو اور بے فائدہ ہے اور ان لغو حرکات کے مقابلہ پر ایسا پاک کلمہ رکھ دینا رسول کریم ﷺ کی ہی پاک طبیعت کا کام تھا ورنہ ہزاروں سال سے اس لغو حرکت کو روکنے کی کسی اور کے دل میں تحریک نہیں ہوئی.ہاں صرف رسول کریم ﷺ ہی ہیں جو الله
سيرة النبي علي 137 جلد 1 اس نکتہ تک پہنچے اور آپ نے ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کا نام لینے کی تعلیم دے کر ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہر ایک موقع پر خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا پسند فرماتے اور اسی کا ذکر آپ کے لیے غذا تھا.اس واقعہ کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر زیادہ کیا جائے.چنانچہ چھینک پر ، کھانا شروع کرتے وقت، پھر ختم ہونے کے بعد ، سوتے وقت ، جاگتے وقت، نمازوں کے بعد، کوئی بڑا کام کرتے وقت ، وضو کرتے وقت غرضیکہ اکثر اعمال میں آپ نے خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف خود ہی ذکر الہی میں زیادہ مشغول رہتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی یاد الہی میں مشغول رہیں جو کہ آپ کے کمال محبت پر دال ہے.میں نے بہت آدمی دیکھتے ہیں کہ ذرا عبادت کی اور مغرور ہو گئے.چند دن کی نمازوں یا عبادتوں کے بعد وہ اپنے آپ کو فرعون بے سامان یا فخر اولیاء سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا وَمَا فِيْهَا ان کی نظروں میں حقیر ہو جاتی ہے.بڑے سے بڑے آدمی کی حقیقت کچھ نہیں جانتے بلکہ انسان کا تو کیا کہنا ہے خدا تعالیٰ پر بھی اپنا احسان جتاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو عبادات ہم نے کی ہیں گویا خدا تعالیٰ پر احسان کیا ہے اور وہ ہمارا ممنون ہے کہ ہم نے اس کی عبادت کی ورنہ اگر عبادت نہ کرتے تو وہ کیا کر لیتا.جو لوگ اس طرز کے نہیں ہوتے اُن میں سے بھی اکثر ایسے دیکھے گئے ہیں کہ عبادت کر کے کچھ تکبر ضرور آ جاتا ہے اور بہت ہی کم ہیں کہ جو عبادت کے بعد بھی اپنی حالت پر قائم رہیں اور یہی نیکوں کا گروہ ہے.پھر سمجھ سکتے ہو کہ نیکوں کے سردار اور نبیوں کے الله سر برآورده حضرت رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہو گا.آپ تو گل خوبیوں کے جامع اور گل نیکیوں کے سرچشمہ تھے.عبادت کسی تکبر یا بڑائی کے لیے کرنا تو الگ رہا جس قدر خدا تعالیٰ کی بندگی بجالاتے اتنی ہی ان کی
سيرة النبي عالي 138 جلد 1 آتش شوق تیز تر ہوتی اور آپ بجائے عبادت پر خدا تعالیٰ کو اپنا ممنونِ احسان بنانے کے خود شرمندہ احسان ہوتے کہ الہی ! اس قدر توفیق جو عبادت کی ملتی ہے تو تیرے ہی فضل سے ملتی ہے.آپ کی عبادت ایک تسلسل کا رنگ رکھتی ہے.کچھ حصہ وقت جب عبادت میں گزارتے تو خیال کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس کام کی توفیق دی ، اس احسان کا شکر بجا لانا ضروری ہے.اس جذ بہ ادا ئیگی شکر سے بے اختیار ہو کر کچھ اور عبادت کرتے اور پھر اسے بھی خدا تعالیٰ کا ایک احسان سمجھتے کہ شکر بجالانا بھی ہر ایک کا کام نہیں جب تک خدا تعالیٰ کا احسان نہ ہو.پھر اور بھی زیادہ شوق کی جلوہ نمائی ہوتی اور پھر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جاتے اور یہ راز و نیاز کا سلسلہ ایسا وسیع ہوتا کہ بارہا عبادت کرتے کرتے آپ کے پاؤں سوج جاتے.صحابہ عرض کرتے یا رسول اللہ ! اس قدر عبادت کی آپ کو کیا حاجت ہے؟ آپ کے تو گناہ معاف ہو چکے ہیں.اس کا جواب آپ یہی دیتے کہ پھر کیا میں شکر نہ کروں.حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُوْمُ اَوْ لَيْصَلِّيَ حَتَّى تَرمَ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ فَيُقَالُ لَهُ فَيَقُوْلُ أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَكُورً ا 50 رسول کریم ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوا کرتے تھے تو اتنی دیر تک کھڑے ہتے کہ آپ کے قدم (یا کہا ) پنڈلیاں سوج جاتیں.لوگ آپ سے جب کہتے ( کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ) تو آپ جواب دیتے کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اللہ اللہ ! کیا عشق ہے، کیا محبت ہے، کیا پیار ہے، خدا تعالیٰ کی یاد میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا.خون کا دوران نیچے کی طرف شروع ہو جاتا ہے اور آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے ہیں لیکن محبت اس طرف خیال ہی نہیں جانے دیتی.آس پاس کے لوگ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ کرتے کیا ہیں اور آپ کے درد سے تکلیف محسوس کر کے آپ کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ آپ یہ کیا
سيرة النبي علي 139 جلد 1 کرتے ہیں اور کیوں اپنے آپ کو اس تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اس قدر دکھ اٹھاتے ہیں آخر کچھ تو اپنی صحت اور اپنے آرام کا بھی خیال کرنا چاہیے.مگر وہ دکھ جو لوگوں کو بے چین کر دیتا ہے اور جس سے دیکھنے والے متاثر ہو جاتے ہیں آپ پر کچھ اثر نہیں کرتا اور عبادات میں کچھ مستی کرنے اور آئندہ اس قدر لمبا عرصہ اپنے رب کی یاد میں کھڑے رہنا ترک کرنے کی بجائے آپ ان کی اس بات کو نا پسند کرتے ہیں اور انہیں جواب دیتے ہیں کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ وہ مجھ پر اس قدر احسان کرتا ہے ، اس قدر فضل کرتا ہے، اس شفقت کے ساتھ مجھ سے پیش آتا ہے پھر کیا اس کے اس حسنِ سلوک کے بدلہ میں اس کے نام کا ورد نہ کروں؟ اس کی بندگی میں کوتا ہی شروع کر دوں؟ کیا اخلاص سے بھرا اور کیسی شکر گزاری ظاہر کرنے والا یہ جواب ہے اور کس طرح آپ کے قلب مطہر کے جذبات کو کھول کر پیش کر دیتا ہے.خدا کی یاد اور اس کے ذکر کی یہ تڑپ اور کسی کے دل میں ہے؟ کیا کوئی اور اس کا نمونہ پیش کر سکتا ہے؟ کیا کسی اور قوم کا بزرگ آپ کے اس اخلاص کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ میں اس مضمون کے پڑھنے والے کو اس طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس عبادت کے مقابلہ میں اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ آپ کس طرح کاموں میں مشغول رہتے تھے اور یہی نہیں کہ رات کے وقت عبادت کے لیے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور دن بھر سوئے رہتے.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس شوق اور تڑپ کا پتہ نہ لگتا جو اس صورت میں ہے کہ دن بھر بھی آپ خدا تعالیٰ کے نام کی اشاعت اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا رواج دینے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.خود پانچ اوقات میں امام ہو کر نماز پڑھاتے تھے.دور دور کے جو وفود اور سفراء آتے تھے اُن کے ساتھ خود ہی ملاقات کرتے اور ان کے مطالبات کا جواب دیتے.جنگوں کی کمان بھی خود ہی کرتے.صحابہ کو قرآن شریف کی تعلیم بھی دیتے.حج بھی خود تھے تمام دن جس قدر
سيرة النبي علي 140 جلد 1 جھگڑے لوگوں میں ہوتے ان کا فیصلہ کرتے.عمال کا انتظام، بیت المال کا انتظام، ملک کا انتظام، دین اسلام کا اجراء اور پھر جنگوں میں فوج کی کمان، بیویوں کے حقوق کا ایفاء، پھر گھر کے کام کاج میں شریک ہونا یہ سب کام آپ دن کے وقت کرتے اور ان کے بجالانے کے بعد بجائے اس کے کہ چُور ہو کر بستر پر جا پڑیں اور سورج کے نکلنے تک اس سے سر نہ اٹھا ئیں بار بار اٹھ کر بیٹھ جاتے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ،تحمید کرتے اور نصف رات کے گزرنے پر اٹھ کر وضو کرتے اور تن تنہا جب چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا ہوتا اپنے رب کے حضور میں نہایت عجز و نیاز سے کھڑے ہو جاتے اور تلاوتِ قرآن شریف کرتے.اور اتنی اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے حتی کہ عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو اس قدر تکلیف ہوئی کہ قریب تھا کہ میں نماز توڑ کر بھاگ جاتا کیونکہ میرے قدم اب زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور میری طاقت سے باہر تھا کہ زیادہ کھڑا رہ سکوں 51.یہ بیان اُس شخص کا ہے جو نو جوان اور رسول کریم ﷺ سے عمر میں کہیں کم تھا جس سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ آپ کی ہمت اور جذبہ محبت ایسا تیز تھا کہ باوجود پیری کے اور دن بھر کام میں مشغول رہنے کے آپ عبادت میں اتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ جوان اور پھر مضبوط جوان جن کے کام آپ کے کاموں کے مقابلہ میں پاسنگ بھی نہ تھے آپ کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے اور تھک کر رہ جاتے.یہ عبادت کیوں تھی اور کس وجہ سے آپ یہ مشقت برداشت کرتے تھے؟ صرف اسی لیے کہ آپ ایک شکر گزار بندے تھے اور آپ کا دل خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھ کر ہر وقت اس کے ذکر کرنے کی طرف مائل رہتا.چنانچہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ اس قدر عبادت میں کیوں مشغول رہتے ہیں؟ تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
سيرة النبي علي 141 جلد 1 غرضیکہ جس محبت اور شوق سے آپ ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے اور ان مشاغل کے باوجود جو آپ کو دن کے وقت در پیش رہتے تھے اس کی نظیر دنیا میں اور کسی ہادی کی زندگی میں نہیں مل سکتی.اول تو میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر دنیا کے دیگر ہادیان کے اشغال کا آپ کے اشغال سے مقابلہ کیا جائے تو اُن کے اشغال ہی آپ کے اشغال کے مقابلہ میں بہت کم نکلیں گے لیکن اس فرق کو نظر انداز کر کے بھی ان کی زندگی میں ذکر الہی کی یہ کثرت نہ پائی جائے گی.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا مطالعہ جس غور سے رسول کریم علی نے فرمایا ہے اور کسی انسان نے نہیں کیا.اسی لیے جس محبت سے آپ اپنے پیارے کا نام لیتے تھے اور کسی انسان نے نہیں لیا.ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کے محبین اور ذاکرین میں بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ آپ جیسا ذاکر اور محب اور کوئی نہیں مل سکتا.موت کے وقت بھی خدا ہی یاد تھا سوائے شاذ و نادر کے عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی پر حریص ہوتا ہے حتیٰ کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص خود کشی کرتا ہے وہ ضرور پاگل ہوتا ہے یا خود کشی کے وقت اسے جنون کا دورہ ہوتا ہے ورنہ عقل وخرد کی موجودگی میں انسان ایسا کام نہیں کرتا.جب موت قریب ہو تو اُس وقت تو اکثر آدمی اپنے مشاغل کو یاد کر کے افسوس کرتے ہیں کہ اگر اور کچھ دن زندگی ہوتی تو فلاں کام بھی کر لیتے اور فلاں کام بھی کر لیتے.جوانی میں اس قدر حرص نہیں ہوتی جس قدر بڑھاپے میں ہو جاتی ہے اور یہی خیال دامنگیر ہو جاتا ہے کہ اب بچوں کے بچے دیکھیں اور پھر اُن کی شادیاں دیکھیں.اور جب موت قریب آتی ہے تو اور بھی توجہ ہو جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کا بستر مرگ دیکھا گیا ہے کہ حسرت و اندوہ کا مظہر اور رنج وغم کا مقام ہوتا ہے اور
سيرة النبي علي 142 جلد 1 اگر “ اور ”کاش کا اعادہ اس کثرت سے کیا جاتا ہے کہ عمر بھر میں اس کی نظیر نہیں ملتی.مرنے والا پے در پے اپنی خواہشات کا ذکر کرتا ہے اور اپنے وقت کو وصیت میں صرف کرتا ہے.میرے فلاں مال کو فلاں کے سپر د کرنا اور میری بیوی سے یہ سلوک کرنا اور بیٹوں سے یوں حسنِ سلوک سے پیش آنا ، فلاں سے میں نے اس قدر روپیہ لینا ہے اور فلاں کو اس قدر دینا ہے غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو روزانہ ہر گھر میں دہرائی جاتی ہیں اور چونکہ موت کا سلسلہ ہر جگہ لگا ہوا ہے اور ہر فرد بشر کو اس دروازہ سے گزرنا پڑتا ہے اس لیے تمام لوگ ان کیفیات کو جانتے ہیں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.میرا آقا جہاں اور ہزاروں باتوں میں دوسرے انسانوں سے اعلیٰ اور مختلف ہے وہاں اس بات میں بھی دوسروں سے بالاتر ہے.اس میرے سردار کی موت کا واقعہ کوئی معمولی سا واقعہ نہیں.کس گمنامی کی حالت سے ترقی پاکر اس نے اس عظیم الشان حالت کو حاصل کیا تھا اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے ہر دشمن پر فتح دی تھی اور ہر میدان میں غالب کیا تھا.ایک بہت بڑی حکومت کا مالک اور بادشاہ تھا اور ہزاروں قسم کے انتظامات اس کے زیر نظر تھے لیکن اپنی وفات کے وقت اسے ان چیزوں میں سے ایک کا بھی خیال نہیں.نہ وہ آئندہ کی فکر کرتا ہے، نہ تدابیر ملکی کے متعلق وصیت کرتا ہے، نہ اپنے رشتہ داروں کے متعلق ہدایات لکھواتا ہے بلکہ اس کی زبان پر اگر کوئی فقرہ جاری ہے تو یہی کہ اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الأغلى اے میرے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے.اے میرے اللہ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے 52.اس فقرہ کو ذرا اُن مضطر بانہ حرکات سے مقابلہ کر کے دیکھو جو عام طور سے مرنے والوں سے سرزد ہوتی ہیں.کیسا اطمینان ثابت ہوتا ہے.کیسی محبت ہے.ساری عمر آپ خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہے.اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، خلوت و جلوت
سيرة النبي علي 143 جلد 1 غرضیکہ ہر جگہ آپ کو خدا ہی خدا یاد تھا اور اسی کا ذکر آپ کی زبان پر جاری تھا اور اب جبکہ وفات کا وقت آیا تب بھی بجائے کسی اور دنیاوی غرض یا مطلب کی طرف متوجہ ہونے کے خدا ہی کی یاد آپ کے سینہ میں تھی اور جن کو چھوڑ چلے تھے ان کی فرقت کے صدمہ کی بجائے جن سے ملنا تھا ان کی ملاقات کی تڑپ تھی اور زبان پر اپنے رب کا نام جاری تھا.آہ! کیسا مبارک وہ وجود تھا.کیا احسان ماننے والا وہ انسان تھا.اس کی زندگی بہتر سے بہتر انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ اور مہذب سے مہذب روحوں کے لیے ایک نمونہ تھی.اس نے اپنے پیدا ہونے سے مرنے تک کوئی وقت اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں گزارا.وہ پاک وجود خدا تعالیٰ میں بالکل محو ہی ہو گیا تھا اور اس کی نظر میں سوائے اُس وحدہ لا شریک خدا کے جو لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ ہے اور کوئی وجود جچتا ہی نہ تھا.پھر بھلا جو ذکر کہ تمام عمر اس کی زبان پر رہا وفات کے وقت وہ اسے کہاں بھلا سکتا تھا.جو کچھ انسان ساری عمر کہتا یا کرتا رہا ہو وہی اسے وفات کے وقت بھی یاد آتا ہے.پھر جس کی عمر کا مشغلہ ہی یاد الہی ہو اور زندگی بھر جس کی روحانی غذا ہی ذکر الہی ہو وہ وفات کے وقت اور کسی چیز کو کب یاد کر سکتا تھا.مجھے میرا مولا پیارا ہے اور مجھے محمد رسول اللہ ﷺ بھی پیارا ہے کیونکہ وہ میرے مولا کا سب سے بڑا عاشق اور دلدادہ ہے اور جسے جس قدر میرے رب سے زیادہ الفت ہے مجھے بھی وہ اسی قدر عزیز ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.ذکر الہی ہر وقت میں نے پیچھے بعض واقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ الله رسول کریم ﷺ کو ذکر الہی سے کیسی محبت تھی اور آپ کس طرح ہر موقع پر خدا تعالیٰ کا نام لینا پسند فرماتے تھے اور صرف خود ہی پسند نہ
سيرة النبي عمال 144 جلد 1 فرماتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے اور وفات کے وقت بھی آپ کی زبان پر خدا تعالیٰ کا ہی ذکر تھا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے ذکر پر چشم پرنم ہو جاتے تھے اور آپ کا خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا یا سننا معمولی بات نہ تھی بلکہ ایک عاشقانه درد اور محبانہ ولولہ اس کا محرک اور باعث تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں قَالَ لِيَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ عَلَى قُلْتُ أَأَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِى فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوْرَةِ النِّسَاءِ حَتَّى بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هؤُلَاءِ شَهِيدًا قَالَ أَمْسِكْ فَإِذَا عَيْنَاهُ تَشْرِفان 53 مجھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن سناؤ.میں نے کہا کہ کیا میں آپ کو قرآن سناؤں حالانکہ قرآن شریف آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟ فرمایا کہ مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں دوسرے کے منہ سے سنوں.پس میں نے سورۃ نساء میں سے کچھ پڑھا یہاں تک کہ میں اس آیت تک پہنچا کہ پس کیا حال ہو گا جب ہر ایک امت میں سے ہم ایک شہید لائیں گے اور تجھے ان لوگوں پر شہید لائیں گے.اس پر آپ برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ بس کرو اور میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں.اللہ اللہ ! کیسا عشق ہے اور پھر کیسا ایمان ہے.آپ قرآن شریف کو جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے خود پڑھنے اور دوسروں کو سنانے کا حکم دیتے تھے اور پھر اپنے محبوب کا کلام سن کر چشم پر آب ہو جاتے.آپ ایسے بہادر تھے کہ میدانِ کارزار میں آپ تک دشمن کی رسائی نہ ہوتی اور حضرت علیؓ جیسے بہادر آدمی فرماتے ہیں کہ جس جگہ آپ کھڑے ہوتے تھے وہاں وہی آدمی کھڑا ہو سکتا تھا جو نہایت دلیر اور بہادر ہو اور معمولی آدمی کی جرأت نہ پڑ سکتی تھی کہ آپ کے پاس کھڑا ہو.پھر ایسا بہادر انسان کہ جس کے سامنے بڑے بڑے بہادروں کی روح کا نپتی تھی اور ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں، وہ
سيرة النبي علي 145 جلد 1 بہادر انسان جس کے نام کو سن کر بادشاہ خوف کھاتے تھے، جس کی بہادری کا شہرہ تمام عرب اور شام اور ایران میں ہو رہا تھا ، جس کی ہمت بلند کے سامنے قیصر و کسری کے ارادے پست ہو رہے تھے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سن کر روتا ہے اور آپ کے دل کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ زیادہ سننا گویا اس کے لیے برداشت سے بڑھ کر ہے.کیا یہ بات مطہر قلب پر دلالت نہیں کرتی؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک محبت کا دریا اس کے سینہ میں بہہ رہا تھا اور عشق کی آگ اس کے اندر بھڑک رہی تھی ؟ کیا خدا تعالیٰ کے ذکر پر یہ حالت اور پھر ایسے بہادر انسان کی جو کسی بشر سے خائف نہ تھا اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے آپ کے روئیں روئیں میں دخل کیا ہوا تھا اور خدا تعالیٰ کا ذکر آپ کی غذا ہو گیا تھا اور اس کا جلال اور اس کی عظمت آپ کے سامنے ہر وقت موجود رہتی تھی اور اپنے مولا کا ذکر سنتے ہی آپ بے چین ہو جاتے ؟ کلامِ الہی آپ کی تسلی کا باعث تھا اور یہی آپ کے عشق کو تیز کرتا اور آپ اپنے پیارے کو یاد کر کے بے اختیار ہو جاتے.آپ بڑی شان کے آدمی تھے اور خدا تعالیٰ سے جو آپ کو تعلق تھا وہ اور کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا.لیکن پھر بھی جب آپ خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یاد کرتے اور قیامت کا نظارہ آپ کی آنکھوں کے آگے آتا تو با وجود ایک مضبوط دل رکھنے کے آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے.اخلاص باللہ.شرک سے نفرت الله ایک خاص بات جو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں دیکھی جاتی ہے اور جس میں کوئی نبی اور ولی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ آپ کے قریب بھی نہیں پہنچتا وہ آپ کا شرک سے بیزار ہونا ہے.ہمارا یقین ہے کہ گل انبیاء شرک سے بچانے کے لیے دنیا میں آئے اور بلا استثناء ہر ایک نبی کی تعلیم یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا
سيرة النبي علي 146 جلد 1.جائے خواہ کوئی نبی ہندوستان میں جو شرک و بت پرستی کا گھر ہے پیدا ہوا یا مصر میں جو ربُّ الارباب کے عقیدہ کا مرکز تھا ظاہر ہوا.خواہ آتش پرستان ایران میں جلوہ نما ہوا یا وادی کنعان میں نورافشاں ہوا مگر یہ بات سب میں پائی جاتی ہے کہ وہ شرک کو بیخ و بن سے اکھیڑنے کے درپے رہے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جائے اور اس کی ذات یا صفات یا اسماء میں کسی کو اس کا شریک نہ سمجھا جائے نہ بنایا جائے.وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِيَ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ 54 اور ہم نے نہیں بھیجا تجھ سے پہلے کوئی رسول مگر اس کی طرف وحی کی کہ کوئی معبود نہیں مگر اللہ.پس میری عبادت کرو.يُنَزِّلُ الْمَلَبِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِمَ أَنْ انْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ 55 - اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ساتھ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر پسند کرتا ہے اتارتا ہے.لوگوں کو ڈراؤ کہ سوائے میرے کوئی معبود نہیں پس میرا تقویٰ اختیار کرو.ان آیات کی بناء پر ہم ایمان لائے ہیں کہ سب انبیاء کا مشترکہ مشن اشاعت توحید اور تخریب شرک تھا مگر بڑے سے بڑے نبیوں اور مرسلین کی زندگی کو رسول کریم یا یا اس کو زندگی سے مقابلہ کر کے دیکھ لو جوفکر اور فہم آپ کو شرک کی بیخ کنی کا تھا اُس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی.حضرت موسی نے فرعون کو ایک خدا کی پرستش کی تبلیغ کی.حضرت مسیح ناصری نے ایک سائل کو کہا کہ سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ تو اس خدا کو جو آسمان پر ہے اپنے سچے دل اور کچی جان سے پیار کر.حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے بتوں کو تو ڑ کر اُن پر شرک کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا.حضرت نوح نے بھی اپنی قوم کو واحد خدا کی پرستش کی طرف بلایا لیکن ہمارے سردار و آقا ہادی برحق ﷺ نے جس طرح شرک مٹانے کے لیے جد و جہد کی ہے اس کی مثال اور کسی نبی کی ذات میں نہیں ملتی.بے شک دیگر انبیاء نے اپنی عمر کا ایک حصہ شرک کے مٹانے پر خرچ کیا مگر جو
سيرة النبي علي 147 جلد 1 دھت اس مرض کو مٹانے کی خاتم النبین ﷺ کو لگی ہوئی تھی وہ اور کسی کو نہ تھی.آپ نے اپنے دعوی کے بعد ایک ہی کام کو مدنظر رکھا کہ ایک خدا کی پرستش کروائی جائے.تمام اہلِ عرب جو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے آپ کے مخالف ہو گئے اور یہاں تک آپ سے درخواست کی کہ جس طرح ہو آپ ہمارے معبودوں کی تردید کو جانے دیں اور ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ جو مطالبہ بھی پیش کریں گے ہم اسے قبول کریں گے حتی کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بھی بنا لیں گے اور ایسا بادشاہ کہ جس کے مشورہ کے بغیر ہم کوئی کام نہ کریں گے.مگر باوجود اس تحریص و ترغیب کے اور باوجود طرح طرح کے ظلم وستم کے جو آپ پر اور آپ کی امت پر توڑے جاتے تھے آپ نے ایک لمحہ اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی یہ برداشت نہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے بیان میں ستی کریں بلکہ آپ نے ترغیب و تحریص دینے والوں کو یہی جواب دیا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کھڑا کرو تب بھی میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا بیان و اقرار ترک نہ کروں گا 56 جو تکالیف لوگوں کی طرف سے شرک کی تردید کی وجہ سے آپ کو پہنچیں ویسی اور کسی نبی کو نہیں پہنچیں.اور جس طرح آپ کو اور آپ کے متبعین کو خدا تعالیٰ کے ایک ماننے پر ستایا اور دکھ دیا گیا ہے اس طرح اور کسی کو تکلیف نہیں دی گئی مگر پھر بھی آپ اپنے کام میں بجائے ست و غافل ہونے کے روز بروز زیادہ سے زیادہ مشغول ہوتے گئے.حتی کہ بعض صحابہ قتل کیے گئے.آپ کو وطن چھوڑنا پڑا، رشتہ دار چھوڑنے پڑے، زخمی ہوئے.ان تمام تکالیف کے بعد آپ اپنے مخالفین کو یہی جواب دیتے کہ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَہ.پہلے انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے مقابلہ کیا اور خوب کیا لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ نے ایک قوم سے نہیں ، دو قوموں سے نہیں بلکہ اُس وقت کی سب قوموں اور مذاہب سے خدا کے لیے مقابلہ کیا.اُس وقت ایک بھی ایسی قوم نہ تھی جو شرک کی مرض میں گرفتار نہ ہو.عرب تو سینکڑوں بتوں کے پجاری تھے ہی اور مجوسی صلى الله
سيرة النبي علي 148 جلد 1 تو آگ کے آگے ناصیہ فرسائی کرتے ہی تھے یہود جو تورات کے پڑھنے والے اور حضرت موسی کے ماننے والے تھے وہ بھی عزیز ابن اللہ پکار رہے تھے اور اپنے احبار کو صفات الوہیت سے متصف یقین کرتے تھے.اور ان سے بھی بڑھ کر نصاری تھے جو سب سے قریب تھے.حضرت مسیح کی امت ہو کر اس قدر بڑھ گئے تھے کہ خود مسیح کو جو اللہ تعالیٰ کی پرستش قائم کرنے آئے تھے قابل پرستش سمجھنے لگے تھے.ہندوستان اور چین کی تو کچھ پوچھو ہی نہیں گھر گھر میں بت تھے اور شہر شہر میں مندر تھے.پھر ایسی شورش کے زمانہ میں آپ کا توحید باری کے ثابت کرنے کے لیے کھڑا ہو جانا اور تمام قوموں کو پکار پکار کر سنانا کہ تم جس قدر معبود میرے خدا کے سوا پیش کرتے ہو سب جھوٹے اور بے ثبوت ہیں ایک ایسا کام تھا جسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے.اور جس قدر آپ کی اس کوشش و ہمت پر غور کیا جائے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شرک سے ایسے بیزار تھے کہ ایک ساعت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کے سامنے اپنا سر جھکائے.خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے سرشار ہوئے کہ دنیا بھر کے مذاہب اور قوموں کو اپنا دشمن بنا لیا اور یکدم سب سے اپنا قطع تعلق کرلیا اور صرف اس سے صلح رکھی جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا.اُس وقت جو معبودِ باطلہ تھے اُن کے مٹانے اور اڑانے کے علاوہ آپ نے اپنی تعلیم میں اس بات کا التزام رکھا کہ مسلمانوں کو پوری طرح سے خبر دار کیا جائے کہ آئندہ بھی کسی وجہ سے مرض شرک میں مبتلا نہ ہو جاویں.اسلام کیا ہے؟ سب سے پہلے اس کا اقرار کرنا کہ لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ مسلمانوں کو دن میں پندرہ دفعہ بلند مکان پر سے یا منارہ پر سے یہ پیغام اب تک پہنچایا جاتا ہے کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله اور لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ.پھر تمام عبادات میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرایا جاتا ہے.مسلمان تو مسلمان غیر مذاہب کے پیرو بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ جس قدر اسلام شرک کو مٹاتا ہے اتنا اور کوئی مذہب اس کا استیصال نہیں کرتا.اور یہ کیوں ہے؟ اُسی نفرت کی وجہ سے جو آنحضرت تم کو
سيرة النبي علي 149 جلد 1 شرک سے تھی.عمر بھر آپ اس مرض کے مٹانے میں لگے رہے حتی کہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے وہ خوشی دیکھی جو اور کسی نبی کو دیکھنی نصیب نہ ہوئی کہ آپ کی سب قوم ایک خدا کو ماننے والی ہو گئی.مگر پھر بھی وفات کے وقت جو خیال آپ کو سب سے زیادہ تھا وہ یہی تھا کہ کہیں میرے بعد میری قوم مجھے خدا تعالیٰ کا شریک نہ بنالے اور جس طرح پہلی امتوں نے اپنے انبیاء کو صفات الوہیت سے متصف کیا تھا یہ بھی مجھ سے ویسا ہی سلوک نہ کریں.اس خیال نے آپ پر ایسا اثر کیا کہ آپ نے اپنی مرض الموت میں یہود و نصاری پر لعنت کی کہ انہوں نے اپنے احبار کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيْهِ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا قَالَتْ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَابُرِزَ قبرة 57 آنحضرت ﷺ نے اُس مرض میں جس میں وفات پائی فرمایا اللہ تعالیٰ یہود اور نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا ہے.اور حضرت عائشہ نے یہ بھی زائد کیا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو صحابہ آپ کی قبر کو بند نہ کرتے بلکہ ظاہر کرتے.اس حدیث سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ کو شرک سے کیسی نفرت تھی.وفات کے وقت سب سے بڑا خیال آپ کو یہ تھا کہ میں عمر بھر جو ایک خدا کی تعلیم دیتا رہا ہوں لوگ اسے بھول نہ جائیں اور میرے بعد پھر کہیں شرک میں مبتلا نہ ہو جائیں.اور اگر پہلے معبودوں کو چھوڑا ہے تو اب مجھے ہی معبود نہ بنا بیٹھیں اور آپ نے اس نقص کے دور کرنے کے لیے ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے جن سے صحابہ کرام ایسے متاثر ہوئے کہ انہوں نے خوف کے مارے آپ کی قبر کو بھی ظاہر کرنا پسند نہ کیا تا آپ کے حکم کے خلاف نہ ہو جائے.چنانچہ اب تک وہ قبر مبارک ایک بند مکان میں ہے جس تک جانے کی لوگوں کو اجازت نہیں.طہارت نفس آنحضرت ﷺ کی پاک سیرت پر قلم اٹھانا کوئی آسان کام نہیں اسی لیے میں نے ابتدا میں ان مشکلات کو بیان کر کے بتایا
سيرة النبي علي 150 جلد 1 تھا کہ سیرت تین طرح لکھی جا سکتی ہے.تو اریخ سے، احادیث سے، قرآن کریم سے.اور میں نے بتایا تھا کہ سر دست میں احادیث سے اور پھر احادیث میں سے بھی جو سیرت بخاری سے معلوم ہوتی ہے وہ اس جگہ درج کروں گا.میں نے سیرت کے عام ابواب پر بحث کرنے کے بعد لکھا تھا کہ سیرت انسانی کے تین حصے ہو سکتے ہیں.ایک وہ جو خدا تعالیٰ سے تعلقات کے متعلق ہو جس کا نام میں نے اخلاص باللہ رکھا تھا اور دوسرا جو خود اپنے نفس کے متعلق ہو اس کا نام طہارت نفس مناسب معلوم ہوتا ہے اور چونکہ اخلاص باللہ کا حصہ میں ختم کر چکا ہوں اس لیے اب دوسرے حصہ کو شروع کیا جاتا ہے جو طہارت نفس کے ہیڈنگ کے ماتحت ہوگا.بدی سے نفرت طہارتِ نفس کے باب میں سب سے پہلے میں اس بات کے متعلق شہادت بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت تھی.اگر چہ بظاہر یہ بات کوئی عجیب نہیں معلوم ہوتی اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ کو بدی سے کیوں نفرت نہ ہوتی جب کہ ایک عظیم الشان قوم کے آپ رہبر اور ہادی تھے اور ہر وقت اپنے متبعین کو بدیوں سے روکتے رہتے تھے اور جس کا کام رات دن یہی ہو کہ وہ لوگوں کو بدیوں سے رو کے اور امر بالمعروف کرے اُسے تو اپنے اعمال میں بہت محتاط رہنا ہی پڑتا ہے ورنہ اُس پر الزام آتا ہے اور لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ تم دوسروں کو منع کرتے ہو اور خود اس کام کو کرتے ہو.لیکن اگر غور کیا جائے تو دنیا میں وعظ کہنے والے تو بہت ملتے ہیں مگر ایسے واعظ جو اپنے نمونہ سے دنیا میں نیکی پھیلائیں بہت کم ہیں.ایسے واعظ تو اس وقت بھی ہزاروں ہیں جو لوگوں کو پاکیزگی اور انقطاع الی اللہ کی طرف بلاتے ہیں.لیکن کیا ایسے لوگوں کی بھی کوئی کثیر جماعت پائی جاتی ہے جو خود عمل کر کے لوگوں کے لیے خضر راہ بنیں؟ إِلَّا مَاشَاءَ اللَّهُ وَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.کسی شاعر نے کہا ہے اور بالکل سچ کہا ہے کہ:.
سيرة النبي علي 151 جلد 1 ہر کسے ناصح برائے دیگراں ہر ایک دوسروں کے لیے ناصح ہے اپنے نفس کا حال بھلائے ہوئے ہے.پھر ایک شاعر کہتا ہے واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند چون بخلوت می روند آن کار دیگر می کنند یہ واعظ جو محراب و منبر پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کے لیے ناصح بنتے ہیں جب خلوت میں جاتے ہیں تو ان کے اعمال بالکل اور ہی ہوتے ہیں اور ان اعمال کا پتہ بھی نہیں چلتا جن کا وعظ وہ منبر پر سے کیا کرتے تھے.اس وقت مسلمان علماء کو دیکھو.قرآن شریف کو ہاتھ میں لے کر خشیت الہی کے وعظ بڑے زور سے کہتے ہیں لیکن خود خدا کا ڈر نہیں کرتے.پادری انجیل سے یہ روایت لوگوں کو سناتے ہیں کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا 58 یا اگر کوئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسری بھی پھیر دے 59 لیکن دولتمند پادری موجود ہیں.پھر ان میں سے کتنے ہیں جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسری پھیر دینی تو در کنار دوسرے مذاہب کے بانیوں کی نسبت بدگوئی میں ابتدا سے ہی بچتے اور پر ہیز کرتے ہوں.پنڈت دان اور پن کے متعلق طول طویل کھائیں پڑھ کر لوگوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو کسی قسم کے دان پٹن سے بری سمجھتے ہیں.غرضیکہ جب روزانہ زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر واعظ ایسے ہی ملتے ہیں کہ جو گل پند و نصائح کو دوسروں کے لیے واجب عمل قرار دیتے ہیں مگر اپنے نفوس کو بنی نوع انسان سے خارج کر لیتے ہیں اور ایسے بہت ہی کم ہیں کہ جن کا قول وفعل برابر ہو اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے وقت ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ملامت کرتے جائیں بلکہ لوگوں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں.پس گو یہ بات بظاہر بالکل معمولی معلوم ہوتی ہے کہ واعظ تو بدیوں سے بچتے ہی ہوں گے لیکن دراصل یہ ایک نہایت مشکل اور کٹھن راستہ ہے جس پر چل کر بہت کم لوگ ہی منزل مقصود کو پہنچتے ہیں.اور ابتدائے دنیا سے آج تک جس قدر واعظ ایسے گزرے
سيرة النبي علي 152 جلد 1 صلى الله ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دوسروں کو کہا اُس پر خود بھی عامل ہوئے اُن کے سردار اور رئیس ہمارے آنحضرت ﷺ تھے.آپ کی ساری زندگی میں ایک بات بھی ایسی نہیں ملے گی کہ آپ کی اور دوسروں کی مصلحتیں ایک ہی ہوں مگر پھر بھی آپ نے انہیں اور حکم دیا ہو اور اپنے لیے کچھ اور ہی تجویز کر لیا ہو.بعض اوقات خود صحابہ چاہتے تھے کہ آپ آرام فرمائیں اور اس قدر محنت نہ کریں لیکن آپ قبول نہ فرماتے.اگر لوگوں کو عبادت الہی کا حکم دیتے تو خود بھی کرتے.اگر لوگوں کو بدیوں سے روکتے تو خود بھی رکتے.غرضیکہ آپ نے جس قدر تعلیم دی ہے ہم بغیر کسی منکر کے انکار کے خوف کے کہہ سکتے ہیں کہ اس پر آپ خود عامل تھے اور شریعت اسلام کے جس قدرا حکام آپ کی ذات پر وارد ہوتے تھے سب کو نہایت کوشش اور تعتہد کے ساتھ بجالاتے.مگر اس وقت جس بات کی طرف خاص طور سے میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ بدی سے نفرت ہے.اعمال بد تو انتہائی درجہ ہے، ادنی درجہ تو بد اخلاقی اور بد کلامی ہے جس کا انسان مرتکب ہوتا ہے اور جب اس پر دلیر ہو جاتا ہے تو پھر اور زیادہ جرات کرتا ہے اور بداعمالی کی طرف راغب ہوتا ہے.لیکن جو شخص ابتدائی نقائص سے ہی پاک ہو وہ دوسرے سخت ترین نقائص اور کمزوریوں میں کب مبتلا ہو سکتا ہے.اور میں انشاء اللہ تعالیٰ آگے جو کچھ بیان کروں گا اُس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کیسے پاک تھے اور کس طرح ہر ایک نیکی میں آپ دوسرے بنی نوع پر فائق و برتر تھے.حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِشًا وَكَانَ يَقُوْلُ إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمُ صلى الله أخلاقا 60 نبی کریم ﷺ نہ بدخلق تھے نہ بد گو اور فرمایا کرتے تھے کہ تم میں بہتر وہی ہیں جو تم میں سے اخلاق میں افضل ہوں.اللہ اللہ !! کیا پاک وجود تھا.آپ حسنِ اخلاق برتتے تب لوگوں کو نصیحت
سيرة النبي علي 153 جلد 1 کرتے.آپ بد کلامی سے بچتے تب دوسروں کو بھی اس سے بچنے کے لیے حکم دیتے.اور یہی وہ کمال ہے کہ جس کے حاصل ہونے کے بعد انسان کامل ہوسکتا ہے اور اس کی زبان میں اثر پیدا ہوتا ہے.اب لوگ چلا چلا کر مر جاتے ہیں کوئی سنتا ہی نہیں.نہ ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے نہ کوشش میں برکت.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود عامل نہیں ہوتے ، لوگوں کو کہتے ہیں.مگر رسول کریم ﷺ خود عامل ہو کر لوگوں کو تبلیغ کرتے جس کی وجہ سے آپ کے کلام میں وہ تاخیر تھی کہ 23 سال میں لاکھوں آدمیوں کو اپنے رنگ میں رنگین کر لیا.عبد اللہ بن عمرو کے اس قول اور شہادت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اول تو وہ ہر وقت رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہتے تھے اور جو اکثر اوقات ساتھ رہے اسے بہت سے مواقع ایسے مل سکتے ہیں کہ جن میں وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس شخص کے اخلاق کیسے ہیں.کبھی کبھی ملنے والا تو بہت سی باتیں نظر انداز بھی کر جاتا ہے بلکہ کسی بات پر بھی یقینی شہادت نہیں دے سکتا لیکن جنہیں ہر وقت کی صحبت میسر ہو اور ہر مجلس میں شریک ہوں وہ خوب اچھی طرح اخلاق کا اندازہ کر سکتے ہیں.پس عبد اللہ بن عمرو اُن صحابہ میں سے تھے جنہیں رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہنے کا خاص موقع ملتا تھا اور جو آپ کے کلام کے سننے کے نہایت شائق تھے اُن کا ایسی گواہی دینا ثابت کرتا ہے کہ در حقیقت آپ کوئی ایسی شان رکھتے تھے کہ عسر وئیر میں اپنے اخلاق کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتے تھے.ورنہ کبھی تو آپ کے ہر وقت کے ہم صحبتوں کو ایسا موقع بھی پیش آتا کہ جس میں آپ کو کسی وجہ سے چیں بہ جبیں دیکھتے لیکن ایسے موقع کا نہ ملنا ثابت کرتا ہے کہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ اور ارفع تھے اور کوئی انسان ان میں نقص نہیں بتا سکتا تھا.ایک طرف اگر عبد اللہ بن عمرو کی گواہی جو اعلی پایہ کے صحابہ میں سے تھے نہایت معتبر اور وزنی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی خاص طور سے مطالعہ کرنے کے قابل
سيرة النبي علي 154 جلد 1 ہے کہ یہ فقرہ کس شخص کی شان میں کہا گیا ہے.معمولی حیثیت کے آدمی کی نسبت اور معمولی واقعات کی بناء پر اگر اس قسم کی گواہی کسی کی نسبت دے بھی دی جائے تو گو اس کے اخلاق اعلیٰ سمجھے بھی جائیں مگر اس شہادت کو وہ اہمیت نہیں دی جاسکتی جو اس شہادت کو ہے اور وہ شہادت ایک معمولی انسان کے اخلاق کو ایسا روشن کر کے نہیں دکھاتی جیسی کہ یہ شہادت رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو.کیونکہ یہ اخلاق جن واقعات کی موجودگی میں دکھائے گئے ہیں وہ کسی اور انسان پر پیش نہیں آتے.دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں.ایک وہ جو سر میں نہایت بدخلق ہو جاتے ہیں دوسرے وہ جو ئیسر میں چڑ چڑے بن جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ پر یہ دونوں حالتیں اپنے کمال کے ساتھ وارد ہوئی ہیں اور دونوں حالتوں میں آپ کے اخلاق کا اعلیٰ رہنا ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا.جو تکلیفیں اور دکھ آپ کو پہنچے ہیں وہ اور کونسا انسان ہے جسے پہنچے ہوں.مکہ کی تیرہ سالہ زندگی کے حالات سے کون نہیں واقف، مدینہ کے ابتدائی ایام سے کون بے خبر ہے، کن شدائد کا آپ کو سامنا ہوا ، کن مشکلات سے پالا پڑا.دوست دشمن ناراض تھے ، رشتہ دار جواب دے بیٹھے، اپنے غیروں کی نسبت زیادہ خون کے پیاسے ہو رہے تھے، ملنا جلنا قطعاً بند تھا، ایک وادی میں تین سال محصور رہنا پڑا، نہ کھانے کو نہ پینے کو، جنگل کے درخت اور وٹیاں غذا بنیں، شہر میں آنا منع ہو گیا، پھر چمکتی ہوئی تلوار میں ہر وقت سامنے نظر آتی تھیں، رؤساء سے قیام امن کی امید ہوتی ہے وہ بھی مخالف ہو گئے ، بلکہ نو جوانوں کو اور اُکسا اُکسا کر دکھ دینے پر مائل کرتے رہے.باہر نکلتے ہیں تو گالی گلوچ تو کچھ چیز ہی نہیں پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے، اپنے رب کے حضور گرتے ہیں تو اونٹ کی اوجھڑی سر پر رکھ دی جاتی ہے، حتی کہ وطن چھوڑ دیتے ہیں، پھر وطن بھی وہ وطن جس میں ہزاروں سال سے قیام تھا، اپنے جد امجد کے ہاتھوں سے بسایا ہوا شہر جس کو دنیا کے ہزاروں لالچوں کے باوجود آباؤ اجداد نے نہ چھوڑا تھا، ایک شریروں اور بدمعاشوں کی جماعت
سيرة النبي علي 155 جلد 1 کے ستانے پر چھوڑنا پڑتا ہے ، مدینہ میں کوئی راحت کی زندگی نہیں ملتی بلکہ یہاں آگے سے بھی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایک طرف منافق ہیں کہ خود آپ کی مجلس میں آ کر ہے ہیں اور بات بات پر سنا سنا کر طعنہ دیتے ہیں، آپ کے سامنے آپ کے خلاف سرگوشیاں کرتے ہیں، ہممکن سے ممکن طریق پر ایذاء دیتے ہیں اور پھر جھٹ تو بہ کر کے عفو کے طالب ہوتے ہیں، اپنے مہربان اہلِ وطن مکہ سے اخراج کے منصوبوں پر ہی کفایت نہیں کرتے جب دیکھتے ہیں کہ جسے ہم تباہ کرنا چاہتے تھے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اور اب ایک اور شہر میں جا بسا ہے تو وہاں بھی پیچھا کرتے ہیں، آس پاس کے قبیلوں کو اُکساتے ہیں، اور اپنے ساتھ شریک کر کے دگنی طاقت سے اسے مٹانا چاہتے ہیں ، یہود و نصاری اہلِ کتاب تھے اُن پر کچھ امید ہوسکتی تھی وہ بغض و حسد کی آگ میں جل مرتے ہیں اور امی اور مشرک اقوام سے بھی زیادہ بغض و عناد کا اظہار کرتے ہیں، پڑھے ہوؤں کی شرارتیں بھی کہتے ہیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں انہوں نے نہ صرف خود مقابلہ شروع کیا بلکہ دور دور تک آپ کی مخالفت کا بیج بونا شروع کیا.نصاری بدحواس ہو کر قیصر روم کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز کھسنے گئے تو یہود اپنی سازشوں کے پیٹھ ٹھونکنے والے ایرانیوں کے دربار میں جا فریادی ہوئے کہ اللہ اس اٹھتی ہوئی طاقت کو دباؤ کہ گو بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے مگر انداز کہے دیتے ہیں کہ چند ہی سال میں تمہارے تختوں کو اُلٹ دے گی اور عنان حکومت تمہارے ہاتھوں سے چھین لے گی.یہ سب ستم و قہر کسی پر تھے ؟ ایک ایسے انسان پر جو دنیا کی اصلاح اور ترقی کے سوا کوئی اور مطلب ہی نہ رکھتا تھا.جس کے کسی گوشہ دماغ میں ملک گیری کے خیالات نہ تھے.جو اپنا قبلہ توجہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے قیام کو بنائے بیٹھا تھا.پھر کس جماعت کے خلاف یہ دیو ہیکل طاقتیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں جو اپنی مجموعی تعداد میں جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے چند ہزار سے زیادہ نہ تھی.اب ان تکالیف میں ایک قابل سے قابل، حوصلہ مند سے حوصلہ مند انسان کا گھبرا جانا اور چڑ چڑاہٹ کا اظہار کرنا
سيرة النبي علي 156 جلد 1 اور بدخلقتی دکھانا بالکل قرین قیاس ہو سکتا ہے لیکن ان واقعات کی بناء پر بھی عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ لَمْ يَكُنُ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِشًا نہ بدخلق تھے نہ بدگو تھے.اگر کہو کہ ایک جماعت ایسی بھی تو ہوتی ہے جس کے اخلاق بجائے تکالیف کے خوشی کے ایام میں بگڑتے ہیں تو خوشی کی گھڑیاں بھی آپ نے دیکھی ہیں.آپ خدا کے رسول اور اس کے پیارے تھے یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نا کام دنیا سے اٹھا لیتا.وفات سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ دے دیا اور دشمن جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اُسی سرعت سے پیچھے ہٹنے لگا.قیصر و کسرای تو بے شک آپ کی وفات کے بعد تباہ ہوئے اور آپ کے غلاموں کے ہاتھوں ان کا غرور ٹوٹا لیکن کفارِ عرب، جماعت منافقین، یہود ونصاری کے وہ قبائل جو عرب میں رہتے وہ تو آپ کے سامنے آپ کے ہاتھوں سے نہایت ذلت سے ٹھوڑیوں کے بل گرے اور سوائے اس کے کہ طلبگار عفو ہوں اور کچھ نہ بن پڑا.اس بیکسی اور بے بسی کے بعد جس کا نقشہ پہلے کھینچ چکا ہوں بادشاہت کی کرسی پر آپ فروکش ہوئے اور سب دشمن پامال ہو گئے.مگر باوجود ان فاتحانہ نظاروں کے ان ایام ترقی کی اُن ساعات بہجت و فرحت کے عبداللہ بن عمر و فر ماتے ہیں کہ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِشًا نبی کریم ہے نہ بداخلاق تھے نہ بدگو.میں عبد اللہ بن عمرو کی شہادت سے بتا چکا ہوں کہ آنحضرت علی ایک پاک دعا کو بدی سے کیسی نفرت تھی اور بدی کرنا یا بدخلقی کا اظہار کرنا تو الگ رہا آپ بد کلامی اور بدگوئی تک سے محتر ز تھے اور باوجود ہر قسم کے سر وئیسر میں سے گزرنے کے کسی وقت اور کسی حال میں بھی آپ نے نیکی اور تقوی کو نہیں چھوڑا اور آپ کے منہ پر کوئی نازیبا لفظ بھی نہیں آیا جو ایک عظیم الشان معجزانہ طاقت کا ثبوت ہے جو آپ کے ہر کام میں اپنا جلوہ دکھا رہی تھی.اب میں ایک اور ثبوت پیش کرتا ہوں کہ آپ بدی اور ظلمت سے سخت متنفر تھے
سيرة النبي علي 157 جلد 1 اور آپ کے دل کے ہر گوشہ میں نور ایمان متمکن تھا اور وہ ثبوت آپ کی ایک دعا ہے جو آپ کے دلی جذبات کی مظہر ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا کی روایت ہے کہ آپ صبح کی سنتوں کے بعد یہ دعا مانگتے اَللَّهُمَّ اجْعَلُ فِي قَلْبِيْ نُوْرًا وَفِي بَصَرِكْ نُوْرًا وَفِي سَمْعِيْ نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْرًا وَعَنْ يَسَارِي نُوْرًا وَفَوُقِيْ نُوْرًا وَتَحْتِيْ نُوْرًا وَأَمَا مِنْ نُوْرًا وَخَلْفِيْ نُوْرًا وَاجْعَلُ لِي نُورًا 61 یعنی اے اللہ ! میرے دل کو نور سے بھر دے اور میری آنکھوں کو نورانی کر دے اور میرے کانوں کو بھی نور سے بھر دے اور میری دائیں طرف بھی نور کر دے اور بائیں طرف بھی اور میرے اوپر بھی نور کر دے اور نیچے بھی نور کر دے.اور نور کو میرے آگے بھی کر دے اور پیچھے بھی کر دے.اور میرے لیے نور ہی نور کر دے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ دعا مانگتے ہوئے سننے کا اتفاق مجھے اس طرح ہوا کہ میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن سویا جو رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے تھیں اور میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ اس طرح دعا مانگتے تھے اور نماز پڑھتے تھے.پس یہ دعا ایسے خلوت کے وقت کی ہے کہ جس وقت انسان اپنے خدا سے آزادی کے ساتھ اپنا حال دل عرض کرتا ہے.اور اگر چہ خدا تعالیٰ پہلے ہی سے انسان کے خفیہ سے خفیہ خیالات کو جانتا ہے پھر بھی چونکہ فطرتِ انسانی اسے عرض حال پر مجبور کرتی ہے اس لیے بہتر سے بہتر وقت جس وقت انسان کی حقیقی خواہشات کا علم ہو سکتا ہے وہ وقت ہے کہ جب وہ سب دنیا سے علیحدہ ہو کر اپنے گھر میں اپنے رب سے عاجزانہ التجا کرتا ہے کہ میری فلاں فلاں خواہش کو پورا کر دیں یا فلاں فلاں انعام مجھ پر فرما دیں.غرض کہ یہ دعا ایسے وقت کی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کے سوا آپ کا محرم راز اور کوئی نہ تھا اور صرف ایک نابالغ بچہ اُس وقت پاس تھا اور وہ بھی اپنے آپ کو علیحدہ رکھ کر چپکے چپکے آپ کے اعمال و حرکات کا معائنہ کر رہا تھا.اب اس دعا پر نظر ڈالو کہ
سيرة النبي علي 158 جلد 1 کس طرح آپ کے تقویٰ اور طہارت پر روشنی ڈالتی ہے.میں بتا چکا ہوں کہ آپ ہر ایک قسم کی بدکلامی و بدگوئی، بداخلاقی اور بداعمالی سے پاک تھے اور یہی نہیں کہ پاک تھے بلکہ آپ کو بدی سے سخت نفرت اور نور اور نیکی اور تقوی سے پیار تھا اور یہی انسانی کمال کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ہے.یعنی وہ بدی سے بچے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرے.ظلمت سے متنفر ہو اور نور سے محبت رکھے.مگر اس حدیث سے پچھلی حدیث پر اور بھی روشنی پڑ جاتی ہے کیونکہ پچھلی حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا تھا کہ آپ بدی سے متنفر تھے مگر اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فعل بالا رادہ تھا عا دتا یا فطرتا نہ تھا اور یہ اور بھی کمال پر دلالت کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے کام انسان عادتا کرتا ہے یا فطرتاً بعض کاموں کی طرف راغب ہوتا ہے اور بعض سے بچتا ہے.بہت سے لوگ دنیا میں دیکھے جاتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے یا چوری نہیں کرتے.اور ان کے جھوٹ سے بچنے یا چوری نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ جھوٹ سے دل میں سخت متنفر ہیں یا چوری کو برا جانتے ہیں بلکہ ان کا یہ کام صرف ان کی نیک فطرت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے.اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ صرف عادت کے نہ ہونے کی وجہ سے ان بدیوں سے بچتے ہیں.اگر ان کی عادت انہیں ڈال دی جائے تو وہ ان افعال کے مرتکب بھی ہو جائیں.ایسا ہی بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی وجہ سے رحم مادر سے ہی ان کے غصہ یا غضب کی صفت میں ضعف آچکا ہوتا ہے اور وہ باوجود سخت سے سخت اسباب طیش انگیز کے کبھی اظہار غضب نہیں کرتے بلکہ ان کا دل غیرت وحیا کے جذبات سے بالکل خالی ہو چکا ہوتا ہے.یہ لوگ اگر چہ نرم دل کہلائیں گے لیکن ان کا غضب سے بچنا ان کی صفات حمیدہ میں سے نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ ان کا کمال نہیں بلکہ قدرت نے ہی انہیں ان جوشوں سے مبرا رکھا ہے.لیکن ایک ایسا انسان جو غضب سے صرف اس وجہ سے بچتا ہے کہ وہ اسے برا جانتا ہے اور رحم سے محبت رکھتا ہے اور باوجود اس کے کہ اُسے طیش دلایا جائے اپنے جوشوں کو قابو میں رکھتا ہے وہ تعریف کے
سيرة النبي علي 159 جلد 1 لائق ہے.اور پھر وہ شخص اور بھی قابل قدر ہے کہ جس کے افعال اس سے بالا رادہ سرزد ہوتے ہیں نہ خود بخود.الله رسول کریم ﷺ کا اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنا کہ یا اللہ ! مجھے ظلمت سے بچا کر نور کی طرف لے جا اور بدی سے مجھے بچا لے ثابت کرتا ہے کہ آپ کا بد کلامی یا بداخلاقی سے بچنا اُس تقویٰ کے ماتحت تھا جس سے آپ کا دل معمور تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگتے تھے ورنہ جو لوگ نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی فطرت کی وجہ سے بعض گناہوں سے بچے ہوئے ہوتے ہیں وہ ان سے بچنے کی دعا یا خواہش نہیں کیا کرتے کیونکہ ان کے لیے ان اعمال بد کا کرنا نہ کرنا برا بر ہوتا ہے اور ان سے احتراز صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش میں ہی کسی نقص کی وجہ سے بعض جذبات میں کمی آجاتی ہے جن کے استعمال سے خاص خاص بدیاں پیدا.ہو جاتی ہیں.اس بات کے ثابت کرنے کے بعد کہ آنحضرت علیہ کے تمام اعمال بالا رادہ تھے اور اگر کسی کام سے آپ بچتے تھے تو اسے برا سمجھ کر اس سے بچتے تھے نہ کہ عادتاً اور اگر کوئی کام آپ کرتے تھے تو اسی لیے کہ آپ اسے نیک سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے اب میں اس دعا کی تشریح کرنی چاہتا ہوں تا معلوم ہو کہ آپ کے بدی سے تنفر اور نیکی سے عشق کا درجہ کہاں تک بلند تھا.انسان جو کرتا ہے اس کی اصل وجہ اس کے دل کی ناپا کی اور عدم طہارت ہوتی ہے.اگر دل پاک ہو تو گناہ بہت کم سرزد ہو سکتا ہے کیونکہ پھر جو گناہ ہوگا وہ غلطی سے ہوگا یا نامنہمی سے نہ کہ جان بوجھ کر.ہاں جب دل گندہ ہو جائے تو اس کا اثر جوارح پر پڑتا ہے اور وہ قسم قسم کے گناہوں کا ارتکاب شروع کر دیتے ہیں.ایک چور بے شک اپنے ہاتھ سے کسی کا مال اٹھاتا ہے لیکن دراصل ہاتھ ایک باطنی حکم کے ماتحت ہو کر کام کر رہا ہے اور اصل باعث وہ دل کی حرص ہے جس نے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ
سيرة النبي علي 160 جلد 1 الله غیر کا مال اٹھا لے.اسی طرح اگر ایک جھوٹا جھوٹ بولتا ہے تو گو خلاف واقعہ کلمات اس کی زبان پر ہی جاری ہوتے ہیں لیکن نہیں کہہ سکتے کہ زبان نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ دل کے اشارہ پر کام کرتی ہے اور اسے جس طرح اس کا حکم پہنچا اس نے کام کر دیا.اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اَلا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ 62 جسم انسانی میں ایک لوتھڑا ہے کہ جب وہ درست ہو جائے سب جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے سب جسم بگڑ جاتا ہے.خبردار ہو کر سنو کہ وہ دل ہے.پس دل کے نیک ہونے سے جوارح سے بھی نیک اعمال ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے خراب ہو جانے سے ہاتھ ، پاؤں ، آنکھیں ، کان اور زبان سب خراب ہو جاتے ہیں.اسی وجہ سے آنحضرت علیہ نے اپنی دعا میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ الہی ! میرے دل میں نور بھر دے.جب دل میں نور بھرا گیا تو پھر ظلمت کا گزر کیونکر ہوسکتا ہے اور گناہ ظلمت سے ہی پیدا ہوتے ہیں.جس طرح گناہ دل سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح دل کو خراب کرنے کے لیے کوئی بیرونی سامان ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے دل اپنی اصل حالت سے نکل جاتا ہے اس لیے رسول کریم علیہ نے دل میں نور بھرنے کی درخواست کے بعد دعا فرمائی کہ جن ذریعوں سے قلب انسانی بیرونی اشیاء سے متاثر ہوتا ہے اُن میں بھی نور ہی بھر دے یعنی آنکھوں اور کانوں کو نورانی کر دے.میری آنکھیں کوئی ایسی بات نہ دیکھیں کہ جس کا دل پر خراب اثر پڑے.نہ کان وہ باتیں سنیں جن سے دل بدی کی طرف مائل ہو.پھر اس سے بڑھ کر آپ نے یہ سوچا کہ کان اور آنکھیں بھی تو آخر وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جو اُن کے اردگرد ہوتا ہے.اگر اردگر وظلمت کے سامان ہی نہ ہوں اور بدی کی تحریک اور میلان پیدا کرنے والے ذرائع ہی مفقود ہوں تو پھر انہوں نے دل پر کیا خراب اثر ڈالنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللَّهُمَّ اجْعَلُ
سيرة النبي علي 161 جلد 1 عَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا وَعَنْ يَسَارِكْ نُوْرًا وَفَوْقِى نُوْرًا وَتَحْتِى نُوْرًا وَأَمَا مِنْ نُوْرًا وَخَلْفِى نُورًا وَاجْعَلُ لِيْ نُورًا اے اللہ ! میری بینائی اور شنوائی کو نور سے منور کر کے یہ بھی کر کہ میرے دائیں بائیں، آگے پیچھے ، اوپر نیچے جہات ستہ میں نور ہی نور ہو جائے اور جن باتوں سے آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ دل پر برا اثر پڑتا ہے وہی میرے اردگرد سے فنا ہو کر ان کی بجائے تقویٰ اور طہارت کے پیدا کرنے والے نظارے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیں.پھر اس خیال سے کہ پوشیدہ در پوشیدہ ذرائع سے بھی دل ملوث ہوتا ہے فرمایا کہ وَاجْعَلْ لِيْ نُوْرًا میرے لیے نور کے دروازے کھول دے، ظلمت سے میرا کچھ تعلق ہی نہ رہے ، نور ہی سے میرا واسطہ ہو.اس دعا کو پڑھ کر ہر ایک تعصب سے کورا آدمی سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بدیوں سے کیسے متنفر تھے.شفقت علی النفس بہت سے انسان اپنی حماقت سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان کر لیتے ہیں اور اپنے نزدیک جسے خوبی سمجھتے ہیں وہ دراصل برائی ہوتی ہے اور اس پر عامل ہو کر تکلیف اٹھاتے ہیں.بہت سے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقت میں ڈال کر تکلیف دیتے ہیں اور اسے فخر سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ جانتے ہیں.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنا کوئی آسان امر نہیں.پہلے انسان پوری طرح سے اپنے نفس کو مارے اور اپنے ہر فعل اور قول کو اس کی رضا کے مطابق بنائے.اپنی خواہشات کو اس کے لیے قربان کر دے.اپنی آرزوؤں کو اس کے منشا کے مقابلہ میں مٹا دے.اپنے ارادوں کو چھوڑ دے.اس کی خاطر ہر ایک دکھ اور تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جائے.اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی خاک عظمت نہ سمجھے اور جس چیز کے قرب سے اُس سے دوری ہو اسے ترک کر دے.اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے بچائے تبھی انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکتا ہے.اور جب اس کا فضل نازل ہو تو
سيرة النبي علي 162 جلد 1 اس کی رحمت کے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں اور وہ ان اسرار کا مشاہدہ کرتا ہے جو اس سے پہلے اس کے واہمہ میں بھی نہیں آتے تھے اور یہ حالت انسان کے لیے ایک جنت ہوتی ہے جسے اسی دنیا میں حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا ایسے ایسے رنگ میں مطالعہ کرتا ہے کہ معقل حیران ہو جاتی ہے اور جنت کی تعریف ان کشوف پر صادق آتی ہے کہ مَا لَا عَيْنٌ رَأتْ وَلَا أُذن سَبعَتُ لیکن باوجود اس بات کے پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ مشقت اٹھانے سے حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے انسان اپنی عمر کو رائیگاں کر دیتے ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچتے.اہلِ ہنود میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اپنے ہاتھ سکھا دیتے ہیں.ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو سردیوں میں پانی میں کھڑے رہتے ہیں اور گرمیوں میں اپنے اردگرد آگ جلا کر اس کے اندر اپنا وقت گزارتے ہیں.ایسے بھی ہیں کہ جو سارا دن سورج کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہتے ہیں اور جدھر سورج پھرتا جائے اُن کی نظر اُس کے ساتھ پھرتی جاتی ہے.پھر ایسے بھی ہیں جو نجاست اور گندگی کھاتے ہیں ، مردوں کا گوشت کھاتے ہیں.غرض کہ طرح طرح کی مشقتوں اور تکالیف کو برداشت کرتے ہیں اور ان کا منشا یہی ہوتا ہے کہ وہ خدا کو پالیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ بجائے روحانیت میں ترقی کرنے کے اور گرتے جاتے ہیں.مسیحیوں میں بھی ایک جماعت پادریوں کی ہے جو نہانے سے پر ہیز کرتی ہے.نکاح نہیں کرتی.صوف کے کپڑے پہنتی اور بہت اقسام طیبات سے محترز رہتی ہے لیکن اسے وہ نور قلب عطا نہیں ہوتا جس سے سمجھا جائے کہ خدا تعالیٰ انہیں حاصل ہو گیا بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق عام مسیحیوں کی نسبت گرے ہوئے ہوتے ہیں.مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سارا سال روزہ رکھتے ہیں اور ہمیشہ روزہ سے رہتے ہیں حالانکہ رسول کریم علیہ نے دائمی روزے رکھنے سے منع فرمایا صلى الله ہے 63.پھر بعض لوگ طیبات سے پر ہیز کرتے ہیں.اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقتوں
سيرة النبي علي 163 جلد 1 میں ڈالتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی کمال حاصل نہیں ہوتا.غرض کہ جس طرح بغیر محنت و کوشش کے خدا تعالیٰ نہیں ملتا اسی طرح اپنے نفس کو بلا فائدہ مشقت میں ڈالنے سے بھی خدا نہیں ملتا بلکہ الٹا نقصان پہنچ جاتا ہے.میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جنہوں نے اول اول تو شوق سے سخت سے سخت محنت اٹھا کر بعض عبادات کو بجا لانا شروع کیا اور اپنے نفس پر وہ بوجھ رکھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا اور آخر تھک کر ایسے چور ہوئے کہ عبادت تو کجا خدا تعالیٰ کی ہستی سے ہی منکر ہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر کوئی خدا ہوتا تو ہماری ان محنتوں کو ضائع کیوں کرتا.ہم تو اس کوشش و محنت سے ورد وظائف کرتے رہے لیکن وہاں سے ہمیں کچھ اجر بھی نہیں ملا اور آسمان کے دروازے چھوڑ آسمان کی کوئی کھڑ کی بھی ہمارے لیے نہیں کھلی.اور جب یہ شکوک ان کے دلوں میں پیدا ہونے شروع ہوئے تو وہ گناہوں پر دلیر ہو گئے اور وعظ و پند کو بناوٹ سمجھ لیا اور خیال کر لیا کہ ہم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں وہ بھی ہماری ہی طرح تھے اور نَعُوذُ بِاللهِ ان کے دل ہماری طرح ہی تاریک تھے اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے.ان واقعات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بے فائدہ مشقت بھی خطرناک ہوتی ہے اور نفس کو ایسے ابتلاؤں میں ڈالنا کہ جو غیر ضروری ہیں بجائے فائدہ کے مہلک ثابت ہوتا صلى الله ہے.اسی لیے آنحضرت ﷺ جو تمام دنیا کے لیے رحمت ہو کر آئے تھے اپنے صحابہ کور و کتے تھے کہ وہ اپنے نفوس کو حد سے زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک صحابی ایک دوست کے ہاں گئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ سارا دن روزہ رکھتا اور رات کو تہجد میں وقت گزارتا ہے.اس پر انہوں نے انہیں ڈانٹا جس پر یہ معاملہ آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا.آپ نے فرمایا اُس نے ٹھیک ڈانٹا کیونکہ انسان پر بہت سے حقوق ہیں ان کا پورا کرنا اس کے لیے ضروری ہے 64.خود آنحضرت ﷺ کا عمل ثابت کرتا ہے کہ آپ ہمیشہ احکام الہی کے پورا
سيرة النبي علي 164 جلد 1 کرنے میں چست رہتے اور ایسے جوش کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے کہ جوان جوان صحابہؓ آپ کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے.جیسا کہ میں باتفصیل آپ کی عبادت کے ذکر میں لکھ آیا ہوں لیکن باوجود اس کے آپ آسان راہ کو قبول کرتے اور اپنے نفس کو بے فائدہ دیکھ نہ دیتے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ اُس وقت تک عبادت کرو جب تک دل ملول نہ ہو جائے.حضرت عائشہ آپ کے اعمال کی نسبت فرماتی ہیں مَا خُيّرَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ 65 رسول اللہ ﷺ کو کسی دو باتوں میں اختیار نہیں دیا گیا مگر آپ نے اسے قبول کیا جو دونوں میں سے آسان تر تھی بشرطیکہ گناہ نہ ہو.اور اگر کسی کام میں گناہ ہوتا تو سب لوگوں سے زیادہ آپ اس سے بچتے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آسان راہ کو اختیار کیا کرتے تھے اور تکلیف میں اپنے آپ کو نہ ڈالتے.ایک خیال جو اس حدیث سے پیدا ہوسکتا تھا کہ گویا آپ خدا کے راستہ میں مشقت نہ برداشت کر سکتے تھے (نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ڈلک) اس کا رڈ بھی خود حضرت عائشہؓ نے فرما دیا کہ یہ بات اُسی وقت تک تھی کہ جہاں دین کا معاملہ نہ ہو.اگر کسی موقع پر آسانی اختیار کرنا دین میں نقص پیدا کرتا ہو تو پھر آپ سے زیادہ اس آسانی کا دشمن کوئی نہ ہوتا.یہ وہ کمال ہے جس سے آپ کی ذات تمام انبیاء پر فضیلت رکھتی ہے کہ وہ اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے لیکن آپ ہر رنگ میں کامل تھے.کوئی پہلو بھی تو انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس میں آپ دوسروں سے پیچھے ہوں یا ان کے برابر ہوں.ہر بات میں کمال ہے اور دوسروں سے بڑھ کر قدم مارا ہے اور ہر خوبی کو اپنی ذات میں جمع کر لیا ہے.بے شک بہت سے لوگ ہیں کہ جو اپنی جان کو آرام میں رکھتے ہیں مگر خدا کو ناراض کرتے ہیں، لوگوں کو نا خوش کرتے ہیں.بعض خدا کو راضی کرنے کی کوشش میں اپنے نفس کو ایسے مصائب میں ڈالتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب بھی نصیب نہیں ہوتا اور
سيرة النبي علي 165 جلد 1 آگے سے بھی گمراہ ہوتے جاتے ہیں مگر میرا پیارا ہادی تو ساری دنیا کے لیے ہادی ہو کر آیا تھا وہ کسی خاص طرز یا مذاق کے لوگوں کا رہبر نہ تھا.ہر ملک اور قوم کے آدمی اس کی غلامی میں آئے تھے.اس نے اپنے اخلاق کا ایک ایسا بے لوث اور مکمل نمونہ دکھایا ہے کہ کوئی آدمی اس کی غلامی میں آئے ناکام و نامراد نہیں رہتا بلکہ اپنے کامل دلی مقصد اور مدعا کو پالیتا ہے.در حقیقت تعصب کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھا جائے تو آپ کی یہ صفت ایک ایسی حکیمانہ صفت تھی کہ اس پر جس قدر غور کیا جائے اس کے فوائد زیادہ سے زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں.ایک ہی نسخہ ہوتا ہے جسے طبیب بھی بتاتا ہے اور ایک بڑھیا بھی بتاتی ہے لیکن وہ طبیب تو حکمت کی بنا پر اسے تجویز کرتا ہے اور بڑھیا صرف اس وجہ سے کہ اسے یا اس کے کسی رشتہ دار کو کبھی اس سے فائدہ پہنچا تھا.یہی فرق روحانیت کے مدارج میں بھی ہوتا ہے.بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کوشش کرتے ہیں مگر ان کے افعال کی بنا جہالت پر ہوتی ہے اور وہ حکمت سے کام نہیں لیتے.مگر رسول کریم ﷺ کے تمام کاموں کی بنا علم پر تھی.آپ خوب جانتے تھے کہ کسی چیز سے اپنی طاقت سے زیادہ کام لینے کے یہ معنے ہیں کہ اسے ہمیشہ کے لیے کام سے معطل کر دیا جائے.اس لیے آپ اپنے قومی کو برمحل اور برموقع استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ سب مقابلہ کرنے والوں سے آگے نکل گئے اور کوئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جو آپ سے آگے نکلنا تو کجا آپ کی برابری بھی کر سکے.اللَّهُم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيْدٌ - ”وقار “ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں عالی حوصلگی، طہارت النفس.وقار حلم اور بڑائی.چونکہ لوگ عام طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے اس کے معانی سے نا واقف ہوتے ہیں اس لیے میں نے سمجھا کہ اس کے معنی کر دوں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ جب میں وقار “ لفظ
سيرة النبي علي 166 جلد 1 استعمال کرتا ہوں تو اس سے میری مراد کیا ہوتی ہے.چونکہ عام طور سے یہ لفظ اردو میں عزت“ کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور عام لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑے وقار والا ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بڑی عزت والا ہے یا معزز ہے لیکن دراصل اس لفظ سے گو” بڑائی اور عزت“ کے معنے نکلتے ہیں لیکن اس سے مراد نفس کی بڑائی ہوتی ہے یعنی جس شخص میں چھچھورا پن، کمینگی اور ہلکا پن نہ ہو، ذرا ذرا سی بات پر چڑ نہ جائے ، لوگوں کی باتیں سن کر اُن پر حوصلہ نہ ہار دے، مخالف کی باتوں کو ایک حد تک برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے ”صاحب وقار‘“ کہیں گے.اور جو رذیل لوگوں کی صحبت میں رہتا ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑ جاتا ہو، ذرا ذرا سی تکلیف پر گھبرا جاتا ہو، چھوٹے چھوٹے مصائب پر ہمت ہار بیٹھتا ہو وہ صاحب وقار نہیں ہو گا.خواہ اس کے پاس کتنی ہی دولت ہو اور کیسے ہی عظیم الشان عہدہ پر مقرر ہو.پس گو وقار کے معنوں میں عظمت اور بڑائی بھی ہے مگر میری اس جگہ ”وقار سے وہی مراد ہے جو میں نے پہلے بیان کر دی ہے.آنحضرت ﷺ کو جو عہدہ اور شان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی وہ دنیاوی با دشاہوں سے کسی صورت میں کم نہ تھی.اور گو آپ خود اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے اپنی عظمت کا اظہار نہ کرتے ہوں لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ ایک بادشاہ تھے اور تمام عرب آپ کے ماتحت ہو گیا تھا.اور اگر آپ ان سب طریقوں کو اختیار کر لیتے جو اُس وقت کے بادشاہوں میں مروج تھے تو دنیاوی نقطۂ خیال سے آپ پر کوئی الزام قائم نہیں ہوسکتا تھا اور آپ دنیاوی حکومتوں کی نظر میں بالکل حق بجانب ہوتے لیکن آپ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے نہ تھی جو شہروں اور ملکوں پر حکومت کے نام سے مشہور ہے بلکہ دراصل آپ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے تھی جو آپ کو اپنے دل پر حاصل تھی.جو آپ کو دوسرے لوگوں کے دلوں پر حاصل تھی.آپ نے باوجود بادشاہ ہونے کے اس طریق کو اختیار نہ کیا جس پر بادشاہ چلتے ہیں اور اپنی عظمت کے
سيرة النبي علي 167 جلد 1 اظہار کے لیے وہ نمائشیں نہ کیں جو سلطان کیا کرتے ہیں کیونکہ آپ نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے اور بادشاہ ہو کر جو معاملہ آپ نے اپنے اتباع سے کیا وہ اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ کا نفس کیسا پاک تھا اور ہر قسم کے بداثرات سے کیسا منزہ تھا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا قَالَ ثُمَّ أَيُّ قَالَ برُّ الْوَالِدَيْنِ قَالَ ثُمَّ أَى قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ رَسُوْلُ اللهِ الا الله ووَلَوِ اسْتَرَدْتُهُ لَزَادَنِي 66 میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا ہے؟ فرمایا نماز اپنے وقت پر ادا کرنا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر کونسا عمل ؟ فرمایا کہ والدین سے نیکی کرنا.میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر کونسا عمل ہے؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کوشش کرنا.عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا اور اگر میں آپ سے اور پوچھتا تو آپ اور بتاتے.بظاہر تو یہ حدیث ایک ظاہر بین کو معمولی معلوم ہوتی ہو گی لیکن غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کا وقار کیسا تھا کہ صحابہؓ آپ سے جس قدر سوال کیے جائیں آپ گھبراتے نہ تھے بلکہ جواب دیتے چلے جاتے اور صحابہؓ کو یقین تھا کہ آپ ہمیں ڈانٹیں گے نہیں.امراء کو ہم دیکھتے ہیں کہ ذرا کسی نے دو دفعہ سوال کیا اور چیں بجبیں ہو گئے.کیا کسی کی مجال ہے کہ کسی بادشاہ وقت سے بار بار سوال کرتا جائے اور وہ اسے کچھ نہ کہے بلکہ بادشاہوں اور امراء سے تو ایک دفعہ سوال کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور وہ سوالات کو پسند ہی نہیں کرتے اور سوال کرنا اپنی شان کے خلاف اور بے ادبی جانتے ہیں اور اگر کوئی ان سے سوال کرے تو اس پر سخت غضب نازل کرتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہم رسول کریم ﷺ کو دیکھتے ہیں کہ باوجود ایک ملک کے
سيرة النبي علي 168 جلد 1 بادشاہ ہونے کے طبیعت میں ایسا وقار ہے کہ ہر ایک چھوٹا بڑا ، جو دل میں آئے آپ سے پوچھتا ہے اور جس قدر چاہے سوال کرتا ہے لیکن آپ اس پر بالکل ناراض نہیں ہوتے بلکہ محبت اور پیار سے جواب دیتے ہیں.اور اس محبت کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں یقین کر لیتے ہیں کہ ہم جس قدر بھی سوال کرتے جائیں آپ ان سے اکتائیں گے نہیں.کیونکہ جو حدیث میں اور پر لکھ آیا ہوں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف اس موقع پر آپ اعتراضات سے نہ گھبرائے بلکہ آپ کی یہ عادت تھی کہ آپ دین کے متعلق سوالات سے نہ گھبراتے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جتنے سوال آپ سے کیے آپ نے ان کا جواب دیا.اور پھر فرماتے ہیں کہ لَوِ اسْتَرَدْتُهُ لَزَادَنِی.اگر میں اور سوال کرتا تو آپ پھر بھی جواب دیتے.اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ کو یقین تھا کہ آپ جس قد رسوالات صلى الله بھی کرتے جائیں آنحضرت ﷺ اس پر ناراض نہ ہوں گے بلکہ ان کا جواب دیتے جائیں گے اور یہ نہیں ہو سکتا تھا جب تک رسول کریم ﷺ کی عام عادت یہ نہ ہو کہ آپ ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتے جائیں.دیگر احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صحابہ کے سوالات پر خفا نہ ہوتے تھے بلکہ بڑی خندہ پیشانی سے ان کے جواب دیتے تھے اور یہ آپ کے وقار کے اعلیٰ درجہ پر شاہد ہے کیونکہ معمولی طبیعت کا آدمی بار بار سوال پر گھبرا جاتا ہے مگر آپ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہونے کے رحمت و شفقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاتے رہے جو عام انسان تو کجا دیگر انبیاء بھی نہ دکھا سکے.اس حدیث کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے جس سے آپ کے وقار کا علم ہوسکتا ہے.اور گو یہ حدیث میں پہلے بیان کر چکا ہوں کیونکہ اس سے آپ کے یقین اور ایمان پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن چونکہ اس حدیث سے آپ کے وقار کا حال بھی کھلتا ہے اس لیے اس جگہ بھی بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.سراقہ بن جعشم کہتا
سيرة النبي علي 169 جلد 1 صلى الله ہے کہ جب رسول کریم علیہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے اطلاع ملی کہ آپ کے لیے اور حضرت ابوبکرؓ کے لیے مکہ والوں نے انعام مقرر کیا ہے جو ایسے شخص کو دیا جائے گا جو آپ کو قتل کر دے یا قید کر لائے.اس پر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگا اور چاہا کہ جس طرح ہو آپ کو گرفتار کر لوں تا اس انعام سے متمتع ہو کر اپنی قوم میں مالدار رئیس بن جاؤں.جب میں آپ کے قریب پہنچا میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر پڑا.اس پر میں نے اٹھ کر تیروں سے فال نکالنی چاہی کہ آیا یہ کام اچھا ہے یا برا ، کروں یا نہ کروں؟ اور تیروں میں سے وہ جواب نکلا جسے میں نا پسند کرتا تھا یعنی مجھے آپ کا تعاقب نہیں کرنا چاہیے.مگر پھر بھی میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور آپ کے پیچھے بھاگا اور اس قدر نزدیک ہو گیا کہ آپ کی قراءت کی آواز آنے لگی اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ بالکل کسی طرف نہیں دیکھتے تھے مگر حضرت ابو بکر بار بار ادھر اُدھر دیکھتے جاتے تھے..صلى الله اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ میں صفت وقار نہایت اعلیٰ درجہ پر تھی اور آپ خطر ناک سے خطر ناک اوقات میں بھی اپنے نفس کی بڑائی کو نہ چھوڑتے تھے.اور خواہ آپ کو گھر میں بیٹھے ہوئے اپنے شاگردوں سے معاملہ کرنا پڑے جو دین کی جدت کی وجہ سے بار بار سوال کرنے پر مجبور تھے اور خواہ میدانِ جنگ میں دشمن کے ملک میں خطرناک دشمنوں کے مقابلہ میں آنا پڑے ہر دوصورتوں میں آپ اپنے وقار کو ہاتھ سے نہ دیتے اور جس وقت صابر سے صابر اور دلیر سے دلیر انسان چڑ چڑا ہٹ اور گھبراہٹ کا اظہار کرے اُس وقت بھی آپ وقار پر قائم رہتے.اور تعلیم اور جنگ دو ہی موقعے ہوتے ہیں جہاں وقار کا امتحان ہوتا ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اسی وجہ سے استادوں کو اپنے اخلاق کے درست کرنے کی کیسی ضرورت رہتی ہے.اور جو استاد اس بات سے غافل ہو جائے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے بہت جلد طلباء کے اخلاق کو بگاڑ دیتے ہیں.یہی حال
سيرة النبي علي 170 جلد 1 میدانِ جنگ میں بہادر سپاہی کا ہوتا ہے جو باوجود جرات اور بہادری کے بعض اوقات وقار کھو بیٹھتا ہے اور چھچھورا پن اور گھبراہٹ کا اظہار کر بیٹھتا ہے مگر وہ نیکوں کا نیک، بہادروں کا بہادر ان سب عیوب سے پاک تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ طہارت النفس.جرات انسان کی اعلیٰ درجہ کی خصال میں سے ایک جرات بھی ہے.جرات کے بغیر انسان بہت سے نیک کاموں سے محروم رہ جاتا ہے.جرات کے بغیر انسان دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا.جرات کے بغیر انسان اپنے ہم عصروں کی نظروں میں ذلیل وسبک رہتا ہے.غرض کہ جرات ، بہادری، دلیری اعلیٰ درجہ کی صفات میں سے ہیں اور جس انسان میں یہ خصلتیں ہوں وہ دوسروں کی نظر میں ذلیل نہیں ہوسکتا.جب کہ آنحضرت معہ جامع کمالات انسانی تھے اور ہر ایک بات میں جو انسان کی زندگی کو بلند اور اعلیٰ کرنے والی ہو دوسرے کے لیے نمونہ اور اسوہ حسنہ تھے.اور جو عمل یا قول، خوبی یا نیکی سے تعبیر کیا جا سکے اس کے آپ معلم تھے.اور کل پاک جذبات کو ابھارنے کے لیے ان کا وجود خضر راہ تھا تو ضروری تھا کہ آپ اس صفت میں بھی خاتم الانبیاء والاولیاء بلکہ خاتم الناس ہوں اور کوئی انسان اس حسن میں آپ پر فائق نہ ہو سکے.چنانچہ آپ کی زندگی پر غور کرنے والے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی عمر میں بہادری اور جرات کے وہ اعلیٰ درجہ کے نمونے دکھائے ہیں کہ دنیا میں ان کی نظیر نہیں مل سکتی.بلکہ تاریخیں بھی ان کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں لیکن چونکہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ موجودہ صورت میں میں صرف وہ واقعات جو بخاری میں درج ہیں پیش کروں گا اس لیے اس جگہ صرف ایک دو واقعات پر کفایت کرتا ہوں.دراصل اگر غور کیا جائے تو آنحضرت ﷺ کی ملکہ کی زندگی ہی بہادری کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.تیرہ سال تک ایک ایسے مقام پر رہنا کہ جہاں سوائے چند انفاس کے اور سب لوگ دشمن اور خون کے پیاسے ہیں اور
سيرة النبي علي 171 جلد 1 بغیر خوف کے لوگوں کو اپنے دین کی باتیں سنانا اور پھر ایسے دین کی جو لوگوں کی نظر میں نہایت حقیر اور مکروہ تھا کوئی ایسا کام نہیں جس کے معلوم ہونے پر آپ کے کمالات کا نقشہ آنکھوں تلے نہ کھینچ جاتا ہو.اس تیرہ سال کے عرصہ میں کیسے کیسے دشمنوں کا آپ کو مقابلہ کرنا پڑا.انواع و اقسام کے عذابوں سے انہوں نے آپ کے قدم صدق کو ڈگمگانا چاہا لیکن آپ نے وہ بہادری کا نمونہ دکھایا کہ ہزار ہا دشمنوں کے مقابلہ میں تن تنہا سینہ سپر رہے اور اپنے دشمنوں کے سامنے اپنی آنکھ نیچی نہ کی اور جو پیغام خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے اسے کھلے الفاظ میں بغیر کسی اخفاء و اسرار کے لوگوں تک پہنچاتے رہے.غرض کہ آپ کی زندگی تمام کی تمام جرات و دلیری کا ایک بے مثل نمونہ ہے مگر جگہ کی قلت کی وجہ سے میں ایک دو واقعات سے زیادہ نہیں لکھ سکتا.حضرت انس فرماتے ہیں کہ كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لَنَا يُقَالُ لَهُ مَنْدُوْبٌ فَقَالَ مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَع وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا 67 مدینہ میں کچھ گھبراہٹ تھی پس نبی کریم عمے نے ہمارا گھوڑا مستعار لیا جس کا نام مندوب تھا اور فرمایا کہ ہم نے کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس گھوڑے کو سمندر پایا ہے یعنی نہایت تیز وتند.حضرت انسؓ نے ایک حدیث میں اس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک دفعہ مدینہ میں کسی غنیم کے حملہ آور ہونے کی خبر تھی اور مسلمانوں کو ہر وقت اس کے حملہ آور ہونے کا انتظار تھا.ایک رات اچانک شور ہوا اور دور کچھ آوازیں سنائی دیں.صحابہ فوراً جمع ہونے شروع ہوئے اور ارادہ کیا کہ جمع ہو کر چلیں اور دیکھیں کہ کیا غنیم حملہ آور ہونے کے لیے آ رہا ہے؟ وہ تو ادھر جمع ہوتے اور تیار ہوتے رہے اور اُدھر رسول کریم ﷺ بغیر کسی کو اطلاع دیئے ایک صحابی کا گھوڑا لے کر سوار ہو کر جدھر سے آوازیں آ رہی تھیں اُدھر دوڑے اور جب لوگ تیار ہو کر چلے تو آپ انہیں مل گئے اور فرمایا کہ گھبراہٹ کی تو کوئی وجہ نہیں شور معمولی تھا.اور اس گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ بڑا تیز گھوڑا ہے اور سمندر کی طرح ہے
سيرة النبي علي 172 جلد 1 یعنی لہریں مار کر چلتا ہے 68.اس واقعہ سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ آپ کیسے دلیر وجری تھے کہ شور سنتے ہی فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کی خبر لینے کو چلے گئے اور اپنے ساتھ کوئی فوج نہ لی.لیکن جب اس واقعہ پر نظر غائر ڈالی جائے تو چند ایسی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے اس واقعہ کو معمولی جرات و دلیری کا کام نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ واقعہ خاص طور پر ممتاز معلوم ہوتا ہے.اول امر جو قابل لحاظ ہے یہ ہے کہ جرات و دلیری دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو وہ جو بعض اوقات بزدل سے بزدل انسان بھی دکھا دیتا ہے اور اس کا اظہار کمال مایوسی یا انقطاع اسباب کے وقت ہوتا ہے اور ایک وہ جو سوائے دلیر اور قوی دل کے اور کوئی نہیں دکھا سکتا.پہلی قسم کی دلیری ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ایسے جانوروں سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے جو جرات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں.مثلاً مرغی ان جانوروں میں سے نہیں ہے کہ جو جرات کی صفت سے متصف ہیں بلکہ نہایت ڈرپوک جانور ہے مگر بعض اوقات جب بلی یا چیل اس کے بچوں پر حملہ کرے تو یہ اپنی چونچ سے اس کا مقابلہ کرتی ہے.اور بعض اوقات تو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ چیل مرغی کا بچہ اٹھا کر لے گئی تو وہ اس کے پیچھے اس زور سے گودی کہ دو دو گز تک اس کا مقابلہ کیا.حالانکہ مرغی لڑنے والے جانوروں میں سے نہیں ہے.مرغی تو خیر پھر بھی بڑا جانور ہے چڑیا تک اپنے سے کئی کئی گنے جانوروں کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتی ہے مگر یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ دیکھ لے کہ اب کوئی مفر نہیں اور میری یا میرے بچوں کی خیر نہیں.جب جانوروں میں اس قدر عقل ہے کہ وہ جب مصیبت اور بلا میں گھر جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب سوائے موت کے اور کوئی صورت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور حتی الوسع دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ اس صفت سے کب محروم رہ سکتا ہے.چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض انسان جو معمولی اوقات
سيرة النبي علي 173 جلد 1 میں نہایت بزدل اور کمزور ثابت ہوئے تھے جب کسی ایسی مصیبت میں پھنس گئے کہ اس سے نکلنا ان کی عقل میں محالات سے تھا تو انہوں نے اپنے دشمنوں کا ایسی سختی سے مقابلہ کیا کہ ان پر غالب آگئے اور جیت گئے اور ایسی جرات دکھائی کہ دوسرے مواقع میں بڑے بڑے دلیروں سے بھی نہ ظاہر ہوتی تھی.پس ایک جرات وہ ہوتی ہے جو انقطاع اسباب کے وقت ظاہر ہوتی ہے اور بزدل کو بہادر اور ضعیف کو توانا اور ڈرپوک کو دلیر بنا دیتی ہے مگر یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی صفت نہیں کیونکہ اس میں چھوٹے بڑے، ادنی اور اعلیٰ سب شریک ہیں.قابل تعریف جرات وہ ہے جو ایسے اوقات میں ظاہر ہو کہ اسباب کا انقطاع نہ ہوا ہو.بہت کچھ امیدیں ہوں.بھاگنے اور بچنے کے راستے کھلے ہوں یعنی انسان اپنی مرضی سے جان بوجھ کر کسی خطرہ کی جگہ میں چلا جائے نہ یہ کہ اتفاقاً کوئی میبت سر پر آپڑی تو اس پر صبر کر کے بیٹھ رہے.صلى الله اب دیکھنا چاہیے کہ رسول کریم ﷺ سے جو اس وقت جرات کا اظہار ہوا ہے تو یہ جرات دوسری قسم کی ہے.اگر آپ اتفاقا کہیں جنگل میں دشمن کے نرغہ میں آ جاتے اور اس وقت جرات سے اس کا مقابلہ کرتے تو وہ اور بات ہوتی.اور یہ اور بات تھی کہ آپ رات کے وقت تن تنہا بغیر کسی محافظ دستہ کے دشمن کی خبر لینے کو نکل کھڑے ہوئے.اگر آپ نہ جاتے تو آپ مجبور نہ تھے.ایسے وقت میں باہر نکلنا افسروں کا کام نہیں ہوتا.صحابہ آپ خبر لاتے.اور اگر جانا ہی تھا تو آپ دوسروں کا انتظار کر سکتے تھے مگر وہ قوی دل جس کے مقابلہ میں شیر کا دل بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا اس بات کی کیا پرواہ کرتا تھا.شور کے سنتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر خبر لانے کو چل دیئے اور ذرا بھی کسی قسم کا تر و یا فکر نہیں کیا.دوسرا امر جو اس واقعہ کو ممتاز کر دیتا ہے یہ ہے کہ آپ نے ایسے وقت میں ایسا گھوڑا لیا جس پر سواری کے آپ عادی نہ تھے حالانکہ ہر ایک گھوڑے پر سوار ہونا ہر ایک آدمی کا کام نہیں ہوتا.ایسے خطرہ کے وقت ایک ایسے تیز گھوڑے کو لے کر چلے جانا جو
سيرة النبي علي 174 جلد 1 اپنی تختی میں مشہور تھا یہ بھی آپ کی خاص دلیری پر دلالت کرتا ہے.تیسرا امر جو اس واقعہ کو عام جرات کے کارناموں سے ممتاز کرتا ہے وہ آپ کی حیثیت ہے.اگر کوئی معمولی سپاہی ایسا کام کرے تو وہ بھی تعریف کے قابل تو ہوگا مگر ایسا نہیں ہو سکتا جیسا کہ افسرو بادشاہ کا فعل.کیونکہ اس سپاہی کو وہ خطرات نہیں جو بادشاہ کو ہیں.اول تو سپاہی کو مارنے یا گرفتار کرنے کی ایسی کوشش نہیں کی جاتی جتنی بادشاہ یا امیر کے گرفتار کرنے یا مارنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اس کے مارنے یا قید کر لینے سے فیصلہ ہی ہو جاتا ہے.دوسرے سپاہی اگر مارا جائے تو چنداں نقصان نہیں بادشاہ کی موت ملک کی تباہی کا باعث ہوتی ہے.پس باوجود ایک بادشاہ کی حیثیت رکھنے کے آپ کا اُس وقت دشمن کی تلاش میں جانا ایک ایسا ممتاز فعل ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی.صلى الله غزوہ حنین رسول کریم ہی دنیا کے لیے ایک کامل نمونہ ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ ہر ایک امر میں دوسرے انسانوں سے افضل ہیں اور ہر ایک نیکی میں دوسروں کے لیے رہنما ہیں.ہر ایک پاک صفت آپ میں پائی جاتی ہے اور آپ کا کمال دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور آپ کے نور سے دل منور ہو جاتے ہیں.علماء میں آپ سر بر آوردہ ہیں.متقیوں میں آپ افضل ہیں.انبیاء میں آپ سردار ہیں.ملک داری میں آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.جرأت میں آپ فردِ وحید ہیں.غرض کہ ہر ایک امر میں آپ خاتم ہیں اور آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.میں نے پیچھے آپ کی جرات کا ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح آپ سے پ سب صحابہ سے پہلے خطرہ کے معلوم کرنے اور دشمن کی خبر لینے کے لیے تن تنہا چلے گئے.اب میں ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے پڑھنے والے کو خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جائے گا کہ جو کرشمے بہادری اور جرات کے آپ نے دکھلائے وہ اور کوئی انسان نہیں دکھا سکتا.
