Seeratun-Nabi (Alfazl)

Seeratun-Nabi (Alfazl)

سیرت النبی ؐ

الفضل میں شائع ہونے والے سلسلہ مضامین کا مجموعہ
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

سیرت النبی ﷺ کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مضامین کا مجموعہ نظار ت نشر و اشاعت قادیان نے اڑھائی سو صفحات پر مشتمل کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ جس میں آنحضور ﷺ کے حلیہ، لباس، عادات واطور، روزمرہ معمولات، اخلاق حسنہ اور مجموعی معاشرتی زندگی کے احسن برتاؤ اور عام معاشرتی خامیوں سے بچنے اور دوسروں کو محفوظ بنانے کا سلیس اور آسان انداز میں بیان ہے۔ اس تسلسل سے شائع ہونے والے مضامین اس کتاب میں پیش کردیئے گئے ہیں جبکہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی سیرت وسوانح نبی ﷺ پر دیگر کئی تصنیفات الگ سے شائع شدہ ہیں۔


Book Content

Page 1

سيرت النبى ضرت مرزا بشیرالدین محمداحمدخلیفه مسح الثانی

Page 2

سيرة النبي الفضل میں شائع ہونے والے سلسلہ مضامین کا مجموعہ ) از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی والی

Page 3

Page 4

عرض ناشر کتاب سیرت النبی سلاا اینم حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں اور انوار العلوم کی جلد 1 میں شائع شدہ ہیں.اس کتاب کا مسودہ ربوہ سے موصول ہوا ہے.نظارت طذا اسی مسودہ کے مطابق اس کتاب کو حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے پہلی بار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو ہر لحاظ سے قارئین کے لئے مفید بنائے اور اس کی تیاری میں تعاون کرنے والے جملہ معاونین و کارکنان کو اجر عظیم سے نوازے.(آمین) ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

صفحہ 1 3 3 4 4 5 نمبر شمار عناوین 1 تمہید پہلا باب 2 آپ سی ایم کا حلیہ.لباس.عمر.اور بعض دیگر طریق عمل 3 آپ صلی لا الہ سلم کا حلیہ 4 بات کرنے کا طریق 5 کھانے پینے کے متعلق 6 عادات 7 ہنسی کا طریق دائیں جانب کا لحاظ باب دوم و ہر معاملہ میں خدا کا ذکر لاتے 7 7 9 10

Page 6

ته له ق چ ه 12 18 19 20 24 25 26 28 29 31 21 22 23 24 33 37 42 54 55 10 اخلاق پر مجموعی بحث باب سوم 11 رسول کریم کے اخلاق حسنہ کے متعلق آپ کی بیوی کی گواہی 12 خود رسول کریم صلی نیلم کی گواہی اپنے اخلاق کی نسبت 13 اخلاق حمیدہ کی تفصیل 14 اخلاص باللہ.خشیت الہی 15 آپ کی ایک دعا 16 خدا تعالیٰ کے غناء سے خوف 17 بدر کا واقعہ 18 آپ مالی ایم اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کرتے 19 استغفار کی کثرت 20 موت کا خیال 21 ایک اور مثال 22 آپ ابتلاؤں اور عذابوں سے پناہ مانگتے رہتے 23 غیرت دینی 24 کعب بن مالک رضی اللہ عنہ 25 اخلاص باللہ.قیام حدود 26 آنحضرت سالی یا پی ایم کی غیرت دینی ||

Page 7

59 59 63 67 67 م ن و ه لا لله لا لا م ف ا م 70 72 77 77 80 91 93 95 100 100 107 112 117 27 اخلاص باللہ.تو کل علی اللہ 28 واقعہ ہجرت 29 غار ثور کا ایک واقعہ 30 آپ کی ایک دعا 31 اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیا 32 رسول کریم سالی یتیم کی جائیداد 33 مسیلمہ کا دعویٰ 34 اخلاص باللہ.یا دالہی 35 خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو جوش آجاتا 36 ذکر الہی کی تڑپ 37 موت کے وقت بھی خدا ہی یاد تھا 38 ذکر الہی ہر وقت 39 اخلاص باللہ.شرک سے نفرت 40 طہارت نفس 41 بدی سے نفرت 42 ایک پاک دعا 43 شفقت على النفس 44 وقار = III

Page 8

122 45 جرات 46 غزوہ حنین 47 مال کے متعلق احتیاط 48 حضرت فاطمہ کا سوال 49 بنو ہوازن کے اموال 50 بچے مرید 51 آنحضرت کی دعا 52 کسی کی درخواست پر کام سپرد نہ فرماتے 53 سادگی ایک نعمت ہے 54 گھر کا کام کاج خود کر لیتے 55 کھجور اور پانی پر گزارہ 56 وفات تک آپ کا یہی حال رہا 57 سب کاموں میں صحابہ کے مددگار رہتے 58 آپ مسجد کی اینٹیں ڈھوتے رہتے 59 ہر کام میں صحابہ کے شریک ہوتے 60 علم غیب سے انکار 61 ہمیشہ خیر اختیار کرتے 62 تحمل 127 131 134 140 145 147 149 151 157 162 164 167 167 174 181 190 194 IV

Page 9

198 214 218 225 230 232 238 254 63 طبارة النفس تحمل 64 طہارة النفس صبر 65 طہارۃ النفس استقلال 66 طہارۃ النفس.احسان کی قدر 67 طہارۃ النفس لڑائی سے نفرت 68 طہارة النفس.تکبر سے اجتناب 69 انکسار 70 طبارة النفس سخت کلامی سے پر ہیز V

Page 10

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم تاریخ کے بڑے بڑے پہلوؤں میں سے ایک بہت بڑا پہلو تا ریخ بنانے والوں کا حال بھی ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے.اگر تاریخی واقعات ہمیں یہ علم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں باتوں کا انجام نیک یا بد نکلتا ہے.تو تاریخ کے بنانے والوں کی سیرت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ کس قسم کی سیرت کے لوگوں سے کیسے کیسے واقعات سرزد ہوتے ہیں اس لئے تاریخ اسلام کے باب میں سب سے پہلے میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ تاریخ اسلام کے بانی کی سیرت بیان کروں کہ جس پر سب مسلمان جان و دل سے فدا ہیں اور جس کی نسبت خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : ۲۲) پس تاریخ اسلام کو پڑھ کر جو نتائج انسان نکال سکتا ہے اور جو جو فوائد اس سے حاصل کر سکتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر اس پاک انسان کی سیرت پر غور کر کے نفع اٹھا سکتا ہے.سیرت نبوی سی ایم کے لکھنے کے مختلف طریق ہیں.اول تو یہ کہ عام تاریخوں سے لکھی جاوے دوسرے یہ کہ احادیث سے جمع کی جاوے تیسرے یہ کہ قرآن شریف سے اقتباس کی جاوے.پہلا ماخذ تو بہت ادنی ہے کیونکہ اس میں دوست دشمن کی رائے کی تمیز 1

Page 11

کرنا ایک مشکل بلکہ محال کام ہے.دوسرا ماخذہ یعنی حدیث سے واقعات کا جمع کرنا زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ مؤرخین کی طرح محد ثین ہر ایک سنی سنائی بات کو نہیں لکھ دیتے بلکہ روایت کو آنحضرت صلی یا اسلام تک برابر چلاتے ہیں اور پھر روایت کرنے والوں کے چال چلن کو خوب پر کھ کر ان کی روایت نقل کرتے ہیں.تیسرا طریق قرآن شریف سے آنحضرت سالی اینم کی سیرت لکھنے کا ہے اور یہ سب سے اعلیٰ ، اکمل اور تمام نقصوں سے پاک ہے لیکن یہ کام بہت ذمہ داری کا ہے اس لئے سر دست میں نے پہلے اور تیسرے ماخذ کی بجائے دوسرے مآخذ کو اختیار کیا ہے.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کسی وقت قرآن شریف سے بھی آنحضرت سل یا ایتم کی سیرت لکھنے کا ارادہ ہے لیکن چونکہ اختصار اور صرف اعلیٰ درجہ کی روایات کا درج کرنا ہی مقصود ہے اس لئے احادیث میں سے بھی میں نے صرف بخاری کو چنا ہے اور یہ مختصر سیرت صرف بخاری جیسی معتبر کتاب سے لی ہے اور اس کے سوا کسی اور حدیث سے مدد نہیں لی.باوجود اس کے کہ صرف بخاری کی احادیث سے جو اصح الکتب ہے میں نے یہ سیرت اختیار کی ہے پھر بھی اختصار پر اختصار سے کام لیا ہے اور اس کو صرف رسول کریم صلی یہ تم کی سیرت کا ایک باب سمجھنا چاہیئے ورنہ اس بحر بے کنار کو عبور کرنا تو کچھ آسان کام نہیں.چونکہ پیاروں کی ہر ایک بات پیاری ہوتی ہے اور ان کی شکل و شباہت ، چال ڈھال اور لباس و خورد ونوش کا طریق بھی دلکش اور محبت افزا ہوتا ہے اس لئے ابتداء میں میں انہی باتوں کو بیان کروں گا.سیرت کے ساتھ اگر صورت اور عادات بھی مل جاویں تو وہ آدمی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.2

Page 12

پہلا باب آپ ساسی لا الہ نام کا حلیہ لباس.عمر.اور بعض دیگر طریق عمل رسول کریم ما تم فدا نفسی ) مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد عبد اللہ فوت ہو چکے تھے.آپ کو آپ کی والدہ آمنہ اور دادا عبد المطلب نے پرورش کیا.لیکن یہ دونوں بھی آپ کی صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے جس کے بعد آپ کے چچا ابو طالب آپ کے نگران رہے.آپ نے تریسٹھ سال کی عمر پائی اور ساری عمر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے میں اور اس کے نام کو دنیا میں بلند کرنے میں خرچ کی.دنیا میں نہ کوئی ویسا پیدا ہوا اور نہ ہو گا.تمام انسانی کمالات آپ پر ختم ہو گئے.تقویٰ کی سب راہیں آپ نے طے کیں اور محبت الہی کے تمام دروازوں میں سے گزرے.حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا اور ہمیشہ کے لئے اپنے دربار کی رسائی کے لئے آپ کی اتباع کو شرط قرار دیا.3

Page 13

آپ پ صلی الہ سلم کا حلیہ :- آپ گمیانہ قامت تھے نہ بہت لمبے اور نہ پستہ قد.آپ کا رنگ بہت خوبصورت تھا نہ تو بالکل سفید جیسے سرد ممالک کے لوگوں کا ہوتا ہے اور نہ گندم گوں.آپ کے بال نہ تو گھونگر الے تھے اور نہ بالکل سید ھے بلکہ کسی قدر غم دار تھے.آپ کے بالوں کا رنگ کسی قدر سرخی مائل تھا اور بڑھاپے میں کچھ بال کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہو گئے تھے باقی بال کالے ہی رہے.سر کے بال آپ لمبے رکھتے تھے جو کانوں کی لو تک آتے تھے.آپ تھے.آپ ہمیشہ بالوں میں کنگھی کرتے اور آخر عمر میں مانگ بھی نکالتے تھے.سر میں تیل یا خوشبولگانا بھی آپ کی عادت میں داخل تھا.آپ کا جسم بہت نازک اور ملائم تھا.آپ کے جسم میں سے خوشبو آتی تھی.آپ کا سینہ چوڑا تھا اور دونوں کندھوں کے درمیاں بہت فاصلہ تھا.آپ کے ہاتھ پاؤں بہت موٹے تھے اور ہتھیلیاں بہت چوڑی تھیں.آپ سوتی کپڑے کو اور خصوصا دھاری دار کو زیادہ پسند فرماتے تھے اور اسی قسم کے کپڑے میں آپ دفن بھی کئے گئے تھے لیکن در حقیقت جس قسم کا کپڑا ہوتا آپ اسے استعمال کر لیتے.اپنے آقا کی ہر ایک نعمت کا شکر کرتے.بات کرنے کا طریق:- حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم صا یہ تم اکثر اوقات بات تین دفعہ دہراتے تا کہ لوگ اچھی طرح سمجھ جاویں اور سلام بھی تین دفعہ کرتے.اسی طرح حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ بات ایسی آہستگی کے ساتھ کرتے کہ اگر کوئی چاہے تو آپ کے لفظ گن لے اور جس طرح دوسرے لوگ جلدی جلدی بات کرتے ہیں آپ ایسا نہ کرتے تھے.4

Page 14

کھانے پینے کے متعلق آپ تمام طیب اشیاء کھاتے تھے لیکن اس بات کا لحاظ رکھتے تھے کہ وہ صدقہ نہ ہوں.حتی کہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی یا پیام فرمایا کرتے تھے کہ میں بعض دفعہ گھر جاتا ہوں اور وہاں بستر پر کوئی کھجور پڑی دیکھتا ہوں تو پہلے تو کھانے کے لئے اٹھالیتا ہوں لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں صدقہ نہ ہو پھینک دیتا ہوں.اس بات سے اس وقت کے مسلمانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے اور دیکھنا چاہئے کہ ان کا رسول صلی ما تم صدقہ سے کس قدر پر ہیز کرتا تھا.اب تو بعض لوگ اچھا بھلا مال رکھتے ہوئے بھی صدقہ کے لینے میں مضائقہ نہیں کرتے.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ کوئی جب کوئی چیز آپ کو دیتا آپ پوچھتے.اگر ہدیہ ہوتی تو خود بھی استعمال فرماتے ورنہ آس پاس کے غرباء میں تقسیم کر دیتے.آپ کی خوراک ایسی سادہ تھی کہ اکثر کھجور اور پانی پر گزارہ کرتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ کے انصار ہمسائے دودھ تحفہ بھیجتے تو اکثر ہم لوگوں کو پلا دیتے لیکن باوجود اس قدر سادگی کے طیبات سے پر ہیز نہ تھا اور جھوٹے صوفیوں کی طرح آپ مطیبات کو ترک نہ کر بیٹھے تھے بلکہ آپ معمدہ سے عمدہ غذا ئیں جیسے مرغ وغیرہ بھی کھا لیتے تھے.پانی پیتے وقت آپ کی یہ عادت تھی کہ تین دفعہ بیچ میں سانس لیتے اور یکدم پانی نہ چڑھا جاتے.نہ صرف اس میں آپ کا وقار پایا جاتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اپنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.گوشت کو آپ پسند فرماتے تھے لیکن اس کا زیادہ استعمال نہ تھا کیونکہ سادہ زندگی کی وجہ سے آپ کھجور اور پانی پر ہی کفایت کر لیتے.ایک صحابی " یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کے سامنے کروپ کا کر رکھا گیا تو آپ نے اسے بہت پسند فرمایا.ان تمام کھانوں کے ساتھ آپ اصل مالک کو 5

Page 15

نہ بھولتے بلکہ خدا کا نام لے کر کھانا شروع کرتے اور دائیں ہاتھ سے کھاتے اور اپنے آگے سے کھاتے اور جب کھا چکتے تو فرماتے کہ الْحَمْدُ للهِ كَثِيرًا طَيْبًا مُبَارَكًا غَيْرَ مَكْفِيَ وَلَا مَوَذَعٍ وَلَا مُسْتَغْنِى عَنْهُ رَبَّنَا ( بخاری کتاب الاطعمه باب ما يقول اذا فرغ من طعامه ) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.بہت بہت تعریفیں پاک تعریفیں.برکت والی تعریفیں.ایسی تعریفیں کہ جو ایک دفعہ پر بس کرنے والی نہ ہوں.جو چھوڑی نہ جاویں.جن کی ہمیشہ عادت رہے اے ہمارے رب یعنی مولا تیرا شکر تو میں بہت بہت کرتا ہوں پر تو بھی مجھ پر رحم کر اور آج کے انعام پر ہی بس نہ ہو جائے بلکہ تو ہمیشہ مجھ پر انعام کرتا رہ اور میں ہمیشہ تیرا شکر کرتار ہوں.اس دعا پر غور کرو اور دیکھو کہ کھانا کھاتے وقت آپ کے دل میں کیا جوش موجزن ہوں گے اور کیا کیا شکر کا دریا پھوٹ کر بہہ رہا ہوگا.پھر اس پر بھی غور کرو کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنة " یعنی تمہارے لئے رسول کریم صلی ی ی یتیم ایک بہتر سے بہتر نمونہ ہے جس کی تمہیں پیروی کرنی چاہئے.60

Page 16

عادات:- باب دوم آپ صلی یا کہ ان کا حلیہ ، لباس اور کھانے پینے کا طریقہ لکھنے کے بعد مناسب سمجھتا ہوں کہ اب کچھ آپ کی بعض عادات پھر بھی لکھا جاوے.ہر انسان کچھ نہ کچھ عادات کے ماتحت کام کرتا ہے.ہاں بعض تو نیک عادات کے عادی ہوتے ہیں اور بعض بد کے.شریر اپنی شرارت کی عادتوں میں مبتلا ہوتا ہے تو شریف نیک عادات کا عادی.ہمارے آنحضرت ملا یہ تم کی ایک دو عادات جو میں اس جگہ بیان کرتا ہوں ان سے معلوم ہوگا کہ آپ کس قدر یمن و نیکی کی طرف متوجہ تھے اور کس طرح ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار فرماتے تھے.ہنسی کا طریق:- آپ مسی یا اسلم کو اللہ تعالیٰ نے انسان کامل بنایا تھا.تمام نیک جذبات آپ میں پائے جاتے تھے اور ہر خوبی کو اپنے موقع اور محل پر استعمال فرماتے اور ایسا طریق اختیار کرتے جس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی خلق ضائع نہ ہو جائے.بعض بناوٹی صوفیاء کا قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسے تکلفات اور مشقوں میں اپنے آپ کو ڈال لیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے انہیں کئی پاک 7

Page 17

جذبات اور کئی طیبات کو ترک کرنا پڑتا ہے.بعض کھانے میں خاک ملا لیتے ہیں.بعض گندی ہو جانے اور سڑ جانے کے بعد غذا استعمال کرتے ہیں.بعض سارا دن سر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں اور ایسی شکل بناتے ہیں کہ گو یا کسی ماتم کی خبر سنکر بیٹھے ہیں اور ہنسنا تو در کنار بشاشت کا اظہار بھی حرام سمجھتے ہیں.لیکن ہمارا سر دار ساینی پیلم جسے خدا نے انسانوں کا رہنما بنا یا تھا وہ ایسا کامل تھا کہ کسی پاک جذبہ کو ضائع ہونے نہ دیتا ہنسی کے موقع پر ہنستا.رونے کے موقع پر روتا، خاموشی کے موقع پر خاموش رہتا اور بولنے کے موقع پر بولتا، غرض کوئی صفت اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کی کہ جسے اس نے ضائع ہونے دیا ہو اور اپنے عمل سے اس نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کی خدائی کو مٹانے نہیں بلکہ قائم کرنے آیا ہے اور یہی اس کی ادا ہے جو ہر طبیعت اور مذاق کے آدمی کو موہ لیتی ہے اور کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ بے اختیار دل اس پر قربان ہوتا ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ہنستے تھے لیکن اعتدال سے اور ہنسی کے وقت آپ کی طبیعت پر سے قابونہ اٹھتا بلکہ ہنسی طبعی حالت پر رہتی چنانچہ فرماتی ہیں کہ مَارَأَيْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهُوَ اتِهِ إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ ( کتاب الادب باب التبسم والنحک) یعنی میں نے رسول صلی یا یہ تم کو اس طرح گلا پھاڑ کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کو انظر آنے لگ جائے بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے یعنی آپ کی ہنسی ہمیشہ ایسی ہوتی تھی کہ منہ نہ کھلتا تھا اور آپ افراط و تفریط دونوں سے محفوظ تھے.نہ تو ہنسی سے بکلی اجتناب تھا اور نہ قہقہہ مار کر ہنتے کہ جس میں کئی قسم کے نقص ہیں.آجکل تو میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان امراء میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ وہ اس زور سے قہقہہ مارتے ہیں کہ دوسرا سمجھے کہ شاید چھت اڑ جائے گی اور اس طرح وہ آجکل کے پیرزادوں کی ضد ہیں.8

Page 18

دائیں جانب کا لحاظ : آنحضرت سلیم (فداہ نفسی ) کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ ہمیشہ دائیں طرف کا لحاظ رکھتے.کھانا کھاتے تو دائیں ہاتھ سے.لباس پہنتے تو پہلے دایاں ہاتھ یا دایاں پاؤں ، ڈالتے.جوتی پہنتے تو پہلے دایاں پاؤں پہنتے غسل میں پانی ڈالتے تو پہلے دائیں جانب.غرض کہ ہر ایک کام میں دائیں جانب کو پسند فرماتے.حتی کہ جب آپ کوئی چیز مجلس میں بانٹنی چاہتے تو پہلے دائیں جانب سے شروع فرماتے.اور اگر اس قدر ہوتی کہ صرف ایک آدمی کی کفایت کرتی تو اسے دیتے جو دائیں جانب بیٹھا ہوتا.اور اس بات کا اتنالحاظ تھا کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ حَلَبَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةَ دَاجِنٍ فِي دَارِئَ وَ شِيْبَ لَبَنُهَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِرِ الَّتِي فِي دَارِئ فَأَعْطِيَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَشَرِبَ مِنْهُ حَتَّى إِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِيهِ وَعَلَى يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ وَعَنْ يَمِيْنِهِ أَعْرَابِيْ فَقَالَ عُمَرُ وَخَافَ أَنْ يُعْطِيَهُ الْأَعْرَابِي أَعْطِ أَبَا بَكْرِ يَا رَسُوْلَ اللهِ عِنْدَكَ فَأَعْطَاهُ الْأَعْرَابِيَ الَّذِي عَلَىٰ يَمِيْنِهِ ثُمَّ قَالَ الْأَيْمَنُ فَالْأَيْمَن ( تجرید بخاری باب فی الشرب) یعنی میں نے رسول اللہ صل الی السلام کے لئے ایک بکری کا جو گھر میں رہتی تھی دودھ دوہا اور اس کے بعد دودھ میں اس کنویں سے پانی ملا یا جو میرے گھر میں تھا.پھر رسول اللہ لایا یہ تم کو وہ پیالہ دیا گیا.اس وقت آپ کے بائیں جا نب حضرت ابوبکر اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا آپ نے اس میں سے کچھ پیا.پھر جب پیالہ منہ سے ہٹایا تو حضرت عمرؓ نے اس خوف سے کہ کہیں اس اعرابی کو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھا نہ دے دیں عرض کیا کہ یا رسول اللہ لی لی تم ابوبکر آپ کے پاس بیٹھے ہیں انہیں دے دیجئے گا.لیکن آپ نے اس اعرابی کو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھاوہ پیالہ دیا اور فرمایا کہ دایاں دایاں ہی ہے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دائیں جانب 9

Page 19

کا کتنا لحاظ رکھتے تھے جو آپ کی پاک فطرت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت انسانی میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دینا رکھا ہے اور اکثر ممالک کے باشندے باوجود آپس میں کوئی تعلق نہ رکھنے کے اس معاملہ میں متحد ہیں اور دائیں کو بائیں پر ترجیح دیتے ہیں.اور چونکہ آنحضرت سلی ما اینم کی فطرت نہایت پاک تھی اس لئے آپ نے اس بات کی بہت احتیاط رکھی.ایک اور حدیث بھی آپ کی اس عادت پر روشنی ڈالتی ہے.سہل ابن سعد فرماتے ہیں کہ آتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِيْنِهِ غُلَامَ أَصْغَرُ الْقَوْمِ وَالَّا شَيَاحُ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا غُلَامُ اتَأذُنَ لِى اَنْ أعْطِيَهُ الْأَشْيَاحَ قَالَ مَا كُنتُ لِأَوْثِرَ بِفَضْلِی مِنكَ أَحَداً يَا رَسُوْلَ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ وَسَلَّمَ) فَأَعْطَاهُ إِيَّاه ( بخاری کتاب المساقاة باب في الشرب ) آنحضرت سانی لا الہ نام کے پاس ایک پیالہ لا یا گیا جس میں سے آپ نے کچھ پیا.اس وقت آپ کے دائیں جانب ایک نوجوان بیٹھا تھا جو سب حاضرین مجلس میں سے صغير السن تھا اور آپ کے بائیں طرف بوڑھے سردار بیٹھے تھے.پس آپ نے اس نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں.اس نوجوان نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کے تبرک کے معاملہ میں کسی اور کے لئے اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا.اس پر آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دائیں طرف کا ایسا لحاظ رکھتے کہ بائیں طرف کے بوڑھوں کو پیالہ دینے کے لئے آپ نے اول اس نوجوان سے اجازت طلب فرمائی اور اس کے انکار پر اس کے حق کو تسلیم کیا.ہر معاملہ میں خدا کا ذکر لاتے :- آپ کو خدا تعالیٰ سے کچھ ایسی محبت اور پیار تھا کہ کوئی معاملہ ہو اس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ضرور کرتے.اٹھتے بیٹھتے ہوتے جاگتے ، کھاتے پیتے، غرض کہ ہر موقع پر خدا کا نام 10

Page 20

ضرور لیتے جس کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر کیا جائے گا.یہاں صرف اسقد رلکھنا ہے کہ یہ بات بھی آپ کی عادات میں داخل تھی کہ سونے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو ملا کر دعا فرماتے پھر سب بدن پر ہاتھ پھیر لیتے چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ كَانَ إِذَا اوى الى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَيْهِ ثُمَ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَ أَفِيهِمَا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدَ وَقُلْ أَعْوَذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جسده يبدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهَهِ وَمَا أَقْبَل مِنْ جسده يفعل ذلك ثلاث مرات ( بخاری کتاب التفسیر باب فضل المعوذات ) یعنی آپ ہر شب جب اپنے بستر پر جاتے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے پھر ان میں پھونکتے اور قُل هُوَ اللهُ أَحَدٌ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے.پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے بدن پر ہاتھ ملتے اور ابتداء سر اور منہ اور جسم کے اگلے حصہ سے فرماتے اور تین دفعہ ایسا ہی کرتے.ذرا ان تین سورتوں کو با ترجمہ پڑھو اور پھر سوچو کہ رسول کریم صال پیام کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غنا پر کتنا ایمان تھا.کس طرح وہ اللہ تعالی کی پناہ کے بغیر اپنی زندگی خطرہ میں سمجھتے تھے.11

Page 21

اخلاق پر مجموعی بحث:- باب سوم پیشتر اس کے کہ میں آنحضرت صلی الیم کے اخلاق پاکیزہ کا فرداً فرداً ذکر کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون پر ایک مجموعی حیثیت سے بھی روشنی ڈالوں جس سے پڑھنے والے کو پہلے ہی سے تنبیہ ہو جائے کہ کس طرح آپ ہر پہلو سے کامل تھے اور اخلاق کی تمام شاخوں میں آپ دوسروں کی نسبت بہت آگے بڑھے ہوئے تھے.اس بات کے مفصل ثبوت کے لئے تو انسان کو احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ جب آپ کا سلوک صحابہ سے اور ان کا عشق آپ سے دیکھا جائے تو بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے.احمد مکی مدنی العربی مرحبا دل و جاں بادفدایت چیه عجب خوش لقبی لیکن اس جگہ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عرب ایک وحشی قوم تھی اور وہ کسی کی اطاعت کرنا حتی الوسع عار جانتی تھی اور اسی لئے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا انہیں گوارہ نہ تھا بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے.یہاں تک کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں ان کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھیں لیکن ان کی وحشت اور آزادی کی محبت کو دیکھ کر وہ بھی عرب کو فتح کرنے کا خیال نہ کرتی تھیں.عمر و بن ہند جیسا ز بر دست بادشاہ جس نے اردگرد کے علاقوں پر بڑا رعب جمایا ہوا تھا وہ بھی بدوی قبائل کو روپیہ وغیرہ سے بمشکل 12

Page 22

اپنے قابو میں لا سکا اور پھر بھی یہ حالت تھی کہ ذرا ذراسی بات پر وہ اسے صاف جواب دے دیتے تھے اور اس کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ ہم تیرے نو کر نہیں کہ تیری فرمانبرداری کریں چنانچہ لکھا ہے کہ عمر و بن ہند نے اپنے سرداروں سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے سے عار کرے.اس کے مصاحبوں نے جواب دیا کہ ایک شخص عمرو بن کلثوم ہے اور عرب قبیلہ بنی تغلب کا سردار ہے.اس کی ماں بے شک آپ کی ماں کی خدمت سے احتراز کرے گی اور اسے اپنے لئے عار سمجھے گی جس پر بادشاہ نے ایک خط لکھ کر عمرو بن کلثوم کو بلوایا اور لکھا کہ اپنی والدہ کو بھی ساتھ لیتے آنا کیونکہ میری والدہ اسے دیکھنا چاہتی ہے.عمرو بن کلثوم اپنی والدہ اور چند اور معزز خواتین کو لے کر اپنے ہمراہیوں سمیت بادشاہ کے خط کے بموجب حاضر ہو گیا بادشاہ کی والدہ نے حسب مشورہ اس کی والدہ سے کچھ کام لینا تھا.دونوں زنان خانہ میں بیٹھی ہوئی تھیں.والدہ شاہ نے کسی موقع پر سادگی کے ساتھ کہہ دیا کہ ذرا فلاں قاب مجھے اٹھا دو.عمر و بن کلثوم کی والدہ لیلی نے جواب دیا کہ جسے ضرورت ہو خود اٹھا لے.اس پر والدہ شاہ نے مکہ راصرار کیا لیکن لیلی نے بجائے اس حکم کی تعمیل کے زور سے نعرہ مارا کہ وَاأَذِلَّاهُ يَا بَنِی تَغْلَب اے بنی تغلب دوڑ و کہ تمہاری ذلت ہوگئی ہے.اس آواز کا سنا تھا کہ اس کے بیٹے عمر و بن کلثوم کی آنکھوں میں تو خون اتر آیا.بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا گھبرا اٹھا.چونکہ اپنے پاس تو کوئی ہتھیار نہ تھا ادھر ادھر دیکھا.بادشاہ کی تلوار کھونٹی کے ساتھ لٹک رہی تھی اس کی طرف جھپٹا اور تلوار میان سے نکال کر ایک ہی وار سے بادشاہ کا سراڑ دیا لیکن اس سے بھی جوش انتقام نہ اترا.باہر نکل کر سپاہیوں کو حکم دیا کہ شاہی مال و متاع لوٹ لو.بادشاہ کی سپاہ تو غافل تھی اس کے سنبھلتے سنبھلتے لوٹ لاٹ کر صفایا کر دیا اور اپنے وطن کی طرف چلا آیا.چنانچہ اپنے ایک 13

Page 23

قصیدہ میں اس شاعر نے عمرو بن ہند کو مخاطب کر کے اپنے آزاد ہونے کا ذکر یوں کیا ہے :- الْيَقِينَا أَبَا هِنْدِ فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْنَا وَأَنْظِرْنَا نُخَبّرگ اے ابا ہند تو ہمارے معاملہ میں جلدی نہ کر اور ہمیں ڈھیل دے ہم تجھے یقینی بات بتا ئیں گے بِيْضًا وَنُصْدِرُ هُنَّ حُمْرًا قَدْ رَوِيْنَا بانا تورد نُوْرِدُ الرَّايَاتِ وہ یہ کہ ہم سفید جھنڈوں کے ساتھ جنگ میں جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو وہ جھنڈے خون سے سرخ و سیراب ہوتے ہیں طِوَالٍ عَصَيْنَا الْمَلِكَ فِيهَا أَنْ نَدِينَا وَأَيَّامٍ غُرٍ اور بہت سے ہمارے مشہور اور دراز معر کے ہیں کہ ہم نے ان میں بادشاہ کی نافرمانی کی تا اس کے مطیع نہ ہو جائیں وَرِثْنَا الْمَجْدَ قَدْ عَلِمَتْ مَعَدُّ نُطَا عِنْ دُوْنَهُ حَتَّى يَبِيْنَا عرب جانتے ہیں کہ ہم بزرگی کے وارث ہیں اپنے شرف کے لئے لڑتے ہیں تا کہ وہ ظاہر ہو جائے الا لا يَعْلَمُ الْاقْوَامُ أَنَّا تَضَعُضَعْنَا وَأَنَّا قَدْ نہ سمجھ کہ ہم کمزور اور ر کاہل ہو وَنَيْنَا گئے ہیں خبر دار تو ہمیں أَلَا لَا يَجْهَلَنْ أَحَدٌ عَلَيْنَا فَنَجْهَلَ فَوْقَ جَهْلِ الْجَاهِلِيْنَا خبردار کوئی ہم پر جہالت سے ظلم نہ کرے ورنہ ہم ظالموں کے ظلم کا سخت بدلہ دیں گے بِأَيِّ مَشِيئَةٍ عَمْرَو بْنَ هِنْدِ نَكُونُ تُهَدِّدُنَا لِقَيْلِكُمْ فِينَا كنا لا مگ قَطِينَا کس وجہ سے عمرو بن ہند تو چاہتا ہے کہ ہم تیرے گورنر کے فرمانبردار ہو جا ئیں وَنُوْعِدُنَا رُوَيْدًا مَتَى مَقْتَوِيْنَا تو ہمیں ڈراتا ہے اور دھمکاتا ہے جانے بھی دے ہم تیری ماں کے خادم کب ہو ئے تھے فَإِنَّ قَنَاتَنَا يَا عُمْرُو أَغْيَتُ عَلَى الْأَعَدَاءِ قَبْلَكَ اَنْ تَلِيْنَا * اے عمرو ہمارے نیزوں نے انکار کیا ہے تجھ سے پہلے بھی کہ دشمنوں کے لئے نرم ہو جا ئیں ان اشعار کو دیکھو کس جوش کے ساتھ وہ بادشاہ کو ڈانٹتا ہے اور اپنی آزادی میں فرق آتا نہیں دیکھ سکتا.جو حال بنی تغلب کا ان اشعار سے معلوم ہوتا ہے وہی حال قریبا قریباً سب عرب کا تھا اور خصوصا قریش مکہ تو کسی کی ماتحتی کو ایک دم کے لئے بھی گوارہ نہیں کر سکتے سبعہ معلقات قصیده پنجم از عمرو بن کلثوم صفحه ۳۷ تا ۴۴ مطبع سعیدی کراچی نارمحمد سعید اینڈ سنز 14

Page 24

تھے کیونکہ انہیں کعبہ کی ولایت کی وجہ سے جو حکومت کل قبائل عرب پر تھی اس کی وجہ سے ان کے مزاج دوسرے عربوں کی نسبت زیادہ آزاد تھے بلکہ وہ ایک حد تک خود حکومت کرنے کے عادی تھے اس لئے ان کا کسی شخص کی حکومت کا اقرار کر لینا تو بالکل امر محال تھا یہ وہ قوم تھی کہ جس میں رسول کریم سالی نے یہ تم کا ظہور ہوا اور پھر ایسے رنگ میں کہ آپ نے ان کی ایک نہیں دو نہیں تمام رسوم و عادات بلکہ تمام اعتقادات کا قلع قمع کرنا شروع کیا جس کے بدلہ میں انکے دلوں میں آپ کی نسبت جو کچھ بغض و کینہ ہوگا وہ آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے.مگر آپ کے اخلاق کو دیکھو کہ ایسی آزادقوم باوجود ہزاروں کینوں اور بغضوں کے جب آپ کے ساتھ ملی ہے اسے اپنے سر پیر کا ہوش نہیں رہا وہ سب خودسری بھول گئی اور آپ کے عشق میں کچھ ایسی مست ہوئی کہ آزادی کے خیال خواب ہو گئے.اور یا تو کسی کی ماتحتی کو برداشت نہ کرتی تھی یا آپ کی غلامی کو فخر سمجنے لگی.اللہ اللہ ! بڑے بڑے خونخوار اور وحشی عرب مذہبی جوش سے بھرے ہوئے قومی غیرت سے دیوانہ ہو کر آپ کے خون کے پیاسے ہو کر آپ کے پاس آتے تھے اور ایسے رام ہوتے تھے کہ آپ ہی کا کلمہ پڑھنے لگ جاتے.حضرت عمر جیسا تیز مزاج گھر سے یہ تہیہ کر کے نکلا کہ آج اس مدعی نبوت کا خاتمہ ہی کر کے آؤں گا.غصہ سے بھر اہو اتلوار کھینچے ہوئے آپ کے پاس آتا ہے لیکن آپ کی نرمی اور وقار وسکیت اور اللہ تعالیٰ پر ایمان دیکھ کر آپ کو قتل تو کیا کرنا تھا خود اپنے نفس کو قتل کر کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا.کیا کوئی ایک نظیر بھی دنیا میں ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ایسی آزاد اور خونخوار قوم کو کسی نے ایسا مطیع کیا ہو اور وہ اپنی آزادی چھوڑ کر غلامی پر آمادہ ہوگئی ہو اور ہر قسم کی فرمانبراری کے نمونے اس نے دکھائے ہوں.اگر کوئی ایسی قوم پائی جاتی ہو تو اس کا نشان و پتہ ہمیں بتاؤ تا ہم بھی تو اس کے حالات 15

Page 25

سے واقف ہوں.لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی مصلح ایسے وسیع اخلاق لے کر دنیا میں نہیں آیا جیسا کہ ہمارا آقا سلایا کہ تم اور اس لئے کسی مصلح کی جماعت نے ایسی فدائیت نہیں دکھائی جیسے ہمارے آنحضرت مصلای سی ایلم کے صحابہ نے چنانچہ بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے واقعات میں مسور بن مخرمہ کی روایت ہے کہ جب آپ حدیبیہ میں ٹھہرے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ مایا یہ ہم تھوکتے تھے تو صحابہ اچک کر آپ کا تھوک اپنی منہ اور ہاتھوں پر مل لیتے تھے اور جب وضو کر نے لگتے تو وضو کے بچے ہوئے پانی کے لینے کے لئے اس قدر لڑتے کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کر دیں گے.اور جب آپ کوئی حکم دیتے تھے تو ایک دوسرے کے آگے بڑھ کر اس کی تعمیل کرتے اور جب آپ بولنے لگتے تو سب اپنی آوازوں کو نیچا کر لیتے اور صحابہ کے اس اخلاص اور محبت کا ان ایلچیوں پر جو گفتگو کے لئے آئے تھے ایسا اثر پڑا کہ انہوں نے اپنی قوم کو واپس جا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ کی مخالفت سے باز آجائیں.اسی طرح بخاری میں لکھا ہے کہ جنگ احد پر جانے کے متعلق جب آپ نے انصار سے سوال کیا تو سعد بن عبادہ نے آپ کو جواب دیا یا رسول اللہ صلی ہی تم کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح کہہ دیں کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَا ههنا قعدون (المائدہ:۲۵) یعنی تو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں دشمنوں سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ خدا کی قسم ہم تیرے آگے بھی اور پیچھے بھی اور دائیں بھی اور بائیں بھی تیرے دشمنوں سے مقابلہ کریں گے.اے چشم بصیرت رکھنے والو! اے فہم دل رکھنے والوخدا را ذرا اس جواب کا اس جواب سے مقابلہ تو کرو جو حضرت موسی کو ان کی امت نے دیا اور اس عمل سے بھی مقابلہ کرو جو حواریوں سے حضرت مسیح کے گرفتار ہونے کے وقت سرزد ہوا.اور پھر 16

Page 26

بتاؤ کہ کیا اس قربانی اس فدائیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارا رسول صلی سیستم ایسے اخلاق رکھتا تھا کہ جن کی نظیر دنیاوی بادشاہوں میں تو خیر تلاش کرنی ہی فضول ہے دینی بادشا ہوں یعنی نبیوں میں بھی نہیں مل سکتی.اور اگر کوئی نبی ایسے اخلاق رکھتا تو ضرور اس کی امت بھی اس پر اس طرح فدا ہوتی جس طرح آپ پر.مگر اس اخلاق کے مقابلہ کے ساتھ عربوں کی آزادی کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.اس موقع پر میں ایک اور نظیر دینی بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جس سے مردوں کے علاوہ عورتوں کے اخلاص کا نمونہ بھی ظاہر ہو جائے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جَاءَتْ هِنْدُ بِئْتُ عُتْبَةَ فَقَالَتْ يَارَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبَ إِلَى أَنْ يَذِلُّوْ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَى أَنْ يَعِزُّ وَااَهْلِ خِبَائِكَ ( بخاری کتاب المناقب باب ذکر هند بنت عتبہ یعنی ہند بنت عتبہ آئی اور اس نے حضرت رسول اللہ صلی ای ایم سے عرض کیا کہ یا رسول الله الا ایک روئے زمین پر کوئی خیمہ والا نہ تھا جس کی نسبت میں آپ سے زیادہ ذلت کی خواہشمند ہوں اور اب روئے زمین پر کوئی گھر والا نہیں جس کی نسبت میں آپ کے گھر والوں سے زیادہ عزت کی خواہشمند ہوں.اس عورت کی طرف دیکھو یا تو وہ بغض تھا یا ایسی فریفتہ ہوگئی اور اس کی وجہ سوائے ان اخلاق کریمہ اور اس نیکی اور تقویٰ کے کیا تھی جو آپ میں پائے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ بھی اس کی یہی وجہ بیان فرماتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے فيما رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيْنَا الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ( آل عمران :۱۶۰) غرض کہ ان اخلاق حسنہ کا ایسا نیک اثر پڑا کہ ایک ایک کر کے تمام عرب قبیلے آپ کی خدمت میں آحاضر ہوئے.بھلا اس واقعہ کا عمر و بن ہند کے واقعہ سے مقابلہ تو کر کے دیکھو بہیں تفاوت راه از کجا است تا بکجا “.17

Page 27

رسول کریم کے اخلاق حسنہ کے متعلق آپ کی بیوی کی گواہی :- اس وقت تک تو میں نے آنحضرت کے اخلاق حسنہ کو آپ کے صحابہ کی فدائیت سے ثابت کیا ہے اب ایک اور طریق سے اس امر پر روشنی ڈالتا ہوں.آدمی کا سب سے زیادہ تعلق اپنی بیوی سے ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس روزانہ بہت سا وقت خرچ کرنا پڑتا ہے اور بہت سی ضر رویات میں اس کے ساتھ مشارکت اختیار کرنی پڑتی ہے اس لئے یہ توممکن ہے کہ انسان باہر لوگوں کے ساتھ تکلف کے ساتھ نیک اخلاق کے ساتھ پیش آسکے اور ایک وقت کے لئے اس گند کو چھپالے جو اس کے اندر پوشیدہ ہولیکن یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ کوئی اپنی برائیوں اور بدخلقیوں کو اپنی بیوی سے پوشیدہ رکھ سکے کیونکہ علاوہ ایک دائمی صحبت اور ہر وقت کے تعلق کے بیوی پر مرد کو کچھ اختیار بھی ہوتا ہے اور اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی فطری بداخلاقی کا اکثر اوقات اس کے سامنے اظہار کر دیتا ہے.پس انسان کے اخلاق کا بہتر سے بہتر گواہ اس کی بیوی ہوتی ہے جس کا تجربہ دوسرے لوگوں کے تجربہ سے بہت زیادہ صحیح مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے.آنحضرت سالی ایم کے اخلاق کے متعلق جو گواہی حضرت خدیجہ نے دی ہے وہ آپ صلی یا یہ نیم کے نیک اخلاق کو ثابت کرنے کے لئے کافی سے زیادہ ہے اور اس کے بعد کسی زائد شہادت کی ضرورت نہیں رہتی.حضرت عائشہ وحی کی ابتداء بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جب پہلی دفعہ آنحضرت سلی ایلام پر وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے اور غار حرا سے گھر کی طرف لوٹے اور آپ کا دل دھڑک رہا تھا حضرت خدیجہ کے پاس آکر آپ نے فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو.جلد کپڑا اوڑھا دو.جس پر آپ پر کپڑا ڈالا گیا یہاں تک کہ آپ کا کچھ خوف کم ہوا اور آپ نے سب واقعہ حضرت خدیجہ کو سنایا اور فرمایا کہ مجھے تو اپنی نسبت کچھ خوف پیدا ہو گیا ہے.اس بات کو سنکر جو کچھ 18

Page 28

حضرت خدیجہ نے فرمایا وہ یہ ہے كَلَّا وَ اللهِ مَا يُخْزِیكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَحِمَ وَتَحْمِلْ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ( بخاری باب كيف كان بدء الوحی) یعنی سنو جی میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ خدا تجھے بھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے.مہمانوں کی خدمت کرتا ہے اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتا ہے.اس کلام کے باقی حصوں پر تو اپنے وقت پر لکھوں گا سر دست حضرت خدیجہ کی گواہی کو پیش کرتا ہوں جو آپ نے قسم کھا کر دی ہے.یعنی تسِبُ الْمَعْدُومَ کی گواہی کو کافی تھی لیکن اپنے خدا کی قسم کے ساتھ مؤکند کر کے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلیم میں تمام اخلاق حسنہ پائے جاتے ہیں حتی کہ وہ اخلاق بھی جو اس وقت ملک میں کسی اور آدمی میں نہیں دیکھے جاتے تھے.یہ گواہی کیسی زبردست اور کیسی صاف اور پھر بیوی کی گواہی اس معاملہ میں جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں نہایت ہی معتبر ہے.حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ کل اخلاق حسنہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں آپ میں پائے جاتے تھے.خود رسول کریم ستی سیم کی گواہی اپنے اخلاق کی نسبت :- حضرت خدیجہ کی گواہی پیش کرنے کے بعد میں خود آنحضرت صلی سیستم کی گواہی اپنی نیک سیرتی کی نسبت پیش کرتا ہوں.شاید اس پر بعض لوگ حیران ہوں کہ اپنی نسبت آپ گواہی کے کیا معنی ہوئے لیکن یہ گواہی رسول کریم صلی ہیں یا تم نے ایسی بے تکلفی سے اور بغیر پہلے غور کے دی ہے کہ موافق تو الگ رہے مخالف کو بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں ہونا چاہئے.اس حدیث میں جس میں حضرت خدیجہ کی گواہی کا ذکر ہے آگے چل کر لکھا ہے 19

Page 29

کہ حضرت خدیجہ آنحضرت سلیم کو اپنے ساتھ اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور انہیں کل حال سنایا انہوں نے سن کر کہا کہ یہ فرشتہ جو آپ پر نازل ہوا ہے یہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر نازل فرمایا تھا اور فرمایا کہ يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعَالَيَتَنِي اكُوْنَ حَيًّا اِذْيُخْرِجُكَ قَوْمَكَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَ مُخْرِجِيَ هُمْ ( بخاری جلد اول باب كيف كان بدء الوحى) یعنی اے کاش کہ میں اس وقت جو ان و توانا ہوں.اے کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوں جبکہ تجھے تیری قوم نکال دے گی رسول اللہ نے سنکر فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ اس گفتگو سے اور خصوصا رسول کریم سانیا ایتم کے اس قول سے کہ کیا مجھے میری قوم نکال دے گی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اندر کیسا صاف تھا.اور جب آپ نے ورقہ بن نوفل سے یہ بات سنی کہ آپ کو اہل مکہ نکال دیں گے تو آپ کو اس سے سخت حیرت ہوئی کیونکہ آپ اپنے نفس میں جانتے تھے کہ مجھ میں کچھ عیب نہیں.اور اگر آپ ذرہ بھر بھی اپنی طبیعت میں تیزی پاتے تو اس قدر تعجب کا اظہار نہ فرماتے لیکن ورقہ کی بات سنکر اس پاک فطرت انسان کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ ہیں کیا میری قوم مجھے نکال دے گی.اسے کیا معلوم تھا کہ بعض خبیث الفطرت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ہر نور کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ تو اس بات پر حیران تھا کہ اس پاک زندگی اور اس درد مند دل کے باوجود میری قوم مجھے کیوں کر نکال دے گی.اخلاق حمیدہ کی تفصیل :- اخلاق پر ایک مجملاً بحث کرنے کے بعد اب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت سی ایم کے اخلاق کا تفصیلاً بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن پیشتر اس کے کہ میں فرڈ افرداً آپ کے اخلاق کا بیان کروں ان کی تقسیم کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ اس تقسیم کو مد نظر رکھ کر 20

Page 30

ناظرین پر یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاوے کہ تمام کے تمام شعبہ ہائے اخلاق میں آپ کمال کو پہنچ گئے تھے اور ہر حصہ زندگی میں آپ کے اخلاق اپنا جلوہ دکھا رہے تھے اور کوئی صنف خوبی کی باقی نہ رہی تھی جس میں آپ نے دوسرے تمام انسانوں کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑ دیا.میں نے جہاں تک غور کیا ہے انسان تعلقات تین طرح کے ہوتے ہیں.سب سے پہلا تعلق تو اس کا خدا سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کا خالق و رازق ہے.اس کے فضل کے بغیر اس کا ایک دم آرام سے نہیں گزر سکتا بلکہ آرام تو الگ رہا اس کی زندگی ہی محال ہے.اس کے احسانات کی کوئی حد نہیں ہر ایک لمحہ میں اس کے فضلوں کی بارش ہم پر ہو رہی ہے.کمزور سے کمزور ضعیف سے ضعیف حالت سے اس نے ہمیں اس حد کو پہنچایا ہے اور عقل و خرد بخش کر کل مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اس لئے اگر اس کے ساتھ ہمارے تعلقات درست نہ ہوں.اگر ہمارے اخلاق تعلق باللہ میں ادنیٰ ہوں اور اس کے احسانات کو ہم فراموش کر دیں تو ہم سے زیادہ کوئی ذلیل نہیں.خالق کے بعد ہمارا تعلق مخلوق سے ہے کہ ان میں بھی کوئی ہمارا محسن ہے، کوئی ہمارا معلم ہے، کوئی ہمارا مہربان ہے، کوئی درد خواہ ہے، کوئی ہمارے آرام و آسائش میں کوشاں ہے، کوئی ہماری محبت اور توجہ کا محتاج ہے، کوئی اپنی کمزوریوں اور اپنی گری ہوئی حالت اور اپنے ہمسفروں سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہم سے نصرت و مدد کا متمنی ہے.غرضیکہ ہزاروں طریق سے ہزاروں آدمی ہم سے متعلق ہیں اور اگر ہمارے معاملات ان سے درست نہ ہوں اگر ان سے بدخلقی سے پیش آئیں تب بھی دنیا کا امن و امان جاتا رہتا ہے اور فساد بغاوت میں ترقی ہوتی ہے پس اگر ہمارے اخلاق مخلوق سے درست نہ ہوں تو ہم ایک ڈاکو کی طرح ہیں جو دنیا سے اس کے امن و آرام کا متاع لوقا اور غارت کرتا ہے.21

Page 31

تیسرا تعلق ہمارا خود اپنے نفس سے ہے کہ یہ بھی ہماری بہت سی تو جہات کا محتاج ہے اور جس طرح ہمارا خالق سے منہ موڑنا یا مخلوق سے بد اخلاقی سے پیش آنا نہایت مضر اور محرب امن ہے اسی طرح ہمارا اپنے نفس سے بدسلوکی کرنا اور اخلاق رذیلہ سے پیش آنا نہایت خطر ناک اور باعث فساد ہے.پس وہی انسان کا مل ہوسکتا ہے کہ جو ان تینوں معاملات میں کامل ہو اور ان اصناف میں سے ایک صنف میں بھی کمزوری نہ دکھلائے.اگر ان تینوں اقسام اخلاق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر انسان جو اخلاق میں کامل سمجھے جاتے ہیں بہت سی کمزوریاں رکھتے ہیں.اور اگر ایک قسم کے اخلاق میں انہیں کمال حاصل ہے تو دوسری قسم میں انہیں کوئی دسترس نہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور پاک بندوں کا گروہ ہی نکلے گا کہ جو ان تینوں اقسام اخلاق میں کمال رکھتا ہے اور کسی خوبی کو اس نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا.اور جب آپ رسول کریم صلی ایتم کے اخلاق کا مطالعہ غور سے کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ تمام صاحب کمال لوگوں کے سردار تھے اور باوجود اس کے کہ دنیا میں بہت سے صاحب کمال لوگ گزرے ہیں لیکن جس رنگ میں آپ رنگین تھے اس کے سامنے سب کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور جن خوبیوں کے آپ جامع تھے ان کا عشر عشیر بھی کسی اور انسان میں نہیں پایا جاتا ہے عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد ندانم هیچ نفسے در دو عالم که دارد شوکت وشان محمد ہم اس بات سے قطعا منکر نہیں ہیں کہ آپ کے پہلے بھی اور آپ کے بعد بھی بڑے بڑے صاحب کمال پیدا ہوئے ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی مثال اور آنحضرت صلی یا یتیم کی مثال دیئے اور سورج کی ہے اور سمندر اور دریا کی ہے کیونکہ وہ دلربا 22

Page 32

یکتا ان تمام خوبیوں کا جامع تھا جو مختلف اوقات میں مختلف صاحب کمال لوگوں نے حاصل کیں.آپ نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے احکام کی اطاعت میں ایسا محوکر دیا تھا کہ دنیا میں اس کے روشن مظہر ہو گئے تھے اور وہ تَخَلَّقَوْا بِأَخْلَاقِ اللہ کہنے والا انسان خود اس قول کا کامل نمونہ تھا زاں نمط شد محو دلبر کز کمال استحاد پیکر اوشد سراسر صورت رب رحیم بوئے محبوب حقیقی میدمدزاں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم میں ان تینوں اقسام اخلاق میں سے پہلے تو اس کے اخلاق حسنہ میں سے وہ حصہ بیان کروں گا کہ جس سے آپ کا تعلق باللہ بدرجہ کمال ثابت ہوتا ہے.پھر وہ جس سے آپ کے نفس کی پاکیزگی اور کمال ثابت ہوتا ہے.اور آخر میں وہ حصہ جس سے مخلوق سے آپ سے تعلق کی کیفیت کھلتی ہے.23

Page 33

اخلاص بالله - خشیت الہی آپ کی ایک دعا:- آپ کی خشیت الہی کا ثبوت ایک دعا سے خوب ملتا ہے.انسان جس وقت لوگوں سے جدا ہو کر دعا مانگتا ہے تو اس وقت اسے کسی بناوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس وقت کے خیالات اگر کسی طرح معلوم ہو جائیں تو وہ اس کے سچے خیالات ہوں گے کیوں کہ وہ ان خیالات کا اظہار تخلیہ میں کرتا ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی آیتم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اللَّهُمَّ إِنِّي اَعْوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَالِ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّىٰ أَعْوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ فَقَالَ لَهُ قَائِلُ مَا اكْثَرُ مَا تَسْتَعِيذُ مِنَ الْمَغْرَمِ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ وَعَدَ فَاخْلَفَ ( بخاری کتاب الصلاۃ باب الدعاء قبل السلام) اے میرے خدا میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں مسیح الدجال کے فتنہ سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے اے میرے رب میں پناہ مانگتا ہوں گنا ہوں سے اور قرضہ سے اس دعا کو سنکر ایک شخص نے پوچھا کہ آپ قرضہ سے اس قدر کیوں پناہ مانگتے ہیں.فرمایا کہ جب انسان قرضدار ہو جاتا ہے تو بات کرتے وقت جھوٹ بول جاتا ہے اور وعدہ کر کے اس کے خلاف کرتا ہے.کیسی پاک دعا ہے آپ کے اندرونہ پر کیسی روشنی ڈالتی ہے اور اس سے کیسا کھلا کھلا ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کیسے خائف تھے.کس طرح اس کے حضور گرتے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے پھر اسی سے عرض کرتے کہ مجھ سے تو کچھ نہیں ہوسکتا تو خود ہی فضل کر.24

Page 34

خدا تعالیٰ کے غناء سے خوف :- بڑوں اور چھوٹوں میں کیا فرق ہوتا ہے جن کے پاس کچھ ہوتا ہے وہ کیسے منکسر المزاج ہوتے ہیں.آنحضرت سی سی ایم جیسے انسان اور ختم نبوت کا دعوی، قرآن شریف جیسی کتاب اتر رہی ہے.نصرت الہی کی وہ بھر مار ہے کہ دشمن و دوست حیران ہیں.ہر گھڑی پیار و محبت کے اظہار ہورہے ہیں.حتی کہ بارگاہ خداوندی سے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهِ فَاتَّبِعُونِي يُحببكُمُ الله ( آل عمران : ۳۲) کا حکم جاری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی شان میں فرماتا ہے کہ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِثْمَايُبَايِعُونَ الله (الفتح: 1) اور اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ دنا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدَنی ( انجم:۱۰) لیکن خشیت الہی کا یہ حال ہے کہ آپ فرماتے ہیں واللهِ مَا أَدْرِى وَانَا رَسُولُ اللهِ مَا يُفْعَلُ في خدا کی قسم میں نہیں جانتا با وجود اس کے کہ میں خدا کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا.سچ ہے کہ جسے جتنا قرب شاہی نصیب ہوتا ہے اسی طرح وہ خائف بھی زیادہ ہوتا ہے.ادھر تو اس بادشاہ دو جہاں کا اللہ تعالیٰ کی خشیت میں یہ کمال تھا ادھر ہم آجکل فقراء کو دیکھتے ہیں کہ ذرا کوئی بات ہوئی اور کہتے ہیں کہ الٹا دوں طبقہ زمین و آسمان.ایک ہاتھ میں سوٹا اور ایک ہاتھ میں کشکول گدائی لئے پھرتے ہیں.بدن پر ہندو فقیروں کی طرح راکھ ملی ہوئی ہوتی ہے معرفت الہی سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں.قرآن شریف پر عمل تو الگ رہا ایک آیت بھی پڑھ نہیں سکتے دعا وی دیکھو تو کہو کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ سب کا روبار خدائی انہیں سپر دکر کے آپ علیحدہ ہو گیا ہے یہ تو جہلاء کا گروہ ہے پیروں کی بھی ایسی ہی حالت ہے بعض تو فقط اپنی بہشت تو الگ رہی اپنے دستخطی رقعوں پر دوسروں کو بھی بہشت دلاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی انکی حالت پر رحم کرے اور ہمیں اس پاک رسول کی اطاعت کی توفیق دے کہ اس کے بغیر نجات نہیں.25

Page 35

بدر کا واقعہ:- بدر کے موقع پر آنحضرت سال ایتم سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کیلئے کافی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدر خوف تھا.جنگ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کے مقابلہ میں آپ اپنے جاں شار بہاروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے.تائید الہی کے آثار ظاہر تھے کفار نے اپنے قدم جمانے کیلئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہو گئی.اس طرح اور بھی تائیدات سماوی ظاہر ہورہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف آنحضرت صلی شیا کی یتیم کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غناء کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بیتاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فرماتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے.چنانچہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي قُبَةِ اللَّهُمْ إِلَىٰ أَنْشُدُكَ عَهَدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ الْيَوْمِ فَأَخَذَا أَبُو بَكْرِ بِيَدِهِ فَقَالَ حَسْبُكَ يَارَسُوْلَ اللهِ فَقَدْ اَلْحَحْتَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُوْلُ سَيَهْزَمُ الْجَمْعَ وَيُوَ لُوْنَ الدُّبَرَ بَلِ السَّاعَةَ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدهَى وَأَمَرُّ ( بخاری کتاب الجھاد باب ما قيل في درع النبی صلی الله علیه وسلم) نبی کریم جنگ بدر میں ایک گول خیمہ میں تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے خدا میں تجھے تیرے عہد اور وعدے یاد دلاتا ہوں اور ان کے ایفاء کا طالب ہوں.اے میرے رب اگر تو ہی (مسلمانوں کی تباہی ) چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا.اس پر حضرت ابوبکر نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ بس کیجئے آپ نے تو اپنے رب سے دعا 26

Page 36

کرنے میں حد کر دی رسول کریم سنایا کہ تم نے اس وقت زرہ پہنی ہوئی تھی آپ خیمہ سے باہر نکل آئے اور فر ما یا کہ ابھی ان لشکروں کو شکست ہو جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ یہ وقت ان کے انجام کا وقت ہے اور یہ وقت ان لوگوں کے لئے نہایت سخت اور کڑوا ہے.اللہ اللہ ! خوف خدا کا ایسا تھا کہ باوجو د وعدوں کے اس کے غناء کا خیال تھا لیکن یقین بھی ایسا تھا کہ جب حضرت ابوبکر نے عرض کی تو بآواز بلند سنا دیا کہ میں ڈرتا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مجھے علم ہو چکا ہے کہ دشمن شکست کھا کر ذلیل وخوار ہوگا اور آئمۃ الکفر یہیں مارے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.جس جگہ پر عذاب آچکا ہو وہاں آپ نہ ٹھہر تے.رسول کریم صلی ا یہ تم اللہ تعالی سے اس قدر خائف تھے اور اس کا تقویٰ آپ کے دل میں ایسا مستولی تھا کہ نہ صرف آپ ایسے افعال سے محفوظ تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو اور نہ صرف لوگوں کو ایسے افعال میں مبتلا ہونے سے روکتے تھے بلکہ آپ ان مقامات میں ٹھہر نا برداشت نہ کرتے تھے جس جگہ کسی قوم پر عذاب آچکا ہو.اور ان واقعات کو یاد کر کے ان افعال کو آنکھوں کے سامنے لا کر جن کی وجہ سے وہ عذاب نازل ہوئے آپ اس قدر غضب الہی سے خوف کرتے کہ اس جگہ کا پانی تک استعمال کرنا آپ مگر وہ جانتے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَمَرَهُمْ أَنْ لَا يَشْرَبُوْا مِنْ بِثْرِهَا وَلَا يَسْتَقْوْا مِنْهَا فَقَالُوْ اقَدْ عَجَنَا مِنْهَا وَاسْتَقَيْنَا فَاَ مَرَ هُمْ أَنْ يَطْرَ حُوْ اذْلِكَ الْعَجِيْنَ وَيُهْرِيْقُوْاذْلِكَ الْمَاء.( بخاری کتاب بدء الخلق باب قول الله تعالى عز وجل والى ثمو دا خاهم صالحا) جب آنحضرت ا السلام غزوہ تبوک کے موقع پر مقام حجر پر اترے آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی نہ پئیں اور نہ پانی بھریں یہ حکم سن کر صحابہ نے جواب دیا کہ ہم نے اس پانی سے آٹا گوند لیا 27

Page 37

ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ نے حکم دیا کہ اس آٹے کو پھینک دو اور اس پانی کو بہا دو.اس خوف الہی کو دیکھو اور دنیا کے سب راستبازوں کی زندگیوں کا اس پاک نبی کی زندگی سے مقابلہ کرو کہ اس میں خوف الہی کس قدر زیادہ تھا.آپ ملتی کہ تم اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کرتے :- پہلے میں ذکر کر چکا ہوں کہ آنحضرت سلیلایی تم اپنی نسبت فرماتے تھے کہ وَمَا أَدْرِي مَا يَفْعَلُ ہی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا.اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ آپ کبھی اس بات کا دعوی نہ کرتے کہ اپنے اعمال کے زور سے جنت کے وارث بن جائیں گے بلکہ ہمیشہ یہی تعلیم دیتے کہ خدا کے فضل سے جو کچھ ملے گا ملے گا اور اپنی نسبت بھی یہی فرماتے کہ میری نجات بھی خدا کے ہی فضل سے ہوگی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَنْ يُدْخِلَ اَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ قَالُوْ وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَ نِيَ اللَّهُ بِفَضْلِهِ وَرَحْمَتَتِهِ فَسَدِّ دُوْا وَقَا رِبُوْا وَلَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ اِمَّا مُحْسِنَا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ خَيْرًا وَا إِمَامُسِيْنًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ ( بخاری کتاب المرضى باب نهى تمنى المريض الموت) فرماتے ہیں میں رسول کریم صلی یا یہ تم کو ایک دفعہ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہیں داخل کرے گا.لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہ ہوں گے آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ میں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہ ہوں گا بلکہ خدا کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لیں گے تو میں جنت میں داخل ہوں گا اس لئے تم نیکی کرو اور سچائی سے کام لو اور خدا کی نزدیکی کو تلاش کرو اور تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو شاید وہ نیکی میں اور ترقی کرے اور اگر بد ہے تو شاید 28

Page 38

اس کی توبہ قبول ہو جائے اور اسے خدا کی رضاء کے حاصل کرنے کا موقع مل جائے.اس حدیث سے رسول کریم صلی نیلم کی خشیت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی قدرت، بڑائی اور جلال کا کیسا صحیح اندازہ لگایا تھا اور کس طرح آپ کے دل پر حقیقت منکشف تھی کہ آپ ان اعمال کے ہوتے ہوئے بھی اس بادشاہ کی غناء سے ایسے خائف تھے کہ فرماتے کہ خدا کا فضل ہی ہو تو نجات ہو ورنہ اس کے فضل کے بغیر نجات کیونکر ہوسکتی ہے.علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ اسلام نجات کو اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کے فضل کا نتیجہ قراردیتا ہے ہاں اعمال صالحہ خدا کے فضل کے جاذب ہوتے ہیں اس لئے رسول کریم سنا تم نے فرمایا کہ نجات خدا کے فضل سے ہے اس لئے تم نیکی اور تقویٰ سے کام لو معلوم ہوا کہ نیکی اور اعمال صالحہ فضل کے جاذب ہیں چنانچہ ایک دوسری حدیث میں اس کی اور تشریح ہو جاتی ہے.حضرت ابوہریرہ ہی اس حدیث کے بھی راوی ہیں اور اس میں انہوں نے پہلی حدیث سے اتنازیادہ بیان فرمایا ہے وَاغْدُ وَاوَرُوْحَوْا وَشَيْيَ مِنَ الدُّلْجَةِ وَالْقَصْدَا القَصْدَ تَبْلُغُو( بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل) یعنی خدا کے فضل کے سوانجات نہیں اسی لئے صبح کے وقت عبادت کرو اور شام کے وقت بھی اور کچھ رات کے وقت بھی اور خوب قصد کرو.پوری طرح سے قصد کرو.جنت میں پہنچ جاؤ گےاس حدیث سے صاف کھل جاتا ہے کہ اپنے اعمال کو فضل کا جاذب قرار دیا ہے.استغفار کی کثرت:- لوگ گناہ کرتے ہیں اور پھر جرات کرتے ہیں اور خدا کا خوف ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا اور ایسے سنگدل ہو جاتے ہیں کہ کبھی ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد نہ بن جائیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے میں نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ تم تو بہ واستغفار کیا کرو اور نیکی میں ترقی کرو اس نے مجھے جواب دے دیا کہ کیا آپ 29

Page 39

مجھے گندہ جانتے ہیں کیا میں گناہ گار ہوں کہ آپ مجھے نیکی اور تقویٰ اور استغفار کے لئے کہتے ہیں میں یہ بات سنکر حیران ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے اتنا ناواقف ہے اور اس کے جلال سے اتنا بے خبر ہے کہ اسے اتنی بھی نہیں سمجھے کہ اس بادشاہ سے انسان کو کیسا خائف رہنا چاہیئے دنیا وی بادشاہوں کے مقربین کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی خدمت وخوشامد کے باوجود بھی ان سے یہی عرض کرتے رہتے ہیں کہ اگر کچھ قصور ہو گیا ہو تو عفوفر ما ئیں.بے شک بہت سے لوگ حتی المقدور نیکی کا خیال رکھتے ہیں مگر پھر بھی انسان سے خطا کا ہو جانا کچھ تعجب کی بات نہیں.رسول کریم کو دیکھو کیسی معرفت تھی، کیسی احتیاط تھی ، کس طرح خدا تعالیٰ سے خائف رہتے تھے اور باوجود اس کے کہ تمام انسانوں سے زیادہ آپ کامل تھے اور ہر قسم کے گناہوں سے آپ پاک تھے.خود اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ و نگہبان تھا مگر باوجود اس تقدیس اور پاکیزگی کے یہ حال تھا کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خائف رہتے نیکی پر نیکی کرتے ، اعلیٰ سے اعلیٰ اعمال بجالاتے ، ہر وقت عبادت الہیہ میں مشغول رہتے مگر باوجود اس کے ڈرتے اور بہت ڈرتے.اپنی طرف سے جس قدر ممکن ہے احتیاط کرتے مگر خدا تعالیٰ کے غناء کی طرف نظر فرماتے اور اس کے جلال کو دیکھتے تو اس بارگاہ صمدیت میں اپنے سب اعمال سے دستبر دار ہو جاتے اور استغفار کرتے اور جب موقع ہوتا تو بہ کرتے.حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ وَاللَّهِ إِنِّيَ لَاسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَاَتُوْبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّة ) بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبي ) میں نے آنحضرت سالی یا تم کو فرماتے سنا ہے کہ خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی کمزوریوں سے عفو کی درخواست کرتا ہوں اور اس کی صلى الله عَ طرف جھک جاتا ہوں.رض 30

Page 40

رسول کریم اللہ تعالیٰ کے فضل سے گناہوں سے پاک تھے نہ صرف اس لئے کہ انبیاء کی جماعت مغضوم عَنِ الْإِثْمِ وَالْجزم ہوتی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ انبیاء میں سے بھی آپ سب کے سردار اور سب سے افضل تھے آپ کا اس طرح استغفار اور تو بہ کرنا بتا تا ہے کہ خشیت الہی آپ پر اس قدر غالب تھی کہ آپ اس کے جلال کو دیکھ کر بے اختیار اس کے حضور میں گر جاتے کہ انسان سے کمزوری ہو جانی ممکن ہے تو مجھ پر اپنا فضل ہی کر.وہاں تو یہ خشیت تھی اور یہاں یہ حال ہے کہ ہم لوگ ہزاروں قسم کے گناہ کر کے بھی استغفار وتو بہ میں کوتاہی کرتے ہیں اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ إِلَيْهِ موت کا خیال:- آنحضرت سلی یا پیام موت سے کسی وقت غافل نہ رہتے اور خشیت الہی آپ پر اس قدر غالب تھی کہ ہر روز یہ یقین کر کے سوتے کہ شاید آج ہی موت آجاوے اور آج ہی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا پڑے اور اس لئے آپ ایک ایسے مسافر کی طرح رہتے تھے جسے خیال ہوتا ہے کہ ریل اب چلی کہ چلی وہ کبھی اپنے آپ کو ایسے کام میں نہیں پھنسا تا کہ جسے چھوڑنا مشکل ہو.آپ بھی ہر وقت اپنے محبوب کے پاس جانے کیلئے تیار رہتے اور جو دم گزرتا اسے اس کے فضل کا نتیجہ سمجھتے اور موت کو یاد رکھتے.حذیفہ بن الیمان فرماتے ہیں گان النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَ أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَضَعَ يَدَهُ تَحْتَ حَدِهِ ثُمَّ يَقُوْلُ اللَّهُم بِا سْمِكَ اَمُوْتُ وَأَحْيَا وَاذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ أَحْيَا نَا بَعْدَ مَا أَمَا تَنَا وَآلِيْهِ النُّشُورُ (بخاری کتاب الدعوات باب وضع اليد تحت الخد اليمن) رسول کریم کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے بستر پر لیٹتے اپنے رخسار کے نیچے اپنا ہاتھ رکھتے اور فرماتے اے میرے مولا میرا مرنا اور جینا تیرے ہی نام پر ہو اور جب سو کر اٹھتے تو فرماتے شکر ہے میرے رب کا جس نے ہمیں زندہ 31

Page 41

کیا مارنے کے بعد.اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر رات جب بستر پر جاتے تو اپنی طرف سے حساب ختم کر جاتے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو تب بھی تیرے ہی نام پر میری زندگی ہو اور جب اٹھتے تو خدا تعالیٰ کے احسان پر حمد کرتے کہ میں تو اپنی طرف سے دنیا سے علیحدہ ہو چکا تھا تیرا ہی فضل ہوا کہ تو نے پھر مجھے زندہ کیا اور میری عمر میں برکت دی.ایک اور مثال :- جس طرح مذکورہ بالا دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ہر وقت موت کو یادرکھتے تھے اسی طرح مذکورہ ذیل دعا بھی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ اپنی زندگی کی ہر گھڑی کو آخری گھڑی جانتے تھے اور جب آپ سونے لگتے تو اپنے رب سے اپنے معاملہ کا فیصلہ کر لیتے اور گویا ہر ایک تغیر کیلئے تیار ہو جاتے.چنانچہ براء بن عازب کی روایت ہے کہ كَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اوَى إِلى فِرَاشِهِ نَامَ عَلَىٰ شِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجَهْتُ وَجْهِي اِلَيْكَ وَفَوَضْتُ أَمْرِی اِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِئَ إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَاوَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَبِيَكَ الَّذِي اَز سَلْت ( بخاری کتاب الدعوات باب النوم على الشق الايمن ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیت های سیستم اپنے بستر پر جا کر لیٹتے تو اپنے دائیں پہلی پر لیٹتے پھر فرماتے اے میرے رب میں اپنی جان تیرے سپر د کرتا ہوں اپنی سب توجہ تیری ہی طرف پھیرتا ہوں.میں اپنا معاملہ تیرے ہاتھوں میں دیتا ہوں.اور اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں.تجھ سے نفع کا امیدوار ہوں.تیری بڑائی اور استغنا سے خائف بھی ہوں تیرے غضب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی نجات کا مقام ہے مگر یہی کہ تجھ ہی سے نجات و پناہ طلب کی جائے میں 32

