Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوآپ پر ایمان لانے والے اصحاب نے جس نظر سے دیکھا اور آپ کی مقدس ذات میں جس خلق عظیم کا پایا اور وہ ہمیشہ کے لئے اس رجل فارس کے گرویدہ ہوگئے ، اس کا تذکرہ اس کتاب سیرت المہدی میں محفوظ ہے۔ ان روایات کی جمع و تدوین کا سہرا حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کے سر ہے، یوں اس مجموعہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حق میں ظاہر ہونے والے نشانات، دشمنوں کے گروہوں کی مخالفت، آپ کے خاندانی حالات اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے اہم واقعات محفوظ ہوگئے۔ اس کتاب کا حصہ اول 1923ء میں شائع ہوا تھا اور 1935 میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا، جس میں پہلے ایڈیشن کی بعض غلطیوں کی اصلاح اور بعض قابل تشریح باتوں کی تشریح و توضیح شامل کی گئی تھی۔ اس کتا ب کا حصہ دوم 1927ء میں شائع ہوا جس کا ایڈیشن دوم 1935ء میں شائع کیا گیا اور پھر 1939ء میں سیرت المہدی کا حصہ سوم شائع کیا گیا تھا۔ 2008ء میں خلافت احمدیہ کے سوسال مکمل ہونے پر سیرت المہدی کے یہ ابتدائی تینوں حصے ایک جلد میں اکٹھے شائع کئے ہیں ۔جبکہ ان کے علاوہ 2 غیر مطبوعہ مجموعہ ہائے روایات بھی تھے جو حضرت میاں بشیراحمد صاحبؓ اپنی زندگی میں شائع نہیں فرماسکے تھے، وہ غیر مطبوعہ روایات اس مجموعہ کی دوسری جلد میں شائع کی گئی ہیں۔ موجودہ ایڈیشن میں غلطیوں کی اصلاح بھی کردی گئی ہے ا ور متعلقہ مقامات پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریر فرمودہ تشریح بھی شامل کردی گئی ہےنیز اس دوسری جلد میں مزید مواد بھی محفوظ ہوگیا ہے۔ آپ ؓ روایات کے اس مجموعہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الفاظ اور آپ کے حالات اپنے اندر وہ روحانی اثر اور زندگی بخش جوہر رکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک ایک روایت انسان کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہوسکتی ہے لیکن یہ اثر زیادہ تر مطالعہ کرنے والی کی اپنی قلبی کیفیت اور خدا کے فضل پر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔۔پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کو اس کے پڑھنے والوں کے لئے بابرکت کرے اور ا س کی خوبیوں سے وہ متمتع ہوں اور اس کے نقصوں کے مضرت سے محفوظ رہیں اور اس سے وہ نیک غرض حاصل ہو جو میرے دل میں ہے۔‘‘
عليه السلام سیرت المهدی جلد اوّل تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے
تعارف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ پنجاب کے ایک مشہور مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے.۱۵۳۰ ء یا اس کے قریب شہنشاہ بابر کے عہد میں آپ کے اجداد میں مرزا ہادی بیگ جو امیر تیمور کے چا حاجی برلاس کی نسل سے تھے، اپنے وطن سے نکل کر ہندوستان آئے اور لاہور سے ستر میل شمال مشرق کی طرف دریائے بیاس کے قریب ایک جگہ قیام پذیر ہوئے جو اسلام پور قاضیاں کہلانے لگا اور پھر کثرت استعمال سے قاضیاں اور پھر قادیان بن گیا.۱۸۷۶ء تک آپ کی زندگی بالکل پرائیویٹ رنگ رکھتی تھی.مگر اس کے بعد خدائی تقدیر نے آپ کو گوشہ گمنامی سے نکال کر دنیا کی اصلاح کے لئے چنا.اسلام کے دفاع میں آپ کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ شائع ہوئی جس میں اسلام کی صداقت ، قرآن کریم کی فضیلت اور خدا تعالیٰ کی جملہ صفات کے ساتھ ساتھ اپنا ملہم ہونا بھی ظاہر فرمایا.اس کتاب کی اشاعت سے مایوس مسلمانوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف سے آپ کو اسلام کا دفاع کرنے والا فتح نصیب جرنیل قرار دیا گیا.مارچ ۱۸۸۲ء میں آپ کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو احادیث میں مذکور امام مہدی اور مسیح موعود کے منصب پر فائز کیا اور آپ کی تائید میں بہت سے نشانات دکھائے.چنانچہ مارچ ۱۸۸۹ء میں آپ نے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھی.اسلام کے لئے آپ کے دفاع، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے عشق ، توحید کے لئے آپ کی غیرت اور آپ کے عادات و شمائل
کو دیکھ کر سعید اور صدیقی فطرت لوگ آپ کے دعاوی پر ایمان لائے اور باوجود مخالفتوں کے صالحین کا یہ گروہ بڑھتا ہی گیا.بہت سے لوگ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہونے والے قہری نشانوں سے بھی ایمان لائے اور بعض کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے راہنمائی فرمائی.حضور کے زیر تربیت رہ کر یہ لوگ سونے سے کندن بن گئے اور تقویٰ وطہارت کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوئے.مومنین کے اس گروہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس نظر سے دیکھا اور آپ کی ذات میں جس خلق عظیم کو پایا زیر نظر کتاب سيرة المهدی میں ان کا تذکرہ ہے.اس کے علاوہ اس مجموعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں ظاہر ہونے والے نشانات ،حضور کے خاندانی حالات، سلسلہ کی تاریخ کے اہم واقعات پر مشتمل یہ ایمان افروز مجموعہ ہے.ان روایات کی جمع و تدوین کا سہرا حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے سر ہے.اس کتاب کا حصہ اول ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا تھا اور ۱۹۳۵ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا جس میں پہلے ایڈیشن کی بعض غلطیوں کی اصلاح اور بعض قابل تشریح باتوں کی تشریح درج ہوئی.۱۹۲۷ء میں حصہ دوم شائع ہوا اور ۱۹۳۵ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا اور پھر ۱۹۳۹ء میں سیرت المہدی کا حصہ سوم شائع ہوا.اب اڑسٹھ سال بعد خلافت احمدیہ کی پہلی سو سالہ جو بلی کی مناسبت سے یہ تینوں حصے ایک جلد میں شائع کئے جا رہے ہیں.ان کے علاوہ دو غیر مطبوعہ مجموعہ ہائے روایات بھی ہیں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اپنی زندگی میں شائع نہیں فرما سکے تھے وہ دوسری جلد میں شائع کئے جار ہے ہیں.موجودہ ایڈیشن میں غلطیوں کی اصلاح بھی کر دی گئی ہے اور متعلقہ مقامات پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تحریر فرمودہ تشریح بھی درج کر دی گئی ہے.آپ روایات کے اس مجموعہ کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور آپ کے الفاظ اپنے اندر وہ روحانی اثر
اور زندگی بخش جو ہر رکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک ایک روایت انسان کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہوسکتی ہے مگر یہ اثر زیادہ تر مطالعہ کرنے والے کی اپنی قلبی کیفیت اور پھر خدا کے فضل پر منحصر ہے..پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کو اس کے پڑھنے والوں کے لئے بابرکت کرے اور اس کی خوبیوں سے وہ متمتع ہوں اور اس کے نقصوں کی مضرت سے محفوظ رہیں اور اس سے وہ نیک غرض حاصل ہو جو میرے دل میں ہے.“ اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کی اس دعا کو قبول فرمائے اور پڑھنے والے اس سے کما حقہ مستفید ہوں.اس ایڈیشن کی کمپوزنگ نظارت کے کارکن مکرم نفیس احمد چیمہ صاحب نے اور پیچ سیٹنگ محترم فهیم احمد خالد صاحب سابق مبلغ جاپان نے کی ہے اور اس کی پروف ریڈنگ اور حوالہ جات کی چیکنگ میں محترم محمد یوسف صاحب شاہد سابق مبلغ سپین ، محترم ظفر علی صاحب طاہر مربی سلسلہ اور محترم سجاد احمد صاحب مربی سلسلہ نے میری معاونت کی ہے.ان سب کارکنان کے لئے دعا کی درخواست ہے.فروری ۲۰۰۸ء خاکسار سیدعبدالحی ناظر اشاعت
1 277.....489...حصہ اول حصہ دوم حصہ سوم
63636363638 العلمية الا سيرة المهدى حصہ اوّل تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے 888888
سیرت المہدی 1 حصہ اوّل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود مع التسليم عرض حال امام بخاری علیہ الرحمہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت لیلی نے فرمایا ہے کہ اعمال نیت سے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ابن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ارادہ کیا ہے والله الموفق کہ جمع کروں ان لوگوں کے واسطے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نہیں اُٹھائی اور نہ آپ کو دیکھا ہے، آپ کے کلمات و حالات وسوانح اور دیگر مفید باتیں متعلق آپ کی سیرت اور خلق و عادات وغیرہ کے.پس شروع کرتا ہوں میں اس کام کو آج بروز بدھ بتاریخ ۲۵ / شعبان ۱۳۳۹ھ مطابق ۴ رمئی ۱۹۲۱ء بعد نماز ظہر اس حال میں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیت الدعا میں بیٹھا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ مجھے صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اس کتاب کے پورا کرنے کی توفیق دے اللهم آمین میرا ارادہ ہے والله الموفق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں اور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں یا جو آئند ہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں اور میں انشاء اللہ تعالیٰ صرف وہی روایات تحریر کروں گا جن کو میں
سیرت المہدی 2 حصہ اوّل صحیح سمجھتا ہوں مگر میں الفاظ روایت کی صحت کا دعویدار نہیں ہوں اور نہ لفظی روایت کا کما حقہ التزام کر سکتا ہوں نیز میں بغرض سہولت تمام روایات اردو زبان میں بیان کروں گا خواہ دراصل وہ کسی اور زبان میں روایت کی گئی ہوں اور فی الحال تمام روایات عموماً بغیر لحاظ معنوی ترتیب کے صرف اسی ترتیب میں بیان کروں گا جس میں کہ وہ میرے سامنے آئیں پھر بعد میں خدا نے چاہا اور مجھے توفیق ملی تو انہیں معنوی ترتیب سے مرتب کر دیا جاویگا.اخذ روایات میں جن شرائط کو میں نے محفوظ رکھا ہے ان کا ذکر موجب تطویل سمجھ کر اس جگہ چھوڑتا ہوں.اللهم وفق و اعن فانک انت الموفق و المستعان - خاکسار راقم آثم مرزا بشیر احمد قادیان
سیرت المہدی 3 بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ اوّل 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ ان سے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہ مجھے معلوم ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرمایا کہ بتایا گیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ سبحان الله و بحمده سبحان | و بحمده سبحان اللہ العظیم بہت پڑھنا چاہئیے.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس وجہ سے آپ اسے بہت کثرت سے پڑھتے تھے حتی کہ رات کو بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے بھی یہی کلمہ آپ کی زبان پر ہوتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے جب یہ روایت مولوی شیر علی صاحب سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سبحان الله بہت پڑھتے تھے اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو استغفار پڑھتے کبھی نہیں سنا.نیز خاکسار اپنا مشاہدہ عرض کرتا ہے کہ میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سبحان اللہ پڑھتے سنا ہے.آپ بہت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر اور سکون اور اطمینان اور نرمی کے ساتھ یہ الفاظ زبان پر دہراتے تھے اس طرح کہ گویا ساتھ ساتھ صفات باری تعالیٰ پر بھی غور فرماتے جاتے ہیں.2 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر وقت باوضور ہتے تھے جب کبھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے تھے وضو کر لیتے تھے سوائے
سیرت المہدی 4 حصہ اوّل اس کے کہ بیماری یا کسی اور وجہ سے آپ رُک جاویں.3 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پنجگانہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کرتے تھے ایک نماز اشراق ( دو یا چار رکعات) جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد ( آٹھ رکعات) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں لیکن ایسی صورت میں بھی آپ تہجد کے وقت بستر پر لیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے.اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے تھے.4 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے تھے کیونکہ رات کا زیادہ حصہ آپ جاگ کر گزارتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اول تو آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو آپ عموماً بہت دیر تک لکھتے تھے دوسرے آپ کو پیشاب کے لئے بھی کئی دفعہ اُٹھنا پڑتا تھا اس کے علاوہ نماز تہجد کے لئے بھی اُٹھتے تھے.نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب مٹی کے تیل کی روشنی کے سامنے بیٹھ کر کام کرنا ناپسند کرتے تھے اور اس کی جگہ موم بتیاں استعمال کرتے تھے.ایک زمانہ میں کچھ عرصہ گیس کا لیمپ بھی استعمال کیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ کئی کئی موم بتیاں جلا کر سامنے رکھوا لیتے تھے اگر کوئی بھی بجھ جاتی تھی تو اس کی جگہ اور جلا لیتے تھے اور گھر میں عموماً موم بتیوں کے بنڈل منگوا کر ذخیرہ رکھوا لیتے تھے.خاکسار کو یاد ہے کہ ایک دفعہ اس دالان میں جو بیت الفکر کے ساتھ ملحق شمال کی طرف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام شمالی دیوار کے پاس پلنگ پر بیٹھے ہوئے شاید کسی کام میں مصروف تھے اور پاس موم کی بتیاں جلی رکھی تھیں.حضرت والدہ صاحبہ بتیوں کے پاس سے گزریں تو پشت کی جانب سے ان کی اوڑھنی کے کنارے کو آگ لگ گئی اور ان کو کچھ خبر نہ تھی.حضرت مسیح موعود نے دیکھا تو جلدی سے اٹھ کر اپنے ہاتھ سے آگ بجھائی.اس وقت والدہ صاحبہ کچھ گھبرا گئی تھیں.5 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
سیرت المہدی 5 حصہ اوّل فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے.خاکسار نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کرتے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عموماً خفیف پڑھتے تھے.بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں پھر رہے تھے جب آپ سنگترہ کے ایک درخت کے پاس سے گزرے تو میں نے ( یعنی والدہ صاحبہ نے ) یا کسی اور نے کہا کہ اس وقت تو سنگترہ کو دل چاہتا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کیا تم نے سنگترہ لینا ہے؟ والدہ صاحبہ نے یا اس شخص نے کہا کہ ہاں لینا ہے.اس پر حضرت صاحب نے اس درخت کی شاخوں پر ہاتھ مارا اور جب آپ کا ہاتھ شاخوں سے الگ ہوا تو آپ کے ہاتھ میں ایک سنگترہ تھا اور آپ نے فرمایا یہ لو.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ وہ سنگترہ کیسا تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا زرد رنگ کا پکا ہوا سنگترہ تھا.میں نے پوچھا.کیا پھر آپ نے اسے کھایا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا یہ مجھے یاد نہیں.میں نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نے کس طرح ہاتھ مارا تھا؟ اس پر والدہ صاحبہ نے اس طرح ہاتھ مار کر دکھایا اور کہا کہ جس طرح پھل توڑنے والے کا ہاتھ درخت پر ٹھہرتا ہے اس طرح آپ کا ہاتھ شاخوں پر نہیں ٹھہرا بلکہ آپ نے ہاتھ مارا اور فوراً لوٹا لیا.خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت سنگترہ کا موسم تھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں اور وہ درخت بالکل پھل سے خالی تھا.خاکسار نے یہ روایت مولوی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہ روایت حضرت خلیفہ ثانی سے بھی سنی ہے.آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے میرے کہنے پر ہاتھ مارا اور سنگترہ دیا تھا.7 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر سے واپس قادیان آرہا تھا تو میں نے بٹالہ پہنچ کر قادیان کے لئے یکہ کرایہ پر کیا.اس یکہ میں ایک ہندوسواری بھی بیٹھنے والی تھی جب ہم سوار ہونے لگے تو وہ ہندو جلدی کر کے اُس طرف چڑھ گیا جو سورج کے رُخ سے دوسری جانب تھی اور مجھے سورج کے سامنے بیٹھنا پڑا.
سیرت المہدی 6 حصہ اوّل حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب ہم شہر سے نکلے تو ناگاہ بادل کا ایک ٹکڑا اُٹھا اور میرے اور سورج کے درمیان آگیا اور ساتھ ساتھ آیا.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا وہ ہندو پھر کچھ بولا.والدہ صاحبہ نے فرمایا یاد پڑتا ہے کہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ پھر اس ہندو نے بہت معذرت کی اور شرمندہ ہوا.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ گرمی کے دن تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی روایت مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بھی بیان کی ہے.انہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ واقعہ سنا تھا.صرف یہ اختلاف ہے کہ مولوی صاحب نے بٹالہ کی جگہ امرتسر کا نام لیا اور یقین ظاہر کیا اس بات پر کہ اس ہندو نے اس خارق عادت امر کو محسوس کیا تھا اور بہت شرمندہ ہوا تھا.8 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جارہا تھا راستہ میں بارش آگئی میں اور میرا ساتھی یکہ سے اُتر آئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا.میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہوگئی اور مالک مکان تیز ہو گیا اور گالیاں دینے لگا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکر ارسن کر آگے بڑھا.جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اسکے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا.و بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر میں تھا.رات کے وقت ہم کسی مکان میں دوسری منزل پر چوبارہ میں ٹھہرے ہوئے تھے.اسی کمرے میں سات آٹھ اور آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے.جب
سیرت المہدی 7 حصہ اوّل سب سو گئے اور رات کا ایک حصہ گذر گیا تو مجھے کچھ ٹک ٹک کی آواز آئی اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس کمرے کی چھت گرنے والی ہے.اس پر میں نے اپنے ساتھی مسیتا بیگ کو آواز دی کہ مجھے خدشہ ہے کہ چھت گرنے والی ہے.اس نے کہا میاں یہ تمہارا وہم ہے نیا مکان بنا ہوا ہے اور بالکل نئی چھت ہے آرام سے سو جاؤ.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی ڈر میرے دل پر غالب ہوا میں نے پھر اپنے ساتھی کو جگایا مگر اس نے پھر اسی قسم کا جواب دیا میں پھر نا چار لیٹ گیا مگر پھر میرے دل پر شدت کے ساتھ یہ خیال غالب ہوا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا شہتیر ٹوٹنے والا ہے.میں پھر گھبرا کر اُٹھا اور اس دفعہ بتی کے ساتھ اپنے ساتھی کو کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ چھت گرنے والی ہے اُٹھو.تو تم اُٹھتے کیوں نہیں.اس پر نا چار وہ اُٹھا اور باقی لوگوں کو بھی ہم نے جگا دیا پھر میں نے سب کو کہا کہ جلدی باہر نکل کر نیچے اُتر چلو.دروازے کے ساتھ ہی سیڑھی تھی میں دروازے میں کھڑا ہوگیا اور وہ سب ایک ایک کر کے نکل کر اُترتے گئے.جب سب نکل گئے تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ پھر میں نے قدم اُٹھایا ابھی میرا قدم شاید آدھا باہر اور آدھا د ہلیز پر تھا کہ یک لخت چھت گرمی اور اس زور سے گرمی کہ نیچے کی چھت بھی ساتھ ہی گر گئی حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ جن چار پائیوں پر ہم لیٹے ہوئے تھے وہ ریزہ ریزہ ہوگئیں.خاکسار نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ مسیتا بیگ کون تھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ تمہارے دادا کا ایک دور نزدیک سے رشتہ دار تھا اور کارندہ بھی تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفتہ اسی ثانی نے اس روایت کو ایک دفعہ اس طرح پر بیان کیا تھا کہ یہ واقعہ سیالکوٹ کا ہے جہاں آپ ملازم تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ چھت بس میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے اور نیز حضرت خلیفتہ اسی ثانی نے بیان کیا کہ اس کمرہ میں اس وقت چند ہندو بھی تھے جو اس واقعہ سے حضرت صاحب کے بہت معتقد ہو گئے.10 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا کہ جب بڑے مرزا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود کے والد صاحب ) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی
سیرت المہدی 8 حصہ اوّل دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی.دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ تمہارے دادا کشمیر سے اپنے آدمی کو چند ماہ کے بعد خط اور روپیہ دے کر بھیجا کرتے تھے.نقدی وغیرہ چاندی سونے کی صورت میں ایک گدڑی کی تہہ کے اندر سلی ہوئی ہوتی تھی جو وہ آدمی راستہ میں پہنے رکھتا تھا اور قادیان پہنچ کر اتار کر اندر گھر میں بھیج دیتا تھا.گھر والے کھول کر نقدی نکال لیتے تھے اور پھر گدڑی واپس کر دیتے تھے.نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا کشمیر میں صوبہ تھے.اس وقت حضرت خلیفہ مسیح ثانی بھی اوپر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ جس طرح انگریزوں میں آجکل ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح کشمیر میں صوبے گورنر علاقہ ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہماری دادی صاحبہ یعنی حضرت مسیح موعود کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا وہ دادا صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھیں.ان کو حضرت صاحب سے بہت صحت تھی اور آپ کو ان سے بہت محب تھی.میں ن کی دفعہ دیکھا ہے کہ جب آپ ان کا ذکر فرماتے تھے تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں.11 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.نیز بیان کیا حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے کہ جب مبارکہ بیگم (ہماری ہمشیرہ) پیدا ہونے لگی تو منگل کا دن تھا اسلئے حضرت صاحب نے دعا کی کہ خدا اُسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن تو ام پیدا ہوئے تھے اور فوت ہوئے منگل کے دن.اور جاننا چاہئے کہ زمانہ کی شمار صرف اہل دنیا کے واسطے ہے اور دنیا کے واسطے واقعی آپ کی وفات کا دن ایک مصیبت کا دن تھا.اس روایت سے یہ مراد نہیں ہے کہ منگل کا دن کوئی منحوس دن ہے بلکہ جیسا کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۲۲۳۱۱ و ۳۶۰ میں تشریح کی جاچکی ہے.اس سے صرف یہ مراد ہے کہ منگل کا دن بعض اجرام سماوی
سیرت المہدی 9 حصہ اوّل کے مخفی اثرات کے ماتحت اپنے اندر سختی اور تکلیف کا پہلو رکھتا ہے.چنانچہ منگل کے متعلق حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول آتا ہے کہ منگل وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ نے پتھریلے پہاڑ اور ضرر رساں چیزیں پیدا کی ہیں.دیکھو تفسیر ابن کثیر آیت خلق الارض في يومين الخ ) 12 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری بیماری بیمار ہوئے اور آپ کی حالت نازک ہوئی تو میں نے گھبرا کر کہا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے“ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا ” یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا خاکسار مختصر عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے.میں اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا اور پھر مجھے نیند آ گئی.رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگایا گیا یا شاید لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سے میں خود بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور ادھر اُدھر معالج اور دوسرے لوگ کام میں لگے ہوئے ہیں.جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود کے اوپر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا.کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ دیکھی تھی اور میرے دل پر یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے.اس وقت آپ بہت کمزور ہوچکے تھے.اتنے میں ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد.سب سمجھے کہ وفات پاگئے اور یکدم سب پر ایک سناٹا چھا گیا مگر تھوڑی دیر کے بعد نبض میں پھر حرکت پیدا ہوئی مگر حالت بدستور نازک تھی اتنے میں صبح ہوگئی اور حضرت مسیح موعود کی چار پائی کو باہر صحن سے اُٹھا کر اندر کمرے میں لے آئے جب ذرا اچھی روشنی ہوگئی تو حضرت مسیح موعود نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ غالباً شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی نے عرض کیا کہ حضور ہو گیا ہے.آپ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی مگر آپ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہوگئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے.تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے آپ نے پھر نیت باندھی مگر مجھے یاد نہیں کہ نماز پوری کر سکے
سیرت المہ 10 حصہ اوّل یا نہیں.اس وقت آپ کی حالت سخت کرب اور گھبراہٹ کی تھی.غالباً آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے.مگر آپ جواب نہ دے سکتے اس لئے کاغذ قلم دوات منگوائی گئی اور آپ نے بائیں ہاتھ پر سہارا لے کر بستر سے کچھ اُٹھ کر لکھنا چاہا مگر بمشکل دو چار الفاظ لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھٹتا ہوا چلا گیا اور آپ پھر لیٹ گئے.یہ آخری تحریر جس میں غالباً زبان کی تکلیف کا اظہار تھا اور کچھ حصہ پڑھا نہیں جاتا تھا جناب والدہ صاحبہ کو دے دی گئی.نو بجے کے بعد حضرت صاحب کی حالت زیادہ نازک ہو گئی اور تھوڑی دیر کے بعد آپ کو غرغرہ شروع ہو گیا.غرغرہ میں کوئی آواز وغیرہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور بھی کھیچ کر آتا تھا خاکسار اس وقت آپ کے سرہانے کھڑا تھا.یہ حالت دیکھ کر والدہ صاحبہ کو جو اس وقت ساتھ والے کمرے میں تھیں اطلاع دی گئی وہ مع چند گھر کی مستورات کے آپ کی چار پائی کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئیں.اس وقت ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب لاہوری نے آپ کی چھاتی میں پستان کے پاس انجکشن یعنی دوائی کی پچکاری کی جس سے وہ جگہ کچھ ابھر آئی مگر کچھ افاقہ محسوس نہ ہوا بلکہ بعض لوگوں نے بُرا منایا کہ اس حالت میں آپ کو کیوں یہ تکلیف دی گئی ہے.تھوڑی دیر تک غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہر آن سانسوں کے درمیان کا وقفہ لمبا ہوتا گیا حتی کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا اور آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی.الـلـهـم صــل عـلـيـه و على مطاعه محمد و بارک وسلم.خاکسار نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت جو شروع میں درج کی گئی ہے جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی اور حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے.اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے.اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا.میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چار پائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپکے پاؤں دبانے کے لئے بیٹھ گئی.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب
سیرت المہدی 11 حصہ اوّل سو جاؤ.میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں.اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اسلئے میں نے چار پائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اُٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہو گیا تھا اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی.جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چار پائی پر گر گئے اور آپ کا سر چار پائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگر گوں ہوگئی.اس پر میں نے گھبرا کر کہا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے تو آپ نے فرمایا ” یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا‘ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کیا آپ سمجھ گئی تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشاء ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ”ہاں والدہ صاحبہ نے یہ بھی فرمایا کہ جب حالت خراب ہوئی اور ضعف بہت ہوگیا تو میں نے کہا مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب) کو بلالیں؟ آپ نے فرمایا بلالو نیز فرمای محمود کو جگا لو.پھر میں نے پوچھا محمد علی خان یعنی نواب صاحب کو بلالوں؟ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ حضرت صاحب نے اس کا کچھ جواب دیا، یا نہیں اور دیا تو کیا دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مرض موت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سخت کرب تھا اور نہایت درجہ بے چینی اور گھبراہٹ اور تکلیف کی حالت تھی اور ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا بھی بوقت وفات قریباً ایسا ہی حال تھا.یہ بات ناواقف لوگوں کے لئے موجب تعجب ہو گی کیونکہ دوسری طرف وہ یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ صوفیا اور اولیاء کی وفات نہایت اطمینان اور سکون کی حالت میں ہوتی ہے.سو دراصل بات یہ ہے کہ نبی جب فوت ہونے لگتا ہے تو اپنی امت کے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں اس کے سامنے ہوتی ہیں اور ان کے مستقبل کا فکر مزید برآں اسکے دامن گیر ہوتا ہے.تمام دنیا سے بڑھ کر اس بات کو نبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ موت ایک دروازہ ہے جس سے گذر کر انسان نے خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہے پس موت کی آمد جہاں اس لحاظ سے اس کو مسرور کرتی ہے کہ وصال محبوب کا وقت قریب آن پہنچا ہے وہاں اس کی عظیم الشان ذمہ داریوں کا احساس اور اپنی امت کے متعلق آئندہ کا فکر سے غیر معمولی کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر صوفیا اور اولیاء ان فکروں سے آزاد ہوتے ہیں.ان پر صرف ان
ت المهدی 12 حصہ اوّل کے نفس کا بار ہوتا ہے مگر نبیوں پر ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسانوں کا بار.پس فرق ظاہر ہے ( اس روایت میں حضرت والدہ صاحبہ نے جو یہ بیان کیا ہے کہ ان کی گھبراہٹ کے اظہار پر حضرت مسیح موعود نے یہ فرمایا کہ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا.اس کے متعلق میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے جس پر انہوں نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی یہ مرا تھی کہ جیسا کہ میں کہا کرتا تھا کہ میری وفات کا وقت قریب ہے.سواب یہ وہی موعود وقت آ گیا ہے اور والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ان الفاظ میں گویا حضرت صاحب نے مجھے ایک رنگ میں تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ وہی مقدر وقت ہے جس کے متعلق میں خدا سے علم پا کر ذکر کیا کرتا تھا اور جس طرح خدا کا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے.اسی طرح خدا کے دوسرے وعدے بھی جو میرے بعد خدائی نصرت وغیرہ کے متعلق ہیں.پورے ہوں گے اور خدا تم سب کا خود کفیل ہوگا.نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا.کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر ہو جایا کرتی تھی.جس سے بعض اوقات بہت کمزوری ہو جاتی تھی.اور آپ اسی بیماری سے فوت ہوئے.) 13 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت لکھ رہے تھے ایک دفعہ جب آپ شریف ( یعنی میرے چھوٹے بھائی عزیزم مرزا شریف احمد) کے مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے.آپ نے مجھ سے کہا کہ مولوی محمد علی سے ایک انگریز نے دریافت کیا تھا کہ جس طرح بڑے آدمی اپنا جانشین مقرر کیا کرتے ہیں مرزا صاحب نے بھی کوئی جانشین مقرر کیا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد آپ فرمانے لگے تمہارا کیا خیال ہے.کیا میں محمود (خلیفہ امسیح ثانی) کو لکھ دوں یا فرمایا مقرر کر دوں؟ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں میں نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھیں کریں.14 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جن کو دنیوی شان و شوکت کا خیال ہے کہ محکمے ہوں، دفاتر ہوں، بڑی بڑی عمارتیں ہوں وغیرہ وغیرہ.دوسرے وہ ہیں جو کسی بڑے آدمی مثلاً
سیرت المہدی 13 حصہ اوّل مولوی نورالدین صاحب کے اثر کے نیچے آکر جماعت میں داخل ہو گئے ہیں اور انہی کے ساتھ وابستہ ہیں.تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن کو خاص میری ذات سے تعلق ہے اور وہ ہر بات میں میری رضا اور میری خوشی کو مقدم رکھتے ہیں.15 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب اس کمرہ میں موجود نہیں تھے جس میں آپ نے وفات پائی.جب حضرت مولوی صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ آئے اور حضرت صاحب کی پیشانی کو بوسہ دیا اور پھر جلد ہی اس کمرے سے باہر تشریف لے گئے.جب حضرت مولوی صاحب کا قدم دروازے کے باہر ہوا اس وقت مولوی سید محمد حسن صاحب نے رقت بھری آواز میں حضرت مولوی صاحب سے کہا ” انت صدیقی“ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.مولوی صاحب یہاں اس سوال کو رہنے دیں قادیان جا کر فیصلہ ہوگا.خاکسار کا خیال ہے کہ اس مکالمہ کو میرے سوا کسی نے نہیں سنا.و 16 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں.ایک الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی جس کا آپ نے کئی جگہ اپنی تحریرات میں ذکر کیا ہے یہ سب سے پہلی انگوٹھی ہے جو دعوئی سے بہت عرصہ پہلے تیار کرائی گئی تھی.دوسری وہ انگوٹھی جس پر آپ کا الہام غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِی رَحْمَتِی وَ قُدْرَتِي الخ درج ہے.یہ آپ نے دعوئی کے بعد تیار کروائی تھی اور یہ بھی ایک عرصہ تک آپ کے ہاتھ میں رہی.الہام کی عبارت نسبتا لمبی ہونے کی وجہ سے اس کا نگینہ سب سے بڑا ہے.تیسری وہ جو آخری سالوں میں تیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی.یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوں اس پر کیا لکھواؤں حضور نے جواب دیا ”مولا بس“ چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کر انگوٹھی آپ کو پیش کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی.حضرت مسیح موعود کی وفات کے ایک عرصہ بعد والدہ
سیرت المہدی 14 حصہ اوّل صاحب نے ان تینوں انگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوں بھائیوں کے لئے قرعہ ڈالا.اليْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اسیح ثانی کے نام نکلی.غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِی وَقُدْرَتِي ( تذكره صفحه ۴۲۸ حاشیه مطبوع ۲۰۰۴ء) والی خاکسار کے نام اور مولا بس“ والی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی.ہمشیرگان کے حصہ میں دو اور اسی قسم کے تبرک آئے.17 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا کہ ایک دفعہ میں کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا.عدالت میں اور اور مقدمے ہوتے رہے اور میں باہر ایک درخت کے نیچے انتظار کرتا رہا.چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے میں نے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی.مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آواز میں پڑنی شروع ہو گئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا.جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرا کھڑا ہے.سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں.18 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فر مایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں.فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگا تار روزے رکھے اور گھر میں یا با ہرکسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں.صبح کا کھانا جب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا.میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے خصوصا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے.( خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نوماہ بیان کیا ہے ) 19 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
سیرت المہدی 15 حصہ اوّل پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا دورہ بشیر اول (ہمارا ایک بڑا بھائی ہوتا تھا جو ۱۸۸۸ء میں فوت ہو گیا تھا) کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا.رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا.پھر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ ایک دفعہ نماز کیلئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے مخلص خادم تھے اب فوت ہو چکے ہیں ) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے.شیخ حامد علی نے کہا کہ کچھ خراب ہوگئی ہے.میں پردہ کرا کے مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے میں جب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن اب افاقہ ہے.میں نماز پڑھا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اُٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میں چیخ مارکر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے.خاکسار نے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا.والدہ صاحبہ نے کہا ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پیٹھے کھیچ جاتے تھے خصوصا گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا اور اس وقت آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے.شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہوگئی.خاکسار نے پوچھا اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا پہلے معمولی سر درد کے دورے ہوا کرتے تھے.خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاں مگر پھر دوروں کے بعد چھوڑ دی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مسیحیت کے دعویٰ سے پہلے کی بات ہے.اس روایت میں جو حضرت مسیح موعود کے دوران سر کے دوروں کے متعلق حضرت والدہ صاحبہ نے ہسٹیریا کالفظ استعمال کیا ہے.اس سے وہ بیماری مراد نہیں ہے جو علم طب کی رو سے ہسٹیریا کہلاتی ہے.بلکہ یہ لفظ اس جگہ ایک غیر طبی رنگ میں دوران سر اور ہسٹیریا کی جزوی مشابہت کی وجہ سے استعمال کیا گیا ہے.ورنہ
سیرت المہدی 16 حصہ اوّل جیسے کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۶۹٫۳۶۵ میں تشریح کی جاچکی ہے.حضرت مسیح موعود کو حقیقتاً ہسٹیر یانہیں تھا چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے جہاں کہیں بھی اپنی تحریرات میں اپنی اس بیماری کا ذکر کیا ہے.وہاں اس کے متعلق کبھی بھی ہسٹیر یا وغیرہ کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی علم طب کی رو سے دوران سر کی بیماری کسی صورت میں ہسٹیریا یا مراق کہلا سکتی ہے.بلکہ دوران سر کی بیماری کے لئے انگریزی میں غالباور ٹیگو کا لفظ ہے جو غالباً سردرد ہی کی ایک قسم ہے جس میں سر میں چکر آتا ہے اور گردن وغیرہ کے پٹھوں میں کھچاوٹ محسوس ہوتی ہے.اور اس حالت میں بیمار کے لئے چلنا یا کھڑے ہو نا مشکل ہو جاتا ہے.لیکن ہوش وحواس پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا.چنانچہ خاکسار راقم الحروف نے متعدد دفعہ حضرت مسیح موعود کو دورے کی حالت میں دیکھا ہے اور کبھی بھی ایسی حالت نہیں دیکھی.جس میں ہوش و حواس پر کوئی اثر پڑا ہو اور حضرت مسیح موعود کی یہ بیماری بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے مطابق تھی.جس میں بتایا گیا تھا که مسیح موعود دو زرد چادروں (یعنی دو بیماریوں) میں لپٹا ہوا نازل ہوگا.دیکھومشکواۃ باب اشراط الساعة بحواله مسلم وغیرہ.اور روایت میں جو یہ لفظ آتے ہیں کہ پہلے دورے کے وقت آپ نے کوئی کالی کالی چیز آسمان کی طرف اٹھتی دیکھی.سو دوران سر کے عارضہ میں یہ ایک عام بات ہے کہ سر کے چکر کی وجہ سے ارد گرد کی چیزیں گھومتی ہوئی اوپر کو اٹھتی نظر آتی ہیں اور بوجہ اس کے کہ ایسے دورے کے وقت مریض کا میلان آنکھیں بند کر لینے کی طرف ہوتا ہے.عموماً یہ چیزیں سیاہ رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور دورے میں خشی کی سی حالت ہو جانے سے جیسا کہ خود الفاظ بھی اسی حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں.حقیقی غشی مراد نہیں بلکہ بوجہ زیادہ کمزوری کے آنکھیں نہ کھول سکنا یا بول نہ سکنا مراد ہے.واللہ اعلم) مزید بصیرت کے لئے روایات نمبر ۲۹۳٬۸۱ اور ۴۵۹ بھی ملاحظہ کی جائیں جن سے اس سوال پر مزید روشنی پڑتی ہے.20 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لدھیانہ میں لی تھی.پہلے دن چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی پھر جب آپ گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بیعت کی.سب سے پہلے مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب ) نے
سیرت المہدی 17 حصہ اوّل بیعت کی تھی.خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ نے کب بیعت کی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا میرے متعلق مشہور ہے کہ میں نے بیعت سے توقف کیا اور کئی سال بعد بیعت کی.یہ غلط ہے بلکہ میں کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہوئی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی اور شروع سے ہی اپنے آپ کو بیعت میں سمجھا اور اپنے لئے با قاعدہ الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابتدائی بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسیحیت اور مہدویت کا دعوی نہ تھا بلکہ عام مجددانہ طریق پر آپ بیعت لیتے تھے.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت مولوی صاحب کے علاوہ اور کس کس نے پہلے دن بیعت کی تھی؟ والدہ صاحبہ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری اور شیخ حامد علی صاحب کا نام لیا.21 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوی مسیحیت شائع کرنے لگے تو اس وقت آپ قادیان میں تھے آپ نے اس کے متعلق ابتدائی رسالے یہیں لکھے پھر آپ لدھیانہ تشریف لے گئے اور وہاں سے دعوئی شائع کیا.والدہ صاحبہ نے فرمایا دعوئی شائع کرنے سے پہلے آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میں ایسی بات کا اعلان کرنے لگا ہوں جس سے ملک میں مخالفت کا بہت شور پیدا ہوگا.والدہ صاحبہ نے فرمایا اس اعلان پر بعض ابتدائی بیعت کرنے والوں کو بھی ٹھوکر لگ گئی.22 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر تھے اور سور ہے تھے میں نے آپ کی زبان پر ایک فقرہ جاری ہوتے سنا.میں نے سمجھا کہ الہام ہوا ہے پھر آپ بیدار ہو گئے تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں تم کو کیسے معلوم ہوا؟ میں نے کہا مجھے آواز سنائی دی تھی.خاکسار نے دریافت کیا کہ الہام کے وقت آپ کی کیا حالت ہوتی تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود اپنے مکان کے چھوٹے صحن میں (یعنی جو والدہ صاحبہ کا موجودہ صحن ہے ) ایک لکڑی کے تخت پر تشریف رکھتے تھے غالبا صبح یا شام کا وقت تھا
سیرت المہدی 18 حصہ اوّل آپ کو کچھ غنودگی ہوئی تو آپ لیٹ گئے پھر آپ کے ہونٹوں سے کچھ آواز سنی گئی جس کو ہم سمجھ نہیں سکے پھر آپ بیدار ہوئے تو فرمایا مجھے اس وقت یہ الہام ہوا ہے.مگر خاکسار کو وہ الہام یاد نہیں رہا.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب آپ کو الہام ہوتا تھا تو اس کے بعد آپ غنودگی سے فوراً بیدار ہو جاتے تھے اور اسے تحریر کر لیتے تھے.اوائل میں اپنی کسی عام کتاب پر نوٹ کر لیا کرتے تھے.پھر آپ نے ایک بڑے سائز کی کاپی بنوالی اس کے بعد ایک چھوٹی مگر نعیم نوٹ بک بنوائی تھی.خاکسار نے پوچھا کہ اب وہ نوٹ بک کہاں ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی (بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں) کے پاس ہے اور خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی بیان کرتے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب کو الہام ہوتے دیکھا تھا.23 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام آخری زمانہ میں ٹیڑھے نب سے کیا کرتے تھے اور بغیر خطوط کا سفید کاغذ استعمال فرماتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ کاغذ لے کر اس کی دو جانب شکن ڈال لیتے تھے تا کہ دونوں طرف سفید حاشیہ رہے اور آپ کالی روشنائی سے بھی لکھ لیتے تھے اور بلیو، بلیک سے بھی اور مٹی کا اپلہ سا بنوا کر اپنی دوات اس میں نصب کروا لیتے تھے تا کہ گرنے کا خطرہ نہ رہے.آپ بالعموم لکھتے ہوئے ٹہلتے بھی جاتے تھے یعنی ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی اور دوات ایک جگہ رکھ دیتے تھے جب اس کے پاس سے گزرتے نب کو تر کر لیتے.اور لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے طور پر پڑھتے تھے تو آپ کے ہونٹوں سے گنگنانے کی آواز آتی تھی اور سنے والا الفاظ صاف نہیں سمجھ سکتا تھا.خاکسار نے مرزا سلطان احمد صاحب کو پڑھتے سنا ہے ان کا طریق حضرت صاحب کے طریق سے بہت ملتا ہے.آپ کی تحریر پختہ مگر شکستہ ہوتی تھی.جس کو عادت نہ ہو وہ صاف نہیں پڑھ سکتا تھا.لکھے ہوئے کو کاٹ کر بدل بھی دیتے تھے.چنانچہ آپ کی تحریر میں کئی جگہ کئے ہوئے حصے نظر آتے تھے اور آپکا خط بہت باریک ہوتا تھا.چنانچہ نمونہ درج
سیرت المہدی اصل خط 19 لئے وں کی ایک پینا ہو گا اسے حصہ اوّل نقل محط علاوہ اسکے مجھے اپنی اولاد کے لئے یہ خیال ہے کہ ان کی شادیاں ایسی لڑکیوں سے ہوں کہ انہوں نے ال کر گزاری این ایسے لاگو ہو کر نا روی و ادای دینی علوم اور کس قدر عربی اور فار اور ان کے قدموں اور نا ہے اور اگر کار من تقسیم ہے ہو اور ایک انگریزی میں تعلیم پائی ہو اور بڑے گھروں کے انتظام کرنے کے لئے کرنے کا استلام کا ان الالوان راوی بیان کیا متلی اور دماغ رکھتی ہوں سو یہ سب باشید که داده او خور تیر رہی ہو تو ما را یار نہیں کہ علاوہ اور خوبیوںکے یہ خوبی میں ہیں.باپ کا گمراہوں، خاندانوں من لایکی و متدی بھی ہو.خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں پنجاب کے شریف خاندانوں میں طرف القدر قید کر کر دی یین و یا کالا یا ان لڑکیوں کی تعلیم کی طرف اس قدر توجہ کم ہے کہ وہ بیچاریاں وحشیوں کی طرح نشو و نما با چی میشه نشو و نما پاتی ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ایک خط سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود نے ۱۸۹۹ء میں مرزا محمود بیگ صاحب پٹی کو لکھا تھا.24 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تمہارے تایا ( مرزا غلام قادر صاحب یعنی حضرت صاحب کے بڑے بھائی ) لا ولد فوت ہو گئے تو تمہاری تائی حضرت صاحب کے پاس روئیں اور کہا کہ اپنے بھائی کی جائیداد سلطان احمد کے نام بطور متبنے کے کرا دو وہ ویسے بھی اب تمہاری ہے اور اس طرح بھی تمہاری رہے گی.چنانچہ حضرت صاحب نے تمہارے تایا کی تمام جائداد مرزا سلطان احمد کے نام کرادی.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے متنبی کی صورت کس طرح
سیرت المہدی 20 حصہ اوّل منظور فرمالی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ تو یونہی ایک بات تھی ورنہ وفات کے بعد متبنے کیسا.مطلب تو یہ تھا کہ تمہاری تائی کی خوشی کے لئے حضرت نے تمہارے تایا کی جائداد مرزا سلطان احمد کے نام داخل خارج کرا دی اور اپنے نام نہیں کرائی.کیونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ ویسے بھی مرز ا سلطان احمد کو آپ کی جائیداد سے نصف حصہ جانا ہے اور باقی نصف مرزا فضل احمد کو.پس آپ نے سمجھ لیا کہ گویا آپ نے اپنی زندگی میں ہی مرزا سلطان احمد کا حصہ الگ کر دیا.25 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب مرز افضل احمد فوت ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ تمہاری اولاد کے ساتھ جائیداد کا حصہ بٹانے والا ایک فضل احمد ہی تھا سو وہ بے چارہ بھی گزر گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑ کے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت صاحب سے بڑے تھے.ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گاؤں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا چنانچہ ایک کا نام قادر آبا در کھا اور دوسرے کا احمد آباد.احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آبادرہ گیا.چنانچہ قادرآباد حضرت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزا سلطان احمد صاحب کا حصہ آیا لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا واپس ہمارے پاس آ گیا ہے اور اب وہ کلیتہ صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادر آباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال ہے.26 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے (جو خاکسار کے حقیقی ماموں ہیں ) کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو میں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا.مجھے اس دعوئی سے کچھ اطلاع نہیں تھی.ایک دن میں
سیرت المہدی 21 حصہ اوّل مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے حضرت عیسی تو زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہوں گے.خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے.میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میرا یہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ اُٹھے اور کمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ کتاب فتح اسلام ( جو آپ کی جدید تصنیف تھی ) لا کر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچے کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے.27 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میں حدیث میں یہ پڑھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال صحابہ برکت کے لئے رکھتے تھے اس خیال سے میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے اپنے کچھ بال عنایت فرماویں.چنانچہ جب آپ نے حجامت کرائی تو مجھے اپنے بال بھجوا دیئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پاس بھی حضرت صاحب کے کچھ بال رکھے ہیں.28 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیرحسین صاحب نے کہ ایک دفعہ جب مولوی صاحب ( حضرت خلیفہ اوّل) قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے میں مغرب کی نماز میں آیا تو دیکھا کہ آگے حضرت مسیح موعود خود نماز پڑھا رہے تھے.قاضی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے چھوٹی چھوٹی دو سورتیں پڑھیں مگر سوز و درد سے لوگوں کی چیچنیں نکل رہی تھیں.جب آپ نے نماز ختم کرائی تو میں آگے ہوا مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا قاضی صاحب میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر آپ کو نہیں پایا.مجھے اس نماز میں سخت تکلیف ہوئی ہے.عشاء کی نماز آپ پڑھائیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہوگی.
سیرت المہدی 22 حصہ اوّل 29 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کرم دین سے گورداسپور میں مقدمہ تھا اور آپ گورداسپور گئے ہوئے تھے.ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ سب لوگ کچہری میں چلے گئے یا ادھر ادھر ہو گئے اور حضرت صاحب کے پاس صرف میں اور مفتی صادق صاحب رہ گئے.حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سورہے ہیں.اسی حالت میں آپ نے سر اُٹھایا اور کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے لکھ لو.اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہاں کوئی قلم دوات یا پنسل موجود نہ تھی آخر ہم باورچی خانہ سے ایک کوئلہ لائے اور اس سے مفتی صاحب نے کاغذ پر لکھا.آپ پھر اسی طرح لیٹ گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر آپ نے الہام لکھایا.غرض اسی طرح آپ نے اس وقت چند الہامات لکھائے.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک الہام مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے یسئلونک عن شانک قل الله ثم ذرهم في خوضهم يلعبون“.یعنی تیری شان کے متعلق سوال کریں گے تو ان سے کہہ دے اللہ پھر چھوڑ دے ان کو ان کی بیہودہ گوئی میں.دوسرے دن جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو وکیل مستغیث نے آپ سے منجملہ اور سوالات کے یہ سوال بھی کیا کہ یہ جو آپ نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں اپنے متعلق لکھا ہے اور اس نے اس کتاب سے ایک عبارت پڑھ کر سنائی جس میں آپ نے بڑے زور دار الفاظ میں اپنے علو مرتبت کے متعلق فقرات لکھے ہیں.کیا آپ واقعی ایسی ہی اپنی شان سمجھتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہاں یہ اللہ کا فضل ہے یا کوئی ایسا ہی کلمہ بولا جس میں اللہ کی طرف بات کو منسوب کیا تھا.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو اس وقت خیال نہیں آیا کہ یہ سوال و جواب آپ کے الہام کے مطابق تھا.پھر جب آپ گورداسپور سے واپس قادیان آنے لگے تو میں نے راستہ میں موڑ پر آکر آپ سے عرض کیا کہ حضور میرا خیال ہے کہ حضور کا وہ الہام اس سوال وجواب میں پورا ہوا ہے.حضرت صاحب بہت خوش ہوئے کہ ہاں واقعی یہی ہے آپ نے بہت ٹھیک سمجھا ہے.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ اس کے چند دن بعد مجھے شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب ایک اور موقعہ پر بھی ذکر فرماتے تھے کہ مولوی شیر علی نے اس الہام کی تطبیق خوب سمجھی -
سیرت المہدی 23 حصہ اوّل ہے اور خوشی کا اظہار فرماتے تھے.اس روایت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کا ذکر آتا ہے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحفہ گولڑویہ کی بجائے تریاق القلوب کا نام لکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سہو ہوا ہے اور درست یہی ہے کہ عدالت میں جس کتاب کے متعلق پوچھا گیا تھاوہ تحفہ گولڑوی تھی نہ کہ تریاق القلوب - جیسا کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۸۹ میں مسل عدالت کے حوالہ سے ثابت کیا جا چکا ہے.) 30 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ ہر شخص کی خواب توجہ سے سنتے تھے اور بسا اوقات نوٹ بھی فرمالیتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب مرزا کمال الدین وغیرہ نے مسجد کے نیچے کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کر دیا تھا اور احمد یوں کو سخت تکلیف کا سامنا تھا اور آپ کو مجبورا قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی تھی.(اس موقعہ کے علاوہ کبھی آپ نے کسی کے خلاف خود مقدمہ دائر نہیں کیا ) میں نے خواب دیکھا کہ وہ دیوار گرائی جارہی ہے اور میں اس کے گرے ہوئے حصے کے اوپر سے گذر رہا ہوں.میں نے آپ کے پاس بیان کیا آپ نے بڑی توجہ سے سنا اور نوٹ کر لیا.اس وقت میں بالکل بچہ تھا.31 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں ۱۹۰۵ء کا بڑا زلزلہ آیا تھا اور آپ باغ میں رہائش کے لئے چلے گئے تھے.مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے محمد منظور نے جو ان دنوں میں بالکل بچہ تھا خواب میں دیکھا کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں.حضرت صاحب کو اس کی اطلاع پہنچی تو کئی بکرے منگوا کر صدقہ کروا دئیے اور حضرت صاحب کی اتباع میں اور اکثر لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا.میرا خیال ہے اس وقت باغ میں ایک سو سے زیادہ بکرا ذبح ہوا ہوگا.32 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تو میں بچہ تھا اور نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے مکان کا جو حصہ ہے اس میں ہم
سیرت المہدی 24 حصہ اوّل دوسرے بچوں کے ساتھ چار پائیوں پر لیٹے ہوئے سو رہے تھے ، جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کر بے تحاشا اُٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے.صحن میں آئے تو اوپر سے کنکر روڑے برس رہے تھے ہم بھاگتے ہوئے بڑے مکان کی طرف آئے وہاں حضرت مسیح موعود اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے.ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعود کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے.آپ اس وقت گھبرائے ہوئے تھے اور بڑے صحن کی طرف جانا چاہتے تھے مگر چاروں طرف بچے چمٹے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بھی.کوئی اِدھر کھینچتا تھا تو کوئی اُدھر اور آپ سب کے درمیان میں تھے آخر بڑی مشکل سے آپ اور آپ کے ساتھ چھٹے ہوئے ہم سب بڑے صحن میں پہنچے.اس وقت تک زلزلے کے دھکے بھی کمزور ہو چکے تھے.تھوڑی دیر کے بعد آپ ہم کو لے کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے.دوسرے احباب بھی اپنا ڈیرا ڈنڈا اٹھا کر باغ میں پہنچ گئے.وہاں حسب ضرورت کچھ کچے مکان بھی تیار کروا لئے گئے اور کچھ خیمے منگوا لئے گئے اور پھر ہم سب ایک لمبا عرصہ باغ میں مقیم رہے.ان دنوں میں مدرسہ بھی وہیں لگتا تھا.گویا باغ میں ایک شہر آباد ہو گیا تھا.اللہ اللہ کیا زمانہ تھا.33 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میں قصر نماز عام حالات میں جائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائز ہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا.قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپور میں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا.حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب ( حضرت خلیفہ اوّل) اور مولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے مگر ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں.میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گا بلکہ پوری پڑھوں گا تا اس مسئلہ کا کچھ فیصلہ ہو.قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کر کے ہاتھ اٹھائے کہ قصر نہیں کروں گا حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے.آپ نے فوراً قدم آگے بڑھا کر
سیرت المہدی 25 حصہ اوّل میرے کان کے پاس منہ کر کے فرمایا قاضی صاحب دو ہی پڑھیں گے نا؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا.بس اس وقت سے ہمارا مسلہ حل ہو گیا اور میں نے اپنا خیال ترک کر دیا.34 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میرا ایک لڑکا جو پہلی بیوی سے تھا.فوت ہو گیا.اس کی ماں نے بڑا جزع فزع کیا اور اس کی والدہ یعنی بچے کی نانی نے بھی اسی قسم کی حرکت کی.میں نے ان کو بہت روکا مگر نہ باز آئیں ، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لڑکے کا جنازہ پڑھنے آئے تو جنازہ کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور بہت دیر تک وعظ فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا قاضی صاحب اپنے گھر میں بھی میری یہ نصیحت پہنچادیں.میں نے گھر آکر بیوی کو حضرت صاحب کا وعظ سنایا پھر اس کے بعد اس کے دو تین لڑکے فوت ہوئے مگر اس نے سوائے آنسو گرانے کے کوئی اور حرکت نہیں کی.35 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے گورداسپور جاتے ہوئے بٹالہ ٹھہرے وہاں کوئی مہمان جو آپ کی تلاش میں قادیان سے ہوتا ہوا بٹالہ واپس آیا تھا آپ کے پاس کچھ پھل بطور تحفہ لایا.پھلوں میں انگور بھی تھے.آپ نے انگور کھائے اور فر ما یا انگور میں ترشی ہوتی ہے مگر یہ ترشی نزلہ کے لئے مضر نہیں ہوتی.پھر آپ نے فرمایا ابھی میرا دل انگور کو چاہتا تھا سو خدا نے بھیج دیئے.فرمایا کئی دفعہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جس چیز کو دل چاہتا ہے اللہ اسے مہیا کر دیتا ہے.پھر ایک دفعہ سنایا کہ میں ایک سفر میں جارہا تھا کہ میرے دل میں پونڈے گنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر وہاں راستہ میں کوئی گنا میسر نہیں تھا مگر اللہ کی قدرت کہ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص ہم کومل گیا جس کے پاس پونڈے تھے ، اس سے ہم کو پونڈے مل گئے.36 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تخت دورہ پڑا کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے.پھر ان کے سامنے بھی حضرت صاحب کو دورہ پڑا.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چار پائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے.مگر مرز افضل احمد کے
سیرت المہدی 26 حصہ اوّل چیرو پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا.اور وہ کبھی ادھر بھا گیا تھا اور کبھی ادھر.کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے.37 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب محمدی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہوگئی اور قادیان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خلاف کوشش کرتے رہے اور سب نے احمد بیگ والد محمدی بیگم کا ساتھ دیا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرا دی تو حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد دونوں کو الگ الگ خط لکھا کہ ان سب لوگوں نے میری سخت مخالفت کی ہے.اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں لہذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کرنا ہوگا اور اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا.میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں.والدہ صاحبہ نے فرمایا مرزا سلطان احمد کا جواب آیا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے احسانات ہیں میں ان سے قطع تعلق نہیں کر سکتا.مگر مرزا فضل احمد نے لکھا کہ میرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ درست ہے تو اپنی بیوی بنت مرزا علی شیر کو ( جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بیگ کی بھانجی تھی ) طلاق دے دو.مرز افضل احمد نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس روانہ کر دیا.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ پھر فضل احمد باہر سے آکر ہمارے پاس ہی ٹھہرتا تھا مگر اپنی دوسری بیوی کی فتنہ پردازی سے آخر پھر آہستہ آہستہ ادھر جا ملا.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فضل احمد بہت شرمیلا تھا.حضرت صاحب کے سامنے آنکھ نہیں اُٹھاتا تھا.حضرت صاحب اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ فضل احمد سیدھی طبیعت کا ہے اور اس میں محبت کا مادہ ہے مگر دوسروں کے پھسلانے سے اُدھر جا ملا ہے.نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تو اس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے.خاکسار نے
سیرت المہدی 27 حصہ اوّل پوچھا کہ کیا حضرت صاحب نے کچھ فرمایا بھی تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ صرف اس قدر فرمایا تھا کہ ہمارا اس کے ساتھ تعلق تو نہیں تھا مگر مخالف اس کی موت کو بھی اعتراض کا نشانہ بنالیں گے.خاکسار عرض کرتا ہے که محمدی بیگم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چازاد بہن عمر النساء کی لڑکی ہے یعنی مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ کی حقیقی بھانجی ہے.ہماری تائی یعنی بیوہ مرزا غلام قادر صاحب محمدی بیگم کی سگی خالہ ہیں گویا مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیار پوری جو محمدی بیگم کا والد تھا مرزا امام الدین وغیرہ کا بہنوئی تھا اس کے علاوہ اور بھی خاندانی رشتہ داریاں تھیں مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی حقیقی ہمشیرہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث صاحب کے ساتھ بیاہی گئی تھیں.یہ بہت پرانی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ تمام رشتہ دار پر لے درجہ کے بے دین اور لامذہب تھے اور اسلام سے ان کو کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ شریعت کی ہتک کرتے تھے.حضرت صاحب نے ان کی یہ حالت دیکھ کر خدا کی طرف توجہ کی کہ ان کے لئے کوئی نشان ظاہر ہو تا کہ ان کی اصلاح ہو یا کوئی فیصلہ ہو.اس پر خدا نے الہام فرمایا کہ احمد بیگ کی لڑکی محمدی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کر.اگر انہوں نے منظور کر لیا اور اس لڑکی کی تیرے ساتھ شادی کر دی تو پھر یہ لوگ برکتوں سے حصہ پائیں گے.اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا.اور ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور خاص لڑکی کے والد کے متعلق فرمایا کہ وہ تین سال کے اندر بلکہ بہت جلدی مر جائے گا اور جس شخص کے ساتھ لڑکی کا نکاح ہوگا وہ بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا.ان دو مؤخر الذکر شخصوں کے متعلق جس طرح اللہ کا نشان پورا ہوا وہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں متعدد جگہ درج ہے یعنی احمد بیگ اپنی لڑکی کے نکاح کے صرف چند ماہ بعد پیشگوئی کے مطابق اس جہاں سے رخصت ہوا اور مرزا سلطان محمد جس سے ان لوگوں نے محمدی بیگم کی شادی کروادی تھی خدا کے عذاب سے خوف زدہ ہوا اور اس کے کئی رشتہ داروں کی طرف سے حضرت صاحب کے پاس عجز و نیاز کے خطوط آئے چنانچہ ان کا اپنا خط بھی جس میں انہوں نے حضرت صاحب کے متعلق عقیدت کا اظہار کیا ہے رسالہ تشخیز الا ذہان میں چھپ چکا ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق ان سے وہ عذاب ٹل گیا.باقی رشتہ داروں کے متعلق عام پیشگوئی تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے گھر جو پیشگوئی کے وقت آدمیوں سے بھرے ہوئے تھے بالکل خالی ہو گئے.اور اب
سیرت المہدی 28 حصہ اوّل اس تمام خاندان میں سوائے ایک بچہ کے اور کوئی مرد نہیں اور وہ بچہ بھی احمدی ہو چکا ہے.اسکے علاوہ مرزا امام الدین کی لڑکی بھی عرصہ ہوا احمدی ہو چکی ہے.پھر محمدی بیگم کی ماں یعنی بیوہ مرزا احمد بیگ اور مرزا احمد بیگ کا پوتا اور ہماری تائی یعنی محمدی بیگم کی خالہ سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں نیز محمدی بیگم کی سگی ہمشیرہ بھی احمدی ہوگئی تھی مگر اب فوت ہو چکی ہے ان کے علاوہ اور کئی رشتہ دار بھی احمدی ہو چکے ہیں اور جو ابھی تک سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے وہ بھی مخالفت ترک کر چکے ہیں.اور حضرت مسیح موعود کا یہ الہام کہ ہم اس گھر میں کچھ سنی طریق پر داخل ہونگے اور کچھ حسینی طریق پر.اپنی پوری شان میں پورا ہوا ہے.38 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد کے مکان کے ساتھ ملحق ہے.والدہ صاحبہ بھی غالبا پاس تھیں.میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا حضرت مسیح موعود نے فرمایا میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین اور مرزا کمال الدین حضرت مسیح موعود کے حقیقی چا مرزا غلام محی الدین صاحب کے لڑکے تھے اور ان کی سگی بہن جو ہماری تائی ہیں ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے عقد میں آئی تھیں مگر باوجود ایسی قریبی رشتہ داری کے حضرت صاحب سے ان کو سخت مخالفت تھی جس کی بنیاد زیادہ تر دینی تھی.یہ لوگ سخت دنیا دار اور بے دین تھے بلکہ مرزا امام الدین جو سر گر وہ مخالفت تھا اسلام سے ٹھٹھا کیا کرتا تھا.اس وجہ سے ہمارا ان کے ساتھ کبھی راہ و رسم نہیں ہوا.اسی بے تعلقی کے اثر کے نیچے میں نے صرف نظام الدین کا لفظ بول دیا تھا مگر حضرت صاحب کے اخلاق فاضلہ نے یہ بات گوارا نہ کی.39 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ میں نے سنا کہ مرزا امام الدین اپنے مکان میں کسی کو مخاطب کر کے بلند آواز سے کہ رہا تھا کہ بھئی (یعنی بھائی ) لوگ (حضرت صاحب کی طرف اشارہ تھا ) کا نہیں چلا کر نفع اٹھارہے ہیں ہم بھی کوئی دوکان چلاتے ہیں.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ پھر اس نے چوہڑوں کی پیری کا سلسلہ جاری کیا.والدہ صاحبہ نے فرمایا اصل اور بڑا
سیرت المہدی 29 حصہ اوّل مخالف مرزا امام الدین ہی تھا اس کے مرنے کے بعد مرز انظام الدین وغیرہ کی طرف سے ویسی مخالفت نہیں رہی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین کی لڑکی جو مرزا سلطان احمد صاحب کے عقد میں ہیں اب ایک عرصہ سے احمدی ہو چکی ہیں.40 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ خوا جہ کمال الدین صاحب سے میرا کوئی جھگڑا ہو گیا.خواجہ صاحب نے مجھے کہا قاضی صاحب کیا آپ جانتے نہیں کہ حضرت صاحب میری کتنی عزت کرتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں کہ بہت عزت کرتے ہیں مگر میں آپ کو ایک بات سناتا ہوں اور وہ یہ کہ میں ایک دفعہ امرتسر سے قادیان آیا اور حضرت صاحب کو اطلاع دے کر حضور سے ملا.قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت تک ہم لوگوں نے تہذیب نہیں سیکھی تھی.جب ملاقات کرنی ہوتی تھی حضرت صاحب کو اطلاع دے کر اندر سے بلالیا کرتے تھے یا حضرت صاحب خودسن کر باہر آ جاتے تھے بعد میں یہ بات نہیں رہی اور ہم نے سمجھ لیا کہ رسول کو اس طرح نہیں بلانا چاہئیے.خیر میں حضور سے ملا.آپ نے شیخ حامد علی کو بلا کر حکم دیا کہ قاضی صاحب کے واسطے چائے بنا کر لاؤ.مگر میں اس وقت بہت ڈرا کہ کہیں یہ خاطر تواضع اس طریق پر نہ ہو جس طرح منافقوں اور کمزور ایمان والوں کی کی جاتی ہے.اور میں نے بہت استغفار پڑھا.یہ قصہ سنا کر میں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ خوا جہ صاحب آپ کی عزت بھی کہیں اسی طریق کی نہ ہو.چنانچہ میں آپ کو سناتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کمزور ایمان والوں اور منافقوں کی بہت خاطر تواضع کیا کرتے تھے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے کچھ مال تقسیم کیا مگر ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا جس کے متعلق سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ وہ میرے خیال میں مومن تھا اور ان لوگوں کی نسبت زیادہ حقدار تھا جن کو آپ نے مال دیا چنانچہ سعد نے اس کی طرف آپ کو توجہ دلائی مگر آپ خاموش رہے.پھر توجہ دلائی مگر آپ خاموش رہے.سعد نے پھر تیسری دفعہ آپ کو توجہ دلائی اس پر آپ نے فرمایا سعد تو ہم سے جھگڑا کرتا ہے.خدا کی قسم بات یہ ہے کہ بعض وقت میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ غیر اس کا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتا ہے مگر میں
سیرت المہدی 30 حصہ اوّل اسے اس لئے دیتا ہوں کہ کہیں وہ منہ کے بل آگ میں نہ جا پڑے.یعنی تالیف قلب کے طور پر دیتا ہوں کہ کہیں اسے ابتلا نہ آجاوے.قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جس کے ایمان کی حالت مطمئن ہو اسے اس ظاہری عزت اور خاطر مدارات کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے ساتھ اور طریق پر معاملہ ہوتا ہے.41 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرز افضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر بھیجے دی ماں“ کہا کرتے تھے بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے مباشرت ترک کر دی تھی ہاں آپ اخراجات وغیرہ با قاعدہ دیا کرتے تھے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کرلی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو میں گنہگار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاؤں گا.انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتار ہاشی کہ محمدی بیگم کا سوال اُٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے ۲ رمئی ۱۸۹۱ء کو شائع کیا اور جس کی سرخی تھی اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین اس میں آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اگر مرزا سلطان احمد اور ان کی والدہ اس امر میں مخالفانہ کوشش سے الگ نہ ہو گئے تو پھر آپ کی طرف سے مرزا سلطان احمد عاق اور محروم الا رث ہوں گے اور ان کی والدہ کو آپ کی طرف سے طلاق ہوگی.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ فضل احمد نے اس وقت اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچالیا.نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ
سیرت المہدی 31 حصہ اوّل سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی.واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ پھیچے کی ماں بیمار ہے اور یہ تکلیف ہے.آپ خاموش رہے.میں نے دوسری دفعہ کہا تو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارہ کنایہ مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی.42 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز ظہر کے بعد مسجد میں بیٹھ گئے ان دنوں میں آپ نے شیخ سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق لکھا تھا کہ یہ ابتر رہے گا اور اس کا بیٹا جواب موجود ہے وہ نامرد ہے گویا اس کی اولاد آگے نہیں چلے گی (خاکسار عرض کرتا ہے کہ سعد اللہ سخت معاند تھا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف بہت بیہودہ گوئی کیا کرتا تھا) مگرا بھی آپ کی یہ تحریر شائع نہ ہوئی تھی.اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے آپ سے عرض کیا کہ ایسا لکھنا قانون کے خلاف ہے.اس کالڑ کا اگر مقدمہ کر دے تو پھر اس بات کا کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ وہ واقعی نامرد ہے.حضرت صاحب پہلے نرمی کے ساتھ مناسب طریق پر جواب دیتے رہے مگر جب مولوی محمد علی صاحب نے بار بار پیش کیا اور اپنی رائے پر اصرار کیا تو حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے غصے کے لہجے میں فرمایا.” جب نبی ہتھیار لگا کر باہر آ جاتا ہے تو پھر ہتھیار نہیں اتارتا“ 43 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب اوائل میں تعلیم کے لئے باہر گئے تو شائد دتی کی بات ہے کہ وہ ایک مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے چونکہ زاد ختم ہو گیا تھا کئی وقت فاقے گذر گئے تھے آخر کسی نے ان کو طالب علم سمجھ کر ایک چپاتی دی جو بوجہ باسی ہو جانے کے خشک ہو کر نہایت سخت ہو چکی تھی.والد صاحب نے لے لی مگرا بھی کھائی نہ تھی کہ آپ کا ساتھی جو قادیان کا کوئی شخص تھا اور اس پر بھی اسی طرح فاقہ تھا بولا.”مرزا جی
سیرت المہدی 32 حصہ اوّل ساڈاوی دھیان رکھنا ، یعنی مرزا صاحب ہمارا بھی خیال رہے.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس پر والد صاحب نے وہ چپاتی اس کی طرف پھینک دی جو اس کے ناک کے اوپر لگی اور لگتے ہی وہاں سے ایک خون کی نالی یہ گلی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ساتھی بھی قادیان کا کوئی ملل تھا مگر حضرت خلیفۃ السیح الثانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہے کہ وہ کوئی نائی یا مراثی تھا چنانچہ حضرت صاحب لطیفہ کے طور پر بیان فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو ایسے موقعہ پر بھی جنسی کی بات ہی سوجھتی ہے.44 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہارے دادا نے قادیان کی جائیداد پر حقوق مالکانہ برقرار رکھوانے کے لئے شروع شروع میں بہت مقدمات کئے اور جتنا کشمیر کی ملازمت میں اور اس کے بعد روپیہ جمع کیا تھا اور وہ قریباً ایک لاکھ تھا سب ان مقدمات پر صرف کر دیا.والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس زمانے میں اتنے روپے سے سو گنے بڑی جائیداد خریدی جاسکتی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کو یہ خیال تھا کہ خواہ کچھ ہو قادیان اور علاقہ کے پرانے جدی حقوق ہاتھ سے نہ جائیں اور ہم نے سنا ہے کہ دادا صاحب کہا کرتے تھے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان ہمارے بزرگوں کا آباد کیا ہوا ہے جو آخر عہد بابری میں ہندوستان آئے تھے.قادیان اور کئی میل تک اس کے اردگرد کے دیہات ہمارے آباء کے پاس بطور ریاست یا جاگیر کے تھے.رام گڑھی سکھوں کے زمانہ میں ہمارے خاندان کو بہت مصائب دیکھنے پڑے اور سخت تباہی آئی لیکن پھر راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے عہد میں ہماری جاگیر کا کچھ حصہ ہمارے آباء کو واپس مل گیا تھا.لیکن پھر ابتداء سلطنت انگریزی میں پچھلے کئی حقوق ضبط ہو گئے اور کئی مقدمات کے بعد جن پر دادا صاحب کا زر کثیر صرف ہوا صرف قادیان اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ اور قادیان کے قریب کے تین دیہات پر حقوق تعلقہ داری ہمارے خاندان کے لئے تسلیم کئے گئے.یہ حقوق اب تک قائم ہیں ہاں درمیان میں بعض اپنے ہی رشتہ داروں کی مقدمہ بازی کی وجہ سے
سیرت المہدی 33 حصہ اوّل ہمارے تایا صاحب کے زمانہ میں قادیان کی جائداد کا بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ لاہوری کے خاندان کے پاس چلا گیا تھا اور قریباً پینتیس سال تک اسی خاندان میں رہا لیکن اب حال میں وہ حصہ بھی خدا کے فضل سے ہم کو واپس آ گیا ہے.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ جب تمہارے تایا کے زمانہ میں قادیان کی جائداد کا بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ کو چلا گیا تو تمہارے تایا کو سخت صدمہ ہوا جس سے وہ بیمار ہو گئے اور قریباً دوسال بعد اسی بیماری میں فوت ہوئے مگر باوجود خلاف ڈگری ہو جانے کے انہوں نے اپنی زندگی میں فریق مخالف کو قبضہ نہیں دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی مقدمہ اور وہی ڈگری ہے جس کا حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کو روکا تھا کہ مقابلہ نہ کریں اور حق تسلیم کر لیں کیونکہ آپ کو خدا نے بتایا تھا کہ مقدمہ کا انجام خلاف ہے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بھائی صاحب نے عذر کر دیا اور نہ مانا.پھر جب ڈگری ہو جانے کی خبر آئی تو اس وقت حضرت صاحب اپنے حجرے میں تھے.تایا صاحب باہر سے کانپتے ہوئے ڈگری کا پرچہ ہاتھ میں لئے اندر آئے اور حضرت صاحب کے سامنے وہ کاغذ ڈال دیا اور کہا.”لے غلام احمد جو تو کہندا سی او ہوائی ہو گیا ائے“ یعنی لو غلام احمد جو تم کہتے تھے وہی ہو گیا ہے اور پھر غش کھا کر گر گئے والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ پھرتا یا صاحب کی وفات کے بعد حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد صاحب کو بلا کر فرمایا کہ قبضہ دے دو.چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ڈگری کے مطابق قبضہ دے دیا اور جائداد کا کچھ حصہ اونے پونے فروخت کر کے خرچے کا روپیہ بھی ادا کر دیا.اس روایت میں جو خاکسار کی طرف سے یہ فقرہ درج ہوا ہے کہ ” قادیان اور اس کے اندر مشمولہ دور یہات پر حقوق مالکانہ تسلیم کئے گئے یہ درست نہیں ہے بلکہ سہو قلم سے یہ الفاظ درج ہو گئے ہیں کیونکہ حق یہ ہے کہ قادیان کے مشمولہ دو گاؤں جن کا نام قادر آباد اور احمد آباد ہے وہ دونوں دادا صاحب نے سلطنت انگریزی کے قیام کے بعد آباد کئے تھے اس لئے الفاظ اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات حذف سمجھے جانے چاہئیں.) 45 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرزا
سیرت المہدی 34 حصہ اوّل غلام مرتضی صاحب نے ۱۸۷۶ء ماہ جون یا حضرت صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ۲۰ اگست ۱۸۷۵ء میں وفات پائی اور آپ کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے.دادا صاحب کی عمر وفات کے وقت اسی سے اوپر تھی اور تایا صاحب کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی.حضرت مسیح موعود کی تاریخ پیدائش کے متعلق اختلاف ہے.خود آپ کی اپنی تحریرات بھی اس بارے میں مختلف ہیں.دراصل وہ سکھوں کا زمانہ تھا اور پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا.حضرت مسیح موعود نے بعض جگہ ۱۸۳۹ ء یا ۱۸۴۰ء بیان کیا ہے مگر آپ کی اپنی ہی دوسری تحریرات سے اس کی تردید ہوتی ہے.درحقیقت آپ نے خود اپنی عمر کے متعلق اپنے اندازوں کو غیر یقینی قراد دیا ہے.دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۱۹۳.( اور صیح تاریخ ۱۸۳۶ء معلوم ہوئی ہے ) نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی ایک دوسری تحریر سے دادا صاحب کی وفات کی تاریخ جون ۱۸۷۴ء ثابت ہوتی ہے.مگر جہاں تک میری تحقیق ہے ۱۸۷۵ء اور ۱۸۷۴ء ہر دو غلط ہیں اور جیسا کہ سرکاری کاغذات سے پتہ لگتا ہے صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہے.مگر حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا.واللہ اعلم) 46 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود پانچ بہن بھائی تھے.سب سے بڑی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جن کی شادی مرزا غلام غوث ہوشیار پوری کے ساتھ ہوئی تھی.حضرت صاحب کی یہ ہمشیرہ صاحب رویاء و کشف تھیں ان کا نام مراد بی بی تھا.ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب تھے.ان سے چھوٹا ایک لڑکا تھا جو بچپن میں فوت ہو گیا.اس سے چھوٹی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جو آپ کے ساتھ تو ام پیدا ہوئی اور جلد فوت ہوگئی اس کا نام جنت تھا سب سے چھوٹے حضرت مسیح موعود تھے.والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا.بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پتر پرلکھی ہوئی سورۃ مریم تھی.( خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ بھوج پتر دیکھا ہے جواب تک ہماری بڑی بھاوج صاحبه یعنی والدہ مرزا رشید احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے)
سیرت المہدی 35 حصہ اوّل 47 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یوں تو الہامات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا لیکن وہ الہام جس میں آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے صریح طور پر مامور کیا گیا مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا جب کہ آپ براہین احمدیہ حصہ سوئم تحریر فرمارہے تھے دیکھو براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۳۸) لیکن اس وقت آپ نے سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے مزید حکم تک توقف کیا چنا نچہ جب فرمان الہی نازل ہوا تو آپ نے بیعت کے لئے دسمبر ۱۸۸۸ء میں اعلان فرمایا اور بذریعہ اشتہار لوگوں کو دعوت دی اور شروع ۱۸۸۹ء میں بیعت لینا شروع فرما دی لیکن اس وقت تک بھی آپ کو صرف مجد دو مامور ہونے کا دعوی تھا اور گو شروع دعوی ماموریت سے ہی آپ کے الہامات میں آپ کے مسیح موعود ہونے کی طرف صریح اشارات تھے لیکن قدرت الہی کہ ایک مدت تک آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی نہیں کیا بلکہ صرف یہ فرماتے رہے کہ مجھے اصلاح خلق کے لئے مسیح ناصری کے رنگ میں قائم کیا گیا ہے اور مجھے مسیح سے مماثلت ہے.اس کے بعد شروع ۱۸۹۱ء میں آپ نے حضرت مسیح ناصری کی موت کے عقیدہ کا اعلان فرمایا اور یہ دعویٰ فرمایا کہ جس مسیح کا اس امت کے لئے وعدہ تھا وہ میں ہوں.آپ کی عام مخالفت کا اصل سلسلہ اسی دعویٰ سے شروع ہوتا ہے.آپ کے نبی اور رسول ہونے کے متعلق بھی ابتدائی الہامات میں صریح اشارے پائے جاتے ہیں مگر اس دعوئی سے بھی مشیت ایزدی نے آپ کو رو کے رکھاتی کہ بیسویں صدی کا ظہور ہو گیا تب جا کر آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ صراحتا استعمال فرمانے شروع کئے.اور خاص طور پر مثیل کرشن علیہ السلام ہونے کا دعوی تو آپ نے اس کے بھی بہت بعد یعنی ۱۹۰۴ء میں شائع کیا.اور یہ سب کچھ خدائی تصرف کے ماتحت ہوا آپ کا اس میں ذرہ دخل نہیں تھا.آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی میں بھی یہی تدریجی ظہور نظر آتا ہے اور اس میں کئی حکمتیں ہیں جن کے بیان کی اس جگہ گنجائش نہیں.48 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دادا یعنی مرزا گل محمد صاحب بڑے پارسا اور متقی اور علم دوست آدمی تھے.ان کے زمانہ میں قادیان باعمل علماء کا ایک مرکز تھا.مگر
سیرت المہدی 36 حصہ اوّل ان کے زمانہ میں سکھوں کی طرف سے ہماری جدی ریاست پر حملے شروع ہو گئے تھے اور کئی گاؤں چھن بھی گئے تھے مگر انہوں نے بڑا حصہ جاگیر کا بچائے رکھا ان کی وفات کے بعد جو غالبا ۱۸۰۰ء میں واقع ہوئی ان کے لڑکے مرزا عطا محمد صاحب خاندان کے رئیس ہوئے ان کے زمانہ میں رام گڑھی سکھوں نے ساری ریاست چھین لی اور ان کو قادیان میں جو ان دنوں میں فصیل سے محفوظ تھا محصور ہونا پڑا.آخر سکھوں نے دھوکے سے شہر پر قبضہ پالیا اور ہمارے کتب خانے کو جلا دیا اور مرزا عطا محمد صاحب کو مع اپنے عزیزوں کے قادیان سے نکل جانا پڑا.چنانچہ مرزا عطا محمد صاحب بیگووال ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے جہاں کے سکھ رئیس نے ان کو بڑی عزت سے جگہ دی اور مہمان رکھا.چند سال کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کو دشمنوں نے زہر دلوا دیا اور وہ فوت ہو گئے اس وقت ہمارے دادا صاحب کی عمر چھوٹی تھی مگر والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ باوجود اس کے وہ اپنے والد صاحب کا جنازہ قادیان لائے تا خاندانی مقبرہ میں دفن کریں.یہاں کے سکھوں نے مزاحمت کی لیکن قادیان کی عام پبلک خصوصاً کمیں لوگوں نے دادا صاحب کا ساتھ دیا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ سکھوں کو خوف پیدا ہوا کہ بغاوت نہ ہو جاوے اس لئے انہوں نے اجازت دے دی.اس کے بعد دادا صاحب واپس چلے گئے.اس زمانہ میں سکھوں نے ہماری تمام جائداد اور مکانات پر قبضہ کیا ہوا تھا اور بعض مسجدوں کو بھی دھرم سالہ بنالیا تھا.پھر راجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں رام گڑھیوں کا زور ٹوٹ گیا اور سارا ملک را جہ رنجیت سنگھ کے ماتحت آ گیا.اس وقت دادا صاحب نے را جہ سے اپنی جدی جائداد کا کچھ حصہ واپس حاصل کیا اور قادیان واپس آگئے اس کے بعد دادا صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ماتحت کئی فوجی خدمات انجام دیں.چنانچہ یہ سب باتیں کتاب پنجاب چیفس مصنفہ سر لیپل گریفن میں مفصل درج ہیں.سکھ حکومت کے اختتام پر پھر ملک میں بدامنی پھیلی اور ہمارے خاندان کو پھر مصائب کا سامنا ہوا چنانچہ ہمارے دادا صاحب اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کے قلعہ بسر اواں میں قید کئے جانے کا واقعہ غالبا اسی زمانہ کا ہے.اس کے بعد انگریز آئے تو انہوں نے ہماری خاندانی جاگیر ضبط کر لی.اور صرف سات سو روپیہ سالانہ کی ایک اعزازی پینشن نقدی کی صورت میں مقرر کر دی جو ہمارے دادا صاحب کی وفات پر صرف ایک سواستی رہ گئی اور پھر تا یا
سیرت المہدی 37 حصہ اوّل صاحب کے بعد بالکل بند ہوگئی ، علاوہ ازیں ان تغیرات عظیمہ یعنی سکھوں کے آخر عہد کی بدامنی اور پھر سلطنت کی تبدیلی کے نتیجہ میں قادیان اور اس کے گردونواح کے متعلق ہمارے حقوق مالکانہ کے بارے میں بھی کئی سوال اور تنازعات پیدا ہو گئے چنانچہ اس زمانہ میں بعض دیہات کے متعلق ہمارے حقوق بالکل تلف ہو گئے اور صرف قادیان اور چند ملحقہ دیہات کے متعلق دادا صاحب نے زر کثیر صرف کر کے کچھ حقوق واپس لئے.سنا گیا ہے کہ مقدمات سے پہلے دادا صاحب نے تمام رشتہ داروں سے کہا کہ میں مقدمہ کرنا چاہتا ہوں اگر تم نے ساتھ شامل ہونا ہے تو ہو جاؤ لیکن چونکہ کامیابی کی امید کم تھی اس لئے سب نے انکار کیا اور کہا کہ آپ ہی مقدمہ کریں اور اگر کچھ ملتا ہے تو آپ ہی لے لیں.لیکن جب کچھ حقوق مل گئے تو دادا صاحب کے مختار کی سادگی سے تمام رشتہ داروں کا نام خانہ ملکیت میں درج ہو گیا مگر قبضہ صرف دادا صاحب کا رہا اور باقیوں کو صرف آمد سے کچھ حصہ مل جاتا تھا.ہمارے خاندان کا ۱۸۶۵ء کے قریب کا شجرہ درج ذیل ہے.مرزا ہادی بیگ مورث اعلیٰ مرزا محمد اسلم مرز امحمد قائم مرزا فیض محمدم مرز اگل محمد مرزا عطا محمد مرزا میر محمد مرزا نور محمد مرزا اتصدق جیلانی مرزا قاسم بیگ مرز اعلام رسول مرزا غلام صمدانی مرزا غلام جیلانی مرز اغلام نحوست مسماة سندن بیوه مسماة سكينہ بیوہ عرف بولا مرزا غلام رسول مرزا غلام صمدانی مرز اغلام مصطفه مرز اغلام مرتضے مرز اعلام محمد مرز اغلام محی الدین مرزا غلام حیدر مرزا غلام قادر حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مرزا غلام حسین عرف حسین بیگ مرز امام الدین مرز انظام الدین مرزا کمال دین
سیرت المہ المهدی 38 حصہ اوّل جن اسماء کے گرد چوکور خطوط دکھائے گئے ہیں وہ ان لوگوں کے نام ہیں جو ۱۸۶۵ء میں قادیان میں حصہ دار درج تھے.قادیان کی کل ملکیت پانچ حصوں میں تقسیم کی گئی تھی.دو حصے اولاد مرزا تصدق جیلانی کو آئے تھے اور دو حصے اولا د مرزا گل محمد صاحب کو اور ایک حصہ خاص مرزا غلام مرتضی صاحب کو بحیثیت منصرم کے آیا تھا جو بعد میں صرف ان کی اولاد میں تقسیم ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد غیر قابض شرکاء نے مرزا امام الدین وغیرہ کی فتنہ پردازی سے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب پر دخل یابی جائیداد کا دعوی دائر کر دیا اور بالآخر چیف کورٹ سے تایا صاحب کے خلاف فیصلہ ہوا.اس کے بعد پسران مرزا تصدق جیلانی اور مرزا غلام غوث ولد مرزا قاسم بیگ کا حصہ تو اس سمجھوتے کے مطابق جو پہلے سے ہو چکا تھا مرزا اعظم بیگ لاہوری نے خرید لیا جس نے مقدمہ کا سارا خرچ اسی غرض سے برداشت کیا تھا اور پسران غلام محی الدین صاحب اپنے اپنے حصہ پر خود قابض ہو گئے.مرزا غلام حسین کی چونکہ نسل نہیں چلی اس لئے ان کا حصہ پسران مرزا غلام مرتضی صاحب و پسران مرزا غلام محی الدین کو آ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت مرزا تصدق جیلانی اور مرزا قاسم بیگ کی تمام شاخ معدوم ہو چکی ہے.على هذا القياس مرزا غلام حیدر کی بھی شاخ معدوم ہے.ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب اور مرزا امام الدین اور مرزا کمال الدین بھی لا ولد فوت ہوئے.ہاں مرزا نظام الدین کا ایک لڑکا مرزاگل محمد موجود ہے مگر وہ احمدی ہو کر حضرت صاحب کی روحانی اولاد میں داخل ہو چکا ہے.قَالَ اللَّهُ تَعَالَى " يَنْقَطِعُ ابَاؤُكَ وَيُبْدَءُ مِنكَ ( تذکرہ صفحہ ۳۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) اور یہ الہام اس وقت کا ہے جب آپ کے شجرہ خاندانی کی یہ تمام شاخیں سرسبز تھیں.49 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا.جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا.اور ادھر اُدھر پھراتا رہا.پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور
سیرت المہدی 39 حصہ اوّل چلا گیا.حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جا ئیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے.پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ جس پر حضرت صاحب فورا روانہ ہو گئے.امرتسر پہنچ کر قادیان آنے کے واسطے یکہ کرایہ پر لیا.اس موقعہ پر قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کے لینے کے لئے امرتسر پہنچ گیا.اس آدمی نے کہا یکہ جلدی چلاؤ کیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی.پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہو گئی ہوں.والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دراصل والدہ فوت ہو چکی ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتیں تو وہ شخص ایسے الفاظ نہ بولتا.چنانچہ قادیان پہنچے تو پتہ لگا کہ واقعی وہ فوت ہو چکی تھیں.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین اِدھر اُدھر پھرتا رہا.آخر اس نے چائے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچالیا ور نہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا ایک چچازاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت ۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء کا واقعہ ہے.اس روایت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سیالکوٹ میں ملازم ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپ سے مرزا امام الدین نے دادا صاحب کی پنشن کا روپیہ دھوکا دے کر اڑ الیا تھا کیونکہ تھا جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیفات میں تصریح کی ہے آپ کی ملازمت اختیار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کے والد صاحب ملازمت کے لئے زور دیتے رہتے تھے ورنہ آپ کی اپنی رائے ملازمت کے خلاف تھی اسی طرح ملا زمت چھوڑ دینے کی بھی اصل وجہ یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملازمت کو نا پسند فرماتے تھے اور اپنے والد صاحب کو ملازمت ترک کر دینے کی اجازت کے لئے لکھتے رہتے تھے لیکن دادا صاحب ترک ملازمت کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر بالآ خر جب دادی صاحبہ بیمار ہوئیں تو دادا صاحب نے اجازت بھیجوادی کہ ملازمت چھوڑ کر آ جاؤ.)