سيرة النبي علي 175 جلد 1 جولوگ جنگ کی تاریخ سے واقف و آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ دشمن کا سب سے زیادہ زور افسروں اور جرنیلوں کو نقصان پہنچانے پر خرچ ہوتا ہے اور سب سے زیادہ اسی بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ سردار لشکر اور اس کے سٹاف کو قتل و ہلاک کر دیا جائے اور یہ اصل ایسی ہے کہ پرانے زمانہ سے اس پر عمل ہوتا چلا آیا ہے بلکہ پرانے زمانہ میں تو جنگ کا دارو مدار ہی اس پر تھا کہ افسر کو قتل یا قید کر لیا جائے اور اس کی زیادہ تر وجہ یہ تھی کہ پچھلے زمانہ میں خود بادشاہ میدان جنگ میں آتے تھے اور آپ ہی فوج کی کمان کرتے تھے اس لیے ان کا قتل یا قید ہو جانا بالکل شکست کے مترادف ہوتا تھا اور بادشاہ کے ہاتھ سے جاتے رہنے پر فوج بے دل ہو جاتی تھی اور اس کے قدم اکھر جاتے تھے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہو جاتی تھی جیسے بے سر کا جسم.کیونکہ جس کی خاطر لڑتے تھے وہی نہ رہا تو لڑائی سے کیا فائدہ.پس بادشاہ یا سردار کا قتل یا قید کر لینا بڑی سے بڑی شکستوں سے زیادہ مفید اور نتائج قطعیہ پر منتج تھا اس لیے جس قدر خطرہ با دشاہ کو ہوتا تھا اتنا اور کسی انسان کو نہ ہوتا.اس بات کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے اُسے ذیل کا واقعہ محو حیرت بنا دینے کے لیے کافی ہے عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ أَفَرَرْتُم عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَكِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرٌ إِنَّ هَوَازِنَ كَانُوْا قَوْمًا رُمَاةً وَإِنَّا لَمَّا لَقِيْنَاهُمُ حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ فَانْهَزَمُوْا فَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَى الْغَنَائِمِ فَاسْتَقْبَلُوْنَا بِالسِّهَامِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَفِرٌ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَإِنَّهُ لَعَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ آخِذٌ بِلِجَامِهَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ 69 فَأَمَّا براء بن عازب سے روایت ہے کہ آپ سے کسی نے کہا کہ کیا تم لوگ جنگ حنین کے دن رسول کریم علیہ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ آپ نے جواب میں کہا کہ
سيرة النبي علي 176 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ نہیں بھاگے.ہوازن ایک تیرانداز قوم تھی اور تحقیق ہم جب ان سے ملے تو ہم نے ان پر حملہ کیا اور وہ بھاگ گئے.ان کے بھاگنے پر مسلمانوں نے ان کے اموال جمع کرنے شروع کیے لیکن ہوازن نے ہمیں مشغول دیکھ کر تیر برسانے شروع کیے.پس اور لوگ تو بھاگے مگر رسول کریم ﷺ نہ بھاگے بلکہ اس وقت میں نے دیکھا تو آپ اپنی سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان نے آپ کے خچر کی لگام پکڑی ہوئی تھی اور آپ فرما رہے تھے میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے.میں عبدالمطلب کی اولاد میں ہوں..اس واقعہ کی اہمیت کے روشن کرنے کے لیے میں نے پہلے بتایا تھا کہ بادشاہ لشکر میں سب سے زیادہ خطرہ میں ہوتا ہے کیونکہ جو نقصان بادشاہ کے قتل یا قید کر لینے سے لشکر کو پہنچتا ہے وہ کئی ہزار سپاہیوں کے مارے جانے سے نہیں پہنچتا.پس دشمن کو جس قدر آپ کا تجسس ہو سکتا تھا اور کسی کا نہیں.پس جبکہ اچانک دشمن کا حملہ ہوا اور وہ اپنے پورے زور سے ایک عارضی غلبہ پانے میں کامیاب ہوا اور لشکر اسلام اپنی ایک غلطی کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا تو دشمن کے لیے ایک غیر مترقبہ موقع تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ پر حملہ کرتا اور اپنے مدت کے بغض اور عناد کو عملی جامہ پہنا تا.پس ایسی صورت میں آپ کا وہاں کھڑا رہنا ایک نہایت خطرناک امر تھا جو نہایت بہادری اور جرات چاہتا تھا اور عام عقل انسانی اس واقعہ کی تفصیل کو دیکھ کر ہی حیران ہو جاتی ہے کہ کس طرح صرف چند آدمیوں کے ساتھ آپ وہاں کھڑے رہے.آپ کے ساتھ اُس وقت بارہ ہزار بہادر سپاہی تھا جو ایک سے ایک بڑھ کر تھا اور سینکڑوں مواقع پر کمال جرات دکھلا چکا تھا مگر حنین میں کچھ ایسی ابتری پھیلی اور دشمن نے اچانک تیروں کی ایسی بوچھاڑ کی کہ بہادر سے بہادر سپاہی کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ تاب مقابلہ نہ لا سکا حتی کہ جنگ کا عادی بلکہ میدانِ جنگ کا تربیت یافتہ عرب گھوڑا بھی گھبرا کر بھاگا اور بعض صحابہ کا بیان ہے کہ اس شدت کا حملہ تھا کہ ہم باوجود کوشش
سيرة النبي علي 177 جلد 1 کے نہ سنبھل سکتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاؤں جما کر لڑیں مگر قدم نہ جمتے تھے اور ہم اپنے گھوڑوں کو واپس کرتے تھے لیکن گھوڑے نہ لوٹتے اور ہم اس قدر ان کی باگیں کھینچتے تھے کہ گھوڑے دو ہرے ہو جاتے تھے مگر پھر آگے کو ہی بھاگتے تھے اور واپس نہ خص لوٹتے تھے.پس اس خطرناک وقت میں جب ایک جرار لشکر پیٹھ پھیر چکا ہو ایک تن تنہا صرف چند وفادار خدام کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہے اور تیروں کی بارش کی ذرا بھی پرواہ نہ کرے تو یہ ایک ایسا فعل نہیں ہو سکتا جو کسی معمولی جرات یا دلیری کا نتیجہ ہو بلکہ آپ کے اس فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینہ میں ایک ایسا دل رکھتے تھے جو کسی سے ڈرنا جانتا ہی نہ تھا اور خطرناک دشمن کے مقابلہ میں ایسے وقت جبکہ اس کے پاس کوئی ظاہری سامان موجود نہ ہو کھڑا رہنا اس کے لیے ایک معمولی کام تھا اور یہ ایک ایسا دلیرانہ کام ہے، ایسی جرات کا اظہار ہے کہ جس کی نظیر اولین و آخرین کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.آپ (فِدَاهُ اَبِيْ وَأُمِّي) خوب جانتے تھے کہ کفار عرب کو اگر کسی جان کی ضرورت ہے تو میری جان کی.اگر وہ کسی کے دشمن ہیں تو میرے دشمن ہیں.اگر وہ کسی کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو مجھے.مگر باوجود اس علم کے، باوجود بے یار و مددگار ہونے کے آپ ایک قدم پیچھے نہ ہٹے بلکہ اس خیال سے کہ کہیں خچر ڈر کر نہ بھاگ جائے ایک آدمی کو باگ پکڑوا دی کہ اسے پکڑ کر آگے بڑھاؤ تا یہ بے بس ہو کر بھاگ نہ جائے.بے شک چند آدمی آپ کے ساتھ اور بھی رہ گئے تھے مگر وہ اول تو اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھا وہاں کھڑے رہے دوسرے ان کی جان اس خطرہ میں نہ تھی جس میں آنحضرت ﷺ کی جان تھی.پس باوجود کمال دلیری کے آپ کی جرات صلى الله کا مقابلہ وہ لوگ بھی نہیں کر سکتے جو اس وقت آپ کے پاس کھڑے رہے.اس جگہ ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایسے وقت میں ایک بہادر انسان اپنی ذلت کے خوف سے جان دینے پر آمادہ بھی ہو جائے اور بھاگنے کا خیال چھوڑ بھی
سيرة النبي علي 178 جلد 1 دے تب بھی وہ یہ جرات نہیں کر سکتا کہ دشمن کو للکارے اور اگر للکارے بھی تو کمال مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور جان دینے کے لیے آمادگی ظاہر کرتا ہے مگر آپ نے اس خطرناک وقت میں بھی پکار کر کہا کہ میں خدا کا نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں جس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطر ناک وقت میں بھی آپ گھبرائے نہیں بلکہ ان لوگوں کو پکار کر سنا دیا کہ میں تو سچا ہوں اور خدا کی طرف سے ہوں تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو.پس ایسے خطرناک موقع پر خون کے پیاسے دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا رہنا ، پھر انہیں اپنی موجودگی کی اطلاع خود نعرہ مار کر دینا، پھر کامل اطمینان اور یقین سے فتح کا اظہار کرنا ایسے امور ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے کوئی شخص میرے آقا کے مقابلہ میں جرات و دلیری کا دعوی نہیں کرسکتا.مال کے متعلق احتیاط آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق بادشاہ بھی بنا دیا تھا اور گو آپ کے مخالفین نے ناخنوں تک زور مارا مگر خدا کے وعدوں کو پورا ہونے سے کون روک سکتا ہے.باوجود ہزاروں بلکہ لاکھوں دشمنوں کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دشمنوں پر فتح دی اور وہ سب آپ کے سامنے گردنیں جھکا دینے پر مجبور ہوئے اور انہیں چارو ناچار آپ کے آگے سر نیاز مندی جھکانا پڑا.مختلف ممالک سے زکوۃ وصول ہو کر آنے لگی جس کا انتظام آپ ہی کرتے تھے مگر جس رنگ میں کرتے تھے اسے دیکھ کر سخت حیرت ہوتی ہے.آج کل کے بادشاہوں کو دیکھو کہ وہ لوگوں کا روپیہ کس طرح بے دریغ اڈار ہے ہیں.وہ مال جو غرباء کے لیے جمع ہو کر آتا ہے اسے اپنے اوپر خرچ کر ڈالتے ہیں اور ان کے خزانوں کا کوئی حساب نہیں.اگر وہ اپنے خاص اموال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کریں تو ان پر کوئی اعتراض نہ ہو مگر غرباء کے اموال جو صرف تقسیم کرنے کے لیے ان کے سپرد کیے جاتے ہیں ان پر بھی وہ ایسا دست تصرف پھیرتے ہیں کہ جیسے خاص ان کا اپنا مال ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں.مگر آنحضرت ﷺ کا حال بالکل اس
سيرة النبي علي 179 جلد 1 کے برخلاف تھا.آپ کبھی لوگوں کے اموال پر ہاتھ نہ ڈالتے بلکہ باوجود اپنے لاثانی تقویٰ اور بے نظیر خشیت الہی کے آپ لوگوں کے اموال کو اپنے گھر بھی رکھنا پسند نہ کرتے تھے.حضرت عقبہ تقفرماتے ہیں کہ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ فَسَلَّمَ فَقَامَ مُسْرِعًا فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضٍ حُجَرِ نِسَائِهِ فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمُ فَرَاى أَنَّهُمْ قَدْ عَجِبُوْا مِنْ سُرُعَتِهِ فَقَالَ ذَكَرُتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرِ عِنْدَنَا فَكَرِهُتُ أَنْ يَحْبِسَنِي فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ 70 میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز پڑھی.پس آپ نے سلام پھیرا اور جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنوں پر سے گو دتے ہوئے اپنی بیویوں میں سے ایک کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے.لوگ آپ کی اس جلدی کو دیکھ کر گھبرا گئے.پس جب باہر تشریف لائے تو معلوم کیا کہ لوگ آپ کی جلدی پر متعجب ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے یاد آ گیا کہ تھوڑا سا سونا ہمارے پاس رہ گیا ہے اور میں نے نا پسند کیا کہ وہ میرے پاس پڑا رہے اس لیے میں نے جا کر حکم دیا کہ اسے تقسیم کر دیا جائے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مال کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے اور کبھی پسند نہ فرماتے کہ کسی بھول چوک کی وجہ سے لوگوں کا مال ضائع ہو جائے.آپ کی نسبت یہ تو خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ اپنے نفس پر اس بات سے ڈرے ہوں کہ کہیں اس سونے کو میں نہ خرچ کرلوں.مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ اس بات سے ڈرے کہ کہیں جہاں رکھا ہو وہیں نہ پڑا رہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائیں.اور اس خیال کے آتے ہی آپ دوڑ کر تشریف لے گئے اور فوراً وہ مال تقسیم کر وایا اور پھر مطمئن ہوئے.اس احتیاط کو دیکھو اور اس بے احتیاطی کو دیکھو جس میں آج مسلمان مبتلا ہو رہے ہیں.امانتوں میں کس بے دردی سے خیانت کی جا رہی ہے.لوگ کس طرح غیروں کا
سيرة النبي علي 180 جلد 1 مال شیر مادر کی طرح کھا رہے ہیں.حقوق کا اتلاف کس زور وشور سے جاری ہے مگر کوئی نہیں جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاک انسان جس پر گناہ کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا غرباء کے اموال کی نسبت ایسی احتیاط کرے کہ ان کا مال استعمال کرنا تو الگ رہا اتنا بھی پسند نہ فرمائے کہ اسے اپنے گھر میں پڑا رہنے دے.اور اب گھر میں رکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس اپنے اموال رکھوائیں تا ہم پھر انہیں واپس نہ دیں.کاش! ہمارے رؤساء اس نکتہ کو سمجھتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرتے جو باوجود معصوم ہونے کے اپنے نفس پر ایسا محاسبہ رکھتے کہ ذراسی غفلت میں بھی نہ پڑنے دیتے.اور یہ لوگ دیکھتے کہ ہم تو اپنے نفوس پر ایسے قابو یافتہ نہیں پھر بغیر کسی حساب کے لوگوں کے اموال کو جمع کرنا ہمارے لیے کیسا خطرناک ہوگا مگر اس طرف قطعاً توجہ نہیں اور گل روپیہ بجائے غرباء کی خبر گیری کے اپنے ہی نفس پر خرچ کر دیتے ہیں اور جن کے لیے روپیہ جمع کیا جاتا ہے اور جن پر خرچ کرنے کا حکم صلى اللہ تعالیٰ نے بادشاہوں کو دیا ہے ان کی کوئی خبر ہی نہیں لیتا.آنحضرت ﷺ کا یہ فعل ہمیشہ کے لیے مسلمان بادشاہوں کے لیے ایک نمونہ ہے جس پر عمل کرنے سے وہ فلاح دارین پاسکتے ہیں.اگر رعایا کو یقین ہو جائے کہ ان کے اموال بے جا طور سے نہیں خرچ کیے جاتے تو وہ اپنے بادشاہ کے خلاف سازشوں کی مرتکب نہ ہومگر ہمارے بادشاہوں نے اپنے حقوق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق سے کچھ زیادہ ہی سمجھ لیا ہے اور اپنے نفس پر آپ سے بھی زیادہ بھروسہ کرتے ہیں.حضرت فاطمہ کا سوال پچھلے واقعہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسے آ محتاط تھے کہ غرباء کا مال جب تک اُن کے پاس نہ پہنچ جائے آپ کو آرام نہ آتا اور آپ کسی کے حق کے ادا کرنے میں کسی قسم کی سستی یا دیر کو روا نہ رکھتے.لیکن وہ واقعہ جو میں آگے بیان کرتا ہوں ثابت کرتا ہے کہ آپ
سيرة النبي علي 181 جلد 1 اموال کی تقسیم میں بھی خاص احتیاط سے کام لیتے اور ایسا کوئی موقع نہ آنے دیتے کہ لوگ کہیں کہ آپ نے اموال کو خود اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا.حضرت علیؓ فرماتے ہیں أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا شَكَتْ مَا تَلَقَّى مِنْ أَثَرِ الرَّحَا فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبِّي فَانْطَلَقَتْ فَلَمْ تَجِدُهُ فَوَجَدَتْ عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتُهُ عَائِشَةُ بِمَجِيْءٍ فَاطِمَةَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْتُ لاقُوْمَ فَقَالَ عَلَى مَكَانِكُمَا فَقَعَدَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِى وَقَالَ أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَانِي أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا تُكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِيْنَ وَتُسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ وَتَحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِيْنَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمَا مِنْ خَادِمٍ 71 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا صلى الله نے شکایت کی کہ چکی پینے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے.اسی عرصہ میں آنحضرت عالی کے پاس کچھ غلام آئے.پس آپ آنحضرت ﷺ کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپ کو گھر پر نہ پایا اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دے کر گھر لوٹ آئیں.جب آنحضرت ﷺے گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے جناب کو حضرت فاطمہ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے.میں نے آپ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر لیٹے رہو.پھر ہم دونوں کے درمیان میں آ کر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپ کے قدموں کی خنکی میرے سینہ پر محسوس ہونے لگی.جب آپ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں کوئی ایسی بات نہ بتا دوں جو اُس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونتیس دفعہ تکبیر کہو اور تینتیس دفعہ سُبحَانَ اللهِ کہو اور تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِلهِ کہو پس یہ تمہارے لیے خادم سے اچھا ہوگا.-
سيرة النبي علي 182 جلد 1 اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکی پینے سے آپ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپ نے اُن کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ کیا.آپ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لیے آپ کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہ میں تقسیم کرنے کے لیے آتے تھے اور حضرت علیؓ کا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی اس کی حقدار تھیں لیکن آپ نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال میں سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو کچھ دے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لیے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے.پس احتیاط کے طور پر آپ نے حضرت فاطمہ کو ان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپ کے پاس اُس وقت بغرض تقسیم آئیں کوئی نہ دی.اس جگہ یہ بھی یا د رکھنا چاہیے کہ جن اموال میں آپ کا اور آپ کے رشتہ داروں کا خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر فرمایا ہے اُن سے آپ خرچ فرما لیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دیتے تھے.ہاں جب تک کوئی چیز آپ کے حصہ میں نہ آئے اُسے قطعاً خرچ نہ فرماتے اور اپنے عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو بھی نہ دیتے.کیا دنیا کسی بادشاہ کی مثال پیش کر سکتی ہے جو بیت المال کا ایسا محافظ ہو؟ اگر کوئی نظیر مل سکتی ہے تو صرف اسی پاک وجود کے خدام میں سے.ورنہ دوسرے مذاہب اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتے.مذکورہ بالا واقعات سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت محتاط تھے اور ہر معاملہ میں کمال احتیاط سے کام کرتے تھے.خصوصاً اموال کے معاملہ میں آپ نہایت احتیاط فرماتے کہ کسی کا حق نہ مارا جائے اور عارضی طور پر بھی لوگوں کی حق رسی میں دیر کرنا پسند نہ فرماتے بلکہ فوراً غربا حقوق دلوا دیتے تھے.اب میں اسی امر کی شہادت کے لیے ایک اور واقعہ بیان کرتا
سيرة النبي علي 183 جلد 1 ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے اموال کا خیال رکھنے کے علاوہ ان کے ایمانوں کا بھی خیال رکھتے تھے اور کبھی ایسے چندوں کو قبول نہ فرماتے جو بعد میں کسی وقت چندہ دہندگان کے لیے وبالِ جان ثابت ہوں یا کسی وقت اسے افسوس ہو کہ میں نے کیوں فلاں مال اپنے ہاتھ سے کھو دیا آج اگر میرے پاس ہوتا تو میں اس سے فائدہ اٹھاتا.مکہ میں جب تکالیف بڑھ گئیں اور ظالموں کے ظلموں سے تنگ آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے اپنے صحابہ کو دوسرے ممالک میں نکل جانے کا حکم دینا پڑا اور بعد ازاں خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنا وطن عزیز ترک کر کے مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کرنی پڑی تو آپ پہلے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر بنی عمرو بن عوف کے مہمان رہے اور دس دن سے کچھ زیادہ وہاں ٹھہرے.اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے.اور چونکہ یہاں مستقل طور پر رہنا تھا اس لیے مکانات کی بھی ضرورت تھی اور سب سے زیادہ ایک مسجد کی ضرورت تھی جس میں نماز پڑھی جائے اور سب مسلمان وہاں اکٹھے ہو کر اپنے رب کا نام لیں اور اس کے حضور میں اپنے عجز وانکسار کا اظہار کریں اور آنحضرت ﷺ جو ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کے خیال میں رہتے تھے اور آپ کا ہر ایک فعل عظمتِ الہی کو قائم کرنے والا تھا آپ کو ضرور بالضرور سب سے پہلے تعمیر مسجد کا خیال پیدا ہونا چاہیے تھا.چنانچہ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے جو بات آپ نے کی وہ مسجد کی تعمیر کے متعلق تھی.اور سب سے پہلے آپ نے جو کام کیا وہ یہی تھا کہ اپنے محبوب و مطلوب کے ذکر کا مقام اور اس کے حضور گر نے اور عبادت کرنے کی جگہ تیار کریں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ہمارے مطاع و آقا خاتم النبین ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں آپ نے ایک طویل حدیث میں تمام واقعہ ہجرت مفصل بیان فرمایا ہے.آپ فرماتی ہیں فَلَبتَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سيرة النبي علي 184 جلد 1 فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً وَأَسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى وَصَلَّى فِيهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِندَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُصَلَّى فِيْهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسُهَيْلِ وَسَهْلٍ غُلَامَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي حَجْرٍ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ بَرَكَتُ بِهِ رَاحِلَتُهُ هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُلَامَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بالْمِرْبَدِ لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا فَقَالَا لَا بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ فَأَبَى رَسُوْلُ اللهِ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا 72.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں کچھ دن ٹھہرے.دس دن سے کچھ اوپر اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی نسبت قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی.پھر آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور آپ کے ساتھ لوگ پا پیادہ چلنے لگے.آپ کی اونٹنی چلتی گئی یہاں تک کہ وہ مدینہ کے اس مقام پر پہنچ کر بیٹھ گئی جہاں بعد میں مسجد نبوی تیار کی گئی اور اُس وقت وہاں مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے.اس مقام پر کھجوریں سکھائی جاتی تھیں اور وہ دو یتیم لڑکوں کا تھا جن کا نام سہیل اور سہل تھا اور جو اسعد بن زرارہ کی ولایت میں پلتے تھے.جب یہاں آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا کہ انشاء اللہ صلى الشر یہاں ہی ٹھہریں گے.پھر رسول کریم علیہ نے ان دونوں لڑکوں کو بلوایا اور ان سے چاہا کہ اس جگہ کی قیمت طے کر کے انہیں قیمت دے دیں تا کہ وہاں مسجد بنائیں.اور دونوں لڑکوں نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم قیمت نہیں لیتے بلکہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ نے ہبہ لینے سے انکار کیا اور آخر قیمت دے کر اُس جگہ کو خرید لیا.صلى الله
سيرة النبي علي 185 جلد 1 اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ میں داخل ہوتے ہی پہلا خیال آپ کو یہی آیا کہ مسجد بنائیں اور پہلے آپ نے اس کے لیے کوشش شروع کی اور آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جو جوش تھا اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ جاتا ہے.دوسرے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ آپ معاملات میں کیسے محتاط تھے.اہل مدینہ نے بار بار درخواست کر کے آپ کو بلایا تھا اور خود جا جا کر عرض کی تھی کہ آپ ہمارے شہر میں تشریف لائیں اور ہم آپ کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور جان و مال سے آپ کی خدمت کریں گے اور جہاں تک ہماری طاقت ہو گی آپ کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے غرض کہ بار بار کی درخواستوں اور اصرار کے بعد آپ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تشریف لائے اور مدینہ والوں کا فرض تھا کہ آپ کو جگہ دیتے اور حق مہمان نوازی ادا کرتے اور مسجد بھی تیار کراتے اور آپ کی رہائش کے لیے بھی مکان کا بندو بست کرتے اور وہ لوگ اپنے حق کو سمجھتے بھی تھے اور ہر طرح خدمت کے لیے حاضر تھے مگر چونکہ آپ کے تمام کام اللہ تعالیٰ کے سپرد تھے اور ہر ایک فعل میں آپ اُسی پر اتکال کرتے تھے اس لیے آپ نے اپنی رہائش کے لیے ایسی جگہ کو پسند کیا جہاں اللہ تعالیٰ آپ کو رکھنا پسند کرے اور بجائے خود جگہ پسند کرنے کے اپنی اونٹنی کو چھوڑ دیا کہ خدا تعالیٰ جہاں اسے کھڑا کرے وہیں مسجد بنائی جائے اور وہیں رہائش کا مکان بنایا جائے.اب جس جگہ آپ کی اونٹنی کھڑی ہوئی وہ دو یتیموں کی جگہ تھی اور وہ بھی آپ کے خدام میں سے تھے اور ہر طرح آپ پر اپنا جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار تھے اور بطور ہبہ کے وہ زمین پیش کرتے تھے مگر باوجود اس کے کہ آپ اہل مدینہ کے مہمان تھے اور وہ لڑکے مہمان نوازی کے ثبوت میں آپ کو وہ زمین مفت دینا چاہتے تھے آپ نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی وجہ وہ احتیاط تھی جو آپ کے تمام کاموں میں پائی جاتی تھی.اول تو آپ یہ نہ چاہتے تھے کہ وہ نابالغ بچوں سے بغیر معاوضہ کے زمین لیں
سيرة النبي علي 186 جلد 1 کیونکہ ممکن تھا کہ وہ بچپن کے جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں زمین پیش کر دیتے لیکن بڑے ہو کر ان کے دل میں افسوس ہوتا کہ اگر وہ زمین ہم بیچ دیتے یا اس وقت ہمارے پاس ہوتی تو وہ زمین یا اس کی قیمت ہمارے کام آتی اور ہماری معیشت کا سامان بنتی.اس احتیاط کی وجہ سے اس خیال سے کہ ابھی یہ بچے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کو نہیں سمجھ سکتے آپ نے اس زمین کے مفت لینے سے بالکل انکار کر دیا.گو وہ لڑکے اپنے ایمان کے جوش میں زمین ہبہ کر رہے تھے اور اگر آپ اسے قبول کر لیتے تو بجائے افسوس کرنے کے وہ اس پر خوش ہوتے کیونکہ صحابہ کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بچے بھی جوانوں سے کم نہ تھے اور چودہ پندرہ سال تک کے بچے مال تو کیا جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے.چنانچہ بدر کی جنگ میں دو ایسے بچے بھی شامل ہوئے تھے.پس باوجود اس کے کہ وہ بچے تھے اور ابھی کم سن تھے مگر بظاہر حالات ان کے ایمانوں کے اندازہ کرنے سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس پر کبھی متأسف نہ ہوں گے مگر پھر بھی رسولکر یم ﷺ نے مناسب نہ جانا کہ امکانی طور پر بھی ان کو ابتلاء میں ڈالا جائے اور اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ قیمت وصول کریں اور اگر چاہیں تو اپنی زمین فروخت کر دیں ورنہ آپ نہیں لیں گے.آخر آپ کے اصرار کو دیکھ کر ان بچوں اور ان کے والیوں نے قیمت لے لی اور وہ زمین آپ کے پاس فروخت کر دی.آجکل دیکھا جاتا ہے کہ یتامیٰ سے بھی لوگ چندہ وصول کرتے ہیں اور بالکل اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ شاید ان کو بعد ازاں تکلیف ہو اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بالکل خدا کا خوف نہیں کرتے مگر رسول کریم ﷺ نے اپنے طریق عمل سے بتا دیا که با وجود اس کے کہ آپ حقدار تھے اور اہل مدینہ کے مہمان تھے آپ نے ان یتامی سے بغیر قیمت زمین لینے سے انکار کر دیا اور باصرار قیمت ان کے حوالہ کی.افسوس کہ کامل اور اکمل نمونہ کے ہوتے ہوئے مسلمانوں نے اپنے عمل میں سستی کر دی ہے اور یتامی کے اموال کی قطعاً کوئی حفاظت نہیں کی جاتی.ان کے اموال کی حفاظت تو صلى الله
سيرة النبي علي 187 جلد 1 الگ رہی خود محافظ ہی یتامیٰ کے مال کھا جاتے ہیں اور اس احتیاط کے قریب بھی نہیں جاتے جس کا نمونہ رسول کریم ﷺ نے دکھایا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بنو ہوازن کے اموال تامی کے اموال کے لینے سے رسول کریم ﷺ نے جس احتیاط سے انکار کر دیا اور با وجود اصرار کے مسجد کے لیے بھی زمین کا لینا پسند نہ کیا وہ تو پچھلے واقعہ سے ظاہر ہے.اب ایک اور واقعہ اسی قسم کا لکھتا ہوں.ہوازن کے ساتھ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہوا تو ان کے بہت سے مرد اور عورتیں قید ہوئے اور بہت سا مال بھی صحابہ کے قبضہ میں آیا.چونکہ آنحضرت علہ نہایت رحیم و کریم انسان تھے اور ہمیشہ اس بات کے منتظر رہتے کہ لوگوں پر رحم فرمائیں اور انہیں کسی مشقت میں نہ ڈالیں آپ نے نہایت احتیاط سے کام لیا اور کچھ دن تک انتظار میں رہے کہ شاید قبیلہ ہوازن کے لوگ آ کر عفوطلب کریں تو ان کے اموال اور قیدی واپس کر دئیے جائیں مگر انہوں نے خوف سے یا کسی باعث سے آپ کے پاس آنے میں دیر لگائی تو آپ نے اموال و قیدی بانٹ دیئے.اس واقعہ کو امام بخاری نے مفصل بیان کیا ہے.مسور بن مخرمہ کی روایت ہے أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِيْنَ جَاءَهُ وَقُدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِيْنَ فَسَأَلُوْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيْثِ إِلَى أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ فَقَدْ كُنتُ اسْتَأْنَيتُ بهِمُ وَقَدْ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِيْنَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَين قَالُوْا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِيْنَ فَأَثْنَى عَلَى اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هؤُلَاءِ قَدْ جَاء وَنَا تَائِبِيْنَ وَإِنّى قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ
سيرة النبي علي 188 جلد 1 مِنْكُمْ أَن يُطَيِّبَ بِذلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُوْنَ عَلَى حَظِهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيْءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلُ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبُنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِى مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنُ فَارْجِعُوْا حَتَّى يَرْفَعُوْا إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمُ عُرَفَاؤُهُمُ ثُمَّ رَجَعُوْا إِلَى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوْهُ أَنَّهُمُ قَدْ طَيَّبُوْا وَأَذِنُوْا 73 جب وفد ہوازن بحالت قبول اسلام آنحضرت ﷺ کے پاس آیا آپ کھڑے ہوئے.ہوازن کے ڈیپوٹیشن کے ممبروں نے آنحضرت عے سے سوال کیا کہ ان کے مال اور قیدی واپس کیے جائیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ مجھے سب سے پیاری وہ بات لگتی ہے جو سب سے زیادہ سچی ہو.پس میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ دونوں چیزیں تمہیں نہیں مل سکتیں.ہاں دونوں میں سے جس ایک کو پسند کرو وہ تمہیں مل جائے گی خواہ قیدی آزاد کر وا لو خواہ اموال واپس لے لو اور میں تو تمہارا انتظار کرتا رہا مگر تم نہ پہنچے.( اور رسول کریم ﷺ طائف سے لوٹتے وقت دس سے کچھ اوپر راتیں ان لوگوں کا انتظار کرتے رہے تھے.) جب انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر یہی بات ہے تو ہم اپنے قیدی چھڑوانا پسند کرتے صلى الله ہیں.اس پر آنحضرت علہ مسلمانوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے کے بعد فرمایا کہ سنو ! تمہارے ہوازن کے بھائی تائب ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میری رائے ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں.پس جو کوئی تم میں سے یہ پسند کرے کہ اپنی خوشی سے غلام آزاد کر دے تو وہ ایسا کر دے.اور اگر کوئی یہ چاہے کہ اس کا حصہ قائم رہے اور جب خدا سب سے پہلی دفعہ ہمیں کچھ مال دے تو اُسے اس کا حق ہم ادا کر دیں تو وہ اس شرط سے غلام آزاد کر دے.لوگوں نے
جلد 1 سيرة النبي ع طور ہے 189 آپ کا ارشادسن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم نے آ یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کے لیے اپنے غلام خوشی سے آزاد کر دیئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تو نہیں سمجھتے کہ تم میں سے کس نے خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی.پس سب لوگ یہاں سے اٹھ کر اپنے خیموں پر جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار تم سے فیصلہ کر کے ہمارے سامنے معاملہ پیش کریں.پس لوگ لوٹ گئے اور ہر قبیلہ کے سردار نے اپنے پر گفتگو کی.پھر سب سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب لوگوں نے دل کی خوشی سے بغیر کسی عوض کی طمع کے اجازت دے دی ہے کہ آپ غلام آزادفرما دیں.اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس قبیلہ میں پہلے تھے اور جس میں سے آپ کی دائی تھیں وہ ہوازن کی ہی ایک شاخ تھی.پس ایک لحاظ سے ہوازن کے قبیلہ والے آپ کے رشتہ دار تھے اور ان سے رضاعت کا تعلق تھا.چنانچہ جب وفد ہوازن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو اس میں سے ابو برقان اسعدی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ سعد قبیلہ میں سے ہی تھیں) نے آپ کی خدمت میں عرض کیا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ فِي هَذِهِ الْخَطَائِرِ إِلَّا أُمَّهَاتُكَ وَخَالَاتُكَ وَحَوَاضِنُكَ وَمُرْضِعَاتُكَ فَامْنُنُ عَلَيْنَا مَنَّ اللهُ عَلَيْكَ 74 یا رسول الله ! ان احاطوں کے اندر حضور کی مائیں اور خالہ اور کھلایاں اور دودھ پلائیاں ہی ہیں اور تو کوئی نہیں پس حضور ہم پر احسان فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ پر احسان کرے گا.پس ہوازن کے ساتھ آپ کا رضاعی تعلق تھا اور اس وجہ سے وہ اس بات کے مستحق تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے.چنانچہ آپ نے اسی ارادہ سے دس دن سے زیادہ تک اموال غنیمت کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں کیا اور اس بات کے منتظر رہے کہ جونہی ہوازن پشیمان ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اپنے اموال اور قیدیوں کو طلب کریں
سيرة النبي علي 190 جلد 1 تو آپ واپس فرما دیں کیونکہ تقسیم غنائم سے پہلے آپ کا حق تھا کہ آپ جس طرح چاہتے ان اموال اور قیدیوں سے سلوک کرتے خواہ بانٹ دیتے ، خواہ بیت المال کے سپرد فرماتے ، خواہ قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور مال واپس کر دیتے.مگر باوجود انتظار کے ہوازن کا کوئی وفد نہ آیا جو اپنے اموال اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتا اس لیے مجبوراً دس دن سے زیادہ انتظار کر کے طائف سے واپس ہوتے ہوئے جعرانہ میں آپ نے ان اموال اور غلاموں کو تقسیم کر دیا.تقسیم کے بعد ہوازن کا وفد بھی آ پہنچا اور رحم کا طلبگار ہوا اور اپنا حق بھی بتا دیا کہ یہ قیدی غیر نہیں ہیں بلکہ جناب کے ساتھ کچھ رشتہ اور تعلق رکھتے ہیں اور اس خاندان کی عورتیں ان قیدیوں میں شامل ہیں جس میں کسی عورت کا حضور نے دودھ بھی پیا ہے اور اس لحاظ سے وہ آپ کی مائیں اور خالائیں اور کھلائیاں اور دائیاں کہلانے کی مستحق ہیں پس ان پر رحم کر کے قیدیوں کو آزاد کیا جائے اور اموال واپس کیے جائیں.تقسیم سے پہلے تو حضور ضرور ہی ان کی درخواست کو قبول کر لیتے اور آپ کا طریق عمل ثابت کرتا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی رحم کا معاملہ پیش ہوا ہے حضور سرور کائنات ﷺ نے بے نظیر رحم سے کام لیا ہے.مگر اب یہ مشکل پیش آ گئی تھی کہ اموال و قیدی تقسیم ہو چکے تھے اور جن کے قبضہ میں وہ چلے گئے تھے اب وہ ان کا مال تھا.اور گو وہ لوگ اپنی جان و مال کو اس حبیب خدا کی مرضی پر قربان کرنے کے لیے تیار تھے اور انہوں نے سینکڑوں موقعوں پر قربان ہو کر دکھا بھی دیا مگر پھر بھی ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کچھ کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں، کچھ قوی دل اور دلیر اس لیے حضور نے اس موقع پر نہایت احتیاط سے کام لیا اور بجائے اس کے کہ فوراً صحابہ کو حکم دیتے کہ ہوازن سے میرا رضاعی رشتہ ہے تم ان کے اموال اور قیدی رہا کر دو اول تو خود ہوازن کو ہی ملامت کی کہ تم نے دیر کیوں کی.اگر تم وقت پر آ جاتے تو جس طرح اور عرب قبائل سے سلوک کیا کرتے تھے تم پر بھی احسان کیا جاتا اور تمہارا سب مال اور قیدی تم کو مل جاتے مگر خیر اب تم کو اموال اور قیدیوں میں سے ایک چیز دلوا
سيرة النبي علي 191 جلد 1 سکتا ہوں اور اس فیصلہ سے آنحضرت ﷺ نے گویا نصف بوجھ مسلمانوں پر سے اٹھا دیا اور فیصلہ کر دیا کہ دو میں سے ایک چیز تو انہی کے ہاتھ میں رہنے دی جائے.اور جب ہوازن نے قیدیوں کی واپسی کی درخواست کی تو آپ نے پھر بھی مسلمانوں کو سب قیدی واپس کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ کہ دیا کہ جو چاہے اپنی خوشی سے آزاد کر دے اور جو چاہے اپنا حصہ قائم رکھے.آئندہ اللہ تعالیٰ جو سب سے پہلا موقع دے اس پر اس کا قرضہ اتار دیا جائے گا اور اس طرح گویا ان تمام کمزور طبیعت کے آدمیوں پر رحم کیا جو ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر ہزار آفرین ہے اس جماعت پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے بنی تھی کہ آپ کا ارشادسن کر ایک نے بھی نہیں کہا کہ ہم آئندہ حصہ لے لیں گے بلکہ سب نے بالا تفاق کہہ دیا کہ ہم نے حضور کی خاطر سب قیدیوں کو خوشی سے رہا کر دیا مگر آپ نے اس پر بھی احتیاط سے کام لیا اور حکم دیا کہ پھر مشورہ کر لیں ایسا نہ ہو بعض کی مرضی نہ ہو اور ان کی حق تلفی ہو.اپنے اپنے سرداروں کی معرفت اپنے فیصلہ سے اطلاع دو.چنانچہ جب قبائل کے سرداروں کی صلى الله معرفت آنحضرت ﷺ کو جواب ملا تو تب آپ نے غلام آزاد کیے.سُبْحَانَ اللهِ.کیسی احتیاط ہے اور کیا بے نظیر تقویٰ ہے!! آپ نے یہ بات بالکل برداشت نہ کی کہ کوئی شخص آپ پر یہ اعتراض کرے کہ آپ نے زبردستی ہوازن کے غلام آزاد کرا دیئے.اور چونکہ اس قبیلہ سے آپ کا رضاعی تعلق تھا اس لیے آپ نے خاص احتیاط سے کام لیا اور بار بار چ چھ کر قید یان ہوازن کو آزادی دی.اگر کسی شخص نے بچے مرید اور کامل متبع دیکھنے ہوں تو وہ آنحضرت بچے مرید صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھے جو اپنے جان و مال کو رسول کریم ﷺ کے نام پر قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کرتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عضل اور قارۃ دو قبیلوں کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہماری قوم اسلام کے قریب ہے آپ کچھ آدمی بھیجئے جو
سيرة النبي علي 192 جلد 1 انہیں دینِ اسلام سکھا ئیں.آپ نے ان کی درخواست پر چھ صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہاں جا کر انہیں اسلام سکھائیں اور قرآن شریف پڑھائیں.ان صحابہؓ کا عامر بن عاصم رض رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا.جب یہ لوگ صحابہ کو لے کر چلے تو راستہ میں ان سے شرارت کی اور عہد شکنی کر کے ہذیل قبیلہ کے لوگوں کو اکسایا کہ انہیں پکڑ لیں.انہوں نے ایک سو آدمی ان چھ آدمیوں کے مقابلہ میں بھیجا.صحابہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے.کفار نے ان سے کہا کہ وہ اتر آئیں وہ انہیں کچھ نہ کہیں گے.حضرت عامر نے جواب دیا کہ انہیں کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں وہ نہیں اتریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہماری حالت کی رسول اللہ ﷺ کو خبر دے دے.مگر چھ میں سے تین آدمی کفار پر اعتبار کر کے اتر آئے.مگر جب انہوں نے ان کے ہاتھ باندھنے چاہے تو ایک صحابی نے انکار کر دیا کہ یہ تو خلاف معاہدہ ہے مگر وہاں معاہدہ کون سنتا تھا اس صحابی کو قتل کر دیا گیا.باقی دو میں سے ایک کو صفوان بن امیہ نے جو مکہ کا ایک رئیس تھا خرید لیا اور اپنا غلام کر کے نسطاس کے ساتھ بھیجا کہ حرم سے باہر اس کے دو بیٹوں کے بدلہ قتل کر دے.نسطاس نے قتل کرنے سے پہلے ابن الدشنہ (اس صحابی ) سے پوچھا کہ تجھے خدا کی قسم سچ بتا کہ کیا تیرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا رسول اس وقت یہاں ہمارے ہاتھ میں ہو اور ہم اسے قتل کریں اور تو آرام سے اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہو؟ ابن الدشمنہ نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ وہاں ہوں جہاں اب ہیں (یعنی مدینہ میں ) اور ان کے پاؤں میں کوئی کانٹا چھے اور میں گھر میں بیٹھا ہوا ہوں.اس بات کو سن کر ابوسفیان جو اُس وقت تک اسلام نہ لایا تھا وہ بھی متاثر ہو گیا اور کہا کہ میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی محمد کے صحابی محمد سے محبت کرتے تھے.یہ وہ اخلاص تھا جو صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور یہی وہ اخلاص
سيرة النبي علي 193 جلد 1 تھا جس نے انہیں ایمان کے ہر ایک شعبہ میں پاس کرا دیا تھا اور انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا.اے احمدی جماعت کے مخلصو! تم بھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک رسول کریم ﷺ اور پھر مامور وقت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسی ہی محبت نہ رکھو.عروسة جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں آنحضرت عے ہر آنحضرت ﷺ کی دعا معاملہ میں نہایت حزم اور احتیاط سے کام لیتے تھے.اب میں ایک حدیث نقل کر کے بتانا چاہتا ہوں کہ آپ دعا میں بھی نہایت محتاط تھے اور کبھی ایسی دعا نہ فرماتے جو یکطرفہ ہو بلکہ ایسی ہی دعا کرتے جس میں تمام پہلو مدنظر رکھے جائیں جیسا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 75 یعنی نبی کریم ع اکثر اوقات یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں اس دنیا میں بھی نیکی اور بھلائی دے اور آخرت میں بھی نیکی اور بھلائی عنایت فرما اور عذاب نار سے ہمیں محفوظ رکھ.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی آپ کی اس دعا کا ذکر فرمایا ہے فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ - وَمِنْهُمْ مَّنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً و فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 76 یعنی لوگوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ الہی ! اس دنیا کا مال ہمیں مل جائے اور ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں.اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! اس دنیا کی بھلائی بھی ہمیں پہنچا اور آخرت کی نیکی بھی ہمیں پہنچا اور آگ کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ.اب اس دعا پر غور کرنے سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ کس قدر احتیاط سے کام فرماتے تھے.عام طور پر انسان کا قاعدہ ہے کہ جو مصیبت پڑی ہوئی ہو اُسی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور دوسرے تمام امور کو اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور ایک ہی
سيرة النبي علي 194 جلد 1 طرف کا ہو رہتا ہے اور اس وجہ سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ حق و حکمت کی شاہراہ سے بھٹک کر کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں اور سچائی سے محروم ہو جاتے ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کامل انسان تھے کہ آپ مصائب سے گھبرا کر ایک ہی طرف متوجہ نہ ہو جاتے تھے بلکہ ہر وقت گل ضروریات پر آپ کی نظر رہتی تھی.اور اس دعا سے ہی آپ کے اس کمال پر کافی روشنی پڑ جاتی ہے کیونکہ آپ صرف دنیا کے مصائب اور مشکلات کو مدنظر نہ رکھتے تھے بلکہ جب دنیاوی مشکلات کے حل کرنے کے لیے اپنے مولا سے فریاد کرتے تو ساتھ ہی مَا بَعْدَ الْمَوْتِ کی جو ضروریات ہیں ان کے لیے بھی امداد طلب کرتے.اور جب قیامت کے دل ہلا دینے والے نظاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر خدا تعالیٰ کی نصرت کے لیے درخواست کرتے تو ساتھ ہی اس دنیا کی مشکلات کے دور کرنے کے لیے بھی جو مزرعہ آخرت ہے التجا کرتے اور کسی مشکل یا تکلیف کو حقیر نہ جانتے بلکہ نہایت احتیاط سے دنیاوی اور دینی ترقیوں کے لیے بغیر کسی ایک کی طرف سے غافل ہونے کے اللہ تعالیٰ سے سے مدد مانگتے رہتے.علاوہ ازیں اس دعا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی دعاؤں کے الفاظ میں بھی نہایت احتیاط برتتے تھے کیونکہ آپ نے یہ دعا نہیں فرمائی کہ یا الہی ! ہمیں دین اور دنیا دے بلکہ یہ دعا فرمائی ہے کہ الہی ! ہمیں دین اور دنیا کی بہتری عنایت فرما کیونکہ بعض دفعہ دنیا تو ملتی ہے مگر وہ بجائے فائدہ کے نقصان رساں ہو جاتی ہے.اسی طرح دین بھی بعض لوگوں کو ملتا ہے مگر وہ اس کے ملنے کے باوجود کچھ سکھ نہیں پاتے اس لیے آپ نے دعا میں یہ الفاظ بڑھا دیئے کہ الہی ! دنیا کی بہتری ہمیں دے.یعنی دنیا کے جس حصہ میں بہتری ہو ہمیں وہ ملے.ایسا کوئی حصہ دنیا ہمیں نہ ملے جس کے ملنے سے بجائے فائدہ کے نقصان ہو اور آخرت میں بھی ہمیں بھلائی ملے نہ کہ کسی قسم کی برائی کے ہم حقدار ہوں.
سيرة النبي علي 195 جلد 1 کسی کی درخواست پر کام سپرد نہ فرماتے لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ امراء سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہزاروں قسم کی تدابیر سے کام لیتے ہیں اور جب ان کے مزاج میں دخل پیدا ہو جاتا ہے تو اپنی منہ مانگی مرادیں پاتے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ امراء مان لیتے ہیں.مگر آنحضرت ﷺ ایسے محتاط تھے کہ آپ کے دربار میں بالکل یہ بات نہ چل سکتی تھی.آپ کبھی کسی کے کہنے میں نہ آتے تھے اور آپ کے حضور میں باتیں بنا کر اور آپ کو خوش کر کے یا خوشامد سے یا سفارش سے کام نہ چل سکتا تھا.آپ کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ تمام عہدوں پر ایسے ہی آدمیوں کو مقرر فرماتے تھے جن کو ان کے لائق سمجھتے تھے کیونکہ بصورت دیگر خطرہ ہوسکتا ہے کہ رعایا یا حکومت کو نقصان پہنچے یا خود عُمال کا ہی دین خراب ہو.پس کبھی کسی عہدہ پر سفارش یا درخواست سے کسی کا تقرر نہ فرماتے اور وہ نظارے جو دنیاوی بادشاہوں کے درباروں میں نظر آتے ہیں دربارِ نبوت میں بالکل معدوم تھے.حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِى رَجُلَانِ مِنَ الْأشْعَرِيّيْنَ فَقُلْتُ مَا عَلِمْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَان الْعَمَلَ فَقَالَ لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَةَ 77 یعنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ اشعری قبیلہ کے دو اور آدمی صلى الله بھی تھے.ان دونوں نے آنحضرت مکہ سے درخواست کی کہ انہیں کوئی ملازمت دی جائے.اس پر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے علم نہ تھا کہ یہ کوئی ملا زمت چاہتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم اسے جو خود خواہش کرے اپنے عمال میں ہرگز نہیں مقرر کریں گے یا فرمایا کہ نہیں مقرر کریں گے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب سرور کائنات کو بنی نوع انسان کی بہتری کا کتنا خیال تھا.اللہ اللہ !! یا تو یہ زمانہ ہے کہ حکومتوں کے بڑے سے بڑے عہدے خود درخواست کرنے پر ملتے ہیں یا آپ کی احتیاط تھی کہ درخواست کرنے والے کو کوئی
سيرة النبي علي 196 جلد 1 عہدہ ہی نہیں دیتے تھے.در حقیقت اگر غور کیا جائے تو ایک شخص جب کسی عہدہ کی خود درخواست کرتا ہے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی غرض ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ اس عہدہ پر قائم ہو کر وہ لوگوں کو دکھ دے اور ان کے اموال پر دست اندازی کرے.مگر جس شخص کو اس کی درخواست کے بغیر کسی عہدہ پر مامور کیا جائے تو اس سے بہت کچھ امید ہوسکتی ہے کہ وہ عدل وانصاف سے کام لے گا اور لوگوں کے حقوق کو تلف نہ کرے گا کیونکہ اسے اس عہدہ کی خواہش ہی نہ تھی بلکہ خود بخود اسے سپر د کیا گیا ہے.دوسرے یہ بھی بات ہے کہ جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو شخص خود کسی عہدہ کی درخواست کرے یا کسی سے سفارش کروائے اسے کوئی عہدہ دینا ہی نہیں تو اس سے یہ بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے جائز و نا جائز وسائل سے حکام کے مزاج میں دخل پیدا کرنے کا بالکل سد باب ہو جاتا ہے اور خوشامد بند ہو جاتی ہے کیونکہ حکام سے رسوخ پیدا کرنے یا ان کی جھوٹی خوشامد کرنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کچھ نفع حاصل کیا جائے.پس جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو خود درخواست کرے گا اسے کسی عہدہ پر مامور نہ کیا جائے گا تو ان تمام باتوں کا سد باب ہو جاتا ہے.اور گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس پاک ان عیبوں سے بالکل پاک تھا کہ آپ کی نسبت یہ خیال کیا جا سکے کہ آپ کسی کی بات میں آ جائیں گے مگر آپ نے اس طریق عمل سے مسلمانوں کے لیے ایک نہایت شاندار سڑک تیار کر دی ہے جس پر چل کر وہ حکومت کی بہت سی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ دوسری قوموں کی نسبت مسلمان حکومتوں میں ہی حکام کے منہ چڑھ کر لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں اور سفارشوں سے جو کام نکلتے ہیں وہ لیاقت سے نہیں نکلتے.اگر مسلمان حکام اس طرف غور کرتے تو آج اسلامی حکومتوں کا وہ حال نہ ہوتا جو ہے.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
سيرة النبي علي 197 جلد 1 جن لوگوں کی نسبت یہ احتیاط برتتے تھے ویسے لوگ بھی تو آج کل نہیں.صحابہ تو وہ تھے کہ جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے اموال اور جانیں بھی لڑوا دیں وہ دوسروں کے اموال کی طرف کب نظر اٹھا کر دیکھ سکتے تھے.مگر آج کل تو دوسروں کے اموال کو شیر مادر سمجھا جاتا ہے.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے پاکباز لوگوں کی نسبت بھی ایسی احتیاط برتتے تھے تو آج کل کے زمانہ کے لوگوں کی نسبت تو اس سے بہت زیادہ احتیاط کی جانی چاہیے.سادگی ایک نعمت ہے اس زمانہ میں لوگ عام طور پر تکلف کی عادت میں بہت مبتلا ہیں اور اس زمانہ کی خصوصیت نہیں جو قوم ترقی کر لے اس میں تکلف اپنا دخل کر لیتا ہے.دولت اور مال اور عزت کے ساتھ ساتھ تکلف بھی ضرور آ موجود ہوتا ہے اور بڑے آدمیوں کو کچھ نہ کچھ تکلف سے کام لینا پڑتا ہے لیکن جو مزا سادگی کی زندگی میں ہے وہ تکلف میں نہیں اور گو تکلف ظاہر میں خوشنما معلوم ہو مگر اندر سے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.ذوق نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ اے ذوق ! تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے تکلف کی وجہ سے لاکھوں گھرانے برباد ہو جاتے ہیں اور تصنع اور بناوٹ ہزاروں کی بربادی کا باعث ہو چکے ہیں مگر چونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تکلف کے سوا ہماری عزت نہیں ہوتی برابر اس مرض میں مبتلا چلے جاتے ہیں اور کچھ علاج نہیں کرتے.بادشاہ اور امراء یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تکلف اور بناوٹ سے ہم اپنی خاص شان نہ بنائے رکھیں گے تو ماتحتوں میں بھی ہماری عزت نہ ہوگی اور اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہوں گے اسی لیے بہت سے مواقع پر سادگی کو برطرف رکھ کر بناوٹ سے کام لیتے ہیں اور ہزاروں موقعوں پر اپنے مافی الضمیر کو بھی بیان نہیں کر سکتے.میں ایک مجلس میں شامل ہوا جہاں بہت سے بڑے بڑے لوگ جمع تھے جو اس وقت ہندوستان میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور بعض ان میں سے لیڈران قوم کہلاتے ہیں.ان میں سے کچھ ہندو تھے
سيرة النبي علي 198 جلد 1 کچھ مسلمان.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو ایک بیرسٹر صاحب نے کہا کہ ایک مدت ہو گئی کہ تکلف کے ہاتھوں میں تکلیف اٹھا رہا ہوں.ہر وقت بناوٹ سے اپنے آپ کو سنجیدہ بنائے رکھنا پڑتا ہے اور بہت سی باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے مگر تکلف مانع ہوتا ہے کیونکہ وہ شان قائم نہیں رہتی مگر اب میں بالکل تنگ آ گیا ہوں.اس زندگی کا فائدہ کیا.ایک دوسرے صاحب بولے کہ بے شک میرا بھی یہی حال ہے اور میں تو اب اس زندگی کو جہنم کا نمونہ پاتا ہوں.پھر تو سب نے یہی اقرار کیا اور تجویز ہوئی کہ آج کی مجلس میں تکلف چھوڑ دیا جائے اور بے تکلفی سے آپس میں بات چیت کریں اور بناوٹ نزدیک نہ آئے.مگر خدا تعالیٰ انسان کو اس سادگی سے بچائے جو اُس وقت ظاہر ہوئی.اسے دیکھ کر معلوم ہو سکتا تھا کہ آج دنیا کی کیا حالت ہے کیونکہ جس قوم کے لیڈر یہ نمونہ دکھا رہے تھے اُس کے عوام نے کیا کمی رکھی ہو گی.کلام ایسا نخش کہ شریف آدمی سن نہ سکے، مذاق ایسا گندہ کہ سلیم الفطرت انسان برداشت نہ کر سکے، باتوں سے گزر کر ہاتھوں پر آگئے اور ایک دوسرے کے سر پر چپتیں بھی رسید ہونی شروع ہو گئیں.پھر کچھ میوہ کھا رہے تھے اُس کی گٹھلیوں کی وہ بوچھاڑ شروع ہوئی کہ الامان.میں نے تو سمجھا کہ اس گولہ باری میں میری خیر نہیں ایک کو نہ میں ہو کر بیٹھ گیا اور جب یہ سادگی ختم ہوئی تو میری جان میں جان آئی کہ آنکھ ناک سلامت رہے.جو نمونہ سادگی اس مجلس کے ممبران نے دکھایا جو ہندو مسلمان دونوں قوموں میں سے تھے اس سے تو ان کے تکلف کو میں لوگوں کے لیے ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں مگر اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ تکلف خود ان لوگوں کے لیے وبالِ جان ہو رہا تھا اور ہے.گو وہ خوش نظر آتے ہیں مگر در حقیقت اپنی جھوٹی عظمت اور عزت قائم کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے ایسے سنجیدہ بنے رہتے ہیں اور ایسے بنے ٹھنے رہتے ہیں کہ اپنے حقیقی جذبات کو چھپانے اور اپنے جسم کو حد سے زیادہ مشقت میں ڈالنے کی وجہ سے ان کے
سيرة النبي علي 199 جلد 1 دل مردہ ہو گئے ہیں اور زندگی ان کے لیے تلخ ہوگئی ہے.امراء کے مقابلہ میں دوسرا گر وہ علماء اور صوفیاء کا ہے جو دین کے عماد اور ستون سمجھے جاتے ہیں یہ بھی تکلفات میں مبتلا ہیں اور انہیں بھی اپنی عزت کے قائم رکھنے کے لیے تکلف سے کام لینا پڑتا ہے.اپنی چال میں ، اپنی گفتگو میں ، اپنے اٹھنے بیٹھنے میں، اپنے پہنے میں ، اپنے کھانے میں ہر بات میں تکلفات سے کام لیتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اسی سے ہمارا تقدس ثابت ہوتا ہے.یہ مذہبی لیڈر خواہ کسی مذہب کے ہوں اس مرض میں مبتلا ہیں.مسلمان صوفیاء کو ہی کوئی جا کر دیکھے کس طرح مراقبہ کی حالت میں اپنے مریدوں کے سامنے بیٹھتے ہیں.مگر بہت ہوتے ہیں جن کے دل اندر سے اور ہی خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی زندگیاں اپنے بھائیوں یعنی امراء سے زیادہ سکھ والی نہیں ہوتیں بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی تلخ ہوں کیونکہ وہ اپنے جذبات کے پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں مگر علماء اور صوفیاء اس سے بھی محروم ہیں.میری اس بیان سے یہ غرض ہے کہ دنیا میں تکلف کا بہت دور دورہ ہے اور دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے عظماء اس مرض میں مبتلا ہیں اور نہ صرف آج مبتلا ہوئے ہیں بلکہ دنیا میں یہ نقشہ ہمیشہ سے قائم ہے اور سوائے اُن لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت ہو اور بہت کم لوگ اس بناوٹ سے بچ سکتے ہیں.ہمارے ہادی اور رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین ہو کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو گل دنیا کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اس لیے آپ نے ہمارے لیے جو نمونہ قائم کیا وہی سب سے درست اور اعلیٰ ہے اور اس قابل ہے کہ ہم اس کی نقل کریں.آپ نے اپنے طریق عمل سے ہمیں بتایا ہے کہ جذبات نفس جو پاک اور نیک ہیں ان کو دبانا تو کسی طرح جائز ہی نہیں بلکہ ان کو تو ابھارنا چاہیے.اور جو جذبات ایسے ہوں کہ ان سے گناہوں اور بدیوں کی طرف توجہ ہوتی ہو ان کا چھیانا نہیں بلکہ ان کا مارنا ضروری ہے.پس اگر تکلف سے بعض ایسی باتیں نہیں کرتے جن
سيرة النبي علي 200 جلد 1 کا کرنا ہمارے دین اور دنیا کے لیے مفید تھا تو ہم غلط کار ہیں.اور اگر وہ باتیں جن کا کرنا دین اسلام کے رو سے ہمارے لیے جائز ہے صرف تکلف اور بناوٹ سے نہیں کرتے ورنہ دراصل ان کے شائق ہیں تو یہ نفاق ہے.اور اگر لوگوں کی نظروں میں عزت وعظمت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو خاموش اور سنجیدہ بناتے ہیں تو یہ صلى الله شرک ہے.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایسا ایک بھی نمونہ نہیں پایا جاتا جس سے معلوم ہو کہ آپ نے ان تینوں اغراض میں سے کسی کے لیے تکلف یا بناوٹ سے کام لیا بلکہ آپ کی زندگی نہایت سادہ اور صاف معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عزت کو لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ عزت و ذلت کا مالک خدا کو ہی سمجھتے تھے.جولوگ دین کے پیشوا ہوتے ہیں انہیں یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں اور ذکر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہو اور خاص طور پر تصنع سے کام لیتے ہیں تا لوگ انہیں نہایت نیک سمجھیں.اگر مسلمان ہیں تو وضو میں خاص اہتمام کریں گے اور بہت دیر تک وضو کے اعضاء کو دھوتے رہیں گے اور وضو کے قطروں سے پر ہیز کریں گے.سجدہ اور رکوع لمبے لمبے کریں گے.اپنی شکل سے خاص حالت خشوع و خضوع ظاہر کریں گے اور خوب وظائف پڑھیں گے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اس کے کہ سب سے اتقی اور اورع تھے اور آپ کے برابر خشیت اللہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے آپ ان سب باتوں میں سادہ تھے اور آپ کی زندگی بالکل ان تکلفات سے پاک تھی.ابوقتادہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا إِنِّي لَا قُوْمُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيْدُ أَنْ أُطَوّلَ فِيْهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمّه 78 یعنی میں بعض دفعہ نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ نماز کو لمبا کر دوں مگر کسی بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز کو اس خوف.
سيرة النبي علي 201 جلد 1 کہ کہیں میں بچہ کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں نماز مختصر کر دیتا ہوں.کس سادگی سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم بچہ کی آواز سن کر نماز میں جلدی کر دیتے ہیں.آجکل کے صوفیاء تو ایسے قول کو شاید اپنی ہتک سمجھیں کیونکہ وہ تو اس بات کے اظہار میں اپنا فخر سمجھتے ہیں کہ ہم نماز میں ایسے مست ہوئے کہ کچھ خبر ہی نہیں رہی.اور گو پاس ڈھول بھی بجتے رہیں تو ہمیں کچھ خیال نہیں آتا.مگر صلى الله آنحضرت علی ان تکلفات سے بری تھے.آپ کی عظمت خدا کی دی ہوئی تھی نہ کہ انسانوں نے آپ کو معزز بنایا تھا.یہ خیال وہی کر سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنا عزت دینے والا سمجھتے ہوں.حضرت انسؓ سے روایت ہے أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ ؟ قَالَ نَعَمُ 79 یعنی آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے بچتے تھے.اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ وہ مسلمان جو ایمان اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں اگر کسی کو اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو شور مچا دیں اور جب تک کوئی ان کے خیال کے مطابق گل شرائط کو پورا نہ کرے وہ دیکھ بھی نہیں سکتے.مگر آ نحضرت ﷺ جو ہمارے جو ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں آپ کا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپ واقعات کو دیکھتے تھے نہ تکلفات کے پابند تھے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے طہارت اور پاکیزگی شرط ہے اور یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے.پس جب جوتی پاک ہو اور عام جگہوں پر جہاں نجاست کے لگنے کا خطرہ ہو پہن کر نہ گئے ہوں تو اس میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنے میں کچھ حرج نہیں.اور آپ نے ایسا کر کے امت محمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا کہ انہیں آئندہ کے لیے تکلفات اور بناوٹ سے بچا لیا.اس اسوہ حسنہ سے اُن لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے جو آج کل ان باتوں پر جھگڑتے ہیں اور تکلفات کے شیدا ہیں.جس فعل
سيرة النبي علي 202 جلد 1 سے عظمت الہی اور تقویٰ میں فرق نہ آئے اس کے کرنے پر انسان کی بزرگی میں فرق خَامِسَ نہیں آ سکتا.حضرت ابن مسعود انصاری سے روایت ہے كَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبِ وَكَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَامٌ فَقَالَ اصْنَعُ لِيْ طَعَامًا أَدْعُو رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمُسَةٍ فَدَعَا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَةٍ فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَةٍ وَهذَا رَجُلٌ قَدْ تَبِعَنَا فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَهُ وَإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ قَالَ بَلُ أَذِنُتُ لَهُ 80 آپ نے فرمایا کہ ایک شخص انصار میں تھا.اس کا نام ابوشعیب تھا اور اس کا ایک غلام تھا جو قصائی کا پیشہ کرتا تھا.اسے اس نے حکم دیا کہ تو میرے لیے کھانا تیار کر کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار اور آدمیوں سمیت کھانے کے لیے بلاؤں گا.پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہلا بھیجا کہ حضور کی اور چار اور آدمیوں کی دعوت ہے.جب آپ اس کے ہاں چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا.جب آپ اس کے گھر پر پہنچے تو اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پانچ آدمیوں کو بلوایا تھا اور یہ شخص بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اب بتاؤ کہ اسے بھی اندر آنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! اجازت ہے تو آپ اس کے سمیت اندر چلے گئے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح بے تکلفی سے معاملات کو پیش کر دیتے.شاید آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو چپ ہی رہتا مگر آپ دنیا کے لیے نمونہ تھے اس لیے ہر بات میں جب تک خود عمل کر کے نہ دکھاتے ہمارے لیے مشکل ہوتی.آپ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ سادگی ہی انسان کے لیے مبارک ہے اور ظاہر کر دیا کہ آپ کی عزت تکلف یا بناوٹ سے نہیں تھی اور نہ آپ ظاہری خاموشی یا وقار سے بڑا بننا چاہتے تھے بلکہ آپ کی عزت خدا کی طرف سے تھی.
سيرة النبي علي 203 جلد 1 گھر کا کام کاج خود کر لیتے میں نے پچھلی فصل میں بتایا ہے کہ آپ کسی صلى الله طرح سادگی سے کام لیتے اور تکلفات سے پر ہیز کرتے تھے اور بناوٹ سے کام نہ لیتے تھے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نہ صرف بے تکلفی سے سب کام کر لیتے اور اس معاملہ میں سادگی کو پسند فرماتے بلکہ آپ کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی اور وہ اسراف اور غلو جو امراء اپنے گھر کے اخراجات میں کرتے ہیں آپ کے ہاں نام کو نہ تھا بلکہ ایسی سادگی سے اپنی زندگی بسر کرتے کہ دنیا کے بادشاہ اسے دیکھ کر ہی حیران ہو جا ئیں اور اس پر عمل کرنا تو ا لگ رہا یورپ کے بادشاہ شاید یہ بھی نہ مان سکیں کہ کوئی ایسا بادشاہ بھی تھا جسے دین کی بادشاہت بھی نصیب تھی اور دنیا کی حکومت بھی حاصل تھی مگر پھر بھی وہ اپنے اخراجات میں ایسا کفایت شعار اور سادہ تھا اور پھر بخیل نہیں بلکہ دنیا نے آج تک جس قدرسخی پیدا کیے ہیں ان سب سے بڑھ کر سخی تھا.جن کو اللہ تعالیٰ دولت اور مال دیتا ہے ان کا حال لوگوں سے پوشیدہ نہیں.غریب سے غریب ممالک میں بھی نسبتاً امراء کا گروہ موجود ہے حتی کہ جنگلی قوموں اور وحشی قبیلوں میں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ امراء کا ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جو فرق نمایاں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.خصوصاً جن قوموں میں تمدن بھی ہو اُن میں تو امراء کی زندگیاں ایسی پر عیش وعشرت ہوتی ہیں کہ ان کے اخراجات اپنی حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.آنحضرت علیہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہ بھی فخر و خیلاء میں خاص طور پر مشہور تھی اور حشم و خدم کو مایہ ناز جانتی تھی.عرب سردار با وجود ایک غیر آباد ملک کے باشندہ ہونے کے بیسیوں غلام رکھتے اور اپنے گھروں کی رونق کے بڑھانے کے عادی تھے اور عرب کے ارد گرد دو تو میں ایسی بستی تھیں کہ جو اپنی طاقت و جبروت کے لحاظ سے اُس وقت کی گل معلومہ دنیا پر حاوی تھیں.ایک طرف ایران اپنی مشرقی شان و شوکت
سيرة النبي علي 204 جلد 1 کے ساتھ اپنے شاہانہ رعب و داب کو گل ایشیا پر قائم کیے ہوئے تھا تو دوسری طرف روم اپنے مغربی جاہ و جلال کے ساتھ اپنے حاکمانہ دست تصرف کو افریقہ اور یورپ پر ا پھیلائے ہوئے تھا اور یہ دونوں ملک عیش و طرب میں دوسری حکومتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور آرائش و آرام کے ایسے سامان پیدا ہو چکے تھے کہ بعض باتوں کو تو اب اس زمانہ میں بھی کہ آرام و آسائش کے سامانوں کی ترقی کمال درجہ کو پہنچ چکی ہے نگاہ حیرت سے دیکھا جاتا ہے.دربار ایران میں شاہانِ ایران جس شان و شوکت کے ساتھ بیٹھنے کے عادی تھے اور اُن کے گھروں میں جو کچھ سامانِ طرب جمع کیے جاتے تھے اُسے شاہنامہ کے پڑھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور جنہوں نے تاریخوں میں اُن سامانوں کی تفصیل کا مطالعہ کیا ہے وہ تو اچھی طرح سے ان کا اندازہ کر سکتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ دربار شاہی کی قالین میں بھی جواہرات اور موتی ٹنکے ہوئے تھے اور باغات کا نقشہ زمردوں اور موتیوں کے صرف سے تیار کر کے میدان دربار کو شاہی باغوں کا مماثل بنا دیا جاتا تھا.ہزاروں خدام اور غلام، شاہ ایران کے ساتھ رہتے اور ہر وقت عیش وعشرت کا بازار گرم رہتا تھا.رومی بادشاہ بھی ایرانیوں سے کم نہ تھے اور وہ اگر ایشیائی شان وشوکت کے شیدا نہ تھے تو مغربی آرائش اور زیبائش کے دلدادہ ضرور تھے.جن لوگوں نے رومیوں کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ رومیوں کی حکومتوں نے اپنی دولت کے ایام میں دولت کو کس طریق سے خرچ کیا ہے.پس عرب جیسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں دوسروں کو غلام بنا کر حکومت کرنا فخر سمجھا جاتا تھا اور جو روم و ایران جیسی مقتدرحکومتوں کے درمیان واقع تھا کہ ایک طرف ایرانی عیش وعشرت اسے لبھا رہی تھی تو دوسری طرف رومی زیبائش و آرائش کے سامان اس کا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے صلى الله آنحضرت علی کا بادشاہ عرب بن جانا اور پھر ان باتوں میں سے ایک سے بھی متاثر نہ ہونا اور روم و ایران کے دام تزویر سے صاف بچ جانا اور عرب کے بُت کو مار کر گرا
سيرة النبي علي 205 جلد 1 دینا کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر پھر بھی کوئی دانا انسان آپ کے پاکبازوں کا سردار اور طہارت النفس میں کامل نمونہ ہونے میں شک کر سکے؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.علاوہ اس کے کہ آپ کے اردگرد بادشاہوں کی زندگی کا جو نمونہ تھا وہ ایسا نہ تھا کہ اس سے آپ وہ تاثر حاصل کرتے جن کا اظہار آپ کے اعمال کرتے ہیں.یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا درجہ دے دیا تھا کہ اب آپ تمام مخلوقات کے مربع افکار ہو گئے تھے اور ایک طرف روم آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اور دوسری طرف ایران آپ کے ترقی کرنے والے اقبال کو شک وشبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور دونوں متفکر تھے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جائے اس لیے دونوں حکومتوں کے آدمی آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ شروع تھا ایسی صورت میں بظاہر ان لوگوں پر رعب قائم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آپ بھی اپنے ساتھ ایک جماعت غلاموں کی رکھتے اور اپنی حالت ایسی بناتے جس سے وہ لوگ متاثر اور مرعوب ہوتے مگر آپ نے کبھی ایسا نہ کیا.غلاموں کی جماعت تو الگ رہی گھر کے کام کاج کے لیے بھی کوئی نوکر نہ رکھا اور خود ہی سب کام کر لیتے تھے.حضرت عائشہؓ کی نسبت لکھا ہے کہ أَنَّهَا سُئِلَتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ قَالَتْ كَانَ يَكُوْنُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ تَعْنِى فِى خِدْمَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ 81 یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ اپنے اہل کی محنت کرتے تھے یعنی خدمت کرتے تھے.پس جب نماز کا وقت آ جاتا آپ نماز کے لیے باہر چلے جاتے تھے.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس سادگی کی زندگی بسر فرماتے تھے اور بادشاہت کے باوجود آپ کے گھر کا کام کاج کرنے والا کوئی نوکر نہ ہوتا بلکہ آ.اپنے خالی اوقات میں خود ہی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مل کر گھر کا کام کاج کروا
سيرة النبي علي 206 جلد 1 دیتے.اللہ اللہ! کیسی سادہ زندگی ہے.کیا بے نظیر نمونہ ہے.کیا کوئی انسان بھی ایسا پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بادشاہ ہو کر یہ نمونہ دکھایا ہو کہ اپنے گھر کے کام کے لیے ایک نو کر بھی نہ ہو؟ اگر کسی نے دکھایا ہے تو وہ بھی آپ کے خدام میں سے ہوگا.کسی دوسرے بادشاہ نے جو آپ کی غلامی کا فخر نہ رکھتا ہو یہ نمونہ کبھی نہیں دکھایا.ایسے بھی مل جائیں گے جنہوں نے دنیا سے ڈر کر اسے چھوڑ ہی دیا.ایسے بھی ہوں گے جو دنیا میں پڑے اور اسی کے ہو گئے.مگر یہ نمونہ کہ دنیا کی اصلاح کے لیے اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر بھی اٹھائے رکھا اور ملکوں کے انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھی مگر پھر بھی اس سے الگ رہے اور اس سے محبت نہ کی اور بادشاہ ہو کر فقر اختیار کیا.یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خدام کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی.جن لوگوں کے پاس کچھ تھا ہی نہیں وہ اپنے رہنے کے لیے مکان بھی نہ پاتے تھے اور دشمن جنہیں کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے تھے کبھی کہیں اور کبھی کہیں جانا پڑتا تھا ان کے ہاں کی سادگی کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں.جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے شان وشوکت سے کیا رہنا ہے مگر ملک عرب کا بادشاہ ہو کر لاکھوں روپیہ اپنے ہاتھ سے لوگوں میں تقسیم کر دینا اور گھر کا کام کاج بھی خود کرنا یہ وہ بات ہے جو اصحاب بصیرت کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے بغیر نہیں رہ سکتی.عرب کے ملک میں اب بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اور ان کے افسر یا امیر جس طرز رہائش کے عادی ہیں انہیں بھی جاننے والے جانتے ہیں.خود شریف مکہ جنہیں صرف حجاز میں ایک حد تک دخل و تصرف حاصل ہے انہی کے دروازہ پر بیسیوں غلام موجود ہیں جو ہر وقت خدمت کے لیے دست بستہ ہیں مگر آنحضرت یہ سارے عرب پر حکمران تھے.یمن اور حجاز اور نجد اور بحرین تک آپ کے قبضہ میں تھے مگر با وجود تمام عرب اور اس کے ارد گرد کے علاقوں پر حکومت کرنے کے آپ کا گھر کے کاروبار خود کرنا اس پاکیزگی کی طرف ہمیں اشارہ کر رہا ہے جو آپ کے ہر عمل
سيرة النبي علي 207 جلد 1 ظاہر ہورہی تھی.اور اس طہارت نفس کی طرف متوجہ کر رہا ہے جو آپ کے ہر فعل سے ہو ید اتھی.دنیا طلبی اور اظہارِ جاہ و جلال کی آگ اُس وقت لوگوں کے دلوں کو جلا رہی تھی اور امراء تو اس کے بغیر امراء ہی نہیں سمجھے جاتے تھے مگر اس آگ میں سے سلامت نکلنے والا صرف وہی ابراہیم کا ایک فرزند تھا جس نے اپنے دادا کا معجزہ اور بھی بڑی شان کے ساتھ دنیا کو دکھایا.میں نے پچھلے باب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کا ذکر کیا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے محفوظ تھے اور آپ کا ہر ایک فعل اپنے اند ر سادگی اور بے تکلفی کا رنگ رکھتا تھا اب میں آپ کی سادہ زندگی کا حال بیان کرنا چاہتا ہے ہوں.کھجور اور پانی پر گزارہ جولوگ اس زمانہ کے اراء اور دوسندوں کے دیکھنے کے عادی ہیں وہ تو خیال کرتے ہوں گے کہ رسول الله عے بھی انہی کی طرح عمدہ عمدہ کھانے کھایا کرتے ہوں گے اور ایک شاہانہ دستر خوان آپ کے آگے بچھتا ہو گا لیکن وہ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ واقعہ بالکل خلاف تھا اور اگر ایک طرف آنحضرت ہی سادگی کے کامل نمونہ تھے تو دوسری اور طرف سادہ زندگی میں بھی آپ دنیا کے لیے ایک نمونہ تھے.حضرت عائشہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بھانجے حضرت عروہ سے فرمایا ابْنَ أُخْتِى إِنْ كُنَّا لَيَنظُرُ إِلَى الْهَلَالِ ثُمَّ الْهَلَالِ ثَلاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ وَمَا أُوْقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ يَا خَالَهُ مَا كَانَ يُعِيْشُكُمْ قَالَتْ الْأسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ وَكَانُوْا يَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهَا فَيَسْقِيْنَاءُ یعنی
سيرة النبي علي عروسة 208 جلد 1 حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا کہ اے میرے بھانجے ! ہم لوگ تو دیکھا کرتے تھے ہلال کے بعد ہلال حتی کہ تین تین ہلال دیکھ لیتے یعنی دو ماہ گزر جاتے مگر آنحضرت علیہ کے گھر میں آگ نہ جلتی تھی.حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے خالہ! پھر آپ لوگ کیا کھاتے تھے؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اَسْوَدَانِ یعنی کھجور اور پانی کھا کر گزارہ کیا کرتے تھے.ہاں اتنی بات تھی کہ رسول اللہ کے اردگر دانصار ہمسایہ تھے اور ان کے پاس دودھ والی بکریاں تھیں وہ آپ کو ان کا دودھ ہدیہ کے طور پر دیا کرتے تھے اور آپ وہ دودھ ہمیں پلا دیا کرتے تھے.اللہ اللہ! کیسی سادہ زندگی ہے کہ دو دو ماہ تک آگ ہی نہیں جلتی اور صرف کھجور اور پانی یا دودھ پر گزارہ ہوتا ہے.اس طریق عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرمانا چاہیے کیونکہ آج کل اسی اکل و شرب کی مرض میں گرفتار ہیں.اگر پوری طرح تحقیقات کی جائے تو مسلمانوں کا روپیہ کھانے پینے میں ہی خرچ ہو جاتا ہے اور وہ مقروض رہتے ہیں.وہ اس نبی کی امت ہیں جو مقتدر ہو کر پھر سادہ زندگی بسر کرتا تھا.پھر کیسے افسوس کی بات ہے کہ ان کے پاس نہیں ہوتا اور وہ زبان کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے قرض لے کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے ہیں.اگر وہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلاتے اور اسراف سے مجتنب رہتے تو آج اس بدتر حال کو نہ پہنچتے.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت علی اگر ایک طرف سادگی کا نمونہ تھے تو دوسری طرف رہبانیت کو بھی نا پسند فرماتے تھے.اور اگر اعلیٰ سے اعلیٰ غذا آپ کے سامنے پیش کی جاتی تھی تو اسے بھی استعمال فرماتے تھے اور یہ نہیں کہ نفس کشی کے خیال سے اعلیٰ غذاؤں سے انکار کر دیں.اور یہی کمال ہے جو آپ کو دوسرے لوگوں پر فضیلت دیتا ہے کیونکہ آپ کل دنیا کے لیے آئے تھے نہ کہ صرف کسی خاص قوم یا خاص گروہ کے لیے.اس لیے آپ کا ہر قسم کی خوبی میں کامل ہونا ضروری تھا اور صلى الله
سيرة النبي علي 209 جلد 1 اگر آپ ایک طرف سادہ زندگی میں کمال رکھتے تھے تو دوسری طرف طیب اشیاء کے استعمال سے بھی قطعاً اجتناب نہ فرماتے تھے.اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وفات تک آپ کا یہی حال رہا کبھی ایسی بات بھی ہو جاتی تھی کہ دو ماہ تک آگ نہ جلی مگر اب میں ایک اور حدیث درج کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ یہ واقعہ چند مہینوں یا سالوں کا نہیں بلکہ آپ کی وفات تک یہی ہوتا رہا اور صرف چند ماہ تک آپ نے اس مشقت کو برداشت نہیں کیا بلکہ آپ ہمیشہ اس سادگی کی زندگی کے عادی رہے اور عسر و یسر ایک سا حال رہا.اگر ابتدائے عہد میں کہ آپ دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے اور آپ کو اپنا وطن تک چھوڑنا پڑا تھا آپ اس سادگی سے بسر کرتے تھے تو اُس وقت بھی جبکہ ہزاروں روپیہ آپ کے پاس آتا اور آپ ایک ملک کے بادشاہ ہو گئے تھے آپ اسی سادگی سے بسر اوقات کرتے اور کھانے پینے کی طرف زیادہ توجہ نہ فرماتے تھے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ أَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ فَدَعَوْهُ فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الدُّنْيَا وَلَمْ يَشْبَعُ مِنَ الْخُبُزِ 83 یعنی حضرت ابو ہریرہ ایک جماعت پر گزرے اور اس کے سامنے ایک بھنی ہوئی بکری پڑی تھی پس انہوں نے آپ کو بھی بلایا مگر آپ نے کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے گزر گئے اور آپ نے پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھائی اس لیے میں بھی ایسی چیزیں نہیں کھا تا ) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک دو دن نہیں بلکہ وفات تک آنحضرت ﷺ نے ایسی ہی سادہ زندگی بسر کی.اس بات کی تصدیق حضرت عائشہ بھی فرماتی ہیں.آپ سے روایت ہے کہ مَا شَبعَ الُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِ
سيرة النبي علي 210 جلد 1 ثَلَاثَ لَيَالِ تِبَاعًا حَتَّى قُبِضَ 84 یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل نے اُس وقت سے کہ آپ مدینہ تشریف لائے اُس وقت تک کہ آپ فوت ہو گئے تین دن متواتر گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی.ان تینوں حدیثوں کو ملا کر روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سادگی سے زندگی بسر کی اور باوجود اس محنت اور مشقت کے جو آپ کو کرنی پڑتی تھی آپ اپنے کھانے پینے میں اسراف نہ فرماتے تھے اور اُسی قدر کھاتے جو زندگی کے بحال رکھنے کے لیے ضروری ہو اور آپ کا کھانا عبادت اور قوت کے قائم رکھنے کے لیے تھا نہ کہ آپ کی زندگی دنیا کے بادشاہوں کی طرح کھانوں کی خواہش میں گزرتی تھی.آپ ہی اس مصرعہ کے پورا کرنے والے تھے خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آپ کا کھانا بھی نہایت سادہ ہوتا تھا اور جو کچھ کھاتے تھے اس میں بھی بہت تکلفات سے کام نہ لیتے تھے.حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ مَا عَلِمُتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ عَلَى سُكْرجَةٍ قَطُّ وَلَا خُبزَ لَهُ مُرَفَّقٌ قَطُّ وَلَا أَكَلَ عَلَى خِوَان قَطُّ قِيْلَ لِقَتَادَةَ فَعَلَامَ مَا كَانُوْا يَأْكُلُوْنَ قَالَ عَلَى السُّفَرِ 85 مجھے نہیں معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی تشتریوں میں کھایا ہو اور نہ آپ کے لیے کبھی چپاتیاں پکائی گئیں اور نہ کبھی آپ نے تخت پر کھایا.قادہ سے (جنہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے ) سوال کیا گیا کہ پھر وہ کس پر کھایا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پر.حضرت انسؓ کی روایت اس لحاظ سے قریباً اہل بیت کے برابر سمجھی جانے کے قابل ہے کہ آپ ابھی بچہ تھے کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہے کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے انہیں آنحضرت ﷺ کی خدمت کے لیے پیش کیا تھا اور یہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ
سيرة النبي علي 211 جلد 1 تشریف لانے کے وقت سے جو آپ کے ساتھ رہے تو وفات تک الگ نہ ہوئے اور آپ کی زندگی بھر خدمت میں مشغول رہے.پس آپ کی روایت ایک واقف کار کی روایت ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایسے امور میں بہت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پختہ اور مضبوط رائے دے سکتا تھا اس لیے نہایت وزن دار اور واقعات کے مطابق ہے.اب اس زندگی کو مجموعی حیثیت سے دیکھو کہ ایک انسان بادشاہ ہے اسے سب کچھ نصیب ہے.اگر چاہے تو اچھے سے اچھے کھانے کھا سکتا ہے اور پُر تکلف دستر خوانوں پر بیٹھ سکتا ہے لیکن باوجود مقدرت کے وہ اسی بات پر کفایت کرتا ہے کہ کبھی تو کھجور اور پانی سے اپنی بھوک کو تو ڑ لیتا ہے اور کبھی جو کی روٹی کھا کر گزارہ کر لیتا ہے اور کبھی گیہوں کی روٹی تو کھاتا ہے مگر وہ بے چھنے آٹے کی ہوتی ہے.پھر نہ اس کے سامنے کوئی بڑا دستر خوان بچھایا جاتا ہے نہ سینیوں میں کھانا چنا جاتا ہے بلکہ ایک معمولی دستر خوان پر سادہ کھانا رکھ کر کھا لیتا ہے اور باوجود ایسی سادہ زندگی بسر کرنے کے دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا کھانے والوں اور اپنے جسم کی پرورش کرنے والوں سے ہزار گنا بڑھ کر کام کرتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں یہ بھی نمونہ دکھا دیا ہے کہ ہر قسم کی اعلیٰ سے اعلیٰ غذا ئیں بھی آپ استعمال فرما لیتے تھے مگر دوسری طرف اس سادہ زندگی سے ہمارے اُن امراء کے لیے ایک نمونہ بھی قائم کر دیا ہے جن کی زندگی کا انتہائی مقصد اعلیٰ خوراک اور پوشاک ہوتی ہے.سب کاموں میں صحابہؓ کے مددگار رہتے آپ مسجد کی اینٹیں ڈھوتے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی خوبی ہے جسے انسان خاص طور پر بیان کر سکے.کوئی شعبہ زندگی بھی تو نہیں جس میں آپ دوسروں کے لیے نظیر نہ
سيرة النبي علي 212 جلد 1 ہوں.مختلف خوبیوں میں مختلف لوگ باکمال ہوتے ہیں مگر یہ دین و دنیا کا بادشاہ تو ہر بات میں دوسروں پر فائق تھا.جو بات بھی لو اس میں آپ کو صاحب کمال پاؤ گے.میں نے پچھلے باب میں بتایا تھا کہ آپ اپنے گھر میں بیویوں کو ان کے کاموں میں مدد دیتے تھے مگر اب اس سے زیادہ میں ایک واقعہ بتا تا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں آپ کسی ادنیٰ سے ادنی کام میں بھی حرج نہ دیکھتے تھے بلکہ اس میں فخر محسوس کرتے تھے اور صحابہ کے دوش بدوش ہو کر ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا کام کرتے اور کبھی یہ نہ ہوتا کہ انہیں حکم دے دیں اور آپ خاموش ہو کر بیٹھ رہیں.صحابہ کی خوشی تو اسی میں تھی کہ آپ آرام فرما ئیں اور وہ آپ کے سامنے اپنی فدائیت اور اخلاص کے جو ہر دکھا ئیں مگر آپ کبھی اس کو پسند نہ فرماتے اور ہر کام میں خود شریک ہوتے اور صحابہ کا ہاتھ بٹاتے.حضرت عائشہ ہجرت کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کر کے فرماتی ہیں کہ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتُ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُصَلِّي فِيْهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسُهَيْل وَسَهْلِ غُلَامَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي حَجْرٍ به أَسْعَدَ بن زُرَارَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ بَرَكَتْ رَاحِلَتُهُ هذَا إِنْ شَاءَ اللهُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُلَامَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا فَقَالَا لَا بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَأَبَى رَسُوْلُ اللهِ الله اللهم أن يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا وَطَفِقَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبنَ فِى بُنْيَانِهِ وَيَقُوْلُ هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَرَ هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرُ وَيَقُوْلُ اللَّهُمَّ إِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الْآخِرَةِ فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ 86 یعنی پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بنی عمرو بن عوف کے پاس سے
سيرة النبي علي 213 جلد 1 جہاں آپ سب سے پہلے آ کر ٹھہرے تھے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.اور لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے یہاں تک کہ آپ کی اونٹنی اُس جگہ پر جا کر بیٹھ گئی جہاں بعد میں آنحضرت عہ کی مسجد بنائی گئی اور اُس جگہ اُن دنوں میں کچھ مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ سہیل اور سہل نامی دولڑکوں کی کھجور میں سکھانے کا مقام تھا جو یتیم تھے اور اسعد بن زرارہ کی ولایت میں تربیت پا رہے تھے.پس رسول اللہ ﷺ نے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو فرمایا کہ انشاء اللہ یہاں ہمارے رہنے کی جگہ ہوگی.پھر رسول اللہ علیہ نے ان دونوں لڑکوں کو جن کی وہ جگہ تھی بلوایا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت کی تا کہ وہاں آپ مسجد تیار کریں.انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ہاتھ فروخت نہیں کرتے بلکہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں.مگر رسول اللہ ﷺ نے ان سے بطور ہبہ کے وہ زمین لینے سے انکار کر دیا.یہاں تک کہ ان دونوں لڑکوں نے وہ زمین فروخت کر دی.پھر آپ نے وہاں مسجد بنانی شروع کی اور مسجد بنتے وقت آپ خود بھی صحابہ کے ساتھ اینٹیں ڈھوتے تھے اور ڈھوتے وقت یہ شعر پڑھتے جاتے تھے.یہ بوجھ خیبر کا بوجھ نہیں بلکہ اے ہمارے رب ! یہ اُس سے زیادہ پاکیزہ اور عمدہ ہے.اسی طرح آپ یہ شعر بھی پڑھتے اے خدا! بدلہ تو وہی بہتر ہے جو آخرت کا ہو.پس جب یہ بات ہے تو تو مہاجرین اور انصار پر رحم فرما.اس حدیث میں آپ کا یہ قول کہ یہ بوجھ خیبر کا بوجھ نہیں اس سے یہ مراد ہے کہ لوگ خیبر سے کھجوریں یا اور پھل پھول ٹوکروں میں بھر کر لایا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ یہ اینٹیں جو ہم اٹھا رہے ہیں یہ اُس بوجھ کی طرح نہیں ہیں بلکہ اُس میں تو دنیا کا فائدہ ہوتا ہے اور اس بوجھ کے اٹھانے سے آخرت کا فائدہ ہے اس لیے یہ بوجھ اُس بوجھ سے بہت بہتر اور عمدہ ہے.اس حدیث کو پڑھ کر کون انسان ہے جو حیرت میں نہ پڑ جائے.آنحضرت علی.
سيرة النبي علي 214 جلد 1 کے ارشاد پر قربان ہونے والوں کا ایک گروہ موجود تھا جو آپ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے مگر آپ کا یہ حال ہے کہ خود اپنے جسم مبارک پر اینٹیں لا دکر ڈھو رہے ہیں.یہ وہ کمال ہے جو ہر ایک بے تعصب انسان کو خود بخود آپ کی طرف کھینچ لیتا ہے اور چشم بصیرت رکھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ یہ پاک انسان کن کمالات کا تھا کہ ہر ایک بات میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک گھر بن رہا ہے اور آپ اس کی اینٹیں ڈھونے کے ثواب میں بھی شامل ہیں.خود اپنے کندھوں پر اینٹیں رکھتے ہیں اور مسجد کی تعمیر کرنے والوں کو لا کر دیتے ہیں.یہ وہ عمل تھا جس نے آپ کو ابراہیم کا سچا وارث اور جانشین ثابت کر دیا تھا کیونکہ اگر حضرت ابراہیم نے خود اینٹیں ڈھو کر کعبہ کی تعمیر کی تھی تو اس وارث علوم سماویہ نے مدینہ منورہ کی مسجد کی تعمیر میں اینٹیں ڈھونے میں اپنے اصحاب کی مدد کی.کہنے کو تو سب بزرگی اور تقویٰ کا دعویٰ کرنے کو تیار ہیں مگر یہ عمل ہی ہے جو پاکبازی اور زبانی جمع خرچ کرنے والوں میں تمیز کر دیتا ہے اور عمل ہی میں آ کر سب مدعیانِ تقومی کو آپ کے سامنے با ادب سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑتا ہے.اس حدیث سے اگر ایک طرف ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کے کام کرنے سے خواہ وہ بظاہر کیسا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو کسی قسم کا عار نہ تھا.آپ اس معبود حقیقی کی رضا کی تمام راہوں میں دوسروں سے آگے قدم مارتے تھے تو دوسری طرف یہ امر بھی روشن ہو جاتا ہے کہ آپ ماتحتوں سے کام لینے کے ہر فن میں بھی اپنی نظیر آپ ہی تھے.تاریخ نے ہزاروں لاکھوں برسوں کے تجربات کے بعد ثابت کیا ہے کہ ماتحتوں میں جوش پیدا کرنے اور انہیں اپنے فرائض کے ادا کرنے میں ہوشیار بنانے کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نسخہ یہی ہے کہ خود آفیسر بھی انہیں کام کر کے دکھا ئیں.اور جو شخص خود کام کرے گا اُس کے ماتحت بھی ضرور کام میں چست و چالاک ہوں گے مگر جو آفیسر کام سے جی چرائے گا اُس کے ماتحت بھی
سيرة النبي علي 215 جلد 1 اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں گے اور بہانہ ہی ڈھونڈتے رہیں گے کہ کسی طرح اپنی جان چھڑا ئیں.آنحضرت علی نے اس گر کو ایسا سمجھا تھا کہ آپ کی ساری زندگی اس قسم کی مثالوں سے پُر ہے.آپ اپنے ماتحتوں کو جو حکم بھی دیتے اس میں خود بھی شریک ہوتے اور آپ کی نسبت کوئی انسان یہ نہ کہ سکتا تھا کہ آپ صحابہ کو مشکلات میں ڈال کر خود آرام سے بیٹھ رہتے ہیں بلکہ آپ ہر ایک کام میں شریک ہو کر ان کے لیے ایک ایسی اعلیٰ اور ارفع نظیر قائم کر دیتے کہ پھر کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا موقع نہ رہتا.اگر کوئی افسر اپنے ماتحتوں کو کوئی حکم دے کر خود آرام سے پیچھے بیٹھ رہے تو ضرور ان کے دل میں خیال گزرے گا کہ یہ شخص خود تو آرام طلب ہے مگر دوسروں کو ان کی طاقت سے بڑھ کر کام دیتا ہے.اور گو مفوضہ کام زیادہ بھی نہ ہو تو بھی وہ بالطبع خیال کریں گے کہ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام دیا گیا ہے اور اس بے دلی کی وجہ سے وہ جس قدر کام کر سکتے ہیں اُس سے نصف بھی نہ کر سکیں گے اور جو کچھ کریں گے بھی وہ بھی ادھورا ہوگا.مگر جب خود افسر اس کام میں شریک ہوگا اور سب سے آگے اس کا قدم پڑتا ہو گا تو ماتحت شکایت تو الگ رہی اپنی طاقت اور قوت کا سوال ہی بھول جائیں گے اور ان میں کوئی اور ہی روح کام کرنے لگے گی.اور اسی حکمت سے کام لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی زندگیوں میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی تھی کہ وہ معمولی انسانوں سے بہت زیادہ کام کرنے والے ہو گئے تھے.وہ ہر ایک کام میں اپنے سامنے ایک نمونہ دیکھتے تھے حتی کہ اگر اینٹیں ڈھونے کا کام بھی ہوتا تھا جو عام مزدوروں کا کام ہے اور ان کا رسول انہیں اس کام کے کرنے کا حکم دیتا تھا تو سب سے پہلے وہ خود اس کام کی ابتدا کرتا تھا جس کی وجہ سے مردہ دلوں کے دل زندہ اور سستوں کے بدن چست اور کم ہمتوں کی ہمتیں بلند ہو جاتی تھیں.ہر ایک عظمند اس بات کو سوچ کر معلوم کر سکتا ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ خدا تعالیٰ کے
سيرة النبي علي 216 جلد 1 برگزیدہ بندے ہیں، اس کے رسول ہیں، اس کے نبی ہیں، سب انبیاء سے افضل ہیں، آپ کی اطاعت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے، آپ کی ہی فرمانبرداری میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، آپ گل انبیاء کے کمالات کے جامع ہیں ، آپ کی ہی خدمت کرنے سے جنت کے دروازے کھلتے ہیں، وہ جب دیکھتے ہوں گے کہ ایسا عظیم الشان انسان خود اپنے کندھوں پر اینٹیں رکھ کر مسجد کے بنانے والوں تک پہنچاتا ہے تو ان کے اندر کن خیالات کا دریا موجزن ہوتا ہوگا اور وہ کس جوش اور کس خلوص سے اس کام کو بجا لاتے ہوں گے بلکہ کس طرح بجائے تکان کے ان کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہو گی.ان میں اچھے اچھے رؤساء بھی تھے ، سردار بھی تھے، مالدار بھی تھے ، معزز بھی تھے مگر وہ سب کے سب اپنے عقیدہ کی بنا پر اپنے آپ کو آنحضرت عے سے کم درجہ پر یقین کرتے تھے اور اپنے آپ کو خادم سمجھتے تھے.پس جب وہ آپ کو اسی جوش سے کام کرتے ہوئے دیکھتے ہوں گے تو کیا ان کے بدن کے ہر ایک حصہ میں سنسناہٹ نہ پھیل جاتی ہوگی اور کیا امیر سے امیر انسان بھی اس بلند رتبہ انسان کی معیت میں اینٹیں ڈھونا اپنے لیے ایک نعمت عظمیٰ نہ خیال کرتا ہو گا اور بجائے ذلت کے عزت نہ جانتا ہوگا.ہاں ان میں سے ہر ایک ایسا ہی سمجھتا ہوگا صلى الله اور بالکل ایسا ہی سمجھتا ہو گا.اور چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی ساری عمر میں اسی نمونہ پر قائم رہے اور آپ نے کبھی اس سنت کو ترک نہیں کیا اس لیے آپ کے صحابہ میں یہ بات طبیعت ثانی ہو گئی تھی اور وہ روزانہ ان کی معیت کے جوش سے متاثر ہو کر جس طرح کام کرتے تھے اس کے ایسے عادی ہو گئے تھے کہ آپ کی غیر حاضری میں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی ان کا طریق عمل وہی تھا اور یہ ایک عام بات ہے کہ انسان جس کام کو کچھ مدت تک لگا تار کرتا رہے اس کا عادی ہو جاتا ہے اور جو لوگ ابتدا میں ستی کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ مست ہی رہتے ہیں اور جو چستی سے کام کرنے کے عادی ہوں وہ اسی طریق پر کام کیے جاتے ہیں.پس جبکہ آنحضرت علی ہر ایک کام میں صحابہ کے
سيرة النبي علي 217 جلد 1 شریک حال بن کر ان کو خطرناک سے خطرناک اور خوفناک سے خوفناک کام کے کرنے پر آمادہ کر دیتے تھے اور اسی طرح دنیا داروں کی نظروں میں ادنیٰ سے ادنیٰ نظر آنے والے کاموں میں بھی ساتھ شریک ہو کر ان کے دلوں سے جھوٹی عزت اور تکبر کے خیالات کو بالکل نکال دیتے تھے اور اس طریق کا آپ ان کو دس سال متواتر عادی کرتے رہے تھے تو یہ عادت انہیں کیونکر بھول سکتی تھی.چنانچہ جب صحابہ کو اپنے سے کئی کئی گنا سپاہ سے مقابلہ پیش آیا اور اُس وقت کی گل متمدن قوموں سے ایک ہی وقت میں جنگ چھڑ گئی تو ان کے قدموں میں وہ ثبات دیکھا گیا اور ان کے ہاتھوں نے ایسی طاقت کے کارنامے دکھائے اور ان کے دلوں نے ایسی بے ہراسی اور بے خوفی کا اظہار کیا کہ دنیا دنگ ہو گئی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ آنکھوں کے سامنے آنحضرت ﷺ کا پاک نمونہ ہر وقت رہتا تھا اور وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس دین و دنیا کے بادشاہ کو نہ بھولتے تھے اور اپنے سے دس دس گنا فوج کو الٹ کر پھینک دیتے تھے بلکہ صحابہ دوسرے عربوں کی جنگ پر بھی ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ اب دنیا کو کیا ہو گیا.آنحضرت علی کے ماتحت تو ہم اس طرح لڑتے تھے کہ پروں کے پرے اڑا دیتے تھے اور کوئی ہمارے سامنے ٹھہر نہ سکتا تھا.پس آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے میں تدبیر ملکی کا وہ نمونہ نمایاں ہے کہ جس کی مثال کوئی اور انسان نہیں پیش کر سکتا.اس حدیث سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ہر وقت اپنے صحابہ کو نیکی اور تقویٰ کی تعلیم دینے کا خیال رہتا تھا کیونکہ آپ نے اس موقع پر جو اشعار پچھتے ہیں وہ ایسے بے نظیر اور مناسب موقع ہیں کہ ان سے بڑھ کر ناممکن ہے.آپ کی عادت تھی کہ آپ پورا شعر نہیں پڑھا کرتے تھے مگر صرف اس موقع پر یا ایک دو اور موقعوں پر آپ نے پورے شعر پڑھے ہیں.ہاں آپ شعر بالکل نہ کہتے تھے اور یہ شعر بھی کسی اور مسلمان کے کہے ہوئے تھے.ہاں تو ان اشعار میں آپ نے صحابہؓ کو بتایا ہے کہ تم خیبر کی کھجور میں اور سبزیاں
سيرة النبي علي 218 جلد 1 وغیرہ اکثر اٹھاتے ہو گے اور اس کے اٹھانے میں تمہیں یہ خیال ہوتا ہوگا کہ ہم دنیا کا فائدہ اٹھائیں گے اور مال کمائیں گے مگر یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے لیے جو کام انسان کرتا ہے وہ گو بظاہر کیساہی ادنیٰ معلوم ہو درحقیقت نہایت پاک اور عمدہ نتائج پیدا کرنے والا ہوتا ہے.پس یہ خیال اپنے دلوں میں مت لا نا کہ ہم اس وقت کیسا ادنیٰ کام کرتے ہیں کہ مٹی اور اینٹیں ڈھو رہے ہیں بلکہ خوب سمجھ لو کہ یہ اینٹیں جو تم ڈھو رہے ہو ان کھجوروں اور میووں کے بوجھ سے جو خیبر سے آتا ہے کہیں بہتر ہیں اور اس میں تمہارے نفوس کی پاکیزگی کا سامان ہے.ان میووں کے بوجھ کی ہستی ہی کیا ہے کہ اس مقابلہ میں اسے رکھا جائے.ا دوسرے شعر میں آنحضرت ﷺ نے انہیں بتایا ہے کہ اس کام میں کسی مزدوری یا نفع کا خیال مت رکھنا بلکہ یہ تو خدا کا کام ہے جس میں اگر کسی نفع کی امید ہے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوگا اور بجائے فوری نفع کے انجام کی بہتری ہو گی اور جس کا انجام اچھا ہو اس سے زیادہ کامیاب کون ہو سکتا ہے پس اسی پر نظر رکھو.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کر دی کہ خدایا ! یہ لوگ اپنے کام چھوڑ کر تیرے لیے مشقت اٹھا رہے ہیں تو ان پر رحم فرما.پس شاعر نے تو جن خیالات کے ماتحت یہ اشعار کہے ہوں گے ان سے وہی واقف ہو گا مگر آپ نے ان اشعار کو پڑھ کر اس کے معانی کو وہ وسعت دے دی ہے کہ باید و شاید.ہر کام میں صحابہ کے شریک ہوتے میں نے اس سے پہلے آنحضرت ہے کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس سے آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور انسانی قلب اس سے اعلیٰ سے اعلیٰ اصول طہارت نفس کے اور قومی ترقی کے نکال سکتا ہے.اب میں ایک اور واقعہ اسی پہلے واقعہ کی تائید میں درج کرتا ہوں لیکن چونکہ وہ نئے حالات اور نئے واقعات کو لیے ہوئے ہے اس لیے اس کا ذکر بھی کسی قدر تفصیل سے ہی مناسب ہے.
سيرة النبي الله 219 جلد 1 صلى الله یہ بات تو تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے جو مخالفت مکہ والوں کو تھی اس کی نظیر دنیا کی کسی اور تاریخ میں نہیں ملتی.آپ کی مخالفت اور ایذارسانی کے لیے جو تدابیر انہوں نے کیں یا جو منصو بے انہوں نے باندھے وہ اپنی نظیر آپ ہی تھے اور کبھی کسی قوم نے دنیا وی مخالفت میں یا دینی عداوت میں کسی انسان کی بلا وجہ ایسی بدخواہی نہیں کی جیسی اہل مکہ نے آنحضرت ﷺ سے کی مگر خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں صلى الله آنحضرت ﷺ کو فتح دی اور آپ ہر دشمن پر فاتح رہے.گو چھوٹے چھوٹے حملے تو مدینہ میں آتے ہی شروع ہو گئے تھے مگر دراصل جنگوں کی ابتدا اب جنگ بدر سے ہی سمجھنا چاہیے کہ جس نے ایک طرف کفار کے بڑے بڑے سرداروں کو خاک میں ملا دیا اور دوسری طرف مسلمانوں پر ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کی تائید انسان کو ہر مشکل سے سلامت نکال سکتی ہے اور دشمن خواہ کتنا ہی بہادر اور تعداد میں زیادہ ہو آسمانی تدابیر کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس سے ان کے حو صلے بڑھ گئے.قریش کو اپنے سرداروں کے مارے جانے کا طیش ایک دم چین نہ لینے دیتا تھا اور وہ آئے دن مسلمانوں پر حملے کرتے رہتے تھے جن میں سے مشہور حملہ اُحد کا بھی ہے.یہ حملے متواتر چھ سال تک ہوتے رہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جنگ بدر چھ سال تک متواتر جاری رہی اور اس کا خاتمہ احزاب پر ہوا جبکہ دشمن نے آخری مرتبہ ہزیمت اٹھا کر پھر مسلمانوں کو دکھ دینے کا ارادہ نہ کیا بلکہ ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ ہم مسلمانوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے.جنگ احزاب جس کا ذکر قرآن شریف میں بار بار آیا ہے ایک نہایت خطرناک جنگ تھی جس میں مسلمان ایسے مجبور ہوئے تھے کہ انہیں قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کو بھی رستہ نہ ملتا تھا اور کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور دس ہزار کا لشکر مرنے مارنے کے ارادہ سے مٹھی بھر مسلمانوں کے سامنے پڑا ہوا تھا جو مشکلات کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے.