Page 42

اس کتاب پر جو تو نے نازل کی ہے اور اس رسول پر جو تو نے بھیجا ہے ایمان لاتا ہوں.لوگ اپنی دوکان کو بند کرتے وقت اس کا حساب کر لیتے ہیں مگر خدا سے جو حساب ہے اسے صاف نہیں کرتے مگر کیسا برگزیدہ وہ انسان تھا جو صبح سے شام تک خدا کے فرائض کے ادا کرنے میں لگا رہتا اور خود ہی انہیں ادا نہ کرتا بلکہ ہزاروں کی نگرانی بھی ساتھ ہی کرتا تھا کہ وہ بھی اپنے فرائض کو ادا کرتے ہیں یا نہیں مگر رات کو سونے سے پہلے اپنی تمام کوششوں اور عبادتوں سے آنکھ بند کر کے عاجزانہ اپنے مولیٰ کے حضور میں اس طرح حساب صاف کرنے کے لئے کھڑا ہو جا تا کہ گویا اس نے کوئی خدمت کی ہی نہیں اور اس وقت تک نہ سوتا جب تک اپنی جان کو پورے طور سے خدا کے سپردکر کے دنیا و مافیھا سے براءت نہ ظاہر کر لیتا اور خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دے لیتا.لطیفہ: -اس دعا سے ایک عجیب نکتہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم کو اپنی نبوت پر اس قدر یقین کامل تھا کہ آپ معین تنہائی میں ہر روز سوتے وقت خدا کے سامنے اقرار فرماتے کہ مجھے اپنی نبوت پر ایمان ہے اور اسی طرح قرآن شریف پر بھی ایمان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی تعلیم کو لوگوں کے لئے قابل عمل نہیں جانتے تھے بلکہ سب سے پہلے اپنے نفس کو کہتے تھے کہ یہ حکم خدا کا آیا ہے اور اس کا رسول یوں کہتا ہے کہ اس پر ایمان لا.اس لئے تو آپ فرماتے ہیں کہ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَ نَبِيَكَ الَّذِي أَرْسَلَتَ آپ ابتلاؤں اور عذابوں سے پناہ مانگتے رہتے :- بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو فتنوں میں ڈالتے ہیں اور اس طرح اپنے نفس کا امتحان کرتے ہیں مگر یہ لوگ بعض دفعہ ان فتنوں میں ایسے گرتے ہیں کہ پھر سنبھلنے کی طاقت نہیں رہتی اور بجائے ترقی کرنے کے ان کا قدم نیچے ہی نیچے چلا جاتا ہے 33

Page 43

کچھ آدمی ایسے ہوتے ہیں جو خود بڑے بڑے کام طلب کرتے ہیں کہ ہمیں اگر ایسی مصیبت کا موقع ملے تو ہم یوں کریں اور یوں کریں اور اس طرح دین کی خدمت کریں لیکن رسول کریم کی نسبت اس کے خلاف ہے.آپ کبھی پسند نہ فرماتے تھے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ سے ابتلاؤں کی خواہش کرے کیونکہ کوئی کیا جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا.ممکن ہے کہ خدا کی غیرت اسے تباہ کر دے.ممکن ہے کہ اس کے اپنے اعمال کی کمزوری اس کے آگے آجائے ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر تسلط پا کر اسے خراب کر دے اور یہ گمراہ ہو جائے چنانچہ آپ خود بھی بجائے ابتلاؤں کی آرزو کرنے کے ان سے بچنے کی دعا کرتے تھے.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرْكِ الشَّقَاءِ وَسَوْءٍ القَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ ( بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من جهد البلاء) رسول کریم ہمیشہ خدا سے پناہ مانگتے تھے کہ مجھ پر کوئی ایسی مصیبت نہ آئے جو میری طاقت سے بڑھ کر ہو کوئی ایسا کام نہ پیش آجائے کہ جس کا نتیجہ ہلاکت ہو.اور کوئی خدا کا فیصلہ ایسا نہ ہو کہ جس کو میں ناپسند کروں اور کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو کہ جس سے میرے دشمنوں کو خوشی کا موقع ملے.اس دعا سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کیسی خشیت الہی تھی اور آپ اپنے آپ کو خدا تعالی کے مقابلہ میں کیسا کمزور جانتے اور کبھی اپنی بڑائی کے لئے اور اپنے ایمان کے اظہار کے لئے کسی بڑے کام یا ابتلاء کی آرزو نہ فرماتے اور یہی حقیقی ایمان ہے جس کی اقتداء کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے.لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنةٌ (الاحزاب:۲۲) رسول کریم ماتم کی ایک اور دعا بھی ہے جو آپ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے طلب فرماتے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں کس قدر خوف الہی تھا ابو موسیٰ 34

Page 44

فرماتے ہیں آپ ہمیشہ دعا فرماتے تھے کہ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ خَطِيئَتِيَ وَجَهْلِيَ وَاسْرَا فِي فِي أَمْرِئ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنَى اللَّهُمَّ اغْفِرْلِی هَزَ لِى وَجِدَىٰ وَخَطَايَايَ وَعَمْدِىٰ وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِئ ( بخاری کتاب الدعوات باب قول النبی ﷺ اللهم اغفر لي ما قدمت واخرت)اے اللہ میرے اعمال کے نتائج بد سے مجھے محفوظ رکھ اور میری خطاؤں کے نتائج سے بھی.میں اگر اپنی ناواقفیت کی وجہ سے کوئی کام جو کرنا ہو نہ کروں یا کوئی کام جس حد تک مناسب تھا اس سے زیادہ کر بیٹھوں اور جسے تو میری نسبت زیادہ جانتا ہے تو اس کے نتائج سے بھی مجھے محفوظ رکھ.اے اللہ اگر کوئی بات میں بے دھیان کہ بیٹھوں یا متانت سے کہوں غلطی سے کہوں یا جان کر کہوں اور یہ سب کچھ مجھ میں ممکن ہے پس تو ان میں سے اگر کسی فعل کا نتیجہ بد نکلتا ہو تو اس سے مجھے محفوظ رکھیو.حضرت عائشہ رسول کریم کی ایک اور دعا بھی بیان فرماتی ہیں اور وہ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جو ایمان وخشیت رسول کریم سیا ستم میں تھی اس کی نظیر کسی اور انسان میں نہیں مل سکتی.انسان دعا اس سے مانگتا ہے جس پر یقین ہو کہ یہ کچھ کر سکتا ہے.ایک موحد جو بتوں کی بیکسی سے واقف ہے کبھی کسی بت کے آگے جا کر ہاتھ نہیں پھیلائے گا کیونکہ اسے مین ہے کہ یہ بہت کچھ نہیں کر سکتے لیکن ایک بت پرست ان کے آگے بھی ہاتھ جوڑ کر اپنا حال دل کہہ سناتا ہے کیونکہ اسے ایمان ہے کہ یہ بت بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک ذریعہ ہیں.فقیر بھی اس بات کو دیکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص دے گا یا نہیں اور جس پر انہیں یقین ہو کہ کچھ دے گا اس سے جا کر طلب کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی اس سے کچھ مانگتا ہے جس پر اسے ایمان ہو کہ اس سے ملے گا.رسول کریم کا ہر وقت خدا سے امداد طلب کرنا ، نصرت کی درخواست کرنا اور اٹھتے بیٹھتے اسی کے کواڑ کھٹکھٹانا ، اسی سے حاجت روائی 35

Page 45

چاہنا کیا اس بے مثل یقین اور ایمان کو ظاہر نہیں کرتا جو آپ کو خدا پر تھا.اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا دل یا دالبی اور خشیت ایزدی سے ایسا معمور و آباد تھا کہ توجہ الی المخلوق کا اس میں کوئی خانہ خالی ہی نہ تھا.اگر یہ بات کسی اور انسان میں بھی پائی جاتی تھی اور اگر کوئی اور شخص بھی آپ کے برابر یا آپ کے قریب بھی ایمان رکھتا تھا اور خدا کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا تو اسکے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں بھی خشیت الہبی کے یہ آثار پائے جانے ضروری ہیں مگر میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ زمین کے ہر گوشہ میں چراغ لے کر گھوم جاؤ، تاریخوں کی ورق گردانی کرو، مختلف مذاہب کے مقتداؤں کے جیون چرتر ،سوانح عمریاں اور بایو گرافیاں پڑھ جاؤ مگر ایسا کامل نمونہ کسی انسان میں نہ پاؤ گے.اور وہ خوف خدا جو رسول کریم صلای ایتم کے ہر ایک قول سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ حزم واحتیاط جو آپ کے ہر ایک فعل سے ٹپکتی ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پایا جانا محال ہے.وہ دعا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْوَ ذُبِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّا رِوَمِنْ فِتْنَةِ الْغِنَى وَأَعْوَذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ وَآعُوَ ذَبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ عَنِى خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَبَاعِدُ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ( بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من الماثم و المغرم ) اے میرے رب میں تجھ سے سستی اور شدید بڑھاپے اور گناہوں اور قرضہ اور قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب اور دوزخ کے فتنہ اور اس کے عذاب اور دولت کے فتنہ کے نقصانوں سے پناہ مانگتا ہوں اور اسی طرح میں غربت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے اللہ میری خطاؤں کو مجھ سے برف اور 36

Page 46

اولوں کے پانی کے ساتھ دھو دے اور میرے دل کو ایسا صاف کر دے کہ جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل سے صاف کر دیا ہے اور مجھ میں اور گناہوں میں اتنا فاصلہ حائل کر دے جتنا تو نے مشرق و مغرب میں رکھا ہے.اے وہ انسان جسے رسول کریم صلی یا یہ ہم سے عداوت ہے تو بھی ذرا اس دعا کو غور سے پڑھا کر اور دیکھ کہ وہ گناہوں سے کس قدر متنفر تھے.وہ بدیوں سے کس قدر بیزار تھے.وہ کمزوریوں سے کس طرح بری تھے.وہ عیبوں سے کس قدر پاک تھے اور ان کا دل خشیت الہی سے کیسا پر تھا فَتَدَبَّرُ وَاهْتَدِ بِهُدُاه غیرت دینی اس بات کے بتانے کے بعد کہ رسول کریم صلی ایم کی زندگی اور آپ کا ہر فعل خشیت الہی کی ایک زندہ مثال ہے میں آپ کی غیرت دینی کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں.بہت سے لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے نمونہ دکھاتے ہیں مگر یہ اخلاق اسی وقت تک ظاہر ہوتے ہیں جب تک انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.ذرا ان کے منشاء کے خلاف کوئی بات ہو اور ان کی آنکھیں لال پیلی ہو جاتی ہیں اور منہ سے جھاگ آنی شروع ہو جاتی ہے.اور اگر اشارہ بھی کوئی انہیں ایسی بات کہ بیٹھے جس میں وہ اپنی ہتک سمجھتے ہوں تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے بلکہ ہرممکن سے ممکن طریق سے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور جب تک مد مقابل سے بدلہ نہ لے لیں انہیں چین نہیں آتا.مگر انہیں لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ جب خدا اور رسول کی کوئی ہتک کرتا ہے تو اسے بڑی خوشی سے سنتے ہیں اور ان کو وہ قطعا بری نہیں معلوم ہوتی اور ایسی مجلسوں میں اٹھنا بیٹھنا 37

Page 47

نا پسند نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی وقت ان سے بھی کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور اس طرح ان کا دین برباد ہو جاتا ہے.جتنے اخلاق اخلاق اور تہذیب تہذیب پکارنے والے لوگ ہیں ان کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لوضرور ان میں یہ بات پائی جائے گی کہ دوسروں کے معاملہ میں اور خصوصا دین کے معاملہ میں غیرت کے اظہار کو وہ بدی خلقی اور بد تہذیبی قرار دیتے ہیں مگر اپنے معاملہ میں ان کا معیارِ اخلاق ہی اور ہے اور وہاں اعلیٰ اخلاق سے کام لینا ان کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے.مؤمن انسان کا کام اس کے بالکل برخلاف ہونا چاہئے اور اسے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اپنے معاملات میں دکھانا چاہئے اور حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ بہت سے موقعوں پر چشم پوشی سے ہی کام لے اور جب تک عفو سے کام نکل سکتا ہو اور اس کا خراب نتیجہ نہ نکلتا ہو اسے ترک نہ کرے لیکن دین کے معاملہ میں قطعا بے غیرتی کا اظہار نہ کرے اور ایسے تمام مواقع جن میں دین کی ہتک ہوتی ہو ان سے الگ رہے اور ایسی تمام مجلسوں اور صحبتوں سے پر ہیز کرے کہ جن میں دین کی ہتک اور اس سے ٹھٹھا ہوتا ہو اور دین پر جس قدر اعتراض ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو معلوم ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قدوسیت قائم کرنے کی نسبت اپنے نفس پر اعتراضات دور کرنے کے لئے زیادہ کوشاں رہتا ہے اور جتنا اسے اپنی صفائی کا خیال ہے اتنا خدا تعالیٰ اور دینِ حق کی تنز ہیہ کا خیال نہیں.رسول کریم صلی بینم کی زندگی اس معاملہ میں بھی عام انسانوں سے بالکل مختلف ہے اور آپ "بجائے اپنے نفسانی معاملات اور ذاتی تکالیف پر اظہار غضب وغصہ کے نہایت ملائمت اور نرمی سے کام لیتے اور اگر کوئی اعتراض کرتا تو اس پر خاموش رہتے اور جب تک 38

Page 48

خاموشی سے نقصان نہ پہنچتا ہو بھی ذب اعتراضات کی طرف توجہ نہ کرتے مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں آپ بڑے باغیرت تھے اور یہ کبھی برداشت نہ کر سکتے تھے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ہتک کرے اور جب کوئی ایسا موقع پیش آتا آپ فورا اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کرتے یا اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے احکام سے لا پرواہی کرتا تو اسے سخت تنبیہ کرتے.حضرت براء بن عازب سے روایت ہے فرمایا کہ :- جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرِّجَالَةِ يَوْمَ أَحَدٍ وَكَانُوْاخَمْسِيْنَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَقَالَ إِنْ رَأَيْتُمُوْنَا تَخْطَفْنَا الطَّيْرُ فَلَاتَبْرَحُوْا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ وَإِنْ رَأَيْتَمُوْنَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَا هُمْ فَلَاتَبْرَ حَوْا حَتَّى أَرْسِلَ إِلَيْكُمْ فَهَزَ مُوْهُمْ قَالَ وَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ وَاَسْوَ قُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ فَقَالَ اصْحَابُ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ أَىٰ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُوْنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبِيرٍ أَنَسِيْتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَوْ وَاللهِ لَتَأْتِينَ النَّاسِ فَلَنَصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وَجُوْهُهُمْ فَأَقْبَلُوَ امْتَهَزِمِينَ فَذَكَ اذْيَدْعُوَهُمُ الرَّسُوْلُ فِي أَخْرَاهُمْ فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَىٰ عَشَرَ رَجُلًا فَاَصَا بُوْ امِنَا سَبْعِينَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ اَز بَعِيْنِ وَمِائَةَ سَبْعِينِ آسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا فَقَالَ أَبُو سَفْيَانَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَهَا هُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجِيبُوْهُ ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قَحَافَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنَ الْخَطَّابِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَدْ قُتَلُوْ فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُقَ اللَّهِ اِنَّ الَّذِيْنَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءَ كُلُّهُمْ وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسَوْءَكَ قَالَ يَوْمَ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبَ سِجَالَ إِنَّكُمْ سَتَجِدُوْنَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةَ لَمْ أَمْرُ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِى ثُمَّ اَخَذَ يَرْتَجِزُ أَعْلُ هَبَلْ أَعْلُ هَبَلُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلَا تَجِيْبُوْالَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ قَالَ قُوْلُوْ اللَّهُ أَعْلَى وَاجَلُ قَالَ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزّى لَكُمْ فَقَالَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلَا تَجِيبُوا لَهُ قَالُوْايَارَسُوْلَ اللَّهِ مَا نَقُوْلُ قَالَ قُوْلُوْ اللَّهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلى لَكُمْ ( بخاری کتاب الجھاد باب مايكره من التنازع والاختلاف في الحرب) 39

Page 49

یعنی رسول کریم صلی یا یہ تم نے پیادہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو مقر رکیا اور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانو را چک رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں.اور اگر تم یہ معلوم کر لو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا.اس کے بعد جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی.حضرت براء فرماتے ہیں خدا کی قسم میں دیکھ رہا تھا کہ عورتیں کپڑے اٹھا اٹھا کر بھاگ رہی تھیں اور ان کی پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں اس بات کو دیکھ کر عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم غنیمت کا وقت ہے غنیمت کا وقت ہے تمہارے ساتھ غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو اس پر عبداللہ بن جبیر نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریم صلی اینم کاحکم بھول گئے ہو.انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم بھی ساری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے.جن لشکر سے آکر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھاگے اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ یاد کرو جب رسول تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا اور رسول کریم صلی شما یہ یتیم کے ساتھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا اس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیا اور رسول کریم صلی شی پہ ستم اور آپ کے اصحاب نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا.ستر قتل ہوئے تھے اور ستر قید کئے گئے تھے.غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہو گیا اور رسول کریم کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابوسفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد سلیم ہے اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریم نے لوگوں کو منع کر دیا کہ وہ جواب نہ دیں.اس کے بعد ابوسفیان نے تین دفعہ بآواز بلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ 40

Page 50

( حضرت ابوبکر) ہے.اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کر کہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب ( حضرت عمر ) ہے.پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں.اس بات کو سن کر حضرت عمر برداشت نہ کر سکے اور اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب کے سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو نا پسند کرتا ہے ابھی باقی ہے.اس جواب کو سنکر ابو سفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہو گیا.اور لڑائیوں کا حال ڈول کا سا ہوتا ہے تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤ گے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے.میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا لیکن میں اس بات کو نا پسند بھی نہیں کرتا.پھر فخر یہ کلمات بآواز بلند کہنے لگا أغل هيك أغل ٹھیک یعنی اے ہبل ( بت) تیرا درجہ بلند ہواے ہبل تیرا درجہ بلند ہو.اس پر رسول کریم صلی السلام نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے.صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا کہو کہ خدا تعالیٰ ہی سب سے بلند 66 رتبہ اور سب سے زیادہ شان والا ہے.ابوسفیان نے یہ بات سنکر کہا ” ہمارا تو ایک بت عزمی ہے اور تمہار کوئی عرب کی نہیں.جب صحابہ خاموش رہے تو رسول کریم نے فرمایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم کیا کہیں.آپ نے فرمایا انہیں کہو کہ ”خدا ہمارا دوست و کارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں“.اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی یا ایتم خدا تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے باغیرت تھے.ابوسفیان اپنی جھوٹی فتح کے نشہ میں مخمور ہو کر زور سے پکارتا ہے کہ کیا آپ زندہ ہیں لیکن آپ اپنی جماعت کو منع فرماتے ہیں کہ تم ان باتوں کا جواب ہی نہ دو اور خاموش رہو.ایک عام آدمی جو اپنے نفس پر ایسا قابو نہ رکھتا ہو ایسے موقع پر بولنے سے 41

Page 51

کبھی باز نہیں رہ سکتا اور لاکھ میں سے ایک آدمی بھی شاید مشکل سے ملے جو اپنے دشمن کی جھوٹی خوشی پر اس کی خوشی کو غارت کر نا پسند نہ کرے.لیکن چونکہ ابوسفیان اس دعوی سے رسول کریم کی ذات کی ہتک کرنا چاہتا تھا اور یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں نے ان کو قتل کر دیا ہے اسلئے رسول کریم نے نہ صرف خود جواب نہ دیا بلکہ صحابہ کو بھی منع کر دیا.مگر جونہی کہ ابو سفیان نے خدا تعالیٰ کی ذات پر حملہ کیا اور سر میدان شرک کا اعلان کیا اور بجائے خدا تعالیٰ کی عظمت بیان کرنے کے ہبل بت کی توصیف کی تو آپ برداشت نہ کر سکے اور صحابہ کو حکم دیا کہ اسے جواب دو کہ خدا کے سوا اور کوئی نہیں جو عظمت و جلال کا مالک ہو.پھر جب اس نے یہ ظاہر کیا کہ عزمی ہمارا مددگار ہے آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اسے کہ دو کہ ہمارا خدا مددگار ہے اور ہم کسی اور کی مددنہیں چاہتے اور یہ بات بھی خوب یا درکھو کہ خدا ہماری مدد کرے گا اور تمہاری مدد کر نے والا کوئی نہ ہوگا.اللہ اللہ اپنے نفس کے متعلق کیا صبر ہے اور خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی کیسی غیرت ہے.الَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ :- رسول کریم صلی ایم کی غیرت دینی کے ظاہر کرنے کے لئے اگر چہ پچھلی مثال بالکل کافی تھی لیکن میں اس جگہ ایک واقعہ بھی لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس سے خوب روشن ہوجاتا ہے کہ رسول کریم صلی یتیم نہ صرف دشمنوں کے مقابلہ میں غیرت دینی کا اظہار فرماتے تھے بلکہ دوستوں سے بھی اور کوئی حرکت ایسی ہوتی جس سے احکام الہیہ کی ہتک ہوتی ہو تو آپ اس پر اظہار غیرت سے باز نہ رہتے اور اس خیال سے خاموش نہ رہتے : کہ یہ ہمارے دوستوں کی غلطی ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے.42

Page 52

حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللهِ وَ فِي غَزَوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبَوَكَ، غَيْرَ أَنِّي كُنتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَفَ عَنْهَا إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ وَلا يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ان الايم لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلَامِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرْ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا كَانَ مِنْ خَبَرِي أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ حِينَ تَخَلَّفْتْ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ وَاللَّهِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِي قَبْلَهُ رَاحِلَتَانِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتَهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ يريد غَزْوَةً إِلَّا وَرَى بِغَيْرِهَا، حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ، غَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ وَ فِي حَرِ شَدِيدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا وَعَدُوًّا كَثِيرًا، فَجَلَى لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَبُوا أَهْبَةَ غَزْوِهِمْ فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ، وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ وَ كَثِينِ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابَ حَافِظ ـ يُرِيدُ الدَيوَانَ - قَالَ كَعْب فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْى اللَّهِ، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ الا الله تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثَّمَارُ وَالظَّلَالُ، وَتَجَهَزَ رَسُولُ اللَّهِ وَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ، فَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ فَأَرْجِعْ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي أَنَا قَادِرْ عَلَيْهِ.فَلَمْ يَزَلْ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اشْتَدَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا، فَقُلْتُ أَتَجَهَزُ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ ثُمَّ أَلْحَقَهُمْ فَغَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُوا لأَتَجَهَنَ ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، ثُمَّ غَدَوْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَلَمْ يَزَلْ بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوَ، وَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ، وَلَيَتَنِي فَعَلْتُ ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي ذَلِكَ فَكُنتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خَرُوجٍ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَطَفَتْ فِيهِمْ أَحْزَنَنِي أَنِّي لَا أَرَى إِلا رَجُلاً مَعْمُوصًا عَلَيْهِ النِفَاقُ أَوْ رَجُلاً مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللهِ لا حَتَّى بَلَغَ تَبَوَكَ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبَوَك " مَا فَعَلَ كَعْبْ ".فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَنَظَرْهُ فِي عِطْفِهِ.فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِئْسَ مَا قُلْتَ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلاَ خَيْرًا فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ وَ قَالَ كَعْبُ 43

Page 53

بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّهُ تَوَجَدَ قَافِلَا حَضَرَنِي هَتِي، فَطَفِقْتْ أَتَذَكَّرَ الْكَذِبَ وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرَجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَاسْتَعَنْتُ عَلَى ذَلِكَ بِكُلِّ ذِي رَأْيِ مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ وَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِي الْبَاطِلُ، وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَخْرَجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَيْءٍ فِيهِ كَذِبْ فَأَجْمَعْتُ الله عليه صِدْقَهُ، وَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ وَ قَادِمًا ، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَيَرْكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ، وَيَحْلِفُونَ لَهُ، وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلاً فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ الله الا الله عَلَانِيَتَهُمْ، وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللهِ تعالى، فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسَّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ "تَعَالَ ".فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي " مَا خَلَفْكَ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ " فَقُلْتُ بَلَى إِنِّي وَاللهِ يارسول الله لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، لَرَأَيْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أَعْطِيتُ جَدَلاً، وَلَكِنِي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتَكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللهَ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَى، وَلَئِنْ حَدَّثَتَكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ لَا وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي مِنْ عَذَرٍ وَاللهِ مَا كُنتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفَتْ عَنَكَ.فَقَالَ رَسُولُ اللهِ الله " أَمَا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقَمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ ".فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالُ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ بِمَا اعْتَذَرَ إِلَيْهِ الْمُتَخَلَّفُونَ قَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ وَ لَكَ، فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَتِبُونِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأَكَذَّبْ نَفْسِي ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِى أَحَدٌ قَالُوا نَعَمْ، رَجُلَانِ قَالَا مِثْلَ مَا قُلْتَ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ.فَقُلْتُ مَنْ هُمَا قَالُوا مَرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيُّ وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ.فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا إِسْوَةً، فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي، وَنَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَتَغَيَرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ فِي نَفْسِي الْأَرْضُ، فَمَا هِيَ الَّتِي أَعْرِفُ فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَنكِيَانِ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ، الله 44

Page 54

فَكُنتُ أَخْرُجْ فَأَشْهَدُ الصَّلاَةَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَأَطُوفُ فِي الأَسْوَاقِ، وَلَا يُكَلِّمْنِي أَحَدُ، وَآتِي رَسُولَ اللهِ ﷺ فَأَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَةِ السَّلَام عَلَى أَمْ لَا ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ فَأَسَارِقَهُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي أَقْبَلَ إِلَى، وَإِذَا الْتَفَتُ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَى ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَتِي وَأَحَبَّ النَّاسِ إِلَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَىَ السَّلَامَ فَقُلْتُ يَا أَبَا قَتَادَةَ، أَنْشُدُك بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُنِي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَسَكَتَ فَعُدْتْ لَهُ فَنَشَدَتْهُ فَسَكَتَ فَعُدْتْ لَهُ فَتَشَدْتَهُ.فَقَالَ اللَّهَ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي بِسُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا تَبَطِيْ مِنْ أَتْبَاطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبيعُهُ بِالْمَدِينَةِ يَقُولُ مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ، حَتَّى إِذَا جَاءَنِي دَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ ، فَإِذَا فِيهِ أَمَا بَعْدُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَّاكَ، وَلَمْ يَجْعَلُكَ اللهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ فَالْحَقْ بِنَا نَوَاسَكَ.فَقُلْتُ لَمَّا قَرَأْتُهَا وَهَذَا أَيْضًا مِنَ الْبَلَاءِ.فَتَيَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا ، حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً مِنَ الْخَمْسِينَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ الله والله يأتيني فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ لا يَأْمَرَك أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ فَقُلْتُ أَطَلَّقَهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ قَالَ لَا بَلِ اعْتَزِلُهَا وَلَا تَقْرَبُهَا.وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَتَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللهُ فِي هَذَا الأَمْرِ.قَالَ كَعْب فَجَاءَتِ امْرَأَةً هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ الله الله فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعَ لَيْسَ لَهُ خَادِمَ فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ قَالَ " لاَ وَلَكِنْ لَا يَقْرَبُكِ ".قَالَتْ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةً إِلَى شَيْءٍ وَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا.فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ وَ فِي امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لِاِمْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدَمَهُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَسْتَأْذِنَ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَمَا يُدْرِينِي مَا يَقُولُ رَسُولُ اللهِ الله إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلْ شَابٌ فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ الله عَنْ كَلَامِنَا، فَلَمَّا صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صُبْحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ قَدْ 45

Page 55

ضَاقَتْ عَلَى نَفْسِي، وَضَاقَتْ عَلَى الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِحٍ أَوْفَى عَلَى جَبَلٍ سَلْعِ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ، أَبْشِرُ.قَالَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجْ، وَآذَنَ رَسُولُ اللهِ ا ا ا ل ل ل ت بَةِ اللهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا، وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَ مُبَشِّرُونَ، وَرَكَضَ إِلَيَّ رَجُلْ فَرَسًا، وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ فَأَوْفَى عَلَى الْجَبَلِ وَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرْنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَ فَكَسَوْتَهُ إِيَّاهُمَا بِبَشْرَاهُ وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ، وَاسْتَعَرَتْ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَيَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يَهَئُونِي بِالتَوْبَةِ، يَقُولُونَ لِتَهْتِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ.قَالَ كَعْب حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُولُ اللهِ وَ الله جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ فَقَامَ إِلَى طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ يُهَزِ وِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَانِي، وَاللهِ مَا قَامَ إِلَىٰ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ، قَالَ كَعْب فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ا م وَهُوَ يَبْرَقُ وَجْهَهُ مِنَ السُّرُورِ " أَبْشِرُ بِخَيْرٍ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنذُ وَلَدَتْكَ أُمِّكَ ".قَالَ قُلْتُ أَمِنْ عِنْدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللهِ قَالَ " لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللهِ ".وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهِ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةً قَمَرٍ، وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ ( بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک) حضرت کعب بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم مالی تم سے کسی لڑائی میں پیچھے نہیں رہا.سوائے غزوہ تبوک کے.ہاں جنگ بدر میں پیچھے رہا تھا اور اس کی یہ وجہ تھی کہ آنحضرت سی سی ایم قریش کے قافلہ کو مدنظر رکھ کر گئے تھے ( کسی بڑی جنگ کی امید نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں سے بغیر قبل از وقت تعین وقت و مقام کرنے کے لڑوا دیا.ہاں میں لیلہ عقبہ میں موجود تھا.جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا عہد کیا تھا اور مجھے جنگ بدر اس رات سے بڑھ کر محبوب نہیں کہ میں لوگوں میں ذکر کروں کہ میں بھی جنگ بدر میں شریک تھا گو کہ عوام میں جنگ بدر لیلہ عقبہ سے زیادہ ہی سمجھی جاتی 46

Page 56

ہے.خیر تبوک کے واقعہ کے وقت میرا یہ حال تھا کہ میں نسبتا زیادہ مضبوط اور سامان والا تھا اور کسی جنگ کے وقت میرے پاس دوسواری کی اونٹنیاں اکٹھی نہیں ہو ئیں مگر اس وقت میرے پاس دو اونٹنیاں موجود تھیں.رسول کریم صلی سیتم کی عادت تھی کہ جب جنگ کو جاتے تو اپنی منزل مقصود کو ظاہر نہ کرتے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ گرمی سخت تھی اور سفر دور کا تھا اور راستہ میں غیر آباد جنگل تھے اور بہت سے دشمنوں سے پالا پڑنا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کو خوب کھول کر بتا دیا تا کہ وہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں اور وہ طرف بھی بتادی جس طرف جانے کا ارادہ تھا.اس وقت مسلمان بہت ہو چکے تھے اور ان کا رجسٹر کوئی نہ تھا اس لئے جو لوگ اس لڑائی میں غیر حاضر رہنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جب تک رسول کریم کو وحی نہ ہو ان کا غیر حاضر رہنا مخفی ہی رہے گا اور موسم کا یہ حال تھا کہ وہ میوہ پک چکا تھا اور سایہ بھلا معلوم ہوتا تھا.غرض کہ رسول کریم مالی شمالی تم نے اور مسلمانوں نے جنگ کی تیاری شروع کی اور میں بھی ہر صبح جنگ کی تیاری کے مکمل کرنے کے لئے نکالتا میں بھی ان کے ساتھ تیار ہو جاؤں مگر پھر لوٹ آتا اور کچھ کام نہ کرتا اسی طرح دن گزرتے رہے اور لوگوں نے محنت سے سامان سفر تیار کر لیا یہاں تک کہ رسول کریم اور مسلمان ایک صبح روانہ بھی ہو گئے اور ابھی میں نا تیار تھا پھر میں نے کہا کہ اب میں ایک دو دن میں تیاری کر کے آپ سے جاملوں گا.ان کے جانے کے بعد دوسرے دن بھی میں گیا مگر بغیر تیاری کے واپس آ گیا اور اسی طرح تیسرے دن بھی میرا یہی حال رہا اور ادھر لشکر جلدی جلدی آگے نکل گیا.میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ جاؤں اور ان سے مل جاؤں اور کاش میں ایسا ہی کرتا مگر مجھ سے ایسا نہ ہو سکا.پھر جب رسول کریم کے جانے کے بعد میں باہر نکلتا اور لوگوں میں پھرتا تو مجھے یہ بات دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا کہ جولوگ پیچھے رہ گئے تھے یا تو وہ تھے جو منافق سمجھے 47

Page 57

جاتے تھے یا وہ ضعفاء جن کو خدا نے معذور رکھا تھا رسول کریم صلی یا تم نے اس وقت تک مجھے یاد نہیں کیا جب تک کہ تبوک نہ پہنچ گئے.وہاں آپ نے پوچھا کہ کعب بن مالک کہاں ہے؟ سلمہ کے ایک آدمی (عبد اللہ بن انہیں ) نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ اپنے حسن و جمال یا لباس کی خوبی) پر اترا کر رہ گیا ( آپ کے ساتھ نہیں آیا ) یہ سن کر معاذ بن جبل نے کہا تو نے بری بات کہی خدا کی قسم یا رسول اللہ ہم تو اس کو سچا آدمی (سچا مسلمان ) سمجھتے ہیں.آنحضرت معہ خاموش ہو رہے.کعب بن مالک" کہتے ہیں کہ جب یہ خبر آئی کہ آنحضرت سایتم تبوک سے لوٹے آرہے ہیں تو میرا غم تازہ ہو گیا.جھوٹے جھوٹے خیال دل میں آنے لگے ( یہ عذر کروں وہ عذر کروں) مجھ کو یہ فکر ہوئی کعب اب کل آپ کے غصے سے تو کیونکر بچے گا میں نے اپنے عزیزوں میں سے جو جو عقل والے تھے ان سے بھی مشورہ لیا.جب یہ خبر آئی کہ آپ مدینہ کے قریب آن پہنچے اس وقت سارے جھوٹے خیالات میرے دل سے مٹ گئے اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ جھوٹی باتیں بنا کر میں آپ کے غصے سے بچنے والا نہیں.اب میں نے یہ ٹھان لیا ( جو ہونا ہو وہ ہو ) میں تو سچ سچ کہہ دوں گا خیر صبح کے وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے آپ کی عادت تھی جب سفر سے تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جاتے وہاں ایک دوگانہ ادا فرماتے ( آپ نے مسجد میں دوگانہ ادا فرمایا ) پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھے اب جو جو ( منافق ) لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور لگے اپنے اپنے عذر بیان کرنے اور قسمیں کھانے.ایسے لوگ اسی (۸۰) سے کچھ اوپر تھے آپ نے ظاہر میں ان کا عذر مان لیا ان سے بیعت لی ان کے واسطے دعا کی ان کے دلوں کے بھید کو خدا پر رکھا.کعب کہتے ہیں میں بھی آیا میں نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ مسکرائے مگر جیسے غصے میں کوئی آدمی مسکراتا ہے پھر فرمایا آؤ میں گیا.آپ کے سامنے بیٹھ گیا 48

Page 58

آپ نے پوچھا کعب تو کیوں پیچھے رہ گیا تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی میں نے عرض کیا بیشک اگر کسی دنیا دار شخص کے سامنے میں اس وقت بیٹھا ہوتا تو باتیں بنا کر اس کے غصے سے بچ جاتا.میں خوش تقریر بھی ہوں مگر خدا کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپ کو خوش کر لوں تو کل اللہ تعالیٰ (اصل حقیقت کھول کر ) پھر آپ کو مجھ پر غصے کر دے گا ( اس سے فائدہ ہی کیا ہے) میں سچ ہی کیوں نہ بولوں گو آپ اس وقت سچ بولنے کی وجہ سے مجھ پر غصہ کریں گے مگر آئندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی مجھ کو امید تو رہے گی خدا کی قسم میں سراسر قصور وار ہوں ) زور، طاقت ، قوت ، دولت سب میں کوئی میرے برابر نہ تھا اور میں یہ سب چیزیں ہوتے ہوئے پیچھے رہ گیا.یہ سنکر آنحضرت سینی ایتم نے فرمایا.کعب نے سچ سچ کہہ دیا کعب اب ایسا کر تو چلا جا جب تک اللہ تعالیٰ تیرے باب میں کوئی حکم نہ اتارے.میں چلا.بنی سلمہ کے کچھ لوگ اٹھ کر میرے پیچھے ہوئے اور کہنے لگے خدا کی قسم ہم کو تو معلوم نہیں کہ تو نے اس سے پہلے بھی کوئی قصور کیا ہو.تو نے اور لوگوں کی طرح جو پیچھے رہ گئے تھے آنحضرت صلی شیا کی تم سے کوئی بہانہ کیوں نہ کر دیا اگر تو بھی کوئی بہانہ کرتا تو آنحضرت صلی یا اسلام کی دعا تیرے قصور کے لئے کافی ہو جاتی.وہ برابر مجھ کو لعنت ملامت کرتے رہے قسم خدا کی ان کی باتوں سے پھر میرے دل میں آیا کہ آنحضرت کے پاس لوٹ کر چلوں اور اپنی اگلی بات ( گناہ کے اقرار) کو جھٹلا کر کوئی بہانہ نکالوں.میں نے ان سے پوچھا.اچھا اور بھی کوئی ہے جس نے میری طرح قصور کا اقرار کیا ہو.انہوں نے کہاہاں دو اور بھی ہیں انہوں نے بھی تیری طرح گناہ کا اقرار کیا ہے ان سے بھی آنحضرت سال پیستم نے یہی فرمایا ہے جو تجھ سے فرمایا ہے میں نے پوچھا وہ دو شخص کون کون ہیں انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی.انہوں نے ایسے دو نیک شخصوں کا بیان کیا جو 49

Page 59

بدر کی لڑائی میں شریک ہو چکے تھے اور جن کے ساتھ رہنا مجھ کو اچھا معلوم ہوا خیر جب انہوں نے ان دو شخصوں کا نام بھی لیا ( تو مجھ کوتسلی ہوئی ) میں چل دیا.آنحضرت صلی ا یستم نے تمام مسلمانوں کو منع کر دیا خاص کر ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے اور دوسرے لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے (جنہوں نے جھوٹے بہانے کئے تھے ) ان کے لئے یہ حکم نہیں دیا اب لوگوں نے ہم سے پر ہیز شروع کیا ( کوئی بات تک نہ کرتا) بالکل کورے ہو گئے (جیسے کوئی آشنائی ہی نہ تھی ) ایسے ہی پچاس راتیں (اسی پریشان حالی میں ) گزریں میرے دونوں ساتھی (مرارہ اور ہلال ) تو روتے پیٹتے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور میں جوان مضبوط آدمی تھا تو ( مصیبت پر صبر کر کے) باہر نکلتا نماز کی جماعت میں شریک ہوتا بازاروں میں گھومتار رہتا مگر کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا.میں آنحضرت صلی ایم کے پاس بھی آتا آپ نماز پڑھ کر اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے میں آپ کو سلام کرتا پھر مجھے شبہ رہتا.آپ نے (مبارک) ہونٹ ہلا کر مجھ کو سلام کا جواب بھی دیا یا نہیں.پھر میں آپ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھتارہتا اور دزدیدہ نظر سے آپ کو دیکھتا آپ کیا کرتے جب میں نماز میں ہوتا تو مجھ کو دیکھتے اور جب میں آپ کو دیکھتا تو آپ منہ پھیر لیتے جب اسی طرح ایک مدت گزری اور لوگوں کی روگردانی دو بھر ہوگئی تو میں چلا اور ابوقتادہ اپنے چا زاد بھائی کے باغ کی دیوار پر چڑھا اس سے مجھ کو بہت محبت تھی میں نے اس کو سلام کیا تو خدا کی قسم اس نے سلام کا جواب تک نہ دیا.میں نے کہا ابو قتادہ تجھ کو خدا کی قسم تو مجھ کو اللہ اور اس کے رسول کا ہوا خواہ سمجھتا ہے ( یا نہیں) جب بھی اس نے جواب نہ دیا میں نے پھر قسم دے کر دوبارہ یہی کہا لیکن جواب ندارد پھر تیسری بار قسم دے کر یہی کہا تو اس نے یہ کہا کہ اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں بس اس وقت تو ( مجھ سے رہا نہ گیا ) میری آنکھوں سے آنسو جاری 50

Page 60

ہو گئے اور پیٹھ موڑ کر دیوار پر چڑھ کر وہاں سے چل دیا.میں ایک بارید بینہ کے بازار میں جا رہا تھا اتنے میں ملک شام کا ایک ( نصرانی ) کسان ملا جو مدینہ میں اناج بیچنے لا یا تھا وہ کہ رہا تھا لوگو کعب بن مالک کو بتلاؤ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا اس نے عنسان کے بادشاہ کا ( جو نصرانی تھا) ایک خط مجھ کو دیا مضمون یہ تھا.مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے پیغمبر صاحب نے تم پر ستم کیا ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسا ذلیل نہیں بنایا ہے نہ بریکار ( تم تو کام کے آدمی ہو) تم ہم لوگوں سے آن کر مل جاؤں ہم تمہاری خاطر مدارت بخوبی کریں گے.میں نے جب یہ خط پڑھا تو ( اپنے دل میں کہنے لگا ) یہ ایک دوسری بلاء ہوئی.میں نے وہ خط لے کر آگ کے تنور میں جھونک دیا.ابھی پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزری تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ نام کا پیغام لانے والا ( خزیمہ بن ثابت) میرے پاس آیا کہنے لگا آنحضرت کا یہ حکم ہے تم اپنی جو رو عمیرہ بنت جبیر ) سے بھی الگ رہو.میں نے پوچھا کیا اس کو طلاق دے دوں یا کیسا کروں اس نے کہا نہیں اس سے الگ رہو صحبت وغیرہ نہ کرو.میرے دونوں ساتھیوں کو بھی یہی حکم کیا.آخر میں نے اپنی جورو سے کہہ دیا نیک بخت تو اپنے کنبے والوں میں چلی جا.وہیں رہ جب تک اللہ میرا کچھ فیصلہ نہ کرے (وہ چلی گئی ) کعب نے کہا ہلال ابن امیہ کی جورو ( خولہ بنت عاصم ) آنحضرت کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ہلال ابن امیہ ( میرا خاوند ) بوڑھا پھونس ہے اگر میں اس کا کام کرتی رہوں تو کیا آپ اس کو برا سمجھتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں کام کاج کرنے میں قباحت نہیں ) پر وہ تجھ سے صحبت نہ کرے اس نے کہا خدا کی قسم وہ تو کہیں چلتا پھرتا بھی نہیں ہے جب سے یہ واقعہ ہوا ہے تب سے برابر رو دھو رہا ہے آج تک وہ اسی حال میں ہے کعب نے کہا مجھ سے بھی میرے بعض عزیزوں نے کہا تم بھی اگر اپنی جورو کے باب میں 51

Page 61

آنحضرت سلیا ایلیم سے اجازت مانگو ( کہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے ) تو مناسب ہے جیسے آنحضرت نے ہلال بن امیہ کی جورو کو خدمت کی اجازت دی ( تم کو بھی اجازت دیں گے ) کعب نے کہا میں تو خدا کی قسم کبھی اس باب میں آنحضرت سلیم سے اجازت نہیں مانگنے کا کیونکہ مجھ کو معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی یہ تم کیا فرما ئیں (اجازت دیں یا نہ دیں) میں جوان آدمی ہوں (ہلال کی طرح ضعیف اور ناتواں نہیں ہوں ) خیر اس کے بعد دس راتیں اور گزریں اب پچاس راتیں پوری ہوگئیں اس وقت سے جب سے آپ نے لوگوں کو ہم سے سلام کلام کی ممانعت فرما دی تھی پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا تو جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرما یاوَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُم (التوبہ: ۱۱۸) میرا دل تنگ ہور ہا تھا اور زمین اتنی کشادہ ہونے پر بھی مجھ پر تنگ ہوگئی تھی.اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑی پر چڑھ کر پکار رہا تھا ( یہ ابو بکر صدیق تھے ) کعب بن مالک خوش ہو جا.یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھ کو یقین ہو گیا.اب میری مشکل دور ہوئی اور آنحضرت صلی سلیم نے فجر کی نماز کے بعد لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا قصور معاف کر دیا.اب لوگ خوشخبری دینے میرے پاس اور میرے دونوں ساتھیوں (مرارہ اور ہلال) کے پاس جانے لگے.ایک شخص ( زبیر بن عوام ) گھوڑا کراتے ہوئے میرے پاس آئے اور قبیلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا پہاڑ پر چڑھ گیا ( حمزہ بن عمر واسلمی ) اور پہاڑ پر کی آواز گھوڑے سے جلد مجھ کو پہنچ گئی.خیر جب یہ خوشخبری کی آواز مجھ کو پہنچی میں نے (خوشی میں آن کر) کیا کیا دو کپڑے جو میرے پاس تھے وہ اتار کر اس کو پہنا دیئے اس وقت کپڑوں کی قسم سے میرے پاس یہی دو کپڑے تھے اور میں نے (ابو قتادہ سے ) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت صلی الہی تم 52

Page 62

کے پاس چلا.رستے میں فوج در فوج لوگ مجھ سے ملتے جاتے تھے اور مجھ کو مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے اللہ کی معافی تم کو مبارک ہو.کعب کہتے ہیں جب میں مسجد میں پہنچا.دیکھا تو آنحضرت سلیا سلم بیٹھے ہیں لوگ آپ کے گرد ہیں طلحہ بن عبید اللہ مجھ کو دیکھ کر دوڑ کر اٹھے اور مصافحہ کیا.مبارکباد دی.خدا کی قسم مہاجرین میں سے اور کسی نے اٹھ کر مجھ کو مبارکباد نہیں دی.میں طلحہ کا یہ احسان کبھی بھولنے والا نہیں.کعب کہتے ہیں جب میں نے آنحضرت صلی یہ ہم کو سلام کیا میں نے دیکھا آپ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا آپ نے فرمایا کعب وہ دن تجھ کو مبارک ہو جو ان سب دنوں سے بہتر ہے جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ معافی اللہ کی طرف سے ہوئی یا آپ کی طرف سے.آپؐ نے فرمایا نہیں اللہ کی طرف سے ہوئی (اس نے خود معافی کا حکم اتارا ).آنحضرت صلی لا یہی تم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو جا تا ہم لوگ اس کو پہچان لیتے.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ رسول کریم کی فطرت کیسی پاک اور مطہر تھی اور کس طرح آپ ہر رنگ میں کامل ہی کامل تھے.بے شک بعض آدمی ہوتے ہیں جو غیرت دینی رکھتے ہیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض تو دشمنوں کے مقابلہ میں اظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دوستوں کے معاملہ میں اظہار غیرت نہیں کر سکتے اور بعض دوستوں پر اظہار غیرت کر دیتے ہیں مگر دشمنوں کے سامنے دب جاتے ہیں.مگر رسول کریم صلی یتیم ایسے کامل انسان تھے کہ خواہ دین کی ہتک یا احکام الہیہ سے بے پرواہی دوست سے ہو یا دشمن سے برداشت نہ کر سکتے تھے اور فورا اس کا ازالہ کرنا چاہتے.ادھر تو طبیعت کی نرمی کا یہ حال تھا کہ گالیوں پر گالیاں ملتی ہیں اور تکلیفیں دی جاتی ہیں مگر آپ پر واہ بھی نہیں کرتے اور ادھر خدا کے معاملہ 53

Page 63

میں غیرت کا یہ حال تھا کہ جب ابوسفیان آپ کی ہتک کرتا رہا تو کچھ پرواہ نہ کی.مگر جب شرک کے کلمات منہ پر لایا تو فرمایا اسے جواب دو.یہ تو دشمن کا حال تھا دوستوں کے معاملہ میں بھی ایسے ہی سخت تھے.منافق جنگ سے پیچھے رہ گئے تو کچھ پرواہ نہ کی ایک مؤمن نے جو اس حکم الہی کے بجالانے میں سستی کی تو آپ نے کس قدر غیرت سے کام لیا.اور باوجود اس کے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان ایام ناراضگی میں بھی کعب بن مالک کو کنکھیوں سے دیکھتے رہتے.اخلاص باللہ.قیام حدود آنحضرت صالی اسلام کی غیرت دینی جس وضاحت سے مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتی ہے اس پر کچھ اور زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں.اب میں آپ کے ایک اور خلق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا معاملہ خدا تعالیٰ سے کیسا پاک تھا اور کس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خیال رہتا تھا.انسان فطرتا کسی کی مصیبت کو دیکھ کر رحم کی طرف مائل ہو جاتا ہے.بہت سے لوگ جب کسی مجرم کو سزا ملتی دیکھتے ہیں تو باوجود اس علم کے کہ اس سے سخت جرائم سرزد ہوئے ہیں ان کے دل کو دکھ پہنچتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس شخص سے جرم تو ہو ہی گیا ہے اور یہ تائب بھی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو اچھا ہے لیکن یہ ایک کمزوری ہے اگر اس جذبہ سے متاثر ہو کر مجرموں کو چھوڑ دیا جائے تو گناہ اور جرائم بہت ہی بڑھ جائیں.فطری رحم کے علاوہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم ہو تو لوگ عام طور پر نہیں پسند کرتے کہ اسے سزا ملے اور اس کی بڑائی سے متاثر ہو کر چاہتے ہیں کہ اسے کسی طرح چھوڑ دیا جائے بلکہ بڑے دولتمند یا کوئی دنیاوی وجاہت رکھنے والے آدمی تو روپیہ اور اثر خرچ کر کے ایک ایسی جماعت اپنے ساتھ کر لیتے ہیں کہ جو مشکلات کے وقت ان کا ساتھ دیتی ہے اور باوجود 54

Page 64

قانون کی خلاف ورزی کے اپنے جتھے کی مدد سے اپنے جرائم کے اثر سے بچ جاتے ہیں.آنحضرت مال یتیم کی غیرت دینی :- ان قوموں میں جن کے اخلاق گر جاتے ہیں اور جن کے افراد میں طرح طرح کی بدیاں آجاتی ہیں ان میں خصوصا یہ رواج عام ہو جا تا ہے کہ بڑے لوگ قانون کے خلاف عمل کر کے بھی بچ جاتے ہیں اور صرف غربا ء ہی سزا پاتے ہیں.رسول کریم سال ہی تم اس بات کے سخت مخالف تھے اور آپ کا جو معاملہ خدا کے ساتھ تھا اور جس طرح آپ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہتے تھے اس کے لحاظ سے آپ کبھی پسند نہ کرتے تھے کہ احکام شریعت سے امراء کو مستی کر کے غرباء ہی کو اس کا مکلف سمجھا جائے بلکہ آپ باوجود ایک رحیم دل اور ہمدردطبیعت رکھنے کے ہمیشہ احکام شریعت کے جاری کرنے میں محتاط رہتے اور مجرمین کو سزا سے بچنے نہ دیتے اور جس طرح آپ مغرباء کو سزا دیتے امراء بھی اسی طرح احکام شریعت کے ماتحت جکڑے جاتے اور اس معاملہ میں آپ بڑے غیور تھے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اَنَّ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي مَحْزُوْمٍ سَرَقَتْ فَقَالُوْ مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَجْتَرِى أَحَدٌ أَنْ تُكَلِمَهُ فَكَلَّمَهُ أَسَامَةَ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ إِنَّ بَنِيَ إِسْرَائِيلَ كَانَ إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفَ تَرَكُوْهُ وَإِذَا سَرَقَ الضَّعِيفَ قَطَعُوْهُ لَوْ كَانَتْ فَاطِمَةُ لَقَطَعَتْ يَدَهَا ( بخاری کتاب المناقب باب ذكر اسامه بن زید) بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اس پر لوگوں نے چاہا کہ کون ہے جو رسول کریم سے اس عورت کے معاملہ میں سفارش کرے لیکن کسی نے اس کی جرأت نہ کی ( کیونکہ رسول کریم حدود کے قائم کرنے میں بڑے سخت تھے ) آخر اسامہ بن زید نے رسول کریم سے ذکر کیا مگر آپ نے جواب دیا کہ 55

Page 65

بنی اسرائیل کی عادت تھی کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے مگر جب کوئی غریب چوری کرتا تو اس کا ہاتھ قطع کر دیتے.مگر میرا یہ حال ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کا خدا سے کیا تعلق تھا اور واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں خلیفہ تھے کیونکہ خلیفہ اسی کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کو دنیا میں جاری کرے اور یہ رسول کریم ہی تھے کہ جو بغیر کسی کے خوف ملامت کے حدود اللہ کا قیام کرتے اور کسی کی رعایت نہ کرتے.رسول کریم صلای یتیم کے جو تعلقات اللہ تعالیٰ سے تھے اور جس طرح آپ نے خدا سے معاملہ صاف رکھا ہوا تھا اس پر یہ بات بھی روشنی ڈالتی ہے کہ آپ اپنے تمام کاموں میں پہلے یہ دیکھ لیتے کہ خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہ ہوتا آپ کسی کام کے کرنے پر دلیری نہ کرتے.چنانچہ مکہ سے باوجود ہزاروں قسم کی تکالیف کے آپ نے ہجرت نہیں کی ہاں صحابہ کو حکم دے دیا کہ اگر وہ چاہیں تو ہجرت کر جائیں اور لوگوں کی شرارت کو دیکھ کر صحابہ کو ہجرت کرنی بھی پڑی اور بہت سے صحابہ حبشہ کو اور کچھ مدینہ کو ہجرت کر گئے اور صرف حضرت ابوبکر اور حضرت علی اور رسول کریم یا اور چند صحابہ مکہ میں باقی رہ گئے.کفار مکہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسول کریم صلی شام سے فطرتاً زیادہ بغض وعداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی تھی.وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپکو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی اس لئے یہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرت گوزیادہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی 56

Page 66

طرح آپ اپنے دعاوی سے باز آجائیں لیکن باوجود ان مشکلات کے آپ نے صحابہ کو تو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خود ان دکھوں اور تکلیفوں کے باوجود مکہ سے ہجرت نہ کی کیوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اذان نہ ہوا تھا.چنانچہ جب حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ میں ہجرت کر جاؤں تو آپ نے جواب دیا.عَلی رِسُلِكَ فَإِنَّىٰ أَرْ جُوَ أَنْ يُؤْذَنَ لِی آپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے.اللہ اللہ کیا پاک انسان تھا.دکھ پر دکھ تکالیف پر تکالیف پہنچ رہی ہیں سب ساتھیوں کو حکم دے دیتا ہے کہ جاؤ جس جگہ امن ہو چلے جاؤ لیکن خودا اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور باوجود مخالفت کے اس بات کا منتظر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم آئے تو میں اس پر کار بند ہوں.کیا کسی انسان میں یہ ہمت ہے یا کوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف ایسا متوجہ ہو کہ ایسے خطر ناک مصائب کے اوقات میں بھی دشمنوں کی مخالفت کو برداشت کرتا جائے اور جب تک خدا کا حکم نہ ہوا اپنی جگہ نہ چھوڑے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دعوئی ہی نہیں ہے بلکہ واقعہ میں آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہوا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں فَبَيْنَمَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسَ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ قَالَ قَائِلْ لِأَبِي بَكْرٍ هَذَا رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِعَافِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِيَنَا فِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فِدَاءَ لَهُ أَبِيْ وَأَمَىٰ وَاللَّهِ مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذَاهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْزِ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرِ أَخْرِجْ مَنْ عِندَكَ فَقَالَ أَبُوْ بَكْرِإِنَّمَا هُمْ أَهْلَكَ بِأَبِي أَنْتَ يَارَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ فَإِنِّي قَدْ أَذِنَ لِي فِي الْخَرُوجِ فَقَالَ أَبُو بَكْرِ الصَّحَابَةَ بِأَبِيْ أَنْتَ يَارَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعْم ( بخاری کتاب المناقب باب هجرة النبي ﷺ و اصحابه الى المدينة) صلى الله عليه 57

Page 67

ہم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ عین دو پہر کے وقت رسول کریم تشریف لائے اور سر لپیٹا ہوا تھا.آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے.حضرت ابوبکر نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس وقت کسی بڑے کام کے لئے آئے ہوں گے.عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو اٹھا دو.حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے قسم ہے کہ وہ آپ کے رشتہ دار ہیں.آپ نے فرمایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے.حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی ساتھ ہی جانے کی اجازت دیجئے رسول کریم نے فرمایا بہت اچھا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہوا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرنا.کیسا ایمان، کیسا یقین کیسا پاک تعلق ہے فِدَاكَ آبِی وَ أَمِي يَا رَسُولَ اللَّهِ 58 58

Page 68

واقعہ ہجرت:- اخلاص باللہ.تو کل علی اللہ واقعہ ہجرت بھی ایک عجیب ہولناک واقعہ ہے.سارا عرب مخالف اور خون کا پیاسا تھا مگر رسول کریم صرف ایک ساتھی لے کر مدینہ کی طرف چل پڑے.راستہ میں تمام وہ قومیں آباد تھیں جو مذہب کی مخالفت کی وجہ سے آپ کو مارنے کی فکر میں رہتی تھیں اور صرف قریش کے ڈر کے مارے خاموش تھیں لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ جب قریش خود آپ کے قتل کے درپے تھے اور کل قبائل عرب کو تسلی تھی کہ اگر ہم نے اس شخص کو قتل کر دیا تو قریش کو ناراضگی کی کوئی وجہ نہ ہوگی.اور صرف یہی نہیں کہ قریش کی مخالفت کا خوف نہ رہا تھا بلکہ قریش نے رسول کریم صلی سیم کومکہ سے غیر حاضر دیکھ کر آپ کے قتل پر انعام مقرر کر دیا تھا اور مدینہ کے راستہ میں جس قدر قبائل آباد تھے انہیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ جو شخص رسول کریم اور حضرت ابوبکر کو زندہ یا مردہ لے آئے گا اسے سوسو اونٹ فی کس انعام ملے گا.عرب کے قبائل جن کی زندگی ہی لوٹ مار پر بسر ہوتی تھی اور جو آتش حسد سے پہلے ہی جل بھن کر کوئلہ ہور ہے تھے اس موقع کو کب ہاتھ سے جانے دے سکتے تھے ہر طرف آپ کی تلاش شروع ہوئی اور گو یا ہر قدم پر جو آپ اُٹھاتے خوف تھا کہ کسی خون کے پیاسے دشمن سے پالا پڑے گا ایسے موقع پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان بھی دل ہار بیٹھتا ہے اور آخری جدو جہد سے بھی محروم ہو جا تا ہے اور اگر نہایت دلیر اور خلاف معمول کوئی نہایت قوی دل انسان بھی ہو تو اس پر بھی خوف ایسا مستولی ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر ایک 59

Page 69

حرکت سے اس کا اظہار ہوتا ہے.میں نے بڑے بڑے بہادروں کے واقعات پڑھے ہیں لیکن ایسے موقع پر ان کی جو حالت ہوتی ہے اس کا رسول کریم کے واقعہ سے مقابلہ بھی کرنا جائز نہیں ہو سکتا.تاریخ دان جانتے ہیں کہ بھاگتے ہوئے نپولین کا کیا حال تھا اور اس کے چہرہ پر حسرت کے کیسے بین آثار پائے جاتے تھے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمایوں کس طرح بار بار اپنے آپ کو دشمن کے ہاتھوں میں سپر د کر دینے کے لئے تیار ہو جاتا تھا.اور اگر اس کے ساتھ چند نہایت و فادار جرنیل نہ ہوتے تو وہ شاید ایسا کر بھی دیتا.اسی طرح اور بہت سے بڑے بہادر جرنیل گزرے ہیں جن پر مشکلات کے ایام آئے ہیں اور وہ ایسے اوقات میں جب دشمن ان کے چاروں طرف ان کی جستجو میں پھیل گیا گھبرا گئے ہیں لیکن رسول کریم ان دنیاوی لوگوں میں سے نہ تھے آپ کی نظریں دنیا کی طرف نہیں لگی ہوئی تھیں بلکہ آپ کی آنکھ خدا کی طرف اٹھی ہوئی تھی دنیا کے اسباب آپ کے مدنظر نہ تھے اور آپ یہ خیال نہ کرتے تھے کہ ایسے وقت میں میں تن تنہا صرف ایک ساتھی کے ساتھ کیا کر سکتا ہوں اور ایسے خطرناک راستہ میں اگر دشمن آجائے تو اس کے مقابلہ کے لئے میرے پاس کیا سامان ہیں بلکہ آپ یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے ساتھ وہ خدا ہے جو ہمیشہ سے اپنے نیک بندوں کا محافظ چلا آیا ہے اور جس کے وار کا کوئی دشمن مقابلہ نہیں کرسکتا.وہ خدا نوع کا خدا، ابراہیم کا خدا، موسیٰ کا خدا، یونس کا خدا، ایوب کا خدا، داؤد کا خدا، سلیمان کا خدا ، مسیح کا خدا تھا وہی میرا خدا ہے اس کی طاقتیں کبھی زائل نہیں ہوتیں اور وہ ایک دم کے لئے غافل نہیں ہے سراقہ بن جعشم لالچ اور دشمنی سے دیوانہ ہو کر آتا ہے اور دور سے دیکھ کر آپ کی طرف گھوڑا دوڑا دیتا ہے اس کے دل میں امید دریا کی طرح لہریں مارتی ہے.وہ نہ صرف اپنے مذہب کی توہین کرنے والے کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر اپنے سوختہ دل کو تسکین 60

Page 70

دینا چاہتا ہے بلکہ دوسو اونٹ کا انعام جو اسے اپنی قوم میں ایک بہت بڑا رتبہ دینے کے لئے کافی تھے اس کی ہمت کو اور بھی بلند کر دیتا ہے جس طرح شکاری اپنے شکار کو دیکھ کر لپکتا ہے اسی طرح وہ رسول کریم کو دیکھ کر آپ کی طرف لپکتا ہے اور تیر کمان ہاتھ میں لے کر چاہتا ہے کہ آپؐ پر وار کرے وہ اکیلا نہیں بلکہ ایک نعرہ مار کر وہ اپنے اردگرد ہزاروں آدمیوں کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ رسول کریم اس وقت اسی کے علاقہ سے گزررہے ہیں.لیکن آپ اس وقت کیا کرتے ہیں کیا بھاگ جاتے ہیں کیا ڈر کر اپنے آپ کو اس کے سپر د کر دیتے ہیں کیا آپ کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں.کیا ان کے حواس بیکار ہو جاتے ہیں.کیا اسے قتل کر کے راہ فرار اختیار کرنے کا ارادہ کرتے ہیں نہیں وہ خدا پر توکل کرنے والا انسان ان میں سے ایک بات بھی نہیں کرتا اور سراقہ کی اتنی پر واہ بھی نہیں کرتا جتنی ایک بیل کی کی جاتی ہے حضرت ابوبکر باوجود اس جرات اور بہادری کے باوجود اس ایمان اور یقین کے باوجود اس تو کل اور بھروسہ کے جو آپ میں پایا جاتا تھا مڑ مڑ کر دیکھتے جاتے ہیں کہ سراقہ اب ہمارے کس قدر نز دیک آ گیا ہے لیکن رسول کریم اس کی پر واہ بھی نہیں کرتے اور گھبرانا اور دوڑ نا تو الگ خوف و ہراس کا اظہار تو جدا آپ نے ایک دفعہ منہ پھیر کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا جس نے سراقہ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں کہ میں کس انسان کا پیچھا کر رہا ہوں اور وہ مذت العمر اس نظارہ کو اپنے حافظہ سے نہیں مٹا سکا بلکہ اس خلاف معمول واقعہ نے اس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ ہمیشہ اسے بیان کرتا تھا اور کہتا تھا کہ سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ لَا يَلْتَفِتْ وَاَبُوْبَكْرِ يُكْثِرُ الْإِلْتِفَاتَ ( بخاری کتاب المناقب باب هجرة النبي و اصحابه الى المدينة) یعنی میں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم کے اس قدر نزدیک ہو گیا کہ میں رسول کریم کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا اور 61

Page 71

میں نے دیکھا کہ رسول کریم دائیں بائیں بالکل نہیں دیکھتے ہاں حضرت ابوبکر بار بار دیکھتے جاتے تھے.اللہ اللہ ! خدا تعالیٰ پر کیسا بھروسہ ہے.دشمن گھوڑا دوڑا تا ہوا اس قدر نزدیک آ گیا ہے کہ آپ کی آواز اس تک پہنچ سکتی ہے اور آپ تیر کی زد میں آگئے ہیں مگر آپ ہیں کہ گھبراہٹ کا محسوس کرنا تو الگ رہا قرآن شریف پڑھتے جاتے ہیں ادھر حضرت ابوبکر بار بار دیکھتے جاتے ہیں کہ اب دشمن کس قدر نزدیک پہنچ گیا ہے کیا اس بھروسہ اور توکل کی کوئی اور نظیر بھی مل سکتی ہے.کیا کوئی انسان ہے جس نے اس خطر ناک وقت میں ایسی بے تو جہی اور لا پرواہی کا اظہار کیا ہو.اگر آپ کو دنیاوی اسباب کے استعمال کا خیال بھی ہوتا تو کم سے کم اتنا ضرور ہونا چاہئے تھا کہ آپ اس وقت یا تو سراقہ پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے یا وہاں سے تیز نکل جانے کی کوشش کرتے لیکن آپ نے ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں اختیار کی نہ تو آپ تیز قدم ہوئے اور نہ ہی آپ نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح سراقہ کو ماردیں بلکہ نہایت اطمینان کے ساتھ بغیر اظہار خوف و ہراس اپنی پہلی رفتار پر قرآن شریف پڑھتے ہوئے چلے گئے.وہ کونسی چیز تھی جس نے اس وقت آپ کے دل کو ایسا مضبوط کر دیا.کونسی طاقت تھی جس نے آپ کے حوصلہ کو ایسا بلند کر دیا.کونسی روح تھی جس نے آپ کے اندر اس قسم کی غیر معمولی زندگی پیدا کردی؟ یہ خدا پر توکل کے کرشمے تھے اس پر بھروسہ کے نتائج تھے.آپ جانتے تھے کہ ظاہری اسباب میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.دنیا کی طاقتیں مجھے ہلاک نہیں کرسکتیں کیونکہ آسمان پر ایک خدا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے جوان سب اسباب کا پیدا کر نیوالا ہے پس خالق اسباب کے خلاف اسباب کچھ نہیں کر سکتے یہ توکل آپ کا ضائع نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے پورا کیا اور سراقہ جو دوسو اونٹ کے لالچ میں آیا 62

Page 72

تھا آپ سے معافی مانگ کر واپس چلا گیا اور خدا نے اس کے دل پر ایسا رعب ڈالا کہ اس نے اپنی سلامتی اس میں سمجھی کہ خاموشی سے واپس چلا جائے بلکہ اس نے اور تعاقب کرنے والوں کو بھی واپس لوٹا دیا.غار ثور کا ایک واقعہ:- جب رسول کریم صلی یہ تم کوحکم ہوا کہ آپ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کو جائیں تو آپ اور حضرت ابوبکر ایک رات کو مکہ سے نکل کر جبل ثور کی طرف چلے گئے.یہ پہاڑ مکہ سے کوئی چھ سات میل پر واقع ہے.اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار ہے جس میں دو تین آدمی اچھی طرح آرام کر سکتے ہیں اور بیٹھ تو اس سے زیادہ سکتے ہیں.جب کفار نے دیکھا کہ آپ اپنے گھر میں موجود نہیں ہیں باوجود پہرہ کے خدا کے فضل سے دشمنوں کے شر سے صحیح و سالم نکل گئے ہیں اور دشمن باوجود کمال ہوشیاری اور احتیاط کے خائب و خاسر ہو گئے تو انہوں نے کوشش کی کہ تعاقب کر کے آپ کو گرفتار کر لیں اور اپنے غضب کی آگ آپ پر برسائیں اور فوڑا ادھر ادھر آدمی دوڑائے کچھ آدمی اپنے ساتھ ایک کھوجی لے کر چلے جس نے آپ کے قدموں کے نشانات کو معلوم کر کے جبل ثور کی طرف کا رخ کیا جب ٹور پر پہنچے تو اس نے بڑے زور سے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ لوگ اس جگہ سے آگے نہیں گئے بلکہ پہاڑی پر موجود ہیں.کھوجی عام طور سے ہوشیار ہوتے ہیں اور گورنمنٹ اور محکمہ پولیس والے ان سے بہت کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ طریق انسان کی دریافت کرنے کا ایک بہت پرانا طریق ہے خصوصا ان ممالک میں جہاں جرائم کی کثرت ہو اس طریق سے بہت کچھ کام لینا پڑتا ہے اس لئے غیر مہذب ممالک میں اور ایسے ممالک میں کہ جہاں کوئی باقاعدہ حکومت نہ ہو 63

Page 73

اس فن کی بڑی قدر و قیمت ہوتی ہے اور جہاں زیادہ ضرورت ہو وہاں اس فن کی ترقی بھی ہو جاتی ہے اس لئے عرب اور اس قسم کے دیگر ممالک میں جہاں رسول کریم ( فداہ ابی و اقی ) سے پہلے کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی اور جرائم کی کثرت تھی یہ پیشہ بڑے زوروں پر تھا اور نہایت قابل وثوق سمجھا جاتا تھا.پس کھوجی کا یہ کہہ دینا کہ آپ مضرور یہاں تک آئے ہیں ایک بہت بڑا ثبوت تھا اور ایسی حالت میں غار کے اندر بیٹھے ہوؤں کا جو حال ہونا چاہئے وہ سمجھ میں آسکتا ہے.وہ کیسا وقت ہوگا جب رسول کریم اور حضرت ابوبکر دونوں بغیر سلاح و ہتھیار کے غارثور کے اندر بیٹھے ہوں گے اور دشمن سر پر کھڑا با تیں بنارہا ہوگا.غارثو رکوئی چھوٹی سی غار نہیں جس کا منہ ایسا تنگ ہو کہ جس میں انسان کا گھسنا مشکل سمجھا جائے یا جس کے اندر جھانکنا مشکل ہو بلکہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانکنے سے آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کوئی اندر بیٹھا ہے یا نہیں.پس ایسی حالت میں دنیاوی اسباب کے لحاظ سے مشرکین مکہ کے لئے یہ بات بالکل قرین قیاس بلکہ ضروری تھی کہ وہ کھوجی کے کہنے کے مطابق ذرا آنکھیں جھکا کر دیکھ لیتے کہ آیا رسول کریم غار میں تو نہیں بیٹھے اور یہ کوئی ایسا عظیم الشان کام نہ تھا کہ جسے وہ لا پرواہی سے چھوڑ دیتے کہ ایسے ضعیف خیال کی بناء پر اتنی محنت کون برداشت کرے.پس ایسے انسانوں کا جو ایسے خطرہ کی حالت میں اس غار میں بیٹھے ہوئے ہوں گھبرانا اور خوف کرنا بالکل فطرت کے مطابق ہوتا اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بہادر سے بہادر انسان بھی اس وقت خوف نہ کرتا لیکن اگر کوئی ایسا جری انسان ہو بھی جو ایسے وقت میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرے اور بے خوف بیٹھا ر ہے اور سمجھ لے کہ اگر دشمن نے پکڑ بھی لیا تو کیا ہوا آخر ایک دن مرنا ہے تو بھی یہ امر بالکل فطرت انسانی کے مطابق ہوگا کہ 64

Page 74

ایسا آدمی جو ایسے مقام پر ہو کم سے کم یہ یقین کر لے کہ یہ لوگ ہمیں دیکھ ضرور لیں گے کیونکہ عین سرے پر پہنچ کر اور ایسی یقینی شہادت کے باوجود غار میں نظر بھی نہ ڈالنا بالکل اسباب کے خلاف ہے.مگر ہمارا رسول فداہ ابی وامی کیا کرتا ہے؟ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں كُنتُ مَعَ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِفَرَ فَعَتْ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِأَقْدَامِ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَا رَسُوْلُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ بَعْضَهُمْ طَاطَا بَصَرَهُ رَأَنَا قَالَ أَسْكَتْ يَا أَبَا بَكْرٍ اثْنَانِ اللَّهُ ثَالِثهما ( بخاری جلد اول کتاب المناقب باب هجرة النبي صلعم واصحابه الى المدينة ) میں رسول کریم صل السلام کے ساتھ غار میں تھا میں نے اپنا سراٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے اس پر میں نے رسول کریم سے عرض کیا یا رسول اللہ اگر کوئی نظر نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ نے جواب میں ارشاد فر ما یا.چپ اے ابی بکر.ہم دو ہیں ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے( پھر وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں).اللہ اللہ کیا تو گل ہے.دشمن سر پر کھڑا ہے اور اتنانزدیک ہے کہ ذرا آنکھ نیچی کرے اور دیکھ لے لیکن آپ کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہے کہ باوجود سب اسباب مخالف کے جمع ہو جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے خدا تو ہمارے ساتھ ہے پھر وہ کیوں کر دیکھ سکتے ہیں؟ کیا کسی ماں نے ایسا بچہ جنا ہے جو اس یقین اور ایمان کو لے کر دنیا میں آیا ہو.یہ جرات و بہادری کا سوال نہیں بلکہ تو گل کا سوال ہے خدا پر بھروسہ کا سوال ہے.اگر جرأت ہی ہوتی تو آپ یہ جواب دیتے کہ خیر پکڑ لیں گے تو کیا ہو ا ہم موت سے نہیں ڈرتے.مگر آپ کوئی معمولی جرنیل یا میدان جنگ کے بہادر سپاہی نہ تھے آپ خدا کے رسول تھے اس 65

