Seerat-ul-Mahdi Volume 2

Seerat-ul-Mahdi Volume 2

سیرت المہدی (جلد دوم)

Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوآپ پر ایمان لانے والے اصحاب نے جس نظر سے دیکھا اور آپ کی مقدس ذات میں جس خلق عظیم کا پایا اور وہ ہمیشہ کے لئے اس رجل فارس کے گرویدہ ہوگئے ، اس کا تذکرہ اس کتاب سیرت المہدی میں محفوظ ہے۔ ان روایات کی جمع و تدوین کا سہرا حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کے سر ہے، یوں اس مجموعہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حق میں ظاہر ہونے والے نشانات، دشمنوں کے گروہوں  کی مخالفت، آپ کے خاندانی حالات اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے اہم واقعات محفوظ ہوگئے۔ اس کتاب کا حصہ اول 1923ء میں شائع ہوا تھا اور 1935 میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا، جس میں پہلے ایڈیشن کی بعض غلطیوں کی اصلاح اور بعض قابل تشریح باتوں کی تشریح و توضیح شامل کی گئی تھی۔ اس کتا ب کا حصہ دوم 1927ء میں شائع ہوا جس کا ایڈیشن دوم 1935ء میں شائع کیا گیا اور پھر 1939ء میں سیرت المہدی کا حصہ سوم شائع کیا گیا تھا۔ 2008ء میں خلافت احمدیہ کے سوسال مکمل ہونے پر سیرت المہدی کے یہ ابتدائی تینوں حصے ایک جلد میں اکٹھے شائع کئے ہیں ۔جبکہ ان کے علاوہ 2 غیر مطبوعہ مجموعہ ہائے روایات بھی تھے جو حضرت میاں بشیراحمد صاحبؓ اپنی زندگی میں شائع نہیں فرماسکے تھے، وہ  غیر مطبوعہ روایات اس مجموعہ کی دوسری جلد میں شائع کی گئی  ہیں۔ موجودہ ایڈیشن میں غلطیوں کی اصلاح بھی کردی گئی ہے ا ور متعلقہ مقامات پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریر فرمودہ تشریح بھی شامل کردی گئی ہےنیز اس دوسری جلد میں مزید مواد بھی محفوظ ہوگیا ہے۔ آپ ؓ روایات کے اس مجموعہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الفاظ اور آپ کے حالات اپنے اندر وہ روحانی اثر اور زندگی بخش جوہر رکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک ایک روایت انسان کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہوسکتی ہے لیکن یہ اثر زیادہ تر مطالعہ کرنے والی کی اپنی قلبی کیفیت اور خدا کے فضل پر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔۔پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کو اس کے پڑھنے والوں کے لئے بابرکت کرے اور ا س کی خوبیوں سے وہ متمتع ہوں اور اس کے نقصوں کے مضرت سے محفوظ رہیں اور اس سے وہ نیک غرض حاصل ہو جو میرے دل میں ہے۔‘‘


Book Content

Page 1

عليه السلام سیرت المهدی جلد دوم تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے

Page 2

پیش لفظ سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم و پنجم حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی کے حصہ چہارم و پنجم کا مسودہ محترم جناب میر مسعود احمد صاحب ابن حضرت میر محمد الحق صاحب کے سپر د کرتے ہوئے روز نامہ الفضل ۱۸ جون ۱۹۵۸ء میں تحریر فرمایا :.جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں اس کتاب کے تین حصے شائع ہو چکے ہیں اور ان کے علاوہ میرے پاس دو مزید حصوں کا مواد موجود تھا اور ان بقیہ حصوں کے مسودوں میں بھی خدا کے فضل سے کئی قیمتی روایات درج ہیں جن میں سے زیادہ نمایاں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مرحوم رضی اللہ عنہ وغیرہ کی روایات ہیں.چونکہ اب میری صحت خراب رہتی ہے اور زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے میں نے ان دونوں حصوں کے مسودے میر مسعود احمد صاحب فاضل پسر میر محمد الحق صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے

Page 3

سپر د کر دیئے ہیں اور انہیں سمجھا دیا ہے کہ اگر اور جب انہیں ان حصوں کو مدون کر کے شائع کرنے کا موقع ملے تو نہ صرف روایات کو عقل و نقل کے طریق پر اچھی طرح چیک کر کے درج کریں بلکہ جہاں جہاں تشریح کی ضرورت ہو وہاں تشریحی نوٹ بھی ساتھ دے دیو ہیں.اسی طرح اگر سابقہ تین حصوں میں کوئی غلطی رہ گئی ہو یا کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے تو سابقہ روایت کا حوالہ دے کر اس کی بھی تشریح کر دیں.اور میں نے انہیں تاکید کر دی ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہمارے مخالفوں کی گندی ذہنیت کے پیش نظر اصول یہ مد نظر رکھیں کہ کسی کمزور یا لا تعلق روایت کو تشریح کے ساتھ درج کرنے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اسے بالکل ہی ترک کر دیا جائے تا کہ کمزور حدیثوں کی طرح یہ روایتیں فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب نہ بن جائیں.میں نے یہ تلخ سبق اپنے زمانہ کے مخالفین کی ناپاک اور پست ذہنیت سے سیکھا ہے.ہاں یاد آیا کہ حصہ چہارم اور حصہ پنجم کے مسودے میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اس وصیت کا اصل کاغذ بھی شامل ہے جو حضور نے اپنی مرض الموت میں آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں تحریر فرمائی تھی اور پھر اسے مولوی محمد علی صاحب ایم اے مرحوم سے پڑھوا کر حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے سپر د کر دیا تھا اور اس پر حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم کے دستخط بھی ثبت ہیں اسی طرح بعض روایات حضرت اُم المومنین نوراللہ مرقدھا اور بعض حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بھی اس مسودہ میں درج ہیں.اسی طرح اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی بعض د تخطی تحریریں بھی شامل ہیں اور اس تحریر کے کاغذات بھی اس مسل میں ہیں جو

Page 4

حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں ہم تین بھائیوں میں تقسیم ہوئی تھیں.فقط والسلام.مرزا بشیر احمد ربوہ.۱۵رجون ۱۹۵۸ء (روز نامه الفضل ۱۸ر جوان ۱۹۵۸ء ) ۱۸رجون محترم میر مسعود احمد صاحب نے یہ مسودات حضرت خلیق اصبع الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر میں دے دئے تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے ۲۰۰۸ء میں منعقد ہونے والی صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی کے مبارک موقعہ پر اشاعت کتب کا جو پروگرام ہے.اس میں سیرت المہدی کے پہلے تین مطبوعہ اور دو غیر مطبوعہ حصوں کی اشاعت بھی شامل ہے.اس غرض کے لئے خاکسار نے سے ان دوحصوں کے مسودات حاصل کر کے صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے ناظر دیوان وصدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی ہدایات کے مطابق دیکھا ہے.جو روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت یا سلسلہ کی تاریخ سے تعلق نہیں رکھتی تھیں یا جو روایات سلسلہ کی مستند تاریخ کے مطابق نہیں تھیں انہیں اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جن دستاویزات کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے وہ اس جلد میں شامل ہیں.اسی طرح حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے خطبہ الہامیہ کی تقریب، جلسہ اعظم مذاہب ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی کے پڑھے جانے اور حاضرین پر اس کے اثر نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری سفر لا ہور ، حضور کی آخری بیماری، وفات اور تدفین کے بارہ میں جو مضامین حضرت میاں صاحب کے سپر دفرمائے تھے اور جنہیں حضرت

Page 5

میاں صاحب نے سیرت المہدی حصہ پنجم کے مسودہ میں شامل فرمایا تھا وہ بھی شامل اشاعت ہیں.سیرت المہدی حصہ پنجم کے آخر پر حضرت میاں صاحب نے بعض ایسے خطوط بھی شامل فرمائے تھے جن کا سلسلہ کی تاریخ سے تعلق ہے وہ بھی شامل اشاعت کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سیرت المہدی کے موضوع پر ان پانچ حصوں کو احباب جماعت کے از دیا دایمان اور دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بنائے.آمین اس سارے کام میں محمد یوسف صاحب سابق مبلغ سپین اور کمپوزنگ کا کام کے عملہ کے علاوہ پروف ریڈنگ کے کام میں مکرم نے اور بیچ سیٹنگ نے کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.نے میرے ساتھ معاونت کی ہے جبکہ اس کی سید عبدالحی ناظر اشاعت مئی ۲۰۰۸ء

Page 6

1 187....327.......حصہ چہارم حصہ پنجم تقمه سیرت المهدی

Page 7

888888 العلمية لا سيرة المهدى حصہ چہارم تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے

Page 8

سیرت المہدی 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ چہارم 976 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ہمارے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ جس روز پنڈت لیکھرام کے قتل کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی ہوئی.تو اچانک پولیس کپتان بمعہ ایک گروہ سپاہیوں کے قادیان آگیا اور آتے ہی سب ناکے روک لئے.باہر کے لوگ اندر اور اندر کے باہر نہ جاسکتے تھے.میر صاحب قبلہ یعنی حضرت والد صاحب جو مکان کے اندر تھے فوراً حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ ایک انگریز بمعہ سپاہیوں کے تلاشی لینے آیا ہے.فرمایا بہت اچھا آجائیں.میر صاحب واپس چلے تو آپ نے اُن کو پھر بلایا.اور ایک کتاب یا کاپی میں سے اپنا الہام دکھایا جو یہ تھا کہ مَا هَذَا إِلَّا تَهْدِيدُ الْحُجَّامِ یعنی یہ حکام کی طرف سے صرف ایک ڈراوا ہے.اس کے بعد جب انگریز کپتان بمعہ پولیس کے اندر داخل ہوا تو آپ اُسے ملے.اُس نے کہا کہ مرزا صاحب! مجھے آپ کی تلاشی کا حکم ہوا ہے.حضور نے فرمایا! بیشک تلاشی لیں میں اس میں آپ کو مدددوں گا.یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور صندوق، بستے اور پھر تمام گھر اور چوبارہ سب کچھ دکھایا.انہوں نے تمام خط و کتابت میں سے صرف دو خط لئے جن میں سے ایک ہندی کا پرچہ تھا.جو دراصل آٹا وغیرہ خریدنے اور پسوانے کی رسید یعنی ٹو مبو تھا.دوسرا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام الدین یعنی محمدی بیگم کے ماموں کا تھا.پھر وہ چند گھنٹے بعد چلے گئے.چاشت کے وقت وہ لوگ قادیان آئے تھے.اس کے بعد دوبارہ دو ہفتہ کے بعد اس خط کی بابت دریافت کرنے کے لئے ایک انسپکٹر پولیس بھی آیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے اور اس کے متعلق مزید تفصیل دوسری روایتوں میں مثلاً روایت نمبر ۴۶۰ میں گذر چکی ہے.یہ روایت ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے خود بیان کی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت حضرت میر صاحب وفات پاچکے ہیں.نوٹ :.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جولائی ۱۹۴۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے تھے اور میں اس تالیف کی نظر ثانی اکتوبر ۱۹۴۹ء میں لاہور میں کر رہا ہوں.

Page 9

سیرت المہدی 2 حصہ چہارم 1977 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء کے نام چونکہ خدا کی طرف سے رکھے جاتے ہیں اس لئے ہر ایک کے نام میں اس کی کسی بڑی صفت کی پیشگوئی موجود ہوتی ہے.مثلاً آدم ، گندم گوں اقوام کا باپ.ابراہیم، قوموں کا باپ.اسماعیل ، خدا نے دعا کو سن لیا.یعنی اولاً اولاد کے متعلق ابراہیم کی دعا کوسن لیا اور پھر مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں اسماعیل کی پکار سن لی اور پانی مل گیا اور آبادی کی صورت پیدا ہوگئی.الحق ، اصل میں اضحاک ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے فَضَحِكَتْ فَبَشَّرُنَهَا بِاسْحق(هود: ۷۲) نوح کا اتنی لمبی عمر نوحہ کرنا مشہور ہے.مسیح، سفر کرنے والا ، خدا کا ممسوح.سلیمان جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے.إِنِّي أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ لِرَبِّ الْعَالَمِين (النحل: ۴۵).ایسا بادشاہ جو نہ صرف خود مسلم تھا بلکہ جس کے طفیل ایک شہزادی بمعہ اپنے اہل ملک کے اسلام لائی.مریم بتول یعنی کنواری.چنانچہ فرماتا ہے إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى مُحَرَّرًا (آل عمران (۳۶) - یعقوب.پیچھے آنے والا.وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ هود (۷۲) یوسف - يَا أَسَفى عَلى يُوسُفَ (يوسف: ۸۵) محمد ﷺ تمام کمالات کا جامع جس کی ہر جہت سے تعریف کی جائے یعنی کامل محمود ومحبوب اور معشوق.احمد ، نہایت حمد کرنے والا یعنی عاشق صادق وغیرہ وغیرہ.978 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ خواب میں چور کی تعبیر داماد بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا چور ہوتا ہے.اسی طرح جوتی کی تعبیر عورت ہوتی ہے اور عورت کی تعبیر دنیا.ہاتھوں کی تعبیر بھائی ہوتی ہے اور دانت ٹوٹ جائے تو تعبیر یہ ہے کہ کوئی عزیز مر جائے گا.اوپر کا دانت ہو تو مرد نیچے کا ہو تو عورت.1979 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کپورتھلہ کی جماعت میں ہم پانچ آدمی جماعت کے نام سے نامزد تھے.(۱) خاکسار فیاض علی (۲) منشی اروڑا صاحب تحصیل دار مرحوم (۳) منشی محمد خان صاحب مرحوم (۴) منشی عبد الرحمن صاحب (۵) منشی ظفر احمد صاحب کا تب جنگ مقدس.ان سب کو حضرت مسیح موعود نے ۳۱۳ میں شمار کیا ہے اور مجموعی طور پر اور

Page 10

سیرت المہدی 3 حصہ چہارم فرداً فرداً حضرت اقدس نے ان کو جو دعائیں دی ہیں وہ ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں درج ہیں.ان دعاؤں کی قبولیت سے ہماری جماعت کے ہر فرد نے اپنی زندگی میں بہشت کا نمونہ دیکھ لیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فیاض علی صاحب پرانے صحابی تھے.افسوس ہے کہ اس وقت (۱۹۴۹ء) میں وہ اور منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب سب فوت ہو چکے ہیں.1980 بسم الله الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کو دعا دی تھی ”اے خدا تو اس کے اندر ہو کر ظاہر ہو.(ملاحظہ ہوازالہ اوہام ) اس سے پیشتر میں قطعی بے اولا دتھا.شادی کو چودہ سال گذر چکے تھے.دوسری شادی کی.وہ بیوی بھی بغیر اولاد نرینہ کے فوت ہوگئی.تیسری شادی کی.اُس سے پے در پے خدا نے چار لڑکے اور دولڑکیاں عطا کیں.ایک لڑکا چھوٹی عمر میں فوت ہو گیا.تین لڑکے اور لڑکیاں اس وقت زندہ موجود ہیں.اُن میں سے ہر ایک خدا کے فضل سے خوش حال و خوش و خرم ہے.لڑکیاں صاحب اقبال گھر بیاہی گئیں.ان میں سے ہر ایک احمدیت کا دلدادہ ہے.بڑا لڑکا مختار احمد ایم اے.بی.ٹی سرشتہ تعلیم دہلی میں سپرنٹنڈنٹ ہے.دوسرالڑکا شار احمد بی اے، ایل ایل بی ضلع شاہجہان پور میں وکالت کرتا ہے.تیسر الڑ کا رشید احمد بی.ایس.سی پاس ہے اور قانون کا پرائیویٹ امتحان پاس کر چکا ہے.اور اس وقت ایم.ایس سی کے فائنل کے امتحان میں ہے.1981 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے ایک لڑکے کو مرگی کا عارضہ ہو گیا تھا.بہت کچھ علاج کرایا مگر ہر ایک جگہ سے مایوسی ہوئی.قادیان میں مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول کی خدمت میں بھی مع اس کی والدہ کے لڑکے کو بھیجا گیا مگر فائدہ نہ ہوا.اور اس کی والدہ مایوس ہو کر گھر واپس آنے لگی.اس وقت حضرت ام المومنین کے مکان میں اُن کا قیام تھا.حضرت ام المومنین نے لڑکے کی والدہ سے فرمایا.ٹھہر و ہم دعا کریں گے.چنانچہ حضور دام اقبالھا قریب دو گھنٹہ بچہ کی صحت کے واسطے سر بسجود رہیں.آنکھوں سے آنسو رواں تھے.رات کولڑکے نے خواب میں دیکھا.کہ چاندنی رات ہے اور میں دورہ مرگی میں مبتلا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الدعا کی کھڑکی سے تشریف لائے اور مجھ کو دیکھ کر دریافت کیا کہ تیرا کیا حال ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور

Page 11

سیرت المہدی 4 حصہ چہارم ملاحظہ فرمالیں.مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ، آرام ہو جائے گا.اس کے بعد اس کی والدہ لڑکے کو لے کر گھر واپس چلی آئی.پھر میں ہر مشہور ڈاکٹر اور طبیب سے لڑکے کا علاج کروا تا رہا.آخر قصبہ ہا پر ضلع میرٹھ میں ایک طبیب کے پاس گیا.اس نے نسخہ تجویز کیا اور رات کو اپنے سامنے کھلایا.اس وقت لڑکے کو نہایت سختی کے ساتھ دورہ ہو گیا.طبیب اپنے گھر کے اندر جا کر سو گیا.اور ہم دونوں باہر مردانہ میں سو گئے.صبح ہوئی نماز پڑھی.طبیب بھی گھر سے باہر آیا.طبیب نے کہا کہ رات کو میں نے ایک خواب دیکھا ہے.میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب دی گئی.جب میں نے اس کو کھولا تو اس کے شروع میں لکھا ہوا تھا.اس مرض کا علاج املی ہے.چھ سات سطر کے اندر یہی لکھا ہوا تھا کہ اس مرض کا علاج سوائے املی کے دنیا میں اور کوئی نہیں.طبیب نے کہا کہ نہ تو میں مرض کو سمجھا اور نہ علاج کو.میں نے تمہیں اپنا خواب سنا دیا ہے.میں نے طبیب کے اس خواب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت کے مطابق خدا کی طرف سے الہام سمجھا اور لڑکے کو لے کر گھر چلا آیا.املی کا استعمال شروع کر دیا.رات کو چار تولہ بھگو دیتا تھا.صبح کو چھان کر دو تولہ مصری ملا کر لڑ کے کو پلا دیتا تھا.دو ہفتہ کے اندر اُس مرض سے لڑکے نے نجات پالی.اور اس وقت خدا کے فضل سے گریجویٹ ہے اور ایک اچھے عہدہ پر ممتاز ہے.1982 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپورتھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ریاست کپورتھلہ میں ڈاکٹر صادق علی صاحب مشہور آدمی تھے اور راجہ صاحب کے مصاحبین میں سے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی درخواست کی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو بیعت کی کیا ضرورت ہے.دوبارہ اصرار کیا.فرمایا آپ تو بیعت میں ہی ہیں.مگر باوجود اصرار کے بیعت میں داخل نہ فرمایا.نہ معلوم کہ اس میں کیا مصلحت تھی.983 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپورتھلہ تشریف لائے تو ایک شخص مولوی محمد دین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی درخواست کی.حضور نے جواب دیا.آپ سوچ لیں.دوسرے دن اس نے عرض کی تو پھر وہی جواب ملا.تیسرے دن پھر عرض کی.فرمایا آپ استخارہ کر لیں.غرض اس طرح ان مولوی صاحب کی بیعت قبول نہ ہوئی.

Page 12

سیرت المہدی 5 حصہ چہارم 1984 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپورتھلہ میں حکیم جعفر علی ڈاکٹر صادق علی کے بھائی تھے.جماعت کپورتھلہ جلسہ پر قادیان جارہی تھی.جعفر علی نے کہا کہ لنگر خانہ میں پانچ روپیہ میری طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کئے جائیں.وہ روپے منشی ظفر احمد صاحب کا تب جنگ مقدس نے حضور کی خدمت میں پیش کئے.مگر حضور نے قبول نہ فرمائے.دوسرے دن دوبارہ پیش کئے.فرمایا.یہ روپے لینے مناسب نہیں ہیں.تیسرے دن منشی ظفر احمد صاحب نے پھر عرض کی کہ بہت عقیدت سے روپے دیئے گئے ہیں.اس پر فرمایا: تمہارے اصرار کی وجہ سے رکھ لیتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص محنتوں میں سے تھے اور مجھے ان کی محبت اور اخلاص کو دیکھ کر ہمیشہ ہی رشک آیا.1985 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپورتھلہ میں ایک شخص شرابی ، فاسق وفاجر تھا.ایک رات وہ کسی جگہ سے شب باش ہو کر آیا.راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان میں وعظ فرمارہے تھے.یہ شخص بھی وعظ کا سن کر وہاں آ گیا.وعظ میں حضور علیہ السلام افعال شنیعہ کی بُرائی بیان فرما رہے تھے.اس شخص نے مجھ سے کہا.حضرت صاحب کے وعظ کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ لوگوں کو مخاطب کر کے مجھے سمجھا رہے ہیں.اُس دن سے اُس نے توبہ کی.شراب وغیرہ چھوڑ دی اور پابند صوم وصلوٰۃ ہو گیا.1986 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد کپورتھلہ حاجی ولی اللہ غیر احمدی لا ولد نے بنائی تھی.اس کے دو برادر زادے تھے.انہوں نے حبیب الرحمن صاحب کو مسجد کا متولی قرار دیا اور رجسٹری کرا دی.متولی مسجد احمدی ہو گیا.جب جماعت احمدیہ کو علیحدہ نماز پڑھنے کا حکم ہوا.تو احمدیوں اور غیر احمدیوں میں اختلاف پیدا ہو گیا.غیر احمدیوں نے حکام بالا اور رؤسائے شہر کے ایماء سے مسجد پر جبراً قبضہ کر لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کوحکم دیا کہ اپنے حقوق کو چھوڑ نا گناہ ہے.عدالت میں چارہ جوئی کرو.اس حکم کے ماتحت ہم نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا.یہ مقدمہ سات برس تک چلتا رہا.ان ایام میں جماعت احمد یہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرتی تھی.خاکسار ہمیشہ حضور کی

Page 13

سیرت المہدی 6 حصہ چہارم خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا رہتا تھا.ایک دفعہ حضور دہلی سے قادیان واپس آرہے تھے کہ لدھیانہ میں حضور کا لیکچر ہوا.لیکچر سننے کے لئے خاکسار اور منشی عبدالرحمن صاحب مرحوم لدھیانہ گئے.لیکچر ختم ہونے پر خاکسار نے مسجد کپورتھلہ کے واسطے دعا کی درخواست کی.حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آجائے گی اس وقت چہرہ مبارک پر ایک جلال رونما تھا.اس پیشگوئی کو سن کر بہت خوشی ہوئی.جس کا اظہار اخباروں میں بھی ہو گیا.میں نے تحریر و تقریر میں ہر ایک مدعاعلیہ سے اس پیشگوئی کا اظہار کر دیا.اور میں نے تحدی کے ساتھ مد عالیھم پر حجت تمام کر دی کہ اپنی ہر ممکن کوشش کر لو.اگر چہ حکام بھی غیر احمدی ہیں جن پر تم سب کو بھروسہ ہے مگر مسجد ضرور ہمارے پاس واپس آئے گی.میرے اس اصرار پر ڈاکٹر شفاعت احمد کپورتھلہ نے وعدہ کیا کہ اگر مسجد تمہارے پاس واپس چلی گئی تو میں مسیح موعود پر ایمان لے آؤں گا.میں ایک مرتبہ ضرور تالا ہور گیا اور جمعہ ادا کرنے کے لئے احمد یہ مسجد میں چلا گیا.خواجہ کمال الدین صاحب سے اس پیشگوئی کا ذکر آ گیا.انہوں نے کہا کہ منبر پر چڑھ کر سب کو سنا دو.میں نے مفصل حال اور یہ پیشگوئی احباب کو سنادی تا کہ پیشگوئی پورا ہونے پر جماعت کی تقویت ایمان کا باعث ہو.پہلی اور دوسری دو عدالتوں میں باوجود مد عاعلیہم کی کوشش وسعی کے مقدمہ احمدیوں کے حق میں ہوا.ڈاکٹر صادق علی ان ہر دو حکام کا معالج خاص تھا.اور اس نے بڑی کوشش کی.آخر اس کی اپیل آخری عدالت میں دائر ہوئی.یہ حاکم غیر احمدی تھا.مقدمہ پیش ہونے پر اُس نے حکم دیا کہ یہ مسجد غیر احمدی کی بنائی ہوئی ہے.اس مسجد میں احمدیوں کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ احمدی جماعت نے جدید نبی کے دعوئی کو قبول کر لیا ہے.اس لئے وہ اپنی مسجد علیحدہ بنا ئیں.پرسوں میں حکم لکھ کر فیصلہ سناؤں گا.“ ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب نے مجھ سے کہا.کہو صاحب ! مرزا صاحب کی پیشگوئی کہاں گئی ؟ مسجد کا فیصلہ تو تم نے سن لیا.میں نے اس کو جواب دیا.کہ شفاعت احمد! ابھی دو تین روز درمیان میں ہیں.اور ہمارے اور تمہارے درمیان احکم الحاکمین کی ہستی ہے.اس بات کا انتظار کرو کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے.یاد رکھو.زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر خدا کی جو باتیں مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے نکل چکی ہیں وہ نہیں ملیں گی.میری اس تحدّی سے وہ حیرت زدہ ہو گیا.رات کو حبیب الرحمن متولی مسجد نے خواب میں دیکھا اور جماعت

Page 14

سیرت المہدی 7 حصہ چہارم کو وہ خواب بھی سنایا کہ یہ حاکم ہماری مسجد کا فیصلہ نہیں کرے گا.اس کا فیصلہ کرنے والا اور حاکم ہے.یہ خواب بھی مدعاعلیہم کو سنادی گئی.مدعاعلیہم ہماری ان باتوں سے حیرت زدہ ہو جاتے تھے.کیونکہ فیصلہ میں دوروز باقی تھے اور حاکم اپنا فیصلہ ظاہر کر چکا تھا.ایک احمدی کہتا ہے.زمین آسمان ٹل جائیں گے مگر مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو کر رہے گی.دوسرا کہتا ہے کہ یہ حاکم فیصلہ نہیں کرے گا وہ اور ہے جو فیصلہ کرے گا.مقررہ دن آگیا مگر حاکم فیصلہ نہیں لکھ سکا.دوسری تاریخ ڈال دی اور ہر پیشی پر خدا ایسے اسباب پیدا کر دیتا رہا کہ وہ حاکم فیصلہ نہ لکھ سکا.اس سے مخالفوں میں مایوسی پیدا ہونے لگی کہ کہیں پیشگوئی پوری نہ ہو جائے.اسی اثناء میں عبدالسمیع احمدی نے ایک رؤیا دیکھا جو اس وقت قادیان میں موجود ہے کہ میں بازار میں جارہا ہوں راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اور اس نے کہا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہو گیا ہے.یہ خواب بھی مخالفوں کو سنادی گئی.ایک ہفتہ کے بعد عبدالسمیع مذکور بازار میں جارہا تھا کہ اسی موقعہ پر وہ شخص جس نے خواب میں کہا تھا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہو گیا ہے.اُن کو ملا اور اُس نے حاکم کی موت کی خبر دی.حاکم کی موت کا واقعہ یوں ہوا.کہ وہ حاکم کھانا کھا کر کچہری جانے کے واسطے تیاری کر رہا تھا ، سواری آگئی تھی.خدمت گار کسی کام کے لئے باورچی خانہ میں گیا ہی تھا کہ دفعتاً حرکت قلب بند ہوئی اور وہ حاکم وہیں فوت ہو گیا.اس کے ماتم پر لوگ عام گفتگو کرتے تھے کہ اب ہمارے پاس مسجد کے رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے.اس کی جگہ ایک آریہ حاکم فیصلہ کرنے کے لئے مقرر ہوا.یہ بھی احمدیوں کا سخت دشمن تھا.اور وہ بھی مخالفوں کی طرف ہی مائل تھا.آخر وکلاء کی بحث کے بعد یہ بات قرار پائی کہ کسی انگریزی علاقہ کے بیرسٹر سے فیصلہ کی رائے لی جائے.پچاس روپیہ فریقین سے فیس کے لئے گئے.اور اُس حاکم نے اپنے قریبی رشتہ دار آریہ بیرسٹر کے پاس مشورہ کے واسطے وہ مسل بھیج دی.اس جگہ بھی غیر احمد یوں نے بے حد کوششیں کیں.اور یہ بات قابل غور ہے کہ مقدمہ میں کس طرح پیچ در پیچ پڑتے چلے جارہے تھے.ہاں عدالت ابتدائی کے دوران میں ایک احمدی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان بنایا جارہا ہے.اس کی چاروں طرف کی دیوار میں غیر احمدی کے واسطے تعمیر کی گئی ہیں.مگر چھت صرف احمدیوں کے واسطے ڈالی گئی ہے جس کے سایہ میں وہ رہیں گے.جس سے یہ مراد تھی کہ گو مسل کا فیصلہ غیر احمدیوں کے

Page 15

سیرت المہدی 8 حصہ چہارم حق میں لکھا جارہا ہے لیکن جب حکم سنانے کا موقعہ آئے گا تو مسجد احمد یوں کو دی جائے گی اور جس طرح کوئی بالا طاقت قلم کو روک دیتی ہے اور بے اختیار حاکم کے قلم سے احمدیوں کے حق میں فیصلہ لکھا دیتی ہے اور ہر ایک عدالت میں یہی بات ہوئی.میں نے بھی خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ہماری مسل پیش ہوئی اور ہمارے حق میں فیصلہ ہوا.میں نے اپنا یہ خواب وکیل کو بتا دیا.وہ مسل دیکھنے کے لئے عدالت گیا.اُس نے آکر کہا کہ تمہارا خواب بڑا عجیب ہے کہ فیصلہ ہو گیا ہے، حالانکہ بیرسٹر کے پاس ابھی مسل بھیجی بھی نہیں گئی.میں نے اُس سے کہا کہ ایک سب سے بڑا حاکم ہے اس کی عدالت سے فیصلہ آگیا ہے.یہ دنیا کی عدالتیں اس کے خلاف نہیں جاسکیں گی.آخر اس آریہ بیرسٹر نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ کی رائے دی اور مسل واپس آگئی اور حکم سنادیا گیا.ہمارے وکیل نے کہا کہ ظاہری صورت میں ہم حیران تھے کہ کس طرح مسجد تم کو مل سکتی ہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ خدا کی امداد ہے تبھی مسجد مل گئی.لیکن افسوس ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر بھی شفاعت احمد ایمان نہ لایا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد احمد یہ کپورتھلہ کا واقعہ روایت نمبر ۷۹ میں بھی درج ہو چکا ہے اور شاید کسی اور روایت میں بھی جو مجھے اس وقت یاد نہیں.987 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار پہلی مرتبہ میر عباس علی صاحب کے ہمراہ قادیان آیا تھا.میر صاحب نے آتے ہی گول کمرہ میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ حافظ حامد علی صاحب اپنے آنے کی اطلاع دی کہ میر صاحب لدھیانہ سے آئے ہیں.ہم اطلاع دیتے ہی بڑی مسجد میں نماز عصر پڑھنے کے لئے چلے گئے.اس وقت اس مسجد میں کوئی نمازی نہ تھا.جب ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور واپس گول کمرہ میں آئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ میر صاحب! آپ کو حضرت صاحب او پر بلاتے ہیں.اس پر میر صاحب پاؤں بر ہنہ ہی گئے.حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر میر صاحب سے پوچھا.یہی میر عنایت علی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ”جی ہاں، غرض اس طرح پہلی مرتبہ میری حضور سے ملاقات ہوئی.

Page 16

سیرت المہدی 9 حصہ چہارم خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت میر عنایت علی صاحب فوت ہو چکے ہیں.بہت سادہ مزاج بزرگ تھے.اور میر عباس علی صاحب ان کے چاتھے یہ میر عباس علی وہی ہیں جو بعد میں مرتد ہو گئے تھے.988 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد خان صاحب ساکن گل منج تحصیل و ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے جوش سے تقریر فرمائی.اس تقریر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نام پر اپنے لڑکے دیں گے وہ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے.اُس زمانہ میں احمد یہ سکول کی بنیا د رکھی گئی تھی.میں نے بھی اس وقت خدا سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تو ہمیں بھی لڑکے عطا فرما تاکہ ہم حضرت صاحب کی حکم کی تعمیل میں اُن کو احمد یہ سکول میں داخل کرا دیں.خدا تعالیٰ نے دعا کو سنا.اور پانچ بچے دیئے جن میں سے تین فوت ہو گئے اور دو چھوٹے بچے رہ گئے.پھر میں نے بموجب ارشاد حضرت صاحب بڑے لڑکے کو احمد یہ سکول میں اور چھوٹے کو ہائی سکول میں داخل کرا دیا.اور اپنی وصیت کی بہشتی مقبرہ کی سند بھی حاصل کر لی.989 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب ہنری مارٹن کلارک پادری نے ایک بڑے منصوبے کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر قتل کا مقدمہ دائر کیا تو شفاعت احمد نے جن کا میں ایک روایت میں ذکر کر آیا ہوں.مجھ سے کہا کہ مسجد تو ہمارے حاکم کے فوت ہو جانے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.مگر اس مقدمہ قتل سے اگر مرزا صاحب بچ گئے تو میں ضرور احمدی ہو جاؤں گا.میں نے اس کو جواب دیا کہ مسیح موعود نے فرما دیا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک آگ کا شعلہ آیا اور ہمارے مکان کے دروازہ پر آ کر گرا ہے.مگر وہ گرتے ہی ایک خوشنما پھول بن گیا ہے.پس انجام اس مقدمہ کا یہی ہوگا جو میں لکھ رہا ہوں.آخر وہ مقدمہ حضرت صاحب کے حق میں فیصلہ ہوا اور پادریوں کو شرمندگی اُٹھانا پڑی.خاکسار اس فیصلہ کے موقعہ پر عدالت میں حاضر تھا.میں نے شفاعت احمد کو یاد دلایا کہ پیش گوئی تو پوری ہو گئی.اب تم اپنے احمدی ہونے کا وعدہ پورا کرو.شفاعت احمد نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے تو کوئی وعدہ نہ کیا تھا بلکہ غصہ میں آکر کہنے لگا کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر عذاب آئے اور میرا فرزند مر جائے.میری بیوی مرجائے.میں نے اُس سے کہا

Page 17

سیرت المہدی 10 حصہ چہارم کہ شفاعت احمد ! اب تو نے مسیح موعود علیہ السلام سے یکطرفہ مباہلہ کر لیا ہے.اب تو اس کے نتیجہ کا انتظار کر اور میں بھی کرتا ہوں.اس کے بعد شفاعت احمد ایک سال کے عرصہ میں اس قدر بیمار ہوا کہ جان کے لالے پڑ گئے.حتی کہ اس نے گھبرا کر احمدی جماعت سے دعا کی درخواست کی.اس پر وہ مرنے سے تو بچ گیا مگر کانوں کی شنوائی جاتی رہی اور اس وقت وہ امرتسر میں ہے اس کا ایک اکلوتا بیٹا تھا وہ بھی مرگیا.1990 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپورتھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مسجد کپورتھلہ کے مقدمہ میں ایک شخص ناظر عبدالاحد بھی مدعا علیہ تھا.اس کے دو بیٹے تھے.ایک سب انسپکٹر تھا اور دوسرا ایف اے پاس تھا.دونوں ہی فوت ہو گئے.اس کی بیوی کو بیٹوں کی موت کا بہت صدمہ ہوا اور وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہی کہ دیکھ.تو نے اپنے دو فرزند سیح موعود کی مخالفت میں زمین میں سلا دیئے.اور اب تو اور کیا کرنا چاہتا ہے؟ غرض کہ مسجد احمد یہ کپورتھلہ کے مقدمہ میں جو بھی مدعا علیہ تھے.اُن سب کا برا انجام ہو اور مسجد ہمارے قبضہ میں آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی واضح طور پر پوری ہوئی.1991 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہوشیار پور میں ایک شخص شیخ مہر علی رئیس تھے.حضرت اقدس اس شخص کے گھر ٹھہرا کرتے تھے.اور اس کو بھی حضور سے عقیدت تھی.ایک مرتبہ حضرت اقدس نے خواب میں دیکھا کہ شیخ مہر علی کے بستر کو آگ لگ گئی ہے.حضور نے اس رویاء کے متعلق اس کو خط لکھا اور اس میں ہدایت کی کہ آپ ہوشیار پور کی رہائش چھوڑ دیں.وہ خط اس کے بیٹے کو مل گیا اور اس نے تکیہ کے نیچے رکھ دیا کہ جب بیدار ہوں گے پڑھ لیں گے مگر چونکہ خدائی امر تھا اور بستر کو آگ لگ چکی تھی وہ خط شیخ مہر علی صاحب کو نہ پہنچا اور ان کے بیٹے کو بھی اس کا ذکر کرنا یاد نہ رہا.تھوڑے عرصہ بعد محرم آگیا اور اور ہوشیار پور میں ہندو مسلم فساد ہو گیا.شیخ مہر علی صاحب اس کے سرغنہ قرار پائے اور ان کے خلاف عدالت میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہو گیا.عدالت سے ضبطی جائیداد اور پھانسی کا حکم ہوا.اس حکم کے خلاف لاہور میں اپیل ہوا.شیخ صاحب نے دعا کے واسطے حضرت صاحب سے استدعا کی.حضور نے دعا فرمائی اور کہ دیا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.چنانچہ ہائی کورٹ میں اپیل منظور ہو گیا اور شیخ مہر علی بھی باعزت طور پر بری کئے گئے.خواجہ کمال الدین صاحب کا اُن دنوں جالندھر میں لیکچر تھا.

Page 18

سیرت المہدی 11 حصہ چہارم جماعت کپورتھلہ اور ڈاکٹر صادق بھی لیکچر سنے گئے.اور ڈاکٹر صاحب نے ہم سے کہا کہ شیخ مہر علی کے عزیز وا قارب یہ کہتے ہیں کہ یہ جو مشہور کیا جاتا ہے کہ شیخ صاحب مسیح موعود کی قبولیت دعا سے بری ہوئے ہیں، یہ غلط ہے.بہت سے لوگوں نے ان کی بریت کے لئے دعا کی تھی.مرزا صاحب کی دعا میں کیا خصوصیت ہے.خدا جانے کس کی دعا قبول ہوئی.یہ واقعہ حضرت صاحب کو جماعت کپورتھلہ نے لکھ بھیجا.اس تحریر پر حضرت صاحب نے ایک اشتہار اس مضمون کا شائع کیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ محض میری دعا سے شیخ مہر علی بری ہوئے ہیں.یا تو شیخ صاحب اس کو منظور کر کے اخبار میں شائع کرا دیں ورنہ ان کے خلاف آسمان پر مقدمہ دوبارہ دائر ہو جائے گا اور اس مقدمہ میں قید کی سزا ضرور ہوگی.ایک اشتہار رجسٹری کرا کر کے شیخ مہر علی کے پاس بھیجا گیا.وہ بہت خوف زدہ ہو گیا.اور قبولیت دعا مسیح موعود علیہ السلام کا اقراری ہوا اور اخبار میں شائع بھی کرا دیا.اور یہ بھی لکھا کہ جیل خانہ سے واپس آکر مجھ کو حضور کا خط ملا جس میں مجھ کو ہوشیار پور چھوڑنے کے واسطے ہدایت ہوئی تھی.اگر اس وقت مجھ کو خط مل جاتا تو میں ضرور ہوشیار پور چھوڑ جاتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر ۳۴۶ میں بھی آچکا ہے.1992 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں ، جہاں کا میں رہنے والا ہوں.ایک شخص مولوی حمید اللہ اہل حدیث رہتا تھا.اُن سے میرا مباحثہ ہوتا رہتا تھا.وہ بہت سی باتوں میں عاجز آجاتے تھے.آخر ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کے پاس چلوں گا.اس کے بعد میں اپنی نوکری پر کپورتھلہ چلا آیا.میں یہ سمجھا کہ مولوی صاحب اب بیعت کر لیں گے.کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں قادیان جارہا ہوں.راستہ میں ایک دریا موجزن ہے.مگر اس کے اوپر میں بے تکلف بھا گا جارہا ہوں.میرے ساتھ ایک اور شخص ہے مگر وہ گلے تک پانی میں غرق ہے.مگر ہاتھ پیر مارتا ہوا وہ بھی دریا سے پار ہو گیا.میں نے سمجھا کہ یہ حمید اللہ مولوی ہے.تھوڑے عرصہ کے بعد مولوی صاحب کا قادیان جانے کے لئے ایک خط کپورتھلہ میں میرے پاس آیا.میں بہت خوش ہوا.مولوی صاحب کا اصل خط اور ایک عریضہ اپنی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیا اور عرض کی کہ غالبا یہ مولوی حضور کی بیعت کرنے کے واسطے آ رہا ہے.حضور نے جواب

Page 19

سیرت المہدی 12 حصہ چہارم میں خط لکھا کہ اس کے خط میں سے تو نفاق کی بو آتی ہے.یہ وہ شخص نہیں ہے جس کو تم نے خواب میں دیکھا ہے.وہ کوئی اور شخص ہو گا جو تمہاری تبلیغ سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگا.چنانچہ مولوی حمید اللہ سراوہ سے چل کر کپورتھلہ پہنچے اور قادیان چلنے کا ارادہ کیا.مولوی غلام محمد اہل حدیث جس کو حضور نے اپنی بیعت میں قبول نہ فرمایا تھا.انہوں نے مولوی حمید اللہ سے کہا کہ اگر تم قادیان گئے تو تم اپنے عقیدہ پر قائم نہ رہو گے.اس کے کہنے پر مولوی حمید اللہ رک گئے اور سراوہ واپس چلے گئے.مولوی غلام محمد نے ہماری بہت مخالفت کی.جماعت کو ہر ممکن تکلیف دی گئی.فتویٰ کفر پر دستخط کئے گئے.مخالفت میں حکیم جعفر علی اور مولوی حمید اللہ نے رسالہ شائع کر کے خوب جوش دکھلایا.اور مولوی صاحب بیعت سے محروم رہے اور حسب پیشگوئی مسیح موعود میری تبلیغ کے ذریعہ مولوی دین محمد صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور وہ خدا کے فضل سے جو شیلے احمدی ہیں.993 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نورمحمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کو جاتے ہوئے بسراواں کے راستہ میں شعر و شاعری کا تذکرہ شروع ہوا تو میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ قرآن مجید میں جو وارد ہے کہ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الغَاوُنَ - اَلَمُ تَرَأَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَالَا يَفْعَلُونَ (الشعراء: ۲۲۵) اس سے شعر گوئی کی برائی ثابت ہوتی ہے.حضور نے فرمایا! کہ آپ ذرا اس کے آگے بھی تو پڑھیں.تو مولوی غلام محمد صاحب نے اگلی آیت فوراً پڑھ دی کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا (الشعراء: ۲۲۸) اس پر میرا مطلب حل ہو گیا.994 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نورمحمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی روز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے.ہم بھی غیر مقلد تھے.مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور جس قدر نمازمیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں.سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات یا ایها الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُو اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ (المائدة : (۳۶) پیش کرتے تھے.میں نے اُن مولوی

Page 20

سیرت المہدی 13 حصہ چہارم صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ.میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشرکانہ تعلیم نہ دیں.اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا.جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے.صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے.میرے والد صاحب نے قادیان جا کر حضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑ کا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں.آپ نے اس وقت ایک سرخ کا غذ پر فتوی لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جولوگ آمین بالجبر ، الحمد للہ، رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے وہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک خود کا فر ہے.مگر چند روز کے بعد عام لوگ خود بخودہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے.اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد ! تم کو لوگ وہابی کہتے ہیں.تم جواب دیا کرو کہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اور ان کی کتاب غنية الطالبين پڑھ کر اُن کو سنایا کرو اور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیران پیر اور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے.1995 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ خواب میں میری زبان پر لفظ "مسجد " جاری ہوا.مگر اس وقت مجھے اس لفظ کی کوئی تشریح معلوم نہ ہوئی.اور ایک لغت کی کتاب دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ نیا کام کرنے والا “.اس خواب کے چند روز بعد ایک بڑا لمبا چھوڑا اشتہار دیکھا جو کہ میر عباس علی صاحب لدھیانوی کی طرف سے شائع ہوا تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب چودھویں صدی کے مجدد ہیں.اور جن ایام میں مسجد مبارک تیار ہوتی تھی تو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اس مسجد میں ایک مولوی رکھنا ہے جو عورتوں میں وعظ کیا کرے گا.لیکن اب اللہ کے فضل و کرم سے بجائے ایک کے سینکڑوں مولوی مسجد مبارک میں موجودرہتے ہیں.اُس زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتیں اب ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں.1996 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ بعض دفعہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھتے تھے کہ جب آدمی ایک دفعہ بیعت کر لے تو کیا یہ جائز ہے کہ

Page 21

سیرت المہدی 14 حصہ چہارم اگر پھر کبھی بیعت ہورہی ہو تو وہ اس میں بھی شریک ہو جائے.حضور فرماتے تھے کہ کیا حرج ہے؟ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اکثر دوست دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی بار بیعت میں شریک ہوتے رہتے اور بیعت چونکہ تو بہ اور اعمال صالحہ کے عہد کا نام ہے اس لئے بہر حال اس کی تکرار میں فائدہ ہی فائدہ ہے.1997 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو ہر امر میں قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے تھے مگر بعض بعض آیات آپ خصوصیت کے ساتھ زیادہ پڑھا کرتے تھے.علاوہ وفات مسیح کی آیات کے حسب ذیل آیات آپ کے منہ سے زیادہ سنی ہیں.سورۃ فاتحہ.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس:۱۰) إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهَ اتْقَكُمُ (الحجر: ۱۴) رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (التوبة: ۳۳) مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى ( الاسراء:۷۳) إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ (النساء : ۵۹) يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: ۲۹) وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِث (الضحى : ۱۲) قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : (۵۴)

Page 22

سیرت المہدی 15 حصہ چہارم وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواةٌ مِّن رَّبِهِمْ وَرَحْمَةٌ (البقرة : ۱۵۶) مَايَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمُ إِنْ شَكَرَ تُم وَامَنتُمُ (النساء : ۱۴۸) وَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيْنًا (طه: ۴۵) إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانُ (الحجر: ۴۳) وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: ۶۸) وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : ٤) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمُ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة : ١٩٦) أَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُتْرَكُوا اَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت:٣) مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : ۴) ثُمَّ دَنِي فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (النجم: ٩) لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الاسراء: ۳۷) قُلْ اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: ۳۲) لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: ۲۵۷) قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاءُ كُمُ (الفرقان : ۷۸) خاکسار عرض کرتا ہے کہ کیا خوب انتخاب ہے.

Page 23

سیرت المہدی 16 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھیوں کی تقسیم بذریعہ قرعہ اندازی المجيد الله بها مشيرة محمد و الحمد حصہ چہارم مولائیں شریف احمد خالی روز ایشیا اور عرض کرتا ہے کہ خون مسیع مولود علیہ السلام نے اپنے مجھے تین انگوٹھیاں تھوڑی تھیں جنکی حضور کی وفات کے بعد بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کی گئی.قرعہ کی پرتیوں کا چربہ اوپر درج ہے.ان پر گون L میں الہام کی عبارت نوت خلیفتہ اسی رمانی ایدہ اللہ تالے کے لے تو کی لکھی ہوئی ہے اور ہم تین بالوں کے نام فورت ام الر حسن علی الموالات کے کے تو کے لکھے ہوتے ہیں.جیسے مناسب سمجھا کہ ہر دو تقریروں کا امر یہ محفوظ ہو جاتا.خاکسار مرزا بشیر احمد عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیچھے تین انگوٹھیاں چھوڑی تھیں جن کی حضور کی وفات کے بعد بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کی گئی.قرعہ کی پرچیوں کا چر بہ او پر درج ہے.ان پر چیوں میں الہام کی عبارت حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور ہم تین بھائیوں کے نام حضرت اماں جان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں.میں نے مناسب سمجھا کہ ہر دو تحریروں کا چر بہ محفوظ ہو جائے.

Page 24

سیرت المہدی 17 حصہ چہارم 998 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی رحمت اللہ صاحب باغانوالہ بنگہ ضلع جالندھر نے مجھے سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار چند دن ہوئے لدھیانہ گیا تھا.وہاں میاں رکن الدین صاحب احمدی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مندرجہ ذیل ایک حلفیہ تحریری بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دیا.بیان حلفیہ میاں رکن الدین احمدی ولد حسن الدین قوم ارائیں سکنہ لدھیانہ چھاؤنی میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جس وقت حضرت مرزا صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ) لدھیانہ تشریف لائے تھے اُس وقت میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی.اور اس وقت قریباً ۷۳/۷۴ سال کی عمر ہے.میں اس وقت تانگہ مین ، تانگہ ڈرائیور تھا.تانگہ میرا اپنا تھا.ایک روز منشی احمد جان صاحب نے ایک آدمی کو میاں کرم الہی صاحب مرحوم ، پیر بخش صاحب، جناب قاضی خواجه علی صاحب ، جناب شہزادہ عبد المجید صاحب کے پاس بھیجا کہ فلاں گاڑی پر جناب حضرت مرزا صاحب تشریف لا رہے ہیں آپ لوگ بھی اسٹیشن پر پہنچیں.تو وہ فورا اکٹھے ہو کر چل پڑے اور میں بھی اُن کے ساتھ چل پڑا.جب اسٹیشن کے قریب سود وسو کرم کے فاصلہ پر پہنچے تو حضرت صاحب بمعہ چند ایک احباب کے پیدل آرہے تھے.اور ایک آدمی قلی کو بستر وغیرہ اٹھوائے آ رہا تھا.جناب کو سیدھے فیل گنج کو لے گئے.وہ مکان چونکہ اچھانہ تھا اس لئے حضور کو شہزادہ عبدالمجید صاحب اپنے مکان پر لے گئے.میں روزانہ ایک پھیرا تانگہ کا لگا کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سودا سلف بازار سے مجھ سے منگواتے.پھر مجھے فرمایا کہ روٹی یہاں ہی کھایا کرو تو میں وہاں ہی حضور کے حکم سے کھانے لگ پڑا.مجھے ایک روز فرمایا کہ لڑ کے نماز پڑھا کرو اور ہمارے پاس ہی پڑھا کرو میں نے کہا کہ مجھے سوائے بسم اللہ کے اور کچھ نہیں آتا.فرمایا.وضو کر کے ہمارے ساتھ کھڑے ہو جایا کرو.میں اسی طرح کرنے لگا اور مجھے نماز آ گئی.الحمد للہ.غرض میں حتی المقدور خدمت کرتا رہا.ملاں کرم الہی مرحوم میرا حقیقی بھائی مجھ سے بڑا تھا.وہ پولیس میں لائن آفسر تھے.ایک روز فارغ ہو کر میرے ساتھ ہی حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے.تو آپ نے ملاں کرم الہی کو فر مایا کہ ”آپ لوگوں کے طعن وغیرہ سے نہ ڈریں.خدا سے ڈریں.اس سے دنیا اور آخرت بہتر ہوگی (غالبا مفہوم یہی تھا ) منشی احمد جان صاحب نے فرمایا کہ آپ بیعت میرے مکان پر لیں جو

Page 25

سیرت المہدی 18 حصہ چہارم دار البیعت کے نام سے مشہور ہے تو پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ہے.ان میں ایک میاں کریم بخش صاحب بھی تھے.باقی دو نے کہا کہ ہم کل کریں گے بس پھر سلسلہ بیعت ہر روز جاری رہا.میں ہر روز عرض کرتا کہ حضور میری بیعت لیں.فرماتے تمہاری بیعت تو ہو گئی.جب تم روزانہ ہماری خدمت کرتے ہو.بس پھر میں حاضر خدمت رہتا.بیعت کے لئے کہتا تو فرماتے کہ تمہاری بیعت ہوگئی ہے.پھر حضور قریباً مہینہ بھر کے بعد تشریف لے گئے.میں نے قریباًدوسال بعد قادیان پہنچ کر عرض کیا کہ حضور آپ اور لوگوں کی بیعت لیتے ہیں، میری بیعت نہیں لیتے.فرمایا ! میاں تمہاری بیعت ہو چکی ہے.اچھا جمعہ کے بعد پھر کر لینا.میری عمر قریباً ۱۸ سال کی شروع ہوگئی تھی.تب دستی بیعت کی.میرے جیسے جاہل او جڈ پر یہ فضل الہی تھا.الحمد للہ.یہ بیان میں نے میاں رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ کے پاس اپنی یادداشت کے طور پر لکھایا ہے.ذکر لمبا ہے مختصر لکھ دیا ہے.میاں رحمت اللہ مذکور ہمارے رشتہ دار ہیں.میرے بھائی ملاں کرم الہی کی نواسی کی شادی ان کے عزیز بیٹے ہدایت اللہ احمدی سے ہوئی ہے.العبد نشان انگوٹھا میاں رکن الدین ۲۳-۹۰-۳۸ ارا ئیں لدھیانہ چھاؤنی محلہ الراقم خاکسار طالب دعا رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگه حال لدھیانہ بقلم خود ۳۸-۹-۲۳ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی.اُن میں سے ایک میاں کریم بخش صاحب تھے میں نے میاں کریم بخش صاحب مذکور کے متعلق تحقیقات کی ہے اس کے متعلق میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کوئی کریم بخش شخص نامی ایسا نہیں جس نے ابتدائی دس بیعت کنندگان میں بیعت کی ہو.سوائے سائیں گلاب شاہ مجذوب والے کریم بخش کے.وہ فوت ہو چکے ہیں، ے یہاں روایت میں سہو معلوم ہوتا ہے.حضرت منشی احمد جان صاحب کی وفات ۱۸۸۳ء میں ہوئی اور پہلی بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی تھی ( سید عبدالحی )

Page 26

سیرت المہدی 19 حصہ چہارم ان کا ذکر ازالہ اوہام میں بھی ہے.یہی ذکر میاں رکن الدین ساکن چھاؤنی لدھیانہ نے میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ کے پاس بیان کیا ہے.لیکن میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالے نے سمجھا نہیں اور کوئی اور کریم بخش سمجھتے ہوئے انہوں نے آپ کو لکھ دیا ہے.جو میاں رحمت اللہ صاحب کی غلط فہمی ہے.1999 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا افسر سکھ مذہب کا تھا.مسلمانوں سے بہت تعصب رکھتا تھا اور مجھ کو بھی تکلیف دیتا تھا آخر اس نے رپورٹ کر دی کہ فیاض علی کو موقوف کر دیا جائے.میں اس کے کام کا ذمہ دار نہیں ہوں.میں نے دعا کے واسطے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا اور اس کی سختی کا ذکر کیا.حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ ”انسان سے خوف کرنا خدا کے ساتھ شرک ہے اور نماز فرضوں کے بعد ۳۳ مرتبہ لاحول ولاقوۃ پڑھا کریں اور اگر زیادہ پڑھ لیں تو اور بھی اچھا ہے“.خط کے آتے ہی میرے دل سے خوف قطعی طور پر جاتا رہا.ایک ہفتہ کے اندر خواب کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ افسر علیحدہ کیا جائے گا.اور میں اپنی جگہ پر بدستور رہوں گا.میں رخصت لے کر علیحدہ ہو گیا.اور راجہ صاحب کے حکم کا منتظر رہا.قبل از حکم ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا کہ راجہ صاحب کے سامنے تمہارے افسر کی رپورٹ پیش ہوئی ہے.اس پر راجہ صاحب نے حکم لکھایا ہے کہ افسر کو کہہ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا.اس دوران میں مجھے بھی ایک خواب آئی کہ میں ایک برآمدہ میں ہوں اور مجھ سے کچھ فاصلہ پر ایک اور شخص ہے.ایک سیاہ سانپ اس کے بدن سے لپٹ رہا ہے اور اس سے کھیل رہا ہے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس سانپ میں زہر ہی نہیں.جب اُس سانپ کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ اُس کو چھوڑ کر میری طرف دوڑا اور اس نے بہت کوشش کی کہ میرے پاؤں کو کاٹے.قدرت خدا سے میں ہوا میں معلق ہو گیا اور جھولے میں جھولنے لگا.وہ سانپ برآمدے سے باہر چلا گیا اور میں اُسی جگہ آگیا.مالک سانپ آیا اور اس نے دریافت کیا کہ سانپ کہاں گیا وہ تو بہت زہریلا تھا.میں نے جواب دیا کہ وہ باہر چلا گیا ہے.اسی طرح ایک اور خواب مجھے آیا کہ ایک نیم مردہ سانپ سردی کی وجہ سے راستہ میں سویا پڑا ہے اور آسمان سے چیل اور کوے اس پر جھپٹا مار رہے ہیں.ایک چیل آئی تو اس کو اٹھا کر لے گئی.اب مجھ کو کامل

Page 27

سیرت المہدی 20 20 حصہ چہارم یقین ہو گیا کہ انشاء اللہ افر نہیں رہے گا اور یہی وہ سانپ ہے جس کی پہلے وہ حالت تھی کہ دیکھنے سے خوف معلوم ہوتا تھا اور اب اس نوبت کو پہنچ گیا ہے.بالاخر افسر کی درخواست راجہ صاحب کے سامنے پیش ہوئی.راجہ صاحب نے وہی حکم لکھایا جو ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا تھا کہ افسر کو لکھ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا.مجھ کو کما بلایا گیا اور حاکم کے سپر د کیا گیا.حضرت مسیح موعود کی دعا کا یہ اثر دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ افسر راجہ صاحب کا ہم نشین تھا.اور راجہ صاحب کو یہ بھی علم نہ تھا کہ فیاض علی ہمارا املا زم ہے یا کہ نہیں.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد افسر اپنے عہدہ سے علیحدہ کر دیا گیا اور میں اسی جگہ قائم رہا.1000 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول میں یہ ایک خاص بات تھی کہ معترض اور مخالف کو ایک یا دو جملوں میں بالکل ساکت کر دیتے تھے اور اکثر اوقات الزامی جواب دیتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی اعتراض کرتا تو آپ ہمیشہ تفصیلی اور تحقیقی جواب دیا کرتے تھے اور کئی کئی پہلوؤں سے اس مسئلہ کو صاف کیا کرتے تھے.یہ مطلب نہ ہوتا تھا کہ معترض ساکت ہو جائے بلکہ یہ کہ کسی طرح حق اس کے ذہن نشین ہو جائے.1001 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رام پوری حال قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۸۴ء میں جب کہ میں سکول میں پڑھتا تھا.ایک رات کو تاروں کے ٹوٹنے کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے میں آیا، رات کے ایک لمبے حصہ میں تارے ٹوٹتے رہے اور اس کثرت سے ٹوٹے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تیروں کی بارش ہو رہی ہے.ایک حصہ تاروں کا ٹوٹ کر ایک طرف جاتا اور دوسرا دوسری طرف.اور ایسا نظر آتا کہ گویا فضا میں تاروں کی ایک جنگ جاری ہے.یہ سلسلہ ابجے شب سے لے کرہ بجے شب تک جاری رہا.میں نے اس واقعہ کا ذکر ایک مجلس میں غالباً ۱۹۱۰ء میں کیا تھا تو ایک بہت شریف اور عابد وزاہد معمر انسان نے کہا کہ مجھے بھی وہ رات یاد ہے.میرے پیر و مرشد حضرت قبلہ علامہ مولوی ارشاد حسین صاحب نوراللہ مرقدہ نے یہ عالم دیکھ کر فرمایا تھا کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام ہو گیا ہے.یہ اسی کی علامت ہے.مولوی ارشاد حسین صاحب زبرست علماء میں سے تھے.انصار الحق وغیرہ آپ کی مشہور

Page 28

سیرت المہدی 21 حصہ چہارم تصانیف ہے اور یہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے پیر تھے.لیکن جب میں نے بعد میں اُن مولوی صاحب کے ایک دوست سے جس نے یہ روایت بیان کی تھی یہ کہا کہ شہادت لکھ دو تو اُس نے لکھنے سے انکار کر دیا.مگر زبانی مانتا تھا کہ اُن مولوی صاحب نے ایسا کہا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہو چکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے.یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گو یا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آ گیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا.1002 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھے سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا.(اس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خدا بخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مصدق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں.میرا وجود سلسلہ حقہ کے لئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگا اور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل ۱۹۰۹ء میں انہوں نے تحریری طور پر حضرت خلیفہ اسی اوّل کے ہاتھ پر بیعت کی کسی لمبے سفر سے واپس آئے.جب مجھے معلوم ہوا تو میں اُن سے ملنے کے لئے ان کے پاس گیا.انہوں نے مجھے ایک کتاب دی.جسے لے کر میں بہت خوش ہوا.اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں.دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے جا رہا تھا.اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے.میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوں نے لے لی اور دیکھنے لگے.کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے.میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے.جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہا تھا.ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی

Page 29

سیرت المہدی 22 22 حصہ چہارم ہیں.میں اس وقت بغرض علاج لاہور ( یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کا نام لیا تھا) گیا ہوا تھا.وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی.جس پر میں نے ان کی خدمت میں ( حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریر آیا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی ) اپنی صحت یابی کے لئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا.سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی.یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب ( مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا.اس کے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میری پاس رہی.جب میں بڑا ہوا تو اس کے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی.یہ کتاب سرمہ چشم آری تھی جو ۶ ۱۸۸ء کی تصنیف ہے.1003 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں حیات محمد صاحب پنشنز ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھے سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے.کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا.کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی.باورچی نے کارکنوں سے حضور کے لئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا.مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے.میں فوڑا گیا اور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے.چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اور حضور کے جسم مبارک کود با تا تھا.میں ۹۴ ء سے حضور کا عاشق تھا.رات بھر حضور کے بدن کو دبا تا.جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ”اللہ.حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے.پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی.حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجود تھے.آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے.میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ آپ بس کیجئے.مگر مجھے ان الفاظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا.1004 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں حیات محمد صاحب پنشنز ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ

Page 30

سیرت المہدی 23 23 حصہ چہارم سے بیان کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی.صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کے لئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے.رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی.اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے.حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ، بلند آواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا.حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنادیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے.اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی.جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہوا ہے.اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں.آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے.اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہو رہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے.بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں.تو میں کہہ رہا ہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے.اس موقعہ پر قُلْنَا يَا نَارُ كُونِی بَرْدَا وَّ سَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيم (الانبیاء : ۷۰) کی مثال صادق آرہی ہے.جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے.تمام دشمنوں نے زور لگایا.ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا.ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے.یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعوی کیا ہے مگر خدا نے اُن کو نا کام کر دیا.1005 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں حیات محمد صاحب پنشنز ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھے سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر 9 گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے.وہ چوک میں کھڑے ہو کر بآواز بلند یہ کہتے ہیں.سنولوگو! یہ جودو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں.ان میں سے ایک سید ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے.جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی.تو حضور نے ” ہیں“ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں.اس

Page 31

سیرت المہدی 24 حصہ چہارم - پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں.تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں.اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی.خواب مجھے یاد نہیں رہی.میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کر کے تعبیر منگوا تارہتا تھا.1006 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں حیات محمد صاحب پنشنز ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا.آخر کھلے میدان میں حضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی.چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا.حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آ کر ہی وعظ شروع کر دیا ہے.اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ” مواہب الرحمن نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو.ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو.اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جا کر کرے.سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا.جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ ۲۵ پر نظر پڑی.جہاں لکھا تھا’کرم دین کذاب فوراً کرم دین کو جا کر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے.اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا.وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کر دو.اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمد دین وکیل میاں نظام دین سب حج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے.ہم دعوئی آپ کی عدالت میں کرتے ہیں.اُس حج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں.جب حج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے.بندہ اچانک اُسی وقت اس حج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا.ہاں البتہ اس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعوی ہے.ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ضرور میں جھوٹا اور کمینہ ہوں.کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے.قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں

Page 32

سیرت المہدی 25 حصہ چہارم کرم دین کی ولدیت و سکونت کتاب میں درج ہوتی.کیا دنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تو ہی " کرم دین ہے؟ 1007 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں حیات محمد صاحب پنشنز ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمد حسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہو گیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے.ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمد حسین کا کوئی لڑکا ہے.اس نے کہا کہ ” ہے پوچھا کہ بالغ ہے یا نا بالغ ہے؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے.اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعوی کر سکتا ہے.تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا.واپسی پر دیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لا کر گاڑی پر سوار کرایا تھا.بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں.لوگ کھڑے ہو ہو کر حضور کو دیکھتے تھے.حضور باعزت طور پر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے.1008 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی.1009 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے.بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے.یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں.اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا.1010 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی ۱۹۳۸ء میں میری عمر ۷۴ سال کے قریب ہے.ہمارا اصل وطن بڑھا نہ ضلع مظفر نگر.یو پی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع

Page 33

سیرت المہدی 26 26 حصہ چہارم میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ ۱۹۴۱ء بکرمی میں کپورتھلہ میں آیا جب کہ میری عمر ۲۰٫۲ سال کی تھی.میرے کپورتھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپورتھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سرا وہ ضلع میرٹھ میں گئے.اس وقت میرے والد صاحب اور میں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کے لئے گئے.حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے.اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمد یہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے.اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط و کتابت تھی.جب میں حاجی صاحب کو براہین احمد یہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی.مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمد یہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے.1011 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جو ہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپورتھلہ میں سیشن جج تھے.اُن کے ایک ماموں منشی عبد الواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے.منشی عبدالواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر ۴/۱۵ سال کی ہوگی.اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے.اور مرزا غلام مرتضی صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا.سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتارہتا ہے.منشی عبدالواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے.اُن کا بیان تھا کہ میں نے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے.1012 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی مجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا.عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت ادا کرنی چاہی.جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی.

Page 34

سیرت المہدی 27 حصہ چہارم 1013 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ عبدالواحد صاحب احمدی نہیں ہوئے.میں نے اپنی بیعت کے بعد اُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے.انہوں نے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارو مدار ہے.اور گویا میں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالبا شیطانی ہے.حضور نے فرمایا.نہیں.یہ رحمانی الہام ہے.جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں.دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں.گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللہ ہمارے مددگار ہیں.تم انہیں لکھو.چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا.جواب نہ آیا.تھوڑے عرصہ کے بعد عبدالواحد صاحب کا انتقال ہو گیا.عبدالواحد صاحب مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے.1014 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے.جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے.اُن سے ملنے میں جالندھر جایا کرتا تھا.جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھر آرہے ہیں.یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے.جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے.وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کے لئے موجود تھے اور کنور بکر ماں سنگھ صاحب نے اپنا وز یر اور سواری حضور کو لانے کے لئے بھیجے ہوئے تھے.حضرت صاحب ریل سے اُترے.یہ صحیح یاد نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لا رہے تھے.لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکر ماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کو کہا.اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں.میں نے کہا ” کپورتھلہ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں.حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے.چنانچہ بکر ماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبداللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اور خاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے.جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہو گیا.

Page 35

سیرت المہدی 28 حصہ چہارم عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے.اُس وقت اعتقاد کا یہ عالم تھا.غرض حضور منشی عبداللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش ہوئے.1015 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں منشی عبداللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسید کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا ! میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسید تو مسلمان ہے اور انہوں نے تعلیمی کام مسلمانوں کے لئے کیا ہے.اُن کا ممنون ہونا چاہئے.سرسید کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو نا گوار معلوم ہوا.1016 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں.میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہو سکتے ہیں.تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا! ايَّاكَ نَعْبُدُ کے تکرار سے اور پھر تقریر جاری رکھی.میرا اس وقت آپ پر ایمان ہو گیا.منشی عبداللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے.حضور نے فرمایا! مجھے بھوک نہیں ہے.لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا.ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی.آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے.اور بعد نما ز ظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے.آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا.ہم سے خط و کتابت رکھا کرو.یہ غالبا ۱۹۴۲ بکرمی کا واقعہ ہے.1017 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپورتھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں سے إِيَّاكَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی.اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد میں قادیان گیا.حضور بہت محبت سے پیش آئے.خود اندر سے کھا نالا کر کھلاتے.میں دس بارہ دن قادیان میں رہا.اُس وقت حافظ حامدعلی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا.جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے.اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی.

Page 36

سیرت المہدی 29 29 حصہ چہارم 1018 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر میں قادیان گیا.اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا.ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ” کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی میں رونے لگا.اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا.1019 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا.بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھا تا اور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے.میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا.حضور نے فرمایا.کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو.انہی دنوں الہی بخش اکو نٹنٹ ، عبدالحق اکو نٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اور سیر تینوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کے مرید تھے.یہ بہت آیا کرتے تھے.اکثر ایسا موقعہ ہوا ہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے.1020 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبداللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ”قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی.وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولا داس سے محروم رہے گی اور ان تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو.مہدویت کے دعوی کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہو گئے.تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کے لئے خط لکھا.کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا.میں نے محمد یوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاں میرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے.وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا.محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا.جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی.میں محمد یعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا.حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کر دیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے.محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے.میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر.یوپی ہے اور

Page 37

سیرت المہدی 30 80 حصہ چہارم محمد یوسف صاحب بڑھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے.1021 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب سرمه چشم آریہ طبع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار نسخے مجھے اور چار منشی چراغ محمد صاحب کو کپورتھلہ بھیجے.چراغ محمد صاحب دینا نگر گورداسپور کے رہنے والے تھے.محمد خاں صاحب ہمنشی اروڑا صاحب منشی عبد الرحمن صاحب اور خاکسار سرمہ چشمہ آریہ مسجد میں پڑھا کرتے تھے.پھر محمد خاں صاحب، منشی اروڑ ا صاحب بعد میں قادیان گئے.منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے.چنانچہ تین چار روپیہ کی مٹھائی ہم نے پیش کی.حضور نے فرمایا.یہ تکلفات ہیں.آپ ہمارے مہمان ہیں.ہمیں آپ کی تواضع کرنی چاہئے.ہم تینوں نے بیعت کے لئے کہا کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر ہم تینوں بیعت کا ارادہ کر کے گئے تھے.آپ نے فرمایا.مجھے بیعت کا حکم نہیں.لیکن ہم سے ملتے رہا کرو.پھر ہم تینوں بہت دفعہ قادیان گئے اور لدھیانہ میں بھی کئی دفعہ حضور کے پاس گئے.1022 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جو فقرات عربی کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے لکھوائے تھے.اُن میں بعض اشیاء کے نام جمع کر کے آپ نے اشعار میں منظوم کر دیا تھا.تا کہ یاد کرنے میں سہولت رہے.چنانچہ سونے ، اونٹ اور نیزوں کے نام حسب ذیل اشعار میں تھے.(سونے کے آٹھ نام) نُضَارٌ ، عَسْجُدٌ ، عَيْنٌ وَّدَجَّالٌ وَعِقْيَانَ تبر ، زُخْرُفٌ ، ذَهَبٌ بِهِ فِسْقٌ وَعِصْيَانَ (اونٹوں کے ۳۷ نام ) عَنس ، قَعُودٌ ، نَاقَةٌ كَوْمَاءُ وَقَعَيّدٌ ، عُسُبُوْرَةٌ وَجُنَاءِ جَمَلٌ ، قَلُوْضٌ ، عَيْدَهُودٌ، عَسْبُرَةٌ ابِلٌ وَسِرْدَاحٌ حَكَى الْإِمْلَاء

Page 38

سیرت المہدی 31 حصہ چہارم ر در و مَهْرِيٌّ ، عِرْبَاضُ ، بَعِيرٌ ، خَتَعَةٌ ثُمَّ الْهَجَانُ وَذِعْلَبٌ دَفَوَاءِ عَرُسٌ مَعَ الْعَزُهُولِ ، عَسُبُورٌ مَعًا وَالْعَيْسَجُورُ كَمَا رَوَى الْأَدَبَاءِ ثُمَّ الْجَزُورُ وَلِقْحَةٌ حِدْبَارٌ وَكَذَا اللَّبُونُ وَمِثْلَهُ ، عَشْوَاءِ هَبُرٌ ، مَهُوُبِرَةٌ ، لَقُوْحٌ، شَائِلَةٌ بكْرٌ، هَبْرَرٌ، عَنْكُوهُ عَصْبَاءٌ ( نیزوں کے۱۲ نام) رُمْحٍ ، قَنَاةٌ ، سَعَدَةٌ ، مُرَّانٌ اَسْلٌ وَعَسَّالٌ حَكَوْا وَآبَانُوا خِطِيٌّ، رُدَيْنِي ، سَمْهَرِيٌّ ، سَمْهَرِيَّةٌ زَابِلٌ وَاسْمَرُ أَيُّهَا الْإِخْوَانُ 1023 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کہ کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں فتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلی عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکانہ.چونکہ بار بار خوف ناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کے لئے خبر دی گئی ہے.اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو.اور کسی باغ میں جار ہو.اور بہتر ہے کہ تین دن کے لئے قادیان میں آکر مل جاؤ.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ا.اپریل ۱۹۰۵ء 1024 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولی سے پیشتر میں نے سرسید احمد صاحب کی کتابیں پڑھی تھیں.اور میں اور محمد خاں صاحب وفات

Page 39

سیرت المہدی 32 32 حصہ چہارم عیسی کے قائل تھے.چنانچہ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو خط لکھا کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے ثابت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جس طرح خضر علیہ السلام کی حیات ضعیف احادیث سے ثابت ہے اور ضعیف احادیث کا مجموعہ اقسام حدیث میں سے حدیث حسن کو پہنچتا ہے.میں نے جواب دیا کہ موضوع احادیث کا مجموعہ ضعیف ہوا اور ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن.پس کوئی حدیث موضوع نہ رہے گی.انہوں نے جواب دیا کہ ہم اہل ھوئی کا جواب نہیں دیا کرتے.لیکن چونکہ تمہارا تعلق مرزا صاحب سے ہے.اس لئے جواب لکھتا ہوں اور مرزا صاحب وہ ہیں کہ معقولی باتیں پیش کرتے ہیں اور پھر قرآن سے دکھا دیتے ہیں اور ان کا دعوی مجددیت قریب به اذعان ہے ( یہ مولوی رشید احمد صاحب کے الفاظ ہیں) قرآن پر جو کوئی اعتراض کرتا ہے.مرزا صاحب معقولی جواب اس کا دیتے ہیں اور قرآن سے نکال کر وہی دکھا دیتے ہیں.مراد اس ذکر سے یہ ہے کہ رشید احمد صاحب گنگوہی حضرت صاحب کو مجدد ہونے والا اپنے اندازے میں سمجھتے تھے.وہ خطوط رشید احمد صاحب کے مجھ سے مولوی اشرف علی نے ، جو رشید احمد صاحب کا مرید تھا اور سلطان پور ریاست کپورتھلہ میں رہتا تھا، لے کر دبالئے اور پھر باوجود مطالبہ کے نہ دیئے.1025 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے.منشی اروڑا صاحب فور الدھیانہ کو روانہ ہو گئے.دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی.منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے.کیونکہ انہوں نے استخارہ کیا اور آواز آئی ”عبد الرحمن آجا‘ ہم سے پہلے آٹھ نوکس بیعت کر چکے تھے.بیعت حضورا کیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے.اشتہار پہنچنے کے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی.پہلے منشی اروڑا صاحب نے ، پھر میں نے.میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا.تمہارے رفیق کہاں ہیں؟ میں نے عرض کی منشی اروڑ ا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب تیار ہی ہیں کہ بیعت کر لیں.چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی.اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی.منشی عبد الرحمن صاحب ہمنشی اروڑ ا صاحب اور محمد خاں صاحب تو بیعت

Page 40

سیرت المہدی 33 33 حصہ چہارم کر کے واپس آگئے.کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے.میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے.حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے.بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقت طاری ہو جاتی تھی.اور دعا اور بیعت بہت لمبی فرماتے تھے.اس لئے ایک دن میں ہیں پچپیس آدمی کے قریب بیعت ہوتے تھے.1026 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کرا سکتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ یا جس پر خدا کا فضل ہو جائے.اسی رات میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خواب میں دیکھا.1027 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ میرے دو تین خواب ازالہ اوہام کی جلد کے ساتھ جو کورے کاغذ تھے.اُن پر اپنی قلم سے درج فرمائے.اسی طرح الہی بخش اکو نٹنٹ نے جب حضرت صاحب کے خلاف کچھ خواب شائع کئے تو حضور نے مجھے لکھا کہ اپنے خواب لکھ کر بھیجو.میں نے بھیج دیئے.حضور نے وہ خواب اشتہار میں چھپوا دیے.خواب سے پیشتر میں نے یہ شعر بھی لکھا تھا.الا اے بلبل نالاں چہ چندین ماجرا داری بیا داغے که من در سینه دارم تو کجا داری عسل مصفی میں وہ اشتہار اور خواب چھپے ہوئے موجود ہیں.1028 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ منشی اروڑ ا صاحب مرحوم اور میں نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی حضور کپورتھلہ بھی تشریف لائیں.اُن دنوں کپورتھلہ میں ریل نہ آئی تھی.حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم

Page 41

سیرت المہدی 34 حصہ چہارم ضرور کبھی آئیں گے.اس کے بعد جلد ہی حضور بغیر اطلاع دیئے ایک دن کپورتھلہ تشریف لے آئے.اور یکہ خانہ سے اتر کر مسجد فتح والی نزدیکہ خانہ واقع کپورتھلہ میں تشریف لے گئے.حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے.مسجد سے حضور نے ملاں کو بھیجا کہ منشی صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دو.میں اور منشی اروڑ ا صاحب کچہری میں تھے کہ ملاں نے آکر اطلاع دی کہ مرز اصاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں.اور انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ اطلاع کر دو.منشی اروڑ ا صاحب نے بڑی تعجب آمیز ناراضگی کے لہجے میں پنجابی میں کہا دیکھوناں تیری مسیت وچ آ کے مرزا صاحب نے ٹھہر ناسی؟“.میں نے کہا کہ چل کر دیکھنا تو چاہئے.پھر منشی صاحب جلدی سے صافہ باندھ کر میرے ساتھ چل پڑے.مسجد میں جا کر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے ہوئے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا ر ہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا ہوا تھا.جس سے معلوم ہوا کہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی.منشی اروڑ ا صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے اس طرح تشریف لانی تھی؟ ہمیں اطلاع فرماتے.ہم کرتار پورٹیشن پر حاضر ہوتے.حضور نے جواب دیا.اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی.ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنا تھا.پھر حضور کو ہم اپنے ہمراہ لے آئے.اور محلہ قائم پورہ کپورتھلہ میں جس مکان میں پرانا ڈاکخانہ بعد میں رہا ہے ، وہاں حضور کو ٹھہرایا.وہاں بہت سے لوگ حضور کے پاس جمع ہو گئے.کرنیل محمد علی خاں صاحب، مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ.حضور تقریر فرماتے رہے.کچھ تصوف کے رنگ میں کرنیل صاحب نے سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ تقریر تھی.حاضرین بہت متاثر ہوئے.مولوی غلام محمد صاحب جو کپورتھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ میری آپ بیعت لے لیں.مگر حضور نے بیعت لینے سے انکار کر دیا.بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہا.1029 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپورتھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرما کر قادیان کو تشریف لے گئے.ہم کرتار پور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے.یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں.اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتار پور گیا ہو تو مجھے یاد نہیں.

Page 42

سیرت المہدی 35 حصہ چہارم کرتار پور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہر وعصر کی نماز جمع کی.نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کر سکتے ہیں اور قصر کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے.ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہوتو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کر سکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی.حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے.1030 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری نظر سے پہلے موٹا اشتہار بابت براہین احمدیہ ۱۸۸۵ء میں گزرا.مگر کوئی التفات پیدا نہ ہوا.۱۸۸۷-۸۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شہرہ سنتا رہا.۱۸۹۰ء میں آپ نے مولوی عبداللہ صاحب فخری کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کی استدعا کی.اس طرح خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا.غالب ستمبر ۱۸۹۰ء میں میں بمقام لدھیانہ حضرت صاحب سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں.وہاں سے واپسی پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میں تفضیلی شیعہ ہوں.یعنی حضرت علی کو دوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں.کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں؟ آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں.باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفائے راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کیونکہ انہی کے ذریعہ قرآن و اسلام، حدیث و اعمال ہم تک پہنچتے ہیں.چنانچہ میں نے غالباً ستمبر یا اکتو بر۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی اور بعد بیعت تین سال تک شیعہ کہلا تارہا.1031 بسم الله الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے خط و کتابت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور شیعوں کے ہاں ولایت ختم ہوگئی ہے.اس لئے جب ہم کسی کو ولی نہیں مانتے تو بیعت کس طرح کر سکتے ہیں؟ آپ نے لکھا ”ہم جو ہر نماز میں اهدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت عليهم كی دعا مانگتے ہیں.اس کا کیا فائدہ ہے؟ کیونکہ مے تو پی گئے اب تو درد رہ گیا.پھر کیا ہم مٹی کھانے کے لئے رہ

Page 43

سیرت المہدی 36 حصہ چہارم گئے؟ اور جب ہمیں انعام ملنا نہیں تو یہ دعا عبث ہے.مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ انعامات کا سلسلہ اب تک جاری ہے.۱۸۹۳ء میں میں نے خاص طور پر سے شیعیت کی بابت تحقیقات کی اور شیعیت کو ترک کر دیا.1032 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں قیام پذیر تھے میں اور محمد خان مرحوم ڈاکٹر صادق علی صاحب کو لے کر لدھیانہ گئے.(ڈاکٹر صاحب کپورتھلہ کے رئیس اور علماء میں سے شمار ہوتے تھے ) کچھ عرصہ کے بعد حضور مہندی لگوانے لگے.اس وقت ایک آریہ آ گیا.جو ایم.اے تھا.اس نے کوئی اعتراض اسلام پر کیا.حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا.آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوالوں.ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے.مگر اُس آریہ نے جو جوابی تقریر کی تو ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے.حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر اس تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا.حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا.پھر وہ دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا.پھر شام کے چار پانچ بجے ہوں گے تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تخلیہ چاہتا ہوں میں نے حضور سے عرض کی.چنانچہ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کے پاس تنہائی میں چلے گئے اور میں اور مولوی عبد اللہ سنوری اور محمد خان صاحب ایک کوٹھڑی میں چلے گئے.بعد میں ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے بیعت میں لے لیں مگر آپ نے فرمایا.آپ جلدی نہ کریں.سوچ سمجھ لیں.دو دن رہ کر ہم واپس آگئے.1033 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی شخص نے بیعت کرنی چاہی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بیعت نہ لی اور انکار کر دیا.1034 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور وہ کتاب پیش کی.حضور نے ہاتھ

Page 44

سیرت المہدی 37 حصہ چہارم سے کتاب پرے کر دی.کہ جب مسلمانوں کے سینکڑوں بچے عیسائی ہو گئے.اس وقت یہ کتاب نہ کھی.اب جو مصنف کا اپنالڑ کا عیسائی ہو گیا تو یہ کتاب لکھی.اس میں برکت نہیں ہوسکتی.1035 بسم اللہ الرحمن الرحیم.آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شروع ستمبر ۱۹۰۴ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہور لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے.۳ ستمبر کو آپ کا لیکچر میلا رام کے منڈوے میں ہوا.والد صاحب بھی مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے گئے.میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا.گو معلوم ہوتا تھا کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سنا ہو گا یا کم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا.کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں.لیکن میری توجہ زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی.آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرما تھے.اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا جو اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا.1036 بسم اللہ الرحمن الرحیم.آنر بیل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی.جو اثر بھی میرے دل میں اس وقت ہوا.وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے کہ وہ سچ ہے اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہے.میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی.بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے.لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا اور وہی اثر اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں ۳ ستمبر ۱۹۰۴ ء کے دن سے ہی احمدی ہوں.

Page 45

سیرت المہدی 38 88 حصہ چہارم 1037 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں تقریباً ایک ماہ تک ٹھہرا رہا.مولوی عبد اللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے.مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اور میں نے اُن کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی نہ جائیں.اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا.جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی.حضور نے فرمایا.اس غرض کے لئے جانا لازمی نہیں.آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلا دیں اور گھر خط لکھدیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوا دیں.چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرا دیئے اور فرمایا گھر خط لکھ دو.1038 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورانِ سر کا عارضہ تھا.ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس میں خاص ملکہ رکھتا ہے اُسے بلوایا گیا، کرایہ بھیج کر اور کہیں دور سے.اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دودن میں آپ کو آرام کر دوں گا.یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں علاج ہرگز نہیں کرانا چاہتا.یہ کیا خدائی دعوی کرتا ہے.اس کو واپسی کرایہ کے رو پید اور مزید ہیں پچیس روپے بھیج دیئے کہ یہ دے کر اُسے رخصت کر دو.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.1039 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سردرد کا دورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قد رسخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانند سرد ہو گئے.میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہو گئی تھی.آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہو تو اس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمائی آجائے گی اور دورہ موقوف ہو جائے گا.میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیں آتا.فرمایا! کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت میں کچھ اشعار آپ کو یاد ہوں تو پڑھیں.میں نے براہین احمدیہ کی نظم ”اے خدا! اے چارہ آزار ما خوش الحانی سے پڑھنی شروع کر دی اور آپ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہوگئی.پھر آپ لیٹے رہے اور

Page 46

سیرت المہدی 39 حصہ چہارم سنتے رہے.پھر مجھے ایک اعتراض یاد آ گیا کہ آیت و اذ قال ربك للملئکۃ انی جاعل فی الارض خليفة (البقرة: ۳۱) پر یہ اعتراض ہے کہ جو مشورہ کا محتاج ہے.وہ خدائی کے لائق نہیں.قالوا ا تجعل فيها من يفسد فيها.اس سے معلوم ہوا کہ اس کا علم بھی کام نہیں.کیونکہ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ آئندہ فساد اور خون ریزی کرے گا.و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک.اُس سے معلوم ہوا کہ وہ پاکوں سے دشمنی اور ناپاکوں سے پیار کرتا ہے.کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس خلافت کے لئے پیش کیا تھا.قال انی اعلم مالا تعلمون.بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے جس سے بجز ظاہر ہوتا ہے.پھر یہ کہا کہ علم آدم الاسماء کلھا.ایک آدمی کو الگ لے جا کر کچھ باتیں چپکے سے سمجھا دیں اور پھر کہا کہ تم بتاؤ اگر سچے ہو.اس میں فریب پایا جاتا ہے.جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضور کو جوش آگیا اور فوراً آپ بیٹھ گئے اور بڑے زور کی تقریر جو ابا کی اور بہت سے لوگ بھی آگئے.اور دورہ ہٹ گیا.بہت لمبی تقریر فرمائی کہ کہیں آدم کا خونریزی وغیرہ کرنا ثابت نہیں.وغیرہ 1040 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور عبد الحکیم مرتد جس زمانے میں لاہور پڑھتے تھے.وہاں پر ایک شخص جو بر ہمو سماج کا سیکرٹری اور ایم اے تھا، آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں تھے.اُس نے آکر کہا کہ تقدیر کے مسئلہ کو میں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ شاید کسی اور نے نہ سمجھا ہو.وہ دلائل میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اس پر حضور نے خود ہی تقدیر پر تقریر شروع فرما دی اور یہ تقریر مسلسل دو گھنٹے جاری رہی.حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالحکیم صاحب بھی اس میں موجود تھے اور نواب فتح علی خان صاحب قزلباش بھی موجود تھے ، تقریر کے ختم ہونے پر جب سب چلے گئے تو نواب صاحب بیٹھے رہے اور نواب صاحب نے کہا کہ آپ تو اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں اور اسلام کی صداقت آفتاب کی طرح سامنے نظر آتی ہے.وہ لوگ بڑے ظالم ہیں جو آپ کے متعلق سخت کلامی کرتے ہیں.ظالم کا لفظ سن کر حضور نے شیعہ مذہب کی تردید شروع کر دی.گویا ثابت کیا کہ شیعہ ظلم کرتے ہیں جو صحابہ کا فیض یافتہ صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ

Page 47

سیرت المہدی 40 حصہ چہارم وسلم سے ہونا نہیں مانتے.اور صحابہ کا تقدس ظاہر کر کے بڑے جوش میں فرمایا کہ کیا کوئی شیعہ اس بات کو گوارا کر سکتا ہے کہ اس کی ماں کی قبر دو نابکاروں کے درمیان ہو.مولوی عبدالکریم صاحب کا چہرہ اُتر اہوا سا تھا.پھر نواب صاحب نہایت ادب سے اجازت لے کر چلے گئے.ان کے جانے کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا حضور کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ شیعہ مذہب رکھتے ہیں.حضور نے فرمایا.ان کے ہمارے بزرگوں سے تعلقات چلے آتے ہیں.ہم خوب جانتے ہیں.میں نے سمجھا کہ یہ بڑے آدمی کہاں کسی کے پاس چل کر آتے ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ حق اُن کے گوش گزار کر دوں.1041 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلی دفعہ غالبا فروری ۱۸۹۱ء میں میں قادیان آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا.دسمبر ۱۸۹۲ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا.ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب سے علیحدہ بات کرنی چاہی گو بہت تنہائی نہ تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پریشان پایا.یعنی آپ کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی.آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی.اسی جلسہ ۱۸۹۲ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے.اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی.احباب وہاں جمع ہو جاتے تھے.اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے.نما زعشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا.میں علماء اور بزرگان خاندان کے سامنے دوزانو بیٹھنے کا عادی تھا.بسا اوقات گھٹنے دکھنے لگتے.مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی.جس کو جس طرح آرام ہوتا بیٹھتا.بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت وادب اور محبت ہوتی تھی.چونکہ کوئی تکلف نہ ہوتا تھا.اس لئے یہی جی چاہتا تھا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر فرماتے رہیں اور ہم میں موجودر ہیں.مگر عشاء کی اذان سے جلسہ برخاست ہو جاتا.1042 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً ۱۸۹۴ء تھا.میں قادیان میں سورج

Page 48

سیرت المہدی 41 حصہ چہارم گرہن کے دن نماز میں موجود تھا.مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی.اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے.اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہو جاتی.اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے.جہاں تہجد کی نماز ہوتی.سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی.اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے.سب خدام ساتھ ہوتے.یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا.اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہو جاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی.بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا.مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہو جاتی اور ایسا ہو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں.مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہو جاتی.1043 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ امرتسر میں جب آتھم کے ساتھ مباحثہ قرار پایا تو ہیں ہیں یا چھپیں پچھپیں آدمی فریقین کے شامل ہوتے تھے.ہماری طرف سے علاوہ غیر احمدیوں کے مولوی عبد الکریم صاحب ، سید محمد احسن صاحب بھی شامل ہوتے تھے.اور ایک شخص اللہ دیا لدھیانوی جلد ساز تھا جس کو توریت وانجیل خوب یاد تھی اور کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ عیسائیوں کی طرف بیٹھا کرتے تھے.ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایک طرف عبد اللہ آتھم بیٹھتے تھے.دونوں فریق کے درمیان خلیفہ نور الدین صاحب جمونی اور خاکسار مباحثہ لکھنے والے بیٹھا کرتے تھے.اور دو کس عیسائیوں میں سے اسی طرح لکھنے کے لئے بیٹھا کرتے تھے.بحث تقریری ہوتی تھی اور ہم لکھتے جاتے تھے اور عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے.اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے.حضرت صاحب اختصار کے طور پر غ سے مراد غلام احمد اور ع سے مراد عبداللہ کھاتے تھے.آتھم بہت ادب سے پیش آتا تھا.جب عیسائیوں کے لکھنے والے زیادہ نہ لکھ سکتے.آٹھم خاکسار کو مخاطب کر کے کہا کرتا کہ عیسائی ہمارے لکھنے والے ٹو ہیں.ان کی کمریں لگی ہوئی ہیں.انہیں بھی ساتھ لینا

Page 49

سیرت المہدی 42 حصہ چہارم کیونکہ میں اور خلیفہ نورالدین صاحب بہت زود نویس تھے.آتھم کی طبیعت میں تمسخر تھا.ایک دن آتم مقابلہ پر نہ آیا.اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹھا.یہ بہت بے ادب اور گستاخ آدمی تھا.اُس نے ایک دن چند لولے لنگڑے اندھے اکٹھے کر لئے اور لا کر بٹھا دیئے.اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعوی ہے.ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کر دیں اور اگر ایسا ہو گیا تو ہم اپنی کچھ اصلاح کرلیں گے.اس وقت جماعت میں ایک سناٹا پیدا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً ارشادفرمایا.کہ ہمارے ایمان کی علامت جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے.یعنی استجابت دعا اور تین اور علامتیں حضور نے بیان فرمائیں.یعنی فصاحت و بلاغت اور فہم قرآن اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں.اس میں ہماری تم آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو.لیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی علامت یہ قرار دی ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو لنگڑوں کولوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکو گے.لیکن میں تم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا.میں ایک جوتی الٹی ڈالتا ہوں اگر وہ تمہارے اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے.اس وقت جس قدر مسلمان تھے.خوش ہو گئے اور فریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے.61044 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مناظرہ میں آخری دن جب آتھم کو پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دے کر گردن ہلا کر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دقبال نہیں کہا.حالانکہ اپنی کتاب اندرونہ بائیل میں اس نے یہ لفظ لکھا تھا.پھر آتھم اٹھا اور گر پڑا.حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا.پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا.ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا.وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا.میں نے اسے کہا کہ یہ کیا ہو گیا؟ وہ کہنے لگا کہ آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے.پھر جب ہم اپنی جگہ واپس آئے.غالبا کریم بخش ایک رئیس کی کوٹھی پر ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو کرنیل الطاف علی خاں ہمارے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا

Page 50

سیرت المہدی 43 حصہ چہارم ہوں.کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے اور ڈاڑھی مونچھ منڈائے ہوئے تھے.میں نے کہا کہ آپ اندر چلے جائیں.باہر سے ہم کسی کو آنے نہ دیں گے.چنانچہ کر نیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے.کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پر آب تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے.وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ بوریہ پر صرف آپ کا گھٹنا ہی تھا اور باقی حصہ زمین پر تھا.میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں! اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالبا میں ( کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریے پر بچھا دیا کہ آپ یہاں بیٹھیں.یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے.اور میں نے عرض کی کہ اگر چہ میں ولایت میں Baptize ہو چکا ہوں (یعنی عیسائیت قبول کر چکا ہوں) مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جاؤں.حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں.آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں.میں نے صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریہ پر بیٹھ گیا.اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا.کہ میں شراب بہت پیتا ہوں اور دیگر گناہ بھی کرتا ہوں ، خدا ، رسول کا نام نہیں جانتا.لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے تو بہ کر کے مسلمان ہوتا ہوں.مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے.حضور نے فرمایا.استغفار پڑھا کرو.اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو.جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا.میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا.اور اسی حالت میں اقرار کر کے کہ میں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا، آپ کی اجازت لے کر آگیا.وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے.چونکہ کرنیل صاحب بہت آزاد طبع آدمی تھے.اس واقعہ سے دو تین سال بعد ایک دفعہ مجھ سے ملے اور انہوں نے کہا کہ استغفار اور نماز میں نے اب تک نہیں چھوڑی.یہ ضرور ہے کہ باہر اگر میں سیر کو چلا گیا اور نماز کا وقت آگیا تو میں چلتے چلتے نماز پڑھ لیتا ہوں.ورنہ مقام پر نماز اور قرآن شریف پڑھتا ہوں.ہاں دو وقت کی نمازیں ملا لیتا ہوں.اور کرنیل صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک دفعہ پچاس روپے حضور کو بھیجے اور مجھے اس کی خوشی ہوئی کہ حضور نے قبول فرمالئے.

Page 51

سیرت المہدی 44 حصہ چہارم 1045 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد کے جب دو تین دن رہ گئے تو محمد خان صاحب مرحوم اور منشی اروڑ ا صاحب مرحوم اور میں قادیان چلے گئے اور بہت سے دوست بھی آئے ہوئے تھے.سب کو حکم تھا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے دعائیں مانگیں.مرزا ایوب بیگ مرحوم برادر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس قدر گریہ وزاری سے دعا مانگتا تھا کہ بعض دفعہ گر پڑتا تھا.گرمیوں کا موسم تھا.محمد خان اور منشی اروڑ ا صاحب اور میں مسجد مبارک کی چھت پر سویا کرتے تھے.آخری دن میعاد کا تھا کہ رات کے ایک بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے کہ ابھی الہام ہوا ہے کہ اس نے رجوع الی الحق کر کے اپنے آپ کو بچا لیا ہے.منشی اروڑا صاحب مرحوم نے مجھ سے محمد خان صاحب سے اور اپنے پاس سے کچھ روپے لے کر جو تمیں پنتیس کے قریب تھے، حضور کی خدمت میں پیش کئے کہ حضور اس کے متعلق جو اشتہار چھپے وہ اس سے صرف ہوں.حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم تمہارے روپے سے ہی اشتہارات چھپوا ئیں گے.ہم نے عرض کی کہ ہم اور بھی روپے بھیجیں گے.ہم نے اسی وقت رات کو اتر کر بہت سے آدمیوں سے ذکر کیا کہ وہ رجوع بحق ہو کر بچ گیا.اور صبح کو پھر یہ بات عام ہوگئی.صبح کو ہندو مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مجمع ہو گیا کہ معلوم کریں کہ آتھم مر گیا یا نہیں.پھر اُن لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا.اس کے بعد ہم اجازت لے کر قادیان سے امرتسر آئے اور امرتسر میں آکر دیکھا کہ عیسائیوں نے آتھم کا جلوس نکالا ہوا ہے.ایک ڈولا سا تھا جس میں آٹھم بیٹھا ہوا تھا اور اس ڈولہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور وہ چپ چاپ ایک طرف گردن ڈالے بیٹھا تھا.پھر ہم کپورتھلہ چلے آئے.بہت سے آدمیوں نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ بھی کی.ہم جب امرتسر قادیان سے گئے تھے تو شائع شدہ اشتہار لوگوں کو دیئے کیونکہ ہم تین دن قادیان ٹھہرے تھے اور یہ اشتہار چھپ گئے تھے.1046 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں پہلی دفعہ ۱۸۹۱ء میں قادیان گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فینس میرے لئے اور ایک پہلی بھیجی تھی.سابقہ اڈا خانہ سے نکل کر جو راستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کو جاتا تھا جواب بھی ہے

Page 52

سیرت المہدی 45 حصہ چہارم جہاں محمد اسماعیل صاحب جلد ساز کا مکان ہے اور پھر مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے پاس احمدیہ چوک کی طرف مڑتا ہے.جس کے شرقی طرف مدرسہ احمدیہ ہے اور غربی طرف دکا نہیں ہیں اس تمام راستہ میں ایک پہیہ خشکی میں اور دوسرا پانی میں یعنی جو ہڑ میں سے گزرتا تھا اور یہ حد آبادی تھی.اور میرے مکان کے آگے ایک ویرانہ تھا.اور گلی چھت کر بنا ہوا کمرہ میری فرودگاہ تھی اور یہ ادھر حد آبادی تھی.دسمبر ۱۸۹۲ء میں میں قادیان گیا تو مدرسہ احمدیہ.مہمان خانہ اور حضرت خلیفہ اُسیح اول کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں.اور یہ ایک لمبا سا چبوتر ابنا ہوا تھا.اسی پر جلسہ ہوا تھا.اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا.یہ چبوترہ ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنایا گیا تھا) اور اس کے بعد جتنے مکان بنے ہیں ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں.1047 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً پہلی یا دوسری دفعہ میرے قادیان آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو آپ موم بتی لے کر اس کی روشنی میں آئے.میرے ملازم صفدر علی نے چاہا کہ بتی کو بجھا دیا جائے تا کہ بے فائدہ نہ جلتی رہی.اس پر آپ نے فرمایا.جلنے دو روشنی کی کمی ہے.دنیا میں تاریکی تو بہت ہے ( قریب قریب الفاظ یہ تھے ) 1048 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آتھم کے واقعہ کے چھ ماہ بعد میں قادیان گیا تو وہاں پر شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام بھی ٹھہرے ہوئے تھے.وہ احمدی نہ تھے.قادیان سے میں اور شمس الدین صاحب امرتسر آئے.میاں قطب الدین صاحب امرتسری جو بہت مخلص آدمی تھے.اُن سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ یہاں پر ایک عیسائی ہے اس کے پاس عبد اللہ آتھم کی تحریر موجود ہے جس میں آتھم نے اقرار کیا ہے کہ اس نے ضرور رجوع بحق کیا ہے اور وہ خائف رہا اور وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہر گز نہیں جو مرزا صاحب کی ہتک کرتے ہیں.آپ کو بزرگ جانتا ہے.یہ سن کر ہم تینوں اس عیسائی کے پاس گئے.اور اُس سے وہ تحریر مانگی.اس نے دور سے دکھائی اور پڑھ کر سنائی.اور یہ کہا کہ یہ خاص آتھم کے قلم کی تحریر ہے جو چھپوانے کی غرض سے اس نے بھیجی تھی مگر

Page 53

سیرت المہدی 46 حصہ چہارم عیسائیوں نے اجازت نہیں دی کہ اس کو چھاپا جائے.میرے پاس امانتا رکھی ہوئی ہے.عیسائی مذکور نے چند شرائط پر وہ حریر دینے کا اقرار کیا کہ اس کی نوکری جاتی رہے گی.اس کا انتظام اگر ہم کریں.پانچ سو روپیہ دیں اور اس کی دولڑکیوں کی شادی کا بندوبست کریں.شمس الدین صاحب نے اس کا انتظام کیا.اور پھر ہم تینوں اس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ یہ راز افشاء ہو گیا ہے اور اسے عیسائیوں نے کوہاٹ یا کسی اور جگہ تبدیل کر دیا ہے.1049 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنے وطن بڑھانہ ضلع مظفر نگر جارہا تھا تو انبالہ ٹیشن پر ایک بڑا پادری فیروز پور سے آرہا تھا.جبکہ آتھم فیروز پور میں تھا.پادری مذکور کے استقبال کے لئے بہت سے پادری موجود تھے.وہ جب اُترا تو پادریوں نے انگریزی میں اس سے آتھم کا حال پوچھا.اس نے کہا.وہ تو بے ایمان ہو گیا.نمازیں بھی پڑھتا ہے.بابومحمد بخش صاحب ہیڈ کلرک جو احمدی تھے.اور میرے ملنے کے لئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے کیونکہ میں نے اُن کو اطلاع دے دی تھی.انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ انہوں نے پوچھا ہے اور یہ اس نے جواب دیا ہے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں واقعہ تحریر آنتم والا اور انبالہ سٹیشن والا عرض کیا.آپ نے ہنس کر فر مایا کہ گواہ تو سب احمدی ہیں.حضور کا مطلب یہ تھا کہ غیر کب اس شہادت کو مانیں گے.شیخ محمد احمد صاحب وکیل پسر منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ شمس الدین صاحب تو احمدی نہ تھے.جس کا جواب والد صاحب نے یہ دیا کہ دراصل حضور نے اس امر کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور درخور اعتنا خیال نہ فرمایا.1050 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.میں ۱۹۰۱ء میں معہ اہل و عیال قادیان آگیا اور پھر مستقل رہائش اختیار کر لی.اُن دنوں میں ایک رسالہ ابتدائی جماعت کے لئے نماز کے متعلق لکھ رہا تھا.اُس میں میں نے ارکان نماز کا مختصر ذکر کیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ پانچ ارکان ایمان یعنی (۱) اللہ تعالیٰ (۲) فرشتے (۳) اللہ کی کتابیں (۴) اللہ کے رسول (۵) آخرت کے ساتھ ” قدر خیرہ و شر ہ “ کا مفہوم بھی درج کیا جائے

Page 54

سیرت المہدی 47 حصہ چہارم یا نہیں.یہ میں نے حضرت مولانا مولوی نور الدین خلیفتہ اسیح الاول کے ذریعہ دریافت کیا اور مغرب کے بعد عشاء تک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف رکھا کرتے تھے.اُس وقت دریافت کیا تھا.اس وقت مسجد مبارک وسیع نہ ہوئی تھی.اور اس کی شکل یہ تھی.امام گینی اش با آدمیوں کی دو صفیں ی گنجی اش در رویوں کی دو مصنفین ۴.عسلی خانه نشر خر چھینٹوں والد عرضی کی کڑھی اور کی مستی خیر این جواب بھی بارود سے ان کے اس نام سے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ۲.مسجد مبارک ۳.یہ کوٹھڑی بھی شامل مسجد ہوگئی تھی.دفتر ریویو.مولوی محمد علی صاحب یہاں بیٹھا کرتے تھے.ابتداء میں یہ نسل خانہ تھا اور گہرا تھا.تخت بچھا کر مسجد کے برابر کر لیا تھا.زیادہ لوگ ہوتے تو امام کے پاس بھی دو آدمی کھڑے ہو جاتے تھے.اور مولوی محمد علی صاحب کے دفتر میں بھی چند آدمی کھڑے ہو جاتے تھے.مگر جس وقت کا میں ذکر کرتا ہوں.اس وقت یہ دفتر نہ بنا تھا.اس لئے صرف نمبرا، نمبر۲، نمبر ۳ میں ہی نماز ہوتی تھی.میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس بیٹھاتھا جوامام نماز تھے اور حضرت خلیفہ مسیح اول بھی وہاں بیٹھے ہو تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقام (الف) پر بیٹھا کرتے تھے اور دریچہ (ب) میں سے ہو کر مسجد میں آتے تھے.میرے دریافت کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا کہ میں تقدیر کا قائل نہیں.اس پر لمبی تقریر فرمائی جو غالباً الحکم میں درج ہوگی.میں نے پھر بذریعہ مولا نا صاحب عرض کیا کہ میں تقدیر کا قائل ہوں اور اللہ تعالیٰ پر مع جمیع صفات ایمان رکھتا ہوں.اور اسے قادر وقد سیر مانتا ہوں مگر

Page 55

سیرت المہدی 48 حصہ چہارم میری عرض یہ ہے کہ باقی ماندہ صفات کو چھوڑ کر قد ر خیر و شر کو کیوں الگ طور سے لکھا جائے.یا تو تمام صفات کو لکھا جائے یا یہ بھی نہ ہو.تو آپ نے فرمایا.یہ الگ طور پر نہ کھی جائے.1051 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا.اس وقت میں ایک کام کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا.اس وقت صرف میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی تھے.اور یہ اس مکان کا صحن تھا جو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے رہائشی مکان کا صحن تھا.اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے جنوبی جانب بڑے کمرے کی چھت پر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے.حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے.گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا ر ہے.اس سے قبل حضرت مولانا نورالدین صاحب سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا.1052 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں.دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کر لیتے تھے.کبھی اُن کے کا تب آجاتے ، کبھی میں جاتا.ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کے لئے آتھم کے مکان پر گیا.جا کر بیٹھا ہی تھا کہ آٹھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں.میں نے کہا قصبہ بڑھا نہ ضلع مظفر نگر کا.اس نے کہا ! وہاں کے منشی عبدالواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے.میں نے کہا کہ وہ میرے چا تھے.پھر کسی جگہ کا آتھم نے ذکر کیا کہ میں وہاں کا ڈپٹی تھا اور منشی عبدالواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اور میرا اُن کا بڑا تعلق تھا.اور وہ بھی اپنے آپ کو مہم سمجھتے تھے.تم تو میرے بھیجے ہوئے.اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں.ان کی خاطر کرنی چاہئے.چنانچہ اُسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی.میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کھا سکتا.کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا

Page 56

سیرت المہدی 49 حصہ چہارم اور مولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کر سکتے ہیں.اسی وجہ سے میں بھی چائے نہیں پی سکتا.وہ کہتا رہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں.اس کے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اور حضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا.حضور نے فرمایا! کہ آپ نے بہت اچھا کیا.اب تمہیں وہاں جا کر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں.انہیں خواہش ہو تو خود آجایا کریں.1053 بسم اللہ الرحمن الرحیم.منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا.فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا.ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی.ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے.گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آواز سنائی دی جو اس تقریب پر ہورہا تھا.یہ آواز سنتے ہی حضور لوٹ پڑے.فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آکر بہت التجاء کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا.اور واپس ہی چلے آئے.راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اس کا نام اس وقت یاد نہیں.وہاں ایک معزز سکھ سردار نی تھی.اُس نے بمنت حضور کی دعوت کی.حضور نے فرمایا.قادیان قریب ہی ہے.مگر اس کے اصرار پر حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی اور اس کے ہاں جا کر سب نے کھانا کھایا.اور تھوڑی دیر آرام کر کے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے.ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں.مرزا اسماعیل صاحب شیر فروش، حافظ حامد علی، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی.اور بھی چند آدمی تھے.1054 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ پٹیالہ کے بعض عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور یہ بات پیش کی کہ ہم ایک لفافے میں مضمون لکھ کر میز پر رکھ دیتے ہیں.آپ اسے دیکھے بغیر اس کا مضمون بتادیں.حضرت صاحب نے فرمایا! ہم بتادیں گے.آپ وہ مضمون لکھ کر رکھیں.اس پر انہوں نے جرات نہ کی.اس قدر واقعہ میرا چشم دید نہیں.البتہ اس واقعہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو حنائی کاغذ پر تھا.وہ اشتہار میں نے

Page 57

سیرت المہدی 50 حصہ چہارم پڑھا تھا جس میں یہ واقعہ درج تھا اور حضور نے یہ شرط پیش کی تھی کہ اگر ہم لفافے کا مضمون بتادیں تو مسلمان ہونا ہوگا.یہ واقعہ ابتدائی ایام کا اور بیعت اولی سے پہلے کا ہے.1055 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتوسل حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب راولپنڈی کے ایک تاجر صاحب کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا.مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے اُن کے اقرباء ا چھے معلوم نہ ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رشتہ بہت پسند تھا.بلکہ یہاں تک زور دیا، خود تو نہیں فرمایا مگر پیغامبر کی معرفت فرمایا کہ اگر یہ رشتہ میں منظور نہ کروں گا تو آپ میرے رشتہ کے متعلق کبھی دخل نہ دیں گے.مگر اُن تاجر صاحب نے خود یہ بات اُٹھائی کہ ان کی سالی بہنویوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابند نہ ہوگی میرے متعلق یہ کہا کہ ) سنا جاتا ہے کہ نواب صاحب پردہ میں سختی کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ یہ کہتے ہیں.میں نے عرض کی کہ قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز نہیں چاہتا.فرمانے لگے کہ کیا بہنوئی سے بھی پردہ ہے.میں نے عرض کی کہ حضور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں.جہاں تک مجھے معلوم ہے.قرآن شریف کی فہرست میں بہنوئی داخل نہیں.آپ خاموش ہو گئے اور پھر اس رشتہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا.اور وہ تاجر صاحب بھی چلے گئے.1056 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریباً ایک ماہ قیام پذیر رہے.بیعت اولی سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے.ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا سا ہو کا رتھاوہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتا ہوں.آپ نے فور ادعوت قبول فرمالی.اُس نے کھانے کا انتظام بہستی باباخیل میں کیا اور بہت پر تکلف کھانے پکوائے.جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے.اُس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا.اور لوٹا اور سلا بچی لے کر خود ہاتھ دھلانے لگا.ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا

Page 58

سیرت المہدی 51 حصہ چہارم ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خدا قبول کر لے.غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا.کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کو قبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے.تم خدا کو وحدہ لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو.اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا.حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں.پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا.1057 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے مجھ سیپذ ریعہ تحریر بیان کیا کہ جالندھر میں قیام کے ایام میں ایک دن ایک ضعیف العمر مسلمان غالباً وہ بیعت میں داخل تھا اور اس کا بیٹا نائب تحصیلدار تھا، اس بیٹے کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.اُس نے شکایت کی کہ یہ میرا بیٹا میری یا اپنی ماں کی خبر گیری نہیں کرتا اور ہم تکلیف سے گزارا کرتے ہیں.حضور نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھ کر فر مایا کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ويُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَّاسِيرًا (الدھر: ۹) اور اس میں کیا شک ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ، اولا داور بیوی کی خبر نہ لے.تو وہ بھی اس حکم کے نیچے مساکین (ماں باپ ) یتامی ( بچے ) اسیر ( بیوی ) میں داخل ہو جاتے ہیں.تم خدا تعالیٰ کا یہ حکم مان کر ہی آئندہ خدمت کرو.تمہیں ثواب بھی ہوگا اور ان کی خبر گیری بھی ہو جائے گی.اُس نے عہد کیا کہ آج سے میں اپنی کل تنخواہ ان کو بھیج دیا کروں گا.یہ خود مجھے میرا خرچ جو چاہیں بھیج دیا کریں پھر معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہا.1058 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران قیام جالندھر میں ایک شخص جو مولوی کہلاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بحث کرنے کی غرض سے آیا.حضور نے فرمایا کہ آپ صبح کے وقت آجائیں.اُس نے کہا کہ صبح کو مجھے فرصت نہیں ہوتی.میں بھی اُس شخص کو جانتا تھا.میں نے کہا.یہ شخص واقعی صبح کو مشغول ہوتا ہے کیونکہ شراب نوشی کا عادی ہے.اس پر حاضرین تو مسکرا پڑے.لیکن حضور نے صرف اس قدر فر مایا کہ آپ اپنے شکوک رفع کرنے کے لئے کوئی

Page 59

سیرت المہدی 529 52 حصہ چہارم اور وقت مقرر کر لیں.1059 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جالندھر میں زیادہ عرصہ قیام جب رکھا تو دوست احباب ٹھہر کر چلے جاتے تھے.لیکن مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور خاکسار برابر ٹھہرے رہے.ایک دن میں نے اور مولوی صاحب مرحوم نے ارادہ کیا کہ وہ میرے لئے اور میں اُن کے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کریں.صبح کو حضور سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا.لوجی میاں عبداللہ صاحب اور منشی صاحب ! اب تو ہم اور آپ ہی رہیں گے اور دوست تو چلے گئے.نئے نو دن پرانے سو دن.بس پھر ہم خاموش ہو گئے اور ٹھہرے رہے.1060 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتداء میں جب میں قادیان مستقل طور پر رہنے لگا تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں باہر سے برات آئی تھی.اس کے ساتھ کنچنی بھی تھی اور ناچ وغیرہ ہوتا تھا.میں ایسی شادی کی رسوم میں نہ خود شریک ہوتا ہوں اور نہ اپنی کوئی چیز دیتا ہوں.مرزا نظام الدین نے مجھ سے غالباً کچھ دریاں اور چکیں مانگی تھیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا.آپ نے فرمایا.دے دو کیونکہ اس شادی سے اغلب ہے کہ دولہا کی اصلاح ہوگی.1061 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدا بخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا.انہوں نے لڈو میرے ہاں بھیجے.میں نے واپس کر دیئے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا.تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی.یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں.بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی.میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی.اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں.

Page 60

سیرت المہدی 53 حصہ چہارم 1062 بسم الله الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر فرمارہے تھے.اس وقت ایک انگریز جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپر نٹنڈنٹ پولیس تھا ، آ گیا اور ٹوپی اتار کر سلام کیا اور حضور کی تقریر سننے کے لئے کھڑا رہا اور باوجود یکہ اس کے بیٹھنے کے لئے کرسی وغیرہ بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا.عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتا ہوا.سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا تھا.تھوڑا عرصہ تقریر سن کر سلام کر کے وہ چلا گیا.اس کے بعد قریباً دوسرے تیسرے دن جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے تو ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ راستہ میں گھوڑے پر سوار مل جاتا اور گھوڑے کو ٹھہرا کر ٹوپی اتار کر سلام کرتا.یہ اس کا معمول تھا.1063 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا.یا ظفر المظفر ( وہ دوستانہ بے تکلفی میں مجھے اس نام سے مخاطب فرمایا کرتے تھے ) ذرا جالندھر کی سیر تو کراؤ.چنانچہ ہم چل پڑے.راستہ میں دیکھا کہ گویا ایک برات آرہی ہے اور اس کے ساتھ دیسی اور انگریزی باجا اور طوائف وغیرہ آرہے ہیں.اُن کے پیچھے ایک شخص گھوڑے پر سوار بٹیرے کا پنجرہ ہاتھ میں لئے آرہا تھا.معلوم ہوا کہ یہ تمام جلوس اسی بٹیرے کے لڑائی جیتنے کی خوشی میں ہے.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ برات ورات نہیں.یہ تو بٹیرے کی کشتی جیتنے کی خوشی ہے.مولوی عبد الکریم صاحب یہ دیکھ کر سڑک پر ہی سجدہ میں گر پڑے اور سخت مغموم ہوئے.بوجہ مسلمانوں کی اس ابتر حالت کے.اور یہی فرماتے رہے کہ اوہو! مسلمانوں کی حالت اس درجہ پر پہنچ گئی ہے.ہم واپس آگئے.1064 بسم اللہ الرحمن الرحیم.منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں مقیم تھے تو انہیں دنوں میر عباس علی صاحب بھی اپنے کسی مرید کے ہاں آکر جالندھر میں ٹھہرے ہوئے تھے.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ وہ آپ کے پرانے ملنے والے ہیں اُن کو جا کر کچھ سمجھاؤ.پیراں دتا جو کہ فاتر العقل سا شخص تھا اور حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا.اس نے کہا ” جور میں وی جا کے سمجھاواں حضرت صاحب نے فرمایا.ہاں منشی صاحب کے ساتھ چلے

Page 61

سیرت المہدی 54 حصہ چہارم جاؤ.میں میر عباس علی کی قیام گاہ پر گیا.آٹھ دس آدمی فرش پر بیٹھے تھے اور میر صاحب چار پائی پر.ایک تخت بھی وہاں تھا.دوروں میں پوست بھیگے ہوئے تھے.پیراں دتا کو دیکھ کر میر عباس علی نے اُسے بے تکلفانہ پکارا.اوپیراں دتا ، او پیراں دتا ، اور مجھ سے السلام علیکم کر کے ہنستے ہوئے ، آئیے آئے کہہ کر بیٹھنے کو کہا.پیراں دتا مجھ سے کہنے لگا.میں پہلے سمجھالوں.میں نے کہا سمجھا لے.پیراں دتا کہنے لگا.میر صاحب! میں تمہیں دونوں وقت کھانا پہنچاتا تھایانہیں؟اور تمہیں بھی کبھی میں پسے بھی دیا کرتاتھا انہیں میر صاحب اب بڑے آدمی دور دور سے روٹی کھانے والے آتے ہیں.اب جو تم روٹیوں کی خاطر ادھر ادھر پھرتے ہو یہ وقت اچھا ہے یا وہ جب گھر بیٹھے میں تمہیں روٹی دے جایا کرتا تھا.اب تم میرے ساتھ چلو.میں تمہیں روٹی دونوں وقت دے جایا کروں گا.میر عباس علی ہنستے رہے.پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کیوں برگشتہ ہو گئے.وہ کہنے لگا کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یہ جسم آسمان پر نہیں جاسکتا.میں نے اپنے پیر کو خود دیکھا ہے ( مولوی غوث علی پانی پتی ان کے پیر تھے ) کہ ایک دفعہ انہوں نے الا اللہ کا ونعرہ مارا تو زمین شق ہوگئی اور وہ اس میں سما گئے.میں نے کہا کہ اوپر تو پھر بھی نہ گئے.اور وہاں قرآن شریف رکھا تھا.میں نے اُٹھا کر میر صاحب کے سر پر رکھ دیا کہ آپ خدا کو حاضر و ناظر جان کر بتائیں کہ آپ نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے.وہ کہنے لگا کہ ہمارے پیر نے جب یہ بیان کیا کہ انہوں نے ایک دفعہ ایسا کیا.اور ہم انہیں سچا سمجھتے ہیں.تو یہ م دید ماجرا ہی ہوا.غرضیکہ جہاں تک ہوسکا.میں نے اُن کو سمجھایا.مگر اس وقت ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی.وہ اقراری نہ ہوئے.1065 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو میرا انتظار فرماتے.بعض دفعہ بہت دیر بھی ہو جاتی مگر جب سے مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مجھ سے ہوا تو آپ نے پھر میرا انتظار نہیں کیا.( یا تو حیا فرماتے.اور اس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا یا مجھے فرزندی میں لینے کے بعد فرزند سمجھ کر انتظار نہیں کیا) 1066 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس مکان میں رہا کرتے تھے اب اس میں حضرت اماں جان علیہا السلام رہتی

Page 62

سیرت المہدی 55 حصہ چہارم ہیں.اس کے صحن اور میرے مکان کے صحن میں صرف ایک دروازہ حائل تھا.گویا اس وقت نقشہ یہ تھا.شهرمانی سم صحت معن من الله ه مبارک کمرہ نمبرا، نمبر ۲، نمبر ۳ میں میری رہائش تھی.نمبرہ میں مولوی محمد احسن صاحب رہا کرتے تھے.نمبر ۵ میرا صحن تھا، نمبر ۶ حضرت صاحب کا صحن تھا.اور نمبرے آپ کا رہائشی کمرہ تھا اور نمبر ۸ بیت الفکر تھا.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی بات کرتے ہمیں سنائی دیتی.جب بھی کوئی بات ہو یا عورتوں میں تقریر ہو.رات دن میں جب بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر آتا تو آپ کے منہ سے یہی نکلتا تھا ہمارے رسول کریم ، ہمارے نبی کریم 1067 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پر مع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرما تھے.ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے.حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے.اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے ، آتے گئے اور حضور کے قریب بیٹھتے گئے.جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا.حتی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا.اتنے میں کھانا آیا.تو حضور نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کر کے فرمایا.آؤ

Page 63

سیرت المہدی 56 56 حصہ چہارم میاں نظام الدین ! آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں.اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا.اور کوئی اندر نہ گیا.جولوگ قریب آکر بیٹھتے گئے تھے ان کے چہروں پر شرمندگی ظاہر تھی.1068 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک صاحب مولوی عبد الرحیم ساکن میرٹھ قادیان آئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعوعلیہ السلام سے تین دن تک اُن کی ملاقات نہ ہو سکی.وجہ یہ تھی کہ جب حضور مسجد مبارک میں بیٹھتے تو عبد الرحیم صاحب تکلف اور آداب کے خیال سے لوگوں کو ہٹا کر اور گزر کر قریب جانا نا پسند کرتے تھے.میری یہ عادت تھی کہ بہر حال و بہر کیف قریب پہنچ کر حضور کے پاس جا بیٹھتا تھا.عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے ظاہر کیا کہ تین دن سے ملاقات نہیں ہوسکی.چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بات عرض کی.حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ کیا یہ آپ سے سبق نہیں سیکھتے.اور پھر انہیں فرمایا کہ آ جائیے.چنانچہ ان کی ملاقات ہوگئی.1069 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعه دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں اور سامان لایا جائے.چارپائی بچھائی جائے.خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروا ئیں.چار پائیاں بھی مل جائیں گی.دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فورا یکہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہو گئے.میں نے مولوی عبد الکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے.جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہنا مشکل ہو گیا.حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے.چند خدام بھی ہمراہ تھے.میں بھی ساتھ تھا.نہر کے قریب پہنچ کر اُن کا یکہ مل گیا.اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا.چنانچہ وہ واپس آئے.حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے.اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے.حضور نے خود اُن کے بستر اُتارنے کے لئے ہاتھ

Page 64

سیرت المہدی 57 حصہ چہارم بڑھایا مگر خدام نے اُتار لیا.حضور نے اُسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اور اُن پر ان کے بستر کروائے اور اُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے.اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں.اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا.غرضیکہ اُن کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرما ئیں اور جب تک کھانا آیا و ہیں ٹھہرے رہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے.راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا.اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقیناً اس کی دل شکنی ہوگی.ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے.حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب اُن کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے.جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا.حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا.یہ پی لیجئے.اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے.راستہ میں گھڑی گھڑی اُن سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں.آپ یکے میں سوار ہو لیں.مگر وہ سوار نہ ہوئے.نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کرا کے حضور واپس تشریف لائے.1070 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سید ذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک دفعہ منشی اروڑ ا صاحب محمد خاں صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے.گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑ ا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو.حضور نے فرمایا.خدا قادر ہے.میں نے عرض کی کہ حضور یہ دعا انہیں کے لئے فرمانا کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو.قادیان سے یکہ میں سوار ہو کر ہم تینوں چلے تو خاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہوگئی.اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں.تھوڑی دور آگے جا کر یکہ الٹ گیا.منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گر گئے اور محمد خاں صاحب اور میں کود پڑے.منشی اروڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی ہو گیا اور وہ ہنستے جاتے تھے.1071 بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا

Page 65

سیرت المہدی 58 حصہ چہارم کہ ایک دن دو پہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اُس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی.میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تشریف لائے ہیں.آپ کے ہاتھ میں ایک مشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے.وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے.اور ہم سب نے بہت خوشی سے اُسے کھایا.اس شفقت اور محبت کا اثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے.1072 بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی قادیان ہی میں حاضر تھا اور اُن کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا.چنانچہ ان کے جنازہ کو مقبرہ بہشتی میں لے جانے کے لئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑا تھا.اس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کا حصہ تھا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا.جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے.میں اگر چہ اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن یہ احساس اس وقت تک میرے دل میں قائم ہے کہ حضور باوجود اس قد رسخت صدمہ کے جو آپ کو صا حبزادہ صاحب کی وفات سے لازماً پہنچا ہوگا نہایت بشاشت سے کلام فرماتے رہے.1073 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی سے واپسی پر امرتسر اُترے.حضرت ام المومنین بھی ہمراہ تھیں.حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب ( خاکسار مؤلف ) تھے گود میں لیا.اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا اور مجھے فرمایا آپ پاندان لے لیں.میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں.آپ نے فرمایا.نہیں.ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا.تو میں نے پاندان اٹھا لیا اور ہم چل پڑے.اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے.انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہو ذرا کھڑے

Page 66

سیرت المہدی 59 حصہ چهارم ہو جائیں.چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہو جائیں.حضور کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اُسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا.1074 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ مقدمہ کرم دین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تار میرے نام آیا.کہ آپ شہادت کے لئے گورداسپور پہنچیں.میں فوراً گورداسپور روانہ ہو گیا.کرم دین نے لمبی چوڑی جرح تیار کی ہوئی تھی.ہر ایک گواہ کے لئے.خصوصاً پرانے خدام کے لئے لمبی جرح اُس نے تیار کی تھی.چنانچہ مجھ پر اس نے حسب ذیل سوالات کئے.س قادیان میں کتنے پر لیس ہیں.ج میں کیا جانوں کس قدر پر لیس ہیں.س مرزا صاحب کی کس قدر تصانیف ہیں ج : اتنی کے قریب ہوں گی.س: کتابوں کے کیا کیا نام ہیں.ج مجھے یاد نہیں.میں کوئی کتب فروش نہیں ہوں.س کس قدر سنگ ساز ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں ج ایک شخص کرم الہی کو میں جانتا ہوں اور پتہ نہیں س کا تب کس قدر ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں ج : مجھے علم نہیں.س: آپ قادیان میں کتنی دفعہ آئے ہیں.ج : سینکڑوں دفعہ س : تعداد بتائیں ج: میں نے گنتی نہیں کی

Page 67

سیرت المہدی 60 60 حصہ چہارم اسی طرح چند اور سوال کئے.جن کے جواب میں میں لاعلمی ظاہر کرتارہا.آخر مجسٹریٹ نے اسے اس قسم کے سوالات کرنے سے روک دیا.اور میں کمرہ عدالت سے باہر چلا آیا.جس پر اُس نے عدالت سے کہا کہ یہ دیگر گواہوں کو باہر جا کر بتادے گا.مگر حاکم نے اس کی بات نہ مانی کہ گواہ معزز آدمی ہے اور میں باہر چلا آیا.اسی درمیان میں مجسٹریٹ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ مرزا صاحب کے مرید ہیں.میں نے کہا.ہاں.پھر اس نے پوچھا کہ آپ جان و مال اُن پر فدا کر سکتے ہیں.میں نے جواب دیا کہ جان ومال کی حفاظت کے لئے ہم نے بیعت کی ہے.وہ مجھے سوال میں پھانسنا چاہتا تھا.مگر یہ جواب سن کر رہ گیا.گواہوں کے بیانات نوٹ کرنے کے لئے حضرت صاحب مجھے تقریباً ہر مقدمہ میں اندر بلالیا کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے میری اس خوش قسمتی بوجه زود نویسی پر رشک کا اظہار فرمایا.1075 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سہ سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف نیاز کا موقعہ اُس روز ہوا جب کہ حضور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی اس درخواست پر کہ حضور ایک دفعہ ان کے گھر واقعہ قصبہ سنور متصل پٹیالہ میں قدم رنجہ فرمائیں.پٹیالہ تشریف لائے.دس بجے صبح کے قریب پہنچنے والی ٹرین سے حضور کے راجپورہ کی جانب سے تشریف لانے کی اطلاع تھی.خاکسار پہلی ٹرین سے راجپورہ پہنچ گیا.آگے پٹیالہ آنے والی ٹرین تیار تھی.حضور گاڑی کے آگے معہ دو ہمراہیاں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مرحوم و حاجی عبد الرحیم صاحب المعروف پیسہ والے سوداگر گاڑی کے آگے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے.چونکہ ہم لوگ اس سے قبل کسی کی صورت سے بھی آشنا نہ تھے.اس لئے حاجی عبد الرحیم صاحب کی طرف مصافحہ کے لئے بڑھے.کیونکہ حاجی صاحب کیم وشحیم اور قد آور آدمی تھے.اور لباس ظاہری بھی اُن کا شاندار تھا.حاجی صاحب نے ہمارا مقصد محسوس کرتے ہوئے حضرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اگر آپ لوگ حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آئے ہیں تو حضرت صاحب یہ ہیں.اس پر ہم دو تین آدمیوں نے حضرت صاحب سے

Page 68

سیرت المہدی 61 حصہ چہارم مصافحہ کیا.حضرت صاحب نے حاجی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.کہ حاجی صاحب! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو صرف خدا کے لئے آتے ہیں.دراصل دنیا عجائب پسند ہے.اگر یہ شہرت ہو جائے کہ انبالہ میں ایک چار آنکھوں والا آدمی ہے.تو اس کے دیکھنے کے لئے دنیا ٹوٹ پڑے.ایسا ہی لفظ الہام سے دنیا اجنبی ہو چکی تھی.اب جو وہ سنتے ہیں کہ ایک شخص کو خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے تو اُسی طرح تعجب سے وہ چاہتے ہیں کہ دیکھیں وہ آدمی جس کو الہام ہوتا ہے وہ کیسا ہے.اس کے بعد گاڑی پٹیالہ کو روانہ ہوئی.پٹیالہ اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب جناب وزیر محمد حسین صاحب کی گاڑی میں سوار ہو کر جو اسی غرض سے خود گاڑی لے کر آئے تھے.جانب شہر روانہ ہو گئے.اور اُس کو ٹھی میں جو اسٹیشن سے دومیل کے فاصلہ پر جانب شرق پٹیالہ سے ) واقع ہے موجود ہیں.جب خاکسار بھی پتہ لگا کر وہاں پہنچ گیا تو حضور کوٹھی کے بڑے کمرے میں تقریر فرما رہے تھے اور ہیں تمہیں مردماں کا مجمع تھا.تقریر کا مفہوم ”ضرورت الہام معلوم ہوتا تھا.کیونکہ خاکسار کے حاضر ہونے کے بعد جو الفاظ حضرت صاحب سے سنے تھے وہ یہ تھے.عقل صرف ہستی باری تعالی کے بارہ میں ہونا چاہئے.تک جاسکتی ہے.لیکن یہ بات کہ ایسی ہستی ضرور ہے.اس کی دسترس سے باہر ہے.یہ صرف الہام ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسی ہستی ضرور موجود ہے.تقریر والے کمرہ سے ملحقہ کمرہ کی طرف جو بند تھا.اشارہ کر کے فرمایا کہ فرض کرو کہ اس کمرہ میں کسی شخص کے بند ہونے کا کوئی دعوی کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے شوق زیارت میں ہر روز بڑے الحاح اور عاجزی سے اس کو پکارے.اگر سالہا سال بعد بکثرت لوگ ایسا ہی کریں اور کسی کو اُس شخص کی آواز تک نہ سنائی دے تو وہ سب تھک کر آخر اس کے ہونے سے انکاری ہو جائیں گے.پس دوہر یہ تو عدم جہد و عدم معرفت کی وجہ سے دہر یہ ہیں.لیکن یہ خدا کے پرستار الہام سے تشفی یاب نہ ہونے کی صورت میں ایک تجربہ کار دہر یہ ہوتے.پس یقینی ایمان الہام کے بغیر میسر نہیں ہوسکتا.یقینی ایمان کے لئے الہام از بس ضروری ہے.اس تقریر کے ختم کرنے کے بعد حضور بسواری گاڑی وزیر صاحب سنور تشریف لے گئے.1076 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنور سے شام کو پٹیالہ واپس تشریف لائے تو پھر وز یر محمد حسین صاحب کی کوٹھی پر

Page 69

سیرت المہدی 29 62 حصہ چہارم حضور نے تقریر فرمائی.لیکن خاکسار اس کو سن نہ سکا.کیونکہ تقریر او پر کے حصہ مکان میں ہورہی تھی.اور مجمع اس قدر کثیر تھا کہ چھتوں کے گر جانے کے خوف سے پہرہ قائم کر دیا گیا تا کہ اور آدمی اندر نہ آنے پائیں.واپسی پر اسٹیشن پٹیالہ پر بھی ایسی ہی لوگوں کی کثرت تھی.1077 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپسی پر پٹیالہ کے اسٹیشن پر تشریف لائے تو حضور نے نماز مغرب خود پڑھائی.اس وقت ایک ناگوار واقعہ یہ ہوا کہ حضور وضو فرمانے لگے تو ہاتھ میں ایک رومال تھا جس میں قریباً یکصد روپیہ تھا تو حضور نے لوٹا ہاتھ میں لیتے وقت بے خیال کسی اجنبی شخص کو وہ رومال پکڑا دیا.اور نماز ادا کرنے کے بعد جب حضور نے رومال کے متعلق دریافت کیا تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا.جب اس امر کا چرچا ہونے لگا تو حضور نے منع فرمایا کہ زیادہ تجسس نہ کرو.شاید کسی ضرورت مند کے لئے خدا نے اپنے رحم سے ایسا کیا ہو.اس کے بعد گاڑی میں سوار کر راجپورہ پہنچ گئے.خاکسار بھی راجپورہ تک ساتھ گیا.اور جب حضور ریل گاڑی میں جو پنجاب کی طرف جانے والی تھی تشریف فرما ہوئے تو خاکسار نے ایک روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا کہ حضورا سے قبول فرمائیں.حضور نے فرمایا کہ آپ تو طالب علم معلوم ہوتے ہیں اس لئے یہ تکلیف نہ کریں.خاکسار نے عرض کی کہ میری آرزو یہ ہے کہ میرا یہ روپیہ اُس کتاب کی اشاعت کے مصارف میں شامل ہو جائے جو حضور نے تصنیف فرمائی ہے ( یعنی براہین احمدیہ ) اس پر حضور نے وہ روپیہ بخوشی قبول فرما کر جزائے خیر کی دعا کی.1078 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چند وصل مجسٹریٹ آریہ تھا اور اُس زمانہ میں ہی وہ کھدر پوش تھا.ایک دن دوران مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان ہو رہا تھا اور اس دن آدمیوں کی بہت کثرت تھی.اس لئے چند ولعل نے باہر میدان میں کچہری لگائی.اور بیان کے دوران میں حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نشان نمائی کا بھی دعوی ہے؟ آپ نے فرمایا.ہاں.اور تھوڑی دیر میں آپ نے فرمایا.جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں اور یہ بڑے جوش میں آپ نے فرمایا.اس وقت وہ سناٹے میں آگیا اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا.