سيرة النبي علي 220 صلى الله جلد 1 جب مسلمانوں کو اس لشکر کی آمد کی خبر ہوئی تھی تو آنحضرت ﷺ نے سب صحابہ کو بلا کر مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے.حضرت سلمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ایسے موقع پر ہمارے ملک میں تو خندق کھود لیتے ہیں اور اس کے پیچھے بیٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں.آپ نے یہ بات سن کر خندق کھود نے کا حکم دیا اور اسی وجہ سے جنگ احزاب کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں.چالیس چالیس ہاتھ زمین دس دس آدمیوں کو کھودنے کے لیے بانٹ دی گئی اور کام زور وشور سے جاری ہو گیا مگر آنحضرت ﷺ کہاں تھے؟ آپ بھی ان لوگوں میں کام کر بھی رہے تھے جو ادھر سے ادھر مٹی ڈھو رہے تھے کیونکہ کچھ لوگ زمین کھودتے تھے اور کچھ وہاں سے مٹی اٹھا کر ایک طرف کر دیتے تھے حتی کہ آپ کا بدن مٹی سے بھر گیا تھا.حضرت براء سے روایت ہے قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ يَنْقُلُ التُّرَابَ وَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ وَهُوَ يَقُوْلُ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِلِ السَّكِيْنَةَ عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا إِنَّ الْإِلَى قَدْ بَغَوُا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوْا فِتَةً أَبَيْنَا 87 فرمایا کہ میں نے رسول اللہ علیہ کو جنگ احزاب میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ آپ بھی مٹی ڈھو رہے تھے اور آپ کے گورے گورے پیٹ پر مٹی پڑی ہوئی تھی اور آپ یہ فرماتے جاتے تھے الہی ! اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نمازیں پڑھتے.پس ہم پر اپنی طرف سے تسلی نازل فرما اور اگر جنگ پیش آئے تو ہمارے پاؤں کو ثبات دیجیے.وہ دشمن کے مقابلہ میں بالکل نہ ڈگمگائیں.الہی ! یہ کا فرہم پر ظلم اور زیادتی سے حملہ آور ہو گئے ہیں اور ہمارے خلاف انہوں نے بغاوت کی ہے کیونکہ جب انہوں نے ہمیں شرک وکفر میں مبتلا ہونے کی دعوت دی ہے ہم نے ان کی بات کے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے.
سيرة النبي علي 221 جلد 1 اللہ اللہ ! وہ کیا ہی پیاری مٹی ہو گی جسے آپ اٹھاتے تھے اور وہ مٹی کروڑوں من سونے سے زیادہ قیمتی تھی جسے اٹھانے کے لیے خاتم النبین ﷺ کے ہاتھ اٹھتے تھے اور جسے آپ کے پیٹ پر گرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عذاب شدید کو دیکھ کر يَقُولُ الْكَفِرُ يُلَيْتَنِي كُنْتُ تُريَّا 88 کا فر کہہ اٹھیں گے کہ کاش! ہم مٹی ہوتے.اور شریر و بدمعاش لوگ جب سزا پاتے ہیں تو ایسے ہی جملے کہا کرتے ہیں اور اپنی حالت پر افسوس ہی کیا کرتے ہیں مگر خدا گواہ ہے صلى الله وہ مٹی جو آنحضرت ﷺ کے پیٹ پر گرتی تھی اس کی نسبت تو ایک مؤمن کا دل بھی للچا جاتا ہے کہ وہ لَيْتَنِي كُنْتُ تُرابا کہہ اٹھے اور یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ براء اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اُس مٹی کا بھی ذکر کرتے ہیں جو آپ کے پیٹ پر گرتی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس مٹی کو بھی عشق کی نگاہوں سے دیکھتے تھے اور لالچ کی نگاہیں اُدھر پڑ رہی تھیں اسی لیے تو مدتوں کے بعد جب وہ جنگ احزاب کا ذکر فر ماتے ہیں تو وہ مٹی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر پڑتی تھی ان کو یاد آ جاتی ہے.میں حیران ہوں کہ صحابہ کس محبت اور کس شوق سے اُس وقت آنحضرت علی کی طرف دیکھتے ہوں گے.خدایا ! وہ مزدور کیسا ہو گا اور کس شان کا ہو گا جس کے سر پر نبوت کا تاج تھا اور دوش پر مٹی کا ڈھیر.صحابہ کے قدموں میں کیسی تیزی اور کیسی پھرتی پیدا ہوگئی ہو گی.ہر ایک ان میں سے اپنے دل میں کہتا ہو گا کہ خدا کے لیے جلد جلد اس مٹی کو صاف کر کے جس قدر ہو سکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کم ہو اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بوجھ اٹھاتے ہوں گے تا کہ جلد اس بوجھ کو ختم کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام دیں.میری عقل چکراتی ہے جب میں صحابہ کے ان جذبات کا نقشہ اپنے دل میں ہوں جو اُس وقت ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہوں گے.میری قوت متخیلہ پریشان ہو جاتی ہے جب میں ان خیالات پریشان کو اپنے سامنے حاضر کرتا ہوں جو
سيرة النبي علي 222 جلد 1 اُس وقت صحابہ کے دل و دماغ میں گشت لگا رہے ہوں گے.اف ایک بجلی ، ایک سٹیم ہوگی جو اُس وقت ان کے اندر کام کر رہی ہو گی.نہیں بجلی اور سٹیم کی کیا حقیقت ہے! عشق کی گرمی ان سے کام لے رہی تھی اور وہ مٹی جو وہ اپنی گردنوں اور کندھوں پر رکھتے تھے انہیں ہر ایک قسم کی نعمت سے زیادہ معلوم ہوتی تھی.وہ بوجھ انہیں سب غموں سے چھڑا رہا تھا اور وہ مٹی انہیں ہیروں اور جواہرات سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی تھی جسے نبیوں کے سرتاج کے کندھوں پر رکھے جانے کا فخر حاصل تھا.کیا کوئی مسلمان بادشاہ ایسا ہے جسے اس مٹی کے اٹھانے میں عذر ہو ؟ نہیں.اس وقت کے اسلام سے غافل بادشاہ بھی اسے اٹھانے میں فخر سمجھیں گے پھر وہ نیکوکار گروہ اسے اپنی کیسی کچھ عزت نہ خیال کرتا ہوگا.اور یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ آنحضرت ﷺ ان کو ایک گھوڑے پر کھڑے ہوئے حکم نہیں دے رہے تھے بلکہ دوسروں کو حکم دینے سے پہلے آپ خود اپنے کندھوں پر مٹی کا ڈھیر رکھتے تھے.پھر جو لوگ اپنے محبوب و آقا کومٹی ڈھوتے دیکھتے ہوں گے وہ جس شوق سے بھی اس کام کو کرتے بالکل مناسب اور بجا ہوتا.یہ ایک ایسی اعلیٰ تدبیر تھی جس سے اگر ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت الہی ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ فطرت انسانی کو خوب سمجھتے تھے اور آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ماتحتوں میں روح پھونکنی ہو تو اس کا ایک ہی گر ہے کہ خودان کے ساتھ مل کر کام کرو.پھر ان میں خود بخود جوش پیدا ہو جائے گا اور اس طرح آپ نے ایک نا قابل فتح لشکر تیار کر دیا جو ہر زمانے کے لیے مایہ ناز ہے.اس حدیث سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں.اول تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک دفعہ ہی صحابہؓ کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کرتے تھے کیونکہ پہلا واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے وہ آپ کی مدنی زندگی کا ابتدائی واقعہ.اور یہ چھ سال بعد کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کی عادت تھی کہ کوئی کام کسی ہے
سيرة النبي علي 223 جلد 1 کو نہ دیتے مگر خود اس میں شامل ہوتے تا کہ خود بھی ثواب سے حصہ لیں اور دوسروں کو اور بھی رغبت اور شوق پیدا ہو کہ جب ہمارا آقا خود شامل ہے تو ہمیں اس کام سے کیا عار ہوسکتا ہے.دوسرے یہ کہ انہیں چستی سے کام کرنے کی عادت ہو اور وہ آپ کے شمول کی وجہ سے جس تیزی سے کام کرتے ہوں گے اسے ان کی عادت میں داخل کر دیا جائے.دوسرے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے تھے اُس وقت آپ بالکل نووارد تھے اور ابھی آپ کی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اور گوسینکڑوں جاں نثار موجود تھے جو اپنی جان قربان کرنے کے لیے حاضر تھے مگر پھر بھی دنیا کے لحاظ سے آپ کے ماتحت کوئی علاقہ نہ تھا مگر غزوہ احزاب کے وقت گو آپ کے لشکر کی تعداد کم تھی مگر بارہا کھلے میدانوں میں کفار کو شکست دے چکے تھے.یہودیوں کے دو قبیلے جلا وطن ہو کر ان کی املاک مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی تھیں.مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آپ کی حکومت قائم ہو گئی تھی.بقیہ یہودی معاہدہ کی رو سے مسلمانوں سے دب کر صلح کر چکے تھے اس لیے اب آپ کی پہلی حالت اور اس حالت میں بہت فرق تھا اور اب آپ ایک ملک کے حاکم یا بادشاہ تھے پس اُس وقت آپ کا صحابہ کے ساتھ مل کر کام کرنا جبکہ آپ کی عمر بھی چھپن سال کی ہو چکی تھی ایک اور ہی شان رکھتا ہے اور یہ واقعہ پہلے واقعہ سے بھی زیادہ شاندار ہے.اس واقعہ سے اس بات کی بھی مزید تائید ہو جاتی ہے کہ آپ کسی وقت نصیحت سے غافل نہ ہوتے تھے کیونکہ اب بھی آپ نے جو شعر پڑھنے کے لیے چنے ہیں وہ ایسے بامل ہیں کہ ان میں مسلمانوں کو اپنے کام میں دل لگانے کے لیے ہزاروں ترغیبیں دی ہیں.کس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کا احسان بتایا ہے کہ یہ خدا کا ہی فضل ہے کہ تم مسلمان ہوئے اور خدا تعالیٰ پر احسان نہ جتانا کہ اس کے دین میں کوشش کر رہے ہو بلکہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اسلام کی توفیق دی اور تمہیں ہدایت کی راہوں پر
سيرة النبي علي 224 جلد 1 چلایا.پھر کس طرح اشارہ فرمایا کہ یہ جنگ کوئی دنیا وی جنگ نہیں بلکہ ایک مذہبی جنگ ہے اور اس کا اصل باعث کیا ہے.صرف یہ کہ ہم خدا کو کیوں مانتے ہیں ، شرک کیوں نہیں کرتے اور کیوں کفار کی بات نہیں مان لیتے.اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ جنگ کی ابتدا کفار کی طرف سے ہوتی ہے اور ہمارا کام تو یہی رہا ہے کہ ہم ان کی شرارتوں کے قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں.میں مانتا ہوں کہ یہ شعر کسی اور کے کہے ہوئے ہیں اور آپ شعر نہیں کہتے تھے مگر موقع پر ان شعروں کو چن لینا یہ بتاتا ہے کہ آپ کس طرح نصیحت کے پہلو کو ہمیشہ اختیار کرتے تھے.عرب ایسے موقعوں پر شعر کہنے اور پڑھنے کے عادی ہیں اور صحابہ بھی شعر کہتے تھے مگر سب اشعار میں سے ان کو چن لینا یہ حکمت سے خالی نہ تھا اور واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ انتخاب بے معنی نہ تھا بلکہ مسلمانوں کو بہت سے ضروری مسائل کی طرف متوجہ کرنا تھا.غرض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ خدا کی راہ میں ہر ایک کام میں صحابہ کے شریک رہتے تھے اور یہ بات دنیا کے کسی بادشاہ میں اس حد تک نہیں پائی جاتی.علم غیب سے انکار اب میں آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتا ہوں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا مطہر پیدا کیا تھا.بادشاہوں کے درباروں اور رؤساء کی مجالس میں بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ ان مقامات میں بے جا تعریف اور جھوٹی مدح کا بازار کیسا گرم رہتا ہے اور کس طرح درباری اور ہم مجلس رؤساء کی تعریف اور مدح میں آسمان اور زمین کے قلابے ملاتے ہیں اور وہ ان کو سن سن کر خوش اور شاداں ہوتے ہیں.ایشیائی شاعری کا تو دارو مدار ہی عشقیہ غزلوں اور امراء کی مدح سرائی پر ہے.شاعر اپنے قصیدہ میں جس امیر کی مدح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے دنیا کی ہر ایک خوبی اس کی
سيرة النبي علي 225 جلد 1 طرف منسوب کر دیتا ہے اور واقعات اور حقیقت سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی جس قدر ممکن ہو جھوٹ بولتا ہے اور تعریف کا کوئی شعبہ اٹھا نہیں رکھتا.ہر ایک رنگ سے اس کی بڑائی بیان کرتا ہے اور اس کا دل خوب جانتا ہے کہ میرے بیان میں سوواں حصہ بھی صداقت نہیں.سننے والے بھی جانتے ہیں کہ محض بکواس کر رہا ہے مگر وہ جب اس امیر یا بادشاہ کی مجلس یا دربار میں اپنا قصیدہ پڑھ کر سناتا ہے تو ہر ایک شعر پر اپنی داد کا خواہاں ہوتا ہے اور سننے والے جو اس کی دروغ گوئی سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں قصیدہ کے ایک ایک مصرع پر ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر داد دیتے اور تعریف کرتے ہیں کہ سُبْحَانَ اللہ کیا خوب کہا.اور خود وہ امیر جس کی شان میں ہ قصیدہ کہا جاتا ہے باوجود اس علم کے کہ مجھ میں وہ باتیں ہرگز نہیں پائی جاتیں جو شاعر نے اپنے قصیدہ میں بیان کی ہیں ایک ایک شعر پر اُسے انعام دیتا اور اپنی ذات پر ناز و فخر کرتا ہے حالانکہ قصیدہ کہنے والا ، سننے والے اور جس کے حق میں کہا گیا ہے سب کے سب واقعات سے ناواقف نہیں ہوتے اور ہر ایک جانتا ہے کہ قصیدہ میں جو مضامین بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک شمہ بھر بھی صداقت و راستی نہیں.امراء کی قید کیا ہے عام طور پر ہر ایک انسان کا یہی حال ہے (إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ ) کہ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ میری مدح کی جائے اور جب کوئی اس کی نسبت جھوٹی مدح سے بھی کام لیتا ہے تو اس کے اندر یہ جرأت نہیں ہوتی کہ اس کا انکار کر سکے بلکہ سکوت کو ہی پسند کر لیتا ہے.مگر ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فِدَاهُ اَبِيْ وَأُمِّنی ایسے برگزیدہ اور پاک و مطهر انسان تھے کہ آپ ان کمزوریوں سے بالکل پاک تھے.اور اگر ایک طرف ہر قسم کی خوبیوں کے جامع اور نیکیوں کے خازن تھے تو دوسری طرف آپ یہ بھی کبھی پسند نہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص آپ کی نسبت کوئی ایسی بات بیان کرے جو درحقیقت آپ میں نہیں پائی جاتی.ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ
سيرة النبي علي 226 جلد 1 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ بُنِيَ عَلَيَّ فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي وَجُوَيُريَاتٌ يَضْرِبُنَ بِالدُّقِ يَنْدُبُنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِنَّ يَوْمَ بَدْرٍ حَتَّى قَالَتْ جَارِيَةٌ وَفِيْنَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہے لَا تَقُوْلِيْ هَكَذَا وَقُوْلِى مَا كُنتِ تَقُوْلِيْنَ 89 یعنی جس دن میری شادی ہوئی.اُس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے فرش پر بیٹھ گئے اُسی طرح جس طرح تو بیٹھا ہے ( یہ بات راوی کو کہی ) اور کچھ لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور بدر کی جنگ میں جو اُن کے بزرگ مارے گئے تھے اُن کی تعریفیں بیان کر رہی تھیں یہاں تک کہ ایک لڑکی نے یہ مصرع پڑھنا شروع کیا (اس مصرع کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم میں ایک رسول ہے جو کل کی بات جانتا ہے.اس بات کو سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹو کا اور فرمایا کہ یہ مت کہہ اور جو کچھ پہلے گا رہی تھی وہی گاتی جا.یہ وہ اخلاق ہیں جو انسان کو حیران کر دیتے ہیں اور وہ ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک انسان ان تمام کمالات کا جامع ہو سکتا ہے.بے شک بہت سے لوگوں نے جن کی زبان تیز تھی یا قلم رواں تھی تقریر وتحریر کے ذریعہ اعلیٰ اخلاق کے بہت سے نقشہ کھینچے ہیں لیکن وہ انسان ایک ہی گزرا ہے جس نے صرف قول سے ہی نہیں بلکہ عمل سے اعلیٰ اخلاق کا نقشہ کھینچ دیا اور پھر ایسا نقشہ کہ اس کی یاد چشم بصیرت رکھنے والوں کو کبھی نہیں بھول سکتی.ایک طرف دنیا کو ہم اپنی تعریف و مدح کا ایسا شیدا دیکھتے ہیں کہ خلاف واقعہ تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں اور جن کی مدح کی جاتی ہے بجائے نا پسند کرنے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں کہ ذرا منہ سے ایسا کلام سنا کہ جو خلاف واقعہ ہے تو باوجود اس کے کہ وہ اپنی ہی تعریف میں ہوتا اس سے روک دیتے اور کبھی اسے سننا پسند نہ فرماتے.ہیں تفاوت راه از
سيرة النبي علي 227 جلد 1 کجاست تا یکجا.اہلِ دنیا کدھر کو جا رہے ہیں اور وہ ہمارا پیارا کدھر کو جاتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اپنی تعریف کو پسند نہیں کرتے اور بے جا تعریف کرنے والے کو روک دیتے ہیں اور بادشاہوں میں سے بھی ایسے آدمی گزرے ہیں مگر آپ کے فعل اور لوگوں کے فعل میں ایک بہت بڑا فرق ہے جو آپ کے عمل کو دوسروں کے اعمال پر امتیاز عطا کرتا ہے.انگلستان کے مؤرخ اپنے ایک بادشاہ کیوٹ (Canute) کے اس فعل کو کبھی اپنی یاد سے اتر نے نہیں دیتے کہ اس نے اپنے بعض درباریوں کی بے جا خوشامد کو نا پسند کر کے انہیں ایسا سبق دیا جس سے وہ آئندہ کے لیے اس سے باز آ جائیں.یعنی جب بعض لوگوں نے اس سے کہا کہ سمندر بھی تیرے ماتحت ہے تو اس نے اُن پر ثابت کر دیا کہ سمندر اس کا حکم نہیں مانتا.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک دنیا وی بادشاہ تھا اور روحانی بادشاہت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا، نہ اسے روحانی حکومت و تصرف کا ادعا تھا.پس اگر ایک ایسی بات کا اس نے انکار کر دیا جو اس کے اپنے راہ سے علیحدہ تھی تو یہ کچھ بڑی بات نہ تھی.اسی طرح دیگر لوگ جو جھوٹی مدح سے متنفر ہوتے ہیں ان کے حالات میں بھی بہت کچھ فرق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم میں تھے جو سرتسلیم جھکانے کے لیے صرف ایک ایسے شخص کے آگے تیار ہو سکتی تھی جو اپنی طاقت اور شان میں عام انسانوں سے بہت زیادہ ہو اور انسانی طاقت سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہو کیونکہ اس کی رگ رگ میں حریت اور آزادی کا خون دوڑ رہا تھا.پس اس کے سامنے اپنے آپ کو معمولی انسانوں کی طرح پیش کرنا بلکہ اگر ان میں سے کوئی آپ کی ایسی تعریف بھی کرے جو وہ اپنے بڑوں کی نسبت کرنے کے عادی تھے تو اسے روک دینا یہ ایک ایسا فعل تھا جس سے ایک اوسط درجہ کا انسان گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ کیونکر ہوگا.دوم آپ کو دعویٰ تھا نبوت کا اور نبوت میں آئندہ خبریں دینا ایک ضروری امر ہے پس یہ تعریف خود آپ کے کام کی نسبت تھی گومبالغہ سے اسے اور کا اور
سيرة النبي علي 228 جلد 1 رنگ دے دیا گیا تھا.پس آپ کا اس تعریف سے انکار کرنا دوسرے لوگوں سے بالکل ممتاز ہے اور آپ کے نیک نمونہ سے کسی اور انسان کا نمونہ خواہ وہ انبیاء میں سے ہی کیوں نہ ہو قطعاً نہیں مل سکتا.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح حریت پیدا کرنی چاہتے تھے.اس قسم کے خیالات اگر پھیلائے جاتے اور آپ ان کے پھیلائے جانے کی اجازت دے دیتے تو مسلمانوں میں شرک ضرور پھیل جاتا مگر ہمارا رسول تو شرک کا نہایت خطرناک دشمن تھا وہ کب اس بات کو پسند فرما سکتا تھا کہ ایسی باتیں مشہور کی جائیں جو واقعات کے خلاف ہیں اور جن سے دنیا میں شرک پھیلتا ہے.پس اس نے جو نہی ایسے کلمات سنے کہ جن سے شرک کی بُو آتی تھی فوراً ان سے روک دیا اور اس طرح بنی نوع انسان کو ذہنی غلامی سے بچالیا اور حریت کے ایک ایسے ارفع سٹیج پر کھڑا کر دیا جہاں غلامی کی زہریلی ہواؤں کا پہنچنا ناممکن ہو جاتا ہے.اے سوچنے والو! سوچو تو سہی کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی عزت اور رتبہ منظور تھا اور آپ کا سب کام دنیاوی جاہ و جلال حاصل کرنے کے لیے تھا تو آپ کے لیے کیا مناسب تھا.کیا یہ کہ لوگوں میں اپنی عزت و شان کے بڑھانے کے لیے باتیں مشہور کراتے یا کہ معتقدین کو ایسا کرنے سے روکتے ؟ کیا وہ لوگ جو اپنی خواہش اور آرزو کے ماتحت دنیا میں بڑا بننا چاہتے ہیں اسی طرح کیا کرتے ہیں؟ کیا وہ بغیر امتیاز جھوٹ اور سچ کے اپنی شان دو بالا نہیں کرنی چاہتے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک انسان کو بغیر اس کے اشارہ کے کچھ لوگ وہ شان دینا چاہتے ہیں جو اگر کسی انسان میں پائی جائے تو وہ مربع خلائق بن جائے تو وہ انہیں روکتا ہے اور فوراً کہہ دیتا ہے کہ اور اور باتیں کرو مگر ایسا کلام منہ پر نہ لاؤ جس سے اس وَحْدَهُ لا شَرِیک ذات کی ہتک ہوتی ہو جو سب دنیا کا خالق و مالک ہے اور میری طرف وہ باتیں منسوب نہ کرو جو در حقیقت مجھ میں نہیں پائی جاتیں.ہاں بتلاؤ تو سہی کہ اس کا کیا سبب ہے؟ کیا یہ نہیں کہ وہ دنیا کی عزتوں کا محتاج نہ تھا بلکہ خدا کی
سيرة النبي علي 229 رضا کا بھوکا تھا ؟ دنیا اس کی نظر میں ایک مُردار سے بھی کم حیثیت رکھتی تھی.اطمینان قلب آرام و آسائش کے اوقات میں اپنے ہوش وحواس پر قابو رکھنا جلد 1 کوئی بڑی بات نہیں.انسان کا امتحان اُس وقت ہوتا ہے جب اس پر کوئی مشکل پیش آئے اور پھر اس میں وہ اپنے حواس کو قائم رکھے اور بدحواس نہ ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی عمر میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے اور بہادری اور جرات میں آپ نے اپنے آپ کو بے نظیر ثابت کر دکھایا ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے مختلف واقعات سے ثابت کر چکے ہیں ان مصائب و آسائش کے مختلف دوروں نے آپ کی عظمت اور جلال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہر حالت میں اپنی کوئی نہ کوئی خوبی ظاہر کی ہے.خواہ محسر کا زمانہ ہو یا ئیسر کا آپ بے عیب ثابت ہوئے ہیں اور آپ کی شان ارفع سے ارفع تر ثابت ہوئی ہے.نہ تو مصائب کے ایام میں آپ سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوئی جس سے آپ پر عیب گیری کا موقع ملے نہ خوشی کے دنوں میں آپ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوا جس سے آپ پر اعتراض کرنے کی گنجائش پیدا ہو.ہر رنگ اور ہر شکل میں آپ دنیا کے لیے ایک قابلِ قدرنمونہ ثابت ہوئے ہیں.جرأت و بہادری کی نسبت تو میں لکھ چکا ہوں اس جگہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حواس پر کیسا قابو تھا اور کس طرح خطرناک سے خطرناک مصائب میں آپ استقلال اور ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کے عادی تھے اور آپ سے کبھی کوئی ایسی حرکت نہ ہوتی تھی جس سے کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر ہو اور یہ بھی کہ کیونکر ہر ایک مصیبت میں آپ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی دکھائی دیتا تھا.یہ تو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے بادشاہوں کی طرح اپنے ساتھ کوئی پہرہ یا گارڈ نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے صحابہ کی طرح آپ بھی اکیلے اپنے کام میں مشغول رہتے تھے ایسے اوقات میں دشمن کو جس قدر دکھ پہنچانے کے مواقع مل سکتے ہیں وہ ایک واقف کار انسان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں
سيرة النبي علي 230 جلد 1 ہو سکتے.جو انسان ایک ہی وقت میں اپنے ملک کے ہر طبقہ کے انسانوں اور ہر فرقہ کے پیروؤں سے خصوصاً اور باقی دنیا سے عموماً جنگ شروع کر چکا ہو اور ان کے عقائد اور خیالات کو مٹاکر ان کی جگہ اپنی لائی ہوئی تعلیم کو پھیلانے میں کوشاں ہو اس سے دیگر مذاہب اور مخالف امراء کے پیروؤں اور متبعین کو جو کچھ بھی عداوت ہو کم ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ہر ممکن سے ممکن ذرائع سے اسے تکالیف پہنچانے کی کوشش کریں گے اور خصوصاً جبکہ انہیں معلوم ہو کہ جس شخص کو ایذا پہنچانا انہیں مقصود ہے وہ بغیر کسی نگرانی یا پہرہ کے گلیوں اور میدانوں میں تن تنہا چلتا پھرتا انہیں مل سکتا ہے.آپ کے مخالفین نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے جو تدابیر کیں ان سے بحیثیت مجموعی مجھے غرض نہیں.میں صرف بخاری کی روایات سے کچھ واقعات اس سیرت میں بیان کر رہا ہوں جن سے آپ کے اخلاق پر روشنی پڑتی ہے اس لیے صرف ایک ایسا واقعہ جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کس طرح آپ کی جان پر اچانک حملہ کیا گیا اور آپ نے اُس وقت اپنے ہوش و حواس کو کس طرح بجا رکھا اس جگہ بیان کرتا ہوں.عَنْ جَابِرٍ بُنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ فَلَمَّا قَفَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ فَأَدْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِى وَادٍ كَثِيْرِ الْعِضَاءِ فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِى الْعِضَاءِ يَسْتَظِلُّوْنَ بِالشَّجَرِ وَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ قَالَ جَابِرٌ فَنِمْنَا نَوْمَةً ثُمَّ إِذَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوْنَا فَجِئْنَاهُ فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا احْتَرَطَ سَيْفِيْ وَأَنَا نَائِمٌ فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتَا فَقَالَ لِيْ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنّى قُلْتُ لَهُ اللهُ فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبُهُ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى صلى الله اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 90 جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ علی
سيرة النبي علي 231 جلد 1 صلى الله کے ساتھ نجد کی طرف جنگ کیلئے گئے.جب رسول اللہ کے سفر سے لوٹے تو آپ بھی حضور کے ساتھ لوٹے.راستہ میں لشکر ایک ایسی وادی میں جو کانٹے دار درختوں سے پر تھی دو پہر کے وقت گزرا.پس رسول اللہ ﷺ وہاں اتر پڑے اور آپ کے ساتھی ادھر اُدھر درختوں میں پھیل گئے اور درختوں کے سائے میں آرام کرنے لگے آنحضرت یہ بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے ٹھہر گئے اور اپنی تلوار اُس درخت سے ٹانگ دی.جابر فرماتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر سو گئے پھر اچانک آنحضرت علی کی آواز آئی کہ آپ ہمیں بلاتے ہیں پس ہم آپ کے پاس آئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک اعرابی بیٹھا ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوارمیان سے پھینچی اور میں سو رہا تھا پس میں جاگ پڑا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی پس اس نے مجھے کہا کہ مجھ سے تجھے کون بچائے گا؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ بچائے گا.پس دیکھو یہ سامنے بیٹھا ہے.پھر جابر فر ماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہ دی.دوسری جگہوں سے اس واقعہ میں اس قدر اور زیادتی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کا نام سن کر اس شخص پر اس قدر ہیبت طاری ہوئی کہ اُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھالی اور اس سے فرمایا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ؟ تو اس نے جواب دیا کہ کوئی نہیں.پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا اور صحابہ کو بلا کر دکھایا 91.اس حدیث سے کیسے واضح طور سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حواس پر ایسا قابو تھا کہ نہایت خطرناک اوقات میں بھی آپ نہ گھبراتے تھے.کہنے کو تو شاید یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ اب آپ کو کون بچائے گا ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اللہ.لیکن عمل میں یہ بات مشکل ترین امور میں سے ہے.اول تو سویا ہوا انسان پہلے ہی بہت سی غفلتوں کے نیچے ہوتا ہے اور بغیر کسی
سيرة النبي علي 232 جلد 1 خوف وخطر کے بھی ایک سوئے ہوئے آدمی کو جگا دیا جائے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور کسی خطر ناک آواز یا نظارہ کو اگر ایک سویا ہوا انسان سن کریا دیکھ کر اٹھے تو اس کے حواس قائم رہنے نہایت مشکل ہوتے ہیں.پس اگر جاگتے ہوئے کوئی دشمن حملہ کرتا تو وہ واقعہ ایسا صاف اور روشن نہ ہوتا جیسا کہ یہ ہے.کیونکہ اس سے ایک طرف تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو کسی خطرہ کا گمان تک بھی نہ تھا جب اس شخص نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کسی ایسے فعل سے انتہائی درجہ کی لاعلمی میں تھے اور دوسری طرف دشمن کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہر قسم کی تیاری اور ہوشیاری کا موقع حاصل تھا.علاوہ ازیں ایک آدمی جب بیٹھا یا کھڑا ہو تو وہ حملہ آور کا مقابلہ نہایت آسانی سے کر سکتا ہے اور کم سے کم اسے اپنی جگہ بدلنے میں آسانی ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے حملہ کو اگر طاقت اور قوت سے میں نہیں روک سکتا تو کم سے کم چستی اور چالاکی سے اس کے حملہ کو ضرور بچا سکتا ہوں اور اس کی ضرب سے ایک طرف ہو کر اپنی جان بچانے کا موقع حاصل ہو سکتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت لیٹے ہوئے تھے اور پھر سوئے ہوئے جاگے تھے جس کی وجہ سے کوئی ظاہری تد بیر دشمن کے حملہ کو روکنے کی نہ تھی اور پھر آپ غیر علاقہ میں تھے اور دشمن اپنی جگہ پر تھا جہاں اپنی حفاظت کا اسے ہر طرح یقین تھا مگر باوجود ان حالات کے آپ نے ایک ذرہ بھر بھی تو گھبراہٹ ظاہر نہیں کی.اس اعرابی کا یہ کہنا بھی کہ اب تجھے کون بچا سکتا ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسے بھی کامل یقین تھا کہ اب کوئی دنیاوی سامان ان کے بچاؤ کا نہیں مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جس شخص پر میں حملہ کرنا چاہتا ہوں وہ معمولی انسانوں میں سے نہیں بلکہ ان میں سے ہے جو خالقِ ارض و سماء کے دربار کے مقرب اور اس کے ظانِ عافیت کے نیچے آئے ہوئے ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جس آرام اور اطمینانِ قلب کے ساتھ
سيرة النبي علي 233 جلد 1 جواب دیا ہے کہ مجھے اللہ بچائے گا وہ روز روشن کی طرح اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ آپ کے دل میں غیر اللہ کا خوف ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آتا تھا اور آپ کا دل ایسا مضبوط اور قوی تھا کہ خطرناک سے خطرناک اوقات میں بھی اس میں گھبراہٹ کا وجود نہ پایا جاتا تھا اور اپنے حواس پر آپ کو اس قدر قدرت تھی کہ اور تو اور خود دشمن بھی جو آپ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا بدحواس ہو گیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ میں ایک ایسی طاقت کا مقابلہ کر رہا ہوں جسے نقصان پہنچانے کی بجائے میں خو د تباہ ہو جاؤں گا.ہمیشہ خیر اختیار کرتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ضد سے کام نہ لیتے تھے بلکہ جس بات میں خیر دیکھتے اسی کو اختیار کرتے تھے اور قطعاً اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ اس سے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی.ہم دیکھتے ہیں کہ رجالِ سیاست دنیویہ نے اپنے اصولوں میں سے ایک یہ اصل بھی بنا رکھی ہے کہ بادشاہ یا حاکم جو حکم دے دے اور جو فیصلہ کر دے اس میں تغیر نہ کرے اور جس طرح کیا ہے اس پر قائم رہے تا کہ لوگوں کے دل میں یہ نہ خیال پیدا ہو کہ ہم نے ڈرا کر منوالیا ہے یا کم سے کم دوسروں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے کہ ایک بات کہہ کر پھر اس سے رجوع کر لیا ہے اور اس اصل پر رجالِ سیاست ایسے پکے اور قائم رہتے ہیں کہ بعض اوقات جنگوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے مگر وہ اپنی بات کی پیچ کے لیے اور دبدبہ حکومت قائم رکھنے کے لیے ملک کو جنگ میں ڈال دیتے ہیں لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اپنے فیصلہ کو واپس لے لیں.جولوگ تاریخ انگلستان سے واقف ہیں اُن سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ ممالک متحدہ سے جنگ کی وجہ یہی ہوئی کہ انگلستان کے رجالِ سیاست ایک فیصلہ دے کر اس کو واپس نہیں لینا چاہتے تھے.گو وہ اس بات کو خوب سمجھ گئے تھے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں جس کا
سيرة النبي علي 234 جلد 1 نتیجہ ایک خونریز جنگ ہوئی اور ایک سرسبز و شاداب ملک ہاتھ سے جاتا رہا.خود ہندوستان میں تقسیم بنگالہ کا فیصلہ ایک کھلی نظیر موجود ہے کہ خود وزرائے انگلستان قبول کرتے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہوا لیکن ڈرتے تھے کہ اسے تبدیل کر دیں گے تو ملک میں حکومت کی بے رعمی ہو گی.چنانچہ جب تک شہنشاہ ہند کی تاجپوشی کا ایک نہایت غیر معمولی موقع پیش نہیں آیا اس حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا.اور درحقیقت بظاہر دنیاوی نقطۂ خیال سے یہ بات ہے بھی درست کیونکہ جب رعایا کے دل میں یہ بیٹھ جائے کہ ہم جس طرح چاہیں کرا سکتے ہیں یا ان کو یہ خیال ہو جائے کہ ہمارا حاکم تو بالکل غیر مستقل مزاج آدمی ہے اسے جس طرح چاہیں پھیر دیں تو وہ بہت دلیر اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ست ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے رجالِ سیاست نے اس بات کو بہت پسند کیا ہے کہ حاکم اپنے فیصلہ کو بہت جلد واپس نہ لے بلکہ حتی الامکان اس پر قائم رہے.ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس پاک فطرت کو لے کر پیدا ہوئے اور جن کمالات کو آپ نے حاصل کیا تھا وہ چاہتے تھے کہ آپ ہمیشہ خیر اختیار کریں.ایک دنیاوی بادشاہ یا حاکم اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ میں اپنے ایام حکومت میں حکومت کے رعب کو قائم رکھتا رہا ہوں اور ایک مضبوط ارادہ کے ساتھ نظام حکومت چلاتا رہا ہوں مگر میرے اس پیارے کا یہ فخر نہ تھا کہ میں نے جو کچھ کہ دیا اس پر پابند رہا ہوں بلکہ اس کا فخر یہ تھا کہ میں نے جب عمل کیا خیر پر کیا اور جب مجھے معلوم ہوا کہ میں فلاں رنگ میں کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں میں نے اس کے پہنچانے میں کو تا ہی نہیں کی.پس اگر روحانیت کی دنیا میں کوئی شخص قابل اتباع ہوسکتا ہے تو وہ الله آنحضرت عہ ہی ہو سکتے ہیں.حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قَالَ أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنَ الْأَشْعَرِيْنَ فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَأَبِي أَنْ يَحْمِلَنَا فَاسْتَحْمَلْنَاهُ
سيرة النبي عل الله 235 جلد 1 فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا ثُمَّ لَمْ يَلْبَثِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُتِيَ بِنَهُبِ إِبِلٍ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ فَلَمَّا قَبَضُنَاهَا قُلْنَا تَغَفَّلُنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِيْنَهُ لَا نُفَلِحُ بَعْدَهَا أَبَدًا فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا وَقَدْ حَمَلْتَنَا قَالَ أَجَلْ وَلَكِنْ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِيْنِ فَأَرى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهَا 92 آپ نے فرمایا کہ صلى الله ہم چند آدمی جو اشعری قبیلہ کے تھے نبی کریم علی یا اللہ کے پاس آئے اور ہم نے آپ سے سواری مانگی.آپ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے میں نہیں دے سکتا.ہم نے پھر عرض کیا کہ ہمیں سواری دی جاوے تو آپ نے قسم کھا لی کہ ہمیں سواری نہیں دیں گے.پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ اونٹ لائے گئے پس آپ نے حکم دیا کہ ہمیں پانچ اونٹ دیئے جاویں.پس جب ہم نے وہ اونٹ لے لیے ہم نے آپس میں کہا کہ ہم نے تو آنحضرت ﷺ کو دھوکا دیا ہے اور آپ کو آپ کی قسم یاد نہیں دلائی ہم اس کے بعد کبھی مظفر ومنصور نہ ہوں گے.اس خوف سے میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ آپ ہمیں سواری نہ دیں گے اور اب تو آپ نے ہمیں سواری دے دی ہے.فرمایا ہاں اسی طرح ہوا ہے لیکن میں کوئی قسم نہیں کھاتا لیکن جب اس کے سوا کوئی اور بات بہتر دیکھتا ہوں تو وہ بات اختیار کر لیتا ہوں جو بہتر ہو.صلى الله اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مقصود کیا تھا.آپ کے کام کسی دنیاوی مصلحت یا ارادہ کے ماتحت نہ ہوتے تھے بلکہ آپ اپنے ہر کام میں یہ بات مدنظر رکھتے تھے کہ جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ واقعہ میں نفع رساں بھی ہے یا نہیں.اور اگر کبھی معلوم ہو جائے کہ آپ نے کوئی ایسا کام کیا ہے یا اس کے کرنے کا ارادہ کیا ہے جو کسی انسان کے لیے مضر ہو گا یا اسے اس سے تکلیف ہو گی تو آپ فوراً اپنے پہلے حکم کو واپس لے لیتے اور وہی بات کرتے جو بہتر اور نفع رساں ہوتی.
سيرة النبي علي 236 جلد 1 ایک ظاہر بین انسان کہہ سکتا ہے کہ اس سے رعب و داب میں فرق آتا ہے اور حکومت کو نقصان پہنچتا ہے مگر اس بات سے تو آپ کی خوبی اور نیکی کا پتہ چلتا ہے کہ خواہ کوئی امر کیسا ہی خطرناک اور مضر معلوم ہوتا ہو آپ بے دھڑک اسے اختیار کر لیتے تھے جبکہ آپ کو یقین ہو جاتا کہ اس سے لوگوں کے حقوق کی نگہداشت ہوتی ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان تھا کہ باوجود اس بات کے آپ کو ایسا رعب و داب میسر تھا جو دنیا کے کسی بادشاہ کو میسر نہیں.واقعہ میں ایک بادشاہ کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سکھ پہنچائے اور آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آپ دین و دنیا کے لیے ایک کامل نمونہ تھے اور آپ کی زندگی دنیاوی بادشاہوں کے لیے بھی نمونہ ہے کہ بادشاہوں کو اپنے ماتحتوں اور رعایا کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے اور کس طرح ضد اور تعصب سے الگ ہو کر ہر ایک قربانی اختیار کر کے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لیے تیار رہنا چاہئے.ہمیں اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماتختوں پر اُسی وقت بادشاہ کے حکم بدل دینے کا برا اثر پڑتا ہے جب کہ ان کو یہ یقین ہو کہ بادشاہ ہمارا یقینی خیر خواہ نہیں بلکہ اس نے ڈر کر اپنے حکم میں تبدیلی کی ہے اور جب انہیں یقین ہو کہ اس کے احکام ایک غیر مستقل طبیعت کا نتیجہ ہیں.لیکن اگر انہیں اس بات کا کامل یقین ہو جائے کہ کوئی بادشاہ یا حاکم ان سے ڈر کر یا بے استقلالی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے لم بدلتا ہے کہ وہ ان کا خیر خواہ ہے اور کسی وقت بھی ان کی بھلائی سے غافل نہیں ہوتا تو بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میں بے رحمی پیدا ہو وہ اس سے اور بھی مرعوب ہو جاتے ہیں اور ان کے دل محبت سے بھر جاتے ہیں.اور جو بادشاہ اپنی رعایا اور ماتحتوں کے دلوں میں اپنی خیر خواہی کا ایسا یقین بٹھا دے وہی سب سے زبردست بادشاہ ہے.اور یہی خیال تھا جس نے کہ ابو موسی اور ان کے ساتھیوں کو مجبور کیا کہ صلى الله بجائے اس خیال کے کہ یہ سمجھیں کہ آنحضرت علیہ سے کسی قسم کی بے استقلالی ظاہر ہوئی ہے انہوں نے جنگ کے لیے پیدل جانا منظور کیا مگر یہ نہ پسند کیا کہ آپ کو دوبارہ
سيرة النبي عل 237 جلد 1 قسم یاد دلائے بغیر ان سواریوں کو استعمال کریں اور یہ اُس عظیم الشان فتح کا نشان تھا جو آپ کو اپنے اصحاب کے دلوں پر حاصل تھی.تحمل انسان کے نیک خصال میں سے تحمل کی خصلت بھی اعلیٰ درجہ کی ہے کیونکہ تحمل سے بہت سے جھگڑوں اور لڑائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے.بہت دفعہ انسان ایک بات سن کر بحث مباحثہ میں پڑ جاتا ہے اور بجائے فائدہ کرنے کے نقصان پہنچاتا ہے.بعض لوگ تو اپنے خیال کے خلاف بات سنتے ہی کچھ ایسے دیوانہ ہو جاتے ہیں کہ حد اعتدال سے بڑھ کر گالیوں پر اتر آتے ہیں اور عظیم الشان فسادوں کے بانی ہو جاتے ہیں.بعض لوگ اپنے منشا کے خلاف بات سن کر ایسی طول طویل بحثیں شروع کر دیتے ہیں کہ جن کا ختم ہونا محالات سے ہو جاتا ہے لیکن حقیقی مصلح وہی الله ہے جوا کثر اوقات تحمل سے کام لیتا ہے اور احتیاط کے ساتھ سمجھاتا ہے.آج کل کے بادشاہ یا علماء یا گدی نشین اپنی حیثیت کا قیام ہی اسی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے خلاف بات نہ کرے اور مرضی کے خلاف بات دیکھ کر فوراً ناراض ہو جاتے ہیں اور تحمل سے کام نہیں لیتے.ممکن نہیں کہ ان لوگوں کے مزاج کے خلاف کوئی شخص بات کہہ دے اور پھر بغیر کچھ سخت وست کلام سننے کے اس مجلس سے اٹھے.مگر ہمارے آنحضرت ﷺ اس طرز کے نہ تھے.آپ اس موقع پر تحمل سے کام لیتے اور بجائے گالیاں دینے اور سختی کرنے کے ایسا نرمی کا طریق اختیار کرتے کہ دوسرا خود بخو دشرمندہ ہو جائے.حضرت علی اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت علیؓ نے آپ کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلہ کا طرز پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آپ ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے آپ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی غالبا اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزہ اٹھاتے رہے ہوں گے.اور انہوں نے جو لطف اٹھایا ہو گا وہ تو انہی کا حق تھا
سيرة النبي علي 238 جلد 1 الله اب بھی آنحضرت ﷺ کے اس اظہار نا پسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک باریک بین نظر محو حیرت ہو جاتی ہے.حضرت علی كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ فرماتے ہیں اَنَّ رَسُوْلَ محو اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِئْتَ النَّبِيِّ الله لَيْلَةً فَقَالَ أَلَّا تُصَلِّيَان فَقُلْتُ يَارَسُوْلَ اللهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعُ إِلَيَّ شَيْئًا ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُوْلُ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 3 و یعنی نبی کریم صلى الله ایک رات میرے اور فاطمہ الزہرا کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور فرمایا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے ؟ میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے.آپ اس بات کو سن کر کوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا.پھر میں نے آپ سے سنا اور آپ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوئے تھے اور آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے.الله الله !! کس لطیف طرز سے حضرت علیؓ کو آپ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا.کوئی اور ہوتا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو رد کر دو.نہیں تو کم سے کم یوں بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں وہ جس طرح چاہے کروا تا ہے.چاہے نماز کی توفیق دے، چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے.لیکن آپ نے ان دونوں طریق میں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے نہ بحث کر کے حضرت علیؓ کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا
سيرة النبي علي 239 جلد 1 ہے.حقیقت میں آپ کا اتنا کہہ دینا ایسے ایسے منافعے اندر رکھتا تھا کہ جس کا عشر عشیر بھی کسی اور کی سو بحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا.اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن سے آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے.اول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو دینداری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو خود تو نیک ہوتے ہیں ، لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کا حال خراب ہوتا ہے اور ان میں یہ مادہ نہیں ہوتا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لوگوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا.یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پاس تمام اشیاء کو روشن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ دوسروں کو تو نصیحت کرتے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لوگ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں.مگر آنحضرت ﷺ کو اس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کرنا چاہتے تھے اور اس کا آپ تعہد بھی کرتے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے.اور تربیت اعزا ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے جو اگر آپ میں نہ ہوتا تو آپ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جاتی.دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ایک منٹ کے لیے بھی آپ اس پر شک نہیں کرتے تھے اور جیسا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ دنیا کو اتو بنانے کے لیے اور اپنی حکومت جمانے کے لیے آپ نے یہ سب کا رخانہ بنایا تھا ورنہ آپ کو کوئی وحی نہ آتی تھی یہ بات نہ تھی بلکہ آپ کو اپنے رسول اور خدا کے مامور ہونے پر ایسا ملح قلب عطا تھا کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپ بناوٹ سے کام
سيرة النبي علي 240 جلد 1 لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جائے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجا لاتے ہیں جو اس نے فرض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کرنا مؤمنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جاتی ہے.اُس وقت آپ کا جانا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کرتا ہے جو آپ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپ لوگوں کو چلا نا چاہتے تھے ورنہ ایک مفتری انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلنا نہ چلنا ایک سا ہے اپنی اولا د کو ایسے پوشیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی نصیحت نہیں کر سکتا.یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کرنے کے لیے میں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت علی ہر ایک بات کے سمجھانے کے لیے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے.چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علیؓ نے آپ کے سوال کو اس طرح رد کرنا چاہا کہ جب ہم سو جائیں تو ہمارا کیا اختیار ہے کہ ہم جاگیں کیونکہ سویا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا.جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آ گیا ہے اب میں فلاں کام کر لوں اللہ تعالی آنکھ کھول دے تو نماز ادا کر لیتے ہیں ورنہ مجبوری ہوتی ہے ( کیونکہ اُس وقت الارم کی گھڑیاں نہ تھیں ) اس بات کو سن کر آنحضرت ﷺ کو تو حیرت ہوئی ہی تھی کیونکہ آپ کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپ کو ایسا غافل نہ ہونے دیتا تھا کہ تہجد کا وقت گزر جائے اور آپ کو خبر نہ ہو اس لیے آپ نے دوسری طرف منہ کر کے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے.یعنی تم کو آئندہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو، نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہیے تھا.چنانچہ
سيرة النبي علي 241 حضرت علی فرماتے ہیں میں نے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا.جلد 1 طہارۃ النفس - متحمل ہم پہلے حضرت علی کے ایک واقعہ سے ثابت کر چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نہایت بردبار تھے صلى الله اور برخلاف بہت سے بادشاہوں کے جو اپنے خلاف بات سن کر یا اپنی مرضی کے نا موافق حرکت دیکھ کر نہایت غصہ اور جوش سے بھر جاتے ہیں اکثر چشم پوشی اور اعراض سے کام لیتے تھے اور ایسا طریق اختیار کرتے جس میں تحمل کا پہلو غالب ہو.اب ہم ایک اور ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہیں جو ایک دوسرے پہلو سے آپ کے تحمل پر روشنی ڈالتا ہے اور آپ کی صفات حسنہ کو اور بھی روشن کر کے ظاہر کرتا ہے.آنحضرت علی ہوازن پر فتح پا کے واپس آ رہے تھے اور اس جنگ میں جو اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے اُن کی تقسیم کا سوال در پیش تھا.آپ کا منشا تھا کہ اگر ہوازن تائب ہو کر آ جائیں اور معافی کے خواستگار ہوں تو ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں لیکن دن پر دن گزرتے چلے گئے اور ہوازن کی طرف سے کوئی وفد طلب گار معافی ہو کر نہ آیا.بہت دن تک آپ نے تقسیم اموال کے کام کو تعویق میں رکھا لیکن آخر اس بات کو مناسب سمجھا کہ اموال تقسیم کر دیے جائیں.چنانچہ بھرا نہ پہنچ کر آپ نے ان اموال کو تقسیم کرنا شروع کیا.منافق تو ہمیشہ اس تاک میں لگے رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو ہم آپ پر اعتراض کریں.کوئی نہ کوئی راہ نکال کر ذوالخویصرہ التیمی نے عین تقسیم کے وقت بڑھ کر کہا کہ آپ اس تقسیم میں عدل کو مد نظر رکھیں.جس سے اس کی مراد یہ تھی کہ آپ اس وقت عدل سے کام نہیں لے رہے.امام بخاری صاحب نے اس واقعہ کو حضرت جابر سے یوں روایت کیا ہے کہ بَيْنَمَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ غَنِيْمَةً بِالْجِعُرَانَةِ إِذْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ اِعْدِلُ قَالَ لَقَدْ شَقِيْتَ إِنْ لَمْ أَعْدِلُ 94 اس اثناء میں کہ آنحضرت ﷺ اموال غنیمت کو جعرانہ کے مقام پر تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے صلى الله
سيرة النبي علي 242 جلد 1 آپ کو کہا کہ آپ عدل سے کام لیں.آپ نے جواب دیا کہ اگر میں نے عدل نہیں کیا تو تو بڑی بے برکتی اور بدبختی میں مبتلا ہو گیا.اللہ اللہ ! کیسے خطر ناک حملہ کا جواب وہ پاک رسول کس نرمی سے دیتا ہے کس حلم سے اسے سمجھاتا ہے.آنحضرت ﷺ سے جو عشق صحابہ کو تھا وہ ایسا نہ تھا کہ وہ ایسی باتیں برداشت کر سکتے بلکہ حضرت عمر اور خالد بن ولید تو ہمیشہ ایسے مواقع پر تلوار کھینچ کر کھڑے صلى الله ہو جاتے تھے مگر آنحضرت ﷺ ان کو ہمیشہ روکتے رہتے تھے کہ ان لوگوں سے اعراض کرو.پس ایسے وقت میں جبکہ مکہ کے حدیث العہد مسلمان جو ابھی ان آداب سے بالکل ناواقف تھے جو ایک رسول کے حضور بجالانے پر ایک مؤمن کا فرض ہوتا ہے اور جو ایک ذرا سے اشارہ سے صراط مستقیم سے ہٹ کر کہیں کے کہیں پہنچ سکتے تھے آپ کے اردگرد کھڑے تھے اور وہی وقت تھا جب انہوں نے یہ سبق سیکھنا تھا کہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہمیں کس طرح عمل کرنا چاہیے.ایک شخص کا آگے بڑھ کر نہایت بے حیائی سے آپ سے کہنا کہ حضور ! ذرا عدل مدنظر رکھیں اور بے انصافی اور حق تلفی نہ کریں ایک خطرناک فعل تھا.جس سے ایک طرف تو اُن قوانین کی خلاف ورزی ہوتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ساتھ کلام کرنے کے متعلق بیان فرمائے ہیں.دوسرے ان تمام مواعید پر پانی پھر جاتا تھا جو اس شخص نے آنحضرت علی کے حضور کیے تھے اور جو ہر ایک مسلمان کو مسلمان ہونے کے لیے کرنے پڑتے ہیں.تیسرے سیاسی لحاظ سے آپ کے رعب کو ایک خطر ناک نقصان پہنچانے والے تھے.اور چوتھے نومسلموں کے لیے ایک نہایت بد نظیر قائم کرنے والے تھے جن کے دل ابھی اس عزت کا خیال بھی نہیں کر سکتے تھے جو صحابہ کے دلوں میں بھری ہوئی تھی.پس وہ الفاظ جو ذوالخویصرہ کے منہ سے اُس وقت نکلے ایک دنیا وی دربار میں خطر ناک سے خطر ناک سزا کا فتویٰ دلانے کے لیے کافی تھے.اور اگر زمانہ قدیم کے درباروں میں ایسا انسان قتل کا مستوجب خیال کیا جاتا تو موجودہ دورِ دستوریت میں بھی ایسا آدمی سزا سے محفوظ نہ رہ سکتا.
سيرة النبي علي 243 جلد 1 لیکن وہ بادشاہ ہر دو جہاں اس کے گستاخانہ کلام کے جواب میں کیا کہتا ہے؟ کیا اسے سزا کا حکم دیتا ہے؟ کہ تا ان نومسلموں پر آپ کا رعب بیٹھ جائے جو نہایت نگران نگاہوں سے صحابہ اور آنحضرت ﷺ کے تعلقات کو اس لیے دیکھ رہے تھے کہ ان سے اندازہ لگا سکیں کہ یہ تعلقات مصنوعی ہیں یا حقیقی ، عارضی ہیں یا مستقل ،سطحی ہیں یا ان کی جڑیں دل کے تمام کونوں میں مضبوطی سے گڑی ہوئی ہیں.یا وہ میرا پیارا اگر اسے کسی بدنی سزا کا مستحق قرار نہیں دیتا تو کم سے کم زبانی طور پر ہی اسے سخت تہدید کرتا ہے کہ اگر ایسے الفاظ پھر تمہارے منہ سے نکلے تو تم کو سخت سزا دی جائے گی ؟ نہیں وہ بھی نہیں کرتا.کیا وہ اسے اپنے سامنے سے دور ہو جانے کا حکم دیتا ہے؟ نہیں! وہ اس سے بھی اجتناب کرتا ہے.پھر اس مجرم کے لیے وہ کیا سزا تجویز کرتا ہے؟ وہ باوجود صحابہ کی چڑھی ہوئی تیوری کے اور باوجود ان کے ہاتھوں کے بار بار دستہ تلوار کی طرف جانے کے اسے نہایت پر حکمت اور پُر معنی جواب دیتا ہے جس سے بہتر جواب کوئی انسانی دماغ تجویز کر ہی نہیں سکتا.وہ اسے خود اُسی کے فعل سے ملزم کرتا ہے،خود اُسی کے اقوال سے قائل کرتا ہے، خود اُسی کے اعمال سے شرمندہ کرتا ہے.وہ کہتا ہے تو یہ کہ لَقَدْ شَقِيْتَ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ اگر میں نے عدل نہ کیا تو تو بدبختی کے گڑھے میں گر گیا.کیونکہ تو نے تو مجھے خدا کا رسول سمجھ کر بیعت کی ہے.اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں آپ کو خدا کی طرف سے یقین کرتا ہوں اور مجھے اپنا رہنما اور پیشوا قرار دیتا ہے تو ان خیالات کے باوجود اے نادان! جب تو مجھے انصاف سے دور اور عدل سے خالی خیال کرتا ہے تو تجھ سے زیادہ بد بخت اور کون ہوسکتا ہے جو اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے پیچھے لگاتا ہے جو اتباع کے قابل نہیں اور اس آدمی سے ہدایت چاہتا ہے جو خود گمراہ ہے اور اس سے صداقت طلب کرتا ہے جو جھوٹ بولنے میں کوئی عیب نہیں دیکھتا.اور اگر تُو مجھے نبی نہیں خیال کرتا بلکہ جھوٹا خیال کرتا ہے تو پھر بھی تو نہایت شقی ہے کیونکہ باوجود مجھے جھوٹا سمجھنے کے پھر میرے ساتھ رہتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ میں
سيرة النبي علي 244 جلد 1 آپ کو سچا خیال کرتا ہوں.اللہ اللہ ! کیسا پاک جواب ہے.کیسا مسئلت اور مسکت جواب ہے جسے سن کر ایک حیادار سوائے اس کے کہ زندہ ہی مرجائے اور کوئی جواب نہیں دے سکتا.یہ تھا آپ کا تحمل، یہ تھی آپ کی بردباری جو آپ کو دنیا کے تمام انسانوں سے افضل ثابت کرتی ہے.بہت ہیں جو اشتعال انگیز الفاظ کوسن کر خاموشی سے اپنے حلم کا ثبوت دیتے ہیں لیکن میرے آقا کا مخمل بھی لغو نہ تھا.اگر آپ خاموش رہتے تو اس کے اعتراض کا جواب کیا ہوتا.آپ نے تحمل کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا اور ایسا نمونہ جو کہ اپنے اندر ایک عظیم الشان سبق بھی رکھتا تھا اور معترضین کے لیے ہدایت تھا.کاش! اس حدیث سے وہ لوگ کچھ نصیحت حاصل کریں جو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے پھر اعتراضات سے نہیں رکھتے کیونکہ ان کو یا درکھنا چاہیے کہ ان کا یہ فعل خود ان کی شقاوت پر دال ہے.اس سے پہلے میں آنحضرت ﷺ کے تحمل کی ایک مثال درج کر چکا ہوں.اب ایک اور مثال درج کرتا ہوں.جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ أَنَّهُ بَيْنَا هُوَ مَعَ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مُقْبِلًا مِنْ حُنَيْنٍ عَلِقَتْ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اِضْطَرُّوْهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطِفَتْ رَدَاءَهُ فَوَقَفَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعْطُوْنِيْ رِدَائِي فَلَوُ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاءِ نَعَمَّا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تَجدُونَنِيْ بَخِيْلًا وَلَا كَذُوْبًا وَلَا جَبَانًا 95 ایک دفعہ وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ کے ساتھ اور بھی لوگ تھے.آپ حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے اتنے میں راستہ میں کچھ بادیہ نشین عرب آگئے اور آپ کے پیچھے پڑ گئے اور آپ سے سوال کرنے لگے.اور آپ پر اس قدر زور ڈالا کہ ہٹاتے ہٹاتے کیکر کے درخت تک لے گئے جس سے آپ کی چادر پھنس گئی.پس آپ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ میری چادر مجھے پکڑا دو.اگر ان کانٹے دار درختوں کے برابر بھی
سيرة النبي علي 245 جلد 1 میرے پاس اونٹ ہوتے (یعنی بہت کثرت سے ہوتے ) تو بھی میں سب تم میں تقسیم کر دیتا اور تم مجھ کو بخیل اور جھوٹا اور بزدل نہ پاتے.اللہ اللہ ! یہ وہ شخص ہے جسے نا پاک طبع انسان دنیا طلب کہتے ہیں اور طرح طرح کے ناپاک الزام لگاتے ہیں.یہ وہ انسان ہے جسے اندھی دنیا مغلوب الغضب کہتی ہے.یہ وہ وجود ہے جسے ظالم انسان ظالم قرار دیتے ہیں.کیا اس تحمل والا انسان ظالم یا مغلوب الغضب ہوسکتا ہے؟ کیا اس سیر طبیعت کا انسان دنیا طلب ہوسکتا ہے؟ عرب کا فاتح اور حنین کا بہادر اپنے خطرناک دشمن کو شکست دے کر واپس آ رہا ہے.ابھی اس کے سپاہیوں کی تلواروں سے خون کا رنگ بھی نہیں چھوٹا، زبر دست سے زبر دست انسان اس کو پیٹھ دکھا چکے ہیں اور اس کی تیز تلوار کے آگے اپنی گردنیں جھکا چکے ہیں اور وہ اپنی فتح مند افواج کے ساتھ میدانِ جنگ سے واپس آ رہا ہے مگر کس شان سے؟ اس کا حال ابھی پڑھ چکے ہو.کچھ عرب آ کر آپ سے سوال کرتے ہیں اور پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں کہ کچھ لیے بغیر نہیں کوٹیں گے آپ بار بار انکار کرتے ہیں کہ میرے پاس کچھ نہیں مگر وہ باز نہیں آتے.پھر اور پھر سوال کرتے ہیں اور باوجود آپ کے انکار کے مصر ہیں کہ ہمیں ضرور کچھ دلوایا جائے مگر آپ باوجود اس شان کے کہ سارے عرب کو آپ کے سامنے گردن جھکا دینی پڑی اُن سے کیا سلوک کرتے ہیں؟ ان کے بار بار کے سوال سے ناراض نہیں ہوتے.اُن پر خفگی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اُن کو بتاتے ہیں کہ آپ کے پاس اس وقت کچھ نہیں ورنہ ضرور ان کو بھی دیتے.لیکن وہ لوگ پھر بھی مُصر ہیں.ایسا کیوں ہے؟ کیا اس لیے نہیں کہ گل دنیا اس بات سے واقف تھی کہ وہ بہادر انسان جو خطرناک جنگوں میں جس وقت اس کے ساتھی بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اکیلا دشمن کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے ایسا متحمل مزاج ہے کہ اپنی حاجتوں کو اس کے پاس جس زور سے بھی پیش کریں گے وہ کبھی ناراض نہیں ہو گا بلکہ اس کا جواب محبت سے بھرا ہوا اور شفقت سے مملوء ہوگا.پھر کیا اس لیے نہیں کہ آپ کے اخلاق حسنہ اور آپ کے حسنِ
سيرة النبي 246 جلد 1 سلوک کا دنیا میں ایسا شہر ہ تھا کہ بادیہ نشین عرب بھی اس بات سے ناواقف نہ تھے کہ ہم جس قدر بھی اصرار کریں گے ہمیں کسی سرزنش کا خطرہ نہ ہو گا.ضرور یہی بات تھی جس کی وجہ سے وہ عرب آپ پر اس قدر زور ڈال رہے تھے اور باتوں سے ہی آپ سے کچھ وصول نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ جب ناامید ہو گئے تو آپ کو پکڑ کر اصرار کرنا شروع کیا کہ ہمیں ضرور کچھ دیں.اور آپ ان سے ہٹتے ہٹتے راستہ سے اس قدر دور ہو گئے کہ آخر آپ کی چادر کانٹے دار درختوں میں جا پھنسی.اور اُس وقت آپ نے ان کو ان محبت آمیز الفاظ میں ملامت کی کہ میں انکار بخل کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس مجبوری سے کہ میرے پاس اس وقت کچھ نہیں.اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں ضرور تم کو دے دیتا حتی کہ سامنے کھڑے ہوئے درختوں کے برابر بھی اگر اونٹ میرے پاس ہوتے تو سب تم کو دے دیتا اور ہرگز بخل نہ کرتا.نہ جھوٹ بولتا نہ بزدلی دکھا تا.دنیا کا کوئی بادشاہ ایسا جواب نہیں دے سکتا.وہ جو اپنی عزت اور اپنی بڑائی کے طلب گار ہوتے ہیں وہ اس قدر تحمل نہیں کر سکتے.آنحضرت علی کی حیثیت کے انسان کا ایسے موقع پر جب آپ سے ان اعراب نے اس درشتی سے سلوک کیا تھا مذکورہ بالا جواب دینا اپنی نظیر آپ ہی ہے اور دنیا کا کوئی بادشاہ ، کوئی حاکم ، کوئی سردار اس تحمل کی نظیر نہیں دکھا سکتا.پھر آپ جو جواب دیتے ہیں وہ کیسا لطیف ہے.فرماتے ہیں کہ اگر ان درختوں کے برابر بھی اونٹ ہوتے تو میں تمہیں دے دیتا اور تم مجھے بخیل ، جھوٹا اور بز دل نہ پاتے.ایک موٹی نظر والے انسان کو تو شاید یہ تین الفاظ بے ربط معلوم ہوں لیکن دانا انسان سمجھتا ہے کہ یہ تینوں الفاظ جو آپ نے فرمائے بالکل موقع کے مطابق تھے اور ان سے بہتر لفظ اور ہو ہی نہیں سکتے تھے.کیونکہ مال کا نہ دینا بخل سے متعلق ہے.پس آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو تم مجھے بخیل نہ پاتے.یعنی تمہیں معلوم ہو جاتا کہ میں بخیل نہیں کیونکہ میں تمہیں مال دے دیتا.اور جھوٹا بھی نہ پاتے.یہ اس لیے فرمایا کہ بعض لوگ جھوٹ بول کر سائل سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ
سيرة النبي علي 247 جلد 1 ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں.پس فرمایا کہ تمہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ میں بخیل نہیں ہوں اور یہ بھی کہ جھوٹا نہیں ہوں کہ جھوٹ بول کر سب مال یا اس کا بعض حصہ اپنے لیے بچالوں.اور نہ مجھے بُزدل پاتے.یعنی میرا تمہیں مال دینا اس وجہ سے نہ ہوتا کہ میں تم لوگوں سے ڈر جاتا کہ کہیں مجھے نقصان نہ پہنچاؤ بلکہ میں جو مال دیتا دل کی خوشی سے دیتا.شاید کوئی شخص کہے کہ آپ کے اتنا کہہ دینے سے کیا بنتا ہے کہ اگر میرے پاس ہوتا تو میں دے دیتا.کیا معلوم ہے کہ آپ اُس وقت دیتے یا نہ دیتے ؟ مگر یا د رکھنا چاہیے کہ ہر خن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد.میں اس جگہ یہ بتا رہا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کا حمل کیسا تھا اور کس طرح آپ نا پسند اور مکروہ باتیں سن کر نرمی اور ملائمت سے جواب دیتے تھے.اور خفگی اور ناراضگی کا اظہار قطعاً نہ فرماتے بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا معترض کو کوئی نیک بات بتا کر خاموش فرما دیتے.آپ کی سخاوت کا ذکر تو دوسری جگہ ہو گا.اور اگر کوئی بہت مُصر ہو تو میں آپ کے تحمل کی ایسی مثال بھی جس میں ایک طرف آپ نے تحمل فرمایا ہے اور دوسری طرف سخاوت کا اظہار فرمایا ہے دے سکتا ہوں اور وہ بھی صحیح بخاری سے ہی.اور وہ یہ کہ انس بن مالک بیان فرماتے ہیں کہ كُنتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيْظُ الْحَاشِيَةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَذَبَهُ جَذْبَةً شَدِيْدَةً حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثْرَتْ بِهِ حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَذْبِهِ ثُمَّ قَالَ مُرُ لِى مِنْ مَالِ اللهِ الَّذِي عِنْدَكَ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءِ 96 یعنی میں ایک دفعہ آنحضرت علی کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ نے ایک نجران کی بنی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کے کنارے بہت موٹے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آپ کے قریب آیا اور آپ کو بڑی سختی سے کھینچنے لگا.یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کے سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کی رگڑ کے
سيرة النبي علي 248 جلد 1 ساتھ آپ کی گردن پر خراش ہو گئی.اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دلوائیں.پس آپ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا کہ اسے کچھ دے دو.اس مثال سے آپ کا متحمل پہلی مثال سے بھی زیادہ ظاہر ہوتا ہے.پہلی مثال سے تو یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ کے پاس کچھ تھا نہیں اور کچھ سائل آپ سے بار بارانعام طلب کرتے تھے اور جبکہ آپ انکار فرما رہے تھے کہ میرے پاس کچھ نہیں اور وہ لینے مُصر تھے.ان لوگوں کا آپ پر زور کرنا سمجھ میں آ سکتا ہے اور خیال ہوسکتا ہے کہ چونکہ وہ لوگ سخت محتاج تھے اور ان کی حالت زار تھی اور ناامیدی میں انسان کے حواس ٹھکانے نہیں رہتے اس لیے ان کی زیادتی پر آپ جیسے رحیم انسان کا تحمل کرنا کچھ تعجبات سے نہ تھا.لیکن دوسرا واقعہ اس واقعہ سے بہت زیادہ آپ کے تحمل پر روشنی ڈالتا ہے کیونکہ اس شخص نے بغیر سوال کے آپ پر حملہ کر دیا اور اس حملہ کی کوئی وجہ نہ تھی.نہ اس نے سوال کیا تھا نہ آپ نے انکار فرمایا تھا نہ اسے کوئی ناامیدی پیش آئی تھی.مال سامنے موجود تھا آپ دینے کو تیار تھے پھر بلا وجہ اس طرح گستاخی سے پیش آنا ایک نہایت ہی ناشائستہ حرکت تھی اور اس کے سوال پر اسے ڈانٹنا چاہیے تھا.اور پھر اس نے جو طریق اختیار کیا تھا وہ صرف گستاخانہ ہی نہ تھا کہ یہ خیال کر لیا جاتا کہ چلو اس سے کوئی حقیقی نقصان تو ہوا نہیں جاہل آدمی ہے اور جنگلی ہے اور آداب رسول سے ناواقف ہے اسے معاف ہی کر دینا بہتر ہو گا.بلکہ وہ ایذا رسانی کا طریق تھا اور اس کی اس حرکت سے آنحضرت ﷺ کو سخت تکلیف بھی پہنچی اور گردن مبارک پر خراش بھی ہوگئی.بلکہ اس حدیث کو حمام نے اس طرح روایت کیا ہے کہ چادر پھٹ گئی اور اس کا حاشیہ چڑہ کو پھاڑتا ہوا گوشت تک گھس گیا.پس وہ شخص اس بات کا پورے طور پر مستحق تھا کہ اسے آپ سختی سے علیحدہ کر دیتے.لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ اس سے یہ سلوک فرماتے ہیں کہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ
سيرة النبي علي 249 جلد 1 اسے بھی ضرور کچھ دے دو.گویا مسکرا کر اسے بتاتے ہیں کہ میں تمہارے جیسے نادانوں کو جو آداب رسول سے ناواقف ہیں بجائے ڈانٹنے کے قابلِ رحم خیال کرتا ہوں اور بجائے ناراضگی کے تمہاری حالت پر مسکراتا ہوں کہ تم میرے تحمل سے ہی فائدہ اٹھاؤ.کہنے کو سب لوگ محمل والے بن جاتے ہیں لیکن عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کی حقیقت کھلتی ہے اور اس کے دعاوی کے صدق اور کذب کا حال معلوم ہوتا ہے.دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جو عدل و انصاف کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے ہیں، جو تحمل مزاج مشہور ہیں اور جن کے تحمل اور بردباری کے افسانوں سے تاریخوں کے صفحے کے صفحے بھرے ہوئے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مذہبی عزت کے لحاظ سے بھی اپنے زمانہ کے لوگوں میں ممتاز تھے اور جو بعد میں بھی اپنے ہم مذہبوں کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیئے گئے ہیں.ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جو بادشاہت کے علاوہ مذاہب کے بانی اور پیشوا بھی ہوئے ہیں اور خاص سلسلوں کے جاری کرنے والے ہیں جن کے مرنے کے ساتھ ان کی بادشاہت کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی روحانی بادشاہت مدت ہائے دراز تک قائم رہی بلکہ اب تک بھی مختلف حکومتوں کے ماتحت رہنے والے لوگ در حقیقت اپنے دل اور اپنی روح کے لحاظ سے انہی کے ماتحت ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بے نظیر خیال کیے جاتے ہیں جو اخلاق میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ خیال کیے جاتے ہیں.مگر کوئی ہے جو تمام دنیا کی تاریخوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد تمام اقوام کے بادشا ہوں اور پیشواؤں کے حالات کی چھان بین کرنے کے بعد ان اخلاق کا انسان دکھا سکے اور اس تحمل کی نظیر کسی اور انسان میں بتا سکے جو آنحضرت ﷺ نے دکھایا.میں یہ نہیں صلى الله کہتا کہ آنحضرت معے کے سوا کوئی شخص تحمل کی صفت سے متصف ہوا ہی نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس درجہ تک تحمل کا اظہار کرنے والا جس درجہ تک آپ نے ظاہر فرمایا کوئی انسان نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا کیونکہ آپ کمال کی اُس سرحد تک پہنچ گئے ہیں
سيرة النبي علي 250 جلد 1 کہ اس کے بعد کوئی ترقی نہیں.ممکن ہے کہ کوئی صاحب کہیں کہ آپ بادشاہوں اور حاکموں کی کیوں شرط لگاتے ہیں اور اس مقابلہ کے میدان کو اور بھی کیوں وسیع نہیں کر دیتے کہ دنیا کے گل افراد کے متحمل کو سامنے رکھ کر مقابلہ کر لیا جائے کہ آیا کوئی انسان اس صفت میں آپ کی برابری کر سکتا ہے یا نہیں ؟ مگر میں کہتا ہوں کہ تحمل اسی انسان کا قابلِ قدر ہے جسے طاقت اور قدرت ہو.جو شخص خود دوسروں کا محتاج ہو، دوسروں سے خائف ہو، اپنے دشمنوں کے خوف سے چھپتا پھرتا ہو، اُسے دنیا میں سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی ہو اُس کا محتمل بھی کوئی تحمل ہے !! اس کی زبان تو اس پر ظلم کرنے والوں نے بند کر دی ہے اور اس میں یہ طاقت ہی نہیں کہ ان کے حملوں کا جواب دے سکے.پس جو حاکم نہیں یا بادشاہ نہیں یا دنیاوی لحاظ سے کوئی خاص عزت نہیں رکھتا اس کا تحمل کوئی تحمل نہیں بلکہ بہت دفعہ ایک مغلوب الغضب انسان بھی اپنے ایذا دہندوں کے خوف سے اپنے غضب کو دبا لیتا ہے اور گو دل ہی دل میں جلتا اور کڑھتا ہے اور جی ہی جی میں گالیاں دیتا اور کوستا ہے لیکن اظہارِ غضب کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں اور بھی مضر ہوگا.پس آنحضرت ﷺ کے مقابلہ میں اس شخص کے تحمل کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو آپ ہی کی طرح با اختیار اور طاقت رکھتا ہو اور پھر آپ ہی کی طرح تحمل دکھانے والا ہو.ورنہ مثل مشہور ہے کہ زبر دست مارے اور رونے نہ دے ایسا زبردست جو کسی زبر دست کے پنجہ ستم میں گرفتار ہو اس نے قابل عتاب گفتگو سن کر یا بُرا سلوک دیکھ کر اظہار ناراضگی کرنا ہی کیا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ یہ طریق تو انصاف پر مبنی تھا اور عقلاً ، اخلاقاً ہمارا حق تھا کہ ہم مذکورہ بالا شرط سے مشروط مقابلہ کا مطالبہ کریں.لیکن اگر کوئی شخص دنیا کے تمام انسانوں میں بھی آپ جیسے باکمال انسان کو پیش کر سکے تو ہم اس کے معاملہ پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں.بشرطیکہ بے حیائی کا نام تحمل نہ رکھ لیا جاوے.
سيرة النبي علي 251 جلد 1 اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے.اور وہ یہ کہ بعض لوگ پیدائشی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو غصہ آتا ہی نہیں بلکہ جو معاملہ بھی ان سے کیا جائے وہ متحمل ہی تحمل کرتے ہیں اور غضب کا اظہار کبھی نہیں کرتے.اور اس کی یہ وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے جوش کو دبا لیتے ہیں یا تحمل سے کام لیتے ہیں بلکہ در حقیقت ان کے دل میں جوش پیدا ہی نہیں ہوتا اور انہیں کسی بات کی حقیقت کے سمجھنے کا احساس ہی نہیں ہوتا.اور یہ لوگ ہر گز کسی تعریف کے مستحق نہیں ہوتے کیونکہ ان کا تحمل صرف ظاہری ہے اس میں حقیقت کچھ نہیں.ایک شکل ہے جس کی اصلیت کوئی نہیں.ایک جسم ہے جس میں روح کوئی نہیں.ایک قشر ہے جس میں مغز کوئی نہیں.اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی ٹینڈے شخص کو کوئی دوسرا شخص مارے اور چونکہ اس کے ہاتھ نہیں ہیں وہ مارکھا کر صبر کر چھوڑے.اور جس طرح یہ ٹنڈا قطعاً اس تعریف کا مستحق نہیں ہے کہ اُسے تو زید یا بکر نے مارا مگر اس نے آگے سے ایک طمانچہ بھی نہ لگایا کیونکہ اس میں طمانچہ لگانے کی طاقت ہی نہ تھی کیونکہ اس کے ہاتھ نہ تھے اس لیے مجبور تھا کہ مارکھا تا اور اپنی حالت پر افسوس کرتا.اسی طرح وہ شخص بھی ہر گز کسی تعریف کا مستحق نہیں جس کے دل میں جوش اور حس ہی نہیں اور وہ بری بھلی بات میں تمیز ہی نہیں کرسکتا.کیونکہ اس کا تحمل خوبی نہیں بلکہ اس کا باعث فقدانِ شعور ہے.پس ایک معترض کا حق ہے کہ وہ یہ سوال کرے کہ کیوں آنحضرت عمے کو بھی ایسا ہی نہ خیال کر لیا جائے.خصوصاً جبکہ اس قدر طاقت اور قدرت اور ایسے ایسے جوش دلانے والے مواقع پیدا ہو جانے کے باوجود آپ اس طرح ہنس کر بات ٹال دیتے تھے اور کیوں نہ خیال کر لیا جائے کہ آپ بھی پیدا کشا ایسے ہی نرم مزاج پیدا ہوئے تھے اور فطرتا آپ مجبور تھے کہ ایسے ایذا د ہندوں کے اعمال پر ہنس کر ہی خاموش ہو رہتے کیونکہ آپ کے اندر انتقام کا مادہ اور بُری اور بھلی بات میں تمیز کی صفت موجود ہی نہ تھی (نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ).یہ سوال بالکل درست اور بجا ہے اور ایک محقق کا حق ہے کہ وہ ہم سے اس کی
سيرة النبي علي 252 جلد 1 وجه دریافت کرے کہ کیوں ہم آپ کو ایک خاص گروہ میں شامل کرتے ہیں اور دوسرے سے نکالتے ہیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا بھی جواب دیں کیونکہ اس سوال کا جواب دیئے بغیر آنحضرت ﷺ کی سیرت کا ایک پہلو نامکمل رہ جاتا ہے اور آپ جیسے مکمل انسان کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں جو نامکمل ہو.پس اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گواہی پیش کرتے ہیں جو آپ کی ازواج مطہرات سے تھیں اور آپ کے اخلاق کی كَمَا حَقُهُ واقف تھیں.صحیح بخاری میں آپ سے روایت ہے کہ مَا خُيّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرُمَةُ اللهِ فَيَنْتَقِمَ لِلهِ بِهَا 7 و یعنی آنحضرت ﷺ کو جب کبھی دو باتوں میں اختیار دیا جاتا تھا تو آپ دونوں میں سے آسان کو اختیار کر لیتے تھے جب تک کہ گناہ نہ ہو.اور جب کوئی گناہ کا کام ہوتا تو آپ اُس سے سب لوگوں سے زیادہ دور بھا گئے.اور آپ کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمتوں میں سے کسی کی بے حرمتی کی جاتی تھی تو آپ خدا کے لیے اس بے حرمتی کا بدلہ لیتے تھے.اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جب آنحضرت عیﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو کاموں کا اختیار دیا جاتا کہ آپ جو چاہیں کریں تو آپ ان دونوں میں سے آسان کو اختیار کرتے ( کیونکہ بندہ کا یہی حق ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ زائد بوجھوں سے بچائے تا ایسا نہ ہو کہ اپنے آپ کو کسی مصیبت میں گرفتار کر دے) لیکن اگر کبھی آپ دیکھتے کہ ایک آسان بات کو اختیار کر کے کسی وجہ سے کسی گناہ کا قرب ہو جائے گا تو پھر آپ کبھی اُس آسان کو اختیار نہ کرتے بلکہ مشکل سے مشکل امر کو اختیار کر لیتے مگر اس آسان کے قریب نہ جاتے (اور یہی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا کام ہے کہ وہ گناہ
سيرة النبي علي 253 جلد 1 سے بہت دور بھاگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے میں کسی سختی یا کسی مشکل کے برداشت کرنے سے نہیں گھبراتے) پھر فرماتی ہیں کہ آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ اپنے نفس کے لیے کبھی انتقام نہ لیتے.یعنی خلاف منشا امور کو دیکھ کر جب تک وہ خاص آپ کی ذات کے متعلق ہوتے تحمل سے ہی کام لیتے ، خفگی ، ناراضگی یا غضب کا اظہار نہ فرماتے.نہ سزا دینے کی طرف متوجہ ہو جاتے.ہاں جب آپ کی ذات کے متعلق کوئی امر نہ ہو بلکہ اس کا اثر دین پر پڑتا ہو اور کسی دینی مسئلہ کی ہتک ہوتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان پر کوئی دھبہ لگتا ہو تو آپ اُس وقت تک صبر نہ کرتے جب تک اس کا انتقام لے کر اللہ تعالیٰ کے جلال کو ظاہر نہ فرما لیتے اور شریر انسان کو جو ہتک حرمتہ اللہ کا مرتکب ہوا ہوسزا نہ دے لیتے.اس واقعہ سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ کا تحمل اس درجہ تک پہنچا ہوا تھا کہ آپ کبھی بھی اپنے نفس کے لیے جوش کا اظہار نہ فرماتے بلکہ تحمل اور بردباری سے ہی ہمیشہ کام لیتے.لیکن یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات قطعاً درست نہیں کہ آپ میں جوش و انتقام کی صفت پائی ہی نہ جاتی تھی اور آپ پیدائش سے ہی ایسے نرم مزاج ہوئے تھے کہ غضب آپ میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ جب اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمتوں کی ہتک اور بے حرمتی کا سوال پیدا ہوتا تو آپ ضرور انتقام لیتے تھے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تحمل کسی پیدائشی کمزوری یا نقص کا نتیجہ نہ تھا بلکہ آپ اپنے اخلاق کی وجہ سے اپنے نفس کے قصوروں سے چشم پوشی کر جاتے تھے اور اظہار نا راضگی سے اجتناب کرتے تھے.اور جو کچھ کہنا بھی ہوتا تھا تو نہایت آہستگی اور نرمی سے کہتے تھے.اور ایسا جواب دیتے تھے جس میں بجائے ناراضگی اور غضب کے اظہار کے اس شخص کے لیے کوئی مفید سبق ہو جس سے وہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنے واقع چال چلن کی اصلاح کر سکے اور یہی تحمل کا اعلیٰ نمونہ ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی یہ شہادت بلا دلیل نہیں ہے بلکہ واقعات
سيرة النبي علي 254 جلد 1 بھی اس کی شہادت دیتے ہیں.چنانچہ بخاری کی ایک حدیث سے ظاہر ہے جسے مفصل ہم پہلے کسی اور جگہ لکھ آئے ہیں کہ جنگ احد میں جب عام طور پر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ آنحضرت علی شہید ہو گئے ہیں اور کفار مکہ عَلَی الْإِعْلان اپنی اس کامیابی پر فخر کرنے لگے اور ان کے سردار نے بڑے زور سے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد ہے ؟ جس سے اس کی مراد یہ بتانا تھا کہ ہم آپ کو مار چکے ہیں اور آپ دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کو فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں.اور اس طرح اس کا جھوٹا فخر پورا ہونے دیا.اور یہ نہیں کیا کہ غضب میں آ کر اسے کہتے کہ میں تو زندہ موجود ہوں یہ بات کہ تم نے مجھے قتل کر دیا ہے بالکل جھوٹ اور باطل ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں.ہاں جب ابو سفیان نے یہ کہا کہ اُعْلُ هُبَل اُعْلُ هُبل بیل بت کی شان بلند ہو، ہبل بُت کی شان بلند ہو تو اُس وقت آپ خاموش نہ رہ سکے اور صحابہ کو فرمایا کہ کیوں جواب نہیں دیتے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا جواب دیں؟ فرمایا اسے کہو کہ اللهُ اَعْلَی وَاَجَلُّ اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ یعنی تمہارے ہیں میں کیا طاقت ہے وہ تو ایک بناوٹی چیز ہے اللہ ہی ہے جو سب چیزوں سے بلند رتبہ اور عظیم القدر ہے.اور پھر جب اس نے کہا کہ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزّى لَكُمْ تو آپ نے پھر صحابہ سے فرمایا کہ جواب دو.انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا جواب دیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ کہو لَنَا مَولى وَلَا مَوْلَى لَكُمُ 98 خدا تعالیٰ ہمارا دوست و مددگار ہے اور تمہارا مددگار کوئی نہیں.یعنی کڑی میں کچھ طاقت نہیں طاقت تو اللہ تعالیٰ میں ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے.پس اس واقعہ سے صاف کھل جاتا ہے کہ حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق جو گواہی دی ہے وہ صرف ان کا خیال ہی نہیں بلکہ واقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور تاریخی ثبوت اس کی سچائی کی شہادت دیتے ہیں.اور آنحضرت ﷺ کی زندگی پر غور کرنے سے ایک موٹی سے موٹی عقل کا انسان بھی اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ آپ کا عمل کسی صفت حسنہ کے
سيرة النبي علي 255 جلد 1 فقدان کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کا باعث آپ کے وہ اعلیٰ اخلاق تھے جن کی نظیر دنیا میں کسی زمانہ کے لوگوں میں بھی نہیں ملتی اور یہ کہ گویا تحمل اپنے کمال کے درجہ کو پہنچا ہوا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمات کا سوال جب درمیان میں آ جاتا تو اُس وقت آنحضرت ﷺ ہرگز مبر سے کام نہ لیتے بلکہ جس قدر جلد ممکن ہوتا مناسب تدارک فرما دیتے اور اللہ تعالیٰ کے جلال کے قائم کرنے میں ہرگز دیر نہ فرماتے.پس آپ کا تحمل ایک طرف تو بے نظیر تھا اور دوسری طرف بالا رادہ تھا.اور پھر آپ کی اس صفت کا اظہار کبھی بے موقع نہیں ہوتا تھا جیسا کہ آج کل کے زمانہ کا حال ہے کہ اپنے نفس کے معاملہ میں تو لوگ ذرا ذرا سی بات میں جوش میں آ جاتے ہیں لیکن جب خدا اور اس کے دین کا معاملہ آتا ہے تو صبر و تحمل کی تعلیم و تلقین کرتے ہوئے ان کے ہونٹ خشک ہوئے جاتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ تحمل صرف ذاتی تکلیف اور دکھ کے وقت ہوتا ہے ور نہ دین کے معاملہ میں بناوٹی صلح اور جھوٹا ملاپ ایک بے غیرتی ہے اور کمی ایمان اور حرص دنیاوی کا ثبوت ہے.صبر عربی زبان میں روکنے کو کہتے ہیں اور استعمال میں یہ لفظ تین صبر معنوں میں آتا ہے.کسی شخص کا اپنے آپ کو اچھی باتوں پر قائم رکھنا، بری باتوں سے اپنے آپ کو روکنا اور مصیبت اور دکھ کے وقت جزع و فزع سے پر ہیز کرنا اور تکلیف کے ایسے اظہار سے جس میں گھبراہٹ اور ناامیدی پائی جائے اجتناب کرنا.اردو زبان میں یا دوسری زبانوں میں یہ لفظ ایسا وسیع نہیں ہے بلکہ اسے ایک خاص محدود معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور صرف تیسرے اور آخری معنوں کے لیے اس لفظ کو مخصوص کر دیا گیا ہے یعنی مصیبت اور رنج میں اپنے نفس کو جزع و فزع اور ناامیدی اور کرب کے اظہار سے روک دینے کے معنوں میں.چونکہ اُردو میں اس کا استعمال انہی معنوں میں ہے اس لیے ہم نے بھی اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے اور اس ہیڈنگ کے نیچے ہماری غرض آنحضرت ﷺ کی ایسی صفت پر روشنی ڈالنا ہے
سيرة النبي علي 256 جلد 1 جس معنی میں کہ یہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی صفت ہے اور دنیا کی تمام اقوام فطرتاً اس صفت کی خوبی کی قائل ہیں گو بد قسمتی سے ہندوستان اس کے خلاف نظر آتا ہے کہ مُردوں پر سالہا سال تک ماتم کیا جاتا ہے اور ایسی بے صبری کی حرکات کی جاتی ہیں اور کرب کی علامات ظاہر کی جاتی ہیں کہ دیکھنے والوں کو بھی تعجب آتا ہے.غرضیکہ فطرتا گل اقوامِ عالم نے صبر کو نہایت اعلیٰ صفت تسلیم کیا ہے اور ہر قوم میں صابر نہایت قابلِ قدر خیال کیا جاتا ہے چونکہ آنحضرت ﷺ کی نسبت ہما را دعوی ہے کہ آپ تمام صفات حسنہ کا مجموعہ تھے اور آپ سے بڑھ کر دنیا کا کوئی انسان نیک اخلاق کا اعلیٰ اور قابلِ تقلید نمونہ نہیں تھا اس لیے ذیل میں ہم صبر کے متعلق آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ اس صفت سے کہاں تک متصف تھے.بچپن میں اول والدہ اور پھر دادا کے فوت ہو جانے سے (والد پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے ) جو صدمات آپ کو پہنچے تھے ان میں آپ نے جس صبر کا اظہار کیا اور پھر دعوی نبوت کے بعد جو تکالیف کفار سے آپ کو پہنچیں اس کو جس صبر و استقلال سے آپ نے برداشت کیا اور یکے بعد دیگرے انہی مصائب کے زمانہ میں آپ کے نہایت مہربان چچا اور وفاداری میں بے نظیر بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور اپنے پیارے متبعین کی مکہ سے ہجرت کر جانے پر جس صبر کا نمونہ آپ نے دکھایا تھا وہ ایک ایسا وسیع مضمون ہے کہ قلتِ گنجائش ہم کو ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ان مضامین کو یہاں شروع کریں اس لیے ہم صرف ایک چھوٹے سے واقعہ کے بیان کرنے پر جو بخاری شریف میں مذکور ہے کفایت کرتے ہیں.جیسا کہ سیرۃ النبی ﷺ کے ابتدا سے مطالعہ کرنے والے اصحاب نے دیکھا ہوگا میں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس سیرۃ میں صرف واقعات سے آنحضرت
سيرة النبي علي صلى الله.257 جلد 1 ے کے اخلاق کی برتری دکھائی ہے.اور آپ کی تعلیم کو کبھی بھی پیش نہیں کیا تا کہ کوئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ ممکن ہے آپ لوگوں کو تو یہ کہتے ہوں اور خود نہ کرتے ہوں نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِک.پس اس جگہ بھی میں آپ کی اس تعلیم کو پیش نہیں کرتا جو آپ نے صبر کی نسبت اپنے اتباع کو دی ہے اور جس میں کرب وگھبراہٹ اور ناامیدی کے اظہار سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا پر رضا کا حکم دیا ہے بلکہ صرف آپ کا عمل پیش کرتا ہوں.عَنْ أَسَامَةَ بنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْسَلَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنَا لِى قُبِضَ فَأْتِنَا فَأَرْسَلَ يُقْرِءُ السَّلَامَ وَيَقُوْلُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرُ وَلْتَحْتَسِبُ فَأَرُسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُفِعَ إِلَى رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنُّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللهِ مَا هذَا فَقَالَ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ99 اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک بچہ فوت ہو گیا ہے آپ تشریف لائیں.(فوت ہو گیا‘ سے یہ مراد تھا کہ نزع کی حالت میں ہے کیونکہ وہ اُس وقت دم تو ڑ رہا تھا ) پس آپ نے جواب اس طرح کہلا بھیجا کہ پہلے میری طرف سے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنا اور پھر کہنا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ لے لے وہ بھی اُسی کا ہے اور جو دیوے وہ بھی اُسی کا ہے اور ہر چیز کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مقررہ مدت ہے پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امیدوار رہو.اس پر آپ نے (حضرت کی صاحبزادی نے ) پھر کہلا بھیجا کہ آپ کو خدا کی قسم آپ ضرور میرے پاس تشریف لائیں.پس آپ کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور زید بن ثابت اور کچھ اور
سيرة النبي علي 258 جلد 1 لوگ تھے.جب آپ وہاں پہنچے تو آپ کے پاس وہ بچہ پیش کیا گیا اور اس کی جان سخت اضطراب میں تھی اور اس طرح ہلتا تھا جیسے مشک.اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے جس پر سعد بن عبادہ نے کہا یا رسول اللہ ! یہ کیا ؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحیم بندوں پر ہی رحم کرتا ہے.یہ واقعہ اپنے اندر جو ہدایتیں رکھتا ہے وہ تو اس کے پڑھتے ہی ظاہر ہوگئی ہوں گی مگر پھر بھی مزید تشریح کے لیے میں بتا دیتا ہوں کہ اس واقعہ نے آپ کی صفت صبر کے دو پہلوؤں پر ایسی روشنی ڈالی ہے کہ جس کے بعد آپ کے اسوہ حسنہ ہونے میں کوئی شک و شبہ رہ ہی نہیں سکتا.اول تو آپ کا اخلاص باللہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آپ کو اطلاع دی گئی کہ آپ کا نواسہ نزع کی حالت میں ہے اور اس کی حالت ایسی بگڑ گئی ہے کہ اب اس کی موت یقینی ہوگئی ہے تو آپ نے کیا پُر حکمت جواب دیا ہے کہ جو خدا تعالیٰ لے لے وہ بھی اس کا مال ہے اور جو دے دے وہ بھی اس کا مال ہے.رضا بالقضا کا یہ نمونہ کیسا پاک، کیسا اعلیٰ ، کیسا لطیف ہے کہ جس قدر اس پر غور کیا جائے اسی قدر کمال ظاہر ہوتا ہے.پھر اپنی صاحبزادی کو نصیحت کرنا کہ صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں پر انتہائی درجہ کے یقین اور امید پر دلالت کرتا ہے.مگر صرف یہی بات نہیں بلکہ اس واقعہ سے ایک اور بات بھی ظاہر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کا صبر اس وجہ سے نہ تھا کہ آپ کا دل نَعُوذُ بِالله سخت تھا بلکہ صبر کی وجہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر امید اور اس کی مالکیت پر ایمان تھا کیونکہ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے جب آپ اپنی صاحبزادی کے گھر پر تشریف لے گئے تو آپ کی گود میں تڑپتا ہوا بچہ رکھ دیا گیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.سعد بن عبادہ نے غلطی سے اعتراض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ صبر کیسا ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ رحم اور چیز ہے اور
سيرة النبي علي 259 جلد 1 صبر اور شے ہے.رحم چاہتا ہے کہ اس بچہ کو تکلیف میں دیکھ کر ہمارا دل بھی دُکھے اور دل کے درد کا اظہار آنکھوں کے آنسوؤں سے ہوتا ہے.اور صبر یہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو جائیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو اسے قبول کریں اور اس پر کرب واضطرار کا اظہار نہ کریں.اور اللہ تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کے لیے تو رحم کی سخت ضرورت ہے.پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دکھوں میں رحم اور شفقت کی عادت ڈالے تو پھر اس بات کا امیدوار ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی تکالیف میں اس پر رحم کرے.غرضیکہ ایک طرف اپنے نواسہ کی وفات کا حال سن کر جو آپ کے بڑھاپے کی عمر کا ثمرہ تھا اور خصوصاً جب کہ آپ کے کوئی نرینہ اولا د موجود نہ تھی صبر کرنا اور اپنی لڑکی کو صبر کی تلقین کرنا اور دوسری طرف اس بچہ کو دکھ میں دیکھ کر آپ کے آنسوؤں کا جاری ہو جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک قضا پر صابر تھے اور یہ کہ آپ کا صبر سخت دلی ( نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ) کا موجب نہ تھا بلکہ آپ کا دل رحم و شفقت سے پُر تھا.استقلال قابل اور ناقابل انسان کی پرکھ میں استقلال بہت مدد دیتا ہے کیونکہ استقلال سے انسان کے بہت سے پوشیدہ در پوشیدہ اخلاق اور قوتوں کا پتہ لگ جاتا ہے اور مستقل اور غیر مستقل انسان میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.ایک ایسا شخص جو بیسیوں نیک اخلاق کا جامع ہو لیکن اس کے اندر استقلال نہ ہو اس کے اخلاق حسنہ نہ تو اس کے نفس کی خوبی کو ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو ان سے کوئی معتد بہ فائدہ پہنچ سکتا ہے.کیونکہ اگر اس میں استقلال نہیں اور وہ اپنے کاموں میں دوام اختیار نہیں کرتا تو اول تو یہی خیال ہو سکتا ہے کہ اس کے نیک اخلاق ممکن ہے کہ بناوٹ کا نتیجہ ہوں.اور دوسرے ایک نیک کام کو شروع کر کے جب وہ درمیان میں ہی چھوڑ دے گا تو اس کا کوئی خاص فائدہ بنی نوع انسان کو نہ پہنچے گا.بلکہ خود اس شخص کا وہ وقت جو اس نے اس ادھورے کام پر خرچ کیا تھا ضائع سمجھا جائے گا.پس
سيرة النبي علي 260 جلد 1 استقلال ایک طرف تو اپنے صاحب کے کاموں کی سنجیدگی اور حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے اور دوسری طرف اس ایک صفت کی وجہ سے انسان کے دوسرے اخلاق حسنہ اور قوائے مفیدہ کے ظہور اور نفع میں بھی خاص ترقی ہوتی ہے اس لیے اس مختصر سیرت میں صلى الله میں آنحضرت ﷺ کے استقلال پر بھی کچھ لکھنا چاہتا ہوں.یوں تو اگر غور کیا جائے تو جو کچھ میں اب تک لکھ چکا ہوں اس کا ہر ایک باب بلکہ ہر ایک ہیڈنگ آنحضرت علی کے استقلال کا شاہد ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں مگر سیرت کی تکمیل چاہتی ہے کہ اس کے لیے الگ ہیڈنگ بھی ضرور قائم کی جاوے.آنحضرت ﷺ کی زندگی پر اگر ہم اجماعی نظر ڈالیں تو ہمیں رسول کریم ہے استقلال کی ایک مجسم تصویر نظر آتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ استقلال کو بھی اس الله نمونہ استقلال پر فخر ہے جو رسول کریم ﷺ نے دکھایا تھا.اس حالت کو دیکھو جس میں آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.اور پھر اس استقلال کو دیکھو جس سے اس کام کو نباہتے ہیں.آپ کی حالت نہ تو ایسی امیرا نہ تھی کہ دنیا کی بالکل احتیاج ہی نہ تھی اور گویا آپ دنیا کی فکروں سے ایسے آزاد تھے کہ اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ ہی آپ ایسے فقیر اور محتاج تھے کہ آرام و آسائش کی زندگی کبھی بسر ہی نہ کی تھی اس لیے دنیا کا چھوڑنا آپ پر کچھ شاق نہ تھا مگر پھر بھی اس اوسط حالت کے باوجود جس میں آپ تھے اور جو عام طور پر بنی نوع انسان کو دنیا میں مشغول رکھتی ہے اور باوجود بیوی بچوں کی موجودگی اور ان کی فکر کے جب آپ غار حرا میں جا کر عبادت الہی میں مشغول ہوئے تو آپ کے پائے ثبات کو مشرکین کی جنسی اور ٹھٹھے نے ذرا بھی متزلزل نہ کیا.اور آخر اُس وقت اس غار کو چھوڑا جب آسمان سے حکم آیا کہ بس اب خلوت کا زمانہ ختم ہوا اور کام کا زمانہ آ گیا، جا! اور ہماری مخلوق کو راہ راست پر لا يَايُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ !
سيرة النبي علي 261 جلد 1 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ 100 اس حکم کا نازل ہونا تھا کہ وہ جو باوجود ہزاروں احتیا جوں اور سینکڑوں شغلوں کے اپنے بیوی بچوں کو خدا کے سپر د کر کے وحدہ لا شریک خدا کی پرستش میں مشغول تھا اور دنیا وَمَا فِيْهَا سے بے تعلق تھا شہر سے دور راہ سے علیحدہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر پھر دوسری طرف چند گز نیچے اتر کر ایک پتھر کے نیچے بیٹھ کر ، تا دنیا اس کی عبادت میں مخل نہ ہو عبادت الہی کیا کرتا تھا اور انسانوں سے ایسا متنفر تھا گویا وہ سانپ ہیں یا اثر رہا، دنیا کے سامنے آتا ہے اور یا تو وہ دنیا سے بھاگتا تھا یا اب دنیا اس سے بھاگ رہی ہے اور اس کے نز دیک کوئی نہیں جاتا.مگر وہ ہے کہ ہر ایک گھر میں گھستا ہے، ہر ایک شخص کو پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے، کعبہ کے میدان میں کھڑا رہتا ہے تا کہ کوئی شخص طواف کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو اُس سے ہی کچھ بات کر سکوں.قافلے آتے ہیں تو لوگ تو اس لیے دوڑے جاتے ہیں کہ جا کر کچھ غلہ خرید لائیں یا جو اسباب تجارت وہ لائے ہیں اُسے اپنی ضرورت کے مطابق خرید لیں.لیکن یہ شخص کسی تجارت کی غرض سے نہیں بلکہ ایک حق اور صداقت کی خبر دینے کے لیے ان سے بھی آگے آگے دوڑا جاتا ہے.اور اس کا پیغام کیا ہے جو ہر ایک انسان کو پہنچانا چاہتا ہے؟ وہ پیغام لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَہ ہے جس سے عرب ایسی وحشت کھاتے تھے کہ اگر کان میں یہ آواز پڑ لَهُ جاتی تو کان میں انگلیاں دے لیتے تھے اور جس کے منہ سے یہ الفاظ سنتے اُس پر دیوانہ وار لپک پڑتے اور چاہتے کہ اسے ایسی سزا دیں کہ جس سے بڑھ کر اور سزا ناممکن ہو.مگر با وجود عربوں کی اس مخالفت کے وہ تنہائی پسند انسان، غارحرا میں دن گزار نے والا انسان جب موقع پاتا یہ پیغام ان کو سنا تا.اور کسی مجلس یا کسی جماعت کا خوف یا رعب اسے اس پیغام کے پہنچانے میں روک نہ ہو سکتا.یہ کام اس نے ایک دن نہیں ، دو دن نہیں، مہینہ نہیں، دو مہینہ نہیں اپنی وفات کے دن تک کیا اور باوجود سب دنیا کی مخالفت کے اپنے کام سے باز نہ آیا.نہ عرب کے مشرک اس کو باز رکھ
سيرة النبي علي 262 جلد 1 سکے، نہ شام کے مسیحی اس کے جوش کو کم کر سکے، نہ ایران کے مجوسی اس کو سست کر سکے اور نہ مدینہ اور خیبر کے یہود اس کی راہ میں روک بن سکے.ہر ایک دشمنی، ہر ایک عداوت ، ہر ایک مخالفت ، ہر ایک تکلیف کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ایک منٹ کے لیے بھی اس نے اپنی آواز نیچی نہ کی.حتی کہ وفات کے وقت بھی یہی نصیحت کرتا گیا کہ دیکھنا ! خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو نہ بنانا اور وہ وحدہ لاشریک ہے کوئی چیز اس کے برابر نہیں حتی کہ سب انسانوں سے افضل محمد ﷺ بھی اس کا ایک بندہ اور رسول ہے.اس کی قبر کو بھی دوسری قوموں کے دستور کے مطابق مسجد نہ بنا لينا 101 - کیا اس استقلال کا نمونہ دنیا میں کسی اور انسان نے بھی دکھایا ہے؟ کیا ایسے مخالفانہ حالات کے مقابلہ پر ایسا فولادی عزم کسی نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں.لوگ ذرا ذرا سا کام کر کے تھک جاتے ہیں اور تھوڑی سی تکلیف دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں بلکہ بغیر تکلیف کے بھی کسی کام پر اس قدر عرصہ تک متواتر توجہ نہیں کر سکتے جس کا نمونہ آنحضرت ﷺ نے دکھایا ہے اور جس نمونہ کو دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جس کام کو اپنے ذمہ لیا تھا اُس کی خوبی اور بہتری پر دل سے یقین رکھتے تھے کیونکہ اس قدر لمبے عرصہ تک باوجود اس قدر تکالیف کے کوئی انسان ایک ایسے امر پر جسے وہ جھوٹا خیال کرتا ہو قائم نہیں رہ سکتا بلکہ یہ بھی کھل جاتا ہے کہ وہ کونسی طاقت تھی جس سے کام لے کر آپ نے ایسی جماعت پیدا کر دی تھی جس نے باوجود قلت تعداد کے سب دنیا کو فتح کر لیا تھا.وہ آپ کا استقلال اور آپ کا عمل ہی تھا جس نے اُن مٹھی بھر آدمیوں کو جو آپ کی صحبت میں رہنے والے تھے گل دنیا کی اصلاح کے کام کے اختیار کرنے کی جرات دلائی.اور صرف جرات ہی نہیں دلائی بلکہ آخر دم تک ایسا آمادہ کیے رکھا کہ انہوں نے دنیا کی اصلاح کا کام کر کے بھی دکھا دیا.مگر افسوس ! کہ اب مسلمانوں میں وہ روح کام نہیں کرتی.
سيرة النبي علي 263 جلد 1 ہم نے مختصراً آنحضرت ﷺ کی زندگی سے ثابت کیا تھا کہ آپ میں استقلال کا مادہ ایسے درجہ تک پایا جاتا تھا کہ اس کی نظیر دنیا میں ملنی مشکل ہے.اب ہم اسی مضمون کو ایک اور پیرایہ میں بیان کر کے آپ کے استقلال کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں.جن لوگوں نے انسان کے اخلاق کا وسیع مطالعہ کیا ہے اور اس کی مختلف شاخوں پر نظر امعان ڈالی ہے وہ جانتے ہیں کہ عوام میں جو اخلاق مشہور ہیں ان سے بہت زیادہ اخلاق انسان میں پائے جاتے ہیں.لیکن قلت تذبر یا اخلاق کی کثرت کی وجہ سے یا تو سب اخلاق ابتدا میں معلوم نہیں ہو سکے یا یہ کہ ان میں سے ایک قسم کے اخلاق کا نام ایک ہی رکھ دیا گیا ہے.اور اخلاق کی چند انواع مقرر کر کے ان کے نام رکھ دیئے گئے ہیں اور آگے ان کی شناخت اسماء کی بجائے تعریف ہی کافی سمجھ لی گئی ہے.استقلال جو ایک نہایت مفید اور دوسرے اخلاق کو چھکا دینے والا خلق ہے اس کی بھی کئی اقسام ہیں جن کا نام لغت میں موجود نہیں بلکہ سب اقسام کو استقلال کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے.لیکن انسانی اخلاق کا وسیع مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ اس خلق کی بھی کئی قسمیں ہیں.جن میں سے دو بڑی قسمیں یہ ہیں کہ ایک استقلال وہ ہوتا ہے جس کا ظہور بڑے کاموں میں ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس کا ظہور چھوٹے کاموں میں ہوتا ہے.چنانچہ انسانوں میں دو قسم کے انسان پائے جاتے ہیں.بعض ایسے ہیں کہ اہم اور وسیع الاثر معاملات میں جب وہ لگ جاتے ہیں تو گوان کے راستہ میں خطرناک سے خطرناک مصائب پیش آئیں وہ اپنے کام سے دست برداری نہیں کرتے اور گل دنیا کی مخالفت کے باوجود اپنا کام کیے جاتے ہیں.لیکن انہی لوگوں میں بعض ایسے پائے جاتے ہیں کہ روزمرہ کے کاموں میں جو نسبتاً کم اہمیت رکھتے ہوں یا ان کا دائرہ اثر.
سيرة النبي علي 264 جلد 1 ایسا وسیع نہ ہو جیسا کہ اول الذکر کا وہ استقلال نہیں دکھا سکتے بلکہ چند دن سے زیادہ ان کے ارادہ اور ان کے عمل کو ثبات حاصل نہیں ہوتا.اس جماعت کے خلاف ایک ایسی بھی جماعت ہے جو چھوٹے اور محدود الاثر معاملات میں تو خوب استقلال سے کام کر لیتے ہیں لیکن جب کسی مہتم بالشان کام پر اُن کو لگایا جاوے تو ان کا استقلال جاتا رہتا ہے اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور مفوضہ کام کو پورا کرنے کے اہل ثابت نہیں ہوتے.پس ان دونوں گروہوں کو ہم گو صاحب استقلال تو کہیں گے لیکن ہمیں یہ بھی ساتھ ہی اقرار کرنا پڑے گا کہ اگر ایک استقلال کی ایک قسم سے محروم ہے تو دوسرا دوسری سے.اور حقیقی طور پر صفت استقلال سے متصف انسان وہی ہو گا جو دونوں صورتوں میں اپنے استقلال کو ہاتھ سے نہ دے.اور خواہ امور مہمہ ہوں یا امور محدود الاثر اس کا استقلال اپنا اثر ظاہر کیسے بغیر نہ رہے.جب ہم آنحضرت ﷺ کی سوانح عمری پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ استقلال کی ہر قسم میں کامل نظر آتے ہیں.چنانچہ یہ بات کہ ان امور میں جنہیں آپ نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دے لیا تھا آپ کیسے مستقل مزاج ثابت ہوئے ہیں پہلے لکھ آیا ہوں.اس جگہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شرک کی بیخ کنی اور حق کے پھیلانے میں ہی آنحضرت علی نے استقلال کا اظہار نہیں کیا بلکہ آپ کے تمام کاموں سے آپ کی کبھی نہ تھکنے والی طبیعت کا پتہ چلتا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ آپ کی اس عادت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرماتی ہیں وَكَانَ يَقُوْلُ خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيْقُوْنَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوْا وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دُوْوِمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّتْ وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا 102 آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ عمل کیا کرو جس کے ادا کرنے کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں ملول ہوتا یہاں تک کہ تم ملول نہ ہو جاؤ (یعنی جس قدر بھی دعا اور عبادت کرو اللہ تعالیٰ
سيرة النبي علي 265 جلد 1 ثواب دینے سے نہیں رکھتا.ہاں تم خود ہی تھک کر رہ جاؤ تو رہ جاؤ.اس لیے اس قدر عمل مت کرو کہ آخر طبیعت میں نفرت پیدا ہو جائے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے گنہگار الله بنو ) اور آنحضرت ﷺ کو نمازوں میں سب سے پیاری وہ نماز ہوتی تھی جس پر دوام صلى الله اختیار کیا جائے خواہ تھوڑی ہی ہو.اور آنحضرت ﷺ جب کسی وقت نماز پڑھتے تھے تو پھر اُس وقت کو جانے نہ دیتے تھے ہمیشہ اُس وقت نماز پڑھتے رہتے.حضرت عائشہؓ کی اس گواہی سے نہایت تین اور واضح طور سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت علی کا استقلال ہر رنگ میں کامل تھا.اور خواہ بڑے کام ہوں یا چھوٹے آپ استقلال کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.چنانچہ اس شہادت سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں.(1) صحابہ کو استقلال کا سبق پڑھانا اور ہمیشہ انہیں استقلال کی تعلیم دیتے رہنا کیونکہ طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا نتیجہ ہمیشہ بے استقلالی ہوتا ہے اور آپ کا اس بات سے صحابہ کو روکنا درحقیقت انہیں استقلال کی تعلیم دینا تھا.اور یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے جس میں کوئی نبی آپ کا شریک نہیں کہ آپ قرآن کریم کے طریق کے مطابق جب کبھی کسی نیکی کا حکم کرتے یا بدی سے روکتے تو ہمیشہ اس نیکی کے حصول کی آسان راہ ساتھ بتاتے.یا اس بدی کا اصل باعث ظاہر کرتے تا کہ اس سے اجتناب کر کے انسان اُس بدی سے بچ جائے.اور اسی اصل کے ماتحت آنحضرت ﷺ نے استقلال کی تعلیم بھی صحابہ کو دی.یعنی انہیں منع فرما دیا کہ جس کام کو آخر تک نباہنا مشکل ہو اُس پر اپنی خوشی سے ہاتھ مت ڈالو کہ اس طرح رفتہ رفتہ بے استقلالی کی عادت تم میں پیدا نہ ہو جائے.(2) اس شہادت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خود بھی اس تعلیم پر عمل پیرا تھے اور اسی عبادت کو پسند فرماتے جس پر دوام ہوسکتا ہو.خواہ وہ تھوڑی ہی ہو.اور اس طرح اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیتے کہ آپ کسی کام میں خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا الله
سيرة النبي علي 266 جلد 1 استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے.(3) تیسرے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ نہ صرف عام کاموں میں بلکہ عبادت میں بھی آپ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے.اور یہ ایک خاص بات ہے کیونکہ استقلال یا بے استقلالی کا اظہار عام کاموں میں ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ایک دن خاص اثر اور جوش کے ماتحت خاص طور پر عبادت کرے اور دوسرے دن نہ کرے صلى الله تو اس کا ایسا کرنا بے استقلالی نہیں کہلا سکتا.لیکن آنحضرت کہ اس صفت میں ایسے کامل تھے کہ آپ عبادت میں بھی یہ پسند نہ فرماتے کہ ایک دن ایک عبادت کر کے دوسرے دن چھوڑ دیں بلکہ جب ایک عبادت ایک دن کرتے تو دوسرے دن پھر کرتے تا کہ اس کے ترک سے طبیعت میں بے استقلالی نہ پیدا ہو.اور یہ بات آپ کے استقلال پر خاص روشنی ڈالتی ہے.احسان کی قدر دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اس بات کے تو طالب رہتے ہیں کہ دوسرے ان پر احسان کریں لیکن اس بات کا اُن کے دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ جن لوگوں نے ان پر احسان کیا ہے ان کے احسانات کو یاد رکھ کر ان کا بدلہ بھی دیں.ایک دو احسانات کا یاد رکھنا تو الگ رہا والدین جن کے احسانات کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا ان کے احسانات کو بھی بہت سے لوگ بھلا دیتے ہیں اور یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا اپنی محبت سے مجبور ہو کر یا اپنا فرض خیال کر کے کیا.ہمیں اب کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ ان کی الله خبر گیری کرتے پھریں.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کا حال دنیا سے بالکل مختلف تھا.آپ پر جب کوئی شخص احسان کرتا تو آپ اسے ہمیشہ یاد رکھتے تھے اور کبھی فراموش نہ کرتے تھے.اور ہمیشہ آپ کی کوشش رہتی تھی کہ جس نے آپ پر کبھی کوئی احسان کیا ہوا سے اس کے احسان سے بڑھ کر بدلہ دیں.یوں تو آپ کا اپنے رشتہ داروں، دوستوں، مریدوں ، خادموں اور ہم وطنوں سے سلوک شروع سے آخر
سيرة النبي علي 267 جلد 1 تک ہمارے اس دعوے کی تصدیق کر رہا ہے لیکن ہم اسے واضح کرنے کے لیے ایک مثال بھی دے دیتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو اپنے محسن کے احسان کا کس قدر خیال رہتا تھا اور کس طرح اسے یا درکھتے تھے.بدر کی جنگ کے نام سے کون سا مسلمان ناواقف ہوگا یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعوی کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لیے مٹادیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مئے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں اور اگر کوئی ہے تو اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا بجائے فخر کے عار خیال کرتا ہے.غرضیکہ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی تھی اور بہت سے کفار قید بھی ہوئے تھے.وہ لوگ جو گھر سے اس ارادہ سے نکلے تھے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے اتباع کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر دیں گے اور جن کے دل میں رحم کا خیال تک بھی نہ تھا ان سے جس قدر بھی سختی کی جاتی اور جو سزائیں بھی ان کے لیے تجویز کی جاتیں بالکل روا اور مناسب تھیں.لیکن ان کی شرارت کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ نے ان سے جو نرم سلوک کیا یعنی صرف ایک خفیف سا تاوان لے کر چھوڑ دیا وہ اپنی آپ ہی نظیر ہے.مگر اس نرم سلوک پر بھی ابھی آپ کے دل میں یہ تڑپ باقی تھی کہ اگر ہو سکے تو اور بھی نرمی ان سے برتوں اور آپ بہانہ ہی ڈھونڈتے تھے کہ کوئی اور معقول وجہ پیدا ہو جائے تو میں ان کو پہلا تاوان لئے کے چھوڑ دوں.چنانچہ اس موقع پر آپ نے حضرت جبیر سے جو گفتگو فرمائی وہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ آپ کا دل اسی طرف مائل تھا کہ کوئی معقول عذر ہو تو میں ان لوگوں کو یونہی چھوڑ دوں.ہاں بلا وجہ چھوڑنے میں کئی قسم کے پولیٹیکل نقص تھے جن کی وجہ سے آپ بلا کافی وجو ہات کے یونہی نہیں چھوڑ سکتے تھے.اس گفتگو سے جہاں مذکورہ بالا نتیجہ نکلتا ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ
سيرة النبي علي 268 صلى الله جلد 1 کو اپنے محسنوں کے احسانات کیسے یاد رہتے تھے اور آپ ان کا بدلہ دینے کے لیے تیار رہتے تھے.حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِي حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النتنى لَتَرَكُتُهُمْ لَهُ 103 یعنی نبی کریم ﷺ نے قیدیان بدر کے متعلق فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان ناشدنیوں کے حق میں سفارش کرتا تو میں ضرور ان کو چھوڑ دیتا.یہ کیا ہی پیارا کلام ہے اور کن بلند خیالات کا اظہار کرتا ہے.اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے سینوں میں احسانات کی قدر کرنے والا دل ہو.شاید اکثر ناظرین مطعم بن عدی کے نام اور اس کے کام سے ناواقف ہوں اور خیال کریں کہ اس حدیث کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے اس لیے میں اس جگہ مطعم بن عدی کا وہ واقعہ بیان کر دیتا ہوں جس کی وجہ سے آنحضرت مہ نے اس موقع پر مطعم بن عدی کو یاد فرمایا اور خواہش فرمائی کہ اگر آج وہ ہوتا تو میں ان قیدیانِ جنگ کو اس کی سفارش پر چھوڑ دیتا.آنحضرت عل ہے جب مکہ میں تشریف رکھتے تھے تو ایک دفعہ ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے مشورہ کر کے قریش کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب سے خرید و فروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات بالکل ترک کر دیں صلى الله کیونکہ وہ آنحضرت علیہ کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو ان کے دشمنوں کے سپردنہیں عليسة کر دیتے کہ جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریں.چنانچہ اس مضمون کا ایک معاہدہ لکھا گیا کہ آئندہ کوئی شخص بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ہاتھ نہ کوئی چیز فروخت کرے گا ، نہ ان سے خریدے گا اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ کرے گا.اس بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کے شر سے بچنے کے لیے آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کو مذکورہ بالا دونوں گھرانوں سمیت مکہ والوں سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی.اور چونکہ مکہ ایک وادی غَیرِ ذِي زَرْعٍ میں واقع ہے کھانے پینے کی سخت تکلیف ہونے لگی اور سوائے
سيرة النبي علي 269 جلد 1 اس کے کہ کوئی خدا کا بندہ چوری چھپے کوئی چیز دے جائے ان لوگوں کو ضروریات زندگی بھی میسر آنی مشکل ہو گئیں.اور قریباً دو سال تک یہی معاملہ رہا.اور بعض مؤرخ تو لکھتے ہیں کہ تین سال تک یہی حال رہا.جب حالت انتہاء کو پہنچ گئی تو قریش میں سے پانی شخص اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اس ظلم کو دور کیا جائے اور ان قیدیوں کو رہائی دلائی جائے.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے ایک دن عین کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ اب ہم اس ظلم کو زیادہ نہیں دیکھ سکتے.یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم لوگ تو پیٹ بھر کر کھانا کھا ئیں اور آرام سے زندگی بسر کریں مگر چند ہمارے ہی ہم قوم اسی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے کھانے پینے سے تنگ ہوں اور با وجود قیمت دینے کے غلہ ان کے ہاتھ فروخت نہ کیا جائے.ہم اس معاہدہ کی جو ایسے ظلم کو روا رکھتا ہے پابندی نہیں کر سکتے.ان کا یہ کہنا تھا کہ بہت سے لوگ جن کے دل انصاف سے کورے نہ تھے ان کی تائید میں کھڑے ہو گئے اور آخر وہ معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا گیا اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے قبیلہ کے لوگ اس قید سے آزاد ہوئے.مطعم بن عدی بھی ان پانچ اشخاص میں سے ایک تھا اور یہی تھا کہ جس نے بڑھ کر اس معاہدہ کو پھاڑ کر پھینک دیا.علاوہ ازیں جب آنحضرت علی طائف کے لوگوں کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے تشریف لے گئے اور آپ سے وہاں کے بدمعاشوں نے سخت ظلم کا سلوک کیا اور آپ کے پیچھے لڑکے اور گتے لگا دیئے تو آپ کو واپس مکہ میں آنا پڑا.لیکن یہ وہ وقت تھا کہ مکہ کے لوگ بھی سخت سے سخت شرارت پر آمادہ ہو رہے تھے اور آپ کو وہاں بھی امن ملنا مشکل تھا اُس وقت مطعم بن عدی نے آگے آ کر آپ کو اپنے جوار میں لیا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو پناہ دی.یہ وہ احسانات تھے جو مطعم بن عدی نے آپ پر کیے تھے اور جبیر بن مطعم سے آپ کا مذکورہ بالا کلام ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ کاش ! وہ زندہ ہوتا اور
سيرة النبي علي 270 جلد 1 میں اس کے احسانات کا بدلہ اتارتا.چونکہ مطعم نے آپ کو اور آپ کے قبیلہ کو اس قید سے آزاد کرانے میں بہت کوشش کی تھی جس میں آپ بوجہ قریش کے غیر منصفانہ معاہدہ کے گرفتار تھے اور پھر اُس وقت جبکہ آپ کے دشمن آپ کو قسم قسم کی تکلیف پہنچانے پر آمادہ تھے آپ کو پناہ دی تھی آپ کی توجہ بدر کے قیدیوں کو دیکھ کر اور یہ خیال کر کے کہ وہ لوگ جو چند سال پہلے مجھے اپنے ہاتھ میں خیال کرتے تھے آج میرے ہاتھ میں گرفتار ہیں فورا مطعم کے اس احسان کی طرف گئی اور اس احسان کو یاد کر کے فرمایا کہ جس طرح مطعم نے ہمیں قید سے آزاد کروایا تھا اور دشمنوں کی تکلیف سے بچایا تھا آج اگر وہ زندہ ہوتا تو ایسے خطرناک دشمنوں کو میں اس کی سفارش سے قید سے آزاد کر دیتا اور ہر ایک تکلیف سے امن دے دیتا.لڑائی سے نفرت بہت سی طبائع اس قسم کی ہوتی ہیں کہ وہ بہادری میں تو بے شک کمال رکھتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان میں ایک قسم کی سختی پیدا ہو جاتی ہے.اور ان کی بہادری در حقیقت لڑائی اور جھگڑے کا نتیجہ ہوتی ہے اور بجائے ایک خلقی خوبی کے عادت کا نتیجہ ہوتی ہے جیسے کہ بعض ایسے ممالک کے لوگ جہاں امن و امان مفقود ہوتا ہے اور لوگ آپس میں لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں عادتاً دلیر اور بہادر ہوتے ہیں لیکن ان کی بہادری کوئی نیک خلق نہیں ہوتی بلکہ روزانہ کی عادت کا نتیجہ ہوتی ہے جیسے کہ بعض جانور بھی بہادر ہوتے ہیں اور یہ بات ان کے اخلاق میں سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی پیدائش ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہے کہ وہ بہادر ہوں مثلاً شیر چیتا وغیرہ.پس جو انسان کہ عادتا بہادر ہے یعنی ایسے حالات میں اس نے پرورش پائی ہے کہ اس کی طبیعت میں سختی اور لڑائی جھگڑے کی عادت ہو گئی ہے اس کی بہادری چنداں قابل قدر نہیں.لیکن جو شخص کہ لڑائی اور جھگڑے سے نفرت رکھتا ہو موقع پر بہادری دکھائے اس کی بہادری قابلِ قدر ہے.میں یہ تو پہلے بتا آیا ہوں کہ
سيرة النبي عمال 271 جلد 1 صلى الله رسول کریمہ بے نظیر بہادر تھے اور کوئی شخص بہادری میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ لڑائی اور جھگڑے سے سخت متنفر تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو عام طور پر لڑائی اور جھگڑا دیکھتے دیکھتے آپ کے اندر بہادری کی صفت پیدا ہوگئی تھی اور نہ ایسا تھا کہ جنگوں اور لڑائیوں کے باعث طبیعت میں ایسی سختی پیدا ہو گئی تھی کہ جھگڑے اور فساد کو طبیعت پسند کرنے لگے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں اکثر ایک دوسرے کے باعث سے پیدا ہو جاتی ہیں.کئی بہادر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بہادری ان کی جھگڑالو اور فسادی طبیعت کا نتیجہ ہوتی ہے اور کئی بہادر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بہادری ان کو لڑائی اور جھگڑے کا عادی بنا دیتی ہے لیکن آپ کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ آپ بہادر تھے لیکن آپ کی بہادری ایک نیک خلق کے طور پر تھی اور باوجود بہادر اور میدانِ کارزار میں ثابت قدم رہنے والا ہونے کے آپ کی طبیعت لڑائیوں اور جھگڑوں سے سخت متنفر تھی.آپ کی عمر بھر کسی شخص نے کبھی آپ کو کسی سے جھگڑتے نہیں دیکھا.ہر ایک معاملہ کو سہولت سے طے کرتے اور اگر کسی کو لڑتا دیکھتے بھی تو اُس حرکت سے اسے روک دیتے.چنانچہ آپ کی اس نفرت کا یہ اثر تھا کہ صحابہ جنھیں رسول کریم ﷺ کے آخری زمانہ میں جنگ و جدل کے ساتھ ہی واسطہ پڑا رہتا تھا کبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے نہ تھے اور ان کی طبیعت میں سختی اور درشتی پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ ہر ایک ایسے واقعہ پر رسول صلى الله کریم ﷺ ان کو روک دیتے تھے.برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر میدانِ جنگ کے بہادر مختلف لڑائیوں اور جھگڑوں سے بجائے گھبرانے کے ان میں مزہ حاصل صلى الله کرتے ہیں اور کئی لوگ تو خود لڑائی کرا کے تماشا دیکھتے ہیں.مگر رسول کریم ہے عمر بھر با وجود بے نظیر بہادری کے لڑائیوں اور جھگڑوں سے سخت نفرت کرتے رہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ایک اور ہی روح تھی جو کام کر رہی تھی اور آپ اس دنیا کے لوگوں سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ آپ آسمانی انسان تھے جس کا ہر کام
سيرة النبي علي 272 جلد 1 صلى الله آسمانی تھا.رسول کریم ﷺ کی تمام زندگی ہی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ لڑائی جھگڑے کو سخت ناپسند فرماتے تھے.لیکن اس جگہ میں ایک دو مثالیں بھی دیتا ہوں جن سے آپ کے پاکیزہ نفس کا پتہ چلتا ہے.عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ فَقَالَ خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمُ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَن يَكُوْنَ خَيْرًا لَكُمْ فَالْتَمِسُوْهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ 104 یعنی رسول کریم ﷺ ایک دفعہ اپنے گھر سے لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے نکلے.اتنے میں دو شخص مسلمانوں میں سے لڑ پڑے ( یعنی جب آپ نکلے تو دو شخصوں کو لڑتے پایا ) اس پر آپ نے فرمایا کہ میں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں فلاں شخص لڑ رہے تھے جسے دیکھ کر مجھے بھول گیا کہ وہ رات کب ہو گی.خیر شاید یہ بھی تمہارے لیے اچھا ہو تم اسے انتیسویں، ستائیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو.تکبر سے اجتناب ایک مثال تو آپ کے تکبر سے بچنے کی میں پہلے دے چکا ہوں ایک اور دیتا ہوں اور انہی دونوں مثالوں پر کیا حصر ہے آنحضرت ﷺ کا ایک ایک عمل اس بات کی روشن مثال ہے کہ آپ تکبر سے کوسوں دور تھے لیکن جیسا کہ میں ابتدا میں لکھ آیا ہوں اس سیرت میں میں نے صرف اُس حصہ سیرت پر روشنی ڈالنی ہے جو اَصَحُ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللہ بخاری سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اور دوسرے جو واقعات پہلے بیان کیے جاچکے ہیں ان کے دوبارہ دہرانے سے بھی اجتناب کرنا مناسب ہے پس ان مجبوریوں کی وجہ سے صرف دو مثالوں پر ہی کفایت کی جاتی ہے جن میں سے ایک تو پہلے بیان ہو چکی ہے اور دوسری ذیل میں درج ہے.حضرت ابو ہریرہ کا بیان فرماتے ہیں.حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُوْلُ أَ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِن كُنتُ
سيرة النبي علي 273 جلد 1 لاعْتَمِدُ بِكَبِدِى عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ وَإِنْ كُنْتُ لَاشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِيْ مِنَ الْجُوعِ وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيْقِهِمُ الَّذِى يَخْرُجُوْنَ مِنْهُ فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ فَسَالته عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلُ ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْعَنِى فَمَرَّ فَلَمْ يَفْعَلُ ثُمَّ مَرَّ بِى أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِيْنَ رَانِي وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِمْ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا هِرٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ الْحَقُّ وَمَضَى فَتَبِعْتُهُ فَدَخَلَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لِى فَدَخَلَ فَوَجَدَ لَبَنَّا فِي قَدَحٍ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ هذَا اللَّبَنُ قَالُوْا أَهْدَاهُ لَكَ فُلانٌ أَوْ فَلانَةٌ قَالَ أَبَاهِرٌ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ لِيْ قَالَ وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافَ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُوْنَ إِلَى أَهْلِ وَلَا مَالٍ وَلَا عَلَى أَحَدٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلُ مِنْهَا شَيْئًا وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمُ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمُ فِيْهَا فَسَاءَ فِي ذَلِكَ فَقُلْتُ وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَةِ كُنتُ أَحَقُّ أَنَا أَنْ أُصِيْبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرُبَةً أَتَقَوَّى بِهَا فَإِذَا جَاءُ وْا أَمَرَنِى فَكُنتُ أَنَا أُعْطِيْهِمْ وَمَا عَسَى أَنْ يَبْلُغَنِي مِنْ هَذَا اللَّبَن وَلَمُ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَطَاعَةِ رَسُوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدُّ فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوْا فَاسْتَأْذَنُوْا فَأَذِنَ لَهُمْ وَأَخَذُوْا مَجَالِسَهُمْ مِنَ الْبَيْتِ قَالَ يَا أَبَا هِرٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَارَسُوْلَ اللهِ قَالَ خُذْ فَأَعْطِهِمُ قَالَ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرُوى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ فَأُعْطِيْهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرُوى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرُوى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوِيَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ فَقَالَ أَبَا قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ بَقِيْتُ أَنَا وَأَنتَ قُلْتُ صَدَقْتَ يَا رَسُوْلَ اللهِ
سيرة النبي علي 274 جلد 1 قَالَ اقْعُدْ فَاشْرَبُ فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ فَقَالَ اشْرَبُ فَشَرِبْتُ فَمَازَالَ يَقُوْلُ اشْرَبُ حَتَّى قُلْتُ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا قَالَ فَأَرِنِيْ فَأَعْطَيْتُهُ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الْفَضْلَةَ 105 صلى ترجمہ.اُس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں کہ میں بھوک کے مارے زمین پر منہ کے بل لیٹ جایا کرتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا (یعنی رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اُس وقت صحابہ زیادہ تر اپنے اوقات دین کے سیکھنے میں ہی خرچ کرتے تھے اور کم وقت اپنی روزی کے کمانے میں لگاتے تھے اس لیے دنیاوی مال آپ کے پاس بہت کم ہوتا تھا اور حضرت ابو ہریرۃ تو کوئی کام کیا ہی نہ کرتے تھے ، ہر وقت مسجد میں اسی انتظار میں بیٹھے رہا کرتے تھے کہ کب رسول کریم علی نکلیں تو میں آپ کے ساتھ ہو جاؤں اور جو کچھ آپ کے دہن مبارک سے نکلے اُس کو یاد کرلوں اور چونکہ سوال سے بچتے تھے کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا لیکن ہر حال میں شاکر تھے اور آستانہ مبارک کو نہ چھوڑتے تھے ) ایک دن ایسے ہوا کہ میں اُس راستہ پر بیٹھ گیا جس پر سے صحابہ گزر کر اپنے کاروبار کے لیے جاتے تھے.اتنے میں حضرت ابو بکر گزرے.پس میں نے اُن سے قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی اور میں نے یہ آیت ان سے اس لیے نہ پوچھی تھی کہ وہ مجھے اس کے معنی بتا ئیں بلکہ اصل غرض میری یہ تھی کہ شاید ان کی توجہ میری طرف ہو اور میرا پیٹ بھر دیں لیکن انہوں نے معنی بتائے اور آگے چل دیئے، مجھے کچھ کھلایا نہیں.ان کے بعد حضرت عمر گزرے.میں نے ان سے بھی قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی اور وہ آیت بھی مجھ کو آتی تھی.میری اصل غرض یہی تھی کہ وہ مجھے کچھ کھلا ئیں مگر وہ بھی اسی طرح گزر گئے اور مجھے کچھ نہ کھلایا.پھر وہاں سے ابوالقاسم م (یعنی آنحضرت ﷺ فِدَاهُ نَفْسِی ) گزرے آپ نے جو نہی مجھے دیکھا مسکرا دیے اور جو کچھ میرے جی میں تھا اور جو میرے چہرہ سے عیاں تھا (یعنی بھوک کے آثار ) اُس کو صلى الله
سيرة النبي علي 275 جلد 1 پہچان لیا پھر فرمایا ابو ہریرۃ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! حاضر ہوں! ارشاد فرمائیے.فرمایا میرے ساتھ چلے آؤ.پس میں آپ کے پیچھے چل پڑا.آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور میرے لیے اجازت مانگی پھر مجھ کو اندر آنے کی اجازت دی.پھر آپ اندر کمرہ میں تشریف لے گئے اور ایک دودھ کا پیالہ رکھا پایا.آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اندر سے جواب ملا فلاں مرد یا فلاں عورت ( حضرت ابو ہر میرا کو یاد نہیں رہا کہ مرد کہا یا عورت ) نے حضور کے لیے ہدیہ بھیجا ہے اس پر مجھے آواز دی.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! حاضر ہوں.فرمایا اہل صفہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا لاؤ.ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان تھے جن کے نہ تو کوئی رشتہ دار تھے جن کے پاس رہتے نہ ان کے پاس مال تھا کہ اس پر گزارہ کرتے اور نہ کسی شخص کے ذمہ ان کا خرچ تھا.جب نبی کریم ہے کے پاس صدقہ آتا تو آپ ان کی طرف بھیج دیتے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھاتے.اور جب آپ کے پاس کوئی ہدیہ آتا تو آپ ان کو بلا بھیجتے اور ہدیہ سے خود بھی کھاتے اور ان کو بھی اپنے ساتھ شریک فرماتے.حضرت ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور مجھے خیال گزرا کہ یہ دودھ اصحاب الصفہ میں کیونکر تقسیم ہو گا.میں زیادہ مستحق تھا کہ اس دودھ کو پیتا اور قوت حاصل کرتا ، جب وہ لوگ آ جائیں گے تو آپ مجھے حکم فرما دیں گے اور مجھے اپنے ہاتھ سے ان کو تقسیم کرنا پڑے گا اور غالب گمان یہ ہے کہ میرے لیے اس میں سے کچھ نہ بچے گا لیکن خدا و رسول کی اطاعت سے کوئی چارہ نہ تھا پس میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کو بلایا.وہ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی.آنحضرت ﷺ نے ان کو اجازت دی پس وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابو ہریرۃ ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! حاضر ہوں.فرمایا یہ پیالہ لو اور ان کو پلاؤ.میں نے پیالہ لیا اور اس طرح تقسیم کرنا شروع کیا کہ پہلے ایک آدمی کو دیتا جب وہ پی لیتا اور سیر ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھر
سيرة النبي علي 276 جلد 1 میں دوسرے کو دیتا جب وہ سیر ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا.اسی طرح باری باری سب کو پلانا شروع کیا یہاں تک کہ سب پی چکے اور سب سے آخر میں میں نے نبی کریم ﷺ کو پیالہ دیا آپ نے پیالہ لے لیا اور اپنے ہاتھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ابو ہریرۃ ! عرض کیا یا رسول اللہ ! حاضر ہوں.حکم فرمایا اب تو تم اور میں رہ گئے ہیں.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! درست ہے.فرمایا اچھا تو بیٹھ جاؤ اور پیو.پس میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا جب پی چکا تو فرمایا کہ اور پیو.میں نے اور پیا.پھر فرمایا اور پیو.اور اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ آخر مجھے کہنا پڑا کہ خدا کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب تو اس دودھ کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا.اس پر فرمایا کہ اچھا تو مجھے دو.میں نے وہ پیالہ آپ کو پکڑا دیا آپ نے خدا تعالیٰ کی تعریف کی اور بسم اللہ پڑھی اور باقی بچا ہوا دودھ پی لیا.اس حدیث سے رسول کریم ﷺ کی سیرت کے جن متفرق مضامین پر روشنی پڑتی ہے ان کے بیان کرنے کا تو یہ موقع نہیں مگر اس وقت میری غرض اس حدیث کے لانے سے یہ بیان کرنا ہے کہ رسول کریم یہ تکبر سے بالکل خالی تھے اور تکبر آپ کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا.رسول کریم ﷺہ تو خیر بڑی شان کے آدمی تھے اور جس وقت کا یہ واقعہ ہے اُس وقت دنیاوی شان بھی آپ کو بادشاہانہ حاصل تھی ( کیونکہ حضرت ابو ہریرۃا آپ کی وفات سے صرف تین سال پہلے مسلمان ہوئے تھے پس اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ مسلمان ہوتے ہی آپ کو یہ واقعہ پیش آیا تب بھی فتح خیبر کے بعد کا یہ واقعہ ہے جبکہ رسول کریم ﷺ کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور عرب کے کئی قبائل آپ کی اطاعت کا اقرار کر چکے تھے.) آپ سے دنیاوی حیثیت میں ادنیٰ لوگوں کو بلکہ معمولی معمولی امراء کو دیکھو کہ کیا تکبر اور عجب کے باعث وہ کسی شخص کا جوٹھا پی سکتے ہیں؟ اس آزادی کے زمانہ میں بھی جبکہ تمام بنی نوع انسان کی برابری کے دعوے کیے جاتے ہیں اس شان کو بنانے کے لیے طب کی آڑ تلاش کی جاتی ہے کہ
سيرة النبي علي 277 جلد 1 ایک دوسرے کا جوٹھا پینے سے ایک دوسرے کی بیماری کے لگ جانے کا خطرہ ہوتا ہے حالانکہ اگر کوئی ایسی بیماری معلوم ہو تو اور بات ہے ورنہ رسول کریم ﷺ تو فرماتے ہیں کہ سُورُ الْمُؤْمِن شِفَاء 106 مومن کا جوٹھا استعمال کرنے میں بیماری سے شفاء ہوتی ہے.پھر مسلمان کہلانے والوں کا کیا حق ہے کہ اس فتویٰ کے ہوتے ہوئے اپنے تکبر کو پورا کرنے کے لیے اس تار عنکبوت عذر کے پیچھے پناہ لیں.غرض اس آزادی کے زمانہ میں بھی بادشاہ تو الگ رہے عام لوگ بھی پسند نہیں کرتے کہ اپنے سے نیچے درجہ کے آدمی کا جوٹھا کھانا یا پانی استعمال کریں اور خواہ دنیاوی حیثیت میں ان سے ادنی درجہ کا آدمی کس قدر ہی صاف اور نظیف کیوں نہ ہو اور ہر قسم کی میلوں اور گندوں سے کتنا ہی پاک کیوں نہ ہو اس کے جو ٹھے کھانے یا پینے کو کبھی استعمال نہیں کرتے اور اس کو برا مناتے ہیں اور اس کو اپنی ہتک خیال کرتے ہیں اور پھر امارت ظاہری الگ رہی ، قومیتوں کے لحاظ سے بھی ایسے درجے مقرر کیے گئے ہیں کہ ایک ادنیٰ قوم کے شخص کا جوٹھا کھانا یا پانی استعمال کرنا اعلیٰ قوم کے لوگ عار خیال کرتے ہیں.خود ہمارے گھر میں ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ ایک سیدانی بغرض سوال آئی.باتیں کرتے کرتے اس نے پانی مانگا.ایک عورت اس کو پانی دینے کے لیے اٹھی اور جو برتن گھڑوں کے پاس پانی پینے کے لیے رکھا تھا اس میں اس نے اسے پانی دیا.وہ سیدانی بھی سامنے بیٹھی تھی اس بات کو دیکھ کر آگ بگولا ہو گئی اور بولی کہ شرم نہیں آتی ! میں سیدانی ہوں اور تو امتیوں کے جو ٹھے برتن میں پانی دیتی ہے.نئے برتن میں مجھے پانی پلانا چاہیے تھا.غرض صرف سادات میں سے ہونے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ وہ ہمارے ہاں سوال کرنے آئی تھی اور محتاج تھی اس نے اس قدر تکبر کا اظہار کیا کہ دوسرے آدمی کا مستعمل برتن جو سید نہ ہو اُس کے سامنے پیش کرنا گویا اس کی ہتک تھی.جب مستعمل لیکن صاف کردہ برتن سے اس قدر نفرت تھی تو جوٹھا پانی تو پھر نہایت ناپاک شے سمجھی جاتی ہو گی لیکن اس سیدوں کے باپ بلکہ انبیاء کے سید کو دیکھو
سيرة النبي علي 278 جلد 1 کہ اصحاب الصفہ جن کو نہ کھانے کو روٹی ، نہ پہنے کو کپڑا، نہ رہنے کو مکان میسر تھا اُن کو اپنے گھر پر بلاتا ہے اور ایک نہیں، دو نہیں، ایک جماعت کی جماعت کو دودھ کا پیالہ دیتا ہے اور سب کو باری باری پلا کر سب کا بچا ہوا، کم سے کم نصف درجن مونہوں سے گزرا ہوا دودھ سب سے آخر میں اَلْحَمْدُ لِلهِ کہتا ہوا بِسْمِ اللہ کہہ کر پی جاتا ہے اور اس کے چہرہ پر بجائے نفرت کے آثار ظاہر ہونے کے خوشی اور فرحت اور شکر و امتنان کی علامات ہویدا ہوتی ہیں.بے شک دنیا میں بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں لیکن اس شان و شوکت کا مالک ہو کر جو رسول کریم ﷺ کو حاصل تھی پھر اس قدر تکبر سے بعد کی مثال کوئی پیش تو کرے.لیکن خوب یاد رکھو کہ ایسی مثال پیش کرنے پر کوئی شخص قادر نہیں ہوسکتا.سوائے اس مثال کے جو اسی پاک انسان کے نقش قدم پر چل کر اسی میں گم ہو.تکبر کے متعلق دو مثالیں بیان کرنے کے بعد میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ آپ کے اندر تکبر نہ تھا بلکہ اس کے علاوہ آپ کی طبیعت میں حد درجہ کا انکسار بھی تھا اور آپ ہمیشہ دوسرے کی تعظیم کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور اپنا رویہ ایسا رکھتے تھے جس سے دوسرے لوگوں کا ادب ظاہر ہو اور یہ وہ بات ہے کہ جس سے عام طور پر لوگ خالی ہوتے ہیں.خصوصاً امراء تو اس سے بالکل خالی ہی نظر آتے ہیں.ایسے تو شاید بہت سے امراء مل جائیں جو ایک حد تک تکبر سے بچے ہوئے ہوں لیکن ایسے امراء جو تکبر سے محفوظ ہونے کے علاوہ منکسر المز اج بھی ہوں شاذ و نادر ہی ملتے ہیں.اور میرا یہ کہنا کہ شاذ و نادر منکسر المزاج امرا مل سکتے ہیں اس صلى الله کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ایسے امراء بھی ہیں جو اپنے انکسار میں رسول اللہ علیہ کا نمونہ ہیں.کیونکہ رسول کریم ﷺ کا نمونہ تو انبیاء میں بھی نہیں مل سکتا چہ جائیکہ عام امراء میں انکسار کا لفظ اردو محاورہ کی وجہ سے رکھا گیا ہے.ورنہ عربی زبان میں انکسار ان انکسار معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کی بجائے ” تواضع“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.
سيرة النبي عل 279 جلد 1 مل جائے.میرا یہ ایمان ہے کہ آپ اپنی تمام عادات اور تمام حرکات میں بے نظیر تھے اور اخلاق کے تمام پہلوؤں میں گل انبیاء اور صلحاء پر فضیلت رکھتے تھے.پس میں اگر کسی جگہ دوسرے امراء سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں تو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ بادشا ہوں اور امراء میں بھی نیک نمو نے تو موجود ہیں لیکن جس طرح ہر رنگ اور ہر پہلو میں آپ کامل تھے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی.اور دوسرے یہ بتانے کے لیے کہ آپ کو صرف نیک بختوں میں اور صلحاء میں شامل کرنا درست نہیں ہوسکتا بلکہ کسی ایک خلق میں بھی بہتر سے بہتر نمونہ جو مل سکتا ہے اس سے بھی آپ کا نمونہ بڑھ کر تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کوئی نیک بخت بادشاہ نہ تھے بلکہ نبی تھے اور نبیوں کے بھی سردار تھے.اور میں ان لوگوں کی کوشش کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو آ کی لائف میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے افعال کو چند اور بادشاہوں سے مشابہ کر کے دکھاتے ہیں اور اس طرح گویا آپ پر سے وہ اعتراض مٹانا چاہتے ہیں جو آپ کے دشمنوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں.اس کوشش کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک اچھے بادشاہ تھے لیکن ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ آپ ایک نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے.پس جب تک آپ کے اخلاق کو دوسرے انسانوں کے اخلاق سے بہتر اور اعلیٰ نہ ثابت کیا جائے ہمارا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے اور صرف بعض شریف بادشاہوں سے آپ کی مماثلت ثابت کر دینے سے وہ مطلب ہرگز پورا نہیں ہوتا جس کے پورا کرنے کے لیے ہم قلم اٹھاتے ہیں.پس میرا آپ کے مقابلہ میں دیگر امراء کی امثلہ پیش کرنا یا ان کی زندگی کی طرف متوجہ کرنا صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ تا بتاؤں کہ اچھے سے اچھے نمونہ کو بھی آپ کے سامنے لاؤ کبھی وہ آپ کے آگے چمک نہیں سکتا بلکہ آپ کے سامنے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نصف النہار کے سورج کے مقابلہ میں شب چراغ.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی.میں اس وقت یہ بیان کر رہا تھا کہ گو بعض امراء تکبر
سيرة النبي ع 280 جلد 1 سے خالی تو مل سکتے ہیں لیکن منکسر المزاج امراء بہت ہی کم اور شاذ و نادر ہی ملیں لیکن رسول کریم ﷺ ایک بادشاہ ہو کر جس منکسر المزاجی سے رہتے تھے وہ انسان کو حیرت میں ڈال دیتی ہے.عرب کی سی قوم کا بادشاہ لاکھوں انسانوں کی جان کا مالک بڑوں اور چھوٹوں کے سامنے اس انکسار سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.دنیا کے بادشاہوں اور امراء کی زندگی کو دیکھو اور ان کے حالات پڑھو تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی اپنے سے ادنی آدمی کو سلام کہنا تو در کنار اس کے سلام کا جواب دینا بھی ان پر دو بھر ہوتا ہے.اول تو بہت سے ہوں گے جو معمولی آدمی کے سلام پر سر تک بھی نہ ہلائیں گے تو بعض ایسے ملیں گے جو صرف سر ہلا دینا کافی سمجھیں گے.ان سے بھی کم وہ ہوں گے جو سلام کا جواب دے دیں گے.اور جو ابتدا میں سلام کریں وہ تو بہت ہی کم ملیں گے کیونکہ جن کی طبیعت میں تکبر نہ ہو وہ اس بات کو پسند نہ کریں گے کہ کوئی غریب آدمی ان کو سلام کہے تو وہ اس کے سلام کا جواب نہ دیں لیکن ابتداء ایک غریب آدمی کو سلام کہنا وہ اپنی شان کے خلاف سمجھیں گے.لیکن رسول کریم علی صلى الله کی زندگی کے حالات پڑھ کر دیکھو کہ آپ ہمیشہ سلام کہنے میں سبقت کرتے تھے اور کبھی اس بات کے منتظر نہ رہتے تھے کہ کوئی غریب آدمی آپ کو خود بڑھ کر سلام کرے بلکہ آپ کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ آپ ہی پہلے سلام کہیں.اس کے متعلق میں اس جگہ یک ایسے شخص کی گواہی پیش کرتا ہوں جس کو آپ کی مدینہ کی زندگی میں برابر دس سال آپ کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ہے.میری مراد حضرت انسؓ سے ہے جن کو رسول کریم ﷺ نے مدینہ تشریف لانے پر ملازم رکھا تھا اور جو آپ کی وفات تک برابر آپ کی خدمت میں رہے.ان کی نسبت امام بخاری روایت کرتے ہیں عَنْ أَنَسِ بن مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَان فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ 107 یعنی حضرت انس ایک دفعہ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے تو آپ نے ان کو سلام کہا اور پھر فرمایا کہ
سيرة النبي علي صلى الله 281 جلد 1 آنحضرت ہے اسی طرح کیا کرتے تھے یعنی آپ بھی جب لڑکوں کے پاس سے گزرتے تھے تو ان کو سلام کہا کرتے تھے.ان واقعات پر سرسری نظر ڈالنے والے انسان کی نظر میں شاید یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہو لیکن جو شخص کہ ہر ایک بات پر غور کرنے کا عادی ہو وہ اس شہادت سے رسول کریم ﷺ کی منکسرانہ طبیعت کے کمال کو معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا.جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں امراء کے لیے اپنے سے چھوٹے آدمی کو پہلے سلام کہنا ایک نہایت سخت مجاہدہ ہے اور ممکن ہے کہ کبھی کبھار کوئی امیر ایسا کر بھی دے لیکن ہمیشہ اس پر قائم رہنا ایک ایسی بات ہے جس کا ثبوت کسی دنیاوی بادشاہ کی زندگی سے نہیں مل سکتا.پھر بچوں کو سلام میں ابتدا کرنا تو ایک ایسی بات ہے جس کی بادشاہ تو الگ رہے امراء سے بھی امید کرنا بالکل محال ہے.اور امراء کو بھی جانے دو کتنے بالغ و جوان انسان ہیں جو با وجود دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت رکھنے کے بچوں کو سلام میں ابتدا کرنے کے عادی ہیں اور جب گلیوں میں بچوں کو کھڑا پاتے ہیں تو آگے بڑھ کر ان کو سلام کرتے ہیں.شاید ایسا آدمی جو اس پر تعہد سے قائم ہو اور ہمیشہ اس پر عمل کرتا ہو ایک بھی نہ ملے گا.لیکن رسول کریم ﷺ کی نسبت حضرت انس جیسے واقف کارصحابی جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے فرماتے ہیں کہ آپ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو ان کو سلام کہتے تھے.اس شہادت میں آپ نے کئی باتوں پر روشنی ڈالی ہے.اول یہ صلى الله کہ آنحضرت عل انکسار کے اس اعلی درجہ پر قدم زن تھے کہ بچوں کو سلام کہنے سے بھی آپ کو عار نہ تھا.دوم یہ کہ آپ ان کو سلام کہنے میں ابتدا کرتے تھے.سوم یہ کہ ایک یا دو دفعہ کی بات نہیں آپ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے تھے.اب اس شہادت سے ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بچوں کے ساتھ اس انکسار کے ساتھ پیش آتا تھا وہ جوانوں کے ساتھ کس انکسار کے ساتھ معاملہ کرتا ہو گا اور اس کا نفس خودی اور تکبر سے کس حد تک پاک ہوگا.
سيرة النبي علي 282 جلد 1 میں اس امر کی اور بہت سی مثالیں پیش کرتا لیکن چونکہ میں نے اس کتاب میں صرف ان مثالوں سے آپ کی سیرت پر روشنی ڈالنے کا ارادہ کیا ہے جو بخاری میں پائی جاتی ہیں اس لیے اس وقت اسی مثال پر اکتفا کرتا ہوں.شروع سے ہی آپ کی طبیعت ایسی تھی.آپ کی منکسرانہ طبیعت کے متعلق جو مثال میں نے دی ہے شاید اس کے متعلق کوئی شخص کہے کہ گو امراء اس منکسرانہ طبیعت کے نہیں ہوتے لیکن چونکہ علاوہ بادشاہت کے آپ کو نبوت کا بھی دعوی تھا اور نبوت کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہر قسم کے لوگوں سے تعلق رکھے اس لیے ممکن ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ تکلف سے ایسا کرتے ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ اعتراض درست ہے لیکن رسول کریم ﷺ پر نہیں پڑ سکتا.اور اس کی یہ وجہ ہے کہ تکلف کی بات ہمیشہ عارضی ہوتی ہے، تکلف سے انسان جو کام کرتا ہے اس پر سے کسی نہ کسی وقت پردہ اٹھ جاتا ہے لیکن جیسا کہ پہلی مثال سے ثابت ہے آنحضرت علی ہمیشہ ایک ہی بات پر قائم رہے اور ایک شخص جو دس سال رات دن برابر آپ کے ساتھ رہا گواہی دیتا ہے کہ ہمیشہ منکسرانہ معاملہ کرتے تھے تو اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی.لیکن اس مثال کے علاوہ ایک اور مثال بھی بخاری سے معلوم ہوتی ہے جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ کی منکسرانہ طبیعت ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نتیجہ تھی جن پر آپ قائم تھے نہ کہ بناوٹ کا.جیسا کہ آپ کے دشمن کہتے ہیں اور وہ ایک ایسے وقت کی بات ہے جبکہ آپ نے ابھی دعوی بھی نہ کیا تھا.پس اُس وقت بھی آپ کا انتہاء درجہ کا منکسر المزاج ہونا ثابت کرتا ہے کہ آپ کے تمام کام اُس دلی پاکیزگی کا نتیجہ تھے جس نے آپ کو کسی زمانہ میں بھی نہیں چھوڑا.عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهِ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُوْ بِغَارِ حِرَاءٍ الله.
سيرة النبي ع 283 جلد 1 فَيَتَحَنَّتُ فِيْهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِءٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِى حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِءٍ فَأَخَذَنِيْ فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِيْ فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِءٍ فَأَخَذَنِيْ فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ فَرَجَعَ بهَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِئْتِ خُوَيْلِدٍ فَقَالَ زَمِلُوْنِي زَمِلُوْنِي فَرَمَّلُوْهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيْتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيْجَةُ كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيْجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوُفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأَ قَدْ تَنَصَّرَ فِى الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيُّ فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَثِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعُ مِنْ ابْنِ أَخِيْكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِيْ فِيهَا جَدَعَا لَيْتَنِى أَكُوْنُ حَيَّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرجى هُمُ قَالَ نَعَمُ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُوْدِى وَإِنْ يُدْرِكُنِى يَوْمُكَ أَنْصُرُكَ نَصْرًا مُؤَخَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبُ وَرَقَةُ أَنْ تُوُقِيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ 108 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ
سيرة النبي علي 6☑ 284 جلد 1 شروع شروع میں رسول کریم ﷺ کو سچی خوا ہیں آنی شروع ہوئی تھیں.آپ جو خواب دیکھتے وہ اپنے وقت پر اس طرح ظاہراً پوری ہوتی جیسے پو پھوٹتی ہے.اس کے بعد آپ کے دل میں علیحدگی کی محبت ڈالی گئی پس آپ غار حرا میں جا کر علیحدہ بیٹھا کرتے تھے اور کچھ راتیں رہ کر وہاں عبادت کیا کرتے تھے ایک خدا کی.( کیونکہ نبوت سے پہلے بھی آپ نے کبھی شرک نہیں کیا ) اور پھر گھر کی طرف واپس تشریف لاتے تھے.اور پھر اس کام کے لیے کھانا وغیرہ لے جاتے پھر واپس تشریف لاتے اور اتنی ہی راتوں کے لیے کچھ کھانا لے جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آ گیا ( یعنی وحی نازل ہوئی ) اور آپ اُس وقت غار حرا میں ہی تھے.آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ پڑھ ! آپ نے جواباً فرمایا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا.آپ فرماتے تھے کہ اس پر فرشتہ نے مجھے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس قدر بھینچا کہ طاقتِ برداشت نہ رہی.پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ ! میں نے کہا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا.اس پر اس نے پھر مجھے پکڑا اور اپنے ساتھ چمٹا کر زور سے بھینچا حتی کہ طاقت برداشت نہ رہی.پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ ! یہ آیات لے کر (یعنی یاد کر کے ) رسول کریم ﷺ واپس تشریف لے آئے اور آپ کا دل دھڑک رہا تھا.وہاں سے آ کر آپ سیدھے حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ کپڑا اوڑھاؤ! اس پر آپ کے اوپر کپڑا ڈال دیا گیا اور آپ لیٹے رہے یہاں تک کہ خوف جاتا رہا.پھر حضرت خدیجہ کو تمام قصہ سنایا اور فرمایا کہ میں تو اپنی جان پر ڈرتا ہوں (یعنی مجھے خوف ہے کہ مجھ سے کیا معاملہ ہونے لگا ہے ) اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا کہ ہر گز نہیں خدا کی قسم! ہر گز نہیں ! ( یعنی ڈر درست نہیں ) خدا آپ کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتا اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں اُن پر عامل ہے اور مہمان کی اچھی طرح سے خاطر کرتا ہے اور کچی مصیبتوں میں لوگوں کی ย
سيرة النبي علي 285 جلد 1 مدد کرتا ہے.یہ کہہ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کو ساتھ لیا اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی جو حضرت خدیجہ کے چا کے بیٹے یعنی چچا زاد بھائی تھے ان کے پاس پہنچیں جو جاہلیت کے زمانہ میں مسیحی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی میں انجیل کے بعض حصص جن کی اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دیتا لکھا کرتے تھے (یعنی اپنی جوانی میں ) اور اُس وقت وہ بوجہ بڑھاپے کے اندھے ہو چکے تھے.حضرت خدیجہ نے اُن سے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھائی کے بیٹے کی بات سن.ورقہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! کیا بات ہے؟ آپ نے جو کچھ گزرا تھا آپ کے سامنے دہرایا.اس پر ورقہ نے کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موستی پر نازل فرمایا تھا.اے کاش! میں اُس وقت جوان ہوتا.اے کاش ! میں اُس وقت زندہ ہوتا جب تیری قوم تجھے نکال دے گی.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کوئی شخص اس تعلیم کے ساتھ نہیں آیا جس کے ساتھ تو آیا ہے مگر لوگوں نے اس سے دشمنی کی ہے.اور اگر مجھے تیرا زمانہ ملا ( یعنی جس وقت تیری تعلیم کا اعلان ہوگا اور لوگ مخالفت کریں گے ور نہ نبی تو آپ اسی دن سے ہو گئے تھے اور وحی قرآن نازل ہونی شروع ہو گئی تھی ) تو میں تیری بڑی مدد کروں گا.پھر کچھ ہی دنوں کے بعد ورقہ فوت ہو گئے اور وحی ایک عرصہ کے لیے بند ہوگئی.ممکن ہے اس حدیث کے یہاں نقل کرنے پر بعض لوگوں کو تعجب ہوا ہو کہ اس حدیث کے اس جگہ نقل کرنے سے کیا مطلب ہے اور اس سے آنحضرت ﷺ کے انکسار کا کیا پتہ چلتا ہے لیکن جیسا کہ میں اِنْشَاءَ اللهُ ابھی بتاؤں گا یہ حدیث آپ کی منکسرانہ طبیعت پر تیز روشنی ڈالتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکسار سے آپ کا دل معمور تھا اور کسی زمانہ میں بھی آپ سے یہ خلق نیک جدا نہیں ہوا.انکسار کے ساتھ کام کرنا دلالت کرتا ہے کہ یہ صفت کس شان کے ساتھ آپ کے اندر تھی ورنہ بعض لوگ الله
سيرة النبي علي 286 جلد 1 صرف ستی کی وجہ سے انکسار کرتے ہیں.اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے جو فرشتہ آیا اس نے آپ سے کہا کہ پڑھ اور آپ نے اس کے جواب میں کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کا اس انکار سے کیا مطلب تھا ؟ آیا یہ کہ آپ تحریر پڑھنا نہیں جانتے یا یہ کہ عربی زبان کا دہرانا بھی نہیں جانتے ؟ کیونکہ قراءت کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ایک معنی اس کے کسی تحریر کو پڑھنے کے ہیں اور دوسرے معنی کسی مقررہ عبارت کو اپنی زبان سے دہرانے کے ہیں.چنانچہ جب کوئی شخص کسی کتاب کو پڑھے تو اُس کی نسبت بھی کہیں گے کہ يَقْرَءُ الْكِتَابَ اور جب وہ کسی عبارت کو دہرائے گا تو اسے بھی کہیں گے کہ يَقْرَءُ وہ پڑھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کو حفظ پڑھنا بھی قراءت کہلاتا ہے.پس اب سوال یہ ہے کہ آیا رسول الله علی نے جو یہ فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا تو اس سے کیا مراد ہے؟ آیا یہ کہ آپ تحریر نہیں پڑھ سکتے یا یہ کہ آپ کسی عبارت کو جو عربی زبان میں ہو دہرا بھی نہیں سکتے ؟ اگر یہ ثابت ہو کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ آپ تحریر نہیں پڑھ سکتے تب تو بات صاف ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن یہ مطلب رسول کریم ﷺ کا نہیں ہوسکتا کیونکہ صحیح احادیث سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے سامنے اس فرشتہ نے کوئی تحریر رکھی تھی اور کہا تھا کہ اسے پڑھو، تا آپ جواب دیتے کہ میں پڑھنا نہیں جانتا بلکہ جو کچھ صحیح اور مرفوع احادیث سے ثابت ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک فرشتہ آپ کے سامنے آیا اور اس نے آ کر آپ سے کہا کہ آپ پڑھیں اور کوئی تحریر آپ کے سامنے پیش نہیں کی.چنانچہ بخاری کی جو حدیث او پر نقل کی گئی ہے اُس سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس فرشتہ نے آپ کے سامنے کوئی تحریر نہیں رکھی بلکہ صرف ہوشیار کرنے کے لیے کہا کہ پڑھ ! جیسا کہ جب کسی شخص سے کوئی الفاظ کہلوانے ہوں تو کہلوانے والا عام طور پر کہہ دیا کرتا ہے کہ کہو.پس اس فرشتہ نے بھی
سيرة النبي ع 287 جلد 1 یہی آپ سے کہا تھا کہ دہراؤ یعنی جو لفظ میں کہتا ہوں اُن کو دہراتے جاؤ.چنانچہ تیسری دفعہ فرشتہ نے منہ سے ہی الفاظ کہے نہ کہ کوئی تحریر رکھی.اگر پڑھوانا مد نظر ہوتا اور اس فرشتہ کا آپ کو گھونٹنا اس لیے ہوتا کہ آپ کو تحریر پڑھنا آجائے تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ وہ آخری دفعہ آپ کے سامنے تحریر رکھ دیتا اور آپ کو پہلے پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن معجزانہ طور پر پڑھنے لگ جاتے لیکن آخری دفعہ فرشتہ کا منہ سے الفاظ کہہ کر آپ کو دہرانے کے لیے کہنا صاف ثابت کرتا ہے کہ اُس وقت آپ کے سامنے کوئی تحریر نہ رکھی گئی تھی بلکہ صرف زبانی آپ سے ایک عبارت دہرانے کو کہا گیا تھا.اور یہ استدلال جو ہم نے کیا ہے اس کے خلاف عبید بن عمیر کی روایت نہیں پیش کی جاسکتی جس میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے جبریل نے ایک تحریر رکھی تھی جو دیباج پر لکھی ہوئی تھی 109.کیونکہ ایک تو یہ حدیث اس پائے کی نہیں جس پائے کی حدیث بخاری کی ہے پھر یہ مرسل حدیث ہے اس لیے اس روایت کے مقابلہ میں جو او پر نقل کی گئی ہے نہیں رکھی جا سکتی.سوم خود عبید بن عمیر کی اپنی روایت میں اس کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب جبریل نے آپ سے کہا کہ پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہ میں کیا پڑھوں؟ اور یہ فقرہ کہ ” میں کیا پڑھوں“ صاف ثابت کرتا ہے کہ آپ کے سامنے کوئی تحریر نہ تھی.اگر تحریر ہوتی تو آپ کیا پڑھوں کا جملہ کیونکر استعمال فرما سکتے تھے.غرض حق یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے اس فرشتہ نے کوئی تحریر پڑھنے کو نہیں کہا بلکہ یہی کہا کہ آپ کہیں (یعنی جو کچھ میں کہوں ) اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں تو قراءت نہیں جانتا.لیکن اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جبکہ آپ سے صرف عربی کے بعض فقرات دہرانے کو کہا گیا تھا تو آپ نے کیوں فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا حالانکہ یہ کام آپ آسانی سے کر سکتے تھے.آپ کی مادری زبان عربی تھی اور آپ اس زبان میں کلام کیا کرتے تھے پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا.اور نہ آپ عربی
سيرة النبي علي 288 جلد 1 کے کلمات کے دہرانے سے عاجز تھے کہ کہا جائے کہ آپ نے اس بات سے بھی انکار کیا.بلکہ اصل بات یہی ہے کہ آپ نے فرشتہ کو دیکھتے ہی خوب سمجھ لیا تھا کہ یہ کس غرض کے لیے آیا ہے کیونکہ قبل از وقت آپ کو رویائے صالحہ کے ذریعہ اس کام کے لئے تیار کر دیا گیا تھا.اور پھر ایک علیحدہ جگہ میں یک لخت ایک شخص کا نمودار ہونا صاف ظاہر کرتا تھا کہ یہ کوئی انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے.پس آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے اور مجھے کوئی کام سپرد کرنے آیا ہے اور آپ نے خدا تعالیٰ کی عظمت کی طرف نگاہ کر کے اپنی جبینِ نیاز خدا تعالیٰ کے آگے جھکا دی اور عرض کیا کہ جو کچھ مجھے پڑھایا جانے لگا ہے میں تو اس لائق نہیں اور یہ جو کچھ آپ نے فرمایا بالکل درست اور بجا تھا.اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہی کلمہ کہنا بجا تھا اور آپ نے اس کے فرشتہ کو یہی جواب دیا کہ اس بادشاہ کی خدمت کے میں کہاں لائق تھا.شاید کوئی شخص کہے کہ یہ تو جھوٹ تھا آپ تو لائق تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض نادانی کے باعث ہے.جو لوگ جس قدر خدا تعالیٰ کے قریب ہوتے ہیں اُسی قدر اُس سے خائف ہوتے ہیں اور اس کے جلال سے ڈرتے ہیں.بے شک رسول کریم ﷺ سب سے زیادہ اس کام کے لائق تھے.لیکن ان کا دل سب انسانوں سے زیادہ خدا تعالیٰ کے خوف سے پُر تھا.پس انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال کو دیکھتے ہوئے عذر کیا کہ میں تو اس کام کے لائق نہیں.اگر آپ اپنے آپ کو سب سے لائق سمجھتے ہوئے ایسا کہتے تب بے شک آپ پر الزام آ سکتا تھا.بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے جبروت اور جلال پر نظر کرتے ہوئے واقعہ میں اپنے آپ کو اس کی امانت کے اٹھانے کے قابل خیال نہ کرتے تھے اور یہ بات آپ کے درجہ کی بلندی پر دلالت کرتی ہے کہ آپ باوجود عظیم الشان طاقتوں کے مالک ہونے کے خدا تعالیٰ کے جلال پر ایسے فدا تھے کہ آپ نے اپنے نفس کی خوبیوں کو کبھی دیکھا ہی نہیں اور اسی کے جلال کے مطالعہ میں لگے رہے.کیا اس سے
سيرة النبي علي 289 جلد 1 بڑھ کر بھی انکسار کی کوئی اور مثال دنیا میں موجود ہے؟ موسی کی ایک مثال قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے لیکن آپ کے مقابلہ میں وہ بھی کچھ نہیں.کیونکہ گو حضرت موسی نے اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھا اور نبوت کے بوجھ اٹھانے سے انکار کیا لیکن اپنے بھائی کی طرف اشارہ کیا.پس انہوں نے اپنی دانست میں ایک آدمی کو اس قابل خیال کیا کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گا لیکن آنحضرت علی نے اپنی نسبت عجیب پیرایہ میں عذر کیا اور کسی کو پیش نہیں کیا جو آپ کے عظیم قرب پر دلالت کرتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ آپ حضرت موسی سے شان میں افضل تھے کہ آپ نے اس امانت کے اٹھانے کے لیے کسی انسان پر نظر نہیں کی بلکہ صرف اپنی کمزوری کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے انتخاب پر صاد کیا.غرض آپ کا نبوت کے ملنے سے بھی پہلے یہ انکسار کا نمونہ دکھانا ثابت کرتا ہے کہ آپ کی طبیعت میں ہی انکسار داخل تھا.اور نادان ہے وہ جو خیال کرے کہ آپ نے نبوت کے ساتھ اس رنگ کو اختیار کیا.اس جگہ ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انکسار جیسا کہ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے اس کا نام نہیں کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو لائق سمجھتے ہوئے کہے کہ میں تو یہ کام نہیں کر سکتا.یہ تو جھوٹ ہے اور جھوٹ بھی اچھی صفت نہیں ہو سکتی.انکسار درحقیقت ایثار کی ایک قسم ہے جو ایک تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ انکسار نام پاتی ہے اور منکسر المزاج نہ اس شخص کو کہیں گے جو نالائق ہو کر اپنی نالائقی کا اقرار کرے اور نہ اسے کہیں گے جو اپنے آپ کو لائق سمجھ کر اپنے نالائق ہونے کا اعلان کرے بلکہ منکسر المزاج وہ شخص ہے جو لائق اور صاحب فضیلت ہو کر دوسروں کی خوبیوں پر لیاقت اور فضیلت کے مطالعہ میں ایسا مشغول ہو کہ اپنی لیاقت اور فضیلت اس کی نظروں سے پوشیدہ ہو جائے اور ہر موقع پر دوسروں کی لیاقت اور فضیلت اس کے سامنے آ جائے.اور یہ صفت اس لیے اچھی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں تو یہ ادب کا صحیح طریق ہے اور بندوں میں اس کے ذریعہ سے فسادمٹ جاتے ہیں کیونکہ
سيرة النبي علي 290 جلد 1 تمام فساد تکبر یا عدم انکسار سے پیدا ہوتے ہیں.تکبر جب لوگوں میں پھیل جائے تب تو بہت ہی فساد ہوگا کیونکہ ہر ایک شخص کہے گا میں دوسروں سے بڑا ہو جاؤں.لیکن اگر تکبر نہ ہو اور انکسار بھی نہ ہو تب بھی فساد ہو جائے گا کیونکہ اکثر جھگڑے اُسی وقت ہوتے ہیں جبکہ طرفین میں سے ہر ایک شخص اپنے حق پر اڑا ر ہے.اگر ایک ان میں سے اپنے حق کو ترک کر دے تو پھر سب جھگڑے بند ہو جائیں.پس انکسار دنیا کے امن وامان کے بڑھانے میں ایک زبر دست آلہ ہے اور ایثار کے ساتھ مل کر فساد کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتا ہے ورنہ جھوٹ بولنا انکسار نہیں کہلا تا.جیسا کہ ان دنوں عام طور پر سمجھا جاتا ہے.اور نہ انکسار اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص سستی اور غفلت کی وجہ سے کام سے جی چرائے.بعض لوگ جنہیں کام کی عادت نہیں ہوتی ستی سے ان کا پالا پڑا ہوا ہوتا ہے وہ انکسار کے پردہ میں اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں لیکن اس کا نام انکسار نہیں ، وہ غفلت اور سستی ہے.منکسر المزاج وہی شخص ہے کہ وہ کام کی اہلیت رکھتے ہوئے پھر خدا تعالیٰ کے جلال پر نظر کرتے ہوئے اپنی کمزوری کا مقر ہو.لیکن جب اس کے کام سپرد ہو تو پوری ہمت سے اس کام کو کرے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے کیا کہ با وجود اس انکسار کے جب آپ کے سپر د اصلاح عالم کا کام کر دیا گیا تو وہی شخص جو میں پڑھنا نہیں جانتا کہہ کر اپنی کمزوری کا اقرار کر رہا تھا رات اور دن اس تند ہی سے اس کام کے بجالانے میں لگ گیا کہ دنیا دنگ ہوگئی اور کوئی انسان اس قدر کام کر نے والا نظر نہیں آتا جس قدر کہ آنحضرت ﷺ نے کیا.پس آپ کا انکسار سچا انکسار تھا کیونکہ باوجود لیاقت رکھنے کے آپ نے خدا کے جلال کا ایسا مطالعہ کیا کہ اپنی لیاقت کو بھلا دیا اور اللہ تعالیٰ کے نور کو اس طرح دیکھا کہ معلوم کر لیا کہ میری روشنی صلى الله در حقیقت اس نور کا سایہ ہے.غرض آپ کے اس جواب سے کہ ”میں پڑھنا نہیں جانتا صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ سے انکسار میں کمال رکھتے تھے اور گوفرشتہ کا آپ کو بار بار چمٹا لینا
سيرة النبي علي 291 جلد 1 ایک یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ اس ذریعہ سے آپ کو اپنے کمالات پر واقف کیا جانا تھا میرے نزدیک تو اس کا ایک یہ بھی مطلب تھا کہ جب فرشتہ نے آپ کو اس بات کی خبر دی کہ دنیا کو خدا کا کلام سنانے پر آپ مامور کیے گئے ہیں تو اس نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ یہ شخص خوشی سے اچھل پڑے اور خود اس پیغام کو لے کر چل پڑے اور لوگوں کو فخر یہ سنائے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے اس نے تو وہ رنگ انکسار اختیار کیا ہے جو کسی انسان نے اس سے پہلے اختیار نہ کیا تھا تو اس کا دل محبت کے جوش سے بھر گیا اور بے اختیار ہو کر اس نے آپ کو اپنے ساتھ چمٹا لیا جو اور محبت کی لہر کا ایک ظہور تھا جو اس کے دل میں پیدا ہو گئی تھی.اور جب آپ کو گلے لگا کر اس نے چھوڑا اور پھر وہی پیغام دیا اور پھر وہی جواب سنا تو محبت کی آگ نے ایک اور شعلہ مارا اور پھر اس نے آپ کو گلے لگا لیا اور اسی طرح تیسری دفعہ کیا.اور تیسری دفعہ کے بعد آپ کے سامنے وحی الہی کے الفاظ پڑھے کہ اب تو آپ جو کچھ بھی کہیں یہ خدا کی امانت آپ کے سپرد ہو گئی ہے اور آپ نے بلا چون و چرا اسے قبول کیا.لیکن آپ کے انکسار کو دیکھو کہ اب بھی تسلی نہیں ہوئی.اس قدر اصرار سے حکم ملتا ہے لیکن بھاگے بھاگے حضرت خدیجہ کے پاس جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی جان پر ڈر آتا ہے.اے نبیوں کے سردار! اے انسانی کمالات کے جامع ! اے بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی رہنما! تجھ پر میری جان قربان ہو.تو اب بھی اپنے کمالات سے آنکھیں بند کرتا ہے اور یہی خیال کرتا ہے کہ میں اس قابل کہاں جو اس وحدہ لاشریک کے پیغام کا اٹھانے والا بنوں.فرشتہ تاکید پر تاکید کرتا ہے اور پیغام الہی آپ تک پہنچاتا ہے لیکن باوجود اس کے آپ ابھی تک اپنے حسن سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور بار بار یہی فرماتے ہیں کہ میں اس قابل کہاں حتی کہ گھر آ کر اپنی غمگسار حضرت خدیجہ سے فرماتے ہیں کہ میں اپنی جان پر خائف ہوں.چونکہ یہ فقرہ بھی اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے اس لیے اس کے سمجھانے کے
سيرة النبي علي 292 جلد 1 لیے بھی تشریح کی ضرورت ہے.الہام انسان کو دو طرح ہوتے ہیں.کبھی ترقی کے لیے، کبھی حجت کے لیے.یعنی کبھی تو خدا تعالیٰ انسان کو اس کے درجہ کے بلند کر نے کے لیے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی اس پر حجت قائم کرنے کے لیے.چنانچہ بہت سے لوگ جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص قرب نہیں رکھتے ان کو بھی الہام ہو جاتے ہیں اور وہ نادانی سے اس پر اترا جاتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے آزمائش اور ان پر حجت ہوتے ہیں.اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے ان الہامات سے فائدہ اٹھا نے کے وہ فخر و تکبر میں پڑ جاتے ہیں اور آخر ہلاک ہو جاتے ہیں.رسول کریم ع چونکہ تواضع کے عالی مقام پر پہنچے تھے جب آپ کو الہام ہوا تو آپ گھبرائے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ کلام مجھ پر بطور آزمائش اور حجت نازل ہوا ہو اور یہ اپنا خوف حضرت خدیجہ کے آگے بیان فرمایا جس پر انہوں نے آپ کو تسلی دلائی اور بتایا کہ جو اخلاق آپ کے ہیں اور جس مقام پر آپ ہیں کیا ایسے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ ضائع کرتا ہے؟ اور اپنا یقین ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے قسم کھائی کہ تیرے جیسے کاموں والا انسان کبھی ضائع نہیں ہوسکتا.حجت اور آزمائش کے لیے تو ان کے الہام ہو سکتے ہیں جن کے اعمال میں کمزوری ہو یا متکبر ہوں.جو شخص آپ جیسا غریبوں کا خبر گیر اور اخلاق حسنہ کا ظاہر کرنے والا ہے کیا ان کو اللہ تعالیٰ تباہ کر سکتا ہے؟ غرض حضرت خدیجہ کا جواب ظاہر کر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میں اپنی جان پر ڈرتا ہوں اس کا یہی مطلب تھا کہ مجھے خوف ہے کہ میری آزمائش نہ ہو.جس پر انہوں نے تسلی دی کہ آپ آزمائش کے مقام سے بالا ہیں.آپ پر یہ الہامات خدا تعالیٰ کے انعامات کے طور پر نازل ہوئے ہیں چنانچہ آئندہ کی وحی نے آپ پر روزِ روشن کی طرح کھول دیا کہ آپ خدا تعالیٰ کے مقبول تھے اور آپ نے اپنے طریق عمل سے بتا دیا کہ آپ کا کہنا کہ میں کہاں اس الہام کا سنانے والا ہو سکتا ہوں“ صرف تواضع کے طور پر تھا نہ کہ بوجہ ستی اور ڈر کے کیونکہ جس جرات اور زور سے آپ نے کام کیا اس کی نظیر کسی
سيرة النبي علي نبی میں بھی نہیں ملتی.293 جلد 1 کسی کو گالی دینے یا برا کہنے سے اس انسان کا تو کچھ سخت کلامی سے پر ہیز نہیں بگڑتا لیکن پھر بھی انسان بالطبع اپنے دشمن کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور ابتدائے عالم سے یہ مرض بنی نوع انسان میں چلی آئی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ گالی دینا ایک لغو کام ہے.سخت کلامی کرنا ایک فضول حرکت ہے مگر اس کے لغو اور فضول ہونے کے باوجود گالی دینے والے گالیاں دیتے ہیں اور سخت کلامی کرنے والے سخت کلامی کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ انسان کو جب غصہ یا جوش آئے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا اظہار کرے اور بہت دفعہ جب اس کے غصہ کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور جوش سے اس کی عقل ماری جاتی ہے تو وہ عام الفاظ میں اپنے غصہ کا اظہار نہیں کر سکتا اور جب دیکھتا ہے کہ الفاظ میں میرے غصہ کا اظہار نہیں ہو سکتا تو پھر ایسے الفاظ بولتا ہے کہ جو گو اس غصہ کے اظہار کرنے والے نہ ہوں لیکن ان سے یہ ثابت ہو کہ اس شخص کو سخت طیش ہے.چنانچہ اس لیے سخت طیش میں تمام برائیوں کو انسان اپنے دشمن یا دکھ دینے والے کی طرف منسوب کرتا ہے حالانکہ وہ سب برائیاں اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتیں لیکن اصل منشا گالی سے کمال طیش کا اظہار ہوتا ہے.گویا گالی دینا بھی ایک قسم کا مجاز ہوتا ہے جس کے ذریعہ انتہاء غضب کا اظہار کیا جاتا ہے.جو لوگ نہایت غصیلے ہوتے ہیں اور ذرا ذراسی بات پر ان کا نفس جوش میں آجاتا ہے وہ گالیاں بھی زیادہ دیتے ہیں.اور جو لوگ جس قدر اپنے نفس پر قابو ر کھتے ہیں اُسی قدر گالیوں سے بچتے ہیں کیونکہ ان کو اس قدر غصہ نہیں آتا کہ جس کو وہ عام الفاظ میں ادا نہ کر سکیں.اور اگر آئے بھی تب بھی وہ اپنے نفس کو جھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ گالیاں در حقیقت جھوٹ ہوتی ہیں کیونکہ بہت سی باتیں انہیں ایسی کہی جاتی ہیں جو خلاف واقعہ ہوتی ہیں.مثلاً بعض لوگ طیش میں آکر اپنے مخالف کو حرامزادہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ وہ اس گندے الزام سے بالکل پاک ہوتا
سيرة النبي علي 294 جلد 1 ہے.اسی طرح اور بہت سی گالیاں ہیں کہ جو انسان اپنے مخالف کو دیتا ہے لیکن ان کے اندر جو مضمون ادا کیا جاتا ہے وہ اس مخالف پر چسپاں نہیں ہوتا.پس گالیاں دینا در حقیقت ایک کمزوری ہے اور سخت طیش کے وقت انسان سے اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا.صرف گالی دینے والے کے ان خیالات کا اس سے پتہ چلتا ہے جو وہ اس کے متعلق رکھتا ہے جسے گالی دیتا ہے.غرض گالی دینے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہاں ایک پُر غضب طبیعت کے جوش کا اظہار اس سے ہو جاتا ہے مگر پھر بھی اکثر لوگ غضب میں گالیاں دیتے ہیں.چنانچہ بعض لوگ جو عام طور پر نرم طبیعت رکھتے ہیں جب ان کو بھی غصہ آ جائے تو اپنے مخالف کے حق میں گالی دے دیتے ہیں اور جب کسی شخص سے سخت تکلیف پہنچے تب تو بڑے بڑے صابروں کے منہ سے بھی گالی نکل جاتی ہے.چنانچہ مسیح نامرئی جیسا صابر انسان جس کی زندگی اس کے صبر اور اس کی استقامت پر دلالت کرتی ہے اور جس نے اپنے دشمنوں سے بڑی بڑی سخت مصیبتیں برداشت کر کے بھی ان کے حق میں کوئی سخت کلمہ نہیں کہا اسے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک موقع پر جب اس کے دشمنوں کی شرارت حد کو پہنچ گئی اور حملہ پر حملہ انہوں نے اس پر کیا تو آخر تنگ آکر ایک دن اسے بھی اپنے دشمنوں کے حق میں کہنا پڑا کہ سانیوں کے بچے مجھ سے معجزہ طلب کرتے ہیں 110 اور کون نہیں جانتا کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح کے مخالف تھے وہ انسانوں کے بچے تھے لیکن ان کی شرارتوں نے حضرت مسیح کو اس قدر دق کیا کہ آخر تنگ آکر ان الفاظ میں انہیں اپنے غصہ کا اظہار کرنا پڑا.اسی طرح ایک دفعہ اپنے حواریوں سے جو ایک دفعہ ان کو سخت تکلیف پہنچی تو اپنے ایک حواری کو انہوں نے شیطان کے لفظ سے یاد کیا 111 حالانکہ وہ وہی حواری تھا جسے انہوں نے خود اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا.غرض حضرت مسیح کی مثال سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ کبھی بڑے سے بڑا صابر انسان بھی دشمن کی شرارت سے تنگ آ کر ایسی گالی دے بیٹھتا ہے.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وہ شان
سيرة النبي علي 295 جلد 1 عطا فرمائی تھی کہ آپ کی زبان پر کبھی گالی نہیں آئی حالانکہ جو مخالفت آپ کی ہوئی اور جو تکلیف آپ کے دشمنوں نے آپ کو دی وہ اس حد کی تھی کہ اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی تکلیف نہیں پیش کی جا سکتی.لیکن باوجود اس کے کہ آپ کے مخالفوں نے ہر طرح سے آپ کو دق کیا اور 23 سال متواتر بلا وجہ آپ کو دکھ دیتے رہے اور ان کے ہاتھ روکنے والا بھی کوئی نہ تھا اور حضرت مسیح کے زمانہ کی طرح کوئی حکومت نہ تھی جس کے قانون سے ڈر کر اہل مکہ رسول کریم ﷺ کو ستانے میں کوئی کمی کرتے اور وہ قوم بھی حضرت مسیح کی قوم سے زیادہ سخت تھی لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ صلى الله آنحضرت مے کے منہ پر کبھی گالی نہیں آئی.ایک دو دن کی تکلیف ہو تو تب بھی کوئی بات تھی.سب کہہ سکتے تھے کہ آپ نے جبر کر کے اپنے آپ کو روکے رکھا.ایک دو ماہ کی بات ہوتی تب بھی کہہ سکتے تھے کہ تکلیف اٹھا کر خاموش رہے.ایک دو سال کا معاملہ ہو تب بھی خیال ہوسکتا تھا کہ اپنے نفس کو مار کر اپنی زبان کو بند رکھا لیکن 23 سال کا لمبا عرصہ جو تکالیف و مصائب سے پُر تھا ایک ایسا عرصہ ہے کہ اس عرصہ میں کسی انسان کا ان تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے اور ان عداوتوں کو دیکھتے ہوئے جو آنحضرت ﷺ کو دیکھنی اور برداشت کرنی پڑیں ہر قسم کی سخت کلامی سے پر ہیز کرنا اور کبھی مخش گوئی کی طرف مائل نہ ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ انسان کوئی عجیب انسان تھا اور نہ صرف عام انسانوں سے برتر تھا بلکہ دوسرے نبیوں پر بھی فضیلت رکھتا تھا.کیونکہ جہاں اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا وہاں دوسرے نبی بھی نہ رکھ سکے.مجھے اپنے اس بیان کے لیے کسی ایک واقعہ سے استدلال کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس معاملہ میں ایک ایسے شخص کی شہادت موجود ہے جو دس سال متواتر آپ کے ساتھ رہا اور یہ حضرت انس ہیں.وہ فرماتے ہیں کہ لَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا لَعَانًا سَبَّابًا كَانَ يَقُوْلُ عِنْدَ الْمَعْتَبَةِ مَا لَهُ تَرِبَ جَبِينُهُ 112 یعنی رسول كريم علي وَلَا
سيرة النبي علي 296 جلد 1 تو گالی دینے کے عادی تھے ، نہ بخش کلام کے عادی تھے، نہ لعنت کیا کرتے تھے.جب آپ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا تو آپ صرف اس قدر فر ما دیا کرتے تھے کہ اسے کیا ہوا ہے اس کے ماتھے پر مٹی لگے.یہ گواہی ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جو کہ آپ کے ساتھ آپ کی عمر کے آخری حصہ میں جس میں سے پہلا حصہ آپ کی تکلیف کے زمانہ میں سے سب سے سخت زمانہ تھا رہا ہے اور پھر آپ کی عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ایام جوانی گزر کر بڑھاپا آ گیا تھا اور بڑھاپے میں عام طور پر انسان کی طبیعت چڑ چڑی ہو جاتی ہے لیکن باوجود اس کے وہ گواہی دیتا ہے کہ اس دس سال کے تجربہ سے اسے معلوم ہوا ہے کہ آپ نہ تو کبھی کسی کو گالی دیتے ، نہ کبھی آپ کے منہ سے کوئی فحش کلمہ نکلتا اور نہ کبھی کسی شخص پر لعنت کرتے ، ہاں حد سے حد غصہ میں اس قدر کہہ دیتے کہ تیرے ماتھے کو مٹی لگے اور یہ فقرہ گالی کا فقرہ نہیں بلکہ یہ الفاظ عرب لوگ پیار سے بھی کہا کرتے ہیں اور گو عام طور پر ان کا استعمال مہمل جملوں کے طور پر ہوتا ہے لیکن کبھی یہ الفاظ محبت کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیے جاتے اور ان سے یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ اس کی یہ شوخی دور ہو کیونکہ ماتھا تکبر کی علامت ہے اور اس کو مٹی لگنے سے یہ مراد ہے کہ اس کا یہ تکبر دور ہو.“ ( الفضل 19 ، 25 جون ،2 ، 9 ، 16 ،23، 30 جولائی ،13،6 ،27،20 اگست ، 3 ، 10 ، 17 ، 24 ستمبر، 1 ،22،15،8، 29 اکتوبر، 12،5 ،19، 26 نومبر ، 3 ،10، 24،17، 31 دسمبر 1913ء، 14،7، 21 ، 28 جنوری ،4 ، 11 ، 18 ،25 فروری، 4 ، 11 مارچ ، 9 جولائی ، 29،22 اکتوبر، 12،5، 26 نومبر، 10 دسمبر 1914 ء، غیر مطبوعہ مواد ) 1: الاحزاب: 22 66 2:بخارى كتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان ثلاثا صفحہ 1087 حدیث نمبر 6244 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3 ابوداؤد کتاب العلم باب فى سرد الحديث صفحہ 524 حدیث نمبر 3654 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 297 جلد 1 4: مسلم كتاب الزكوة باب تحريم الزكوة على رسول الله الله صفحه 435 حدیث نمبر 2476 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية 5: بخارى كتاب الأطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه صفحه 972 حدیث نمبر 5458 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية بخاری کتاب الادب باب التبسم والضحک صفحہ 1063 حدیث نمبر 6092 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية وهبته صفحہ 378 حدیث نمبر 2352 بخاری كتاب المساقاة باب من رأى صدقة الماء مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية ( الفاظ کے فرق کے ساتھ ) 8: بخارى كتاب المساقاة باب من رأى صدقة الماء وهبته صفحه 378 حدیث نمبر 2351 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 9:بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات صفحہ 899 حدیث نمبر 5017 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 10: قاب : بڑی رکابی.تھال (فرہنگ آصفیہ جلد 2 صفحہ 375 مطبوعہ لاہور 2015ء) 11 : سبعة معلقات قصیده پنجم از عمر و بن كلثوم صفحه 37 تا 44 مطبع سعیدی کراچی ناشر محمد سعد اینڈ سنز :12: بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد و المصالحة صفحه 447 تا 450 حدیث نمبر 2731 ، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 13 : المائدة: 25 :14 :بخارى كتاب مناقب الانصار باب ذكر هند بنت عتبه صفحه 642 حدیث نمبر 3825 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 15: آل عمران: 160 16: بخارى كتاب التفسير.تفسير سورة اقرء باسم ربک صفحہ 886 حدیث نمبر 4953 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 298 جلد 1 صلى الله :17 بخاری كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله عله صفحه 2 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 18: بخارى كتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام صفحہ 135 حدیث نمبر 832 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 19: آل عمران: 32 20: الفتح : 11 21: النجم : 10،9 :22 بخاری کتاب الجنائز باب الدخول على الميت بعد الموت صفحہ 199 حدیث نمبر 1243 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية صلى الله 23: بخارى كتاب الجهاد والسير باب ماقيل في درع النبيلة والقميص في الحرب صفحه 482 حدیث نمبر 2915 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 24:بخاری کتاب احادیث الانبياء باب قول الله تعالى عزوجل والى ثمود اخاهم صالحا صفحہ 557 حدیث نمبر 3378 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 25: بخاری کتاب المرضى باب تمنى المريض الموت صفحه 1004 ، 1005 حدیث نمبر 5673 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 26 بخاری كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل صفحہ 1121 حدیث نمبر 6463 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 27:بخارى كتاب الدعوات باب استغفار النبي صلى الله عليه وسلم في اليوم والليلة صفحہ 1097 حدیث نمبر 6307 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 28: بخارى كتاب الدعوات باب وضع اليد تحت الخدالیمنی صفحہ 1098 حدیث نمبر 6314 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 29:بخارى كتاب الدعوات باب النوم على الشق الايمن صفحہ 1098 حدیث نمبر 6315
سيرة النبي ع 299 جلد 1 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 30: بخاری كتاب الدعوات باب التعوذ من جهد البلاء صفحہ 1103 حدیث نمبر 6347 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية صلى 31 بخارى كتاب الدعوات باب قول النبى الله الله اللهم اغفر لي ما قدمت وما اخرت صفحه 1111 حدیث نمبر 6399 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 32: بخارى كتاب الدعوات باب التعوذ من المأثم والمغرم صفحہ 1106 حدیث نمبر 6368 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 33:بخارى كتاب الجهاد والسير باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب صفحہ 501، 502 حدیث نمبر 3039 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 34: بخارى كتاب المغازى باب حدیث کعب بن مالک صفحہ 749 تا 752 حدیث نمبر 4418 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 35: التوبة : 118 صلى الله 36: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علل باب ذكر اسامة بن زيد صفحہ 629 حدیث نمبر 3733 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 37: بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى عالم و اصحابه الى المدينة صفحه 657 حدیث نمبر 3905 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 38: بخارى كتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى اله واصحابه الى المدينة صفح 658 حدیث نمبر 3906 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 39: بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه الى المدينة صفحه 662 حدیث نمبر 3922 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 40: الشعراء : 63 41 : بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الكرب صفحہ 1103 حدیث نمبر 6346 مطبوعہ ریاض
سيرة النبي علي 300 جلد 1 1999 الطبعة الثانية 42 بخاری كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل صفحه 242،241 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 43 بخارى كتاب الوصايا باب الوصايا صفحہ 452 حدیث نمبر 2739 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 44:بخاری کتاب المغازى باب وفد بنى حنيفة، وحديث ثمامة بن اثال صفحه 742 حدیث نمبر 4373 ،4374 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 45 : قصور: قصر کی جمع محل ، محلات ( فرہنگ آصفیہ جلد 2 صفحہ 405 مطبوعہ لاہور 2015ء) 46: بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدينه صفحه 12 حدیث نمبر 52 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية مين في أرضه کے الفاظ نہ ہیں 47:بخارى كتاب الاذان باب حد المريض ان يشهد الجماعة صفحه 108 حدیث نمبر 664 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية میں تخطان کی جگہ یخطان ہے 48 : النسائى كتاب عشرة النساء باب حب النساء صفحه 469 حدیث نمبر 3391 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 49:بخارى كتاب الاذان باب من دخل ليؤم الناس صفحه 112،111 حدیث نمبر 684 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 50 : بخاری کتاب التهجد باب قيام النبى الله الله الليل صفحہ 181 حدیث نمبر 1130 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية میں لیقوم کے بعد او لیصلی کے الفاظ ہیں 51:بخارى كتاب التهجد باب طول القيام فى صلوة الليل صفحہ 182 حدیث نمبر 1135 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 52 : بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي الا الله وفاته صفحه 754 حدیث نمبر 4437 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 301 جلد 1 53 بخارى كتاب التفسير باب فكيف اذا جئنا من كل امة بشهيد صفحه 783،782 حدیث نمبر 4582 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 54 : الانبياء : 26 55: النحل: 3 56 تاریخ طبری جلد اول صفحہ 545 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء الطبعة الخامسة 57:بخارى كتاب الجنائز باب ما يكره من اتخاذ المساجد علی القبور صفحہ 212 حدیث نمبر 1330 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 58 متی باب 19 آیت 23 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 2011ء 59: متی باب 5 آیت 39 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 2011ء 60 بخاری کتاب المناقب باب صفة النبي الا الله و صفحه 597 حدیث نمبر 3559 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 61: بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبه من الليل صفحہ 1098 ، 1099 حدیث نمبر 6316 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 62:بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدينه صفحه 12 حدیث نمبر 52 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 63: بخارى كتاب الصوم باب الوصال صفحہ 315 حدیث نمبر 1961 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 64: بخارى كتاب الصوم باب من اقسم على اخيه ليفطر صفحہ 316 حدیث نمبر 1968ء مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية صلى :65 بخاری کتاب المناقب باب صفة النبي لا لا لا لوله صفحه 597 حدیث نمبر 3560 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 66: بخارى كتاب مواقيت الصلوة باب فضل الصلوة لوقتها صفحه 90،89 حديث نمبر
سيرة النبي ع 302 جلد 1 527 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 67 بخارى كتاب الجهاد والسير باب اسم الفرس والحمار صفحہ 472 473 حدیث نمبر 2857 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 68 بخارى كتاب الجهاد والسير باب اذا فزعوا بالليل صفحہ 502 حدیث نمبر 3040 مطبوعہ ریاض 1999، الطبعة الثانية 69:بخارى كتاب الجهاد والسير باب من قاد دابة غيره فى الحرب صفحہ 474 حدیث نمبر 2864 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 70 بخارى كتاب الاذان باب من صلى بالناس فذكر حاجة فتخطاهم صفحه 138 حديث نمبر 851 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله :71: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى عالم باب مناقب على بن ابی طالب صفحہ 625 حدیث نمبر 3705 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية ) کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ ) صلى الله 72 : بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى الله واصحابه الى المدينة صفحه 658، 659 حدیث نمبر 3906 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 73: بخارى كتاب الوكالة باب اذا وهب شيئا لوكيل او شفیع قوم جاز صفحه 369، 370 حدیث نمبر 2307 ، 2308 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية :74: نيل الأوطار من احاديث سيد الاخیار شرح منتقى الاخبار باب جواز استرقاق لعرب جلد 8 صفحہ 5 حدیث نمبر 4 الطبعة الأخيرة صلى الله :75: بخاری کتاب الدعوات باب قول النبي علي ربنا اتنا فى الدنيا حسنة صفحه 1109 حدیث نمبر 6389 مطبوعه رياض 1999 ء الطبعة الثانية (ربنا کے الفاظ نہیں ہیں ) 76: البقرة ة :202،201 77 : بخارى كتاب الاجارة باب استنجار الرجل الصالح و قول الله تعالی صفحه 360 حدیث نمبر 2261 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 303 جلد 1 78: بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوة عند بكاء الصبی صفحہ 116 حدیث نمبر 707 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 79: بخارى كتاب الصلوة باب الصلوة فى النعال صفحه 68 حدیث نمبر 386 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 80: بخارى كتاب الاطعمة باب الرجل يتكلف الطعام لاخوانه صفحه 969 حدیث نمبر 5434 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 81: بخارى كتاب الاذان باب من كان فى حاجة اهله فأقيمت الصلوة فخرج صفحه 110 حدیث نمبر 676 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية ) بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ ) 82 بخارى كتاب الهبة و فضلها والتحريض عليها باب فضل الهبة صفحه 415 حدیث نمبر 2567 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية الله 83: بخارى كتاب الاطعمة باب ما كان النبى الله واصحابه ياكلون صفحه 966 حدیث نمبر 5414 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية الله 84 بخارى كتاب الاطعمة باب ما كان النبى الله واصحابه ياكلون صفحه 966 حدیث نمبر 5416 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 85: بخارى كتاب الاطعمة باب الخبز المرقق والاكل على الخوان والسفرة صفحه 962 حدیث نمبر 5386 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 86: بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى له و أصحابه الى المدينة صفحه 659 حدیث نمبر 3906 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 87 : بخاری کتاب الجهاد والسير باب حفر الخندق صفحہ 470 حدیث نمبر 2837 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 88 : النباء: 41 89 بخاری کتاب المغازی باب شهود الملائكة بدرا صفحہ 675 حدیث نمبر 4001 مطبوعہ ریاض
سيرة النبي علي 304 جلد 1 1999 الطبعة الثانية ( بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ ) 90 بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 91: السيرة النبوية في فتح البارى جزء الثاني صفحه 361 مطبوعہ کو بیت 2001ء 92:بخاری کتاب المغازى باب قدوم الاشعريين واهل اليمن صفحه 744 حدیث نمبر 4385 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية صلى الله :93: بخارى كتاب التهجد باب تحريض النبي على قيام الليل والنوافل من غیر ایجاب صفحه 181 حدیث نمبر 1127 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 94 بخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدليل على ان الخمس لنوائب المسلين صفحہ 521 حدیث نمبر 3138 مطبوع رياض 1999 الطبعة الثانية ( بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ ) 95 بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبي عل يعطى المؤلفة قلوبهم وغيرهم صفحہ 523 حدیث نمبر 3148 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 96 بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبي يعطى المؤلفة قلوبهم وغيرهم صفحہ 524،523 حدیث نمبر 3149 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 97 بخاری کتاب المناقب باب صفة النبي الا الله صفحه 597 حدیث نمبر 3560 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 98: بخارى كتاب الجهاد والسير باب ما يكره من التنازع صفحہ 502،501 حدیث نمبر 3039 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية میں لنامولی کی بجائے اللہ مولانا کے الفاظ ہیں.صلى الله 99: بخاری كتاب الجنائز باب قول النبي الله يعذب الميت ببعض بكاء اهله صفحه 205 حدیث نمبر 1284 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 100: المدثر : 2 تا 6 101 : بخارى كتاب الجنائز باب ما يكره من اتخاذ المساجد علی القبور صفحہ 212 حدیث نمبر
سيرة النبي علي 305 جلد 1 1330 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية (مفهوما) 102 : بخارى كتاب الصوم باب صوم شعبان صفحه 317 حدیث نمبر 1970 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 103:بخارى كتاب فرض الخمس باب ما من النبى الله صفحه 521 حدیث نمبر 3139 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 104: بخاری كتاب فضل ليلة القدر باب رفع معرفة ليلة القدر لتلاحي الناس صفحہ 324 حدیث نمبر 2023 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 105: بخاری كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبيلة و اصحابه وتخليهم عن الدنيا صفحہ 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 106 : كنز العمال جلد 3 صفحہ 116 حدیث نمبر 5748 حاشیہ مطبوعہ دمشق 2012 ء 107: بخاری کتاب الاستئذان باب التسليم على الصبيان صفحه 1087 حدیث نمبر 6247 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 108 بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله الله صفحه 2،1 حدیث نمبر 3 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 109 تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 532 مطبوعہ بیروت لبنان 2012ء الطبعة الخامسة 110 : متی باب 12 آیت 34 پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ انار کلی لاہور 2011 ء نیز متی باب 12 آیت 39 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 111 : متی باب 16 آیت 23 پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ انارکلی لاہور 2011 ء 112 : بخاری کتاب الادب باب ما ينهى من السباب واللعن صفحہ 1056 حدیث نمبر 6046 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 306 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع یہ تو حید کے علمبردار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے گوجرانوالہ میں ایک تقریر فرمائی جس کا خلاصہ اخبار بدر قادیان نومبر 1913ء میں شائع ہوا.اس میں رسول کریم علیہ کو تو حید کے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرمایا:.آنحضرت ﷺ نہ صرف تمام انسانوں پر فضیلت رکھتے تھے بلکہ تمام انبیاء پر بھی فضیلت رکھتے تھے.لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جو کبھی نہیں بدلتا.تمام انبیاء نے اس کی تعلیم پھیلائی مگر آنحضرت ﷺ میں اس کا جوش اور اس کے لئے تڑپ سب سے بڑھ کر تھی.اس وقت تک بھی دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو شرک سے اس قدر متنفر اور بیزار ہو جیسا کہ دین اسلام.آنحضرت ﷺ نے ہر موقع پر تو حید کے واسطے وہ غیرت دکھلائی جس کا نمونہ تاریخ عالم میں نہیں....اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ عزت دی ہے کہ جہاں خدا کی توحید کا کلمہ تھا وہاں ساتھ ہی آنحضرت کی رسالت کا کلمہ بھی اس کا جزو ہوا کیونکہ جس طرح خدا ایک ہے اور اس جیسا نہیں ایسا ہی اب اس جیسا رسول بھی قیامت تک نہیں ، یہ کلمہ شہادت بھی شرک کو مٹانے والا ہے.“ ( بدر 6 تا 13 نومبر 1913 ءصفحہ 7)
سيرة النبي علي 307 جلد 1 رسول کریم عه بطور خاتم النبيين ا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے 30 نومبر 1913 بمقام ملتان ایک جلسے میں تقریر فرمائی جس میں رسول کریم ﷺ کی افضلیت کو بایں الفاظ بیان فرمایا:.ہر ایک قوم یا ملک جس کی طرف کوئی نبی اور نذیر آیا وہ اسی قوم اور ملک کی حیثیت کے مطابق آیا مگر آنحضرت علی ساری قوموں اور سارے ملکوں کے واسطے آئے اسی سے آپ کی شان دوسروں کے مقابلہ میں نمایاں ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قو میں بگڑی ہوئی تھیں.اخلاق نہایت گرے ہوئے تھے.یورپ اور ایشیا کے مؤرخوں نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ سارا جہاں گری ہوئی حالت میں تھا.ایسے مریض کے علاج کے واسطے آنحضرت عے پہنچے تھے مگر مرض نہایت سخت تھا اس واسطے طبیب بھی سب سے اعلیٰ بھیجا گیا.آنحضرت ﷺ کی شان اور عظمت پر نگاہ رکھنے سے ہم اپنے تمام اختلافات کا فیصلہ کر سکتے ہیں.ہر ایک امر کو حضرت ﷺ کے سامنے رکھ دیا جائے.اگر وہ امر ایسا ہے جس سے آنحضرت عی کی تعظیم و تکریم ہوتی ہے تو ہم اسے خوشی سے مان لیں گے اور قبول کر لیں گے.اور اگر اس صلى الله امر سے آنحضرت ﷺ کی ہتک ظاہر ہوتی ہے تو ہم اسے چھوڑ دیں گے اور اس سے نفرت کریں گے.اسی محک پر مسلمان آپس کے تمام جھگڑے آسانی سے طے کر سکتے ہیں.اس اصل کو مدنظر رکھ کر اول اس امر پر غور کرو کہ کیا آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کے آنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ جب باغ لگایا گیا تو اس کے محافظ بھی ہونے چاہئیں مگر آنحضرت ﷺ کے باغ کے پاسبان کون ہوں؟ کیا مولوی لوگ جو
سيرة النبي علي 308 جلد 1 خود خدا رسیدہ نہ ہوں اور جن پر خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی بھی نازل نہ ہوئی ہو یا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ کہہ سکے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور وحی الہی کے نزول کا خود تجربہ کار ہوں، اس واسطے کلام پاک کی حفاظت کرنے والا ہوں.خدا آسمان سے پانی بھیجتا ہے انسان اسے خراب کرتا ہے اور گندا کرتا ہے تو وہی پانی پھر آسمان سے آتا ہے تب ہم زندہ رہ سکتے ہیں اسی طرح اسلام کی حفاظت کے واسطے بھی ضروری ہے کہ بار بار آسمان سے ہی کوئی آوے جو شریعت اسلام کی حفاظت کرتا رہے.ملتان میں ایسے پاکباز لوگوں کے بہت سے نمونے قائم ہیں یہ لوگ مولوی نہ تھے بلکہ خدا کی طرف سے آئے تھے اس واسطے وہ اسلام کے پھیلانے میں کامیاب ہوئے.پر مولوی لوگ یہ کام نہ کر سکے.دنیا میں نور کس نے پھیلایا ؟ مولویوں نے یا اولیاء اللہ نے؟ اسی سے ظاہر ہے کہ ضرورت اولیاء اللہ کے ظہور کی ہے نہ کہ مولوی صاحبان کی.اب رہا یہ امر کہ آنے والا باہر سے آوے یا خود مسلمانوں میں سے؟ صد ہا اولیاء جو آئے وہ سب مانے جاتے ہیں کہ اسی زمین میں سے اور امت محمدیہ میں سے آئے لیکن ایک آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ باہر سے اور آسمان سے آوے گا اس کا نام مسیح ہے.اس مسئلہ کو بھی آنحضرت ﷺ کی شان کے دربار میں پیش کرو کہ کس عقیدہ میں آنحضرت علیہ کی عزت ہے.آیا اس میں کہ مسیح آپ کی امت میں سے ہو اور دیگر اولیائے امت مرحومہ کی طرح پیدا ہو یا باہر سے کوئی اسرائیلی نبی آسمان سے نازل ہو.حالانکہ امت مرحومہ کا کوئی فرد آسمان سے نہیں آیا.اگر آنحضرت عل سراج منیر ہیں اور ضرور ہیں تو پھر کیا صحیح کا لیمپ آپ سے زیادہ روشن ہے جو آنحضرت ﷺ کی امت کو منور کرنے کے واسطے وہاں سے روشنی مانگنی پڑی.ظاہر ہے کہ ایسا عقیدہ آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتا ہے نہ کہ عزت.صلى الله ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا.سوغور کرو نبی تو معلم ہے کیا وہ معلم بڑا ہے جس کی تعلیم سے کوئی نبی نہ بن سکا یا وہ بڑا ہے جس کی تعلیم سے نبی بن گئے؟ کیا
سيرة النبي ع 309 جلد 1 موسی کی شریعت پر چل کر کوئی ولایت کے درجے سے آگے نہ بڑھا؟ اگر یہ حال ہے تو پھر امت مرحومہ پر فخر کس طرح ہو سکتا ہے.سوچو کہ کس بات میں آنحضرت ﷺ کی عزت ہے اور کس بات میں ہتک ہے.وہ بات اختیار کرو جس میں عزت ہو.کیا شہنشاہ بڑا ہے جس کے ماتحت اور بھی شاہ ہوں یا وہ بڑا ہے جو صرف شاہ ہی ہو؟ ماتحت کی عزت سے افسر کی عزت ہے.ایسا ہی صدی کا سرا تو گزر گیا.کیا آنحضرت ﷺ کی عزت اس بات میں ہے کہ آپ کی حدیث کے مطابق صدی کے سر کا مجدد آ گیا یا اس میں کہ کوئی مجدد نہیں آیا اور نَعُوذُ باللہ حدیث غلط ہوئی.خود غور کر لو.پھر مرزا صاحب کے دعوے کی صداقت کو بھی اسی اصل پر پرکھو.آنحضرت علی کی سچائی کی خود خداوند پاک نے ایک دلیل دی ہے کہ اگر یہ جھوٹا تھا تو اس کی رگ جان کائی جاتی.آنحضرت ﷺ نے 23 سال وحی الہی کی اشاعت کی اور وفات طبعی سے آپ کا وصال ہوا.اور یہی حال مرزا صاحب کا بھی ہوا.مرزا صاحب نے 25 سال کی مہلت پائی بلکہ اس سے زیادہ.قرآن شریف کا معجزہ پیش کیا گیا تھا کہ اس جیسی کوئی کتاب لکھ لائے.حضرت مرزا صاحب نے بھی اپنی کتابوں کے ساتھ انعام شائع کیا کہ کوئی ایسی کتاب لکھ لائے.پر کوئی نہ لکھ سکا.“ صلى الله ( بدر 18 دسمبر 1913 ءصفحہ 4)
سيرة النبي علي 310 جلد 1 جامع کمالات حسنہ 9 جنوری 1914ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے قادیان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا:.اس کتاب کا لانے والا جامع کمالات حسنہ تھا.جو کچھ قرآن کریم میں مذکور ہے وہ سب اس نے کر کے دکھلا دیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے نبی کریم علی کی سیرت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت قرآن صلى الله ہے 1 جو قرآن میں مذکور ہے وہ سب کچھ آپ کرتے ہیں.انسان کے سب سے زیادہ واقف اس کے گھر کے لوگ ہوتے ہیں.کوئی انسان اگر با ہر اپنی حرکات لوگوں سے مخفی رکھ لے تو تکلف اور بناوٹ سے رکھ سکتا ہے لیکن گھر کے لوگوں سے وہ کسی حالت میں مخفی نہیں رہ سکتیں کیونکہ ہر وقت انسان نے انہیں میں رہنا ہوا تو آخر کب تک وہ ان سے چھپا سکتا ہے.یہ گواہی حضرت عائشہ کی ہے کہ آپ کی سیرت قرآن تھا.وہ ایک اعلیٰ درجہ کا انسان تھا جس نے ہمیں عمل کر کے دکھلا دیا.(افضل 14 جنوری 1914ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود نے 14 مارچ 1914 ء کو مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے فوراً بعد پہلی بیعت عام لی اور اُس کے بعد اپنے خطاب میں حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے عظیم الشان مقام اور ارفع شان کا اقرار کرتے ہوئے فرمایا :.سنو دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو! پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.میرا یقین ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آ سکتا جو صلى الله
سيرة النبي علي 311 آپ کی دی ہوئی شریعت میں سے ایک شوشہ بھی منسوخ کر سکے.الله جلد 1 میرے پیارو! میرا وہ محبوب آقا سید الانبیاء ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت ﷺ ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپ کی سچی غلامی میں نبی پیدا ہو سکتا ہے یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں.“ (الفضل 21 مارچ 1914ء ) 1 : مسند احمد بن حنبل صفحہ 1229 حدیث نمبر 25108 مطبوعہ لبنان 2004 ء
سيرة النبي علي 312 جلد 1 صلى الله جنگ احزاب اور رسول کریم میہ کی سیرت حضرت خلیفة المسح الثاني لمصلح الموعود نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد قادیان میں پہلا خطبہ جمعہ دیتے ہوئے 20 مارچ 1914 ء کو فرمایا:.مومنوں کی حالت احزاب کے موقع پر بڑی خطر ناک تھی.وہ کئی کئی دن فاقہ میں گزار دیتے تھے اور باوجود فاقہ کشی کے ان کو دشمن سے لڑنا پڑتا تھا.حدیثوں میں آیا ہے کہ ایک رات جبکہ بہت سخت سردی تھی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو دشمن کی خبر لاوے؟ تو اُس وقت کسی کو جرات نہ ہوسکی کہ نکل کر دشمن کی خبر لاوے.اُس وقت کپڑوں کی بھی مسلمانوں کو تنگی تھی.سارے یہی سمجھتے تھے کہ کسی کا نام تو لیا نہیں اس لئے سوائے ایک کے اور کوئی نہ بولا.دوبارہ حضور ﷺ نے کہا کوئی ہے جو دشمن کی خبر لاوے؟ تب پھر وہی آدمی بولا.پھر سہ بارہ فرمانے پر بھی وہی آدمی بولا.آپ نے اسے فرمایا جاؤ جا کر دیکھ آؤ کہ دشمن کی کیا حالت ہے.وہ گیا تو اس نے دیکھا کہ میدان خالی پڑا ہے اور وہاں کوئی فرد بشر نہیں ہے.ان کے بھاگنے کا عجیب معاملہ ہوا.اُسی دن ایسی سخت ہوا چلی کہ ایک سردار کی آگ بجھ گئی.آگ بجھنے کو عرب لوگ برا سمجھتے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ جس کی آگ بجھ گئی وہ گویا ہار گیا.وہ بھاگا تو اس کے ساتھ والوں نے سمجھا کہ معلوم نہیں کیا آفت پڑی ہے کہ یہ بھاگا ہے وہ بھی بھاگ گئے.اسی طرح تمام لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر بھاگ گئے.ابوسفیان ایسا گھبرایا کہ اسے اونٹ کی رسی کھولنی یاد نہ رہی اور اس پر سوار ہو گیا.اور تمام لوگ راتوں رات بھاگ گئے 1.یہ اس وقت کے متعلق پیشگوئی تھی.