سیرت المہدی 40 حصہ اوّل 50 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ طبابت کا علم ہمارا خاندانی علم ہے اور ہمیشہ سے ہمارا خاندان اس علم میں ماہر رہا ہے.دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے.تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی.حضرت مسیح موعود بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے اور گھر میں ادویہ کا ایک ذخیرہ رکھا کرتے تھے جس سے بیماروں کو دوا دیتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب نے بھی طب پڑھی تھی.اور خاکسار سے حضرت خلیفہ ثانی نے ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعود نے علم طب کے پڑھنے کے متعلق تاکید فرمائی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ علم طب ہمارے خاندان کی خصوصیت رہا ہے.ہمارے خاندان میں سے کبھی کسی نے اس علم کو اپنے روز گار کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ ہی علاج کے بدلے میں کسی سے کبھی کچھ معاوضہ لیا.51 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کیساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں.والدہ صاحب نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے.آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجہ میں بعض لوگ خصوصاً عورتیں اپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں چنا نچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بھی بچپن میں کبھی اس لفظ سے پکار لیتی تھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سندھی غالبا دسوندھی یا دسبندھی سے بگڑا ہوا ہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجہ میں دس دفعہ کوئی چیز باندھی جاوے اور بعض دفعہ منت کو ئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیار سے عورتیں اپنے کسی بچے پر یہ رسم ادا کر کے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں.( اس روایت میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود بچپن میں کبھی کبھی شکار کی ہوئی چڑیا کوسرکنڈے سے
سیرت المہدی 41 حصہ اوّل ذبح کر لیتے تھے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس جگہ سرکنڈے سے پورا گول سر کنڈ امراد نہیں ہے بلکہ سرکنڈے کا کٹا ہوا ٹکڑا مراد ہے.جو بعض اوقات اتنا تیز ہوتا ہے کہ معمولی چاقو کی تیزی بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.چنانچہ خود خاکسار راقم الحروف کو کئی دفعہ بچپن میں سرکنڈے سے اپنے ہاتھوں کو زخمی کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور پھر ایک چڑیا جیسے جانور کا چھڑا تو اس قدر نرم ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے سے کٹ جاتا ہے.دوسری بات جو اس روایت میں قابل نوٹ ہے وہ لفظ سندھی سے تعلق رکھتی ہے.یعنی یہ کہ اس لفظ سے کیا مراد ہے اور وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے حضرت مسیح موعود" کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا.سوروایت کرنے والی عورتوں کے متعلق میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا ہے.وہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون عورتیں تھیں.مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ وہ باہر سے قادیان آئی تھیں.اور ایمہ ضلع ہوشیار پور سے اپنا آنا بیان کرتی تھیں.اس کے سوا مجھے ان کے متعلق کوئی علم نہیں ہے.لفظ سندھی کے متعلق خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس لفظ کے متعلق مزید تحقیق کی ہے یہ لفظ ہندی الاصل ہے جس کے معنی مناسب وقت یا صلح یا جوڑ کے ہیں.پس اگر یہ روایت درست ہے تو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس لفظ کے کبھی کبھی استعمال ہونے میں خدا کی طرف سے یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جو عین وقت پر آنے والا ہے یا یہ کہ یہی وہ شخص ہے جو خدا کی طرف سے صلح اور امن کا پیغام لے کر آئے گا.(دیکھو حدیث یضع الحرب ) یا یہ کہ بشخص لوگوں کو خدا کے ساتھ ملانے والا ہوگا.یا یہ کہ یہ خود اپنی پیدائش میں جوڑا یعنی توام پیدا ہونے والا ہوگا ( مسیح موعود کے متعلق یہ بھی پیشگوئی تھی کہ وہ جوڑا پیدا ہو گا) پس اگر یہ روایت درست ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں اشارات کی غرض سے ہے.واللہ اعلم باقی رہا کسی معاند کا یہ مذاق اڑانا کہ گویا حضرت مسیح موعود کا نام ہی سندھی تھا.سواصولاً اس کا یہ جواب ہے کہ جب تک کسی نام میں کوئی بات خلاف مذہب یا خلاف اخلاق نہیں ہے اس پر کوئی شریف زادہ اعتراض نہیں کر سکتا.گزشتہ انبیاء کے جو نام ہیں.وہ بھی آخر کسی نہ کسی زبان کے لفظ ہیں.اور کم از کم بعض ناموں
سیرت المہدی 42 حصہ اوّل کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کے کیا کیا معنی ہیں.پھر اگر بالفرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی ہندی الاصل نام پالیا.تو اس میں حرج کونسا ہو گیا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل بے بنیاد اور سراسر افترا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سندھی تھا.اور اگر کسی مخالف یا معاند کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو وہ مرد میدان بن کر سامنے آئے اور اسے پیش کرے ورنہ اس خدائی وعید سے ڈرے.جو مفتریوں کے لئے لعنت کی صورت میں مقرر ہے.حقیقت یہ ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مرزا غلام احمد تھا.چنانچہ (۱) یہی نام آپ کے والدین نے رکھا اور (۲) اسی نام سے آپ کے والد صاحب آپ کو ہمیشہ پکارتے تھے اور (۳) اسی نام سے سب دوست و دشمن آپ کو یاد کرتے تھے اور (۴) میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت (از ۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء) کے بعض سرکاری کاغذات دیکھے ہیں.جواب تک محفوظ ہیں ان میں بھی یہی نام درج ہے اور (۵) اسی نام کی بناء پر دادا صاحب نے اپنے ایک آباد کردہ گاؤں کا نام احمد آباد رکھا اور (۶) دادا صاحب کی وفات کے بعد جو حضرت صاحب کے دعوی مسیحیت سے چودہ سال پہلے ۱۸۷۶ء میں ہوئی.جب کاغذات مال میں ہمارے تایا اور حضرت صاحب کے نام جائداد کا انتقال درج ہوا.تو اس میں بھی غلام احمد نام ہی درج ہوا اور (۷) کتاب پنجاب چیفس میں بھی جو حکومت کی طرف سے شائع شدہ ہے یہی نام لکھا ہے اور (۸) دوسرے بھی سارے سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں یہی نام درج ہوتا رہا ہے اور (۹) دوسرے عزیزوں اور قرابت داروں کے ناموں کا قیاس بھی اسی نام کا مؤید ہے اور (۱۰) خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہمیشہ اپنے خطوط اور تحریرات اور تصانیف وغیرہ میں یہی نام استعمال کیا اور (۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عدالت ہائے انگریزی میں جتنے مقدمات ہوئے ان سب میں حکام اور مخالفین ہر دو کی طرف سے یہی نام استعمال ہوتا رہا اور (۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی سے پہلے جب اول المکفرین مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ پر ریو یولکھا تو انہوں نے اس میں بھی یہی نام لکھا اور (۱۳) اشد المعاندین مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنی جملہ مخالفانہ تصنیفات میں ہمیشہ یہی نام استعمال کیا اور (۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جن بیسیوں ہندو سکھ، عیسائی مسلمان
سیرت المہدی 43 حصہ اوّل اخباروں نے آپ کے متعلق نوٹ لکھے انہوں نے بھی اسی نام سے آپ کا ذکر کیا.اگر باوجود اس عظیم الشان شہادت کے کسی معاند کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام غلام احمد نہیں تھا.بلکہ سندھی یا کچھ اور تھا.تو اس کا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین) اس ضمن میں روایات نمبر ۴۴۲۵، ۹۸، ۱۲۹ ۱۳۴۰ ۴۱۲ اور ۴۳۸ بھی قابل ملاحظہ ہیں جن سے اس بحث پر مزید روشنی پڑتی ہے.52 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے جھنڈا سنگھ ساکن کا لہواں نے کہ میں بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا جایا کرتا تھا.ایک دفعہ مجھے بڑے مرزا صاحب نے کہا کہ جاؤ غلام احمد کو بلالا ؤ ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آیا ہے اس کا منشاء ہو تو کسی اچھے عہدہ پر نو کر کرا دوں.جھنڈا سنگھ کہتا تھا کہ میں مرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھا چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کر رہے ہیں.میں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچا دیا.مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ” میں تو نوکر ہو گیا ہوں“ بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہو گئے ہو ؟ مرزا صاحب نے کہا ہاں ہو گیا ہوں.اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا اچھا اگر نو کر ہو گئے ہو تو خیر ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کا لہواں قادیان سے جنوب کی طرف دو میل کے فاصلہ پرا یک گاؤں ہے اور نوکر ہونے سے مراد خدا کی نوکری ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جھنڈا سنگھ کئی دفعہ یہ روایت بیان کر چکا ہے اور وہ قادیان کی موجودہ ترقی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود کا بہت ذکر کیا کرتا ہے اور آپ سے بہت محبت رکھتا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کو بوجہ خاندان میں سب سے بڑا اور معزز ہونے کے عام طور پر لوگ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے چنانچہ خود حضرت مسیح موعود بھی عموما ان کے متعلق یہی الفاظ فرماتے تھے.53 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود صدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ دیتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہیں لگتا تھا.خاکسار نے دریافت کیا کہ کتنا صدقہ
سیرت المہدی 44 حصہ اوّل دیا کرتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا بہت دیا کرتے تھے.اور آخری ایام میں جتنا روپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقے کے لئے الگ کر دیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے.والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ دسویں حصہ سے زیادہ نہیں دیتے تھے بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات اخراجات کی زیادت ہوتی ہے تو آدمی صدقہ میں کوتاہی کرتا ہے لیکن اگر صدقہ کا روپیہ پہلے سے الگ کر دیا جاوے تو پھر کوتا ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ روپیہ پھر دوسرے مصرف میں نہیں آسکتا.والدہ صاحبہ نے فرمایا اسی غرض سے آپ دسواں حصہ تمام آمد کا الگ کر دیتے تھے ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے.خاکسار نے عرض کیا کہ کیا آپ صدقہ دینے میں احمدی غیر احمدی کا لحاظ رکھتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیں بلکہ ہر حاجت مند کو دیتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میں قادیان میں ایسے احمدی حاجت مند بھی کم ہی ہوتے تھے.6548 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود جب کسی سے قرضہ لیتے تھے تو واپس کرتے ہوئے کچھ زیادہ دے دیتے تھے.خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی مثال یاد ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس وقت مثال تو یاد نہیں مگر آپ فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا فرمایا ہے.اور والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب کوئی نیکی کی بات نہیں بیان فرماتے تھے جب تک کہ خود اس پر عمل نہ ہو.خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود نے کبھی کسی کو قرض بھی دیا ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں کئی دفعہ دیا ہے.چنانچہ ایک دفعہ مولوی صاحب ( خلیفہ اول اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے آپ سے قرض لیا.مولوی صاحب نے جب قرض کا روپیہ واپس بھیجا تو آپ نے واپس فرما دیا اور کہلا بھیجا کہ کیا آپ ہمارے روپے کو اپنے روپے سے الگ سمجھتے ہیں.مولوی صاحب نے اسی وقت حکیم فضل الدین صاحب کو کہلا بھیجا کہ میں یہ غلطی کر کے جھاڑ کھا چکا ہوں.دیکھا تم روپیہ واپس نہ بھیجنا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ مولوی صاحب نے یہ بھی حکیم صاحب کو کہا تھا کہ اگر ضرور واپس دینا ہوا تو کسی اور طرح دے دینا.
سیرت المہدی 45 حصہ اوّل 55 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا.چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا.(حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کر وایا تھا) اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے.حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں.56 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود کھانوں میں سے پرندہ کا گوشت زیادہ پسند فرماتے تھے.شروع شروع میں بٹیر بھی کھاتے تھے لیکن جب طاعون کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے اس کا گوشت کھانا چھوڑ دیا کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ ہوتا ہے.مچھلی کا گوشت بھی حضرت صاحب کو پسند تھا.ناشتہ با قاعدہ نہیں کرتے تھے.ہاں عموما صبح کو دودھ پی لیتے تھے.خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو دودھ ہضم ہو جاتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہضم تو نہیں ہوتا تھا مگر پی لیتے تھے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ پکوڑے بھی حضرت صاحب کو پسند تھے.ایک زمانے میں سنجبین کا شربت بہت استعمال فرمایا تھا مگر پھر چھوڑ دی.ایک دفعہ آپ نے ایک لمبے عرصہ تک کوئی پکی ہوئی چیز نہیں کھائی صرف تھوڑے سے دہی کے ساتھ روٹی لگا کر کھا لیا کرتے تھے.کبھی کبھی مکی کی روٹی بھی پسند کرتے تھے.کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑ دیتے تھے.کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے.ایک زمانہ میں آپ نے چائے کا بہت استعمال فرمایا تھا مگر پھر چھوڑ دی.والدہ صاحبہ نے فرمایا حضرت صاحب کھانا بہت تھوڑا کھاتے تھے اور کھانے کا وقت بھی کوئی خاص مقرر نہیں تھا.صبح کا کھانا بعض اوقات بارہ بارہ ایک ایک بجے بھی کھاتے تھے.شام کا کھانا عموماً مغرب کے بعد مگر کبھی کبھی پہلے بھی کھا لیتے تھے.غرض کوئی وقت معین نہیں تھا، بعض اوقات خود کھانا مانگ لیتے تھے کہ لاؤ کھانا تیار ہے تو دے دو پھر میں نے کام شروع کرنا ہے.خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ کس وقت کام کرتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ بس سارا دن کام میں ہی گزرتا تھا.
سیرت المہدی 46 حصہ اوّل ۱۰ بجے ڈاک آتی تھی تو ڈاک کا مطالعہ فرماتے تھے اور اس سے پہلے بعض اوقات تصنیف کا کام شروع نہیں فرماتے تھے تاکہ ڈاک کی وجہ سے درمیان میں سلسلہ منقطع نہ ہو.مگر کبھی پہلے بھی شروع کر دیتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود روزانہ اخبار عام لاہور منگواتے اور باقاعدہ پڑھتے تھے.اس کے علاوہ آخری ایام میں اور کوئی اخبار خود نہیں منگواتے تھے.ہاں کبھی کوئی بھیج دیتا تھا تو ہ بھی پڑھ لیتے تھے.57 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ پہلے لنگر کا انتظام ہمارے گھر میں ہوتا تھا اور گھر سے سارا کھانا پک کر جاتا تھا مگر جب آخری سالوں میں زیادہ کام ہو گیا تو میں نے کہہ کر باہر انتظام کروا دیا.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کسی مہمان کے لئے خاص کھانا پکانے کیلئے بھی فرماتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں بعض اوقات فرماتے تھے کہ فلاں مہمان آئے ہیں ان کے لئے یہ کھانا تیار کر دو.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ شروع میں سب لوگ لنگر سے ہی کھانا کھاتے تھے خواہ مہمان ہوں یا یہاں مقیم ہو چکے ہوں.مقیم لوگ بعض اوقات اپنے پسند کی کوئی خاص چیز اپنے گھروں میں بھی پکا لیتے تھے مگر حضرت صاحب کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اگر ہو سکے تو ایسی چیزیں بھی ان کے لئے آپ ہی کی طرف سے تیار ہو کر جاویں اور آپ کی خواہش رہتی تھی کہ جو شخص جس قسم کے کھانے کا عادی ہو اس کو اس قسم کا کھانا دیا جا سکے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں لنگر کا انتظام خود آپ کے ہاتھ میں رہتا تھا مگر آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول نے یہ انتظام صدر انجمن احمد یہ قادیان کے سپر دفرما دیا.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بعض لوگ حضرت صاحب سے کہا کرتے تھے کہ حضور کو انتظام کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور حضور کا حرج بھی بہت ہوتا ہے اپنے خدام کے سپرد فرما دیں مگر آپ نے نہیں مانا کیونکہ آپ کو یہ اندیشہ رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے پاس انتظام جانے سے کسی مہمان کو تکلیف ہو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوشش ان لوگوں کی طرف سے تھی جو آپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایسا نہیں کہتے تھے بلکہ ان کی نیتوں میں فساد تھا اور جو منافقین مدینہ کی طرح آپ پر اخراجات لنگر خانہ کے متعلق شبہ کرتے تھے_ قال الله تعالى ” و منهم من يلمزک
سیرت المہدی في الصدقات.“ 47 حصہ اوّل 58 بسم الله الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ تمہارے تایا کے ہاں ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے تھے مگر دونوں بچپن میں فوت ہو گئے.لڑکی کا نام عصمت اور لڑکے کا نام عبدالقادر تھا.حضرت صاحب کو اپنے بھائی کی اولاد سے بہت محبت تھی چنانچہ آپ نے اپنی بڑی لڑکی کا نام اسی واسطے عصمت رکھا تھا.59 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑی بیوی سے حضرت مسیح موعود کے دولڑ کے پیدا ہوئے.اعنی مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد.حضرت صاحب ابھی گویا بچہ ہی تھے کہ مرزا سلطان احمد پیدا ہو گئے تھے.اور ہماری والدہ صاحبہ سے حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل اولاد ہوئی.عصمت جو ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی اور ۱۸۹۱ء میں فوت ہو گئی.بشیر احمد اول جو ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۸ء میں فوت ہو گیا.حضرت خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے.شوکت جو ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئی اور ۱۸۹۲ء میں فوت ہو گئی.خاکسار مرزا بشیر احمد جو۱۸۹۳ء میں پیدا ہوا.مرزا شریف احمد جو ۱۸۹۵ء میں پیدا ہوئے.مبارکہ بیگم جو ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئیں.مبارک احمد جو ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوا اور ۱۹۰۷ء میں فوت ہو گیا.امتہ انھیر جو ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئی اور ۱۹۰۳ء میں ہی فوت ہوگئی.امتہ الحفیظ بیگم جو ۱۹۰۴ء میں پیدا ہوئیں.سوائے امتہ الحفیظ بیگم کے جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال کی تھیں باقی سب بچوں کی حضرت صاحب نے اپنی زندگی میں شادی کر دی تھی.60 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تم بچے تھے اور شاید دوسری جماعت میں ہو گے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود رفع حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم اس وقت ایک چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مارر ہے اور قلابازیاں کھا رہے تھے آپ نے دیکھ کر تبسم فرمایا اور کہا دیکھو یہ کیا کر رہا ہے پھر فرمایا اسے ایم.اے کرانا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فقرہ روز مرہ کی زبان میں بے ساختہ نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر غور کریں تو اس میں دو تین پیشگوئیاں ہیں.
سیرت المہدی 48 حصہ اوّل 61 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ رات کو سوتے ہوئے پاجامہ اتار کر تہ بند باندھ لیتے تھے اور عموماً کر یہ بھی اتار کر سوتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود جب رفع حاجت کے بعد طہارت سے فارغ ہوتے تھے تو اپنا ہاتھ مٹی سے ملکر پانی سے دھوتے تھے.62 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات گھر میں بچوں کو بعض کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے.چنانچہ ایک برے بھلے کی کہانی بھی آپ عموماً سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک برا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا.اور دونو نے اپنے رنگ میں کام کئے اور آخر کار برے آدمی کا انجام برا ہوا اور اچھے کا اچھا.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک بینگن کی کہانی بھی آپ سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک آقا تھا اس نے اپنے نوکر کے سامنے بینگن کی تعریف کی تو اس نے بھی بہت تعریف کی چند دن کے بعد آقا نے مذمت کی تو نو کر بھی مذمت کرنے لگا.آقا نے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ اس دن تو تو تعریف کرتا تھا اور آج مذمت کرتا ہے.نوکر نے کہا میں تو حضور کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں ہوں.63 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ہم تینوں بھائیوں نے مل کر ایک ہوائی بندوق کے منگانے کا ارادہ کیا مگر ہم فیصلہ نہ کر سکتے تھے کہ کونسی منگوا ئیں آخر ہم نے قرعہ لکھ کر حضرت صاحب سے قرعہ اُٹھوایا اور جو بندوق نکلی وہ ہم نے منگالی.اور پھر اس سے بہت شکار کیا.( یہ ۲۲ بور کی بی.ایس اے ائیر رائفل تھی) 64 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد کو چھیڑ نے لگ گئے کہ ابا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے.میاں شریف بہت چڑتے تھے.حضرت صاحب نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرو مگر ہم بچے تھے لگے رہے.آخر میاں شریف رونے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے بہت رطوبت بہتی تھی.حضرت صاحب اُٹھے اور چاہا کہ ان کو گلے لگالیں تا کہ ان کا شک دور ہومگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بہہ رہا تھا
سیرت المہدی 49 حصہ اوّل پرے پرے کھتے تھے.حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شائد اسے تکلیف ہے اس لئے دور ہوتا ہے.چنانچہ کافی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ حضرت صاحب ان کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھجتے تھے.اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے.65 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں یا کسی اور حالت میں ہوں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ ابا پیسہ دو اور آپ اپنے رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے.اگر ہم کسی وقت کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ میاں میں اس وقت کام کر رہا ہوں زیادہ تنگ نہ کرو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا عمل کا بنا ہوا ہوتا تھا باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے یا کاج میں بندھوا لیتے تھے.اور چابیاں ازار بند کے ساتھ باندھتے تھے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا.اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تا کہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو.سوتی ازار بند میں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی.66 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک طبیعت ہوگئی.حتی کہ زندگی سے ناامیدی ہوگئی چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے چچا آپ کے پاس آکر بیٹھے اور کہنے لگے کہ دنیا میں یہی حال ہے سبھی نے مرنا ہے کوئی آگے گذر جاتا ہے کوئی پیچھے جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہونا چاہیئے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کا شور با کھلایا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس جگہ چچا سے مراد مرزا غلام محی الدین صاحب ہیں.
سیرت المہدی 50 حصہ اوّل 67 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے ہماری پھوپھی صاحبہ یعنی مرزا امام الدین کی ہمشیرہ نے جو ہماری تائی کی چھوٹی بہن ہیں اور مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بیوہ ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے والد اور تایا کو سکھوں نے بسر اواں کے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور قتل کا ارادہ رکھتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً سکھوں کے آخری عہد کی بات ہے جبکہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد ملک میں پھر بدامنی پھیل گئی تھی.اس وقت سنا ہے کہ ہمارے دادا اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کو سکھوں نے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور سننے میں آیا ہے کہ جب مرزا غلام حیدر ان کے چھوٹے بھائی کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لاہور سے کمک لا کر ان کو چھڑایا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے.بسر اواں قادیان سے قریباً اڑھائی میل مشرق کی طرف ایک گاؤں ہے اس زمانہ میں وہاں ایک خام قلعہ ہوتا تھا جواب مسمار ہو چکا ہے مگر اس کے آثار باقی ہیں.68 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میں چھوٹی لڑکی تھی تو میر صاحب ( یعنی خاکسار کے نانا جان ) کی تبدیلی ایک دفعہ یہاں قادیان بھی ہوئی تھی اور ہم یہاں چھ سات ماہ ٹھہرے تھے پھر یہاں سے دوسری جگہ میر صاحب کی تبدیلی ہوئی تو وہ تمہارے تایا سے بات کر کے ہم کو تمہارے تایا کے مکان میں چھوڑ گئے تھے اور پھر ایک مہینہ کے بعد آ کر لے گئے اس وقت تمہارے تایا قادیان سے باہر رہتے تھے اور آٹھ روز کے بعد یہاں آیا کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہے.خاکسار نے پوچھا کہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں آپ نے کبھی دیکھا تھا یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب رہتے تو اسی مکان میں تھے مگر میں نے آپ کو نہیں دیکھا اور والدہ صاحبہ نے مجھے وہ کمرہ دکھایا جس میں ان دنوں میں حضرت صاحب رہتے تھے.آج کل وہ کمرہ مرزا سلطان احمد صاحب کے قبضہ میں ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب ابتداء سے ہی گوشہ نشین تھے اس لئے والدہ صاحبہ کو دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا ہوگا.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کب کی بات ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا مجھے تاریخ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ جب ہم یہاں قادیان آئے تھے تو ان دنوں میں تمہارے دادا کی وفات کی ایک سالہ رسم ادا ہوئی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حساب سے وہ زمانہ
سیرت المہدی 51 حصہ اوّل ۱۸۷۷ء کا بنتا ہے.اس وقت والدہ صاحبہ کی عمر نو دس سال کی ہوگی اور حضرت صاحب کی عمر غالباً چالیس سال سے اوپر تھی.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ کتاب ہذا کی دوسری ایڈیشن زیر تیاری ہے وہ کمرہ جس میں حضرت صاحب ان ایام میں رہتے تھے ایک دوسرے کمرے کے تبادلہ میں ہمارے پاس آ گیا ہے اور یہ وہ چو بارہ ہے جو حضرت والدہ صاحبہ کے موجودہ باورچی خانہ کے صحن کے ساتھ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان سے ملحق ہے.) 9 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دتی میں ہو گی چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اور میر صاحب بھی اہل حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا آپ نے میر صاحب کو لکھا.شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوت عمر ناپسند کیا مگر آخر رضامند ہو گئے اور پھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دتی گئے.آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملا وامل بھی تھے.نکاح مولوی نذیرحسین نے پڑھا تھا.یہ ۲۷ محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے.اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی.حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلی نذر دیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہوگی.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایا صاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی اور مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کر وا دیا تھا.70 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ عجیب تھا قادیان میں دو دن گرمی نہیں پڑتی تھی کہ تیسرے دن بارش ہو جاتی تھی.جب گرمی پڑتی اور ہم
سیرت المہدی 52 حصہ اوّل حضرت صاحب سے کہتے کہ حضور بہت گرمی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی.نیز مولوی سید سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں فصلوں کے متعلق بھی کبھی شکایت نہیں ہوئی.خاکسار نے گھر آگر والدہ صاحبہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت صاحب جب فرماتے تھے کہ آج بہت گرمی ہے تو عموماً اسی دن یا دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی.اور آپ کے بعد تو مہینوں آگ برستی ہے اور بارش نہیں ہوتی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں قادیان میں کبھی نماز استقانہیں پڑھی گئی اور آپ کے بعد کئی دفعہ پڑھی گئی ہے.اس روایت کے متعلق یہ بات قابل نوٹ ہے کہ میرا یہ خیال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کبھی استقا کی نماز نہیں پڑھی گئی.درست نہیں نکلا.دیکھو حصہ دوم روایت نمبر ۴۱۵ مگر یہ خیال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں بالعموم زیادہ دنوں تک مسلسل شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی.بہر حال درست ہے.) 71 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ایک عام عادت تھی کہ صبح کے وقت باہر سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے.اور خدام آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک میل دو دو میل چلے جاتے تھے.اور آپ کی عادت تھی کہ بہت تیز چلتے تھے مگر بایں ہمہ آپ کی رفتار میں پورا پورا وقار ہوتا تھا.حضور سیر پر جاتے ہوئے حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ اول) کو بھی ساتھ جانے کے لئے بلالیا کرتے تھے.لیکن چونکہ مولوی صاحب بہت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتے تھے اس لئے تھوڑی دور چل کر حضرت صاحب سے پیچھے رہ جاتے تھے.جب حضور کو پتہ لگتا تھا تو مولوی صاحب کے انتظار کے لئے تھوڑی دیر سڑک پر ٹھہر جاتے تھے مگر مولوی صاحب پھر تھوڑی دور چل کر آپ سے پیچھے رہ جاتے تھے اور دو چار آدمی مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ ہو جاتے تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ حضرت صاحب سیر پر جاتے وقت نواب محمد علی خان صاحب کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے اور کئی دفعہ آپ اپنے گھر سے باہر نکل کر چوک میں اپنے خدام کے ساتھ نواب صاحب کا انتظار کیا کرتے تھے اور بعض اوقات نواب صاحب کو آنے
سیرت المہدی 53 حصہ اوّل میں دیر ہو جاتی تھی تو آپ کئی کئی منٹ ان کے دروازہ کے سامنے چوک میں کھڑے رہتے تھے اور پھر ان کو ساتھ لے کر جاتے تھے اور سیر میں حضور کی اپنے خدام کے ساتھ گفتگو ہوا کرتی تھی اور حضور تقریر فرماتے جاتے تھے اور اخبار والے اپنے طور پر نوٹ کرتے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود عموماً سیر کے لئے بسراواں کے راستہ یا بوٹر کے راستہ پر جایا کرتے تھے.بعض اوقات اپنے باغ کی طرف بھی چلے جاتے تھے اور شہتوت بیدانہ وغیرہ تڑوا کر خدام کے سامنے رکھوا دیتے تھے.اور خود بھی کھاتے تھے.سیر میں جب ایسا ہوتا کہ کسی شخص کا قدم بے احتیاطی سے حضور کے عصا پر پڑ جاتا اور وہ آپ کے ہاتھ سے گر جاتا تو حضور کبھی منہ موڑ کر نہیں دیکھتے تھے کہ کس سے گرا ہے اور بعض اوقات جب جلسوں وغیرہ کے موقعہ پر سیر میں کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے تو بعض خدام خود بخود ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے تین طرف ایک چکر سا بنا لیتے تھے تا کہ حضور کو تکلیف نہ ہو.مگر آخری جلسہ میں جو حضور کی زندگی میں ہوا جب حضور بوٹر (شمال) کی طرف سیر کے لئے نکلے تو اس کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہو گئے کہ چلنا مشکل ہو گیا لہذا حضور تھوڑی دور جا کر واپس آگئے.خاکسار کو یاد ہے کہ حضور ایک دفعہ بسر اواں (مشرق ) کے راستہ پر سیر کر کے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں قادیان سے جاتے ہوئے مرزا نظام الدین ملے جو حضور کے چچا زاد بھائی تھے مگر سخت مخالف تھے.وہ اس وقت گھوڑے پر سوار تھے حضور کو آتا دیکھ کر وہ گھوڑے سے اتر آئے اور راستہ سے ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے.جب آپ پاس سے گذرے تو انہوں نے ادب کے ساتھ جھک کر سلام کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کو جب کوئی شخص ہاتھ اُٹھا کر پاس سے گذرتا ہوا سلام کرتا تھا تو حضور بھی اس کے جواب میں ہاتھ اٹھاتے تھے.72 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درمیانہ قد تھا.رنگ گند میں تھا چہرہ بھاری تھا ، بال سیدھے اور ملائم تھے.ہاتھ پاؤں بھرے بھرے تھے.آخری عمر میں بدن کچھ بھاری ہو گیا تھا.آپ کے رنگ ڈھنگ اور خط و خال میں ایک خدا داد رعب تھا مگر آپ سے ملنے والوں کے
سیرت المہدی 54 حصہ اوّل دل آپ کے متعلق محبت سے بھر جاتے تھے اور کوئی مخفی طاقت لوگوں کو آپ کی طرف کھینچتی تھی.سینکڑوں لوگ مخالفت کے جذبات لے کر آئے اور آپ کا چہرہ دیکھتے ہی رام ہو گئے.اور کوئی دلیل نہیں پوچھی.رعب کا یہ حال تھا کہ کئی شقی بدا رادوں کے ساتھ آپ کے سامنے آتے تھے مگر آپ کے سامنے آکر دم مارنے کی طاقت نہ ملتی تھی.73 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب مردانی کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے علاج کے واسطے یہاں قادیان آیا.یہ شخص سلسلہ کا سخت دشمن تھا اور بصد مشکل قادیان آنے پر رضا مند ہوا تھا مگر اس نے میاں محمد یوسف صاحب سے یہ شرط کر لی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ سے باہر کوئی مکان لے دینا اور میں کبھی اس محلہ میں داخل نہیں ہوں گا.خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہرا اور حضرت مولوی صاحب کا علاج ہوتا رہا.جب کچھ دنوں کے بعد اسے کچھ افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا.میاں محمد یوسف صاحب نے اس سے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہو ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ.اس نے انکار کیا، میاں صاحب نے اصرار سے اسے منایا تو اس نے اس شرط پر مانا کہ ایسے وقت میں مجھے وہاں لے جاؤ کہ وہاں کوئی احمدی نہ ہو اور نہ مرزا صاحب ہوں.چنانچہ میاں محمد یوسف صاحب ایسا وقت دیکھ کر اسے مسجد مبارک میں لائے مگر قدرت خدا کہ ادھر اس نے مسجد میں قدم رکھا اور اُدھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے.اس شخص کی نظر حضور کی طرف اُٹھی اور وہ بیتاب ہو کر حضور کے سامنے آ گرا اور اسی وقت بیعت کر لی.74 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک دفعہ میرے والد یہاں آئے اور وہ سخت مخالف اور بد گو تھے اور یہاں آ کر بھی بڑی تیزی کی باتیں کرتے رہے اور وہ جب ملتان میں تھے تو کہتے تھے کہ میں اگر کبھی مرزا سے ملاتو ( نعوذ باللہ ) اسکے منہ پر بھی لعنتیں ڈالوں گا یعنی سامنے بھی یہی کہوں گا جو یہاں کہتا ہوں.خیر میں انہیں حضرت صاحب کے
سیرت المہدی 55 حصہ اوّل پاس لے گیا ، حضور جب باہر تشریف لائے تو وہ ادب سے کھڑے ہو گئے اور پھر خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئے.اس وقت مجلس میں اور لوگ بھی تھے.حضور نے بیٹھے بیٹھے تقریر فرمانی شروع کی اور کئی دفعہ کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس آئیں اور ہماری باتیں سنیں اور ہم سے سوال کریں اور ہم ان کے واسطے خرچ کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن اول تو لوگ آتے نہیں اور اگر آتے ہیں تو خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور پھر پیچھے جا کر باتیں کرتے ہیں.غرض حضور نے کھول کھول کر تقریر کی اور تبلیغ فرمائی اور انہیں بات کرنے پر کئی دفعہ ابھارا.میرا والد بڑا چرب زبان ہے مگر ان کے منہ پر گو یا مہر لگ گئی اور وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکے.وہاں سے اٹھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ وہاں بولے کیوں نہیں ؟ انہوں نے کچھ کہ کر ٹال دیا.میاں فخر الدین صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب نے اس تقریر میں میرے والد کو مخاطب نہیں کیا تھا بلکہ عام تقریر فرمائی تھی.75 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا حضرت امیر المومنین خلیفہ ثانی نے کہ ایک دفعہ ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا قادیان کسی بارات کے ساتھ آیا.یہ شخص علم توجہ کا بڑا ماہر تھا چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے ملنے چلیں اور اس کا منشاء یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپ سے بھری مجلس میں کوئی بیہودہ حرکات کرائے.جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تو اس نے اپنے علم سے آپ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ یکلخت کانپ اُٹھامگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنا کام پھر شروع کر دیا اور حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے مگر پھر اس کے بدن پر ایک سخت لرزہ آیا اور اس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی مگر وہ پھر سنبھل گیا.مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگ نکلا اور بغیر جوتا پہنے نیچے بھاگتا ہوا اتر گیا.اس کے ساتھی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا.جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر اپنی توجہ ڈالوں اور مجلس میں ان سے کوئی لغو حرکات کرا دوں لیکن جب میں نے توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ
سیرت المہدی 56 حصہ اوّل میرے سامنے مگر ایک فاصلہ پر ایک شیر بیٹھا ہے میں اسے دیکھ کر کانپ گیا لیکن میں نے جی میں ہی اپنے آپ کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے.چنانچہ میں نے پھر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی تو میں نے دیکھا کہ پھر وہی شیر میرے سامنے ہے اور میرے قریب آ گیا ہے اس پر پھر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا مگر میں پھر سنبھل گیا اور میں نے جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میں وہم سے خوف پیدا ہو گیا ہے چنانچہ میں نے اپنا دل مضبوط کر کے اور اپنی طاقت کو جمع کر کے پھر مرزا صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈالا اور پورا زور لگایا.اس پر نا گہاں میں نے دیکھا کہ وہی شیر میرے اوپر کود کر حملہ آور ہوا ہے اس وقت میں نے بے خود ہو کر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اُٹھا.حضرت خلیفہ ثانی بیان فرماتے تھے کہ وہ شخص پھر حضرت صاحب کا بہت معتقد ہو گیا تھا اور ہمیشہ جب تک زندہ رہا آپ سے خط و کتابت رکھتا تھا.76 بسم الله الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی محمد اروڑ ا صاحب مرحوم کپور تھلوی حضرت مسیح موعود کے ذکر پر کہا کرتے تھے کہ ہم تو آپ کے منہ کے بھوکے تھے.بیمار بھی ہوتے تھے تو آپ کا چہرہ دیکھنے سے اچھے ہو جاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی صاحب مرحوم پرانے مخلصوں میں سے تھے اور عشاق مسیح موعود میں ان کا نمبر صف اول میں شمار ہونا چاہئیے.6779 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے.سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دی تھی.آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے.یہ دیکھ کر مولوی عبد الکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں.ناچار مولوی عبد الکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں.حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری
سیرت المہدی 57 حصہ اوّل طرف آئے میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے؟.78 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمارتھا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کو اس کے دیکھنے کے لئے گھر میں بلایا اس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا.مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے.حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں.مولوی صاحب نے عرض کیا حضور میں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے اور ہاتھ چار پائی پر رکھ لیا.مگر حضرت صاحب نے دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اُٹھ کر چار پائی کے ایک کنارہ پر پاکتی کے اوپر بیٹھ گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا.679 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت احمد یہ کپورتھلہ اور غیر احمدیوں کا وہاں کی مسجد کے متعلق ایک مقدمہ ہو گیا.جس حج کے پاس یہ مقدمہ گیا وہ خود غیر احمدی تھا اور مخالف تھا.اس نے اس مقدمہ میں خلاف پہلو اختیار کرنا شروع کیا.اس حالت میں جماعت کپورتھلہ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود کو خطوط لکھے اور دعا کے لئے درخواست کی.حضرت صاحب نے ان کو جواب لکھا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کومل جائے گی.مگر ج نے بدستور مخالفانہ روش قائم رکھی.آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھا.جس دن اس نے فیصلہ سنانا تھا اس دن وہ صبح کے وقت کپڑے پہن کر اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں نکلا اور اپنے نوکر کو کہا کہ بوٹ پہنائے اور آپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا.نوکر نے بوٹ پہنا کر فیتہ باندھنا شروع کیا کہ یکلخت اسے کھٹ کی سی آواز آئی اس نے او پر نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ اس کا آقا بے سہارا ہو کر کرسی پر اوندھا پڑا تھا.اس نے ہاتھ لگایا تو معلوم ہوا مرا ہوا ہے گویا یکلخت دل کی حرکت بند ہو کر اس کی جان نکل گئی.اس کا قائم مقام ایک ہندو مقرر ہوا جس نے اس کے لکھے ہوئے فیصلہ کو کاٹ کر احمدیوں کے حق میں فیصلہ کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے مولوی
سیرت المہدی 58 حصہ اوّل محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے ذکر کیا کہ میں ایک دفعہ کپورتھلہ گیا تھا تو وہاں دیکھا کہ وہاں کی جماعت نے حضرت مسیح موعود کی یہ عبارت کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کومل جائے گی.خوبصورت موٹی لکھوا کر اسی مسجد میں نصب کرائی ہوئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت بہت پرانی جماعت ہے اور حضرت مسیح موعود کے دیرینہ مخلصین میں سے ہے.میں نے سنا ہوا ہے کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر ہے جس میں لکھا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح کپورتھلہ کی جماعت نے دنیا میں میرا ساتھ دیا ہے اسی طرح جنت میں بھی میرے ساتھ ہوگی.80 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے کہ میرا دادا جسے لوگ عام طور پر خلیفہ کہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت مخالف تھا اور آپ کے حق میں بہت بدزبانی کیا کرتا تھا اور والد صاحب کو بہت تنگ کیا کرتا تھا.والد صاحب نے اس سے تنگ آکر حضرت مسیح موعود کو دعا کے لئے خط لکھا.حضرت مسیح موعود کا جواب گیا کہ ہم نے دعا کی ہے.والد صاحب نے یہ خط تمام محلہ والوں کو دکھا دیا اور کہا کہ حضرت صاحب نے دعا کی ہے اب دیکھ لینا خلیفہ گالیاں نہیں دے گا.دوسرے تیسرے دن جمعہ تھا.ہمارا دادا حسب دستور غیر احمدیوں کے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا مگر وہاں سے واپس آکر غیر معمولی طور پر حضرت مسیح موعود کے متعلق خاموش رہا حالانکہ اس کی عادت تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر آنے کے بعد خصوصاً بہت گالیاں دیا کرتا تھا.لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تم آج مرزا صاحب کے متعلق خاموش کیوں ہو؟ اس نے کہا کسی کے متعلق بدزبانی کرنے سے کیا حاصل ہے اور مولوی نے بھی آج جمعہ میں وعظ کیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ کیسا ہی برا ہو ہمیں بد زبانی نہیں کرنی چاہئیے.لوگوں نے کہا اچھا یہ بات ہے؟ ہمیشہ تو تم گالیاں دیتے تھے اور آج تمہارا یہ خیال ہو گیا ہے! بلکہ اصل میں بات یہ ہے کہ بابو( میرے والد کولوگ با بو کہا کرتے تھے ) کل ہی ایک خط دکھا رہا تھا کہ قادیان سے آیا ہے اور کہتا تھا کہ اب خلیفہ گالی نہیں دے گا.مولوی رحیم بخش صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد باوجود کئی دفعہ مخالفوں کے بھڑ کانے کے میرے دادا نے کبھی حضرت مسیح موعود کے متعلق بدزبانی نہیں کی اور کبھی میرے والد صاحب کو
سیرت المہدی 59 حصہ اوّل احمدیت کی وجہ سے تنگ نہیں کیا.(اس روایت کے متعلق یہ بات قابل نوٹ ہے کہ اس کے راوی صاحب نے اب حضرت خلیفۃ المسیح کے منشاء کے ماتحت اپنا نام عبدالرحیم رکھ لیا ہے اور عموماً مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں.) 81 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا.دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا.اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا.اسکے بعد جورمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روز ہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا.اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے.خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دوران سر اور برداطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھر شوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرما دیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کر دیتے تھے اور بقیہ کا فدیہ ادا کر دیتے تھے.واللہ اعلم.82 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود“ اوائل
سیرت المہدی 60 حصہ اوّل میں غرارے استعمال فرمایا کرتے تھے پھر میں نے کہہ کر وہ ترک کروا دئے.اس کے بعد آپ معمولی پاجامے استعمال کرنے لگ گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ غرارہ بہت کھلے پائنچے کے پائجامے کو کہتے ہیں.(پہلے اس کا ہندوستان میں بہت رواج تھا اب بہت کم ہو گیا ہے.) 83 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود عام طور پر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عموما دس گز لمبی ہوتی تھی.پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے.اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کر سر پر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے.بدن پر گرمیوں میں عموما ململ کا کرتہ استعمال فرماتے تھے.اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے.پاجامہ بھی آپ کا گرم ہوتا تھا.نیز آپ عموما جراب بھی پہنے رہتے تھے بلکہ سردیوں میں دو دو جوڑے اوپر تلے پہن لیتے تھے.پاؤں میں آپ ہمیشہ دیسی جوتا پہنتے تھے.نیز بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب سے حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے اس وقت سے آپ نے سردی گرمی میں گرم کپڑے کا استعمال شروع فرما دیا تھا.ان کپڑوں میں آپ کو گرمی بھی لگتی تھی اور بعض اوقات تکلیف بھی ہوتی تھی مگر جب ایک دفعہ شروع کر دیئے تو پھر آخر تک یہی استعمال فرماتے رہے.اور جب سے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری احمدی ہوئے وہ آپ کے لئے کپڑوں کے جوڑے بنوا کر با قاعدہ لاتے تھے اور حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جیسا کپڑا کوئی لے آئے پہن لیتے تھے.ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گر گابی لے آیا.آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا اُلٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہو کر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کیلئے نشان لگا دیئے تھے مگر باوجود اس کے آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے اس لئے آپ نے اسے اتار دیا.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی قمیص کے کفوں کے متعلق بھی اسی قسم کے ناپسندیدگی کے الفاظ فرمائے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لئے
سیرت المہدی 61 حصہ اوّل انگریزی طرز کی گرم قمیص بنوا کر لایا کرتے تھے.آپ انہیں استعمال تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیں فرماتے تھے.کیونکہ اول تو کفوں کے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے دوسرے بٹنوں کے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لئے مشکل تھا.بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود کا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑ امل جاتا تھا پہن لیتے تھے.مگر عموما انگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لئے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوار کھے بہت گھبراتے تھے.گھر میں آپ کے لئے صرف ململ کے گرتے اور پگڑیاں تیار ہوتی تھیں.باقی سب کپڑے عموما هدية آپ کو آجاتے تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اس خدمت میں خاص امتیاز رکھتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود بعض اوقات کمر پر پڑکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب کبھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے.اور ہاتھ میں عصار کھنا بھی آپ کی سنت ہے.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے گرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی تھی میں نے پورے تھان کے گرتے تیار کئے.حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے کرتے کیا کرنے ہیں مگر میں نے تیار کر لئے ان میں سے اب تک بہت سے گرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں.1849 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے.85 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھاتے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں إِنَّمَا أَشْكُوا بَنِى وَحُزْنِى إِلَى اللهِ - (يوسف : ۸۷) خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی آواز میں بہت سوز اور دردتھا.اور آپ کی قراءت ہر دار ہوتی تھی.