Page 70

سیرت المہدی 63 حصہ چہارم 1079 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند ولعل مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامِ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَک “ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خدا نے آپ کو بتایا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے.وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل و خوار ہو گا ؟ آپ نے فرمایا.بےشک.اس نے کہا ”اگر میں کروں؟ آپ نے فرمایا ”چاہے کوئی کرے تو اس نے دو تین دفعہ کہا ”اگر میں کروں؟“ آپ یہی فرماتے رہے چاہے کوئی کرے پھر وہ خاموش ہو گیا.1080 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مقدمہ کے تعلق سے میں گورداسپور میں ہی رہ گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچا کہ واپسی پر مل کر جائیں.چنانچہ میں اور شیخ نیاز احمد صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب یکے میں قادیان کو روانہ ہوئے.بارش سخت تھی.اس لئے لیکے کو واپس کرنا پڑا اور ہم بھیگتے ہوئے رات کے دو بجے کے قریب قادیان پہنچے.حضور اُسی وقت باہر تشریف لے آئے.ہمیں چائے پلوائی اور بیٹھے باتیں پوچھتے رہے.ہمارے سفر کی تمام کوفت جاتی رہی.پھر حضور تشریف لے گئے.1081﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ستمبر ۱۹۰۷ء میں میں والد صاحب کے ساتھ قادیان آیا تو حضرت خلیفہ امسیح اول کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے خودہی ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یہ ۶ ارستمبر ۱۹۰۷ ء کا دن تھا.اسی سال میں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھا اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو چکا تھا.چنانچہ مئی ۱۹۰۸ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری دفعہ لا ہور تشریف لے گئے تو میں اُن دنوں لاہور میں ہی تھا.اُن ایام میں بھی مجھے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو دوپہر کے وقت میں اپنے کمرہ ہوسٹل میں سویا ہوا تھا کہ شیخ تیمور صاحب بڑی جلدی اور گھبراہٹ کے ساتھ تشریف لائے اور میرے پاؤں کو ہلا کر کہا کہ جلدی اٹھو اور میرے کمرہ میں آؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.چنانچہ میں فوراً اُٹھ کر اُن کے کمرہ میں گیا اور ہم نے کالج اور

Page 71

سیرت المہدی 64 حصہ چہارم ہوٹل سے چھٹی وغیرہ لینے کا انتظام کیا تاکہ حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان جاسکیں.یہ انتظام کر کے ہم احد یہ بلڈنکس پہنچ گئے اور پھر حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان آئے.اس موقعہ پر میں غالبا دودن قادیان ٹھہرا اور حضرت خلیفہ امسیح اول کی بیعت کرنے کے بعد واپس لاہور چلا گیا.ان ایام کے احساسات اور قلبی کیفیات کا سپر د قلم کرنا میرے جیسے انسان کے لئے مشکل ہے.1082 بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ستمبر ۱۹۰۵ء میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہلی دفعہ قادیان آیا اور ہم اس کوٹھڑی میں ٹھہرے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( یعنی خاکسار مؤلف ) کے مکان کے جنوب مشرقی کو نہ میں بیت المال کے دفاتر کے بالمقابل ہے.ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد کچھ وقت کے لئے مسجد مبارک کی چھوٹی کوٹھڑی میں جس میں حضور علیہ السلام خود نماز ادا فرمایا کرتے تھے تشریف رکھا کرتے تھے اور کچھ عرصہ سلسلہ کلام جاری رہا کرتا تھا.میں ان مواقع پر ہمیشہ موجودرہتا تھا.صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضور باہر سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.اکثر اوقات میں بھی دیگر احباب کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے چلا جایا کرتا تھا.1083 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ چھاؤنی میں دفتر سپرنٹنڈنگ انجینئر انہار میں ڈرافٹسمین تھے.ہم کو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج کل انبالہ چھاؤنی میں اسٹیشن کے قریب والے بنگلہ میں تشریف فرما ہیں.ہم دس اشخاص کی تعداد میں پٹیالہ سے روانہ ہوئے.چھاؤنی پہنچ کر سرائے متصل اسٹیشن کی مسجد میں شب باش ہوئے.صبح آٹھ بجے کے قریب قیام گاہ حضور پر پہنچے.اطلاع ہونے پر حضور نے شرف باریابی بخشا.ہمارے ہمراہیوں میں سے ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ مجھ کو ایک درویش نے ایک درود شریف بتایا ہوا ہے.اس کی تاثیر یہ بتائی تھی کہ کیسی ہی کوئی مشکل در پیش ہو یا کوئی بیماری ہو یا کوئی ملازمت وغیرہ کی خواہش ہو.عشاء کی نماز کے بعد اس درود شریف کا ورد کرنے سے یہ مشکل اور تکلیف دور اور مقصد حاصل ہو جاتا ہے.اس شخص نے یہ بھی بیان

Page 72

سیرت المہدی 65 59 حصہ چہارم کیا کہ چنانچہ اس وقت سے میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں اس درود شریف کا ورد شروع کرتا ہوں.چند روز میں ہی وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے.حضور نے سن کر یہ نہیں دریافت فرمایا کہ وہ کون سا درود شریف ہے بلکہ فرمایا.کہ ہر وہ کلام جس میں سرور کائنات پر صلوۃ وسلام بھیجنا مقصود ہو.خواہ کسی زبان میں ہو.درود شریف ہے.لیکن جو درود شریف نماز کے آخر میں متداول ہے وہ زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہے.اور درود شریف کے فضائل اور تاثیرات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں.اس کا عامل نہ صرف ثواب عظیم کا مستحق ہوتا ہے بلکہ دنیا میں بھی معزز اور مؤقر ہوتا ہے.میں خود اس کا صاحب تجربہ ہوں.آپ اس دور د کو پڑھتے جائیں جو درویش صاحب نے بتایا ہے لیکن میں یہ بتادینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ میں کسی ایسے درود شریف کا قائل نہیں ہوں کہ جس پر یہ بھروسہ کیا جائے کہ گو یا قضا و قدر کی کلید اب ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس درود خواں کے قبضہ میں آ گئی ہے.ذات باری کی صفت غنا اور قدیر کو سامنے رکھ کر جس قدر درود شریف پڑھو گے بابرکت ہوگا.لیکن اس قادر مطلق کی بعض قضایا تو ایسی بھی ہوئی تھیں جن کے سامنے ، جس پر تم درود بھیجتے ہو، اس کو تسلیم اور رضا کے سوا چارہ نہ تھا.اس کے بعد حضور نے یہ معلوم کر کے کہ ہم لوگ رات سے آئے ہوئے ہیں اور بخیال تکلیف و بے وقت ہونے کے حاضر خدمت نہ ہو سکے.حضور نے افسوس کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جب آپ صرف میری ملاقات کے ارادہ سے آئے تھے تو چھاؤنی پہنچ کر آپ ہمارے مہمان تھے.آپ کے رات کو مسجد میں سونے سے اور خوردونوش میں بھی جو تکلیف ہوئی ہوگی اس کے خیال سے مجھے تکلیف ہوئی.یہاں چار پائیاں وغیرہ سب سامان موجود رہتا ہے.آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوتی.اس کے بعد حضور نے کھانا منگوا کر ہم لوگوں کے ساتھ شامل ہو کر تناول فرمایا.بعد فراغت طعام سب اصحاب با ہر کوٹھی کے احاطہ میں درختوں کے نیچے آرام کرنے کے لئے آگئے جہاں کہ ضرورت کے موافق چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں.1084 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جاڑے کا موسم تھا اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں داب رہے تھے.حضور کو غنودگی کا عالم طاری ہو گیا.اور میں نے دیکھا کہ حضور کو پیشانی پر پسینہ آیا.میں اس وقت آپ

Page 73

سیرت المہدی 66 حصہ چہارم سے لپٹ گیا.آپ کی آنکھ کھل گئی تو مسکرانے لگے.میں نے کہا.حضور اس موسم میں پیشانی پر پسینہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ اس وقت آپ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے ہیں.آپ نے فرمایا! مجھے اس وقت ایک ہیبت ناک الہام ہوا.اور یہ عادت ہے کہ جب ایسا الہام ہو تو پسینہ آ جاتا ہے.وہ الہام بھی حضور نے مجھے بتایا تھا مگر اب مجھے وہ یاد نہیں رہا.1085 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جو بظاہر فائر العقل معلوم ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس خاکی وردی اور بوٹ پہنے ہوئے آیا اور سر پر کلاہ اور پگڑی تھی.وہ آکر حضرت صاحب کے سامنے جھک گیا.سر زمین سے لگا دیا.حضور نے اس کی کمر پر تین تھا پیاں ماریں اور وہ اٹھ کر ہنستا ہوا چلا گیا.مولوی عبدالکریم صاحب نے دریافت بھی کیا مگر حضور مسکراتے رہے اور کچھ نہ بتایا.1086 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر فرمارہے تھے کہ میرے درد گردہ شروع ہو گیا.اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میں برداشت نہ کر سکا اور چلا آیا.میں اس کو ٹھے پر جس میں پیر سراج الحق صاحب مرحوم رہتے تھے ٹھہرا ہوا تھا.حضرت صاحب نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نورالدین صاحب کو بھیجا.انہوں نے درد گردہ معلوم کر کے دوا بھیجی مگر اس کا کچھ اثر نہ ہوا.تکلیف بڑھتی گئی.پھر حضور جلدی تقریر ختم کر کے میرے پاس آگئے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں، منشی صاحب کے پاس ہر وقت رہیں اور حضور پھر گھر سے دوا لے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے.تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا.زینے پر چڑھنے اترنے میں دقت ہے.آپ میرے پاس آجائیں.آپ تشریف لے گئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھے سہارا دے کر حضرت صاحب کے پاس لے گئے.راستہ میں دو دفعہ میں نے دعا مانگی.مولوی صاحب پہچان گئے اور کہنے لگے کہ تم یہ دعا مانگتے ہو گے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہوتا کہ دیر تک حضرت صاحب کے پاس ٹھہرا رہوں.میں نے کہا ہاں یہی بات ہے.جب میں آپ کے پاس پہنچا تو

Page 74

سیرت المہدی 67 حصہ چہارم آپ کھانا کھا رہے تھے.دال ، مولیاں سر کہ اس قسم کی چیزیں تھیں.جب آپ کھانا کھا چکے تو آپ کا پس خوردہ ہم دونوں نے اٹھالیا اور باوجودیکہ کے مجھے مسہل آور دوائیں دی ہو ئیں تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہ آیا تھا.میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضور نے منع نہیں فرمایا.چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا.کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی.ہم دونوں مسجد میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے آگئے.فرضوں کا سلام پھیر کر حضور نے میری نبض دیکھ کر فرمایا.آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا.میرا بخار بھی اُتر گیا تھا.میں نے کہا حضور بخاراندر ہے.اس پر آپ ہنس کر فرمانے لگے.اچھا آپ اندر ہی آجائیں.عصر کے وقت تک میں اندر رہا.بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرات نہ کی.میں بالکل تندرست ہو چکا تھا.1087 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے تو ایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا.حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی.احباب نے خاکسار کو اس کام کے لئے انتخاب کیا.چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا.حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرما تھے.خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہو کر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی.حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی.خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بند یہ خاندان میں بیعت ہوں اور ان کے طریقہ کے مطابق ذکر واذکار بھی کرتا ہوں.ایک رات میں ذکر نفی اثبات میں حسب طریقہ نقشبندیہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لا کو وسط سینہ سے اٹھا کر پیشانی تک لے جاتا تھا.وہاں سے لفظ اللہ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے لفظ الا اللہ کی ضرب قلب پر لگاتا.کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہو کر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا.آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور نا قابل برداشت معلوم ہونے لگی کہ میں نے خیال کیا.اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہو کر چار پائی سے نیچے گر جاؤں.چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریں.

Page 75

سیرت المہدی 68 حصہ چہارم میں نے ذکر کو قصد بند کر دیا.چونکہ رات کافی گذر چکی تھی اسلئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آگئی.صبح بیدار ہونے پر حالت حسب معمول تھی.اس کے بعد میں نے بار ہا اس طرح عمل کیا مگروہ کیفیت پیدا نہ ہوئی.حضور نے سن کر فرمایا.کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پیدا ہو.میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے.حضور نے فرمایا.کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس میں ایک عالم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی.اس جیسی لذت میں نے کسی اور شے میں نہیں دیکھی.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کے لئے نہیں کرنی چاہئے بلکہ حکم کی تعمیل اور اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے.خدا چا ہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پیدا ہو سکتی ہے.اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے.اس کے حصول کے لئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے.خدا کی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے.خواہ لذت ہو یا نہ ہو.وہ اس کی مرضی پر ہے.پھر فرمایا.یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کے لئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طور پر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں.اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگا کہ آپ اس کو پھر چاہتے ہیں.اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ ہوئی.ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جس میں مستقل لذت پیدا ہوگی جو پھر جدا نہیں ہوگی.وہ اتباع سنت اور اسوہ حسنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے جس کی غرض خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے.ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو.پھر فرمایا.نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے.منہیات سے پر ہیز ضروری ہے.1088 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان جو کہ سخت سردیوں کے ایام میں آیا.اس کے گزارنے کے لئے دارالامان آیا.حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھے اور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھا اور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا.خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اُسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی.خاکسار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک گوشہ میں بستر لگالیا.اور بہت آرام و لطف سے وقت گزرنے لگا.حضرت صاحب ہر نماز کے لئے اسی کمرہ

Page 76

سیرت المہدی 69 حصہ چہارم سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے.ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا.خاکسار سامنے بیٹھا تھا.یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں.تعظیماً کھڑا ہو گیا.حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا.میں جب آگے بڑھا ( تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں.جن میں کھیر تھی.حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر اُن کو پہنچا دو، میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کئے.انہوں نے مسجد میں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے اُن احباب کو پہنچا دیئے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے.اس کے بعد پھر دروازہ کھلا.پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے.وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دیئے گئے.اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم اُن اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے.اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دیئے.اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کا نام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا.حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من وسلویٰ اتر آیا.1089 بسم الله الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.مسجد بھری ہوئی تھی.ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جاکر اور اطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر الا اللہ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے.اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اور نہ اسوہ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے.اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ ا مور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجددالف ثانی ہونے کا دعوی بھی کیا ہے.یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے.حضور نے فرمایا.اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی.اس وقت

Page 77

سیرت المہدی 70 0 حصہ چہارم اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کر دینا مناسب ہے.حضور نے فرمایا! اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جا نکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو.اور ان میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہو کر جان بلب ہوں.اور ان کے ہمراہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں.اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تاکسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہو جائے.یا دامن کوہ میں پتھروں کو تو ڑ کر اور بڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سوسو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے.لیکن جہاں دریا جاری ہو.کیا وہاں بھی ان تکالیف کو اٹھانے کی ضرورت ہے؟ فرمایا.پس شکر کرنا چاہئے کہ اس وقت خدا نے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑنا خدا کی ناشکری اور جہالت ہے.حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پر سرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوہ حسنہ سے ثبوت نہ تھا.حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود اُن متوفی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ ر کیک نہ فرمایا.بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا.1090 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے تھے.حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب ( حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کہتے ”ابا کنڈا کھول“ اور حضور اٹھ کر کھول دیتے.میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا.حضور بوریے پر بیٹھے تھے.مجھے دیکھ کر حضور نے پلنگ اٹھایا اور اندر لے گئے.میں نے کہا.حضور میں اٹھا لیتا ہوں.آپ فرمانے لگے بھاری زیادہ ہے آپ سے نہیں اٹھے گا.اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں.مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے.پہلے میں نے انکار کیا.لیکن آپ نے فرمایا.نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں.پھر میں بیٹھ گیا.مجھے پیاس لگی تھی.میں نے گھڑوں کی طرف نظر اٹھائی.وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا.آپ نے مجھے دیکھ کر

Page 78

سیرت المہدی 71 حصہ چہارم فرمایا.کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے.میں لاتا ہوں.نیچے زنانے سے جا کر آپ گلاس لے آئے.پھر فرمایا.ذرا ٹھہریے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے.جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں.بہت لذیذ شربت تھا.فرمایا ان بوتلوں کو رکھے ہوئے کئی دن ہو گئے کہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے.آج مجھے یاد آ گیا.چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا.میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں تو پھر میں پیوں گا.آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا.اور میں نے پی لیا.میں نے شربت کی تعریف کی.آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلا دیں.آپ نے اُن دو بوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا.میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا.1 109 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پاؤں دبا رہے تھے.اور حضرت صاحب کسی قد ر سو گئے.فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے.میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور کی آنکھ کھل گئی.آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے تھے.میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دیئے.آپ پھینکیں نہیں.میری جیب میں ہی ڈال دیں.کیونکہ انہوں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے.وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے.پھر وہ جیب میں ہی ڈال لئے.یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بھی اس کو حضور کی سوانح میں لکھا ہے.1092 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور محمد خان صاحب مرحوم قادیان گئے.اور حضرت اُم المومنین بہت سخت بیمار تھیں.مسجد مبارک کے زینے کے قریب والی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس ہم تین چار آدمی بیٹھے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ” تار برقی کی طرح إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ.إِنَّ كَيْدَ كُنَّ عَظِيمٌ “ گھڑی گھڑی الہام ہوتا ہے.اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب کوئی بات جلد وقوع میں 66

Page 79

سیرت المہدی 72 حصہ چہارم آنے والی ہوتی ہے تو اس کا بار بار تکرار ہوتا ہے.تھوڑی دیر بیٹھ کر جب آپ تشریف لے گئے تو پھر واپس آئے اور فرمایا کہ وہی سلسلہ پھر جاری ہو گیا.اِنَّ كَيْدَ كُنَّ عَظِيمٌ إِنَّ كَيْدَ كُنَّ عَظِيمٌ “ ان دنوں میر ناصر نواب صاحب کا کنبہ پٹیالہ میں تھا.اگلے دن پٹیالہ سے خط آیا.کہ اسحاق کا انتقال ہو گیا اور دوسرے بیمار پڑے ہیں اور والدہ صاحبہ بھی قریب الموت ہیں.یہ خط حضرت ام المومنین کی خدمت میں لکھا.کہ صورت دیکھنی ہو تو جلد آ جاؤ.حضور وہ خط لے کر ہمارے پاس آئے.مولوی عبد الکریم صاحب ، محمد خان صاحب اور خاکسار ہم تینوں بیٹھے تھے.جب حضور تشریف لائے.فرمانے لگے کہ یہ خط ایسا آیا ہے اور حضرت اُم المومنین کے متعلق فرمایا کہ وہ سخت بیمار ہیں.اگر ان کو دکھایا جائے تو ان کو سخت صدمہ ہوگا اور نہ دکھا ئیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں.ہم نے مشورہ دیا کہ حضور انہیں خط نہ دکھا ئیں.نہ کوئی ذکر ان سے کریں.کسی کو وہاں بھیجیں.چنانچہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اُسی وقت روانہ کر دیا گیا.اور انہوں نے جا کر خط لکھا کہ سب سے پہلے مجھے اسحاق ملا اور گھر جا کر معلوم ہوا کہ سب خیریت ہے.حافظ حامد علی صاحب پھر واپس آگئے.اور سارا حال بیان کیا.اس وقت معلوم ہوا کہ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ کا یہ مطلب تھا.یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے.1093 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص شملے میں رہتا تھا.اور اس کی بہن احمدی تھی.وہ شخص بڑا عیاش تھا.اس کی بہن حاملہ تھی اور حالات سے وہ مجھتی تھی کہ اس دفعہ میں ایام حمل میں بچنے کی نہیں.کیونکہ اسے تکلیف زیادہ تھی.اس نے اپنے بھائی کو مجبور کیا کہ اسے قادیان پہنچا دے.چنانچہ وہ اسے قادیان لے آیا ، اور کچھ دنوں کے بعد جب بچہ پیدا ہونے لگا تو پیروں کی طرف سے تھوڑا نکل کر اندر ہی مر گیا.یہ حالت دیکھ کر حضرت ام المومنین روتی ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئیں.اور فرمایا عورت مرنے والی ہے اور یہ حالت ہے.آپ نے فرمایا ہم ابھی دعا کرتے ہیں.اور آپ بیت الدعا میں تشریف لے گئے.دو چار ہی منٹ کے بعد وہ بچہ خود بخو داندر کو جانا شروع ہو گیا.اور پھر پلٹا کھا کر سر کی طرف سے باہر نکل آیا اور مرا ہوا تھا.وہ عورت بچ گئی.اور اس کا بھائی تو بہ کر کے اسی وقت احمدی ہو گیا.اور بعد میں صوفی کے نام سے مشہور ہوا.

Page 80

سیرت المہدی 73 حصہ چہارم 1094 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں ایک دفعہ دارالامان گیا ہوا تھا.گرمی کا موسم تھا.نماز ظہر سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.دس گیارہ اور احباب بھی حاضر تھے.اُس وقت ایک زمیندار نے جو کہ قریباً پچاس سالہ عمر اور اپر پنجاب کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا.بڑی عاجزی سے حضور کی طرف مخاطب ہو کر عرض کی کہ حضور میں کسی معاملہ میں ایک شخص کے یکصد روپیہ کا ضامن ہو گیا.وہ بھاگ گیا ہے.ہر چند گردو نواح میں تلاش کیا مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا.مجھ سے اس کی حاضری کا یا زرضمانت کا مطالبہ ہے.ہر روز چپراسی آکر تنگ کرتے ہیں.میں تنگ آکر نکل آیا ہوں.وہ میرے گھر والوں کو تنگ کرتے ہوں گے.مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ حضور کی دعا خدا قبول فرماتا ہے.اس لئے میں اتنی دور سے چل کر آیا ہوں کہ حضور دعا فرمائیں کہ خدا جلد سے جلد مجھ کو اس مشکل سے نجات دلائے.حضور نے اس کا یہ دردناک حال سن کر مع حاضرین دعا فرمائی.اس کے بعد حضور حسب معمول براستہ در بچہ اندرون خانہ تشریف لے گئے.وہ شخص بھی نیچے اُتر گیا.تھوڑی دیر کے بعد پھر دریچہ کھلا.دیکھا تو حضرت صاحب کھڑے ہیں.خاکسار بھی قریب ہی کھڑا تھا.حضور کے دونوں ہاتھوں میں روپے تھے.حضور نے مجھے بلا کر میرے دونوں ہاتھوں میں وہ روپے ڈال دیئے اور فرمایا کہ یہ سب اُس شخص کو دے دو جس نے ابھی دعا کروائی تھی.میں نے عرض کیا کہ وہ تو مسجد سے چلا گیا ہے.حضور نے فرمایا کہ کسی آدمی کو بھیج کر اُسے بلوالو.وہ ابھی ایسی جلدی میں کہاں گیا ہوگا.یہ کہہ کر کھڑ کی بند کر لی.خاکسار نے وہ سارا روپیہ حکیم فضل الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے آگے ڈھیری کر دیا.یہ دو اصحاب اور دو تین اور دوست بھی اس وقت مسجد میں موجود تھے.حکیم صاحب نے اُسی وقت چند آدمی اس شخص کی تلاش میں دوڑائے.اور مولوی صاحب روپیہ گن کر بیس بیس کی بیڑیاں لگانے لگے.غالباً اس لئے کہ اُس شخص کو دیتے وقت آسانی ہو.جب گن چکے تو ایک قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ لو دیکھو لو کہ اس سائل نے تو سورو پیر کا ذکر کیا تھا.لیکن حضرت صاحب جو روپیہ لائے ہیں وہ تو ایک سو بیس ہے.اور مجھ کو فرمایا کہ کھڑکی کی کنڈی ہلا کر حضرت صاحب سے ذکر کر دو کہ ان میں ہمیں روپیہ زائد آگئے ہیں.لیکن خاکسار سے مولوی صاحب کے اس ارشاد

Page 81

سیرت المہدی 74 حصہ چہارم کی تعمیل کرنے کی جرات نہ ہوئی.پھر مولوی صاحب نے حکیم صاحب کو کہا.مگر حکیم صاحب نے جواب دیا که مولوی صاحب یہ تجویز آپ کی ہے.آپ ہی اب ہمت بھی کریں.آخر مولوی صاحب نے خود اٹھ کر زنجیر ہلائی.اندر سے ایک خادمہ کے آنے پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ عبد الکریم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتا ہے.خادمہ کے جانے کے تھوڑی بعد حضور دریچہ پر آ کر کھڑے ہو گئے.مولوی صاحب نے سارا ماجرہ بیان کیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب خدا جانے وہ بیچارہ یہاں کیسے آیا ہے.اور اب اس کو جلد پہنچنے کے لئے کرایہ کی بھی ضرورت ہوگی.مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور کرایہ کے لئے چار پانچ روپیہ کافی ہے.حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس مصیبت میں وہ ہے ایسی حالت میں اس کی مشکل معاش کا بھی کیا حال ہوگا.آخر پانچ سات روز کا خرچ تو اس کے پاس ہو.اور فرمایا یہ جو کچھ ہم لائے ہیں ٹھیک سوچ کر لائے ہیں.یہ سب اُس شخص کو دے دو.یہ فرما کر کھڑ کی بند کر لی.اتنے میں وہ شخص بھی آ گیا.اُس کو روپیہ دیتے ہوئے مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایڈی چھیتی دعا قبول ہوندی کسے نے گھٹ ہی ڈٹھی ہوگی اور پھر وہ بھی سوائی یعنی اس قدر جلدی کسی کی دعا قبول ہوتی بہت کم دیکھی ہے اور پھر وہ بھی سوائی.1095 بسم اللہ الرحمن الرحیم شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان جاتے ہوئے اخبار چودھویں صدی راولپنڈی کا ایک پر چہ ساتھ لے گیا.جو سراج الدین صاحب بیرسٹر کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا تھا اور اس وقت کے اردو اخبارات میں مشہور تھا.اس کے ساتھ لے جانے کی غرض یہ تھی کہ ایک شخص جو سید محمود صاحب خلف سرسید مرحوم کا دوست تھا.اس نے ان سے علی گڑھ میں ملاقات کی اور ایک دو روز ان کے ہاں ٹھہرا.اور واپسی پر اس نے سید محمود کی قابل عبرت حالت کا نقشہ ایک مضمون میں کھینچ کر اس اخبار میں درج کروایا تھا.راقم مضمون نے لکھا تھا کہ مجھے اس دفعہ مسٹر محمود کو دیکھ کر سخت رنج وافسوس ہوا کہ وہ عالی دماغ شخص جس کی قابلیت قابل رشک اور قانون دانی انگریز جوں تک مسلمہ تھی.اس کو میں نے ایسی حالت میں پایا کہ ان کی جسمانی صحت نا قابل تلافی درجہ تک پہنچ چکی ہے.مگر باوجود اس کے وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے تھے.گویا شراب ہی اُن کی روح

Page 82

سیرت المہدی 75 حصہ چہارم رواں تھی.اور دن بھر جگت پھبتی بازی تمسخر اور استہزاء کے سوا ان کا کوئی علمی مشغلہ نہیں رہا.اور وہ بھی صحت کے لحاظ سے چراغ سحری ہے.مضمون مذکور میں اس لئے ساتھ لے گیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو ایسے حالات سے دلچسپی ہے.چنانچہ میں نے وہ مضمون حضرت مولوی صاحب کے پیش کیا.مولوی صاحب نے مضمون پڑھ کر اخبار خاکسار کو واپس دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پر چہ کو بحفاظت جیب میں رکھنا.اگر موقعہ میسر آیا تو حضرت صاحب کے پیش کریں گے.حضرت صاحب ایسے حالات بڑی توجہ سے سنتے ہیں.خاکسار نے وہ اخبار کوٹ کی جیب میں رکھ لیا.ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما تھے کہ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ یہ ایک اخبار لائے ہیں جس کا ایک مضمون حضور کے سننے کے قابل ہے.حضرت صاحب کے اشارہ پر میں نے وہ مضمون سنانا شروع کر دیا.حضور بڑی توجہ سے سنتے رہے.غالباً دو تین صفحات کا وہ مضمون تھا.جب مضمون ختم ہو چکا تو حضور نے مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ مولوی صاحب! اگر آج سید صاحب زندہ ہوتے تو میں اُن سے پوچھتا کہ جن دنوں مسٹر محمود ولایت میں تعلیم بیرسٹری پارہے تھے آپ کے دل سے بار ہا یہ دعا نکلی ہوگی کہ وہ ایسی قابلیت کا اہل ہو کہ انگریز بھی اس کی قابلیت کا سکہ مانیں.اور ایسے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو جس کے ماتحت انگریز ہوں لیکن یہ کبھی آپ کی آرزو دعاؤں کے وقت نہیں ہوگی کہ وہ خدا اور اس کے رسول کا فرمانبردار اور احکام شریعت کا دل سے پابند اور اسلام کا سچا خادم اور نمونہ ہو.پس جو کچھ آپ نے مانگاوہ مل گیا.اور خدا سے جس چیز کے مانگنے میں بے پرواہی کی جائے وہ نہیں ملتی.1096 بسم الله الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قادیان میں آریوں نے ایک اخبار نکالا تھا اور اس میں سلسلہ کے خلاف سخت کلامی اختیار کی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کے آریہ اور ہم ایک کتاب لکھی.اور حضور نے فرمایا تھا کہ خدا ایسا نہیں کر سکتا کہ یہ ہمارے ہمسائے میں رہ کر بدزبانی کریں اور بچ جائیں.پھر آریوں میں طاعون ہوئی.جس کو طاعون ہوتی ، میں اور شیخ یعقوب علی صاحب اُسے دیکھنے جاتے اور سب آریہ کا رکن اخبار مذکور کے جو تھے مر گئے.صرف مالک اخبار بیچ رہا.پھر اُسے بھی طاعون ہوئی.میں اور شیخ صاحب اسے دیکھنے جاتے.پھر

Page 83

سیرت المہدی 76 حصہ چہارم اسے پلنگ سے نیچے اتارلیا گیا.جیسا کہ ہندو مرتے وقت کرتے ہیں مگر وہ پھر ذرا اچھا ہو گیا اور اسے دوبارہ پلنگ پر لٹا دیا گیا اور وہ باتیں کرنے لگ گیا.بعض آر یہ جو ہمیں جانتے تھے ہم سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ مراد پوری نہیں ہوگی کہ یہ مرے.جب میں اور شیخ صاحب اس کے گھر سے واپس آئے تو ہمارے آنے سے پہلے کسی نے حضرت صاحب کی خدمت میں شکایت کر دی کہ یہ دونوں اس طرح آریوں کو مرنے دیکھنے جاتے ہیں.حضور بالائی نشست گاہ میں تشریف فرما تھے اور ہمیں وہیں بلوایا.کیونکہ ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ کسی نے ہماری شکایت کردی ہے.شیخ صاحب نے مجھے بھیجا.جب میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کیوں وہاں جاتے ہیں ؟ اور اسی وقت حضور نے فرمایا کہ مجھے ابھی الہام ہوا ہے جس کے معنے یہ تھے کہ مراے خائن ! اس الہام پر حضور نے فرمایا کہ اب جا کر دیکھو.میں اور شیخ صاحب اسی وقت گئے تو چیخ و پکار ہورہی تھی اور وہ مر چکا تھا.ہم وہاں بیٹھے اور پھر چلے آئے.رات کو مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیٹھک میں اس کے مرنے پر ہم نے ایک قسم کی خوشی کی.حضرت صاحب پر یہ بھی کسی نے ظاہر کر دیا.صبح کو جب آپ سیر کے لئے تشریف لے گئے تو ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ میرا ایک آدمی مر گیا ہے اور تم خوشی کرتے ہو ( مطلب یہ تھا کہ میں تو اس کے اسلام لانے کا خواہاں تھا) اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ ہم میں ایسا واقعہ نہ ہو جائے.ہمیں اس پر بہت شرمندگی ہوئی.راستہ میں لاہور سے تار آیا کہ الہی بخش اکو نٹنٹ پلیگ سے مر گیا.جس نے حضور کے خلاف ایک کتاب میں اپنے آپ کو موسیٰ اور حضرت صاحب کو فرعون اپنے الہام کی رو سے لکھا تھا.میں اس تار کوسن کر بے اختیار ہنس پڑا.حضرت صاحب میری طرف ذرا دیکھنے لگے تو میں نے عرض کی کہ حضور مجھے ہنسی اس لئے آگئی.کہ یہ اپنے آپ کو موسیٰ کہتا تھا اور موسیٰ صاحب پہلے ہی پلیگ سے چل دئے.آپ نے فرمایا! اس کی کتاب میں سے تمام وہ الہامات جو اس کو ہمارے خلاف ہوئے ہیں مجھے نکال کر دو.چنانچہ میں نے وہ نوٹ کر کے دے دیئے.1097 بسم الله الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہی بخش اکو نٹ کی کتاب سے الہامات نکال کر دیئے.تو اس لے الہام کے عربی الفاظ ہیں.مُتْ أَيُّهَا الخوان - تذکرہ ایڈیشن چهارم صفحه ۲۰۱ (ناشر)

Page 84

سیرت المہدی 77 حصہ چہارم دوران میں ایک طالب علم محمد حیات کو پلیگ ہو گیا.اس کو فوراً باغ میں بھیج کر علیحدہ کر دیا گیا.اور حضور نے مولوی نورالدین صاحب کو بھیجا کہ اس کو جا کر دیکھو.اس کے چھ گلٹیاں نکلی ہوئی تھیں اور بخار بہت سخت تھا.اور پیشاب کے راستہ خون آتا تھا.حضرت مولوی صاحب نے ظاہر کیا کہ رات رات میں اس کا مرجانا اغلب ہے.اس کے بعد ہم چند احباب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.محمد حیات کی تکلیف اور مولوی صاحب کی رائے کا اظہار کر کے دعا کے لئے عرض کی.حضرت صاحب نے فرمایا.میں دعا کرتا ہوں اور ہم سب روتے تھے.میں نے روتے روتے عرض کی کہ حضور دعا کا وقت نہیں رہا.سفارش فرمائیں.میری طرف مڑ کر دیکھ کر فرمایا.بہت اچھا.مسجد کی چھت پر میں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب سوتے تھے.دو بجے رات کے حضرت صاحب او پر تشریف لائے اور فرمایا کہ حیات خاں کا کیا حال ہے؟ ہم میں سے کسی نے کہا کہ شاید مر گیا ہو.فرمایا کہ جا کر دیکھو.اسی وقت ہم تینوں یا اور کوئی بھی ساتھ تھا.باغ میں گئے.تو حیات خاں قرآن شریف پڑھتا اور ٹہلتا پھرتا تھا.اور اُس نے کہا میرے پاس آجاؤ.میرے گلٹی اور بخار نہیں رہا.میں اچھا ہوں.چنانچہ ہم اس کے پاس گئے تو کوئی شکایت اس کو باقی نہ تھی.ہم نے عرض کی کہ حضور اسکو تو بالکل آرام ہے.غالباً صبح کو آ گیا.چونکہ اس کے باپ کو بھی تار دیا گیا تھا.اور ہم تینوں یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر اجازت لے کر قادیان سے روانہ ہو گئے.نہر پر اس کا باپ ملا جو یکہ دوڑائے آرہا تھا.اس نے ہمیں دیکھ کر پوچھا کہ حیات کا کیا حال ہے؟ ہم نے یہ سارا واقعہ سنایا.وہ یہ سن کر گر پڑا.دیر میں اُسے ہوش آیا.اور پھر وہ وضو کر کے نوافل پڑھنے لگ گیا اور ہم چلے آئے.1098 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کلکتہ کا ایک برہمن مجسٹریٹ خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہ تھا.وہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں خدا کا قائل نہیں ہوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا.کیا آپ خدا مجھے دکھا دیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کچھ عرصہ آپ ہمارے پاس ٹھہریں گے تو ہم آپ کو دکھا دیں گے اور یہ دریافت فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر ہوں.اور میں یہ سارا عرصہ ٹھہر سکتا ہوں.بشرطیکہ آپ خدا مجھے دکھا دیں.حضور نے فرمایا کہ آپ لندن گئے ہیں.اس

Page 85

سیرت المہدی 78 حصہ چہارم نے کہا نہیں.فرمایا لندن کوئی شہر ہے.اس نے کہا ہاں ہے.سب جانتے ہیں.فرمایا آپ لا ہور تشریف لے گئے ہیں اس نے کہا کہ میں لاہور بھی نہیں گیا.فرمایا.قادیان آپ کبھی پہلے بھی تشریف لائے تھے.اس نے کہا نہیں.فرمایا! آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ قادیان کوئی جگہ ہے اور وہاں پر کوئی ایسا شخص ہے جو تسلی کر سکتا ہے.اس نے کہا سنا تھا.آپ نے ہنس کر فرمایا.آپ کا تو سارا دارو مدار سماعت پر ہی ہے اور اُس پر پورا یقین رکھتے ہیں.پھر آپ نے ہستی باری تعالٰی پر تقریر فرمائی اور سامعین پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک کیفیت طاری ہو گئی.اور اس شخص کی دماغی حالت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ اقلیدس کی شکلوں کا ذکر کرنے لگا.اور حضرت مولوی صاحب نے اسے دوا منگوا کر دی.جب اس کی حالت درست ہوئی تو وہ حضرت صاحب کے پیروں کو ہاتھ لگا کر مسجد سے نیچے اتر آیا اور حضرت مولوی صاحب اس کے ساتھ ہی اتر آئے.اس نے یکہ منگوایا اور سوار ہو گیا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.کہ آپ ایسی جلدی کیوں کرتے ہیں.اس نے کہا کہ میں مسلمان ہونے کی تیاری نہیں کر کے آیا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر رات کو میں یہاں رہا تو صبح ہی مجھے مسلمان ہونا پڑے گا.مجھے خدا پر ایسا یقین آگیا ہے کہ گویا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے.میرے بیوی اور بچے ہیں اُن سے مشورہ کرلوں.اگر وہ متفق ہوئے تو پھر آؤں گا.اس کے بعد وہ چلا گیا.1099 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص یہودی تھا.اور وہ مسلمان ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو گیا تھا.ایک دن میں حضور کی محفل میں بیٹھا تھا.کسی دوست نے حضور سے اس کے متعلق پوچھا.آپ کی تعریف ! تو حضور 66 نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہیں.بلکہ یہ فرمایا ”آپ بنی اسرائیل صاحبان میں سے ہیں.“ 1100 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ اخیر نین بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں میں قادیان جانے کے لئے تیار ہوا.اُس وقت کے امیر جماعت مولوی عبداللہ خان صاحب مرحوم نے مجھ سے فرمایا.کہ ہمارے ایک پیغام کا یاد سے جواب لا نا.پیغام دریافت طلب یہ تھا کہ جس طرح حضرت صاحب کی نسبت نبی یا رسول کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں.کیا دیگر مجد دین امت و اولیاء کبار مثلاً حضرت مجددالف ثانی کی نسبت ایسے الفاظ استعمال ہو سکتے

Page 86

سیرت المہدی 79 حصہ چہارم ہیں؟ اور یہ تاکید فرمائی کہ اس کا جواب اگر ہو سکے تو خود حضرت صاحب سے حاصل کیا جائے.اگر ایسا موقعہ نہ میسر ہو تو پھر حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دریافت کیا جائے.خاکسار کئی روز کوشش میں رہا.مگر مناسب موقعہ نہ ملنے کے سبب حضور سے دریافت کرنے کی جرات نہ ہوئی.آخر جب میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا اور وہ شرط بھی ظاہر کر دی جو سائل صاحب نے لگائی تھی.حضرت مولوی صاحب نے ہنس کر فرمایا.کہ ابھی رخصت کے دو تین دن ہوں گے.ہم موقع نکال دیں گے.چنانچہ اُسی روز یا اگلے روز حضرت صاحب بعد نماز مغرب اوپر تشریف فرما تھے کہ حضرت مولوی صاحب نے میرے حوالہ سے یہ سوال حضور کے گوش گذار کیا.حضور نے سن کر جوش بھرے لہجہ میں فرمایا.کہ مولوی صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سوال پیدا ہی کیسے ہوتا ہے.جس شخص کو خدا نے اپنی وحی میں نبی کے لفظ سے نامزد نہ کیا ہو اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کے لفظ سے یاد نہ فرمایا ہو.اور نہ اس شخص نے خود نبوت کا دعوی کیا ہو.پھر سر پھرا ہے کہ اس کو نبی کے لفظ سے پکارا جائے یا اس کو نبی کہا جائے؟ 1101 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار چند روز کے لئے قادیان میں مقیم تھا.ایک دفعہ صبح آٹھ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے ہیں.خاکسار بھی ساتھ ہولیا.حضور ایسے تیز قدم جارہے تھے کہ کوشش کر کے شامل رہا جاتا تھا.پندرہ بیس کے قریب افراد حضور کے ساتھ ہوں گے.حضور بوہڑ کے درخت کے قریب پہنچ کر واپس ہوئے.واپسی پر جو گفتگو ہورہی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے چوک زیریں مسجد مبارک میں اُس مقام پر جہاں نواب صاحب کا مکان ہے.کھڑے ہو کر سلسلہ کلام کو جاری رکھا.خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری مرحوم زیادہ بات چیت میں حصہ لیتے تھے اور وہی حضور کے قریب کھڑے تھے.یہ مجھے یاد نہیں کہ کیا سلسلہ کلام تھا.کیونکہ پیچھے سے گفتگو ہوتی آرہی تھی اور بہت حصہ خاکسارسن بھی نہ سکا.سلسلہ کلام جب ختم ہوا تو حضور کی نظر فیض اثر خاکسار پر پڑ گئی اور بڑی شفقت سے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ آپ کی رخصت کتنے دن کی تھی.خاکسار نے عرض کی کہ رخصت تو پندرہ روز کی تھی مگر اب

Page 87

سیرت المہدی 80 60 حصہ چہارم صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں.کل واپسی کا ارادہ ہے.حضور نے فرمایا.دوروز پیشتر کیوں جاتے ہو.میں نے عرض کی کہ ایک روز تو راستہ میں صرف ہو جاتا ہے.اور ایک دن میں امرتسر میں اس لئے ٹھہرا کرتا ہوں کہ گھر کی فرمائشات اور بچوں کے لئے پھل وغیرہ خرید سکوں.اس پر حضور نے فرمایا.کہ وہ دوروز جو رخصت کے باقی ہیں وہ بھی یہیں ٹھہر کر ختم کرو.پٹیالہ تک راستہ کے لئے رات کافی ہے.پٹیالہ بڑا شہر ہے وہاں سب اشیاء مل سکتی ہیں.وہیں سے خرید کر بچوں کو دے دینے میں کیا حرج ہے.پھر خلیفہ رجب دین صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا.کہ میں اس نوجوان (یعنی خاکسار کرم الہی ) کو دیکھ کر بہت تعجب کرتا ہوں.یہ عمر کھیل تماشہ کی ہوتی ہے.اس کو جب وقت ملتا ہے یہ لا ہور اور امرتسر جیسے شہروں کی تفریحات اور تھیڑوں کو چھوڑتا ہوا یہاں آجاتا ہے.آخر اس نے کچھ تو دیکھا ہے.پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا.کہ کبھی تین ماہ کی رخصت لے کر آنا چاہئے.خاکسار نے عرض کی کہ سال میں ایک ماہ کا حق رخصت ہے.تین ماہ کی رخصت تب مل سکتی ہے کہ جب تین سال تک کوئی رخصت نہ لوں.خاکسار اس ایک ماہ کی رخصت کو دو دفعہ کر کے پندرہ پندرہ روز کے لئے اور کرسمس کی تعطیلات میں تین دفعہ حاضر ہو جاتا ہے.حضور نے فرمایا زیادہ دفعہ آؤ.اور زیادہ وقت کے لئے آؤ.آپ لوگ دفتروں کے ملازم ہیں.آپ کو معلوم ہوگا کہ احکام ہیڈ کوارٹرز میں آتے ہیں.بہت کم اُن میں سے مفصلات تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی دیر کے بعد.یہ خدا کی شان اور اس کی مرضی ہے کہ اس روڑیوں والے گاؤں کو خدا نے اپنا ہیڈ کوارٹر چن لیا ہے.(اس وقت وہاں تک روڑیوں یعنی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تھے جہاں آج احمد یہ بازار ہے ) پھر خلیفہ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا.کہ بعض لوگوں کو یہ بھی وسوسہ ہوتا ہے کہ مل لیا ہے.اب زیادہ دیر ٹھہر کرلنگر خانہ پر کیوں بار ہوں.یہ بھی صحیح نہیں بلکہ اس کے برعکس مہمانوں کے آنے اور قیام سے ہم کو راحت ہوتی ہے.تکلیف کی نوبت تو تب آئے کہ جب لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنے اور ان کی رہائش اور خورونوش کا انتظام دوجدا گانہ ہاتھوں میں ہو.لیکن یہاں تو دونوں امور ایک ہی خدا کے ہاتھ میں ہیں.ایسا نہیں ہوتا کہ خدا آدمیوں کو بھیجے اور اُن کے لئے سامان آسائش مہیا نہ کرے.پس یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے.چنانچہ اس دفعہ دوروز بقیہ رخصت کے دن بھی خاکسار نے دارالامان میں ہی گزارے.

Page 88

سیرت المہدی 81 حصہ چہارم 1102 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دن سیر کو تشریف لے جارہے تھے اور میرے پاس ڈبیا میں پان تھے.چلتے چلتے میں نے ایک پان نکال کر کھایا.آپ نے فرمایا.ہمیں بھی دو.میں نے ایک پان پیش کر دیا.بغیر اس خیال کے کہ پان میں زردہ ہے.میں نے وہ دے دیا اور آپ نے کھالیا.کھاتے ہی چکر آیا ہوگا.کیونکہ حافظ حامد علی صاحب سے حضور نے فرمایا کہ ذرا پانی کا لوٹالے کر ہمارے ساتھ چلو.وہاں قریب کے کنوئیں سے پانی لیا گیا.اور آپ دور تشریف لے گئے.حافظ صاحب بھی ساتھ تھے.آپ کی عادت شریفہ تھی کہ راستہ میں اگر پیشاب کرنے کی حاجت ہوتی تو اتنی دور چلے جاتے تھے جتنا کہ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں.اس لئے میں نے سمجھا کہ پیشاب کرنے تشریف لے گئے ہیں.وہاں جا کر آپ کو استفراغ ہوا.اور پانی سے منہ صاف کر کے تشریف لے آئے.مجھے جب خیال آیا کہ پان میں زردہ تھا تو میں سخت نادم تھا.آپ نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمایا.منشی صاحب آپ کے پان نے تو دوا کا کام کیا.مجھے کچھ گرانی سی تھی بالکل رفع ہو گئی.1103 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی ، مولوی عبدالرحیم صاحب میں تھی ، چند اور احباب اور خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے.حضور نے ایک اردو عبارت سنا کر فرمایا کہ اس مضمون کی مجھے یاد ہے کہ ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے اور ترمذی شریف جو عربی میں تھی منگوا کر مولوی محمد احسن صاحب کو دی کہ اس میں سے نکالیں.مولوی صاحب موصوف علم حدیث میں بہت کامل سمجھے جاتے تھے.انہوں نے بہت دیر تک دیکھ کر فرمایا کہ حضور اس میں تو یہ حدیث نہیں ہے.آپ نے فرمایا.مولوی عبدالرحیم صاحب کو کتاب دے دو.ان کو بھی وہ حدیث نہ ملی.پھر آپ نے فرمایا.منشی صاحب یعنی خاکسار کو دے دو.میں نے کتاب کھول کر دو تین ورق ہی الٹے تھے کہ وہ حدیث نکل آئی اور میں نے حضور کی خدمت میں پیش کردی کہ حدیث تو یہ موجود ہے آپ اسے پڑھتے رہے اور مولوی محمد احسن صاحب بہت حیران ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بڑے فقیہ ہیں.میں نے کہا کہ میری فقاہت اس میں کیا ہے.یہ حضور کا تصرف ہے.

Page 89

سیرت المہدی 82 88 حصہ چہارم مجھے تو اچھی طرح عربی بھی نہیں آتی.1104 بسم الله الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کوتشریف لے جاتے تو کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول کو منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے.اور لوگ منتظر رہتے کہ آپ کا چھوڑا ہوا پانی پیئیں.مگر حضور عموماًوہ ڈول مجھے عطا فرماتے.بعض دفعہ کسی اور کو بھی دے دیتے.1105 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک محمد سعید صاحب عرب تھے اور وہ ڈاڑھی منڈوایا کرتے تھے.جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوں نے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا.آخر انہوں نے داڑھی رکھ لی.ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے.آپ نے فرمایا اچھی ہے اور پہلے کیسی تھی.گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے.1106 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن محمد سعید صاحب عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی داڑھی کے متعلق پوچھا.اُس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور داڑھی کتنی لمبی رکھنی چاہئے.آپ نے فرمایا کہ میں داڑھیوں کی اصلاح کے لئے نہیں آیا.اس پر سب چپ ہو گئے.1107 بسم الله الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.غالبا ۱۸۸۸ء کے آخر یا ۱۸۸۹ء کے شروع میں خاکسار ریاست پٹیالہ کی طرف سے ریلوے میل سروس میں ریکارڈ کلرک ملازم ہو کر راجپورہ میں مقیم تھا کہ ایک روز شام کی گاڑی سے حاجی عبدالرحیم صاحب انبالوی پنجاب کی طرف لے جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے.خاکسار پلیٹ فارم پر پھرتا ہوا ان سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج کل لدھیانہ میں تشریف رکھتے ہیں.تو بھی چل، قریب ہیں، زیارت کا موقعہ ہے.میں نے بلا اجازت ہیڈ کوارٹر چھوڑنے کی معذوری ظاہر کی.اور وعدہ کیا کہ اگر

Page 90

سیرت المہدی 83 حصہ چہارم اجازت مل گئی تو حاضر ہو جاؤں گا.اتفاق سے اُسی روز اجازت مل گئی.اور خاکسارا گلے دن صبح ہی لدھیانہ پہنچ گیا.یہ وہ وقت تھا جب قبلہ میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ سے لدھیانہ تبدیل ہو چکے تھے.بمشکل پتہ لے کر قریب نماز عصر یا بعد نماز عصر جائے قیام حضرت صاحب پر پہنچا.جمعہ کا دن تھا.نماز جمعہ خاکسار نے جامع مسجد میں پڑھی.وہیں سے حضور کے جائے قیام کا پتہ بھی چلا تھا.مکان مذکور کا بیرونی دروازه شرقی رویہ تھا.اندر صحن میں چبوترہ بنا ہوا تھا.اس پر حضرت صاحب مع چند رفقاء کے تشریف فرما تھے اور تقریر فرما رہے تھے.جو حصہ میں نے تقریر کا سنا اس سے معلوم ہوا کہ موضوع تقریر یہ ہے کہ مسلمان حضور کے اعلان بیعت کے خلاف کیا کیا عذرات کر رہے ہیں.حضور نے فرمایا کہ علماء کا گروہ اول تو یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی جید عالم نہیں.نیز فرقہ اہل حدیث والے یہ کہتے ہیں کہ یہ آمین اور رفع یدین جیسی سنت کا تارک ہے اور حنفی کہتے ہیں یہ فاتحہ خلف الامام کا عامل ہے.اس لئے مجدد کیسے ہو سکتا ہے.صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کے ۱۴ خاندان اور ۳۲ خانوادہ جو وہ بناتے ہیں.اُن میں سے یہ کسی میں داخل نہیں.پھر ہم اس کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ کوئی ان سے پوچھے کہ تم نے جو ۱۴ اور ۳۲ کی تعداد مقرر کی ہے.کوئی وقت ایسا بھی تھا.کہ وہ ایک نمبر سے شروع ہوئے تھے.خدا نے اب سب کو مٹا کر اب پھر از سرنو نمبرا سے شروع کیا ہے.اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ باوجود ہمارے ساتھ حسن ظن رکھنے کے بیعت سے رکا ہوا ہے.جس طرح چور کسی مکان میں نقب لگانے کے لئے مکان کے کسی کمز ور حصہ کو منتخب کرتا ہے.اسی طرح شیطان نے بھی جب دیکھا کہ ایسے لوگ کسر نفسی کے تحت ہی شکار ہو سکتے ہیں ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کیا کہ یہ بات تو بے شک درست ہے مگر شرائط بیعت ایسی نازک اور مشکل ہیں کہ دنیا دارانہ زندگی میں اُن کی پابندی ناممکن ہے.جب کلام اس مرحلہ پر پہنچا تو حاجی عبد الرحیم صاحب نے جو اس مجمع میں مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور جو اس سے قبل ہر ملاقات میں مجھے بیعت کے لئے کہتے تھے اور میں ایسا ہی عذر کر کے ٹلا دیتا تھا انہوں نے حضرت صاحب سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی.اجازت ملنے پر میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا اور کہا حضور جس گروہ کا حضور نے آخر نمبر پر ذکر فرمایا ہے اُن میں سے ایک یہ شخص بھی ہے.حضور نے خاکسار کی طرف نظر کر کے فرمایا کہ ہمارے بہت

Page 91

سیرت المہدی 84 حصہ چہارم دیرینہ ملنے والے ہیں ان کو تو ایسا خیال نہیں ہونا چاہئے.پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کو اس میں کیا مشکل نظر آتی ہے؟ میں نے عرض کیا.حضور ایک ہی شرط جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے کیا کم ہے.اور دوسری شرائط بھی ایسی ہی ہیں.اس پر حضور نے فرمایا! کہ اچھا اگر یہ شرائط سخت اور نا قابل عمل ہیں تو کیا آپ کا یہ منشا ہے کہ یہ شرط ہوتی کہ بیعت کر کے جو منہیات اہو کرو کوئی روک ٹوک نہیں.تو کیا آپ لوگ نہ کہتے کہ یہ ایک جرائم پیشہ کا گروہ ہے اس میں کسی شریف آدمی کا شمول کیسے ہو سکتا ہے.فرمایا! اس بارہ میں لوگوں کو دھوکا لگا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیعت وہی کرے جو پہلے سے ولی اللہ ہو.حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ایسے بننے کا ارادہ اور دلی خواہش ضرور ہونی چاہئے.جس کا ارادہ ہی طلب حق نہ ہواس کو ہم کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ ہرگز ہماری بیعت میں شامل نہ ہو.فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ اس شہر میں کالج ہوگا.اگر کوئی طالب علم پرنسپل سے جا کر کہے کہ مجھ کو کالج میں تو داخل کر لو مگر میں نے پڑھنا وغیرہ نہیں تو پرنسپل اُس کو یہی جواب دے گا.کہ مہر بانی رکھو تم ہمارے دوسرے طلباء کو بھی کھلنڈرا بنا کر خراب کر دو گے.بات یہ ہے کہ ایک طالب نیک نیتی سے خدا کی رضا جوئی کے لئے بیعت کرتا ہے گویا وہ معاہدہ کرتا ہے.خدانخواستہ اگر اس کو کسی منکر یا برائی کا موقعہ پیش آجائے تو اس کو اپنے عہد کا خیال آکر اس سے روک کا موجب ہوگا.علاوہ از میں خود بیعت لینے والے کی ہمدردانہ دعاؤں کی برکت بھی شامل حال ہوتی ہے.اور اگر نیت نیک اور عزم راسخ ہوتو ہر شخص اپنے عزم و استقلال اور استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا ہے.خدا رحیم کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا.خاکسار نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہے تو مجھ کو بیعت کرنے میں کوئی عذر نہیں.لیکن میں اس سے قبل طریقہ نقش بندیہ میں بیعت ہوں.حضور نے فرمایا ! کوئی مضائقہ نہیں.یہ بھی ایک وسوسہ ہے.کیا علم میں ایک سے زیادہ استاد نہیں ہوتے اور بیعت تو بعض اوقات ایک ایک امر کے متعلق بھی ہو سکتی ہے.1108 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر لدھیانہ میں سنی.جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب ادا کی گئی.امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی.اور پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی.اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی.

Page 92

سیرت المہدی 85 حصہ چہارم اس کے بعد حضور نے بیعت لی.اس روز ہم دو آدمیوں نے بیعت کی تھی.پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آگئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا.حضور نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی اور بیعت لی.بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی.اگر اجازت ہو تو اب بھی منگوالی جائے.فرما یالا زمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہئے تو ہم منع نہیں کرتے.اور فرمایا.ایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں.ان کے ماخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اور غور کرنے سے مل سکتے ہیں.مثلاً یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے.حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کر دے تو خدا تعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا.یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے.اگر کوئی اس نیت سے ایسا کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا.لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اور دوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ و پند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا.جس کے لئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو.بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی اس لئے وہاں چلیں گے اور مجلس میں جا کر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے.جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے پیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یا دوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.1109 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دن مسجد مبارک میں ریا پر تقریر فرمارہے تھے.کہ ریا شرک ہے.تھوڑی سی دیر میں ایک دوست نے پوچھا کہ حضور کو بھی کبھی ریا کا خیال آیا ہے.فرمایا کہ ریا ہم جنس سے ہوا کرتی ہے.1110 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ

Page 93

سیرت المہدی 86 حصہ چہارم جب میں قادیان میں ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاک میرے سپرد ہوتی.میں ڈاک سنایا کرتا تھا.ایک خط پر لکھا ہوا تھا کہ کوئی دوسرا نہ کھولے.باقی خطوط تو میں نے سنائے لیکن وہ خط حضور کے پیش کر دیا.آپ نے فرمایا.کھول کر سنا ئیں.دوسرے کے لئے ممانعت ہے.ہم اور آپ تو ایک وجود کا حکم رکھتے ہیں.میں نے وہ خط پڑھ کر سنا دیا.نویسندہ نے اپنے گناہوں کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی تھی.اور بڑی عاجزی اور انکساری سے خط لکھا تھا.اس کی تحریر سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ ایک آگ میں پڑا ہوا ہے.اور حضور اُسے جلدی کھینچ کر نکالیں.آپ نے فرمایا.یہ خط مجھے دے دیں.میں خود اس کا جواب لکھوں گا.جس طرح واشگاف حال اس نے لکھا ہے مجھے اس کی خوشی ہوئی.ایسے لوگ کم دیکھے گئے ہیں.1111 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میرے لئے ایک سبک اور عمدہ دیسی جو تا بنوا کر لائیں.میں پیر کا ماپ بھی لایا.اور پھگواڑہ کے ایک معروف موچی سے جو تا بنوایا.بنوا کر لے گیا.حضرت ام المومنین کے پیر میں وہ ڈھیلا آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے خود پہن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا.کہ اُن کے پیر میں تو ڈھیلا ہے مگر ہم پہنا کریں گے میں نے پھر دوبارہ اور جو تا بنوا کر بھیجا.(1112 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے.پیر میں جو جو تا تھا.اُس کو پیوند لگے ہوئے تھے اور بدزیب معلوم ہوتا تھا.میں آپ کی ہمراہی سے ہٹ کر ایک دوکان پر گیا اور آپ کے پیر کا بہت ٹھیک جو تا خرید کر لایا.آپ مجھے سیر سے واپسی پر ملے.میں جوتا لئے ساتھ چلا آیا اور مکان پر آکر پیش کیا کہ حضور وہ جوتا تو بُرا لگتا ہے.آپ نے جزاکم اللہ فرما کر نیا جو تا رکھ لیا.اور پہن کر بھی دیکھا تو بہت ٹھیک تھا.اگلے دن جب حضور سیر کو تشریف لے گئے تو وہی پرانا جوتا پیوند کیا ہوا پہنے ہوئے تھے.میں نے عرض کیا کہ حضور نے تو پھر وہی جوتا پہن لیا.آپ نے فرمایا اس میں مجھے آرام معلوم ہوتا ہے اور اس کو پیر سے موافقت ہوگئی ہے.1113 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں

Page 94

سیرت المہدی 87 حصہ چہارم ایک دفعہ بوٹ پہنے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھا.میرا بوٹ ذرا تنگ تھا.اس لئے میں تکلیف سے چلتا تھا کیونکہ حضور بہت تیز چلتے تھے.آپ نے مجھے دیکھ کر اپنے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہم تو ایسا جوتا پہنتے ہیں یعنی آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں.1114 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے دو تین امور کے متعلق استفسار کیا.وہ سوالات اور جوابات جو حضور نے ازرہ شفقت فرمائے ، یہ ہیں.سوال نمبرا خاکسار نقش بندیہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں.میں بھی شامل رہا ہے.اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے.اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے.جواب: حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف و موافق ہر دو فریق نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے.ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں.یہاں تک کے حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں.اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے.جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، چاہے دوسری نماز بھی ادا ہو جائے یا دونوں ضائع ہو جائیں.فرمایا ! یہ بہت بُری بات ہے.نما ز جیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پر دال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کر دیں گے مگر اہل حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریں گے.فرمایا.کہ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طور پر جمع کرنی پڑتی ہے.اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا.جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر اس کی اجازت کیسے ہوتی.دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے.سوال نمبر ۲: خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال و قال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدرگر یہ و بکا اور چیخ و پکار جو کرتے ہیں مجھے

Page 95

سیرت المہدی 88 حصہ چہارم پر بھی کوئی حالت کم از کم رفت وغیرہ ہی طاری ہو گر مجھے بھی رقت نہیں ہوئی.جواب: حضور نے فرمایا کہ ان مجالس میں جو شور و شغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے.لیکن مومن کے لئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے.اس کے لئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے ادا کرنا اور کثرت استغفار و درودشریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اهدنا الصراط المستقیم کا تکرار بطور علاج فرمایا.سوال نمبر ۳ خاکسار نے بطور دور دو وظائف کچھ پڑھنے کے واسطے دریافت کیا.تو حضور نے فرمایا کہ آپ کی ملازمت بھی نازک اور ذمہ واری کی ہے.بس نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کرنا اور اتباع سنت اور چلتے پھرتے درود شریف، استغفار پڑھئے اور وقت فرصت قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کو کافی فرمایا.خاکسار کے مکر راصرار پر نماز فرض کے بعد اُسی نشست میں گیارہ دفعہ لا حول ولاقوۃ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا.1115 بسم الله الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی بشیر احمد بھو پالوی سے مباحثہ فرمایا تھا.اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا.حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ہمراہ تھے.ان دنوں میری شادی و نکاح کا مرحلہ در پیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیا دارانہ وضع کے پابند اور نام و نمود کے خوگر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثر شادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاروں میں مصروف تھے.خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا.میں نے اپنی جائے ملازمت را جپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق و تمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کا پیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر

Page 96

سیرت المہدی 89 حصہ چہارم بزرگان کے نام بھجوادیں.اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا.والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اور اُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا.میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے.میں تو اسی طرح کروں گا جیسا میرا دل چاہتا ہے.تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں.اس کا جواب خاموش رہنے کے سوا اور میرے پاس کیا تھا.آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے.اپنی یہ مشکل پیش کی.انہوں نے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرات نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے ادا کرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کر دو.چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا.اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہو کر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے.اس لئے ان حالات میں میں سخت پریشانی اور تردد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے.ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جاتے.ایک دن موقعہ پا کر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا.حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنا اور فرمایا کہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرما ہیں.اس لئے اس معاملہ کو حضور کے پیش کر دو.میں نے عرض کیا کہ لوگوں کی ہر وقت آمد و رفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے.مولوی صاحب نے فرمایا.موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے.خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا.حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض وا پسی را جپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم راجپورہ پر تشریف لائے تو

Page 97

سیرت المہدی 90 حصہ چہارم مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرما کر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کر دیا.حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں.میں نے عرض کیا کہ میں نے اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کا پیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچا ئیں.مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاً اس کے خلاف اور اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر تم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کر دو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا.میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میرا اُن سے انقطاع انجام ہوگا.اس کے بعد فرمایا.آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی.خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایا کہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جو خلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو.دل سے نا پسند کرنے کے با وجود کچھ تعرض نہ کرو.اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا.پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا.میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دے سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کا اور اُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے.اتنے میں گاڑی آگئی.خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا! کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کر دیا.میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے.دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے.چنانچہ یہ معاملہ بلا مخالفت گزر گیا.1116 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں تھے تو وہاں ہیضہ بہت پھیلا ہوا تھا.اور منادی ہورہی تھی.

Page 98

سیرت المہدی 91 حصہ چہارم تو چراغ خادم نے آ کر کہا کہ پوریاں اور حلوا خوب کھایا جائے اس سے ہیضہ نہیں ہوگا.اُس نے زنانہ میں آکر یہ ذکر کیا تھا.دراصل اُس نے مذاق کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پانچ چھ روپے لے کر باہر تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو کھلایا جائے کیونکہ چراغ کہتا تھا کہ ایسی منادی ہورہی ہے.مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ چراغ تو شریر ہے.یہ چیز تو ہیضہ کے لئے مضر ہے.چراغ نے تو ویسے ہی کہہ رہا ہے.آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے.شاید کوئی نئی تحقیق ہوئی ہو.آپ پھر گھر میں تشریف لے گئے.آپ کے جانے کے بعد میں نے چراغ کو ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا بات کی تھی.اُس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ حضرت جی اندر بیٹھے ہیں.1117 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خارش ہوگئی.اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں.دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی.میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا.عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پرنم ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کا ہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلا دیا.اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا.خدا جانے کس قدرعرصہ مجھے سجدہ میں لگا.جب میں نے سر اٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں.1118 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے.جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا.ایک شخص نبی بخش نمبر دار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا.میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیئے ہوئے بیٹھے تھے.اور ایک

Page 99

سیرت المہدی 92 حصہ چہارم صاحبزادہ جو غالبًا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے پاس لیٹے تھے.اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا.معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا.میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے.فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزرہی جائے گی.نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبر دار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے.وہ شرمندہ ہوا.اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں.پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا.لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا.آپ نے فرما یا کسی اور مہمان کو دے دو.مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی.اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا.اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو.پھر میں لے آیا.1119 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے.ایک سو پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے.بڑے مخلص اور ہماری جماعت میں قابل ذکر آدمی تھے.وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت صاحب کو بھیج دیتے تھے.ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا.ان کے محض ایک لڑکا تھا.وہ بیمار ہوا تو وہ اُسے قادیان لے آئے مع اپنی اہلیہ کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان میں قیام پذیر ہوئے.حضرت اقدس نے ایک دن فرمایا کہ رات میں نے رویاء دیکھا.کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے.مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا.جب آپ نے رویاء کا ذکر فرمایا تو اُس سے اگلے روز چوہدری صاحب کا لڑکا فوت ہو گیا.کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا.اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اس کے منہ سے نکلا.ارے ظالم! تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا.ایسے الفاظ وہ کہتی رہی.جو حضرت صاحب نے سن لئے.اُسی وقت آپ باہر تشریف لائے اور آپ کو بڑا رنج معلوم ہوتا تھا.اور بڑے جوش سے آپ نے فرمایا.کہ اسی وقت وہ مرد و عورت میرے گھر سے نکل جائے.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی والدہ جو بڑی دانشمند اور فہمیدہ تھیں.انہوں نے چوہدری صاحب کی بیوی کو سمجھایا اور کہا کہ حضرت صاحب سخت ناراض ہیں.اُس نے توبہ کی اور معافی مانگی اور کہا کہ اب میں رونے کی بھی نہیں.میر صاحب کی والدہ نے حضرت صاحب سے آکر ذکر کیا.کہ اب

Page 100

سیرت المہدی 93 حصہ چہارم معافی دیں.وہ تو بہ کرتی ہے.اور اُس نے رونا بھی بند کر دیا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا اُسے رہنے دو اور تجہیز وتکفین کا انتظام کرو.1120 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا جب انتقال ہوا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لائے.میں موجو دتھا.فرمایا کہ لڑکے کی حالت نازک تھی.اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا اس کے پاس بیٹھ جائیں.میں نے نماز نہیں پڑھی.میں نماز پڑھ لوں.فرمایا کہ وہ نماز میں مشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہو گیا.میں ان خیالات میں پڑ گیا کہ جب اس کی والدہ لڑکے کے فوت ہونے کی خبر سنے گی تو بڑا صدمہ ہوگا.چنانچہ انہوں نے سلام پھیرتے ہی مجھ سے پوچھا کہ لڑکے کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ لڑکا تو فوت ہو گیا.انہوں نے بڑے انشراح صدر سے کہا کہ الحمدللہ ! میں تیری رضا پر راضی ہوں.ان کے ایسا کہنے پر میرا غم خوشی سے بدل گیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ تیری اولاد پر بڑے بڑے فضل کرے گا.باہر جب آپ تشریف لائے ہیں تو اس وقت آپ کا چہرہ بشاش تھا.کئی دفعہ میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ کسی کی بیماری کی حالت میں بہت گھبراتے تھے اور مریض کو گھڑی گھڑی دیکھتے اور دوائیں بدلتے رہتے تھے.مگر جب مریض فوت ہو جاتا تو پھر گویا حضور کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی.چنانچہ میاں مبارک احمد صاحب کی بیماری میں بھی بہت گھبراہٹ حضور کو تھی اور گھڑی گھڑی باہر آتے تھے.پھر دوا دیتے.لیکن اس کی وفات پر حضرت ام المومنین کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے.فرمایا کہ جب قرآن شریف ميں إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِین کہ جب صابروں کے ساتھ اللہ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے.لڑکے کا فوت ہونا اور حضور کا تقریر کرنا ایک عجیب رنگ تھا.1121 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ محکمہ ریلوے سروس میں ریکار ڈ کلرک رہنے کے بعد چونکہ اس پوسٹ میں آئیندہ ترقی کی کوئی امید نہ تھی.اس لئے میرے والد صاحب نے میرا تبادلہ صیغہ پولیس میں کروا دیا.اور سب انسپکٹری بٹھنڈہ پر میری ماموری ہوگئی.لیکن یہ تبادلہ میری خلاف مرضی ہوا تھا.ورنہ میں صیغہ پولیس کو اپنی طبیعت کے خلاف محسوس کرتا تھا.

Page 101

سیرت المہدی 94 حصہ چہارم ماموری کے بعد بڑے تامل سے اپنے والد صاحب کے اس وعدہ کرنے پر کہ عنقریب تبادلہ ہو جائے گا.بادِلِ ناخواستہ حاضر ہوا.اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پے در پے تبادلہ کے لئے لکھتا رہا.کافی عرصہ کے بعد جب تبادلہ سے ناامیدی سی ہوگئی تو میں نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہو.اپنے والد صاحب سے اجازت لئے بغیر استعفیٰ پیش کردوں گا.خدا رازق ہے کوئی اور سبیل معاش پیدا کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مولوی عبد الکریم صاحب کے ہاتھ کا خط لکھا ہوا موصول ہوا.اس میں تحریر تھا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خط میں جو تکالیف آپ نے اپنی ملازمت میں لکھی ہیں.اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا آپ کے طرز عمل سے بہت آسائش اور اطمینان کی حالت میں ہے.اور آپ کو خدا نے خدمت خلق کا بہترین موقعہ عطا فرمایا ہے جس کو باسلوب انجام دیتے ہوئے خدا کا شکر بجالا ؤ.رہا تکالیف کا معاملہ سوکوئی نیکی نہیں جو بلا تکلیف حاصل ہو سکے.دعائیں کرتے رہو.خدا اس سے کوئی بہتر صورت پیدا کر دے گا.اور جب تک کوئی دوسری صورت پیدا نہ ہو.استعفیٰ کا خیال تک دل میں نہ لاؤ.کیونکہ دنیا دارالابتلاء ہے اور انسان یہاں بطور امتحان بھیجا گیا ہے.جو شخص ملازمت کو چھوڑتا اور اس کے بعد کسی دوسری سبیل کی تلاش میں ہوتا ہے.اکثر اوقات ابتلاء میں پڑ جاتا ہے.کیونکہ وہ اپنی آزمائش میں پورا اُترنے کی بجائے خدا کو آزمانا چاہتا ہے کہ ہم نے ملازمت چھوڑی ہے.دیکھیں اس کے بعد اب خدا اس سے بہتر صورت ہمارے واسطے کیا کرتا ہے.یہ طریق گستاخانہ ہے.اس لئے بنے ہوئے روز گارکواس سے قبل چھوڑ نا کہ جب خدا اس کے لئے کوئی اُس سے بہتر سامان مہیا فرمائے.ہمارے مسلک کے خلاف ہے.اس جواب کے موصول ہونے پر خاکسار نے وہ ارادہ ترک کر دیا.اور صیغہ پولیس ہی سے پینشن یاب ہوا.1122 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے گھر میں بوجہ کمزوری قوی وغیرہ دیرینہ مرض اٹھرا تھا.تقریبا دس بچے صغیر سنی ، شیر خوارگی میں ضائع ہو گئے ہوں گے.ہمیشہ حضرت مولوی (نورالدین) صاحب کا معالجہ جاری رہتا مگر کامیابی کی صورت نہ پیدا ہوئی.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حالات سن کر مولوی صاحب نے از راہ شفقت نکاح ثانی کا اشارہ بھی

Page 102

سیرت المہدی 95 حصہ چہارم کیا.لیکن میں اپنی مالی حالت اور دیگر مصالح کی بناء پر اس کی جرأت نہ کر سکا.آخر مولوی صاحب نے معالجہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ ان ادویات کا استعمال صورت حمل کے شروع دو ماہ سے کر کے ساری مدت حمل میں کراتے رہو.چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع کر دیا گیا.جب چھ سات ماہ کا عرصہ گزر گیا اور میری اہلیہ کو مرض بخار اور اسہال وغیرہ نے آگھیرا جو خرابی جگر وغیرہ کا نتیجہ تھا.خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں مفصل حال عرض کیا.مولوی صاحب نے حالات سن کر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا ایسی صورت میں نہ صرف بچہ کی طرف سے اندیشہ ہے بلکہ ایسی کمزوری اور دیر سینہ مرض میں مولود کی ماں کے لئے بھی سخت خطرہ ہے.اور خاکسار سے فرمایا کہ نسخہ تو ہم تجویز کریں گے لیکن میری رائے میں ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص موقعہ لے کر دعا بھی کرائی جائے.اس پر میں نے عرض کیا کہ خاص وقت ملنا بھی تو مشکل ہے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس کے حصول کی تجویز یہ ہے کہ آپ ایک رقعہ اس مضمون کا لکھ کر دیں کہ میں ایک بات عرض کرنے لئے چند منٹ خلوت چاہتا ہوں.حضرت صاحب کے پاس اندر بھیجو.حضرت صاحب اندر بلا لیں گے.اُس وقت یہ استدعا اور ضرورت خاص عرض کر دینا تو حضرت فور ادعا فرمائیں گے.چنانچہ خاکسار نے اس مضمون کا رقعہ لکھ کر پیراں دتا جو کہ حضرت صاحب کا خادم تھا، کے ہاتھ بھجوادیا کہ وہ حضور کے پیش کر دے.اُس نے تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بتلایا کہ حضرت اقدس نے رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ ہم کوئی ضروری مضمون تحریر کر رہے ہیں.درمیان میں مضمون کا چھوڑ نامناسب نہیں.اس لئے فرصت نہیں پھر فرصت کے وقت دیکھا جائے گا.خاکسار نے مولوی صاحب سے اس کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب تو وقت نہیں ملے گا.کیونکہ کل پٹیالہ کو واپس جانا چاہتے ہو.پٹیالہ جا کر مفصل خط حضرت صاحب کے نام لکھ دینا.حضرت صاحب خطوط پر دعا فرما دیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں.اس لئے ایک ہی بات ہے.اگلے دن صبح خاکسار کا روانگی کا ارادہ تھا.صبح کی نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرما تھے اور خاکسار اس انتظار میں تھا کہ موقعہ ملے تو حضرت صاحب سے رخصتی مصافحہ کیا جائے.کہ حضرت صاحب کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو میرے کچھ عرض کرنے کے بغیر حضور نے فرمایا ! کل آپ کا رقعہ پیراں دتالا یا تھا ہم اس وقت

Page 103

سیرت المہدی 96 حصہ چہارم ایک خاص مضمون کی تحریر میں مصروف تھے.اس لئے وقت نہیں مل سکا.وہ کیا کام تھا.خاکسار نے عرض کیا کہ کچھ ایسی ضروری بات نہ تھی اگر ضرورت ہوئی تو میں پٹیالہ سے بذریعہ خط عرض کر دوں گا.حضرت صاحب نے فرمایا اگر کوئی خاص بات ہے تو اب بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت اپنے ہی احباب بیٹھے ہیں میں بوجہ حجاب سا محسوس ہونے کے خاموش رہا کہ حضرت مولوی صاحب نے بوجہ اس حال کے واقفیت کے فرمایاوہ رقعہ میرے مشورہ سے ہی تحریر میں آیا تھا.مرض کے مفصل حالات بیان کر کے فرمایا کہ چونکہ خطرہ ڈبل ہے اس لئے میں نے ہی ان کو یہ دعا کرانے کا مشورہ دیا تھا.حضور نے یہ سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ اگر یہی کام ہے تو دعا کے لئے ایسا اچھا وقت اور کون سا ہوگا اور اسی وقت مجمع سمیت دعا فرمائی.دعا سے فارغ ہو کر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ بس اتنی ہی بات تھی یا کچھ اور بھی.میں نے عرض کیا کہ بس حضور دعا ہی کے لئے عرض کرنا تھا.اُسی حالت مرض و کمزوری میں بچہ پیدا ہوا.جس کا کمزور ہونا ضروری تھا.بذریعہ خطوط حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے معالجہ وغیرہ ہوتا رہا.رفتہ رفتہ ہر دو ( یعنی زچہ و بچہ ) کو افاقہ اور صحت حاصل ہوئی.میری اولاد میں صرف وہی بچہ زندہ سلامت ہے.بشیر احمد نام ہے.اور ایم اے علیگ ایل ایل بی ہے.دو بچوں کا باپ ہے ( جن کے نام سلیم احمد اور جمیل احمد ہیں ) دفتر ریو نیومسٹر صاحب پٹیالہ میں آفس سپر نٹنڈنٹ ہے.اس کی تعلیم بھی بالکل مخالف حالات ماحول میں محض خدا کے فضل سے ہوتی رہی.میرا ایمان ہے کہ یہ سب حضرت اقدس کی اس خاص دعا اور اس کی استجابت کا ظہور ہے اور ظہور بھی ایک خاص معجزانہ رنگ میں.1123 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی علی گوہر صاحب کپورتھلہ میں ڈاک خانہ میں ملازم تھے.اڑھائی روپیہ ان کی پینشن ہوئی.گزارہ اُن کا بہت تنگ تھا.وہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے.انہوں نے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا.وہ بڑے مخلص احمدی تھے.چنانچہ میں جب قادیان جانے لگا تو اُن کو ساتھ لینے کے لئے جالندھر چلا گیا.وہ بہت متواضع آدمی تھی.میرے لئے انہوں نے پر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوں نے کوئی برتن وغیرہ بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے.میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ہم حج کو

Page 104

سیرت المہدی 97 حصہ چہارم جاتے ہیں اور جہاز راستے سے اُتر گیا.اگلے دن گاڑی میں سوار ہو کر جب ہم دونوں چلے ہیں تو مانانوالہ سٹیشن پر گاڑی کا پہیہ پٹڑی سے اتر گیا.گاڑی اسی وقت کھڑی ہوگئی.دیر بعد پہیہ سڑک پر چڑھایا گیا.کئی گھنٹے لگے.پھر ہم قادیان پہنچ گئے.میں نے منشی علی گوہر صاحب کا ٹکٹ خود ہی خرید لیا تھا.وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے.میں نے کہا یہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں.چنانچہ دو روپے انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے.آٹھ دس دن رہ کر جب ہم واپسی کے لئے اجازت لینے گئے تو حضور نے اجازت فرمائی.اور منشی صاحب کو کہا ذرا آپ ٹھہریئے.پھر آپ نے دس یا پندره رو پینیشی صاحب کو لا کر دیئے.منشی صاحب رونے لگے اور عرض کی کہ حضور مجھے خدمت کرنی چاہئے یا میں حضور سے لوں.حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں.آپ انہیں سمجھائیں.پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے.انہوں نے لے لئے اور ہم چلے آئے حالانکہ حضرت صاحب کو نشی صاحب کی حالت کا بالکل علم نہ تھا.1124 بسم الله ارحمن الرحیم منشی ظفر احد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا.ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہو کر نہیں جاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے.میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں.چنانچہ زیور فروخت یار ہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا.دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں.فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا.اب ہمیں ضرورت نہیں.جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا.اگلے دن آٹھ یا نو بجے صبح جب چٹھی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا.چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈرہوں گے.جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے.سوسو پچاس پچاس روپیہ کے.اور اُن پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں.مہمانوں کے صرف کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں.وہ آپ نے وصول فرما کر تو کل پر تقریر فرمائی.اور

Page 105

سیرت المہدی 98 حصہ چہارم بھی چند آدمی تھے.جہاں آپ کی نشست تھی.وہاں کا یہ ذکر ہے.فرمایا کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا.اس سے زیادہ اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے.فور خدا تعالیٰ بھیج دیتا ہے.1125 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی.کہ مہمانوں کے لئے دوستوں سے پوچھ پوچھ کرعمدہ عمدہ کھانے پکواتے تھے کہ کوئی عمدہ کھانا بتاؤ جو دوستوں کے لیے پکوایا جائے.حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی ، میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے والد تھے.ضعیف العمر آدمی تھے.اُن کو بلالیا.اور فرمایا کہ میر صاحب کوئی عمدہ کھانا بتلائیے.جو مہمانوں کے لئے پکوایا جائے.انہوں نے کہا کہ میں شب دیگ بہت عمدہ پکوانی جانتا ہوں.آپ نے فرمایا بہت اچھا.اور ایک مٹھی روپوں کی نکال کر ان کے آگے رکھ دی.انہوں نے بقدر ضرورت روپے اُٹھالئے اور آخر انہوں نے بہت سے شلجم منگوائے.اور چالیس پچاس کے قریب کھونٹیاں لکڑی کی بنوائیں.شلجم چھلوا کر کھونٹیوں سے کوچے لگوانے شروع کئے.اور ان میں مصالحہ اور زعفران وغیرہ ایسی چیزیں بھروائیں.پھر وہ دیگ پکوائی.جو واقعہ میں بہت لذیذ تھی اور حضرت صاحب نے بھی بہت تعریف فرمائی اور مہمانوں کو کھلائی گئی.1126 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک انسپکٹر جنرل پولیس کا ایک باورچی قادیان میں آیا.بوڑھا آدمی تھا اور بیعت میں داخل تھا.اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ ایک بڑے آدمی کا کھانا پکاتے رہے ہیں کوئی بہت عمدہ چیز دوستوں کے لئے پکائیں.انہوں نے کہا پہلے حضور نمونہ ملاحظہ فرمائیں.پھر اس نے بکرے کی ران اور گھی منگا کر روسٹ کیا مگر وہ گوشت بالکل نہ گلا.حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا.میں اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے ہوئے تھے.گوشت چاقو سے بمشکل کہتا تھا.بڑی مشکل سے تھوڑا سا ٹکڑا کاٹ کر اس نے حضرت صاحب کو دیا.آپ نے منہ میں ڈال لیا.اور چبانے کی کوشش فرماتے رہے.وہ

Page 106

سیرت المہدی 99 حصہ چہارم چبایا نہ جا سکا.مگر اس باورچی کی تعریف فرمائی کہ آپ نے بہت عمدہ پکایا.میں نے کہا کہ یہ نہ تو کاٹا جاتا ہے اور نہ ہی چبایا جاتا ہے.گھی بھی ضائع کر دیا.فرمانے لگے منشی صاحب! آپ کو علم نہیں.انگریز ایسا ہی کھاتے ہیں اور ان کے نقطہ خیال سے بہت اعلیٰ درجہ کا پکا ہوا ہے.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہنسنے لگے.اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹھیک نہیں پکایا.فرمانے لگے کہ نہیں نہیں آپ نے نہیں جانتے.فرمایا کہ آپ کوئی اور چیز مہمانوں کے لئے تیار کریں.باور چی موجود ہیں.ان کو آپ بتلاتے جائیں.اس نے تو شرم کے مارے کوئی چیز تیار کروائی نہیں.کوئی اور صاحب تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا.انہوں نے بریانی مہمانوں کے لئے پکوائی اور میں نے بہت محظوظ ہو کر کھائی.حضرت صاحب کی خدمت میں بھی پہنچائی گئی.آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو اور مجھے بلوایا.اور فرمایا کہ دیکھو کیسی عمدہ پکوائی ہے.وہ انگریزی قسم کا کھانا تھا.جس سے آپ واقف نہ تھے.یہ دیسی قسم کا کھانا کیسا عمدہ ہے.حضرت صاحب نے یہی سمجھا کہ اُسی باورچی نے پکوائی ہے.پھر ہم دونوں نے ظاہر نہیں کیا.کہ اس نے نہیں پکوائی.غرض کوئی ناقص شے بھی آپ کی خدمت میں کوئی پیش کرتا تو آپ کی اس کی تعریف فرماتے.1127 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ سے ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہے تھے تو آپ نے میراں بخش سودائی کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ گول کمرے کے آگے زمین پر بیٹھا ہوا تھا.ایک ہندومست بڑا موٹا ڈنڈا لئے آیا.میراں بخش اس سے کہنے لگا کہ پڑھ کلمہ اور اس کے ہاتھ سے ڈنڈا لے کر مارا کہ پڑھ کلمہ لا الہ الا اللہ.اس نے جس طرح میراں بخش نے کہلوایا تھا.کلمہ پڑھ دیا.تو اس کو میراں بخش نے ایک دونی دے دی.فرمایا کہ میں بہت خوش ہوا کہ ایک مسلمان پاگل نے ایک ہندو پاگل کو مسلمان کر لیا.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغی مادہ ضرور ہے.1128 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں خاکسار کا تبادلہ صیغہ پولیس میں ہوا اور ماموری تھا نہ بٹھنڈہ میں ہوئی.علاقہ بٹھنڈہ ریاست پٹیالہ میں جنگل کا علاقہ ہے اور ضلع فیروز پور اور ریاست فرید کوٹ سے سرحدات ملتی ہیں.ان دنوں ان علاقوں

Page 107

سیرت المہدی 100 حصہ چہارم میں ڈکیتیوں کا بڑا زور تھا اور اس قسم کی وارداتوں کی کثرت تھی.دن رات اونٹوں پر سفر کرنا پڑتا تھا.چونکہ وہ علاقہ تو سخت گرم اور ریگستان ہے اس لئے سفر میں پانی بھی زیادہ پیا جا تا تھا.اور بعض اوقات اونٹ کے سفر میں یہ بے احتیاطی بھی ہو جاتی کہ تعجیل کی وجہ سے اگر اونٹ کو بٹھانے میں دیر لگی تو جھٹ اوپر سے ہی چھلانگ دی.اس وقت کی عمر کا تقاضا بھی یہی تھا.ہنچوں قسم کی بے احتیاطی سے خاکسار کو مرض ہر نیا لاحق ہو گیا تھا.اور شروع میں تو اسے ریحی تکلیف خیال کیا گیا کیونکہ جب سواری سے اُترتے اور لیٹتے تو افاقہ معلوم ہوتا تھا.مگر ایک ڈاکٹر صاحب کو دکھانے کا موقعہ ملا.تو انہوں نے کمپلیٹ ہر نیا تجویز اور تشخیص کیا.اور جلد سے جلد آپریشن بطور علاج تجویز کیا.خاکسار نے حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ بھیج کر استصواب کیا.مولوی صاحب موصوف نے ایک کارڈ پر یہ جواب تحریر فرمایا کہ اگر مرض ہر نیا تحقیق ہوا ہے تو پھر آپریشن کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں.لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ آپریشن سے پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے معائنہ کروالیا جائے.ڈاکٹر صاحب اول تو تم سے واقف ہوں گے اگر تعارفی تحریر کی ضرورت ہو تو یہی ہمارا کارڈ ان کو دکھا دیں.چنانچہ حسب رائے حصہ مولوی صاحب میں لاہور میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس حاضر ہوا.ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بڑے اخلاق اور توجہ سے معائنہ فرمایا اور مکمل مرض ہر نیا تشخیص کر کے آپریشن کے سوا کوئی اور علاج نہ تجویز فرمایا.چونکہ خاکسار اس دوران میں ٹرس پیٹی اس مرض میں احتیاط کے لئے استعمال کرنے لگ گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے تاکید فرمائی.کہ رات کے سونے کے وقت کے علاوہ ٹرس کا استعمال ہر وقت چلتے پھرتے ضروری ہے.اور آپریشن جلد کرایا جائے ورنہ بعض الجھنیں پڑ جانے پر آپریشن نا کامیاب ہوگا اور یہ چنداں خطر ناک بھی نہیں ہے.گھوڑے کی سواری، چھلانگ مارنے اور دوڑ کر چلنے ، بلندی سے کودنے کی ممانعت فرمائی.اس سے قبل خاکسار کا تبادلہ سب انسپکٹری بٹھنڈہ سے کورٹ انسپکٹری بسی پر ہو چکا تھا.اس لئے کوئی فوری اندیشہ نہ تھا.خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے فیس وغیرہ مصارف آپریشن دریافت کر کے بعد انتظام آپریشن کا ارادہ کر کے لاہور سے واپس ہوا.واپسی کے موقعہ پر قادیان آیا اور حضرت مولوی صاحب سے کل کیفیت اور ڈاکٹر صاحب کے مشورہ کا ذکر کیا.جس کو سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے تو پہلے ہی

Page 108

سیرت المہدی 101 حصہ چہارم یہ مشورہ دیا تھا.کہ آپریشن کرایا جائے.پھر خاکسار سے دریافت کیا کہ آپریشن کا ارادہ ہے؟ میں نے عرض کی کہ ایک دو ماہ میں موسم بھی آپریشن کے قابل ہو جائے گا.اور سامان سفر بھی ہو سکے گا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کر کے ضرور دُعا کروائی جائے.اب چونکہ آئے ہوئے ہو کیوں نہ حضرت صاحب سے ذکر کر لیا جائے.میں نے عرض کیا کہ اگر موقعہ میسر آیا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا.اُسی روز شام کے وقت بعد نماز مغرب حضرت صاحب بالائی حصہ مسجد پر تشریف فرما تھے.پانچ دیگر اصحاب بھی حاضر تھے.حضرت مولوی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کو مرض ہر نیا ہو گیا ہے.اطمینان کے لئے میں نے اس کو ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس بھیجا تھا.انہوں نے جلد سے جلد آپریشن کیا جانا ضروری تجویز فرمایا ہے.یہ سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب ! وہ ہر نیا مرض کیا ہوتا ہے.مولوی صاحب کے اس توضیح فرمانے پر کہ یونانی والے اس مرض کو فتق کہتے ہیں.حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہم نے کبھی آپ کو اس مرض کی وجہ سے تکلیف کی حالت میں نہیں دیکھا.آپ ہمیشہ تندرست آدمی کی طرح چلتے پھرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل ایک قسم کی پیٹی اس مرض کے لئے خاص طور پر بنی ہوئی ہوتی ہے.اس کو یہ ہر وقت لگائے رہتے ہیں.اس سے مرض کو تو کوئی افاقہ نہیں ہوتا.البتہ چلنے پھرنے میں سہولت اور ایک طرح کا سہارا رہتا ہے.حضور نے یہ سن کر فرمایا! کہ جب کام چل رہا ہے اور کوئی تکلیف نہیں.پھر آپریشن کی کیا حاجت ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ بیٹی کوئی علاج تو نہیں ایک سہارا ہے.اور بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس بیٹی کے استعمال سے الٹا مرض کو ترقی ہوتی ہے اور پھر کسی خرابی کے رونما ہونے پر آپریشن بھی کامیاب نہیں ہوتا.اور اخیر عمر میں آپریشن کو بغیر اشد ضرورت کے ممنوع بھی قرار دیتے ہیں.اس موقعہ پر مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی وہاں موجود ہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی مناسب وقت ہے.اور ویسے بھی یہ آپریشن زیادہ خطرے والا نہیں ہوتا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ میں تو اندرونی آپریشنوں کے بارہ میں جو خطرے کا پہلو رکھتے ہوں.یہی رائے رکھتا ہوں کہ وہ اشد ضرورت کے وقت کرانے چاہئیں.یعنی جب تک بغیر آپریشن

Page 109

سیرت المہدی 102 حصہ چہارم کے بھی جان کا خطرہ ہو.پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ جن امور سے ڈاکٹر لوگ منع کرتے ہیں ان کی پابندی کرو.اور خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے جب تک بغیر آپریشن کے کام چلتا ہے چلاتے جاؤ.بات یہیں ختم ہوگئی.حضرت مولوی صاحب نے مسجد سے آنے پر خاکسار سے فرمایا کہ جب حضرت صاحب نے آپریشن کی مخالفت فرمائی ہے اس لئے اب آپریشن کا ارادہ ترک کر دو.اور جیسا حضرت صاحب نے فرمایا ہے.اس پر عمل پیرا ہو جاؤ.اس بات کو ۴۵ سال سے متجاوز عرصہ ہوتا ہے.خاکسار کو خطرہ کی کوئی حالت لاحق نہیں ہوئی.اور اب تو عمر کی آخری سٹیج ہے.اس وقت بھی جب تک کسی شخص کو خاص طور پر علم نہ ہو.کوئی جانتا بھی نہیں کہ مجھے ایسا دیرینہ مرض لاحق ہے.میرا ایمان ہے کہ بعض اوقات ان مقدس اور مبارک زبانوں سے جو الفاظ شفقت اور ہمدردی کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں.تو وہ بھی ایک دُعائی کیفیت اختیار کر کے مقرون اجابت ہو جاتے ہیں.1129 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا نظام دین کے متعلق یہ پیشگوئی کی کہ اُن کے گھر فلاں تاریخ کو کوئی ماتم ہوگا.لیکن جب تاریخ آئی اور شام کا وقت قریب ہو گیا اور کچھ بات ظہور میں نہ آئی تو تمام مخالفین حضرت صاحب کے گھر کے اردگر دٹھٹھا اور مخول کے لئے جمع ہو گئے.سورج غروب ہونے لگا یا ہو گیا تھا.کہ اچانک مرز انظام الدین کے گھر سے چیخوں کی آواز شروع ہوگئی.معلوم کرنے پر پتہ لگا.کہ الفت بیگم والدہ مرزا ارشد بیگ فوت ہوگئی ہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر اس وقت سے ہوں جب کہ ابھی بشیر اول پیدا بھی نہیں ہوا تھا.1130 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے.چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا.آخر جب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت جی دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو.یہ تھک گیا ہو گا.اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا.میں حضرت جی کو کہتی کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا

Page 110

سیرت المہدی 103 حصہ چہارم چاہئے.تو آپ فرماتے.ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے.ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے.1131 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خط بھیجا.لفافہ پر محمد خان صاحب ہمنشی اروڑ ا صاحب اور خاکسار تینوں کا نام تھا.خط میں یہ لکھا ہوا تھا.کہ یہاں کے لوگ اینٹ پتھر بہت پھینکتے ہیں.اور علانیہ گالیاں دیتے ہیں.میں بعض دوستوں کو اس ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہوں.اس لئے تینوں صاحب فوراً آجائیں.ہم تینیوں کچہری سے اُٹھ کر چلے گئے.گھر بھی نہیں آئے.کرتار پور جب پہنچے تو محمد خان اور منشی اروڑا صاحب نے مجھے ٹکٹ لانے کے لئے کہا.میرے پاس کچھ نہیں تھا.مجھے یہ خیال ہوا کہ اپنے کرایہ کے لئے بھی اُن سے لے لوں انہوں نے اپنے ٹکٹوں کا کرایہ مجھے دے دیا تھا.میں نے اُن دونوں کے ٹکٹ لے لئے اور گاڑی آگئی.چوہدری رستم علی خان صاحب مرحوم گاڑی میں کھڑے آواز دے رہے تھے کہ ایک ٹکٹ نہ لینا میرے ساتھ سوار ہو جانا.میں چوہدری صاحب مرحوم کے ساتھ بیٹھ گیا.اور ہم دہلی پہنچ گئے.دہلی میں حضرت صاحب نے ایک بڑا دومنزلہ مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا.اوپر زنانہ تھا اور نیچے مردانہ رہائش تھی.واقعہ میں روز صبح و شام لوگ گالی گلوچ کرتے تھے اور ہجوم اینٹ پتھر پھینکتا تھا.انسپکٹر پولیس جواحمدی تو نہ تھا.لیکن احمدیوں کی امداد کرتا تھا اور ہجوم کو ہٹا دیتا تھا.ایک دن مرزا حیرت آیا.میں اس وقت کہیں گیا ہوا تھا.اس نے آکر حضرت صاحب کو بلوایا.اور کہا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے اور اگر کوئی فساد ہوا تو اس کا ذمہ وار کون ہو گا.آپ مجھے اپنا بیان لکھا دیں.اسی اثناء میں میں آگیا.میں اس کو جانتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان لکھارہے تھے اور میں یہ دیکھ کر زینے سے نیچے اتر آیا.اس نے مجھے دیکھ لیا اور اُتر کر بھاگ گیا.میں دراصل پولیس میں اطلاع دینے کے لئے اترا تھا اس کو اترتے ہوئے دیکھ کر ایک عورت نے جواو پر تھی اسے برا بھلا کہا.1132 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ

Page 111

سیرت المہدی 104 حصہ چہارم مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی دہلی آگئے.جن کو علی جان والوں نے مباحثہ کے لئے بلایا تھا.علی جان والے ٹوپیوں کے بڑے سوداگر اور وہابی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آ کر انہوں نے عرض کی کہ مولوی صاحب کو بھوپال سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے بلایا ہے.شرائط مناظرہ طے کر لیجئے.حضور نے فرمایا کہ کسی شرط کی ضرورت نہیں.احقاق حق کے لئے یہ بحث ہے.وہ آجائیں اور جو دریافت فرمانا چاہیں دریافت فرمالیں.پھر ایک تاریخ مقرر ہوگئی.مجھ کو اور پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو حضور نے حکم دیا کہ آپ کچھ کتابیں اپنے واقفوں سے لے آئیں.ہمیں تو ضرورت نہیں مگر انہی کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکتا ہے.ہم دونوں بہت جگہ پھرے لیکن کسی نے کتابیں دینے کا اقرارنہ کیا.امام کی گلی میں مولوی محمد حسین صاحب فقیر رہتے تھے.انہوں نے وعدہ کیا کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو کل لے جانا.اگلے روز جب ہم گئے تو وہ نہ ملے اور ان کے بیٹوں نے ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں کہ جو ملحدوں کی مدد کرے وہ بھی ملحد ہے.ہم دونوں ان کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے.پیر سراج الحق تو مجھ سے علیحدہ ہو کر کہیں چلے گئے.میں تھوڑی دور کھڑا ہو کر اُن سے سخت کلامی کرنے لگ گیا.وہاں آدمی جمع ہو گئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے.میں نے عرض کیا کہ امام اعظم کو یہ بُرا کہتے ہیں.وہ کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں.یہ چھپے ہوئے وہابی ہیں.وہابیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے ہیں.چنانچہ وہ لوگ میرے ساتھ ہو کر ان کے خلاف ہو گئے.پھر میں وہاں سے چلا آیا.جب امام صاحب کے مکان کے آگے سے گزرا.تو انہوں نے مجھے اشارہ کر کے اپنی بیٹھک میں بلالیا اور کہنے لگے کہ آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتا بیں مطلوب ہیں.میں دے سکتا ہوں.میں نے کہا آپ اتنا بڑا احسان فرمائیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا.کہنے لگا کہ جب مرزا صاحب مولوی نذیرحسین سے قسم لینے کے لئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے.اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور آپ کی پیشانی سے شان نبوت عیاں تھی مگر میں اپنی عقیدت کو ظاہر نہیں کر سکا.خیر میں یہ کتا بیں لے کر چلا آیا.اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں آپ بہت خوش ہوئے.اس پر دہلی والوں نے کہا تھا ( ہولی ہے بھئی ہولی ہے پاس کتابوں کی جھولی ہے ) تفسیر مظہری اور صحیح بخاری

Page 112

سیرت المہدی 105 حصہ چہارم دستیاب نہ ہوئی تھی.اُس زمانے میں مولوی رحیم بخش صاحب فتح پوری مسجد کے متولی تھے.وہ سید امام علی شاہ رنڑ چھتہ والوں کے خلیفہ تھے اور ان سے میرے والد صاحب مرحوم کے، جبکہ والد صاحب گجرات میں بندوبست میں ملازم تھے ، سید امام علی شاہ صاحب سے بہت عمدہ تعلقات قائم ہو گئے تھے.رحیم بخش صاحب سے جب میں نے اس تعلق کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئے.میں نے اُن سے کتابیں طلب کیں.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ہو کر مرزا صاحب کے ساتھ کس طرح ہیں.میں نے کہا کہ ان وہابیوں کی شکست ہماری فتح ہے.کہنے لگے یہ بات تو ٹھیک ہے.چنانچہ انہوں نے کتابیں دے دیں.وہ بھی لا کر میں نے حضور کو دے دیں.صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی.پھر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو اسی اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھے.تو وہ اور میں مدرسہ شاہ عبدالعزیز میں گئے.اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانون گود بلی کا مکان تھا.وہاں جا کر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کے لئے مانگا.انہوں نے دے دیا اور ہم لے آئے.مولوی بشیر احمد صاحب مباحثہ کے لئے آگئے.ایک بڑا المبادالان تھا جس میں ایک کوٹھڑی تھی.اس کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب اور عبد القدوس غیر احمدی ایڈیٹر صحیفہ قدسی اور ہم لوگ بیٹھے تھے.مولوی بشیر احمد آگئے.ظاہراً بڑے خضر صورت تھے اور حضرت صاحب سے بڑے ادب اور تعظیم سے ملے اور معانقہ کیا اور بیٹھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوئی ہار جیت کا معاملہ نہیں.یہیں بیٹھے ہوئے آپ سوال کریں.میں جواب دوں.بات طے ہو جائے.مگر اس کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ حضور کے سامنے بیٹھ کر سوال و جواب کر سکتا.اُس نے اجازت چاہی کہ دالان میں ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھ لے.دالان میں بہت سے آدمی مع علی جان والوں کے بیٹھے تھے.حضور نے فرمایا.بہت اچھا.سو وہ سوالات جو اپنے گھر سے لکھ کر لایا تھا ایک شخص سے نقل کرانے لگا.وہ بھی میرا واقف تھا.مسجد دعلی خان اس کا نام تھا.میں نے ان سے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہوئے ہیں.جب آپ سوال لکھ کر لائے ہیں تو دے دیں تا کہ حضور جواب لکھیں.وہ کہنے لگے کہ یہ تو نوٹ ہیں.حالانکہ وہ حرف بحرف نقل کرا رہے تھے.دہلی والوں نے میرے خلاف شور کیا کہ آپ کیوں اس بارہ میں دخل دیتے ہیں.مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آواز دی کہ آپ یہاں آجائیں.میں چلا

Page 113

سیرت المہدی 106 حصہ چهارم گیا.لیکن تھوڑی دیر میں اٹھ کر میں مولوی بشیر احمد صاحب کے پاس چلا گیا کہ دیکھوں انہوں نے ختم کیا ہے یا نہیں.میں نے کہا مولوی صاحب پیسے ہوئے کو پینا یہ کوئی دانائی ہے؟ پھر مجھے مولوی عبدالکریم صاحب نے آوازیں دیں کہ تم یہاں آجاؤ.میں پھر چلا گیا.حضرت صاحب نے فرمایا آپ کیوں جاتے ہیں.تیسری دفعہ میں پھر اُٹھ کر چلا گیا.پھر حضرت صاحب او پر اُٹھ کر چلے گئے.اور میرے متعلق کہا کہ یہ بہت جوش میں ہیں.جب وہ لکھ چکیں تو مجھے بھیج دینا.پھر جب وہ اپنا مضمون تیار کر چکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچادیا.آپ نے مجھے فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو.دو ورقہ جب تیار ہو جائے.تو نقل کرنے کے لئے دوستوں کو دے دینا.میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ وار ایک اُچٹتی نظر ڈالی.انگلی پھیر تے رہے اور پھر ورق الٹ کر اُس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈال لی.اسے علیحدہ رکھ دیا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں.محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اور جواب لکھنا شروع کیا.جب دو ورقہ تیار ہو گیا.تو میں نیچے نقل کرنے کے لئے دے آیا.دو ورقہ کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبد الکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیا اور ایک عبدالقدوس نے.اس طرح میں اوپر سے جب دو ورقہ تیار ہوتا لے آتا اور یہ نقل کرتے رہتے.حضرت صاحب اس قدر جلدی لکھ رہے تھے کہ ایک دو ورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا.عبدالقدوس جو خود بہت زود نویں تھا حیران ہو گیا.اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگا کہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں.میں نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو.غرض اس طرح جھٹ پٹ آپ نے جواب لکھ دیا اور ساتھ ہی اس کی نقل بھی ہوتی گئی.میں نے مولوی بشیر احمد کو وہ جواب دے دیا کہ آپ اس کا جواب لکھیں.اس نے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں.ہم نے تو نہیں مگر کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کر دی کہ مولوی بشیر احمد صاحب ملنا چاہتے ہیں.حضور فوراً تشریف لے آئے اور مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل کو جواب لکھ لاؤں گا.آپ نے خوشی سے اجازت دے دی.حضرت صاحب تو اوپر تشریف لے گئے.مگر ہم ان کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ کوئی بحث ہے.اس طرح تو آپ بھوپال میں بھی کر سکتے تھے.جب بہت کش مکش

Page 114

سیرت المہدی 107 حصہ چہارم اس بارہ میں ہوئی تو دہلی والوں نے کہا کہ جب مرزا صاحب اجازت دے گئے ہیں تو آپ کو روکنے کا کیا حق ہے.ہم تو خود سمجھ گئے ہیں کہ یہ بالمقابل بیٹھ کر بحث نہیں کر سکتے.پھر ہم نے مولوی صاحب کو چھوڑ دیا.آخری مباحثہ تک مولوی بشیر احمد صاحب کا یہی رویہ رہا.کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا.اجازت لے کر چلے جاتے.ایک مولوی نے مولوی بشیر احمد صاحب کو کہا کہ بڑی بات آپ کی بحث میں نون ثقیلہ کی تھی مگر مرزا صاحب نے تو نون ثقیلہ کے پل باندھ دیئے.بحث ختم ہونے پر چلتے چلتے مولوی بشیر احمد ملنے آئے اور حضرت صاحب سے کہا میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے.آپ کو جو اس بحث کے لئے تکلیف دی ہے میں معافی چاہتا ہوں.غرض کہ وہ حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے.1133 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس تشریف لے گئے.میں کتا بیں واپس کرنے کے لئے ایک روز ٹھہر گیا.جسے کتابیں دینے جاتا وہ گالیاں نکالتا.مگر میں ہنس پڑتا.اس پر وہ اور کوستے.چونکہ ہمیں کامیابی ہوئی تھی اس لئے ان کی گالیوں پر بجائے غصے کے ہنسی آتی تھی اور وہ بھی بے اختیار.1134 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما تھے.تو ایک دن حضور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے.فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ یہ اپنے زمانے کے مجدد تھے.1135 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت بھی دے دی.پھر فرمایا کہ ٹھہر جائیں.آپ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا یہ پی لیں.شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آگئے.پھر اُن کے لئے حضور دودھ کا گلاس لائے اور پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لائے.اور بہت دفعہ حضور نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لاتے تھے.1136 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن

Page 115

سیرت المہدی 108 حصہ چہارم صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی آدمی آپ سے ملنے آتا اور آواز دیتا تو میں یا کوئی اور دوسرا آپ کو اطلاع دیتا کہ کوئی آپ کو ملنا چاہتا ہے.تو آپ کی یہ حالت ہوتی کہ آپ فورا باہر تشریف لے آتے.1137 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار نے پٹیالہ میں خواب دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں.دن کا وقت ہے.حضرت مولوی صاحب والے کمرے سے باہر نکلا ہوں کہ میرے دل میں آیا کہ اب کی دفعہ جو پٹیالہ جاؤں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کروں.جب چوک میں پہنچا تو کسی شخص نے کہا کہ حضرت صاحب مسجد اقصیٰ کی چھت پر تشریف فرما ہیں.میری خواہش ہوئی کہ حضرت صاحب سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں تا کہ ویسا ہی تیار کروا کر بھیج دیا جائے.یہ بات دریافت کرنے کے لئے خاکسار مسجد کی چھت پر چڑھ گیا.دیکھا حضرت صاحب تشریف فرما ہیں.اور آپ کے ایک طرف خواجہ کمال الدین صاحب بیٹھے ہیں.اور دوسری طرف ایک اور شخص بیٹھا تھا جس کو میں نہیں جانتا تھا.خاکسارسامنے جا کر بیٹھ گیا.ابھی میں کچھ عرض کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اب کی دفعہ جو تم پٹیالہ جاؤ تو ہمارے لئے ایک چونہ تیار کروا کر ارسال کرنا اور جو چوغہ اس وقت حضور نے پہنا ہوا تھا.اس کے گریبان کے نیچے سے دونوں اطراف دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور اُن کو ملا کر فرمایا کہ ایسا ہو کہ جو سردی سے محفوظ رکھے.خاکسار نے حیرت زدہ ہو کر عرض کی کہ حضورا بھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ نیچے چوک میں مجھ کو یہی خیال آیا تھا کہ اس دفعہ پٹیالہ جانے پر ایک چوغہ حضور کے لئے بنوا کر روانہ کروں اور حضور کے تشریف فرما ہونے کی اطلاع پر اس ارادہ سے حاضر ہوا تھا کہ حضور سے دریافت کروں کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں.تعجب ہے کہ ابھی میں عرض بھی کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے خود ہی فرما دیا.یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ یہ درست ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے بعض اوقات اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے اشخاص کے قلوب پر القا کرتا ہے.اس کے بعد آنکھ کھل گئی.کیا دیکھتا ہوں کہ میں پٹیالہ میں ہی ہوں.چونکہ سرما کا موسم تھا.خاکسار نے اسی خیال سے کہ اس خواب کی جو کوئی اور تعبیر خدا کے علم میں ہو وہ

Page 116

سیرت المہدی 109 حصہ چہارم ہو.لیکن ظاہری الفاظ کے مطابق مجھے ایک چوغہ تیار کروا کر روانہ کرنا چاہئے.چنانچہ ہفتہ عشرہ کے اندر ایک گرم کشمیر کا چوند قطع کرا کر اور اس کے ہر چہار طرف اُسی رنگ کی ریشمی ڈوری کا کام نکلوا کر جسم مبارک کا اندازہ درزی کو بتا کر ایک چوغہ تیار کروا کر بذریعہ پارسل ڈاک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو روانہ کر دیا.اور خط میں مفصل لکھ دیا کہ ایک خواب کی ظاہری تعبیر پورا کرنے کے خیال سے ایسا کیا گیا ہے.آپ پارسل پہنچنے پر یہ چوغہ میری طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں.اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے مجھے تحریر فرمایا کہ پارسل پہنچنے پر فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں وہ پارسل خود لے جا کر پیش کیا.حضور نے فرمایا اسے کھولو.جب چوغہ نکالا گیا تو حضور نے فوراً کھڑے ہوکر اپنا پہلا چوغہ اُتار کر اس مرسلہ چوغہ کو زیب تن کیا.اور مولوی صاحب سے فرمایا کہ خدا کی کیا شان ہے کہ اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے لوگوں کے قلوب پر القا فر مادیتا ہے.فی الواقعہ ہمارا یہ چوغہ اس قدر میلا ہو گیا تھا کہ جب کپڑے بدلتے تو چوغہ پہنے کو دل نہ چاہتا.اور اردہ کرتے کہ جلد کوئی چوغہ نیا تیار کروائیں گے.مگر پھر سلسلہ کی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے سہو ہو جاتا.پھر بٹنوں کو دیکھ کر فرمایا.کہ مولوی صاحب اس نے یہ کیسی عقل کی بات کی ہے کہ باوجود چونہ کی طرح لمبا ہونے کے آگے بٹن لگوا دیئے ہیں.تا سردی سے بچاؤ ہو.پرانی قسم کے چوغوں میں مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ سب سے اوپر کا کپڑا آگے سے کھلا ہوا ہوتا ہے.جس سے سردی سے حفاظت نہیں ہو سکتی.پھر فرمایا کہ مولوی صاحب تعجب تو یہ ہے کہ بدن پر ایسا درست آیا ہے کہ جیسے کسی نے ناپ لے کر بنوایا ہو.مولوی صاحب نے آخر میں خاکسار کو یہ بھی لکھا کہ آپ کا خواب صحیح اور تعبیر بھی ٹھیک ثابت ہوئی.کیونکہ جو الفاظ اس بارہ میں حضور نے فرمائے تھے.بالکل وہی الفاظ چونہ پیش کرنے پر فرمائے.خدا تعالیٰ نے آپ کی سعی کو مشکور فرمایا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ کرم الہی صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جوفوٹو ولایت روانہ کرنے کے لئے حکیم محمد کاظم فوٹو گرافر انار کلی لاہور کا تیار کردہ ہے جس میں حضور نے بٹن والا چوغہ نما لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے وہ وہی ہے.1138 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن

Page 117

سیرت المہدی 110 حصہ چہارم صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی کا کچھ نقصان ہوگا.تو حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے دعا کرنا.چند دن بعد آپ حافظ حامد علی صاحب کو ہمراہ لے کر پیدل ہی گاؤں کے راستہ سے گورداسپور تشریف لے گئے تو راستہ میں کسی بیری کے نیچے سے حافظ صاحب نے کچھ بیر اٹھا کر کھانے شروع کر دیئے.تو حضرت جی نے فرمایا کہ یہ کس کی بیری ہے.حافظ صاحب نے کہا کہ پتہ نہیں.جس پر حضرت جی نے فرمایا کہ پھر بغیر اجازت کے کس طرح کھانا شروع کر دیا جس پر حافظ صاحب نے وہ سب بیر پھینک دیئے اور آگے چل دیئے.اس سفر میں حضرت صاحب کا روپوں والا رومال اور حافظ صاحب کی چادر گم ہوگئی.1139 بسم الله الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لے جارہے تھے.کرنا کھلا ہوا تھا اور بہت مہک رہا تھا.آپ نے فرمایا! کہ دیکھ کرنا اور کہنا اس میں بڑا فرق ہے.حضور نے فرمایا.پنجاب میں کہنا مکڑی کو کہتے ہیں ( یعنی کرنا خوشبودار چیز ہے اور کہنا ایک مکر وہ چیز ہے ) 1140 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہو کر تھی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر سیر کو جارہے تھے.میاں چراغ جو اس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا.چلتے چلتے گر پڑا.میں نے کہا اچھا ہوا.یہ بڑا شریر ہے.حضرت صاحب نے چپکے سے فرمایا کہ بڑے بھی گر جاتے ہیں.یہ سن کر میرے تو ہوش گم ہو گئے اور بمشکل وہ سیر طے کر کے واپسی پر اُسی وقت اندر گیا جبکہ حضور واپس آکر بیٹھے ہی تھے.میں نے کہا حضور میرا قصور معاف فرمائیں.میرے آنسو جاری تھے.حضور فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے نہیں کہا.آپ تو ہمارے ساتھ ہیں.1141 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میر عباس علی صاحب لدھیانوی بہت پرانے معتقد تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اصطلاح صوفیاء میں معنے دریافت کرتے رہتے تھے.اور تصوف کے مسائل پوچھتے تھے.اس بارہ میں حضرت

Page 118

سیرت المہدی 111 حصہ چہارم 66 صاحب نے کئی مبسوط خطوط انہیں لکھے تھے جو ایک کتاب میں انہوں نے نقل کر رکھے تھے.اور بہت سی معلومات ان خطوط میں تھی گویا تصوف کا نچوڑ تھا.میر عباس علی صاحب کا قول تھا کہ انہوں نے بے وضو کوئی خط نقل نہیں کیا.حضرت صاحب نے براہین احمدیہ کے بہت سے نسخے میر صاحب کو بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ یہ کوئی خرید وفروخت کا معاملہ نہیں.آپ اپنے دوستوں کو دے سکتے ہیں.چونکہ میرا ان سے پرانا تعلق تھا.میں اُن سے وہ خطوط والی کتاب دیکھنے کو لے آیا.ابھی وہ کتاب میرے پاس ہی تھی کہ میر صاحب مرتد ہو گئے.اس کے بعد کتاب مذکور کا انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا.میں نے نہ بھیجی.پھر انہوں نے حضرت صاحب سے میری شکایت کی کہ کتاب نہیں دیتا.حضرت صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ ان کی کتاب ان کو واپس کر دیں.میں خاموش ہو گیا.پھر دوبارہ میر صاحب نے شکایت کی.اور مجھے دوبارہ حضور نے لکھا.اُن دنوں ان کے ارتداد کی وجہ سے الہام أَصْلُهَا ثَابِتْ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ “ پر مخالفین بہت اعتراض کرتے تھے.میں قادیان گیا.مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کی موجودگی میں حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ اُن کی کتاب کیوں نہیں دیتے.مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے عرض کی کہ حضور کی ضمانت پر تو اُس نے کتاب نہیں دی تھی ( بعض دفعہ عبد اللہ سنوری صاحب اور میں حضرت صاحب سے اس طرح بے تکلف باتیں کر لیا کرتے تھے.جس طرح دوست دوست سے کر لیتا ہے اور حضور ہنستے رہتے ) اور میں نے عرض کی کہ اتنا ذخیره عرفان و معرفت کا اس کتاب کے اندر ہے، میں کس طرح اسے واپس کر دوں.حضور نے فرمایا واپس کرنی چاہئے.آپ جانیں وہ جانیں.اس کے بعد میں کپورتھلہ آیا.ایک دن وہ کتاب میں دیکھ رہا تھا تو اس میں ایک خط عباس علی کے نام حضرت صاحب کا عباس علی کے قلم سے نقل کردہ موجود تھا.جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی وقت مرتد ہو جائیں گے.آپ کثرت سے تو بہ واستغفار کریں اور مجھ سے ملاقات کریں.جب یہ خط میں نے پڑھا تو میں فوراً قادیان چلا گیا.اور حضور کے سامنے وہ عبارت نقل کرده عباس علی پیش کی.فرمایا ! یہی سر تھا جو آپ کتاب واپس نہیں کرتے تھے.پھر وہ کتاب شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھ سے لے لی.(1142 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ

Page 119

سیرت المہدی 112 حصہ چہارم جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی میں قیام فرما تھے.اور وہاں کے لوگوں نے تجویز کی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت صاحب سے بحث کریں.تو مولوی نذیرحسین نے بحث کرنے سے انکار کر دیا.حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو خط لکھا تھا.کہ میں جامع مسجد میں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلائل بیان کروں گا.آپ اگر تم کھا کر کہ دیں کہ یہ میچ نہیں ہیں تو پھر ایک سال کے اندرا اگر آپ پر عذاب نہ آئے تو میں خدا کی طرف سے نہیں.اس کا جواب مولوی نذیر حسین نے کوئی نہ دیا.جواب نہ آنے پر حضور نے ایک دوسرا خط لکھا جو محمد خان صاحب اور خاکسار لے کر مولوی نذیر حسین کے پاس گئے.اس میں حضور نے لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد میں پہنچ جائیں گے.اگر تم نہ آئے تو خدا کی لعنت ہوگی.یہ خط جب ہم لے کر گئے تو مولوی نذیر حسین نے ہمیں کہا کہ تم باہر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس چل کر بیٹھو.خط انہیں دے دو.میں آتا ہوں.مولوی محمد حسین نے وہ خط کھول لیا.پھر مولوی نذیر حسین صاحب آگئے.اور انہوں نے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے.مولوی محمد حسین نے کہا میں سنا نہیں سکتا.آپ کو بہت گالیاں دی ہیں.اس وقت ایک دہلی کا رئیس وہاں بیٹھا تھا.اور اس نے بھی مولوی محمد حسین کے پاس بیٹھے وہ خط پڑھ لیا تھا.اس نے کہا.خط میں تو کوئی گالی نہیں.مولوی نذیرحسین نے اسے کہا.تو بھی مرزائی ہو گیا ہے.وہ پھر چپ ہو گیا.پھر ہم نے مولوی نذیر حسین سے کہا.آپ نے جو کچھ جواب دینا ہو دے دیں.مولوی محمد حسین نے کہا ہم کوئی جواب نہیں دیتے.تم چلے جاؤ تم اپیچی ہو.خط تم نے پہنچا دیا ہے.ہم نے کہا ہم جواب لے کر جائیں گے.پھر لوگوں نے کہا.جانے دو.غرض انہوں نے جواب نہیں دیا.اور ہم نے سارا واقعہ حضرت صاحب کے پاس آکر عرض کر دیا.اگلے دن ہم سب جامع مسجد میں چلے گئے.ہم بارہ آدمی حضرت صاحب کے ساتھ تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے.محمد خان صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب منشی اروڑ ا صاحب، حافظ حامد علی صاحب، مولوی عبد الکریم صاحب.محمد سعید صاحب جو میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے تھے اور خاکسار.باقیوں کے نام یاد نہیں رہے.جامع مسجد کے بیچ کے دروازہ میں ہم جا کر بیٹھ گئے.حضرت صاحب بھی بیٹھ گئے.یہ یاد پڑتا ہے کہ سید امیر علی اور سید فضیلت علی سیالکوٹی بھی تھے.دروازے کے دائیں طرف یعنی دریچے کی طرف ہم تھے.اور فرش کے ایک طرف مولوی نذیر حسین اور

Page 120

سیرت المہدی 113 حصہ چہارم مولوی محمد حسین آٹھ سات آدمی تھے.تمام صحن مسجد کا لوگوں سے پُر تھا.ہزاروں آدمی تھے.انگریز کپتان پولیس آیا.کثرت ہجوم کی وجہ سے وہ گھبرایا ہوا تھا.اس نے حضرت صاحب سے آکر پوچھا کہ آپ کا یہاں آنے کا کیا مقصد ہے؟ شیخ رحمت اللہ صاحب نے انگریزی میں اس سے ذکر کیا کہ یہ غرض ہے کہ حضرت صاحب دلائل وفات عیسی بیان کریں گے اور نذیر حسین قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ میچ نہیں.وہ پھر نذیرحسین کے پاس گیا.اور اُن سے پوچھا کہ تمہیں ایسی قسم منظور ہے.اس نے کہا کہ میں قسم نہیں کھاتا.اس نے آکر حضرت صاحب سے بیان کیا کہ وہ آپ کے دلائل سن کر قسم کھانے پر آمادہ نہیں.اس لئے آپ چلے جائیں.حضرت صاحب چلنے کے لئے کھڑے ہو گئے.میں نے حضور کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی کہ حضور ذرا ابھی ٹھہر جائیں اور میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ آپ کپتان پولیس سے کہیں کہ پہلے فریق ثانی جائے پھر ہم جائیں گے.پھر اس نے انہیں کہا.اس پر وہ مصر ہوئے کہ پہلے ہم جائیں.غرض اس بارہ میں کچھ قیل قال ہوتی رہی.پھر کپتان پولیس نے قرار دیا کہ دونوں ایک ساتھ اُٹھ جائیں اور ایک دروازے سے وہ اور دوسرے سے ہم چلے جائیں.غرض اس طرح ہم اُٹھے.ہم بارہ آدمیوں نے حضرت صاحب کے گرد حلقہ باندھ لیا.اور ہمارے گرد پولیس نے.اس وقت دہلی والوں نے اینٹ پتھر بہت پھینکے.نذیر حسین پر بھی اور ہم پر بھی.ہم دریچے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے.تو ہماری گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹا دی تھی.کپتان پولیس نے ایک شکرم میں ہمیں سوار کرادیا.کوچ میکس پر انسپکٹر پولیس، دونوں پائیدانوں پر دوسب انسپکٹر اور پیچھے سپاہی گاڑی پر تھے.گاڑی میں حضرت صاحب، محمد خان صاحب ،منشی اروڑا صاحب ، خاکسار اور حافظ حامد علی صاحب تھے.پھر بھی گاڑی پر اینٹ پتھر برستے رہے.جب ہم چلے تو مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے.محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد لوگ جمع ہو گئے تھے جو محمد خان صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خان صاحب مولوی صاحب کو لے آئے.1143 بسم الله الرحمن الرحیم.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار دارالامان میں چند روز سے وارد تھا.کہ ایک شام کو نماز مغرب کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ

Page 121

سیرت المہدی 114 حصہ چہارم السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرما تھے.پانچ سات خدام سامنے حلقہ بنائے بیٹھے تھے.حضرت مولوی صاحب عبد الکریم صاحب مرحوم اس چھت کی شرقی سمت ذرا فاصلہ پر کھڑے ٹہل رہے تھے.وہاں سے وہ حضرت صاحب کی طرف آئے.ابھی بیٹھے نہ تھے کہ حضرت صاحب سے مخاطب ہوکر اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ پٹیالہ والا شیخ جو حضور کے سامنے بیٹھا ہے.ایہہ ساتھوں گھٹ نیچری نہیں رہیا ہے یعنی یہ ہم سے کم نیچری نہیں رہا اور اس نے سرسید کی بہت سی کتابیں دیکھی ہیں.یہ حضور کی کشش ہے جو اس کو یہاں کھینچ لائی ورنہ یہ لوگ کسی کے قابو نہیں آنے والے تھے.یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ مولوی صاحب کو اس وقت حضور سے ایسا کہنے کی کیا سوجھی.حضرت صاحب نے مولوی صاحب کا یہ کلام سن کر معا خاکسار کی طرف متوجہ ہوکر فر مایا کہ اگر آپ نے سید صاحب کی کتابیں دیکھی ہیں تو بتاؤ آپ کو تصانیف میں سے کون سی کتابیں زیادہ پسند اور مرغوب خاطر ہوئیں.خاکسار نے تھوڑے تأمل کے بعد عرض کیا کہ اپنی کم علمی اور استطاعت کے باعث خاکسارسید صاحب کی کل تصانیف تو نہیں دیکھ سکا البتہ کوئی کتاب کسی صاحب سے مل گئی تو دیکھ لی یا ان کے چھوٹے چھوٹے رسالے منگا کر بھی دیکھے ہیں.اخبار تہذیب الاخلاق جو ایک ماہواری رسالہ کی صورت میں علی گڑھ سے شائع ہوتا تھا جس میں سید صاحب مرحوم اور مولوی چراغ علی حیدر آبادی مرحوم اور نواب مہدی علی خان صاحب مرحوم کے مضامین ہوتے تھے.اس کا کئی سال خاکسار خریدار بھی رہا ہے اور اس کی پچھلی جلدوں کے فائل منگوا کر بھی دیکھے ہیں.سید صاحب کی تصانیف میں خطبات احمدیہ اور تبیین الکلام مجھے زیادہ پسند آئیں.پہلی کتاب میں سید صاحب نے اپنے قیام لندن کے وقت قرآن مجید کی بعض آیات پر جو عیسائیوں نے اعتراض کئے تھے وہاں میوزیم کے پرانے کتبے اور قدیم اسناد سے ان کے جوابات دیئے ہیں جو ایک اہم اسلامی خدمت ہے.ایسا ہی دوسری کتاب میں صفحات کے تین کالم بنا کر ایک میں توریت.دوسرے میں انجیل اور تیسرے میں قرآن مجید کی متحد المضامین آیات درج کی ہیں جس سے اُن کی غرض یہ ثابت کرنا ہے کہ جب وہی مضامین ان کی مسلمہ الہامی کتب میں ہیں تو قرآن مجید کے الہامی ہونے سے اُن کو انکار کا کیا حق حاصل ہے؟ خاکسار کی یہ گفتگو سن کر حضرت صاحب نے فرمایا.سید صاحب کی مصنفہ کتب آپ نے کیوں دیکھیں.