Page 75

لئے آپ نے نہ صرف خوف کا اظہار نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر کو بتایا کہ دیکھنے کا تو سوال ہی نہیں ہے خدا ہمارے ساتھ ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم اپنے گھروں سے نکلے ہیں پھر ان کو طاقت ہی کہاں مل سکتی ہے کہ یہ آنکھ نیچی کر کے ہمیں دیکھیں.یہ وہ تو گل ہے جو ایک جھوٹے انسان میں نہیں ہوسکتا.جو ایک پر فریب دل میں نہیں ٹھہر سکتا.شاید کوئی مجنون ایسا کر سکے کہ ایسے خطرناک موقع پر بے پرواہ رہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ مجنوں فقدان حواس کی وجہ سے ایسا کہ تو لے لیکن وہ کون ہے جو اس کے مجنونانہ خیالات کے مطابق اس کے متعاقبین کی آنکھوں کو اس سے پھیر دے اور متعاقب سر پر پہنچ کر پھر اس کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں.پس رسول کریم صلی لن پہ ستم کا تو کل ایک رسولا نہ تو کل تھا اور جسے خدا تعالیٰ نے اسی رنگ میں پورا کر دیا آپ نے خدا تعالیٰ پر یقین کر کے کہا کہ میرا خدا ایسے وقت میں مجھے ضائع نہیں کرے گا اور خدا نے آپ کے تو کل کو پورا کیا اور آپ کو دشمن کے قبضہ میں جانے سے بچالیا اور اسے اس طرح اندھا کر دیا کہ وہ آپ کے قریب پہنچ کر خائب و خاسر لوٹ گیا.یہ وہ تو کل ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.حضرت موسیٰ سے بھی ایک موقع پر اس قسم کے تو گل کی نظیر ملتی ہے لیکن وہ مثال اس سے بہت ہی ادنی ہے کیونکر حضرت موسی کے ساتھیوں نے فرعونیوں کو دیکھ کر کہا کہ انالمدركون ہم ضرور گرفتار ہو جائیں گے اس پر حضرت موسی نے جواب میں کہلانٌ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (الشعراء: ۱۳) لیکن رسول کریم سیا سیا سیستم کا تو کل ایسا کامل تھا کہ اس نے آپ کے ساتھی پر بھی اثر ڈالا اور حضرت ابوبکر نے موسائیوں کی طرح گھبرا کر یہ نہیں کہا کہ ہم ضرور پکڑے جائیں گے بلکہ یہ کہا کہ اگر وہ نیچی نظر کریں تو دیکھ لیں.اور یہ ایمان اس پر تو کا نتیجہ تھا جو نور نبوت اس وقت آپ کے دل پر 66

Page 76

ڈال رہا تھا.دوسرے حضرت موسی کے ساتھ فوج تھی اور ان کے آگے بھاگنے کی جگہ ضرور موجود تھی لیکن رسول کریم کے ساتھ نہ کوئی جماعت تھی اور نہ آپ کے سامنے کوئی اور راستہ تھا اسی طرح اور بھی بہت سے فرق ہیں جو طوالت کی وجہ سے میں اس جگہ بیان نہیں کرتا.آپ کی ایک دعا:- رسول کریم کو خدا تعالیٰ پر ایسا تو گل تھا کہ ہر مصیبت اور مشکل کے وقت اسی پر نظر رکھتے اور اس کے سوا ہر شے سے توجہ ہٹا لیتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ آجکل کے صوفیاء کی طرح اسباب کے تارک نہ تھے کیونکہ اسباب کا ترک گو یا خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہتک کرنا اور اس کی پیدائش کو لغو قرار دینا ہے.لیکن اسباب کے مہیا کرنے کے بعد آپ بکلی خدا تعالیٰ پر توکل کرتے اور گو اسباب مہیا کرتے لیکن ان پر بھروسہ اور تو گل کبھی نہ کرتے تھے اور صرف خدا ہی کے فضل کے امید وار رہتے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آپ ہر ایک گھبراہٹ کے وقت فرماتے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الشموتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيم ( بخاری جلد ۲ کتاب الدعوات باب الدعا عند الكرب ) کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے وہ رب ہے بڑے تخت حکومت کا.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ آسمانوں کا رب ہے وہ زمین کا رب ہے.وہ بزرگ تخت کا رب ہے.( یعنی میرا بھروسہ اور تو گل تو اسی پر ہے ) اپنی اولا د کو صدقہ سے محروم کر دیا : - اسلام کے عظیم الشان احکام میں سے زکوۃ اور صدقہ کے احکام ہیں.ہر مسلمان پر جس کے پاس چالیس سے زائد روپے ہوں اور ان پر سال گزر جائے فرض ہے کہ ان میں سے چالیسواں حصہ وہ خدا کی راہ میں دے دے.یہ مال محتاجوں اور غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے 67

Page 77

اور وہ لوگ جو کسی سبب سے اپنی حوائج کو پورا کرنے سے قاصر ہوں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا ابناء السبیل کو مدد دی جاتی ہے.اس کے محصلوں کی تنخواہ بھی اس میں سے ہی نکلتی ہے غرض کہ محتاجوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شریعت اسلام نے یہ قاعدہ جاری کیا ہے اور اس میں بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد مد نظر ہیں لیکن اس کا ذکر بے موقع ہے.زکوۃ کے علاوہ جو ایک وقت مقررہ پر سرکار کے خزانہ میں داخل ہو کر غرباء میں تقسیم کئے جانے کا حکم ہے صدقہ کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہر ایک ذی استطاعت کو مناسب ہے کہ وہ اپنے طور پر اپنے غریب بھائیوں کی دستگیری کرے اور حتی الوسع ان کی امداد میں دریغ نہ کرے.رسول کریم صلی یہ تم کے زمانہ میں اور بعد میں بھی جب تک اسلامی حکومت رہی چونکہ زکوۃ با قاعدہ وصول کی جاتی تھی اس لئے ایک کثیر رقم جمع ہو جاتی تھی اور خزانہ شاہی کی ایک بہت بڑی مدتھی اور اگر رسول کریم سانی پیتم چاہتے تو اپنی اولاد کے غرباء کا اس رقم میں سے ایک خاص حصہ مقرر کر سکتے تھے جس کی وجہ سے سادات ہمیشہ غربت سے بچ جاتے اور افلاس کی مصیبت سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے لیکن رسول کریم کے سینہ میں وہ دل تھا جو تو کل علی اللہ سے پر تھا اور آپ کی توجہ غیر اللہ کی طرف پھرتی ہی نہ تھی اس قدر تم کثیر خزانہ میں آتی تھی اور تھی بھی غرباء کے لئے کسی کا حق نہ تھی کہ اس کی تقسیم ظلم سمجھی جاتی.ایسی حالت میں اگر آپ اپنی اولاد کے لئے بصورت غربت ایک حصہ مقرر کر جاتے تو یہ بات نہ لوگوں کے لئے قابل اعتراض ہوتی اور نہ کسی پر ظلم ہوتا.لیکن وہ باغیرت دل جو آپ کے سینہ میں تھا اور وہ متوکل قلب جو آپ رکھتے تھے کب براشت کر سکتا تھا کہ آپ صدقہ و زکوۃ پر اپنی اولاد کے لئے صورت گزارہ مقرر کرتے.پھر آپ کو تو یقین تھا کہ خدا تعالیٰ ان کا متکفل ہوگا اور خود ان کی مدد کرے گا.آپ کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں آ سکتا تھا 68

Page 78

کہ ان کے لئے کسی سامان کے مہیا کرنے کی مجھے ضرورت ہے اس لئے آپ نے اپنی اولاد کے لئے اس رقم میں سے کوئی حصہ ہی مقرر نہ کیا.اللہ اللہ.ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت ہوتی ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنی اولا د اور رشتہ داروں کے لئے کچھ سامان کر جائیں لیکن آپ نے نہ صرف خود ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اپنی اولاد کے لئے زکوۃ میں سے کوئی حصہ نہ مقرر کیا بلکہ ان کو بھی خدا پر توکل کرنے کا سبق سکھایا اور انہیں حکم دے دیا کہ تمہارے لئے اس مال سے فائدہ اٹھانا ہی ناجائز ہے.زکوۃ کے علاوہ لوگ اپنے پاس سے صدقات دیتے ہیں ممکن تھا کہ سادات کو وہ اس میں شریک کر لیتے لیکن رسول کریم صلی یا تم نے اپنی اولا د کو اسی تو کل کا سبق دینا چاہا کہ اسے صدقات سے بھی محروم کر دیا اور زکوۃ وصدقہ دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ میری اولا د اور اولاد کی اولاد کے لئے زکوۃ وصدقہ لینا نا جائز ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِا لَتَمَرِ عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ فَيَجِيئُ هَذَا بِتَمَرِهِ وَهَذَا مِنْ تَمَرِه حَتَّى يَصِيْرَ عِنْدَهُ كَوْمًا مِنْ تَمْرٍ فَجَعَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَلْعَبَانِ بِذَلِكَ التَمْرِ فَاَخَذَا أَحَدُهُمَا تَمْرَةً فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجَهَا مِنْ فِيهِ فَقَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ أَلَ مُحَمَّدٍ لَا يَا كُلُوْنَ الصَّدَقَةَ ( بخارى كتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل) کھجور کے کٹنے کے وقت رسول کریم سی سال نیم کے پاس کھجوریں لائی جاتی تھیں.ہر ایک اپنی اپنی کھجوریں لاتا تھا اور رسول کریم صلی یہ نام کے آگے رکھ دیتا یہاں تک کہ آپ کے پاس ایک ڈھیر ہو جا تا.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ان کھجوروں سے کھیلنے لگے اور ان میں سے ایک نے ایک کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی.پس ان کی طرف رسول کریم نے دیکھا اور کھجور 69

Page 79

ان کے منہ سے نکال دی اور فرمایا کہ تجھے علم نہیں کہ آل محمد مصدقہ نہیں کھایا کرتے.اللہ اللہ کیسی احتیاط ہے.کیا ہی تو کل ہے ایک کھجور بچے نے منہ میں ڈال لی تو اس میں حرج نہ تھا.لیکن آپ کا تو کل ایسا نہ تھا جیسا کہ عام لوگوں کا ہوتا ہے.آپ چاہتے تھے کہ بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں وہ ایمان اور توکل پیدا کر دیں کہ بڑے ہو کر وہ کبھی صدقات کی طرف توجہ نہ کریں اور خدا کی ہی ذات پر بھروسہ رکھیں.رسول کریم ملای یتیم کی جائیداد :- نہ صرف یہ کہ رسول کریم نے اپنی اولا د کو صدقہ سے محروم کر دیا بلکہ خود بھی کوئی ایسی جائیداد نہیں چھوڑی جس سے آپ کے بعد آپ کی بیویوں اور اولاد کی پرورش اور گزارہ کا انتظام ہو سکتا.ممکن تھا کہ یہ خیال کر لیا جاتا کہ گو آپ نے اپنی آل کیلئے ہمیشہ کے لئے کوئی سامان نہیں مہیا کیا لیکن اپنے موجودہ رشتہ داروں کے لئے کوئی سامان کر دیا.لیکن یہ بھی نہیں ہوا.اور جس وقت فوت ہوئے ہیں اس وقت آپ کے گھر میں کوئی روپیہ نہیں تھا.عمر و بن حرث فرماتے ہیں مَا تَرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا وَلَا دِيْنَا رًا وَلَا عَبَدأَ وَلَا آمَةً وَلَا شَيْئًا إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءِ وَسِلَا حَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَة (بخاری کتاب الوصایا) رسول کریم صلی ہیں یہ ہم نے اپنی وفات کے وقت کچھ نہیں چھوڑا نہ کوئی درہم نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کچھ اور چیز سوائے اپنی سفید خچر اور اپنے ہتھیاروں کے اور ایک زمین کے جسے آپ تصدقہ میں دے چکے تھے.یادرکھنا چاہئے کہ آپ کی حیثیت ایک بادشاہ کی تھی اور آپ چاہتے تو اپنے رشتہ داروں کے لئے سامان کر سکتے تھے اور کم سے کم اس قدر رو پیہ چھوڑ جانا تو آپ کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ جس سے آپ کی بیویوں اور اولاد کا گزارہ ہو سکے.آپ کے پاس صرف خزانہ کا روپیہ ہی نہ رہتا تھا کہ جس کا اپنی ذات پر خرچ کرنا 70

Page 80

آپ گناہ تصویر فرماتے تھے اور اس کا ایک جبہ بھی آپ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ خود آپ کی ذات کے لئے بھی آپکے پاس بہت مال آتا تھا اور صحابہ اس اخلاص اور عشق کے سبب جو انہیں آپ سے تھا بہت سے تحائف پیش کرتے رہتے تھے اور اگر آپ اس خیال سے کہ میرے بعد میرے رشتہ دار کس طرح گزارہ کریں گے ایک رقم جمع کر جاتے تو کر سکتے تھے لیکن آپ کے وسیع دل میں جو خدا تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کا جلوہ گاہ تھا.جو یقین و معرفت کا خزانہ تھا یہ دنیاوی خیال سما بھی نہیں سکتا تھا.جو کچھ آتا آپ اسے غرباء میں تقسیم کر دیتے اور اپنے گھر میں کچھ بھی نہ رکھتے حتی کہ آپ کی وفات نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کا بندہ جو دنیا سے نہیں بلکہ خدا سے تعلق رکھتا تھا دنیاوی آلائشوں سے پاک اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا گیا.اللهمَ صِلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ رسول کریم مسایلی ایم کی نہایت پیاری بیٹی موجود تھیں اور ان کی آگے اولا د تھی اور اولاد کی اولا دا اپنی ہی اولاد ہوتی ہے مگر آپ نے نہ کوئی مال اپنی بیویوں کے لئے چھوڑا اور نہ اولاد کے لئے.ہاں بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ ہماری بیویاں اور اولاد خود دولتمند ہیں.ہمیں ان کے گزارہ کی کچھ فکر نہیں مگر یہاں یہ معاملہ بھی نہ تھا آپ کی بیویوں کی کوئی ایسی جائیدادا لگ موجود نہ تھی کہ جس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں نہ ہی آپ کی اولا د آسودہ حال تھی کہ جس سے آپ بے فکر ہوں ان کے پاس کوئی جائیداد کوئی روپیہ کوئی مال نہ تھا کہ جس پر دنیا سے بے فکر ہو جائیں ایسی صورت میں اگر آپ ان لوگوں کے لئے خود کوئی اندوختہ چھوڑ جاتے تو کسی شریعت کسی قانون انسانیت کے خلاف نہ ہوتا اور دنیا میں کسی انسان کا حق نہ ہوتا کہ وہ آپ کے اس فعل پر اعتراض کرتا لیکن آپ ان جذبات اور خیالات کے ماتحت کام نہیں کرتے 71

Page 81

تھے جو ایک معمولی آدمی کے دل میں موجزن ہوتے ہیں.آپ کے محسوسات اور محرکات ہی اور تھے آپ نے خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اور اس کے فضلوں کی وسعت کو جانتے تھے.آپ کو یقین تھا کہ میں اپنے پیچھے اگر مال چھوڑ کر نہیں جا تا تو کچھ حرج نہیں میری وفات کے بعد میرے پسماندگان کا ایک نگران ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی جو کبھی غافل نہیں ہوتا جو اپنے پیاروں کو ان کی مصیبتوں کے وقت کبھی نہیں چھوڑتا جو ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تیار رہتا اور ضرورتوں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے پورا کرنے کے سامان کر دیتا ہے خدا تعالیٰ کے وسیع خزانوں کو دیکھتے ہوئے آپ اس بات کو ایک سیکنڈ کے لئے پسند نہیں کر سکتے تھے کہ اپنے پسماندگان کے لئے خود کوئی سامان کر جائیں خدا پر آپکو تو کل تھا اور اس پر بھروسہ کرتے تھے اور یہ وہ تو کل کا اعلیٰ مقام ہی تھا کہ جس پر قائم ہونے کی وجہ سے دنیا داروں کے خلاف آپ کی توجہ بجائے دنیاوی سامانوں کے آسمانی اسباب پر پڑتی تھی.مسیلمہ کا دعوی :- جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں رسول کریم کو کسی کام میں بھی دنیا اور اہل دنیا کی طرف توجہ نہ تھی اور ارضی اسباب کی طرف آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے بلکہ ہر کام میں آپ کی نظر خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگی رہتی کہ وہی کچھ کرے گا گویا کہ توکل کا ایک کامل نمونہ تھے جس کی نظیر نہ پہلے انبیاء میں ملتی ہے نہ آپ کے بعد آپ کے سے تو کل والا کوئی انسان پیدا ہوا ہے.مسیلمہ کے نام سے سب مسلمان واقف ہیں اس شخص نے رسول کریم سنی یا یتیم کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت میں سخت مقابلہ کیا تھا اگر چہ رسول کریم صلی یا اسلام کے زمانہ میں 72

Page 82

ہی شخص نبوت کا دعوی کر بیٹھا تھا مگر مقابلہ اور جنگ حضرت ابوبکر کے لشکر ہی سے ہوا اور ان ہی افواج قاہرہ نے اس کو شکست دی.مسیلمہ رسول کریم کی زندگی میں ایک لشکر جرار لے کر آپ کے پاس مدینہ میں آیا اور آپ سے اس بات کی درخواست کی کہ اگر آپ اسے اپنے بعد خلیفہ بنالیں تو وہ اپنی جماعت سمیت آپ کی اتباع اختیار کرلے گا اور اسلام کی حالت چاہتی تھی کہ آپ اس ذریعہ کو اختیار کر لیتے اور اس کی مدد سے فائدہ اٹھا لیتے لیکن جس پاک وجود کو خدا تعالیٰ کی طاقت پر بھروسہ اور توکل تھا اور وہ انسانی منصوبوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کر سکتا تھا آپ نے اس کی درخواست کو فورا رد کر دیا.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :.قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَقُوْلُ إِنْ جَعَلَ لى مُحَمَّدُ الْأَمْرَ مِنْ بِعْدِهِ تَبِعْتَهُ وَقَدِ مَهَا فِي بَشَرِ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ ابْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَاسٍ وَفِي يَدِرَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةً جَرِيْدٍ حَتَّى وَقَفَ عَلَىٰ مُسَيْلَمَةً فِي أَصْحَا بِهِ فَقَالَ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتَكَهَا وَلَنْ تَعْدُ وَأَمْرَ اللَّهِ فِيكَ وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لَيَعْقِرنَكَ اللهُ وَإِنَّىٰ لَاَرَاكَ الَّذِي أَرِيْتُ فِيهِ مَا رَأَيْتُ وَهَذَا ثَابِتْ يُجِيبُكَ عَنِى ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ فَسَالَتْ عَنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ أَرَى الَّذِي أَرِيْتُ فِيهِ مَا رَأَيْتُ فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا نَائِمْ رَأَيْتُ فِي يَدِى سَوَارَ يُنَ مِنْ ذَهَبٍ فَاهَمَنِيْ شَأْنُهُمَا فَا وَحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنْ اَنْفُحَهُمَا فَتَفَحُتَهُمَا فَطَارًا فَاَوَلْتَهُمَا كَذَا بَيْن يَخْرُجَانِ بَعْدِى أَحَدُ هُمَا العَنْسِئُ وَالْآخَرُ ( بخاری کتاب المغاذی باب و فدبنى حنيفة و حديث ثمامة بن اثال ) مُسَيْلِمَةً رسول کریم صلی شما اسلام کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد سلی لا الہ تم اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں اور اس وقت وہ اپنے ساتھ اپنی قوم میں سے ایک جماعت کثیر لا یا تھا.رسول کریم یہ بات سنکر اس کی طرف آئے اور ثابت ابن 73

Page 83

قیس ابن شماس رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور رسول کریم کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ کا ٹکڑا تھا.آپ آئے یہاں تک کہ مسیلمہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا کہ اگر تو مجھ سے یہ شاخ بھی مانگے تو میں تجھے نہ دوں اور جو کچھ خدا نے تیرے لئے مقدر کیا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھے گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائے گا تو اللہ تیری کونچیں کاٹ دے گا اور میں تو تجھے وہی شخص پاتا ہوں جس کی نسبت مجھے وہ نظارہ دیکھایا گیا تھا جو میں نے دیکھا اور یہ ثابت ہیں میری طرف سے تجھے جواب دیں گے پھر آپ وہاں سے چلے گئے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ رسول اللہ نے کیا فرما یا ہے کہ میں تو تجھے وہی شخص پاتا ہوں جس کی نسبت وہ نظارہ دکھا یا گیا تھا جو میں نے دیکھا اس پر مجھے حضرت ابو ہریرہ نے بتایا کہ رسول کریم نے فرمایا تھا کہ ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرے دونوں ہاتھوں میں دوکڑے ہیں جو سونے کے ہیں ان کا ہونا مجھے کچھ نا پسند سا معلوم ہوا اس پر مجھے خواب میں وحی نازل ہوئی کہ میں ان پر پھونکوں جب میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے.پس میں نے تعبیر کی کہ دو جھوٹے ہوں گے جو میرے بعد نکلیں گے ایک تو عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آنحضرت مالی یہ تم کو خدا تعالیٰ پر کیسا یقین تھا اور آپ خدا تعالیٰ کی مدد پر کیسے مطمئن تھے.آپ کے چاروں طرف کافروں کا زور تھا جو ہر وقت آپ کو دکھ دیتے اور ایذاء پہنچانے میں مشغول رہتے تھے اور جن جن ذرائع سے ممکن ہوتا آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے.قیصر و کسری بھی اپنے اپنے حکام کو آپ کے مقابلہ کے لئے احکام پر احکام بھیج رہے تھے بنی غسان لڑنے کے لئے تیاریاں کر رہے تھے ایرانی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو حسد و حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور ہر ایک حکومت اس 74

Page 84

نئی تحریک پر شک و شبہ کی نگاہیں ڈال رہی تھی.ایسے وقت میں جب تک ایک لشکر جرار آنحضرت کے ارد گرد جمع نہ ہوتا آپ کے لئے اپنے دشمنوں کی زد سے بچنا بظا ہر مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا مدینہ منورہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی فتوحات نے آپ کو ہر ایک آس پاس کی حکومت کے مد مقابل کھڑا کر دیا تھا اور دور میں نگاہیں ابتداء امر میں ہی اس بڑھنے والی طاقت کو تباہ کر دینے کی فکر میں تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ طاقت اگر اور زیادہ بڑھ گئی تو ہمارے بڑے بڑے قصور محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی پھر آنحضرت ان عظیم الشان مظاہروں کے مقابلہ کے لئے جو کچھ تیاری کرتے کم تھی.انسانی عقل ایسی حالت میں جس طرح دوست و دشمن کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہے اور جن جن تدابیر سے غیروں کو بھی اپنے اندر شامل کرنا چاہتی ہے وہ تاریخ کے پڑھنے والوں کو آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں.لیکن وہ میرا پیارا ز مینی نہیں بلکہ آسمانی تھا.بڑھتے ہوئے لشکر اور دوڑتے ہوئے گھوڑے.اٹھتے ہوئے نیزے اور چمکتی ہوئی تلواریں اس کی آنکھوں میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھیں وہ ملائکہ آسمانی کا نزول دیکھ رہا تھا اور زمین و آسمان کا پیدا کنندہ اس کے کان میں ہر دم تسلی آمیز کلام ڈال رہا تھا اس کا دل یقین سے پر اور سینہ ایمان سے معمور تھا.غرضیکہ بجائے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرنے کے اس کا تو کل خدا پر تھا.پھر بھلا ان مصائب سے وہ کب گھبرا سکتا تھا اس نے مسیلمہ اور اس کے لشکر پر بھروسہ کرنا ایک دم کے لئے بھی مناسب نہ جانا اور صاف کہ دیا کہ خلافت کا دھوکہ دے کر تجھے اپنے ساتھ ملانا اور تیری قوم کی اعانت حاصل کرنی تو علیحد ہ امر ہے ایک کھجور کی شاخ کے بدلہ میں بھی اگر تیری حمایت حاصل کرنی پڑے تو میں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں.اس غیور دل کی حالت پر غور کرو.اس متوکل انسان کی شان پر نظر ڈالو.اس یقین 75

Page 85

سے پر دل کیفیت کا احساس اپنے دلوں کے اندر پیدا کر کے دیکھو کہ کس یقین اور توکل کے ماتحت وہ مسیلمہ کو جواب دیتا ہے کیا کوئی بادشاہ ایسے اوقات میں اس جرات اور دلیری کو کام میں لاسکتا ہے کیا تاریخ کسی گوشت اور پوست سے بنے ہوئے انسان کو ایسے مواقع میں سے اس سلامتی سے نکلتا ہو ادکھا سکتی ہے اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آپ کی زندگی سے مقابلہ کرنا ہی غلط ہے کیونکہ آپ نبی تھے اگر آپ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے تو انبیاء سے مگر جوشان آپ کو حاصل ہے اس کی نظیر انبیاء میں بھی نہیں مل سکتی کیونکہ آپ کوسب انبیاء پر فضیلت ہے.اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ مسیلمہ کو جواب دیتے وقت رسول کریم سی ایم کے یہ مدنظر نہ تھا کہ آپ حکومت کے حق کو اپنی اولاد کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کا انکار توکل علی اللہ کے باعث نہیں بلکہ اپنی اولاد کی محبت کی وجہ سے قرار دیا جاتالیکن رسول کریم نے اپنی اولا د کو اپنے بعد اپنا جانشین نہیں بنایا بلکہ حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا انکار کسی دنیاوی غرض کے لئے نہ تھا بلکہ ایک بے پایاں یقین کا نتیجہ تھا.اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسیلمہ کذاب کی مدد حاصل کرنا بظا ہر مذہبی لحاظ سے بھی مضر نہ تھا کیونکہ اگر وہ یہ شرط پیش کرتا کہ میں آپ کی اتباع اس شرط پر کرتا ہوں کہ آپ فلاں فلاں دینی باتوں میں میری مان لیں تو بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ اپنی بات کی بیچ کی وجہ سے آپ نے اس کے مطالبہ کا انکار کر دیا لیکن اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ وہ مذہب میں تبدیلی چاہتا تھا.پس آپ کا انکار صرف اس تو کل اور یقین کا نتیجہ تھا جو آپ کو خدا تعالیٰ پر تھا.76

Page 86

ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ آپ اگر چاہتے تو اس وقت مسیلمہ کو پکڑا کر مروادیتے کیونکہ گو وہ ایک کیثر جماعت کے ساتھ آیا تھا مگر پھر بھی مدینہ میں تھا اور آپ کے ہاتھ کے نیچے لیکن اس معاملہ میں بھی آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا کہ وہ خود اس موذی کو ہلاک کرے گا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اخلاص یا اللہ.یا دالبی خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو جوش آجاتا :- رسول کریم کی عادت تھی کہ بہت آرام اور آہستگی سے کلام کرتے تھے اور آپ کے کلام میں جوش نہ ہوتا تھا بلکہ بہت سہولت ہوتی تھی لیکن آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ جہاں خدا تعالیٰ کا ذکر آتا آپ کو جوش آجا تا اور آپ کی عبارت میں ایک خاص شان پیدا ہو جاتی تھی.چنانچہ احادیث کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے آتے ہی آپ کو جوش آجاتا تھا اور آپ کے لفظ لفظ سے معلوم ہوتا تھا کہ عشق الہی کا دریا آپ کے اندر لہریں مار رہا ہے آپ کے کلام کو پڑھ کر محبت کی ایسی لپٹیں آتیں کہ پڑھنے والے کا دماغ معطر ہو جاتا.اللہ اللہ آپ صحابہ میں بیٹھ کر کسی پیار سے باتیں کرتے ہیں ان کی دلجوئی کرتے ہیں انکی شکایات کو سنتے ہیں.پھر صحابہ ہی کا کیا ذکر ہے کافر ومؤمن آپ کی ہمدردی سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہر ایک تکلیف میں آپ مہربان باپ اور محبت کرنے والی ماں سے زیادہ ہمدرد ومہربان ثابت ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں جہاں اس کا 77

Page 87

اور غیر کا مقابلہ ہو جائے آپ بے اختیار ہو جاتے ہیں محبت ایسا جوش مارتی ہے کہ رنگ ہی اور ہو جاتا ہے.سننے والے کا دل ایک ایسی وابستگی پاتا ہے کہ آپ ہی کا ہمرنگ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی وہ عظمت بیان کرتے ہیں کہ دل بے اختیار اس پر قربان ہونا چاہتا ہے وہ ہیبت بیان کرتے ہیں کہ بدن کانپ اٹھتا ہے وہ جلال بیان کرتے ہیں کہ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ایسا خوف دلاتے ہیں کہ مؤمن انسان کا دل تو خوف کے مارے پگھل ہی جاتا ہے پھر ایسی شفقت و محبت کا بیان کرتے ہیں کہ ٹوٹے ہوئے دل جڑ جاتے ہیں اور گری ہوئی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں.اللہ اللہ آپ کے عام کلام کا مقابلہ اگر اس کلام سے کریں کہ جس میں بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو زمین و آسمان کا فرق معلوم دیتا ہے گویا خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپ کا رواں رواں اس کی طرف جھک جاتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کے احسانات کو یاد کرنے لگتا ہے اور زبان ان کی ترجمان ہوتی ہے.نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم سے سنا کہ فرماتے تھے اَلْحَلَالُ بَينَ وَالْحَرَامَ بَيِّنْ وَبَيْنَهُمَا مُشَبهاتْ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرَ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِهِ وَدِينِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِى الشُّبْهَاتِ كَرَاعِ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوْشِكُ أَنْ يُوَاقِعَه أَلَا وَإِنَّ لِكُلِ مَلَكِ حِمَى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلَّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ ( بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدينه ) حلال بھی بیان ہو چکا ہے اور حرام بھی بیان ہو چکا اور ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ مشابہ ہیں انہیں اکثر لوگ نہیں جانتے پس جو کوئی شبہات سے بچے اس نے اپنی عزت اور دین کو بچالیا اور جو کوئی ان شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی رکھ کے ارد گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے قریب ہے کہ 78

Page 88

اپنے جانوروں کو اندر ڈال دے.خبر دار ہر ایک بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے خبر دار اللہ کی رکھ اس کی زمین میں اس کے محارم ہیں.خبر دار جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو سب جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سب جسم خراب ہو جاتا ہے.خبر دار اور وہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے.اس عبارت کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی یا ایلم کے دل میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک دریا امڈ رہا تھا.آپ دیکھتے تھے کہ ایک دنیا اس پاک ہستی کے احکام کو توڑ رہی ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے محتر ز ہے لوگ اپنے نفوس کے احکام کو مانتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے ارشادات کی تعمیل نہیں کرتے.پھر آپ کو خدا تعالیٰ سے جو محبت تھی اس کے رو سے آپ کب برداشت کر سکتے تھے کہ لوگ اس پیارے رب کو چھوڑ دیں.ان خیالات نے آپ پر یہ اثر کیا کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی عظمت کا ذکر کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ دنیاوی بادشاہوں کی اطاعت کے بغیر انسان سکھ نہیں پاسکتا تو پھر اس قادر مطلق کی نافرمانی پر کب سکھ پاسکتا ہے جوسب بادشاہوں کا بادشاہ ہے.میں جب مذکورہ بالا حدیث کو پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ آپ کس جوش کے ساتھ خدا کو یاد کرتے ہیں بناوٹ سے یہ کلام نہیں نکل سکتا اس خالص محبت کا ہی نتیجہ تھا جو آپ خدا سے رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر پر آپ کو اس قدر جوش آجاتا اور آپ چاہتے کہ کسی طرح لوگ ان نافرمانیوں کو چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگ جائیں.اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حیرت تھی کہ لوگ کیوں اس طرح دلیری سے ایسے کام کر لیتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو.جس کام میں کسی حاکم کی ناراضگی کا خیال ہو.لوگ اس کے کرنے سے بچتے ہیں لیکن 79

Page 89

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی خوف نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کی نافرمانی سے کچھ نقصان نہ ہو گا لیکن رسول کریم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہی اصل ناراضگی ہے اور انسان کو چاہئے کہ نہ صرف گناہوں سے بچے بلکہ ان کاموں سے بھی بچے کہ جن کے کرنے میں شک ہو کہ یہ جائز ہیں یا نا جائز کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان کاموں کے کرنے پر ہلاک ہو جائے اور وہ اسے خدا تعالیٰ کے رحم کے استحقاق سے محروم کر دیں.خدا تعالیٰ کے نام پر یہ جوش اور اس قدر اظہار خوف و محبت ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دل میں محبت الہی اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ ہر ایک انسان کی طاقت ہی نہیں کہ اس کا اندازہ بھی کر سکے.ذکر الہی کی تڑپ : - پچھلی مثال سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاد الہی کے وقت آپ کو کس قدر جوش آتا اور کس قدر محبت سے مجبور ہو کر آپ کے کلام میں خاص شان پیدا ہو جاتی تھی.اب میں ایک اور واقعہ بتا تا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد کا نہایت ہی شوق تھا اور آپ عبادات کے بجالانے میں گمائق، مشغول رہتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادر نہ تھے اس لئے آپ نے حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب حضرت ابو بکر نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لئے نکلے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَةً فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَانَى انْظُرُ رِجْلَيْهِ تَخَطَّانِ الْأَرْضَ مِنَ الوَجْعِ فَأَرَادَ اَبُوْ بَكْرٍ أَنْ يَتَا خَرَفَأَوْ مَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ ثُمَّ أَتِيَ بِهِ حَتَّى جَلَسَ إِلَىٰ جَنْبِهِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلَّى وَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاتِهِ وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرِ 80

Page 90

( بخاری کتاب الآذان باب حد المريض ان يشهد الجماعة) کہ حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ خفت محسوس کی پس آپ نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپ کے قدم زمین سے چھوتے جاتے تھے.آپ کو دیکھ کر حضرت ابوبکر نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں.اس ارادہ کو معلوم کر کے رسول کریم سایش الاسلام نے ابوبکر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو.پھر آپ کو وہاں لایا گیا اور آپ حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریم نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکر نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکر کی نماز کی اتباع کرنے لگے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسی ہی خطرناک بیماری ہو خدا تعالیٰ کی یادکونہ بھلاتے.عام طور پر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ذرا تکلیف ہوئی اور سب عبادتیں بھول گئیں اور نماز با جماعت اور دوسرے شرائط کی ادائیگی میں تو اکثر کو تا ہی ہو جاتی ہے لیکن آپ کا یہ حال تھا کہ معمولی بیماری تو الگ رہی اس مرض میں کہ جس میں آپ فوت ہو گئے اور جس کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کو بار بارغش آجاتے تھے اٹھنے سے قاصر تھے لیکن جب نماز شروع ہو گئی تو آپ برداشت نہ کر سکے کہ خاموش بیٹھ رہیں اسی وقت دو آدمیوں کے کاندھے پر سہارا لے کر باوجود اس کمزوری کے کہ قدم لڑکھڑاتے جاتے تھے نماز باجماعت کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے.بے شک ظاہر آ یہ بات معمولی معلوم ہوتی ہے لیکن ذرا رسول کریم کی اس حالت کو دیکھو جس میں آپ مبتلا تھے پھر اس ذکر الہی کے شوق کو دیکھو کہ جس کے ماتحت آپ نماز کے لئے دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر تشریف لائے تو 81

Page 91

معلوم ہوگا کہ یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ آپ کے دل میں ذکر الہی کا جوش تھا اس کے اظہار کا ایک آئینہ تھا.ہر ایک صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ ذکر الہی آپ کی غذا تھی اور اس کے بغیر آپ اپنی زندگی میں کوئی لطف نہ پاتے تھے.اسی کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے کہ جن چیزوں سے مجھے محبت ہے ان میں سے ایک قُرَةُ عِینِی فِی الصَّلٰوۃ یعنی نماز میں میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں.شریعت کے لحاظ سے آپ کا باجماعت نماز پڑھنا یا مسجد میں آنا کوئی ضروری امر نہ تھا کیونکہ بیماری میں شریعت اسلام کسی کو ان شرائط کے پورا کرنے پر مجبور نہیں کرتی لیکن یہ عشق کی شریعت تھی یہ محبت کے احکام تھے بے شک شریعت آپ کو اجازت دیتی تھی کہ آپ گھر میں ہی نماز ادا فرماتے لیکن آپ کو ذکر الہی سے جو محبت تھی وہ مجبور کرتی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو آپ ہر ایک تکلیف برادشت کر کے تمام شرائط کے ساتھ ذکر الہی کریں اور اپنے پیارے کو یاد کریں اس تکلیف کی حالت میں آپ کو ذکر الہی سے یہ وابستگی تھی تو صحت کی حالت میں قیاس کیا جاسکتا ہے.میں پیچھے لکھ چکا ہوں کہ رسول کریم کو اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق تھا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر آتے ہی آپ کے اندر ایک جوش پیدا ہوجاتا اور یہ کہ آپ کو خدا تعالیٰ سے ایسی محبت تھی کہ تندرستی اور بیماری میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہی آپ کی غذا تھا.اب میں ایک اور واقعہ یہاں درج کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ جہاں تک ہوسکتا لوگوں میں خدا تعالیٰ کے ذکر کی عادت پیدا کرتے.حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ذَهَبَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلُوةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِنَ إِلىٰ أَبِي بَكْرِ فَقَالَ اتَصَلَّىٰ لِلنَّاسِ فَأَقِيمُ قَالَ نَعَمْ فَصَلَّى أَبْوَبَكْرٍ فَجَاءَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي 82

Page 92

الصَّلوةِ فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِ فَصَفَقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتْ فِي صَلَوتِهِ فَلَمَّا اكْثَرَ النَّاسُ التَصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِ امْكُثُ مَكَانَكَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرِيَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهُ عَلَيْهِ مَا أَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ اَبُوْ بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّهِ وَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبَتَ إِذْ أَمَرْتَكَ فَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قَحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَى رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالِيَ رَاتَيْتَكُمْ أَكْثَرَ تُمُ التَصْفِيقَ مَنْ رَابَهُ شَيْئَ فِي صَلُوتِهِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَحَ التَفِتَ إِلَيْهِ وَإِنَّمَا اتَّصْفِيقُ لِلنَّسَاءِ (بخاری کتاب الآذان باب من دخل لينوم الناس) رسول كريم صلی تم بنی عمرو بن عوف میں گئے تا کہ ان میں صلح کراوئیں پس نماز کا وقت آگیا اور مؤذن حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور کہا کہ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھوائیں گے.میں اقامت کہوں آپ نے جواب دیا کہ ہاں پھر حضرت ابوبکر نماز کیلئے کھڑے ہوئے اتنے میں رسول کریم تشریف لے آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے.آپ تصف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور پہلی صف میں جا کر کھڑے ہو گئے جب آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو لوگ تالیاں پیٹنے لگے ( تا حضرت ابوبکر کو معلوم ہو جائے) لیکن حضرت ابوبکر نماز میں دوسری طرف کچھ توجہ نہ فرماتے جب تالیاں پیٹنا طول پکڑ گیا تو آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول کریم تشریف لائے ہیں رسول کریم صلی یا تم نے آپ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو اس پر حضرت ابوبکر نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اس عزت افزائی پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور حمد کی پھر آپ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں مل گئے اور رسول کریم سیا سیستم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی.سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ اے ابوبکر جب میں نے حکم 83

Page 93

دیا تھا تو پھر آپ کو کونسی چیز مانع ہوئی کہ نماز پڑھاتے رہتے.حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ ابن ابی قحافہ کی کیا حیثیت تھی کہ رسول کریم کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھاتا (ابوقحافہ حضرت ابوبکر کے والد تھے ) پھر آپ نے (لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ) فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ تم لوگوں نے اس قدر تالیاں پیٹیں.جسے نماز میں کوئی حادثہ پیش آۓ اسے چاہئے کہ سبحان اللہ کہے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو خود ہی اسکی طرف توجہ ہوگی اور تالیاں پیٹنا تو عورتوں کا کام ہے.اس حدیث سے اگر چہ اور بہت سے سبق ملتے ہیں لیکن اس جگہ مجھے صرف ایک امر کی طرف متوجہ کرنا ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت کی تمام عمر کی کوشش یہی تھی کہ جس جس طرح سے ہو سکے لوگوں کی زبان پر خدا کا نام جاری کیا جائے.خود تو جس طرح آپ ذکر میں مشغول رہتے اس کا حال میں بیان کر چکا ہوں مگر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر ایک کی زبان پر یہی لفظ دیکھنا چاہتے تھے.آپ کی آمد کی اطلاع دینے کے لئے اگر صحابہ نے تالیاں بجائیں تو یہ ان کا ایک رواج تھا اور ہر ایک ملک میں اطلاع عام کے لئے یا متوجہ کرنے کے لئے لوگ تالیاں بجاتے ہیں آج کل بھی جلسوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی لیکچرار کی کوئی بات پسند آئے تو اس پر تالیاں پیٹتے ہیں تا کہ لوگوں کو توجہ پیدا ہو کہ یہ حصہ لیکچر خاص توجہ کے قابل ہے پس تالیاں بجانا اس کام کے لئے رائج ہے لیکن رسول کریم کی یاد الہی سے محبت دیکھو کہ آپ نے دیکھا کہ بعض دفعہ ضرورت تو ہوتی ہے کہ لوگوں کو کسی کام کی طرف متوجہ کیا جائے پھر کیوں نہ اس ضرورت کے موقع پر بجائے اس بے معنی حرکت کے لوگوں کو اس طرف لگا دیا جائے کہ وہ اپنے خیالات اور جوشوں کے اظہار کے لئے بجائے تالیاں بجانے کے 84

Page 94

سبحان اللہ کہہ دیا کریں.کم سے کم ایسے موقع پر ہی خدا کا ذکر ان کی زبان پر جاری ہوگا.یہ وہ حکمت و فلسفہ ہے جسے دنیا کے کسی رہنما اور ہادی نے نہیں سمجھا اور کوئی مذہب نہیں جو اس حکم کی نظیر پیش کر سکے کہ اس نے بھی بجائے لغویات کے لوگوں کو ایسی تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہو کہ جو ان کے لئے مفید ہو سکے تالیاں بجانا بے شک جذبات انسانی کا ترجمان تو ہوسکتا ہے لیکن وہ ایسا ہی ترجمان ہے کہ جیسے ایک گونگے کے خیالات کا ترجمہ اس کے اشارات ہو جاتے ہیں کیونکہ تالیاں بجانے سے صرف اسی قدر معلوم ہوسکتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی جوش ہے اور یہ اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہے یا یہ کہ کسی کو غلطی پر دیکھ کر اسے اس کی غلطی پر متنبہ کر نا چاہتا ہے لیکن اس سے زیادہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا لیکن رسول کریم سایہ تم صرف اسی پر اکتفانہ کر سکتے تھے آپ ایک طرف تو گل لغویات کو مٹانا چاہتے تھے دوسری طرف آپ کے دل میں یہ جوش موجزن رہتا کہ خدا تعالیٰ کے نام کی کثرت ہو اور ہر ایک مجلس اور مقام میں اسی کا ذکر کیا جائے اس لئے آپ نے بجائے ان بے معنی اشارات کے جن سے گو اشارة حصول مطلب ہو جا تا تھا ایسے الفاظ مقرر کئے کہ جن سے نہ صرف حصول مطلب ہوتا ہے بلکہ انسان کی روحانیت میں ازدیاد کا باعث ہے اور عین موقع کے مناسب ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کا ذکر بھی ہو جاتا ہے.یا درکھنا چاہئے کہ انسان جب کبھی کسی ھے کی طرف توجہ کرتا ہے اسے ناپسند کرنے کی وجہ سے یا پسندیدگی کے باعث تو ان دونوں صورتوں میں سبحان اللہ کے کلمہ کا استعمال نہایت با موقع اور بامحل ہے.اگر کسی انسان کے کسی فعل کو نا پسند کرتا ہے تو سبحان اللہ اس لئے کہتا ہے کہ آپ سے کوئی سہو ہؤا ہے.سہو سے تو صرف خدا کی ہی ذات پاک ہے ورنہ ہر ایک انسان سے سہو ممکن ہے.اس مفہوم کو سمجھ کر آدمی اپنی غلطی پر متنبہ ہو جاتا ہے اسی 85

Page 95

طرح اگر کوئی شخص کوئی عمدہ کام کرے تو اس میں بھی سبحان اللہ کہا جاتا ہے جس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام نقصوں سے پاک ہے اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اسے بھی پاک ہی پیدا کیا ہے یہ کام جو کسی سے سرزد ہوا ہے یا یہ قول جو کسی کی زبان پر جاری ہوا ہے اپنی خوبی اور حسن میں خدا تعالیٰ کی پاکیزگی اور طہارت یاد دلاتا ہے جو تمام خوبیوں کا پیدا کرنے والا ہے.غرض کہ سبحان اللہ کا کلمہ اس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لئے توجہ دلائی جاتی ہے اور افسوس اور خوشی دونوں کا اظہار اس سے ایسی عمدگی سے ہوتا ہے جو اور کسی کلمہ سے نہیں ہو سکتا.پس اس کلمہ کے مقابلہ میں تالیاں بجانا اور سیٹیاں مارنا بالکل لغو اور بے فائد ہے اور ان لغو حرکات کے مقابلہ پر ایسا پاک کلمہ رکھ دینا رسول کریم کی ہی پاک طبیعت کا کام تھا ورنہ ہزاروں سال سے اس لغو حرکت کو روکنے کی کسی اور کے دل میں تحریک نہیں ہوئی ہاں صرف رسول کریم ہی ہیں جو اس نکتہ تک پہنچے اور آپ نے ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کا نام لینے کی تعلیم دے کر ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہر ایک موقع پر خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا پسند فرماتے اور اسی کا ذکر آپ کے لئے غذا تھا.اس واقعہ کے علاوہ بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر زیادہ کیا جائے چنانچہ چھینک پر، کھانا شروع کرتے وقت، پھر ختم ہونے کے بعد ہوتے وقت ، جاگتے وقت نمازوں کے بعد، کوئی بڑا کام کرتے وقت، وضو کرتے وقت غرضیکہ اکثر اعمال میں آپ نے خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف خود ہی ذکر الہی میں زیادہ مشغول رہتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی یاد الہی میں مشغول رہیں جو کہ آپ کے کمال محبت پر دال ہے.86

Page 96

میں نے بہت آدمی دیکھے ہیں کہ ذرا عبادت کی اور مغرور ہو گئے چند دن کی نمازوں یا عبادتوں کے بعد وہ اپنے آپ کو فرعون بے سامان یا فخر اولیاء سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا و مافیھا ان کی نظروں میں حقیر ہو جاتی ہے بڑے سے بڑے آدمی کی حقیقت کچھ نہیں جانتے بلکہ انسان کا تو کیا کہنا ہے خدا تعالیٰ پر بھی اپنا احسان جتاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو عبادات ہم نے کی ہیں گویا خدا تعالیٰ پر احسان کیا ہے اور وہ ہمارا ممنون ہے کہ ہم نے اس کی عبادت کی ورنہ اگر عبادت نہ کرتے تو وہ کیا کر لیتا جو لوگ اس طرز کے نہیں ہوتے ان میں سے بھی اکثر ایسے دیکھے گئے ہیں کہ عبادت کر کے کچھ تکبر ضرور آ جاتا ہے اور بہت ہی کم ہیں کہ جو عبادت کے بعد بھی اپنی حالت پر قائم رہیں اور یہی نیکوں کا گروہ ہے پھر سمجھ سکتے ہو کہ نیکوں کے سردار اور نبیوں کے سر بر آوردہ حضرت رسول کریم صلی یاتم کا کیا حال ہو گا.آپ تو گل خوبیوں کے جامع اور کل نیکیوں کے سرچشمہ تھے عبادت کسی تکبر یا بڑائی کے لئے کرنا تو الگ رہا جس قدر خدا تعالیٰ کی بندگی بجالاتے اتنی ہی ان کی آتش شوق تیز ہوتی اور آپ بجائے عبادت پر خدا تعالیٰ کو اپناممنون احسان بنانے کے خود شرمندہ احسان ہوتے کہ الہی اس قدر توفیق جو عبادت کی ملتی ہے تو تیرے ہی فضل سے ملتی ہے.آپ کی عبادت ایک تسلسل کا رنگ رکھتی ہے کچھ حصہ وقت جب عبادت میں گزارتے تو خیال کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس کام کی توفیق دی اس احسان کا شکر بجالا نا ضروری ہے اس جذ بہ ادائیگی شکر سے بے اختیار ہو کر کچھ اور عبادت کرتے اور پھر اسے بھی خدا تعالیٰ کا ایک احسان سمجھتے کہ شکر بجالا نا بھی ہر ایک کا کام نہیں جب تک خدا تعالیٰ کا احسان نہ ہو.پھر اور بھی زیادہ شوق کی جلوہ نمائی ہوتی اور پھر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جاتے اور یہ راز و نیاز کا سلسلہ ایسا وسیع ہوتا کہ بار ہا عبادت کرتے کرتے 87

Page 97

آپ کے پاؤں سوج جاتے صحابہ عرض کرتے یا رسول اللہ اس قدر عبادت کی آپ کو کیا حاجت ہے آپ کے تو گناہ معاف ہو چکے ہیں اس کا جواب آپ یہی دیتے کہ پھر کیا میں شکر نہ کروں.حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں اِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُوْمَ لِيُصَلِّي حتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ فَيُقَالُ لَهُ فَيَقُوْلُ اَفَلَا كُوْنُ عَبْدًا شَكُورًا ( بخاری کتاب الجمعه باب قیام النبی ﷺ اللیل) رسول کریم نماز کے لئے کھڑے ہوا کرتے تھے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے قدم ( یا کہا ) پنڈلیاں سوج جاتیں.لوگ آپ سے جب کہتے ( کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ) تو آپ جواب دیتے کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اللہ اللہ کیا عشق ہے کیا محبت کیا پیار ہے خدا تعالیٰ کی یاد میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا خون کا دوران نیچے کی طرف ہو جاتا ہے اور آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے ہیں لیکن محبت اس طرف خیال ہی نہیں جانے دیتی آس پاس کے لوگ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ کرتے کیا ہیں اور آپ کے درد سے تکلیف محسوس کر کے آپ کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ آپ یہ کیا کرتے ہیں اور کیوں اپنے آپ کو اس تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اس قدر دکھ اٹھاتے ہیں آخر کچھ تو اپنی صحت اور اپنے آرام کا بھی خیال کرنا چاہئے مگر وہ دکھ جو لوگوں کو بے چین کر دیتا ہے اور جس سے دیکھنے والے متاثر ہو جاتے ہیں.آپ پر کچھ اثر نہیں کرتا اور عبادات میں کچھ ستی کرنے اور آئندہ اس قدر لمبا عرصہ اپنے رب کی یاد میں کھڑے رہنا ترک کرنے کی بجائے آپ ان کی اس بات کو نا پسند کرتے ہیں اور انہیں جواب دیتے ہیں کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں وہ مجھ پر اس قدر احسان کرتا ہے اس قدر فضل کرتا ہے اس شفقت کے ساتھ مجھ سے پیش آتا ہے پھر کیا اس کے اس 88

Page 98

حسن سلوک کے بدلہ میں اس کے نام کا ورد نہ کروں؟ اس کی بندگی میں کوتاہی شروع کر دوں؟ کیا اخلاص سے بھرا اور کیسی شکر گزاری ظاہر کرنے والا یہ جواب ہے اور کس طرح آپ کے قلب مطہر کے جذبات کو کھول کر پیش کر دیتا ہے خدا کی یاد اور اس کے ذکر کی یہ تڑپ اور کسی کے دل میں ہے.کیا کوئی اور اس کا نمونہ پیش کر سکتا ہے.کیا کسی اور قوم کا بزرگ آپ کے اس اخلاص کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ میں اس مضمون کے پڑھنے والے کو اس طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس عبادت کے مقابلہ میں اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ آپ کس طرح کا موں میں مشغول رہتے تھے اور یہی نہیں کہ رات کے وقت عبادت کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور دن بھر سوئے رہتے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس شوق اور تڑپ کا پتہ نہ لگتا جو اس صورت میں ہے کہ دن بھر بھی آپ خدا تعالیٰ کے نام کی اشاعت اور اطاعت و فرمانبرداری کا رواج دینے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.خود پانچ اوقات میں امام ہو کر نماز پڑھاتے تھے دور دور کے جو وفوداورسفراءآتے تھے ان کے ساتھ خود ہی ملاقات کرتے اور ان کے مطالبات کا جواب دیتے.جنگوں کی کمان بھی خود ہی کرتے.صحابہ کو قرآن شریف کی تعلیم بھی دیتے.حج بھی خود تھے تمام دن جس قدر جھگڑے لوگوں میں ہوتے ان کا فیصلہ کرتے.عتمال کا انتظام، بیت المال کا انتظام ، ملک کا انتظام، دین اسلام کا اجراء اور پھر جنگوں میں فوج کی کمان، بیویوں کے حقوق کا ایفاء.پھر گھر کے کام کاج میں شریک ہونا یہ سب کام آپ دن کے وقت کرتے اور ان کے بجالانے کے بعد بجائے اس کے کہ چچور ہو کر بستر پر جا پڑیں اور سورج کے نکلنے تک اس سے سر نہ اٹھا ئیں بار بار اٹھ کر بیٹھ جاتے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تحمید کرتے اور نصف رات کے گزرنے پر اٹھ کر وضو کرتے اور تن تنہا جب چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہو ا ہوتا 89

Page 99

اپنے رب کے حضور میں نہایت عجز و نیاز سے کھڑے ہو جاتے اور تلاوت قرآن شریف کرتے اور اتنی اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے حتی کہ عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو اس قدر تکلیف ہوئی کہ قریب تھا کہ میں نماز توڑ کر بھاگ جاتا کیونکہ میرے قدم اب زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور میری طاقت سے باہر تھا کہ زیادہ کھڑارہ سکوں.یہ بیان اس شخص کا ہے جو نو جوان اور رسول کریم ملایشیا کی تم سے عمر میں کہیں کم تھا جس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ آپ کی ہمت اور جذبہ محبت ایسا تیز تھا کہ باوجود پیری کے اور دن بھر کام میں مشغول رہنے کے آپ عبادت میں اتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ جوان اور پھر مضبوط جوان جن کے کام آپ کے کاموں کے مقابلہ میں پاسنگ بھی نہ تھے آپ کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے اور تھک کر رہ جاتے.یہ عبادت کیوں تھی اور کس وجہ سے آپ یہ مشقت برداشت کرتے تھے.صرف اسی لئے کہ آپ ایک شکر گزار بندے تھے اور آپ کا دل خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھ کر ہر وقت اس کے ذکر کرنے کی طرف مائل رہتا چنانچہ جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ اس قدر عبادت میں کیوں مشغول رہتے ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.غرضیکہ جس محبت اور شوق سے آپ ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے اور ان مشاغل کے باوجود جو آپ کو دن کے وقت در پیش رہتے تھے اس کی نظیر دنیا میں اور کسی بادی کی زندگی میں نہیں مل سکتی اول تو میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر دنیا کے دیگر ہادیان کے اشغال کا آپ کے اشغال سے مقابلہ کیا جائے تو ان کے اشغال ہی آپ کے مقابلہ میں بہت کم 90

Page 100

نکلیں گے لیکن اس فرق کو نظر انداز کر کے بھی ان کی زندگی میں ذکر الہی کی یہ کثرت نہ پائی جائے گی.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا مطالعہ جس غور سے رسول کریم صلی یا ایسی تم نے فرمایا ہے اور کسی انسان نے نہیں کیا.اسی لئے جس محبت سے آپ اپنے پیارے کا نام لیتے تھے اور کسی انسان نے نہیں لیا.ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کے محبین اور ذاکرین میں بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ آپ جیسا ذاکر اور محب اور کوئی نہیں مل سکتا.موت کے وقت بھی خدا ہی یاد تھا: - سوائے شاذ و نادر کے عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی پر حریص ہوتا ہے حتی کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص خود کشی کرتا ہے وہ ضرور پاگل ہو جاتا ہے یا خود کشی کے وقت اسے جنون کا دورہ ہوتا ہے ورنہ عقل و خرد کی موجودگی میں انسان ایسا کام نہیں کرتا.جب موت قریب ہو تو اس وقت تو اکثر آدمی اپنے مشاغل کو یاد کر کے افسوس کرتے ہیں کہ اگر اور کچھ دن زندگی ہوتی تو فلاں کام بھی کر لیتے اور فلاں کام بھی کر لیتے جوانی میں اس قدر حرص نہیں ہوتی جس قدر پڑھاپے میں ہو جاتی ہے اور یہی خیال دامنگیر ہو جاتا ہے کہ اب بچوں کے بچے دیکھیں اور پھر ان کی شادیاں دیکھیں اور جب موت قریب آتی ہے تو اور بھی توجہ ہو جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کا بستر مرگ دیکھا گیا ہے کہ حسرت واندوہ کا مظہر اور رنج وغم کا مقام ہوتا ہے اور اگر “ اور ” کاش‘ کا اعادہ اس کثرت سے کیا جاتا ہے کہ عمر بھر میں اس کی نظیر نہیں ملتی.مرنے والا پے در پے اپنی خواہشات کا ذکر کرتا ہے اور 91

Page 101

اپنے وقت کو وصیت میں صرف کرتا ہے میرے فلاں مال کو فلاں کے سپر د کرنا اور میری بیوی سے یہ سلوک کر نا اور بیٹیوں سے یوں حسن سلوک سے پیش آنا فلاں سے میں نے اس قدر روپیہ لینا ہے اور فلاں کو اس قدر دینا ہے غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو روزانہ ہر گھر میں دوہرائی جاتی ہیں اور چونکہ موت کا سلسلہ ہر جگہ لگا ہوا ہے اور ہر فرد بشر کو اس دروازہ سے گزرنا پڑتا ہے اس لئے تمام لوگ ان کیفیات کو جانتے ہیں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.میرا آقا جہاں اور ہزاروں باتوں میں دوسرے انسانوں سے اعلیٰ اور مختلف ہے وہاں اس بات میں بھی دوسروں سے بالا تر ہے.اس میرے سردار کی موت کا واقعہ کوئی معمولی سا واقعہ نہیں کس گمنامی کی حالت سے ترقی پاکر اس نے اس عظیم الشان حالت کو حاصل کیا تھا اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے ہر دشمن پر فتح دی تھی اور ہر میدان میں غالب کیا تھا.ایک بہت بڑی حکومت کا مالک اور بادشاہ تھا اور ہزاروں قسم کے انتظامات اس کے زیر نظر تھے لیکن اپنی وفات کے وقت اسے ان چیزوں میں سے ایک کا بھی خیال نہیں.نہ وہ آئندہ کی فکر کرتا ہے نہ تدابیر ملکی کے متعلق وصیت کرتا ہے نہ اپنے رشتہ داروں سے متعلق ہدایات لکھواتا ہے بلکہ اس کی زبان پر اگر کوئی فقرہ جاری ہے تو یہی کہ اللهُم فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى اللَّهُمَّ فِي الرفيق الأغلى اے میرے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے اے میرے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے.اس فقرہ کو ذرا مضطر بانہ حرکات سے مقابلہ کر کے دیکھو جو عام طور سے مرنے والوں سے سرزد ہوتی ہیں کیسا اطمینان ثابت ہوتا ہے.کیسی محبت ہے.ساری عمر آپ خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے.خلوت و جلوت غرضیکہ ہر جگہ آپ کو خدا ہی خدا یاد تھا اور اسی کا ذکر آپ کی زبان پر جاری تھا اور اب جبکہ وفات کا وقت آیا تب بھی بجائے کسی 92

Page 102

اور دنیاوی غرض یا مطلب کی طرف متوجہ ہونے کے خدا ہی کی یاد آپ کے سینہ میں تھی اور جن کو چھوڑ چلے تھے ان کی فرقت کے صدمہ کی بجائے جن سے ملنا تھا ان کی ملاقات کی تڑپ تھی اور زبان پر اپنے رب کا نام جاری تھا.آہ! کیسا مبارک وہ وجود تھا.کیا احسان ماننے والا وہ انسان تھا.اس کی زندگی بہتر سے بہتر انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور مہذب سے مہذب روحوں کے لئے ایک نمونہ تھی اس نے اپنے پیدا ہونے سے مرنے تک کوئی وقت اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں گزارا.وہ پاک وجود خدا تعالیٰ میں بالکل محوہی ہو گیا تھا اور اس کی نظر میں سوائے اس وحدہ لا شریک خدا کے جو لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ہے اور کوئی وجود بچت ہی نہ تھا.پھر بھلا جو ذ کر کہ تمام عمر اس کی زبان پر رہا وفات کے وقت وہ اسے کہاں بھلا سکتا تھا وہ کچھ انسان ساری عمر کہتا یا کرتا رہا وہی اسے وفات کے وقت بھی یاد آتا ہے.پھر جس کی عمر کا مشغلہ ہی یاد الہی ہو اور زندگی بھر جس کی روحانی غذا ہی ذکر الہی ہو وہ وفات کے وقت اور کسی چیز کو کب یاد کر سکتا تھا.مجھے میرا مولا پیارا ہے اور مجھے محمد رسول اللہ صلی یا یہ ہم بھی پیارا ہے کیونکہ وہ میرے مولا کا سب سے بڑا عاشق اور دلدادہ ہے اور جسے جس قدر میرے رب سے زیادہ الفت ہے مجھے بھی وہ اس قدر عزیز ہے.اللهمَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ذکر الہی ہر وقت:- میں نے پیچھے بعض واقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول کریم سالی تم کو ذکر الہی سے کیسی محبت تھی اور آپ کس طرح ہر موقع پر خدا تعالیٰ کا نام لینا پسند فرماتے تھے اور صرف خود ہی پسند نہ فرماتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے اور وفات کے وقت بھی 93

Page 103

آپ کی زبان پر خدا تعالیٰ کا ہی ذکر تھا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے ذکر پر چشم پر نم ہو جاتے تھے اور آپ کا خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا یاسننا معمولی بات نہ تھی بلکہ ایک عاشقانه درد اور محبانہ ولولہ اس کا محرک اور باعث تھا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَ أَعَلَى قُلْتُ اَقْرَأَ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ فَإِنِّىٰ أَحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ حَتَّى بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا قَالَ أَمْسِكَ فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرُفَانِ ( بخاری کتاب التفسیر باب قوله تعالیٰ كيف اذا جئنا من كل امة بشھید) مجھے نبی کریم سلاش تم نے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن سناؤ میں نے کہا کہ کیا میں آپ کو قرآن سناؤں حالانکہ قرآن شریف آپ پر ہی نازل ہوا ہے.فرمایا کہ مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں دوسرے کے منہ سے سنوں.پس میں نے سورۃ نساء میں سے کچھ پڑھا یہاں تک کہ میں اس آیت تک پہنچا کہ پس کیا حال ہو گا جب ہر ایک امت میں سے ہم ایک شہید لائیں گے اور تجھے ان لوگوں پر شہید لائیں گے اس پر آپ برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ بس کرو.اور میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں.اللہ اللہ کیسا عشق ہے اور پھر کیسا ایمان ہے.آپ قرآن شریف کو جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے خود پڑھنے اور دوسروں کو سنانے کا حکم دیتے تھے اور پھر اپنے محبوب کا کلام سنکر چشم پر آب ہو جاتے آپ ایسے بہادر تھے کہ میدان کارزار میں آپ تک دشمن کی رسائی نہ ہوتی اور حضرت علی جیسے بہادر آدمی فرماتے ہیں کہ جس جگہ آپ کھڑے ہوتے تھے وہاں وہی آدمی کھڑا ہوسکتا تھا جونہایت دلیر اور بہادر ہو اور معمولی آدمی کی جرات نہ پڑ سکتی تھی کہ آپ کے پاس کھڑا ہو.پھر ایسا بہادر انسان کہ جس کے سامنے بڑے بڑے بہادروں کی روح کا نپتی تھی اور ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں وہ بہادر انسان جس کے نام کو سنکر بادشاہ خوف 94

Page 104

کھاتے تھے جس کی بہادری کا شہرہ تمام عرب اور شام اور ایران میں ہورہا تھا جس کی ہمت بلند کے سامنے قیصر و کسریٰ کے ارادے پست ہو رہے تھے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنکر روتا ہے اور آپ کے دل کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ زیادہ سننا گویا اس کے لئے برداشت سے بڑھ کر ہے.کیا یہ بات مطہر قلب پر دلالت نہیں کرتی کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک محبت کا دریا اس کے سینہ میں بہہ رہا تھا اور عشق کی آگ اس کے اندر بھڑک رہی تھی.کیا خدا تعالیٰ کے ذکر پر یہ حالت اور پھر ایسے بہادر انسان کی جو کسی بشر سے خائف نہ تھا اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے آپ کے روئیں میں دخل کیا ہو ا تھا اور خدا تعالیٰ کا ذکر آپ کی غذا ہو گیا تھا اور اس کا جلال اور اس کی عظمت آپ کے سامنے ہر وقت موجود رہتی تھی اور اپنے مولا کا ذکر سنتے ہی آپ بے چین ہو جاتے.کلام الہی آپ کی تسلی کا باعث تھا اور یہی آپ کے عشق کو تیز کرتا اور آپ اپنے پیارے کو یاد کر کے بے اختیار ہو جاتے آپ بڑی شان کے آدمی تھے اور خدا تعالیٰ سے جو آپ کو تعلق تھا وہ اور کسی انسان کو حاصل نہیں ہو الیکن پھر بھی جب آپ خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یاد کرتے اور قیامت کا نظارہ آپ کی آنکھوں کے آگے آتا تو باوجود ایک مضبوط دل رکھنے کے آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے.اخلاص باللہ.شرک سے نفرت :- ایک خاص بات جو رسول کریم کی زندگی میں دیکھی جاتی ہے اور جس میں کوئی نبی اور ولی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ آپ کے قریب بھی نہیں پہنچتا وہ آپ کا شرک سے بیزار ہونا ہے.ہمارا یقین ہے کہ کل انبیاء شرک سے بچانے کے لئے دنیا میں آئے اور بلا استثناء ہر ایک نبی کی تعلیم یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جائے خواہ کوئی نبی ہندوستان میں، جو شرک و بت پرستی کا گھر ہے پیدا ہوا یا مصر میں جو رب الا رباب کے عقیدہ کا مرکز تھا ظاہر ہوا، 95

Page 105

آتش پرستان ایران میں جلوہ نما ہوا یا وادی کنعان میں نور افشاں ہوا یہ بات سب میں پائی جاتی ہے کہ وہ شرک کو بیخ و بن سے اکھیڑنے کے درپے رہے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھا جائے اور اسکی ذات یا صفات یا اسماء میں کسی کو اس کا شریک نہ سمجھا جائے نہ بنایا جائے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الانبیاء آیت ۲۶) اور ہم نے نہیں بھیجا تجھ سے پہلے کوئی رسول مگر اس کی طرف وحی کی کہ کوئی معبود نہیں مگر اللہ پس میری عبادت کرو.يُنزِلُ الْمَلِئِكَةِ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ (انحل آیت: ۳) اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ساتھ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر پسند کرتا ہے اتارتا ہے لوگوں کو ڈراؤ کہ سوائے میرے کوئی معبود نہیں پس میرا تقوی اختیار کرو.ان آیات کی بناء پر ہم ایمان لائے ہیں کہ سب انبیاء کا مشترکہ مشن اشاعت توحید اور تحریب شرک تھا مگر بڑے سے بڑے نبیوں اور مرسلین کی زندگی کا رسول کریم کی زندگی سے مقابلہ کر کے دیکھ لو جوفکر اور فہم آپ کو شرک کی بیجگنی کا تھا اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی حضرت موسیٰ نے فرعون کو ایک خدا کی پرستش کی تبلیغ کی.حضرت مسیح ناصری نے ایک سائل کو کہا کہ سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ تو اس خدا کو جو آسمان پر ہے اپنے سچے دل اور سچی جان سے پیار کر.حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کے بتوں کو توڑ کر ان پر شرک کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا.حضرت نوح نے بھی اپنی قوم کو واحد خدا کی پرستش کی طرف بلایا لیکن ہمارے سردار و آقا ہادی برحق صلی لا الہ امام نے جس طرح شرک مٹانے کے لئے جدو جہد کی ہے اس کی مثال اور کسی نبی کی ذات میں نہیں ملتی.بے شک دیگر انبیاء نے اپنی عمر کا ایک حصہ شرک 96

Page 106

کے مٹانے پر خرچ کیا مگر جو دھن اس مرض کو مٹانے کی خاتم النبین سالی یا پیام کولگی ہوئی تھی وہ اور کسی کو نہ تھی.آپ نے اپنے دعوئی کے بعد ایک ہی کام کو مدنظر رکھا کہ ایک خدا کی پرستش کروائی جائے.تمام اہل عرب جو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے آپ کے مخالف ہو گئے اور یہاں تک آپ سے درخواست کی کہ جس طرح ہو آپ ہمارے معبودوں کی تردید کو جانے دیں اور ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ جو مطالبہ بھی پیش کریں گے ہم اسے قبول کریں گے حتی کی اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بھی بنالیں گے اور ایسا بادشاہ کہ جس کے مشورہ کے بغیر ہم کوئی کام نہ کریں گے.مگر باوجود اس تحریص و ترغیب کے اور باوجود طرح طرح کے ظلم و ستم کے جو آپ پر اور آپ کی امت پر توڑے جاتے تھے آپ نے ایک لمحہ اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ برداشت نہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے بیان میں سستی کریں بلکہ آپ نے ترغیب و تحریص دینے والوں کو یہی جواب دیا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کھڑا کر وتب بھی میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا بیان و اقرار ترک نہ کروں گا جو تکالیف لوگوں کی طرف سے شرک کی تردید کی وجہ سے آپ کو پہنچیں ویسی اور کسی نبی کو نہیں پہنچیں.اور جس طرح آپ کو اور آپ کے متبعین کو خدا تعالیٰ کے ایک مانے پر ستایا اور دکھ دیا گیا ہے اس طرح اور کسی کو تکلیف نہیں دی گئی.مگر پھر بھی آپ اپنے کام میں بجائے ست و غافل ہونے کے روز بروز زیادہ سے زیادہ مشغول ہو تے گئے.حتی کہ بعض صحابہ قتل کئے گئے.آپ کو وطن چھوڑنا پڑا.رشتہ دار چھوڑ نے پڑے.زخمی ہوئے.ان تمام تکالیف کے بعد آپ اپنے مخالفین کو بھی جواب دیتے کہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَہ پہلے انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے مقابلہ کیا اور خوب کیا لیکن ہمارے آنحضرت سالی تم نے ایک قوم سے نہیں دو قوموں سے نہیں بلکہ اس وقت 97

Page 107

کی سب قوموں اور مذاہب سے خدا کے لئے مقابلہ کیا.اس وقت ایک بھی ایسی قوم نہ تھی جو شرک کی مرض میں گرفتار نہ ہو عرب تو سیکڑوں بتوں کے پجاری تھے ہی اور مجوسی تو آگ کے آگے ناصیہ فرسائی کرتے ہی تھے یہود جو تو رات کے پڑھنے والے اور حضرت موسیٰ کے ماننے والے تھے وہ بھی عزیز ابن اللہ پکار رہے تھے اور اپنے احبار کو صفات الوہیت سے متصف یقین کرتے تھے اور ان سے بھی بڑھ کر نصاری تھے جو سب سے قریب تھے.حضرت مسیح کی امت ہو کر اس قدر بڑھ گئے تھے کہ خود مسیح کو جو اللہ تعالیٰ کی پرستش قائم کرنے آئے تھے قابل پرستش سمجھنے لگے تھے.ہندوستان اور چین کی تو کچھ پوچھوہی نہیں گھر گھر میں بت تھے اور شہر شہر میں مندر تھے پھر ایسی شورش کے زمانہ میں آپ کو توحید باری کے ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہو جانا اور تمام قوموں کو پکار پکار کر سنانا کہ تم جس قدر معبود میرے خدا کے سوا پیش کرتے ہو سب جھوٹے اور بے ثبوت ہیں ایک ایسا کام تھا جسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے اور جس قدر آپ کی اس کوشش و ہمت پر غور کیا جائے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شرک سے ایسے بیزار تھے کہ ایک ساعت کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کے سامنے اپنا سر جھکائے.خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے سرشار ہوئے کہ دنیا بھر کے مذاہب اور قوموں کو اپنا دشمن بنالیا اور یکدم سب سے اپنا قطع تعلق کر لیا اور صرف اس سے صلح رکھی جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا.اس وقت جو معبود باطلہ تھے ان کے مٹانے اور اڑانے کے علاوہ آپ نے اپنی تعلیم میں اس بات کا التزام رکھا کہ مسلمانوں کو پوری طرح سے خبر دار کیا جائے کہ آئندہ بھی کسی وجہ سے مرض شرک میں مبتلا نہ ہو جاویں اسلام کیا ہے سب سے پہلے اس کا اقرار کرنا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله مسلمانوں کو دن میں پندرہ دفعہ بلند مکان پر سے یا منارہ پر سے یہ پیغام اب تک پہنچا یا 98