سيرة النبي علي 313 جلد 1 صلى الله اس موقع پر ایک خندق کھودی گئی جو کہ سلمان فارسی کے بتلانے پر نبی کریم می نے حکم دیا کہ خندق کھودی جائے.اس کے پھر ٹکڑے تقسیم کر دیئے گئے کہ فلاں ٹکڑے پر فلاں فلاں آدمی کام کریں اور فلاں پر فلاں.جو ٹکڑا سلمان اور ان کے صل الله ساتھیوں کے سپرد تھا اس میں ایک بڑا پتھر نکلا جسے وہ توڑ نہ سکے تو نبی کریم ﷺ کو عرض کیا.تو آپ نے فرمایا کہ لاؤ کدال مجھے دو میں تو ڑتا ہوں.آپ نے پھر اس پر ایک زور سے کدال ماری.یہ قاعدہ ہے کہ لوہا اور پھر ٹکرائیں تو ان میں سے آگ نکلتی ہے تو اُس پتھر میں سے ایک آگ نکلی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیصر کا ملک فتح ہو گیا.پھر کدال ماری تو دوبارہ آگ نکلنے پر فرمایا کہ کسری کا ملک فتح ہو گیا.پھر آپ نے زور سے تکبیریں کہیں.منافق ہنتے تھے اور کہتے تھے کہ کھانے اور پہننے کو کچھ ملتا نہیں ہے اور رہنے کی جھونپڑیاں تک بھی میسر نہیں ہیں اور خوا ہیں ملکوں کی.صحابہ نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ آپ تکبیریں کیوں کہتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے کسری و قیصر کے ملک دکھائے گئے ہیں کہ وہ فتح ہو گئے ہیں 2.اس مصیبت میں رحمت کا نمونہ اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا اور اس مشکل میں آئندہ راحت بتلا دی.“ ( الفضل 25 مارچ 1914ء ) 1 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 1018 ، 1019 زیر عنوان ارسل الرسول حذيفة ليتعرف ماحل بالمشركين مطبوعہ دمشق 2005 ء 2 زرقانی جلد 2 صفحہ 109 مطبع الازهرية المصرية 1329هـ
سيرة النبي علي 314 جلد 1 رسول کریم ﷺ کا طریق وعظ 12 اپریل 1914ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود نے عہد خلافت ثانیہ کی پہلی مجلس شوری کے سامنے منصب خلافت کے موضوع پر معرکۃ الآراء خطاب فرمایا.اس میں آنحضرت ﷺ کے طریق وعظ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.آنحضرت ﷺ کا طریق یہ تھا کہ آپ بہت ہی مختصر وعظ فرماتے.لیکن کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ وعظ فرما رہے ہیں اور ظہر کا وقت آ گیا.پھر نماز پڑھ لی.پھر وعظ کرنے لگے اور عصر کا وقت آگیا پھر نماز پڑھ لی.“ منصب خلافت صفحه 30 ، 31 مطبوعه اله بخش مشین پریس قادیان)
سيرة النبي علي 315 جلد 1 رسول کریم ہے کے مشن میں رکاوٹیں اور کامیابیاں جون 1914ء میں حضرت خلیفہ المسیح اثانی المصلح الموعود نے ایک رؤیا کی بناء پر ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام ”تحفۃ الملوک“ رکھا گیا.یہ کتاب جماعت کے ایک وفد نے والی حیدر آباد دکن میر عثمان علی خان کو پیش کی.کتاب میں اسلام کی ابتدائی حالت اور رسول کریم ﷺ کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا:.”اسلام کی جو نازک حالت ان ایام میں ہے وہ پہلے کسی زمانے میں نہیں ہوئی اور موجودہ حالت کو جب ابتدائے ایام کی حالت سے مقابلہ کر کے دیکھیں تو بدن پر رعشہ سا طاری ہو جاتا ہے کیونکہ ابتدائے اسلام کے احوال اور آج کل کے احوال میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ اسلام نہایت غربت کی حالت میں تھا آنحضرت ﷺ فِدَاهُ اَبِی وَأُمِّى تنِ تنہا اس پاک مذہب کی تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے.نہ کوئی مولوی تھا، نہ عالم ، نہ واعظ، نہ کوئی سلطنت اس دین کی حامی تھی نہ کوئی فوج و سپاہ اس دین کو دشمنوں کے حملوں سے بچانے پر مامور تھی.بس وہی پاک وجود لاکھوں آفتوں اور کروڑوں مصائب کی موجودگی میں مکہ جیسے مقام میں ( جس کے باشندوں کا واحد ذریعہ معاش بتوں کے استھانوں کی خدمت تھا اور جو گل عرب میں بتوں کے پجاری ہونے کی وجہ سے ہی معزز تھے ) شرک کی بیخ کنی کے لئے رات اور دن مشغول تھا.چند نیک طبع اور سلیم الفطرت انسان اس کی پاک
سيرة النبي علي 316 جلد 1 اور بے عیب تعلیم کو سن کر اس پر ایمان لے آئے تھے لیکن کل شورہ پشت اور خبیث الفطرت انسان اس کے استیصال کے درپے تھے اور جس طرح بھی ہو اس کے دین کو مٹانے کے لئے ہر طرح سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے آخر آپ کے پیروؤں کو وطن سے بے وطن ہونا پڑا اور خود آپ کو بھی مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی.مدینہ آپ کے لئے اور بھی مشکلات کا مقام ثابت ہوا اور وہاں آپ کے عزم اور استقلال نے اور بھی نمایاں طور پر اپنا کمال دکھایا.کفار مکہ کی مخالفت بدستور جاری رہی.یہود و نصاری اور منافقین کے تین نئے گروہ بھی آپ کی ایذا دہی پر ایستادہ و تیار ہو گئے.آج مسلمان دنیا کے ہر گوشہ پر آباد ہیں اور ہر طبقہ کے انسان اسلام میں داخل ہیں گو پہلی سی شان و شوکت نہیں رہی مگر پھر بھی ایک دو آزاد حکومتیں بھی مسلمان ہونے سے کا دم بھرتی ہیں لیکن دیکھا جاتا ہے کہ اکثر مسلمانوں کے دل اندر ہی اندر خوف - بیٹھے جاتے ہیں کہ اب اسلام کا کیا حال ہوگا.ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان بشرطیکہ یورپ کی طاقت اور اس کی روزانہ بڑھنے والی رو کا مطالعہ کر چکے ہوں اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں اسلام کا مسیحیت کی رو میں نہ بہنا اور اپنی حیثیت کو قائم رکھنا ناممکن ہے.بہت سے احمق یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ایک سو سال کے اندر اسلام دنیا کے پردہ سے مٹ جائے گا اور واقعہ میں جس طرح اس زمانہ میں اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور ہر ایک مذہب اسلام کو اپنا شکار خیال کر رہا ہے وہ ظاہر بین انسانوں کو گھبرا دینے کے لئے کافی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ گروہ جو زمانہ کی حالت سے واقف ہے اس وقت سخت مایوسی کی حالت میں ہے اور اسلام کی ترقی کے لئے کسی جد و جہد کو بھی مذبوحی حرکات سے زیادہ خیال نہیں کرتا.یہ تو موجودہ زمانہ میں اکثر مسلمانوں کا حال ہے جو باوجود کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی کے اس حد تک مایوس ہوچکے ہیں مگر اس کے مقابلہ پر آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہیں کہ آپ تن تنہا دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اس یقین سے معمور تھے کہ کل دنیا پر میں غالب آ جاؤں الله
سيرة النبي علي 317 جلد 1 گا ، قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھوں میں آئیں گی.دنیا کے ہر کونہ میں اسلام پھیل جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو روک نہ سکے گی.جو اسلام کی مخالفت کرے گا اور اس کے ترقی کرنے میں روک ہوگا وہ بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا.قرآن کریم میں بھی متعدد آیات میں یہ ذکر ہے جیسا کہ فرمایا لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي 1 - چنانچہ ایسا ہی ہوا اور تھوڑی ہی مدت میں اسلام دنیا کے کونہ کو نہ میں پھیل گیا اور با وجود سب مذاہب اور سب اقوام کی متحدہ کوشش کے اسلام کی ترقی میں کوئی فرق نہ آیا اور اس نے ہر مذہب کو اپنے فاتحانہ بازو سے دبا لیا.b زمین پر لیٹنے والے اور خاک پر سونے والے، سات سات وقت کا فاقہ کرنے والے قرآن کریم کی اتباع اور آنحضرت ﷺ کی صحبت کے طفیل کہاں سے کہاں پہنچ گئے.کسی نے شاہانہ اقتدار حاصل کیا ، کوئی کسی ملک کا گورنر ہو گیا تو کوئی فتح مند افواج کا کمانڈر مقرر ہوا.انکی ترقی کسی انسانی دماغ کی کوششوں کا نتیجہ نہیں معلوم ہوتی بلکہ اسے بنظر غور دیکھنے والا صاف معلوم کرتا ہے کہ اس ترقی کا باعث کوئی آسمانی تائید اور نصرت تھی نہ زمینی تدابیر.دنیا نے چاہا کہ اسلام کو بڑھنے نہ دے مگر خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اسے بڑھائے.پس وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ 2 لوگوں نے ہزاروں تدابیر کیں کہ کسی طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی کا خاتمہ کر کے اس خارق عادت ترقی کرنے والے مذہب کو اکھاڑ پھینکیں لیکن جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَادِ - لوگوں کا بغض و کینہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ مذہب کے خلاف کیا کرسکتا تھا؟ اسلام ایک پتھر تھا کہ جس پر گرا اسے توڑ دیا اور جو اس پر گرا ٹوٹ گیا.اسلام کے خادم دنیا کے مخدوم ہو گئے.اسلام کے جاں شار دنیا کے محبوب ہو گئے.اسلام کے شیداؤں نے لاکھوں کو اپنا والہ وشیدا بنا لیا.کسی انسان نے اسلام کا نام لے کر نا کامی اور
سيرة النبي علي 318 جلد 1 نامرادی کا پھل نہ چکھا بلکہ جس نے اس کے دامن سے وابستگی کی کامیابی اور کامگاری ہی کا منہ دیکھا.خسران و تاب سے محفوظ ہو گیا.اسلام نے ویران گھرانوں کو آباد کیا.وحشیوں کو دنیا کی مہذب ترین قوموں پر فضیلت دی.اسلام ایک تریاق تھا کہ جس نے چکھا شکوک و شبہات اور وساوس کی امراض سے محفوظ ہو گیا.سنگ پارس تھا کہ جو اس سے چُھوا سونا بن گیا نہیں بلکہ خود کیمیا بن گیا.جسے چُھو کر وہ دل بھی جو لو ہے کی طرح سخت تھے سونا بن گئے.غرض کہ اسلام سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ اسلام ہر گھر کے 66 لئے شادابی اور شاد کامی کا موجب ہوا.“ ( تحفۃ الملوک صفحہ 7 تا 11 ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ ) 1: المجادلة: 22 2: آل عمران : 55 3: التوبة: 40
سيرة النبي علي 319 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متفرق پہلو حضرت مصلح موعود نے 14 اگست 1914 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا:.عبد اللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ میں دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کیا کرتا تھا.نبی کریم ﷺ نے یہ معلوم ہونے پر مجھے طلب فرمایا اور فرمایا کہ یہ طریق ٹھیک نہیں ہے.ایک ماہ میں تین دن روزے رکھا کرو اور پھر افطار کیا کرو.میں نے عرض کیا میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت پاتا ہوں.آپ نے فرمایا پھر نبی اللہ داؤد کا روزہ رکھا کرو.وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کیا کرتے تھے.میں نے عرض کیا میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت پاتا ہوں.آپ نے فرمایا نہیں ! اس سے بہتر کوئی روزہ نہیں ہوسکتا.پھر جب یہ بوڑھے ہو گئے تو ان کو طاقت نہ تھی.کہتے ہیں پھر میں کہا کرتا تھا کاش ! میں نبی کریم ﷺ کا حکم مان لیتا اور سوال نہ کرتا.لیکن مجبور ہوں کہ نبی کریم ﷺ سے وعدہ کر چکا ہوں اس لئے چھوڑ نہیں سکتا 1.جنگ احد میں جانے سے پہلے نبی کریم ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی گئی ہے (یہاں بھی اَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ہے ) دوسرے یہ دیکھا کہ میری تلوار میں کچھ نقص ہے اور میں نے ایک مضبوط زرہ پر ہاتھ رکھا ہے.اس کی تعبیر آپ نے یہ کی کہ چند صحابہ مارے جائیں گے اور جنگ میں میرا کوئی رشتہ دار بھی مارا جائے گا.اور وہ زرہ مدینہ منورہ ہے.پھر آپ باہر تشریف لائے اور صحابہ کو فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ اندر بیٹھ کر ہی دشمن کا مقابلہ کریں.نوجوان صحابہؓ نے یہ بات نہ مانی اور عرض کیا ہم باہر نکل کر لڑیں گے کیونکہ لوگ ہمیں بزدل کہیں گے.آخر آپ صحابہ کے
سيرة النبي علي 320 جلد 1 اصرار پر باہر نکلے.پھر صحابہ کو خیال آیا کہ ہم نے آپ کو مجبور کیا ہے ایسا نہ ہو اس کا کوئی بد نتیجہ نکلے.پھر آپس میں مشورہ کر کے نبی کریم ﷺ کے حضور عرض کیا کہ ہم نے حضور پر بہت زور دیا ہے حضور! اب واپس تشریف لے چلیں.آپ نے فرمایا نبی ہتھیار باندھ کر نہیں رکھا کرتے 2.بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے صحابہ فتح ہونے کے بعد ذبح (شہید) ہوئے اور نبی کریم ﷺ کے رشتہ دار بھی شہید ہوئے.اگر شہر میں رہتے تو تیسری بات بھی پوری ہو جاتی.الله غرض بہت سوال پیش کرنے دکھ کا موجب ہوتے ہیں جو شریعت کا حکم ہو یا جو نبی حکم دے وہ کرو.زائد بات مت طلب کرو کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں.نبی کریم ہے کا معمول تھا کہ آپ مانگ کر کسی عہدہ کو لینے والے کے سپر د کوئی عہدہ نہ کرتے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اسے کبھی اس کو پورا کرنے کی توفیق نہیں ملے گی.آپ تو فطرت انسانی کا بڑا مطالعہ رکھنے والے تھے.“ ( الفضل 20 اگست 1914 ء ) 1:بخارى كتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم صفحہ 317 حدیث نمبر 1975 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 سیرت ابن ہشام عربی جلد 3 صفحہ 68 مطبع البابی الحلبی مصر 1936ء
سيرة النبي علي 321 جلد 1 صلى الله حج کے دن رسول کریم ، صحابہ کرام اور صلحائے امت کیلئے بہت دعائیں کرو حضرت مصلح موعود نے 30 اکتوبر 1914ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا:.اگر جس حساب سے ہماری عید ہے اسی حساب کے مطابق مکہ میں عید ہوئی تو وہاں آج حج کا دن ہے.لاکھوں لاکھ آدمی کوئی کسی قوم کا، کوئی کسی ملک کا، ایک دوسرے کی رسم و رواج، ایک دوسرے کی زبان، ایک دوسرے کی عادتوں،ایک دوسرے کی خواہشوں ، ایک دوسرے کی اُمنگوں سے ناواقف ایک بہت بڑے وسیع میدان میں جمع ہوں گے.اور نہ صرف ان کے سامنے یہ نظارہ ہوگا کہ دنیا کے کن کن کونوں میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو پھیلایا بلکہ یہ بھی ہوگا کہ اس بے برگ و گیاہ جنگل میں ( جہاں ایک مشک پانی کی روپیہ دے کر بھی مشکل ہاتھ آتی ہے ) کہاں کہاں سے لوگ آئے ہیں.یہ عجیب منظر دیکھ کر ہر انسان کے دل میں عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے.اور اسلام کی سچائی کا بہت بڑا ثبوت ملتا ہے کہ اس جنگل اور وادی غیر ذی زرع میں ایک بلند ہونے والی آواز جس کو غیر تو الگ رہے اپنے بھی نہیں سنتے تھے اور آواز دینے والے کو جھڑک دیتے تھے وہی آواز تمام دنیا کے کونوں تک پہنچ کر آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کے اجتماع کا باعث ہوئی ہے.تمام وہاں جانے والے انسانوں کے پیش نظر یہ نظارہ ہوتا ہے کہ کہاں محمد ﷺ پیدا ہوئے اور اس نے ایسی آواز بلند کی جو گونجتی ہمارے دور دراز ملکوں میں پہنچی اور وہ اپنے اندر ایسی کشش رکھتی
سيرة النبي علي 322 جلد 1 تھی کہ ہمیں یہاں کھینچ لائی.اس کے علاوہ اس وقت لوگوں میں ایک محبت اور عقیدت کے جذبات جوش مارتے ہوں گے جبکہ وہ خیال کرتے ہوں گے کہ آج ہم اس متبرک اور پاک سرزمین پر صلى الله پھر رہے ہیں جس پر آج سے تیرہ سو سال پیشتر آنحضرت علیے پھرتے تھے.اور پھر خصوصاً یہ کہ جب آنحضرت عمے کو اہل مکہ نے یہاں سے نکال دیا تو کس شان و شوکت سے دوبارہ وہ قدوم میمنت لزوم یہاں پہنچے اور وہ مکہ کے لوگ جن کی اذیتوں اور تکلیفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور یہاں لا اله الا اللہ کہنے کی اجازت نہیں تھی.لیکن آج ہر ایک کی زبان پر اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ والله اكبر الله اَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمدُ جاری ہوتا دیکھ کر کیا ہی لذت آتی ہو گی.آج کے دن زوال سے لے کر سورج کے ڈوبنے تک حاجی عرفات میں اور مغرب.لے کر صبح تک مزدلفہ میں آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل کرنے والے دعاؤں میں لگے صلى الله رہتے ہیں.افسوس کہ بہت کم لوگ اس طرف توجہ کرتے ہیں اور اکثر اِدھر اُدھر پھر کر وقت گزار دیتے ہیں.آنحضرت ﷺ کی نسبت لکھا ہے کہ آپ صبح تک دعاؤں میں مشغول رہتے.دعاؤں کیلئے یہ وقت بہت مبارک ہے.جس کو خدا نے عرفات اور مزدلفہ میں دعاؤں کی توفیق دی ہے وہ تو بہت خوش نصیب ہے لیکن جو اپنے گھروں میں ہیں ان کیلئے بھی خوش قسمتی کا موقع ہے وہ بھی دعاؤں میں مشغول رہیں.سب سے پہلے اس انسان کیلئے بہت دعائیں کی جائیں جس کے طفیل مذہب اسلام ہمیں ملا یعنی آنحضرت علی کیلئے.اگر آپ کی مصیبتیں، آپ کی جان کا ہیاں اور آپ کی دعائیں نہ ہوتیں تو ہم تک کہاں اسلام پہنچ سکتا تھا.اور آپ نے دن رات لگ کر تئیس سال متواتر ہلا ایک دم اور لمحہ راحت اور چین میں رہنے کے اسلام کی اشاعت کی جس کے نتیجہ میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی جس نے ہم تک اسلام کو پہنچایا.تو پہلے آنحضرت علی صلى الله
سيرة النبي علي 323 جلد 1 کیلئے ، پھر صحابہ کی جماعت کیلئے دعائیں کرو.اس جماعت نے اپنی جانیں، اپنے مال، اپنا وطن، اپنی بیویاں، اپنے بیٹے غرضیکہ سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا.خبیث الفطرت ہے وہ انسان جو صحابہ کرام کی قدر نہیں کرتا.پھر ان لوگوں کیلئے دعائیں کرو جنہوں نے صحابہ سے اخذ کر کے بعد میں آنے والی نسلوں کو اسلام پہنچایا.ان میں سے محدثین کی جماعت جس نے آنحضرت ﷺ کے اقوال کو ہم تک پہنچایا.پھر آئمہ دین کی جماعت جنہوں نے اپنی ساری عمریں صرف کر کے آنحضرت ﷺ کے اقوال سے مسائل استنباط ( الفضل 5 نومبر 1914ء) کئے.
سيرة النبي علي 324 جلد 1 رسول کریم ع کی حس مزاح حضرت مصلح موعود نے 18 دسمبر 1914ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.انسان کی طبیعت میں ہنسی اور رونا دونوں باتیں رکھی گئی ہیں.کبھی انسان ہنستا ہے اور کبھی روتا ہے.مزاح بھی بنسی کا ایک طریق ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بنی تو ہم بھی کر لیتے ہیں مگر اس میں جھوٹ نہیں ہوتا.ایک دفعہ آپ بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس ایک بڑھیا آئی.اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں کیا جنت میں جاؤں گی؟ آپ نے فرمایا بڑھیا تو کوئی جنت میں نہیں جائے گی.وہ یہ سن کر رو پڑی.آپ نے کی فرمایا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ دنیا میں جو بوڑھے ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ یہ تھا کہ جنت میں سارے جوان ہو کر جائیں گے 1.ایک دفعہ آپ کھجوریں کھا رہے تھے اور صحابہ بھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے اشارہ فرمایا کہ گٹھلیاں حضرت علیؓ کے آگے رکھتے جاؤ.جب کھا چکے تو آپ نے حضرت علی کو فرمایا کہ تمہارے آگے سب سے زیادہ گٹھلیاں ہیں کیا تم نے سب سے زیادہ کھجوریں کھائی ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں گٹھلیاں پھینکتا گیا ہوں.جس کا مطلب یہ تھا کہ جن کے آگے گٹھلیاں نہیں وہ ان کو بھی کھا گئے ہیں.ایک دفعہ ایک صحابی کھڑا تھا.آنحضرت ﷺ نے پیچھے سے آکر اس کی آنکھیں بند کر لیں.اس صحابی نے اپنے ماتھا سے آپ کے نرم اور ملائم ہاتھوں کو پہچان لیا اور وہ آپ کے کپڑوں سے اپنے کپڑے ملنے لگ گیا.آپ نے سمجھ لیا کہ اس نے پہچان لیا ہے.فرمایا کہ کیا کوئی اس کو مول لیتا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے کون مول لے سکتا ہے.نبی کریم ﷺ نے
سيرة النبي علي 325 66 فرمایا نہیں خدا اور اس کے رسول کے نزدیک تمہاری بے شمار قدرو قیمت ہے 2.“ جلد 1 ( الفضل 24 دسمبر 1914ء) 1 شمائل الترمذى باب ماجاء فى صفة مزاح رسول الله لا صفحہ 20 مطبوعہ کراچی 1380ھ 2: شمائل الترمذی باب ماجاء في صفة مزاح رسول الله لا ل ا ل لهم صفحہ 19 ، 200 مطبوعہ کراچی 1380ھ
سيرة النبي علي 326 جلد 1 صلى الله شان خاتم الانبیاء ﷺ کی ایک جھلک خواجہ کمال الدین صاحب نومبر 1914ء میں لندن سے واپس آئے تو اہل پیغام کے جلسہ سالانہ 1914ء میں انہوں نے ایک لیکچر دیا جو اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب“ کے عنوان سے شائع ہوا.حضرت مصلح موعود نے اس لیکچر کے مطالعہ کے بعد 21 جنوری 1915ء کو اس کا جواب لکھا جو 30 جنوری 1915 ء کو شائع ہوا.اس کا نام القول الفصل“ رکھا گیا.اس کتاب میں رسول کریم ﷺ کی شان خاتم الانبیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.سوائے آنحضرت ﷺ کے کوئی نبی اس شان کا نہیں گزرا کہ اس کی اتباع میں ہی انسان نبی بن جائے.لہذا اس قسم کی نبوت صرف اس مکمل انسان کے اتباع میں ہی پائی جاسکتی تھی.اس لئے پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں اور اس امت میں سے بھی صرف مسیح موعود کو اس وقت تک یہ درجہ عطا ہوا ہے.اور پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہ ملنے کی یہ وجہ نہیں کہ پہلے حقیقی نبی آسکتے تھے اس لئے ایسے نبی کی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ پہلے نبیوں میں سے کوئی نبی ایسا استاد نہیں ہوا جس کی شاگردی میں نبوت مل سکے.اس لئے پہلے نبیوں کی امت کے لوگ ایک حد تک پہلے نبی کی تربیت کے نیچے ترقی پاتے پاتے رک جاتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر نظر فر ما تا تھا اور جن کو اس قابل پاتا کہ وہ نبی بن سکیں ان کو اپنے فضل سے بڑھا تا اور براہ راست نبی بنا صلى الله دیتا.لیکن ہمارے آنحضرت علی کو اللہ تعالیٰ نے ایسے بلند مقام پر کھڑا کیا اور آپ نے استادی کا ایسا اعلیٰ درجہ حاصل کر لیا کہ آپ اپنے شاگردوں کو اس امتحان میں
سيرة النبي علي 327 جلد 1 کامیاب کرا سکتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ خود ایم اے ہوتے ہیں لیکن ان کی لیاقت ایسی اعلیٰ نہیں ہوتی کہ ایم اے کی جماعت کو پڑھا سکیں اور بعض ایم اے ایسے لائق ہوتے ہیں اور ان کا علم اور درجہ استادی ایسا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ وہ ایم اے کی جماعت کو خوب پڑھا سکتے ہیں.اسی طرح پچھلے نبیوں کی مثال سمجھ لو وہ اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے بزرگ تھے نبی تھے.لیکن ان میں سے ایک نے بھی آنحضرت ﷺ کی عظمت کے مقام کو نہیں پایا.اس لئے ان کے مدرسہ کا آخری امتحان نبوت نہ تھا بلکہ ولایت تھا.پھر نبوت بلا واسطہ موہبت سے ملتی تھی لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کو ایسا درجہ استادی ملا کہ آپ کے مدرسہ کو کالج تک بڑھا دیا گیا اور آپ کی شاگردی میں انسان نبی بھی بن سکتا ہے.اور اگر آپ سے پہلے نبیوں میں سے کوئی ایسا استاد کامل ہو جاتا تو وہی خاتم النبیین ہوتا کیونکہ جس استاد کی شاگردی میں نبوت حاصل ہو سکتی ہو اس کے بعد کسی اور استاد کی ضرورت نہ تھی کیونکہ نبوت کے بعد اور کوئی انعام نہیں.اسی طرح اگر قرآن کریم سے پہلے کوئی اور کتاب ایسی کامل ہوتی کہ اس پر چل کر انسان نبی بن سکتا تو وہ دنیا کی آخری کتاب ہوتی کیونکہ اس کتاب کے بعد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جو کتاب نبی بنا سکتی وہ کامل ترین کتاب ہوتی اور کامل ترین کے بعد اور کسی کتاب کی حاجت نہ تھی.پس پہلے بلا واسطہ غیر تشریعی نبی اس لئے آتے تھے کہ اُس وقت تک کوئی نبی خاتم النبین ہونے کے لائق نہ تھا اور کوئی کتاب خاتم الکتب ہونے کے درجہ پر نہ تھی.وہ آنحضرت ﷺ ہی تھے جن کی نسبت فرمایا گیا کہ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی 1 وہ آپ ہی تھے جن کی نسبت فرمایا گیا کہ قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ 2 پھر وہ قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جس کی نسبت فرمایا گیا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي 3 اور قرآن ہی ایک کتاب ہے جس کی نسبت فرمایا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ
سيرة النبي ع 328 جلد 1 وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ 4 پس ضرور تھا کہ جب وہ نبی اور وہ کتاب آجائے جس کی شاگردی میں اور جس پر عمل کر کے انسان نبی ہوسکتا ہو تو اس نبی کو خاتم النبین بنا دیا جائے اور اس کتاب کو خاتم الکتب قرار دیا جائے اور یہی سچے معنی ہیں خاتم النبین کے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں وَنُؤْمِنُ بِأَنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ إِلَّا الَّذِى رُبِّيَ مِنْ فَيُضِهِ وَاَظْهَرَهُ وَعُدَهُ 5 یعنی ہم مانتے ہیں کہ آپ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی کہ جس کی تربیت آپ کے فیض سے ہوئی اور جس کو آپ کے وعدہ نے ظاہر کیا.پس خلی اور بروزی نبوت کوئی گھٹیا قسم کی نبوت نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مسیح موعود کس طرح ایک اسرائیلی نبی کے مقابلہ میں یوں فرماتے کہ : ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو P اس سے بہتر غلام احمد ہے 6 بلکہ یہ نبوت اس شخص کی عزت میں ایک شمہ بھر بھی فرق کرنے کے بغیر جس کو یہ نبوت عطا ہو آنحضرت علیہ کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے اور بجائے ظلی نبی کی عظمت کو حقیقی نبیوں سے کم کرنے کے اس کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو سب نبیوں سے بڑا ثابت کرے.پس یہ مت خیال کرو کہ حضرت مسیح موعود کو چونکہ ظلی نبوت ملی اس لئے آپ کا معاملہ پہلے نبیوں سے مختلف ہے.نہیں ایسا ہرگز نہیں.آپ کو نبوت حقیقی اس لئے نہیں ملی کہ اب براہ راست موہبت کی ضرورت نہ تھی بلکہ دنیا میں وہ استاد ظاہر ہو چکا تھا جو اپنے علم اور عقل کے زور سے اعلیٰ سے اعلیٰ امتحانوں میں لوگوں کو پاس کراسکتا تھا.اور انہی یو نیورسٹی کی تعلیم ایسی اعلی پیمانہ پر ترقی پا چکی تھی اور قرآن کریم جیسی ہر زمانہ کے لئے یکساں مفید کتاب تیار ہو چکی تھی اس لئے اب پرائیویٹ امتحان سے دنیا کو روک دیا گیا لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس نے کالج میں پڑھ کر امتحان پاس کیا
سيرة النبي علي 329 جلد 1 وہ اس سے ادنی ہے جس نے پرائیویٹ طور پر امتحان پاس کیا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں.پس کیونکر ممکن ہے کہ وہ نبوت جو آنحضرت ﷺ کی شاگردی میں ملے وہ اس نبوت سے ادنیٰ ہو جو پرائیویٹ اپیر (Appear) ہونے والے طلباء کومل چکی ہو.ممکن ہے کہ ایک پرائیویٹ امتحان دینے والا کالج میں امتحان دینے والے سے لائق ہو اور ممکن ہے کہ ایک کالج کا سٹوڈنٹ پرائیویٹ طور پر تیاری کرنے والے سے لیاقت میں اعلیٰ ہو.یہی حال یہاں ہے.مسیح موعود بعض پہلے نبیوں سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہے اور بعض سے کم.اور میں نے خود اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ میں وہی ہوں جس کی نسبت ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ابوبکر سے بڑھ کر ہوگا ؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ تو کئی پہلے نبیوں سے بھی شان میں بڑا صلى الله ہوگا.پس اس کے ظلی نبی ہونے کے صرف یہی معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ دنیا کے تمام انسانوں سے خواہ وہ غیر نبی ہوں یا نبی بڑھ کر ہیں.اور اسی مضمون کی طرف حضرت مسیح موعود کا مندرجہ ذیل الہامی شعر اشارہ کرتا ہے.P برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے 1 الله اس الہامی شعر میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی عظمت شان کا ثبوت یہ ہے کہ مسیح الزمان اس کا غلام ہے.اب تم جس قدر بھی مسیح موعود کی عزت کرو گے اتنی ہی آنحضرت ﷺ کی عزت ہوگی کیونکہ جس کا غلام بڑا ہو آ قا ضرور اس سے بڑا ہوگا.اور جتنی شان مسیح موعود کی کم کرو گے اتنی ہی گویا نبی کریم ﷺ کی شان کم کرو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت ﷺ کی شان کے سمجھنے کے لئے مسیح موعود کی شان کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائی ہے.پس مسیح موعود کی شان کے بڑھنے سے آنحضرت علی کی شان بڑھتی ہے اور ہم پر خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس بات کے سمجھنے کی توفیق دی ہے کہ مسیح موعود ویسا ہی مکرم نبی ہے جیسے کہ پہلے نبی تھے اور یہ سب
سيرة النبي علي 330 جلد 1 الله درجہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور غلامی سے ملا ہے.پس کیا ہی مبارک ہے وہ نبی.ہاں کیا ہی معزز ہے وہ نبی جس کی غلامی میں ایسا عظیم الشان انسان پیدا ہوا.“ (القول الفصل صفحہ 14 تا 18 مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان 1915ء) 1: النجم : 9، 10 2: الاعراف : 159 3: المائدة: 4 4: الحجر: 10 5 مواہب الرحمن روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 285 ایڈیشن 2008 ء 6: دافع البلاء، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 240 ایڈیشن 2008 ء تذکرہ صفحہ 583 ایڈیشن 2004 ء
سيرة النبي علي 331 جلد 1 رسول کریم ﷺ کی اتباع سے قرب الہی کا حصول حضرت مصلح موعود نے القول الفصل میں پیغامیوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اس بات کا ذکر فرمایا کہ رسول کریم کی کامل اتباع کے نتیجہ میں آپ کا کوئی غلام پہلے نبیوں سے بھی بڑھ سکتا ہے اور اس سے رسول کریم علی کی ارفع شان کا اظہار ہوتا ہے.اس کی وضاحت میں فرمایا :.الله آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وہ رتبہ دیا ہے کہ آپ کی غلامی اور اتباع سے بارگاہ الہی میں مقرب ہونے والا انسان اگر یہ دعویٰ بھی کرے کہ میں آپ کی اتباع سے اس درجہ تک پہنچ گیا ہوں کہ پہلے سب نبیوں سے افضل ہو گیا ہوں تب بھی جائے تعجب نہیں.پھر بھی جائے تعجب نہیں اس بات میں کہ ایک شخص آپ کی اتباع سے نبی ہو گیا اور باوجود نبی ہونے کہ آپ کی غلامی سے آزاد نہ ہوا بلکہ جس قدر اس کا درجہ بڑھا اسی قدر آنحضرت ﷺ کی محبت میں فنا ہوتا گیا.بعید از امکان ہونے کی کیا وجہ سہی ، کاش ! لوگ سمجھتے کہ مسیح موعود کی نبوت کے انکار سے تو رسول اللہ ﷺ کا انکار لازم آتا ہے کیونکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ لو كَانَ مُوسَىٰ وَ عِيْسَىٰ حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی ا یعنی اگر مولی اور عیسی زندہ ہوتے تو سوائے میری فرمانبرداری کے ان سے کچھ نہ بنتا.پس اگر آپ کی امت میں سے ایک ایسا شخص نہ ہوتا جس کو خدا تعالٰى جَرِيُّ اللهِ فِى حُلَلِ الأَنْبِيَاءِ 2 فرما تا یعنی اللہ کا نبی انبیاء کے خلوں میں.تو آنحضرت ﷺ کا دعوی ( نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ) ایک دعوی بلا دلیل الله بن جاتا اور کوئی کہہ سکتا تھا کہ نَعُوذ باللهِ مِنْ ذَالِکَ) رسول اللہ ﷺ نے ایک
سيرة النبي علي 332 جلد 1 بلا دلیل بات صرف فخر کے طور پر کہہ دی ہے لیکن اللہ تعالیٰ رسول کریم ہے کے لئے بڑا غیرت مند ہے.ایک شخص کو بہت سے نبیوں کے نام سے مخاطب کیا اور باقی نبیوں کے نام لینے کی بجائے فرما دیا جَرِيُّ اللهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ.اور پھر اسے اس کام پر کھڑا کیا کہ آنحضرت ﷺ کی عظمت کو ظاہر کرے اور آپ کی غلامی کا اقرار کرے.اور چونکہ اس شخص کو سب نبیوں کے نام سے یاد کیا تھا اس لئے اقرار غلامی سے ثابت ہوا کہ صلى الله اگر اصل انبیاء ہوتے تو وہ بھی آنحضرت ﷺ کے سامنے اقرار غلامی کرتے اور اس طرح آپ کا یہ قول کہ لَوْ كَانَ مُوسى وَ عِیسَی حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِي عملی رنگ میں پورا ہوا.پس مسیح موعود کی نبوت سے انکار کرنے والا درحقیقت آنحضرت علی کی بات کو باطل اور بے معنی قرار دینے والا ہے نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ.خوب یاد رکھو کہ مسیح موعود کے نبی اور پھر عظیم الشان نبی ہونے میں ہی آنحضرت ﷺ کے قول کی صداقت ہے.پس ہم اس محبوب خدا کی تکذیب کس طرح کر سکتے ہیں.مرزا محمود احمد.“ (القول الفصل صفحہ 79،78 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان 1915ء) 1 اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1351ھ 2 تذکرہ صفحہ 63 ایڈیشن 2004 ء
سيرة النبي علي 333 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ مولوی محمد علی صاحب نے ایک رسالہ ” القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار“ لکھا.اس کے جواب میں حضرت مصلح موعود نے حقیقۃ النبوۃ“ کتاب تصنیف فرمائی جو 3 مارچ 1915 ء کو شائع ہوئی.اس کتاب میں آپ رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ وو کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.میں نے القول الفصل میں لکھا تھا کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے کوئی امتی نبی نہیں آسکتا تھا اس لئے کہ آپ سے پہلے جس قدر انبیاء گزرے ہیں ان میں وہ قوت قدسیہ نہ تھی جس سے وہ کسی شخص کو نبوت کے درجہ تک پہنچا سکتے اور صرف ہمارے آنحضرت مے ہی ایک ایسے انسان کامل گزرے ہیں جو نہ صرف کامل تھے بلکہ مکمل تھے یعنی دوسروں کو کامل بنا سکتے تھے.اور چونکہ اب کوئی ضرورت نہ تھی کہ افاضہ نبوت براہ راست ہوتا اس لئے آئندہ کے لئے صرف امتی نبی آسکتا ہے.پس امتی نبی کے یہ معنی نہیں کہ وہ پہلے سب انبیاء سے گھٹیا ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ پہلے بہت سے انبیاء سے یا آنحضرت ﷺ کے سوا باقی سب انبیاء سے افضل ہو کیونکہ آنحضرت ﷺ کی تربیت کے ماتحت جو شخص پہلے اور آپ کے کمالات کو حاصل کرے وہ جس قدر بلند درجہ بھی حاصل کرے قابل تعجب نہیں کیونکہ آنحضرت سے اس شان کو پہنچے ہیں کہ آپ کی شان نبیوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہے اور آپ کے درجہ کو سمجھنا ہر ایک انسان کا کام نہیں.پس آپ کی تربیت کے ماتحت روحانیت میں ترقی حاصل کرنے والا جس درجہ کو بھی پالے قابل تعجب نہیں.کیونکہ بڑے استادوں کے شاگرد
سيرة النبي علي 334 جلد 1 بڑے ہی ہوا کرتے ہیں اور بڑے بادشاہوں کے وزیرشان بلند ہی رکھتے ہیں جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ”ہمارا نبی ہے اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسی کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے 1 اسی طرح فرماتے ہیں کہ مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل عیسی عیسی سے بڑھ کر.ان دونوں حوالوں سے ثابت ہے کہ امت محمدیہ میں سے نبی ہونا آنحضرت مے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے.اور یہ کہ چونکہ آنحضرت ﷺ موسی سے بڑے تھے آپ کا مسیح پہلے میچ سے اپنی تمام شان میں بڑا ہونا چاہیے تھا.مذکورہ بالا الہام بھی میرے اس خیال کی تائید کرتا ہے اور ایک نہایت ہی لطیف پیرا یہ میں اس میں یہ سب مضمون بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ پہلے حصہ میں تو آنحضرت ﷺ کے کمالات کا بیان فرمایا ہے کہ کوئی ایسی برکت جو دنیا میں پائی جاتی ہو صلى الله اور انسان کو حاصل ہو سکتی ہو ایسی نہیں جو آنحضرت ﷺ سے نہ مل سکتی ہو.كُلُّ بَرَكَةٍ کے معنی عربی زبان میں یہی ہیں کہ جس قدر برکات ہیں ان میں سے ہر ایک برکت مل لتی ہے کیونکہ جب لفظ کل کا مضاف کسی نکرہ مفرد کی طرف ہو تو اس سے اس کا ہر فرد مراد ہوتا ہے.پس اس الہام کے یہی معنی ہیں کہ جس جس چیز کو برکت اور فضل کہہ سکتے ہیں وہ آنحضرت علیہ کے فیضان سے مل سکتی ہے خواہ دنیا وی ہو خواہ دینی ، خواہ روحانی ہو خواہ جسمانی.اللہ تعالیٰ نے کسی برکت کی قید نہیں لگائی اور کسی برکت کا استثناء نہیں کیا.پس وہ گل برکات جو انسان پاسکتا ہے انسان کو رسول اللہ ﷺ سے مل سکتی ہیں اور نبوت سے بڑھ کر برکت اور کیا ہوگی.پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ نبوت آنحضرت ﷺ کی اتباع سے نہ ملے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُلُّ بَرَكَةِ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم ہر ایک برکت آپ سے ہے اور آپ کے فیضان سے جاری ہے اور آپ کے ذریعہ سے مل سکتی ہے.پس اس الہام میں اشارہ ہے اس
سيرة النبي عمال 335 جلد 1 الله طرف کہ آنحضرت ﷺ کا فیض ایسا وسیع ہے اور آپ کا کمال اس درجہ ترقی کر چکا ہے کہ اب ہر ایک برکت آپ سے مل سکتی ہے.برکات کے حصول کیلئے کسی اور ذریعہ کی صلى الله ضرورت نہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل لغو نہیں.جبکہ آنحضرت می کی اتباع سے اور آپ کی فرمانبرداری سے اور آپ کی غلامی سے ایک چیز حاصل ہو سکتی ہے تو پھر اس بات کی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ براہ راست ملے.غرض چونکہ نبوت کا انعام انسان کو آنحضرت ﷺ کے فیض سے حاصل ہوسکتا ہے اور آپ کو وہ قرب الہی حاصل ہے جو آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوا اس لئے براہ راست موہبت کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے جو رتبہ آپ کو ملا نہ آدم کو نہ نوح نہ ابراہیم کو نہ موسی کو نہ عیسی کو (علیھم السلام ) کسی کو نہیں ملا.اور حضرت آدم کی اولاد میں سے ایک بھی بیٹا ایسا لائق نہیں ہوا جیسے ہمارے آنحضرت ﷺ تھے.آپ نے اطاعت الہی میں وہ حالت پیدا کی جو کوئی نبی نہیں پیدا کر سکا اور دربار شہنشاہِ ارض و سماء سے ان انعامات کے مستحق ہوئے جن کا کوئی اور نبی مستحق نہیں ہوا.اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آپ کی نسبت فرماتا ہے کہ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى 2 اور حضرت مسیح موعود کو فرماتا ہے كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّم پس اس الہام سے ثابت ہے کہ یہ درجہ صرف آنحضرت ﷺ کو ہی حاصل ہے کہ آپ کی اطاعت سے انسان انعام نبوت حاصل کر سکتا ہے اور آپ کی غلامی کا دم بھرتے ہوئے پھر بھی بہت سے نبیوں سے افضل ہوسکتا ہے اور آپ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کی نسبت کہا جا سکے کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْہ ہر قسم کی برکت اس سے ہے اور اس کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتی ہے یہ درجہ صرف اور صرف آنحضرت علی کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے.پس یہ الہام بھی اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتا ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس وقت مستقل نبوت اس لئے بند کر دی گئی ہے کہ اب سب برکتیں انسان آنحضرت ﷺ کی غلامی میں حاصل کر سکتا ہے اور براہ راست موہبت کی کوئی ضرورت الله
سيرة النبي علي 336 جلد 1 نہیں رہی.چنانچہ اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی ہے جسے ملا کر اس کے معنی اور بھی صاف ہو جاتے ہیں اور وہ معنی خود حضرت مسیح موعود نے کئے ہیں (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 کے صفحہ 99 پر ) آپ یہ الہام درج کرتے ہیں :.يُلْقِى الرُّوحَ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ اور خود یوں ترجمہ فرماتے ہیں جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے اور یہ تو تمام برکت محمد ے سے ہے.پس بہت برکت والا ہے جس نے اس بندہ ( یعنی مسیح موعود جیسا کہ انجام آتھم اور اربعین میں فرمایا ہے ) کوتعلیم دی اور بہت برکتوں والا ہے جس نے تعلیم پائی 3 اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ خود حضرت مسیح موعود نے بھی بَرَكَة کے معنی نبوت کئے ہیں اور پہلے الہام کو ملا کر اس کے یہ معنی کئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے منصب نبوت بخشتا ہے.لیکن یہ بخشش اس کی اور موہبت اس کی براہ راست نہیں ہوتی بلکہ آنحضرت ﷺ کے فیضان کے جاری کرنے سے ہوتی ہے اور وہ نبوت کی برکت آنحضرت علیہ کے طفیل سے ہوتی ہے اور آپ ہی کی طرف سے ہوتی ہے.غرض کہ اس الہام کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا رتبہ ایسا بڑا ہے کہ ہر ایک برکت آپ سے حاصل ہوسکتی ہے براہ راست موہبت کی ضرورت نہیں خواہ برکت نبوت ہو خواہ کسی اور قسم کی برکت.جو انسان آپ کی اطاعت کرے وہ دنیا میں کبھی نامراد اور نا کام نہیں رہ سکتا بلکہ ہمیشہ کامیاب اور بامراد ہو گا.اور ایسا درجہ اور کسی پچھلے نبی کو ہرگز نہیں ملا کہ سب برکتیں اسی کے واسطہ سے ملیں بلکہ آپ سے پہلے نبوت موہبتِ الہی سے براہ راست ملتی تھی نہ بتوسط انبیائے سابقین.
سيرة النبي علي 337 جلد 1 صلى اللهم پھر اس الہام کے دوسرے حصہ میں فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم فرما کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ یہ دعوی ہی نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے طفیل سے ہر ایک قسم کی برکت مل سکتی ہے بلکہ یہ ایک ثابت شدہ امر ہے.چنانچہ اس کی نظیر میں مسیح موعود کو دیکھ لو کہ اس نے آپ کی اطاعت اور غلامی سے ہر ایک قسم کی برکت کو پالیا.پس ثابت ہوا کہ استاد بھی برکتوں والا اور شاگرد بھی.استاد اس لئے کہ اگر اس میں ہر قسم کی برکات کے افاضہ کی طاقت نہ ہوتی اور اس کا فیضان ایسا وسیع نہ ہوتا تو پھر وہ ایسا شاگرد کیونکر تیار کر سکتا تھا جو ہر قسم کی برکات سے حصہ پانے والا ہو.اور شاگرد اس لئے بہت برکت والا ہے کہ ایک تو اس نے اس وقت جبکہ دنیا اس فرد کامل سے جو سب دنیا کی نجات دینے کے لئے آیا تھا خواہ عرب ہوں خواہ عجم ، خواہ گورے ہوں خواہ کالے، خواہ عالم ہوں خواہ جاہل غافل تھی اور اس کی خوبیوں سے بے خبر ہورہی تھی لوگوں کو اس کی خوبیوں سے آگاہ کیا اور اپنے استاد کا نام پھر دنیا میں روشن کیا اور براہین قاطعہ، دلائل نیرہ بج بالغہ اور آیات بینہ سے اس کی عظمت اور جلال کو دنیا سے منوایا اور دوست و دشمن پر روشن کر دیا کہ محمد کے نجات دہندہ عالم ہیں اور قرآن کریم علوم و حکم کا ایک لازوال خزانہ ہے اب کوئی ضد و تعصب سے کام لے کر انکار کرے تو اس کا وبال اس کے سر پر ہے.پس ایک تو اس لئے شاگرد کو برکت والا قرار دیا.اور دوسرے اس لئے بھی کہ دیکھو یہ شاگرد جس نے ایسے عظیم الشان استاد کے کمالات کو اپنے اندر لیا اور اپنے آپ کو اسی کے رنگ میں رنگین کر کے ان علوم وفنون کا وارث ہوا جن سے دنیا نا واقف تھی اور اس درجہ تک پہنچ گیا جس سے نبوت محمدیہ کی شان نہایت چمک کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہوئی کیسا باکمال ہے.(حقیقۃ النبوۃ حصہ اول صفحہ 40 تا 44 مطبوعہ قادیان 1915ء) 1: براہین حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 355 ایڈیشن 2008 ء 2: النجم : 10،9 66 3: حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 99 ایڈیشن 2008 ء
سيرة النبي علي 338 جلد 1 رسول کریم اللہ کی قرب وفات کا واقعہ علی حضرت مصلح موعود اپنی تصنیف ”حقیقۃ النبوة‘ مطبوعہ 3 مارچ 1915 ء میں رسول کریم ﷺ کی قرب وفات کے تعلق میں ایک واقعہ کا ذکر بایں الفاظ کرتے ہیں :.احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ مسجد میں آئے اور ایک خطبہ بیان کیا اور اس خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے سامنے دو باتیں پیش کیں.ایک تو یہ کہ وہ دنیا کو اختیار کرے اور دوسری یہ کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اسے پسند کرے.پس اس بندے نے جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاس ہے اسے قبول کر لیا.اس پر حضرت ابو بکر صدیق بے اختیار رو پڑے اور آپ کی چیخیں نکل گئیں اور آپ نے فرمایا یا رسول اللہ ! ہم آپ پر اپنے ماں باپ قربان کر دیں گے.آپ کے رونے اور اس طرح بول اٹھنے پر صحابہ بہت حیران ہوئے اور بعض نے کہا کہ ان کو کیا ہوا کہ رسول اللہ ہے تو کسی بندہ کا حال سناتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دو باتوں میں سے ایک بات پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ اسے سن کر رو ر ہے ہیں.لیکن ابو بکر نے جس صدق کو پا لیا تھا اور جس راستی کو سمجھ لیا تھا اس کو نہ حضرت عمرؓ سمجھ سکے نہ کوئی اور صحابی.بات یہ تھی کہ اُس وقت سید الکونین اپنی وفات کی خبر دے رہے تھے جسے سن کر اس صادق القول کا دل جس نے اپنے قول کی اپنے عمل سے شہادت دے دی تھی اور جو اپنے ہادی کی ہر ایک حرکت اور سکون اور ہر ایک قول کا نہایت غور سے مطالعہ کرتا رہتا تھا اور گویا اپنے وجود کو اس کے
سيرة النبي علي وجود میں فنا کر چکا تھا بے اختیار ہو گیا.“ 339 جلد 1 حقيقة النبوة حصہ اول صفحه 147 ، 148 مطبوعہ قادیان 1915ء)
سيرة النبي علي 340 جلد 1 صلى الله رسول کریم کی تدریجی ترقی حقیقۃ النبوة“ کتاب (مطبوعہ 3 مارچ 1915ء) میں ہی حضرت مصلح موعود نے رسول کریم ہے کے تدریجی دعاوی اور ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.قرآن کریم کے آہستہ آہستہ اتر نے کی غرض یہ تھی تا کہ صحابہ اس پر پورے طور پر عامل ہو جائیں اور ایک ایک حکم کو اچھی طرح یاد کر لیں.حضرت موئی پر یکدم کتاب اس لئے نازل ہوئی کہ ان کی سب جماعت ان کے ماتحت تھی اور وہ بادشاہانہ اقتدار رکھتے تھے.لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کو ایک خطرناک مخالف قوم کو منوانا اور پھر راہ راست پر چلانا پڑتا تھا.پس اپنے بندوں کی آسانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ کتاب اتاری.اس وقت حضرت مسیح موعود کے دعوے کا اظہار بھی اسی لئے آہستہ آہستہ ہوا.اور گو خدا تعالیٰ تو براہین کے وقت سے اپنا فیصلہ صادر فرما چکا تھا لیکن اس کا ظہور آہستہ آہستہ ہوا.یعنی اول 1891ء میں اور پھر 1901ء میں.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بہت سی کمزور طبائع پر رحم فرما کر انہیں ٹھوکر کھانے سے بچا لیا.اور جس قدر استعداد پیدا ہوتی گئی ان پر اظہار کیا جاتا رہا اور آنحضرت ﷺ کا دعوی بھی اسی طرح ہوا.سب سے پہلے آپ پر اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ 1 نازل ہوئی.اس میں دیکھ لو کہ نبی کے نام سے آپ کو نہیں پکارا گیا.پھر سورۃ مزمل کی ابتدائی چند آیات نازل ہوئیں اور آپ کو مامور مقرر کیا گیا لیکن ان میں بھی نبی اور رسول کا لفظ نہیں.ہاں چند ماہ کے اندر آپ کو رسول کے لفظ سے یاد کیا گیا جیسا کہ سورۃ مزمل کی آخری آیات سے
سيرة النبي علي 341 الله جلد 1 ظاہر ہے.اسی طرح گل دنیا کی طرف ہونے کا دعوی آنحضرت ﷺ نے بہت بعد میں کیا اور قرآن کریم کی وہ آیات جن میں سب دنیا کو اس نو ر و ہدایت کی پیروی کی دعوت دی گئی ہے بہت مدت بعد کی ہیں.پھر خاتم النبین ہونے کا اعلان بھی مدینہ میں ہوا ہے.اسی طرح حضرت مسیح کا دعوی بھی آہستہ آہستہ ہوا ہے اور کلیسیا کی تاریخ کے واقفوں نے اس امر پر کتابیں لکھی ہیں کہ حضرت مسیح نے آہستہ آہستہ اپنے دعوئی کو ظاہر کیا.اور انا جیل کو جو شخص غور سے پڑھے گا وہ بھی یہ بات معلوم کر لے گا کہ حضرت مسیح کا دعوی بھی بتدریج ظاہر ہوا.غرض کہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ اصل دعوی کو اپنے کلام میں ظاہر تو پہلے ہی کر دیتا ہے لیکن اس پر ایک پردہ ڈال دیتا ہے جسے ایک خاص وقت پر اٹھا دیتا ہے.ہمارے آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے تو اُسی وقت سے خاتم النبیین تھے.اور قرآن کریم کی ایک ایک آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے بعد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں.لیکن ظاہر الفاظ میں بعد میں اعلان کیا گیا کہ اب یہ شخص خاتم النبیین ہے.صلى الله یہ میری ہی تحقیق نہیں.حضرت مسیح موعود نے بھی اپنا عقیدہ اسی کے مطابق بیان فرمایا ہے اور مسیح موعود کے بیان کے فیصلہ کے بعد مؤمن کو تردد کی گنجائش نہیں رہتی.آپ فرماتے ہیں: جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اترا اسی طرح اس کے معارف بھی دلوں پر یک دفعہ نہیں اترتے.اسی بنا پر محققین کا یہی مذہب ہے کہ آنحضرت علی کے معارف بھی یک دفعہ آپ کو نہیں ملے بلکہ تدریجی طور پر آپ نے علمی ترقیات کا دائرہ پورا کیا ہے.ایسا ہی میں ہوں جو بروزی طور پر آپ کی ذات کا مظہر ہوں.آنحضرت ﷺ کی تدریجی ترقی میں سر یہ تھا کہ آپ کی ترقی کا ذریعہ محض قرآن تھا.پس جبکہ قرآن شریف کا نزول تدریجی تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کی تکمیل معارف
سيرة النبي عل 342 جلد 1 66 بھی تدریجی تھی.اور اسی قدم پر مسیح موعود ہے جو اس وقت تم میں ظاہر ہوا 2.“ 1: العلق : 2 ( حقيقة النبوۃ حصہ اول صفحہ 152 تا 154 مطبوعہ قادیان 1915ء) 2 نزول المسیح صفحه 45، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 421 ایڈیشن 2008 ء 2:
سيرة النبي علي 343 جلد 1 صلى الله جمله فیوض رسول کریم علیہ کی اتباع سے وابستہ ہیں حضرت مصلح موعود نے حقیقۃ النبوة“ (مطبوعہ 3 مارچ 1915ء) میں اس مضمون کو بالوضاحت بیان فرمایا ہے کہ ادنیٰ سے ادنی فیضان بھی آنحضور ﷺ کی اتباع کے بغیر نہیں مل سکتا.چنانچہ فرمایا :.اب بتاؤ کہ وہ کون سا شخص ہے جو حضرت مسیح موعود کی نبوت کو تشریعی نبوت قرار دیتا ہے جس کے قائل کرنے کے لئے مجازی نبوت پر اس قدر زور دیا جاتا ہے.میں اور میرے سب مرید تو آپ کو ایسا ہی نبی تسلیم کرتے ہیں جس نے کوئی جدید شریعت جاری نہیں کی اور نہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے بغیر نبی ہوئے بلکہ ہم تو ایسے خیال کو کفر کی خیال کرتے ہیں.اور ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے آنحضرت ﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے سب دروازے بند ہیں اور سوائے اس شخص کے جو اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کی محبت میں فنا کر دے اور کسی کو کوئی درجہ نہیں مل سکتا.اللہ تعالیٰ اسی سے خوش ہے جو آپ کی فرمانبرداری کا جو اپنی گردن پر اٹھاتا ہے.اور جو شخص آپ کی جناب سے روگردانی کرتا ہے وہ اس دنیا میں بھی ذلیل ہے اور اگلے جہان میں بھی.عزت صرف آپ کی غلامی میں ہے اور بڑائی آپ کی کفش برداری میں.خدا تعالیٰ کی معرفت آپ کی معرفت پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا قرب آپ کے قرب پر بند.نبوت تو ایک بڑی شے ہے.ہمارا خیال کیا یقین ہے کہ آپ کی اطاعت کے بغیر تو معمولی تقویٰ بھی نصیب نہیں ہوتا.پس ہمارے مقابلہ میں آپ وہ حوالے کیوں پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت
سيرة النبي علي 344 جلد 1 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے ہے.ہم نے کب انکار کیا.ہم تو آپ سے بہت زیادہ اس امر کے قائل ہیں اور مسیح موعود کے درجہ کی بلندی کی وجہ صرف یہی مانتے ہیں کہ مسیح موعود آپ کی فرمانبرداری میں سب پہلوں اور پچھلوں سے بڑھ گیا اور آنحضرت ﷺ کی جو معرفت آپ نے پائی اور کسی نے نہ پائی اور یہی تو وجہ ہے کہ آپ کو نبوت کا درجہ ملا اور کسی کو نہ ملا.“ الله (حقیقۃ النبوۃ حصہ اول صفحہ 165 ، 166 مطبوعہ قادیان 1915ء) اسی مضمون کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.میں ایک دفعہ پھر یہ بات ظاہر کر دینی چاہتا ہوں کہ میرا اور تمام ان احمدیوں کا جو حضرت مسیح موعود کے ساتھ صحیح تعلق رکھتے ہیں اور خود حضرت مسیح موعود کا بھی ہرگز ہرگز یہ مذہب نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی آ سکتا ہے جو قرآن کریم کو منسوخ کرے یا اس کے بعض احکام پر خط نسخ کھینچ دے یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر ہو کر کچھ حاصل کر سکے.بلکہ ہم ایسے شخص کو جو بعد آنحضرت ﷺ کے بلا واسطہ فیض پانے کا دعویٰ کرتا ہے یا بعد قرآن کریم کے نئی شریعت لانے کا مدعی ہے، لعنتی اور کذاب خیال کرتے ہیں.کیونکہ ہمارے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی اور نبی نہیں سوائے اس کے کہ آپ کے فیض سے فیض یاب ہو اور بعد قرآن کے کوئی اور شریعت نہیں.نہ پورے طور پر اسے منسوخ کرنے والی اور نہ اس کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے والی.قرآن کریم کا ایک نقطہ یا شععہ بھی کوئی شخص بدل نہیں سکتا اور نہ اس کی زیر زبر میں تغیر کر سکتا ہے چہ جائیکہ اس کے بعض احکام کو بدل دے.ہمارا یہ ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کوئی صاحب کمال نہیں گزرا.پس کمال کے بعد کسی اور شے کی حاجت نہیں رہتی.اب جو آئے گا آپ کے کمالات کے اظہار اور اس کے اثبات کے لئے آئے گا نہ کہ آپ سے الگ ہو کر اپنی حکومت جمانے.جس شخص نے آپ کے نور کو نہ دیکھا وہ اندھا ہے اور الله
سيرة النبي علي 345 جلد 1 جس شخص نے آپ کے درجہ کو نہ پہچانا وہ بد بخت ہے اور اس کا انجام خراب ہے.بد قسمت ہے وہ انسان جس نے آپ کے دامن کو نہ پکڑا اور بدنصیب ہے وہ انسان جس نے آپ کی غلامی کا جو اپنی گردن پر نہ رکھا.اللہ تعالیٰ کے قرب کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں کمال پیدا کرے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 1 یعنی اے ہمارے رسول ! ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا.پس اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کا ایک اور صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان آنحضرت مہ کی غلامی اختیار کرے.جس قدر کوئی شخص آپ کی اطاعت کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی محبت اس سے بڑھے گی.پس جب ہم کسی شخص کو آپ کی امت میں سے نبی کہتے ہیں تو اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص آپ کے غلاموں میں سے سب سے زیادہ فرمانبردار غلام ہے.اس کا نبی ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آنحضرت مے کی اتباع میں کمال کو پہنچ گیا ہے.پس اس قسم کے نبی ماننے میں ہم آنحضرت ﷺ کی ہتک نہیں کرتے بلکہ آپ کے درجہ کی بلندی کا اظہار کرتے ہیں.اور جوشخص اپنے قول یا فعل سے رسول اللہ ﷺ کی ہتک کرتا ہے وہ بے شک ملعون ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس کے لئے بند ہیں.نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت علی کی ہتک کرتے ہیں.اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم؟ اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے.وہ کیا جانے کہ محمد ﷺ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے.وہ میری جان ہے، میرا دل ہے ، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے.اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے.اس کے
سيرة النبي علي 346 جلد 1 گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم بیچ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں.وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس صلى الله کا قرب نہ تلاش کروں.میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ :.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم2 اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ باب نبوت کے بکلی بند ہونے کے عقیدہ کو جہاں تک ہو سکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرت مے کی ہتک ہے.بے شک اگر یہ مانا جائے کہ کوئی شخص ایک ایسی شریعت لایا ہے جو قرآن کریم کو منسوخ کر دے گی تو اس میں آنحضرت کی ہتک ہے.اور اگر یہ مانا جائے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی آئے گا جو آپ کی اطاعت کے بغیر صلى الله انعام نبوت پائے گا تو اس میں بھی آپ ﷺ کی ہتک ہے.کیونکہ اس کا یہ مطلب صلى الله ہو گا کہ آنحضرت ہی کا فیضان کمزور ہے کہ آپ کی موجودگی میں براہ راست فیضان کی حاجت پیش آئی.لیکن اسی طرح اس عقیدہ میں بھی آنحضرت لعل الله ہتک ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا فیضان ناقص اور آپ کی تعلیم کمزور ہے کہ اس پر چل کر انسان اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات نہیں پاسکتا.دنیا میں وہی استاد لائق کہلاتا ہے جس کے شاگرد لائق ہوں اور وہی افسر معزز کہلاتا ہے جس کے ماتحت معزز ہوں.یہ بات ہرگز فخر کے قابل نہیں کہ آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے اعلیٰ مراتب نہیں پائے بلکہ آپ کی عزت بڑھانے والی یہ بات ہے کہ شاگردوں میں سے ایک ایسا لائق ہو گیا جو دوسرے استادوں سے بھی بڑھ گیا.آنحضرت ﷺ کے بعد بعثت انبیاء کو بالکل مسدود قرار دینے کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دنیا کو فیض نبوت سے روک دیا اور آپ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو بند کر دیا.اب بتاؤ کہ اس عقیدہ سے آنحضرت علیہ رحمۃ للعالمین ثابت ہوتے ہیں یا اس کے خلاف؟ صلى الله
سيرة النبي علي 347 جلد 1 الله ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالک) اگر اس عقیدہ کو تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ آپ نَعُوذُ بِاللہ دنیا کے لئے ایک عذاب کے طور پر آئے تھے اور جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ لعنتی اور مردود ہے.آپ علیہ سب دنیا کے لئے رحمت ہو کر آئے ا ہے.تھے اور آپ کے آنے سے اللہ تعالیٰ کے فیضان دنیا کے لئے اور بڑھ گئے نہ کہ کم ہو گئے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ موسوی سلسلہ کے مسیح نے بلا واسطہ حضرت موسی کے فیضان پایا تھا لیکن آنحضرت لے کے آخری خلیفہ نے جو کچھ پایا آپ کے فیضان سے پایا اور پھر بھی مسیح ناصری سے اپنی تمام شان میں بڑھ گیا.پس آنحضرت ﷺ کا وجود دنیا کے لئے رحمت ہے اور آپ کی اتباع سے انسان ہر قسم کے فیوض حاصل کر سکتا ہے.آپ ﷺ کا وجود اللہ تعالیٰ کے فیوض کی راہ میں روک نہیں ہوا بلکہ آپ کی دعاؤں نے اللہ تعالیٰ کے جود و کرم کو اور بھی جذب کیا ہے اور پہلے اگر اس کے فضلوں کی پھوار پڑتی تھی تو اب ایک تیز بارش شروع ہو گئی ہے.پس جو شخص کہتا ہے کہ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اور آپ نے دنیا کو اس فیضان سے محروم کر دیا ایسا شخص رسول اللہ ﷺ کی ہتک کرتا ہے.وہ آپ کو اس ٹیلہ کی طرح قرار دیتا ہے جس نے گر کر دریا کا پاٹ بند کر دیا.یا اس بادشاہ کی طرح قرار دیتا ہے جس کے ماتحت کوئی زبر دست آدمی نہیں.بادشاہوں کی عزت اسی طرح بڑھتی ہے کہ بڑے بڑے سردار ان کی خدمت کرنے پر آمادہ ہوں اور شہنشاہ کا رتبہ شاہ سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے.پس دنیا ہمیں لاکھ ملامت کرے اور کوتاہ اندیش لوگ ہم پر ہزار اعتراض کریں ہم اس عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتے جس میں آنحضرت سے کی شان کا اظہار ہے اور نہ اس عقیدہ کو اختیار کر سکتے ہیں جس میں آپ کی ہتک ہوتی ہے.ہمارا آقا نہایت زبر دست طاقتیں رکھتا تھا.وہ ایسا رتبہ رکھتا تھا کہ اس کی قوت قدسیہ سے ایک نبی کا پیدا ہو جانا کچھ بھی بعید نہیں.اور جسے اس بات میں کچھ شک ہے اس نے درحقیقت خاتم النبین کے کمالات کو سمجھا ہی نہیں.وہ اپنی صلى الله
سيرة النبي علي 348 جلد 1 ہوا و ہوس پر رسول اللہ علیہ کی عزت و حرمت کو قربان کر رہا ہے اور لوگوں کے خوش کرنے کے لئے اپنے آقا پر حملہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے.“ 1 آل عمران : 32 حقيقة النبوۃ حصہ اول صفحہ 180 تا 184 مطبوعہ قادیان 1915ء) 2: ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 185 ایڈیشن 2008 ء
سيرة النبي علي 349 جلد 1 فیضان خاتم النبین مه صلى الله حضرت مصلح موعود کا ایک فرمانروائے ریاست کے نام تبلیغی خط جو کہ ریویو آف ريليجنز مئی 1915 ء میں شائع ہوا اس میں آپ نے رسول کریم علیہ کی حیثیت بطور خاتم النبین کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا :.اگر ہم یہ خیال کریں کہ وہی حضرت مسیح ناصرٹی جو بنی اسرائیل کے نبی تھے بہ حیثیت نبی ہونے کے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو اس میں آنحضرت نے کی تک ہے کیونکہ حضرت مسیح نے نبوت کا مقام براہِ راست حاصل کیا تھا اور ہمارے آنحضرت ﷺ کے فیضان سے وہ اس رتبہ کو نہ پہنچے تھے پس ان کے بہ حیثیت نبی واپس آنے سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جاتی ہے اور خاتم النبیین حضرت مسیح قرار پاتے ہیں نہ کہ ہمارے آنحضرت علی.پس ہمارا اور دیگر فرق اسلام کا اس مسئلہ میں صرف اس قدر فرق ہے کہ وہ تو ایک گزشتہ نبی کو دوبارہ دنیا میں لا کر آنحضرت یہ کی ختم نبوت کو باطل کرتے ہیں اور ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں آ سکتا جو براہِ راست فیضان پانے والا ہو بلکہ اب وہی شخص خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکتا ہے جو پورے طور پر آنحضرت ﷺ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ لے.یہ شخص اگر آنحضرت ﷺ کی توجہ روحانی سے نبوت کا مقام پالے تو اس سے ختم نبوت بھی نہیں ٹوٹتی کیونکہ اس نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ سب آنحضرت ﷺ کی طفیل سے ہے اور اس کے درجہ کی بلندی در حقیقت آنحضرت ﷺ کے درجہ کی صلى الله بلندی ہے کیونکہ شاگرد کی لیاقت استاد کی لیاقت کی علامت ہوتی ہے اور لائق شاگرد صلى الله صلى الله
سيرة النبي علي 350 استاد کی عظمت کو کم نہیں بلکہ زیادہ کرتا ہے.جلد 1 غرض اس بات میں ہم اور دیگر فرق اسلام بالکل متفق ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایک نبی نے ضرور آنا ہے لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایک ایسا نبی آئے گا جو براہِ راست انعامِ نبوت پانے والا ہو گا اور اس نے کل کمالات بلا آپ کی اتباع کے حاصل کئے ہوں گے لیکن ہم اس عقیدہ کو گناہ سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بعد دنیا کے پردہ پر کوئی ایسا نبی ظاہر نہیں ہوسکتا جس نے سب کچھ آپ ہی کے طفیل سے نہ پایا ہو بلکہ براہ راست.کیونکہ اس طرح علا وہ ختم نبوت کے باطل ہونے کے رسول اللہ ﷺ کو اس شخص کا ممنونِ احسان بھی قرار دینا پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی امت کے خراب ہونے پر وہ اس کی اصلاح کرے گا اور اس طرح آپ پر احسان کرے گا لیکن اس پر آپ کا کوئی احسان نہ ہوگا.لیکن اگر کوئی ایسا شخص نبوت کا درجہ پائے جس نے سب کمالات آپ ہی کی اتباع میں حاصل کئے ہوں اور اسے امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا جائے تو پھر وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو پہلی صورت میں ہے کیونکہ وہ جو اصلاح کرے گا آنحضرت ﷺ کی ہی اصلاح ہوگی اور اس کا کام آپ ہی کا کام ہو گا کیونکہ وہ آپ کا غیر نہ ہوگا بلکہ آپ ہی سے ہوگا.اور غیرت تو وہیں ہوتی ہے جہاں غیریت ہو جہاں غیریت نہ ہو وہاں غیرت بھی پیدا نہیں ہوتی.میری اس تحریر سے آپ نے معلوم کر لیا ہو گا کہ ہمارا اور دیگر فرق اسلام کا اس بات میں اختلاف نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی آ سکتا ہے یا نہیں بلکہ اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ نبی کہاں سے آئے گا.آیا بنی اسرائیل کا کوئی نبی دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے گا یا اسی امت کا کوئی فرد نبوت کا درجہ پائے گا ؟ اور چونکہ ایک طرف تو ایک نبی کے آنے کی خبر احادیث سے ثابت ہے اور دوسری طرف کسی پچھلے صلى الله نبی کے دوبارہ آنے سے آنحضرت ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اس لئے ہمارے نزدیک
سيرة النبي علي 351 جلد 1 یہی عقیدہ درست ہے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ یہی عقیدہ درست ہے کہ جس شخص کو آنحضرت ﷺ نے نبی اللہ کہہ کر پکارا ہے وہ اس امت کا ایک فرد اور آنحضرت میایی عروسة ت عروس کے غلاموں میں سے ایک غلام ہے اور اسلام کسی پچھلے مسیح کا محتاج نہیں بلکہ آنحضرت کی قوت قدسیہ ہر زمانہ میں اپنے مخلص اور مطیع شاگردوں کو اصلاح عالم کے قابل بنا دیتی ہے اور آخری زمانہ کے لئے مقدر ہے کہ ایک شخص اپنے عظیم الشان کام کی وجہ سے مسیح موعود کے نام سے موسوم ہو کر اور اپنے بلند مرتبہ کی وجہ سے نبوت کا درجہ پا کر اسی امت میں سے کھڑا کیا جائے.“ 66 ریویو آف ریلیجنز مئی 1915 ء صفحہ 203 204)
سيرة النبي علي 352 جلد 1 کیا نجات صرف اعمال پر موقوف ہے حضرت مصلح موعود نے اعمال اور نجات کے تعلق میں رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات کو پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا :.آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کی نجات تو اعمال کی وجہ سے ہوگی؟ آپ نے فرمایا نہیں ، میری نجات بھی خدا کے فضل سے ہی ہو گی 1.آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی شخص درجہ نہیں رکھتا.جب آپ فرماتے ہیں کہ میری نجات خدا کے فضل سے ہو گی تو اور کون ہے جو اپنے اعمال پر بھروسہ رکھ سکے.ہاں فضل کے لئے اعمال کا ہونا ضروری ہے اور اسی تھیوری کو اسلام پیش کرتا ہے اس سے آپ عیسائیت کی تھیوری کا مقابلہ کر کے دیکھ لیں کہ کون غلط اور کون درست ہے.“ 66 الفضل 27 مئی 1916 ء صفحہ 5) 1: بخاری كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل صفحہ 1121 حدیث نمبر 6463 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 353 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کا عزم واستقلال حضرت مصلح موعود نے 13 اگست 1915ء کو قادیان میں خطبہ عید الفطر دیتے ہوئے فرمایا:..یا درکھو انبیاء کی ہر روز عید ہوتی ہے.دنیا کی کوئی تکلیف انہیں غمگین نہیں کر سکتی اور کوئی رنج ان کی کمر نہیں توڑ سکتا.اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی نسبت فرماتا ہے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِى اَنْقَضَ ظَهْرَكَ 1.ہر ایک انسان پر خصوصاً کام کرنے والے انسان پر اور پھر خصوصاً مصلح پر بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے خواہ وہ مصلح دنیا کا ہو یا دین کا کام اور فکر کی وجہ سے وہ چُور ہو جاتا ہے.چونکہ آنحضرت ﷺ پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تیرا بوجھ اٹھا لیا.کیوں؟ اس لئے کہ جب تو ہمارا مطیع و منقاد اور فرمانبردار ہو گیا تو پھر تجھ پر بوجھ کیوں رہنے دیا جاتا.بوجھ تو واقعہ میں ایسا تھا کہ تیری کمر توڑ دیتا اور کوئی اسے اٹھا نہ سکتا تھا کیونکہ ایک گھر کا بوجھ اٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.لڑائی جھگڑا ہو تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں.اب جو جنگ ہو رہی ہے اس کی وجہ سے تمام سلطنتوں کے وزراء گھبرا گئے ہیں کہ یہ کام بہت بڑھ گیا ہے اس لئے ان کی مددگار کمیٹیاں بنادی گئی ہیں.مگر آنحضرت ہے وہ انسان تھے جو ایک جنگ چھیڑتے ہیں اور سارے جہان کے ساتھ چھیڑتے ہیں.آپ صرف اکیلے اور تن تنہا ہیں جن کی نسبت وطن والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گلا گھونٹ کر مار دیں گے لیکن آپ سارے جہان سے جنگ شروع کرتے ہیں.عیسائیوں کو کہتے ہیں لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَثَةِ
سيرة النبي علي 354 جلد 1 یہود کو کہتے ہیں ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ 3.مجوس کو کہتے ہیں کہ اللہ ہی نور اور ظلمت کو پیدا کرنے والا ہے 4.جو کچھ تم کہتے ہو غلط ہے.مشرکین کو فرماتے ہیں اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ 5.اور گناہ تو خدا تعالیٰ بخش دے گا لیکن جو کچھ تم کرتے ہو یہ ایسا گناہ ہے کہ کبھی نہ بخشا جائے گا.غرض تمام دنیا کے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیں.اور وہ زمانہ کوئی امن کا زمانہ نہیں کہ آج کل کی طرح اپنے گھر بیٹھے جو جی میں آیا کسی کی نسبت کہہ دیا بلکہ ایسا زمانہ تھا کہ لوگ اپنے خلاف بات سن کر تلوار اٹھا لیتے تھے اور آپس کی مخالفت کو تلوار کے ذریعہ مٹانا چاہتے تھے.ایسے وقت میں آنحضرت مے کا تمام دنیا کے لوگوں کو علی الاعلان یہ کہنا کہ تم غلطی پر ہو اور تمہارے پاس حق نہیں ہے ساری دنیا سے جنگ چھیڑنا ہے.پھر یہ جنگ ایک دن نہیں ، دو دن نہیں، تین دن نہیں بلکہ متواتر 23 سال ہوتی رہتی ہے.باوجود اس کے صلى الله آپ کو دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی ساری عمر میں کبھی آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک پر ملال اور رنج کا نشان بھی نہیں دیکھا بلکہ جب کبھی دیکھا تبسم فرماتے ہی دیکھا؟.واقعی آپ کو کیوں رنج ہوتا جبکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - 2 - کہ تمہارا بوجھ تو وہ تھا کہ کمر چُور کر دیتا مگر جب تم نے ہماری فرمانبرداری کی تو ہم نے اس کو تم پر سے اس طرح اٹھایا کہ تمہیں ظاہری خوشی اور خرمی ہی حاصل نہ ہوئی بلکہ ہم نے تمہارے دل کو بھی خوشی کے لئے کھول دیا.میں نے بتایا ہے کہ عید ظاہری خوشی کا.سامان ہے جن کے دل مغموم ہوں انہیں خوشی نہیں ہو سکتی لیکن آنحضرت ﷺ کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تو تیرا سینہ کھول دیا ہے اور دل میں بھی خوشی بھر دی ہے.بعض غم ایسے ہوتے ہیں جن کا ظاہر پر تو اثر نہیں ہوتا لیکن دل پر ضرور ہو جاتا ہے.فرمایا یہاں تو ایسی خوشی ہے اور اللہ کے وعدوں پر ایسا یقین اور بھروسہ ہے کہ کوئی بھی
سيرة النبي علي 355 جلد 1 غم نزدیک نہیں آسکتا اور ذرا بھی فکر خوشی کو مکۃ رنہیں کر سکتا.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت یہ ایک درخت کے نیچے سو گئے.ایک کا فر آیا اور اس نے آکر آپ کی تلوار اٹھا کر سونت لی اور زور سے کہا اومد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ بجائے اس کے کہ کسی قسم کی گھبراہٹ سے جواب دیتے بڑے اطمینان اور دلجمعی سے فرماتے ہیں اللہ.چونکہ آپ نے بغیر کسی گھبراہٹ کے بڑے جلال سے جواب دیا تھا اس لئے اس آدمی کے ہاتھ سے ڈر کے مارے تلوار گر گئی.آپ نے اٹھالی اور فرمایا اب تو بتلا کہ تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا آپ ہی بچائیے اور کون ہے جو مجھے بچا سکے 8.(عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی سوئے ہوئے کو اچانک جگا دیا جائے تو وہ چونک پڑتا ہے.لیکن آنحضرت ﷺ کو ایک شخص ڈانٹ کر اور تلوار کھینچ کر کہتا ہے کہ بتاؤ تمہیں کون بچائے گا ؟ تو آپ فرماتے ہیں اللہ بچائے گا.ہندوستان کے لوگ تو عموماً اس نظارے کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا ہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں سے اکثروں کو تلوار کے دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا.اگر کسی کے گھر میں چور آن گھسے تو اس کا کہاں تک مقابلہ کیا جاتا ہے.بعض تو یہاں تک بزدلی دکھاتے ہیں کہ چور ڈاکوؤں کو خود کنجیاں دے کر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ مال ہے خود نکال لو.تو آنحضرت ﷺ کے اس واقعہ کا اپنی آنکھوں کے سامنے نقشہ کھینچنا آسان نہیں ) مگر تم اپنے دلوں میں اس بات کا اندازہ لگاؤ کہ ایک کافر جو آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آتا ہے اور تلوار کھینچ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ اس کی تمام طاقتیں زائل ہو جاتی ہیں اور عاجز و درماندہ ہو کر جان بخشی کا خواہاں ہوتا ہے.تو یہ وہ بات ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اور فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا بھلا تجھے کوئی کیا دکھ اور تکلیف پہنچا سکتا ہے.اگر کوئی تجھے ایک رنج پہنچائے تو ہم دوخوشیاں دیں گے.پس فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلى رَبِّكَ فَارْغَبُ و.تجھے چاہئے کہ اپنے رب کی
سيرة النبي علي 356 جلد 1 عبادت میں لگا رہے کیونکہ اسی کا نتیجہ ہے کہ تیری رات بھی خوشی میں اور دن بھی خوشی میں گزرتا ہے.پس تمہارے لئے عیدین خوشی حاصل کرنے کے لئے نمائش کے طور پر ہیں تا خدا کو راضی کر لو اور تمہارے لئے ہر وقت عید ہو.چنانچہ دیکھو صحابہ کرام نے خدا کو راضی کیا ان کے لئے کیسی عید میں ہوئیں.صحابہ وہ لوگ تھے جنہیں دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا اور جنہیں ملتا تھا وہ وہ لوگ تھے جو جو کا آٹا کھاتے تھے اور وہ بھی چھنا ہوا نہیں ہوتا تھا.اب اگر کسی کو بو کی روٹی دی جائے تو ناراض ہو جائے.مگر ان کی یہ حالت تھی کہ جو کا آٹا کھاتے اور بے چھنا کھاتے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ سے ایک عورت نے پوچھا کہ کیا آپ کے زمانہ میں چھلنیاں ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کیا جاتا تھا کہ پتھر پر جو رکھ کر گوٹ لئے جاتے تھے اور پھونک کر صاف کر لیتے اور روٹی پکا لیتے تھے.لیکن انہی لوگوں کو خدا تعالیٰ نے وہ ترقیاں دیں اور وہ عید کے دن دکھائے کہ دنیا میں نہ کسی نے دیکھے اور نہ دیکھے گا.جس طرف جاتے کامیابی اور فتح پہلے ہی تیار رہتی.لاکھوں انسان مقابلہ کے لئے آتے مگر صحابہ پہاڑ کی طرح کھڑے رہتے اور جس کسی نے ان سے سر ما را خود پاش پاش ہو گیا.قیصر وکسری ٹڈی دل لشکر کے ساتھ آئے مگر جس طرح ایک بوسیدہ کپڑا پارہ پارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ان کے لشکروں کا صلى الله حال ہوا اور وہ زبر دست ستون جو آنحضرت ﷺ نے گاڑا تھا اسے کوئی نہ ہلا سکا.یہی صحابہ ایک دوسرے کو اپنی پہلی حالت سناتے ہیں.ابوہریر کا کہتے ہیں کہ میں بھوک کی وجہ سے گر پڑا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ اسے مرگی ہوگئی ہے علاج کے طور پر جوتیاں مارا کرتے تھے.پھر کہتے ہیں جب میں مسلمان ہو گیا تو ایک دن جب سخت بھوک لگی تو میں قرآن شریف کی ایک آیت جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے ابوبکر کے پاس اس کا مطلب پوچھنے کے لئے لے گیا.جس سے میری یہ غرض تھی کہ وہ سمجھ جائیں
سيرة النبي علي 357 جلد 1 گے کہ میں بھوکا ہوں تو کھانا کھلا دیں گے.(صحابہ کرام سوال کرنے سے بڑی نفرت کرتے تھے.مگر آج کل یہ بات بُری نہیں سمجھی جاتی ) لیکن وہ مطلب بتا کر آگے چلے گئے.پھر اسی آیت کو لے کر میں عمر کے پاس گیا انہوں نے بھی مطلب بتا دیا اور چل دیئے.ابوہریر کا بڑے غصہ ہو کر کہتے ہیں میں اس آیت کے معنی ان سے کچھ کم نہ جانتا تھا.میری غرض تو یہ تھی کہ کچھ کھلا دیں لیکن وہ اس بات کو نہ سمجھے.پھر میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا.آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے خود بخود ہی فرمایا ابو ہریرۃ ! تمہیں بھوک لگی ہوئی ہے.یہ ایک دودھ کا بھرا ہوا پیالہ ہے لو اور مسجد میں جس قدر بھو کے ہیں انہیں بھی بلا لاؤ.ابو ہریرہ کہتے ہیں مجھے یہ بات ناگوار تو گزری کیونکہ مجھے بڑی سخت بھوک لگی تھی.میں نے کہا کہ اگر مجھے ہی مل جاتا تو کچھ سیری ہو جاتی لیکن میں تعمیل ارشاد کے لئے گیا اور سب کو بلا لایا.میں نے سمجھا کہ آپ پہلے مجھے ہی پیالہ دیں گے میں اچھی طرح پی لوں گا.مگر جب وہ آدمی آئے تو آپ نے ایک کو کہا لو پیو.اس نے پیا.پھر دوسرے نے پھر تیسرے نے حتی کہ سات آدمی تھے ساتوں نے پیا.بعد میں آپ نے مجھے فرمایا کہ تم پیو.میں نے پیا.جب سیر ہو چکا تو آپ نے فرمایا پھر پیو.میں نے پیا.پھر آپ نے فرمایا پیو.میں نے کہا یا رسول اللہ ! اب تو نتھنوں سے باہر نکلنے لگا ہے.اُس وقت آپ نے پیالہ لے لیا اور سب کا بچا ہوا دودھ خود پیا 10.تو یہ حالت تھی.مگر خدا تعالیٰ کی اطاعت کا یہ نتیجہ نکلا کہ کسری کا وہ شاہی لباس جسے وہ دربار کے وقت پہنا کرتا تھا جب مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو اس میں سے ایک رومال ابو ہریرہ کے حصہ میں آیا.انہوں نے اس میں تھوکا اور کہا واہ ابو ہریرہ ! تجھ پر ایک وہ وقت تھا جب کہ تو بھوک کے مارے گرا کرتا تھا اور لوگ جوتیاں مارا کرتے تھے.ایک یہ وقت ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تھوکتا ہے 11.مجھے ایک فرانسیسی مؤرخ کی ایک بات پڑھ کر بڑا لطف آیا.وہ اسلامی تاریخ لکھتے لکھتے لکھتا ہے کہ اے ناظرین! ذرا غور تو کرو مجھے اس بات میں بڑا مزا آ رہا ہے
سيرة النبي علي 358 جلد 1 کہ سر اور پاؤں سے ننگے، پیٹ سے خالی ، اکثر ان پڑھ، ایک کچی مسجد کے اندر بیٹھے وئے جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی ہے کیا بات کر رہے ہیں.کہتے ہیں کہ قیصر کے مقابلہ کے لئے کسے بھیجا جائے.کسری کو کس طرح تباہ کیا جائے.میں تو حیران ہوں کہ یہ لوگ بیٹھے ہوئے کہاں اور کس حالت میں ہیں لیکن باتیں کیا کرتے ہیں.اور جب یہ باتیں کر کے اٹھتے ہیں تو سب کو بھگا دیتے ہیں.“ ( الفضل 22 اگست 1915ء) 1: الا نشراح: 4،3 2: المائدة: 74 3: البقرة : 62 4: الانعام:2 5: النساء : 49 ترمذی ابواب المناقب باب قول ابن جزء مارأيت أحدا أكثر تبسما حديث نمبر 3641 صفحہ 830 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 7: الانشراح: 2 تا 7 8:السيرة النبوية فى فتح البارى جزثانى صفحہ 361 مطبوعہ کو یت 2001ء 9: الانشراح: 8، 9 10 : بخاری كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبى الله واصحابه صفحه 1120 حدیث نمبر 6452 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 11 بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة صفحه 1261 حدیث نمبر 7324 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 359 جلد 1 سب سے زیادہ معزز انسان حضرت مصلح موعود نے 20 اگست 1915 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا:.دین کی وجہ سے جو عزت ملی وہ آنحضرت عالیہ سے زیادہ کسی کو نہیں ملی اور نہ مل سکتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں آپ کی نسبت فرماتا ہے اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ـ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ 1 ہم نے تجھے کوثر عنایت فرمائی ہے.یعنی ہر ایک چیز کی کثرت اور ہر ایک چیز میں وسعت دی ہے.چنانچہ کوئی چیز بھی لے لو نہریں ہی جاری نظر آتی ہیں.جنت میں جو حوض کوثر ہوگا وہ تو علیحدہ رہا یہاں بھی نہریں جاری ہیں اور ہر چیز کی کثرت ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے وہ عزت دی جو دنیا میں کسی کو حاصل نہ ہوئی.پہلی بڑی عزت تو آپ کو وہ دی جس میں دیگر انبیاء بھی آپ کے شریک نہیں اور وہ یہ کہ سب انبیاء ایک ایک قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کو ساری دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا اور آپ کو ساری دنیا کا بادشاہ کر دیا گیا.کرشن اور رام چندر کی تعلیم ہندوستان کیلئے تھی.زرتشت کی تعلیم ایران کیلئے تھی.حضرت موسی سے لے کر حضرت مسیح تک گل انبیاء کی تعلیم بنی اسرائیل کیلئے تھی لیکن آنحضرت ﷺ پر خدا تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ ساری دنیا کا بادشاہ بنا دیا اور کوئی علاقہ آپ کی حکومت سے باہر نہ رکھا.خواہ ایشیا ہو یا افریقہ، خواہ یورپ ہو یا امریکہ، خواہ جزائر کے رہنے والے ہوں یا پہاڑوں کے، خواہ میدانوں میں رہنے والے ہوں یا جنگلوں میں ، خواہ گاؤں ، بستیوں میں رہنے والے ہوں یا شہروں میں تمام کے اوپر آپ کی اطاعت فرض کر کے یہ قرار دے دیا کہ آپ کی
سيرة النبي علي 360 جلد 1 اطاعت کا جوا اٹھائے بغیر کسی کیلئے نجات کا دروازہ نہیں کھلا.تو اتنی بڑی حکومت آپ کو عطا ہوئی.پھر آپ کے کلام کو وہ اثر بخشا کہ آپ کی باتوں کوسن کر جنہوں نے ہدایت پائی تھی ان کی شان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بڑھایا کہ کسی نبی کی صحبت یافتہ جماعت ان سے مقابلہ نہیں کر سکتی.قرآن شریف میں جن نبیوں کا ذکر ہے ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سب سے بڑے ہیں.ان سے پہلے نبیوں کی امتوں کا حال تو ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی مفصل تاریخ ہے جس سے یہ پتہ لگ سکے کہ حضرت نوح حضرت ابراہیم وغیرہ انبیائو کی امتیں کیسی تھیں.مگر موسیٰ علیہ السلام کی امت کا حال معلوم ہوتا ہے جو تاریخوں میں بھی پایا جاتا ہے اور قرآن کریم نے بھی کھول کر بتا دیا ہے.قرآن کریم نے تو اس لئے بتایا ہے کہ آنحضرت ﷺ ان کے مثیل تھے.ان دونوں انبیاء کی امتوں کا حال دیکھیں تو بہت بڑا فرق نظر آتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت تو وہ ہے جو ایک اتنے بڑے نبی کے عظیم الشان نشان دیکھ چکی ہے.انہوں نے فرعون کو غرق ہوتے دیکھا، جنگلوں اور بیابانوں میں خدا تعالیٰ کی نصرت اور مددکو شامل حال پایا لیکن پھر بھی یہ حال ہے کہ ایک جگہ لڑائی کے لئے حکم ہوا تو قَالُوا يَمُوْسَى إِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ 2 کہتے ہیں اے موسیٰ ! آپ اور آپ کا رب جا کر ان سے لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.جب وہ وہاں سے چلے جائیں گے تب ہم داخل ہوں گے.یہ اس قوم کا حال ہے جس نے بڑے بڑے معجزے دیکھے، بہت مدت نبی کی صحبت میں رہی.لیکن آنحضرت ﷺ کی جماعت کا حال سنئے.جب آپ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں سے آپ نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر مدینہ سے باہر جنگ ہو تو تم اس میں لڑنے کے پابند نہیں لیکن اگر مدینہ کے اندر ہو تو اس کے روکنے میں مدد دینا تمہارا فرض ہوگا.اس معاہدہ میں عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے.لیکن جب ایک دفعہ جنگ کا موقع آیا اور یہود نے بدعہدی
سيرة النبي علي 361 جلد 1 کر کے اندر فساد مچا دیا تو مسلمانوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے لڑیں گے اور دشمن پہلے ہم کو قتل کرے گا پھر کہیں آپ تک پہنچنے پائے گا 3.یہ اس قوم کا حال ہے جو بہت قلیل عرصہ یعنی صرف ڈیڑھ دو سال تک آپ کی صحبت میں رہی مگر باوجود اس کے اس کا ایمان اتنا ترقی کر گیا.لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت جو قریباً بیس سال ان کی صحبت میں رہی اور جس نے بڑے بڑے نشانات دیکھے انہیں جب لڑنے کیلئے کہا گیا اور دشمن کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہ تھی تو اس نے جواب دیا کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑئیے.آنحضرت ﷺ کی صحبت میں ایک قلیل عرصہ رہنے والی جماعت کا یہ حال ہے کہ اس کا مقابلہ ایک خطرناک گروہ سے ہو جاتا ہے جو یوں تو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں تھا لیکن مقابلہ کیلئے جو آئے وہ بھی بہت زیادہ تھے با وجود اس کے وہ آنحضرت ﷺ کو کہتے ہیں کہ ہم آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے.آپ تک اُس وقت تک کوئی دشمن نہیں پہنچ سکتا جب تک ہم سب کو مار نہ لے.پھر مردوں ہی میں یہ جوش نہیں بلکہ لڑکوں اور بچوں میں بھی یہی جوش ہے.چودہ پندرہ سال کے لڑکوں میں وہ جرات اور دلیری پائی جاتی تھی جو اس زمانہ میں بڑے بڑے جوانوں میں نہیں.اب اگر اس عمر کے لڑکوں کو نماز کیلئے کہا جائے تو والدین کہہ دیتے ہیں ابھی بچے ہیں.مگر آنحضرت ﷺ کی زبان میں وہ اثر تھا کہ دنیا کی وہ قوم جو بچے کہلاتی ہے ان میں وہ روحانیت اور جوش تھا کہ آج کل کے بڑے سے بڑے بہادروں میں نہیں ہے.بدر کی جنگ کا واقعہ ہے.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں اس لڑائی میں میرے پہلو بہ پہلو دولڑ کے تھے.میں نے خیال کیا کہ آج کی لڑائی بے مزا ہی رہے گی ( کیونکہ لڑنے میں اسی وقت مزا آتا ہے جبکہ دونوں پہلوؤں میں بھی بہادر لڑ رہے ہوں ) میرے دل میں یہ خیال پیدا ہی ہوا تھا کہ ایک نے مجھ سے پوچھا چچا ! ابوجہل جو رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا اور بڑی بھاری مخالفت کرتا ہے کہاں ہے؟ مجھے بتاؤ تا میں اسے قتل کروں.یہ بڑے بہادر تھے کہتے ہیں میرے دل میں یہ
سيرة النبي علي 362 جلد 1 خیال بھی نہیں تھا جو اس لڑکے نے ظاہر کیا.پھر دوسرے لڑکے نے یہی سوال کیا.میں حیران رہ گیا.ابوجہل فوج کا کمانڈر اور قلب لشکر میں کھڑا تھا.اس کے اردگرد بڑے بہادر اور زور آور آدمی لڑ رہے تھے.میں نے اشارہ کر کے بتایا اور اشارہ کیا ہی تھا کہ دونوں لڑکے بجلی کی طرح کوند کر اس پر جا پڑے اور راستے کے لوگوں کو چیرتے ہوئے اس تک پہنچ گئے.گو ایک کا ہاتھ کٹ گیا مگر دونوں نے جا کر ابوجہل کو گرالیا 4.یہ بچوں کا حال تھا.عورتوں کا تو اس سے بھی عجیب تھا.دنیا میں ماتم عورتوں سے ہی چلا ہے کیونکہ یہ کمزور اور ضعیف دل ہوتی ہیں اور کسی صدمہ اور غم سے جلد ہی گھبرا جاتی ہیں.مگر آنحضرت ہی کی صحبت میں اور ہی نظارہ دیکھنے میں آتا ہے.اُحد کی جنگ میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.جب اس لڑائی سے لشکر واپس آرہا تھا تو مدینہ کی عورتیں مدینہ سے باہر دیکھنے کیلئے نکل آئیں.ایک عورت نے ایک سپاہی سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟ چونکہ آپ بخیریت واپس تشریف لا رہے تھے اور سپاہی اس طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اس بات کا تو کوئی جواب نہ دیا اور اس عورت سے کہا کہ تیرا خاوند مارا گیا ہے.اس نے کہا میں نے تم سے یہ پوچھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ تیرا باپ بھی مارا گیا ہے (چونکہ اس سپاہی کا دل آنحضرت مے کی طرف سے بے فکر تھا اس لئے وہ صلى الله وہی جواب دیتا جو اس کے نزدیک اس عورت کیلئے ضروری تھا) عورت نے کہا میں نے تو یہ پوچھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا تیرا بھائی بھی مارا گیا ہے.اس نے کہا میں تم سے یہ نہیں پوچھتی، مجھے یہ بتاؤ کہ آنحضرت کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا آپ تو خیریت سے ہیں.عورت نے کہا کہ اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو اور کسی کی کیا پرواہ ہے 5.جب ایک اعلیٰ درجہ کی چیز محفوظ ہے تو اس پر ادنی درجہ کی چیزوں کے قربان ہو جانے کا کیا رنج.