Page 122

سیرت المہدی 115 حصہ چہارم خاکسار نے ذرا تامل کے بعد عرض کیا کہ ایک پڑھا لکھا گھرانہ ہونے اور اکثر ذی علم اشخاص کی آمد ورفت اور علمی اور اخباری تذکروں کے ہمیشہ سنتے رہنے کی وجہ سے طبیعت کی افتاد ہی کچھ ایسی پڑ گئی تھی کہ سکول میں سیر وغیرہ میں جو ہم جماعت، ہم عمر لڑ کے ملتے.بعض اوقات ان کے کسی مذہبی عقیدہ پر اعتراض کیا جاتا اور وہ اگر کسی اسلامی عقیدہ پر اعتراض کر دیتے تو ان کو جواب دینے کی کوشش کرتے.وہ لوگ چونکہ اپنے بڑوں سے سنے ہوئے فلسفہ یا سائنس کے تحت میں اعتراض کرتے تو بعض اوقات اپنا جواب خود بہت پست اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا.اگر پرانی قسم کے مولویوں سے اس کے متعلق استفسار کرتے تو وہ جواب دینے کی بجائے ایسے بحث و مباحثہ سے منع کر دیتے.یہ بات بس کی نہ تھی.آخر جب سید صاحب کے اشخاص سے اس کا ذکر آتا تو وہ بحوالہ تصانیف سرسید ایسا جواب دیتے جو بظاہر معقول دکھائی دیتا.اس وجہ سے سید صاحب کی کتب کو دیکھنے کا شوق پیدا ہونا لازمی امر تھا.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تصانیف بھی کبھی آپ نے دیکھی ہیں.خاکسار نے عرض کیا کہ حضور عربی کتب تو خاکسار نہیں دیکھ سکا البتہ جو کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان کو میں اکثر منگا کر دیکھتا ہوں.اس پر حضور نے فرمایا.اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تعلیم اور سید صاحب کی تعلیم میں آپ نے کیا فرق اور امتیاز محسوس کیا.حضور کے اس سوال پر ایک تردد سا پیدا ہوا اور دل میں خیال آیا.کہ مولوی صاحب نے آج امتحان کا پرچہ ہی دلا دیا.اور بعد تأمل کے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ جیسا محدود العلم اس فرق کو کیا بیان کرسکتا ہے.حضور نے فرمایا کہ ہماری غرض کوئی علمی فرق یا عالمانہ رائے دریافت کرنے کی نہیں بلکہ صرف یہ بات معلوم کرنی چاہتے ہیں کہ ہر دو تصانیف کے مطالعہ سے جو کیفیت آپ کے دل نے محسوس کی اس میں آپ کیا تمیز کرتے ہیں.کچھ دیر تأمل کرنے کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ فلسفیانہ اعتراضات کے جوابات جو سید صاحب نے دیئے ہیں.ان کا نتیجہ بطور مثال ایسا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کی تلاش میں جنگل میں کہیں تھوڑ اسا پانی مل جائے جس کے دو چار گھونٹ پی کر صرف اس کی جان کنی کی مصیبت سے بچ جائے اور بس.لیکن حضور کے کلام کا یہ عالم ہے کہ جیسے پیاسے کے لئے دودھ کا گلاس جس میں برف اور کیوڑہ پڑا ہوا ہو.وہ مل جائے.اور وہ سیر ہوکر مسرور اور شادماں ہو جائے.یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ اچھا کوئی مسئلہ بطور مثال بیان کرو.اس کے جواب

Page 123

سیرت المہدی 116 حصہ چہارم میں خاکسار کو زیادہ متردد اور پریشان دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ جلدی نہیں.آپ سوچ کر جواب دیں.تھوڑی دیر سکوت کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ مثلاً معراج کا واقعہ ہے جب کوئی اس پر معترض ہوتا اور اس کے خلاف عقل ہونے کا ادعا کرتا تو جواب میں بڑی مشکل پیش آتی تھی کہ اس کو کیا سمجھائیں کہ براق کس اصطبل سے آیا تھا اور پھر وہ اب کہاں ہے اور وہ پرند.چرند اور ساتواں آسمان اور عرش معلی کی سیر اور انبیاء سے مکالمات اور عرصہ واپسی اتنا کہ ابھی دروازہ کی زنجیر متحرک تھی.اور بستر جسم کی حرارت سے ابھی گرم تھا.لیکن سید صاحب کی تصانیف سے معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک خواب تھا.خواب میں خواہ کچھ سے کچھ عجائبات بلکہ ناممکنات بھی دیکھ لے تو از روئے فلسفہ کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.اس لئے معترض سے جان تو چھوٹ جاتی مگر اپنے دل میں معراج کی جو وقعت اور منزلت ہوتی وہ بھی ساتھ ساتھ اُٹھ جاتی بلکہ سائل اور مجیب ایک ہی رنگ میں ہو جاتے تھے.لیکن حضور کی تفہیم کے مطابق معراج ایک عالم کشف تھا جس کے مظاہر تعبیر طلب اور اعلیٰ پیشگوئیوں اور اخبار غیب کے حامل ہوتے ہیں.جس سے معراج کی تو قیر اور قدرومنزلت میں بھی فرق نہیں آنے پاتا اور معترض کو عالم کشف اور روحانی تاثرات سے اپنی لاعلمی کا احساس کرنا پڑتا ہے.ایسا جواب وہی دے سکتا ہے جو خود صاحب حال اور اس سے بہر ؤ رہو.اس پر حضور نے ایک بشاش انداز میں حضرت مولوی صاحب کو مخاطب فرمایا کہ مولوی صاحب یہ سب سوالات میں نے آپ کی خاطر کئے ہیں تا آپ کو معلوم ہو جائے کہ چونکہ ان کو ایک بات کی تلاش اور دل میں اس کے لئے تڑپ تھی اس لئے خدا نے آیت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ۷۰) کے مطابق ان کو اپنے مطلوب تک پہنچا دیا.بڑی مشکل یہی ہے کہ لوگوں میں حق کی تلاش ہی نہیں رہی.اور جب خواہش اور تلاش ہی کسی شخص کے دل میں نہ ہوتو اچھے اور برے کی تمیز کیسے ہو.1144 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے.میاں چراغ دین ساکن تھصہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسو کو طلاق دے دی ہوئی تھی.حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جا کر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرا دیا.اور رات کو

Page 124

سیرت المہدی 117 حصہ چہارم دیر تک وعظ بھی کیا.اس کے بعد آپ ایک جگہ پیشاب کرنے لگے تو مہر علی ساکن کرالیاں کو کہا کہ مجھے کوئی ڈھیلا دو.تو اس نے کسی دیوار سے ایک روڑا توڑ کر دے دیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ ڈھیلا کہاں سے لیا.تو اس نے کہا کہ فلاں دیوار سے.آپ نے فرمایا جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو.بغیر اجازت دوسرے کی چیز نہیں لینی چاہیئے.1145 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ قحط پڑا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین سے روپیہ قرض لیا اور گندم خرید کی اور گھر کا خرچ پورا کیا اس کے بعد آپ نے چوہدری رستم علی صاحب سے حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ سے ۵۰۰ روپیہ منگوایا اور کچھ گھی کی چائیاں منگوائیں.روپیہ آنے پر آپ نے حضرت ام المومنین کا قرض ادا کر دیا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حافظ صاحب تھیلیوں کے تھیلے روپوں کے لایا کرتے تھے.جن کی حفاظت رات کو مجھے کرنی پڑتی تھی.1146 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین بعض دفعہ حافظ صاحب کے متعلق حضرت جی سے شکایت کرتیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں سودے میں حافظ صاحب نے کچھ پیسے رکھ لئے ہیں.جس پر ہمیشہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب ایسے نہیں.ہاں سودا مہنگالائے ہوں گے.1147 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عید الاضحی کے روز مسجد اقصے میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں الہام چند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں.مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں صاحب تمام و کمال لکھنے کی کوشش کریں.یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کر دیا.پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرمارہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہو رہا تھا اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثریہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آ رہا تھا.ہر ایک اس سے متاثر تھا.مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے.ایک لفظ

Page 125

سیرت المہدی 118 حصہ چہارم خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا.خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پر تشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کو بلایا اور فرمایا کہ خطبہ کا جواثر ہوا ہے اور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے.اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں.مولوی عبد اللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دیئے.میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ میں دریافت فرماتے رہے.وغیرہ.حضور کو میرا یہ مضمون بہت پسند آیا اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکر تھا کہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا.حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو ضبط تحریر میں نہیں آسکتا.دوران خطبہ میں کوئی شخص کھانستا تک نہیں تھا.غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر سنایا اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کر دو.مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے تو ہمیں زندہ ہی دفن کر دیا ہے.(مولوی عبد الکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی ) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا.اچھا ہم شائع نہیں کریں گے.پھر میں کئی روز قادیان میں رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا.مولوی عبدالکریم صاحب عربی زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے.اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے اور اس خطبے کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے.1148 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں ایک ماہ تک ٹھہرے رہے.حضور کا وہاں لیکچر تھا.عبدالحمید خاں صاحب ، مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی اور خاکسار لیکچر والے دن پہنچے.تقریر کے ختم ہونے پر میں نے جا کر مصافحہ کیا.گاڑی کا وقت قریب تھا.اس لئے رخصت چاہی.آپ نے فرمایا.اچھا اب آپ کو ایک ماہ کے قریب یہاں ٹھہرے ہوئے ہو گیا ہو گا.اچھا اب آپ گھر جائیں.جب میں اجازت لے کر نیچے اُترا تو سید حامد شاہ صاحب نے کہا کہ ایک مہینے کی خدمت کا ثواب آپ نے لے لیا.گویا حضور کے

Page 126

سیرت المہدی 119 حصہ چہارم نزدیک آپ ایک مہینہ سے آئے ہوئے ہیں.اور میر حامد شاہ صاحب نے یہ بھی ذکر کیا کہ ایک عورت خادمہ حضور کوکھانا کھلاتی رہتی اور اس کے اولاد نہ تھی.اس لئے دعا کے لئے عرض کرتی رہی.ایک دفعہ پھر جو اس نے دعا کے لئے دس پندرہ دن بعد عرض کی.تو حضور نے فرمایا تم کہاں رہی تھیں.اس نے کہا میں تو حضور کو دونوں وقت کھانا کھلاتی ہوں.فرمانے لگے اچھا تم کھانا کھلانے آیا کرتی ہو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کو ایسا انہماک کبھی کبھی خاص استغراق کے زمانہ میں ہوتا تھا.ہمیشہ یہ کیفیت نہ ہوتی تھی.گو ویسے حضرت صاحب کی یہ عام عادت تھی کہ آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر ادھر ادھر زیادہ نہیں دیکھا کرتے تھے.1149 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں.مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہو گئے ہیں.لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے.حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ).مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے.اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا.تو میں نے حضرت صاحب سے جا کر عرض کر دی.اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضور معمولاً مسجد کی چھت پر تشریف فرما تھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں.کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا.ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہو گا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی.اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رور ہے تھے اور توبہ کر رہے تھے.1150 بسم الله الرحمن الرحیم.رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا.کہ میں اکثر دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھانا پکا کر کھلاتی تھی.جس دن کوئی اچھا کھانا ہوتا تو آپ اس پر بہت خوش ہوتے.اور اُس دن مجھے اس میں سے ضرور کچھ

Page 127

سیرت المہدی 120 حصہ چہارم نہ کچھ دے دیتے.اور میں وہ کھانا بعض دفعہ خود کھا لیتی اور اکثر دفعہ حافظ حامد علی صاحب کو دے دیتی.1151) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم مختار عام سنور ریاست پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت میری عمر قریباً ۴ ۵ سال کی ہے.میں گو بہت چھوٹی عمر کا بچہ تھا اور ابھی بولنے نہیں لگا تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گھر سنور تشریف لائے تھے.مجھے اس وقت کا نظارہ صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی شخص آیا تھا.لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور مجھے گود میں لیا تھا.اللہ تعالیٰ کا میں ہزار ہزار شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ نعمت مجھے ملی.شاذ کے طور پر جماعت میں کوئی اور بھی ہوگا جس کو حضور علیہ السلام کی گود میں کھیلنے کا فخر حاصل ہو.والد صاحب مرحوم نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا.کہ اپنے مکان میں جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے اس جگہ پر بیٹھ کر دعا کرنے کے لئے احمدیوں کے خطوط آتے رہتے تھے.مگر میں نے کسی کو اجازت نہیں دی کہ کہیں رفتہ رفتہ رسم نہ ہو جائے.یا شاید کچھ اور فرمایا تھا مجھے یاد نہیں.پھر جب میں کچھ بڑا ہو گیا اور سکول میں جانا شروع کر دیا تو میرے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پھر پٹیالہ تشریف لائے.لوگ زیارت کے لئے جانے شروع ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے تھے کہ چلو پٹیالہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں.اُن کو دیکھنا ہے.میں نے بڑے تعجب کے ساتھ اُن کو کہا کہ وہ مرزا کیسا ہے جن کو دیکھنے پٹیالہ جانا ہے.ہمارے محلہ میں بھی تو مرزے رہتے ہیں اُن کو تو دیکھنے کوئی نہیں جاتا ( ہمارے محلہ میں چند مغل رہتے ہیں جن کو مرزا کہتے ہیں) لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے بھی شوق پیدا ہوا.میں بھی پٹیالہ پہنچ گیا.جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ کی زیارت کی.پھر جب میں کچھ اور بڑا ہو گیا اور پانچویں چھٹی جماعت میں تعلیم حاصل کرنے لگا تو لوگوں میں عام چرچا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ہونے لگا.کوئی اعتراض کرتا ہے، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ.سب کو اپنی اپنی بولیاں بولتے سنا کرتا تھا.مجھے اس وقت اتنی بھی خبر نہ تھی کہ حضور کا دعویٰ کیا ہے.اور نہ ہی میں اُن دنوں احمدی ہی ہوا تھا ( اُس زمانہ میں ہم حضرت صاحب کے ماننے والوں کو مرزائی کہا کرتے تھے ) میری طبیعت بہت ڈگمگاتی رہتی تھی.کبھی مخالفین کی باتوں کا دل پر اثر اور کبھی موافقین کی باتوں کا اثر

Page 128

سیرت المہدی 121 حصہ چہارم ہوتا تھا.غرضیکہ دل ایک طرف قائم نہ رہتا تھا.ایک رات کو سوتے سوتے بڑے زور کے ساتھ متواتر دوتین دفعہ یہ آواز آئی.کیا کوئی مرکز بھی زندہ ہوا ہے.لا مهدی الا عیسی یہی ہے.اس آواز کے بند ہونے کے معا بعد دیکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آمنے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں.اور میرے والد صاحب مرحوم قریب کھڑے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد تینوں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگ گئے.حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوپر ہیں اور نیچے نیچے والد صاحب ہیں.جب آسمان کے قریب پہنچے تو آسمان پھٹ گیا اور تینوں داخل ہو گئے.میری آنکھ کھل گئی.یہ آواز اور نظارہ بچپن سے ہی میرے دل میں شیخ کی طرح گڑا ہوا ہے میں اُسی وقت سے آپ پر ایمان لے آیا کہ یہ نبی ہیں.اور اس کا اتنا گہرا اثر خدا کے فضل سے آج تک ہے کہ کبھی خالی بروزی کی بحث میں نہیں پڑا.1152 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیر میں نقرس کا دردتھا.میں بھی وہیں بیٹھا تھا.فرمانے لگے کہ ایک بزرگ کے پیر میں نقرس کا درد تھا.انہیں الہام ہوا کہ کدوکھاؤ.میں نے عرض کیا کہ حضور اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ سبب کے ذریعہ ہی کام کرتا ہے.فرمایا نہیں.بے سبب بھی کرتا ہے.1153 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ بمقام سرہند مجددالف ثانی کے عرس میں ایک مولوی وعظ کر رہا تھا کہ ایک عیسائی نے کہا کہ دیکھو ہمارا یسوع آسمان پر ہے اور تمہارا پیغمبرزمین میں.تو اس عیسائی کو جواب دیا گیا کہ.ع حباب برسر آب و گہر ته دریا است حضور نے مجھ سے یہ قصہ سن کر فرمایا ” طفل تسلیاں ہیں 1154) بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ ہم نے ایک باغیچہ لگایا ہے.آؤ آپ کو دکھاتے ہیں.آپ مجھے اپنے زنانہ مکان میں لے گئے اور وہاں اپنے کتب خانہ میں بٹھا دیا کہ یہ باغیچہ ہے.تمام

Page 129

سیرت المہدی 122 حصہ چہارم عربی کتب تھیں.ایک جگہ میں نے دیکھا کہ متکلمین کی کتابیں اوپر نیچے رکھی تھیں.سب سے اوپر براہین احمدیہ تھی.اس کے نیچے حجتہ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ صاحب اور اس کے نیچے اور کتا بیں تھیں.میں نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا یہ ترتیب اتفاقی ہے یا آپ نے مدارج کے لحاظ سے لگائی ہے.آپ نے فرمایا میں نے اپنے خیال میں درجہ وار لگائی ہے.پھر مجھے الماری کے نیچے مولوی صاحب کے دستخطی کچھ عربی میں لکھے ہوئے کاغذ ملے جو پھٹے ہوئے تھے ، میں وہ نکال کر پڑھنے لگا.آپ نے منع فرمایا.میں نے کہا کہ قرآن شریف کی تفسیر معلوم ہوتی ہے.فرمانے لگے.کیا پوچھتے ہو.میں نے منطق الطیر کی تفسیر کی تھی.نہایت ذوق وشوق میں.اور میں سمجھتا تھا کہ میں اس مسئلے کو خوب سمجھا ہوں.لیکن کل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منطق الطیر پر تقریر فرمائی.تو میں بہت شرمندہ ہوا اور میں نے آکر یہ مضمون پھاڑ ڈالا اور اپنے آپ کو کہا کہ تو کیا جانتا ہے.1155 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے.تو میں اوپر کوٹھے پر گیا.حضور تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اور رکوع سجود لمبے کرتے تھے.ایک خادمہ غالبامائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھی تھی.حضور کے برابر مصلے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ کر چلی گئی.میں دیر تک بیٹھا رہا.جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا.کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے.حضور نے فرمایا.اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے.میں نے کہا حضور تا بی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں.وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی.1156 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی اروڑ ا صاحب کے پاس کپورتھلہ میں خط آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مقد مقتل بن گیا ہے.وہ فوراً روانہ بٹالہ ہو گئے اور ہمیں اطلاع تک نہ کی.میں اور محمد خان صاحب تعجب کرتے رہے کہ منشی صاحب کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں.ہمیں کچھ گھبراہٹ سی تھی.خیر اگلے دن میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہو گیا.بٹالہ جا کر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں.اور مارٹن کلارک والا مقدمہ بن گیا

Page 130

سیرت المہدی 123 حصہ چہارم ہے.ابھی میں حضور کی قیام گاہ پر جا کر کھڑا ہی ہوا تھا کہ حضور نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا اور نہ میں نے حضور کو دیکھا تھا کہ آپ نے فرمایا.منشی ظفر احمد صاحب کو بلا لو.میں حاضر ہو گیا.منشی اروڑ ا صاحب کی عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دا بتے رہتے تھے.اُس وقت منشی اروڑا صاحب کسی ضرورت کے لئے اُٹھ کر گئے ہوئے تھے.آپ نے مجھے فرمایا کہ مقدمہ کے متعلق میں کچھ لکھانا چاہتا ہوں آپ لکھتے جائیں اور اس بات کا خیال رکھنا کہ کوئی لفظ خلاف قانون میری زبان سے نہ نکل جائے.گو میں نے سینکڑوں فیصلے ہائی کورٹوں کے پڑھتے ہیں.لیکن پھر بھی اگر تمہارے خیال میں کوئی ایسا لفظ ہو تو روک دینا.غرض آپ لکھاتے رہے اور میں لکھتارہا اور میں نے عرض کی کہ منشی اروڑا صاحب کو قانون کی زیادہ واقفیت ہے.انہیں بھی بلا لیا جائے.حضور نے فرمایا کہ وہ مخلص آدمی ہیں اگر ان کو رخصت ملتی تو بھلا ممکن تھا کہ وہ نہ آتے.میں نے ذکر نہ کیا کہ وہ آئے ہوئے ہیں.منشی اروڑا صاحب کو جب علم ہوا تو وہ کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہ بتایا کہ وہ تو کل کا آیا ہوا ہے.میں نے کہا.تم ہمیں اطلاع کر کے کیوں نہ آئے تھے.اب دیکھ لو.ہم حاضر ہیں اور آپ غائب ہیں.غرض ہم اس طرح ہنستے رہتے.1157 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جماعت علی شاہ صاحب نے منشی فاضل کا امتحان محمد خان صاحب مرحوم کے ساتھ دیا تھا.اس تعلق کی وجہ سے وہ کپورتھلہ آگئے.محمد خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اُن سے ذکر کیا اور کچھ اشعار کا بھی ذکر ہو گیا.جماعت علی شاہ صاحب نے کہا کہ نظامی سے بڑھ کر فارسی میں کوئی اور لکھنے والا نہیں ہوا.میں نے کہا کہ کوئی شعر نظامی کا نعت میں سناؤ.انہوں نے یہ شعر پڑھا فرستاده خاص پروردگار میں نے حضرت صاحب کا یہ شعر انہیں سنایا رساننده حبت استوار صدر بزم آسمان وجہ اللہ بر زمیں ذات خالق را نشان بس بزرگ اُستوار وہ کہنے لگا کہ کوئی اردو کا شعر بھی آپ کو یاد ہے میں نے اس کو قرآن شریف کی تعریف میں حضور کے اشعار سنائے.

Page 131

سیرت المہدی 124 حصہ چہارم اس کے منکر جو بات کہتے ہیں یونہی اک واہیات کہتے ہیں بات جب ہو کہ میرے پاس آئیں میرے منہ پر وہ بات کر جائیں مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یونہی امتحان سہی وہ کہنے لگا.اہل زبان اس سے زیادہ اور کیا کہ سکتے ہیں.جماعت علی شاہ صاحب کے پاس ایک مسمریزم کی کتاب تھی اور وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارے کھانے کمانے کا شغل ہے.1158 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک دفعہ لاہور میں لیکچر تھا تو اس موقعہ پر مولوی عبد الکریم صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مکان کے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے جو مسجد احمدیہ کے سامنے ہے.میں بھی سکول سے رخصت لے کر لاہور پہنچ گیا.لیکچر کے موقعہ پر ایک عجیب نظارہ تھا.جگہ جگہ ملاں لوگ لڑکوں کو ہمراہ لئے شور مچاتے پھرتے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے تھے کہ لیکچر میں کوئی نہ جائے مگر وہاں یہ حالت تھی کہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ ہی نہ ملتی تھی.حضور کے نورانی چہرہ میں ایک عجیب کشش تھی.جب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت شور مچ گیا.ہر ایک دوسرے کو منع کرتا.اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے تلاوت شروع کی.جھٹ خاموشی ہوگئی پھر حضور نے تقریر فرمائی جو آخر تک توجہ سے سنی گئی.لیکچر سننے کے بعد میں بھی اُس بالا خانہ میں چلا گیا.جہاں حضور فرش پر ہی بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے.( یہ مجھے یاد نہیں) میں پاؤں دبانے لگ گیا.اس وقت ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور میں گنڈے تعویذ کرتا ہوں.میرے لئے کیا حکم ہے.میرا گزارہ اسی پر ہے مجھے اب یاد نہیں رہا.کہ حضور نے اس کو کیا جواب دیا.البتہ ایک مثال حضور علیہ السلام نے جو اس وقت دی تھی وہ مجھے اب تک یاد ہے.حضور نے فرمایا! کہ دیکھو ایک زمیندار اپنی زمین میں خوب ہل چلاتا ہے اور کھاد بھی خوب ڈالتا ہے اور پانی بھی خوب دیتا ہے اور بیج بھی عمدہ ہوتا ہے.یہ سب اس کے اپنے اختیار کی باتیں ہیں.بیج کا اگنا، بڑھنا یہ اس کے اپنے

Page 132

سیرت المہدی 125 حصہ چہارم اختیار میں نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ وہ اُگنے ہی نہ دے.1159) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لدھیانہ میں تشریف لائے.رمضان شریف کا مہینہ تھا.یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب حضور دہلی سے تشریف لائے تھے.شاید ۱۹۰۵ء کا ذکر ہے یا اس سے پہلے کا.میں بھی والد صاحب مرحوم کے ساتھ لدھیانہ پہنچ گیا.گاڑی کے آنے پر وہ نظارہ بھی عجیب تھا.باوجود مولوی ملانوں کے شور مچانے کے کہ کوئی نہ جائے.وہ خود ہی زیارت کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے تھے.اسٹیشن کے باہر بڑی مشکل سے حضور علیہ السلام کو بگھی میں سوار کرایا گیا.کیونکہ آدمیوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا.جائے قیام پر حضور علیہ السلام مع خدام ایک کمرہ میں فرش پر ہی تشریف فرما تھے.ایک مولوی صاحب نے عرض کی کہ لوگ زیارت کے لئے بہت کثرت سے آ رہے ہیں.حضور کرسی پر بیٹھ جائیں تو اچھا ہے.حضور نے منظور فرمالیا.کرسی لائی گئی.اور اس پر آپ بیٹھ گئے.دہلی کے علماء کا ذکر فرماتے رہے.جو مجھے یاد نہیں.چونکہ رمضان کا مہینہ تھا.ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے.حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا یا کسی اور سے معلوم ہوا ( یہ مجھے یاد نہیں ) غرض خود کو معلوم ہو گیا کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں.حضور نے فرمایا میاں عبداللہ ! خدا کا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے.آپ سب روزے افطار کر دیں.ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے.اگلے روز حضور کا لیکچر ہوا.دوران تقریر حضور بار بار عصا پر ہاتھ مارتے تھے.تقریر کے بعد ایک فقیر نے حضور علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک خواب بیان کی.حضور نے قادیان سے حضرت خلیفتہ المسیح اول کو بلانے کا حکم دیا.چنانچہ وہ بھی جلدی ہی لدھیانہ پہنچ گئے.حکیم صاحب نے فرمایا.ہم تو حکم ملتے ہی چلے آئے ، گھر تک بھی نہیں گئے.1160 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے پڑھا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب قبول کیا تھا.کیونکہ حضور ولی

Page 133

سیرت المہدی 126.حصہ مه چهارم تھے.میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن اس طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو.سب کچھ والد صاحب مرحوم و مغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کا نتیجہ تھا.اس کا مفصل ذکر حضرت خلیفہ اول کے خطبہ نکاح میں درج ہے جو اخبار بدر میں شائع ہو چکا ہے.1161 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری اہلیہ تو میرٹھ گئی ہوئی تھی.گھر خالی تھا.تین دن کی تعطیل ہوگئی.دیوانی مقدمات کی مسلیں صندوق میں بند کر کے قادیان چلا گیا.وہاں پر جب تیسرا دن ہوا تو میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی.کہ حضور تعطیلیں ختم ہوگئی ہیں.اجازت فرما ئیں.آپ نے فرمایا.ابھی ٹھہر وہ تھوڑے دنوں کے بعد منشی اروڑے صاحب کا خط آیا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے.مسلیں ندارد ہیں تم فوراً چلے آؤ.مجھے بہت کچھ تاکید کی تھی.میں نے وہ خط حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا.آپ نے فرمایا.لکھ دو.ابھی ہمارا آنا نہیں ہوتا.میں نے یہی الفاظ لکھ دیئے کہ انہی میں برکت ہے.پھر میں ایک مہینہ قادیان رہا.اور کپورتھلہ سے جو خط آتا.میں بغیر پڑھے پھاڑ دیتا.ایک مہینہ کے بعد جب آپ سیر کو تشریف لے جانے لگے تو مجھے فرمانے لگے کہ آپ کو کتنے دن ہو گئے.میں نے کہا حضور ایک ماہ کے قریب ہو گیا ہے.تو آپ اس طرح گننے لگے.ہفتہ ہفتہ آٹھ اور فرمانے لگے.ہاں ٹھیک ہے.پھر فرمایا.اچھا اب آپ جائیں.میں کپورتھلہ آیا اور عملہ والوں نے بتایا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے.میں شام کو مجسٹریٹ کے مکان پر گیا کہ وہاں جو کچھ اس نے کہنا ہوگا وہ کہہ لے گا.اس نے کہا آپ نے بڑے دن لگائے اور اس کے سوا کوئی بات نہ کہی.میں نے کہا کہ حضرت صاحب نے آنے نہیں دیا.وہ کہنے لگا ان کا حکم تو مقدم ہے.تاریخیں ڈالتا رہا ہوں.مسلوں کو اچھی طرح دیکھ لینا اور بس.میں ان دنوں ایک سررشتہ دار کے عوض کام کرتا تھا.1162 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان گئے.منشی اروڑا صاحب اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سررشتہ دار تھے.اور میں اپیل نویس تھا.باتوں باتوں میں میں نے عرض کی کہ حضور مجھے اپیل نویس ہی

Page 134

سیرت المہدی 127 حصہ چہارم رہنے دینا ہے؟ فرمایا کہ اس میں آزادی ہے.آپ ایک ایک دو ماہ ٹھہر جاتے ہیں.پھر خود بخودہی فرمایا کہ ایسا ہو کہ منشی اروڑ صاحب کہیں اور چلے جائیں ( مطلب یہ کہ کسی اور آسامی پر ) اور آپ اُن کی جگہ سر رشتہ دار ہوجائیں.اس سے کچھ مدت بعد جبکہ حضور علیہ السلام کا وصال ہو چکا تھا.منشی اروڑا صاحب تو نائب تحصیلدار ہو کر تحصیل بھونگہ میں تعینات ہو گئے اور میں ان کی جگہ سررشتہ دار ہو گیا.پھر منشی صاحب مرحوم نائب تحصیلداری سے پنشن پا کر قادیان جارہے.اور میں سررشتہ داری سے رجسٹراری ہائی کورٹ تک پہنچا اوراب پینشن پاتا ہوں.بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا کے کوئی بات فرما دی ہے اور پھر وہ اُسی طرح وقوع میں آگئی ہے.1163 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا.میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے.دیکھ کر فرمایا.آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ یہاں ہمارے جس قد را حباب ہیں وہ سفر میں نہیں.ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں.ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے.پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لا یا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی.حضور نے فرمایا کھا لو.اذان جلد دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو.1164 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب مرحوم سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ماموں قادر بخش صاحب مرحوم ( والد مکرم مولوی عبد الرحیم صاحب درد) نے والد صاحب مرحوم سے بہت خواہش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے گھر لائیں.والد صاحب نے جواب دیا کہ حضرت صاحب نے مکان پر جانے سے کئی ایک کو جواب دے دیا ہے.ماموں صاحب نے پھر کہا.والد صاحب نے جواب دیا کہ اچھا ہم لے آتے ہیں.مگر.۲۵ روپیہ لوں گا.ماموں صاحب نے خوشی سے.۲۵ روپے دینے منظور کرلئے.والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اچھا.حضور کے بیٹھنے کی جگہ سے.کا انتظام کرو.میں جاتا ہوں.چنانچہ میں اور والد صاحب ماموں صاحب کے مکان سے اُٹھ کر شہر کی

Page 135

سیرت المہدی 128 حصہ چہارم طرف آئے.والد صاحب راستے میں ہی بگھی کا انتظام کر کے اس کو ساتھ لے گئے.حضور اس وقت اندر تشریف فرما تھے.والد صاحب نے ڈیوڑھی کے دروازے پر دستک دی اور حضور باہر تشریف لے آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے.میاں عبد اللہ کیا ہے.والد صاحب نے عرض کی.حضور مکان تک تشریف لے چلیں.حضور نے فرمایا اچھا سواری کا انتظام کرو.والد صاحب نے عرض کی کہ سواری تیار ہے.چنانچہ حضور بگھی میں بیٹھ گئے.اور ہم سب ماموں صاحب کے مکان پر پہنچ گئے.ماموں صاحب نے کچھ پھل پیش کئے.والد صاحب نے ماموں صاحب سے وہ.۲۵ روپیہ لے کر پھلوں میں رکھ دیئے.اس وقت کئی مستورات نے بیعت کی.دعا کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے گئے.اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب میاں عبد اللہ سنوری کے ساتھ مکان پر گئے تھے.اور حضور کے تشریف لے جانے میں تعجب کرتے رہے.کیونکہ تشریف لے جاتے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی.زمانہ گذر گیا.لیکن جس سادگی کے ساتھ حضور دستک دینے پر تشریف لائے تھے.اس کا ایک گہرا اثر اس وقت میرے دل پر ہے.1165 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ بہت سخت بیمار ہو گیا.ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا کہ اب یہ صرف چند دن کا مہمان ہے کسی دوائی کے بدلنے کی ضرورت نہیں.والد صاحب مرحوم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں اس وقت اپنی حالت کیسی رکھوں حضور کے دست مبارک سے لکھا ہوا جواب پہنچ گیا.کہ اگر یہ موت نہ ہوئی تو میری دعا قبولیت کو پہنچ گئی.کیونکہ دعا کرنے کے بعد یہ خط لکھا ہے.حضور کا یہ خط ابھی سنور پہنچا نہ تھا کہ رات کو مجھے آرام سے نیند آ گئی کہ گویا میں بیمار ہی نہ تھا.صبح کو والد صاحب نے میری حالت کی بابت دریافت کیا.میں نے کہا کہ میری حالت بہت اچھی ہے.کوئی تکلیف نہیں.والد صاحب مرحوم نے جوش کے ساتھ فرمایا.کہ رحمت اللہ گواہ رہنا.آج کا دن یا درکھنا.حضرت صاحب نے تمہارے لئے دعا کر دی ہے.یہ اسی کا نتیجہ ہے.ڈاکٹر و حکیم نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ کسی مریض کا نہیں بلکہ یہ تو بالکل تندرست آدمی کا قارورہ ہے اور وہ بہت حیران تھے.کہ ایک دن میں ایسی حالت کا تغیر کیسے ہو گیا.

Page 136

سیرت المہدی 129 حصہ چہارم حضور کا جب خط آیا تو ہفتہ کے روز کی تاریخ کا تھا.اور مجھے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو کلی طور پر صحت ہو گئی تھی.میں حضور کی دعا کی قبولیت کا زندہ نشان ہوں.افسوس حضرت اقدس کا یہ خط اور واسکٹ کا ٹکڑا جو میں نے تبر گا رکھے ہوئے تھے، گم ہو گئے ہیں.1166 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے کئی خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے کئی اوراق پر اپنے قلم سے درج فرمائے تھے.ایک دفعہ کسی شخص نے غالباً مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے کسی نے اشتہار دیا اور اس میں اپنے خواب اور کشوف درج کئے.اس پر حضرت صاحب نے مجھے رقم فرمایا کہ آپ نے جو خواب دیکھتے ہیں وہ اس کے جواب میں آپ اشتہار کے طور پر شائع کریں.چنانچہ آپ کے فرمودہ کے مطابق میں نے اشتہار شائع کر دیا جس کی سرخی یہ تھی.الااے بلبل نالاں چہ چندین ماجرا داری بیا داغے کہ من درسینه دارم تو کجا داری وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے.(1) بیعت اولی کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کرا سکتے ہیں؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا فضل کرے.مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی.(۲) اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہو گیا.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی.حسو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے.اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار ) یا رسول اللہ ! آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں.اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں.میری روح تازہ ہو جاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنا ئیں.پھر

Page 137

سیرت المہدی میری آنکھ کھل گئی.130 حصہ چہارم (۳) ایک دفعہ میں مسجد احد یہ کپورتھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا.(۴) ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے میں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کر دیا.تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں.(۵) ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے.وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پر بیٹھا تھا.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں.چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا.جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنا اور تمام بدیوں سے پر ہیز کرنا.میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کے لئے اس شخص کی طرف گیا جو جر نیلی وردی پہنے بیٹھا تھا.مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا.(1) ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطر ہو گیا.میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوں نے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے.جس کی وجہ سے مکان معطر ہے.میں نے کہا میں نے کوئی خوشبو نہیں لگائی.(۷) ایک دفعہ میں نے خواب میں حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں.آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے.جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں.میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا.تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ فاروق کی زیارت سے دین میں

Page 138

سیرت المہدی 131 حصہ چہارم استقامت اور شجاعت پیدا ہوتی ہے.1167 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف ما نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیر دباتا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا.مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا.مجھے روٹی نہیں ملی.کتے لپٹ گئے.مجھے سالن کم ملتا ہے.وغیرہ.اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے.اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضورسن لیتے.ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں.آپ نے کواڑ کھول دئے.میں اندر جا کر بیٹھ گیا.میں نے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت ست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے.ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں.تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہو گئی تھی.1168 بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری حاکم علی صاحب نمبر دار سفید پوش چک نمبر ۹ شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء کے قریب یا اس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پاس موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دیئے ہیں.1169 بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری حاکم علی صاحب نمبر دار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلا کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کر دیتا ہے یا کوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ ہمارے گھر میں آ گیا ہے.1170 بسم الله الرحمن الرحیم.چوہدری حاکم علی صاحب نمبر دار سفید پوش نے بواسطہ مولوی

Page 139

سیرت المہدی 132 حصہ چہارم محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹.۱۸۹۸ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہو گیا اور روزے نہ رکھ سکا.میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا.مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرما ہیں.مجھے کمزوری تو بہت تھی.مگر میں افتان و خیزاں حضور تک پہنچا.اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا.حضور نے فرمایا.آپ کو دو گنا ثواب ملے گا.میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے.حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں.اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہو گا.1171 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمد یہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسالہ توفیقات قمریہ میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سن پیدائش سے لے کر چودھویں صدی کے آخر تک شمسی اور قمری تاریخوں کا مقابلہ کیا ہے ، موٹے طور پر ان تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے.(1) قمری مہینہ کی اوسط مقدار ۲۹ دن ۱۲ گھنٹے ۴۴ منٹ اور قریباً ۶/۷ ۲سکینڈ (۲۹۸۶۴۹۷۶سکینڈ) ہوتی ہے اور جو فرق تدریجی طور پر چاند کی رفتار میں نمودار ہو رہا ہے وہ اس اندازہ پر چنداں اثر انداز نہیں.(۲) یکم محرم 1 ھ کا دن جمعہ تھا.جیسا کہ محمد مختار باشا مصری کی کتاب توفیقات الہامیہ سے اور مغربی مصنفین کے شائع کردہ دیگر تقویمی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے.محمد مختار باشا اپنی کتاب مذکور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اقوال شرعیہ اور حسابی طریق سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یکم محرم 1 ھ کو جمعہ کا دن تھا.(۳) یہ تقویمی نقشه مختلف واقعات زمانہ گذشتہ و زمانہ حال کی معین طور پر معلوم تاریخوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کے دن پر جو نوٹ لکھ کر الفضل مورخہ ۱۱ار اگست ۱۹۳۶ء میں شائع کروایا تھا.اپنے سامنے رکھ کر بھی میں نے اس تقویمی نقشہ کو دیکھا ہے اور اس کے مطابق پایا ہے.

Page 140

سیرت المہدی 133 حصہ چہارم تفصیل اس کی یہ ہے کہ یکم محرم 1ھ بروز جمعہ سے لے کر۴ اشوال ۱۲۵۰ھ تک کے دن مذکور بالا اوسط کی رو سے ۴۴۲۸۸۳ ہوئے.جو سات پر پورے تقسیم ہوتے ہیں.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ھ کو بھی جمعہ ہی کا دن تھا کیونکہ اس عرصہ کے کل قمری مہینے ۱۴۹۹۷ ہوتے ہیں.اور جب اس عدد کو مذکورہ بالا اوسط ماہانہ سے ضرب دی جائے تو حاصل ضرب ۷۰ ۴۴۲۸ ہوتا ہے.اور جب اس میں یکم شوال کے اوپر کے ۳ ا دن جمع کئے جائیں تو جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے تو ۱۴شوال تک کے کل دنوں کی تعداد ۴۴۲۸۸۳ ہوتی ہے.اور یہ عدد سات پر پورا تقسیم ہوتا ہے.پس جو دن یکم محرم ا ھ کو تھا وہی دن ۱۴ رشوال ۱۲۵۰ ہجری کو تھا.سو چونکہ یکم محرم ار ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس لئے ۱۴ رشوال ۱۲۵۰ ہجری کو بھی جمعہ ہی تھا.نیز ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ عیسوی بروز جمعہ کو قمری تاریخ ۴ ارشوال ۱۲۵۰ ہجری کا ہونا حسابی طریق سے بھی ثابت ہے.کیونکہ قمری مہینہ کا اوسط ۶۵۳۰۵۸۸۷۱۵ ۲۹ دن یعنی ۲۹ دن ۱۲ گھنٹے ۴۴ منٹ ۶۲۵۰۰ : ۶۱ ۴۰ ۲٫۵ ہوتی ہے.اور یہ یکم شوال ۱۲۵۷ ہجری سے لے کر یکم شوال ۱۳۵۷ھ تک کا عرصہ ۱۲۸۴ ماہ کا ہوتا ہے.جسے مذکورہ بالا اوسط میں ضرب دینے سے حاصل ضرب ۳۷۹۱۷۶۲۷۵۹۱۰۰۶ ( دن ) ہوتا ہے.جس کی اعشاریہ کی کسر کو ( جو اس قابل نہیں کہ اسے ایک دن شمار کیا جائے ) چھوڑ کر باقی رقم کو ہفتہ کے دنوں کے عدد یعنی سات پر تقسیم کرنے سے پانچ دن باقی بچتے ہیں.یعنی عرصہ ۵۴۱۵ ہفتہ اور پانچ دن کا ہوتا ہے.اور یہ یقینی بات ہے کہ یکم شوال ۱۳۵۷ھ کا یعنی سال رواں کا عید الفطر کا دن پنج شنبہ تھا اور جب ہم پنج شنبہ سے پانچ دن پیچھے جائیں تو شنبہ یعنی ہفتہ کا دن ہوتا ہے.پس یکم شوال ۱۲۵۰ھجری کو ہفتہ کا دن تھا.اس لئے ۱۴ رشوال ۱۲۵۰ ہجری کو جمعہ کا دن تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ الفضل مورخہار اگست ۱۹۳۶ء میں میرا جو مضمون شائع ہوا تھا وہ روایت نمبر ۶۱۳ میں درج ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش بروز جمعہ ۱۴رشوال ۱۲۵۰ هجری بمطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ عیسوی مطابق یکم پھا گن ۱۸۹۱ بکرمی ثابت کی گئی ہے.1172 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یا کاپی لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 141

سیرت المہدی 134 حصہ چہارم پاس اندر گیا.اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کے لئے آئے ہیں.تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے.ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو.میں نے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی.تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ.ملنے والوں کو بلا لاؤ.میں نے باہر جا کر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ.1173 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی.ڈونگے دالان کے صحن میں چار پائی پر لیٹے تھے اور لحاف او پر لیا ہوا تھا.کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے.حضور نے اندر بلوالیا.وہ آکر چار پائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا.اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا.جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے.طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں ، جواب نہیں دے سکیں گے.مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑ دیا.حضور فور الحاف اُتار کر اٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا.یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھر کبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا.1174 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یا شاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے.تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خدا تعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الاَسباب بھی ہے.یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو.1175 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی بات کی بابت عرض کیا کہ اس میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.حضور نے فرمایا کہ میاں تم اللہ تعالیٰ کے نام ” مُسَبِّبُ الْأَسْبَاب “ کو لے کر اس سے دعا کیا کرو.1176 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان نے بواسطہ

Page 142

سیرت المہدی 135 حصہ چہارم مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ خاکسار۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا.ایک رات میں نے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے.جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا یا ایها النبي اطـعـمـوا الجائع والمعتر منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا.خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریباً ساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جا کر کھانا کھایا.اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے.اور بعض اور اصحاب بھی تھے.اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا."یا ایها النبي اطعموا الجائع والمعتر 1177 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک خط لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں گیا.حضور اس وقت اس دالان میں جو بیت الدعا کے متصل ہے، زمین پر بیٹھ کر اپنا ٹرنک کھول رہے تھے.اس لئے مجھے فرمایا کہ خط پڑھو ، اس میں کیا لکھا ہے میں نے حضور کو وہ خط پڑھ کر سنایا.حضور نے فرمایا کہ کہد دو کہ خضر انسان تھا.وہ 66 فوت ہو چکا ہے.1178 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور میں مستری موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور ! غیر احمدی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا اور یہ کہ حضور جب قضائے حاجت کرتے تو زمین اسے نگل جاتی.جواب میں حضور نے ان دونوں باتوں کی صحت سے انکار کیا.1179 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر محمد اسحاق صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بٹالہ ایک گواہی کے لئے گئے.یہ سفر حضور نے رتھ میں کیا.میں بھی علاوہ اور بچوں کے حضور کے ہمراہ رتھ میں گیا.راستہ میں جاتے وقت حضور نے اعجاز احمدی کا مشہور

Page 143

سیرت المہدی 136 مه چهارم حصہ عربی قصیدہ نظم کرنا شروع کیا.رتھ خوب ہلتی تھی.اس حالت میں حضور نے دو تین شعر بنائے.1180 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد مبارک میں جو بھی وسیع نہیں ہوئی تھی.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان مرحوم اور میں ، صرف ہم تینوں بیٹھے تھے.مولوی صاحب نے شاہ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب ! حضرت صاحب دے پرانے زمانے دی کوئی گل سناؤ.شاہ صاحب نے ایک منٹ کے وقفہ کے بعد کہا کہ اس پاک زاد دا کی پکچھ دے اؤ اس کے بعد ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی آمد تھی.اور بڑے مرزا صاحب صفائی اور چھڑ کا ؤ کرارہے تھے.تو میرے اس کہنے پر کہ آپ خود تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں.بڑے مرزا صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرے کے دروازے پر گئے.اندر حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور تین طرف تین ڈھیر کتابوں کے تھے اور ایک کتاب ہاتھ میں تھی اور پڑھ رہے تھے.مرزا صاحب نے کہا.آؤ دیکھ لو یہ حال ہے اسدا.میں اس نوں کم کہہ سکدا ہاں؟ میرے اس بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ قادیان کے پرانے لوگ بھی حضرت صاحب کو باخدا سمجھتے تھے.1181 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ڈوئی امریکہ کا رہنے والا مطابق پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوا.تو میں نے اسی دن ، جب یہ خبر آئی حضور سے عرض کیا کہ حضور ڈوئی مر گیا؟ فرمایا ہاں میں نے دعا کی تھی، یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ پیشگوئی جو دعا کے بعد الہام ہو کر پوری ہو وہ بہ نسبت اس پیشگوئی کے جس میں دعا نہ ہو اور صرف الہام ہو کر پوری ہو، خدا تعالیٰ کی ہستی کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کرنے والی ہے.کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کا متکلم ہونے کے علاوہ سمیع اور مجیب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے.1182 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دن حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرے.ڈریس کے بعد جب چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.تو میں نے نزدیک ہو کر کہا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ گھوڑے

Page 144

سیرت المہدی 137 حصہ چہارم سے گرنے والی پیشگوئی ظاہری رنگ میں پوری ہوئی.میرا مطلب اس بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا علم مجھے بھی تھا.1183 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین سکنہ بھین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مقدمہ فوجداری دائر کیا ہوا تھا.حضرت صاحب اس کے متعلق اپنا الہام شائع کر چکے تھے کہ ہمارے لئے ان مقدمات میں بریت ہوگی.لیکن جب ایک لمبی تحقیقات کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہوا کہ آتما رام مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی.اس سے فوراً ہی بعد ایک اور مقدمہ کی پیشی کے لئے حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے.جماعت امرتسر ریلوے سٹیشن پر حاضر ہوئی.میں بھی موجود تھا.اس وقت میاں عزیز اللہ صاحب منٹو کیل احمدی نے عرض کیا.کہ حضور لوگ ہم کو بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہامات غلط ہو گئے.بریت نہ ہوئی.حضور کا چہرہ جوش ایمان سے اور منور ہو گیا.اور نہایت سادگی سے فرمایا ی شتاب کا رلوگ ہیں.ان کو انجام دیکھنا چاہئے.چنانچہ بعد میں اپیل میں حضور بری ہو گئے.1184 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محمد حسین صاحب پنشنر دفتر قانون گو نے بواسطه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا.کہ جنوری ۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام احمد یہ چوک سے باہر سیر کو تشریف لے جارہے تھے.اور میں بھی ساتھ تھا.حضور نے فرمایا کہ آج سعد اللہ لدھیانوی کی موت کی اطلاع آئی ہے اور آج عید کا دوسرا دن ہے.ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے نشان پورا فرمایا.اگر چہ کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کے نشان سے خوشی ہوتی ہے اور اس لئے آج ہمارے لئے دوسری عید ہے.1185 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ۱۹۰۵ء میں میں پہلی مرتبہ قادیان آیا اور اکیلے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.حضور اس وقت مسجد مبارک میں محراب کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے تھے اور خاکسار حضور کے سامنے بیٹھا تھا.حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر رکھ کر میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا تھا.حضور کا ہاتھ بھاری اور پر گوشت تھا.

Page 145

سیرت المہدی 138 حصہ چهارم 1186 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ غالبًا ۱۹۰۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے تشریف لائے اور آکر مسجد مبارک میں کھڑے ہو گئے.حضور کے گردا گر دلوگوں کا ہجوم ہو گیا.جوسب کے سب حضور کے گرد حلقہ کئے ہوئے کھڑے تھے.حضور نے فرمایا کہ شاید کسی صاحب کو یاد ہوگا کہ ہم نے آگے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے.اس چھوٹی مسجد (مبارک) سے لے کر بڑی مسجد اقصیٰ ) تک سب مسجد ہی مسجد ہے.اس پر حاضرین میں سے ایک سے زیادہ اصحاب نے تائید بتایا کہ ہاں ہمیں یاد ہے.کہ حضور نے یہ بات فرمائی تھی.اُن بتانے والوں میں سے جہاں تک مجھے یاد ہے.ایک تو شیخ یعقوب علی صاحب تھے.لیکن دوسرے بتانے والوں کے نام مجھے یاد نہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک سب مسجد ہی مسجد ہے.“ 1187 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ پیغمبر اسنگھ سب سے پہلے کانگڑہ والے زلزلہ کے دنوں میں جب حضور باغ میں تھے.قادیان آیا تھا.میں بھی باغ میں تھا.پیغمبر اسنگھ میرے پاس آیا.میں نے کہا مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لو گے؟ کہنے لگا! کہ میں تاں مہدی دا پیشاب بھی پین نو تیار ہیں.جاؤلیا ؤ میں پیواں.میں خاموش ہورہا.پھر کہنے لگا کہ مجھے ایک جھنڈا بنا دو.اور اس پر نبیوں کے نام لکھ دو.میں نے کہا کہ میں پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھوں.تب میں نے حضرت صاحب کو عریضہ لکھا کہ پیغمبر اسنگھ کہتا ہے کہ مجھے ایسا جھنڈا بنادو اور کاغذ پر نقشہ بھی کھینچ دیا.تب حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا.بنا دو شاید مسلمان ہو جائے.چنانچہ میں نے لٹھے کے ایک سفید کپڑے پر ایک دائرہ کھینچا.اور عین درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کے نیچے حضرت صاحب کا نام لکھا.یعنی یہ دونوں نام دائرے کے اندر تھے.پھر چاروں طرف دائرہ کے خط کے ساتھ ساتھ باقی تمام انبیاء کے نام لکھے اور وہ کپڑا پیغمبر اسنگھ کو دے دیا.چنانچہ کچھ مدت بعد پیغمبر اسنگھ مسلمان ہو گیا.اس کے مسلمان ہونے کے بعد میں نے اسے کہا کہ جب میں نے تمہیں جھنڈا بنا کر دیا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا جھنڈا بنا کر دے دوشاید مسلمان

Page 146

سیرت المہدی 139 حصہ چہارم ہو جائے.تو یہ سن کر پیغمبر اسنگھ بہت خوش ہوا.اور دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے ایسا کیا سی.میں نے کہا.ہاں کیا سی.1188 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ آگ کے گولوں والی پیشگوئی جو پچیس دن کے سر پر پوری ہوئی.جس دن یہ الہام ہوا.تو اندر سے ایک عورت نے مجھے آکر بتلایا کہ آج حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا ہے.اور کہا الہام بیان کرتے وقت ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ مائی تابی نہیں فوت ہوگی جب تک اس پیشگوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے.“ چنانچہ مائی تابی جو اسی برس کے قریب عمر کی ایک عورت تھی.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد فوت ہوئی.1189 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا.جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا.جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے.نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی.1190 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک مولا بخش صاحب پیشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت پر بہت صدمہ تھا.یہ اس وقت کی بات ہے جب احمد نور صاحب کابلی واپس آگئے تھے اور انہوں نے مفصل حالات عرض کر دیئے تھے.شام کی مجلس میں مسجد مبارک کی چھت پر میں بھی حاضر تھا.حضور نے فرمایا ہم اس پر ایک کتاب لکھیں گے.مجھے حضور کے فارسی اشعار کا شوق تھا.میں نے عرض کیا.حضور اس میں کچھ فارسی نظم بھی ہو تو مناسب ہوگا.حضور نے فرمایا.نہیں.ہمارا مضمون سادہ ہوگا.میں شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا کہ میں نے رنج کے وقت میں شعر گوئی کی فرمائش کیوں کر دی.لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہا دتین شائع ہوئی.تو اس میں ایک لمبی پر درد فارسی نظم تھی.جس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضور اپنے ارادے سے شعر گوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے.بلکہ جب خدا تعالیٰ چاہتا تھا طبیعت کو اُدھر مائل کر دیتا تھا.

Page 147

سیرت المہدی 140 حصہ چهارم 1191 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک مولا بخش صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم جب بیمار تھے تو ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشویش اور فکر کا علم ہوتا رہتا تھا.جب صاحبزادہ صاحب فوت ہو گئے تو سردار فضل حق صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب مرحوم اور بندہ بخیال تعزیت قادیان آئے.لیکن جب حضور مسجد میں تشریف لائے.تو حضور حسب سابق بلکہ زیادہ خوش تھے.صاحبزادہ مرحوم کی وفات کا ذکر آیا تو حضور نے فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا.میرے مولا کی بات پوری ہوئی.اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یلڑکا یا تو جلدی فوت ہو جائے گا یا بہت باخدا ہو گا.پس اللہ نے اُس کو بلا لیا.ایک مبارک احمد کیا.اگر ہزار بیٹا ہواور ہزار ہی فوت ہو جائے.مگر میرا مولا خوش ہو.اس کی بات پوری ہو.میری خوشی اسی میں ہے.یہ حالات دیکھ کر ہم میں سے کسی کو افسوس کے اظہار کی جرات نہ ہوئی.1192 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کی مجلس میں ایک امرتسری دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مولوی ثناء اللہ بہت تنگ کرتا ہے.اس کے لئے بددعا فرمائیں.اس پر حضور نے فرمایا.نہیں.وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں.ان کے ذریعہ سے ہمارے دعوی کا ذکر ان لوگوں میں بھی ہو جاتا ہے جو نہ ہماری بات سنے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں.وہ تو ہمارے کھیت کے لئے کھاد کا کام دے رہے ہیں.بدھ سے گھبرانا نہیں چاہئے.1193 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کہ ڈونگے دالان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پی پڑھ رہے تھے.میں پاس بیٹھا تھا.اطلاع آئی کہ سپر نٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر پولیس آئے ہیں.حضرت صاحب باہر تشریف لے گئے.چھوٹی مسجد کی سیڑھیوں کی آخری اوپر کی سیڑھی پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اندر کی طرف کھڑ ا تھا.حضرت صاحب کو دیکھ کر اس نے ٹوپی اتاری اور کہا کہ مجھے لیکھرام کے قتل کے بارہ میں تلاشی کا حکم ہوا ہے.حضور نے فرمایا.بہت اچھا تلاشی میں میں آپ کو مدددوں گا.تب حضرت صاحب اور سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر

Page 148

سیرت المہدی 141 حصہ چہارم اندر ڈونگے دالان میں گئے.میں بھی اندر گیا.دالان میں ہم صرف چاروں تھے.دالان کے شمال مغربی کونے میں ڈھائی تین گز مربع کے قریب لکڑی کا ایک تخت بچھا تھا.اس پر کاغذات کے پندرہ ہیں بستے بندھے پڑے تھے.انسپکٹر نے دونوں ہاتھ زور سے بستوں پر مارے، گرد اٹھی.انسپکٹر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے انگریزی میں کہا جس کا مطلب یہی معلوم ہوتا تھا کہ کسی قدر گر د ہے.معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت سے ان کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا.انسپکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس دونوں مغرب کی طرف منہ کئے تخت کے پاس کھڑے تھے.دونوں کا منہ بستوں کی طرف تھا.میں مشرق کی طرف منہ کئے مغربی دیوار کے ساتھ کھڑا تھا.حضرت صاحب مشرقی دیوار کے ساتھ دالان کی لمبائی میں اس طرح ٹہل رہے تھے جیسے کوئی بادشاہ ٹہلتا ہے.لکڑی ہاتھ میں تھی اور درمیان سے پکڑی ہوئی تھی.سپر نٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر کی پشت حضرت صاحب کی طرف تھی.انسپکٹر سپرنٹنڈنٹ سے باتیں تو کرتا تھا.لیکن سپرنٹنڈنٹ جو انگریز تھا ( شاید لیمار چنڈ اس کا نام تھا ) اس کا دھیان بالکل حضرت صاحب میں تھا.میں دیکھتا تھا جب حضرت صاحب اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ہو کر جنوب کی طرف جاتے تو وہ کنکھیوں سے خفیف سا سر پھیر کر حضرت صاحب کو دیکھتا تھا.اور جب حضرت صاحب اس کے پیچھے سے ہو کر شمال کی طرف جاتے تو سر پھیر کر پھر کنکھیوں سے حضرت صاحب کو دیکھتا تھا.وہ بار بار یہی کچھ کرتا رہا.انسپکٹر کی طرف اس کا دھیان نہ تھا.پھر تجویز ہوئی کہ باقی مکان کی تلاشی لی جائے.عصر کے بعد گول کمرہ کے باہر کھلے میدان میں کرسیاں بچھائی گئیں.ایک پر سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا.اس کی دائیں طرف انسپکٹر تھا.بائیں طرف حضرت صاحب کرسی پر تھے.سامنے اس کے اور سپرنٹنڈنٹ سے پرے محمد بخش تھانیدار بٹالہ تھا.حاکم علی سپاہی متعینہ قادیان سپرنٹنڈنٹ کو رومال ہلا رہا تھا.درمیان میں زمین پر وہی بستے جو ڈونگے دالان کے تخت پر رکھے ہوئے تھے.پڑے تھے.محمد بخش نے ایک کاغذ ایک بستے میں سے نکالا اور مسکراتا ہوا کہنے لگا کہ یہ دیکھئے ثبوت.انسپکٹر نے اس کاغذ کو لے کر پڑھا اور کہا یہ تو ایک مرید کی طرف سے پیشگوئی کے پورا ہونے کی مبارکباد ہے اور کچھ نہیں.سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کاغذ واپس بستے میں ڈال دیا گیا.محمد بخش نے پھر ایک اور کاغذ نکالا وہ بھی اسی

Page 149

سیرت المہدی 142 حصہ چہارم قسم کا تھا.جو واپس بستہ میں ڈال دیا گیا.اسی طرح کئی کاغذ دیکھے گئے اور واپس کئے گئے.آخر کار دو کاغذ جن میں سے ایک ہندی میں لکھا ہوا تھا.اور دوسرا مرز امام الدین کا خط محمدی بیگم کے متعلق تھا، لے کر عملہ پولیس واپس چلا گیا.ایک دو ماہ بعد ایک سکھ انسپکٹر پولیس آیا اور وہی دونوں کا غذ واپس لایا.حضرت صاحب نے اس کو ڈونگے دالان میں بلا لیا.آداب عرض کرنے کے بعد اس نے ہندی کا خط حضرت کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو جناب کا آٹے وغیرہ کے متعلق دوکاندار کا ٹو نبو ہے اور یہ دوسرا کا غذ کس کا ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا.مرزا امام الدین کا ہے.انسپکٹر نے کہا کہ اس کے متعلق مرزا امام الدین سے پوچھنا ہے کہ کیا یہ تمہارا ہے.اس لئے مرزا امام الدین کی ضرورت ہے.چنانچہ آدمی بھیج کر مرزا امام الدین کو بلوایا گیا.انسپکٹر نے اس کو خط دکھا کر کہا کہ کیا یہ آپ کا خط ہے؟ اُس نے صاف انکار کر دیا کہ میرا نہیں.تب انسپکٹر نے کاغذ اور قلم دوات منگوا کر مرزا امام الدین کو دیا کہ آپ لکھتے جائیں، میں بولتا جاتا ہوں.انسپکٹر نے اس خط کی صرف دو سطر میں لکھوائیں.پھر امام الدین کے ہاتھ سے لے کر اس کا لکھا ہوا کاغذ لے کر اصل خط کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھنے لگا.میں جھٹ انسپکٹر کی کرسی کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور ان دونوں خطوں کو میں نے دیکھ کر انسپکٹر کو کہا کہ یہ دیکھئے قادیان کانون یا کے اوپر ڈالا گیا ہے اور گول نہیں بلکہ لمبا ہے.اور دوسری تحریر میں بھی بالکل ویسا ہی ہے.اور یہ دیکھئے لفظ ”بار میں“ کو بارہ میں لکھا ہوا ہے اور دوسری تحریر میں بھی بارہ میں“ ہے.مجھے ساتھ لے جائیے.میں ثابت کر دوں گا کہ یہ دونوں تحریریں ایک شخص کے ہاتھ کی ہی لکھی ہوئی ہیں.یہ سن کر انسپکٹر نے اس خط کو ہاتھ سے پکڑ کر اوندھا اپنی ران پر مارتے ہوئے کہا کہ ”لجانا کتھے اے پتہ لگ گیا جوں ہی انسپکٹر نے یہ کہا تو مرزا امام الدین خود ہی بول پڑا کہ یہ خط میرے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا ہے.سب لوگ جو کھڑے تھے اس کے جھوٹ پر سخت انگشت بدندان ہوئے کہ ابھی اس نے کہا تھا کہ یہ خط میرا نہیں.اب کہتا ہے کہ یہ خط میرا ہے.تب انسپکٹر کھڑا ہو گیا اور حضرت صاحب کو وہ خط دے کر جانے کے لئے رخصت طلب کی.لیکن ساتھ ہی کہا کہ میں بطور جج محمدی بیگم کی پیشگوئی کی نسبت جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں.حضرت صاحب نواڑی پلنگ کے اوپر کھڑے تھے اور انسپکٹر نیچے زمین پر کھڑا تھا.اسی حالت میں کھڑے کھڑے حضرت صاحب نے تمام قصہ سنایا.تب انسپکٹر سلام کر کے رخصت ہو کر واپس چلا گیا.

Page 150

سیرت المہدی 143 حصہ چہارم 1194 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے.ان کے لئے ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ پورٹ وائن ایک چمچہ دی جائے.چنانچہ ایک بوتل امرتسر یالا ہور سے منگوائی گئی.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتا تھا جہاں حضور کی دواؤں کی الماری تھی.میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی تشریف لائے.اُن کے ہاتھ میں بوتل تھی.انہوں نے بوتل الماری میں رکھ دی اور مجھ سے فرمایا کہ پیر جی پانی چاہئے.میں نے کہا کیا کرو گے؟ کہا کہ ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے.پھر ہاتھ دھو لئے.1195 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں سر کی لیکھ (جوجوں سے چھوٹی ہوتی ہے) بڑے پاور کی خورد بین میں رکھ کر حضور علیہ السلام کو دکھانے کے لئے لے گیا.حضور نے دیکھنے کے بعد فرمایا.آؤ میاں بارک اللہ! ( مرزا صاحبزاہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم ) تمہیں عجائبات قدرت دکھلائیں.اس وقت حضور ڈونگے دالان میں پلنگ پر بیٹھے تھے.1196 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم حجرے میں بیماری کی حالت میں پڑے تھے.حجرے کے باہر برآمدہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے.اور حضور کے سامنے نصف دائرہ میں چند ڈاکٹر صاحبان اور غالباً حضرت خلیفہ اول بھی بیٹھے ہوئے تھے.درمیان میں پورٹ وائن کی وہی بوتل جو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم کے لئے منگائی گئی تھی پڑی ہوئی تھی.میاں مبارک احمد صاحب کے علاج کے لئے دواؤں کی تجویز ہورہی تھی میں بھی ایک طرف کو بیٹھا تھا.حضرت اقدس نے فرمایا! کہ یہ جو حافظ کہتا ہے.اں تلخ وش کہ صوفی ام الخبائث خواند اشهى لنا واحلى من قبلة العذارى اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعر میں حافظ نے ام الخبائث ترک دنیا کو کہا ہے اور تلخ اس لئے کہا کہ

Page 151

سیرت المہدی 144 حصہ چہارم ترک دنیا سے ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی کے جوڑ اور بندا کھاڑے جائیں اور ام الخبائث اس لئے کہا کہ جس طرح ماں جننے کے بعد تمام آلائشوں کو باہر نکال دیتی ہے.اسی طرح ترک دنیا بھی انسان کی تمام روحانی آلائشوں کو باہر نکال دیتی ہے.قبلة العـذاری سے مراد ہے دنیا کی عیش و عشرت.پس حافظ صاحب کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو حاصل کرنے کی نسبت ہمیں ترک دنیا زیادہ پسندیدہ ہے.(1197 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کانگڑہ والے زلزلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چلے گئے تھے.انہی دنوں باغ میں حضرت صاحب کو الہام ہوا.تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت عصر کی نماز جب ہو چکی.دوست چلے گئے.مولوی عبد الکریم صاحب مصلی پر بیٹھے رہے.میں ان کے پاس مصلے کے کنارہ پر جا بیٹھا، اور کہا کہ سنا ہے کہ آج یہ الہام ہوا ہے.مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا.لیکن کسی قسم کی بات نہ کی.میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا.میرے خیال میں تین بڑے آدمی یہ تھے.حضرت خلیفہ اول ، مولوی عبد الکریم صاحب، مولوی محمد احسن صاحب، چند روز بعد مولوی عبد الکریم صاحب کی پشت پر ایک پھنسی نکلی جو بڑھتے بڑھتے کار بنکل بن گئی.غرض اس الہام کے بعد قریباً ڈیڑھ ماہ میں مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہو گئے اور پیشگوئی نہایت صاف طور پر پوری ہوئی.1198 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی.اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ مدرسہ احمدیہ کے مکان میں جہاں پہلے ہائی سکول ہوا کرتا تھا.ایک گھنٹہ کے قریب لیکچر دیا.بعد میں آپ کی تحریک سے حضرت مولوی عبدالکریم اور حضرت خلیفہ امسیح الاول ہفتہ وار ایک ایک گھنٹہ لیکچر طلباء کے سامنے دیا کرتے تھے.اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا.ہم جو تصانیف کرتے ہیں.یہ علماء زمانہ کے مقابلہ اور مخاطبت میں لکھی گئی ہیں.ان کتابوں کو طلباء نہیں سمجھ سکتے.ان دنوں ان کے کورس بھی اتنے لمبے ہیں کہ طلباء کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ تالیفات کو پڑھنے کی فرصت پاسکیں.اس لئے میں یہی کہتا ہوں اور پھر پھر کہتا ہوں کہ سکولوں کے ماسٹر صاحبان میری کتابوں کے چند صفحات مطالعہ کر لیا کریں اور ان کا خلاصہ سہل اور آسان الفاظ میں طلباء

Page 152

سیرت المہدی 145 حصہ چہارم کے رو برو بیان کر دیا کریں.تاکہ ہماری باتیں طلباء کے دل ودماغ میں نقش ہو جائیں.ورنہ جو کتب مولویوں کے مقابلہ میں لکھی گئی ہیں وہ بچوں کے فہم سے بالا تر ہوتی ہیں.1199 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دوران قیام مقدمہ کرم دین حضور علیہ السلام کچہری گورداسپور کی عمارت کے متصل پختہ سڑک کے کنارے ٹالیوں کے نیچے دری کے فرش پر تشریف فرما ہوا کرتے تھے.جس روز کا یہ واقعہ ہے.حضور لیٹے ہوئے تھے.اور سڑک کی طرف پشت تھی.ڈپٹی کمشنر انگریز تھا اور وہ اپنی کوٹھی کو اسی طرف سے جاتا تھا.میں نے دیکھا کہ وہ اس گروہ کی طرف دیکھتا ہوا جاتا تھا.اور ہماری جماعت سے کوئی تعظیماً کھڑا نہیں ہوتا تھا.میں نے یہ دیکھ کر حضرت سے عرض کی کہ حضور ! ڈپٹی کمشنر ادھر سے ہمارے قریب سے گزرتا ہے اور کل بھی اس نے غور سے ہم لوگوں کی طرف دیکھا.آج بھی ہم میں سے کوئی تعظیم کے لئے نہیں اُٹھا ہے.حضور نے فرمایا کہ وہ حاکم وقت ہے.ہمارے دوستوں کو تعظیم کے لئے کھڑا ہونا چاہئے.پھر اس کے بعد ہم برابر تعظیماً کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور اس کے چہرہ پر اس کے احساس کا اثر معلوم ہوتا تھا.اسی مقدمہ کے دوران ایک مرتبہ حضور گورداسپور کی کچہری کے سامنے ٹالیوں کے سایہ کے نیچے تشریف فرما تھے.عدالت کا اول وقت تھا.اکثر حکام ابھی نہیں آئے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا.چلئے.حج خدا بخش صاحب سے مل آئیں.میں ان کے ہمراہ حجج صاحب کے اجلاس میں چلا گیا.وہ خود اور ان کے پیشکار ( ریڈر ) محمد حسین جن کو لوگ محمد حسین خشکی کے نام سے ذکر کیا کرتے تھے.اجلاس میں تھے.غالباً اور کوئی نہ تھا.محمد حسین نے خواجہ صاحب سے مقدمہ کرم دین کا ذکر چھیڑا.غالباً وہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور کہا کہ مرزا صاحب نے یہ کیا کیا کہ مقدمہ کا سلسلہ شروع کر لیا ہے.صلح ہو جانی چاہئے.حج صاحب نے بھی خواجہ صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب کی شان کے خلاف ہے.مقدمہ بازی بند ہونا چاہئے اور باہمی صلح آپ کرانے کی کوشش کریں.حضرت سے اس بارہ میں ضرور کہیں اور میری جانب سے کہیں.خواجہ صاحب نے کہا کہ خواہش تو میری بھی یہی ہے اور یہ اچھا ہے.میں آپ کی طرف سے حضرت کی خدمت میں عرض کروں گا.یہ کہہ کر خواجہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے مجھ

Page 153

سیرت المہدی 146 حصہ چہارم سے کہا کہ آپ بھی میری تائید کیجئے گا.میں خاموش رہا.جب اجلاس سے ہم باہر آ گئے.تو میں نے کہا کہ اس بارہ میں میں آپ کی تائید نہیں کر سکتا.مجھ سے یہ توقع نہ رکھئے.خواجہ صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ جج صاحب نے کہا ہے کہ مقدمہ کرنا حضرت کی شان کے خلاف ہے اور صلح ہو جانا ہی اچھا ہے اور مجھے تاکید کی ہے کہ حضور سے عرض کروں.حضرت صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرہ سرخ ہو گیا.اور فرمایا آپ نے کیوں نہ کہہ دیا کہ صلح اس معاملہ میں ناممکن ہے.کرم دین کا الزام ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوں.پس یہ تو خدا کے ساتھ جنگ ہے اور خدا پر الزام ہے.نبی صلح کرنے والا کون ہوتا ہے اور اگر میں صلح کرلوں تو گویا دعویٰ نبوت کو خود جھوٹا ثابت کر دوں.دیر تک حضرت اس معاملہ میں کلام فرماتے رہے اور چہرہ پر آثار ناراضگی تھے یہاں تک کہ کھڑے ہو گئے اور ٹہلنے لگے.1200 بسم الله ارحمن الرحیم.ملک مولا بخش صاحب پینشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک صاحب عبدائی عرب قادیان میں آئے تھے.انہوں نے سنایا کہ میں نے حضرت اقدس کی بعض عربی تصانیف دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ ایسی عربی بجز خداوندی تائید کے کوئی نہیں لکھ سکتا.چنانچہ میں قادیان آیا.اور حضور سے دریافت کیا کہ کیا یہ عربی حضور کی خود لکھی ہوئی ہے.حضور نے فرمایا.ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و تائید سے.اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ میرے سامنے ایسی عربی لکھ دیں تو میں آپ کے دعاوی کو تسلیم کرلوں گا.حضور نے فرمایایہ و اقتراحی معجزہ کا مطالبہ ہے.ایسا معجزہ دکھانا انبیاء کی سنت کے خلاف ہے.میں تو تب ہی لکھ سکتا ہوں جب میرا خدا مجھ سے لکھوائے.اس پر میں مہمان خانہ میں چلا گیا اور بعد میں ایک چٹھی عربی میں حضور کولکھی.جس کا حضور نے عربی میں جواب دیا.جو ویسا ہی تھا.چنانچہ میں داخل بیعت ہو گیا.1201 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بمعہ اہل بیت وخدام امرتسر تشریف لائے.امرتسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کے مرد زیادہ ہوں گے.مکان کا بڑا حصہ مردانہ کے لئے اور چھوٹا حصہ زنانہ کے لئے تجویز کیا.حضور نے آتے ہی پہلے مکان کو دیکھا اور اس تقسیم

Page 154

سیرت المہدی 147 حصہ چہارم کو نا پسند فرمایا اور بڑے حصے کو زنانہ کے لئے مخصوص فرما لیا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو صنف نازک کے آرام کا بہت خیال رہتا تھا.1202 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر تشریف لائے.اور آپ کا لیکچر منڈ وہ با بوگھنی لعل ( جس کا نام اب بندے ماترم ہال ہے ) میں ہوا.بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا.لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی.حضور نے توجہ نہ فرمائی.پھر وہ اور آگے ہوئے.پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے.پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی.اس پر لوگوں نے شور مچا دیا.یہ ہے رمضان شریف کا احترام.روزے نہیں رکھتے.اور بہت بکواس کرنا شروع کر دیا.لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہو گئے.گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی.اور حضور اس میں داخل ہو گئے.لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلر مچایا.گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا.مگر حضور بخیر و عافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا.کہ آج لوکاں نے مرزے نوں نبی بناد تا یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سنا.حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں.ذرا ٹھہر جائیں.تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے.مجھے کون مارتا ہے.چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی.اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا.میں نے بھی ان کو ایسا کہا.وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کر دیا.تو حضور نے فرمایا! کہ مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقعہ پیدا کر دیا.پھر تو مفتی صاحب شیر ہو گئے.1203 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب

Page 155

سیرت المہدی 148 حصہ چہارم مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں دیکھا.کہ حضور بمثل دیگر اصحاب کے بے تکلف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور اس میں ایک اجنبی کے واسطے کوئی امتیازی رنگ نہ ہوتا تھا.ایک دن بعد فراغت نماز ظہر یا عصر حضور مسجد سے نکل کر گھر کے متصلہ کمرہ میں داخل ہوئے جہاں حضور نے جوتا اتارا ہوا تھا.میں نے دیکھا کہ حضور کا دھیان جوتا پہنتے ہوئے جوتے کی طرف نہ تھا بلکہ پاؤں سے ٹٹول کر ہی اپنا جوتا پہن رہے تھے.اور اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب سے مخاطب تھے.مولوی صاحب حضور کے سامنے قدرے خمیدہ ہو کر نہایت موڈب کھڑے تھے.اور کوئی اپنا خواب حضور کو سنا رہے تھے.وہ خواب نہایت اطمینان سے سن کر حضور نے فرمایا کوئی فکر نہیں.مبشر ہے.اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی صاحب نہایت ادب و نیاز سے کھڑے ہوئے تھے اور نگاہیں ان کی زمین کی طرف تھیں.بات کرتے ہوئے کسی کسی وقت نظر سامنے اٹھا کر حضور کو دیکھ لیتے اور پھر آنکھیں نیچی کر کے سلسلہ کلام چلاتے جاتے تھے.1204 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ایک دفعہ غالبا ۱۹۰۷ء میں امتہ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاءالدین صاحب مرحوم ہمشیرہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جو میری ننھیال کی طرف سے رشتہ دار بھی ہے.ایک کا غذ کا پرزہ دیا تھا جوردی کے طور پر تھا.لیکن چونکہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُم المومنین ایدھا اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی عبارتیں تھیں.اس لئے میں نے اس کو تبر کا نہایت شوق سے حاصل کیا اور محفوظ رکھا.پھر کسی وقت وہ کاغذ مجھ سے پس و پیش ہو گیا ہے.معلوم نہیں کہ کسی کتاب میں پڑا ہوا ہے یا گم ہو گیا ہے.جس کا مجھے بہت افسوس ہے.لیکن چونکہ اس کے ساتھ ایک واقعہ کا تعلق ہے.جو مجھے امتہ الرحمن صاحبہ مرحومہ نے خود سنایا تھا اس بے تکلفانہ لکھی ہوئی عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق باللہ اور تقوی وطہارت و عبادات میں شغف پر روشنی پڑتی ہے.اس لئے میں اس کا ذکر کرنا اور تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں.امتہ الرحمن صاحبہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہا کرتی تھیں.انہوں نے دیکھا اور خاکسار سے بیان کیا کہ ایک

Page 156

سیرت المہدی 149 حصہ چہارم دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ نے یہ تجربہ کرنا چاہا کہ دیکھیں آنکھیں بند کر کے کاغذ پر لکھا جاسکتا ہے یا نہیں.چنانچہ وہ پرزہ کاغذ پکڑ کر اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسب ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی اور جو مجھے حرف بحرف بخوبی یاد ہے.اور مجھے اس کے متعلق ایسا وثوق ہے کہ اگر وہ پرزہ کاغذ کبھی دستیاب ہو جاوے تو یقینا یہی الفاظ اس پر لکھے ہوئے ہوں گے.حضور نے آنکھیں بند کرنے کی حالت میں لکھا تو یہ لکھا کہ ”انسان کو چاہئے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور پنج وقت اس کے حضور دعا کرتا رہے.“ دوسری جگہ اسی حالت میں حضرت اماں جان کی تحریر کردہ عبارت حسب ذیل تھی.9966 محمود میرا پیارا بیٹا ہے کوئی اس کو کچھ نہ کہے.مبارک احمد بسکٹ مانگتا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ان سے شکستہ اور پختہ خط میں صاف طور پر پڑھی جاتی تھی اور باوجود آنکھیں بند کر کے لکھنے کے اس میں سطر بندی مثل دوسری تحریرات کے قائم تھی.لیکن حضرت اُم المومنین کے حروف اپنی جگہ سے کچھ اوپر نیچے بھی تھے اور سطر بندی ان کی قائم نہ رہی تھی.لیکن خاص بات جس کا مجھے ہمیشہ لطف آتا ہے وہ یہ تھی کہ اپنے گھر میں بے تکلفانہ بیٹھے ہوئے بھی اگر اچانک بے سوچے کوئی بات حضور کو کھنی پڑتی ہے تو وہ نصیحتا نہ پاک کلمات کے سوا اور کوئی نہیں سوجھی.اور ادھر حضرت اُم المومنین کی عبارت ایسی ہے جو کہ ماحول کے حالات کے مطابق ان کے ذہن میں موجود ہوسکتی ہے.یہ وہ فرق ہے جو ماموروں اور دوسروں میں ہوا کرتا ہے.1205 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد عبد اللہ صاحب بو تالوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.مجلس میں مولوی محمد علی صاحب بھی موجود تھے.اس وقت مولوی صاحب مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں زر جرمانہ وصول کر کے آرہے تھے.اور مہتم خزانہ کے ساتھ ان کی جو گفتگو مقدمہ اور واپسی جرمانہ کے متعلق ہوئی تھی.وہ حضور کو سنارہے تھے.مولوی صاحب نے کہا کہ جس مجسٹریٹ نے اس مقدمہ میں جرمانہ کیا تھا.

Page 157

سیرت المہدی 150 حصہ چہارم اپیل منظور ہونے پر وہی افسر مہتم خزانہ ہو گیا تھا جس سے زر جرمانہ ہم نے واپس لینا تھا.چنانچہ ہم پہلے اس کے مکان پر ( کچہری کے وقت سے پہلے ) گئے اور اس سے ذکر کیا کہ ہم تو جرمانہ واپس لینے کے واسطے.آئے ہیں.اس پر وہ مجسٹریٹ بہت نادم سا ہو گیا.اور اس نے فوراً کہا کہ آپ کو وہ رقم نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے لئے خودمرزا صاحب کی دو تخطی رسید لانا ضروری ہے.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ وہ رسید تو میں مرزا صاحب سے لکھوا لایا ہوں.پھر اس مجسٹریٹ نے کہا کہ پھر بھی یہ رقم آپ کو نہیں دی جاسکتی.جب تک آپ کے پاس مرز اصاحب کی طرف سے اس امر کا مختار نامہ موجود نہ ہو.مولوی صاحب نے کہا کہ وہ بھی میں لے آیا ہوں.اسے لا جواب ہو کر کہنا پڑا کہ اچھا کچہری آنا.اس موقعہ پر مولوی محمد علی صاحب نے مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک یہ فقرہ بھی سیشن جج صاحب منظور کنندہ اپیل کی باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضور اس سیشن جج نے تو اس قدر زور کے ساتھ حضور کی بریت اور تائید میں لکھا ہے کہ اگر ہم میں سے بھی کوئی اس کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا تو شاید اتنی جرات نہ کر سکتا.یہ جملہ حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت خوشی کی حالت میں سنتے رہے تھے.1206 بسم اللہ الرحمن الرحیم.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ ) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہوا تھا.پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف رہتے رہے ہیں اور جس میں آج کل ام طاہر احمد رہتی ہیں تو چونکہ اس کا ایک حصہ گلی کی طرف سے نمایاں طور پر نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اس کے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوادیئے جس سے بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے حالانکہ حضرت صاحب نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہوا تھا.علاوہ ازیں حضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا بلکہ در اصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا.اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کا نام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے، بیت النور رکھا تھا اور تیسری منزل کے اس دالان کا نام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت ام وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام

Page 158

سیرت المہدی 151 حصہ چہارم رکھا تھا.نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ جس چوبارہ میں اس وقت مائی کا کو رہتی ہے جو مرز اسلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہین احمدیہ تصنیف کی تھی.1207 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی محمداسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا بچہ مبارک احمد فوت ہوا تو اس وقت میں اور مولوی محمد علی صاحب مسجد مبارک کے ساتھ والے کو ٹھے پر کھڑے تھے.اس وقت اندرون خانہ سے آواز آئی جو دادی کی معلوم ہوتی تھی کہ ”ہائے او میر یا بچیا“ حضرت صاحب نے دادی کو قتی کے ساتھ کہا کہ دیکھو وہ تمہارا بچہ نہیں تھا.وہ خدا کا مال تھا جسے وہ لے گیا اور فرمایا یہ نظام الدین کا گھر نہیں ہے.منشی صاحب کہتے ہیں کہ انہی دنوں نظام الدین کا ایک لڑکا فوت ہوا تھا جس پر ان کا گھر میں دنیا داروں کے طریق پر بہت رونا دھونا ہوا تھا.سو حضرت صاحب نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ بات نہیں ہونی چاہئے.اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام بہت خراب ہو گیا ہے کیونکہ اس لڑکے کے متعلق حضرت صاحب کی بہت پیشگوئیاں تھیں اور اب لوگ ہمیں دم نہیں لینے دینگے اور حضرت صاحب کو تو کسی نے پوچھنا نہیں.لوگوں کا ہمارے ساتھ واسطہ پڑنا ہے.مولوی صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ نیچے مسجد کی طرف سے بلند آواز آئی جو نہ معلوم کس کی تھی کہ تریاق لقلوب کا صفحہ چالیس نکال کر دیکھو.مولوی صاحب یہ آواز سن کر گئے اور تریاق القلوب کا نسخہ لے آئے.دیکھا تو اس کے چالیسویں صفحہ پر حضرت صاحب نے مبارک احمد کے متعلق لکھا ہوا تھا کہ اس کے متعلق مجھے جو الہام ہوا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ یا تو یہ لڑکا بہت نیک اور دین میں ترقی کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا.مولوی صاحب نے کہا خیر اب ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکل آئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادی سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم کی والدہ ہے جو مبارک احمد کی کھلا دی تھی اور مبارک احمد اسے دادی کہا کرتا تھا.اس پر اس کا نام ہی دادی مشہور ہو گیا.بیچاری بہت مخلص اور خدمت گزار تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد ۱۹۰۷ء میں فوت ہوا تھا جب کہ اس کی عمر کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی.

Page 159

سیرت المہدی 152 حصہ چہارم 1208 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اسی دوران میں لاہور سے خط لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو ایک دن کے لئے لاہور بلایا اور ان کے ساتھ میں بھی لاہور چلا گیا.جب مولوی صاحب حضرت صاحب کو ملنے گئے تو حضور انہیں اس برآمدہ میں ملے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کا برآمدہ جانب سڑک تھا.میں یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت صاحب نے کوئی بات علیحدگی میں کرنی ہو، ایک طرف کو ہٹنے لگا جس پر حضور نے مجھے فرمایا.آپ بھی آجائیں.چنانچہ میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا.اس وقت حضور نے مولوی صاحب سے لنگر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں اس کی وجہ سے بہت فکر مند ہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اور ان حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے.اسی ملاقات میں حضور نے مولوی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میں لاہور میں یہ مہینہ ٹھہروں گا یہاں ان دوستوں نے خرچ اٹھایا ہوا ہے اس کے بعد میں کہیں اور چلا جاؤں گا اور قادیان نہیں جاؤں گا.حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ جو حضور نے قادیان واپس نہ جانے کا ذکر کیا ہے غالباً موجودہ پریشانی کی وجہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ کچھ عرصہ کہیں اور گذار کر پھر قادیان جاؤں گا مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ اس سے غالبا حضور کی مراد یہ تھی کہ میری وفات کا وقت آ گیا ہے اور اب میرا قادیان جانا نہیں ہوگا.واللہ اعلم 1209 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے مولوی قطب الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت مانگی کہ وہ حضور کے کسی مزارعہ ذخیل کا ر سے کچھ زمین خرید لیں.حضرت صاحب نے فرمایا یہ حقوق کا معاملہ ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اگر آپ کو اجازت دوں تو پھر دوسروں کو بھی اجازت دینی ہوگی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان میں کچھ رقبہ تو ہمارا مقبوضہ مملوکہ ہے یعنی اس کی ملکیت بھی ہماری ہے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مگر پیشتر رقبہ ایسا ہے کہ وہ ملکیت ہماری ہے لیکن وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے مزارعین کے قبضہ میں ہے جنہیں ہم بلا کسی خاص قانونی وجہ کے بے دخل نہیں کر سکتے اور نسل بعد نسل انہی کا

Page 160

سیرت المہدی 153 حصہ چہارم قبضہ چلتا ہے اور ہمیں ان کی آمد میں سے ایک معین حصہ ملتا ہے.یہ لوگ موروثی یا حیل کا ر کہلاتے اور وہ مالکان کی مرضی کے بغیر اپنے قبضہ کی زمین فروخت نہیں کر سکتے.مولوی قطب الدین صاحب نے انہی میں سے کسی کی زمین خریدنی چاہی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت نہیں دی اور واقعی عام حالات میں ایسی اجازت دینا فتنہ کا موجب ہے.کیونکہ اول تو اگر ایک احمدی کو اجازت دی جائے تو دوسروں کو کیوں نہ دی جائے.دوسرے: زمینوں کے معاملات میں بالعموم تنازعات پیش آتے رہتے ہیں اور مالکان اور مزارعان موروثی کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.ان حالات میں اگر ہمارے ذخیلکاروں سے جو بالعموم غیر مسلم اور غیر احمدی ہیں، احمدی دوست زمینیں خرید لیں تو پھر ہمارے احمدی احباب کے درمیان تنازعات اور مقدمات کا سلسلہ شروع ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم دلوں میں میل آنے کا احتمال ہے.ان حالات میں حضرت صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی اور اسی کی اتباع میں آپ کے بعد ہم بھی اجازت نہیں دیتے بلکہ اس قسم کے وجوہات کی بناء پر ہم عموماً ان دیہات میں بھی اجازت نہیں دیتے جن میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنی ہیں اور ایسے دیہات تین ہیں یعنی منگل اور بھینی اور کھارا.گویا قادیان میں تو ہمارا خاندان مالک ہے اور دوسرے لوگ موروثی یا ذخیل کار ہیں اور منگل ، بھینی اور کھارا میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنی ہیں.1210 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا.فرمایا کہ قرآت سورة الحمد خلف امام بہتر ہے.میں نے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ فرمایا کہ نماز تو ہو جاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ الحمد خلف امام پڑھا جاوے.یہ بھی فرمایا کہ اگر بد وں سورۃ الحمد خلف امام نماز نہ ہوتی ہو تو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لوگ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہو جاتے.نماز دونوں طرح سے ہو جاتی ہے.فرق صرف افضلیت کا ہے.“ ایسا ہی آمین بالستر پر آمین بالجبر کو ترجیح دی جاتی تھی.(1211 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے

Page 161

سیرت المہدی 154 حصہ چهارم بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ خان صاحب، ساکن چک ایمر چھ کشمیر نے کہ ”میں نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنا یہ رویاء بیان کیا: کئی درختوں کی قطار ہے جن پر گھونسلے ہیں اور ان میں خوبصورت پرندے ہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے“ 1212 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام اور توضیح المرام شائع فرمائے تو ان کے سرورق پر مرسل یزدانی کا فقرہ حضور کی طرف منسوب کر کے لکھا ہوا تھا.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب خود کو مرسل یزدانی تحریر کرتے ہیں.میں نے معترض کو کہا کہ ممکن ہے کہ مطبع والوں نے لکھ دیا ہو کیونکہ شیخ نور احمد صاحب کے مطبع ریاض ہندا مرتسر میں رسائل موصوفہ طبع ہوئے تھے ) جب میں قادیان آیا تو یہ ذکر میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں کیا.حضور نے بلا تامل جواباً فرمایا: ”میری اجازت کے بغیر مطبع والے کس طرح لکھ سکتے تھے.“ 1213 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم ساکن ایمر چھ نے کہ ایک دن سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جو صبح کے وقت سیر کو نکلے تو مولوی عبد اللہ صاحب حال وکیل کشمیر نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنی رویاء بیان کی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دریا ہے اور میں اس کے کنارے کھڑا ہوں.اس پر حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ اس کا پانی کیسا تھا؟“ پرھ مولوی صاحب نے جواب دیا ” میلا پانی تھا حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ دریا سے مراد دل ہے.راقم لھذا کو یہ یاد نہیں رہا کہ میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے یہ کہا تھا یا نہیں ؟ کہ حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب کو اصلاح نفس کی تلقین فرمائی تھی یا نہ؟ لے لے مولوی عبداللہ صاحب وکیل آخر عمر میں بہائی ہو گئے تھے.(ناشر)

Page 162

سیرت المہدی 155 حصہ چہارم 1214 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے بار بار بہ تکرار سوال پر استغفار اور لاحول گیارہ گیارہ دفعہ پڑھنے کا بطور وظیفہ فرمایا تھا ( سائل کا سوال تعداد معینہ کا تھا) مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا.شاید درود شریف بھی گیارہ دفعہ پڑھنے کا ساتھ ہی فرمایا تھا.1215 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میاں فقیر خان صاحب مرحوم ساکن اندور کشمیر (ملازم حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم جا گیر دار یاڑی پورہ کشمیر نے ، راجہ صاحب موصوف کی بینائی بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی.جب وہ قادیان گئے تو جب کبھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے باغ میں بیدانہ کے ایام میں جاتے تو حضور علیہ السلام راجہ صاحب موصوف کے آگے خود اچھے اچھے دانے بیدانہ یا شہتوت میں سے چن کر رکھتے.راقم عاجز کرتا ہے کہ راجہ صاحب موصوف مہمان خانہ میں رہتے تھے اور حضور علیہ السلام مہمان خانہ آکر راجہ صاحب کو بھی سیر میں شریک فرماتے تھے.1216 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا.فرمایا ”لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے قربان کرنے چاہئیں، میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے؟ حضور نے جواب نہ دیا.میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے.ایک بکرا کے جواز کا فتوی نہ دیا.میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں.1217 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار مہمانوں کی بعض اوقات عیادت فرماتے تھے.راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم کی بھی مہمان خانہ میں آکر عیادت فرماتے تھے.ایک دفعہ میاں ضیاء الدین صاحب مرحوم طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بورڈنگ میں عیادت فرمائی تھی.1218 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ

Page 163

سیرت المہدی 156 حصہ چہارم ایک دفعہ حضور بمعہ اصحاب اس راستہ کی طرف جو یوں ٹمٹموں کا راستہ متصل محلہ خاکروبان بٹالہ کو جاتا ہے.سیر کو تشریف لے گئے.واپسی پر راستہ کے ایک طرف درخت کیکر کسی کا گرا ہوا تھا.بعض دوستوں نے اس کی خورد شاخیں کاٹ کر مسواکیں بنالیں.حضور علیہ السلام کے ساتھ اس وقت حضرت خلیفہ ثانی بھی تھے (اس وقت دس بارہ سال عمر تھی ) ایک مسواک کسی بھائی نے ان کو دے دی اور انہوں نے بوجہ بچپن کی تکلفی کے ایک دفعہ کہا کہ ابا تسیں مسواک لے لو.حضور علیہ السلام نے جواب نہ دیا.پھر دوبارہ یہی کہا.حضور علیہ السلام نے پھر جواب نہ دیا.سہ بارہ پھر کہا کہ ابا مسواک لے لو.تو حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ”پہلے یہ بتاؤ کہ مسواکیں کس کی اجازت سے لی گئی ہیں ؟ اس فرمان کو سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں.66 1219 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم و مغفور ساکن گاگرن کشمیر نے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے دریافت کیا.حضور! درود شریف کس قدر پڑھنا چاہئے؟ حضور نے فرمایا.تب تک پڑھنا چاہئے کہ زبان تر ہو جائے.“ 1220 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب قیام مقبرہ بہشتی سے پہلے فوت ہوئے اور اس قبرستان میں جو شہیدوں کے تکیہ کے قریب جانب شرق قادیان قدیم واقعہ ہے بطور امانت حسب الارشاد حضرت اقدس مدفون ہوئے تھے.ایک دفعہ حضور علیہ السلام اس طرف سیر کو تشریف لے گئے.واپسی پر مولوی صاحب موصوف کی قبر پر کھڑے ہو کر معہ اصحاب ہمراہیان ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی.1221 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ میاں عبدالکریم صاحب مرحوم حیدر آبادی کو میرے روبرو دیوانہ کہتے نے بورڈنگ ہائی سکول ( جو اس وقت اندرون شہر تھا اور جواب مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ ہے ) کے صحن میں بوقت دن کا ٹا تھا.میرے سامنے ہی اسے کسولی بھیجا گیا تھا.وہاں سے علاج کرا کے جب مرحوم واپس

Page 164

سیرت المہدی 157 حصہ چہارم قادیان آیا.تو چند روز کے بعد اسے ہلکا ؤ ہو گیا.اس پر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کسولی کے افسران کو تار دیا کہ عبدالکریم کو ہلکاؤ ہو گیا ہے.کیا علاج کیا جائے ؟ انہوں نے جواب دیا Sorry nothing can be done for Abdul Karim افسوس! عبد الکریم کے لئے اب کچھ نہیں ہوسکتا.تب عبد الکریم کو سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان کے ایک مکان میں علیحدہ رکھا گیا.اور مکرم معظم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور خاکسار اس کے پاس پہرہ کے لئے اپنی مرضی سے لگائے گئے.ہم دونوں بھی اس کے پاس جانے سے ڈرتے تھے.بہر حال سید نا حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت الحاج سے عبد الکریم کے لئے دعائیں کیں.ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو ہرگز زہر دے کر نہ مارا جائے.اسے بادام روغن بھی استعمال کراتے رہے.سو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی دعاؤں کی برکت سے اسے شفاء دی.1222 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بعض اپنی کمزوریوں کا ذکر کیا اور عرض کی کہ بعض وقت طبیعت کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ گویا طبیعت میں نفاق آ گیا ہے.حضور نے زور دار الفاظ کے لہجہ کی میں فرمایا کہ ”نہیں نہیں کچھ نہیں.چالیس سال تک تو نیکی اور بدی کا اعتبار ہی نہیں.پھر میں نے عرض کہ کہ مجھے پے در پے دو خوا ہیں دہشت ناک آئی ہیں.فرمایا.سناؤ.میں نے عرض کی کہ ”خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خنزیر پر سوار ہوں اور وہ نیچے سے بہت تیز بھاگتا ہے مگر میں اس کے اوپر سے گرا نہیں ہوں.اسی اثناء میں ایک بچہ خنزیر مری گردن سے پیچھے کی طرف سے چمٹتا ہے.میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ اس کو گردن سے نیچے گرا دوں مگر وہ جبراً میری گردن سے چمٹتا ہے اسی حالتے میں میری آنکھ کھل گئی.دوسری خواب یہ ہے کہ ایک نامعلوم سا آدمی میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ میں اور یہ دونوں نصرانی ہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں خوا ہیں اچھی ہیں.چنانچہ خواب اول کے متعلق فرمایا کہ تم کسی عیسائی پر فتح یاب ہو گے.مگر بچہ خنزیر کے متعلق کوئی تعبیر نہ فرمائی.اور دوسری خواب کے متعلق فرمایا اور ایک کتاب علم تعبیر کی بھی سامنے رکھ لی تھی) کہ ایسی خواب کا دیکھنے والا اگر اہلیت رکھتا ہوتو بادشاہ

Page 165

سیرت المہدی 158 حصہ چہارم ہو جاوے گا.کیونکہ نصرانی نصرت سے نکلا ہے یعنی نصرت یافتہ.اور نصاریٰ نصرانی آج دنیا کے بادشاہ ہیں.یہ بھی فرمایا کہ اگر بادشاہی کی اہلیت نہیں رکھتا تو بڑا متمول ہو جاوے گا.اس کے چند روز بعد مجھے بمقام ڈہری والہ داروغہ برائے تصدیق انتقال اراضی زر خرید واقعہ سیکھواں کے لئے جانا پڑا.بر مکان چوہدری سلطان ملک صاحب سفید پوش (اب ذیلدار ہیں) ایک عیسائی نبی بخش کے نام کے ساتھ میری مذہبی گفتگو چھڑ گئی.آخر وہ عیسائی مغلوب ہو کر تیزی میں آگیا.دفعیہ کے طور پر میں نے بھی اس پر تیزی کی.اس میں بھی وہ مغلوب ہو گیا اس مجلس میں ایک شخص سوچیت سنگھ نام ساکن چھینا تحصیل گورداسپور جو سکھ مذہب کو ترک کر کے آریہ مذہب اختیار کر چکا تھا.موجود تھا.وہ اس عیسائی کا حامی بن گیا اور مجھ پر تیز ی کرنے لگا.تا اس عیسائی کو مشتعل کرے مگر وہ عیسائی بالکل خاموش رہا.میں نے اس سکھ آریہ کو کہا کہ میں نے اس کو دفعیہ کے طور پر کہا ہے.ابتداء میں نے نہیں کی مگر وہ سکھ آریہ اشتعال دہی سے باز نہ آیا حتی کہ اس کو استغاثہ فوجداری عدالت میں دائر کرنے کا اشتعال دلانے سے بھی باز نہ آیا مگر وہ عیسائی با وجود اس سکھ آریہ کے بھڑکانے کے خاموش رہا.تب مجھ کو بچہ خنزیر یاد آ گیا جو میری گردن سے چمٹتا تھا.احادیث نبویہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے فعل يقتل الخنزیر کی تصدیق بھی ہوگئی.1223 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پسند نہیں فرماتے تھے کہ احمدی طلباء عیسائی کالجوں میں داخل ہوں.جب خاکسار اور شیخ عبد العلی صاحب بھیروی حال ای اے سی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے انٹرنس میں بفضل خدا پاس ہوئے.اس وقت عبد العلی موصوف نے مجھے یہ بات لا ہور میں بتائی کہ حضرت صاحب کرسچن کالج لاہور میں احمدی طلباء کا داخلہ پسند نہیں فرماتے.چنانچہ عبد العلی صاحب نے کسی کا نام بھی بتایا تھا کہ اسے حضور علیہ السلام نے کرسچن کالج لاہور میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ( غالباً فقیر اللہ خان صاحب انسپکٹر کا نام یا اپنا ہی؟) خاکسار کو بھی حضور نے اسلامیہ کالج لاہور ہی میں داخل ہونے کی اجازت دی.چنانچہ میں وہاں داخل ہو گیا تھا.بعد میں علی گڑھ کالج چلا گیا.- 1224 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب ریج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے

Page 166

سیرت المہدی 159 حصہ چہارم بیان کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت ایک دفعہ قادیان کا لنگر خانہ گورداسپور منتقل کیا گیا تھا یعنی قادیان میں لنگر خانہ بند کیا گیا اور گورداسپور میں لگایا گیا.وہ ایام کرم دین کے مقدمہ کے تھے.جبکہ مجسٹریٹ عمد انز د یک نزدیک تاریخیں رکھتا تھا تا کہ حضرت صاحب علیہ السلام کو تکلیف ہو.ہم چند طلباء گورداسپور چلے گئے تھے.1225 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ لوگ حضور علیہ السلام کے حج کے متعلق اعتراض کرتے ہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کو خانہ کعبہ طواف کرتے دیکھا ہے.ہم تو دجال کے پیچھے پڑے ہیں اس کو ساتھ لے کر حج کریں گے.نوٹ پہلے علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ دجال کا طواف کعبہ ایسا ہے جیسے چور ( سارق ) کسی مکان میں نقب زنی کے لئے گشت کر لے اور مسیح موعود علیہ السلام کا طواف جیسے کوتوال چوروں کے تعاقب میں گشت کرتا ہے.1226 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں شمس الدین صاحب ( غیر احمدی) سابق سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے کہ دعوی سے پہلے ہم چند شرفاء لاہور سے قادیان اس غرض سے جاتے تھے کہ سیاسی امور میں حضور علیہ السلام ہماری راہنمائی فرماویں.لیکن حضور علیہ السلام نے اس وقت کی حکومت کے خلاف ہم کو کبھی بھی کچھ بات نہ کہی.پس ہم نے پھر قادیان جانا ہی چھوڑ دیا.1227 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے اور بھائی فضل محمد صاحب ساکن ہر سیاں ( جو مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ کے والد ہیں ) نے مشورہ کیا کہ قادیان میں دوکان تجارت کھولیں اور حضور علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے لئے قادیان آئے.حضور علیہ السلام غالباً نماز ظہر پڑھ کر اندر تشریف لے جارہے تھے کہ ہم نے سوال کر دیا اور اپنی تجویز پیش کر دی.حضور علیہ السلام اس صحن میں کھڑے ہو گئے جو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں سے مسجد کو آویں

Page 167

سیرت المہدی 160 حصہ چہارم تو ایک سیڑھی ابھی باقی رہتی تھی کہ ایک دروازہ اندر جانے کو کھلتا تھا اور آگے چھوٹا سا صحن جسے عبور کر کے حضور اندر گھر میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں صحن میں ایک چوبی سیڑھی لگی ہوئی تھی اس کے اوپر کے مکان میں حضرت خلیفہ اول رہا کرتے تھے.اس وقت حضرت خلیفہ اول بھی اس چوبی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر مکان کو جارہے تھے.حضور علیہ السلام نے ان کو بھی بلالیا اور فرمایا کہ ”میاں خیر الدین وغیرہ یہاں دوکان کھولنا چاہتے ہیں.کیا اعتبار ہے کہ دوکان میں خسارہ ہو یا نفع ہو؟ اچھا اگر خسارہ پڑے گا تو دوکان چھوڑ دیں گے.یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے.بعدش ہم نے مشورہ کیا کہ ہم کو امید نہیں ہے کہ منافع ہو.بہتر ہے کہ دوکان کھولنے کا ارادہ ترک کر دیں.چنانچہ ہم واپس اپنے گھروں کو چلے گئے.1228 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب ریج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ساکن گاگرن کشمیر نے کہ جب میں ۹۸-۱۸۹۷ء میں قادیان گیا.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کشمیر واپس آنے کی اجازت مانگی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہاں ہی ٹھہرو اور قرآن شریف پڑھو.پھر میں کچھ عرصہ اور ٹھہرا.اس کے بعد پھر میں نے حضرت مولا نا حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول کے ذریعہ درخواست کی کہ میرے دولڑ کے سری نگر میں مشرکوں کے پاس ہیں اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کا کچھ بندوبست کروں.چنانچہ مجھے اجازت دی گئی اور پھر تم دونوں بھائیوں کو ( عبد القادر وعبد الرحمن ) قادیان لے آیا.فالحمدللہ علی ذالک 1229 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عبدالرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب پہلے حنفی تھے پھر اہل حدیث ہوئے اس وقت وہ اپنے دوست مولوی محمد حسن صاحب مرحوم ساکن آسنور ( والد مولوی عبد الواحد صاحب ) کو کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ اب بڑے موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.ممکن ہے کوئی ایسی جماعت اور نکل آئے جو ہم کو بھی مشرک گردانے.والد صاحب فرماتے چنانچہ ایسا ہی ہوا.کیونکہ ہم لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو مر دوں ( کو زندہ کرنے والے ) اور پرندوں کا خالق مانتے ہیں.لیکن جب میرے کانوں نے یہ شعر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا سنا

Page 168

سیرت المہدی 161 حصہ چہارم اس ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا دانی خدا تیرے مرحبا مولوی صاحب! یہی توحید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ؟ ہے اس وقت مجھے ہوش آیا اور میں نے تم دونوں بھائیوں کو سری نگر اپنے ماموں کے پاس چھوڑا اور قادیان پیدل چلا گیا.اور وہاں بیعت سے مشرف ہوا.فالحمد للہ م الحمد للہ علی ذالک 1230 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا.حضور گھر میں معہ احباب مہمانان کھانا کھانے کے لئے تیار تھے کہ میں بھی گھر میں داخل ہوا.میرے لئے بھی کھانا آ گیا.جب کھانا رکھا گیا تو رکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی.تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے.میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہوں سے خدا تعالیٰ کا شکریہ کرتے ہوئے کہتا ہوں.الحمد للہ علی ذالک.1231 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں پادری مارٹن کلارک امرتسر نے حضور کے خلاف اقدام قتل کا استغاثہ کیا.اول عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر امرتسر سے حضور کے خلاف ورانٹ جاری ہو کر گورداسپور پہنچا لیکن جلد ہی واپس ہو گیا.چوہدری رستم علی صاحب ان دنوں گورداسپور میں بعہدہ کورٹ انسپکٹر مقرر تھے.انہوں نے منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی ( پٹواری سیکھوانی ) کو اطلاع دی.وہ فوراً سیکھواں آئے.میں بھی سیکھواں سے شامل ہوا.قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں اطلاع کی گئی.حضور علیہ السلام نے اندر ہی بلالیا.حاضر خدمت ہوکر خط چوہدری رستم علی صاحب مرحوم والا پیش کر دیا.خط پڑھ کر فرمایا ( قریب ہی ایک دریچہ تھا جس کے آگے بیٹھ کر حضور علیہ السلام تحریر کا کام کیا کرتے تھے ) اس دریچہ کے باہر سے خواب یا کشف میں معلوم ہوا کہ بجلی آئی ہے لیکن واپس ہو گئی (چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وارنٹ امرتسر سے جاری ہوا پھر حکام کو غلطی خود معلوم ہوگئی

Page 169

سیرت المہدی 162 حصہ چہارم اور واپس کرایا گیا) پھر دوبارہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل ہو گیا اور خدا نے عزت کے ساتھ بری کیا.فالحمد للہ علی ذالک.1232 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آپ (حضرت صاحب ) نماز عموماً دوسرے کی اقتدا میں پڑھتے تھے.میں نے اس قدر طویل عرصہ میں دو دفعہ حضور علیہ السلام کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے.(1) قبل دعوئی مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز.ایک رکعت میں سورۃ و التین پڑھی تھی لیکن بہت دھیمی آواز میں جو مقتدی بہ مشکل سن سکے.(۲) دوسری دفعه مولوی کرم الدین والے مقدمات میں گورداسپور کو جاتے ہوئے بڑی نہر پر ظہر کی نماز حضور علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھی تھی.1233) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران مقدمات مولوی کرم الدین ہمیں بعض کاموں کی وجہ سے سولہ سترہ روز کے بعد جب قادیان پہنچا.حضور علیہ السلام دریچہ بیت الفکر سے جو مسجد مبارک میں کھلتا تھا تشریف لائے اور دیکھتے ہی مجھ کو فرمایا کہ بڑی دیر کے بعد آئے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضور کو اپنے خدام کو جلد یا بدیر آمد و رفت کے متعلق خیال رہتا تھا.1234 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور نے ایک جلسہ کیا اور اس کا نام جلسہ الدعا“ رکھا ( یہ جلسہ عید گاه قدیمی متصل قبرستان غربی جانب از قادیان کیا تھا) جلسہ مذکورہ میں حضور نے تقریر فرمائی کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج کی جنگ ہوگی اور یا جوج ماجوج روس اور انگریز ( برطانیہ ) دونوں قومیں ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ جب یہ جنگ ہوگی اس وقت ہم زندہ ہوں گے یا نہیں ؟ اس لئے میں آج ہی دعا کر چھوڑتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریز قوم کو فتح دے.آمین.