Page 108

جاتا ہے کہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پھر تمام عبادات میں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرایا جاتا ہے.مسلمان تو مسلمان غیر مذاہب کے پیر بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ جس قدر اسلام شرک کو مٹاتا ہے اتنا اور کوئی مذہب اس کا استیصال نہیں کرتا اور یہ کیوں ہے اسی نفرت کی وجہ سے جو آنحضرت صلی یہ تم کو شرک سے تھی.عمر بھر آپ اس مرض کے مٹانے میں لگے رہے حتی کہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے وہ خوشی دیکھی جو اور کسی نبی کو دیکھنی نصیب نہ ہوئی کہ آپ کی سب قوم ایک خدا کو ماننے والی ہوگئی مگر پھر بھی وفات کے وقت جو خیال آپ کو سب سے زیادہ تھا وہ یہی تھا کہ کہیں میرے بعد میری قوم مجھے خدا تعالیٰ کا شریک نہ بنائے اور جس طرح پہلی امتوں نے اپنے انبیاء کوصفات الوہیت سے متصف کیا تھا یہ مجھ سے ویسا ہی سلوک نہ کریں.اس خیال نے آپ پر ایسا اثر کیا کہ آپ نے اپنی مرض الموت میں یہود و نصاری پر لعنت کی کہ انہوں نے اپنے احبار کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارِي اتَّخَذُ وَاقْبُوْرَأَنْبِيَاءِ هِمْ مَسَاجِدَ قَالَتْ لَو لَا ذَلِكَ لَا بُرَزُوا قَبَرَهُ ( بخاری کتاب الجنائز باب ما يكرة من اتخاذ المساجد علی القبور ) آنحضرت سلی لا الہ الم نے اس مرض میں جس میں وفات پائی فرما یا اللہ تعالیٰ یہود اور نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا ہے اور حضرت عائشہ نے یہ بھی زائد کیا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو صحابہ آپ کی قبر کو بند نہ کرتے بلکہ ظاہر کرتے اس حدیث سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ کو شرک سے کیسی نفرت تھی وفات کے وقت سب سے بڑا خیال آپ کو یہ تھا کہ میں عمر بھر جو ایک خدا کی تعلیم دیتا رہا ہوں لوگ اسے بھول نہ جائیں اور میرے بعد پھر کہیں شرک میں مبتلا نہ ہو جا ئیں.اور اگر پہلے معبودوں کو چھوڑا ہے تو اب مجھے ہی معبود نہ بنا بیٹھیں اور اپنے اس نقص کے دور کرنے کے لئے ایسے 99

Page 109

سخت الفاظ استعمال فرمائے جن سے صحابہ کرام ایسے متاثر ہوئے کہ انہوں نے خوف کے مارے آپ کی قبر کو بھی ظاہر کرنا پسند نہ کیا تا آپ کے حکم کے خلاف نہ ہو جائے چنانچہ اب تک وہ قبر مبارک ایک بند مکان میں ہے جس تک جانے کی لوگوں کو اجازت نہیں.طہارت نفس:- آنحضرت صلی اینم کی پاک سیرت پر قلم اٹھا نا کوئی آسان کام نہیں اسی لئے میں نے ابتداء میں ان مشکلات کو بیان کر کے بتایا تھا کہ سیرت تین طرح لکھی جاسکتی ہے.تواریخ سے، احادیث سے، قرآن کریم سے اور میں نے بتایا تھا کہ سر دست میں احادیث سے اور پھر احادیث میں سے بھی جو سیرۃ بخاری سے معلوم ہوتی ہے وہ اس جگہ درج کروں گا.میں نے سیرت کے عام ابواب پر بحث کرنے کے بعد لکھا تھا کہ سیرت انسانی کے تین حصہ ہو سکتے ہیں.ایک وہ جو خدا تعالیٰ سے تعلقات کے متعلق ہو جس کا نام میں نے اخلاص باللہ رکھا تھا اور دوسرا جو خود اپنے نفس کے متعلق ہو اس کا نام طہارت نفس مناسب معلوم ہوتا ہے اور چونکہ اخلاص باللہ کا حصہ میں ختم کر چکا ہوں اس لئے اب دوسرے حصہ کو شروع کیا جاتا ہے جو طہارت نفس کے ہیڈ نگ کے ماتحت ہوگا.بدی سے نفرت : - طہارت نفس کے باب میں سب سے پہلے اس بات کے متعلق شہادت بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت تھی.اگر چہ بظاہر یہ بات کوئی عجیب نہیں معلوم ہوتی اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ کو بدی سے کیوں نفرت نہ ہوتی جب ایک عظیم الشان قوم کے آپ رہبر اور ہادی تھے اور ہر وقت اپنے متبعین کو بدیوں سے روکتے رہتے تھے اور جس کا کام 100

Page 110

رات دن یہی ہو کہ وہ لوگوں کو بدیوں سے رو کے اور امر بالمعروف کرے.اسے تو اپنے اعمال میں بہت محتاط رہنا ہی پڑتا ہے ورنہ اس پر الزام آتا ہے اور لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ تم دوسروں کو منع کرتے ہو اور خود اس کام کو کرتے ہو لیکن اگر غور کیا جائے تو دنیا میں وعظ کہنے والے تو بہت ملتے ہیں مگر ایسے واعظ جو اپنے نمونہ سے دنیا میں نیکی پھیلا میں بہت کم ہیں ایسے واعظ تو اس وقت بھی ہزاروں ہیں جولوگوں کو پاکیزگی اور انقطاع الی اللہ کی طرف بلاتے ہیں.لیکن کیا ایسے لوگوں کی بھی کوئی کثیر جماعت پائی جاتی ہے جو خود عمل کر کے لوگوں کے لئے خضر راہ بنہیں إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ کسی شاعر نے کہا ہے اور بالکل سچ کہا ہے کہ ؎ ہر کسے ناصح برائے دیگراں ہر ایک دوسروں کے لئے ناصح ہے اپنے نفس کا حال بھلائے ہوئے ہے پھر ایک شاعر کہتا ہے واعظان کیں جلوہ برمحراب و منبر میکند - : - چوں بخلوت میروند آن کار دیگر میکنند یہ واعظ جو محراب و منبر پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کے لئے ناصح بنتے ہیں جب خلوت میں جاتے ہیں تو ان کے اعمال بالکل اور ہی ہوتے ہیں اور ان اعمال کا پتہ بھی نہیں چلتا جن کا وعظ وہ منبر پر سے کیا کرتے تھے اس وقت مسلمان علماء کو دیکھو.قرآن شریف کو ہاتھ میں لے کر خشیت الہی کے وعظ بڑے زور سے کہتے ہیں لیکن خود خدا کا خوف نہیں کرتے.پادری انجیل سے یہ روایت لوگوں کو سناتے ہیں کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا اگر کوئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسری بھی پھیر دے لیکن دولتمند پادری موجود ہیں پھر ان میں سے کتنے ہیں جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسری پھیر دینی تو در کنار دوسرے 101

Page 111

مذاہب کے بانیوں کی نسبت بدگوئی میں ابتداء سے ہی بچتے اور پر ہیز کرتے ہوں.پنڈت دان اور پن کے متعلق طول طویل کتھا میں پڑھ کر لوگوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو کسی قسم کے دان پن سے بری سمجھتے ہیں.غرضیکہ جب روزانہ زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر واعظ ایسے ہی ملتے ہیں کہ جو کل پند و نصائح کو دوسروں کے لئے واجب العمل قرار دیتے ہیں مگر اپنے نفوس کو بنی نوع انسان سے خارج کر لیتے ہیں اور ایسے بہت ہی کم ہیں کہ جن کا قول و فعل برابر ہو اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے وقت ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ملامت کرتے جائیں بلکہ لوگوں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں.پس گو یہ بات بظاہر بالکل معمولی معلوم ہوتی ہے کہ واعظ تو بدیوں سے بچتے ہی ہوں گے لیکن دراصل یہ ایک نہایت مشکل اور کٹھن راستہ ہے جس پر چل کر بہت کم لوگ ہی منزل مقصود کو پہنچتے ہیں اور ابتداء دنیا سے آج تک جس قدر واعظ ایسے گزرے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دوسروں کو کہا اس پر خود بھی عامل ہوئے ان کے سردار اور رئیس ہمارے آنحضرت صلی لا الہ ستم تھے آپ کی ساری زندگی میں ایک بات بھی ایسی نہیں ملے گی کہ آپ کی اور دوسروں کی مصلحتیں ایک ہی ہوں مگر پھر بھی آپ نے دوسروں کو اور حکم دیا ہو اور اپنے لئے کچھ اور ہی تجویز کر لیا ہو.بعض اوقات خود صحابہ چاہتے تھے کہ آپ آرام فرما ئیں اور اس قدر محنت نہ کریں لیکن آپ قبول نہ فرماتے.اگر لوگوں کو عبادت النبی کا حکم دیتے تو خود بھی کرتے اگر لوگوں کو بدیوں سے روکتے تو خود بھی رکتے غرضیکہ آپ نے جس قدر تعلیم دی ہے ہم بغیر کسی منکر کے انکار کے خوف کے کہہ سکتے ہیں کہ اس پر آپ خود عامل تھے اور شریعت اسلام کے جس قدر احکام آپ کی ذات پر وارد ہوتے تھے سب کو نہایت کوشش اور تعہد کے ساتھ بجالاتے مگر (102)

Page 112

اس وقت جس بات کی طرف خاص طور سے میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ بدی سے نفرت ہے.اعمال بد تو انتہائی درجہ ہے ادنی درجہ تو بد اخلاقی اور بد کلامی ہے جس کا انسان مرتکب ہوتا ہے اور جب اس پر دلیر ہو جاتا ہے تو پھر اور زیادہ جرات کرتا ہے اور بداعمال کی طرف راغب ہوتا ہے لیکن جو شخص ابتدائی نقائص سے ہی پاک ہو وہ دوسرے سخت ترین نقائص اور کمزوریوں میں کب مبتلا ہو سکتا ہے اور میں انشاء اللہ تعالیٰ آگے جو کچھ بیان کروں گا اس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کیسے پاک تھے اور کس طرح ہر ایک نیکی میں آپ دوسرے بنی نوع پر فائق و برتر تھے.حضرت عبد اللہ بن عمر و فرماتے ہیں لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِشًا وَ كَانَ يَقُوْلُ إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ اَخْلَاقًا ( بخاری کتاب المناقب باب صفة النبي ) نبی کریم سالی یہ کام نہ بدخلق تھے نہ بدگو اور فرمایا کرتے تھے کہ تم میں بہتر وہی ہیں جو تم سے اخلاق میں افضل ہوں.اللہ اللہ کیا پاک وجود تھا.آپ حسن اخلاق برتتے تب لوگوں کو نصیحت کرتے.آپ بد کلامی سے بچتے تب دوسروں کو بھی اس سے بچنے کے لئے حکم دیتے اور یہی وہ کمال ہے کہ جس کے حاصل ہونے کے بعد انسان کامل ہو سکتا ہے اور اس کی زبان میں اثر پیدا ہوتا ہے اب لوگ چلا چلا کر مر جاتے ہیں کوئی سنتا ہی نہیں.نہ ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے نہ کوشش میں برکت.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود عامل نہیں ہوتے لوگوں کو کہتے ہیں مگر رسول کریم خود عامل ہو کر لوگوں کو تبلیغ کرتے جس کی وجہ سے آپ کے کلام میں وہ تاثیر تھی کہ تیس سال میں لاکھوں آدمیوں کو اپنے رنگ میں رنگین کر لیا.(103)

Page 113

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس قول اور شہادت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اول تو وہ ہر وقت رسول کریم کی صحبت میں رہتے تھے اور جو اکثر اوقات ساتھ رہے اسے بہت سے مواقع ایسے مل سکتے ہیں کہ جن میں وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس شخص کے اخلاق کیسے ہیں.کبھی کبھی ملنے والا تو بہت سی باتیں نظر انداز بھی کر جاتا ہے بلکہ کسی بات پر بھی یقینی شہادت نہیں دے سکتا.لیکن جنہیں ہر وقت کی صحبت میسر ہو اور ہر مجلس میں شریک ہوں وہ خوب اچھی طرح اخلاق کا اندازہ کر سکتے ہیں پس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے جنہیں رسول کریم کے ساتھ رہنے کا خاص موقع ملتا تھا اور جو آپ کے کلام کے سننے کے نہایت شائق تھے ان کا ایسی گواہی دنیا ثابت کرتا ہے کہ درحقیقت آپ کوئی ایسی شان رکھتے تھے کہ عسرویسر میں اپنے اخلاق کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتے تھے.ورنہ کبھی تو آپ کے ہر وقت کے ہم صحبتوں کو ایسا موقع بھی پیش آتا کہ جس میں آپ کو کسی وجہ سے چیں بہ جبیں دیکھتے لیکن ایسے موقع کا نہ ملنا ثابت کرتا ہے کہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ اور ا رفع تھے اور کوئی انسان ان میں نقص نہیں بتا سکتا تھا.ایک طرف اگر عبداللہ بن عمرو کی گواہی جو اعلیٰ پایہ کے صحابہ میں سے تھے نہایت معتبر اور وزنی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی خاص طور سے مطالعہ کرنے کے قابل ہے کہ یہ فقرہ کس شخص کی شان میں کہا گیا ہے معمولی حیثیت کے آدمی کی نسبت اور معمولی واقعات کی بناء پر اگر اس قسم کی گواہی کسی کی نسبت دے بھی دی جائے تو گو اس کے اخلاق اعلیٰ سمجھے بھی جائیں مگر اس شہادت کو وہ اہمیت نہیں دی جاسکتی جو اس شہادت کو ہے اور وہ شہادت ایک معمولی انسان کے اخلاق کو ایسا روشن کر کے نہیں دکھاتی جیسی کہ یہ شہادت رسول کریم صلی ایم کے اخلاق کو کیونکہ یہ اخلاق جن واقعات کی موجودگی میں دکھائے گئے ہیں وہ کسی 104

Page 114

اور انسان کو پیش نہیں آتے.دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں ایک وہ جو عسر میں نہایت بدخلق ہو جاتے ہیں دوسرے وہ جو ئیسر میں چڑ چڑے بن جاتے ہیں.رسول کریم پر یہ دونوں حالتیں اپنے کمال کے ساتھ وارد ہوئی ہیں اور دونوں حالتوں میں آپ کے اخلاق کا اعلیٰ رہنا ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو تکلیفیں اور دکھ آپ کو پہنچے ہیں وہ اور کونسا انسان ہے جسے پہنچے ہوں مکہ کی تیرہ سالہ زندگی کے حالات سے کون نہیں واقف ، مدینہ کے ابتدائی ایام سے کون بے خبر ہے، کن شدائد کا آپ کو سامنا ہو ا، کن مشکلات سے پالا پڑا ، دوست دشمن ناراض تھے.رشتہ دار جواب دے بیٹھے، اپنے غیروں کی نسبت زیادہ خون کے پیاسے ہو رہے تھے ، ملنا جلنا قطعا بند تھا، ایک وادی میں تین سال محصور رہنا پڑا ، نہ کھانے کو نہ پینے کو جنگل کے درخت اور بوٹیاں غذا بنیں ،شہر میں آنا منع ہو گیا، پھر چمکتی ہوئی تلواریں ہر وقت سامنے نظر آتی تھیں، رؤساء سے قیام امن کی امید ہوتی وہ بھی مخالف ہو گئے ، بلکہ نوجوانوں کو اور اکسا اکسا کر دکھ دینے پر مائل کرتے رہے، باہر نکلتے ہیں تو گالی گلوچ تو کچھ چیز ہی نہیں پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے، اپنے رب کے حضور گرتے ہیں تو اونٹ کی اوجھڑی سر پر رکھ دی جاتی ہے، حتی کہ وطن چھوڑ دیتے ہیں.پھر وطن بھی وہ وطن جس میں ہزاروں سال سے قیام تھا، اپنے جدا مسجد کے ہاتھوں سے بسایا ہو ا شہر جس کو دنیا کے ہزاروں لالچوں کے باوجود آباء واجداد نے نہ چھوڑ ا تھا، ایک شریروں اور بد معاشوں کی جماعت کے ستانے پر چھوڑنا پڑتا ہے، مدینہ میں کوئی راحت کی زندگی نہیں ملتی بلکہ یہاں آگے سے بھی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایک طرف منافق ہیں کہ خود آپ کی مجلس میں آکر بیٹھتے ہیں اور بات بات پر سنا سنا کر طعنہ دیتے ہیں، آپ کے سامنے آپ کے (105)

Page 115

خلاف سرگوشیاں کرتے ہیں.ممکن سے ممکن طریق پر ایذاء دیتے ہیں اور پھر جھٹ تو بہ کر کے عفو کے طالب ہوتے ہیں ، اپنے مہر بان اہل وطن مکہ سے اخراج کے منصوبوں پر ہی کفایت نہیں کرتے جب دیکھتے ہیں کہ جسے ہم تباہ کرنا چاہتے تھے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اور اب ایک اور شہر میں جا بسا ہے تو وہاں بھی پیچھا کرتے ہیں ، آس پاس کے قبیلوں کو اکساتے ہیں، اور اپنے ساتھ شریک کر کے دگنی طاقت سے اسے مٹانا چاہتے ہیں، یہود و نصاریٰ اہل کتاب تھے ان پر کچھ امید ہو سکتی تھی وہ بغض و حسد کی آگ میں جل مرتے ہیں اور امی اور مشرک اقوام سے بھی زیادہ بغض و عناد کا اظہار کرتے ہیں، پڑھے ہوؤں کی شرارتیں بھی کہتے ہیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں انہوں نے نہ صرف خود مقابلہ شروع کیا بلکہ دور دور تک آپ کی مخالفت کا بیج بونا شروع کیا نصاری بدحواس ہو کر قیصر روم کی چوکھٹ پر جبین نیاز گھنے گئے تو یہودا اپنی سازشوں کے پیٹھ ٹھونکنے والے ایرانیوں کے دربار میں جافریادی ہوئے کہ اللہ اس اٹھتی ہوئی طاقت کو دباؤ کہ گو بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے مگر انداز کہے دیتے ہیں کہ چند ہی سال میں تمہارے تختوں کو الٹ دے گی اور عنان حکومت تمہارے ہاتھوں سے چھین لے گی.یہ سب ستم و قہر کس پر تھے ایک ایسے انسان پر جو دنیا کی اصلاح اور ترقی کے سوا کوئی اور مطلب ہی نہ رکھتا تھا جس کے کسی گوشہ دماغ میں ملک گیری کے خیالات نہ تھے جو اپنا قبلہ تو جہ خدا تعالیٰ کی وحدت کے قیام کو بنائے بیٹھا تھا.پھر کس جماعت کے خلاف یہ دیو ہیکل طاقتیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں جو اپنی مجموعی تعداد میں جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے چند ہزار سے زیادہ نہ تھی.اب ان تکالیف میں ایک قابل سے قابل حوصلہ مند سے حوصلہ مند انسان کا گھبرا جانا اور چڑ چڑاہٹ کا اظہار کرنا اور بدخلقی دکھانا بالکل قرین قیاس ہوسکتا ہے لیکن ان واقعات کی بناء پر بھی عبداللہ بن عمرو 106

Page 116

کہتے ہیں کہ آپ لَمْ يَكُنْ فَاحِشَاوَ لَا مُتَفَحِشًا.نہ بدخلق تھے نہ بد گو تھے.اگر کہو کہ ایک جماعت ایسی بھی تو ہوتی ہے جس کے اخلاق بجائے تکالیف کے خوشی کے ایام میں بگڑتے ہیں تو خوشی کی گھڑیاں بھی آپ نے دیکھی ہیں.آپ خدا کے رسول اور اس کے پیارے تھے یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نا کام دنیا سے اٹھالیتا وفات سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ دے دیا اور دشمن جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اسی سرعت سے پیچھے ہٹنے لگا.قیصر وقصری تو بے شک آپ کی وفات کے بعد تباہ ہوئے اور آپ کے غلاموں کے ہاتھوں ان کا غرور ٹوٹا لیکن کفار عرب جماعت منافقین یہود و نصاریٰ کے وہ قبائل جو عرب میں رہتے تھے وہ تو آپ کے سامنے آپ کے ہاتھوں سے نہایت ذلت سے ٹھوڑیوں کے بل گرے اور سوائے اس کے کہ طلبگار عفو ہوں اور کچھ نہ بن پڑا.اس بیکسی او بے بسی کے بعد جس کا نقشہ پہلے کھینچ چکا ہوں بادشاہت کی کرسی پر آپ فروکش ہوئے اور سب دشمن پامال ہو گئے.مگر باوجودان فاتحانہ نظاروں کے ان ایام ترقی کی ان ساعات بہجت و فرحت کے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ لَمْ يَكُنُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشَاوَ لَا مُتَفَحَشَا نبی کریم صلی شما ایلم نہ بد اخلاق تھے نہ بدگو.ایک پاک دھا:.میں عبد اللہ بن عمرو کی شہادت سے بتا چکا ہوں کہ آنحضرت کو بدی سے کیسی نفرت تھی اور بدی کرنا یا بدخلقی کا اظہار کرنا تو الگ رہا آپ بد کلامی اور بدگوئی تک سے محتر ز تھے اور باوجود ہر قسم کے عسرویس میں سے گزرنے کے کسی وقت اور کسی حال میں بھی آپ نے نیکی ور تقوی کو نہیں چھوڑا اور آپ کے منہ پر کوئی ناز یبالفظ کبھی نہیں آیا جو ایک عظیم الشان معجزانہ طاقت کا ثبوت ہے جو آپ کے ہر کام میں اپنا جلوہ دکھا رہی تھی.(107)

Page 117

اب میں ایک اور ثبوت پیش کرتا ہوں کہ آپ بدی اور ظلمت سے سخت متنفر تھے اور آپ کے دل کے ہر گوشہ میں نور ایمان متمکن تھا اور وہ ثبوت آپ کی ایک دعا ہے جو آپ کے دلی جذبات کی مظہر ہے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ آپ صبح کی سنتوں کے بعد یہ دعا مانگتے.اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِی نُورًا وَفِي بَصَرِئ نُوْرًا وَفِىٰ سَمْعِيَ نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِيْ نُورًا وَعَنْ يَسَارِئٍ نُورًا وَفَوْقِىٰ نُوْرًا وَتَحْتِى نُورًا وَ أَمَا مِيَ نُورًا وَخَلْفِىٰ نُوْرًا وَاجْعَلْ لَّىٰ نُوْرًا (بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذ انتبه من الليل ) یعنی اے اللہ میرے دل کو نور سے بھر دے اور میری آنکھوں کو نورانی کر دے اور میرے کانوں کو بھی نور سے بھر دے اور میری دائیں طرف بھی نور کر دے اور بائیں طرف بھی اور میرے اوپر بھی نور کر دے اور نیچے بھی نور کر دے.اور نور کو میرے آگے بھی کر دے اور پیچھے بھی کر دے.اور میرے لئے نور ہی نور کر دے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی ایتم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سننے کا اتفاق مجھے اس طرح ہوا کہ میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن سو یا جو رسول کریم کی ازواج مطہرات میں سے تھیں اور میں نے رسول کریم صلی یا پہ تم کو دیکھا کہ اس طرح دعا مانگتے تھے اور نماز پڑھتے تھے.پس یہ دعا ایسے خلوت کے وقت کی ہے کہ جس وقت انسان اپنے خدا سے آزادی کے ساتھ اپنا حال دل عرض کرتا ہے.اور اگر چہ خدا تعالیٰ پہلے ہی سے انسان کے خفیہ سے خفیہ خیالات کو جانتا ہے پھر بھی چونکہ فطرت انسانی اسے عرض حال پر مجبور کرتی ہے اس لئے بہتر سے بہتر وقت جس وقت انسان کی حقیقی خواہشات کا علم ہو سکتا ہے وہ وقت ہے کہ جب وہ سب دنیا سے علیحدہ ہو کر اپنے گھر میں اپنے رب سے عاجزانہ التجا کرتا ہے کہ میری فلاں فلاں خواہش کو پورا کر دیں یا فلاں فلاں انعام مجھ پر فرما دیں.غرض کہ یہ دعا ایسے وقت کی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کے سوا آپ کا محرم راز اور کوئی نہ تھا 108

Page 118

اور صرف ایک نابالغ بچہ اس وقت پاس تھا اور وہ بھی اپنے آپ کو علیحد رکھ کر چپکے چپکے آپ کے اعمال و حرکات کا معائنہ کر رہا تھا.اب اس دعا پر نظر ڈالو کہ یہ کس طرح آپ کے تقویٰ اور طہارت پر روشنی ڈالتی ہے.میں بتا چکا ہوں کہ آپ ہر ایک قسم کی بدکلامی و بدگوئی، بد اخلاقی اور بد اعمالی سے پاک تھے اور یہی نہیں کہ پاک تھے بلکہ آپ کو بدی سے سخت نفرت اور نور اور نیکی اور تقویٰ سے پیار تھا اور یہی انسانی کمال کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ہے یعنی وہ بدی سے بچے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرے.ظلمت سے متنفر ہو اور نور سے محبت رکھے مگر اس حدیث سے پچھلی حدیث پر اور بھی روشنی پڑ جاتی ہے کیونکہ پچھلی حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا تھا کہ آپ بدی سے متنفر تھے مگر اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فعل بالا رادہ تھا عادتاً نہ تھا اور یہ اور بھی کمال پر دلالت کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے کام انسان عادتا کرتا ہے یا فطرتا بعض کاموں کی طرف راغب ہوتا ہے اور بعض سے بچتا ہے بہت سے لوگ دنیا میں دیکھے جاتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے یا چوری نہیں کرتے.اور ان کے جھوٹ سے بچنے یا چوری نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ جھوٹ سے دل میں سخت متنفر ہیں یا چوری کو برا جانتے ہیں بلکہ ان کا یہ کام صرف ان کی نیک فطرت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ صرف عادت کے نہ ہونے کی وجہ سے ان بدیوں سے بچتے ہیں.اگر ان کی عادت انہیں ڈال دی جائے تو وہ ان افعال کے مرتکب بھی ہو جائیں.ایسا ہی بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی وجہ سے رحم مادر سے ہی ان کے غصہ یا غضب کی صفت میں ضعف آچکا ہوتا ہے اور وہ باوجود سخت سے سخت اسباب طیش انگیز کے کبھی اظہار غضب نہیں کرتے بلکہ ان کا دل غیرت وحیا کے جذبات سے بالکل خالی ہو چکا ہوتا ہے.یہ لوگ اگر چہ نرم دل کہلائیں گے لیکن ان (109

Page 119

کا غضب سے بچنا ان کی صفات حمیدہ میں سے نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ ان کا کمال نہیں بلکہ قدرت نے ہی انہیں ان جوشوں سے مبر ارکھا ہے.لیکن ایک ایسا انسان جو غضب سے صرف اسوجہ سے بچتا ہے کہ وہ اسے برا جانتا ہے اور رحم سے محبت رکھتا ہے اور باوجود اس کے کہ اسے طیش دلایا جائے اپنے جوشوں کو قابو میں رکھتا ہے وہ تعریف کے لائق ہے اور پھر و شخص اور بھی قابل قدر ہے کہ جس کے افعال اس سے بالا رادہ سرزد ہوتے ہیں نہ خود بخود.رسول کریم صلی یا یہ تم کا اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنا کہ یا اللہ مجھے ظلمت سے بچا کر نور کی طرف لے جا اور بدی سے مجھے بچالے ثابت کرتا ہے کہ آپ کا بد کلامی یا بداخلاقی سے بچنا اس تقویٰ کے ماتحت تھا جس سے آپ کا دل معمور تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگتے تھے ورنہ جو لوگ نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی فطرت کی وجہ سے بعض گناہوں سے بچے ہوئے ہوتے ہیں وہ ان سے بچنے کی دعا یا خواہش نہیں کیا کرتے کیونکہ ان کے لئے ان اعمال بد کا کرنا نہ کرنا برا بر ہوتا ہے اور ان سے احتراز صرف اس لئے ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش میں ہی کسی نقص کی وجہ سے بعض جذبات میں کمی آجاتی ہے جن کے استعمال سے خاص خاص بدیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اس بات کے ثابت کرنے کے بعد کہ آنحضرت صلی ایلام کے تمام اعمال بالا رادہ تھے اور اگر کسی کام سے آپ بچتے تھے تو اسے برا سمجھ کر اس سے بچتے تھے نہ کہ عادتا اور اگر کوئی کام آپ کرتے تھے تو اسی لئے کہ آپ اسے نیک سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے.اب میں اس دعا کی تشریح کرنی چاہتا ہوں تا معلوم ہو کہ آپ کے بدی سے تنفر اور نیکی سے عشق کا درجہ کہاں تک بلند تھا.انسان جو کرتا ہے اس کی اصل وجہ اس کے دل کی ناپاکی اور عدم طہارت ہوتی ہے.اگر دل پاک ہو تو گناہ بہت کم سرزد ہوسکتا (110

Page 120

ہے کیونکہ پھر جو گناہ ہوگا وہ غلطی سے ہوگا یا نامنہمی سے نہ کہ جان بوجھ کر.ہاں جب دل گندہ ہو جائے تو اس کا ثر جو روح پر پڑتا ہے اور وہ قسم قسم کے گناہوں کا ارتکاب شروع کر دیتے ہیں.ایک چور بے شک اپنے ہاتھ سے کسی کا مال اٹھاتا ہے لیکن دراصل ہاتھ ایک باطنی حکم کے ماتحت ہو کر کام کر رہا ہے اور اصل باعث وہ دل کی حرص ہے جس نے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ غیر کا مال اٹھا لے.اسی طرح اگر ایک جھوٹا جھوٹ بولتا ہے تو گوخلاف واقعہ کلمات اس کی زبان پر ہی جاری ہوتے ہیں لیکن نہیں کہہ سکتے کہ زبان نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ دل کے اشارہ پر کام کرتی ہے اور اسے جس طرح اس کا حکم پہنچا اس نے کام کر دیا.اسی لئے رسول اللہ صلی ا یہ ہم نے فرمایا کہ اَلَا وَانَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ ( بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدينه ) جسم انسان میں ایک لوتھڑا ہے کہ جب وہ درست ہو جائے تو سب جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سب جسم بگڑ جاتا ہے.خبر دار ہوکر سنو کہ وہ دل ہے.پس دل کے نیک ہونے سے جوارح سے بھی نیک اعمال ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے خراب ہو جانے سے ہاتھ پاؤں آنکھیں کان اور زبان سب خراب ہو جاتے ہیں.اسی وجہ سے آنحضرت سائنسی ایم نے اپنی دعا میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ النبی میرے دل میں نور بھر دے.جب دل میں نور بھرا گیا تو پھر ظلمت کا گزر کیونکر ہو سکتا ہے اور گناہ ظلمت سے ہی پیدا ہوتے ہیں.جس طرح گناہ دل سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح دل کو خراب کرنے کے لئے کوئی بیرونی سامان ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے دل اپنی اصل حالت سے نکل جاتا ہے اس لئے رسول کریم مائی لی یہ تم نے دل میں نور بھرنے کی درخواست کے بعد دعا فرمائی کہ (111)

Page 121

جن ذریعوں سے قلب انسانی بیرونی اشیاء سے متاثر ہوتا ہے ان میں بھی نور ہی بھر دے یعنی آنکھوں اور کانوں کو نورانی کر دے.میری آنکھیں کوئی ایسی بات نہ دیکھیں کہ جس کا دل پر خراب اثر پڑے.نہ کان وہ باتیں سنے جن سے دل بدی کی طرف مائل ہو.پھر اس سے بڑھ کر آپ نے یہ سوچا کہ کان اور آنکھیں بھی تو آخر وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے اردگرد ہوتا ہے.اگر اردگرد ظلمت کے سامان ہی نہ ہوں اور بدی کی تحریک اور میلان پیدا کرنے والے ذرائع ہی مفقود ہوں تو پھر انہوں نے دل پر کیا خراب اثر ڈالنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللَّهُمَّ اجْعَلْ عَنْ يَمِينِى نُورًا وَيَسَا رِىٰ نُورًا وَفَوْقِيَ نُورًا وَتَحْتِيَ نُورًا وَأَمَا مِن نُورًا وَخَلْفِى نُورًا ( بخاری کتاب الدعوات باب الدعاا ذانتبه من الليل) اے اللہ میری بینائی اور شنوائی کو نور سے منور کر کے یہ بھی کر کہ میرے دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے جہات ستہ میں نور ہی نور ہو جائے اور جن باتوں سے آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ دل پر برا اثر پڑتا ہے وہی میرے اردگرد سے فنا ہو کر ان کی بجائے تقویٰ اور طہارت کے پیدا کرنے والے نظارے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیں.پھر اس خیال سے کہ پوشیدہ در پوشیدہ ذرائع سے بھی دل ملوث ہوتا ہے.فرمایا کہ وجعن ٹی نُورا میرے لئے نور کے دروازے کھول دے ظلمت سے میرا کچھ تعلق ہی نہ رہے نور ہی سے میرا اواسطہ ہو اس دعا کو پڑھ کر ہر ایک تعصب سے کو را آدمی سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی یا پیام بدیوں سے کیسے متنفر تھے.شفقت على النفس بہت سے انسان اپنی حماقت سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان کر لیتے ہیں اور اپنے نزد یک جسے خوبی سمجھتے ہیں وہ دراصل برائی ہوتی ہے اور اس پر عامل ہو کر تکلیف اٹھاتے ہیں.بہت سے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کو خوامخواہ کی مشقت میں ڈال کر ا (112)

Page 122

تکلیف دیتے ہیں اور اسے فخر سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ جانتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنا کوئی آسان امر نہیں پہلے انسان پوری طرح سے اپنے نفس کو مارے اور اپنے ہر فعل اور قول کو اس کی رضا کے مطابق بنائے اپنی خواہشات کو اس کے لئے قربان کر دے.اپنی آرزوؤں کو اس کے منشا کے مقابلہ میں مٹا دے.اپنے ارادوں کو چھوڑ دے.اس کی خاطر ہر ایک دکھ اور تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جائے.اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی خاک عظمت نہ سمجھے اور جس چیز کے قرب سے اس سے دوری ہوا سے ترک کر دے.اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے بچائے تب ہی انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکتا ہے اور جب اس کا فضل نازل ہو تو اس کی رحمت کے دروازے خود بخو دکھل جاتے ہیں اور وہ ان اسرار کا مشاہدہ کرتا ہے جو اس سے پہلے اس کے واہمہ میں بھی نہیں آتے تھے اور یہ حالت انسان کے لئے ایک جنت ہوتی ہے جسے اسی دنیا میں حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا ایسے ایسے رنگ میں مطالعہ کرتا ہے کہ عقل حیران ہو جاتی ہے اور جنت کی تعریف ان کشوف پر صادق آتی ہے کہ مَا لَا عَيْنَ رَأَتْ وَلَا أُذُنْ سَمِعَت لیکن باوجود اس بات کے پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ مشقت اٹھانے سے حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے انسان اپنی عمر کو رائیگاں کر دیتے ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچتے.اہل ہنود میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اپنے ہاتھ سکھا دیتے ہیں.ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو سردیوں میں پانی میں کھڑے رہتے ہیں اور گرمیوں میں اپنے اردگرد آگ جلا کر اس کے اندر اپنا وقت گزارتے ہیں.ایسے بھی ہیں کہ جو سارا دن سورج کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہتے ہیں اور جدھر سورج پھرتا جائے ان کی نظر اس کے ساتھ پھرتی جاتی ہے.پھر ایسے بھی ہیں جو نجاست اور گندگی کھاتے ہیں مردوں کا گوشت کھاتے (113)

Page 123

ہیں.غرض کہ طرح طرح کی مشقتوں اور تکالیف کو برداشت کرتے ہیں اور ان کام منشا یہی ہوتا ہے کہ وہ خدا کو پالیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ بجائے روحانیت میں ترقی کرنے کے اور گرتے جاتے ہیں.مسیحیوں میں بھی ایک جماعت پادریوں کی ہے جو نہانے سے پر ہیز کرتی ہے.نکاح نہیں کرتی.صوف کے کپڑے پہنتی اور بہت اقسام طیبات سے محتر ز رہتی ہے لیکن اسے وہ نور قلب عطا نہیں ہوتا جس سے سمجھا جائے کہ خدا تعالیٰ انہیں حاصل ہو گیا بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق عام مسیحیوں کی نسبت گرے ہوئے ہوتے ہیں.مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سارا سال روزہ رکھتے ہیں اور ہمیشہ روزہ سے رہتے ہیں حالانکہ رسول کریم سال نیا ہی ہم نے دائمی روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے پھر بعض لوگ طیبات سے پر ہیز کرتے ہیں.اپنے نفس کو خواہ مخواہ کی مشقتوں میں ڈالتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی کمال حاصل نہیں ہوتا.غرض کہ جس طرح بغیر محنت و کوشش کے خدا تعالیٰ نہیں ملتا اسی طرح اپنے نفس کو بلا فائدہ مشقت میں ڈالنے سے بھی خدا نہیں ملتا بلکہ الٹا نقصان پہنچ جاتا ہے.میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جنہوں نے اول اول تو شوق سے سخت سے سخت محنت اٹھا کر بعض عبادات کو بجالا نا شروع کیا اور اپنے نفس پر وہ بوجھ رکھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا اور آخر تھک کر ایسے چور ہوئے کہ عبادات تو کجا خدا تعالیٰ کی ہستی سے ہی منکر ہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر کوئی خدا ہوتا تو ہماری ان محنتوں کو ضائع کیوں کرتا ہم تو اس کوشش و محنت سے ورد وظائف کرتے رہے لیکن وہاں سے ہمیں کچھ اجر بھی نہیں ملا اور آسمان کے دروازے چھوڑ آسمان کی کو ئی کھڑکی بھی ہمارے لئے نہیں کھلی.اور جب یہ شکوک ان کے دلوں میں پیدا ہونے شروع ہوئے تو وہ گناہوں پر دلیر ہو گئے اور وعظ و پند کو بناوٹ سمجھ لیا اور خیال کر لیا کہ ہم سے پہلے جولوگ گزرے ہیں (114)

Page 124

وہ بھی ہماری ہی طرح تھے اور نعوذ باللہ ان کے دل ہماری طرح ہی تاریک تھے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے.ان واقعات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بے فائدہ مشقت بھی خطرناک ہوتی ہے اور نفس کو ایسے ابتلاؤں میں ڈالنا کہ جو غیر ضروری ہیں بجائے فائدے کے مہلک ثابت ہوتا ہے.اسی لئے آنحضرت مایا یہ تم جو تمام دنیا کے لئے رحمت ہو کر آئے تھے اپنے صحابہ کو روکتے تھے کہ وہ اپنے نفوس کو حد سے زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں چنانچہ لکھا ہے کہ ایک صحابی ایک دوست کے ہاں گئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ سارا دن روزہ رکھتا اور رات کو تہجد میں وقت گزارتا ہے.اس پر انہوں نے انہیں ڈانٹا جس پر یہ معاملہ آنحضرت سلی ایام کے پاس پہنچا آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک ڈانٹا کیونکہ انسان پر بہت سے حقوق ہیں ان کا پورا کرنا اس کے لئے ضروری ہے.خود آنحضرت کا عمل ثابت کرتا ہے کہ آپ ہمیشہ احکام الہی کے پورا کرنے میں چست رہتے اور ایسے جوش کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے کہ جو ان جوان صحابہ آپ کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے جیسا کہ میں باتفصیل آپ کی عبادت کے ذکر میں لکھ آیا ہوں لیکن باوجود اس کے آپ آسان راہ کو قبول کرتے اور اپنے نفس کو بے فائدہ دکھ نہ دیتے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت تک عبادت کرو جب تک دل ملول نہ ہو جائے.حضرت عائشہ آپ کے اعمال کی نسبت فرماتی ہیں مَا خَیرَ رَسُوْلُ اللَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَالَمْ يَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ ( بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة النبی ﷺ ) رسول اللہ مالی ایم کو کسی دو باتوں میں اختیار نہیں دیا گیا مگر آپ نے اسے قبول کیا جو دونوں میں سے آسان تر تھی بشر طیکہ گناہ نہ ہو اور اگر کسی کام میں گناہ ہوتا تو سب رض (115)

Page 125

لوگوں سے زیادہ آپ اس سے بچتے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آسان راہ کو اختیار کیا کرتے تھے اور تکلیف میں اپنے آپ کو نہ ڈالتے.ایک خیال جو اس حدیث سے پیدا ہو سکتا تھا کہ گویا آپ خدا کے راستہ میں مشقت نہ برداشت کر سکتے تھے (نعوذ باللهِ مِنْ ڈلگ) اس کا رد بھی خود حضرت عائشہ نے فرما دیا کہ یہ بات اس وقت تک تھی کہ جہاں دین کا معاملہ نہ ہو.اگر کسی موقع پر آسانی اختیار کرنا دین میں نقص پیدا کرتا ہو تو پھر آپ سے زیادہ اس آسانی کا دشمن کوئی نہ ہوتا.یہ وہ کمال ہے جس سے آپ کی ذات تمام انبیاء پر فضیلت رکھتی ہے کہ وہ اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے لیکن آپ ہر رنگ میں کامل تھے.کوئی پہلو بھی تو انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس میں آپ دوسروں سے پیچھے ہوں یا ان کے برابر ہوں.ہر بات میں کمال ہے اور دوسروں سے بڑھ کر قدم مارا ہے اور ہر خوبی کو اپنی ذات میں جمع کر لیا ہے.بے شک بہت سے لوگ ہیں کہ جو اپنی جان کو آرام میں رکھتے ہیں مگر خدا کو ناراض کرتے ہیں.لوگوں کو خوش کرتے ہیں.بعض خدا کو راضی کرنے کی کوشش میں اپنے نفس کو ایسے مصائب میں ڈالتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب بھی نصیب نہیں ہوتا اور آگے سے بھی گمراہ ہوتے جاتے ہیں مگر میرا پیار ابادی تو ساری دنیا کے لئے ہادی ہو کر آیا تھا وہ کسی خاص طرز یا مذاق کے لوگوں کا رہبر نہ تھا.ہر ملک اور قوم کے آدمی اسکی غلامی میں آئے تھے اس نے اپنے اخلاق کا ایک ایسا بے لوث اور مکمل نمونہ دکھا یا ہے کہ کوئی آدمی اس کی غلامی میں آئے ناکام و نامراد نہیں رہتا بلکہ اپنے کامل دلی مقصد اور مدعا کو پالیتا ہے.در حقیقت تعصب کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھا جائے تو آپ کی یہ صفت ایک ایسی حکیمانہ صفت تھی کہ اس پر جس قدر غور کیا جائے اس کے فوائد زیادہ روشن ہوتے جاتے (116)

Page 126

ہیں.ایک ہی نسخہ ہوتا ہے جسے طبیب بھی بتاتا ہے اور ایک بڑھیا بھی بتاتی ہے لیکن وہ طبیب تو حکمت کی بناء پر اسے تجویز کرتا ہے اور بڑھیا صرف اس وجہ سے کہ اس کے کسی رشتہ دار کو کبھی اس سے فائدہ پہنچا تھا.یہی فرق روحانیت کے مدارج میں بھی ہوتا ہے.بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کوشش کرتے ہیں مگر ان کے افعال کی بناء جہالت پر ہوتی ہے اور وہ حکمت سے کام نہیں لیتے مگر رسول کریم صلی ایام کے تمام کاموں کی بناء علم پر تھی.آپ خوب جانتے تھے کہ کسی چیز سے اپنی طاقت سے زیادہ کام لینے کے یہ معنے ہیں کہ اسے ہمیشہ کے لئے کام سے معطل کر دیا جائے.اس لئے آپ اپنے قومی کو برحل اور بر موقع استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ سب مقابلہ کرنے والوں سے آگے نکل گئے اور کوئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جو آپ سے آگے نکلنا تو کجا آپ کی برابری بھی کر سکے.اللَّهُمَّ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وقار :- وقار ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں عالی حوصلگی چلم اور بڑائی ، چونکہ لوگ عام طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے اس کے معانی سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے معنے کردوں تا کہ ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ جب میں وقار کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو اس سے میری مراد کیا ہوتی ہے.چونکہ عام طور سے یہ لفظ اردو میں عزت کے معنے میں استعمال ہونے لگا ہے اور عام لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑے وقار والا ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بڑی عزت والا ہے یا معزز ہے لیکن در اصل اس لفظ سے گو بڑائی اور عزت کے معنی نکلتے ہیں لیکن اس سے مراد نفس کی بڑائی ہوتی ہے یعنی جس شخص میں چھچھورا پن، کمینگی اور ہلکا پن نہ ہو.ذرا ذراسی بات پر چڑ نہ (117)

Page 127

جائے لوگوں کی باتیں سنکر ان پر حوصلہ نہ ہار دے.مخالف کی باتوں کو ایک حد تک برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو.اسے صاحب وقار کہیں گے.اور جور ذیل لوگوں کی صحبت میں رہتا ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑ جاتا ہو، ذرا ذراسی تکلیف پر گھبرا جاتا ہو، چھوٹے چھوٹے مصائب پر ہمت ہار بیٹھتا ہو وہ صاحب وقار نہیں ہوگا.خواہ اسکے پاس کتنی ہی دولت ہو اور کیسے ہی عظیم الشان عہدہ پر مقرر ہو.پس گو وقار کے معنوں میں عظمت اور بڑائی بھی ہے مگر میری اس جگہ وقار سے وہی مراد ہے جو میں نے پہلے بیان کر دی ہے..آنحضرت صلی لا سلیم کو جو عہدہ اور شان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی وہ دنیا وی بادشاہوں سے کسی صورت میں کم نہ تھی اور گو آپ خود اپنے زہد وتقویٰ کی وجہ سے اپنی عظمت کا اظہار نہ کرتے ہوں لیکن اسمیں کچھ شک نہیں کہ آپ ایک بادشاہ تھے اور تمام عرب آپ کے ماتحت ہو گیا تھا اور اگر آپ ان سب طریقوں کو اختیار کر لیتے جو اس وقت کے بادشاہوں میں مروج تھے تو دنیاوی نقطۂ خیال سے آپ پر کوئی الزام قائم نہیں ہوسکتا تھا اور آپ دنیاوی حکومتوں کی نظر میں بالکل حق بجانب ہو تے لیکن آپ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے نہ تھی جو شہروں اور ملکوں پر حکومت کے نام سے مشہور ہے بلکہ دراصل آپ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے تھی جو آپ کو اپنے دل پر حاصل تھی.جو آپ کو دوسرے لوگوں کے دلوں پر حاصل تھی.آپ نے باوجود بادشاہ ہونے کے اس طریق کو اختیار نہ کیا جس پر بادشاہ چلتے ہیں اور اپنی عظمت کے اظہار کے لئے وہ نمائشیں نہ کہیں جو سلطان کیا کرتے ہیں کیونکہ آپ نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے اور بادشاہ ہوکر جو معاملہ آپ نے اتباع سے کیا وہ اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ آپ کا نفس کیسا پاک تھا اور ہر قسم کے بداثرات سے کیسا منز ہ تھا.(118)

Page 128

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سالث النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَل أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الصَّلَوةُ عَلَى وَقْتِهَا قَالَ ثُمَّ أَى قَالَ بِرَ الْوَالِدَيْنِ قَالَ ثُمَّ أَيُّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ اللهِ قَالَ حَدَّثَنِى بِهِنَّ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوِ اسْتَزَ ذَتْهُ لَزَادَنِی ( صحیح بخاری کتاب المواقیت باب فضل الصلوہ لوقتها) میں نے نبی کریم صلی یا یہ تم سے پوچھا کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا ہے.فرمایا نماز اپنے وقت پر ادا کرنا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر کونسا عمل.فرمایا کہ والدین سے نیکی کرنا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر کون ساعمل ہے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کوشش کرنا.عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ مجھ سے نبی کریم نے یہ بیان فرمایا اور اگر میں آپ سے اور پوچھتا تو آپ اور بتاتے.بظاہر تو یہ حدیث ایک ظاہر بین کو معمولی معلوم ہوتی ہوگی لیکن غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کا وقار کیسا تھا کہ صحابہ آپ سے جس قدر سوال کئے جائیں آپ گھبراتے نہ تھے بلکہ جواب دیتے چلے جاتے اور صحابہ کو یقین تھا کہ آپ ہمیں ڈانٹیں گے نہیں.امراء کو ہم دیکھتے ہیں کہ ذرا کسی نے دو دفعہ سوال کیا اور چیں بجبیں ہو گئے.کیا کسی کی مجال ہے کہ کسی بادشاہ وقت سے بار بار سوال کرتا جائے اور وہ اسے کچھ نہ کہے بلکہ بادشاہوں اور امراء سے تو ایک دفعہ سوال کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور وہ سوالات کو پسند ہی نہیں کرتے اور سوال کرنا اپنی شان کے خلاف اور بے ادبی جانتے ہیں اور اگر کوئی ان سے سوال کرے تو اس پر سخت غضب نازل کرتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہم رسول کریم صلی یہ تم کو جانتے ہیں کہ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہونے کے طبیعت میں ایسا وقار ہے کہ ہر ایک چھوٹا بڑا جو دل میں آئے آپ سے پوچھتا ہے اور جس قدر چاہے سوال کرتا ہے.لیکن آپ اس پر بالکل ناراض نہیں ہوتے بلکہ (119)

Page 129

محبت اور پیار سے جواب دیتے ہیں اور اس محبت کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں یقین کر لیتے ہیں کہ ہم جس قدر بھی سوال کرتے جائیں آپ ان سے اکتائیں گے نہیں.کیونکہ جو حدیث میں او پر لکھ آیا ہوں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف اس موقع پر آپ اعتراضات سے نہ گھبرائے بلکہ آپ کی یہ عادت تھی کہ آپ دین کے متعلق سوالات سے نہ گھبراتے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جتنے سوال آپ سے کئے آپ نے ان کا جواب دیا.اور پھر فرماتے ہیں کہ لَوِ اسْتَرَدْتُ لَزَادَ اگر میں اور سوال کرتا تو آپ پھر بھی جواب دیتے اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ آپ جس قدر سوالات بھی کرتے جائیں آنحضرت سلی سیستم اس پر ناراض نہ ہوں گے بلکہ ان کا جواب دیتے جائیں گے اور یہ نہیں ہوسکتا تھا جب تک رسول کریم سلام کی عام عادت یہ نہ ہو کہ آپ ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتے جائیں.دیگر احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صحابہ کے سوالات پر خفا نہ ہوتے تھے بلکہ بڑی خندہ پیشانی سے ان کے جواب دیتے تھے اور یہ آپ کے وقار کے اعلیٰ درجہ پر شاہد ہے کیونکہ معمولی طبیعت کا آدمی بار بار سوال پر گھبرا جاتا ہے مگر آپ باوجود ایک ملک کے بادشاہ ہونے کے رحمت و شفقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاتے رہے جو عام انسان تو کجا دیگر انبیاء بھی نہ دکھا سکے.اس حدیث کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے جس سے آپ کے وقار کا علم ہو سکتا ہے اور گو یہ حدیث میں پہلے بیان کر چکا ہوں کیونکہ اس سے آپ کے یقین اور ایمان پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن چونکہ اس حدیث سے آپ کے وقار کا حال بھی کھلتا ہے اس لئے اس جگہ بھی بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.سراقہ بن جعشم کہتا ہے کہ جب رسول کریم مکہ (120

Page 130

سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے اطلاع ملی کہ آپ کے لئے اور حضرت ابوبکر کے لئے مکہ والوں نے انعام مقرر کیا ہے جو ایسے شخص کو دیا جائے گا جو آپ کو قتل کر دے یا قید کر لائے.اس پر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگا اور چاہا کہ جس طرح ہو آپکو گرفتار کرلوں تا اس انعام سے متمتع ہو کر اپنی قوم میں مالدار رئیس بن جاؤں.جب میں آپ کے قریب پہنچا میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر پڑا.اس پر میں نے اٹھ کر تیروں سے فال نکالنی چاہی کہ آیا یہ کام اچھا ہے یا برا کروں یا نہ کروں اور تیروں میں سے وہ جواب نکلا جسے میں نا پسند کرتا تھا یعنی مجھے آپ کا تعاقب نہیں کرنا چاہیئے.مگر پھر بھی میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور آپ کے پیچھے بھاگا اور اس قدر نزدیک ہو گیا کہ آپ کی قراءت کی آواز آنے لگی اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ بالکل کسی طرف نہ دیکھتے تھے مگر حضرت ابوبکر بار بار ادھر ادھر دیکھتے جاتے تھے.اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سلی تم میں صفت و قار نہایت اعلیٰ درجہ پر تھی اور آپ خطر ناک سے خطر ناک اوقات میں بھی اپنے نفس کی بڑائی کو نہ چھوڑتے تھے.اور خواہ آپ کو گھر میں بیٹھے ہوئے اپنے شاگردوں سے معاملہ کرنا پڑے جو دین کی جدت کی وجہ سے بار بار سوال کرنے پر مجبور تھے اور خواہ میدان جنگ میں دشمن کے ملک میں خطرناک دشمنوں کے مقابلہ میں آنا پڑے ہر دوصورتوں میں آپ اپنے وقار کو ہاتھ سے نہ دیتے.اور جس وقت صابر سے صابر اور دلیر سے دلیر انسان چڑ چڑا ہٹ اور گھبراہٹ کا اظہار کرے اس وقت بھی آپ وقار پر قائم رہتے اور تعلیم اور جنگ دو ہی موقعہ ہوتے ہیں جہاں وقار کا امتحان ہوتا ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اسی وجہ سے استادوں کو اپنے اخلاق کے درست کرنے کی کیسی ضرورت رہتی ہے اور جو استاد اس بات سے غافل 121

Page 131

ہو جائے اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے بہت جلد طلباء اس کے اخلاق کو بگاڑ دیتے ہیں یہی حال میدان جنگ میں بہادر سپاہی کا ہوتا ہے جو باوجود جرأت اور بہادری کے بعض اوقات وقار کھو بیٹھتا ہے اور چھچھوراپن اور گھبراہٹ کا اظہار کر بیٹھتا ہے مگر وہ نیکوں کا نیک بہادروں کا بہادر ان سب عیوب سے پاک تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ جرات:- انسان کی اعلیٰ درجہ کی خصال میں سے ایک جرأت بھی ہے جرات کے بغیر انسان بہت سے نیک کاموں سے محروم رہ جاتا ہے.جرات کے بغیر انسان دنیا میں ترقی نہیں کرسکتا.جرات کے بغیر انسان اپنے ہم عصروں کی نظروں میں ذلیل وسبک رہتا ہے.غرض کہ جرات، بہادری، دلیری اعلیٰ درجہ کی صفات میں سے ہیں اور جس انسان میں یہ خصلتیں ہوں وہ دوسروں کی نظر میں ذلیل نہیں ہوسکتا.جب کہ آنحضرت سیلی سیستم جامع کمالات انسانی تھے اور ہر ایک بات میں جو انسان کی زندگی کو بلند اور اعلیٰ کرنے والی ہو دوسرے کے لئے نمونہ اور اسوہ حسنہ تھے اور جو عمل یا قول یا خوبی یا نیکی سے تعبیر کیا جاسکے اس کے آپ معلم تھے اور کل پاک جذبات کو ابھارنے کے لئے ان کا وجود خضر راہ تھا تو ضروری تھا کہ آپ اس صفت میں بھی خاتم الانبیاء واولیاء بلکہ خاتم الناس ہوں اور کوئی انسان اس حسن میں آپ پر فائق نہ ہو سکے چنانچہ آپ کی زندگی پر غور کرنے والے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی عمر میں بہادری اور جرات کے وہ اعلیٰ درجہ کے نمونے دکھائے ہیں کہ دنیا میں ان کی نظیر نہیں مل سکتی بلکہ تاریخیں بھی ان کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں لیکن چونکہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ موجودہ صورت میں میں صرف وہ واقعات جو بخاری میں درج ہیں پیش کروں گا اس لئے اس جگہ صرف ایک دو 122

Page 132

واقعات پر کفایت کرتا ہوں.دراصل اگر غور کیا جائے تو آنحضرت صلالہ اسلام کی ملکہ کی زندگی ہی بہادری کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.تیرہ سال تک ایک ایسے مقام پر رہنا کہ جہاں سوائے چند انفاس کے اور سب لوگ دشمن اور خون کے پیاسے ہیں اور بغیر خوف کے لوگوں کو اپنے دین کی باتیں سنانا اور پھر ایسے دین کی جولوگوں کی نظر میں نہایت حقیر اور مکر وہ تھا.کوئی ایسا کام نہیں جس کے معلوم ہونے پر آپ کے کمالات کا نقشہ آنکھوں تلے نہ کھینچ جاتا ہو.اس تیرہ سال کے عرصہ میں کیسے کیسے دشمنوں کا آپ کو مقابلہ کرنا پڑا.انواع و اقسام کے عذابوں سے انہوں نے آپ کے قدم صدق کو ڈگمگا نا چاہا لیکن آپ نے وہ بہادری کا نمونہ دکھایا کہ ہزار ہادشمنوں کے مقابلہ میں تن تنہا سینہ سپر رہے اور اپنے دشمنوں کے سامنے اپنی آنکھ نیچی نہ کی اور جو پیغام خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے اسے کھلے الفاظ میں بغیر کسی اختفاء و اسرار کے لوگوں تک پہنچاتے رہے غرض کہ آپ کی زندگی تمام کی تمام جرات و دلیری کا ایک بے مثل نمونہ ہے مگر جگہ کی قلت کی وجہ سے میں ایک دو واقعات سے زیادہ نہیں لکھ سکتا.حضرت انس فرماتے ہیں کہ كَانَ فَزَعْ بِالْمَدِينَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسَالَنَا يُقَالُ لَهُ مَنْدُوبْ فَقَالَ مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا ( بخاری کتاب الجهاد باب اسم الفرس والمحار) مدینہ میں کچھ گھبراہٹ تھی پس نبی کریم ملایا کہ تم نے ہمارا گھوڑا مستعار لیا جس کا نام مندوب تھا اور فرمایا کہ ہم نے کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس گھوڑے کو سمندر پایا یعنی نہایت تیز وتند.حضرت انس نے ایک حدیث میں اس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک دفعہ مدینہ میں کسی غنیم کے حملہ آور ہونے کی خبر تھی اور مسلمانوں کو ہر وقت اس کے حملہ آور ہونے کا انتظار تھا.ایک رات اچانک شور ہؤا 123

Page 133

اور دور کچھ آوازیں سنائی دیں.صحابہ فورا جمع ہونے شروع ہوئے اور ارادہ کیا کہ جمع ہو کر چلیں اور دیکھیں کہ کیا غنیم حملہ آور ہونے کے لئے آ رہا ہے.وہ تو ادھر جمع ہوتے اور تیار ہوتے رہے اور ادھر رسول کریم مالی ایتم بغیر کسی کو اطلاع دیئے ایک صحابی کا گھوڑا لے کر سوار ہو کر جدھر سے آوازیں آرہی تھیں ادھر دوڑے اور جب لوگ تیار ہو کر چلے تو آپ انہیں مل گئے اور فرمایا کہ گھبراہٹ کی تو کوئی وجہ نہیں شور معمولی تھا.اور اس گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ بڑا تیز گھوڑا ہے اور سمندر کی طرح ہے یعنی ہر میں مار کر چلتا ہے.اس واقعہ سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ آپ کیسے دلیر وجری تھے کہ شور سنتے ہی فور ا گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کی خبر لینے کو چلے گئے اور اپنے ساتھ کوئی فوج نہ لی.لیکن جب اس واقعہ پر نظر غائر ڈالی جائے تو چند ایسی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے اس واقعہ کو معمولی جرأت و دلیری کا کام نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ واقعہ خاص طور پر ممتاز معلوم ہوتا ہے.اول امر جو قابل لحاظ ہے یہ ہے کہ جرات و دلیری دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو وہ جو بعض اوقات بزدل سے بزدل انسان بھی دکھا دیتا ہے اور اس کا اظہار کمال مایوسی یا انقطاع اسباب کے وقت ہوتا ہے اور ایک وہ جو سوائے دلیر اور قوی دل کے اور کوئی نہیں دکھا سکتا.پہلی قسم کی دلیری ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ایسے جانوروں سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے جو جرات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں مثلاً مرغی ان جانوروں میں سے نہیں ہے کہ جو جرات کی صفت سے متصف ہیں بلکہ نہایت ڈرپوک جانور ہے مگر بعض اوقات جب بلی یا چیل اس کے بچوں پر حملہ کرے تو یہ اپنی چونچ سے اس کا مقابلہ کرتی ہے.اور بعض اوقات تو ایسے بھی دیکھا گیا ہے کہ چیل مرغی کا بچہ اٹھا کر لے گئی تو وہ اس کے پیچھے اس زور سے کو دی کہ دو 124

Page 134

دو گز تک اس کا مقابلہ کیا.حالانکہ مرغی لڑنے والے جانوروں میں سے نہیں ہے.مرغی تو خیر پھر بھی بڑا جانور ہے چڑیا تک اپنے سے کئی کئی گنے جانوروں کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتی ہے مگر یہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ دیکھ لے کہ اب کوئی مفر نہیں اور میری یا میرے بچوں کی خیر نہیں.جب جانوروں میں اس قدر عقل ہے کہ وہ جب مصیبت اور بلا میں گھر جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب سوائے موت کے اور کوئی صورت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور حتی الوسع دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ اس صفت سے کب محروم رہ سکتا ہے چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض انسان جو معمولی اوقات میں نہایت بزدل اور کمزور ثابت ہوئے تھے جب کسی ایسی مصیبت میں پھنس گئے کہ اس سے نکلنا ان کی عقل میں محالات سے تھا تو انہوں نے اپنے دشمنوں کا ایسی سختی سے مقابلہ کیا کہ ان پر غالب آگئے اور جیت گئے اور ایسی جرات دکھائی کہ دوسرے مواقع میں بڑے بڑے دلیروں سے بھی نہ ظاہر ہوتی تھی.پس ایک جرات وہ ہوتی ہے جو انقطاع اسباب کے وقت ظاہر ہوتی ہے اور بزدل کو بہادر اور ضعیف کو توانا اور ڈرپوک کو دلیر بنا دیتی ہے مگر یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی صفت نہیں کیونکہ اس میں چھوٹے بڑے، ادنی اور اعلیٰ سب شریک ہیں قابل تعریف جرات وہ ہے جو ایسے اوقات میں ظاہر ہو کہ اسباب کا انقطاع نہ ہوا ہو.بہت کچھ امید میں ہوں.بھاگنے اور بچنے کے راستے کھلے ہوں یعنی انسان اپنی مرضی سے جان بوجھ کر کسی خطرہ کی جگہ میں چلا جائے نہ یہ کہ اتفاقاً کوئی مصیبت سر پر آپڑی تو اس پر صبر کر کے بیٹھ رہے.اب دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ سے جو اس وقت جرات کا اظہار ہوا ہے تو یہ جرات دوسری قسم کی ہے اگر آپ اتفاقا کہیں جنگل میں دشمن کے نرغہ میں آجاتے اور اس (125)

Page 135

وقت جرات سے اس کا مقابلہ کرتے تو وہ اور بات ہوتی اور یہ اور بات تھی کہ آپ رات کے وقت تن تنہا بغیر کسی محافظ دستہ کے دشمن کی خبر لینے کو نکل کھڑے ہوئے.اگر آپ نہ جاتے تو آپ مجبور نہ تھے.ایسے وقت میں باہر نکلنا افسروں کا کام نہیں ہوتا.صحابہ آپ خبر لاتے اور اگر جانا ہی تھا تو آپ دوسروں کا انتظار کر سکتے تھے مگر وہ قوی دل جس کے مقابلہ میں شیر کا دل بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا اس بات کی کیا پرواہ کرتا تھا.شور کے سنتے ہی گھوڑے پر سوار ہوکر خبر لانے کو چل دیئے اور ذرا بھی کسی قسم کا تر ڈ دیا فکر نہیں کیا.دوسرا امر جو اس واقعہ کوممتاز کر دیتا ہے یہ ہے کہ آپ نے ایسے وقت میں ایسا گھوڑا لیا جس پر سواری کے آپ عادی نہ تھے حالانکہ ہر ایک گھوڑے پر سوار ہونا ہر ایک آدمی کا کام نہیں ہوتا.ایسے خطرہ کے وقت ایک ایسے تیز گھوڑے کو لے کر چلے جانا جو اپنی سختی میں مشہور تھا یہ بھی آپ کی خاص دلیری پر دلالت کرتا ہے.تیسرا امر جو اس واقعہ کو عام جرات کے کارناموں سے ممتاز کرتا ہے وہ آپ کی حیثیت ہے.اگر کوئی معمولی سپاہی کام کرے تو وہ بھی تعریف کے قابل تو ہوگا مگر ایسا نہیں ہوسکتا جیسا کہ افسر و بادشاہ کا فعل.کیونکہ اس سپاہی کو وہ خطرات نہیں جو باشاہ کو ہیں.اول تو سپاہی کو مارنے یا گرفتار کرنے کی ایسی کوشش نہیں کی جاتی جتنی بادشاہ یا امیر کے گرفتار کرنے یا مارنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اس کے مارنے یا قید کر لینے سے فیصلہ ہی ہو جا تا ہے.دوسرے سپاہی اگر مارا جائے تو چنداں نقصان نہیں بادشاہ کی موت ملک کی تباہی کا باعث ہوتی ہے.پس باوجود ایک بادشاہ کی حیثیت رکھنے کے آپ کا اس وقت دشمن کی تلاش میں جانا ایک ایسا ممتاز فعل ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی.126

Page 136

غزوہ حنین :- رسول کریم صلی ا یہ پتہ ہی دنیا کے لئے ایک کامل نمونہ ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ ہر ایک امر میں دوسرے انسانوں سے افضل ہیں اور ہر ایک نیکی میں دوسروں کے لئے رہنما ہیں.ہر ایک پاک صفت آپ میں پائی جاتی ہے اور آپ کا کمال دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور آپ کے نور سے دل منور ہو جاتے ہیں.علماء میں آپ کسر بر آوردہ ہیں.متقیوں میں آپ افضل ہیں.انبیاء میں آپ سردار ہیں.ملک داری میں آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.جرات میں آپ فرد وحید ہیں.غرض کہ ہر ایک امر میں آپ خاتم ہیں اور آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.میں نے پیچھے آپ کی جرات کا ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح آپ سب صحابہ سے پہلے خطرہ کے معلوم کرنے اور دشمن کی خبر لینے کے لئے تن تنہا چلے گئے.اب میں ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے پڑھنے والے کو خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جائے گا کہ جو کرشمے بہادری اور جرات کے آپ نے دکھلائے وہ کوئی اور انسان نہیں دکھا سکتا.جولوگ جنگ کی تاریخ سے واقف و آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ دشمن کا سب سے زیادہ زور افسروں اور جرنیلوں کو نقصان پہنچانے پر خرچ ہوتا ہے اور سب سے زیادہ اسی بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ سردار لشکر اور اس کے سٹاف کو قتل و ہلاک کر دیا جائے اور یہ اصل ایسی ہے کہ پرانے زمانہ سے اس پر عمل ہوتا چلا آیا ہے بلکہ پرانے زمانہ میں تو جنگ کا دارومدار ہی اس پر تھا کہ افسرکو قتل یا قید کر لیا جائے.اور اس کی زیادہ تر وجہ یہ ھی کہ پچھلے زمانہ میں خود بادشاہ میدان جنگ میں آتے تھے اور آپ ہی فوج کی کمان کرتے تھے اس لئے ان کا قتل (127)

Page 137

یا قید ہو جانا بالکل شکست کے مترادف ہوتا تھا اور بادشاہ کے ہاتھ سے جاتے رہنے پر فوج بے دل ہو جاتی تھی اور اس کے قدم اکھڑ جاتے تھے اور اسکی مثال ایسی ہی ہو جاتی تھی جیسے بے سر کا جسم.کیونکہ جس کی خاطر لڑتے تھے وہی نہ رہا تو لڑائی سے کیا فائدہ.پس بادشاہ یا سردار کا قتل یا قید کر لینا بڑی سے بڑی شکستوں سے زیادہ مفید اور نتائج قطعیہ پر منتج تھا اس لئے جس قدر خطرہ بادشاہ کو ہوتا تھا اتنا اور کسی انسان کو نہ ہوتا.اس بات کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے اسے ذیل کا واقعہ محو حیرت بنا دینے کے لئے کا فی ہے عَنِ الْبَرَاءِبْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلْ أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَكِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَفِرَانَ هَوَازِنَ كَانُوْ قَوْمًارَ مَاةً وَإِنَّا لَمَّا لَقِينَا هُمْ حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ فَانْهَزَمُوْا فَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَى الْغَنَائِمِ وَاسْتَقْبَلُوْنَا بِالسَهَامِ فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَفِرَ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَإِنَّهُ لَعَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَإِنَّ أَبَاسْفْيَانَ أَخِذْ بِلِجَامِهَا وَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ - أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ( بخاری کتاب الجھاد باب من قاددا بة غيره في الحرب ) براء بن عازب سے روایت ہے کہ آپ سے کسی نے کہا کہ کیا تم لوگ جنگ حنین کے دن رسول کریم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے.آپ نے جواب میں کہا کہ رسول کریم صلی یا یہ ستم نہیں بھاگے.ہوازن ایک تیرانداز قوم تھی اور تحقیق ہم جب ان سے ملے تو ہم نے ان پر حملہ کیا اور وہ بھاگ گئے.ان کے بھاگنے پر مسلمانوں نے ان کے اموال جمع کرنے شروع کئے لیکن ہوازن نے ہمیں مشغول دیکھ کر تیر برسانے شروع کئے پس اور لوگ تو بھاگے مگر رسول کریم صلی ایتم نہ بھاگے بلکہ اس وقت میں نے دیکھا تو آپ اپنی سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان نے آپ کے خچر کی لگام پکڑی ہوئی تھی اور آپ فرمارہے تھے میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے.میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں.128

Page 138

اس واقعہ کی اہمیت کے روشن کرنے کے لئے میں نے پہلے بتایا تھا کہ بادشاہ لشکر میں سب سے زیادہ خطرہ میں ہوتا ہے کیونکہ جو نقصان بادشاہ کے قتل یا قید کر لینے سے لشکر کو پہنچتا ہے وہ کوئی ہزار سپاہیوں کے مارے جانے سے نہیں پہنچتا.پس دشمن کو جس قدر آپ کا نجتس ہوسکتا تھا اور کسی کا نہیں.پس جبکہ اچانک دشمن کا حملہ ہوا اور وہ اپنے پورے زور سے ایک عارضی غلبہ پانے میں کامیاب ہوا اور لشکر اسلام اپنی ایک غلطی کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو ا تو دشمن کے لئے ایک غیر مترقبہ موقع تھا کہ وہ آنحضرت مسلہ تم پرحملہ کرتا اور اپنے مدت کے بغض اور عناد کو عملی جامہ پہناتا.پس ایسی صورت میں آپ کا وہاں کھڑا رہنا ایک نہایت خطرناک امر تھا جو نہایت بہادری اور جرات چاہتا تھا اور عام عقل انسانی اس واقعہ کی تفصیل کو دیکھ کر ہی حیران ہو جاتی ہے کہ کس طرح صرف چند آدمیوں کے ساتھ آپ وہاں کھڑے رہے.آپ کے ساتھ اس وقت بارہ ہزار بہادر سپاہی تھے جو ایک سے ایک بڑھ کر تھا اور سینکڑوں مواقع پر کمال جرات دکھلا چکا تھا مگر حنین میں کچھ ایسی ابتری پھیلی اور دشمن نے اچانک تیروں کی ایسی بوچھاڑ کی کہ بہادر سے بہادر سپاہی کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ تاب مقابلہ نہ لا سکا حتی کہ جنگ کا عادی بلکہ میدان جنگ کا تربیت یافتہ عرب کا گھوڑا بھی گھبرا کر بھا گا اور بعض صحابہ کا بیان ہے کہ اس شدت کا حملہ تھا کہ ہم باوجود کوشش کے نہ سنبھل سکتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاؤں جما کر لڑیں مگر قدم نہ جمتے تھے اور ہم اپنے گھوڑوں کو واپس کرتے تھے لیکن گھوڑے نہ لوٹتے اور ہم اس قدر ان کی باگیں کھینچتے تھے کہ گھوڑے دوہرے ہو جاتے تھے مگر پھر آگے کو ہی بھاگتے تھے اور واپس نہ لوٹتے تھے.پس اس خطرناک وقت میں جب ایک جرار لشکر پیٹھ پھیر چکا ہو ایک شخص تن تنہا صرف چند وفادار (129)

Page 139

خدام کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہے اور تیروں کی بارش کی ذرا بھی پرواہ نہ کرے تو یہ ایک ایسا فعل نہیں ہو سکتا جو کسی معمولی جرات یاد لیری کا نتیجہ ہو بلکہ آپ کے اس فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینہ میں ایک ایسا دل رکھتے تھے جو کسی سے ڈرنا جانتا ہی نہ تھا اور خطرناک دشمن کے مقابلہ میں ایسے وقت جبکہ اس کے پاس کوئی ظاہر سامان موجود نہ ہو کھڑا رہنا اس کے لئے ایک معمولی کام تھا اور یہ ایک ایسا دلیرانہ کام ہے ایسی جرات کا اظہار ہے کہ جس کی نظیر اولین و آخرین کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.آپ (فداہ ابی وامی ) خوب جانتے تھے کہ کفار عرب کو اگر کسی جان کی ضرورت ہے تو میری جان کی.اگر وہ کسی کے دشمن ہیں تو میرے دشمن ہیں.اگر وہ کسی کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو مجھے.مگر باوجود اس علم کے باوجود بے یارو مددگار ہونے کے آپ ایک قدم پیچھے نہ ہے بلکہ اس خیال سے کہ کہیں خچر ڈر کر نہ بھاگ جائے ایک آدمی کو باگ پکڑ وادی کہ اسے پکڑ کر آگے بڑھاؤ تا یہ بے بس ہو کر بھاگ نہ جائے.بے شک چند آدمی آپ کے ساتھ اور بھی رہ گئے تھے مگر وہ اول تو اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم کے ساتھ تھا وہاں کھڑے رہے دوسرے ان کی جان اس خطرہ میں نہ تھی جس میں آنحضرت سال یا اسلام کی جان تھی.پس باوجود کمال دلیری کے آپ کی جرات کے مقابلہ وہ لوگ بھی نہیں کر سکتے جو اس وقت آپ کے پاس کھڑے رہے.اس جگہ ایک اور بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ ایسے وقت میں ایک بہادر انسان اپنی ذلت کے خوف سے جان دینے پر آمادہ بھی ہو جائے اور بھا گئے کا خیال چھوڑ بھی دے تب بھی وہ یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ دشمن کوللکارے اور اگر للکارے بھی تو کمال مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور جان دینے کے لئے آمادگی ظاہر کرتا ہے مگر آپ نے اس خطر ناک وقت میں بھی پکار کر کہا کہ میں خدا کا نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب (130)