سيرة النبي علي 363 جلد 1 یہ ایک عورت کا گردہ ہے.اس کے مقابلہ میں آج کل کے لوگ جو بڑے صوفی بنتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ان کی عورتوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی چھوٹا بچہ مرجائے تو شور مچادیتی ہیں.مگر اس کا خاوند باپ بھائی مارا جاتا ہے اور وہ کہتی ہے کہ اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو کوئی پرواہ نہیں.تو آنحضرت ﷺ کی ایسی تاثیر تھی کہ جس نے دلوں کو بدل دیا تھا اور ایسا کر دیا تھا کہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی.موت ان لوگوں کیلئے کوئی حقیقت نہ رکھتی تھی.اسی طرح ان کے اخلاق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کی بھی کوئی نظیر نہیں.تعلیم ایسی اعلیٰ کہ بے مثل.غرضیکہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو عزت سے تعلق رکھتی ہو اور آنحضرت ﷺ کو نہ ملی ہو.اور پھر ایسی کوئی چیز بھی نہیں کہ کوئی نبی بھی اس کا مقابلہ کر سکے.تو آنحضرت یہ اس قدر عزت والے انسان ہیں.اس کے متعلق تم نے کبھی اپنے نفس میں غور کیا ہے کہ آپ کو کس طرح یہ عزت ملی.کیا اس کیلئے آپ نے بڑی بڑی کوششیں کیں.منصوبے باندھے، تدبیریں کیں یا اس کیلئے لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتے تھے.آپ کے بڑے بڑے دشمن گزرے ہیں جنہوں نے آپ کے سارے کام کو فریب اور منصوبہ قرار دینے میں بڑا زور مارا ہے.کیونکہ اس کی بجائے وہ یہی اقرار کرتے ہیں کہ یہ شخص سب سے زیادہ دنیا کی عزت سے بھاگنے والا نظر آتا ہے.لیکن باوجود اس کے آپ اوپر ہی اوپر بڑھتے جاتے تھے.تو آپ کی تمام عزت کا راز تدبیروں ، کوششوں اور منصوبوں میں نہ تھا بلکہ اس میں تھا کہ آپ جس قدر دنیا سے دور بھاگتے تھے اتنے ہی بڑھائے جاتے تھے.آپ جس طرح دینی عزت میں تمام انسانوں سے ممتاز ہیں اسی طرح دنیوی عزت میں بھی ہیں.لیکن چونکہ اس میں جھگڑا ہے اس لئے میں اسے نظر انداز کر دیتا ہوں.ورنہ دنیاوی لحاظ سے بھی آپ کی وہ شان وشوکت ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن جس قدر آپ بڑے تھے آپ کی عبادات ، افعال اور معاملات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی قدر دنیا سے نفرت کرنے
سيرة النبي علي والے تھے.“ 1: الكوثر : 42 2: المائدة: 25 364 جلد 1 الفضل 29 اگست 1915 ء ) 3 بخارى كتاب المغازى باب قصة غزوة بدر صفحه 668 حدیث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4:بخاری کتاب المغازى باب فضل من شهد بدرا صفحه 673 حدیث نمبر 3988 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5: السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثانی صفحه 880 زیر عنوان شان المرأة الدينارية مطبوعہ دمشق 2005ء
سيرة النبي علي 365 صلى الله رسول کریم عیہ کے اسمائے گرامی جلد 1 حضرت مصلح موعود نے 27 ،28، 30 دسمبر 1915 ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں جو خطابات ارشاد فرمائے وہ اکتوبر 1916ء میں انوارِ خلافت“ کے نام سے شائع ہوئے.اس مجموعہ خطابات میں آپ نے آنحضور ﷺ کے اسمائے گرامی پر مختلف پیرایوں میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.و آنحضرت ﷺ کو بھی کفار گالیاں دیتے تو آپ فرماتے کہ میرا نام محمد ہے جس کے معنی ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا پھر مجھے کس طرح گالی لگ سکتی ہے.اسی طرح عرب کے کفار جب آپ کو گالی دیتے تو اُس وقت آنحضرت ﷺ کا نام محمد نہ لیتے بلکہ مدتم کہتے.اس کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے کہ اگر یہ لوگ میرا نام محمد لے کر گالیاں دیں تو مجھے گالی لگ ہی نہیں سکتی کیونکہ جسے خدا پاک ٹھہرائے کون ہے جو اس کی نسبت کچھ کہہ سکے اور اگر مذقم کہہ کر گالیاں دیتے ہیں تو دیتے جائیں یہ میرا نام ہی نہیں.کفار عرب اہل زبان تھے اس لئے وہ اتنی سمجھ رکھتے تھے کہ محمد نام لے کر ہم گالی نہیں دے سکتے لیکن یہ چونکہ عربی نہیں جانتے اس لئے یہ گالی دیتے ہیں کہ تم محمودی ہو.ہم کہتے ہیں خدا تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے کہ ہم محمودی ہیں کیونکہ یہ تو رسول کریم ﷺ کا وہ مقام ہے صلى الله جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا 1 - اگر ہمارا رسول کریم ﷺ سے اس عظیم الشان درجہ کے ذریعہ سے تعلق قائم ہو جسے صلى الله اللہ تعالیٰ نے انعام عظیم کے طور پر آپ کے لئے وعدہ فرمایا ہے تو ہمارے لئے اس سے زیادہ فخر اور کیا ہوسکتا ہے.“ (انوار خلافت صفحہ 16)
سيرة النبي علي 366 جلد 1 انجیل میں آپ کا نام محمد آیا ہے پھر ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ صلى الله زور دیا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا نام احمد تھا اور دوسری طرف یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ انجیل میں آنحضرت ﷺ کا نام محمد آیا ہے.جبکہ انجیل میں آپ کا نام محمد آیا ہے تو پھر اِسْمُهُ أَحْمَدُ والی پیشگوئی آپ پر چسپاں کرنا گویا آپ کی تکذیب کرنا ہے کیونکہ انجیل تو صریح محمد نام سے آپ کی خبر دیتی ہے اور اس پیشگوئی میں کسی احمد نام رسول کی خبر دی گئی ہے.تو کیا صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ پیشگوئی اور ہے اور یہ اور ؟ اور کیا اس پیشگوئی کو آپ پر چسپاں کرنے والا قرآن کریم پر غلط بیانی کا الزام نہیں لگا تا کہ انجیل میں تو محمد نام لکھا تھا لیکن قرآن کریم احمد نام بتاتا ہے؟ ایسا شخص ذرا غور تو کرے کہ اس کی یہ حرکت اسے کس خطرناک مقام پر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی بھی تکذیب کر دیتا ہے.جس انجیل میں آنحضرت ﷺ کو محمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ برنباس کی انجیل ہے اور نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالوی اپنی تفسیر فتح البیان کی جلد 9 صفحہ 335 میں اِسْمُهُ أَحْمَد والی پیشگوئی کے نیچے لکھتے ہیں کہ برنباس کی انجیل میں جو خبر دی گئی ہے اس کا ایک فقرہ یہ ہے لکن هَذِهِ الْإِمَانَةَ وَ الْإِسْتِهْزَاءَ تَبْقِيَان إِلى أَنْ يَجِيءَ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ یعنی حضرت مسیح نے فرمایا کہ میری یہ اہانت اور استہزاء باقی رہیں گے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ تشریف لائیں.یہ حوالہ ہمارے موجودہ اختلافات سے پہلے کا ہے اور نواب صدیق حسن خان صاحب کی قلم سے نکلا ہے.پس یہ حوالہ نہایت معتبر ہے به نسبت ان حوالہ جات کے جو اب ہم کو مد نظر رکھ کر گھڑے جاتے ہیں اور اس حوالہ سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا نام انجیل میں محمد آیا ہے.پس جبکہ اگر کوئی نام رسول کریم ﷺ کا انجیل میں آیا بھی ہے تو وہ محمد نام ہے تو پھر اس آیت کو خلاف منشاء آیت آپ پر چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے اور کیا اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیں
سيرة النبي علي 367 جلد 1 کی جاتی بلکہ خدا تعالیٰ پر الزام نہیں دیا جاتا کہ اول تو انجیل میں اور نام سے خبر دی گئی تھی لیکن قرآن کریم نے وہ نام ہی بدل دیا.دوم یہ کہ وہ علامتیں بتائیں جو آنحضرت فارقلیط پر چسپاں نہیں ہوتیں.ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک اور رنگ بھی اختیار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انجیل میں فارقلیط کی جو خبر دی گئی ہے اس سے اِسْمُهُ أَحْمَدُ کی پیشگوئی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فارقلیط سے احمد نام ثابت ہوتا ہے اور جب کہ تم اِسْمُهُ اَحْمَدُ کی پیشگوئی رسول کریم ﷺ پر چسپاں نہیں کرتے تو فارقلیا کی پیشگوئی آپ پر چسپاں نہ ہوگی.اور وہ بھی مسیح موعود پر چسپاں ہوگی.اور اگر ایسا ہوگا تو آنحضرت ﷺ کے متعلق انجیل میں کونسی پیشگوئی رہ جائے گی.سواس کا جواب یہ ہے کہ فارقلیط کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ کے متعلق ہی ہے اور ہمارے نزدیک آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.لیکن ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اگر فارقلیط کے معنی احمد نہ کئے جائیں تو یہ پیشگوئی آنحضرت علی چسپاں نہیں ہوتی بلکہ ہمارے نزدیک بہر حال یہ پیشگوئی آنحضرت ﷺ پر چسپاں ہوتی ہے اور جو لوگ فارقلیط کے معنی احمد کر کے اس پیشگوئی کا مصداق رسول کریم میے کو بناتے ہیں تو وہ اپنا پہلو کمزور بناتے ہیں کیونکہ احمد ترجمہ لفظ پیر یکلیو طاس کا کیا جاتا ہے حالانکہ موجودہ یونانی نسخوں میں لفظ پیر یکل طاس کا ہے.پس جبکہ وہ لفظ جس سے احمد کے معنی نکالے جاتے ہیں موجودہ انا جیل میں ہے ہی نہیں اور پہلے زمانہ کے متعلق بحث ہے کہ آیا ایسا تھا یا نہیں تو ایسے لفظ پر استدلال کی بنیا د جبکہ اور شواہد اس کے ساتھ نہ ہوں نہایت کمزور بات ہے.اور صرف اس قدر کہہ دینا کافی نہیں کہ چونکہ انجیل میں تحریف ہوئی ہے اس لئے اس میں یہی لفظ ہوگا جو بعض لوگوں نے خیال کیا ہے کیونکہ اس طرح تو جو شخص چاہے انجیل کی ایک آیت لے کر کہہ سکتا ہے کہ یہ یوں نہیں یوں ہے اور اس کی دلیل وہ یہ دے دے کہ چونکہ انجیلوں میں تحریف ہوئی ہے اس لئے مان
سيرة النبي علي 368 جلد 1 لو کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہی صحیح ہے.تحریف کا ہونا اور بات ہے اور کسی خاص جگہ تحریف ہونا اور بات ہے.جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کس جگہ تحریف ہوئی ہے اپنے پاس سے ایک نئی بات بنا کر انجیل میں داخل نہیں کر سکتے اور نہیں کہہ سکتے کہ اصل میں یہ تھا.اور ایسا کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں کیونکہ فارقلیط عبرانی لفظ ہے اور یہ لفظ مرکب ہے فارق اور لیط سے.فارق کے معنی بھگانے والا اور لیط کے معنی شیطان یا صلى الله جھوٹ کے ہیں اور ان معنوں کے رو سے آنحضرت عہ ہی اس پیشگوئی کے مصداق بنتے ہیں کیونکہ آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے روحانی ہتھیاروں سے شیطان کو بھگایا اور جھوٹ کا قلع قمع کیا اور بلند آواز سے دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی کی کہ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.پس ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم خواہ مخواہ ایک یونانی ترجمہ پر جو خود زیر بحث ہے اپنی دلیل کی بنا رکھیں.اصل لفظ فارقلیط ہے اور اس کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کا نام احمد ہو یا نہ ہو آپ اس پیشگوئی کے مصداق بنتے ہیں بلکہ موجودہ ترجمہ یونانی میں جو لفظ پیر بکلیطاس ہے اور جس کا ترجمہ مختلف محققین نے تشفی دہندہ معلم مالک یا پاک روح کے کئے ہیں اگر اس کو بھی مان لیا جائے تو ہمارا کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت مسیح کے بعد کون انسان دنیا کے لئے تشفی دہندہ آیا ہے یا کس نے يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ كا دعوی کیا ہے یا کس کو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے بیعت لینے کا حکم دیا ہے جو سنت کہ اس سے پہلے کے انبیاء میں بھی معلوم نہیں ہوتی اور بیعت کے معنی بیچ دینے کے ہوتے ہیں.پس وہ مالک بھی ہوا بلکہ آگے اس کے غلام بھی مالک ہو گئے.پھر وہ کون شخص ہے جو سر سے لے کر پیر تک پاک ہی پاک تھا اور جس کو اللہ تعالی نے کل جہان کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا؟ ظاہر ہے کہ ایسا شخص ایک ہی تھا اور صرف اسی نے ایسا ہونے کا دعوی بھی کیا یعنی ہمارے آنحضرت علﷺ فِدَاهُ بِى وَأُمِّی ہی وہ شخص تھے جن کو یہ سب باتیں حاصل تھیں اور قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی طرف مبعوث.صلى الله
سيرة النبي علي 369 جلد 1 ہوئے تا کہ فارقلیط کی اس شرط کو پورا کریں کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ رہے گی.اور کون سا نبی ہے جس پر ایمان لانا اور اس کے حکموں کو ماننا قیامت تک واجب رہے گا سوائے ہمارے آنحضرت کے.غرض اِسْمُهُ اَحْمَدُ کے ساتھ فارقلیط والی پیشگوئی کا کوئی تعلق نہیں اور یہ پیشگوئی بہر حال رسول کریم میے کے متعلق ہے خواہ اس کے معنی احمد کے مطابق ہوں یا اس کے غیر ہوں.اور اگر اس کے معنی احمد کے مطابق بھی فرض کر لئے جائیں تو کیا صلى الله رسول کریم ﷺ اپنی صفات میں احمد نہ تھے؟ کیا کوئی اس کا انکار کرتا ہے؟ بلکہ انجیل میں فارقلیط کا نام آنا ہی دلالت کرتا ہے کہ یہاں صفت مراد ہے کیونکہ ناموں کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ہاں صفات کا ترجمہ کیا جاتا ہے.پس اگر اس پیشگوئی میں تسلیم کیا جائے کہ آپ کی صفت احمدیت کی طرف اشارہ ہے تو یہ کیونکر معلوم ہوتا ہے کہ فارقلیط والی پیشگوئی میں اِسْمُهُ اَحْمَدُ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے.ان دونوں میں کوئی تعلق دلائل سے ثابت نہیں کہ ہم ان دونوں پیشگوئیوں کو ایک ہی شخص کے حق میں سمجھنے کے لئے مجبور ہوں.شاید بعض لوگ میرے مقابلہ میں بخاری کی حدیث پیش کریں.عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمْ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ وَ أَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَيَّ وَ أَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ 3.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے کئی نام ہیں.میرا نام محمد ہے، میرا نام احمد ہے، میرا نام ماحی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹائے گا، میرا نام حاشر ہے کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے.اور میرا نام عاقب ہے اور عاقب کے معنی ہیں وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.غیر مبائعین کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نام احمد تھا مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسا ایک آریہ
سيرة النبي علي 370 جلد 1 کہے کہ قرآن میں چونکہ خدا کی نسبت مکر کرنے والا آیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا خدا مکار ہے.چونکہ آریہ نہیں جانتے کہ مکر کا لفظ اگر اردو میں استعمال ہو تو برے معنی لئے جاتے ہیں اور عربی میں برے معنوں میں نہیں آتا اس لئے وہ اس کو قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں.حالانکہ عربی میں مکر کے معنی ہیں تدبیر کرنا اور چونکہ قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لئے مکر کے وہی معنی کرنے چاہئیں جو عربی زبان میں مستعمل ہوتے ہیں نہ کہ اردو کے معنی.یہی بات یہاں ہے.ان لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ اس حدیث میں لفظ اسماء کا آیا ہے.اردو میں چونکہ اسم نام کو ہی کہتے ہیں اس لئے انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے یہ سب نام ہیں حالانکہ عربی میں اسم بمعنی صفت بھی اور اسم بمعنی نام بھی آتا ہے.انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب اسم صلى اللهم کے دو معنی ہیں تو ان دو معنوں میں سے یہاں کون سے لگائے جائیں.قرآن کریم میں 4 اسم بمعنی صفات کے آیا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى یعنی سب اچھے نام خدا تعالیٰ کے ہیں لیکن یہ بات ثابت ہے کہ اسم ذات تو اللہ تعالیٰ کا ایک ہی ہے یعنی اللہ.باقی تمام صفاتی نام ہیں نہ کہ ذاتی.پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اسم بمعنی صفت بھی آتا ہے بلکہ قرآن کریم میں تو صفات الہیہ کا لفظ ہی نہیں ملتا.سب صفات کو اسماء ہی کہا گیا ہے اور جبکہ اسم بمعنی صفت بھی استعمال ہوتا ہے تو حدیث کے معنی کرنے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں رہتی.اس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی صفات گنوائی ہیں کہ میری اتنی صفات ہیں.میں محمد ہوں یعنی خدا نے میری تعریف کی ہے میں احمد ہوں کہ مجھ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی تعریف کسی اور شخص نے بیان نہیں کی.میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کفر مٹانا ہے.میں حاشر ہوں کہ میرے ذریعہ سے ایک حشر برپا ہوگا.میں عاقب ہوں کہ میرے بعد اور کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں.اور اگر اس حدیث کے ماتحت رسول کریم علیہ کا نام احمد رکھا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کا نام ماحی بھی تھا اور حاشر بھی تھا اور عاقب بھی تھا.
سيرة النبي علي 371 جلد 1 حالانکہ سب مسلمان تیرہ سو سال سے متواتر اس بات کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ ماحی اور عاقب اور حاشر آپ کی صفات تھیں نام نہ تھے.پس جبکہ ایک ہی لفظ پانچوں ناموں کے لئے آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک جگہ اس کے معنی نام لئے جائیں اور ایک دوسرے لفظ کے متعلق اسی لفظ کے معنی صفت لئے جائیں.غرض اس جگہ اسماء سے مراد نام لئے جائیں تو پانچوں نام قرار دینے پڑیں گے جو کہ بالبداہت غلط ہے.اور اگر صفت لئے جائیں تو اس حدیث سے اسی قدر ثابت ہوگا کہ آنحضرت عیہ کی صفت احمد بھی تھی اور اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں بلکہ انکار کرنے والا مومن ہی نہیں ہوسکتا.ممکن ہے کہ کوئی شخص اس حدیث سے یہ استدلال کرے کہ رسول کریم ﷺ نے محمد واحمد کی تو تشریح نہیں کی اور دوسرے تینوں ناموں کی تشریح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں آپ کے نام ہیں اور دوسری تین آپ کی صفات ہیں کیونکہ تبھی ان کے معنی کر دیے.لیکن یہ استدلال بھی درست نہیں کیونکہ اول تو یہ دلیل ہی غلط ہے کہ جس کی تشریح نہ کی جائے وہ ضرور نام ہوتا ہے.بلکہ تشریح صرف اس کی کی جاتی ہے جس کی نسبت خیال ہو کہ لوگ اس کا مطلب نہیں سمجھیں گے.دوسرے ایک اور روایت اس دلیل کو بھی رد کر دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ سَمَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ أَسْمَاءً مِنْهَا مَا حَفِظْنَا فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ وَّ اَحْمَدُ وَالْمُقَفِّى وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ.....وَنَبِيُّ الله التَّوْبَةِ وَ نَبِيُّ الْمَلْحَمَةِ 5 یعنی رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے اپنے کئی نام بتائے جن میں سے بعض ہم کو بھول گئے اور بعض یاد رہ گئے.آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمد ہے، میرا نام احمد ہے، میرا نام مقفی ہے، حاشر ہے، نبی الرحمة، نبي التوبة، اور نبی الملحمة ہے.اس حدیث میں مقفی اور نبی الرحمۃ اور نبى التوبۃ اور نبی الملحمۃ کی تشریح نہیں کی لیکن یہ سب صفات ہیں.آج تک کسی نے بھی ان کو نام تسلیم نہیں کیا اور نہ یہ نام ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ کے نام تو آپ
سيرة النبي علي 372 جلد 1 کے بزرگوں نے رکھنے تھے اور عرب لوگ نبوت کے قائل ہی نہ تھے وہ آپ کا نام نبي الرحمة کیونکر رکھ سکتے تھے.غرض یہ حدیث آپ ہی پکار پکار کر کہہ رہی ہے صلى الله کہ اس میں رسول کریم ﷺ کے نام نہیں بلکہ آپ کی صفات بیان کی گئی ہیں.شاید اس جگہ کوئی شخص یہ بھی سوال کر بیٹھے کہ اوپر کے بیان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا نام محمد بھی نہ تھا کیونکہ محمد بھی اس حدیث میں دوسری صفات کے ساتھ آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث میں محمد بطور صفت ہی بیان ہوا ہے بطور نام نہیں.ہاں قرآن کریم اور دوسری احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کا نام محمد تھا اس حدیث میں سب صفات ہی بیان ہوئی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا کہ میرے یہ یہ نام ہیں.اب ظاہر ہے کہ نام ہونا تو کوئی تعریف نہیں ہوتی.کیا رسول کریم ﷺ جیسا انسان صرف نام پر فخر کرے گا؟ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ.بات یہی ہے کہ آپ نے اس جگہ اپنی صفات ہی بیان فرمائی ہیں اور خدا تعالیٰ کا احسان بتایا ہے کہ اس نے مجھے محمد بنایا ہے، احمد بنایا ہے اور دیگر صفات حسنہ سے متصف کیا ہے.اور محمد بھی اس جگہ بطور صفت کے استعمال ہوا ہے نہ بطور نام کے اور اس میں آپ نے بتایا ہے کہ میرا صرف نام ہی محمد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے کاموں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی میں محمد ہوں جس کی خدا نے تعریف کی ہے.فرشتوں نے پا کی بیان کی ہے.میں وہ ہوں جو سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی تعریف پاکی کرنے والا ہوں.میں وہ ہوں جو دنیا سے کفر اور ضلالت کو مٹانے والا ہوں.میں وہ ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جائیں گے اور میں وہ ہوں جو سب سے آخری شریعت لانے والا نبی ہوں.اگر اس حدیث میں صرف اتنا ہی آتا کہ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں تو کوئی کہ سکتا تھا کہ یہ آپ کے نام ہیں صفات نہیں ہیں.لیکن جب انہی کے ساتھ ماحی، حاشر اور عاقب بھی آ گیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب آپ کی صفات
سيرة النبي علي 373 جلد 1 ہیں نام نہیں.اس لئے غیر مبائعین کا یہ استدلال بھی غلط ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ کا احمد نام اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے ورنہ اگر صرف محمد نام پر نَعُوذُ بِاللهِ آپ نے فخر کیا تھا تو اس نام کے تو اور بہت سے انسان دنیا میں موجود ہیں.کیا وہ سب اپنے ناموں پر فخر کر سکتے ہیں اور کیا ان کا یہ فخر بجا ہوگا ؟ اگر نہیں تو کیوں اس حدیث کے ایسے معنی کئے جاتے ہیں جن میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اور نَعُوذُ بِاللهِ آپ پر الزام آتا ہے کہ آپ اپنے ناموں پر فخر کیا کرتے تھے.یہ حرکت تو ایک معمولی انسان بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ خدا کا نبی اور پھر تمام نبیوں کا سردار ایسی بات کرے.ہمارے مخالف ذرا اتنا تو سوچیں کہ وہ ہماری مخالفت میں رسول کریم ﷺ پر بھی حملہ کرنے لگ گئے ہیں.حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں کہ منم محمد واحمد کہ مجتبی باشد.کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بھی یہ سب نام تھے.احمد نام گو اختلافی ہے لیکن محمد تو آپ کا نام ہرگز نہ تھا.پھر کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھ میں صفت محمد یت ہے اور یہی بات قابل فخر ہو بھی سکتی ہے.صرف نام محمد آپ کے لئے باعث فخر کیونکر ہوسکتا تھا اور حضرت مسیح موعود کا نام محمد تو تھا بھی نہیں کہ یہاں وہ دھوکا لگ سکے.“ 66 (انوار خلافت صفحہ 24 تا 30) 1: بنی اسرائیل: 80 2: بنی اسرائیل: 82 3: بخارى كتاب المناقب باب ماجاء فی اسماء رسول الله الا الله صفحه 594 حدیث نمبر 3532 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4:الحشر: 25 :5 مسند احمد بن حنبل صفحہ 1413 حدیث نمبر 19754 مطبوعہ لبنان 2004 ء
سيرة النبي علي 374 جلد 1 امتی نبی کا آنا رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیں بلکہ عزت کا باعث ہے انوار خلافت (فرمودہ دسمبر 1915ء) میں حضرت مصلح موعود اس بات کو بیان صلى الله کرتے ہوئے کہ رسول کریم ﷺ کی امت میں نبی آنا آپ عہ کے لئے باعث ہتک نہیں بلکہ عزت کا باعث ہے.فرماتے ہیں:.”ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ آنحضرت مے کے بعد کسی نبی کا آنا خواہ وہ آپ کے فیض سے ہی کیوں نہ نبی بنے آپ کی ہتک ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے کیونکہ نبوت تو خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جو وہ اپنے الله بندوں پر نازل کیا کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ وہ رسول ہیں جو سارے جہان کے لئے رحمت ہو کر آئے تھے.لیکن آپ کے آنے پر کہا جاتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ نے وہ سارے فیض بند کر دیئے ہیں جو آپ سے پہلے اپنے بندوں پر کیا کرتا تھا.آپ سے پہلے تو نبی پر نبی بھیجتا تھا.جو اس کی طرف گرتا اسے اٹھاتا تھا.جو اس کی طرف جھکتا اسے پکڑتا تھا.جو اس کے آگے گڑ گڑاتا اسے چپ کراتا تھا.اور جو اس کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتا اسے نبی بناتا تھا.لیکن (نعوذ باللہ ) اب ایسا بخیل ہو گیا ہے کہ خواہ کوئی کتنا ہی روئے چلائے اور کتنے ہی اعمال صالحہ کرے اس نے کہہ دیا ہے کہ اب میں کسی کو منہ نہیں لگاؤں گا اور اگر لگاؤں گا تو ادنی درجہ پر رکھوں گا پورا نبی کبھی نہیں بناؤں گا.
سيرة النبي علي 375 جلد 1 اب بتاؤ آنحضرت ﷺ کی یہ ہتک ہے کہ آپ کی امت سے کوئی نبی نہیں بن سکتا یا یہ کہ آپ کے فیض سے آپ کی امت میں سے بھی نبی بن سکتا ہے.بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایک انسان جو تمام جہان کے لئے رحمت اور فضل ہو کر آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس نے آ کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی تمام راہوں کو بند کر دیا ہے اور آئندہ نبوت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.لیکن میں کہتا ہوں نبوت رحمت ہے یا زحمت؟ اگر رحمت ہے تو آنحضرت ﷺ کے بعد بند کیوں ہو گئی؟ آپ کے بعد تو زیادہ ہونی چاہئے تھی آپ تو ایک بہت بڑے درجہ کے نبی تھے اس لئے آپ کے بعد جو نبی آتا وہ بھی بڑے درجہ کا ہونا چاہئے تھا نہ یہ کہ کوئی نبی ہی نہ بن سکتا.دیکھو! دنیا میں مدر سے ہوتے ہیں.لیکن کسی مدرسہ والے یہ اعلان نہیں کرتے کہ ہمارے مدرسہ میں اپنے لڑکوں کو بھیجو کیونکہ ہمارے مدرسہ کے استاد ایسے لائق ہیں کہ ان کے پڑھائے ہوئے لڑکے ادنی درجہ پر ہی پاس ہوتے ہیں.لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شان بلند ثابت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ چونکہ آپ کے شاگر د ادنی درجہ پر پاس ہوتے ہیں اس لئے آپ کی بڑی شان ہے.لیکن آنحضرت ﷺ کی شان پر یہ ایک ایسا زبردست حملہ ہے کہ جو ابھی تک کسی عیسائی یا آریہ نے بھی نہیں کیا.کیونکہ وہ در حقیقت آپ سے دشمنی رکھتے ہیں اور آپ کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھتے ہیں.لیکن یہ آپ کو رحمت سمجھ کر پھر یہ درجہ دیتے ہیں اور وہ جو دوسروں کے درجہ کو بڑھانے آیا تھا اس کے درجہ کو گھٹاتے ہیں.مگر ہم رسول کریم ہے کی اس ہتک کو ایک منٹ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی کہیں گے تو لوگ ہماری مخالفت کریں گے اور ہمیں دکھ دیں گے.میں کہتا ہوں حضرت مرزا صاحب کو نبی نہ کہنے میں آنحضرت ﷺ کی سخت ہتک ہے جس کو ہم کسی مخالفت کی وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے.وہ تو مخالفت سے ڈراتے ہیں لیکن اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور
سيرة النبي ع 376 جلد 1 الله مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے کہوں گا تو جھوٹا ہے کذاب ہے.آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آ سکتے ہیں.کیونکہ آنحضرت ﷺ کی شان ہی ایسی ہے کہ آپ کے ذریعہ سے نبوت حاصل ہوسکتی ہے.آپ نے رحمۃ للعالمین ہو کر رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں اس لئے اب ایک انسان ایسا نبی ہو سکتا ہے جو کئی پہلے انبیاء سے بھی بڑا ہو مگر اس صورت الله میں کہ آنحضرت ﷺ کا غلام ہو.ہمارے لئے کتنی عزت کی بات ہے کہ قیامت کے دن تمام نبی اپنی اپنی امتوں کو لے کر کھڑے ہوں گے اور ہم کہیں گے کہ ہمارے نبی کی وہ شان ہے کہ آپ کا غلام ہی ہمارا نبی ہے.لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی مسیح آئے گا جو بنی اسرائیل کے لئے آیا تھا.اگر وہی آیا تو یہ قیامت کے دن کیا کہیں گے کہ ہمارے نبی آنحضرت ﷺ کی وہ شان ہے کہ آپ کی امت کی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل کا ہی ایک نبی آیا تھا.اس بات کو سوچو اور غور کرو کہ آنحضرت ﷺ کی ہتک تم کر رہے ہو یا ہم ؟ آنحضرت ﷺ کی اسی میں عزت ہے کہ آپ کی امت میں سے کسی کو نبی کا ملے نہ کہ بنی اسرائیل کا کوئی نبی آپ کی امت کی اصلاح کے لئے آئے.درجه الله حضرت مسیح موعود نے اسی لئے فرمایا کہ: اس صلى الله ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو سے بہتر غلام احمد ہے یعنی ابن مریم کا تم کیوں انتظار کر رہے ہو مجھے دیکھو کہ میں احمد کا غلام ہو کر اس سے بڑھ کر ہوں.کوئی کہے کہ اس شعر میں مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں غلام احمد ہوں اس لئے آپ کا یہی نام ہوا.میں کہتا ہوں کون مسلمان ہے جو اپنے آپ کو غلام احمد نہیں کہتا.ہر ایک سچا مسلمان اور مومن یہی کہے گا کہ میں احمد کا غلام ہوں.اسی طرح حضرت صاحب نے فرمایا ہے.چنانچہ آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: کرامت گر چه بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد
سيرة النبي علي 377 جلد 1 صلى الله اب اس شعر سے کوئی احمق ہی یہ نتیجہ نکالے گا کہ جس شخص کا نام غلام محمد ہو وہ کرامت صلى الله دکھا سکتا ہے.پس پہلے شعر میں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ایک غلام مسیح سے بہتر ہوسکتا ہے.غرض کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے تو اس طرح آپ کی تعریف ہوتی ہے لیکن یہ عجیب تعریف ہے.مثلاً ایک مدرس کی یوں تعریف کی جائے کہ اس کے پڑھائے ہوئے لڑکے کبھی پاس نہیں ہوتے بلکہ فیل ہی ہوتے ہیں اور اگر پاس بھی ہوتے ہیں تو بہت ادنی درجہ پر.کیا یہ اس کی تعریف ہوگی اور اس سے اس کی عزت بڑھے گی؟ یہ تو اس پر ایک بہت بڑا حملہ ہو گا.اسی طرح مسلمان کہتے ہیں کہ بے شک آنحضرت ﷺ تمام انبیاء کے سردار ہیں، تمام سے بلند درجہ رکھتے ہیں اور تمام سے کمالات میں بڑھے ہوئے ہیں لیکن اس کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ آپ کے شاگرد کبھی اعلیٰ درجہ نہیں پاتے اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی سخت ہتک کرتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ہم پر الزام دیتے ہیں کہ تم آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے ہو لیکن درحقیقت وہ آپ کی ہتک کر رہے ہیں.اور وہ جو رحمۃ للعالمین ہے اس کو عذاب للعالمین ثابت کرتے ہیں.ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی سچی عزت اور تعریف کرتے ہیں.اور ہم عیسائیوں کو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم علیہ کی وہ عزت ہے کہ اس کا غلام بھی تمہارے نبیوں سے بڑھ کر ہے.لیکن دوسرے لوگوں کو یہ فخر حاصل نہیں ہے.بھلا بتلاؤ ایک بادشاہ کا درجہ بڑا ہوتا ہے یا شہنشاہ کا.ہر ایک جانتا ہے کہ شہنشاہ کا درجہ بڑا ہوتا ہے.تو رسول اللہ ﷺ کی نسبت خیال کرو کہ ہم آپ کی یہ شان بیان کرتے ہیں کہ آپ کی غلامی میں نبی آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ دوسرے تمام نبی بادشاہ کی مانند ہیں اور آنحضرت ﷺ شہنشاہ.کیونکہ آپ کے فیض سے نبی بن سکتے ہیں.یہی تو آپ کی عزت ہے جو خدا تعالیٰ نے خاتم النبیین کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے.صلى الله
سيرة النبي علي 378 جلد 1 آپ انبیاء کی مہر ہیں جس پر آپ کی مہر لگی وہی نبی ہوگا.“ انوار خلافت صفحه 63 تا 67)
سيرة النبي علي 379 جلد 1 ابو طالب کو آخری وقت تبلیغ انوارِ خلافت (فرمودہ دسمبر 1915ء) میں حضرت مصلح موعود نے رسول کریم کی ابوطالب کو تبلیغ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.حدیث میں آیا ہے کہ جب ابوطالب جو آنحضرت علی کے چا تھے فوت ہونے لگے ( بعض نے تو ان کو مسلمان لکھا ہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ وہ مسلمان نہ تھے ) تو آنحضرت ﷺ نے کہا کہ چچا! ایک دفعہ لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کہہ دوتا کہ میں آپ کی شفاعت خدا تعالیٰ کے حضور کر سکوں.لیکن انہوں نے کہا کہ کیا کروں جو کچھ تم کہتے ہو اس کو دل تو مانتا ہے مگر زبان پر اس لئے نہیں لا سکتا کہ لوگ کہیں گے مرنے کے وقت ڈر گیا ہے.اسی حالت میں وہ فوت ہو گئے 1.حضرت علیؓ کے چونکہ والد تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ سے ان کے متعلق کچھ فیض حاصل کریں.مگر ساتھ ہی ڈرتے تھے کہ یہ چونکہ مسلمان نہیں ہوئے اس لئے رسول کریم یہ ناراض نہ ہو جائیں.اس لئے انہوں نے اپنے والد کے مرنے کی خبر رسول کریم ﷺ کو ان الفاظ میں پہنچائی کہ یا رسول اللہ ! آپ کا گمراہ بڑھا چا مرگیا ہے.آپ نے فرمایا جاؤ اور جا کر ان کو غسل دو لیکن آپ نے ان کا جنازہ نہ پڑھا.“ (انوار خلافت صفحہ 92،91) :1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 472 مطبوعہ دمشق 2005 الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 380 جلد 1 رسول کریم ﷺ کے استغفار کی حقیقت انوار خلافت (فرمودہ دسمبر 1915 ء) میں حضرت مصلح موعود نے سورۃ النصر کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت رسول کریم ﷺ کے استغفار کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.وہ دوسرا حصہ جس کو میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے متعلق میں نے ایک مختصر سی سورۃ پڑھی ہے جو گو عبارت کے لحاظ سے بہت مختصر ہے لیکن مضامین کے لحاظ سے بہت وسیع باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت اور معرفت کے بڑے بڑے دریا اس کے اندر بہہ رہے ہیں.نیز اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ بات بتائی ہے کہ اگر وہ اس پر غور و فکر اور عمل درآمد کرتے تو ان پر وہ ہلاکت اور تباہی کبھی نہ آتی جو آج آئی ہوئی ہے.اور نہ مسلمان پراگندہ ہوتے ، نہ ان کی حکومتیں جاتیں، نہ اس قدر کشت و خون کی نوبت پہنچتی اور نہ ان میں تفرقہ پڑتا.اور اگر پڑتا تو اتنا جلدی اور اس عمدگی سے زائل ہو جاتا کہ اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا.لیکن افسوس کہ ان میں وہ تفرقہ پڑا جو باوجود گھٹانے کے بڑھا اور باوجود دبانے کے اٹھا اور باوجود مٹانے کے ابھرا اور آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ آج مسلمانوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فرقے موجود ہیں کیونکہ وہ بند جس نے مسلمانوں کو باندھا ہوا تھا کاٹا گیا اور اس کے جوڑنے والا کوئی پیدا نہ ہوا بلکہ دن بدن وہ زیادہ سے زیادہ ہی ٹوٹتا گیا حتی کہ تیرہ سو سال کے دراز عرصہ میں جب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے پاس سے ایک شخص کو اس لئے بھیجا کہ وہ آکر اس کو جوڑے.اس فرستادہ خدا سے پہلے کے
سيرة النبي علي 381 جلد 1 تمام مولویوں، گدی نشینوں ، بزرگوں اور اولیاؤں نے بڑی بڑی کوششیں کیں مگر اکارت گئیں اور اسلام ایک نقطہ پر نہ آیا، پر نہ آیا.اور کس طرح آ سکتا تھا جبکہ اس طریق سے نہ لایا جاتا جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا تھا یعنی کسی مامور من اللہ کے ذریعے سے.غرض اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو ایک آنے والے فتنہ پر آگاہ فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا علاج بھی بتایا ہے.اس سورۃ میں آنحضرت ﷺ کو تاکید کی گئی ہے کہ آپ استغفار کریں.چونکہ استغفار کے معنی عام طور پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ہوتے ہیں اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے آیا تھا، گمراہ اور بے دین لوگوں کو باخدا بنانے آیا تھا، گناہوں اور بدیوں میں گرفتار شدہ انسانوں کو پاک وصاف کرنے آیا تھا اور جس کا درجہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 1 سب لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے کو ہو تو میری اتباع کرو اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ تم خدا تعالیٰ کے محبوب اور پیارے بن جاؤ گے.پھر وہ جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 2 کہ اس رسول میں تمہارے لئے پورا پورا نمونہ ہے.اگر تم خدا کے حضور مقبول بننا چاہتے ہو، اگر تم خدا سے تعلق پیدا کرنا پسند کرتے ہو تو اس کا آسان طریق یہ ہے کہ اس رسول کے اقوال، افعال اور حرکات وسکنات کی پیروی کرو.کیا اس قسم کا انسان تھا کہ وہ بھی گناہ کرتا تھا اور اسے بھی استغفار کرنے کی ضرورت تھی ؟ جس رسول کی یہ شان ہو کہ اس کا ہر ایک قول اور فعل خدا کو پسندیدہ ہوکس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی نسبت یہ کہا جائے کہ تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ ! اگر وہ بھی گناہ گار ہو سکتا ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کی اتباع کی دوسروں کو کیوں ہدایت فرمائی ہے.ہم اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ ہر ایک قسم کی بدی اور گناہ سے پاک
سيرة النبي علي 382 جلد 1 تھے.یہی تو وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو! اگر تمہیں مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے اور میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے کہ تم اس رسول کی اتباع کر دور نہ ممکن نہیں کہ تم میرے قرب کی کوئی راہ پاسکو.پس آنحضرت ﷺ کی طرف کسی گناہ کا منسوب کرنا تعلیم قرآن کے بالکل خلاف ہے.مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پھر آپ کے متعلق یہ کیوں آیا ہے کہ تو استغفار کر استغفار کر ! یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ہے کہ انہی الفاظ کو مدنظر رکھ کر عیسائی صاحبان بھی مسلمانوں پر ہمیشہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا کیونکہ قرآن اس کو حکم دیتا ہے کہ تو استغفار کر لیکن ہمارے مسیح کی نسبت قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا.پس معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ کرتا تھا اور بعض جگہ تو تمہارے رسول کی نسبت ذَنُب کا لفظ بھی آیا ہے تو معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا اور ہمارا مسیح گناہوں سے پاک.اس سے ثابت ہو گیا کہ مسیح کا درجہ اس سے بہت بلند ہے.اس اعتراض کے جواب میں مسلمانوں کو بڑی دقت پیش آئی ہے اور گو انہوں نے جواب دینے کی بڑی کوشش کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود سے پہلے اس کا جواب دینے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے.یہی وجہ تھی کہ ہزار ہا مسلمانوں کی اولا د عیسائی ہوگئی.اور تو اور سیدوں کی اولادوں نے بھی بپتسمہ لینا پسند کر لیا اور وہ اب سٹیجوں پر کھڑے ہو کر آنحضرت ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں.غرض ان الفاظ کی وجہ سے نادانوں نے دھوکا کھایا اور بجائے اس کے کہ عیسائیوں کو جواب دیتے خود عیسائی بن گئے.قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ آنحضرت ﷺ کی نسبت ان معنوں کے لحاظ سے استعمال نہیں کیا گیا جن معنوں میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے.آپ کے متعلق اور معنوں میں استعمال ہوا ہے یہ بات اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت ذنب کا لفظ قرآن شریف میں تین جگہ آیا ہے.اول سورۃ مؤمن میں جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ
سيرة النبي علي 383 جلد 1 بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ 3 دوم سورة محمد میں یوں آیا ہے فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَاللهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَنكُمْ 4 سوم سورۃ فتح میں آیا ہے اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا - لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبُكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا 5.اسی طرح بعض جگہ پر استغفار کا لفظ آپ کی نسبت استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسی سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے.ان سب جگہوں پر اگر ہم غور کریں تو ایک ایسی عجیب بات معلوم ہوتی ہے جو سارے اعتراضوں کو حل کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ ان سب جگہوں میں آنحضرت ﷺ کے دشمنوں کے ہلاک ہونے اور آپ کی فتح کا ذکر ہے.پس اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی فتح اور آپ کے دشمنوں کی مغلوبیت کے ساتھ گناہ کا کیا تعلق ہے.اور یہی بات ہے جس کے بیان کرنے کے لئے میں نے یہ سورۃ پڑھی ہے اور جس سے ہمیں اقوام کے تنزل و ترقی کے قواعد کا علم ہوتا ہے.بعض لوگوں نے ان آیات کے یہ معنی کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو یہ فرماتا ہے کہ اب تمہاری فتح ہوگئی اور تمہارے دشمن مغلوب ہو گئے.اس لئے تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے پس تو تو بہ اور استغفار کر کیونکہ تیری موت کے دن قریب آگئے ہیں.اور گو یہ استدلال درست ہے لیکن ان معنوں پر بھی وہ اعتراض قائم رہتا ہے کہ آپ نے کوئی گناہ کئے ہی ہیں اسی لئے تو بہ کا حکم ہوتا ہے.میں نے جب ان آیات پر غور کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایک عجیب بات سمجھائی اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور مفتوح قوم کے ساتھ فاتح قوم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان میں جو بدیاں اور برائیاں ہوتی ہیں وہ فاتح قوم میں بھی آنی شروع ہو جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ فاتح قوم جن ملکوں سے گزرتی ہے ان کے عیش وعشرت کے جذبات اپنے اندر لیتی جاتی ہے.اور چونکہ عظیم الشان فتوحات کے
سيرة النبي علي 384 جلد 1 بعد اس قدر آبادی کے ساتھ فاتح قوم کا تعلق ہوتا ہے جو فاتح سے بھی تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کو فوراً تعلیم دینا اور اپنی سطح پر لانا مشکل ہوتا ہے.اور جب فاتح قوم کے افراد مفتوح قوم میں ملتے ہیں تو بجائے اس کو نفع پہنچانے کے خود اس کے بداثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ رفتہ رفتہ نہایت خطرناک ہوتا ہے.جب اسلام کی فتوحات کا زمانہ آیا تو اسلام کے لئے بھی یہی مشکل در پیش تھی گو اسلام ایک نبی کے ماتحت ترقی کر رہا تھا لیکن نبی با وجود نبی ہونے کے پھر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان کے تمام کام خواہ کسی حد تک وسیع ہوں محدود ہی ہوتے ہیں.ایک استاد خواہ کتنا ہی لائق ہو اور ایک وقت میں تھیں چالیس نہیں بلکہ سو سوا سولڑکوں تک کو بھی پڑھا سکتا ہولیکن اگر اس کے پاس ہزار دو ہزارلر کے لے آئیں تو نہیں پڑھا سکے گا.رسول بھی استاد ہی ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کی نسبت آیا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ؟ کہ اس رسول کا یہ کام ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی آیتیں لوگوں کو سنائے ، کتاب کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے.غرض نبی ایک استاد ہوتا ہے اس کا کام تعلیم دینا ہوتا ہے اس لئے وہ تھوڑے لوگوں کو ہی دے سکتا ہے کیونکہ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو سبق دینا اور پھر یاد بھی کروا دینا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا.پس جب کسی کے سامنے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی جماعت سبق لینے کے لئے کھڑی ہو تو ضرور ہوگا کہ اس کی تعلیم میں نقص رہ جائے اور پوری طرح علم نہ حاصل کر سکے.یا یہ ہوگا کہ بعض تو پڑھ جائیں گے اور بعض کی تعلیم ناقص رہ جائے گی اور بعض بالکل جاہل کے جاہل ہی رہ جائیں گے اور کچھ تعلیم نہ حاصل کر سکیں گے.پس آنحضرت علی کو جب فتوحات پر فتوحات ہونی شروع ہوئیں اور بے شمار لوگ آپ کے پاس آنے لگے تو ان کے دل میں جو بڑا ہی پاک دل تھا یہ گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ ان تھوڑے سے لوگوں کو تو میں اچھی طرح تعلیم دے لیتا، قرآن سکھا سکتا تھا ( چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺے بڑی پابندی صلى الله
سيرة النبي علي 385 جلد 1 سے صحابہ کو قرآن سکھاتے تھے) لیکن یہ جو لاکھوں انسان اسلام میں داخل ہورہے ہیں ان کو میں کس طرح تعلیم دوں گا.اور مجھ میں جو بوجہ بشریت کے یہ کمزوری ہے کہ اتنے کثیر لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا اس کا کیا علاج ہوگا.اس کا جواب سورۃ نصر میں خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ اس میں شک نہیں کہ جب فتح ہوگی اور نئے نئے لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے تو ان میں بہت سی کمزوریاں ہوں گی.اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ سب کے سب تجھ سے تعلیم نہیں پاسکتے.مگر ان کو تعلیم دلانے کا یہ علاج ہے کہ تو خدا سے دعا مانگے کہ اے خدا! مجھ میں بشریت کے لحاظ سے یہ کمزوری ہے کہ اتنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا تو میری اس کمزوری کو ڈھانپ دے اور وہ اس طرح کہ ان سب لوگوں کو خود ہی تعلیم دے دے اور خود ہی ان کو پاک کردے.پس یہی وہ بات ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ کو استغفار کرنے کا ارشاد ہوا ہے.ذنب کے معنی ایک زائد چیز کے ہیں اور غفر ڈھانکنے کو کہتے ہیں.اس سے خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو یہ بات سکھائی ہے کہ تم یہ کہو کہ میں اس قدر لوگوں کو کچھ نہیں سکھا سکتا پس آپ ہی ان کو سکھائیے اور میری اس انسانی کمزوری کو ڈھانپ دیجئے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدائی زمانہ میں ایک ایک سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھا کر بیعت لیتے تھے پھر ترقی ہوئی تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے لگے.پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں تو پگڑیاں پھیلا کر بیعت ہوتی تھی اور اب بھی اسی طرح ہوتی ہے.تو ایک آدمی ہر طرف نہیں پہنچ سکتا.آنحضرت مے کے زمانہ میں کوئی مسلمان یمن میں تھا ، کوئی شام میں، کوئی عراق میں تھا، کوئی بحرین میں اور کوئی نجد میں تھا.اس لئے نہ آنحضرت ﷺ ہر ایک کے پاس پہنچ سکتے تھے اور نہ وہ آپ تک آسکتے تھے.جب حالت یہ تھی تو ضرور تھا کہ آپ کی تعلیم میں نقص رہ جاتا.لیکن آپ کا دل کبھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا اس لئے آپ کو حکم ہوا کہ خدا سے دعا کرو کہ اے خدا! اب یہ کام میرے بس کا نہیں اس لئے تو ہی اسے پورا کر کیونکہ شاگرد صلى الله
سيرة النبي علي 386 جلد 1 بہت ہیں اور میں اکیلا مدرس ہوں مجھ سے ان کی تعلیم کا پورا ہونا مشکل ہے.آج کل تو سکولوں میں یہ قاعدہ ہو گیا ہے کہ ایک استاد کے پاس چالیس یا پچاس سے زیادہ لڑکے نہ ہوں اور اس سے زیادہ لڑکوں کو جماعت میں داخل نہ کیا جائے.اور اگر کیا جائے تو ایک اور استاد رکھا جائے.کیونکہ افسرانِ تعلیم جانتے ہیں کہ اگر ایک جماعت میں بہت زیادہ لڑکے ہوں اور ایک اکیلا استاد پڑھانے والا ہو تو لڑکوں کی تعلیم ناقص رہ جاتی ہے.چنانچہ جن سکولوں میں بہت سے لڑکے ہوتے ہیں اور ایک استاد وہاں کے لڑکوں کی تعلیمی حالت بہت کمزور ہوتی ہے کیونکہ زیادہ لڑکوں کی وجہ سے استاد ہر ایک کی طرف پوری پوری توجہ نہیں کر سکتا.تو چونکہ فتح کے وقت لاکھوں انسان مسلمان ہو کر اسلام میں داخل ہوتے تھے اس لئے آنحضرت ﷺ کو یہ خطرہ دامن گیر ہوا کہ مسلمان تعلیم میں ناقص نہ رہ جائیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے متعلق یہ گر بتا دیا کہ خدا کے آگے گر جاؤ اور اسی کو کہو کہ آپ ہی اس کام کو سنبھال لے میری طاقت سے تو اس کا سنبھالنا باہر ہے.پس آنحضرت مہ کے متعلق استغفار کا لفظ اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اسلام میں کثرت سے داخل ہونے والے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ خدا تعالیٰ سے دعا کریں اور التجا کریں کہ اب لوگوں کے کثرت سے آنے سے جو بدنتائج نکلیں گے ان سے آپ ہی بچائیے اور ان کو خود ہی دور کر دیجئے.اور آپ کا لاکھوں انسانوں کو ایک ہی وقت میں پوری تعلیم نہ دے سکنا کوئی گناہ نہیں بلکہ بشریت کا تقاضا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی نسبت ذنب کا لفظ تو استعمال ہوا ہے لیکن جناح کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوا.گناہ اسے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور قوت کے باوجود اس کے حکم کی فرمانبرداری نہ کی جائے.اور وہ بات جس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقت ہی نہ دی جائے اس کا نہ کرسکنا گناہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بشری کمزوری کہلاتی ہے.مثلاً ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے
سيرة النبي علي 387 جلد 1 تو یہ اس کا گناہ نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے جو بشریت کی وجہ سے اسے لاحق ہے.تو رسول کریم ﷺ کا یہ گناہ نہ تھا کہ آپ اس قدر زیادہ لوگوں کو پڑھا نہ سکتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو ایسا بنایا تھا اور آپ کے ساتھ یہ ایسی بات لگی ہوئی تھی جو آپ کی طاقت سے بالا تھی.اس لئے آپ کو بتایا گیا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کثرت طلباء کی وجہ سے جو نقص تعلیم میں ہونا تھا اس کے دور کرنے کے لئے دعا کریں.پس ان تمام آیات سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں رسول کریم ﷺ کے گناہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ ایک بشری کمزوری کے بدنتائج سے بچنے کی آپ کو راہ بتائی گئی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ کے وقت کثرت سے لوگ ایمان لے صلى الله آئے مگر ابتلاؤں اور فتنوں کے وقت ان کا ایمان خراب نہ ہوا اور وہ اس نعمت محروم نہ ہوئے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جولوگ ایمان لائے تھے آپ کے بعد گوان میں سے بھی کچھ مرتد ہو گئے مگر جھٹ پٹ ہی واپس آگئے اور ان فتنہ و فسادوں میں شامل نہ ہوئے جو اسلام کو تباہ کرنے کے لئے شریروں اور مفسدوں نے بر پاکئے تھے.چنانچہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جو بہت بڑا فساد ہوا اس میں عراق ، مصر ، کوفہ اور بصرہ کے لوگ تو شامل ہو گئے جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایمان لائے تھے لیکن یمن، حجاز اور نجد کے لوگ شامل نہ ہوئے.یہ وہ ملک تھے جو آنحضرت ﷺ کے وقت میں فتح ہوئے تھے.جانتے ہو اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ خفیہ منصوبے جو مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوئے ان میں وہ ممالک تو شامل ہو گئے جو آپ کی وفات کے بعد فتح ہوئے مگر وہ ملک شامل نہ ہوئے جو آپ کے زمانہ میں فتح ہوئے تھے؟ اس کی یہی وجہ ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان ملکوں کے لوگوں کی جو آپ کے زمانہ میں اسلام لائے تھے برائیاں اور بدیاں دور کر دی تھیں.لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ امیر معاویہ کا زور اور طاقت تھی کہ شام کے لوگ اس فتنہ میں شامل صلى الله نہ ہوئے.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بھی آنحضرت علی ہی کی کرامت تھی کہ وہ لوگ
سيرة النبي علي 388 جلد 1 حضرت عثمان کے خلاف نہیں اٹھے تھے.کیونکہ گو یہ ملک آپ کے زمانہ میں فتح نہ ہوا لیکن آپ نے اس پر بھی چڑھائی کی تھی جس کا ذکر قرآن شریف کی سورۃ تو بہ میں ان تین صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے جو اس سفر میں شامل نہ ہوئے تھے آیا ہے.پس شام کا اس فتنہ میں شامل نہ ہونا امیر معاویہ کی دانائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ الله وہاں اسلام کا پیج رسول کریم عملے کے وقت میں بویا گیا اور اس سرزمین میں آپ نے اپنا قدم مبارک ڈالا تھا.پس خدا تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں میں اس ملک کو بھی شامل کر لیا.اتنے بڑے فتنہ میں اس قدر صحابہ میں سے صرف تین صحابہ کے شامل ہونے کا پتہ لگتا ہے اور ان کی نسبت بھی ثابت ہے کہ صرف غلط فہمیوں کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے اور بعد میں تو بہ کر لی تھی.تو یہ رسول کریم ﷺ کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور نبی کو حاصل نہیں ہوئی.اس لئے جہاں آپ کی فتح کا ذکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی استغفار کا حکم بھی آیا ہے جو آپ کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے تھا کہ دیکھنا ہم آپ کو بہت بڑی فتح اور عزت دینی چاہتے ہیں اور بے شمار لوگوں کو آپ کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں.پس یا د رکھو جب تمہارے بہت سے شاگرد ہو جائیں تو تم خدا کے حضور گر جانا اور کہنا کہ الہی ! اب کام انسانی طاقت سے بڑھتا جاتا ہے آپ خود ہی ان نو واردوں کی اصلاح کر دیجئے.ہم آپ کی دعا قبول کریں گے اور ان کی اصلاح کر دی جائے گی اور ان کی کمزوریوں اور بدیوں کو دور کر کے ان کو پاک کر دیا جائے گا.لیکن ان سب باتوں کو ملانے سے جہاں ایک طرف یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے وہاں دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت ایک قوم ترقی کرتی اور کثرت سے پھیلتی ہے وہی زمانہ اس کے تنزل اور انحطاط کا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم کو خدا تعالیٰ نے فتح کے ساتھ ہی استغفار کا ارشاد فرمایا ہے.کیونکہ کسی قوم کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جو وقت ہوتا ہے وہی وقت اس کے تنزل کے اسباب کو بھی صلى الله
سيرة النبي علي 66 پیدا کرتا ہے.“ 1: آل عمران: 32 2: الاحزاب:22 3: المومن: 56 4:محمد: 20 5: الفتح : 2 ، 3 6: البقرة: 130 389 جلد 1 انوار خلافت صفحه 99 تا 107)
سيرة النبي علي 390 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع کے صحبت یافتہ انوار خلافت ( فرمودہ دسمبر 1915ء) میں حضرت مصلح موعود رسول کریم علی کے صحبت یافتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.صلى الله صلى الله ایک دفعہ رسول کریم ﷺہ تقریر فرمارہے تھے.آپ نے لوگوں کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.عبد اللہ بن مسعودؓ ایک گلی میں چلے آرہے تھے.آپ کی آواز انہوں نے وہاں ہی سنی اور وہیں بیٹھ گئے.کسی نے پوچھا آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں وہاں رسول کریم ے کی تقریر ہورہی ہے وہاں کیوں نہیں جاتے؟ انہوں نے کہا میرے کان میں رسول کریم ﷺ کی آواز آئی ہے کہ بیٹھ جاؤ پس میں یہیں بیٹھ گیا 1.پھر ان کے سامنے یہ نظارہ نہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی مجلس میں تین شخص آئے ایک کو آگے جگہ مل گئی وہ وہاں جا کر بیٹھ گیا، دوسرے کو آگے جگہ نہ ملی وہ جہاں کھڑا تھا وہیں بیٹھ گیا، تیسرے نے خیال کیا کہ یہاں آواز تو آتی نہیں پھر ٹھہرنے سے کیا فائدہ وہ واپس چلا گیا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک نے تمہاری مجلس میں قرب حاصل کرنے کے لئے کوشش اور محنت کی اور آگے ہو کر بیٹھ گیا خدا تعالیٰ نے بھی اسے قریب کیا.ایک اور آیا اس نے کہا اب مجلس میں آ گیا ہوں اگر اچھی جگہ نہیں ملی تو نہ سہی و ہیں بیٹھ گیا اور اس نے واپس جانا مناسب نہ سمجھا خدا نے بھی اس سے چشم پوشی کی.ایک اور آیا اسے جگہ نہ ملی اور وہ واپس پھر گیا خدا تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا 2.اس قسم کی باتیں نبیوں کی ہی صحبت میں رہ کر حاصل ہو سکتی ہیں.(انوار خلافت صفحہ 111،110) 1: ابوداؤد كتاب الصلوة باب الامام يكلم الرجل فى خطبته صفحه 165 حدیث نمبر 1091
سيرة النبي علي 391 جلد 1 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 2: بخارى كتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة صفحہ 16 حدیث نمبر 66 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 392 جلد 1 مدینہ کے یہود کے ساتھ برتاؤ انوار خلافت (فرمودہ دسمبر 1915ء) میں حضرت مصلح موعود رسول کریم ہے کے مدینہ کے یہود سے برتاؤ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی خدا نے یہود کو سزا دینے کے لئے ایک تدبیر فرمائی تھی جو یہ تھی کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے کفار سے معاہدہ کیا کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کوئی فساد نہ کیا جائے اور مدینہ کی حفاظت میں مل کر کام کریں لیکن باوجود اس معاہدہ کے وہ شرارتوں سے باز صلى الله نہ آتے.آنحضرت ﷺ ان کو معاف کر دیا کرتے.لیکن جب حالت بہت خطرناک ہوگئی اور رسول کریم ﷺ پر پتھر گرا کر قتل کرنے کا منصوبہ انہوں نے کیا اور جنگ احزاب کے وقت جبکہ مسلمانوں کی حالت سخت نازک ہو رہی تھی بر خلاف معاہدہ کے کفار سے مل کر مسلمانوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم ہوا.صلى لیکن جیسا کہ رسول کریم ﷺ کا طریق تھا آپ غالبا اس جنگ کے بعد بھی ان لوگوں سے نرمی کرتے.لیکن خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ انہیں سزا ہو اس لئے اس نے ایک تدبیر فرمائی.آنحضرت ﷺ نے جب ان یہود کو کہا کہ آؤ میں تمہاری شرارت کے متعلق فیصلہ کروں تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم تمہارا فیصلہ نہیں مانتے.آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ تم اس معاملہ میں کس کو منصف مقرر کرتے ہو؟ انہوں نے ایک آدمی کا نام لیا لیکن جس کا انہوں نے نام لیا تھا اسی نے ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ ان کے سب قابل جنگ مردوں کو قتل کر دیا جائے 1.اگر آنحضرت یہ فیصلہ کرتے تو آپ ضرور نرمی فرماتے
سيرة النبي علي 393 جلد 1 جیسا کہ اس قبیلہ کے دو بھائی قبیلوں سے نرم برتاؤ کر چکے تھے.لیکن خدا تعالیٰ چونکہ چاہتا تھا کہ انہیں ان کے اعمال کی سزا ملے اس لئے اس نے یہ تدبیر کر دی کہ انہی کی زبانی ایک شخص مقرر کروا کر انہیں سزا دلوا دی.تو اس مقصد کے لئے بھی کہ تمام دنیا ایک مذہب پر ہو جائے خدا تعالیٰ نے اسی طرح ایک تدبیر فرمائی ہے.“ (انوار خلافت صفحہ 160) 1: السيرة الحلبية الجزء الثالث زیر عنوان غزوة بنى قريظة صفحه 42،41 مطبوعہ بیروت لبنان $2012
سيرة النبي علي 394 جلد 1 رسول کریم علیہ کے اسماء گرامی عليسة انوار خلافت (فرمودہ دسمبر 1915ء) کے آخر میں حضرت مصلح موعو رسول کریم ﷺ کے اسماء گرامی پر پھر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.” میں نے جلسہ کے موقع پر اپنی ایک تقریر میں بتایا ہے کہ آنحضرت عالی فرماتے ہیں کہ میرے کئی نام ہیں.میرا نام محمد ہے کیونکہ میں سب انسانوں سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے حضور تعریف کیا گیا ہوں.میں احمد ہوں کہ مجھ سے بڑھ کر خدا کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں.میں حاشر ہوں کہ دنیا کو اس کی روحانی موت کے بعد پھر زندہ کروں گا.میں ماحی ہوں کہ دنیا کے کفر اور ضلالت کو مٹانے والا ہوں.میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں ہو سکتا.“ 66 انوار خلافت صفحہ 166) اسی مضمون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :.”دیکھو آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ان تمام صفات حسنہ سے جو انسانوں میں پائی جاتی ہیں متصف فرمایا ہے.اس لئے آپ ابراہیم بھی ہیں، نوح بھی ہیں، موسی“ بھی ہیں، عیسی بھی ہیں، اسماعیل بھی ہیں، اسحاق بھی ہیں اور تمام انبیاء کے جامع ہیں.اب بتاؤ آنحضرت عہ جب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے جامع تھے جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو آپ میں سب کے نام اکٹھے تھے یا نہیں؟ اگر نہیں تو یہ کہنا جھوٹ ہے کہ آپ سب نبیوں کے جامع تھے.لیکن اگر جامع تھے یعنی آدم کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ آدم تھے.اگر نوح کے کمالات آپ میں پائے
سيرة النبي علي 395 جلد 1 جاتے تھے تو آپ نوح تھے، اگر ابراہیم کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ ابراہیم تھے.پس اگر کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ آپ سب انبیاء کے جامع تھے اور سب انبیاء کی خوبیاں آپ میں تھیں تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نام بھی آپ کے نام تھے.جو اس بات سے انکار کرتا ہے گویا وہ آپ کے جامع کمالات انبیاء ہونے سے بھی انکار کرتا ہے.“ (انوار خلافت صفحہ 170)
سيرة النبي علي 396 جلد 1 سیرت کے متفرق پہلو جماعت احمد یہ دہلی نے 1916 ء کو جلسہ سالانہ منعقد کیا.اس جلسہ کے لئے حضرت مصلح موعود نے اسلام اور دیگر مذاہب“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر بھجوایا.جس میں معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ حسن سلوک اور برتاؤ کے متعلق اسلامی تعلیم کی حضرت رسول کریم ﷺ کی احادیث کی روشنی میں وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.دیگر رشتہ داروں کے ساتھ سلوک ان نہایت ہی قریبی رشتہ داروں کے علاوہ جن کے حقوق اوپر بیان ہوئے دیگر رشتہ داروں کو بھی اسلام نے فراموش نہیں کیا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ 1 یعنی جو تمہارے قریبی اور رشتہ دار ہیں ان کو ان کا حق ادا کرو.اس حکم کے ذریعہ نہ صرف رشتہ داروں کے ساتھ نیک تعلقات کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ حقدار ہیں کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور ان سے نیک سلوک کرنا گویا ان کا حق ادا کرنا ہے.حق کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رشتہ داروں کو بہت دفعہ ماں باپ یا خاوند کے نہ ہونے کی وجہ سے اولاد یا بیواؤں کی خبر گیری کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی گویا ایک قسم کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں کیونکہ ان کو وقت پر ماں باپ کا ہی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے فرمایا کہ جب رشتہ داروں کے اوپر یہ حق رکھا گیا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ایک دوسرے کی اولاد کی کفالت کریں تو ان کا حق ہے کہ ان کے ساتھ خاص
سيرة النبي علي 397 جلد 1 طور پر نیک سلوک کیا جائے.اس حکم کے علاوہ اور بھی بہت سے احکام ہیں جن میں رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم مے سے دریافت کیا کہ کوئی ایسا عمل مجھے بتائیں جس سے میں جنت کا صلى اللهم وارث ہو جاؤں.فرمایا کہ وہ عمل یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت کر اور اس کا شریک کسی کو نہ بنا اور نماز پڑھ اور زکوۃ دے اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کر2.ہمسایہ اور شریک سے نیک سلوک کا حکم قرابت داروں کے علاوہ جن کا تعلق انسان کے ساتھ خون کے ذریعہ سے ہوتا ہے ایک اور قسم کے بھی قریبی ہوتے ہیں جن کو بوجہ خونی رشتہ کے تعلق نہیں ہوتا لیکن قرب مکانی کے لحاظ سے وہ بھی قریبی ہوتے ہیں اس لئے اسلام نے ان کو بھی فراموش نہیں کیا.چنانچہ ان کے متعلق حکم دیا ہے کہ وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَا لَّا فَخُوْرَادٍ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو اور قریبیوں سے بھی احسان کا معاملہ کرو اور یتامیٰ اور مساکین سے اور ہمسایہ سے جو دیوار بدیوار رہتا ہے اور اس سے بھی جو فاصلہ پر ہے احسان کرو یعنی جس کا مکان ساتھ تو نہیں لیکن ایک محلہ میں یا ایک گاؤں میں رہتا ہے یا پاس کے گاؤں میں رہتا ہے اور اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو جو تمہاری تجارت میں شریک ہے یا ایک جگہ پر تمہارے ساتھ ملازم ہے یا تمہارا رفیق سفر ہے.یہ وہ تعلیم ہے جو ہمسایہ اور شریک کے متعلق کہ ایک بوجہ مکان کے پاس رہنے کے اور دوسرا بوجہ کسی کام میں اس کا ساتھی ہو جانے کے قریبیوں میں شامل ہو جاتا ہے اسلام نے دی الله ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے جبریل نے ہمسایہ سے نیک سلوک رکھنے کی.
سيرة النبي علي 398 جلد 1 اس قدر تاکید کی اور اتنی دفعہ کی کہ مجھے خیال ہو گیا کہ شاید ہمسایہ کو وارث قرار دے دیا جائے گا 4.اسی طرح ہم سفروں کے متعلق آپ نے فرمایا کہ جو شخص اونٹنی پر سوار ہو اور دوسرے آدمی کی جگہ خالی ہو تو چاہئے کہ کسی ہم سفر کو اپنے ساتھ سوار کر لے اور جو شخص کہ سفر پر ہو اور اس کے پاس کچھ زیادہ کھانا ہو وہ اپنے ہم سفر کو شریک کرے.ہم سفر کے علاوہ ایک مجلس میں بیٹھنے والوں کے متعلق بھی اسلام نے نیک سلوک کا حکم دیا ہے.چنانچہ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ 5 یعنی اے مومنو! جب تم کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہو اور کوئی اور آدمی آکر کہے کہ ذرا کھل جاؤ اور ہمیں بھی جگہ دو تو چاہئے کہ تم سمٹ کر جگہ دے کرو.خدا تعالیٰ تم کو اپنے قرب میں جگہ دے گا.اسی طرح ہم مجلس کی فیلنگز (Feelings) کا خیال رکھنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے حکم دیا ہے کہ دیا ج صلى الله جب ایک جگہ پر تین آدمی بیٹھے ہوں تو دومل کرسر گوشیاں نہ کیا کریں کیونکہ اس سے تیسرے کو تکلیف ہوتی ہے؟.بڑوں کے ساتھ چھوٹوں کا معاملہ اور علاوہ ان تفصیلی احکام کے ان تمام تعلقات کے متعلق جو اوپر چھوٹوں کے ساتھ بڑوں کا معاملہ بیان ہوئے ہیں ایک عام حکم بھی اسلام نے دیا ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمُ صَغِيرَنَا وَلَمْ يُؤَقِّرُ كَبِيرَ نَاحِ یعنی جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں.اسی مختصر مگر جامع فقرہ میں تمام ان تعلقات کی تشریح کر دی جو چھوٹوں اور بڑوں کے متعلق ہیں.مہمان کے ساتھ نیک سلوک جہاں اور متعلقین کے ساتھ اسلام نے نیک سلوک کا حکم دیا ہے وہاں مہمان کو بھی فراموش نہیں کیا.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مَنْ كَانَ يُؤْ مِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ
سيرة النبي علي 399 جلد 1 الْآخِرِ فَلْيُكْرِمُ ضَيْفَهُ 8 یعنی جو شخص اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اسے چاہئے 66 کہ اپنے مہمانوں کی عزت کرے.“ 1 الروم: 39 اسلام اور دیگر مذاہب صفحہ 66 تا 70 ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ 1956ء) 2 بخارى كتاب الزكوة باب وجوب الزكوة صفحه 255 حدیث نمبر 1397 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: النساء : 37 4:بخارى كتاب الادب باب الوصاية بالجار صفحه 1052 حدیث نمبر 6014 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5 المجادلة : 12 بخاری كتاب الاستيذان باب لا يتناجى اثنان دون الثالث صفحہ 1095 حدیث نمبر 6288 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فى رحمة الصبيان صفحه 448،447 حدیث نمبر 1919 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 8:ابوداؤد كتاب الاطعمة باب ماجاء في الضيافة صفحه 536 حدیث نمبر 3748 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 400 جلد 1 سب انسانوں سے ارفع مقام اور درود کی اہمیت حضرت مصلح موعود 28 جولائی 1916 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:." رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے سے بعد میں آنے والوں میں سے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ شان رکھنے والے ہیں ان میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا ہے.حضرت مسیح موعود اپنے موجودہ درجہ میں ہوں یا اس سے بھی بڑے درجہ میں تو بھی آپ آنحضرت علی کے خادم اور غلام ہی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا قرب اور درجہ آنحضرت ﷺ ہی کے طفیل ہے اور آپ ہی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے.میں نے بتایا ہے کہ حقیقی محبت استثناء کرتی ہے یعنی جس سے تعلق ہو اُس کو دوسروں سے بڑھ کر دکھاتی ہے.مگر ہم کو جس انسان سے اس زمانہ میں نور ملا ہے ہم اس کو مستثنیٰ نہیں کرتے اور عَلَی الاعلان کہتے ہیں کہ سب انسانوں کی نسبت آنحضرت ﷺ کا مقام اعلیٰ اور ارفع ہے اور آپ ایک ایسے مقام پر ہیں کہ گویا سب سے علیحدہ ہو کر ایک اکیلے نظر آ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کے ساتھ آپ کا نام بھی رکھ دیا ہے.ایسے انسان کی نسبت جو درود بھیج کر خدا تعالیٰ سے برکات چاہتا ہے خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آ کر اُس پر فضل کرنا شروع کر دیتی ہے.یہ بات احادیث سے ثابت ہے 1 ( وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہ نہیں بیان کر سکتا کہ جو طریق میں بیان کر رہا ہوں اس کو میں نے کس آیت اور کس حدیث سے استدلال کیا ہے مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ سب باتیں قرآن کریم اور احادیث سے لی گئی ہیں ) تو دعا
سيرة النبي علي 401 جلد 1 کے قبول ہونے کے ساتھ درود کا بڑا تعلق ہے.وہ انسان جو آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر دعا کرتا ہے اُس کی ہر ایک ایسے انسان سے بڑھ کر دعا قبول ہوتی ہے جو بغیر درود کے کرے.انعام دینے کا یہ بھی ایک طریق اور رنگ ہوتا ہے کہ اپنے پیارے اور محبوب کی وساطت اور وسیلہ سے دیا جائے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تمام انعامات کا وارث کرنے اور سب سے بڑا رتبہ عطا کرنے کے لئے اس طریق سے بھی کام لیا ہے کہ جو لوگ آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر دعا مانگیں گے اُن کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.دنیا میں کونسا انسان ہے جسے خدا تعالیٰ کی ضرورت نہیں.ہر ایک کو ہے اس لئے ہر ایک ہی اپنی مصیبت کے دور ہونے اور حاجت کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا اور جب دعا کرے گا تو اگر چہ وہ پہلے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کا عادی نہ ہوگا لیکن اپنی دعا کے قبول ہونے کے لئے درود بھیجے گا جو آنحضرت ﷺ کی ترقی درجات کا موجب ہوگا اور اس طرح اسے بھی انعام مل جائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کے لئے ایک بات یہ بھی بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر پھر دعا کی جائے اور یہ کوئی ناروا بات نہیں.یہ اسی طرح کی ہے کہ جو محبوب سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ بھی محب کا محبوب ہو ( الفضل 8 اگست 1916 ء ) جاتا ہے.66 1 ترمذى ابواب السفر باب ما ذكر فى الثناء على الله والصلوة على النبي الله صفحہ 154 حدیث نمبر 593 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 402 جلد 1 صلى الله لی جنگ احزاب اور رسول کریم ع کا کشف حضرت مصلح موعود 25 اگست 1916 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.جنگ احزاب کے موقع پر دشمنانِ اسلام بہت زیادہ تعداد میں جمع ہو کر حملہ آور ہوئے تھے یعنی اُن کا لشکر دس ہزار جوانوں پر مشتمل تھا 1.اتنا بڑ الشکر عرب میں اس قسم کی مقامی جنگوں میں پہلے کبھی جمع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ایسے چیدہ چیدہ لوگ کبھی اکٹھے ہوئے تھے لیکن یہ شکر خاص طور پر تیار کیا گیا تھا.گو یا ملک عرب نے اپنے تمام بہادر اُگل کر انہیں کہہ دیا تھا جاؤ جا کر اسلام کو ( نَعُوذُ بِاللهِ ) بیخ و بن اکھیڑ کر پھینک دو.تمام اقوام اور قبائل کے سردار اپنا اپنا لشکر لے کر آگئے تھے اور یہود جو مدینہ میں رہنے والے تھے اُن کے ساتھ انہوں نے یہ منصوبہ گانٹھ رکھا تھا کہ باہر سے ہم حملہ آور ہوں گے اور اندر سے تم مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا شروع کر دینا.اس خطر ناک حالت میں رسول کریم ﷺ نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم فرمایا 2.مسلمانوں کی تعداد منافقوں سمیت تین ہزار تھی اور اگر منافق نکال دیئے جائیں تو اور بھی کم ہو جاتی ہے لیکن کفار دس ہزار تھے اور چنے ہوئے تھے.اور یہ ایسا خطرناک موقع تھا کہ وہ منافق جن کی زبانیں مسلمانوں کے رعب کی وجہ سے بند تھیں اور جنہیں جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے ایک حرف بھی نکال سکیں وہ بھی تمسخر اور استہزاء کرنے لگ گئے حتی کہ صحابہ جب خندق کھود رہے تھے تو ایک سخت پتھر سامنے آ گیا.ہر چند اُس کے اُکھیٹر نے کے لئے زور لگایا گیا مگر وہ نہ اُکھڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی آپ آئے اور آکر کدال
سيرة النبي علي 403 جلد 1 سے اُس پتھر پر ضرب لگائی.اس سے ایک شعلہ نکلا.آپ نے کہا.اللَّهُ أَكْبَرُ صحابہ نے بھی یہی کہا.دوسری بار پھر ضرب لگائی پھر شعلہ نکلا.آپ نے کہا اللهُ أَكْبَرُ.صحابہ نے بھی یہی کہا.تیسری بار پھر اسی طرح ہوا.آپ نے کہا اللهُ اكْبَرُ.صحابہ نے بھی یہی کہا.تیسری دفعہ پتھر ٹوٹ گیا.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ نے اللهُ اكبر کیوں کہی تھی؟ آپ نے فرمایا تینوں بار ضرب لگانے پر شعلہ نکلتا رہا ہے اور ہر شعلہ میں مجھے ایک نظارہ دکھایا گیا ہے.پہلی دفعہ جو چمک ظاہر ہوئی اس میں خدا تعالیٰ نے مجھے یمن کا ملک دیا.اور دوسری بار ملک شام اور مغرب کو اور تیسری بار مشرق کو مجھے عطاء کیا 3.جب آپ نے یہ کشف سنایا تو منافقوں نے کہہ دیا کہ پاخانہ پھر نے کیلئے تو جگہ نہیں ملتی اور ملکوں کے فتح کرنے کی خوا ہیں آتی ہیں 4 تو ایسی نازک حالت ہو گئی تھی کہ منافقوں کو بھی ہنسی اور محول کرنے کی جرات پیدا ہو گئی تھی.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بچے اور پکے مسلمانوں نے کیا نظارہ دکھایا کہ وَلَمَّارَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا 5 کفار کا وہ بڑا فى عظیم الشان لشکر کہ جو تمام عرب کے چنے ہوئے انسانوں پر مشتمل تھا اس کی خبر اُن الله کو معلوم ہوئی.آنحضرت ﷺ کو خندق کھودنی اور کھدوانی پڑی اور مسلمانوں کی اُن کے مقابلہ میں بہت قلیل تعداد تھی تو اُس وقت صحابہ نے کہا کہ یہ لشکر تو وہی ہے جس کے متعلق خدا اور اُس کے رسول نے پہلے سے ہی وعدہ دیا ہوا ہے کہ ایک بڑا بھاری لشکر آئے گا اور ذلیل و خوار ہو کر واپس چلا جائے گا.‘ (الفضل 9 ستمبر 1916ء) 2،1: السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 8 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 3: السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 11 مطبوعه بيروت 2012 ء الطبعة الاولى :4 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 12 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الاولى 5: الاحزاب: 23
سيرة النبي علي 404 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ اور عہد کی پابندی حضرت مصلح موعود 29 ستمبر 1916 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.غرض اس آیت کو اگر نہ بھی لیا جائے تو بھی کفار سے امانتوں اور عہدوں کی پابندی کرنے کا حکم موجود ہے.پھر آنحضرت ﷺ کا حکم موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ کافر سے بھی بد عہدی کرنے کا حکم نہیں ہے.صلح حدیبیہ میں کفار سے ایک یہ بھی شرط ہوئی تھی کہ اگر تمہارا آدمی ہم میں آملے تو ہم اسے تمہیں واپس کو ٹا دیں گے اور اگر ہمارا آدمی تم میں جا ملے تو تم اسے اپنے پاس رکھ سکو گے.عہد میں یہ شرط لکھی جا چکی تھی اور ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ایک شخص ابو جندل نام جسے لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا اور جو بہت کچھ دکھ اٹھا چکا تھا رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آ کر اپنی حالت زار بیان کی اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں.یہ لوگ میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف دیتے ہیں.صحابہ نے بھی کہايَا رَسُولَ اللهِ! اسے ساتھ لے چلنا چاہئے یہ کفار کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھا چکا ہے.لیکن اس کے باپ نے آ کر کہا کہ اگر آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے تو یہ غداری ہوگی.صحابہ نے کہا کہ ابھی عہد نامہ پر دستخط نہیں ہوئے.اس نے کہا لکھا تو جا چکا ہے دستخط نہیں ہوئے تو کیا ہوا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسے واپس کر دو ہم عہد نامہ کی رو سے اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے.صحابہ اس بات پر بہت تلملائے لیکن آپ نے اسے واپس ہی کر دیا اور وہ اُسے لے گئے.لیکن جب آنحضرت ﷺ مدینہ آئے تو پھر وہ چھٹ کر آپ کے الله
سيرة النبي علي 405 جلد 1 پاس چلا آیا.اس کے پیچھے ہی دو آدمی اس کے لینے کے لئے آگئے.انہوں نے آکر رسول کریم ﷺ کو کہا کہ آپ نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہمارے آدمی کو آپ واپس کر دیں گے.آپ نے کہا کہ ہاں عہد ہے اسے لے جاؤ.اس نے کہايَا رَسُولَ اللَّهِ ! یہ لوگ مجھے بہت دکھ دیتے اور تنگ کرتے ہیں آپ مجھے ان کے ساتھ نہ بھیجئے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں غداری نہ کروں اس لئے تم ان کے ساتھ چلے جاؤ.وہ چلا گیا اور راستے میں جا کر ایک کو قتل کر کے پھر بھاگ آیا اور آ کر کہا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! آپ کا ان سے جو عہد تھا وہ تو آپ نے پورا کر دیا لیکن میرا تو ان سے عہد نہ تھا کہ میں ان کے ساتھ جاؤں گا اس لئے میں پھر آ گیا ہوں.دوسرا شخص پھر اس کے لینے کے الله لئے آگیا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے.آپ نے پھر اسے بھیج دیا لیکن وہ اکیلا آدمی اسے نہ لے جا سکا اس لئے وہ رہ گیا مگر رسول کریم ہے نے بار بار یہی کہا کہ میں جو عہد کر چکا ہوں اس کے خلاف نہیں کروں گا 1.تو آپ نے با وجود کافروں سے عہد کرنے کے اور ایک مسلمان کے سخت مصیبت میں مبتلا ہونے کے اسے پورا کیا.“ ( الفضل 10 اکتوبر 1916ء) 1: بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 447 تا 450 حدیث نمبر 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 406 جلد 1 سلام کو رواج دینے کے بارہ میں رسول کریم اللہ کی تاکید حضرت مصلح موعود 20 اکتوبر 1916ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.” میں نے اس وقت جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے دو ایسے حکم دیئے ہیں جو اگر چہ شریعت کے قوانین نہیں ہیں تمدن سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ ان کا اثر دین پر پڑتا ہے وہ حکم یہ ہیں :.اول یہ کہ جب کسی مکان میں داخل ہونے لگو تو داخل ہونے سے پہلے مکان میں رہنے والے سے اجازت حاصل کر لو.اگر وہ اجازت دے دیں تو داخل ہو جاؤ.دوم یہ کہ جب مکان میں داخل ہو جاؤ تو انہیں سلام کرو.پہلے حکم کے متعلق یہ اور فرمایا کہ اگر اندر آنے کی اجازت نہ ملے تو پھر داخل مت ہو.رسول کریم ﷺ نے اسی کی اور تشریح فرما دی ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ پہلے اذن مانگو اور پھر اگر اجازت پاؤ تو مکان میں داخل ہو اور اگر اجازت نہ ہو تو نہ داخل ہو.اس اذن مانگنے کی رسول کریم ﷺ نے یہ تشریح فرمائی ہے کہ یہ اذن تین دفعہ مانگو.تین دفعہ کے بعد اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ آؤ 1.یہ نہیں کہ بار بار آوازیں دیتے یا کنڈی کھٹکھٹاتے رہو.اگر کسی کو داخل ہونے کی اجازت مل جائے تو اس کے لئے قرآن کریم نے یہ دوسرا حکم دیا ہے کہ تُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا 2.اس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے وَالَّذِی نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْ خُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى
سيرة النبي علي 407 جلد 1 تُؤْمِنُوا وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا - اَوَلَا اَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمُ 3 کہ اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم جنت میں نہیں داخل ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ر آپس میں محبت نہ کرو.اور کیا میں تمہیں آپس میں محبت کرنے کی ترکیب بتاؤں؟ وہ یہ کہ آپس میں سلام خوب پھیلا و یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کہو.اجازت مانگنے کے متعلق فرمایا کہ تین دفعہ مانگو.یہ بات بھی اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتی ہے.بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کے دروازہ پر جا کر ایک بار کھٹکھٹائیں گے یا آواز دیں گے اگر کوئی آواز نہ آئے تو پھر ایسا ہی کریں گے حتی کہ صلى الله گھنٹہ گھنٹہ اسی طرح کرتے رہیں گے.رسول کریم ﷺ نے اس طرح کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ تین دفعہ آواز یا دستک دو پھر اگر جواب نہ ملے تو واپس آجاؤ کیونکہ اندر سے اگر کوئی جواب نہیں دیتا تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں.ممکن ہے وہ گھر ہی نہ ہو یا اگر گھر میں ہو تو سویا ہوا ہو.اس صورت میں اگر کوئی بار بارآواز دیتا ہے تو اُس کی نیند خراب ہو گی اس لئے اس طرح کرنا پسندیدہ بات نہیں.یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس آدمی سے ملنا ہی پسند نہیں کرتا یا اس سے بات کرنا نہیں چاہتا اس لئے کوئی جواب بھی نہیں دے سکتا.یا کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جواب نہیں دے سکتا.ان تمام صورتوں میں بار بار آواز دینا یا کنڈی کھٹکھٹانا بہت معیوب اور ناپسندیدہ بات ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین دفعہ آواز پہنچا کر اجازت لینی چاہئے اگر مل جائے تو اندر چلے جاؤ اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ یہ نہیں کہ جب تک اندر سے کوئی آواز نہ آئے ٹلنا ہی نہیں.اجازت نہ ملنے کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ کوئی کہہ دے کہ آپ اندر نہ آئیں اس وقت فرصت نہیں.دوسرے یہ کہ کوئی جواب ہی نہ آئے.ان دونوں صورتوں میں واپس کوٹ جانا چاہئے.