Page 170

سیرت المہدی 163 حصہ چہارم 1235 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیاسی شورش کے متعلق فرمایا کہ ایک وقت آئے گا.سوائے قادیان کے کہیں امن نہ ہوگا.1236) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلی دفعہ میں ( بادل ناخواستہ) بیعت کر کے واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال آتا تھا کہ قادیان شریف کو لوگ بڑا بُرا کہتے ہیں اور میں نے تو وہاں اس جگہ سوائے قرآن شریف اور دینی باتوں کے اور کچھ نہیں سنا.سب لوگ رات دن یاد الہی میں مشغول ہیں.بس میں نے اس خیال کو مد نظر رکھ کر نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے پیدا کرنے والے رب ! میرے محسن ! میں تیرا بندہ ہوں، گنہ گار ہوں ، بے علم ہوں.میں نہیں جانتا کہ تیری رضا کے مطابق کون چلتا ہے؟ اس وقت دنیا میں کسی فرقے میں مجھے نہیں معلوم کہ کون فرقہ راستی پر ہے؟ پس اے میرے پیدا کرنے والے ! میں اس وقت اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں کہ تو مجھے اس راہ پر چلا جس پر تو راضی ہو.تا کہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے.اے میرے مولا! جب تو مجھے قیامت کو پوچھے گا تو میں اس وقت بھی یہی عرض کروں گا کہ میرے پیارے اللہ ! میں بے علم تھا اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حضور رکھ دیا تھا اور بار بار یہی عرض کرتا تھا کہ اے میرے پیارے ! مجھے صحیح رستہ بتا اور اس پر مجھے چلنے کی توفیق بخش.کئی دن کے بعد بٹالہ میں سودا بزازی وغیرہ خریدنے کے لئے گیا تو میں پہلے اُس دوست محمد اکبر صاحب کے پاس ملاقات کے لئے چلا گیا تو وہاں بھی یہی باتیں شروع ہو گئیں.انہوں نے ذکر کیا کہ کل ایک سیٹھ صاحب مدراس سے تشریف لائے ہیں اور قادیان شریف گئے ہیں.چنانچہ ایسی ایسی باتوں پر میرے دل میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ میں نے اس دوست یعنی محمد اکبر صاحب کو کہا کہ اس روز آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میں شامل ہونے کے لئے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا اور میرا دل نہیں چاہتا تھا.آج مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں جوش پیدا ہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان شریف جاتا ہوں اور سچے دل سے تو بہ کر کے بیعت میں داخل ہوتا ہوں.اس پر میرے اس دوست نے نہایت خوشی کا

Page 171

سیرت المہدی 164 حصہ چہارم اظہار کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ہمراہ قادیان پہنچے اور جب میں بیعت کر کے گھر میں پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور اب خالی آ رہے ہیں تو میرے دل میں وہی خیال گذرا کہ شاید ناراض نہ ہو جاویں.مگر میں نے اس کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر آیا ہوں.اس پر انہوں نے کچھ نہ کہا.1237 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد ملک بسوصاحب کے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے رہنے والے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم جولی اور بچپن کے دوست تھے.ان کی بھتیجی کا رشتہ ان کے بھانجے شاہ چراغ کے ساتھ ہوا اور اس کی شادی پر میں قادیان گیا تھا.اس وقت میری عمر تقریباً اٹھارہ سال کی تھی.شاہ صاحب نے مجھ کو قریباً ایک ہفتہ وہاں رکھا.اُن دنوں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ایسی اول مسجد اقصیٰ میں عصر کے بعد قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.شاہ صاحب کے حسب ہدایت میں درس سننے جایا کرتا تھا.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح کے وقت سیر کو جایا کرتے تھے.حضور علیہ السلام کے ساتھ بہت سے آدمیوں کا ایک ہجوم بھی ہوا کرتا تھا.میں بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ سیر کو کبھی کبھی جایا کرتا تھا.مسجد مبارک ان دنوں چھوٹی سی ہوا کرتی تھی اور حضور مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں شہ نشین پر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر مذہبی باتیں اور دینی مسائل کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی.سیر میں بھی حضور علیہ السلام چلتے چلتے تقریر فرمایا کرتے تھے.1238 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں صاحبزادہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب امیر حبیب اللہ والی کابل کے حکم سے شہید کئے گئے.ان کے ذکر پر حضور نے فرمایا کہ اگر سلطنت کابل نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس سلطنت کی خیر نہیں ہے.“ 1239 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں دوبارہ بیعت کر کے واپس گھر گیا تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد میری بیوی نے ایک خواب سنایا کہ آج میں خواب میں حج کو جارہی ہوں اور بہت لوگ بھی حج کو جارہے ہیں اور وہ جگہ ہمارے

Page 172

سیرت المہدی 165 حصہ چہارم گاؤں سے مشرق کی جانب ہے جس طرف حج کو جارہے ہیں.جب میں حج کی جگہ پر پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں اور سیڑھیوں پر چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جابیٹھی.دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ چھوٹی عمر کا وہاں بیٹھا ہے اور اس کے اردگرد بہت مٹھائیاں پڑی ہیں.مجھے اس کو دیکھ کر اپنا بچہ جو کچھ عرصہ ہوئے فوت ہو گیا تھا یاد آیا.تو اس بچہ نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ فکر نہ کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں اور بچہ دے گا جو اچھا ہو گا، نیک ہوگا اور بہت باتیں کیں.جو مجھے یاد نہیں رہیں.خیر اس نے یعنی میری بیوی نے کہا کہ میرے خیال میں وہ قادیان شریف ہی ہے.پس مجھے بھی قادیان شریف لے چلو.چنانچہ میں نے اس کو قادیان شریف میں لا کر بیعت میں داخل کر دیا.الْحَمدُ لِلهِ عَلی ذَالِکَ.بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات کہتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے قادیان شریف جانے سے نہ روکیں اور میں کوئی چیز نہیں چاہتی.صرف میری یہی خواہش ہے.چنانچہ اس میری بیوی کو اس قدر محبت قادیان شریف سے ہوئی کہ اس کو وہاں اپنے گاؤں میں رہنا نہایت نا پسند ہوا اور اس وقت تک اپنی آمد ورفت نہ چھوڑی جب تک قادیان شریف میں اپنا مکان نہ بنوالیا اور مکان بنا کر قریباً دو سال آباد ہو کر اس دار فانی کو چھوڑ کر مقبرہ بہشتی میں داخل ہوگئی.انا لله وانا اليه راجعون.1240 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں سید محمد علی شاہ صاحب سے اس معیار کے پیش نظر کہ انبیاء علیہ السلام کی پہلی زندگی ہر قسم کے عیبوں سے پاک اور معصومانہ ہوتی ہے.عام طور پر حضور کی نسبت دریافت کرتا تھا.ان کی زبانی جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ حسب ذیل ہیں.سید محمد علی شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بچپن سے پاک صاف اور نیک ہیں.ان کی زندگی کی نسبت کوئی کسی قسم کا شبہ نہیں کر سکتا اور ان کے والد صاحب ان کو اکثر مسیتڑ“ کہا کرتے تھے.اگر کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد صاحب کہاں ہیں ؟ تو وہ کہا کرتے تھے کہ مسجد میں جا کر دیکھ.اگر وہاں نہ ملے تو نا امید نہ ہو جانا.ملے گا بہر حال مسجد میں.1241 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرُنِي

Page 173

سیرت المہدی 166 حصہ چہارم وَارْحَمْنِي ( آمین ) بذریعہ الہام تعلیم فرمائی تو حضور علیہ السلام نے ایک روز ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے اور ہر ایک قسم کی مصیبت سے حفاظت کا ذریعہ ہے.یہ بھی فرمایا کہ بجائے واحد کے بصورت جمع بھی اس کا استعمال جائز ہے.یہ ان دنوں میں حضرت صاحب پر جناب الہی سے نازل ہوئی تھی جن ایام میں مقدمات ہونے والے تھے یا شروع ہو گئے تھے.1242 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے مجھ سے اپنی خواب بیان کی جو یہ ہے.وہ کہتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام ایک میدان میں یا ایک مکان میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے سر پر سبز دستار ہے اور ہاتھ میں کتاب ہے.حضور علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ "برکت بی بی ! فلاں جگہ ایک تھان ریشمی سبز رنگ کا پڑا ہے.اٹھالا ؤ اور وہ کتاب جو حضور علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے وہ مولوی نورالدین صاحب کو دے دی اور مولوی صاحب کے سر پر سفید پگڑی ہے اور چار پائی پر بیٹھے ہیں.مولوی صاحب نے وہ کتاب حضرت میاں محمود احمد صاحب کو دے دی اور میاں صاحب کے سر پر سبز ریشمی پگڑی ہے.وہ کچھ لمبی خواب تھی جو انہوں نے بتلائی.یہ خواب انہوں نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو اسی وقت سنائی تھی.جب حضرت خلیفہ صاحب اوّل کا انتقال ہوا تھا.تو اس وقت حضرت ام المومنین نے فرمایا تھا کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو بتاوے.چنانچہ حضرت ام المومنین کو وہ خواب یاد کرائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ وہ خواب تو مجھے یاد ہے.1243 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور سیدنا مسیح موعود نے فرمایا کہ دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے نیز فرمایا کہ اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلاً رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے.نیز فرمایا کہ رکوع و سجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلیل کی حالت ہے.اس لئے

Page 174

سیرت المہدی 167 حصہ چہارم کلام الہی کا احترام کرنا چاہئے.“ 1244 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے گاؤں کا قاضی فوت ہو گیا اور اس کے دو چھوٹے بچے اور لڑکی اور اس کی بیوی پیچھے رہ گئی.میں اس کے لئے قضا کا کام کرتارہا اور جو آمدنی گاؤں سے ملانوں کو ہوتی ہے اس کو دیتا رہا.چنانچہ میں نے اور میری بیوی نے اس کی لڑکی کو قرآن شریف اور کچھ دینی کتابیں بھی پڑھا ئیں.جب لڑکے بڑے ہوئے تو ایک دفعہ عید کے دن جب ہم عید کے واسطے مسجد میں گئے اور میں نماز پڑھانے کے واسطے کھڑا ہوا تو اس لڑکے نے کہا کہ میں آج عید کی نماز پڑھاؤں گا.میں نے اس کو کہا کہ ہماری نماز تمہارے پیچھے نہیں ہوتی.تو ہمیشہ پیچھے پڑھتا رہا ہے.آج تو کیوں پڑھائے گا؟ اس کے ساتھیوں نے اس کو کہا کہ تمہاری قضاء لے لے گا.اس پر اس ملانے کے بچے نے زور دیا کہ آج میں ہی نماز پڑھاؤں گا.اس بات پر ہماری جماعت کے ایک لڑکے نے جس کا نام شیر محمد تھا اس کو ایک مکا مارا.میں نے اس کو منع کیا اور سب کو ساتھ لے کر اپنی جگہ حویلی میں نماز ادا کی اور جب میں جمعہ پڑھنے کے لئے اپنی عادت کے مطابق قادیان شریف آیا تو دیکھا کہ میاں عبد الرحیم حجام مسجد میں کھڑا ہے.میں نے پوچھا کہ اس جگہ کیوں کھڑے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کو مہندی لگانی ہے اور اندر اجازت کے لئے کہلا بھیجا ہے.میں نے یہی موقعہ پایا اور وہاں کھڑا ہو گیا.جب اجازت ہوئی تو میں بھی اندر چلا گیا.حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.مصافحہ کیا اور پاس بیٹھ گیا.میں نے وہ سارا قصہ عید والا سنایا.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ صبر کرو.یہ سب مسجدیں تمہاری ہی ہو جاو ینگی.اس کے علاوہ اور بہت باتیں ہوتی رہیں جو یاد نہیں رہیں.چنانچہ اب وہ مسجد اللہ کے فضل وکرم سے احمدیوں کے پاس ہے.1245 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید محمد علی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں لاہور میں محکمہ جنگلات میں ملازم تھا.مرزا غلام مرتضی صاحب و مرزا غلام احمد صاحب اور ان کے بڑے بھائی میرے پاس آکر ٹھہرے.اُن دنوں میں ان کا ایک مقدمہ چیف کورٹ پنجاب میں در پیش ہونا تھا.وہ مقدمہ حضرت مسیح موعود کے والد صاحب اپنی کھوئی ہوئی جائیداد

Page 175

سیرت المہدی 168 حصہ چہارم لینے کی اپیل تھی.اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہو چکا تھا.مقدمے کی پیروی کے بعد حضور کے والد صاحب اور بڑے بھائی واپس تشریف لے گئے اور مرزا غلام احمد صاحب کو عدالت سے حکم سننے کے لئے چھوڑ گئے.میرے ایک دوست ملک بسو صاحب رئیس لاہور تھے.( جو خاکسار ملک غلام محمد کے والد صاحب تھے ) ان کی گاڑی آجایا کرتی تھی اور حضرت صاحب کو چیف کورٹ میں لے جاتی تھی اور پھر چار بجے ان کو واپس لے آتی تھی.ایک روز ایک یا دو بجے کے قریب حضرت صاحب پیدل تشریف لا رہے تھے.میں نے دور سے دیکھا تو ان کا چہرہ نہایت بشاش تھا اور بڑے خوش خوش آ رہے تھے.میں نے دریافت کیا کہ آپ جلدی آگئے ہیں اور گاڑی کا انتظار نہیں کیا.بڑی خوشی سے فرمانے لگے ” آج حکم سنایا گیا ہے اس واسطے جلدی آگیا ہوں.گاڑی کا انتظار نہیں کیا.میں نے کہا بہت خوش ہیں مقدمہ جیت لیا ہوگا اور میں نے ان کے چہرہ سے دیکھ کر بھی یہی محسوس کیا کہ مقدمہ جیت لیا ہو گا لیکن حضرت صاحب علیہ السلام نے فرمایا کہ ”وہی بات پوری ہوئی جو میرے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پہلے فرمائی ہوئی تھی یعنی ” مقدمہ ہارا گیا اور میرے مولیٰ کی بات پوری ہوئی.یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میں نے دل میں کہا کہ باپ کا تو بیڑا غرق ہو گیا ہے اور یہ خوش ہورہے ہیں.1246 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اس کا نام محمد سعید تھا.قادیان میں دیر تک رہا تھا.ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز مسجد مبارک میں حاضرین مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک فرمارہے تھے کہ اس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے.پس عرب کا یہ کہنا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام کو اس قدر رنج ہوا کہ چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور محمد سعید عرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہو کر خاموش ہو گیا اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہو گیا.فرمایا کہ " کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی اینچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کا سارا مال مویشی عطا کر دیا تھا وغیرہ.اس کو مال دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی.“ 1247 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے

Page 176

سیرت المہدی 169 حصہ چہارم بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے اور میں بھی ساتھ تھا.جب واپس تشریف لائے اور اندر گھر میں داخل ہونے لگے تو میں نے جھٹ آگے ہو کر عرض کی کہ ” پہلے بزرگ ، اگر کسی کو کچھ تکلیف ہوتی تھی تو اس پر وہ بزرگ اپنے منہ کی لب لگا دیا کرتے تھے اور اس کو شفا ہو جاتی تھی.حضور علیہ السلام میری آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی ہیں.اس پر حضور علیہ السلام مسکرا پڑے اور کچھ پڑھ کر میری آنکھوں پر دم کر دیا.آج تک قریباً پینتیس برس ہو گئے ہیں میری آنکھوں میں کبھی پھنسی نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی دکھنے میں نہیں آئیں.الحمد لله 1248 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک بابا میراں بخش ہوتا تھا جو سید محمد علی شاہ صاحب کا نائی تھا اور بوڑھا آدمی تھا.اس سے بھی میں حضرت صاحب کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا.اس نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ آپ بچپن سے نیک اور شریف تھے.اس نے یہ بھی بتایا کہ حضور بچپن میں اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے.ریوڑیاں آپ کو مرغوب تھیں جو آپ اپنے ہم جھولیوں میں بانٹ کر کھایا کرتے تھے.1249 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دعا کے متعلق کچھ سوال ہوا.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے.دعا کو ہرگز چھوڑ نا نہیں چاہئے.بلکہ دعا سے تھکنا نہیں چاہئے.لوگوں کی عادت ہے کہ کچھ دن دعا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں.دعا کی مثال حضور علیہ السلام نے کوئیں کی دی کہ انسان کنواں کھودتا ہے جب پانی قریب پہنچتا ہے تو تھک کر نا امید ہو کر چھوڑ دیتا ہے.اگر وہ ایک دو بالشت اور کھودتا تو نیچے سے پانی نکل آتا اور اس کا مقصود حاصل ہو جاتا اور کامیاب ہو جاتا.اسی طرح دعا کا کام ہے کہ انسان کچھ دن دعا کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے اور نا کام رہتا ہے.1250 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دکان میں فخر الدین ملتانی بیٹھتا تھا اور اس کے جانب شرق میں مولوی کرم الہی بزاز کھا روی بیٹھتا ہے اور درمیان میں دروازہ آمد و رفت چھوڑ کر جانب شرق متصل میں وہ دکان جس میں عبدالرحیم فالودہ والا بیٹھتا

Page 177

سیرت المہدی 170 حصہ چہارم ہے یہ کل جگہ ویران اور منہدم پڑی تھی.مرزا نظام الدین وغیرہ ہر موقعہ پر اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے.یہاں بھی یہی خیال ان کو تھا.ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس جگہ پر ایک دن میں مکان تیار کیا جائے.“ چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں سیکھواں سے کچھ آدمی فور الا ؤ.چنانچہ دس بارہ آدمی سیکھواں سے قادیان پہنچ گئے اور مکان تیار ہونا شروع ہو گیا.چونکہ حضرت صاحب شامل تھے اس لئے تمام لوگ جماعت کے (اس وقت ابھی جماعت برائے نام ہی تھی ) کام میں مشغول تھے.حتی کہ حضرت خلیفہ اول کو بھی میں نے دیکھا کہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر معماروں کو دیتے تھے.ایک ہی دن میں مکان تیار ہو گیا.مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ اس نظارہ کو دیکھتے تھے لیکن طاقت نہ تھی کہ کسی کو آکر روک سکیں.شام کے بعد مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے حضور مرزا خدا بخش صاحب نے واقعات پیش کئے اور کامیابی کا اظہار کیا گیا.اور سیکھواں سے آدمی پہنچنے کا ذکر کیا گیا.الحمد للہ علی ذالک 1251 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں میاں منظور علی شاہ صاحب ولد سید محمد علی شاہ صاحب کی بسم اللہ کی تقریب پر جو مولوی نورالدین صاحب نے کرائی تھی، گیا تھا.حسب دستور میں مولوی صاحب کے درس میں جایا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کبھی کبھی سیر کو بھی جایا کرتا تھا.میں تقریبا پندرہ بیس دن وہاں رہا.یہ اس زمانہ کی بات ہے جس زمانہ میں ڈاکٹر عبدالحکیم ( جو بعد میں مرتد ہو گیا تھا) قرآن شریف کا ترجمہ کر کے لایا ہوا تھا.حضرت صاحب سیر کو جاتے تھے اور وہ سناتا جاتا تھا.حضور علیہ السلام سنتے جاتے تھے اور بعض دفعہ کچھ فرمایا بھی کرتے تھے.1252 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبد الغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا.چنانچہ ایک دن موقعہ پاکر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور میں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا.حضور نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے ؟“ میں نے عرض کی کہ حضور ! یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی کرتے ہیں اس

Page 178

سیرت المہدی 171 حصہ چہارم واسطے میں انکار کرتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ ” مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دو نہیں، یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دینی نہیں چاہئے.1253 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ ” مشکلات کیا چیز ہیں؟ دس دن کوئی نماز تہجد پڑھے.خواہ کیسی ہی مشکل ہو خدا تعالیٰ حل کر دے گا.(إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) 1254 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری عمر چونکہ بڑھ رہی تھی.میں نے دعا کرنی شروع کی کہ یا خداوند کریم ! اگر یہ (یعنی حضرت مسیح موعود ) سچا ہے اور میں نے اس کی بیعت نہ کی تو میں جہالت کی موت مروں گا اور اگر یہ سچا نہ ہوا تو میرے اسلام میں فرق آئے گا.تو ہی اپنے فضل سے مجھے صحیح رستہ دکھا دے.میں یہ دعا مدت تک کرتا رہا.حضور لا ہور تشریف لایا کرتے تھے ایک دفعہ حضور کا لیکچر بریڈ لا ہال میں ہوا تھا.لوگوں نے حضور کی گاڑی پر اینٹیں ماریں لیکن پولیس اپنی حفاظت میں حضور کو خیریت سے لے آئی.پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر لی.1255 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب کا ندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم الدین کے ساتھ مقدمہ تھا ، گورداسپور میں پیشی تھی.جب آواز پڑی تو سب دوست اندر چلے گئے صرف میں یعنی یہ عاجز اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے رہ گئے چنانچہ حضور لیٹ گئے اور میں حضور کے پاؤں دبا رہا تھا اور بہت سی باتیں حضور کے ساتھ ہوتی رہیں.چنانچہ ان میں سے صرف دو باتیں یاد رہیں ایک یہ کہ میں نے عرض کیا کہ حضور! مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے.حضور اس کا نام رکھ دیو یں.حضور نے فرمایا کہ پہلے کا نام کیا ہے؟ تو میں نے عرض کی کہ حضور پہلے کا نام عبد الغفور ہے.تب حضور نے فرمایا کہ اس کا نام ”عبدالرحیم“ رکھ دو.1256 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۹۹.۱۲.ے کا واقعہ ہے حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے سوال کے جواب میں ذکر کرتے

Page 179

سیرت المہدی 172 حصہ چہارم ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی کوئی بار یک حکمت ہے کہ مجھے دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں.ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں اور ایک نیچے کے حصہ میں.اوپر کے حصہ میں تو وہ دوری بیماری ہے جو ہمیشہ کوئی ہفتہ عشرہ خالی نہیں جاتا جو دورہ کرتی رہتی ہے جس سے دل میں ضعف اور در دسر اور نبض بالکل ساکت ہو جاتی ہے وغیرہ اور نیچے کے حصہ میں بیماری ذیا بیطیس ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے ان کی نسبت توجہ بھی کی تھی تو یہی جواب ملا کہ یہ بیماری لا علاج ہے لیکن فضل خدا شامل حال رہے گا اور فرمایا کہ ” کیا عجیب پیشگوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ مسیح موعود دو زرد چادریں پہنے ہوئے نازل ہوگا.وہ یہی اشارہ ہے.ورنہ کون سمجھ سکتا ہے کہ آسمان پر کپڑا بنایا جاتا ہے جس سے مسیح کو زرد چادر میں دی جاویں گی.اور حدیث میں جو دو زرد چادروں کا ذکر ہے.دراصل انسان کے لئے دو ہی چادر میں پردہ پوشی کے لئے کافی ہیں.ایک تہ بند اور دوسری اوپر کی چادر کافی ہوسکتی ہے.“ 1257 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھا اور گورداسپور میں اس کی پیشی تھی تو وہاں پر میں نے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضور عشاء کی نماز کے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے.تب حضور نے فرمایا کہ ”بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں.یعنی نماز عشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں.1258 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹.۱۲.کوٹیکہ کے متعلق ذکر چل پڑا.فرمایا کہ ٹیکہ ضرور کرانا چاہئے.یہ بڑا مفید ہے کیونکہ بعض اوقات چیچک سے لوگ مر جاتے ہیں.یہ بڑی خطرناک بیماری ہے.تین دفعہ جس کا ٹیکہ کیا جائے وہ چیچک سے محفوظ رہتا ہے (۱) بچپن میں (۲) پھر قریباً آٹھ سال کی عمر میں (۳) پھر سولہ سترہ سال کی عمر میں.فرمایا کہ اگر ٹیکہ کرنے والے آویں تو مبارک احمد کو ٹیکہ کرایا جائے.پہلے تینوں لڑکوں کا ٹیکا کرایا ہے کسی کو چیچک نہیں ہوئی.ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اور فیض احمد صاحب نیٹو ڈاکٹر نے عرض کیا کہ آج قادیان میں ٹیکا کرنے والے آئے ہوئے ہیں.اُن سے دریافت کریں گے.اگر جاگ مل گیا تو خود ہی اچھی طرح ٹیکہ

Page 180

سیرت المہدی 173 حصہ چہارم کر لیویں گے.انشاء اللہ.1259 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل احمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام مسجد اقصیٰ میں کچھ تقریر فرما رہے تھے.دوران تقریر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جس کام کے واسطے مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر چالیس آدمی بھی ہو جاویں تو میں بڑی کامیابی حاصل کرلوں یا اپنے مقصود کو حاصل کرلوں.ایسا ہی کوئی لفظ تھا جو مجھے اس وقت یاد نہیں رہا.اس وقت میرے بائیں جانب حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول بیٹھے تھے.جب حضور کے مبارک منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہائے افسوس ! لوگ اس مبارک وجود کو کیا کہتے ہیں.یہ جھوٹ بولنے والا منہ ہے؟ اس کے بعد جب تقریر ختم ہوئی تو سب لوگ اپنے اپنے مکانوں کی طرف جارہے تھے.چنانچہ میں بھی اٹھ کر چلا جب مسجد اقصیٰ سے نیچے اترے تو میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جاملا.آپ کے ساتھ اُن کا ایک شاگرد جارہا تھا.اس وقت شاگرد نے حضور مولوی صاحب سے سوال کیا کہ حضور ! آج جو حضرت اقدس نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری جماعت سے چالیس آدمی بھی میری مرضی کے مطابق ہو جاویں تو میں کامیاب ہو جاؤں.حضور آپ فرما دیں کہ ہم کیا گناہ کر رہے ہیں؟ نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں ، کوئی بھی بُرا کام نہیں کرتے.وہ کیا کام ہے جو حضرت صاحب کرانا چاہتے ہیں تا کہ ہم ان کی مرضی کے مطابق ہو جاویں.اس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہاں ! ہے تو ، بیشک آپ اچھا کام کرتے ہیں مگر اگر آج ہی آپ کو لنگر سے روٹی نہ ملے تو پھر آپ کو پتہ لگے.کیا کیا آپ منصو بہ بازی کرتے ہیں.1260 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ وفات سے چند یوم قبل حضور علیہ السلام نے لاہور میں امراء کی دعوت کی تھی اور تقریر بھی فرمائی تھی.حضور لاہور احمد یہ بلڈنکس میں تشریف لائے ہوئے تھے.جمعہ کی نماز یا ظہر کی نماز کا وقت تھا.میں نماز پڑھ کر فارغ ہو کر بیٹھا تھا.حضور سنتیں پڑھ رہے تھے.میں نزدیک ہی حضور کی دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا.حضور نے

Page 181

سیرت المہدی 174 حصہ چہارم سلام پھیر تے وقت یا سلام کے معابعد میری طرف دیکھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو حضور کی آنکھوں کی روشنی سمجھیں یا جلال سمجھیں یا نور سمجھیں.بہر حال کچھ بھی ہو.اس نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں پسینہ پسینہ ہو گیا.1261 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک جگہ مکانوں کے درمیان سفید پڑی ہے وہاں حضرت اقدس مجھ کو بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے.پہلے کا نام عبدالغنی، دوسرے کا نام ملک غنی، تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر ۴۵ سال کی ہوگی یا ہے.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.جب میں جمعہ کے دن قادیان شریف میں جمعہ کے واسطے آیا تو رات اسی جگہ یعنی قادیان شریف ہی رہا.شام کے بعد جب حضور مسجد کے اوپر نماز کے بعد گرمیوں میں جیسا کہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے، بیٹھے تو کچھ صحابی اور بیٹھے تھے اور باتیں ہورہی تھیں اور میں بھی حضور کے قدموں میں ہی بیٹھا ہوا تھا.چنانچہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضور مجھے بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف لے جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہو نگے.پہلے کا نام عبد الغنی دوسرے کا نام ملک غنی اور تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر پنتالیس برس کی ہوگی یا ہے.“ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ فضل محمد پھر بتلاؤ کہ پہلے کا نام کیا اور دوسرے کا نام کیا ہے میں نے جب دوبارہ بتایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ میاں! پھر بتلاؤ تو میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور! مولوی صاحب تو مذاق کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم ہورہا ہے.حضور مسکرا کر بولے کہ آپ کو کیا غم ہے؟ تو میں نے عرض کی کہ حضور میری عمر اس وقت ۲۸ یا ۳۰ برس کی ہے اور باقی تھوڑی رہ گئی ہے اور میں نے حضور علیہ السلام کا زمانہ دیکھنا ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ دگنی کر دیا کرتا ہے.( اور حقیقت میں ان کی عمر دگنی ہوگئی تھی )

Page 182

سیرت المہدی 175 حصہ چہارم 1262 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور اپنے خادموں کی جدائی (وفات وغیرہ) پر صدمہ محسوس فرماتے تھے.چنانچہ جس روز میاں محمد اکبر صاحب تاجر چوب بٹالہ فوت ہوئے.وہ جمعہ کا دن تھا.مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری ( جو آج کل کشمیری ہائی کورٹ میں وکیل ہیں) نے مسجد اقصیٰ میں بعد نماز جمعہ حضور کی خدمت میں ایک نظم خود تیار کردہ سنانے کے لئے عرض کی تو حضور نے فرمایا کہ آج محمد اکبر فوت ہو گیا ہے.اس وقت میری طبیعت سننا نہیں چاہتی.“ 1263 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنا نوالی (گجرات) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور میرے والد صاحب جن کا نام محمد حیات تھا اور ایک اور دوست جن کا نام غلام محمد صاحب احمدی ( جواب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہیں ) اپنے گاؤں چوکنا نوالی ضلع گجرات پنجاب سے غالباً ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس کی زیارت کے لئے دارالامان میں حاضر ہوئے تھے اور مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے لئے گئے تا بیعت بھی ہو جائے اور نماز بھی حضرت اقدس کے ہمراہ ادا کرلیں اور زیارت بھی نصیب ہو.گو اس سے پہلے کئی سال آپ کی تحریری بیعت سے بندہ شرف یافتہ تھا جس کا سنہ یاد نہیں.لیکن زیارت کا شرف حاصل نہ تھا.چنانچہ ایک شخص نے جو کہ ہمارے ہی ضلع کے تھے فرمایا کہ آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنی ہو تو مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے وقت سب سے پہلے حاضر ہو جاؤ.وہ دوست بھی مہمان خانہ میں موجو د تھے.چنانچہ ہم ہر سہ اشخاص وضو کر کے مسجد مبارک میں چلے گئے.ہم سے پہلے چند ایک دوست ہی ابھی حاضر ہوئے تھے جن میں ہم شامل ہو گئے اور سب دوست اس بدر منیر چودھویں کے چاند کی زیارت اور درشن کا عاشقانه وارا انتظار کر رہے تھے جن میں کمترینان بھی شامل تھے.بندہ عین اس کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے.تھوڑی انتظار کے بعد اس آفتاب ہدایت نے اپنے طلوع گاہ سے اپنے منور چہرہ کو دکھا کر ہمارے دلوں کی زمین پر سے شکوک وشبہات کی تاریکیوں کو پاش پاش کر کے جملہ نشیب و فراز عملی و اخلاقی کو دکھا دیا اور اپنے درشنوں سے بہرہ ور فرمایا.

Page 183

سیرت المہدی 176 حصہ چہارم حضور کے مسجد میں قدم رکھتے ہی بندہ عاشقانہ وار آپ سے بغل گیر ہو گیا اور کئی منٹوں تک حضور کے سینہ مبارک سے اپنا سینہ لگا کر بغل گیر رہا.جب بہت دیر ہوگئی تو میں نے خود ہی دل میں آپ کو تکلیف ہونے کے احساس کو پا کر اپنے آپ کو آپ سے الگ کیا ( یہ واقعہ بیان کرنے کی غرض محض آپ کے اسوہ حسنہ پر تبصرہ ہے ) پھر حضور اپنی نشست گاہ میں جو مسجد مبارک کے شمال مغربی گوشہ میں واقعہ تھی تشریف لے گئے.ان دنوں مسجد مبارک ایک ایسے تنگ مگر لمبے کمرہ کی صورت میں تھی جس کا یہ عالم تھا کہ ہر صف میں غالباً چھ یا سات آدمی دوش بدوش کھڑے ہو سکتے ہوں گے.اور اپنی نشست گاہ پر فروکش ہوئے.1264 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضور نماز پڑھ کر گھر کو تشریف لے جارہے تھے جب مسجد سے نکل کر دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے تو میں نے عرض کی کہ حضور میں نے کچھ عرض کرنی ہے.حضور وہاں ہی بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھ گیا اور پاؤں دباتا رہا.بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں.میں نے اس وقت کچھ خوا ہیں اپنی اور کچھ خوا ہیں بیوی کی عرض کیں اور کچھ دینی و دنیاوی بھی باتیں ہوتی رہیں اور بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہے.میں نے خیال کیا کہ حضور نے تو خواہ کتنا ہی وقت گذر جاوے، کچھ نہیں کہنا اور آپ کا میں قیمتی وقت کیوں خرچ کر رہا ہوں.چنانچہ بہت دیر کے بعد میں نے عرض کی کہ حضور مجھ کو اجازت فرما دیں.حضور نے فرمایا بہت اچھا جاؤ." 1265 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس روز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رکھا گیا.جس وقت حضور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے باہر تشریف لائے.میں اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے نیچے جو میدان ہے وہاں کھڑا تھا.اس وقت آپ اگر چہ ضبط کو قائم رکھے ہوئے تھے لیکن چہرہ مبارک سے عیاں ہو رہا تھا کہ آپ اندر سے روتے ہوئے آرہے ہیں.1266 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے

Page 184

سیرت المہدی 177 حصہ چہارم بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا.جب میری بیوی اندر گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا.ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر گاؤں میں اردگر د طاعون کا حملہ ہورہا تھا اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی.تھوڑی دیر کے بعد حضور باہر سے تشریف لے آئے.السلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا، حضور نے پوچھا کہ اس جگہ کھڑے کیوں ہو؟ میں نے عرض کی کہ حضور میاں شادی خان اندر جانے نہیں دیتا.حضور نے فرمایا کہ آؤ میرے ساتھ چلو“ اور وہ اندر چلے گئے.1267 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے خواب میں دیکھا کہ میں بالکل چھوٹی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گود میں بیٹھی ہوں.اس وقت میں ایسی محبت سے بیٹھی ہوں جیسے کی ایک چھوٹا بچہ اپنے باپ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے.اس وقت حضور نے اپنی زبان مبارک سے بڑی محبت کے ساتھ فرمایا کہ میں برکت بی بی تم کو حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم نماز تیم سے پڑھ لیا کرو.بیماری کی حالت میں غسل جائز نہیں ہے بیمار کو کسی حالت میں بھی غسل جائز نہیں اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں وہ یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ایک لڑکا دے گا جو صالح ہوگا.چنانچہ میں نے یہ خواب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بمعہ نذرانہ بدست شیخ حامد علی صاحب اندر گھر میں بھیج دی.جب وہ لڑکا پیدا ہوا تو حضور علیہ السلام نے اس کا نام ”صالح محمد رکھا.1268 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنا نوالی ضلع گجرات (پنجاب) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے مسجد مبارک میں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھتے ہوئے باتوں کے دوران میں ( غالباً آپ ہی کے الفاظ ہیں ) ایک مخالف کی طرف سے آئی ہوئی مگر گالیوں سے بھری ہوئی چٹھی کے پڑھنے جانے پر حضور نے فرمایا کہ اس کو مطبع میں بھیج کر چھپوا دیا جائے یا بھیج کر چھپوادو.تا کہ اس کا شاید بھلا ہو جائے.فقط 1269 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس روز عبد اللہ انتم عیسائی والی پیشگوئی کی میعاد ختم ہوگئی اس سے دوسرے دن جب کچھ سورج نکل آیا تو

Page 185

سیرت المہدی 178 حصہ چہارم حضور علیہ السلام باہر تشریف لائے اور جہاں اب مدرسہ احمدیہ کا دروازہ آمد ورفت بھائی شیر محمد صاحب کی دوکان کے سامنے ہے اور اس کے جنوب و شمال کے کمرے جن میں طلباء پڑھتے ہیں.یہ جگہ سب کی سب السلام سفید پڑی ہوئی تھی.کوئی مکان ابھی وہاں نہیں بنا تھا.چار پائیاں یا تخت پوش تھے.ان پر حضور علیہ ال مع خدام بیٹھ گئے اور اسی پیشگوئی کا ذکر شروع کر دیا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ عبد اللہ آتھم نے رجوع کرلیا ہے.اس لئے اس کی موت میں تاخیر کی گئی ہے.اس وقت آپ کے کلام میں عجیب قسم کا جوش اور شوکت تھی اور چہرہ مبارک کی رنگت گلاب کے پھول کی طرح خوش نما تھی اور یہ آخری کلام تھا جو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے آپ نے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ حق یہی ہے کہ جو خدا نے فرمایا ہے.مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی میرے ساتھ رہے یا نہ رہے.“ 1270 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶۳ء میں سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ کا عہدہ نائب شیرف کا تھا.ان کاغذوں میں جن کی تاریخ اگست اور ستمبر ۱۸۶۳ء کی ہے، یہ ذکر ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لئے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے.1271 ) بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم نواب حمد علی خاں صاحب مرحوم سے حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ امسیح الاول کی وصیت ملی ہے جو حضور نے اپنی وفات سے نو دن قبل یعنی ۴ مارچ ۱۹۱۴ کو تحریرفرمائی اور اس پر نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے موجودہ امیر غیر مبائعین کی گواہی درج کرا کے اور اس وصیت کو مجلس میں مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوا کر نواب محد علی خان صاحب کے سپر دفرما دی جو مجھے اب نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اپنی ہمشیرہ سے ملی ہے اور میں حضرت خلیفہ امسیح اوّل کے خط کو اور اسی طرح گواہوں

Page 186

سیرت المہدی 179 کے دستخط کو پہچانتا ہوں.وصیت جس کا عکس یعنی چہ بہ درج ذیل کیا جاتا ہے یہ ہے.محمد علی خاں مرزا محمود اللہ گواهه گورها شد گوارشد بسم الله الرحمن البرج عمده ونصلی علی رو لا الكريم مع التسليم حصہ چہارم خاکسار بقائمی ہو اس لکھتا ہے لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ﷺ بچے چھوٹے ہیں ہمارے گھر حال نہیں.ان کا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش امدادی یا بینا میں پا کے مساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریے پاکتب.جاندار وقت اللہ علی الاولاد ہو میرا جانشین تقی ہو ہر دلعنہ پر عالم با عمل ہو.حضرت حصہ کے پرانے اور نئے احباب کے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لادے.میں سب کا خیر خواہ تھا و بھی چر خواہ رہے.قرآن وحدر بتر کار کسی جاری رہے.سال و اسلام نور الدين لم مارچ بعد ايا 1272 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۳ بیان کردہ ڈاکٹر غلام احمد صاحب میں غلطی واقع ہوگئی ہے.صحیح روایت خود ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد صاحب شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کی ہے یہ ہے کہ سال ۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہ عاجز ( شیخ نیاز محمد صاحب) حضرت سیدہ ام المومنین سلمھا اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کپڑا بطور تحفہ لایا.اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں پیش کر دیں.کیونکہ اس عاجز کو حجاب تھا.ان ایام میں مسجد مبارک کی توسیع ہورہی تھی اور اس لئے نماز ایک بڑے کمرے میں جواب حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے مکان میں شامل ہے ، ہوتی تھی.نماز ظہر کے وقت جب جماعت کھڑی ہوئی تو حضرت خلیفہ اول نے اس عاجز کو آگے بلا کر وہ کپڑ ا حضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں پیش کیا.حضور نے قبول فرما کر اپنے سامنے رکھ لیا.نماز کے بعد حضور وہ کپڑا لے کر اوپر تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد حضرت نانا جان مرحوم ہنستے ہوئے باہر تشریف لائے اور پوچھا کہ میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کہاں ہے.یہ عاجز اس وقت نفلوں میں التحیات پڑھ رہا تھا.حکیم مولوی محمد الدین صاحب مرحوم امیر جماعت گوجرانوالہ نے اس عاجز کی طرف

Page 187

سیرت المہدی 180 حصہ چہارم اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہے.حضرت نانا جان وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آج حضرت اقدس بہت خوشی سے مسکراتے ہوئے اندر تشریف لائے اور ام المومنین کو ایک کپڑا دے کر فرمایا کہ محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر ہمارے کپڑوں کی تلاشی کرائی تھی اس کا لڑکا ہمارے واسطے یہ تحفہ لے کر آیا ہے.حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس کی اس غیر معمولی خوشی کو دیکھ کر میں اس لڑکے کو ملنے آیا ہوں.اتنے میں یہ عاجز نفل پڑھ کر حضرت نانا جان سے ملا تو وہ اس عاجز سے نہایت محبت سے ملے اور پھر آخر عمر تک اس عاجز سے خاص شفقت فرماتے رہے.اس کے کچھ عرصہ بعد اس عاجز کی اہلیہ قادیان آئیں تو حضرت سیدہ ام المومنین سلمہا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک دفعہ تمہارے میاں (خاوند) ایک کپڑا بطور تحفہ میرے لئے لائے تو حضرت صاحب اس دن بہت خوشی سے اندر تشریف لائے اور کپڑا دے کر فرمایا کہ معلوم ہے یہ کپڑا کون لایا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ یہ اس تھانیدار کے بیٹے نے دیا ہے جس نے ہمارے کپڑوں کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے موقع پر کرائی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی ایمان افروز نظارہ ہے جو دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا کہ عرب سرداروں نے ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور مخالفت میں گزار دی مگر خدا نے انہی کی اولادوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں ڈال کر ان کے خلاف اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گواہ بنادیا.1273 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۰۸ میں جو حافظ نورمحمد صاحب کی طرف سے درج ہے میں جس عرب صاحب کے متعلق حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ان کی شادی مالیر کوٹلہ سے ہوئی تھی اس کے متعلق خاکسار نے لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عرب قادیان میں آکر رہے تھے ان کا نام عبد المحی تھا اور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرادی تھی.اور میں نے لکھا ہے کہ اگر اس روایت میں انہی عرب صاحب کا ذکر ہے تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے.سو اس روایت کے متعلق محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ

Page 188

سیرت المہدی 181 حصہ چہارم تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ عبدالمحی عرب نہیں تھے بلکہ محمد سعید عرب شامی تھے جو یہاں آئے اور ایک عربی رسالہ بھی انہوں نے لکھا تھا.اور ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں ہوئی تھی اور عبدالمحی صاحب تو بہت عرصہ بعد قادیان آئے تھے.1274 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اپنے برادر نسبتی عزیز عبد الرحمن خان نیازی سکنہ پشاور سے بعض وہ خطوط حاصل ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے خسر یعنی خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاور کے نام لکھے تھے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کو پہچانتا ہوں اور یہ خطوط حضور کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خط جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میری شادی کی تجویز کے متعلق میں مولوی صاحب موصوف کولکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم محبی مکرمی اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلمه نحمده و نصلی علی رسوله کریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھا اور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا.بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثارا چھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں.اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضا مندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرما دیں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف

Page 189

سیرت المہدی 182 حصہ چہارم با تر جمہ پڑھ لے.نماز اور روزہ اور زکوۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرمائیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد چونکہ دونو کی عمر چھوٹی ہیں اس لئے تین برس تک شادی میں تو قف ہوگا.اس خط پر کسی اور کے قلم سے تاریخ ۲۴ را پریل ۱۹۰۲ء درج ہے) 1275 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی.بشیر اول قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا.تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے.شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی تم ( یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد ) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے.شریف بھی اسی دلان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں.مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پیدا ہوا جو غربی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے.امتہ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امتہ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پیدا ہوئی.1276 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت اماں جان ام المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے سنا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے اس کمرہ میں پیدا ہوئے تھے جو نچلی منزل میں ہمارے کنوئیں والے صحن کے ساتھ شمالی جانب ملحق ہے.1277 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت اماں جان ام المومنین نے مجھ سے بیان کیا کہ ہماری بڑی بہن عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی تھی اور لدھیانہ میں فوت ہوئی.اس کی قبر لدھیانہ کے قبرستان گور غریباں میں ہے اور ایک احمدی سپاہی ( سابقہ خاوندز وجه با بوعلی حسن صاحب سنوری ) کے بیٹے کی قبر کے ساتھ ہے.شوکت بھی لدھیانہ میں فوت ہوئی اور قبرستان حرم سرائے شاہ زادگان لدھیانہ میں ہے.

Page 190

سیرت المہدی 183 حصہ چہارم 1278 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور حضور نے ذیل کے اصحاب کو ان بارہ حواریوں میں شمار کیا (۱) حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ (۲) مولوی محمد احسن صاحب امروہوی (۳) میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (۴) مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری (۵) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آف لا ہور (۶) ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (۷) شیخ رحمت اللہ صاحب آف لاہور (۸) سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی (۹) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور (۱۰) مولوی محمد علی صاحب ایم اے (۱۱) سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی (۱۲) مفتی محمد صادق صاحب.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پوچھنے پر کہ کیا اس فہرست میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام نہیں تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اس وقت فوت ہو چکے تھے بلکہ ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑا حادثہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے مخلص آدمی دے رکھے ہیں.پھر فرمایا.کہ مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں اور اوپر کے نام بیان فرمائے.اس موقعہ پر ہم نے بعض اور نام لئے کہ کیا یہ حواریوں میں شامل نہیں.آپ نے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ بھی بہت مخلص ہیں مگر اس گروہ میں شامل نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات ۱۹۰۵ء کے آخر میں ہوئی تھی.

Page 191

Page 192

888888 العلمية لا سيرة المهدى حصہ پنجم تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے

Page 193

Page 194

سیرت المہدی 187 بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ پنجم 1279 بسم اللہ الرحمن الرحیم.آمنہ بیگم والدہ محمود احمد نے بذریعہ تحریر بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب مجھ سے بیان کیا کہ میرے والدین نے ۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط میری بیعت کرائی تھی.بعد میں جب میں قادیان آئی تو حضور کے ہاتھ پر بیعت کی چونکہ حضور نے ہی میری شادی کروائی تھی.شادی کے بعد زیورات وغیرہ کا کچھ جھگڑا ہو گیا مقدمہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ہوا اس لئے ہمیں حضور علیہ السلام نے قادیان ہی بلوالیا.میں قادیان آئی اور دو دن حضور نے اپنے ہی گھر میں رکھا دونوں وقت لنگر خانہ سے کھانا آتا تھا لیکن پھر کبھی حضور اپنے پاس سے بخوشی تبرک کے طور پر بھی بچا ہوا کھانا بھیج دیتے تھے.ہم جس دن آئے اسی دن ہی واپس جانے لگے تھے لیکن حضور نے فرمایا کہ ” جب تک تمہارے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا ، یہیں پر رہو.چنانچہ ہم دو دن رہے.جب فیصلہ ہمارے حق میں ہو گیا تو حضور علیہ السلام نے میر از یور مجھے واپس دے دیا اور نہایت ہی محبت سے فرمانے لگے کہ بی بی تمہیں دودن اس لئے رکھا گیا تھا کہ لڑکیوں کو زیور سے بہت محبت ہوتی ہے اور تمہارا زیور اس لئے لے لیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ تم چلی جاتی اور زیور تمہارا فیصلہ ہونے تک یہیں رہتا اور تمہیں رنج ہوتا.اب تمہارا زیور دے کر تمہیں جانے کی اجازت دیتے ہیں.“ 1280 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب بشیر اول یا غالباً بشیر ثانی ( یعنی سید نا حضرت خلیفہ ثانی ) کا عقیقہ ہوا تو گول کمرے میں احباب کو کھانا کھلایا گیا تھا اس روز میں اور میرے بھائی صاحب میاں امام الدین جو مولوی جلال الدین صاحب شمس کے والد ہیں قادیان میں تھے اور دعوت میں شامل نہیں ہوئے تھے چونکہ ہماری قریبی رشتہ داری قادیان میں تھی اس لئے جب ہم قادیان آتے تھے تو وہاں سے ہی کھانا وغیرہ کھایا کرتے تھے اور وہ ہمارے بڑے خاطر گزار تھے.حسب معمول عقیقہ کے روز ہم نے وہاں سے ہی کھانا کھایا تو ان کی ہمسایہ عورت نے کہا کہ آتے تو اُدھر ہیں اور کھانا یہاں سے کھاتے ہیں حالانکہ اُس عورت پر ہمارے کھانے کا کوئی بوجھ نہیں

Page 195

سیرت المہدی 188 حصہ پنجم تھا.خواہ مخواہ اُس نے بات منہ سے نکالی اس کی بات کا اثر ضرور ہم پر ہوا اور کوئی جواب اس کو نہ دیا گیا اور اپنے گاؤں چلے گئے.جب دوسری دفعہ قادیان آئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور علیہ السلام نے بہت التفات اور محبت سے زور دار الفاظ میں فرمایا.کہ دیکھو تم ہمارے مہمان ہو جب قادیان آیا کرو تو کھانا ہمارے ہاں کھایا کرو.اور کسی جگہ سے مت کھانا کھاؤ.“ ہم حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے.الحمد للہ علی ذالک.1281 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بی بی رانی موحیہ والدہ عزیزہ بیگم موصیه زوجہ حکیم محمدعمر صاحب قادیان نے بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بیان کیا کہ میں نے ۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی.چونکہ میری لڑکی عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان میں تھیں.اس واسطے مجھ کو بھی ۱۹۰۲ء میں قادیان آنے کی رغبت ہوئی میرے ساتھ میری چھوٹی لڑکی تھی.جب حضرت صاحب صبح کو کسی وقت سیر کو باہر باغ کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو میں بھی اکثر اوقات ساتھ جاتی تھی.بوجہ معمر ہونے کے اور دیر ہو جانے کے باتیں یاد نہیں رہیں.ہاں البتہ یہ یاد ہے کہ ایک دفعہ صبح کے وقت جب حضرت صاحب کھانا کھا رہے تھے میں بھی آگئی ، میری چھوٹی لڑکی نے رونا شروع کیا.حضرت صاحب نے دریافت کیا تو عرض کی ، روٹی مانگتی ہے.آپ نے روٹی منگوا کر دی مگر لڑ کی چپ نہ ہوئی.حضور علیہ السلام کے دوبارہ دریافت کرنے پر عرض کیا کہ یہ وہ روٹی مانگتی ہے جو حضور" کھا رہے ہیں تب حضور نے وہ روٹی دی جو حضوڑ کھا رہے تھے.سولڑکی نے وہ روٹی جو تھوڑی تھی لے لی اور چپ کر کے کھانے لگ گئی.حضور کا یہ کریمانہ وفیاضانہ کام مجھ کو یاد ہے کہ حقیقۃ الوحی میں جو واقعہ غلام محی الدین لکھو کے کا درج ہے وہ یوں ہے کہ حضور نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو فیروز پور ہمارےگھر بھیجا تھا کہ موضع لکھو کے جا کر ان کے گھر کے حالات دریافت کر کے آویں.چنانچہ عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محد عمر صاحب اور میں جمعیت میرے لڑکے جسمی نور محمد مرحوم کے موضع لکھو کے جا کر تحقیق کر کے آئے تھے وہ واقعہ ہماری زبانی ہے.میری لڑکی عزیزہ بیگم کو بہت حالات یاد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں.میرا لڑ کا نور محمد بہشتی مقبرہ میں کتبہ نمبر ۱۰۰ کے مطابق فوت ہو چکا ہے.

Page 196

سیرت المہدی 189 حصہ پنجم 1282 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ عبد العزیز سابق پٹواری سیکھواں نے بواسط لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرالڑ کامحمد شفیع تھاوہ بیمار ہو گیا میں نے حضور کی خدمت میں جا کر عرض کی اور حضرت ام المومنین نے بھی سفارش کی کہ ان کا ایک ہی لڑکا ہے آپ دعا کریں.حضور نے فرمایا.انشاء اللہ دعا کرونگا.“ اور پھر مجھے دوائی بھی دی.دوائی منگنیشیا تھا.فرمایا.بھی گھول کر پلا دو اور پھر مجھے بھی اطلاع دے دینا.چنانچہ وہ میں نے لا کر پلایا جس سے جلد ہی آرام آگیا میں نے جا کر اطلاع دی کہ حضور اب آرام آگیا ہے.اس وقت یہی طریق تھا کہ جب کوئی تکلیف ہو تو فورا حضور کی خدمت میں عرض کر دیتے.حضور علیہ السلام فورا تکلیف کے رفع کا انتظام کر دیتے.1283﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) بی اے نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ جب میں پہلے پہل اپنے والد خلیفہ نورالدین صاحب کے ساتھ قادیان آئی تو جس طرف اب سردار النساء رہتی ہے حضرت صاحب کا کچھ مکان ہوتا تھا اور میاں بشیر احمد صاحب والے مکان میں لنگر خانہ ہوتا تھا جس میں میاں غلام حسین روٹیاں پکا یا کرتا تھا.سالن گھر میں پکا کرتا تھا اور آٹا بھی گھر میں گندھتا تھا.جب روٹی پک کر آتی تو سالن برتنوں میں ڈال کر باہر بھیجا جاتا.برتن ٹین کے کٹورے اور لوہے کے خوانچے ہوتے تھے.کھانا مسجد مبارک میں بھیجا جاتا اور حضور علیہ السلام سب مہمانوں کے ساتھ مل کر کھاتے.1284 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) بی اے نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سیٹھ صاحب کہیں سے آئے تھے ان کے لئے پلاؤ پکتا تھا اور اسی طرح ایک کشمیری ہوتا تھا اس کے لئے حضور علیہ السلام کچھ سادہ چاول پکواتے.پلا وعائشہ بنت شادی خان صاحب پکاتی اور خشکہ میری والدہ پکاتی تھیں.پھلکے بھی وہی پکایا کرتی تھیں.1285 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے چندہ کی تحریک فرمائی تو میں قادیان میں آیا اور آپ اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر جو میدان ہے اس میں ٹہل رہے تھے.میں نے کچھ چندہ پیش کیا اور آئندہ کے

Page 197

سیرت المہدی 190 حصہ پنجم لئے عرض کی کہ میں موازی چار آنے ماہوار دیتا رہونگا انشاء اللہ.حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ چندہ دائی ہے.میں نے عرض کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ چندہ دائمی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ ہمیشہ ادا کرتا رہونگا.سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ چندہ کو با قاعدہ ادا کرتا چلا آیا ہوں بلکہ زیادتی چندہ کی بھی توفیق دی ( صَدَقَ اللَّهُ تَعَالَى وَيُربي الصَّدَقَات) 1286 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ساتھ میری ایک چھوٹی لڑکی تھی جس کا نام صغریٰ تھا.مکی کی چھلیاں حضرت اُم المومنین (امان جان ) کے پاس دیکھ کر لڑکی نے خواہش کی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جلد دو.زمینداروں کی لڑکیاں ایسی چیزوں سے خوش ہوتی ہیں تو آپ نے لڑکی کو چھلی دے دی.1287 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسط لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ”جب منشی صاحب نے بیعت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام نبی بخش سے عبد العزیز رکھ دیا اور فرمایا.”نبی کسی کو نہیں بخش سکتا.1288 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ ۱۹۰۳ء میں قادیان سالانہ جلسہ پر آئی.شام کا وقت تھا.ڈاکٹر صاحب اور میرے بھائی اقبال علی صاحب میرے ساتھ تھے.حضور علیہ السلام اس وقت اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے.مجھ سے پوچھا.”راستہ میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تھی.میں نے کہا نہیں.فرمایا ” کتنے دن کی چھٹی ملی ہے.میں نے کہا دس دن کی.پھر فرمایا.”راستہ میں سردی لگتی ہوگی.میری گود میں عزیزہ رضیہ بیگم چند ماہ کی تھی.آپ نے فرمایا چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے حضور مجھ سے باتیں کرتے تھے کہ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب ( اس وقت وہ لنگر خانہ کے افسر اعلیٰ تھے ) آئے اور فرمایا.حضرت مہمان تو کثرت سے آگئے ہیں، معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا.حضور کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور لیٹے لیٹے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا.

Page 198

سیرت المہدی 191 حصہ پنجم میر صاحب! آپ نے یہ کیا کہا؟ آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے، جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے.یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا، پھر ایسی بات نہ کریں.میر صاحب سبحان الله سبحان اللہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے.1289 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین والے مقدمات چل رہے تھے.تین اشخاص گورداسپور میں آئے انہوں نے بیعت کی اور بتایا کہ وہ بنارس کے رہنے والے ہیں.بعدش بتکرار انہوں نے کہا کہ حضور ہمارے جانے کی دیر ہے، بنارس سے بہت لوگ حضور کی جماعت میں داخل ہو نگے.پہلی دفعہ تو حضور خاموش رہے.جب تیسری دفعہ انہوں نے کہا کہ ہمارے جانے کی دیر ہے بہت لوگ بیعت کر ینگے تو حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ”تم اپنی خیر مانگو خدا جانے لوگ تمہارے ساتھ کیسے پیش آئیں گے.“ ( ان تینوں میں ایک معمر اور وجیہہ بھی تھا) خدا جانے پھر کبھی ان کو میں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا گزری؟ واللهُ أَعْلَمُ 1289 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضور کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگر خانہ میں بھیجا جاوے.حضور نے فرمایا کہ یہ غرباء کا حق ہے.غرباء کو تقسیم کیا جاوے.چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا.1290 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزامحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت خلیفہ اسیح اول کے مکان پر ٹھہری.تیسرے دن حضرت بیوی جی صاحبہ مجھے حضرت صاحب کے پاس لے گئیں.حضرت صاحب نے فرمایا.یہ کون ہے؟ حضرت اماں جان نے کہا کہ مرزافتح محمد صاحب کی بہو اور مرزا محمود بیگ صاحب کی بیوی ہیں اور پٹی سے آئی ہیں.آپ نے فرمایا.ہم جانتے ہیں مرزا صاحب سے ہماری خط و کتابت ہے.پھر میں چلی آئی دوسرے دن میری بیعت ہوئی.حضور جو لفظ فرماتے وہ اماں جان دہراتی جاتی

Page 199

سیرت المہدی 192 حصہ پنجم تھیں اور میں بھی ان کے ساتھ کہتی جاتی.اس وقت نیچے جو بڑا دالان ہے اس میں بیٹھے تھے حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ ” آپ کی نندوں کا رشتہ ہوگیا ؟ میں نے کہا ”جی نہیں میرا بھائی دیر سے بیمار تھا میرے خاوند نے کہا کہ حضور سے اجازت لے کر چلو تمہارا بھائی بیمار ہے.آپ نے فرمایا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں.پھر ہم دو ماہ بعد پٹی چلے گئے.1291 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ آیت لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ (المائدة: (۷۹) پڑھ کر تقریر کی تو بعد نماز جمعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ دوران خطبہ میں الہام ہوا ہے کہ وزیر آباد پر بھی لعنت پڑ گئی.* ( اللَّهُمَّ نَسْتَغْفِرُكَ وَنَتُوبُ الیک.آمین) 1292 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” ضرورت امام پر مضمون لکھو ( جماعت ابھی تھوڑی تھی ) اکثر احباب نے جو کچھ خواندہ تھے مضامین لکھے.میں نے بھی لکھا جب مضامین جمع ہو گئے تو بعدش حضور علیہ السلام شام وعشاء کے درمیان سنا کرتے تھے.جس روز میرا مضمون پڑھا گیا تو میں موجود نہ تھا.مولوی قطب الدین صاحب طبیب قادیان نے مجھے کہا کہ تمہارے مضمون کو سن کر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ” ہے تو وہ جاٹ جیسا لیکن مضمون بہت اچھا لکھا ہے.مجھے یاد ہے کہ تحریر مضمون کے وقت مجھے دعا کی توفیق مل گئی تھی ورنہ علمی خوبی مجھ میں کوئی نہ تھی نہ اب ہے.الحمد لله.1293 بسم اللہ الرحمن الرحیم.فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارا زمینداری کا کام تھا ایک دفعہ بارش بہت کم ہوئی فصل خراب ہو گئی ، دانے کھانے کے واسطے بھی بہت کم تھے.ادھر حضرت صاحب کے مختار ، حامد علی صاحب معاملہ لینے کے لئے آگئے.سب آدمیوں نے مل کر عرض کی کہ دانے بہت کم ہیں.معاملے کے واسطے اگر بیچ دیئے جائیں تو ہمارا کیا حال ہوگا ؟ حامد علی صاحب نے تذکرہ میں اس الہام کے الفاظ یوں مندرج ہیں یہ لعنت ابھی وزیر آباد میں بری ہے ( تذکرہ صفحہ 268 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ء)

Page 200

سیرت المہدی 193 حصہ پنجم جا کر حضرت صاحب کی خدمت میں اسی طرح کہہ دیا.آپ نے فرمایا.”اچھا! اگلے سال معاملہ لے لینا.اس وقت رحم کرو.چنانچہ اگلے سال اس قدر فصل ہوئی کہ دونوں معاملے ادا ہو گئے.آپ غرباء پر بہت رحم فرمایا کرتے تھے.1294 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنے قدیمی مکان کے دروازہ کے آگے کوچہ میں جو جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے گھر کو نکل جاتا ہے بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ غلام مصطفے و شیخ غلام محمد ( یہ نوجوان تھے ) جو بٹالہ کے رہنے والے تھے موجود تھے.ان سے گفتگو کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول کریم کے وقت تو قرآن کریم کے متن یعنی مفصل حصہ کی توضیح ہوئی ہے اور دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی توضیح ہمارے زمانہ میں ہوگی ( یعنی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ) 1295 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین والے مقدمات چل رہے تھے ایک روز حضور یکہ پر گورداسپور سے قادیان روانہ ہوئے.ہم تینوں بھائی یعنی میاں جمال الدین ومیاں امام الدین صاحب اور خاکسار راقم یکہ کے ساتھ کبھی بھاگ کر اور کبھی تیز قدمی سے چل کر قادیان پہنچ گئے.اس روز کھانا ہم نے مسجد مبارک میں ہی کھایا اور حضور نے براہ شفقت بعض اشیاء خوردنی خاص طور پر اندر سے ہمارے لئے خادمہ کے ہاتھ ارسال فرمائیں.الحمد للہ علی ذالک 1296 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے.میں اپنے گاؤں او جلہ میں تھی اور وہ دن طاعون کے تھے.مجھ کو بخار ہو گیا اور کچھ آثار کلٹی کے بھی نمودار ہو گئے.وہاں سے حضور کی خدمت میں عریضہ تحریر کر کے مفصل حال کی اطلاع دی.حضور علیہ السلام نے جواب تحریر فرمایا کہ ”میں انشاء اللہ دعا کرونگا.مکان کو بدل دینا چاہئے.چنانچہ مکان بدلا گیا.خداوند کریم نے ہر ایک طرح سے محفوظ رکھا.1297 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ

Page 201

سیرت المہدی 194 حصہ پنجم لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب تین ماہ کی رخصت لے کر آگرہ سے قادیان آئے.آگرہ میں خورمے بہت عمدہ اور بڑے بڑے بنتے تھے.حضور کو بہت پسند تھے ڈاکٹر صاحب جب آتے تو حضرت صاحب کے لئے خور مے ضرور لاتے تھے.حضور علیہ السلام نے صبح سے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا.عصر کے وقت میں آئی.آپ بہت خوش ہوئے.مجھ سے سفر کا حال پوچھتے رہے.اماں جان نے کہا کہ کھانا تیار ہے آپ نے فرمایا.طبیعت نہیں چاہتی، پھر حضرت اماں جان نے کہا کہ مراد خاتون تو آپ کے لئے آگرہ سے خورمے لائی ہیں.پہلے تو آپ بہت خوش ہوئے پھر فرمایا.” یہ مجھے بہت پسند ہیں لاؤ میں کھاؤں“.جب سامنے لائے گئے تو فرمایا.”اُف اتنے بہت سے“.حضور نے کھائے اور کہا.”یہ میرے لئے رکھو میں پھر کھاؤں گا.میرا اتنا دل خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتی.پھر میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا وہ بھی بہت خوش ہوئے.کتنی دیر تک آسمان کی طرف منہ کر کے سبحان الله سبحان اللہ پڑھتے رہے.1298 بسم اللہ الرحمن الرحیم.والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک عورت جو سامانہ کی رہنے والی تھی حج کر کے حضور کے گھر آئی.وہ اس وقت پہنچی جبکہ حضور کا تمام کنبہ کھانا کھا چکا تھا.حضوڑ تھوڑی دیر بعد حجرے سے باہر نکلے اور کہا کہ تم نے کھانا کھا لیا ہے کہ نہیں ؟ اس نے کہا ”نہیں“ حضور علیہ السلام گھر والوں کو خفا ہو کر کہنے لگے کہ تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا.یہی تو میرے بال بچے ہیں.حضور نے خود کھانا منگوا کر اُسے کھلایا.1299 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام کے حضور ذکر ہوا کہ مسجد اقصی کے ارد گرد زمین پڑی ہوئی ہے اور لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ”مسجد اپنی زمین لے لی گی.“ 1300 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میاں جان محمد صاحب ( جو میرے ماموں تھے اور مخلص تھے سیدنا حضرت مسیح موعود نے جب اپنے ۳۱۳ ،صحابہ کی فہرست تیار فرمائی اس وقت میاں جان محمد صاحب فوت ہو چکے تھے.حضور علیہ السلام 6

Page 202

سیرت المہدی 195 حصہ پنجم نے ان کا نام فہرست مذکور میں درج فرما کر ان کے اخلاص کا اظہار فرما دیا ).نے ذکر کیا کہ جہاں مسجد اقصیٰ بنائی گئی ہے.سکھ حکومت میں یہ جیل خانہ تھا اور ایک کاردار حکومت کرتا تھا.جب انگریزی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت یہ زمین نیلام کی گئی.ہندوؤں کا ارادہ تھا کہ یہ زمین خرید کر اس پر گوردوارہ بنایا جائے.لیکن حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کو یہ خیال تھا کہ یہاں مسجد بنائی جائے.چونکہ دوقوموں میں مقابلہ ہونا تھا، معلوم نہیں کہ بولی کہاں تک بڑھ جائے ، اس لئے ان کی خدمت میں عرض کی گئی کہ کہاں تک بولی دی جائے تو حضرت مرزا صاحب موصوف نے فرمایا کہ بس میری طرف سے یہ جواب ہے کہ آخری بولی میرے نام پر ختم ہو.خواہ کہاں تک بولی جائے“ ہندوسات سو روپیہ بولی دے کر ٹھہر گئے.آخری بولی حضرت موصوف مرحوم کے نام پر ختم ہوگئی.نوٹ : خدا جانے حضرت موصوف مرحوم نے کس جوش و غیرت ملی سے اس زمین کو خرید کر مسجد کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ قبولیت مسجد شہادت دیتی ہے کہ کسی پاک نیت سے یہ کام کیا گیا ہے کہ خدا کا پاک نبی مسیح.موعود اس میں نماز پڑھتا رہا.اب آپ کی جماعت مستفید ہورہی ہے وغیرہ.یا اللہ بانی مسجد پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور فضل نازل فرما.آمین 1301 بسم اللہ الرحمن الرحیم.راجو زوجہ فقیر محمد قادر آباد نے بذریعہ تحریر بواسطه لجنہ اماء اللہ قادیان مجھ سے بیان کیا کہ میری ساس جس کو حضرت صاحب ” ہو کہا کرتے تھے.پہلی دفعہ مجھے حضور علیہ السلام کے سلام کے لئے لے گئی.حضور نے پوچھا کہ ہستو ! یہ تیری درانی ہے یا بہو ہے؟ حضور نے بالآخر مبارک باد دی اور دعا دی اور فرمایا.” یہ رشتہ کہاں سے لیا ہے؟“....حضور علیہ السلام ہمارے برتنوں میں ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھا لیا کرتے تھے.حضور کا لباس بہت سادہ ہوتا تھا اور بال سرخ چمکیلے تھے.سر پر پگڑی باندھتے.گرتے کے اوپر چوغہ پہنتے یا کوٹ.اور شرعی پائجامہ پہنتے.جوتا سادہ ہوتا.ہاتھ میں سوٹی رکھتے.1302 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی بھا گو اور مائی بھانو صاحبہ قادر آباد نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مائی بھاگو اور بھا نو ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنکھ ہلا رہی

Page 203

سیرت المہدی 196 حصہ پنجم 6 تھیں کہ مائی بھانو نے دریافت کیا کہ حضور نماز پڑھنے کا ثواب ہوگا؟ تو حضور نے فرمایا کہ نہ ثواب ہوگا نہ عذاب ہوگا.پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہئے.میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی.ایک دفعہ ایک مباحثہ میں جمع کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ مکان تیار کرو.آپ کی سیدوں میں شادی ہوگی.اس پر لوگوں نے بہت ٹھٹھا اڑایا مگر ہمارے سامنے ایسا ہی واقعہ ہوا.پھر حضرت کو الہام ہوا کہ آپ کے گھر ایک لڑکا ہوگا جو اسلام میں بہت ہوشیار ہوگا پھر ہمارے گاؤں کی مسجد میں گئے اور دریافت فرمایا کہ کون کون نماز پڑھتا ہے؟ اور کون کون نہیں پڑھتا ؟ لوگوں نے کہا کہ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے جیب سے ایک کاپی نکالی اور فرمایا کہ ان کے نام لکھاؤ.اس پر حضرت ام المومنین سلمها الله نے فرمایا کہ ” آپ نام کیوں لکھتے ہیں؟ تو حضور علیہ السلام نے کاپی جیب میں ڈال لی اور نام نہ لکھے.اب خدا کے فضل سے سب ( نماز ) پڑھتے ہیں.1303 بسم اللہ الرحمن الرحیم اہلیہ صاحبہ نشی نبی بخش صاحب نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ہمیشہ جماعت کے ساتھ باہر کھانا کھایا کرتے تھے اور آپ وہی کھانا کھایا کرتے تھے جو سب کے لئے پکتا تھا.بچوں سے بہت محبت و اخلاق سے پیش آیا کرتے تھے.عورتوں کو ہمیشہ نماز کی ادائیگی کے متعلق تاکید بہت کرتے تھے.1304 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ صاحبہ بھی قادیان میں ہی رہا کرتی تھیں.جب میں قادیان آتی تو حضور مجھ کو کہتے تھے کہ تم ہمارے مہمان ہو.ہمارے مکان پر رہو.میں تو شرم کے مارے چپ رہتی اور ڈاکٹر صاحب سے کہلاتی.حضور دس روز کی رخصت ہے ، یہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں.حضور فرماتے.” کوئی حرج نہیں ان کی والدہ بھی یہیں رہیں گی.فوراً آدمی میری اماں کی طرف بھیج دیتے.کہ جب تک ڈاکٹر صاحب یہاں رہیں آپ بھی یہاں رہیں.چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ میری والدہ صاحبہ اور میری بھا وجہ فاطمہ جو ڈاکٹر فیض علی صاحب کی بیوی ہیں یہاں رہتیں.میرے بھائی باہر نوکری پر ہوتے تو میری والدہ کہتیں.بہو گھر میں اکیلی ہے میں نہیں آسکتی.لیکن حضرت صاحب

Page 204

سیرت المہدی 197 حصہ پنجم فرماتے ” نہیں ڈاکٹر صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کو بھی کہو کہ یہاں پر آجائیں.کھانا لنگر خانہ سے آتا.حضور کی سخت تاکید ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے کھانا عمدہ ہو.کریم بخش باور چی کھانا پکا یا کرتا تھا جو کہ روز آکر پوچھا کرتا لنگر والے روزانہ آکر پوچھتے آپ کے لئے کیا پکایا جائے؟ پھر آپ علیہ السلام خود پوچھتے ” کھانا خراب تو نہیں تھا.کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ کہنا نہیں حضور کوئی تکلیف نہیں.پھر بھی حضور کی تسلی نہ ہوتی.گھر سے کبھی کبھی کوئی چیز ضرور بھیج دیتے.تین ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر صاحب آئے حضور کبھی بھی مہمان نوازی سے نہ گھبراتے تھے اور اپنی ملازمہ سے کہتے تھے.”دیکھوڈاکٹر صاحب تنور کی روٹی کھانے کے عادی نہیں ان کو پھلکے پکا کر بھیجا کرو“.روز کھانے کے وقت حضور آواز دے کر پوچھتے." صفیہ کی اماں ! ڈاکٹر صاحب کے لئے پھلکے بھیج دیے؟ تو وہ کہتی بھیجتی ہوں.تو فرماتے ”جلدی کرو، وہ کھانا کھا چکے ہونگے حضور علیہ السلام مہمانوں کا یوں خیال رکھتے جیسے ماں بچے کا خیال رکھتی ہے.1305 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رحیمن اہلیہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ کے ہاں چارلڑ کے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں.جن میں سے صرف میں زندہ رہی اور باقی تمام فوت ہو گئے.لیکن ۱۵ سال کی عمر میں مجھے دق کا مرض شروع ہو گیا.حتی کہ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا.اس مایوسی کی حالت میں میرے والد مجھے قادیان شریف لائے اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور دعا کے لئے عرض کی.حضور نے ایک خط لکھ کر میرے والد کو دیا اور فرمایا کہ ” میں دعا کرتا ہوں اور تم یہ خط مولوی صاحب حضرت خلیفہ اسیح اول) کو دو.وہ اس لڑکی کا علاج کرینگے.چنانچہ اس کے بعد مجھے صحت ہوگئی.میری شادی ہوئی اور حضور کے فرمانے کے بموجب بچے پیدا ہوئے.1306 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اس زمانہ میں قادیان آئی جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین ہوئی تھی.میں حضرت کے مکان کے نچلے حصہ میں رہتی تھی.آپ کے کمرے کے درمیان میز رکھی ہوئی تھی.آپ ٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے.دوات میز پر رکھی ہوتی.جب میز کے پاس سے گزرتے تو

Page 205

سیرت المہدی 198 حصہ پنجم قلم کو سیاہی لگا لیتے.دوعورتیں میرے ساتھ تھیں.نیز ہمارے ساتھ ایک مرد بھی تھا.اُس نے ہمارے متعلق حضرت صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر ہمارے ہاتھ بھیجا کہ یہ مستورات جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہلیہ مولوی جلال الدین صاحب ضلع گجرات کی ہیں اور دوسری اہلیہ محمد الدین صاحب.دونوں عورتوں کا نام تو حضور نے پڑھ لیا جب تیسری کی باری آئی تو حضور کمرے سے باہر نکل آئے اور دروازے کی چوکھٹ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور فرمایا.” وہ مولوی فضل الدین صاحب کی بیوی ہیں.تین بار حضور نے یہی الفاظ دہرائے.انگنائی میں حضرت ام المومنین صاحب تشریف رکھتی تھیں.بیوی صاحبہ ہنس پڑیں.فرمایا ”لوگوں کو کیا پتہ بیوی صاحبہ کہاں ہیں؟ جب اذان ہوئی تو آپ نے فرمایا.لڑکیو! اذان ہوگئی ہے نماز پڑھو.چونکہ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھی تھی.حضرت صاحب نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھنی کچھ دن عورتوں کے لئے ہوتے ہیں کہ جن میں وہ نماز نہیں پڑھتیں.“ 1307 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات مولوی کرم الدین میں ایک روز نصف شب گورداسپور پہنچے.چونکہ حضور علیہ السلام بڑے محتاط تھے.فرمایا کہ شاید عدالت ضمانت طلب کرے.میاں فضل الہی نمبر دار فیض اللہ چک کو بلایا جائے چنانچہ اُسی وقت میں اور میرا بھائی میاں امام الدین صاحب لالٹین ہاتھ میں لے کر فیض اللہ چک کو چل پڑے اور قبل از نماز صبح پہنچ گئے اور میاں فضل الہی صاحب کو ساتھ لے کر قبل از کچہری گورداسپور پہنچ گئے لیکن اس روز عدالت نے ضمانت طلب نہ کی.1308 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں عبداللہ ا نظم عیسائی کے ساتھ مباحثہ شروع ہو گیا تھا موسم گرما تھا.پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا.عیسائیوں کے چاہ ( کنوئیں) کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے.لہذا ان کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے.1309 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان

Page 206

سیرت المہدی 199 حصہ پنجم کیا کہ ایک دفعہ میں نے سودی قرضہ کے متعلق سوال کیا.فرمایا کہ یہ جائز نہیں ہے.میں نے عرض کی کہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے مثلاً ایک کاشتکار ہے.اس کے پاس کچھ نہیں ہے.سرکاری معاملہ ادا کرنا ہوتا ہے.سپاہی سر پر کھڑا ہے.بجر، سود خور ، کوئی قرض نہیں دیتا.ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ فرمایا ” مجبوری تو ہوتی ہے لیکن استغفار ہی کرے اور سودی قرضہ نہ لیوے.“ 1310 بسم اللہ الرحمن الرحیم.فقیر محمد بڑھی نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بیان کیا کہ ”میرا باپ مجھے سنایا کرتا تھا کہ ایک دفعہ مرزا صاحب ایک کو ٹھے پر سے گر پڑے ہم آپ کی خبر گیری کو گئے.آپ کو جب کچھ ہوش آئی تو فرمایا کہ دیکھو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے؟.(1311) بسم اللہ الرحمن الرحیم محتر مہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بیان کیا کہ حضرت اقدس ۱۹۰۵ء میں دہلی تشریف لے گئے.حضور ہمارے مکان میں تشریف رکھتے تھے.اس وقت میں نے حضور کی بیعت کی.میرے ساتھ عبد الرشید صاحب کے سب خاندان نے بھی بیعت کی.آپ نے فرمایا تم سوچ سمجھ لو.تمہارے سب رشتہ دار وہابی ہیں.میں نے کہا حضور میں نے خوب سوچ لیا ہے“.آپ نے فرمایا کل جمعہ کے روز بیعت لوں گا، آج رات اور سوچ لو.جمعہ کے دن آپ نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ میر صاحب کی بیوی کو بلالاؤ میں گئی تو حضور نے بڑی محبت سے میری بیعت لی.میرے ساتھ میرا ایک رشتہ دار محمد احمد بھی تھا.اس نے بھی بیعت کی.بیعت کرنے کے وقت دل بہت خوش ہوا.بعد میں حضور نے بہت لمبی دعا فرمائی.1312 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ۱۹۰۵ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی.اور دعا فرمائی.باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا.میں بار بار آپ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدرشور ہے اور حضرت صاحب ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا.” شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ.گاڑی لائیں.میر صاحب نے کہا.حضور ! گاڑی کیا کرنی ہے؟ آپ نے فرمایا ” قطب صاحب جانا ہے، میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے.آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپ نے فرمایا ' دیکھ

Page 207

سیرت المہدی 200 حصہ پنجم لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا.میر صاحب کی اپنی فٹ بھی تھی ، دوگاڑیاں اور آگئیں.ہم سب حضرت صاحب کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھر کر چلے گئے.پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے.اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے.آپ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا.پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضور سے پوچھا، آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ”ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں.پھر آپ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی پھر آپ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے.وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اور مقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں تو عورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے.ان لوگوں نے حضور کو کھانے کے لئے کہا.حضور نے فرمایا ”ہم پر ہیزی کھانا کھاتے ہیں آپ کی مہربانی ہے“.وہاں کے مجاوروں کو بھی حضور نے کچھ دیا پھر حضور علیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے.مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے.1313 بسم اللہ الرحمن الرحیم اہلیہ صاحبہ بابوفخر الدین صاحب نے بواسط لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۲ء میں بابو صاحب کو تین ماہ کی رخصت ملی تو ہم ڈیڑھ ماہ قادیان میں رہے.میں صبح ہی حضرت صاحب کو ملنے آئی تو دادی سے پوچھا.حضرت صاحب کہاں ہیں؟ دادی نے کہا اس وقت حضور سو گئے ہیں.تمام رات جاگتے رہے.رات بارش کا طوفان تھا.حضور نے فرمایا.خدا جانے کوئی عذاب نہ آجائے.تمام رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے.اب نماز کے بعد سو گئے ہیں.اس لئے میں واپس آگئی.پھر ایک بجے گئی تو حضور اس وقت ڈاک دیکھ رہے تھے.آپ نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو فرمایا.دیکھو! ہم نے ڈاک کھولی تو نوٹ یہاں پر ہی گر پڑے اب مل گئے ہیں کسی نے دیکھے نہیں“.میں ہر روز جاتی اور پنکھا جھل کر چلی آتی.شرم کی وجہ سے کبھی حضور سے بات نہ کی.1314 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب مہر سنگھ بی اے نے بواسطہ

Page 208

سیرت المہدی 201 حصہ پنجم لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی حضور کے حکم سے ہوئی تھی.میں رخصت ہو کر قادیان ہی آئی تھی اور میری والدہ ساتھ تھیں.حضرت صاحب کے گھر میں ایک سردخانہ ہوتا تھا اس میں ہم سب رہا کرتے تھے.جب میں حضور کو وضو کراتی تو حضور علیہ السلام’جزاکم اللہ کہا کرتے.حضور لکھا بہت کرتے تھے.جب بیٹھ کر لکھتے تو ہم حضوڑ کے کندھے دبایا کرتے تھے.حضور اکثر ٹہل کر لکھا کرتے تھے درمیان میں ایک میز رکھی ہوتی اور اس پر ایک دوات پڑی رہتی تھی.حضور لکھتے لکھتے ادھر سے آتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے.پھر ادھر جاتے تو قلم سیاہی میں ڈبو لیتے اور جب پڑھتے تو اونچی آواز سے پڑھا کرتے تھے اور جو کچھ لکھتے اس کو دہراتے جاتے.1315 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ جو ۱۹۰۵ء میں آیا تھا.اس وقت ہم موضع سیکھواں جو ہمارا حلقہ تھا میں سکونت رکھتے تھے.زلزلہ آنے کے بعد میں کچھ گھی لے کر قادیان میں آئی اس وقت حضور باغ میں معہ خدام سکونت رکھتے تھے.حضور نے پوچھا کہ ”میاں عبدالعزیز نہیں آئے ؟.“ میں نے عرض کی کہ حضور ان کا کوئی افسر آیا ہوا تھا اس واسطے نہیں آسکے.1316 بسم اللہ الرحمن الرحیم.والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش باورچی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت میاں مبارک احمد فوت ہوئے تو دادی آئی (میاں شادی خان کی بیوی ) اور اماں جی کے گلے مل کر رونے لگی.تو حضور حجرے سے گھبرا کر باہر نکلے اور کہنے لگے." مکان رونے کا نہیں ہے بلکہ ہنسنے کا ہے.“ 1317 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی بھولی.مائی جیواں عرف ملا قادر آباد نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ پہلے جب میاں جان محمد کشمیری نے بیعت کی تھی.پھر مولوی صاحب نے.میں اس وقت لڑکی تھی.میری عمر اب اسی (۸۰) سال کی ہے.جب حضرت صاحب ڈھاب بھروانا چاہتے تو ہندو سکھ آتے ، کہیاں اور ٹوکریاں چھین لیتے.آپ کے مکان کے پیچھے لا بھا کھڑا ہو کر گالیاں دیتا رہا.آپ نے اپنی جماعت کو فرمایا کہ ”چپ رہو چھ ماہ کے بعد وہ لا بھا ہندو گڑ کے کڑاہ میں گر کر مر گیا.اس

Page 209

سیرت المہدی 202 حصہ پنجم کے بعد لیکھر ام، آریوں کے ساتھ آپ کا مباحثہ ہوتا رہا.1318 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی بھولی.مائی جیواں عرف ملا قادر آباد نے بواسطه لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام سیر کو آئے تو دیکھا راستہ جو پہلے خراب تھا.نیا بنا ہوا ہے.آپ نے فرمایا.یہ کس نے بنایا ہے ؟ ہم نے کہا حضور آپ کی اسامیوں نے.آپ بہت خوش ہوئے اور ہنسے.وو ایک بار حضور تشریف لائے تو میں نئی کنک ( گندم) بھنا کر لے گئی.آپ نے اپنے ساتھ جو تھے ان کو بانٹ دی.خود بھی چکھی اور خوش ہوئے.جب حضور سیر کو آیا کرتے تو ہماری کچی مسجد میں آکر نماز اشراق پڑھتے.ہم لوگ ساگ روٹی پیش کرتے تو حضور علیہ السلام کبھی بُرا نہ مناتے اور نہ ہی کراہت کرتے.1319 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”ہم نے قادیان میں مکان بنانا شروع کیا.دیوار میں وغیرہ بنوائیں تو مرز انظام الدین نے آ کے گرادیا.اس پر حضور پر نور نے فرمایا کہ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا مکان پھر اور کہیں بن جائے گا.جب نواب مبارکہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں.میں قادیان میں ہی تھی.حضرت اُم المومنین کو کچھ تکلیف تھی ، حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی.خدا نے شفا بخشی.آپ نے ان کی پیدائش پر بہت خوشی کا وو اظہار فرمایا.1320 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رڑکی سے آئے.چار دن کی رخصت تھی.حضور نے پوچھا.” سفر میں روزہ تو نہیں تھا ؟“ ہم نے کہا نہیں.حضور نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا.ڈاکٹر صاحب نے کہا ”ہم روزہ رکھیں گے.آپ نے فرمایا ” بہت اچھا! آپ سفر میں ہیں“ ڈاکٹر صاحب نے کہا.حضور ! چند روز قیام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں.آپ نے فرمایا.اچھا ! ہم آپ کو کشمیری پر اٹھے کھلائیں گے.“ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہونگے ؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود

Page 210

سیرت المہدی 203 حصہ پنجم علیہ الصلوۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے ( جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا ) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے.ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں.حضور نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے.پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے.”اچھی طرح کھاؤ“.مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضوڑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں، روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا.اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور نے فرمایا کہ اور کھاؤ بھی بہت وقت ہے.فرمایا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرة: ۱۸۸).اس پر لوگ عمل نہیں کرتے.آپ کھا ئیں ابھی وقت بہت ہے.مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے.“ جب تک ہم کھاتے رہے حضور کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے.ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورا تشریف رکھیں.میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑ لونگا یا میری بیوی لے لیں گی.مگر حضوڑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے.اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سو یاں وغیرہ کھانے بھی تھے.1321 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رحیمن اہلیہ صاحبہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ روزانہ صبح سیر کے لئے جایا کرتے تھے.صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کی عمر اس وقت انداز آتین سال کی تھی.میں اور حافظ حامد علی صاحب کی لڑکی آمنہ مرحومہ امتہ الحفیظ بیگم کو باری باری اٹھا کر ساتھ لے جاتی تھیں.چونکہ حضور بہت تیز رفتار تھے.اس لئے ہم پیچھے رہ جاتے تھے.تو امتہ الحفیظ بیگم ہم سے کہتیں کہ ابا کے ساتھ ساتھ چلو.اس پر میں نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں تم حضرت صاحب سے دعا کے لئے کہنا.اس پر صاحبزادی نے حضرت صاحب سے کہا.آپ نے فرمایا.اچھا! ہم دعا کریں گے کہ یہ تم کو ہمارے ساتھ رکھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور آمنہ کو اتنی طاقت دی کہ ہم صاحبزادی کو اٹھا کر ساتھ ساتھ لے جاتیں اور لے آتیں مگر تھکان محسوس نہ ہوتی.

Page 211

سیرت المہدی 204 حصہ پنجم 1322 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطه لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی.اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی.اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا میرے ساتھ جو دو عورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکر مائی تابی ایسا کہتی ہے.ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے.ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کر دیں.جلال الدین نے وہ رقعہ حضوڑ کے سامنے پیش کر دیا.رقعہ پڑھتے ہی حضور کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ نے فورامائی تابی کو بلایا اور فرمایا.تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہو.تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف که اگر خدانخوستہ میرے چاروں بچے مرجاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے.مائی تابی نے ہم سے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی.اس کے بعد مائی تابی اور ہم بہت اچھی طرح رہتے رہے.1323 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزامحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کا ذکر ہے کہ چار پائیوں کی ضرورت تھی تو جلسہ والے ہم سب گھر والوں کی چار پائیاں لے گئے.آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے میاں نجم الدین صاحب مرحوم مغفور کو بلا کر فرمایا.فضل بیگم کی چار پائی کیوں لے گئے ہو؟ کیا وہ مہمان نہیں ؟ بس ان کی چار پائی جہاں سے لائے ہو وہیں پہنچا دو.وہ بیچارے لا کر بچھا گئے.1324 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فقیر محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضرت صاحب باغ میں تشریف لے گئے تھے.میں نواب صاحب کے کام کرتا تھا.جب اذان ہوگئی تو ہم سب نماز کے لئے گئے.حضرت صاحب بھی تشریف لائے.آپ کچھ باتیں کر رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا.حضور! شرمیت آپ کا دوست ہے اور وہ مسلمان نہیں ہوا؟ حضرت صاحب نے فرمایا.” وہ مسلمان نہیں ہو گا مگر مصدق ہو جائے گا.مولوی عبد الکریم صاحب نے پوچھا کہ حضور مصدق کا کیا مطلب ہے.آپ نے فرمایا کہ میری سب باتوں کا یقین کرلے گا“.

Page 212

سیرت المہدی 205 حصہ پنجم 1325 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت ام المومنین مجھ سے دریافت کرتی تھیں کہ تمہارا گاؤں تو اوجلہ ہے تم سیکھواں کیوں رہتے ہو؟ حضور نے فرمایا.میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ چونکہ میاں عبدالعزیز کی ملازمت پٹوار سیکھواں میں ہے اور پٹواری کو مع عیال حلقہ میں رہنے کا حکم ہے اس واسطے ان کو سیکھواں میں رہنا پڑتا ہے.“ 1326 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ ) بی اے نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لڑکا پیدا ہوا اور فاطمہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب پوچھتی ہیں ”بشریٰ کی اماں ! لڑکے کا نام کیا رکھا ہے! اتنے میں دائیں طرف سے آواز آتی ہے کہ نذیر احمد.میرے خاوند نے یہ خواب حضرت اقدس کو سنا دیا.جب میرے 66 66 ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضور نے فرمایا کہ ”وہی نام رکھو جو خدا نے دکھایا ہے.“ جب میں چلہ نہا کر گئی تو حضور کو سلام کیا اور دعا کے لئے عرض کی.آپ نے فرمایا.انشاء اللہ پھر حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا.’ ایک نذیر دنیا میں آنے سے تو دنیا میں آگ برس رہی ہے اور اب ایک اور آ گیا ہے.1327 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) بی اے نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب اکثر گھر میں شہلا کرتے تھے.جب تھک کر لیٹ جاتے تو ہم لوگ حضور کو دبانے لگ جاتے.آپ کو اکثر ضعف ہو جاتا تھا.اس وقت حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے اور جس قدر عورتیں وہاں ہوتیں ان سب کو بھی دعا کے لئے فرماتے تو ہم سب دعا کرتے.حضوڑ بہت ہی خوش اخلاق تھے اور بڑی محبت سے بات کیا کرتے تھے.جو کوئی حضور سے اپنی تکلیف بیان کرتی حضور بڑی ہمدردی کا اظہار کرتے اور دعا فرماتے.1328 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میرے باپ کا خط آیا میری دو چھوٹی بہنیں تھیں جن کی منگنی پیدا ہوتے ہی

Page 213

سیرت المہدی 206 حصہ پنجم میری ماں نے اپنے بھائی کے گھر کر دی تھی.جب وہ جوان ہوئیں تو میرے چچانے نالش کر دی کہ لڑکیوں کا نکاح تو میرے لڑکوں سے ہو چکا ہے.میرے باپ نے خط میں تمام حال لکھا تھا اور دعا کے لئے عرض کی تھی.میں خط لے کر حضوڑ کے پاس آئی.حضور سب بال بچوں کو لے کر باغ میں سیر کو گئے ہوئے تھے.میں بیٹھی رہی.جب حضور تشریف لائے تو جس حجرے میں حضوڑ بیٹھا کرتے تھے چلے گئے.میں نے دروازہ میں سے عرض کیا کہ حضور ! یہ خط میرے باواجی کا آیا ہے اور سب معاملہ عرض کیا.حضور نے خط لے کر پڑھا اور سب حال بھی سنا کہ چوں نے جھوٹا مقدمہ کر دیا ہے.فرمایا ” اچھا ہم دعا کریں گے.‘‘دس بارہ دن کے بعد پھر خط آیا کہ چوں نے مقدمہ کیا تھا واپس لے لیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے کہ ہماری غلطی تھی.حضور سن کر بہت خوش ہوئے اور کئی بار زبان مبارک سے الحمد للہ فرمایا.اس کے بعد ہم رخصت لے کر چلے گئے.1329 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضورڑ نے کچھ دوائیاں ایک لڑکی کے سپرد کی ہوئی تھیں کہ مجھے کھانے کے بعد دے دیا کرو.چونکہ آپ مہندی بھی لگاتے تھے اس لئے گرم پانی کی بھی ضرورت ہوتی تھی.یہ دونوں کام اس لڑکی کے سپر د تھے.وہ اکثر بھول جاتی تھی اس لئے یہ کام آپ نے میرے سپر د کر دئے تھے.میں نے اچھی طرح سرانجام دیا.ایک دفعہ جب میں بیمار ہوئی تو حضوڑ نے آکر فرمایا.صفیہ! کیا حال ہے؟ چونکہ حضور علیہ السلام کھانا کھا چکے تھے اس لئے میں نے عرض کی حضور ! اب تو بہت اچھا ہے مگر حضور دوائی کھا لیویں.حضور نے فرمایا کہ صفیہ کو بات خوب یاد رہتی ہے.66 1330 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی بھاگو و مائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک میر اسی کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحب بچپن میں پڑھنے کی طرف بہت متوجہ رہتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے کبھی گھر سے جا کر کھانا اٹھا لاتے.گھر والوں کو معلوم ہوتا کہ آپ تمام کھانا لے گئے ہیں.اس پر آپ کے والد صاحب فرماتے کہ ان کو کچھ نہ کہا کرو.1331 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان میں بواسطہ اماء

Page 214

سیرت المہدی 207 حصہ پنجم اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے مائی فجو کے ہاتھ ہلایا.حضور علیہ السلام اس وقت بیت الفکر میں بیٹھے تھے.میں دروازہ میں آکر بیٹھ گئی.میں نے عرض کی کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہم جائیں کیونکہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا.خدا تعالیٰ پھر لے آئے گا.فی امان اللہ.انشاء اللہ تعالیٰ.1332 بسم اللہ الرحمن الرحیم.عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمدعلی صاحب نے بواسط لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں کئی بار بیعت کرنے کو گئی.ہم چار عورتیں تھیں.جب حضرت صاحب عصر کے بعد باہر سے تشریف لائے تو فرمایا کہ " تم یوں بیٹھی ہو جس طرح بٹالہ میں مجرم بیٹھے ہوتے ہیں.ہم سب کی بیعت لی.میں نے اپنے لڑکے اسکول میں داخل کرائے ہوئے تھے.استاد نے مارا.میں نے جا کر حضور کے پاس شکایت کی.آپ نے فرمایا ” اب نہیں مارینگے.تم کوئی فکر نہ کرو “ میں نے کہا حضور یتیم لڑکا ہے.اسکول والوں نے فیس لگا دی ہے.فرمایا ” فیس معاف ہو جائے گی.علاوہ اس کے ایک روپیہ ماہوار جیب خاص سے مقرر فرمایا.میں نے عرض کی کہ حضور یہ بورڈنگ میں نہیں جاتا، روتا ہے.آپ نے فرمایا کچھ حرج نہیں گھر میں ہی رہے.1333 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہا کہ میری پھوپھی صاحبہ ( حضرت مصلح موعود کی تائی) نے ہمیں بتایا کہ ایک بار حضرت صاحب چالیس دن تک ایک کمرہ میں رہے.گھر والے کچھ کھانا بھیج دیتے کبھی آپ کھا لیتے کبھی نہ کھاتے.جب چالیس دن کے بعد باہر تشریف لائے تو آپ نے فرمایا.خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ ”جو بھی دنیا کی نعمتیں ہیں وہ میں سب تم کو دوں گا.دور دراز ملکوں سے لوگ تیرے پاس آویں گے“.تو ہم سب ہنتے تھے.اب دیکھو وہ سب باتیں پوری ہوگئیں.وو 1334 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے فرمایا.عرق مکو کی بوتل لاؤ“.میں لے گئی.آپ اکثر شہلا کرتے تھے.آپ کی چابیوں کا کچھا ازار بند میں بندھا ہوا ہوتا تھا جو کہ لاتوں

Page 215

سیرت المہدی 208 حصہ پنجم سے لگتا رہتا تھا.میری لڑکیاں زندہ نہیں رہتی تھیں.جب یہ چھٹی پیدا ہوئی جس کا نام عائشہ ہے تو میں اس کو لے کر حضور کی خدمت میں گئی.حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ حضرت جی ! اس کی لڑکیاں زندہ نہیں رہتیں.مرجاتی ہیں.آپ دعا کریں کہ یہ زندہ رہے اور اس کا نام بھی رکھ دیں.حضور علیہ السلام نے لڑکی کو گود میں لے کر دعا کی اور فرمایا.اس کا نام جیونی ہے.چونکہ جیونی اس نائن کا نام بھی تھا جو خادمہ تھی.میں نے کہا کہ حضور جیونی تو نائن کا نام بھی ہے.حضور نے فرمایا.”جیونی کے معنی ہیں زندہ رہے.اس کا اصل نام عائشہ ہے.اب یہ میری چھٹی لڑکی خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اب تک زندہ ہے اور صاحب اولاد ہے.1335 بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ جوائی صاحبہ اہلیہ مستری قطب الدین صاحب وطن گجرات گولیکی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرا سب خاندان احمدی تھاصرف میں ہی غیر احمدی تھی.میری دیورانی نے ایک روز کہا کہ امام مہدی آیا ہوا ہے اسے مان لو.میں نے جواب دیا کہ میرا امام مہدی آسمان سے اترے گا.میں اسے مانوں گی تمہارا آ گیا ہے تم اس کو مان لو، میں نہیں مانتی.میں نے ان دنوں میں نماز بھی چھوڑ دی تھی محض اس لئے کہ احمدیوں کے گھر میں نماز پڑھنے سے میری نماز ضائع ہو جاوے گی.اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک بہت لمبی چوڑی ہے اس پر بہت سے آدمی پھاوڑے لئے کھڑے ہیں اور سب سے آگے میں ہوں.ایک شخص سفید کپڑے اور سفید داڑھی والا خوبصورت درمیانہ قد ہے.وہ شخص یہ آواز دے رہا ہے کہ احمدیوں کا ٹولہ آرہا ہے.دوزخ کی نالیں بند کر دو.یہ آواز اس شخص نے دو دفعہ دی.ایک اور شخص در از قد سیاہ فام جس کے سر پر سرخ ٹوپی تھی.اٹھا اس نے بڑے بڑے ڈھکنے ہاتھ میں پکڑ کر دروازوں کو بند کر دیا.آگے ایک دروازہ ہے میں اس میں سے گزری.تو دیکھا کہ اس میں اندر سبز رنگ کے نہایت خوبصورت درخت ہیں اور گھاس کا بھی بہت ہی سبزہ ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.میں نے صبح اٹھ کر نماز شروع کر دی.میری دیورانی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج تو نے نماز کس لئے پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ میں آج امام مہدی پر ایمان لے آئی ہوں.1336 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب

Page 216

سیرت المہدی 209 حصہ پنجم مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی عبدالغنی صاحب نومسلم تھے.میں تین سال کی تھی کہ ابا فوت ہو گئے تھے.میرے چھ بھائی تھے اور میں اکیلی ان کی بہن تھی کہ ہم یتیم ہو گئے تھے.میں اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں ڈاکٹر اقبال علی غنی اور منظور علی صاحب مرحوم سے بڑی تھی.ہم امرتسر میں رہتے تھے.میرے دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور فیض علی صابر جب جوان ہوئے تو مشرقی افریقہ چلے گئے تھے اور وہیں احمدی ہو گئے تھے.میں کوئی بارہ سال کے قریب عمر کی ہوں گی کہ بھائی فیض علی صابر صاحب کو دو تین دن کے واسطے گھر امرتسر آنے کا موقع ملا.وہ اتفاق اس طرح ہوا کہ ان کی اور ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم مغفور کی نوکری یوگنڈا ریلوے کے مریض قلیوں اور ملازموں کو جو بیمار ہو کر کام کے لائق نہیں رہے تھے واپس بمبئی تک پہنچانے کی لگی.ان کے جہاز نے ایک ہفتہ قیام کے بعد بمبئی سے واپس ممباسہ کو جانا تھا اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر یہ دونوں حضرت مسیح موعود سے دستی بیعت کرنے کے واسطے روانہ ہو پڑے.رات کو بارہ بجے امر تسر گھر پہنچے صبح کو قادیان چلے گئے.دوسرے دن بیعت کر کے آئے اور واپس بمبئی چلے گئے.1337 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری والده مکرمه مرحومه مدفونه بہشتی مقبره نمبر ۱۳۰ بہت نیک پاک اور عبادت گزار تھیں، جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے احمدی ہو گئے ہیں تو اس لحاظ سے کہ وہ نیک ہو گئے ہیں اور نماز روزہ کے پابند بھی ہو گئے ہیں وہ خوش تھیں.لیکن ہمارے ہمسایہ اور رشتہ دار ان کو ڈراتے تھے کہ تیرے بیٹے کا فر ہو گئے ہیں.مرزا صاحب کی نسبت طرح طرح کے اتہام لگاتے اور بکواس کرتے تو وہ رویا کرتی تھیں اور دعا مانگتی تھیں.کہ اللہ کریم! ان کی اولا د کوسیدھے رستہ پر رکھے.میرے دل میں اس وقت سے کچھ اثر یا ولولہ احمدیت کا ہو گیا تھا جسے میں ظاہر نہیں کر سکتی تھی.رشتہ دار مخالف تھے.ان کے بہکانے سے والدہ بھی مخالف ہی معلوم ہوتی تھیں.اتفاق یہ ہوا کہ بھائی فیض علی صاحب صابر قریباً ایک سال کے بعد بیمار ہو جانے کے وجہ سے ملا زمت چھوڑ کر واپس آگئے.گھر میں کوئی نگران بھی نہ تھا اس لئے بھی دوسرے بھائیوں نے ان کو بھیج دیا.ان دنوں میرے دوسرے دو بھائی

Page 217

سیرت المہدی 210 حصہ پنجم مظہر علی طالب اور منظر علی وصال بھی افریقہ چلے گئے ہوئے تھے.بھائی فیض علی صاحب صابر جب واپس آئے تو قادیان آتے جاتے رہتے تھے اور گھر میں وہاں کے حالات سنایا کرتے تھے جس سے مجھے تو گونہ تسلی ہوتی لیکن والدہ ماجدہ مرحومہ کو مخالفوں نے بہت ڈرایا ہوا تھا.1338 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے گھر میں پرانے رسم ورواج اور پردہ کی بڑی پابندی تھی.کنواریوں کو سخت پابندی سے رکھا جاتا تھا.اچھی وضع کے کپڑے، مہندی ، سرمہ اور پھول وغیرہ کا استعمال ان کے لئے ناجائز تھا.ایک مرتبہ بھائی صاحب چھوٹے بھائیوں کے واسطے کوٹوں کا کپڑا لائے.میرے دل میں خیال پیدا ہو کہ میں بھی اس کی صدری بنا سکتی بچپن کی بات تھی.اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی بچوں سے اسی طرح کا علیٰ قدر مراتب ہوتا ہے.میں نے خیال کیا کہ اگر حضرت صاحب سچے ہیں تو خدا کرے اس کپڑے میں سے کوٹوں کی وضع کے بعد میری صدری کے قابل کپڑا بیچ جاوے.چنانچہ جب کپڑا بچ گیا تو میں حیران تھی.میرا دل صدری پہنے کو چاہتا تھا مگر زبان نہیں کھول سکتی تھی.پھر میں نے دعا کی اگر حضرت مرزا صاحب بچے ہیں تو میری صدری بن جائے.اور ڈرتے ڈرتے اماں جی سے کہا کہ میں اس کی صدری بنالوں ؟ یہ سن کر وہ سخت خفا ہونے لگیں کہ لڑکیاں بھی کبھی صدری پہنا کرتی ہیں؟ اس وقت بھائی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے.بول پڑے کہ کونسی شریعت میں لڑکیوں کو صدری پہننا منع ہے؟ اس پر والدہ صاحبہ نے وہ کپڑا میری طرف پھینک دیا.میں نے کاٹ کر کے شام تک اس کی صدری سی لی.جس میں دو جیب بنا لئے تھے.جب اس کو پہنا تو خیال ہوا کہ جیب خالی نہ ہونا چاہئے اس پر پھر خیال آیا کہ اگر حضرت مرزا صاحب بچے ہیں تو مجھے کہیں سے ایک روپیہ بھی مل جاوے.اللہ کریم نے اس کو بھی پورا کر دیا.مجھے ایک روپیہ بھائی نے خود ہی دے دیا.1339 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطه بجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ”ہمارے ہاں سوہانجنے کا اچار بیٹھ جایا کرتا ہے“.منشی نبی بخش صاحب نے کہا.”میری بیوی سوہانجنے کا اچار بہت اچھا ڈالتی ہے اس پر حضرت صاحب نے

Page 218

سیرت المہدی 211 حصہ پنجم حضرت ام المومنین سے کہہ کر مجھ سے تین چار چائیاں اچار کی ڈالوئیں اور وہ بہت اچھا رہا.1340 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم آگرہ میں تھے وہاں ڈاکٹر صاحب مرحوم صبح کو اٹھے تو بہت گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے تھے.اسی حالت میں ہسپتال اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے جب دو بجے واپس آئے تو ویسے ہی پریشان سے تھے.پوچھا کہ کوئی خط حضور کا قادیان سے آیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں.فرمایا کہ حضرت اقدس کا خط کئی دن سے نہیں آیا.خدا کرے خیریت ہو.طبیعت بہت پریشان ہے.میں کھانا لائی تو آپ ٹہل رہے تھے کہا، دل نہیں چاہتا.جب حضرت صاحب کے خط کو دیر ہو جاتی تو ڈاکٹر صاحب بہت فکر کرتے اور گھبراہٹ میں ٹہلا کرتے اور کہتے خدا کرے حضور کی صحت اچھی ہو.ابھی ٹہل رہے تھے کہ قادیان سے حضور“ کا تار آیا.جس میں لکھا تھا کہ حضرت ام المومنین کی طبیعت خراب ہے.آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر چلے آئیں.مجھے کہا ، دیکھا میری پریشانی کا یہی سبب تھا.مجھے کہا کہ مجھے بھوک نہیں ہے.میرے واسطے سفر کا سامان درست کرو.میں صاحب سے رخصت لے آؤں.دعا کرنا کہ رخصت مل جاوے.ایک گھنٹہ کے بعد دس یوم کی رخصت لے کر قادیان چلے گئے.ان دنوں میں صاحبزادی امتہ الحفیظ سلمہا پیدا ہونے والی تھیں.اس لئے حضرت اُم المومنین کی طبیعت ناساز تھی.جب ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو حبشی حلوہ جو حضرت اُم المومنین نے خود بنایا تھا.آپ کو راستہ میں ناشتہ کے واسطے دیا تھا، ساتھ لائے اور مجھے بطور تبرک کے دیا.1341 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رحمن اہلیہ صاحبہمنشی قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی کے چھ ماہ بعد مجھے میرا خاوند قادیان میں لایا اور ایک خط لکھ کر دیا کہ یہ حضرت صاحب کے پاس لے جاؤ.میں خط لے کر گئی.حضور نے وہ خط پڑھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہارے میاں ڈاکٹر ہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں حضور ! آپ نے فرمایا ” کیا حکیم ہیں، میں نے عرض کیا نہیں حضور.آپ نے فرمایا.پھر وہ کس طرح کہتے ہیں کہ تمہارے ہاں اولاد نہیں ہوگی.تمہارے ہاں اتنی اولا د ہو گی کہ تم سنبھال نہ سکو گی اس واقعہ کے نو یا دس ماہ بعد مجھے ایک لڑکا پیدا

Page 219

سیرت المہدی 212 حصہ پنجم ہوا اور اس وقت میں سولہ بچوں کی ماں ہوں.جن میں سے آٹھ بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں.الحمد للہ علی ذالک.1342 بسم اللہ الرحمن الرحیم.والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز صاحب زوجہ چوہدری مولا بخش صاحب چونڈے والے سررشتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے 4 مئی ۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی.میں بڑے دلان میں آکر اتری تھی.میں پہلے آٹھ یوم رہی تھی.میری گود میں لڑکا تھا.حضرت اماں جان نے پوچھا.اس کا کیا نام ہے؟ میں نے عرض کیا.”مبارک احمد “ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے مبارک کا نام رکھ لیا ہے.حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ ” جیتا رہے.“ مجھے بچپن سے ہی نماز روزہ کا شوق تھا.جب میں بیعت کر کے چلی گئی تو مجھے اچھی اچھی خوا ہیں آنے لگیں.میرے خواب میرے خاوند مرحوم کا پی میں لکھتے جاتے.جب ایک کا پی لکھی گئی تو حضور کی خدمت میں اس کو بھیجا اور پوچھا کہ حضور ! یہ خواہیں کیسی ہیں؟ رحمانی ہیں یا شیطانی ؟ حضور علیہ السلام نے لکھ بھیجا تھا کہ یہ سب رحمانی ہیں.“ 1343 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.پہلے جب میں اپنے خاوند مرحوم مغفور کے ساتھ قادیان میں آئی تھی تو میں آنگن میں بیٹھی تھی.جمعہ کا دن تھا ، حضور علیہ السلام نے مہندی لگائی ہوئی تھی اور کمرے میں سے تشریف لائے تھے.مجھے فرمایا کہ "تم رحیم بخش کی بیوی ہو؟ میرے ساتھ چھوٹی بچی تھی.حضور نے فرمایا " یہ تمہاری لڑکی ہے؟ فرمایا ” تمہارا کوئی لڑکا بھی ہے میں نے عرض کیا کہ نہیں ،صرف یہی لڑکی ہے.”اچھا فرما کر اندر تشریف لے گئے.1344 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی رکھی خادمہ کے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بھائی حامد علی صاحب کے پیٹ میں تلی تھی.وہ حضور علیہ السلام سے علاج کرانے آتے تھے.جب اچھے ہو گئے تو حضور کے خادم بن کر یہاں ہی رہ گئے اور اپنی بیوی کو بھی بلا لیا.حافظ نور محمد صاحب والد رحمت اللہ شاکر بھی قادیان آگئے.حضور نے حافظ نور محمد صاحب کے

Page 220

سیرت المہدی 213 حصہ پنجم والد صاحب سے کہا کہ اپنا بیٹا ہمیں دے دو.مگر اس نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے، آپ کو کس طرح دے دوں.یہ آٹھویں دن حاضر ہو جایا کرے گا.حافظ حامد علی صاحب پانچ بھائی تھے.یہ دونوں حافظ تھے.( حضور نے) قرآن مجید سننے کے واسطے ان کو اپنی خدمت میں رکھ لیا تھا.1345 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب فنانشل کمشنر صاحب دورہ کی تقریب پر قادیان تشریف لائے تھے تو حضرت اقدس نے جماعت کے معززین کو طلب فرمایا تھا تو ڈاکٹر صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی بذریعہ تار طلب کیا تھا.وہ تین یوم کی رخصت لے کر آئے تھے.میں قادیان میں ہی تھی.ڈاکٹر صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے حضور کے قدموں سے جدا رہنا مصیبت معلوم ہوتا ہے ، میرا دل ملازمت میں نہیں لگتا.حضور نے فرمایا کہ سر دست ملازمت چھوڑنے کی ضرورت نہیں.تم ایک سال کے واسطے آجاؤ.اکٹھے رہیں گے.زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے.چنانچہ وہ حضور سے اجازت لے کر ایک سال کی رخصت حاصل کر کے قادیان آگئے.1346 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزامحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خربوزے رکھے تھے تو میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ سرور سلطان صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا بشیر احمد صاحب کہنے لگیں." نظر نہیں آتا.کیا ہے؟“ حضرت صاحب نے فرمایا کہ نرمی سے بولا کر وا گرتم پٹھانی ہو تو وہ مغلانی ہے اس لئے محبت سے پیش آیا کرو.“ 1347 بسم اللہ الرحمن الرحیم.فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمیں پانی کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف تھی.ہم سب گاؤں کے آدمیوں نے مل کر مشورہ کیا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کریں کہ وہ کنواں لگوادیں.حضرت صاحب ، اور بہت سے آدمی آپ کے ہمراہ تھے.اس وقت کوٹھیوں کے آگے جو رستہ ہے اس رستے سیر کو جارہے تھے.جب واپس ہمارے گاؤں کے قریب آئے تو لوگوں نے عرض کی کہ حضور پانی کی تکلیف ہے.آپ نے فرمایا ” انشاء اللہ بہت پانی ہو جائے گا.اس وقت گاؤں کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے.

Page 221

سیرت المہدی 214 حصہ پنجم 1348 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ با بوفخر الدین صاحب نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے وطن میانی میں تھی کہ میرے لڑکے الحق کو جس کی عمر اس وقت دو سال کی تھی.طاعون کی دو گلٹیاں نکل آئیں.ان دنوں یہ بیماری بہت پھیلی ہوئی تھی.ہم بہت گھبرائے اور حضرت کے حضور دعا کے لئے خط لکھا.لڑکا اچھا ہو گیا تو ایک ماہ کے بعد میں اس کو لے کر قادیان آئی اور اس کو حضور کے سامنے پیش کیا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو طاعون نکی تھی.حضور اس وقت لیے ہوئے تھے.سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور فرمایا.اس چھوٹے سے بچہ کو دوگلٹیاں نکلی تھیں ؟“ اب خدا کے فضل سے وہ بچہ جوان اور تندرست ہے.1349 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ صفیہ ! گرم پانی کا لوٹا پائخانہ میں رکھو.مجھ سے کچھ تیز پانی زیادہ پڑ گیا.جب حضور باہر آئے تو مجھے کہا.ہاتھ کی پشت کرو اور پانی ڈالنا شروع کیا اور ہنستے بھی جاتے تھے.پھر فرمایا.”پانی تیز لگتا ہے ؟ میں نے کہا لگتا تو ہے.آپ نے فرمایا اتنا تیز پانی نہیں رکھنا چاہئے.“ 66 1350 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن آپ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی.کئی طرح کے پھل لیچیاں، کیلے، انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دئے.میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں.ان کو میں گھر لے جاؤں گی تا کہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں.جب میں جانے لگی تو حضور نے اماں جان کو فر مایا کہ برکت کو وائی برنم دے دو.اس کے رحم میں درد ہے (ایکسٹریکٹ والی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے.) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوالا کر دی.حضور نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روز صبح کو پیا کرو.میں گھر جا کر پیتی رہی.1351 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم

Page 222

سیرت المہدی 215 حصہ پنجم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں تیسری بار قادیان میں آئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی.آپ نے فرمایا کہ " برکت بی بی ؟ لو یہ درنمین پڑھا کرو.“ دوا پینے کے بعد مجھے حمل ہو گیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو اور عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آگیا ہے.میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا.اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ ” جوعورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے.مجھے یہ دیکھ کرسخت رنج ہوا.میں نفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی.یا اللہ ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی.حضور کے پاؤں دبار ہی تھی کہ میں نے عرض کی.حضور مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضور کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسوس کرتی ہوں، حالانکہ نہیں آنی چاہئے کیونکہ حضور تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں.آپ سے نہ عرض کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی.پھر میں نے حضور کی خدمت میں وہ خواب بیان کی.حضور نے فرمایا کہ وہ کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھالاؤ“.میں لے آئی آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ” جو عورت ایسا خواب دیکھے.تو اگر وہ حاملہ ہے تو لڑکا پیدا ہوگا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا.میں نے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دوا اور دعا سے حمل ہے.آپ نے فرمایا.اب انشاء اللہ لڑکا پیدا ہوگا.“ 1352 بسم اللہ الرحمن الرحیم.والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص جس کے سپر د گائے بھینس وغیرہ کا انتظام تھا وہ چوری سے چیزیں بھی نکال کر گھر کو لے جایا کرتا تھا.میاں کریم بخش صاحب نے اس کو منع کیا کہ بھئی تو اس طرح چیزیں نہ نکالا کر مگر وہ لڑ پڑا.میں نے جا کر حضور علیہ السلام کو بتایا کہ وہ اس طرح سے کرتا ہے میاں کریم بخش نے اس سے کہا تو وہ لڑ پڑا.حضور علیہ السلام نے اس کو کہا.”ہم ایسے آدمی کو نہیں چاہتے.“ 1353 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیا بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ساتھ باغ میں سیر کوگئیں.

Page 223

سیرت المہدی 216 حصہ پنجم یہ باغ حضرت کی ملکیت تھا جو ڈھاب کے پار ہے ) اس میں صرف آم ، جامن اور شہتوت وغیرہ کے درخت تھے.کوئی پھول پھلواری اور ان کی کیاریاں وغیرہ زیبائش کا سامان نہیں تھا.بالکل تنہا وہ باغ تھا، تو حضور علیہ السلام نے سب کو جامن کھلائے.ایک بار حضور نے چڑوے ریوڑیاں کھلائیں ،حضرت اُم المومنین بھی ساتھ ہوتی تھیں، چھابڑی والے بعض اوقات وہاں پہنچ جایا کرتے تھے.1354 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مغلانی نور جان صاحبہ بھا وجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب کی بیوی نے حضرت اُم المومنین صاحبہ سے پوچھا کہ نور جان نے ایسا ارائیوں والا لباس پہنا ہوا ہے.آپ اس کو اپنی نند کیوں کہتی ہیں.آپ نے کہا کہ اس کے بھائی سے پوچھو.پھر آپ سے پوچھا.آپ نے فرمایا.کہ ”صرف لباس کی وجہ سے ہم بہن کو چھوڑ دیں؟ یہ خود سادگی پسند کرتی ہیں.پہلے ایسا ہی لباس ہوتا تھا“.1355 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم مغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادریان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے بھائی صاحب فیض علی صاحب صابر کا خیال تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اقبال علی غنی اور منظور علی کو قادیان میں تعلیم دلائیں جس کے متعلق انہوں نے بصد مشکل والدہ ماجدہ مرحومہ کو راضی کیا اور جب اس طرح یہ دونوں چھوٹے بھائی قادیان چلے گئے تو کچھ اس خیال سے کہ والدہ کو ان کی جدائی شاق ہوگی اور کچھ بھائی صاحب کی بار بار تحریک سے کہا کہ میں نے بھی قادیان رہنا ہے اور قرآن مجید پڑھنا ہے، آپ بھی چلیں اور وہاں حالات دیکھیں.والدہ مرحومہ اس وعدہ پر راضی ہوئیں کہ وہ صرف چند یوم کے واسطے جائیں گی اور الگ مکان میں رہیں گی اور کہ ان کو حضرت صاحب کے گھر جانے وغیرہ کے واسطے ان کی خلاف مرضی ہرگز مجبور نہ کیا جاوے.چنانچہ بھائی صاحب نے ایک مکان خوجہ کے محلہ میں مراد و ملانی کا جو شیخ یعقوب علی تراب کے مکان کے ساتھ گلی کے کونے پر تھا، کرایہ پر لے لیا.اور مجھے اور حضرت بو بوجی (اماں جی ) کولے آئے.میں نے کبھی ریل نہ دیکھی تھی.بو بوجی کو راستہ میں یکہ اور کچی سڑک کے باعث بہت تکلیف ہوئی.چکر آئے اور قے بھی ہو گئی.اس مکان پر پہنچ کر وہ تو مصلے پر لیٹ گئیں ، میں نماز سے فارغ ہو کر کھانا پکانے میں لگ

Page 224

سیرت المہدی 217 حصہ پنجم گئی.بھائی صاحب نماز پڑھنے چلے گئے.بو بو جی نے اس گھبراہٹ میں ہی نماز پڑھی.قبلہ کی جانچ بھی نہ کی.نماز کے بعد وہیں غنودگی میں لیٹے تھے کہ بھائی صاحب آگئے.والدہ بو بوجی نے اچانک بیدار ہو کر کہا کہ میں نے ابھی ایک بزرگ سفید ریش کو دیکھا.جن کے ہاتھ میں عصا تھا.انہوں نے تین دفعہ فرمایا 'یا حضرت عیسی “ “ اس پر بھائی صاحب نے کہا کہ بو بو جی آپ کو تو آتے ہی بشارت ہو گئی ہے اب آپ کو زیادہ تأمل بیعت میں نہیں کرنا چاہئے“.1356 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم کو مرا دو ملانی کے مکان میں رہتے ہوئے چند دن گزر گئے تو ہمسائیوں کی عورتیں گھر میں آنے جانے لگیں اور ان کو معلوم ہوا کہ بو بو جی کولوگوں نے ڈرایا ہوا ہے تو باوجود یکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھیں مگر انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب میں کوئی بات خوف کرنے کی نہیں ہے.وہ تو بچپن سے ہی ہم جانتی ہیں بہت نیک پاک ہے نمازی پرہیز گار ہے.بو بوجی کو مخالفوں نے یہاں تک ڈرایا ہوا تھا کہ اگر تو جاتی ہے تو اپنی لڑکی کو ساتھ نہ لے جا.مرزا جادوگر ہے وہ اپنے مریدوں کو ایسا قابو کر لیتا ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنی عزتوں کی بھی پروانہیں کرتے.لیکن جب بو بوجی کا ڈر ہمسائیوں کے ملنے اور قادیان میں دو تین ہفتہ تک رہنے سے کچھ کم ہوا.تو ان کو حضرت صاحب کے گھر جانے کی جرات ہوگئی.ایک دن وہ چند ہمسائیوں کو لے کر دل کڑا کر کے حضرت اقدس کے گھر گئیں.حضرت اقدس کو دیکھ کر انہوں نے پہچان لیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہے جس کو انہوں نے پہلے دن کشف میں دیکھا تھا." 1357 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دوسرے دن بو بو جی مجھے ساتھ لے کر گئیں.تو پہلے قدرت اللہ خان کی بیوی سے ملے.اونچے دالان کے سامنے تخت پوش پر جہاں ڈاکٹر نی اور اُمّ حبیبہ بیٹھی ہوئی تھیں ہمیں بٹھا دیا اور ہم سے پتہ معلوم کر کے حضرت اقدس کو اطلاع دی کہ مہمان عورتیں آئی ہیں.حضرت اقدس اور اُم المومنین تشریف لے آئے.بو بوجی نے پردہ کیا.ڈاکٹرنی نے کہا کہ اللہ کے نبی سے

Page 225

سیرت المہدی 218 حصہ پنجم پردہ نہیں کرنا چاہئے.مگر انہوں نے کہا کہ مجھے شرم بھی آتی ہے اور پردہ کا رواج بھی ہمارے گھر میں زیادہ ہے.حضرت کے دریافت کرنے پر جب حضور کو معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر فیض علی صاحب کی والدہ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ کہاں ٹھہرے ہو اور کب سے آئے ہو؟ والدہ نے عرض کیا کہ پندرہ دن ہوئے ہیں.ہم مراد و ملانی کے مکان میں رہتے ہیں.آپ نے فرمایا.کھانے کا کیا انتظام ہے؟“ بوبو جی نے کہا کہ خود پکا لیتے ہیں.فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مہمان ہو کر خود کھانا پکائیں.آپ کو معلوم نہیں کہ قادیان میں جو مہمان آتا ہے وہ ہمارا ہی مہمان ہوتا ہے.آپ کو ڈاکٹر فیض علی نے نہیں بتایا ؟ بو بوجی نے کہا ہم پانچ چھ آدمی ہیں.حضور علیہ السلام کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا.آپ نے فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ ہمارے مہمان ہمارے گھر سے ہی کھانا کھا ئیں.فرمایا کہ دادی کہاں ہیں ؟ دادی نے کہا.”حضور جی میں کو لے کھڑی آں.فرمایا ان کے ساتھ جا کر گھر دیکھ لو اور دونوں وقت کھانا پہنچا آیا کرو اور پوچھ لیا کرو کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے.میرے متعلق پوچھا کہ کیا یہ فیض علی کی لڑکی ہے ؟ بو بوجی نے بتایا کہ یہ میری لڑکی ہے.فیض علی کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی.پوچھا ”عمر کیا ہے ؟“ بو بوجی نے بتایا چودہ سال.اس وقت دادی اور فجو ہمیں گھر چھوڑنے آئیں.کھانالنگر سے آنے لگا.لنگر ابھی گھر میں ہی تھا.وہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے.مہمانوں کا کھانا زردہ ، پلاؤ وغیرہ بھی گھر ہی پکتا تھا.حضرت اُم المومنین صاحبہ کھانا خود تقسیم فرماتی تھیں.چند یوم کے بعد بو بوجی اور میں نے بیعت کر لی.بیعت مغرب کے بعد اونچے دالان کے ساتھ والے چھوٹے کمرے میں کی تھی.اس میں کھوری بچھا کر اوپر ٹاٹ کے ٹکڑے بچھائے ہوئے تھے اور دونوں طرف لکڑی کے دو صندوق تھے ایک پر موم بتی جل رہی تھی اور حضور علیہ السلام کچھ تحریر فرمارہے تھے.جگہ تنگ تھی.ہم دونوں دروازہ میں بیٹھ گئیں حضور علیہ السلام نے بیعت لی اور دعا فرمائی.1358 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم بیعت کر کے امرتسر واپس چلے گئے.میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی.ایک سال کے بعد میرے بڑے بھائی علی اظفر صاحب مرحوم نے افریقہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ ” میری بہن کے رشتہ کا حضور کو اختیار ہے،

Page 226

سیرت المہدی 219 حصہ پنجم حضور اس کے ولی ہیں ، جہاں حضور کی منشاء ہو ، رشتہ کر دیں“.اور اسی مفہوم کا ایک خط بھائی فیض علی صاحب صابر کو بھی لکھ دیا.پھر حضور علیہ السلام نے بھائی صاحب کوتحریر فرمایا کہ ” آپ کے بڑے بھائی نے ہمیں ہی لڑکی کا سر براہ بنا دیا ہے ، ان کا خط آیا ہے.ہم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو پسند کرتے ہیں.ان کو دیکھ لو اور چاہو تو ان سے اپنی ہمشیرہ کا نکاح کر دو.مگر بہتر ہو کہ پہلے ان کو اپنی ہمشیرہ دکھا بھی دو.1359 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر خلیفہ صاحب مرحوم ومغفور فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈاکٹر فیض علی صاحب کی طرف ایک تحریر دی جس میں رشتہ کا لکھا تھا.آپ رقعہ لے کر امرتسر گئے.امرتسر میں آپ کو حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیل گئے.آپ نے دریافت فرمایا کہ " کیسے آئے ہو؟“ ڈاکٹر صاحب نے بتایا تو حضرت نانا جان نے کہا کہ لا ؤ رقعہ مجھے دوتم تو بڑے بھولے ہو.کوئی اپنے رشتہ کا پیغام خود بھی لے جاتا ہے؟ ہم خود پیغام لے کر جائیں گے.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم وہ رقعہ حضرت میر صاحب کے سپر د کر کے خودلا ہور چلے گئے.1360 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر فیض علی صاحب نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری ہمشیرہ کے رشتہ کا رقعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے خود خلیفہ صاحب کو دیا تھا.چونکہ پہلے مجھ سے ان کا تعارف نہ تھا.یوں بھی شرمندگی سے وہ خود میرے پاس نہیں آئے اور حضرت میر صاحب نانا جان کو بھیج کر خود لاہور چلے گئے تھے.میں دوسرے دن یہ ہدایت نامہ لے کر پہلے ڈاکٹر رحمت علی صاحب کے پاس چھاؤنی میاں میر (لاہور) میں گیا.ڈاکٹر صاحب رقعہ دیکھ کر بہت خوش بھی ہوئے ہونگے.فرمایا.حضرت اقدس کا حکم سر آنکھوں پر ہے.پھر میں آگے لا ہور حویلی پتھراں والی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے پاس چلا گیا.میں نے ان سے کہا کہ دیکھنا ہے تو چل کر دیکھ لو.مگر سیرت جو نہایت ضروری ہے اسے کس طرح دیکھ کر معلوم کرو گے ( میں نے کچھ ایسا ہی کہا تھا ) مگر شاید وہ خود جا کر دیکھنے میں بھی شرمساری محسوس کرتے ہونگے.واللہ اعلم انہوں نے کہا کہ میں نے صورت وسیرت کے متعلق سن لیا ہے اور تمہارے چھوٹے بھائیوں کو بھی

Page 227

سیرت المہدی 220 حصہ پنجم جو قادیان میں پڑھتے ہیں دیکھا ہے اور مجھے ہر طرح سے تشفی ہے.اس وقت تجویز یہ ہوئی کہ غالبا کل یا پرسوں قادیان پہنچ جاویں اور نکاح ہو جاوے.چنانچہ میں اور ڈاکٹر صاحب وقت پر قادیان میں پہنچ گئے.جب نکاح پڑھا جارہا تھا تو یہ دریافت کرنے پر کہ مہر کیا مقرر ہوا ہے میں نے کہہ دیا.جس نے یہ نکاح پڑھوایا ہے مہر کا بھی اس کو علم ہوگا اس پر حضرت اقدس فِدَاهُ اُمّی وَاَبِی نے مبلغ ۲۰۰ روپے حق مہر مقرر فرما دیا.یہ نکاح بفضلہ تعالیٰ بہت مبارک ہوا.خدا کی باتیں خدا ہی جانے.شاید یہ میری اس نیک نیتی کا ثمر تھا کہ میں اپنی بہن کو محض نیک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ عنہ کے خواہ مخواہ گلے مڑھنا چاہتا تھا جس نے اس کے ایک دو سال بعد ہی لڑائی میں شہید ہو جانا تھا.اللہ کریم نے مجھے ایک اور نیک نفس اور ایسا تقی انسان دے دیا جو بہر صورت نعم البدل تھا." معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت صاحب نے اس وقت مجھے کہا تھا جبکہ حضور کو مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کے لئے رشتوں کی ضرورت تھی.اس وقت فرمایا تھا کہ ” تم اپنے بھائیوں سے بھی مشورہ کر لو.“ بھائی میرے افریقہ میں تھے.ان سے مشورہ کرتے ہوئے ایک دو مہینے ڈاک کے لگ جاتے مگر اس مرتبہ ویسا نہیں فرمایا.گویا یہ ایک تقدیر مبرم تھی.الْحَمْدُ للهِ عَلَى ذَلِک 1361 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ بلجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کی وفات کے بعد ) حضور مسیح موعود علیہ السلام فِدَاهُ اُمّى وَابِی اس جگہ جہاں ام ناصر احمد سلمہا کا آنگن ہے چار پائی پر بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے.حضرت ام المومنین پاس ہوتی تھیں.حضرت اس طرح خوشی ہنسی باتیں کرتے تھے گویا کوئی واقعہ رنج اور افسوس کا ہوا ہی نہیں.عورتیں تعزیت کے واسطے آتیں تو حضور علیہ السلام کو اس حال میں راضی دیکھ کر کسی کو رونے کی جرات نہ ہوتی اور حیران رہ جاتیں.1362 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضور علیہ السلام کو وضو کرانے لگی.عصر یا ظہر کا وقت تھا.میری لڑکی نے مجھے کہا کہ اماں ! یہ امام مہدی ہیں؟ میں نے کہا ہاں اس پر

Page 228

سیرت المہدی 221 حصہ پنجم حضور نے دریافت فرمایا کہ ڈیڈ کی کیا کہتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور ایلڑ کی پوچھتی ہے کہ امام مہدی یہی ہیں؟ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ہاں! میں امام مہدی ہوں.“ حضور نے حکم دیا کہ انکے واسطے گوشت منگواؤ.حضرت خلیفہ اول کی بیوی صاحبہ نے مجھے کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو.حضور کی خاص توجہ تمہارے حال پر ہے.1363 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے خاوند رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری بیوی بیمار ہے اس کے رحم میں در درہتا ہے.حضرت اقدس نے دریافت فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور نے فرمایا اچھا میں علاج کروں گا.اس کے بعد ہم واپس چلے گئے.جب آٹھ دن کے بعد میں پھر آئی تو گلابی کمرہ کے آگے کھڑی ہوئی تھی کہ حضور علیہ السلام تشریف لائے.میں نے السلام علیکم کہا حضور نے فرمایا ”وعلیکم السلام اور نہایت محبت اور شفقت سے فرمایا:.برکت آگئی ہے ؟ اماں جان نے فرمایا: اپنے علاج کے واسطے آئی ہے.حضور نے فرمایا ”نہیں وہ دین کی محبت رکھتی ہے.“ وو 1364 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی رکھی گلے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ”تم اپنے ہمسائیوں کو جانتی ہو؟ میں نے کہا خوب واقف ہوں.مغل مرزا محمد علی مرحوم تھے.ہمارا بہت آنا جانا تھا.فرمایا کہ محمد علی بیمار ہے میں دوا بنادیتا ہوں اس کو پہنچا دو.رستہ میں گرا تو نہیں دو گی؟ میں نے کہا جی میں سیانی بیانی رستہ میں بھلا گرادوں گی؟ پھر دواشیشی میں ڈال دی اور نشان لگا دیئے اور فرمایا کہ جا کر کیا کہوگی ؟“ میں نے کہا کہ میں کہوں گی کہ مسیح موعود نے بھیجی ہے.پھر پوچھا ” مائی تابی تیری کیا لگتی ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ میری خال لگتی ہے.دریافت فرمایا کہ سگی خالہ؟ میں نے عرض کیا کہ میری ماں کی خالہ زاد بہن.پھر میں دواد ینے چلی گئی.پھر ایک دن آئی تو پوچھا کہ " گا بو تیری کیا لگتی ہے؟ میں نے کہا کہ بھاوج ہے.آپ ہی نے تو شادی کروائی تھی.اس کی ماں رشتہ دینے سے انکار کرتی تھی حضور نے پھر رشتہ کروادیا تھا.

Page 229

سیرت المہدی 222 حصہ پنجم مائی تابی کی نواسی (برکت) کو حضور نے مودی خانہ کی چابی دی اور اس کی ذمہ داری لگادی کہ وہی چیزیں نکال کر دیا کرے.1365 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادریان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میرے خاوند مرحوم و مغفور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے گھٹنوں میں درد تھا وہ چھ ماہ کی رخصت لے کر قادیان آئے تھے.دردبھی تھا لیکن یوں بھی ان کو کمال رغبت اس بات کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے حضور کے قدموں سے لگے رہیں.جب ہم آئے تو میری والدہ قادیان کے پرلے سرے پر ریتی چھلہ کی طرف ملاوامل کے مکان میں رہتی تھیں.ڈاکٹر صاحب نے حضور سے اجازت طلب کی کہ چھوٹے بچوں کا ساتھ بھی ہے.اس وقت عزیزہ رضیہ بیگم سلمہا ۳ سال کی تھیں اور سیدہ رشیدہ مرحومہ ایک سال دو ماہ کی ہوگئی تھی.ان کی والدہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں.ہمیں اجازت عطا فرمائی جاوے حضور نے فرمایا.”نہیں تم میرے پاس ہی رہو تمہاری خوشدامن بھی تمہارے پاس آجاویں گی.چنانچہ اسی وقت مائی مجھ کو بھیج کر انہیں بلا دیا.1366 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادریان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو جب گھٹنوں میں دردتھا اور وہ چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے تو حضور نے ہمیں گول کمرہ رہنے کو دیا.دوسرے دن جب حضور صبح کو سیر کے واسطے حسب معمول تشریف لے جارہے تھے تو ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مکان آپ کے لئے ہے اور آپ کا ہی ہے جب ڈاکٹر صاحب سیر سے واپس آئے تو اس قدر خوش تھے کہ میں بیان نہیں کر سکتی.آپ خوشی سے جھومتے تھے اور حضرت اقدس کی خوشنودی مزاج کے حصول پر تسبیح و تحمید کرتے تھے.جب رخصت ختم ہونے لگی اور صلاح الدین کی ولادت قریب تھی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کتنے دن آپ کی رخصت میں باقی ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ صرف ہیں دن“.پھر دریافت فرمایا کہ ” تمہارے علم ڈاکٹری کی رو سے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن ہیں؟ تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ۹ر دن معلوم ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا اچھا! ہم آپ کا اندازہ بھی دیکھ لیں گے اور دعا بھی کریں گے کہ

Page 230

سیرت المہدی 223 حصہ پنجم آپ کی موجودگی میں ہی لڑکا پیدا ہو جائے“.1367 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ صلاح الدین کی ولادت سے ایک دو دن قبل میری والدہ نے سموسے پکائے اور کچھ ان میں سے تھالی میں لگا کر رومال سے ڈھانپ کر حضور کی خدمت میں لے گئی.حضور نے فرمایا کہ ”کیا لائی ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ سموسے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ” میں نے خیال کیا تھا کہ لڑکا پیدا ہونے پر پتاشے لائی ہو حضور علیہ السلام جب ایسا ذکر ہوتا تھا لڑکا ہی فرمایا کرتے تھے.چنانچہ جب ٹھیک نو دن گزرنے پر لڑ کا پیدا ہوا تو حضور بہت خوش ہوئے نام ”صلاح الدین“ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کا حساب بھی ٹھیک نکلا“.1368 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ "صلاح الدین“ کے عقیقہ کے وقت ڈاکٹر صاحب نے دو بکرے منگوائے.میں نے کہا کہ کچھ مٹھائی بھی منگوا لو.میں نے منت مانی ہے کہ لڑکا ہوگا تو مٹھائی تقسیم کروں گی.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقیقہ کرنا تو سنت ہے.لڈو بانٹنے بدعت نہ ہوں؟ حضور سے پوچھ لیا جاوے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ”خوشی کے موقعہ پر شیرینی بانٹی جائز ہے.پہلے دو بکرے کئے گئے تھے پھر ایک اور کیا گیا تھا.دوسرے دن کچھ گوشت بازار سے بھی منگایا گیا تھا تا کہ تقسیم پوری ہو جاوے.اس وقت مٹھائی چار سیر روپیہ کی تھی جو کہ اٹھارہ روپیہ کی منگوا کر تمام گھروں میں اور دفاتر و مهمانخانہ وغیرہ سب جگہ تقسیم کی گئی تھی.اب یہ عالم ہے کہ اگر ایک سو روپیہ کی مٹھائی بھی ہو تو پوری نہیں ہوگی.صلاح الدین سلمہ نو دن کا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو فرخ آباد ملازمت پر حاضر ہونے کا حکم آ گیا.آپ کا دل حضور کے قدموں سے جدا ہونے کو نہیں چاہتا تھا مگر مجبوری تھی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جاؤ“.1369 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ” میں دوبارہ ۱۹۰۳ء میں قادیان آئی اور

Page 231

سیرت المہدی 224 حصہ پنجم وہ اگست کا مہینہ تھا.پشاور سے انگور کے ٹوکرے آئے ہوئے تھے.آپ نے امتہ الرحمن قاضی عبد الرحیم صاحب کی ہمشیرہ کو فرمایا.” پارسل کھولو.انگور کچھ خراب تھے.آپ بھی پاس بیٹھ ہوئے تھے.امتہ الرحمن سب کو دیتی رہی ، جب مجھے دینے لگی تو آپ نے فرمایا کہ " برکت کو میں خود دوں گا.“ پھر آپ نے چینی کی رکابی میں ڈال کر مجھے دیئے.میں وہ انگور شام کو تلونڈی لے کر چلی گئی.1370 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کو اس طرف توجہ تھی کہ جماعت میں عربی بول چال کا رواج ہو.چنانچہ ابتدا میں ہم لوگوں کو عربی فقرات لکھ کر دیئے گئے تھے جو خاص حد تک یاد کئے گئے تھے بلکہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی یاد کراتے تھے.میرا لڑکا ( مولوی قمر الدین فاضل ) اس وقت چار پانچ سال کا تھا جب میں اسے کہتا." ابريق “ تو فوراً لوٹا پکڑ لاتا.( قمر الدین کی پیدائش بفضل خدامئی ۱۹۰۰ ء کی ہے ) مگر کچھ عرصہ یہ تحریک جاری رہی بعد میں حالات بدل گئے اور تحریک معرض التوا میں آگئی.1371 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی صاحب نے سوال کیا کہ حضور نماز تو پڑھی جاتی ہے لیکن کچھ لذت نہیں آتی اور نہ خوشی سے نماز کو دل چاہتا ہے.حضور نے فرمایا کہ دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ تم دیکھتے نہیں کہ بیمار کا دل غذا کو نہیں چاہتا لیکن اس کو اگل نگل کر کے کھلاتے ہیں اسی طرح نماز کو دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ.“ ایسا ہی حضوڑ کے سامنے سوال ہوا کہ نماز میں حضور قلب پیدا نہیں ہوتا.فرمایا کہ ”جب اذان ہو مسجد میں جاؤ یہی حضور قلب ہے.بندہ کا کام ہے کہ کوشش کرے.آگے خدا کا کام ہے.“ 1372 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مغلانی نور جان صاحبہ بھا وجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر لوگوں نے ماتم کرنا شروع کیا.حضور نے کہلا بھیجا ان کو کہو کہ پیٹنا بند کرو مگر کسی نے نہ سنا.پھر حضور خود تشریف لے آئے اور سب کو خود منع فرمایا اس پر بھی وہ نہ مانیں.پھر آپ نے فرمایا.اچھا جاؤ قیامت کے دن اس وقت کو یاد کرو گی“

Page 232

سیرت المہدی بھی فرمایا کہ ”جاؤ پیٹ سکھنیو ، 66 225 حصہ پنجم 1373 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی رکھی ککے زئی خادمہ.فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی تابی میری خالہ کا ایک ہی بیٹا تھا جوفوت ہو گیا.وہ غم سے پاگل ہوگئی اور سارا دن بیٹے کی قبر پر پڑی رہتی تھی.لوگوں نے کہا کہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھیج دو.لوگ اس کو یہاں لے آئے.وہ نیچے رہا کرتی تھی.نیچے دالان میں گھڑے پڑے رہتے تھے وہ ان میں اپنا کرتہ ڈبو دیتی تھی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ گھڑے اس کے واسطے ہی رہنے دو اور گھر کی ضرورت کے واسطے اور رکھ لو.جب وہ رونا شروع کرتی تو حضور خود اس سے پوچھتے کہ ” کیوں روتی ہے؟“ وہ کہتی کہ مجھے میرا بیٹا یاد آتا ہے.تو حضور فرماتے کہ ” میں بھی تیرا بیٹا ہوں آخر وہ اچھی ہوگئی تو اس نے حضور سے کہا.میں اپنی روٹی آپ پکا یا کروں گی.جو عورتیں روٹی پکاتی ہیں ان کے ہاتھ صاف نہیں ہوتے.اس پر حضور نے اس کو آٹے کے پیسے الگ دے دیئے.وہ اپنی روٹی خود پکا یا کرتی تھی.1374 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”جب صلاح الدین کوئی تین مہینے کا تھا.میں حضرت اقدس کی خدمت عالی میں سلام اور دعا کے واسطے روزانہ جاتی تھی.ایک دن جب میں آنے لگی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا.ٹھہر جاؤ آج ہم نے مستی روٹی پکوائی ہے.میں نے عرض کی حضور میرا بچہ ابھی چھوٹا ہے.میں سخت غذا سے بہت ڈرتی ہوں.میری والدہ سخت پر ہیز کراتی ہیں.اگر ذراسی بھی ثقیل غذا کھائی جائے تو بچہ کو فورا تکلیف ہوتی ہے.متی روٹی میں نہیں کھا سکتی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کھا لو کچھ تکلیف نہ ہوگی.آپ اس وقت دیہات سے آئی ہوئی عورتوں کو کھانا کھلوا ر ہے تھے.جب روٹیاں پک کر آئیں تو آپ نے گھی منگوا کر ان کو لگوایا اور مجھے مستی روٹی اور لسی دی.میں نے بخوشی کھالی.کوئی تکلیف اس سے مجھ کو یا بچہ کونہیں ہوئی.1375 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مغلانی نور جان صاحبہ بھا وجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”حضرت ام المومنین کی پہلی صاحبزادی عصمت بیگم کا ناک

Page 233

سیرت المہدی 226 حصہ پنجم چھدوایا تو حضور کی پہلی بیوی نے بھی خوشی کی.جب نور جان اتفاق سے مرزا نظام الدین کے گھر گئی تو مرز انظام الدین نے کہا کہ حضرت صاحب کی وجہ سے ہم پر بڑا فضل ہوا ہے.آبادی ہوگئی ہے.ہم امیر بن گئے ہیں.تو میں نے کہا کہ ”اب امیر ہوکر ان پر آوازیں کستے ہو“.1376 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک بار نواں پنڈ کی دو عورتیں آئیں جن کے پاس کچھ گیہوں تھا.انہوں نے کہا.حضور! اب کے فصل بہت کم ہوئی ہے.میں پندرہ یا سولہ سیر لائی ہوں.فرمایا ” لے جاؤ“ کہا حضور ! اب کے ٹڈی ( ملخ ) پڑ گئی ہے.فصل نہیں ہوئی.حضور علیہ السلام نے فرمایا ” لے جاؤ ہم کو معلوم ہے.انہوں نے کہا حضور ! اب ہم لے آئی ہیں آپ لے لیں.آپ نے فرمایا ”نہیں لے جاؤ“ دوسری عورت سے فرمایا کہ تم بھی نہ لانا.یہ بھی فرمایا کہ سب کو منع کر دو کوئی حق فصلانہ نہ لاوے“.1377 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اما ء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند ہندو عورتیں گلگلے لے کر آئیں.کوئی شادی تھی.ان عورتوں نے ماتھا ئیکا.آپ نے فرمایا کہ انسان کو سجدہ کرنا منع ہے.“ گھر میں جو عورتیں تھیں ان کو کہا کہ ان کو سمجھا دو اور خوب ذہن نشین کر دو کہ سجدہ صرف خدا کے لئے ہے کسی انسان کو نہیں کرنا چاہئے“.1378 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ محتر مہ خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں پہلے پہل گلگت سے اپنے خاوند کے ہمراہ بیعت کے واسطے آئی ہوں.میرے خاوند نے مجھے حضور کے مکان کے اندر بھیج دیا.کوئیں کے پاس حضرت اماں جان پیڑھی پر بیٹھے ہوئی کچھ دھو رہی تھیں.انہوں نے میرے آنے کی اطلاع حضور کو بھیج دی.اس وقت حضور اوپر کی منزل پر تھے.مجھے بلا بھیجا.میں ایک عورت کے ساتھ اوپر گئی.تو حضوڑ نے ایک موٹا سا کپڑا میری طرف پھینکا کہ اس کو پکڑ لو.اور جو میں کہتا جاؤں تم بھی کہتی جاؤ.“ پھر حضور جو کچھ بیعت لینے کے وقت فرمایا کرتے تھے فرماتے گئے.میں بھی کہتی گئی.بیعت کے بعد دعا فرمائی.