سیرت المہدی 62 حصہ اوّل 86 کی بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے.87 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے سید فضل شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے.میں پاس بیٹھا تھا.بھائی عبداللہ صاحب سنوری بھی پاس تھے اور بعض اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے.حضرت صاحب سب کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے.مگر جب بھائی عبداللہ صاحب بولتے تھے تو حضرت صاحب دوسروں کی طرف سے توجہ ہٹا کر ان کی طرف توجہ کر لیتے تھے.مجھے اس کا ملال ہوا اور میں نے ان پر رشک کیا.حضرت صاحب میرے اس خیال کو سمجھ گئے اور میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے شاہ صاحب آپ جانتے ہیں یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا ہاں حضرت میں بھائی عبداللہ صاحب کو جانتا ہوں.آپ نے فرمایا ہمارا یہ مذہب ہے کہ قدیمان خود را بیفزائے قدر یہ آپ سے بھی قدیم ہیں.سید فضل شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس دن سے میں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ان سے مقابلہ نہیں یہ ہم سے آگے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت سید فضل شاہ صاحب نے یہ روایت بیان کی اس وقت میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی پاس بیٹھے تھے اور میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں پر نم تھیں.88 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جا کر کہیں چلہ کشی فرما ئیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے.چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سو جان پور ضلع گورداسپور میں جا کر خلوت میں رہیں اور اس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈ بھی مجھے روانہ فرمایا.میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں.حضور نے منظور فرمالیا.مگر پھر حضور کو سفر سو جان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی.چنانچہ آپ نے سو جان پور جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا.جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور
سیرت المہدی 63 حصہ اوّل نے قادیان بلالیا اور شیخ مہرعلی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دو ماہ کے واسطے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیں جو شہر کے ایک کنارے پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو.شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروا دیا.حضور پہلی میں بیٹھ کر دریا بیاس کے راستہ تشریف لے گئے.میں اور شیخ حامد علی اور فتح خان ساتھ تھے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ فتح خاں رسول پور متصل ٹانڈ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہو گیا.حضور جب دریا پر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میں کچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اُٹھا کر کشتی میں بٹھایا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا.دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے.میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پر سنی مگر جب فتح خان مرند ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی.خیر ہم راستہ میں فتح خان کے گاؤں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے.وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرما دئیے.چنانچہ میرے سپر دکھانا پکانے کا کام ہوا.فتح خان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے.شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کر دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں.ان چالیس دن کے گذرنے کے بعد میں یہاں ہمیں دن اور ٹھہروں گا.ان ہیں دنوں میں ملنے والے ملیں.دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کرنے والے سوال جواب کر لیں.اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے.میں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے.میرا کھانا او پر پہنچا دیا جاوے مگر اس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں.خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں.نماز میں اوپر الگ پڑھا
سیرت المہدی 64 حصہ اوّل کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو.جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کےایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں.چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں کھانا چھوڑ نے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا.میاں عبداللہ ! ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے.اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہو جاویں.چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ پسر موعود کے متعلق الہامات بھی اسی چلہ میں ہوئے تھے اور بعد چلّہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کا اعلان فرمایا تھا ( خاکسار عرض کرتا ہے ملاحظہ ہو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) جب چالیس دن گذر گئے تو پھر آپ حسب اعلان میں دن اور وہاں ٹھہرے.ان دنوں میں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے آئے اور باہر سے حضور کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے.انہی دنوں میں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا جو سرمہ چشم آریہ میں درج ہے.جب دو مہینے کی مدت پوری ہو گئی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے.ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا تھا.وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کیلئے بہلی سے اُتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں.اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہو گیا اور شیخ حامد علی اور فتح خان بہلی کے پاس رہے.آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ” جب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دوزانو ہو کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا.ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے، پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے
سیرت المہدی 65 حصہ اوّل حالات پوچھیں.چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا.اس نے کہا میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گذر گیا ہے.ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا.حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیا تھا ؟ وہ کہنے لگا کہ سنا ہے سانولہ رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں.پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے.خاکسار نے میاں عبداللہ صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت صاحب اس خلوت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے اور کس طرح عبادت کرتے تھے؟ میاں عبداللہ صاحب نے جواب دیا کہ یہ ہم کو معلوم نہیں کیونکہ آپ او پر بالا خانہ میں رہتے تھے اور ہم کو اوپر جانے کا حکم نہیں تھا.کھانے وغیرہ کے لئے جب ہم اوپر جاتے تھے تو اجازت لے کر جاتے تھے.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب میں کھانا رکھنے او پر گیا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ بُورِكَ مَنْ فِيْهَا وَمَنْ حَوْلَهَا اور حضور نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِيْهَا سے میں مراد ہوں اور مَنْ حَوْلَهَا سے تم لوگ مراد ہو.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں تو سارا دن گھر میں رہتا تھا صرف جمعہ کے دن حضور کے ساتھ ہی باہر جاتا تھا اور شیخ حامد علی بھی اکثر گھر میں رہتا تھا لیکن فتح خان اکثر سارا دن ہی باہر رہتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اغلب ہے کہ اس الہام کے وقت بھی وہ باہر ہی ہو.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ فتح خان ان دنوں میں اتنا معتقد تھا کہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحب کو تو میں نبی سمجھتا ہوں اور میں اس کی اس بات پر پرانے معروف عقیدہ کی بنا پر گھبرا تا تھا.میاں عبداللہ صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ میں کھانا چھوڑنے گیا تو حضور نے فرمایا مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میں ان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کروں تو یہ جتنے معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں.89 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے ) لیٹے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرم پت یا شاید لالہ ملا وامل نے دستک دی.میں اُٹھ کر
سیرت المہدی 66 حصہ اوّل کھڑ کی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اُٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئیے.90 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ بشیر اول کی پیدائش کے وقت میں قادیان میں تھا.قریباً آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعود مسجد میں تشریف لائے اور مجھے سے فرمایا میاں عبد اللہ اس وقت ہمارے گھر میں درد زہ کی بہت تکلیف ہے.آپ یہاں یسین پڑھیں اور میں اندر جا کر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ بیبین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے یسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو.اور یسین کے ختم ہونے سے پہلے تکلیف دور ہو جاتی ہے.اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اور میں یسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی یسین ختم نہیں کی تھی آپ مسکراتے ہوئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے.اسکے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور میں خوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا.91 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ مجھے دو یاد تھے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ نہیں میں نے تین دیکھے تھے اور تین ہی لکھے تھے.92 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی کیسا اخفا ہوتا ہے.پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا مگر ہمارے موجودہ سارے لڑ کے ہی کسی نہ کسی طرح تین کو چار کرنے والے ہیں.چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میاں (حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کوتو حضرت صاحب نے
سیرت المہدی 67 حصہ اوّل اس طرح تین کو چار کرنے والا قرار دیا کہ مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو بھی شمار کر لیا.اور بشیر اول متوفّی کو بھی.........تمہیں (یعنی خاکسار راقم الحروف کو ) اس طرح پر کہ صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اول متوفی کو چھوڑ دیا.شریف احمد کو اس طرح پر قرار دیا کہ اپنی پہلی بیوی کے لڑکے مرزا سلطان احمد اور فضل احمد چھوڑ دیئے اور میرے سارے لڑکے زندہ متوفی شمار کر لئے اور مبارک کو اس طرح پر کہ میرے صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اول متوفی کو چھوڑ دیا.93 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب بڑی کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات اور خوا ہیں شروع ہوگئی تھیں.جب آپ لا ہور تشریف لے گئے تو وہاں زیادہ کثرت سے ایسے الہام ہونے شروع ہوئے.اس وجہ سے اور کچھ ویسے بھی.میں نے گھبرا کر ایک دن حضرت صاحب سے کہا کہ چلو اب قادیان واپس چلیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو جب ہمیں خدا لے جائے گا تب ہی جائیں گے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی حضرت صاحب کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کو اس کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات ہوتے تھے اور وفات کے قریب تو کثرت کا یہ حال تھا کہ گویا موت بالکل سر پر کھڑی ہے آپ اپنے کام میں اسی تندہی سے لگے رہے بلکہ زیادہ ذوق شوق اور محنت سے کام شروع کر دیا.چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی ان دنوں میں بھی آپ رسالہ پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے اور تقاریر کا سلسلہ بھی برابر جاری تھا کوئی اور ہوتا تو قرب موت کی خبر سے اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جاتے اور کوئی مفتری ہوتا تو یہ وقت اس کے راز کے طشت از بام ہونے کا وقت تھا.94 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۲۵ رمئی ۱۹۰۸ء کو عصر کی نماز کے بعد یعنی اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پیشتر حضور نے لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر جہاں نماز ہوا کرتی تھی ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی جس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی کی طرف سے ایک شخص مباحثہ کا چیلنج لے کر آپ کے پاس آیا تھا.آپ نے مباحثہ کی شرائط کے لئے مولوی محمد احسن صاحب کو مقر رفرمایا اور پھر اس
سیرت المہدی 68 حصہ اوّل شخص کی موجودگی میں ایک نہایت زبردست تقریر فرمائی اور جس طرح جوش کے وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا اسی طرح اس وقت بھی یہی حال تھا.اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں.فرمایا تم عیسی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کام ختم کر چکے ہیں.95 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے کہ ایک دفعہ حضور - لدھیانہ میں تھے.میرے مکان میں ایک نیم کا درخت تھا چونکہ برسات کا موسم تھا اسکے پتے بڑے خوشنما طور پر سبز تھے.حضور نے مجھے فرمایا حاجی صاحب اس درخت کے پتوں کی طرف دیکھئے کیسے خوشنما ہیں.حاجی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں.96 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے حاجی عبدالمجید صاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب لدھیانہ میں باہر چہل قدمی کے لئے تشریف لے گئے.میں اور حافظ حامد علی ساتھ تھے.راستہ میں حافظ حامد علی نے مجھ سے کہا کہ آج رات یا شاید کہا ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ سلطنت برطانیہ تا ہشت سال بعد ازاں ایام ضعف و اختلال“.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالمجید صاحب نے یہ روایت بیان کی میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پرانا ہے.حضرت صاحب نے خود مجھے اور حافظ حامد علی کو یہ الہام سنایا تھا اور مجھے الہام اس طرح پر یاد ہے.”سلطنت برطانیہ تا هفت سال.بعد ازاں باشد خلاف واختلال.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرا مصرع تو مجھے پتھر کی لکیر کی طرح یاد ہے کہ یہی تھا.اور ہفت کا لفظ بھی یاد ہے.جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایا تو اس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی مخالف نہیں تھا.شیخ حامد علی نے اسے بھی جا سنایا.پھر جب وہ مخالف ہوا تو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لئے اپنے رسالہ میں شائع کیا کہ مرزا صاحب نے یہ الہام شائع کیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب اور حاجی عبدالمجید صاحب کی روایت میں جو اختلاف ہے وہ اگر کسی صاحب کے ضعف حافظہ پر بنی نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الہام حضور کو دو وقتوں میں دو مختلف قراءتوں پر ہوا ہو.واللہ اعلم.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کے مختلف معنی
سیرت المہدی 69 حصہ اوّل کئے گئے ہیں.بعضوں نے تاریخ الہام سے میعاد شمار کی ہے.بعضوں نے کہا ہے کہ ملکہ وکٹوریا کی وفات کے بعد سے اس کی میعادشمار ہوتی ہے.کیونکہ ملکہ کے لئے حضور نے بہت دعائیں کی تھیں.بعض اور معنے کرتے ہیں.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے نزدیک آغاز صدی بیسویں سے اس کی میعاد شروع ہوتی ہے.چنانچہ وہ کہتے تھے کہ واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں اور واقعات کے ظہور کے بعد ہی میں نے اس کے یہ معنی سمجھے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت صاحب کی وفات سے اس کی میعاد شمار کی جاوے کیونکہ حضرت صاحب نے اپنی ذات کو گورنمنٹ برطانیہ کے لئے بطور حرز کے بیان کیا ہے پس حرز کی موجودگی میں میعاد کا شمار کرنا میرے خیال میں درست نہیں.اس طرح جنگ عظیم کی ابتدا اور ہفت یا ہشت سالہ میعاد کا اختتام آپس میں مل جاتے ہیں.واللہ اعلم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم لوگوں پر بڑے احسانات ہیں ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھے.( نیز اس روایت کی مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم.روایت نمبر ۳۱۴) 97 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت کا اعلان کیا تو بیعت لینے سے پہلے آپ شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کے بلانے پر اس کے لڑکے کی شادی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے.میں اور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے.راستہ میں یکہ پر حضور نے ہم کو اپنے اس چلہ کا حال سنایا جس میں آپ نے برابر چھ ماہ تک روزے رکھے تھے.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ایک چھینکا رکھا ہوا تھا اسے میں اپنے چو بارے سے نیچے لٹکا دیتا تھا تو اس میں میری روٹی رکھدی جاتی تھی پھر اسے میں اوپر کھینچ لیتا تھا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ شیخ مہر علی نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤسا کے لئے الگ کمرہ تھا اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے واسطے الگ تھا مگر حضرت صاحب کا یہ قاعدہ تھا کہ اپنے ساتھ والوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر بھی آپ ہم تینوں کو اپنے داخل ہونے سے پہلے کمرہ میں داخل کرتے تھے اور پھر خود داخل ہوتے تھے اور اپنے دائیں بائیں ہم کو بٹھاتے تھے.انہی دنوں میں ہوشیار پور میں مولوی محمودشاہ چھچھ ہزا روی کا وعظ تھا جو نہایت مشہور اور نامور اور مقبول واعظ تھا.حضرت صاحب نے میرے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی
سیرت المہدی 70 حصہ اوّل مناسب موقع پر میرا یہ اشتہار بیعت پڑھ کر سنادیں اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آؤں گا.اس نے وعدہ کر لیا.چنانچہ حضرت صاحب اس کے وعظ میں تشریف لے گئے لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہونے لگے اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہو گئے تھے.حضرت صاحب کو اس پر بہت رنج ہوا فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ورنہ ہمیں کیا ضرورت تھی.اس نے وعدہ خلافی کی ہے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ پھر تھوڑے عرصہ کے اندر ہی وہ مولوی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا.198 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت صاحب نے پہلے دن لدھیانہ میں بیعت لی تو اس وقت آپ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے تھے اور دروازہ پر شیخ حامد علی کو مقر رکر دیا تھا.اور شیخ حمد علی کو کہ دیا تھا کہ جسے میں کہتا جاؤں اسے کمرہ کے اندر بلاتے جاؤ چنانچہ آپ نے پہلے حضرت خلیفہ اول کو بلوایا ان کے بعد میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی خوش نویس کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو اور پھر ایک یا دو اور لوگوں کو نام لے کر اندر بلایا پھر اس کے بعد شیخ حامد علی کو کہہ دیا کہ خود ایک ایک آدمی کو اندر داخل کرتے جاؤ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں حضور ایک ایک کی الگ الگ بیعت لیتے تھے لیکن پھر بعد میں اکٹھی لینے لگ گئے.اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰ / رجب ۱۳۰۶ هجری مطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ تھی کہ ور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے.” آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھونگا اور ۱۲ جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کار بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ لے جو ابتدائی رجسٹر بیعت کنندگان مجھے حال ہی میں ملا ہے اس کے اندراج کے لحاظ سے ان کا نام نمبرا اپر درج ہے (سیرت المہدی حصہ سوم ) رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹ار رجب اور ۲۱ / مارچ ظاہر ہوتی ہے.یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں کا مقابلہ بھی غلط ہو جاتا ہے اس اختلاف کی وجہ سے میں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰ / رجب کو ۲۳ مارچ ثابت ہوئی ہے.پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہو گیا ہے اور یا اس ماہ میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی.واللہ اعلم
سیرت المہدی 71 حصہ اوّل سے معافی چاہتا ہوں.” اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّى - اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي - اسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّ أَتُوبُ إِلَيْهِ ، أَشْهَدُانْ لَّا إِلهُ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِى وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِى فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر انہوں نے بیعت نہیں کی.(مزید تشریح کے لئے دیکھ حصہ دوم.روایت نمبر ۳۱۵،۳۰۹) و بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتداء ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے.میں اور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے.حضرت صاحب سید تفضل حسین صاحب تحصیل دار کے مکان پر ٹھہرے جوان دنوں دفتر ضلع میں سپر نٹنڈنٹ تھے.وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معززین کو بھی مدعو کیا.حضور تشریف لے گئے اور ہم تینوں کو حسب عادت اپنے دائیں بائیں بٹھایا.تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے.چوکیوں پر سنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے.جب کھانا شروع ہوا تو میر عباس علی نے کھانا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے.حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوں نہیں کھاتے ؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوں کے طریق کا کھانا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میں کوئی حرج نہیں یہ خلاف شرع نہیں ہے.میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا.حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب! ہم جو کھاتے ہیں.میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیں کھاتا.غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے
یرت المہدی 72 حصہ اوّل کٹ چکا تھا.نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ علی گڑھ میں لوگوں نے حضرت صاحب سے عرض کر کے حضور کے ایک لیکچر کا انتظام کیا تھا اور حضور نے منظور کر لیا تھا.جب اشتہار ہو گیا اور سب تیاری ہوگئی اور لیکچر کا وقت قریب آیا تو حضرت صاحب نے سید تفضل حسین صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ میں لیکچر نہ دوں اس لئے میں اب لیکچر نہیں دوں گا.انہوں نے کہا حضور اب تو سب کچھ ہو چکا ہے لوگوں میں بڑی بہتک ہو گی.حضرت صاحب نے فرمایا خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کریں گے.پھر اور لوگوں نے بھی حضرت صاحب سے بڑے اصرار سے عرض کیا مگر حضرت صاحب نے نہ مانا اور فرمایا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں خدا کے حکم کو چھوڑ دوں اس کے حکم کے مقابل میں میں کسی ذلت کی پروا نہیں کرتا.غرض حضرت صاحب نے لیکچر نہیں دیا اور قریباً سات دن وہاں ٹھہر کر واپس لدھیانہ تشریف لے آئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے جب پہلے پہل یہ روایت بیان کی تو یہ بیان کیا کہ یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں کیا تھا.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے عرض کیا تو انہوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ یہ سفرمیاں ( یعنی حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ) کی پیدائش بلکہ ابتدائی بیعت کے بعد ہوا تھا.جب میں نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت میاں عبداللہ صاحب کے پاس بیان کی تو انہوں نے پہلے تو اپنے خیال کی صحت پر اصرار کیا لیکن آخر ان کو یاد آ گیا کہ یہی درست ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ علی گڑھ کے سفر سے حضرت صاحب کا وہ ارادہ پورا ہوا جو حضور نے سفر ہندوستان کے متعلق کیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی سفر میں مولوی محمد اسماعیل علی گڑھی نے حضور کی مخالفت کی اور آخر آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی مگر جلد ہی اس جہاں سے گذر گیا.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف فتح اسلام کے حاشیہ میں اس سفر کا مکمل ذکر کیا ہے ) 100 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ ۱۸۸۴ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تازہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈا تھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی جالیے.چار پائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کوئی نہ تھا.حضرت کا سرقبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا.ایک
سیرت المہدی 73 حصہ اوّل کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی.میں پاؤں دبانے بیٹھ گیا.وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اس لئے میں دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں.یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کر رہا ہوں وقت فجر کا ہے جو مبارک وقت ہے مہینہ رمضان کا ہے جو مبارک مہینہ ہے.تاریخ ستائیس اور جمعہ کا دن ہے اور گزشتہ شب شب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقیناً شب قدر ہوتی ہے.میں انہی باتوں کا خیال کر کے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضور نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹا کر میری طرف دیکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اس کے بعد آپ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی.میں دباتے دباتے حضرت صاحب کی پنڈلی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ حضور کے پاؤں پر ٹخنے کے نیچے ایک اٹن یعنی سخت سی جگہ تھی اس پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو بھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے بستہ تھا.میں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا کہ کیا ہے.اس پر وہ قطرہ ٹخنے پر بھی پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا ، پھر میں نے اسے سونگھا کہ شاید اس میں کچھ خوشبو ہو مگر خوشبو نہیں تھی.میں نے اسے اس لئے سونگھا تھا کہ اسی وقت میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ یہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بات ہے اس لئے اس میں کوئی خوشبو ہوگی.پھر میں دبا تا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں میں نے اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا.اس کو بھی میں نے ٹولا تو وہ بھی گیلا تھا.اس وقت پھر مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے.پھر میں چار پائی سے آہستہ سے اُٹھا کہ حضرت صاحب جاگ نہ اُٹھیں اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے.بہت چھوٹا سا حجرہ تھا.چھت میں اردگرد میں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلا کہ کہاں سے گری ہے.مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹی ہو تو اس کا خون گرا ہواس لئے میں نے غور کے ساتھ چھت پر نظر ڈالی مگر اس کا کوئی نشان نہیں پایا.پھر آخر میں تھک کر بیٹھ گیا لے سے تصحیح مطابق روایت نمبر ۳۱۱
سیرت المہدی 74 حصہ اوّل اور بدستور دبانے لگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میں جا کر بیٹھ گئے.میں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپ کے مونڈھے دبانے لگ گیا.اس وقت میں نے عرض کیا کہ حضور یہ آپ پر سرخی کہاں سے گرمی ہے.حضور نے بہت بے توجہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہوگا اور مجھے ٹال دیا.میں نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور یہ آموں کا رس نہیں یہ تو سرخی ہے.اس پر آپ نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا ” کتھے ہے؟ یعنی کہاں ہے؟ میں نے کرتہ پر وہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے اس پر حضور نے گرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کر اس قطرہ کو دیکھا.پھر اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رویت باری اور امور کشوف کے خارج میں وجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوں کے دو ایک واقعات مجھے سنائے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کی بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوں کو دکھائی دے جاتے ہیں.شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی زیارت اپنے والد کی شکل میں ہوئی ہے نیز شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ہلدی کی گٹھی دی کہ یہ میری معرفت ہے اسے سنبھال کر رکھنا جب وہ بیدار ہوئے تو ہلدی کی گٹھی ان کی مٹھی میں موجود تھی.اور ایک بزرگ جن کا حضور نے نام نہیں بتایا تہجد کے وقت اپنے حجرہ کے اندر بیٹھے مصلی پر کچھ پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور ان کے نیچے کا مصلی نکال کر لے گیا ہے.جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ فی الواقع مصلحی ان کے نیچے نہیں تھا.جب دن نکلنے پر حجرہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلی صحن میں پڑا ہے.یہ واقعات سنا کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان بزرگوں کی کرامت ظاہر کرنے کیلئے خارج میں بھی ان کا وجود ظاہر کر دیا.اب ہمارا قصہ سنوں.جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پاؤں دبا رہے تھے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت وسیع اور مصفی مکان ہے اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میں بیٹھا ہے.میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ احکم الحاکمین یعنی رب العالمین ہیں اور میں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار ہوتا ہے.میں نے کچھ احکام قضا و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کرانے کی
سیرت المہدی 75 حصہ اوّل غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں.جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا.اس وقت میری ایسی حالت ہو گئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہوا سالہا سال کے بعد ملتا ہے اور قد رتا اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرما یا اس کو رقت آجاتی ہے اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ احکم الحاکمین یا فرما یارب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا ہے.اس کے بعد میں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کی غرض سے پیش کئے.انہوں نے قلم سرخی کی دوات میں جو پاس پڑی تھی ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کر دستخط کر دیئے.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے قلم کے جھاڑنے اور دستخط کرنے کی حرکتوں کو خود اپنے ہاتھ کی حرکت سے بنایا تھا کہ یوں کیا تھا.پھر حضرت صاحب نے فرمایا یہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے.پھر فرمایا دیکھو کوئی قطرہ تمہارے اوپر بھی گرا.میں نے اپنے گرتے کو ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا.فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو.ان دنوں میں ململ کی سفید ٹوپی میرے سر پر ہوتی تھی میں نے وہ ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا.مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے عرض کیا حضور میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے.پھر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ یہ گر تہ بڑا مبارک ہے اس کو تبرکاً لے لینا چاہئیے.پہلے میں نے اس خیال سے کہ کہیں حضور جلدی انکار نہ کر دیں حضور سے مسئلہ پوچھا کہ حضور کسی بزرگ کا کوئی متبرک کپڑے وغیرہ کالے کر رکھنا جائز ہے؟ فرمایا ہاں جائز ہے.رسول اللہ ﷺ کے تبرکات صحابہ نے رکھے تھے.پھر میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ایک سوال ہے.فرمایا کہو کیا ہے؟ عرض کیا کہ حضور یہ گر نہ تبسر کا مجھے دے دیں.فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے.میں نے عرض کیا حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات صحابہ نے رکھے.اس پر فرمایا کہ یہ گر تہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اس کی لوگ پوجا کریں گے.اس کو لوگ زیارت بنالیں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا.فرمایا میاں عبداللہ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.جو تبرک جن صحابہ کے پاس تھا وہ ان کے
سیرت المہدی 76 حصہ اوّل کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا.میں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جاؤں گا کہ یہ گر نہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے.فرمایا ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو.چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا تھوڑی دیر کے بعد حضور نے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ گر نہ سنبھال لیا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابھی آپ نے یہ گرتہ پہنا ہی ہوا تھا کہ دو تین مہمان جواردگرد سے آئے ہوئے تھے ان سے میں نے اس نشان کا ذکر کیا.وہ پھر حضرت صاحب کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میاں عبداللہ نے ہم سے ایسا بیان کیا ہے حضور نے فرمایا.ہاں ٹھیک ہے.پھر انہوں نے کہا کہ حضور یہ گرنہ ہم کو دیدیں ہم سب تقسیم کر لیں گے کیونکہ ہم سب کا اس میں حق ہے.حضرت صاحب نے فرمایا ہاں لے لینا اور ان سے کوئی شرط اور عہد وغیرہ نہیں لیا.مجھے اس وقت بہت فکر ہوا کہ یہ نشان میرے ہاتھ سے گیا.اور میرے دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی اس لئے میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور اس گر تہ پر آپ کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ میری ملک ہو چکا ہے.میرا اختیار ہے میں ان کو دوں یا نہ دوں کیونکہ میں حضور سے اس کو لے چکا ہوں.اس وقت حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ ہاں یہ تو میاں عبداللہ ہم سے لے چکے ہیں اب ان کا اختیار ہے یہ تمہیں دیں یا نہ دیں.پھر انہوں نے مجھ سے بڑے اصرار سے مانگا مگر میں نے انکار کر دیا.میاں عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج تک اس گر تہ پر سرخی کے ویسے ہی داغ موجود ہیں کوئی تغیر نہیں ہوا.اور اس گرتہ کے کپڑے کو پنجابی میں نینو کہتے ہیں.یہ گر نہ حضور نے سات دن سے پہنا ہوا تھا.میں یہ گرتہ پہلے لوگوں کو نہیں دکھایا کرتا تھا کیونکہ حضور کے یہ الفاظ کہ یہ گر نہ زیارت نہ بنالیا جاوے مجھے یادر ہتے تھے.لیکن لوگ بہت خواہش کیا کرتے تھے اور لوگ اس کے دیکھنے کے لئے مجھے بہت تنگ کرنے لگے.میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے اس کا ذکر کیا کہ مجھے حضرت صاحب کے الفاظ کی وجہ سے اس گرتہ کے دکھانے سے کراہت آتی ہے مگر لوگ تنگ کرتے ہیں کیا کیا جاوے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا اسے بہت دکھایا کرو اور کثرت کے ساتھ دکھاؤ تا کہ اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جاویں اور ہر شخص ہماری جماعت میں سے یہ کہے کہ میں نے بھی دیکھا ہے.میں نے بھی دیکھا ہے، میں نے بھی دیکھا ہے یا شاید میں نے کی جگہ ہم نے کے الفاظ کہے.اس کے بعد میں دکھانے لگ گیا.مگر اب بھی صرف اس کو دکھاتا ہوں جو خواہش
سیرت المہدی 77 حصہ اوّل کرتا ہے.اور از خود دکھانے سے مجھے کراہت ہے کیونکہ حضرت صاحب کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں اور ہر سفر میں میں اسے پاس رکھتا ہوں اس خیال سے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جان نکل جاوے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ گر نہ دیکھا ہے سرخی کا رنگ ہلکا ہے یعنی گلابی سا ہے اور مجھے میاں عبداللہ صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ رنگ ابتدا سے ہی ایسا چلا آیا ہے.( نیز دیکھوروایت نمبر ۴۳۶) 101 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب میں ۱۸۸۲ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو اس وقت میری عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی اور میری ایک شادی ہو چکی تھی اور دوسری کا خیال تھا جس کے متعلق میں نے بعض خواہیں بھی دیکھی تھیں.میں نے ایک دن حضرت صاحب کے ساتھ ذکر کیا کہ مجھے ایسی ایسی خوابیں آئی ہیں حضرت صاحب نے فرمایا یہ تمہاری دوسری شادی کے متعلق ہیں اور فرمایا مجھے بھی اپنی دوسری شادی کے متعلق الہام ہوئے ہیں.دیکھئے تمہاری شادی پہلے ہوتی ہے کہ ہماری.میں نے ادب کے طور پر عرض کیا کہ حضور ہی کی پہلے ہوگی.پھر اس کے بعد مجھے اپنے ایک رشتہ کے ماموں محمد اسماعیل کی لڑکی کے ساتھ نکاح کا خیال ہو گیا.چنانچہ میں نے قادیان آ کر حضرت صاحب کے ساتھ اس کا ذکر کیا.اس سے پہلے میرے ساتھ اسماعیل مذکور بھی ایک دفعہ قادیان ہو گیا تھا.حضور نے مجھ سے فرمایا تم نے اس وقت کیوں نہ مجھ سے ذکر کیا جب اسماعیل یہاں آیا تھا ہم اسے یہیں تحریک کرتے.پھر آپ نے میرے ماموں محمد یوسف صاحب مرحوم کو جو حضرت صاحب کے بڑے معتقد تھے اور جن کے ذریعہ مجھے حضرت صاحب کی طرف رہنمائی ہوئی تھی خط لکھا اور اس میں اسماعیل کے نام بھی ایک خط ڈالا اور لکھا کہ اسماعیل کے نام کا خط اسکے پاس لے جائیں اور اسے تحریک کریں.اور اس خط میں میرے والد اور دادا اور خسر کی طرف بھی حضور نے خطوط ڈال کر بھیجے اور ان سب خطوط کوا ہم بنانے کیلئے ان پرالَيسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ والی مہر لگائی اور میرے والد اور دادا اور خسر کے خط میں لکھا کہ میاں عبداللہ دینی غرض سے دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں ان کو نہ روکیں اور ان پر راضی رہیں.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ایسا اس لئے لکھا تھا کہ میں نے حضور کو کہا تھا کہ میں نے اپنے والد اور دادا سے اس امر کے متعلق کھل کر ذکر نہیں کیا مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں اس میں روک نہ ہوں کیونکہ اس زمانہ میں
سیرت المہدی 78 حصہ اوّل وو نکاح ثانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا.حضرت صاحب نے ادھر یہ خطوط لکھے اور ادھر میرے واسطے دعا شروع فرمائی.ابھی میرے ماموں محمد یوسف صاحب کا جواب نہیں آیا تھا اور حضرت صاحب میری تحریک پر اس امر کے واسطے دعا میں مصروف تھے کہ عین دعا کرتے کرتے حضرت صاحب کو الہام ہوا نا کامی پھر دعا کی تو الہام ہوا ” اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ، پھر اس کے بعد ایک اور الہام ہوا ” فَصَبْرٌ جَمِيل “.حضرت صاحب نے مجھے یہ الہام بتا دیے.ان دنوں میں میر عباس علی بھی یہاں آئے ہوئے تھے ان سے حضرت صاحب نے ان الہامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ معلوم نہیں میاں عبداللہ صاحب کا ہمارے ساتھ کیسا تعلق ہے کہ ادھر دعا کرتا ہوں اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا ہے.چند دنوں کے بعد میاں محمد یوسف صاحب کا جواب آگیا کہ میاں عبداللہ کے والد اور دادا اور خسر تو راضی ہو گئے ہیں مگر اسماعیل انکار کرتا ہے.اس پر حضرت نے فرمایا کہ اب ہم اسماعیل کو خود کہیں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناکامی کا الہام ہوا ہے اُدھر اسماعیل انکاری ہے اب اس معاملہ میں کیا کامیابی کی صورت ہو سکتی ہے؟ فرمایا نہیں قرآن شریف میں ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ الرَّحمن: ۳۰) یعنی ہر دن اللہ تعالیٰ الگ شان میں ہوتا ہے پس کوشش نہیں چھوڑنی چاہیے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے الہامات کا یہ منشاء ہو کہ جس طریق پر کوشش کی گئی ہے اس میں ناکامی ہے اور کسی اور طریق پر کامیابی مقدر ہو.چنانچہ اس کے بعد بدستور میرا اس کی طرف خیال رہا اور میں حضور سے دعائیں بھی کراتا رہا.اسماعیل ان دنوں میں سر ہند کے پاس پٹواری تھا اور سرہند میں حشمت علی خان صاحب تحصیلدار تھے.جو ڈا کٹر عبدالحکیم خاں کے قریبی رشتہ دار تھے.انہوں نے حضرت صاحب سے وعدہ لیا ہوا تھا کہ کبھی حضور سر ہند تشریف لے چلیں گے.چنانچہ جب آپ انبالہ جانے لگے تو مجھے کہا کہ حشمت علی خاں صاحب کو لکھ دو کہ ہم انبالہ جاتے ہوئے سر ہند آئیں گے اور مجھے حضرت صاحب نے فرمایا کہ سرہند میں مجد وصاحب کے روضہ پر بھی ہو آئیں گے.اور اسماعیل سے بھی تمہارے متعلق بات کرنے کا موقعہ مل جائے گا.چنانچہ آپ وہاں گئے اور تحصیل میں حشمت علی خاں صاحب کے پاس ٹھہرے.رات کو جب نماز اور کھانے سے فراغت ہو چکی تو حضور چار پائی پر لیٹ گئے اور حشمت علی خان صاحب سے فرمایا تحصیل دار صاحب اب آپ آرام کریں ہم نے میاں
سیرت المہدی 79 حصہ اوّل اسماعیل سے کچھ علیحدگی میں بات کرنی ہے اس پر وہ اور ان کے ساتھی اُٹھ گئے اور میں بھی اُٹھ آیا.اس وقت اسماعیل حضرت صاحب کے پاؤں دبارہا تھا.پھر حضرت صاحب نے اسماعیل کو میرے متعلق کہا مگر اس نے انکار کیا اور کئی عذر کر دیئے کہ دو بیویوں میں جھگڑے ہوا کرتے ہیں نیز یہ کہ عبداللہ کی تنخواہ بہت قلیل ہے ( اس وقت میری تنخواہ ساڑھے چار روپے ماہوار تھی ) گزارہ کس طرح ہوگا اور میاں عبداللہ کے بسر میرے قریبی ہیں ان کو ملال ہوگا وغیرہ.حضرت صاحب نے فرمایا ان سب باتوں کا میں ذمہ لیتا ہوں مگر اس نے پھر بھی نہیں مانا اور عذر کیا کہ میری بیوی نہیں مانے گی.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کا حکم پیش کیا اور اپنی طرف سے بھی کہا مگر اس نے انکار کیا گویا اس کا خدا اس کا رسول اور اس کا پیر سب اس کی بیوی ہے کیونکہ وہ کہتا تھا کہ میں تو جو وہ کہے گی وہی کرونگا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ابھی میں نے اسماعیل سے بات شروع نہیں کی تھی کہ مجھے کشف ہوا تھا کہ اس نے میرے بائیں ہاتھ پر دست پھر دیا ہے نیز میں نے کشف میں دیکھا تھا کہ اسکی شہادت کی انگلی کٹی ہوئی ہے.اس پر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اس معاملہ میں مجھے نہایت گندے جواب دے گا.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس کا جواب سن کر مجھے اس سے ایسی نفرت ہوئی کہ دل چاہتا تھا کہ یہ ابھی اُٹھ جاوے اور پھر کبھی تازیست میرے سامنے نہ آوے.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں اسکے بعد اسماعیل نے اپنی لڑکی کی دوسری جگہ شادی کر دی جس پر مجھ کو سخت صدمہ پہنچا.میری اس حالت کی میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کو بذریعہ خط اطلاع دی تو آپ نے مجھے خط لکھا کہ تم کچھ عرصہ کے واسطے تبدیل خیالات کے لئے یہاں میرے پاس آجاؤ.مگر اس شادی کے بعد اسماعیل پر بڑی مصیبت آئی.اس کے دو جوان لڑکے اور بیوی فوت ہو گئے.پھر جب میری دوسری شادی ماسٹر قادر بخش صاحب کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی تو اسمعیل بہت پچھتایا اور اس نے مجھے کہا کہ حضرت سے مجھے معافی لے دو.میں نے حضرت صاحب کولکھا حضور نے اس کی بیعت قبول فرمالی مگر اس کے بعد بھی اسماعیل کو حضرت صاحب کی ملاقات نصیب نہیں ہوئی.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے متعلق جو حضرت صاحب نے اپنے نشانات کے ذکر میں لکھا ہے کہ مجھے دکھایا گیا تھا کہ میاں عبداللہ کو ایک معاملہ میں ناکامی ہوگی سوایسا ہی ہوا وہ اسی واقعہ کی
سیرت المہدی 80 حصہ اوّل طرف اشارہ ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور نے اپنی تصنیف حقیقة الوحی نشان نمبر ۵۵ میں میاں عبداللہ صاحب کی اس ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میرے ماموں اسماعیل کی لڑکی کا نکاح دوسری جگہ ہو گیا تو میں نے ایک اور جگہ تجویز کی اور سب باتوں کا تصفیہ کر کے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میں نے ایک جگہ شادی کی تجویز کر لی ہے اور سب باتوں کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تاریخ نکاح بھی مقرر ہو چکی ہے.اب حضور سے تبر کا مشورہ پوچھتا ہوں.حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اس معاملہ میں جلدی نہ کرو.بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے اور تاکید فرمائی کہ ضرور پہلے لڑکی کو دیکھ لو.خط ختم کرنے کے بعد پھر لکھا کہ میری اس بات کو خوب یا درکھنا.چنانچہ میں ارشاد کے مطابق لڑکی کو دیکھنے کے لئے اس کے گاؤں گیا تو دیکھتے ہی میرے دل میں اتنی کراہت پیدا ہوئی کہ قریب تھا کہ قے ہو جاتی حالانکہ لڑکی شکل کی خراب نہیں تھی.اس کے بعد لدھیانہ کی ایک معلمہ کے ساتھ تجویز ہوئی مگر حضرت صاحب نے اسے بھی پسند نہیں فرمایا اس کے بعد میں نے ماسٹر قادر بخش صاحب کی ہمشیرہ کا ذکر کیا تو فرمایا یہ بہت اچھا موقعہ ہے یہاں کر لو.چنانچہ حضور نے میری گزارش پر خود ماسٹر قا در بخش صاحب سے میرے متعلق کہا.انہوں نے بلا عذر قبول کر لیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میری صرف ساڑھے چار روپے تنخواہ ہے اور بیوی بچے بھی ہیں.قبول کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ حضور میرا باپ بڑا مخالف ہے مگر وہ بغیر میری مرضی کے کچھ نہیں کرسکتا.پس یا تو میں اُسے راضی کرلوں گا اور یا جب وہ مر جائے گا تو شادی کر دوں گا.حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور پھر مجھے باغ کی طرف لے گئے اور راستہ میں مجھے ان کا جواب سنایا اور باپ کے مرنے کے الفاظ سنا کر ہنسے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد ماسٹر قادر بخش صاحب کو اپنے باپ کی طرف سے بہت تکلیفیں دیکھنی پڑیں مگر انہوں نے اپنی ہمشیرہ کی شادی دوسری جگہ نہیں ہونے دی اور آخر میرے ساتھ اپنی بہن کی خفیہ شادی کر دی.نکاح کے وقت میں نے ان کو کہا کہ جو تحریر یا شرائط وغیرہ مجھ سے لکھانی ہوں لکھا لو.انہوں نے کہا شرائط کیسی میری تحریر اور شرائط سب حضرت صاحب ہیں.پھر مہر کے متعلق میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سواتیں روپے مہر ہوگا.میں نے کہا نہیں بلکہ ایک سوروپیہ ہونا چاہئیے مگر انہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا اس پر میں نے ان کو کہا کہ مجھے خواب آیا تھا کہ میرا دوسرا
سیرت المہدی 81 حصہ اوّل نکاح ہوا ہے اور مہر ایک سو روپیہ رکھا گیا ہے اس پر انہوں نے مان لیا.پھر رخصتانہ بھی خفیہ ہوا.لیکن آخر ماسٹر قادر بخش صاحب کا والد بھی راضی ہو گیا.نیز میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب سرہند تشریف لے گئے تھے تو اسی سفر میں تھوڑی دیر کے لئے سنور بھی گئے تھے.102 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول بیان کیا کرتے تھے کہ جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو یہاں چھوٹی مسجد کے پاس جو چوک ہے اس میں یکہ پر سے اترا اور پھر میں نے یکہ والے سے یا شاید فرمایا کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں ؟ اس وقت مرزا امام الدین اور مرز انظام الدین اپنے صحن میں چار پائیوں پر مجلس لگائے بیٹھے تھے اس نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ ہیں.میں نے ادھر دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے یکہ والے سے کہا ابھی نہ جاؤ ذرا ٹھہر جاؤ شاید مجھے ابھی واپس جانا پڑے.پھر میں آگے بڑھ کر اس مجلس میں گیا لیکن میرے دل میں ایسا اثر تھا کہ میں جا کر بغیر سلام کئے چار پائی پر بیٹھ گیا.مرزا امام الدین یا شاید فرمایا مرزا نظام الدین نے میرا نام پوچھا میں نے بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ شاید مرزا صاحب کو ملنے آئے ہیں.مولوی صاحب فرماتے تھے تب میری جان میں جان آئی کہ یہاں کوئی اور مرزا بھی ہے.پھر میرے ساتھ انہوں نے ایک آدمی کر دیا جو مجھے چھوٹی مسجد میں چھوڑ گیا.اس وقت حضرت صاحب مکان کے اندر تشریف رکھتے تھے آپ کو اطلاع کرائی گئی تو فرمایا میں ظہر کی نماز کے وقت باہر آؤں گا.پھر حضور تشریف لائے تو میں ملا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب براہین احمدیہ کے زمانہ میں یہاں آئے تھے اور مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ میں دعا کیا کرتا تھا کہ خدا مجھے موسیٰ کی طرح ہارون عطا کرے پھر جب مولوی صاحب آئے تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ ھذا دعائی.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے آئینہ کمالات اسلام میں اپنی اس دعا کا ذکر کیا ہے مگر حضرت موسیٰ اور ہارون کی مثال اس جگہ نہیں دی اور عجیب بات ہے کہ جیسا کہ حضرت مولوی صاحب کی تحریر مندرجہ کرامات الصادقین میں درج ہے.حضرت مولوی صاحب کو بھی اپنی طرف کسی ایسے مرد کامل کی تلاش تھی جو اس پُر آشوب زمانہ کے فتنوں کا مقابلہ کر سکے اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کر کے دکھا سکے.)
سیرت المہدی 82 حصہ اوّل 103 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا کرتے تھے حضرت خلیفہ اؤل کہ جب میں جموں کی ملازمت سے فارغ ہو کر بھیرہ آیا تو میں نے بھیرہ میں ایک بڑا مکان تعمیر کرانا شروع کیا اور اس کے واسطے کچھ سامان عمارت خریدنے کے لئے لاہور آیا.لاہور آ کر مجھے خیال آیا کہ چلو قادیان بھی ایک دن ہوتے آویں.خیر میں یہاں آیا.حضرت صاحب سے ملا تو حضور نے فرمایا مولوی صاحب اب تو آپ ملازمت سے فارغ ہیں امید ہے کچھ دن یہاں ٹھہریں گے.میں نے عرض کیا ہاں حضور ٹھہروں گا.پھر چند دن کے بعد فرمانے لگے مولوی صاحب آپ کو کیلے تکلیف ہوتی ہوگی اپنے گھر والوں کو بھی یہاں بلالیں.میں نے گھر والوں کو بھیرہ خط لکھ دیا کہ عمارت بند کر دو اور یہاں چلے آؤ.پھر ایک موقعہ پر حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ مولوی صاحب اب آپ اپنے پچھلے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر مولوی صاحب فرماتے تھے کہ خدا کا ایسا افضل ہوا کہ آج تک میرے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ بھیرہ بھی میرا وطن ہوتا تھا.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب غالباً جموں کی ملازمت سے ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں فارغ ہوئے تھے اور ۱۸۹۲ء یا ۱۸۹۳ء میں قادیان آگئے تھے.) 104 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جتنی عربی تحریریں ہیں یہ سب ایک رنگ کی الہام ہی ہیں کیونکہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں.فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتا ہوں مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوں تو پتہ لگتا ہے.نیز مولوی صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب عربی کتابوں کی کا پیاں اور پروف حضرت خلیفہ اول اور مولوی محمد احسن صاحب کے پاس بھی بھیجا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر کسی جگہ اصلاح ہو سکے تو کر دیں.حضرت خلیفہ اول تو پڑھ کر اسی طرح واپس فرما دیتے تھے لیکن مولوی محمد احسن صاحب بڑی محنت کر کے اس میں بعض جگہ اصلاح کے طریق پر لفظ بدل دیتے تھے.مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے ایک وقت فرمایا کہ مولوی
سیرت المہدی 83 حصہ اوّل محمد احسن صاحب اپنی طرف سے تو اصلاح کرتے ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ میرا لکھا ہوا لفظ زیادہ برمحل اور فصیح ہوتا ہے اور مولوی صاحب کا لفظ کمزور ہوتا ہے لیکن میں کہیں کہیں انکا لکھا ہوا لفظ بھی رہنے دیتا ہوں تا ان کی دل شکنی نہ ہو کہ ان کے لکھے ہوئے سب الفاظ کاٹ دیئے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا قاعدہ تھا کہ عربی کتب کی کاپیاں اور پروف سلسلہ کے علماء کے پاس یہ کہہ کر بھجوا دیتے تھے کہ دیکھو کوئی اصلاح ہو سکے تو کر دو.اور اس کا رروائی سے ایک مطلب آپ کا یہ بھی ہوتا تھا کہ یہ لوگ اس طریق سے حضور کی تصانیف پڑھ لیں اور حضور کی تعلیم اور سلسلہ سے واقف رہیں.یہ خاکسار کا اپنا خیال ہے کسی روایت پر مبنی نہیں.105 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود نے جن دنوں میں اَيَا أَرضَ مُةٍ قَدْ دَفَاكِ مُدَمِّرُ والا قصیدہ اعجاز احمدی میں لکھا تو اسے دوبارہ پڑھنے پر باہر آکر حضرت خلیفہ اول سے دریافت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کیا آیا بھی ندا کیلئے آتا ہے.؟ عرض کیا گیا ہاں حضور بہت مشہور ہے.فرمایا شعر میں لکھا گیا ہے ہمیں خیال نہیں تھا.نیز حافظ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کئی دفعہ حضور فرماتے تھے کہ بعض الفاظ خود بخود ہمارے قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے معنی معلوم نہیں ہوتے.حافظ صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ حضرت صاحب سے ایسا محاورہ لکھا جاتا تھا کہ جس کا عام لغت میں بھی استعمال نہ ملتا تھا لیکن پھر بہت تلاش سے پتہ چل جاتا تھا.106 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے کہ جب کرم دین کے مقدمہ کے لئے حضرت صاحب گورداسپور میں تھے تو وہاں آپ کے پاس الہ آباد کے تین غیر احمدی مہمان آئے جن میں سے ایک کا نام مولوی الہی بخش تھا.ان کی حضرت صاحب سے گفتگو ہوتی رہی آخر وہ قائل ہو گئے.ایک دفعہ جب حضرت صاحب مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے اور مولوی الہی بخش صاحب بھی ساتھ ساتھ پھرتے تھے.مولوی الہی بخش صاحب نے حضرت صاحب سے کہا کہ اگر میں نے بیعت کر لی تو میرے ساتھ اور بہت سے لوگ بیعت کریں گے.حضرت صاحب چلتے چلتے ٹھہر گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا مجھے کیا پر وا ہے یہ خدا کا کام ہے وہ خودلوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر میرے پاؤں
سیرت المہدی 84 حصہ اوّل پر گرائے گا.اور گرا رہا ہے.خان صاحب کہتے تھے کہ مولوی الہی بخش صاحب نے یہ الفاظ ایسے طریق پر کہے تھے جس میں کچھ احسان پایا جاتا تھا.خان صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرے دن جب مولوی صاحب اور ان کے ساتھی واپس جانے لگے تو حضرت صاحب سے ملنے آئے.میں بھی وہیں تھا میں نے مولوی صاحب سے پوچھا کہئے مولوی صاحب اب کوئی اعتراض تو باقی نہیں رہا.مولوی صاحب نے کہا نہیں میری تسلی ہو گئی ہے.میں نے کہا تو پھر بیعت؟ حضرت صاحب نے فرمایا خان صاحب یہ کہنا آپ کا حق نہیں ہے.ہمارا کام پہنچا دینا ہے آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے.خیر وہ واپس چلے گئے.تیسرے چوتھے دن حضرت صاحب قادیان آئے اور میں بھی آیا تو حضور نے مجھے بلا کر مسکراتے ہوئے اپنے رومال سے ایک پوسٹ کارڈ کھولا اور میری طرف پھینکا اور فرمایا تحصیل دار صاحب ! آپ جلدی کرتے تھے لیجئے ان کا خط آ گیا ہے.میں نے خط دیکھا تو مولوی الہی بخش صاحب کا تھا اور پنسل سے لکھا ہوا تھا جو انہوں نے راستہ میں لکھنو سے بھیجا تھا.اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے ریل میں بیٹھے ہوئے خیال کیا کہ اب جبکہ مجھ پر حق کھل گیا ہے تو اگر میں راستہ میں ہی مر جاؤں تو خدا کو کیا جواب دوں گا اس لئے میں حضور کے سلسلہ میں داخل ہوتا ہوں میری بیعت قبول فرمائی جاوے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب آدمی الگ ہوتا ہے تو پھر اسے سوچنے کا اچھا موقعہ ملتا ہے اور گذشتہ باتوں پر غور کر کے وہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے.هو 107 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا اور مجسٹریٹ نے تاریخ ڈالی ہوئی تھی اور حضرت صاحب قادیان آئے ہوئے تھے حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا کہ میں جا کر وہاں بعض حوالے نکال کر تیار رکھوں کیونکہ انگلی پیشی میں حوالے پیش ہونے تھے.میرے ساتھ شیخ حامد علی اور عبدالرحیم نائی باورچی کو بھی حضور نے گورداسپور بھیج دیا.جب ہم گورداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم کو آواز دی کہ وہ نیچے آویں اور دروازہ کھولیں.ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت مکان میں اوپرھ او پر ٹھہرے ہوئے تھے.ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہوکر رونا اور چلا نا شروع کر دیا.ہم نے کئی آوازیں دیں مگر وہ اسی طرح روتے رہے آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے.ہم نے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس محمد حسین منشی آیا تھا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ محمد حسین
سیرت المہدی 85 حصہ اوّل مذکور گورداسپور میں کسی کچہری میں محرر یا پیش کار تھا اور سلسلہ کا سخت مخالف تھا.اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے ملنے والوں میں سے تھا.خیر ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ محمد حسین منشی آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاں آریوں کا جلسہ ہوا ہے.بعض آریے اپنے دوستوں کو بھی جلسہ میں لے گئے تھے چنانچہ اسی طرح میں بھی وہاں چلا گیا.جلسہ کی عام کارروائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب جلسہ کی کارروائی ہو چکی ہے اب لوگ چلے جاویں کچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں چنانچہ سب غیر لوگ اُٹھ گئے میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے آپ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاویں یا باہر انتظار کریں چنانچہ میں وہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اٹھا اور مجسٹریٹ کو مرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے.اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظر آپ کی طرف ہے اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے اور اسی قسم کی جوش دلانے کی باتیں کیں.اس پر مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچا دوں مگر کیا کیا جاوے کہ مقدمہ ایسا ہوشیاری سے چلایا جارہا ہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی لیکن اب میں عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہو اس پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں گا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ آپ یہ نہیں سمجھے ہوں گے کہ عدالتی کارروائی سے کیا مراد ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میں جب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات میں دے دے.محمد حسین نے کہا.ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے سلسلہ کا سخت مخالف ہوں مگر مجھ میں یہ بات ہے کہ میں کسی معزز خاندان کو ذلیل و برباد ہوتے خصوصاً ہندوؤں کے ہاتھ سے ذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کا خاندان ضلع میں سب سے زیادہ معزز ہے.پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچادی ہے کہ آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں.اور میرے خیال میں دو تجویزیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہومگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کردیں.مولوی صاحب
سیرت المہدی 86 حصہ اوّل نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی سخت خوف زدہ ہو گئے اور فیصلہ کیا کہ اسی وقت قادیان کوئی آدمی روانہ کر دیا جاوے جو حضرت صاحب کو یہ واقعات سناوے.رات ہو چکی تھی ہم نے یکہ تلاش کیا اور گوگئی یکے موجود تھے مگر مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ کوئی بیگہ نہ ملتا تھا ہم نے چار گنے کرایہ دینا کیا مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبدالرحیم باور چی اور ایک تیسرے شخص کو قادیان پیدل روانہ کیا.وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب سے مختصر اعرض کیا حضور نے بے پروائی سے فرمایا خیر ہم بٹالہ چلتے ہیں خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے واپس آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیں گے ان سے ذکر کریں گے اور وہاں پتہ لگ جائے گا کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا.چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے.گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی.پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور راستہ میں خواجہ صاحب اور مولوی صاحب کو اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں دی.جب آپ گورداسپور مکان پر پہنچے تو حسب عادت الگ کمرے میں چار پائی پر جالیے مگر اس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہوگا.حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا.میں گیا اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دیئے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے.میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سر کا سہارا دے کر لیٹ گئے اور مجھ سے فرمایا میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیا ہے.اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہیں تھا صرف دروازے پر میاں شادی خان کھڑے تھے.میں نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر اسماعیل خان صاحب کو روتے ہوئے پایا پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سنایا.حضور خاموشی سے سنتے رہے جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یکلخت حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا میں اس کا شکار ہوں ! میں شکار نہیں ہوں میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا شیر.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ ایسا کر کے تو دیکھے.یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ کمرے کے باہر بھی سب لوگ چونک اٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہو گئے مگر کمرے کے اندر کوئی نہیں آیا.حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے اور اس وقت آپ کی
سیرت المہدی 87 حصہ اوّل آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.پھر آپ نے فرمایا میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہنے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.پھر آپ محبت الہی پر تقریر فرمانے لگ گئے اور قریباً نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی تھے ہوئی جو خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا.حضرت نے قے سے سر اٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں.مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ قے میں کیا نکلا ہے کیونکہ آپ نے یکلخت جھک کرقے کی اور پھر سر اٹھالیا.مگر میں اس کے دیکھنے کے لئے جھکا تو حضور نے فرمایا کیا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور قے میں خون نکلا ہے.تب حضور نے اس کی طرف دیکھا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے سب لوگ کمرے میں آگئے اور ڈاکٹر کو بلوایا گیا.ڈاکٹر انگریز تھا.وہ آیا اور قے دیکھ کر خواجہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طرح خون کی قے آنا خطر ناک ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ آرام کیوں نہیں کرتے؟ خواجہ صاحب نے کہا آرام کس طرح کریں مجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاں ڈال کر تنگ کرتے ہیں حالانکہ معمولی مقدمہ ہے جو یونہی طے ہو سکتا ہے.اس نے کہا اس وقت آرام ضروری ہے میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں.کتنے عرصہ کیلئے سرٹیفکیٹ چاہئیے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا میرے خیال میں دو مہینے آرام کرنا چاہیئے.خواجہ صاحب نے کہا کہ فی الحال ایک مہینہ کافی ہوگا.اس نے فوراً ایک مہینے کیلئے سرٹیفکیٹ لکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں میں ان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا.اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا.مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جاوے.کیونکہ دوسرے دن پیشی تھی اور حضور گورداسپور آ کر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جارہے تھے مگر حضرت صاحب کے چہرہ پر بالکل اطمینان تھا چنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے.بعد میں ہم نے سنا کہ مجسٹریٹ نے سرٹیفکیٹ پر بڑی جرح کی اور بہت تلملایا اور ڈاکٹر کو شہادت کے لئے بلایا مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا کہ میرا سر ٹیفکیٹ بالکل درست ہے اور میں اپنے فن کا ماہر ہوں اس پر میرے
سیرت المہدی 88 حصہ اوّل فن کی رو سے کوئی اعتراض نہیں کر سکتا اور میرا سرٹیفکیٹ تمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے.مجسٹریٹ بڑ بڑاتا رہا مگر کچھ پیش نہ گئی.پھر اسی وقفہ میں اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا.اور نیز کسی ظاہر أنا معلوم وجہ سے اس کا تنزل بھی ہو گیا یعنی وہ ای اے سی سے منصف کر دیا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس مجسٹریٹ کا نام چند ولال تھا اور وہ تاریخ جس پر اس موقعہ پر حضرت صاحب نے پیش ہونا تھا غالباً ۱۶، فروری ۱۹۰۴ء تھی.108 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے قاضی امیرحسین صاحب نے کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ حضور حدیث میں آتا ہے کہ سب نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں کیا کبھی حضور نے بھی چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں ایک دفعہ باہر کھیتوں میں گیا وہاں ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا اس نے کہا کہ میں ذرا ایک کام جاتا ہوں آپ میری بکریوں کا خیال رکھیں مگر وہ ایسا گیا کہ بس شام کو واپس آیا اور اس کے آنے تک ہمیں اس کی بکریاں چرانی پڑیں.109 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ جب فتح اسلام، توضیح مرام شائع ہوئیں تو ابھی میرے پاس نہ پہنچی تھیں اور ایک مخالف شخص کے پاس پہنچ گئی تھیں.اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو اب میں مولوی صاحب کو یعنی مجھے مرزا صاحب سے علیحدہ کئے دیتا ہوں.چنانچہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب! کیا نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر؟ میں نے کہا تو پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راستباز ہے یا نہیں.اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کریں گے.میرا یہ جواب سن کر وہ بولا.واہ مولوی صاحب آپ قابو نہ ہی آئے.یہ قصہ سنا کر حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ تو صرف نبوت کی بات ہے میرا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کریں اور قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو پھر بھی مجھے انکار نہ ہو کیونکہ جب ہم نے آپ کو واقعی صادق اور منجانب اللہ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرما ئیں گے وہی حق ہو گا اور ہم سمجھ لیں گے کہ آیت خاتم النبین کے کوئی اور معنی ہوں گے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی جب ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یقینی دلائل کے
سیرت المہدی 89 حصہ اوّل ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر اس کے کسی دعوی میں چون و چرا کرنا باری تعالیٰ کا مقابلہ کرنا ٹھہرتا ہے.مگر ویسے حضرت مولوی صاحب نے جو کچھ فرمایا.وہ صرف ایک اصولی رنگ کی بات تھی.ورنہ ہمارا ایمان ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ہے کہ قرآنی شریعت آخری شریعت ہے.پس حضرت مولوی صاحب کے یہ الفاظ اسی رنگ کے سمجھے جائیں گے.جس رنگ میں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِين - (الزخرف: ۸۲) 110 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ پسر موعود کی پیشگوئی کے بعد حضرت صاحب ہم سے کبھی کبھی کہا کرتے تھے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالی ہم کوجلد وہ موعولر کا عطا کرے.ان دنوں میں حضرت کے گھر امیدواری تھی.ایک دن بارش ہوئی تو میں نے مسجد مبارک کے اوپر صحن میں جا کر بڑی دعا کی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ اگر بارش میں دعا کی جاوے تو زیادہ قبول ہوتی ہے.پھر مجھے دعا کرتے کرتے خیال آیا کہ باہر جنگل میں جاکر دعا کروں کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بھی سنا ہوا تھا کہ باہر جنگل کی دعا بھی زیادہ قبول ہوتی ہے اور میں نے غنیمت سمجھا کہ یہ دو قبولیت کے موقعے میرے لئے میسر ہیں.چنانچہ میں قادیان سے مشرق کی طرف چلا گیا اور باہر جنگل میں بارش کے اندر بڑی دیر تک سجدہ میں دعا کرتا رہا.گویا وہ قریباً سارا دن میرا بارش میں ہی کٹا.اسی دن شام یا دوسرے دن صبح کو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ان کو کہہ دو انہوں نے رنج بہت اُٹھایا ہے ثواب بہت ہوگا.میں نے عرض کیا حضور یہ الہام تو میرے متعلق معلوم ہوتا ہے حضور نے فرما یا کس طرح؟ میں نے اپنی دعا کا سارا قصہ سنایا.حضور خوش ہوئے اور فرمایا ایسا ہی معلوم ہوتا ہے پھر میں نے اس خوشی میں ایک آنہ کے پتاشے بانٹے.مگر اس وقت میں اس کے اصل معنے نہیں سمجھا.پھر جب عصمت پیدا ہوئی تو میں سمجھا کہ دراصل اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ گود عا قبول نہیں ہوگی مگر مجھے ثواب پہنچ جائے گا.111 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب ابھی حضور نے سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا تھا میں نے ایک دفعہ حضرت سے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لیں.آپ
سیرت المہدی 90 حصہ اوّل نے فرمایا پیر کا کام بھنگی کا سا کام ہے اسے اپنے ہاتھ سے مرید کے گند نکال نکال کر دھونے پڑتے ہیں اور مجھے اس کام سے کراہت آتی ہے.میں نے عرض کیا حضور تو پھر کوئی تعلق تو ہونا چاہیے میں آتا ہوں اور اوپرا او پرا چلا جاتا ہوں.حضور نے فرمایا اچھا تم ہمارے شاگرد بن جاؤ اور ہم سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ لیا کرو.پھر عید کے دن حضور نے فرمایا جاؤ ایک آنہ کے پتاشے لے آؤ تا با قاعدہ شاگرد بن جاؤ.میں نے پتاشے لا کر سامنے رکھ دیئے جو حضور نے تقسیم فرما دیے اور کچھ مجھے بھی دے دیئے.پھر حضور مجھے ایک ہفتہ کے بعد ایک آیت کے سادہ معنے پڑھا دیا کرتے تھے اور کبھی کسی آیت کی تھوڑی سی تفسیر بھی فرما دیتے تھے.ایک دن فرمایا میاں عبد اللہ میں تم کو قرآن شریف کے حقائق و معارف اس لئے نہیں بتا تا کہ میں تم میں ان کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں دیکھتا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں کہ اگر مجھے اس وقت وہ بتائے جاتے تو میں مجنون ہو جاتا.مگر میں اس سادہ ترجمہ کا ہی جو میں نے آپ سے نصف پارہ کے قریب پڑھا ہوگا اب تک اپنے اندر فہم قرآن کے متعلق ایک خاص اثر دیکھتا ہوں نیز میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور میں جب قادیان آتا ہوں تو اور تو کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوتی مگر میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہاں وقتا فوقتا یکلخت مجھے پر بعض آیات قرآنی کے معنے کھولے جاتے ہیں اور میں اس طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے دل پر معانی کی ایک پوٹلی بندھی ہوئی گرادی جاتی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں قرآن شریف کے معارف دے کر ہی مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی خدمت ہمارا فرض مقرر کی گئی ہے پس ہماری صحبت کا بھی یہی فائدہ ہونا چاہیے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے بھی بیان کیا کہ ہمارے پہلے پیر نشی احمد جان صاحب مرحوم نے بھی حضرت صاحب سے بیعت کی درخواست کی تھی مگر حضور نے فرمایا لَسْتُ بِمَأْمُورِ یعنی مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے بھی جب حضور سے بیعت کی درخواست کی تھی تو حضور نے یہی جواب دیا تھا کہ مجھے اس کا حکم نہیں ملا پھر بعد میں جب حکم ہوا تو حضور نے بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا.112 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت
سیرت المہدی 91 حصہ اوّل صاحب بڑی مسجد میں ٹہل رہے تھے.میں ایک کو نہ میں قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گیا.اس وقت اور کوئی شخص مسجد میں نہیں تھا.حضور نے ٹہلتے ٹہلتے ایک دفعہ ٹھہر کر میری طرف دیکھا اور میں نے بھی اسی وقت آپ کی طرف دیکھا تھا.جب میری اور حضور کی نظر ملی تو خبر نہیں اس وقت حضور کی نظر میں کیا تھا کہ میرا دل میرے سینہ کے اندر پکھل گیا اور میں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھالئے اور بڑی دیر تک دعا کرتا رہا اور حضور ٹہلتے رہے پھر آخر حضور نے ہی مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ دعا بہت ہو چکی اب بند کرو.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے میں نے اس دن سمجھا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض وقت کامل کی ایک نظر انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اس کا کیا مطلب ہے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب حضور کی محبت اور شفقت یاد آتی ہے تو میری جان گداز ہو جاتی ہے.113 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ میں شروع میں حقہ بہت پیا کرتا تھا.شیخ حامد علی بھی پیتا تھا.کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کر دیا کہ یہ حلقہ بہت پیتا ہے.اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پاؤں دبانے بیٹھا تو آپ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حصہ اچھی طرح تازہ کر کے لاؤ جب شیخ حامد علی کلمہ لا یا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ پیو.میں شرمایا مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے.پیوکوئی حرج نہیں.میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا.پھر حضور نے فرمایا میاں عبداللہ مجھے اس سے طبعی نفرت ہے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے بس میں نے اسی وقت سے حقہ ترک کر دیا اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہو گئی.پھر ایک دفعہ میرے مسوڑھوں میں تکلیف ہوئی تو میں نے حضور سے عرض کیا کہ جب میں حقہ پیتا تھا تو یہ درد ہٹ جاتا تھا.حضور نے جواب دیا کہ ” بیماری کیلئے حقہ پینا معذوری میں داخل ہے اور جائز ہے جب تک معذوری باقی ہے.چنانچہ میں نے تھوڑی دیر تک بطور دوا استعمال کر کے پھر چھوڑ دیا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کے گھر میں حقہ استعمال ہوتا تھا.ایک دفعہ حضور نے مجھے گھر میں ایک تو ڑا ہوا حقہ کیلی پر لٹکا ہوا دکھایا اور مسکرا کر فرمایا ہم نے اسے تو ڑ کر پھانسی دیا ہوا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گھر میں کوئی عورت شاید حلقہ استعمال کرتی ہوگی.
سیرت المہدی 92 حصہ اوّل 1149 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب قادیان کے شمالی جانب سیر کے لئے تشریف لے گئے.میں اور شیخ حامد علی ساتھ تھے.راستہ کے او پر ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بڑا عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ میں گرا ہوا تھا.میں نے چلتے چلتے اسے اُٹھا لیا اور کھانے لگا.حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھاؤ اور وہیں رکھ دو آخر یہ کسی کی ملکیت ہے.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے آج تک میں نے کسی بیری کے بیر بغیر اجازت مالک اراضی کے نہیں کھائے کیونکہ جب میں کسی بیری کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات یاد آجاتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس ملک میں بیریاں عموماً خودرو ہوتی ہیں اور ان کے پھل کے متعلق کوئی پروانہیں کی جاتی.115) بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے پاس کسی کا خط آیا کہ کیا نماز میں ناف سے او پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے ؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں.حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے اردگر دسب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے اور ہم نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے.خواہ ہم کو پہلے اس کا علم نہ ہو.پس آپ تلاش کر یں ضرور مل جائے گی.مولوی سرورشاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی کہ جو علی شرط الشیخین ہے جس پر کوئی جرح نہیں.پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے.
سیرت المہدی 93 حصہ اوّل 116 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو براہین احمدیہ کی تالیف اور اسکے متعلق مواد جمع کرنے کا کام پہلے سے ہور ہا تھا مگر براہین احمدیہ کی اصل تصنیف اور اس کی اشاعت کی تجویز ۱۸۷۹ء سے شروع ہوئی اور اس کا آخری حصہ یعنی حصہ چہارم ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا.براہین کی تصنیف سے پہلے حضرت مسیح موعود ایک گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور گوشہ نشینی میں درویشانہ حالت تھی.گو براہین سے قبل بعض اخباروں میں مضامین شائع کرنے کا سلسلہ آپ نے شروع فرما دیا تھا اور اس قسم کے اشتہارات سے آپ کا نام ایک گونہ پبلک میں بھی آگیا تھا مگر بہت کم.ہاں اپنے ملنے والوں میں آپ کی تبلیغ وتعلیم کا دائرہ عالم شباب سے ہی شروع نظر آتا ہے چنانچہ ۶۵ ۱۸۶۴ء میں جب آپ ابھی بالکل نوجوان تھے آپ نے اپنے تبلیغی کام کے متعلق ایک رؤیا دیکھا تھا پھر انہی دنوں میں جب کہ آپ سیالکوٹ ملازم ہوئے تو اس وقت کے متعلق بھی یقینی شہادت موجود ہے کہ آپ نے تبلیغ و تعلیم کا کام شروع فرما دیا تھا اور غیر مذاہب والوں سے آپ کے زبانی مباحثے ہوتے رہتے تھے مگر یہ سب محض پر ائیو یٹ حیثیت رکھتے تھے، پبلک میں آپ نے تصنیف براہین سے صرف کچھ قبل یعنی ۱۸۷۷،۷۸ء میں آنا شروع کیا اور مضامین شائع کرنے شروع فرمائے اور تبلیغی خطوط کا دائرہ بھی وسیع کیا.مگر دراصل مستقل طور پر براہین احمدیہ کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگاؤر کھنے والے طبقہ میں آپ کا انٹروڈکشن ہوا اور لوگوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اُٹھنی شروع ہوئیں جس نے اس تحری اور اتنے بڑے انعام کے وعدہ کے ساتھ اسلام کی حقانیت کے متعلق ایک عظیم الشان کتاب لکھنے کا اعلان کیا.اب گویا آفتاب ہدایت جولاریب اس سے قبل طلوع کر چکا تھا اُفق سے بلند ہونے لگا.اس کے بعد براہین احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک غیر معمولی تموج پیدا کر دیا.مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین کا ایک مجدد ذی شان کے طور پر خیر مقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی.خود مصنف کے لئے بھی تصنیف براہین کا زمانہ ایک حالت میں نہیں گذرا بلکہ وہ جو شروع تصنیف میں ایک عام خادم اسلام کے طور پر اُٹھا تھا.دوران تصنیف میں تجتبی الہی کے خاص جلوے موسیٰ عمران کی طرح اسے کہیں سے کہیں لے گئے
سیرت المہدی 94 حصہ اوّل اور اختتام تصنیف براہین سے قبل ہی وہ ایک پرائیویٹ سپاہی کی طرح نہیں بلکہ شہنشاہ عالم کی طرف سے ایک مامور جرنیل کے طور پر میدان کارزار میں هَلْ مِنْ مُبَارِزِ پکار رہا تھا.خلاصہ یہ کہ براہین احمدیہ کی تصنیف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملک کے علم دوست اور مذہبی امور میں دلچپسی رکھنے والے طبقہ میں ایک بہت نمایاں حیثیت دے دی تھی اور خاص معتقدین کا ایک گروہ بھی قائم ہو گیا تھا اور قادیان کا گمنام گاؤں جو ریل اور سڑک سے دور پردہ پوشیدگی کے نیچے مستور تھا اب گاہے گاہے بیرونی مہمانوں کا منظر بنے لگا تھا اور مخالفین اسلام بھی اپنے منہ کی پھونکوں سے اس نور کو بجانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے.براہین کی اشاعت کے بعد حضرت مسیح موعود نے بیس ہزار اردو اور انگریزی اشتہاروں کے ذریعہ دنیا کے تمام ممالک میں اپنی ماموریت کا اعلان فرمایا.اس کے بعد جب شروع ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود نے خدائی حکم کے ماتحت ہوشیار پور جا کر وہاں چالیس دن خلوت کی اور ذکر خدا میں مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو ایک عظیم الشان بیٹے کی بشارت دی جس نے اپنے مسیحی نفس سے مصلح عالم بن کر دنیا کے چاروں کونوں میں شہرت پانی تھی.یہ الہام اس قدر جلال اور شان وشوکت کے ساتھ ہوا کہ جب حضور نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں اس کا اعلان فرمایا تو اس کی وجہ سے ملک میں ایک شور بر پا ہو گیا اور لوگ نہایت شوق کے ساتھ اس پسر موعود کی راہ دیکھنے لگے.اور سب نے اپنے اپنے خیال کے مطابق اس پسر موعود کے متعلق امیدیں جمالیں.بعض نے اس پسر موعود کو مہدی معہود سمجھا جس کا اسلام میں وعدہ دیا گیا تھا اور جس نے دنیا میں مبعوث ہو کر اسلام کے دشمنوں کو نا پید اور مسلمانوں کو ہر میدان میں غالب کرنا تھا.بعض نے اور اسی قسم کی امیدیں قائم کیں اور بعض تماشائی کے طور پر پیشگوئی کے جلال اور شان و شوکت کو دیکھ کر ہی حیرت میں پڑ گئے تھے اور بغیر کوئی امید قائم کئے اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے.غیر مذاہب والوں کو بھی اس خبر نے چونکا دیا تھا.غرض اس وحی الہی کی اشاعت رجوع عام کا باعث ہوئی.ان دنوں حضور کے ہاں بچہ پیدا ہو نیوالا تھا مگر اللہ نے بھی ایمان کے راستہ میں ابتلا رکھے ہوتے ہیں.سو قدرت خدا کہ چند ماہ کے بعد یعنی مئی ۱۸۸۶ء میں بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی تھی اس پر خوش اعتقادوں میں مایوسی اور بداعتقادوں اور دشمنوں میں ہنسی اور استہزا کی ایک ایسی لہر اٹھی کہ جس نے ملک
سیرت المہدی 95 حصہ اوّل میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا اس وقت تک بیعت کا سلسلہ تو تھا ہی نہیں کہ مریدین الگ نظر آتے بس عام لوگوں میں چہ میگوئی ہو رہی تھی کہ یہ کیا ہوا.کوئی کچھ کہتا تھا کوئی کچھ حضور نے بذریعہ اشتہار اور خطوط اعلان فرمایا کہ وحی الہی میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس وقت جو بچہ کی امیدواری ہے تو یہی وہ پسر موعود ہوگا اور اس طرح لوگوں کی تسلی کی کوشش کی چنانچہ اس پر اکثر لوگ سنبھل گئے اور پیشگوئی کے ظہور کے منتظر رہے.کچھ عرصہ بعد یعنی اگست ۱۸۸۷ء میں حضرت کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا.اس لڑکے کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی گئی اور کئی لوگ جو متزلزل ہو گئے تھے پھر سنبھل گئے اور لوگوں نے سمجھا کہ یہی وہ موعودلڑکا ہے اور خود حضرت صاحب کو بھی یہی خیال تھا.گو آپ نے اس کے متعلق کبھی قطعی یقین ظاہر نہیں کیا مگر یہ ضرور فرماتے رہے کہ قرائن سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ لڑکا ہے.واللہ اعلم.غرض بشیر اول کی پیدائش رجوع عام کا باعث ہوئی مگر قدرت خدا کہ ایک سال کے بعد یہ لڑکا اچانک فوت ہو گیا.بس پھر کیا تھا ملک میں ایک طوفان عظیم بر پا ہوا اور سخت زلزلہ آیا حتی کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری کا خیال ہے کہ ایسا زلزلہ عامۃ الناس کے لئے نہ اس سے قبل کبھی آیا تھا نہ اس کے بعد آیا گویا وہ دعوئی میسحیت پر جوزلزلہ آیا تھا اسے بھی عامتہ الناس کیلئے اس سے کم قرار دیتے ہیں.مگر بہر حال یہ یقینی بات ہے کہ اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شور اٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے، مگر تعجب ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی اس واقعہ کے بعد بھی خوش اعتقادر ہا.حضرت صاحب نے لوگوں کوسنبھالنے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی بھر مار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ میں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا تھا کہ یہی وہ لڑکا ہے ہاں یہ میں نے کہا تھا کہ چونکہ خاص اس لڑکے کے متعلق بھی مجھے بہت سے الہام ہوئے ہیں جن میں اس کی بڑی ذاتی فضیلت بتائی گئی تھی اس لئے میرا یہ خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑ کا ہو مگر خدا کی وحی میں جو اس معاملہ میں اصل اتباع کے قابل ہے ہر گز کوئی تعیین نہیں کی گئی تھی غرض لوگوں کو بہت سنبھالا گیا چنانچہ بعض لوگ سنبھل گئے لیکن اکثروں پر مایوسی کا عالم تھا اور مخالفین میں پرلے درجہ کے استہزاء کا جوش تھا.اس کے بعد پھر عامة الناس میں پسر موعود کی آمد آمد کا اس شد و مد سے انتظار نہیں ہوا جو اس سے قبل تھا.اس کے بعد یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو حضور نے خدا کے اس حکم کے مطابق جو اس سے قریباً دس ماہ
سیرت المہدی 96 حصہ اوّل پہلے ہو چکا تھا سلسلہ بیعت کا اعلان فرمایا اور سب سے پہلے شروع ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت لی.مگر اس وقت تک بھی مسلمانوں کا عام طور پر حضرت مسیح موعود کی ذات کے متعلق خیال عموماً بہت اچھا تھا اور اکثر لوگ آپ کو ایک بے نظیر خادم اسلام سمجھتے تھے.صرف اتنا اثر ہوا تھا کہ لوگوں میں جو پسر موعود کی پیشگوئی پر ایک عام رجوع ہوا تھا اس کا جوش ان دولگا تار مایوسیوں نے مدھم کر دیا تھا اور عامۃ الناس پیچھے ہٹ گئے تھے ہاں کہیں کہیں عملی مخالفت کی لہر بھی پیدا ہونے لگی تھی.اس کے بعد آخر ۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود نے خدا سے حکم پا کر رسالہ فتح اسلام تصنیف فرمایا جو ابتداء ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا.اس میں آپ نے حضرت مسیح ناصری کی وفات اور اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا.اس پر ملک میں ایک زلزلہ عظیم آیا جو پہلے سب زلزلوں سے بڑا تھا بلکہ ایک لحاظ سے پچھلے اور پہلے سب زلزلوں سے بڑا تھا.ملک کے ایک کونہ سے لیکر دوسرے کونے تک جوش و مخالفت کا ایک خطر ناک طوفان برپا ہوا اور علماء کی طرف سے حضرت صاحب پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا اور چاروں طرف گویا ایک آگ لگ گئی.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی جواب تک بچا ہوا تھا اسی زلزلہ کا شکار ہوا اور یہ سب سے پہلا شخص تھا جو کفر کا استفتاء لے کر ملک میں ادھر اُدھر بھاگا.بعض بیعت کنندے بھی متزلزل ہو گئے.اس کے بعد چوتھا زلزلہ آتھم کی پیشگوئی کی پندرہ ماہی میعاد گذرنے پر آیا.یہ دھکا بھی اس وقت کے لحاظ سے نہایت کڑ ادھ کا تھا مگر جماعت حضرت صاحب کی تربیت کے نیچے ایک حد تک مستحکم اور سنت اللہ سے واقف ہو چکی تھی اس لئے برداشت کر گئی لیکن مخالفوں میں سخت مخالفت و استہزاء کی لہر اٹھی.اس کے بعد زلزلہ کے خفیف خفیف دھکے آتے رہے مگر وہ قابل ذکر نہیں لیکن سب کے آخر میں جماعت پر پانچواں زلزلہ آیا یہ حضرت مسیح موعود کی وفات کا زلزلہ تھا.اس دھکے نے بھی اس وقت سلسلہ کی عمارت کو بنیاد تک ہلا دیا تھا اور یہ وہ زلزلہ عظیم تھا جسے زلزلة الساعة کہنا چاہئیے ، اور اسکو زیادہ خطر ناک اس بات نے کر دیا تھا کہ اس سے پہلے زلزلے خواہ کیسے بھی سخت تھے مگر حضرت مسیح موعود کا مقناطیسی وجود لوگوں کے اندر موجود تھا اور آپ کا ہاتھ ہر گرتے ہوئے کو سنبھالنے کیلئے فوراً آگے بڑھتا تھا مگر اب وہ بات نہ تھی.یہ وہ پانچ زلزلے تھے جو حضرت مسیح موعود کے متعلق آپ کی جماعت پر آئے.ان کے بعد حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بھی سخت زلزلہ آیا مگر وہ اور
سیرت المہدی 97 حصہ اوّل نوعیت کا تھا اور نیز وہ خاص جماعت احمدیہ کے متعلق تھا.یعنی یہ دھکا حضرت مسیح موعود کے متعلق نہیں تھا یعنی ایسا واقعہ نہیں تھا جو آپ کے صدق دعوئی کے متعلق کمزور دلوں میں عام طور پر کوئی اشتباہ پیدا کر سکے اس کے بعد اور بھی آئندہ سنت اللہ کے موافق اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق مصائب کی آندھیاں آئیں گی مگر یہ پانچ زلزلے اپنی نوعیت میں اور ہی رنگ رکھتے ہیں اور یہ عبارت لکھتے لکھتے خاکسار کو خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کو جو پانچ زلزلوں کی خبر دی گئی تھی اور آخری زلزلہ کو زلزلة الساعۃ کہا گیا تھا وہ گودنیا کے واسطے الگ بھی مقدر ہوں مگر اس میں شک نہیں کہ ان پانچ زلزلوں پر بھی آپ کی اس پیشگوئی کے الفاظ صادق آتے ہیں.117 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا.اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے.حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالی سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے.جب اس نے فرما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے.اس پر اس نے روزہ کھول دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا چنانچہ وہ اعتکاف تو ڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپکو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی.118 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہماری تائی صاحبہ نے کہ میرے تایا ( یعنی خاکسار کے دادا صاحب) کبھی کبھی مرزا غلام احمد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سیتی یا مسیتہ کہا کرتے تھے.تائی صاحبہ نے کہا کہ میرے تایا کو کیا علم تھا کہ کسی دن ان کی خوش قسمتی کیا کیا پھل لائے گی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسیتی پنجابی میں اسے کہتے ہیں جو ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنا ہے کہ
سیرت المہدی 98 حصہ اوّل بعض دوسرے لوگ بھی حضرت صاحب کے متعلق یہ لفظ بعض اوقات استعمال کر دیتے تھے.119 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ حضرت صاحب کا مقدمہ تھا تو ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ حضرت صاحب کو امرتسر میں سولی پر لٹکا یا جائے گا تا کہ قادیان والوں کو آسانی ہو.میں نے یہ خواب حضرت صاحب سے بیان کیا تو حضرت صاحب خوش ہوئے اور کہا کہ یہ مبشر خواب ہے.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب سولی پر چڑھنے کی یہ تعبیر کیا کرتے تھے کہ عزت افزائی ہوگی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مقدمہ میں پھر اپیل ہو کر امرتسر میں ہی آپ کی بریت کا فیصلہ ہوا.نیز بیان کیا حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن دنوں میں یہ مقدمہ تھا ایک دفعہ حضرت صاحب نے گھر میں ذکر کیا کہ مجسٹریٹ کی نیت بہت خراب معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ مجسٹریٹ کی بیوی نے خواب دیکھا ہے کہ اگر اس کا خاوند کوئی ایسی ویسی بات کرے گا تو اس کے گھر پر و بال آئیگا چنانچہ اس نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنا دیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرے.والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جب مجسٹریٹ کا ایک لڑکا مر گیا تو اس کی بیوی نے اسے کہا کہ کیا تو نے گھر کو اجاڑ کر چھوڑنا ہے؟ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ جس دن اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا جانا تھا اس دن کئی لوگ اپنی جیبوں میں روپیہ بھر کر لے گئے تھے کہ اگر مجسٹریٹ جرمانہ کرے تو ادا کر دیں.اور نواب محمد علی خان صاحب بھی لاہور سے کئی ہزار روپیہ ساتھ لائے تھے.نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب بیان کرتے تھے کہ اس مقدمہ کے دنوں میں جہاں عدالت کے باہر درختوں کے نیچے حضرت صاحب بیٹھا کرتے تھے اس کے سامنے سے ہر روز ڈپٹی کمشنر گذرا کرتا تھا کیونکہ یہی اس کا راستہ تھا.ایک دفعہ اس نے اپنے اردلی سے پوچھا کہ کیا یہ مقدمہ اب تک جاری ہے؟ اس نے کہا ہاں.ڈپٹی کمشنر نے ہنس کر کہا اگر میرے پاس ہوتا تو میں ایک دن میں فیصلہ کر دیتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا.120 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ میں اور چند اور آدمی جن میں غالباً مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب بھی تھے حضرت صاحب سے ملنے کے لئے
سیرت المہدی 99 حصہ اوّل اندر آپ کے مکان میں گئے.اس وقت آپ نے ہم کو خربوزے کھانے کے لئے دیئے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جوخربوزہ مجھے آپ نے دیاوہ زیادہ موٹا تھا چنانچہ آپ نے دیتے ہوئے فرمایا اسے کھا کر دیکھیں یہ کیسا ہے؟ پھر خود ہی مسکرا کر فرمایا موٹا آدمی منافق ہوتا ہے.یہ پھیکا ہی ہوگا.مولوی صاحب کہتے ہیں چنانچہ وہ پھیکا نکلا.مولوی صاحب نے یہ روایت بیان کر کے ہنستے ہوئے کہا کہ اس وقت میں دبلا ہوتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہر موٹا آدمی منافق ہوتا ہے بلکہ حضرت صاحب کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو آرام طلبی کے نتیجہ میں موٹا ہو گیا ہو وہ منافق ہوتا ہے.121 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے چوہدری غلام محمد صاحب بی اے نے کہ جب میں ۱۹۰۵ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہوئی تھی.مجھے یہ دیکھ کر کچھ گراں گذرا کہ مسیح موعود کورنگدار پگڑی سے کیا کام.پھر میں نے مقدمہ ابن خلدون میں پڑھا کہ آنحضرت لباس میں ہوتے تھے تو آپ کو وحی زیادہ ہوتی تھی.122 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے ماسٹر محمد دین صاحب بی.اے نے کہ جب ہم حضرت مسیح موعود کی مجلس میں بیٹھتے تھے تو ہم خاص طور پر محسوس کرتے تھے کہ ہماری اندرونی بیماریاں ڈھل رہی ہیں اور روحانیت ترقی کر رہی ہے لیکن جب آپ سے الگ ہوتے تھے تو پھر یہ بات نہ رہتی تھی.نیز بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب ہم حضرت صاحب کی مجلس میں ہوتے تھے تو خواہ اس سے پہلے کیسا ہی حال ہواس وقت طبیعت بہت ہی خوش رہتی تھی.123 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میں براہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تو اس وقت آپ براہین احمدیہ تصنیف فرما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبر دست دلائل تحریر کئے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھا کہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہر ہو جائے گی اور آپ کا ارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کا انتظام ہو تو کتاب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ
سیرت المہدی 100 حصہ اوّل ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں.چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چارجلد میں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں.اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نامکمل طور پر.ان چار حصوں کے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدائی تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتا ہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہو گئے.حضرت مسیح موعود نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کے آخر میں جو اشتہار ” ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان کے نیچے دیا ہے اس میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ ابتدا میں جب براہین احمدیہ تصنیف کی گئی تو اور صورت تھی مگر بعد میں یعنی دوران اشاعت میں جب حواشی وغیرہ لکھے جا رہے تھے اور کتاب طبع ہو کر شائع ہورہی تھی صورت بدل گئی یعنی جناب باری تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خلعت ماموریت عطا ہوا اور ایک اور عالم سے آپ کو اطلاع دی گئی اس پر آپ نے اپنے پہلے ارادوں کو ترک کر دیا اور سمجھ لیا کہ اب معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہے گا آپ سے خدمت دین کا کام لے گا.چنانچہ یہ جو اس کے بعد اسی کے قریب کتابیں اور سینکڑوں اشتہارات اور تقریریں آپ کی طرف سے خدمت دین کے راستہ میں شائع ہوئیں اور اب آپ کی وفات کے بعد بھی جو خدمت دین آپ کے متبعین کی طرف سے ہورہی ہے یہ سب اسی کا نتیجہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کی جتنی صداقت ان تین سو دلائل سے ثابت ہوتی جو آپ نے براہین احمدیہ میں تحریر فرمائے تھے اس سے کہیں بڑھ کر محض آپ کے وجود سے ہوئی جس کا ظہور بعد میں مہدویت اور مسیحیت کے رنگ میں ہوا.گویا قطع نظر ان عظیم الشان تحریرات کے جو بعد میں خداوند تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے شائع کر وا ئیں محض آپ کا وجود باجود ہی ان تین سو دلائل سے بڑھ کر صداقت اسلام پر روشنی ڈالنے والا ہے کیونکہ یہ تین سو دلائل تو بہر حال زیادہ تر عام عالمانہ رنگ میں لکھے گئے ہو نگے لیکن آپ کا وجود جوشان نبوت میں ظاہر ہوا اپنے اندر اور ہی جذب اور طاقت رکھتا ہے.124 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ لالہ ملاوامل نے
سیرت المہدی 101 حصہ اوّل مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مرزا صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک صندوقچی کھول کر دکھائی تھی جس میں ان کی ایک کتاب کا مسودہ رکھا ہوا تھا اور آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ بس میری جائیداد اور مال سب یہی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ براہین احمدیہ کے مسودہ کا ذکر ہے.125 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ پیر سراج الحق صاحب کو روز وفقا نگران کو یاد نہ رہا اور انہوں نے کسی شخص سے پینے کے واسطے پانی منگایا.اس پر کسی نے کہا آپ کو روزہ نہیں ؟ پیر صاحب کو یاد آ گیا کہ میرا روزہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس وقت وہاں موجود تھے آپ پیر صاحب سے فرمانے لگے کہ روزہ میں جب انسان بھول کر کوئی چیز کھا پی لیتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے اس کی مہمانی ہوتی ہے.لیکن آپ نے جو پانی کے متعلق سوال کیا اور سوال کرنا نا پسندیدہ ہوتا ہے تو اس سوال کی وجہ سے آپ اس نعمت سے محروم ہو گئے.126 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ میں جب پہلی دفعہ قادیان آیا تو حضرت صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے والد صاحب کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا حضور آپ نے کس کا نام لے دیا میرا والد تو بہت بُرا آدمی ہے.شراب پیتا ہے اور بُری بُری عادتیں ہیں حضرت صاحب نے فرمایا تو بہ کر واپنے والد کے متعلق ایسا نہیں کہنا چاہئیے.پھر آپ نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ بعض اوقات ایک آدمی برے اعمال کرتے کرتے دوزخ کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے لیکن پھر وہ وہاں سے واپس ہوتا ہے اور نیک اعمال شروع کرتا ہے اور آخر جنت میں داخل ہو جاتا ہے.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میرے والد صاحب کی حالت میں تغیر آیا اور پھر آخران کا انجام نہایت اچھا ہوا اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ ان کی عشق کی سی حالت ہوگئی تھی.127 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی مرزا غلام غوث ہوشیار پوری کے ساتھ بیاہی گئی تھی مگر مرزا محمد بیگ جلد فوت ہو گیا اور ہماری پھوپھی کو باقی ایام زندگی بیوگی کی حالت میں گزارنے پڑے.ہماری پھوپھی صاحب رؤیا و کشف تھیں.
سیرت المہدی 102 حصہ اوّل مرزا محمد بیگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیرے بھائیوں یعنی مرزا نظام الدین وغیرہ کی حقیقی بہن عمر النساء بیاہی گئی تھی.اس کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئی.مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین اور دہر یہ طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بیگ مذکور ان کے سخت زیر اثر تھا اور انہیں کے رنگ میں رنگین رہتا تھا.یہ لوگ ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود سے نشان آسمانی کے طالب رہتے تھے کیونکہ اسلامی طریق سے انحراف اور عنا در کھتے تھے اور والد محمدی بیگم یعنی مرزا احمد بیگ ان کے اشارہ پر چلتا تھا.اب واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک اور چازاد بھائی مرزا غلام حسین تھا جو عرصہ سے مفقود الخبر ہو چکا تھا اور اس کی جائیداد اس کی بیوی امام بی بی کے نام ہو چکی تھی.یہ امام بی بی مرزا احمد بیگ مذکور کی بہن تھی.اب مرزا احمد بیگ کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسماۃ امام بی بی اپنی جائیداد اس کے لڑکے مرزا محمد بیگ برادر کلاں محمدی بیگم کے نام ہبہ کر دے لیکن قانو نا امام بی بی اس جائیداد کاهبه بنام محمد بیگ مذکور بلا رضامندی حضرت مسیح موعود نہ کر سکتی تھی اس لئے مرزا احمد بیگ با تمام عجز و انکساری حضرت مسیح موعود کی طرف ملتجی ہوا کہ آپ بہ نامہ پر دستخط کر دیں.چنانچہ حضرت صاحب قریباً تیار ہو گئے لیکن پھر اس خیال سے رُک گئے کہ دریں بارہ مسنون استخارہ کر لینا ضروری ہے.چنانچہ آپ نے مرزا احمد بیگ کو یہی جواب دیا کہ میں استخارہ کرنے کے بعد دستخط کرنے ہوں گے تو کر دوں گا چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا.وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرا یہ میں ظاہر کر دیا.چنانچہ استخارہ کے جواب میں خدا وند تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے یہ فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا.اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گئے جو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں درج ہیں.لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جاوے گی وہ روز نکاح سے
سیرت المہدی 103 حصہ اوّل اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے.“ 66 اس وحی الہامی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نوٹ دیا کہ تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے.بلکہ مکاشفات کے رو سے مکتوب الیہ ( یعنی مرزا احمد بیگ) کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں نزدیک پایا جاتا ہے.واللہ اعلم “ جب استخارہ کے جواب میں یہ وحی ہوئی تو حضرت مسیح موعود نے اسے شائع نہیں فرمایا بلکہ صرف ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ سے والد محمدی بیگم کو اس سے اطلاع دے دی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی اشاعت سے رنجیدہ ہو گا لہذا آپ نے اشاعت کے لئے مصلحتا دوسرے وقت کی انتظار کی.لیکن جلد ہی خودلڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے شدت غضب میں آکر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا اور علاوہ زبانی اشاعت کے اخباروں میں بھی اس خط کی خوب اشاعت کی.تب پھر حضرت مسیح موعود کو بھی اظہار کا عمدہ موقعہ مل گیا.128 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے آباء میں سے وہ بزرگ جو ابتداء ہندوستان میں آکر آباد ہوئے ان کا نام مرزا ہادی بیگ تھا.ان کے ہندوستان میں آکر آباد ہونے کا زمانہ ۱۵۳۰ء کے قریب کا معلوم ہوتا ہے یعنی ایسا پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ بابر بادشاہ کے ساتھ آئے تھے یا کچھ عرصہ بعد.مرزا ہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو تیمور کے چچا تھے.مرزا ہادی بیگ سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک کا شجرہ نسب مشمولہ ورق پر درج ہے.