Page 140

کی اولاد میں سے ہوں جس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطر ناک وقت میں بھی آپ گھبرائے نہیں بلکہ ان لوگوں کو پکار کر سنا دیا کہ میں سچا ہوں اور خدا کی طرف سے ہوں تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو.پس ایسے خطر ناک موقع پر خون کے پیاسے دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا رہنا پھر انہیں اپنی موجودگی کی اطلاع خود نعرہ مار کر دینا پھر کامل اطمینان اور یقین سے فتح کا اظہار کرنا ایسے امور ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے کوئی شخص میرے آقا کے مقابلہ میں جرات و دلیری کا دعوی نہیں کرسکتا.مال کے متعلق احتیاط :- آنحضرت سلی لا الہ تم کو اللہ تعالی نے اپنے وعدہ کے مطابق بادشاہ بھی بنا دیا تھا اور گو آپ کے مخالفین نے ناخنوں تک زور مارا مگر خدا کے وعدوں کو پورا ہونے سے کون روک سکتا ہے باوجود ہزاروں بلکہ لاکھوں دشمنوں کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دشمنوں پر فتح دی اور وہ سب آپ کے سامنے گردنیں جھکا دینے پر مجبور ہوئے اور انہیں چاروناچار آپ کے آگے سر نیاز مندی جھکانا پڑا.مختلف ممالک سے زکوۃ وصول ہو کر آنے لگی جس کا انتظام آپ ہی کرتے تھے مگر جس رنگ میں کرتے تھے اسے دیکھ کر سخت حیرت ہوتی ہے.آجکل کے بادشاہوں کو دیکھو کہ وہ لوگوں کا روپیہ کس طرح بے دریغ اڑا رہے ہیں.وہ مال جو غرباء کے لئے جمع ہو کر آتا ہے اسے اپنے اوپر خرچ کر ڈالتے ہیں اور ان کے خزانوں کا کوئی حساب نہیں.اگر وہ اپنے خاص اموال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کریں تو ان پر کوئی اعتراض نہ ہو مگر غرباء کے اموال جو صرف تقسیم کرنے کے لئے ان کے سپرد کئے جاتے ہیں ان پر بھی وہ ایسا دست تصرف پھیرتے ہیں کہ جیسے خاص ان کا اپنا مال ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں.مگر آنحضرت صلی الا ایم کا حال بالکل اس کے برخلاف تھا.آپ 131

Page 141

کبھی لوگوں کے اموال پر ہاتھ نہ ڈالتے بلکہ باوجود اپنے لاثانی تقویٰ اور بے نظیر خشیت الہی کے آپ لوگوں کے اموال کو اپنے گھر بھی رکھنا پسند نہ کرتے تھے.حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ فَسَلَّمَ ثُمَ قَامَ مُسْرِعًا يَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضٍ حُجَرِ نِسَائِهِ فَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَرَأَى أَنَّهُمْ عَجِبُوْا مِنْ سَرْعَتِهِ فَقَالَ ذَكَرْتُ شَيْةً مِنْ تِبْرٍ عِندَ نَا فَكَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِيْ فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب من صلى بالناس فذكر حابۂ ) میں نے نبی کریم صلا فی الہی ہم کے پیچھے مدینے میں عصر کی نماز پڑھی.پس آپ نے سلام پھیرا اور جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنوں پر سے کودتے ہوئے اپنی بیویوں میں سے ایک کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے.لوگ آپکی اس جلدی کو دیکھ کر گھبرا گئے.پس جب باہر تشریف لائے تو معلوم کیا کہ لوگ آپ کی جلدی پر متعجب ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے یاد آ گیا کہ تھوڑا سا سونا ہمارے پاس رہ گیا ہے اور میں نے ناپسند کیا کہ وہ میرے پاس پڑا ر ہے اس لئے میں نے جا کر حکم دیا کہ اسے تقسیم کر دیا جائے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مال کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے اور کبھی پسند نہ فرماتے کہ کسی بھول چوک کی وجہ سے لوگوں کا مال ضائع ہو جائے.آپ کی نسبت یہ تو خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ نعوذ باللہ آپ اپنے نفس پر اس بات سے ڈرے ہوں کہ کہیں اس سونے کو میں نہ خرچ کرلوں.مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ اس بات سے ڈرے کہ کہیں جہاں رکھا ہو وہیں نہ پڑا رہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائیں.اور اس خیال کے آتے ہی آپ دوڑ کر تشریف لے گئے اور فوڑ اوہ مال تقسیم کروایا اور پھر مطمئن ہوئے.(132)

Page 142

اس احتیاط کو دیکھو اور اس بے احتیاطی کو دیکھو جس میں آج مسلمان مبتلا ہو رہے ہیں.امانتوں میں کس بے دردی سے خیانت کی جارہی ہے.لوگ کس طرح غیروں کا مال شیر مادر کی طرح کھا رہے ہیں.حقوق کا اتلاف کس زور وشور سے جاری ہے مگر کوئی نہیں جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے.آنحضرت صلی اسلم جیسا پاک انسان جس پر گناہ کا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا.غرباء کے اموال کی نسبت ایسی احتیاط کرے کہ ان کا مال استعمال کرنا تو الگ رہا اتنا بھی پسند نہ فرمائے کہ اسے اپنے گھر میں پڑا رہنے دے اور اب گھر میں رکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس اپنے اموال رکھوائیں تا ہم پھر انہیں واپس نہ دیں.کاش ہمارے رؤساء اس نکتہ کو سمجھتے اور آنحضرت صلی ایتم کی پیروی اختیار کرتے جو باوجود معصوم ہونے کے اپنے نفس پر ایسا محاسبہ رکھتے کہ ذرہ سی غفلت میں بھی نہ پڑنے دیتے اور یہ لوگ دیکھتے کہ ہم تو اپنے نفوس پر ایسے قابو یافتہ نہیں پھر بغیر کسی حساب کے لوگوں کے اموال کو جمع کرنا ہمارے لئے کیسا خطرناک ہوگا مگر اس طرف قطعا تو جہ نہیں اور کل روپیہ بجائے غرباء کی خبر گیری کے اپنے ہی نفس پر خرچ کر دیتے ہیں اور جن کے لئے روپیہ جمع کیا جاتا ہے اور جن پر خرچ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے بادشاہوں کو دیا ہے ان کی کوئی خبر ہی نہیں لیتا.آنحضرت صلی اسلام کا یہ فعل ہمیشہ کے لئے مسلمان بادشاہوں کے لئے ایک نمونہ ہے جس پر عمل کرنے سے وہ فلاح دارین پاسکتے ہیں.اگر رعایا کو یقین ہو جائے کہ ان کے اموال بے طور سے نہیں خرچ کئے جاتے تو وہ اپنے بادشاہ کے خلاف سازشوں کی مرتکب نہ ہومگر ہمارے بادشاہوں نے اپنے حقوق کو آنحضرت سی پی ایم کے حقوق سے کچھ زیادہ ہی سمجھ لیا ہے اور اپنے نفس پر آپ سے بھی زیادہ بھروسہ کرتے ہیں.(133)

Page 143

حضرت فاطمہ کا سوال:- پچھلے واقعہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسا محتاط تھے کہ غرباء کا مال جب تک ان کے پاس نہ پہنچ جائے آپ کو آرام نہ آتا اور آپ کسی کے حق کے ادا کرنے میں کسی قسم کی ستی یا دیر کو روانہ رکھتے لیکن وہ واقعہ جو میں آگے بیان کرتا ہوں ثابت کرتا ہے کہ آپ اموال کی تقسیم میں بھی خاص احتیاط سے کام لیتے اور ایسا کوئی موقع نہ آنے دیتے کہ لوگ کہیں کہ آپ نے اموال کو خود اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا.حضرت علی فرماتے ہیں اَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا شَكَتْ مَا تَلْقَى مِنْ أَثَرِا الرَّحَا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْى فَانْطَلَقَتْ فَلَمْ تَجِدْهُ فَوَجَدَتْ عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا فَلَمَّا جَاءَ النَّبِئُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ بِمَجِنِي فَاطِمَة قَالَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَا جِعَنَا فَذَهَبْتُ لِاَ قُوْمَ قَالَ عَلَى مَكَانِكُمَا فَقَعَدَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِئ وَقَالَ اَلَا عَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَا نِي إِذَا اَخَذْتُمَا مَضَا جِعَكُمَا تُكَبِرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ وَتَسَبَحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتَحْمَدَ اثَلَاثَةً وَ ثَلَاثِينَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ ( بخاری کتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے شکایت کی کہ چکی پینے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے.اسی عرصہ میں آنحضرت مالی ایم کے پاس کچھ غلام آئے.پس آپ آنحضرت کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپ کو گھر پر نہ پایا اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دے کر گھر لوٹ آئیں.جب آنحضرت ﷺہ گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے جناب کو حضرت فاطمہ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں نے آپ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر 134

Page 144

آنحضرت سلیم السلام نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر لیٹے رہو.پھر ہم دونوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپ کے قدموں کی خنکی میرے سینہ پر محسوس ہونے لگی.جب آپ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں کوئی ایسی بات نہ بتادوں جو اس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونتیس دفعہ تکبیر کہو اور تینتیس دفعہ سبحان الله کہو اور تینتیس دفعہ الحمد و اله و پس یہ تمہارے لئے خادم سے اچھا ہوگا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت مصلای تیم اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکی پینے سے آپ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپ نے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ کیا.آپ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لئے آپ کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہ میں تقسیم کرنے کے لئے آتے تھے اور حضرت علی کا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی اس کی حقدار تھیں لیکن آپ نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال میں سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو دے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لئے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے پس احتیاط کے طور پر آپ نے حضرت فاطمہ کوان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپ کے پاس اس وقت بغرض تقسیم آئیں کوئی نہ دی.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جن اموال میں آپ کا اور آپ کے رشتہ داروں کا خدا تعالیٰ نے حصہ مقررفرمایا ہے ان سے آپ خرچ فرمالیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دیتے تھے ہاں جب تک کوئی چیز آپ کے حصہ میں نہ آئے اسے قطعا خرچ نہ فرماتے اور اپنے عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو بھی نہ دیتے.کیا دنیا کسی بادشاہ کی مثال پیش کر سکتی ہے جو (135)

Page 145

بیت المال کا ایسا محافظ ہو.اگر کوئی نظیر مل سکتی ہے تو صرف اسی پاک وجود کے خدام میں سے.ورنہ دوسرے مذاہب اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتے.مذکورہ بالا واقعات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ آنحضرت سلائی لیتم نہایت محتاط تھے اور ہر معاملہ میں کمال احتیاط سے کام کرتے تھے خصوصا اموال کے معاملہ میں آپ نہایت احتیاط فرماتے کہ کسی کا حق نہ مارا جائے اور عارضی طور پر بھی لوگوں کو حق رسی میں دیر کرنا پسند نہ فرماتے بلکہ فوراً اغرباء کو حقوق دلوا دیتے تھے.اب میں اسی امر کی شہادت کے لئے ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے اموال کا خیال رکھنے کے علاوہ ان کے ایمانوں کا بھی خیال رکھتے تھے اور کبھی ایسے چندوں کو قبول نہ فرماتے جو بعد میں کسی وقت چندہ دہندگان کے لئے وبال جان ثابت ہوں یا کسی وقت اسے افسوس ہو کہ میں نے کیوں فلاں مال اپنے ہاتھ سے کھو دیا آج اگر میرے پاس ہوتا تو میں اس سے فائدہ اٹھاتا.مکہ میں جب تکالیف بڑھ گئیں اور ظالموں کے ظلموں سے تنگ آکر آنحضرت ایم کو پہلے اپنے صحابہ کو دوسرے ممالک میں نکل جانے کا حکم دینا پڑا اور بعد ازاں خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنا وطن عزیز ترک کر کے مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کرنی پڑی تو آپ پہلے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر بنی عمرو بن عوف کے مہمان رہے اور دس دن سے کچھ زیادہ وہاں ٹھہرے اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے اور چونکہ یہاں مستقل طور پر رہنا تھا اس لئے مکانات کی بھی ضرورت تھی اور سب سے زیادہ ایک مسجد کی ضرورت تھی.جس میں نماز پڑھی جائے اور سب مسلمان وہاں اکٹھے ہو کر اپنے رب کا نام لیں اور اس کے حضور میں اپنے عجز و انکسار کا اظہار کریں اور آنحضرت سلایا کہ تم جو ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی (136)

Page 146

کے خیال میں رہتے تھے اور آپ کا ہر ایک فعل عظمت الہی کو قائم کرنے والا تھا آپ کو ضرور بالضرور سب سے پہلے تعمیر مسجد کا خیال پیدا ہونا چاہیئے تھا.چنانچہ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے آپ نے جو کام کیا وہ یہی تھا کہ آپ اپنے محبوب و مطلوب کے ذکر کا مقام اور اس کے حضور گرنے اور عبادت کرنے کی جگہ تیار کریں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ہمارے مطاع و آقا خاتم النبین سایتم کی زوجہ مطہرہ تھیں آپ نے ایک طویل حدیث میں تمام واقعہ ہجرت مفصل بیان فرمایا ہے.آپؐ فرماتی ہیں فَلَبِثَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشَرَةَ لَيْلَةً وَاتِسَ المَسْجِدُ الَّذِي أُتِسَ عَلَى التَّقْوَى وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَسَارَ يَمْشِيْ مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرِكَتْ عِنْدَمَسْجِدِ الرَسُوْلِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُصَلَّىٰ فِيْهِ يَوْ مَئَذٍ رِجَالُ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ وَكَانَ مِرْبَدُ التَّمْرِ لِسَهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُلَا مَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي حَجْرٍ سَعَدِ بْنِ زُرَارَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ بَرِكَتْ بِهِ رَاحِلَتَهُ هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُلَا مَيْن فَسَاوَ مَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَخِذَهُ مَسْجِدًا فَقَالَا بَلْ نَهَبْهُ لَكَ يَارَسُوْلَ اللهِ فَأَبِى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى إِبْتَاعَهُ مِنْهُمَا ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا ( بخاری کتاب المناقب باب هجرة النبي واصحابه الى المدينة) نبی کریم صل السلام بنی عمرو بن عوف میں کچھ دن ٹھہرے.دس دن سے کچھ اوپر اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی نسبت قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول کریم ای ایم نے نماز پڑھی پھر آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور آپ کے ساتھ لوگ پا پیادہ چلنے لگے.آپ کی اونٹنی چلتی گئی یہاں تک کہ وہ مدینہ کے اس مقام پر پہنچ کر بیٹھ گئی جہاں (137)

Page 147

بعد میں مسجد نبوی تیار کی گئی اور اس وقت وہاں مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے.اس مقام پر کھجور میں سکھائی جاتی تھیں.اور وہ دو یتیم لڑکوں کا تھا جن کا نام سہیل اور سہل تھا اور جو سعد بن زرارہ کی ولایت میں پلتے تھے.جب یہاں آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ یہاں ہی ٹھہریں گے.پھر رسول کریم صلی ا یہ تم نے ان دونوں لڑکوں کو بلوایا اور ان سے چاہا کہ اس جگہ کی قیمت طے کر کے انہیں قیمت دے دیں تا کہ وہاں مسجد بنا ئیں.اور دونوں لڑکوں نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم قیمت نہیں لیتے بلکہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں مگر رسول اللہ صلی ا یہ تم نے ہبہ لینے سے انکار کیا اور آخر قیمت دے کر اس جگہ کو خریدلیا.اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ میں داخل ہوتے ہی پہلا خیال آپ کو یہی آیا کہ مسجد بنائیں اور پہلے آپ نے اس کے لئے کوشش شروع کی اور آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جو جوش تھا اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ جاتا ہے.دوسرے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ آپ معاملات میں کیسے محتاط تھے.اہل مدینہ نے بار بار درخواست کر کے آپ کو بلایا تھا اور خود جا کر عرض کی تھی کہ آپ ہمارے شہر میں تشریف لائیں اور ہم آپ کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھا ئیں گے اور جان ومال سے آپ کی خدمت کریں گے اور جہاں تک ہماری طاقت ہو گی آپ کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے.غرض کہ بار بار کی درخواستوں اور اصرار کے بعد آپ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تشریف لائے اور مدینہ والوں کا فرض تھا کہ آپ کو جگہ دیتے اور حق مہمان نوازی ادا کرتے اور مسجد بھی تیار کراتے اور آپ کی رہائش کے لئے بھی مکان کا بندوبست کرتے اور وہ لوگ حق کو سمجھتے بھی تھے اور ہر طرح خدمت کے لئے حاضر تھے مگر چونکہ آپ کے تمام (138)

Page 148

کام اللہ تعالیٰ کے سپرد تھے اور ہر ایک فعل میں آپ اسی پر اتکال کرتے تھے اس لئے آپ نے اپنی رہائش کے لئے ایسی جگہ کو پسند کیا جہاں اللہ تعالیٰ آپ کو رکھنا پسند کرے اور بجائے خود جگہ پسند کرنے کے اپنی اونٹنی کو چھوڑ دیا کہ خدا تعالیٰ جہاں اسے کھڑا کرے وہیں مسجد بنائی جائے اور وہیں رہائش کا مکان بنایا جائے.اب جس جگہ آپ کی اونٹنی کھڑی ہوئی وہ دو یتیموں کی جگہ تھی اور وہ بھی آپکے خدام میں تھے اور ہر طرح آپ پر اپنا جان و مال قربان کر نے کے لئے تیار تھے اور بطور ہبہ کے وہ زمین پیش کرتے تھے مگر باوجود اس کے کہ آپ اہل مدینہ کے مہمان تھے اور وہ لڑکے مہمان نوازی کے ثبوت میں آپ کو وہ زمین مفت دینا چاہتے تھے آپ نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی وجہ وہ احتیاط تھی جو آپ کے تمام کاموں میں پائی جاتی تھی.اول تو آپ یہ نہ چاہتے تھے کہ وہ نابالغ بچوں سے بغیر معاوضہ کے زمین لیں کیونکہ ممکن تھا کہ وہ بچپن کے جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں زمین پیش کر دیتے لیکن بڑے ہو کر ان کے دل میں افسوس ہوتا کہ اگر وہ زمین ہم بیچ دیتے یا اس وقت ہمارے پاس ہوتی تو وہ زمین یا اس کی قیمت ہمارے کام آتی اور ہماری معیشت کا سامان بنتی.اس احتیاط کی وجہ سے اس خیال سے کہ ابھی یہ بچے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کو نہیں سمجھ سکتے آپ نے اس زمین کے مفت لینے سے بالکل انکار کر دیا.گو وہ لڑکے اپنے ایمان کے جوش میں زمین ہبہ کر رہے تھے اور اگر آپ اسے قبول کر لیتے تو بجائے افسوس کرنے کے وہ اس پر خوش ہوتے کیونکہ صحابہ کی زندگیوں کا مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بچے بھی جوانوں سے کم نہ تھے اور چودہ پندرہ سال تک کے بچے مال تو کیا جان دینے کے لئے تیار ہو جاتے چنانچہ بدر کی جنگ میں دو ایسے بچے بھی شامل ہوئے تھے.پس باوجود اس کے کہ (139

Page 149

وہ بچے تھے اور ابھی کم سن تھے مگر بظاہر حالات ان کے ایمانوں کے اندازہ کرنے سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس پر کبھی متأسف نہ ہوں گے مگر پھر بھی رسول کریم ﷺ نے مناسب نہ الله جانا کہ امکانی طور پر بھی ان کو ابتلاء میں ڈالا جائے اور اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ قیمت وصول کریں اور اگر چاہیں تو اپنی زمین فروخت کر دیں ورنہ آپ نہیں لیں گے.آخر آپ کے اصرار کو دیکھ کر ان بچوں اور ان کے والیوں نے قیمت لے لی اور وہ زمین آپ کے پاس فروخت کر دی.آجکل دیکھا جاتا ہے کہ یتامی سے بھی لوگ چندہ وصول کرتے ہیں اور بالکل اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ شاید ان کو بعد ازاں تکلیف ہو اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بالکل خدا کا خوف نہیں کرتے مگر رسول کریم نے اپنے طریق عمل سے بتادیا کہ باوجود اس کے کہ آپ حقدار تھے اور اہل مدینہ کے مہمان تھے آپ نے ان یتامی سے بغیر قیمت زمین لینے سے انکار کر دیا اور باصرار قیمت ان کے حوالہ کی.افسوس کہ کامل اور اکمل نمونہ کے ہوتے ہوئے مسلمانوں نے اپنے عمل میں سستی کر دی ہے اور یتامی کے اموال کی قطعاً کوئی حفاظت نہیں کی جاتی.ان کے اموال کی حفاظت تو الگ رہی خود محافظ ہی یتامی کے مال کھا جاتے ہیں اور اس احتیاط کے قریب بھی نہیں جاتے جس کا نمونہ رسول کریم نے دکھایا ہے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّالَيْهِ رَجِعُوْنَ.بنو ہوازن کے اموال :.یتامی کے اموال کے لینے سے رسول کریم نے جس احتیاط سے انکار کر دیا اور باوجود اصرار کے مسجد کے لئے بھی زمین کا لینا پسند نہ کیا وہ تو پچھلے واقعہ سے ظاہر ہے.اب ایک اور واقعہ اس قسم کا لکھتا ہوں.ہوازن کے ساتھ جب رسول کریم ﷺ کا مقابلہ ہوا تو ان کے بہت سے مرد اور عورتیں قید ہوئے اور بہت سا مال بھی صحابہ کے قبضہ میں آیا.چونکہ (140

Page 150

آنحضرت صلی ہی تم نہایت رحیم و کریم انسان تھے اور ہمیشہ اس بات کے منتظر رہتے کہ لوگوں پر رحم فرما ئیں اور انہیں کسی مشقت میں نہ ڈالیں.آپ نے نہایت احتیاط سے کام لیا اور کچھ دن تک انتظار میں رہے کہ شاید قبیلہ ہوازن کے لوگ آکر عفو طلب کریں تو ان کے اموال اور قیدی واپس کر دیئے جائیں مگر انہوں نے خوف سے یا کسی باعث سے آپ کے پاس آنے میں دیر لگائی تو آپ نے اموال و قیدی بانٹ دیئے.اس واقعہ کو امام بخاریؒ نے مفصل بیان کیا ہے.مسور بن مخرمہ کی روایت ہے.أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِيْنَ جَاءَهُ وَفَدُهَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسْأَلُوْهُ أَنْ يَرَ ذَ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيْثِ إِلَى أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوْ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ كُنتُ اسْتَأْنِيتُ بِكُمْ وَقَدْ كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشَرَةَ لَيْلَةً حِيْنَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رآةٍ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوْ فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ تَعَالَىٰ بِمَا هُوَ اَهْلُهُ ثُمَّ قَالَا مَا بَعْدُ فَإِنَّ اِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ جَاءَ وْنَا تَائِبِينَ وَإِنَّىٰ قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرْذَ إِلَيْهِمْ سَبِيْهُمْ فَمَنْ اَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ بِذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِنِي اللهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِی ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوْا حَتَّى يَرْفَعَ الْيَنَا عَرَفَاؤُكُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوْا إِلَىٰ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوْهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَبُوْاوَأَذِنُوْا ( بخاری کتاب الوكالة باب اذا وهب شيئالوكيل) ترجمہ:- جب وفد ہوازن بحالت قبول اسلام آنحضرت سی ای ستم کے پاس آیا آپ (141)

Page 151

کھڑے ہوئے.ہوازن کے ڈیپوٹیشن کے ممبروں نے آنحضرت سے سوال کیا کہ ان کے مال اور قیدی واپس کئے جائیں.رسول اللہ مایا یہ تم نے جواب میں فرمایا کہ مجھے سب سے پیاری وہ بات لگتی ہے جو سب سے زیادہ سچی ہو.پس میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ دونوں چیزیں تمہیں نہیں مل سکتیں.ہاں دونوں میں سے جس ایک کو پسند کرو وہ تمہیں مل جائے گی.خواہ قیدی آزاد کر والو خواہ اموال واپس لے لو.اور میں تو تمہارا انتظار کرتا رہا مگر تم نہ پہنچے، اور رسول کریم طائف سے لوٹتے وقت دس سے کچھ اوپر را تیں ان لوگوں کا انتظار کرتے رہے تھے جب انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ رسول کریم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر یہی بات ہے تو ہم اپنے قیدی چھڑوانا پسند کرتے ہیں.اس پر آنحضرت مسلمانوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے کے بعد فرمایا کہ سنو تمہارے ہوازن کے بھائی تائب ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میری رائے ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں.پس جو کوئی تم میں سے یہ پسند کرے کہ اپنی خوشی سے غلام آزاد کر دے تو وہ ایسا کر دے.اور اگر کوئی یہ چاہے کہ اس کا حصہ قائم رہے اور جب خدا سب سے پہلی دفعہ ہمیں کچھ مال دے تو اسے اس کا حق ہم ادا کر دیں تو وہ اس شرط سے غلام آزاد کر دے.لوگوں نے آپ کا ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم نے آپ کے لئے اپنے غلام خوشی سے آزاد کر دیئے مگر رسول اللہ مالی ایم نے فرما یا ہم تو نہیں سمجھتے کہ تم میں سے کس نے خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی.پس سب لوگ یہاں سے اٹھ کر اپنے خیموں پر جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار تم سے فیصلہ کر کے ہمارے سامنے معاملہ پیش کریں.پس لوگ لوٹ گئے اور ہر قبیلہ کے سردار نے اپنے طور پر گفتگو کی پھر سب سردار رسول اللہ ہی لیا ایمن کی خدمت میں حاضر ہوئے 142

Page 152

اور عرض کیا کہ سب لوگوں نے دل کی خوشی سے بغیر کسی عوض کی طمع کے اجازت دے دی ہے کہ آپ غلام آزاد فرما دیں.اس جگہ یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت جس قبیلہ میں پہلے تھے اور جس میں سے آپ کی دائی تھیں وہ ہوازن کی ہی ایک شاخ تھی.پس ایک لحاظ سے ہوازن کے قبیلہ والے آپ کے رشتہ دار تھے اور ان سے رضاعت کا تعلق تھا چنانچہ جب وفد ہوازن آنحضرت کی خدمت میں پیش ہوا تو اس میں سے ابو برقان اسعدی ( آنحضرت کی دائی حلیمہ سعد قبیلہ میں سے ہی تھیں) نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رَسُولَ اللَّهِ انَ فِي هَذِهِ الْحَطَائِرِ إِلَّا أُمَّهَا تَكَ وَخَالَا تُكَ وَ حَوَاضِنَكَ وَمُرْ ضِعَا تُكَ فَامْنُنْ عَلَيْنَا مَنَّ اللَّهُ عَلَیک.یا رسول اللہ ان احاطوں کے اندر حضور کی مائیں اور خالہ اور کھلا یاں اور دودھ پلائیاں ہی ہیں اور تو کوئی نہیں پس حضور مہم پر احسان فرما ئیں اللہ تعالیٰ آپ پر احسان کرے گا.پس ہوازن کے ساتھ آپ کا رضاعی تعلق تھا اور اس وجہ سے وہ اس بات کے مستحق تھے کہ آنحضرت ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے.چنانچہ آپ نے اسی ارادہ سے دس دن سے زیادہ تک اموال غنیمت کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں کیا اور اس بات کے منتظر رہے کہ جو نہی ہوازن پشیمان ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اپنے اموال اور قید یوں کو طلب کریں تو آپ واپس فرما دیں کیونکہ تقسیم غنائم سے پہلے آپ کا حق تھا کہ آپ جس طرح چاہتے ان اموال اور قیدیوں سے سلوک کرتے خواہ بانٹ دیتے خواہ بیت المال کے سپر دفرماتے.خواہ قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور مال واپس کر دیتے مگر باوجود انتظار کے ہوازن کا کوئی وفد نہ آیا جو اپنے اموال اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتا اس لئے مجبور ادس دن سے زیادہ انتظار کر کے طائف سے واپس ہوتے ہوئے جعرانہ میں آپ نے ان (143)

Page 153

اموال اور غلاموں کو تقسیم کر دیا تقسیم کے بعد ہوازن کا وفد بھی آپہنچا اور رحم کا طلبگار ہوا اور اپنا حق بھی بتا دیا کہ یہ قیدی غیر نہیں ہیں بلکہ جناب کے ساتھ کچھ رشتہ اور تعلق رکھتے ہیں اور اس خاندان کی عورتیں ان قیدیوں میں شامل ہیں جس میں کسی عورت کا حضور نے دودھ بھی پیا ہے اور اس لحاظ سے وہ آپ کی مائیں اور خالائیں اور کھلائیاں اور دائیاں کہلانے کی مستحق ہیں پس ان پر رحم کر کے قیدیوں کو آزاد کیا جائے اور اموال واپس کئے جائیں.تقسیم سے پہلے تو حضور ضرور ہی ان کی درخواست کو قبول کر لیتے اور آپ کا طریق عمل ثابت کرتا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی رحم کا معاملہ پیش ہوا ہے حضور سرور کائنات نے بینظیر رحم سے کام یہ مشکل پیش آگئی تھی کہ اموال و قیدی تقسیم ہو چکے تھے اور جن کے قبضہ میں وہ چلے گئے تھے اب وہ ان کا مال تھا.اور گو وہ لوگ اپنی جان و مال کو اس حبیب خدا کی مرضی پر قربان کرنے کیلئے تیار تھے اور انہوں نے سینکڑوں موقعوں پر قربان ہو کر دکھا بھی دیا مگر پھر بھی ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں.کچھ کمزور اور ناتوان ہوتے ہیں کچھ قوی دل اور دلیر اس لئے حضور نے اس موقع پر نہایت احتیاط سے کام لیا اور بجائے اس کے کہ فور أصحابہ کو کو حکم دیتے کہ ہوازن سے میرا رضاعی رشتہ ہے تم ان کے اموال اور قیدی رہا کر دو اول تو خود ہوازن کو ہی ملامت کی کہ تم نے دیر کیوں کی اگر تم وقت پر آ جاتے تو جس طرح اور عرب قبائل سے سلوک کیا کرتے تھے تم پر بھی احسان کیا جاتا اور تمہارا سب مال اور قیدی تم کومل جاتے مگر خیر اب تم کو اموال اور قیدیوں میں سے ایک چیز دلا سکتا ہوں اور اس فیصلہ سے آنحضرت نے گویا نصف بوجھ مسلمانوں پر سے اٹھا دیا اور فیصلہ کر دیا کہ دو میں سے ایک چیز تو انہیں کے ہاتھ میں رہنے دی جائے اور جب ہوازن نے قیدیوں کی واپسی کی درخواست کی تو آپ نے پھر بھی مسلمانوں کو سب قیدی واپس کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ کہہ دیا 144

Page 154

کہ جو چاہے اپنی خوشی سے آزاد کر دے اور جو چاہے اپنا حصہ قائم رکھے.آئندہ اللہ تعالیٰ جوسب سے پہلا موقع دے اس پر اس کا قرضہ اتار دیا جائے گا اور اس طرح گویا ان تمام کمزور طبیعت کے آدمیوں پر رحم کیا جو ہر قوم میں پائے جاتے ہیں.مگر ہزار آفرین ہے اس جماعت پر جو آنحضرت کی تعلیم سے بنی تھی کہ آپ کا ارشاد سنکر ایک نے بھی نہیں کہا کہ ہم آئندہ حصہ لے لیں گے بلکہ سب نے بالا تفاق کہہ دیا کہ ہم نے حضور کی خاطر سب قیدیوں کو خوشی سے رہا کر دیا مگر آپ نے اس پر بھی احتیاط سے کام لیا اور حکم دیا کہ پھر مشورہ کر لیں ایسانہ ہو بعض کی مرضی نہ ہو اور ان کی حق تلفی ہو اپنے اپنے سرداروں کی معرفت اپنے فیصلہ سے اطلاع دو.چنانچہ جب قبائل کے سرداروں کی معرفت آنحضرت کو جواب ملا تو تب آپ نے غلام آزاد کئے.سُبحان اللہ کیسی احتیاط ہے اور کیا بے نظیر تقولی ہے.آپ نے یہ بات بالکل برداشت نہ کی کہ کوئی شخص آپ پر یہ اعتراض کرے کہ آپ نے زبردستی ہوازن کے غلام آزاد کرا دیئے.اور چونکہ اس قبیلہ سے آپ کا رضاعی تعلق تھا اس لئے آپ نے خاص احتیاط سے کام لیا اور بار بار پوچھ کر قیدیان ہوازن کو آزادی دی.مرید: اگر کسی شخص نے بچے مرید اور کامل متبع دیکھنے ہوں تو وہ آنحضرت سالیا ایہام کے صحابہ کو دیکھے جو اپنے جان و مال کو رسول کریم کے نام پر قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کرتے تھے.ایک دفع کا ذکر ہے کہ عضل اور قارۃ دو قبیلوں کے کچھ لوگ آنحضرت سائی پیلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہماری قوم اسلام کے قریب ہے آپ کچھ آدمی بھیجئے جو انہیں دین اسلام سکھائیں.آپ نے ان کی درخواست پر چھ صحابہ کو حکم دیا کہ وہاں جا کر انہیں اسلام سکھائیں اور قرآن شریف پڑھا ئیں.ان صحابہ کا عامر بن عاصم رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا.(145)

Page 155

جب یہ لوگ صحابہؓ کو لے کر چلے تو راستہ میں ان سے شرارت کی اور عہد شکنی کر کے ہذیل قبیلہ کے لوگوں کو اکسایا کہ انہیں پکڑ لیں.انہوں نے ایک سو آدمی ان چھ آدمیوں کے مقابلہ میں بھیجا.صحابہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے.کفار نے ان سے کہا کہ وہ اتر آئیں وہ انہیں کچھ نہ کہیں گے.حضرت عامررضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ انہیں کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں وہ نہیں اتریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہماری حالت کی رسول اللہ کو خبر دے.مگر چھ میں سے تین آدمی کفار پر اعتبار کر کے اتر آئے.مگر جب انہوں نے ان کے ہاتھ باندھنے چاہے تو ایک صحابی نے انکار کر دیا کہ یہ تو خلاف معاہدہ ہے مگر وہاں معاہدہ کون سنتا تھا اس صحابی کو قتل کر دیا گیا باقی دو میں سے ایک کو صفوان بن امیہ نے جو مکہ کا ایک رئیس تھا خرید لیا اور اپنا غلام کر کے نسطاس کے ساتھ بھیجا کہ حرم سے باہر اس کے دو بیٹوں کے بدلہ قتل کر دے.نسطاس نے قتل کرنے سے پہلے ابن الدشنہ رضی اللہ عنہ (اس صحابی) سے پوچھا کہ تجھے خدا کی قسم سچ بتا کہ کیا تیرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا رسول اس وقت یہاں ہمارے ہاتھ میں ہو اور ہم اسے قتل کریں اور تو آرام سے اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہو.ابن الدشنہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد لیم وہاں ہوں جہاں اب ہیں ( یعنی مدینہ میں ) اور ان کے پاؤں میں کوئی کانٹا چھے اور میں گھر میں بیٹھا ہوا ہوں.اس بات کو سنکر ابوسفیان جو اس وقت تک اسلام نہ لا یا تھا وہ بھی متاثر ہو گیا اور کہا کہ میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی محمد ( ایس ایم) کے صحابی محمد ( سال یا یہ تم سے محبت کرتے تھے.یہ وہ اخلاص تھا جو صحابہ کو آنحضرت صاللہ السلام سے تھا اور یہی وہ اخلاص تھا جس نے انہیں ایمان کے ہر ایک شعبہ میں پاس کرا دیا تھا اور انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ (146

Page 156

لیا تھا.اے احمدی جماعت کے مخلصو ا تم بھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک رسول کریم اور پھر مر امو ر وقت مسیح موعود سے ایسی ہی محبت نہ رکھو.آنحضرت کی دعا:- صلى الله عليه جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں آنحضرت صلی لا یہ اہم ہر معاملہ میں نہایت حزم اور احتیاط سے کام لیتے تھے.اب میں ایک حدیث نقل کر کے بتانا چاہتا ہوں کہ آپ دعا میں بھی نہایت محتاط تھے اور کبھی ایسی دعا نہ کرتے جو یکطرفہ ہو بلکہ ایسی ہی دعا کرتے جس میں تمام پہلو مد نظر رکھے جائیں جیسا کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( بخاری کتاب الدعوات باب قول النبي ﷺ انا في الدنيا حسنة) یعنی نبی کریم اکثر اوقات یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ ہمیں اس دنیا میں بھی نیکی اور بھلائی دے اور آخرت میں بھی نیکی اور بھلائی عنایت فرما اور عذاب نار سے ہمیں محفوظ رکھ.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی آپ کی اس دعا کا ذکر فرمایا ہے.فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْا خَرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ) ( البقرہ:۲۰۲،۲۰۱) یعنی لوگوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ الہی اس دنیا کا مال ہمیں مل جائے اور ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں.اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے رب اس دنیا کی بھلائی بھی ہمیں پہنچا اور آخرت کی نیکی بھی ہمیں پہنچا اور آگ کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ.اب اس دعا پر غور کرنے سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ کس قدر احتیاط سے کام فرماتے تھے.عام طور پر انسان کا قاعدہ ہے کہ جو مصیبت پڑی ہوئی ہو اسی طرف متوجہ ہو جاتا ہے (147)

Page 157

اور دوسرے تمام امور کو اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور ایک ہی طرف کا ہو رہتا ہے اور اس وجہ سے اکثر دیکھا گیا بہت سے لوگ حق و حکمت کی شاہراہ سے بھٹک کر کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں اور سچائی سے محروم ہو جاتے ہیں لیکن آنحضرت ایسے کامل انسان تھے کہ آپ مصائب سے گھبرا کر ایک ہی طرف متوجہ نہ ہو جاتے تھے بلکہ ہر وقت کل ضروریات پر آپ کی نظر رہتی تھی.اور اس دعا سے ہی آپ کے اس کمال پر کافی روشنی پڑ جاتی ہے کیونکہ آپ صرف دنیا کے مصائب اور مشکلات کو مدنظر نہ رکھتے تھے بلکہ جب دنیاوی مشکلات کے حل کرنے کے لئے اپنے مولا سے فریاد کرتے تو ساتھ ہی مابعد الموت کی جو ضروریات ہیں ان کے لئے بھی امداد طلب کرتے.اور جب قیامت کے دل ہلا دینے والے نظاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر خدا تعالیٰ کی نصرت کے لئے درخواست کرتے تو ساتھ ہی اس دنیا کی مشکلات کے دور کرنے کے لئے بھی جو مزرعہ آخرت ہے التجا کرتے اور کسی مشکل یا تکلیف کو حقیر نہ جانتے بلکہ نہایت احتیاط سے دنیاوی اور دینی ترقیوں کے لئے بغیر کسی ایک کی طرف سے غافل ہونے کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتے.علاوہ ازیں اس دعا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی دعاؤں کے الفاظ میں بھی نہایت احتیاط برتتے تھے کیونکہ آپ نے یہ دعا نہیں کی کہ یا الہی ہمیں دین اور دنیا دے بلکہ یہ دعا کی کہ یا الہبی ہمیں دین اور دنیا کی بہتری عنایت فرما کیونکہ بعض دفعہ دنیا توملتی ہے مگر وہ بجائے فائدے کے نقصان رساں ہو جاتی ہے.اسی طرح دین بھی بعض لوگوں کو ملتا ہے مگر وہ اس کے ملنے کے باوجود کچھ سکھ نہیں پاتے اس لئے آپ نے دعا میں یہ الفاظ بڑھا دیئے کہ الہی دنیا کی بہتری ہمیں دے.یعنی دنیا کے جس حصہ میں بہتری ہو ہمیں وہ ملے ایسا کوئی حصہ دنیا ہمیں نہ ملے جس کے ملنے سے بجائے فائدہ کے نقصان ہو اور آخرت میں بھی (148

Page 158

ہمیں بھلائی ملے نہ کہ کسی قسم کی برائی کے ہم حقدار ہوں.کسی کی درخواست پر کام سپرد نہ فرماتے:.لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ امراء سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہزاروں قسم کی تدابیر سے کام لیتے ہیں اور جب ان کے مزاج میں دخل پیدا ہوجاتا ہے تو اپنی منہ مانگی مرادیں پاتے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ امراء مان لیتے ہیں.مگر آنحضرت ایسے محتاط تھے کہ آپ کے دربار میں بالکل یہ بات نہ چل سکتی تھی.آپ کبھی کسی کے کہنے میں نہ آتے تھے اور آپ کے حضور میں باتیں بنا کر اور آپ کو خوش کر کے یا خوشامد سے یا سفارش سے کام نہ چل سکتا تھا.آپ کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ تمام عہدوں پر ایسے ہی آدمیوں کو مقرر فرماتے تھے جن کو ان کے لائق سمجھتے تھے کیونکہ بصورت دیگر خطرہ ہوسکتا ہے کہ رعایا یا حکومت کو نقصان پہنچے یا خود عمال کا ہی دین خراب ہو.بس کبھی کسی عہدہ پر سفارش یا درخواست سے کسی کا تقرر نہ فرماتے اور وہ نظارے جو دنیاوی بادشاہوں کے درباروں میں نظر آتے ہیں دربار نبوت میں بالکل معدوم تھے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رُجَلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِينَ فَقُلْتُ مَا عَلِمْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ فَقَالَ لَنْ أَوْ لَا تَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ اَرَادَهُ ) بخاری کتاب الاجارة باب استئجار الرجل الصالح) یعنی میں نبی کریم صلی الہ سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ اشعری قبیلہ کے دو اور آدمی بھی تھے ان دونوں نے آنحضرت صلی لیا کہ تم سے درخواست کی کہ انہیں کوئی ملازمت دی جائے.اس پر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے علم نہ تھا کہ یہ کوئی ملا زمت چاہتے ہیں.آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہم اسے جو خود خواہش کرے اپنے عتمال میں ہرگز نہیں مقرر کریں گے یا فرمایا کہ نہیں مقرر کریں گے.149

Page 159

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب سرور کائنات کو بنی نوع انسان کی بہتری کا کتنا خیال تھا.اللہ اللہ یا تو یہ زمانہ ہے کہ حکومتوں کے بڑے سے بڑے عہدے خود درخواست کرنے پر ملتے ہیں یا آپ کی احتیاط تھی کہ درخواست کرنے والے کوکوئی عہد ہی نہیں دیتے تھے.در حقیقت اگر غور کیا جائے تو ایک شخص جب کسی عہدہ کی خود درخواست کرتا ہے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی غرض ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ اس عہدہ پر قائم ہو کر وہ لوگوں کو دکھ دے اور ان کے اموال پر دست اندازی کرے.مگر جس شخص کو اس کی درخواست کے بغیر کسی عہدہ پر مامور کیا جائے تو اس سے بہت کچھ امید ہو سکتی ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لے گا اور لوگوں کے حقوق کو تلف نہ کرے گا کیونکہ اسے اس عہدہ کی خواہش ہی نہ تھی بلکہ خود بخو دا سے سپر دکیا گیا ہے.دوسرے یہ بھی بات ہے کہ جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو شخص خود کسی عہدہ کی درخواست کرے یا کسی سے سفارش کروائے اسے کوئی عہدہ دینا ہی نہیں تو اس سے یہ بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے لئے جائز و نا جائز وسائل سے حکام کے مزاج میں دخل پیدا کرنے کا باکل سد باب ہو جاتا ہے اور خوشامد بند ہو جاتی ہے کیونکہ حکام سے رسوخ پیدا کر نے یا ان کی جھوٹی خوشامد کرنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کچھ نفع حاصل کیا جائے.پس جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو خود درخواست کرے گا اسے کسی عہدہ پر مامور نہ کیا جائے گا تو ان تمام باتوں کا سد باب ہو جاتا ہے.اور گو آنحضرت سلی یا یتیم کا نفس پاک ان عیبوں سے بالکل پاک تھا کہ آپ کی نسبت یہ خیال کیا جا سکے کہ آپ کسی کی بات میں آجائیں گے مگر آپ نے اس طریق عمل سے مسلمانوں کے لئے ایک نہایت شاندار سٹرک تیار کر رکھی ہے جس پر چل کر وہ حکومت کی بہت سی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں.150

Page 160

مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ دوسری قوموں کی نسبت مسلمان حکومتوں میں ہی حکام کے منہ چڑھ کر لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں اور سفارشوں سے جو کام نکلتے ہیں لیاقت سے نہیں نکلتے.اگر مسلمان حکام اس طرف غور کرتے تو آج اسلامی حکومتوں کا وہ حال نہ ہوتا جو ہے.اور پھر آنحضرت جن لوگوں کی نسبت یہ احتیاط برتتے تھے ویسے لوگ بھی تو آجکل نہیں.صحابی تو وہ تھے کہ جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے مال اور جانیں بھی لٹا دیں وہ دوسروں کے اموال کی طرف کب نظر اٹھا کر دیکھ سکتے تھے.مگر آجکل تو دوسروں کے اموال کو شیر مادر سمجھا جاتا ہے.پھر جب آنحضرت ا ایتم ایسے پاکباز لوگوں کی نسبت بھی ایسے احتیاط برتتے تھے تو آجکل کے زمانہ کے لوگوں کی نسبت تو اس سے بہت زیادہ احتیاط کی جانی چاہئے.سادگی ایک نعمت ہے:.اس زمانہ میں لوگ عام طور پر تکلف کی عادت میں بہت مبتلا ہیں اور اس زمانہ کی خصوصیت نہیں جو قوم ترقی کر لے اس میں تکلف اپنا دخل کر لیتا ہے.دولت اور مال اور عزت کے ساتھ ساتھ تکلف بھی ضرور موجود ہوتا ہے اور بڑے آدمیوں کو کچھ نہ کچھ تکلف سے کام لینا پڑتا ہے لیکن جو مزا سادگی کی زندگی میں ہے وہ تکلف میں نہیں.اور گو تکلف ظاہر میں خوشنما معلوم ہومگر اندر سے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.ذوق نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ؎ اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر - : - آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے تکلف کی وجہ سے لاکھوں گھرانے برباد ہو جاتے ہیں اور تصنع اور بناوٹ ہزاروں کی بر بادی کا باعث ہو چکے ہیں مگر چونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تکلف کے سوا ہماری عزت نہیں ہوتی برابر اس مرض میں مبتلا چلے جاتے ہیں اور کچھ علاج نہیں کرتے.بادشاہ اور امراء یہ سمجھتے (151)

Page 161

ہیں کہ اگر تکلف اور بناوٹ سے ہم اپنی خاص شان نہ بنائے رکھیں گے تو ماتحتوں میں بھی ہماری عزت نہ ہوگی اور اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہوں گے اسی لئے بہت سے مواقع پر سادگی کو برطرف رکھ کر بناوٹ سے کام لیتے ہیں اور ہزاروں موقعوں پر اپنے مافی الضمیر کو بھی بیان نہیں کر سکتے.میں ایک مجلس میں شامل ہو ا جہاں بہت سے بڑے بڑے لوگ جمع تھے جو اس وقت ہندوستان میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور بعض ان میں سے لیڈران قوم کہلاتے ہیں.ان میں سے کچھ ہندو تھے کچھ مسلمان.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو ایک بیرسٹر صاحب نے کہا ایک مدت ہو گئی کہ تکلف کے ہاتھوں میں تکلیف اٹھا رہا ہوں.ہر وقت بناوٹ سے اپنے آپ کو سنجیدہ بنائے رکھنا پڑتا ہے اور بہت سی باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے مگر تکلف مانع ہوتا ہے کیونکہ وہ شان قائم نہیں رہتی مگر اب میں بالکل تنگ آگیا ہوں.اس زندگی کا فائدہ کیا.ایک دوسرے صاحب بولے کہ بے شک میرا بھی یہی حال ہے اور میں تو اب اس زندگی کو جہنم کا نمونہ پاتا ہوں پھر تو سب نے یہی اقرار کیا اور تجویز ہوئی کہ آج کی مجلس میں تکلف چھوڑ دیا جائے اور بے تکلفی سے آپس میں بات چیت کریں اور بناوٹ نزدیک نہ آئے.مگر خدا تعالیٰ انسان کو اس سادگی سے بچائے جو اس وقت ظاہر ہوئی.اسے دیکھ کر معلوم ہوسکتا تھا کہ آج دنیا کی کیا حالت ہے کیونکہ جس قدر قوم کے لیڈر یہ نمونہ دکھا رہے تھے اس کے عوام نے کیا کمی رکھی ہو گی.کلام ایسا نخش کہ شریف آدمی سن نہ سکے.مذاق ایسا گنده که سلیم الفطرت انسان برداشت نہ کر سکے.باتوں سے گزر کر ہاتھوں پر آگئے اور ایک دوسرے کے سر پر چپتیں بھی رسید ہونی شروع ہو گئیں.پھر میوہ کچھ کھا رہے تھے اس کی گٹھلیوں کی وہ بوچھاڑ شروع ہوئی کہ الامان.میں نے تو سمجھا کہ اس گولہ باری میں میری خیر نہیں ایک کو نہ میں ہو کر بیٹھ گیا.اور جب یہ سادگی ختم ہوئی تو میری جان 152

Page 162

میں جان آئی کہ آنکھ ناک سلامت رہے.جو نمونہ سادگی اس مجلس کے ممبران نے دکھایا جو ہند و مسلمان دونوں قوموں میں سے تھے اس سے تو ان کے تکلف کو میں لوگوں کے لئے ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں مگر اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ تکلف خود ان لوگوں کے لئے وبال جان ہور ہا تھا اور ہے.گو وہ خوش نظر آتے ہیں مگر در حقیقت اپنی جھوٹی عظمت اور عزت قائم کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے ایسے سنجیدہ بنے رہتے ہیں اور ایسے بنے ٹھنے رہتے ہیں کہ اپنے حقیقی جذبات کو چھپانے اور اپنے جسم کو حد سے زیادہ مشقت میں ڈالنے کی وجہ سے ان کے دل مردہ ہو گئے ہیں اور زندگی ان کے لئے تلخ ہوگئی ہے.امراء کے مقابلہ میں دوسرا گر وہ علماء اور صوفیا کا ہے جو دین کے عماد اور ستون سمجھے جاتے ہیں یہ بھی تکلفات میں مبتلا ہیں اور انہیں بھی اپنی عزت کے قائم رکھنے کے لئے تکلف سے کام لینا پڑتا ہے.اپنی چال میں ، اپنی میں، اپنے اٹھنے بیٹھنے میں، اپنے پہنے میں ، اپنے کھانے میں ہر بات میں تکلفات سے کام لیتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اسی سے ہمارا نقدس ثابت ہوتا ہے.یہ مذہبی لیڈر خواہ کسی مذہب کے ہوں اس مرض میں مبتلا ہیں.مسلمان صوفیاء کو ہی کوئی جا کر دیکھے کس طرح مراقبہ کی حالت میں اپنے مریدوں کے سامنے بیٹھتے ہیں مگر بہت ہوتے ہیں جن کے دل اندر سے اور ہی خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی زندگیاں اپنے بھائیوں یعنی امراء سے زیادہ سکھ والی نہیں ہوتیں بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی تلخ ہوں کیونکہ وہ اپنے جذبات کے پورا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں مگر علماء اور صوفیاء اس سے بھی محروم ہیں.گفتگو میری اس بیان سے یہ غرض ہے کہ دنیا میں تکلف کا بہت دور دورہ ہے اور دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے عظماء اس مرض میں مبتلا ہیں اور نہ صرف آج مبتلا ہوئے ہیں بلکہ دنیا (153)

Page 163

میں یہ نقشہ ہمیشہ سے قائم ہے اور سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت ہو اور بہت کم لوگ اس بناوٹ سے بچ سکتے ہیں.ہمارے بادی اور رہنما آنحضرت سال اسلام تو رحمتہ للعالمین ہو کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کل دنیا کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اس لئے آپ نے ہمارے لئے جو نمونہ قائم کیا وہی سب سے درست اور اعلیٰ ہے اور اس قابل ہے کہ ہم اس کی نقل کریں.آپ نے اپنے طریق عمل سے ہمیں بتایا ہے کہ جذبات نفس جو پاک اور نیک ہیں ان کود با نا تو کسی طرح جائز ہی نہیں بلکہ ان کو تو ابھارنا چاہئے.اور جو جذبات ایسے ہوں کہ ان سے گناہوں اور بدیوں کی طرف توجہ ہوتی ہو ان کا چھپا نا نہیں بلکہ ان کا مارناضروری ہے.پس اگر تکلف سے بعض ایسی باتیں نہیں کرتے جن کا کرنا ہماے دین اور دنیا کے لئے مفید تھا ہم غلط کار ہیں اور اگر وہ باتیں جن کا کرنا دین اسلام کے رو سے ہمارے لئے جائز ہے صرف تکلف اور بناوٹ سے نہیں کرتے ورنہ دراصل ان کے شائق ہیں تو یہ نفاق ہے.اور اگر لوگوں کی نظروں میں عزت و عظمت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو خاموش اور سنجیدہ بناتے ہیں تو یہ شرک ہے.آنحضرت کی زندگی میں ایسا ایک بھی نمونہ نہیں پایا جاتا جس سے معلوم ہو کہ آپ نے ان تینوں اغراض میں سے کسی کے لئے تکلف یا بناوٹ سے کام لیا بلکہ آپ کی زندگی نہایت سادہ اور صاف معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عزت کو لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ عزت وذلت کا مالک خدا کو ہی سمجھتے تھے.جو لوگ دین کے پیشوا ہوتے ہیں انہیں یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں اور ذکر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہو اور خاص طور پر تصنع سے کام لیتے ہیں تا لوگ انہیں نہایت 154

Page 164

نیک سمجھیں.اگر مسلمان ہیں تو وضو میں خاص اہتمام کریں گے اور بہت دیر وضو کے اعضا کو دھوتے رہیں گے اور وضو کے قطروں سے پر ہیز کریں گے.سجدہ اور رکوع لمبے لمبے کریں گے.اپنی شکل سے خاص حالت خشوع و خضوع ظاہر کریں گے اور خوب وظائف پڑھیں گے مگر آنحضرت سالی یہ اہم باوجود اس کے کہ سب سے اتقی اور اور ع تھے اور آپ کے برابر خشیت اللہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے آپ ان سب باتوں میں سادہ تھے اور آپ کی زندگی بالکل ان تکلفات سے پاک تھی.ابوقتادہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرما یا إِنَىٰ لَا قَوْمُ فِي الصَّلُوةِ أُرِيدُ أَنْ أَطَوَلَ فِيهَا فَأَسْمَعْ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَاتَجَوَزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ اَنْ اَشْقَ على أمه ( بخاری کتاب الصلوۃ باب من اخف الصلوةعندبکاء الصبی) یعنی میں بعض دفعہ نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ نماز کولمبا کر دوں مگر کسی بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز اس خوف سے کہ کہیں میں بچہ کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں نماز مختصر کر دیتا ہوں.کس سادگی سے آنحضرت نے فرمایا کہ ہم بچہ کی آواز سنکر نماز میں جلدی کر دیتے ہیں.آجکل کے صوفیاء تو ایسے قول کو شاید اپنی ہتک سمجھیں کیونکہ وہ تو اس بات کے اظہار میں اپنا فخر سمجھتے ہیں کہ ہم نماز میں ایسے مست ہوئے کہ کچھ خبر ہی نہیں رہی.اور گو پاس ڈھول بھی بجتے رہیں تو ہمیں کچھ خیال نہیں آتا.مگر آنحضرت ان تکلفات سے بری تھے.آپ کی عظمت خدا کی دی ہوئی تھی نہ کہ انسانوں نے آپ کو معزز بنایا تھا.یہ خیال وہی کر سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنا عزت دینے والا سمجھتے ہوں.حضرت انس سے روایت ہے کہ أَنَّهُ سُئِلَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّىٰ فِي نَعْلَيْهِ قَالَ نَعْمَ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی النعال ) یعنی آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم (155)

Page 165

صلی لا الہ تم جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے.آپ نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح تکلف سے بچتے تھے.اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ مسلمان جو ایمان اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں.اگر کسی کو اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو شور مچادیں اور جب تک کوئی ان کے خیال کے مطابق شرائط کو پورانہ کرے وہ دیکھ بھی نہیں سکتے مگر آنحضرت جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں آپکا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپ واقعات کو دیکھتے تھے نہ تکلفات کے پابند تھے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے طہارت اور پاکیزگی شرط ہے اور یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے.پس جب جوتی پاک ہو اور عام جگہوں پر جہاں نجاست کے لگنے کا خطرہ ہو پہن کر نہ گئے ہوں تو اس میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنے میں کچھ حرج نہیں.اور آپ نے ایسا کر کے امت محمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا کہ انہیں آئندہ کے لئے تکلفات اور بناوٹ سے بچالیا.اس اسوہ حسنہ سے ان لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے جو آج کل ان باتوں پر جھگڑتے ہیں اور تکلفات کے شیدا ہیں.جس فعل سے عظمت الہبی اور تقویٰ میں فرق نہ آئے اس کے کرنے پر انسان کی بزرگی میں فرق نہیں آسکتا.حضرت ابن مسعود انصاری سے روایت ہے قَالَ كَانَ رُجُلْ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ وَكَانَ لَهُ غُلَامُ لَحَامْ فَقَالَ اِصْنَعْ لِى طَعَامٌ اَدْ عَوْرَ سَوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةِ فَدَعَارَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةِ فَتَبِعَهُمْ رَجُلْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَةِ وَهَذَا رَجُلْ قَدْ تَبِعَنَا فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَهُ وَإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ قَالَ بَلْ اذِنْتُ لَهُ ( بخاری کتاب الاطعمة باب الرجل يتكلف الطعام لاخوانه ) آپ نے فرمایا کہ ایک شخص انصار میں تھا.اس کا نام ابوشعیب تھا اور اس کا ایک غلام تھا جو قصائی کا پیشہ کرتا 156

Page 166

تھا اسے اس نے حکم دیا کہ تو میرے لئے کھانا تیار کر کہ میں رسول اللہ صلی ہی تم کو چار اور آدمیوں سمیت کھانے کے لئے بلاؤں گا.پھر اس نے رسول کریم صلی یا یہ تم سے بھی کہلا بھیجا کہ حضور کی اور چار اور آدمیوں کی دعوت ہے.جب آپ اس کے ہاں چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا جب آپ اس کے گھر پہ پہنچے تو اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پانچ آدمیوں کو بلوایا تھا اور یہ شخص بھی ہمارے ساتھ آگیا ہے اب بتاؤ کہ اسے بھی اندر آنے کی اجازت ہے یا نہیں.اس نے کہا یا رسول اللہ اجازت ہے تو آپ اس کے سمیت اندر چلے گئے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح بے تکلفی سے معاملات کو پیش کر دیتے.شاید آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو چپ ہی رہتا مگر آپ دنیا کے لئے نمونہ تھے اس لئے ہر بات میں جب تک خود عمل کر کے نہ دکھاتے ہمارے لئے مشکل ہوتی.آپ نے اپنے عمل سے بتادیا کہ سادگی ہی انسان کے لئے مبارک ہے اور ظاہر کر دیا کہ آپ کی عزت تکلف یا بناوٹ سے نہیں تھی اور نہ آپ ظاہری خاموشی یا وقار سے بڑا بننا چاہتے تھے بلکہ آپ کی عزت خدا کی طرف سے تھی.گھر کا کام کاج خود کر لیتے :- میں نے پچھلی فصل میں بتایا ہے کہ آپ کس طرح سادگی سے کام لیتے اور تکلفات سے پر ہیز کرتے تھے اور بناوٹ سے کام نہ لیتے تھے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آنحضرت نہ صرف بے تکلفی سے سب کام کر لیتے اور اس معاملہ میں سادگی کو پسند فرماتے بلکہ آپ کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی اور وہ اسراف اور غلو جوامر ء اپنے گھر کے اخراجات میں کرتے ہیں آپ کے ہاں نام کو نہ تھا بلکہ ایسی سادگی سے اپنی زندگی بسر کرتے کہ دنیا کے بادشاہ اسے دیکھ کر ہی حیران ہو جائیں اور اس پر عمل کرنا تو الگ رہا یورپ کے بادشاہ شاید 157

Page 167

یہ بھی نہ مان سکیں کہ کوئی ایسا بادشاہ بھی تھا جسے دین کی بادشاہت بھی نصیب تھی اور دنیا کی حکومت بھی حاصل تھی مگر پھر بھی وہ اپنے اخراجات میں ایسا کفایت شعار اور سادہ تھا اور پھر بخیل نہیں بلکہ دنیا نے آج تک جس قدرسخی پیدا کئے ہیں ان سب سے بڑھ کر سخی تھا.جن کو اللہ تعالیٰ دولت اور مال دیتا ہے ان کا حال لوگوں سے پوشیدہ نہیں.غریب سے غریب ممالک میں بھی نسبتا امراء کا گروہ موجود ہے حتی کہ جنگلی قوموں اور وحشی قبیلوں میں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ امراء کا ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جو فرق نمایاں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں خصوصاً جن قوموں میں تمدن بھی ہوان میں تو امراء کی زندگیاں ایسی پر عیش و عشرت ہوتی ہیں کہ ان کے اخراجات اپنی حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.آنحضرت سجس قوم میں پیدا ہوئے وہ بھی فخر وخیلاء میں خاص طور پر مشہور تھی اور حشم و خادم کو مایہ ناز جانتی تھی.عرب سردار با وجود ایک غیر آباد ملک کے باشندہ ہونے کے بیسیوں غلام رکھتے اور اپنے گھروں کی رونق کے بڑھانے کے عادی تھے اور عرب کے ارد گرد دو قو میں ایسی بستی تھیں کہ جو اپنی طاقت و جبروت کے لحاظ سے اس وقت کی کل معلومہ دنیا پر حاوی تھیں.ایک طرف ایران اپنی مشرقی شان و شوکت کے ساتھ اپنے شاہانہ رعب و داب کو کل ایشیا پر قائم کئے ہوئے تھا تو دوسری طرف روم اپنے مغربی جاہ وجلال کے ساتھ اپنے حاکمانہ دست تصرف کو افریقہ اور یورپ پر پھیلائے ہوئے تھا اور یہ دونوں ملک عیش وطرب میں دوسری حکومتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور آرائش و آرام کے ایسے سامان پیدا ہو چکے تھے کہ بعض باتوں کو تو اب اس زمانہ میں بھی کہ آرام و آسائش کے سامانوں کی ترقی کمال درجہ کو پہنچ چکی ہے.نگاہ حیرت سے دیکھا جاتا ہے.دربار ایران میں شاہانِ (158

Page 168

ایران جس شان و شوکت کے ساتھ بیٹھنے کے عادی تھے اور ان کے گھروں میں جو کچھ سامان طرب جمع کئے جاتے تھے اسے شاہنامہ کے پڑھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور جنہوں نے تاریخوں میں ان سامانوں کی تفصیل کا مطالعہ کیا ہے وہ تو اچھی طرح سے ان کا اندازہ کر سکتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ در بارشاہی کی قالین میں بھی جواہرات اور موتی ٹنکے ہوئے تھے اور باغات کا نقشہ زمردوں اور موتیوں کے صرف سے تیار کر کے میدان در بار کوشاہی باغوں کا مماثل بنادیا جاتا تھا.ہزاروں خدام اور غلام شاہ ایران کے ساتھ رہتے اور ہر وقت عیش و عشرت کا بازار گرم رہتا.رومی بادشاہ بھی ایرانیوں سے کم نہ تھے اور وہ اگر ایشیائی شان وشوکت کے شیدانہ تھے تو مغربی آرائش اور زیبائش کے دلدادہ ضرور تھے.جن لوگوں نے رومیوں کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ رومیوں کی حکومتوں نے اپنی دولت کے ایام میں دولت کو کس طریق سے خرچ کیا ہے پس عرب جیسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں دوسروں کو غلام بنا کر حکومت کرنا فخر سمجھا جاتا تھا اور جو روم و ایران جیسی مقتدر حکومتوں کے درمیان واقع تھا کہ ایک طرف ایرانی عیش وعشرت اسے لبھا رہی تھی تو دوسری طرف رومی زیبائش و آرائش کے سامان اس کا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے.آنحضرت کا بادشاہ عرب بن جانا اور پھر ان باتوں میں سے ایک سے بھی متاثر نہ ہونا اور روم و ایران کے دام تزویر سے صاف بچ جانا اور عرب کے بت کو مار کر گرا دینا کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر پھر بھی کوئی دانا انسان آپ کے پاکبازوں کا سردار اور طہارت النفس میں کامل نمونہ ہونے میں شک کر سکے.نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.علاوہ اس کے کہ آپ کے ارد گرد بادشاہوں کی زندگی کا جو نمونہ تھاوہ ایسا نہ تھا کہ اس 159

Page 169

سے آپ وہ تاثر حاصل کرتے جن کا اظہار آپ کے اعمال کرتے ہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا درجہ دے دیا تھا کہ اب آپ تمام مخلوقات کے مرجع افکار ہو گئے تھے اور ایک طرف روم آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اور دوسری طرف ایران آپ کے ترقی کرنے والے اقبال کو شک وشبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور دونوں متفکر تھے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے اس لئے دونوں حکومتوں کے آدمی آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کے ساتھ خط وکتابت کا سلسلہ شروع تھا ایسی صورت میں بظاہر ان لوگوں پر رعب قائم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ آپ بھی اپنے ساتھ ایک جماعت غلاموں کی رکھتے اور اپنی حالت ایسی بناتے جس سے وہ لوگ متاثر اور مرعوب ہوتے مگر آپ نے کبھی ایسا نہ کیا.غلاموں کی جماعت تو الگ رہی گھر کے کام کاج کے لئے بھی کوئی نوکر نہ رکھا اور خود ہی سب کام کر لیتے تھے.حضرت عائشہ کی نسبت لکھا ہے کہ اَنَّهَا سُئِلَتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ قَالَتْ كَانَ يَكُوْنَ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ تَعْنِيْ فِي خِدْمَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلوةُ خَرَجَ إِلَى الصَّلٰوۃ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب من كان في حاجة اهله فاقيمت الصلوة فخرج) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی یا اب تم گھر میں کیا کرتے تھے آپ نے جواب دیا کہ آپ اپنے اہل کی مہنت کرتے تھے.یعنی خدمت کرتے تھے.پس جب نماز کا وقت آجاتا آپ نماز کے لئے باہر چلے جاتے تھے.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس سادگی کی زندگی بسر فرماتے تھے اور بادشاہت کے باوجود آپ کے گھر کا کام کاج کرنے والا کوئی نوکر نہ ہوتا بلکہ آپ اپنے خالی اوقات میں خود ہی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مل کر گھر کا کام کاج کرا دیتے.اللہ اللہ (160)

Page 170

کیسی سادہ زندگی ہے.کیا بینظیر نمونہ ہے.کیا کوئی انسان بھی ایسا پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بادشاہ ہو کر یہ نمونہ دکھایا ہو کہ اپنے گھر کے کام کے لئے ایک نو کر بھی نہ ہو.اگر کسی نے دکھایا ہے تو وہ بھی آپ کے خدام میں سے ہو گا کسی دوسرے بادشاہ نے جو آپ کے غلامی کا فخر نہ رکھتاہو یہ نمونہ بھی نہیں دکھایا.ایسے بھی مل جائیں گے جنہوں نے دنیا سے ڈر کر اسے چھوڑ ہی دیا.ایسے بھی ہوں گے جو دنیا میں پڑے اور اسی کے ہو گئے.مگر یہ نمونہ کہ دنیا کے اصلاح کے لئے اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر بھی اٹھائے رکھا اور ملکوں کے انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھی مگر پھر بھی اس سے الگ رہے اور اس سے محبت نہ کی اور بادشاہ ہو کر فقر اختیار کیا ، یہ بات آنحضرت مسی ہی ہم اور آپ کے خدام کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی.جن لوگوں کے پاس کچھ تھا ہی نہیں.وہ اپنے رہنے کے لئے مکان بھی نہ پاتے تھے اور دشمن جنہیں کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے تھے کبھی کہیں اور کبھی کہیں جانا پڑتا تھا ان کے ہاں کی سادگی کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں.جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے شان و شوکت سے کیا رہنا ہے مگر ملک عرب کا بادشاہ ہو کر لاکھوں رو پید اپنے ہاتھ سے لوگوں میں تقسیم کر دینا اور گھر کا کام کاج بھی خود کرنا یہ وہ بات ہے جو اصحاب بصیرت کی توجہ کو اپنی طرف کھنچے بغیر نہیں رہ سکتی.عرب کے ملک میں اب بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اور ان کے افسر یا امیر جس طرز رہائش کے عادی ہیں انہیں بھی جاننے والے جانتے ہیں.خود شریف مکہ جنہیں صرف حجاز میں ایک حد تک دخل و تصرف حاصل ہے انہی کے دروازہ پر بیسیوں غلام موجود ہیں جو ہر وقت خدمت کے لئے دست بستہ ہیں مگر آنحضرت سارے عرب پر حکمران تھے.یمن اور حجاز اور مجد اور بحرین تک آپکے قبضہ میں تھے مگر باوجود تمام عرب اور اس کے ارد گرد کے علاقوں پر حکومت کرنے کے آپ کا گھر کے کاروبار خود کر نا اس پاکیزگی کی طرف متوجہ کر رہا (161)

Page 171

ہے جو آپ کے ہر فعل سے ہو ید ا تھی.دنیا طلبی اور اظہار جاہ وجلال کی آگ اس وقت لوگوں کے دلوں کو جلا رہی تھی اور امراء تو اس کے بغیر امراء ہی نہیں سمجھے جاتے تھے مگر اس آگ میں سے سلامت نکلنے والا صرف وہی ابراہیم کا ایک فرزند ( لای لا پیام ) تھا جس نے اپنے دادا کا معجزہ اور بھی بڑی شان کے ساتھ دنیا کو دکھایا.میں نے پچھلے باب میں آنحضرت سلائی یتیم کی سادگی کا ذکر کیا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے محفوظ تھے اور آپ کا ہر ایک فعل اپنے اندر سادگی اور بے تکلفی کا رنگ رکھتا تھا اب میں آپ کی سادہ زندگی کا حال بیان کرنا چاہتا ہوں.کھجور اور پانی پر گزارہ:- جو لوگ اس زمانہ کے امراء اور دولتمندوں کے دیکھنے کے عادی ہیں وہ تو خیال کرتے ہوں گے کہ رسول اللہ صلی ایتم بھی انہیں کی طرح عمدہ عمدہ کھانے کھایا کرتے ہوں گے اور ایک شاہانہ دستر خوان آپ کے آگے بچھتا ہوگا لیکن وہ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ واقعہ بالکل خلاف تھا.اور اگر ایک طرف آنحضرت صلی سیستم سادگی کے کامل نمونہ تھے دوسری طرف سادہ زندگی میں بھی آپ دنیا کے لئے ایک نمونہ تھے.حضرت عائشہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بھانجہ حضرت عروہ سے فرمایا يَا ابْنَ أُخْتِيْ إِنْ كُنَّا لَتَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ ثُمَّ الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ أَهِلَّةِ فِي شَهْرَيْنِ وَمَا أَوْ قِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُوْلِا للهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَازِ فَقُلْتُ يَا خَالَةُ مَا كَانَ يُعِيْشُكُمْ قَالَتْ الْأَسْوَدَانِ التَمَرُ وَ الْمَاءَ إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيْرَانْ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ وَكَانُوا يَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْبَائِهَا فَيَسْقِينَا (بخارى كتاب الهبة و فضلها)اے میرے بھانجے ہم لوگ تو دیکھا کرتے تھے ہلال کے بعد ہلال حتی کہ تین تین ہلال دیکھ لیتے یعنی دو ماہ گزر جاتے مگر 162