Page 234

سیرت المہدی 227 حصہ پنجم 1379 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سیر کو آئے تو کچھ عورتیں بھی ساتھ تھیں.واپسی پرستانے کے لئے ہماری کچی مسجد میں بیٹھ گئے اور عورتیں بھی بیٹھ گئیں.ہماری عورتیں بھی وہاں چلی گئیں.سلام علیکم کہا اور پوچھا کہ حضوڑ کے واسطے کچھ پانی وغیرہ لائیں؟ آپ نے فرمایا.”بیٹھ جاؤ بتاؤ تمہارے آدمی نمازیں پڑھتے ہیں؟ اگر نہیں پڑھتے تو ان کے نام لکھواؤ“.1380 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اکثر یہاں رہا کرتی تھی اور میرے خاوند قصور رہا کرتے تھے.وہ قصور سے آئے تو کچھ قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضور کی خدمت میں پیش کئے اور ایک خط بھی بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضوڑ مجھے کوئی کام نہیں آتا حضور مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لئے دے دیا کریں.میں وہاں پر ہی بیٹھی تھی.حضور نے فرمایا.فضل! مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں؟“ میں نے کہا کہ حضور وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے.حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا.کہ ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں“.1381 بسم اللہ الرحمن الرحیم.والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز خان صاحب زوجہ چوہدری مولا بخش صاحب چونڈے والے.سرشتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ جب دوسری دفعہ میں قادیان میں آئی تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی مرحومہ کرسی پر بیٹھی تھیں.میں نے عرض کی کہ حضور علیہ السلام مجھے کچھ علم نہیں ہے میں سیدھی سادی ہوں.حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ سیدھے سادوں کو قبول کر لیتا ہے“.1382 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جناب حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے پہلے پہل فونوگراف منگوایا تو ان دنوں بڑے شوق اور تعجب سے دیکھا جاتا اور سنا جاتا تھا.ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لالہ شرمپت وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی سنواؤ تو ہم نے اس میں تبلیغی فائدہ کو مدنظر رکھ کر ایک نظم بھروا دی ہے.

Page 235

سیرت المہدی 228 حصہ پنجم ( وہ نظم مذکور حسب ذیل ہے) آواز آرہی ہے یہ فونو گراف ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے کمتر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے حاصل ہی کیا ہے جنگ وجدال وخلاف سے وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما کس کام کا وہ دیں جو نہ ہو وے گرہ گشا جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم وہ لوگ جو کہ معرفت حق میں خام ہیں بت ترک کر کے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں یہ نظم لالہ شرمیت وغیرہ کی موجودگی میں سنائی گئی پھر اُسی وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے سورۃ مریم کے ایک یا دور کوع فونوگراف کے سامنے پڑھے.وہ بھی فونوگراف میں بھرے گئے.حضور علیہ السلام نے بھی یوں فونوگراف سنا‘“.1383 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ محترمہ شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب آپ دہلی تشریف لے گئے تو وہاں ایک شخص ہر روز آ کر آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا.حضور نے حضرت ام المومنین سے فرمایا کہ اسے ایک گلاس شربت کا بنا کر بھیج دو.اس کا گلا گالیاں دیتے سوکھ گیا ہو گا.“ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ میں بھیج تو دوں مگر وہ کہے گا کہ مجھے زہر ملا کر دیا ہے.واپسی پر آپ نے لدھیانہ میں قیام کیا وہاں بھی کئی مخالفوں نے آ کر گالیاں دیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے انہیں روکا.حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ میر صاحب ! مت روکو.ان کو دل خوش کر لینے دو.1384 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان

Page 236

سیرت المہدی 229 حصہ پنجم کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں چار پائی پر لیٹا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ میرے سر کی طرف ایک فرشتہ ہے اور میرے پاؤں کی طرف ایک فرشتہ ہے وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں.ایک نے دوسرے کو میاں شریف احمد (صاحب) کی نسبت کہا کہ وہ بادشاہ ہے.دوسرے نے کہا نہیں پہلے تو اس نے قاضی بننا ہے“.1385 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مغلانی نور جان صاحبہ بھا وجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو.ملانوں کو نہ دو ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کو ڈالتے ہیں کہتے اور کوے کھاتے ہیں اور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں.“ 1386 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک بار حضور کے ساتھ مولوی شیر علی صاحب کے گھر کے قریب آئے.ہندو بازار سے ہوتے ہوئے رات کے وقت گزرے.فرمایا.” یہ سب ہمارے ہی بازار ہیں.سب احمدی ہو جاویں گے.سب بازار ہمارا ہی ہے.پھر بڑی مسجد میں آکر اپنے والد صاحب کی قبر پر دعا کی اور ہم سب نے بھی دعا کی.فرمایا.” پانی لاؤ اس کو ئیں کا پانی بہت ٹھنڈا ہے.پانی منگوا کر پہلے حضور علیہ السلام نے پیا پھر ہم سب نے پیا.فرمایا ” اس کا پانی بہت ٹھنڈا ہے.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ اس کا بھی ٹھنڈا ہے جو درزی خانہ کے پاس ہے.آپ نے فرمایا ”نہیں یہ بہت ٹھنڈا ہے اور لذیذ ہے اور بہت بہتر ہے.66 66 1387 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت اماں جان لا ہور تشریف لے گئیں تو ہم نے بدر جلد نمبر ۱ - ۱۰/ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلدا انمبر ۱.۱۰ر جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ اپر اس رویا کا ذکر ان الفاظ میں ہے.’ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ بادشاہ آیا دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.“

Page 237

سیرت المہدی 230 حصہ پنجم بازار سے تربوز منگوائے.ان کو کاٹ کر اور مصری ڈال کر رکھ چھوڑا.میں ، سرور سلطان صاحبہ، زینب استانی صاحبه أم ناصر احمد صاحب فاطمہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سب مل کر کھانے لگیں.ایک مائی تابی ہوا کرتی تھی.ہم نے ایک ٹکڑا اس کو بھی کھانے کو دیا.اس نے کھا کر درمیان میں جو برتن تھا اس میں چھلکا پھینک دیا.تربوز کے پانی کی چھینٹیں اڑ کر ہم سب پر پڑیں.ہم کو بھی شرارت سوجھی.ہم نے اپنے اپنے چھلکے مائی تابی کو مارے.وہ بیچاری غصہ ہوگئی اور ا حضرت صاحب سے جا کر شکایت کی.حضور نے گواہیاں لیں تو معلوم ہوا کہ پہل مائی نے کی تھی.پھر سب کو باری باری بلا کر پوچھا.آپ ہنس پڑے اور فرمایا.”مائی پہل تم نے کی تھی.وو 1388 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور دن بھر یا تو عبادت کرتے رہتے تھے یا لکھتے رہتے تھے اور جب بہت تھک جاتے تھے تو رات کے وقت حافظ معین الدین صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ” کچھ سناؤ تا کہ مجھے نیند آجائے.حافظ صاحب آپ کو دبایا بھی کرتے تھے.ایک دن حضرت صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کچھ سنائیے.حافظ صاحب سنانے لگے.سناتے سناتے حافظ صاحب نے سمجھا کہ حضوڑ سو گئے ہیں.وہ چپ ہو گئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ سنائیے میں سویا نہیں.میرے سر میں درد ہے.“ اسی طرح حضرت صاحب نے صبح تک تین چار دفعہ کہا.صبح کے وقت آپ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب آتے تو حضرت ام المومنین کو جو بات وہاں ہوتی سنا دیا کرتے.آپ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے آپ ان سب کو دے دیا کرتے.1389 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں پہلی بار آئی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے گھر جانا منع کیا ہوا تھا.میں بھی ڈر کے مارے نہیں جایا کرتی تھی.آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ فضل سے کہو کہ تم کو منع نہیں کیا.تم جایا کرو تمہاری رشتہ داری ہے.1390 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم 66

Page 238

سیرت المہدی 231 حصہ پنجم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضوڑ باہر سیر کو تشریف لے گئے تو مستورات بھی ساتھ تھیں.آپ آدھے راستہ سے ہی واپس آگئے.راستہ میں تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ تیرے نام منی آرڈر آیا ہے.تو مسیح موعود علیہ السلام ڈاک خانہ سے پچاس روپے وصول کرتے ہوئے اپنے گھر واپس تشریف لے آئے.1391 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اما ء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ضلع گورداسپور کی عورتیں آئیں.حضرت اماں جان کچھ گھبرا گئیں.گاؤں کی عورتیں جن کے سر میں گھی لگا ہوتا ہے.حضور نے فرمایا.”گھبرانے کی بات نہیں.مجھے تو حکم ہے کہ وَسِعُ مَكَانَكَ يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( یہ الہام ہیں ) آپ کو معلوم نہیں یہ میرے مہمان ہیں.“ 1392 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مغلانی نور جان صاحبہ بھا وجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں دو ان میں سے بیوہ ، جوان اور مال دار تھیں.میں ان کو حضرت کے پاس لے گئی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جوان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہئے.میں نے کہا جن کا دل نہ چاہئے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا ” اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گزار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے.“ 1393 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سات دسمبر اٹھارہ سوننانوے کا واقعہ ہے.فرمایا کہ ”ہم نے گھر میں کہا ہوا ہے کہ جب کوئی بھاجی کے طور پر کوئی چیز بھیجے تو نہ لیا کرو.پھر فرمایا کہ ایک روز ایک عورت سکھ مذہب کی ہمارے گھر میں بعض چیزیں لے کر آئی.حسب دستور ہمارے گھر سے واپس کر دی گئیں.اس عورت نے کہا کہ واپس نہ کرو.مجھے کوئی غرض نہیں ہے.مجھ پر آپ نے بڑا احسان کیا ہے.فرمایا کہ ہم نے اس عورت کو شناخت کیا.اصل بات یہ تھی کہ اس عورت کے لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری تھی اور لڑ کا قریب المرگ تھا وہ ہمارے پاس لڑکے

Page 239

سیرت المہدی 232 حصہ پنجم کو لے آئی اس کا علاج کیا گیا، لڑکا اچھا ہو گیا.اس کے شکرانہ میں وہ کچھ چیزیں لائی تھی پھر ہم نے گھر میں کہا کہ لے لو یہ شکر گزاری کے طور پر ہے“.(بھاجی وہ ہے جو بدلہ کے طور پر دی جائے).1394 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”میں نے درخواست کی کہ حضرت ! مرد آپ کی تقرریں سنتے رہتے ہیں.ہم میں بھی کوئی وعظ و نصیحت کریں.آپ نے فرمایا.”اچھا ہم تقریر کریں گے.پھر رات کو سب مستورات کو حضور نے بلا بھیجا.کئی بہنوں کو اس وقت بچے پیدا ہوئے ہوئے تھے اور چلوں میں تھیں.جب ان کو معلوم ہوا تو وہ ڈولیوں میں بیٹھ کر آگئیں.ساری تقریر تو مجھے یاد نہیں رہی یہ یاد ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ عورتوں میں یہ مرض حد سے بڑھا ہوا ہے کہ شرک کرتی ہیں اور پیر دستگیر کی منتیں مانتی ہیں اور ایک دوسری کی شکایت کرنا ان کا رات دن کا کام ہے.اور عورتیں یہ دیکھنے آتی ہیں کہ یہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟ روزے رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ان کو یہ چاہئے کہ یہ خیال کر کے آئیں کہ ہم مسلمان بننے آئے ہیں.اور نماز کے متعلق یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ عورتوں پر کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں کہ ان میں وہ نماز اور روزے نہیں ادا کر سکتیں.1395 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ حریر بیان کیا کہ جب میری لڑکی صادقہ پیدا ہوئی جواب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیوی ہے تو میں میاں احمد نور کے مکان میں تھی.حضور مولوی عبد الکریم صاحب کی بیوی کو روز بھیج دیتے کہ جا کر کھانا وغیرہ پکا کر دو جب ذرا دیر ہو جاتی تو آپ فوراً بلا کر بھیج دیتے اور کہتے ”مولویانی ! تم گئی کیوں نہیں؟ جلدی جاؤ“.1396 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ دونوں وقت دال پک کر آئی.حضور کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا." میں نہیں چاہتا کہ میرے مہمانوں کو دونوں وقت دال دی جائے.میں تو بدل بدل کر کھانا کھلاؤں گا.یہ میرے مہمان ہیں“.

Page 240

سیرت المہدی 233 حصہ پنجم 1397 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کے ساتھ مقدمات چل رہے تھے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کئی کئی روز تک گورداسپور میں رہا کرتے تھے.کچھ مدت اندرون شہر مولوی علی محمد صاحب جو محکمہ نہر میں ایک معزز عہدہ دار تھے ان کے مکان میں رہائش کا موقعہ ملا اور ان کے بھائی نبی بخش صاحب جو ان دنوں غالباً پنشنر تھے ان کے ہاں لڑکی تھی.مولوی محمد علی صاحب ( حال امیر پیغام بلڈنگ لاہور ) کے لئے اس کے رشتہ کی تحریک ہوئی جس کو حضور علیہ السلام نے منظور فرمالیا اور اس لڑکی کے والد صاحب نے بھی منظور کر لیا لیکن نکاح کرنے میں وہ غالباً ایک سال کی التوا چاہتے تھے.اس طرف مولوی محمد علی صاحب کے لئے اور رشتہ بھی تیار تھا لیکن حضور علیہ السلام اس رشتہ کی منظوری دے چکے تھے اس لئے کسی کو یہ طاقت نہ تھی کہ کسی اور رشتہ کے لئے منظوری دے سکے.اس لئے ایک روز مولوی عبدالکریم صاحب نے مسجد مبارک میں بڑے زور کے ساتھ تجویز کی کہ آج ظہر کے وقت حضرت صاحب کے سامنے زور سے عرض کی جائے کہ اور کئی رشتے آرہے ہیں اور کہ گورداسپور والا رشتہ ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ لڑکی والے ایک سال تک التوا چاہتے ہیں.اس لئے حضور ایک دفعہ ان سے دریافت کر لیں اگر وہ نکاح کر دیں تو بہتر ورنہ کسی دوسری جگہ نکاح ہو جائے.جب حضور علیہ السلام نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو سوال کر دیا گیا اور زور دار الفاظ میں سوال کیا گیا.حضور علیہ السلام نے بھی درخواست منظور فرما کر خط بنام منشی نبی بخش صاحب تحریر فرما کر منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی ( پٹواری سیکھواں ) کے حوالہ میری معیت میں کر دیا اور فرمایا کہ ”جس وقت گورداسپور پہنچو فوراً ان کے مکان پر جا کر ان سے دو حرفی جواب لو کہ یا وہ نکاح کر دیں یا جواب دیں تاہم کوئی اور انتظام کر لیں.ان دنوں رات کے ایک دو بجے کے قریب ریل گاڑی گورداسپور پہنچا کرتی تھی ہم نے گاڑی سے اترتے ہی اس کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور سوتے سے جگایا.خط اس کو دے دیا اور زبانی بھی حقیقت سنادی اور جواب دو حرفی کا مطالبہ کیا اس نے نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ جواب دیا کہ حضرت صاحب بادشاہ ہیں وہ مولوی صاحب کا کسی دوسری جگہ بھی نکاح کر دیں.میں ایک سال تک ضرور نکاح کر دوں گا.ہم نے کئی بار مطالبہ کیا کہ آپ یا نکاح کردیں یا انکار کر دیں.منشی صاحب

Page 241

سیرت المہدی 234 حصہ پنجم نے ہر بار نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ یہی جواب دیا جو او پرلکھا گیا ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر میں نکاح کر بھی دوں تو رخصتانہ ایک سال کو ہی ہوگا.آخر ہم اسی وقت اُس سے واپس ہوئے اور جواب آ کر سنا دیا گیا.حضور خاموش رہے اور مولوی عبد الکریم صاحب بھی منہ تکتے رہ گئے.حضور علیہ السلام نے اس وقت فرمایا کہ لڑکی والوں میں ایک حد تک استغناء ہوتا ہے اس کا قدر کرنا چاہئے.آخر وہ نکاح ہوا اور وہ دلہن ہاں مبارک دلہن قادیان میں آباد ہوئی.کچھ مدت کے بعد بیمار ہو کر قادیان میں فوت ہوئی اور مقبرہ بہشتی میں مدفون ہوئی.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهَا وَارْحَمُهَا وَأَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِين - نوٹ: اس سے حضور کی صداقت اور مقبرہ بہشتی کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نیک فطرتوں کو روکیں تو ڑ کر یہاں لاتا ہے جن کی فطرت نیک ہے آئیں گے وہ انجام کار اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب لاہور چلے گئے.اب تو مقبرہ بہشتی کو کانی آنکھ دیکھتے ہیں.یہ زمین کسی کو بہشتی نہیں بناتی بلکہ جو بہشتی ہوتا ہے وہ یہاں مدفون ہوتا ہے.1398 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطه لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ بچوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے ہر وقت اپنے پاس کوئی چیز رکھتے تھے.میری بڑی لڑکی چار سال کی تھی اور اس کو کالی کھانسی تھی.وہ کہتی تھی کہ اگر حضرت صاحب مجھے کچھ دیں گے تو مجھے آرام ہو جائے گا.حضور کچھ لکھ رہے تھے.حضور نے بکس کھولا اور دونوں ہاتھ بھر کے منقہ دیا اور ایک سفید رومال میں باندھ دیا اور فرمایا کہ سارا نہ کھا جائے.تھوڑا تھوڑا کھائے گرم ہوتا ہے.وہ کھانے لگی اس کے کھاتے ہی اس کو کھانسی سے آرام ہو گیا.ورنہ ہم تو بہت علاج کر چکے تھے.حضور علیہ السلام کے ہاتھ کی برکت تھی.❤1399 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بند و بست ۱۸۹۰٫۹۱ء کے وقت قادیان میں ایک افسر بندوبست مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور وہ حضور کو بھی ملا کرتے تھے.نمازی تھے اور ان کا نام مولوی غلام علی صاحب تھا آخر میں وہ احمدی ہو گئے تھے.ان کو شکار کھیلنے کا شوق تھا.ایک روز ان کو معلوم ہوا کہ ہند ومحلہ میں کسی مکان میں ہلا

Page 242

سیرت المہدی 235 حصہ پنجم چھپا ہوا ہے.مولوی صاحب موصوف معہ شکاری کتوں کے ہندو محلہ کی طرف چل پڑے.اس وقت میں اور میرے بڑے بھائی صاحب میاں جمال الدین صاحب مرحوم موجود تھے.ہم بھی ساتھ چل پڑے.وہاں چل کر ایک بند مکان میں شکاری کتے گھس گئے اور بلا مکان سے نکلا.کتوں نے اس کا تعاقب کر کے پکڑ لیا اور بہت شور پڑا.جبکہ بلے کو کتے ادھر اُدھر گھسیٹنے لگ پڑے.حضور علیہ السلام اس نظارہ کو دیکھ نہ سکے اور فوراً وہاں سے چپکے سے واپس ہوئے اور حضور کی خاموش واپسی کو دیکھ کر ہم بھی واپس آگئے (کسی کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے ).1400 بسم اللہ الرحمن الرحیم فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری لڑکی آمنہ جب حضرت صاحب کے پاس آتی تو حضور مٹھائی دیتے.جب نماز کا وقت ہوتا تو آمنہ کہتی کہ حضرت صاحب نماز اندر ہی پڑھیں.اماں جان فرماتیں کہ اس کی مرضی ہے کہ اندر نماز پڑھی جائے اور مجھ کو مٹھائی جلدی ملے تو حضور مٹھائی دے کر جاتے.1401 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضوڑ کے بڑے باغ میں علاوہ درخت ہائے آم کے کچھ درختان بیدا نہ بھی تھے لیکن شمر بیدانہ مارچ اپریل میں تیار ہو جاتا ہے اور آم کا ثمر جولائی اگست میں تیار ہوتا ہے لیکن تاجر لوگ مارچ اپریل میں ہی سارے باغ کا سودا کر لیتے تھے.ایک دفعہ تجویز ہوئی کہ جو شمر پختہ ہو وہی بیچ ہونا چاہئے اس لئے سر دست بیدا نہ بیچ ہونا چاہئے اور تاجر بھی موجود تھے.مگر حضور نے ہمیں ترجیح دی اور ہمارے چودہ روپے نقد وصول کر لئے اور فرمایا کہ ان سے ہمیں کمی و بیشی قیمت کا سوال نہیں.“ 1402 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم آگرہ سے تین ماہ کی رخصت لے کر آئے.حضور نے اونچا دالان رہنے کو دیا.میرا معمول تھا کہ روزانہ نماز عصر کے بعد حضور کی خدمت میں سلام کو جاتی.حضرت اقدس واُم المومنین صاحبہ ام ناصر والے صحن میں پلنگ پر بیٹھے تھے.میں سلام کر کے ایک چھوٹی چار پائی پر جو سامنے پڑی تھی بیٹھ گئی.میں اس وقت زیادہ تر سفید کپڑے ہی پہنتی تھے.حضور

Page 243

سیرت المہدی 236 حصہ پنجم نے حضرت اُم المومنین سے دریافت کیا کہ ” کیا یہ ہمیشہ سفید کپڑے ہی پہنتی ہیں ؟“ اماں جان نے مجھ سے پوچھا کہ ” کی تم کو رنگین کپڑے پسند نہیں ہیں؟“ میں نے عرض کیا کہ حضور پسند تو ہیں لیکن کپڑے رنگنے سے ہاتھ خراب ہو جاتے ہیں.حضور نے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ” مراد خاتون کیا تم مہندی نہیں لگایا کرتیں ؟“ میں نے عرض کی کہ نہیں.حضور نے فرمایا ” کیوں؟ میں نے پھر کہا کہ حضور ! ہا تھ خراب ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ ” مہندی لگانا سنت ہے.عورتوں کو ہاتھ سفید نہیں رکھنے چاہئیں.“ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب مرحوم جولاہور کچھ سامان لینے گئے ہوئے تھے تشریف لائے.اس سامان میں کچھ کپڑا اور بڑا پڑا مہندی کا بھی تھا.آپ نے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ ” گھر میں مہندی ہے؟“ انہوں نے بتایا کہ ”مہندی گھر میں ہے آپ نے فرمایا کہ یہ مہندی اور ایک قمیض کا کپڑا مراد خاتون کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ مہندی لگا یا کرے.وہ کپڑا یشمی موتیا رنگ کا تھا.اس دن سے میں عموماً مہندی لگاتی ہوں اور رنگین کپڑا بھی پہنتی ہوں.1403 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ” میری شادی ہونے کے بعد جو رڑکی میں ہوئی تھی جب میں پہلی بار قادیان میں آئی تھی میری عمرا اسال کی تھی.جب مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حضور لایا گیا تو حضور نے کمال شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ایک سرخ رومال میں بندھے ہوئے کچھ پونڈ دئے تھے.یہ یاد نہیں کہ کتنے تھے؟ میرے ساتھ میری چھوٹی والدہ اور ایک ملازمہ بھی تھی.چند یوم کے بعد میرے والد رضی اللہ عنہ آکر مجھے لے گئے.پھر جب ماہ اکتو بر ۱۹۰۳ء میں ڈاکٹر صاحب کی تبدیلی آگرہ ہوگئی تھی.حضور نے حضرت نانا جان اور نانی اماں کو اور میر الحق صاحب کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ مجھے لینے کے واسطے بھیجا تھا.1404) بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہلیہ حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو فر ما یا تھا کہ یہ نظم

Page 244

سیرت المہدی 237 حصہ پنجم عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد والی پڑھ کر سناؤ.جب اس نے خوش الحانی سے سنائی تو اس وقت حضور گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے سنتے رہے.1405 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ کا صاحبزادہ ،مبارک احمد تین سال کا تھا جب عصر کے وقت حضور کو گھبراہٹ ہوتی تو پوچھتے کہ مبارک احمد کہاں ہے؟ اسے اندر لے آؤ ، دادی مرحومہ مغفورہ ان کو اندر لے آیا کرتی تھیں.1406 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے تو آپ ان سب کو دے دیا کرتے تھے.“ (1407) بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ لوگ ماسٹر صاحب کو طنزاً کہا کرتے تھے کہ آپ کے مسیح کو تب جانیں گے جب آپ کے والد صاحب گالیاں دینے سے ہٹ جائیں گے.ماسٹر صاحب نے حضرت صاحب کو خط لکھا اور دعا کی درخواست کی.حضور کا جواب آیا کہ ہم نے دعا کی ہے اب گالیاں نہ دیں گے.اس پر ماسٹر صاحب نے ان لوگوں سے کہا کہ حضرت صاحب کا خط آ گیا ہے.اب والد صاحب گالیاں نہیں نکالیں گے.اور وہ خط بھی ان کو دکھایا.اس کے بعد پھر حضرت صاحب کی دعا سے انہوں نے کبھی گالیاں نہیں دیں.نشان انگوٹھا اہلیہ صاحبہ ماسٹر قا در بخش صاحب مرحوم دستخط مریم دستخط نور احمد سنوری ۴۵-۲۶۱ دستخط ساره -۴۵_۱_۲۶ 1408 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ ماسٹر قا در بخش صاحب مرحوم و مغفور نے تحریراً بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب لدھیانہ تشریف رکھتے تھے تو ماسٹر صاحب نے گھر میں

Page 245

سیرت المہدی 238 حصہ پنجم مولوی عبداللہ صاحب سنوری سے کہا کہ وہ حضرت صاحب سے درخواست کریں کہ حضور ہمارے گھر تشریف لائیں.انہوں نے کہا کہ اگر حضور تشریف لے آئے تو آپ مجھے کیا دیں گے.ماسٹر صاحب نے فرمایا کہ مٹھائی کھلاؤں گا.اس پر مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے کہا کہ وہ مٹھائی بھی آپ حضور کی خدمت اقدس میں ہی پیش کر دیں.چنانچہ وہ گئے اور حضرت صاحب سے عرض کی.جس پر حضور ہمارے گھر تشریف لے آئے ماسٹر صاحب کے والد چونکہ احمدی نہ تھے اور کسی زمانہ میں شدید مخالفت بھی کرتے رہے تھے.اس ڈر سے گھر میں ان کو کسی نے اطلاع نہ دی کہ حضور تشریف لائے ہیں.جس وقت حضور واپس جا رہے تھے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیچھے سے دیکھ لیا.مگر جب بعد میں ان کو پتہ چلا تو انہوں نے بہت افسوس کا اظہار کیا.اور فرمایا مجھے کیوں نہ اطلاع دی، میں نے تو حضور کو پیچھے سے ہی دیکھا ہے.وہ تو واقعی شیر خدا معلوم ہوتا ہے.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے میری بچی صغریٰ گود میں پیش کی گئی.جو اس زمانہ میں حضور کی دعا سے پیدا ہوئی تھی.حضور نے اس کے لئے دعا فرمائی اور اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا.تین بچے پیدا ہونے کے بعد میں بیمار ہو گئی تھی.جس سے بہت سے بچے ضائع ہو گئے.میرا خیال تھا کہ مجھے آ تشک ہو گئی ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کی اور حضور اقدس نے دعا فرمائی چنانچہ حضور کی دعا سے میری وہ بیماری دور ہوگئی اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے چار بچے دیئے.صفرکی.برکت اللہ مصلح الدین اور کلثوم اور وہ چاروں خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ سلامت ہیں اور خود بھی بچوں والے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عِلی ذلک نشان انگوٹھا اہلیہ صاحبہ ماسٹر قا در بخش صاحب مرحوم دستخط نور احمد سنوری ۴۵-۱-۲۵ 1409 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں آگرہ سے آئی تھی.میرے ساتھ ایک ملازمہ تھی.میری لڑکی عزیزہ رضیہ بیگم جو کہ ابھی چار سال کی تھی وہ اس کی کھلاوی تھی.کچھ باتیں مزاح کی بھی اس کو سکھایا کرتی تھی.ایک دن حضور علیہ السلام آنگن میں ٹہل رہے تھے.عزیزہ سلمہا نے چھوٹا سے

Page 246

سیرت المہدی 239 حصہ پنجم برقعہ پہنا ہوا تھا.وہ حضور کی ٹانگوں سے لپٹ گئی.حضور ٹھہر گئے.عزیزہ نے رونی صورت بنا کر کہا.اُوں اُوں مجھے جلدی بلا لینا.حضور نے فرمایا کہ تم کہاں چلی ہو ؟ وہ نوکر کی سکھائی ہوئی کہنے لگی کہ میں سسرال چلی ہوں.اس پر حضور خوب ہنسے.فرمایا ”سرال جا کر کیا کروگی؟“ کہنے لگی.”حلوہ پوری کھاؤں گی.“ پھر آنگن میں ایک چکر لگایا پھر آ کر حضور کے قدموں سے چمٹ گئی.حضور نے فرمایا کہ سسرال سے آگئی ہو؟ تمہاری ساس کیا کرتی تھیں؟ عزیزہ مسلمہا نے کہا کہ روٹی پکاتی تھی.تمہارے میاں کیا کرتے تھے؟ کہا کہ روٹی کھاتے تھے.پھر پوچھا ”تم کیا کھا کر آئی ہو؟“ کہنے لگی حلوہ پوری.حضور نے فرمایا ” اس کی ساس اچھی ہے.بیٹے کو تو روٹی دیتی ہے مگر بہو کو حلوہ پوری“.1410 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”جب حضرت خلیفہ ثانی میاں محمود کی شادی ہوئی.تو تائی صاحبہ یعنی حضرت اقدس کی بھا وجہ صاحبہ نے مراشن کو کہا کہ دہلی والی یعنی حضرت اُم المومنین اپنے بیٹے کا بیاہ کرنے لگی ہے.مریدوں کی بیٹیاں لے لے کر.اپنے خاندان کی لڑکیاں تو وہ لیں گے نہیں.تو پرانی خاندانی حقدار مراشن ہے تو بھی ڈھولکی لے کر جا “.جب وہ آئی اور ڈھول بجانا شروع کیا تو حضوڑ اندر کمرے میں تھے.ڈھول کی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا ” اس کو کہدو کہ یہ نہ بجائے.اس طرح چند مرتبہ کہا تھا کہ اس کو کہدو یہ نہ بجائے اور اس کو کچھ دے دو.“ چنانچہ اس کو پانچ روپے دئے تھے.مگر اس نے کہا کہ حضوڑ میں یہ نہیں لیتی.مجھے سردی لگتی ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا اس کو ایک لحاف بھی دے دو.وہ اس وقت پانچ روپے اور لحاف لے گئی تھی.(1411 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قبل از دعوی کا واقعہ ہے کہ حضور مسجد مبارک کے شاہ نشین پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی قریب ہی بیٹھا ہوا تھا کہ نماز شام کے بعد میر عباس علی لدھیانوی آگئے.حضرت صاحب اٹھ کر ان کو ملے.وہ بھی شاہ نشین پر بیٹھ گئے اور بہت خوش خوش با تیں ہوتی رہیں اور وہاں ہی کھانا آ گیا جو روٹی اور سبزی کریلے تھے جو گھی میں ہار بنا کر تلے ہوئے تھے.میں نے بھی کھائے اس وقت حضرت صاحب ، میں اور میر عباس علی ہی تھے.

Page 247

سیرت المہدی 240 حصہ پنجم میر عباس علی بڑا ہی مؤدب تھا.افسوس! کہ بعد میں حالت بدل گئی.1412 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا تھا اسی دن صلاح الدین کو سردی لگ جانے سے سخت بخار اورنمونیا ہوگیا تھا.ڈاکٹر صاحب فرخ آباد ملازمت پر تھے.حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین خلیفتہ اسیح اول کو علاج کے واسطے مقرر کر دیا تھا.مولوی صاحب دونوں وقت تشریف لا کر مریض کو دیکھتے اور علاج تجویز فرماتے تھے.جب آتے تھے تو باہر سے گول کمرہ کے دروازہ کا جو مسجد کے زینہ میں تھا کنڈا کھٹکھٹاتے.میں کہتی ” کون ہیں“ تو فرماتے کہ ”نورالدین حضرت اقدس خود بھی آتے جاتے کمال مہربانی اور شفقت سے بیمار بچہ کا حال پوچھتے تھے اور اس کو پیار کرتے تھے.1413 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ان دنوں میں جب کہ سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے واسطے کچھ کپڑے سیے جاتے تھے تو میں بھی روزانہ سینے کو چلی آتی تھی.اس وقت سعیدہ رشیدہ بیگم مرحومہ میری چھوٹی لڑکی کوئی سال سوا سال کی تھی اور اس کی کھلا دی اس کو اٹھائے ہوئے میرے ساتھ ہوتی تھی.حضرت اقدس اس کو روز بلایا کرتے تھے اور پیار سے لکڑی کے ساتھ چھیڑا بھی کرتے تھے.چونکہ موسم تبدیل ہو گیا تھا.ایک دن میں نے اس کو سفید کپڑے پہنا دئے.حضور نے دریافت کیا کہ اس کا زیور کیوں اتار دیا ہے.میں نے عرض کیا کہ زیور اس کو کبھی نہیں پہنایا گیا.اصل بات یہ تھی کہ پہلے اس لڑکی کے عموما یشمی رنگین اور گوٹے والے کپڑے ہوتے تھے.حضور علیہ السلام ان کو زیور خیال فرماتے رہے.اس لئے آج سادہ لباس میں دیکھ کر تعجب فرمایا تھا.1414 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتدائے دعوئی میں مولوی محمد حسین نے مخالفت دعوی کے متعلق کوئی مضمون شائع کیا اور وہ شائع شدہ مضمون حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا وہ بلا جلد ہی تھا اور حضور علیہ السلام کھڑے تھے اور ہم

Page 248

سیرت المہدی 241 حصہ پنجم سه برادران ( خاکسار راقم ، میاں جمال الدین صاحب ومیاں امام الدین صاحب) بھی کھڑے تھے.ہم سب کو فرمایا کہ بٹالہ جا کر مولوی محمد حسین صاحب سے مل کر باتیں سنو.چنانچہ ہم بٹالہ چلے گئے اور وہ جمعہ کا دن تھا.خلیفیا نوالی مسجد میں نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے.نما ز جمعہ کے بعد ایک چوبی منبر پر بیٹھ کر تقریر شروع کر دی اور ازالہ اوہام ہاتھ میں تھا.ہماری طرف سے جواب شروع ہو گیا.لوگ سنتے رہے.اس وقت تک غیر احمدی کے پیچھے ترک نماز کا حکم نہ ہوا تھا.اس کے بعد کبھی جمعہ اس کے پیچھے نہیں پڑھا.1415 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں قادیان میں آئی ہوئی تھی اور میرا بچہ عبد القدیر جس کی عمر آٹھ سال کی تھی میرے ساتھ تھا اور اس چھت کے نیچے ہم رہے جس کے اوپر حضرت صاحب رہا کرتے تھے.ایک دن عبد القدیر بہت رویا.وہ ضد کر رہا تھا کہ میں نے حضرت صاحب ابھی دیکھنے ہیں.حضرت صاحب نے آواز سن کر صفیہ کی اماں کو بھیجا کہ دیکھو کس کا بچہ روتا ہے؟“ مگر صفیہ کی اماں نے رونے کی آواز ہی بیسنی کیونکہ مولوی صاحب عبدالقدیر کو چپ کرا چکے تھے.رات بھر عبدالقدیر کو بخار رہا.ہمیں ڈر تھا کہ اسے طاعون نہ ہو جائے کیونکہ قادیان میں طاعون کی وبا ہورہی تھی.خیر ہم نے رقعہ لکھ کر حضرت صاحب کو دیا.آپ نے مولوی صاحب کو اندر بلایا اور فرمایا کہ کیا آپ کو ڈر ہے کہ طاعون ہو جائے گی.آپ خیال نہ کریں.عبدالقدیر کو قبض کا بخار ہے.“ پھر حضور نے تین پڑیاں دیں اور کہا ”جاؤ ایک پڑیا پانی سے کھلا دیں.جب ایک پڑیا کھلائی تو وہ قے ہو کر نکل گئی.حضور علیہ السلام کو بتایا تو فرمایا کہ اور دے دو.دوسری اور تیسری بھی الٹی ہو کر نکل گئی.پھر حضور نے دادی یعنی والدہ حضرت شادی خان صاحب جو صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کو رکھا کرتی تھیں کو بھیج کر مجھ کو بلایا اور پوچھا کہ عبدالقدیر کی عمر کتنی ہے؟ میں نے بتلایا کہ آٹھ سال فرمانے لگے.”مبارک احمد کی عمر ہے.“ اس کے بعد کسٹر آئیل دیا جس سے آٹھ گھنٹہ بعد ایک قے آئی، دست آیا اور بخار ہلکا ہو گیا.پھر چار بجے عبد القدیر نے کہا کہ میں نے حضرت صاحب دیکھنے ہیں.مولوی صاحب نے کہا کہ بغیر اجازت نہیں لے جانا.اجازت لے لیں پھر دیکھ لینا.میں نے جا کر اصغری کی ماں سے کہا کہ حضرت صاحب سے

Page 249

سیرت المہدی 242 حصہ پنجم کہو عبدالقدیر روتا ہے.اگر حضوڑ اجازت دیں تو میں لے آؤں.آپ نے فرمایا.’جلدی لے آؤ حضور علیہ السلام پگڑی سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور مجھے فرمانے لگے یہیں ٹھہر جاؤ پھر حضور نے عبدالقدیر کی نبض دیکھی.اور منہ پر ہاتھ پھیرا اور دعادی کہ صحت ہو اور عمر دراز ہو.“ بس اسی وقت بخار کا فور ہو گیا.1416 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم ومغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے پاس میری بھابی اور بھتیجا در دصاحب رہتے تھے ان کو طاعون کی وجہ سے مولوی صاحب ان کے والد صاحب کے پاس چھوڑ آئے تھے.میں پریشان تھی ، میری پریشانی کا ذکر اصغری کی اماں نے جا کر حضور علیہ السلام سے کیا.حضور علیہ السلام نے مجھ کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ تم پریشان ہو.اچھا ہوا کہ مولوی صاحب چھوڑنے چلے گئے کیونکہ بچے اپنے باپ کے پاس اچھے ہوتے ہیں.یہاں بیماری ہے اس لئے اچھا ہوا.1417 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ احمد نور کی بیوی کوششی آگئی.حضور علیہ السلام نے خود آ کر دیکھا.دوائی دی.فرمایا.ایک وقت گوشت اور چاول بھی دئے جائیں.ٹھنڈے ملک کے ہیں مرچ نہیں کھا سکتے.“ 1418 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب لیکھر ام آریہ حسب پیشگوئی سیدنا مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوا تو وہ دن عید الفطر کے بعد کا دن تھا.اس سے قریباً چار پانچ روز قبل ۲۶ اور ۲۷ رمضان کی درمیانی رات جوستائیسویں ماہ رمضان کی عموماً مسلمانوں میں مشہور رات ہے.ہم سب بھائی اور منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری اس رات مسجد مبارک میں ہی سوئے تھے.صبح کی نماز کے وقت حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آج رات گھر میں دردزہ کی وجہ سے تکلیف تھی اور میں دعا کر رہا تھا کہ یکا یک دعا کرتے کرتے لیکھرام کی شکل سامنے آگئی.اس کے متعلق بھی دعا کر دی گئی اور فرمایا کہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو دعا کرتے کرتے وہ معاملہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ایسا ہی آج ہوا ہے کہ لیکھر ام سامنے آ گیا.

Page 250

سیرت المہدی 243 حصہ پنجم پس چار پانچ روز بعد لیکھرام کی ہلاکت کی خبر آگئی اور اسی ستائیسویں رات میں لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ رکھا گیا.یہ وہی بابرکت و مبارک دختر ہے جن کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ سے ہوا.حضور علیہ السلام کو مدت پہلے الہام میں خبر دی گئی تھی کہ نواب مبارکہ بیگم.1419 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ میں اور سرور سلطان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمد صاحب و اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور اہلیہ پیر منظور محمد صاحب ، حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں اس وقت مولوی صاحب اس مکان میں رہتے تھے جہاں اب اُم وسیم سلمھا اللہ رہتی ہیں.پیر جی کی اہلیہ صاحبہ کو ماہواری تھی.حضرت مسیح موعود اور اماں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں تو حضرت اماں جان نے دریافت کیا کہ اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے، آپ نے فرمایا کہ ”جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں.ان سے کہد و کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں.“ 1420 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اصغری کی والدہ کھانا پکایا کرتی تھی.ایک دن کریلے گوشت کا سالن پکایا.حضور کو یہ سالن پھیکا معلوم ہوا تو کھانا لانے والی خادمہ کو فرمایا کہ اصغری کی اماں سے پوچھو کہ کیا نمک ڈالنا بھول گئی ہو؟“ اس نے جا کر پوچھا تو اس کو اصغری کی اماں نے کہا کہ میں نے تو کئی مرتبہ نمک ڈالا تھا مگر میں نے خیال کیا کہ شاید میرے منہ کا مزہ اس وقت درست نہیں ہے اس لئے میں نے اور ڈالنا بند کر دیا تھا.پھر حضور نے اس کو خود طلب کر کے پوچھا تو اس نے یہی کہا کہ میں نے تو نمک کئی بار ڈالا ہے.میں چکھتی رہی ہوں مگر سالن پھیکا ہی معلوم ہوتا رہا.حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ اصغری کی اماں ! باورچی خانہ کے طاق میں جو پھٹکری پڑی تھی کہیں وہی تو نہیں ڈال دی ؟ مگر اس نے انکار کیا بعدۂ جب ایک عورت کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کہ طاق میں پھٹکری ہے یا نہیں ؟ اور اس نے جا کر دیکھا تو معلوم

Page 251

سیرت المہدی 244 حصہ پنجم ہوا کہ پھٹکری وہاں نہیں ہے اس طرح یقین ہو گیا کہ سالن میں غلطی سے نمک کی بجائے پھٹکری پڑ گئی ہے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز کا وقت ہو چلا ہے کوئی اور چیز روٹی کے ساتھ کھانے کو منگا لو.اس وقت اور کچھ انتظام جلدی سے کر لیا گیا تھا.دوسرے دن جب کھانا آیا تو میں بھی وہاں موجود تھی.حضور نے اصغری کی اماں سے دریافت کیا کہ سچ سچ بتاؤ کہ سالن میں کل نمک ڈالا تھا یا پھٹکری ؟ تو اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ حضور غلطی سے پھٹکری پڑ گئی تھی.حضور نے ہنس کر فرمایا کہ کل تم نے کیوں نہیں مانا تھا کہ پھٹکری ڈالی ہے.“ اس نے کہا کہ حضور میں ڈرتی تھی کہ شاید حضور خفا ہوں گے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” کیا آج ہم خفا نہیں ہو سکتے ہمیں تو کل ہی پتہ لگ گیا تھا.“ 1421﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ علیہ السلام کی طبیعت میں کسی قدر مذاق بھی تھا.ایک دفعہ آپ نے ایک لڑکی کو اخروٹ توڑنے کے لئے دیئے اور فرمایا کہ جتنے اخروٹ ہیں اتنی ہی گریاں لیں گے.ایک عورت نے کہا کہ حضور اخروٹوں میں سے گریاں بہت نکلتی ہیں تو حضور مسکرائے.1422 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب طاعون پڑی تھی.لوگوں کو حکم تھا کہ باہر چلے جاؤ“.میرے خسر صاحب قاضی ضیاء الدین صاحب کو حکم ہوا تھا کہ تم اسکول چلے جاؤ.ایک کمرے میں ہم اور ایک میں مولوی شیر علی صاحب ٹھہرے تھے.قاضی صاحب بیمار تھے.ان کی خواہش تھی کہ حضور علیہ السلام کی زیارت کریں.کہتے تھے کہ جب حضور اس طرف سے گزریں گے تو مجھے بتانا، میں زیارت کروں گا.انہیں ایام میں جب حضرت صاحب گورداسپور تشریف لے گئے تھے وہ فوت ہو گئے.جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ قاضی ضیاء الدین صاحب کی یہ خواہش تھی کہ مجھے دیکھیں تو افسوس کیا کہ اگر خبر ہوتی تو میں خود جا کر ان کو مل آتا.“ 1423 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطه لجنہ

Page 252

سیرت المہدی 245 حصہ پنجم اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب مرحوم و مغفور ( حرم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگرہ سے آئی ہوئی تھی.مغرب کے بعد نکاح ہوا.میں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھا کر حضوڑ کے پاس لائی.حضور علیہ السلام اس وقت ام ناصر احمد صاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرما تھے.حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرائے.1424 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اصغری بیگم صاحبہ بنت اکبر خان صاحب مرحوم در بان زوجه مددخان صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرا نکاح کر دیا تھا ایک مرتبہ جب میں واپس آئی تو اس وقت میرے دو بہت صغرسن بچے تھے.ایک لڑکی.ایک لڑکا.حضور کی کمال مہربانی میرے حال پر تھی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ " اصغری کمزور معلوم ہوتی ہے اسکے بچے چھوٹے ہیں.اسے ان کو سنبھالنا مشکل ہے اسے بچوں کی خدمت کے واسطے ملازمہ رکھ دو.چنانچہ پہلے ایک عورت مائی کرموں رنگریز نی رکھی گئی.چند یوم کے بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” چھوٹے بچے کے واسطے بھی ملازمہ کھلانے کے واسطے رکھ دو.چنانچہ پہلی خادمہ کرموں کی نواسی بھی مقرر کی گئی.ان کو ایک روپیہ مہینہ اور کھانا دیا جاتا تھا.1425 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میاں فضل الہی صاحب نمبر دار فیض اللہ چک کی ہمشیرہ قابل شادی تھی.حضرت خلیفہ اول کے لئے حضور علیہ السلام نے تحریک فرمائی.یہ عاجز اور بڑا بھائی میاں جمال الدین صاحب یہ تحریک لے کر فیض اللہ چک گئے اور تحریک سنادی گئی.میاں فضل الہی مرحوم نے تو تسلیم کیا لیکن لڑکی کی والدہ نے انکار کیا.بعدش اس کی شادی ایک معمر عمر حیات نامی فیض اللہ چک کے ساتھ کی گئی.سنا گیا کہ اس لڑکی کی زندگی ہی برباد ہوگئی.1426 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ بھابی زینب صاحبہ اہلیہ پیر مظہر قیوم صاحب مرحوم نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ۱۹۰۷ء میں بیعت کی تھی.ایک دن میں حضور کی

Page 253

سیرت المہدی 246 حصہ پنجم خدمت میں بیعت کرنے کو آئی.رحیم بی بی نائن نے جا کر عرض کی ایک نابینا لڑ کی بیعت کرنے کو آئی ہے.حضور اندر سے تشریف لائے اور فرمایا کہ نماز ظہر کے بعد بیعت لیں گے.میں گھر چلی گئی جب ظہر کے بعد آئی تو حضور نے فرمایا کہ عصر کے بعد.میں وہیں بیٹھی رہی.عصر کے بعد جب میں نے عرض کی تو حضور نے فرمایا کہ شام کو.شام کو حضور نے ام ناصر احمد سلمھا اللہ کے مکان کے آنگن میں نماز مغرب وعشاء جمع کرا کر پڑھائیں.حضور اور حضرت اماں جان نے پلنگ پر بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم سب عورتوں نے پیچھے شاه نشین پر.مائی سلطانوں نے کہا کہ حضور وہ لڑکی بیعت کرنے کو کھڑی ہے.حضور نے فرمایا کہ صبح کو.صبح جب آئی تو حضور سیر کو تشریف لے گئے تھے.حضور واپس آئے تو پھر منشیانی نے کہا کہ حضور وہ لڑکی پھر بیعت کرنے آئی ہوئی ہے.آپ نے فرمایا کہ اس کو کھانا کھلا دیا ہے یا نہیں؟“ آپ نے سلطانوں کو بلا کر فرمایا کہ اس کو کھانا کھلا دو.“ اس نے مجھے کھانا کھلا دیا.کھانے کے بعد جب پوچھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ظہر کے بعد ، ظہر کے بعد فرمایا کہ عصر کے بعد عصر کے بعد پوچھا تو فرمایا کہ صبح کو میں گھر چلی گئی.صبح دس بجے جب آئی تو حضور دروازے میں کھڑے حافظ احمد اللہ صاحب کی لڑکی کلثوم کو بلا رہے تھے کلثوم ! کلثوم !! جب وہ آئی تو اس کو انگور دئے پھر اس کو کہا کہ ”زینب ( یعنی اس کی بڑی بہن ) کہاں ہے؟ اس کو بلا کر بھی انگور دئے پھر مجھے بھی انگور دئے.کلثوم نے کہا کہ یہ بیعت کرنے کو آئی ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ظہر کے بعد میں وہیں بیٹھی رہی.ظہر کے بعد فرمایا کہ لڑکی تیری بیعت ہو چکی اس طرح تیسرے دن میری بیعت قبول ہوئی تھی.1427 بسم اللہ الرحمن الرحیم اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کشمیر سے بہت سے سیب آئے.حضور نے فرمایا کہ سب گھروں میں تقسیم کر دو.آٹھ آٹھ نو نوسیب گھروں میں بانٹے گئے تھے.سیب بڑے بڑے اور بہت اچھے تھے.گھر میں سیبوں کا مربہ تھاوہ کچھ خراب ہو گیا تھا.حضور نے فرمایا کہ اس کو پھینک دو بعض عورتوں نے عرض کی کہ یہ مربہ ان کو دے دیا جائے مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں لوگ کھا کر بیمار ہو جائیں گے.عورتوں نے کہا کہ اوپر سے پھینک دیتے ہیں.نیچے والا اچھا ہو گا اس کو پھر پکالیں گے.چنانچہ نیچے والا جو اچھا نکلا تھا

Page 254

سیرت المہدی 247 حصہ پنجم اس کو پکا کر کچھ رکھ لیا تھا کچھ بانٹ دیا تھا.“ 1428 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں قادیان میں تھی اور حضرت ڈاکٹر صاحب لاہور گئے ہوئے تھے.ان دنوں میرے بھائی مظہر علی صاحب طالب جو ایسٹ افریقہ میں پوسٹ ماسٹر تھے انہوں نے واپس آنے کے واسطے رخصت لی تھی.ہم ان کے انتظار میں رہا کرتے تھے ان کی ڈاک بھی آنے لگ گئی تھی.ابھی ہمیں معلوم نہ تھا کہ ان کا ارادہ وطن آنے کا سر دست ملتوی ہو گیا ہے اب وہ اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظہر صاحب کے ساتھ ہی کچھ عرصہ تک آئیں گے کہ اچانک اطلاع ملی کہ وہ وہیں فوت ہو گئے ہیں اس پر ہمیں بہت صدمہ ہوا اور خصوصاً میری والدہ مکرمہ بو بوجی نے بہت غم کیا.حضور مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور بہت تسلی دی اور سمجھایا کہ ”جو اولاد پہلے فوت ہو جاتی ہے اپنے والدین کی بخشش کا موجب ہوتی ہے.اللہ کریم اس کی محبت بھری سفارش کو جو والدین کے لئے ہوتی ہے قبول فرما کر ان کو بھی بخش دیتا ہے.“ 1429 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی رکھی صاحبہ کے زئی فیض اللہ چک خادمہ والدہ نذیر نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی راجی جولا ہی جو پہلے زمانہ میں روٹیاں پکا یا کرتی تھی.اس نے ہم کو سنایا تھا کہ اکثر جب میں روٹیاں پکایا کرتی ( تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی چھوٹے ہی تھے ) آپ کھدر کے دوپٹہ میں روٹیاں رکھ کر گھڑی کندھے پر اٹھا کر باہر بھاگ جاتے جب میں منع کرتی اور پوچھتی کہ ”میاں! کیا کر رہے ہو؟ تو فرماتے کہ میں کوئی برا کام کر رہا ہوں؟ جب میں آپ کی والدہ کو پکارتی کہ دیکھو آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے؟ اور وہ آکر پوچھیں تو کہتے کہ ”باہر میرے ہم جولی ہیں ان کو روٹیاں نہ کھلاؤں؟“ 1430 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی کا کو صاحبہ نے بواسط لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہم آٹھ عورتیں بیعت کرنے کو آئیں.میری ممانیاں اور میری بھاوجیں.باہر سے ایک لڑکا آیا کہ ایک آدمی کا کھانا دے دو.حضور علیہ السلام و اماں جان سامنے بیٹھے تھے وہ لڑکا کھڑا رہ کر چلا گیا.کھانا پکانے

Page 255

سیرت المہدی 248 حصہ پنجم والی نے کچھ پرواہ نہ کی.حضرت اماں جان نے کھانا پکانے والی کو کہا ” تم نے کیوں اس کو کھانا نہیں دیا؟“ اور کہا کہ ”جب کوئی سفید کپڑے والا آتا ہے تو تم اس کو کھانا کھلاتی ہومگر میلے کپڑے والے کی پرواہ نہیں کرتی.“ اماں جان نے اس کو نکال دیا.1431 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی صاحبہ والدہ خواجہ علی صاحب نسبتی بہن حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں قادیان میں آئی تھی میرا 66 بیٹا خواجہ علی اس وقت چھ یا سات سال کا تھا.اس کا باپ جو غیر احمدی تھا اس نے اور شادی کر لی تھی.جب میں حضرت صاحب کے گھر جاتی تو اُم المومنین فرماتیں کہ یہ لڑکا باپ کے جیتے ہی یتیم ہے اس کو کچھ دو.“ اُم المومنین اس کو عموماً مٹھائی وغیرہ دیا کرتی تھیں.1432 بسم اللہ الرحمن الرحیم.رسول بی بی صاحبہ والدہ خواجہ علی صاحب نسبتی بہن حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے.میں بھی معہ اس بچہ ( یعنی خواجہ علی صاحب) کے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور ان کے اہل وعیال کے ساتھ ہم رکاب تھی.حضور علیہ السلام کی گاڑی پر لوگوں نے اینٹیں پھینکی تھیں.میرا خاوند پنواٹا میں ملازم تھا.حضور نے مجھے میرے خاوند کے پاس بھیج دیا، فرمایا کہ " تم لڑکا لے کر اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ.ہم ابھی سیالکوٹ میں بیس دن ٹھہریں گے.فرمایا تھا کہ اگر تمہارا خاوند تم کو دق کرے تو چلی آنا.ایک عورت جو کشمیری تھی میرے ساتھ بھیجی تھی.شام کو جب میں گھر پہنچی تو میرے خاوند نے کہا کہ مرزا کی بیعت چھوڑ دے اور بدکلامی بھی کی.میں نے کہا کہ ”مجھے جو کچھ کہنا ہے بیشک کہو مگر ہمارے حضرت کو گالیاں نہ دو.میں نہیں سن سکتی.اس پر اس نے مجھے مارا اور کہا کہ ”مرزے کے اوپر کیوں چڑتی ہے.اگر بیعت نہیں چھوڑے گی تو میرے گھر سے نکل جا.میں نے کہا ”بیعت نہیں چھوڑوں گی.‘ رات بھر لڑتے ہوئے گزری.صبح کو بھوکی پیاسی لڑکے اور اس عورت کو ساتھ لے کر واپس سیالکوٹ آگئی.حضور نے فرمایا کہ ایسا ظالم ہے اس کو نیچے پر بھی ترس نہ آیا.اچھا اس نے اپنے بچہ کو دھکے دئے ہیں.اب وہ کسی اور بچے کا منہ نہیں دیکھے گا.انجام اس کا یہ ہوا کہ جو عورت اُس نے کی ہوئی تھی اس کی اولا د پچھلے خاوند سے ایک لڑکا

Page 256

سیرت المہدی 249 حصہ پنجم ۲۵ سال کا اور ایک لڑکی تھی.لڑکے کا بیٹا بھی ایک تھا جو کہ پندرہ یوم کے اندر ہی سب مر گئے اور وہ خود بھی لا ولد ہی مرگیا ہے.میرا بیٹا خواجہ علی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہر بانی تھی بفضل خدا صاحب اولاد ہے.1433 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحب اہلیہ محتر مہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے اپنے خاوند رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر حضور کی خدمت میں ان کی شکایات کیں اور کہا کہ میں اب گھر میں نہیں جاؤں گی.وہ ایک دن شاید نہیں گئی تھی.حضور نے حافظ صاحب کو جو حضوڑ کے قدیمی خادم تھے طلب فرما کر سمجھایا تھا کہ عورتیں کمزور ہوتی ہیں.مردوں کو چاہئے کہ نرمی اختیار کریں.میں ایسی تختی پسند نہیں کرتا.“ ان کو سمجھا کر ان کی بیوی کو گھر بھیج دیا تھا.حافظ صاحب نے معافی بھی مانگی تھی.1434 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام جہلم کے مقدمہ سے واپس آئے تو چار پائی پر بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کپڑے سے صاف کئے.فرمایا ” تم کو معلوم ہے سلطان احمد ڈپٹی ہو گیا ہے ہم کو خط لکھا تھا دعا کرو.ہم نے دعا کی وہ ڈپٹی ہو گیا ہے“ 1435 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہم سب بھائی ( یعنی خاکسار و برادران میاں جمال الدین مرحوم و میاں امام الدین صاحب ) مسائل فقہی کی بنا پر گا ہے لگا ہے بدین طریق تجارت کرتے تھے کہ غلہ خرید کر ضرورت کے موقع پر غرباء کو کسی قدر گراں نرخ پر بطور قرض دے دیتے اور فصل آئندہ پر وصولی قرضہ کر لیتے تھے.جب حضور علیہ السلام کا دعویٰ ظاہر ہو گیا تو اس وقت بھی ایک دفعہ غلہ خرید کیا گیا کہ غرباء کو دستور سابق دیا جائے.جب میں قادیان گیا تو مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کرلوں.چنانچہ حضور کی خدمت میں سوال مفصل طور پر پیش کر دیا.حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ تمہیں ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے؟“ جس لہجہ سے حضوڑ نے جواب دیا وہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.جس سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کو ایسے کام بہت ناپسند ہیں.پس واپس آکر ہم نے ارادہ ترک کر دیا اور بعد ازاں پھر

Page 257

سیرت المہدی کبھی یہ کام نہ کیا.250 حصہ پنجم 1436 بسم اللہ الرحمن الرحیم اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک بار صاحبزادہ مبارک احمد کچھ بیمار ہو گئے.آپ نے فرمایا کہ مکڑی کا گھر ہونا چاہئے.میں نے کہا حضور ! میں لاتی ہوں.میں اپنے گھر سے چار پانچ مکڑی کے گھر صاف کر کے لائی.حضور نے لے کر دوائی بنائی.“ 66 1437 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی کا کو صاحبہ نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے گاؤں سیکھواں سے کچھ عورتیں آئیں جن میں منشی عبد العزیز پٹواری کی بیوی بھی تھی جو ایک ٹوکری میں تازہ جلیبیاں لائی.حضور علیہ السلام پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے.ایک خادمہ پاؤں دبا رہی تھی.جلیبیوں کا رنگ بہت خوش نما تھا.ٹوکری لا کر اس نے حضور کے سرہانے کی طرف پلنگ پر رکھ دی.حضور نے ایک جلیبی اٹھا کر کھائی.پیر دبانے والی خادمہ نے کہا کہ حضور یہ جلیبیاں ہندوؤں کے ہاتھ کی بنی ہوتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ ترکاریاں جو ہم روز کھاتے ہیں یہ گوبر کی کھاد کی بنی ہوئی ہیں.دھودھا کر ہمارے آگے رکھ دیتے ہیں ہم کھا لیتے ہیں.1438 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مسماۃ غفور بیگم صاحبہ بنت حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی ہمشیرہ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں قادیان میں اپنے بھائی کے ہاں آئی ہوئی تھی.ہم سب رات کو حضرت اماں جان کے پاس آئیں.ایک بڑے دالان میں ہم سب بیٹھی ہوئی تھیں، اماں جان بھی تھیں.حضور کا چھوٹا بچہ ( مجھے یاد نہیں کہ کون سا صا حبزادہ تھا؟) رونے لگا.حضور علیہ السلام جو ام ناصر کے آنگن میں دروازہ تھا اس میں سے باہر تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد حضور نے کھڑکی میں سراندر کر کے دریافت کیا کہ " کیا بچہ چپ ہو گیا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ چہ کر گیا ہے تو حضور علیہ السلام اندر تشریف لائے.1439 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی کا کو صاحبہ نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے زمانہ میں جو بھی کوئی عورت آتی حضور کو سلام کرتی.حضور علیہ السلام وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

Page 258

سیرت المہدی 251 حصہ پنجم و برکامنہ کے بعد فرماتے کیا خدا کو جانتی ہو؟ رسول کو جانتی ہو؟ نماز پڑھتی ہو؟ قرآن پڑھتی ہو؟ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھا کرو تا کہ تم کو سمجھ آ جائے اس میں کیا حکم ہے؟ 1440 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ کو سردی بہت لگا کرتی تھی.آپ اپنی پگڑی کو کمر سے باندھ لیا کرتے تھے.جب آپ اندر نہ بیٹھ سکتے تھے تو حضرت اُم المومنین کو فرماتے کہ ”میں اندر نہیں بیٹھ سکتا باہر چلو.“ آپ اُم المومنین سے الگ نہیں بیٹھا کرتے تھے.اکثر ایسا ہوتا کہ آپ کو الہام ہورہا ہوتا اور حضرت بیوی صاحبہ آپ کے پاس ہوتیں.آپ کو ان سے بہت انس و محبت تھی.ایک دن حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ دنیا میں رشتے تو بہت ہوتے ہیں مگر میاں بیوی کا رشتہ سب سے بڑا ہے.میرا دل چاہتا ہے.میں آپ کے ساتھ مروں.* 1441 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات کرم دین میں حضور علیہ السلام کئی کئی روز تک گورداسپور میں ہی رہتے تھے کیونکہ روزانہ پیشی ہوتی تھی.ایک مکان تحصیل کے سامنے جو تالاب ہے.اس کے جنوب میں کرایہ پر لیا گیا تھا.ایک روز حضور مکان کے اوپر کے حصہ میں تھے.نیچے والے حصہ میں ایک شخص قرآن کریم تکلف کے لہجہ میں پڑھ رہا تھا سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آواز کو ہی سنوارتا رہتا ہے.گویا تکلف سے قرآن کریم پڑھنے کو نا پسند فرمایا.1442 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس سال عید قربان پر عربی زبان میں خطبہ مسجد اقصیٰ میں پڑھا.حضور نے قبل از قراءت خطبہ حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اول) اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو تاکید فرمایا.خطبہ کو ساتھ ساتھ لکھتے جانا کیونکہ جو کچھ اس وقت میں کہوں گا اس کے لکھنے میں غلطی رہ گئی تو بعد میں میں بتا نہ سکوں گا.چنانچہ جس وقت حضور نے خطبہ شروع کیا تو ہر دو مولوی صاحبان لکھتے جاتے تھے پہلے حضوڑ نے کچھ حصہ خطبہ کا کھڑے کھڑے پڑھا اور بعد میں کرسی لائی گئی جس پر بیٹھ کر خطبہ کو ختم کیا.دوران خطبہ

Page 259

سیرت المہدی 252 حصہ پنجم میں الفاظ کی روانی کا یہ حال تھا کہ ہر دو مولوی صاحبان موصوف باوجود تحریری وعلمی قابلیت کے پیچھے رہے جاتے تھے حتی کہ بعض دفعہ فرمایا کہ جلدی کرو.جلدی کرو اور اس وقت حضور علیہ السلام پر ایک عجیب محویت کا عالم تھا کہ آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور چہرہ مبارک پر ٹور برستا ہوا معلوم ہوتا تھا اور بلا کسی قسم کی روک ٹوک کے عربی عبارت مسلسل اور متقی پڑھتے جارہے تھے گویا یوں معلوم ہوتا تھا کہ آگے کتاب رکھی ہوئی ہے یا جیسے کوئی حافظ قرآن پڑھتا جارہا ہے.غالباً دو تین گھنٹہ تک مضمون خطبہ جاری رہا ہوگا.بعد میں میں نے سنا تھا کہ کسی صاحب کے سوال پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ”میری آنکھوں کے سامنے سلسلہ وار مضمون لکھا ہوا گزرتا جاتا تھا اور میں پڑھتا جاتا تھا.“ 1443 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بی بی زینب نے عرض کی کہ میرے ماموں فوت ہو گئے ہیں اور وہ احمدی نہ تھے.ان کا ایک لڑکا ہے دعا کریں کہ احمدی ہو جائے.آپ نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ اس کا نام غلام محمد ہے.حضور نے لکھ لیا.آپ نے دعا فرمائی اور وہ احمدی ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک.1444 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ جب بڑی سخت طاعون پڑی تھی تو حضور نے حکم دیا تھا کہ لوگ صدقہ کریں.چنانچہ لوگوں نے صدقے کئے اور حضور علیہ السلام نے بھی کئی جانور صدقہ کئے تھے.گوشت اس قدر ہو گیا تھا کہ کوئی کھانے والا نہیں ملتا تھا.انہی دنوں میں ماسٹر محمد دین صاحب جو آج کل ہیڈ ماسٹر ہیں ان کو طاعون ہو گئی تھی.ان کے واسطے حضور علیہ السلام نے کیمپ لگوا دیا تھا.تیمارداری کے واسطے ڈاکٹر گوہر دین صاحب کو مقررفرمایا تھا اور گھر میں ہم سب کو حکم دیا تھا کہ دعا کرو، خدا ان کو صحت دیوے.چنانچہ ان کو صحت ہوگئی تھی.1445 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اصغری بیگم صاحبہ بنت اکبر خان صاحب مرحوم در بان زوجه مدد خان صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میں اکیلی بیٹھی تھی.بادل گھرا

Page 260

سیرت المہدی 253 حصہ پنجم ہوا تھا اور ترشح ہو رہا تھا.حضور نے پوچھا کہ ” تمہارا بچہ کہاں ہے؟ میں نے عرض کی کہ حضور خادمہ اپنے گھر لے گئی ہے.حضور نے فرمایا کہ اور تو نے اس کو گھر لے جانے کی اجازت کیوں دی ؟ یہ لوگ گھر جا کر خود اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور بچوں کو زمین پر چھوڑ دیتے ہیں وہ بارش میں بھیگ رہا ہو گا.“ حضور علیہ السلام نے ایک اور خادمہ سے فرمایا کہ ”جلدی جا کر اس کے بچہ کو لے آ.‘ چنانچہ جب وہ عورت گئی تو دیکھا کہ وہ خود چکی پیس رہی تھی اور بچہ کو باہر زمین پر بارش میں بٹھایا ہوا تھا.وہ خادمہ بھیگتے ہوئے بچہ کو اٹھا لائی تو ہم لوگ حیران ہوئے کہ جس طرح حضور نے فرمایا تھا کہ بچہ بارش میں بھیگ رہا ہوگا.ویسا ہی ظہور میں آیا.1446 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے.مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضور سے عرض کرتی حضور اس کو مہیا کر دیتے اور کبھی انکار نہ کرتے.میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن میں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضوڑ کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضوڑ بھوک لگی ہے.حضور کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے.حضور چابی دے دیتے.مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدرضرورت ہوتی ہم نکال لیتے ، ہم کھانے والی دونوں ہوتیں تھیں مگر ہم تین یا چار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضور کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کروگی.1447 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو الہام ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اس کی ایک قرآت یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا (یعنی بجائے نذیر ، نبی کا لفظ الہام میں ہے ).1448 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور

Page 261

سیرت المہدی 254 حصہ پنجم علیہ السلام مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص نے سوال کیا کہ جبکہ اعمال محدود ہیں تو نجات ابدی کیونکر ہے؟ فرمایا کہ موت بندہ کے اپنے اختیار کی چیز نہیں ہے اگر وہ ہمیشہ زندہ رہتا تو اعمال کرتارہتا لیکن خدا نے اس کو موت دے دی.یہ اختیار سے باہر ہے لہذا نجات ابدی ہے.“ 1449 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ ”نبی جب مجلس میں بیٹھتا ہے تو گویا دکانِ عطاری کھولتا ہے ہر ایک کو (یعنی روحانی مریضوں کو ) مناسب حال نسخہ جات بتا تا ہے.“ 1450 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ ” طاعون کم سردی میں شروع ہوتی ہے اور جب طاعون کے آثار دیکھنا تو باہر چلی جانا.“ میں نے عرض کی کہ حضور علیہ السلام میرے پاس باہر رہنے کا سامان نہیں ہے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ”موٹے موٹے گدیلے بنا کر چلی جانا.“ جب طاعون شروع ہوگئی تو میں ڈرتی تھی کہ حضور نے فرمایا تھا کہ ”باہر چلے جائیں لیکن میرے خاوند نے کہا کہ چونکہ ہمارے باہر جانے سے مسجد ویران ہو جائے گی اس لئے ہم نہیں جاتے.تو خدا تعالیٰ نے حضرت صاحب کی معرفت میرے خاوند کو کچھ بتلا دیا اس لئے ہم باہر نہ گئے.1451 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت نانی جان صاحبہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے اور حضرت نانا جان صاحب کے لئے حضور علیہ السلام سے دعا کرایا کرتی تھیں نیز مولوی محمد علی صاحب جواب پیغامی ہیں ان کی بیوی جن کا نام ”فاطمہ تھا اپنے اور اپنی بیٹی رقیہ کے لئے دعا کرایا کرتی تھی.مولوی فضل الدین صاحب بھی دعا کرایا کرتے تھے جو میرے شوہر ہیں.جب وہ حضرت صاحب سے خاص محبت میں رخصت مانگا کرتے تھے تو حضور اجازت نہ دیا کرتے تھے ایک بار جس دن ہم نے جانا تھا تو حضور علیہ السلام کو ایک الہام ہوا کہ جو کہ خطرناک تھا.حضور نے مجھے رقعہ لکھ کر دیا کہ مولوی صاحب کو دے آؤ.میں نے رقعہ پہنچادیا اور مولوی صاحب سے کہا کہ مجھے بھی ایک رقعہ لکھ دو میں نے حضور کو دعا کے لئے دینا ہے.

Page 262

سیرت المہدی 255 حصہ پنجم انہوں نے لکھ دیا.میں لے کر چلی گئی اور پوچھا.حضور اس رقعہ کو الماری میں لگا دوں؟ حضور نے فرمایا.”ہاں ! وہاں پر میرا بہت کام رہتا ہے.اور میں حکم کی تعمیل کر کے چلی گئی.1452 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے جب پہلا بچہ نصیر احمد پیدا ہونے والا تھا میری طبیعت خراب تھی.مجھے دورہ ہو گیا.میں اس وقت بیت الدعا میں تھی.خادمہ مجھے دبا رہی تھی.حضور علیہ السلام بار بار دریافت فرماتے تھے کہ کیا حال ہے؟ حضور نے مجھے دوا بھی بھیجی تھی.حضرت خلیفہ ثانی اس وقت گھر میں نہیں تھے.جب آئے تو حضور نے فرمایا کہ "محمود تم کو معلوم نہیں کہ محمودہ بیمار ہے؟ جاؤ دیکھو اور مولوی صاحب ( حکیم الامت ) کو بلا کر علاج کراؤ حضرت میاں صاحب پہلے میرے پاس آئے ، حال پوچھا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا کر علاج کرایا.“ 1453 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المومنین خلیفة المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا صبح کا وقت تھا.یکا یک شور و غل کی آواز میں آئیں اور جھٹکے شروع ہو گئے.ہم اس وقت گھر میں وہ کمرہ جو کوئیں کے اوپر تھا اور اب گرا دیا گیا ہوا ہے، اس میں تھے.نوکریں باہر سے دروازہ کھٹکھٹا تیں کہ دروازہ کھول کر باہر نکلو.حضرت خلیفہ الثانی رضی اللہ تعالیٰ چار پائی پر چڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش فرماتے مگر جھٹکوں کے باعث کھول نہیں سکتے تھے.کنڈی گنڈے سے کچھ ہی پیچھے ہٹاتے تھے کہ زلزلہ کے جھٹکے سے ہاتھ چھوٹ جاتا اور حلقہ پیچھے ہٹ جاتا.کئی بار ایسا ہوا.بمشکل کنڈی کھولی.سردی بھی لگ رہی تھی.میں نے پردہ کے واسطے چادر اٹھانی چاہی مگر میاں صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے جلدی سے باہر کھینچ لیا.وہاں آنگن کی کنڈی بند تھی اسے بمشکل کھولا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اور سب خدا کے حضور سجدہ میں گرے پڑے تھے.میں نے چونکہ نماز نہیں پڑھنی تھی میں کھڑی رہی.حضرت میاں صاحب نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر سجدہ میں گرادیا.

Page 263

سیرت المہدی 256 حصہ پنجم 1454 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا وصال لاہور میں ہوا ہے تو ڈاکٹر صاحب خلیفہ رشید الدین صاحب ایک سال کی رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے.آپ نے بہت خواہش کی کہ حضور ان کو بھی اپنے ہمرکاب لاہور جانے کی اجازت مرحمت فرمائی جاوے.مگر حضور نے فرمایا کہ " تم یہاں گھر کی حفاظت کرو.بابوشاہ دین صاحب بیمار تھے ان کا علاج معالجہ بھی کرتے رہو.اور کہ اپنے آدمی کا پیچھے گھر میں ہونا ضروری ہے.روزانہ خبر بھیجتے رہا کرو.اور اپنے حجرہ میں ڈاکٹر صاحب کو اور مجھے رہنے کا حکم فرمایا.میری والدہ اور بھا وجہ اس جگہ تھے جہاں اب ام ناصر احمد سلمہ ہیں.جب حضور کو لاہور میں تکلیف تھی اور جب تک حضور کے وصال کی خبر وصال کے دن عصر کے وقت تک نہ آئی تھی.مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو ایسی پریشانی تھی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا.دل بیٹھا جا تا تھا اور دماغ چکراتا تھا.کسی پہلو قرار نہ تھا.جب خبر پہنچی تو حالت دگرگوں ہو گئی اور معلوم ہوا کہ پہلا قلق اس ناشدنی خبر کا پیش خیمہ تھا.1455 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام مسجد مبارک میں سورۃ الحمد شریف کے مضامین کے متعلق ذکر فرمارہے تھے اسی ضمن میں فرمایا کہ ایمان بین الخوف والرجا ہے اور سورۃ الحمد شریف میں الرحمان اور الرَّحِیم فرما کر ساتھ ہی مَالِكِ يَوْمِ الدِّين فرمایا.اس سے ثابت ہے کہ اگر ایک طرف رحمن ورحیم ہے تو دوسری طرف مَالِكِ يَوْمِ الدِّين بھی ہے.کیسا دونوں فقروں میں خوف ورجا کو نبھایا ہے.“ 1456 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے کنجری کے مال کے متعلق فرمایا کہ دینی جہاد میں خرچ کر لیا جائے.کیونکہ جب دشمن اسلام پر حملے کر رہا ہو اور اہل اسلام کے پاس گولہ بارود ( کے لئے ) کنجری کے مال کے سوا نہ ہو.تو کیا دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ کنجری کا مال ہے، ہم استعمال نہیں کرتے.ہر چیز خدا کی ملوک ہے، خدا ما لک ہے.اس کی طرف جاکر پاک ہو جاتی ہے.“

Page 264

سیرت المہدی 257 حصہ پنجم 1457 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سند رسنگھ صاحب ساکن دھر کوٹ بگه تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہو گئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا.ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی.سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے.ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے ،اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں آباد رہے ، اسلام میں جائز ہے.کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی.آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہو گئی جس سے اولا د ہوئی.1458 بسم الله الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ٹوپی سلمہ ستارہ کی بڑی خوبصورت بنی ہوئی تھی.میاں شریف احمد صاحب اس وقت چھوٹے بچہ تھے وہ اس ٹو پی کو ٹھوکر میں مارتے اور پاؤں میں دبا کر دوسرے ہاتھ سے کھینچتے تھے.ہم عورتوں نے منع کیا مگر نہ مانے.حضرت اماں جان کے منع کرنے پر بھی نہ ر کے.حضرت اماں جان نے حضور سے عرض کی کہ شریف ٹوپی خراب کر رہا ہے.حضور نے باہر آکر دیکھا اور فرمایا کہ ” کیا ہوا بچہ تو ہے میں نے بھی جب میں چھوٹا تھا ایک خوبصورت کر تہ جو نینوں کا تھا پھاڑ 19966 دیا تھا.بچہ جو ہوا چند مرتبہ فرمایا تھا.اس پر میاں شریف احمد صاحب ٹوپی چھوڑ کر چلے گئے.1459 بسم الله الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ کسی نے تین ترکی ٹوپیاں بھیجیں.حضور علیہ السلام نے تینوں بچوں کو بلوا کر تینوں ٹوپیاں حضرت میاں محمود احمد صاحب، میاں بشیر احمد صاحب و میاں شریف احمد صاحب سلّمھم کے سروں پر رکھ دیں اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے.آپ نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ آیا ٹوپیاں ٹھیک ہیں یا کیسی ہیں؟ 1460 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے قبول ہونے والی دعا کے متعلق فرمایا کہ دعا کیا ہے کہ جیسے مرگی کی حالت یکا یک وارد ہوتی ہے اسی طرح دعا کی حالت انسان پر وارد ہوتی ہے“.

Page 265

سیرت المہدی 258 حصہ پنجم 1461 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہوئے بارہا دیکھا ہے.عام طور پر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وه دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے.1462 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی مجلس میں ” لَا صَلوةَ إِلَّا بِحُضُورِ الْقَلْبِ “پرذکر ہوا.فرمایا کہ ” حضور قلب یہی ہے کہ جب اذان ہو مسجد میں چلا جاوے.آگے نماز میں توجہ قائم ہو یا نہ ہو.یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار کی بات ہے.بندہ کا کام ہے کہ وقت پر حاضر ہو جائے.“ 1463 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور نے بواسطه لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بڑے زلزلہ کے بعد جب میں آگرہ سے آئی تھی تو خادمہ اصغری کی والدہ اور دوسری عورتوں نے مجھے بتایا تھا کہ حضور سیح موعود علیہ السلام میاں محمود یعنی خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعریف فرماتے تھے کہ اس نے ایسے گھبراہٹ اور خطرناک وقت پر جو زلزلہ کے خوف سے پیدا ہو گیا تھا اپنی بیوی کو سنبھالے رکھا اور اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا.ایسے نازک وقت پر عورتیں بسا اوقات اپنے بچوں کو بھی بھول جاتی ہیں.“ 1464 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب قادیان میں پہلی مرتبہ اینٹوں کا بھٹہ جاری ہوا تھا تو حضرت اقدس اُم المومنین اور دوسری بعض عورتوں کو اپنے ہمراہ سیر پر لے گئے تھے اور بھٹہ جس میں اینٹیں پک رہی تھیں دکھایا تھا.حضور نے بتایا اور سمجھایا تھا کہ کس طرح اس میں کہاں اینٹیں رکھی جاتی ہیں.کیونکر آگ دی جاتی ہے؟ اور کس طرح پختہ کر کے پکائی جاتی ہیں ؟ تمام باتیں بتا ئیں اور سمجھائی تھیں.1465 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ

Page 266

سیرت المہدی 259 حصہ پنجم اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب اخبار میں یہ چھپا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشف میں دیکھا کہ فرشتے کالے کالے درخت لگا رہے ہیں تو حضور نے اس سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت لگا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں.طاعون بہت پڑے گی.قادیان کو اور شہروں کی نسبت محفوظ رکھا جاوے گا.میرے والد صاحب نے میری والدہ صاحبہ کو کہا کہ تم قادیان چلی جاؤ.میرا بھائی قادیان میں پڑھتا تھا اور رشتہ دار بھی قادیان میں تھے.ہم قادیان چلے آئے.جب میری ماں اور دوسری بہنیں بھی آنے لگیں تو میں بھی تیار ہوئی مگر میری بڑی بہن نے کہا کہ یہ کنواری لڑکی ہے یہ نہ جاوے کیونکہ ہمارے ہاں دستور تھا کہ کنواری لڑکی باہر نہیں بھیجتے تھے.میں بہت روئی اور ضد کی آخر وہ راضی ہو گئے اور ہم سب روا نہ ہو پڑے.میری ماں گھوڑی پر سوار تھی اور ہم پیدل تھے.میرے پاؤں سوج گئے.جب ہم سرکاری سکول کے پاس ریتی چھلہ پہنچے تو سانس لینے کے واسطے تھک کر بیٹھ گئے.حضور اس وقت سیر کو تشریف لے جارہے تھے.وہاں سے گزرے.جب ہم حضوڑ کے درِ دولت پر پہنچے تو اماں جان نے فرمایا کہ حضور سیر کو تشریف لے گئے ہیں.مجھے حضور کی زیارت کا سخت اشتیاق تھا.حضور علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ چہرہ مبارک بہت نورانی تھا.حضور نے دریافت کیا کہ ” تم کہاں سے آئے ہو؟“ عرض کیا کہ حضور ! مکیریاں سے آئے ہیں.سبحان پور تیر اضلع کانگڑہ کے وزیر الدین ہیڈ ماسٹر صاحب کی ہم بیٹیاں ہیں اور یہ ہماری والدہ صاحبہ ہیں.حضور نے دریافت فرمایا کہ ”کھانا کھا لیا ہے؟“ ہم نے کہا کہ ” حضور کھا لیا ہے.آپ اندر تشریف لے گئے.ہم نے ڈاکٹر نی صاحبہ سے پوچھا کہ بیعت کیسے لیتے ہیں؟ ڈاکٹر نی صاحبہ نے کہا کہ جس طرح حضورا فرماتے جاویں گے تم بھی کہتی جانا کوئی محنت نہیں کرنی پڑے گی.اماں جان نے حضور کو کہا کہ یہ بیعت کرنے آئی ہیں.حضور علیہ السلام دالان میں کرسی پر بیٹھ گئے.حضور نے ہم سے بیعت لینی شروع کی.ہم شرم کے مارے آواز نہیں نکال سکتی تھیں.حضور نے فرمایا کہ اتنی آواز نکالو کہ میں سن سکوں.پھر ہم نے کچھ اونچی آواز کی.جب ہم واپس جانے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” تمہارے پیر سوجے ہوئے ہیں تم آج نہ جاؤ ، آرام ہوگا تو چلی جانا.“ 1466 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ

Page 267

سیرت المہدی 260 حصہ پنجم اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے والد صاحب رخصت لے کر آئے تھے تو حضور نے فرمایا تھا کہ اور زلزلہ آئے گا.یعنی ایک بڑا زلزلہ جو کہ آچکا تھا اس کے بعد اور آنے والا ہے.میرے والد صاحب نے کہا کہ حضور فرما دیں تو رخصت لے کر یا ملا زمت چھوڑ کر چلا آؤں.حضور نے فرمایا کہ لگا ہوا روز گار نہیں چھوڑ نا چاہئے.دعا کے واسطے بار بار یاد دلایا کرو“ آخر دسمبر تک میں ایک دفعہ حضور کے در دولت پر گئی تو اماں جان نے اصغری کی اماں سے چاول پکوائے.چاول خراب ہو گئے.حضرت اماں جان اس پر خفا ہوئیں.حضور علیہ السلام آواز سن کر باہر آگئے اور فرمایا کہ اس کو کچھ نہ کہو.اماں جان نے فرمایا کہ اس نے چاول خراب کر دئے ہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ چاول ہی خراب ہوں گے.“ 1467 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان بیا کہ حضور علیہ السلام کو زلزلہ ضلع کانگڑہ وغیرہ ( جو ۱۹۰۴ء میں غالباً آیا ) کے متعلق جب یہ الہام ہوا کہ نَهْدِمُ مَا يَعْمَرُونَ.اس پر حضور علیہ السلام نے ایک دن فرمایا کہ دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر زلزلہ آئے گا اور جو عمارات بنارہے ہیں گرادی جائیں گی ( رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرُنَا وَارْحَمْنَا) 1468 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہم اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے.ورانڈہ میں ہم نے دیوار کر لی تھی.میرے لڑکا پیدا ہوا.حضور علیہ السلام نے اس کا نام ”عبدالسلام“ رکھا تھا.میری نند امۃ الرحمن صاحبہ نے حضور اقدس سے کہا کہ ”ہم اور مفتی صاحب ایک ہی مکان میں رہتے ہیں.ان کے بچے کا نام بھی ”عبد السلام “ ہے اور ہمارے کا نام بھی ”عبدالسلام“ ہے.حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ پھر کیا ہوا وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے یہ اپنے باپ کا ہے.“ 1469 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ماہواری تکلیف سے ہوا کرتی تھی.میں نے اس کا ذکر اپنی اماں سے نہ کیا بلکہ حضور علیہ السلام سے عرض کر دیا کہ مجھ کو یہ تکلیف ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسی باتیں

Page 268

سیرت المہدی 261 حصہ پنجم اپنی والدہ سے کہو.مردوں سے نہ بیان کیا کرو.اس پر مجھے بعد میں شرمساری ہوئی.1470 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اُم المومنین اور سب نے مل کر آم کھائے صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاں آگئیں.اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی.کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدس نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی.1471 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان خیر کیا کہ (حضرت مسیح موعود نے.ناقل ) ایک دفعہ فرمایا کہ دعا نماز میں کرنی چاہئے رکوع میں ،سجدہ میں ، بعد تسبیحات مسنونہ اپنی زبان میں دعا مانگے.بعض لوگ نماز تو جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور بعد نماز ہاتھ اٹھا کر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہے کہ جب سامنے کھڑا ہو اس وقت مانگتا نہیں.جب باہر آجائے تو پھر دروازہ جا کھڑ کانے لگے.نمازی نماز کے وقت خدا تعالیٰ کے حضور سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت تو جلدی جلدی نماز پڑھ لیتا ہے اور کوئی حاجت یا ضرورت خدا تعالیٰ کے حضور پیش نہیں کرتا لیکن جب نماز سے فارغ ہو کر حضوری سے باہر آجاتا ہے پھر مانگنا شروع کرے( یہ ایک قسم کی سوء ادبی ہوگی ) اس کے یہ معنے نہیں کہ بغیر نماز دعا جائز نہیں صرف یہ مطلب ہے کہ نماز کے وقت خاص حضوری ہوتی ہے اس وقت ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ بہتر ہے کہ نماز کے اندر دعا کرے وہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے.1472 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”میں نے حضرت اماں جان صاحبہ سے سنا کہ ایک دفعہ شام کے وقت حضرت اُم المومنین صاحبہ اور مولویانی نے صلاح کی کہ حسن بی بی اہلیہ ملک غلام حسین صاحب کو ڈرائیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت اُم المومنین نے حسن بی بی سے کہا کہ پانی پلاؤ جب وہ پانی لینے گئی تو مولویانی صاحبہ چار پائی کے نیچے چھپ گئی.وہ پانی لے کر آئی اور چار پائی کے پاس کھڑی ہو کر پانی دینے لگی تو مولو پانی صاحبہ نے

Page 269

سیرت المہدی 262 حصہ پنجم نیچے سے اس کے پاؤں کی زور سے چٹکی لی.اس نے دو تین چھینیں ماریں اور زمین پر گر پڑی.حضور علیہ السلام مسجد سے گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور استفسار فرمایا تو حضرت اماں جان اور سب چپ ہوگئیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ ”میں نے کئی بار کہا ہے کہ نماز کے وقت ایسی باتیں نہ کیا کرو “ آپ علیہ السلام ہنستے بھی جاتے کیونکہ حضور کو معلوم ہو گیا تھا کہ مذاق کیا گیا ہے.1473 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اللہ دتہ وعلی محمد چھینسے وغیرہ سکنائے سوہل تحصیل و ضلع گورداسپور ابتدائے دعویٰ سید نا حضرت مسیح موعود کے وقت اکثر معترض رہتے تھے اور ہر حرکت و سکون پر اعتراض کرتے رہتے تھے.مینار ( جونزول گاہ مسیح موعود ہے) پر بھی معترض تھے کہ مینار کہاں ہے؟ جس پر حضرت مسیح کا نزول احادیث میں آیا ہے ایک روز حضرت صاحب کے حضور عرض کیا گیا کہ مولوی اللہ دتہ وغیرہ سوہلوی (چھینے ) مینار کے متعلق اعتراض کرتے ہیں.حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ”جس وقت مینار بنے گا اس وقت یہ چھینے کہاں ہوں گے؟ ( یعنی ہلاک ہو چکے ہوں گے) چنانچہ ایسا ہی ہوا ایک طاعون سے ہلاک ہوا اور دوسراعلی محمد زندہ درگور کی حالت میں ہے، کبھی کلام کرتا نہیں سنا گیا.1474 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دائی فوت ہوئی تھیں تو حضور نے افسوس کیا تھا اور فرمایا تھا کہ آج ہماری دائی صاحبہ فوت ہوگئی ہیں.“ 1475 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور نے ایک بزرگ کا ذکر کیا کہ وہ دعا کرتے اور جواب جناب الہی سے آتا کہ تمہاری دعا مردود ہے ، قابل قبول نہیں.اتفاق سے ان کا ایک مرید ملنے کے لئے آ گیا.جب حسب دستور انہوں نے دعا شروع کی تو جناب الہی سے وہی جواب ملا جو روز ملا کرتا تھا.آخر مرید نے بھی وہ جواب سن لیا تو اس نے اپنے پیر کی خدمت میں عرض کی کہ جبکہ یہی جواب آتا ہے کہ تمہاری دعا مردود ہے قابل قبول نہیں تو آپ دعا ترک کیوں نہیں کر دیتے ؟ تو پیر نے جواباً فرمایا کہ تم دوتین رات میں ہی سن کر

Page 270

سیرت المہدی 263 حصہ پنجم گھبرا گئے.میں تو قریباً ۳۰ سال سے یہی جواب سن رہا ہوں کہ ” تمہاری دعا مردود ہے قابل قبول نہیں ہے.وہ بے نیاز ہے جو چاہے کرے اور میں بندہ ہوں ، اس کے سوا میرے لئے کوئی پناہ نہیں ہے.وہ اپنی بے نیازی کی وجہ سے میری دعا کو رد کرتا جائے.میں اپنی بندگی اور عبودیت کو اس کے حضور پیش کر کے مانگتا جاؤں گا جب تک کہ دم میں دم ہے.جب اس کا استقلال اس حد تک پہنچ گیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ تمہاری سب دعائیں مقبول ہیں.1476 بسم اللہ الرحمن الرحیم.اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت ( قوم خانہ بدوش ) آلے بھولے یعنی مٹی کے کھلونے بیچنے والی آئی اس نے آواز دی.کونی آلے بھولے.گرمی کا موسم تھا.حضور علیہ السلام اور اماں جان ان دنوں دن کو مکان کے نیچے کے حصہ میں رہتے تھے.حضور“ کھانا کھا کر ٹہل رہے تھے کہ اس عورت نے آواز دی.لونی آلے بھولے.ابھی میں نے جواب نہیں دیا تھا کہ وہ پھر بولی کہ میں سخت بھوکی ہوں مجھے روٹی دو.صفیہ کی اماں جو حضور کی خادمہ تھی اس وقت کھانا کھلایا کرتی تھی.انہوں نے دوروٹیاں سلطا نو کو دیں کہ ان پر دال ڈال کر اس کو دے دو.سلطانی مغلانی بھی حضور علیہ السلام کے گھر میں آنکھوں سے معذور اور غریب ہونے کی وجہ سے رہتی تھی.اس نے جب دال ڈال کر اس سائلہ کو دی تو اس عورت نے جلدی سے ٹوکر از مین پر رکھ کر روٹی ہاتھ میں لی اور جلدی سے ہی ایک بڑا سا لقمہ تو ڑ کر اپنے منہ میں ڈالنے کے لئے منہ اوپر کیا اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اونچا کیا.مکان کی پکی عمارت اس کو نظر آئی تو لقمہ اس کے ہاتھ میں تھا اور سخت بھو کی منہ اوپر کو کئے ہوئے اس نے پوچھا کہ یہ کس کا گھر ہے کہیں عیسائیوں کا تو نہیں.“ سلطانو نے کہا کہ ” تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ ” میں مسلمان امت رسول دی.“ حضور ٹہلتے ہوئے یہ بات سن کر کھڑے ہو گئے فرمایا ” اس کو کہہ دو.یہی مسلمانوں کا گھر ہے.پھر تین بار فرمایا کہ اس کو کہد و کہ یہ خاص مسلمانوں کا گھر ہے.پھر ایک رو پید اپنی جیب سے نکال کر اس کو دیا اور اس کے اس فعل سے کہ باوجود سخت بھوک ہونے کے اس نے جب تک تحقیق نہیں کر لی کہ یہ خیرات مسلمانوں کی ہے اس کو نہیں کھایا.آپ بہت خوش ہوئے.

Page 271

سیرت المہدی 264 حصہ پنجم 1477 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جلسہ ( دھرم ) مہوتسو لا ہور کے موقعہ پر جب حضور علیہ السلام کا مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بمقام لاہور پڑھ کر سنایا تھا جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ مضمون بالا رہا اس وقت محویت سامعین کا یہ حال تھا کہ کوئی اگر کھانستا بھی تو سامعین گوارا نہ کرتے تھے.مضمون کیا تھا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک چمکتا ہوا نشان تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مکذب کا مضمون اس مضمون سے ایک روز پہلے ہو چکا تھا جو اس نے خود پڑھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ لوگ ہم سے نشان مانگتے ہیں ہم کہاں سے نشان دکھلائیں؟ ہم میں کوئی اب نشان دکھلانے والا نہیں ہے.اس کے بعد دوسرے دن حضور علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں بڑے زور سے کہا گیا کہ اندھا ہے وہ جو کہتا ہے کہ کہاں سے نشان لائیں؟ آؤ میں نشان دکھلاتا ہوں اور میں اندھوں کو آنکھیں بخشنے کے لئے آیا ہوں ( یہ فقرات بذات خود نشان تھے کیونکہ مولوی محمد حسین کا مضمون پہلے پڑھا گیا تھا اور حضور علیہ السلام کا بعد میں پڑھا گیا اور اگر حضور علیہ السلام کا مضمون پہلے پڑھا جاتا اور مولوی محمد حسین کا بعد میں پڑھا جاتا تو بے مزگی پیدا ہو جاتی لیکن قدرت کا منشا تھا کہ اسلام کی عظمت ظاہر ہو اس لئے مولوی محمد حسین نے جو کمزوری (اسلام کی طرف) اپنے مضمون میں دکھلائی تھی خدا کے مامور ومرسل نے اس کو رڈ کر کے اسلامی شوکت کو بلند کر دیا.الحمد للہ علی ذالک 1478 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یا ر صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم پر بہت قرضہ ہو گیا تھا.میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لکڑی کا کاروبار کرو.چنانچہ لکڑی کے کاروبار سے ہم کو بہت فائدہ ہوا.66 1479 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اور میری بہن مکیریاں سے آئے.طاعون کے دن تھے.حضور علیہ السلام کے دروازہ پر پہرہ تھا.حضور نے فرمایا کہ تم کوکسی نے نہیں روکا ؟ عرض کیا کہ نہیں.حضور

Page 272

سیرت المہدی 265 حصہ پنجم ہم کو کسی نے نہیں روکا.حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ” جہاں سے تم آئی ہو وہاں تو طاعون نہیں تھا ؟ ہم نے کہا کہ نہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی جگہ خالی نہیں رہے گی سب جگہ طاعون پڑ جائے گی.1480 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیا اور اسی دن (ہم ) قادیان قریباً ظہر کے وقت پہنچے اور یہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے.اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غور ہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا.اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ” کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ” بعض غیر احمدیوں نے دیکھا تھا.ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا“ کتاب کو تہ کر دیا اور فرمایا کہ ”ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے اس لئے تحقیقات شروع کی تھی.اس کے بعد دیر تک ہنستے رہے.“ 1481 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطه لجند اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے والد ماسٹر ظہیر الدین صاحب بیمار ہو گئے تو میرے خاوند ان کو قادیان میں لے آئے.حضور علیہ السلام ان دنوں دہلی تشریف لے گئے ہوئے تھے.جب میرے والد صاحب کی بیماری زیادہ بڑھ گئی تو ان کے رشتہ داران کو لے گئے.کہتے تھے کہ کہیں اپنی لڑکی کے گھر میں ہی فوت نہ ہو جائیں.وہ اسی بیماری سے فوت ہو گئے تھے.جب حضور علیہ السلام دہلی سے واپس آئے تو میں سلام کے واسطے گئی.حضور میری آواز سن کر کمرے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ برکت! تیرے والد کے فوت ہونے کا افسوس ہے.میں رو پڑی.حضور نے فرمایا کہ ”رونہیں.ہر ایک نے فوت ہونا ہے.تسلی رکھنی چاہئے.جب سے حضور علیہ السلام نے ایسا فرمایا تھا میرا رونا اور غم کرنا بند ہو گیا تھا.1482 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں مقدمات شروع ہوئے تھے اور عیسائی کلارک والے مقدمہ کا فیصلہ ہوا تھا اور پیلاطوس

Page 273

سیرت المہدی 266 حصہ پنجم بہادر صاحب ڈپٹی کمشنر ڈگلس گورداسپور نے فیصلہ کرتے وقت حضور علیہ السلام کو مبارک باد کہہ کر بری کیا تھا اور یہ بھی دریافت کیا تھا کہ ” کیا آپ کلارک وغیرہ پر ازالہ حیثیت کا استغاثہ کریں گے؟“ حضور نے کہا تھا کہ میں دنیاوی حکومتوں کے آگے استغاثہ کرنا نہیں چاہتا.میری فریا د اپنے اللہ تعالیٰ کے آگے ہے.اس فقرہ کا اس پر اچھا تاثر ہوا تھا.احمدیوں کو اس مقدمہ میں عزت کے ساتھ بریت کی بڑی خوشی تھی.مولوی محمد حسین بٹالوی نے (بطالوی) عیسائیوں کی تائید میں شہادت دی تھی.بریت پر اس کو بھاری ذلت پہنچ چکی تھی.عبد اللہ آتھم عیسائی بھی میعاد پیشگوئی میں مرعوب ہو کر بڑ بڑا تا رہا تھا کہ ”مجھ پر سانپ چھوڑے گئے ہیں اور تلواروں والے حملہ آور ہوئے وغیرہ.مولوی محمد حسین نے بھی آٹھ کروڑ مسلمانان ہندوستان کا باوجود نمائندہ ہونے کے ایک چھری خرید لی جس کو جیب میں رکھتا تھا.ایک روز شیخ محمد بخش سب انسپکٹر تھانہ بٹالہ کے پاس یہ ذکر کر دیا اور ان کو چھری دکھلائی.سب انسپکٹر نے نقض امن کی رپورٹ کر دی اور ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے فریقین کو طلب کر لیا.ادھر سب انسپکٹر نے جوشِ سب انسپکٹری میں کہدیا کہ آگے ہی مرزا کلارک والے مقدمہ سے بچ گیا تھا.اب بچا تو جانیں گے.“ اس طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود کو بریت کی خبر دے دی کہ ” يَعُضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُؤْثِقُ “ کہ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور روکا جائے گا.غرض اس مقدمہ میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دورہ پر تھے ، بمقام کارخانہ دھار یوال پیشی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا.تاریخ سے پہلے خیال تھا کہ کارخانہ دھار یوال کے قریب کسی جگہ ڈیرہ لگایا جائے تا کہ پیشی کے وقت تکلیف نہ ہو.( قادیان سے آٹھ میل سفر تھا ) پہلے موضع لیل میں کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ مسلمانان لیل نے انکار کر دیا.بعدش موضع کھونڈا تجویز ہوگئی اور رانی ایشر کو ر صاحبہ جو موضع کھونڈا کی رئیسہ تھی اس نے حضرت اقدس کی تشریف آوری پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے مصاحبوں کو حضور علیہ السلام کے استقبال کے لئے آگے بھیجا اور اپنا عالی شان مکان صاف کرا کر رہائش کے لئے دے دیا اور اپنے مصاحبوں کے ذریعہ نذرانہ پیش کیا اور کہلا بھیجا کہ مجھے حضور کی آنے کی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سردار جیمیل سنگھ صاحب سر گباش آگئے ہیں ( سردار جیمل سنگھ صاحب رانی موصوفہ کے خسر تھے ) اس رات کو رانی صاحبہ موصوفہ نے حضور علیہ السلام کو مع خدام پر تکلف

Page 274

سیرت المہدی 267 حصہ پنجم دعوت دی حضور علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار کیا.اس سفر میں سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی بھی ساتھ تھے.حضور پالکی میں تھے.( پالکی قدیم پنجاب کی سواری تھی قریباً چار آدمی اٹھاتے تھے ) اور سیٹھ صاحب یکہ پر تھے.ہم سب بھائی پالکی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور ہم نے روزے رکھے ہوئے تھے.جب روزے کا ذکر ہوا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ سفر میں روزہ نہیں ہے.“ ہم نے اسی وقت افطار کر دئے.دوسرے روز بمقام کارخانہ دھار یوال میں پیش ہوئے (کھونڈا سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا) آئندہ تاریخ گورداسپور کی ہوگئی.زائرین کا ہجوم اس قدر تھا کہ آخر حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی گئی کہ زائرین مضطرب زیارت ہیں لیکن کثرت کی وجہ سے اطمینان سے زیارت نہیں کر سکتے.حضور علیہ السلام درخواست کو منظور فرما کر نہر کے پل پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو زیارت کا موقع دیا گیا.نوٹ: مولوی محمد حسین اس نظارہ کو دیکھتا تھا لیکن حسرت کی نگاہ سے ( افسوس) آخر مجسٹریٹ ضلع نے مولوی محمدحسین سے لکھوا لیا کہ ”میں آئندہ مرزا صاحب کو کا فرنہیں کہوں گا.اور سب انسپکٹر کے ہاتھوں پر مہری ( چندرا) کے زخم ہو گئے جس سے وہ جانبر نہ ہوسکا.صدق الله تعالى." يَعُضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُؤْثِق“ حضور علیہ السلام سے اسی مجسٹریٹ ضلع نے پوچھا کہ آپ اس کو کافر کہتے ہیں.حضور نے جواب دیا کہ ”میں نے اس کو نہیں کہا بلکہ اس نے مجھ پر کفر کا فتوی لگایا اس لئے وہ خود کا فر ہوا.اور اس پر آپ نے دستخط کر دئے.“ 1483 بسم اللہ الرحمن الرحیم.برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اکثر اپنی بہن کے لڑکے کو جو چھ یا آٹھ سال کا تھا حضرت اقدس کے گھر میں لے جاتی تھی.ایک دن اس کو جبکہ نماز پڑھ رہی تھی کھانسی ہوئی.حضور نے فرمایا کہ اس بچہ کو کالی کھانسی ہے جب تک آرام نہ ہو یہاں ساتھ نہ لایا کرو.میں نے عرض کی کہ حضور دعا فرماویں کہ آرام ہو جائے.چنانچہ بچہ کوجلد آرام ہو گیا تھا.1484 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان

Page 275

سیرت المہدی 268 حصہ پنجم کیا کہ ابتدائے دعویٰ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت مولوی اللہ دتہ محمد علی وغیرہ سوہلوی کے ساتھ مقابلہ ہوتا رہتا تھا.ایک دفعہ موضع اٹھوال ضلع گورداسپور میں ( اٹھوال میں اب بفضل خدا کافی جماعت قائم ہے ) مقابلہ ہوا.چونکہ اس سے پہلے کئی مقابلے ہو چکے تھے اس لئے اس روز مباہلہ پر زور دیا گیا کہ مباہلہ کیا جاوے تا فیصلہ ہو جاوے.صدہا آدمی موجود تھے.قریباً کئی گھنٹہ تک بالمقابل مباہلہ پر گفتگو ہوتی رہی.احمدیت کی طرف سے خاکسار بولتا تھا اور مخالفین کی طرف سے مولوی اللہ دتہ تھا.وہ تمسخر واستہزاء میں وقت ضائع کر رہا تھا.ہر چند امن کے ساتھ تصفیہ کی طرف متوجہ کیا گیا لیکن وہ تمسخر واستہزاء سے باز نہ آیا.آخر مجلس بلا تصفیہ برخواست ہوگئی.مجھے یاد ہے کہ شیخ غلام مرتضی صاحب والد شیخ یوسف علی صاحب (سابق پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) وہاں مع دیگران موجود تھے.احمدیوں کے کلام اور رویہ سے نہایت متاثر تھے.خیر مباہلہ تو نہ ہوا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت نے اسی سال کے اندر ہی مولوی اللہ دتہ کو طاعون میں گرفتار کر کے ہلاک کر دیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ـ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون 1485 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں سوال کیا کہ شادیوں کے موقعہ پر اکثر لوگ باجا، آتش بازی وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اس کے متعلق شرعی فیصلہ کیا ہے؟ فرمایا کہ ” آتش بازی تو جائز نہیں.یہ ایک نقصان رساں فعل ہے اور باجا کا بغرض تشہیر نکاح جواز ہے“.66 1486 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ عید کا دن تھا اور اسی عید گاہ میں عید پڑھی گئی تھی جس کا آج کل غیر احمدی تنازعہ کرتے ہیں کہ احمدی جبرا قبضہ کر رہے ہیں.حضور علیہ السلام بھی عید گاہ میں پہنچ گئے تھے اور ٹہل رہے تھے کہ پہلے مجھے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی نے کہا کہ سب مسلمان یہاں آگئے ہیں تم شہر چلے جاؤ تا مستورات کی حفاظت ہو جائے.ابھی میں تامل میں تھا کہ حضور علیہ السلام ٹہلتے ہوئے اسی موقعہ پر آگئے.یہاں حکیم

Page 276

سیرت المہدی 269 حصہ پنجم صاحب سے باتیں ہورہی تھیں.حکیم صاحب نے حضوڑ کے پیش کر دیا کہ میاں خیر الدین کو کہا ہے کہ شہر میں جا کر حفاظت مستورات کرے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کسی اور کو حفاظت کے لئے بھیج دو حکیم صاحب نے دوبارہ میرا نام پیش کر دیا.حضور نے انکار کیا.حکیم صاحب نے دوبارہ میرا نام ہی پیش کر دیا تو حضور علیہ السلام نے کسی قدر جھڑ کی کے ساتھ روک دیا تو حکیم صاحب خاموش ہو گئے.1487 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے مباحثات و مناظرات کو حکماً بند کر دیا.انہیں ایام میں مولوی اللہ دتہ، علی محمد سوہلوی ومولوی عبدالسبحان ساکن مسانیاں وغیرہ یکا یک موضع ہرسیاں میں آگئے.اس وقت بھائی فضل محمد صاحب ( والد مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ منشی نور محمد صاحب وغیرہ تھے.ہرسیاں والے احمدی برادران نے مولوی فتح الدین صاحب کو دھر مکوٹ بگہ سے بلا لیا اور سکھواں میں ہماری طرف بھی بلانے کے لئے آدمی آگیا.چونکہ حضور علیہ السلام کا حکم نسبت بند کرنے مباحثات ومناظرات کے ہم کوعلم تھا.اس لئے میں اور میرے بڑے بھائی میاں امام الدین صاحب ( والد مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ ) روانہ ہرسیاں ہو گئے اور ہمارے سب سے بڑے بھائی میاں جمال الدین صاحب مرحوم برائے حصول اجازت قادیان روانہ ہو گئے اور وہاں فیصلہ یہ ہوا کہ تا وقتیکہ قادیان سے اجازت نہ آوے مباحثہ نہیں ہوگا.ہم نے ہرسیاں جا کر یہ خبر سنادی اور مباحثہ روک دیا گیا.اب مخالفین کی طرف سے پیغام پر پیغام آتے ہیں کہ میدان میں نکلو اور ہم خاموش تھے لیکن زبانی طور پر ان کو جواب دیا گیا کہ ہم ایک امر کے منتظر ہیں جب حکم پہنچے گا تب مناظرہ کریں گے ورنہ نہیں.اس پر مخالفین نے خوشی کے ترانے گانے شروع کر دئے.وہاں کا نمبر دار چوہدری فتح سنگھ صاحب ان کی طرف سے آیا اور مجھے الگ کر کے کہا کہ اگر آپ میں طاقت مباحثہ نہیں ہے تو آپ مجھے کہہ دیں تو میں ان کو کسی وجہ سے یہاں سے روانہ کر دیتا ہوں.میں نے کہا کہ ہم میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مباحثہ کرنے کی طاقت ہے اور فریق مخالف ہماری طاقت کو جانتا ہے لیکن ہم اپنے پیشوا کے تابع ہیں.قادیان ہمارا آدمی برائے حصول اجازت گیا ہوا ہے اس کے آنے کے ہم منتظر ہیں.اگر قادیان سے اجازت حاصل ہو گئی تو ہم مباحثہ کریں گے اور ہماری طاقت کا علم آپ کو ہو جائے گا.اگر

Page 277

سیرت المہدی 270 حصہ پنجم اجازت نہ ملی تو ہم مباحثہ نہیں کریں گے پھر جو دل چاہے قیاس کر لینا.تھوڑی دیر کے بعد بھائی صاحب مرحوم ہر سیاں پہنچ گئے اور کہا کہ حضور علیہ السلام نے اجازت نہیں دی.جب مخالفین کو علم ہو گیا کہ مباحثہ احمدیوں کی طرف سے نہیں ہو گا تب ان میں طوفان بدتمیزی بلند ہوا اور جو کچھ ان سے ہوسکتا تھا بکواس کیا.تمسخر و استہزاء کی کوئی حد نہ رہی.چھوٹے چھوٹے بچے بھی خوشی سے شادیانے گاتے تھے اور ہم خاموش تھے.فریق مخالف بظاہر فتح و کامیابی کی حالت میں اور ہم ناکامی اور شکست کی حالت میں موضع ہرسیاں سے نکلے.لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھا کہ جمعہ کے روز ہرسیاں مذکور تحصیل بٹالہ سے ایک جماعت قادیان پہنچ گئی کہ ہم بیعت کرنے کے لئے آئے ہیں.ہم حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو بظاہر ہماری شکست میں کون سی دلیل مل گئی ؟ تو انہوں نے جوابا کہا کہ آپ لوگوں کے چہروں سے ہمیں صداقت نظر آئی اور ان کے چہروں سے کذب اور بیہودہ پن کے نشان نظر آئے یہی بات ہم کو قادیان کھینچ لائی.الحمد لله علی ذالک.* 1488 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان مجھ کیا کہ جن دنوں حضور علیہ السلام نے رسالہ آریہ دھرم (جس میں آریوں کے مسئلہ نیوگ کا ذکر ہے ) لکھنے کا ارادہ فرمایا تو اس سے پہلے ایک روز فرمایا کہ آریہ ہمارے ہمسائے ہیں.اگر ہم جیسا کہ دیا نند نے نیوگ کی تشریح ستیارتھ پر کاش میں لکھی ہے نقل کر دیں تو شاید آریہ کہیں کہ ہم تو مانتے ہی نہیں ، خواہ مخواہ ہماری دل آزاری کی گئی ہے.بہتر ہے کہ آریان قادیان سے دریافت کر لیا جائے چنانچہ منتخب آریہ ملا وامل اور شرمیت.سومراج کشن سنگھ کیسونو الہ آریہ وغیرہ کو مسجد مبارک میں بلایا گیا اور ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا جس طرح پنڈت دیانند نے نیوگ کا مسئلہ بیان کیا ہے درست ہے؟ انہوں نے کہا کہ نیوگ کا مسئلہ ایسا ہی ہے جیسا کہ طلاق اور نکاح ثانی جب ان کو سمجھایا گیا کہ طلاق کے بعد عورت کے ساتھ مرد کا کوئی تعلق نہیں رہتا.اس لئے اس کو حق ہوتا ہے کہ نکاح ثانی کرلے وے مگر نیوگ میں تو عورت اپنے خاوند کے گھر رہتی ہوئی اس کی کہلاتی ہوئی دوسرے کے ساتھ ہم بستر ہوتی ہے اور اولاد حاصل کر کے خاوند کو دیتی ہے.نیز نیوگ بحالت نہ اولاد ہونے کے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اولا د تو ہوتی ہے مگر لڑکیاں ہوتی ہیں لڑکا نہیں ہوتا اس لئے

Page 278

سیرت المہدی 271 حصہ پنجم 66 نیوگ کی اجازت ہے تاکہ لڑکا پیدا ہو جائے اس صورت میں طلاق اور نیوگ میں کیا نسبت ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب صرف لڑکیاں ہوتی ہوں ، جیسا کہ دیا نند نے لکھا ہے ،لڑکا نہ ہو نیوگ چاہئے.انہوں نے کہا کہ ہاں جو کچھ دیا نند نے لکھا ہے اس کو ہم مانتے ہیں.تو اس وقت میں مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس کھڑا تھا.مجھے مولوی صاحب نے کہا کہ کہ دو کہ یہ تو بڑی بے حیائی ہے.چنانچہ میں نے بآواز بلند کہہ دیا کہ یہ تو بڑی بے حیائی ہے.تو حضور علیہ السلام نے سنتے ہی فرمایا کہ ”چپ یعنی خاموش.یہ نہیں کہنا چاہئے.اس کے بعد آریہ چلے گئے تو آریہ دھرم رسالہ شائع ہوا.اللهم صل على محمد وآل محمد ونائب محمد وبارک وسلم انک حمید مجید 1489 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان مجھ کیا کہ مجھے یاد ہے کہ ماہ رمضان مبارک تھا اور گرمی کا موسم تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سردخانہ میں تھے جو قدیمی مکان کے شرقی دروازہ سے ڈیوڑھی کو عبور کرتے ہوئے بجانب شمال تھا.آپ صائم تھے اور میں نے روزہ نہیں رکھا تھا کیونکہ میری عمر ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچی تھی.اور ایک اور شخص جمال نامی جو میاں جان محمد صاحب مرحوم کا بھائی تھا وہاں تھا.ہم دونوں حضرت اقدس علیہ السلام کو دبا رہے تھے.جب سورج مغرب کی طرف مائل ہو گیا ہوا تھا اس وقت چنے سفید رنگ کے جو سرد خانہ کے ایک کونے میں ایک گھڑے میں تھے نکلوائے اور بھنوا کر حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے ہم دونوں کو تقسیم کر دیئے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک نظم جو مولوی غلام رسول صاحب مرحوم قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ کی بعض فقہی کتابوں مثلاً پکی روٹی وغیرہ کے آخر میں درج ہوتی تھی جس کے شعروں کی تعداد بارہ تھی وہ حضرت اقدس کے فرمانے پر سنائی تھی.اس وقت وہ بارہ شعر تو مجھے یاد نہیں.صرف چار یاد ہیں: دلا غافل نہ ہو اک دم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے بغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے نہ بیلی ہو گا نہ بھائی نہ بیٹا باپ اور مائی

Page 279

سیرت المہدی 1490 272 تو کیا پھرتا ہے سودائی عمل نے کام آنا ہے تیرا نازک بدن بھائی جو لیٹے بیج پھولوں پر ہے ہووے گا ایک دن مردار یہ کرموں نے کھانا غلام اک دن نہ کر غفلت حیاتی نہ ہو غره پر خدا کی یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے حصہ پنجم بسم اللہ الرحمن الرحیم.امتہ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم سب باغ میں گئے.یہ خادمہ بھی ہر وقت ابو ہریرہ کی طرح حضور علیہ السلام کے ارد گرد پروانہ کی طرح تھی.کئی عورتیں ساتھ تھیں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ اور حضرت مبارک احمد متینوں جارہے تھے.صاحبزادہ مبارک احمد نے بے قراری سے کہا.ابا سنگترہ لینا.سنگترہ لینا.اور خادمہ ان کے پیچھے پیچھے تھی.حضور علیہ السلام ایک درخت کے پاس گئے اور ہاتھ اوپر کیا اور ایک سنگترہ مبارک احمد کے ہاتھ میں دے دیا.بیوی صاحبہ ہنستی ہوئیں آگے چلی گئیں.میرے ساتھ ایک لڑکی جو بابا حسن محمد کی رشتہ دار تھی اور اس کا نام جیون تھا درخت پر چڑھ گئی.اس نے خیال کیا کہ شاید او پرسنگترے ہیں.ہم سب نے اس کا پتا پتا دیکھا لیکن کوئی سنگترہ نہ ملا.وہ سنگترے کا درخت بہشتی مقبرہ کی طرف تھا.جب یہ عاجز باغ میں جایا کرتی تو وہ بات یاد آ جاتی تھی.ایک دفعہ دیکھا کہ وہاں وہ درخت نہ تھا مجھ کو بڑا افسوس ہوا اور رونا بھی آیا.دل میں کہا ہائے! اگر میں پاس ہوتی تو جن لوگوں نے وہ درخت کاٹا ہے ہرگز کاٹنے نہ دیتی.یہ نشان میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.1491 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد کرم الہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ مخلصین میں سے تھے.جس زمانہ میں براہین احمدیہ جلد دوئم نوراحمد پریس امرتسر میں زیر طباعت تھی.شیخ صاحب موصوف مطبع مذکور میں کاپی نویسی کرتے تھے اور اچھے خوش قلم کاتبوں میں سے تھے.چنانچہ براہین احمدیہ جلد دوئم تمام و کمال ان کی کتابت کردہ ہے.بعد ازاں شیخ صاحب بوجہ انحطاط قویٰ کا پی نویسی کی مشقت سے سبکدوش ہو کر یہاں

Page 280

سیرت المہدی 273 حصہ پنجم پٹیالہ میں آکر اپنی خوشخطی کی وجہ سے فارن آفس ریاست پٹیالہ میں مراسلہ نگاری کی پوسٹ پر بمشاہرہ ۳۰ روپے ماہوار پر ملازم ہو گئے.اور دس بارہ برس ملا زمت میں رہ کر جماعت احمدیہ پٹیالہ میں با قاعدہ چندہ وغیرہ دیتے رہے اور اسی جگہ ایک رات نماز پڑھ کر مسجد سے گھر کو جاتے ہوئے سانپ کاٹنے سے ان کا انتقال ہوا.1492 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محمد کرم الہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ یہاں کے قیام کے دنوں میں حضرت صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے ایک واقعہ اپنا چشم دید بیان کیا جو درج ذیل ہے.شیخ صاحب نے فرمایا کہ جن دنوں میں مطبع مذکور میں براہین احمدیہ جلد دوئم کی کتابت کرتا تھا.ایک درویش نما مسن شخص جو ہندوستان کی طرف کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا کسی کی وساطت سے مطبع کے احاطہ میں آکر بطور ایک مسافر کے مقیم ہوا.شیخ صاحب فرماتے تھے کہ پہلی دفعہ اس کو دیکھنے سے مجھ کو یہ خیال ہوا کہ یہ کوئی مسجد یا یتیم خانہ وغیرہ کے نام سے چندہ کرنے والا ہو گا لیکن چند روز اس کے قیام کرنے سے روزانہ اس کا یہ وطیرہ دیکھا کہ صبح کو اٹھ کر کہیں باہر چلا جاتا اور شام کو آ کر بلا کسی سے بات چیت کرنے کے اپنی مقررہ جگہ پر آکر پڑ جاتا.مجھے خیال ہوا کہ اگر یہ شخص چندہ وغیرہ کا خواہاں ہوتا تو مطبع میں بھی اس کا کچھ تذکرہ کرتا یا امداد کا خواہاں ہوتا.اتفاقاً ایک دن وہ صحن احاطہ میں کھڑے ہوئے مجھ کومل گیا.میں نے پوچھا کہ کیا میں آپ سے دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ یہاں کیسے آئے ہوئے ہیں ؟ اس درویش نے جواب دیا کہ میں ویسے ہی بطور سیاحت پھرتا رہتا ہوں.پھرتا پھراتا اس طرف بھی آنکلا.منشی صاحب نے کہا کہ آپ کی غرض سیاحت کیا ہے؟ اس پر اس شخص نے کہا کہ اس غرض کے معلوم کرنے سے آپ کو کچھ فائدہ نہ ہوگا بلکہ آپ مجھ کو ایک خبطی یا سودائی خیال کریں گے.شیخ صاحب فرماتے تھے کہ اس کے اس جواب پر مجھ کو زیادہ خیال ہوا اور ان سے با اصرار کہا کہ اگر آپ کا حرج نہ ہو تو بیان کر دیجئے اس پر اس درویش نے اپنا قصہ یوں سنایا کہ میرا جس خاندان سے تعلق تھاوہ ایسے لوگ تھے کہ جن کے ہاں بچپن سے ہی نماز روزہ کی تلقین اور دین سے رغبت پیدا کر دی جاتی ہے.مجھ کو سن شعور سے ہی خدا سے ملنے کی آرزو اور اس رسم کے طور پر

Page 281

سیرت المہدی 274 حصہ پنجم عبادات بجالانے کے علاوہ اطمینان قلب حاصل ہونے کی تمنا تھی.میں اپنے اس شوق میں ہر عالم اور بزرگ سے جس سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے یا لوگوں کی زبانی تعریف سن کر پتہ لگتا.میں اس سے ملتا اور اپنی آرزو کا اس سے اظہار کر کے ہمنت راہ نمائی کی خواہش کرتا اور جو در ولیش یا بزرگ کوئی وظیفہ یا چلہ مجھے بتا تا.میں اس کے موافق عمل کرتا لیکن میرا مطلب حل نہ ہوتا تو پھر تلاش میں لگ جاتا ، اس سلسلہ میں تلاش میں ایک درویش نے مجھ کو ایک مقام پر ایک خانقاہ کا پتہ بتا کر کہا کہ ایسے مطالب اس بزرگ کی خانقاہ پر چلہ کرنے سے اکثر لوگوں کو حاصل ہوئے ہیں.درویش صاحب نے کہا کہ میں تو اپنی دھن کا پکا تھا ہی اس سے اچھی طرح پتا پختہ طور پر لے کر سامان سفر کر اس خانقاہ پر جا پہنچا اور حسب ہدایت اس درویش کے وہاں چلہ شروع کر دیا ابھی اس چلہ کو نصف تک نہیں کیا تھا کہ ایک رات رویاء میں ایک بزرگ نظر آئے ایک صاحب اور ان کے برابر کھڑے ہوئے تھے اور وہ اول الذکر بزرگ اس وقت میرے خیال میں وہ صاحب خانقاہ بزرگ تھے جس پر میں چلہ میں مصروف تھا.بزرگ موصوف نے میری طرف مخاطب ہو کر فر مایا کہ یہاں ناحق اپنا وقت ضائع نہ کرو اور اپنے برابر کھڑے دوسرے صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اگر تمہاری مراد پوری ہو سکتی ہے تو ان سے فیض حاصل کرو.“ میں نے ان دوسرے صاحب کی طرف بغور دیکھا اور ہنوز یہ دریافت کرنے نہ پایا تھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ کیا نام ہے؟ اور کہاں رہتے ہیں؟ کہ کسی نے مجھ کو جگا دیا یا خود آنکھ کھل گئی.وو 1493 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد کرم الہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے بیان کیا کہ درویش مذکور نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کے بعد میں ایام چلہ پورا کرنے تک وہاں ٹھہرا اور چلہ پورا ہونے پر بھی جب کوئی انکشاف مزید نہ ہوا تو واپس ہوکر اس روز سے اپنا یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ گھر بار سے قطع تعلق کر کے ہر قصبہ و شہر ودیار میں پڑا پھرتا ہوں اور جس جگہ کسی بزرگ کا پتہ لگتا ہے اس کو جا کر دیکھ لیتا ہوں اور جب وہ میرے مطلوبہ حلیہ سے مطابقت نہیں رکھتا تو واپس ہو کر کسی اور طرف کو چلا جاتا ہوں.دس بارہ برس سے نہ مجھ کو گھر والوں کی خبر ہے نہ ان کو میری.سارا ہندوستان چھان کر اب پنجاب میں آیا ہوں.یہاں امرتسر میں پانچ سات اشخاص کا لوگوں نے مجھ کو پستہ دیا

Page 282

سیرت المہدی 275 حصہ پنجم لیکن اس حلیہ سے جس کا نقشہ فوٹو کی طرح میرے دل پر ہے کسی کو مطابق نہیں پایا.اب مین ایک آدھ روز میں یہاں سے کسی اور طرف کو چلا جاؤں گا.یہی میری سیاحی کا مدعا اور غرض ہے.شیخ صاحب فرماتے تھے کہ اس کی سرگذشت سن کر مجھ کو حیرت بھی ہوئی اور اس کے حال پر رحم بھی آیا.حیرت تو اس لئے کہ کس عزم و استقلال کا یہ شخص ہے کہ ایک امید موہوم کے پیچھے اور محض ایک خواب کی بات پر اپنا گھر بار اور سب کچھ چتی کہ اپنی زندگی بھی اسی بازی پر لگائے پھر رہا ہے اور رحم اس لئے کہ اگر ایسا شخص اس کو نہ ملا تو بیچارہ کی ساری زندگی کسی مصیبت میں گزرے گی؟ اور اس نے ایسی منزل اختیار کی ہے جس کا انجام لا پتہ ہے.اگر وہ شخص آپ کو نہ ملا تو پھر آپ کیا کریں گے.اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اپنے اخیر دم تک اسطرح مصروف رہوں گا اور جہاں موت آجاوے مر رہوں گا.تا مجھے بارگاہ ایزدی میں یہ کہنے کا حق ہو کہ میری طاقت اور بساط میں جو تھا اس میں میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی.اب اگر میری قسمت میں نہ تھا تو میرے اختیار کی بات نہ تھی.شیخ صاحب نے اس پر کہا کہ ایک بزرگ کا پتہ میں بھی آپ کو بتا دوں ؟ اس نے کہا کہ مجھے اور کیا چاہئے؟ شیخ صاحب نے حضرت صاحب کا پتہ ان کو بتایا کہ یہاں سے چار پانچ اسٹیشن ایک مقام بٹالہ شہر ہے.اس سے دس گیارہ میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹا قصبہ قادیان نامی ہے وہاں ایک بزرگ مرزا غلام احمد نام ہیں.صاحب الہام ہونے کا ان کا دعویٰ ہے.اسلام اور قرآن مجید کی حمایت میں انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو اسی مطبع میں چھپ رہی ہے اگر آپ چاہیں تو اس کی کا پیاں میں آپ کو دکھا سکتا ہوں.اس میں انہوں نے اپنے الہام اور پیشگوئیاں بھی درج کی ہیں اور عیسائیوں ، آریوں اور بر ہموسماجیوں کے اعتراضات کے جو انہوں نے اسلام اور قرآن مجید کے متعلق کئے بڑے پر زور جواب دئے ہیں اور لوگوں کو مقابلہ کے لئے بلایا ہے اور ان کی مسلمہ کتب پر ایسے اعتراضات کئے ہیں کہ تمام ملک میں اس کا چرچا ہے اور ہندوستان و پنجاب کے بڑے بڑے علماء اور اخبارات نے اس کی بڑی تعریف کی ہے کہ ایسی کتاب آج تک اسلام کی تائید میں نہیں لکھی گئی.آپ نے جہاں اور بزرگوں کو دیکھا ہے یہاں سے کچھ دور نہیں ہے ان کو بھی دیکھ لو اس پر وہ درویش صاحب بولے کہ نہیں منشی صاحب ایسے اصحاب جو بحث و مباحثہ اور جھگڑے کرنے والے ہوں.میری گوں کے نہیں ہیں.میرا کام تو اگر خدا کو منظور ہے تو کسی

Page 283

سیرت المہدی 276 حصہ پنجم تارک الدنیا بزرگ سے بنے تو بنے.نہیں تو جو خدا کی مرضی.شیخ صاحب یہ سن کر خاموش ہو کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے.شیخ صاحب فرماتے تھے کہ ان ایام میں میرا معمول تھا کہ ہفتہ بھر جس قدر براہین احمدیہ کی کاپی کرتا ہفتہ کے روز خود قادیان لے جا کر اس کے پروف حضرت صاحب کے پیش کرتا بعد ملاحظہ اتوار کو پروف لے کر بغرض طباعت امرتسر واپس آ جاتا.1494 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد کرم الہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی فرماتے ہیں کہ درویش سے اس گفتگو کے بعد چونکہ ان کی بات کا میرے دل پر ایک اثر تھا ، جس ہفتہ کے دن میں نے قادیان کو پروف لے کر جانا تھا میں درویش مذکور کو پھر ملا اور اس سے کہا کہ میں بھی پروف لے کر جانے والا ہوں اگر آپ چلے چلیں تو کیا حرج ہے؟ سیر ہی ہو جائے گی.میرے ساتھ ہونے کے سبب آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی.میرے ساتھ واپس آکر پھر جدھر آپ کا جی چاہئے روانہ ہو جانا.اگر آپ کو کرایہ کا خیال ہے تو امر تسر سے واپسی تک کا کرایہ میں دینے کو بخوشی آمادہ ہوں.اس پر اس درویش نے کہا کہ نہیں کرایہ وغیرہ کا کچھ خیال نہیں.میں پہلے بھی پھرتا ہی رہتا ہوں.آپ کہتے ہیں تو میں چلا چلوں گا.شیخ صاحب فرماتے تھے کہ کچھ بادل ناخواستہ سا میرے کہنے پر وہ چلنے کو تیار ہو گیا اور دونوں امرتسر سے بسواری ریل روانہ ہوئے اور بارہ بجے دن کے گاڑی اسٹیشن بٹالہ پر پہنچی وہاں سے بسواری یکہ قادیان کو چل پڑے.جب نہر کا پل عبور کر کے اس مقام پر پہنچے جہاں سے قادیان کی عمارات نظر آنے لگتی ہیں.تو شیخ صاحب نے ان عمارات کی طرف اشارہ کر کے درویش صاحب سے کہا کہ ” یہ عمارات اسی قصبہ کی ہیں جہاں ہم نے جانا ہے.اس پر اس درویش نے ایک آدمی کھینچ کر کہا کہ منشی صاحب! خدا کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ بزرگ یہی ہوں جن کے پاس آپ مجھے لے جارہے ہیں جن کا حلیہ میرے دل کی لوح پر نقش ہے.اس پر شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس روز تو آپ نے فرمایا تھا کہ ایسے لوگوں سے میری مراد پوری ہونے کی امید نہیں پڑتی.پھر کس بات نے آپ کی رائے میں تبدیلی پیدا کر دی؟ اس کے جواب میں درویش مذکور نے کہا کہ اس کی کوئی مدلل وجہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر ایک کیفیت ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ جنگل میں کوئی پیاسا پانی کی تلاش میں سرگردان ہو اس کو پانی تو ابھی نہ ملے لیکن دریا پر سے

Page 284

سیرت المہدی 277 حصہ پنجم گزر کر آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پانی کے قریب ہونے کا یقین دلا کر اس کے قلب کی تسکین کا موجب اور پانی تک پہنچنے کی امید دلائیں.ایسا ہی جوں جوں یہ مقام نزدیک آ رہا ہے میری روح پر ایک پر سرور کیفیت طاری معلوم ہوتی ہے جو اس سے قبل کسی اور جگہ نہیں دیکھی گئی.شیخ صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ جو کچھ بھی خدا کو منظور ہے ہو گا اب تو صرف آدھ گھنٹہ کا وقفہ ہے آپ چل کر دیکھ لیں گے.شیخ صاحب نے فرمایا کہ دو بجے کے بعد ہم دونوں قادیان پہنچ گئے.مہمان خانہ میں سامان سفر رکھ کر وضو کیا جب باہر نکلے تو مسجد مبارک کی جانب سے آنے والے ایک شخص کی زبانی دریافت پر معلوم ہوا کہ نماز ظہر ہو چکی ہے مگر حضرت صاحب ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں.ہم دونوں ذرا قدم اٹھا کر اوپر گئے.حضرت صاحب دروازہ کی طرف رخ کئے ہوئے سامنے تشریف فرما تھے.چند خدام کا حلقہ تھا.دروازہ مسجد میں جا کر جب ہم دونوں کھڑے ہوئے تو اس درویش نے شیخ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دعائیں دیتے ہوئے کہا.خدا آپ کا بھلا کرے آپ نے تو میری کٹھن منزل کا خاتمہ کر دیا.میں نے انہی صاحب کو جو سامنے تشریف فرما ہیں.رویاء میں دیکھا تھا اور میں ہرگز اس شناخت میں غلطی نہیں کرتا.شیخ صاحب نے اس کو مبارکباد کہا اور مسجد میں داخل ہو کر حضرت صاحب سے مصافحہ کیا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب براستہ دریچہ اندرون تشریف لے گئے اور ہم نے نماز ظہر ادا کی.1495 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد کرم الہی صاحب پٹیالہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے مجھ سے بیان کیا کہ نماز ظہر کے بعد میں نے پروف پیش کرنے کی اطلاع کرائی.حضرت نے متصلہ کمرہ میں تشریف فرما ہو کر مجھے اندر بلالیا.میں نے اول پروف پیش کئے اور پروف کے متعلق ضروری بات چیت کے بعد اس درویش کا قصہ مفصل عرض کیا اور کہا کہ میں امرتسر سے اس کو آج اپنے ہمراہ لایا ہوں اور کہ اس نے حضور کو دروازہ سے دیکھتے ہی شناخت کر کے بتایا ہے کہ میں نے آپ کو ہی رویاء میں دیکھا تھا.پھر حضرت صاحب سے اجازت لے کر اس کو اندر بلالیا.اس کے بیٹھتے ہی پہلا سوال اس سے حضرت صاحب نے یہ فرمایا کہ آپ کو اپنی شناخت میں تو شک وشبہ نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا حضور ! ہر گز نہیں.میں نے اسی شکل و شباہت اور ٹھیک اسی لباس میں جو اس وقت حضور نے پہنا

Page 285

سیرت المہدی 278 حصہ پنجم ہوا ہے حضور کو دیکھا ہے.یہی لنگی اسی بندش کے ساتھ زیب سر تھی.اس کے بعد حضرت صاحب نے شیخ صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر خدا سے ملنے کی کسی دل میں طلب صادق ہو تو کچھ مدت بطور ابتلا اور آزمائش اس کو تعویق میں رکھ کر اس کو عزم اور استقلال کی منازل سے گزار کر آخر خود اس کی ہدایت کا سامان مہیا کر دیتا ہے اس کے بعد ہم باہر آ گئے.1496 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد کرم الہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے بیان کیا کہ اگلے روز جب میں چلنے لگا تو درویش صاحب سے ان کا ارادہ پوچھا.اس نے کہا کہ بس میں اب کہاں جاؤں گا ؟ آپ جائیں.میں تو حضرت صاحب جو حکم دیں گے اس کے موافق کار بند رہوں گا.شیخ صاحب اس کو وہیں مہمانخانہ میں چھوڑ کر تنہا امرتسر واپس آگئے.اگلے ہفتہ پھر گئے.درویش صاحب سے دریافت پر اس نے یہ کہا کہ نمازیں مسجد میں جا کر پڑھ لیتا ہوں اور جس وقت تک حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں حاضر رہتا ہوں اس کے بعد مہمانخانہ آکر پڑھتا ہوں اور اللہ اللہ کئے جاتا ہوں.حضرت صاحب نے کچھ خاص طور پر فرمایا نہیں اور مجھ کو کچھ کہنے کی یا در یافت کرنے کی جرات نہیں ہوئی.شیخ صاحب نے فرمایا کہ اسی طرح جب حسب معمول تین چار دفعہ ہر ہفتہ پروف لے کر قادیان جاتا اور آتا رہا.اس شخص نے ہر دفعہ وہی جواب دیا جو اول دفعہ دیا تھا.آخر ایک دفعہ جو میں گیا تو اس نے حضرت صاحب کے بارہ میں تو وہی کیفیت ظاہر کی لیکن مجھ سے خواہش کی کہ چونکہ اب مجھے اپنی تلاش میں تو خدا تعالیٰ نے کامیابی عطا فرما دی ہے، دو تین دن سے مجھے خیال آرہا ہے کہ اگر حضرت صاحب اجازت فرماویں تو میں اپنے متعلقین کی وطن جا کر خبر لے آؤں.کیونکہ مجھے ان کے مرنے جینے کا اور ان کو میرا اس لمبے عرصہ تک کچھ پتہ نہیں ملا اور چونکہ میں خود حضرت صاحب سے دریافت کرنے کی جرات نہیں رکھتا آپ اگر حضرت صاحب سے اس بارہ میں تذکرہ فرما دیں تو جیسا پھر حضرت صاحب کی طرف سے اشارہ ہوگا.میں اسی کے موافق عمل کروں گا.منشی صاحب نے فرمایا کہ جب میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے درویش صاحب کی اس خواہش کا ذکر کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ! وہ بڑی خوشی سے جاسکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ ضرور جا کر اپنے بال بچہ کی خبر گیری کرنی

Page 286

سیرت المہدی 279 حصہ پنجم چاہئے.جب اس کا جی چاہے وہ پھر آسکتا ہے.میں نے حضرت صاحب سے اجازت لے کر اس کو اندر بلا لیا تا کہ وہ حضرت صاحب کا ارشاد خود حضور کی زبان سے سن لے.اس کی حاضری پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ جاسکتے ہیں اور پھر جب چاہے آسکتے ہیں.اسپر اس نے بطور ورد و و وظائف کچھ پڑھنے کے لئے دریافت کیا.حضور نے فرمایا کہ انتباع سنت اور نمازیں سنوار کر پڑھنا سب سے اعلیٰ وظیفہ ہے اس کے علاوہ چلتے پھرتے درود شریف، استغفار اور جس قدر وقت فراغت میسر ہو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا کافی ہے.ہمارے ہاں الٹے لٹک کر یا سردی میں پانی میں کھڑے ہو کر چلہ کرنے کا خلاف سنت کوئی طریق نہیں ہے.اس پر اس درویش نے باصرار کہا کہ میں چونکہ سن شعور سے ہی مجاہدات کا عادی ہوں.اس لئے بطریق مجاہدہ اگر کچھ فرما دیا جاوے تو میں اب اس کے موافق کار بند رہوں گا.اس کی یہ بات سن کر حضرت صاحب اٹھے اور اندر جاکر ایک پلندہ براہین احمدیہ کے اس حصہ کا جو اس وقت تک شائع ہوا تھا اٹھا لائے اور اس کو دے کر فرمایا کہ ”لو جہاں جاؤ اس کو خود بھی پڑھو اور دوسرے لوگوں کو بھی سناؤ.خدا نے اس وقت کا یہی مجاہدہ قرار دیا ہے.منشی صاحب نے فرمایا کہ اس کے بعد ہم باہر آگئے.اگلے روز وہ شخص میری معیت میں امرتسر آ گیا.وہاں سے اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گیا پھر اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی.1497 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ "کتب فقہ پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے.“ 1498 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو بخشنے کے لئے بہانے لبھدا ہے ( یعنی تلاش کرتا ہے ).1499 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں شیخ صاحب بھائی عبدالرحیم صاحب ( سابق نام جگت سنگھ ) نے اسلام قبول کیا.چند روز بعد موضع سرسنگھ جہال سے جو شیخ صاحب موصوف کا اصلی گاؤں ضلع امرتسر یا ضلع لاہور میں ہے ان کے رشتہ دار جو خوب قد آور اور جوان تھے پانچ چھ کس قادیان میں شیخ صاحب کو واپس لے جانے کی نیت سے آئے.