حصہ اوّل سیرت المہدی 104 شجرہ نسب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مورث اعلیٰ جو ہندوستان میں آئے مرزا ہادی بیگ قوم مغل شاخ بر لاس محمد فاضل عبد الکریم * تانن بیگ.فتح محمد * سعد اللہ ک مرزا احمد مرزا افضل حیدر بیگ گا سب نیک جانی بیگ ناصر بیگ * بہاؤ الد محمد سلطان عبد الباقي محمد بیگ رحیم بیگ ا جعفر بیگ غازی بیک زین العابدین اسماعیل محمد ضياء عبدالرحیم محمد دلاور محمد فاضل فیض اللہ صادق تک سیف الله یک قائم یک مالی نیک محمد حیات لطيف الله مما افضل مراد بیگ محراب بیگ محمد اسلم محمد صادق عتیق الله محمد فاضل و گامان بیگ پیر بیگ او محمد زمان لیے یہ شاخ بریلی کی طرف چلی گئی تھی.دینا بیگ گرائی بیگ وارد بیگ فضل احمد سندھی بیگ محمد بیگ محمصطفی شریف بیگ * محمد قائم میری شادی بیک عبدالله در نور محمد اولیا بیک مرزا فیض محمد محمد حسین دین محمد مرزا تصدق جیلانی فیض اللہ بیگ اخلاص بیگ غلام رسول غلام صمدانی * غلام جیلانی * الا چی بیگ، عبد اللہ بیگ * ستار بیگ غفار بیگ غلام حیدر * لہ ٹینس باپ کی زندگی میں، مفقود الخبر ہو گیا تھا.باپ میں مفقود مرزائل محمد مرزا غلام محی الدین و مرزا عطا محمد مرزا قاسم بیگ مر ز اغلام غوث * I مرز اعلام می ام مصطفی مرزا نظامه مرتضی مرز اعلام محمد * مرز اعلام في الد ین مرتز اندام قادر مرز اغلام حیدر مرزا العام الدین مرزا نظام الدین مرزا کمال الدین مرزا غلام حسین سے شخص منقور اثر ہو گیا تھا.حضرت مرزا غلام احمد ریح موعود علیہ السلام مرزا اگل محمد مرز اسلطان احمد مرز افضل الله عصمت بشیر احم اول * حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد شوکر کلی مرزا بشیر احمد مرزا شریف احمد مبار که میگم مبارک احمد امته المیرا امته الحفیظ بیگم موند العزیز الحمد سعید احمد مبارک احمد خورشید احمد مرز ارشید احمد تیم احمد منصور احمد ظفر احمد داؤد احمد مظفر احمد حمید احمد منیر احمد مبشر احمد مجید احمد نصیر احمد ناصراحمد مبارک احمد منور احمد خلیل احمد حفیظ احمد رفیع احمد وسیم احمد انور احمد طاہر احمد اظہر احمد نعیم احمد حنیف احمد رفیق احمد نوٹ.یہ شجرہ نسب ۱۹۳۸ تک کا ہے اور سیرت المہد کی حصہ اول ایڈیشن اول کے مطابق ہے.ناشر
105 حصہ اوّل اس شجرہ میں جن ناموں کے سامنے سٹار “ کا نشان دکھایا گیا ہے یہ ایسے لوگوں کے نام ہیں جن کی نسل آگے نہیں چلی.129 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ اپنے قلم سے اپنے اور اپنے خاندان کے حالات لکھے ہیں مگر سب سے مفصل وہ بیان ہے جو کتاب البریہ میں درج ہے.یہ بیان ایسا تو نہیں ہے کہ اس میں سب ضروری باتیں آگئی ہوں اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حالات جو حضرت مسیح موعود نے خود دوسری جگہ تحریر فرمائے ہیں وہ سب اس میں آگئے ہیں.لیکن چونکہ یہ بیان سب سے زیادہ مفصل ہے اور حضرت صاحب نے ایک خاص تحریک کی بنا پر تحریر فرمایا تھا اس لئے اس کے خاص خاص حصے ہدیہ ناظرین کرتا ہوں.حضرت صاحب فرماتے ہیں.”اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطا محمد اور میرے پر دادا صاحب کا نام گل محمد تھا.اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریباً دو سو آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل وعیال میں سے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ میں جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا.جو لاہور سے تخمینا بفاصلہ پچاس کوس بگوشہ ء شمال مشرق واقع ہے.فروکش ہو گئے جس کو انہوں نے آباد کر کے اس کا نام اسلام پورہ رکھا جو پیچھے سے اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا.اور قاضی ماجھی کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا حاشیہ عرصہ سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا کہ خدا تعالیٰ کے متواتر الہامات سے مجھے معلوم ہوا تھا کہ میرے باپ دادے فارسی الاصل ہیں وہ تمام الہامات میں نے انہی دنوں میں براہین احمدیہ کے حصہ دوم میں درج کر دیئے تھے جن میں سے میری نسبت ایک یہ الہام ہے خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس یعنی تو حید کو پکڑو، تو حید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو.پھر دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے لو كان الايمان معلقا بالثريا لناله رجل من فارس یعنی اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہی جا کر اس کو لے آتا اور پھر ایک تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے ان الذين كفروا رد عليهم رجل من فارس شکر اللہ سعید یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا.خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے.یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اولین فارسی تھے.والحق ما اظهره الله - منه
سیرت المہدی 106 حصہ اوّل اور پھر اس سے بگڑ کر قادیان بن گیا.اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے.ان دنوں میں سب کا سب ماجھ کہلاتا تھا.غالبا اس وجہ سے اس کا نام ماجھا تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں اور چونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جا گیر داری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی.اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے.مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمر قند سے اس ملک میں آئے.مگر کاغذات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا.پھر اس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جا گیران کو ملے.چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہو گئی.سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب مرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے.جن کے پاس اس وقت 85 گاؤں تھے.اور بہت سے گاؤں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے.تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دیدئے تھے.جواب تک ان کے پاس ہیں.غرض وہ اس طوائف الملو کی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے.ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآنِ شریف کے ان کے پاس رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا.اور عجیب تریہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتا رہا ہے.غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلماناں کی صفت میں نہایت مشہور تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور بارعب آدمی تھے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک دفعہ ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیان میں آیا.
سیرت المہدی 107 حصہ اوّل جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے اُس مختصر در بار کو نہایت متین اور عقلمند اور نیک چلن اور بہادروں سے پر پایا تب وہ چشم پر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں.تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بد وضعی ملوک چغتائیہ میں اس کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے.اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے پڑ دادا صاحب موصوف یعنی مرز اگل محمد نے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی.بیماری کے غلبہ کے وقت اطبا نے اتفاق کر کے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالبا اس سے فائدہ ہوگا.مگر جرأت نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں.آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا.تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں.میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کے قضا و قدر پر راضی ہوں.آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے.موت تو مقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یاد گار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پڑ دادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے.ان کے وقت میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے.دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جبکہ قضا و قدر ان کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے.اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی.اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے.یہاں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس صرف ایک قادیان رہ گئی.اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا.اور اس کے چار برج تھے.اور بر جوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے.اور چند تو ہیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جاسکتے تھے.اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا
سیرت المہدی 108 حصہ اوّل جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا اوّل فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے.اوران کے مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجدیں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا.اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا.جس میں پانچ سونسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا.جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا.اور آخرسکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردوزن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے.اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزیں ہوئے.تھوڑے عرصہ کے بعد ان ہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہر دی گئی.پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضی قادیان میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی.سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے.اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا.غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں ملکر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے.پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے.گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے.۱۸۵۷ء میں انہوں نے سر کار انگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دیئے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کو اس قسم کی مدد کا عند الضرورت وعدہ بھی دیا.اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجلد وے خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں.چنانچہ سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ در یکسان پنجاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے.غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دل عزیز تھے.اور بسا اوقات ان کی دلجوئی کیلئے حکام وقت ڈپٹی کمشنر، کمشنر اُن کے مکان پر آکر ان کی ملاقات کرتے تھے.یہ مختصر میرے خاندان کا حال ہے.میں ضروری نہیں دیکھتا کہ
سیرت المہدی 109 حصہ اوّل اس کو بہت طوالت دوں...میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے.ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پاسیر بھی کیا.لیکن میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا.اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا.اور نہ اپنے دوسرے بزرگوں کی ریاست اور ملک داری سے کچھ حصہ پایا.بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نو کر رکھا گیا.جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں.اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.اور جب میری عمر قریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے.جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے.وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے.اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحوان سے پڑھے.اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا.ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا.اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے.اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے.اور نیز ان کا یہ بھی مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر ان کے غموم و ہموم میں شریک ہو جاؤں.آخر ایسا ہی ہوا.میرے والد صاحب اپنے بعض آباء واجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے.انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا
سیرت المہدی 110 حصہ اوّل اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا.مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا.اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتارہا.ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پرتھی.مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے رو بخلق بناویں.اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی.ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیان میں آنا چاہا میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئیے.مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا.پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا.اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں.جو مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا.مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے کے لئے دعا میں مشغول رہتا تھا.اور وہ مجھے دلی یقین بر بالوالدین سے جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے.یعنی دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے.ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں.ایسا ہی ان کے زیر سایہ ہونے کے ایام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی.آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا.اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشا کے موافق تھا میں نے استعفی دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا.اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا.اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکوی پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.اور جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا.تو بدستور ان ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا.مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا.اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا.اور میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار
سیرت المہدی 111 حصہ اوّل روپیہ کے قریب خرچ کیا تھا.جس کا انجام آخر نا کا می تھی.کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا.اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے.اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا.جو دنیوی کدورتوں سے پاک ہے.اگر چہ حضرت والد صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سر کا رانگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا.اور ایام ملازمت کی پینشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا.اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے.اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے.عمر بگذشت و نماندست جزایا مے چند به که در یاد کے صبح کنم شامے چند اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کیساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے..از در تو اے کس ہر بے کسے نیست امیدم که روم نا امید اور کبھی درد دل سے یہ شعرا اپنا پڑھا کرتے تھے.بآب دیدۂ عشاق و خاکپائے کسے مرا دلیست کہ درخوں تپد بجائے کسے حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی.بار ہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی.ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں.جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے.تو میں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑ ا جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئیے.یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے.یہ دیکھ کر میں چشم پر آب ہو گیا.اور پھر آنکھ کھل گئی اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا
سیرت المہدی 112 حصہ اوّل اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں گذرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر نا کامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پڑ دادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرع راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ.ع کہ جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے“ اور یہ غم اور در دان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا.اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے.اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو.تا خدائے عز وجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے.کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت ہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہو گئے.اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر نشان کیا تھا دفن کئے گئے.اللهم ارحمه وادخله الجنة ـ امين قريباً استی یا پچاسی برس کی عمر پائی.ان کی یہ حسرت کی باتیں کہ میں نے کیوں دنیا کے لئے وقت عزیز کھویا.اب تک میرے دل پر درد ناک اثر ڈال رہی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو دنیا کا طالب ہو گا آخر اس حسرت کو ساتھ لے جائے گا.جس نے سمجھنا ہو سمجھے....مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے.میں اس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا تب میں جلدی سے قادیان پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلا پایا لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے.دوسرے دن شدت دو پہر کے وقت ہم سب عزیزان کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کر لو کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی.میں آرام کیلئے ایک چوبارہ میں چلا گیا.اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا.وَ السَّمَاءِ وَالطَّارِق“ یعنی قسم ہے آسمان کی
سیرت المہدی 113 حصہ اوّل جو قضا و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا.سبحان اللہ کی شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوتا ہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی عزا پرسی کیا معنے رکھتی ہے.مگر یادر ہے کہ حضرت عز و جل شانہ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کا ہنسنا بھی جو حدیثوں میں آیا ہے.ان ہی معنوں کے لحاظ سے آیا ہے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو بشریت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا.تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے؟ اور اس الہام نے عجیب سکیت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں پھنس گیا.پس مجھے اس خدائے عز و جل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلا دیا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا.میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہوگا.میرے پر اس کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہو گئے.یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسا رحمت کا نشان دیکھا جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو.میں نے اس الہام کو ان ہی دنوں میں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی.جو بڑی حفاظت سے اب تک رکھی ہوئی ہے.غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری.ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.میں کچھ بیان نہیں کرسکتا کہ میرا کون ساعمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ
سیرت المہدی 114 حصہ اوّل احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے رو کنے سے رک نہیں سکتی.سو یہ اسی کی عنایت ہے میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں.اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو.بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں.ہاں حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا.اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدرروزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنتِ اہلِ بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالا نا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا.اور اس طرح تمام دن روزہ میں گزارتا.اور بجز خدا تعالیٰ کے، ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدرکھانے کو کم کروں.سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا.اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نوماہ تک میں نے ایسا ہی کیا.اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیا اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع حسنین وعلی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا......
سیرت المہدی 115 حصہ اوّل غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے.ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جاوے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا حتی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہوسکتا.لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.....بہتر ہے کہ انسان اپنے نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیا ر کھے.آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس ان سے پر ہیز کرنا چاہیے.“ ( منقول از کتاب البریه صفحه ۱۳۴ تا ۱۶۶ حاشیه ) (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مندرجہ ذیل تصانیف میں اپنے خاندانی حالات کا ذکر کیا ہے.ازالہ اوہام.آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی.استفتاء عربی.لجبۃ النور.تریاق القلوب - کشف الغطا.شہادت القرآن - تحفہ قیصریہ.ستارہ قیصریہ نجم الہدی.اشتہار ۱۸۹۴ء) 130 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بندوبست مال ۱۸۶۵ء کے کاغذات کے ساتھ جو ہمارے خاندان کا شجرہ نسب منسلک ہے اس میں قصبہ قادیان کی آبادی اور وجہ تسمیہ کے عنوان کے نیچے ثبت دستخط مرزا غلام مرتضی صاحب و مرزا غلام جیلانی و مرزا غلام محی الدین وغیرہ یہ نوٹ درج ہے کہ : عرصہ چودہ پشت کا گزرا.کہ مرزا ہادی بیگ قوم مغل گوت بر لاس مورث اعلیٰ ہم مالکان دیہہ کا بعہد شاہان سلف ملک عرب سے بطریق نوکری ہمراہ بابر شاہ بادشاہ کے آکر حسب اجازت شاہی اس جنگل افتادہ میں گاؤں آباد کیا.وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مورثان ہمارے کو جانب بادشاہ سے عہدہ قضا کا عطا ہوا تھا.باعث لقب قاضیاں کے نام گاؤں کا قاضیان اسلام پورہ رکھا پھر رفتہ رفتہ غلطی عوام الناس سے قصبہ قادیان
سیرت المہدی 116 حصہ اوّل مغلاں مشہور ہو گیا تب سے برابر آباد چلا آتا ہے.کبھی ویران نہیں ہوا.“ ( اس روایت میں جو عرب سے آنا بیان ہوا ہے یہ غالبا سہو کتابت ہے ) 131 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کی تباہی پر پنجاب کا ملک خصوصاً اٹھارویں صدی عیسوی کے آخری نصف حصہ میں خطر ناک طوائف الملو کی کا منظر رہا ہے.شمال سے احمد شاہ ابدالی اور شاہ زمان کے حملے ایک عارضی تسلط سے زیادہ اثر نہیں رکھتے تھے اور دراصل سکھ قوم کا دور دورہ شروع ہو چکا تھا.لیکن چونکہ ابھی تک سکھ قوم کے اندر اتحاد و انتظام کا مادہ مفقود تھا.اور نہ ہی ان کا اس وقت کوئی واحد لیڈر تھا.اس لئے ان کا عروج بجائے امن پیدا کرنے کے آپس کے جنگ وجدال کی وجہ سے پرلے درجہ کا امن شکن ہو رہا تھا.اس زمانہ میں سکھ بارہ مسلوں یعنی بارہ جتھوں اور گروہوں میں منقسم تھے.اور ہر مسل اپنے سردار یا سرداروں کے ماتحت ماردھاڑ کر کے اپنے واسطے خود مختار ریاستیں بنارہی تھی.اس وجہ سے اس زمانہ میں پنجاب کے اندر ایک مستقل سلسلہ کشت و خون کا جاری تھا.اور کسی کا مال و جان اور آبرو محفوظ نہ تھے.حتی کہ وہ وقت آیا کہ راجہ رنجیت سنگھ نے سب کو زیر کر کے پنجاب میں ایک واحد مرکزی سکھ حکومت قائم کر دی.قادیان اور اس کے گردونواح کا علاقہ چونکہ ہمارے بزرگوں کے زیر حکومت تھا.اس لئے اس طوائف الملو کی کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں کو بھی سکھوں کے ساتھ بہت سے معر کے کرنے پڑے.جن سکھ مسلوں کے ساتھ ہمارے بزرگوں کا واسطہ پڑا وہ رام گڑھی مسل اور کنھیا مسل کے نام سے مشہور تھیں.کیونکہ قادیان کی ریاست کا علاقہ زیادہ تر انہی دو مسلوں کے علاقہ سے ملتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑدادا مرز اگل محمد صاحب نے ایک حد تک سکھوں کی دست برد سے اپنے علاقہ کو بچائے رکھا.لیکن پھر بھی بہت سے دیہات ان کے ہاتھ سے نکل گئے مگر ان کی وفات کے بعد جو غالبًا ۱۸۰۰ء میں ہوئی ان کے فرزند مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں جلد ہی قادیان کے گردونواح کا سارا علاقہ اور بالآخر خود قادیان سکھوں کے قبضہ میں چلے گئے اور مرزا عطا محمد صاحب اپنی جڑی ریاست سے نکل جانے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ مرزا عطا محمد صاحب دریائے بیاس سے پار جا کر موضع بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ رئیس علاقہ کے مہمان ٹھہرے.سردار موصوف اہلو والیہ مسل کا سر گروہ تھا اور اس زمانہ میں ایک بڑا
سیرت المہدی 117 حصہ اوّل ذی اقتدار شخص تھا.موجودہ راجہ صاحب کپورتھلہ اس کے سلسلہ میں سے ہیں.بارہ سال کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کو بیگووال میں ہی دشمنوں کے ہاتھ سے زہر دیدیا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے واللہ اعلم کہ رام گڑھی مسل کے مشہور و معروف سرگروہ جتا سنگھ نے خود یا اس کے متبعین نے غالبا ۱۸۰۲ء کے قریب قریب قادیان پر قبضہ پایا ہے.جسا سنگھ ۱۸۰۳ء میں مر گیا اور اس کے علاقہ کے بیشتر حصہ پر اس کے بھتیجے دیوان سنگھ نے قبضہ کر لیا.چنانچہ دیوان سنگھ کے ماتحت قریباً پندرہ سال رام گڑھی مسل قادیان پر قابض رہی.جس کے بعد راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا.یہ ۱۸۱۶ء کے بعد کی بات ہے اس کے بعد غالبا ۱۸۳۴ء یا ۱۸۳۵ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ہمارے دادا مرزا غلام مرتضی صاحب کو قادیان کی جاگیر واپس مل گئی اس دوران میں ہمارے دادا صاحب کو بڑے بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑا.132 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب پنجاب چیفس یعنی تذکرہ روسائے پنجاب میں جسے اولاً سرلیپل گریفن نے زیر ہدایت پنجاب گورنمنٹ تالیف کرنا شروع کیا اور بعد میں مسٹر میسی اور مسٹر کریک نے (جواب بوقت ایڈیشن ثانی کتاب هذا سر ہنری کریک کی صورت میں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم ممبر ہیں) علی الترتیب گورنمنٹ پنجاب کے حکم سے اسے مکمل کیا اور اس پر نظر ثانی کی.ہمارے خاندان کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ درج ہے.شہنشاہ بابر کی عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودوباش اختیار کی.یہ شخص کچھ عالم آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا حاکم مقرر کیا گیا.کہتے ہیں کہ قادیان اسی نے آباد کیا اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بگڑتے بگڑتے قادیان ہو گیا.کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی حکومت کے ماتحت معزز عہدوں پر ممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا.گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنھیا مسلوں سے جن کے قبضے میں قادیان کے گردونواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کار اپنی تمام جا گیر کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور
سیرت المہدی 118 حصہ اوّل وہاں بارہ سال تک امن کی زندگی بسر کی.اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضی کو قادیان واپس بلالیا اور اس کی جڑی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا.اس پر غلام مرتضی اپنے بھائیوں سمیت مہا راجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سرانجام دیں.نو نہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دوراں میں غلام مرتضی ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا.۱۸۴۱ء میں یہ جرنل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیندار بنا کر پشاور روانہ کیا گیا.ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کار ہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو وہ اپنی سرکار کا وفادار رہا اور اس کی طرف سے لڑا.اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں.جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج کو لئے دیوان مولراج کی امداد کے واسطے ملتان جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیر داران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمان آبادی کو برانگیختہ کیا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں پر حملہ کر کے ان کو شکست فاش دی اور دریائے چناب کی طرف دھکیل دیا جہاں چھ سو سے زیادہ باغی دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے.انگریزی گورنمنٹ کی آمد پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہو گئی مگر سات سو کی ایک پینشن غلام مرتضی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح پر ان کے حقوق مالکانہ قائم رہے.اس خاندان نے غدر ۱۸۵۷ء میں نہایت عمدہ خدمات کیں.غلام مرتضی نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میں تھا جب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر ۴۶ نیو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا تھا.جنرل نکلسن نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا کہ ۱۸۵۷ء کے غدر میں خاندان قادیان نے ضلع کے دوسرے تمام خاندانوں سے زیادہ وفاداری دکھائی ہے.133 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسالہ کشف الغطاء میں جو حکام گورنمنٹ کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ:.
برت المـ 119 حصہ اوّل ” میرا خاندان ایک خاندان ریاست ہے اور میرے بزرگ والیان ملک اور خودسرامیر تھے جو سکھوں کے وقت میں یکلخت تباہ ہوئے اور سرکا رانگریزی کا اگر چہ سب پر احسان ہے مگر میرے بزرگوں پر سب سے زیادہ احسان ہے کہ انہوں نے اس گورنمنٹ کے سائی دولت میں آکر ایک آتشی تنور سے رہائی پائی اور خطرناک زندگی سے امن میں آگئے.میرا باپ مرزا غلام مرتضی اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھا اور گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں نے پُر زور تحریروں کے ساتھ لکھا کہ وہ اس گورنمنٹ کا سچا مخلص اور وفادار ہے اور میرے والد صاحب کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگاہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لئے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفا دار رئیس تھے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے 1857ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لئے دیئے تھے چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستان میں مردانہ لڑائی مفسدوں سے کر کے اپنی جانیں دیں اور میرا بھائی مرزا غلام قادر تمون کے پین کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی.غرض اسی طرح میرے بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتوں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا ہے.سوا نہی خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کرے گی جو بڑے فتنے کے وقت میں ثابت ہو چکا ہے.سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی مرزا غلام قادر کا ذکر کیا ہے اور میں ذیل میں ان چند چٹھیات حکام بالا دست کو درج کرتا ہوں جن میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی کی خدمات کا کچھ ذکر ہے:.
حصہ اوّل 120 Translation of Certificate of J.M.Wilson.To, Mirza Ghulam Murtaza Khan chief of Qadian.I have perused your application reminding me your and your family's past services and rights.I am well aware that since the introduction of the British Government you and your family have certainly remained devoted faithful and steady subjects and that your rights are really worthy of regard, In every respect you may rest assured and satisfied that the British Government will never forget your family's rights and services which will receive due consideration when a favourable opportunity offers itself.you must continue to be faithful and devoted subjects as in it lies the satisfaction of the Government and your welfare.11-06-1849 - Lahore سیرت المہدی نقل مراسله ولسن صاحب نمبر ۳۵۳ تہور پناہ شجاعت دستگاه مرزا غلام مرتضی رئیس قادیان حفظه عریضه شما مشعر بر یاد دہانی خدمات و حقوق خود و خاندانِ خود بملاحظه حضور اینجانب درآمد.ما خوب میدانیم که بلاشک شما و خاندان شما از ابتدائے دخل و حکومتِ سرکار انگریزی جاں نثار وفا کیش ثابت قدم مانده آید و حقوق شما دراصل قابل قدر اند.بہر نہج تسلی و تشفی دارید - سرکار انگریزی حقوق و خدمات خاندان شما هرگز فراموش نخواهد کرد.بموقعہ مناسب بر حقوق و خدمات شما غور و توجه کرده خواهد شد.باید کہ ہمیشہ ہوا خواہ و جان شار سرکار انگریزی بمانند که در یں امر خوشنودی سرکار و بهبودی شما متصور است فقط المرقوم ۱۱، جون ۱۸۴۹ء مقام لا ہورا نارکلی
سیرت المہدی نقل مراسله رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور تہورو شجاعت دستگاه مرزا غلام مرتضی رئیس قادیان بعافیت باشند از آنجا که هنگام مفسده ہندوستان موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیه در باب نگهداشت سواران و بهمر سانی اسپان بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی.اور شروع مفسدے سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکا ر رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا.لہذا بتعلق اس خیر 121 حصہ اوّل Translation of Mr.Robert Cast's Certificate Mirza Ghulam Murtaza Khan Chief of Qadian.As you rendered great help in enlisting sowars and supplyig horses to Government in the mutiny of 1857 and maintained loyalty since its beginning uptodate and thereby gained the favour of the Government a Khilat worth Rs.200/- is presented to you in recognition of good services and as a reward for you loyalty.خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ More over in accordance with دوصد the wishes of chief سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا میٹھی commissioner as conveyed in ماحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخ ۱۰ his No.576 dated 10 August ۱۰/ اگست ۱۸۵۸ء پروانه هذا باظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی وفاداری بنام آپ لکھا جاتا ہے.مرقومه تاریخ ۲۰ رستمبر ۱۸۵۸ء 1858.This parwana is addressed to you as a token of satisfaction of Government for your fidelity and repute.20-09-1858 Lahore.
سیرت المہدی نقل مراسله فنانشل کمشنر پنجاب مشفق مهربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ.آپ کا خط ۲ / ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ حضور اینجانب میں گزرا.مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا.مرزا غلام مرتضی سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا.ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح 122 حصہ اوّل Translation Sir Robert Egerton Financial Commissioner`s Letter Dated 29 June 1876.My dear friend Ghulam Qadir.I have perused your letter of the 2nd instant and deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza who was a great well wisher and faithful chief of Government.تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی.ہم کو کسی In consideration of your اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پا بحالی کا خیال رہے گا.المرقوم ۲۹ جون ۱۸۷۶ء الراقم سر رابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر فنانشل کمشنر پنجاب family services I will esteem you with the same respect as that bestowed on your loyal father.I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favourable opportunity occurs.134 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب پنجاب چیفس میں ہمارے خاندان کے حالات ما بعد وفات مرزا غلام مرتضی صاحب کے متعلق ذیل کا نوٹ لکھا ہے:.وو مرزا غلام مرتضیٰ جو ایک مشہور اور ماہر طبیب تھا ۱۸۷۶ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا.مرزا غلام قادر لوکل افسران کی امداد کے واسطے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا
سیرت المہدی 123 حصہ اوّل انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے.یہ کچھ عرصہ تک دفتر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈنٹ رہا ہے.اس کا اکلوتا بیٹا صغرسنی میں فوت ہو گیا تھا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنی بنالیا تھا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے.مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیل داری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اب اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ہے.مرزا سلطان احمد قادیان کا نمبر دار ہے مگر نمبر داری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا زاد بھائی نظام دین جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا لڑکا ہے کرتا ہے.نظام دین کا بھائی امام دین جو ۱۹۰۴ء میں فوت ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاؤسن ہارس میں رسالدار تھا.اس کا باپ غلام محی الدین تحصیل دار تھا.اس جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مرزا غلام احمد جو غلام مرتضی کا چھوٹا بیٹا تھا.مسلمانوں کے ایک بڑے مشہور مذہبی سلسلہ کا بانی ہوا جو احمد یہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہے.مرزا غلام احمد ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا تھا اور اس کو بہت اچھی تعلیم ملی.۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.چونکہ مرزا ایک قابل مذہبی عالم اور مناظر تھا اس لئے جلد ہی بہت سے لوگوں کو اس نے اپنا معتقد بنالیا اور اب احمد یہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے.مرزا عربی ، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا جن میں اس نے مسئلہ جہاد کی تردید کی اور یقین کیا جاتا ہے کہ ان کتابوں نے مسلمانوں پر معتد بہ اثر کیا ہے.کئی سال تک مرزا غلام احمد نے بڑی مصیبت کی زندگی بسر کی کیونکہ اپنے مذہبی مخالفوں کے ساتھ وہ ہمیشہ مباحثوں اور جھگڑوں مقدموں میں مبتلا رہا لیکن اپنی وفات سے پہلے جو ۱۹۰۸ء میں واقع ہوئی اس نے ایسا رتبہ حاصل کر لیا تھا کہ اس کے مخالف بھی اسے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے تھے.اس سلسلہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمد یہ نے ایک بڑا سکول کھولا ہے اور ایک مطبع جاری کیا ہے جس کے ذریعہ سے سلسلہ کی خبروں کی اشاعت کی جاتی ہے.مرزا غلام احمد کا روحانی خلیفہ مولوی نورالدین ہوا ہے جو ایک مشہور طبیب ہے اور چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہ چکا ہے.مرزا غلام احمد کے اپنے رشتہ داروں میں سے اس کے مذہب کے پیرو بہت ہی کم ہیں.
سیرت المہدی 124 حصہ اوّل اس خاندان کو سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ حاصل ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات 66 پر بشرح پانچ فی صدی حقوق تعلقداری ہیں.“ اقتباس مندرجہ بالا میں مصنف سے بعض غلطیاں واقعات کے متعلق ہوگئی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے.اول یہ کہ لکھا ہے کہ ہمارے تایا صاحب نے مرزا سلطان احمد صاحب کو متنبشی بنالیا تھا.یہ درست نہیں ہے بلکہ امر واقع اس طرح پر ہے کہ تایا صاحب کی وفات کے بعد تائی صاحبہ کی خواہش پر ان کو کاغذات مال میں افسران متعلقہ نے بطور متبنی درج کر دیا تھا.دوسرے مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی خاندان کا بزرگ لکھا ہے جو درست نہیں.تیسرے مرزا نظام الدین کو مرزا سلطان احمد صاحب کا چازاد بھائی لکھا ہے یہ غلط ہے بلکہ مرزا نظام الدین چچا تھے.چوتھے مرزا نظام الدین کو مرزا غلام محی الدین کا سب سے بڑا لڑکا لکھا ہے یہ غلط ہے.سب سے بڑا لڑ کا مرزا امام الدین تھا.پانچویں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کی پیدائش کی تاریخ ۱۸۳۹ء بیان کی ہے یہ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہوتی بلکہ صحیح تاریخ ۳۷-۱۸۳۶ء معلوم ہوتی ہے.چھٹے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم ان کے معتقد ہیں.یہ بات غلط ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ شروع شروع میں بے شک بہت سے رشتہ داروں نے مخالفت کی تھی لیکن کچھ تو تباہ ہو گئے اور بعضوں کو ہدایت ہوگئی چنانچہ اب بہت ہی کم رشتہ دار آپ کے مخالف رہ گئے ہیں اور اکثر آپ پر ایمان لاتے اور آپ کے خدام میں داخل ہیں.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود کی ترقی اور کامیابی کی وجہ یہ کھی ہے کہ ان کو بہت اچھی تعلیم ملی اور یہ کہ وہ ایک قابل مذہبی عالم اور مناظر تھے یہ غلط ہے کیونکہ ظاہری کسی علوم کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی بڑے عالموں میں سے نہ تھے اور نہ ہی علم مناظرہ میں آپ کو کوئی خاص دسترس تھی بلکہ شروع شروع میں تو آپ پبلک جلسوں میں کھڑے ہو کر تقریر کرنے سے بھی گھبراتے تھے اور طبیعت میں حجاب تھا مگر جب آپ کو خدا نے اس مقام پر کھڑا کیا تو پھر آپ کے اندروہ طاقت آگئی کہ آپ کے ایک ایک وار سے دشمن کی کئی کئی صفیں کٹ کر گر جاتی تھیں اور آپ کا ایک ایک لفظ خصم کی گھنٹوں کی تقریر وتحریر پر پانی پھیر دیتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو منہاج نبوت پر ایک مقناطیسی جذب دیا گیا تھا جس سے سعید روھیں
سیرت المہدی 125 حصہ اوّل خود بخود آپ کی طرف کچھی چلی آتی تھیں اور خدا کی طرف سے آپ کو ایک رعب عطا ہوا تھا.جس کے سامنے دلیر سے دلیر دشمن بھی کانپنے لگ جاتا تھا.اور آپ ایک معجز نما حسن و احسان سے آراستہ کئے گئے تھے اور ہر قدم پر خدائی نصرت و تائید آپ کے ساتھ تھی ورنہ آپ سے زیادہ عالم و منطقی دنیا میں پیدا ہوئے اور حباب کی طرح اُٹھ کر بیٹھ گئے.135 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ جب مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین مسجد مبارک کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کرنے لگے تو حضرت صاحب نے چند آدمیوں کو جن میں میں بھی تھا فرمایا کہ ان کے پاس جاؤ اور بڑی نرمی سے سمجھاؤ کہ یہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو بہت تکلیف ہوگی اور اگر چاہیں تو میری کوئی اور جگہ دیکھ کر بے شک قبضہ کر لیں اور حضرت صاحب نے تاکید کی کہ کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جاوے.چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم گئے تو آگے دونو مرزے مجلس لگائے بیٹھے تھے.اور تھے کا دور چل رہا تھا.ہم نے جا کر حضرت صاحب کا پیغام دیا اور بڑی نرمی سے بات شروع کی لیکن مرزا امام الدین نے سنتے ہی غصہ سے کہا وہ ( یعنی حضرت صاحب ) خود کیوں نہیں آیا اور میں تم لوگوں کو کیا جانتا ہوں.پھر طعن سے کہا کہ جب سے آسمانوں سے وحی آنی شروع ہوئی ہے اس وقت سے اسے خبر نہیں کیا ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ.چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم لوگ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے.پھر حضرت صاحب نے ہمارے ساتھ اور بعض مہمانوں کو ملا دیا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جاؤ اور اس سے جا کر ساری حالت بیان کرو اور کہو کہ ہم لوگ دور دراز سے دین کی خاطر یہاں آتے ہیں اور یہ ایک ایسا فعل کیا جا رہا ہے جس سے ہم کو بہت تکلیف ہوگی کیونکہ مسجد کا راستہ بند ہو جائیگا.ان دنوں میں قادیان کے قریب ایک گاؤں میں کوئی سخت واردات ہوگئی تھی اور ڈپٹی کمشن اور کپتان پولیس سب وہاں آئے ہوئے تھے.چنانچہ ہم لوگ وہاں گئے اور ذرا دور یگے ٹھہرا کر آگے بڑھے.ڈپٹی کمشنر اس وقت باہر میدان میں کپتان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا.ہم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں اور اپنا حال بیان کرنا شروع کیا.مگر ڈپٹی کمشنر نے نہایت غصہ کے لہجہ میں کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو.میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوں اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ
سیرت المہدی 126 حصہ اوّل جماعت کیوں بن رہی ہے.اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس طرح ایسی جماعت بنایا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم ناچار وہاں سے بھی نا کام واپس آگئے اور حضرت صاحب کو سارا ماجرا سنایا.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ان دنوں میں مخالفت کا سخت زور تھا اور انگریز حکام بھی جماعت پر بہت بدظن تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کوئی سازش کے لئے سیاسی جماعت بن رہی ہے.اور بٹالہ میں ان دنوں پولیس کے افسر بھی سخت معاند و مخالف تھے اور طرح طرح سے تکلیف دیتے رہتے تھے اور قادیان کے اندر بھی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ اور ان کی انگیخت سے قادیان کے ہندو اور سکھ اور غیر احمدی سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے اور قادیان میں احمدیوں کو سخت ذلت اور تکلیف سے رہنا پڑتا تھا اور ان دنوں میں قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی معمولی تھی اور احمدی سوائے حضرت کے خاندان کے قریباً سب ایسے تھے جو باہر سے دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے یا مہمان ہوتے تھے.حضرت صاحب نے یہ حالات دیکھے اور جماعت کی تکلیف کا مشاہدہ کیا تو جماعت کے آدمیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا اور کہا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کام کرنا ہے.یہاں نہیں تو کہیں اور کہی.اور ہجرت بھی انبیاء کی سنت ہے.پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس پر پہلے حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں.وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور کسی طرح کی تکلیف نہیں.مولوی عبدالکریم صاحب نے سیالکوٹ کی دعوت دی ، شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا لاہور میرے پاس تشریف لے چلیں.میرے دل میں بھی بار بار اٹھتا تھا کہ میں اپنا مکان پیش کر دوں مگر میں شرم سے رُک جاتا تھا آخر میں نے بھی کہا کہ حضور میرے گاؤں میں تشریف لے چلیں.وہ سالم گاؤں ہمارا ہے اور کسی کا دخل نہیں اور اپنے مکان موجود ہیں اور وہ ایک ایسی جگہ ہے کہ حکام کا بھی کم دخل ہے.اور زمیندارہ رنگ میں گویا حکومت بھی اپنی ہے ، حضرت صاحب نے پوچھا وہاں ضروریات مل جاتی ہیں.میں نے کہا.رسد وغیرہ سب گھر کی اپنی کافی ہوتی ہے.اور ویسے وہاں سے ایک قصبہ تھوڑے فاصلہ پر ہے جہاں سے ہر قسم کی ضروریات مل سکتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا! اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا.
سیرت المہدی 127 حصہ اوّل جہاں اللہ لے جائے گا وہیں جائیں گے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ۱۸۸۷ء میں بھی حضرت صاحب نے قادیان چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا.جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب محنہ حق میں اس کا تذکرہ لکھا ہے.136 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی وہ نوٹ بک یعنی کا پی دیکھی ہے جس میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر ہوشیار پور کا حساب کتاب درج کیا کرتے تھے.یہ وہی سفر ہے جس میں حضرت صاحب نے چالیس دن کا چلہ کیا اور جس میں آپ کا ماسٹر مرلی دھر آریہ کے ساتھ مباحثہ ہوا.جس کا سرمہ چشم آریہ میں ذکر ہے.اس کا پی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود اس سفر سے ۷ار مارچ ۱۸۸۶ء کو واپس قادیان پہنچے تھے.حساب کتاب کی پہلی تاریخ کاپی میں یکم فروری ۱۸۸۶ء درج ہے.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے حساب کتاب بعد میں لکھنا شروع کیا تھا اور حضرت صاحب ہوشیار پور جنوری کے تیسرے ہفتہ میں ہی پہنچ گئے تھے.ورنہ چالیس دن کا چلہ اور اس کے بعد میں روز کا قیام تاریخ ہائے مذکورہ میں سانہیں سکتے علاوہ ازیں میاں عبداللہ صاحب کو یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ ہوشیار پور میں حضرت صاحب نے دو ماہ قیام فرمایا تھا واللہ اعلم.کا پی مذکور میں سر تمارچ ۱۸۸۶ء کا حساب حسب ذیل درج ہے.مربی انبہ، اچار، شیر، مصری ، چینی ، گوشت، لفافہ، پالک ، دال ماش، نمک، دھنیا، پیاز، تھوم، آرد گندم ،ٹکٹ ، مرمت تھیلا ، ریوڑی ،میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کاپی میں صرف وہی چیزیں درج نہیں ہوتی تھیں جو حضرت کے لئے آئی ہوں بلکہ سب حساب درج ہوتا تھا خواہ کچھ ہمارے لئے منگایا گیا ہو یا کسی مہمان کے لئے.137 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ۱۳۰۳ ء ماہ ذی الحجہ بروز جمعہ بوقت دس بجے حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خوف ہو اور دل پر اس کے رعب پڑنے کا اندیشہ ہو تو آدمی صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ یسین پڑھے اور اپنی پیشانی پر خشک انگلی سے يَا عَزِیز لکھ کر اس کے سامنے چلا جاوے انشاء اللہ اس کا رعب نہیں پڑے گا بلکہ خود اس پر رعب پڑ جائے گا.اور ویسے بھی حضرت صاحب نے مجھے ہر روز کے واسطے بعد نماز فجر تین دفعہ یسین پڑھنے کا وظیفہ بتایا تھا.کے مطابق روایت نمبر ۳۱۱
سیرت المہدی 128 حصہ اوّل خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان میاں عبداللہ صاحب نے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کیا ہوا تھا اس لئے تاریخ وغیرہ پوری پوری محفوظ رہی اور خاکسارا اپنی رائے سے عرض کرتا ہے کہ یا عزیز کے الفاظ میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے قلب پر خدا کی طاقت و جبروت اور قہر و غلبہ کی صفات کا نقشہ جمائے گا اور ان کا تصور کرے گا تو لازمی طور پر اس کا قلب غیر اللہ کے رعب سے آزاد ہو جائے گا اور بوجہ اس کے کہ وہ مومن ہے اس کو ان صفات کے مطالعہ سے ایک طاقت ملے گی جو دوسرے کو مرعوب کر دے گی اور انگلی سے لکھنا علم النفس کے مسئلہ کے ماتحت تصور کو مضبوط کرنے کے واسطے ہے ورنہ وظائف کوئی منتر جنتر نہیں ہوتے.واللہ اعلم 138 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تو اس کے چند دن بعد ایک بڑا معمر شخص بھی یہاں آیا تھا.یہ شخص حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مریدوں میں سے تھا اور بیان کرتا تھا کہ میں سید صاحب مرحوم کے ساتھ حج میں ہم رکاب تھا اور ان کے جنگوں میں بھی ان کے ساتھ رہا تھا اور اپنی عمر قریباً سو اسوسال کی بتا تا تھا قادیان میں آکر اس نے حضرت صاحب کی بیعت کی.یہ شخص دین دار تہجد گزار تھا اور باوجود اس پیرانہ سالی کے بڑا مستعد تھا.دو چار دن کے بعد وہ قادیان سے واپس جانے لگا اور حضرت صاحب سے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ آپ اتنی جلدی کیوں جاتے ہیں کچھ عرصہ اور قیام کریں اس نے کہا میں حضور کے واسطے موجب تکلیف نہیں بننا چاہتا.حضرت صاحب نے فرمایا ہمیں خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں آپ ٹھہریں ہم سب انتظام کر سکتے ہیں.چنانچہ وہ یہاں ڈیڑھ دو ماہ ٹھہرا اور پھر چلا گیا.ایک دفعہ دوبارہ بھی وہ قادیان آیا تھا اور پھر اس کے بعد فوت ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے جب یہ روایت سنی تو اسے بہت عجیب سمجھا کیونکہ ایک شخص کا دوصدیوں کے سر کو پانا اور پھر دواماموں کی ملاقات اور بیعت سے مشرف ہونا کوئی معمولی بات نہیں چنانچہ میں نے اسی شوق میں یہ روایت مولوی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی اس شخص کو دیکھا ہے.اس کا چھوٹا قد تھا اور وہ بہت معمر آدمی تھا اور اس کے بدن پر زخموں کے نشانات تھے اور اس نے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کو صلوٰۃ خوف کے عملی طریقے بتائے تھے اور بتایا تھا کہ کس
سیرت المہدی 129 حصہ اوّل طرح ہم سید صاحب کے ساتھ لڑائی کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے ایک دفعہ درس کے وقت فرمایا تھا کہ میں نے ان سے صلوٰۃ خوف کے عملی طریقے سیکھے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ صاحب نے بیان کیا کہ یہ شخص چونڈہ ضلع امرتسر کا تھا.139 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے اس دعویٰ سے پنجاب میں بڑا شور پیدا کیا کہ میں جلتی ہوئی آگ میں گھس جاتا ہوں اور مجھے کچھ نہیں ہوتا اور اس نے حضرت صاحب کا بھی نام لیا کہ یہ سیج بنتا پھرتا ہے کوئی ایسا معجزہ تو دکھائے.حضرت صاحب کے پاس اس کی یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہو تو پھر کبھی نہ نکلے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول مداریوں کی طرح تماشے نہیں دکھاتے پھرتے بلکہ جب اللہ تعالیٰ کوئی حقیقی ضرورت محسوس کرتا ہے تو ان کے ذریعہ کوئی نشان ظاہر فرماتا ہے اور حضرت صاحب کا یہ فرمانا کہ اگر شخص میرے سامنے آگ میں گھسے تو پھر کبھی نہ نکلے.اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ حق کے مقابلہ پر کھڑا ہونے کی وجہ سے آگ اسے جلا کر راکھ کر دے گی بلکہ اگلے جہاں میں بھی وہ آگ ہی کی خوراک رہے گا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ واقعی آگ میں جاتا تھا یا نہیں بہر حال حضرت صاحب تک اس کا یہ دعویٰ پہنچا تھا جس پر آپ نے یہ فرمایا.140 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں خصوصاً ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی.مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصاً سکھ سخت ایذارسانی پر تلے ہوئے تھے اور صرف باتوں تک ایذا رسانی محدود نہ تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدو کوب تک نوبت پہنچی ہوئی تھی.اگر کوئی احمدی مہاجر بھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا تھا تو وہ بد بخت اسے مجبور کرتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا پا خانہ وہاں سے اُٹھائے.کئی دفعہ معزز احمدی ان کے ہاتھ سے پٹ جاتے تھے اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اور کرالیں چھین کر لے جاتے اور ان کو وہاں سے نکال دیتے تھے اور کوئی اگر سامنے سے کچھ بولتا تو گندی اور مخش گالیوں کے علاوہ اسے
سیرت المہدی 130 حصہ اوّل مارنے کے واسطے تیار ہو جاتے.آئے دن یہ شکائتیں حضرت صاحب کے پاس پہنچتیں رہتی تھیں مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو.بعض جو شیلے احمدی حضرت صاحب کے پاس آتے اور عرض کرتے کہ حضور ہم کو صرف ان کے مقابلہ کی اجازت دے دیں.اور بس پھر ہم ان کو خود سیدھا کر لیں گے.حضور فرماتے نہیں صبر کرو.ایک دفعہ سید احمد نور مہاجر کابلی نے اپنی تکلیف کا اظہار کیا.اور مقابلہ کی اجازت چاہی مگر حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہو اور اگر لڑنا ہے اور صبر نہیں کر سکتے تو کابل چلے جاؤ.چنانچہ یہ اس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے معزز احمدی جو کسی دوسرے کی ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.وہ ذلیل و حقیر لوگوں کے ہاتھ سے تکلیف اور ذلت اٹھاتے تھے اور دم نہ مارتے تھے مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بھرتی اٹھائی تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھا بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اس کے مکان پر حملہ آور ہو گئے.پہلے تو احمدی بچتے رہے.لیکن جب انہوں نے بے گناہ آدمیوں کو مارنا شروع کیا اور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمد یوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآ خر حملہ آوروں کو بھا گنا پڑا.چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتہ لگا کہ احمدیوں کا ڈران سے نہیں بلکہ اپنے امام سے ہے.اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کی.اور چونکہ احمدی سراسر مظلوم تھے اور غیر احمدی جتھا بنا کر ایک احمدی کے مکان پر جارحانہ طور پر لاٹھیوں سے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے تھے.اس لئے پولیس با وجود مخالف ہونے کے ان کا چالان کرنے پر مجبور تھی جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ہتھکڑی لگتی ہے تو ان کے آدمی حضرت صاحب کے پاس دوڑے آئے کہ ہم سے قصور ہو گیا ہے.حضور ہمیں معاف کر دیں حضرت صاحب نے معاف کر دیا.یہ پہلا دھکا تھا جو قادیان کی غیر احمدی پبلک کو پہنچا.اور یہ غالباً ۱۹۰۶ء کی بات ہے.اس کے بعد ان کی شرارتیں تو بدستور جاری رہیں اور اب تک جاری ہیں.مگراب خدا کے فضل سے قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو طبعا غیر احمدیوں کو ہمارے خلاف جرات کرنے سے روکے رکھتی ہے.دوسرے حضرت صاحب کی وفات کے بعد بعض دفعہ غیر احمدیوں کی شرارت کی وجہ سے لڑائی کی صورت پیدا ہو چکی ہے.اور ہر دفعہ غیر احمد یوں کو سخت ذلت اٹھانی پڑی ہے.له مطابق روایت نمبر ۳۱۱.
سیرت المہدی 131 حصہ اوّل لہذا اب ان کی شرارتیں گہری چال کی صورت میں بدل کر قانون کی آڑ میں آگئی ہیں.(خاکسار ایڈیشن ثانی کے موقعہ پر عرض کرتا ہے کہ میرے مندرجہ بالا ریمارک سے وہ حالت خارج ہے جو اب کچھ عرصہ سے احرار کی فتنہ انگیزی اور بعض حکام کی جنبہ داری سے قادیان میں جماعت احمدیہ کے خلاف پیدا ہو رہی ہے.) 141 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضور کو وَسِعُ مگانگ ( یعنی اپنا مکان وسیع کر ) کا الہام ہوا.تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مکانات بنوانے کے لئے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں اس حکم الہی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر بنوا لیتے ہیں.چنانچہ حضور نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر حکیم محمد شریف صاحب کے پاس بھیجا جو حضور کے پرانے دوست تھے.اور جن کے پاس حضور اکثر امرتسر میں ٹھہرا کرتے تھے.تا کہ میں ان کی معرفت چھپر باندھنے والے اور چھپر کا سامان لے آؤں.چنانچہ میں جا کر حکیم صاحب کی معرفت امرتسر سے آدمی اور چھپر کا سامان لے آیا.اور حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کر وائے یہ چھپر کئی سال تک رہے.پھر ٹوٹ پھوٹ گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بات دعوی مسیحیت سے پہلے کی ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ توسیع مکان سے مراد کثرت مہمانان و ترقی قادیان بھی ہے.142 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اعجاز احمدی کی تصنیف کے بعد مولوی ثناء اللہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس کی دستی خط و کتابت ہوئی تو اس نے ایک دفعہ اپنا ایک آدمی کسی بات کے دریافت کرنے کے لئے حضرت صاحب کے پاس بھیجا.یہ شخص جب مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے پاس آیا تو حضرت صاحب اس وقت اُٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے جارہے تھے.اس نے حضرت صاحب سے کوئی بات پونچھی اور حضرت صاحب نے اس کا جواب دیا.جس پر اس نے کوئی سوال کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کام یا یہ بات کون کرے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سوال مجھے یاد نہیں رہا مگر اس پر حضرت صاحب نے اسے فرمایا تو مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اس دفعہ کے علاوہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ کے مطابق روایت نمبر ۳۱۱
سیرت المہدی 132 حصہ اوّل سے کسی شخص کو تو کہتے نہیں سنا.موافق ہو یا مخالف.غریب سے غریب اور چھوٹے سے چھوٹا بھی ہوتا تھا تو حضرت صاحب اسے ہمیشہ آپ کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے.مگر اس وقت اس شخص کو آپ نے خلاف عادت تو “ کا لفظ کہا.اور ہم سب نے اس بات کو عجیب سمجھ کر محسوس کیا.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس لفظ کے سننے میں غلطی نہیں لگی تو یہ لفظ حضرت صاحب نے کسی خاص مصلحت سے استعمال فرمایا ہو گا.یا یہ بھی ممکن ہے کہ جلدی میں سہوا نکل گیا ہو.) 143 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سیدمحمد سرور شاہ صاحب نے کہ جب منشی احمد جان حب مرحوم لدھیانوی پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے تو حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جس طریق کو اختیار کیا ہے اس میں خاص کیا کمال ہے.منشی صاحب نے کہا میں جس شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ بے تاب ہو کر زمین پر گر جاتا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر نتیجہ کیا ہوا؟ منشی صاحب موصوف کی طبیعت بہت سعید اور ذہین واقع ہوئی تھی بس اسی نکتہ سے ان پر سب حقیقت کھل گئی اور وہ اپنا طریق چھوڑ کر حضرت صاحب کے معتقد ہو گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرون اولی کے بعد اسلام میں صوفیوں کے اندر توجہ کے علم کا بڑا چرچا ہو گیا تھا.اور اس کو روحانیت کا حصہ سمجھ لیا گیا تھا حالانکہ یہ علم دنیا کے علوم میں سے ایک علم ہے جسے روحانیت یا اسلام سے کوئی خاص تعلق نہیں اور مشق سے ہر شخص کو خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنی استعداد کے مطابق حاصل ہو سکتا ہے اور تعلق باللہ اور اصلاح نفس کے ساتھ اسے کوئی واسطہ نہیں.لیکن چونکہ نیک لوگ اپنی قلبی توجہ سے دوسرے کے دل میں ایک اثر پیدا کر دیتے تھے جس سے بعض اوقات وقتی طور پر وہ ایک سرور محسوس کرتا تھا اس لئے اسے روحانیت سمجھ لیا گیا اور چونکہ فیج اغوج کے زمانہ میں حقیقی تقوی وطہارت اور اصلاح نفس اور تعلق باللہ بالعموم معدوم ہو چکا تھا اور علمی طور پر توجہ کے فلسفہ کو بھی دنیا ابھی عام طور پر نہیں بھی تھی اس لئے یہ باتیں طبقہ صوفیا میں رائج ہوگئیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کا اثر اتنا وسیع ہوا کہ بس انہی کو روحانی کمال سمجھ لیا گیا اور اصل روح جس کی بقا کے واسطے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سمجھ کر اس جسم کو ابتدا میں اختیار کیا گیا تھا نظر سے اوجھل اور دل سے محو ہو گئی لیکن مسیح موعود کے
سیرت المہدی 133 حصہ اوّل زمانہ میں جو آخرین منھم کا زمانہ ہے حقیقت حال منکشف کی گئی چنانچہ جب حضرت مسیح موعود نے منشی صاحب کو یہ فرمایا کہ اگر آپ نے کسی شخص کو اپنی توجہ سے گرا لیا تو اس کا نتیجہ یا فائدہ کیا ہوا یعنی دینی اور روحانی لحاظ سے اس توجہ نے کیا فائدہ دیا کیونکہ یہ بات تو مشق کے ساتھ ایک دہر یہ بھی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے تو منشی صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو پتہ لگ گیا کہ خواہ ہم علم توجہ میں کتنا بھی کمال حاصل کر لیں لیکن اگر لوگ حقیقی تقوی وطہارت اور تعلق باللہ کے مقام کو حاصل نہیں کرتے تو یہ بات روحانی طور پر کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی.واقعی منہاج نبوت کے مقابلہ میں جس پر حضرت مسیح موعود کو قائم کیا گیا اور جس نے روحانیت کا ایک سورج چڑھا دیا.یہ دود آمیز مکدر اور عارضی روشنی جس سے بسا اوقات ایک چور بھی لوگوں کے قلوب سے ایمان و اسلام کا اثاثہ چرانے کی نیت سے اپنی سیاہ کاری میں ممد بنا سکتا ہے کب ٹھہر سکتی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی احمد جان صاحب لدھیانوی ایک بڑے صوفی مزاج آدمی تھے اور اپنے علاقہ کے ایک مشہور پیر سجادہ نشین تھے مگر افسوس کہ حضرت صاحب کے دعوئی میسحیت سے پہلے ہی فوت ہو گئے.ان کو حضرت مسیح موعود سے اس درجہ عقیدت تھی کہ ایک دفعہ انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے یہ شعر فرمایا.ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے منشی صاحب موصوف کی لڑکی سے حضرت خلیفہ اول کی شادی ہوئی اور حضرت مولوی صاحب کی سب نرینہ اولا دا نہی کے بطن سے ہے.منشی صاحب کے دونوں صاحبزادے قادیان میں ہی ہجرت کر کے آگئے ہوئے ہیں اور منشی صاحب کے اکثر بلکہ قریباً سب متبعین احمدی ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے لہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا.144 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کر وایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی اور مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی.حضرت صاحب نے اندر کہلا بھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ.اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا -
سیرت المہدی 134 حصہ اوّل اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے.صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا.جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ بھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا کیا جاوے.میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں.تم زردہ کا برتن میرے پاس لاؤ چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالوخدا برکت دے گا.چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا اور پھر کچھ بیچ بھی گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب میاں عبداللہ صاحب نے یہ روایت بیان کی تو مولوی عبدالمغنی صاحب بھی پاس تھے انہوں نے کہا کہ سید فضل شاہ صاحب نے بھی یہ روایت بیان کی تھی.میاں عبداللہ صاحب نے کہا اچھا تب تو اس روایت کی تصدیق بھی ہوگئی.شاہ صاحب بھی اس وقت موجود ہوں گے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسرے دن میاں عبداللہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سید فضل شاہ صاحب سے پوچھا ہے وہ بھی اس وقت موجود تھے اور ان کو یہ روایت یاد ہے.اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ مجھ سے یہ گھر والی بات خود حضرت صاحب نے بیان فرمائی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے سیہ روایت سن کر حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ واقعہ یاد ہے انہوں نے کہا کہ خاص یہ واقعہ تو مجھے یاد نہیں لیکن ایسا ضرور ہوا ہو گا.کیونکہ ایسے واقعات بارہا ہوئے ہیں.میں نے پوچھا کس طرح.والدہ صاحبہ نے فرمایا یہی کہ تھوڑا کھانا تیار ہوا اور پھر مہمان زیادہ آگئے.مثلاً پچاس کا کھانا ہوا تو سو آ گئے.لیکن وہی کھانا حضرت صاحب کے دم سے کافی ہو جا تا رہا.پھر حضرت والدہ صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا.میں نے حضرت صاحب کے واسطے اس کا پلاؤ تیار کرایا اور وہ پلاؤ اتنا ہی تھا کہ بس حضرت صاحب ہی کے واسطے تیار کروایا تھا مگر اسی دن اتفاق ایسا ہوا کہ نواب صاحب نے اپنے گھر میں دھونی دلوائی تو نواب صاحب کے بیوی بچے بھی ادھر ہمارے گھر آگئے اور حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ.میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا چاول کہاں ہیں پھر حضرت صاحب
سیرت المہدی 135 حصہ اوّل نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور کہا اب تقسیم کر دو.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر نے کھائے اور پھر بڑے مولوی صاحب ( یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب) اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بھی بھجوائے گئے اور قادیان میں اور بھی کئی لوگوں کو دئے گئے.اور چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہو گئے تھے اس لئے کئی لوگوں نے آ آ کر ہم سے مانگے اور ہم نے سب کو تھوڑے تھوڑے تقسیم کئے اور وہ سب کے لئے کافی ہو گئے.145 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے کہ ایک دفعہ جب ابھی حضرت صاحب نے مسیحیت کا دعوی نہیں کیا تھا میں نے پٹیالہ میں پٹیالہ کے ایک باشندہ محمد حسین کا وعظ سنا.یہ شخص اب مر چکا ہے اور اس کا خاتمہ حضرت صاحب کی مخالفت پر ہوا تھا مگر میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ وعظ کر رہا تھا کہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کے یہ معجزے سنتے ہیں کہ آپ کی برکت سے کھانا زیادہ ہو گیا یا تھوڑ اسا پانی اتنا بڑھ گیا کہ بہت سے آدمی سیراب ہو گئے تو وہ حیران ہوتے ہیں اور ان باتوں کا یقین نہیں کرتے حالانکہ خدا کی قدرت سے یہ باتیں بالکل ممکن ہیں.چنانچہ اس زمانہ میں بھی بزرگوں اور اولیا ءاللہ سے ایسے خوارق ظہور میں آجاتے ہیں.پھر اس نے ایک واقعہ سنایا کہ میں ایک دفعہ انبالہ میں حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کو گیا.وہاں اندر سے ان کے واسطے کھانا آیا جو صرف ایک دو آدمیوں کی مقدار کا کھانا تھا.مگر ہم سب نے کھایا اور ہم سب سیر ہو گئے حالانکہ ہم دس بارہ آدمی تھے.شیخ کرم الہی صاحب بیان کرتے تھے کہ دعویٰ مسیحیت پر اس شخص کو ٹھوکر لگی اور وہ مخالف ہو گیا.اور اب وہ مر چکا ہے.146 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ ان سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب مرحوم نے بیان کیا تھا کہ ایک دفعہ جب کوئی جلسہ وغیرہ کا موقعہ تھا اور ہم لوگ حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور مہمانوں کے لئے باہر پلاؤ زردہ وغیرہ پک رہا تھا کہ حضرت صاحب کے واسطے اندر سے کھانا آ گیا.ہم سمجھتے تھے کہ یہ بہت عمدہ کھانا ہو گا لیکن دیکھا تو تھوڑ اسا خشکہ تھا اور کچھ دال تھی اور صرف ایک آدمی کی مقدار کا کھانا تھا.حضرت صاحب نے ہم لوگوں سے فرمایا آپ بھی کھانا کھالیں چنانچہ ہم بھی ساتھ شامل ہو گئے.حافظ صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ اس کھانے سے ہم
سیرت المہدی 136 حصہ اوّل سب سیر ہو گئے.حالانکہ ہم بہت سے آدمی تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے تعجب آیا کرتا ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے کا دم بھرنے والے لوگ خوارق کے ظہور کے متعلق کیوں شک کرتے ہیں.جب یہ بات مان لی گئی ہے کہ ایک قادر مطلق خدا موجود ہے جس کے قبضہ تصرف میں یہ سارا عالم ہے.اور جو اشیاء اور خواص اشیاء کا خالق و مالک ہے تو پھر خوارق کا وجود کس طرح مشتبہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ خدا جس نے مثلاً کھانے میں یہ خاصیت ودیعت کی تھی کہ اس قدر کھانا ایک آدمی کے لئے کافی ہو.کیا وہ اپنی تقدیر خاص سے کسی مصلحت کی بنا پر اس میں وقتی طور پر یہ خاصیت نہیں رکھ سکتا کہ وہی کھانا مثلاً دس آدمی کا پیٹ بھر دے یا نہیں آدمی کو سیر کر دے؟ اگر اشیاء کے خواص خدا کی طرف سے قائم شدہ تسلیم کئے جاویں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ بعض مصالح کے ماتحت ان میں وقتی طور پر تغیر تبدل پر خدا کیوں نہیں قادر ہو سکتا اگر وہ قادر مطلق ہے تو ہر اک امر جو قدرت کے نام سے موسوم ہو سکتا ہے اس کے اندر تسلیم کرنا پڑے گا.اسی طرح باقی تمام صفات کا حال ہے اور یہ جو ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ تقدیر پر ایمان لاؤ تو اس سے مراد یہی ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ نہ صرف یہ کہ خواص الاشیاء تمام خدا کی طرف سے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر خاص سے ان میں تغیر تبدل بھی کر سکتا ہے گویا ہم تقدیر عام اور تقدیر خاص ہر دو پر ایمان لائیں یعنی اول ہم یہ ایمان لائیں کہ مثلاً آگ میں جو جلانے کی صفت ہے یہ خود بخود نہیں بلکہ خدائی حکم کے ماتحت ہے اور پھر ہم یہ ایمان لائیں کہ خدا تعالیٰ جب چاہے اس کی اس صفت کو مبدل معطل یا منسوخ کر سکتا ہے اور پھر ہم یہ بھی ایمان لائیں کہ اپنی ہستی کو محسوس و مشہور کرانے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ بعض اوقات ایسا کرتا بھی ہے اور دنیا کو اپنی تقدیر خاص کے جلوے دکھاتا ہے کیونکہ ایمان باللہ اس کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتا.مگر یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ خدا کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا بلکہ حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے.اس لئے جب خدائی مصلحت تقاضا کرتی ہے تب ہی کوئی خارق عادت امر ظا ہر ہوتا ہے اور پھر اسی طریق پر ظاہر ہوتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے یہ نہیں کہ نشان کا طالب جب چاہے اور جس طریق پر چاہے اسی طریق پر نشان ظاہر ہو.خدا کسی کا محتاج نہیں بندے اس کے محتاج ہیں اور ضرورت کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے.147 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی ہندو نے
سیرت المہدی 137 حصہ اوّل اعتراض کیا کہ حضرت ابراہیم پر آگ کس طرح ٹھنڈی ہوگئی.اس اعتراض کا جواب حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے لکھا کہ آگ سے جنگ اور عداوت کی آگ مراد ہے.انہی ایام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چھوٹی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہم لوگ آپ کے پاؤں دبا رہے تھے اور حضرت مولوی صاحب بھی پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے حضرت صاحب کو یہ اعتراض اور اس کا جواب جو مولوی صاحب نے لکھا تھا سنایا.حضرت صاحب نے فرمایا اس تکلف کی کیا ضرورت ہے ہم موجود ہیں ہمیں کوئی آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ آگ گلزار ہو جاتی ہے یا نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اعتراض دھرم پال آریہ مُرتد از اسلام نے کیا تھا اور حضرت مولوی صاحب نے اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں نورالدین کتاب لکھی تھی.اس میں آپ نے یہ جواب دیا تھا کہ آگ سے مراد مخالفوں کی دشمنی کی آگ ہے مگر حضرت صاحب تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اس کو نا پسند فرمایا اور فرمایا کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں اس زمانہ میں ہم موجود ہیں ہمیں کوئی مخالف دشمنی سے آگ کے اندر ڈال کر دیکھ لے کہ خدا اس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے ایک دوسرے موقعہ پر اس مفہوم کو اپنے ایک شعر میں بھی بیان فرمایا ہے.ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اور آپ کا ایک الہام بھی اس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے جس میں خدا تعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ چوہدری حاکم علی صاحب نے اس ذکر میں یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے یہ تماشا دکھانا شروع کیا کہ آگ میں گھس جاتا تھا اور آگ اسے ضرور نہ پہنچاتی تھی.اس شخص نے مخالفت کے طور پر حضرت صاحب کا نام لے کر کہا کہ ان کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے اگر بچے ہیں تو یہاں آجاویں اور میرے ساتھ آگ میں داخل ہوں کسی شخص نے یہ بات باہر سے خط میں مجھے لکھی اور میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ یہ ایک شعبدہ ہے ہم تو وہاں جانہیں سکتے مگر آپ لکھ دیں کہ وہ یہاں
سیرت المہدی 138 حصہ اوّل آجاوے.پھر اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہوگا تو زندہ نہیں نکلے گا.چنانچہ میں نے آپ کا یہ جواب لکھ دیا مگر وہ نہیں آیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ نادان لوگ بعض اوقات ایسی باتوں سے خدائی قدرت نمائیوں کے متعلق شکوک میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ خدائی باتوں میں خدائی جلوے ہوتے ہیں جو خدا کے چہرہ کو ظاہر کر نے والے ہوتے ہیں مگر انسان خواہ اپنے علم سے کیا کچھ بنالے مگر پھر بھی حالات کا مطالعہ کرنے والوں کو انسانی کاموں میں انسان سے بڑھ کر کوئی چہرہ نظر نہیں آسکتا چنانچہ بعض اوقات ایک ہی بات ہوتی ہے مگر جب وہ خدا کی طرف سے آتی ہے تو اور شان رکھتی ہے اور انسان کی طرف سے آتی ہے تو اور شان رکھتی ہے.اسی مثال میں ظاہر ہورہا ہے کہ کس طرح خدائی قدرت نمائی کے سامنے انسانی طلسم پر پانی پھر گیا.معلوم ہوتا ہے یہ شخص بھی حضرت موسی کے زمانہ کے شعبدہ بازوں کی طرح کوئی شعبدہ دکھاتا ہوگا.مگر مسیح موعود پر اس معاملہ میں خدا کا فضل موسی سے بڑھ کر معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں تو انسانی طلسم کو مٹانے کے لئے موسیٰ کو کچھ دکھانا پڑا اور یہاں صرف دکھانے کا نام لینے پر ہی طلسم پاش پاش ہو گیا اور دشمن کو سامنے آنے کی جرات ہی نہ ہوئی فالحمد للہ علی ذالک.148 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب منارہ مسیح کے بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکائتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہوگی.چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا.اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کرنے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے.حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڈھا مل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کوئی موقعہ ملا ہواور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقعہ ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو.حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میں اس وقت بڑھامل کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہوا تھا.اور اس کے چہرہ کا رنگ ا
سیرت المہدی 139 حصہ اوّل سپید پڑ گیا تھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑھامل قادیان کے آریوں کا ایک ممتاز رکن ہے اور اسلام اور اس سلسلہ کا سخت دشمن ہے اور آج تک زندہ اور يَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمُ کا مصداق ہے.149 بسم اللہ الحمن الرحیم.بیان فرمایا حضرت خلیفہ مسیح ثانی نے کہ لالہ بھی مین صاحب سیالکوٹی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت اچھے تعلقات تھے حتی کہ آخری ایام میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کچھ روپے کی ضرورت ہوتی تھی تو ان سے بطور قرض منگا لیتے تھے چنانچہ وفات سے دو تین سال قبل ایک دفعہ حضرت صاحب نے لالہ بھیم سین صاحب سے چندسور و پیہ بطور قرض منگوایا تھا.حالانکہ اپنی جماعت میں بھی روپیہ دے سکنے والے بہت موجود تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب سے ابتداء ملازمت سیالکوٹ کے زمانہ میں حضرت صاحب کے تعلقات پیدا ہوئے اور پھر یہ رشتہ محبت آخر دم تک قائم رہا.لالہ صاحب حضرت صاحب کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے تھے.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی روایت ہے کہ جن ایام میں جہلم کا مقدمہ دائر ہوا تھا.لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت صاحب کو تار دیا تھا کہ میرے لڑکے کو جو بیرسٹر ہے اجازت عنایت فرما دیں کہ وہ آپ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے مگر حضرت صاحب نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس لڑکے کی خدمات لالہ صاحب نے پیش کی تھیں ان کا نام لالہ کنورسین ہے جو ایک لائق بیرسٹر ہیں اور گذشتہ دنوں میں لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور آجکل کسی ریاست میں چیف حج کے معزز عہدہ پر ممتاز ہیں.نیز حضرت خلیفہ اسیح ثانی بیان فرماتے ہیں کہ جو چھت گرنے کا واقعہ ہے اس میں بھی غالبا لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب موصوف امتحان مختاری کی تیاری میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ شریک تھے.چنانچہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو کر مختار بن گئے.مگر آپ کے لئے چونکہ پردہ غیب میں اور کام مقدر تھا اس لئے آپ کو خدا نے اس راستہ سے ہٹا دیا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب کی کامیابی کے متعلق بھی حضرت صاحب نے خواب دیکھا تھا کہ جتنے لوگوں نے امتحان دیا ہے ان میں سے صرف لالہ بھیم سین صاحب پاس ہوئے
سیرت المہدی 140 حصہ اوّل ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.150 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے اپنی کتاب حیاۃ النبی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ ملازمت سیالکوٹ کے متعلق مولوی سید میرحسن صاحب سیالکوٹی کی ایک تحریر نقل کی ہے جو میں مولوی صاحب موصوف سے براہ راست تحریری روایت لے کر درج ذیل کرتا ہوں.مولوی صاحب موصوف سید میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی کے چچا ہیں اور سیالکوٹ کے ایک بڑے مشہور مولوی ہیں.مولوی صاحب مذہباً احمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبع نہیں بلکہ وہ سر سید مرحوم کے خیالات کے دلدادہ ہیں.وہ لکھتے ہیں:.حضرت مرزا صاحب ۱۸۶۴ء میں تقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا.چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے.اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جوا کثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے.آپ پسند نہیں فرماتے تھے.لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا ڈ پٹی مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے.اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا.پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے.اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا ر کھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی.مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے ( جن کا نام پر کسن تھا.اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہو گئے تھے ) محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا.ترجمان کی ضرورت تھی.مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعدا در کھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے.اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو.اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں کا لکھواتے جاؤ.مرزا صاحب نے اس کام کو کما حقہ ادا کیا.اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی.
سیرت المہدی 141 حصہ اوّل اس زمانہ میں مولوی الہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محر مدارس تھے.( اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے ) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں.ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسٹنٹ سرجن پینشنز ہیں استاد مقرر ہوئے.مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دوکتا ہیں انگریزی کی پڑھیں.مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا.چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا.ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے مباحثہ ہوا.پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے؟ اور نجات سے آپ کیا مرا در رکھتے ہیں؟ مفصل بیان کیجئے.پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا.“ پادری بٹلر صاحب ایم.اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے.مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا.یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے.ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ ستر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے.اور آدم کی شرکت سے جو گنہ گار تھا بری رہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے.اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی.جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہ گار ہوا.پس چاہیے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے.اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے.اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے.پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی.چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری تشریف لائے.ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا.تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا.چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا.چنانچہ جہاں مرزا صاحب
سیرت المہدی 142 حصہ اوّل بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے.اور ملاقات کر کے چلے گئے.چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے.اس واسطے مرزا شکتی مخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ نام جالندھر کے رہنے والے تھے.مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات و انجیل کی تفسیر لکھی ہے.آپ ان سے خط و کتابت کریں.اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی.چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا.کچہری کے منشیوں سے شیخ الہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت اُنس تھا.اور نہایت پکی اور سچی محبت تھی.شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزیں اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے.مرزا صاحب کو دلی محبت تھی.چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نو لیس تھے رہتے تھے اور وہ سر بازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا.چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا.چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے.اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی.اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا.پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے.سچ ہے ع ہر کسے را بهر کاری ساختند ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی.اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی.جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کی نہایت کامل ہے.آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے.فرمایا:.میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا.کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں.اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا بناتے ہیں.میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں.اُحْشُرُ وا
سیرت المہدی 143 حصہ اوّل الَّذِينَ ظَلَمُوا وَاَزْوَاجَهُمُ - (الصافات : ۲۳) اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے.ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا ؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے.اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے.اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا.ایک مرتبہ لباس کے بارہ میں ذکر ہور ہا تھا، ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے.جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں.دوسرے نے کہا کہ تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ :.’بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے.اور اس میں پردہ زیادہ ہے.کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہو جاتا ہے.سب نے اس کو پسند کیا.آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے.ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے.اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام کیا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے.اسی سال سرسید احمد خاں صاحب غفر له نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی.تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی.جب میں اور شیخ الہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناء گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا.اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا.راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے.فرمایا :.کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں“ جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سُن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا.اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمر راقم کے قیاس میں تخمینی ۲۴ سے کم اور ۲۸ سے زیادہ نہ تھی.غرضیکہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸ سے متجاوز نہ تھی.راقم میرحسن
سیرت المہدی 144 حصہ اوّل خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوّل مولوی میر حسن صاحب موصوف نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سیالکوٹ میں ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھی تھیں اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ انگریزی خواں تھے.ایک یا دو کتابیں پڑھنے کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ آپ کو حروف شناسی ہوگئی تھی کیونکہ پہلے زمانہ میں جو انگریزی کی پہلی کتاب ہوتی تھی.اس میں صرف انگریزی کے حروف تہجی کی شناخت کروائی جاتی تھی.اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر بعض چھوٹے چھوٹے آسان الفاظ کی شناخت کروائی جاتی تھی.اور آج کل بھی انگریزی کی ابتدائی ایک دو کتابوں میں قریباً اسی قدر استعداد مد نظر رکھی جاتی ہے.خاکسار کو یاد ہے کہ جب میں غالبا ساتویں جماعت میں تھا تو ایک دفعہ میں گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور میرے پاس ایک انگریزی طرز کا قلمدان تھا جس میں تین قسم کی سیاہی رکھی جاسکتی ہے.اس میں Red.Copying.Blue کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ میں یق قلم دان دیکھا تو اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ پڑھنے چاہے.مگر مجھے یاد ہے کہ پہلا اور تیسرا تو آپ نے غور کے بعد پڑھ لیا مگر درمیان کے لفظ کے متعلق پڑھنے کی کوشش کی مگر نہیں پڑھ سکے.چنانچہ پھر آپ نے مجھ سے وہ لفظ پوچھا اور اس کے معنے بھی دریافت فرمائے.غرض معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے مفرد اور آسان الفاظ آپ غور کرنے سے پڑھ سکتے تھے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو انگریزی حروف شناسی ہوگئی بس اس سے زیادہ نہیں.دوسرے :.مولوی میر حسن صاحب نے لکھا ہے کہ زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی میں کامل استعداد تھی اور آپ عربی میں تحریر و تقریر کر سکتے تھے.یہ ریمارک جس رنگ میں مولوی صاحب نے کیا ہے درست ہے.مگر یہ ایک نسبتی ریمارک ہے.جس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس وقت سیالکوٹ کے ایک خاص حلقہ میں حضرت صاحب کی عربی استعداد دوسروں کی نسبت اچھی تھی اور آپ ایک حد تک عربی میں اپنے ما فی الضمیر کو ادا کر سکتے تھے لیکن ویسے حقیقہ دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکتسابی تعلیم عام مروجہ حد سے ہرگز متجاوز نہیں تھی.اور وہ بھی اس حد تک محدود تھی جو اس وقت قادیان میں گھر پر استادر کھنے سے میسر آ سکتی تھی.کیونکہ آپ نے کسب علم کے لئے کبھی کسی بڑے مرکز
سیرت المہدی 145 حصہ اوّل یا شہر کا سفر اختیار نہیں کیا.تیسرے:.مولوی میر حسن صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سرسید کی تفسیر دیکھی مگر پسند نہیں فرمایا اس کی یہ وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سرسید مرحوم کو ایک لحاظ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انہیں قوم کا ہمدرد اور بہی خواہ سمجھتے تھے لیکن سرسید کے مذہبی خیالات کے آپ سخت مخالف تھے.کیونکہ مذہبی معاملات میں سرسید کی یہ پالیسی تھی کہ نئے علوم اور نئی روشنی سے مرعوب ہوکر ان کے مناسب حال اسلامی مسائل کی تاویل کر دیتے تھے.چنانچہ یہ سلسلہ اتنا وسیع ہوا کہ کئی بنیادی اسلامی عقائد مثلاً دعا ، وحی والہام، خوارق و معجزات ، ملائک وغیرہ کے گویا ایک طرح منکر ہی ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سرسید کی یہ حالت دیکھ کر انہیں اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں نہایت دردمندانہ طریق پر مخاطب کر کے ان کی اس سخت ضرر رساں پالیسی پر متنبہ فرمایا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول بھی اوائل میں سرسید کے خیالات اور طریق سے بہت متاثر تھے.مگر حضرت صاحب کی صحبت سے یہ اثر آہستہ آہستہ ڈھلتا گیا.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور بھی ابتدا میں سرسید کے بہت دلدادہ تھے چنانچہ حضرت صاحب نے بھی اپنے ایک شعر میں ان کے متعلق اس کا ذکر فرمایا ہے.فرماتے ہیں.مدتی در آتش نیچر فرو افتاده بود ایس کرامت ہیں کہ از آتش بروں آمد سلیم نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی میر حسن صاحب کی ایک دوسری روایت حضرت مسیح موعود کے زمانہ سیالکوٹ کے متعلق نمبر ۲۸۰ پر بھی درج ہے.) 151 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسید لی اور نہ کوئی تحریر کروائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنوئیں کی آمد کا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہو گیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا.