Page 172

آنحضرت سال شاتم کے گھر میں آگ نہ جلتی تھی.حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے خالہ پھر آپ لوگ کیا کھاتے تھے.حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اسؤ دَانِ یعنی کھجور اور پانی کھا کر گزارہ کیا کرتے تھے.ہاں اتنی بات تھی کہ رسول اللہ صلی اسلام کے اردگرد انصار ہمسایہ تھے اور ان کے پاس دودھ والی بکریاں تھیں وہ آپ کو ان کا دودھ ہدیہ کے طور پر دیا کرتے تھے اور آپ دودھ ہمیں پلا دیا کرتے تھے.اللہ اللہ کیسی سادہ زندگی ہے کہ دو دو ماہ تک آگ ہی نہیں جلتی اور صرف کھجور اور پانی یا دودھ پر گزارہ ہوتا ہے اس طریق عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کوشر ما نا چاہیئے کیونکہ آجکل اسی اکل و شرب کی مرض میں گرفتار ہیں.اگر پوری طرح تحقیقات کی جائے تو مسلمانوں کا روپیہ کھانے پینے میں ہی خرچ ہو جاتا ہے اور وہ مقروض رہتے ہیں.وہ اس نبی کی امت ہیں جو مقتدر ہو کر پھر سادہ زندگی بسر کرتا تھا پھر کیسے افسوس کی بات ہے کہ ان کے پاس نہیں ہوتا اور وہ زبان کے چسکے کو پورا کرنے کے لئے قرض لے کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے ہیں.اگر وہ اپنے آپ کو آنحضرت کے اسوہ حسنہ پر چلاتے اور اسراف سے مجتنب رہتے تو آج اس بدتر حال کو نہ پہنچتے.اس جگہ یہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت اگر ایک طرف سادگی کا نمونہ تھے تو دوسری طرف رہبانیت کو بھی ناپسند فرماتے تھے.اور اگر اعلیٰ سے اعلیٰ غذا آپ کے سامنے پیش کی جاتی تھی تو اسے بھی استعمال فرماتے تھے اور یہ نہیں کہ نفس کشی کے خیال سے اعلیٰ غذاؤں سے انکار کر دیں اور یہی کمال ہے جو آپ کو دوسرے لوگوں پر فضیلت دیتا ہے کیونکہ آپ کل دنیا کے لئے آئے تھے نہ کہ صرف کسی خاص قوم یا خاص گروہ کے لئے اس لئے آپ کا ہر قسم کی خوبی میں کامل ہونا ضروری تھا اور اگر آپ ایک طرف سادہ زندگی میں کمال رکھتے 163

Page 173

تھے تو دوسری طرف طیب اشیاء کے استعمال سے بھی قطعاً اجتناب نہ فرماتے تھے.وفات تک آپ کا یہی حال رہا:- اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایسی بات بھی ہو جاتی تھی کہ دو ماہ تک آگ نہ جلے مگر اب میں ایک اور حدیث درج کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ یہ واقعہ چند مہینوں یا سالوں کا نہیں بلکہ آپ کی وفات تک یہی ہوتا رہا اور صرف چند ماہ تک آپ نے اس مشقت کو برداشت نہیں کیا بلکہ آپ ہمیشہ اس سادگی کی زندگی کے عادی رہے اور عسر ویسر ایک سا حال رہا.اگر ابتداء عہد میں کہ آپ دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے اور آپ کو اپنا وطن تک چھوڑنا پڑا تھا آپ اس سادگی سے بسر کرتے تھے تو اس وقت بھی جبکہ روپیہ آپ کے پاس آتا اور آپ ایک ملک کے بادشاہ ہو گئے تھے آپ اسی سادگی سے بسر اوقات کرتے اور کھانے پینے کی طرف زیادہ توجہ نہ فرماتے تھے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انهَ مَرَ بِقَوْمٍ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ شَاةً مَصْلِيَةً فَدَعَوْهُ فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَصَلَّمَ مِنَ الدُّنْيَا وَلَمْ يَشْبَعْ مِنْ خَبْزِ الشَّعِيرِ (بخارى کتاب الاطعمۃ باب ما كان النبی ﷺ و اصحابه یا کلون) یعنی حضرت ابو ہریرہ ایک جماعت پر گزرے اور اس کے سامنے ایک بھنی ہوئی بکری پڑی ہوئی تھی پس انہوں نے آپ کو بھی بلا یا مگر آپ نے کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی ہیں یہ تم اس دنیا سے گزر گئے اور آپ نے پیٹ بھر کر جو کی روٹی نہیں کھائی (اس لئے میں بھی ایسی چیزیں نہیں کھاتا ) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک دو دن نہیں بلکہ وفات تک آنحضرت نے ایسی ہی سادہ زندگی بسر کی.اس بات کی تصدیق حضرت عائشہ بھی فرماتی ہیں.آپ سے روایت ہے کہ ما شبع (164

Page 174

ال مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ الْبَرِ ثَلَاثَ لِيَالٍ تِبَاعًا حَتَّى قبض ( بخاری کتاب الاطعمۃ باب ما کان النبی ﷺ و اصحابه یا کلون) یعنی رسول اللہ صلی اسلم کی آل نے اس وقت سے کہ آپ مدینہ تشریف لائے اس وقت تک کہ آپ فوت ہو گئے تین دن متواتر گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی.ان تینوں حدیثوں کو ملا کر روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ آنحضرت سلیا کی ہستم نے نہایت سادگی سے زندگی بسر کی اور باوجود اس محنت اور مشقت کے جو آپ کو کرنی پڑتی تھی آپ اپنے کھانے پینے میں اسراف نہ فرماتے تھے اور اسی قدر کھاتے جو زندگی کے بحال رکھنے کے لئے ضروری ہو اور آپ کا کھانا عبادت اور قوت کے قائم رکھنے کے لئے تھا نہ کہ آپ کی زندگی دنیا کے بادشاہوں کی طرح کھانوں کی خواہش میں گزرتی تھی.آپ ہی اس مصرع کے پورا کر نیوالے تھے.خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آپ کا کھانا بھی نہایت سادہ ہوتا تھا اور جو کچھ کھاتے تھے اس میں بھی بہت تکلفات سے کام نہ لیتے تھے.حضرت انس سے روایت ہے کہ مَا عَلِمْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ عَلَى سَكَرَجَةٍ قَطُّ وَلَا خَبِزَ لَهُ مُرَقَقَ قَطُّ وَلَا أَكَلَ عَلَى خِوَانٍ قَطُّ قِيلَ لِقَتَادَةَ فَعَلَى مَا كَانُوْايَا كُلُوْنَ قَالَ عَلَى السُّفَر ( بخاری کتاب الاطعمۃ باب الخبز لمرقق والاكل على الخوان ) مجھے نہیں معلوم ہوا کہ آنحضرت نے کبھی تشتریوں میں کھایا ہو اور نہ آپ کے لئے کبھی چپاتیاں پکائی گئیں اور نہ کبھی آپ نے تخت پر کھایا.قتادہ رضی اللہ عنہ سے( جنہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے ) سوال کیا گیا کہ پھر وہ کس پر کھایا کرتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پر.(165)

Page 175

حضرت انس کی روایت اس لحاظ سے قریباً اہل بیت کے برابر سمجھی جانے کے قابل ہے کہ آپ ابھی بچہ تھے کہ آنحضرت سیل الیہ ہم کے ساتھ رہے کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے انہیں آنحضرت کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا اور یہ آنحضرت کے مدینہ میں تشریف لانے کے وقت سے جو آپ کے ساتھ رہے تو وفات تک الگ نہ ہوئے اور آپ کی زندگی بھر خدمت میں مشغول رہے.پس آپ کی روایت ایک واقف کار کی روایت ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایسے امور میں بہت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پختہ اور مضبوط رائے دے سکتا تھا اس لئے نہایت وزن دار اور واقعات کے مطابق ہے.اب اس کی زندگی مجموعی حیثیت سے دیکھو کہ ایک انسان بادشاہ ہے اسے سب کچھ نصیب ہے.اگر چاہے تو اچھے سے اچھے کھانے کھا سکتا ہے اور پر تکلف دستر خوان پر بیٹھ سکتا ہے لیکن باوجود مقدرت کے وہ اسی بات پر کفایت کرتا ہے کہ کبھی تو کجھور اور پانی سے اپنی بھوک کو تو ڑلیتا ہے اور کبھی جو کی روٹی کھا کر گزارہ کر لیتا ہے اور کبھی گیہوں کی روٹی تو کھاتا ہے مگر وہ بے چھنے آٹے کی ہوتی ہے.پھر نہ اس کے سامنے کوئی بڑا دستر خوان بچھایا جاتا ہے نہ سینیوں میں کھانا چنا جاتا ہے بلکہ ایک معمولی دستر خوان پر سادہ کھانا رکھ کر کھا لیتا ہے اور با وجود ایسی سادہ زندگی بسر کرنے کے دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا کھانے والوں اور اپنے جسم کی پرورش کر نیوالوں سے ہزار گنا بڑھ کر کام کرتا ہے.آنحضرت نے اپنی زندگی میں یہ بھی نمونہ دکھا دیا ہے کہ ہر قسم کی اعلیٰ سے اعلیٰ غذا ئیں بھی استعمال فرما لیتے تھے مگر دوسری طرف اس سادہ زندگی سے ہمارے ان امراء کے لئے ایک نمونہ بھی قائم کر دیا ہے جن کی زندگی کا انتہائی مقصد اعلیٰ خوراک اور پوشاک ہوتی ہے.(166

Page 176

سب کاموں میں صحابہ کے مددگار رہتے آپ مسجد کی اینٹیں ڈھوتے رہتے :- آنحضرت صلی لا یتیم کی کونسی خوبی ہے جسے انسان خاص طور پر بیان کر سکے.کوئی شعبہ زندگی بھی تو نہیں جس میں آپ دوسروں کے لئے نظیر نہ ہوں.مختلف خوبیوں میں مختلف لوگ باکمال ہوتے ہیں مگر یہ دین ودنیا کا بادشاہ تو ہر بات میں دوسروں پر فائق تھا.جو بات بھی لواس میں آپ کو صاحب کمال پاؤ گے.میں نے پچھلے باب میں بتایا تھا کہ آپ اپنے گھر میں بیویوں کو ان کے کاموں میں مدد دیتے تھے مگر اب اس سے زیادہ میں ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں آپ کسی ادنیٰ سے ادنی کام میں حرج نہ دیکھتے تھے بلکہ اس میں فخر محسوس کرتے تھے اور صحابہ کے دوش بدوش ہو کر ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا کام کرتے اور کبھی یہ نہ ہوتا کہ انہیں حکم دے دیں اور آپ خاموش ہو کر بیٹھ رہیں.صحابہ کی خوشی تو اسی میں تھی کہ آپ آرام فرما ئیں اور وہ آپ کے سامنے اپنی فدائیت اور اخلاص کے جو ہر دکھا ئیں مگر آپ کبھی اس کو پسند نہ فرماتے اور ہر کام میں خود شریک ہوتے اور صحابہ کا ہاتھ بٹاتے.حضرت عائشہ ہجرت کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کر کے فرماتی ہیں کہ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِنْدَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُصَلِّى فِيْهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالُ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسْهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُلَامَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي حَجْرِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ بَرَكَتْ بِهِ (167)

Page 177

رَاحِلَتَهُ هَذَا إِنْ شَاءَ اللهُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُلَامَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَخِذَهُ مَسْجِدًا فَقَالَا لَا بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَارَسُوْلَ اللهِ فَاَبِىٰ رَسُوْلُ اللَّهِ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا وَطَفِقَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلْ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُوْلُ وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَرَ هَذَا أَبَر رَبَّنَا وَأَطْهَرُ وَيَقُوْلُ اللَّهُمَّ إِنَّ الأجْرَاجْرُ الْآخِرَةِ فَارْحَم الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ بخاری باب هجرة النبي صَلَّى الله عليه وسلم واصحابه الى المدينه ) یعنی پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بنی عمرو بن عوف کے پاس سے جہاں آپ سب سے پہلے آکر ٹھہرے تھے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.اور لوگ بھی آنحضرت کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے یہاں تک کہ آپ کی اونٹنی اس جگہ پر جا کر بیٹھ گئی جہاں بعد میں آنحضرت کی مسجد بنائی گئی اور اس جگہ ان دنوں میں کچھ مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ سہیل اور سہل نامی دولڑکوں کی کھجوریں سکھانے کا مقام تھا جو یتیم تھے اور اسعد بن زرارہ کی ولایت میں تربیت پارہے تھے.پس رسول اللہ صلی ایلیم نے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی فرمایا کہ ان شاء اللہ یہاں ہمارے رہنے کی جگہ ہوگی.پھر رسول اللہ ی تم نے ان دونوں لڑکوں کو جن کی وہ جگہ تھی بلوایا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت کی تا کہ وہاں آپ مسجد تیار کریں.انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ہاتھ فروخت نہیں کرتے بلکہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں.مگر رسول اللہصلی ا یہی تم نے ان سے بطور ہبہ کے وہ زمین لینے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ ان دنوں لڑکوں نے وہ زمیں فروخت کر دی.پھر آپ نے وہاں مسجد بنانی شروع کی اور مسجد بنتے وقت آپ خود بھی صحابہ کے ساتھ اینٹیں ڈھوتے تھے اور ڈھوتے وقت یہ شعر پڑھتے جاتے تھے.یہ بوجھ خیبر کا بوجھ نہیں بلکہ اے ہمارے خدا یہ 168

Page 178

اس سے زیادہ پاکیزہ اور عمدہ ہے.اسی طرح آپ یہ شعر بھی پڑھتے اے خدا بدلہ تو وہی بہتر ہے جو آخرت کا ہو پس جب یہ بات ہے تو تو مہاجرین اور انصار پر رحم فرما.اس حدیث میں آپ کا یہ قول کہ یہ خیبر کا بوجھ نہیں اس سے یہ مراد ہے کہ لوگ خیبر سے کھجور میں یا اور پھل پھول ٹوکروں میں بھر کر لایا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ یہ اینٹیں جو ہم اٹھا رہے ہیں یہ اس بوجھ کی طرح نہیں ہیں بلکہ اس میں تو دنیا کا فائدہ ہوتا ہے اور اس بوجھ کے اٹھانے سے آخرت کا فائدہ ہے اس لئے یہ بوجھ اس بوجھ سے بہت بہتر اور عمدہ ہے.اس حدیث کو پڑھ کر کون انسان ہے جو حیرت میں نہ پڑ جائے.آنحضرت کے ارشاد پر قربان ہو نیوالوں کا ایک گروہ موجود تھا جو آپ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار تھے مگر آپ کا یہ حال ہے کہ خود اپنے جسم مبارک پر اینٹیں لاد کر ڈھورہے ہیں یہ وہ کمال ہے جو ہر ایک بے تعصب انسان کو خود بخود آپ کی طرف کھینچ لیتا ہے اور چشم بصیرت رکھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ یہ پاک انسان کن کمالات کا تھا کہ ہر ایک بات میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے ایک گھر بن رہا ہے اور آپ اس کی اینٹیں ڈھونے کے ثواب میں بھی شامل ہیں.خود اپنے کندھوں پر اینٹیں رکھتے ہیں اور مسجد کی تعمیر کرنے والوں کو لا کر دیتے ہیں.یہ وہ عمل تھا جس نے آپ کو ابرا ہیم کا سچا وارث اور جانشین ثابت کر دیا تھا کیونکہ اگر حضرت ابراہیم نے خود امینٹیں ڈھو کر کعبہ کی تعمیر کی تھی تو اس وارث علوم سماویہ نے مدینہ منورہ کی مسجد کی تعمیر میں اینٹیں ڈھونے میں اپنے اصحاب کی مدد کی.کہنے کو تو سب بزرگی اور تقویٰ کا دعویٰ کرنے کو تیار ہیں مگر یہ عمل ہی ہے جو پاکبازی (169)

Page 179

اور زبانی جمع خرچ کرنے والوں میں تمیز کر دیتا ہے اور عمل ہی میں آکر سب مدعیان تقومی کو آپ کے سامنے باادب سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑتا ہے.اس حدیث سے اگر ایک طرف ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی یہ تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کے کام کرنے سے خواہ وہ بظاہر کیسا ہی ادنی کیوں نہ ہو کسی قسم کا عارنہ تھا.آپ اس معبود حقیقی کی رضا کی تمام راہوں میں دوسروں سے آگے قدم مارتے تھے تو دوسری طرف یہ امر بھی روشن ہو جاتا ہے کہ آپ ماتحتوں سے کام لینے کے ہرفن میں بھی اپنی نظیر آپ ہی تھے.تاریخ نے ہزاروں لاکھوں برسوں کے تجربات کے بعد ثابت کیا ہے کہ ماتحتوں میں جوش پیدا کرنے اور انہیں اپنے فرائض کے ادا کر نے میں ہوشیار بنانے کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نسخہ یہی ہے کہ خود آفیسر بھی انہیں کام کر کے دکھا ئیں.اور جو شخص خود کام کرے گا اس کے ماتحت ضرور کام میں چست و چالاک ہوں گے مگر جو آفیسر کام سے جی چرائے گا اس کے ماتحت بھی اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کو تاہی کریں گے اور بہانہ ہی ڈھونڈتے رہیں گے کہ کسی طرح اپنی جان چھڑا ئیں.آنحضرت نے اس گر کو ایسا سمجھا تھا کہ آپ کی ساری زندگی اس قسم کی مثالوں سے پر ہے.آپ اپنے ماتحتوں کو جو حکم بھی دیتے اس میں خود بھی شریک ہوتے اور آپ کی نسبت کوئی انسان یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ صحابہ کو مشکلات میں ڈال کر خود آرام سے بیٹھ رہتے ہیں بلکہ آپ ہر ایک کام میں شریک ہوکر ان کے لئے ایسی اعلیٰ اور ارفع نظیر قائم کر دیتے کہ پھر کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا موقع نہ رہتا اگر کوئی افسر اپنے ماتحتوں کو کوئی حکم دے کر خود آرام سے پیچھے بیٹھ رہے تو ضرور ان کے دل میں خیال گزرے گا کہ یہ شخص خود تو آرام طلب ہے مگر دوسروں کو ان کی طاقت سے بڑھ کر کام دیتا ہے اور گو مفوضہ کام زیادہ بھی نہ ہو تو بھی وہ بالطبع خیال کریں گے (170)

Page 180

کہ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام دیا گیا ہے اور اس بے دلی کی وجہ سے وہ جس قدر کام کر سکتے ہیں اس سے نصف بھی نہ کر سکیں گے اور جو کچھ کریں گے بھی وہ بھی ادھورا ہو گا مگر جب خود افسر اس کام میں شریک ہو گا اور سب سے آگے اس کا قدم پڑتا ہو گا تو ما تحت شکایت تو الگ رہی اپنی طاقت اور قوت کا سوال ہی بھول جائیں گے اور ان میں کوئی اور ہی روح کام کرنے لگے گی.اور اسی حکمت سے کام لے کر آنحضرت نے صحابہ کی زندگیوں میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی تھی کہ وہ معمولی انسانوں سے بہت زیادہ کام کرنے والے ہو گئے تھے.وہ ہر ایک کام میں اپنے سامنے ایک نمونہ دیکھتے تھے حتی کہ اگر اینٹیں ڈھونے کا کام بھی ہوتا تھا جو عام مزدوروں کا کام ہے اور ان کا رسول انہیں اس کام کے کرنے کا حکم دیتا تھا تو سب سے پہلے وہ خود اس کام کی ابتداء کرتا تھا جس کی وجہ سے مردہ دلوں کے دل زندہ اور سستوں کے بدن چست اور کم ہمتوں کی ہمتیں بلند ہو جاتی تھیں.ہر ایک عقلمند اس بات کو سوچ کر معلوم کر سکتا ہے کہ جو لوگ آنحضرت کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں، اس کے رسول ہیں اس کے نبی ہیں سب انبیاء سے افضل ہیں، آپ کی اطاعت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے، آپ کی ہی فرمانبرداری میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، آپ کل انبیاء کے کمالات کے جامع ہیں، آپ کی ہی خدمت کرنے سے جنت کے دروازے کھلتے ہیں، وہ جب دیکھتے ہوں گے کہ ایسا عظیم الشان انسان خود اپنے کندھوں پر اینٹیں رکھ کر مسجد بنانے والوں تک پہنچاتا ہے تو ان کے اندر کن خیالات کا دریا موجزن ہوتا ہوگا اور وہ کس جوش اور کس خلوص سے اس کام کو بجالاتے ہوں گے بلکہ کس طرح بجائے تکان کے انکے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہو گی.ان میں اچھے اچھے رؤساء بھی 171

Page 181

رض تھے ، سردار بھی تھے مالدار بھی تھے ، معزز بھی تھے ، مگر وہ سب کے سب اپنے عقیدہ کی بناء پر اپنے آپ کو آنحضرت سے کم درجہ پر یقین کرتے تھے اور اپنے آپکو خادم سمجھتے تھے.پس جب وہ آپ کو اس جوش سے کام کرتے ہو دیکھتے ہوں گے تو کیا ان کے بدن کے ہر ایک حصہ میں سنسناہٹ نہ پھیل جاتی ہوگی اور کیا امیر سے امیر انسان بھی اس بلند رتبہ انسان کی معیت میں اینٹیں ڈھونا اپنے لئے ایک نعمت عظمیٰ نہ خیال کرتا ہوگا اور بجائے ذلت کے عزت نہ جانتا ہوگا.ہاں ان میں سے ہر ایک ایسا ہی سمجھتا ہوگا اور بالکل ایسا ہی سمجھتا ہو گا.اور چونکہ آنحضرت اپنی ساری عمر میں اسی نمونہ پر قائم رہے اور آپ نے کبھی اس سنت کو ترک نہیں کیا اس لئے آپ کے صحابہ میں یہ بات طبیعت ثانی ہو گئی تھی اور وہ روزانہ ان کی معیت کے جوش سے متاثر ہو کر جس طرح کام کرتے تھے اس کے ایسے عادی ہو گئے تھے کہ آپ کی غیر حاضری میں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی ان کا طریق عمل وہی تھا اور یہ ایک عام بات ہے کہ انسان جس کام کو کچھ مدت تک لگا تار کرتا رہے اس کا عادی ہو جاتا ہے اور جولوگ ابتداء میں سستی کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ مست ہی رہتے ہیں اور جو چستی سے کام کرنے کے عادی ہوں وہ اسی طریق پر کام کئے جاتے ہیں پس جبکہ آنحضرت ہر ایک کام میں صحابہ کے شریک حال بن کر ان کو خطر ناک سے خطرناک اور خوفناک سے خوفناک کام کے کرنے پر آمادہ کر دیتے تھے.اور اسی طرح دنیا داروں کی نظروں میں ادنی سے ادنی نظر آنے والے کاموں میں بھی ساتھ شریک ہوکر ان کے دلوں سے جھوٹی عزت اور تکبر کے خیالات کو بالکل نکال دیتے تھے اور اس طریق کا آپ ان کو دس سال متواتر عادی کرتے رہے تھے.یہ عادت انہیں کیونکر بھول سکتی تھی.چنانچہ جب صحابہ کو اپنے سے کئی کئی گناہ سپاہ سے مقابلہ پیش آیا اور اس وقت کی کل متمدن قوموں سے ایک ہی وقت میں (172)

Page 182

جنگ چھڑ گئی تو ان کے قدموں میں وہ ثبات دیکھا گیا اور ان کے ہاتھوں نے ایسی طاقت کے کارنامے دکھائے اور ان کے دلوں نے ایسی بے ہر اسی اور بے خوفی کا اظہار کیا کہ دنیا دنگ ہوگئی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ آنکھوں کے سامنے آنحضرت کا پاک نمونہ ہر وقت رہتا تھا اور وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس دین و دنیا کے بادشاہ کو نہ بھولتے تھے اور اپنے سے دس دس گنا فوج کو الٹ کر پھینک دیتے تھے بلکہ صحابہ دوسرے عربوں کی جنگ پر بھی ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ اب دنیا کو کیا ہو گیا.آنحضرت کے ماتحت تو ہم اس طرح لڑتے تھے کہ پروں کے پرے اڑا دیتے تھے اور کوئی ہمارے سامنے ٹھہر نہ سکتا تھا پس آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے میں تد بیر ملکی کا وہ نمونہ نمایاں ہے کہ جس کی مثال کوئی اور انسان نہیں پیش کرسکتا.اس حدیث سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت کو ہر وقت اپنے صحابہ کو نیکی اور تقویٰ کی تعلیم دینے کا خیال رہتا تھا کیونکہ آپ نے اس موقع پر جو اشعار بچنے ہیں وہ ایسے بے نظیر اور مناسب موقع ہیں کہ ان سے بڑھ کر ناممکن ہے.آپ کی عادت تھی کہ آپ پورا شعر نہیں پڑھا کرتے تھے مگر صرف اس موقع پر یا ایک دو اور موقعوں پر آپ نے پورے شعر پڑھتے ہیں.ہاں آپ شعر بالکل نہ کہتے تھے اور یہ شعر بھی کسی اور مسلمان کے کہے ہوئے تھے.ہاں تو ان اشعار میں آپ نے صحابہ کو بتایا ہے کہ تم خیبر کی کھجور میں اور سبزیاں وغیرہ اکثر اُٹھاتے ہو گے اور اس کے اٹھانے میں تمہیں یہ خیال ہوتا ہوگا کہ ہم دنیا کا فائدہ اٹھائیں گے اور مال کمائیں گے.مگر یہ یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کے لئے جو کام انسان کرتا ہے وہ گو بظاہر کیسا ہی ادنی معلوم ہو.درحقیقت نہایت پاک اور عمدہ نتائج پیدا کرنے والا ہوتا ہے پس یہ خیال اپنے دلوں میں مت لا نا کہ ہم اس وقت کیسا ادنی کام کرتے ہیں کہ مٹی اور 173

Page 183

اینٹیں ڈھورہے ہیں بلکہ خوب سمجھ لو کہ یہ اینٹیں جو تم ڈھور ہے ہو ان کھجوروں اور میووں کے بوجھ سے جو خیبر سے آتا ہے کہیں بہتر ہیں اور اس میں تمہارے نفوس کی پاکیزگی کا سامان ہے ان میووں کے بوجھ کی ہستی ہی کیا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اسے رکھا جائے.دوسرے شعر میں آنحضرت نے انہیں بتایا ہے کہ اس کام میں کسی مزدوری یا نفع کا خیال مت رکھنا بلکہ یہ تو خدا کا کام ہے جس میں اگر کسی نفع کی امید ہے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوگا اور بجائے فوری نفع کے انجام کی بہتری ہوگی اور جس کا انجام اچھا ہو اس سے زیادہ کا میاب کون ہو سکتا ہے پس اسی پر نظر رکھو.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کر دی کہ خدا یا یہ لوگ اپنے کام چھوڑ کر تیرے لئے مشقت اٹھا رہے ہیں تو ان پر رحم فرما.پس شاعر نے تو جن خیالات کے ماتحت اشعار کہے ہوں گے ان سے وہی واقف ہو گا مگر آپ نے ان اشعار کو پڑھ کر اس کے معانی کو وہ وسعت دے دی ہے کہ باید و شاید.ہر کام میں صحابہ کے شریک ہوتے میں نے اس سے پہلے آنحضرت سلیا ایلم کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس سے آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور انسانی قلب اس سے اعلیٰ سے اعلیٰ اصول طہارت نفس کے اور قومی ترقی کے نکال سکتا ہے.اب میں ایک اور واقعہ اسی پہلے واقعہ کی تائید میں درج کرتا ہوں لیکن چونکہ وہ نئے حالات اور نئے واقعات کو لئے ہوئے ہے اس لئے اس کا ذکر بھی کسی قدر تفصیل سے ہی مناسب ہے.یہ بات تو تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آنحضرت سے جو مخالفت مکہ والوں کو تھی اس کی نظیر دنیا کی کسی اور تاریخ میں نہیں ملتی.آپ کی مخالفت اور ایذاء رسانی کے لئے جو تدابیر 174

Page 184

انہوں نے کیں یا جو منصوبے انہوں نے باندھے وہ اپنی نظیر آپ ہی تھے اور کبھی کسی قوم نے دنیاوی مخالفت میں یا دینی عداوت میں کسی انسان کی بلا وجہ ایسی بدخواہی نہیں کی جیسی اہل مکہ نے آنحضرت سے کی مگر خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں آنحضرت سمال ٹیم کو فتح دی اور آپ ہر دشمن پر فاتح رہے.گوچھوٹے چھوٹے حملے تو مدینہ میں آتے ہی شروع ہو گئے تھے مگر دراصل جنگوں کی ابتداءاب جنگ بدر سے ہی سمجھنا چاہئے کہ جس نے ایک طرف کفار کے بڑے بڑے سرداروں کو خاک میں ملا دیا اور دوسری طرف مسلمانوں پر ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کی تائید انسان کو ہر مشکل سے سلامت نکال سکتی ہے اور دشمن خواہ کتنا ہی بہادر اور تعداد میں زیادہ ہو آسمانی تدابیر کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے.قریش کو اپنے سرداروں کے مارے جانے کا طلیش ایک دم چین نہ لینے دیتا تھا اور وہ آئے دن مسلمانوں پر حملہ کرتے رہتے تھے جن میں سے مشہور حملہ احد کا بھی ہے یہ حملے متواتر چھ سال تک ہوتے رہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جنگ بدر چھ سال تک متواتر جاری رہی اور اس کا خاتمہ احزاب پر ہوا جبکہ دشمن نے آخری مرتبہ ہزیمت اٹھا کر پھر مسلمانوں کو دکھ دینے کا ارادہ نہ کیا بلکہ نا امیدی اور مایوسی کا شکار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ ہم مسلمانوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے.جنگ احزاب جس کا ذکر قرآن شریف میں بار بار آیا ہے ایک نہایت خطرناک جنگ تھی جس میں مسلمان ایسے مجبور ہوئے تھے کہ انہیں قضائے حاجت کے لئے باہر جانے کو بھی رستہ نہ ملتا تھا اور کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور دس ہزار کا لشکر مرنے مارنے کے ارادہ سے میٹھی بھر مسلمانوں کے سامنے پڑا ہوا تھا.جو مشکلات کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے.(175)

Page 185

جب مسلمانوں کو اس لشکر کی آمد کی خبر ہوئی تھی تو آنحضرت نے سب صحابہ کو بلا کر مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے حضرت سلمان نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسے موقع پر ہمارے ملک میں تو خندق کھود لیتے ہیں اور اسکے پیچھے بیٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں.آپ نے یہ بات سنکر خندق کھود نے کا حکم دیا اور اسی وجہ سے جنگ احزاب کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں.چالیس چالیس ہاتھ زمین دس دس آدمیوں کو کھود نے کے لئے بانٹ دی گئی اور کام زور وشور سے جاری ہو گیا مگر آنحضرت صالی ایتم کہاں تھے؟ آپ بھی ان لوگوں میں کام کر رہے تھے جو ادھر سے ادھر مٹی ڈھور ہے تھے کیونکہ کچھ لوگ زمین کھودتے تھے اور کچھ وہاں سے مٹی اٹھا کر ایک طرف کر دیتے تھے حتی کہ آپ کا بدن مٹی سے بھر گیا تھا.حضرت براء سے روایت ہے ہے.قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْاَ حْزَابِ يَنْقُلُ التَّرَابَ وَقَدْوَارَى التَرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ وَهُوَ يَقُولُ : (لَوْ لَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَانْزِلِ السَّكِينَةَ عَلَيْنَا وَثَبَتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَا قَيْنَا إِنَّ الْأُ لَى قَدْ بَغْوَا عَلَيْنَا، اَذَا اَرَادُوْا فِتْنَةً ابَيْنَا.( بخاری کتاب الجھاد باب حصر الخندق ) ترجمہ: فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی ہی ملک کو جنگ احزاب میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ آپ بھی مٹی ڈھور ہے تھے اور آپ کے گورے گورے پیٹ پر مٹی پڑی ہوئی تھی اور آپ یہ فرماتے جاتے تھے.الہبی اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نمازیں پڑھتے.پس ہم پر اپنی طرف سے تسلی نازل فرما اور اگر جنگ پیش آئے تو ہمارے پاؤں کو ثبات دیجئے وہ دشمن کے مقابلہ میں بالکل نہ ڈگمگائیں.الہی یہ کافر ہم پر ظلم اور زیادتی سے حملہ آور ہو گئے ہیں اور ہمارے خلاف انہوں نے بغاوت کی ہے کیونکہ جب انہوں نے ہمیں شرک و کفر میں مبتلا ہونے کی دعوت دی ہے (176)

Page 186

ہم نے ان کی بات کے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے.اللہ اللہ وہ کیا ہی پیاری مٹی ہو گی جسے آپ اٹھاتے تھے اور وہ مٹی کروڑوں من سونے سے زیادہ قیمتی تھی جسے اٹھانے کے لئے خاتم النبین سالی ایم کے ہاتھ اٹھتے تھے اور جسے آپ کے پیٹ پر گرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عذاب شدید کو دیکھ کر يَقُولُ الكَفِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ ترابا (النبا ۴۱) کا فرکہہ اٹھیں گے کہ کاش ہم مٹی ہوتے اور شریر و بد معاش لوگ جب سزا پاتے ہیں تو ایسے ہی جملے کہا کرتے ہیں اور اپنی حالت پر افسوس ہی کیا کرتے ہیں مگر خدا گواہ ہے وہ مٹی جو آنحضرت کے پیٹ پر گرتی تھی اس کی نسبت تو ایک مؤمن کا دل بھی للچا جاتا ہے کہ وہ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا کہہ اٹھے اور یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ براء اس واقعہ کا بیان کرتے ہوئے اس مٹی کا بھی ذکر کرتے ہیں جو آپ کے پیٹ پر گرتی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مٹی کو بھی عشق کی نگاہوں سے دیکھتے تھے اور لالچ کی نگاہیں ادھر پڑ رہی تھیں اسی لئے تو مدتوں کے بعد جب وہ جنگ احزاب کا ذکر فرماتے ہیں تو وہ مٹی جو آنحضرت صلی ایم کے جسم اطہر پر پڑتی تھی انکو یاد آجاتی ہے.میں حیران ہوں کہ صحابہ کس محبت اور کس شوق سے اس وقت آنحضرت کی طرف دیکھتے ہوں گے.خدا یا وہ مزدور کیسا ہوگا اور کس شان کا ہوگا جس کے سر پر نبوت کا تاج تھا اور دوش پر مٹی کا ڈھیر ، صحابہ کے قدموں میں کیسی تیزی اور کیسی پھرتی پیدا ہوگئی ہوگی ہر ایک ان میں سے اپنے دل میں کہتا ہوگا کہ خدا کے لئے جلد جلد اس مٹی کو صاف کر کے جس قدر ہو سکے آنحضرت کا کام کم ہو اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بوجھ اٹھاتے ہوں گے تا کہ جلد اس بوجھ کو ختم کریں اور آنحضرت سائیشم پہ تم کو آرام دیں.(177)

Page 187

میری عقل چکراتی ہے جب میں صحابہ کے ان جذبات کا نقشہ اپنے دل میں کھینچتا ہوں جو اس وقت ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہوں گے میری قوت متخیلہ پریشان ہو جاتی ہے جب میں ان خیالات پریشاں کو اپنے سامنے حاضر کرتا ہوں جو اس وقت صحابہ کے دل و دماغ میں گشت لگا رہے ہوں گے.اف ایک بجلی ایک سٹیم ہوگی جو اس وقت ان کے اندر کام کر رہی ہوگی نہیں بجلی اور سٹیم کی کیا حقیقت ہے عشق کی گرمی ان سے کام لے رہی تھی اور وہ مٹی جو وہ اپنی گردنوں اور کندھوں پر رکھتے تھے انہیں ہر ایک قسم کی نعمت سے زیادہ معلوم ہوتی تھی وہ بوجھ انہیں سب غموں سے چھڑارہا تھا اور وہ مٹی انہیں ہیروں اور جواہرات سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی تھی جسے نبیوں کے سرتاج کے کندھوں پر رکھے جانے کا فخر حاصل تھا.کیا کوئی مسلمان بادشاہ ایسا ہے جسے اس مٹی کے اٹھانے میں عذر ہو! نہیں اس وقت کے اسلام سے غافل بادشاہ بھی اسے اٹھانے میں فخر سمجھیں گے پھر نیکو کارگروہ اسے اپنی کیسی کچھ عزت نہ خیال کرتا ہوگا.اور یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ آنحضرت ملی یا یہ تم ان کو ایک گھوڑے پر کھڑے ہوئے حکم نہیں دے رہے تھے بلکہ دوسروں کو حکم دینے سے پہلے آپ خود اپنے کندھوں پر مٹی کا ڈھیر رکھتے تھے پھر جو لوگ اپنے محبوب و آقا کو مٹی ڈھوتے دیکھتے ہوں گے وہ جس شوق سے بھی اس کام کو کرتے بالکل مناسب اور بجا ہوتا یہ ایک ایسی اعلیٰ تدبیر تھی جس سے اگر ایک طرف آنحضرت کی محبت الہی ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ فطرت انسانی کو خوب سمجھتے تھے اور آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ماتحتوں میں روح پھونکنی ہو تو اس کا ایک ہی گر ہے کہ خود ان کے ساتھ مل کر کام کرو پھر ان میں خود بخود جوش پیدا ہو جائے گا اور اس طرح آپ نے ایک نا قابل فتح لشکر تیار کر دیا جو ہر زمانے کے لئے مایہ ناز ہے.(178)

Page 188

اس حدیث سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں.اول تو یہ کہ آنحضرت نے صرف ایک دفعہ ہی صحابہ کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کرتے تھے کیونکہ پہلا واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے وہ آپ کی مدنی زندگی کا ابتدائی واقعہ ہے اور یہ چھ سال بعد کا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کی عادت تھی کہ کوئی کام کسی کو نہ دیتے مگر خود اس میں شامل ہوتے تا کہ خود بھی ثواب سے حصہ لیں اور دوسروں کو اور بھی رغبت اور شوق پیدا ہو کہ جب ہمارا آقا خود شامل ہے تو ہمیں اس کام سے کیا عار ہو سکتا ہے.دوسرے یہ کہ انہیں چستی سے کام کرنے کی عادت ہو اور وہ آپ کے شمول کی وجہ سے جس تیزی سے کام کرتے ہوں گے اسے ان کی عادت میں داخل کر دیا جائے.دوسرے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے تھے اس وقت آپ بالکل نو وارد تھے اور ابھی آپ کی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اور گوسینکڑوں جاں شار موجود تھے جو اپنی جان قربان کرنے کیلئے حاضر تھے مگر پھر بھی دنیا کے لحاظ سے آپ کے ماتحت کوئی علاقہ نہ تھا مگر غزوہ احزاب کے وقت گو آپ کے لشکر کی تعداد کم تھی مگر بارہا کھلے میدانوں میں کفار کو شکست دے چکے تھے.یہودیوں کے دو قبیلے جلا وطن ہوکر ان کی املاک مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی تھیں.مدینہ اور اسکے گردنواح میں آپ کی حکومت قائم ہو گئی تھی.بقیہ یہودی معاہدہ کی رو سے مسلمانوں سے دب کر صلح کر چکے تھے اس لئے اب آپ کی پہلی حالت اور اس حالت میں بہت فرق تھا اور اب آپ ایک ملک کے حاکم یا بادشاہ تھے پس اس وقت آپ کا صحابہ کے ساتھ مل کر کام کرنا جبکہ آپ کی عمر بھی چھپن سال کی ہو چکی تھی ایک اور ہی شان رکھتا ہے اور یہ واقعہ پہلے واقعہ سے بھی زیادہ شاندار ہے.179

Page 189

اس واقعہ سے اس بات کی بھی مزید تائید ہو جاتی ہے کہ آپ کسی وقت نصیحت سے غافل نہ ہوتے تھے کیونکہ اب بھی آپ نے جو شعر پڑھنے کے لئے چنے ہیں وہ ایسے بال ہیں کہ ان میں مسلمانوں کو اپنے کام میں دل لگانے کے لئے ہزاروں ترغیبیں دی ہیں کس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کا احسان بتایا ہے کہ یہ خدا کا ہی فضل ہے کہ تم مسلمان ہوئے اور خدا تعالیٰ پر احسان نہ جتانا کہ اس کے دین میں کوشش کر رہے ہو بلکہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اسلام کی توفیق دی اور تمہیں ہدایت کی راہوں پر چلا یا.پھر کس طرح اشارہ فرمایا کہ یہ جنگ کوئی دنیاوی جنگ نہیں بلکہ ایک مذہبی جنگ ہے اور اس کا اصل باعث کیا ہے؟ صرف یہ کہ ہم خدا کو کیوں مانتے ہیں شرک کیوں نہیں کرتے اور کیوں کفار کی بات نہیں مان لیتے.اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ جنگ کی ابتداء کفار کی طرف سے ہوتی ہے اور ہمارا کام تو یہی رہا ہے کہ ہم ان کی شرارتوں کے قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں.میں مانتا ہوں کہ یہ شعر کسی اور کے کہے ہوئے ہیں اور آپ شعر نہیں کہتے تھے مگر موقعہ پر ان شعروں کو چن لینا یہ بتاتا ہے کہ آپ کس طرح نصیحت کے پہلو کو ہمیشہ اختیار کرتے تھے عرب ایسے موقعوں پر شعر کہنے اور پڑھنے کے عادی ہیں اور صحابہ بھی شعر کہتے تھے مگر سب اشعار میں سے ان کو چن لینا یہ حکمت سے خالی نہ تھا اور واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ انتخاب بے معنی نہ تھا بلکہ مسلمانوں کو بہت سے ضروری مسائل کی طرف متوجہ کرنا تھا.غرض کہ آنحضرت کی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ خدا کی راہ میں ہر ایک کام میں صحابہ کے شریک رہتے تھے اور یہ بات دنیا کے کسی بادشاہ میں اس حد تک نہیں پائی جاتی.(180

Page 190

علم غیب سے انکار :- اب میں آنحضرت سلی لی ایم کے اخلاق کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتا ہوں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا مطہر پیدا کیا.بادشاہوں کے درباروں اور رؤساء کی مجالس میں بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ ان مقامات میں بیجا تعریف اور جھوٹی مدح کا بازار کیسا گرم رہتا ہے اور کس طرح درباری اور ہم مجلس رؤساء کی تعریف اور مدح میں آسمان اور زمین کے قلابے ملاتے ہیں اور وہ ان کوسن سنکر خوش اور شاداں ہوتے ہیں.ایشیائی شاعری کا تو دارو مدار ہی عشقیہ غزلوں اور امراء کی مدح سرائی پر ہے.شاعر اپنے قصیدہ میں جس امیر کی مدح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے دنیا کی ہر ایک خوبی اس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور واقعات اور حقیقت سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی جس قدر ممکن ہو جھوٹ بولتا ہے اور تعریف کا کوئی شعبہ اٹھا نہیں رکھتا.ہر ایک رنگ سے اس کی بڑائی بیان کرتا ہے اور اس کا دل خوب جانتا ہے کہ میرے بیان میں سوواں حصہ بھی صداقت نہیں.سننے والے بھی جانتے ہیں کہ محض بکواس کر رہا ہے مگر وہ جب اس امیر یا بادشاہ کی مجلس یا در بار میں اپنا قصیدہ پڑھ کر سناتا ہے تو ہر ایک شعر پر اپنی داد کا خواہاں ہوتا ہے اور سننے والے جو اس کی دروغ گوئی سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں قصیدہ کے ایک ایک مصرع پر ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر داد دیتے اور تعریف کرتے ہیں کہ سبحان اللہ کیا خوب کہا اور خود وہ امیر جس کی شان میں وہ قصیدہ کہا جاتا ہے باوجود اس علم کے کہ مجھ میں وہ باتیں ہرگز نہیں پائی جاتیں جو شاعر نے اپنے قصیدہ میں بیان کی ہیں.ایک ایک شعر پر اسے انعام دیتا اور اپنی ذات پر ناز وفخر کرتا ہے حالانکہ قصیدہ کہنے والا سننے والا اور جس کے حق میں کہا گیا ہے.سب کے سب واقعات سے نا واقف نہیں ہوتے اور ہر ایک جانتا ہے 181

Page 191

کہ قصیدہ میں جو مضامین بیان کئے گئے ہیں ان میں ایک شمہ بھر بھی صداقت و راستی نہیں امراء کی قید کیا ہے عام طور پر ہر ایک انسان کا یہی حال ہے (إِلَّا مَا شَاءَ اللہ) کہ وہ اپنی تعریف سنکر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ میری مدح کی جائے اور جب کوئی اسکی نسبت جھوٹی مدح سے بھی کام لیتا ہے تو اس کے اندر یہ جرأت نہیں ہوتی کہ اس کا انکار کر سکے بلکہ سکوت کو ہی پسند کر لیتا ہے.مگر ہمارے آنحضرت فداہ ابی وامی ایسے برگزیدہ اور پاک و مطہر انسان تھے کہ آپ ان کمزوریوں سے بالکل پاک تھے.اور اگر ایک طرف ہر قسم کی خوبیوں کے جامع اور نیکیوں کے خازن تھے تو دوسری طرف آپ یہ بھی کبھی پسند نہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص آپ کی نسبت کوئی ایسی بات بیان کرے جو درحقیقت آپ میں نہیں پائی جاتی.ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ بَنِيَ عَلَيَّ فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسَكَ مِنَى وَجُوَيْرِيَاتْ يَضْرِ بْنَ بِالدَّفَ يَنْدُ بْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ اَبَا ئِهِنَّ يَوْمَ بَدْرٍ حَتَّى قَالَتْ جَارِيَةً: وَفِينَانَبِيُّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (لَا تَقَوْلِى هَكَذَا، وَقَوْلِى مَا كُنتِ تَقُولِين).( بخاری کتاب المغازی باب قصه غزوہ بدر ) یعنی جس دن میری شادی ہوئی ہے اس دن آنحضرت میرے پاس تشریف لائے اور میرے فرش پر بیٹھ گئے اسی طرح جس طرح تو بیٹھا ہے ( یہ بات راوی کو کہی ) اور کچھ لڑکیاں دف بجارہی تھیں اور بدر کی جنگ میں جو ان کے بزرگ مارے گئے تھے ان کی تعریفیں بیان کر رہی تھیں یہاں تک کہ ایک لڑکی نے یہ مصرع پڑھنا شروع کیا ( اس مصرع کا ترجمہ یہ ہے) کہ ہم میں ایک رسول ہے جو کل کی بات جانتا ہے.اس بات کو سنکر آنحضرت نے اسے ٹوکا اور فرمایا کہ یہ مت کہو اور جو کچھ پہلے گا رہی تھی وہی گاتی جا.(182

Page 192

یہ وہ اخلاق ہیں جو انسان کو حیران کر دیتے ہیں اور وہ ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک انسان ان تمام کمالات کا جامع ہو سکتا ہے.بے شک بہت سے لوگوں نے جن کی زبان تیز تھی یا قلم رواں تھی تقریر وتحریر کے ذریعہ اعلیٰ اخلاق کے بہت سے نقشہ کھینچے ہیں لیکن وہ انسان ایک ہی گزرا ہے جس نے صرف قول سے ہی نہیں بلکہ عمل سے اعلیٰ اخلاق کا نقشہ کھینچ دیا اور پھر ایسا نقشہ کہ اس کی یاد چشم بصیرت رکھنے والوں کو کبھی نہیں بھول سکتی.ایک طرف دنیا کو ہم اپنی تعریف و مدح کا ایسا شیدا دیکھتے ہیں کہ خلاف واقعہ تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں اور جن کی مدح کی جاتی ہے بجائے نا پسند کرنے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور ایک طرف آنحضرت کو دیکھتے ہیں کہ ذرا منہ سے ایسا کلام سنا کہ جو خلاف واقعہ ہے تو باوجود اس کے کہ وہ اپنی ہی تعریف میں ہوتا اس سے روک دیتے اور کبھی اسے سننا پسند نہ فرماتے ہیں تفاوت راه از کجاست تا بکجا.اہل دنیا کدھر کو جارہے ہیں اور وہ ہمارا پیارا کدھر کو جاتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اپنی تعریف کو پسند نہیں کرتے اور بے جا تعریف کرنے والے کو روک دیتے ہیں اور بادشاہ ہوں میں سے بھی ایسے آدمی گزرے ہیں مگر آپ کے فعل اور لوگوں کے فعل میں ایک بہت بڑا فرق ہے جو آپ کے عمل کو دوسروں کے اعمال پر امتیاز عطا کرتا ہے انگلستان کے مؤرخ اپنے ایک بادشاہ ( کینوٹ ) کے اس فعل کو کبھی اپنی یاد سے اترنے نہیں دیتے کہ اس نے اپنے بعض درباریوں کی بے جا خوشامد کو نا پسند کر کے انہیں ایسا سبق دیا جس سے وہ آئندہ کے لئے اس سے باز آجائیں.یعنی جب بعض لوگوں نے اس سے کہا کہ سمندر بھی تیرے ماتحت ہے تو اس نے ان پر ثابت کر دیا کہ سمندر اس کا حکم نہیں مانتا.مگر یا درکھنا چاہئے کہ وہ ایک دنیا وی بادشاہ تھا اور روحانی بادشاہت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھانہ اسے روحانی حکومت (183)

Page 193

و تصرف کا ادعاء تھا.پس اگر ایک ایسی بات کا اس نے انکار کر دیا جو اس کے اپنے راہ سے علیحدہ تھی تو یہ کچھ بڑی بات نہ تھی اسی طرح دیگر لوگ جو جھوٹی مدح سے متنفر ہوتے ہیں ان کے حالات میں بھی بہت کچھ فرق ہے آنحضرت ایک ایسی قوم میں تھے جو سر تسلیم جھکانے کے لئے صرف ایک ایسے شخص کے آگے تیار ہو سکتی تھی جو اپنی طاقت سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہو کیونکہ اس کی رگ رگ میں حریت اور آزادی کا خون دوڑ رہا تھا پس اس کے سامنے اپنے آپ کو معمولی انسانوں کی طرح پیش کرنا بلکہ اگر ان میں سے کوئی آپ کی ایسی تعریف بھی کرے جو وہ اپنے بڑوں کی نسبت کرنے کے عادی تھے تو اسے روک دینا یہ ایک ایسا فعل تھا جس سے ایک اوسط درجہ کا انسان گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ کیونکر ہوگا.دوم آپ کو دعوی تھا نبوت کا اور نبوت میں آئندہ خبریں دینا ایک ضروری امر ہے پس یہ تعریف خود آپ کے کام کی نسبت تھی گومبالغہ سے اسے اور کا اور رنگ دے دیا گیا تھا.پس آپ کا اس تعریف سے انکار کرنا دوسرے لوگوں سے بالکل ممتاز ہے اور آپ کے نیک نمونہ سے کسی اور انسان کا نمونہ خواہ وہ انبیاء میں سے ہی کیوں نہ ہو قطعا نہیں مل سکتا.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح حریت پیدا کرنی چاہتے تھے.اس قسم کے خیالات اگر پھیلائے جاتے اور آپ ان کے پھیلائے جانے کی اجازت دے دیتے تو مسلمانوں میں شرک ضرور پھیل جاتا مگر ہمارا رسول تو شرک کا نہایت خطرناک دشمن تھا وہ کب اس بات کو پسند فرما سکتا تھا کہ ایسی باتیں مشہور کی جائیں جو واقعات کے خلاف ہیں اور جن سے دنیا میں شرک پھیلتا ہے پس اس نے جو نہی ایسے کلمات سنے کہ جن سے شرک کی بو آتی تھی فوراً ان سے روک دیا اور اس طرح بنی نوع انسان کو ذہنی غلامی سے بچالیا اور حریت کے ایک ایسے ارفع اسٹیج پر کھڑا کر دیا جہاں غلامی کی زہریلی ہواؤں کا پہنچنا ناممکن 184

Page 194

ہوجا تا ہے.اے سوچنے والوسوچو تو سہی کہ اگر آنحضرت کو دنیا کی عزت اور رتبہ منظور تھا اور آپ کا سب کام دنیاوی جاہ و جلال حاصل کرنے کے لئے تھا تو آپ کے لئے کیا مناسب تھا.کیا یہ کہ لوگوں میں اپنی عزت و شان کے بڑھانے کے لئے باتیں مشہور کراتے یا کہ معتقدین کو ایسا کرنے سے روکتے کیا وہ لوگ جو اپنی خواہش اور آرزو کے ماتحت دنیا میں بڑا بننا چاہتے ہیں اسی طرح کیا کرتے ہیں.کیا وہ بغیر امتیاز جھوٹ اور بیچ کے اپنی شان دو بالا نہیں کرنی چاہتے.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک انسان کو بغیر اس کے اشارہ کے کچھ لوگ وہ شان دینا چاہتے ہیں جو اگر کسی انسان میں پائی جائے تو وہ مرجع خلائق بن جائے تو وہ انہیں روکتا ہے اور فورا کہہ دیتا ہے کہ اور اور باتیں کرو مگر ایسا کلام منہ پر نہ لاؤ جس سے اس وحدہ لاشریک ذات کی ہتک ہوتی ہو جو سب دنیا کا خالق و مالک ہے اور میری طرف وہ باتیں منسوب نہ کرو جو در حقیقت مجھ میں نہیں پائی جاتیں.ہاں بتلاؤ تو سہی کہ اس کا کیا سبب ہے؟ کیا یہ نہیں کہ وہ دنیا کی عزتوں کا محتاج نہ تھا بلکہ خدا کی رضا کا بھوکا تھا.دنیا اس کی نظر میں ایک مُردار سے بھی کم حیثیت رکھتی تھی.آرام و آسائش کے اوقات میں اپنے ہوش و حواس پر قابورکھنا کوئی بات نہیں.انسان کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس پر کوئی مشکل پیش آئے اور پھر اس میں وہ اپنے حواس کو قائم رکھے اور بدحواس نہ ہو جائے.آنحضرت کو اپنی عمر میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے اور بہادری اور جرأت میں آپ نے اپنے آپ کو بے نظیر ثابت کر دکھایا ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے مختلف واقعات سے ثابت کر چکے ہیں ان مصائب و آسائش کے مختلف دوروں نے آپ کی عظمت اور جلال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہر حالت میں اپنی کوئی نہ کوئی خوبی ظاہر کی ہے.خواہ عسر کا زمانہ ہو یا لیسر کا.آپ بے عیب ثابت ہوئے ہیں اور (185)

Page 195

آپ کی شان ارفع سے ارفع تر ثابت ہوئی ہے.نہ تو مصائب کے ایام میں آپ سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوئی جس سے آپ پر عیب گیری کا موقع ملے نہ خوشی کے دنوں میں آپ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوا جس سے آپ پر اعتراض کرنے کی گنجائش پیدا ہو ہر رنگ اور شکل میں آپ دنیا کے لئے ایک قابل قدر نمونہ ثابت ہوئے ہیں.جرات و بہادری کی نسبت تو میں لکھ چکا ہوں اس جگہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آنحضرت کو اپنے حواس پر کیسا قا بو تھا اور کس طرح خطر ناک سے خطرناک مصائب میں آپ استقلال اور ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کے عادی تھے اور آپ سے کبھی کوئی ایسی حرکت نہ ہوتی تھی جس سے کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر ہو اور یہ بھی کہ کیوں کر ہر ایک مصیبت میں آپ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی دکھائی دیتا تھا.یہ تو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ آنحضرت صلی یہ اہم دوسرے بادشاہوں کی طرح اپنے ساتھ کوئی پہرہ یا گارڈ نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے صحابہ کی طرح آپ بھی اکیلے اپنے کام میں مشغول رہتے تھے ایسے اوقات میں دشمن کو جس قدر دکھ پہنچانے کے مواقع مل سکتے ہیں وہ ایک واقف کار انسان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہو سکتے.جو انسان ایک ہی وقت میں اپنے ملک کے ہر طبقہ کے انسانوں اور ہر فرقہ کے پیروؤں سے خصوصا اور باقی دنیا سے عموما جنگ شروع کر چکا ہو اور ان کے عقائد اور خیالات کو مٹا کر ان کی جگہ اپنی لائی ہوئی تعلیم کو پھیلانے میں کوشاں ہو.اس سے دیگر مذاہب اور مخالف امراء کے پیروؤں اور متبعین کو جو کچھ بھی عداوت ہو کم ہے اور وہ ہر ممکن سے ممکن ذرائع سے اسے تکالیف پہنچانے کی کوشش کریں گے اور خصوصا انہیں معلوم ہو کہ جس شخص کو ایذاء پہنچا نا انہیں مقصود ہے وہ بغیر کسی نگرانی یا پہرہ کے گلیوں اور میدانوں میں تن تنہا چلتا پھرتا انہیں مل سکتا ہے.(186)

Page 196

آپ کے مخالفین نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے جو تدابیر کیں ان سے بحیثیت مجموعی مجھے غرض نہیں.میں صرف بخاری کی روایات سے کچھ واقعات اس سیرت میں بیاں کر رہا ہوں جن سے آپ کے اخلاق پر روشنی پڑتی ہے اس لئے صرف ایک ایسا واقعہ جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کس طرح آپ کی جان پر اچانک حملہ کیا گیا اور آپ نے اس وقت اپنے ہوش و حواس کو کس طرح بیجار کھا.اس جگہ بیان کرتا ہوں.عَنْ جَابِرٍ بِنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّهُ غَزَامَعَ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ فَلَمَّا قَفَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ ، فَادْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاءِ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَقَ النَّاسُ فِي الْعِضَاءِ يَسْتَظِلُوْنَ بِالشَّجَرِ وَنَزَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمْرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، قَالَ جَابِرَ فَنِمْنَا نَوْمَةً ثُمَّ إِذَا رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوْنَا فَجِئْنَاهُ فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيْ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَيْفِيْ وَأَنَا نَائِمْ فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ سَلْتَا فَقَالَ لِيْ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ، قُلْتُ اللَّهُ، فَهَا هُوَ زَاجَالِسَ ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع ) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی یتیم کے ساتھ مسجد کی جانب ایک غزوہ میں شریک ہوئے اور جب آپ سفر سے لوٹے.تو آپ بھی حضور کے ساتھ لوٹے راستہ میں لشکر ایک ایسی وادی میں جو کانٹے دار درختوں سے پر تھی دو پہر کے وقت گزرا.پس رسول اللہ صلیم وہاں اتر پڑے اور آپ کے ساتھی ادھر ادھر درختوں میں پھیل گئے اور درختوں کے سائے میں آرام کرنے لگے.آنحضرت سلی یا یہ تم بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے ٹھہر گئے اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکا دی.جابر فرماتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر سو گئے پھر اچانک آنحضرت کی آواز آئی کہ آپ ہمیں بلاتے ہیں پس (187)

Page 197

ہم آپ کے پاس آئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک اعرابی بیٹھا ہے.رسول اللہ ی ایم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار میان سے کھینچی اور میں سور ہا تھا پس میں جاگ پڑا اور اس کے ہاتھ میں نگی تلوار تھی پس اس نے مجھے کہا کہ مجھ سے تجھے کون بچائے گا میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ بچائے گا.پس دیکھو یہ سامنے بیٹھا ہے پھر جابر فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے اسے کوئی سزا نہ دی.دوسری جگہوں سے اس واقعہ میں اس قدر اور زیادتی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کا نام سنکر اس شخص پر اس قدر ہیبت طاری ہوئی کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور آنحضرت نے اٹھالی اور اس سے فرمایا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی نہیں.پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا اور صحابہ کو بلا کر دکھا یا.اس حدیث سے کیسے واضح طور سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کو اپنے حواس پر ایسا قابو تھا کہ نہایت خطرناک اوقات میں بھی آپ نہ گھبراتے.کہنے کو تو شاید یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ اب آپ کو کون بچائے گا اور آپ نے فرمایا کہ اللہ لیکن عمل میں یہ بات مشکل ترین امور میں سے ہے.اول تو سو یا ہوا انسان پہلے ہی بہت سی غفلتوں کے نیچے ہوتا ہے اور بغیر کسی خوف وخطر کے بھی ایک سوئے ہوئے آدمی کو جگا دیا جائے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور کسی خطر ناک آواز یا نظارہ کو اگر ایک سو یا ہوا انسان سنکر یا دیکھ کر اٹھے تو اس کے حواس قائم رہنے نہایت مشکل ہوتے ہیں.پس اگر جاگتے ہوئے کوئی دشمن حملہ کرتا تو وہ واقعہ ایسا صاف اور روشن نہ ہوتا جیسا کہ یہ ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو کسی خطرہ کا گمان تک بھی نہ تھا جب اس شخص نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کسی ایسے فعل سے انتہائی درجہ کی لاعلمی میں تھے اور دوسری طرف دشمن کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہر قسم کی تیاری اور ہوشیاری کا 188

Page 198

موقع حاصل تھا.علاوہ ازیں ایک آدمی جب بیٹھا یا کھڑا ہو تو وہ حملہ آور کا مقابلہ نہایت آسانی سے کر سکتا ہے اور کم سے کم اسے اپنی جنگی بدلنے میں آسانی ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے حملہ کو اگر طاقت اور قوت سے میں نہیں روک سکتا تو کم سے کم چستی اور چالا کی سے اس کے حملہ کو ضرور بچاسکتا ہوں اور اس کی ضرب سے ایک طرف ہو کر اپنی جان بچانے کا موقع حاصل ہوسکتا ہے لیکن آنحضرت اس وقت لیٹے ہوئے تھے اور پھر سوئے ہوئے جاگے تھے جس کی وجہ سے کوئی ظاہری تدبیر دشمن کے حملہ کو روکنے کی نہ تھی اور پھر آپ تغیر علاقہ میں تھے اور دشمن اپنی جگہ پر تھا جہاں اپنی حفاظت کا اسے ہر طرح یقین تھا مگر باوجود ان حالات کے آپ نے ایک ذرہ بھر بھی تو گھبراہٹ ظاہر نہ کی.اس اعرابی کا یہ کہنا بھی کہ اب تجھے کون بچا سکتا ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسے بھی کامل یقین تھا کہ اب کوئی دنیاوی سامان ان کے بچاؤ کا نہیں مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جس شخص پر میں حملہ کرنا چاہتا ہوں وہ معمولی انسانوں میں سے نہیں بلکہ ان میں سے ہے جو خالق ارض و سما کے دربار کے مقرب اور اس کے ظل عافیت کے نیچے آئے ہوئے ہوتے ہیں.آنحضرت صلی یا ایتم نے اسے جس آرام اور اطمینان قلب کے ساتھ جواب دیا ہے کہ مجھے اللہ بچائے گاوہ روز روشن کی طرح اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ آپ کے دل میں غیر اللہ کا خوف ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں آتا تھا اور آپ کا دل ایسا مضبوط اور قوی تھا کہ خطر ناک سے خطر ناک اوقات میں بھی اس میں گھبراہٹ کا وجود نہ پایا جاتا تھا اور اپنے حواس پر آپ کو اس قدر قدرت تھی کہ اور تو اور خود دشمن بھی جو آپ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا بدحواس ہو گیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ میں ایک ایسی طاقت کا مقابلہ کر رہا ہوں جسے نقصان پہنچانے کی بجائے میں خود تباہ ہو جاؤں گا.(189

Page 199

ہمیشہ خیر اختیار کرتے :- آنحضرت سلی یا تم بھی ضد سے کام نہ لیتے تھے بلکہ جس بات میں خیر دیکھتے اس کو اختیار کرتے تھے اور قطعاً اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ اس سے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی.ہم دیکھتے ہیں کہ رجال سیات دنیویہ نے اپنے اصولوں میں سے ایک یہ اصل بھی بنا رکھی ہے کہ بادشاہ یا حاکم جو حکم دے دے اور جو فیصلہ کر دے اس میں تغیر نہ کرے اور جس طرح کیا ہے اس پر قائم رہے تا کہ لوگوں کے دل میں یہ نہ خیال پیدا ہو کہ ہم نے ڈرا کر منوالیا ہے یا کم سے کم دوسروں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے کہ ایک بات کہ کر پھر اس سے رجوع کر لیا ہے اور اس اصل پر رِجالِ سیاست ایسے پکے اور قائم رہتے ہیں کہ بعض اوقات جنگوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے مگر وہ اپنی بات کی بیچ کے لئے اور دبد بہ حکومت قائم رکھنے کے لئے ملک کو جنگ میں ڈال دیتے ہیں لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اپنے فیصلہ کو واپس لے لیں.جو لوگ تاریخ انگلستان سے واقف ہیں ان سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ ریاستہائے متحدہ سے جنگ کی وجہ یہی ہوئی کہ انگلستان کے رجالِ سیاست ایک فیصلہ دے کر اس کو واپس نہیں لینا چاہتے تھے گو وہ اس بات کو خوب سمجھ گئے تھے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ایک خونریز جنگ ہوئی اور ایک سرسبز وشاداب ملک ہاتھ سے جاتا رہا.خود ہندوستان میں تقسیم بنگالہ کا فیصلہ ایک کھلی نظیر موجود ہے کہ خود وزراء انگلستان قبول کرتے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہو لیکن ڈرتے تھے کہ اسے تبدیل کر دیں گے تو ملک میں حکومت کی بے رعبی ہو گی چنانچہ جب تک شہنشاہ ہند کی تاجپوشی کا ایک نہایت غیر معمولی (190

Page 200

موقع پیش نہیں آیا اس حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا.اور در حقیقت بظاہر دنیاوی نقطۂ خیال سے یہ بات ہے بھی درست کیونکہ جب رعایا کے دل میں یہ بیٹھ جائے کہ ہم جس طرح چاہیں کراسکتے ہیں یا ان کو یہ خیال ہو جائے کہ ہمارا حاکم تو بالکل غیر مستقل مزاج آدمی ہے اسے جس طرح چاہیں پھیر دیں تو وہ بہت دلیر اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سست ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے رِجالِ سیاست نے اس بات کو بہت پسند کیا ہے کہ حاکم اپنے فیصلہ کو بہت جلدی واپس نہ لے بلکہ حتی الامکان اس پر قائم رہے.ہمارے آنحضرت صلی لایم جس پاک فطرت کو لے کر پیدا ہوئے اور جن کمالات کو آپ نے حاصل کیا تھا وہ چاہتے تھے کہ آپ ہمیشہ خیر اختیار کریں ایک دنیاوی بادشاہ یا حاکم اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ میں اپنے ایام حکومت میں حکومت کے رعب کو قائم رکھتا رہا ہوں اور ایک مضبوط ارادہ کے ساتھ نظام حکومت چلا تا رہا ہوں مگر میرے اس پیارے کا یہ فخر نہ تھا کہ میں نے جو کچھ کہ دیا اس پر پابند رہا ہوں بلکہ اس کا فخر یہ تھا کہ میں نے جب عمل کیا خیر پر کیا اور جب مجھے معلوم ہوا کہ میں فلاں رنگ میں کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں میں نے اس کے پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی پس اگر روحانیت کی دنیا میں کوئی شخص قابل اتباع ہوسکتا ہے تو وہ آنحضرت سلی یا ریتم ہی ہو سکتے ہیں.حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: إِنَّا آتَيْنَا النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَرَ مِنَ الْأَشْعَرِ بَيْنَ فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَأَبِي أَنْ يَحْمِلَنَا، فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَحَلَفَ أنْ لا يَحْمِلَنَاثُمَ لَمْ يَلْبَثِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِيَ بِنَهْبٍ ايل فَأَمَرَلَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ فَلَمَّا قَبَضْنَا هَا قُلْنَا : تَغَفَلْنَا النَّبِيَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِيْنَهُ لَا نُفْلِحُ بَعْدَهَا أَبَدًا فَآتَيْتَةً فَقُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا وَقَدْ حَمَلْتَنَا؟ قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِيْنِ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهَا ( بخاری کتاب المغازی باب قدوم الاشعريين واهل اليمن) 191

Page 201

آپ نے فرمایا کہ ہم چند آدمی جو اشعری قبیلہ کے تھے.نبی کریم صلی یہ نیم کے پاس آئے اور ہم نے آپ سے سواری مانگی.آپ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے میں نہیں دے سکتا.ہم نے پھر عرض کیا کہ ہمیں سواری دی جاوے تو آپ نے قسم کھالی کہ ہمیں سواری نہ دیں گے پھر کچھ زیادہ دیر نہ لی تھی کہ نبی کریم سی تمنا ہی ہم کے پاس کچھ اونٹ لائے گئے پس آپ نے حکم دیا کہ ہمیں پانچ اونٹ دیئے جاویں.پس جب ہم نے وہ اونٹ لے لئے ہم نے آپس میں کہا کہ ہم نے تو آنحضرت صلی ا یہ تم کو دھوکا دیا ہے اور آپ کو آپ کی قسم یاد نہیں دلائی ہم اس کے بعد کبھی مظفر و منصور نہ ہوں گے اس خوف سے میں آنحضرت مسلہ یہ تم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یارسول اللہ آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ آپ ہمیں سواری نہ دیں گے اور اب تو آپ نے ہمیں سواری دے دی ہے.فرمایا ہاں اسی طرح ہوا ہے میں کوئی قسم نہیں کھا تا لیکن جب اس کے سوا کوئی اور بات بہتر دیکھتا ہوں تو وہ بات اختیار کر لیتا ہوں جو بہتر ہو.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی یتیم کا مقصود کیا تھا آپ کے کام کسی دنیاوی مصلحت یا ارادہ کے ماتحت نہ ہوتے تھے بلکہ آپ اپنے ہر کام میں یہ بات مدنظر رکھتے تھے کہ جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ واقعہ میں نفع رساں بھی ہے یا نہیں اور اگر کبھی معلوم ہو جائے کہ آپ نے کوئی ایسا کام کیا ہے یا اس کے کرنے کا ارادہ کیا ہے جو کسی انسان کے لئے مضر ہوگا یا اسے اس سے تکلیف ہوگی تو آپ فوراً اپنے پہلے حکم کو واپس لے لیتے اور وہی بات کرتے جو بہتر اور نفع رساں ہوتی.ایک ظاہر بین انسان کہہ سکتا ہے کہ اس سے رعب و داب میں فرق آتا ہے اور حکومت کو نقصان پہنچتا ہے مگر اس بات سے تو آپ کی خوبی اور نیکی کا پتہ چلتا ہے کہ خواہ کوئی امرکیسا 192

Page 202

ہی خطرناک اور مضر معلوم ہوتا ہو آپ بے دھڑک اسے اختیار کر لیتے تھے جبکہ آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس سے لوگوں کے حقوق کی نگہداشت ہوتی ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان تھا کہ باوجود اس بات کے آپ کو ایسا رعب و داب میسر تھا جو دنیا کے کسی بادشاہ کو میسر نہیں.واقعہ میں ایک بادشاہ کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سکھ پہنچائے اور آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آپ دین و دنیا کے لئے ایک کامل نمونہ تھے اور آپ کی زندگی دنیاوی بادشاہوں کے لئے بھی نمونہ ہے کہ بادشاہوں کو اپنے ماتحتوں اور رعایا کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے اور کس طرح ضد اور تعصب سے الگ ہو کر ہر ایک قربانی اختیار کر کے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے تیار رہنا چاہئے.ہمیں اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماتحتوں پر اسی وقت بادشاہ کے حکم بدل دینے کا برا اثر پڑتا ہے جب کہ ان کو یہ یقین ہو کہ بادشاہ ہمارا یقینی خیر خواہ نہیں بلکہ اس نے ڈرکر اپنے حکم میں تبدیلی کی ہے اور جب انہیں یقین ہو کہ اس کے احکام ایک غیر مستقل طبیعت کا نتیجہ ہیں لیکن اگر انہیں اس بات کا کامل یقین ہو جائے کہ کوئی بادشاہ یا حاکم ان سے ڈر کر یا بے استقلالی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے حکم بدلتا ہے کہ وہ انکا خیر خواہ ہے اور کسی وقت بھی ان کی بھلائی سے غافل نہیں ہوتا تو بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میں بے رعبی پیدا ہو وہ اس سے اور بھی مرعوب ہو جاتے ہیں اور ان کے دل محبت سے بھر جاتے ہیں اور جو بادشاہ اپنی رعایا اور ماتحتوں کے دلوں میں اپنی خیر خواہی کا ایسا یقین بٹھادے وہی سب سے زبر دست بادشاہ ہے اور یہی خیال تھا جس نے کہ ابو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو مجبور کیا کہ بجائے اس خیال کے کہ یہ سمجھیں کہ آنحضرت سایا ہی تم سے کسی قسم کی بے استقلالی ظاہر ہوئی ہے انہوں نے جنگ کے لئے پیدل جا نا منظور کیا مگر یہ نہ پسند کیا کہ آپ کو دوبارہ قسم (193

Page 203

یاد دلائے بغیر ان سواریوں کو استعمال کریں.اور یہ اس عظیم الشان فتح کا نشان تھا جو آپ کو اپنے اصحاب کے دلوں پر حاصل تھی.حتمل :- انسان کے نیک خصال میں سے تحمل کی خصلت بھی اعلیٰ درجہ کی ہے کیونکہ تحمل سے بہت سے جھگڑوں فسادوں اور لڑائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے.بہت دفعہ انسان ایک بات سنکر بحث مباحثہ میں پڑ جاتا ہے اور بجائے فائدہ کرنے کے نقصان پہنچاتا ہے.بعض لوگ تو اپنے خیال کے خلاف بات سنتے ہی کچھ ایسے دیوانہ ہو جاتے ہیں کہ حد اعتدال سے بڑھ کر گالیوں پر اتر آتے ہیں اور عظیم الشان فسادوں کے بانی ہو جاتے ہیں.بعض لوگ اپنے منشا کے خلاف بات سنکر ایسی طول طویل بحثیں شروع کر دیتے ہیں کہ جن کا ختم ہونا محالات سے ہو جاتا ہے لیکن حقیقی مصلح وہی ہے جو اکثر اوقات تحمل سے کام لیتا ہے اور احتیاط کے ساتھ سمجھاتا ہے.آجکل کے بادشاہ یا علماء یا گدی نشین اپنی حیثیت کا قیام ہی اسی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے خلاف بات نہ کرے اور مرضی کے خلاف بات دیکھ کر فوراً ناراض ہوجاتے ہیں اور تحمل سے کام نہیں لیتے ممکن نہیں کہ ان لوگوں کے مزاج کے خلاف کوئی شخص بات کہہ دے اور پھر بغیر کچھ سخت وست کلام سننے کے اس مجلس سے اٹھے مگر ہمارے آنحضرت سیلا ہی تم اس طرز کے نہ تھے.اس موقع پر تحمل سے کام لیتے اور بجائے گالیاں دینے اور سختی کرنے کے ایسا نرمی کا طریق اختیار کرتے کہ دوسرا خود بخو د شرمندہ ہو جائے.حضرت علی اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت علی نے آپ کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلہ کا طرز پایا جاتا تھا تو 194