سيرة النبي علي 408 جلد 1 الله پھر سلام کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی کثرت کرنی چاہئے.کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح آپس میں محبت پیدا ہو گی.جب کوئی دوسرے کے لئے سلامتی کی دعا کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل میں محبت ہو اور جوں جوں وہ زیادہ دعا کرے وہ محبت بھی بڑھتی جائے گی.آجکل تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کے معنی ہی نہیں سمجھتے.ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی محبت پیدا نہ ہو تو اور بات ہے لیکن جو سمجھتے ہیں ان میں ضرور محبت پیدا ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے.اور جب ایک انسان دوسرے کے لئے دعا کرے گا تو خود اس کے لئے بھی اور دوسرے کے لئے بھی وہ دعا بہت سے فوائد اور برکات کا موجب ہوگی.اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبت اور پیار کرتا ہے اس لئے جو کوئی اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اس سے وہ بھی محبت کرتا ہے.تو ایک دوسرے کو الله کثرت سے سلام کہنے کی وجہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمائی کہ تمہاری آپس میں محبت ہو گی اور آپس کے تعلقات درست ہوں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں ایمان حاصل ہو گا اور جب ایمان حاصل ہوگا تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے.اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اپنا کام یہی سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے لڑیں اور ایک دوسرے کو لڑا ئیں.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کوئی شخص اُس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس میں ایمان نہ ہو اور ایمان اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آپس میں محبت نہ ہو اور محبت پیدا کرنے کا طریق ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنا ہے.لڑائی فساد سے ایمان کو بہت صدمہ پہنچتا ہے.بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ با وجود ایک مذہب کو سچا سمجھنے کے دوسروں کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتے ہیں.میں نے اسی فتنہ پر غور کیا ہے جو ہماری جماعت میں پیدا ہوا ہے.اس میں شامل ہونے والے وہی لوگ ہیں جن کو ذاتی عداوتیں اور رنجشیں تھیں.ایک آدمی
سيرة النبي علي 409 جلد 1 کی نسبت تو مجھے خوب معلوم ہے اس نے سمجھا ہوا تھا کہ ہمارے خاندان نے کسی موقع پر اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تھی.میں اُس وقت جبکہ اسے وہ واقعہ پیش آیا گھر موجود نہیں تھا کہیں گیا ہوا تھا واپس آکر میں نے اس شخص کو ہمدردی کا خط لکھا جس کا اس نے یہ جواب دیا کہ آپ نے میرے ساتھ بہت ہمدردی کی ہے لیکن فلاں فلاں نے نہیں کی ، ان کی یہ بات مجھے مرنے تک نہیں بھولے گی.افسوس کہ یہ خط محفوظ نہ رکھا گیا ورنہ آج خوب کام دیتا.ایک اور نے کہا کہ اگر اور کوئی خلیفہ ہوا تو اس کی تو ہم بیعت کر لیں گے لیکن میاں محمود کی بیعت تو خواہ کچھ ہی ہو نہیں کریں گے.یہ تو کل کی باتیں ہیں بنی اسرائیل کو دیکھو اُنہوں نے آنحضرت ﷺ کو اسی لئے نہ مانا کہ یہ ہم میں سے نہیں.تو دشمنی اور عداوت کا بہت خطرناک نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے کئی لوگ بے دین ہو جاتے ہیں.کل ہی ایک شخص کا خط آیا ہے.چند دن ہوئے وہ یہاں آیا تھا، کہتا تھا کہ مجھے میرا پوتا دے دیا جائے.میں نے کہا بچہ کا رکھنا ماں کا حق ہے اگر وہ لے جانے کی اجازت دیتی ہے تو لے جاؤ.اب اس نے جا کر لکھا ہے کہ تم نے قرآن ہی نیا بنا لیا ہے.اس کو ایک معمولی بات سے صدمہ پہنچا کہ کیوں خواہ بچے کی ماں روتی اور چلاتی ہی رہتی مجھے بچہ چھین کے نہیں دے دیا گیا اس وجہ سے اس نے لکھ دیا کہ تم نے قرآن ہی نیا بنا لیا ہے.اس سے پہلے تو میں جو کچھ کہتا اور کرتا تھا اسے وہ قرآن کریم کے مطابق سمجھتا تھا لیکن اس بات کے فوراً ہی بعد جو کچھ میں کرتا یا کہتا ہوں وہ قرآن مجید کے خلاف ہو گیا ہے اور میں نے نیا قرآن بنا لیا ہے.میری ہر بات اسے بری لگنے لگ گئی ہے.تو دنیاوی عداوتوں کا ایمان پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور جب ایمان نہ ہو تو انسان جنت سے محروم رہ جاتا ہے.دیکھو یہ چھوٹی سی بات تھی مگر انجام کس قدر بڑا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ سلام کہنے کا نتیجہ آپس میں محبت ہوگی اور محبت کا
سيرة النبي علي 410 جلد 1 نتیجہ ایمان ہوگا اور ایمان کا نتیجہ جنت میں داخل ہونا ہوگا.اس کا اُلٹ یہ ہوا کہ سلام نہ کہنے کا نتیجہ تفرقہ ہو گا اور تفرقہ کا نتیجہ ایمان کا سلب ہونا ہو گا اور ایمان کے سلب ہونے کا نتیجہ جنت میں داخل نہ ہونا ہوگا.تو سلام نہ کہنا معمولی بات تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جنت سے ہی محروم ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس بات کو معمولی کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ بیان کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں اس تفصیل سے بیان کیا گیا ہو صرف اسلام کو ہی یہ شرف حاصل ہے.اس بات پر اگر غیر مذاہب والے رشک کریں تو کیا تعجب کی بات ہے لیکن تعجب ہے ان مسلمانوں پر جو با وجود ایسی تعلیم کے پھر اس پر عمل نہیں کرتے.اسلام نے نہایت تفصیل سے کہہ دیا ہے کہ جب کسی کے ہاں جاؤ تو جا کر آواز دو یا دروازہ کھٹکھٹا ؤ جب اندر سے اجازت مل جائے تو داخل ہو، اجازت کے بغیر نہیں.اور یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی جواب نہ آئے تو ”الخاموشی نیم رضا“ پر عمل کر کے اندر چلے جاؤ.یہ کسی کا قول ہے جو بہت دفعہ غلط ثابت ہو جاتا ہے.اسلام نے کنواری لڑکی سے نکاح کے متعلق پوچھنے پر خاموشی کو رضامندی قرار دیا ہے 4 لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہو سکتی.پھر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھر والا پوچھتا ہے کون ہے؟ اس کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ بعض خاص آدمی ہوتے ہیں ان کے ملنے کے لئے اگر کوئی کام کا حرج بھی کرنا پڑے تو کر دیا جاتا ہے لیکن بعض کے ساتھ ملنا ضروری نہیں ہوتا اس لئے دریافت کیا جاتا ہے تا کہ جیسا آدمی ہو ویسا اسے جواب دیا جائے.اس طرح پوچھنے پر آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ میں ہوں.ایک دفعہ کسی نے رسول کریم ﷺ کے دروازه پر دستک دی.آپ نے فرمایا مَنُ ؟ دستک دینے والے نے کہا آنا.یعنی میں ہوں.آپ نے فرمایا کیا میں میں نہیں ہوں ؟ یہ کہنے سے میں تم کو کس طرح پہچان لوں؟ 5 پس اگر پوچھا جائے تو اپنا نام بتانا چاہئے تا پوچھنے والا پہچان لے کہ
سيرة النبي علي کون ہے.411 جلد 1 پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دستک دے کر دروازہ کے سوراخوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ اندر کیا ہو رہا ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے دروازہ پر دستک دینے والے نے اس طرح کیا.آپ نے فرمایا یہ مجھے بعد میں پتہ لگا ہے اگر میں اُس وقت دیکھ لیتا تو اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا 6.رسول کریم ﷺ جب کسی مکان پر جا کر دستک دیتے تو اُس کے دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے اور جب اندر سے کوئی آتا تو السَّلَامُ عَلَيْكُم کہہ کر اس کی طرف لوٹتے 7.اس طرح کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے.کئی مکان ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی کمرہ میں تمام گھر کے آدمی ہوتے ہیں جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو سامنے مستورات بیٹھی ہوتی ہیں.اگر کوئی دروازہ کے سامنے منہ کر کے کھڑا ہو گا تو اس کی نظر ضرور اندر پڑے گی اور اس طرح بے پردگی ہو گی.اسی وجہ سے رسول کریم ﷺے دائیں یا بائیں طرف مڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے.“ ( الفضل 4 نومبر 1916 ء ) 1: بخارى كتاب الاستئذان باب التسليم و الاستئذان ثلاثا صفحہ 1087 حدیث نمبر 6245 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: النور: 28 3: مسلم کتاب الایمان باب بيان أنه لا يدخل الجنة (الخ ) صفحہ 44 حدیث نمبر 195،194 مطبوعہ ریاض 2000 ، الطبعة الثانية 4 بخارى كتاب النكاح باب لا ينكح الاب وغيره البكرو الثيب الابرضاها صفحه 919 حدیث نمبر 5136 ، 5137 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5 : بخاری کتاب الاستئذان باب اذا قال من ذا فقال انا صفحه 1088 حدیث نمبر 6251 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 6 مسلم كتاب الآداب باب تحريم النظر في بيت غيره صفحه 960 حدیث نمبر 5638
سيرة النبي علي 412 جلد 1 مطبوعہ ریاض 2000ءالطبعة الثانية 7:ابو داؤد كتاب الادب باب كم مرة يسلم الرجل في الاستئذان صفحه 728 حدیث نمبر 5186 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى
سيرة النبي علي 413 جلد 1 تو کل کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کا اسوہ حضرت مصلح موعود نے 27 اکتوبر 1916 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی جو کام ہوتا ہے، ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے ارادے اور منشا کے ماتحت بنی نوع انسان کے لئے کچھ قوانین بھی مقرر فرمائے ہیں اگر انسان ان سے ایک طرف ہو جاتا ہے تو دکھ اٹھاتا ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں کہ دعا اور توکل کا مسئلہ ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ جو کچھ دعا کر سکتی ہے وہ کوئی اور چیز نہیں کر سکتی.اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ سامان کو بھی اس میں بڑا دخل ہے.ہاں صرف سامان پر ہی بھروسہ کر لینا کہ جو کچھ ہو سکتا ہے بس انہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے یہ شرک ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا أَتَعْلَمُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمُ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں ہمیں تو علم نہیں.آپ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنْ قَالَ مُطِرُنَا بِنَوْءٍ كَذَاوَ كَذَا کہ جس نے کہا بارشیں فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوتی ہیں اور یہ بارش جو ہوئی تو اس لئے ہوئی کہ اس ستارے نے اپنا اثر کیا.ایسا شخص كَافِرٌ بِی وَ مُؤْمِنٌ بِالْكَوَاكِب 1 وہ میرا تو کافر ہوتا ہے لیکن ستاروں پر ایمان لانے والا ہوتا ہے.لیکن اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ موسموں پر کواکب کا بڑا اثر ہوتا ہے.باند اور سورج بھی کواکب میں سے ہی ہیں اور ان کا موسموں کے ساتھ بڑا بھاری تعلق ہے مگر باوجود اس کے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بارش
سيرة النبي علي 414 جلد 1 فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوئی وہ اللہ کے کافر ہیں اور ستاروں کے مومن.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستاروں کے تغیرات کا کوئی اثر ہی نہیں.بعض لوگ کم فہمی کے باعث یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں کواکب کے اثرات سے انکار کیا گیا ہے.پھر وہ اس یقینی اور مشاہدہ میں آئی ہوئی بات کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں کہ نہیں کواکب کا کوئی اثر نہیں حالانکہ ان کا اثر ہوتا اور ضرور ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی ذات کو بالکل نظر انداز کر کے بکلی ستاروں پر انحصار کرنا کہ بارش جو برساتے ہیں تو یہ ستارے ہی برساتے ہیں یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں.مگر ایسا شخص خدا کا منکر نہیں جو خدا کو اصل موجب قرار دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان ستاروں کو پیدا کیا اور ان میں اثرات رکھے اور اسی کے ارادے کے ماتحت وہ اپنا اثر کرتے ہیں.دیکھئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا شرک ہے مگر یہ عقیدہ کہ ملائکہ خدا کا کلام لاتے ہیں ، تثبیت قلب وغیرہ کرتے ہیں شرک نہیں ہے لیکن ان دونوں باتوں میں فرق ہے.مشرک اور کافر بھی مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں اور وہ کچھ کام کرتے ہیں اور مسلمان بھی مانتے آئے اور مانتے ہیں کہ فرشتے ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری اور لازمی ہے مگر باوجود اس کے کافر مشرک کہلائے.کیوں؟ اسی لئے کہ کفار کا ماننا اس رنگ میں ہے کہ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں خود ہی کرتے ہیں مگر مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے تمام کام خدا تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے یہ شرک نہیں.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا.آپ نے پوچھا تمہارا اونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ باہر کھلا چھوڑ دیا ہے اور اللہ پر توکل کر کے آپ کے پاس آ گیا ہوں.فرمایا جاؤ اونٹ کا گھٹا باندھو پھر تو کل کرو.“ (الفضل 7 نومبر 1916ء) حضرت مصلح موعود اسی خطبہ میں فرماتے ہیں:.66 احادیث میں آیا ہے کہ کئی بار آنحضرت ﷺ کو ایسا موقع پیش آیا کہ سفر میں
سيرة النبي علي 415 جلد 1 پانی کم ہو گیا آپ نے تھوڑے سے پانی میں ہاتھ ڈالا اور وہ بڑھ گیا 3.مگر یہ بھی ثابت ہے کہ اس خارق عادت امر دکھلانے سے پہلے آپ نے چاروں طرف آدمی دوڑائے کہ پانی کی تلاش کرو لیکن جب پانی کا کوئی سراغ نہ ملا تو پھر آپ نے ایسے ایسے معجزے دکھلائے.کسی ایسی جگہ آپ نے کوئی معجزہ نہیں دکھلایا کہ جہاں سے پانچ سات میل تک پانی مل سکتا ہو اور آپ نے کہا ہو کہ وہاں سے پانی لانے کے لئے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے لو ہم خود اسی جگہ پانی بڑھا دیتے ہیں بلکہ اُس وقت آپ نے ایسا کیا جبکہ پانی کے ملنے سے بالکل ناامیدی ہوئی.تو ایک شخص نے اگر پورا زاد راہ لے کر ایک سینکڑوں میل کے جنگل کا سفر اختیار کیا ہولیکن راستے میں اُس کے سامان پر کوئی آفت آپڑی ہو اور وہ تباہ ہو گیا ہو اس لئے وہ نہ آگے کا رہا نہ پیچھے کا.ایسے وقت میں بغیر سامان مہیا کئے بھی وہ صرف دعا پر بھروسہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایسا موقع ہے کہ اب سامان کا مہیا کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے.مگر جب کوئی شخص بغیر زادِ راہ کے اتنا لمبا سفر اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو ساتھ بوجھ کیا اٹھانا ہے دعا کر لیا کریں گے تو یہ درست نہیں.ایسا کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے لیکن اللہ کو اس کی پرواہ کیا ہے.“ ( الفضل 7 نومبر 1916ء) 1: بخاری کتاب المغازى باب غزوة الحديبية صفحه 705 حدیث نمبر 4147 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق والورع الخ باب حديث اعقلها وتوكل صفحه 572 حدیث نمبر 2517 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3:بخارى كتاب الاشربة باب شرب البركة والماء المبارك صفحه 999 حدیث نمبر 5639 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 416 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع کو نوافل کا خیال 28 دسمبر 1916ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ذکر الہی کے موضوع پر خطاب فرمایا.رسول کریم ﷺ کو نوافل کا کس قدر خیال رہتا تھا اس کا صلى الله الله ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کو ان نوافل کا اتنا خیال تھا کہ باوجود ان کے نفل ہونے کے آپ رات کو پھر کر دیکھتے کہ صحابہ میں سے کون یہ نفل پڑھتا ہے اور کون نہیں پڑھتا.ایک دفعہ آپ کی مجلس میں عبد اللہ بن عمرؓ کا ذکر آیا کہ وہ بہت اچھا ہے اس میں یہ خوبی ہے، یہ صفت ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہاں بڑا اچھا ہے بشرطیکہ تہجد پڑھے 1.چونکہ عبد اللہ بن عمرؓ جوان تھے اور تہجد پڑھنے میں سستی کرتے تھے اس لئے آپ نے اس طرح ان کو اس طرف توجہ دلائی.پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس میاں اور بیوی پر رحم ہو کہ اگر رات کو میاں کی آنکھ کھلے تو اٹھ کر تہجد پڑھے اور بیوی کو جگائے کہ تو بھی اٹھ کر تہجد پڑھ.اور اگر بیوی نہ جاگے تو پانی کا چھینٹا اس کے منہ پر مارے اور جگائے.اسی طرح اگر بیوی کی آنکھ کھلے تو وہ بھی ایسا ہی کرے کہ خود تہجد پڑھے اور میاں کو جگائے.اگر وہ نہ جاگے تو اس کے منہ پر چھینٹا مارے 2.دیکھو ایک طرف تو رسول کریم علیہ نے بیوی کے لئے میاں کا ادب کرنا نہایت ضروری قرار دیا ہے اور دوسری طرف تہجد کے لئے جگانے کے واسطے اگر پانی کا چھینٹا بھی مارنا پڑے تو اس کو بھی جائز رکھا ہے.گویا رسول کریم ﷺ تہجد کو اس قدر ضروری سمجھتے تھے.یہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے ہے.پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ
سيرة النبي علي 417 جلد 1 الله رات کا اٹھنا نفس کو سیدھا کر دیتا ہے 3.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ صحابہ کو فرماتے که خواه تهجد دو رکعت ہی پڑھو مگر پڑھو ضرور.پھر حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ قریب آجاتا ہے اور بہت زیادہ دعائیں قبول کرتا ہے 4 اس لئے تہجد کا پڑھنا بہت ضروری اور بہت فائدہ مند ہے.“ (ذکر الہی صفحہ 120،119 ) 1:بخارى كتاب التهجد باب فضل قيام الليل صفحه 180 حدیث نمبر 1122 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 نسائى كتاب قيام الليل باب الترغيب في قيام الليل صفحہ 232 حدیث نمبر 1611 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 3 المزمل: 7 4:بخارى كتاب التهجد باب الدعاء والصلاة من آخر الليل صفحہ 183 حدیث نمبر 1145 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية
سيرة النبي علي 418 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع کا طرز کلام حضرت مصلح موعود نے 28 دسمبر 1916 ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر ذکر الہی کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.ایک دفعہ ابو ہریرۃ جلدی جلدی اور زور زور سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ نے کہا یہ کون ہے اور کیا کر رہا ہے؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی احادیث سنا رہا ہوں.انہوں نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کلام کیا کرتے تھے؟ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے 1.غرض رسول کریم ﷺ کی یہ سنت ہے کہ آپ نہ صرف قراءت میں بلکہ عام وعظ ونصیحت میں بھی آہستگی سے کام لیتے تھے.پس توجہ قائم رکھنے کے لئے آپ لوگ بھی اس حکم اور سنت پر عمل کریں اس طرح توجہ بڑی عمدگی سے قائم رہے گی.کیونکہ یہ گڑ بڑ نہ رہے گی کہ زبان پر کچھ اور ( ذکر الہی صفحه 135 ) 66 ہے اور دل میں کچھ اور “ صلى 1: بخاری کتاب المناقب باب صفة النبى عال لال لاله صفحه 598 حدیث نمبر 3568 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 419 جلد 1 خدا کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ صلى الله حضرت مصلح موعود 5 جنوری 1917 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ عمل میں ترقی کرے.صحابہ نے رسول کریم ملی سے عرض کیا کہ حضور ہم تو عمل میں کوشش اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوں لیکن آپ کے تو خدا نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں آپ کیوں اس قدر کوشش کرتے ہیں؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا کیا میں تم سے زیادہ اتقی نہیں ہوں؟ پھر فرمایا کہ کیا میں عبد شکور نہ بنوں؟1 میرے لئے عبادت شکر کے طور پر ہے کیونکہ جس پر زیادہ فضل ہو وہ زیادہ مستحق ہے کہ دوسروں سے بہت زیادہ عبادت اور شکر گزاری کرے.تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ ستی نہیں ہونا چاہئے بلکہ عبادت اور شکر گزاری میں اور بڑھنا چاہئے.یہاں رہنے والے دوست خوب سن لیں اور باہر کے دوستوں کو اخبار کے ذریعہ یہ بات پہنچ جائے گی کہ ہماری جماعت کے لوگ شکر گزاری میں اور بڑھیں اور ان کی کوششوں میں اور زیادہ ترقی ہو.یہ نہ ہو کہ جلسہ کے دنوں میں جو جوش و اخلاص آپ لوگوں نے دکھایا ہے اور جو معرفت اِن دنوں حاصل ہوئی ہے اس کو اور زیادہ نہ بڑھاؤ اور اس میں ترقی نہ کرو.یہ سب خدا کے فضل کے نظارے ہیں جو آپ لوگوں نے دیکھے ہیں.بس آپ لوگوں کو چاہئے کہ خدا کی حمد وثنا میں اور بڑھیں اور اپنی کوشش اور سعی کو اور زیادہ وسیع کر یہ دیکھو آ نحضرت ﷺ سے زیادہ کس پر خدا کے فضل ہوں گے.لیکن جس قدر
سيرة النبي علي 420 جلد 1 آپ پر خدا کے فضل اور احسان ہیں اُسی قدر آپ عبادت اور شکر گزاری میں سب سے بڑھ کر تھے.“ صلى الفضل 23 جنوری 1917ء) 1: بخارى كتاب التهجد باب قيام النبی ال صفحہ 181 حدیث نمبر 1130 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 421 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع کی گہری فراست کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود 9 فروری 1917 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.”انسان کی حالت کچھ ایسی نازک اور کمزور ہے کہ ایک ذراسی ٹھوکر سے اس کی گل ٹوٹ جاتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص بڑے جوش اور زور کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے کفار کے ساتھ لڑا اور ایسے زور سے لڑا کہ مسلمان اُس پر رشک کرنے لگے اور اُس کو دیکھ کر حیران رہ گئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اُس کے متعلق فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اس دنیا میں چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لے.اس بات سے صحابہ کو بہت حیرت ہوئی کہ یہ تو بہت مخلص اور جوشیلا معلوم ہوتا ہے اور جنگ میں خطرناک سے خطرناک جگہ پہنچ کر حملہ کرتا ہے پھر اس نے اس بہادری اور دلیری سے کفار کو قتل کیا کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ نے اُس کو دوزخی قرار دیا تھا بے اختیار صحابہ کے منہ سے یہ نکلنا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر دے اور قریب تھا کہ بعض نئے اسلام لانے والے ٹھو کر کھا جاتے کہ رسول کریم ﷺ نے بلا وجہ اس کو دوزخی کہا ہے کہ اُس وقت ایک صحابی اٹھے اور قسم کھائی کہ جب تک میں اس شخص کا انجام نہ دیکھ لوں اس کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.یہ کہہ کر وہ اس کے پیچھے ہو گئے اور اسے دیکھتے رہے.لڑائی میں اسے بہت سے زخم لگے حتی کہ زخموں کی وجہ سے وہ گر گیا.شدت درد کے وقت لوگ اُس کے پاس آتے اور کہتے کہ تجھے جنت کی بشارت ہو! لیکن وہ کہتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی دو.تم تو مجھے جنت کی بشارت اس لئے دیتے ہو کہ میں بڑی بہادری سے لڑا ہوں اور خطر ناک سے خطر ناک جگہ پر حملہ کرتا رہا ہوں لیکن تمہیں یہ
سيرة النبي علي 422 جلد 1 معلوم نہیں ہے کہ میں کس نیت سے لڑ رہا تھا.میرے لڑنے کی یہ غرض نہ تھی کہ اسلام کی تائید اور مدد کے لئے لڑوں یا آنحضرت علی کی حفاظت کروں یا اسلام کے مخالفین کو تہہ تیغ کروں بلکہ میں اس لئے لڑتا رہا ہوں کہ میری اس قوم سے ایک پرانی ذاتی عداوت تھی جس کے نکالنے کا آج مجھے موقع ملا تھا اس لئے میں لڑا ہوں.تھوڑی دیر بعد جو اسے زخموں کی سخت تکلیف ہوئی اور اس شدت سے ہوئی کہ وہ برداشت نہ کر سکا تو اس نے زمین پر برچھا گاڑ کر اس پر پیٹ رکھ کر خود کشی کر لی اور ہلاک ہو گیا.اسلام نے چونکہ خود کشی کو حرام قرار دیا ہے اور وہ اس کا مرتکب ہوا اس لئے آنحضرت ﷺ کی بات درست ثابت ہوگئی کہ وہ دوزخی تھا.وہ صحابی جو اس کا صلى الله انجام دیکھنے کے لئے اس کے ساتھ تھا یہ دیکھ کر آنحضرت ﷺ کے پاس آیا.آپ اُس وقت مجلس میں تشریف رکھتے تھے.اُس نے دور سے ہی کہا اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے کیوں کہا ہے ؟ اُس نے جواب دیا يَا رَسُولَ اللَّهِ! جس شخص کی نسبت آپ نے فرمایا تھا کہ دوزخی ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا کہ اُس کی بہادری اور جرات کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں ایک وسوسہ پیدا ہو رہا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی اس کے متعلق فرما دیا ہے اُس وقت میں نے قسم کھائی کہ جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں اس کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.اب وہ خودکشی کر کے مر گیا ہے اور میں حضور کو یہ سنانے آیا ہوں کہ حضور کی یہ بات درست نکلی.یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے بھی فرمایا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا الفضل 17 فروری 1917 ء ) عبده ورسولة 1 - 66 1 بخاری کتاب المغازى باب غزوة خيبر صفحہ 714،713 حدیث نمبر 4203 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 423 جلد 1 صیات رسول کریم علیہ کی شان 4 مئی 1917 ء کو حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں سورۃ توبہ کی درج ذیل آیات کی تلاوت کی لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ - فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ صلى b الْعَظِيمِ 1 بعد ازاں فرمایا : - یوں تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں ، فضلوں اور انعاموں کی گنتی نہیں.انسان کے جسم کا کونسا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احسان کے نیچے دبا ہوا نہیں لیکن اس کے انعامات میں سے رسول کریم ﷺ کا وجود ایک بہت بڑا انعام ہے.بہت سے لوگ ہیں جنہوں الله نے رسول کریم ﷺ کو پہچانا نہیں اور اکثر ہیں جنہوں نے سمجھا نہیں.جو آپ کے دشمن ہیں وہ اگر آپ کی شان ارفع میں کچھ گستاخی کرتے ہیں تو وہ ایک حد تک معذور کہے جاسکتے ہیں.لیکن افسوس ماننے کا دعویٰ کرنے والوں پر ہے کہ وہ آپ کے مرتبہ کو نہیں سمجھتے اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو آپ کی مزیلِ شان ہوتی ہیں.بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے مرتبہ کو نہیں سمجھا وہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت دور جا پڑے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ شان عطا فرمائی ہے کہ مسلمان جس قدر بھی آپ کی تعریف کرتے کم تھی.ہر ایک قوم اپنے بڑوں کو بڑا بناتی ہے.عیسائی حضرت مسیح کو ، ہندو کرشن اور رامچند ڑ کو خدا بنا رہے ہیں.اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگوں کو اگر دیکھا جائے تو
سيرة النبي علي 424 جلد 1 معلوم ہوگا کہ انہوں نے بھی اپنے بڑوں کو اتنا بڑا درجہ دیا کہ خدائی تک دے دی.ان کا یہ فعل برا ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ غلطی پر ہیں کیونکہ وہ شرک کے مرتکب ہوئے ہیں.لیکن ہمیں اس جماعت پر تعجب آتا ہے جس نے ایسا پیشوا پایا جو سب سے بڑا ہے مگر اس نے اپنے محسن کو اس کے اصل درجہ سے بھی گھٹانا شروع کر دیا.بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ اگر رسول کریم ﷺ کی حقیقی عظمت کو سمجھتے تو غلطی میں نہ پڑتے.مجھے حضرت خلیفہ اول کے وقت میں بار بار لیکچروں کے لئے باہر جانے کا اتفاق ہوا.میں نے سننے والے لوگوں کو اکثر یہی بتایا کہ ہمارے تمہارے اختلاف کا تصفیہ ایک آسان طریق سے اس طرح ہو سکتا ہے کہ دیکھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت ہمارے اعتقادات کے رو سے ثابت ہو تی ہے یا کہ تمہارے اعتقادات سے.اگر آپ کی عظمت اور عزت کا خیال رکھا جائے تو سب اختلاف مٹ جاتے ہیں.حیات و وفات مسیح کے مسئلہ میں دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی عزت اور عظمت کس میں ہے ؟ آیا اس میں آپ کی عظمت ہے کہ جب آپ کی امت بگڑ جائے تو اس کی اصلاح کے لئے ایک اور شخص کو لایا جائے جو براہ راست آنحضرت علی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، اس کے نبوت ورسالت پانے میں آپ کا کوئی تعلق نہیں یا اس میں آپ کی عزت ہے کہ جب آپ کی امت بگڑے تو آپ ہی کے غلاموں میں سے کوئی شخص اصلاح کے لئے کھڑا کر دیا جائے؟ پھر کیا آپ کی اس میں عزت ہے کہ آپ کے آنے سے وہ فیضانِ نبوت جو آدم کے وقت سے آنحضرت ﷺ تک ابناء آدم کو مل رہا تھا بند ہو گیا اور آپ نَعُوذُ بِاللهِ اس فیض کے دریا میں روک ہو گئے اور آپ کی امت اس سے محروم کر دی گئی یا اس میں کہ آپ کی کامل اتباع اور پوری فرمانبرداری سے یہ رتبہ حاصل ہو سکتا ہے؟
سيرة النبي علي 425 جلد 1 ان تمام مسائل میں جو ہم میں اور غیرا حمدیوں میں اختلافی ہیں اگر یہ دیکھا جائے کہ کن مسائل کو تسلیم کرنے سے آنحضرت ﷺ کی عزت ہوتی ہے اور کن سے ہتک تو معلوم ہو جائے گا کہ حق پر کون ہے.غرض آپ کے درجہ کے نہ سمجھنے سے بڑا اختلاف پڑ گیا ہے اور اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.اگر ان کو آنحضرت میے کے محاسن معلوم ہوتے تو ضرور تھا کہ محبت پیدا ہوتی کیونکہ ہمیشہ محبت اور عشق خوبیوں کو دیکھنے سے ہی پیدا ہوتا ہے اور یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی شخص کی نہ کوئی خوبی معلوم ہو اور نہ اس کے محاسن اور پھر انسان اس سے محبت کرے یا اس سے عشق پیدا ہو.مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے بیان کیا ہے کہ بے رؤیت کبھی عشق پیدا نہیں ہوسکتا اور دیکھنا صرف آنکھوں سے ہی نہیں ہوتا بلکہ علم سے بھی دیکھا جا سکتا ہے.مثلاً انسان کسی ایسے بہادر آدمی کا قصہ پڑھتا ہے جس کو گزرے سینکڑوں برس ہو جاتے ہیں مگر پڑھنے والے کے دل میں اُس کے حالات پڑھ کر خاص کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں.اسی طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی کے پاک حالات کو دیکھا جائے.آپ کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا، کھانا پینا ، جا گنا سونا ، لباس اور طرزِ ماند و بود، میل و ملاقات کو آنکھوں کے سامنے لایا جائے.جب یہ باتیں صحیح طور پر معلوم ہو جائیں گی تو یقیناً آپ سے ایک محبت اور عشق پیدا ہو جائے گا.یہ رؤیت علم کے ذریعہ ہوگی.پس اگر رسول کریم ﷺ کے حالات سے لوگ واقف ہوتے تو آپ کی ہتک پر تیار نہ ہو جاتے اور خدا سے دور نہ جا پڑتے.اگر ان باتوں کو مد نظر رکھ کر تحقیقات مسائل ہو تو پھر کبھی کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوسکتا.آپ کی محبت اور آپ سے عشق خدا کی محبت اور خدا کے عشق کا موجب ہے جیسا که فرما یا قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 2 اگر تم اس انسان کی اتباع کرو گے اور اس کے ساتھ محبت رکھو گے تو خدا تم سے محبت اور پیار
سيرة النبي علي 426 جلد 1 کرے گا.تو آپ کی محبت خدا کی محبت ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کے حالات کا معلوم ہونا کیسا ضروری ہے.میں نے جو آیات پڑھی ہیں ان میں آپ کے کمالات کا کچھ حصہ بیان کیا گیا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ کا خلق اگر دیکھنا ہو تو قرآن کریم کو دیکھو 3.جس وقت آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے دنیا کی حالت بدترین تھی.بحروبر میں خرابی پھیلی ہوئی تھی ، دنیا کی کوئی برائی ایسی نہ تھی جو نہ پائی جاتی تھی.اگر چہ انسان گردو پیش کے حالات سے بہت متاثر ہوتا ہے اور جس قسم کا نمونہ اپنے سامنے دیکھتا ہے اُسی طرح خود بھی کرنے لگتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ آنحضرت ﷺ کے رو برو بدترین نمونہ موجود تھا، تمام عرب برائیوں اور بدکاریوں سے بھرا ہوا تھا، اُس وقت کے عیسائیوں کی حالت خود عیسائی مورخ لکھتے ہیں کہ نہایت خراب ہو چکی تھی ، زرتشتی بگڑے ہوئے تھے ، ہندوستان میں اصنام پرستی اور عناصر پرستی کا زور تھا.اس تاریکی کے زمانہ میں آنحضرت مے جیسے انسان کا پیدا ہونا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ فرمایا لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ لوگو! ذرا سوچو تو سہی کہ یہ رسول تمہارے پاس تم میں سے آیا ہے، تم میں ہی پیدا ہوا تم میں ہی رہا تم میں ہی اس نے دن رات گزارے مگر دیکھو تمہاری صحبت میں رہ کر یہ تم سے متاثر نہ ہوا.اس کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھو.اس کے پاس نمونہ تو تم تھے اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ یہ تمہارے ایسا ہوتا مگر اس نے اخلاق میں اس قدر ترقی کی کہ خدا نے اس کو رسول بنا کر تمہارے پاس بھیج دیا.واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پڑھ کر حیرت آتی ہے.کیسی ہمت اور کیسا استقلال تھا آپ کا کہ آپ ان میں رہ کر ان سے الگ رہے.گو بظاہر اس آیت سے آپ کی کوئی فضیلت نہیں معلوم ہوتی کہ اے لوگو! تم میں سے تمہارے پاس رسول بھیجا کوئی غیر نہیں بھیجا گویا اُس قوم کو بتایا گیا کہ تو بڑی خوش قسمت ہے جس میں
سيرة النبي علي 427 جلد 1 سے خدا کا نبی آیا لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اسی آیت میں خدا تعالیٰ نے الفاظ کے لحاظ سے مجمل مگر معانی کے لحاظ سے مفصل آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بیان کر دیا ہے.مشرکین کو کہا گیا ہے کہ تم اپنی کسی بات کو پیش کرو اس کا عمل اس کے خلاف ہی ہو گا.تم مشرک ہو مگر یہ پکا موحد ہے.تمہارے اخلاق میں رذالت ہے مگر اس کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں.تم ظالم ہو مگر یہ رحیم ہے حالانکہ یہ بھی تم میں پیدا ہوا، تم میں ہی رہا تمہارے پاس ہی عمر گزاری، با وجود اس کے جب اس میں ایسی اعلیٰ درجہ کی باتیں پائی جاتی ہیں تو اس کی عظمت اور بڑائی کا اندازہ کرو.پھر فرمایا عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوْفٌ رَّحِیم پہلے آپ کی عظمت بیان کی اس کے بعد آپ کے رسول ہونے کا ذکر کیا.پھر فرمایا اس پر شاق گزرتا ہے، اس پر ایسا بوجھل ہوتا ہے کہ جس سے کمر ٹوٹ جائے (وہ امر جس کی برداشت نہ ہو اس کو امر عزیز کہتے ہیں ) جب تم پر کوئی مشکل اور مصیبت آئے تو یہ تکلیف میں پڑ جاتا ہے.مگر ہر تکلیف کے وقت نہیں بلکہ اُسی وقت جبکہ دیکھتا ہے کہ تم پر ایسی مصیبت آئی ہے جو مافوق ہے.وہ استاد جو جانتا ہے کہ لڑکے کی اصلاح کس طرح ہوتی ہے وہ کسی وقت اُس کو سزا بھی دیتا ہے مگر اُس کا سزا دینا اُس کی اصلاح کو مدنظر رکھ کر ہوتا ہے.وہ جانتا ہے کہ اُس وقت اُس کو سزا دینی چاہئے یا نہیں؟ ماں باپ کو اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن اگر ماں باپ دیکھیں کہ استاد کی سزا لڑکے کی طاقت سے بڑھ کر ہے اور ایسی ہے کہ وہ بجائے اصلاح کے بچہ کا خاتمہ کر دے گی تو بے شک ماں باپ دخل دیں.لیکن جو والدین استاد کی ہر ایک سزا میں دخل دیتے ہیں اور واجبی سزا سے بھی گھبراتے ہیں وہ گویا اپنی اولا د کو آپ خراب کرتے ہیں.پس نبی کریم ﷺ کی یہی حالت ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ان لوگوں پر آتی ہے کہ جس سے وہ برباد ہونے لگتے تو آپ پر یہ بات شاق گزرتی مگر واجبی
سيرة النبي علي 428 جلد 1 تکالیف سے جوان کی اصلاح کے لئے ہوتیں آپ نہ گھبراتے تھے.عنت اُس مصیبت کو کہتے ہیں جس سے انسان ہلاک ہو جائے.تو آپ کو گھبراہٹ ایسی ہی بات پر ہوتی تھی جس سے وہ لوگ ہلاک ہوتے نظر آتے تھے ورنہ جہاد کی ترغیب تو آپ خود دلاتے تھے کیونکہ وہ ان لوگوں کی ترقیات کے لئے ضروری تھا.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ جہاد میں تکالیف ہوتی ہیں.اگر آپ پر لوگوں کی ہر تکلیف شاق گزرتی تو گویا آپ مسلمانوں کو ترقیوں سے روکتے.جیسا کہ ناجائز محبت کے مرتکب ماں باپ اپنی اولا د کو تھوڑی سی تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتے اور اس طرح ان کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں.بلکہ ان مصائب کو دیکھ کر آپ کو شاق گزرتا تھا جو لوگوں کی بربادی اور ہلاکت کا موجب ہوتی تھی.پس آپ ایسی تکالیف پر نہیں گھبراتے تھے جو قوم کی ترقی وفلاح کا موجب ہوں.عنت لغت میں ایسی تکلیفوں اور مشقتوں کو کہتے ہیں جن کے نیچے دب کر انسان ہلاک ہو جائے.کیا ہی بے نظیر آپ کے اخلاق تھے.آپ کو تڑپ تھی اور آپ کو دکھ ہوتا تھا ان کے ایسے مصائب سے جن سے وہ ہلاک ہونے لگتے.صحابہ میں بعض لوگوں نے دین کے لئے بڑی بڑی مشقتیں کرنی شروع کیں جن سے آپ نے ان کو روک دیا مگر یہ نہیں کیا کہ سردی کے موسم میں صبح کے وقت مسجد میں نہ آؤ کہ تمہیں تکلیف ہوگی اور گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کرو یا یہ کہ دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہ جاؤ کہ تمہاری جانیں ضائع ہوں گی اور دشمن کے نیزے اور خنجر تمہیں زخمی کریں گے.اس کے لئے تو آپ حرص دلاتے تھے.ہاں جو باتیں ان کے لئے ہلاکت کا موجب ہو سکتی تھیں ان سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور ان سے منع بھی فرماتے تھے.پھر فرمایا حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ.ایک تو اس کی یہ حالت ہے کہ کسی کی ایسی مصیبت نہیں دیکھ سکتا جس میں وہ ہلاک ہوتا ہو.دوسرے یہ کہ جب کسی کو مصیبت میں دیکھتا ہے تو اس کی نجات کے لئے دوڑتا ہے.دوسرے معنی یہ کہ سب کو جمع کرنا چاہتا
سيرة النبي علي 429 جلد 1 ہے.اس کی خواہش ہے کہ سب دنیا اس کے پاس آجائے تا وہ دکھوں اور مصیبتوں سے نجات پا جائے.جس طرح انسان مال کو اس لئے جمع کرتا ہے کہ محفوظ ہو جائے اسی طرح آپ یہی چاہتے کہ لوگ جن کے لئے الگ الگ رہنے میں ہلاکت ہے آپ کے پاس آجائیں تا ہلاکت سے بچ جائیں.تو فرمایا کہ یہ مومنوں کو جمع کرتا اور خدا کی محبت پیدا کرنے کے طریقے سکھاتا ہے.پھر فرمایا بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ کہ جب یہ لوگوں کو جمع کر لیتا ہے تو ان سے رافت اور رحمت کا سلوک کرتا ہے.حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ کا نتیجہ تو یہ ہے کہ مومن پیدا ہوں.جب مومن پیدا ہو گئے تو اب یہ بتانا تھا کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے اس لئے فرمایا وہ لوگ جو اس کے پاس آجاتے ہیں ان سے نہایت ہی شفقت، رافت ، محبت ، رحم وکرم کا سلوک کرتا ہے.بعض لوگ تو جمع کرنے تک اچھا سلوک کرتے ہیں.جب ان کے قبضہ میں لوگ آجاتے ہیں تو پھر ان کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.لیکن آپ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ نہایت ہی شفقت سے پیش آتے ہیں اور آپ ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں.یہ ایک کرشمہ ہے نبی کریم ہے کے ان اعلیٰ اخلاق اور اعلی محاسن کا جو قرآن شریف میں بیسیوں جگہ ذکر ہوئے ہیں.پس غور کرو کیسا ہے وہ انسان اور کتنا بڑا ہے اس کا رتبہ.جولوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ان پر کس قدر افسوس ہے.دیکھو آج ہمیں مسیح موعود علیہ السلام ملا تو اس کے طفیل.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اسی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.آپ کی امت بگڑ چکی ہے اور ضرورت تھی کہ آپ کا کوئی خادم اٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اس میں کام کرے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت کی روحانیت سے مبعوث ہوئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر با وجود ان تمام خوبیوں کے لوگ توجہ نہ کریں تو کہہ دو
سيرة النبي علي 430 جلد 1 b فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ مجھے تو تمہاری کوئی پرواہ نہیں خواہ تم سب کے سب پرے ہٹ جاؤ.میں تو موحد ہوں اور ایک زندہ خدا کا ماننے والا ہوں.اُسی نے مجھے یہ رتبہ دیا ہے اور وہی میرے درجہ کو ظاہر کرے گا.چنانچہ اب جبکہ مسلمانوں نے اپنے ایسے عقائد بنا لئے جن سے آنحضرت ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اور آپ کو بالکل چھوڑ دیا تو خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک ایسا مرسل بھیجا جس نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل شان لوگوں کے سامنے رکھ دی.اب اگر کوئی مقابلہ کرے گا تو اس کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ اُسی کا نقصان ہوگا جو مقابلہ پر آئے گا.فرمایا کہ اگر یہ لوگ تجھ سے پھریں تو کہہ دو کہ میرا سوائے اللہ کے کسی پر بھروسہ نہیں.وہی ربّ عرش عظیم ہے ، وہ میری صداقت کے پھیلانے کا سامان پیدا کر دے گا.چنانچہ جب مسلمانوں نے اس عرشِ عظیم پر تو گل کرنے والے کی ہتک کی تو خدا نے ایک مرسل کو بھیجا جو اس کی عظمت وشان کو دنیا پر ظاہر کرے.اب خدا اپنی فوجوں سے اس کی مدد کرے گا اور دنیا نے اگر قبول نہیں کیا تو خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اللہ تعالیٰ ہمارے تمام دوستوں اور تمام ان لوگوں کو جو آنحضرت ﷺ کی محبت کا دم بھرتے ہیں اس بات کی سمجھ اور معرفت دے کہ وہ اس عظیم الشان انسان کو پہچانیں اور جانیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا درجہ کیا تھا اور مخالفین کی آنکھیں کھلیں کہ وہ کس درجہ کا انسان تھا جو خدا نے دنیا میں بھیجا تھا.“ الفضل 15 ، 19 مئی 1917 ء ) 1: التوبة: 128، 129 2: آل عمران: 32 3 مسند احمد بن حنبل صفحہ 1829 حدیث نمبر 25108 مطبوعہ لبنان 2004 ء
سيرة النبي علي 431 جلد 1 صلى الله رسول کریم میہ صفات باری کے مظہر اتم حضرت مصلح موعود 15 جون 1917 ء کو خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.عیسائیوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے سبب سے حضرت مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا حالانکہ اس وجہ سے اگر یہ درجہ کسی انسان کو دیا جا سکتا تو وہ آنحضرت علی ہوتے کیونکہ آپ پر شیطان کا کوئی اثر نہ ہو سکتا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 1.پس یہ تیسرا کمال کا درجہ ہے اور یہاں شیطان کا کوئی داؤ کام نہیں کر سکتا اور وہ کوئی وسوسہ نہیں ڈال سکتا بلکہ خود اس کو ایسے انسان کی فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے.نبی کریم ﷺ خدا نہیں تھے مگر آپ نے صفتِ الوہیت کو اپنے اندر اس قدر لیا کہ خدا تعالیٰ نے بھی کہہ دیا قُلْ يُعِبَادِيَ 2.کہو اے میرے بندو ! یلان كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي 3 اگر خدا سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو.پس رسول کریم ﷺ اس قدر اس صفت میں رنگین ہوئے کہ آپ کے متعلق یہ الفاظ کہہ دیئے گئے.یہ اسی لئے تھا کہ آپ نے الوہیت کی چادر کو اپنے اوپر لے لیا.غرض وسواس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بتائے ہیں.اول علم حاصل کرنا.دوسرے فیصلہ کی طاقت پیدا کرنا.جب یہ دونوں باتیں پیدا ہو جائیں تو الله 66 پھر الوہیت کا پر تو پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور اُس وقت وسواس اثر نہیں ڈال سکتے.“ (الفضل 19 جون 1917 ء ) 1: مسلم كتاب صفات المنافقين واحكامهم باب تحريش الشيطان صفحه 1225 حدیث نمبر 7108 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي ع 2: الزمر : 54 3 آل عمران : 32 432 جلد 1
سيرة النبي علي 433 جلد 1 الله رسول کریم ﷺ کے احسانات کا ایک تقاضا حضرت مصلح موعود 13 جولائی 1917ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.ایک بات اور بھی یاد رکھو ایک جماعت ہے جو صدقہ نہیں کھا سکتی ، غریب ہے ، نادار ہے اُس کی بھی مدد کی صورت نکالنی چاہیے وہ سیدوں کی جماعت ہے.رسول کریم ﷺ نے اپنی نسل کو صدقہ سے منع فرمایا ہے 1.بعض نے کہا ہے کہ اب سیدوں کے لئے صدقہ لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ نادار ہیں.مگر میرے نزدیک صلى الله درست نہیں کہ جس بات سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے اُس کو جائز کیا جائے.صدقہ کے علاوہ اور بھی طریق ہو سکتے ہیں جن سے ان کی مدد ہوسکتی ہے اور اس طرح محبت بھی بڑھ سکتی ہے وہ ہدایا کا طریق ہے.اگر ایک دوست کا بچہ آتا ہے تو آدمی اُسے کچھ دیتا ہے مگر وہ صدقہ نہیں ہوتا اور اس طرح ان میں محبت بڑھتی ہے.اسی طرح سید آنحضرت ﷺ کی بیٹی کی اولاد ہیں اب ان کو بھی ہدایا دیئے جائیں اُس صلى الله احسان کے بدلہ میں جو آنحضرت علے کا ہم پر ہے.آنحضرت علیہ نے ہمیں کفر سے نکالا، ظلمتوں سے باہر لائے ، پس اس فضل کی وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی لڑکی کی اولاد کے ساتھ ویسا ہی دوستانہ سلوک کریں بلکہ اس سے بڑھ کر کریں جیسا کہ آپ دوسرے دوستوں سے کرتے ہیں.وہ صدقہ نہیں کھا سکتے اس لئے ہم ان کو بطور ہدایا دیں.ہم ان کو خدا تعالیٰ کی محبت کے طور پر دے سکتے ہیں.ان کو آنحضرت ﷺ سے نسبت ہے.ایک شاعر نے کہا ہے بات تو گندی ہے لیکن ہے صلى الله درست کیونکہ پتہ لگتا ہے کہ نسبتوں کا بھی کہاں تک خیال ہوتا ہے.
سيرة النبي علي 434 گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی حضرت صاحب نے قصیدہ الہامیہ میں فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوى حب پیمبرم جلد 1 خواہ غیر احمدی ایک نبی کے انکار کی وجہ سے کافر ہی ہو گئے ہیں مگر وہ کہتے تو ہیں الله کہ ہما را آنحضرت ﷺ سے تعلق ہے.جہاں وہ ایک نبی کے منکر ہیں وہ ایک سے پیار کا بھی دعوی کرتے ہیں.پس سیدوں کو آنحضرت ﷺ سے تعلق نسبی ہے اس لئے جہاں میں آپ لوگوں کو صدقات کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہاں یہ بھی بتاتا ہوں کہ میں نہیں چاہتا کہ صدقہ کسی فتویٰ سے سیدوں کے لئے جائز کر دیا جائے.رسول کریم ﷺ کے ہم پر صلى الله احسانات ہیں اس کے بدلہ میں سیدوں کو ہدیہ دیئے جائیں.رسول کریم وہ خود بھی (الفضل 21 ، 24 جولائی 1917ء) ہدیہ کھاتے تھے.“ رسول کریم ﷺ پر اعتراض کے خطرناک نقصان پھر 20 جولائی صلى الله 1917ء کے خطبہ میں رسول کریم ﷺ پر اعتراض کے خطرناک نقصان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.وو رسول کریم ﷺ نے غزوہ حنین کے بعد بہت سے اموال جو حضور کے پاس پہلی غنیمتوں میں سے بھی جمع تھے مکہ کے نومسلموں کو دلائے.اس پر انصار میں سے بعض نو جوانوں نے کسی مجلس میں کہہ دیا کہ اب تک خون تو ہماری تلواروں الله ٹپک رہا ہے مگر مال ان لوگوں کو دے دیا گیا جو حق دار نہیں تھے.جب آنحضرت علی کو معلوم ہوا کہ انصار میں سے بعض نے اس طرح کہا ہے تو حضور نے انصار کو بلوایا اور
سيرة النبي علي 435 جلد 1 پوچھا کہ اے انصار ! کیا تم نے اس طرح کہا ہے ؟ وہ لوگ منافقت پسند نہ کرتے تھے جن کی مجلس میں یہ باتیں ہوئی تھیں اُنہوں نے کہہ دیا کہ حضور ! بعض نادان نو جوانوں نے بے شک کہہ دیا ہے لیکن ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے انصار ! تم میری نسبت کہہ سکتے ہو کہ یہ اکیلا آیا تھا ہم نے اس کا ساتھ دیا، اسے گھر والوں نے نکال دیا تھا ہم نے اس کو جگہ دی ، اس پر دشمنوں نے حملے کئے ہم نے ں تلواروں سے اس کی مدد کی ، اسلام غریب تھا ہم نے اپنے مالوں سے اس کی مدد کی لیکن جب وقت آیا تو ہماری قدر کرنے کی بجائے غیروں کو مال دیئے گئے.پھر تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا کے رسول کو ہم نے اُس وقت قبول کیا جبکہ اُس کے شہر والوں نے اُس کو نکال دیا تھا مگر آج مال اُن کو دے دیا گیا مگر اے انصار ! کیا تم اس بات کی قدر نہیں کرتے کہ مہاجرین بھیڑ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں اور تم خدا کے رسول کو گھر لے آئے ہو.انصار نے پھر عرض کیا حضور ! بعض نوجوانوں نے نادانی سے یہ کہہ دیا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا جو ہونا تھا ہو گیا تم میں سے بعض نے دنیا کی خواہش کی جس کا نتیجہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اب تم اپنا حصہ کوثر پر مجھ سے مانگنا 2.اس پر غور کرو کہ مدینہ میں جو چند مہاجرین تھے ان کی نسل تو دنیا میں کثرت سے موجود ہے مگر انصار جو کہ وہیں کے باشندہ تھے ان کی نسل دنیا سے ایسی معدوم ہوئی کہ تمام دنیا میں بہت ہی تھوڑے لوگ ہیں جو اس نسل سے تعلق رکھتے ( الفضل 28 جولا ئی 1917ء) ہیں.66 1 بخاری كتاب الزكواة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل صفحه 242،241 حدیث نمبر 1485 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية صلى الله 2: بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى الله يعطى المؤلفة قلوبهم صفحه 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 436 جلد 1 صلى رسول کریم اللہ کا ازواج مطہرات سے مشورہ لینا حضرت مصلح موعود اپنے ایک لیکچر فرمودہ 6 اکتوبر 1917 ء میں اہم امور میں رسول کریم ﷺ کا اپنی ازواج سے مشورہ لینے کے بارہ میں فرماتے ہیں:.پھر رسول کریم ﷺ کی عادت تھی اور احادیث سے ثابت ہے کہ آپ بڑے بڑے اہم امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ لیتے تھے.چنانچہ جب آپ حج کو گئے ہیں اور کفار نے مکہ جانے سے روک دیا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ احرام کھول دیں لیکن انہوں نے نہ کھولے.تو آپ بیوی کے پاس گئے اور جا کرسب بات بتائی.انہوں نے کہا آپ خاموش ہو کر جائیں اور قربانی کر کے اپنا احرام کھول دیں یہ دیکھ کر سب ایسا ہی کریں گے.آپ نے ایسا ہی کیا اور سب مسلمانوں نے احرام کھول دیئے 1.تو ہمیشہ عورتیں بڑی بڑی خدمتیں کرتی اور امور مُہمہ میں مشورے دیتی رہی ہیں.پس آجکل کی عورتوں کا یہ غلط خیال ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں حالانکہ وہ بہت کچھ کرسکتی ہیں.“ ( الفضل 27 اکتوبر 1917ء) 1 بخارى كتاب الشروط باب فى الجهاد والمصالحة مع اهل الحرب وكتابة الشروط صفحه 447 تا 449 حدیث نمبر 2731 ، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 437 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع کامل موحد حضرت مصلح موعود نے 6 اکتوبر 1917ء کے لیکچر میں رسول کریم ﷺ کو بطور کامل توحید پرست بیان کرتے ہوئے فرمایا:.صلى الله اسلام کا سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اس عقیدہ کو پھیلانے کے لئے آنحضرت ﷺ کو بڑی بڑی تکالیف اٹھانی پڑیں.مکہ والوں کا ذریعہ معاش چونکہ بت ہی تھے اور انہیں پر ان کی گزران تھی اس لئے بتوں کو چھوڑنا ان کے لئے بہت مشکل تھا.جب آنحضرت ﷺ نے بتوں کے خلاف سمجھانا چاہا تو انہوں نے ایک مجلس کی اور ایک آدمی مقرر کیا جو آنحضرت ﷺ کو جا کر کہے کہ آپ اس بات سے باز آجائیں.چنانچہ وہ شخص آپ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو ہم بہت سا مال لا کر آپ کے سامنے ڈھیر کر دیتے ہیں.اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں.اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میری بات مانی جائے تو آئندہ ہم آپ کے مشورہ کے بغیر کوئی بات نہیں کریں گے اور اگر آپ کو کوئی بیماری ہو گئی ہے تو ہم اس کا علاج کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن آپ بتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر رکھ دو تو بھی میں یہ کہنا نہیں چھوڑوں گا کہ خدا ایک ( الفضل 27 اکتوبر 1917ء ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ حضرت نوح سے لے کر آپ ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں 1.“ اس زمانہ کا فتنہ تک کے سب نبیوں نے اس فتنہ کی خبر دی ہے جو حضرت مسیح موعود
سيرة النبي علي 438 جلد 1 کے وقت آئے گا.اب دیکھ لو کہ اتنے بڑے فتنہ کے دور کرنے کے لئے کس قدر کوشش کی ضرورت ہے.آجکل ہماری جماعت کے مردوں سے جس قدر ہوسکتا ہے کوشش کر رہے ہیں.“ ( الفضل 27 اکتوبر 1917ء) 1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 2: بخارى كتاب الفتن باب ذكر الدجال صفحہ 1227 حدیث نمبر 7127 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 439 جلد 1 رسول کریم علیہ کی امتیازی خصوصیت حضرت مصلح موعود نے 9 اکتوبر 1917 ء کو پٹیالہ میں ایک تقریر فرمائی.اس میں رسول کریم ﷺ کی پانچ خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وو دیگر اقوام میں بھی ایسی ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں جو نبی بھیجے گئے وہ صرف ان ہی کے لئے تھے اس لئے ضروری تھا کہ وہ اپنی اپنی قوم کو ہی تعلیم دیتے حتی کہ وہ نبی آجائے جس نے کہا کہ میں تمام دنیا کے لئے بھیجا گیا صلى الله ہوں اور یہ دعویٰ اگر کسی نبی نے کیا ہے تو وہ ہمارے آنحضرت ﷺ ہی ہیں.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے دوسرے نبیوں کی نسبت پانچ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کے لئے بھیجے جاتے تھے مگر میں تمام جہانوں کے لئے ہوں 1.یہ دعوی آنحضرت ﷺ سے پہلے کسی نبی نے نہیں کیا کہ میں ساری دنیا کے لئے ہوں اور کسی قوم کا یہ کہنا کہ ہمارا نبی تمام دنیا کے لیے آیا تھا درست نہیں ہوسکتا کیونکہ اس طرح تو مدعی ست گواہ چست والی مثل صادق آئے گی.اب بے شک عیسائی صاحبان کہتے ہیں کہ حضرت مسیح تمام دنیا کے لئے بھیجے گئے تھے لیکن ان کے اپنے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے بھیجے گئے تھے اور ان کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بعثت سارے جہان کے لئے نہ تھی.پس یہ بعد کی بنائی ہوئی بات ہرگز سند نہیں ہوسکتی کہ وہ سارے جہان کی طرف بھیجے گئے تھے.اسی طرح کسی نبی کا ایسا دعویٰ کسی اور مذہبی کتاب میں نہیں پایا جاتا.ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن کے سوا اور کوئی کتاب خدا کی
سيرة النبي علي 440 جلد 1 طرف سے نہیں آئی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جتنے مذہب بچے اور خدا کی طرف سے ہونے کے مدعی ہیں ان کی ابتدا خدا کی طرف سے ہوئی ہے اور ان میں جو کتابیں بھیجی گئیں وہ بھی ابتدا میں سچی تھیں لیکن موجودہ صورت میں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے اور نہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام جہانوں کے لئے ہمیشہ کے واسطے ہیں.یہ دعویٰ صرف قرآن کریم کا ہی ہے اور یہ ایسا دعویٰ ہے جو رب العالمین خدا کی شان کے شایان ہے اور جو لوگ اس کے خلاف تعلیم پیش کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کو نظر انداز کر دیتے ہیں.اگر وہ اس صفت کو مدنظر رکھتے تو کبھی حق سے دور نہ ہوتے.خدا تعالیٰ کا رب العالمین ہونا ایک اور بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر پہلے فضل اور انعام کیا کرتا تھا اب بھی کرے.جو سامان ان کی ربوبیت کے پہلے پیدا کرتا تھا اب بھی پیدا کرے.“ (الفضل 15 دسمبر 1917ء) الله 1: بخاری كتاب الصلوة باب قول النبي علم جعلت لى الارض مسجدا وطهورا صفحه 76 حدیث نمبر 438 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 441 جلد 1 رسول کریم علیہ کی آواز نے پوری دنیا کو بیدار کر دیا حضرت مصلح موعود نے 27 دسمبر 1917 ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں تقریر فرمائی.اس میں آپ رسول کریم ﷺ کی با برکت آواز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جب عرب کے ریگستان سے محمد ﷺ کی آواز ابتدا میں اٹھی تو کیا اُسی وقت ہندوستان پہنچ گئی تھی ؟ نہیں.لیکن جب اس میں گونج پیدا ہوئی تو دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پہنچ گئی اور خواب غفلت میں سونے والوں کو جگا کر کھڑا کر دیا.دنیا میں بہت سی قومیں ایسی تھیں جو ہزاروں سال سے غفلت کی نیند میں پڑی سوتی تھیں اور ہزاروں نبی ان کو جگا نہ سکے تھے لیکن محمد اللہ نے ان کو ایسا جگایا کہ پھر سو نہ سکیں.حتی کہ آپ کی دشمن اور خون کی پیاسی قو میں بھی نہ سوسکیں.گو انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا اور اس نور اور روشنی سے محروم رہیں جو آپ لائے تھے لیکن آپ کی بعثت کے بعد چین سے سونا ان کو بھی نصیب نہ ہوا.انہیں ایک ایسی آگ لگ گئی جسے وہ کسی طرح بھی بجھا نہ سکیں اور جنہوں نے صبر اور تحمل سے کام لے کر آپ کی آواز کو سنا 66 اور اس کو قبول کیا وہ تو ایسے جاگے کہ دنیا کے جگانے کا موجب ہو گئے.“ (حقیقۃ الرؤیا صفحہ 3 روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر 1918ء)
سيرة النبي علي 442 جلد 1 صلى الله بہترین شارع شریعت می حضرت مصلح موعود 27 دسمبر 1917ء کو جلسہ سالانہ پر تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.رسول کریم عملے کے وقت ایک واقعہ ہوا تھا.آپ نے ایک لشکر کو ایک افسر کے ماتحت بھیجا تھا.ایک مقام پر اس نے لوگوں کو آگ میں کودنے کا حکم دیا.کچھ لوگ تو اس کیلئے تیار ہو گئے اور باقیوں نے کہا کہ یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اس لئے ہم اس کی تعمیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں.جب لشکر واپس آیا تو رسول کریم ﷺ کے حضور یہ بات پیش کی گئی.آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کودتے تو سیدھے جہنم میں جاتے 1.(حقیقة الرؤیا صفحہ 11 روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر 1918ء) 1 : بخاری کتاب المغازى باب سرية عبد الله بن حذافة صفحه 735 حدیث نمبر 4340 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 66
سيرة النبي علي 443 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کی مجالس رسول کریم ﷺ کی مجالس کیسی ہوتی تھیں اس کا نقشہ حضرت مصلح موعود نے 27 دسمبر 1917ء کی تقریر بر موقع جلسہ سالانہ قادیان میں یوں کھینچا :.صلى الله و کسی گزشتہ جلسہ کے موقع پر میں نے بتایا تھا کہ ایک دفعہ مسجد میں رسول کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.عبداللہ بن مسعودؓ جو گلی میں جا رہے تھے آنحضرت یہ کی آواز سن کر وہیں بیٹھ گئے 1.اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہوتی ہے.ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مجلس میں تین شخص آئے ، مجلس میں جگہ نہ تھی ، ان میں سے ایک تو واپس چلا گیا، ایک پیچھے ہی بیٹھ گیا اور ایک نے کوشش کر کے آگے جگہ حاصل کر لی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس مجلس میں تین شخص آئے تھے.ان میں سے ایک نے جب دیکھا کہ اس تک میری آواز نہیں پہنچتی تو وہ چلا گیا، دوسرے نے جانے سے شرم کی اور بیٹھ گیا ، تیسرے نے کوشش کی اور گھس کر آگے آ بیٹھا.جو چلا گیا خدا نے اس سے منہ پھیر لیا اور جو جانے سے شرما گیا خدا نے بھی اس کے گناہوں سے چشم پوشی کی اور جو کوشش کر کے آگے آ بیٹھا خدا نے بھی اس کو اپنے قرب میں جگہ دی 2.پس اگر تم میں سے بھی کسی کو آواز نہ آئے تو اس کیلئے یہ جائز نہیں کہ اٹھ کر چلا جائے بلکہ وہ خود اپنے نفس کو وعظ کرے کہ اے نفس ! تیرا ہی کوئی گناہ ہوگا جس کی وجہ سے مجھے پیچھے جگہ ملی ہے میں جو آگے نہیں بیٹھ سکا تو یہ میری ہی ستی ہے جس کی یہ سزا مجھے مل رہی ہے کہ آواز نہیں آتی.جب وہ اپنے نفس کو یہ وعظ کرے گا تو دوسرے موقع پر وہ پیچھے نہیں رہے گا بلکہ سٹیج کے پاس ہی بیٹھنے کی کوشش
سيرة النبي علي 444 جلد 1 کرے گا.“ (حقیقة الرؤیا صفحہ 14 روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر 1918ء) مذکورہ لیکچر میں ہی رسول کریم ﷺ کے اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.آپ لوگ اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ ہم لوگ جس نبی کے پیرو ہیں وہ بڑے ہی اعلیٰ اخلاق والا انسان تھا.آپ ایسے اخلاق والا نہ کوئی پہلے ہوا ہے اور نہ کوئی ہوسکتا ہے.پھر آپ کے بروز حضرت مسیح موعود کے بھی بے نظیر اخلاق تھے.اب تم خود ہی غور کر لو کہ ایسے نبیوں کے پیرو اور مرید ہو کر تمہیں کیسے اخلاق دکھانے چاہئیں.مجھے مسلمان کہلانے والوں پر تعجب ہی آیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے رسول کریم ﷺ کی کوئی خوبی آپ کی طرف منسوب نہیں ہونے دیتے.قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کی بیشمار خوبیاں بیان کی گئی ہیں مگر یہ سب حضرت عیسی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے متعلق مفسرین بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں کہ فلاں فلاں آیت میں نَعُوذُ بِاللهِ ) آپ پر عتاب نازل ہوا.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 3 کہ لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو مجھے اپنا محبوب بناؤ مگر وہ کہتے ہیں کہ آپ پر خدا تعالیٰ عتاب ہی عتاب کرتا رہا ہے.وہ جن آیتوں کو عتابی قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک کو پڑھ کر تو مجھے اتنا مزہ آتا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ سامنے ہوں تو آپ کو محبت سے چمٹ ہی جاؤں.خدا تعالیٰ آپ کے اخلاق کے متعلق ایک بات بیان فرماتا ہے اور وہ یہ کہ عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمٰى 4.اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ اس کے پاس ایک اندھا آ گیا.مفسرین کہتے ہیں یہ عقابی آیت ہے اور اس میں خدا نے آنحضرت ﷺ کو یہ سزا دی ہے کہ آپ کو صیغہ غائب سے مخاطب کیا ہے اور ناراضگی کی وجہ سے نام نہیں لیا کیونکہ جب آپ کے پاس اندھا آیا تو آپ نے تیوری چڑھائی اور اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.اس پر خدا تعالیٰ کو ایسا غصہ آیا کہ آپ کو
سيرة النبي علي 445 جلد 1 مخاطب کرنا پسند نہ کیا.لیکن نادان نہیں جانتے کہ یہ نہایت پیار اور محبت کا کلام ہے.کسی سے ناراضگی اور ناپسندیدگی کیوں کی جاتی ہے؟ اسی لئے کہ اس پر اس کا اظہار ہو جائے اور وہ سمجھ لے کہ میری فلاں حرکت پر ناراضگی ہوئی ہے اور یہ حرکت بعض دفعہ بداخلاقی سمجھی جاتی ہے.لیکن اگر کسی کی کوئی بات ناپسند ہو اور اس ناپسندیدگی کا اظہار اس پر نہ کیا جائے تو یہ بد خلقی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ہے.مثلاً کوئی کسی کے بیٹے کو مار رہا ہو اور وہ پاس سے گزرے تو اپنے بیٹے کو پیٹتا دیکھ کر اسے ناراضگی تو طبعا ہونی چاہئے اور ہوگی لیکن اگر وہ اس کو ظاہر نہ ہونے دے اور مارنے والے سے اپنی ناراضگی کو بالکل چھپائے رکھے تو یہ اس کا خلق ہوگا نہ کہ بدخلقی.دنیا میں ناراضگی کا اظہار کئی طریق سے کیا جاتا ہے.کئی اس کا اظہار مارنے کے ذریعہ کرتے ہیں، کئی گالیوں کے ذریعہ کرتے ہیں، کئی درشت اور کرخت آواز سے کرتے ہیں اور کئی چہرہ کی بناوٹ سے کرتے ہیں.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے جو اظہار نا پسندیدگی کیا تو کس طریق سے کیا.اسی طریق سے کہ تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا لیکن یہ ایسا طریق تھا کہ جس سے اندھے پر ہرگز ظاہر نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کی کسی حرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ نہ تو وہ منہ کی بناوٹ کو دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی منہ پھیرنے کو معلوم کرسکتا تھا.پھر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے بد خلقی کیا کی؟ اس کے ساتھ بدخلقی تو تب ہوتی کہ اس کو کوئی گالی دی جاتی یا سختی سے کچھ کہا جاتا لیکن رسول کریم ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایسا طریق اختیار کیا جس کا اسے احساس تک نہ ہوا.پس یہ اعلیٰ درجہ کا خلق ہے نہ کہ بد خلقی.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں غائب کے صیغے استعمال کئے ہیں کیونکہ ان صیغوں میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ اس وقت رسول کریمہ سے مخاطب نہیں بلکہ دوسرے لوگوں سے مخاطب ہے اور دوسرے لوگوں سے خطاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاق حسنہ کا الله
سيرة النبي علي 446 جلد 1 ذکر کرتا ہے کیونکہ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اس برگزیدہ رسول کی کوئی معمولی غلطی دیکھ کر (اگر اس غلطی کو مانا جائے ) لوگوں کو اس غلطی پر آگاہ کر کے اس پر اسے شرمندہ کرے گا؟ میرے نزدیک تو غائب کے صیغے ہی بتا رہے ہیں کہ عتاب نہیں خوبی کا اظہار ہے اور خدا تعالیٰ باقی دنیا کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ دیکھو میرے رسول کے کیسے اخلاق ہیں کہ ایک اندھے کی ایک بات کو اس نے نا پسند کیا تو اس کا اظہار اس پر نہ ہونے دیا.اگر عتاب ہوتا تو پھر رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا جا تا تا یہ نہ ثابت ہو کہ خدا تعالیٰ اپنے محبوب کی شکایت دوسروں کے پاس کرتا ہے.یہ بات میں نے اس لئے بتائی ہے کہ ہم اس نبی کی امت ہیں جس کے ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق تھے کہ آپ نہ چاہتے تھے کہ میری بات سے کسی کی دل شکنی ہو.پس تمہاری بھی ہر ایک بات اور ہر ایک حرکت ایسی ہونی چاہئے کہ جس سے کسی کی دل شکنی نہ ہو.“ 66 (حقیقۃ الرؤیا صفحہ 19 تا 21 روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر 1918ء) رسول کریم ﷺ نے علم کی اقسام کا کس لطیف انداز میں ذکر فر مایا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود اسی لیکچر مذکورہ بالا میں فرماتے ہیں :.دنیا میں دو ہی علم ایسے ہیں جن کے نہ جاننے سے ہر فرد واحد کو نقصان ہوسکتا ہے، باقی کے نہ جاننے سے ہر ایک شخص کو نقصان نہیں ہوتا.ہاں ان کے جاننے سے فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ دو علم وہی ہیں جو رسول کریم ﷺ نے فرمائے ہیں.الْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الاَبُدَانِ وَعِلْمُ الْاَدْيَانِ.اصل میں علم دو ہی ہیں ایک جسموں کا علم اور دوسرے دینوں کا علم اور یہ دونوں اس قسم کے ہیں کہ ان کے نہ جاننے سے نقصان پہنچتا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ آپ نے کہیں جاتے ہوئے دیکھا کہ درمیان میں ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے اردگرد بڑا ہجوم ہے.آپ نے فرمایا یہاں کیا ہے کیوں لوگ کھڑے ہیں؟ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! ایک علامہ یعنی بڑا عالم ہے اس کے ارد گرد لوگ جمع ہیں.آپ نے فرمایا کس علم کا عالم
سيرة النبي علي 447 جلد 1 ہے.عرض کی گئی شعر کہتا ہے، تاریخ کا واقف ہے، زبان دانی میں ماہر ہے.آپ نے فرمایا علم لَا بِضَرِّ جهله یہ علم تو ہیں لیکن ایسے کہ ان کے نہ جاننے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا.(حقیقۃ الرؤیا صفحہ 28 ، 29 روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر 1918ء) 1: ابوداؤد ابواب الجمعة باب الامام يكلم الرجل في خطبته صفحه 164 ، 165 حدیث نمبر 1091 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 2:بخارى كتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس صفحه 16 حدیث نمبر 66 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: آل عمران: 32 4: عبس: 3،2
سيرة النبي علي 448 جلد 1 رسول کریم میہ کی قرآن سے محبت حضرت مصلح موعود نے رسول کریم ﷺ کی قرآن سے محبت اور امتِ مسلمہ کے متعلق درد کا اظہار کرتے ہوئے 27 دسمبر 1917 ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.خدا تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق ایک درد کا اظہار کرتا ہے اور چونکہ قاعدہ ہے کہ پیارے اور محبوب کے منہ سے نکلی ہوئی بات زیادہ اثر کرتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی زبانی ہی فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ہمارا رسول ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے صداقت کو قبول نہ کیا ہوگا قرآن کی طرف اشارہ کر کے کہے گا يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا 1.اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ترک کر دیا.یعنی اس قرآن کو میری قوم نے بالکل چھوڑ دیا اور اس کو نہ سیکھا نہ سمجھا.یہ ایک نہایت مختصر سا فقرہ ہے مگر اس میں ایسا دردبھرا ہوا ہے کہ یہ میرے سامنے کبھی نہیں آیا کہ میرا دل اس کو پڑھ کر کانپ نہیں گیا.دیکھو رسول کریم ہے یہ نہیں فرماتے کہ اے میرے رب! میری قوم نے قرآن کو بالکل ترک کر دیا حالانکہ یہی کہنا کافی تھا بلکہ کہتے ہیں يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.یہاں ھذا کا لفظ بہت ہی درد اور افسوس کو ظاہر کر رہا ہے.فرماتے ہیں خدایا ! تو نے میری قوم کو یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی نعمت دی تھی اور ایسی بابرکت کتاب بخشی تھی کہ جس کی کوئی مثال نہ تھی مگر میری قوم نے اس کو بھی چھوڑ دیا.تو قرآن کریم اپنے اندر اس قدرخوبیاں اور برکات رکھتا ہے کہ اس کا چھوڑ نا سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کوئی کس طرح گوارا کرسکتا ہے.رسول کریم ﷺ بھی
سيرة النبي ع 449 جلد 1 حیرت سے فرماتے ہیں کہ الہی ! انہوں نے ایسے قرآن کو چھوڑ دیا.دھیلے دمڑی کی چیز کو تو کوئی چھوڑتا نہیں لیکن ایسے قرآن کو جس کے مقابلہ میں ساری دنیا کا مال و متاع بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا چھوڑ دیا گیا.دیکھو اپنے آپ کو اس کیلئے تیار نہ کرو کہ رسول کریم ہے جس قوم کے متعلق یہ درد اور حیرت سے پر فقرہ فرمائیں گے اس میں تم میں سے بھی کوئی شامل ہو.قرآن کریم کی خوبیاں اور برکات ایسی عظیم الشان اور بے نظیر ہیں کہ کوئی عزت اس کے جاننے سے بڑھ کر نہیں ہے.پس اس کے جاننے اور سمجھنے کیلئے جلدی دوڑو کہ یہ کوئی معمولی انعام نہیں.اگر تمہیں اپنے پیاروں ، عزیزوں ، جائیدادوں وغیرہ کو قربان کر کے بھی یہ حاصل ہو جائے تو سمجھ لو کہ تمہارا ایک پیسہ بلکہ ایک دمڑی بھی خرچ نہیں ہوئی.“ (حقیقۃ الرؤیا صفحہ 39 ، 40 مطبوعہ روز بازار الیکٹرک ہال بازار امرتسر 1918ء) 1: الفرقان: 31
سيرة النبي علي 450 جلد 1 صلى الله رسول کریم ع کا وجود مجسم وعظ حضرت مصلح موعود 21 جون 1918 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ کے حضور عرض کیا کہ میں تو منافق معلوم ہوتا ہوں.آپ نے فرمایا کس طرح؟ اس نے کہا جب حضور کے سامنے آتا ہوں تو دوزخ اور جنت دونوں میرے سامنے آجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت ہے.اگر میں خدا کی اطاعت کروں گا تو اس میں مجھ کو جگہ دی جائے گی اور اگر اس کی نافرمانی کروں گا تو یہ دوزخ ہے اس میں مجھے ڈال دیا جائے گا لیکن جب حضور کے پاس سے چلا جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری ہر وقت ایک سی حالت رہے تو پھر تم ہلاک نہ ہو جاؤ 1.اب دیکھئے وہ کیا چیز تھی جو اس صحابی کے سامنے دوزخ اور جنت کو لا کھڑا کرتی تھی ؟ وہ رسول کریم ﷺ کی صورت مبارک تھی جس کو دیکھ کر اقرار کرنا پڑتا تھا کہ کوئی ضرور خدا ہے جس نے اس شخص کو اپنا رسول بنا کر ہماری اصلاح و ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور جو ہمیشہ اپنے رسولوں کو بھیجا کرتا ہے جو آکر لوگوں کو ہلاکت سے بچاتے ہیں.جس طرح واعظ خطبہ سے دوسروں کو کسی امر کی طرف توجہ دلاتا ہے اور الفاظ کو اپنے خیالات اور منشاء کے ادا کرنے کا ذریعہ بنا تا ہے اسی طرح خدا کے نبی اپنی شکل کے ذریعہ سے وعظ کرتے ہیں.ان کی شکل و صورت مجسم وعظ ہوتی ہے.وہ شخص جس کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے بے شک اس کے لئے ضروری ہے کہ کھڑا ہو کر وعظ کرے اور الفاظ کے ذریعہ دوسروں کو متاثر کرے.مگر وہ جس کا جسم اس کے الفاظ ہوں جس کے الفاظ اس کے اعمال ہوں اس کے لئے
سيرة النبي علي 451 جلد 1 ضروری نہیں کہ منبر پر چڑھ کر ہی وعظ کرے بلکہ جب اس پر کسی کی نظر پڑتی ہے تو اسے وہ مجسم وعظ نظر آتا ہے جس کا اثر اس پر پڑتا ہے.تو وہ رسول کریم ﷺ کا وجود مبارک ہی تھا جو دوزخ و جنت دونوں کو سامنے لاکھڑا کرتا تھا مگر لوگوں کے فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ لوگ بھی خطبہ سے کام لیتے ہیں اور ان کو سمجھا دیتے ہیں.پھر زبانی وعظ کا سلسلہ اس لئے جاری کیا گیا کہ ہر واعظ کی وہ حالت نہیں ہوا کرتی جو خدا کے خاص صلى الله بندوں کی ہوا کرتی ہے.رسول کریم ﷺے علاوہ اس تعلیم کے جس کے بغیر نجات نہیں آپ کا وجو د مبارک بھی مجسم وعظ تھا مگر اور واعظ جو کھڑا ہوتا ہے تو اس کا وجود اس بات کے لئے کافی نہیں ہوتا اس لئے وہ زبانی بھی کہتا ہے اور اسی کا نام خطبہ ہے.پس خطبات کے ذریعہ مسلمانوں کو اسلام کے احکام کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہ وہ حکمت ہے جو اسلام نے خطبات میں رکھی ہے.“ (الفضل 9 جولائی 1918ء) 1: مسلم كتاب التوبة باب فضل دوام الذكر والفكر في امور الاخرة والمراقبة وجواز ترک ذلك في بعض الاوقات صفحہ 1191 ، 1192 حدیث نمبر 6966 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية میں یہ الفاظ ہیں لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ
سيرة النبي علي 452 جلد 1 استقـ صلى الله نامت کے بارہ میں رسول کریم ع کے صلى الله ارشادات عليه حضرت مصلح موعود نے 30 اگست 1918 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا :.”اب میں رسول کریم ﷺ کے متعلق بتاتا ہوں کہ آپ نے استقامت کی نسبت کس قدر زور دیا ہے.حدیث میں آتا ہے وَكَانَ أَحَبُّ الدِّيْنِ إِلَيْهِ مَادَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُه ! کہ آنحضرت ﷺ کو وہ عمل سب سے زیادہ پسند اور پیارا تھا جس پر مداومت اختیار کی جاتی.ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس ایک عورت آئی اور اپنی عبادت گزاریوں کا ذکر کرنے لگی.آنحضرت یہ تشریف لائے تو آپ نے پوچھا کیا ذکر ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ یہ عورت عبادت گزار ہے بہت عبادت کرتی ہے.آپ نے فرمایا خدا کو تو وہ عمل پسند ہے جس میں مداومت اختیار کی جائے 2.اسی طرح عبداللہ ابن عمر و ابن العاص کی روایت ہے کہ انہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ يَا عَبُدَ اللهِ لَا تَكُنُ مِثْلَ فُلان كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ 3.اے عبداللہ ! فلاں کی طرح نہ ہو جو پہلے قیام لیل کیا کرتا تھا اور پھر اس نے چھوڑ دیا.معلوم ہوتا ہے یہ بات صلى الله آنحضرت کو بہت ہی ناپسند تھی کہ جو عمل اختیار کیا جائے اس پر مداومت نہ اختیار کی جائے.اسی لئے آپ نے عبداللہ کے سامنے اس شخص کا نام لے کر کہا کہ اس کی طرح نہ صلى الله کرنا.ورنہ آپ ﷺ کی عادت نہ تھی کہ کسی کا نام لے کر اُس کا عیب بیان کریں.آگے حضرت عبد اللہ نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ روایت میں اس کا نام نہیں ظاہر کیا.اس سے ظاہر
سيرة النبي علي 453 جلد 1 ہے کہ اگر کوئی ہر روز دورکعت نفل پڑھے تو وہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے جو ایک ہی دن میں سویا پچاس یا چالیس رکعت پڑھ کر پھر چھوڑ دے.اسی طرح وہ شخص جو ہر مہینہ میں ایک روزہ رکھتا ہے.بہتر ہے اُس کی نسبت جو ایک دفعہ تو سال بھر تک روزے رکھتا ہے اور پھر نام نہیں لیتا یا اسی طرح ایک ایسا شخص جو ایک دن محنت کرتا کرتا چوبیس گھنٹہ ختم کر دیتا ہے لیکن پھر اس کام کی طرف توجہ نہیں کرتا.اس کی نسبت وہ اچھا ہے جو روزانہ تھوڑا تھوڑا کرتا رہتا ہے.پس ہر کام میں استقامت کی ضرورت ہے اور استقامت کے سوا کوئی عمل نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.رسول کریم علیہ نے اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرما یا إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادُ الدِّينَ اَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا وَاسْتَعِيْنوا 4 که دین آسان ہے لیکن اگر کوئی اس میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا.اس لئے میانہ روی اختیار کرو اور نزدیک رہو اور ثواب کی امید رکھو اور استقامت مانگو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال میں غلو کی ضرورت نہیں.بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو عمل بھی کیا جائے ہمیشہ کیا جائے کیونکہ نجات زیادہ عملوں سے نہیں ہوگی بلکہ خدا کے فضل سے ہوگی.“ الفضل 17/21 ستمبر 1918ء) 66 2،1 بخاری کتاب الایمان باب احب الدین الی الله ادومه صفحه 10 حدیث نمبر 43 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3:بخارى كتاب التهجد باب ما يكره من ترك قيام الليل صفحہ 184 حدیث نمبر 1152 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4 بخاری کتاب الایمان باب الدين يسر صفحہ 10،9 حدیث نمبر 39 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 454 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کے اعمال اور خدا کے آپ پر انعامات الله 30 اگست 1918ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود آنحضرت علی کے اعمال اور خدا کے آپ پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.رسول کریم ﷺ کے عملوں کے مقابلہ میں خدا کے فضلوں کو دیکھا جائے جو آپ پر ہوئے تو آپ پر خدا کے فضل بہت ہی زیادہ ہیں.میرے نزدیک کسی نبی نے وہ کام نہیں کئے جو آنحضرت ﷺ نے کئے.اور اگر تمام انبیاء کے اعمال کو مجموعی حیثیت میں آنحضرت ﷺ کے اعمال کے مقابلہ میں رکھا جائے تو بھی آپ کے اعمال کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن باوجود اس کے اگر خدا کے ان احسانات کو دیکھا جائے جو خدا نے آپ پر کئے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں وہ بھی بہت بڑے ہیں.“ 66 الفضل 17/21 ستمبر 1918ء)
سيرة النبي علي 455 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کی گہری فراست کا ایک واقعہ وو حضرت مصلح موعود نے 21 ستمبر 1918ء کو مولوی محمد علی صاحب کی ایک چٹھی کے جواب میں ” حقیقۃ الامر“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں رسول کریم ﷺ کی گہری فراست کا واقعہ یوں درج ہے:.حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو بائبل پڑھتے ہوئے دیکھا اور اس پر آپ کو ڈانٹا.چنانچہ جابر سے روایت ہے اِنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ اللهُ بِنُسْخَةٍ مِّنِ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِّنَ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللهِ الا الله يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكَلَتْكَ التَّوَاكِلُ مَاتَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللهِ الا الله فَنَظَرَ عُمَرُ إِلى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ لا فَقَالَ أَعُوذُ بِاللهِ وَ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَمِنْ غَضَبٍ رَسُولِه 1 - یعنی حضرت عمر رسول الله الله کے پاس آئے اور آپ کے پاس ایک نسخہ تو رات کا تھا.آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو رات ہے.رسول اللہ یہ خاموش رہے اور حضرت عمر نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا.اس پر حضرت ابوبکر نے کہا رونے والیاں تم پر روئیں.عمر! دیکھتے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ سے کیا ظاہر ہوتا ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے منہ اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ میں خدا اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں.اب کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خطرہ تھا کہ حضرت عمر اس حق کو دیکھ کر نَعُوذُ باللہ اسلام سے بیزار ہو جاویں گے؟ کیا اس کی
سيرة النبي علي 456 جلد 1 صرف یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت عمر مذہبی مباحثات کرنے والے آدمی نہ تھے اور اس مرتبہ پر پہنچ چکے تھے کہ اب مزید تحقیق کی ان کو ضرورت نہ تھی.پس ان کا یہ فعل بے ضرورت تھا اور خطرہ تھا کہ ان کو دیکھ کر بعض اپنے مذہب کی پوری واقفیت نہ رکھنے والے بھی اس شغل میں پڑ جاویں اور ان باتوں کی تصدیق کر دیں جو باطل ہیں اور ان کی تکذیب کریں جو حق ہیں.اور کوئی تعجب نہیں کہ اسی وجہ سے روکا ہو کہ آپ عام مجلس میں بیٹھ کر پڑھتے تھے اور اس سے خطرہ ہوا کہ ان کو دوسرے لوگ دیکھ کر ان کی اتباع نہ کریں.الگ پڑھتے تو شاید آپ کو نہ روکا جاتا.“ (حقیقۃ الا مرصفحہ 7 ، 8 مطبوعہ عبد العظیم مالک احمد یہ بلڈ پو قادیان) صلى الله 1 سنن الدارمي جلد 1 باب ما يتقى من تفسير حديث النبي و قول غيره عند قوله صفحہ 126 حدیث نمبر 465 مطبوعہ کراچی
سيرة النبي علي 457 جلد 1 رسول کریم ع کولا محدود حمد ملے گی حضرت مصلح موعود 27 ستمبر 1918 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.جو شخص خدا کے لئے قربان ہو جائے اس کی زندگی اُسی کے لئے ہو جائے.اس کا چلنا پھرنا ، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، مرنا جینا سب خدا کے لئے ہو جائے ، خدا کی رضا حاصل کرنا ہی اس کا مقصد و مدعا ہو ایسے شخص کو جو حمد ملے گی وہ کبھی ختم نہیں ہوگی.صلى الله ایک شخص محمد م ہے ایسا ہوا کہ اس نے اپنی ہر ایک حالت کو خدا کے لئے ہی کر دیا.آج کروڑوں کروڑ انسان اس کی حمد کرتے ہیں اور خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس کی کچی تعریف کرنے والی ایک نہ ایک جماعت دنیا میں ضرور رہے گی.پھر آپ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ 1 علاوہ اس دنیا میں کوثر عنایت فرمانے کے اگلے جہان میں بھی جہاں جام پلائے جائیں گے آپ ہی ساقی ہوں گے.پس آپ (الفضل 5 اکتوبر 1918ء) 66 کی حمد کبھی ختم نہیں ہوگی.“ 1: الكوثر : 2
سيرة النبي علي 458 جلد 1 صلى الله رسول کریم مہ خدا کے سب سے بڑے عاشق حضرت مصلح موعود 6 دسمبر 1918 ء کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:."رسول کریم ﷺ کا ایمان حقیقی ایمان تھا.سب مسلمان الْحَمدُ لِلَّهِ کہتے ہیں اور الْحَمْدُ لِله کے معنی یہ ہیں کہ سب سچی تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو ہر قسم کے نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے.پس جس کے لئے سب تعریفیں ہوں گی وہی سب سے زیادہ حسین ہوگا اور جو سب سے زیادہ حسین ہوگا وہی زیادہ محبوب اور مطلوب ہوگا.اس لئے جو الْحَمُدُ لِلَّهِ کہتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی حسین نہیں.لیکن اگر وہ اور چیزوں کی بھی پرستش کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اَلحَمدُ لِلہ کے ثمرات سے بے خبر ہے.یوں تو الحَمدُ لِلَّهِ اپنے رنگ میں ہر ایک مذہب کا آدمی کہے گا مگر عمل اس کے مخالف ہو گا لیکن جن کو واقعی اس پر یقین ہوگا ان کا عمل ان کے ایمان پر گواہی دے گا.ان لوگوں کے مقابلہ میں جو الْحَمدُ لِلهِ تو کہتے ہیں مگر صلى الله ان کے اعمال اس پر گواہی نہیں دیتے.رسول کریم علیہ کو دیکھو.آپ نے بھی الْحَمْدُ لِلهِ کہا کہ خدا کے لئے سب خوبیاں ہیں.پھر آپ نے اس قول کو زندگی کے ہر ایک شعبے میں نباہا.فرانس کا ایک مشہور مصنف لکھتا ہے کہ ہم کچھ بھی (نعوذ باللہ ) محمد (ﷺ) کے متعلق کہیں.ہم کہیں کہ وہ پاگل تھا، مجنون تھا، اس نے دنیا میں ظلم کئے ، اس نے سوسائٹی میں تفرقہ ڈالا مگر ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کو خدا کے نام کا سخت جنون تھا.ہم اور کچھ بھی کہہ دیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کو خدا سے تعلق نہیں تھا.وہ جو کچھ بھی کرتا اور وہ جس حالت میں بھی نظر آتا ، خدا کا نام ضرور اس کی
سيرة النبي علي 459 جلد 1 زبان پر ہوتا.اگر وہ کھانا کھاتا تو خدا کا نام لیتا، اگر کپڑا پہنتا تو خدا کا نام لیتا، اگر پاخانہ جاتا تو خدا کا نام لیتا ، پاخانہ سے فراغت پا تا تو خدا کا نام لیتا ، شادی کرتا تو خدا کا نام لیتا ، غم میں مبتلا ہوتا تو خدا کا نام اس کی زبان پر ہوتا ، کوئی پیدا ہوتا تو خدا کا نام لیتا، کوئی مرتا تو خدا کا نام لیتا، اگر اٹھتا تو خدا کا نام لیتا، اگر بیٹھتا تو خدا کا نام لیتا، سونے لگتا تو خدا کا نام لیتا، جاگتا تو خدا کا نام لیتا، صبح ہوتی تو خدا کا نام لیتا ، شام ہوتی تو خدا کا نام لیتا.بہر حال محمد (ع) کو کچھ بھی کہو مگر اللہ کے لفظ کا اس کو ضرور جنون تھا.یہ نمونہ ہے آپ کے اعمال کا کہ دشمن سے دشمن بھی مجبور ہے اس بات کا اقرار کرنے پر کہ آپ کے لب پر ہر وقت اور ہر حال میں اور آپ کی ہر ایک حرکت وسکون (الفضل 14 دسمبر 1918ء) میں خدا ہی نظر آتا تھا.“
سيرة النبي علي 460 جلد 1 رسول کریم علیہ کا اپنے بعد امیر مقرر کرنا عليه کہ حضرت مصلح موعود نے 12 فروری 1919 ء کو اپنے سفر لاہور پر روانگی سے قبل قادیان میں تقریر فرمائی اور رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو پیش کر کے امیر مقرر کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.صلى الله رسول کریم ﷺ جب مدینے سے باہر کسی مقام پر تشریف لے جاتے تھے تو مدینے میں اپنے بعد کسی کو امیر مقرر فرما دیتے.جس کے سپر د مقامی انتظام ہوتا تھا.رسول کریم ﷺ کی عادت مبارکہ میں یہ بھی تھا کہ آپ ہمیشہ بدل بدل کر آدمی مقرر کیا کرتے تھے اور اس طریق میں بہت سے فوائد ہیں.اول تو یہ کہ اگر ہمیشہ ایک ہی شخص کو مقرر کیا جائے تو لوگ اس کے متعلق عجیب عجیب خیال اور قیاس خود بخود کر لیتے ہیں.دوسرے یہ کہ جب بدل بدل کر امیر مقرر کئے جاتے ہیں تو اس طرح ہر ایک میں فرمانبرداری کی عادت پیدا ہوتی ہے.رسول کریم ہے بعض بڑے بڑے صحابہ پر ایسے لوگوں کو بھی امیر مقرر فرما دیا کرتے تھے جو بظاہر چھوٹے نظر آتے تھے.مثلاً اسامہ کے ماتحت ابوبکر و عمر جیسوں کو کر دیا 1.اس میں حکمت یہی تھی کہ لوگوں میں ایک دوسرے کی اطاعت کا مادہ پیدا ہو.ایک اطاعت تو ایک شخص کی ذات کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن ایک اور اطاعت ہے جو خالصہ للہ ہوتی ہے.جب ایک انسان خدا کے نبی یا خدا کے مقرر کردہ خلیفہ یا کسی خلیفہ کے مقرر کئے ہوئے شخص کی اطاعت کرتا ہے تو دراصل وہی اطاعت خالص اور خدا کے لئے ہوتی ہے.“ الفضل 18 فروری 1919 ، صفحہ 5،4) 1 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 246 مطبوعہ بیروت 2012ءالطبعة الخامسة
سيرة النبي علي 461 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ اور روحانی لہریں - حضرت مصلح موعود نے 16 فروری 1919ء کو حضرت میاں چراغ دین صاحب لاہور کے مکان پر اصلاح اعمال کی تلقین“ کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس لیکھر کی صلى الله ابتدا میں رسول کریم علیہ کی سیرت کو روحانی لہروں کی صورت میں بیان فرمایا گیا ہے.چنانچہ فرمایا:.دو صلى الله رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی لہر اور پھر سب سے آخر اور سب سے صلى الله بڑی لہر رسول کریم مے کے ذریعہ یدا ہوئی.اُس وقت جبکہ دنیا میں لوگ غافل ہو کر تاریکی میں بھٹک رہے تھے اور سب پر مُردنی چھا گئی تھی رسول کریم ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے روحانیت کے دریا میں پُر جوش لہر پیدا کی جو کسی خاص زمانہ اور خاص مقام سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ تمام دنیا کے لئے ہے.گو یہ اہر ملک عرب میں پیدا ہوئی جو بظاہر رتبہ اور درجہ میں کوئی امتیاز نہ رکھتا تھا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیلتے پھیلتے تمام دنیا میں پھیل گئی.یہ تو اس کا ظاہری اثر ہے جو دنیا کو نظر آ رہا ہے اور ہر شخص خواہ وہ کافر ہو یا مومن محسوس کرتا ہے.یورپ کے مؤرخ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اسلام کے مؤرخ بھی.یہودی بھی اس کو مانتے ہیں اور عیسائی بھی.انبیاء کے ذریعہ پیدا ہونے یہ بات دنیا تسلیم کرے یا نہ کرے کہ حضرت موسی خدا کے نبی تھے لیکن اس میں شک نہیں والی لہروں کا اعتراف کہ کوئی قوم اس سے انکار نہیں کرسکتی کہ
سيرة النبي علي 462 جلد 1 حضرت موسی کے ذریعہ ایک ایسی لہر ضرور پیدا ہوئی جو تمام بنی اسرائیل میں پھیل گئی.پھر دنیا حضرت مسیح کے نبی اللہ ہونے کا انکار کرے تو کرے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتی کہ ان کے زمانہ میں بھی ایک لہر اٹھی تھی.اسی طرح یہ اور بات ہے کہ رسول کریم صلى الله کو تمام لوگ خدا تعالیٰ کا نبی نہ مانیں مگر اس میں شک نہیں کہ یہ بات ماننے کے لئے ساری دنیا مجبور ہے کہ آپ کے ذریعہ دنیا میں ایک ایسا تغیر ضرور پیدا ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں پیدا ہوا تھا.یہ نمایاں اور ہر ایک کو محسوس ہونے والا اثر ہے.روحانی لہر کا در پرده اثر اگر پوشیدہ اثر جس کو عام لوگ محسوس نہیں کرتے مگر واقعات بتاتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا عمل دنیا میں پھیلتا ہے اور ایک ہی جگہ نہیں ٹھہر جاتا اور جو مشین چلائی جاتی ہے وہ ٹھہرتی نہیں بلکہ آگے ہی آگے جاتی ہے.اور جس طرح ہماری تمام حرکات اس جو میں پھیل جاتی ہیں اور ان کے اثرات دور تک پہنچتے ہیں اسی طرح روحانی دنیا میں جو لہر اٹھتی ہے وہ بھی پھیلتی ہے اور دور دور تک پہنچتی ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کی مثال شرک کی رو جو نمایاں طور پر تاریخ میں محفوظ ہے اس کو لیتے ہیں.رسول کریم ﷺ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جس میں تمام اقوام عالم عموما شرک میں مبتلا تھیں.عموما کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اُس زمانہ میں بعض ایسے افراد بھی تھے جو فردا فردا وحدانیت کے قائل تھے لیکن ان کا کوئی اثر نہ تھا.عام طور پر ہر جگہ شرک ہی شرک تھا اور اُس زمانہ میں ایک سے زیادہ خدا مانا ایک فیشن کے طور پر ہو گیا تھا.جس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ جو قو میں تو حید مانتی تھیں ان میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں ایک سے زیادہ خدا تسلیم کئے جاتے تھے.بنی اسرائیل جن کی ساری کتابیں کہہ رہی تھیں کہ ایک کے سوا کسی کو خدا نه مانو وہ بھی کہتے تھے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے.اسی طرح زرتشتی جن کے مذہب کی بنیاد ابتدا میں خالص توحید پر تھی وہ بھی ایسی حالت میں تھے کہ بالکل شرک میں مبتلا
سيرة النبي علي 463 جلد 1 تھے.ادھر ہندوستان میں بت پرستی کی یہ حالت تھی کہ گو وہ کہتے تھے ایک خدا کی پرستش کرنی چاہئے لیکن قسم قسم کے بتوں کو پوجتے اور ان کی پرستش کرتے تھے اور مسیحی تو حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا بنا ہی چکے تھے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں تمام اقوام باوجود شرک کی منکر ہونے کے توحید پر قائم نہ رہی تھیں.گویا وہ ڈرتی تھیں کہ اگر توحید پر قائم رہیں تو مٹ جائیں گی.جیسا کہ آج کل پردہ کے متعلق عام لوگوں کا خیال ہے اور اس کے خلاف اسی بنا پر ایک رو چلی ہوئی ہے جس سے متاثر ہو کر مسلمان بھی کہتے ہیں کہ اب یا تو پردہ کو بالکل اڑا دیا جائے یا اس قدر خفیف اور ہلکا کر دیا جائے کہ اہل یورپ کو معلوم نہ ہو سکے کہ ہم پردہ کے پابند ہیں.اسی طرح تعدد ازواج کے متعلق مسلمانوں کی کوشش ہے کہ یورپ سے اس کو چھپایا جائے اس کے لئے طرح طرح کے بیچ ڈالے جاتے ہیں لیکن اصل بات یہی ہے کہ آج کل جور و چلی ہوئی ہے اس سے ڈر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہم اس کے سامنے کھڑے رہے اور اس کے ساتھ نہ بہنے لگے تو ہمارا مذہب قائم نہیں رہ سکے گا.اسی طرح اور مسائل ہیں مثلاً نماز.اس کے متعلق کہا جاتا ہے ظاہر نماز کی کیا ضرورت ہے، یہ پہلے لوگوں کے لئے تھی اب تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ میز کرسی پر بیٹھ کر خدا کی حمد گالیں اور جب خدا کا نام آئے تو ذرا سر جھکا دیں اور بس.یہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لئے کہ آج کل جو رو چلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے اصلی عقائد پر قائم رہے تو مٹ جائیں گے.یہی حالت توحید کی اُس زمانہ میں ہو چکی تھی جس میں رسول کریم ہے مبعوث ہوئے.تمام کے تمام مذاہب میں ایک روچل گئی تھی کہ ہم اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتے جب تک کہ کسی نہ کسی رنگ میں شرک کو اختیار نہ کر لیں.کس خبيث الفطرت انسان کے دل میں پہلے پہل یہ رو پیدا ہوئی.تاریخ سے اس کا پتہ نہیں ملتا لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ گندی رو پیدا ضرور ہوئی اور ابلیس کی تائید.پھیلتی گئی.