سیرت المہدی 146 حصہ اوّل حافظ صاحب کہتے تھے کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحب نے فرمایا تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میں رکھا جس سے اس کو بد دیانتی کا موقعہ ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریرنہ لی اور کیوں اس سے با قاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا؟ 152 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو قادیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدا سے ہی گوشہ تنہائی کی زندگی بسر کرتے رہے لیکن پھر بھی قادیان کے بعض ہندوؤں کی آپ سے اچھی ملاقات تھی چنانچہ لالہ شرم پت اور لالہ ملا وامل سلسلہ بیعت سے بہت پہلے کے ملاقاتی تھے ان سے حضرت صاحب کی اکثر مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی اور باوجود متعصب آریہ ہونے کے یہ دونوں آپ سے عقیدت بھی رکھتے تھے اور آپ کے تقدس اور ذاتی طہارت کے قائل تھے.ابتداء لالہ ملا وامل کے تعلقات بہت زیادہ تھے چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ کی شادی کے موقعہ پر لالہ ملا وامل حضرت صاحب کے ساتھ دہلی گئے تھے مگر بعد میں اس کا آنا جانا کم ہو گیا کیونکہ یہ سخت متعصب آریہ تھا اور آریوں کو حضرت صاحب کے ساتھ سخت عداوت ہو گئی تھی چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت صاحب کا الہام ”یہودا اسکر یولی ملا وامل ہی کے متعلق ہے.مگر لالہ شرم پت کے تعلقات حضرت اقدس کے ساتھ آخر تک قریباً ویسے ہی رہے.لالہ ملا وامل اب تک بقید حیات ہے مگر لالہ شرم پت کئی سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کئی تحریرات میں ان ہر دو کو اپنی بعض پیشگوئیوں کی تصدیق میں شہادت کے لئے مخاطب کیا ہے اور ان کو بار بار پوچھا ہے کہ اگر تم نے میری فلاں فلاں پیشگوئیاں پوری ہوتی مشاہدہ نہیں کیں تو حلف اٹھا کر ایک اشتہار شائع کرو اور دوسرے آریوں کو بھی ابھارا ہے کہ ان سے حلفیہ بیان شائع کرواؤ مگر یہ دونوں خاموش رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اليْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی تیار کروانی چاہی تو اس کے لئے بھی آپ نے لالہ ملا وامل کو روپیہ دے کر امرتسر بھیجا تھا.چنانچہ لالہ ملا وامل امرتسر سے یہ انگوٹھی قریباً پانچ روپے میں تیار کروا کر لائے تھے.حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ میں نے ایسا اس لئے کیا تھا تا کہ لالہ ملا وامل اس الہام کا پوری طرح شاہد ہو جاوے چنانچہ
سیرت المہدی 147 حصہ اوّل حضرت صاحب نے اپنی کتب میں اس پیشگوئی کی صداقت کے متعلق بھی لالہ ملا وامل کو شہادت کے لئے بلایا ہے.153 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کے بعض شاگردوں کے متعلق بدکاری کا شبہ ہوا اور یہ خبر حضرت صاحب تک بھی جا پہنچی.حضور نے حکم دیا کہ وہ طالب علم فوراً قادیان سے چلے جاویں.مولوی صاحب نے حضرت صاحب کے سامنے بطور سفارش کہا کہ حضور صرف شبہ کیا گیا ہے کوئی بات ثابت تو نہیں ہوئی.حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب ہم بھی تو ان کو شرعی حد نہیں لگا رہے بلکہ جب ایسی افواہ ہے اور شبہ پیدا ہوا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ احتیاطاً ان کو قادیان سے رخصت کر دینا چاہیے.مگر ہم ان پر کوئی شرعی الزام نہیں رکھتے.154 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں میں سخت غیر مقلد تھا اور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا.عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبد اللہ اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم الله بالجھر پڑھتے سنا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کرتے ہیں اکثر نہیں کرتے بعض بسم الله بالجهر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت ﷺ نے کثرت کے
سیرت المہدی 148 حصہ اوّل ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا.155 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نورالدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروا دیا.چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے.حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عموماً لوگ مسجد اقصی کہتے ہیں اور مولوی عبد الکریم صاحب امام ہوتے تھے.بعد میں جب حضرت کی طبیعت عموماً نا ساز رہتی تھی مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا.عید کی نماز میں عموماً مولوی عبدالکریم صاحب اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعود جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھایا کرتے تھے.156 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود نے عید الاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا.حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے آگے میں انتظار میں موجود تھا.میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز
سیرت المہدی 149 حصہ اوّل کے بعد خطبہ شروع فرمایا.اور حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے.اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو.یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ص“ سے لکھویا سین“ سے لکھو.اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحب کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیر تھی.اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہو جاتا تھا.اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبان سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے.اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طرف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا.لیکن جب الفاظ آنے بند ہو گئے خطبہ بند ہو گیا.اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہئیے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے.صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یاد ہے.حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آواز میں ایک خاص در داور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں.یہ خطبہ، خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے.لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیں صفحے جہاں باب اول ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں.جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس
سیرت المہدی 150 حصہ اوّل عید الاضحیٰ میں دیا گیا تھا جو ۱۹۰۰ء میں آئی تھی مگر شائع بعد میں ۱۹۰۲ء میں ہوا.157 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے متعلق اپنے اشعار میں لکھا ہے.مبارک وہ جواب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی سے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي یعنی مبارک ہے وہ شخص جواب میری موجودگی میں ایمان لاتا ہے کیونکہ وہ میری صحبت میں آکر صحابہ کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے.اس کی دلیل یہ ہے کہ جو عرفان اور تقویٰ کی مے صحابہ کرام کو لی تھی وہی میرے صحابہ کو بھی دی گئی ہے.پھر ایک اور موقع پر جب عبدالحکیم خان مرتد نے آپ کی جماعت پر کچھ اعتراضات کئے تو آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ : ” آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولوی نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں.میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا کیا خدا تعالیٰ کو جواب دیں گے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں.اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہوتو وہ شاذ و نادر میں داخل ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دست بردار ہو جاؤ تو وہ دست بردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا.مگر دل میں خوش ہوں.“
سیرت المہدی 151 حصہ اوّل 66 اسی طرح بعض اور موقعوں پر بھی آپ نے اپنی جماعت کی بہت تعریف کی ہے لیکن بعض نادان اس میں شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں تو ہمیں سب کچھ نظر آتا ہے مگر یہاں بہت کم گو یا مقابلہ کچھ بھی نہیں.اس دھو کے کا ازالہ یہ ہے کہ بعض ایسی باتیں ہیں کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کی حقیقی قدر پہچاننے کے رستہ میں روک ہو رہی ہیں.مگر صحابہ کرام کے متعلق وہ روک نہیں ہے مثلاً اول ہم عصریت ہے یعنی ایک ہی زمانہ میں ہونا.جس طرح ہم وطن ہونا.انسان کی حقیقی قدر کے پہچانے جانے کے رستہ میں روک ہوتا ہے جیسے کہ کہا گیا ہے کہ نبی ذلیل نہیں مگر اپنے وطن میں اسی طرح مثلاً پنجابی میں کہاوت ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ٹھیک اسی طرح ہم عصر ہونا بھی حقیقی قدر کے پہچانے جانے کے رستہ میں ایک بہت بڑی روک ہوتا ہے.اور عموماً انسان اپنے زمانہ کے کسی آدمی کی بڑائی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اور یہ تعصب گویا طبعی طور پر انسان کے اندر کام کرتا ہے.پس چونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے صحابہ کی جماعت ایک دور دراز کی بات ہے لیکن مسیح موعود کی جماعت خود اپنے زمانہ کی ہے اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے وہ بالعموم مسیح موعود کے صحابہ کی قدر پہچان نہیں سکتے ہاں جب یہ زمانہ گذر جائے گا اور حضرت مسیح موعود کی صحبت یافتہ جماعت ایک گزشتہ کی چیز ہو جائے گی تو پھر دیکھنا کہ آئندہ نسلوں میں یہی جماعت کس نظر سے دیکھی جاتی ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ عموماً اسلامی تاریخ سے تفصیلی طور پر واقف نہیں مگر یہاں کی باتیں وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.صحابہ کی جماعت کے متعلق لوگوں کا عمل عموماً واعظوں کے وعظوں سے ماخوذ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ واعظ اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے عموماً خاص خاص موقعوں کی خاص خاص باتوں کو سجا سجا کر بیان کرتا ہے مگر لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ گویا اس جماعت کے سارے افراد سارے حالات میں اسی رنگ میں رنگین تھے اور اسی کے مطابق وہ اپنے ذہن میں نقشہ جما لیتے ہیں.اور پھر وہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کو بھی اسی معیار سے ناپتے ہیں جس کا نتیجہ ظاہر ہے.اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام جیسا اعلیٰ نمونہ نہ پہلی کسی امت میں نظر آتا ہے نہ اب تک بعد میں کہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا.یعنی بحیثیت مجموعی.مگر احادیث سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ میں بھی کمزوریاں تھیں اور کمزوریاں بھی مختلف
سیرت المہدی 152 حصہ اوّل اقسام کی نظر آتی ہیں مگر اس سے صحابہ کے تقدس پر بحیثیت مجموعی کوئی حرف گیری نہیں ہوسکتی اور صحابہ کا بے نظیر ہونا بہر حال ثابت ہے (اے اللہ تو مجھے آنحضرت ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس جماعتوں پر حرف گیری کرنے سے بچا اور مجھے ان کے پاک نمونہ پر چلنے کی توفیق دے).تیسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے حالات تو اجتماعی حیثیت میں منضبط اور مدون طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن باوجود ہمعصر ہونے کے حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے حالات ابھی تک ہمارے سامنے اس طرح موجود نہیں ورنہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں بھی بے شمار ایسے اعلیٰ نمونے موجود ہیں کہ جن کے مشاہدہ سے ایمان تر و تازہ ہو جاتا ہے.جب اسلامی تاریخ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کے حالات جمع ہو کر منضبط اور مدون ہوں گے اس وقت انشاء اللہ حقیقت حال منکشف ہوگی.یہ ایک حقیقت ہے کہ جو تفصیلی حالات آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام کے بحیثیت مجموعی ہم کو معلوم ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ خود صحابہ کو بھی معلوم نہیں تھے.چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک زمانہ کی مختلف خصوصیات اور مختلف حالات ہوتے ہیں.صحابہ کو مشیت ایزدی سے ایسے جسمانی مواقع پیش آئے جن سے راسخ الایمان لوگوں کا ایمان چھکا اور دنیا میں ظاہر ہوا.مگر حضرت مسیح موعود کی جماعت کے لئے اس قسم کے ابتلا مقدر نہیں تھے ورنہ ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ ان کا ایمان بھی علی قدر مراتب اسی طرح چمکتا اور ظاہر ہوتا.حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں سے صرف دو آدمیوں پر وہ وقت آیا کہ خدا کی راہ میں ان سے ان کی جان کی قربانی مانگی گئی.اور دنیا دیکھ چکی ہے کہ انہوں نے کیا نمونہ دکھایا.(اس جگہ میری مراد کابل کے شہداء سے ہے) پانچویں وجہ یہ ہے جس کو لوگ عموما نظر انداز کر دیتے ہیں کہ کسی قوم کے درجہ اصلاح کا اندازہ کرنے کے لئے ان مخالف طاقتوں کا اندازہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جو اس قوم کو ایمان کے راستہ میں پیش آتی ہیں.اگر ایک قوم کے مقابل میں مخالف طاقتیں نہایت زبر دست اور خطرناک ہیں تو اس کا ایمان کے راستہ میں نسبتا تھوڑی مسافت طے کرنا بھی بڑی قدر و منزلت رکھتا ہے.پس صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ فلاں قوم ایمان کے راستہ پر کس قدر ترقی یافتہ ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس نے یہ ترقی کن مخالف اب بوقت ایڈیشن دوم یہ تعداد زیادہ ہو چکی ہے.منہ
سیرت المہدی 153 حصہ اوّل طاقتوں کے مقابل پر کی ہے.پس اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی اصلاح واقعی معجز نما ہے.کیونکہ یہ مسلمات میں سے ہے کہ اس زمانہ میں جو مخالف طاقتیں ایمان کے مقابلہ میں کام کر رہی ہیں اس کی نظیر گزشتہ زمانوں میں نہیں پائی جاتی حتی کہ خودسرور کائنات کے زمانہ سے بھی اس زمانے کے فتن بڑھ کر ہیں کیونکہ یہ دجال کا زمانہ ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سب نبی اس سے ڈراتے آئے ہیں.اور خود آنحضرت ﷺ نے بھی اس سے اپنی امت کو بہت ڈرایا ہے اور اس بات پر اجماع ہوا ہے کہ دجالی فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہے اور واقعی جو مادیت اور دہریت اور دنیا پرستی کی زہریلی ہوائیں اس زمانہ میں چلی ہیں ایسی پہلے کبھی نہیں چلیں اور مذاہب باطلہ وعلوم مادی کا جو زور اس زمانہ میں ہوا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا.پس ایسے خطرناک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسی جماعت تیار کر لینا جو واقعی زندہ اور حقیقی ایمان پر قائم ہے اور اعمال صالحہ بجالاتی ہے اور تمام مخالف طاقتوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہے ایک بے نظیر کامیابی ہے.بے شک آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایمان کے راستہ پر شیطان کے شمشیر بردار سپاہی موجود تھے اور یہ ایک بہت بڑی روک تھی کیونکہ ایک مومن کو خون کی نہر میں سے گزر کر ایمان کی نعمت حاصل کرنی پڑتی تھی مگر جہاں ایمان کے راستہ پر شیطان نے نہ صرف یہ کہ اپنی ساری فوجیں جمع کر رکھی ہیں بلکہ اس نے ایسے سپاہی مہیا کئے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر راہ گیروں سے ایمان کی پونچی لوٹتے چلے جارہے ہیں.اور سوائے روحانی طاقتوں کے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس حضرت مسیح موعود کی کامیابی ایک واقعی بے نظیر کامیابی ہے مگر یہ کامیابی بھی دراصل آنحضرت ﷺ ہی کی کامیابی ہے.کیونکہ شاگرد کی فتح استاد کی فتح ہے اور خادم کی فتح آقا کی فتح.لہذا ان حالات میں اگر حضرت مسیح موعود کی جماعت میں کوئی کمی بھی ہے تو وہ بحیثیت مجموعی جماعت کی شان کو کم نہیں کر سکتی.چھٹی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کا یہ بھی خاصہ ہے کہ جب تک کوئی شخص زندہ ہے اس کا حسن مخفی رہتا ہے اور کمزوریاں زیادہ سامنے آتی ہیں.یعنی عموماً تصویر کا کمزور پہلو ہی زیادہ مستحضر رہتا ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد معاملہ برعکس ہو جاتا ہے.یعنی مرنے کے بعد مرنے والے کی خوبیاں زیادہ چمک اٹھتی ہیں اور زیادہ یا د رہتی ہیں اور کمزوریاں مدھم پڑ جاتی ہیں اور یاد سے محو ہو جاتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود کی جماعت کا
سیرت المہدی 154 حصہ اوّل بھی یہی حال ہے جب وہ وقت آئے گا کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ گزرجائیں گے تو پھر ان کا اخلاص اور ان کی قربانیاں چمکیں گی اور وہی یا درہ جائیں گی اور کمزوریاں مٹ جائیں گی اور ہم خود اس بات کو عمل محسوس کر رہے ہیں کیونکہ جو احباب ہمارے فوت ہو چکے ہیں ان کی خوبیاں ہمارے اندر زیادہ گہرا نقش پیدا کر رہی ہیں.بمقابلہ ان کے جو بقید حیات ہیں اسی طرح گزرے ہوئے دوستوں کی کمزوریاں ہمارے ذہنوں میں کم نقش پیدا کرتی ہیں بمقابلہ ان کے جو ہم میں زندہ موجود ہیں.اور تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ صحابہ میں بھی یہی احساس تھا.ساتویں وجہ یہ ہے کہ لوگ عموماً اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انفرادی اصلاح اور جماعت کی اجتماعی اصلاح میں فرق ہے اور دونوں کا معیار جدا ہے.کسی جماعت کو اصلاح یافتہ قرار دینے کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے سارے افراد اصلاح یافتہ ہوں بلکہ جس قوم کے اکثر افراد نے اپنے اندر تبدیلی کی ہے اور اپنے اندر ایمان اور صلاحیت کا نور پیدا کیا ہے وہ اصلاح یافتہ کہلائے گی خواہ اس کے بعض افراد میں اصلاح نظر نہ آئے.اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی جماعت کے اصلاح یافتہ افراد سب کے سب ایک درجہ صلاحیت پر قائم ہوں بلکہ مدارج کا ہونا بھی متفق ہے.لہذا بحیثیت مجموعی جماعت کی حالت کو دیکھنا چاہئیے اور پھر یہ بھی یا درکھنا چاہئیے کہ مختلف افراد کے فطری قومی اور فطری استعداد میں الگ الگ ہوتی ہیں پس سب سے ایک جیسی اصلاح متوقع نہیں ہو سکتی اور نہ کسی جماعت میں ہم کو اس کے سب افراد ایک جیسے نظر آتے ہیں.لہذا ہمارا معیار یہ ہونا چاہیے.کہ ایک انسانی جماعت سے جس میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں بحیثیت مجموعی کس درجہ کی اصلاح کی توقع رکھی جاسکتی ہے اور اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود کی جماعت کا قدم بہت بلند نظر آتا ہے.آٹھویں وجہ یہ ہے کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کمزور لوگ خواہ جماعت میں بہت ہی تھوڑے ہوں مگر زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ بدی آنکھ میں کھٹکتی ہے اور نیکی بوجہ لطافت کے سوائے لطیف حس کے عموما محسوس نہیں ہوتی.میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں میں اگر پانچ دس بھی شریر ہوں تو عموما لوگوں کو ایسا نظر آتا ہے کہ گویا اکثر شریر ہی ہیں اور بھلے مانس کم ہیں کیونکہ شریر اپنی شرارت کی وجہ سے نمایاں ہو جاتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کی
سیرت المہدی 155 حصہ اوّل نظر فوراً اُٹھتی ہے.دیکھ لو آنکھ میں ہوا ہر وقت بھری رہتی ہے مگر آنکھ اسے محسوس نہیں کرتی لیکن اگر اس میں ایک چھوٹا سا تنکا بھی پڑ جاوے تو قیامت برپا کر دیتا ہے لیکن جب وہ وقت گذر جاتا ہے یعنی وہ جماعت فوت ہو جاتی ہے تو پھر ایسا ہوتا ہے کہ گویا آنکھ کا تنکا نکل گیا اور صرف لطیف اور خنک ہوا آنکھ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے باقی رہ گئی.مجھے یاد ہے کہ میرے سامنے ایک دفعہ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ قادیان کے احمدیوں میں سے اکثر لوگ بُرے ہیں میں نے کہا کہ تم غلط کہتے ہو.اس نے کہا کہ نہیں میں خوب جانتا ہوں.میں نے اس سے کہا کہ اکثر کا بُرا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر فی صدی تو برے ہوں گے.اس نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ ہیں میں نے اس سے کہا کہ منہ سے کہ دینا آسان ہے مگر ثابت کرنا مشکل، تم مجھے صرف دس فی صدی بتا دو چلو پانچ فی صدی بتا دو اور میں تمہیں یہ یہ انعام دوں گا مگر وہ ایک شرمندہ انسان کی طرح ہنس کر خاموش ہو گیا.اگر اس طرح منہ سے کہہ دینا ہی کافی ہو تو مشرکین اور یہود بھی صحابہ کرام کے متعلق کیا کچھ نہ کہتے ہوں گے.نویں وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تو منافق ہوتے تھے لیکن احمدیوں میں منافق کوئی نہیں بلکہ جو بھی احمدی کہلاتا ہے وہ سچا مومن ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.بلکہ جس طرح صحابہ کے زمانہ میں منافق ہوتے تھے اسی طرح اب بھی ہیں اور یہ خیال کہ وہ تلوار کا زمانہ تھا اس لئے اس میں نفاق ممکن تھا لیکن اس آزادی کے زمانہ میں نفاق نہیں ہوسکتا.ایک نادانی کا خیال ہے.کیونکہ اول تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ اس وقت گویا اسلام کے لئے اکراہ ہوتا تھا جو ایک بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے.دوسرے اگر بفرض محال تلوار کا ڈر ہو بھی تو پھر کیا دنیا میں بس صرف تلوار ہی ایسی چیز رہ گئی ہے جو طبائع پر دباؤ ڈال سکے.کیا کوئی اور ایسی چیز نہیں جو کمزور انسان کو خلاف ضمیر کرنے پر آمادہ کر دے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ جتنا نفاق آج کل روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جاتا ہے ایسا شاید ہی کسی گذشتہ زمانہ میں ہوا ہو.غرض یہ غلط ہے کہ آج کل منافق نہیں ہوتے اور ہم عملاً دیکھ رہے ہیں کہ احمدی کہلانے والوں میں بھی منافق پائے جاتے ہیں جن میں سے کسی نے کسی وجہ سے نفاق اختیار کیا ہے تو کسی نے کسی وجہ سے.تو اب جب کہ احمدیوں میں بھی منافق موجود ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ
سیرت المہدی 156 حصہ اوّل میں مسلمان کہلانے والوں میں اگر ہم کو کوئی برے نمونے نظر آویں تو ہم ان کو منافق کہہ کر صحابہ کو ان سے الگ کرلیں لیکن احمدی کہلانے والوں میں سے جو لوگ احمدیت کی تعلیم کے خلاف نمونہ رکھتے ہیں اور اپنی روش پر عملاً مصر ہیں.ان کو ہم منافق نہ سمجھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شمار کریں.اور اس طرح ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بدنام کریں.میرا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص سے بھی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ منافق ہے.حاشا و کلا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب جماعت میں منافق بھی موجود ہیں تو ہر اس شخص کو جس کا طریق احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے خواہ نخواہ مومنین کی جماعت میں نہ سمجھنا چاہیئے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم اس اصول کے ماتحت افراد کے متعلق کوئی حکم لگائیں کیونکہ یہ طریق فتنہ کا موجب ہے.مگر ہاں بحیثیت مجموعی جماعت کے متعلق رائے لگاتے ہوئے اس اصول کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے.دسویں وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ تو دوسرے مسلمانوں سے صاف ممتاز نظر آرہے ہیں کیونکہ تدوین تاریخ سے ہم کو ابتدائی مسلمانوں کے متعلق یہ علم حاصل ہو چکا ہے کہ یہ صحابی ہے یا نہیں لیکن یہاں حضرت مسیح موعود کے صحابی اور غیر صحابی سب ملے جلے ہیں اور سوائے خاص خاص لوگوں کے عام طور پر یہ پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں احمدی حضرت مسیح موعود " کا صحبت یافتہ ہے یا نہیں اور اس میں دو طرح کا اشکال ہے یعنی اول تو عموماً لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں احمدی حضرت مسیح موعود کے زمانہ کا احمدی ہے یا بعد کا پھر اگر یہ پتہ بھی ہو کہ وہ آپ کے زمانہ کا احمدی ہے تو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ آپ کا صحبت یافتہ ہے یا نہیں اور ظاہر ہے کہ صحابی وہی کہلا سکتا ہے جو صحبت یافتہ ہو.ہر شخص جو نبی کے زمانہ میں ایمان لاتا ہے صحابی نہیں ہوتا چنانچہ دیکھ لو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قریباً سارا عرب مسلمان ہو گیا تھا تو کیا سارے عرب صحابی بن گئے تھے؟ ہرگز نہیں بلکہ صحابی صرف وہی لوگ سمجھے جاتے تھے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی صحبت اٹھائی تھی اور اگر سب کو صحابی سمجھا جاوے تو وہ رائے جو اب ہم صحابہ کے متعلق رکھتے ہیں یقیناً اس مقام پر نہیں رہ سکتی جس پر کہ وہ اب ہے.پس صحابی صرف وہی ہے جس نے صحبت اٹھائی ہومگر یہاں نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے سب احمدی ملے جلے ہیں اور لوگوں کو ان کے درمیان کسی امتیاز کا علم نہیں
سیرت المہدی 157 حصہ اوّل بلکہ آپ کی وفات کے بعد احمدی ہونے والے بھی ان کے ساتھ مخلوط ہیں.اندریں حالات حضرت مسیح موعودؓ کے صحابہ کے متعلق جب تک ان کا الگ علم نہ ہو کس طرح کوئی رائے لگائی جاسکتی ہے یا موجودہ جماعت کی عام حالات سے صحابہ مسیح موعود کے متعلق کس طرح استدلال ہو سکتا ہے.ہاں جب تاریخی رنگ میں حالات جمع ہوں گے اور صحابہ مسیح موعود کی جماعت ممتاز نظر آئے گی تو پھر حالت کا اندازہ ہو سکے گا.گیارہویں وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ اس واسطے جماعت احمدیہ کے متعلق بدظنی کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے بعض اوقات جماعت کی کمزوریوں کا اظہار کیا ہے.اور جماعت کو اس کی حالت پر زجر و توبیخ کی ہے مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے.کیونکہ جس طرح وعظ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ گذشتہ لوگوں کے خاص خاص کارنامے چن کر مؤثر پیرا یہ میں لوگوں کو سنائے تا ان کو نیکی کی تحریک ہو.اسی طرح اس کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبوں کی کمزوریوں کو کھول کھول کر بیان کرے تا ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہو اور وہ ترقی کی کوشش کریں.واعظ عموماً اپنے مخاطبین کی خوبیوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ کمزوریوں کو لیتا ہے اور ان کو بھی ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ابھی ان کی حالت بالکل نا قابل اطمینان ہے.تاوہ اپنی اصلاح کی بڑھ چڑھ کر کوشش کریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خط عبدالحکیم خان مرتد کو لکھا اس میں آپ نے اس نقطہ کو بیان فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کیلئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سنا تا مگر دل میں خوش ہوں.“ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ عام طور پر آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریق تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیفہ اول ، حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنھما یا بعض دیگر بزرگان سلسلہ کے بعض بیانوں سے جماعت کے متعلق کوئی اس رنگ میں استدلال نہیں ہو سکتا جو جماعت کی شان کے منافی ہو.ہاں بعض بزرگوں کا میلان طبع جو اس طرف ہے کہ وہ ہمیشہ صرف کمزور پہلو پر ہی زور دیتے ہیں اور وہ بھی ضرورت سے زیادہ اور ا مناسب طریق پر.یہ بھی خاکسار کی رائے میں درست طریق نہیں کیونکہ اس طرح جماعت اپنی نظروں میں آپ ذلیل ہو جاتی ہے اور اس کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں.پس ان معاملات میں حکیمانہ طریق پر اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود کا طریق تھا.یا اب حضرت خلیفہ ثانی کا طریق
سیرت المہدی 158 حصہ اوّل ہے.ایمانی ترقی کے لئے بیم و رجا کی درمیانی حالت ہی مناسب رہتی ہے.بارہویں وجہ یہ ہے کہ لوگ صحابہ کے متعلق تو یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے کلام پاک میں ان کی تعریف فرمائی ہے.مگر حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے متعلق ان کو بزعم خود کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی.مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کے الہامات کا مطالعہ کیا جاوے تو ان میں بھی آپ کے صحابہ کی بہت تعریف پائی جاتی ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ کسی الگ تعریف کی ضرورت بھی نہیں ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں صحابہ کی تعریف پائی جاتی ہے وہاں بنص صریح " وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: ٤) یہ بھی تو بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں شامل ہیں.اور انہیں کا ایک حصہ ہیں.اور اس آیت کی تفسیر خود حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں متعدد جگہ فرمائی ہے.چنانچہ تحفہ گولڑویہ صفحه ۱۵۲ پر تحریر فرماتے ہیں کہ ” ہمارے نبی ﷺ کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة): (۴) ہے.تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے.اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت ﷺ سے فیض اور ہدایت پائیں گے.پس جب کہ یہ امرنص صریح قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہو گا.تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کا ایک اور بعث ماننا پڑا.جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا.“ پھر حقیقۃ الوحی تمہ صفحہ ۶۷ پر فرماتے ہیں " وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی آنحضرت ﷺ کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں.اور اس سے تعلیم وتربیت پاویں پس صلى الله اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہوگا.اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلائیں گے.اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.“
سیرت ت المهدی 159 حصہ اوّل پس جب خداوند عالمیان جو عالم الکل ہے اور جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں.حضرت مسیح موعود کی جماعت کو آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں داخل کرتا ہے اور ان کی تعریف فرماتا ہے تو زید و بکر کو اس میں چہ میگوئی کرنے کا کیا حق ہے.اللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ تیرہویں وجہ یہ ہے جسے لوگ عموماً نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جماعت کی ترقی کے لئے ایک خاص طریق مقرر کر رکھا ہے اور قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ مقدر ہے.جیسا کہ فرمایا کہ گزَرُعٍ اَخْرَجَ شَطْأَهُ الاية (الفتح: ۳۰) یعنی حضرت مسیح موعود کی جماعت کی ترقی اس پودے کی طرح ہے جو شروع شروع میں زمین سے اپنی کمز ور کمزور پنیاں نکالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود اپنی کتاب اعجاز امسیح صفحہ ۱۲۳ پر تحریر فرماتے ہیں کہ فاشار موسى بقوله اشداء على الكفار الى الصحابة ادركوا صحبة نبينا المختار واشار عيسى بقوله كزرع اخرج شطأه الى قوم آخرين منهم و امامهم المسيح بل ذكر اسمه احمد بالتصريح - یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے الفاظ کہہ کر صحابہ کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے ہمارے آنحضرت ﷺ کی صحبت پائی اور عیسی علیہ السلام نے اپنے قول گزَرع اَخْرَجَ شَطْأَهُ سے اس قوم کی طرف اشارہ کیا جو اخَرِينَ مِنْهُمُ ہے.اور نیز ان کے امام مسیح موعود کی طرف اشارہ کیا بلکہ اس کا تو نام احمد بھی صاف صاف بتلا دیا.“ اس سے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی ترقی انقلابی رنگ میں مقدر نہیں بلکہ تدریجی رنگ میں مقدر ہے.اس کی یہ وجہ ہے کہ جس طرح جسمانی بیماریاں مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں اسی طرح اخلاقی اور روحانی بیماریاں بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں.چنانچہ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو سخت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور بیمار کو نہایت بے تاب کر دیتی ہیں.مگر مناسب علاج سے وہ جلد ہی دور بھی ہو جاتی ہیں.اور وہ بیمار جواس بیماری کی وجہ سے سخت مضطر بانہ کرب میں مبتلا تھا جلد بھلا چنگا ہوکر چلنے پھرنے لگ جاتا ہے.لیکن اس کے مقابل میں بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو ایک روگ کے طور پر انسان کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہیں اور گو بیماران سے وہ مضطربانہ دکھ نہیں اٹھاتا مگر اندر ہی اندر تحلیل ہوتا چلا جاتا ہے.اور ان میں کوئی فوری
سیرت المہدی 160 حصہ اوّل علاج بھی فائدہ نہیں دیتا بلکہ ایک بڑا لمبا با قاعدہ علاج ان کے لئے ضروری ہوتا ہے.مقدم الذکر کی مثال یوں مجھنی چاہیے جیسے ایک بڑا پھوڑا ہو جس میں پیپ پڑی ہوئی ہو اور بیمار اس کے درد سے بے تاب ہومگر ڈاکٹر نے چیرہ دیا اور پیپ نکل گئی درد دور ہو گئی اور بیمار دو چار دن کی مرہم پٹی میں بھلا چنگا ہو کر چلنے پھرنے لگ گیا.اور مؤخر الذکر کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کوسل کی بیماری ہو.یہ بیمار پھوڑے کے بیمار کی طرح کرب اور دکھ میں مبتلا نہیں بلکہ اندر ہی اندر گھلتا چلا جاتا ہے اور اس سے مقدم الذکر بیمار کی طرح کوئی فوری علاج بھی فائدہ نہیں دے سکتا.بلکہ ایک لمبا با قاعدہ علاج کا کورس درکار ہوتا ہے.پس چونکہ اس زمانہ کی اخلاقی اور روحانی بیماریاں مسل کی بیماری کے مشابہ ہیں اس لئے اس زمانہ میں علاج کے نتیجے بھی فوراً ظاہر نہیں ہوتے بلکہ وقت چاہتے ہیں اور یہ یا درکھنا چاہئیے کہ خدا تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے متعلق كَزَرُعٍ اَخْرَجَ شَطْأَهُ فرمایا ہے تو اس سے صرف ان کی تعدادی ترقی کی حالت بتانا مقصود نہیں.بلکہ ہر قسم کی ترقی کی کیفیت بتانا مقصود ہے.واللہ اعلم.پس اعتراض اور نکتہ چینی کی طرف جلد قدم نہیں اُٹھانا چاہیے.یہ تیرہ باتیں ہیں جو عموماً صحابہ حضرت مسیح موعود کی حقیقی قدر پہچانی جانے کے رستہ میں روک ہوتی ہیں.میں نے ان کو صرف مختصر بیان کیا ہے اور بعض کو تو دیدہ دانستہ نہایت ہی مختصر رکھا ہے اور خدا گواہ ہے کہ میں اس نازک مضمون میں ہر گز نہ پڑتا اور یہ تو غالبا اس کا ایسا موقع بھی نہ تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ یہ باتیں لوگوں کو دھو کے میں ڈال رہی ہیں اور اس دھو کے کا اثر وسیع ہورہا ہے.اس لئے میں خاموش نہیں رہ سکا.ہاں یہ بات نوٹ کرنی ضروری ہے کہ جس طرح ہم بفضلہ تعالی آنحضرت ﷺ کوسب اولین و آخرین سے افضل جانتے ہیں اسی طرح آپ کی جماعت کو بھی تمام جماعتوں سے افضل مانتے ہیں.اللـهـم صـل على محمد وعلى ال محمد و بارک وسلم.158 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن رات اس کی تیماداری میں مصروف رہتے تھے اور بڑے فکر اور توجہ کے ساتھ اس کے علاج میں مشغول رہتے تھے اور چونکہ حضرت صاحب کو اس سے بہت محبت تھی اس لئے لوگوں کا
سیرت المہدی 161 حصہ اوّل خیال تھا کہ اگر خدانخواستہ وہ فوت ہو گیا تو حضرت صاحب کو بڑا سخت صدمہ گزرے گا.لیکن جب وہ صبح کے وقت فوت ہوا تو فوراً حضرت صاحب بڑے اطمینان کے ساتھ بیرونی احباب کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک فوت ہو گیا ہے اور ہم کو اللہ کی قضا پر راضی ہونا چاہئیے.اور مجھے بعض الہاموں میں بھی بتایا گیا تھا کہ یا یہ لڑکا بہت خدا رسیدہ ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا.سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہونا چاہیے کہ خدا کا کلام پورا ہوا.اور حضرت خلیفہ اسیح ثانی بیان کرتے ہیں کہ جس وقت مبارک احمد فوت ہونے لگا تو وہ سویا ہوا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اس کی نبض دیکھی تو غیر معمولی کمزوری محسوس کی جس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور نبض میں بہت کمزوری ہے.کچھ کستوری دیں حضرت صاحب جلدی سے صندوق میں سے کستوری نکالنے لگے مگر مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حضور نبض بہت ہی کمزور ہو گئی ہے.حضرت صاحب نے کستوری نکالنے میں اور جلدی کی مگر پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نبض نہایت ہی کمزور ہے.حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ اس وقت دراصل مبارک احمد فوت ہو چکا تھا.مگر حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود" کی تکلیف کا خیال کر کے یہ کلمہ زبان پر نہ لا سکتے تھے.مگر حضرت صاحب سمجھ گئے اور خود آکر نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو چکا ہے.اس پر حضرت صاحب نے انا لله و انا الیه راجعون کہا اور بڑے اطمینان کے ساتھ بستہ کھولا اور مبارک احمد کی وفات کے متعلق دوستوں کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے اور مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب مبارک احمد کو دفن کرنے کے لئے گئے تو ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی اس لئے حضرت صاحب قبر سے کچھ فاصلے پر باغ میں بیٹھ گئے.اصحاب بھی ارد گرد بیٹھ گئے.تھوڑی دیر خاموشی کے بعد حضرت صاحب نے مولوی صاحب خلیفہ اول کو مخاطب کر کے فرمایا.مولوی صاحب ایسے خوشی کے دن بھی انسان کو بہت کم میسر آتے ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے راستہ میں انسان کی ترقی کے لئے ایک قانون شریعت رکھا ہے اور ایک قانون قضاء وقدر.قانون شریعت کے نفاذ کو خدا نے بندے کے ہاتھ میں دے دیا ہے.پس بندہ اس میں اپنے لئے کئی قسم کے آرام اور سہولتیں پیدا کر لیتا ہے.وضو سے تکلیف نظر آتی ہے تو تیم کر لیتا ہے.نماز کھڑے ہو کر پڑھنے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو بیٹھ کر یا اگر بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو تو لیٹ کر پڑھ لیتا ہے.روزہ میں کوئی بیماری محسوس کرتا ہے تو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا ہے اسی طرح
سیرت المہدی 162 حصہ اوّل چونکہ قانون شریعت کا نفاذ خود بندے کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کر لیتا ہے اور اس طرح اس کی ظاہری تکلیف سے بچ جاتا ہے.لیکن قضا و قدر کا قانون خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور بندے کا اس میں کچھ اختیار نہیں رکھا.پس جب قضا و قدر کے قانون کی چوٹ بندے کو آکر لگتی ہے اور وہ اس کو خدا کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے اور خدا کی قضا پر راضی ہوتا ہے تو پھر وہ اس ایک آن میں اتنی ترقی کر جاتا ہے جتنی کہ چالیس سال کے نماز روزے سے بھی نہیں کر سکتا تھا.پس مومن کے لئے ایسے دن در حقیقت ایک لحاظ سے بڑی خوشی کے دن ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے بھی یہ روایت بیان کی تھی.159 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب بعض اوقات کسی بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ان کا کوئی لڑکا فوت ہو گیا اور لوگوں نے ان کو آکر اطلاع دی تو انہوں نے کہا سگ بچہ مُرد دفن بکنید.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خاص حالت کی باتیں ہیں.انبیاء جنھوں نے لوگوں کیلئے اسوہ حسنہ بنا ہوتا ہے اور حقوق العباد کی بھی بہترین مثال قائم کرنی ہوتی ہے.عموماً ایسا طریق اختیار نہیں کرتے.160 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب آٹھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے ( مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے ) لے لو اور ان پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو ( مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی ).میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی.جیسے اَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الفيل الفيل: ۲) ہے الخ.اور ہم نے یہ وظیفہ قریباً ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا.وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب کے پاس لے گئے کیونکہ آپ نے ارشادفرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا.اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیں گے.اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں
سیرت المہدی 163 حصہ اوّل پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئیے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے.چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر سرعت کے ساتھ واپس لوٹ آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی واپس چلے آئے اور کسی نے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا.اس روایت میں جس طرح دانوں کے اوپر وظیفہ پڑھنے اور پھر ان دانوں کو کنوئیں میں ڈالنے کا ذکر ہے.اس کی تشریح حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۱۲ میں کی جاچکی ہے.جہاں پیر سراج الحق صاحب مرحوم کی روایت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ کام ایک شخص کی خواب کو ظاہر میں پورا کرنے کے لئے کروایا گیا تھا.ور نہ ویسے اس قسم کا فعل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت اور سنت کے خلاف ہے اور دراصل اس خواب کے تصویری زبان میں ایک خاص معنی تھے.جو اپنے وقت پر پورے ہوئے.) 161 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ میں مسجد مبارک میں ظہر کی نماز سے پہلی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کے اندر سے مجھے آواز دی.میں نماز توڑ کر حضرت کے پاس چلا گیا اور حضرت سے عرض کیا کہ حضور میں نماز تو ڑ کر حاضر ہوا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر اس حجرہ کا نام ہے جو حضرت کے مکان کا حصہ ہے اور مسجد مبارک کے ساتھ شمالی جانب متصل ہے.ابتدائی ایام میں حضرت عموماً اس کمرہ میں نشست رکھتے تھے.اور اسی کی کھڑکی میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے.میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسول کی آواز پر نماز توڑ کر حاضر ہونا شرعی مسئلہ ہے.در اصل بات یہ ہے کہ عمل صالح کسی خاص عمل کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے.162 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں جب ابھی حضرت مولوی خلیفہ اول قادیان نہیں آئے تھے انہوں نے جموں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا
سیرت المہدی 164 حصہ اوّل کہ اگر حضور یہاں تشریف لا سکیں تو مہاراج حضور کی ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ جواب لکھ دو بِئْسَ الْفَقِيرُ عَلَى بَابِ الْأَمِيرِ - 163 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے میرے خاتمہ اور خاتمہ تک کے سب حالات بتا دیئے ہوئے ہیں.جو مجھ پر آنے والے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اسی کے مطابق حالات آرہے ہیں.164 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں میں نو گاؤں میں پٹواری ہوتا تھا.اور میری پچپن سالانہ تنخواہ تھی مگر میں نے ایک اور پٹواری کے ساتھ مل کر جو تحصیل پائل میں ہوتا تھا اپنا تبادلہ تحصیل پائل میں کروالیا.لیکن وہاں جانے کے بعد میرا دل نہیں لگا اور میں بہت گھبرایا کیونکہ وہ ہندو جاٹوں کا گاؤں تھا اور وہاں کوئی مسجد نہ تھی اور نو گاؤں میں جس کو میں چھوڑ آیا تھا مسجد تھی.میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ یہاں میرا دل بالکل نہیں لگتا.حضور دعا فرما دیں کہ میں پھر نو گاؤں میں چلا جاؤں اور بڑی بیقراری سے عرض کیا.حضور نے فرمایا جلدی نہیں کرنی چاہیے.اپنے وقت پر یہ خود بخود ہو جائیگا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد میرا تبادلہ غوث گڑھ میں ہو گیا جہاں میرا اتنا دل لگا کہ نو گاؤں کی خواہش دل سے نکل گئی اور میں نے حضرت کے فرمان کی یہ تاویل کر لی کہ چونکہ غوث گڑھ بھی مسلمانوں کا گاؤں ہے اور اس میں مسجد ہے اور یہاں میرا دل بھی خوب لگ گیا ہے اس لئے حضرت کے فرمان کے یہی معنی ہونگے جو پورے ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد نو گاؤں کا حلقہ خالی ہوا اور تحصیل دار نے میری ترقی کی سفارش کی اور لکھا کہ ترقی کی یہ صورت ہے کہ مجھے علاوہ غوث گڑھ کے نو گاؤں کا حلقہ بھی جو وہ بھی پچپن سالانہ کا تھادید یا جاوے اور دونوں حلقوں کی تنخواہ یعنی ایک سو دس مجھے دی جاوے.یہ سفارش مہاراج سے منظور ہوگئی اور اس طرح میرے پاس غوث گڑھ اور نو گاؤں دونوں حلقے آگئے اور ترقی بھی ہوگئی.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص اقتداری فعل تھا ور نہ نو گاؤں غوث گڑھ سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر ہے اور درمیان میں کئی غیر حلقے ہیں.خاکسار عرض کرتا
سیرت المہدی 165 حصہ اوّل ہے کہ غوث گڑھ کا تمام گاؤں میاں عبداللہ صاحب کی تبلیغ سے احمدی ہو چکا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تمام دیہات ریاست پٹیالہ میں واقع ہیں.165 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صاحب کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی.حضرت صاحب اسکو رومال میں باندھ کر جیب میں رکھتے تھے زنجیر نہیں لگاتے تھے.اور جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک ہند سے یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اور انگلی رکھ رکھ کر ہند سے گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے اور گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے.میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ آپ کا جیب سے گھڑی نکال کر اس طرح وقت شمار کرنا مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا تھا.166 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بیان فرمایا کہ قرآن شریف کی جو آیات بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہیں اور ان پر بہت اعتراض ہوتے ہیں دراصل ان کے نیچے بڑے بڑے معارف اور حقائق کے خزانے ہوتے ہیں اور پھر مثال دے کر فرمایا کہ ان کی ایسی ہی صورت ہے جیسے خزانہ کی ہوتی ہے جس پر سنگین پہرہ ہوتا ہے اور جو بڑے مضبوط کمرے میں رکھا جاتا ہے جس کی دیواریں بہت موٹی ہوتی ہیں اور دروازے بھی بڑے موٹے اور لوہے سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے موٹے اور مضبوط قفل اس پر لگے ہوتے ہیں.اور اسکے اندر بھی مضبوط آہنی صندوق ہوتے ہیں جن میں خزانہ رکھا جاتا ہے اور پھر یہ صندوق بھی خزانہ کے اندراندھیری کوٹھڑیوں اور تہ خانوں میں رکھے جاتے ہیں.جس کی وجہ سے ہر شخص وہاں تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس سے آگاہ ہوسکتا ہے بمقابلہ نشست گاہ ہونے کے جو کھلے کمرے ہوتے ہیں اور دروازوں پر بھی عموماً شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے باہر والا شخص بھی اندر نظر ڈال سکتا ہے اور جواندر آنا چاہے بآسانی آسکتا ہے.167 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب
سیرت المہدی 166 حصہ اوّل جب بڑی مسجد میں جاتے تھے تو گرمی کے موسم میں کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول سے ہی منہ لگا کر پانی پیتے تھے اور مٹی کی تازہ ٹنڈ یا تازہ آبخورہ میں پانی پینا آپ کو پسند تھا.اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند کرتے تھے کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھایا کرتے تھے.اور سالم مرغ کا کباب بھی پسند تھا چنانچہ ہوشیار پور جاتے ہوئے ہم مُرغ پکوا کر ساتھ لے گئے تھے.مولی کی چٹنی اور گوشت میں مونگرے بھی آپ کو پسند تھے.گوشت کی خوب بھنی ہوئی بوٹیاں بھی مرغوب تھیں.چپاتی خوب سکی ہوئی جو سکنے سے سخت ہو جاتی ہے پسند تھی.گوشت کا پتلا شور بہ بھی پسند کرتے تھے جو بہت دیر تک پکتا رہا ہو.حتی کہ اس کی بوٹیاں خوب گل کر شور بہ میںاس کا عرق پہنچ جاوے.سمجھین بھی پسند تھی.میاں جان محمد مرحوم آپکے واسطے منجمین تیار کیا کرتا تھا.نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا تھا کہ گوشت زیادہ نہیں کھانا چاہیے جوشخص چالیس دن لگا تار کثرت کے ساتھ صرف گوشت ہی کھاتا رہتا ہے اسکا دل سیاہ ہو جاتا ہے.دال ،سبزی تر کاری کے ساتھ بدل بدل کر گوشت کھانا چاہیے بھیڑ کا گوشت ناپسند فرماتے تھے.میٹھے چاول گرد یعنی قند سیاہ میں پکے ہوئے پسند فرماتے تھے.ابتدا میں چائے میں دیسی شکر ( جو گڑ کی طرح ہوتی ہے ) ڈال کر استعمال فرماتے تھے.شور بہ کے متعلق فرماتے تھے کہ گاڑھا کیچڑ جیسا ہم کو پسند نہیں.ایسا پتلا کرنا چاہیے کہ ایک آنہ کا گوشت آٹھ آدمی کھا ئیں.اس وقت ایک آنہ کا سیر خام گوشت آتا تھا.168 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کیلئے ایک تسبیح تحفہ لایا.وہ تسبیح آپ نے مجھے دے دی اور فرمایا لو اس پر درود شریف پڑھا کرو.وہ تسبیح بہت خوبصورت تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ تسبیح کے استعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر پسند نہیں فرماتے تھے.169 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب بیان فرماتے تھے کہ قیامت کو ایک شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور اللہ اس سے دریافت کرے گا کہ
سیرت المہدی 167 حصہ اوّل اگر تو نے کبھی کوئی نیکی کی ہے تو بتا مگر وہ نہیں بتا سکے گا، اس پر اللہ فرمائے گا اچھا تو کیا تو کبھی کسی بزرگ شخص سے ملا تھا ؟ وہ جواب دیگا نہیں.اس پر خدا فرمائے گا اچھی طرح یاد کر کے جواب دے اس پر وہ بولے گا.کہ ہاں ایک دفعہ میں ایک گلی میں سے گذر رہا تھا تو میرے پاس سے ایک شخص گذرا تھا جس کو لوگ بزرگ کہتے تھے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.جا میں نے تجھے اسی وجہ سے بخش دیا.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ایک وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ جوشخص کسی کامل کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پیشتر اس کے کہ وہ سجدہ سے اپنا سر اُٹھاوے.اللہ اسکے گناہ بخش دیتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی منتر جنتر نہیں اخلاص اور صحت نیت شرط ہے.( یہ روایت زیادہ تفصیل کے ساتھ حصہ دوم کی روایت نمبر 425 میں بھی بیان ہوئی ہے.) 170 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ واقعی مسیح اور مہدی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں میں واقعی مسیح اور مہدی ہوں اور آپ نے ایسے انداز سے یہ جواب دیا کہ وہ شخص پھڑک گیا اور اسی وقت بیعت میں داخل ہو گیا اور میرے دل پر بھی حضرت صاحب کے اس جواب کا بہت اثر ہوا.171 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ دو بیویاں کر کے انسان درویش ہو جاتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی اگر ان شروط کوملحوظ رکھا جاوے جو اسلام ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والے کیلئے واجب قرار دیتا ہے تو دو یا اس سے زیادہ بیویاں عیش و عشرت کا ذریعہ ہر گز نہیں بن سکتیں بلکہ یہ ایک قربانی ہے جو خاص حالات میں انسان کو کرنی پڑتی ہے.172 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اور دن کھلا دیا جائے.اس پر حضرت نے فرمایا کہ
سیرت المہدی 168 حصہ اوّل چالیسویں دن غربا میں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے.پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میں کھانا دیا جاتا ہے.تا اسے اس کا ثواب پہنچے.گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طور پر چالیس دن میں قطع ہوتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے.173 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ جس سال پہلا جلسہ سالا نہ ہوا تھا اس میں حضرت صاحب نے جو تقریر فرمائی تھی.اس سے پہلے حضرت صاحب نے میرے متعلق بھی یہ فرمایا تھا کہ میاں عبد اللہ سنوری ہمارے اس وقت کے دوست ہیں جبکہ ہم گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور یہ ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ تا آپ لوگ ان سے واقف ہو جاویں.پھر اس کے بعد تقریر شروع فرمائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا.) 174 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے.خدا داری غم داری چه 175 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ جب میں ۱۹۱۰ء میں نور پور ضلع کانگڑہ میں تھا تو ضلع کانگڑہ کے کورٹ انسپکٹر آف پولیس نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ میری بھی دعوت کی.کورٹ انسپکٹر صاحب غیر احمدی تھے مگر شریف اور متین آدمی تھے اور نماز کے پابند تھے.انہوں نے دوران گفتگو میں بیان کیا کہ جب آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کا آخری دن تھا تو اس وقت ان کی کوٹھی کے پہرہ کا انتظام میرے سپر د تھا.کوٹھی کے اندر آتھم کے دوست پادری وغیرہ تھے اور باہر پولیس کا چاروں طرف پہرہ تھا.اس وقت آتھم کی حالت سخت گھبراہٹ کی تھی.اور بالکل مخبوط الحواسی کی سی صورت ہو رہی تھی.باہر دور سے اتفاقا کسی بندوق کے چلنے کی آواز آئی تو آتھم صاحب کی حالت دگرگوں ہوگئی.آخر
سیرت المہدی 169 حصہ اوّل جب ان کا کرب اور گھبراہٹ انتہا کو پہنچ گئے تو ان کے دوستوں نے ان کو بہت سی شراب پلا کر بے ہوش کر دیا.آخری رات آتھم نے اسی حالت میں گزاری.صبح ہوئی تو ان کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر خوشی کا جلوس پھرایا اور اس دن لوگوں میں شور تھا کہ مرزے کی پیشگوئی جھوٹی گئی.مگر کورٹ انسپکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ جو حالت ہم نے آتھم صاحب کی دیکھی ہے اس سے تو وہ مرجاتے تو اچھا تھا.اور خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ماسٹر قادر بخش صاحب لدھیانوی نے بیان کیا کہ آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کے دنوں میں لدھیانہ میں لوئیس صاحب ڈسٹرکٹ جج تھا.آٹھم چونکہ لوئیس صاحب کا داماد تھا اس لئے لدھیانہ میں لوئیس صاحب کی کوٹھی پر آکر ٹھہرا کرتا تھا.ایک دفعہ دوران میعاد میں آتھم لدھیانہ میں آیا.ان دنوں میں میرا ایک غریب غیر احمدی رشتہ دار لوئیس صاحب کے پاس نو کر تھا اور آٹھم کے کمرے کا پنکھا کھینچا کرتا تھا.ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تم آتھم کا پنکھا کھینچا کرتے ہو.کبھی اس کے ساتھ کوئی بات بھی کی ہے.اس نے کہا صاحب ( یعنی آتھم ) رات کو روتا رہتا ہے.چنانچہ اس پر میں نے ایک دفعہ صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ روتے کیوں رہتے ہیں تو صاحب نے کہا تھا کہ مجھے تلواروں والے نظر آتے ہیں.میں نے کہا تو پھر آپ ان کو پکڑوا کیوں نہیں دیتے.صاحب نے کہا وہ صرف مجھے ہی نظر آتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آتھم والی پیشگوئی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف میں اکثر جگہ آچکا ہے.دراصل جس وقت حضرت مسیح موعود نے مباحثہ کے اختتام پر آتھم کے متعلق پندرہ ماہ کے اندر ہاویہ میں گرائے جانے کی پیشگوئی کا اظہار کیا تھا.اس وقت سے ہی آتھم کے اوسان خطا ہونے شروع ہو گئے تھے.چنانچہ سب سے پہلے تو آتھم نے اسی مجلس میں جبکہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ آتھم نے اپنی کتاب میں آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ دجال کہا ہے.اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اور ایک خوف زدہ انسان کی طرح زبان باہر نکال کر کہا کہ نہیں میں نے تو نہیں کہا.حالانکہ وہ اپنی کتاب اندرونہ بائیبل میں دجال کہہ چکا تھا.اس وقت مجلس میں قریب ستر آدمی مختلف مذاہب کے پیر وموجود تھے.اسکے بعد میعاد کے اندر آتھم
سیرت المہدی 170 حصہ اوّل نے جس طرح اپنے دلی خوف اور گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار کیا اس کی کیفیت حضرت مسیح موعود کی تصانیف میں مختصراً آچکی ہے.اس کا اپنا بیان ہے کہ کبھی اس کو سانپ نظر آتے جو اس کو ڈسنے کو بھاگتے.کبھی اس پر کتے حملہ کرتے.کبھی تنگی تلواروں والے اس کو آ آ کر ڈراتے اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھاگتا پھرتا تھا.اور عموماً پولیس کا خاص پہرہ اپنے ساتھ رکھتا تھا اور اسلام کے خلاف اس نے اپنی تحریروتقریر کو روک دیا تھا.حتی کہ جب میعاد ختم ہونے کے قریب آئی تو اس کا خوف اس قدر ترقی کر گیا کہ پادریوں کو اسے سخت شراب پلا پلا کر بدمست کرنا پڑا.کیا یہ باتیں اس بات کی علامت نہیں کہ خدائی پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر غالب ہو گیا تھا.اور وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچانا چاہتا تھا.پس خدا نے پیشگوئی کی شرط کے مطابق اسے عذاب موت سے بچالیا.اور ہمارے مخالف مولویوں کا یہ کہنا کہ آتھم کا ڈر پیشگوئی کے خوف کی وجہ سے نہ تھا.بلکہ اس لئے تھا کہ کہیں احمدی اسے قتل نہ کر دیں اور اسی وجہ سے وہ اپنی جان کی حفاظت کرتا تھا.ایک نہایت اہلہانہ خیال ہے.کیونکہ دشمن کی طرف سے کسی سازش وغیرہ کا خوف کرنا اور اس کے مقابل میں احتیاطی تجاویز عمل میں لانا ایک اور بات ہے.مگر جس قسم کا خوف آتھم نے ظاہر کیا وہ ایک بالکل ہی اور چیز ہے.ہم کو دونوں قسم کے خوفوں کی نوعیت پر غور کرنا چاہیے اور پھر رائے لگانی چاہیے کہ جس قسم کا خوف اور بے چینی آتھم نے ظاہر کی آیا وہ دشمن کی شرارت سے خوف کر کے احتیاطی تجاویز عمل میں لانے والی قسم میں داخل ہے یا پیشگوئی سے مرعوب ہو کر بدحواس ہو جانے والے خوف میں داخل ہے.ہم یقین کرتے ہیں کہ جو شخص تعصب سے الگ ہو کر میعاد کے اندر آتھم کے حالات پر غور کرے گا وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ جس قسم کے خوف کا آتھم نے اظہار کیا وہ دشمن سے بچنے والا خوف ہرگز نہیں تھا بلکہ اور قسم کا خوف تھا.پس جاہل لوگوں کی طرح صرف یہ پکارتے رہنا کہ ہر آدمی دشمن کی شرارت سے بچنے کیلئے خوف کرتا ہے اس لئے اگر آتھم نے خوف کا اظہار کیا تو کیا ہوا.یا تو پرلے درجہ کی جہالت اور بے وقوفی ہے اور یا دیدہ دانستہ مخلوق خدا کو دھوکا دینا ہے.اور اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ نظام عالم خدا کی دو صفات پر چل رہا ہے اور درحقیقت ہر ایک حکومت ان دو صفتوں پر ہی چلتی ہے.ایک صفت علم ہے اور ایک صفت قدرت.اور جتنی جتنی یہ صفات
سیرت المہدی 171 حصہ اوّل زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہیں انتظام حکومت بہتر ہوتا چلا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ خداوند تعالیٰ کی یہ صفات اپنے انتہائی کمال میں ہیں یعنی خدا کا علم بھی کامل ہے اور قدرت بھی کامل.یعنی نہ تو کوئی علم کی بات ہے جو اس سے پوشیدہ ہے اور نہ کوئی قدرت کا امر ہے جو اس کی طاقت سے باہر ہے.یہ وہ دوستون ہیں جن کے اوپر اس کا عرش قائم ہے.پس جب وہ اپنا کوئی رسول بھیجتا ہے تو اپنی تجاہی کیلئے اسکے ذریعہ اپنی ان صفات کی دو نہریں جاری کر دیتا ہے تا دنیا پر ظاہر کرے کہ سب حکومت میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ہی اسے رسول بنا کر بھیجا ہے.بعض آیات وہ اپنے رسول کے ذریعہ ایسی ظاہر کرتا ہے جن سے اسے اپنے علم از لی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور بعض آیات ایسی ظاہر کرتا ہے جن سے اسے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور وہ ایسا نہیں کرتا کہ صرف ایک قسم کے نشان ظاہر کرے کیونکہ حکومت کیلئے ہر دوصفات کا ہونا ضروری ہے.علم خواہ کتنا کامل ہو مگر بغیر قدرت کے ناقص ہے اور قدرت خواہ کتنی کامل ہوگر بغیر علم کے ناقص ہے پس کمال تصرف کا اظہار نہیں ہو سکتا جب تک دونو صفات کا اظہار نہ ہو.اس لئے نبیوں کی پیشگوئیاں بھی جو آیات اللہ میں داخل ہیں دو قسم کی ہوتی ہیں.اوّل وہ جو خدا کی صفت علیم کے ماتحت ہوتی ہیں یعنی جن سے خدا کو اپنے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا ہے.دوسری وہ جو خدا کی صفت قدیر کے ماتحت ہوتی ہیں یعنی جن سے خدا کو اپنی قدرت کا ملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر قسم کی پیشگوئیوں کے الگ الگ حالات ہونگے جن سے وہ پہچانی جائیں گی اور ان کی صداقت کے پر کھنے کیلئے الگ الگ معیار ہونگے اور یہ ہماری سخت نادانی ہوگی کہ ان دونوں قسموں کو مخلوط کر کے ان پر ایک ہی حکم لگا ویں اور ایک ہی قسم کے معیاروں سے دونوں کو پرکھیں.بلکہ علم والی پیشگوئیوں کو علم کے معیار سے پرکھنا ہوگا کیونکہ وہ اظہار علم کے راستہ پر چلیں گی اور قدرت والی پیشگوئیوں کو قدرت کے معیار سے پر کھنا ہوگا کیونکہ وہ قدرت نمائی کے راستہ پر چلیں گی اور ممکن نہیں کہ وہ اپنا راستہ بدلیں.پس جب ہمارے سامنے کوئی پیشگوئی آئے تو سب سے پہلے ہمیں اس کے حالات پر غور کر کے اس کی قسم کی تشخیص کرنی ہوگی.اور پھر اس تشخیص کے بعد جس قسم میں سے وہ ثابت ہو اس کے معیاروں سے اس کی صداقت کو پرکھنا ہو گا.ہمارے مخالفوں کو یہ سخت دھوکا لگا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کی سب پیشگوئیوں کو خدا کے علم ازلی کے ماتحت سمجھتے ہیں اور اسی معیار سے انہیں ناپتے ہیں.کیونکہ
سیرت المہدی 172 حصہ اوّل ہمیشہ ان کی یہی دلیل ہوتی ہے کہ بس جو صورت اور الفاظ جو پیشگوئی میں بتائے گئے ہیں بعینہ وہی وقوع میں آنے چاہئیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ پیشگوئی غلط گئی.حالانکہ یہ شرط اظہار علم والی پیشگوئیوں کی ہے.بلکہ ان میں مجاز کا دخل مانا جاوے تو ان کے لئے بھی ظاہری صورت کا فرق ہوسکتا ہے.گو تخلف اور نسخ ممکن نہیں ، کیونکہ تخلف اور انسخ علم ازلی کے منافی ہیں.لیکن اظہار قدرت والی پیشگوئیوں میں حالات کے بدل جانے سے تخلف ہوسکتا ہے.کیونکہ حالات بدل جانے کی صورت میں تخلف قدرت نمائی کے منافی نہیں ہوتا بلکہ مؤید ہوتا ہے.دونوں قسم کی پیشگوئیوں کی مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ مثلاً کسی ملہم کو کسی شخص کے متعلق الہام ہوتا ہے کہ وہ فلاں کام کرے گا.اور حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ الہام خدا کی صفت علیم کے ماتحت ہے.صفت قدیر کے ماتحت نہیں ہے.یعنی اس کے اس فعل کے کر لینے کو خدا کی قدرت کے اظہار سے کوئی طبعی تعلق نہیں ، بلکہ محض اظہار علم مراد ہے تو اب خواہ اس شخص میں کتنے تغیرات آویں وہ ضرور اس بتائے ہوئے کام کو کرے گا.ورنہ خدا کا علم از لی غلط جاتا ہے ، جو ناممکن ہے لیکن اگر کسی مہم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم تیرے فلاں دشمن کو جو تیری دشمنی میں کمر بستہ ہے ذلت کے عذاب میں مبتلا کریں گے تو ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی صفت علیم کے ماتحت نہیں.بلکہ صفت قدیر کے ماتحت سمجھی جاوے گی.لہذا اگر وہ دشمن جس کے متعلق ذلت کی پیشگوئی ہے اپنے اندر تغیر پیدا کرتا ہے تو خوب سوچ لو کہ خدا کی وہی صفت قدیر جو پہلے اس دشمن کی ذلت کی پیشگوئی کی محرک ہوئی تھی اب اسے ذلت سے بچائے جانے کا موجب ہوگی.یعنی جس طرح ایسے شخص کے تغیر نہ کرنے کی صورت میں اس کی ذلت خدا کی قدرت کے اظہار کا موجب تھی.اب اس کا ذلت سے بچایا جانا قدرت الہی کے اظہار کا موجب ہوگا.بلکہ اگر باوجود تغیر کے اسے ذلت کا عذاب آدبائ تو صفت قدرت جس کا اظہار مقصود تھا مشتبہ ہو کر پیشگوئی کی اصل غرض ہی فوت ہو جائے گی کیونکہ قدرت کاملہ اس کا نام نہیں کہ جب انجن چل گیا تو پھر جو اپنا برگا نہ سامنے آیا اُسے پیس ڈالا.بلکہ قدرت کاملہ کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی عذاب کا مستحق ہو تو اسے عذاب دے سکے اور کوئی چیز اسے عذاب سے بچا نہ سکے.اور جب کوئی رحمت کا مستحق بنے تو اس پر رحمت نازل کر سکے اور پھر کوئی چیز بھی اسے عذاب نہ دے سکے یعنی قدیر وہ ہے جس کی قدرت کا اظہار موقعہ کے مطابق ہو ورنہ اگر موقعہ کے مطابق قدرت کا اظہار نہ ہو تو وہ
سیرت المہدی 173 حصہ اوّل قدیر نہیں بلکہ یا تو مشین کا ایک پہیہ ہے اور یا ظلم و ستم کا مجسمہ.تاریخی طور پر علم از لی اور قدرت کاملہ والی پیشگوئیوں کی مثال چاہو تو یوں سمجھو کہ حضرت فاطمہ کی وفات کی پیشگوئی جو آنحضرت ﷺ نے اپنی مرض الموت میں فرمائی علم ازلی کے ماتحت تھی اور یونس نبی نے اپنی قوم پر عذاب آنے کی جو پیشگوئی کی وہ قدرت کاملہ کے اظہار کیلئے تھی.یہ باتیں ہمارے نزدیک بینات میں داخل ہیں.پس مخالفوں کے استہزاء سے ہم ان بینات کوکس طرح چھوڑ سکتے ہیں.عوام کو دھوکا دے لینا اور بات ہے اور حق کی پیروی اور بات.اس جگہ ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا کو اپنی صفت علیم کے ماتحت یہ علم ہوتا ہے کہ صفت قدیر کے ماتحت جوفلاں پیشگوئی کی گئی ہے اس میں شخص موعود لہ کے فلاں تغیر کی وجہ سے اس اس رنگ کا تخلف ہو جائے گا تو پھر خدا وہی انتہائی بات ہی کیوں نہیں بتا دیتا جو بالآخر وقوع میں آنی ہوتی ہے یعنی وہ جو بالآخر واقعی ہونا ہوتا ہے وہی لوگوں کو بتا دیا جاوے تا لوگ ٹھوکر سے بیچ جاویں.اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ اگر ایسا کیا جاوے تو پھر اس کے یہ معنے ہونگے کہ تمام پیشگوئیاں صفت علیم کے ماتحت ہوا کریں.صفت قدیر کے ماتحت کوئی بھی پیشگوئی نہ ہو.کیونکہ جب لازمی طور پر آخری بات بتائی جاوے گی تو لا محالہ وہ پیشگوئی صفت قدیر سے نکل کر صفت علیم کے ماتحت آجائے گی.حالانکہ ترقی عرفان وایمان کیلئے ہر دو قسم کی پیشگوئیوں کا ہونا ضروری ہے بلکہ اظہار قدرت والی پیشگوئیاں جہاں ایک طرف اپنے اند را بتلا کا پہلو رکھتی ہیں وہاں ایمان و عرفان کو ترقی دینے والا مادہ بھی ان میں بہت زیادہ ہوتا ہے.اس لئے خدا کی مصلحت نے چاہا کہ خدا کے نبیوں کے منہ سے ہر دو قسم کی پیشگوئیاں ظاہر ہوں.اس جگہ ایک بات کا یا درکھنا نہایت ضروری ہے کہ خاکسار نے جو یہ لکھا ہے کہ بعض پیشگوئیاں علم ازلی کے اظہار کیلئے ہوتی ہیں اور بعض قدرت نمائی کیلئے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ قدرت نمائی والی پیشگوئیاں علم غیب کے عصر سے خالی ہوتی ہیں.کیونکہ کوئی پیشگوئی خواہ وہ کسی غرض سے کی گئی ہو علم غیب کے عنصر سے خالی نہیں ہوتی.اور دراصل پیشگوئی کا لفظ ہی علم غیب کو ظاہر کر رہا ہے.پس قدرت نمائی والی پیشگوئی سے مراد یہ ہے کہ عاقبتہ الامور والے علم کا اظہار اس میں مقصود نہیں ہوتا ورنہ درمیانی حالات اور ان
سیرت المہدی 174 حصہ اوّل کے تغیرات اور ان کے نتائج کے متعلق جو علم غیب خدا کو ہے اس کا اظہار تو قدرت نمائی والی پیشگوئی میں بھی مقصود ہوتا ہے.غرض جو علم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے عاقبتہ الامور والاعلم مراد ہے نہ کہ مطلقا علم غیب جو ہر پیشگوئی کا جز و غیر منفک ہے اور یہ خیال کہ اگر کوئی ایسی پیشگوئی ہو جو قدرت نمائی کی غرض سے کی گئی ہو مگر وہ ایسی ثابت ہو کہ جس شخص یا چیز کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی اس کے حالات تبدیل نہیں ہوئے یعنی جس حالت کی بنا پر یہ پیشگوئی تھی وہ قائم رہی اور پیشگوئی بغیر کسی جگہ راستہ بدلنے کے سیدھی اپنے نشانہ پر جا لگی تو اس صورت میں اظہار علم والی پیشگوئی اور اس قسم کی اقتداری پیشگوئی کا راستہ ایک ہو جائے گا اور کوئی امتیاز نہ رہے گا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ایسا ہو سکتا ہے کہ دونوں کا راستہ عملاً ایک ہو جاوے مگر دونوں اپنے مقصود کے لحاظ سے ممتاز رہیں گی.یعنی حالات بتارہے ہونگے کہ ایک میں مقصوداظہار علم ازلی ہے اور دوسری میں اظہار قدرت کاملہ.اور ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ ایسی صورت میں اظہار قدرت اور اظہار علم ہر دو مقصود ہو سکتے ہیں.اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وعید کی پیشگوئی ٹل جاتی ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ وعید کی پیشگوئی کے اندر کوئی خاص تخلف کا مادہ ہوتا ہے.بلکہ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ وعید چونکہ اظہار قدرت کیلئے ہوتا ہے اس لئے اس میں تخلف ممکن ہوتا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی کے ٹل جانے یا تخلف پیدا ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ پیشگوئی نعوذ باللہ غلط گئی.کیونکہ خدائی پیشگوئی خواہ کسی قسم کی ہو غلط ہر گز نہیں جاسکتی بلکہ بہر حال پوری ہوتی ہے.پس جب ہم تخلف یاٹل جانے وغیرہ کا لفظ بولتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ جو صورت قدرت الٰہی کے اظہار کیلئے بنائی گئی تھی وہ چونکہ حالات کے بدل جانے سے قدرت الہی کے اظہار کا موجب نہیں رہی اس لئے قدرت الہی کا اظہار دوسری صورت میں کر دیا گیا.پس پیشگوئی غلط نہ گئی کیونکہ اس کی اصل غرض اظہار قدرت تھی اور وہ غرض پوری ہوگئی.ہاں اگر حالات بدل جانے کے باوجود پیشگوئی پہلی صورت میں ہی ظاہر ہوتی تو پھر بے شک پیشگوئی غلط جاتی.کیونکہ اظہار قدرت الہی جو اصل مقصود تھا وقوع میں نہ آتا.آتھم کی پیشگوئی بھی اظہار قدرت الہی کیلئے تھی نہ کہ اظہار علم کیلئے جیسا کہ پیشگوئی کے حالات
سیرت المہدی 175 حصہ اوّل اور پیشگوئی کے الفاظ سے ظاہر ہے خصوصاًیہ الفاظ کہ بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے کیونکہ اگر اظہار علم مقصود ہوتا تو اس میں کوئی شرط وغیرہ نہیں ہو سکتی تھی.پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ پیشگوئی اظہار قدرت کیلئے تھی تو پھر ماننا پڑیگا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی کیونکہ اظہار قدرت ہو گیا گما مر.اور آتھم کی پیشگوئی تو عام اظہار قدرت والی پیشگوئیوں میں بھی ممتاز حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ پیشگوئی ایک مرکب پیشگوئی ہے.جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع کرے گا تو پندرہ ماہ میں نہیں مرے گا اور اگر رجوع نہ کرے گا تو پندرہ ماہ کے اندر اندر ہاویہ میں گرایا جاوے گا.پس بوجہ مرکب پیشگوئی ہونے کے یہ پیشگوئی عام پیشگوئیوں سے اپنی شان میں ارفع ہے کیونکہ جو اظہار قدرت کی شان مرکب یعنی ایک سے زیادہ پہلو والی پیشگوئیوں میں ظاہر ہوتی ہے وہ مفرد پیشگوئیوں میں نہیں ہوتی.جس کی آنکھیں ہو دیکھے.176 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا امرتسر میں آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو دوران مباحثہ میں ایک دن عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھا اور ایک بہرہ اور ایک لنگڑا مباحثہ کی جگہ میں لا کر ایک طرف بٹھا دیئے اور پھر اپنی تقریر میں حضرت صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.لیجئے یہ اندھے اور بہرے اور لنگڑے آدمی موجود ہیں مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں.پھر جب حضرت صاحب نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو فرمایا کہ میں تو اسبات کو نہیں مانتا کہ مسیح اس طرح ہاتھ لگا کر اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو اچھا کر دیتا تھا.اس لئے مجھ پر یہ مطالبہ کوئی حجت نہیں ہوسکتا.ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے معجزے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو وہ وہی کچھ دکھا سکتا ہے جو مسیح دکھاتا تھا.پس میں آپ کا بڑا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کی تلاش سے بچالیا.اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اندھے بہرے لنگڑے حاضر ہیں اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر آپ ان کو
مرت المهدی 176 حصہ اوّل اچھا کر دیں.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں اور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کروا دیا.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ نظارہ بھی نہایت عجیب تھا کہ پہلے تو عیسائیوں نے اتنے شوق سے ان لوگوں کو پیش کیا اور پھر ان کو خود ہی ادھر ادھر چھپانے لگ گئے.177 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے خلیفہ نورالدین صاحب جمونی نے کہ آتھم کے مباحثہ میں میں بھی لکھنے والوں میں سے تھا.آخری دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتھم کی پیشگوئی کا اعلان فرمایا تو آتھم نے خوفزدہ ہو کر کانوں کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دانتوں میں انگلی لی اور کہا کہ میں نے تو دجال نہیں کہا.178 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب نے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی خلیفہ مسیح ثانی ) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کیلئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے.جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان سے کہنے والے کے اخلاق پر بڑی روشنی پڑتی ہے.179 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جا کر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کر دینے کی کوشش کی تھی.مگر کامیاب نہیں ہوا.یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا.محمدی بیگم کا یہ ماموں جالندھر اور ہوشیار پور کے درمیان یکہ میں آیا جایا کرتا تھا.اور وہ حضرت صاحب سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا.اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ شخص اس معاملہ
سیرت المہدی 177 حصہ اوّل میں بدنیت تھا اور حضرت صاحب سے فقط کچھ روپیہ اڑانا چاہتا تھا کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اسکے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیا ہے جانے کا موجب ہوئے.مگر مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب نے بھی اس شخص کو روپیہ دینے کے متعلق بعض حکیمانہ احتیاطیں ملحوظ رکھی ہوئی تھیں.والدہ صاحبہ نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کے ساتھ محمدی بیگم کا بڑا بھائی بھی شریک تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب خدا کی طرف سے پیشگوئیاں تھیں تو حضرت صاحب خودان کے پورا کرنے کی کیوں کوشش کیا کرتے تھے مگر یہ ایک محض جہالت کا اعتراض ہے.کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے باوجود خدائی وعدوں کے اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے ہر جائز طریق پر کوشش نہ کی ہو.در حقیقت خدا کے ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنے سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ خدا انسان کی امداد کا محتاج ہے بلکہ اس سے بعض اور باتیں مقصود ہوتی ہیں.مثلاً اول.اگر انسان خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاوے اور یہ سمجھ لے کہ خدا کا وعدہ ہے وہ خود پورا کرے گا اور باوجود طاقت رکھنے کے کوشش نہ کرے تو یہ بات خدا کے استغنائے ذاتی کو برانگیخت کرنے کا موجب ہوتی ہے.اور یہ وہ مقام ہے جس سے انبیاء تک کانپتے ہیں.دوسرے یہ کہ یہ ایک محبت کا طبعی تقاضا ہوتا ہے کہ انسان اپنے محبوب کے ارادوں کے پورا کرنے میں اپنی طرف سے کوشش کرے اور یہ محبت کا جذبہ اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ باوجود اس علم کے کہ خدا کو انسانی نصرت کی ضرورت نہیں عاشق انسان نچلا نہیں بیٹھ سکتا.تیسرے چونکہ خدا کے تمام ارادوں میں دین کا غلبہ مقصود ہوتا ہے.اس لئے نبی اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے بھی اس میں ہاتھ پاؤں ہلانے سے باز نہیں رہ سکتا.چوتھے.خدا کی یہ سنت ہے کہ سوائے بالکل استثنائی صورتوں کے اپنے کاموں میں اسباب کے سلسلہ کو ملحوظ رکھتا ہے پس نبی کی کوشش بھی ان اسباب میں سے ایک سبب ہوتی ہے.وغیر ذالک ( مگر یہ یادرکھنا چاہئے کہ ایسی کوشش صرف رحمت کی پیش گوئیوں میں ہوتی ہے عذاب کی پیش گوئیوں کے متعلق انبیاء کی یہی سنت ہے کہ ان میں سوائے خاص حالات کے معاملہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں.)