Page 204

بجائے اس کے کہ آپ ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے آپ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی غالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزا اٹھاتے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھا یا ہو گا وہ تو انہیں کا حق تھا.اب بھی آنحضرت سلام کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک بار یک بین نظر محو حیرت ہو جاتی ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں اَنَّ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَيْلَةً فَقَالَ : أَلَا تُصَلِّيَانِ فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِيْنَ قُلْنَا ذَالِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتَهُ وَهُوَ مَوَلَّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الْإِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً ( بخاری کتاب التهجد باب تحريض علی قیام اللیل) یعنی نبی کریم ساہنی الہی ہم ایک رات میرے اور فاطمتہ الزہرا کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ سی ایم کی صاحبزادی تھیں اور فر ما یا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے.میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے.آپ اس بات کو سنکر لوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا پھر میں نے آپ سے سنا اور آپ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوئے تھے اور آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے.اللہ اللہ کس لطیف طرز سے حضرت علی کو آپ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہئے تھا.کوئی اور ہوتا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو.پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو ڑ کر دو.یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے چاہے نماز کی تو فیق دے چاہے نہ (195)

Page 205

دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے لیکن آپ نے ان دونوں طریق میں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے نہ بحث کر کے حضرت علی کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے حقیقت میں آپ کا اتنا کہ دینا ایسے ایسے منافع اندر رکھتا تھا کہ جس کا عُشر عشیر کسی اور کی سو بحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا.اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن سے آنحضرت کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے.اول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو دینداری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو خود تو نیک ہوتے ہیں، لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کا حال خراب ہوتا ہے اور ان میں یہ مادہ نہیں ہوتا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لوگوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا.یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پاس تمام اشیاء کو روشن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ دوسروں کو تو نصیحت کرتے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لوگ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں.مگر آنحضرت کو اس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کرنا چاہتے تھے اور اس کا آپ تعہد بھی کرتے تھے اور ان کے امتحان و تجر بہ میں لگے رہتے تھے، اور تربیت اعزاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے جو اگر آپ میں نہ ہوتا تو آپ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جاتی.(196

Page 206

دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ایک منٹ کے لئے بھی آپ اس پر شک نہیں کرتے تھے اور جیسا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذباللہ دنیا کو الو بنانے کے لئے اور اپنی حکومت جمانے کے لئے آپ نے یہ سب کا خانہ بنایا تھا ور نہ آپ کو کوئی وحی نہ آتی تھی.یہ بات نہ تھی.بلکہ آپ کو اپنے رسول اور خدا کے مامور ہونے پر ایسا ملج قلب عطا تھا کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپ بناوٹ سے کام لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جائے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجالاتے ہیں جو اس نے فرض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کرنا مؤمنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جاتی ہے.اس وقت آپ کا جانا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کرتا ہے جو آپ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپ لوگوں کو چلانا چاہتے تھے ورنہ ایک مفتری انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلنا ایک سا ہے اپنی اولا د کو ایسے پوشیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی نصیحت نہیں کر سکتا یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کرنے کے لئے میں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت ہر ایک بات کے سمجھانے کے لئے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے.چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علی نے آپ کے سوال کو اس طرح رد کرنا چاہا کہ جب ہم سو جا ئیں تو ہما کیا اختیار 197

Page 207

ہے کہ ہم جاگیں کیونکہ سویا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا.جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آگیا ہے اب میں فلاں کام کر لوں اللہ تعالیٰ آنکھ کھول دے تو نماز ادا کر لیتے ہیں ورنہ مجبوری ہوتی ہے ( کیونکہ اس وقت الا رم کی گھڑیاں نہ تھیں ) اس بات کو سنکر آنحضرت کو حیرت ہوئی ہی تھی کیونکہ آپ کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپ کو ایسا غافل نہ ہونے دیتا تھا کہ تہجد کا وقت گزر جائے اور آپ کو خبر نہ ہو اس لئے آپ نے دوسری طرف منہ کر کے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے.یعنی تم کو آئندہ کے لئے کوشش کرنی چاہئے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہئے تھا.چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں میں نے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا.طهارة النفس محتمل :- ہم پہلے حضرت علی کے ایک واقعہ سے ثابت کر چکے ہیں کہ آنحضرت سی یہ اہم نہایت بردبار تھے بہت سے بادشاہوں کے جو اپنے خلاف بات سن کر یا اپنی مرضی کے نا موافق حرکت دیکھ کر نہایت غصہ اور جوش سے بھر جاتے ہیں اکثر چشم پوشی اور اعراض سے کام لیتے تھے اور ایسا طریق اختیار کرتے جس میں تحمل کا پہلو غالب ہو.اب ہم ایک اور ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہیں جو ایک دوسرے پہلو سے آپ کے تحتل پر روشنی ڈالتا ہے اور آپ کی صفات حسنہ کو اور بھی روشن کر کے ظاہر کرتا ہے.آنحضرت صلی یہ تم ہوازن پر فتح پاکے واپس آرہے تھے اور اس جنگ میں جو اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے ان کی تقسیم کا سوال در پیش تھا.آپ کا منشا تھا کہ اگر ہوازن تائب ہو کر آجائیں اور معافی کے خواستگار ہوں تو ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں لیکن دن پر دن گزرتے چلے گئے اور ہوازن کی طرف سے کوئی وفد طلب گار معافی 198

Page 208

ہو کر نہ آیا.بہت دن تک آپ نے تقسیم اموال کے کام کو تعویق میں رکھا.لیکن آخر اس بات کو مناسب سمجھا کہ اموال تقسیم کر دیئے جائیں.چنانچہ جعرانہ پہنچ کر آپ نے ان اموال کو تقسیم کرنا شروع کیا.منافق تو ہمیشہ اس تاک میں لگے رہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو ہم آپ پر اعتراض کریں.کوئی نہ کوئی راہ نکال کر ذوالخویصرہ التیمی نے عین تقسیم کے وقت بڑھ کر کہا کہ آپ اس تقسیم میں عدل کو مدنظر رکھیں جس سے اس کی مراد یہ تھی کہ آپ اس وقت عدل سے کام نہیں لے رہے امام بخاری صاحب نے اس واقعہ کو حضرت جابر سے یوں روایت کیا ہے کہ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا قُرَةً حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: بَيْنَمَا رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ غَنِيمَةً بِالْجِعْرَانَةِ إِذْ قَالَ لَهُ رَجُلْ : اعْدِلُ فَقَالَ لَهُ: (لَقَدْ شَقِيْتَ إِنْ لَمْ أَعْدِلُ).(کتاب الجہاد باب ومن الدليل على ان الخمس لنوائب المسلمیں) یعنی آنحضرت سالی تم اموال غنیمت کو جعرانہ کے مقام پر تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو کہا کہ آپ عدل سے کام لیں.آپ نے جواب دیا کہ اگر میں نے عدل نہیں کیا تو تو بڑی بے برکتی اور بدبختی میں مبتلا ہو گیا.اللہ اللہ کیسے خطر ناک حملہ کا جواب وہ پاک رسول کس نرمی سے دیتا ہے کس حلم سے اسے سمجھاتا ہے.آنحضرت صلی یا پیام سے جو عشق صحابہ کو تھا وہ ایسا نہ تھا کہ وہ ایسی باتیں برداشت کر سکتے.بلکہ حضرت عمرؓ اور خالد بن ولید تو ہمیشہ ایسے مواقع پر تلوار کھینچ کر کھڑے ہو جاتے تھے.مگر آنحضرت سلی لا علم ان کو ہمیشہ روکتے رہتے تھے کہ ان لوگوں سے اعراض کرو.پس ایسے وقت میں جبکہ مکہ کے حدیث العہد مسلمان جو ابھی ان آداب سے بالکل ناواقف تھے جو ایک رسول کے حضور بجالانے ایک مؤمن کا فرض ہوتا ہے اور جو ایک ذرہ سے اشارہ سے صراط مستقیم سے ہٹ کر کہیں کے کہیں پہنچ سکتے تھے آپ کے ارد گر دکھڑے 199

Page 209

تھے اور وہی وقت تھا جب انہوں نے یہ سبق سیکھنا تھا کہ رسول کریم سلیشن اسلام کے ساتھ ہمیں کس طرح عمل کرنا چاہئے ایک شخص کا آگے بڑھ کر نہایت بے حیائی سے آپ سے کہنا کہ حضور ذرا عدل مد نظر رکھیں اور بے انصافی اور حق تلفی نہ کریں ایک خطر ناک فعل تھا.جس سے ایک طرف تو ان قوانین کی خلاف ورزی ہوتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ساتھ کلام کرنے کے متعلق بیان فرمائے ہیں.دوسرے ان تمام مواعید پر پانی پھر جاتا تھا جو اس شخص نے آنحضرت سالا ای یتیم کے حضور کئے تھے اور جو ہر ایک مسلمان کو مسلمان ہونے کے لئے کرنے پڑتے ہیں.تیسرے سیاسی لحاظ سے آپ کے رعب کو ایک خطر ناک نقصان پہنچانے والے تھے.اور چوتھے نو مسلموں کے لئے ایک نہایت بد نظیر قائم کرنے والے تھے جن کے دل ابھی اس عزت کا خیال بھی نہیں کر سکتے تھے جو صحابہ کے دلوں میں بھری ہوئی تھی.پس وہ الفاظ جو ذوالخویصرہ کے منہ سے اس وقت نکلے ایک دنیاوی دربار میں خطر ناک سے خطرناک سزا کا فتویٰ دلانے کے لئے کافی تھے.اور اگر زمانہ قدیم کے درباروں میں ایسا انسان قتل کا مستوجب خیال کیا جاتا تو موجودہ دور دستوریت میں بھی ایسا آدمی سزا سے محفوظ نہ رہ سکتا لیکن وہ بادشاہ ہر دو جہاں اس کے گستاخانہ کلام کے جواب میں کیا کہتا ہے؟ کیا اسے سزا کا حکم دیتا ہے؟ کہ تا ان نومسلموں پر آپ کا رعب بیٹھ جائے جو نہایت نگران نگاہوں سے صحابہ اور آنحضرت صلی یا پی ایم کے تعلقات کو اس لئے دیکھ رہتے تھے کہ ان سے اندازہ لگا سکیں کہ یہ تعلقات مصنوعی یا حقیقی ، یا عارضی ہیں یا مستقل، سطحی ہیں یا ان کی جڑیں دل کے تمام کونوں میں مضبوطی سے گڑی ہوئی ہیں کیا وہ میرا پیارا اگر اسے کسی بدنی سزا کا مستحق قرار نہیں دیتا.تو کم سے کم زبانی طور پر ہی اسے سخت تہدید کرتا ہے کہ اگر ایسے الفاظ پھر تمہارے منہ سے نکلے تو تم کو سخت سزا دی جائے گی ؟ نہیں وہ بھی نہیں 200

Page 210

کرتا.کیا وہ اسے اپنے سامنے سے دور ہو جانے کا حکم دیتا ہے؟ نہیں! وہ اس سے بھی اجتناب کرتا ہے.پھر اس مجرم کے لئے وہ کیا سزا تجویز کرتا ہے! وہ باوجود صحابہ کی چڑھی ہوئی تیوری کے اور باوجود ان کے ہاتھوں کے بار بار دستہ تلوار کی طرف جانے کے اسے نہایت پر حکمت اور پر معنی جواب دیتا ہے جس سے بہتر جواب کوئی انسانی دماغ تجویز کرہی نہیں سکتا وہ اسے خود اسی کے فعل سے ملزم کرتا ہے خود اسی کے اقوال سے قائل کرتا ہے خود اسی کے اعمال سے شرمندہ کرتا ہے وہ کہتا ہے تو یہ کہ لَقَدْ شَقِيْتَ إِنْ لَّمْ أَعْدِلْ اگر میں نے عدل نہ کیا تو تو بد بختی کے گڑھے میں گر گیا.کیونکہ تو نے تو مجھے خدا کا رسول سمجھ کر بیعت کی ہے.اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں آپ کو خدا کی طرف سے یقین کرتا ہوں اور مجھے اپنا رہنما اور پیشوا قرار دیتا ہے تو ان خیالات کے باوجود اے نادان جب تو مجھے انصاف سے دور اور عدل سے خالی خیال کرتا ہے تو تجھ سے زیادہ بد بخت اور کون ہوسکتا ہے جو اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے پیچھے لگا تا ہے جو اتباع کے قابل نہیں اور اس آدمی سے ہدایت چاہتا ہے جو خود گمراہ ہے اور اس سے صداقت طلب کرتا ہے جو جھوٹ بولنے میں کوئی عیب نہیں دیکھتا اور اگر تو مجھے نبی نہیں خیال کرتا بلکہ جھوٹا خیال کرتا ہے تو پھر بھی تو نہایت شقی ہے کیونکہ باوجود مجھے جھوٹا سمجھنے کے پھر میرے ساتھ رہتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ میں آپ کو سچا خیال کرتا ہوں.اللہ اللہ کیسا پاک جواب ہے کیسا مسکت اور مسکت جواب ہے جسے سن کر ایک حیادار سوائے اس کے کہ زندہ ہی مرجائے اور کوئی جواب نہیں دے سکتا.یہ تھا آپ کا عمل یہ تھی آپ کی بردباری جو آپ کو دنیا کے تمام انسانوں سے افضل ثابت کرتی ہے.بہت ہیں جو اشتعال انگیز الفاظ کو سن کر خاموشی سے اپنے علم کا ثبوت دیتے ہیں لیکن میرے آقا کا تحمل 201

Page 211

بھی لغو نہ تھا اگر آپ خاموش رہتے تو اس کے اعتراض کا جواب کیا ہوتا آپ نے تحمل کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا اور اس نمونہ جو کہ اپنے اندر ایک عظیم الشان سبق بھی رکھتا تھا اور معترضین کے لئے ہدایت تھا.کاش ! اس حدیث سے وہ لوگ کچھ نصیحت حاصل کریں جو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے پھر اعتراضات سے نہیں رکھتے کیونکہ ان کو یا درکھنا چاہئے کہ ان کا یہ فعل خودان کی شقاوت پر دال ہے.اب ایک اور مثال درج کرتا ہوں.جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ: أَنَّهُ بَيْنَا هُوَ مَعَ رَسُوْلِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مُقْبِلًا مِنْ حَنَيْنٍ عَلِقَتْ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَعْرَابُ يَسْتَا لُوْنَهُ حَتَّى اضْطَرُوْهُ إِلَىٰ سَمْرَةٍ فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ فَوَقَفَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَعْطُوْنِيْ رِدَائِي فَلَوْ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاءِ نَعَمَّا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُوْنِي بَخِيْلًا وَلَا كَذَوْبًا وَلَا جَبَانًا ( بخاری کتاب الجہاد باب ما كان النبی ﷺ علی المؤلفة قلوبھم ) ایک دفعہ وہ آنحضرت صلی ایلم کے ساتھ تھے اور آپ کے ساتھ اور بھی لوگ تھے.آپ حسنین سے واپس تشریف لا رہے تھے.راستہ میں کچھ بادیہ نشین عرب آگئے.اور آپ کے پیچھے پڑگئے اور آپ سے سوال کرنے لگے.اور آپ پر اس قدر زور ڈالا کہ ہٹاتے ہٹاتے کیکر کے درخت تک لے گئے.جس سے آپ کی چادر پھنس گئی.پس آپ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ میری چادر مجھے پکڑا دو.اگر ان کانٹے دار درختوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے ( یعنی بہت کثرت سے ہوتے ) تو بھی میں سب تم میں تقسیم کر دیتا اور تم مجھ کو بخیل اور جھوٹا اور بزدل نہ پاتے اللہ اللہ یہ وہ شخص ہے جسے ناپاک طبع انسان دنیا طلب کہتے ہیں.اور طرح طرح کے ناپاک الزم لگاتے ہیں یہ وہ انسان ہے جسے اندھی دنیا مغلوب الغضب کہتی ہے یہ وہ وجود ہے جسے ظالم انسان ظالم قرار دیتے 202

Page 212

ہیں کیا اس تعمل والا انسان ظالم یا مغلوب الطلب ہو سکتا ہے.کیا اس سیر طبیعت کا انسان دنیا طلب ہو سکتا ہے.عرب کا فاتح اور حنین کا بہادر اپنے خطرناک دشمن کو شکست دے کر واپس آ رہا ہے.ابھی اس کے سپاہیوں کی تلواروں سے خون کا رنگ بھی نہیں چھوٹا ز بر دست سے زبردست انسان اس کو پیٹھ دکھا چکے ہیں اور اس کی تیز تلوار کے آگے اپنی گردنیں جھکا چکے ہیں.اور وہ اپنی فتح مند افواج کے ساتھ میدان جنگ سے واپس آرہا ہے مگر کس شان سے اس کا حال ابھی پڑھ چکے ہو.کچھ عرب آکر آپ سے سوال کرتے ہیں اور پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں کہ کچھ لئے بغیر نہیں لوٹیں گے آپ بار بارا نکار کرتے ہیں کہ میرے پاس کچھ نہیں مگر وہ باز نہیں آتے.پھر اور پھر سوال کرتے ہیں اور باوجود آپ کے انکار کے مصر ہیں کہ ہمیں ضرور کچھ دلوایا جائے مگر آپ باوجود اس شان کے کہ سارے عرب کو آپ کے سامنے گردن جھکا دینی پڑی ان سے کیا سلوک کرتے ہیں ان کے بار بار کے سوال سے ناراض نہیں ہوتے.ان پر خفگی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کو بتاتے ہیں کہ آپ کے پاس اس وقت کچھ نہیں ورنہ ضرور ان کو بھی دیتے.لیکن وہ لوگ پھر بھی مصر ہیں.ایسا کیوں ہے؟ کیا اس لئے نہیں کہ کل دنیا اس بات سے واقف تھی کہ وہ بہادر انسان جو خطرناک جنگوں میں جس وقت اس کے ساتھی بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اکیلا دشمن کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے.ایسا متحمل مزاج ہے کہ اپنی حاجتوں کو اس کے پاس جس زور سے بھی پیش کریں گے وہ کبھی ناراض نہیں ہوگا.بلکہ اس کا جواب محبت سے بھرا ہوا اور شفقت سے مملوء ہوگا پھر کیا اس لئے نہیں کہ آپ کے اخلاق حسنہ اور آپ کے حسن سلوک کا دنیا میں ایسا شہرہ تھا که بادیہ نشین عرب بھی اس بات سے ناواقف نہ تھے کہ ہم جس قدر بھی اصرار کریں گے ہمیں کسی سرزنش کا خطرہ نہ ہو گا.ضرور یہی بات تھی جس کی وجہ سے وہ عرب آپ پر اس قدر 203

Page 213

زور ڈال رہے تھے.اور باتوں سے ہی آپ سے کچھ وصول نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ جب ناامیدی ہو گئی تو آپ کو پکڑ کر اصرار کرنا شروع کیا کہ ہمیں ضرور کچھ دیں.اور آپ ان سے ہٹتے ہٹتے راستہ سے اس قدر دور ہو گئے کہ آخر آپ کی چادر کانٹے دار درختوں میں جا پھنسی.اور اس وقت آپ نے ان کو ان محبت آمیز الفاظ میں ملامت کی کہ میں انکار بخل کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس مجبوری سے کہ میرے پاس اس وقت کچھ نہیں.اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں ضرور تم کو دے دیتا حتی کہ سامنے کھڑے ہوئے درختوں کے برابر بھی اگر اونٹ میرے پاس ہوتے تو سب تم کو دے دیتا.اور ہرگز بخل نہ کرتا نہ جھوٹ بولتا نہ بزدلی دکھاتا.دنیا کا کوئی بادشاہ ایسا جواب نہیں دے سکتا وہ جوا اپنی عزت اور اپنی بڑائی کے طلب گار ہوتے ہیں.وہ اس قدر متحمل نہیں کر سکتے.آنحضرت مالی ایتم کی حیثیت کے انسان کا ایسے موقعہ پر جب آپ سے ان اعراب نے اس درشتی سے سلوک کیا تھا مذکورہ بالا جواب دینا اپنی نظیر آپ ہی ہے.اور دنیا کا کوئی بادشاہ کوئی حاکم کوئی سردار اس تحمل کی نظیر نہیں دکھا سکتا.پھر آپ جو جواب دیتے ہیں وہ کیسا لطیف ہے.فرماتے ہیں...کہ اگر ان درختوں کے برا بر بھی اونٹ ہوتے تو میں تمہیں دے دیتا.اور تم مجھے بخیل جھوٹا اور بزدل نہ پاتے.ایک موٹی نظر والے انسان کو تو شاید یہ تین الفاظ بے ربط معلوم ہوں لیکن دانا انسان سمجھتا ہے کہ یہ تینوں الفاظ جو آپ نے فرمائے بالکل موقعہ کے مطابق تھے.اور ان سے بہتر لفظ اور ہو ہی نہیں سکتے تھے.کیونکہ مال کا نہ دینا بخل سے متعلق ہے.پس آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو تم مجھے بھیل نہ پاتے یعنی تمہیں معلوم ہو جا تا کہ میں بخیل نہیں کیونکہ میں تمہیں مال دے دیتا اور جھوٹا بھی نہ پاتے.یہ اس لئے فرمایا کہ بعض لوگ جھوٹ بول کر سائل سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہے نہیں.پس فرمایا 204

Page 214

کہ تمہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ میں بخیل نہیں ہوں اور یہ بھی کہ جھوٹا نہیں ہوں کہ جھوٹ بول کر سب مال یا اس کا بعض حصہ اپنے لئے بچالوں اور نہ مجھے بزدل پاتے.یعنی میرا تمہیں مال دینا اس وجہ سے نہ ہوتا کہ میں تم لوگوں سے ڈر جاتا کہ کہیں مجھے نقصان نہ پہنچاؤ لیکن میں جو مال دیتا دل کی خوشی سے دیتا.شاید کوئی شخص کہے کہ آپ کے اتنا کہ دینے سے کیا بنتا ہے کہ اگر میرے پاس ہوتا تو میں دے دیتا کیا معلوم ہے کہ آپ اس وقت دیتے یا نہ دیتے.مگر یا درکھنا چاہئے کہ ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مقام دارد.میں اس جگہ یہ بتا رہا ہوں کہ آنحضرت سال یا اسلام کا تحمل کیسا تھا اور کس طرح آپ نا پسند اور مکر وہ باتیں سن کر نرمی اور ملائمت سے جواب دیتے تھے.اور خفگی اور ناراضگی کا اظہار قطعانہ فرماتے بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا معترض کو کوئی نیک بات بتا کر خاموش فرما دیتے.آپ کی سخاوت کا ذکر تو دوسری جگہ ہوگا.اور اگر کوئی بہت مصر ہو تو میں آپ کے تحمل کی ایسی مثال بھی جس میں ایک طرف آپ نے تحمل فرمایا ہے اور دوسری طرف سخاوت کا اظہار فرمایا ہے دے سکتا ہوں اور وہ بھی صحیح بخاری سے ہے.اور وہ یہ کہ انس بن مالک بیان فرماتے ہیں کہ كُنتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ عَلَيْهِ بُرْدْ نَجْرَانِيْ غَلِيظَ الْحَاشِيةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِي فَجَذَبَهُ جَذْبَةً شَدِيدَةً، حَتَّى نَظْرَتْ إِلى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثْرَتْ بِهِ حَاشِيَةُ الرِدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَذْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ : مُزلِى مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِندَكَ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ.( بخاری کتاب الجہاد باب ما كان النبي يعطى المؤلفة قلوبهم) یعنی میں ایک دفعہ آنحضرت سلیسیا ایلم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ نے ایک نجران کی بنی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کے کنارے بہت موٹے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آپ کے قریب آیا اور آپ کو بڑی سختی سے کھینچنے لگا.یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس 205

Page 215

کے سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کی رگڑ کے ساتھ آپ کی گردن پر خراش ہو گئی.اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دلوائیں پس آپ نے مڑکر اس کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا کہ اسے کچھ دے دو.اس مثال سے آپ کا تحمل پہلی مثال سے بھی زیادہ ظاہر ہوتا ہے پہلی مثال سے تو یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ کے پاس کچھ تھانہیں اور کچھ سائل آپ سے بار بارانعام طلب کر تے تھے اور جبکہ آپ انکار فرما رہے تھے کہ میرے پاس کچھ نہیں اور وہ لینے پر مصر تھے.ان لوگوں کا آپ پر زور کرنا سمجھ میں آسکتا ہے اور خیال ہو سکتا ہے کہ چونکہ وہ لوگ سخت محتاج تھے اور ان کی حالت زار تھی.اور نا امیدی میں انسان کے حواس ٹھکانے نہیں رہتے اس لئے ان کی زیادتی پر آپ جیسے رحیم انسان کا تحمل کرنا کچھ تجبات سے نہ تھا لیکن دوسرا واقعہ اس واقعہ سے بہت زیادہ آپ کے تحمل پر روشنی ڈالتا ہے کیونکہ اس شخص نے بغیر سوال کے آپ پر حملہ کر دیا اور اس حملہ کی کوئی وجہ نہ تھی نہ اس نے سوال کیا تھا نہ آپ نے انکار فرمایا تھا نہ اسے کوئی ناامیدی پیش آئی تھی.مال سامنے موجود تھا آپ دینے کو تیار تھے پھر بلا وجہ اس طرح گستاخی سے پیش آنا ایک نہایت ہی ناشائستہ حرکت تھی اور اس کے سوال پر اسے ڈانٹنا چاہئے تھا.اور پھر اس نے جو طریق اختیار کیا تھا وہ صرف گستاخانہ ہی نہ تھا کہ یہ خیال کرلیا جاتا کہ چلو اس سے کوئی حقیقی نقصان تو ہو انہیں جاہل آدمی ہے اور جنگلی ہے اور آداب رسول سے ناواقف ہے.اسے معاف ہی کر دینا بہتر ہوگا بلکہ وہ ایذاء رسانی کا طریق تھا اور اس کی اس حرکت سے آنحضرت صلی ایتم کو سخت تکلیف بھی پہنچی اور گردن مبارک پر خراش بھی ہوگئی بلکہ اس حدیث کو حمام نے اس طرح روایت کیا ہے کہ چادر پھٹ گئی اور اس کا حاشیہ چمڑہ کو پھاڑ تا ہوا گوشت تک گھس گیا پس وہ شخص اس بات کا پورے طور پر مستحق 206

Page 216

تھا کہ اسے آپ سختی سے علیحدہ کر دیتے.لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ اس سے یہ سلوک فرماتے ہیں کہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ اسے بھی ضرور کچھ دے دو.گویا مسکرا کر اسے بتاتے ہیں کہ میں تمہارے جیسے نادانوں کو جو آداب رسول سے ناواقف ہیں بجائے ڈانٹنے کے قابل رحم خیال کرتا ہوں اور بجائے ناراضگی کے تمہاری حالت پر مسکراتا ہوں کہ تم میرے تحمل سے ہی فائدہ اٹھاؤ.کہنے کو سب لوگ محتمل والے بن جاتے ہیں لیکن عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کی حقیقت کھلتی ہے اور اس کے دعاوی کے صدق اور کذب کا حال معلوم ہوتا ہے دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جو عدل و انصاف کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے ہیں جو تحمل مزاج مشہور ہیں اور جن کے تحمل اور بردباری کے افسانوں سے تاریخوں کے صفحات بھرے ہوئے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مذہبی عزت کے لحاظ سے بھی اپنے زمانہ کے لوگوں میں ممتاز تھے.اور جو بعد میں بھی اپنے ہم مذہبوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیئے گئے ہیں ایسے بادشاہ بھی گذرے ہیں جو بادشاہت کے علاوہ مذاہب کے بانی اور پیشوا بھی ہوئے ہیں اور خاص سلسلوں کے جاری کرنے والے ہیں جن کے مرنے کے ساتھ ان کی بادشاہت کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی روحانی بادشاہت مدت ہائے دراز تک قائم رہی بلکہ اب تک بھی مختلف حکومتوں کے ماتحت رہنے والے لوگ در حقیقت اپنے دل اور اپنی روح کے لحاظ سے انہیں کے ماتحت ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بے نظیر خیال کئے جاتے ہیں جو اخلاق میں آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ خیال کئے جاتے ہیں مگر کوئی ہے جو تمام دنیا کی تاریخوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد تمام اقوام کے بادشاہوں اور پیشواؤں کے حالات کی چھان بین کرنے کے بعد ان اخلاق کا انسان دکھا سکے اور اس (207)

Page 217

تحمل کی نظیر کسی اور انسان میں بتا سکے جو آنحضرت سال یا اسلام نے دکھایا میں یہ نہیں کہتا کہ آنحضرت کے سوا کوئی شخص تحمل کی صفت سے متصف ہوا ہی نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس درجہ تک تحمل کا اظہار کرنے والا جس درجہ تک آپ نے ظاہر فرمایا کوئی انسان نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ آپ کمال کی اس سرحد تک پہنچ گئے ہیں کہ اس کے بعد کوئی ترقی نہیں.ممکن ہے کہ کوئی صاحب کہیں کہ آپ بادشاہوں اور حاکموں کی کیوں شرط لگاتے ہیں اس مقابلہ کے میدان کو اور بھی کیوں وسیع نہیں کر دیتے کہ دنیا کے کل افراد کے تحمل کو سامنے رکھ کر مقابلہ کر لیا جائے کہ آیا کوئی انسان اس صفت میں آپ کی برابری کر سکتا ہے یا نہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ تحمل اسی انسان کا قابل قدر ہے جسے طاقت اور قدرت ہو جو شخص خود دوسروں کا محتاج ہو دوسروں سے خائف ہو اپنے دشمنوں کے خوف سے چھپتا پھرتا ہو اسے دنیا میں سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی ہو اس کا تحمل بھی کوئی تحمل ہے اس کی زبان تو اس پر ظلم کرنے والوں نے بند کر دی ہے اور اس میں یہ طاقت ہی نہیں کہ ان کے حملوں کا جواب دے سکے پس جو حاکم نہیں یا بادشاہ نہیں یا دنیاوی لحاظ سے کوئی خاص عزت نہیں رکھتا اس کا تحمل کو ئی تحمل نہیں بلکہ بہت دفعہ ایک مغلوب الغضب انسان بھی اپنے ایذاء دہندوں کے خوف سے اپنے غضب کو دبا لیتا ہے.اور گو دل ہی دل میں جلتا اور کڑھتا ہے اور جی ہی جی میں گالیاں دیتا اور کوستا ہے لیکن اظہار غضب کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں اور بھی مضر ہوگا پس آنحضرت کے مقابلہ میں اس شخص کے تحمل کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو آپ ہی کی طرح با اختیار اور طاقت رکھتا ہو اور پھر آپ ہی کی طرح مخمل دکھانے والا ہو اور نہ مثل مشہور ہے کہ زبر دست مارے اور رونے نہ دے ایساز بر دست جو کسی زبر دست کے پنجہ ستم میں گرفتار ہو اس نے قابل عتاب گفتگوسن کر یا ز بر دست سلوک 208

Page 218

دیکھ کر اظہار ناراضگی کرنا ہی کیا ہے؟ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ طریق تو انصاف پر مبنی تھا.اور عقلاً،اخلاقاً ہماراحق تھا کہ ہم مذکورہ بالا شرط سے مشروط مقابلہ کا مطالبہ کریں لیکن اگر کوئی شخص دنیا کے تمام انسانوں میں بھی آپ جیسے باکمال انسان کو پیش کر سکے تو ہم اس کے معاملہ پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ بے حیائی کا نام محمل ن رکھ لیا جاوے.اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے.اور وہ یہ کہ بعض لوگ پیدائشی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو غصہ آتا ہی نہیں بلکہ جو معاملہ بھی ان سے کیا جائے وہ شکل ہی تحمل کرتے ہیں اور غضب کا اظہار کبھی نہیں کرتے.اور اس کی یہ وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے جوش کو دبا لیتے ہیں یا تحمل سے کام لیتے ہیں بلکہ در حقیقت ان کے دل میں جوش پیدا ہی نہیں ہوتا.اور انہیں کسی بات کی حقیقت کے سمجھنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور یہ لوگ ہر گز کسی تعریف کے مستحق نہیں ہوتے.کیونکہ ان کا تحمل صرف ظاہری ہے.اس میں حقیقت کچھ نہیں ایک شکل ہے جس کی اصلیت کوئی نہیں.ایک جسم ہے جس میں روح کوئی نہیں.ایک قشر ہے جس میں مغز کوئی نہیں.اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی ٹنڈے شخص کو کوئی دوسرا شخص مار مارے.اور چونکہ اس کے ہاتھ نہیں ہیں وہ مار کھا کر صبر کر چھوڑے.اور جس طرح یہ ٹنڈ ا قطعاً اس تعریف کا مستحق نہیں ہے کہ اسے تو زید یا بکر نے مارا مگر اس نے آگے سے ایک طمانچہ بھی نہ لگایا کیونکہ اس میں طمانچہ لگانے کی طاقت ہی نہ تھی.کیونکہ اس کے ہاتھ نہ تھے.اس لئے مجبور تھا کہ مارکھا تا اور اپنی حالت پر افسوس کرتا.اسی طرح وہ شخص بھی ہر گز کسی تعریف کا مستحق نہیں.جس کے دل میں جوش اور حس ہی نہیں.اور وہ بری بھلی بات میں تمیز ہی نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کا تحمل خوبی نہیں بلکہ اس کا باعث فقدان شعور ہے: پس ایک معترض کا حق ہے کہ وہ یہ سوال کرے کہ کیوں آنحضرت سلی یہ تم کوبھی ایسا ہی نہ خیال کر لیا جائے.خصوصاً 209

Page 219

جبکہ اس قدر طاقت اور قدرت اور ایسے ایسے جوش دلانے والے مواقع پیدا ہو جانے کے باوجود آپ اس طرح ہنس کر بات ٹال دیتے تھے اور کیوں نہ خیال کر لیا جائے کہ آپ بھی پیدا ئشا ایسے ہی نرم مزاج پیدا ہوئے تھے.اور فطرتاً آپ مجبور تھے کہ ایسے ایذاء دہندوں کے اعمال پر ہنس کر ہی خاموش ہو رہتے کیونکہ آپ کے اندر انتقام کا مادہ اور بری اور بھلی بات میں تمیز کی صفت موجود ہی نہ تھی.(نعوذ باللہ من ذالک) یہ سوال بالکل درست اور بجا ہے.اور ایک محقق کا حق ہے کہ وہ ہم سے اس کی وجہ دریافت کرے کہ کیوں ہم آپ کو ایک خاص گروہ میں شامل کرتے ہیں اور دوسرے سے نکالتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا بھی جواب دیں کیونکہ اس سوال کا جواب دیئے بغیر آنحضرت سلیم کی سیرت کا ایک پہلو نامکمل رہ جاتا ہے.اور آپ جیسے مکمل انسان کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں جو نا مکمل ہو پس اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گواہی پیش کرتے ہیں جو آپ کی ازواج مطہرات سے تھیں.اور آپ کے اخلاق کی کماحقہ واقف تھیں.صحیح بخاری میں آپ سے روایت ہے کہ مَا خَيْرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنَ إِلَّا أَخَذَا أَيْسَرَ هُمَا مَالَمْ يَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةَ اللَّهِ فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ بھا.( بخاری کتاب المناقب باب صفة النبی ) یعنی آنحضرت صلای شما ایام کو جب کبھی دو باتوں میں اختیار دیا جاتا تھا تو آپ دونوں میں سے آسان کو اختیار کر لیتے تھے جب تک کہ گناہ نہ ہو.اور جب کوئی گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب لوگوں سے زیادہ دور بھاگتے.اور آپ کبھی اپنے نفس کے لئے انتقام نہ لیتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حرمتوں میں سے کسی کی بے حرمتی کی جاتی تھی تو آپ خدا کے لئے اس بے حرمتی کا بدلہ لیتے تھے.210

Page 220

اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جب آنحضرت صلی یا اسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو کاموں کا اختیار دیا جاتا کہ آپ جو چاہیں کریں تو آپ ان دونوں میں سے آسان کو اختیار کرتے ( کیونکہ بندہ کا یہی حق ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ زائد بوجھوں سے بچائے تا ایسانہ ہو کہ اپنے آپ کو کسی مصیبت میں گرفتار کر دے) لیکن اگر کبھی آپ دیکھتے کہ ایک آسان بات کو اختیار کر کے کسی وجہ سے کسی گناہ کا قرب ہو جائے گا.تو پھر آپ کبھی اس آسان کو اختیار نہ کرتے بلکہ مشکل سے مشکل امر کو اختیار کر لیتے مگر اس آسان کے قریب نہ جاتے ( اور یہی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا کام ہے کہ وہ گناہ سے بہت دور بھاگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے میں کسی سختی یا کسی مشکل کے برداشت کرنے سے نہیں گھبراتے ) پھر فرماتی ہیں کہ آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ اپنے نفس کے لئے کبھی انتقام نہ لیتے یعنی خلاف منشا امور کو دیکھ کر جب تک وہ خاص آپ کی ذات کے متعلق ہوتے تحمل سے ہی کام لیتے.خفگی، ناراضگی یا غضب کا اظہار نہ فرماتے نہ سزا دینے کی طرف متوجہ ہو جاتے.ہاں جب آپ کی ذات کے متعلق کوئی امر نہ ہو بلکہ اس کا اثر دین پر پڑتا ہو اور کسی دینی مسئلہ کی ہتک ہوتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان پر کوئی دھبہ لگتا ہو.تو آپ اس وقت تک صبر نہ کرتے.جب تک اس کا انتقام لے کر اللہ تعالیٰ کے جلال کو ظاہر نہ فرما لیتے اور شریر انسان کو جو ہتک حرمہ اللہ کا مرتکب ہوا ہو سزا نہ دے لیتے.اس واقعہ سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ کا عمل اس درجہ تک پہنچا ہوا تھا کہ آپ کبھی بھی اپنے نفس کے لئے جوش کا اظہار نہ فرماتے بلکہ تحمل اور بردباری سے ہی ہمیشہ کام لیتے.لیکن یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات قطعاً درست نہیں کہ آپ میں جوش و انتقام کی صفت پائی ہی نہ جاتی تھی اور آپ پیدائش سے ہی ایسے نرم مزاج واقع ہوئے تھے کہ (211)

Page 221

غضب آپ میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ جب اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمتوں کی ہتک اور بے حرمتی کا سوال پیدا ہوتا تو آپ ضرور انتقام لیتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا متحمل کسی پیدائشی کمزوری یا نقص کا نتیجہ نہ تھا بلکہ آپ اپنے اخلاق کی وجہ سے اپنے نفس کے قصور واروں سے چشم پوشی کر جاتے تھے.اور اظہار ناراضگی سے اجتناب کرتے تھے.اور جو کچھ کہنا بھی ہوتا تھا تو نہایت آہستگی اور نرمی سے کہتے تھے اور ایسا جواب دیتے تھے جس میں بجائے ناراضگی اور غضب کے اظہار کے اس شخص کے لئے کوئی مفید سبق ہوجس سے وہ اپنی آئند و زندگی میں اپنے چال چلن کی اصلاح کر سکے.اور یہی تحمل کا اعلیٰ نمونہ ہے.یہ بھی یا درکھنا چاہیئے کہ حضرت عائشہ کی یہ شہادت بلا دلیل نہیں ہے بلکہ واقعات بھی اس کی شہادت دیتے ہیں چنانچہ بخاری کی ایک حدیث سے ظاہر ہے جسے مفصل ہم پہلے کسی اور جگہ لکھ آئے ہیں کہ جنگ احد میں جب عام طور پر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ آنحضرت صلی تم شہید ہو گئے ہیں اور کفار مکہ علی الاعلان اپنی اس کامیابی پر فخر کرنے لگے اور ان کے سردار نے بڑے زور سے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد (صلی ا تم ) ہے جس سے اس کی مراد یہ بتانا تھا کہ ہم آپ کو مار چکے ہیں اور آپ دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں مگر آنحضرت ا الیہ امام نے اپنے اصحاب کو فر مایا کوئی جواب نہ دیں.اور اس طرح اس کا جھوٹا فخر پورا ہونے دیا.اور یہ نہیں کہا کہ غضب میں آکر اسے کہتے کہ میں تو زندہ موجود ہوں یہ بات کہ تم نے مجھے قتل کر دیا ہے بالکل جھوٹ اور باطل ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں.ہاں جب ابوسفیان نے یہ کہا کہ اغل قبل اغل قبل کیبل بت کی شان بلند ہو.ٹھبل بت کی شان بلند ہو تو اس وقت آپ خاموش نہ رہ سکے اور صحا بہ کو فر ما یا کہ کیوں جواب نہیں دیتے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی شیا کی تم کیا جواب دیں.فرما یا اسے کہو کہ اللہ اغلی 212

Page 222

وَاَجَلُ الله أغلى وأجل یعنی تمہارے کھیل میں کیا طاقت ہے وہ تو ایک بناوٹی چیز ہے اللہ ہی ہے جو سب چیزوں سے بلند رتبہ اور عظیم القدر ہے.اور پھر جب اس نے کہا کہ لنا غری وَلَا عَزَّى لَكُمْ تو آپ نے پھر صحابہ سے فرمایا کہ جواب دو.انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا جواب دیں تو آپ نے فرما یا کہ کہو لنا مَوْلى وَلَا مَوْلى لَكُمْ خدا تعالیٰ ہمارا دوست و مددگار ہے.اور تمہارا مددگار کوئی نہیں.یعنی عزئی میں کچھ طاقت نہیں طاقت تو اللہ تعالیٰ میں ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے.پس اس واقعہ سے صاف کھل جاتا ہے کہ حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی ایتم کے اخلاق کے متعلق جو گواہی دی ہے وہ صرف ان کا خیال ہی نہیں بلکہ واقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور تاریخی ثبوت اس کی سچائی کی شہادت دیتے ہیں.اور آنحضرت صلی سیلم کی زندگی پر غور کرنے سے ایک موٹی سے موٹی عقل کا انسان بھی اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ آپ کا تحمل کسی صفت حسنہ کے فقدان کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کا باعث آپ کے وہ اعلیٰ اخلاق تھے جن کی نظیر دنیا میں کسی زمانہ کے لوگوں میں بھی نہیں ملتی.اور یہ کہ گو یا تحمل اپنے کمال کے درجہ کو پہنچا ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمات کا سوال جب درمیان میں آجاتا ہے تو اس وقت آنحضرت سلیم ہرگز در گذر سے کام نہ لیتے.بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو تا مناسب تدارک فرما دیتے اور اللہ تعالیٰ کے جلال کے قائم کرنے میں ہرگز دیر نہ فرماتے.پس آپ کا تحمل ایک طرف تو بے نظیر تھا اور دوسری طرف بالا رادہ تھا اور پھر آپ کی اس صفت کا اظہار کبھی بے موقعہ نہیں ہوتا تھا جیسا کہ آج کل کے زمانہ کا حال ہے کہ اپنے نفس کے معاملہ میں تو لوگ ذرا ذراسی بات میں جوش میں آجاتے ہیں.لیکن جب خدا اور اس کے دین کا معاملہ آتا ہے تو صبر وقتل کی تعلیم وتلقین کرتے ہوئے ان کے ہونٹ خشک ہوئے جاتے ہیں.اور وہ نہیں جانتے کہ تحمل صرف ذاتی تکلیف اور 213

Page 223

دکھ کے وقت ہوتا ہے ورنہ دین کے معاملہ میں بناوٹی صلح اور جھوٹ ملاپ ایک بے غیرتی ہے اور کمی ایمان اور حرص دنیاوی کا ثبوت ہے.طہارۃ النفس صبر : - صبر عربی زبان میں روکنے کو کہتے ہیں اور استعمال میں یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے.کسی شخص کا اپنے آپ کو اچھی باتوں پر قائم رکھنا.بُری باتوں سے اپنے آپ کو روکنا اور مصیبت اور دکھ کے وقت جزع و فزع سے پر ہیز کرنا اور تکلیف کے ایسے اظہار سے جس میں گھبراہٹ اور نا امیدی پائی جائے اجتناب کرنا.اُردو زبان میں یا دوسری زبانوں میں یہ لفظ ایسا وسیع نہیں ہے بلکہ اسے ایک خاص محدود معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور صرف تیسرے اور آخری معنوں کیلئے اس لفظ کو مخصوص کر دیا گیا ہے یعنی مصیبت اور رنج میں اپنے نفس کو جزع و فزع اور نا امیدی اور کرب کے اظہار سے روک دینے کے معنوں میں.چونکہ اُردو میں اس کا استعمال انہیں معنوں میں ہے اس لئے ہم نے بھی اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے اور اس ہیڈنگ کے نیچے ہماری غرض آنحضرت سلی یا یتیم کی ایسی صفت پر روشنی ڈالنا ہے جس معنی میں کہ یہ لفظ اُردو میں استعمال ہوتا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی صفت ہے اور دنیا کی تمام اقوام فطرتا اس صفت کی خوبی کی قائل ہیں گو بد قسمتی سے ہندوستان اس کے خلاف نظر آتا ہے کہ مردوں پر سالہا سال تک ماتم کیا جاتا ہے اور ایسی بے صبری کی حرکات کی جاتی ہیں اور کرب کی علامات ظاہر کی جاتی ہیں کہ دیکھنے والوں کو بھی تعجب آتا ہے.غرضیکہ فطرتا کل اقوام عالم نے صبر کو نہایت اعلیٰ صفت تسلیم کیا ہے اور ہر قوم میں صابر نہایت قابل قدر خیال کیا جاتا ہے چونکہ آنحضرت سالہ سلم کی نسبت ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ تمام صفات حسنہ کا مجموعہ تھے.اور آپ سے بڑھ 214

Page 224

کر دنیا کا کوئی انسان نیک اخلاق کا اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ نہیں تھا اس لئے ذیل میں ہم صبر کے متعلق آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ اس صفت سے کہاں تک متصف تھے.بچپن میں اول والدہ اور پھر دادا کے فوت ہو جانے سے والد پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے ) جو صدمات آپ کو پہنچے تھے.ان میں آپ نے جس صبر کا اظہار کیا اور پھر دعویٰ نبوت کے بعد جو تکالیف کفار سے آپ کو پہنچیں اس کو جس صبر و استقلال سے آپ نے برداشت کیا اور یکے بعد دیگرے انہی مصائب کے زمانہ میں آپ کے نہایت مہربان چا اور وفاداری میں بے نظیر بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور اپنے پیارے متبعین کی مکہ سے ہجرت کر جانے پر جس صبر کا نمونہ آپ نے دکھایا تھا وہ ایک ایسا وسیع مضمون ہے کہ قلت گنجائش ہم کو ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ان مضامین کو یہاں شروع کریں اس لئے ہم صرف ایک چھوٹے سے واقعہ کے بیان کرنے پر جو بخاری شریف میں مذکور ہے کفایت کرتے ہیں.جیسا کہ سیرۃ النبی کے ابتدا سے مطالعہ کرنے والے اصحاب نے دیکھا ہوگا میں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس سیرۃ میں صرف واقعات سے آنحضرت صلی السلام کے اخلاق کی برتری دکھائی ہے.اور آپ کی تعلیم کو کبھی بھی پیش نہیں کیا تا کہ کوئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ ممکن ہے آپ لوگوں کو تو یہ کہتے ہوں اور خود نہ کرتے ہوں.نعوذ باللہ من ذلک.پس اس جگہ بھی میں آپ کی اس تعلیم کو پیش نہیں کرتا جو آپ نے صبر کی نسبت اپنے اتباع کو دی ہے اور جس میں کرب و گھبراہٹ اور نا امیدی کے اظہار سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضاء پر رضا کا حکم دیا ہے بلکہ صرف آپ کا عمل پیش کرتا ہوں.عَنْ أَسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْسَلَتِ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنَالَهَا 215

Page 225

قُبِضَ فَاتِنَا فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَيْ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى فَلْتَصْبِرُ وَلْتَحْتَسِبْ فَاَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَ أَبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالُ فَرَفِعَ إِلى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسَهُ تَنَقَعْقَعُ كَأَنَّهَا شَنَّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ سَعْدْ يَارَسُوْلَ اللهِ مَا هَذَا قَالَ هَذِهِ رَحْمَةً جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوْبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرَّحَمَاءَ (بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ایک بیٹی نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک بچہ فوت ہو گیا ہے آپ تشریف لائیں.(فوت ہو گیا سے یہ مراد تھا کہ نزع کی حالت میں ہے کیونکہ وہ اس وقت دم تو ڑ رہا تھا ) پس آپ نے جواب اس طرح کہلا بھیجا کہ پہلے میری طرف سے السلام علیکم کہنا اور پھر کہنا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جود یوے وہ بھی اسی کا ہے اور ہر چیز کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مقررہ مدت ہے پس چاہئے کہ تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید وارر ہو.اس پر آپ نے ( حضرت کی صاحبزادی نے ) پھر کہلا بھیجا کہ آپ کو خدا کی قسم آپ ضرور میرے پاس تشریف لائیں پس آپ کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور زید بن ثابت اور کچھ اور لوگ تھے جب آپ وہاں پہنچے تو آپ کے پاس وہ بچہ پیش کیا گیا اور اس کی جان سخت اضطراب میں تھی اور اس طرح ہلتا تھا جیسے مشک.اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے جس پر سعد بن عبادہ نے کہا یا رسول اللہ یہ کیا ؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحیم بندوں پر ہی رحم کرتا ہے.یہ واقعہ اپنے اندر جو ہدا یتیں رکھتا ہے وہ تو اس کے پڑھتے ہی ظاہر ہوگئی ہونگی پھر بھی مزید تشریح کے لئے میں بتا دیتا ہوں کہ اس واقعہ نے آپ کی صفت صبر کے دو پہلوؤں پر 216

Page 226

ایسی روشنی ڈالی ہے کہ جس کے بعد آپ کے اسوہ حسنہ ہونے میں کوئی شک و شبہ رہ ہی نہیں سکتا.اول تو آپ کا خلاص باللہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آپ کو اطلاع دی گئی کہ آپ کا نواسہ نزع کی حال میں ہے اور اس کی حالت ایسی بگڑ گئی ہے کہ اب اس کی موت یقینی ہوگئی ہے تو آپ نے کیا پر حکمت جواب دیا ہے کہ جو خدا تعالیٰ لے لے وہ بھی اس کا مال ہے اور جو دے دے وہ بھی اس کا مال ہے.رضا بالقضا کا یہ نمونہ کیسا پاک کیسا اعلیٰ کیسا لطیف ہے کہ جس قدر اس پر غور کیا جائے اس قدر کمال ظاہر ہوتا ہے پھر اپنی صاحبزادی کو نصیحت کرنا کہ صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں پر انتہائی درجہ کے یقین اور امید پر دلالت کرتا ہے مگر صرف یہی بات نہیں بلکہ اس واقعہ سے ایک اور بات بھی ظاہر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کا صبر اس وجہ سے نہ تھا کہ آپ کا دل نَعُوذُ باللہ سخت تھا بلکہ صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر امید اور اس کی مالکیت پر ایمان تھا کیونکہ جیسا بیان ہو چکا ہے جب آپ اپنی صاحبزادی کے گھر پر تشریف لے گئے تو آپ کی گود میں تڑپتا ہوا بچہ رکھ دیا گیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.سعد بن عبادہ نے غلطی سے اعتراض کیا کہ یا رسول اللہ یہ صبر کیسا ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ رحم اور چیز ہے اور صبر اور شے ہے.رحم چاہتا ہے کہ اس بچہ کو تکلیف میں دیکھ کر ہمارا دل بھی دکھے اور دل کے درد کا اظہار آنکھوں کے آنسوؤں سے ہوتا ہے.اور صبر یہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو جائیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو اسے قبول کریں اور اس پر کرب و اضطرار کا اظہار نہ کریں.اور اللہ تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کیلئے تو رحم کی سخت ضرورت ہے پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دکھوں میں رحم اور شفقت کی عادت ڈالے تو پھر اس بات کا امیدوار ہو 217)

Page 227

سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی تکالیف میں اس پر رحم کرے.غرضیکہ ایک طرف اپنے نواسہ کی وفات کا حال سن کر جو آپ کے بڑھاپے کی عمر کا ثمرہ تھا اور خصوصاً جب کہ آپ کے کوئی نرینہ اولاد موجود نہ تھی ،صبر کرنا اور اپنی لڑکی کو صبر کی تلقین کرنا اور دوسری طرف اس بچہ کو دکھ میں دیکھ کر آپ کے آنسوؤں کا جاری ہو جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک قضاء پر صابر تھے اور یہ کہ آپ کا صبر سخت دلی ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِکَ) کا موجب نہ تھا بلکہ آپ کا دل رحم و شفقت سے پر تھا.طہارۃ النفس استقلال:- قابل اور نا قابل انسان کی پرکھ میں استقلال بہت مدد دیتا ہے کیونکہ استقلال سے انسان کے بہت سے پوشیدہ در پوشیدہ اخلاق اور قوتوں کا پتہ لگ جاتا ہے اور مستقل اور غیر مستقل انسان میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.ایک ایسا شخص جو بیسیوں نیک اخلاق کا جامع ہو.لیکن اس کے اندر استقلال نہ ہو اس کے اخلاق حسنہ نہ تو اس کے نفس کی خوبی کو ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو ان سے کوئی معتد بہ فائدہ پہنچ سکتا ہے.کیونکہ اگر اس میں استقلال نہیں اور وہ اپنے کاموں میں دوام اختیار نہیں کرتا تو اول تو یہی خیال ہوسکتا ہے کہ اس کے نیک اخلاق ممکن ہے کہ بناوٹ کا نتیجہ ہوں.اور دوسرے ایک نیک کام کو شروع کر کے جب وہ درمیان میں ہی چھوڑ دے گا تو اس کا کوئی خاص فائدہ بنی نوع انسان کو نہ پہنچے گا.بلکہ خود اس شخص کا وہ وقت جو اسنے اس ادھورے کام پر خرچ کیا تھا ضائع سمجھا جائے گا.پس استقلال ایک طرف تو اپنے صاحب کے کاموں کی سنجیدگی اور حقیقت پر رو شنی ڈالتا ہے اور دوسری طرف اس ایک صفت کی وجہ سے انسان کے دوسرے اخلاق حسنہ اور قوائے مفیدہ کے ظہور اور نفع میں بھی خاص ترقی ہوتی ہے اس لئے اس مختصر سیرت میں 218

Page 228

میں آنحضرت صلی ایتم کے استقلال پر بھی کچھ لکھنا چاہتا ہوں.یوں تو اگر غور کیا جائے تو جو کچھ میں اب تک لکھ چکا ہوں اس کا ہر ایک باب بلکہ ہر ایک ہیڈ نگ آنحضرت مالی ایم کے استقلال کا شاہد ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں.مگر سیرت کی تکمیل چاہتی ہے کہ اس کے لئے الگ ہیڈنگ بھی ضرور قائم کیا جاوے.آنحضرت صالی ایم کی زندگی پر اگر ہم اجماعی نظر ڈالیں تو ہمیں رسول کریم سالی سیستم استقلال کی ایک مجسم تصویر نظر آتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ استقلال کو بھی اس نمونہ استقلال پر فکر ہے.جو رسول کریم ملی ایتم نے دکھایا تھا.اس حالت کو دیکھو جس میں آنحضرت سلی سلیم اللہ تعالی کی خالص عبادت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.اور پھر اس استقلال کو دیکھو جس سے اس کام کو نباہتے ہیں.آپ کی حالت نہ تو ایسی امیرا نہ تھی کہ دنیا کی بالکل احتیاج ہی نہ تھی.اور گو یا آپ دنیا کی فکروں سے ایسے آزاد تھے کہ اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ ہی آپ ایسے فقیر اور محتاج تھے کہ آرام و آسائش کی زندگی کبھی بسر ہی نہ کی تھی اس لئے دنیا کا چھوڑ نا آپ پر کچھ شاق نہ تھا مگر پھر بھی اس اوسط حالت کے باوجود جس میں آپ تھے اور جو عام طور پر بنی نوع انسان کو دنیا میں مشغول رکھتی ہے اور با وجود بیوی بچوں کی موجودگی اور ان کی فکر کے جب آپ غار حراء میں جا کر عبادت الہی میں مشغول ہوئے تو آپ کے پائے ثبات کو مشرکین کی ہنسی اور ٹھٹھے نے ذرا بھی متزلزل نہ کیا.اور آخر اس وقت اس غار کو چھوڑا جب آسمان سے حکم آیا کہ بس اب خلوت کا زمانہ ختم ہوا اور کام کا زمانہ آ گیا جا اور ہماری مخلوق کو راہ راست پر لايَا يُّهَا الْمُدَّ ثِرُ ثُمَّ فَأَنْذِرُ وَثِيَابَكَ فَطَهَّرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ (المدر:۱،۲) اس حکم کا نازل ہونا تھا کہ وہ شخص جو باوجود ہزاروں احتیا جوں اور سینکڑوں شغلوں کے اپنے 219

Page 229

بیوی بچوں کو خدا کے سپر د کر کے وحدہ لاشریک خدا کی پرستش میں مشغول تھا.اور دنیا و مافیہا سے بے تعلق تھا شہر سے دور راہ سے علیحدہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر پھر دوسری طرف چند گز نیچے اتر کر ایک پتھر کے نیچے بیٹھ کر، تا دنیا اس کی عبادت میں مخل نہ ہو.عبادت الہی کیا کرتا تھا.اور انسانوں سے ایسا متنفر تھا گویا وہ سانپ ہیں یا اثر رہا.دنیا کے سامنے آتا ہے اور یا تو وہ دنیا سے بھاگتا تھا یا اب دنیا اس سے بھاگ رہی ہے.اور اس کے نزدیک کوئی نہیں جاتا مگر وہ ہے کہ ہر ایک گھر میں گھستا ہے ہر ایک شخص کو پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے.کعبہ کے میدان میں کھڑا رہتا ہے تا کہ کوئی شخص طواف کرنے کے لئے گھر سے نکلے تو اس سے ہی کچھ بات کر سکوں.قافلے آتے ہیں تو لوگ تو اس لئے دوڑے جاتے ہیں کہ جا کر کچھ غلہ خرید لائیں یا جو اسباب تجارت وہ لائے ہیں اسے اپنی ضرورت کے مطابق خرید لیں.لیکن یہ شخص کسی تجارت کی غرض سے نہیں بلکہ ایک حق اور صداقت کی خبر دینے کے لئے ان سے بھی آگے آگے دوڑا جاتا ہے.اور اس کا پیغام کیا ہے جو ہر ایک انسان کو پہنچانا چاہتا ہے وہ پیغام لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ہے جس سے عرب ایسی وحشت کھاتے تھے کہ اگر کان میں یہ آواز پڑ جاتی تو کان میں انگلیاں دے لیتے تھے اور جس کے منہ سے یہ الفاظ سنتے اس پر دیوانہ وار لپک پڑتے اور چاہتے کہ اسے ایسی سزا دیں کہ جس سے بڑھ کر اور سزا نا ممکن ہو.مگر باوجود عربوں کی اس مخالفت کے وہ تنہائی پسند انسان، غار حراء میں دن گزارنے والا انسان ، جب موقعہ پاتا یہ پیغام ان کو سنا تا.اور کسی مجلس یا کسی جماعت کا خوف یا رعب اسے اس پیغام کے پہنچانے میں روک نہ ہو سکتا.یہ کام اس نے ایک دن نہیں دو دن نہیں مہینہ نہیں دو مہینہ نہیں اپنی وفات کے دن تک کیا اور باوجود سب دنیا کی مخالفت کے اپنے کام سے باز نہ آیا.نہ عرب کے مشرک اس کو باز رکھ سکے نہ شام کے مسیحی 220

Page 230

اس کے جوش کو کم کر سکے نہ ایران کے مجوسی اس کو سست کر سکے اور نہ مدینہ اور خیبر کے یہود اس کی راہ میں روک بن سکے.ہر ایک دشمنی ، ہر ایک عداوت ، ہر ایک مخالفت ، ہر ایک تکلیف کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ایک منٹ کے لئے بھی اس نے اپنی آواز نیچی نہ کی.حتی کہ وفات کے وقت بھی یہی نصیحت کرتا گیا کہ دیکھنا خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو نہ بنانا اور وہ وحدہ لاشریک ہے کوئی چیز اس کے برابر نہیں حتی کہ سب انسانوں سے افضل محمد ایلیا ایم بھی اس کا ایک بندہ اور رسول ہے.اس کی قبر کو بھی دوسری قوموں کے دستور کے مطابق مسجد نہ بنا لینا.کیا اس استقلال کا نمونہ دنیا میں کسی اور انسان نے بھی دکھایا ہے؟ کیا ایسے مخالفانہ حالات کے مقابلہ پر ایسا فولادی عزم کسی نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں.لوگ ذرا ذرا سا کام کر کے تھک جاتے ہیں اور تھوڑی سی تکلیف دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں بلکہ بغیر تکلیف کے بھی کسی کام پر اس قدر عرصہ تک متواتر توجہ نہیں کر سکتے جس کا نمونہ آنحضرت سالی پی ایم نے دکھایا اور جس نمونہ کو دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جس کام کو اپنے ذمہ لیا تھا اس کی خوبی اور بہتری پر دل سے یقین رکھتے تھے.کیونکہ اس قدر لمبے عرصہ تک باوجود اس قدر تکالیف کے کوئی انسان ایک ایسے امر پر جسے وہ جھوٹا خیال کرتا ہو قائم نہیں رہ سکتا.بلکہ یہ بھی کھل جاتا ہے کہ وہ کونسی طاقت تھی جس سے کام لے کر آپ نے ایسی جماعت پیدا کر دی تھی.جس نے باوجود قلت تعداد کے سب دنیا کو فتح کرلیا تھاوہ آپ کا استقلال اور آپ کا عمل ہی تھا.جس نے ان مٹھی بھر آدمیوں کو جو آپ کی صحبت میں رہنے والے تھے کل دنیا کی اصلاح کے کام کے اختیار کرنے کی جرات دلائی اور صرف جرأت ہی نہیں دلائی بلکہ آخر دم تک ایسا آمادہ کئے رکھا کہ انہوں نے دنیا کی اصلاح کا کام 221

Page 231

کر کے بھی دکھا دیا.مگر افسوس ! کہ اب مسلمانوں میں وہ روح کام نہیں کرتی.ہم نے مختصراً آنحضرت سلیم کی زندگی سے ثابت کیا تھا کہ آپ میں استقلال کا مادہ ایسے درجہ تک پایا جاتا تھا.کہ اس کی نظیر دنیا میں ملنی مشکل ہے.اب ہم اسی مضمون کو ایک اور پیرایہ میں بیان کر کے آپ کے استقلال کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں.جن لوگوں نے انسان کے اخلاق کا وسیع مطالعہ کیا ہے اور اس کی مختلف شاخوں پر نظر امعان ڈالی ہے وہ جانتے ہیں کہ عوام میں جو اخلاق مشہور ہیں ان سے بہت زیادہ اخلاق انسان میں پائے جاتے ہیں.لیکن قلت تد بر یا اخلاق کی کثرت کی وجہ سے یا تو سب اخلاق ابتداء میں معلوم نہیں ہو سکے یا یہ کہ ان میں سے ایک قسم کے اخلاق کا نام ایک ہی رکھ دیا گیا ہے.اور اخلاق کی چند انواع مقرر کر کے ان کے نام رکھ دیئے گئے ہیں.اور آگے ان کی شناخت اسماء کی بجائے تعریف ہی کافی سمجھ لی گئی ہے.استقلال جو ایک نہایت مفید اور دوسرے اخلاق کو چمکا دینے والا خلق ہے، اس کی بھی کئی اقسام ہیں جن کا نام لغت میں موجود نہیں.بلکہ سب اقسام کو استقلال کے نام سے ہی یاد کیا جا تا ہے لیکن انسانی اخلاق کا وسیع مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ اس خلق کی بھی کئی قسمیں ہیں.جن میں سے دو بڑی قسمیں یہ ہیں کہ ایک استقلال وہ ہوتا ہے جس کا ظہور بڑے کاموں میں ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس کا ظہور چھوٹے کاموں میں ہوتا ہے چنانچہ انسانوں میں دو قسم کے انسان پائے جاتے ہیں بعض ایسے ہیں کہ اہم اور وسیع الاثر معاملات میں جب وہ لگ جاتے ہیں تو گوان کے راستہ میں خطر ناک سے خطر ناک مصائب پیش آئیں وہ اپنے کام سے دست برداری نہیں کرتے اور کل دنیا کی مخالفت کے باوجود اپنا کام کئے جاتے 222

Page 232

ہیں لیکن انہی لوگوں میں بعض ایسے پائے جاتے ہیں کہ روز مرہ کے کاموں میں جو نسبتا کم اہمیت رکھتے ہوں یا ان کا دائرہ اثر ایسا وسیع نہ ہو جیسا کہ اول الذکر کا وہ استقلال نہیں دکھا ا سکتے.بلکہ چند دن سے زیادہ ان کے ارادہ اور ان کے عمل کو ثبات حاصل نہیں ہوتا.اس جماعت کے خلاف ایک ایسی بھی جماعت ہے.جو چھوٹے اور محمد ودالاثر معاملات میں تو خوب استقلال سے کام کر لیتے ہیں.لیکن جب کسی مہتم بالشان کام پر ان کو لگا یا جاوے تو ان کا استقلال جاتا رہتا ہے اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور مفوضہ کام کو پورا کرنے کے اہل ثابت نہیں ہوتے.پس ان دونوں گروہوں کو ہم گو صاحب استقلال تو کہیں گے لیکن ہمیں یہ بھی ساتھ ہی اقرار کرنا پڑے گا.کہ اگر ایک استقلال کی ایک قسم سے محروم ہے تو دوسرا دوسری سے اور حقیقی طور پر صفت استقلال سے متصف انسان وہی ہو گا جو دونوں صورتوں میں اپنے استقلال کو ہاتھ سے نہ دے.اور خواہ امور مہمہ ہوں.یا امور محدود الاثر ، اس کا استقلال اپنا اثر ظاہر کئے بغیر نہ رہے.جب ہم آنحضرت سلیم کی سوانح عمری پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ استقلال کی ہر قسم میں کامل نظر آتے ہیں.چنانچہ یہ بات کہ ان امور میں جنہیں آپ نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دے لیا تھا.آپ کیسے مستقل مزاج ثابت ہوئے ہیں.پہلے لکھ آیا ہوں.اس جگہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شرک کی بیخ کنی اور حق کے پھیلانے میں ہی آنحضرت صلی سی ایتم نے استقلال کا اظہار نہیں کیا، بلکہ آپ کے تمام کاموں سے آپ کی کبھی نہ تھکنے والی طبیعت کا پتہ چلتا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ آپ کی اس عادت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرماتی ہیں: وَكَانَ يَقُوْلُ: خَذَوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تَطِيَقُوْنَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوْا وَأَحَبُّ الصَلٰوةِ إِلَى 223

Page 233

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادُوْوِمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّتْ وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلُوةً دَاوَمَ عَلَيْهَا ( کتاب الصوم باب صوم شعبان) ترجمہ آپ فرما یا کرتے تھے.کہ وہ عمل کیا کرو جس کے ادا کرنے کی تم میں طاقت ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں ملول ہوتا یہاں تک کہ تم ملول نہ ہو جاؤ.( یعنی جس قدر بھی دعا اور عبادت کرو.اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں رکھتا.ہاں تم خود ہی تھک کر رہ جاؤ تو رہ جاؤ.اس لئے اس قدر عمل مت کرو.کہ آخر طبیعت میں نفرت پیدا ہو جائے.اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے گنہ گار بنو ) اور آنحضرت مالامالی ہم کو نمازوں میں سب سے پیاری وہ نماز ہوتی تھی جس پر دوام اختیار کیا جائے.خواہ تھوڑی ہی ہو اور آنحضرت سالی سیستم جب کسی وقت نماز پڑھتے تھے تو پھر اس وقت کو جانے نہ دیتے تھے.ہمیشہ اس وقت نماز پڑھتے رہتے.حضرت عائشہ کی اس گواہی سے نہایت بین اور واضح طور سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی یا اسلام کا استقلال ہر رنگ میں کامل تھا.اور خواہ بڑے کام ہوں یا چھوٹے.آپ استقلال کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.چنانچہ اس شہادت سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں.ا.صحابہ کو استقلال کا سبق پڑھانا.اور ہمیشہ انہیں استقلال کی تعلیم دیتے رہنا.کیونکہ طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا نتیجہ ہمیشہ بے استقلالی ہوتا ہے.اور آپ کا اس بات سے صحابہ کو روکنا در حقیقت انہیں استقلال کی تعلیم دینا تھا.اور یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے جس میں کوئی نبی آپ کا شریک نہیں کہ آپ قرآن کریم کے طریق کے مطابق جب کبھی کسی نیکی کا حکم کرتے یا بدی سے روکتے تو ہمیشہ اس نیکی کے حصول کی آسان راہ ساتھ بتاتے.یا اس بدی کا اصل باعث ظاہر کرتے تا کہ اس سے اجتناب کر کے انسان اس بدی سے بچ جائے.اور اسی اصل کے ماتحت آنحضرت مسل لی کہ ہم نے استقلال کی تعلیم 224

Page 234

بھی صحابہ کو دی.یعنی انہیں منع فرما دیا کہ جس کام کو آخر تک نباہنا مشکل ہو اس پر اپنی خوشی سے ہاتھ مت ڈالو کہ اس طرح رفتہ رفتہ بے استقلالی کی عادت تم میں پیدا نہ ہو جائے.۲- اس شہادت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خود بھی اس تعلیم پر عمل پیرا تھے.اور اس عبادت کو پسند فرماتے جس پر دوام ہوسکتا ہو.خواہ وہ تھوڑی ہی ہو.اور اس طرح اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیتے.کہ آپ کسی کام میں خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا.استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے.۳.تیسرے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ نہ صرف عام کاموں میں بلکہ عبادت میں بھی آپ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور یہ ایک خاص بات ہے.کیونکہ استقلال یا بے استقلالی کا اظہار عام کاموں میں ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ایک دن خاص اثر اور جوش کے ماتحت خاص طور پر عبادت کرے.اور دوسرے دن نہ کرے.تو اس کا ایسا کرنا بے استقلالی نہیں کہلا سکتا.لیکن آنحضرت مالی سال ہی تم اس صفت میں ایسے کامل تھے کہ آپ عبادت میں بھی یہ پسند نہ فرماتے کہ ایک دن ایک عبادت کر کے دوسرے دن چھوڑ دیں.بلکہ جب ایک عبادت ایک دن کرتے تو دوسرے دن پھر کرتے تا کہ اس کے ترک سے طبیعت میں بے استقلالی نہ پیدا ہو اور یہ بات آپ کے استقلال پر خاص روشنی ڈالتی ہے.طہارۃ النفس.احسان کی قدر :- دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اس بات کے تو طالب رہتے ہیں کہ دوسرے ان پر احسان کریں لیکن اس بات کا ان کے دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ جن لوگوں نے ان پر احسان کیا ہے ان کے احسانات کو یا درکھ کر ان کا بدلہ بھی دیں.ایک دو احسانات کا یا درکھنا تو الگ رہا والدین جن کے احسانات کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا.ان 225

Page 235

کے احسانات کو بھی بہت سے لوگ بھلا دیتے ہیں.اور یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا اپنی محبت سے مجبور ہو کر یا اپنا فرض خیال کر کے کیا ہمیں اب کیا ضرورت ہے کہ خوامخواہ ان کی خبر گیری کرتے پھریں.لیکن ہمارے آنحضرت صلی یتیم کا حال دنیا سے بالکل مختلف تھا.آپ پر جب کوئی شخص احسان کر تا تو آپ اسے ہمیشہ یادر کھتے تھے اور کبھی فراموش نہ کرتے تھے.اور ہمیشہ آپ کی کوشش رہتی تھی کہ جس نے آپ پر کبھی کوئی احسان کیا ہو.اسےاس کے احسان سے بڑھ کر بدلہ دیں.یوں تو آپ کا اپنے رشتہ داروں ، دوستوں ،مریدوں، خادموں اور ہم وطنوں سے سلوک شروع سے آخر تک ہمارے اس دعوے کی تصدیق کر رہا ہے لیکن ہم اسے واضح کرنے لئے ایک مثال بھی دے دیتے ہیں.جس سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو اپنے محسن کے احسان کا کس قدر خیال رہتا تھا اور کس طرح اسے یادر کھتے تھے.بدر کی جنگ کے نام سے کون سا مسلمان ناواقف ہوگا یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعوی کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے مٹادیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مئے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں.اور اگر کوئی ہے تو اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا بجائے فخر کے عارخیال کرتا ہے.غرضیکہ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی تھی اور بہت سے کفار قید بھی ہوئے تھے.وہ لوگ جو گھر سے اس ارادہ سے نکلے تھے کہ آنحضرت سلایا کہ ہم اور آپ کے اتباع کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیں گے.اور جن کے دل میں رحم کا خیال تک بھی نہ تھا ان سے جس قدر بھی سختی کی جاتی اور جو سزائیں بھی ان کے لئے تجویز کی جاتیں بالکل روا اور مناسب 226