Page 287

سیرت المہدی 280 حصہ پنجم میں اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مطب میں بیٹھا ہوا تھا اور شیخ عبدالرحیم صاحب بھی وہاں ہی بیٹھے ہوئے تھے.حضرت مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ اس کو اپنے گاؤں سیکھواں میں ہمراہ خود لے جاؤ.چنانچہ میں نے فورا تعمیل کی اور ہم دونوں سیکھواں پہنچ گئے چونکہ سیکھواں میں کثرت سکھ قوم کی تھی انہوں نے سکھ برادری سے میل جول کیا.بعد میں ہمارے مکان پر پہنچ گئے اور شیخ صاحب سے بخوشی مل ملا کر آخر مطالبہ کیا کہ ہم گاؤں سے باہر لے جا کر کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں.اگر چہ شیخ صاحب اور ہم ان کے اس مطالبہ کو پسند نہ کرتے تھے.لیکن ان کے جذبہ مطالبہ کو بوجہ رشتہ داری نظر انداز کرنا مناسب نہ خیال کر کے رضا مندی دے دی گئی جب گھر سے باہر نکلے تو تھوڑے فاصلہ پر جا کر ایک میدان ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں اور سکھ وغیرہ جمع تھے یہی گفتگو چھڑ گئی.شیخ صاحب نے رشتہ داران خود کو کہا کہ ” اگر تم زبر دستی مجھ کو ساتھ لے جاؤ گے تو میں پھر آجاؤں گا اور مسلمان ہو جاؤں گا.“ اس پر ایک سکھ جو سیکھواں کا باشندہ اور روڑ سنگھ نام تھا، بڑے جوش سے بولا کہ ” خواہ مخواہ نرم نرم باتیں کرتے ہو.ڈانگ پکڑ کر آگے لگاؤ.ہم بھی وہاں کھڑے تھے.اس سکھ کے جواب میں ہماری طرف سے ہمارے بڑے بھائی میاں جمال الدین صاحب مرحوم نے کہا کہ ” دیکھو! اگر شیخ صاحب عبد الرحیم جو ہمارا بھائی ہے اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ چلا جاوے تو ہم روک نہیں سکتے اور اگر زبردستی لے جانا چاہو تو پہلے ہم کو مارلو گے تو اس کو لے جاؤ گے ورنہ ہر گز نہیں لے جا سکتے.پس اس پر سلسلہ گفتگو ختم ہوا.آخر انہوں نے التجا کی کہ ہم اس کو الگ لے جا کر ایک بات کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر چھپڑر ( جو ہر ) تھا وہاں چلے گئے اور ہم بھی اپنے پہرے پر کھڑے رہے کہ آخر شیخ صاحب نے ان کی کوئی نہ مانی.وہ وہاں سے ہی واپس چلے گئے اور شیخ صاحب ہماری طرف آگئے.اس وقت ہم مع شیخ صاحب قادیان پہنچ گئے.شام کی نماز کے بعد حضرت اقدس کے حضور تمام حالات بیان کئے گئے.حضور علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ”مولوی صاحب نے بہت غلطی کی کہ قادیان سے باہر ان کو بھیج دیا.قادیان سے زیادہ امن کی جگہ کون سی ہے؟“ 1500 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ عائشہ صاحبہ بنت احمد جان صاحب خیاط پیشاوری وز وجه

Page 288

سیرت المہدی 281 حصہ پنجم چوہدری حاکم علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جب بڑا زلزلہ آیا تو ہم سب حضور علیہ السلام کے ساتھ باغ میں چلے گئے تھے.میں قریباً آٹھ سال کی تھی.حضرت اماں جان نے باغ میں جھولا ڈالا ہوا تھا.میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ میرمحمد الحق صاحب بنت پیر منظور محمد صاحب ، میری بہن فاطمہ بیگم وفہمیدہ وسعیده بنت پیر افتخار احمد صاحب ہم سب جھولا جھول رہی تھیں.جب میری باری آئی تو حضوڑ وہاں سے گزرے.حضور علیہ السلام ہمیں دیکھ کر ہنسے.1501 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل نے بواسطہ محترمہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اور رسول بی بی صاحبہ اہلیہ خورد با بوشاہ دین ہم دونوں رات کو حضور علیہ السلام کے پیر دبایا کرتے تھے.ایک دن حضور نے فرمایا کہ ”جب مجھے الہام ہونے لگے تو مجھے جگا دیا کرو.حضور کو الہام ہونا شروع ہوا تو وہ کہتی تھی کہ تو جگا اور میں کہتی تھی تم جگاؤ آخر میں نے کہا کہ حضور کا حکم ہے اگر نہ جگایا تو گناہ ہوگا.ہم نے جگا دیا.حضور نے دریافت کیا کہ تم نے کچھ سنا ہے یا تم کو کچھ معلوم ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں، قلم دوات حضور کے سرہانے تھی حضور نے لکھ لیا.فرمایا کہ اب میں پہلے وقت تم کو ہی پہرہ پر رکھا کروں گا.بارہ ایک بجے الہام ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ہمیں معلوم تھا کہ جب حضور کو الہام ہونے لگتا تھا تو حضور کو عموماً سردی محسوس ہوتی تھی جس سے کچھ کپکپی ہو جاتی تھی اور حضور کچھ گنگنایا بھی کرتے تھے.1502 بسم اللہ الرحمن الرحیم.لال پری صاحبہ پٹھانی دختر احمد نور صاحب کا بلی نے بواسطہ مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم اپنے وطن سے آئے تھے تو میری آنکھیں بہت درد کرتی تھیں اور ہر موسم میں آجاتی تھیں.وطن میں بھی علاج کیا.قادیان میں بھی بہت علاج کیا.کوئی آرام نہیں ہوتا تھا.ایک دن میں نے اپنی والدہ مرحومہ سے کہا میرا دل چاہتا ہے کہ میں حضرت اقدس کی خدمت میں جاؤں اور آنکھوں کو دم کراؤں.شاید میں اچھی ہو جاؤں؟“

Page 289

سیرت المہدی 282 حصہ پنجم والدہ صاحبہ مرحومہ نے کہا کہ ہاں فوراً جاؤ.کوئی پیالی بھی دی تھی کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھوک بھی لے آنا.میں جب گئی تو حضرت چار پائی پر بیٹھے تھے.رخ مغرب کی طرف تھا.حضور علیہ السلام نے فرمایا ” کیوں لال پری ! کس طرح آئی ہے.میں نے ہاتھ آنکھوں پر رکھا ہوا تھا.میں نے کہا کہ حضور آنکھیں دکھتی ہیں ، بہت علاج کیا اچھی نہیں ہوتیں.آپ نے اپنی انگلی پر تھوک لگا کر میری آنکھوں کے ارد گرد لگا دیا.فرمایا بس ! پھر کبھی ایسی درد نہ کریں گی اور ہنس کر کہا.”اچھی ہوگئی ؟ گھر آئی ! میں نے آنکھیں کھول لیں.پھر مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی.1503 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی امیری نائین والدہ عبدالرحیم صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمه مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام بہت نیک تھے اور بہت عبادت گزار تھے.ادھر ادھر گلیوں میں کبھی نہیں پھرتے تھے.عموماً گھر پر ہی رہتے تھے یا مسجد میں جاتے تھے.جانو کشمیری عموماً خدمت میں ہوتا تھا.حافظ مانا بسا اوقات رات دیر تک پیرد بایا کرتا تھا.حضور علیہ السلام کالباس سادہ ہوتا تھا.جب دہلی اپنے نکاح کے لئے گئے تھے.تو یونہی سادگی سے چلے گئے تھے.1504 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سعیدہ بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد علی صاحب مرحوم بدوماهوی مہاجر و اہلیہ وزیر محمد صاحب مرحوم پینشنز مہاجر نے بواسطہ مکرم محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میری والدہ مرحومہ نے ، جب حضور علیہ السلام من ہی میں پلنگ پر تشریف فرما تھے ، آپ کی خدمت میں کہا کہ میری یہ لڑکی درمشین میں سے یہ شعر پڑھا کرتی ہے اس پر سراج منیر سے حضرت اقدس نے خاکسارہ کو فرمایا کہ ” پڑھو، سناؤ خاکسارہ نے فداہ نفسی وہ تمام شعر سنا دیئے جن کا پہلا شعر یہ ہے.ڈال دی." زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے.حضور نے سر پر پیار کیا اور دونوں دست مبارک سے باداموں کی مٹھی بھر کر خاکسارہ کی جھولی میں 1505 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب و بنت ڈاکٹر

Page 290

سیرت المہدی 283 حصہ پنجم سید عبدالستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بارش سخت ہو رہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکوایا کرتے تھے.انہوں نے کھانا حضوڑ اور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سونہ جائیں ، باقی کھانا بعد میں بھجوا دیں گے.حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں ؟“ جواب ملا کہ نہیں.ان دنوں دادی مرحومہ وہاں رہا کرتی تھیں.حضور نے کھانا اٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایا اور فرمایا کہ ” پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھالیں گے.“ 1506 بسم اللہ الرحمن الرحیم.استانی رحمت النساء بیگم صاحبہ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی محمد یوسف صاحب سعدی نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی.آپ ۳۱۳ میں سے تھے اور سنور کے رہنے والے تھے.میں ۱۹۰۷ء میں حضور کے قدموں میں آئی.میں اور میرا خاوند ہم دونوں موسمی تعطیلات میں قادیان آئے اور میں حضور کے گھر کے نچلے حصہ میں ٹھہری.سخت گرمی تھی اور میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے جو نیچے کھیلتے رہتے تھے.آپ کی دونوکرانیاں تھیں جو بچوں سے اکتا کر ان کو اور مجھ کو برا بھلا کہتی تھیں.ایک عرصہ تک میں ان کی باتوں کو سنتی رہی.آخر ایک دن میرا خاوند آیا تو میں نے اس سے شکایت کی.میرے خاوند نے ایک رقعہ لکھ کر مجھ کو دیا کہ حضرت مسیح موعود کو دے دینا.جب میں وہ رقعہ لے کر دو پرگئی تو آپ اور اماں جان چوبارہ پر ٹہل رہے تھے.جب میں نے سلام کہا تو آپ ٹھہر گئے اور رقعہ لے لیا.میں نیچے اتر آئی.ابھی نیچے اتری ہی تھی کہ آپ نے ایک عورت کو جس کا نام فجو تھا مجھے بلانے کے واسطے بھیجا.جب میں حضور میں پہنچی تو آپ نے محبت آمیز لہجہ میں جو باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ محبت کے ساتھ فرمایا تم ان کی باتوں سے غم نہ کرو.انہوں نے جو تم کو برا بھلا کہا ہے وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے.پھر آپ نے ان عورتوں کو خوب ڈانٹا اور ان میں سے ایک کو تو فور انکل جانے کا حکم دیا اور دوسری کو خوب ڈانٹا اور فرمایا ” کیا میرے مہمان جو اتنی گرمی میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر ،اپنے آراموں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں تم ان کو برا بھلا کہتی ہو.کیا وہ صرف لنگر کی روٹیاں کھانے آتے ہیں؟ اور

Page 291

سیرت المہدی 284 حصہ پنجم میرے متعلق کہا کہ اس لڑکی کو آئندہ کچھ تکلیف نہ ہو.“ تھوڑے عرصہ بعد میاں مبارک احمد صاحب بیمار ہو گئے تو ہم اکثر او پر رہتی تھیں.ہم نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر کسی قسم کے غم کے آثار نہیں تھے.جب میاں مبارک احمد صاحب نے وفات پائی تو آپ دیکھ کر اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر چوبارہ پر تشریف لے گئے اور اس وقت تک نہ اترے جب تک جنازہ تیار نہ ہوا.آپ کو فطرتی غم تھا اور ایک طرف خوشی بھی تھی.کہ خدا تعالی کی پیشنگوئی پوری ہوئی.آپ فرماتے تھے کہ اللہ کی امانت تھی جو کہ خدا کے پاس چلی گئی.لیکن جب بھی میں آپ کو دیکھتی آپ کو خوش ہی دیکھتی.آپ اپنے مہمانوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے.جب ہماری چھٹیاں ختم ہونے کو آئیں تو میں نے حضور علیہ السلام سے گھر جانے کی اجازت مانگی جو کہ حضور علیہ السلام نے بخوشی منظور کر لی.1507 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ اہلیہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح کے وقت آفتاب نکلنے کے بعد بسراواں کی طرف سیر کرنے کے واسطے تشریف لے گئے.آپ کے ہمراہ حضرت اُم المومنین کے علاوہ چند اور عورتیں بھی تھیں.جن میں سے میرے علاوہ مرزا خدا بخش صاحب جھنگ والے کی بیوی ام حبیبی، محمد افضل صاحب کی بیوی سردار، حافظ احمداللہ صاحب کی بیوی اور اہلیہ حضرت خلیفہ اسی اول وغیرہ بھی تھیں.ان دنوں حضور علیہ السلام کے ہمراہ صبح کو پانچ چھ عورتیں اور حضرت اُم المومنین سیر کو جایا کرتی تھیں اور عصر کے بعد مرد جایا کرتے تھے.بعض اوقات صبح کو بجائے عورتوں کے مرد ہی صبح کو جایا کرتے تھے.حضور علیہ السلام اکثر محلہ دارالانوار کی طرف والے رستہ پر سیر کے لئے جایا کرتے تھے.بعض دفعہ حضور جب سیر کے واسطے نکلتے تو سکھ لوگ بے ادبی کے کلمات زبان سے نکالتے جو حضوڑ اور حضور کے ہمراہ عورتوں کو سنائی دیتے تھے مثلاً " مرزا بھیڑ بکریاں لے کر باہر نکلتا ہے.“ جب سکھ لوگ اس طرح کے فقرے لگاتے تو بعض اوقات مرزا خدا بخش اور محمد افضل صاحب کی بیوی حضوڑ

Page 292

سیرت المہدی 285 حصہ پنجم کو توجہ دلائیں تو حضور فرماتے.ان کو بولنے دو تم خاموش رہو اور ادھر توجہ ہی نہ کرو.“ 1508 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ عصمت بیگم صاحبہ عرف زمانی اہلیہ حکیم حمد زمان صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز حضور علیہ السلام سوئے ہوئے تھے اور میں پیر کی طرف فرش پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ پیر د بارہی تھی.حضوڑ کے پیر مبارک کا انگوٹھا ہل رہا تھا.اتنے میں اماں جان آئیں اور حضور کو آواز دی کہ سنتے ہو ، سنتے ہو.حضور کی آنکھ کھل گئی.حضور نے فرمایا کہ "تم نے مجھ کو جگا دیا الہام ہورہا تھا.کیا پتہ کہ زمانی کے لئے ہو رہا تھا اس کا بھلا ہو جاتا.“ میں روز حضور کے پاس دعا کے لئے جاتی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے اب میری چار لڑکیاں اور ایک لڑکا سلامت ہیں.“ 1509 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ عائشہ صاحبہ بنت احمد جان صاحب خیاط پشاوری زوجہ چوہدری حاکم علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء میں جب میری والدہ مرحومہ فوت ہو گئی تھیں تو مجھے اماں جی اہلیہ خلیفہ اول اپنے گھر لے گئیں.ناشتہ وغیرہ کرایا.پھر چار پانچ یوم کے بعد حضرت اُم المومنین مجھے اپنے گھر لے آئیں.جہاں اب اماں جان کا باورچی خانہ ہے وہاں میرا سر دھلوا رہی تھیں.ایک عورت میرے سر میں پانی ڈالتی جاتی تھی.حضرت اُم المومنین میرے سر کو صابن مالتیں اور دھوتی تھیں.وہ عورت پانی زیادہ ڈال دیتی تھی.حضور علیہ السلام وہاں ٹہل رہے تھے.حضور علیہ السلام نے لوٹا اس کے ہاتھ سے لے کر میرے سر پر پانی ڈالا.پھر حضور علیہ السلام آہستہ آہستہ پانی ڈالتے جاتے تھے اور اُم المومنین کنگھی کرتی جاتی تھیں.حضور فرماتے کہ اس طرح جوئیں نکل جائیں گی.“ 1510 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم و خوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب (جٹ ) فاضل نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبه والده خلیفه صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور کو گڑ کے میٹھے چاول بہت پسند تھے.حضور مسجد میں کھانا

Page 293

سیرت المہدی 286 حصہ پنجم کھا رہے تھے کہ میں نے میٹھے چاول بھیج دئے.حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پوچھا کہ یہ چاول کس نے پکائے ہیں ؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور ! مجھے معلوم نہیں.حضور نے فرمایا کہ ” حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے پکا کر بھیجے ہیں.بہت اچھے پکائے ہیں ان کے واسطے دعا کرو.“ 1511 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ لال پری صاحبہ پٹھانی دختر احمد نور صاحب کا بلی نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میری والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دبارہی تھیں.آپ کے پاس کوئی جامن لایا.آپ نے جامن کھا کر گٹھلی پھینک دی میں نے والدہ سے کہا کہ اس کو میں اپنے منہ میں ڈال لوں.اس پر تھوک لگا ہے.جب میں نے منہ میں ڈالی تو آپ نے میری طرف نظر کر کے جامن دئے.میری والدہ نے عرض کیا کہ نہیں حضور ! وہ تبرک چاہتی تھی.حضور نے فرمایا کہ ” آپ کی بات سمجھ گیا ہوں یہ بھی تبرک ہے.حالانکہ میں نے پشتو زبان بولی تھی.1512 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن فجر کے وقت حضور علیہ السلام شہ نشین پر ٹہل رہے تھے.میں اور ہمشیرہ زینب اور والدہ صاحبہ نما ز پڑھنے کے لئے گئیں تو آپ نے فرمایا.آؤ تمہیں ایک چیز دکھا ئیں.یہ دیکھو یہ دمدار تارا ہماری صداقت کا نشان ہے.اس کے بعد بہت سی بیماریاں آئیں گی.“ چنانچہ طاعون اس قدر پھیلا کہ کوئی حد نہیں رہی.1513 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ اہلیہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ ❤ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ صبح کے وقت حضور بسر اواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے.جس وقت چھوٹی بھینی جو بڑی بھینی کے مشرق کی طرف ہے کے پاس سے گزر کر ذرا آگے بڑھے توام حبیبہ زوجہ مرزا خدا بخش صاحب نے کہا کہ حضور ! اب آگے نہ بڑھیں میں تھک گئی ہوں.اب واپس چلیں.تو حضور علیہ السلام نے ہنس کر فر مایا کہ ” تم ابھی تھک گئی ہو یہ

Page 294

سیرت المہدی 287 حصہ پنجم بھی تو قادیان کے اندر آ جائے گی.اس وقت تم کو یہاں کسی کے گھر آنا پڑا تو اس وقت کیا کروگی ؟“ 1514 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صو با ارائیں منگل نے بواسطہ مکرمہ محترمه مراد خاتون صاحبه والده مکرمه خلیفه صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ایک دفعہ منگل کی طرف سیر کو تشریف لائے.میں نے جو آتے دیکھا تو ایک کٹورے میں گرم دودھ اور ایک گڑ کی روڑی لے کر آئی.حضور نے فرمایا کہ اس لڑکی نے بڑی مشقت کی ہے کہ ایک ہاتھ میں گرم دودھ اور دوسرے میں گڑ لائی ہے.حضور میرے گھر کے دروازے پر جواب سڑک ہے، کھڑے ہو گئے اور جو اصحاب ساتھ تھے وہ بھی ٹھہر گئے.پھر اس دودھ میں سے خود بھی ایک دو گھونٹ نوش فرمائے اور باقی تمام ہمراہیوں نے تھوڑا تھوڑا پیا.حکیم مولوی غلام محمد صاحب بھی تھے اسے کہا گڑ کی ڈھیلی توڑو تو وہ تو ڑ نہ سکے.تو حضور نے خود ہتھیلیوں سے دبا کر توڑی اور ان کو کہا سب کو تھوڑا تھوڑا گر بانٹ دو.خود بھی چکھا تھا.1515 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مراد بی بی صاحبہ بنت حاجی عبد اللہ صاحب ارائیں منگل نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں تیرہ یا چودہ سال کی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں آیا کرتی تھی.ایک بار میں اور میرا باپ گنے کا رس لے کر آئے تھے.میرا باپ ڈیوڑھی میں اس کا گھڑا لے کر کھڑا رہا اور میں اپنارس کا برتن لے کر اندرگئی.اماں جان بیٹھی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے تھے.حضرت اماں جان نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ رس پیئں گے؟ دودھ ملا کر دیں؟ حضور نے فرمایا کہ ہاں.حضرت اماں جان نے رس چھان کر اس میں دودھ ملایا.پھر حضرت مسیح موعود نے گلاس لے کر پیا.میں کھڑی رہی کہ میں آپ کو دیکھوں.حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ” آج صبح سے رس پینے کو دل چاہتا تھا.دوسرا برتن رس کا بھی میں اپنے باپ سے لے آئی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لائے تو میرا باپ پیچھے مڑنے لگا تو گر گیا اور چوٹ آئی.حضرت نے دیکھا اور فرمایا کہ ” پیچ گیا.میرے باپ نے بتایا کہ جیسے ہی حضرت نے فرمایا کہ بچ گیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ چوٹ ہی نہیں لگی.

Page 295

سیرت المہدی 288 حصہ پنجم 1516 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ والدہ صاحبہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام نے وضو کرنے کے بعد مجھے فرمایا کہ جاؤ اندر سے میری ٹوپی لے آؤ.جب میں گئی تو دیکھتی کیا ہوں کہ ایک معمولی سی ٹوپی پڑی ہوئی ہے جس کو دیکھ کر میں واپس آگئی اور عرض کی کہ حضور! وہاں نہیں ہے.اس طرح تین مرتبہ اندر جا کر آتی رہی مگر مجھے گمان نہ ہوا کہ یہ پرانی ٹوپی حضور کی ہوگی.صاحبزادہ مبارک احمد صاحب جو وہاں تھے انہوں نے فرمایا کہ ”میں لاتا ہوں.“ جب وہ وہی ٹوپی اٹھا کر لائے جو میں نے دیکھی تھی تو میں حیران رہ گئی کہ اللہ اللہ کیسی سادگی ہے“ 1517 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارا تمام خرچ روٹی کپڑے کا حضوڑ ہی دیا کرتے تھے.ایک مرتبہ حضوڑ نے ایک کپڑے کی واسکٹ اپنے اور ایک حافظ حامد علی صاحب کے واسطے بنوائی تھی.سردی کا موسم تھا.میں نے حافظ صاحب کو کہا کہ میں صبح جب نماز تہجد کے لئے اٹھتی ہوں اور سحری پکاتی ہوں تو مجھے سردی لگتی ہے.حافظ صاحب نے گرم صدری جو حضور نے ان کو بنا دی تھی مجھے دے دی.جب میں اس کو پہن کر گئی اور انگیٹھی میں آگ جلا رہی تھی تو حضور نے پوچھا کہ رسول بی بی! کیا یہ میری واسکٹ چرا لی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور سب کچھ آپ کا ہی ہے.آپ کا ہی کھاتے ہیں ، آپ کا ہی پہنتے ہیں.حضور اس پر خوب ہنسے اور فرمایا کہ ”خوب کھاؤ پیو.“ 1518﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ حنو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیمی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضور اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر دروازہ میں کھڑے تھے.اوپر سے ایک اینٹ گری.میں نے حضور سے کہا کہ حضور! باہر آجائیں.آپ نے فرمایا کہ سب لڑکیاں کھڑی ہیں کسی کو یہ خیال نہیں آیا.یہ بہت ہشیار ہے.اماں جان نے زینب سے جو اب مصری کی بیوی ہے کہا کہ ”مبارکہ بیگم اندرسوئی ہوئی ہیں ان کو اٹھالا ؤ “ زینب

Page 296

سیرت المہدی 289 حصہ پنجم نے کہا کہ کہیں میرے اوپر چھت نہ گر جائے.لیکن میں جلدی سے اندرگئی اور بی بی کو اٹھا لائی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ لڑکی بڑی ہشیار ہے.یہ جو بھاری کام کیا کرے گی اس میں برکت ہوگی اور اس کو تھکن نہیں ہوگی.حضور علیہ السلام کی برکت سے میں بھاری بھاری کام کرتی ہوں مگر تھکتی نہیں.1519 بسم اللہ الرحمن الرحیم محتر مہ لال پری صاحبہ پٹھانی بنت احمد نور صاحب کا بلی نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ (حضور ) ایک دن سیر کو گئے جوتیوں پر بہت گردا گرا.میری والدہ مرحومہ اپنے دوپٹہ سے پوچھنے لگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نعمت ! چھوڑ دو کیا کرنا ہے؟ آخرت کا گردا اس سے زیادہ ہے.“ 1520 بسم الله الرحمن الرحیم محترمہ خیر النساءصاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میری والدہ صاحبہ نماز فجر باجماعت پڑھنے کے لئے گئیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آج رات کو کوئی خاص چیز دیکھی ہے؟‘ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ” آدھی رات کا وقت ہوگا کہ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے دن چڑھ رہا ہے ، روشنی تیز ہورہی ہے.تو میں جلدی سے اٹھی اور نفل پڑھنے شروع کر دئے.معلوم تو ہوتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے لیکن میں کافی دیر تک نفل پڑھتی رہی اور اس کے بڑی دیر بعد صبح ہوئی.“ آپ نے فرمایا کہ ” میں نے یہی پوچھنا تھا.“ 1521 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ جب میں شروع شروع قادیان میں آئی تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ اب نواب صاحب کا شہر والا مکان ہے وہاں لنگر ہوا کرتا تھا اور روٹی یہاں تیار ہوتی تھی مگر سالن اندر عورتیں پکایا کرتی تھیں.جب کھانا تیار ہو جاتا تو مسجد مبارک کے قدیم حصہ کی بالائی چھت پر لے جایا جاتا اور حضور علیہ السلام مہمانوں کے ساتھ اکثر وہیں کھا نا کھاتے تھے.یہ مغرب کے بعد ہوتا تھا.دو پہر کے کھانے کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ کس طرح اور کہاں کھایا جاتا تھا.1522 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صو با ارائیں نگل نے بواسطہ مکرمہ

Page 297

سیرت المہدی 290 حصہ پنجم محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں نے بیعت کی تھی اس وقت بٹالہ والے منشی عبد العزیز صاحب قادیان آئے ہوئے تھے.ہم چار پانچ عورتیں ، میری ساس، را جن اور میری نند تھیں.جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضور نے دریافت کیا کہ ”تم کیوں آئی ہو؟ میری ساس راجن نے کہا کہ ہم منشی صاحب کو جو میرا بھتیجا ہے ملنے آئی ہیں.حضور نے فرمایا کہ نہیں جس بات کے واسطے تم آئی ہو وہ کیوں نہیں بتا تیں ؟“ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہو گیا تھا کہ ہم بیعت کرنے آئی ہیں.پس ہم سب نے بیعت کر لی.بیعت لینے سے پہلے فرمایا تھا کہ ”مائی را جن ! یہ کام بہت مشکل ہے تم سوچ لو کہیں گھبرا نہ جاؤ.چونکہ ابھی ہمارے مردوں نے بیعت نہیں کی تھی اسلئے حضور نے فرمایا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ تم مستقل مزاج نہ رہ سکو اور بیعت سے پھر جاؤ“ ہم نے کہا کہ حضور ! خواہ کچھ ہو ہم نہیں گھبرائیں گی اور بیعت پر قائم رہیں گی.تو حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی.1523 بسم الله الرحمن الرحیم.محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صو با ارائیں منگل نے بواسطہ مکرمہ محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ منشی عبد العزیز صاحب بٹالہ والے جن کی بیوی کا نام برکت ہے، جواب شاید پھر گئے ہیں.اس زمانہ میں قادیان گول کمرہ میں ہوتے تھے.وہ میری ساس را جن کے بھتیجے تھے.منشی صاحب کی پھوپھی جس کا نام ”نائنکی“ تھا وہ ہمارے جنگل میں رہتی تھی جو کہ احمدیت کی سخت مخالف تھی.کہتی تھی کہ " مرزا صاحب کی بیعت کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے.اور مردوں میں بھی مخالفت عام تھی اس لئے ہم نے بیعت تو کر لی تھی مگر ہم کسی سے اس کا ذکر ڈر کی وجہ سے نہیں کر سکتے تھے.ہم نے کوشش کی کہ نانکی اگر بیعت کرلے تو اچھا ہوگا.ہم نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ تو پہلے کہا کرتی تھی کہ جب مہدی آوے گا تو میں اس کو مان لوں گی مگر تم نہیں مانو گی.اب یہ جو مہدی آ گیا ہے تو اس کو کیوں نہیں مانتی ؟“ مگر وہ مخالفت کرتی رہتی اور کہتی تھی کہ یہ مہدی نہیں ہے.“ ایک دن وہ قادیان میں منشی صاحب کے پاس آئی تو اس کو سمجھایا کہ اس طرح نکاح نہیں ٹوٹتے تو آہستہ آہستہ اس کو سمجھ آگئی اور اس نے بیعت کر لی.ہمارے گھر میں خدا کے فضل سے مخالفت کا جوش کم ہو گیا اور ان کو معلوم ہو گیا کہ ہم نے عرصہ کی بیعت کی ہوئی ہے.جب مخالفت کا جوش کچھ کم ہوا تھا تو میرے خسر

Page 298

سیرت المہدی 291 حصہ پنجم مسمی کوڈا نے کہا تھا کہ ” نکاح تو نہیں ٹوٹتے مگر مجھے تو یہ فکر ہے کہ ہم میں سے جو بیعت کرے گا وہ اس طرح الگ ہو جائے گا کہ برادری میں اپنی لڑکیاں نہیں دے گا.“ جب ہمارے مرد بھی چند ایک احمدی ہو گئے تھے تو ہم نے حضور کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ حضور ہم گھبرائے تو نہیں تھے مگر یہ قصور ہم سے ضرور ہوا ہے کہ ہم نے ایک عرصہ تک یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہم نے حضور کی بیعت کر لی ہے.حضور نے ہمیں تسلی دی اور فرمایا کہ یہ قصور نہیں ہے یہ مصلحتاً ایسا کیا گیا ہے جس کا نتیجہ بہت اچھا ہوا ہے.“ 1524 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت سونے کا زیور پہن کر آئی تو جس پلنگ پر حضرت اُم المومنین اور حضور بیٹھے تھے آکر بیٹھ گئی.ہم لڑکیاں دیکھ کر ہنسنے لگیں.ہم نے کہا کہ اگر ہمیں بھی سونے کی بالیاں اور کڑے وغیرہ ملتے تو ہم بھی حضوڑ کے پلنگ پر بیٹھتیں.حضرت اُم المومنین نے حضور کو بتا دیا کہ یہ لڑکیاں ایسا کہ رہی ہیں.حضور ہنس پڑے اور فرمایا کہ ”آجاؤ لڑ کیو! تم بھی بیٹھ جاؤ“.1525 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ تو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ” مجھے نیند بہت آیا کرتی تھی.حضور علیہ السلام نے صفیہ بنت قدرت اللہ خان صاحب سے فرمایا تھا کہ حسو کو صبح جگا دیا کرو.ایک دن زینب مجھے جگا رہی تھی اور حضوڑ دیکھتے تھے.اس نے پہلے میرا لحاف اتارا پھر میرے منہ پر تھپڑ مارا.حضور نے فرمایا کہ ایسے نہیں جگاتے.بچے کو تکلیف ہوتی ہے.تم اسے نہ جگایا کرو میں خود جگا دیا کروں گا.“‘اس دن سے جب حضور صبح اٹھ کر رفع حاجت کو جاتے تو پانی کا ذرا سا چھینٹا میرے منہ پر مار دیتے.میں فوراً اُٹھ کھڑی ہوتی.حضور علیہ السلام مجھے نماز کے واسطے اٹھایا کرتے تھے.“ 1526 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر

Page 299

سیرت المہدی 292 حصہ پنجم بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نماز پڑھانے کے واسطے تشریف لے جا رہے تھے تو خاکسارہ سے فرمایا کہ میری ٹوپی اندر سے لے آؤ.میں دو دفعہ گئی لیکن پھر واپس آگئی.تیسری دفعہ گئی تو میاں شریف احمد صاحب نے کہا کہ تمہیں ٹوپی نہیں ملتی آؤ.میں تمہیں بتا دوں.یہ کہہ کر میاں صاحب نے ” تا کی میں سے ٹوپی اٹھالی.میں نے کہا یہ تو میں نے دیکھ کر رکھ چھوڑی تھی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” آپ سمجھتی ہوں گی کہ کوئی بڑی اعلی ٹوپی ہوگی.ہم ایسی ہی ٹوپیاں پہنا کرتے ہیں.“ 66 1527 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتاسی نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”میرا چوتھا لڑکا کوئی چار پانچ سال کا تھا کہ اس کو سانپ نے کاٹ لیا تھا.اس نے سانپ کو دیکھا نہ تھا اور یہ سمجھا تھا کہ اس کو کانٹا لگا ہے.میں نے بھی سوئی سے جگہ پھول کر دیکھی.کچھ معلوم نہ ہوالیکن جب بچہ کو چھالا ہو گیا اور سوج پڑ گئی تو معلوم ہوا کہ وہ کانٹا نہیں تھا بلکہ سانپ نے کاٹا تھا جس کا زہر چڑھ گیا ہے.بچہ چھٹے دن فوت ہو گیا تھا.جب حضور علیہ السلام کو علم ہوا تو حضور نے افسوس کیا اور فرمایا کہ ” مجھے کیوں پہلے نہیں بتایا ؟ میرے پاس تو سانپ کے کاٹے کا علاج تھا.مجھے بچے کے فوت ہونے کا بہت غم ہوا تھا اور میں نے رورو کر اور پیٹ پیٹ کر اپنا بُرا حال کر لیا تھا.جب حضور کو حضرت ام المومنین نے یہ بات بتائی تو حضور نے مجھے طلب فرما کر نصیحت کی اور بڑی شفقت سے فرمایا کہ دیکھو حسن بی بی! یہ تو خدا کی امانت تھی اللہ تعالیٰ نے لے لی.تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ اور فرمایا کہ ایک بڑی نیک عورت تھی اس کا خاوند باہر گیا ہوا تھا جس دن اس نے واپس آنا تھا.اتفاقاً اس دن اس کا جوان بچہ جو ایک ہی تھا فوت ہو گیا تھا.اس عورت نے اپنے لڑکے کو نسل اور کفن دے کر ایک کمرے میں رکھ دیا اور خود خاوند کے آنے کی تیاری کی.کھانے پکائے، کپڑے بدلے، زیور پہنا اور جب خاوند آیا تو اس کی خاطر داری میں مشغول ہو گئی.جب وہ کھانا کھا چکا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے ایک بات دریافت کرتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی امانت کسی کے پاس ہو اور وہ اس کو واپس مانگے تو کیا کرنا چاہئے؟ اس نے کہا کہ فوراً امانت کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دینا چاہئے.“ تو اس نیک بی بی نے کہا کہ اس امانت میں آپ کا بھی حصہ ہے پس وہ اپنے خاوند کو اس کمرے میں لے گئی

Page 300

سیرت المہدی 293 حصہ پنجم جہاں بچہ کی نعش پڑی تھی اور کہا کہ اب اس کو آپ بھی خدا کے سپر د کر دیں یہ اس کی امانت تھی جو اس کو دے دی گئی ہے؟“ یہ سن کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا اور میں نے اُسی وقت جزع فزع چھوڑ دی اور مجھے اطمینان کلی حاصل ہو گیا.اسکے بعد میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ ” مجھے اپنے وطن جہلم لے چلو.“ اس نے حضور سے اجازت طلب کی.حضور نے فرمایا کہ ” تمہاری بیوی کو نیا نیا صدمہ پہنچا ہے.یہ وہاں جا کر پھر غم کرے گی اس لئے میں ابھی اجازت نہیں دیتا.پھر عرصہ تین سال کے بعد جب اجازت ملی تو میں اپنے وطن گئی.“ 1528 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ بابومحمد ایوب صاحب بد و ملہوی نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۸ء میں جبکہ حضور علیہ السلام لاہور اپنے وصال کے دنوں میں تشریف فرما تھے.عاجزہ نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.غالباً ۱۲ یا ۱۳ مئی ۱۹۰۸ء کو بیعت کی.خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں میرے خاوند بابو محمد ایوب صاحب نے پہنچایا اور تھوڑا سا پھل عاجزہ کو ایک رومال میں ساتھ دیا.خواجہ صاحب موصوف کی اہلیہ کو عاجزہ نے کہا کہ میں نے حضرت صاحب کی بیعت کرنی ہے.“ اس نے جواب دیا کہ ”ابھی عورتیں بیعت کر کے اتری ہیں اگر آپ ذرا پہلے آجاتیں تو ساتھ ہی چلی جاتیں.اب دریافت کر لیتی ہوں بیٹھ جائیں.“ تھوڑی دیر بعد مجھے ایک لڑکی لے گئی.آپ اوپر بالا خانہ میں ایک کمرے میں تشریف فرما تھے.ایک طرف حضرت ام المؤمنین ایک پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں.میں ”السلام علیکم عرض کر کے حضرت اماں جان کے پلنگ کے پاس بیٹھ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کون لڑکی ہے؟“ اماں جان نے جواباً فرمایا کہ پچھلے سال حسن بی بی بدوملہوی بہو بیاہ کر لائی تھی یہ وہی لڑکی ہے.وہ پھل والا رومال میں نے حضرت اماں جان کے پلنگ پر رکھ دیا تھا پھر میں نے عرض کی کہ میں نے بیعت کرنی ہے.“ اماں جان نے حضرت صاحب سے فرمایا کہ " یہ بیعت کرنا چاہتی ہے.تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہاں آجائے.وہ رومال جو میں نے حضرت اماں جان کے پاس رکھا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب جاتے ہوئے اپنی کم عمری کی وجہ سے ساتھ ہی لے گئی اور حضور کے پاس رکھ دیا.بیعت کے بعد حضور نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور ایک سیب کا ٹا اور ایک قاش مجھے عطا فرمائی اور ایک حضور علیہ 66

Page 301

سیرت المہدی 294 حصہ پنجم السلام نے خود رکھ لی اور باقی رومال حضور نے اٹھایا اور فرمایا کہ بیوی جی کے پاس لے جاؤ اگر چہ آج بھی اس بات کو یاد کر کے اپنی حرکت پر ہنسی آتی ہے کہ پہلے پھل حضرت اماں جان کے پاس رکھا اور پھر اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لے گئی.مگر اس بات کو یاد کر کے شکریہ سے دل بھر جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے دست مبارک سے ایک قاش لینی نصیب ہوئی.فالحمد للہ علی ذلک 1529 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مرزا ارشد بیگ کی والدہ الفت بیگم کے متعلق الہام ہوا کہ وہ فوت ہو جائے گی.جو وقت فوت ہونے کا بتایا تھا اس دن کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی ہے.اور ڈھول بجا کر بھی شور مچایا مگر جب اذان شروع ہوئی تو ساتھ ہی گھر میں سے چیخوں کی آواز آنے لگ گئی.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ الفت بیگم ہی فوت ہوئی ہیں اس پر مخالفین بہت نادم ہوئے.“ 1530 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ سلطان بی بی صاحبہ اہلیہ مستری خیر دین صاحب قادرآباد نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور سیر کو تشریف لے جارہے تھے.میری ساس ساتھ چلی گئی پھر واپس گھر تک چھوڑنے گئی وہ ہمیشہ ان کے ساتھ جایا کرتی تھی.ایک دن ہم بیعت کرنے کے لئے گئے.ہم تین عورتیں تھیں.ہماری ساس ہم کو ساتھ لے کر گئی.میری ساس کچھ بتاشے لے کر گئی تھی.حضور پوچھنے لگے کہ ” تمہاری بہو کون سی ہے؟ اور کس کی بیٹی ہے؟ میری ساس نے بتایا کہ میری بہو یہ ہے اور یہ میری بہن کی بیٹی ہے.اس کے بعد بیعت ہوئی اور دعا کی گئی.وہ بتاشے جو ہم لے گئے تھے (ان میں سے حضور نے ) کچھ رکھ لئے اور کچھ مجھے دیئے.1531 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام جب

Page 302

سیرت المہدی 295 حصہ پنجم کام کرتے کرتے تھک جاتے تو اٹھ کر ٹہل ٹہل کر کام کیا کرتے تھے اور جب ٹہلتے ہوئے بھی تھک جاتے تو پھر لیٹ جاتے تھے اور حافظ حامد علی صاحب کو بلا کر اپنے جسم مبارک کو دبواتے تھے اور بعض دفعہ حافظ معین الدین صاحب کو بلواتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب نے نظمیں خود بنائی ہوئی تھیں حضور ان کو فرماتے کہ اپنی نظمیں سناؤ حافظ صاحب دباتے ہوئے نظمیں بھی سنایا کرتے تھے.جب حافظ صاحب اس خیال سے کہ حضور سو گئے ہوں گے خاموش ہو جاتے تو حضور فرماتے کہ ” حافظ صاحب آپ خاموش کیوں ہو گئے ؟ آپ شعر سناویں.“ تو حافظ صاحب پھر سنانے لگ جاتے تھے“.1532 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنر نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبه والده خلیفه صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ” میرے والد اکثر نئی لکڑی (عصا) بنا کر حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور حضور کی مستعملہ لکڑی اس سے تبر کا بدلوالیا کرتے تھے.ایک دن ایک نئی لکڑی دے کر مجھے بدلوانے کے واسطے بھیجا.حضور اس وقت اُمّم ناصر کے آنگن میں ٹہل رہے تھے.حضور نے فرمایا کہ اندر سے میرا سوٹا اٹھالا.میں اندر گئی اور ایک سوٹا اٹھالائی.حضور نے فرمایا کہ یہ تو حافظ مانا کا ہے.تب میں پھر جا کر دور سرا اٹھا لائی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ " یہ ہمارا ہے اسے لے جاؤ اور اپنے ابا سے کہہ دینا کہ جس گھر میں یہ ہو گا اس گھر میں سانپ کبھی نہیں آوریگا.چنانچہ وہ سوٹا اب تک موجود ہے اور سانپ گھر میں کبھی نہیں دیکھا گیا.“ 1533 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ از لنگر وال نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک بار میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگ تسبیح پر وظیفہ پڑھتے ہیں.مجھے بھی کوئی وظیفہ بتا ئیں تا کہ میں بھی تسبیح پر پڑھا 30 کروں.آپ کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ ” آپ کو اگر تسبیح کا شوق ہے تو یہ وظیفہ پڑھا کرو.“ " يَا حَفِيظٌ ، يَا عَزِيزُ يَا رَفِيْقُ ، يَا وَلِيُّ اشْفِنِی “ 1534 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب وخوشدامن

Page 303

سیرت المہدی 296 حصہ پنجم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے خاوند کے چچا کا نکاح ہونے والا تھا حضور نے بھی برات کے ساتھ جانا تھا.میرے خاوند حافظ حامد علی صاحب کو حضور نے پہلے بھیج دیا تھا کہ وہ حضور کا کھانا تیار کر کے لائیں.میری ساس سے چالیس پچاس پر اٹھے اور دس باری سادہ روٹیاں.آم کا اچار اور بارہ سیر شکر لے کر حافظ صاحب کتھو منگل پہنچ گئے وہاں حضور نے کھانا کھایا.پھر حضور نے حافظ صاحب کو گھر بھیجا کہ جا کر صلح کراؤ ہم آکر نکاح کردیں گے.شام کو حضور پہنچ گئے اور نکاح کرا دیا.دولہا کو کہا کہ ”اپنے گھر جاؤ اور حافظ صاحب کو کہا ” اپنے گھر جاؤ“ آپ حضور علیہ السلام وہیں دالان میں سو گئے.....صبح اٹھ کر حضور پیشاب کرنے گئے تو مٹی کا ڈھیلا (وٹوانی کے لئے ) مانگا.ایک شخص نے جس کا نام مہر دین تھا ایک دیوار سے مٹی اکھیڑ کر دے دی.حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ”مٹی کہاں سے لائے ہو؟ اس نے کہا کہ ارائیں کی دیوار سے لایا ہوں.حضور نے فرمایا کہ ” کیا اس کو پوچھ لیا تھا؟“ اس نے کہا کہ وہ تو ہمارا موروث ہے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ”وہیں رکھ دو.میں نہیں لیتا.“ 1535 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ بنت پیر افتخار احمد صاحب زوجہ میراحمد صاحب قریشی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والده خلیفه صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور قضائے حاجت کو جاتے تو میں عموماً لوٹے میں گرم پانی وضو کے واسطے باہر رکھ آتی.ایک دن غلطی سے زیادہ گرم پانی رکھا گیا تو حضوڑ وہ لوٹا اٹھا لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اس پر گرم پانی ڈال دیا.میں ایسی شرمندہ ہوئی کہ کئی دن حضور کے سامنے نہ ہو سکی.حضور ان دنوں نماز مغرب وعشاء جمع کرایا کرتے تھے.ایک دن میں نے کہا کہ حضور ساریاں کے واسطے ( یعنی سب کے لئے ) دعا کریں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا کہا؟ صالحہ کے واسطے (جو حضرت میر محمد الحق صاحب کی بیوی ہیں ) دعا کروں؟ میں نے کہا کہ حضور !ساریاں کے واسطے.“ 1536 بسم الله الرحمن الرحیم.محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ مستری چراغ دین صاحب قادر آباد نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن

Page 304

سیرت المہدی 297 حصہ پنجم میں اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ درس سنے گئی.میں اپنے چھوٹے بھائی کو جہاں جو تیاں تھیں کھلانے لگی جب حضور درس ختم کر کے اٹھے تو مجھے فرمانے لگے کہ بچہ کو اٹھا لو.بچے کا جو تیوں سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا.“ 1537 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ دو عورتیں حضور کو دبا رہی تھیں، خاکسارہ دبانے کے لئے گئی تو وہ کہنے لگیں کہ ”اب حضور کی طبیعت خراب ہے.بس دو ہی آدمی دبائیں گے زیادہ نہیں دبا سکتے.میں واپس چلی گئی.آپ آنکھیں بند کر کے لیٹے ہوئے تھے.یوں معلوم ہوتے تھے جیسے سوئے ہوئے ہیں.خاکسارہ چلی گئی تو آپ نے دریافت فرمایا کون آیا تھا ؟ ایک عورت نے کہا کہ خیر النساء آئی تھی چلی گئی ( میں اس وقت ان عورتوں کا نام نہیں لینا چاہتی ) آپ نے فرمایا کہ ”جاؤ ان کو بلا کے لاؤ.“ وہی عورت جس نے مجھے کہا تھا، مجھے بلانے کے لئے گئی.جب میں حاضر ہوئی تو فرمایا ” آپ چلی کیوں گئی تھیں ؟“ میں نے عرض کیا کہ ”انہوں نے دبانے نہیں دیا تھا اس لئے چلی گئی تھی.تو فرمایا کہ ” آپ کو ثواب ہو گیا ہے، آپ بیٹھ جائیں اور مجھے اپنے پاس بٹھالیا اور فرمایا کہ ان کے لئے چائے لاؤ غرضیکہ حضور علیہ السلام اس قدر شفقت اور محبت سے پیش آیا کرتے تھے کہ میری نا چیز زبان بیان کرنے سے قاصر ہے.آپ ہمیشہ مہمانوں کے لئے بادام روغن نکلوا کر رکھا کرتے تھے.میری آپا زینب زیادہ آپ کی خدمت مبارک میں رہا کرتی تھیں.“ 1538 بسم الله الرحمن الرحیم محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ والدہ عبد الحق صاحب واہلیہ شیخ عطا محمد صاحب پٹواری حال وارد قادیان نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اب میری عمر ہے سال کی ہوگی.میری شادی پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہوئی تھی.بارہ سال تک میرے گھر کوئی بچہ پیدا نہ ہوا.جس پر میرے خاوند صاحب نے دواور بیویاں اولاد نرینہ کی غرض سے کیں مگر اولاد ان کے ہاں بھی کوئی نہ ہوئی.اس اثناء میں حضرت مرزا جی نے دعویٰ مہدویت کا کیا جس کا شور ملک میں پیدا ہو گیا.اس زمانہ میں میرے خاوند نے حضرت مرزا صاحب سے

Page 305

سیرت المہدی 298 حصہ پنجم عرض کی کہ ولی کی دعا ہمیشہ خدا کی جناب میں منظور ہوتی ہے.اگر آپ مہدی اور ولی ہو تو خدا کی بارگاہ میں دعا مانگو کہ میری ہرسہ بیویوں سے جس سے میں چاہوں اس کے گھر فرزندار جمند، نیک بخت ، مومن صاحب اقبال پیدا ہو.چنانچہ میرے خاوند کو حضور علیہ السلام نے جواب دیا اور کارڈ تحریر کیا کہ ”مولیٰ کے حضور دعا کی گئی.تمہارے گھر میں فرزندار جمند ، مومن صاحب اقبال اس بیوی کو ہوگا جس کو تم چاہتے ہو بشر طیکہ تم زکریا علیہ السلام کی طرح تو بہ کرو.چنانچہ میرے خاوند نے پوری پوری تو بہ کی اور اللہ تعالیٰ نے فرزندار جمند ۱۹۰۰ء میں عطا فرمایا.اُس وقت میرا خاوند موضع و نجواں تحصیل بٹالہ کا پٹواری مال تھا.چنانچہ اس وقت لخت جگر عہدہ اوور سیر پر ملازم ہے.تب سے ہمارا سب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پکا ایمان رکھتا ہے.اس کے بعد میرے خاوند شیخ عطا محمد صاحب کو خواب آیا کہ میں ایک میٹھا خربوزہ کھا رہا ہوں.جب میں نے اس کی ایک قاش اپنے لڑ کے عبد الحق کو دی تو خشک ہو گئی ہے.تعبیر خواب پر حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ” تمہارے گھر میں اسی بیوی کو ایک اور لڑکا ہوگا مگر وہ زندہ نہیں رہے گا.“ چنانچہ حسب فرمودہ حضرت صاحب لڑکا پیدا ہوا اور گیارہ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا اس کے بعد میرے ہاں کوئی لڑکا یالڑ کی پیدا نہیں ہوئی.“ 1539 بسم الله الرحمن الرحیم محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتاسی نے بواسطه مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضور کچھ لکھ رہے تھے.میں کھانا لے کر گئی اور حضور کے پاس رکھ کر لوٹ آئی.کافی دیر کے بعد جب حضور کی نظر کہیں برتنوں پر پڑی اور ان کو خالی پایا تو مجھے آواز دی کہ آکر برتن لے جاؤ اور پوچھا کہ کیا میں نے کھانا کھالیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو کھانا چھوڑ گئی تھی مجھے معلوم نہیں کہ حضور نے کھایا ہے یا نہیں ؟ حضور نے فرمایا کہ شاید کھا لیا ہو گا؟ لیکن معلوم یہ ہوتا تھا کہ حضور علیہ السلام لکھنے میں ایسی محویت کے عالم میں رہے کہ حضور کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ میں کھانا رکھ گئی ہوں اور نہ ہی بھوک محسوس ہوئی کہ اگر نہ کھایا ہوتا تو فرماتے کہ نہیں کھایا.“ 1540 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا

Page 306

سیرت المہدی 299 حصہ پنجم کہ ” میری موجودگی میں ایک دن کا ذکر ہے کہ باہر گاؤں کی عورتیں جمعہ پڑھنے آئی تھیں تو کسی عورت نے کہہ دیا کہ ان میں سے پسینہ کی بو آتی ہے.چونکہ گرمی کا موسم تھا.جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ تو اس عورت پر ناراض ہوئے کہ ” تم نے ان کی دل شکنی کیوں کی ؟ ان کو شربت وغیرہ پلایا اور ان کی بڑی دل جوئی کی.حضور مہمان نوازی کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.دو 1541 بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹرسید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ” پہلی دفعہ جب ہم قادیان آئے ہیں تو عزیزم ولی اللہ شاہ صاحب کی ٹانگ میں گھوڑے پر سے گر جانے کی وجہ سے سخت تکلیف تھی اور ٹانگ سیدھی نہیں ہوتی تھی.سول سرجن نے کہدیا تھا کہ ٹانگ ٹھیک نہیں ہوسکتی.والدہ صاحبہ قادیان آنے لگیں تو انہوں نے دعا کے لئے رقعہ لکھ دیا.آپ نے دریافت فرمایا کہ ولی اللہ شاہ کون ہے؟ والدہ صاحبہ نے بتایا کہ ” میرالڑ کا ہے.آپ نے فرمایا.دعا کریں گے، انشاء اللہ صحت ہو جائے گی.چنانچہ آپ نے دعا فرمائی اور اسی سول سرجن نے جس نے کہا تھا کہ ”اب آرام نہیں آسکتا.علاج کیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹانگ بالکل ٹھیک ہوگئی.یہ بھی آپ کا معجزہ ہے.“ 1542 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنز نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والده خلیفه صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جس مکان میں اب ام طاہر صاحبہ رہتی ہیں یہ مکان بن رہا تھا.میرے ابا برآمدہ کو روغن کر رہے تھے.جب شام کو گھر گئے تو چونکہ وہ اپنا قرآن مجید بھول گئے تھے مجھے کہا کہ جا کر میرا قرآن مجید لے آ.جب میں گئی تو اس وقت بڑی سخت آندھی آگئی.اس آندھی میں ایک لفافہ اڑ کر آیا اور جہاں حضور علیہ السلام بیٹھے تھے وہاں آکر گرا.جب آندھی ذرا تھمی تو حضور نے لالٹین منگوائی اور وہ لفافہ کھول کر پڑھا اس میں جو لکھا تھا حضور علیہ السلام نے سنایا کہ ” چند مہمان آرہے ہیں ان کے واسطے علیحدہ مکان رکھا جاوے اور ان کے کھانے کا انتظام بھی الگ ہی کیا جاوے.چنانچہ جب وہ مہمان آئے تو ان کو اس گھر میں جہاں اب میاں بشیر احمد صاحب رہتے ہیں ٹھہرایا گیا تھا.وہ

Page 307

سیرت المہدی 300 حصہ پنجم مہمان پٹھانوں کی طرح کے معلوم ہوتے تھے.چند دن رہے اور بیعت کر کے چلے گئے.بعض کہتے تھے کہ یہ جن ہیں.1543 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ مراد بی بی صاحبہ بنت حاجی عبداللہ صاحب ارائیں منگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبه والده خلیفه صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”جب میں جوان ہوئی تو ہمارے گاؤں میں کھلی کی بیماری پھیل گئی تو مجھے بھی کھلی پڑ گئی.میں نو مہینے بیمار رہی ، میرے والد صاحب نے کہا کہ ” حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس علاج کے واسطے لے جاؤ.میری والدہ مجھے لے کر آئی.اس وقت نیچے کے دالان میں حضور ٹہل رہے تھے.ہم کھرلی کے پاس بیٹھ گئے.میری ماں نے عرض کی کہ ”میں اپنی لڑکی کو علاج کے واسطے لائی ہوں.حضور دیکھ لیں.حضور نے فرمایا کہ اس وقت فرصت نہیں ہے.میں اس گھر لی میں لیٹ گئی اور میں نے کہا کہ میر اعلاج کریں نہیں تو میں یہیں مرجاؤں گی ( حضرت ام المؤمنین اب تک میرا گھر لی میں لیٹنا یاد کرتی ہیں) تو حضرت مسیح موعود 66 علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا لڑکی کو لے آؤ.آپ نے میری حالت دیکھ کر دو لکھی.آنولے، بیٹیرے ، مہندی اور نیم یہ دوا لکھی.میری ماں نے کہا کہ یہ لڑ کی بڑی لاڈلی ہے اس نے کڑوی دوا نہیں پینی.حضور علیہ السلام نے دروازہ میں کھڑے ہو کر میرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ بی بی تو دوا پی لے گی تو اچھی ہو جاوے گی.آپ نے تینمرتبہ فرمایاتھا اور فر مایا کہ علی نائی کی دوکان سے یہ دوائیں لا کر مجھے دکھاؤ میری ماں دوا لائی تو حضور نے دیکھی اور فرمایا کہ اس کا عرق نکال کے اسے پلاؤ.میری والدہ نے تین بوتلیں عرق کی بنائیں.میں پیتی رہی اور بالکل اچھی ہوگئی.“ 1544﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ار جمند خان صاحب بنت حکیم محمد زمان صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت ام المؤمنین صاحبہ سے سنا ہے کہ جبکہ ابھی حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ چھوٹے بچے تھے تو باہر سے کسی سے یہ گالی سن آئے تھے کہ سور کا بچہ گوکھانا.جب آپ نے گھر میں اس کو ایک دو مرتبہ بولا تو حضور مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا کہ ”محمود ! محمود ! ادھر آؤ.میں تمہیں

Page 308

سیرت المہدی 301 حصہ پنجم بتاؤں.اس طرح کہا کرو کہ باپ کا بچہ گڑ کھانا.پھر میاں صاحب اسی طرح کہتے تھے.1545 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمه مراد خاتون صاحبه والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میرا بڑا لڑ کا عبدالرحمن دو ماہ کا تھا.میں اس کو اٹھا کر حضور کے پاس لے گئی.آپ اس وقت اس صحن میں جواب اُم طاہر صاحبہ کا ہے ٹہل رہے تھے.میں نے سلام کیا اور لڑکے کے واسطے دعا کے لئے عرض کیا اور بتایا کہ یہ جو دودھ پیتا ہے اس کو پھر منہ سے باہر نکال دیتا ہے.حضور نے بچہ کے منہ پر اور جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا اور فرمایا کہ اس کو ریوند خطائی، بڑی ہرڑ اور سہا گہ تینوں کو لے لو.سہا گہ کو پھل کرو اور جس وقت بچہ کو دودھ پلاؤ تو پھل کیا ہوا سہا گہ تھوڑا سا منہ میں ڈال دیا کرو اور ریوند خطائی و ہرڑ کو خالص شہد میں ملا کر کھلایا کرو.“ 1546 بسم اللہ الرحمن الرحیم.محترمہ تو صاحبہ اہلیہ فجا صاحب معمار خادم قدیمی نے بواسطہ مکرمه محترمه مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ” جب گورداسپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا تو حضور علیہ السلام کو وہاں تقریباً سات ماہ رہنا پڑا تھا.بہت سے لوگ جماعت کے ساتھ ہوتے تھے.وہاں گائے کا گوشت دیگوں میں پکا کرتا تھا.میں یہ گوشت نہیں کھایا کرتی تھی بلکہ روکھی روٹی کھا لیتی تھی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ روکھی روٹی کھانے سے کہیں بیمار نہ ہو جائے.صفیہ کی اماں سے کہدو کہ ایک چھوٹی پتیلی میں چند بوٹیاں اچھی طرح سے پکا کر اس کو کھلایا کرو تا کہ اس کو گائے کا گوشت کھانے کی عادت ہو جائے.چنانچہ ایک دن حضرت ام المومنین صاحبہ بڑا عمدہ بھنا ہوا گوشت اور دو روٹیاں لے کر آئیں اور ایک روٹی اور کچھ سالن اس میں سے آپ نے کھایا اور دوسری روٹی اور چند بوٹیاں مجھے دے کے کہا کہ ”کھاؤ میں نے کھانا شروع کیا تو کھاتی گئی ،مزیدار تھا.اس دن سے مجھے گائے کے گوشت سے جو نفرت تھی وہ جاتی رہی.اب کھاتی رہتی ہوں.“ 1547 بسم الله الرحمن الرحیم محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین

Page 309

سیرت المہدی 302 حصہ پنجم صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ”میرا خاوند میرے ساتھ سختی سے پیش آتا اور خرچ دینے میں تنگی کرتا.اس پر میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں ان کی شکایت کی تو حضور نے فرمایا کہ ”جو عورت اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرتی ہے وہ سیدھی جنت میں جائے گی اور جو خاوند کی سختیوں کو صبر سے برداشت کرتی ہے وہ ایک ہزار سال پہلے جنت میں جائے گی.“ 1548 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھے سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنی عادت کے مطابق گھر سے سیر کے واسطے باہر تشریف لائے اور اس روز باغ کی طرف تشریف لے گئے جب باغ میں پہنچے تو وہاں شہتوت کے درختوں کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے.تب اس وقت مالی باغبان نے ایک بہت بڑا کپڑا زمین پر بچھا دیا اور حضور بھی جمعہ خدام سب اس کپڑے پر بیٹھ گئے.تھوڑی دیر کے بعد مالی تین چار ٹوکریوں میں شہتوت بیدانہ ڈال کر لایا.ان میں سے ایک حضور کے آگے رکھ دی اور دوسرے دوستوں کے آگے تین ٹوکریاں رکھ دیں.چنانچہ وہ شہتوت بیدا نہ سب دوست کھانے لگ گئے.جو ٹوکری حضور کے آگے رکھی تھی اس پر میں اور ایک دو دوست اور بھی تھے میں بالکل حضور کے قریب دائیں جانب بیٹھا تھا.اور کچھ حجاب کے باعث خاموش بیٹھا رہا اور اس میں سے نہ کھاتا تھا.حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھا کہ کھاتا نہیں تو حضور مجھے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ میاں فضل محمد تم کھاتے کیوں نہیں.تو اس وقت مجھے اور کوئی بات نہ سوجھی جلدی سے منہ سے نکل گیا کہ حضور یہ گرم ہیں.میرے موافق نہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا.نہیں میاں یہ گرم نہیں ہیں.یہ تو قبض کشا ہیں.جب میں نے دیکھا کہ حضور میرے ساتھ بات چیت کرنے میں مشغول ہیں تو میں نے موقعہ دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے کھے پٹ پر یعنی ران پر بہت مدت سے ایک گلٹی ہے.مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی وقت کچھ تکلیف نہ دے.اس وقت حضور کی زبان مبارک سے نکلا کہ تکلیف نہیں دیتی آرام ہو جاوے گا اور اس وقت ایک دوائی کا نام بھی لیا جو مجھے بھول گئی ہے.فرمایا لگا دیویں آرام ہو جاوے گا اس کے بعد کچھ دنوں کے بعد اس گلٹی پر درد شروع ہوگئی.مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام نے جود وائی فرمائی تھی وہ تو مجھے بھول گئی اور میں حیران تھا کہ اب کیا کروں.اتنے میں دو تین روز کے بعد وہ گلٹی پھٹ گئی اور وہ اندر سے باہر جاپڑی اور دو

Page 310

سیرت المہدی 303 حصہ پنجم تین روز تک وہ زخم بالکل صاف ہو گیا.1549 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں.تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیسے پودے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا یہ طاعون کے پودے ہیں.تو پھر میں نے پوچھا کہ کب ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاڑے کے موسم میں.تب حضور نے تمام جماعت کو بلا کر ایک بڑھ کے نیچے جس جگہ قادیان کی مشرق کی جانب اب نئی آبادی ہوئی ہے جو بڑھ اب تک کھڑا ہے جمع کیا اور فرمایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے.اب دنیا میں طاعون کا عذاب آنے والا ہے.بہت بہت تو بہ کرو، صدقہ کرو اور اپنی اصلاح کرو ہر طرح نصیحت فرمائی اور بہت ڈرایا اور بہت دیر تک نصیحت فرماتے رہے.چنانچہ اس کے کچھ عرصہ کے بعد طاعون شروع ہوئی.1550 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب کا ندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھے سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھار یوال میں جانا پڑا.گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینہ تھا.بہت دوست ارد گرد سے موضع دھار یوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے.وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا.حضور نے دعوت منظور فرمائی.سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی.بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی.فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں.چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑ دئے اور جب حضور دھاریوال کے پل پر تشریف لے گئے تو بہت لوگوں نے جو حضور کی زیارت کے لئے اردگرد سے آئے ہوئے تھے زیارت کی درخواست کی اس وقت حضور ایک پکی پر کھڑے ہو گئے اور سب لوگوں نے حضور کی زیارت کی.1551 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بھائی خیر الدین موضع سیکھواں نے اور میں نے مل کر ارادہ کیا کہ قادیان شریف

Page 311

سیرت المہدی 304 حصہ پنجم میں دکان کھولیں.چنانچہ اس کے متعلق یہ صلاح ہوئی کہ پہلے حضور سے صلاح لے لی جاوے.چنانچہ جب حضور علیہ السلام نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے چلے تو ہم نے عرض کی کہ حضور ہم نے ایک عرض کرنی ہے اور وہ عرض یہ ہے کہ ہم دونوں نے ارادہ کیا ہے کہ قادیان میں دونوں مل کر دکان کھولیں.حضور علیہ السلام وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ پہلے استخارہ کرو.تو میں نے عرض کی کہ حضور استخارہ تو ایک ہفتہ تک کرنا پڑے گا.تب حضور نے فرمایا کہ استخارہ دعا ہی ہوتی ہے.ہر نماز میں دعا کروایک دن میں بھی استخارہ ہو سکتا ہے.اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی گھر تشریف لے جارہے تھے.حضور نے مولوی نورالدین صاحب کو بھی بلا لیا.اور فرمایا کہ مولوی صاحب یہ دونوں مل کر قادیان میں دکان کرنا چاہتے ہیں.بھائی خیر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ حضور نے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر دکان میں گھاٹا پڑے تو چھوڑ دیں.اس کے بعد ہمارا خیال دکان کرنے کا بالکل نہ رہا.اور اپنے اپنے گاؤں کو چلے گئے.1552 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے حضور اپنی عادت کے طور پر سیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے.بہت دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے.اس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے چلے.جب ایک چھپڑ پر جو قصبہ قادیان کے متصل برلب راہ موضع بھینی کی جانب ہے اس کے کنارے پر ایک بڑا بڑھ کا درخت تھا حضور اس کے نیچے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس چھپڑ کا پانی اچھا نہیں ہے اس سے وضو کر کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ دوستوں کو وہاں سے وضو کرنے سے روکا تھا.اور وہ دوست مجھے محول کرتے تھے.اس روز وہ دوست بھی وہاں ہی تھے انہوں نے اپنے کانوں سے سنا کہ حضور نے اس چھپڑ کے پانی سے وضو کرنا اور اس کو استعمال کرنا منع فرمایا.1553 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے ایک رجسٹر بنایا ور اپنی جماعت کو حکم دیا کہ اپنی اولا د یعنی بچوں، بچیوں کے نام مجھے لکھا دو تا کہ ہم اپنے طور پر جہاں چاہیں گے رشتہ کریں گے چنانچہ میں نے اپنے تین

Page 312

سیرت المہدی 305 حصہ پنجم بچوں کے نام حضور اقدس کی خدمت میں لکھ کر پیش کئے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر اسماعیل صاحب کی اہلیہ صاحبہ فوت ہوگئیں.حضور نے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے والد سے کہا کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ ڈاکٹر اسماعیل صاحب کو دے دو اس نے صاف انکار کر دیا کہ حضور یہ بڑی عمر کے ہیں اور صاحب اولا د ہیں اس واسطے میں یہ رشتہ کر نا منظور نہیں کرتا.چنانچہ اس کے بعد میں نے سنا کہ حضور نے اس رجسٹر کو پھاڑ دیا اور اس خیال کو چھوڑ دیا میں نے سنا کہ اس لڑکی کا رشتہ کسی اور جگہ اس کے والد نے کر دیا اور اس لڑکی زندگی بڑی دکھی رہی اور دکھ میں مبتلا رہی.1554 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب کہ پہلی ہی دفعہ ہمارے گاؤں میں طاعون پڑی تو ہمارے گاؤں میں سے بھی چو ہے مرنے شروع ہو گئے.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جمعہ کو قادیان میں ہی جمعہ پڑھا کرتا تھا اور اکثر حضور سے مل کر واپس گھر کو جاتا تھا.اس روز میں نے حضور سے ملنے کے وقت عرض کی.حضور! ہمارے گاؤں میں چوہے مرنے شروع ہو گئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ جھٹ باہر کھلی ہوا میں چلے جاؤ ایسے خطرہ کے وقت جگہ کو چھوڑ دینا ہی سنت ہے.ضرور گھر چھوڑ کر باہر چلے جاؤ.چنانچہ میں حضور کے حکم کے ماتحت گھر چھوڑ کر باہر بلا گیا.اور بہت سے لوگ گاؤں کے گھر چھوڑ کر میرے ساتھ باہر چلے گئے.میرا ایک چچازاد بھائی نہ گیا.چند دن کے بعد وہ طاعون میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا.1555 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ شیخ حامد علی صاحب جو ابتدا ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں رہے تھے میری ان سے بڑی محبت تھی ، بعض بعض وقت وہ میرے پاس حضور کی ابتدائی باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے.ایک دفعہ شیخ صاحب فرمانے لگے کہ ایک دفعہ حضور نے ایک ضروری کام کے لئے مجھے افریقہ یا امریکہ ان دونوں میں سے شیخ صاحب نے کسی کا نام لیا جو مجھے اس وقت یاد نہیں ہے بھیجا.جب میں حضرت حافظ حامد علی صاحب اپنے بھائی کے ساتھ مشرقی افریقہ گئے تھے.

Page 313

سیرت المہدی 306 حصہ پنجم جہاز میں سوار ہوا تو وہ جہاز آگے چل کر خطرہ میں ہو گیا.یہاں تک کے لوگ چیخ و پکار کرنے لگ گئے.حتی کہ میرا دل بھی فکر مند ہو گیا.تب فوراً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کا بھیجا ہوں اور اس کے کام کے واسطے جارہا ہوں.پس یہ جہاز کس طرح ڈوب سکتا ہے.چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا.کہ اے لوگو! گھبراؤ مت.یہ جہاز ہرگز نہیں ڈوبے گا کیونکہ میں ایک نبی کا فرستادہ ہوں اور میں اس جہاز میں سوار ہوں اس واسطے یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا.چنانچہ میں نے اُن کو بہت تسلی دی اور یہ آگے چلے گئے چنانچہ جہاز اس جگہ پہنچ گیا.جس جگہ میں نے اتر نا تھا.اس پر میں اس جگہ اتر گیا اور جس طرف جانا تھا چلا گیا اور وہ جہاز اس جگہ سے آگے نکل گیا اور آگے جا کر غرق ہو گیا.جب اس جہاز کے ڈوبنے کی خبر آئی تو میرے گھر والوں نے بھی سنا کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو غرق ہو گیا تو میرے گھر کے لوگ روتے پیٹتے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے اور رورو کر کہنے لگے کہ فلاں جہاز جس پر حافظ حامد علی صاحب سوار تھے ڈوب گیا ہے.حضرت صاحب نے اس کے حال پکار کو سن کر فرمایا.ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو ڈوب گیا ہے اور اس میں حافظ صاحب بھی تھے.اور پھر خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دیا.چند منٹ کے بعد بلند آواز سے فرمایا ”صبر کر و حافظ حامد علی صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں جس کام کے واسطے بھیجے گئے تھے کر رہے ہیں.اور سب کو تسلی دی اور گھر کو روانہ کر دیا.1556 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں عید کی نماز پڑھنے کے لئے قادیان شریف آیا.جب نماز ادا کر چکے تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ حضور! جناب نے فرمایا تھا کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کوئی اپنا نشان دکھاوے گا.اور آج عید کا دن ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.اور قلم دوات و کاغذ اپنے پاس لے لو.یہ حکم سن کر سب دوست بیٹھ گئے اور حضور نے کرسی پر تشریف رکھ کر عربی زبان میں خطبہ شروع کر دیا جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا.کچھ دوستوں نے وہ خطبہ لکھنا شروع کر دیا اور جو کچھ حضور فرماتے ، لکھنے والے لکھتے جاتے.جب کوئی لفظ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تو حضور پوچھنے والوں کو بمعہ جوڑ وغیرہ بتلا دیتے.اس وقت حضور کے مبارک منہ سے اس طرح الفاظ جاری

Page 314

سیرت المہدی 307 حصہ پنجم تھے.کہ گویا کتاب آگے رکھی ہوئی ہے جس پر سے دیکھ کر پڑھ رہے ہیں.کتاب پر سے پڑھنے والے بھی کبھی رک ہی جاتے ہیں مگر حضور بالکل نہیں رکھتے تھے.حضور کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا اور حضور کی طرف میری آنکھیں لگی ہوئی تھیں.حضور کا رنگ اس وقت سرسوں کے پھول کی مانند تھا.آنکھیں بند رکھتے تھے اور کبھی کبھی کھول کر دیکھ لیا کرتے تھے.1557 بسم الله الرحمن الرحیم منش محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ رشوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ رشوت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کا حق غصب کرنے کے لئے کسی کو کچھ دے.لیکن اگر کسی بدنیت افسر کو اپنے حقوق محفوظ کرانے کے لئے کچھ دے دے تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کتے کو جو کاشت ہو.کوئی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا جائے.1558 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ محمد احمد صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین سکنہ بھیں والے کے مقدمہ کی پیروی کے لئے حضرت صاحب گورداسپوریگوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور میں حضور کے ساتھ ہوتا تھا.ایک دفعہ جب ہم گورداسپور سے روانہ ہونے لگے تو قریباً گیارہ بجے دن کے تھے.اور سخت گرمیوں کا مہینہ تھا.میں حضور کے ساتھ یکے کے اندر بیٹھا.میں پہلے اس بات کا خیال کر لیا کرتا تھا کہ جس وقت ہم روانہ ہوں گے دھوپ کا رخ کسی طرف ہوگا اور یکہ میں سایہ کس طرف.پھر سائے میں حضور کو بٹھاتا.میں ثواب کی خاطر ایسا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ حضور کو اس بات کا علم نہیں کہ میں عمداً ایسا کرتا ہوں.جب ہم روانہ ہوئے تو سخت گرمی اور دھوپ تھی اور یکہ سیدھا گورداسپور سے قادیان آتا تھا.بٹالہ کے راستہ سے نہیں آتا تھا.جونہی ہم روانہ ہوئے تو بادل کا ایک ٹکڑا سورج کے سامنے آگیا اور قادیان تک ہم پر سایہ کیا اور ٹھنڈ بھی ہوگئی.ہم یکے پر سے قادیان آ کر اترے.تو حضور نے فرمایا.مفتی صاحب ! اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا جو بادل کا سایہ ہم پر کر دیا اور بدلی ساتھ ساتھ قادیان تک ہی آ گئی.پھر حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب! اسی قسم کا ایک واقعہ پہلے بھی ہمارے ساتھ پیش آچکا ہے جب میں والد صاحب کے ساتھ زمین کے بارہ میں مقدمہ کی پیروی کے لئے امرتسر جایا کرتا تھا.جب ہم ( بٹالہ یا امرتسر خاکسار کو بھول گیا ہے، محمد احمد ) سے روانہ ہوئے

Page 315

سیرت المہدی 308 حصہ پنجم تو ہمارے ساتھ ایک ہندو بھی یکہ پر سوار ہونے والا تھا.تو جس طرح مفتی صاحب آپ تاڑ کر مجھے سایہ کی طرف بٹھاتے ہیں وہ بھی اسی طرح تاڑ کر جلدی سے اچھل کر خود سایے کی طرف بیٹھ گیا.ہم دھوپ میں ہی بیٹھ گئے اور اسے کچھ نہ کہا.پھر جونہی ہم روانہ ہوئے تو اسی طرح بدلی کا ٹکڑا سورج کے سامنے آگیا اور سارے راستے میں ہم پر سایہ کیا پھر جب اترنے لگے تو ہندو نے اپنے فعل پر شرمندہ ہو کر کہا.آپ دھوپ میں بیٹھے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ پر سایہ کر دیا.آپ کے طفیل ہم بھی آرام سے پہنچ گئے.خاکسار محمد احمد عرض کرتا ہے کہ جب پہلے مفتی صاحب سے یہ روایت سنی تھی اس وقت مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس ہندو کے منہ سے بے اختیار رام رام کے الفاظ نکل پڑے تھے.1559 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ غالبا جناب والد صاحب مرحوم ۱۸۹۸ء میں یہاں قادیان شریف بالکل ہی آگئے تھے.ان کی موجودگی میں ہی جناب میاں مبارک احمد صاحب مرحوم تولد ہوئے تھے.ان کی پیدائش کا سن ہی ہماری بیعت کا سن تھا.والد صاحب کی بیعت تو بہت پہلے کی ہوگی.ہمیں پتہ نہیں.ہم سب حضرت اقدس کے اسی مکان میں اترے کچھ عرصہ یہاں ہی ٹھہرے.جناب حضرت مسیح موعود نہایت سادہ پوشاک رکھتے تھے.بعض دفعہ تو ازار بند کے ساتھ چابیوں کا گچھا بھی لٹکتا ہوتا تھا.ہمیشہ نیم وا آنکھیں رکھتے تھے.کبھی سر مبارک پر رومی ٹوپی ہوتی تھی اور بعض دفعہ لکھنے میں بہت مصروفیت ہوتی تھی.ننگے سر بھی ہوتے تھے.ہر وقت اوپر، جہاں آج کل حضرت ام المومنین مدظلها تشریف رکھتی ہیں ، رہتے تھے.اور اکثر وقت لکھتے ہی رہتے تھے.بہت دفعہ دیکھا ہے کہ کمرے کے اندر ٹہلتے ٹہلتے بھی لکھتے رہتے تھے.تخت پر لکھے ہوئے اور سفید کاغذ رکھے ہوئے ہوتے تھے.ایک دفعہ میں حیرانی سے بڑی دیر کھڑی دیکھتی رہی بوجہ مصروفیت آپ کو کچھ خبر نہ تھی.چونکہ میں اپنے والد صاحب مرحوم کا کچھ پیغام لے کر آئی تھی اس لئے میں نے حضرت جی کہہ کر آواز دی.جو عرض کرنا تھا کیا.نہایت نرمی سے حضور اقدس نے فرمایا کہ حرج ہوتا ہے اس لئے میں جلدی چلی گئی اور اکثر شام کو حضرت صاحب صحن میں بالا خانے پر چار پائی پر بیٹھے ہوتے تھے.مولوی محمد احسن صاحب مرحوم ان کے پاؤں دبایا کرتے تھے.

Page 316

سیرت المہدی 309 حصہ پنجم 1560 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے والد صاحب نے مجھے بھیجا کہ جا کر حضرت صاحب سے عرض کرو کہ اب میں کیا کروں.میں گئی.حضور اقدس صحن میں کھٹولی پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے.مولوی محمد احسن صاحب مرحوم پاؤں دبا رہے تھے.میں نے جا کر والد صاحب کی طرف سے کہا.آپ نے فرمایا ” حضرت مولوی صاحب سے کہو کہ باہر جاویں تبلیغ کے لئے“.میں نے آکر والد صاحب کو کہہ دیا.والد صاحب ہنسے اور بہت خوش ہوئے.فرماتے تھے.اللہ اللہ حضرت صاحب کو تبلیغ سب کاموں سے پیاری ہے اور میرے دل میں بھی تبلیغ کا بہت شوق ہے.یہ اس لئے کہا کہ والدہ صاحبہ چاہتی تھیں کہ احمد یہ سکول میں منطق عربی پڑھانے پر ملازم ہو جاویں شاید سکول میں عرضی بھی دی ہوئی تھی.1561 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان صاحبہ بھی او پر بالا خانہ میں بیٹھی تھیں.میں بھی گئی بیٹھ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب پٹیالے سے رسد کے کتنے روپے لائے ہیں؟ میں نے کہا کہ میری بہن کی شادی پر والدہ صاحبہ نے قرض لے کر خرچ کیا تھا.کچھ تو وہ ادا کر دیا باقی ہمارے سب کے کپڑے بنادئے.فرمانے لگے.کیا خرچ کیا تھا.میں نے کہا کہ کپڑے زیور برتن وغیرہ جو کچھ کیا تھا بتا دیا.فرمانے لگے کہ قرض لے کر خرچ کرنا گناہ ہے.اماں جان نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے کیوں بی بی فاطمہ کو چکی دی تھی؟ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا.وہ قرض لے کر نہیں دی بلکہ گھر میں موجود تھی.1562 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے ہم پیر سراج الحق ( لمبے پیر ) کے ساتھ چوبارے میں رہتے تھے.اور ہمارے ساتھ محمد اسماعیل یا کچھ اور نام تھا ، ان کی بیوی رہتی تھی.ایک دوماہ کے بعد پھر حضرت صاحب کے قریب ایک کچا مکان خالی تھا وہ آپ نے ہمیں کرائے پر لے دیا.وہاں 66

Page 317

سیرت المہدی 310 حصہ پنجم مغلانیاں آپ کی غیر احمدی رشتہ دار آتیں.ہمیں خفا ہوتیں سخت ست کہتیں.ایک دن میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس مکان کا ہم نے مقدمہ کیا ہوا ہے.دعا کرو کہ ہمیں مل جاوے کیونکہ یہ ہمارا ہی حق ہے.پھر تمہیں بھی اس میں سے مکان بنادیں گے.میں بہت دن دعا کرتی رہی پھر جب کپورتھلہ میں جناب والد صاحب مرحوم محمد خاں صاحب افسر بگھی خانہ کو پڑھانے کے لئے گئے ہوئے تھے معہ ہم سب.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کو وہ مکان مل گیا تھا.1563 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جناب والد صاحب کہیں باہر دورہ تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے.پیچھے سے مصلحت کی وجہ سے منتظموں نے لنگر خانہ کا یہ انتظام کیا کہ جو مہمان آویں صرف ان کو تین دن تک کا کھانا ملا کرے.باقی گھروں کا بند کر دیا.ہمیں بھی لنگر خانہ سے دونوں وقت روئی آتی تھی.جب بند ہوگئی تو نہ آئی.ہم سب بہن بھائی ایک دن رات بھو کے رہے کسی کو نہ بتایا.دوسرے دن سب کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی کہ مائی تابی ایک مجمع اٹھائے ہوئے آئی.والدہ صاحبہ نے کہا.کہاں سے لائی ہے؟ کس نے بھیجا ہے؟ حضرت جی نے دور کا بیاں کھیر کی اور دو پیالے گوشت عمدہ پکا ہوا بھجوایا.والدہ صاحبہ کہتی ہیں مرغ کا گوشت تھا.اور روٹیاں توے کی پکی ہوئیں ہم سب حیران ہوئے کہ حضرت صاحب کو کس نے بتایا پھر میں شام کو برتن لے کر گئی.برتن نیچے رکھ کر او پرگئی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ صفیہ کل کیوں نہیں آئی.میں نے کہا کل ہم کو لنگر سے کھانا نہیں آیا تھا.اس لئے ہم سب گھر ہی رہے.آپ نے افسوس والی صورت سے فرمایا کہ کل تم سب بھو کے رہے.کیا تمہیں لنگر خانہ سے روٹی آتی تھی؟ بہت افسوس فرمایا اور کہا کہ آج جو مجھے کھانا آیا تھا میں نے تمہارے گھر بھیج دیا.مجھے یہ علم نہ تھا کہ تم کو کل سے کھانا نہیں ملا.پھر مجھے دس روپے دئے اور فرمایا کہ نیچے کوٹھی میں جتنے دانے گندم کے ہیں گھر لے جاؤ.اور خرچ کرو.جب تک حضرت مولوی صاحب نہیں آتے مجھے خرچ کے لئے بتایا کرو.پھر ایک ماہ میں کئی بار مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا خرچ ختم ہو گیا.میں کہدیتی نہیں.اسی ماہ کے اخیر میں ہی جناب والد صاحب مرحوم گھر آگئے.

Page 318

سیرت المہدی 311 حصہ پنجم 1564 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب جناب والد صاحب باہر جاتے تو حضرت صاحب ہمارا بہت خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ والد صاحب باہر گئے ہوئے تھے.وہ مکان (جو) مرزا امام الدین کے پاس پہلے تھا اس میں ہم رہتے تھے.بہت رڈی حالت اس کی تھی.ایک چھتڑا بالکل گرنے والا تھا.اس میں ہم دو بہنیں اور ایک بھائی بیٹھے تھے.تھوڑی تھوڑی بارش ہورہی تھی.حضور نے طاقی کھڑکائی اور اماں جان صاحبہ نے ناشپاتیاں دریچہ سے ہمارے صحن میں پھینکی شروع کیں.ہم بھاگ کر باہر آگئے.ناشپاتیاں چگنے لگ گئے اور پیچھے وہ چھڑا دھڑام سے گر گیا.والدہ صاحبہ دریچہ کے قریب اونچی اونچی شکر یہ ادا کر رہی تھیں کہ آپ نے میرے بچوں کی جان بچائی ورنہ نیچے دب کر مر جاتے.حضرت صاحب مجھے اب اسی طرح مسکراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں.1565 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سوالی در بیچے کے نیچے کرتا مانگتا تھا.حضرت صاحب نے اپنا کرتا اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا.والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اللہ اللہ کیسی فیاضی فرمارہے ہیں.1566 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ منگل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان صاحبہ معہ سب بچوں کے اور عاجزہ بھی ساتھ ہی مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کو اٹھائے ہوئے اور بھی کئی عورتیں ہمراہ تھیں ، گئے.زمینداروں کے ایک گھر گئے.انہوں نے چار پائی بچھا دی اس پر حضرت صاحب بیٹھ گئے.اور دوسری چار پائی پر حضرت ام الـمـؤمـنـيـن صاحبہ اور ہم سب ادھر ادھر، گھر والی ایک چنگیر میں تازہ گڑ لائی.وہ اماں جان صاحبہ کے پاس رکھ دیا اور چھنے میں رس یا روہ ہم سب کو آپ نے دیا اور گڑ بھی بانٹ دیا.یاد نہیں کہ آپ نے کھایا یا نہ کچھ دیر کے بعد واپس آئے.حضور عصا لے کر آگے آگے اور ہم سب پیچھے آپ بہت آگے رہتے تھے.گھر والی اور گاؤں کی عورتیں بھی آگئی

Page 319

سیرت المہدی 312 حصہ پنجم تھیں.معلوم نہیں ، یاد نہیں انہوں نے کیا باتیں کی تھیں مگر بڑے اخلاص سے باتیں کرتی تھیں.1567 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بڑی بہن حلیمہ بی بی اپنے سسرال سے بیمار آئی.میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ میری بہن کو تپ دق ہو گئی ہے.آپ نے فرمایا کل صبح قارورہ لے آنا میں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ چھنے میں پیشاب ڈال کر ضرور لانا.علاج کریں گے.گھر جا کر میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا.انہوں نے مجھے قارورہ دے کر بھیجا.جب میں نے چھنا لا کر برانڈے میں رکھا.آپ نے فرمایا ڈھکنا اتار ، ڈھکنا اتارا تو حضرت صاحب پچھلے پاؤں جلدی پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا دھیلے کا شاہتر ا لے کر مٹی کے برتن میں رات کو بھگو دو صبح پن کر مصری ڈال کر پلا دو پھر والدہ پلاتی رہیں.اسی سے اللہ پاک نے آرام دے دیا ایک ہفتہ میں بالکل اچھی ہوگئی.1568 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نیچے برانڈے کے اندر جہاں ایک کمرے میں آج کل باور چی کھانا پکاتا ہے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے.مجھے فرمایا سرد باؤ.آپ دبواتے نہیں تھے بلکہ ایک طرف انگوٹھے دوسری طرف انگلیوں سے ستواتے تھے.میں بہت دیر تک اسی طرح سردباتی رہی.مجھے سر دباتی کوفرمانے لگے کسی دن تم کو بہت فخر ہوگا کہ میں نے مسیح موعود کا سرد بایا تھا یہ کلمے حضرت علیہ السلام کے مجھے ایسے یاد ہیں جیسے اب فرماتے ہیں.افسوس اس وقت کچھ قدر نہ کی.اب پچھتانے سے کیا ہوسکتا ہے.1569 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے ساتھ حضرت اماں جان صاحبہ بھی علی الصبح سیر کو جایا کرتی تھیں.ایک دو عور تیں لڑکیاں بھی اماں جان کے ہمراہ ہوتی تھیں.میں اماں جان صاحبہ سے کہتی کہ مجھے بھی بلا لینا.جب میں آتی تو وہ واپس آرہے ہوتے مجھے دیکھ کر اماں جان فرماتیں.اچھا کل بلاؤں گی.پھر بھول جاتیں مجھے دیکھ کر کہتیں ہائے مجھے یاد نہیں رہا.میں نے

Page 320

سیرت المہدی 313 حصہ پنجم کہا آپ روز بھول جاتی ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل میں بلاؤں گا.دوسرے دن جانے سے پہلے ہی آپ نے دریچہ کھول کر مجھے آواز دی جب میں سامنے آئی تو فرمایا ” آؤ بیوی صاحبہ سیر کو جارہی ہیں“.1570 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ۱۹۰۵ءماہ اکتوبر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ مع حضرت اماں جان صاحبہ اور سب بچوں کے تشریف لے گئے.چھاؤنی میں فرید کے مکان میں اترے.والد صاحب لدھیانہ کے اردگرد کے گاؤں سے لوگوں کو عورتوں کو پہلے ہی خبر کر آئے تھے کہ فلاں دن امام مہدی تشریف لائیں گے.لدھیانہ آکر زیارت کرنا.رمضان شریف کا مہینہ تھا.والدہ صاحبہ اور میں بھی حضور کی زیارت کو پہنچیں.گاؤں کی عورتیں کھدر کے گھگرے اور سب کپڑے کھدر کے پہنے ہوئے.روزے سے آ آکر مجھے کہتیں.بی بی امام مہدی کی زیارت کرا.میں اندر لے لے جاتی تھی.وہ سب جا کر ایک ایک روپیہ دیتیں اور بڑے اخلاص سے دیکھتیں.حضور نے اماں جان صاحبہ کی طرف رخ کر کے اسی طرف ام ناصر اور میں بیٹھی تھیں.فرمایا کہ ایسی عورتیں ہی بہشت میں جاویں گی اور ان عورتوں کو بھی کچھ نصیحتیں کیں کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں.1571 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا که آخر ۱۸۹۹ء یا شاید ۱۹۰۰ ء ہوگا کہ میرے والد صاحب مرحوم کے چچا زاد بھائی با بوحمد اسماعیل ہیڈ کلرک دفتر رولی برادرس امرتسر سے آئے اور کہنے لگے کہ میرے پر فلاں صاحب نے مقدمہ کیا ہوا ہے.جس کی وجہ سے میں سخت حیران ہوں.اس جینے سے موت بہتر سمجھتا ہوں.قریباً دو سال مقدمے کو ہو چلے ہیں.اب کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی.وکیلوں نے کہ دیا ہے کہ قید اور جرمانہ ضرور ہو گا.رات میرے دل میں خیال آیا کہ بھائی صاحب سے جا کر کہوں یعنی والد صاحب سے کہ آپ حضرت مرزا صاحب سے میرے مقدمے کے لئے دعا کرائیں شاید اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی برکت سے مجھے رہائی بخشے وہ روتے تھے والد صاحب نے فرمایا.بیلیا! اگر ہمارے حضرت صاحب نے تیرے لئے ہاتھ اٹھا دیئے تو واقعی تو ہر طرح

Page 321

سیرت المہدی 314 حصہ پنجم کی سزا سے بچ جائے گا.اس پر وہ کہنے لگے کہ دعا کراؤ.والد صاحب نے کہا کہ کھانا کھالو.ظہر کی نماز کے وقت مسجد چلیں گے پھر دعا کے لئے عرض کریں گے.انہوں نے کہا کہ میں روٹی نہیں کھاتا مجھے روٹی اچھی نہیں لگتی پہلے دعا کراؤ.اور جب سے مقدمہ ہوا ہے میں نے کبھی بھی خوشی سے روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی.ہر وقت متفکر ، جان سے بیزار روتا رہتا ہوں.بہت گھبراتے تھے.آخر والد صاحب مجھے ہمراہ لے کر حضرت صاحب کے مکان پر آئے.مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے راستے میں اوپر حضور والا کے پاس پہنچی.میرے والد صاحب مسجد میں ٹھہرے اور بابو صاحب سیٹرھیوں میں بیٹھ گئے میں نے جا کر کہا کہ میرے والد صاحب اور چچا زاد بھائی بابومحمد اسماعیل آئے ہوئے ہیں.ان پر کوئی بڑا سخت مقدمہ ہے آپ کو دعا کے کئے عرض کرتے ہیں.آپ اس وقت چھوٹے تخت پوش پر بیٹھے لکھ رہے تھے.پاس لکھے ہوئے کاغذ پڑے تھے.فرمایا کہ ان سے پوچھ آؤ کہ کچھ تمہارا جرم بھی ہے؟.میں نے اسی طرح جا کر کہا.انہوں نے کہا کہ ہاں میں بڑا مجرم ہوں.میں نے خیانت کی پرائیویٹ دکان سرکاری ملازم ہو کر کھولی وغیرہ وغیرہ.خود زبانی عرض کروں گا.حضور اقدس نے فرمایا کہ دعا کریں گے.میں نے جا کر کہہ دیا کہ وعدہ کیا ہے دعا فرما دیں گے.لیکن ان کو تسلی ہی نہ ہووے.بہتیرا والد صاحب نے سمجھایا.تسلی دی وہ بار بار یہی کہیں کہ تم حضرت صاحب کے دعا کے لئے ہاتھ اٹھوا آؤ میری منتیں کریں میں پھر حضرت صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ حضرت جی وہ سیڑھیوں میں بیٹھے ہیں جاتے نہیں مجھے کہتے ہیں کہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھوا کر آ.حضور اقدس نے سنتے ہی دعا کے لئے دست مبارک اٹھائے اور میں بھاگی سیڑھیوں کی طرف گئی.کہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے ہیں.دعا ہورہی ہے.پھر والد صاحب نے مجھے کہا کہ اب تم گھر کو جاؤ.میں گھر چلی گئی.بعد میں پتہ نہیں نماز کے وقت حضرت سے ملے یا نہ ملے.پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد شاید ماہ ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی وہ اپنی خوشی سے تحفے تحائف لے کر آئے اور میرے لئے بھی کپڑے، چانی ، جوتی، پھل وغیرہ لائے.اور حضرت اُم المومنین کے لئے بھی چوڑیاں ، خوبصورت کنگھیاں بہت سے فروٹ میرے ہاتھ بھیجے اور حضور اقدس کو ملے.بہت شکریہ کرتے تھے.نقدی بھی دی.پتہ نہیں اس مقدمے میں دو اور بھی گرفتار تھے.ایک کا نام بابو عبد العزیز اور دوسرے کا نام بابوعلی بخش تھا.ان کا خفیف سا جرم تھا.تاہم

Page 322

سیرت المہدی 315 حصہ پنجم ان دونوں کو سزا قید ہوئی.جس وقت ان دونوں کے ہتھکڑیاں پڑیں.پیچھے ان کے بیوی بچے روتے جاتے تھے.بہت رحم آتا تھا.بابومحمد اسماعیل صاحب کہتے تھے کہ اصل مجرم تو میں تھا.حضرت صاحب کی دعا سے خدا نے مجھے بچایا.ورنہ میری رہائی کی کوئی صورت نہ تھی.اب کی چھٹیوں پر مجھے چا محمد اسماعیل صاحب لاہور ملے تھے.میں نے وہ مقدمہ والا حال یاد دلایا اور کہا کہ آپ نے وہ زمانہ دیکھا تھا.جب یکے پر قادیان دعا کے لئے گئے تھے.اب یہاں آ کر ترقی کا زمانہ دیکھو اور آپ کو والد صاحب نے نعمت اللہ ولی کے شعر سنائے تھے.آپ نے لکھ لئے تھے.اب ذرا پسرش یاد گار کی زیارت خود کیجئے.کہنے لگے جلسے پر ضرور آؤں گا.حضرت محمود احمد صاحب کی زیارت کروں گا.انہوں نے دو دفعہ حج کیا تھا بہت بوڑھے ہو گئے تھے اسی ماہ اکتوبر میں فوت ہو گئے.ان کے بیٹے مقدمے وغیرہ کے گواہ ہیں اور میری والدہ صاحبہ بھی گواہ ہیں.بلکہ ان کا اور میرا مضمون واحد ہے.1572 بسم اللہ الرحمن الرحیم.صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کے چوٹ لگی جس سے خون نکلتا تھا.اور حضرت فرما رہے تھے کہ خدا کی بات کبھی نہیں ملتی اور خوشی کا اظہار فرمارہے تھے.گھر گئی تو والد صاحب نے بتایا کہ آپ کو الہام ہوا تھا کہ میاں مبارک احمد صاحب کو چوٹ لگے گی.1573 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میری عمر ۱۳ برس کی تھی.جب میری شادی احمد حسین مرحوم سے ہوئی تو میری عمر گیارہ یا بارہ برس کی تھی.نادانی کی عمر تھی.ماسٹر صاحب مجھے بہت سمجھایا کرتے ، مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آتا جب وہ مجھے بیعت کو کہتے تو میں انکار کر دیتی.کہ میں کیوں غیر مردوں کی بیعت کروں.ماسٹر صاحب بہت سمجھاتے مگر کچھ مجھ میں ہی نہ آتی کیونکہ ہندوستان سے گئی تھی جہاں پر جہالت ہی جہالت تھی.اور ان دنوں ماسٹر صاحب اخبار کے ایڈیٹر تھے.حضرت مسیح موعود نے دہلی سے بلوایا تھا.وہاں پر وہ حسن نظامی کے پاس ملازم تھے.وہاں پر سے آکر

Page 323

سیرت المہدی 316 حصہ پنجم وہ اخبار کی ایڈیٹری پر ملا زم ہوئے تھے.وہ بہت پرانے احمدی تھے.وہ دو دفعہ مجھے قادیان لائے بیعت کے لئے مگر میں نے نہیں کی.آہستہ آہستہ مجھے جب سمجھ آگئی تو پھر ماسٹر صاحب مجھے بیعت کے لئے لائے اور میں نے بیعت کی.میرے ہمراہ شیخ یعقوب علی صاحب کی اہلیہ تھیں.انہوں نے میری بیعت کروائی تھی.ان دنوں حضرت صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی) میاں بشیر احمد صاحب، مبارکہ بیگم صاحبہ یہ سب چھوٹے بچے تھے.اور یہ کھیلتے کھیلتے کمرے میں داخل ہو گئے.اور دروازہ بند کر لیا.دروازہ ایسا بند ہوا کہ کھلے نہ اور بچے اندر روئیں.ان کے رونے سے حضرت اماں جان بے ہوش ہو گئیں.ہم سب نے ہر چند دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر نہ کھلے پھر کسی نوکر نے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی تو حضرت علیہ السلام نے بڑھئی کو بلا کر دروزہ کھلوایا تو پھر بچے اندر سے نکلے.اُسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر کی تھی.یہ امرتسر کا ذکر ہے کہ جب شام ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہوئی.تو دشمنوں نے پتھر برسانے شروع کر دئے.شیشے دروازوں کے توڑ دئے.اور اماں جان دوبارہ بے ہوش ہو گئیں.ہم سب عورتیں چھپ گئیں.کوئی پاخانے میں کوئی چار پائی کے نیچے کوئی کہیں کوئی کہیں.پھر خدا جانے کسی طرح پتھر بر سنے بند ہو گئے.حضرت علیہ السلام سے بیعت کرنے والے آپ کے چاروں طرف بیٹھ جاتے اور حضرت ان سے بیعت لیتے.یہ حضرت صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سے ہے کہ آپ عورتوں کو کبھی بھی کھلی لمبی آنکھوں سے نہ دیکھتے تھے.جب کمرے سے باہر نکلتے تو کوٹ ، واسکٹ صافہ ہمیشہ پہن کر نکلتے.میں نے کئی بار آپ کو صحن میں ٹہلتے ٹہلتے لکھتے دیکھا.دودوا تیں ہوتی تھیں.ادھر گئے تو ادھر سے دوات سے قلم بھر لیتے تھے اور لکھتے ، ادھر گئے تو اُدھر سے قلم بھر لیتے اور لکھتے اور اگر کسی نے مسجد سے آواز دینی تو آپ تشریف لے جاتے.اور لوگوں نے دوڑ کر آگے پہنچے ہونا.گر د سخت اڑتی تھی.اور حضرت صاحب صافہ کا پلو منہ اور ناک کے آگے لے لیتے اور ہر ایک کے ساتھ محبت اور اخلاص کے ساتھ پیش آتے.ان دنوں راستے بہت خراب تھے.جنگل ہی جنگل تھا.گنتی کے آٹھ دس مکان تھے جب ہم نے امرتسر سے قادیان ٹانگا پر آنا تو کتنی کتنی اونچی جگہ ٹانگے نے چڑھ جانا اور پھر نیچے اتر نا.ہچکولے بہت لگتے تھے مگر ہمارے دلوں میں تڑپ تھی.اس لئے ہمیں پرواہ نہیں ہوتی

Page 324

سیرت المہدی 317 حصہ پنجم تھی.بلکہ خوشی محسوس ہوتی تھی.1574 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے عورتوں میں چندے کی تحریک کی ،سب عورتیں چندہ دینے لگ گئیں.جن کے پاس پیسے نہ تھے وہ زیور دیتی تھیں.تو مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ یا تو زیور عورتیں دیتی ہیں یا پیسے، پہلے میں سوچتی کہ سارا زیور دے دوں.پھر سوچا کہ اپنے میکے جاؤں گی تو سب پہنیں گے تو میرے پاس نہیں ہوگا یہ سوچ کر اٹھی اور ناک سے نتھ اتاری اور میرے پاس سات روپے تین پیسے تھے وہ بھی رکھ لئے.اور جا کر حضرت صاحب کے ہاتھ میں دے دئے تو حضور نے میری طرف دیکھا اور پھر مولوی محمد دین کو کچھ کہا.جو مجھے یا نہیں انہوں نے روپے بھی لئے اور نتھ بھی اور ماسٹر صاحب کے پاس لے گئے ماسٹر صاحب نے نتھ تو لے لی اور روپے رہنے دیئے مگر مجھے اس بات کا علم نہیں تھا.جب سمجھ دار ہوئی تو پھر ماسٹر صاحب نے بتایا تھا.جس وقت حضرت مولوی صاحب واپس آگئے.ماسٹر صاحب کے پاس سے تو پھر مجھے بلایا.ماسٹر صاحب نے اور پوچھا کہ تم نے چندہ دیا تو میں نے کہا کہ ہاں.پوچھا، کیا میں نے کہا جو جیب میں روپے تھے.اور ناک کی نتھ.پہلے میں سارا زیور دینے لگی تھی.پھر میں نے سوچا کہ اپنے میکے جاؤں گی تو سب پہنیں گے تو میرے پاس نہیں ہوں گے.ماسٹر صاحب نے مجھے شاباش دی اور کہا کہ دیکھو کہ تم نے چندے میں نتھ دی تھی.اور ہم تمہیں دیتے ہیں.میں بہت خوش ہوئی اور کہا کہ اب کے میں سارا ہی دے دوں گی.مجھے اللہ میاں اور دے دے گا.یہ کہہ کر بھاگی ہوئی اندر گئی اور پھر نتھ پہن لی تو میری ناک میں نتھے دیکھ کر مولوی محمد دین کی بیوی نے اور حضرت صاحب کی بڑی بیوی یعنی اُم ناصر احمد صاحب کہنے لگیں.ابھی تو تم نے چندے میں دی تھی.اور اب تمہاری ناک میں ہے.تو میں نے خوش ہو کر کہا کہ اللہ میاں نے اور دے دی ہے.اور جب بھی ہم قادیان آتے تو حضرت صاحب کے گھر میں اترتے اور حضور بڑی محبت سے پیش آتے.اگر کھانے کے وقت نظر پڑ جاتی تو پھر پوچھتے.نتھ والی ، کھانا کھا لیا.تو میں کہتی ، جی.1575 ﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے

Page 325

سیرت المہدی 318 حصہ پنجم بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اماں جان کو ساتھ لے کر حضور سیر کو جاتے تو ہم عورتیں بھی ساتھ ہولیتیں ،تو حضور راستے میں اماں جان سے باتیں کرتے.مگر اتنی عقل نہیں تھی کہ سنتی حضرت صاحب کیا باتیں کرتے ہیں.سارے راستے میں میں شرارتیں کرتی جاتی مگر حضور نے کبھی منع نہ کرنا کئی بار ساتھ سیر کو میں گئی.اور جب حضور اپنے سسرال میں جاتے یعنی دہلی تو وہاں بھی کئی بار میں نے ان کو دیکھا کیونکہ وہاں پر میرے میکے تھے.اور مرزا محمد شفیع کے گھر بہت آنا جانا تھا.تو حضور بھی وہاں تشریف فرما ہوتے.غرض میں جہاں بھی حضور کو دیکھتی وہیں کھڑی ہو جاتی اور بڑے غور سے آپ کو دیکھتی اور اپنے دل میں خوش ہوتی.اور اگر باہر سے آتے ہوئے دیکھنا آپ کو ، تو ادھر انہوں نے اندر قدم رکھا اور سب کو سلام کرنا جس کا انہوں نے جواب دینا پھر میں نے جلدی سے سلام کرنا جس کا انہوں نے جواب دینا.1576 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ماسٹر صاحب بھی مجھے کبھی کبھی حضور کی باتیں سناتے.ایک واقعہ سنایا کہ چٹھی رساں آیا اور خط لایا.تو حضور کے پاس چائے رکھی تھی اور کسی آدمی نے مانگی.حضور نے اس کو آنجلا بھر کے دی تو ڈاکیے نے کہا کہ حضور چائے کی تو مجھے بھی عادت ہے.حضور نے اس کو بھی دی پھر لے کر کہنے لگا.حضور دودھ اور میٹھا کہاں سے لوں گا تو آپ نے اس کو ایک روپیہ بھی دیا.1577 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر ماسٹر صاحب سے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب مردوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے.کہ مرد اپنی بیویوں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کریں ثواب کا کام ہے.رسول کریم علی بھی گھر کے کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے.اور ساتھ ہی یہ لفظ کہتے ہمیں تو لکھنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی.1578 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے ماسٹر صاحب نے سنایا کہ سردی کا موسم تھا ڈا کیہ خط لا یا اور کہنے لگا حضور مجھے سردی لگتی ہے آپ مجھے اپنا کوٹ دیں تو حضور اسی وقت اندر گئے اور دو گرم کوٹ چلو ( ہندی لفظ ہے)

Page 326

سیرت المہدی 319 حصہ پنجم لے آئے اور کہنے لگے جو پسند ہو لے لو.اس نے کہا مجھے دونوں پسند ہیں تو حضور نے دونوں دے دئے.1579 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور اپنی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں.اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بنا کر رکھنا چاہئے اور مردوں کے ساتھ بھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہئے اور میں جب کبھی حضرت صاحب کے گھر آتی تو میں دیکھا کرتی کہ حضور ہمیشہ ام المومنین کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے.محمود کی والدہ یا کبھی محمود کی اماں ! یہ بات اس طرح سے ہے اور اپنے نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے.مجھے یاد نہیں آتا کہ حضور کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے ، ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے.1580 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ عورتوں میں یہ بری عادت ہے کہ ذرا سی بات میں گالیاں اور کوسنوں پر اتر آتی ہیں بجائے اس کے اگر وہ اپنے بچوں کو نرمی سے پیش آئیں اور بجائے گالی کے نیک ہو“ کہہ دیا کریں تو کیا حرج ہے.عورتیں ہی اپنے بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور بُرے اخلاق پیدا کرتی ہیں.اگر یہ چھٹے تو بچوں کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے.اگر میاں بیوی میں ناراضگی ہو جاوے تو چاہئے کہ دونوں میں سے ایک خاموش ہو جائے تو لڑائی نہ بڑھے اور نہ بچے ماں باپ کو تو تو میں میں کرتے سنیں بچہ تو وہی کام کرے گا جو اس کے ماں باپ کرتے ہیں اور پھر یہ عادت اس کی چھوٹے گی نہیں.بڑا ہو گا ماں باپ کے آگے جواب دے گا پھر رفتہ رفتہ باہر بھی اسی طرح کرے گا اس لئے عورتوں کو اپنی زبان قابو میں رکھنی چاہئے.آپ بیعت کرنے والوں کوضرور کچھ روز اپنے گھر ٹھہراتے تھے.1581 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت میاں صاحب باہر سے کھیلتے کھیلتے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جیب میں دو یا ایک چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال دئے.پھر حضور جب اندر تشریف لائے تو اماں جان سے کہا کہ میرے کوٹ سے قلم نکال لاؤ یا کسی کا خط منگایا.یاد نہیں.تو اماں جان

Page 327

سیرت المہدی 320 حصہ پنجم نے جیب میں کنکر دیکھ کر پوچھا تو آپ نے کہا کہ ان کو جیب میں ہی رہنے دو یہ میاں محمود کی امانت ہے اور اماں جان نے جیب میں ہی رہنے دئے.❤1582 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر مولا بخش صاحب ریٹائرڈ مدرسہ احمدیہ قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ موسمی تعطیلات میں میں یہاں آیا ہوا تھا.ستمبر کا مہینہ تھا سن اور تاریخ یاد نہیں.مسجد مبارک کی توسیع ہو چکی تھی.میں صبح آٹھ بجے مسجد مبارک میں اکیلا ہی ٹہل رہا تھا کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی سے جو مسجد مبارک میں کھلتی ہے تشریف لائے.ذرا سی دیر بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مرحوم یا خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اندرونی سیڑھیوں کی راہ سے مسجد میں آگئے.حضرت اقدس مسجد کے پرانے حصہ میں کھڑ کی سے مشرقی جانب فرش پر تشریف فرما ہوئے اور ان سے باتیں کرنے لگ گئے اور خاکسار آہستہ آہستہ حضرت اقدس کے دست مبارک دبانے لگا.باتیں کرتے کرتے آپ کے جسم مبارک میں جھٹکا سا لگا اور سارا بدن کانپ گیا اور میرے ہاتھوں سے آپ کی کلائی چھوٹ گئی.آپ فورا اندر تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ یہ نزول وحی کا وقت ہے.1583 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات پر جب جنازہ لے کر قبر پر گئے تو قبر تیار نہ تھی.اس وسطے وہیں ٹھہر نا پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقبرے کے شمال کی طرف درختوں کی قطار کے نیچے بیٹھ گئے.باقی احباب آپ کے سامنے بیٹھ گئے.اس وقت آپ نے جو تقریر کی وہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا اثر یہ تھا کہ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان لوگوں کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے اور حضور ماتم پرسی کے لئے آئے ہیں اور ان کو تسلی دے رہے ہیں.لکھے تھے.1584 منشی محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا کہ بالکل یہی الفاظ میں نے سید حامد شاہ صاحب کو بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب

Page 328

سیرت المہدی 321 حصہ پنجم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے محمد بخش نام کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر محمد بخش سے یہ مراد لی جائے کہ محمد کے طفیل بخشا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں.1585 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی، تماشے اور باجے کا تقاضا کیا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں.حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب نا جائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اٹھالیتا ہے مثلاً شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے.ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تو وہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے.اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اور باجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا.کہ فلاں شخص کی لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے اگر اس نے اس نیت سے باجا بجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہو جائے گی.اس میں بھی ناجائز کا سوال اٹھ گیا.1586 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرے والد منشی احمد جان صاحب مرحوم حج کو جانے لگے تو حضرت صاحب نے ایک خط ان کو لکھ کر دیا کہ یہ خط وہاں جا پڑھنا.چنانچہ میرے والد صاحب نے عرفات کے میدان میں وہ خط پڑھا.اور ہم نے وہ خط سنا.اس کے الفاظ خاکسار کو یاد نہیں.ہم ہیں آدمی اس خط کو سُن کر آمین کہنے والے تھے..پیرا 1587 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پی افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بشیر اول کے عقیقہ ہیم.کے وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا والد رحیم بخش قادیان میں تھا.اس نے بچے کو بال مونڈنے کے وقت گودی میں لیا ہوا تھا.اور بیت الفکر میں ہم پندرہ کے قریب آدمی حضور کے ساتھ تھے اور اتنے ہی آدمی ہمشکل اس کمرہ میں آسکتے تھے.حضرت میر محمد الحق صاحب کے والد جو اس تقریب میں تشریف لا رہے تھے بوجہ بارش بٹالہ میں ہی رکے رہے.گویا اس دن بارش خوب ہو رہی تھی.1588 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے

Page 329

سیرت المہدی 322 حصہ پنجم بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص نجا تھا.اس کی بیوی ابھی آٹھ دس سال کی بچی تھی اور وہ کالی سی تھی.اور حضرت صاحبزادہ مبارک احمد کے ساتھ ساتھ رہتی.گویا یہ نوکرانی تھی.حضور اس کو فرماتے کہ ادھر آؤ اور مبارک احمد کو اچھی طرح سے رکھا کرو.ہم اس وقت تین لڑکیاں تھیں ،صفیہ، صغری ، امۃ الرحمان تو ہم نے حیران ہو جانا کہ ہم اس کو ذلیل سمجھتی ہیں اور حضرت صاحب اس کو بھی ادب سے بلاتے ہیں.1589 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امتہ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھے سے بیان کیا کہ حضور ایک دالان میں ہوتے اور عورتیں بھی وہاں ہوتیں اور ہر وقت اپنے کام تحریر میں لگے رہتے ان کو کوئی خبر نہ ہوتی تھی کہ کون آیا اور کون گیا.ایک لڑکی ہم تینوں میں سے بغیر اجازت کوئی چیز کھا لیتی.ایک دن وہ صحن میں بیٹھے آم کھا رہے تھے.ہم دولڑ کیاں اوپر سے گئیں اور آم لے لئے.ایک عورت آگئی اور کہنے لگی تم نے آم کہاں سے لئے.ہم نے کہا حضرت صاحب نے دئے ہیں.اس نے کہا نہیں تم نے خود ہی لئے ہیں.حضور نے تجھ کو نہیں دئے ان کو کہاں نظر آتا ہے.ان کو تو کوئی خبر ہی نہیں ہوتی.کوئی آئے کوئی جائے.حضور بیٹھے تھے میں آئی اور حضور کو خبر تک نہیں.1590 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ حضور ہمیشہ وضو سے رہتے تھے اور فسل بھی روز فرماتے.حضور نہایت رحیم کریم تھے.اگر حضور کوئی خاص دوائی یا غذا بنواتے تو کسی خاص اعتبار والے سے بنواتے.یہ خادمہ جب تک نوکر رہی ، چیز میں حضور کی بنایا کرتی.1591 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھے سے بیان کیا کہ جب حضور ” سناتن دھرم کتاب تصنیف فرما رہے تھے.تو ان دنوں میں مجھ کو بلانے آئے تو حضور کی زبان مبارک سے امتہ الرحمان کی جگہ سناتن دھرم کے لفظ نکل گئے.تو ایک دن میں نے حضور سے عرض کی حضور مجھ کو فکر ہو گیا.حضور کی زبان مبارک سے میری بابت یہ کیوں ہندو لفظ آجاتا ہے تو حضور نے فرمایا امۃ الرحمان یہ کوئی برا لفظ نہیں ہے.اس کے معنے ہیں پرانا ایمان.پھر جب بھی یہ لفظ کہتے حضور ہنس پڑتے اور چہرہ چمک جاتا.