ت المهدی.- 178 حصہ اوّل نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی میں مخالفوں کی طرف سے بڑا طوفان بے تمیزی برپا ہوا ہے.حالانکہ اگر وہ سنت اللہ کے طریق پر غور کرتے تو بات مشکل نہ تھی.دراصل سب سے پہلے ہم کو اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی کس غرض اور کن حالات کے ماتحت تھی.جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ ہو پیشگوئی کا سمجھنا محال ہے.سو جاننا چاہیے کہ یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعود اس شادی سے کسی قسم کی اپنی بڑائی چاہتے تھے.ایک مضحکہ خیز بات ہے.کیونکہ خدا کے فضل سے مرزا احمد بیگ کا خاندان کیا بلحاظ حسب نسب، کیا بلحاظ دنیاوی عزت و جاہت کیا بلحاظ مال و دولت حضرت مسیح موعود کے خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور یہ ایک ایسی بین بات ہے جس پر ہم کو کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں.پس شادی کی یہ وجہ تو ہو نہیں سکتی تھی باقی رہا یہ خیال کہ محمدی بیگم میں خود کوئی خاص وجہ کشش موجود تھی جس کی وجہ سے حضرت کو یہ خیال ہوا.سو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بھی باطل ہے.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی کو دیکھو.کیا انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کی طرف کوئی نفسانی خواہش منسوب کی جاسکتی ہے.عقل سے کورے دشمن اور اندھے معاند کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں.مگر وہ شخص جو کچھ بھی عقل اور کچھ بھی انصاف کا مادہ رکھتا ہے اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ کم از کم جہاں تک نفسانی خواہشات کا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود کا عظیم الشان پرسنل کریکٹر یعنی سیرت وخلق ذاتی ایسے خیال کو دور ہی سے دھکے دیتا ہے.تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض کیا تھی ؟ سواس کا یہ جواب ہے کہ اس کی غرض وہی تھی جو حضرت مسیح موعود نے اپنی تصانیف میں لکھی ہے.اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود کے قریبی رشتہ دار یعنی محمدی بیگم کے حقیقی ماموں اور خالہ اور پھوپھی اور والد وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین لوگ تھے اور دین داری سے ان کو کچھ بھی مس نہ تھا بلکہ دین کی باتوں پر تمسخر اڑاتے تھے اور اس معاملہ میں لڑکی کے ماموں لیڈر تھے اور مرزا احمد بیگ ان کا تابع تھا اور بالکل ان کے زیر اثر ہو کر ان کے اشارہ پر چلتا تھا.اور جیسا کہ منکرین حق کا دستور ہے یہ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود سے کسی نشان کے طالب رہتے تھے اور حضرت مسیح موعود کے دعویٰ الہام پر جنسی اُڑایا کرتے تھے.اس دوران میں اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت صاحب کا ایک چچازاد بھائی غلام حسین مفقود الخبر ہو کر کا لمیت سمجھا گیا اور اسکے ترکہ کی تقسیم کا سوال
سیرت المہدی 179 حصہ اوّل پیدا ہوا.مرزا غلام حسین کی بیوہ مسماۃ امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن تھی.اس لئے مرزا احمد بیگ نے اپنی بہن امام بی بی اور مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کے مشورہ سے یہ کوشش کی کہ غلام حسین مذکور کا ترکہ اپنے لڑکے یعنی محمدی بیگم کے بڑے بھائی محمد بیگ کے نام کر والے مگر یہ بغیر رضا مندی حضرت مسیح موعود ہو نہیں سکتا تھا.اس لئے نا چار مرزا احمد بیگ حضرت صاحب کی طرف رجوع ہوا اور بڑی عاجزی اور اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ آپ اس معاملہ میں اپنی اجازت دے دیں.قریب تھا کہ حضرت صاحب تیار ہو جاتے مگر پھر اس خیال سے کہ اس معاملہ میں استخارہ کر لینا ضروری ہے رُک گئے اور بعد استخارہ جواب دینے کا وعدہ فرمایا.چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کی بار بار کی درخواست پر حضرت صاحب نے دریں بارہ استخارہ فرمایا تو جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ الہامات ہوئے جو محمدی بیگم والی پیشگوئی کا بنیادی پتھر ہیں گویا ان لوگوں کو نشان دکھانے کا وقت آگیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ احمد بیگ کی دختر کلاں محمدی بیگم کیلئے ان سے تحریک کر.اگر انہوں نے مان لیا تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کا نشان ہوگا اور یہ خدا کی طرف سے بے شمار رحمت و برکت پائیں گے اور اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر خدا ان کو عذاب کا نشان دکھائے گا اور ان پر مختلف قسم کی آفات اور مصیبتیں آئیں گی اور اس صورت میں والد اس لڑکی کا لڑکی کے کسی اور جگہ نکاح کئے جانے کی تاریخ سے تین سال کے اندر اندر ہلاک ہو جائے گا اور جس سے نکاح ہو گا وہ بھی ڈھائی سال میں مر جائے گا.( نیز دیکھوروایت نمبر ۱۲۷) یہ اصل پیشگوئی تھی جو اس وقت کی گئی اب اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض محمدی بیگم کے والد اور ماموؤں کی بار بار کی درخواست پر ایک نشان دکھا نا تھی نہ کہ کچھ اور.نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی اظہار قدرت الہی کے ماتحت تھی نہ کہ اظہار علم الہی کے لئے.کیونکہ پیشگوئی میں صاف موجود تھا کہ اگر مان لو گے تو یوں ہوگا اور اگر انکار کرو گے تو یوں ہوگا گویا خدا کو اپنا اقتدار دکھا نا منظور تھا اور منشاء الہی میں یہ تھا کہ یہ دکھائے کہ حضرت مسیح موعود اور جو بھی آپ کے ساتھ عقیدت مندانہ تعلق رکھے گا وہ خدا سے رحمت اور برکت پائے گا اور جو آپ کی عداوت میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے عذاب کا مورد ہو گا.چنانچہ اس پیشگوئی کا اعلان ہو گیا اور دنیا دیکھ چکی ہے کہ اس خاندان نے خدائی منشاء
سیرت المہدی 180 حصہ اوّل کے خلاف چل کر کیا کیا خدائی قہر و غضب کے نشان دیکھے.مرزا احمد بیگ تاریخ نکاح سے چند ماہ کے اندراندرتپ محرقہ سے ہوشیار پور کے شفاخانہ میں رخصت ہوا اور محمدی بیگم کی والدہ اپنے پانچ چھ بچوں کے گراں بوجھ کے نیچے دبی ہوئی بیوہ رہ گئی اور ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں اور علاوہ مرزا احمد بیگ کے اور بعض موتیں بھی اس خاندان میں ہوئیں اور بعض دوسرے مصائب بھی آئے.دوسری طرف محمدی بیگم کے ماموؤں پر جس طرح خدائی عذاب کی تجلی ظاہر ہوئی وہ ایک نہایت عبرت انگیز کہانی ہے.یہ تین بھائی تھے اور ان کا گھر اس وقت خانگی رونق اور چہل پہل کا ایک بہترین نمونہ تھا مگر پھر اسکے بعد ان پر خدائی چکی چلی اور وہ مختلف قسم کی تنگیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوئے اور انکا گھر خالی ہونا شروع ہواحتی کہ وہ وقت آیا کہ سارے گھر میں صرف ایک یتیم بچہ رہ گیا اور باقی سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اور اپنی تباہی دیکھتے ہوئے رخصت ہوئے.کیا یہ نظارے خدائی قدرت نمائیوں کی چمکتی ہوئی تجلیاں نہیں ؟ پھر اور سنو وہ یتیم بچہ جو اپنے بڑے وسیع گھرانے میں اکیلا چھوڑا گیا تھا آج اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کے حلقہ بگوشوں میں شمار کرتا ہے اور یہی وہ خدائی تعویذ ہے جس نے اسے تباہی سے بچا رکھا ہے.اب رہا یہ سوال کہ محمدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمد کیوں میعاد کے اندر نہیں مرا اور اب تک بقید حیات ہے.سو جاننا چاہیے کہ وہی قدرت الہی جس نے مرزا احمد بیگ کو ہلاک کیا، مرزا سلطان محمد کے بچانے کا موجب ہوئی.محمدی بیگم کے نکاح سے پہلے اور نکاح کے وقت جو حالات تھے وہ اس بات کے مقتضی تھے کہ قدرت الہی عذاب کے رنگ میں ظاہر ہو.لیکن جب پیشگوئی کے نتیجہ میں مرزا احمد بیگ کی بے وقت موت نے مرزا سلطان محمد کے خاندان میں ایک تہلکہ مچادیا اور یہ لوگ سخت خوف زدہ ہو کر حضرت مسیح موعود کی طرف معجز و انکسار کے ساتھ جھکے اور آپ سے دعا کی درخواستیں کیں تو اب سنت الله وما كَانَ اللهُ مُعَدِّ بَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال : ۳۴) کے مطابق قدرت نمائی مرزا سلطان محمد کے : ہلاک کئے جانے کے ساتھ نہیں بلکہ بچائے جانے کے ساتھ وابستہ ہوگئی.خود مرزا سلطان محمد کا رویہ مرزا احمد بیگ کی موت سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود کے ساتھ بہت مخلصانہ رہا ہے.چنانچہ انہوں نے کئی
سیرت المہدی 181 حصہ اوّل موقعوں پر اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا ہے اور باوجود حضرت مسیح موعود کے دشمنوں کی طرف سے رنگا رنگ میں طمع اور غیرت اور جوش دلائے جانے کے کبھی کوئی لفظ مرزا سلطان محمد کی زبان سے حضرت صاحب کے خلاف نہیں نکلا.بلکہ جب کبھی کوئی لفظ منہ سے نکلا ہے.تو تائید اور تعریف میں ہی نکلا ہے تو کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ ایسے شخص کے متعلق خدا کی قدرت نمائی عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگی ؟ ایک ظالم سے ظالم انسان بھی اپنے گرے ہوئے دشمن پر وار نہیں کرتا تو کیا خدا جو ارحم الراحمین ہے اس شخص پروار کرے گا جو اس کے سامنے گر کر اس کی پناہ میں آتا ہے؟ اور اگر یہ کہو کہ جب خدا کو یہ معلوم تھا کہ مرزا سلطان محمد کے رشتہ دار نہایت عقیدت اور عاجزی کے ساتھ حضرت صاحب کی طرف جھکیں گے اور رحم اور دعا کے طالب ہونگے اور خود مرزا سلطان محمد کا رویہ بھی حضرت مسیح موعود سے بڑا مخلصانہ ہو گا تو پھر کیوں اس کے متعلق ڈھائی سال میں ہلاک ہو جانے کی پیشگوئی کی گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ اس لئے واقعہ ہوا ہے کہ پیشگوئی کی غرض کو نہیں سمجھا گیا.پیشگوئی کی غرض جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے یہ نہ تھی کہ خدائے تعالیٰ اپنے علم از لی کا اظہار کرے بلکہ پیشگوئی کی غرض یہ تھی کہ قدرت الہی کا اظہار کیا جاوے.جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ اور حالات سے بھی واضح ہوتا ہے کیونکہ اگر خدا کے علم از لی کا اظہار مقصود ہوتا تو صرف ایک بات جو بالآ خر وقوع میں آنی تھی بلا شرائط بتا دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ اگر یہ لوگ مان لیں گے تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کا نشان ہوگا اور اگر انکار کریں گے تو یہ ایک عذاب کا نشان ہوگا جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ علم از لی کا اظہار مقصود نہ تھا بلکہ قدرت نمائی مقصود تھی.اسکے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق امکاناً چار راستے کھلے تھے یعنی اول :.آخری حالت کے لحاظ سے مرزا سلطان محمد کے متعلق جو بات فی الواقع ہونے والی تھی صرف وہ بتائی جاتی اور درمیانی حالات نظر انداز کر دیئے جاتے تا جب پیشگوئی کے مطابق وقوع میں آتا تو لوگوں کو پیشگوئی کے پورا ہونے کا یقین ہوتا اور وہ فائدہ اُٹھاتے.دوئم:.جب کہ مرزا سلطان محمد کے ڈھائی سال میں ہلاک ہو جانے کے متعلق پیشگوئی کر دی گئی تھی تو خواہ حالات کتنے بدلتے بہر حال اس کو پورا کیا جاتا یا خدائی تصرف حالات کو بدلنے ہی نہ دیتا اور اس طرح لوگوں کو ٹھوکر سے بچایا جاتا.سوئم:.اگر حالات بدلنے سے پیشگوئی کا حکم بدل جانا تھا تو اس کے متعلق پہلے ہی اطلاع دے دی جاتی یعنی پیشگوئی میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جاتے کہ مثلاً بشرطیکہ حق کی طرف
سیرت المہدی 182 حصہ اوّل رجوع نہ کرے یا اس قسم کے کوئی اور الفاظ ہوتے تالوگ پیشگوئی کو قطعی نہ سمجھتے.چہارم :.موجودہ حالات پر حکم لگا دیا جاتا پھر اگر وہ حالات قائم رہتے تو وہی حکم وقوع میں آتا اور اگر حالات بدل جاتے تو نئے حالات کے مناسب حال حکم وقوع میں آتا.یہ وہ چار رستے تھے جو امکانا اختیار کئے جاسکتے تھے لیکن ہر ایک عقل مند سوچ سکتا ہے کہ مقدم الذکر دوطریق قدرت نمائی کے منشاء کے منافی ہیں.کیونکہ پہلی صورت میں تو پیشگوئی قدرت نمائی کے دائرہ سے نکل کر اظہار علم ازلی کے دائرہ میں آجاتی ہے.کیونکہ جب پیشگوئی فریق مخالف کی خاص متمردانہ حالت پر مبنی تھی تو اس صورت میں حالات کو نظر انداز کرنا اس کو قدرت نمائی کے دائرہ سے خارج کر دیتا ہے.ہاں اگر اس کی بنیاد فریق متعلقہ کی کسی حالت پر نہ ہوتی تو پھر بے شک حالات اور ان کا تغیر نظر انداز کئے جاسکتے تھے مگر اس صورت میں پیشگوئی اظہار قدرت کیلئے نہ رہتی بلکہ علم ازلی کے اظہار کے ماتحت آجاتی اور پیشگوئی کی اصل غرض ہی فوت ہو جاتی.اور اگر دوسرے طریق کو اختیار کیا جاتا تو یہ بات علاوہ کمال قدرت نمائی کے منافی اور سنت اللہ کے مخالف ہونے کے خدا کی مقدس ذات پر سخت اعتراض کا موجب ہوتی اور اس صورت میں بھی اصل غرض پیشگوئی کی باطل ہو جاتی.پس لامحالہ پیشگوئی کی غرض اظہار قدرت نمائی ثابت ہونے کے بعد ہم کو مؤخر الذکر دوطریقوں میں محدود ہونا پڑے گا اور یہ دونوں طریق ایسے ہیں کہ سنت اللہ سے ثابت ہیں.تیسرے طریق پر تو کسی جرح کی گنجائش نہیں مگر ہاں چوتھے طریق پر بادی النظر میں یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی شرط کو تیسرے طریق کے طور پر واضح کیوں نہ کیا جاوے مخفی کیوں رکھا جائے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن مجید کے نص صریح سے یہ شرط بطور اصول کے بیان کر دی گئی ہے کہ حالات کے بدلنے سے اقتداری پیشگوئیوں میں قدرت نمائی کی صورت بدل جاتی ہے اور عقل انسانی کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ ایسا ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ نہ مانا جاوے تو اصل غرض فوت ہو کر خدا کی بعض صفات کا انکار کرنا پڑتا ہے تو پھر ہر گز ضروری نہیں کہ یہ شرط ہر پیشگوئی میں واضح طور پر بیان کی جاوے.خصوصاً جب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایمان کے راستے میں خدا کی یہ سنت ہے کہ بعض اخفا کے پردے بھی رکھے جاتے ہیں اور ایمان کے ابتدائی مدارج میں شہود کا رنگ نہیں پیدا کیا جاتا اور یہاں تو پیشگوئی کے الفاظ ہی اس کے شرطی ہونے کو ظاہر کر رہے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ سارا اعتراض پیشگوئی کی غرض نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے کیونکہ بدقسمتی سے
سیرت المہدی 183 حصہ اوّل یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پیشگوئی کی غرض یہ تھی کہ علم الہی کے ماتحت محمدی بیگم حضرت صاحب کے نکاح میں آجاوے اور بس.حالانکہ یہ غرض ہر گز نہ تھی بلکہ غرض یہ تھی کہ حضرت صاحب کے قریبی رشتہ داروں کو اقتداری نشان دکھایا جاوے اور مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کا ہلاک ہونا اور محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے عقد میں آنا اس وقت کے حالات کے ماتحت اس قدرت نمائی کیلئے بطور علامات کے تھے نہ کہ مقصود بالذات.اگر اس جگہ یہ شبہ پیدا ہو کہ حضرت صاحب کے بعض الہامات میں ہے کہ محمدی بیگم بالآخر تیری طرف لوٹائی جاوے گی اور تمام روکیں دور کی جاویں گی وغیرہ وغیرہ.اور اس کو تقدیر مبرم کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا تو اس کا یہ جواب ہے کہ اول تو یہ قطعی طور پر ثابت کرنا چاہیے کہ یہ سب الہامات حضرت مسیح موعود اور محمدی بیگم کے ہی متعلق ہیں.دوسرے اگر یہ سب الہامات محمدی بیگم اور حضرت صاحب ہی کے متعلق ہوں تو پھر بھی ان کو الگ الگ مستقل الہامات سمجھنا سخت نادانی ہے.بلکہ یہ سارے الہامات ابتدائی الہامات کے ساتھ ملحق اور اس کے ماتحت سمجھے جاویں گے.اور ان سب کو یکجائی طور پر سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کرنی پڑے گی اور ابتدائی الہام کو اصل قرار دینا ہوگا اور باقی بعد کے سب الہامات گواس اصل کی شاخیں سمجھنا ہوگا.اب اس اصول کو مد نظر رکھ کر تمام پیشگوئی پر غور کریں تو صاف پتہ لگ رہا ہے کہ حضرت صاحب کو یہ حکم تھا کہ محمدی بیگم کے متعلق سلسلہ جنبانی کر اگر انہوں نے مان لیا تو یہ ان کے واسطے ایک رحمت کا نشان ہوگا اور اگر لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح کر دیا تو یہ انکے لئے ایک عذاب کا نشان ہوگا اور اس صورت میں لڑکی کا والد تین سال میں اور لڑکی کا خاوند ڈھائی سال میں مر جائیں گے.اور لڑ کی بالآخر تیری طرف لوٹائی جاوے گی اور تمام روکیں دور کی جاویں گی وغیرہ وغیرہ.اب ظاہر ہے کہ لڑکی کے حضرت صاحب کی طرف لوٹائے جانے اور روکوں کے دور ہونے کو مرزا سلطان محمد کے ہلاک ہونے سے تعلق ہے اور یہ باتیں اسکے ماتحت ہیں نہ کہ مستقل.یعنی جب اس وقت کے حالات کے ماتحت مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی پیشگوئی ہوئی اور قدرت نمائی کو اس کی ہلاکت کی صورت کے ساتھ وابستہ کیا گیا تو اس کے نتیجہ میں جو باتیں ظہور میں آنی تھیں ان کا بھی اظہار کیا گیا.یعنی یہ کہ مرزا سلطان محمد کی وفات ہوگی اور ان کی زندگی کی وجہ
سیرت المہدی 184 حصہ اوّل سے جو روکیں ہیں اور نیز دوسری روکیں وہ دور ہونگی اور پھر لڑکی تیرے گھر آئے گی.گویا یہ سب باتیں مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی شق کو مدنظر رکھ کر بیان کی گئیں تھیں اور جس طرح ہلاکت کے مقابل کی شق یعنی بچائے جانے کومخفی رکھا گیا.اسی طرح بچائے جانے کے بعد جو کچھ وقوع میں آنا تھا اس کو بھی مخفی رکھا گیا یعنی ہلاکت والا پہلو اور اس کے نتائج بیان کر دیئے گئے اور بچائے جانے والا پہلو اور اس کے نتائج مخفی رکھے گئے.اور یہ سراسر نادانی اور ظلم ہوگا اگر ہم یہ سمجھیں کہ لڑکی کے لوٹائے جانے کی جو پیشگوئی ہے وہ ہلاکت اور عدم ہلاکت دونوں پہلوؤں کا نتیجہ ہے.کیونکہ جب عدم ہلاکت کا پہلو ہی مذکور نہیں تو اس کا نتیجہ کیونکر مذکور ہو سکتا ہے.مذکور نتیجہ لا محالہ مذکور شق کے ساتھ وابستہ سمجھا جائے گا کیونکہ وہ اسی لڑی میں پر دیا ہوا ہے اور دوسری لڑی ساری کی ساری مخفی رکھی گئی ہے.ہاں جب واقعات نے قدرت نمائی کیلئے مرزا سلطان محمد کے بچائے جانے والے پہلو کوظاہر کیا ( جو لفظائد کور نہیں تھا ) تو پھر اس پہلو کے وہ نتائج بھی ظاہر کئے گئے جو لفظاً مذکور نہیں تھے.ہاں اگر عذاب والا پہلو ظاہر ہوتا تو پھر اس پہلو کے نتائج بھی ظاہر ہوتے.لیکن جب وہ پہلو ہی ظاہر نہیں ہوا تو اس کے نتائج کس طرح ظاہر ہو جاتے اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوطُ اور تقدیر مبرم کے بھی یہی معنی ہیں کہ صرف ہلاکت والے پہلو کا حضرت صاحب کو علم دیا گیا تھا اور حقیقی واقعہ کا علم صرف خدا کو تھا.پس حضرت صاحب کے لئے وہ تقدیر مبرم تھی اور ظاہر ہے کہ بعض اوقات مخاطب ، مخاطب کے علم کو مد نظر رکھ کر ایک لفظ بولتا ہے حالانکہ اس کے اپنے علم کے لحاظ سے وہ لفظ نہیں بولا جاسکتا.دوسرے یہ کہ تقدیر مبرم سے ان خاص حالات میں یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جوشق مذکور ہے اس کے نتیجہ کے طور پر یہ تقدیر مبرم ہے نہ کہ مطلقا یعنی اگر ہلاکت والی شق ظہور میں آئے تو پھر یہ تقدیر مبرم ہے کہ وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور چونکہ دوسری شق کو بالکل مخفی رکھا گیا تھا اس لئے محض مذکور شق کو مدنظر رکھ کر تقدیر مبرم کا لفظ استعمال کرنا کوئی جائے اعتراض نہیں ہو سکتا.خلاصہ کلام یہ کہ محمدی بیگم کے حضرت صاحب کے نکاح میں آنے کے متعلق جتنے بھی الہامات ہیں وہ سب ابتدائی الہام کی فرع ہیں.مستقل پیشگوئیاں نہیں ہیں اور ان سب کی بنیاد مرزا سلطان محمد کے عذاب میں مبتلا ہوکر ہلاک ہونے پر ہے.پس جب مرزا سلطان محمد کی ہلاکت حالات کے بدل جانے سے
سیرت المهدی 185 حصہ اوّل قدرت نمائی کا ذریعہ نہ رہی بلکہ عذاب کاٹل جانا قدرت نمائی کا ذریعہ ہو گیا تو پھر عذاب والی صورت پر جتنے نتائج مترتب ہونے تھے وہ بھی منسوخ ہو گئے اور عدم عذاب والا مخفی پہلومع اپنے تمام مخفی نتائج کے ظاہر ہو گیا گویا مرزا سلطان محمد کے متعلق تصویر کے دو پہلو تھے اول.عذاب کے ماتحت موت اور اس کے نتائج یعنی محمدی بیگم کا بیوہ ہو کر حضرت صاحب کے نکاح میں آنا وغیرہ.پیشگوئی میں صرف یہی پہلوظاہر کیا گیا تھا.دوسرے.حالات کے بدل جانے سے عذاب اور موت کے رک جانے کی صورت میں اظہار قدرت ہونا س کے نتائج یعنی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد ہی کے پاس رہنا وغیرہ.یہ دوسرا پہلا مخفی رکھا گیا تھا.پس خدا نے سنت اللہ کے مطابق ظاہر پہلو کو منسوخ کر کے مخفی پہلو کو ظاہر کر دیا.جو پہلو بیان کیا گیا تھاوہ سارے کا سارا بیان کیا گیا تھا اور جو مخفی رکھا گیا تھا وہ سارے کا سارا مخفی رکھا گیا تھا.دراصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کو اصل غرض پیشگوئی کی سمجھ لیا گیا ہے.حالانکہ یہ بات واقعات کے بالکل خلاف ہے.بلکہ اصل غرض رشتہ داروں کی درخواست پر قدرت نمائی تھی اور مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کا مرنا اور محمدی بیگم کا حضرت کے نکاح میں آنا وغیرہ یہ سب اس وقت کے حالات کے ماتحت اس قدرت نمائی کیلئے بطور علامات کے رکھے گئے تھے لیکن جب مرزا احمد بیگ کی اچانک موت نے حالات کی صورت بدل دی تو قدرت نمائی کے علامات بھی بدل گئے.حق یہی ہے چاہو تو قبول کرو.ہاں اگر حضرت مسیح موعود کی زندگی میں کسی وقت مرزا سلطان محمد کی طرف سے متمردانہ طریق اختیار کیا جاتا تو تصویر کا جو ظاہر پہلو تھا وہ بتمامہ وقوع میں آجا تا چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں اپنے مخالفوں کو بار بار مخاطب کر کے لکھا ہے کہ اگر تمہیں اس پیشگوئی کے متعلق کوئی اعتراض ہے تو مرزا سلطان محمد کی طرف سے کوئی مخالفت کا اشتہار دلواؤ اور پھر دیکھو کہ خدا کیا دکھاتا ہے مگر باوجود ہمارے مخالفوں کی طرف سے سرتوڑ کوشش اور بے حد غیرت اور طمع دلائے جانے کے مرزا سلطان محمد نے حضرت مسیح موعود کے متعلق جب کبھی بھی کوئی اظہار کیا تو عقیدت اور اخلاص کا ہی اظہار کیا.اندریں حالات مخالفت والے پہلو پر جو نتائج مترتب ہونے تھے وہ کس طرح ظاہر ہو جاتے.خدا کی خدائی اندھیر نگری تو نہیں کہ کاشت کریں آم اور نکل آئے نظل بلکہ وہاں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ گندم از گندم بروید جو ز جو - از مکافات عمل غافل مشو محمدی بیگم کے نکاح کا درخت مرزا
سیرت المہدی 186 حصہ اوّل سلطان محمد کی ہلاکت کی سرزمین سے نکلنا تھا اور ہلاکت کی سرزمین خدائی عذاب کے زلزلہ نے تیار کرنی تھی اور یہ عذاب کا زلزلہ مرزا سلطان محمد کے تمرد نے پیدا کرنا تھا اب جب تمرد نہ ہوا تو عذاب کا زلزلہ کیسا اور جب زلزلہ نہ آیا تو ہلاکت کیسی؟ اب محمدی بیگم کے نکاح کو بیٹھے روتے رہو.خدا نے تو اپنی قدرت نمائی کا جلوہ دکھا دیا اور پیشگوئی پوری ہوگئی.اب ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بے شک حالات کے تغیر سے قدرت نمائی کی صورت بدل جاتی ہے اور بدل جانی چاہیے مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جو کسی کام کا ہومثلاً کسی غیر مسلم معاند کے عذاب کی خبر ہے تو وہ عذاب اس صورت میں ٹلنا چاہیے کہ وہ شخص تائب ہوکر مسلمان ہو جاوے یا غیراحمدی مسلمان ہو تو وہ احمدی ہو جاوے ورنہ اپنے مذہب پر رہ کر ہی کچھ تغیر کر لینا موجب رہائی کا نہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ کو مشتہ کر دیتا ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ یہ شبہ نادانی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہی شخص ایسا شبہ کرسکتا ہے جو موجبات عذاب سے بے خبر ہو.دراصل بات یہ ہے کہ یہ مسلم حقیقت ہے کہ اس دنیا میں عذاب کسی نبی کے محض انکار کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ اس کے مقابل میں فساد اور سرکشی اور قمر د سے آتا ہے.محض انکار کیلئے آخرت کی جزا سزا مقرر ہے ، اس دنیا کا عذاب صرف سرکشی اور تمرد کے نتیجہ میں ہوتا ہے چنانچہ ہمارا مشاہدہ اس پر شاہد ہے اب جب یہ بات معلوم ہوگئی تو کوئی اعتراض نہ رہا.ایک شخص جو اپنی سرکشی اور تمرد کی وجہ سے اس دنیا میں عذاب کا مستحق بنا تھا وہ جب تمرد کی حالت کو بدل دے گا تو عذاب ٹل جائے گا.خواہ وہ منکر ہی رہے اور انکار کی پرسش آخرت میں ہوگی.جو چیز اس دنیا میں عذاب کی موجب تھی وہ جب جاتی رہی تو اس دنیا کا عذاب بھی جاتا رہا.باقی رہا محض انکار اور علیحد گی سو اس کیلئے دنیا میں عذاب نہیں ہوتا بلکہ اس کی پرسش اگلے جہاں میں ہوگی.پس یہ کہنا کہ غیر مسلم کے مسلمان اور غیر احمدی کے احمدی ہو جانے پر عذاب ٹلنا چاہیے تھا.ایک جہالت کی بات ہے جب غیر مسلم کا محض غیر مسلم ہونا اور غیر احمدی کا محض غیر احمدی ہونا اس دنیا میں موجبات عذاب کے نہیں اور نہ اس وجہ سے ان کیلئے کوئی عذاب کی پیشگوئی تھی تو یہ اعتراض بے ہودہ ہے ہاں اگر عذاب کی وجہ ان کا غیر مسلم یا غیر احمدی ہونا بتائی جاتی تو پھر بے شک جب تک وہ احمدی یا مسلمان نہ ہو جاتے عذاب نہیں ملنا چاہیے تھا.لیکن جب عذاب کی یہ وجہ ہی نہیں اور نہ ہو سکتی ہے
سیرت المہدی 187 حصہ اوّل بلکہ عذاب کی وجہ فساد فی الارض اور تمرد ہے تو عذاب کے ٹلنے کیلئے ایمان لانے کی شرط ضروری قرار دینا محض جہالت ہے اور اگر یہ کہا جاوے کہ مرزا سلطان محمد نے گو بے شک اخلاق و عقیدت کا اظہار کیا اور تمرد نہیں دکھایا لیکن محمدی بیگم کو اپنے نکاح میں تو رکھا اور اس طرح گویا عملاً تمرد سے کام لیا.تو یہ بات گذشتہ اعتراض سے بھی بڑھ کر جہالت کی بات ہوگی کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ پیشگوئی کی غرض ہرگز محمدی بیگم کا نکاح نہ تھی بلکہ متمر درشتہ داروں کو اقتداری نشان دکھانا تھا تو پھر یہ کہنا کہ گو اس نے تمرد نہیں دکھایا مگر چونکہ محمدی بیگم کو اپنے نکاح میں رکھا اس لئے عذاب نہ ٹلنا چاہیے تھا.ایک اہلہانہ بات ہے.اگر غرض پیشگوئی کی یہ ہوتی کہ محمدی بیگم حضرت صاحب کے نکاح میں آجاوے تو پھر بے شک مرز اسلطان محمد کا فقط تمر دنہ دکھانا کسی کام نہ آتا جب تک وہ محمدی بیگم کو الگ نہ کرتا لیکن جب پیشگوئی کی یہ غرض ہی ثابت نہیں ہوتی تو پھر عذاب کے ٹلنے کو مرزا سلطان محمد کے محمدی بیگم سے علیحدہ ہو جانے کے ساتھ مشروط قرار دینا ایک عجیب منطق ہے.جو ہماری سمجھ سے بالا ہے.دراصل یہ سارے اعتراضات پیشگوئی کی غرض پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوئے ہیں ورنہ بات کوئی مشکل نہ تھی.اور یہ شبہ کہ اگر محض انکار سے اس دنیا میں عذاب نہیں آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ کے مختلف عذابوں کو اپنی وجہ سے کیوں قرار دیا ہے ایک دھو کے پر مبنی ہے.آج کل جو دنیا کے مختلف حصوں میں عذاب آرہے ہیں ان کو حضرت صاحب نے اپنی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ یہ لوگوں کو جگانے کیلئے ہیں.یعنی ان کی یہ غرض ہے کہ لوگ اپنی غفلتوں سے بیدار ہو جائیں اور حق کی تلاش میں لگ جاویں اور حق کے قبول کرنے کیلئے ان کے دل نرم ہو جاویں.لہذا یہ عذاب اور نوعیت کا عذاب ہے جس کو اس دوسری قسم کے عذاب سے کوئی واسطہ نہیں.یہ عام قومی عذاب تو صرف بیدار کرنے کیلئے آتے ہیں یعنی جب کبھی کوئی رسول آتا ہے تو خدا کی سنت ہے کہ اس کی قوم کو جن کی طرف وہ مبعوث ہو عذاب کے دھکوں سے بیدار کرتا ہے.اسی لئے یہ قومی عذاب رسول کی بعثت کی علامت رکھے گئے ہیں ورنہ یہ عذاب تو بسا اوقات ایسے لوگوں کو بھی پہنچتے رہتے ہیں جن تک رسول کی تبلیغ بھی نہیں پہنچی ہوتی.اور جن کی طرف سے رسول کے خلاف تمرد تو در کنار محض انکار بھی نہیں ہوا ہوتا.پس ان عذابوں کو اس خاص عذاب کے ساتھ
سیرت المہدی 188 حصہ اوّل مخلوط کرنا نادانی ہے.زیر بحث تو وہ خاص انفرادی عذاب ہیں جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جو رسول کے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں ایسے عذاب محض انکار پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ فساد فی الارض اور سرکشی اور تمرد سے آتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جو اس رشتہ کی کوشش میں اپنے بعض رشتہ داروں کو خط لکھے اور اس کے لئے بڑی جدو جہد کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اصل غرض محمدی بیگم کا نکاح تھی مگر یہ ایک سراسر باطل بات ہے.جبکہ پیشگوئی کے الفاظ سے یہ غرض ثابت نہیں ہوتی اور جب کہ حضرت صاحب کی تحریرات میں یہ بات صاف طور پر لکھی ہوئی موجود ہے کہ پیشگوئی کی غرض نکاح نہ تھی بلکہ قدرت نمائی تھی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار حضرت صاحب نے اسے کھول کھول کر بیان کر دیا اور محمدی بیگم کے مرزا سلطان محمد کے ساتھ بیا ہے جانے سے پہلے بھی اور بیا ہے جانے کے بعد بھی اس غرض کا اظہار کیا.یعنی برابر اس وقت سے جب کہ ابھی محمدی بیگم بیاہی بھی نہ گئی تھی اور اس پیشگوئی کے متعلق اعتراض وغیرہ نہ تھا.حضرت صاحب ہمیشہ یہی بیان کرتے چلے آئے ہیں کہ اس کی غرض محمدی بیگم کو نکاح میں لا نا نہیں بلکہ قدرت الٹی کا ایک نشان دکھانا ہے.تو نکاح کی کوشش کرنے اور اپنے بعض رشتہ داروں کو اس کوشش کے متعلق خطوط لکھنے سے یہ استنباط کس طرح ہو سکتا ہے کہ پیشگوئی کی غرض نکاح کرنا تھی.کیا ایسے رکیک استنباطوں سے نصوص صریح کا رد کرنا جائز ہے.رشتہ کی کوشش اور اس کیلئے رشتہ داروں کو تحریک تو فقط اس غرض سے تھی کہ اس وقت تک چونکہ محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے نکاح نہ ہوا تھا.اس لئے حضرت صاحب کی خواہش اور کوشش تھی کہ محمدی بیگم کا نکاح آپ کے ساتھ ہو جاوے تا آپ کے رشتہ دار خدا کی رحمت اور برکت سے حصہ پاویں اور خدا کا نشان پورا ہو اور آپکی صداقت ظاہر ہو.اس سے پیشگوئی کی غرض کے متعلق کس طرح استدلال ہو سکتا ہے.اس جگہ اس بات کو بھی یادرکھنا چاہیے کہ جب تک محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد کے ساتھ نکاح نہیں ہوا تھا محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے رشتہ میں آنا رشتہ داروں کیلئے ایک نشانِ رحمت تھا لیکن جب محمدی بیگم مرزا سلطان محمد کے عقد میں چلی گئی اور آپ کے رشتہ داروں نے تمرد سے کام لیا تو اب محمدی بیگم کا حضرت صاحب کی طرف لوٹنا مرزا سلطان محمد کے عذاب میں مبتلا ہونے کے
سیرت المہدی 189 حصہ اوّل ساتھ مشروط ہو گیا یعنی مرزا سلطان محمد پر عذاب کی موت آئے اور پھر محمدی بیگم حضرت صاحب کی طرف لوٹے اسی لئے جب تک محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے عقد میں آنا رشتہ داروں کیلئے ایک رحمت کا نشان تھا.آپ نے اس کیلئے کوشش کی اور پوری کوشش کی اور یہ کوشش آپکی صداقت اور اخلاق فاضلہ پر ایک زبر دست دلیل ہے.لیکن جب محمدی بیگم کے دوسری جگہ نکاح ہو جانے کے بعد اُس کا آپکی طرف لوٹنا رشتہ داروں کے عذاب دیئے جانے کی علامت ہو گیا تو آپ نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا.پس آپ کی کوششوں سے پیشگوئی کی غرض کے متعلق استدلال کرنا باطل ہے.یہ کوشش تو محض اس لئے تھی کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت محمدی بیگم کا آپکے نکاح میں آنا اظہار قدرت کی ایک علامت تھا.پس آپ نے اس علامت کے پورا کرنے کی کوشش کی تا پیشگوئی کی اصل غرض یعنی قدرت نمائی وقوع میں آوے اور خصوصیت کے ساتھ کوشش اس لئے کی کہ اُس وقت کے حالات کے ماتحت محمدی بیگم کا آپ کے عقد میں آنا آپ کے رشتہ داروں کے لئے موجب رحمت و برکت تھا.لہذا یہ کوشش تو آپ کی صداقت اور اخلاق فاضلہ اور رشتہ داروں پر رحم و شفقت کی ایک دلیل ہے نہ کہ آپ کے خلاف جائے اعتراض.خلاصہ کلام یہ کہ یہ پیشگوئی خدا کے علم ازلی کے اظہار کے لئے نہ تھی تا بہر حال اپنی ظاہری صورت میں پوری ہوتی بلکہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے تھی.پس پیشگوئی کے وقت حالات موجودہ جس قسم کی قدرت نمائی کے مقتضی تھے اُس کا اظہار کیا گیا اور بعد میں حالات کے تغیر سے جو جو رستہ قدرت نمائی کا متعین ہوتا گیا اس کے مطابق اظہار قدرت ہوتا گیا.تا یہ ثابت ہو کہ خدا کوئی مشین نہیں ہے کہ جب پہیہ چل گیا تو بس پھر جو اپنا بیگانہ سامنے آیا اُس کو پیس ڈالا کیونکہ یہ بات قدرت کاملہ کے منافی ہے.بلکہ خدا ایک قدیر ہستی ہے.جب کوئی شخص عذاب کا مستحق ہوتا ہے تو وہ اُسے عذاب میں گرفتار کرتا ہے اور پھر ا سے کوئی نہیں بچا سکتا اور جب وہ موجبات عذاب کو دور کر دیتا ہے تو خدا بھی اُس سے اپنا عذاب کھینچ لیتا ہے اور پھر اُسے کوئی عذاب میں نہیں ڈال سکتا اور یہی قدرت کا ملہ ہے.باقی رہی یہ بات کہ محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق حضرت صاحب کو بہت سے الہامات ہوئے کہ وہ تیرے نکاح میں آئے گی سو اس کا جواب گذر چکا ہے.کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی کوئی مستقل پیشگوئی نہیں بلکہ رشتہ داروں کو جو نشان دکھلا نا تھا اُس کا
سیرت المہدی 190 حصہ اوّل حصہ اور فرع ہے اور یہ بات حضرت صاحب کی تحریرات بلکہ خود الہامات سے اَظْهَرْ مِنَ الشَّمس ہو جاتی ہے اور جو شخص اس کے خلاف دعوی کرتا ہے بار ثبوت اس کے ذمہ ہے.پس جب نکاح کی پیش گوئی مستقل پیشگوئی نہ ہوئی بلکہ تمام پیشگوئی کا حصہ اور فرع ہوئی تو اعتراض کوئی نہ رہا.کیونکہ پیشگوئی کا منشاء یہ قرار پایا کہ مرزا سلطان محمد عذاب موت میں گرفتار ہوگا اور پھر حمدی بیگم حضرت مسیح موعود کے عقد میں آئے گی.اور مرزا سلطان محمد کے عذاب موت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کوئی چیز محمدی بیگم کے حضرت صاحب کی طرف لوٹنے میں روک نہ ہو سکے گی لیکن جب حالات کے بدل جانے پر مصلحت الہی نے قدرت نمائی کا منشاء پورا کرنے کے لئے عذاب کی صورت کو بدل دیا تو نکاح بھی جو عذاب والی صورت کا نتیجہ تھا منسوخ ہو گیا.اصل غرض قدرت نمائی تھی اور باقی سب اُس وقت کے حالات کے ماتحت اُس کی علامات تھیں.پس ہم کہتے ہیں کہ جب حالات کے بدل جانے سے اصل غرض اور علامات آپس میں ٹکرانے لگیں تو اصل غرض کو لے لیا گیا اور علامات کو چھوڑ دیا گیا اور یہی حکمت کی راہ ہے اور اگر کہو کہ ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ وہی علامات مقرر کی جاتیں جو آخر تک ساتھ رہتیں تو اس کا جواب او پر گذر چکا ہے کہ چونکہ یہ پیش گوئی علم از لی کے اظہار کے لئے نہ تھی بلکہ قدرت نمائی کے لئے تھی.اس لئے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا اور اگر حالات کو نظر انداز کیا جاتا تو پیشگوئی کی اصل غرض ( یعنی قدرت نمائی) فوت ہو کر پیشگوئی اظہار علم ازلی کے ماتحت آجاتی اور یہ مقصود نہ تھا.خوب سوچ لو کہ قدرت کاملہ کا اظہار بغیر حالات کو مد نظر رکھنے کے ناممکن ہے کیونکہ یہ صورت دو تیجوں سے خالی نہیں یا تو خدا کو بغیر ارادے کے ایک مشین کی طرح ماننا پڑے گا اور یا پھر ظالم و سفاک قرار دینا ہوگا.اور یہ دونوں باتیں قدرت کاملہ کے مفہوم کے منافی ہیں.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ - اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خاکسار نے پیشگوئیوں کے جو اصول بیان کئے ہیں اُن پر پیشگوئیوں کے اصول کا حصر نہیں ہے.یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پیشگوئیوں کے بس صرف یہی اصول ہیں جو بیان ہو گئے بلکہ یہاں تو صرف اس جگہ کے مناسب حال اور وہ بھی صرف خاص خاص اُصول بیان کئے گئے ہیں ورنہ اُن کے علاوہ اور بھی بہت سے اصول ہیں بلکہ ان بیان شدہ اصول کے بھی بہت سے اور پہلو
سیرت المہدی 191 حصہ اوّل ہیں جو بیان نہیں کئے گئے کیونکہ یہ موقع پیشگوئیوں کے اصول بیان کر نیک نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود کی سیرت وسوانح کے بیان کرنے کا ہے.180 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب جو سلسلہ کے ایک مبلغ ہیں ایک دفعہ پہنی گئے اور مرزا سلطان محمد بیگ صاحب سے ملے تھے.اس ملاقات کے متعلق وہ ۹٫۱۳ جون ۱۹۲۱ء کے اخبار الفضل قادیان میں لکھتے ہیں کہ ” عند الملاقات میں نے مرز اسلطان محمد صاحب سے سوال کیا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی نکاح والی پیشگوئی کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں جسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ بخوشی بڑی آزادی سے دریافت کریں اور کہا کہ میرے خسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں مگر خدا تعالیٰ غفور الرحیم بھی ہے اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے اس سے اُن کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے میری زاری و دعا کی وجہ سے وہ عذاب مجھ سے ٹال دیا.پھر میں نے ان سے سوال کیا.آپ کو حضرت مرزا صاحب کی اس پیشگوئی پر کوئی اعتراض ہے؟ یا یہ پیشگوئی آپ کیلئے کسی شک وشبہ کا باعث ہوئی ہے؟ جسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی میرے لئے کسی شبہ کا باعث نہیں ہوئی.پھر میں نے سوال کیا کہ اگر پیشگوئی کی وجہ سے آپ کو حضرت مرزا صاحب پر کوئی اعتراض یا شک و شبہ نہیں تو کیا کوئی اور ان کے دعوی کے متعلق آپ کو اعتراض ہے.جس کی وجہ سے آپ ابھی تک بیعت کرنے سے رکے ہوئے ہیں؟ اس پر بھی انہوں نے خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہی جواب دیا کہ مجھے کسی قسم کا بھی اُن پر اعتراض نہیں بلکہ جب میں انبالہ چھاؤنی میں تھا تو ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک احمدی نے مرزا صاحب کے متعلق میرے خیالات دریافت کئے تھے جس کا میں نے اس کو تحریری جواب دیدیا تھا.( خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تحریر رسالہ تحیذ میں چھپ چکی ہے.) اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر بیعت کیوں نہیں کرتے ؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے وجوہات اور ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں.میں بہت چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ قادیان جاؤں کیونکہ مجھے حضرت
سیرت المہدی 192 حصہ اوّل میاں صاحب کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت بیان کروں پھر چاہے شائع بھی کر دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا.باقی میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آٹھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ تک دینا چاہا تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر کوئی نالش کروں.اگر وہ روپیہ میں لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا.مگر وہی اعتقاد اور ایمان تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا.پھر میں نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے گھر والوں ( محمدی بیگم صاحبہ ) نے کوئی رؤیا دیکھی ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا مجھ سے تو انہوں نے ذکر نہیں کیا مگر آپ احمد بیگ ( ہیڈ کلرک احمدی) کے ذریعہ میرے گھر سے خود دریافت کر سکتے ہیں.چنانچہ مرزا احمد بیگ صاحب نے ان کو اپنے گھر بلوایا اور دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ جس وقت فرانس سے اُن کو ( یعنی مرزا سلطان محمد صاحب کو ) گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہوئی اور میرا دل گھبرا گیا.اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رویا میں نظر آئے اُن کے ہاتھ میں ایک دودھ کا پیالہ ہے اور وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے فکر نہ کر.اس سے مجھے ان کی خیریت کے متعلق اطمینان ہو گیا.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے مرزا احمد بیگ صاحب احمدی سے اس واقعہ کے متعلق دریافت کیا تھا.چنانچہ انہوں نے اس کی پوری پوری تصدیق کی.181 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت یا سوانح کے متعلق جو تصنیفات احمدیوں کی طرف سے اس وقت تک شائع ہو چکی ہیں وہ یہ ہیں.(۱) سیرۃ مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مولوی صاحب مرحوم اکابر صحابہ میں سے تھے اور حضرت مولوی صاحب یعنی خلیفہ اول کے بعد جماعت میں انہی کا مرتبہ سمجھا جاتا تھا.یہ تصنیف نہایت مختصر ہے لیکن چونکہ مولوی صاحب مرحوم کی طبیعت نہایت ذکی اور نکتہ سنج واقع ہوئی تھی اس لئے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور اچھے اچھے استدلال کئے
سیرت المہدی 193 حصہ اوّل ہیں عموماً خانگی اخلاق پر روشنی ڈالی ہے.اور ہر بات کی بنا اپنے ذاتی مشاہدہ پر رکھی ہے اور چونکہ مولوی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے مکان کے ایک حصہ میں ہی رہتے تھے اس لئے ان کو حضرت صاحب کے اخلاق و عادات کے مطالعہ کا بہت اچھا موقعہ میسر تھا اس پر خدا نے تقریر وتحریر کی طاقت بھی خاص عطا کی تھی.یہ رسالہ نہایت دلچسپ اور قابل دید ہے.روایات چونکہ سب حضرت مولوی صاحب مرحوم کی ذاتی ہیں اس لئے شک وشبہ کی گنجائش سے بالا ہیں.ہاں مولوی صاحب کے قلم کے زور نے ان کو بعض جگہ الفاظ کی پابندی سے آزاد کر دیا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ کہیں کہیں مفہوم لے کر واقعات کو اپنے طرز کلام میں بیان کر دیا ہے.تاریخ تصنیف جنوری ۱۹۰۰ ء ہے.حضرت مولوی صاحب موصوف کی وفات ۱۹۰۵ء میں ہوئی تھی.کیا خوب ہوتا اگر مولوی صاحب اس رسالہ کو زیادہ مکمل ومبسوط کر جاتے.یہ رسالہ سوانح کے حصہ سے بالکل خالی ہے یعنی سیرت وخلق ذاتی پر روشنی ڈالنے کیلئے صرف جستہ جستہ واقعات لے لئے ہیں مگر ہر لفظ عشق و محبت میں ڈوبا ہوا ہے.ناظرین اس مختصر رسالہ کا ضرور مطالعہ کریں.(۲) احمد علیہ السلام بزبان انگریزی مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مولوی صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں.غالباً ۱۸۹۷ء میں احمدی ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری چند سال قادیان ہجرت کر آئے تھے اور حضرت صاحب نے ان کو اپنے مکان کے ایک حصہ میں جگہ دی تھی اور یو یو کی ایڈیٹری ان کے سپرد کی تھی.مولوی صاحب حضرت صاحب کے زمانہ میں مقربین میں سمجھے جاتے تھے مگر افسوس اپنے بعض دوستوں اور نیز زمانہ کے اثر کے نیچے آ گرفتنہ کی رو میں بہہ گئے.ان کی انگریزی تصنیف ”احمد علیہ السلام، مختصر طور پر حضرت مسیح موعود کے سوانح اور سیرت پر مشتمل ہے اور دلچسپ پیرایہ میں لکھی گئی ہے ، سوانح کے معاملے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی بلکہ عام معروف باتوں کو لکھ دیا ہے.سیرت کا حصہ عموماً اپنے ذاتی مشاہدہ پر بنی ہے اور عمدہ طور پر لکھا گیا ہے، تاریخ تصنیف ۱۹۰۶ ء ہے.(۳) حضرت مسیح موعود کی زندگی کے مختصر حالات مصنفہ میاں معراج دین صاحب عمر لا ہوری میاں صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں.ہجرت نہیں کی لیکن حضرت مسیح موعود کی صحبت کافی اٹھائی ہے اور ذہین اور منشی آدمی ہیں.یہ مضمون براہین احمدیہ کے ایک ایڈیشن کے ساتھ شامل ہوکر شائع ہوا ہے.اور
سیرت المہدی 194 حصہ اوّل آپ کے خاندانی حالات سوانح و سیرت پر مشتمل ہے جو عمدگی کے ساتھ مرتب کئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.واقعات میں کوئی مستقل تحقیق نہیں کی گئی.بلکہ عموماً معروف واقعات کو لے لیا ہے.تاریخ تصنیف ۱۹۰۶ء ہے.(۴) حیات انہی.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی.شیخ صاحب موصوف پر انے احمدی ہیں.اور سلسلہ کے خاص آدمیوں میں سے ہیں مہاجر ہیں اور کئی سال حضرت مسیح موعود کی صحبت اُٹھائی ہے.ان کے اخبار الحکم میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور سیرت کا کافی ذخیرہ موجود ہے.شیخ صاحب کو شروع سے ہی تاریخ سلسلہ کے محفوظ رکھنے اور جمع کرنے کا شوق رہا ہے اور دراصل صرف حیات النبی ہی وہ تصنیف ہے جو اس وقت تک حضرت مسیح موعود کے سوارخ اور سیرت میں ایک مستقل اور مفصل تصنیف کے طور پر شروع کی گئی ہے.اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور قابل دید ہیں.تاریخ تصنیف ۱۹۱۵ء ہے.(۵) تذکرۃ المہدی - مصنفہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی جو بہت پرانے احمدی ہیں.غالباً ۱۹۸۱-۸۲ء سے اُن کی قادیان میں آمد و رفت شروع ہوئی تھی.حضرت صاحب کی صحبت بھی بہت اُٹھائی ہے.بلکہ کئی سال قادیان آ کر خدمت میں رہے ہیں.لکھنے اور بات کرنے کا پیرا یہ پرانے انداز کا ہے مگر اپنے اندر کشش رکھتا ہے.ان کی تصنیف تذکرۃ المہدی بہت دلچسپ ہے.مسلسل سوانح نہیں بلکہ جستہ جستہ واقعات ہیں مگر خوب تفصیل اور بسط کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں اور سب چشم دید باتیں لکھی ہیں.گویا اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے.عموماً سفروں میں حضرت کے ہمرکاب رہے ہیں.اُن کی کتاب اپنے رنگ میں بہت دلچسپ اور قابل دید ہے.کتاب کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں.تاریخ تصنیف ۱۹۱۴ ء ہے.(۶) سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی.یہ ایک مختصر رسالہ ہے.جس میں وفات تک کے معروف و مشہور واقعات درج ہیں.اس میں کوئی مستقل یا مفصل تاریخی تحقیق نہیں کی گئی.بلکہ صرف عام معروف سوانح کو بیان کر دیا گیا ہے.اور دراصل اس کی اشاعت سے غرض بھی یہی تھی.اسلوب بیان اور عام طرز تحریر کے متعلق مصنف کے نام نامی سے قیاس ہوسکتا ہے.تاریخ تصنیف بوقت ایڈیشن ثانی پیر صاحب فوت ہو چکے ہیں.
سیرت المہدی ۱۹۱۶ء ہے.195 حصہ اوّل ان کے علاوہ دو عیسائی امریکن پادریوں نے بھی انگریزی میں حضرت مسیح موعود کے حالات لکھے ہیں.یعنی (۱) ڈاکٹر گرس فولڈ پروفیسر مشن کالج لاہور اور (۲) مسٹر والٹرسیکرٹری سینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن لاہور.ان میں سے ڈاکٹر گرس فولڈ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا تھا.لیکن مسٹر والٹر نہیں ملا.مؤخر الذکر کی تصنیف کچھ مفصل ہے اور مقدم الذکر کی مختصر ہے.گو معلومات عموماً احمد یہ لٹریچر سے حاصل کی گئی ہیں مگر یہ کتابیں واقعات کی غلطی سے خالی نہیں مگر غلطی بالعموم غلط فہمی سے واقع ہوئی ہے.باقی استدلال و استنباط کا وہی حال ہے جو ایک عیسائی پادری سے متوقع ہو سکتا ہے یعنی کچھ تو سمجھے نہیں اور کچھ سمجھے تو اس کا اظہار مناسب نہیں سمجھا.تعصب بھی آگ کی ایک چنگاری کی طرح ہے کہ معلومات کے خرمن کو جلا کر خاک کر دیتا ہے.مگر خاکسار کی رائے میں تعصب کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جو واقعات کو سمجھنے او صحیح نتائج پر پہنچنے کے رستے میں ایک بہت بڑی روک ہو جاتی ہے اور وہ اجنبیت اور غیر مذہب اور غیر قوم سے متعلق ہونا ہے جس کی وجہ سے آدمی بسا اوقات بات کی منہ تک نہیں پہنچ سکتا.مگر بہر حال یہ دو تصنیفات بھی قابل دید ہیں.ان کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات و رسالہ جات ہیں.یعنی الحکم ، البدر.ریویو (انگریزی و اردو) اور تفخیذ الا ذہان.جن میں وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود کے حالات اور ڈائریاں چھپتی رہی ہیں ، ان میں بھی معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے.پھر خود حضرت مسیح موعود کی اپنی تصنیفات ہیں یعنی ۸۰ کے قریب کتب ورسالجات ہیں.اور دوسو کے قریب اشتہارات ہیں ان میں بھی حضرت صاحب کی سیرت و سوانح کے متعلق ایک بہت بڑا حصہ آ گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حصہ سب سے زیادہ معتبر اور یقینی ہے اور در حقیقت حضرت مسیح موعود کے سوانح کے متعلق جتنی کتب شائع ہوئی ہیں وہ سب سوائے حیات النبی کے زیادہ تر صرف حضرت صاحب کے خود اپنے بیان کردہ حالات پر ہی مشتمل ہیں مگر اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض اوقات واقعات کی تاریخ معتین صورت میں یاد نہیں رہتی تھی درحقیقت حافظہ کی مختلف اقسام ہیں.بعض لوگوں کا حافظ عموماً پختہ ہوتا ہے مگر ایک خاص محدود میدان میں اچھا کام نہیں کرتا اور در اصل تاریخوں کو
سیرت المہدی 196 حصہ اوّل یا درکھنا خصوصاً جب وہ ایسے واقعات کے متعلق ہوں جو منفرد ہیں اور سلسلہ واقعات کی کسی لڑی میں منسلک نہیں.ایک ایسے شخص کیلئے خصوصاً مشکل ہوتا ہے جس کا دماغ کسی نہایت اعلیٰ کام کیلئے بنایا گیا ہو.درحقیقت واقعات کی تاریخوں کو یاد رکھنے کے متعلق جو حافظہ کی طاقت ہے وہ انسانی دماغ کی دوسری طاقتوں کے مقابلہ میں ایک ادنی طاقت ہے بلکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کی یہ طاقت تیز ہوتی ہے وہ بالعموم دماغ کے اعلیٰ طاقتوں میں فروتر ہوتے ہیں.واللہ اعلم 182 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب نے تم بچوں کی شادیاں تو چھوٹی عمر میں ہی کر دی تھیں مگر اُن کا منشاء یہ تھا کہ زیادہ اختلاط نہ ہو تاکہ نشوونما میں کسی قسم کا نقص پیدا نہ ہو.183 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کہ جب میں پہلے پہل قادیان آیا تو اُسی دن شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری بھی ایک عیسائی نوجوان کو مسلمان کرنے کیلئے ساتھ لائے تھے.ہم دونوں اکٹھے ہی حضرت مسیح موعود کے سامنے پیش ہوئے.لیکن حضرت مسیح موعود نے میری بیعت تو لے لی اور اسکو درخواست بیعت کے خط کے جواب میں لکھا کہ پھر بیعت لیں گے ابھی ٹھہر وحالانکہ اُس کو حضرت صاحب کے سامنے شیخ رحمت اللہ صاحب نے پیش کیا تھا جو ایک بڑے آدمی تھے اور حضرت صاحب کو اُن کا بہت خیال تھا.اس عیسائی نوجوان نے دوبارہ حضرت صاحب کو لکھا مگر اس دفعہ بھی حضرت صاحب نے یہی جواب دیا کہ پھر بیعت لیں گے.پھر اس نے تیسری دفعہ لکھا کہ کوئی دن مقرر کر دیا جائے.اس دن غالباً منگل یا بدھ تھا.حضرت صاحب نے کہا جمعرات کے دن بیعت لیں گے.یہ جواب لے کر وہ شخص ناراض ہو کر چلا گیا اور پھر عیسائی ہو گیا.اس کے بعد کسی نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ وہ لڑکا تو واپس جا کر عیسائی ہو گیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے توقف کرتا تھا اور فرمایا کہ جولوگ ہندوؤں سے مسلمان ہوتے ہیں وہ عموماً سچے دل سے ہوتے ہیں.اور ان میں ایمان کی محبت ہوتی ہے.مگر عیسائیوں میں سے اسلام کی طرف آنے والے بالعموم قابل اعتبار نہیں ہوتے.مجھے اس لڑکے پر اعتماد نہیں
سیرت المہدی 197 حصہ اوّل تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ اور ٹھہرے.184 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے عزیزم مرزا رشید احمد صاحب ( جومرزا سلطان احمد صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے ) کے ذریعے مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود کے سن ولادت کے متعلق کیا علم ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے.۱۸۳۶ء میں آپ کی ولادت ہوئی تھی.185 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے افسر ڈاک ( یعنی پرائیویٹ سیکرٹری) کی معرفت مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کی پیدائش کس سال کی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اچھی طرح معلوم نہیں.بعض کاغذوں میں تو ۱۸۶۴ء لکھا ہے.مگر ہندو پنڈت مجھے کہتا تھا کہ میری پیدائش ۱۹۱۳ء بکرمی کی ہے اور میں نے سنا ہے کہ والد صاحب کی عمر میری ولادت کے وقت کم و بیش اٹھارہ سال کی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے.۱۹۱۳ء بکرمی والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ دوسرے قرائن اس کے مؤید ہیں.نیز یہ بات بھی اس کے حق میں ہے کہ ہندو عموماً جنم پتری کی حفاظت میں بہت ماہر ہوتے ہیں.اس لحاظ سے مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش ۱۸۵۶ء کے قریب کی بنتی ہے.اور اگر اس وقت حضرت صاحب کی عمر ۱۸ یا ۱۹ سال سمجھی جاوے تو آپ کا سن ولادت وہی ۳۷.۱۸۳۶ء کے قریب پہنچتا ہے.پس ثابت ہوا کہ ۱۸۳۶ء والی روایت صحیح ہے.اس کا ایک اور بھی ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے (دیکھو لتبلیغ آئینہ کمالات اسلام ) اور بیان بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہماری والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے تھے اور فراخی میتر آگئی تھی اور اسی لئے وہ میری پیدائش کو مبارک سمجھا کرتی تھیں.اب یہ قطعی طور پر یقینی ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں ہی خاندان کے مصائب کے دن دور ہو کر فراخی شروع ہوگئی تھی اور قادیان اور اس کے اردگرد کے بعض مواضعات دادا صاحب کو راجہ رنجیت سنگھ نے بحال کر دئیے تھے اور دادا صاحب کو اپنے ماتحت ایک معزز عہدہ فوجی بھی دیا تھا اور راجہ کے ماتحت دادا صاحب نے بعض
سیرت المہدی 198 حصہ اوّل فوجی خدمات بھی سرانجام دی تھیں.پس بہر حال حضرت صاحب کی پیدائش رنجیت سنگھ کی موت یعنی ۱۸۳۹ء سے کچھ عرصہ پہلے مانی پڑے گی.لہذا اس طرح بھی ۱۸۳۶ ء والی روایت کی تصدیق ہوتی ہے.وهو المراد اور حضرت صاحب نے جو ۱۸۳۹ ء لکھا ہے سو اس کو خود آپ کی دوسری تحریر میں رد کرتی ہیں.چنانچہ ایک جگہ آپ نے ۱۹۰۵ء میں اپنی عمر ۷۰ سال بیان کی ہے اور وہاں یہ بھی لکھا ہے یہ تمام اندازے ہیں.صحیح علم صرف خدا کو ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری تحقیق میں اوائل ۱۲۵۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی اور وفات ۱۳۲۶ھ میں ہوئی.واللہ اعلم.186 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے.کہ میں بچپن میں والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تاریخ فرشتہ نحومیر اور شائد گلستان.بوستان پڑھا کرتا تھا اور والد صاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے.مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے.حالانکہ میں پڑھنے میں بے پرواہ تھا لیکن آخر دادا صاحب نے مجھے والد صاحب سے پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے سب کو ملاں نہیں بنا دینا تم مجھ سے پڑھا کرو مگر ویسے دادا صاحب والد صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے.187 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چوبارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ آپ کھڑکی سے اُترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا.اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جاسکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اُٹھا سکتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا.188 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب تیرنا اور سواری خوب جانتے تھے.اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں میں ڈوب چلا تھا.تو ایک اجنبی بڑھے سےشخص نے مجھے نکالا تھا
سیرت المہدی 199 حصہ اوّل اس شخص کو میں نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہیں دیکھا.نیز فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا.اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا.میں نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا.چنانچہ وہ اپنے پورے زور میں ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا.(الشَّكُ مِنی ) اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا.مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچالیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سرکش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے.اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا.مگر میں ایک طرف گر کر بچ گیا اور وہ مر گیا.189 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب باہر چوبارے میں رہتے تھے.وہیں اُن کے لئے کھانا جاتا تھا.اور جس قسم کا کھانا بھی ہوتا تھا کھا لیتے تھے.کبھی کچھ نہیں کہتے تھے.190 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے.یعنی قرآن مجید مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے.191 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب میاں عبد اللہ صاحب غزنوی اور سماں والے فقیر سے ملنے کے لئے کبھی کبھی جایا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی ملاقات کا ذکر حضرت صاحب نے اپنی تحریرات میں کیا ہے.اور سماں والے فقیر کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ اُن کا نام میاں شرف دین صاحب تھا اور وہ موضع سم نز د طالب پور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.سم میں پانی کا ایک چشمہ ہے اور غالباً اسی وجہ سے وہ ٹم کہلاتا ہے.192 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش
سیرت المہدی 200 حصہ اوّل صاحب ایم.اے، کہ دادا صاحب ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کو کرسی دیتے تھے.یعنی جب وہ دادا صاحب کے پاس جاتے تو وہ ان کو کرسی پر بٹھاتے تھے لیکن والد صاحب جا کر خود ہی نیچے صف کے اوپر بیٹھ جاتے تھے.کبھی داد ا صاحب ان کو او پر بیٹھنے کو کہتے تو والد صاحب کہتے کہ میں اچھا بیٹھا ہوں.193 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے، کہ والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے رہتے تھے.اور ارد گر د کتابوں کا ڈھیر لگارہتا تھا.شام کو پہاڑی دروازے یعنی شمال کی طرف یا مشرق کی طرف سیر کرنے جایا کرتے تھے.194 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب اردو اور فارسی کے شعر کہا کرتے تھے اور فرخ تخلص کرتے تھے.195 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب دا دا صاحب کی کمال تابعداری کرتے تھے.افسروں وغیرہ کے ملنے کو خود طبیعت نا پسند کرتی تھی.لیکن دادا صاحب کے حکم سے کبھی کبھی چلے جاتے تھے.196 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے ، کہ میں نے مرز اسلطان احمد صاحب سے پوچھا کہ حضرت صاحب کے ابتدائی حالات اور عادات کے متعلق آپ کو جو علم ہو وہ بتائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ والد صاحب ہر وقت دین کے کام میں لگے رہتے تھے.گھر والے اُن پر پور اعتماد کرتے تھے.گاؤں والوں کو بھی اُن پر پورا اعتبار تھا.شریک جو ویسے مخالف تھے.اُن کی نیکی کے اتنے قائل تھے کہ جھگڑوں میں کہ دیتے تھے کہ جو کچھ یہ کہہ دیں گے ہم کو منظور ہے.ہر شخص اُن کو امین جانتا تھا.مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ کچھ اور بتائیے.مرزا صاحب نے کہا اور بس یہی ہے کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری بلکہ فقیر کے طور پرگزاری.اور مرزا صاحب نے اسے بار بار دہرایا.مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے؟ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ اُن کی ناراضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی.بعض
سیرت المہدی 201 حصہ اوّل اوقات مجھے نماز کے لئے کہا کرتے تھے مگر میں نماز کے پاس تک نہ جاتا تھا.ہاں ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحب ( یعنی آنحضرت ﷺ کے متعلق والد صاحب ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان میں ذراسی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جا تا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو بار بارد ہرایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا.خاکسار عرض کرتا ہے حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ جب دسمبر ۱۹۰۷ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا اور دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لئے بھیجا.مگر آریوں نے خلاف وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت ﷺ کے متعلق سخت بد زبانی سے کام لیا.اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اُٹھ آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک مجلس میں برا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیرت دینی سے کام نہ لیا.جب انہوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اُٹھ آنا چاہیے تھا.اور حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ میں اس وقت اٹھنے بھی لگا تھا مگر پھر مولوی صاحب کی وجہ سے ٹھہر گیا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت صاحب نارض ہو رہے تھے تو آپ نے مجھ سے کہا کہ حافظ صاحب وہ کیا آیت ہے کہ جب خدا کی آیات سے ٹھٹھا ہو تو اس مجلس میں نہ بیٹھو اس پر میں نے حَتَّى يَخُرُ ضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ (النساء: ۱۴۱) والی آیت پڑھ کر سنائی اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت مولوی صاحب سر نیچے ڈالے بیٹھے تھے.197 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ میاں جان محمد والد صاحب کے ساتھ بہت رہتا تھا اور میاں جان محمد کا بھائی غفارہ
سیرت المہدی 202 حصہ اوّل والد صاحب کے ساتھ سفروں میں بعض دفعہ بطور خدمت گار کے جایا کرتا تھا.اور بعض دفعہ کوئی اور آدمی چلا جاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد قادیان کا ایک نیک مزاج ملا تھا اور حضرت صاحب کے ساتھ بہت تعلق رکھتا تھا.اوائل میں بڑی مسجد میں نماز وغیرہ بھی وہی پڑھایا کرتا تھا غالبا حضرت خلیفہ ثانی کو بھی بچپن میں اُس نے پڑھایا تھا.غفارا اُس کا بھائی تھا ، یہ شخص بالکل جاہل اور ان پڑھ تھا.اور بعض اوقات حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا.بعد میں جب قادیان میں آمد و رفت کی ترقی ہوئی تو اس نے لگے بنا کر یگہ بانی شروع کر دی تھی.اس کے لڑکے اب بھی یہی کام کرتے ہیں بوجہ جاہل مطلق ہونے کے غفارے کو دین سے کوئی مس نہ تھا مگر اپنے آخری دنوں میں یعنی بعہد خلافت ثانیہ احمدی ہو گیا تھا.شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کی نصیحت سے غفارے نے اوائل میں جب وہ حضرت صاحب کی خدمت میں تھا نماز شروع کر دی تھی مگر پھر چھوڑ دی.اصل میں ایسے لوگ اعراب کے حکم میں ہوتے ہیں مگر جان محمد مرحوم نیک آدمی تھا اور کچھ پڑھا ہوا بھی تھا.اُس کے لڑکے میاں دین محمد مرحوم عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہونگے.قوم کا کشمیری تھا.198 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے، کہ ہمارے ساتھ والد صاحب کے بہت کم تعلقات تھے.یعنی میل جول کم تھا.وہ ہم سے ڈرتے تھے اور ہم اُن سے ڈرتے تھے ( یعنی وہ ہم سے الگ الگ رہتے تھے اور ہم اُن سے الگ الگ رہتے تھے کیونکہ ہر دو کا طریق اور مسلک جدا تھا ) اور چونکہ تایا صاحب مجھے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے اور جائداد وغیرہ بھی سب اُنہی کے انتظام میں تھی.والد صاحب کا کچھ دخل نہ تھا اس لئے بھی ہمیں اپنی ضروریات کے لئے تایا صاحب کے ساتھ تعلق رکھنا پڑتا تھا.199 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب کی ایک بہن ہوتی تھیں ان کو بہت خواب اور کشف ہوتے تھے.مگر دادا صاحب کی ان کے متعلق یہ رائے تھی کہ ان کے دماغ میں کوئی نقص ہے.لیکن آخر انہوں نے بعض ایسی
سیرت المہدی 203 حصہ اوّل خواہیں دیکھیں کہ دادا صاحب کو یہ خیال بدلنا پڑا.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کوئی سفید ریش بڑھا شخص ان کو ایک کاغذ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے بطور تعویذ کے دے گیا ہے.جب آنکھ کھلی تو ایک بھوج پتر کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا جس پر قرآن شریف کی بعض آیات لکھی ہوئی تھیں.پھر انہوں نے ایک اور خواب دیکھا کہ وہ کسی دریا میں چل رہی ہیں جس پر انہوں نے ڈر کر پانی پانی کی آواز نکالی اور پھر آنکھ کھل گئی.دیکھا تو ان کی پنڈلیاں تر تھیں اور تازہ ریت کے نشان لگے ہوئے تھے.دادا صاحب کہتے تھے کہ ان باتوں سے خلل دماغ کو کوئی تعلق نہیں.200 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ والد صاحب سخت بیمار ہو گئے اور حالت نازک ہوگئی اور حکیموں نے ناامیدی کا اظہار کر دیا اور نبض بھی بند ہوگئی مگر زبان جاری رہی.والد صاحب نے کہا کہ کیچڑ لا کر میرے اوپر اور نیچے رکھو چنا نچہ ایسا کیا گیا اور اس سے حالت رو با صلاح ہو گئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ یہ مرض قولنج زمیری کا تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھا یا تھا کہ پانی اور ریت منگوا کر بدن پر ملی جاوے.سوایسا کیا گیا تو حالت اچھی ہو گئی.مرزا سلطان احمد صاحب کو ریت کے متعلق ذہول ہو گیا ہے.201 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طور پر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عید گاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی.خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اور میں نے اس وقت دل میں یہ سمجھا تھا کہ چونکہ اس قبرستان میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی.مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کیلئے لے
سیرت المہدی 204 حصہ اوّل گئے تھے اور آپ خود اسے اٹھا کر قبر کے پاس لے گئے.کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی.202 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ میرے چچا مولوی شیر محمد صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ اوائل میں بعض اوقات حضرت مسیح موعود بھی حضرت مولوی نورالدین صاحب کے درس میں چلے جایا کرتے تھے.ایک دفعہ مولوی صاحب نے درس میں بدر کی جنگ کے موقع پر فرشتے نظر آنے کا واقعہ بیان کیا اور پھر اس کی کچھ تاویل کرنے لگے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کے دیکھنے میں نبی کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شریک ہو گئے ہوں.203 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تھا اس دن میں نے حضرت صاحب کو باغ میں آٹھ نو بجے صبح کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی تھی.204 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دن حضرت صاحب شمال کی طرف سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں کسی نے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا کہ ذلک لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ اَخْنُهُ بِالْغَيْبِ (یوسف : ۵۳) والی آیت کے متعلق مولوی نورالدین صاحب نے بیان کیا ہے کہ یہ زلیخا کا قول ہے.حضرت صاحب نے کہا کہ مجھے کوئی قرآن شریف دکھاؤ چنانچہ ماسٹر عبدالرؤف صاحب نے حمائل پیش کی آپ نے آیت کا مطالعہ کر کے فرمایا کہ یہ تو زلیخا کا کلام نہیں ہوسکتا.یہ یوسف علیہ السلام کا کلام ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے دوسرے طریق پر سنا ہے کہ اس وقت وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَا مَّارَةٌ بِالسُّوءِ (يوسف: (۵۴) کے الفاظ کا ذکر تھا اور یہ کہ حضرت صاحب نے اس وقت فرمایا تھا کہ یہ الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ زلیخا کا کلام نہیں بلکہ نبی کا کلام ہے کیونکہ ایسا پاکیزہ، پر معنی کلام یوسف ہی کے شایان شان ہے.زلیخا کے منہ سے نہیں نکل سکتا تھا.