Page 236

تھیں لیکن ان کی شرارت کے مقابلہ میں آنحضرت صالی تم نے ان سے جو نرم سلوک کیا یعنی صرف ایک خفیف سا تاوان لے کر چھوڑ دیا.وہ اپنی آپ ہی نظیر ہے مگر اس نرم سلوک پر بھی ابھی آپ کے دل میں یہ تڑپ باقی تھی کہ اگر ہو سکے تو اور بھی نرمی ان سے برتوں اور آپ بہانہ ہی ڈھونڈتے تھے کہ کوئی اور معقول وجہ پیدا ہو جائے.تو میں ان کو بلا تاوان لئے کے چھوڑوں.چنانچہ اس موقعہ پر آپ نے حضرت جبیر سے جو گفتگو فرمائی وہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ آپ کا دل اسی طرف مائل تھا کہ کوئی معقول عذر ہو تو میں ان لوگوں کو یونہی چھوڑ دوں.ہاں بلا وجہ چھوڑنے میں کئی قسم کے پولیٹیکل نقص تھے.جن کی وجہ سے آپ بلا کافی وجوہات کے یونہی نہیں چھوڑ سکتے تھے.اس گفتگو سے جہاں مذکورہ بالا نتیجہ نکلتا ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے محسنوں کے احسانات کیسے یادرہتے تھے اور آپ ان کا بدلہ دینے کے تیار رہتے تھے.حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ إِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي أَسَارَى بَدْرٍ لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيَ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ التَتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ له.( بخاری کتاب الجہاد باب ما من النبی ﷺ على الاساری) یعنی نبی کریم صانا السلام نے قیدیان بدر کے متعلق فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا.اور ان ناشدنیوں کے حق میں سفارش کرتا تو میں ضرور ان کو چھوڑ دیتا.یہ کیا ہی پیارا کلام ہے.اور کن بلند خیالات کا اظہار کرتا ہے.اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں.جن کے سینوں میں احسانات کی قدر کرنے والا دل ہو.شاید اکثر ناظرین مطعم بن عدی کے نام اور اس کے کام سے ناواقف ہوں.اور خیال کریں کہ اس حدیث کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے اس لئے میں اس جگہ مطعم بن عدی کا وہ واقعہ بیان کر دیتا ہوں جس کی وجہ سے آنحضرت سلیم نے اس موقعہ پر مطعم بن عدی کو یا دفرمایا اور خواہش فرمائی کہ اگر آج وہ ہوتا تو میں ان قیدیان جنگ کو اس کی سفارش 227)

Page 237

پر چھوڑ دیتا.آنحضرت سالی سی ہی تم جب مکہ میں تشریف رکھتے تھے تو ایک دفعہ ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے مشورہ کر کے قریش کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب سے خرید وفروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات بالکل ترک کر دیں کیونکہ وہ آنحضرت مصلی یہ ستم کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو ان کے دشمنوں کے سپرد نہیں کر دیتے.کہ جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریں.چنانچہ اس مضمون کا ایک معاہدہ لکھا گیا کہ آئندہ کوئی شخص بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ہاتھ نہ کوئی چیز فروخت کرے گا.نہ ان سے خریدے گا اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ کرے گا.اس بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کے شر سے بچنے کے لئے حضرت کے چچا ابو طالب کو مذکورہ بالا دونوں گھرانوں سمیت مکہ والوں سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی.اور چونکہ مکہ ایک وادی غیر ذی زرع میں واقع ہے.کھانے پینے کی سخت تکلیف ہونے لگی اور سوائے اس کے کہ کوئی خدا کا بندہ چوری چھپے کوئی چیز دے جائے ان لو گوں کو ضروریات زندگی بھی میسر آنی مشکل ہوگئیں.اور قریبا دو سال تک یہی معاملہ رہا.اور بعض مؤرخ تو لکھتے ہیں کہ تین سال تک یہی حال رہا جب حالت انتہاء کو پہنچ گئی تو قریش میں سے پانچ شخص اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اس ظلم کو دور کیا جائے اور ان قیدیوں کو رہائی دلائی جائے.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے ایک دن عین کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ اب ہم اس ظلم کو زیادہ نہیں دیکھ سکتے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم لوگ تو پیٹ بھر کر کھانا کھا ئیں اور آرام سے زندگی بسر کیں.مگر چند ہمارے ہی ہم قوم اسی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے کھانے پینے سے تنگ ہوں اور باوجود قیمت دینے کے غلہ ان کے ہاتھ فروخت نہ کیا جائے.ہم اس معاہدہ کی جو ایسے ظلم کو روا رکھتا ہے پابندی نہیں 228

Page 238

کر سکتے.ان کا یہ کہنا تھا کہ بہت سے لوگ جن کے دل انصاف سے کورے نہ تھے.ان کی تائید میں کھڑے ہو گئے اور آخر وہ معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا گیا.اور آنحضرت سائیں یہ اہم اور آپ کے قبیلہ کے لوگ اس قید سے آزاد ہوئے.مطعم بن عدی بھی ان پانچ اشخاص میں سے ایک تھا اور یہی تھا کہ جس نے بڑھ کر اس معاہدہ کو پھاڑ کر پھینک دیا.علاوہ ازیں جب آنحضرت سائیں یہ تم طائف کے لوگوں کو دعوت اسلام دینے کے لئے تشریف لے گئے.اور آپ سے وہاں کے بدمعاشوں نے سخت ظلم کا سلوک کیا اور آپ کے پیچھے لڑکے اور کتے لگا دیئے تو آپ کو واپس مکہ میں آنا پڑا لیکن یہ وہ وقت تھا کہ مکہ کے لوگ بھی سخت سے سخت شرارت پر آمادہ ہو رہے تھے.اور آپ کو وہاں بھی امن ملنا مشکل تھا اس وقت مطعم بن عدی نے آگے آکر آپ کو اپنے جوار میں لیا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو پناہ دی.یہ وہ احسانات تھے جو مطعم بن عدی نے آپ پر کئے تھے.اور جبیر بن مطعم سے آپ کا مذکورہ بالا کلام ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو ہمیشہ خیال رہتا تھا کہ کاش وہ زندہ ہوتا.اور میں اس کے احسانات کا بدلہ اتارتا.چونکہ مطعم نے آپ کو اور آپ کے قبیلہ کو اس قید سے آزاد کرانے میں بہت کوشش کی تھی جس میں آپ بوجہ قریش کے غیر منصفانہ معاہدہ کے گرفتار تھے.اور پھر اس وقت جبکہ آپ کے دشمن آپ کو قسم قسم کی تکلیف پہنچانے پر آمادہ تھے آپ کو پناہ دی تھی.آپ کی توجہ بدر کے قیدیوں کو دیکھ کر اور یہ خیال کر کے کہ وہ لوگ جو چند سال پہلے مجھے اپنے ہاتھ میں خیال کرتے تھے آج میرے ہاتھ میں گرفتار ہیں فورا مطعم کے اس احسان کی طرف گئی اور اس احسان کو یاد کر کے فرمایا کہ جس طرح مطعم نے ہمیں قید سے آزاد کر وایا تھا اور 229

Page 239

دشمنوں کی تکلیف سے بچایا تھا آج اگر وہ زندہ ہوتا تو ایسے خطرناک دشمنوں کو میں اس کی سفارش سے قید سے آزاد کر دیتا.اور ہر ایک تکلیف سے امن دے دیتا.طہارۃ النفس لڑائی سے نفرت:- بہت سی طبائع اس قسم کی ہوتی ہیں کہ وہ بہادری میں تو بیشک کمال رکھتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان میں ایک قسم کی سختی پیدا ہو جاتی ہے.اور ان کی بہادری در حقیقت لڑائی اور جھگڑے کا نتیجہ ہوتی ہے اور بجائے ایک خلقی خوبی کے ، عادت کا نتیجہ ہوتی ہے جیسے کہ بعض ایسے ممالک کے لوگ، جہاں امن و امان مفقود ہوتا ہے اور لوگ آپس میں لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں.عادتاً دلیر اور بہادر ہوتے ہیں لیکن ان کی بہادری کوئی نیک خلق نہیں ہوتی بلکہ روزانہ کی عادت کا نتیجہ ہوتی ہے جیسے کہ بعض جانور بھی بہادر ہوتے ہیں، اور یہ بات ان کے اخلاق میں سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی پیدائش ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہے کہ وہ بہادر ہوں مثلاً شیر چیتا وغیرہ پس جو انسان کہ عادتاً بہادر ہے یعنی ایسے حالات میں اس نے پرورش پائی ہے کہ اس کی طبیعت میں سختی اور لڑائی جھگڑے کی عادت ہو گئی ہے اس کی بہادری چنداں قابل قدر نہیں لیکن جو شخص کہ لڑائی اور جھگڑے سے نفرت رکھتا ہوں، موقعہ پر بہادری دکھائے اس کی بہادری قابل قدر ہے.میں یہ تو پہلے بتا آیا ہوں کہ رسول کریم تم بے نظیر بہادر تھے اور کوئی شخص بہادری میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ لڑائی اور جھگڑے سے سخت متنفر تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو عام طور پر لڑائی اور جھگڑا دیکھتے دیکھتے آپ کے اندر بہادری کی صفت پیدا ہوگئی تھی اور نہ ایسا تھا کہ جنگوں اور لڑائیوں کے باعث طبیعت میں ایسی سختی پیدا ہوگئی تھی کہ جھگڑے اور فساد کو طبیعت پسند کرنے لگے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونو باتیں اکثر ایک دوسرے کے 230

Page 240

باعث سے پیدا ہو جاتی ہیں.کئی بہادر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بہادری ان کی جھگڑالو اور فسادی طبیعت کا نتیجہ ہوتی ہے اور کئی بہادر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بہادری ان کو لڑائی اور جھگڑے کا عادی بنادیتی ہے لیکن آپ کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ آپ بہادر تھے لیکن آپ کی بہادری ایک نیک خلق کے طور پر تھی اور با وجود بہادر اور میدان کا رزار میں ثابت قدم رہنے والا ہونے کے آپ کو کسی سے جھگڑتے نہیں دیکھا.ہر ایک معاملہ کو سہولت سے طے کرتے اور اگر کسی کو لڑ تادیکھتے بھی تو اس حرکت سے اسے روک دیتے چنانچہ آپ کی اس نفرت کا یہ اثر تھا کہ صحابہ جنہیں رسول کریم صلی ا یتیم کے آخری زمانہ میں جنگ و جدل کے ساتھ ہی واسطہ پڑا رہتا تھا کبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے نہ تھے اور ان کی طبیعت میں سختی اور درشتی پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ ہر ایک ایسے واقعہ پر رسول کریم صلی لا یتم ان کو روک دیتے تھے.برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر میدان جنگ کے بہادر مختلف لڑائیوں اور جھگڑوں سے بجائے گھبرانے کے ان میں مزا حاصل کرتے ہیں اور کئی لوگ تو خود لڑائی کرا کے تماشہ دیکھتے ہیں مگر رسول کریم صلی ہی ہم عمر بھر باوجود بے نظیر بہادری کے لڑائیوں اور جھگڑوں سے سخت نفرت کرتے رہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ایک اور ہی روح تھی جو کام کر رہی تھی اور آپ اس دنیا کے لوگوں سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ آپ آسمانی انسان تھے جس کا ہر کام آسمانی تھا.رسول کریم صلی یا پریتم کی تمام زندگی ہی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ لڑائی جھگڑے کو سخت نا پسند فرماتے تھے لیکن اس جگہ میں ایک دو مثالیں بھی دیتا ہوں جن سے آپ کے پاکیزہ نفس کا پتہ چلتا ہے.عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْبِرَ نَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، فَقَالَ: خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى فَلَانْ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ، 231)

Page 241

وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ فَالْتَمِسُوْهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ (بخاری کتاب الصوم باب رفع معرفة اليلة القدر لتلاحي الناس ) یعنی رسول کریم صائینی ایتم ایک دفعہ اپنے گھر سے لیلتہ القدر کی خبر دینے کے لئے نکلے.اتنے میں دو شخص مسلمانوں میں سے لڑ پڑے( یعنی جب آپ نکلے تو دو شخصوں کو لڑتے پایا ) اس پر آپ نے فرمایا کہ میں لیلتہ القدر کی خبر دینے کے لئے نکلا تھا لیکن فلاں ں شخص لڑ رہے تھے جسے دیکھ کر مجھے بھول گیا کہ وہ رات کب ہوگی.خیر شاید یہ بھی تمہارے لئے اچھا ہو.تم اسے انتیسویں، ستائیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو.فلاں طہارۃ القفس.تکبر سے اجتناب:- ایک مثال تو آپ کے تکبر سے بچنے کی میں پہلے دے چکا ہوں ایک اور دیتا ہوں اور انہی دونوں مثالوں پر کیا حصر ہے آنحضرت سلائی یہ ستم کا ایک ایک عمل اس بات کی روشن مثال ہے کہ آپ تکبر سے کوسوں دور تھے لیکن جیسا کہ میں ابتداء میں لکھ آیا ہوں اس سیرت میں میں نے صرف اس حصہ سیرت پر روشنی ڈالنی ہے جو اَصَحُ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللہ بخاری سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اور دوسرے جو واقعات پہلے بیان کئے جاچکے ہیں ان کے دوبارہ دہرانے سے بھی اجتناب کرنا مناسب ہے پس ان مجبوریوں کی وجہ سے صرف دو مثالوں پر ہی کفایت کی جاتی ہے جن میں سے ایک تو پہلے بیان ہو چکی ہے اور دوسری ذیل میں درج ہے حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں.حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ : أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ: اللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ ، وَإِنْ كُنْتُ لَأَشَدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ مِنْهُ ، فَمَرَ أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتَهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا سَأَلْتَهُ إِلَّا لِيَشْبِعَنِي، 232

Page 242

فَمَرَ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ ، فَسَأَلْتَهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيَشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَانِي وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا هِيَ ، قُلْتُ: لَبَيَكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: الْحَقِّ وَمَضَى فَتَبِعْتَهُ ، فَدَخَلَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لِي، فَدَخَلَ فَوَجَدَ لَبَنَا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟ قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ فَلَانْ أَوْ فَلَانَةً ، قَالَ : أَبَاهِرٍ ، قُلْتُ: لَبَيَكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: الْحَقِّ إِلَى أَهْلِ الصُّفَةِ فَادْعُهُمْ لِيْ، قَالَ: وَأَهْلُ الصُّفَةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ، لَا يَأْوُوْنَ إِلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ، وَلَا عَلَى أَحَدٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةً بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ يَتَنَاوَلُ مِنْهَا شَيْئًا ، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةً أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا ، فَسَاءَنِي ذَلِكَ فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَةِ، كُنتُ أَحَقَّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةً أَتَقَوَى بِهَا ، فَإِذَا جَاءَ أَمَرَنِي فَكُنْتُ أَنَا أَعْطِيهِمْ ، وَمَا عَسَى أَنْ يَبْلُغَنِي مِنْ هَذَا اللَّبَنِ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَ طَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدْ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوا فَاسْتَأْذَنُوا ، فَأَذِنَ لَهُمْ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ الْبَيْتِ قَالَ: يَا أَبَاهِرٍ ، قُلْتُ: لَبَيَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: خُذْ فَأَعْطِهِمْ ، قَالَ: فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أَعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ، فَأَعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ، فَيَشْرَبْ حَتَّى يَرْوَى ثُمَّ يَرْةُ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوِيَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ ، فَقَالَ: أَبَاهِرٍ ، قُلْتُ: لَبَيَكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: بَقِيتُ أَنَا وَأَنْتَ ، قُلْتُ : صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: اقْعُدُ فَاشْرَبْ فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ ، فَقَالَ: اشْرَبْ فَشَرِبْتُ ، فَمَا زَالَ يَقُولُ: اشْرَبْ ، حَتَّى قُلْتُ : لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ: فَأَرِنِي، فَأَعْطَيْتُهُ الْقَدَحَ، فَحَمِدَ اللهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الْفَضْلَةَ.( بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي و اصحابه وتخليهم من الدنيا ) ترجمہ :.اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں کہ میں بھوک کے مارے زمین پر منہ کے بل لیٹ جایا کرتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا 233

Page 243

کرتا تھا ( یعنی رسول کریم صلی شما السلام کے زمانہ میں اس وقت صحابہ زیادہ تر اپنے اوقات دین کے سیکھنے میں ہی خرچ کرتے تھے اور کم وقت اپنی روزی کے کمانے میں لگاتے تھے اس لئے دنیاوی مال آپ کے پاس بہت کم ہوتا تھا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو کوئی کام کیا ہی نہ کرتے تھے، ہر وقت مسجد میں اس انتظار میں بیٹھے رہا کرتے تھے کہ کب رسول کریم سیاہ ہم نکلیں تو میں آپ کے ساتھ ہو جاؤں اور جو کچھ آپ کے دہن مبارک سے نکلے اس کو یاد کرلوں اور چونکہ سوال سے بچتے تھے کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جا تا لیکن ہر حال میں شاکر تھے اور آستانہ مبارک کو نہ چھوڑتے تھے ) ایک دن ایسے ہوا کہ میں اس راستہ پر بیٹھ گیا جس پر سے صحابہ گذر کر اپنے کاروبار کے لئے جاتے تھے،اتنے میں (حضرت) ابوبکر گزرے پس میں نے ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی اور میں نے یہ آیت ان سے اس لئے نہ پوچھی تھی کہ وہ مجھے اس کے معنی بتا ئیں بلکہ اصل غرض میری یہ تھی کہ شاید ان کی توجہ میری طرف ہو اور میرا پیٹ بھر دیں لیکن انہوں نے معنی بتائے اور آگے چل دیئے ، مجھے کچھ کھلایا نہیں.ان کے بعد ( حضرت عمر گزرے.میں نے ان سے بھی قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی اور وہ آیت بھی مجھکو آتی تھی میری اصل غرض یہی تھی کہ وہ مجھے کچھ کھلا ئیں مگر وہ بھی اسی طرح گزر گئے اور مجھے کچھ نہ کھلا یا.پھر وہاں سے ابوالقاسم سلام ( یعنی آنحضرت فداہ نفسی ) گزرے آپ نے جو نہی مجھے دیکھا مسکرا دیئے اور جو کچھ میرے جی میں تھا اور جو میرے چہرہ سے عیاں تھا ( یعنی بھوک کے آثار ) اس کو پہچان لیا پھر فر ما یا ابو ہریرہ ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! حاضر ہوں ارشادفرمائیے، فرمایا میرے ساتھ چلے آؤ.پس میں آپ کے پیچھے چل پڑا آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور میرے لئے اجازت مانگی پھر مجھ کو اندر آنے کی اجازت دی.پھر آپ اندر کمرہ میں تشریف 234

Page 244

رض لے گئے اور ایک دودھ کا پیالہ رکھا پایا.آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اندر سے جواب ملا فلاں مرد یا فلاں عورت ( حضرت ابوہریرہ کو یاد نہیں رہا کہ مرد کہا یا عورت) نے حضور کے لئے ہدیہ بھیجا ہے.اس پر مجھے آواز دی.میں نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! حاضر ہوں.فرمایا اہل صفہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا ؤ.ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان تھے جن کے نہ تو کوئی رشتہ دار تھے جن کے پاس رہتے نہ اُن کے پاس مال تھا کہ اس پر گزارہ کرتے اور نہ کسی شخص کے ذمہ ان کا خرچ تھا.جب نبی کریم صلی یا ستم کے پاس صدقہ آتا تو آپ ان کی طرف بھیجید یتے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھاتے اور جب آپ کے پاس کوئی ہدیہ آتا تو آپ اُن کو بلا بھیجتے اور ہدیہ سے خود بھی کھاتے اور ان کو بھی اپنے ساتھ شریک فرماتے.حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور مجھے خیال گزرا کہ یہ دودھ اصحاب الصفہ میں کیونکر تقسیم ہوگا.میں زیادہ مستحق تھا کہ اس دودھ کو پیتا اور قوت حاصل کرتا، جب وہ لوگ آجائیں گے تو آپ مجھے حکم فرما دیں گے اور مجھے اپنے ہاتھ سے ان کو تقسیم کرنا پڑے گا اور غالب گمان یہ ہے کہ میرے لئے اس میں سے کچھ نہ بچے گا لیکن خدا اور رسول کی اطاعت سے کوئی چارہ نہ تھا پس میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کو بلایا.وہ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی.آنحضرت سلائی یہی ہم نے ان کو اجازت دی پس وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے.اس پر رسول کریم صلی اسلام نے فرمایا.ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! حاضر ہوں.فرمایا.یہ پیالہ لو اور ان کو پلاؤ.میں نے پیالہ لیا اور اس طرح تقسیم کرنا شروع کیا کہ پہلے ایک آدمی کو دیتا جب وہ پی لیتا اور سیر ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھر میں دوسرے کو دیتا جب وہ سیر ہو جا تا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا.اسی طرح باری باری سب کو پلا نا شروع کیا یہاں تک کہ 235

Page 245

سب پی چکے اور سب سے آخر میں میں نے نبی کریم صلی یا یہ ہم کو پیالہ دیا آپ نے پیالہ لے لیا اور اپنے ہاتھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فر ما یا ابو ہریرہ عرض کیا یارسول اللہ ! حکم فرما یا اب تو تم اور میں رہ گئے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ درست ہے فرمایا.اچھا تو بیٹھ جاؤ اور پیوپس میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا جب پی چکا تو فرمایا کہ اور پیو.میں نے اور پیا.پھر فرمایا اور پیو.اور اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ آخر مجھے کہنا پڑا کہ خدا کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب تو اس دودھ کے لئے کوئی راستہ نہیں ملتا اس پر فر ما یا! کہ اچھا تو مجھے دو.میں نے وہ پیا لہ آپ کو پکڑا دیا.آپ نے خدا تعالیٰ کی تعریف اور بسم اللہ پڑھی.اور باقی بچا ہوا دودھ پی لیا.اس حدیث سے رسول کریم صلی سیستم کی سیرت کے جن متفرق مضامین پر روشنی پڑتی ہے ان کے بیان کرنے کا تو یہ موقعہ نہیں مگر اس وقت میری غرض اس حدیث کے لانے سے یہ بیان کرنا کہ رسول کریم ملایم تکبر سے بالکل خالی تھے اور تکبر آپ کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا.رسول کریم صلی لا یہ تم تو خیر بڑی شان کے آدمی تھے اور جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت دنیاوی شان بھی آپ کو بادشاہانہ حاصل تھی ( کیونکہ حضرت ابوہریرہ آپ کی وفات سے صرف تین سال پہلے مسلمان ہوئے تھے پس اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ مسلمان ہوتے ہی آپ کو یہ واقعہ پیش آیا تب بھی فتح خیبر کے بعد کا یہ واقعہ ہے جبکہ رسول کریم کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور عرب کے کئی قبائل آپ کی اطاعت کا اقرار کر چکے تھے).آپ سے دنیا وی حیثیت میں ادنیٰ لوگوں کو بلکہ معمولی معمولی اُمراء کو دیکھو کہ کیا تکبر اور عجب کے باعث وہ کسی شخص کا جوٹھا پی سکتے ہیں؟ اس آزادی کے زمانہ میں بھی جبکہ تمام بنی نوع انسان کی برابری کے دعوے کئے جاتے ہیں.اس شان کو بنانے کے لئے طب کی 236

Page 246

آڑ تلاش کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کا جھوٹھا پینے سے ایک دوسرے کی بیماری کے لگ جانے کا خطرہ ہوتا ہے حالانکہ اگر کوئی ایسی بیماری معلوم ہو تو اور بات ہے ورنہ رسول کریم صال اللہ تم تو فرماتے ہیں کہ سُورُ الْمُؤْمِنِ شِفَاء مؤمن کا جوٹھا استعمال کرنے میں بیماری سے شفاء ہوتی ہے.پھر مسلمان کہلانے والوں کا کیا حق ہے کہ اس فتویٰ کے ہوتے ہوئے اپنے تکبر کو پورا کرنے کے لئے اس تار عنکبوت عذر کے پیچھے پناہ لیں.غرض اس آزادی کے زمانہ میں بھی بادشاہ تو الگ رہے عام لوگ بھی پسند نہیں کرتے کہ اپنے سے نیچے درجہ کے آدمی کا جوٹھا کھانا یا پانی استعمال کریں اور خواہ دنیاوی حیثیت میں انسے ادنیٰ درجہ کا آدمی کس قدر ہی صاف اور نظیف کیوں نہ ہو اور ہر قسم کی میلوں اور گندوں سے کتنا ہی پاک کیوں نہ ہو اس کے جو ٹھے کھانے یا پینے کو بھی استعمال نہیں کرتے اور اس کو برا مناتے ہیں اور اس کو اپنی ہتک خیال کرتے ہیں.اور پھر امارت ظاہری الگ رہی ، قومیتوں کے لحاظ سے بھی ایسے درجہ مقرر کئے گئے ہیں کہ ایک ادنیٰ قوم کے شخص کا جوٹھا کھانا یا پانی استعمال کرنا اعلیٰ قوم کے لوگ عار خیال کرتے ہیں خود ہمارے گھر میں ایک دفعہ یہ واقعہ ہؤا کہ ایک سیدانی بغرض سوال آئی.باتیں کرتے کرتے اس نے پانی مانگا.ایک عورت اس کو پانی دینے کے لئے اٹھی اور جو برتن گھڑوں کے پاس پانی پینے کے لئے رکھا تھا اس میں اُس نے اسے پانی دیا.وہ سیدانی بھی سامنے بیٹھی تھی اس بات کو دیکھ کر آگ بگولا ہوگئی اور بولی کہ شرم نہیں آتی.میں سیدانی ہوں اور تو امتیوں کے جو ٹھے برتن میں پانی دیتی ہے.نئے برتن میں مجھے پانی پلانا چاہئے تھا.غرض صرف سادات میں سے ہونے کی وجہ سے با وجود اس کے کہ وہ ہمارے ہاں سوال کرنے آئی تھی اور محتاج تھی اس نے اس قدر تکبر کا اظہار کیا کہ دوسرے آدمی کا مستعمل برتن جو سید نہ ہو اس کے سامنے پیش کر نا گو یا اس کی ہتک 237

Page 247

تھی.جب مستعمل لیکن صاف کردہ برتن سے اس قدر نفرت تھی تو جوٹھا پانی تو پھر نہایت ناپاک ھے سمجھی جاتی ہوگی لیکن اس سیدوں کے باپ بلکہ انبیاء کے سید کو دیکھو کہ اصحاب الصفہ جن کو نہ کھانے کو روٹی ، نہ پہنے کو کپڑا ، نہ رہنے کو مکان میسر تھا ان کو اپنے گھر پر بلاتا ہے اور ایک نہیں دو نہیں، ایک جماعت کی جماعت کو دودھ کا پیالہ دیتا ہے اور سب کو باری باری پلا کر سب کا بچا ہوا ، کم سے کم نصف درجن مونہوں سے گزرا ہو ا دودھ سب سے آخر میں الحمد اللہ کہتا ہوا بسم اللہ کہ کر پی جاتا ہے اور اس کے چہرہ پر بجائے نفرت کے آثار ظاہر ہونے کے خوشی اور فرحت اور شکر و امتنان کی علامت ہویدا ہوتی ہیں.بے شک دنیا میں بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں لیکن اس شان و شوکت کا مالک ہوکر جو رسول کریم مالی یا یہ ہم کو حاصل تھی پھر اس قدر تکبر سے بعد کی مثال کوئی پیش تو کرے.لیکن خوب یا درکھو کہ ایسی مثال پیش کرنے پر کوئی شخص قادر نہیں ہوسکتا.انکسار :- تکبر کے متعلق دو مثالیں بیان کرنے کے بعد میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ آپ کے اندر تکبر نہ تھا بلکہ اس کے علاوہ آپ کی طبیعت میں حد درجہ کا انکسار بھی تھا اور آپ ہمیشہ دوسرے کی تعظیم کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اور اپنا رویہ ایسا رکھتے تھے جس سے دوسرے لوگوں کا ادب ظاہر ہو اور یہ وہ بات ہے کہ جس سے عام طور پر لوگ خالی ہوتے ہیں.خصوصا امراء تو اس سے بالکل خالی ہی نظر آتے ہیں.ایسے تو شاید بہت سے امراء مل جائیں جو ایک حد تک تکبر سے بچے ہوئے ہوں لیکن ایسے امراء جو تکبر سے محفوظ انکسار کا لفظ اُردو محاورہ کی وجہ سے رکھا گیا ہے ورنہ عربی زبان میں انکساران معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کی بجائے تواضع کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.238

Page 248

ہونے کے علاوہ منکسر المزاج بھی ہوں شاذ و نادر ہی ملتے ہیں اور میرا یہ کہنا کہ شاذ و نادر منکسر المزاج امراہل سکتے ہیں اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ایسے امراء بھی ہیں جو اپنے انکسار میں رسول اللہ صلی شیا کی ستم کا نمونہ ہیں.کیونکہ رسول کریم صلی یہ تم کا نمونہ تو انبیاء میں بھی نہیں مل سکتا چہ جائیکہ عام امراء میں مل جائے.میرا یہ ایمان ہے کہ آپ اپنی تمام عادات اور تمام حرکات میں بے نظیر تھے اور اخلاق کے تمام پہلوؤں میں کل انبیاء اور صلحاء پر فضیلت رکھتے تھے.پس میں اگر کسی جگہ دوسرے امراء سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں تو صرف یہ دکھانے کے لئے کہ بادشاہوں اور امراء میں بھی نیک نمو نے تو موجود ہیں لیکن جس طرح ہر رنگ اور ہر پہلو میں آپ کامل تھے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی اور دوسرے یہ بتانے کے لئے کہ آپ کو صرف نیک بختوں میں اور صلحاء میں شامل کرنا درست نہیں ہو سکتا بلکہ کسی ایک خلق میں بھی بہتر سے بہتر نمونہ جو مل سکتا ہے اس سے بھی آپ کا نمونہ بڑھ کر تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کوئی نیک بخت بادشاہ نہ تھے بلکہ نبی تھے اور نبیوں کے بھی سردار تھے اور میں ان لوگوں کی کوشش کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو آپ کی لائف میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے افعال کو چند اور بادشاہوں سے مشابہ کر کے دکھاتے ہیں اور اس طرح گویا آپ پر سے وہ اعتراض مٹانا چاہتے ہیں جو آپ کے دشمنوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اس کوشش کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت سلا می ایستم ایک اچھے بادشاہ تھے.لیکن ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ آپ ایک نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے.پس جب تک آپ کے اخلاق کو دوسرے انسانوں کے اخلاق سے بہتر اور اعلیٰ نہ ثابت کیا جائے ہمارا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے اور صرف بعض شریف بادشاہوں سے آپ کی مماثلث ثابت کر دینے سے وہ مطلب ہرگز پورانہیں ہوتا جس کے پورا کرنے کے لئے ہم 239

Page 249

قلم اٹھاتے ہیں.پس میرا آپ کے مقابلہ میں دیگر امراء کی امثلہ پیش کرنا یا ان کی زندگی کی طرف متوجہ کرنا صرف اس غرض کے لئے ہوتا ہے کہ تا بتاؤں کہ اچھے سے اچھے نمونہ کو بھی آپ کے سامنے لاؤ کبھی وہ آپ کے آگے چمک نہیں سکتا بلکہ آپ کے سامنے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نصف النہار کے سورج کے مقابلہ میں شب چراغ.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی.میں اس وقت یہ بیان کر رہا تھا کہ گو بعض امراء تکبر سے خالی تو مل سکتے ہیں لیکن منکسر المزاج امراء بہت ہی کم اور شاذ و نادر ہی ملیں تو ملیں لیکن رسول کریم ملایی تم ایک بادشاہ ہو کر جس منکسر المزاجی سے رہتے تھے وہ انسان کو حیرت میں ڈال دیتی ہے.عرب کی سی قوم کا بادشاہ لاکھوں انسانوں کی جان کا مالک بڑوں اور چھوٹوں کے سامنے اس انکسار سے کام لیتا ہو ا نظر آتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.دنیا کے بادشاہوں اور امراء کی زندگی کو دیکھو اور ان کے حالات پڑھو تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی اپنے سے ادنی آدمی کو سلام کہنا تو درکنار، اس کے سلام کا جواب دنیا بھی پر اُن پر دوبھر ہوتا ہے.اول تو بہت سے ہوں گے جو معمولی آدمی کے سلام پر سر تک بھی نہ ہلائیں گے تو بعض ایسے ملیں گے جو صرف سر ہلا دینا کافی سمجھیں گے.ان سے بھی کم وہ ہوں گے جو سلام کا جواب دے دیں گے اور جو ابتداء میں سلام کریں وہ تو بہت ہی کم ملیں گے کیونکہ جن کی طبیعت میں تکبر نہ ہو وہ اس بات کو پسند نہ کریں گے کہ کوئی غریب آدمی ان کو سلام کہے تو وہ اس کے سلام کا جواب نہ دیں لیکن ابتداء ایک غریب آدمی کو سلام کہنا وہ اپنی شان کے خلاف سمجھیں گے.لیکن رسول کریم مالی پریتم کی زندگی کے حالات پڑھ کر دیکھو کہ آپ ہمیشہ سلام کہنے میں سبقت کرتے تھے اور کبھی اس بات کے منتظر نہ رہتے تھے کہ کوئی غریب آدمی آپ کو خود بڑھ کر سلام کرے بلکہ آپ کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ آپ ہی پہلے سلام 240

Page 250

کہیں.اس کے متعلق میں اس جگہ ایک ایسے شخص کی گواہی پیش کرتا ہوں جس کو آپ کی مدینہ کی زندگی میں برابر دس سال آپ کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ہے.میری مراد حضرت انس سے ہے جن کو رسول کریم مالی نی یہ تم نے مدینہ تشریف لانے پر ملازم رکھا تھا اور جو آپ کی وفات تک برابر آپ کی خدمت میں رہے.ان کی نسبت امام بخاری روایت کرتے ہیں: عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِکِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ ( بخاری کتاب الاستیذان باب التسليم على الصبيان ) یعنی حضرت انس ایک دفعہ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے تو آپ نے ان کو سلام کہا اور پھر فرمایا کہ آنحضرت صلی یہ نام اسی طرح کیا کرتے تھے یعنی آپ بھی جب لڑکوں کے پاس سے گزرتے تھے.تو ان کو سلام کہا کرتے تھے ان واقعات پر سرسری نظر ڈالنے والے انسان کی نظر میں شاید ایک معمولی سی بات ہو لیکن جو شخص کہ ہر ایک بات پر غور کرنے کا عادی ہو وہ اس شہادت سے رسول کریم سالی پیام کی منکسرانہ طبیعت کے کمال کو معلوم کئے بغیر نہیں رہ سکتا.جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں.امراء کے لئے اپنے سے چھوٹے آدمی کو پہلے سلام کہنا ایک نہایت سخت مجاہدہ ہے اور ممکن ہے کہ کبھی کبھار کوئی امیر ایسا کر بھی دے لیکن ہمیشہ اس پر قائم رہنا ایک ایسی بات ہے جس کا ثبوت کسی دنیاوی بادشاہ کی زندگی سے نہیں مل سکتا.پھر بچوں کو سلام میں ابتداء کرنا تو ایک ایسی بات ہے جس کی بادشاہ تو الگ رہے امراء سے بھی امید کرنا بالکل محال ہے اور امراء کو بھی جانے دو.کتنے بالغ و جوان انسان ہیں جو باوجود دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت رکھنے کے بچوں کو سلام میں ابتداء کرنے کے عادی ہیں اور جب گلیوں میں بچوں کو کھڑا پاتے ہیں تو آگے بڑھ کر ان کو سلام کہتے تھے.شاید ایسا آدمی جو اس پر تعہد سے قائم ہو اور ہمیشہ اس پر عمل کرتا ہوا ایک بھی 241

Page 251

نہ ملے گا لیکن رسول کریم کی نسبت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے واقف کارصحابی جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے فرماتے ہیں کہ آپ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو اُن کو سلام کہتے تھے.اس شہادت میں آپ نے کئی باتوں پر روشنی ڈالی ہے اول یہ کہ آنحضرت سی پیام انکسار کے اس اعلی درجہ پر قدم زن تھے کہ بچوں کو سلام کہنے سے بھی آپ کو عار نہ تھا.دوم یہ کہ آپ ان کو سلام کہنے میں ابتداء کرتے تھے.سوم یہ کہ ایک یادو دفعہ کی بات نہیں آپ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے تھے.اب اس شہادت سے ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بچوں کے ساتھ اس انکسار کے ساتھ پیش آتا تھا، وہ جوانوں کے ساتھ کس انکسار کے ساتھ معاملہ کرتا ہوگا اور اس کا نفس خودی اور تکبر سے کس حد تک پاک ہوگا.میں اس امر کی اور بہت سی مثالیں پیش کرتا لیکن چونکہ میں نے اس کتاب میں صرف ان مثالوں سے آپ کی سیرت پر روشنی ڈالنے کا ارادہ کیا ہے جو بخاری میں پائی جاتی ہیں اس لئے اس وقت اسی مثال پر اکتفا کرتا ہوں.شروع سے ہی آپ کی طبیعت ایسی تھی.آپ کی منکسرانہ طبیعت کے متعلق جو مثال میں نے دی ہے شاید اس کے متعلق کوئی شخص کہے کہ گو امراء اس منکسر انہ طبیعت کے نہیں ہوتے لیکن چونکہ علاوہ بادشاہت کے آپ کو نبوت کا بھی دعوی تھا اور نبوت کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہر قسم کے لوگوں سے تعلق رکھے اس لئے ممکن ہے کہ نعوذ باللہ آپ تکلف سے ایسا کرتے ہوں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ اعتراض درست ہے لیکن رسول کریم سی شمالی تم پر نہیں پڑ سکتا اور اس کی یہ وجہ ہے کہ تکلف کی بات ہمیشہ عارضی ہوتی ہے تکلف سے انسان جو کام کرتا ہے اس پر سے کسی نہ کسی وقت پر دہ اٹھ جاتا ہے لیکن جیسا کہ پہلی 242

Page 252

مثال سے ثابت ہے.آنحضرت سلائی یہ تم ہمیشہ ایک ہی بات پر قائم رہے اور ایک شخص ، جو دس سال رات دن برابر آپ کے ساتھ رہا ، گواہی دیتا ہے کہ ہمیشہ منکسرانہ معاملہ کرتے تھے تو اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی لیکن اس مثال کے علاوہ ایک اور مثال بھی بخاری سے معلوم ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی منکسرا نہ طبیعت ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نتیجہ تھی جن پر آپ قائم تھے نہ کہ بناوٹ کا جیسا کہ آپ کے دشمن کہتے ہیں اور وہ ایک ایسے وقت کی بات ہے جبکہ آپ نے ابھی دعوی بھی نہ کیا تھا.پس اس وقت بھی آپ کا انتہاء درجہ کا منکسر المزاج ہونا ثابت کرتا ہے کہ آپ کے تمام کام اس دلی پاکیزگی کا نتیجہ تھے جس نے آپ کو کسی زمانہ میں بھی نہیں چھوڑا.عَنْ عَائِشَةَ أُمِ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي التَوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حَيْبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَعَبُدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا ، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَك فَقَالَ اقْرَأْ.قَالَ " مَا أَنَا بِقَارِي ".قَالَ " فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ.قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِي.فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ.فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِيَ.فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ * خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اقْرَأْ وَرَبِّكَ الأَكْرَمُ ".فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فَؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدِ رضى الله عنها فَقَالَ " زَمِلُونِي زَقِلُونِي ".فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ " لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ".فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلأَ وَ اللَّهِ مَا يُخْزِيَك اللهَ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِ.فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةَ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمَ خَدِيجَةَ - وَكَانَ امْرَأَ تَنَصَرَ فِي الْجَاهِلِيَةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، 243

Page 253

فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَةِ مَا شَاءَ اللَّهَ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ - فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمَّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ.فَقَالَ لَهُ وَرَقَةً يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى.فَقَالَ لَهُ وَرَقَةً هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهَ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونَ حَيًّا إِذْ يُخْرِجَكَ قَوْمَكَ.فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَوَمَخْرِجِيَ هُمْ.قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلأَعُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمَكَ أَنْصَرَكَ نَصْرًا مُؤَزَرًا.ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةً أَنْ تُوَفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْى.( بخاری باب كيف كان بدء لو حى الى رسول الله الم) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ شروع شروع میں رسول کریم صلی یا یہ تم کو سچی خوا ہمیں آنی شروع ہوئی تھیں.آپ جو خواب دیکھتے وہ اپنے وقت پر اس طرح ظاہر پوری ہوتی جیسے پو پھوٹتی ہے.اس کے بعد آپ کے دل میں علیحدگی کی محبت ڈالی گئی پس آپ غار حراء میں جا کر علیحدہ بیٹھا کرتے تھے اور کچھ راتیں رہ کر وہاں عبادت کیا کرتے تھے (ایک خدا کی.کیونکہ نبوت سے پہلے بھی آپ نے کبھی شرک نہیں کیا) اور پھر گھر کی طرف واپس تشریف لاتے تھے اور پھر اس کام کے لئے کھانا وغیرہ لے جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آ گیا ( یعنی وحی نازل ہوئی ) اور آپ اس وقت غار حراء میں ہی تھے آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ پڑھ ! آپ نے جواباً فرمایا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا.آپ فرماتے تھے کہ اس پر فرشتہ نے مجھے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس قدر بھینچا کہ طاقت برداشت نہ رہی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا اس پر اس نے پھر مجھے پکڑا اور اپنے ساتھ چمٹا کر زور سے بھینچا حتی کہ طاقت برداشت نہ رہی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! یہ آیات لے کر ( یعنی یاد کر کے رسول کریم صلی است واپس تشریف لے آئے اور 244

Page 254

آپ کا دل دھڑک رہا تھا وہاں آکر سے آپ سیدھے حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ! اس پر آپ کے اوپر کپڑا ڈال دیا گیا اور آپ لیٹے رہے یہاں تک کہ خوف جاتا رہا.پھر حضرت خدیجہ کو تمام قصہ سنایا اور فرمایا کہ میں تو اپنی جان پر ڈرتا ہوں ( یعنی مجھے خوف ہے کہ مجھ سے کیا معاملہ ہونے لگا ہے ) اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا کہ ہر گز نہیں.خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتا اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے اور مہمان کی اچھی طرح سے خاطر کرتا ہے اور کچی مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتا ہے یہ کہہ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت سالی تم کو ساتھ لیا اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ جو حضرت خدیجہ کے چچا کے بیٹے یعنی چچا زاد بھائی تھے، ان کے پاس پہنچیں جو جاہلیت کے زمانہ میں مسیحی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی میں انجیل کے بعض حصص، جن کی اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دیتا لکھا کرتے تھے ( یعنی اپنی جوانی میں ) اور اس وقت وہ بوجہ بڑھاپے کے اندھے ہو چکے تھے.حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھائی کے بیٹے کی بات سن.ورقہ نے آنحضرت صلی یا پیام سے پوچھا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! کیا بات ہے.آپ نے جو کچھ گزرا تھا آپ کے سامنے دہرایا.اس پر ورقہ نے کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر نازل فرمایا تھا.اے کاش.میں اس وقت جوان ہوتا.اے کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب تیری قوم تجھے نکال دے گی اس پر رسول کریم صلی لا یتیم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کوئی شخص اس تعلیم کے ساتھ نہیں آیا جس کے ساتھ تو آیا ہے مگر لوگوں نے اس سے دشمنی کی ہے اور اگر مجھے تیرا زمانہ ملا ( یعنی 245

Page 255

جس وقت تیری تعلیم کا اعلان ہو گا اور لوگ مخالفت کریں گے ورنہ نبی تو آپ اسی دن سے ہو گئے تھے اور وحی قرآن نازل ہونی شروع ہو گئی تھی ) تو میں تیری بڑی مددکروں گا.پھر کچھ ہی دونوں کے بعد ورقہ فوت ہو گئے اور وحی ایک عرصہ کے لئے بند ہوگئی.ممکن ہے اس حدیث کے یہاں نقل کر نے پر بعض لوگوں کو تعجب ہوا ہو کہ اس حدیث کے اس جگہ نقل کرنے سے کیا مطلب ہے اور اس سے آنحضرت صلی یتیم کے انکسار کا کیا پتہ چلتا ہے لیکن جیسا کہ، میں انشاء اللہ، ابھی بتاؤں گا.یہ حدیث آپ کی منکسرانہ طبیعت پر تیز روشنی ڈالتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکسار سے آپ کا دل معمور تھا اور کسی زمانہ میں بھی آپ سے یہ خلق نیک جدا نہیں ہوا.انکسار کے ساتھ کام کر نادلالت کرتا ہے کہ یہ صفت کس شان کے ساتھ آپ کے اندر تھی اور نہ بعض لوگ صرف ستی کی وجہ سے انکسار کرتے ہیں.اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی ای ایم کے سامنے جو فرشتہ آیا اس نے آپ سے کہا کہ پڑھ اور آپ نے اس کے جواب میں کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کا اس انکار سے کیا مطلب تھا آیا یہ کہ آپ تحریر پڑھنا نہیں جانتے یا یہ کہ عربی زبان کا دہرانہ بھی نہیں جانتے.کیونکہ قراءت کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ایک معنے اسکے کسی تحریر کو پڑھنے کے ہیں اور دوسرے معنی کسی مقررہ عبارت کو اپنی زبان سے دہرانے کے ہیں چنانچہ جب کوئی شخص کسی کتاب کو پڑھے تو اس کی نسبت بھی کہیں گے کہ یقرا الکتاب اور جب وہ کسی عبارت کو دہرائے گا تو اسے بھی کہیں گے کہ یقر آ وہ پڑھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کو حفظ پڑھنا بھی قراءت کہلاتا ہے.پس اب سوال یہ ہے کہ آیا رسول اللہ ایل پی ایم نے جو یہ فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا 246

Page 256

تو اس سے کیا مراد ہے.آیا یہ کہ آپ تحریر نہیں پڑھ سکتے یا یہ کہ آپ کسی عبارت کو جو عربی زبان میں ہود ہرا بھی نہیں سکتے.اگر یہ ثابت ہو کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ آپ تحریر نہیں پڑھ سکتے تب تو بات صاف ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن یہ مطلب رسول کریم صلی ا ستم کا نہیں ہوسکتا کیونکہ صحیح احادیث سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے سامنے اس فرشتہ نے کوئی تحریر رکھی تھی اور کہا تھا کہ اسے پڑھو تا آپ جواب دیتے کہ میں پڑھنا نہیں جانتا بلکہ جو کچھ صحیح اور مرفوع احادیث سے ثابت ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک فرشتہ آپ کے سامنے آیا اور اس نے آکر آپ سے کہا کہ آپ پڑھیں اور کوئی تحریر آپ کے سامنے پیش نہیں کی.چنانچہ بخاری کی جو حدیث او پر نقل کی گئی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس فرشتہ نے آپ کے سامنے کوئی تحریر نہیں رکھی بلکہ صرف ہوشیار کرنے کے لئے کہا ہے کہ پڑھ ! جیسا کہ جب کسی شخص سے کوئی الفاظ کہلوانے ہوں تو کہلوانے والا عام طور پر کہ دیا کرتا ہے کہ کہو.پس اس فرشتہ نے بھی یہی آپ سے کہا تھا کہ دہراؤ یعنی جو لفظ میں کہتا ہوں انکو دہراتے جاؤ.چنانچہ تیسری دفعہ فرشتہ نے منہ سے ہی الفاظ کہے نہ کہ کوئی تحریر رکھی.اگر پڑھوانا مد نظر ہوتا اور اس فرشتہ کا آپ کو گھونٹنا اس لئے ہوتا کہ آپ کو تحریر پڑھنا آجائے تو ایسا ہونا چاہئے تھا کہ وہ آخری دفعہ آپ کے سامنے تحریر رکھ دیتا اور آپ کو پہلے پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن معجزانہ طور پر پڑھنے لگ جاتے لیکن آخری دفعہ فرشتہ کا منہ سے الفاظ کہہ کر آپ کو دہرانے کے لئے کہنا صاف ثابت کرتا ہے کہ اس وقت آپ کے سامنے کوئی تحریر نہ رکھی گئی تھی بلکہ صرف زبانی آپ سے ایک عبارت دہرانے کو کہا گیا تھا اور یہ استدلال جو ہم نے کیا ہے اس کے خلاف عبید بن عمیر کی روایت نہیں پیش کی جاسکتی جس میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی یا یہ تم نے فرمایا کہ میرے 247

Page 257

سامنے جبریل نے ایک تحریر رکھی تھی جو دیباج پرلکھی ہوئی تھی.کیونکہ ایک تو یہ حدیث اس پائے کی نہیں جس پائے کی حدیث بخاری کی ہے پھر یہ مرسل حدیث ہے اس لئے اس روایت کے مقابلہ میں جو او پر نقل کی گئی ہے نہیں رکھی جاسکتی.سوم خود عبید بن عمیر کی اپنی روایت میں اس کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب جبریل نے آپ سے کہا کہ پڑھیں.تو آپ نے فرمایا کہ میں کیا پڑھوں؟ اور یہ فقرہ کہ میں کیا پڑھوں صاف ثابت کرتا ہے کہ آپ کے سامنے کوئی تحریر نہ تھی اگر تحریر ہوتی تو آپ ، کیا پڑھوں ، کا جملہ کیونکر استعمال فرما سکتے تھے.غرض حق یہی ہے کہ آنحضرت صلی للہ یہ تم سے اس فرشتہ نے کوئی تحریر پڑھنے کو نہیں کہا بلکہ یہی کہا کہ آپ کہیں ( یعنی جو کچھ میں کہوں ) اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں تو قراءت نہیں جانتا لیکن اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جبکہ آپ سے صرف عربی کے بعض فقرات دہرانے کو کہا گیا تھا تو آپ نے کیوں فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا حالانکہ یہ کام آپ آسانی سے کر سکتے تھے آپ کی مادری زبان عربی تھی اور آپ اس زبان میں کلام کیا کرتے تھے.پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا اور نہ آپ معربی کے کلمات کے دہرانے سے عاجز تھے کہ کہا جائے کہ آپ نے اس بات سے بھی انکار کیا بلکہ اصل بات یہی ہے کہ آپ نے فرشتہ کو دیکھتے ہی خوب سمجھ لیا تھا کہ یہ کس غرض کے لئے آیا ہے کیونکہ قبل از وقت آپ کو رویائے صالحہ کے ذریعہ اس کام کے لئے تیار کر دیا گیا تھا.اور پھر ایک علیحدہ جگہ میں یک لخت ایک شخص کا نمودار ہو نا صاف ظاہر کرتا تھا کہ یہ کوئی انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے پس آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے اور مجھے کوئی کام سپر د کر نے آیا ہے اور آپ نے خدا تعالیٰ کی عظمت کی طرف نگاہ کر کے اپنی جبیں نیاز خدا تعالیٰ کے آگے جھکادی اور عرض کیا کہ جو کچھ مجھے پڑھایا 248

Page 258

جانے لگا ہے میں تو اس لائق نہیں اور یہ جو کچھ آپ نے فرما یا بالکل درست اور بجا تھا.اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہی کلمہ کہنا بجا تھا اور آپ نے اس کے فرشتہ کو یہی جواب دیا کہ اس بادشاہ کی خدمت کے میں کہاں لائق تھا.شاید کوئی شخص کہے کہ یہ تو جھوٹ تھا آپ تو لائق تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض نادانی کے باعث ہے جو لوگ جس قدر خدا تعالیٰ کے قریب ہوتے ہیں اسی قدر اس سے خائف ہوتے ہیں اور اس کے جلال سے ڈرتے ہیں.بے شک رسول کریم سالی ایلیم سب سے زیادہ اس کام کے لائق تھے.لیکن ان کا دل سب انسانوں سے زیادہ خدا تعالیٰ کے خوف سے پر تھا پس انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال کو دیکھتے ہوئے عذر کیا کہ میں تو اس کام کے لائق نہیں.اگر آپ آپنے آپ کو سب سے لائق سمجھتے ہوئے ایسا کہتے تب بے شک آپ پر الزام آسکتا تھا بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے جبروت اور جلال پر نظر کرتے ہوئے واقعہ میں اپنے آپ کو اس کی امانت کے اٹھانے کے قابل خیال نہ کرتے تھے اور یہ بات آپ کے درجہ کی بلندی پر دلالت کرتی ہے کہ آپ باوجود عظیم الشان طاقتوں کے مالک ہونے کے خدا تعالیٰ کے جلال پر ایسے فدا تھے کہ آپ نے اپنے نفس کی خوبیوں کو کبھی دیکھا ہی نہیں اور اسی کے جلال کے مطالعہ میں لگے رہے.کیا اس سے بڑھ کر بھی انکسار کی کوئی اور مثال دنیا میں موجود ہے؟ موسی کی ایک مثال قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے لیکن آپ کے مقابلہ میں وہ بھی کچھ نہیں کیونکہ گو حضرت موسی نے اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھا اور نبوت کے بوجھ اٹھانے سے انکار کیا لیکن اپنے بھائی کی طرف اشارہ کیا.پس انہوں نے اپنی دانست میں ایک آدمی کو اس قابل خیال کیا کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گا لیکن آنحضرت سال یا یہ تم نے اپنی نسبت عجیب پیرایہ میں عذر کیا اور کسی کو پیش نہیں کیا جو آپ کے عظیم قرب پر دلالت کرتا ہے اور ثابت ہوتا 249

Page 259

ہے کہ آپ حضرت موسی سے شان میں افضل تھے کہ آپ نے اس امانت کے اٹھانے کے لئے کسی انسان پر نظر نہیں کی بلکہ صرف اپنی کمزوروی کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے انتخاب پر صاد کیا.غرض آپ کا نبوت کے ملنے سے بھی پہلے یہ انکسار کا نمونہ دکھا نا ثابت کرتا ہے کہ آپ کی طبیعت میں ہی انکسار داخل تھا.اور نادان ہے وہ جو خیال کرے کہ آپ نے نبوت کے ساتھ اس رنگ کو اختیار کیا.اس جگہ ایک اور بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ انکسار جیسا کہ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے اس کا نام نہیں کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو لائق سمجھتے ہوئے کہے کہ میں تو یہ کام نہیں کر سکتا.یہ تو جھوٹ ہے اور جھوٹ کبھی اچھی صفت نہیں ہوسکتی، انکسار در حقیقت ایثار کی ایک قسم ہے جو ایک تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ انکسار نام پاتی ہے اور منکسر لمزاج نہ اس شخص کو کہیں گے جو نالائق ہو کر اپنی نالائقی کا اقرار کرے اور نہ اسے کہیں گے جو اپنے آپ کو لائق سمجھ کر اپنے نالائق ہونے کا اعلان کرے بلکہ منکسر المزاج وہ شخص ہے جو لائق اور صاحب فضیلت ہو کر دوسروں کی خوبیوں پر لیاقت اور فضیلت کے مطالعہ میں ایسا مشغول ہو کہ اپنی لیاقت اور فضیلت اس کی نظروں سے پوشیدہ ہو جائے اور ہر موقعہ پر دوسروں کی لیاقت اور فضیلت اسکے سامنے آجائے اور یہ صفت اس لئے اچھی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں تو یہ ادب کا صحیح طریق ہے اور بندوں میں اس کے ذریعہ سے فسادمٹ جاتے ہیں کیونکہ تمام فساد تکبر یا عدم انکسار سے پیدا ہو تے ہیں تکبر جب لوگوں میں پھیل جائے تب تو بہت ہی فساد ہوگا کیونکہ ہر ایک شخص کہے گا میں دوسروں سے بڑا ہو جاؤں لیکن اگر تکبر نہ ہو اور انکسار بھی نہ ہو تب بھی فساد ہو جائے گا کیونکہ اکثر جھگڑے اسی وقت ہوتے ہیں جبکہ طرفین میں ہر ایک شخص اپنے حق پر اڑار ہے اگر ایک ان میں سے اپنے حق کو ترک کر دے تو پھر سب جھگڑے بند ہوجائیں.پس انکسار دنیا کے امن وامان 250

Page 260

کے بڑھانے میں ایک زبر دست آلہ ہے اور ایثار کے ساتھ مل کر فساد کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتا ہے ورنہ جھوٹ بولنا انکسار نہیں کہلاتا جیسا کہ ان دنوں عام طور پر سمجھا جاتا ہے اور نہ انکسار اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص ستی اور غفلت کی وجہ سے کام سے جی چرائے.بعض لوگ جنہیں کام کی عادت نہیں ہوتی سستی سے ان کا پالا پڑا ہوا ہوتا ہے وہ انکسار کے پردہ میں اپنا پیچھا چھڑا نا چاہتے ہیں لیکن اس کا نام انکسار نہیں وہ غفلت اور ستی ہے منکسر المزاج وہی شخص ہے کہ وہ کام کی اہلیت رکھتے ہوئے پھر خدا تعالیٰ کے جلال پر نظر کرتے ہوئے اپنی کمزوری کا منظر ہولیکن جب اس کے کام سپرد ہو تو پوری ہمت سے اس کا م کو کرے جیسا کہ رسول کریم سال یا تم نے کیا کہ باوجود اس انکسار کے جب آپ کے سپر د اصلاح عالم کا کام کر دیا گیا تو وہی شخص جو میں پڑھنا نہیں جانتا کہ کر اپنی کمزوری کا اقرار کر رہا تھا.رات اور دن اس تندہی سے اس کام کے بجالانے میں لگ گیا کہ دنیا دنگ ہو گئی اور کوئی انسان اس قدر کام کرنے والا نظر نہیں آتا جس قدر کہ آنحضرت سلی پریتم نے کیا.پس آپ کا انکسار سچا انکسار تھا.کیونکہ باوجو د لیاقت رکھنے کے آپ نے خدا کے جلال کا ایسا مطالعہ کیا کہ اپنی لیاقت کو بھلا دیا اور اللہ تعالیٰ کے نور کو اس طرح دیکھا کہ معلوم کر لیا کہ میری روشنی در حقیقت اس نور کا سایہ ہے.غرض آپ کے اس جواب سے کہ میں پڑھنا نہیں جانتا صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ سے انکسار میں کمال رکھتے تھے اور گوفرشتہ کا آپ کو بار بار چمٹا لینا ایک یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ اس ذریعہ سے آپ کو اپنے کمالات پر واقف کیا جانا تھا لیکن میرے نزدیک تو اس کا ایک یہ بھی مطلب تھا کہ جب فرشتہ نے آپ کو اس بات کی خبر دی کہ دنیا کو خدا کا کلام سنانے پر آپ مہ اُمور کئے گئے ہیں تو اس نے دیکھا کہ بجائے اس کے یہ کہ شخص خوشی سے 251)

Page 261

اچھل پڑے اور خود اس پیغام کو لے کر چل پڑے اور لوگوں کو فخر یہ سنائے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپر د کیا ہے.اس نے تو وہ رنگ انکسار اختیار کیا ہے جو کسی انسان نے اس سے پہلے اختیار نہ کیا تھا تو اس کا دل محبت کے جوش سے بھر گیا اور بے اختیار ہو کر اس نے آپ کو اپنے ساتھ چمٹا لیا جو اور محبت کی لہر کا ایک ظہور تھا جو اس کے دل میں پیدا ہوگئی تھی اور جب آپ کو گلے لگا کر اس نے چھوڑا اور پھر وہی پیغام دیا اور پھر وہی جواب سنا تو محبت کی آگ نے ایک اور شعلہ مارا اور پھر اس نے آپ کو گلے لگالیا اور اسی طرح تیسری دفعہ کیا اور تیسری دفعہ کے بعد آپ کے سامنے وحی الہی کے الفاظ پڑھے کہ اب تو آپ جو کچھ بھی کہیں یہ خدا کی امانت آپ کے سپر د ہوگئی ہے اور آپ نے بلا چوں و چرا اسے قبول کیا.لیکن آپ کے انکسار کو دیکھو کہ اب بھی تسلی نہیں ہوئی اس قدر اصرار سے حکم ملتا ہے لیکن بھاگے بھاگے حضرت خدیجہ کے پاس جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی جان پر ڈر آتا ہے.اے نبیوں کے سردار ! اے انسانی کمالات کے جامع ! اے بنی نوع انسان کے لئے ایک ہی رہنما! تجھ پر میری جان قربان ہو.تو اب بھی اپنے کمالات سے آنکھیں بند کرتا ہے اور یہی خیال کرتا ہے کہ میں اس قابل کہاں جو اس وحدہ لا شریک کے پیغام کا اٹھانے والا بنوں.فرشتہ تاکید پر تاکید کرتا ہے اور پیغام الہی آپ میتک پہنچا تا ہے لیکن باوجود اس کے آپ ابھی تک اپنے حسن سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور بار بار یہی فرماتے ہیں کہ میں اس قابل کہاں حتی کہ گھر آ کر اپنی غمگسار حضرت خدیجہ سے فرماتے ہیں کہ میں اپنی جان پر خائف ہوں.چونکہ یہ فقرہ بھی اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے اس لئے اس کے سمجھانے کے لئے بھی تشریح کی ضرورت ہے.الہام انسان کو دوطرح ہوتے ہیں کبھی ترقی کے لئے کبھی حجت کے 252

Page 262

لئے.یعنی کبھی تو خدا تعالیٰ انسان کو اس کے درجہ کے بلند کرنے کے لئے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی اس پر حجت قائم کرنے کے لئے چنانچہ بہت سے لوگ جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص قرب نہیں رکھتے ان کو بھی الہام ہو جاتے ہیں اور وہ نادانی سے اس پر اتر جاتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لئے آزمائش اور ان پر حجت ہوتے ہیں.اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے ان الہامات سے فائدہ اٹھانے کے وہ فخر و تکبر میں پڑ جاتے ہیں اور آخر ہلاک ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلای سیا ہی تم بھی چونکہ تواضع کے عالی مقام پر پہنچے تھے.جب آپ کو الہام ہو ا تو آپ گھبرائے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ کلام مجھ پر بطور آزمائش اور حجت نازل ہوا ہو اور یہ اپنا خوف حضرت خدیجہ کے آگے بیان فرما یا جس پر انہوں نے آپ کو تسلی دلائی اور بتایا کہ جو اخلاق آپ کے ہیں اور جس مقام پر آپ ہیں کیا ایسے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ ضائع کرتا ہے اور اپنا یقین ظاہر کرنے کے لئے انہوں نے قسم کھائی کہ تیرے جیسے کاموں والا انسان کبھی ضائع نہیں ہو سکتا.حجت اور آزمائش کے لئے تو ان کے الہام ہو سکتے ہیں جن کے اعمال میں کمزوری ہو یا متکبر ہوں.جو شخص آپ جیسا غریبوں کا خبر گیر اور اخلاق حسنہ کا ظاہر کرنے والا ہے کیا ان کو اللہ تعالیٰ تباہ کر سکتا ہے غرض حضرت خدیجہ کا جواب ظاہر کر رہا ہے کہ آنحضرت سالی یہ تم نے جو یہ فرمایا کہ میں اپنی جان پر ڈرتا ہوں.اس کا یہی مطلب تھا کہ مجھے خوف ہے کہ میری آزمائش نہ ہو جس پر انہوں نے تسلی دی کہ آپ آزمائش کے مقام سے بالا ہیں.آپ پر یہ الہامات خدا تعالیٰ کے انعامات کے طور پر نازل ہوئے ہیں چنانچہ آئندہ کی وحی نے آپ پر روز روشن کی طرح کھول دیا کہ آپ خدا تعالیٰ کے مقبول تھے اور آپ نے اپنے طریق عمل سے بتا دیا کہ آپ کا کہنا کہ ” میں کہاں اس الہام کا سنانے والا ہو سکتا ہوں صرف تواضع کے طور پر تھا نہ کہ بوجہ سستی اور ڈر کے کیونکہ جس 253

Page 263

جرات اور زور سے آپ نے کام کیا اس کی نظیر کسی نبی میں بھی نہیں تھی.طہارۃ النفس سخت کلامی سے پر ہیز :- کسی کو گالی دینے یا برا کہنے سے اس انسان کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن پھر بھی انسان بالطبع اپنے دشمن کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور ابتدائے عالم سے یہ مرض بنی نوع انسان میں چلی آئی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ گالی دینا ایک لغو کام ہے.سخت کلامی کرنا ایک فضول حرکت ہے مگر اس کے لغو اور فضول ہونے کے باوجود گالی دینے والے گالیاں دیتے ہیں اور سخت کلامی کرنے والے سخت کلامی کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ انسان کو جب غصہ یا جوش آئے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا اظہار کرے اور بہت دفعہ جب اس کے غصہ کی کوئی انتہاء نہیں رہتی اور جوش سے اس کی عقل ماری جاتی ہے تو وہ عام الفاظ میں اپنے غصہ کا اظہار نہیں کر سکتا اور جب دیکھتا ہے کہ الفاظ میں میرے غصہ کا اظہار نہی ہوسکتا تو پھر ایسے الفاظ بولتا ہے کہ جو گو اس غصہ کے اظہار کرنے والے نہ ہوں لیکن ان سے یہ ثابت ہو کہ اس شخص کو سخت طیش ہے چنانچہ اس لئے سخت طیش میں تمام برائیوں کو انسان اپنے دشمن یا دکھ دینے والے کی طرف منسوب کرتا ہے حالانکہ وہ سب برائیاں اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتیں لیکن اصل منشا گالی سے کمال طیش کا اظہار ہوتا ہے گو یا گالی دینا بھی ایک قسم کا مجاز ہوتا ہے جس کے ذریعہ انتہاء غضب کا اظہار کیا جاتا ہے.جو لوگ نہایت غصیلے ہوتے ہیں اور ذراذراسی بات پر ان کا نفس جوش میں آجاتا ہے وہ گالیاں بھی زیادہ دیتے ہیں اور جو لوگ جس قدر اپنے نفس پر قابور رکھتے ہیں اسی قدر گالیوں سے بچتے ہیں کیونکہ ان کو اس قدر غصہ نہیں آتا کہ جس کو وہ عام الفاظ میں ادا نہ کر سکیں اور اگر آئے بھی تب بھی وہ اپنے نفس کو جھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ گالیاں در حقیقت ایک کمزوری ہے اور سخت طیش 254

Page 264

کے وقت انسان سے اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا.صرف گالی دینے والے کے لئے ان خیالات کا اس سے پتہ چلتا ہے جو وہ اس کے متعلق رکھتا ہے جسے گالی دیتا ہے.غرض گالی دینے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہاں ایک پر غضب طبیعت کے جوش کا اظہار اس سے ہو جاتا ہے مگر پھر بھی اکثر لوگ غضب میں گالیاں دیتے ہیں چنانچہ بعض لوگ جو عام طور پر نرم طبیعت رکھتے ہیں جب ان کو بھی غصہ آ جائے تو اپنے مخالف کے حق میں گالی دے دیتے ہیں اور جب کسی شخص سے سخت تکلیف پہنچے تب تو بڑے بڑے صابروں کے منہ سے بھی گالی نکل جاتی ہے چنانچہ مسیح ناصرٹی جیسا صابر انسان جس کی زندگی اس کے صبر اور اس کی استقامت پر دلات کرتی ہے اور جس نے اپنے دشمنوں سے بڑی بڑی سخت مصیبتیں برداشت کر کے بھی ان کے حق میں کوئی سخت کلمہ نہیں کہا.اسے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جب اس کے دشمنوں کی شرارت حد کو پہنچ گئی اور حملہ پر حملہ انہوں نے اس پر کیا تو آخر تنگ آکر ایک دن اسے بھی اپنے دشمنوں کے حق میں کہنا پڑا کہ سانپوں کے بچے مجھ سے معجزہ طلب کرتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح کے مخالف تھے وہ انسانوں کے بچے تھے لیکن ان کی شرارتوں نے حضرت مسیح کو اس قدر دق کیا کہ آخر تنگ آکر ان الفاظ میں انہیں اپنے غصہ کا اظہار کرنا پڑا.اسی طرح ایک دفعہ اپنے حواریوں سے جو ایک دفعہ ان کو سخت تکلیف پہنچی تو اپنے ایک حواری کو انہوں نے شیطان کے لفظ سے یاد کیا حالانکہ وہ وہی حواری تھا جسے انہوں نے خود اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا.غرض حضرت مسیح کی مثال سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ کبھی بڑے سے بڑا صابر انسان بھی دشمن کی شرارت سے تنگ آکر ایسی گالی دے بیٹھتا ہے.لیکن ہمارے آنحضرت صلا ایام کواللہ تعالی نے وہ شان عطا فرمائی تھی کہ آپ کی زبان پر کبھی گالی نہیں آئی حالانکہ جو 255

Page 265

مخالفت آپ کی ہوئی اور جو تکلیف آپ کے دشمنوں نے آپ کو دی وہ اس حد کی تھی کہ اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی تکلیف نہیں پیش کی جاسکتی لیکن باوجود اس کے کہ آپ کے مخالفوں نے ہر طرح سے آپ کو دق کیا اور تئیس سال متواتر بلا وجہ آپ کو دکھ دیتے رہے اور ان کے ہاتھ روکنے والا بھی کوئی نہ تھا اور حضرت مسیح کے زمانہ کی طرح کوئی حکومت نہ تھی جس کے قانون سے ڈر کر اہل مکہ رسول کریم صلی یمن کو ستانے میں کوئی کمی کرتے اور وہ قوم بھی حضرت مسیح کی قوم سے زیادہ سخت تھی لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی یا ایلم کے منہ پر کبھی گالی نہیں آئی.ایک دو دن کی تکلیف ہو تو تب بھی کوئی بات تھی.سب کہہ سکتے تھے کہ آپ نے جبر کر کے اپنے آپ کو روکے رکھا.ایک دو ماہ کی بات ہوتی تب بھی کہہ سکتے تھے کہ تکلیف اٹھا کر خاموش رہے ایک دو سال کا معاملہ ہوتب بھی خیال ہوسکتا تھا کہ اپنے نفس کو مار کر اپنی زبان کو بند رکھا لیکن تئیس سال کا لمبا عرصہ جو تکالیف ومصائب سے پر تھا ایک ایسا عرصہ ہے کہ اس عرصہ میں کسی انسان کا ان تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے اور ان عداوتوں کو دیکھتے ہوئے جو آنحضرت سلیلا پیلم کو دیکھنی اور برداشت کرنی پڑیں ہر قسم کی سخت کلامی سے پر ہیز کرنا اور کبھی مخش گوئی کی طرف مائل نہ ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ انسان کوئی عجیب انسان تھا اور نہ صرف عام انسانوں سے برتر تھا بلکہ دوسرے نبیوں پر بھی فضیلت رکھتا تھا.کیونکہ جہاں اس نے اپنے آپ پر قابورکھا وہاں دوسرے نبی بھی نہ رکھ سکے.مجھے اپنے اس بیان کے لئے کسی ایک واقعہ سے استدلال کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس معاملہ میں ایک ایسے شخص کی شہادت موجود ہے جو دس سال متواتر آپ کے ساتھ رہا اور یہ حضرت انس ہیں وہ فرماتے ہیں کہ لَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا لَعَانًا، وَلَا 256

Page 266

من السباب سَبَابًا، كَانَ يَقُوْلُ عِنْدَ الْمَعْتَبَةِ: مَالَهُ تَرِبَ جَبِينه (بخاری کتاب الادب باب ما بـ واللعن) یعنی رسول کریم میں یا یہ تم نے تو گالی دینے کے عادی تھے، نہ منخش کلام کے عادی تھے ، نہ لعنت کیا کرتے تھے، جب آپ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا تو آپ صرف اس قدر فرما دیا کرتے تھے کہ اسے کیا ہوا ہے اس کے ماتھے پر مٹی لگے.یہ گواہی ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جو کہ آپ کے ساتھ آپ کی عمر کے آخری حصہ میں جس میں سے پہلا حصہ آپ کی تکلیف کے زمانہ میں سے سب سے سخت زمانہ تھا رہا ہے اور پھر آپ کی عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ایام جوانی گزر کر بڑھا پا آ گیا تھا اور پڑھاپے میں عام طور پر انسان کی طبیعت چڑ چڑی ہو جاتی ہے لیکن باوجود اس کے وہ گواہی دیتا ہے کہ اس دس سال کے تجربہ سے اسے معلوم ہوا ہے کہ آپ نہ تو کبھی کسی کو گالی دیتے نہ کبھی آپ کے منہ سے کوئی مخش کلمہ نکلتا اور نہ کبھی کسی شخص پر لعنت کرتے ہاں حد سے حد غصہ میں اس قدر کہہ دیتے کہ تیرے ماتھے کومٹی لگے اور یہ فقرہ گالی کا فقرہ نہیں بلکہ یہ الفاظ عرب لوگ پیار سے بھی کہا کرتے ہیں اور گو عام طور پر ان کا ستعمال مہمل جملوں کے طور پر ہوتا ہے لیکن کبھی یہ الفاظ محبت کے اظہار کے لئے بھی استعمال کئے جاتے اور ان سے یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ اس کی یہ شوخی دور ہو کیونکہ ماتھا تکبر کی علامت ہے اور اس کومٹی لگنے سے یہ مراد ہے کہ اس کا یہ تکبر دور ہو.نوٹ : اخبار الفضل میں یہ سلسلہ مضامین یہاں تک ہی شائع ہوا تھا لیکن سیرت کے مضمون پر حضور کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں.(مرتب) 257

Page 266