سيرة النبي علي 464 جلد 1 شرک کی رو سے توحید کی رو کا مقابلہ اس زرد کا مقابلہ کرنے اور رو اس کی بجائے تو حید پھیلانے کے لئے جو انسان اُس زمانہ میں کھڑا ہوا وہ رسول کریم یہ تھے.گو اُس وقت عرب میں ایسے لوگ تھے جو فردا فردا ایک خدا کو مانتے تھے مگر لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنے سے ڈرتے تھے.ہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس شعروں میں نکالتے تھے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں شرک کے خلاف رو موجود تھی مگر ایسی ہی جیسی کہ دریا کے مقابلہ میں درخت کی پتی.اس لئے وہ شرک کے دریا کو کیا روک سکتی تھی.پس اُن میں اتنی طاقت نہ تھی کہ شرک کے دریا کو روک سکتے.لیکن خدا تعالیٰ نے رسول کریم علی کے وجود میں ایسی رو پیدا کی جس نے شرک کا مقابلہ کر کے اسے مٹا دیا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یا تو یہ اہر چلی ہوئی تھی کہ ہر ایک مذہب والے اپنے مذہب میں شرک داخل کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم اس سے خالی نہ رہیں یا یہ کہ پینتیس کروڑ بتوں کے ماننے والے بھی کہنے لگے کہ ہم بھی تو حید کے قائل ہیں.پھر وہ قوم جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے اور جو توحید کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار تھے اور جنہوں نے توحید کی خاطر اپنی قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کرانا منظور کر لیا مگر اسی قوم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اس میں بھی شرک موجود تھا.رسول کریم ﷺ کی تو حید کی رو کا اثر مگر جب رسول کریم ﷺ کے ذریعہ توحید قائم ہوئی تو آج وہ مشرک لوگ جو اپنی بت پرستی پر بڑا زور دے رہے تھے کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں شرک بعد میں داخل ہوا ہے پہلے نہیں تھا.ہم کہتے ہیں کہ مانا کہ پہلے شرک نہیں تھا لیکن یہ تو بتاؤ کہ شرک کے خلاف تم میں خیال کب سے پیدا ہوا.رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد ہی پیدا ہوا.تو دنیا کو گو ظاہری طور پر نظر نہیں آتا صلى الله
سيرة النبي علي 465 جلد 1 کہ رسول کریم ﷺ کے ذریعہ شرک کے خلاف جو لہر پیدا ہوئی اس کا کس قدراثر ہوا لیکن جب بتایا جائے تو ہر ایک سمجھدار یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شرک کے خلاف رسول کریم ہے کے دل سے جو ہر نکلی وہی پھیل رہی ہے.یہ میں نے ایک الله ایسی مثال دی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر تمام لوگ مانتے ہیں کہ محمد ﷺ کا وجود ایک رولا یا جو تمام دنیا میں پھیلی اور اب ہر قوم اقرار کرتی ہے کہ ہمارے مذہب میں شرک نہیں.یا تو وہ وقت تھا کہ کہا جاتا تھا مسیح کا خدا ہونا عیسائیت کی صداقت کی دلیل ہے اور دیگر مذاہب پر اسے یہی فوقیت حاصل ہے چنانچہ گزشتہ زمانہ میں عیسائیوں اور مسلمانوں میں جو مناظرے ہوتے رہے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے مگر آج عیسائی صاحبان کہتے ہیں ہمارا مذہب اس لئے سچا ہے کہ صرف اسی میں توحید پائی جاتی ہے.گویا یہ مذہب یا تو اس لئے سچا تھا کہ اس میں خالص شرک پایا جاتا تھا یا اب اس لئے سچا ہے کہ الله اس میں خالص توحید پائی جاتی ہے.یہ کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم ﷺ کے ذریعہ جو لہر شرک کے خلاف پیدا ہوئی وہ سب کے اندر سرایت کر گئی اور اندر ہی اندر شرک کا قلع قمع کر رہی ہے.یہ لہر کو مخفی ہے اور ہر ایک کو نظر نہیں آتی مگر غور اور تدبر سے دیکھنے والے (الفضل 11 مارچ 1919ء) 66 خوب دیکھ سکتے ہیں.“
سيرة النبي علي 466 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی حضرت مصلح موعود اپنے لیکچر فرمودہ 26 فروری 1919 ء میں فرماتے ہیں:.الله اس مرض کی ابتدا تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی ہوئی جب کہ ایک صلى الله نا پاک روح نام کے مسلم نے رسول کریم ﷺ کے منہ پر آپ کی نسبت یہ الفاظ کہے کہ یا رسول اللہ ! تقویٰ اللہ سے کام لیں کیونکہ آپ نے تقسیم مال میں انصاف سے کام نہیں لیا.جس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِتُضِئِي هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمُرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمُرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ 1 - یعنی اس شخص کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن کریم بہت پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نہیں اترے گا.اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیرا اپنے نشانہ سے نکل جاتا ہے.“ (اسلام میں اختلافات کا آغاز صفحہ 24 مطبوعہ 1920ء) 1: بخارى كتاب المغازى باب بعث علی ابن ابی طالب و خالد ابن الوليد الى اليمن قبل حجة الوداع صفحہ 737 حدیث نمبر 4351 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي علي 467 جلد 1 صلى الله دعوی سے قبل رسول کریم عہ کے مجاہدات کا رنگ رسول م حضرت مصلح موعود نے 16 مارچ 1919ء کو ” عرفانِ الہی“ کے موضوع پر جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر خطاب فرمایا جس میں رسول کریم ع کے دعوئی سے قبل مجاہدات کے رنگ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :.”سب سے اعلیٰ درجہ کے انسان تو انبیاء ہیں.اولیاء تو ان سے بہت کم درجہ کے ہوتے ہیں.ان کے متعلق یہ کہنا کہ سید عبد القادر جیلانی نے ایک چور کی طرف دیکھا تو قطب بن گیا یا حضرت معین الدین چشتی کو آپ کے استاد نے ایک نظر میں اس درجہ تک پہنچا دیا اور انہیں سب کچھ حاصل ہو گیا بالکل غلط ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وہ رسول جس کے طفیل اور جس کی غلامی سے ان کو سب کچھ ملا اس کو خدا کس طرح ملا.اس کے لئے قرآن و حدیث سے پتہ لگ سکتا ہے.قرآن میں خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی 1 کہ ہم نے تجھ کو اپنی محبت میں جب ایسا پھو ر پایا کہ تمہیں اپنے سر پیر کی بھی خبر نہ رہی اور تو جب محبت الہی میں ایسا گم ہو گیا کہ تجھے اپنا پتہ ہی نہ رہا اُس وقت ہم نے تجھے ہدایت دی.صال کے معنی محبت میں چور اور گم ہونے کے ہیں اور قرآن اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ رسول کریم ہے کبھی گمراہی اور ضلالت میں نہیں پڑے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوى 2 بلکہ آپ کے ہر ایک فعل کو اسوہ حسنہ قرار دیتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ 3 اب خال کے معنی ایسے ہی کئے جائیں گے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو میری محبت میں اس قدر گم ہو گیا تھا کہ
سيرة النبي علي 468 جلد 1 تجھے پتہ ہی نہ تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور تجھے میری تلاش میں اپنے سر پیر کی بھی ہوش نہ رہی.تیرے تمام خیالات اور تمام جذبات میری محبت میں گم ہو گئے.رسول کریم ہے کے ایسا گم ہونے کو ہم ماننے کے لئے تیار ہیں اور تیار کیا ہم تو کہتے ہیں ایسا ضرور ہوا ہے.ایسی شدید محبت پیدا ہونے پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَھدی اس (عرفان الہی صفحہ 14،13) کے بعد ہم نے ہدایت کی.“ 1: الضحى: 8 2: النجم: 3 3: الاحزاب:22
سيرة النبي علي 469 جلد 1 صلى الله رسول کریم ﷺ بحیثیت بہترین معلم الله حضرت مصلح موعود نے 17 مارچ 1919 ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ کی سیرت کے بعض پہلو بھی بیان فرمائے جو درج ذیل ہیں:.تعلیم ایک ایسی ضروری چیز ہے کہ جس کے بغیر کوئی جماعت محفوظ اور زندہ نہیں رہ سکتی.رسول کریم ﷺ کو اس کا اتنا خیال تھا کہ آپ نے کچھ لوگوں کو اس شرط پر رہا کر دیا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں 1.چونکہ ابتدا میں صحابہ میں سے زیادہ تعداد پڑھے لکھے لوگوں کی نہ تھی اور جو لوگ تعلیم یافتہ تھے وہ اور ضروری کاموں میں لگے ہوئے تھے اس لئے رسول کریم علیہ نے کئی ایک ایسے کو جو لڑائی میں گرفتار ہو کر آئے تھے اس شرط پر رہا کر دیا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیا کریں.تو تعلیم ایک نہایت ضروری چیز ہے لیکن اس وقت تک ہماری جماعت کے لئے اس کا خاطر خواہ انتظام نہ تھا.اسی طرح تربیت بھی بہت ضروری شے ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی بڑے بڑے کاموں میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اور وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے جو ہونے چاہئیں.نمازی کو لے لو.بعض کلمات کا دہرانا ہی ضروری نہیں بلکہ بعض اور ہدایات کا صلى الله بھی بجالانا ضروری ہے مثلاً صف بندی کا حکم ہے.یہ حکم ایسا اہم ہے کہ رسول کریم میایی نے فرمایا ہے کہ صف سیدھی کرو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے اور تم میں پھوٹ پڑ جائے گی 2.“ (عرفان الہی صفحہ 77) پھر ایک نہایت ضروری رسول کریم اللہ کی نماز با جماعت سے محبت بات نماز با جماعت ہے.
سيرة النبي علي 470 جلد 1 صلى الله اس کے متعلق میں نے ایک گزشتہ جلسہ پر بھی کہا تھا کہ نماز جماعت کے بغیر ہو نہیں سکتی.مشکل وقت نماز کا صبح اور عشاء کا ہے.مگر رسول کریم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں عشاء کی نماز میں اپنی جگہ اور کسی کو کھڑا کر کے کچھ لوگوں کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھ کر لے جاؤں اور جو نماز کے لئے نہ آئے ہوں ان کے گھروں میں آگ لگا کر انہیں بھسم کر دوں 3 دیکھو رسول کریم ﷺ ایسا رحیم انسان جس صلى الله نے مکہ فتح کر کے اپنے جانی دشمنوں کو کہ دیا تھا لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 4 وہ عشاء کی کہہ نماز با جماعت نہ پڑھنے والوں کے متعلق کیا کہتا ہے.پس تم لوگ نماز باجماعت پڑھنے کی خاص کوشش کرو.“ ( عرفان الہی صفحہ 110 ) 1: زرقانی جلد 2 صفحہ 324 مطبوعہ بیروت 1994ء 2 بخاری کتاب الاذان باب تسوية الصفوف عند الاقامة وبعدها صفحه 117 حدیث نمبر 717 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 3: بخارى كتاب الاذان باب فضل صلاة العشاء فى الجماعة صفحه 107 حدیث نمبر 657 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 4: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 207 208 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء
سيرة النبي علي 471 جلد 1 صلى الله رسول کریم علیہ آزادی مذہب کے علمبردار حضرت مصلح موعود نے ریویو آف ریلیجنز کے ستمبر 1919ء کے شمارہ میں ایک مضمون تحریر فرمایا جس میں لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کے حوالہ سے رسول کریم ہے کے عملی نمونہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.پھر رسول کریم علیہ کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے اسلام منوانے کے لئے کبھی کسی پر جبر نہیں کیا.آج وہ لوگ جو آپ کے حالات سے ناواقف ہیں ضد اور تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ نے تلوار کے زور سے اسلام پھیلایا.مگر وہ جو جانتے ہیں انہیں خوب علم ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ساری زندگی ایسی گزری ہے جس میں جبر کا کہیں نام ونشان بھی نہیں.اس وقت میں آپ کی زندگی کا ایک معمولی واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ کس طرح آپ دوسروں کو دین کے معاملہ میں آزادی دیتے اور اسلام منوانے کے لئے کسی قسم کا جبر نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ آپ کہیں سفر پر گئے جب واپس تشریف لائے تو راستہ میں ایک درخت کے نیچے آرام کرنے کے لئے ٹھہر گئے اور اسی جگہ سو گئے.تلوار آپ کے پاس تھی اسے ایک طرف رکھ دیا.اس حالت میں ایک اعرابی آیا اس نے آپ کو پہچان لیا اور آپ ہی کی تلوار نکال کر کہا محمد! (ﷺ ) بتاؤ اب میرے ہاتھ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ، اللہ ، اللہ.یہ آپ نے ایسے پر جلال لہجہ میں کہا کہ وہ گھبرا گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی 1.آپ نے تلوار اٹھالی اور کہا اب تو بتا تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا آپ مجھ سے نیک معاملہ ہی کریں اور نرمی سے پیش آئیں 2.آپ
سيرة النبي علي 472 جلد 1 نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں؟ اس نے کہا نہیں.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ میری جان بخشی کریں تو میں آپ کے مقابلہ میں کبھی لڑنے نہیں آؤں گا.رسول کریم علیہ نے اس کو چھوڑ دیا.جب وہ چھوٹ کر آیا تو اپنے قبیلہ میں آ کر کہا کہ میں ایک ایسے انسان کے پاس سے آیا ہوں کہ جس سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا دنیا میں کوئی نہیں 3.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا جو آپ کی جان لینے کے لئے آیا تھا.پھر اس نے اسلام قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا.تاہم اسے چھوڑ دیا گیا.اگر آپ لوگوں کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنایا کرتے تو ایک ایسے شخص کو جس کی زندگی اور موت کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں تھا کیوں یونہی جانے دیتے.پھر دیکھو مکہ کے لوگ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کو سخت سے سخت تکلیفیں دیں اور مارنے کے منصوبے کئے.ان پر جب آپ کو قبضہ واقتدار حاصل ہوا تو آپ نے ان سے پوچھا بتاؤ اب تم سے کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے کہا وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.آپ نے فرمایا اچھا میں تم کو معاف کرتا ہوں 4 یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے ثابت ہے کہ جبراً کبھی کسی کو مسلمان نہیں کیا گیا.پس ایک طرف تو قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی پر اپنا مذہب منوانے کے لئے جبر نہیں کرنا چاہئے.اور دوسری طرف رسول کریم ﷺ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ دین کے معاملہ میں کسی پر جبر نہیں ہونا چاہئے.اس تعلیم پر اگر سب مذاہب کے لوگ قائم رہیں تو بہت سی نزاعوں کا خاتمہ اسی سے ہو جاتا ہے.“ 66 ریویو آف ریلیجنز 4 ستمبر 1919 ، صفحہ 299 ،300) 1: بخارى كتاب المغازى باب غزوة الرقاع صفحه 700 حدیث نمبر 4135 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 فتح البارى كتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع جلد 8 صفحہ 432 حاشیہ مطبوعہ مصر
سيرة النبي عل $1959 473 3: البداية والنهاية جلد 4 صفحه 87 مطبوعہ قاهره 2006 ء 4: السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 207 208 مطبوعہ بیروت لبنان 2012 ء جلد 1
سيرة النبي علي 474 جلد 1 تعلقات بین الاقوام کے بارہ میں اسلامی تعلیم اور رسول کریم ﷺ کا اسوہ اسلام اور تعلقات بین الاقوام“ کے عنوان سے حضرت مصلح موعود کی ایک تحریر جو که ریویو آف ریلیجنز اکتوبر 1919ء میں شائع ہوئی اس میں آپ نے تعلقات بین الاقوام پر اسلامی تعلیمات اور رسول کریم علیہ کے اسوۂ حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا :.وو صلى الله صلى الله قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ 1 یعنی اے مسلمانو! جب ملک میں امن قائم ہو تو تمہارا یہ کام نہیں کہ فساد ڈلواتے اور لوگوں کو دکھ دیتے پھرو.اگر تم مومن ہو تو امن ہی اچھے نتائج پیدا کرنے والی چیز ہے.پس لوگوں سے نیک سلوک کرو اور اچھا معاملہ کرو کسی کو دکھ اور تکلیف نہ دو.اس کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اے مسلمانو ! خدا نے ہرگز حلال نہیں کیا اس امر کو کہ دوسروں کے گھروں میں داخل ہوڈا کے ڈالنے کے لئے یا دکھ دو، نہ اس بات کو حلال کیا ہے کہ دوسروں کے پھل کھاؤ اور ان کی جانوں ، مالوں اور حرمتوں کو حرام کرو تمہارے جو حقوق ان کے ذمہ ہوں وہ لے لو لیکن یہ نہیں کہ ان سے سختی کرو.صلى الله پھر حدیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک یہودی سودا بیچ رہا تھا.ایک مسلمان اس کے پاس گیا اور جا کر کہا یہ چیز اس قیمت پر دو گے؟ یہودی نے
سيرة النبي علي 475 جلد 1 کہا اس خدا کی قسم جس نے موسی کو سب نبیوں پر فضیلت دی ہے میں اس قیمت پر نہیں دوں گا.اس پر مسلمان نے اس کو تھپڑ مارا.یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور جا کر شکایت کی.آپ نے اس شخص کو بلا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے اس لئے تھپڑ مارا ہے کہ اس نے موسی کو سب نبیوں سے افضل کہا ہے.آپ اس پر سخت ناراض ہوئے اور کہا آئندہ ایسی حرکت مت کرنا 2.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسلام میں امن کی تعلیم کس قدر زور کے ساتھ دی گئی ہے.چونکہ دوسروں کو دکھ اور تکلیف پہنچانا بہت سے فسادوں اور جھگڑوں کا موجب ہوتا ہے اس لئے اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے نہ کسی کا مال چھینو، نہ کسی سے بد معاملگی کرو، نہ کسی کی عزت وحرمت کو نقصان پہنچاؤ.یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو بہت سے فساد رک جائیں.تیسری بات یہ ہے کہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں کے احساسات کا خیال نہیں رکھتے اور ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتے ہیں جو دوسروں کے لئے بڑے دکھ اور تکلیف کا موجب ہوتے ہیں.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ لڑائی ہمیشہ مارنے پیٹنے سے ہی نہیں ہوتی بلکہ زبان سے بھی ہوتی ہے.اور زبان کی وجہ سے جو لڑائی ہوتی ہے وہ بہت ہی خطرناک ہوتی ہے.اس لئے زبان کے متعلق بہت احتیاط ہونی ضروری ہے.اس کے متعلق اسلام کا یہ حکم ہے وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ یعنی اے مسلمانو ! تمہیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ غیر مذہب والے جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں ان کو گالیاں دو.اگر تم ایسا کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بے علمی کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دیں گے.آخر وہ بھی انسان ہیں، ان میں بھی احساس کا مادہ ہے، ان کے دل پتھر کے نہیں ہیں.پس اگر تم ان کی گالیاں نہیں سننا چاہتے تو تم
سيرة النبي علي 476 جلد 1 بھی ان کے بزرگوں کو گالیاں نہ دو.اگر کوئی مسلمان زبان کی چھری چلاتا ہے اور حضرت کرشن ، حضرت رائم اور بابا نانک کو گالیاں نکالتا اور سخت الفاظ میں یاد کرتا ہے تو ان کو ماننے والے لوگ بھی مسلمانوں کے بزرگوں بلکہ خدا کو گالیاں دیں گے اور اس طرح آپس میں دشمنی اور عداوت پیدا ہو جائے گی.ہم احمدی تو مانتے ہیں کہ حضرت رائم اور کرشن خدا کے نبی تھے اور حضرت بابا نانک ایک بزرگ انسان تھے.مگر جو مسلمان ان کو ایسا نہیں مانتے وہ خیال کریں کہ وہ ان کے متعلق برے الفاظ استعمال کریں گے تو کیا ان کے ماننے والے مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق استعمال نہ کریں گے؟ ضرور کریں گے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپس میں عداوت اور دشمنی پیدا ہو جائے گی.پس صلح اور آشتی ، اتفاق اور اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات اور احساسات کا خاص خیال رکھا جائے اور کوئی دل دکھانے والا کلمہ کسی مذہب کے بزرگوں کے متعلق استعمال نہ کیا جائے.اسلام مسلمانوں کو یہی تعلیم نہیں دیتا کہ دوسروں کو جبراً مسلمان نہ بناؤ اور یہی نہیں کہتا کہ دوسروں کو مذہبی اختلاف کی وجہ سے دکھ اور تکالیف نہ دو بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ دوسروں کے جذبات کو بھی صدمہ نہ پہنچاؤ اور زبان سے بھی کسی کو آزردہ نہ کرو.الله اس کے متعلق قرآن کریم کا حکم تو میں بتا آیا ہوں اب رسول کریم ﷺ کا عمل صلى الله پیش کرتا ہوں.ایک دفعہ جب کفار نے صحابہ کو سخت تنگ کیا تو وہ رسول کریم علی کے پاس گئے اور جا کر کہا آپ مشرکین کے لئے بددعا کریں کہ خدا انہیں تباہ کرے.آپ نے فرمایا میرا یہ کام نہیں اور خدا نے مجھے لعنتیں ڈالنے کے لئے نہیں بھیجا بلکہ رحمت بنا کے بھیجا ہے اس لئے میں ایسا نہیں کر سکتا ہے.گو جھوٹے پر لعنت کرنا کوئی گالی نہیں اور نہ بری بات تھی کیونکہ جو جھوٹا اور شریر ہے اس پر خدا کی لعنت ہونی چاہئے لیکن جس پر کی جائے وہ برا مناتا ہے اس لئے ان کے احساسات کا خیال کر کے رسول کریم ﷺ نے ایسا نہ کیا.پس اگر ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھا جائے تو بہت سے فتنے
سيرة النبي علي 477 جلد 1 دور ہو سکتے ہیں اور اگر اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو بڑے بڑے خطرناک نتائج نکلتے ہیں.مثلاً دیکھو جرمن چانسلر نے لڑائی شروع ہونے کے وقت کیا چھوٹا سا فقرہ منہ سے نکالا تھا کہ معاہدہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے اور کچھ نہیں.لیکن اس سے کس قدر تباہی و بربادی پیدا ہوئی.بہت سے ملک جو جرمنی کے مقابلہ پر کھڑے ہوئے انہوں نے اور باتوں کے علاوہ اس فقرہ کو بھی مدنظر رکھا.پھر اور سیاسی وجوہات بھی تھیں جن کے ذریعہ اتحادی سلطنتوں نے لوگوں کو جرمنی کے خلاف جوش دلایا.لیکن اس فقرہ سے بھی اپنے ممالک میں جوش پھیلانے میں انہیں بڑی مدد ملی.اور انہوں نے اسی قسم کے فقروں سے عوام میں ایک جوش پیدا کر دیا.اور ان کے جذبات کو جرمنی کے خلاف پورے زور کے ساتھ ابھار دیا.تو ایسی باتیں بہت بڑا فتنہ ڈلواتی اور بڑے خطرناک نتائج کا موجب بن جاتی ہیں.قرآن بڑے زور کے ساتھ مسلمانوں کو اس قسم کی باتوں سے روکتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ کوئی مسلمان اس طرح نہ کرے.جب اسلام کی یہ تعلیم ہے تو اس کے مقابلہ میں مسلمان بھی دوسروں سے مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کوئی ان کے ساتھ بھی ایسا نہ کرے.اگر ایسا ہو جائے تو اس کے بعد آپس میں صلح اور اتحاد ہونا ایک یقینی امر ہے.اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ آپس میں صلح اور اتفاق کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے یہی ضروری نہیں ہوتا کہ ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ آپس میں نیک سلوک کیا جائے.اسلام کے متعلق عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس میں غیر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا.حالانکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں نہایت وضاحت کے ساتھ عمدہ سلوک کا حکم دیا گیا ہے.چنانچہ حکم ہے وَقَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ؟ اے مسلمانو! اللہ کے رستہ میں ان لوگوں سے مقابلہ کرو اور ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.مگر کسی پر کسی قسم کی زیادتی
سيرة النبي علي 478 جلد 1 مت کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام نے اپنے پیروؤں کو یہ ہر گز حکم نہیں دیا کہ جو تم سے برسر پیکار نہیں اور لڑتے نہیں ان سے محض اس لئے لڑو کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ یہ بتایا ہے کہ جو تم سے لڑتے ہیں انہی سے لڑو اور ان پر بھی کسی قسم کی زیادتی نہ کرو.اللہ اس کو ہرگز پسند نہیں کرتا.دیکھئے یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے.اب اگر تمام مذاہب والے اس پر عمل کریں تو پھر آئے دن آپس میں لڑائیاں اور فساد کیوں ہوتے رہیں.صلى الله اس کے متعلق رسول کریم اے کا عمل پیش کرتا ہوں.حضرت عبد اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جو بڑے بزرگ گزرے ہیں ان کے متعلق آیا ہے کہ وہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ بکری ذبح کی ہوئی ہے آپ نے پوچھا کیا اپنے یہودی ہمسائے کو گوشت بھیجا گیا ہے؟ کہا گیا نہیں.انہوں نے کہا ابھی بھیجو.میں نے رسول کریم ہے سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جبرئیل اتنی بار مجھے ہمسایہ سے سلوک کرنے کے متعلق حکم دینے کے لئے آیا ہے کہ میں نے خیال کیا کہ ہمسایہ کو وارث بنا دے گا6.یہ ہے اسلام کی تعلیم ہمسایہ لوگوں کے متعلق.اگر سب مذاہب والے اس پر عمل کریں اور تمدنی معاملات میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو بہت جلدی اتفاق اور اتحاد پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ جس کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے وہ ضرور نرم ہو جاتا ہے اور جب کوئی نرم ہو جائے تو پھر کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوسکتا.نیک سلوک تو الگ رہا اگر کوئی شرارت کر کے بھی نرم ہو جائے تو بھی دوسرے کا اس پر ہاتھ نہیں اٹھ سکتا.ایک واقعہ میں اپنے متعلق سناتا ہوں.ہم نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی ہوئی تھی.گاؤں کے دوسرے لڑکے روز اسے پانی میں لے جاتے اور لے جا کر خراب کرتے تھے.ایک دن میں نے لڑکوں کو کہہ دیا کہ جب وہ کشتی لینے آئیں تو مجھے اطلاع دینا.دوسرے دن جب وہ آئے اور لڑکوں نے مجھے بتایا تو میں ان کے پاس گیا.اور لڑ کے تو بھاگ گئے لیکن ایک کو میں نے پکڑ لیا.اس نے میرے آگے منہ رکھ دیا اور کہنے لگا لو
سيرة النبي علي 479 جلد 1 مرزا جی جتنا مارنا ہے مار لو.اس پر مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا.یہ بچپن کا واقعہ ہے.پس جب نرمی اختیار کرنے پر ایک بچہ کے دل میں بھی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے تو سمجھدار انسان کے دل میں کیوں نہ ہوگی.اس میں شک نہیں کہ وہ لوگ جو دنی الطبع ہوتے ہیں وہ نرمی سے نرم نہیں ہوتے لیکن اکثر لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے.غیر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے متعلق ایک اور روایت ہے.حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی اور رسول کریم ﷺ کی سالی کہتی ہیں کہ میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی.میں نے رسول کریم ﷺ کو کہلا بھیجا یا رسول اللہ! میری ماں آئی ہے اور مشرکہ ہے اور اسلام سے سخت متنفر ہے.کیا میں اس سے نیک سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ضرور کروح تو دنیاوی معاملات میں مذہب نیک اور اچھا سلوک کرنے کی ممانعت نہیں کرتا بلکہ حکم دیتا ہے.دنیاوی تعلقات چونکہ انسانیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اس لئے انسان بننے کے لئے ان کا امتیاز کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی پہلے انسان بنے گا تو پھر مسلمان یا ہندو یا عیسائی یا سکھ بن سکے گا.ور نہ جو انسان ہی نہیں یعنی انسانیت کے صفات اس میں نہیں پائے جاتے اس کا کیا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان یا ہندو یا عیسائی یا سکھ کہے.یہ تو اچھے سلوک کے متعلق ہوا.اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپس کے معاملات اور لین دین میں دیانتداری سے کام لیا جائے.کئی لوگ ہوتے ہیں جو بے وقوفی اور نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مذاہب کے لوگوں کا مال یا کوئی اور چیز دھوکا اور فریب سے لے لینا جائز ہے.چنانچہ کئی لوگ مجھ سے بھی پوچھتے ہیں کہ کیا گورنمنٹ کی چیزوں سے کچھ رکھ لینا بھی ناجائز ہے اور یہ بھی خیانت میں داخل ہے؟ اسی طرح ہندوؤں، مسلمانوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوکا فریب دے کر خود فائدہ اٹھا لینا جائز سمجھتے ہیں جو کہ سخت بد دیانتی ہے اور جب تک یہ دور نہ ہو اُس وقت تک آپس میں
سيرة النبي علي 480 جلد 1 ہرگز حقیقی اتحاد و اتفاق نہیں پیدا ہو سکتا کیونکہ جب ایک شخص دیکھے گا کہ فلاں مذہب کے آدمی نے میرے ساتھ چند پیسوں کے لئے بددیانتی کی ہے تو پھر اپنے ملک کی باگ اس کے ہاتھ میں دینے کے لئے کس طرح تیار ہو سکے گا.پس پہلے اپنے گھر میں اطمینان ہونا چاہئے کہ جن کے ساتھ تعلقات ہیں وہ خیانت نہیں کرتے اور پھر بڑے بڑے امور میں ایک دوسرے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے.اب اپنے گھر کی تو یہ حالت ہے که معمولی معمولی باتوں کے متعلق ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کیا جاتا اور گورنمنٹ کے ساتھ جو تعلقات ہیں ان کا یہ حال ہے کہ اگر مسلمانوں کو گورنمنٹ عہدے دیتی ہے تو ہندو اس کے خلاف شور مچا دیتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ ایک دوسرے پر اعتبار اور اعتماد نہیں ہے.سٹیجوں پر کھڑے ہو کر لیکچروں میں کہ دینا آسان اور بہت آسان ہے کہ آپس میں اتفاق اور اتحاد سے رہنا چاہئے لیکن صرف زبانی کہہ دینے سے نہ کبھی پہلے اتفاق ہوا ہے نہ اب ہو سکتا ہے.اتفاق و اتحاد کا وعظ کرنے والوں کو اپنے عمل اور اپنے خیالات کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا ہیں اور روز مرہ واقعات سے دریافت کرنا چاہئے کہ وہ کیا کہتے ہیں.ان واقعات کو جو آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں جاننے والا کس طرح آنکھیں بند کر کے کہہ سکتا ہے کہ اس طرح ہند و مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا ہو گیا ہے یا ہو سکے گا.قرآن کریم میں اس بات سے بڑے زور کے ساتھ روکا گیا ہے کہ ایک قوم دوسری کے ساتھ بد دیانتی کرے.چنانچہ آیا ہے وَمِنْ أَهْلِ الْكِتُبِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ ج بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّةٍ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَابِمَا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّينَ سَبِيلٌ : اہل کتاب میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ اگر ان کے پاس خزانہ بھی رکھ دیا جائے تو واپس کر دیں.مگر ان میں ایسے بھی ہیں کہ اگر انہیں ایک دینار دیا جائے تو بھی اُس وقت تک ادانہ کریں جب تک تو ان پر کھڑا نہ رہے.یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے ساتھ
سيرة النبي عمال 481 جلد 1 بد معاملگی کرنے میں کوئی حرج نہیں.اس کے متعلق فرمایا وَ يَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ.یہ جھوٹ کہتے ہیں اللہ پر حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ اس قسم کی تعلیم نہیں دے سکتا.تو اس قسم کی بدیانتی کو خدا نے ناپسند فرمایا ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ کسی ہندو، عیسائی یا سکھ یا اور کسی مذہب کے انسان کے ساتھ بد دیانتی کرے.اسی طرح اگر دیگر مذاہب کے لوگ کریں تو آپس میں بہت جلد حقیقی امن اور پورا اتحاد و اتفاق قائم ہو سکتا ہے.ورنہ جب تک آپس میں ایک دوسرے پر اعتبار نہ ہو اتحاد اور اتفاق کا ہونا ناممکن ہے.پھر ایک اور بات جو صلح کے لئے ضروری ہے وہ آپس میں مل کر کام کرنا ہے.ایک تو صلح کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپس میں دشمنی اور عداوت نہ ہو اور ایک یہ کہ وہ امور جن میں سب مذاہب والے متفق ہوں ان کے لئے مل کر کام کیا جائے.اس کے متعلق میں بتاتا ہوں کہ اسلام نے کیا حکم دیا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاءَ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَا جِرُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُم وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيَّا وَلَا نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُوْنَ إِلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيْثَاقُ 10- اس آیت میں فرمایا کہ فلاں فلاں معاملہ میں اس اس طرح کرو.مگر ان لوگوں سے نہیں جن سے تمہارا معاہدہ ہو.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن نے دوسروں کے ساتھ باوجود اختلافات مذہب کے مل کر کام کرنے کے معاہدے کرنے کی اجازت دی ہے.اب میں اس کے متعلق رسول کریم ﷺ کا عمل بتاتا ہوں.آپ جب مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے گئے اُس وقت مدینہ میں یہود اور مشرک دو قو میں تھیں.رسول کریم ﷺ کے جانے پر مشرک تو آپ پر ایمان لے آئے مگر یہود کے سوائے چند آدمیوں کے باقی آپ کے خلاف ہی رہے.ان سے رسول یم ﷺ نے ایک معاہدہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہود اور مسلمان مل کر مدینہ کی
سيرة النبي علي 482 جلد 1 حفاظت کریں گے اور اگر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو مل کر اس کا مقابلہ کریں گے.ہر فریق اپنا خرچ آپ برداشت کرے گا.یہود کا دین یہودیوں کے ساتھ اور مسلمانوں کا دین مسلمانوں کے ساتھ ہو گا.جو شخص آپس میں کسی پر ظلم کرے گا اس کا گناہ اس کی جان پر ہو گا.جو مسلمان اس معاہدہ سے نکلے گا وہ رسول کے حکم سے نکل جائے گا.پس ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کی ذمہ داریوں کا پابند ہو 11.صلى الله اس معاہدہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم عہ نے اس تعلیم پر خود عمل کیا.اور یہودی جو سب سے زیادہ اسلام کے ساتھ دشمنی اور عداوت رکھتے تھے ان کے ساتھ ایک کام کو مل کر کرنے کے لئے معاہدہ کیا اور اس معاہدہ کو اُس وقت تک نہیں تو ڑا جب تک کہ انہوں نے خود نہیں توڑ دیا.پس آپس میں اتحاد اور اتفاق قائم کرنے کا یہ بھی ایک طریق ہے کہ آپس میں معاہدہ کر لیا جائے اور پھر اس معاہدہ کی پابندی اختیار کی جائے.اس زمانہ میں یہ بھی ایک بہت بڑا نقص پایا جاتا ہے کہ جو لوگ آپس میں معاہدے کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پابندی کرنا ضروری نہیں ہے.جب تک ضرورت ہو اُس وقت تک معاہدہ ہے جب ضرورت نہ رہی معاہدہ بھی نہ رہا.جیسا کہ جرمنی نے کہا تھا کہ معاہدہ ایک کاغذ کا پُرزہ ہوتا ہے.اور روس کے بادشاہ کا قول مشہور ہے کہ معاہدے توڑنے کے لئے ہی ہوتے ہیں.مگر اسلام معاہدہ کی بڑی سختی کے ساتھ پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے.چنانچہ آتا ہے إِلَّا الَّذِيْنَ عُهَدْتُم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَ لَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَاتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ 12 - یعنی مشرکین میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تمہارا عہد ہے اور انہوں نے عہد کو نہیں تو ڑا اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ہے پس تم ان کے عہد کی مدت کو پورا کرو.اور یاد رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے.پھر فرمایا وَامَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمُ عَلَى سَوَآءِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَابِنِيْنَ 13
سيرة النبي علي 483 جلد 1 یعنی اگر تم کسی قوم سے معاہدہ کرو اور تمہیں شک ہو کہ وہ اندر ہی اندراس کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم چپ چاپ ان کے خلاف لڑنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ.بلکہ ان کی خیانت کو ان پر ظاہر کرو اور کہو کہ یہ بات ہے جس کی وجہ سے تم سے صلى الله جنگ کی جاتی ہے.اب رسول کریم ﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں.آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ایسی قوم کے آدمی کو قتل کرے جس سے معاہدہ ہوا سے خدا جنت میں داخل نہیں کرے گا.اور نہ صرف داخل ہی نہیں کرے گا بلکہ وہ جنت کی بو بھی نہیں سونگھے گا اور جنت کی بو ایسی ہے کہ چالیس سال کے عرصہ کی مسافت تک پہنچ جاتی ہے 14.یہ الگ مضمون ہے کہ چالیس سال کی مسافت سے کیا مراد ہے.یہ مذہبی استعارے ہوتے ہیں اس کے متعلق اگر میں بیان کرنا شروع کروں تو ایک ایسا مضمون شروع ہو جائے گا جو اس موضوع سے تعلق نہیں رکھتا جس پر اس وقت میں بیان کر رہا ہوں مگر اس سے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ رسول کریم علیہ نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے کو کس طرح زجر کی ہے.الله پھر صلح حدیبیہ جو ہوئی تھی اس میں ایک یہ شرطا قرار پائی تھی کہ اگر مکہ کا کوئی شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آ جائے تو آپ اسے واپس کر دیں اور اگر آپ کے پاس سے کوئی مکہ چلا جائے تو واپس نہ کیا جائے.یہ معاہدہ ہو چکنے کے بعد مکہ سے ایک مسلمان بھاگ کر رسول کریم ﷺ کے پاس آ گیا.اس کے لینے کے لئے مکہ کے لوگ آئے اور آ کر کہا کہ معاہدہ کے مطابق اسے واپس کر دو.اس شخص نے رسول کریم علیہ کو بتایا کہ مجھے یہ یہ دکھ دیئے گئے ہیں اور بہت ستایا گیا ہے اس لئے بھاگ کر آیا ہوں.کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ یہ لوگ مجھے لے جا کر پھر اسی طرح دیکھ دیں؟ آپ نے فرمایا چونکہ معاہدہ ہو چکا ہے اس لئے خواہ کچھ ہو جانا پڑے گا.چنانچہ وہ چلا گیا.لیکن راستہ میں ان آدمیوں میں سے جو اسے لے جا رہے تھے ایک کو مار کر پھر بھاگ
سيرة النبي علي 484 جلد 1 صلى آیا اور آ کر رسول کریم ﷺ کو کہا کہ آپ نے تو مجھے معاہدہ کے مطابق بھیج دیا تھا.اگر وہ مجھے نہیں لے جا سکے تو اس میں آپ پر کوئی حرف نہیں آتا.آپ نے کہا تو فساد ڈلوانا چاہتا ہے 15.ان واقعات سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسلام نے معاہدات کی کیا قدر اور وقعت رکھی ہے.اگر سب لوگ ان کی ایسی ہی قدر کریں تو نہایت مضبوط صلح ہو سکتی ہے.لیکن اگر دلوں میں یہ خیال ہو کہ جب موقع ملے گا نقصان پہنچا لیں گے تو صلح نہیں ہوسکتی.پھر اور بات صلح اور اتفاق کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر دو فریقوں میں سے کسی ایک سے کوئی غلطی ہو جائے تو ایک حد تک اس کو برداشت کر لینا چاہئے.اس کے متعلق قف قرآن کریم کی یہ آیت پیش کرتا ہوں کہ لَتُبُلوُنَّ فِى اَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ * وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَاِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ 16 خدا تعالى مسلمانوں کو فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہارے مالوں اور جانوں کے ذریعہ تمہاری آزمائشیں ہوں گی.یہودی، عیسائی اور مشرک تم کو دکھ دیں گے.اگر تم صبر کرو گے، اللہ کا تقویٰ کرو گے اور تکلیفوں کو برداشت کرو گے تو یہ بہت بڑی بات ہو گی.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کئی لوگ دوسروں کے ساتھ نیک اور اچھا سلوک تو کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں لیکن جب ان پر کوئی زیادتی کرے اور تکلیف دے تو اس کو برداشت نہیں کر سکتے.مگر اسلام نہ صرف یہ حکم دیتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا سلوک کرو، کسی کو دکھ نہ دو بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر کسی کی طرف سے غلطی کی وجہ سے زیادتی بھی ہو جائے تو اس کو برداشت کرو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ.اس کے متعلق رسول کریم ﷺ کا عمل دیکھئے آپ کا یہود سے معاہدہ تھا مگر وہ آ کر آپ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کی بجائے اَلسَّامُ عَلَيْكَ طعنہ کے طور پر کہتے جس کا
سيرة النبي علي 485 جلد 1 مطلب یہ ہے کہ اے محمد تو مر جائے.ایک دفعہ کچھ لوگوں نے آ کر جب آپ سے اس طرح کہا تو آپ کی ایک بی بی سن رہی تھیں.انہوں نے جواب میں کہا عَلَيْكُمُ سَامٌ وَلَعْنَةُ اللهِ تم پر موت ہو اور اللہ کی لعنت.یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے ان کو فرمایا اے عائشہ ! تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا اور اگر کہا ہی تھا تو لَعْنَةُ اللَّهِ کیوں کہا عَلَيْكُمُ کہہ دینا کافی تھا 17.تو رسول کریم ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے کہ صبر اور برداشت کی طاقت پیدا کرنا چاہئے اور ذرا ذراسی بات پر لڑنے مرنے کو تیار نہیں ہو جانا چاہئے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قوموں کا آپس میں اتفاق اور اتحاد ہوتا ہے لیکن حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ ایک قوم سمجھتی ہے کہ جب تک لڑائی نہ کی جائے گی میں قائم نہیں رہ سکوں گی.یا اگر آپس میں لڑائی شروع ہونے کا ڈر ہو تو اور کسی سے لڑائی شروع کر دی جاتی ہے.سیاست دان لوگ اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ 18 تم کو انہی لوگوں لڑنے کی اجازت ہے جو تم سے لڑتے ہیں اور تمہارے دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اور جو تم سے لڑنا چھوڑ دیں اگر ان سے لڑو گے تو یہ زیادتی ہوگی اور اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اس کے متعلق رسول کریم ﷺ کاعمل دیکھئے.آپ جب تک مکہ میں رہے کبھی کسی سے نہیں لڑے اور جب مخالفین نے سخت تنگ کیا تو مکہ چھوڑ کر مدینہ آ گئے.یہاں بھی آپ نے پیل نہیں کی.ہاں اگر سخت مجبوری ہو گئی تو وہ الگ بات ہے.مگر آپ ابتدا کرنا نہیں چاہتے تھے.اب سوال ہوتا ہے کہ اگر لڑنے کی ضرورت ہو اور سخت مجبوری در پیش ہو جائے تو کیا جائے ؟ عام طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ اگر کچھ عرصہ لڑائی سے پہلو تہی کی جاتی ہے تو جب لڑائی شروع ہوتی ہے اُس وقت یہی کہا جاتا ہے کہ اب دشمن کو پیس ہی ڈالنا
سيرة النبي علي 486 جلد 1 چاہئے.بہت لوگ جنہوں نے علم اخلاق کا مطالعہ نہیں کیا ہو گا وہ نہیں سمجھیں گے کہ جو قوم پہلے صبر سے کام لے سکتی ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ لڑائی کے وقت وہ دشمنوں کو پیں ہی ڈالنا چاہے.مگر ایسا ہوتا ہے کہ پہلے صبر اور برداشت سے کام لیا جاتا ہے مگر جب لڑتے ہیں تو پیں ہی ڈالتے ہیں لیکن اسلام اس سے منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس قدر دشمن تم پر تعدی کرتا ہے اُسی قدر بدلہ لینے کی تمہیں اجازت ہے.اس سے زیادہ نہیں کہ دشمن کو پیس ہی ڈالنے کے لئے تیار ہو جاؤ.دراصل یہ حکم نہایت اعلیٰ درجہ کی حکمت پر مبنی ہے.کیونکہ جو قو میں یہ چاہتی ہیں کہ اپنے دشمن کو پہیں ہی ڈالیں تا کہ وہ آئندہ سر نہ اٹھا سکے وہ دراصل اس طرح جنگ کی بنیا د رکھتی ہیں اور جو اُتنی ہی سزا دیتی ہیں جتنی ضروری ہوتی ہے وہ صلح کی بنیا د رکھتی ہیں اس لئے دشمن کو تباہ اور مٹا دینے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے بلکہ مناسب سزا دے دینی چاہئے.اس کے علاوہ ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ بعض تو میں لڑتے وقت انصاف کو چھوڑ کر شرارت سے کام لیتی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے والے بھی شرارت سے کام لیتے ہیں.اسلام کہتا ہے جب اپنی حفاظت کے لئے لڑنے کی ضرورت ہولر ولیکن شرارت کے مقابلہ میں شرارت سے کام نہ لینا چاہئے بلکہ عدل کو مدنظر رکھنا چاہئے.چنانچہ فرماتا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّ وَكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا 19 اے مسلمانو! اگر تمہیں بعض قوموں نے مکہ سے روک کر عبادت نہیں کرنے دی تو اس کی وجہ سے شرارت نہ کرنا چاہئے.یہ وہ تعلیم ہے جس سے امن اور اتفاق قائم رہ سکتا ہے کہ اگر کوئی شرارت کرے تو اس کے مقابلہ میں شرارت سے ہی کام نہیں لینا چاہئے اور عدل و انصاف کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے بلکہ عدل سے کام لینا چاہئے.الله اس کے متعلق رسول کریم ﷺ کا عمل دیکھئے.احد کی جنگ میں مخالفین نے شرارت کی کہ مسلمانوں کے جو آدمی شہید ہوئے تھے ان کے ناک کان زبان وغیرہ
سيرة النبي علي 487 جلد 1 کاٹ کر ان کی بے عزتی کی اور ”مرے کو مارے شاہ مدار کا ثبوت دیا.یہ ان کی ایسی سخت شرارت تھی جس سے مسلمانوں کو اور خود رسول کریم ﷺ کو بہت تکلیف پہنچی مگر آپ نے مسلمانوں کو تاکید فرما دی کہ تم ایسا نہ کرنا.اسی طرح آپ جب فوجوں کو بھیجا کرتے تو حکم دیتے کہ لڑائی کے وقت اگر دشمن کسی قسم کی شرارت سے کام لے تو تمہارے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے.یہ ایک نہایت ضروری اور اہم حکم ہے کیونکہ شرارت کے مقابلہ میں اگر شرارت سے ہی کام لیا جائے تو فتنہ اور فساد بہت بڑھ جاتا ہے اور آپس میں اتفاق اور اتحاد کی صورت پیدا ہی نہیں ہو سکتی.لیکن اگر ایک طرف سے شرارت ہو اور دوسری طرف سے عفو کیا جائے تو شرارت کرنے والا خود نادم اور شرمندہ ہو کر آئندہ اس سے باز آ جاتا ہے.پھر جب لڑائی شروع ہو جائے اور دشمن صلح کی درخواست کرے تو اسلام ایسے موقع پر حکم دیتا ہے کہ وَاِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ 20 اگر دشمن صلح پر آمادگی ظاہر کرے تو تمہیں بھی صلح کر لینی چاہئے.اور اللہ پر توکل رکھنا چاہئے وہ سننے اور جاننے والا ہے.اب اگر دو قوموں میں کوئی تنازع پیدا ہو جائے اور ایک قوم صلح کے لئے آگے بڑھے تو دوسری کو بھی آگے بڑھنا چاہئے.اس طرح بہت جلدی امن اور صلح ہو سکتی ہے.خواہ وہ پھر بہت سے جھگڑے پیدا ہونے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ اپنے اپنے فریق کے لوگوں کی ہ وہ غلطی پر ہوں طرفداری کی جاتی ہے.اور ہندوستان میں یہی فتنہ کا بہت بڑا موجب ہے.اسلام اس بات کو ہرگز جائز نہیں رکھتا.چنانچہ حکم ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُوْنُوْا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 21 یعنی اے مسلمانو! ہمیشہ سچ پر قائم رہو اور انصاف کرو.کبھی ایسا نہ ہو کہ
سيرة النبي علي 488 جلد 1 دشمنی اور عداوت کی وجہ سے کسی قوم پر ظلم کرو اور اپنے آدمیوں کی رعایت کرو.تقویٰ کے لئے یہی ضروری ہے.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ کہ تم کرتے ہو.اس کے متعلق رسول کریم ﷺ کی زندگی کے واقعات نہایت صاف طور پر پائے جاتے ہیں.تاریخ میں آتا ہے کہ ایک مسلمان نے کسی کی زرہ پچرا کر ایک یہودی کے گھر رکھ دی.جب جھگڑا ہوا تو کہا گیا کہ یہودی چور ہے جس کے گھر سے زرہ نکلی ہے.اس پر بعض مسلمانوں نے اس مسلمان کی بغیر تحقیقات کے تائید کرنی شروع کر دی.مگر رسول کریم ﷺ نے جب تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ مسلمان ہی مجرم ہے.اس پر رسول کریم علیہ نے ان مسلمانوں کی تنبیہ کی جنہوں نے مسلمان کی تائید کی تھی اور خدا تعالیٰ نے ان کو ڈانٹا کہ جب تمہیں معلوم ہو گیا تھا کہ مسلمان حق پر نہیں تو خواہ وہ تمہاری قوم کا ہی تھا تمہیں اس کی مدد نہیں کرنی چاہئے تھی.جو حق پر ہو اس کی مدد کرنی چاہئے 22.صلى الله یہ حالت اگر اب ہندوستان میں پیدا ہو جائے تو بہت سے جھگڑے اور فساد رک سکتے ہیں.بعض اوقات مسلمانوں سے ہندوؤں کو اور ہندوؤں سے مسلمانوں کو کوئی دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے تو ایسے موقع پر بجائے اس کے کہ اپنی اپنی قوم کی خواہ اُسی کا قصور ہو مدد کی جائے اگر دوسری قوم کے لوگ اس قوم کی مدد کریں یا اس سے ہمددری کا اظہار کریں جسے تکلیف پہنچی ہو تو آپس کے تعلقات بہت اچھے ہو سکتے ہیں.لیکن ایسا نہیں کیا جاتا اور اپنی ہی قوم کے لوگوں کی پاسداری کی جاتی ہے.پچھلے ہی دنوں ہندو مسلمانوں کے جو فساد ہوئے ان میں جن کی زیادتی تھی ان کے لیڈر کھڑے ہو جاتے اور اپنی قوم کے مفسد لوگوں سے ہمدردی نہ کرتے بلکہ جن پر ظلم ہوا تھا ان کی دلجوئی کرتے تو اس قدر بات نہ بڑھتی.پس اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے جو اسلام نے بتایا ہے تو کبھی آپس میں جھگڑا اور فساد نہ ہو اور اگر ہو تو بہت جلدی رک جائے.
سيرة النبي علي 489 جلد 1 رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عصبیت میں داخل ہے کہ ہر حالت میں اپنی قوم کی پاسداری کی جائے ؟ آپ نے فرمایا نہیں.قومی پاسداری یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی قوم کے آدمی پر ظلم کرتا ہو تو اس آدمی کی مدد کی جائے یہ نہیں کہ وہ ظالم ہو تو بھی اس کی مدد کی جائے.کیونکہ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ ظلم کرنے پر اکساتا ہے اور اس طرح فساد اور فتنہ ڈلواتا ہے.اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ تم کو مدد کرنی چاہئے خواہ کوئی مالم ہو یا مظلوم.پوچھا گیا مظلوم کی مدد یہ ہو گی کہ اسے ظلم سے بچایا جائے.لیکن ظالم کی کیا مدد کی جائے ؟ آپ نے فرمایا ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی مدد ہے 23.یہ وہ سچی اور حقیقی ہمدردی ہے جس کے ذریعہ صلح اور اتحاد قائم ہوسکتا ہے.اگر سارے ہندو اور مسلمان اتفاق کر کے عہد کر لیں کہ جب کوئی ایسا جھگڑا پیدا ہو گا جس میں ثابت ہو جائے کہ ہمارے ہم مذہب لوگوں کی زیادتی ہے اور انہوں نے ظلم سے کام لیا ہے تو ہم اس کے خلاف ہوں گے اور دوسروں کی ہمدردی کریں گے.اگر اس طرح کیا جائے تو بہت جلدی موجودہ نقشہ بدل سکتا ہے.اب تو ایسا ہوتا ہے کہ جب فساد ہوتا ہے تو ہندو لیڈر ہندوؤں کی تائید میں کھڑے ہو جاتے اور باتوں سے مسلمانوں کو ٹالنا چاہتے ہیں.اور مسلمانوں کی طرف سے زیادتی ہو تو مسلمان لیڈر اپنے ہی لوگوں کی تائید کرتے ہیں.اس طرح کیونکر اتفاق اور اتحاد ہوسکتا ہے.ہاں اگر ہند و مسلمان اس بات کو چھوڑ کر اس فریق سے ہمدردی کریں جس پر زیادتی اور ظلم کیا گیا ہو تو آپس کے تعلقات بہت اچھے ہو سکتے ہیں.دیکھو اسلام نے کس قدر احتیاط سکھائی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوْا وَلَمْ يُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَلَايَتِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَ إِنِ اسْتَنْصَرُ وَكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمُ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِير 24 یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہ کی ان کی مدد کرنا تمہارا فرض نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت
سيرة النبي علي 490 جلد 1 کریں.ہاں دین کے بارے میں اگر ان پر کوئی ظلم کریں تو مدد دینی چاہئے لیکن اگر ان کی اس قوم سے لڑائی ہو جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو تم کو ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے.اب دیکھو ایک قوم مسلمان ہے، دین کی جنگ ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ تم کو معاہدہ کی پابندی کرنی چاہئے اور طرفداری کے خیال سے مسلمانوں کی مدد نہیں کرنی چاہئے.اگر یہی رنگ تمام مذاہب والے اختیار کر لیں تو آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ کس عمدگی کے ساتھ اتفاق پیدا ہو سکتا ہے.پھر اتفاق و اتحاد کا موجب مذہبی رواداری ہوتی ہے مگر ہندو مسلمانوں میں یہ بالکل مفقود ہے.ہندوؤں کا دسہرہ ہو تو مسلمان لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا محرم ہو تو ہند و فساد پر آمادہ ہو جاتے ہیں.حالانکہ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن پر ایک دوسرے کو معترض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.دسہرہ کو خواہ مسلمان کیسا ہی سمجھیں لیکن اس پر ناراض ہونے کی ان کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے.اسی طرح ہندوؤں کے نزدیک محرم کیسا ہی ہو اُن کو چڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اپنے اپنے طور پر جو کسی کی مرضی ہے کرے.اس میں دخل دینا بالکل فضول ہے.کیونکہ دسہرہ کی وجہ سے مسلمانوں کے مذہبی خیالات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور محرم کی وجہ سے ہندوؤں کے اعتقادات کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتا.لیکن جب تک مذہب کے معاملہ میں رواداری نہ پیدا ہو اُس وقت تک اس قسم کے فسادات دور نہیں ہو سکتے.مسلمانوں کو اس کا خاص حکم دیا گیا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسجدوں میں آکر عبادت کرے تو اسے کرنے دو.پھر اس کے متعلق آپ کا عمل موجود ہے.نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد آپ کے پاس آیا.اس نے آپ سے مسجد میں باتیں کیں اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو وہ مسجد میں ہی عبادت کرنے لگے.اس پر بعض لوگوں نے ان کو روکنا چاہا لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا روکو نہیں کرنے دو.چنانچہ انہوں نے مسجد میں ہی اپنے طریق پر عبادت کی 25.اب کسی
سيرة النبي علي 491 جلد 1 دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا کر عبادت کرنا تو الگ رہا پاس سے گزرنے پر تو لڑائی جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں جو محض ضد اور عداوت کی وجہ سے ہوتے ہیں.اسلام اس سے منع کرتا ہے اور اپنے پیروؤں کو رواداری کی تعلیم دیتا اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو دبانے سے روکتا ہے.ان باتوں کے علاوہ آپس میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کا ایک طریق ہے اور وہ یہ کہ جس مذہب میں جو خوبیاں پائی جائیں ان کا اعتراف کیا جائے.اب تو ایسا زمانہ ہے کہ بجائے اس کے ایک دوسرے پر اعترض ہی کئے جاتے ہیں اور یہ بہت بڑا نقص اور عیب ہے.اگر عقل و فکر سے کام لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا مذہب دنیا میں قائم ہی نہیں ہو سکتا جس میں کوئی نہ کوئی خوبی نہ پائی جائے.کچھ نہ کچھ خوبیاں ہر مذہب میں ضرور ہوتی ہیں.اس میں کیا شبہ ہے کہ حضرت کرشن کی زندگی میں ایسے سبق ملتے ہیں جن سے نیکی اور تقویٰ ظاہر ہوتا ہے.پھر اس میں کیا کلام ہے کہ بدھ ، عیسی کی زندگیاں اعلیٰ درجہ کی پاک اور نیکی کا اعلیٰ نمونہ ظاہر کرتی ہیں.پھر اس میں کیا شبہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے ایسے واقعات ہیں کہ جن سے روحانیت کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ حاصل ہو سکتا ہے.جب حقیقت یہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان پر اعتراض ہی اعتراض کئے جاتے ہیں اور ان خدا کے برگزیدہ انسانوں کی خوبی کا اعتراف نہیں کیا جاتا.ہم لوگ تو حضرت کرشن اور حضرت رام کو خدا کے نبی مانتے ہیں مگر جو لوگ انہیں نبی نہیں مانتے وہ کیا اس بات کا انکار کر سکتے ہیں کہ ان کی زندگی میں اعلیٰ سے اعلیٰ سبق نہیں ملتے ؟ ہر گز نہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ان کی خوبیوں کا اعتراف نہ کیا جائے.آپس میں اتحاد اور اتفاق کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی خوبیوں کا علی الاعلان اعتراف کیا جائے اور عام لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت اور توقیر قائم کی جائے.آج کل تو ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک فرقہ کے اخبارات میں دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے عیب ہی عیب بیان کئے جاتے ہیں
سيرة النبي علي 492 جلد 1 اور چونکہ اس فرقہ کے لوگ اپنے ہی اخباروں کو پڑھتے ہیں اس لئے ان کے دل میں نفرت اور حقارت کے ہی جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں.ایسی صورت میں کس طرح ممکن ہے کہ آپس میں صلح اور اتحاد ہو سکے.اس وقت میں نے صلح اور اتحاد کے لئے جو باتیں پیش کی ہیں وہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی بتائی ہوئی پیش کی ہیں.ان پر اگر سارے لوگ عمل نہ بھی کریں مگر کثرت لوگوں کی عمل پیرا ہو جائے تو صلح ہو سکتی ہے.لیکن اس کے متعلق ایک اور سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ان باتوں کو عوام میں پھیلایا اور انہیں ان سے آگاہ کس طرح کیا جائے.میرے نزدیک اس کی آسان راہ ایک مذہبی طریق سے ہے اور ایک دنیاوی.میں نے بتایا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے اکثر جھگڑے ایک دوسرے کے بزرگوں کو برا بھلا کہنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.ایک ایسا شخص جو رسول کریم میے کو صلى الله زانی ، ڈاکو، دوسروں کا مال کھانے والا ، برے چال چلن والا لکھتا ہے اور کچھ اس کی بات کو درست مان لیتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ مسلمان جو آپ پر جان، مال اور ہر ایک پیاری سے پیاری چیز شار کرنے کے لئے تیار ہیں ان لوگوں کے ساتھ صلح کر سکیں.میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جس نے کبھی کسی بات سے ڈر نہیں کیا اور اس بات کا ذکر تاریخ میں مفصل طور پر پایا جاتا ہے.میں اپنی ذات کے متعلق کہتا ہوں کہ میں رسول کریم ﷺ کی عزت کے لئے اپنی بیوی بچوں حتی کہ اپنی جان کو بھی قربان کر دوں تو اس سے بڑھ کر میرے لئے اور کوئی عزت نہیں ہوسکتی.اور باوجود اس کے کہ میرے خیال میں ملک کی بھلائی کے لئے صلح اور اتحاد کی سخت ضرورت ہے اگر کوئی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والا مجھے کہے کہ صلح کر لو تو میں اسے یہی کہوں گا کہ تو مشرق میں ہے اور میں مغرب میں.تجھ میں اور مجھ میں کبھی صلح نہیں ہوسکتی.اسی طرح ایک ہندو جو حضرت کرشن کے متعلق گالیاں سنتا ہے وہ کس طرح گالیاں دینے والے کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا سکتا ہے.پس مذہبی طریق پر صلح اسی طرح ہو سکتی ہے کہ کسی
سيرة النبي علي 493 جلد 1 مذہب کے بزرگوں کو گالیاں نہ دی جائیں اور کسی طرح ان کی ہتک نہ جائے بلکہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کیا جائے.اس کے لئے ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ ایک کانفرنس قائم کریں اور اس میں ہر ایک مذہب کے لئے اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کریں.اگر ایسی کا نفرنس تندہی سے کام کرنے لگ جائے تو میرا خیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ گالیاں دینے والے لوگوں کو بہت جلدی بھگا دے گی اور شریر لوگوں کی کوئی شرارت آپس کے اتحاد اور صلح کو توڑ نہیں سکے گی.اس کے متعلق پہلے بھی میں نے ایک دفعہ تحریک کی تھی.افسوس لوگ لیکچروں اور تقریروں پر تو بڑا زور دیتے ہیں لیکن عملی طور پر کام کرنے کے لئے آگے نہیں بڑھتے.حالانکہ ہماری جماعت جو خدا کے فضل سے ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے.اگر یہ کام ہمارے اکیلے طور پر چلانے کا ہوتا تو ہم اس وقت تک ضرور اس کے متعلق کچھ نہ کچھ کرتے.لیکن چونکہ یہ سب مذاہب کے لوگوں کے مل کر کرنے کا ہے اس لئے نہیں کیا جا سکا.اب بھی اگر دیگر مذاہب کے لوگ آمادہ ہوں تو ہم بڑی خوشی سے اس میں مدد دینے کے لئے تیار ہیں.دوسرا طریق یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کے کچھ کچھ لوگ لئے جائیں.مثلاً ہر مذہب کے دس دس آدمی.اور ان کی ایک کمیٹی بنائی جائے.جس کا ذمہ ہو کہ جو تجاویز صلح اور اتحاد کی قرار پائیں وہ ان پر عمل کرنے کی لوگوں کو تحریک کرے اور عوام کو سمجھایا جائے.ناواقف لوگوں کو اگر کوئی بات اچھی طرح سمجھا دی جائے تو وہ اس پر عمدگی کے ساتھ عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.تو ہر مذہب کے کچھ کچھ لوگ لئے جائیں جو مل کر کام کریں اس طرح صلح کی تحریک کو ترقی ہوسکتی ہے.اس کے ساتھ ہی میں ایک اور ضروری بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بہت لوگ ہند و مسلمانوں کی صلح پر بہت زور دیتے ہیں مگر گورنمنٹ کا خیال نہیں رکھتے.کیا ہند و مسلمانوں کی صلح کی ضرورت ہے اور گورنمنٹ کے ساتھ صلح کرنے کی ضرورت نہیں ؟ میرے نزدیک تو ہندو مسلمانوں کی وہی صلح قائم رہ سکتی ہے جس میں گورنمنٹ سے بھی تعلق اور واسطہ ہو.اس لئے ضروری
سيرة النبي علي 494 جلد 1 ہے کہ جہاں جہاں ہندو مسلمانوں میں فساد ہوں وہاں اس کمیٹی کے ممبر گورنمنٹ کے آفیسروں کے ساتھ مل کر اصل معاملہ کی تحقیقات کریں اور پھر اس تحقیقات کو شائع کریں اور بتائیں کہ اس فساد کی ذمہ داری کن لوگوں پر عائد ہوتی ہے.جو ذمہ وار قرار دیے جائیں ان کے متعلق سب کا فرض ہونا چاہئے کہ ان سے عملی اور زبانی طور پر اظہار نفرت کریں.اس کمیٹی کے متعلق دوسری باتوں پر اس وقت غور ہو سکتا ہے جبکہ عملی طور پر اس کی کارروائی شروع ہو جائے.ان دنوں میرے متعلق ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ میں کوئی تقریر نہ کروں لیکن میں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ قومی معاملات میں افسوس میں آپ لوگوں کے مشورہ پر عمل نہیں کر سکتا.تو چونکہ میرے دل میں ان جھگڑوں اور فساووں کی وجہ سے ایک درد پیدا ہوتا ہے جو ہندو مسلمانوں میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپس میں صلح اور اتحاد سے رہنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے.اس کے لئے یہی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کے چیدہ چیدہ لوگوں کی ایک کونسل ہو جو لڑائی جھگڑے کی تحقیقات کر کے فیصلہ کرا دیا کرے اور عوام میں بے رو رعایت فیصلوں کے ذریعہ اپنا اعتبار جمائے اور گورنمنٹ کے آفیسروں کے ساتھ مل کر کام کرے.یہ ہے وہ طریق جس سے صلح میں کامیابی کی امید ہوسکتی ہے.اگر ایسا ہو جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہندوستان کا شاندار مستقبل نظر نہ آ جائے.پس جولوگ یہاں تشریف لائے ہیں وہ ان باتوں پر غور کریں اور پھر ہمیں اطلاع دیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ان تجاویز پر ہمدردانہ طور سے غور کریں گے.اور اپنے اثر اور رسوخ سے کام لے کر اس نا اتفاقی اور آئے دن کے فسادوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے جن کی وجہ سے آپ میں بے اعتباری اور عداوت پھیلی ہوئی ہے.“ 1: الاعراف: 86 ریویو آف ریلیجنز اکتوبر 1919 ءصفحہ 326 تا 347)
سيرة النبي علي 495 جلد 1 2: بخاری کتاب الخصومات باب ما يذكر في الاشخاص صفحہ 387 حدیث نمبر 2411 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 3: الانعام: 109 4: مسلم كتاب البر والصلۃ صفحہ 1134 حدیث نمبر 6613 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية 5: البقرة: 191 بخارى كتاب الادب باب الوصاءة بالجار صفحه 1052 حدیث نمبر 6014 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية بخارى كتاب الادب باب صلة الوالد المشرك صفحه 1047 حدیث نمبر 5978 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 8 : آل عمران : 76 9: آل عمران: 76 10 : النساء : 91،90 11 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحه 560 تا 563 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى :12: التوبة: 4 13: الانفال : 59 14: بخارى كتاب الجزية باب اثم من قتل معاهدا بغير جرم صفحہ 527 حدیث نمبر 3166 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 15: بخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد صفحه 447 تا 450 حدیث نمبر 2731، 2732 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 16: آل عمران: 187 17: بخارى كتاب الهجاد باب الدعاء على المشركين صفحه 485،484 حدیث نمبر 2935 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية
سيرة النبي ع 18: البقرة: 191 19: المائدة : 3 20 : الانفال:62 21: المائدة : 9 496 جلد 1 22 تفسیر کبیر فخر الدین رازی جلد 6 صفحہ 34 تا 36 مطبوعہ قاهرة 2012 ء 23 : بخاری کتاب المظالم باب اعن اخاک ظالما صفحہ 394 حدیث نمبر 2443 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 24: الانفال : 73 صلى الله 25: السيرة الحلبية باب يذكر فيه ما يتعلق بالوفود التى وفدت عليه عالم جلد 3 صفحہ 385 386 مطبوعہ بیروت 2012 الطبعة الاولى
3 6 9 13 21 23 انڈیکس آیات قرآنیہ احادیث کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات
360 353 16 475 32.28 28 474 17.1 32 482 3 الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) البقرة آیات قرآنیہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَالُوا يَمُوسَى إِنَّا (145) 15 فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ (160) لَتُبُلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ 34 (25) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ (74) 70 الانعام عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (32) 34 (187) فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ النساء (35) يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ (62) 354 (2) يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتكَ (130) 384 وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (191) (37) 485,477 إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ (49) وَدُّوا لَوُ تَكْفُرُونَ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا (201) ال عمران قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله (91.90) 193 المائدة أُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ (20) 484 وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ (109) 40 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي (163) 397 وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ 354 الْمُسْلِمِينَ (164) 481 الاعراف وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (86) 487 (159) 327.33 قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ الانفال وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ (3) 345،77،36، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (32) (4) 444.431.425.381 وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ 487 (18) وَإِمَّا تَخَافَنَّ (59) 69 وَمَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا (55) 317 | قَوْمِينَ (9) وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَاذْهَبْ أَنتَ وَ رَبُّكَ (25) 480 (76)
4 لَهَا (62) وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَمْ يُهَاجِرُوْا وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحُ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (82) 487 سبا 368 وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا (29) 18 وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ الانبياء (73) 489 وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ (30) التوبة (26) 146 قُل لَّكُمْ مِّيْعَادُ (31) 19 19 إِلَّا الَّذِينَ عَهَدْتُم (4) 482 النور الزمر (118) 104 اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ (128) (36) 423 ضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُم تُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا (28) 406 قُل يعِبَادِيَ (54) المؤمن 41 فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ 431 الفرقان جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا يرَبِّ إِنَّ قَوْمِي (31) (56) 448 383.382 محمد (40) 317 الشعراء فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (62) إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (17) 51 (63) (17) الروم يونس فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ الحجر إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ ( 10 ) 327 النحل يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوح (3) فَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ (39) 326 إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا 383 383 إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ (11) 77 الحجرات الاحزاب إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَكُمْ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ (22) 146 وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ بنی اسرائیل الاحْزَابَ (23) 467.381.55 عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ (14) النجم مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى 403 (3) 43 467 (20) 117 الفتح 117 (2) 31 (5.4) 20 (41) 365 (80)
5 البروج 33 335.327.77 ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى (10،9) المجادلة يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (12) 398 العلق وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ (9) 14 اقْرَأَ بِاسْمِ رَبِّكَ (2) 5 الفجر لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدُ (20) 340 2 وَادْخُلِي جَنَّتي (31) الكوثر لَا غُلِبَنَّ انَا وَرُسُلِي (22) 317 الضحى إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ الحشر وَوَجَدَكَ صَالًا فَهَدَى الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى (25) 370 (8) (412) 467 457.359 الكفرون المدثر الانشراح يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ( 2 تا 6) 260 261 قُل يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ لَا أَعْبُدُ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ مَا تَعْبُدُونَ (2 تا 7) 30 النيا (2) 355 الناس يَقُولُ الْكَفِرُ (41) 221 وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (2) 42 (4.3) 354 عبس عَبَسَ وَ تَوَلَّى (32) 444 فَإِذَا فَرَغْتَ فَانُصَبُ (8) 355
6 احادیث 91.90 اللهم باسمك اموت ابن اختي 207 | اللهم جنبنا الشيطان 83 41 جعل النبي صلى الله عليه أتعلمون ماذا قال ربكم 1413 اللهم ربنا اتنا 193 | وسلم على الرجالة اتي النبي اتينا النبي 63 اللهم في الرفيق الأعلى 142 خ 234 235 انا النبيُّ لا كذب 175.29 خرج النبي احب الحديث الى 187 ان كان النبي صلى الله اعطونی ردائی 244 | عليه وسلم 195 | ان الدين يسر اقبلت الى النبي اكان النبي 201 ان رسول الله صلى الله الا و ان في الجسد مضغة 160 | عليه وسلم طرقه 62 | ان عمر ابن الخطاب الايمن فالايمن الحلال بين والحرام بين 129 رضی الله عنه اتي 138 453 238 272 دخل النبي صلى الله عليه وسلم 223.225 ذهب رسول الله 134،133 العلم علمان 446 | انه مر بقوم 254 | انه يخرج الله اعلیٰ و اجل ا الله الذي لا اله الا هو 272 انها سئلت الحمد لله حمدًا كثيرًا 59 انى لاقوم في الصلوة اللهم اجعل في قلبي نورا 157 اوتيت جوامع الكلم 455 209 466 205 ر رایت النبي سئلت النبي 200 | سور المومن شفاء 33 220 167 277 اللهم اسلمت نفسی 84 او مخرجی هم اللهم اغفر لي خطيئتي 86 | اول ما بدء به اللهم انی اعوذ بک 76 رسول الله اللهم انی اعوذ بک 88،87 اللهم انی انشدک 73 | صليت وراء النبي ع 283،282 | علماء امتي 179 32 على رسلک فانی ارجو 109 212 | عن أسامة بن زيد 79،78 | ثم ركب راحلته 257
7 عن انس ابن مالک 280 | لعن الله اليهود 149 رسول الله عن جابر ابن عبدالله لقد شقيت ان لم اعدل 241 230 | لم اتخلف عن رسول الله یا عبدالله 77 452 ف فبينما نحن يوما جلوس 109 (حدیث) کعب بن مالک) حدیث المعنى فلبث رسول الله 184،183 لم يكن النبي فاحشا 131 لم يكن رسول الله فوجد النبي ق قال لي رسول الله قدم مسيلمة الكذاب قرة عيني في الصلواة ک كان احب الدين اليه كان اذا اوى 144 124.123 132 94 تا 99 152 295 لنا مولى ولا مولى لكم 254 ( ترتیب بلحاظ صفحات ) اللہ انہیں نیک کر دے گا لن يدخل احدا 80 اگر سورج کو میرے دائیں لو كان المطعم لو كانت فاطمة 268 107 میرے سامنے جبریل نے لو كان موسی و عیسی 332 ایک تحریر رکھی ليس منا 398 29.49 437.147 287 452 64.63 ایک ماہ میں تین دن روزے 319 ما ترک رسول الله 121 نبی ہتھیار باندھ کر نہیں كان رسول الله صلى الله ما شبع آل محمد 209 | رکھا کرتے 320 ما خير رسول الله 252،164 | عليه وسلم يوتى بالتمر 120 ما علمت النبي 210 گٹھلیاں علی کے آگے رکھتے جاؤ 324 كان فزع في المدينة 171 ہنسی تو ہم بھی کر لیتے ہیں 324 كان من الانصار رجل کوئی بڑھیا جنت میں نہیں كان يقول 264 202 من كان يؤمن بالله 398 399 كنت امشي مع النبي 247 واغدوا و روحوا 81 جائے گی كنت مع النبي 116 والذي نفسي بيده 406 407 خدا اور رسول کے نزدیک تمہاری والله اني لاستغفر 470 والله ما ادرى و انا لا تثريب عليكم اليوم 82 قدر و قیمت 324 325
8 ا 352 رات کے آخری حصہ میں اگر تمہاری ایک کی حالت رہے 450 میری نجات خدا کے فضل سے ابو ہریرہ ! تمہیں بھوک لگی ہے؟ 357 اللہ قریب 417 خدا کو وہ عمل پسند ہے 365 میں عہد کے خلاف نہیں کروں گا 405 صف سیدھی کرو ندمم میرا نام نہیں خدا نے مجھے خبر دی ہے 390 اجازت تین دفعہ مانگو 406 میرا دل چاہتا ہے کہ میں عشاء 452 469 بیٹھ جاؤ 390 میں آنکھیں پھوڑ دیتا جنت والا عمل یہ ہے 397 گھٹنا باندھ پھر تو کل کر مجھے جبریل نے ہمسایہ سے نیک کیا میں عبد شکور نہ بنوں؟ 411 414 419 سلوک کی تاکید کی 397، جس نے دوزخی دیکھنا ہو 398، 478 دیکھ لے جو شخص اونٹنی پر سوار ہو 398 میرا شیطان مسلمان ہو گیا 421 431 کی نماز میں خدا نے ہر گز حلال نہیں کیا مجھے لعنتیں ڈالنے کیلئے نہیں بھیجا گیا معاہدہ ہو چکا ہے جو کسی کو قتل کرے 470 474 476 483 483 اے عائشہ تمہیں یہ کہنا چاہئے تھا 485 جب ایک جگہ تین آدمی اے انصار ! تم میری نسبت کہہ قومی پاسداری یہ ہے بیٹھے ہوں 398 سکتے 435 ظالم ،مظلوم کی مدد کرو 489 489 بڑا اچھا ہے بشرطیکہ تہجد پڑھے 416 خدا نے مجھے بتایا ہے 443 | اگر کوئی مسجدوں میں آکر عبادت اللہ کا رحم ہو اس میاں بیوی پر 416 بتا تجھے کون بچا سکتا ہے؟ 471 کرے 490
1 اتفاق و اتحاد اتفاق و اتحاد کا موجب مذہبی رواداری اختلافات حضور کی شان پر نظر رکھنے سے تمام 490 9 مضامین انکسارا نثار کی ایک قسم ہے 289 جرات انکسار دنیا کے امن و امان بڑھانے جرات کی اقسام میں زبر دست آلہ ہے 290 جرات کے بغیر انسان نیک کاموں سے محروم رہتا ہے اولیاء اولیاء اللہ نے دنیا میں نور پھیلایا 308 خ تحمل خطبات خطبات کے ذریعہ اسلامی احکام تحمل سے بہت سے جھگڑوں کا کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اختلافات کا فیصلہ کر سکتے ہیں 307 استغفار استغفار کا مفہوم 381 قلع قمع ہوتا ہے استقاء ہر کام میں استقامت کی ضرورت ہے استقلال 453.452 استقلال سے انسان کے پوشیدہ اخلاق کا پتہ چلتا ہے استقلال قابل اور نا قابل انسان کی پر کھ میں مدد دیتا ہے استقلال کی دو قسمیں الہام 259 259 263 237 دعائیں 172 170 451 تمام فساد تکبر سے پیدا ہوتے ہیں 290 حج کے دن حضور اور صحابہ کیلئے تکبر جب لوگوں میں پھیل جائے دعاؤں کی تلقین 323 321 290 دعا اور درود کا تعلق تب تو بہت ہی فساد ہوگا 402.401 تكلف تکلف سے لاکھوں گھرانے برباد ہوتے ہیں ج جبریل 197 ذنب ذنب اور جناح میں فرق 387،386 رشته دار الہام انسان کو دو طرح ہوتے ہیں 23 جبریل کے حضور کو سینہ سے لگانے رشتہ داروں کے ساتھ انکار میں حکمت 291 | سلوک 397.396
10 سلام صبر اور رحم میں فرق کیا جاتا ہے روحانیت ہر قوم میں صابر قابل قدر خیال عیدین روحانی میدان میں اول 256 عیدین کی اغراض آنے کا طریق 165 مبر س سادگی مبر عربی زبان میں روکنے کو کہتے ہیں 255 197 کل اقوام عالم نے صبر کو اعلیٰ صفت سادگی ایک نعمت ہے تسلیم کیا ہے 256 259.258 356 ف فساد سلام کو رواج دینے کے بارہ میں صحابه تاکید 411 406 صحابہ کا راہ خدا میں مصائب اٹھانا 14 سیرت النبی علی صحابہ کی فدائیت 69 سیرت کے مختلف پہلوؤں کے لئے صحابہ کا عشق رسول 222.221 دیکھئے اسماءزیر عنوان محمد خاتم الانبیاء صحابہ کو دو وقت کا کھانا نہ ملتا 356 قرآن یکدفعہ نہیں اترا پہنچتا ہے فسا دولڑائی سے ایمان کو صدمہ فضل الہی 408 خدا کے فضل کے حصول کے طریق 161 ق قرآن کریم قرآن ایک مؤثر کلام ہے 43 341 سید صحابہ کی ترقیات 356 قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی کوئی سیدوں کو ہدیے دے کر ان کی خدمت کی جائے ش شرارت شرارت کے مقابلہ میں شرارت ضان کے معنی ض بدل نہیں سکتا 344 434.433 سورۃ النصر میں حکمت اور معرفت ضات 467 کے دریا بہہ رہے ہیں سورة النصر میں آنے والے فتنہ کا 380 381 448 449 ذکر اور علاج قرآن اپنے اندر بے شمار خوبیاں علم دوہی ہیں 446 اور برکات رکھتا ہے عورت قرآن کی خوبیاں اور برکات 487 سے کام نہیں لینا چاہئے شرک شرک کی رو سے توحید کا مقابلہ 464 ایک صحابیہ عورت کی فدائیت 362 عظیم الشان اور بے نظیر ہیں ص عورتیں بڑی بڑی خدمت کرتی ہیں 436 صابر قرب الہی
قرب الہی کیلئے غلط کوششیں اور مجاہدات قرب الہی کا ایک ہی ذریعہ حضور کی اطاعت ک کثرت 11 محبت 162 محبت اور عشق خوبیوں کو دیکھنے سے مہمان کے ساتھ نیک سلوک 398 399 ن 345 پیدا ہوتی ہے مذاہب 425 ناراضگی دنیا میں ناراضگی کا اظہار کئی طریق سب بچے مذاہب خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے 445 سے ہیں کسی قوم کی کثرت کا زمانہ اس کے مزاح 440 تنزل کا وقت بھی ہے 388 389 | مزاح بھی ہنسی کا ایک طریق ہے 324 کلام الله مسلمان خدا کا کلام بغیر وسیلہ کے بھی نازل سورۃ النصر میں مسلمانوں کو تباہی ہوتا ہے لہریں 7 سے بچانے کا نسخہ 381 نبوت باب نبوت کا بند ہونا حضور کی ہتک ہے نبوت خدا کی رحمت ہے 347 375 نبی.انبیاء ہر نبی سے اس کی قوم مخالفت ہر ایک قوم ایک نبی کی منتظر ہے 334.333 امتی نبی کا آنا حضور کی ہتک نہیں عزت کا باعث ہے مسلمانوں میں ہزاروں فرقے ہیں 380 کرتی ہے مصلح انبیاء کے ذریعہ پیدا ہونے والی حقیقی مصلح احتیاط سے سمجھاتا ہے 237 امتی نبی کا مقام لہروں کا اعتراف 462.461 مقرب روحانی لہر کا در پردہ اثر 462 جس قدر مقرب لوگ ہیں اسی قدر خدا سے ڈرتے ہیں 288 نبی ایک استاد ہوتا ہے 1 4 378 374 384 353 ماتحت ماتحتوں سے کام لینے کا نسخہ ماں ماں سے حسن سلوک مجلس 214 479 ایک مجلس کا تکلیف دہ منظر 197 ، 199 منافق انبیاء کی ہر روز عید ہوتی ہے حضور پر ایک منافق کا انبیاء کو دنیا کی کوئی تکلیف غمگین اعتراض 242.241 نہیں کر سکتی منکسر المزاج انبیاء سب سے اعلیٰ درجہ کے منکسر المزاج کی تعریف 289 مہمان انسان ہیں نجات نجات خدا کے فضل کا نتیجہ ہے 353 467 81
12 کیا نجات صرف اعمال پر موقوف ہے؟ نیکہ 352 واقعات بدر کا واقعہ نسیکہ قربانی کو کہتے ہیں 28 | واقعہ ہجرت نفس ایک سیدانی کا واقعہ نفس کو بے فائدہ مشقت میں ڈالنا وسواس 78 117110 277 مہلک ثابت ہوتا ہے 163 وسواس سے بچنے کے دو طریق 431 وقار کیا ہے؟ وقار ہمسایہ 166.165 ہمسایہ اور شریک سے نیک سلوک 398.397
13 اسماء 362،361،268،43 | اسد بن عبدالعزی 285 ابوسفیان.حضرت 93،92،51، اسعد بن زرارہ.حضرت 213،184 آتھم 16 آدم علیہ السلام - حضرت 10،1 ، 312،254،192،176،106 | اسماعیل.حضرت 394 ابو شعیب 202 | امیر معاویہؓ.حضرت 388،387،17 424.394.335.39.13 آرنلڈ.ڈاکٹر.جے ایف 18 ابو طالب انس حضرت ابوقتادہ.حضرت آمنه 57 ابراہیم علیہ السلام.حضرت 13 ، ایوب.حضرت 207.146.111.39.29.28 ابو مسعود انصاری $62.58 379.268.57.247.210.201.193.171.103 295.280 200-105 112 202 $195 394،360،335،214 395 | ابوموسیٰ اشعری.حضرت ابن ابی قحافہ ابن الخطاب ابن الدشنہ.حضرت 92 371،234 | بابا نانک.حضرت 92 ابوہریرہ.حضرت 82،81،58، بحیرہ ابن خراس 418،274،209،124،86 بخاریؒ، حضرت امام 192 ابن عباس.حضرت 78، دودھ کے پیالے کا ابو برقان اسعدی 118 ،123، 124 | واقعہ 189 ان کا بھوک برداشت ابو بکر صدیق.حضرت 62،17 ، کرنا 278275 357.356 78 ، 79 ، 104 ، 108 تا 116 ، ان کا کسرای کے رومال میں 123، 131،127 ،134،132 ، تھوکنا 274،183،169، 329 ،338 ، ابی بن کعب 356، 460 اسامہ بن زید حضرت 357 257 بدھ.حضرت 476 49.187 280.241 491.33.21 براء بن عازب.حضرت 90،84، 221.220.175 بنی عمرو بن عوف 134 ،183، 184 پطرس 108، پلاطس 50 49 ابو جندل 404 460.257 ابو جہل 26،5، الحق.حضرت 13 ، 394 | ثابت بن قیس بن شماس 124
شاء اللہ.مولوی 14 ج ذوالخويصرة جابر.حضرت 455،241،231 ذوق جبیر بن مطعم 244 268 269 241 242 صدیق حسن خان بھوپالوی 366 197 | صفوان بن امیه b 192 چ رابعہ بصری چراغ دین.میاں 461 رام چندر.حضرت ربیع بنت معود حذیفہ بن یمان.حضرت حقیق - حضرت 83 47 ز 105.61.59.58 39 طلحہ بن عبید اللہ.حضرت ع عائشہ حضرت.359.21 423 225.109.107.86.76.70.63 181.164.149.131.110 حسن.حضرت امام 120 | زبیر بن العوام.حضرت $212.209.207.205.183 104 حسین.حضرت امام 120 زرتشت.حضرت 21 ،33، 359 252 تا 283،265،264،254، حلیمہ.حضرت حضور کی دائی 189 زید بن ثابت.حضرت حمزہ بن عمر واسلمی خ 105 س 257 سراقہ بن بعشم 112 تا 114 ، 168 خالد بن ولید.حضرت 242 سعد بن عبادہ.حضرت خدیجہ - حضرت 71 تا 256،73، حضور کیلئے حضرت خدیجہ کی گواہی خزیمہ بن ثابت خولہ بنت عاصم دانیال.حضرت داؤد.حضرت 291 285.284 103 104 47 319.112.47.69 452.418.356.310 آپ کا مشہور قول عامر بن عاصم 426 192 عبادہ بن صامت - حضرت 272 عبدالحکیم.ڈاکٹر 8 257 258 عبد الرحمن بن عوف.حضرت 361 سلمان فارسی - حضرت 220 ، 313 عبدالقادر جیلائی.حضرت سید 467 112 عبد اللہ.حضور کے والد 57 133،62 عبد اللہ بن انیس.حضرت 100 91 سلیمان.حضرت سهل بن سعد ھیل 213،184 عبد اللہ بن جبیر حضرت ش عبد اللہ بن عمرؓ حضرت 416،79 شیبه 26 شیڈ.ڈبلیو.اے 49،46،45 تا52 عبد اللہ بن عمرو 478 156.152 452.319
عبداللہ بن عباس - حضرت 157.15 $294.148.146.112.70 عبداللہ بن مسعودؓ.حضرت 140 ، 295 ، 349،341،335،334 ، ق 394.376.368.359.351 443-390-168.167.144.145.125.65.48.25 358.317.313.156 عبدالمطلب.حضرت عبید بن عمیر عقبه 463.442-439.431.423 $29.465 178.176.57 287 26 عثمان.حضرت 388،387،17 مرزا غ کرشن حضرت غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت 37، 328 ،329، کسری ک 492 491.476.423 $359.21 $65.48.25 عثمان علی خان عروه عزیز 315 208.207 462.148 317.313.156.145.125.344.341.340-336.331 400-382-376.373.351 437،429 کعب بن مالک عقبہ 358**356 105093 326 کمال الدین خواجہ 179 | آپ کی لاہور میں وفات علی حضرت 17 ، 108 ، آپ مامور من اللہ 36 کٹیوٹ 182،181،144، 237 238 ، آپ کا الہامی شعر 379.241 آپ کے الہامات 329 عمر حضرت 92،68،62، جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ 331 455،357،338،274،242، كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ 478،460 آپ کی بیعت کا طریق 334 385 444 لیلی رام 227 21 1660 عمر و بن حرث بنی عمرو بن عوف عمرو بن كلثوم عمر و بن هند عمیرہ بنت جبیر عنسی عیسی.حضرت 121 212 66 71.68065 103 125 $23.21.13 5349.45.40.38.33.24 آپ کے بے نظیر اخلاق ف محمد حضرت خاتم الانبیاء علی آپ کے اسمائے گرامی فاطمہ حضرت فارقلیط 108 238.182180 373367 395.394.373*365 367.366 انجیل میں نام محمد فرعون 137 ،146، 360 آپ کے ظہور کے وقت فنڈر.ڈاکٹر 18 دنیا میں بگاڑ 426.307
16 سوانح فارقلیط کی پیشگوئی 367 368 دوسروں کو سمجھانے کا 368،367 | طریق دوسرے انبیاء پر ہزاروں ف فضیلتیں 32 314،238،237 | خدا کے سب سے بڑے غار حرا میں عبادت 284 ممتاز ترین وجود دعویٰ سے قبل مجاہدات کا حضور کا بلند مقام عاشق 4 | خدا کاسب سے 460.459 رنگ حضرت خدیجہ کی گواہی 468.467 72.71 حضور کے مقام کی انفرادیت 31 شکر گزار بندہ 420.419 آپکی بلندشان 423،333 تا 431 | ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ورقہ بن نوفل کی حضور کو تسلی 285 آ پکی شان نبیوں کی نظروں سے جامع کفار مکہ کا حضور کولالچ دینا 147 بھی پوشیدہ ہے 333 توحید کے علمبردار 394 306 آپ کی امتیازی طائف میں لہو لہان ہونا 13 سراقہ کی گرفتاری کی کوشش 169.168 آپ کا یہود سے معاہدہ 485،484 جنگ احد سے قبل رویا جنگ احزاب اور حضور کا کشف 319 403.402 حضور کی تدریجی ترقی 342،340 آزادی ضمیر کے علمبردار 472،471 خصوصیات 440،439 | سراج منیر تمام دنیا کیلئے مامور 308 1 سارے جہان کیلئے رحمت 375 | آپ سارے ملکوں اور ساری آپ کامل موحد قوموں کیلئے آئے 307 | سب سے زیادہ صفات الہیہ کے مظہر اتم 431،33 معزز انسان 437 363359 آپ کے مبارک نام کو کلمہ کے سب انسانوں سے ارفع مقام ساتھ شامل کیا گیا 33 اور درود کی اہمیت کلمہ میں نام رکھنے میں حکمت 400 آپ کی امت اور موسیٰ کی 4030401 آپ تمام عادات و حرکات میں امت میں بہت بڑا فرق 360 361 عمومی تعارف حلیہ 57 بے نظیر تھے 279 سیرت نبوی کھانے پینے کا طریق بات کرنے کا طریق ہنسی کا طریق آپ کی عادات دائیں جانب کا لحاظ آپ کی آواز 58 58 60 60 63061 441 جامع کمالات وصفات حسنه حضور کی حیرت انگیز 45 تا310،53 | مصروفیات 140.139.11 آپ کا مقام خاتم النبیین 20 حضور کی جامع صفات کا 31 تا310،37،36،34 ، حسین تذکره 131128 326 تا 329 | آپ کی سیرت قرآن ہے سب انبیاء پر فضیلت 126 (حضرت عائشہ کاقول) 310
17 آپ بغیر اذن البہی کوئی کام ہر کام میں صحابہ کے ساتھ بیماری میں نماز کا خیال 131 تا 134 نہ کرتے تھے 108 109 | شریک ہوتے 218 تا 224 مدینہ میں داخلہ کے وقت پہلے رہبانیت کو نا پسند فرماتے 208 آپکی قرآن سے محبت 448 449 مسجد کا خیال علم غیب سے انکار 224 تا 233 حضور کا وقار 165 تا 170 نوافل کا خیال آپ پہرہ نہ رکھتے تھے آپ ضد سے کام نہ لیتے آپ لڑائی سے نفرت کرتے آپ سلام کرنے میں سبقت کرتے 229 233 272 270 280 ابتلا و مصائب ذکر الہی 185.184 417.416 ابتلاؤں اور عذابوں سے پناہ ہر معاملہ میں خدا کا ذکر لاتے 64،63 مانگتے 85 تا 88 خدا کے ذکر پر آپ کو راہ خدا میں خطرناک جوش میں آنا تکالیف پہنچیں 147 ذکر الہی کی تڑپ 131.128 1410131 سخت کلامی سے پر ہیز 293 تا 296 عسرویسر میں اعلیٰ اخلاق کا موت کے وقت بھی خدا ہی مانگنے والوں کو عہدہ نہ دیتے مظاہرہ 154 تا 156 | یاد تھا 196،195 ، 320 | صدمات میں صبر 256 تا 259 ذکر الہی ہر وقت اپنے بعد امیر مقرر کرنا 460 حضور کا رضا بالقضا کا دعا و استغفار 143141 145143 آپ بدل بدل کر امیر نمونه مقرر کرتے 460 | حضور کا عزم و 258.257 آپ کی دعائیں 118،77،76، آپ کا ازواج سے مشورہ لینا 436 استقلال 259 تا266، استغفار کی کثرت آپ کے اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ کی گواہی 71، جرات سادگی 284،72 285 | جرات و بہادری کے واقعات 193.161156 83-81.81076 84.83 1270110 4150413 353 تا 358 حضور کی خشیت الہی آپ کا توکل 178*170.29 174 غزوہ حنین میں بہادری سادگی اور بے تکلفی 199 2097 گھر کا کام خود کر لیتے 203 تا 205 تعلق باللہ اعمال آپ اپنے اعمال پر بھروسہ کھجور اور پانی پر گزارہ 207 تا 209 | آپ کے تعلقات الہیہ کو مجھنا مشکل 31 نہ کرتے سادہ کھانا کھاتے 210 تعلق باللہ 39 تا 42 آپ کے اعمال اور خدا کے مسجد کی اینٹیں ڈھوتے 211 تا 218 نماز سے پیار 470،469،205 | آپ پر انعامات 81.80 454
18 شرک کے خلاف جہاد معاہدات کی پابندی 405،404، حضور اور احسان کی شرک سے پر ہیز شرک سے نفرت 5 149145 حس مزاح خدا کی محبت اور شرک کی بیخ کنی تکبر سے اجتناب 483 تا485 | قدر 324 325 وفات کے وقت کیفیت 270266 339.338.149 کرتے ہوئے ساری دنیا کو دشمن تکبر سے اجتناب 272 تا 278 قوت قدسیہ 148 | حضور کا انکسار 278 تا293 آپ کے صحابہ کی شان بنالیا 33 ہمارا رسول شرک کا دشمن تھا 228 آپکی طہارت نفس 149 150 آپ کے بچے مرید 191 تا 193 ، حضور کی صحبت سے صحابہ کی وفات کے وقت شرک سے آپ کا بدیوں سے بچنے کی تلقین 262 نفرت کرنا 150 تا 161 | عظیم ترقیات 317 بہترین معلم و مبلغ مال بہترین معلم حضور کو ہر وقت صحابہ کو نیکی اور مال کے متعلق آپ کی تقوی کی تعلیم کا خیال رہتا 217 احتیاط | آپ کا وجود مجسم وعظ 451،450 یتامی کے مال کی 469 | حفاظت ابو طالب کو آخری وقت تبلیغ 379 آپ کی قوت قدسیہ کی تفصیل 337333 آپ کی قوت قدسیہ سے 1910178 بچوں میں روحانیت اور جوش 361 آپ کے صحبت یافتوں میں 186184 دشمن سے سلوک متحمل صحابہ کے سوالات پر خفا نہ ہوتے متحمل کی تفصیل زبردست تبد یلی 390 فیضان مدینہ کے یہود کے ساتھ برتاؤ 393.392 دشمن سے رحم کا سلوک 29 بادیہ نشینوں کے مقابلہ پر صحابہ کو مخالفین سے بددعا کی ممانعت متحمل 168.167 2410237 245.244 476 سائل کے مقابلہ میں تحمل 248 جملہ فیوض آپ کی اتباع سے وابستہ ہیں 348*343.32 حضور کی محبت کے بغیر کوئی درجہ نہیں مل سکتا فیضان خاتم النبيين آپکی غیرت دینی 88تا106 حضور اور قیام حدود 106 107 ہر زمانہ کیلئے خاتم النبین | ابوسفیان کے جواب میں آپ کی حضور اور شفقت غیرت دینی 254 | على النفس آپ کے ماتحت ہزاروں نبی 161 تا 165 ہو سکتے ہیں 343 15 36
19 آپ کی اتباع سے قرب الہی کا حضرت فاطمہ کو روحانی نسخہ محمد علی مولوی حصول 332،331 سکھانا 182،181 | محمد قاسم نانوتوی.مولوی 455 425 آپ کا جاری فیضان 349 تا 351 بہترین شارع شریعت 442 | محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین، امتی نبی کا آنا آپ کیلئے حضور کا جوتی پہن کر نماز پڑھنا 201 خلیفہ اسیح الثانی باعث عزت 374 تا 378 حضور کا ہمیشہ خیر اختیار نصرت الہی کرنا جس نے آپ کا مقابلہ کیا ذلیل آپ کے استغفار کی ہوا 17 43 آپ کا احادیث سے 233 تا 237 | متاثر ہونا ایک مجلس میں آپ کی 380 تا 390 | شمولیت 130128 198.197 آپ کے مخالفین کی ذلت دودھ کے پیالہ میں برکت 357 آپ کا عشق رسول 345 346 ، 3180315 اولا د کو صدقہ سے محروم کر دیا 376.375 118 تا 120 ،433 | خلافت اولی میں آپکے دورے 424 آپ کے احسانات کا ایک آپ کے بچپن کا واقعہ آپ کے مشن میں رکاوٹیں اور کامیابیاں آپ کی فتوحات کی وجوہات 48،47 تقاضا متفرقات آپ کی زبان زندہ ہے آپ کی پاک زندگی کا معیار آپ پر ایک دشمن کا تلوار 33 4338 436433 | ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح 478 آپ پر اعتراضات کے خطرناک کیلئے آپ کی تجاویز 489 تا495 نتائج آپ کی مجلس استقامت کے بارہ میں ارشادات 434 تا 436 مرارہ بن ربیع عمری.حضرت 102، 448*443 104 مسور بن مخرمہ حضرت 187،69 452 453 | مسیلمہ کذاب کھینچنا 231،29، 471،355 آپ کو لامحدودحمد ملے گی 457 مطعم بن عدی | 127123 268 آپ اور روحانی لہریں 461 تا 465 اس کا شعب ابی طالب کے 270.269 100 469 138 15 حضور کی پاک زندگی کا معیار 38 تا 43 آپ کی توحید کی رو معاہدے کو پھاڑنا سیرت کے متفرق پہلو 465،464 | معاذ بن جبل.حضرت 319، کا اثر 320 ، 396 تا 399 آپ کی ایک پیشگوئی 466 معین الدین چشتی آپ کی جائیداد 120 تا 123 آپ نے نجران کے عیسائیوں کو مغیرہ بن شعبه آپ کا ایک خواب 124 125 مسجد میں عبادت کی اجازت دی 490 میکلین.پادری
موسیٰ علیہ السلام - حضرت 21،13، نسطاس 20 192 DO 112،73،70،69،47،39،33 ، نعمان بن بشیر حضرت 129 بلال بن امیہ واقعی 102 104 146،117، 148 ، 285 ،289 ، نوح.حضرت 146،111،13، ہمایوں 340،335،334،309 ، 347 ، | 360،335، 395،394 ، 437 | ہند بنت عتبہ 111 70 464،462،394،361،359 | نورالدین.حضرت مولوی $15 475 424،36 | سرمیاہ.حضرت میمونہ.حضرت 157 آپ کے بیعت لینے کا طریق 385 یوحنا.حضرت یوسف.حضرت یونس.حضرت نپولین 111 ورقہ بن نوفل 285.73 یہودا 47 52 472.29 112 47
458.17 21 افریقہ امریکہ مقامات خ 204، 359 | خیبر 262،218،217،213 | فرانس 359.17 انگلستان 17 ، 227 ، 233، 234 | دہلی ق 396،42 | قادیان $312.306.10 467.441.365.353 146 387 306 461.460.15.8 326 482 روس روم 204 205 | كنعان کوفه سوئٹزرلینڈ 18 گوجرانوالہ.145.103.47 شام 403،388،387،385،262 | لاہور لندن b.146.25 359.262.205203 359.307-204.17 385.206 387 18 17 طائف 269،190،188،13 $29.25.2 29 مدینہ طائف کا واقعہ 108.103.101.100.47 127.125.123.114.110 387.385 $179.171.169.155.154 $145.5 عراق عرب 211.210.192.186*183 461.441.365.261.204 $262.223.219.214.213 322 عرفات 360 341 319.316.282 482.477.17 241.190 148 108 387-206 315 امیران ایشیا بحرین بصره بیل (Biel) ج جرمنی جعرانہ چ چین جبشه حجاز حیدرآباد
494.493 23.385.206 403.387.51.18.17 ی رو یمن یورپ 22 $470.436.434.322.315 481.404.402.392.362 486.485.483.481.472 485 322| ملتان 308.307 387.146.29 ن 14،13،2، نجد 388.385.231.206 $359.316.307.204.203.148.146 463.461 0.57.48.47.29.26.25 مزدلفه 108 تا 110، 114 ،125 ، 154 ، | ہندوستان 359.355.256.234.197 192.183.170.169.155 488.487.463.441.426 269-268-256-242-219
24 24 55 8 467 366 39 7 38 ز 23 کتابیات بدر (اخبار) براہین احمدیہ 306 340 برنباس 366 زبور 336 396 18 اربعین اسلام اور دیگر مذاہب اسلام اور عیسائیت الفضل (اخبار) القول الفصل القول الفصل کی ایک غلطی کا 331.326 اظہار انا جیل 333 341 انجیل 151،52، 285 | چشمه توحید انجام آتھم 3690366 336 اندرونی اختلافات سلسله احمدیہ کے اسباب انوار خلافت 326.374.365 اصلاح اعمال کی تلقین 461 | تحفۃ الملوک 55 | تفخیذ الاذہان 315 سيرة النبي <7.4.1 ص 36.23.15.13.11.8 صادقوں کی روشنی کو کون دور کر تورات چ 455.148.24 سکتا ہے؟ 5 حقیقت الامر 455 عرفان الہی ف حقيقة النبوة 333 ،340،338 | فتح البیان ( تفسیر ) 394.390.380.379 حقیقة الوحی ز ذکر الہی 336 مجاہدالنبی محبت الہی 418،416 | مدارج تقوی مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے 45 مسلم ورلڈ 36 50.46.45 474.471.349 ریویو آف ریلیجنز 170.150.69.56 بخاری.256.254.252.247.230 369.287-286.282.272
میزان الحق 18 | نجات وطن (اخبار) 15 24 36 ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں 10