Page 330

سیرت المہدی 323 حصہ پنجم 1592 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امتہ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اُم المومنین علیہا السلام کوفر مار ہے تھے کہ جو کام خدا تعالیٰ خود بخود کرے اس کا ذمے دار بھی خدا تعالیٰ خود بخود ہو جاتا ہے.انسان کی خواہش اس کے مطابق چاہئے اور دعا ئیں بھی کرے.جب انسان کی کوشش اور خواہش کے مطابق وہ ہو بھی جائے تو اس کی ذمہ واری وہ انسان پر ڈال دیتا ہے.اس واسطے سب کام خدا کے اُسی کے ذمے ڈال دینے چاہئیں.1593) بسم اللہ الرحمن الرحیم.امتہ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ کسی کی نسبت کینہ اپنے دل میں نہ رکھے اور مواد نہ جمائے رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے نقصان اور مصیبتوں کا سا منا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کی بابت کوئی دل میں رنج ہو تو فور امل کر دلوں کو صاف کر لینا چاہئے اور مثال بیان فرمائی جب انسان کو زخم ہو اس میں مواد پیپ بھرا پڑا ہو اور نکالا نہ جائے تو وہ گندہ مواد انسان کے بہت سے حصہ بدن کو خراب کر دیتا ہے.اسی طرح دل کے مواد کی بات ہے.اگر ایک دوسرے کے رنج کو دل میں رکھا جائے تو زخم کے مواد کی طرح بُری حالت پیدا ہوتی ہے جس کی تلافی مشکل ہوتی ہے.1595 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جو سچے دل سے اخلاص رکھتا ہوتا تھا اور حضور کو معصوم جانتا ہوتا تھا.حضور بھی اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیا کرتے تھے.اگر چہ وہ کوئی ناپسندیدہ کام کرتا لیکن حضور اس کے اخلاص کی وجہ سے باز پرس نہیں کیا کرتے تھے.1596 بسم اللہ الرحمن الرحیم.امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے.حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کا اس طرح ہوتا کہ گویا بشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے.☆☆☆

Page 331

Page 332

888888 العلمية الام سيرة المهدى تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے

Page 333

Page 334

سیرت المہدی 327 تتمه سيرت المهدى حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بعض خطوط اور مضامین سیرت المہدی کے غیر مطبوعہ مسودہ میں ہی رکھے تھے تا کہ انہیں بھی شامل اشاعت کیا جائے کیونکہ ان کا تعلق سلسلہ کی تاریخ سے ہے.خطوط میں محمد نصیب صاحب، عبدالرحمن صاحب خلف میاں حبیب الرحمن صاحب مرحوم ، ملک حسن محمد صاحب، شیخ محمداحمد مظہر صاحب اور جناب کنورسین صاحب ایم اے بارایٹ لاء ڈیرہ دون کے خطوط ہیں.اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تحریک پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل تین مضامین شامل ہیں جو آپ نے ۳۹.۱۹۳۸ء اور ۱۹۴۶ء میں تحریر کر کے حضرت میاں صاحب کو دیئے تھے اور آپ نے انہیں سیرت المہدی کے غیر مطبوعہ مواد کے ساتھ رکھا تھا.جلسه اعظم مذاہب لا ہو ر ۱۸۹۶ء کی روئیداد عید قربان ۱۹۰۰ ء اور خطبہ الہامیہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہور اور حضور پر نور کا وصال ناشر.سید عبدالحی

Page 335

328 سیرت المہدی

Page 336

سیرت المہدی 329 مكتوب مكرم محمد نصیب صاحب بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بخدمت حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں اخبار بدر دیکھ رہا تھا اس میں ۲۷ فروری ۱۹۰۸ء کے اخبار میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تقریر جو آپ نے ۷ار فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں آپ کے سامنے فرمائی ، حسب ذیل پائی گئی.اس کی نقل پیش خدمت ہے.گزشتہ ہفتہ میں مختصر نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا نکاح صاحبزادی مبارکہ بیگم کے ساتھ ۷ار فروری کو ہونا ذکر کیا گیا تھا.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے خطبہ نکاح میں کیا خوب فرمایا تھا.کہ ایک وقت تھا جبکہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدر جہان کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خان صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے.نواب صاحب موصوف کے خاندان میں حق مہر کے متعلق دستور ہوتا ہے کہ کئی کئی لاکھ مقرر کیا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی قومی رسم کے مطابق اب بھی یہی کہا تھا مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے پسند نہ فرمایا.تا ہم نواب صاحب کی وجاہت اور ریاست کے لحاظ سے چھپن ہزار روپے حق مہر مؤجل مقرر ہوا.“ اس عبارت کی نقل کرنے اور خدمت والا میں عرض کرنے کی غرض یہ ظاہر کرنا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق کیا خیال تھا؟ خادم محمد نصیب ۱۶_۱_۴۱

Page 337

سیرت المہدی 330 مكتوب مكرم عبدالرحمن خان خلف میاں حبیب الرحمن خان P.O.Tandlianwala Distt.Lyall Pur Date.21.10.49 هو الناصر بسم الله الرحمن الرحيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود بحضور حضرت صاحبزادہ صاحب.مکرم ومعظم واجب التعظیم والتکریم سلمۃ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بہت ہی ادب و احترام سے یہ خاکسار حضور میں عرض پرداز تھے کہ اخبار الفضل مورخه ۲۰ / اکتوبر ۴۹ نمبری ۲۴۰ موصولہ امروزہ میں حضور نے حضرت صاحبزادہ رزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت حسب تحریر برادر مکرم شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق کپورتھلہ حال لائل پور طبع فرمائی ہے جو کہ بزبانی حضرت ماموں صاحب منشی ظفر احمد صاحب سے سنی ہوئی ہے اور کئی مرتبہ دوسرے احباب کو بھی سناتے ہوئے خود سنا ہے.اس لحاظ سے خاکسار شاہد ہے.اور چونکہ یہ سلسلہ کی تاریخی روایت ہے.اس لئے میں روایت کے متعلق جس قدر میرے ساتھ ماموں ظفر احمد صاحب مرحوم نے تذکرہ فرمایا وہ مجھے بخوبی یاد ہے.چنانچہ خاکسار بھی حضور میں عرض پرداز ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ روایت صحیح عرض کر رہا ہوں تا کہ محفوظ رہے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود مجھ سے بھی تذکرہ فرمایا اور میری موجودگی میں بھی کئی مرتبہ مسجد احمد یہ کپورتھلہ میں اس روایت کا اس طرح تذکرہ فرمایا تھا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا ہے.جالندھر میں بعہدہ افسر مال تعینات تھے.حضور کی وفات سے پیشتر علاقہ میں دورہ پر گئے ہوئے تھے.جس روز علاقہ کے دورہ سے واپس گھوڑے پر سوار جالندھر کی جانب تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں یکلخت آپ کو الہام ہوا ”ماتم پرسی“ آپ اس الہام پر پہلی مرتبہ تو کچھ نہ سمجھے اور گہری سوچ میں پڑ گئے اور

Page 338

سیرت المہدی 331 گھوڑے پر سوار بدستور چلتے چلے گئے کہ راستہ میں دوبارہ پھر یہی الہام ہوا اور ساتھ ہی طبیعت پر آپ کو کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا.پھر آپ کو خیال ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور خیالات بہت پراگندہ ہوئے.آپ نے بوقت تذکرہ بتلایا کہ آپ نے قیاس کیا کہ شائد تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہو.مگر آپ اسی طرح گہرے خیالات کی سوچ بچار میں بدستور گھوڑے پر سوار چلتے گئے کہ پھر تیسری مرتبہ یہی الہام ہوا اور ساتھ ہی آپ کے دل پر بھی اس کا بہت گہرا اثر ہوا.کچھ بوجھ سا دل پر اور بھی زیادہ محسوس ہوا.جس سے آپ کی طبیعت بہت ہی خائف ہوگئی اور آپ ڈر گئے تو آپ راستہ میں ہی فوراً گھوڑے سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے اور دل میں انہی خیالات میں پریشان اور ملول ومحزون ہو گئے اور پریشان تھے کہ اس ماتم پرسی کے الہام کا حل کیا ہے.کبھی آپ کو تائی صاحبہ کا خیال آتا اور کبھی حضرت والد صاحب کی وفات ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کا خیال آتا.کہ شائد آپ کا وصال ہو گیا ہے.پھر بہت ہی گہری سوچ کے بعد یہ سوال آپ کے دل میں آیا کہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ماتم پرسی ہو تو لازمی ہے کہ یہ کسی اعلیٰ اور ارفع ہستی کی موت اور وصال سے وابستہ ہے.یہ خیال دل پر مسلط ہو گیا اور دل میں آپ کے یہ پورا یقین ہو گیا کہ بس یہ حضرت والد صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کا ہی وصال ہے.یہ خیال راسخ ہوتے ہی آپ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے اور اسی غم وحزن کی حالت میں بجائے اپنے بنگلہ پر جانے کے آپ سیدھے ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھر کے بنگلہ کو تشریف لے گئے.اس وقت جالندھر میں کوئی انگریز ڈپٹی کمشنر تعینات تھے.آپ نے سیدھے DC کے بنگلہ پر پہنچ کر صاحب سے ملاقات کی اور حصول رخصت کے لئے صاحب کو یہ اطلاع دی کہ میرے والد صاحب کا وصال ہو گیا ہے اس لئے فوراً رخصت دے دی جائے، میں جارہا ہوں.اور یہ بھی بتلایا کہ میں اسی غرض سے دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آیا ہوں.صاحب موصوف نے دریافت کیا کہ کیا والد صاحب کی وفات کی خبر آپ کو راستہ میں ملی ہے یا کوئی اور ذریعہ سے موصول ہوئی ہے.یا کوئی آدمی آیا ہے.آخر کیا معاملہ ہوا ہے مگر آپ نے صاحب سے عرض کیا کہ نہ کوئی تار آیا ہے نہ کوئی آدمی آیا ہے اور نہ کوئی اور ہی اطلاع موصول ہوئی ہے صرف خدائی تار آیا ہے.صاحب موصوف نے اس کا سلسلہ دریافت کیا تو حضرت مرزا صاحب مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور نے

Page 339

سیرت المہدی 332 اپنے راستہ کا تمام ماجرہ الہامی سنایا تو صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اس پر اتنا یقین کر لینا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے.یونہی آپ کو وہم ہو گیا ہے.آپ اطمینان رکھیں ایسا کوئی حادثہ نہیں ہوا ہے.اس لئے آپ رخصت کے لئے جلدی نہ کریں.اور گھبرائیں نہیں اطمینان کر لیجئے.لیکن حضرت مرزا صاحب بدستور اپنے یقین کامل پر رخصت کے لئے مصر رہے اور پورے وثوق سے اس خدائی اطلاع پر ملول تھے.مگر پھر آپ صاحب کے بہت اصرار پر اپنے بنگلہ پر تشریف لے آئے.پہنچے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اطلاعی تار وفات حسرت آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو موصول ہوا.چنانچہ آپ اسی ہم و غم میں اسی تار کو لے کر دوبارہ صاحب کے بنگلہ پر پہنچے اور بتلایا کہ اس وقت میں دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آ گیا تھا وہ خدائی اطلاع کی بناء پر تھا.اب یہ تار بھی موصول ہو گیا ہے.صاحب بہادر اس تمام کیفیت کو دیکھ کر بہت ہی حیران اور ششدرہ گئے کہ آپ لوگوں کو خدا پر کیسا یقین اور وثوق اور ایمان ہے.اور وہ من و عن پورا بھی ہو رہا ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب رخصت پر فور اروانہ ہو گئے.اور ماموں صاحب فرماتے تھے کہ جب حضرت مرز اصاحب جالندھر سے امرتسر پہنچے تو اسٹیشن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا جنازہ بھی امرتسر پہنچ چکا تھا.حضرت مرزا صاحب بھی شامل ہو گئے اور ساتھ ہی رہے.ماموں صاحب منشی ظفر احمد صاحب بھی امرتسر میں تھے چنانچہ حضرت مرزا صاحب مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے یہ تمام ماجرا امرتسر میں ہی حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے خود بیان فرمایا تھا.“ ایک مرتبہ عاجز اور حضرت ماموں ظفر احمد صاحب قبلہ مسجد احمد یہ کپورتھلہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک دو دوست اور بھی موجود تھے یا کالج کے طالب علم جو حصول تعلیم کے لئے کپور تھلہ مقیم تھے وہ بیٹھے تھے یہ کمل یاد نہیں ہے.میں نے ماموں صاحب کی خدمت میں اس روایت کے متعلق عرض کیا کہ میں نے یہ کئی بار آپ سے سنی ہے.جہاں تک میرا خیال ہے یہ روایت سلسلہ میں محفوظ نہیں ہے.اس لئے ایسی روایت کا محفوظ ہونا بہت ضروری ہے.اس لئے میرا دل چاہتا ہے کہ اس روایت (مندرجہ صدر ) کو جس طرح میں نے آپ سے سنا ہے میں لکھ کر پیش کر دیتا ہوں آپ اس پر دستخط کر دیں تا کہ میں اس روایت کو اخبار الفضل

Page 340

سیرت المہدی 333 میں طبع کرادوں.میری اس گزارش پر حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے فرمایا کہ خیال تو ٹھیک ہے مگر یہ واقعہ مجھے مکمل یاد نہیں ہے.مثلاً دوبارہ تار لے کر حضرت مرزا صاحب خود گئے تھے یا بھیجا تھا وغیرہ مجھے یاد نہیں رہا اس لئے طبع کرانی مناسب نہیں ہے.چنانچہ پھر میں خاموش ہو گیا.اطلاعاً عرض ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ جو میرے کانوں نے خود سناوہ امانت تھی اور میں نے عرض کر دی ہے اور جو کچھ میرے عرض کرنے پر ماموں صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا وہ بھی میں نے من و عن عرض خدمت والا کر دیا ہے.میرا خود دل چاہتا تھا میں اس روایت کو طبع کراؤں مگر ماموں صاحب کے ارشاد بالا کے مطابق میں نے چپ اختیار کر لی تھی جو اطلاعاً عرض خدمت ہے.فقط والسلام دعاؤں کا طالب خادم اسی غلام زاد و خاکسار عبدالرحمن طلف میاں حبیب الرحمن صاحب مرحوم حال نائب تحصیلدار تحصیل سمندری ڈاکخانہ تاندلیانوالہ منڈی ( ہیڈ کوارٹر ) ضلع لائل پور ۲۱-۱۰-۱۹۴۹ مطابق ماه اخاء

Page 341

سیرت المہدی 334 مكتوب مکرم ملک حسن محمد احمدی قادیانی بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بخدمت جناب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ایک روایت الفضل مجریہ ۲۰ را خاء ۳۲۸ اھش میں شائع ہوئی ہے جس کے راوی مولوی محمد احمد صاحب وکیل کپور تھلوی ہیں اور انہوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت منشی ظفر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے.جو خاکسار کی نظر سے بھی گذری.اس میں ایک فقرہ ایسا ہے جس نے مجھے بھی ایک شہادت کے بیان کرنے پر مجبور کیا.وہ فقرہ یہ ہے کہ ”مرزا سلطان احمد صاحب نے ہماری تائی مرحومہ (تائی آئی الہام سید نامسیح موعود ) کے پیچھے لگ کر ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علیحدگی اور ایک گونہ مخالفت میں گذاری.میری شہادت خاکسار سید نا خلیفتہ ایسی اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مبارک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حیات تھے اور حضرت خلیفہ اول حکیم الامت کے مبارک لقب سے یاد ہوتے تھے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ” حضرت مرزا سلطان احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود سے میری صلح کروادیں اور مجھے حضرت کی خدمت میں اپنے ہمراہ لے چلیں تا میں حضرت سے معافی مانگ لوں.“ مولوی صاحب نے فرمایا ! میں نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر اس معاملہ کو پیش کیا کہ مرزا سلطان احمد صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگنا چاہتے ہیں.حضور کا کیا ارشاد ہے.میں ان کو اپنے ہمراہ لے آؤں اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ” جب تک سلطان احمد اپنے چال چلن درست نہیں کرتا اس وقت تک میرے پاس نہ آوے.“ یہ شہادت حضرت حکیم الامت خلیفتہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی ہے جس کو مولوی صاحب نے اپنی

Page 342

سیرت المہدی 335 مجلس میں بیان فرمایا جس کا میں شاہد ہوں.دوسری شہادت خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی بیگم صاحبہ کی ہے جو میری بیوی کے رو بر وموصوفہ نے بیان فرمائی اس کے ذریعہ مجھ تک پہنچی.میری بیوی کے رو بر ومحترمه خورشید بیگم صاحبہ حرم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ مرزا صاحب یعنے مرزا سلطان احمد صاحب فرماتے ہیں کہ دو میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کا مخالف نہیں ہوں میں مسیح موعود کو مانتا ہوں لیکن میرے اندر کچھ خامیاں کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے میں بیعت نہیں کرتا.“ تیسری شہادت:.محترمہ کرمه ام ناصر احد صاحب حرم اول سید امیر المومنین خلیفہ مسیح الانی ایده الله بنصرہ العزیز کی ہے یہ شہادت بھی میری بیوی محترمہ کے ذریعہ سے مجھ تک پہنچی ہے.محترمہ ام ناصر احمد صاحب نے بیان کیا کہ ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحن میں شہ نشین پر تشریف فرما وضو کر رہے تھے کہ خادمہ نے ایک کاغذ آپ کے حضور پیش کیا.حضور نے اسی وقت وہ کاغذ کھول کر پڑھنا شروع کیا اور اسی وقت پڑھ کر اس کو چاک کر دیا اور فرمایا ” جب بھی سلطان احمد دعا کے لئے لکھتا ہے دنیاوی ترقی کے لئے ہی لکھتا ہے دین کے لئے کبھی نہیں لکھتا.کچھ دنوں کے بعد مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا عریضہ پھر حضور کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضور کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ترقی عطا فرمائی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں نے تو دعا کی ہی نہیں ان شہادات کو بنظر غور دیکھا جاوے تو معمولی سے تدبر کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر خان بہادر مرز ا سلطان احمد مرحوم کو کامل ایمان و یقین تھا.لیکن بعض اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بیعت عمد ا نہیں کرتے تھے کہ اس بیعت پر میں عمل پیرا نہیں ہوسکتا.جھوٹا اقرار کیوں کروں.لما تقولون مالا تفعلون حضور کا خادم خاکسار ملک حسن محمد احمدی قادیانی.سمبر یا لوی حال عارضی مقام الہ آباد.ریاست بہاولپور.ضلع رحیم یار خان ۱۴/ نومبر ۱۹۴۹ء

Page 343

سیرت المہدی 336 مکتوب مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظهر ایڈووکیٹ لائل پور شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائل پور فرزند اکبر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام اپنے مکتوب ۴۹.۱۰.۱۴ میں تحریر فرماتے ہیں.بسم اللہ الرحمن الرحیم مخدوم و محترم.السلام علیکم گرامی نامہ ملا.امور ذیل عرض ہیں.(1) وطن مالوف والد صاحب کا بڑھا نہ ضلع مظفر نگر تھا.لیکن والد صاحب کی زیادہ سکونت اور تعلیم کا زمانہ قصبہ باغبت ضلع میرٹھ میں گزرا.یہ وجہ ہے کہ دونوں جگہ وطن کا ذکر روایات میں ہوا.باغپت میں ہمارے بعض بزرگ ملازم تھے.اور والد صاحب وہاں رہتے تھے.براہین احمدیہ بھی والد صاحب نے باغپت میں پڑھی.(۲) روایات مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں بعض کتابت کی غلطیاں تھیں.رسالہ مذکور اس وقت میرے سامنے نہیں لیکن (الف) شروع میں جو روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرحوم نے عبدالواحد صاحب کو ایک دوا تیار کر کے دی عبدالواحد صاحب ان دنوں بٹالہ میں منصف تھے.لیکن کا تب نے پٹیالہ لکھ دیا ہے اور یہ بڑا مغالطہ ہے صحت فرمالی جائے.(ب) ایک جگہ آتھم کے مباحثہ کے متعلق روایت میں ہے کہ نبی بخش کی کوٹھی میں ہم ٹھہرے تھے.کاتب نے ٹھہرے کی بجائے کھڑے تھے لکھ دیا.ایسا ہی بعض اور کتابت کی غلطیاں تھیں.جو میں نے نوٹ کی تھیں اگر رسالہ مذکورہ مجھے ملا تو عرض کروں گا.اس وقت آپ کے جواب کی تعمیل میں جلدی ہے.(۳) رفع اشتباہ کے لئے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ والد صاحب مرحوم شروع میں اپیل نو لیس تھے.لیکن صورت یہ تھی کہ آپ کی بجائے حکام نے ایک اور شخص کو اپیل نولیس عوضی مقرر کیا ہوا تھا.والد صاحب اس سے آمدنی لے لیتے تھے اور خود بطور سررشتہ دار عدالت کام کرتے تھے.مدتوں یہ عمل رہا تا کہ کے

Page 344

سیرت المہدی 337 مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد والد صاحب مستقل سررشتہ دار ہو گئے.اور پھر ترقی پا کر ہائی کورٹ کی رجسٹراری سے پنشنر یاب ہوئے.یہ وضاحت اس لئے ہے کہ اشتباہ ہوتا ہے کہ شروع میں والد صاحب ملازم تھے یا نہیں.اور یہ طریق اس لئے والد صاحب نے قائم رکھا تھا کہ ملازمت سے بے نیاز تھے جب چاہتے قادیان چلے جاتے کوئی روک نہ تھی اور یہ وجہ تھی کہ اکثر سفر وحضر میں حضرت کے ساتھ رہتے تھے.آپ نے اخبار میں چند سوال شائع فرمائے تھے ان کے تعلق سے عرض ہے کہ :.(۴.الف) بروایت والد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی احمدی کا جنازہ پڑھایا اور اس کے بعد حضور نے فرمایا! کہ جو مقتدی ہیں ان کا بھی میں نے جنازہ پڑھا دیا ہے.والد صاحب فرماتے کہ میرا جنازہ تو حضور خود پڑھا چکے ہیں.چنانچہ بوقت جنازہ والد صاحب جو حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پڑھایا.میں نے اس امر کا ذکر ان سے کیا تھا.(۴- ب) ایک مرتبہ والد صاحب کپورتھلہ سے لدھیانہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.ماہ رمضان تھا اور والد صاحب روزے سے تھے.حضرت صاحب کو جب معلوم ہوا ، تو آپ نے روزہ افطار کرا دیا.اس وقت سوج غروب ہونے میں آدھ گھنٹہ کے قریب باقی تھا.اور فرمایا! کہ سفر میں روزہ جائز نہیں.(۵) والد صاحب کی ایک روایت ذیل غیر مطبوعہ ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو حضرت مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم جالندھر میں ملازم تھے غالباً افسر مال تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا والد صاحب سے بڑا تعلق تھا.چنانچہ مرزا صاحب موصوف نے والد صاحب سے فرمایا کہ بروز وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں جالندھر میں گھوڑے پر سوار جارہا تھا.کہ یکدم بڑے زور سے مجھے الہام ہوا ماتم پرسی“ میں اسی وقت گھوڑے سے اُتر آیا اور مجھے بہت غم تھا.خیال کیا کہ شاید تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہو.پھر خیال کیا کہ نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماتم پرسی تو والد صاحب کے متعلق ہی ہوسکتی ہے.چنانچہ میں ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا کہ مجھے رخصت چند دن کی دی جائے.غالباً والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے.اس نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا نہ کوئی خبر

Page 345

سیرت المہدی 338 آئی ہے نہ شائع ہوئی ہے.اسی درمیان میں تار آ گیا.جس میں والد صاحب کے انتقال کی خبر دی تھی.اور ڈپٹی کمشنر کو حیرت ہوئی.میں نے قلم برداشتہ یہ چند باتیں عرض کر دی ہیں جو مناسب ہو اختیار فرمائیں.والسلام خاکسار محمد احمد ایڈووکیٹ لائل پور ایک امر میں آپ کا مشورہ مجھے مطلوب ہے ۱۴_۱۰_۱۹۴۹ میں سالہا سال سے انگریزی فارسی اور اردو الفاظ کے عربی ماخذ تحقیق کرنے میں لگا ہوا ہوں اس میں مجھے حیرت انگیز کامیابی ہوئی ہے.نصف سے زیادہ انگریزی لغت کو میں حل کر کے معہ دلائل وجہ تسمیہ وغیرہ عربی میں لوٹا چکا ہوں اور ایسے فارمولے مجھے معلوم ہو چکے ہیں کہ باقی ماندہ لغت کا حل کرنا میرے نزد یک بالکل سہل ہے.صرف وقت کی ضرورت ہے.اس بارے میں جامعہ احمدیہ احمد نگر میں میرا ایک حالیہ لیکچر بھی پسند کیا گیا تھا.اس طرح اردو.پنجابی.اور فارسی کے کثیر لغت جو روزمرہ بولے جاتے ہیں اور ٹھیٹھہ الفاظ ہیں میں حل کر چکا ہوں.دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا میں اس کام کو جاری رکھوں اور یہ مفید ہوگا.میرا ارادہ ساری لغت انگریزی کوحل کر ڈالنے کا ہے.انشاء اللہ اس میں علمائے لغت انگریزی کی فاش اور مضحک بہت سی غلطیاں دریافت ماخذ کے بارے میں ثابت ہو چکی ہیں اور اس قابل ہیں کہ انہیں شائع کر کے OXFORD تک پہنچایا جائے.اس بارے میں آپ کوئی مفید مزید مشورہ بھی عنایت فرمائیں.میری تحقیق بعض اصولی فارمولوں کی بنا پر ہے.جو کم و بیش سب زبانوں پر یکساں عائد ہوتے ہیں.وبالله التوفيق خاکسار محمد احمد مظہر

Page 346

سیرت المہدی 339 بسم اللہ الرحمن الرحیم رائے کنورسین کے خط کا تعارف ایک شریف النفس ہند والالہ بھیم سین بٹالہ میں مولوی گل علی شاہ کے مدرسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم مکتب تھے اور اس زمانہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک قلبی تعلق اور بے پناہ عقیدت رکھتے تھے.لالہ بھیم سین بعد میں سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ میں ملازم تھے تو وہاں جن افراد کے ساتھ آپ کا تعلق تھا ان میں لالہ بھیم سین بھی تھے.حضور دفتری اوقات کے بعد اکثر لالہ صاحب کی قیام گاہ پر جاتے تھے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ بھیم سین کو ایک طویل خط بھی لکھا تھا جس میں بت پرستی کے رد میں قرآن کریم کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں.یہ خط لالہ صاحب کے کاغذات سے ان کے بیٹے نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو دے دیا تھا.یہ خط مکتوبات احمد یہ میں شائع ہو چکا ہے.جب ان کے بیٹے کنورسین انگلستان سے بارایٹ لاء کر کے پنجاب کی عدالتوں میں پریکٹس کرتے تھے تو لالہ بھیم سین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیشکش کی تھی کہ ان کا بیٹا حضور کے مقدمات میں بلا معاوضہ پیش ہوا کرے.لیکن حضور نے اس پیشکش کو منظور نہیں فرمایا.بعد میں جناب کنورسین صاحب پر نسپل لاء کالج لاہور بنے اور پھر ریاست ہائے کشمیر جودھ پورا لور وغیرہ میں چیف جسٹس وجوڈیشل منسٹر کے عہدوں پر فائز رہے.اپنے والد کی طرح بیرسٹر کنورسین کو بھی حضور سے انتہا درجہ کی عقیدت تھی.ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ڈیرہ دون میں رہائش پذیر ہو گئے تھے.بیرسٹر کنورسین کے ایک صاحبزادے مسٹر گوپال چندرسین جب جودھ پور میں ملازم تھے تو وہاں ایک احمدی علی محمد صاحب نے سیرت المہدی کی جلدیں ان کو دیں کہ ان میں ان کے خاندان کا ذکر ہے.غالبا ان کے لڑکے گوپال سین یہ کتب اپنے ساتھ ڈیرہ دون لے گئے تھے اور انہوں نے اپنے والد کو متعلقہ حصے پڑھ کر سنائے تھے.جس پر رائے کنورسین نے ڈیرہ دون سے علی محمد صاحب کو کتابوں کے بھیجنے پر شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مرزا صاحب ان کے گھر آیا کرتے تھے کیونکہ ان کے والد ان کے گہرے دوست تھے.اور ساتھ کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر ہمارے لٹریچر میں نہیں ہے.علی محمد صاحب نے ۱۹۴۵ء کی ابتداء میں بیرسٹر کنورسین صاحب کا انگریزی میں ٹائپ شدہ جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو بھجوا دیا تھا جسے آپ نے سلسلہ کی تاریخ سے متعلق دستاویزات میں محفوظ کر دیا تھا.اگلے صفحات میں ان دونوں خطوط کا عکس دیا جا رہا ہے.سید عبدالحی

Page 347

سیرت المہدی 340 عکس خط مکرم علی محمد صاحب بنام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ از نه نموده بسم الله الفروامع انه هو العصر مهران السلام جوونم تویر 3.1.45 ندام تحوم حضرت یون کلاس سلم الساسان سیتی دیاں سی و یکم رقم ایرانی - دار ما در توریست میاں یایی جوردی پور نیز ملونی پیر برنا سیاست الیه را کتر ده کردم خاشی غار ده ق - حواسی خاندان کے مفتی کے در ار سلامی در مانہ تو سیرک نے زیرہ اور ہے مرد ایک رده واست من سر مالی اسکی لڑکے سالم مند گوہاں نہیں جاہ وہ کتاب ساتھ لے گے.ایرانیوں سے اپنی داره کار در کم ترمیم کر بتایا تھا..مجھے وہ چھا نہ کر مالی درست و شاید کسی بچے کے ہوا اسکی چی مخجسته در - تمھارا خیالی میر فیزیم لید ملدوغه کار کتاب قالی نایت کر پھاڑا لیں مندم مجرور ایس کرنے کی ضرورت منواکر فانار علی محمد میر اکرام یہ کسی کے ساز جلد مرنا مر گزرتا - بدر کی سحر انا سال تتہ پیار کے.اور وہ 2011 کو قوت در میام 44

Page 348

سیرت المہدی 341 عکس خط جناب رائے کنور سین صاحب بنام مکرم علی محمد صاحب Rai Kanwar Sain., M.A.Bar-at-Law, Retired Judicial Minister & Chief Justice, Kashmir, Jodhpur, Alwar, Panna etc.My dear Khan Sahib, "Kanwar Kun!" LAKSHMI AVENUE DEHRA DUN.Dated 27th December 4.My son, Gopal Chandra Sain, has read out to me several pages out of the book "Seeratul Ahmadi", which you so kindly gave to him for perusal.I was very greatly interested to find in the book so many references to my worthy father who was a great friend and associate of the great Hazrat Mirza Sahib of revered memory.It would, I am sure, interest you to know that I too had the honour and privilege of seeing the Hazarat Sahib at my house when I was a boy.My father used to have correspondence with him and I remember to have seen some of his letters.My father used to mention to me those incidents which are stated in this book.The one regarding the phrophesy about his success in the pleadership examination bears repetition.Mirza Sahib had written to ask my father to confirm this incident, which Mirza Sahib wanted to publish in his book 'Burahin-i-ahmadiya', my father used to tell me that in reply, he confirmed the incident but added P.T.O.

Page 349

342 سیرت المہدی that more than he Mirza Sahib's worthy father is in his my father's) opinion a prophet, because, be(Mirza Sahib's father) had foretold while Mirza Sahib was born and was yet a child that the new born child was to be a Wald his according to my father was.سارے گھر میں ولی پیدا ہوا ھے ) a positive assertion and should indeed be regarded as a prophesy whereas Mirza Sahib's prophesy regarding my father's success in the examination was a matter of inference inasmuch as when asked as to box the basis on which the prediction was founded.Mirza Sahib had stated that he had seen in a dream that my father's answer papers had changed from yellow colour to red and that Mirza Sahib understood as betokening success.Let me in the end reciprocate my sentiments of affection and regard for you, who has shown so much kindness and consideration to my son Gopal on the footing of my father's happy associations with your revered Mirza Sahib.I am, Yours sincerely, Kannod

Page 350

سیرت المہدی رائے کنورسین.ایم اے بارایٹ لاء 343 رائے کنورسین کے خط کا اُردو ترجمہ ریٹائر ڈوزیر انصاف و چیف جسٹس کشمیر، جودھ پور، الور، پناوغیرہ کنور سنج لکشمی ایونیو.ڈیرہ دون ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۴ء مکرم خان صاحب میرے بیٹے گوپال چندرسین کو کتاب سیرت المہدی جو آپ نے از راہ مہربانی مطالعہ کے لئے دی ہے، اس کے چند صفحات انہوں نے مجھے سنائے ہیں.مجھے اس بات سے بہت دلچسپی محسوس ہوئی کہ اس کتاب میں میرے معزز والد جو حضرت مرزا صاحب مرحوم کے دوست اور ساتھی تھے کا اتنی بار ذکر کیا گیا ہے.مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جب میں ابھی لڑکا ہی تھا مجھے حضرت مرزا صاحب کو اپنے گھر پر دیکھنے کی عزت اور سعادت نصیب ہوئی تھی.میرے والد صاحب آپ کے ساتھ خط و کتابت کرتے رہتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط بھی دیکھے تھے.میرے والد صاحب ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے.ایک بات کو جو میرے والد کی وکالت ( مختار کاری) کے امتحان میں کامیابی سے تعلق رکھتی ہے میں یہاں دوبارہ بیان کرنا چاہوں گا.مرزا صاحب نے میرے والد کو لکھا تھا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق کریں.مرز اصاحب اسے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کرنا چاہتے تھے.میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی تھی.لیکن میرے والد نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی رائے میں مرزا صاحب سے زیادہ ان کے یعنی مرزا صاحب کے معزز والد صاحب صحیح پیش خبریاں کرنے والے تھے کیونکہ مرزا صاحب کے والد صاحب نے مرزا صاحب کی پیدائش پر اور ا بھی جب آپ بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ نومولود ( یعنی مرزا صاحب) ایک ولی ہوں گے.انہوں نے کہا تھا ” ہمارے گھر میں ولی پیدا ہوا ہے“ میرے والد صاحب کے نزدیک یہ ایک بہت مثبت اور تحدی سے کی جانے والی بات تھی جو کہ ایک پیشگوئی

Page 351

سیرت المہدی 344 کے طور پر لی جانی چاہئے جبکہ مرزا صاحب کی میرے والد کی امتحان میں کامیابی کے بارہ میں پیشگوئی کی حیثیت در اصل استدلال کی ہے.کیونکہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی اس پیشگوئی کی بنیاد کیا ہے تو مرزا صاحب نے بیان کیا کہ انہوں نے رویا میں دیکھا ہے کہ میرے والد صاحب کے جوابی پر چوں کا رنگ زرد سے سرخ ہو گیا جس سے مراد مرزا صاحب نے کامیابی لی.آخر میں مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے لئے جنہوں نے مرزا صاحب کے میرے والد صاحب سے تعلقات کی بنیاد پر میرے بیٹے گوپال کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا محبت اور احترام کے جذبات کا اظہار کروں.میں ہوں آپ کا مخلص دستخط کنورسین

Page 352

سیرت المہدی 345 جلسه اعظم مذاہب لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی ١٨٩٦ء از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ

Page 353

346 سیرت المہدی

Page 354

سیرت المہدی 347 نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود " خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر جلسہ اعظم مذاہب لاہور یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا“ الله اکبر خربت خیبر " سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جوش تبلیغ اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لگن اور دھن کی کیفیت کا بیان انسانی طاقت سے باہر ہے.اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ - حضور کا منصب و کام ہی خداوند عالم نے اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر دکھانا مقرر فرمایا ہے اور جن خواص کو یہ خدمات تفویض ہوا کرتی ہیں ان کے بَلغُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ کا حکم الہی ہمیشہ قائم ہوتا ہے.حضور پُر نور نے حق تبلیغ کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور نہ ہی کوئی فروگذاشت کی.کیا دن، کیا رات حضور کو یہی فکر رہتی اور حضور کوئی موقعہ تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہ دیا کرتے.اٹھتے بیٹھتے چلتے اور پھرتے خلوت میں اور جلوت میں الغرض ہر حال میں اسی فکر اور اسی دھن میں رہتے چنانچہ حضور پرنور کی سوانح کا ہر ورق اور حیات طیبہ کا ہر لمحہ بزبان حال اس بیان کا گواہ اور شاہد عادل ہے.لمبے مطالعہ اور حضور کی تصانیف کی گہرائیوں کو الگ رکھ کر اگر حضور کے صرف ایک دو ورقہ اشتہار پر ہی بہ نیت انصاف - تعصب سے الگ ہو کر نظر ڈالی جائے جو حضور نے 9 دسمبر ۱۸۹۰ء کو شائع فرمایا تو یقیناً میرے اس بیان کی تصدیق کرنا پڑے گی اور حضور کی اس سچی تڑپ اور خلوص نیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر رنگ میں آپ کی غیر معمولی تائید و نصرت فرما تا اور غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا اور حضور خدا کے اس فضل و احسان کا اکثر تحدیث نعمت کے طور پر یوں ذکر فرمایا کرتے کہ ” خدا کا کتنا فضل و احسان ہے کہ ادھر ہمارے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے یا کوئی

Page 355

سیرت المہدی ۲.348 ضرورت پیش آتی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کے پورا کرنے کے سامان مہیا کر دیتا ہے.“ ۱۸۹۲ء کے نصف دوم کا زمانہ تھا کہ اچانک ایک اجنبی انسان ، سادھو منش، بھگوے کپڑوں میں ملبوس شوگن چندر نام وارد قادیان ہوا اور جلد ہی ہماری مجالس کا ایک بے تکلف رکن نظر آنے لگا.ایک آدھ دن سید نا حضرت حکیم الامت مولانا مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں شریک ہوا تو دوسرے ہی روز وہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار شام اور اور صبح کی سیر میں شامل ہو کر حضور کی خاص تو جہات کا مورد بن گیا.کیونکہ وہ شخص اپنے آپ کو حق کا متلاشی اور صداقت کا طالب ظاہر کرتا ہوا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے آسانی پانی کی تلاش میں دور ونزدیک ، قریہ بقر یہ بلکہ کو بکوسرگردان پھرتا ہوا قادیان کی مقدس بستی میں اپنے مدعا و مقصود کے حصول کی امید لے کر آیا اور کچھ لے کر ہی لوٹنے کی نیت سے پہنچا تھا اور اس کی نیک نیتی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ باوجود بالکل غیر ہونے کے بہت جلد اپنالیا گیا.وہ نہ صرف سادھو تھا جو بھگوے کپڑوں میں اپنا فقر و حاجات چھپائے تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سوالی جس کو دام و درہم کی ضرورت اور روپیہ پیسہ کالالچ قادیان میں تقسیم ہوتے خزائن کی خبریں یہاں کھینچ لائی ہوں بلکہ واقعہ میں متلاشی حق اور طالب صداقت تھا ور نہ خدا کا برگزیدہ مسیح الزمان جس کی فراست کامل جو ہر شناس تھی اور جو خدا کے عطاء فرمودہ نور سے دیکھا کرتا تھا یوں اس کی طرف ملتفت نہ ہو جاتا.شوگن چندر ایک تعلیم یافتہ اور معقول انسان تھا جو گورنمنٹ میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھا.بعض حوادث نے دنیا کی بے ثباتی کا ایک نہ مٹنے والا خیال اس کے دل و دماغ پر مستولی کر دیا.اس کی بیوی اور بچے بلکہ خویش واقارب تک اس سے جدا ہو گئے اور وہ یک و تنہا رہ گیا.دل و دماغ میں پیدا شدہ تحریک نے اندر ہی اندر پرورش پائی.فانی چیزوں کے اثرات نے اس کے خیالات کی روکا رخ کسی غیر فانی اور قائم بالذات ہستی کی تلاش کی طرف پھیر دیا جس سے متاثر ہو کر اس نے ملازمت چھوڑ کر ترک دنیا اور تلاش حق کا عزم کر لیا اور سادھو بن کر جا بجا گھومنے اور ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا.نہ معلوم کتنا عرصہ پھرا اور کہاں کہاں گیا.اس نے کیا کچھ دیکھا اور سنا جس کے بعد کسی نے اس کو ہمارے آقا ومولا ، ہادی و راہ نمائے زمان کا پتہ دیا اور قادیان کی نشان دہی کی جس پر وہ صدق دلانہ اخلاص وعقیدت سے پہنچ کر حصول مقصد و

Page 356

سیرت المہدی 349 مدعا کی کوشش میں مصروف ہو گیا.حضور کی صحبت میں رہ کر فیض پانے لگا اور ہوتے ہوتے ایسا گرویدہ ہوا کہ اس کی ساری خوشی تسلی و اطمینان حضور کی صحبت اور کلمات طیبات سے وابستہ ہو گئے جس کی وجہ سے وہ یہیں ٹک جانے پر آمادہ ہو گیا مگر اللہ تعالیٰ کو اس کے ذریعہ اپنا ایک نشان ظاہر کرنا منظور اور کرشمہ قدرت دکھانا مطلوب تھا جس کے لئے اسی ذات بابرکات نے اتنے تغیرات کئے اور ذرات عالم پر خاص تصرفات فرمائے اور ایک شخص کو قادیان پہنچایا جو کبھی لالہ پھر مسٹر اور باوا اور آخری سوامی شوگن چندر کے نام سے موسوم ہوا.۴.مہمان نوازی کا خلق شیوہ انبیاء ہے اور حضور پر ٹور کو اس خلق میں کمال حاصل تھا.اس کے ساتھ ہی ساتھ حسن سلوک اور احسان و مروت میں حضور اپنی مثال صرف آپ ہی تھے.تالیف قلوب کے وصف عظیم کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی خلق کا جذبہ حضور میں بے نظیر وعدیم المثال تھا اور ان تمام خصائل حسنہ اور فضائل کے علاوہ حق وصداقت اور علم و حکمت کے خزائن حضور کے ساتھ تھے جو حضور کے تعلق باللہ اور مقبول بارگاہ ہونے کی دلیل تھے اور ان حقائق کے ساتھ ہی ساتھ خدا سے ہمکلامی کا شرف اور قبولیت دعا کے نمو نے ایسی نعماء تھیں جن سے کوئی بھی نیک فطرت اور پاک طینت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا اور در حقیقت یہی وہ چیزیں ہیں جن کو نا واقف دنیا نے جادو اور سحر کا نام دے کر حضور پر نور سے دنیا جہاں کو دور رکھنے کی ناکام سعی کی ہے.سوامی شوگن چندر بھی ان کرامات کا شکار ہوئے اور جس چیز کی ان کو تلاش تھی اور دنیا میں وہ چیز ان کو کہیں بھی نہ ملی تھی آخر خدا کی خاص حکمت کے ماتحت ان کو قادیان میں وہ کچھیل گیا جس کی انہیں جستجو تھی.اور وہ کچھ انہوں نے یہاں دیکھا جو دنیا جہاں میں انہوں نے دیکھا نہ سنا تھا.وہ خوش تھے اپنی خوش بختی پر کہ ان کو جس چیز کی خواہش اور تلاش تھی آخر خدا تعالیٰ نے عطا کر دی مگر ہمارے آقائے نامدار اس سے بھی کہیں زیادہ خوش تھے خدا کے اس فضل پر کہ اس نے حضور کی ایک دلی خواہش کے پورا کرنے کے لئے شوگن چند رصاحب کا وجود پیدا فرما دیا ہے.حضور کی دیرینہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایک کا نفرنس ہو جس میں حضور کو قرآن کریم کے فضائل و کمالات اور معجزات و محاسن اسلام بیان کرنے کا موقعہ ملے.ہر ایک مذہب کا نمائندہ اپنے مذہب

Page 357

سیرت المہدی 350 کی خوبیاں بیان کرے تا اس میدان مقابلہ میں اعلائے کلمۃ اللہ ہو.اسلام کی برتری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار ہو.سو حضور کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اللہ کریم نے سوامی صاحب کو قادیان پہنچایا جنہوں نے حضور کی اس تجویز کو حق و باطل میں امتیاز کا حقیقی ذریعہ اور سچی کسوٹی یقین کر کے اس کے انعقاد کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر ہمہ تن سعی بن کر اس کام میں لگ گئے.ہندو اور پھر گیروے لباس کی وجہ سے بھی اور علم و تجربہ کے باعث بھی ان کو ہندوؤں کے ہر خیال اور طبقہ میں رسوخ میسر آتا گیا اور ان کی تجویز پر غور کیا جانے لگا اور اس کام کے لئے ایک حرکت پیدا ہوگئی.مرکزی ہدایات.صلاح اور مشورے ان کے لئے پیش آمدہ مشکلات کا حل بنتے اور اس بیل کے منڈھے چڑھ جانے کی خاطر ان کی ہر رنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی.کبھی وہ خود بطریق احتیاط قادیان آتے تو کبھی خاص پیامبروں کے ذریعہ ان کی ضروریات کا انتظام کیا جاتا رہا.اور اس طرح ہوتے ہوتے مطلوبہ کا نفرنس کے قیام کی جھلک نظر آنے لگ گئی.حضور پرنور کی راہ نمائی میں ایک ڈھانچہ تیار کیا گیا اور کام کرنے والے آدمیوں اور اخراجات کے کثیر حصہ کا انتظام سید نا حضرت اقدس کی طرف سے دیکھ کر اس ڈھانچہ میں زندگی کے آثار بھی نمودار ہو گئے.اور اس طرح سوامی شوگن چند ر صاحب نے گویا حضور کی اس دینی خواہش کے پورا کرنے میں ایک غیبی فرشتہ کا کام کیا..آخر خدا خدا کر کے بڑی مشکل گھاٹیوں کو عبور کرنے اور بے آب و گیاہ جنگلوں کو طے کرنے کے بعد اس جلسہ یعنی ”جلسه اعظم مذاہب کے انعقاد کی تاریخوں کا بھی اعلان ہو گیا جو ۲۶ لغایت ۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہوئیں.اور ٹاؤن ہال لاہور میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا.ایک کمیٹی معززین ورؤساء کی جس میں علم دوست اصحاب شامل تھے، ترتیب پا چکی تو اس اطلاع پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اتنی خوشی ہوئی جیسے دنیا جہان کی بادشاہت کسی کو مل جائے.تب حضور نے اس جلسہ کے واسطے مضمون لکھنے کا ارادہ فرمایا مگر مصلحت الہی سے حضور کی طبیعت ناساز ہوگئی اور یہ سلسلہ کچھ لمبا بھی ہو گیا مگر چونکہ جلسہ کی تاریخیں قریب تھیں اور اندیشہ تھا کہ مضمون رہ ہی نہ جائے حضور نے بحالت بیماری و تکلیف ہی مضمون لکھنا شروع فرما دیا.اور چونکہ حضرت مولانا مولوی

Page 358

سیرت المہدی 351 عبدالکریم صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ایام میں کسی ضرورت کے ماتحت سیالکوٹ جا کر بیمار ہو گئے اور ان کی بیماری کی اطلاعات سے اندیشہ تھا کہ وہ جلسہ پر نہ پہنچ سکیں گے اس پر لمبی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا کہ حضور کا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب پڑھیں چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت یہ تجویز کی گئی کہ (الف) حضور کا مضمون جسے محترم حضرت منشی جلال الدین صاحب متوطن بلانی ضلع گجرات نقل کرتے تھے کہ حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد یہ کام کیا گیا کتابت کے طریق پر لکھا جائے تا کہ خواجہ صاحب کو پڑھنے میں دقت نہ ہو مگر حضور پر نور کے پھر بیمار ہو جانے کی وجہ سے جب مضمون کی تیاری میں وقفہ پڑ گیا تو ہر دو اصحاب نے مل کر اس کو مکمل کیا.(ب) اس مضمون میں جس قدر آیات قرآنی.احادیث یا عربی عبارات آئیں وہ علیحدہ خوش خط لکھا کر خواجہ صاحب کو اچھی طرح سے رٹا دی جائیں تا کہ جلسہ میں پڑھتے وقت کسی قسم کی غلطی یار کا وٹ مضمون کو بے لطف و بے اثر ہی نہ بنا دے.حضور پر ٹور کا یہ مضمون خوشخط لکھا ہوا صبح کی سیر میں لفظ لفظا سنایا جایا کرتا تھا اور حضور کی عام عادت بھی یہی تھی کہ جو بھی کتاب تصنیف فرمایا کرتے یا اشتہار و رسائل لکھا کرتے ان کے مضامین کو مجلس میں بار بارد ہرایا کرتے تھے.اتنا کہ با قاعدہ حاضر رہنے والے خدام کو وہ مضامین از بر ہو جایا کرتے تھے.ان ایام کی سیر صبح عموماً قادیان کے شمال کی جانب موضع بڑ کی طرف ہوا کرتی تھی اور اسی مضمون کے سننے کی غرض سے قادیان میں موجود احباب اور مہمان قریباً تمام ہی شوق اور خوشی سے شریک سیسر ہوا کرتے جن کی تعداد تخمیناً پندرہ بیس یا پچیس تک ہوا کرتی تھی.مضمون کے بعض حصوں کی تشریح بھی حضور چلتے چلتے فرماتے جایا کرتے تھے.یہ تحریر و تقریر نئے نئے نکات.عجیب در عجیب معارف اور ایمان افروز حقائق و دلائل کی حامل ہوا کرتی تھی.ان دنوں کی سیر صبح میں جس کے لئے حضور باوجود بیماری اور ضعف کے نکلا کرتے تھے بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے بعض جاسوس بھی حضور کے اس مضمون کو سن کر ان کو رپورٹ پہنچایا کرتے تھے چنانچہ حضور کے مضمون کی اکثر آیات جن کو حضور نے موقعہ ومحل پر موتیوں کی

Page 359

سیرت المہدی 352 لڑی کی طرح سجا کر ان سے استنباط فرمائے ہیں مولوی صاحب نے اپنے مضمون میں یکجا جمع کر دی ہیں جن کا وہاں ربط ہے نہ موقعہ محل اور جوڑ._^ جناب خواجہ کمال الدین صاحب مضمون کو پڑھا کرتے.پڑھنے کے طریقوں کی مشق کیا کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ پڑھنے کے طریق و بیان میں کوئی جدت پیدا کریں جس سے سامعین زیادہ سے زیادہ متاثر ہو سکیں.آیات قرآنی.احادیث یا عربی الفاظ وفقرات کو ازبر کرنے کی کوشش کیا کرتے.قدرت نے خواجہ صاحب کو جہاں اردو خوانی میں خاص ملکہ دیا تھا وہاں آیات قرآنی کی تلاوت میں باوجود کوشش کے بہت کچھ خامی پائی جاتی تھی جسے خواجہ صاحب محنت اور شوق کے باوجود پورا کرنے سے قاصر تھے.مزید برآں انہی ایام میں بعض ان کے ہمر از دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ دراصل خواجہ صاحب کو مضمون کی بلند پائیگی، کمال و نفاست اور عمدگی کے متعلق بھی شکوک تھے جس کا اثر ان کے طرز ادا و بیان پر پڑنالازمی تھا اور عجب نہیں کہ یہ بات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک بھی جا پہنچی ہو.و.وو جلسہ سے چند ہی روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور کو الہاماً اس مضمون کے متعلق بشارت دی کہ ” یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس کی مقبولیت دلوں میں گھر کر جائے گی اور کہ یہ امر بطور ایک نشان صداقت“ ہوگا.چنانچہ حضور پر نور نے ۲۱ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار بعنوان سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری لکھ کر کا تب کے حوالے کیا اور مجھ نا چیز غلام کو یاد فرما کر یہ اعزاز بخشا اور فرمایا کہ میاں عبدالرحمن ! اس اشتہار کو چھپوا کر خود لاہور لے جاؤ اور خواجہ صاحب کو ( جو کہ ایک ہی روز پہلے انتظامات جلسہ کے لئے لاہور بھیجے گئے تھے ) کو پہنچا کر ہماری طرف سے تاکید کر دینا کہ اس کی خوب اشاعت کریں.ضرورت ہو تو وہیں اور چھپوا لیں.ہماری طرف سے ان کو اچھی طرح تاکید کرنا کیونکہ وہ بعض اوقات ڈر جایا کرتے ہیں، بار بار اور زور سے یہ پیغام پہنچا دینا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں.لوگوں کی مخالفت کا خیال اس کام میں ہرگز روک نہ بنے.یہ انسانی کام نہیں کہ کسی کے روکے رک جائے بلکہ خدا کا

Page 360

سیرت المہدی 353 کام سے جو بہر حال پورا ہوکر رہے گا.“ ۱۰.اشتہار قریباً آدھی رات کو تیار ہوا اور میں اسی وقت لے کر پیدل بٹالہ کو روانہ ہو گیا.۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کی دو پہر کے قریب لاہور پہنچا.جناب خواجہ صاحب اس زمانہ میں لاہور کی مشہور مسجد مسجد وزیر خان کے عقب کی ایک تنگ سی گلی میں رہا کرتے تھے جہاں میں انکو تلاش کر کے جاملا اور اشتہارات کا بنڈل اور حضور کا حکم کھول کھول کر سنا دیا بلکہ بار بار دہرا بھی دیا.خواجہ صاحب کے ساتھ اس وقت دو اور دوست بھی وہاں موجود تھے جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے.خواجہ صاحب نے بنڈل اشتہارات کا کھولا اور مضمون اشتہار پڑھا اور میں نے دیکھا کہ چہرہ اُن کا بجائے بشاش اور خوش ہونے کے افسردہ و اداس سا ہو گیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے.”میاں ! حضرت کو کیا علم کہ ہمیں یہاں کن مشکلات کا سامنا ہورہا ہے.اور مخالفت کا کتنا زور ہے.ان حالات میں اگر یہ اشتہار شائع کیا گیا تو یہ ایک تو وہ بارود میں چنگاری کا کام دے گا اور عجب نہیں کہ نفس جلسہ کا انعقاد ہی ناممکن ہو جائے.موقعہ پر موجودگی اور حالات کی پیچیدگی سے آخر ہم پر بھی کوئی ذمہ واری آتی ہے.اچھا جو خدا کرائے، انشاء اللہ کریں گے.“ آخر سوچ بچار.صلاح مشوروں اور اونچ نیچ.اتار چڑھاؤ کی دیکھ بھال کے بعد دوسری یا تیسری رات کے اندھیروں میں بعض غیر معروف مقامات پر چند اشتہارات چسپاں کرائے جن کا عدم ووجود یکساں تھا کیونکہ غیر معروف مقامات کے علاوہ وہ اشتہاراتنے اونچے لگائے گئے تھے کہ اوّل تو کوئی دیکھے ہی نہیں اور اگر دیکھ پائے تو پڑھ ہی نہ سکے.ا.میں نے دیکھا اور سنا بھی کہ سیدنا حضرت اقدس کے اصل مضمون کا حصہ خواجہ صاحب قادیان اپنے ساتھ لاہور لائے تھے اس کا مطالعہ اور آیات قرآنی کی تلاوت کی مشق کا سلسلہ بھی جاری تھا.خواجہ صاحب کے لاہور چلے آنے کے بعد جو جو حصہ مضمون تیار ہوتا جاتا اس کی نقل ان کو لاہور پہنچائی جاتی ނ رہتی اور یہ سلسلہ ۲۵ / دسمبر ۱۸۹۶ء کی شام تک جاری رہا تھا یا شاید ۲۶؍ دسمبر کی رات تک بھی.جلسہ خدا کے فضل سے ہوا.بہتر جگہ اور بہتر انتظام کے ماتحت ہوا اور واقعی سخت مخالفتوں کے ۱۲.

Page 361

سیرت المہدی 354 طوفان اور مشکلات کی کٹھن اور خطر ناک گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بعد ہوا.بڑی بڑی روکیں کھڑی کی گئیں.طرح طرح کے حیلے اور بار یک در بار یک چالیں چلی گئیں مگر بالآخر ہندو و یہود اور ان کے معاون ومددگاروں کا خیبری قلعہ ٹوٹا اور بعینہ وہی ہوا جس کا نقشہ الہام الہی الله اکبر خربت خیبر میں بیان ہوا تھا.دشمنوں نے ٹاؤن ہال نہ لینے دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بہتر سامان کر دیا اور اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ کی وسیع اور دو منزلہ عمارت، لمبے چوڑے صحن ، بڑے بڑے کمروں ، ہال کمرہ اور گیلریوں کو ملا کر ایک بڑی عظیم الشان عمارت جو ایک بڑے اجتماع کے لئے کافی اور موزوں تھی خدا نے دلا دی.۲۶؍ دسمبر کا روز جلسہ کا پہلا دن تھا.حاضری حوصلہ افزا نہ تھی.سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الف الف صلوۃ والسلام کے مضمون کے لئے ۲۷ / دسمبر کا دن اور ڈیڑھ بجے دوپہر کا وقت مقرر تھا.خدا کی قدرت کا کرشمہ اور اس کے خاص فضل کا نتیجہ تھا کہ حضرت مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب وفور عشق و محبت سے بیتاب ہو کر والہانہ رنگ میں وقت سے پہلے لاہور پہنچ گئے جن کی تشریف آوری سے ہم لوگوں کے لئے خاص تسکین اور خوشی کے سامان اللہ تعالیٰ نے بہم پہنچا دیئے.۱۳.حالات کی ناموافقت.جوش مخالفت اور قسم قسم کی مشکلات نیز وقت کی ناموزونیت کے باعث خطرہ تھا اور فکر دامنگیر کہ جلسہ شاید حسب دل خواہ با رونق نہ ہو سکے گا مگرشان ایز دی کہ خلق خدا یوں کچھی چلی آ رہی تھی.جیسے فرشتوں کی فوج اسے دھکیلے لا رہی ہو اور ان کی تحریک کا اتنا گہر اثر ہوا کہ مخلوق کے دل بدل گئے اور ان کے قلوب میں بجائے عداوت و نفرت کے عشق و محبت بھر گئی.مخالفوں کی مخالفت نے کھاد کا کام دیا اور روکنے و شرارت کرنے والوں کے غوغا نے لوگوں کی توجہ کو جلسہ کی طرف پھیر دیا جس سے لوگ کشاں کشاں تیز قدم ہو ہو کر جلسہ گاہ کی طرف بڑھے اور ہوتے ہوتے آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ صحن اور اس کے تمام بغلی کمرے اور ہال بھر گیا.اوپر کی گیلریوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی اور ہجوم اس قدر بڑھا کہ گنجائش نکالنے کوسمٹنا اور سکڑنا پڑا.دسمبر کی تعطیلات کی وجہ سے جا بجا جلسے.کانفرنسیں اور میٹنگیں ہو رہی تھیں.لوگوں کی مصروفیات ان کے دنیوی کاموں میں انہماک اور مادی فوائد کے حصول کی مساعی کی

Page 362

سیرت المہدی 355 موجودگی میں ایک خالص مذہبی جلسہ و کانفرنس میں اس کثرت ہجوم کو دیکھنے والا ہر کس و ناکس اس منظر سے متاثر ہو کر اس حاضری کی کامیابی کو غیر معمولی، خاص اور خدائی تحریک و تصرف کا نتیجہ کہنے پر مجبور تھا اور ایک ہندو کو اس سے انکار تھا نہ ہی سکھ اور آریہ سماجی کو.مسلمان کو اس سے اختلاف تھا نہ عیسائی یہودی یا د یو سما جی کو بلکہ ہر فرقہ وطبقہ کے لوگ آج کے اس خارق عادت جذب اور بے نظیر کشش سے متاثر اور دل ان کے سچ سچ مرعوب ہو کر نرم تھے.دیکھنے اور سننے میں فرق ہوتا ہے اس تقریب کی تصویر الفاظ میں ممکن نہیں.مختصر یہ کہ وہ اجتماع اپنے ماحول کے باعث یقینا عظیم الشان ، بے نظیر اور لا ریب غیر معمولی تھا.۱۴.مضمون کا شروع ہونا تھا کہ لوگ بے اختیار جھومنے لگے اور ان کی زبانوں پر بے ساختہ سبحان اللہ ! اور سبحان اللہ ! کے کلمات جاری ہو گئے.سنا ہوا تھا کہ علم توجہ اور مسمریزم سے ایک معمول سے تو یہ کچھ ممکن ہو جاتا ہے مگر ہزاروں کے ایک ایسے مجمع پر جس میں مختلف قومی.عقائد اور خیال کے لوگ جمع تھے اس کیفیت کا مسلط ہو جانا یقیناً خارق عادت اور معجزانہ تاثیر کا نتیجہ تھا.یہ درست ہے کہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کو قرآن کریم سے ایک عشق تھا اور اللہ تعالیٰ نے آواز میں بھی ان کی لحن داؤدی کی جھلک پیدا کر رکھی تھی نیز وہ ان آیات و مضامین کے ربط اور حقائق سے متاثر ہو کر جس رقت ،سوز اور جوش سے تلاوت فرماتے آپ کا وہ پڑھنا آپ کی قلبی کیفیات اور لذت وسرور کے ساتھ مل کر سامعین کو متاثر کئے بغیر نہ رہتا تھا مگر اس مجلس کی کیفیت بالکل ہی نرالی تھی اور کچھ ایسا سماں بندھا کہ اول تا آخر آیات قرآنی کیا اور ان کی تشریح و تفسیر کیا ، سارا ہی مضمون کچھ ایسا فصیح ، بلیغ، موثر اور دلچسپ تھا کہ نہ مولانا موصوف کے لہجہ میں فرق آیا اور نہ جوش لذت ہی پھیکے پڑے.معارف کی فراوانی کے ساتھ عبارت کی سلاست وروانی اور مضمون کی خوبی و ثقاہت نے حاضرین کو کچھ ایسا از خود رفتہ بنا دیا جیسے کوئی مسحور ہوں.میں نے کانوں سنا کہ ہندو اور سکھ بلکہ کٹر آریہ سماجی اور عیسائی تک بے ساختہ سبحان اللہ ! سبحان اللہ ایپکا رہے تھے.ہزاروں انسانوں کا یہ مجمع اس طرح بے حس و حرکت بیٹھا تھا جیسے کوئی بہت بے جان ہوں.اور ان کے سروں پر اگر پرندے بھی آن بیٹھتے تو تعجب کی بات نہ تھی.مضمون کی روحانی کیفیت دلوں پر حاوی اور اس کے پڑھے جانے کی گونج کے سوا سانس تک لینے کی آواز نہ آتی تھی حتی کہ قدرت خداوندی سے اس

Page 363

سیرت المہدی 356 وقت جانور تک خاموش تھے اور مضمون کے مقناطیسی اثر میں کوئی خارجی آواز رخنہ انداز نہیں ہورہی تھی.کم و بیش متواتر دو گھنٹے یہی کیفیت رہی.اور افسوس کہ میں اس کیفیت کے اظہار کے قابل نہیں.کاش میں اس لائق ہوتا کہ جو کچھ میں نے وہاں دیکھا اور سنا اس کے عکس کا عشر عشیر ہی بیان کر سکتا جس سے اس علمی معجزہ ونشان کی عظمت دنیا پر واضح ہو کر خلق خدا کے کان حق کے سننے کو اور دل اس کے قبول کرنے کو آمادہ وتیار ہوتے جس سے دنیا جہان کے گناہ، معاصی اور غفلتیں دور ہو کر ہزاروں انسان قبول حق کی توفیق پا جاتے.۱۵.ساڑھے تین بج گئے.وقت ختم ہو گیا جس کی وجہ سے چند منٹ کے لئے اس پر لذت وسرور کیفیت میں وقفہ ہوا.اگلا نصف گھنٹہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے مضمون کے لئے تھا.انہوں نے جلدی سے کھڑے ہو کر پبلک کے اس تقاضا ء کو کہ ” یہی مضمون جاری رکھا جائے نیز کسی اور کی بجائے اسی مضمون کو وقت دیا جائے اسی مضمون کو مکمل و پورا کیا جائے اپنا وقت دے کر پورا کر دیا بلکہ اعلان کیا کہ میں اپنا وقت اور اپنی خواہش اس قیمتی مضمون پر قربان کرتا ہوں.چنانچہ پھر وہی پیاری.مرغوب اور دلکش و دلنشیں داستان شروع ہوئی اور پھر وہی سماں بندھ گیا.چار بج گئے مگر مضمون ابھی باقی تھا اور پیاس لوگوں کی بجائے کم ہونے کے بڑھی جا رہی تھی.سامعین کے اصرار اور خود منتظمین کی دلچسپی کی وجہ سے مضمون پڑھا جا تا رہاتی کہ ساڑھے پانچ بج گئے.رات کے اندھیرے نے اپنی سیاہ چادر پھیلانی شروع کر دی.مجبور آیہ نہایت ہی میٹھی اور پُر معرفت اور مسرت بخش مجلس اختتام کو پہنچی اور بقیہ مضمون ۲۹ دسمبر کے لئے ملتوی کیا گیا.کوئی دل نہ تھا جو اس لذت و سرور کو محسوس نہ کرتا ہو.کوئی زبان نہ تھی جو اس کی خوبی و برتری کا اقرار و اعتراف نہ کرتی اور اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نہ تھی.ہر کوئی اپنے حال اور قال سے اقرار و اعتراف کر رہا تھا کہ واقعی یہ مضمون سب پر غالب رہا اور اپنی بلندی.لطافت اور خوبی کے باعث اس جلسہ کی زینت.روح رواں اور کامیابی کا ضامن ہے.نہ صرف یہی بلکہ ہم نے اپنے کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا کہ کئی ہندو اور سکھ صاحبان مسلمانوں کو گلے لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ

Page 364

سیرت المہدی 357 اگر یہی قرآن کی تعلیم اور یہی اسلام ہے جو آج مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے تو ہم لوگ آج نہیں تو کل اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے اور اگر مرزا صاحب کے اسی قسم کے ایک دو مضمون اور سنائے گئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ہی ہمارا بھی مذہب ہوگا.“ ۱۶.آج کا جلسہ ۲۷ / دسمبر برخاست ہو گیا.لوگ گھروں کو جارہے تھے جلسہ گاہ کے دروازہ پر میں نے دیکھا کہ اس کے دو نو طرف دو آدمی کھڑے سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا وہی اشتہار تقسیم کر رہے تھے جو حضور پر نور نے میرے ہاتھ خاص تاکیدی احکام کے ساتھ بھجوایا تھا تا کہ معروف مقامات پر چسپاں کیا جائے اور جلسہ سے پہلے ہی پہلے کثرت سے شائع کیا جاوے بلکہ یہ بھی تاکید تھی کہ یہ تھوڑا ہے ضرورت کے مطابق لاہور ہی میں اور طبع کرا لیا جائے تاکہ قبل از وقت اشاعت سے اس خدائی نشان کی عظمت کا اظہار ہو جس سے سعید روحیں قبول حق کے لئے تیار ہوں مگر ہوا یہ کہ خواجہ کمال الدین صاحب کے خوف کھانے کی وجہ سے پہلے دنیا جہان نے خدائی نشان کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اس کے غلبہ کا اقرار واعتراف اور بعد میں ان کو وہ اشتہار پہنچایا گیا جو کئی روز قبل چھاپا اور اچھی طرح شائع کرنے کو بھیجا گیا تھا چنانچہ جب سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کو خواجہ صاحب کی اس کمزوری و کوتاہی کا علم ہوا تو حضور پرنور بہت خفا ہوئے اور کئی دن تک جب جب بھی اس نشان الہی کا ذکر ہوا کرتا یا بیر ونجات سے اس کامیابی کے متعلق رپورٹیں ملتیں ساتھ ہی خواجہ صاحب کی اس کمزوری پر اظہار افسوس بھی سننے میں آیا کرتا تھا.مضمون کی مقبولیت اور پبلک کے اصرار و تقاضا سے متاثر ہو کر میجنگ کمیٹی کا اجلاس خاص منعقد ہوا اور اس میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ حضرت مرزا صاحب کے مضمون کی تعمیل کیلئے مجلس اپنے پروگرام میں ایک دن بڑھا کر ۲۹ دسمبر کا چوتھا دن شامل کرتی ہے.حضور کے مضمون کی غیر معمولی مقبولیت غیروں کو کب بھاتی تھی.مولوی محمد عبداللہ صاحب نے ایزادی وقت کی اس خصوصیت اور اہمیت کو کم کرنے کے لئے کوشش کر کے اپنے لئے بھی وقت بڑھائے جانے کی خواہش کی چنانچہ نصف گھنٹہ ان کے لئے بھی بڑھا دیا گیا مگر دوسرے روز خود تشریف ہی نہ لائے

Page 365

سیرت المہدی 358 اور اپنا وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے لئے وقف کر دیا جس کی وجہ ظاہر ہے عیاں راچہ بیاں.مگر خدا کی شان! حاضری اتنی حوصلہ شکن تھی کہ جلسہ گاہ کے بھر جانے کی انتظار ہی انتظار میں وقت گزرنے لگا نہ مجلس کل کی طرح پر رونق ہو اور نہ مولوی محمد حسین صاحب کھڑے ہوں.آخر بہت انتظار کے باوجود جب وہ خواہش پوری ہوتی نظر نہ آئی تو بادل ناخواستہ مجبوراً کھڑے ہوئے اور جو کچھ لکھا تھا پڑھ دیا اور زیادہ وقت لینے کے باوجود نہ خود خوش ہوئے نہ پبلک نے کوئی داد دی.۱۷ ۲۹ دسمبر کی صبح ساڑھے نو بجے کارروائی جلسہ شروع ہونے والی تھی.دسمبر کا اخیر.سردی کی شدت اور وقت اتنا سویرے کا تھا کہ لوگ ضروریات سے فراغت پا سکیں تو در کنار اتنی سویرے تو عام طور سے شہروں کے لوگ جاگنے کے بھی عادی نہیں ہوتے.فکر تھی ، اندیشہ تھا کہ شاید حاضری بہت ہی کم رہے گی اور اس طرح آج وہ لطف شاید نصیب نہ ہو گا مگر خدا کے کام اپنے اندر ایک غیر معمولی جذب اور مقناطیسی کشش رکھتے ہیں جسے کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی.انسان اگر غفلت دوستی دکھائیں تو وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے.چنانچہ سویرے ہی سویر سے ٹھٹھرتے ہوئے اور سردی سے سمٹتے اور سکڑتے ہوئے خلق خدا جھنڈ کے جھنڈ اور جوق در جوق اس کثرت اور تیزی سے آئی کہ ۲۷ کی دو پہر بعد کا نظارہ بھی مات پڑ گیا اور جلسہ نہایت شوکت وعظمت اور خیر و خوبی سے جاری وساری اور پھر نہایت کامیابی و کامرانی سے اختتام پذیر ہوا اور اس طرح حضور پرنور کا مضمون دنیا جہان پر عَلی رَغْمِ اُنُوفِ الْاَعْدَاء اپنے غلبہ، خوبی، کامیابی اور عظمت و حقانیت کا سکہ بٹھا کر علمی دنیا کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا نشان بن کر آسمان دنیا پر سورج اور چاند کی طرح چمکنے لگا.اور دوست تو در کنار دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے.اپنے اور بیگانے، پبلک اور منتظمین غرض ہر شعبہ میں اسی مضمون کا چرچا اور زبانوں پر حق جاری تھا.اخبارات نے مقالے لکھے اور اس صداقت کا اقرار و اعتراف کیا.منتظمہ کمیٹی نے اپنی طرف سے اس اقرار کور پورٹ متعلقہ میں درج کر کے اظہار حقیقت کیا.سچ ہے چڑھے چاند چھپے نہیں رہ سکتے اور اس کا انکار بیوقوفی کی دلیل ہوتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے مقدس و مقبول بندے

Page 366

سیرت المہدی 359 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو کچھ فرمایا تھاوہ ہوکر رہا.خدا کی بات پوری ہوئی اور دنیا کی کوئی طاقت کوئی تدبیر، کوئی مکر اور حیلہ خدائی کلام کے پورا ہونے میں روک نہ بن سکا.۱۸ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب شائع ہوئی اور منتظمہ کمیٹی جس کے اراکین ہر مذہب وملت کے ممبر اور اعلیٰ طبقہ کے ذمہ وار لوگ تھے، کی طرف سے اس کے خرچ وصرف سے شائع ہوئی.تمام وہ مضامین جواس جلسہ میں پڑھے گئے یا اس کے واسطے لکھے گئے اس میں من وعن درج کئے گئے کہ دنیا اس مذہبی دنگل اور میدان مقابلہ میں آنے والے بھی کو یکجا دیکھ کر غور اور فیصلہ اور حق و باطل میں تمیز کر سکے.مگر حقیقت یہ تھی کہ قرآن کریم کی عظمت ، اسلام کی حقانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدا کے مقرب اور مقبول بندے،اسی کے بلائے بولنے والے.اس کے سچے نبی ورسول ہونے کے لئے بطور شاہد اور دلیل و برھان یہ امور قائم دائم رہیں.حضور پر نور کا یہی وہ مضمون ہے جوار دو میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے اور انگریزی میں ٹیچنگز آف اسلام“ کے سر نامہ وعنوان کے ماتحت بار ہا ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر دنیا جہان کی روحانی لذت و سرور کے سامان اور ہدایت کے راستے آسان کرتا اور نہ صرف یہی بلکہ دنیا کی اور کئی زبانوں میں بھی چھپ کر شائع ہوتا چلا آ رہا ہے.۱۹.یہ رپورٹ شائع ہوئی اور خدا کی خدائی گواہ ہے کہ ہزار ہا انسانوں نے جو کچھ جلسہ میں دیکھا اور سنا تھا وہی کچھ رپورٹ میں درج ہوا.وہی مضامین جو نمائندگان مذاہب نے لکھے اور سنائے اور پھر انہوں نے منتظمہ کمیٹی کے حوالے کئے.ٹھیک ٹھیک اور بالکل وہی اور بعینہ طبع ہوئے تھے.مگر کیا کہا جائے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اور ان کی عقل و دانش کو کہ انہوں نے رپورٹ کی اشاعت پر یہ واویلا شروع کر دیا کہ ان کے نام سے جو مضمون اس میں طبع کرایا گیا ہے، وہ درحقیقت ان کا ہے ہی نہیں.مولوی صاحب کی غرض و غایت اس الزام تراشی سے ظاہر ہے کہ مقابلہ میں شکست کی ذلت کو چھپا نا تھی.حالانکہ ان کی یہ حرکت عذر گناہ بدتر از گناہ اور اپنے ہاتھوں اپنی خاک اڑانے کے مترادف تھی اور یہ امر تظمین سے پوشیدہ نہ تھا.چنانچہ منتظمین نے مولوی صاحب کے اس واویلا اورغوغا کو درخوداقتناء ہی

Page 367

سیرت المہدی 360 نہ سمجھا اور اس طرح مولوی صاحب کی پردہ داری کی بجائے اور بھی زیادہ پردہ دری ہوئی جس سے ”مولا نا صاحب جل بھن کر راکھ ہو گئے اور اس گہرے زخم سے تلملانے لگے جس کا اند مال ان سے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ انسانی ہاتھوں سے نہ تھا کہ بشری تدابیر اس کو اچھا کر سکتیں.ورنہ اگر حقیقت یہی تھی جس کا ان کو گلہ تھا تو کیوں نہ اپنا اصل مضمون شائع کر کے منتظمین کے اس دھوکہ کو الم نشرح کر دکھایا.بریں عقل و دانش باید گریست ۲۰.سوامی شوگن چندر صاحب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان نشان صداقت“ کے اظہار کے سامان پیدا کئے ، جلسہ کی تمام تر کارروائی کے دوران میں اور پھر رپورٹ کی اشاعت تک تو ملتے ملاتے اور آتے جاتے رہے پھر نہ معلوم وہ کیا ہوئے اور کہاں چلے گئے.گویا خدائی قدرت کا ہاتھ انہیں اسی خدمت کی غرض سے قادیان لایا تھا اور پھر پہلے کی طرح غائب کر دیا.نوٹ :.حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی اور حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی رضوان اللہ علیہم دونوں بزرگوں کے ہاتھ کا نقل کردہ حضرت اقدس کا وہ مضمون جس پر سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اس جلسہ میں پڑھ کر سنایا تھا آج تک میرے پاس محفوظ ہے مگر چونکہ اس مقدس اور قیمتی امانت کی حفاظت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں لہذا اسے قومی امانت سمجھ کر اس کو سید نا قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ عالی مقام مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ کے سپرد کرتا ہوں جو ایسے کاموں کے احق اور اہل ہیں تا کہ قائم ہونے والے قومی میوزیم میں رکھ کر اس کو آنے والی نسلوں کے ایمان وایقان کی مضبوطی و زیادتی اور عرفان میں ترقی کا ذریعہ بنا سکیں.فقط عبدالرحمن قادیانی ۲۰ جولائی ۱۹۴۶ء

Page 368

سیرت المہدی 361 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مکرم و محترم مهند شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بتحمیل ارشاد وروایات متعلقہ جلسہ مہوتسو رجسٹر نمبر ۱۴ صفحه نمبر ۷۸ اکتب خانه صدرانجمن احمد به نقل کر کے حاضر خدمت ہیں.اصل کا غذات متعلقہ جلسہ مہوتسو جو بمقام لاہور منعقد ہوا تھا سوا می شوگن چندر کے اشتہار متعلقہ مورخہ ۲ جنوری ۱۹۴۶ء ریل گاڑی میں گم ہو گئے.محمد الدین ۲۳/۶/۱۹۴۶ (۱۵) سوامی شوگن چند ررسالہ فوج میں ہیڈ کلرک تھا اور منشی ( مرزا) جلال الدین صاحب کا ہمنشین اور صحبت یافتہ تھا.منشی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے اہل و عیال و اطفال فوت ہو گئے اس لئے نوکری چھوڑ کر فقیر بن گیا.(۱۶) جلسہ کا مضمون (اسلامی اصول کی فلاسفی ) پڑھے جانے سے پہلے مخفی رکھا گیا تھا.حضرت صاحب نے منشی جلال الدین صاحب کو اس کی کاپی لکھنے پر مامور فرمایا.اور فرمایا کہ منشی صاحب کا خط ما يقرء ہوتا ہے.اس لئے آپ ہی اس کو لکھیں، چنانچہ منشی صاحب نے وہ مضمون اپنی قلم سے لکھا.(۱۷) منشی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ میں نے اس مضمون کی سطر سطر پر دعا کی ہے.(۱۸) مضمون کے لکھنے جانے اور پڑھے جانے کے وقت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیمار تھے.اس لئے مضمون پڑھنے کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کو تیار کیا جار ہا تھا لیکن خواجہ صاحب انگریزی خوان تھے، قرآن شریف عربی لہجہ میں پڑھ نہ سکتے تھے.آخر وقت پر مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر جلسہ پر لاہور میں سنایا.(۱۹) میں محمد دین جلسہ پر حاضر نہیں ہوسکا تھا.میرے حلقہ پٹوار میں جو تین چار حصہ میں تقسیم تھی چھ سات امسلمہ تقسیم زیر کار تھیں جن کی وجہ سے مجھے رخصت نہ مل سکی.اس لئے منشی جلال الدین صاحب حاضر ہوئے تھے.انہوں نے سنایا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید مجزا نہ رنگ میں ہوئی.سردی کے موسم کے باوجود کسی شخص

Page 369

سیرت المہدی 362 کو کھانسی یا چھینک نہ آئی.ہمہ گوش ہو کر لوگوں نے سنا.آخر سکھوں نے مسلمانوں کو چھا مار کر اُٹھایا اور مبارکبادیں دیں.اور کہا کہ جے کدی مرزا ایہو جیا اک مضمون ہور دو.تاں مسلمان ہی ہونا پیو ( یعنی اگر مرزا ایسا ہی مضمون اور دیوے گا تو ہم کو مسلمان ہی ہونا پڑے گا ) نیز منشی صاحب نے فرمایا کہ جانوروں یعنی پرندوں پر بھی الہی تصرف تھا کہ چڑیا تک کی بھی کوئی آواز سنائی نہ دیتی.(۲۰) حضرت صاحب نے اس مضمون کے متعلق ماہ اگست ۱۸۹۶ء یعنی جلسہ سے چار ماہ قبل اشتہار دیا.خربت خیبر.بالا رہے.سب پر غالب آئے گا.الہامات شائع کئے.لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب نے تشہیر بعد میں کی جس پر حضرت صاحب ناراض ہوئے.(۲۱) اشتہار مذکور منشی جلال الدین صاحب نے اپنے ایک دوست اور ہم عصر سردار بہا در مردان علی خاں رسالدار میجر پنشنر رسالہ نمبر ۱۲ ساکن ہیسہ کو دیا اور تبلیغ بھی کی.جب پیشگوئیوں کے وقوع اور مضمون کی کامیابی سردار مردان علی خاں نے پڑھی تو کہا ھن مرزے دی چڑھ پھٹی“ کہ اب مرزا لوگوں پر اپنا غلبہ بڑھ چڑھ کر پیش کرے گا اور لوگ حجت ملزمہ (کے) آگے سرنگوں ہو جائیں گے.نقل مطابق اصل ہے ۲۳_۶_۲۵_۴۶ محمد الدین بقلم خود ( دستخط ) اشتہار تبلیغ رسالت حصہ پنجم صفحہ ۷۷-۷۹ کے حاشیہ میں سوامی شوگن چندر کے اشتہار کا ذکر ہے جو غالباً اگست ۱۸۹۶ء میں سوامی صاحب نے مشتہر کیا تھا.۲۳۶-۴۶-۲۵ محمد الدین ( دستخط ) نوٹ:.بغرض تکمیل روایت یہ تحریر بھی سید نا حضرت صاحبزادہ عالی مقام ، قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.عبدالرحمن قادیانی

Page 370

سیرت المہدی 363 عيد قربان 1900ء خطبہ الہامیہ از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی صاحب رضی اللہ عنہ

Page 371

364 سیرت المہدی

Page 372

سیرت المہدی 365 بسم الله الرحمن الرحيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عید قربان ۱۹۰۰ ء اور خطبہ الہامیہ الحمد لله الحمد لله.ثم الحمد لله الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتدي لولا ان هدانا الله.لقد جاءت رسل ربنا بالحق (1) اللہ تعالیٰ کا خاص بلکہ خاص الخاص فضل ہے کہ مجھ نا کارہ و نالائق کو لطف کرم سے نوازا اور سراسر احسان سے اُٹھا کر اپنے برگزیدہ و حبیب جری اللہ فی حلل الانبیاء کے قدموں میں لا ڈالا.۱۹۰۰ عیسوی کے مندرجہ نشان کے ظہور کے وقت بھی مجھ غلام کو حضوری کا شرف میسر تھا.اس طرح اس روز کے علمی معجزہ کو آنکھوں دیکھنے اور کانوں سنے کی سعادت نصیب ہوئی وَذَالِکَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلكِنْ أَكْثَرُ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ - (۲) عید سے پہلے دن یعنی حج کے روز سید نا حضرت اقدس کی طرف سے چاشت کے وقت یہ اعلان کرایا گیا کہ قادیان میں موجود تمام دوستوں کے نام لکھ کر حضرت کے حضور پیش کئے جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محض (فضل) اور رحم سے یہ دن حضور انور کے لئے دعاؤں کی قبولیت کے واسطے خاص فرما کر حضور کو اذنِ دعا یا تھا اور حضور خدا کے اس انعام میں اپنے خدام کو بھی شریک فرمانا چاہتے تھے.ورنہ پانچ چھ سالہ فیض صحبت ( یعنی ۱۸۹۵ء تا ۱۹۰۰ء) کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے میں کہ سکتا ہوں کہ اس دن کے سواحضور کی طرف سے اس قسم کا اعلان پہلے کبھی ہوتا میں نے دیکھا، نہ سنا تھا.یوں تو دعاؤں کے لئے

Page 373

سیرت المہدی 366 ہم لوگ اکثر لکھتے اور عرض کرتے رہا کرتے تھے اور بعض اصحاب ضرورت وحاجت اکثر روازنہ اور متواتر ہفتوں بھی حضرت کے حضور دعاؤں کی درخواستیں بھیجا کرتے تھے.حضور کی مجلس کے دوران بھی کبھی کبھی احباب التجاء دعا کیا کرتے جس کے جواب میں عموماً حضور فرمایا کرتے :.انشاء اللہ دعا کروں گا.یاد دلاتے رہیں.اور کئی بار ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ ادھر کسی نے دعا کے لئے عرض کیا ادھر حضور نے دست دعا اللہ تعالیٰ کے حضور بڑھا کر اس کے لئے دعا کر دی جس میں حاضرین مجلس بھی شریک ہو جایا کرتے.تحریری درخواست ہائے دعا کے جواب میں بعض دوستوں کو حضور خود دست مبارک سے جواب تحریراً بھی دیا کرتے تھے مگر اس یوم الحج کے روز ر تو ضرور کوئی خاص ہی فضل الہی تھا جس میں حضور نے از راہ شفقت تمام خدام، احباب اور مہمانوں کو شامل کرنے کے لئے خاص طور سے اعلان کرایا تھا.(۳) اس اعلان کا ہونا تھا کہ جہاں یکجائی فہرست میں ہر کسی نے دوسرے سے پہلے اپنا نام لکھانے کی کوشش کی وہاں فرداً فرداً بھی رقعات اور عرائض بھیجنے کی سعی کی.ایک فہرست حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب کی زیر قیادت تیار ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ اسی طرح بعض دوستوں نے اور بھی دو ایک فہرستیں تیار کر کے اندر بھجوائی تھیں.کتنے رقعات اور عرائض فردا فردا حضرت کے حضور پہنچائے گئے ان کا حساب اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ ہر شخص کی خواہش تھی کہ میرا عریضہ پہلے روز حضرت کے اپنے ہاتھ میں پہنچے.چنانچہ اس کوشش میں اس روز حضور کی ڈیوڑھی کیا اور مسجد مبارک کی طرف سیٹرھیاں کیا خدام سے آٹی رہیں اور بچوں و خادمات نے بھی دوستوں کے عریضے اور خطوط پہنچانے میں جو احسان کیا وہ اپنی جگہ قابل رشک کام تھا.اُس زمانہ میں عیدین کے موقعہ پر دارالامان میں بیرونجات سے آنے والے احباب کی وجہ سے خاصی چہل پہل ہو جایا کرتی تھی اور جلسہ کا سا رنگ معلوم دیا کرتا تھا.رقعات اور عرائض کا سلسلہ کچھ زیادہ لمبا ہو گیا اور بچوں و خادمات کے بار بار کے جانے کی وجہ سے حضور کی توجہ الی اللہ میں خلل اور روک محسوس ہوئی تو کہدیا گیا کہ اب کوئی رقعہ حضرت کے حضور نہ بھیجا جاوے.الغرض دن اونچا ہونے سے لے کر ظہر

Page 374

سیرت المہدی 367 تک اور ظہر کے بعد سے عصر اور شام بلکہ عشاء کی نماز تک سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دروازے بند کئے دعاؤں میں مشغول اپنی جماعت کے لئے اللہ کے حضور التجائیں کرتے رہے.اسلام کی فتح اور خدا کے نام کے جلال و جمال کے ظہور.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور احیاء وغلبہ اسلام کے لئے نہ جانیں کس کس رنگ میں تنہا سوز و گداز سے دعائیں کرتے رہے اور یہ امر دعائیں کرنے والے جانتے ہیں یا جس ذات سے التجائیں کی گئیں وہ جانتا ہے.لوگوں نے جو کچھ سناوہ آگے سنا دیا یا قیاس کر لیا ورنہ حقیقت یہی تھی کہ خدا کا برگزیدہ جانتا تھایا پھر خدا جس سے وہ مقدس کچھ مانگ رہا تھا.(۴) دوسرا دن عید کا تھا اللہ تعالیٰ نے کل کی دعاؤں کو سنا اور نوازا.اس روز کے تنہائی کے راز و نیاز کو قبول فرمایا اور حضور کو بشارتیں دیں جن کے نتیجہ میں حضور کی طرف سے حضرت مولا نا عبد الکریم صاحب، حضرت مولانا نورالدین صاحب اور بعض اور احباب خاص کو یہ ارشاد پہنچا کہ آج ہم کچھ بولیں گے اور عربی زبان میں تقریر کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عربی میں نطق کی خاص قوت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے.لہذا آپ لکھنے کا سامان لے کر مسجد چلیں.اس خبر سے قادیان بھر میں مسرت و انبساط کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہماری عید کو چار چاند لگ گئے.عید کے موقع پر اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم حضرت کے حضور نیا لباس پیش کیا کرتے تھے اور مدت سے اُن کا یہ طریق چلا آرہا تھا.اس روز اس لباس کے پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی یا سید نا حضرت اقدس ہی خدا کے موعود فضل کے حصول کی سعی و کوشش میں ذرا جلد تشریف لے آئے وہ لباس پہنچانہ تھا اور حضور تیار ہو کر مسجد کی سیڑھیوں کے رستے اتر کر مسجد اقصیٰ کو روانہ ہو گئے تھے.مسجد مبارک کی کوچہ بندی سے ایک یا دو قدم ہی حضور آگے بڑھے ہوں گے کہ وہ لباس حضرت کے حضور پیش ہو گیا اور حضور پر نور خلاف عادت شیخ صاحب کی دلجوئی کے لئے واپس الدار کو لوٹے.اندرون بیت تشریف لے جا کر یہ لباس زیب تن فرمایا اور پھر جلد ہی واپس مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسب معمول محد و منا حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس نے دیا.(۵) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ اردو میں پڑھا جس کے آخری حصہ

Page 375

سیرت المہدی 368 میں خصوصیت سے جماعت کو باہم اتفاق و اتحاد اور محبت و مودت پیدا کرنے کی نصائح فرمائیں اور پھر اس کے بعد حضور نے حضرت مولوی صاحبان کو خاص طور سے قریب بیٹھ کر لکھنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ اب جو کچھ میں بولوں گا وہ چونکہ ایک خاص خدائی عطا ہے لہذا اس کو توجہ سے لکھتے جائیں تا کہ.محفوظ ہو جائے ورنہ بعد میں میں بھی نہ بتا سکوں گا کہ میں نے کیا بولا ( ما حصل بالفاظ قادیانی) چنانچہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ جو دور بیٹھے تھے اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب آکر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت مولا نا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھ گئے.حضور اقدس اس وقت اصل ابتدائی مسجد اقصیٰ کے درمیانی دروازہ کے شمالی کو نہ میں ایک کرسی پر مشرق رو تشریف فرما تھے اور حاضرین کا اکثر حصہ صحن مسجد میں.مکرمی محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب حال عرفانی کبیر اور یہ عاجز راقم بھی پنسل کا غذ لے کر لکھے کو بیٹھے کیونکہ مجھے خدا کے فضل سے حضور کی ڈائری نویسی کا از حد شوق تھا اور حضرت شیخ صاحب اپنے اخبار کے لئے لکھنے کے عادی و مشاق تھے.پہلی تقریر یعنی خطبہ عید حضور نے کھڑے ہو کر فرمائی تھی جس کے بعد حضور کے لئے خاص طور سے ایک کرسی بچھائی گئی جس پر حضور تشریف فرما ہوئے اور جب عرض کیا گیا کہ لکھنے والے حاضر و تیار ہیں تو (1) حضور پر نور اسی کرسی پر بیٹھے گویا کسی دوسری دنیا میں چلے گئے معلوم دینے لگے.حضور کی نیم واچشمانِ مبارک بند تھیں اور چہرہ مبارک کچھ اس طرح منور معلوم دیتا تھا کہ انوار البہیہ نے ڈھانپ کر اتنا روشن اور نورانی کر دیا تھا جس پر نگہ تک بھی نہ سکتی تھی اور پیشانی مبارک سے اتنی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں.حضور نے گونہ دھیمی مگر دلکش اور سریلی آواز میں جو کچھ بدلی ہوئی معلوم ہوتی تھی فرمایا.يَا عِبَادَ اللهِ فَكِّرُوا فِي يَوْمِكُمْ هَذَا يَوْمَ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ اَوْدَعَ اَسْرَارًا لِأُولِى النهى -- لکھنے والے لکھنے لگے جن میں خود میں بھی ایک تھا مگر چند ہی فقرے اور شاید وہ بھی درست نہ لکھے گئے

Page 376

سیرت المہدی 369 تھے، لکھنے کے بعد چھوڑ کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھا اس تبتل وانقطاع کے نظارہ اور سریلی ودلوں کے اندر گھس کر کایا پلٹ دینے والی پر کیف آواز کا لطف اٹھانے لگ گیا.تھوڑی دیر بعد حضرت شیخ صاحب بھی لکھنا چھوڑ کر اس خدائی نشان اور کرشمہ قدرت کا لطف اٹھانے میں مصروف ہو گئے.لکھتے رہے تو اب صرف حضرت مولوی صاحبان دونوں جن کو خاص حکم تھا کہ وہ لکھیں.لکھنے میں پنسلیں استعمال کی جارہی تھیں جو جلد جلد گھس جاتی تھیں مجھے یاد ہے کہ پنسل تراشنے اور بنا بنا کر دینے کا کام بعض دوست بڑے شوق و محبت سے کر رہے تھے مگر نام ان میں سے مجھے کسی بھی دوست کا یاد نہ رہا تھا.ایک روز اس مقدس خطبہ الہامیہ کے ذکر کے دوران میں مکرم محترم حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب در دایم اے نے بتایا کہ وہ بھی اس عید اور خطبہ الہامیہ کے نزول کے وقت موجود تھے اور کہ لکھنے والوں کو پنسلیں بنا بنا کر دیتے رہے تھے.(۷) بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یا کسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلا الف اور عین.صاد و سین یا ثا اور طوت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوں بتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہو جاتی تھی اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسوس کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یاسن کر بول رہی تھی.زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی.مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہو کر کسی کے چلائے چلتی ہو.یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے.انقطاع تبتل ، ر بودگی یا حالت مجذوبیت و بے خودی و وارفتگی اور محویت تامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہو سکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم از کم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں درنہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف و قا بو یافتہ ہو.

Page 377

سیرت المہدی 370 لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پُر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور دہراد ہرا کر بتاتے رہے.خطبہ الہامیہ کے نام سے جو کتاب حضور نے شائع فرمائی وہ بہت بڑی ہے.۱۹۰۰ء کی عید قربان کا وہ خاص خطبہ مطبوعہ کتاب کے اڑ میں صفحات تک ہے.باقی حصہ حضور نے بعد میں شامل فرمایا.(۸) یہ جلسہ اور مجلس ذکر لمبی ہو گئی اور نماز کا وقت آ گیا.چونکہ حضور پرنور نے جب یہ خطبہ عربی ختم فرمایا تو دوستوں میں اس کے مضمون سے واقف ہونے کا اشتیاق اتنا بڑھا کہ حضور نے بھی آخر پسند فرمایا کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ دوستوں کا سنا دیں.چنانچہ مولانا موصوف نے خوب مزے لے لے کر اس تمام خطبہ کا ترجمہ اردو میں اپنے خاص انداز اور لب ولہجہ میں سنا کر دوستوں کو محظوظ اور خوش وقت فرمایا اور یہ کیفیت بھی اپنے اندر ایک خاص لطف و سرور اور لذت روحانی رکھتی تھی.ترجمہ ابھی غالباً پورا بھی نہ ہوا تھا کہ اچانک کسی خاص فقرے سے متاثر ہو کر یا اللہ تعالیٰ کے خاص القاء کے ماتحت سیدنا حضرت اقدس کرسی سے اٹھ کر سجدہ میں گر گئے اور اس طرح مجمع تھوڑی دیر کے لئے حضور کے ساتھ خدائے بزرگ و برتر کے اس عظیم الشان نشان کے عطیہ کے لئے آستانہ الوہیت پر گر کر جبین نیاز ٹکائے اظہار تشکر وامتنان کرتا رہا.فالحمد لله.الحمد لله.ثم الحمد لله على ذالك.(۹) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خواہش فرمائی کہ اس خدائی نشان کو لوگ یاد کرنے کی کوشش کریں چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں خطبہ الہامیہ کی اشاعت کے بعد بہت سے دوستوں نے اس کو یاد کرنا شروع کیا بعض نے پورا یاد کر لیا تو بعض نے تھوڑا مگر ان دنوں اکثر یہی شغل تھا اور ہر جگہ، ہر مجلس میں اسی خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھنے اور سننے سنانے کی مشق ہوا کرتی تھی.بعض روز شام کے دربار میں کوئی نہ کوئی دوست بھری مجلس میں حضرت اقدس کے سامنے یاد کیا ہوا سنایا بھی کرتے تھے اور اسی طرح خدا کی اس نعمت کا چرچا رہتا تھا.میں نے بھی تین چار صفحات یاد کئے تھے.(۱۰) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود باجود دنیا جہان بلکہ ہفت اقالیم سے بھی کہیں بڑی نعمت.خدا کا خاص انعام اور فضل و احسان تھا کیونکہ وہ خدا نما تھا جس کو دیکھتے ہی خدا کے عظمت و جلال کا کبھی نہ مٹنے والا اثر دل ودماغ پر ہوتا اور خدا کی خدائی پر یقین پیدا ہوا کرتا تھا.جس کی مجلس خدا کے

Page 378

سیرت المہدی 371 تازہ بتازہ کلام سننے کا مقام اور اس کلام کو پورا ہوتے دیکھنے سے خدا کے کامل علم اور اس کی کامل قدرت پر یقین پیدا ہونے کی جگہ اور دلوں میں نور علم و عرفان بھرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی.روح کی تازگی ، ایمان کی مضبوطی ، قلوب کی صفائی اور اذہان کی جلا کے سامان اس مجلس میں جمع ہوا کرتے تھے.تزکیہ نفس کے سامان اس میں ملتے اور محبت الہی کی آگ پیدا ہو کر دنیا کی محبت کو سرد کر دیا کرتی تھی.چنانچہ اس تازہ نشان نے بھی جماعت میں ایک روحانی تغیر پیدا کر دیا اور سالکین کے لئے منازل ایقان وعرفان کو آسان بنا دیا تھا اور ایک خاص روحانی انقلاب کا یہ نشان الہی پیش خیمہ تھا جس کی اہمیت گہرے غور و تدبر سے ہمیشہ نمایاں ہوتی رہے گی.عید کے روز حضور کے اس خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھے جانے اور حضور پر نور کو نطق کی خاص طاقت وقوت عطا کئے جانے سے یوم الحج کے روز کی دعاؤں کی قبولیت کا یقین گو یا مشاہدہ میں بدل گیا تھا کیونکہ یہ دونوں چیزیں باہم بطور لازم ملزوم کے تھیں.یہ عید اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے تاریخ سلسلہ کا ایک اہم ترین واقعہ اور ایک خاص باب ہے جس کی گہرائیوں میں جتنے بھی غوطے لگائے جائیں گے اتنے ہی زیادہ سے زیادہ قیمتی اور انمول اور بے مثال موتی ملیں گے.مبارک وہ جن کو ان کے حصول کی توفیق رفیق ہوا اور سلامتی ہو اُن پر جو اُن کو حاصل کر کے خدمت سلسلہ اور خدمت خلق میں صرف کریں.اللهم صلّ على محمد و علی آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید آمین.آمین ثم آمین عبدالرحمن قادیانی بقلم خود تحریر ۲۵ جولائی ۱۹۴۶ء

Page 379

372 سیرت المہدی

Page 380

سیرت المہدی 373 سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا و آخری سفر لا ہور اور حضور پُر نور کا وصال از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 381

374 سیرت المہدی

Page 382

سیرت المہدی 375 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود استغفر الله استغفر الله - استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب اليه - لاحول ولا قوة الا بالله العلى العظيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سفر لاہور اور حضور پرنور کا وصال ماہ اپریل ۱۹۰۸ء کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی باریک در بار یک مصلحتوں ، گوناگوں مشیوں اور نہاں در نہاں مقادیر کے ماتحت سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خرابی طبیعت اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے جن کے باعث حضور پرنور کوسفر لا ہور اختیار کرنا پڑا.مگر حضور کے اس سفر کے مطابق جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ تیاری کی خبریں سنی گئیں جو منشاء ایزدی کے ماتحت ملتوی ہو جاتی رہیں اور کہ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کو اس سفر کے لئے انشراح نہ تھا.کیونکہ ایک عرصہ سے اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی اور الہامات سے حضور کو قرب وصال کے الہامات ہور ہے تھے.جن کا سلسلہ رسالہ الوصیت کی تحریر سے بھی پہلے کا شروع تھا اور قریب ایام میں بھی بعض ایسے الہامات ہوئے تھے.چنانچہ ے مارچ.۱۹۰۸ء کا الہام ہے.اور پھر غنودگی میں دیکھا کہ ایک جنازہ آتا ہے.” ماتم کده

Page 383

سیرت المہدی 376 ۱۴ را پریل ۱۹۰۸ء کو پھر ایک الہام ہوا.ماتم کدہ اور پھر اس سفر کی تیاری و کشمکش میں ۲۶ اپریل ۱۹۰۸ء کو الہام ہوا.مباش ایمن از بازی روزگار اس الہام اور پہلی تیاری و التوا کی خبروں سے ہم لوگوں پر غالب اثر یہ تھا کہ حضور پرنور کا یہ سفراب پختہ طور پر معرض التوا ہی میں رہے گا.مگر دوسرے ہی روز یعنی ۲۷ را پریل ۱۹۰۸ء کی صبح کو حضور کی روانگی کا فیصلہ ہو گیا چنا نچہ صبح کی نماز کے بعد خدام کو تیاری کا حکم ہوا اور رخت سفر باندھا جانے لگا.قریباً سات یا آٹھ بجے حضور معہ اہل بیت و تمام خاندان روانہ ہوئے.چند یکے اور ایک رتھ حضور اور خاندان کی سواری کے لئے ساتھ تھے.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب معہ اہل بیت و بچگان وغیرہ.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نیز بعض اور اصحاب اور خدام و خادمات حضور کے ہمرکاب تھے.صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب سلمہ ربہ کی گھوڑی مکرمی مفتی فضل الرحمن کے سپر د تھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بعد میں حضور نے لاہور بلوالیا تھا.جہاں اور دوست مشایعت کیلئے گاؤں سے باہر محلہ دارالصحت تک گئے میں بھی جس حال میں گھر سے صبح نکلا ہوا تھا اسی حال میں محلہ دارالصحت تک اپنے آقائے نامدار کو الوداع کہنے کی غرض سے پیچھے پیچھے ہولیا.دل میں کچھ تھا مگر حیاء وشرم اور کم مائیگی اظہار سے مانع تھی.سب بڑے چھوٹوں کو حضور نے از راه کرم و ذرہ نوازی مصافحہ کا شرف بخشا.میں بھی اپنی باری سے دست بوسی کے لئے بڑھا.میرے ہاتھ میرے امام و مقتداء سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں تھے.قبلہ حضرت نانا جان مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کے پہلو میں کھڑے تھے.مجھے اب یاد نہیں اور اس وقت بھی میں اس بات کا امتیاز نہ کر سکا تھا کہ حضرت نانا جان نے پہلے سفارش کی تھی یا خود ہی سید نا حضرت اقدس نے اس غلام کو ہمرکابی کی عزت عطا فرمانے کا اظہار فرمایا تھا.ایک لمحہ تھا پر سرور ، دقیقہ تھا عزت افزاء اور ثانیہ تھا پُر کیف جو مجھے آج بھی کسی طرح لذت و سرور اور عزت و نشاط کے عالم میں لئے جا رہا ہے.قبلہ حضرت نانا جان من مغفور

Page 384

سیرت المہدی 377 رحمۃ اللہ علیہ کی سفارش کو بھی میرے کان سن رہے ہیں اور ”میاں عبدالرحمن آپ بھی ہمارے ساتھ ہی لا ہور چلو کی دلکش اور سریلی اور پیاری آواز بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے.مگر باوجود اس کے میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ حضور پر نور نے میری دلی کیفیت اور قلبی آرزو کا علم پا کر خود ہی مجھے ہمرکابی کے لئے نواز ا تھا یا کہ یہ رحمت الہی مجھ پر حضرت نانا جان کی سفارش کے نتیجہ میں نازل ہوئی تھی.بہر کیف میں قبول کر لیا گیا اور بجائے اور دوستوں کی طرح واپس گھر کو لوٹنے کے اپنے آقا فداہ روحی کے ہمرکاب بٹالہ کے لئے ایک یکہ میں سوار ہو گیا.حال میرا یہ تھا کہ تین کے تین پھٹے ٹوٹے کپڑے صرف میرے بدن پر تھے اور بس.گھر والوں کو کسی دوست کے ذریعے اطلاع بھیج دی اور اپنی سعادت ، خوش نصیبی اور بیدار بختی پر دل ہی دل میں ناز کرتا اور سجدات شکر بجالاتا ہوا چلا گیا.بٹالہ پہنچ کر حضور نے قیام کا ارشاد فرمایا اور ٹیشن کے قریب ہی ایک لب سڑک سرائے میں قیام ہوا ، جس کے دروازہ پر ”سرائے مائی اچھرا دیوی منقوش ہے.سيدة النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کے اراکین علیوال کی نہر پر سیر کے واسطے تشریف لے گئے.جہاں سے شام کے قریب واپسی ہوئی.بٹالہ یا علیوال کے سرسبز درختوں کا گھنا سایہ دیکھ کر واہ واہ کہتے ہوئے کسی خادمہ کی زبان سے نکلا.” کیسا پیارا منظر اور ٹھنڈی چھاؤں ہے“ حضور نے یہ الفاظ سن کر فرمایا: ہمیں تو قادیان کی دھوپ بھی اچھی لگتی ہے“ بٹالہ پہنچ کر بھی ہم لوگوں کا خیال غالب یہی تھا کہ شاید حضور بٹالہ ہی میں چند روز ٹھہر کر قادیان واپس تشریف لے چلیں گے.کیونکہ آج شام کی گاڑی سے بھی لاہور جانے کا کوئی انتظام نظر نہ آتا تھا.ایک روک یہ پیدا ہوئی کہ گاڑی کے ریز رو ہونے میں بعض مشکلات پیش تھیں.چنانچہ یہ دن رات بلکہ دوسرا دن رات بھی بٹالہ کی اسی سرائے میں قیام رہا.سیر کے واسطے حضور معہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم تشریف لے جاتے رہے اور رات اسی سرائے میں قیام ہوتا رہا.آخر گاڑی کے ریز رو کا فیصلہ ہو گیا اور تیسرے روز صبح کی گاڑی سے حضور نے لاہور کا عزم فرما لیا.جہاں دو پہر کے وقت خواجہ کمال الدین

Page 385

سیرت المہدی 378 صاحب کے مکان واقع کیلیا نوالی سڑک متصل موجودہ اسلامیہ کالج لاہور میں پہنچ کر قیام ہوا.ان ایام میں یہ علاقہ قریباً ایک جنگل کی حیثیت میں تھا.کچھ باغات تھے.اسلامیہ کالج کی موجودہ عمارت بھی ابھی تعمیر نہ ہوئی تھی اور اگر چہ خواجہ صاحب وغیرہ احمدی لوگوں نے ایک وسیع قطعہ اراضی ایک لمبے عرصہ سے ٹھیکہ یا کرایہ پر لے رکھا تھا مگر ابھی تک مکان وہاں صرف دو تین ہی بنے تھے جن میں سے خواجہ صاحب کا مکان اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا مکان لب سڑک واقع تھے.جن کے درمیان ایک چھوٹی سی گلی تھی اور یہ دونوں مکان دومنزلہ تھے.ابتداء سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے خاندان کے لئے قیام کا انتظام خواجہ صاحب ہی کے مکان میں کیا گیا.حضور مکان کے نچلے حصہ میں جو شمالی جانب واقع تھا بود و باش رکھتے رہے اور حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ اہل بیت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں.باقی ہمرکاب بزرگوں اور خدام کے لئے بھی ادھر اُدھر انہی مکانات میں انتظام کر دیا گیا.نماز کے لئے خواجہ کے مکان کی بالائی منزل کا بڑا دالان مخصوص کر دیا گیا جو حضرت کے دربار اور میل ملاقات کی تقریبوں میں بھی کام آتا تھا.درس قرآن کریم کھلے میدان میں ہونے لگا.حضرت کی زیارت اور فیض صحبت پانے کی غرض سے آنے والے مہمانوں کی رہائش و آسائش کا انتظام بھی ایک حد تک یہی دونوں اصحاب سمٹ سمٹا کر کر دیا کرتے تھے.کم و بیش آخری نصف عرصہ قیام لاہور کے زمانہ کا حضور پُرنور نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے بالا خانہ میں گزارا اور حضرت مولوی صاحب حضور کی جگہ خواجہ صاحب کے مکان میں جار ہے.نمازوں وغیرہ کے انتظامات بدستور اسی حالت میں رہے.البتہ حضور کے نمازوں میں آنے اور جانے کے واسطے درمیانی گلی پر ایک لکڑی کا عارضی پل بنا کر دونوں مکانوں کو ملادیا گیا.اس زمانہ کی ڈائریاں اور تقاریر الحکم اور بدر میں چھپتے رہے ہیں ان کے دہرانے کی گنجائش نہیں.قیام لاہور کے زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً روزانہ سیر کے واسطے خاندان کی بیگمات اور بچوں سمیت تشریف لے جایا کرتے تھے.بلکہ بعض روز تو صبح و شام دو وقتہ سیر فرمایا کرتے تھے.ابتداء میں حضور بھی رتھ میں بیٹھ کر بیگمات کے ساتھ سیر کو تشریف لے جاتے تھے.کھلی

Page 386

سیرت المہدی 379 سڑکوں پر بھی اور شہر کے بازاروں مثلاً مال روڈ اور انارکلی میں بھی حضور سیر کے واسطے چلے جاتے تھے.بازار میں سے گزرتے ہوئے کبھی سواری ٹھہرا کر ہند و حلوائیوں کے ہاں سے کھانے کی چیزیں بھی خرید فرما لیا کرتے تھے اور بیگمات اور بچوں کے علاوہ ہمرکاب خدام کو بھی شریک فرماتے تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور انارکلی میں سے گزرتے ہوئے کیسری کی دکان پراکثر ٹھہرا کرتے اور سب کو سوڈا پہلوایا کرتے تھے.عام اجازت ہوا کرتی تھی جو جس کا جی چاہتا پیتا یعنی لیمن ، روز اور آئس کریم یا مائینیل وغیرہ وغیرہ.مگر سید نا حضرت اقدس خود کھاری بوتل بتاشہ ڈال کر پیا کرتے تھے اور یہ عمل کھلے بازار میں کیسری کی دکان کے سامنے سواریاں کھڑی کر کے ہوا کرتا تھا.بیگمات بھی رتھ یا فٹن میں تشریف فرما ہوا کرتی تھیں.حضور کی غریب نوازی، کرم گستری اور غلام پروری کے چند ایک ادنی سے کرشمے اور بالکل چھوٹی ا.چھوٹی مثالیں بھی اس موقعہ پرلکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں.میں چونکہ ایک لمبے عرصے کی جدائی کے بعد قریب ہی کے زمانہ میں راجپوتانہ سے قادیان واپس آیا تھا.جہاں مجھے میرے آقاسید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک نہایت عزیز کی خدمت اور ان کے زمینداری کاروبار میں مدد کے لئے ان کی درخواست پر جانے کا حکم نومبر ۱۹۰۳ء کے اواخر میں دے کر بھیجا تھا.اور جہاں سے میں سوائے دو تین مرتبہ قادیان آنے اور چند روز ٹھہر کر پھر واپس چلے جانے کے دسمبر ۱۹۰۷ء میں بصد مشکل وہ بھی ایک چیتے کے حملہ سے سخت زخمی ہو کر واپس پہنچا تھا.لہذا اس لمبی جدائی اور دوری کی تلافی کا خیال میرے دل میں اس زور سے موجزن تھا کہ جی قربان ہو جانے اور حضرت کے قدموں میں جان نثار کر دینے کو چاہتا تھا.حضرت مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مقدس انسان کی وفات میری عدم موجودگی میں واقع ہوئی تھی اور رسالہ الوصیت مجھے راجپوتانہ ہی میں ملا تھا.حضرت مولانا کی وفات اور اس کے بعد رسالہ الوصیت کے مضمون نے میری زندگی کی بنیاد کو ہلا دیا اور دنیا مجھے پر سرد کر دی تھی.ایسی کہ مجھے کسی حال میں چین نہ پڑا کرتا اور دل بے قرار ہتا تھا کہ وہ دن کب آئے کہ میں پھر قادیان کے گلی کوچوں میں پہنچ کر دیار حبیب میں داخل ہو کر اپنے آقا اور

Page 387

سیرت المہدی 380 حضور کے خاندان کے قدموں میں رہوں.وہیں میرا جینا ہو اور وہیں خدا کرے کہ میرا ایمان و وفا پر مرنا ہو.یہ میری دعا ئیں تھیں اور یہی آرزوئیں اور تمنا ئیں ہوا کرتی تھیں.آخر اللہ کریم نے میرے لئے غیر معمولی سامان بہم پہنچائے اور میں چنگا بھلا رہ کر تو شاید عمر بھر بھی وہاں سے نہ نکل سکتا.لہذا مجھے ایک خونخوار زخمی چیتے سے زخمی کرا کے اللہ کریم نے وہاں سے نجات دی اور میں مدتوں ہجر وفراق کے درد سہنے کے بعد خدا کے فضل سے پھر دارالامان پہنچا.حضور کا یہ سفر میرے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی اور میرے جو کچھ دل میں بھرا تھا اس کے پورا کرنے کے خدا نے سامان کرائے تھے.میں ان ایام کو غنیمت سمجھ کر ہر وقت کمر بستہ رہتا اور حضور یا حضور کے خاندان کے احکام واشارات کی تعمیل اور خدمت میں ایسی لذت اور سرور محسوس کیا کرتا تھا کہ.تخت شاہی پر بھی بیٹھ کر شاید ہی کسی کو وہ لذت خوشی اور سرور میسر ہوا ہو.“ 66 میں سیر میں ہر وقت ہمرکاب رہتا.قیام میں دربانی کرتا اور خدمت کے موقع کی تاک و جستجو میں لگا رہتا.ہر کام کو پوری تندہی محبت اور چستی سے سرانجام پہنچاتا.کسی کام سے عار نہ کرتا تھا.خدا کا فضل تھا کہ میری دلی مراد میں بھر آئیں اور خدا نے بھی مجھے قبول فرما لیا اس طرح کہ میرے آقا، میرے ہادی و رہنما، میرے امام ہمام اور پیشوا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی مجھ سے خوش تھے.غیر معمولی رنگ میں نوازتے تھے.ایسا کہ کوئی شفیق سے شفیق یا مہربان سے مہربان ماں باپ بھی اپنی عزیز ترین اولاد کو بھی کم ہی نوازتے ہوں گے.میں چونکہ اپنے محسن و مولا اور رحیم و کریم آقا کے حسن و احسان کے تذکروں سے ایمان میں تازگی ، محبت و وفا میں اضافہ اور عقیدت و نیاز مندی کے جذبات میں نمایاں ترقی کے آثار پاتا ہوں اور چونکہ اس رنگ میں یاد حبیب کا عمل میرے دل میں حضور پر نور پر سلام و درود بھیجنے اور حضور کے مقاصد کی تکمیل کے لئے دردمندانہ دعاؤں کا ایک بے پناہ جوش پیدا کرتا ہے.اس لئے میں اس ذکر میں بے انداز لذت محسوس کرتا اور بار باران کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ کوئی راہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار

Page 388

سیرت المہدی 381 محبت کے پیدا کرنے اور بڑھانے کا واحد و مجرب طریق حسن واحسان کی یاد آور تکرار ہے.کسی خوبی کو ہلکا کر کے اس کی تحقیر کرنا یا کسی نیکی کو بے قدری کی نگاہ سے دیکھنا موجب کفران وخسران اور لَئِن شَكَرْتُمُ لَا زِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ فَإِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ کے وعدو وعید کے نیچے آتا ہے.فَاعْتَبِرُوا.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی سواری کے مقدس رتھ کے پیچھے ایک لکڑی کی سیٹ حکماً لگوادی تا کہ حضور کا یہ ادنی ترین غلام پیدل چلنے کی بجائے رتھ کے پچھلی طرف حضور کے ساتھ بیٹھ کر کوفت اور تکان سے بچ جایا کرے.سبحان اللہ !!! خدا کے برگزیدہ انبیاء و مقدسین کس درجہ رحیم و کریم اور الہی اخلاق وصفات کے بچے مظاہر اور کامل نمونے اور تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ اللهِ کی کیسی صحیح تصویر ہوتے ہیں کہ گویا وہی مثل صادق آتی ہے.من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نه گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً - لوہا جس طرح آگ میں پڑ کر نہ صرف اپنا رنگ ہی کھو دیتا ہے بلکہ اپنے خواص میں بھی ایسی تبدیلی کر لیتا ہے کہ آگ ہی کا رنگ اور آگ ہی کے صفات اس میں پیدا ہو جاتے ہیں.بالکل یہی رنگ ان خدا نما انسانوں کا اور بعینہ یہی حال ان کاملین کا ہوتا ہے.میں اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھلا چنگا تندرست و توانا تھا اور میرے جسمانی قوی ایسے صحیح اور قوی تھے کہ رتھ یا بیل گاڑی تو در کنارا اچھے اچھے گھوڑے بھی مجھ سے بازی نہ لے جاسکتے تھے.اور کئی کئی دن رات متواتر کی دوڑ دھوپ اور محنت کا اثر مجھ پر نمایاں نہ ہوا کرتا تھا.اور یہ صبح و شام کی سیر یا دن بھر کے کاروبار مجھے محسوس بھی نہ ہوا کرتے تھے.مگر حضور کو میرے حال پر توجہ ہوئی اور اس خیال سے کہ میاں عبد الرحمن ساتھ چلتے چلتے تھک جاتے ہوں گے لہذا ان کے لئے رتھ کے پیچھے الگ جگہ بیٹھنے کی بنادی جائے.اللہ اللہ کتنی ذرہ نوازی.کتنارحم اور کیسا مروت اور حسن سلوک کا عدیم المثال نمونہ ہے.