سیرت المہدی 205 حصہ اوّل 205 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ والد صاحب عموماً غرارا پہنا کرتے تھے.مگر سفروں میں بعض اوقات تنگ پاجامہ بھی پہنتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ ناظرین بھی سمجھتے ہوں گے.مرزا سلطان احمد صاحب کی سب روایات حضرت مسیح موعود کے زمانہ شباب یا کہولت کے متعلق سمجھنی چاہئیں.طفولیت یا بڑھاپے کی عمر کے متعلق اگر ان کی کوئی روایت ہو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عموماً انہوں نے وہ کسی اور سے سن کر بیان کی ہے.کیونکہ اس زمانہ میں انکا تعلق حضرت مسیح موعود سے نہیں رہا تھا.الا ماشاء اللہ.206 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے کہ میں نے مرز اسلطان احمد صاحب سے سوال کیا تھا کہ حضرت صاحب سے زیادہ تر قادیان میں کن لوگوں کی ملاقات تھی؟ مرزا صاحب نے کہا کہ ملا وامل اور شرم پت ہی زیادہ آتے جاتے تھے کسی اور سے ایسا راہ و رسم نہ تھا.207 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے.راستے میں انہوں نے دادا صاحب سے کہا کہ آپکے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے؟ دادا صاحب نے کہا کہ گاؤں چل کر جواب دوں گا.جب قادیان پہنچے تو دادا صاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہوئے ہیں مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سکھوں کی حکومت قدیم شاہی رنگ کے طرز پر تھی.اب اور رنگ ہے اور ہر رنگ اپنی خوبیاں رکھتا ہے.208 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ میں نے تحصیلداری کا امتحان ۱۸۸۴ء میں دیا تھا اس وقت میں نے والد صاحب کو دعا کیلئے ایک رقعہ لکھا تو انہوں نے رقعہ پھینک دیا اور فرمایا ”ہمیشہ دنیا داری ہی کے طالب
سیرت المہدی 206 حصہ اوّل ہوتے ہیں.جو آدمی رقعہ لے کر گیا تھا اس نے آکر مجھے یہ واقعہ بتایا.اس کے بعد والد صاحب نے ایک اسے ذکر کیا کہ ہم نے تو سلطان احمد کا رقعہ پھینک دیا تھا مگر خدا نے ہمیں القاء کیا ہے کہ اس کو پاس کر دیا جاوے گا“.اس شخص نے مجھے آکر بتا دیا چنانچہ میں امتحان میں پاس ہو گیا.209 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب نے قریباً ساٹھ سال طبابت کی.مگر کبھی کسی سے ایک پائی تک نہیں لی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب نے کبھی علاج کے معاوضہ میں کسی سے کچھ نہیں لیا یعنی اپنی طبابت کو ہمیشہ ایک خیراتی کام رکھا اور اس کو اپنی معاش کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ بعض دفعہ بعض لوگوں نے آپ کو بہت بہت کچھ دینا چاہا مگر آپ نے انکار کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے.مجھے تعجب آتا ہے کہ میاں معراج دین صاحب عمر نے اپنے مضمون میں ہمارے دادا صاحب کے متعلق یہ کس طرح لکھ دیا کہ خوش قسمتی سے طبابت کا جو ہر ہاتھ میں تھا اس کی بدولت گذارا چلتا گیا.اور پھر یہ بات اس زمانہ کے متعلق لکھی ہے کہ جب پڑدادا صاحب کی وفات ہوئی تھی.چه خوش یک نہ شد دو شد 210 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ والد صاحب رجب علی کا اخبار سفیر امرتسر اور اگنی ہوتری کا رسالہ ”ہندو بندو اور اخبار منشور محمدی منگایا اور پڑھا کرتے تھے اور مؤخر الذکر میں کبھی کبھی کوئی مضمون بھی بھیجا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری عمر میں حضرت صاحب اخبار عام لاہور منگایا کرتے تھے.211 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جس دن میں قادیان بیاہی ہوئی پہنچی تھی اسی دن مجھ سے چند گھنٹے قبل مرزا سلطان احمد اپنی پہلی بیوی یعنی عزیز احمد کی والدہ کو لے کر قادیان پہنچے تھے.اور عزیز احمد کی والدہ مجھ سے کچھ بڑی معلوم ہوتی تھیں اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ فضل احمد کی شادی مرزا سلطان احمد سے بھی کئی سال پہلے ہو چکی تھی.
سیرت المہدی 207 حصہ اوّل 212 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب کے ایک حقیقی ماموں تھے ( جن کا نام مرزا جمعیت بیگ تھا) ان کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئے اور ان کے دماغ میں کچھ خلل آ گیا تھا.لڑکے کا نام مرزا علی شیر تھا اور لڑکی کا نام حرمت بی بی.لڑکی حضرت صاحب کے نکاح میں آئی اور اسی کے بطن سے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے.مرزا علی شیر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن حرمت بی بی سے بیاہا گیا جس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیدا ہوئی.یہ عزت بی بی مرز افضل احمد کے نکاح میں آئی.مرزا احمد بیگ کی دوسری بہن امام بی بی مرزا غلام حسین کے عقد میں آئی تھی.مرزا سلطان احمد کی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھی اور حضرت صاحب اس کو اچھا جانتے تھے.مرزا سلطان احمد نے اسی بیوی کی زندگی میں ہی مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکاح ثانی کر لیا تھا اس کے بعد عزیز احمد کی والدہ جلد ہی فوت ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دادی یعنی تمہارے دادا صاحب کی والدہ بہت عرصہ تک زندہ رہیں.حضرت مسیح موعود نے ان کو دیکھا تھا مگر بوجہ درازئی عمران کے ہوش وحواس میں کچھ فرق آگیا تھا.تمہارے دادا صاحب کے بھائی مرزا غلام محی الدین کی اولاد کی تفصیل یہ ہے اول حرمت بی بی جو تمہارے تایا صاحب مرز اغلام قادر صاحب کے عقد میں آئیں اور اب تائی کے نام سے معروف ہیں ان کے ہاں ایک لڑکی عصمت اور ایک لڑکا عبدالقادر پیدا ہوئے تھے مگر بچپن میں ہی فوت ہو گئے دوسرے مرزا امام الدین.تیسرے مرزا نظام الدین.چوتھے مرزا کمال الدین.پانچویں عمر النساء اور صفتاں جو تو ام پیدا ہوئیں.ان میں سے مقدم الذکر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے نکاح میں آئی اور مؤخر الذکر ہوشیار پور کے ضلع میں کسی جگہ بیاہی گئی تھی مگر بے اولا د فوت ہوگئی.چھٹے فضل النساء جو مرزا اعظم بیگ لاہوری کے لڑکے مرزا اکبر بیگ کے عقد میں آئی.مرزا احسن بیگ صاحب جو احمدی ہیں انہی کے بطن سے ہیں.نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مرزا امام الدین حضرت صاحب سے بڑے تھے باقی سب باستثناء تمہاری تائی کے جو مرزا امام الدین سے بھی بڑی ہیں حضرت صاحب سے چھوٹے تھے.اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تائی تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب سے بھی کچھ بڑی ہیں نیز والدہ صاحبہ نے
سیرت المہدی 208 حصہ اوّل بیان کیا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ تمہارے تایا کے بعد تمہارے دادا کے ہاں دولڑ کے پیدا ہو کر فوت ہو گئے تھے اسی لئے میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی ولادت پر آپ کے زندہ رہنے کے متعلق بڑی منتیں مانی گئی تھیں اور گویا ترس ترس کر حضرت صاحب کی پرورش ہوئی تھی.اگر تمہارے تایا اور حضرت صاحب کے درمیان کوئی غیر معمولی وقفہ نہ ہوتا یعنی بچے پیدا ہو کر فوت نہ ہوتے تو اس طرح منتیں ماننے اور ترسنے کی کوئی وجہ نہ تھی پس ضرور چند سال کا وقفہ ہوا ہو گا اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ شاید پانچ یا سات سال کا وقفہ تھا.اور والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تمہارے دادا کے ہاں ایک لڑکا ہوا جو فوت ہو گیا پھر تمہاری پھوپھی مراد بی بی ہوئیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے پھر ایک دو بچے ہوئے جو فوت ہو گئے پھر حضرت صاحب اور جنت توام پیدا ہوئے اور جنت فوت ہوگئی اور والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ تمہاری تائی کہتی تھیں کہ تمہارے تایا اور حضرت صاحب اوپر تلے کے تھے مگر جب میں نے منتیں مانے اور ترسنے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا مگر اصل امر کے متعلق خاموش رہیں.213 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطه مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے راجہ تیجا سنگھ کو ایک خطر ناک قسم کا پھوڑا نکلا.بہت علاج کئے گئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا آخر اس نے دادا صاحب کی خدمت میں آدمی بھیجا.دادا صاحب گئے اور ( خدا کے فضل سے ) وہ اچھا ہو گیا.اس پر راجہ مذکور نے دادا صاحب کو ایک بڑی رقم اور خلعت اور دو گاؤں شتاب کوٹ اور حسن پوریا حسن آباد جو آپکی قدیم ریاست کا ایک جزو تھے پیش کئے اور ان کے قبول کرنے پر اصرار کیا مگر دادا صاحب نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میں ان دیہات کو علاج کے بدلے میں لینا اپنے اور اپنی اولاد کیلئے موجب ہتک سمجھتا ہوں.214 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ دادا صاحب نہایت وسیع الاخلاق تھے اور دشمن تک سے نیک سلوک کرنے میں دریغ نہ
سیرت المهدی 209 حصہ اوّل کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جوتی ولد دولہ برہمن جس نے ایک دفعہ ہمارے خلاف کوئی شہادت دی تھی بیمار ہو گیا تو دادا صاحب نے اس کا بڑی ہمدردی سے علاج کیا اور بعض لوگوں نے جتلایا بھی کہ یہ وہی شخص ہے جس نے خلاف شہادت دی تھی.مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی.ایسی ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کی بلند ہمتی اور وسعت حوصلہ مشہور ہے.215 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ دادا صاحب شعر بھی کہا کرتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے.چنانچہ ان کے دوشعر مجھے یاد ہیں.اے وائے کہ مابه ما چه کردیم دردسر من مشو طبيبا کردیم ناکردنی ہمہ عمر این درد دل است در دسر نیست خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کے بعض شعر حضرت صاحب نے بھی نقل کئے ہیں.اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اُن کا کلام جمع کر کے حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر پنجابی اخبار کو دیا تھا مگر وہ فوت ہو گئے.اور پھر نہ معلوم وہ کہاں گیا.نیز مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ تایا صاحب بھی شعر کہتے تھے انکا تخلص مفتون تھا.نیز بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی قادیان میں آیا تھا وہ دادا صاحب سے کہتا تھا کہ آپ کا فارسی کلام ایسا ہی فصیح ہے جیسا کہ ایرانی شاعروں کا ہوتا ہے.216 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک ہندو حجام نے دادا صاحب سے کہا کہ میری معافی ضبط ہوگئی ہے آپ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر سے میری سفارش کریں.دادا صاحب اُسے اپنے ساتھ لاہور لے گئے.اُس وقت لاہور کے شالا مار باغ میں ایک جلسہ ہو رہا تھا.دادا صاحب نے وہاں جا کر جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد ایجرٹن صاحب سے کہا کہ آپ اس شخص کا ہاتھ پکڑ لیں.صاحب گھبرایا کہ کیا معاملہ ہے مگر دادا صاحب نے اصرار سے کہا تو اس نے ان کی خاطر اس حجام کا ہاتھ پکڑ لیا.اس کے بعد دادا صاحب نے صاحب سے کہا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے کہ جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تو پھر خواہ سر چلا جائے
سیرت المہدی 210 حصہ اوّل چھوڑتے نہیں.اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا ہے اس کی لاج رکھنا.پھر کہا کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے.کیا معافیاں دیکر بھی ضبط کیا کرتے ہیں ؟ اس کی معافی بحال کر دیں.ایجرٹن صاحب نے اس کی مسل طلب کر کے معافی بحال کر دی.یہی ایجرٹن صاحب بعد میں پنجاب کا لفٹیننٹ گورنر ہو گیا تھا.217 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ دادا صاحب میں خود داری بہت تھی.ایک دفعہ رابرٹ کسٹ صاحب کمشنر سے ملاقات کیلئے گئے.باتوں باتوں میں اس نے پوچھا کہ قادیان سے سری گوبند پور کتنی دور ہے؟ دادا صاحب کو یہ سوال ناگوار ہوا.فوراً بولے میں ہرکارہ نہیں اور سلام کہہ کر رخصت ہونا چاہا.صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ ناراض ہو گئے ؟ دادا صاحب نے کہا کہ ہم آپ سے اپنی باتیں کرنے آتے ہیں اور آپ ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے ہیں جو آپ نے مجھ سے پوچھا ہے وہ میرا کام نہیں ہے.صاحب داداصاحب کے اس جواب پر خوش ہوا.218 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں مہتم بند و بست تھا اوران کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا.قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھا اور محکمہ بندوبست مذکور میں کام کرتا تھا.تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا.تایا صاحب نے وہیں اسکی مرمت کر دی.ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی.اُس نے تایا صاحب پر ایک سورو پیہ جرمانہ کر دیا.دادا صاحب اُس وقت امرتسر میں تھے ان کو اطلاع ہوئی تو فوراً ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی اس نے دادا صاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا.219 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ تا یا صاحب پولیس میں ملازم تھے.نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع نے کسی بات پر اُن کو معطل کر دیا اس کے بعد جب نسبٹ صاحب قادیان آیا تو خود دادا صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لڑکے کو معطل کر دیا ہے دادا صاحب نے کہا کہ اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہئے کہ
سیرت المہدی 211 حصہ اوّل آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں.صاحب نے کہا جس کا باپ ایسا ادب سکھانے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں.اور تایا صاحب کو بحال کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے بھی بہت سے محکموں میں کام کیا ہے.پولیس میں بھی کام کیا ہے.ضلع کے سپر نٹنڈنٹ بھی رہے ہیں.اور سُنا ہے نہر میں بھی کام کیا تھا اور بعض کا غذات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی ہے.چنانچہ میں نے ۱۸۶۰ء کے بعض کا غذات دیکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے چھینہ کے پاس کسی پل کا بھی ٹھیکہ لیا تھا.220 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ مہا راجہ شیر سنگھ کا ہندوان کے چھنب میں شکار کھیلنے کے لئے آیا.دادا صاحب بھی ساتھ تھے.مہاراجہ کے ایک ملازم کو جو قوم کا جولاہا تھا سخت زکام ہو گیا.دادا صاحب نے اس کو ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ اچھا ہو گیا.لیکن پھر یہی بیماری خود شیر سنگھ کو ہو گئی.اور اس نے علاج کے لئے دادا صاحب سے کہا.دادا صاحب نے ایک بڑا قیمتی نسخہ لکھا.شیر سنگھ نے کہا کہ جولا ہے کو دو ڈھائی پیسہ کا نسخہ اور مجھے اتنا قیمتی؟ دادا صاحب نے جواب دیا.شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے.شیر سنگھ اس جواب سے بہت خوش ہوا.اور اُس زمانہ کے دستور کے مطابق عزت افزائی کے لئے سونے کے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اس علاج کے بدلہ میں نہ تھی بلکہ مشرقی رؤساء اور بادشاہوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی بات پر خوش ہوتے ہیں تو ضرور کچھ چیز تقریب و انعام کے طور پر پیش کرتے ہیں.شیر سنگھ نے بھی جب ایسا برجستہ کلام سُنا تو محظوظ ہو کر اس صورت میں اظہار خوشنودی کیا.221 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ مرزا امام الدین صاحب نے دادا صاحب کے قتل کی سازش کی اور بھینی کے ایک سکھ سو چیت سنگھ کو اس کام کیلئے مقر رکیا.مگر سوچیت سنگھ کا بیان ہے کہ میں کئی دفعہ دیوان خانہ کی دیوار پر اس نیت سے چڑھا مگر ہر دفعہ مجھے مرزا صاحب یعنی دادا صاحب کے ساتھ دو آدمی محافظ نظر آئے اس لئے میں جرات نہ کر سکا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی تصرف الٹی ہوگا.
سیرت المہدی 212 حصہ اوّل 222 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ دادا صاحب حقہ بہت پیتے تھے مگر اس میں بھی اپنی شان دکھاتے تھے یعنی جو لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں ان کو اپنا حقہ نہیں دیتے تھے لیکن غریبوں اور چھوٹے آدمیوں سے کوئی روک نہ تھی.223 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ دادا صاحب کا تکیہ کلام ” ہے بات کہ نہیں تھا جو جلدی میں ہے باکہ نہیں سمجھا جاتا تھا، خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق اور بھی کئی لوگوں سے سنا گیا ہے.224) بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا.دادا صاحب نے اُس کی بڑی خاطر و مدارات کی.اس مولوی نے داد ا صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب! آپ نماز نہیں پڑھتے ؟ دادا صاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میری غلطی ہے.مولوی صاحب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے.آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے.اللہ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا.اس پر دادا صاحب کو جوش آ گیا اور کہا تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا؟.میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بدظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے.خدا فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر: (۵۴) تم مایوس ہوگے.میں مایوس نہیں ہوں.اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا.“ پھر کہا ” اسوقت میری عمر ۷۵ سال کی ہے.آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دیگا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگتا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنی دشمن کے مقابلہ میں ذلیل و رُسوا ہونے کے ہیں.ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں.225 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب سے تمہاری دادی فوت ہوئیں تمہارے دادا نے اندر زنانہ میں آنا چھوڑ دیا تھا.دن میں صرف ایک دفعہ تمہاری پھوپھی کو ملنے آتے تھے اور پھوپھی کے فوت ہونے کے بعد تو بالکل نہیں آتے تھے.باہر مردانے میں رہتے تھے.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حضرت والدہ صاحبہ نے کسی اور سے سنی ہوگی کیونکہ یہ واقعہ حضرت اماں
سیرت المہدی 213 حصہ اوّل جان کے قادیان تشریف لانے سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.) 226 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ داداصاحب نے طب کا علم حافظ روح اللہ صاحب باغبانپورہ لاہور سے سیکھا تھا.اسکے بعد دہلی جا کر تکمیل کی تھی.227 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی.اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں.میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ چوری نکال کر لے جایا کرتا تھا.چنانچہ والد صاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے.228 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے.غالباً نو جوانی کا کلام ہے.حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے جسے میں پہچانتا ہوں.بعض بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں..عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے کچھ مزا پایا مرے دل ! ابھی کچھ پاؤ گے تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے اسکے جانے سے صبر دل سے گیا ہوش بھی ورطہ عدم میں پڑے کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے کوئی خداوندا بنا دے سبب کرم فرما کے آ او میرے جانی بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر ولا اک بار شوروغل مچادے نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پا کی سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی مرے بت! اب سے پردہ میں رہو تم کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
سیرت المہدی 214 حصہ اوّل نہیں منظور تھی گر تم کو اُلفت تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا مری دلسوزیوں سے سے بے خبر ہو مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا دل اپنا اسکو دوں یا ہوش یا جاں کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا کوئی راضی ہو یا ناراض ہو وے رضا مندی خدا کی مدعا کر اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے مگر پہلا ندارد.بعض اشعار نظر ثانی کیلئے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص مگر استعمال کیا ہے.229 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا تھا اور ۲۲ طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے مگر والد صاحب کی شادی نہایت سادہ ہوئی تھی.اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم نہیں ہوئیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی تصرف الہی تھاور نہ دادا صاحب کو دونوں بیٹے ایک سے تھے.( نیز یہ طائفے ان لوگوں کی وجہ سے آئے ہوں گے جو ایسے تماشوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ خود دادا صاحب کو ایسی باتوں میں شغف نہیں تھا.) 230 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ہماری دادی صاحبہ بڑی مہمان نوازیخی اور غریب پرور تھیں.231 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب سیشن عدالت میں اسیسر مقرر ہوئے تھے مگر آپ نے انکار کر دیا.(اس جگہ دیکھوروایت نمبر۳۱۳) 232 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ آخری عمر میں دادا صاحب نے ایک مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا اور اسکے لئے موجودہ
سیرت المہدی 215 حصہ اوّل بڑی مسجد ( یعنی مسجد اقصی کی جگہ کو پسند کیا اس جگہ سکھ کا داروں کی حویلی تھی.جب یہ جگہ نیلام ہونے لگی تو دادا صاحب نے اس کی بولی دی مگر دوسری طرف دوسرے باشندگان قصبہ نے بھی بولی دینی شروع کی اور اس طرح قیمت بہت چڑھ گئی.مگر دادا صاحب نے بھی پختہ قصد کر لیا تھا کہ میں اس جگہ میں ضرور مسجد بناؤں گا خواہ مجھے اپنی کچھ جائداد فروخت کرنی پڑے.چنانچہ سات سو روپیہ میں یہ جگہ خریدی اور اس پر مسجد بنوائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت کے لحاظ سے اس جگہ کی قیمت چند گنتی کے روپے سے زیادہ نہ تھی مگر مقابلہ سے بڑھ گئی.233 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری تائی کے سارے گھر میں صرف مرز اعلی شیر کی ماں یعنی مرزا سلطان احمد کی نانی جو حضرت صاحب کی ممانی تھی حضرت صاحب سے محبت رکھتی تھی اور ان کی وجہ سے مجھے بھی اچھا سمجھتی تھی باقی سب مخالف ہو گئے تھے.میں جب اُس طرف جاتی تھی تو وہ مجھے بڑی محبت سے ملتی تھی اور کہا کرتی تھی.ہائے افسوس ! یہ لوگ اسے ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیوں بددعائیں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں.اسے میری چراغ بی بی نے کتنی منتوں سے ترس ترس کر پالا تھا اور کتنی محبت اور محنت سے پرورش کی تھی.والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ وہ بہت بوڑھی ہوگئی تھی اور وقت گزارنے کے لئے چرخہ کاتی رہتی تھی.حضرت صاحب کو بھی اس سے محبت تھی اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہاری تائی کہتی ہیں کہ حضرت صاحب کی ممانی کا نام بھی تمہاری دادی کی طرح چراغ بی بی تھا.234 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ اُن سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی وہ بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی ”میاں اُن کو ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیا ہوش ہے.یا کتابیں ہیں اور یا وہ ہیں“.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے تمہید میں یہ لکھا تھا کہ میں بغرض سہولت تمام روایات صرف اردو زبان میں بیان کروں گا.خواہ وہ کسی زبان میں کہی گئی ہوں.سو جانا چاہیے کہ فقرہ مندرجہ بالا بھی دراصل پنجابی میں کہا گیا تھا.یہ صرف بطور مثال کے عرض کیا گیا ہے نیز ایک اور عرض بھی ضروری ہے کہ جہاں خاکسار نے یہ لکھا
سیرت المہدی 216 حصہ اوّل ہے کہ ” بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے“ اس سے مطلب یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو میں نے کوئی معتین سوال دے کر مرزا صاحب موصوف کے پاس بھیجا اور اس کا جو جواب مرزا صاحب کی طرف سے دیا گیا وہ نقل کیا گیا اور جہاں مولوی صاحب کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے وہاں میرے کسی معتین سوال کا جواب نہیں بلکہ جو مرزا صاحب نے دوران گفتگو میں مولوی صاحب کو کوئی بات بتائی وہ فقل کی گئی ہے.235 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ہیضہ پھوٹا اور چوہڑوں کے محلہ میں کیس ہونے شروع ہوئے.دادا صاحب اُس وقت بٹالہ میں تھے یہ خبر سن کر قادیان آگئے اور چوہڑوں کے محلہ کے پاس آ کر ٹھہر گئے اور چوہڑوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا.اور ان کو تسلی دی اور پھر حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ.کشئے.گرہ (یعنی قند سیاہ لیتے آویں اور پھر اُن کو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا اور کہا کہ جو چاہے گڑ والا پیئے اور جو چاہے نمک والا پیئے.کہتے ہیں کہ دوسرے دن مرض کا نشان مٹ گیا.236 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا.ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی.سا را کمرہ دھوئیں کی طرح ہو گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا.اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا.بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا.دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اسکو جلادیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات میں ایک مکان کی دوسری منزل پر سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز
سیرت المہدی 217 حصہ اوّل آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے.انہوں نے کہا کہ کوئی چوہا ہو گا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی.پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور وہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جاپڑی اور سب بچ گئے.ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہوا پایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا.مگر ہر دو بار خدا نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا.ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی.ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور آگ کو بجھا دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ باتیں حضرت صاحب کی ڈائری سے لی گئی ہیں اور بچھو اور آگ لگنے کا واقعہ ضروری نہیں کہ سیالکوٹ سے متعلق ہو.237 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۸ پر حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں ” اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء میں اسی زمانہ کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا.جناب خاتم الانبیاء ﷺ کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تصنیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے، جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کمال استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت ﷺ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی.اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا.مگر بقدر تر بوز تھا.آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کیلئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہر نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر
سیرت المہدی 218 حصہ اوّل گیا.تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزے سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور بڑے حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوہ فرما الله رہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھے کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی.اور اس نے وہیں کھالی پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اور اسلام کی تازگی اور ترقی کی اشارت تھی تب اسی نور کا مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی.“ ( خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس رویا میں یہ اشارہ تھا کہ آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدمتِ دین کا کوئی ایسا عظیم الشان کام لیا جائے گا کہ جس سے اسلام میں جو مردہ کی طرح ہو رہا ہے پھر زندگی کی روح عود کر آئے گی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ رویا غالباً ۱۸۶۴ء سے بھی پہلے کا ہو گا.کیونکہ ۱۸۶۴ء میں تو آپ سیالکوٹ میں ملازم ہو چکے تھے.) 66 238 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۲۰ پر لکھتے ہیں کہ اس برکت کے بارے میں ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا جس کو اس جگہ لکھنا مناسب ہے اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے.جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو ان کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب مدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اس کے کہنے کہانے پر یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو مع ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا.پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کوسن کر معلوم کر لیا
سیرت المہدی 219 حصہ اوّل کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا.رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ”تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے پھر بعد اس کے کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے.جوگھوڑوں پر سوار تھے.“ 239 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میری نانی اماں صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب تمہارے نانا کی بدلی کا ہندوان میں ہوئی تھی.میں بیمار ہوگئی تو تمہارے نانا مجھے ڈولی میں بٹھلا کر قادیان تمہارے دادا کے پاس علاج کے لئے لائے تھے.اور اسی دن میں واپس چلی گئی تھی.تمہارے دادا نے میری نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا تھا.اور تمہارے نانا کو یہاں اور ٹھہرنے کے لئے کہا تھا.مگر ہم نہیں ٹھہر سکے.کیونکہ پیچھے تمہاری اماں کو اکیلا چھوڑ آئے تھے.نیز نانی اماں نے بیان کیا کہ جس وقت میں گھر میں آئی تھی میں نے حضرت صاحب کو پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا کہ ایک کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے رحل پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے تھے.میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے.قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے.نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مجھے اپنی اماں اور ابا کا مجھے اکیلا چھوڑ کر قادیان آنے کے متعلق صرف اتنا یاد ہے کہ میں شام کے قریب بہت روئی چلائی تھی کہ اتنے میں ابا گھوڑا بھگاتے ہوئے گھر میں پہنچ گئے اور مجھے کہا کہ ہم آگئے ہیں.240 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب کی ساری عمر جہاد کی صف اول میں ہی گذری ہے.لیکن با قاعدہ مناظرے آپ نے صرف پانچ کئے ہیں.اول.ماسٹر مرلی دھر آریہ کے ساتھ بمقام ہوشیار پور مارچ ۱۸۸۶ء میں.اس کا ذکر آپ نے سرمہ چشم آریہ میں کیا ہے.دوسرے.مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بمقام لدھیانہ ، جولائی ۱۸۹۱ء میں.اس کی کیفیت رسالہ الحق لدھیانہ میں چھپ چکی ہے.
سیرت المہدی 220 حصہ اوّل تیسرے.مولوی محمد بشیر بھو پالوی کے ساتھ بمقام دہلی اکتوبر ۱۸۹۱ء میں.اس کی کیفیت رسالہ الحق دہلی میں چھپ چکی ہے.چو تھے.مولوی عبدالحکیم کلانوری کے ساتھ ہم مقام لاہور جنوری و فروری ۱۸۹۲ء میں.اس کی روئداد شائع نہیں ہوئی صرف حضرت صاحب کے اشتہار مورخہ ۳ / فروری ۱۸۹۲ء میں اس کا مختصر ذکر پایا جاتا ہے.پانچویں.ڈپٹی عبداللہ اعظم مسیحی کے ساتھ بمقام امرتسر مئی وجون ۱۸۹۳ء میں.اس کی کیفیت جنگ مقدس میں شائع ہوچکی ہے.ان کے علاوہ دو اور جگہ مباحثہ کی صورت پیدا ہو کر رہ گئی.اوّل مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ بمقام بٹالہ ۶۹ یا ۱۸۶۸ء میں.اس کا ذکر حضرت صاحب نے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۲۰ پر کیا ہے.دوسرے.مولوی سید نذیر حسین صاحب شیخ الکل دہلوی کے ساتھ ہم مقام جامع مسجد دہلی بتاریخ ۲۰ را کتوبر ۱۸۹۱ء.اس کا ذکر حضرت کے اشتہارات میں ہے.241 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے منشی عطا محمد صاحب پٹواری نے کہ جب میں غیر احمدی تھا اور ونجواں ضلع گورداسپور میں پٹواری ہوتا تھا تو قاضی نعمت اللہ صاحب خطیب بٹالوی جن کے ساتھ میرا ملنا جلنا تھا.مجھے حضرت صاحب کے متعلق بہت تبلیغ کیا کرتے تھے.مگر میں پرواہ نہیں کرتا تھا.ایک دن انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا.میں نے کہا اچھا میں تمہارے مرزا کو خط لکھ کر ایک بات کے متعلق دعا کراتا ہوں اگر وہ کام ہو گیا تو میں سمجھ لوں گا کہ وہ بچے ہیں.چنانچہ میں نے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ آپ مسیح موعود اور ولی اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ولیوں کی دعائیں سنی جاتی ہیں.آپ میرے لئے دعا کریں کہ خدا مجھے خوبصورت صاحب اقبال لڑکا جس بیوی سے میں چاہوں عطا کرے.اور نیچے میں نے لکھ دیا کہ میری تین بیویاں ہیں مگر کئی سال ہو گئے آج تک کسی کے اولاد نہیں ہوئی.میں چاہتا ہوں کہ بڑی بیوی کے بطن سے لڑکا ہو.حضرت صاحب کی طرف سے مجھے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا لکھا ہوا خط گیا کہ مولا کے حضور دعا کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو فرزندار جمند صاحب اقبال خوبصوت لڑکا جس بیوی سے آپ چاہتے ہیں عطا کرے گا.مگر شرط یہ ہے کہ آپ ذکر یا والی تو بہ کریں منشی عطا محمد صاحب بیان کرتے
سیرت المہدی 221 حصہ اوّل ہیں کہ میں ان دنوں سخت بے دین اور شرابی کبابی راشی مرتشی ہوتا تھا.چنانچہ میں نے جب مسجد میں جا کر ملاں سے پوچھا کہ ذکریا والی تو بہ کیسی ہوتی ہے؟ تو لوگوں نے تعجب کیا کہ یہ شیطان مسجد میں کس طرح آگیا ہے.مگر وہ ملاں مجھے جواب نہ دے سکا.پھر میں نے دھرم کوٹ کے مولوی فتح دین صاحب مرحوم احمدی سے پوچھا انہوں نے کہا کہ زکریا والی تو بہ بس یہی ہے کہ بے دینی چھوڑ دو.حلال کھاؤ.نماز روزہ کے پابند ہو جاؤ اور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو.یہ سُن کر میں نے ایسا کرنا شروع کر دیا.شراب وغیرہ چھوڑ دی اور رشوت بھی بالکل ترک کر دی اور صلوۃ و صوم کا پابند ہو گیا.چار پانچ ماہ کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں ایک دن گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو روتے ہوئے پایا.سبب پوچھا تو اس نے کہا پہلے مجھ پر یہ مصیبت تھی کہ میرے اولاد نہیں ہوتی تھی آپ نے میرے اوپر دو بیویاں کیں.اب یہ مصیبت آئی ہے کہ میرے حیض آنا بند ہو گیا ہے گویا اولاد کی کوئی امید ہی نہیں رہی ) ان دنوں میں اس کا بھائی امرتسر میں تھا نہ دار تھا چنانچہ اس نے مجھے کہا کہ مجھے میرے بھائی کے پاس بھیج دو کہ میں کچھ علاج کرواؤں.میں نے کہا وہاں کیا جاؤ گی یہیں دائی کو بلا کر دکھلا ؤ اور اس کا علاج کرواؤ.چنانچہ اس نے دائی کو بلوایا اور کہا کہ مجھے کچھ دوا وغیرہ دو.دائی نے سرسری دیکھ کر کہا میں تو دوا نہیں دیتی نہ ہاتھ لگاتی ہوں.کیوں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تیرے اندر بھول گیا ہے یعنی تو تو بانجھ تھی مگر اب تیرے پیٹ میں بچہ معلوم ہوتا ہے.پس خدا نے تجھے (نعوذ باللہ) بھول کر حمل کروا دیا ہے.مؤلف ) اور اس نے گھر سے باہر آ کر بھی یہی کہنا شروع کیا کہ خدا بھول گیا ہے مگر میں نے اسے کہا کہ ایسانہ کہو بلکہ میں نے مرزا صاحب سے دعا کروائی تھی.پھر منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ میں حمل کے پورے آثار ظاہر ہو گئے اور میں نے اردگر دسب کو کہنا شروع کیا کہ اب دیکھ لینا کہ میرے لڑکا پیدا ہوگا اور ہوگا بھی خوبصورت مگر لوگ بڑا تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو واقعی بڑی کرامت ہے.آخر ایک دن رات کے وقت لڑکا پیدا ہوا اور خوبصورت ہوا.میں اسی وقت دھرم کوٹ بھا گا گیا.جہاں میرے کئی رشتہ دار تھے اور لوگوں کو اس کی پیدائش سے اطلاع دی چنا نچہ کئی لوگ اسی وقت بیعت کے لئے قادیان روانہ ہو گئے مگر بعض نہیں گئے اور پھر اس واقعہ پر ونجواں کے بھی بہت سے لوگوں نے بیعت کی اور میں نے بھی بیعت کر لی.اور لڑکے کا نام عبدالحق رکھا.منشی صاحب بیان کرتے ہیں
سیرت المہدی 222 حصہ اوّل کہ میری شادی کو بارہ سال سے زائد ہو گئے تھے.اور کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی.نیز منشی صاحب نے بیان کیا کہ میں پھر جب قادیان آیا تو ان دنوں میں مسجد کا راستہ دیوار کھینچنے سے بند ہوا تھا.میں نے باغ میں حضرت صاحب کو اپنی ایک خواب سنائی کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایک خربوزہ ہے جسے میں نے کاٹ کر کھایا ہے اور وہ بڑا شیریں ہے لیکن جب میں نے اس کی ایک پھاڑی عبدالحق کو دی تو وہ خشک ہو گئی.حضرت صاحب نے تعبیر بیان فرمائی کہ عبدالحق کی ماں سے آپ کے ہاں ایک اور لڑکا ہو گا مگر وہ فوت ہو جائے گا.چنانچہ منشی صاحب کہتے ہیں کہ ایک اور لڑکا ہوا مگر وہ فوت ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے عبدالحق کو دیکھا ہے خوش شکل اور شریف مزاج لڑکا ہے اس وقت ۱۹۲۲ء میں اس کی عمر کوئی بیس سال کی ہوگی.242 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اپنے دشمنوں کی طرف سے چھ مقدمات پیش آئے ہیں.چار فوج داری.ایک دیوانی اور ایک مالی اور ان سب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بشارتوں کے مطابق حضرت مسیح موعود کو دشمنوں پر فتح دی ہے.اور یہ مقدمات ان مقدمات کے علاوہ ہیں جو جائیداد وغیرہ کے متعلق دادا صاحب کی زندگی میں اور اُن کے بعد پیش آتے رہے.اوّل.سب سے پہلا مقدمہ یہ ہے جو بابو رلیا رام مسیحی وکیل امرتسر کی مخبری پر محکمہ ڈاک کی طرف سے آپ پر دائر کیا گیا تھا.یہ مقدمہ بہت پرانا ہے.یعنی براہین احمدیہ کی اشاعت سے بھی قبل کا ہے.( غالبا ۱۸۷۷ء کا) حضرت مسیح موعود نے اس کا کئی جگہ ذکر کیا ہے.مگر سب سے مفصل ذکر اس کا اُس خط میں ہے جو حضرت صاحب نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو اس کے فتویٰ تکفیر کے بعد لکھا تھا.اور جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہو چکا ہے.دوسرے.وہ خطر ناک فوجداری مقدمہ جو مارٹن کلارک مسیحی پادری نے اقدام قتل کے الزام کے ماتحت حضرت کے خلاف دائر کیا تھا.اس کی ابتدائی کارروائی یکم اگست ۱۸۹۷ء کو امرتسر میں بعدالت ای مارٹینو
سیرت المہدی 223 حصہ اوّل د پٹی کمشنرز امرتسر شروع ہوئی اور بالآ خر ۲۳ اگست ۱۸۹۷ء کو آپ ایم ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت سے بری کئے گئے.اس مقدمہ کی مفصل کیفیت کتاب البریہ میں چھپ چکی ہے.تیرے.مقدمہ حفظ امن زیر دفعہ ۷ اضابطہ فوجداری.جو بعدالت ہے.ایم ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصل ہوا.اور حضرت صاحب ضمانت کی ضرورت سے بری قرار دیئے گئے.یہ مقدمہ محمد بخش تھا نہ دار بٹالہ کی رپورٹ مورخہ یکم دسمبر ۱۸۹۸ء و درخواست مولوی محمد حسین بٹالوی برائے اسلحہ خود حفاظتی مورخه ۵/ دسمبر ۱۸۹۸ء پر مبنی تھا.اس کے متعلق حضرت صاحب نے اپنے اشتہار مورخہ ۲۶ فروری ۱۸۹۹ء میں ذکر کیا ہے اور الحکم کے نمبرات ماہ مارچ ۱۸۹۹ ء میں اس کی مفصل کیفیت درج ہے.چوتھے وہ لمبا اور تکلیف دہ فوجداری مقدمہ جو کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کی طرف سے اول اول جہلم میں اور پھر اس کے بعد گورداسپور میں چلایا گیا تھا اور بالآخر بعد الت اے.ای ہری سیشن جج امرتسر ے جنوری ۱۹۰۵ء کو فیصل ہوا.اور آپ بری کئے گئے.ماتحت عدالت کا فیصلہ بعدالت آتما رام مجسٹریٹ درجه اول گورداسپور ۸ اکتو بر۱۹۰۴ء کو ہوا تھا.اس مقدمہ کی کیفیت اخبار الحکم میں چھپتی رہی ہے یہ مقدمہ دراصل دوحصوں پر مشتمل تھا.پر پانچویں.وہ دیوانی مقدمہ جو حضرت صاحب کی طرف سے مرزا امام الدین ساکن قادیان کے خلاف دائر کیا گیا تھا.اس کی بنا یہ تھی کہ مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے راستہ کو ایک دیوا رکھینچ کر ے جنوری ۱۹۰۰ء کو بند کر دیا تھا.یہ مقدمہ ۱۲ اگست ۱۹۰۱ء کو بعدالت شیخ خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ حجج گورداسپور حضرت صاحب کے حق میں فیصل ہوا.اور ۲۰ اگست ۱۹۰۱ء کو دیوار گرائی گئی.اس کی کیفیت اخبار الحکم اور کچھ حقیقۃ الوحی میں شائع ہو چکی ہے.چھٹے.مقدمہ نکم ٹیکس جو ۷ار دسمبر ۱۸۹۷ء کو بعدالت ٹی.ڈکسن ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور فیصل ہوا اور حضرت صاحب پر انکم ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی.اس کی کیفیت ضرورۃ الامام میں شائع ہو چکی ہے.243) بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ مبارکہ (خاکسار کی ہمشیرہ) کا چلہ
سیرت المہدی 224 حصہ اوّل نہانے کے دو تین دن بعد میں اوپر کے مکان میں چار پائی پر بیٹھی تھی اور تم میرے پاس کھڑے تھے اور پھجو ( گھر کی ایک عورت کا نام ہے) بھی پاس تھی کہ تم نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اماں او پائی“ میں نہ کبھی.تم نے دو تین دفعہ دہرایا اور نیچے کی طرف اشارہ کیا جس پر پھیجو نے نیچے دیکھا تو ڈیوڑھی کے دروازے میں ایک سپاہی کھڑا تھا.پھیجو نے اسے ڈانٹا کہ یہ زنانہ مکان ہے تو کیوں دروازے میں آ گیا ہے اتنے میں مسجد کی طرف کا دروازہ بڑے زور سے کھٹکا.پتہ لگا کہ اس طرف سے بھی ایک سپاہی آیا ہے.حضرت صاحب اندر دالان میں بیٹھے ہوئے کچھ کام کر رہے تھے.میں نے محمود (حضرت خلیفہ اسیح ثانی) کو انکی طرف بھیجا کہ سپاہی آئے ہیں اور بلاتے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہو کہ میں آتا ہوں.پھر آپ نے بڑے اطمینان سے اپنا بستہ بند کیا اور اُٹھ کر مسجد کی طرف گئے وہاں مسجد میں انگریز کپتان پولیس کھڑا تھا اور اس کے ساتھ دوسرے پولیس کے آدمی تھے.کپتان نے حضرت صاحب سے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں لیکھرام کے قتل کے متعلق آپ کے گھر کی تلاشی لوں.حضرت صاحب نے کہا آئیے اور کپتان کو مع دوسرے آدمیوں کے جن میں بعض دشمن بھی تھے مکان کے اندر لے آئے اور تلاشی شروع ہوئی.پولیس نے مکان کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا ہوا تھا ہم عورتیں اور بچے ایک طرف ہو گئے.سب کمروں کی باری باری تلاشی ہوئی اور حضرت صاحب کے کاغذات وغیرہ دیکھے گئے.تلاش کرتے کرتے ایک خط نکلا جس میں کسی احمدی نے لیکھرام کے قتل پر حضرت صاحب کو مبارکباد لکھی تھی.دشمنوں نے اسے جھٹ کپتان کے سامنے پیش کیا کہ دیکھئے اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ حضرت صاحب نے کہا کہ ایسے خطوں کا تو میرے پاس ایک تھیلا رکھا ہے.اور پھر بہت سے خط کپتان کے سامنے رکھ دیئے.کپتان نے کہا نہیں کچھ نہیں.والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ جب کپتان نیچے سرد خانے میں جانے لگا تو چونکہ اس کا دروازہ چھوٹا تھا اور کپتان لمبے قد کا آدمی تھا اس زور کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ سے اسکا سر ٹکرایا کہ بیچارہ سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا، حضرت صاحب نے اس سے اظہار ہمدردی کیا اور پوچھا کہ گرم دودھ یا کوئی اور چیز منگوائیں ؟ اس نے کہا نہیں کوئی بات نہیں.مگر بیچارے کو چوٹ سخت آئی تھی.والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ حضرت صاحب اسے خود ایک کمرے سے دوسرے کی طرف لیجاتے تھے.اور ایک ایک چیز دکھاتے تھے.
سیرت المہدی 225 حصہ اوّل خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اس خانہ تلاشی کا ذکر اپنے اشتہار مورخہارا پریل ۱۸۹۷ء میں کیا ہے جہاں لکھا ہے کہ خانہ تلاشی ۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی اور نیز یہ کہ مہمان خانہ مطبع وغیرہ کی بھی تلاشی ہوئی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لیکھر ام ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہوا تھا اور اسکے قتل پر آریوں کی طرف سے ملک میں ایک طوفان عظیم برپا ہو گیا تھا.سنا گیا ہے کہ کئی جگہ مسلمان بچے دشمنوں کے ہاتھ سے ہلاک ہوئے اور حضرت صاحب کے قتل کے لئے بھی بہت سازشیں ہوئیں اور یہ خانہ تلاشی بھی غالباً آریوں ہی کی تحریک پر ہوئی تھی.244 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھالاؤ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی.بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ گھر میں میٹھی روٹیاں پکیں کیونکہ حضرت صاحب کو میٹھی روٹی پسند تھی جب حضرت صاحب کھانے لگے تو آپ نے اس کا ذائقہ بدلہ ہوا پایا.مگر آپ نے اس کا خیال نہ کیا کچھ اور کھانے پر حضرت صاحب نے کڑواہٹ محسوس کی اور والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ روٹی کڑوی معلوم ہوتی ہے؟ والدہ صاحبہ نے پکانے والی سے پوچھا اس نے کہا میں نے تو میٹھا ڈالا تھا والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ کہاں سے لے کر ڈالا تھا ؟ وہ برتن لاؤ.وہ عورت ایک ٹین کا ڈبہ اٹھالائی.دیکھا تو معلوم ہوا کہ کونین کا ڈبہ تھا اور اس عورت نے جہالت سے بجائے میٹھے کے روٹیوں میں کونین ڈال دی تھی.اس دن گھر میں یہ بھی ایک لطیفہ ہو گیا.245 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گر بتایا کہ یہ لے لو.حضرت نے کہا نہیں.یہ میں نہیں لیتا انہوں نے کوئی اور چیز بتائی.
سیرت المہدی 226 حصہ اوّل حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا.وہ اسوقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو.حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہو گیا.یہ حضرت صاحب کا بالکل بچپن کا واقعہ ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی اس وقت حضرت صاحب بھی پاس تھے.مگر آپ خاموش رہے.246 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا.ایک دن حضرت صاحب کچہری کی طرف تشریف لے جانے لگے اور حسب معمول پہلے دعا کیلئے اس کمرہ میں گئے جو اس غرض کیلئے پہلے مخصوص کر لیا تھا.میں اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ باہر انتظار میں کھڑے تھے اور مولوی صاحب کے ہاتھ میں اس وقت حضرت صاحب کی چھڑی تھی.حضرت صاحب دعا کر کے باہر نکلے تو مولوی صاحب نے آپ کو چھڑی دی.حضرت صاحب نے چھڑی ہاتھ میں لے کر اسے دیکھا اور فرمایا.یہ کس کی چھڑی ہے؟ عرض کیا گیا کہ حضور ہی کی ہے جو حضور اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اچھا میں نے تو سمجھا تھا کہ یہ میری نہیں ہے.خانصاحب کہتے ہیں کہ وہ چھڑی مدت سے آپ کے ہاتھ میں رہتی تھی مگر محویت کا یہ عالم تھا کہ کبھی اس کی شکل کو غور سے دیکھا ہی نہیں تھا کہ پہچان سکیں.خانصاحب کہتے ہیں کہ اسی طرح ایک دفعہ میں قادیان آیا اس وقت حضرت صاحب مسجد کی سیڑھیوں میں کھڑے ہو کر کسی افغان کو رخصت کر رہے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ آپ اس وقت خوش نہ تھے کیونکہ وہ شخص افغانستان میں جا کر تبلیغ کرنے سے ڈرتا تھا.خیر میں جا کر حضور سے ملا اور حضور نے مجھ سے مصافحہ کیا اور پھر گھر تشریف لے گئے.میں اپنے کمرے میں آکر بہت رویا کہ معلوم نہیں حضرت صاحب نے مجھ میں کیا دیکھا ہے کہ معمول کے خلاف بشاشت کے ساتھ نہیں ملے.پھر میں نماز کے وقت مسجد میں گیا تو کسی نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ ذوالفقار علی خان آیا ہے.حضرت صاحب نے شوق سے پوچھا کہ تحصیل دار صاحب کب آئے ہیں؟ میں جھٹ حضور کے سامنے آ گیا
سیرت المہدی 227 حصہ اوّل اور عرض کیا کہ میں تو حضور سے سیڑھیوں پر ملا تھا جب حضور ان افغان صاحب کو رخصت فرما رہے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا.اچھا! میں نے خیال نہیں کیا اور پھر حسب معمول بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ مجھ سے کلام فرمایا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کے آنے پر بڑی خوشی ہوتی تھی اور رخصت کے وقت دل کو صدمہ ہوتا تھا.چنانچہ جب حضرت خلیفہ ثانی کی آمین پر بعض مہمان قادیان آئے تو اس پر آپ نے آمین میں فرمایا احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے یہ روز کر مبارک سبـــحــــان مـــن یــرانــی مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سبـــحـــان مـــن یـرانــی دنیا بھی ایک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گو سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سبـحـــان مــن یــرانـی 247 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود جب کسی سے ملتے تھے تو مسکراتے ہوئے ملتے تھے اور ساتھ ہی ملنے والے کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی تھیں، ہر احمدی یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کی مجلس میں جا کر دل کے سارے غم ڈھل جاتے ہیں.بس آپ کے مسکراتے ہوئے چہرے پر نظر پڑی اور سارے جسم میں مسرت کی ایک لہر جاری ہو گئی.آپ کی عادت تھی کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی بات بھی توجہ سے سنتے تھے اور بڑی محبت سے جواب دیتے تھے.ہر آدمی اپنی جگہ سمجھتا تھا کہ حضرت صاحب کو بس مجھی سے زیادہ محبت ہے.بعض وقت آداب مجلس رسول سے ناواقف ، عامی لوگ دیر دیر تک اپنے لاتعلق قصے سناتے رہتے تھے اور حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ بیٹھے سنتے رہتے اور کبھی کسی سے یہ نہ کہتے تھے کہ اب بس کرو.نمازوں کے بعد یا بعض اوقات دوسرے موقعوں پر بھی حضور مسجد میں تشریف
سیرت المهدی 228 حصہ اوّل رکھتے تھے اور اردگر دمشتاقین گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہتی تھیں اور گویا تعلیم وتربیت کا سبق جاری ہو جاتا تھا.مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ محسوس کرتے تھے کہ علم و معرفت کا چشمہ پھوٹ رہا ہے.جس سے ہر شخص اپنے مقدور کے موافق اپنا برتن بھر لیتا تھا.مجلس میں کوئی خاص ضابطہ نہ ہوتا تھا بلکہ جہاں کہیں کسی کو جگہ ملتی تھی بیٹھ جاتا تھا اور پھر کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہوا تو اس نے پوچھ لیا اور حضرت صاحب نے جواب میں کوئی تقریر فرما دی یا کسی مخالف کا ذکر ہو گیا تو اس پر گفتگو ہوگئی یا حضرت نے اپنا کوئی نیا الہام سنایا تو اس کے متعلق کچھ فرما دیا، یا کسی فرد یا جماعت کی تکالیف کا ذکر ہوا تو اسی پر کلام کا سلسلہ شروع ہو گیا.غرض آپ کی مجلس میں ہر قسم کی گفتگو ہو جاتی تھی اور ہر آدمی جو بولنا چاہتا تھا بول لیتا تھا.جب حضرت گفتگو فرماتے تھے تو سب حاضرین ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ خواہ کوئی پلک تقریر ہو یا مجلسی گفتگو ہو.ابتداء میں دھیمی آواز سے بولنا شروع کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ آواز بلند ہو جاتی تھی حتی کہ دور سے دور بیٹھا ہوا شخص بھی بخوبی سن سکتا تھا.اور آپ کی آواز میں ایک خاص قسم کا سوز ہوتا تھا.248 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ مارٹن کلارک کے مقدمہ میں ایک شخص مولوی فضل دین لاہوری حضور کی طرف سے وکیل تھا.یہ شخص غیر احمدی تھا اور شاید اب تک زندہ ہے اور غیر احمدی ہے.جب مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت صاحب کے خلاف شہادت میں پیش ہوا تو مولوی فضل دین نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو میں مولوی محمد حسین صاحب کے حسب ونسب کے متعلق کوئی سوال کروں.حضرت صاحب نے سختی سے منع فرما دیا کہ میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور فرمایا ” لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ“ (النِّسَاء : ۱۴۹) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ خود مولوی فضل دین نے باہر آکر ہم سے بیان کیا تھا اور اس پر اس بات کا بڑا اثر ہوا تھا.چنانچہ وہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب نہایت عجیب اخلاق کے آدمی ہیں.ایک پرلے درجے کا دشمن ہے اور وہ اقدام قتل کے مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت میں پیش ہوتا ہے اور میں اس کا حسب و نسب پوچھ کر اس کی حیثیت کو چھوٹا کر کے اس کی شہادت کو کمزور کرنا چاہتا ہوں اور اس سوال کی ذمہ داری بھی مرزا صاحب پر نہیں تھی بلکہ مجھ پرتھی.مگر میں نے جب پوچھا تو آپ نے بڑی سختی سے روک دیا کہ ایسے سوال کی میں ہرگز اجازت نہیں
سیرت المہدی 229 حصہ اوّل دیتا کیونکہ خدا ایسے طریق کو نا پسند کرتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے نسب میں بعض معیوب باتیں سمجھی جاتی تھیں.واللہ اعلم جن کو وکیل اپنے سوال سے ظاہر کرنا چاہتا تھا مگر حضرت صاحب نے روک دیا.دراصل حضرت صاحب اپنے ہاتھ سے کسی دشمن کی بھی ذلت نہیں چاہتے تھے ، ہاں جب خدا کی طرف سے کسی کی ذلت کا سامان پیدا ہوتا تھا تو وہ ایک نشان الہی ہوتا تھا جسے آپ ظاہر فرماتے تھے.249 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب مولوی محمد حسین بٹالوی قتل کے مقدمہ میں حضرت صاحب کے خلاف پیش ہوا تو اس نے کمرے میں آکر دیکھا کہ حضرت صاحب ڈگلس کے پاس عزت کے ساتھ کرسی پر تشریف رکھتے ہیں اس پر حسد نے اسے بیقرار کر دیا.چنانچہ اس نے بھی حاکم سے کرسی مانگی اور چونکہ وہ کھڑا تھا اور اس کے اور حاکم کے درمیان پنکھا تھا جس کی وجہ سے وہ حاکم کے چہرہ کو دیکھ نہ سکتا تھا.اس لئے اس نے پنکھے کے نیچے سے جھک کر حاکم کو خطاب کیا.مگر ڈگلس نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی ایسی فہرست نہیں ہے جس میں تمہارا نام کرسی نشینوں میں درج ہو.اس پر اس نے پھر اصرار کے ساتھ کہا تو حاکم نے ناراض ہو کر کہا کہ بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی بعض تحریروں میں ”سیدھا کھڑا ہو جا“ کے الفاظ آتے تھے اور ہم نہ سمجھتے تھے کہ اس سے کیا مراد ہے مگر اب پتہ لگا کہ مولوی محمد حسین چونکہ جھک کر پنکھے کے نیچے سے کلام کر رہا تھا اس لئے اسے سیدھا ہونے کیلئے کہا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت مولوی محمد حسین کے دل وسینہ میں کیا کیا نہ چھریاں چل گئی ہونگی.ایک طرف اُسے اپنا یہ قول یاد آتا ہوگا کہ میں نے ہی اسے ( یعنی حضرت صاحب کو ) اُٹھایا ہے اور اب میں ہی اسے گراؤنگا.اور دوسری طرف حضرت صاحب کا وہ الہام اس کی آنکھوں کے سامنے ہوگا کہ ” إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ، یعنی جو تیری ذلت چاہتا ہے میں خودا سے ذلیل کرونگا.اللہ اکبر -
سیرت المہدی 230 حصہ اوّل 250 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب قتل کے مقدمہ میں حضرت صاحب نے ایک موقعہ پر کپتان ڈگلس کے سامنے فرمایا کہ مجھ پر قتل کا الزام لگایا گیا ہے اور آگے بات کرنے لگے تو اس پر ڈگلس فورا بولا کہ میں تو آپ پر کوئی الزام نہیں لگا تا اور جب اس نے فیصلہ سنایا تو اُس وقت بھی اُس نے یہ الفاظ کہے کہ مرزا صاحب! میں آپ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ بری ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈگلس اُن دنوں میں ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اور فوجی عہدہ کے لحاظ سے کپتان تھا.اس کے بعد وہ ترقی کرتے کرتے جزائر انڈیمان کا چیف کمشنر ہو گیا.اور اب پنشن لے کر ولایت واپس جاچکا ہے.اس وقت اس کا فوجی عہدہ کر نیل کا ہے.آدمی غیر متعصب اور سمجھ دار اور شریف ہے.ولایت میں ہمارے مبلغ مولوی مبارک علی صاحب بنگالی نے ۲۸ جولائی ۱۹۲۲ء کو اس سے ملاقات کی تو اس نے خود بخود انکے ساتھ اس مقدمہ کا ذکر شروع کر دیا اور کہنے لگا ” میں غلام احمد ( مسیح موعود ) کو جانتا تھا اور میرا یقین تھا کہ وہ نیک بخت اور دیانتدار آدمی ہیں اور یہ کہ وہ اسی بات کی تعلیم دیتے ہیں جس کا انہیں خود یقین ہے.لیکن مجھے ان کی موت کی پیشگوئیاں پسند نہ تھیں کیونکہ وہ بڑی مشکلات پیدا کرتی تھیں.پھر اس نے مقدمہ کے حالات سنائے اور کہا کہ وہ لڑکا نظام دین ( خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈگلس صاحب بھول گئے ہیں اس لڑکے کا نام عبدالحمید تھا) ہر روز کوئی نئی بات بیان کرتا تھا اور اس کی کہانی ہر دفعہ زیادہ مکمل و مبسوط ہوتی جاتی تھی اس لئے مجھے اس کے متعلق شبہ پیدا ہوا اور میں نے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہتا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ وہ مشنریوں کے پاس ٹھہرا ہوا ہے جو اسے سکھاتے رہتے ہیں.چنانچہ میں نے حکم دیا کہ وہ مشنریوں کی نگرانی سے الگ کر کے پولیس کی نگرانی میں رکھا جاوے.اس سے میرا مطلب حل ہو گیا یعنی نظام دین آخر اقبالی ہو کر میرے قدموں پر گر گیا اور اس نے اقرار کیا کہ یہ ساری بات محض افتراء ہے.ڈگلس نے سلسلہ کی اس حیرت انگیز ترقی پر بڑا تعجب ظاہر کیا اور کہا کہ مجھے گمان نہ تھا کہ مرزا غلام احمد کا قائم کیا ہوا سلسلہ اتنی ترقی کر جائے گا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابھی تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا
سیرت المہدی 231 حصہ اوّل نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈگلس کے ساتھ اپنی اس ملاقات کا حال مولوی مبارک علی صاحب نے لنڈن سے لکھ کر بھیجا ہے اور بوقت ملاقات گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی تھی.جسے یہاں ترجمہ کر کے اردو میں لکھا گیا ہے.251 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھا ہوالا سا بنارہا تھا کہ اس وقت مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی جو گھر سے لانی تھی میرے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا میں نے اسے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو.اس نے کہا.میاں میری بکریاں کون دیکھے گا.میں نے کہا تم جاؤ میں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا چنانچہ اس کے بعد میں نے اسکی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت ہم سے پوری کرا دی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لا سا ایک لیس دار چیز ہوتی ہے جو بعض درختوں کے دودھ وغیرہ سے تیار کرتے ہیں.اور جانور وغیرہ پکڑنے کے کام آتا ہے.نیز والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہ ہوتا تھا تو تیز سرکنڈے سے ہی حلال کر لیتے تھے.252 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں والدہ کے ساتھ ہوشیار پور جاتے تھے تو ہوشیار پور کے چوہوں میں پھرا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ضلع ہوشیار پور میں کئی برساتی نالے ہیں جن میں بارش کے وقت پانی بہتا ہے اور ویسے وہ خشک رہتے ہیں.یہ نالے گہرے نہیں ہوتے قریباً اردگرد کے کھیتوں کے ساتھ ہموار ہی ہوتے ہیں.ہوشیار پور کا سارا ضلع ان برساتی نالوں سے چھدا پڑا ہے.ان نالوں کو پنجابی میں چوہ کہتے ہیں.253 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت صاحب بیان فرماتے تھے کہ جب ہم استاد سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دفعہ ہمارے استاد نے بیان کیا کہ ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان ہے جو دھواں دار ہے یعنی اس کے اندر باہر سب دھواں ہو رہا ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر آنحضرت ﷺے ہیں اور چاروں طرف سے عیسائیوں نے اس کا محاصرہ کیا
سیرت المہدی 232 حصہ اوّل ہوا ہے اور ہمارے استاد نے بیان کیا کہ ہم میں سے کسی کو اس کی تعبیر نہیں آئی.میں نے کہا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص عیسائی ہو جائے گا.کیونکہ انبیاء کا وجود آئینہ کی طرح ہوتا ہے پس اس نے جو آپ کو دیکھا تو گویا اپنی حالت کے عکس کو دیکھا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میرا یہ جواب سن کر میرے استاد بہت خوش ہوئے اور متعجب بھی اور کہنے لگے کہ وہ شخص واقعی بعد میں عیسائی ہو گیا تھا اور کہنے لگے کہ کاش ہم اس کی تعبیر جانتے اور اسے وقت پر سمجھاتے تو شاید وہ بچ جاتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوا کہ استاد سے کون استاد مراد ہیں.مولوی فضل الہی صاحب سے تعلیم پانے کے وقت آپکی عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے اغلب ہے کہ مولوی فضل احمد صاحب اور مولوی گل علی شاہ صاحب میں سے کوئی صاحب ہونگے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے ہیں کہ مولوی فضل الہی صاحب قادیان کے رہنے والے تھے اور مذہباً حنفی تھے.مولوی فضل احمد صاحب فیروز والا ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے اور مذہباً اہل حدیث تھے.یہ صاحب مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے والد تھے جنھوں نے ( مولوی مبارک علی صاحب نے) حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی مگر جو بعد وفات حضرت خلیفہ اول فتنہ کی رو میں بہہ گئے.تیسرے استاد مولوی سید گل علی شاہ صاحب تھے جو بٹالہ کے رہنے والے تھے اور مذہباً شیعہ تھے.254 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ میرا ایک کلاس فیلو تھا جس کا نام محمد عظیم ہے اور جو پیر جماعت علی شاہ سیالکوٹی کا مرید ہے وہ مجھ سے بیان کرتا تھا کہ میرا بھائی کہا کرتا تھا کہ ایام جوانی میں جب مرزا صاحب کبھی کبھی امر تسر آتے تھے تو میں ان کو دیکھتا تھا کہ وہ پادریوں کے خلاف بڑا جوش رکھتے تھے.اس زمانہ میں عیسائی پادری بازاروں وغیرہ میں عیسائیت کا وعظ کیا کرتے تھے اور اسلام کے خلاف زہرا گلتے تھے.مرزا صاحب ان کو دیکھ کر جوش سے بھر جاتے تھے اور ان کا مقابلہ کرتے تھے.مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ محمد عظیم اب بھی زندہ ہے اور غالباً وہ مولوی عبد القادر صاحب احمدی مرحوم لدھیانوی کے تعلق داروں میں سے ہے.
سیرت المہدی 233 حصہ اوّل 255 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جس رات امة النصير پیدا ہوئی ہے حضرت صاحب خود مولوی محمد احسن صاحب کے کمرے کے دروازے پر آئے اور دستک دی.مولوی محمد احسن صاحب نے پوچھا کون ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا ”غلام احمد“.مولوی صاحب نے جھٹ اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت نے جواب دیا کہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اس کے متعلق مجھے الہام ہوا ہے کہ غاسق الله - خاکسار عرض کرتا ہے کہ غاسق اللہ سے مراد یہ ہے کہ جلد فوت ہو جانیوالا.چنانچہ وہ لڑکی جلد فوت ہو گئی.256 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک شخص گوجرانولہ کا باشندہ محمد بخش تھا نہ دار ہوتا تھا جو سلسلہ کا پرلے درجہ کا معاند تھا اور ہر وقت عداوت پر کمر بستہ رہتا تھا.یہ شخص ۱۸۹۳ء سے بٹالہ کے تھانہ میں متعین ہوا اور پھر کئی سال تک اسی جگہ رہا.چونکہ قادیان بٹالہ کے تھانہ میں ہے اس لئے اسے شرارت کا بہت اچھا موقعہ میسر آ گیا.چنانچہ اس نے اپنے زمانہ میں کوئی دقیقہ ایذارسانی اور مخالفت کا اُٹھا نہیں رکھا.حفظ امن کا مقدمہ جو ۱۸۹۹ء میں فیصلہ ہوا اسی کی رپورٹ پر ہوا تھا.آخر یہ شخص طاعون سے ہلاک ہوا اور خدا کی قدرت ہے کہ اب اس کا لڑکا بڑا مخلص احمدی ہے.ان کا نام میاں نیاز محمد صاحب ہے جو علاقہ سندھ میں تھانہ دار ہیں.(خاکسار بوقت ایڈیشن ثانی کتاب ھذا عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی.ایم.ایس نے جو میاں نیاز محمد صاحب کے صاحبزادے ہیں.بیان کیا ہے کہ ان کے دادا دراصل ابتداء میں ایسے مخالف نہ تھے مگر بٹالہ آ کر بعض لوگوں کے بہکانے میں آکر زیادہ مخالف ہو گئے.لیکن پھر آخری بیماری میں اپنی مخالفت پر کچھ نادم نظر آتے تھے.نیز ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے دادا کی وفات طاعون سے نہیں ہوئی تھی.بلکہ ہاتھ کے کار بنکل سے ہوئی تھی خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی میں طاعون سے مرنا بیان کیا ہے.سواگر ڈاکٹر صاحب کی اطلاع درست ہے تو چونکہ ان دنوں میں طاعون کا زور تھا اس لئے ممکن ہے کہ کسی نے ہاتھ کے پھوڑے کی وجہ سے اس بیماری کو طاعون سے تعبیر کر کے حضرت مسیح
سیرت المہدی 234 حصہ اوّل موعود علیہ السلام سے بیان کر دیا ہو.واللہ اعلم) 257 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ اپنی جماعت کے افراد کی مذہبی حالت کا مطالعہ کرتے رہتے تھے مگر جب آپ کسی میں کوئی اعتقادی یا عملی یا اخلاقی نقص دیکھتے تھے تو عموماً اسے مخاطب فرما کر کچھ نہ کہتے تھے بلکہ موقعہ پا کر کسی پبلک تقریر یا گفتگو میں ایسی طرز کو اختیار فرماتے تھے جس سے اسکی اصلاح مقصود ہوتی تھی اور پھر اسے مناسب طریق پر کئی موقعوں پر بار بار بیان فرماتے تھے.اور جماعت کی اصلاح اندرونی کے متعلق آپ کو از حد فکر رہتا تھا اور اس کے لئے آپ مختلف طریق اختیار فرماتے رہتے تھے اور زیادہ زور دعاؤں پر دیتے تھے اور بعض اوقات فرماتے تھے کہ جو باپ اپنے بچے کو ہر حرکت و سکون پر ٹو کتا رہتا ہے اور ہر وقت پیچھے پڑ کر سمجھا تا رہتا ہے اور اس معاملہ میں حد سے بڑھ کر احتیاط کرتا ہے وہ بھی ایک گونہ شرک کرتا ہے کیونکہ وہ گویا اپنے بچہ کا خدا بنتا ہے اور ہدایت اور گمراہی کو اپنی نگرانی کے ساتھ وابستہ کرتا ہے حالانکہ دراصل ہدایت تو خدا کے ہاتھ میں ہے.اسے چاہئیے کہ عام طور پر اپنے بچے کی حفاظت کرے اور زیادہ زور دعا پر دے.اور خدا سے اسکی ہدایت مانگے.نیز حضرت صاحب کا یہ دستور تھا کہ ہدایت کے معاملہ میں زیادہ فکر جڑ کی کرتے تھے اور شاخوں کا ایسا خیال نہ فرماتے تھے کیونکہ حضور فرماتے تھے کہ اگر جڑ درست ہو جاوے تو شاخیں خود بخود درست ہو جاتی ہیں.چنانچہ فرماتے تھے کہ اصل چیز تو دل کا ایمان ہے جب وہ قائم ہو جاتا ہے تو اعمال خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں.کسی نے عرض کیا کہ حضور کے پاس بعض لوگ ایسے آتے جاتے ہیں جنکی داڑھیاں منڈھی ہوتی ہیں فرمایا تمہیں پہلے ڈاڑھی کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے.نیز فرماتے تھے کہ جو شخص بچے دل سے ایمان لاتا ہے اور مجھ کو واقعی خدا کا بھیجا ہوا سمجھتا ہے وہ جب دیکھے گا کہ میں داڑھی رکھتا ہوں تو اس کا ایمان اس سے خود داڑھی رکھوائے گا.اخلاق پر حضور بہت زور دیتے تھے اور اخلاق میں سے خصوصاً محبت ، تواضع حلم و رفق، صبر اور ہمدردی خلق اللہ پر آپ کا بہت زور ہوتا تھا اور تکبر ، سنگ دلی سخت گیری اور درشتی کو بہت بُرا سمجھتے تھے.تیمم و تعیش سے سخت نفرت تھی اور سادگی اور محنت کشی کو پسند فرماتے تھے.
سیرت المہدی 235 حصہ اوّل 258 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا.میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی.مولوی محمد علی صاحب کو اسکی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمت دین کا موقعہ مل سکے لیکن اگر حضور تک ہماری شکائتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں ممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو تو اس صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے اُلٹا نقصان ہو جائیگا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر میں اس وقت اپنے فکروں میں اتنا مو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا.پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے، میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگارہا ہوتا ہے.وہ شخص سمجھتا ہوگا کہ میں اسکی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں.جب میں گھر جا تا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے.غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی.وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اسکے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر کار بند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو.پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پالیا اور اس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام
سیرت المہدی 236 حصہ اوّل رائیگاں گیا مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل و براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہورہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے اسکے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے پس یہ خیال ہے جو مجھے آجکل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہورہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا.259 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت کی خبر آئی تو ایک طرف تو حضرت صاحب کو سخت صدمہ پہنچا کہ ایک مخلص دوست جدا ہو گیا اور دوسری طرف آپکو پرلے درجہ کی خوشی ہوئی کہ آپ کے متبعین میں سے ایک شخص نے ایمان و اخلاص کا یہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ سخت سے سخت دکھ اور مصائب جھیلے اور بالآخر جان دیدی مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.260 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جس وقت مولوی عبداللطیف صاحب واپس کا بل جانے لگے تو وہ کہتے تھے کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں اب زندہ نہیں رہوں گا.میری موت آن پہنچی ہے اور وہ حضرت صاحب کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھتے تھے.جب رخصت ہونے لگے اور حضرت صاحب ان کو آگے چھوڑنے کیلئے کچھ دور تشریف لے گئے تو وہ رخصت ہوتے ہوئے حضرت صاحب کے قدموں پر گر گئے اور زار زار روئے.حضرت صاحب نے ان کو اُٹھنے کیلئے کہا اور فرمایا کہ ایسانہیں کرنا چاہیے مگر وہ آپ کے قدموں پر گرے رہے آخر آپ نے فرمایا الامر فَوْقَ الْآدَبِ اس پر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی حسرت کے ساتھ حضرت صاحب سے رخصت ہوئے.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان دنوں میں چونکہ قادیان میں ریل نہیں آئی تھی.آمد ورفت کے لئے بٹالہ اور قادیان کے درمیان کا کچا رستہ استعمال ہوتا تھا.اور حضرت صاحب بعض خاص خاص دوستوں کو رخصت کرنے کے لئے اسی راستہ کے موڑ تک یا بعض اوقات نہر تک پیدل چلے جاتے تھے.) 261 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنے والد صاحب کو مندرجہ ذیل خط لکھا تھا.