Page 389

سیرت المہدی 382 ایک روز نامعلوم میرے دل میں کیا آئی شام کی نماز کے بعد جب کہ مجھے خیال تھا کہ سیدنا حضرت اقدس کھانا تناول فرما چکے ہوں گے.میں اوپر سے نیچے اتر اس دروازہ پر پہنچا جو خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے نچلے شمالی حصہ سے غربی جانب کو چہ میں کھلتا تھا جہاں حضور معہ اہل بیت رہتے تھے اور دستک دی.میرے کھٹکھٹانے پر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بلند آواز سے دریافت فرمایا.کون ہے؟ حضور کا غلام عبدالرحمن قادیانی.میں نے بالکل دھیمی سی آواز میں عرض کیا اور مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا.کیونکہ ساتھ ہی میرے کان میں سیدنا حضرت اقدس کی آواز پڑ گئی.میں دروازہ پر اس خیال سے گیا تھا کہ دستک دوں گا تو کوئی خادمہ یا بچہ آوے گا.میں آہستگی سے اپنا مقصد کہ دوں گا.مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور بن گیا.نہ صرف حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک بھی تشریف فرما ہیں.اب ہوگا کیا ؟ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کیا کہتے ہو بھائی جی؟ سیدۃ النساء کا فرمان تھا اور اب چپ رہنا یا لوٹ جانا بھی سوء ادبی میں داخل تھا.جواب عرض کئے بغیر چارہ نہ تھا.نہایت درجہ شرم سے اور بالکل دھیمی سی آواز میں عرض کیا.حضور کچھ تبرک چاہتا ہوں.دو 66 تمہیں تبرک کی کیا ضرورت تم تو خود ہی تبرک بن گئے.“ میری درخواست کا جواب دیا سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ، نہ تنہائی میں بلکہ نبی اللہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں.حضور ابھی کھانا تناول فرمارہے تھے اور میں حضور کے بولنے کی آواز اپنے کانوں سے سن رہا تھا.ساتھ ہی ارشاد ہوا ” ذرا ٹھہرو “ میری اس وقت جو حالت تھی اس کا اندازہ میرے خدا اور خود میری اپنی ذات کے سوا کوئی کر ہی کیوں کرسکتا ہے.اگر چہ ہم لوگ اس زمانہ میں کوشش کر کے بھی خدا کے برگزیدہ جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کے تبرکات حاصل کیا کرتے تھے.اور اس کے لئے ہماری جد و جہد اس درجہ بڑھی ہوئی ہوا کرتی تھی کہ ایک

Page 390

سیرت المہدی 383 دوسرے پر رشک بھی کیا کرتے تھے.اور بارہا خدا کے نبی ورسول کے پس خوردہ کو ذرہ ذرہ اور ریزہ ریزہ کر کے بھی بانٹ کھایا کرتے تھے اور گا ہے حضور پر نور خود بھی لطف فرماتے.اپنے دست مبارک سے اپنے کھانے میں سے کبھی کسی کو کبھی کسی کو کچھ عطا فر ما دیا کرتے تھے.اور ایک زمانہ میں جبکہ رات کے وقت ہم لوگ حضرت کے مکانات کا پہرہ دیا کرتے تھے.حضور اکثر ہماری خبر گیری فرماتے اور کبھی کبھی کچھ نہ کچھ کھانے کو عطا فرما دیا کرتے تھے.جسے ہم لوگ شوق سے لیتے ، محبت سے کھاتے اور اپنی خوش بختی پر شکرانے بجالایا کرتے تھے.مگر آج جو کچھ مجھ پر گزرا میرے لئے بہت ہی گراں اور بھاری تھا.اور اگر مجھے حضور کی موجودگی کا علم نہ ہو جاتا تو شائد میں حضرت اماں جان سے تو چپ سادھ کر یا کھسک کر شرمسار ہونے سے بچ ہی جاتا.چند منٹ بعد حضور کے سامنے کا بچا سارا کھانا ایک پتنوس میں لگا لگایا میرے لئے آ گیا.یہ وہ سعادت اور شرف ہے کہ جس کے لئے ہر موئے بدن اگر ایک نہیں ہزار زبان بھی بن کر شکر نعمت میں قرنوں قرن لگی رہے تو حق یہ ہے کہ حق نعمت ادا نہ ہو.مادہ پرست دنیا کا بندہ اگر ان باتوں پر مضحکہ اڑائے تو اس کی تیرہ بختی ہے کیونکہ اس کو وہ آنکھ نہیں ملی جو ان روحانی برکات کو دیکھ سکے.اس کو وہ حواس نصیب نہیں کہ ان حقائق سے آشنا ہو.ورنہ جاننے والے جانتے اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی سعادت وعزت اور فضل و کرم ہیں کہ وقت آتا ہے جب ہفت اقلیم کی شاہی پر بھی ان کو ترجیح دی جائے گی.ایں سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده کیا چیز تھا ہریش چندر؟ ایک اکھڑ اور متعصب بت پرست ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والا کروڑوں بتوں اور دیوی دیوتاؤں کے پجاری ماں باپ کی اولا د اور کہاں خداوند خدا کا یہ پیارا نبی ورسول وجيــة فــي حَضْرَتِہ کے معزز خطاب سے ممتاز ! یہ فضل یہ کرم یہ عطاء وسخا خدائے واحد و یگانہ کی خاص الخاص رحمتوں کا نتیجہ اور فضل و احسان کی دین ہے.لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ - فَالْحَمْدُ لِلَّهِ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - جن ایام میں سیدنا حضرت اقدس ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں سکونت پذیر تھے

Page 391

سیرت المہدی 384 ایک خادمہ نے مجھے نہایت ہی خوشی و محبت اور اخلاص سے یہ مژدہ سنایا کہ آج حضرت صاحب تمہارا ذکر گھر میں اماں جان سے کر رہے تھے.اور فرماتے تھے کہ یہ لڑکا اخلاص و محبت میں کتنی ترقی کر رہا ہے.ہمارے تنخواہ دار ملازم بھی اتنی خدمت نہیں کر سکتے جتنی یہ جوش عقیدت و محبت میں کرتا ہے اور اس نے تو رات دن ایک کر کے دکھا دیا وغیرہ.وہ الفاظ تو پنجابی میں تھے جن کا مفہوم میں نے اپنے لفظوں میں لکھا ہے.اس خادمہ کا نام مجھے اب یاد نہیں کہ کون صاحبہ تھیں.مگر یہ ایک واقعہ ہے جس کو میں نے اظہار تشکر وامتنان کے طور پر حضرت کی ذرہ نوازی.مروت و احسان کے بیان کی غرض سے لکھا ہے ورنہ یہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات کے ذکر سے میں بے انتہا شرم محسوس کرتا اور لکھتے وقت پسینہ پسینہ ہو ہو جاتا ہوں کیونکہ کیا پڑی اور کیا پڑی کا شور با میں کیا اور میری بساط خدمات کیا.ذرہ نوازی اور لطف تھا.ور نہ درگہ میں اس کی کچھ کم نہ تھے خدمت گذار (۴) میرے آقا کی غریب نوازی اور غلام پروری کا ایک اور بھی تذکرہ اس جگہ اسی سفر کا قابل بیان ہے وہ یہ کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھے غلام کو یا دفرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ،تشریف لاتے تھے.یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہد سے ان اوقات کا انتظام اور انتظار کیا کرتا تھا.رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوا دی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میرا مخصوص مقام تھا جہاں ابتداء میں پیچھے کو منہ کر کے الٹا کھڑا ہوا کرتا تھا.ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اور بیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی.اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو.کیونکہ عموماً سیدۃ النساء اور کوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کو چوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرما ہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا.مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا

Page 392

سیرت المہدی 385 تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلف کر کے الٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں.سفروں میں نہ اتناسخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت - الدِّينُ يُسر.اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غض بصر کر کے پردہ کی تاکید ہے آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں.چنانچہ اس کے بعد پھر میں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا بر عائت پر دہ.بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے.گاڑی سے اترتے وقت ان کے اٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضور نے روک دیا اور میں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا.ایک روز کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ادھر حضور کے سیر کو تشریف لے جانے کا وقت تھا ، گاڑی آچکی تھی اور میں اطلاع کر چکا تھا.ادھر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے ایک خادمہ نے پیغام دیا کہ بھائی جی سے کہو ہمیں دیسی پان لا دیں.میں نے حضرت کی تشریف آوری کے خیال سے عذر کیا تو دوبارہ پھر سه باره تا کیدی حکم پہنچا کہ نہیں آپ ہی لاؤ اور جلدی آؤ.مجبور ہوکر سر تو ڑ بھا گا.لوہاری دروازہ کے باہر انارکلی میں ایک دکان پر اچھے دیسی پان ملا کرتے تھے، وہاں سے پان لے کر واپس پہنچا تو موجود دوستوں نے بتایا کہ حضرت اقدس تشریف لائے ،تمہارے متعلق معلوم کیا ، غیر حاضر پا کر واپس اندر تشریف لے گئے.“ میں پہلے ہی دوڑ بھاگ کی وجہ سے پسینہ پسینہ ہورہا تھا.یہ واقعہ سن کر کانپ اٹھا اور ڈرتے ڈرتے دستک دے کر جہاں خادمہ کو پان دیئے وہاں حضرت کے حضور اپنی حاضری کی اطلاع بھی بھیج دی.حضور پر نور فوراً تشریف لے آئے اور فرمایا ”میاں عبد الرحمن آپ کہاں چلے گئے تھے.ہم نے جو کہہ رکھا ہے کہ سیر کے وقت موجودرہا کرو اور کہیں نہ جایا کرو“ حضور ! اماں جان نے حکم بھیجا تھا.میں نے عذر بھی کیا مگر اماں جان نے قبول نہ فرمایا اور تاکیدی حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم ہی ہمارا یہ کام کرو.حضور! میں اماں جان کا حکم ٹال نہ سکا اور چلا گیا.بس حضور پر نورفٹن میں سوار ہوئے اور سیر کے واسطے تشریف لے گئے اور حضور کا یہ ادنی ترین غلام بھی حسب معمول حضور کے ہمرکاب آخری دن کی سیر تک ہمرکابی کی عزت پاتا رہا.فٹن یعنی گھوڑا گاڑی جو حضور کی سیر کے واسطے منگوائی

Page 393

سیرت المہدی 386 جاتی تھی.اس کے متعلق حضور کی تاکیدی ہدایت ہوا کرتی تھی کہ کو چوان حتی الوسع بھلا مانس تلاش کیا جاوے جو جھگڑالو اور بد زبان نہ ہو.گھوڑے شوخ نہ ہوں بلکہ اچھے سدھے ہوئے اور گاڑی صاف ستھری ہو،شکستہ نہ ہو.تیز چلانے کو حضور کبھی پسند نہ فرماتے تھے.کرایہ فٹن کا روزانہ واپسی پر ادا فرما دیا کرتے تھے.کوئی بقایا نہ رہنے دیتے تھے.گھوڑا گاڑی عمو ماً بدلتی رہتی تھی.کسی خاص گاڑی یا گاڑی بان سے کوئی معاہدہ یا ٹھیکہ نہ تھا.کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی گاڑی بان دو تین روز متواتر آ جاتا.سیر کے واسطے حضور عموماً مکان سے سٹیشن کی طرف ہوتے سے ہوئے ایمپرس روڈ ، شملہ پہاڑی اور وہاں سے جانب شرق لاٹ صاحب کی کوٹھی کے مشرقی جانب سے ہوتے ہوئے لارنس گارڈن مال روڈ کو تشریف لے جاتے.گاہے انار کلی میں سے ہوتے ہوئے سرکلر روڈ پر لوہاری ،شاہ عالمی ،موچی دروازہ کے باہر باہر مکان پر تشریف لاتے.کبھی مال روڈ ہی سے واپسی کا حکم ہو جا تا.تنگ بازاروں میں حضور جانا پسند نہ فرماتے تھے.زیادہ تر کھلی اور آبادی سے باہر کی سڑکوں کی طرف حضور کو رغبت تھی.انار کلی وغیرہ کی طرف کبھی ضرور تا تشریف لے جاتے.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حضور کوئی حکم نہ دیتے اور میں اپنی مرضی ہی سے حضور کے حسب پسند راہوں سے ہو کر واپس لے آتا.سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی کبھی بعض اوقات براہ راست ہمیں حکم دیتیں کہ فلاں جگہ کو لے چلو.حضور پر نور خاموش رہتے، انکار فرماتے نہ نا پسند فرماتے.سیر کے اوقات میں گفتگو عموماً مسائل دینیہ کے بارہ میں یا نظام سلسلہ سے متعلق رہتی.کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور پر نور بالکل خاموش ہی نظر آتے مگر حضور کے لبوں کی حرکت سے ذکر الہی اور تسبیحات میں مصروفیت کا یقین ہوتا تھا.قیام لاہور کے زمانہ میں حضور پر نور لاہور کے مضافات کی مشہور سیر گاہوں میں بھی تشریف لے جاتے رہے.مثلاً شالا مار باغ متصل باغبانپورہ.شالا مار باغ نیا جو کسی ہندو ساہوکار نے لاہور شہر کے جنوب کی طرف چند میل کے فاصلہ پر بنوایا.مقبرہ جہانگیر وغیرہ مگر ان مقامات میں سے شالا مار باغ متصل باغبانپورہ حضرت کو زیادہ پسند تھا.اور حضور وہاں ایک سے زیادہ مرتبہ تشریف لے گئے.زیادہ دیر تک وہاں قیام فرمایا اور زیادہ ہی دیر تک علیحدگی میں ٹہلتے اور دعائیں کرتے رہے.مقبرہ جہانگیر کے غربی جانب علیحدہ

Page 394

سیرت المہدی 387 ایک مزار ہے اس طرف حضور تشریف نہ لے گئے.مگر بھول بھلیاں یا جو کچھ بھی اس جگہ کا نام ہے ریلوے لائن کے غربی جانب ایک عمارت ہے جس میں بہت سے دروازے ہی دروازے ڈاٹ دار ہیں وہاں حضور بیگمات اور بچوں کے ساتھ تشریف لے گئے.شالا مار باغ سے ایک مرتبہ واپسی پر بڑے زور کی آندھی آ گئی جو بہت سخت تھی.احباب جو مکان پر تھے ان کو بہت فکر ہوئی.چنانچہ کئی دوست شالا مار باغ کی طرف چل نکلے.مگر اللہ تعالیٰ کی شان کہ آندھی کی شدت سے پہلے ہی پہلے حضور معہ تمام قافلہ مکان پر بخیریت پہنچ گئے.حضور کا معمول تھا کہ سیر وتفریح کو جانے سے قبل حاجات سے فراغت پا کر تشریف لایا کرتے تھے.مگر پیشاب کی حاجت حضور کو اس لمبی سیر کے دوران میں بھی ہو جایا کرتی تھی.جس کے لئے حضور کسی قدر فاصلہ پر حتی الوسع نظروں سے اوجھل بیٹھ کر قضائے حاجت فرمایا کرتے تھے.لوٹا پانی کا کبھی حضور خود ہی اٹھا کر لے جایا کرتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور جا کر قضائے حاجت کے لئے بیٹھ بھی جاتے اور میں احتیاط سے پیچھے کی طرف سے ہو کر لوٹا حضرت کے دائیں جانب رکھ دیا کرتا اور حضور فارغ ہو جاتے تو لوٹا اٹھا کر لے آتا.ڈھیلا لیتے میں نے حضور کو دیکھا نہ سنا.اسی طرح اکثر حضور کو وضو کرانے کے مواقع بھی میسر آتے رہے.وضوحضور بہت سنوار کر فرمایا کرتے.ہر عضو کو تین تین دفعہ دھوتے ،سر کے صرف اگلے حصہ کا مسح فرمایا کرتے.ریش مبارک میں خلال فرماتے اور جرابوں پر مسح کبھی جرا ہیں اتار کر بھی پاؤں دھوتے تو انگلیوں میں خلال فرماتے.دانتوں کو انگلی سے اچھی طرح ملتے اور مسوڑھوں کو بھی صاف فرماتے تھے.لاہور کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ حاجی محمد موسیٰ صاحب نے ایک دن ایک موٹر کار حضور کی سواری کے واسطے کہیں سے مہیا کی اور حضرت سے اس میں سوار ہونے کی درخواست کی نیز سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی سوار ہونے کی خواہش کی.چنانچہ حضور پر نور معہ سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا موٹر میں سوار ہونے کی غرض سے مکان سے اتر کر سڑک پر تشریف لائے مگر موقعہ پر پہنچ کر سیدہ نے سوار ہونے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے مگر حضرت اقدس بعض بچوں سمیت سوار ہوئے اور ایک قریبی سڑک کا چکر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے.موٹر اس زمانہ میں

Page 395

سیرت المہدی 388 ابھی نئی نئی لاہور میں آئی تھی.اسی سفر کے دوران میں شاہزادگان والا تبار میں سے کسی صاحبزادہ نے حضرت سے بائیسکل خرید دینے کی خواہش کی.حضرت شاہزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ رتبہ اس وقت اپنی گھوڑی پر سوار ہمرکاب تھے، پاس سے کوئی سائیکل سوار نکلتے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ سائیکل کی سواری گھوڑے کے مقابل میں تو ایک کتے کی سواری نظر آتی ہے.اس واقعہ کے وقت حضور کی گاڑی اسلامیہ کالج (موجودہ) کے جنوبی جانب کی سڑک پر سے ہو کر سیر کو جا رہی تھی جس پر آجکل مغرب کو جا کر کچھ دور امرت دھارا بلڈنگ اور سبزی منڈی واقع ہیں.ایام قیام لاہور میں حضور کو بہت ہی مصروفیت رہا کرتی تھی.کیونکہ حضور کے لاہور پہنچتے ہی سارے شہر میں ہلچل مچ گئی اور ایک شور بپا ہو گیا.جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اس کثرت سے آتے رہتے تھے کہ خلق خدا کا تانتا بندھا رہتا اور رجوع کا یہ عالم تھا کہ باوجود مخالفانہ کوششوں اور سخت روکوں کے لوگ جوق در جوق لوہے کی طرح اس مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آتے.مولویوں کے فتووں کی پرواہ کرتے نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے.اپنے بھی آتے اور بیگانے بھی.دوست بھی اور دشمن بھی.موافق بھی اور مخالف بھی.محبت سے بھی اور عداوت سے بھی.علماء بھی آتے اور امراء بھی.الغرض عوام اور خواص، عالم اور فاضل ، گریجوایٹ اور فلاسفر ، ہر طبقہ اور ہر رتبہ کے لوگ جمع ہوتے اپنے علم و مذاق کے مطابق سوالات کرتے اور جواب پاتے تھے.اس اقبال اور رجوع خلق کو دیکھ کر مولوی لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے.وہ اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور آپے سے باہر ہو گئے.انہوں نے بالمقابل ایک اڈا قائم کیا جہاں ہر روز مخالفانہ تقریریں کرتے.گالی گلوچ اور سب وشتم کا بازار گرم رکھتے.افتراء پردازی اور بہتان طرازی کے ایسے شرمناک مظاہرے کرتے کہ انسانیت ان کی ایسی کرتوتوں پر سر پیٹتی اور اخلاق و شرافت کا جنازہ اٹھ جاتا.توہین و دل آزاری اتنی کرتے کہ قوت برداشت اس کی متحمل نہ ہوسکتی.مجبور ہوکر ، تنگ آ کر بعض دوستوں نے حضرت کے حضور اپنے درد کا اظہار کیا تو حضور نے یہی نصیحت فرمائی کہ

Page 396

سیرت المہدی 389 گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو صبر کرو اور ان کی گالیوں کی پرواہ نہ کیا کرو.برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی نکلتا ہے.دراصل ان کو سمجھ نہیں کیونکہ اس طرح تو وہ آپ ہماری فتح اور اپنی شکست کا ثبوت بہم پہنچاتے ہماری صداقت اور اپنے بطلان پر مہر تصدیق لگاتے ہیں.منہ پھیر کر ، کان لپیٹ کر نکل آیا کرو.کہتے ہیں ”صبر گر چہ تلخ است لکن بر شیر میں دارد صبر کا اجر ہے حضور پر نور کی یہ نصیحت کارگر ہوئی.غلاموں نے کانوں میں روئی ڈال کر پلیجوں پر پتھر باندھ کر یہ سب وشتم سنا اور برداشت کیا.اُف تک نہ کی اور اپنے آقا نامدار کی تعلیم پر ایسی طرح عمل کر کے دکھایا کہ جس کی مثال قرونِ اولیٰ کے سوا بہت ہی کم دنیا میں پائی جاتی ہے.چنانچہ اس کے خوش کن نتائج اور ثمرات شیریں بھی ملنے شروع ہو گئے اور باوجود مخالفوں کی مخالفت کے علی رغم انف ،سلیم الطبع اور شریف المزاج انسانوں نے اس زمانہ میں اس کثرت سے بیعت کی کہ ہمارے اخبارات ان اسماء کی اشاعت کی گنجائش نہ پاسکے اور اعلان کیا کہ بقدر گنجائش انشاء اللہ بتدریج اسماء بیعت کندگان شائع کئے جاتے رہیں گے.“ قصہ کوتاہ.حضور کا یہ سفر جہاں گوناگوں مصروفیتوں کے باعث حضرت اقدس کے لئے شبانہ روز بے انداز محنت و انہماک اور توجہ و استغراق کے سامان بہم پہنچاتا وہاں اپنے اور بیگانے ہر رتبہ و مرتبہ کے لوگوں کے واسطے رحمت و ہدایت اور علم و معرفت کے حصول کا ذریعہ تھا.طالبان حق اور تشنگان ہدایت آتے نور و ہدایت اور ایمان و عرفان کے چشمہ سے سیری پاتے تھے.مقامی شرفاء اور معززین کے علاوہ بعض مخالف مولوی بھی آتے رہتے.بیرونی جماعتوں کے دوست بھی اکثر حضور کی زیارت کرنے اور فیض صحبت پانے کی غرض سے جمع رہتے تھے.اور چونکہ قادیان کی نسبت لاہور پہنچنا کئی لحاظ سے آسان تر اور مفید تر تھا.دوست اس سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی غرض سے اکثر آتے تھے اور اس طرح اچھا خاصہ ایک جلسہ کا رنگ دیکھائی دیا کرتا تھا.چنانچہ اسی ضرورت کے ماتحت حضرت اقدس کولنگر کا انتظام بھی لاہور ہی میں کرنا پڑا.نمازوں کے بعد عموماً حضور کا دربار لگا کرتا اور مختلف علمی و اختلافی مسائل کا چرچا رہتا تھا.ایک انگریز سیاح ماہر علوم ہیئت وفلسفہ ان ایام میں جا بجا لیکچر دیتا پھرتا تھا.ہمارے محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے

Page 397

سیرت المہدی 390 جن کو تبلیغ کا قابل رشک شوق و جوش رہتا ہے اور وہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہا کرتے ہیں انہوں نے اس سے ملاقات کر کے اس کو حضرت اقدس کے حالات سے آگاہ کیا اور حضرت سے ملاقات کرنے کی تحریص دلائی.چنانچہ اس کی خواہش پر حضرت سے اجازت لے کر اس کو حضور کی ملاقات کے واسطے لے آئے.اس کی بیوی اور ایک بچہ چھوٹا سا بھی اس کے ہمراہ تھے.ملاقات کیا تھی ہم لوگوں کے لئے بحر علم و عرفان کے چشمے رواں ہو گئے اور اس ملاقات کے نتیجہ میں وہ علوم ہم لوگوں کو حاصل ہوئے جو اس سے پہلے نصیب نہ تھے.وہ انگریز بھی بہت متاثر اور خوش تھا اور اس پر ایسا گہرا اثر حضور کی اس ملاقات ، توجہ اور علوم لدنی میں کمال کا ہوا کہ اس نے ایک بار پھر اس قسم کی ملاقات کی خواہش کی.چنانچہ وہ پھر ایک مرتبہ حضرت کے حضور حاضر ہوا اور ایسے علوم لے کر واپس گیا جس کے بعد اس کے لیکچروں اور تقاریر کا رنگ ہی پلٹ گیا.شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب جو کابل کے شاہی خاندان کے ممبر اور رؤساء عظام میں سے تھے ان کو حضرت سے عقیدت و نیاز مندی اور محبت تھی ، حضرت کی ملاقات کو تشریف لائے.۲ رمئی کا دن تھا حضرت نے اس صحبت میں ایک معرکۃ الآرا تقریر فرمائی اور کھول کر تبلیغ فرمائی.اتنا اثر اور اتنا جذب تھا کہ حاضرین ہمہ تن گوش بن کر بے حس و حرکت بیٹھے سنتے اور زار و قطار روتے رہے.اسی تقریر کے نتیجہ میں شاہزادہ صاحب نے ہمارے ارباب حل و عقد کو تحریک کی کہ حضور کی ایک تقریر خاص اہتمام وانتظام سے کرائی جائے جس میں لا ہور اور مضافات کے اکابر و شرفاء کو شمولیت کی دعوت دی جاوے.چنانچہ شاہزادہ صاحب کی تجویز مؤثر ثابت ہوئی اور اس طرح ایک اہم ترین اور کامل و اکمل تقریر حضور پُر نور نے لاہور اور مضافات کے صنادید، بڑے بڑے امرا اور شرفاء کے مجمع میں قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہو کر فرمائی.تقریر کیا تھی؟ تکمیل تبلیغ اور اتمام الحجة تھی جس میں حضور نے کھول کھول کر حق تبلیغ ادا فرمایا اور سلسلہ کے سارے ہی خصوصی مسائل پر روشنی ڈالی وہاں اپنے منصب عالی اور مقام محمود کے متعلق بھی کھول کر اعلان فرمایا: جماعت لاہور کے سرکردہ دوستوں کی خواہش تھی کہ حضور کی تشریف آوری سے فائدہ اٹھا کر بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ کی جائے مگر چونکہ وہ لوگ اپنے آپ کو اتنا بڑا خیال کرتے تھے کہ مقامی دوستوں

Page 398

سیرت المہدی 391 سے بعض حالات میں سلسلہ کے متعلق بات کرنا بھی نہ صرف پسند نہ کرتے تھے بلکہ اس میں اپنی ہتک سمجھتے ہوئے تبلیغ کا موقعہ ہی نہ دیا کرتے تھے.شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب کی شرکت سے دوستوں کی اس خواہش کے پورا ہونے کا ایک موقعہ پیدا ہو گیا اور احباب کئی دن کی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد اس فیصلہ پر پہنچے کہ ان لوگوں کو ان کی شان کے مناسب حال ایک دعوت میں جمع کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر ان کا جمع ہونا بھی محال تھا.چنانچہ ایک فہرست مرتب کر کے دعوت نامے بھیجے گئے اور دعوت کے انتظامات مکمل ہو چکے تھے کہ اچانک سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مقررہ دن سے ایک روز پہلے وہی اسہال کی بیماری کا حملہ ہو گیا جس سے حضور بہت کمزور ہو گئے اور اندیشہ پیدا ہو گیا کہ دعوت شاید بغیر تبلیغ ہی کے گزر جائے گی.دوستوں کو بہت گھبراہٹ تھی کہ اب ہوگا، کیا، مگر قربان جائیں اللہ کریم کے جس نے نا امیدی کو امید سے بدل کر ایک تازہ نشان سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی جس سے ایمانوں میں تازگی و بشاشت اور عرفان میں نمایاں زیادتی ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا خدا کا کلام کہ ڈرومت مومنو“ اسی موقعہ کی گھبراہٹ اور خوف سے تسلی دلانے کو نازل ہوا تھا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مقررہ دن سے پہلی رات کے آخری حصہ میں ہمارے آقا و مولا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کریم نے اپنی تازہ وحی سے یوں سرفراز فرمایا." إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ “ میں خود اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہو کر تبلیغ کراؤں گا.ضعف و کمزوری اور تکلیف و بیماری سے گھبرانے کی ضرورت نہیں.یہ میرا اپنا کام ہے اور میں اسے سرانجام دوں گا.چنانچہ دن چڑھا منتظمین نے دعوت کے انتظامات شروع کئے اور ہوتے ہوتے معزز مہمان اور شرفاء کی سواریاں آنے لگیں.مگر حضرت کی طبیعت بدستور نڈھال و کمزور تھی اور ضعف و نقاہت کا یہ حال تھا کہ اس کی موجودگی میں حضور کو تقریر کر سکنے کی قطعاً کوئی امید نہ تھی اور اسی خیال سے حضور نے حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم بھیجا کہ آپ ہی آنے والے مہمانوں کی روحانی دعوت کا کچھ سامان

Page 399

سیرت المہدی 392 کریں.چنانچہ وقت پر حضرت مولوی صاحب نے تقریر شروع فرما دی مگر تھوڑی ہی دیر بعد وہ ماہ منور اور خورشید انور بنفس نفیس ہم پر طلوع فرما ہوا.حضرت مولوی صاحب نے تقریر بند کی اور حضور پُر نور نے کھڑے ہوکر حاضرین کو خطاب فرماتے ہوئے کم و بیش تین گھنٹہ تک ایسی پر زور، پر معارف اور علم و معرفت سے لبریز تقریر فرمائی کہ اپنے تو درکنار، غیر بھی عش عش کر اٹھے اور ایسے ہمہ تن گوش ہو کر سنتے رہے کہ گویا مسحور تھے.اور اس روحانی مائدہ کی ایسی لذت ان کو محسوس ہوئی کہ جس نے جسمانی غذا سے بھی ان کو مستغنی کر رکھا تھا.جلسه اعظم مذاہب ۹۶ء میں بھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضر وموجود تھا.وہ نظارہ جوحضرت کی تحریر کے پڑھے جانے کے وقت آنکھوں نے دیکھا.لاریب کم ہی پہلے کبھی دنیا نے دیکھا ہوگا.مگر اس جلسہ میں ہماری آنکھوں نے خدا کی جس قدرت اور عظمت وسطوت کا مشاہدہ کیا وہ بلحاظ اپنی کیفیت و کمیت کے جلسہ مہوتسو سے بھی کہیں بڑھی ہوئی تھی.اس میں اور اُس میں زمین و آسمان کا فرق تھا کیونکہ یہاں خدا کا برگزیدہ نبی اور رسول خود اپنے خدا کی معیت میں کھڑا بول رہا تھا.جلسہ اعظم مذاہب میں مضامین علمی تھے مگر یہاں ایسے اختلافی کہ سامعین کا ان کو سن لینا بجائے خود ایک معجزہ سے کم نہ تھا.حضور کی تقریر میں ایسی روانی تھی کہ نوٹ کرنا مشکل ہور ہا تھا اور بیان میں اتنی قوت و شوکت تھی کہ بھرے مجمع میں کسی کے سانس کی حرکت بھی محسوس نہ ہوتی تھی اور حضور اس جوش سے تقریر فرما رہے تھے کہ زور تقریر کے ساتھ ساتھ حضور پر نور خود بھی سامعین کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے.میں نے اپنی آنکھوں دیکھا اور اس بات کو اچھی طرح نوٹ کیا کہ حضور میز سے کئی مرتبہ چند چند قدم آگے بڑھ جاتے رہے تھے.حضور میز کو آگے لے کر نہ کھڑے تھے بلکہ میں حضور کی پشت پر تھی.حضور کی یہ تقریر ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کے مکان کے صحن میں زیادہ سے زیادہ حضور کے وصال سے ایک عشرہ پہلے ہوئی تھی جس کو تکمیل تبلیغ اور اتمام حجت کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور ماہر علوم ہیئت انگریز سے مکالمہ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے اوپر کے حصہ میں اس سے قبل ہو چکا تھا.ان تقریروں کے علاوہ کئی چھوٹی بڑی تقاریر حضور نے فرما ئیں جن کی تفاصیل میں جانے کا یہ موقعہ نہیں.کچھ

Page 400

سیرت المہدی 393 ہندومستورات پیغام صلح کی تصنیف کے دوران میں حضرت کے درشن کرنے کی غرض سے ایک وفد کی صورت میں حاضر ہوئیں جبکہ حضور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں تشریف فرما تھے.حضور چونکہ بہت مصروف تھے ان کو جلدی رخصت فرمانا چاہا مگر انہوں نے عذر کیا اور کوئی نصیحت فرمانے کی درخواست کچھ ایسے رنگ میں کی کہ حضور نے باوجود انتہائی مصروفیت کے ان کی درخواست کو قبول فرما کر تو حید کی تلقین فرمائی اور بت پرستی سے منع فرمایا.خدا سے دعا و پرارتھنا کی تاکید فرمائی.یہ واقعہ بالکل آخری ایک دو روز کا ہے.دراصل وہ مستورات بہت دیر ٹھہرنا اور بہت کچھ حضور کی زبان مبارک سے سننا چاہتی تھیں مگر حضور کی انتہائی مصروفیت کی وجہ سے مجبورا بادل ناخواستہ جلد چلی گئیں.اسی طرح حضور کی ایک اور تقریر اپنے بعض فقرات کی وجہ سے نیز آخری ہونے کی وجہ سے خاص طور پر مشہور اور زبان زد خدام ہے جس میں حضور نے فرمایا تھا.عیسی مسیح کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی زندگی ہے مسیح محمدی کو آنے دو کہ اسی میں اسلام کی بزرگی ہے الغرض حضور کا قیام لاہور ایسے ہی حالات کا مجموعہ اور اسی قسم کی مصروفیتوں کا مرکز تھا.حق و حکمت کے خزائن لٹا کرتے اور علم و معرفت کے موتی بٹا کرتے تھے.اور اگر چہ اس سفر کا عرصہ بالکل محدود، زیادہ سے زیادہ صرف ایک ماہ تھا مگر اس سفر کے نقشہ پر بحیثیت مجموعی غور کرنے سے ایک ایسی پر کیف کیفیت نمایاں طور سے نظر آنے لگتی ہے جیسے کوئی یکہ و تنہا مسافر کسی لمبے بے آب و گیاہ اور سنسان ویرانے کے سفر کو جلد جلد طے کر کے منزل مقصود پر پہنچنے کی انتھک اور سرگرم کوشش میں لگ رہا ہو یا کوئی جری و بہادر جانباز جرنیل چاروں طرف سے خونخوار دشمنوں کے گھیرے میں پھنسا ہوا دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے واروں کو بچاتا، ان کا حلقہ تو ڑ کر شیر نر کی طرح حملے کرتا اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی جدو جہد میں مصروف ہو.بعینہ یہی حال حضور کی تبلیغی کوششوں ، سرگرمیوں اور مساعی جمیلہ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ گویا حضور کی ساری زندگی کا نچوڑ اور سارے مقاصد اور سلسلہ کے اہم مسائل اور خصوصی عقائد کی تکمیل کا یہ سفر ایک مجموعہ اور خلاصہ تھا.اور کہ حضور ان ایام کو غنیمت جان کر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ

Page 401

سیرت المہدی 394 اٹھانا چاہتے تھے.انہماک و مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی لمحہ فارغ نہ جاتا تھا اور حضور کی پوری توجہ اور ساری کوشش و سعی تبلیغ و اشاعت ہی پر مرکوز تھی اور کم از کم چھپیں مختلف صحبتوں اور تقاریر کا ذکر تو اخبارات میں موجود ہے.کتنی تقاریر اور ڈائریاں میری کوتاہ قلمی یا غیر حاضری کی نذر ہوئیں یا کتنی صحبتوں میں شرکت سے دوسرے ڈائری نولیس محروم رہے اس بات کا علم اللہ کو ہے.اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ بہت کچھ لکھنے سے رہ جایا کرتا تھا.مجھے خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ بہت سے وہ معارف اور حقائق جو حضور سیر کے وقت بیان فرمایا کرتے ، میں اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے صفحہ قرطاس پر نہ لا سکا.حضور کی آخری تصنیف یعنی پیغام صلح اور اخبار عام والے خط کو اگر شامل کر لیا جائے جو حضور نے اپنے دعوئے نبوت کی تشریح فرماتے ہوئے اخبار عام کو لکھا تھا تو حضور کی معلومہ.مطبوعہ ومشتہرہ تقاریر کی تعداد ستائیس ہو جاتی ہے.کتنے خطوط اس عرصہ میں حضور نے دوستوں کو ہمارے مکرم ومحترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے لکھوائے اور کتنے خطوط حضور نے بعض خوش نصیب خدام کو خود از راہ شفقت و ذره نوازی دست مبارک سے لکھے.ان کا اندازہ بھی میری طاقت و بساط سے باہر ہے.خلاصہ یہ کہ حضور کی ساری ہی حیات طیبہ، انفاس قدسیہ اور تو جہات عالیہ جہاں خدا کے نام کے جلال کے اظہار، اس کے رسول ﷺ کی صداقت و عظمت کے اثبات اور اس کی مخلوق کی بہتری و بہبودی کے لئے وقف تھیں وہاں خصوصیت سے حضور کی پاکیزہ زندگی کے یہ آخری ایام انتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ کی بچی تفسیر اور مصدقہ نقشہ تھا.خدا کا برگزیدہ میسج ہم میں موجود تھا جو ہماری آنکھوں کا سرور، دلوں کا نور بنا رہتا تھا جس کے در کی گدائي دنيا وما فيها سے بہتر معلوم دیتی تھی اور اس سے ایک پل کی جدائی موت سے زیادہ دو بھر ہوا کرتی تھی.اس کی صحبت آب حیات اور کلام حوض کوثر ہوا کرتا تھا.اس کی خلوت ذکر الہی اور خدا سے ہم کلامی میں اور جلوت تبلیغ اسلام اور تزکیہ نفوس میں گزرا کرتی تھی.دل میں ہزار غم ہو تا طبیعت کیسی ہی افسردہ ہوتی اس نورانی چہرہ پر نظر پڑتے ہی تمام غم اور ساری افسردگی کا فور ہو جایا کرتی تھی.انسان کتنے ہی خطرناک مصائب و

Page 402

سیرت المہدی 395 آلام کا شکار بنا ہوتا، کتنی ہی مشکلات میں مبتلا ہوتا اس محبوب الہی کی ایک نظر شفقت اور دعاء مستجاب ان کاحل بن جایا کرتی تھی.اس کی مجلس خدا نما مجلس اور اخلاق محمدی اخلاق تھے اور حلقہ بگوش خدام گویا نبوت کی اس شمع ہدایت کے گرد پروانے تھے ، اس کی صحبت میں مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک اور غلاموں میں صحابیت کا رنگ نظر آتا تھا، اور سب سے بڑی نعمت اس کے وجود باجود سے ہمیں یہ میسر تھی کہ خدا اس سے ہم کلام ہوتا تھا اور وہ مقدس وجود خدا سے وحی پاکر اس کا تازہ بتازہ کلام ہمیں سنایا کرتا تھا جس کا بعض حصہ اسی دن اور بعض اوقات قریب ایام میں پورا ہو جایا کرتا تھا.جس سے اطمینان اور شلج قلب ملتا اور زنده خدا، زنده رسول، زندہ مذہب کی زندگی کا یقینی ثبوت ملتا اور اس طرح زندہ ہی ہمارے ایمان بھی ہو جایا کرتے تھے.اللهم صل عليه وعلى مطاعه والهما وبارک وسلم انک حمید مجید.ایک قابل ذکر واقعہ مجھ سے بیان کرنا رہ گیا اور وہ یہ ہے کہ ایک روز بعد عصر کی سیر کے دوران میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد علی صاحب ایم اے کے ایک خط آمده از قادیان کا ذکر فرماتے ہوئے بہت ہی رنج اور ناراضگی کا اظہار فرمایا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قادیان سے انہوں نے ایک خط خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی کولکھا جس میں علاوہ اور امور کے لنگر خانہ کے خرچ کا ذکر کچھ ایسے رنگ میں تھا جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مولوی صاحب بدظنی کی مرض میں مبتلا ہیں اور ان کے دل میں حضرت اقدس کی امانت و دیانت کے متعلق شبہات ہیں اور ان کو خیال ہے کر لنگر خانہ کے اخراجات تو بہت قلیل ہیں اور آمد اس کے مقابل میں کہیں زیادہ ہوتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا اور یہ امر انہوں نے سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے قادیان سے لاہور تشریف لے آنے کے بعد ایک ماہی اخراجات کے اعدادو شمار درج کر کے زیادہ واضح بھی کر دکھایا تھا.حضرت نے فٹن میں سوار ہو کر بہت پر در دلہجہ میں اسکا ذکر حضرت نانا جان قبلہ مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جو کہ سیر میں حضور کے ساتھ اور پہلو بہ پہلوتشریف فرما تھے.سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کی بیگمات اور بعض بچے بھی موجود تھے اور حضور کا یہ ادنی ترین غلام حسب معمول پچھلے پائیدان پر کھڑا اپنے ان دوکانوں سے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے عطا فر مار کھے ہیں حضور کی آواز کوسن رہا ا

Page 403

سیرت المہدی 396 تھا اور خدا کی دی ہوئی ان دونوں آنکھوں سے حضور کے لبان مبارک کی جنبش کو دیکھ رہا تھا.میرا خالق و مالک جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس بات پر گواہ ہے کہ میں نے جو کچھ سنا اور دیکھا تھا وہی لکھ رہا ہوں.حضور پُر نور نے فرمایا کہ خواجہ صاحب آج مولوی محمد علی صاحب کا ایک خط لائے جس میں لکھا تھا کہ لنگر خانہ کا خرچ تو بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے مگر آمد بہت زیادہ ہوتی ہے، نہ معلوم وہ روپیہ کہاں جاتا ہے وغیرہ.”خدا جانے ان لوگوں کے ایمان کیسے کچے ہیں اور بدظنی کا مادہ ان میں کیوں اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہماری بیعت کرنے اور مرید کہلانے کے باوجود بلا تحقیق ایسی باتیں بناتے ہیں جن سے ہمیں تو نفاق کی بو آتی ہے اور ایسے لوگوں کے انجام کے متعلق خطرہ ہی رہتا ہے.لنگر خانہ کا انتظام تو ہم نے منشاء الہی کے ماتحت اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ورنہ ہمیں تو اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ امراصل کام میں بھی مالی مشکلات اور ان کے حل کے افکار کی وجہ سے حارج ہوتا اور روک بن جایا کرتا ہے اور ہمیں تو اکثر اس کے چلانے کے واسطے قرض وام بھی کرنا پڑتا ہے.ان لوگوں کو شوق تو ہے کہ لنگر کا انتظام ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے مگر ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لنگر خانہ کا انتظام ان لوگوں کے سپر د کر دیا جائے تو یہ کام کہیں بند ہی نہ ہو جائے.یا مہمانوں کی خدمت کا حق ہی پوری طرح ادا نہ ہو.اس صورت میں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کون کرے گا؟ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ لنگر کے اخراجات تو ہمارے آنے کے ساتھ ہی یہاں آگئے تھے.اب قادیان میں ہے کون؟ مہمان تو ہمارے پاس آتے ہیں.پس جب قادیان میں لنگر ہی بند ہے تو خرچ کیسا؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہمارے متعلق بددیانتی اور خیانت کا شبہ ہے اور ہمیں حرام خور سمجھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے یہ لوگ اس بات کے در پے ہیں کہ لنگر کا انتظام ان کو دے دیا جائے.ہمیں ان کے حال پر رہ رہ کر افسوس آتا ہے.“ وغیرہ.قبلہ حضرت نانا جان مرحوم مغفور رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان لوگوں کے ایسے خیالات سے متعلق ایسی باتیں حضرت کے حضور اسی مجلس میں عرض کیں اور بتایا کہ ان کا یہ مرض آج کا نہیں بلکہ پرانا ہے.یہ کھڑی مدت سے پک رہی ہے اور طرح طرح کے اعتراض سننے میں آتے رہتے ہیں.کئی بار سنا ہے کہ

Page 404

سیرت المہدی 397 قوم کے روپیہ سے بیوی جی کے زیور بنتے ہیں قوم کا روپیہ جو لنگر خانہ کے نام سے حضرت صاحب کے نام براہ راست آتا ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں.مکان قوم کے روپیہ سے بنتے مگر ان پر نانا جان قبضہ کرتے جاتے ہیں وغیرہ.الغرض اس دن کی سیر کا اکثر حصہ ایسی ہی رنج وہ گفتگو میں گزر گیا اور میں محسوس کرتا تھا کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بے حد تکلیف اور ملال تھا اور سارا خاندان بھی ان حالات کے علم سے رنجیدہ تھا.انا للہ وانا اليه راجعون.یہ واقعہ حضور کے وصال کے بالکل قریب اور غالباً زیادہ سے زیادہ دوروز قبل یعنی ۰۸-۰۵-۲۴ کا ہے اور اسی روز یا اس سے ایک روز بعد یعنی آخری دن حضور نے سیر کے لئے تشریف لے جاتے ہوئے مجھ سے فرمایا.گاڑی بان سے کہہ دو کہ اتنی دور لے جائے کہ جانے آنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگے.کیونکہ آج ہمارے پاس اتنے ہی پیسے ہیں.آہ آہ آہ شہنشاہوں کا شہنشاہ جس کا یہ حال.جس کی تصدیق حضور کے وصال کے بعد کے واقعات نے کر دی جبکہ واقعی حضور پر نور نے بجائے مال و منال کے قرض کی بھاری رقم ترکہ میں چھوڑی مگر مہمان نوازی میں سرمو فرق نہ آنے دیا اور نہ ہی کسی کو جتایا.جانے والے جانتے اور دیکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ حضور کو مہمان نوازی میں کتنا کمال اور شغف تھا.حضور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو بھی پسند نہ فرماتے.قرض تک لے کر مہمانوں کی خدمت کرتے ، خود اپنے ہاتھوں کھلاتے اور مہمانوں کی ضروریات کا پورے اہتمام سے ان کے حالات و عادات کے لحاظ سے انصرام کرتے.چار پائی.بستر حتی کہ حقہ تک بھی جس سے حضور کو طبعی نفرت تھی ،مہمان کی خاطر مہیا فرماتے.حضور کی مہمان نوازی اور کرم فرمائی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں بلکہ میرا یقین ہے کہ ابھی تو ایسے خوش نصیب وجود موجود بھی ہیں جو حضور کی ایسی عنایات کا خود مورد بن چکے یا اپنی آنکھوں ایسے واقعات دیکھ چکے ہیں کہ حضور نے کھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر

Page 405

سیرت المهدی 398 مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دو گھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی.کسی مہمان کو چار پائی نہ ملی تو اپنی چار پائی بھیج دی یا فوراً تیار کرا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا.زبان طعن دراز کرنا آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھا نا مشکل.مدتوں ہم اور ایسے معترض اکٹھے رہے جس کی وجہ سے ان کے سلوک و اخلاق اور حسن و احسان کی داستانیں معلوم.دور کیا جانا.لاہور ہی کی بات کبھی بھولنے میں نہیں آتی جب مہمانوں کو دستر خوان پر بیٹھا کر اور کھانا سامنے رکھ کر ساتھ ہی یہ پیغام بار بارد ہرایا جا تا تھا کہ پیٹ کے چار حصے کرو.کھانے کا، پانی کا ، ہوا کا ، اور ذکر الہی کا.کاش ان بدقسمتوں کو مائیں نہ جنتیں.تنگ ہو کر مجبوراً آخر بعض خدام ہمرکاب نے پہلے اس قسم کی باتیں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیں چنانچہ آپ نے فوراً اپنے شاگردوں کے لئے تو کھانے کا الگ انتظام کر دیا.مکرمی حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی خدا کے فضل سے زندہ سلامت ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ دو یا چار بوری آٹا فور خریدنے کا حضرت مولوی صاحب نے حکم دیا.یا خرید واکر ان کے سپر د کر دیں اور اس طرح پہلے صاحب ممدوح کے شاگردوں کے کھانے کا بوجھ جماعت لاہور کے کندھوں سے اتر گیا اور پھر جلد ہی یہ بات سید نا حضرت اقدس تک پہنچ گئی تو حضور پر نور نے تمام مہمانوں کے کھانے کے لئے اپنے خرچ سے انتظام کئے جانے کا ارشاد فر ما دیا جو آخری دن تک جاری رہا.افترا کرنا اور جھوٹ بولنا لعنتیوں کا کام ہے میں اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم سے لکھتا ہوں کہ اوپر کا واقعہ میں نے جیسے سنا اور جس طرح دیکھا بعینہ اسی طرح لکھا ہے.الفاظ ممکن ہے وہ نہ ہوں یا آگے پیچھے ہو گئے ہوں مگر کوشش میں نے حتی الوسع یہی کی ہے کہ وہی لکھوں.مفہوم یقینا یقیناً وہی ہے اور یہ واقعہ ایک گھنٹہ سیر کے وقت کی تعیین کا بھی بالکل صحیح اور یقینی ہے اور میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے پوری بصیرت اور یقین سے لکھا ہے جس پر میں غلیظ سے غلیظ قسم کے لئے بھی تیار ہوں.مجھے کسی سے ذاتی طور پر رنج، بغض یا عناد نہیں.سلسلہ کی ایک امانت جو اکتیس سال سے میرے دل و دماغ میں محفوظ تھی ، ادا کی ہے اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں.اسی سلسلہ میں اس امر کا لکھ دینا بھی بے محل نہ ہو گا کہ جس زمانہ کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اس سے تین چار ماہ قبل ہی یعنی جنوری ۱۹۰۸ء کے اواخر میں میں ان زخموں سے اچھا ہو کر جو راجپوتانہ سے میری

Page 406

سیرت المہدی 399 رہائی کا باعث بنے ، قادیان پہنچا تھا.میں چونکہ ایک لمبے عرصہ کی غیبو بت کے بعد دار الامان آیا تھا لہذا دل میں خواہش تھی کہ دوستوں سے ملوں ، ان کی مجالس میں بیٹھوں اور حالات سنوں.چنانچہ اسی ذیل میں میرے کانوں میں ان اعتراضات کی بھنک پڑی جو بعض بڑے کہلانے والوں کی طرف سے سیدنا حضرت اقدس کی امانت و دیانت پر مالی معاملات سے متعلق کئے جاتے تھے.اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایسے اعتراضات سن کر ہم لوگ معترضین کے اس فعل کو جہاں حقارت اور نفرت سے دیکھا کرتے وہاں حضور کو سلیمان نام دئے جانے کی ایک یہ حکمت بھی ہماری سمجھ میں آ گئی جو اس غیب دان ہستی نے پہلے ہی سے اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کو بطور جواب اور حضور کی تسلی کے لئے الہاما کہہ رکھی تھی اور اس بات کا عام ذکر رہتا تھا کہ چونکہ حضرت کا ایک نام سلیمان رکھ کر اللہ کریم نے فَامُنُنُ أَوْ أَمُسِكُ بِغَيْرِ حِسَابٍ کی شان و مقام بھی حضور کو عطاء فرما رکھا ہے تو پھر کس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس برگزیدہ خدا اور مقبول الہی کی شان میں کوئی کلمہ گستاخی زبان پر لاوے یا حضور سے کسی حساب کتاب کا مطالبہ کرے.حضور کے طریق عمل اور اخلاق کریمانہ میں سے بیسیوں واقعات اور سینکڑوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ حضور عطاء وسخا میں فَامُنُنُ بِغَيْرِ حِسَاب کے عامل بھی تھے.بارہا خدام اور غلاموں نے مفوضہ خدمات اور کاموں سے واپسی پر حضور کی خدمت میں حسابات کی فہرستیں پیش کیں تو حضور نے یہ فرماتے ہوئے کہ ”ہمارا آپ کا معاملہ حسابی گنتیوں سے بالا تر ہے.دوستوں کے ساتھ ہم حساب نہیں رکھا کرتے.واپس کر دیا.یا کبھی کسی غلام کو قرض کی ضرورت ہوئی تو حضور نے دے کر نہ صرف بھلا ہی دیا بلکہ اگر اس غلام نے کبھی پیش کیا تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ نے ہمارے اور اپنے مال میں کوئی ما بہ الا امتیاز بنارکھا ہے؟ ہمارے آپ کے تعلقات معمولی دنیوی تعلقات سے آگے نکل کر روحانی باپ اور بیٹوں کے سے ہیں.اور کئی دوستوں کو یاد ہو گا کہ جب کسی خدمت کے لئے حکم دیتے تو زاد راہ کے لئے گن کر رقم نہ دیا کرتے بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ مٹھی بھر کر یا رومال میں گٹھڑی باندھ کر بے حساب ہی دے دیا کرتے تھے.اور کئی بار میں خود بھی چونکہ ایسے حالات سے دو چار ہوا ہوں اس وجہ سے ایسی شہادت میرے ذمہ تھی جس کی ادائیگی کے

Page 407

سیرت المہدی 400 لئے یہ چند سطور نوٹ کی ہیں.زندگی کا اعتبار نہیں ، موت کا وقت مقرر نہیں، خصوصاً جب کہ میں ایک لمبے عرصہ کی بیماری کے باعث اپنی ہڈیوں میں کھو کھلا پن ، پٹھوں میں سستی اور جسم میں اضمحلال پاتا ہوں اس موقعہ کو غنیمت جان کر یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کی.بار ہا کا واقعہ یاد ہے کہ ایسے مواقع پر حضور نے نہایت محبت و مہر بانی سے بطور نصیحت فرمایاکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی ہمیں بھیجتا ہے اس سے ذاتی طور پر ہمارا صرف اسی قدر تعلق ہوتا ہے کہ ہم اُس کے خرچ کرنے میں بطور ایک واسطہ کے ہیں.ورنہ خدا کے یہ اموال خدا کے دین اور اس کی مخلوق ہی کے لئے آتے اور خرچ ہوتے ہیں.ہم جب کسی کے سپر د کوئی کام کرتے ہیں تو اس کو امین و دیانتدار ہی سمجھ کر کرتے ہیں.اس لئے ہمیں تو کبھی ایسا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ شخص اس میں خیانت کرے گا.دراصل یہ تمام باتیں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں اور حقیقت میں بدظنی کرنے والا اپنے ہی ایمان کی جڑ پر تبر رکھتا، اپنے اندرونہ کے گناہ کو ظاہر کرتا اور اپنے خبث باطن پر مہر لگاتا ہے.الْمَرْءُ يَقِيْسُ عَلَى نَفْسِهِ الغرض اس قسم کا مرض نفاق تو بعض لوگوں کے دلوں میں حضرت اقدس کی حیات ہی میں پیدا ہو چکا تھا اور خدا جانے کس بدقسمت انسان کی مجلس و صحبت کا اثر تھا جس کو ان لوگوں نے بجائے دور کرنے اور نکال باہر پھینکنے کے قبول کیا اور دلوں میں سنبھالے رکھا ، اس کی آبیاری کی اور آخر کا رزہریلا پھل کھا کر روحانی موت کا شکار ہو گئے.اللہ رحم کرے.علو، خودستائی و کبر کا بھی مادہ الگ ان میں موجود تھا.معتمد تھے اور سلسلہ کے کاروبار کے گویا وہی اپنے آپ کو کرتا دھرتا سمجھتے تھے مگر زبان کا ان کی یہ حال تھا کہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی بلندشان اور اس عزت و اقبال کے مد نظر جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی وحی میں بار بار آتا ہے ، ہم خدام ان کا ذکر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ سے کیا کرتے مگر یہ لوگ سیدہ طاہرہ کو مائی جی“ ”بیوی جی“ اور زیادہ سے زیادہ بیوی صاحبہ کے بالکل معمولی الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے.جن سے ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں خواتین مبارکہ کی حقیقی عزت موجود نہ تھی اور اس کے نتائج بھی ظاہر وباہر ہیں.موقعہ کی مناسبت کے مدنظر خواجہ

Page 408

سیرت المہدی 401 کمال الدین صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ کے اعلان میں سے جو اطلاع از جانب صدر انجمن“ کے زیر عنوان سید نا حضرت اقدس کے وصال اور انتخاب خلافت کے متعلق قادیان سے جماعتوں کی اطلاع کے لئے شائع کرایا گیا تھا، ایک فقرہ درج کر کے اس کے علل و نتائج کا استنباط اصحاب دانش کے ذہن رسا پر چھوڑتا ہوں.لکھا ہے چندوں کے متعلق سر دست یہ لکھا جاتا ہے کہ ہر قسم کے چندے جس میں چندہ لنگر خانہ بھی شامل ہے محاسب صدرانجمن احمدیہ قادیان کے نام حسب معمول بھیجے جاویں.فاعتبروا یا اولی الالباب.مارچ ۱۹۰۸ء کے مہینے میں موقر اخبار احکم کا متعدد مرتبہ بحروف جلی بعنوان لنگر خانہ کی طرف توجہ چاہئے جماعت کو توجہ دلانا.قحط سالی کے باعث اخراجات کے بڑھ جانے کا ذکر کرنا وغیرہ بھی اس مسئلہ کے حل میں موید ہو گا.ایک واقعہ حضور کی سیر شام سے متعلق یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آخری دن یعنی ۰۸.۰۵.۲۵ کو جب حضور سیر کے واسطے تشریف لائے تو خلاف معمول حضور خاموش اور اداس تھے.نیز کوفت اور تکان کے علامات حضور کے چہرہ پر نمایاں نظر آتے تھے اور ساری ہی سیر میں حضور ایسی حالت میں تشریف فرما رہے.گو یا کسی دوسرے عالم میں ہیں اور ربودگی و انقطاع کا یہ حال تھا کہ سارے ہی راستہ جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی حضور اسی حالت میں رہے.حضور کی اس حالت کے مدنظر سارے ہی قافلہ پر عالم سکوت اور بیم ورجاطاری تھا.ایسا معلوم دیتا تھا کہ حضور دنیا و مافیہا سے کٹ کر رفیق اعلیٰ کے وصال کا جام شیریں نوش فرما ر ہے ہیں اور اسی کی یاد میں یہ عالم محویت حضور پر طاری ہے.جن دوستوں نے خطبہ الہامیہ کے نزول کا منظر دیکھا ہوا ہے وہ آج کی ربودگی و تبتل کو بھی سمجھ سکتے ہیں جو حالت حضور کی اس وقت میں ہوتی تھی اس سے بھی بڑھ کر آج حضور اپنے خدا میں جذب وگم ہو

Page 409

سیرت المہدی 402 رہے تھے کیونکہ خطبہ الہامیہ کے نزول کے دوران میں تو مشکل لفظ جب سمجھ میں نہ آتا.ہم لوگ لکھنے میں پیچھے رہ جاتے یا بعض جگہ الف یا ع ق پاک.زیاد یاض.ظا اورث.س اورص وغیرہ کا امتیاز نہ کر سکتے تو حضور سے دریافت کرنا پڑتا تھا جس کے بتانے کے لئے حضور گویا نیند سے بیدار ہو کر یا کسی روحانی عالم سے واپس آ کر بتاتے تھے اور دوران نزول میں کئی مرتبہ ایسا ہوا تھا.مگر آج کی محویت اور ر بودگی متواتر کم و بیش ایک گھنٹہ جاری رہی اور واپس مکان پر آ کر ہی حضور نے آنکھ کھولی تھی.یہ واقعہ نہ صرف میرا ہی چشم دید ہے بلکہ خاندان کی بیگمات اور ہمرکاب مردوں کے علاوہ مجھے اچھی طرح سے ایک اور ایک دو کی طرح یاد ہے کہ جب حضور کی گاڑی لارنس گارڈنز اور لاٹ صاحب کی کوٹھی سے کچھ آگے جانب غرب بڑھی تھی تو اس موقعہ پر دو یا تین احمدی دوست لاہور کے سیر کرتے ہوئے وہاں ملے.جنہوں نے السلام علیکم کہی اور حضور کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور اشاروں سے دریافت حال کیا تھا.گویا ان دوستوں نے بھی حضور کی اس حالت تبتل و انقطاع کو خلاف معمول سمجھا تھا.اور پھر مجھے یہ بھی خوب یاد ہے کہ دوسرے دن وصال کے بعد انہوں نے یا ان میں سے بعض نے آج کے چشم دید واقعہ کا ذکر کر کے بیان کیا تھا کہ ” ہم نے تو کل ہی حضور کی حالت سے اندازہ کر لیا تھا کہ حضور اس عالم میں موجود نہیں ہیں.“ مگر افسوس کہ میں ان دوستوں کے نام یاد نہیں رکھ سکا.یہ یقین ہے کہ تھے وہ مقامی دوست ہی.میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ابتداء حضور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور کم و بیش قیام لاہور کا نصف عرصہ حضور وہیں مقیم رہے.اس کے بعد اس مکان کو چھوڑ کر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے بالائی حصہ میں تشریف لے گئے اور آخری دن تک وہیں رہے.اس ہجرت کی بڑی وجہ علاوہ بعض اور وجوہات کے یہ تھی کہ لاہور پہنچنے کے بعد حضور کو الہام ہوا ” اَلرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيل“ حضور پُرنور کی عادت وسنت تھی کہ خواب اور الہامات کو حتی الوسع ظاہری رنگ میں پورا کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور ا کثر صدقات ، خیرات اور قربانیاں ادا کرتے رہتے تھے بلکہ بعض اوقات تو بعض خدام اور بچوں تک کی خوابوں کو پورا کرتے اور قربانیاں کروایا کرتے.اسی طرح اس

Page 410

سیرت المہدی 403 الہام کو ظاہر طور پر پورا کرنے کی غرض سے حضور نے یہ نقل مکانی اختیار فرمائی تھی.الغرض حضور کا یہ سفر قضاء وقد راور مشیت ایزدی کا نمونہ ، خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں کی ایک مثال اور وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى آمرہ کی عملی تفسیر تھی.خدا کا برگزیدہ رسول، نبی آخر الزمان خدا کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت آنے والے 66 واقعہ ستائیس کو ایک واقعہ ( ہمارے متعلق) اللَّهُ خَيْرٌ وابقی “ سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ واقعات اور حالات پر یکجائی نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو گا کہ یقین پر تھا.یہی وجہ تھی کہ حضور نے حتی الوسع مناسب حد تک اس سفر کو ٹالنے اور التوا میں ڈالنے کی کوشش کی اور امر واقعہ یہی ہے کہ حضور کو انشراح نہ تھا.چنانچہ جہاں حضور خود دعا و استخارہ میں مصروف تھے وہاں خاندان اور خدام کو بھی اس سفر کے متعلق دعا اور استخارہ کی تاکید کی جاتی رہی.کئی مرتبہ تیاری کا سامان ہوا اور ملتوی ہو جا تا رہا.خدا کی وحی واضح اور کھلی تھی اور اس کے سمجھنے میں کسی قسم کا اشتباہ نہ تھا.دعا ئیں اور استخارے اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ کر ” مباش ایمن از بازی روزگار‘ کا غیر مشتبہ جواب پاچکے تھے مگر الہی نوشتوں اور مقادیر کو کون ٹال سکتا ہے وہ بہر صورت پورے ہو کر رہتے ہیں اور خدا کے یہ مقدسین انبیاء وراستباز جو کہ انا اول المسلمین “ کا عہد اپنے خدا سے باندھتے ہیں عملاً اپنے عہد کے بار یک در بار یک شرائط اور سارے ہی پہلوؤں کی پوری طرح نگہداشت کرتے اور ان کو بطریق احسن نباہتے، اپنی مرضی کو پوری طرح سے اپنے خدا کی مرضی کے ماتحت کر دیا کرتے ، اس کی قضاء وقدر کے سامنے گردن ڈال دیتے اور سرتسلیم جھکا دیا کرتے ہیں.یہی وجہ تھی کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک مناسب اور جائز حد تک اس سفر کو روک دینے کی کوشش کی مگر بالکل اسی طرح جس طرح منذر رویا و کشوف کے وقت حضور دعا،صدقہ اور خیرات کیا کرتے تھے تا کہ تقدیر معلق ہو تو ٹل جائے مگر جب خدا تعالیٰ کی بار بار کی وحی کے ماتحت حضور کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ قضاء مبرم ہے ،ٹل نہیں سکے گی تو حضور نے ” مرضی مولا از ہمہ اولیٰ کی تعمیل کا مصم ارادہ فرمالیا.جب دیکھا کہ قضا و قدر اور منشاء ایزدی یہی ہے کہ یہ سفر اختیار کیا جائے تو حضور نے تو کلا علی اللہ تیاری کا فیصلہ فرما کر یہ سفر اختیار کرلیا.سفر کی تیاری اور قافلہ کی ہیئت ترکیبی ، سفر کی تیاری خود اس امر پر شاہد ہے کہ حضرت کو آنے والے واقعہ کا پوری طرح سے علم تھا.چنانچہ جہاں حضور نے اپنے سارے خاندان کو ساتھ لیا.ضروریات فراہم

Page 411

سیرت المہدی 404 کیں.سواریاں لیں.( گھوڑی اور رتھ ).وہاں حتی الوسع ایسے تمام بزرگوں اور خدام کو بھی ہمرکابی کا شرف بخشا جو حضور کی مجلس کا جزو ضروری تھے یا جن کی موجودگی کو حضور پسند فرماتے تھے.حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ خاندان کو درس قرآن کریم کے لئے تو محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو کاروبار ڈاک کے واسطے ہم کالبی کا حکم دیا.اسی طرح حضرت فاضل امروہی اور بعض دوسرے ضروری ارکان کو بھی شرف ہمرکابی بخشا.وحی الہی داغ ہجرت 66 اور ستائیس کو ایک واقعہ ( ہمارے متعلق) واللهُ خَيْرٌ وابقى “ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیت اور قضاء کی مظہر تھیں.سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علالت اور اس کے نتیجہ میں سفر لاہور پر اصرار کے واقعات بھی اس کی تائید میں تھے.مہبط انوار الہیہ سب سے زیادہ اس کلام کے منشاء و مقصد کو سمجھتے ہیں جو ان پر خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے.چنانچہ باوجود صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی اچانک بیماری اور باوجود ۲۶ را پریل ۱۹۰۸ء کے الہام مباش ایمن از بازی روزگار کے نزول کے جس سے ہم لوگوں کے علم کے مطابق یقینی طور پر سفر کے التوا و روک کا حکم نکلتا تھا حضور نے ۲۷ را پریل ۱۹۰۸ء کی صبح کوسفر کا فیصلہ فرمایا اور اس طرح کلام الہی ستائیس کو ایک واقعہ ( ہمارے متعلق ) واللهُ خَيْرٌ وابقى “ کی صداقت آج اور دوسری مرتبہ ایک ماہ بعد یعنی ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جب حضور پر نور کا جسد مبارک کفن میں لپیٹ کر لایا گیا ، ظاہر ہوگئی اور ساتھ ہی یہ امر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ مشیت ایزدی اور قضا و قدر کے اسی منشاء کے ماتحت سیدنا حضرت اقدس نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس سفر کو اختیار فرمایا تھا تا رضاء و تسلیم کا وہ مقام جو حضور پر نور کو حاصل تھا، دنیا عملاً دیکھ کر ایک سبق حاصل کرے.چنانچہ اس امر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب قیام لاہور کے بالکل آخری ایام یعنی صرف ایک عشرہ قبل وصال مکن تکیه بر عمر نا پائیدار اور پھر صرف پانچ چھ روز قبل وصال

Page 412

سیرت المہدی 405 الرحيل ثم الرحيل والموت قريب کی وحی حضور پر نازل ہوئی تو سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے متاثر ہو کر گھبرا کر حضرت کے حضور عرض کی کہ چلو واپس قادیان چلیں.مگر حضور نے یہی جواب دیا کہ اب تو جب خدا لے جائے گا چلیں گے ہمارا اپنا اختیار کچھ نہیں ہے ور نہ اگر صرف حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مرضی و خواہش ہی اس سفر کا موجب ہوتی تو یہ ایسا موقعہ تھا کہ حضور فوراً واپسی کا حکم دے دیتے مگر حضور پر نور کا یہ جواب بڑی صفائی سے میرے خیال کی تصدیق کرتا ہے.اس امر کی مزید ایک دلیل کہ حضور کو آنے والے واقعہ کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا، کئی رنگ میں ملتی ہے.یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حضور کو مہمان نوازی کا کمال اشتیاق تھا اور مہمانوں کو حضور حتی الوسع جلدی سے رخصت و اجازت نہ دینا چاہتے تھے بلکہ حضور کی دلی خواہش ہوا کرتی تھی کہ مہمان زیادہ سے زیادہ حضور کی صحبت میں رہیں تا ان کے ایمان تازہ و مضبوط ہوں اور زندہ خدا کے تازہ نشان ان کے عرفان میں زیادتی کریں مگر اس سفر میں حضور کی یہ خواہش خصوصیت سے اپنے کمال پر تھی اور مہمانوں سے بڑھ کر اپنے خدام اور غلاموں تک کو جدا ہی نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ ضرورت کو بھی کسی دوسرے رنگ میں پورا کر لینے کی ہدایت فرماتے تا خدام حضور سے تھوڑے وقت کے لئے بھی جدا نہ ہوں.چنانچہ مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب کو ان کے گھر والوں کی تکلیف وغیرہ کی اطلاع پر فرمایا کہ؛ میاں فضل الرحمن کیا اچھا ہو کہ آپ کو جانا بھی نہ پڑے اور آپ کے گھر والے آ بھی جائیں.“ اور خدا کی شان کہ حضور کی یہ خواہش اسی رنگ میں پوری ہوگئی اور مکرمی مفتی صاحب کے گھر والے ان کی شدید بیماری کی غلط خبر پاکر از خود ہی لاہور سٹیشن پر پہنچ گئے.جن کی آمد کی اطلاع حضور تک کسی خادم کے ذریعہ پہنچی اور حضور نے اپنی سواری بھیج کر ان کو سٹیشن سے مکان پر منگا لیا.اسی طرح خود میں نے ایک عریضہ ضرورتاً حضرت کے حضور لکھ کر خواہش کی تھی کہ مجھے قادیان آ کر گھر والوں کو کسی محفوظ جگہ رکھنے کی اجازت دی جاوے.جس پر زیادہ سے زیادہ ایک دن خرچ ہوتا مگر حضور نے اتنا بھی گوارا نہ فرمایا.میرا

Page 413

سیرت المہدی 406 عریضہ اور حضور کا جواب اصحاب بصیرت کے لئے موجب تسکین وعرفان ہوگا ، جو درج ذیل ہے.محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بسم اللہ الرحمن الرحیم آقائی و مولائی فداک روحی اید کم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے.کیونکہ جس مکان میں میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے.لہذا اگر حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو میں جا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آؤں یا اگر حضور کے دولت سرائے میں کوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آؤں.جیسا حکم ہو تیل کی جاوے.حضور کی دعاؤں کا محتاج.خادم در عبدالرحمن قادیانی احمدی ۱۴/۵/۸ جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.ابھی جانا مناسب نہیں ہے.لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو سلا لیا کریں یا مولوی شیر علی صاحب بند و بست کر دیں کہ کوئی لڑکا ان کے پاس سو یا کرے.مرزا غلام احمد ان سب سے بڑھ کر وہ واقعہ اس بات پر شاہد ہے جو ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کی رات کو گیارہ اور دو بجے کے درمیان مرض الموت کی ابتداء میں حضور نے خود سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک استفسار پر فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور کی بیماری کی تکلیف اور کمزوری بڑھتے دیکھ کر سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضور سے عرض کی.اس پر حضور نے فرمایا:.یا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟ وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا“ اور اس کا اشارہ صاف ظاہر ہے کہ واقعہ وصال ہی کی طرف تھا.اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ

Page 414

سیرت المہدی 407 حضور نے سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک جائز خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کے اصرار کو بھی آخر کار شرف قبولیت بخش کر یہ سفر اختیار کیا تھا کیونکہ حضور کے اخلاق حمیدہ میں اپنے اہل بیت کی مرضی و خواہش کو پورا کرنے اور ان کی بات مان لینے کا پہلو اتنا نمایاں وواضح اور زبان زد خاص و عام تھا کہ جاہل واکھڑ خادمات کے دل و دماغ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتیں کہ مر جا بیوی دی بڑی من دا اے یہ امر ثبوت ہے اس بات کا کہ حضور کو اخلاق فاضلہ میں انتہائی کمال اور بالکل امتیازی شرف حاصل تھا.اور اس میں بھی دنیا کے لئے عورتوں سے حسن سلوک، حسن معاشرت، ان کی عزت و احترام اور محبت و اکرام کے عملی سبق کے علاوہ ان کے جائز حقوق اور آزادی مناسب کا عملی سبق دے کر ایک اسوہ حسنہ قائم کرنا مقصود تھا کیونکہ حضور پر نور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمال اخلاق کا اس لحاظ سے بھی کامل اور اکمل واتم نمونہ واُسوہ تھے.مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ حضور نے رضاء بالقضاء اور مَا تَشَاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللَّهُ کا بھی اعلیٰ ترین اسوه و نمونہ پیش کر کے دنیا جہاں پر اپنے آخری عمل سے بھی ثابت کر دیا کہ واقعی حضور اپنے خدا میں فنا اور اسی کی رضاء کے طالب تھے.خدا کے برگزیدہ نبی ورسول سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اپنی زندگی کے آخری دو تین روز ایک ایسی اہم اور مہتم بالشان تصنیف میں مصروف رہے جس میں نسل انسانی کے لئے بے نظیر اور فقید المثال خدمت کا مواد اور امن عالم کے قیام کی تجاویز درج ہیں.جس کا نام اس شہزادہ صلح و آشتی اور امن و سلامتی نے مضمون کی مناسبت اور وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ”پیغام صلح تجویز فرمایا.کتابت و طباعت کی خدمات کا اعزاز ہمارے محترم بزرگ میر مہدی حسین صاحب کے حصہ آیا اور حضور نے بھری مجلس میں میر صاحب موصوف کی خدمات متعلقہ ، طباعت چشمہ معرفت کا ذکر خیر فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ کام بھی ہم میر مہدی حسین کے سپرد کرتے ہیں“ چنانچہ ایک کاپی ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء کو تیار کرا کر میر صاحب موصوف بر فاقت مکر می شیخ رحمت اللہ صاحب و حکیم

Page 415

سیرت المہدی 408 محمد حسین صاحب قریشی کارکنان نولکشور پریس کو دے کر پروف کے واسطے تاکید کر آئے.دوسرے دن پروف لینے گئے مگر منتظمین نے کسی خورد سال بچہ کی موت کا عذر کر کے اگلے دن کا وعدہ کیا.ادھر دوسری کا پی تیار تھی مگر وہ پریس کو نہ دی گئی اس خیال سے کہ پہلا پروف آجائے تو دوسری کا پی دی جائے گی.۲۵ مئی ۸عہ وعصر کے وقت اندر سے دادی آئیں اور میر مہدی حسین صاحب کو مخاطب کر کے بآواز بلند کہا حضرت صاحب فرماتے ہیں آج ہم تو اپنا کام ختم کر چکے.‘ مکرمہ دادی صاحبہ والدہ مکرمی میاں شادی خان صاحب مرحوم نے جس خوشی اور بشاشت سے یہ خبر آ کے سنائی وہ تو اس تصنیف کے اتمام سے متعلق تھی اور بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی اہم کام کے سرانجام پہنچنے پر ہوا کرتی ہے مگر یہ الفاظ سنے والوں میں سے بعض کا ماتھا ٹھنکا اور ان کے ذہن کسی دوسری طرف منتقل ہو گئے خصوصاً مکرمی میر مہدی حسین صاحب نے تو اس کو بے حد محسوس کیا.چنانچہ حضور پرنور کے وصال کے بعد ہمیشہ وہ اس فقرہ کو دہرایا کرتے اور اپنے تاثر کا ذکر کیا کرتے ہیں.اس موقعہ پر میں حضور کے بعض وہ فقرات جو حضور نے اس سفر کی تقریروں میں اپنے کام کے پورا کر چکنے اور تکمیل تبلیغ سے متعلق فرمائے.مختصر درج کر دیتا ہوں تاد نیا کو معلوم ہو کہ خدا کا یہ برگزیدہ نبی اپنا کام پورا کر چکنے کے بعد ہی واپس بلایا گیا تھا.(۱) چنانچہ مورخہ ۳۰ /۱ اپریل شعبہ کی تقریر میں فرماتے ہیں ”جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو فیصلہ کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے.ہمیں چھبیس سال ہوئے تبلیغ کرتے.جہاں تک ممکن تھا ہم ساری تبلیغ کر چکے ہیں.اب وہ خود ہی کوئی ہاتھ دکھائے اور فیصلہ کرے گا.(الک ۲۶، ۳۰ راگست ۱۹۰۸ء) (۲) پھر ۲ مئی شعبہ مسٹر محمدعلی جعفری ایم.اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو مخاطب کر کے ایک لمبی تقریر فرمائی جو اخبار الحکام ۰۸-۰۶-۱۸ کے بڑے سائز کے نو کالموں میں درج ہے.فرمایا ”ہمارا کام صرف بات کا پہنچادینا ہے.ماعلى الرسول الا البلاغ.تصرف خدا کا کام ہے.ہم اپنی طرف سے بات کو پہنچادینا چاہتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پوچھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح نہیں بتایا.اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے.تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے.دنیا میں کوئی کم ہی ہوگا جو اب بھی یہ کہہ دے کہ اُس کو ہماری تبلیغ نہیں پہنچی یا ہمارا دعوی اس تک نہیں پہنچا.(الحکم ۰۸-۰۶-۱۸)

Page 416

سیرت المہدی 409 (۳) پھر اسی روز یعنی مورخہ ۲ مئی ۶۸ کو بعد نماز عصر شہزادہ محمد ابراہیم خان صاحب کی ملاقات کے وقت تقریر فرمائی جو احکم ۱۴ مئی شعہ کے قریباً چودہ کالموں میں شائع ہوئی تھی.فرمایا ”ہم نے اپنی زندگی میں کوئی کام دنیوی نہیں رکھا.ہم قادیان میں ہوں یالا ہور میں.جہاں ہوں ہمارے انفاس اللہ ہی کی راہ میں ہیں.معقولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب ہم اپنے کام کو ختم کر چکے ہیں.کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو.البتہ اب تو ہماری طرف سے دعا ئیں باقی ہیں.(۴) مورخہ ۷ ارمئی شعہ کو گیارہ بجے قبل دو پہر سے ایک ڈیڑھ بجے بعد دو پہر تک حضور نے ایک تقریر رؤسا وعمائد لا ہور و مضافات کے سامنے فرمائی جو بڑے سائز کے ۳۶ کالموں میں چھپی.اور یہ وہ تقریر ہے جس کا نام ہی تكميل التبليغ و اتمام الحجّة اور نام ہی سے تقریر کا خلاصہ مطلب عیاں (الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ نمبرا کالم نمبر۲) ہے.(۵) پھر ۱۹ مئی ۸عہ کو عبد الحکیم کی کتاب کا ذکر تھا کہ اس نے بہت سے اعتراض کئے ہیں.فرمایا: ”ہم نے جو کچھ کہنا تھا کہ چکے.بخشیں ہو چکیں.کتابیں مفصل لکھی جاچکی ہیں.اب بحث میں پڑنا فضولیوں میں داخل ہے.“ ( بدر ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲) ان کے علاوہ اور بھی بعض تقاریر میں زبانی طور سے یاد پڑتا ہے کہ حضور نے بڑے زور دار الفاظ میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ”ہم تو اپنا کام کر چکے.اب خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا.“ ممکن ہے کہ تفصیلی محنت سے ایسے اور حوالے بھی مل جائیں یا بعض احباب کی یاد داشت میری تصدیق کر دے.میں اس وقت زیادہ محنت کے قابل نہیں.نماز عصر ہوئی اور حضور پر نور سیر کے واسطے تشریف لے آئے.یہ سیر وہی سیر تھی جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں.آخری دن کی خاموش اور پُر معنی سیر.جس کی وجہ سے طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہے.مگر باقی معاملات بالکل نارمل اور اپنے معمول پر تھے.مکان پر رات کو با قاعدہ پہرہ ہوا کرتا اور ہم لوگ باری سے اس خدمت کو بجالاتے تھے.ڈیوٹی والے پہرہ پر اور باقی اپنی جگہ آرام اور سیر وتفریح میں تھے.کوئی غیر معمولی امر در پیش نہ تھا.اچانک گیارہ بجے مکرم حافظ حامد علی مرحوم نے مجھے جگایا.میں سمجھا

Page 417

سیرت المہدی 410 میرے پہرے کا وقت آ گیا.پوچھا.کیا ایک بج گیا ہے؟ حافظ صاحب مرحوم نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا.ایک تو نہیں بجا.حضرت صاحب بیمار ہیں، تمہیں یاد فرمایا ہے.حضور کی بیماری کی خبر سے میں چونکا، ہوشیار ہوا.نیند کے غلبہ کی غفلت اڑ گئی.سیڑھی، ورانڈہ اور دالان کے چار ہی قدم کر کے فوراً حضرت کے حضور حاضر ہوا.سلام عرض کیا ، جواب پایا اور حضور کے پاؤں کی طرف فرش پر بیٹھ کر دبانے لگا.کیونکہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت کے سرہانے چار پائی کے کونے پر بیٹھی تھیں.حضور نے چار پائی پر بیٹھ کر زور سے دبانے کا ارشاد فرمایا جس کی تعمیل میں پائنتی کی طرف چار پائی کے او پر بیٹھ کر اپنی پوری طاقت اور سارے زور کے ساتھ پاؤں، پنڈلیاں ، ران، کمر اور پسلیوں کو دباتا رہا.حضور پر نور اس وقت ایک چار پائی پر مکان کے بالائی حصہ کے صحن میں شرقا غر با لیٹے ہوئے تھے.سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور کے سرہانے اسی چار پائی کے شمال غربی کو نہ پر تشریف فرما تھیں اور حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چار پائی کے شمالی جانب ایک کرسی پر حسب عادت خاموش سر ڈالے بیٹھے تھے.حضور کا جسد اطہر ٹھنڈا، کمزور اور آواز بالکل دھیمی تھی.کیونکہ حضور پر نور کو میرے پہنچنے سے پیشتر ایک بڑا اسہال ہو چکا تھا.مجھ پر اس وقت یہی اثر تھا کہ حضرت اقدس کو اُسی پرانی بیماری اسہال اور برد اطراف کا دورہ لاحق ہے جو اکثر دماغی کام میں انہماک اور شبانہ روز کی محنت کے نتیجہ میں ہو جایا کرتا تھا اور چونکہ ایسی تکلیف میں اکثر مجھے خدمت کی عزت نصیب ہوتی رہتی تھی جس کے بارہا میسر آنے کی وجہ سے مجھے حضرت کے جسم مبارک کی حالت کا اندازہ اور خدمت کے متعلق مزاج شناسی اور تجربہ حاصل تھا.چنانچہ اسی مشاہدہ ، تجربہ اور احساس کی بنا پر میں اس یقین اور بصیرت پر ہوں کہ حضور پر متواتر و مسلسل سخت دماغی محنت اور دن رات کی مصروفیت کے باعث اسی پرانی بیماری و عارضہ کا حملہ ہوا تھا جو اس سے قبل بارہا حضور کی زندگی میں ہوا کرتا تھا اور یہی علامات ان تکالیف میں بھی نمایاں ہوا کرتی تھیں جو بعض اوقات کئی کئی مضبوط اور قوی غلاموں کی گھنٹوں کی محنت، کوشش اور خدمت سے، جو دبانے اور مالش چاپی وغیرہ کے ذریعہ کی جایا کرتی تھی ، بصد مشکل زائل ہوا کرتی تھیں.حضور کا جسم مبارک برف کی طرح ٹھنڈا ہو جانے کے بعد گرم ہوا کرتا تھا.نبض کی حرکت بحال ہوا کرتی تھی.

Page 418

سیرت المہدی 411 بعینہ وہی علامات آج میں نے محسوس کیں اور اسی رنگ میں حضور کے برف کی مانند ٹھنڈے جسم کو گرمانے کی ان تھک کوشش جاری رکھی.محترم بزرگ حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور میاں عبدالغفار خانصاحب کا بلی بھی کچھ دیر بعد میرے ساتھ شریک عمل ہوئے اور اپنی طاقت سے بڑھ کر ہر کسی نے مالش و چاپی کے ذریعہ حضور کے جسم مبارک کو گرمانے کی کوشش کی مگر لا حاصل.جسدِ اطہر میں گرمی پیدا ہوئی نہ نبض ہی سنبھلی بلکہ جسم زیادہ ٹھنڈا اور نبض زیادہ کمزور ہوتی چلی گئی اور حضور کو پھر ایک دست ہوا جس کی وجہ سے ہم لوگ اوٹ میں ہو گئے واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضور کو ایک قے بھی ہوئی اور ضعف اتنا بڑھا کہ حضور چار پائی پر گر گئے.سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حالت کو دیکھ کر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی قدر جھک کر حضرت کے حضور عرض کیا جس کے جواب میں حضور نے فرمایا: یا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟“ وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا“ میرے حضرت کے حضور پہنچنے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد حضرت مولوی صاحب کو حضور نے گھر جا کر آرام کرنے کا حکم دیا اور حضرت مولوی صاحب تعمیل ارشاد میں تشریف لے گئے مگر جب حالت زیادہ نازک اور کمزور ہوتی گئی، جسم بجائے گرم ہونے کے اور زیادہ سرد ہوتا گیا تو حضرت مولوی صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو دوبارہ بلوایا گیا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب چونکہ شہر میں دور رہتے تھے ان کو بھی آدمی بھیج کر بلوایا گیا اور جب انہوں نے پہنچ کر سلام عرض کیا تو حضور نے جواب کے بعد فرمایا.ڈاکٹر صاحب علاج تو اب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے.مگر چونکہ رعایت اسباب ضروری ہے وہ بھی کریں.مگر ساتھ ہی دعائیں بھی کریں.چنانچہ ڈاکٹروں نے بعض انگریز ماہرین اور سول سرجن کے مشورہ سے انجیکشن کرنے کا فیصلہ کیا جو حضور کے بائیں پہلو کی پسلیوں میں دل کے اوپر کیا گیا.باوجود اس کے حضور کو کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ تین بجے رات کے قریب ایک اور دست حضور کو آ گیا جس سے کمزوری اتنی

Page 419

سیرت المہدی 412 بڑھی کہ ڈاکٹر اور طبیب خود بھی گھبرا گئے.دوبارہ ایک پرکاری حضور کے اسی پہلو میں اور کی گئی.ان پچکاریوں سے حضور کو درد محسوس ہوا جس کی وجہ سے حضرت نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی فرمائی.باوجود اس کے اس مرتبہ بھی پچکاری کر ہی دی گئی.مجھے حضرت کی تکلیف سے سخت تکلیف ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر تعجب کہ کس دل سے انہوں نے حضرت کے جسم مبارک میں اتنا لمبا سوالگایا ، خطرہ بجائے کم ہونے کے بڑھتا گیا جس کی وجہ سے حضور کی چار پائی صحن میں سے اٹھوا کر دالان میں شرقاً غرباً چھت کے نیچے بچھائی گئی اور خاندان کے اراکین کو بلوایا گیا.صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ، ہمارے موجودہ خلیفتہ امسیح الثانی کے اہل بیت حرم اول رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس شب اپنے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آبائی مکان واقعہ پتھراں والی حویلی میں تشریف فرما، ان کو وہاں سے خود حضرت صاحبزادہ صاحب والا تبار جا کر لے آئے اور حضرت نواب صاحب قبلہ کو ان کی کوٹھی سے راتوں رات بلوالیا گیا.نیند رات بھر حضرت کو بالکل نہ آئی البتہ انتہائی ضعف اور کمزوری کے باعث کبھی کبھی خاموش اور بالکل بے حس و حرکت پڑے رہتے تھے.نبض ڈھونڈے سے نہ ملتی تھی حتی کہ ایک مرتبہ تو یہی سمجھا گیا کہ حضور کا وصال ہو گیا جس کی وجہ سے سب پر سکتہ چھا گیا مگر وقفہ سے پھر کسی قدر حرکت اور اضطراب وگھبراہٹ ہونے لگی.سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ صرف یہ کہ رات بھر آنکھوں میں کائی بلکہ حضرت کی خدمت اور دوائی درمن کے علاوہ بار بار نہایت ہی اضطراب اور بیقراری میں خدا کے حضور گر گر کر عاجزی و تضرع سجدات میں بھی اور بیٹھے ، کھڑے یا چلتے پھرتے بھی دعاؤں اور التجاؤں ہی میں گزاری.جزع فزع یا شکوہ شکایت کی بجائے ہمت و استقلال اور تحمل و وقار ہمرکاب اور شامل حال نظر آتا تھا.اور نہ صرف خود سنبھلتے بلکہ اوروں کو بھی سنبھالتے تھے اور خاندان کی بیگمات، معصوم شہزادیوں اور بچوں کو پیار کرتے اور تسلیاں دیتے تھے.خاندان کے تمام اراکین حضور کی چار پائی کے سرہانے کی طرف کھڑے دعاؤں میں لگے ہوئے تھے.سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربه ☆ انجیکشن -

Page 420

سیرت المہدی 413 موجودہ خلیفہ لمسیح الثانی ، قبلہ حضرت نانا جان، قبلہ حضرت نواب صاحب اور شہزادے سبھی حضور کے گرد مختلف رنگ میں خدمات بجالاتے ، خدا سے دعائیں کرتے اور گڑ گڑاتے ہی نظر آتے تھے.سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضور پر ٹور کے دہن مبارک میں گلاب کیوڑہ یا شہد وغیرہ ڈالتے اور کہتے اے خدا میری عمر بھی ان کو دے دے، ان کو مدتوں تک زندہ سلامت رکھتا تیرے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.یہ اور اسی قسم کی مختلف دعا ئیں سیدہ طاہرہ يَا حَيُّ يَا قَيُّوم کے نام کے واسطہ سے ایسے دردناک اور پر سوز لہجہ میں کرتی تھیں جن کے اثر سے کلیجہ پھٹا جا تا تھا.اور بات برداشت سے باہر ہوئی جارہی تھی.حضرات صاحبزادگان والا تبار بھی اپنی جگہ اپنے رنج وغم اور در دوالم پر قابو پائے ، ضبط کئے ، بحالت کظم یا دالہی اور دعاؤں میں مصروف تھے اور ایسا معلوم دیتا تھا کہ ان کی نظریں اس دنیا سے نکل کر کسی دوسرے عالم کی طرف اٹھ رہی ہیں اور ان کے عزائم کسی پروگرام کی تیاری میں مصروف اور وہ اپنے خدا سے کوئی نئے عہد و پیماں باندھ رہے ہیں.دور کہیں صبح کی اذان ہوئی جس کی بالکل دھیمی سی آواز ہمارے کانوں نے محسوس کی اور ساتھ ہی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود انتہائی کمزوری وضعف اور باوجود شدت کرب خود دریافت فرمایا: کیا صبح ہوگئی یا اذان ہوگئی ؟" میں نے عرض کیا.حضور اذان ہوگئی.جس پر حضور پُر نور نے تمیم کی غرض سے ہاتھ بڑھائے.کوئی صاحب مٹی کی تلاش میں نکلے مگر حضور نے بستر کے کپڑے ہی پر ہاتھ مارکر تیم کیا اور پھر کافی دیر تک نماز ہی میں مصروف رہے.اگر چہ جس وقت سے حضور بیمار ہوئے اور میں حاضر خدمت ہوا.میرے کان آشنا ہیں.میرا دماغ محفوظ رکھتا ہے اور دل اس بات کے اظہار میں بے حد لذت محسوس کرتا ہے کہ بیماری کی تکلیف اور سختی کے اوقات میں بھی حضور کی زبان مبارک سے میں نے ”ہائے.وائے.میں مر گیا.یہ ہو گیا وہ ہو گیا“

Page 421

سیرت المہدی 414 کے نازیبا اور بے صبری کے الفاظ میں سے قطعا قطعا نہ صرف یہ کہ کوئی ایک لفظ بھی نہ سنا بلکہ کوئی ایسی خفیف سی حرکت بھی میں نے دیکھی، نہ محسوس کی.اور جو کچھ دیکھا، سنا ، یا محسوس کیا وہ سرتا پا نور اور کلیۂ نور علی نور، روح پرور ، ایمان افزا اور سبق آموز ہی تھا.شدت کرب اور انتہائی تکلیف کے اوقات میں بھی حضور متواتر مسلسل اور بلا وقفہ ذکر الہی اور یاد خدا میں رطب اللسان تھے اور نہایت ہی صبر کے ساتھ تسبیحی کلمات شکر بجا لاتے ہوئے ان تکالیف کو برداشت کرتے رہے.جزع فزع یا بے حوصلگی و گھبراہٹ کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی میں نے نہ دیکھی بلکہ پورے وقار اور رضا کا مقام حضور کو میسر تھا.وہ نور نبوت اور روحانی چمک جو شدت امراض یا مشکلات کے گھٹا ٹوپ اوقات میں بھی حضور کے چہرہ انور پر موجود رہا کرتی تھی اور جس کو میں نے حضور کی جبینِ مبارک سے کبھی جدا ہوتے نہ دیکھا تھا.آج بھی برا بر حضور کے رخسار اور جبین مبارک پر قائم وسلامت نظر آ رہی تھی اور حضور کی روشن و درخشاں پیشانی پر کسی بل یا شکن کا کوئی اثر بھی نہ تھا.حضور کو علم تھا کہ خدائی وعدوں اور الہی وحیوں کے پورا ہونے کے سامان ہورہے ہیں مگر باوجود اس کے نہ صرف یہ کہ حضور کو بے چینی و بیقراری یا اضطراب نہ تھا بلکہ حضور کو ایک اطمینان وسکون حاصل تھا.حضور کا دل وصال کی لذت میں اور زبان ذکر کے ترانوں میں مشغول یہی کہہ رہی تھی.”اے میرے خدا! اے میرے پیارے اللہ اور اے میرے پیارے اور پیارے کے پیارے خدا! سبحان الله ، الحمد لله ، یا حتی یا قیوم“ یہی ذکر تھا اور یہی ورد جس کی لذت وسرور میں حضور پر بیماری کی تکالیف اور اضطراب و کرب بیچ اور بے اثر تھے اور اگر چہ بتقاضائے بشریت حضور کے اعضاء طبعی اور اضطراری حرکات کر رہے تھے مگر حضور کا دل اپنے آقا کی یاد میں محو و مطمئن اور روح اس کے وصال کے لئے پرواز شوق میں مصروف تھی.حضور کے چہرہ مبارک پر اطمینان اور سکون کے ساتھ انوار الہیہ کے آثار نمایاں تھے.خاندان نبوت کے علاوہ اور بھی بہت سے دوست حضور کی علالت کی خبر پا کر جمع ہو رہے تھے.چار پائی کے گرد ایک ہجوم حلقہ باندھے کھڑا دعاؤں میں مصروف قدرت الہی اور بے نیازی کا رنگ دیکھ رہا تھا.اس بڑھتے ہوئے ہجوم کو انتظام و ترتیب میں لا کر سبھی خدام کو خدمت وقربت کا موقعہ بہم پہنچانے کی غرض سے پہرہ کا انتظام کیا گیا.اور باری باری چند چند دوستوں کو موقعہ زیارت اور شرف خدمت

Page 422

سیرت المہدی 415 دیا جا تا تھا.سورج نکل کر بلند ہو چکا تھا.دھوپ میں شدت اور تیزی پیدا ہو چکی تھی.قریباً 9 بجے کا وقت ہو گا کہ حضور کی بڑھتی ہوئی کمزوری اور حالت کی نزاکت کے مدنظر پوچھا گیا.جس پر ہمارے آقاء نامدار فداہ روحی نے کچھ اشارہ کیا جسے سمجھ کر قلم دوات اور کاغذ حضرت کے حضور پیش ہوا اور حضور نے کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر ضعف و نقاہت کا یہ عالم تھا کہ بہت تھوڑ الکھا جا سکا.اور قلم حضور کا پھسل گیا.حضور نے قلم اور کاغذ چھوڑ دیا.جس کے پڑھنے کی کوشش کی گئی مگر نا کام.آخر مگر می میر مہدی حسین صاحب کو دیا گیا کیونکہ ان کو حضرت کے دست مبارک کی تحریر کے پڑھنے کی زیادہ اور تازہ مشق تھی.چنانچہ میر صاحب محترم نے جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا.تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی.دوائی پلائی جائے.“ اور وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات پر اس طرح یقین ہے جس طرح آیات قرآنی پر.کہ بالکل یہی الفاظ حضور نے تحریر فرمائے تھے مگر انجام کار چونکہ میری یاد میں اس کاغذ کا محترم حضرت پیر جی منظور محمد صاحب کے پاس پہنچنا تھا لہذا میں اس مرحلہ پر صاحب ممدوح کی خدمت میں حاضر ہوا تا اس مقدس دستاویز کے متعلق معلوم کروں.تو حضرت پیر صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ یہ تھا کہ تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی حلق بزرگوں کا اتفاق ہے علاج کیا جائے.پہلا حصہ جس پر دونوں تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی.بہر حال مسلّم ہے اور مجھے بھی پوری طرح سے یہی یاد ہے.اگلے حصہ کے متعلق میری یاد یہی تھی کہ وہ قیاسی تھا.ایک حنائی رنگ کے کاغذ پر حضور نے حسب عادت اسے تہ کر کے صرف دو چھوٹی چھوٹی سطر میں لکھیں.یہ کاغذ حضرت کے ہاتھ سے ڈاکٹر نور محمد صاحب نے لیا اور وہی اس حالت میں سب سے پیش پیش تھے اور انہی کے بار بار کے تقاضا و اصرار پر حضرت نے کاغذ پر کچھ لکھا تھا.پہلے خود ڈاکٹر صاحب نے پڑھنے کی کوشش کی.ان سے اور وں نے لیا اور پڑھنے کی کوشش کی مگر جب دیکھا کہ کسی سے بھی پوری تحریر حضور کی پڑھی نہیں گئی تو مکرمی میر مہدی حسین صاحب کو دے کر پڑھوانے کی کوشش کی کیونکہ وہ حضرت کی طرز تحریر

Page 423

سیرت المہدی 416 سے زیادہ واقف سمجھے گئے کچھ انہوں نے پڑھا اور آخر کار وہ دستاویز جو حضور پرنور کی آخری دستی تحریر تھی.قبلہ حضرت پیر جی منظور محمد صاحب مصنف و موجد قاعده سیسرنا القرآن کے ہاتھ آئی اور چونکہ وہ بھی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کے پڑھنے کا خاص ملکہ ومہارت رکھتے تھے ، انہوں نے پڑھا اور جو کچھ انہوں نے پڑھا وہ بھی اوپر درج کیا گیا ہے.مجھے یاد تھا کہ وہ کاغذ مبارک حضرت پیر صاحب موصوف ہی کے پاس ہے چنانچہ میں اسی خیال سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ کاغذ حاصل کر کے اس کا عکس اتر والوں مگر صاحب ممدوح نے بتایا کہ وہ کاغذ مبارک پانچ ماہ تک میرے پاس رہا اس کے بعد سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے منگالیا تھا.اب انہی کے پاس ہوگا.ڈاکٹر صاحبان نے اس مرحلہ پر ایک اور انجکشن کرنے کا فیصلہ کیا جو اسی طرح چھاتی کے بائیں جانب دل کی حرکت ظاہر کرنے والے مقام کے اوپر ہوا جس کے ساتھ گرم پانی میں ملا ہوا نمک بھی استعمال کیا گیا حضور نے بالکل اطمینان سے یہ انجکشن کرا لیا.کوئی گھبراہٹ ، درد یا اضطراب ظاہر نہیں ہوا.اس وقت بھی حاضرین نے ڈاکٹروں کے اس عمل کو نا پسند کیا کہ کیوں حضور کو اس حال میں تکلیف دیتے ہیں مگر کوئی افاقہ نہ ہوا.اور بجائے فائدہ و آرام ہونے یا طاقت وقوت آنے کے حضور کی کمزوری بڑھتی گئی اور نقاہت غلبہ ہی پاتی گئی.سید نا حضرت نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حسب عادت سر ڈالے ایک طرف بیٹھے دعائیں کر رہے تھے اس موقعہ پر اٹھ کر خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کی ایک تنہا کوٹھڑی میں کھٹولے پر جا بیٹھے.حضرت پیر جی منظور محمد صاحب بھی حضرت کے پیچھے ہی پیچھے گئے اور حضرت کی طبیعت کے متعلق سوال کیا جس پر حضرت نور الدین نے جو فرمایا وہ یہ تھا کہ ایسی بیماری کے مریض کو میں نے تو بچے کبھی نہیں دیکھا“ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت لحظه بلحظہ زیادہ کمزور ، زیادہ نازک اور نڈھال ہوتی جا رہی تھی.خاندان نبوت کے مرد و زن چھوٹے بڑے سبھی جمع تھے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ کے واسطے دے دے کر دعا، تضرع اور ابتہال میں مشغول تھے.سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے قرار ہو ہو کر پکار رہی تھیں.اے میرے خدا! اے ہمارے پیارے اللہ ! یہ تو ہمیں چھوڑے

Page 424

سیرت المہدی جاتے ہیں پر تو ہمیں نہ چھوڑ یو “ 417 سیدنا صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ ربہ ، ہمارے موجودہ امیر المومنین حضرت خلیفة المسح الثانی آنکھیں بند کئے ایک عزم مقبلا نہ لئے يَا حَيُّ يَا قَيُّومٍ.يَا حَيُّ يَا قَيُّومٍ کہ کہ کر ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی ذات والا صفات سے دعاء والتجاء اور راز و نیاز میں مصروف تھے.اور یہ تو وہ بعض الفاظ ہیں جو ہمارے کانوں میں پڑ گئے اور یاد بھی رہ گئے ورنہ خاندان کے سارے ہی اراکین بڑے بوڑھے ، بیگمات اور شہزادے شہزادیاں اپنی اپنی جگہ بڑے ہی الحاح اور عجز وانکسار سے ذکر الہی ، یاد خدا اور دعا والتجاء میں مصروف تھے.تسبیح و تہلیل اور ذکر واذکار کی ایک گونج تھی جس سے جو بھرا معلوم دیتا اور فضا گونج رہی تھی.ان مقدسین کے دل و دماغ میں کیا عزائم کیا ارادے یا کیا کیا پاک خیالات تھے اور ان میں سے ہر ایک اپنے خدا سے کس کس رنگ میں راز و نیاز اور قول و قرار باندھنے میں مصروف تھا.کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا وہ خود ہی بیان کریں تو علم ہو یا پھر ان کا خدا اظہار کرے تو پتہ چلے ورنہ ہم لوگ تو ان عزائم و خیالات کی گرد کو بھی پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتے.لاریب ان کے چہرے ان کے عزائم اور ارادوں کے آئینہ دار تھے مگران کا پڑھنا یا سمجھنا ہرکسی کا کام نہ تھا.خدام بھی پروانوں کی طرح اس نور الہی اور شمع ہدایت کے گرد جمع تھے اور ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں مصروف دعا الہی جبروت اور شان بے نیازی کو دیکھ رہا تھا.حالت حضور کی اس مرحلہ پر پہنچ چکی تھی کہ خواتین مبارکہ اور صاحبزادگان والا تبار کے علاوہ خدام و غلاموں کی نظریں حضور کے چہرہ مبارک پر ہی گڑ رہی تھیں.محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حافظ فضل احمد صاحب حالت کی نزاکت محسوس کر کے خود بخود حضرت اقدس کی چار پائی کے پاس بیٹھے سورہ یس پڑھتے رہے.حضور کے قلب مبارک کی حرکت جو کرب کی وجہ سے پہلے تیز بھی ہلکی پڑنے لگی مگر تنفس میں سُرعت اور بے قاعدگی شروع ہوگئی اور ساتھ ہی لب ہائے مبارک کی جنبش جس سے ہم اندازہ کرتے تھے کہ حضور پر نور اس حال میں بھی ذکر الہی

Page 425

سیرت المہدی 418 میں مصروف ہیں، میں بھی وقفے ہونے لگے.اور ہوتے ہوتے بالکل بے ساختہ اور نہایت ہی بے بسی کے عالم میں میرے مونہ سے کسی قدر اونچے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ نکل گیا کیونکہ میں نے حضور کے آخری سانس کی حرکت کو بند ہوتے محسوس کر لیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف سے اس مصیبت عظیمہ پر رضاء و تسلیم کے اظہار کے طور پر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کی درد بھری ندا بلند ہوگئی.اس وقت کم و بیش پچاس ساٹھ خدام اور خاندان نبوت کے اراکین و خواتین مبارکہ حضور پرنور کے پلنگ کے گرد جمع ہوں گے.حضور کی روح اطہر تو اس قفس عنصری سے پرواز کر کے واصل بحق ہو کر اپنے محبوب حقیقی سے جاملی اور اس طرح جلد آ پیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے اپنے مقصد اصلی کو پا کر ابدی حیات بھی راحت اور مقام رضا ومحمود پر سب سے اونچے بچھائے گئے تخت پر جا متمکن ہوئی مگر حضور کے غلام بحالت یتم بالکل اس شیر خوار بچے کی مانند بلبلاتے اور سسکیاں لیتے نہایت ہی قابل رحم حالت میں رہ گئے جو بالکل چھوٹی عمر میں مہر مادری سے محروم کر دیا گیا ہو اور نقشہ اس وقت کا اس کی کچی کیفیت کے ساتھ الہی کلام اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی“ کے بالکل مطابق تھا.منگل کا دن ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ ہجری المقدس دس اور ساڑھے دس بجے دن کے درمیان کا وقت اس سانحہ ارتحال اور محبوب الہی کے وصال کی اطلاع آن واحد میں جہاں شہر بھر میں پھیل گئی وہاں خبر رساں ایجنسیوں، پرائیویٹ خطوط ، اخباروں اور تاروں بلکہ ریل گاڑی کے مسافروں کے ذریعہ ہندوستان کے کونہ کونہ بلکہ اکناف عالم میں بجلی کی کوند کی طرح پھیل گئی اور اس اچانک حادثہ کی وجہ سے بعض ایسے مقامات کے احمدیوں نے تو اس اطلاع کو معاندانہ پراپیگنڈا یا جھوٹ و افتراء کے خیال سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو دور دراز اور علیحدہ تھے.حضور پر نور کا وصال کوئی معمولی حادثہ نہ تھا بلکہ موت عالم کا ایک نقشہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض برگزیدہ بندے دنیا و مافیھا کو اپنے اندر لئے ہوتے ہیں اور ان کا وجود حقیقۂ سارے عالم کا مجموعہ ہوتا ہے.مَنْ أَحْيَاهَا فَكَا نَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا

Page 426

سیرت المہدی 419 قول خداوندی بھی اسی حقیقت کی تفسیر ہے.دنیا ہماری آنکھوں میں اندھیر تھی اور زمین باوجود اپنی فراخی و کشائش کے ہم پر تنگ تھی اور گویا رنج و غم کے پہاڑ تلے دب جانے کے باعث ہم لوگ پاگل اور مجنون ہورہے تھے اور کچھ سوجھتا تھا نہ حواس ٹھکانے تھے کیونکہ آج وہ مقدس وجود جس نے آ کر خدا دکھایا، رسول منوائے اور نور ایمان دلوایا اچانک یوں ہم میں سے اٹھا لیا گیا کہ خدا کے بعض وعدوں کے باقی ہونے کے خیال سے بے وقت اٹھایا جانا سمجھا گیا.اور وہ وجود مقدس جس کا نام خود خدا نے جرى الله في حلل الانبياء یعنی پہلوان حضرت رب جلیل برمیاں بستہ زشوکت خنجرے جامع کمالات انبیاء سابقین رکھ کر نہ صرف اسے ایک عالم کا مجموعہ قرار دیا تھا بلکہ اسے مظہر صفات کل انبیاء ہونے کی وجہ سے عالمین کے فضائل و برکات اور خصائص وحسنات کا حامل و عامل ہونے کی عزت و شرف سے سرفراز فرمایا تھا.وہ ہم سے جدا ہو گیا وائے بر مصیبتا_فانا لله وانا اليه راجعون سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس صبر اور رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا اور جس طرح خاندان بھر کی دردمند اور رنجور و غمزدہ بیگمات کو سنبھال کر انہیں ڈھارس دی.سیدہ طاہرہ کا وہ نمونہ مردوں کے لئے بھی مشعل راہ بنا.سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جس عزم و استقلال سے اس مصیبت کے پہاڑ کو برداشت کیا اور مقام شکر پر نہ صرف خود قائم رہے بلکہ جماعت کے قیام کا بھی موجب بنے وہ آپ کی اولوالعزمی اور کوہ وقاری کی ایک زندہ اور بے نظیر مثال تھی اور نہ صرف یہی بلکہ خاندان نبوت کے ہر رکن کا نمونہ خدا کے برگزیدہ نبی کی صداقت کا ایک معیار نظر آ رہا تھا.اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بے نظیر قوت قدسی.اعلیٰ روحانی تربیت اور کامل تعلق باللہ کا ہر فرد خاندان ایسا شاہد ناطق اور گواہ عادل ثابت ہو رہا تھا کہ بجز کاملین اور خدا کے خاص برگزیدہ بندوں کے اس

Page 427

سیرت المہدی 420 کی مثال محال ہے.میں حضرت مولوی صاحب مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دینے کی غرض سے خواجہ صاحب کے مکان کی اس کو ٹھڑی میں پہنچا جہاں ابھی ابھی حضرت ممدوح سید نا حضرت اقدس کی حالت نزع کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلے گئے تھے اور تنہائی میں سر نیچے ڈالے دعاؤں میں مصروف تھے.میں نے روتے ہوئے سانحہ ارتحال کی اطلاع دی تو فرمایا: تمہیں اب معلوم ہوا ؟ مگر میں تو رات ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کیونکہ اس مرتبہ جتنا سخت حملہ حضور کو اس مرض کا ہوا اس سے قبل میں نے اتنا سخت حملہ کبھی نہ دیکھا تھا.“ اور فوراً اٹھ کر تشریف لے آئے.جبین مبارک پر بوسہ دیا.لوگوں کو روتے دھوتے اور غم میں نڈھال دیکھ کر نصیحت فرمائی.صبر کی تلقین کی.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی اور دوستوں کی طرح مضطرب و بیقرار زارو نزار تھے.حضرت مولوی صاحب کی نصیحت سے سنبھلے اور بے ساختہ جوش میں بول اٹھے.انت الصديق.انت الصديق.انت الصديق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ ہی اہل اور احق ہیں کہ جس طرح آنحضرت لے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خدمت کا مقام اور مسلمانوں کی سیادت عطا فرمائی تھی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رفع الی اللہ کے بعد آپ صدیق اکبر ہو کر جماعت کو سنبھالیں اور حضرت اقدس کے کام کی باگ ڈور تھا میں.وغیرہ.گوحضرت مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اس قسم کی باتوں سے روک دیا.مگر باوجود اس کے اس وقت سے ہر کام میں آپ کی اجازت اور مرضی لی جانے لگی اور آپ ہی کے زیر ہدایت ضروری امور انجام پذیر ہونے لگے.سید نا حضرت اقدس کی بیماری کی خبر جہاں احمدی احباب کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے ملتی گئی اور جہاں حضور کے غلام اور فرشتہ سیرت لوگ تکلیف کی اطلاع پا پا کر عیادت اور خدمت کو جمع ہو رہے تھے اور دوائی درمن کے علاوہ دعاؤں میں لگے ہوئے تھے وہاں شیاطین اور ان کے چیلے چانٹوں کے کان میں بھی حضور پر نور کی علالت کی اطلاعات پہنچ گئی تھیں اور حضرت کے خدام اور غلاموں کی دوڑ دھوپ کے باعث وہ لوگ حالت کی نزاکت کو بھانپ کر کثیر تعداد میں جمع ہو کرہا.ہو کے شور وشر.گالی گلوچ اور گندی بکواس میں

Page 428

سیرت المہدی 421 مصروف تھے.وصال کی خبر پاتے ہی ان بد بخت.ننگ انسانیت غنڈوں نے جس غنڈہ پن کا مظاہرہ کیا اور جس طرح مکان پر حملہ آور ہوئے وہ خونخوار درندوں اور جنگلی بھیڑیوں کے حملہ سے کم نہ تھا.کمینگی.بزدلی.اور پست فطرتی کا جو مظاہرہ لاہور کی اس سیاہ دل ٹولی نے کیا اس کی نظیر شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھی سنی ہوگی.ایسے ایسے سوانگ بھرے کہ ان کے ذکر سے کلیجہ مونہہ کو آتا ہے.ایسے ایسے آوازے کسے کہ ان کے خیال سے بھی دل خون ہوتا ہے.جنازہ نکالا.سیاپا کیا اور اپنے جنازے کا اپنے ہاتھوں مونہہ کالا کر کے ایسی حرکات کیں اور وہ اودھم مچایا کہ الامان والحفیظ ! قصہ کوتاہ وہ دن ہم پر یوم احزاب سے کم نہ تھا خطرہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ حملہ آوروں سے مکان کے اندر داخل ہو کر بے حرمتی کرنے کا خوف پیدا ہو گیا.چنانچہ دوستوں نے مشورہ کے بعد حضرت مولوی صاحب کی اجازت سے پولیس کی امداد طلب کی جس نے موقعہ پر پہنچ کر ڈنڈے سے ان غنڈوں کو منتشر کیا.جب جا کر یہ غول بیابانی کچھ گھٹا اور کم ہواور نہ وہ ہر لحظہ بڑھتا ہی جارہا تھا مگر باوجود پولیس کے انتظام کے ایک حصہ دشمنوں کا لب سڑک کھڑا گالیاں دیتا، بکواس کرتا ہی رہا.اصحاب حل عقد نے حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے تقسیم عمل کر کے دوستوں کی ڈیوٹیاں لگا دیں تا کہ ضروری کام خوش اسلوبی اور تیزی سے انجام پذیر ہوسکیں اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ شام کی گاڑی سے جنازہ قادیان کے لئے روانہ ہو گا.چنانچہ جماعتوں کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کی اطلاعات کے خطوط اور تاروں کی ترسیل کا کام محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب انچارج ڈاک سیدنا حضرت اقدس کے سپر د ہوا لغش مبارک کو ریل گاڑی کے ذریعہ بٹالہ لانے کے لئے حسب قاعدہ ریلوے طبی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت تھی کیونکہ بعض امراض سے فوت ہونے والوں کے متعلق ریلوے کا قانون ان کی لاش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی اجازت نہیں دیتا اور چونکہ ڈاکٹر صاحبان رات ہی سے حضور کے علاج کے متعلق سول سرجن اور بعض دوسرے بڑے بڑے انگریز ڈاکٹروں سے مشورے کرتے چلے آرہے تھے لہذا مطلوبہ سرٹیفیکیٹ کے حصول میں کوئی دقت نہ ہوئی.گو سننے میں آیا تھا کہ دشمنوں نے اس مرحلہ پر بھی بڑی شرارت کی تھی تا کہ جنازہ قادیان نہ جاسکے اور لاش کی بے حرمتی ہوتی دیکھ کر وہ خوش ہوں.یہ خدمت ڈاکٹر

Page 429

سیرت المہدی 422 مرزا یعقوب بیگ وڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبان کے ذمے لگائی گئی.غسل اور تجہیز و تکفین کی ڈیوٹی ڈاکٹر نور محمد صاحب اور محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی کو ملی.خاندان نبوت کے اراکین اور قافلہ کے سفر کی تیاری اور رخت سفر کا انتظام مجھے غلام اور حضرت میاں شادی خان صاحب مرحوم کے حصے آیا.علیٰ ہذا مال گاڑی کا ڈبہ اور ٹیشن پر کے انتظامات ریلوے کے بعض ان دوستوں کے سپرد ہوئے جن کا تعلق ریلوے سے تھا.اس طرح تقسیم عمل سے کام جہاں بطریق احسن انجام پذیر ہوئے وہاں جلدی بھی ہو گئے.سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش مبارک کے غسل میں حسب ذیل دوست شریک تھے.ڈاکٹر نورمحمد صاحب.حکیم محمد حسین صاحب قریشی.میاں شادی خان صاحب مرحوم.میر مہدی حسین صاحب اور خاکسار راقم الحروف عبدالرحمن قادیانی غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر جنازہ اندرونی سیڑھیوں کے راستہ اس مکان کے نچلے حصہ میں لے جایا گیا جہاں حاجی الحرمین حضرت مولوی نورالدین صاحب نے موجود الوقت دوستوں سمیت نماز جنازہ ادا کی.اس وقت بھی اس قدر ہجوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے مکان کا نچلا حصہ اندر باہر بالکل بھر گیا تھا بلکہ ایک حصہ دوستوں کا کوچہ میں کھڑا تھا.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بعض شریف غیر احمدی لوگ بھی نماز جنازہ میں شریک تھے.چنانچہ خلیفہ رجب دین صاحب کا یہ اعلان کہ و لوگو! حضرت کا چہرہ مبارک دیکھ کر تسلی کر لو.کیسا نورانی.کتنا روشن اور کس قدر پاک صورت ہے.جن کو شبہ ہو وہ اپنا شک ابھی نکال لیں.پیچھے باتیں بنانا فضول ہوگا.“ وغیرہ.اور درحقیقت اس اعلان کی ضرورت اشرار کی بد زبانی.الزام تراشی اور بعض بیہودہ بکواس کی وجہ سے پیش آئی.چنانچہ اس طرح دیر تک اپنے بھی اور پرائے بھی حضور کے چہرہ انور کی زیارت کرتے رہے.اپنے تو خیر پرائے بھی چہرہ اقدس کی زیارت کر کے بے ساختہ سبحان اللہ.ماشاء اللہ پکار اٹھتے تھے.نماز جنازہ حضرت پر کئی بار لا ہور میں پڑھی گئی.جوں جوں لوگ آتے رہے چند چندمل کر نماز جنازہ پڑھتے اور زیارت سے مشرف ہوتے رہے.بعض ہندو شرفاء بھی حضرت کے آخری درشن کو آئے اور مہا پرش.دیوتا.مہا تھا اور اوتار وغیرہ کے الفاظ بآواز بلند کہتے ہوئے نذرا خلاص و عقیدت کے پھول چڑھا گئے.مکرم میاں مدد خان صاحب اور ایک دو اور دوستوں کی ڈیوٹی وہاں لگائی گئی تھی.جب سب انتظام درست ہو گئے تو حضور

Page 430

سیرت المہدی 423 کی نعش مبارک کو شٹیشن پر لے جانے کی تیاری ہوئی.نماز ظہر وعصر دونوں جمع کی جا چکی تھیں.اس موقعہ پر پھر مخالف لوگ کثرت سے جمع ہو گئے اور سب وشتم کرنے لگے جس کی وجہ سے جنازہ لے کر نکلنا سخت مشکل تھا.کیونکہ مشتعل ومفسد ہجوم سے یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھا کہ مبادا جنازہ پر حملہ کر کے بے حرمتی کا ارتکاب کریں اور یہ خطرہ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ مجبوراً پولیس کی مدد حاصل کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں آخر ایک انگریز پولیس افسر معہ خاصی تعداد کنسٹیبلان نے آ کر پھر ان لوگوں کو منتشر کیا اور ساتھ ہوکر جنازہ سٹیشن پر پہنچایا جہاں ایک متعصب ہند و با بوگیٹ کیپر کی شرارت کی وجہ سے جنازہ تھوڑی دیر کار ہا مگر ایک کالے عیسائی نے آکر اس با بوکوڈانٹ ڈپٹ کی اور جنازہ کو احترام کے ساتھ اندر لے جانے میں مدد کی.اس طرح سٹیشن پر تھوڑی دیر جنازہ اقدس کے رکے رہنے کی وجہ سے بھی بہتوں کا بھلا ہو گیا اور کئی لوگ زیارت سے مشرف ہوئے جن میں احمدیوں کے علاوہ ہند و شرفاء بھی تھے اور غیر احمدی بھی.جنازہ تابوت میں رکھ کر مخصوص گاڑی میں رکھا گیا جس کے ساتھ چند دوست سوار تھے مگر افسوس کہ ان کے نام نامی مجھے یاد نہیں.باقی خاندان نبوت کے اراکین اور خدام و مہمان مختلف گاڑیوں میں سوار تھے.گاڑی لاہور سے چھ بجے شام کے قریب چلی امرتسر کے بعض احمدی دوست بھی امرتسر سے ہمرکاب ہو گئے اور امرتسر سے چل کر دس بجے کے قریب گاڑی بٹالہ ٹیشن پر پہنچی جہاں گاڑی کے پہنچنے سے قبل بہت سے دوست بٹالہ، قادیان اور مضافات کے موجود تھے.لاہور سے بٹالہ تک احمدی احباب میں پیش آمدہ حالات ہی کا تذکرہ ہوتا چلا آیا الگ الگ بھی اور مل مل کر بھی.دوستوں نے جماعت کے مستقبل کے متعلق ذکر اذکار جاری رکھے حتی کہ خلافت کے انتخاب کا معاملہ بھی ایک طرح سے گاڑی ہی میں حل ہو گیا تھا اور جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے مجھے یاد نہیں کہ اس بارہ میں موجود احباب میں کوئی اختلاف ہوا ہو.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد اطہر ایک لکڑی کے تابوت میں تھا جس کے اندر کافی تعداد برف کی بھری تھی اور وہ پگھل پگھل کر پانی کے قطروں کی شکل میں تابوت میں سے گرتی تھی سید احمد نور صاحب کا بلی جو قادیان سے بٹالہ پہنچے تھے، وفور محبت میں بے تاب گاڑی کے اندرہی تابوت سے جا لیٹے اور یہاں تک بڑھے کہ تابوت سے گرنے والے قطرات ہاتھ میں لے لے کر پیتے رہے.

Page 431

سیرت المہدی 424 تابوت کچھ دیر بعد گاڑی سے اتار کر پلیٹ فارم پر رکھ لیا گیا جس کے گرد حلقہ بگوش خدام نے محبت وعقیدت کا حلقہ بنایا اور پہرہ دیتے رہے.خاندان نبوت کی خواتین مبارکہ معصوم بچیاں اور بچے ،شہزادے اور شہزادیاں بھی سب کے سب مردوں سے ذرا ہٹ کر اسی پلیٹ فارم کے ناہموار فرش پر جس کے کنکر پتھر کسی پہلو بھی چین نہ لینے دیتے تھے.کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے اور ہم غلاموں نے جہاں پہرہ اور نگرانی کی خدمات ادا کیں وہاں سامان کی درستی اور یکے گاڑیوں پر بار کرنے کا کام بھی ساتھ ہی ساتھ کر لیا اور اس طرح قریباً تین بجے ستائیس مئی کی صبح کو یہ غمزدہ قافلہ کچھ آگے پیچھے ہو کر خدا کے برگزیدہ نبی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تابوت کے ہمرکاب پورے ایک ماہ کی جدائی اور داغ ہجرت کے صدمات لئے قادیان کو روانہ ہوا.ستائیس اپریل ۱۹۰۸ء کو قادیان سے رخصت ہو کر پھر ستائیس مئی ۱۹۰۸ء کی صبح ہی کو قادیان پہنچا اور اس طرح خدا کے مونہہ کی وہ بات کہ ستائیس کو ( ہمارے متعلق ایک واقعہ.اَللهُ خَيْرٌ وابقی پوری ہو کر رہی.66 جسد مبارک کو تابوت سے نکال کر چار پائی پر رکھا گیا اور اس کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ کر اٹھانے والوں کے لئے زیادہ گنجائش نکال لی گئی اور اس طرح حضور کا جنازہ اپنے غلاموں کے کندھوں ہی کندھوں پر بآسانی و جلد تر دارالامان پہنچ گیا.بٹالہ سے روانگی کے وقت بھی تقسیم عمل کر کے احباب کی ڈیوٹیاں مختلف شعبہ جات میں تقسیم کر دی گئی تھیں.قادیان اور مضافات سے آنے والے خدام اور بعض لا ہور، امرتسر و بٹالہ کے دوست اور مہمان حضرت اقدس کے جنازہ کے ہمرکاب تھے.پیدل بھی اور سوار بھی.قادیان کے بعض دوست بٹالہ اور دیوانی وال کے تکیہ کے درمیان آن ملے اور پھر یہ سلسلہ برابر قادیان تک جاری رہا.پیشوائی کو آنے والے آ آ کر شامل ہوتے گئے اور اس طرح جہاں ہجوم بڑھتا گیا، رفتار ہلکی پڑتی گئی.مولوی محمد علی صاحب ایم اے بھی معہ چند اور دوستوں کے سنا تھا کہ نہر اور سوئے کے درمیان بے اختیار دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے ملے تھے.بعض دوستوں کی ڈیوٹی سامان کے گڑوں کے ساتھ لگائی گئی جو سامان کو لے کر قادیان کو روانہ ہوئے.میری ڈیوٹی سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ

Page 432

سیرت المہدی 425 مخلصین تعالیٰ عنہا کے ہمرکاب تھی جو اپنی رتھ میں معہ بیگمات سوار تھیں اور چونکہ ابھی اندھیرا تھا.لہذا چند اور خل بھی ہمرکاب تھے.سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد سلمہ ر بہ ہمارے موجودہ خلیفتہ اسیح بھی معہ دوسرے عزیزوں کے اجالا ہو جانے تک سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سواری کے ہمرکاب رہے.اس قافلہ نے نماز صبح پو پھٹتے ہی اول وقت میں اس جگہ لب سڑک ادا کی جہاں اے ایل اوای ہائی سکول کی ایک گراؤنڈ واقع ہے اور بیرنگ ہائی سکول اس جگہ سے قریباً ایک فرلانگ جانب شرق آتا ہے.امام الصلوۃ اس مختصر سے قافلہ کے سیدنا حضرت صاحبزادہ والا تبار مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ تھے.سورۃ ق حضرت ممدوح نے اس نماز میں پڑھی.یہ نماز اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے ان چند خاص نمازوں کے شمار میں آتی ہے جو اس سے قبل مجھے اس بارہ تیرہ سالہ قیام دارالامان میں کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے خاص ہی فضل کے ماتحت خدا کے نبی و رسول سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اقتداء میں نصیب ہوئیں یا پھر کسی خاص ہی موقعہ پر اللہ کریم نے حضور و سرور عطا فرما کر نوازا.سچ سچ ہماری یہ نماز صحیح معنوں میں ایک معراج تھا.جس میں شرف حضوری بخشا گیا.رفت وسوز کا یہ عالم تھا کہ روح پکھل کر آستانہ الوہیت پہ بہنے لگی اور دل نرم ہو کر پارہ بنا جارہا تھا.آتش محبت میں ایسی تیزی اور حدت پیدا ہوئی کہ ماسوا اللہ کے خیالات جل کر راکھ ہو گئے اور وحدت ذاتی نے یوں اپنی چادر توحید میں لپیٹ لیا کہ ہمارا کچھ بھی باقی نہ رہا اور ہم اپنے خدا میں فنا ہو گئے.یہ سب کچھ اس مقدس ہستی کی تقدیس اور پاک خیالات سے لبریز روحانی لہروں کا اثر تھا جو اس پاک نفس ہستی کے قلب صافی سے نکل کر اثر انداز ہو رہی تھیں اور جن سے سارے ہی مقتدین علی قدر مراتب متاثر ہو رہے تھے.جس کو خدائے علیم وخبیر نے ایک عرصہ پہلے نور آتا ہے نور کا مصداق قرار دے کر غفلت و گناہ کے اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا کر نوازا.قراءت میں آپ کا درد بھرا لہجہ حن داؤدی بن کر پتھر کو موم اور نار کو گلزار بنارہا تھا.جس کی نہ مٹنے والی لذت وسرور آج اکتیں بنتیس برس بعد بھی میں ویسے ہی محسوس کر رہا ہوں جیسے اس روز.مجھے اس بات کا تو اندیشہ نہیں کہ نعوذ باللہ میں کسی غلو یا مبالغہ آمیزی سے کام لے کر بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں بلکہ اندیشہ ہے تو یہ کہ مبادا اپنی کمزوری بیان و تحریر کی وجہ سے اصل حقیقت کے اظہار سے قاصر رہ جانے کے باعث حق پوشی کا مجرم

Page 433

سیرت المہدی 426 نہ بن جاؤں.اور حق بھی یہی ہے کہ مجھے یہی خطرہ بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ میں اس روحانی لذت وسرور کی صحیح تصویر دکھانے سے عاجز اور ان تاثرات کے اظہار سے عاری ہوں جو مجھے اس نماز میں نصیب ہوئے اور آج تک میں برابران اثرات کو محسوس کرتا.ان کی مہک اور خوشبو سونگھتا اور لذت اٹھاتا چلا آ رہا ہوں.میں حضرت ممدوح کو بچپنے سے جبکہ آپ کی عمر چھ سات برس کی تھی دیکھتا چلا آیا تھا بلکہ مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے اس مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالعُلی اور ظلِ خدا ہستی کو گودیوں کھلانے کی عزت سے ممتاز اورسعادت سے سرفراز فرمایا اور اس طرح میں نے جہاں آپ کا بچپنا دیکھا.بچپنے کے کھیل واشغال اور عادات واطوار دیکھے وہاں الحمد للہ کہ میں نے حضور کی جوانی بھی دیکھی.سفر میں بھی اور حضر میں بھی.خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی اور ساتھ ہی ساتھ اس کے آپ کے اخلاق فاضلہ پاک ارادے اور عزائم استوار، آپ کے اذکار و افکار، لیل و نہار اور حال وقال بھی دیکھنے کا مجھے موقعہ ملا تھا اور ان مشاہدات کے نتیجہ میں میں اس یقین پر تھا کہ واقعی یہ انسان اپنے کاموں میں اولوالعزم اور راہ ہدایت کا شہسوار ہے مگر کل اور پھر آج جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس سے میں نے اندازہ کیا کہ اس شخصیت کے متعلق میرا علم و عرفان بالکل ابتدائی بلکہ ناقص تھا، ایسا کہ میں نے اس عظیم الشان ہستی کے مقام عالی کو شناخت ہی نہ کیا تھا.میرے علم میں ترقی ہوئی، ایمان بڑھا اور عرفان میرا بلند سے بلند ہوتا چلا گیا حتی کہ میں نے اپنی باطنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا کہ اس صاحب شکوہ اور عظمت و دولت ہستی کو ایسی طاقتیں اور قومی ودیعت کئے گئے ہیں کہ اگر ساری دنیا اپنے پورے سامانوں کے ساتھ بھی کبھی اس کے مقابل میں کھڑی ہو کر اس کے عزائم میں حائل اور ترقی میں روک بننا چاہے گی تو مخذول و مردود ہی رہے گی اور یہ جلد جلد بڑھتا جائے گا کیونکہ خدا نے خود اس کو اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.اس میں اپنی روح ڈالی اور اس کے سر پر اپنا سایہ کیا ہے.لہذا دنیا کے بلند و بالا پہاڑ اپنی بلند ترین اور نا قابل عبور چوٹیوں اور اتھاہ گہری غاروں کے باوجود اس کے عزائم میں حائل ہونے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی خشک و تر مواج سمند را اپنی بھیا نک اور ڈراؤنی طوفانی لہروں اور ریت کے خشک بے آب و گیاہ ویرانے اور سنسان نا قابل گز رٹیلوں کے باوجود اس کی مقدر ترقیات کو روک سکتے ہیں کیونکہ یہ ازل سے مقدر تھا کہ اس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی

Page 434

سیرت المہدی 427 کے ظہور کا موجب ہوگا.وہ کلمۃ اللہ ہے.وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ میں اپنے ذوق اور قلبی کیفیات کے جوش میں اصل مضمون سے دور نکل گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ایک ایسی شہادت تھی جو موقعہ محل کے لحاظ سے اسی جگہ ادا کرنی میرے ذمہ تھی.زندگی کا اعتبار نہیں.موت کا پتہ نہیں.حسن اتفاق اور اک فرشته رحمت و برکت سید نا قمر الانبیاء کی تحریک سے یہ موقعہ میسر آ گیا کہ سلسلہ کی وہ بعض امانتیں جو قضاء قدر نے میرے دل و دماغ کے سپرد کر رکھی تھیں ان کی ادائیگی کی توفیق رفیق ہوگئی اور نہ ایک طویل بیماری اور لمبی علالت نے میرے جسم کے رگ و پے کو اس طرح مضمحل، کمزور اور سست کر دیا ہے کہ میں ایک تو وہ خاک بن کر رہ گیا ہوں جس کی وجہ سے میں کچھ لکھنے کے قابل نہ تھا.پس میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر اس جگہ صرف ایک اور کلمہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ خدا کے نبی اور رسول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری ہی اولا دموعود ومحمود.بشیر و شریف اور خدا کی بشارتوں کے ماتحت یقینا یقیناً ذریت طیبہ.مظاہر الہی اور شعائر اللہ ہیں.ایک کو موعود بنا کر مظهر الحق والعلیٰ کا خطاب دیا تو دوسرے کو قمر الانبیاء بنا کر دنیا جہاں کی راہ نمائی کا موجب بنایا اور تیسرے کو بادشاہ کے لقب سے ملقب فرما کر عزت و عظمت اور جاہ و حشمت کے وعدے دیئے.اَلا وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ـ پس مقام او مبیں از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند اگر شومئی قسمت اور شامت اعمال کسی کو ان کا ملین کی غلامی کی سعادت سے محروم رکھتی ہے.اگر نہاں در نہاں بداعمالیاں اور معاصی کسی کو ان مقدسین پر عقیدت و نیاز مندی کے پھول نذرو نچھاور کرنے سے روکتے ہیں اور ان سے محبت و اخلاص کے لئے انشراح نہیں ہونے دیتے تو بے ادبی و گستاخی کی لعنت میں مبتلا ہونے سے تو پر ہیز کرو اور بدگمانی و بدظنی اور اعتراض وطعن کی عادت سے تو بیچو، ورنہ یاد رکھو کہ اگر اس قسم کی آگ اپنے اندر جمع کرو گے، زبان پر لاؤ گے تو آخر آگ کھائے انگار لگے“ کے مصداق بننا پڑے گا.خدا کے غضب کی آگ اور اس کی غیرت کی نار بھڑ کے گی جس سے بچ جانا پھر آسان نہ ہوگا.الغرض یہ سارا قافلہ آگے پیچھے حالات کے ماتحت مختلف حصوں میں تقسیم ،سات.آٹھ اور نو بجے

Page 435

سیرت المہدی 428 قبل دو پہر تک دار الامان پہنچ کر سید نا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے باغ میں خیمہ زن ہوتا گیا جہاں قادیان کی مقدس بستی اور مضافات کے رہنے والے.مرد.عورت.بچے.بوڑھے سبھی اس غم سے نگار اور درد سے بیقرار ہو ہو کر گھروں سے نکل کر شریک حال ہورہے تھے.میں سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے رتھ کے دائیں.بائیں اور آگے پیچھے اس مصیبت کی تکلیف اور در دورنج کو ہلکا کرنے اور بٹانے کی نیت و کوشش اور اظہار ہمدردی.نیازمندی و عقیدت کے جذبات سے لبریز دل کے ساتھ پیدل چلا آ رہا تھا اور سیدہ طاہرہ بھی میری دلی کیفیات سے متاثر ہوکر گاہ گاہ دنیا کی ناپائیداری و بے ثباتی اور خدائے بزرگ و برتر کی بے نیازی کے تذکرے فرماتیں.دعا میں مشغول.خدا کی یاد اور اس کے ذکر میں مصروف چلی آ رہی تھیں.آپ کے صبر وشکر اور ضبط و نظم کا یہ عالم تھا کہ غمزدہ خادموں اور در دمند غلاموں کو بار بار محبت بھرے لہجہ میں نصیحت فرماتیں اور تسلی دیتی تھیں.سیدہ مقدسہ کا ایک فقرہ اور درد بھرالہجہ اپنی بعض تاثیرات کے باعث کچھ ایسا میرے دل و دماغ میں سمایا کہ وہ کبھی بھولتا ہی نہیں اور ہمیشہ دل میں چٹکیاں لیتا رہتا ہے.جو آپ نے اسی سفر میں نہر کے پل سے آگے نکل کر جب آپ کی نظر قادیان کی عمارتوں پر پڑی اس سوز اور رقت سے فرمایا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے اور سسکیاں لینے لگا.آہ وہ فقرہ میرے اپنے لفظوں میں یہ تھا کہ ” بھائی جی چوبیس برس ہوئے جب میری سواری ایک خوش نصیب دلہن اور سہا گن کی حیثیت میں اس سڑک سے گزر کر قادیان گئی تھی اور آج یہ دن ہے کہ میں افسردہ وغمزدہ بحالت بیوگی انہی راہوں سے قادیان جارہی ہوں.قادیان قریب اور قریب تر ہوتا جا رہا تھا.بعض مخلص مرد اور عورتیں اخلاص وعقیدت کے پھول بطور نذرانہ لے لے کر سیدہ محترمہ کے استقبال و پیشوائی کو آتے.اظہار ہمدردی اور تعزیت کر کے رتھ کے ساتھ ہو لیتے.چنانچہ اس طرح آپ کی رتھ کے ساتھ مرد اور عورتوں کا ایک خاصہ ہجوم وارد قادیان ہوا.آپ کی سواری شہر میں مغربی جانب سے داخل ہو کر ننگلی دروازہ کی راہ سے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے باغ والے مکان پر پہنچی جہاں حضرت اقدس کا جسد مبارک رکھا تھا اور کثرت سے

Page 436

سیرت المہدی 429 مستورات اس کے گرد سیدۃ النساء کی انتظار میں بیٹھی تھیں.مرد باہر باغ میں ڈیرے ڈالے پڑے تھے اور صلاح مشورے ہورہے تھے.منصب خلافت کی ردا کس بزرگ ہستی کے کندھوں کی زینت بنے ، زیر غور اور اہم مسئلہ تھا جو اگر چہ علماء سلسلہ، اکابر صحابہ اور مجلس معتمدین کے ارکان بمشورہ اراکین خاندان نبوت اور باجازت سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حل کر چکے تھے اور قرعہ فال حضرت حاجی الحرمین مولا نا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام نکل چکا تھا اور جماعت کا اس امر پر اجماع تھا.بغیر کسی اختلاف کے سبھی کے دل مائل اور جھکے ہوئے تھے اور اس اجماع.اتفاق اور رجوع کو رضا و نصرت الہی کی دلیل یقین کیا جاتا تھا کیونکہ سیدنا حضرت اقدس کے وصال سے لے کر اس وقت تک برابر جماعت دعاؤں میں مصروف خدا کی راہ نمائی و دستگیری کی طالب بنی چلی آ رہی تھی اور اس انتخاب پر انشراح کو یقینا خدا کی تائید بھی تھی.نہ ہی کسی کو نفس منصب خلافت سے انکار تھا اور نہ ہی کوئی دوسرا نام خلافت کے لئے تجویز ہوا.چنانچہ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک مختصر سا مضمون لکھا گیا جس پر جماعت کے افراد کے دستخط بطور اظہار رضامندی و اتفاق حاصل کر کے حضرت ممدوح کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ بیعت لے کر جماعت کی باگ ڈور تھا میں اور راہ نمائی فرمائیں.یہ تحریر مخدومی حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر بھاری مجمع کی موجودگی میں حضرت مولوی صاحب کے سامنے بطور درخواست پڑھی مگر حضرت مولوی صاحب اس بارگراں کے اٹھانے سے گھبراتے رکتے اور ہچکچاتے اور فرماتے تھے کہ میرے دل کے کسی گوشہ میں بھی خلافت اور نمبر داری کی خواہش نہیں اور نہ ہی میں کوئی بڑائی اپنے واسطے چاہتا ہوں کیونکہ میں اس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا آنانکه عارف تراند ترساں تر آپ بار بارسید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نام لے کر جماعت کو یہ کہتے ہوئے کہ ” میں چاہتا تھا کہ حضرت کا صاحبزادہ میاں محمود احمد جانشین بنتا اور اسی واسطے میں ان کی تعلیم میں سعی کرتا رہا ان کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو فرماتے اور اسی پر زور دیتے رہے مگر جماعت کی طرف سے اصرار والحاح دیکھ کر آپ

Page 437

سیرت المہدی 430 نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ پڑھا جس میں پھر انہی باتوں کو دہراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی؟ اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے.حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں اول میاں محمود احمد وہ میرا بھائی بھی ہے میرا بیٹا بھی اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.:.قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں ۳:.تیسرے قریبی نواب محمد علی خان صاحب ہیں...اس وقت مردوں.بچوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں.اس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کرلو، میں تمہارے ساتھ ہوں.میں خود ضعیف ہوں.بیمار رہتا ہوں پھر طبیعت مناسب نہیں.اتنا بڑا کام آسان پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن عمائد کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کر لو میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں.لیکن جبکہ بلا میری خواہش کے یہ بار میرے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور دوست مجھے مجبور کرتے ہیں تو اس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر قبول کرتا ہوں.اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت پک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارہ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے.الغرض حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نہایت ہی پُر درد.پُر معرفت اور رقت آمیز خطبہ کے بعد جماعت سے سیدنا حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر بیعت اطاعت لی اور اس طرح گویا خدا کے نبی و رسول سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی ہی میں جماعت سلک وحدت میں پروئی گئی.بعض دوست آج بھی اپنے شہروں سے آئے اور شام تک بلکہ متواتر کئی روز تک آتے ہی رہے.جوں جوں ان کو اطلاع ملتی گئی دیوانہ وار مرکز کی طرف دوڑتے بھاگتے جمع

Page 438

431 سیرت المہدی ہوتے رہے.اور یہ سلسلہ کئی روز تک بہت سرگرمی سے جاری رہا.حضرت مولوی صاحب کے خطبہ کے بعد بیعت خلافت پہلے مردوں میں ہوئی پھر مستورات میں.بیعت کے بعد کچھ انتظار کیا گیا تا کہ بیرون جات سے آنے والے دوست بھی نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں.چنانچہ نماز جنازہ قریبا عصر کے وقت پڑھی گئی جس میں کثرت سے لوگ شریک ہوئے.نماز جنازہ کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر ایک تقریر فرمائی اور جماعت کو نصائح فرما ئیں.اس تقریر کے بعد نمازیں ادا کی گئیں.نماز جنازہ کے بعد سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد اطہر پھر باغ والے مکان میں پہنچا دیا گیا جہاں حضور کی آخری زیارت کا موقعہ حضور کے غلاموں کو دیا گیا.زیارت کے لئے ایسا انتظام کیا گیا کہ ایک طرف سے لوگ آتے اور دوسری طرف کو نکلتے جاتے رہے.زیارت کا سلسلہ بہت لمبا ہو گیا اور وقت تنگ ہوتا دیکھ کر کچھ جلدی کی گئی اور اس طرح شام سے پہلے پہلے حضرت کا جسم مبارک خدا کے مقرر کردہ قطعہ زمین میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا گیا.پہلے خیال تھا کہ حضور پر نور کا جسد اطہر اسی تابوت میں رکھ کر قبر میں رکھا جائے جس میں لاہور سے لایا گیا تھا مگر بعد میں یہی فیصلہ ہوا کہ بغیر تابوت ہی الہی حفاظت میں دیا جاوے.چونکہ پہلے خیال کی وجہ سے قبر میں لحد تیار نہ کرائی گئی تھی لہذا حضور پر نور کا جسم مبارک قبر کے درمیان رکھ کر اوپر سے اینٹوں کی ڈاٹ لگا کر پھر مٹی ڈال دی گئی.قبر کی درستی کے بعد ایک لمبی دعا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع سمیت کی اور شام کے وقت اس فرض اور خدمت سے فارغ ہو کر دعائیں کرتے شہر کو آئے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ نوٹ: تحریر ہذا ۳۸/۳۹ء کی ہے جو صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمه ر به قمرالانبیاء کی تحریک پر خاکسار عبدالرحمن قادیانی نے لکھی.☆☆☆

Page 438