سیرت المہدی 237 حصہ اوّل حضرت والد مخدوم من سلامت ! مراسم غلامانہ وقواعد فدویا نہ بجا آورده معروض حضرت والا میکند چونکہ در میں ایام برای العین می بینم و چشم سر مشاہدہ میکنم که در همه ممالک و بلا د ہر سال چناں وبائے مے افتد کہ دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشان جدا میکند و هیچ سالے نہ می بینم کہ ایس نائزہ عظیم و چنیں حادثہ الیم در آن سال شور قیامت نیگفتند - نظر بر آن دل از دنیا سرد شده و رواز خوف جان زرد.واکثر ایں دو مصرع مصلح الدین سعدی شیرازی بیاد می آیند و اشک حسرت ریخته می شود مکن تکیه بر عمرنا پا ئیدار مباش ایمن از بازی روزگار و نیز این دو مصرع ثانی از دیوان فرخ قادیانی نمک پاش جراحت دل میشود بدنیائے دوں دل مبند اے جواں کہ وقت اجل میرسد ناگہاں لہذا میخواهم که بقیه عمر در گوشته تنهائی نشینیم و دامن از صحبت مردم چینم و بیادا وسبحانه مشغول شوم مگر گذشته را عذرے و مافات را تدار کے شود.عمر بگذشت و نماند است جز آیا می چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند کہ دنیارا اساسے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے وَاَیسَ مَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ آفَتِ غَيْرِهِ والسلام خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے شیخ صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ نے یہ روایت کہاں سے لی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مجھے چند پرانے کاغذات دیئے تھے جن میں سے حضرت کی یہ تحریر کی تھی لیکن خاکسار کی رائے میں اگر حضرت صاحب کی صرف تحریر ملی ہے تو اس سے یہ استدلال ضروری نہیں ہوتا کہ آپ نے یہ خط اپنے والد صاحب کے پیش بھی کیا تھا بلکہ خط کے نیچے دستخط اور تاریخ کا نہ ہونا اس شبہ کو قوی کرتا ہے.262 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب کی دائی کا نام لا ڈو تھا اور وہ ہا کونا کو بر والوں کی ماں تھی.جب میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھی.مرزا
سیرت المہدی 238 حصہ اوّل سلطان احمد بلکہ عزیز احمد کو بھی اسی نے جنا یا تھا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس سے اپنی پیدائش کے متعلق کچھ شہادت بھی لی تھی.اپنے فن میں وہ اچھی ہوشیار عورت تھی.چنانچہ ایک دفعہ یہاں کسی عورت کے بچہ پھنس گیا اور پیدا نہ ہوتا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ لاڈو کو بلا کر دکھاؤ.ہوشیار ہے چنانچہ اسے بلایا گیا تو اللہ کے فضل سے بچہ آسانی سے پیدا ہو گیا.مگر والدہ صاحبہ کہتی تھیں کہ تم میں سے کسی کی پیدائش کے وقت اسے نہیں بلایا گیا.کیونکہ بعض وجوہات سے اس پر کچھ شبہ پیدا ہو گیا تھا.نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ عزیز احمد کی پیدائش کے وقت جب لا ڈو آئی تو ان دنوں میں اسے خارش کی مرض تھی.چنانچہ اس سے عزیز احمد کو خارش ہوگئی اور پھر آہستہ آہستہ تمہارے تایا کے گھر میں اکثر لوگوں کو خارش ہو گئی اور آخر ادھر سے ہمارے گھر میں بھی خارش کا اثر پہنچا.چنانچہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں خارش کی تکلیف ہوگئی تھی.263 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ کا نام نصرت جہاں بیگم ہے اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان کا مہر میر صاحب کی تجویز پر گیارہ سوروپیہ مقرر ہوا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے نانا جان صاحب کا نام میر ناصر نواب ہے.میر صاحب خواجہ میر در دصاحب دہلوی کے خاندان سے ہیں.اور پنجاب کے محکمہ نہر میں ملازم تھے.اور قریباً عرصہ پچیس سال سے پنشن پر ہیں.شروع شروع میں میر صاحب نے حضرت مسیح موعود کی کچھ مخالفت کی تھی.لیکن جلد ہی تائب ہو کر بیعت میں شامل ہو گئے.204 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ پٹیالہ میں خلیفہ محمد حسین صاحب وزیر پٹیالہ کے مصاحبوں اور ملاقاتیوں میں ایک مولوی عبدالعزیز صاحب ہوتے تھے.جو کرم ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے.ان کا ایک دوست تھا.جو بڑا امیر کبیر اور صاحب جائیداد تھا اور لاکھوں روپے کا مالک تھا.مگر اس کے کوئی لڑکا نہ تھا.جو اُس کا وارث ہوتا.اس نے مولوی عبد العزیز صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب سے میرے لئے دعا کرواؤ کہ میرے لڑکا ہو جاوے.مولوی عبدالعزیز نے مجھے بلا کر کہا کہ ہم تمہیں کرایہ دیتے ہیں.تم قادیان جاؤ اور مرزا صاحب سے اس بارہ میں خاص طور پر دعا کے لئے کہو.چنانچہ میں قادیان آیا اور حضرت صاحب سے سارا ماجرا عرض کر کے دعا کے لئے کہا.آپ
سیرت المہدی 239 حصہ اوّل نے اس کے جواب میں ایک تقریر فرمائی جس میں دعا کا فلسفہ بیان کیا اور فرمایا کہ محض رسمی طور پر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دینے سے دعا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ایک خاص قلبی کیفیت کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے.جب آدمی کسی کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کے لئے ان دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہوتا ہے یا تو اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا گہرا تعلق اور رابطہ ہو کہ اس کی خاطر دل میں ایک خاص درد اور گداز پیدا ہو جائے جو دعا کے لئے ضروری ہے اور یا اس شخص نے کوئی ایسی دینی خدمت کی ہو کہ جس پر دل سے اس کے لئے دعا نکلے.مگر یہاں نہ تو ہم اس شخص کو جانتے ہیں اور نہ اس نے کوئی دینی خدمت کی ہے کہ اس کے لئے ہمارا دل پگھلے.پس آپ جا کر اسے یہ کہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے ایک لاکھ روپیہ دے یا دینے کا وعدہ کرے.پھر ہم اس کے لئے دعا کریں گے.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ پھر اللہ اسے ضرور لڑکا دے دیگا.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جا کر یہی جواب دیا.مگر وہ خاموش ہو گئے.اور آخر وہ شخص لا ولد ہی مر گیا.اور اس کی جائیداد اس کے دور نزدیک کے رشتہ داروں میں کئی جھگڑوں اور مقدموں کے بعد تقسیم ہوگئی.265 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ ابھی حضرت مسیح موعود کی وفات پر صرف دو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ میں ایک دو اور دوستوں کے ساتھ بٹالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی سے ملنے گیا.میری غرض یہ تھی کہ مولوی محمد حسین سے باتوں باتوں میں حضرت صاحب کی عمر کے متعلق سوال کروں کیونکہ ان دنوں میں آپ کی عمر کے متعلق بہت اعتراض تھا.خیر میں گیا اور مولوی صاحب کے دروازے پر آواز دی.مولوی محمد حسین نیچے آئے اور مسجد میں آکر ملاقات کی.میرا ارادہ تھا کہ مولوی صاحب کو اپنا احمدی ہونا ظاہر نہ کروں گا.لیکن مولوی صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ کہاں جاتے ہو؟ تو مجھے ناچار قادیان کا نام لینا پڑا.اور مولوی صاحب کو معلوم ہو گیا کہ میں احمدی ہوں.خیر میں نے مولوی صاحب سے گفتگو شروع کی اور کہا کہ مولوی صاحب اور نہیں تو آپ کم از کم وفات مسیح ناصری کے تو قائل ہو ہی گئے ہو نگے.مولوی صاحب نے سختی سے کہا کہ نہیں میں تو مسیح کو زندہ سمجھتا ہوں.خیر اس پر گفتگو
سیرت المہدی 240 حصہ اوّل ہوتی رہی.پھر میں نے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ آپ تو حضرت مرزا صاحب کے پرانے واقف ہونگے.مولوی صاحب نے کہا ہاں میں تو جوانی سے جانتا ہوں اور میں اور مرزا صاحب بچپن میں ہم مکتب بھی تھے.اور پھر اس کے بعد ہمیشہ ملاقات رہی.میں نے کہا آپ اور مرزا صاحب ہم عمر ہی ہوں گے.مولوی صاحب نے جواب دیا کہ نہیں مرزا صاحب مجھ سے تین چار سال بڑے تھے.میں نے سادگی کا چہرہ بنا کر پوچھا کہ مولوی صاحب آپ کی اس وقت کیا عمر ہے؟ مولوی میرے داؤ کو نہ سمجھا اور بولا کہ ۷۳ ۷۴ سال کی ہے.میں نے دل میں الحمد للہ کہا اور جلدی ہی گفتگو ختم کر کے اُٹھ آیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فخر الدین صاحب مذکور نے خدا کی قسم کھا کر یہ روایت بیان کی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین نے اپنے اس خط میں جس کی اشاعت آئینہ کمالات اسلام میں ہو چکی ہے اپنی پیدائش کی تاریخ ۷ محرم ۱۲۵۶ھ بیان کی ہے.اس طرح اگر حضرت صاحب کو مولوی محمد حسین صاحب سے چارسال بڑا مانا جاوے تو آپ کی تاریخ پیدائش ۱۲۵۲ھ بنتی ہے.اور ناظرین کو یاد ہوگا کہ اسی کتاب میں دوسری جگہ ( دیکھو روایت نمبر ۱۸۵) خاکسار نے ایک اور جہت سے یہی تاریخ پیدائش ثابت کی تھی سوالحمد للہ کہ اس کا ایک شاہد بھی مل گیا اور مجھے یہ یاد پڑتا ہے کہ حضرت صاحب بھی فرمایا کرتے تھے کہ مولوی محمد حسین سے میں تین چارسال بڑا ہوں.ایک اور بھی بات ہے کہ ۱۸۹۴ء میں حضرت صاحب نے آٹھم کے مقابلہ پر ایک اشتہار میں اپنی عمر ساٹھ سال بیان کی تھی.اس سے بھی آپ کی عمر وفات کے وقت ۷۴.۷۵ سال بنتی ہے.206 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ مجھے وہ لوگ جو دنیا میں سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں بہت ہی پیارے لگتے ہیں.267 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مرضی مولا از ہمہ اولی“.( یعنی خدا کی رضا سب سے مقدم ہونی چاہئے ) 268 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور ان کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک
سیرت المہدی 241 حصہ اوّل دفعہ حضرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑکیاں رہتی ہیں ان کو میں لاتا ہوں آپ اُن کو دیکھ لیں.پھر اُن میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کر دی جاوے.چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دولڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کر دیا.اور پھر اندر آ کر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں.چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے اُن کو دیکھ لیا اور پھر حضرت صاحب نے اُن کو رخصت کر دیا اور اس کے بعد میاں ظفر احمد صاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے.وہ نام تو کسی کا جانتے نہ تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے.اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے کی میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا پھر آپ خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے.پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عموماً بد نما ہو جاتا ہے لیکن گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے.میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت حضرت صاحب اور میاں ظفر احمد صاحب اور میرے سوا اور کوئی شخص وہاں نہ تھا.اور نیز یہ کہ حضرت صاحب ان لڑکیوں کو کسی احسن طریق سے وہاں لائے تھے.اور پھر ان کو مناسب طریق پر رخصت کر دیا تھا ، جس سے ان کو کچھ معلوم نہیں ہوا.مگر ان میں سے کسی کے ساتھ میاں ظفر احمد صاحب کا رشتہ نہیں ہوا.یہ مدت کی بات ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے نبیوں میں خوبصورتی کا احساس بھی بہت ہوتا ہے.دراصل جو شخص حقیقی حسن کو پہچانتا اور اس کی قدر کرتا ہے وہ مجازی حسن کو بھی ضرور پہچانے گا اور اس کے مرتبے کے اندراندر اس کی قدر کرے گا.آنحضرت ﷺ کے متعلق احادیث میں روایت آتی ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار میں سے کسی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ بغیر دیکھے کے شادی نہ کرنا.بلکہ پہلے لڑکی کو دیکھ لینا کیونکہ انصارلڑکیوں کی آنکھ میں عموما نقص ہوتا ہے.ایک اور صحابی جابڑ سے جس نے ایک بیوہ عورت سے شادی کی تھی.مگر وہ خود بھی نوجوان لڑکا تھا.آپ نے فرمایا ”میاں کسی باکرہ لڑکی سے کیوں نہ شادی کی جو تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم اس کے ساتھ کھیلتے“.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں کچھ کام کرنا ہوتا ہے ان کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کی خانگی زندگی
سیرت المہدی 242 حصہ اوّل میں ہر جہت سے ایسے سامان مہیا ہوں جو اُن کیلئے راحت سکون اور اطمینان کا موجب ہوں تا کہ ان کے بیرونی کام کا بوجھ ہلکا کرنے میں یہ خانگی راحت وسکون کسی قدر سہارے کا کام دے سکے.269 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب میں نے ایک واقعی ضرورت پر نکاح ثانی کا قصد کیا.تو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ جب کہیں موقعہ ملے جلد اس قلعہ میں داخل ہو جانا چاہیے اور زید و بکر کی پروانہ کرنی چاہیے.270 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب ہر چیز میں خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے اللهُ جَمِيلٌ وَيُحِبُّ الْجَمَال - 271 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعودؓ نے یہ اشتہار دیا کہ کوئی غیر مذہب کا پیرویا مخالف اگر نشان دیکھنا چاہتا ہے تو میرے پاس آکر رہے.پھر اگر نشان نہ دیکھے تو میں اسے اتنا انعام دونگا.تو ایک دن حضرت صاحب مجھے فرمانے لگے کہ ہم نے اشتہار دے دیگر بہت بلایا ہے مگر کوئی نہیں آتا.آجکل بٹالہ میں پادری وائٹ بریخٹ ہیں.آپ اُن کے پاس جائیں اور ایک متلاشی حق کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کریں اور کہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ایسا ایسا اشتہار دیا ہے، آپ ضرور چل کر اُن کا مقابلہ کریں.آپ کیلئے کوئی مشکل بھی نہیں ہے.قادیان یہاں سے صرف چند میل کے فاصلہ پر ہے.اگر مرزا صاحب اس مقابلہ میں ہار گئے.تو میں بلا عذر حق کو قبول کر لوں گا اور اور بھی بہت سے لوگ حق کو قبول کر لیں گے اور حضرت صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی اُسے کہنا کہ جھوٹے کو اُس کے گھر تک پہنچانا چاہیے.یہ ایک بڑا نادر موقعہ ہے.مرزا صاحب نے بڑا شور مچارکھا ہے.آپ اگر ان کو شکست دیدیں گے اور ان سے انعام حاصل کر لیں گے تو یہ ایک عیسائیت کی نمایاں فتح ہوگی اور پھر کوئی مسلمان سامنے نہیں بول سکے گا وغیرہ وغیرہ.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں جس وقت حضرت صاحب نے یہ مجھ سے فرمایا اس وقت شام کا وقت تھا اور بارش ہو رہی تھی اور سردیوں کے دن تھے.اس لئے میاں حامد علی نے مجھے روکا کہ صبح چلے جانا مگر میں نے کہا کہ جب حضرت صاحب نے فرمایا ہے تو خواہ
سیرت المہدی 243 حصہ اوّل کچھ ہو میں تو ابھی جاؤں گا چنانچہ میں اسی وقت پیدل روانہ ہو گیا اور قریباً رات کے دس گیارہ بجے بارش سے تر بتر اور سردی سے کانپتا ہوا بٹالہ پہنچا اور اسی وقت پادری مذکور کی کوٹھی پر گیا وہاں پادری کے خانسامہ نے میری بڑی خاطر کی اور مجھے سونے کیلئے جگہ دی اور کھانا دیا اور بہت آرام پہنچایا اور وعدہ کیا کہ صبح پادری صاحب سے ملاقات کراؤں گا.چنانچہ صبح ہی اس نے مجھے پادری سے ملایا.اس وقت پادری کے پاس اس کی میم بھی بیٹھی تھی.میں نے اسی طریق پر جس طرح حضرت صاحب نے مجھے سمجھایا تھا.اس سے گفتگو کی مگر اس نے انکار کیا اور کہا کہ ہم ان باتوں میں نہیں آتے.میں نے اسے بہت غیرت دلائی اور عیسائیت کی فتح ہو جانے کی صورت میں اپنے آپ کو حق کے قبول کر لینے کے لئے تیار ظاہر کیا مگر وہ انکار ہی کرتا چلا گیا.آخر میں مایوس ہو کر قادیان آگیا اور حضرت صاحب سے سارا قصہ عرض کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ غالبًا سلسلہ بیعت سے پہلے کا ہے.272 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ انبالہ کے ایک شخص نے حضرت صاحب سے فتوئی دریافت کیا کہ میری ایک بہن کنچنی تھی اس نے اس حالت میں بہت سا روپیہ کمایا پھر وہ مرگئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا مگر بعد میں مجھے اللہ تعالیٰ نے تو بہ اور اصلاح کی توفیق دی.اب میں اس مال کو کیا کروں؟ حضرت صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہو سکتا ہے اور پھر مثال دے کر بیان کیا کہ اگر کسی شخص پر کوئی سگِ دیوانہ حملہ کرے اور اس کے پاس اس وقت کوئی چیز اپنے دفاع کیلئے نہ ہو نہ سوٹی نہ پتھر وغیرہ صرف چند نجاست میں پڑے ہوئے پیسے اس کے قریب ہوں تو کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے ان پیسوں کو اٹھا کر اس کتے کو نہ دے مارے گا اور اس وجہ سے رک جاوے گا کہ یہ پیسے ایک نجاست کی نالی میں پڑے ہوئے ہیں ہرگز نہیں.پس اسی طرح اس زمانہ میں جو اسلام کی حالت ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس روپیہ کو خدمت اسلام میں لگایا جاسکتا ہے.میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں جب کی یہ بات ہے آج کل والے انگریزی پیسے زیادہ رائج نہ تھے بلکہ موٹے موٹے بھرے سے پیسے چلتے تھے جن کو
سیرت المہدی منصوری پیسے کہتے ہیں.244 حصہ اوّل خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میں خدمت اسلام کیلئے بعض شرائط کے ماتحت سودی روپیہ کے خرچ کئے جانے کا فتویٰ بھی حضرت صاحب نے اسی اصول پر دیا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فتوی وقتی ہے اور خاص شرائط کے ساتھ مشروط ہے.وَمَنِ اعْتَدَى فَقَدْ ظَلَمَ وَحَارَبَ الله - 273 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ الاستقامة فوق الكرامة - 274 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ سور سے مسلمانوں کو سخت نفرت ہے.جو طبیعت کا ایک حصہ بن گئی ہے.اس میں یہ حکمت ہے کہ خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان اگر چاہے تو تمام منہیات سے ایسی ہی نفرت کرسکتا ہے اور اسے ایسی ہی نفرت کرنی چاہیے.275 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ آتھم کے مباحثہ میں میں بھی موجود تھا.جب حضرت صاحب نے اپنے آخری مضمون میں یہ بیان کیا کہ آتھم صاحب نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ ) دجال کہا ہے.تو آتھم نے ایک خوف زدہ انسان کی طرح اپنا چہرہ بنایا.اور اپنی زبان باہر نکال کر کانوں کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ میں نے یہ کہاں لکھا ہے یا کب لکھا ہے یعنی نہیں لکھا.276 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے لدھیانہ والے مباحثہ میں میں موجود تھا.حضرت صاحب الگ اپنے خادموں میں بیٹھ جاتے تھے اور مولوی محمد حسین الگ اپنے آدمیوں میں بیٹھ جاتا تھا اور پھر تحریری مباحثہ ہوتا تھا.میں نے دوران مباحثہ میں کبھی حضرت صاحب اور مولوی محمد حسین کو آپس میں زبانی گفتگو کرتے نہیں سنا.ان دنوں میں لدھیانہ میں بڑا شور تھا.مولوی محمد حسین کے ملنے والوں میں ایک مولوی نظام الدین صاحب ہوتے تھے جو کئی حج کر
سیرت المہدی 245 حصہ اوّل چکے تھے.اور طبیعت ظریف رکھتے تھے وہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے خلاف قرآن شریف وفات مسیح کا یہ کیا عقیدہ نکالا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ” میں نے قرآن شریف کے خلاف کچھ نہیں کہا.بلکہ میں تو اب بھی تیار ہوں کہ اگر کوئی شخص قرآن سے حیات مسیح ثابت کر دے.تو فوراً اپنے عقیدہ سے رجوع کرلوں گا.مولوی نظام الدین نے خوش ہو کر کہا کہ کیا واقعی آپ قرآن شریف کی آیات کے سامنے اپنے خیالات کو ترک کر دیں گے؟ حضرت صاحب نے کہا.ہاں میں ضرور ایسا کروں گا.مولوی نظام الدین نے کہا.اچھا پھر کیا ہے.میں ابھی مولوی محمد حسین کے پاس جاتا ہوں.اور پچاس آیتیں قرآن کریم کی حیات مسیح " کے ثبوت میں لکھوا لاتا ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا پچاس کی ضرورت نہیں.میں تو اگر ایک آیت بھی نکل آئے گی تو مان لونگا.اس پر مولوی نظام الدین خوشی خوشی اٹھ کر چلے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد سر نیچے ڈالے واپس آئے.حضرت صاحب نے فرمایا کیوں مولوی صاحب آپ آمیتیں لے آئے.مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب سے جا کر یہ کہا تھا کہ مولوی صاحب! میں نے مرزا صاحب کو بالکل قابو کر لیا ہے اور یہ اقرار کر والیا ہے کہ اگر میں قرآن کریم کی ایک آیت بھی ایسی پیش کر دوں جس میں حیات مسیح ثابت ہو تو وہ مان لیں گے اور اپنے عقائد سے تو بہ کر لیں گے.مگر میں نے انہیں کہا تھا کہ ایک آیت کیا میں پچاس آیتیں لاتا ہوں.سو آپ جلد آئیتیں نکال دیں تا میں ابھی ان کے پاس جا کر اُن سے تو بہ کرالوں.اس پر مولوی صاحب نے سخت برہم ہو کر کہا کہ اے الو ! تم نے یہ کیا کیا.ہم تو اسے قرآن سے نکال کر حدیثوں کی طرف لاتے ہیں اور تم اسے پھر قرآن کی طرف لے آئے.میں نے کہا کہ مولوی صاحب! تو کیا قرآن میں کوئی آیت مسیح “ کی حیات ثابت نہیں کرتی ؟ مولوی صاحب نے کہا تم تو بے وقوف ہو.اسے حدیثوں کی طرف لانا تھا کیونکہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے.مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں نے کہا کہ ہم تو پھر قرآن کے ساتھ ہیں.جب قرآن سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے تو ہم اس کے مخالف حدیثوں کو کیا کریں.اس پر مولوی صاحب نے مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں اور کہا کہ تو بے وقوف ہے تجھے سمجھ نہیں وغیرہ وغیرہ.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد مولوی نظام الدین صاحب نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی.
سیرت المہدی 246 حصہ اوّل خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ اوّل میں یہ واقعہ بیان کر کے یہ بات زائد بیان کی ہے کہ مولوی نظام الدین صاحب نے یہ بھی سنایا کہ جب میں نے مولوی محمد حسین صاحب سے یہ کہا کہ ہم تو پھر قرآن کے ساتھ ہیں تو مولوی صاحب نے سخت برہم ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو.( پیر صاحب لکھتے ہیں کہ مولوی نظام الدین صاحب کو مولوی محمد حسین کی طرف سے روٹی ملا کرتی تھی) اس پر میں نے ہاتھ باندھ کر مولوی محمد حسین سے ( ظرافت کے طور پر ) کہا کہ مولوی صاحب میں قرآن کو چھوڑ دیتا ہوں.خدا کے واسطے میری روٹی نہ بند کرنا.اس پر مولوی محمد حسین صاحب سخت شرمندہ ہوئے.پیر صاحب نے لکھا ہے کہ جب مولوی نظام الدین نے عملاً اسی طرح ہاتھ باندھ کر اس مکالمہ کو حضرت صاحب کے سامنے دہرایا تو حضرت صاحب بہت ہنسے اور پھر فرمانے لگے کہ دیکھو ان مولویوں کی حالت کہاں تک گر چکی ہے نیز میاں عبداللہ صاحب سنوری بیان کرتے تھے کہ میں پہلے مولوی محمد حسین بٹالوی کا بڑا معتقد ہوتا تھا اور اس کے پاس جا کر ٹھہرا کرتا تھا پھر حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی جب کبھی مجھے حضرت صاحب مولوی محمد حسین کے پاس کوئی خط وغیرہ دے کر بھیجتے تھے تو میں اس سے اسی عقیدت کے ساتھ ملتا تھا.لیکن جب اس نے حضرت صاحب کی مخالفت کی تو مجھے اس سے نفرت ہوگئی.اور میں نے کبھی اس کی صورت تک دیکھنی پسند نہیں کی.خاکسار نے میاں عبداللہ صاحب سے دریافت کیا کہ مخالفت سے پہلے مولوی محمد حسین کا حضرت صاحب کے ساتھ کیسا تعلق تھا.آیا ایک عام برابری کا ساتعلق تھا یا وہ حضرت صاحب کے ساتھ عقیدت اور اخلاص رکھتا تھا.میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ وہ حضرت صاحب سے عقیدت رکھتا تھا.چنانچہ جب کبھی کوئی حضرت صاحب کا کام ہوتا تو وہ شوق اور اخلاص سے کرتا تھا اور اس کی باتوں سے پتہ لگتا تھا کہ اس کے دل میں آپ کی محبت اور ادب ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ براہین احمدیہ پر جو مولوی محمد حسین نے ریو یولکھا تھا اس سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ مخالفت سے پہلے مولوی محمد حسین حضرت مسیح موعود کے ساتھ کافی عقیدت رکھتا تھا.یہ ریویو بڑا مبسوط و مکمل ہے اور اپنے حجم کے لحاظ سے گویا ایک مستقل کتاب کہلانے
سیرت المہدی کا حق دار ہے.247 حصہ اوّل 277 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنۃ نے حضرت مسیح موعود کی تصنیف براہین احمدیہ پر جور یو یو لکھا تھا اس کے بعض فقرے درج ذیل کرتا ہوں.”ہماری رائے میں یہ کتاب ( یعنی براہین احمدیہ حصہ اوّل و دوم و سوم و چهارم مصنفہ حضرت مسیح موعود ) اس زمانہ میں موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی.اور آئندہ کی خبر نہیں.لَعَلَّ اللهُ يُحدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ اَمْرًا.يَقُولُ الْعَبُدُ الفقيرُ البشيرُ وَ قَدْ صَدَقَ اللهُ قَوْلَ هَذَا الْمَوْلَوِى وَأَحْدَتْ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا عَظِيمًا إِذْ جَعَلَ مُصَنِّفَ هَذَا الكِتبِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ وَ الْمَهْدِى الْمَعْهُودَ وَ جَعَلَهُ إِمَاماً عَدْلًا الَّذِي مَلَاءَ الْأَرْضَ قِسُطًا بَعْدَ مَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَإِثْمًا وَ نَالَ الْإِيْمَانَ مِنَ القُرَيَا وَ كَسَرَ الصَّلِيْبَ وَ حَارَبَ الدَّجَّالَ فَقَتَلَهُ وَلَكِنْ يَحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَا تِيْهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ) اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم از کم کوئی ایسی کتاب بتاوے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصا فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جا تا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیٹرا اُٹھا لیا ہو.اور مخالفین اسلام و منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعوی کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ و مشاہدہ کرے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے ( جب ہم قطبی اور شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے.اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دئیے جانے کے لائق ہے.مؤلف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے ، اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگالگا کر تحدی کی ہے.اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کر دی ہے کہ جس شخص کو
سیرت المہدی 248 حصہ اوّل اسلام کی حقانیت میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے.اے خدا! اپنے طالبوں کے رہنما! ان پر ان کی ذات سے ان کے ماں باپ سے تمام جہاں کے مشفقوں سے زیادہ رحم فرما( یعنی رحم فرمانے والے ) تو اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کے برکات سے ان کو مالا مال کر دے اور کسی اپنے صالح بندے کے طفیل اس خاکسار شرمسار گنہگار کو بھی اپنے فیوض اور انعامات اور اس کتاب کی اخص برکات سے فیضیاب کر.آمین و للارض من كاس الكرام نصیب یعنی بڑے لوگوں کے جام سے ان کی جام نوشی کے وقت زمین پر بھی کچھ شراب گر جاتا ہے.کیونکہ وہ بوجہ کثرت شراب کے بے پرواہی سے شراب پیتے ہیں اور اس کے تھوڑے بہت گر جانے اور ضائع ہو جانے کی ان کو پروا نہیں ہوتی.پس اے اللہ! ہم کو بھی حضرت مرزا صاحب کی جام نوشی کے وقت تیری شراب سے جو تو نے انکو دی ہے اور نہیں تو صرف اسی قدر حصہ مل جاوے جو بوقت مے نوشی زمین پر گر کر ضائع ہو جایا کرتا ہے.خاکسار مؤلف“ دیکھو اشاعۃ السنہ جلد ۶ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے مولوی محمد حسین کے اس ریویو کا اپنے عربی اشعار مندرجہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ذکر کیا ہے.آپ فرماتے ہیں.ایا را شقی قد كنت تمدح منطقى وتثنى على بالفة وتوقر اے مجھ پر تیر چلانے والے کوئی زمانہ تھا کہ تو میرے کلام کی تعریف کرتا تھا اور محبت کے ساتھ میری ثنا کرتا تھا اور میری عزت کرتا تھا ولله درک حین قرظت مخلصًا کتابی وصرت لكل ضال مخفر اور کیا ہی اچھا تھا حال تیرا جبکہ تو نے اخلاص کے ساتھ میری کتاب کار یو یو لکھا اور تو گمراہوں کو ہدایت کی پناہ میں لانے والا تھا وانت الذي قد قال في تقريظه كمثل المولّف ليس فينا غضنفر کہ تو وہی تو ہے جس نے اپنے ریویو میں کہا تھا کہ براہین احمدیہ کے مؤلف جیسا کوئی شیر بہادر ہم میں نہیں ہے
سیرت المہدی 249 حصہ اوّل عرفت مقامى ثم انكرت مديراً فما الجهل بعد العلم ان كنت تشعر تو نے میرے مقام کو پہچانا مگر پھر انکار کر دیا اور پیٹھ پھیر لی لیکن ذرا خیال تو کر کہ علم کے بعد جہالت کی کیا حقیقت ہوتی ہے کمثلک مع علم بحالي وفطنة عجبـت لـه يـبـغـى الهدى ثم يا طر تیرے جیسا شخص جو میرے حالات کو خوب جانتا ہے تعجب ہے کہ وہ ہدایت پر آکر پھر راہ راست چھوڑ دے قطعت وداداً قد غر سناه في الصبا و ليس فوادي في الوداد يقصر تو نے محبت کے اس درخت کو کاٹ دیا جو ہم نے نو جوانی میں لگایا تھا مگر میرے دل نے محبت میں کوئی کوتا ہی نہیں کی على غير شيءٍ قلت ماقلت عجلةً ووالـــلــــه انـــي صـــادق لا ازوّر تو نے میرے متعلق جو جلد بازی سے کہا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے اور خدا کی قسم میں صادق ہوں جھوٹا نہیں ہوں 278 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ۱۸۹۰ء کے اواخر میں فتح اسلام تصنیف فرمائی تھی اور اس کی اشاعت شروع ۱۸۹۱ء میں لدھیانہ میں کی گئی.یہ وہ پہلا رسالہ ہے.جس میں آپ نے اپنے مثیل مسیح ہونے اور مسیح ناصری کی وفات کا ذکر کیا ہے.گویا مسیح موعود کے دعوی کا یہ سب سے پہلا اعلان ہے.بعض لوگ جو بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے مسیح موعود کے دعوے کے متعلق سب سے پہلے ایک اشتہار دیا تھا.میری تحقیق میں یہ غلطی ہے.سب سے پہلا اعلان فتح اسلام کے ذریعے ہوا اور وہ اشتہار جس کی سرخی یہ ہے.لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ فتح اسلام کی اشاعت کے بعد دیا گیا تھا.بلکہ یہ اشتہار تو فتح اسلام کے دوسرے حصہ توضیح مرام کی اشاعت کے بھی بعد شائع کیا گیا تھا.جیسا کہ خود اس اشتہار کو پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے پس اشتہار کو دعوی مسیحیت کے متعلق ابتدائی اعلان سمجھنا جیسا کہ پیر سراج الحق صاحب نے اپنے رسالہ تذکرۃ المہدی میں اور غالباً اُن کی اتباع میں حضرت خلیفتہ امسیح ثانی نے اپنے رسالہ سیرت مسیح موعود میں شائع کیا ہے ایک صریح غلطی ہے.
سیرت المہدی 250 حصہ اوّل حق یہ ہے کہ دعوی مسیحیت کے متعلق سب سے پہلا پبلک اعلان فتح اسلام کے ذریعہ ہوا.اس کے بعد توضیح مرام کی اشاعت ہوئی پھر بعض اشتہارات ہوئے اور پھر ازالہ اوہام کی اشاعت ہوئی.ایک اور بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ فتح اسلام میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اور وفات مسیح کا عقیدہ بہت صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئے.اور نہ یہ اعلان ایسی صورت میں ہوا ہے کہ جو ایک انقلابی رنگ رکھتا ہو.جس سے ایسا سمجھا جاوے کہ گویا اب ایک نیا دور شروع ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے.بلکہ محض سلسلہ کلام میں یہ باتیں بیان ہوگئی ہیں.نہ پوری صراحت ہے نہ تحدی ہے نہ ادلہ ہیں.اس کے بعد تو ضیح مرام میں زیادہ وضاحت ہے اور پھر بالآخر ازالہ اوہام میں یہ باتیں نہایت زور شور کے ساتھ معہ ادلہ بیان کی گئی ہیں.میں نے اس کی بہت تلاش کی کہ کوئی ایسا ابتدائی اعلان ملے کہ جس میں مثلاً ایک نئے انکشاف کے طور پر حضرت صاحب نے یہ اعلان کیا ہو کہ مجھے اللہ نے بتایا ہے کہ مسیح ناصری فوت ہو چکا ہے اور آنے والا موعود مسیح موعود میں ہوں.یعنی کوئی ایسا رنگ ہو جو یہ ظاہر کرے کہ اب ایک نئے دور کا اعلان ہوتا ہے.مگر مجھے ایسی صورت نظر نہیں آئی.بلکہ سب سے پہلا اعلان رسالہ فتح اسلام ثابت ہوا.مگر اسے دیکھا گیا.تو ایسے رنگ میں پایا گیا جواو پر بیان ہوا ہے یعنی اس میں یہ باتیں ایسے طور پر بیان ہوئی ہیں کہ گویا کوئی نیادور اور نیا اعلان نہیں ہے بلکہ اپنے خدا داد منصب مجددیت کا بیان کرتے ہوئے یہ باتیں بھی سلسلہ کلام میں بیان ہو گئی ہیں.جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت صاحب کو اپنے مسیح موعود ہونے کے متعلق الہامات تو شروع سے ہی ہورہے تھے صرف ان کی تشریح اب ہوئی تھی.279 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے دعوئی مسیحیت اور وفات مسیح ناصری کے عقیدہ کا اعلان کیا تو ملک میں ایک سخت طوفان بے تمیزی بر پا ہو گیا.اس سے پہلے بھی گومسلمانوں کے ایک طبقہ میں آپ کی مخالفت تھی لیکن اول تو وہ بہت محدود تھی.دوسرے وہ ایسی شدید اور پُر جوش نہ تھی لیکن اس دعوی کے بعد تو گویا ساری اسلامی دنیا میں ایک جوش عظیم پیدا ہو گیا.اور حضرت مسیح موعود کو اوّل لدھیانہ میں پھر دہلی میں اور پھر لاہور میں پر زور مباحثات کرنے پڑے مگر جب مولویوں نے دیکھا.کہ حضرت مسیح موعود اس طرح مولویوں کے رعب میں آنے والے نہیں اور لوگوں پر آپ کی
سیرت المہدی 251 حصہ اوّل باتوں کا اثر ہوتا جاتا ہے.تو سب سے پہلے مولوی محمد حسین بٹالوی نے ایک استفتاء تیار کیا.اور اس میں حضرت مسیح موعود کے متعلق علماء سے فتویٰ کفر کا طالب ہوا.چنانچہ سب سے پہلے اس نے اپنے استاد مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے فتویٰ کفر حاصل کیا.چونکہ مولوی نذیر حسین تمام ہندوستان میں مشہور و معروف مولوی تھے.اور اہل حدیث کے تو گویا امام تھے اور شیخ الکل کہلاتے تھے.اس لئے ان کے فتویٰ دینے سے اور پھر مولوی محمد حسین جیسا مشہور مولوی مستفتی تھا.باقی اکثر مولویوں نے بڑے جوش و خروش سے اس کفر نامے پر اپنی مہریں ثبت کرنی شروع کیں.اور قریباً دو سو مولویوں کی مہر تصدیق سے یہ فتویٰ ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا اور اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی.کہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا یا جائے گا.280 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے عالم شباب کے زمانہ قیام سیالکوٹ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی کی تصنیف حیاۃ النبی سے مولوی میرحسن صاحب سیالکوٹی کی روایت دوسری جگہ (یعنی نمبر ۱۵۰ پر درج کی جا چکی ہے.اس روایت کے متعلق میں نے مولوی صاحب موصوف کو سیالکوٹ خط لکھا تھا.مولوی صاحب نے اس کی تصدیق کی اور مجھے اپنی طرف سے اس کی روایت کی اجازت دی.اس کے علاوہ میری درخواست پر مولوی صاحب موصوف نے انہی ایام کے بعض مزید حالات بھی لکھ کر مجھے ارسال کئے ہیں.جو میں درج ذیل کرتا ہوں.مولوی صاحب لکھتے ہیں.حضرت مخدوم زادہ والا شان سموالمکان زاد الطافکم“.بعد از سلام مسنون عرض خدمت والا یہ ہے کہ چند در چند عوائق وموانع کے باعث آپ کے ارشاد کی تعمیل میں دیر واقع ہوئی امید ہے آپ معاف فرمائیں گے.چونکہ عرصہ دراز گذر چکا ہے.اور اس وقت یہ باتیں چنداں قابل توجہ اور التفات نہیں خیال کی جاتی تھیں.اس واسطے اکثر فراموش ہو گئیں.جو یا د کر نے میں بھی یاد نہیں آتیں.خلاصہ یہ ہے کہ ادنی تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جاتا ہے.کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں.فقط راقم جناب کا ادنی نیازمند میرحسن.۲۶ نومبر ۱۹۲۲ء
سیرت المہدی 252 حصہ اوّل سیرت کی جلد اول تھوڑے دنوں میں روانہ خدمت کر دوں گا.فقط “ (اس سے مراد شیخ یعقوب علی صاحب کی تصنیف ہے.جو میں نے مولوی صاحب کو بھجوائی تھی.اور جس کی روایت کی اپنے دوسرے خط میں انہوں نے تصدیق کی ہے.خاکسار ) حضرت مسیح موعود کے حالات کے متعلق مولوی صاحب اپنے اسی خط میں یوں رقمطراز ہیں.حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے.عمرا نا می کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے.کچہری سے جب تشریف لاتے تھے.تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر کھڑے ہو کر ، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے.اور زار زار رویا کرتے تھے.ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.حسب عادت زمانہ صاحب حاجات جیسے اہل کاروں کے پاس جاتے ہیں.ان کی خدمت میں بھی آجایا کرتے تھے.اسی عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل دین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا.آپ بلا کر فرماتے.میاں فضل دین ان لوگوں کو سمجھا دو کہ یہاں نہ آیا کریں.نہ اپنا وقت ضائع کیا کریں اور نہ میرے وقت کو برباد کیا کریں.میں کچھ نہیں کر سکتا.میں حاکم نہیں ہوں.جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے.کچہری میں ہی کر آتا ہوں.فضل دین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے.مولوی عبد الکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقربین میں شمار کئے گئے.اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمع منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے.وہ ( یعنی منصب علی خاکسار (مؤلف) وثیقہ نویسی کے عہدہ پر ممتاز تھے.بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل دین نام بوڑھے دوکاندار تھے جو رات کو بھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے..ان کے اکثر احباب شام کے بعد ان کی دکان پر آجاتے تھے.چونکہ شیخ صاحب پارسا آدمی تھے.اس لئے جو وہاں شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے.کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہ گاہ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.آجایا کرتے تھے.مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں
سیرت المہدی 253 حصہ اوّل ہو جاتی تھی.مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے.مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مرتاض شخص تھے.مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے.اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے.کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو.چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے.جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا.تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے.کہ انسان کو خود سعی اور محنت کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمُ سُبُلَنَا (العنكبوت (۷۰).مولوی محبوب علی صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے.کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی.دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے.مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی.اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہل کارگھروں کو واپس ہونے لگے.تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا.ہر ایک نے دعوی کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں.آخر ایک شخص بلا سنگھ نام نے کہا.کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں.مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے.آخر شیخ الہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے.اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے.ننگے پاؤں دوڑو.جوتیاں ایک آدمی نے اٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پل پر بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا.مرزا صاحب اور بلا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے.اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے.جب پل پر پہنچے.تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات دینی غیرت دنیاوی باتوں میں بھی رونما ہوتی ہے.چنانچہ مشہور ہے کہ
سیرت المہدی 254 حصہ اوّل مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید کے پاس کسی نے یہ بات پہنچائی.کہ فلاں سکھ سپاہی اس بات کا دعویٰ رکھتا ہے کہ کوئی شخص تیرنے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس پر شہید مرحوم کو غیرت آگئی اور اسی وقت سے انہوں نے تیرنے کی مشق شروع کر دی.اور بالآخر اتنی مہارت پیدا کر لی کہ پہروں پانی میں پڑے رہتے تھے.اور فرماتے تھے.کہ اب وہ سکھ میرے ساتھ مقابلہ کرلے.گویا ان کو یہ گوارا نہ ہوا.کہ ایک غیر مسلم تیرنے کی صفت میں بھی مسلمانوں پر فوقیت رکھے.حالانکہ یہ ایک معمولی دنیاوی بات تھی.سو معلوم ہوتا ہے.کہ اس وقت بھی ایسے رنگ میں گفتگو ہوئی ہوگی.کہ حضرت مسیح موعود کو بلا سنگھ کے مقابلہ میں غیرت آگئی اور پھر عالم بھی شباب کا تھا.281 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا ہم سے شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرمارہے تھے.اس وقت پنڈت لیکھر ام حضور سے ملنے کے لئے آیا.اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا اُس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سنا نہیں.دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا.مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہیں کی.اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا.کہ حضور پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا.آپ نے فرمایا.”ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے.اور ہمیں سلام کرتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ وہ عشق تھا کہ جس کی مثال نظر نہیں آتی.282 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعود فوت ہوئے.تو بہت سے ہندو اور عیسائی اخباروں نے آپ کے متعلق نوٹ شائع کئے تھے.چنانچہ نمونةً ہندوستان کے ایک نہایت مشہور و معروف انگریزی اخبار ” پائنیر الہ آباد کی رائے کا اقتباس درج ذیل کرتا ہوں.پائنیر کے ایڈیٹر اور منیجر اور مالک سب انگریز عیسائی ہیں.’پائنیر نے لکھا کہ :.اگر گذشتہ زمانہ کے اسرائیلی نبیوں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آکر اس زمانہ میں دنیا کے اندر تبلیغ کرے تو وہ بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں معلوم نہ ہوگا.جیسا کہ مرزا غلام احمد خان قادیانی تھے.( یعنی مرزا صاحب کے حالات اسرائیلی نبیوں سے بہت مشابہت رکھتے تھے.
سیرت المہدی 255 حصہ اوّل مؤلف).....ہم یہ قابلیت نہیں رکھتے کہ ان کی عالمانہ حیثیت کے متعلق کوئی رائے لگا سکیں...مرزا صاحب کو اپنے دعوی کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا.اور وہ کامل صداقت اور خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے.کہ ان پر کلام الہی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ ان کو ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے.......ایک مرتبہ انہوں نے بشپ ویلڈن کو چیلنج دیا (جس نے اس کو حیران کر دیا) کہ وہ نشان نمائی میں ان کا مقابلہ کرے.یہ چیلنج اسی طریق پر تھا.جیسا کہ الیاس نبی نے بعل کے پروہتوں کو چیلنج دیا تھا.اور مرزا صاحب نے اس مقابلہ کا یہ نتیجہ قرار دیا کہ یہ فیصلہ ہو جائیگا.کہ سچا مذ ہب کون سا ہے اور مرزا صاحب اس بات کے لئے تیار تھے.کہ حالاتِ زمانہ کے ماتحت پادری صاحب جس طرح چاہیں اپنا اطمینان کر لیں کہ نشان دکھانے میں کوئی دھوکہ اور فریب استعمال نہ ہو.وہ لوگ جنہوں نے مذہب کے رنگ میں دنیا کے اندر ایک حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں مرزا غلام احمد خان سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں.بہ نسبت مثلاً ایسے شخص کے جیسا کہ اس زمانہ میں انگلستان کالاٹ پادری ہوتا ہے.اگر ارنسٹ رین ( فرانس کا ایک مشہور مصنف ہے.مؤلف ).گذشتہ بیس سال میں ہندوستان میں ہوتا.تو وہ یقیناً مرزا صاحب کے پاس جاتا اور ان کے حالات کا مطالعہ کرتا.جس کے نتیجہ میں انبیاء بنی اسرائیل کے عجیب و غریب حالات پر ایک نئی روشنی پڑتی.بہر حال قادیان کا نبی ان لوگوں میں سے تھا.جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.“ 283 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیدا ہوا.اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عمر کے متعلق حضرت صاحب کے سب اندازے ہی ہیں.کوئی یقینی علم نہیں ہے.پس آپ کی تاریخ پیدائش اور عمر کے متعلق اگر کوئی قابل اعتماد ذریعہ ہے تو یہی ہے کہ مختلف جہات سے اس سوال پر غور کیا جاوے.اور پھر اُن کے مجموعی نتیجہ سے کوئی رائے قائم کی جاوے کسی منفرد کٹڑی سے اس سوال کا حل مشکل ہے.خود حضرت صاحب کی اپنی تحریرات اس معاملہ میں ایک دوسرے کے مخالف پڑتی ہیں.کیونکہ وہ کسی قطعی علم پر مبنی نہیں
سیرت المہدی 256 حصہ اوّل ہیں.بلکہ محض اندازے ہیں.جو آپ نے لگائے ہیں جیسا کہ آپ نے خود براہین احمدیہ حصہ پنجم میں بیان فرما دیا ہے.خاکسار کی تحقیق میں آپ کی تاریخ پیدائش ۱۲۵۲ ھ کی نکلتی ہے.واللہ اعلم.284 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا حضرت خلیفہ ثانی نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کا ایک رشتہ دار جو ایک بھنگی ، چرسی اور بد معاش آدمی تھا.قادیان آیا.اور اس کے متعلق کچھ شبہ ہوا.کہ وہ کسی بدارادے سے یہاں آیا ہے اور اس کی رپورٹ حضرت صاحب تک بھی پہنچی.آپ نے حضرت خلیفہ اول کو کہلا بھیجا.کہ اسے فوراً قادیان سے رخصت کر دیں.لیکن جب حضرت خلیفہ اول نے اسے قادیان سے چلے جانے کو کہا.تو اس نے یہ موقع غنیمت سمجھا.اور کہا.اگر مجھے اتنے روپے دے دو گے تو میں چلا جاؤں گا.حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ جتنے روپے وہ مانگتا تھا اس وقت اتنے روپے حضرت خلیفہ اول کے پاس نہ تھے اس لئے آپ کچھ کم دیتے تھے.اسی جھگڑے میں کچھ دیر ہوگئی.چنانچہ اس کی اطلاع پھر حضرت صاحب تک پہنچی وہ ابھی تک نہیں گیا.اور قادیان میں ہی ہے اس پر حضرت صاحب نے خلیفہ اول کو کہلا بھیجا کہ یا تو اسے فوراً قادیان سے رخصت کر دیں یا خود بھی چلے جاویں.حضرت مولوی صاحب تک جب یہ الفاظ پہنچے.تو انہوں نے فوراً کسی سے قرض لے کر اُسے رخصت کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے نبی جہاں ایک طرف محبت اور احسان اور مروت کا بے نظیر نمونہ ہوتے ہیں.وہاں دوسری طرف خدا کی صفت استغناء کے بھی پورے مظہر ہوتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کا یہ رشتہ دار آپ کا حقیقی بھتیجا تھا.اور اس کا نام عبدالرحمن تھا.ایک نہایت آوارہ گرد اور بدمعاش آدمی تھا.اور اس کے متعلق اس وقت یہ شبہ کیا گیا تھا.کہ ایسا نہ ہو کہ یہ شخص قادیان میں کسی فتنہ عظیمہ کے پیدا کرنے کا موجب ہو جائے.285 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ راولپنڈی سے ایک غیر احمدی آیا.جو اچھا متمول آدمی تھا.اور اس نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ میرا فلاں عزیز بیمار ہے.حضور حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اول ( کو اجازت دیں کہ وہ میرے ساتھ راولپنڈی تشریف لے چلیں اور اس کا علاج کریں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر
سیرت المہدی 257 حصہ اوّل مولوی صاحب کو یہ بھی کہیں کہ آگ میں گھس جاؤ یا پانی میں کود جاؤ تو ان کو کوئی عذر نہیں ہوگا.لیکن ہمیں بھی مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہیے.ان کے گھر میں آج کل بچہ ہونے والا ہے.اس لئے میں ان کو راولپنڈی جانے کے لئے نہیں کہہ سکتا.مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں.کہ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد حضرت مولوی صاحب حضرت صاحب کا یہ فقرہ بیان کرتے تھے.اور اس بات پر بہت خوش ہوتے تھے.کہ حضرت صاحب نے مجھ پر اس درجہ اعتماد ظاہر کیا ہے.286 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے.ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے.کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور مخش گالیاں دینے لگا.اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ اگر حضرت صاحب کی اجازت ہوتی.تو اُس کی وہیں تکا بوٹی اُڑ جاتی.مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے.آخر جب اس کی مخش زبانی حد کو پہنچ گئی.تو حضرت صاحب نے فرمایا.کہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں.اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سرکار انگریزی کی طرف سے قادیان میں ایک پولیس کا سپاہی رہا کرتا ہے.اور ان دنوں حاکم علی نامی ایک سپاہی ہوتا تھا.287 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب فرماتے تھے.کہ مجھے بعض اوقات غصہ کی حالت تکلف سے بنانی پڑتی ہے.ورنہ خود طبیعت میں بہت کم غصہ پیدا ہوتا ہے.288 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب یہاں ڈھاب میں کنارے پر نہانے لگے.مگر پاؤں پھسل گیا.اور وہ گہرے پانی میں چلے گئے.اور پھر لگے ڈوبنے کیونکہ تیرنا نہیں آتا تھا.کئی لوگ بچانے کے لئے پانی میں کو دے مگر جب کوئی شخص مولوی
سیرت المہدی 258 حصہ اوّل صاحب کے پاس جاتا تھا.تو وہ اسے ایسا پکڑتے تھے.کہ وہ خود بھی ڈوبنے لگتا تھا.اس طرح مولوی صاحب نے کئی غوطے کھائے.آخر شاید قاضی امیر حسین صاحب نے پانی میں غوطے لگا لگا کر نیچے سے اُن کو کنارے کی طرف دھکیلا.تب وہ باہر آئے.جب مولوی صاحب حضرت صاحب سے اس واقعہ کے بعد ملے تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا.مولوی صاحب آپ گھڑے کے پانی سے ہی نہا لیا کریں.ڈھاب کی طرف نہ جائیں.پھر فرمایا کہ میں بچپن میں اتنا تیرتا تھا کہ ایک وقت میں ساری قادیان کے ارد گرد تیر جاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے اردگرد اتنا پانی جمع ہو جاتا ہے کہ سارا گاؤں ایک جزیرہ بن جاتا ہے.289 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا معاملہ تھا.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم مغفور کی تصنیف سیرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل فقرات ایک عمدہ ذریعہ ہیں.مولوی صاحب موصوف فرماتے ہیں.عرصہ قریب پندرہ برس کا گذرتا ہے.جبکہ حضرت صاحب نے بار دیگر خدا تعالیٰ کے امر سے معاشرت کے بھاری اور نازک فرض کو اُٹھایا ہے.اس اثنا میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو.وہ ٹھنڈا دل اور بہشتی قلب قابل غور ہے.جسے اتنی مدت میں کسی قسم کے رنج اور تشخص علیش کی آگ کی آنچ تک نہ چھوٹی ہو اس بات کو اندرون خانہ کی خدمت گار عورتیں جو عوام الناس سے ہیں.اور فطری سادگی اور انسانی جامہ کے سوا کوئی تکلف اور تصنع زیر کی اور استنباطی قوت نہیں رکھتیں بہت عمدہ طرح محسوس کرتی ہیں.وہ تعجب سے دیکھتی ہیں.اور زمانہ اور گردو پیش کے عام عرف اور برتاؤ کے بالکل برخلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں.اور میں نے بار ہا انہیں خود حیرت سے کہتے ہوئے سُنا ہے.که مر جا بیوی دی گل بڑی من دا اے اس بد مزاج دوست کا واقعہ سن کر آپ معاشرت نسواں کے بارے میں دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا کہ میرا یہ حال ہے.کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں
سیرت المہدی 259 حصہ اوّل محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے.اور با ینہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ میں نے منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا.کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.......حضرت صاحب کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے جو ایک نکاح کے متعلق ہے.حضرت صاحب کی بیوی صاحبہ مکرمہ نے بار ہا رو رو کر دعائیں کی ہیں اور بار ہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ گومیری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے.مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں.کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں.ایک روز دعا مانگ رہی تھیں.حضرت صاحب نے پوچھا.آپ کیا مانگتی ہیں؟ آپ نے بات سنائی.کہ یہ مانگ رہی ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا.سوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے.آپ نے فرمایا.کچھ ہی کیوں نہ ہو.مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں.“ 290 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دینی مشاغل میں ایسی تندہی اور محویت سے مصروف رہتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی.اس کی ایک نہایت ادنی مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ جیسے ایک دکاندار ہو.جو اکیلا اپنی دکان پر کام کرتا ہو.اور اس کا مال اس کی وسیع دکان میں مختلف جگہ پھیلا ہوا ہو.اور ایسا اتفاق ہو کہ بہت سے گاہک جو مختلف چیزیں خریدنے کے خیال سے آئے ہوں.اس کی دکان پر جمع ہو جائیں.اور اپنے مطالبات پیش کریں.ایسے وقت میں ایک ہوشیار اور سمجھدار دکاندار جس مصروفیت کے ساتھ اپنے گاہکوں کے ساتھ مشغول ہو جائیگا اور اسے کسی بات کی ہوش نہیں رہے گی.بس یہی حال مگر ایک بڑے پیمانہ پر حضرت مسیح موعود کا نظر آتا تھا.اور روز صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لیکر صبح تک آپ کا وقت اس محو کر دینے والی مصروفیت میں گذر جاتا تھا اور جس طرح ایک مسافر جس کے پاس وقت تھوڑا ہو اور اس نے ایک بہت بڑی مسافت طے کرنی ہو.اپنی حرکات میں غیر معمولی سرعت سے کام لیتا ہے.اسی طرح آپ کا حال تھا.بسا اوقات ساری ساری رات تصنیف کے کام میں لگا دیتے تھے اور صبح کو پھر کمر کس کر ایک چوکس اور چست سپاہی کی طرح دین خدا کی خدمت میں ایستادہ -
سیرت المہدی 260 حصہ اوّل کھڑے ہو جاتے تھے.کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ جو لوگ آپ کی مدد کیلئے آپ کے ساتھ کام کرتے تھے وہ گو باری باری آپ کے ساتھ لگتے تھے.مگر پھر بھی وہ ایک ایک کر کے ماندہ ہو کر بیٹھتے جاتے تھے.لیکن یہ خدا کا بندہ اپنے آقا کی خدمت میں نہ تھکتا تھا اور نہ ماندہ ہوتا تھا.291 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اپنی کتاب سیرت مسیح موعود میں لکھتے ہیں کہ :.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدس نازک سے نازک مضمون لکھ رہے ہیں.یہاں تک کہ عربی زبان میں بے مثل فصیح کتابیں لکھ رہے ہیں اور پاس ہنگامہ قیامت برپا ہے.بے تمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں.چیخ رہی ہیں.چلا رہی ہیں، یہاں تک کہ بعض آپس میں دست وگریبان ہورہی ہیں.اور پوری زنانہ کر تو تیں کر رہی ہیں.مگر حضرت صاحب یوں لکھے جارہے ہیں اور کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں.یہ ساری لانظیر اور عظیم الشان عربی، اردو، فارسی کی تصانیف ایسے ہی مکانوں میں لکھی ہیں.میں نے ایک دفعہ پوچھا.اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی ؟ مسکرا کر فرمایا ” میں سنتا ہی نہیں تشویش کیا ہو“.292 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ:.”ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب تبلیغ ( یعنی آئینہ کمالات اسلام کا عربی حصہ) لکھا کرتے تھے.مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے.حضرت صاحب نے ایک بڑا دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغت خدا داد پر حضرت صاحب کو ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کیلئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیئے.مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی.واپسی پر کہ ہنوز راستہ ہی میں تھے.مولوی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دیدیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں.مولوی صاحب کے ہاتھ سے وہ مضمون گر گیا.واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے.حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے.میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا
سیرت المہدی 261 حصہ اوّل ہے.مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے.حضرت صاحب کو خبر ہوئی تو معمولی ہشاش بشاش چہرہ تقسم زیر لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ ”مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی.مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تکاپو کیوں کیا گیا.میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر عطا فرما دیگا.“ 293 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہ جن دنوں میں حضرت صاحب نے شروع شروع میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تھا.میں طالب علم تھا اور لاہور میں پڑھتا تھا.ان دنوں میں حضرت مولوی نور الدین صاحب حضرت صاحب کو ملنے کے لئے جموں سے آئے.اور راستہ میں لاہور ٹھہرے.چونکہ مولوی صاحب کے ساتھ میرے والد صاحب کے بہت تعلقات تھے.اور وہ مجھے تاکید فرماتے رہتے تھے.کہ مولوی صاحب سے ضرور ملتے رہا کرو.اس لئے میں مولوی صاحب سے ملنے کے لئے گیا.مولوی صاحب ان دنوں نمازیں چونیاں کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے.وہاں مولوی صاحب نماز پڑھنے گئے.اور حوض پر بیٹھ کر وضو کرنے لگے.تو اُدھر سے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی آ گیا.اور اس نے مولوی صاحب کو دیکھتے ہی کہا.کہ مولوی صاحب ! تعجب ہے کہ آپ جیسا شخص بھی مرزا کے ساتھ ہو گیا ہے.مولوی صاحب نے جواب دیا کہ مولوی صاحب میں نے تو مرزا صاحب کو صادق اور منجانب اللہ پایا ہے.اور میں سچ کہتا ہوں.کہ میں نے ان کو یونہی نہیں مانا.بلکہ علی وجہ البصیرت مانا ہے.اس پر باہم بات ہوتی رہی.آخر مولوی محمدحسین نے کہا.کہ اب میں آپ کو لاہور سے جانے نہیں دوں گا.حتی کہ آپ میرے ساتھ اس معاملہ میں بحث کر لیں.مولوی صاحب نے فرمایا.کہ اچھا میں تیار ہوں.اس پر اگلا دن بحث کے لئے مقرر ہو گیا.چنانچہ دوسرے دن مولوی صاحب کی مولوی محمد حسین کے ساتھ بحث ہوئی لیکن ابھی بحث ختم نہ ہونے پائی تھی.کہ مولوی صاحب کو جموں سے مہا راج کا تار آ گیا.کہ فوراً چلے آؤ.چنانچہ مولوی صاحب فوراً لا ہور سے بطرف لدھیانہ روانہ ہو گئے.تا کہ حضرت صاحب سے ملاقات کر کے واپس تشریف لے جائیں.اس کے کچھ عرصہ بعد میں لاہور سے تعلیم کے لئے
سیرت المہدی 262 حصہ اوّل دیو بند جانے لگا تو راستہ میں اپنے ایک غیر احمدی دوست مولوی ابراہیم کے پاس لدھیانہ ٹھہرا.وہاں مجھے مولوی ابراہیم نے بتایا کہ آجکل مرزا صاحب قادیانی یہیں ہیں.میں نے اسے کہا کہ مرزا صاحب کی مخالفت بہت ہے اور میرے یہاں لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اس لئے میں تو نہیں جاسکتا لیکن آپ کے ساتھ اپنا ایک طالب علم بھیج دیتا ہوں جو آپ کو مرزا صاحب کے مکان کا راستہ بتا دیگا.چنانچہ میں اکیلا حضرت صاحب کی ملاقات کیلئے گیا.جب میں اس مکان پر پہنچا جہاں حضرت صاحب قیام فرما تھے تو اس وقت آپ اندر کے کمرہ سے نکل کر باہر نشست گاہ میں تشریف لا رہے تھے.میں نے مصافحہ کیا اور بیٹھ گیا.اس وقت شاید حضرت صاحب کے پاس شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اور کوئی اور صاحب تھے.حضرت صاحب سر نیچا کر کے خاموش بیٹھ گئے.جیسے کوئی شخص مراقبہ میں بیٹھتا ہے.شیخ صاحب نے یا جو صاحب وہاں تھے انگریزی حکومت کا کچھ ذکر شروع کر دیا کہ یہ حکومت بہت اچھی ہے.اور ایک لمبا عرصہ ذکر کرتے رہے مگر حضرت صاحب اسی طرح سر نیچے ڈالے آگے کی طرف جھکے ہوئے بیٹھے رہے اور کچھ نہیں بولے.مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ سن رہے ہیں.ایک موقعہ پر آپ نے کسی بات پر صرف ہاں یا نہ کا لفظ بولا اور پھر اسی طرح خاموش ہو گئے.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کا رنگ زرد تھا اور آپ اتنے کمزور تھے کہ کچھ حد نہیں.کچھ دیر کے بعد میں مصافحہ کر کے وہاں سے اُٹھ آیا.جب میں مولوی ابراہیم کے مکان پر پہنچا تو اس نے پوچھا کہ کہو مرزا صاحب سے مل آئے ؟ میں نے کہا ہاں ! مگر لوگوں نے یونہی مخالفت کا شور مچارکھا ہے.مرزا صاحب تو صرف چند دن کے مہمان ہیں بچتے نظر نہیں آتے“.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اسوقت میرا یہی یقین تھا کہ ایسا کمزور شخص زیادہ عرصہ نہیں زندہ رہ سکتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابتدائے دعوئی کے زمانہ میں چونکہ بیماری کے دوروں کی بھی ابتدا تھی.حضرت صاحب کی صحت سخت خراب ہوگئی تھی اور آپ ایسے کمزور ہو گئے تھے کہ ظاہری اسباب کے رُو سے واقعی صرف چند دن کے مہمان نظر آتے تھے.غالباً انہی دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ تُرَدُّ عَلَيْكَ انْوَارَ الشَّبَابِ تذکره صفحه ۵۲۹ مطبوعہ ۲۰۰۴) یعنی اللہ فرماتا ہے کہ تیری طرف شباب کے انوار لوٹائے جائیں گے.چنانچہ اس کے بعد گوجیسا کہ دوسرے الہامات میں ذکر ہے.یہ بیماری تو آپ کے ساتھ رہی لیکن دوروں کی سختی
سیرت المہدی 263 حصہ اوّل اتنی کم ہو گئی کہ آپ کے بدن میں پھر پہلے کی سی طاقت آگئی.اور آپ اچھی طرح کام کرنے کے قابل ہو گئے.294 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے پیر افتخار احمد صاحب نے کہ ایک دفعہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ میں نے دیکھا کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوچہ بندی میں کھڑے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ڈیوڑھی سے نکلے اور آپ کے ہاتھ میں دو بند لفافے تھے.یہ لفافے آپ نے مرزا نظام الدین کے سامنے کر دیئے کہ ان میں سے ایک اٹھا لیں.انہوں نے ایک لفافہ اٹھالیا اور دوسرے کو لیکر حضرت صاحب فوراً اندر واپس چلے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے حضرت والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لفافے باغ کی تقسیم کے متعلق تھے چونکہ حضرت مسیح موعود نے باغ کا نصف حصہ لینا اور نصف مرزا سلطان احمد کو جانا تھا.اس لئے حضرت صاحب نے اس تقسیم کیلئے قرعہ کی صورت اختیار کی تھی.اور مرز انظام الدین مرزا سلطان احمد کی طرف سے مختار کار تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس تقسیم کے مطابق باغ کا جنوبی نصف حصہ حضرت صاحب کو آیا اور شمالی نصف مرزا سلطان احمد صاحب کے حصہ میں چلا گیا اور حضرت والدہ صاحبہ نے خاکسار سے بیان کیا کہ اس تقسیم کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب کو کسی دینی غرض کیلئے کچھ روپے کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے تم اپناز یور دے دو.میں تم کو اپنا باغ رہن دے دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے سب رجسٹرار کو قادیان میں بلوا کر با قاعدہ رہن نامہ میرے نام کروا دیا.اور پھر اندر آ کر مجھ سے فرمایا کہ میں نے رہن کیلئے میں سال کی میعاد لکھ دی ہے کہ اس عرصہ کے اندر یہ رہن فک نہیں کروایا جائیگا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ رہن کے متعلق میعاد کوعموماً فقہ والے جائز قرار نہیں دیتے.سوا گر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول کی اہل فقہ کے قول سے تطبیق کی ضرورت سمجھی جاوے تو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا حضرت صاحب نے میعاد کور بہن کی شرائط میں نہیں رکھا.بلکہ اپنی طرف سے یہ بات زائد بطور احسان و مرقت کے درج کرا دی.کیونکہ ہر شخص کو حق ہے کہ بطور احسان اپنی طرف سے جو چاہے دوسرے کو دیدے.مثلاً یہ
سیرت المہدی 264 حصہ اوّل شریعت کا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو کچھ قرض دے تواصل سے زیادہ واپس نہ مانگے کیونکہ یہ سود ہو جاتا ہے.لیکن بانہمہ اس بات کو شریعت نے نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ قرار دیا ہے کہ ہو سکے تو مقروض روپیہ واپس کرتے ہوئے اپنی خوشی سے قارض کو اصل رقم سے کچھ زیادہ دے دے.علاوہ ازیں خاکسار کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ گو شریعت نے رہن میں اصل مقصود ضمانت کے پہلوکورکھا ہے.اور اسی وجہ سے عموماً فقہ والے رہن میں میعاد کو تسلیم نہیں کرتے لیکن شریعت کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات ایک امر ایک خاص بات کو ملحوظ رکھ کر جاری کیا جاتا ہے.مگر بعد اس کے جائز ہو جانے کے اس کے جواز میں دوسری جہات سے بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً سفر میں نماز کا قصر کرنا دراصل مبنی ہے اس بات پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں سفروں میں نکلتے تھے تو چونکہ دشمن کی طرف سے خطرہ ہوتا تھا.اس لئے نماز کو چھوٹا کر دیا گیا.لیکن جب سفر میں ایک جہت سے نماز قصر ہوئی تو پھر اللہ نے مومنوں کیلئے اس قصر کو عام کر دیا اور خوف کی شرط درمیان سے اٹھالی گئی.پس گو رہن کی اصل بنیاد ضمانت کے اصول پر ہے لیکن جب اس کا دروازہ کھلا تو باری تعالیٰ نے اس کو عام کر دیا مگر یہ فقہ کی باتیں ہیں جس میں رائے دینا خاکسار کا کام نہیں.295 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر کئی اخباروں نے آپ کے متعلق اپنی آراء کا اظہار کیا تھا.ان میں سے بعض کی رائے کا اقتباس درج ذیل کرتا ہوں (۱) اخبار ٹائمز آف لنڈن نے جو ایک عالمگیر شہرت رکھتا ہے لکھا کہ ”مرزا صاحب شکل و شباہت میں صاحب عزت و وقار وجود میں تاثیر جذبہ رکھنے والے اور خوب ذہین تھے.مرزا صاحب کے متبعین میں صرف عوام الناس ہی نہیں بلکہ بہت سے اعلی اور عمدہ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں.یہ بات کہ یہ سلسلہ امن پسند اور پابند قانون ہے.اس کے بانی کیلئے قابل فخر ہے.ہمیں ڈاکٹر گر سفولڈ کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ مرز اصاحب اپنے دعاوی میں دھوکا خوردہ تھے.دھوکا دینے والے ہرگز نہ تھے“.
سیرت المہدی 265 حصہ اوّل (۲) علی گڑھ انسٹیٹیوٹ نے جو ایک غیر احمدی پرچہ ہے لکھا کہ ” مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا“.(۳) دی یونیٹی کلکتہ یوں رقمطراز ہوا کہ ” مرحوم ایک بہت ہی دلچسپ شخص تھا.اپنے چال چلن اور ایمان کے زور سے اس نے بیس ہزار متبع پیدا کر لئے تھے.مرزا صاحب اپنے ہی مذہب سے پوری پوری واقفیت نہ رکھتے تھے بلکہ عیسائیت اور ہندو مذہب کے بھی خوب جاننے والے تھے.ایسے آدمی کی وفات قوم کیلئے افسوسناک ہے.“ (۴) صادق الاخبار ریواڑی نے جو ایک غیر احمدی پرچہ ہے.ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا کہ واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کما حقہ ادا کر کے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم، حامی اسلام اور معین المسلمین فاضل اجل عالم بے بدل کی نا گہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جاوے“.(۵) تہذیب نسواں لاہور کے ایڈیٹر صاحب جو ہمارے سلسلہ سے موافقت نہیں رکھتے یوں گویا ہوئے کہ مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت باخبر عالم، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں مذہباً مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ روحوں کیلئے واقعی مسیحائی تھی.“ (4) اخبار آر یہ پتر کالا ہور نے جو ایک سخت معاند آریہ اخبار ہے لکھا کہ ”جو کچھ مرزا صاحب نے اسلام کی ترقی کیلئے کیا ہے اسے مسلمان ہی خوب بج کر سکتے ہیں مگر ایک قابل نوٹس بات جو ان کی تصانیف میں پائی جاتی ہے اور جو دوسروں کو بھی معلوم ہوسکتی ہے یہ ہے کہ عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی نسبت مرزا صاحب کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے.مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی بھی دوستانہ نہیں ہوئے.اور جب ہم آریہ سماج کی گذشتہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو اُن کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے.“ (۷) رسالہ ”اندر“ لاہور جو آریوں کا ایک اخبار تھا یوں رقمطراز ہوا کہ اگر ہم غلطی نہیں کرتے تو مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب ( ﷺ) سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال
سیرت المہدی 266 حصہ اوّل تھا.خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا.اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.“ (۸) اخبار برہمچارک لاہور نے جو برہمو سماج کا ایک پرچہ ہے.مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ”ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مرزا صاحب کیا بلحاظ لیاقت اور کیا بلحاظ اخلاق و شرافت ایک بڑے پایہ کے انسان تھے.“ (۹) امر تا بازار پتر کا“ نے جو کلکتہ کا ایک مشہور بنگالی اخبار ہے لکھا کہ ” مرزا صاحب درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے اور سینکڑوں آدمی روزانہ ان کے لنگر سے کھانا کھاتے تھے.ان کے مریدوں میں ہر قسم کے لوگ فاضل مولوی با اثر رئیس تعلیم یافتہ امیر سوداگر پائے جاتے ہیں“ (۱۰) سٹیٹسمین “ کلکتہ نے جو ایک بڑا نامی انگریزی اخبار ہے لکھا کہ ”مرزا صاحب ایک نہایت مشہور 66 اسلامی بزرگ تھے.“ 296 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار وکیل امرتسر میں جو ایک مشہور غیر احمدی اخبار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ایڈیٹر کی طرف سے جو مضمون شائع ہوا تھا.اس کا مندرجہ ذیل اقتباس ناظرین کے لئے موجب دلچسپی ہوگا.اس سے پتا لگتا ہے کہ غیر احمدی مسلمان با وجود حضرت مسیح موعود کی مخالفت کے آپ کو اور آپ کے کام کو کس نظر سے دیکھتے تھے.دراصل جو کام آپ نے کیا.وہ اس پایہ کا تھا کہ سوائے اس کے کہ کوئی مخالف اپنی مخالفت میں اندھا ہو رہا ہو اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور گو وہ اپنے منہ سے آپ کو مسیح موعود نہ مانیں لیکن ان کے دل بولتے تھے کہ آپ کا دم ان کیلئے مسیحائی کا حکم رکھتا ہے.غرض وکیل نے لکھا کہ.دو وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا.اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا لجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹیاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تمیں برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جوشور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتارہا.خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا.یہ تلخ موت یہ زہر کا پیالہ موت جس نے مرنیوالے کی ہستی نہ خاک پنہاں کی.ہزاروں لاکھوں زمانوں پر تلخ کا میاں بن کے رہے گی
سیرت المہدی 267 حصہ اوّل.اور قضا کے حملے نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتل عام کیا ہے.صدائے ماتم مدتوں اس کی یادگار تازہ رکھے گی.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے.اور مٹانے کیلئے اسے امتداد زمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جاوے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں.اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے.ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پائمال بنائے رکھا.آئندہ بھی جاری رہے.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا.قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدرو عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے.ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر نچے اڑا دئیے.جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اُڑنے لگا غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنیوالی نسلوں کو گراں بار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا کہ جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا.
سیرت المہدی 268 حصہ اوّل اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت سرانجام دی ہے ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعوئی پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جاوے، ناممکن ہے کہ یہ تحریر یں نظر انداز کی جاسکیں.فطری ذہانت مشق و مہارت اور مسلسل بحث و مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک خاص شان پیدا کر دی تھی.اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور وہ اپنی ان معلومات کو نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے تبلیغ وتلقین کا یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملت کا ہوان کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا.ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں.اس کی نظیر غالبا دنیا میں کسی اور جگہ نہیں مل سکتی.مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کیلئے حکم و عدل ہوں.لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی.اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا.آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں اس طرح مذہب کے مطالعہ میں صرف کر دے.297 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اپنی انگریزی کتاب ” احمد یہ موومنٹ“ میں پادری والٹر ایم.اے جو وائی ایم سی اے کے سیکرٹری تھے.حضرت مسیح موعود کے متعلق مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کرتے ہیں.یہ بات ہر طرح ثابت ہے کہ مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھنے والے تھے.ان کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے مخالفین کی طرف سے سخت مخالفت اور ایذا رسانی کے مقابلہ میں دکھائی.یقیناً قابل تحسین ہے.صرف ایک مقناطیسی جذب اور نہایت خوشگوار اخلاق رکھنے والا شخص ہی ایسے لوگوں کی دوستی اور وفاداری حاصل کر سکتا تھا جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقائد کی
سیرت المہدی 269 حصہ اوّل وجہ سے جان دے دی.مگر مرزا صاحب کا دامن نہ چھوڑا.میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہو نیکی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور ان کے جذب اور کھینچ لینے والی شخصیت کو پیش کیا.“ 298 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر سے اندرونِ خانہ تشریف لے جارہے تھے.کسی فقیر نے آپ سے کچھ سوال کیا مگر اس وقت لوگوں کی باتوں میں آپ فقیر کی آواز کو صاف طور پر سن نہیں سکے.تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی فقیر نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے اسے تلاش کیا مگر نہ پایا.لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ فقیر خود بخود آ گیا اور آپ نے اسے کچھ نقدی دے دی اس وقت آپ محسوس کرتے تھے کہ گویا آپ کی طبیعت پر سے ایک بھاری بوجھ اُٹھ گیا ہے.اور آپ نے فرمایا کہ میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس فقیر کو واپس لائے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لوگوں کی باتوں میں ملکر فقیر کی آواز رہ گئی اور آپ نے اس طرف توجہ نہیں کی لیکن جب آپ اندر تشریف لے گئے اور لوگوں کی آوازوں سے الگ ہوئے تو اس فقیر کی آواز صاف طور پر الگ ہو کر آپ کے سامنے آئی اور آپ کو اس کی امداد کیلئے بے قرار کر دیا.299 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے کسی حوالہ وغیرہ کا کوئی کام میاں معراج دین صاحب عمر لا ہوری اور دوسرے لوگوں کے سپر د کیا.چنانچہ اس ضمن میں میاں معراج دین صاحب چھوٹی چھوٹی پر چیوں پر لکھ کر بار بار حضرت صاحب سے کچھ دریافت کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے کہ یہ تلاش کرو یا فلاں کتاب بھیجو.وغیرہ اسی دوران میں میاں معراج دین صاحب نے ایک پرچی حضرت صاحب کو بھیجی اور حضرت صاحب کو مخاطب کر کے بغیر السلام علیکم لکھے اپنی بات لکھ دی.اور چونکہ بار بار ایسی پر چیاں آتی جاتی تھیں.اس لئے جلدی میں ان کی توجہ اس طرف نہ گئی کہ السلام علیکم بھی لکھنا چاہیے.حضرت صاحب نے جب اندر سے اس کا
سیرت المہدی 270 حصہ اوّل جواب بھیجا تو اس کے شروع میں لکھا کہ آپ کو السلام علیکم لکھنا چاہیے تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپکو اپنی جماعت کی تعلیم و تادیب کا کتنا خیال تھا.اور نظر غور سے دیکھیں تو یہ بات معمولی بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مسلم سچائی ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں ادب و احترام اور آداب کا خیال نہ رکھا جاوے تو پھر آہستہ آہستہ بڑی باتوں تک اس کا اثر پہنچتا ہے اور دل پر ایک زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے.علاوہ ازیں ملاقات کے وقت السلام علیکم کہنا اور خط لکھتے ہوئے السلام علیکم لکھنا شریعت کا حکم بھی ہے.“ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا یہ دستور تھا کہ آپ اپنے تمام خطوط میں بسم اللہ اور السلام علیکم لکھتے تھے.اور خط کے نیچے دستخط کر کے تاریخ بھی ڈالتے تھے.میں نے کوئی خط آپ کا بغیر بسم اللہ اور سلام اور تاریخ کے نہیں دیکھا.اور آپ کو سلام لکھنے کی اتنی عادت تھی کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ ایک دفعہ کسی ہندو مخالف کو خط لکھنے لگے تو خود بخود السلام علیکم لکھا گیا.جسے آپ نے کاٹ دیا.لیکن پھر لکھنے لگے تو پھر سلام لکھا گیا چنا نچہ آپ نے دوسری دفعہ اُسے پھر کاٹا لیکن جب آپ تیسری دفعہ لکھنے لگے تو پھر ہاتھ اسی طرح چل گیا.آخر آپ نے ایک اور کاغذ لے کر ٹھہر ٹھہر کر خط لکھا.یہ واقعہ مجھے یقینی طور پر یاد نہیں کہ کس کے ساتھ ہوا تھا لیکن میں نے کہیں ایسا دیکھا ضرور ہے اور غالب خیال پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو دیکھا تھا.والله اعلم 300 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوا کرتے تھے.لیکن پھر بعض باتیں ایسی ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کر دیا اور جب حجرہ گرا کر تمام مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ بدستور امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں مسجد مبارک بہت چھوٹی ہوتی تھی اور لمبی قلمدان کی صورت میں تھی جس
سیرت المہدی 271 حصہ اوّل کے غربی حصہ میں ایک چھوٹا سا حجرہ تھا.جو مسجد کا حصہ ہی تھا لیکن درمیانی دیوار کی وجہ سے علیحدہ صورت میں تھا.امام اس حجرہ کے اندر کھڑا ہوتا تھا.اور مقتدی پیچھے بڑے حصہ میں ہوتے تھے.بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس غربی حجرہ کی دیوار اڑا کر اسے مسجد کے ساتھ ایک کر دیا گیا) 301 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے بیوہ مرحومہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے کہ جب مولوی عبد الکریم صاحب بیمار ہوئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدت تکلیف کے وقت نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحب سے ملنے کیلئے جاؤ نگا.گویا وہ سمجھتے تھے کہ میں کہیں باہر ہوں اور حضرت صاحب قادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زار زار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا.تم مجھے حضرت صاحب کے پاس کیوں نہیں لے جاتے.ابھی سواری منگاؤ اور مجھے لے چلو.ایک دن جب ہوش تھی کہنے لگے جاؤ حضرت صاحب سے کہو کہ میں مر چلا ہوں مجھے صرف دُور سے کھڑے ہو کر اپنی زیارت کرا جائیں.اور بڑے روئے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جاؤ میں نیچے حضرت صاحب کے پاس آئی کہ مولوی صاحب اس طرح کہتے ہیں.حضرت صاحب فرمانے لگے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا میرا دل مولوی صاحب کے ملنے کو نہیں چاہتا ! مگر بات یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا.مولویانی مرحومہ کہتی تھیں کہ اس وقت تمہاری والدہ پاس تھیں انہوں نے حضرت صاحب سے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا میں جاتا ہوں مگر تم دیکھ لینا کہ ان کی تکلیف کو دیکھ کر مجھے دورہ ہو جائے گا.خیر حضرت صاحب نے پگڑی منگا کرسر پر رکھی اور ادھر جانے لگے.میں جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کر آگے چلی گئی تا کہ مولوی صاحب کو اطلاع دوں کہ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں.جب میں نے مولوی صاحب کو جا کر اطلاع دی تو انہوں نے الٹا مجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب کو کیوں تکلیف دی؟ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے ؟ میں نے کہا کہ آپ نے خود تو کہا تھا.انہوں نے کہا کہ وہ تو میں نے دل کا دکھڑا رویا تھا.تم فوراً جاؤ اور حضرت
سیرت المہدی 272 حصہ اوّل صاحب سے عرض کرو کہ تکلیف نہ فرمائیں میں بھاگی گئی تو حضرت صاحب سیٹرھیوں کے نیچے کھڑے اوپر آنے کی تیاری کر رہے تھے.میں نے عرض کر دیا کہ حضور آپ تکلیف نہ فرماویں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بہت محبت تھی اور یہ اسی محبت کا تقاضا تھا کہ آپ مولوی صاحب کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے چنانچہ باہر مسجد میں کئی دفعہ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں ان کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا.چنانچہ آخر مولوی صاحب اسی مرض میں فوت ہو گئے مگر حضرت صاحب ان کے پاس نہیں جا سکے.بلکہ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کی بیماری میں اپنی رہائش کا کمرہ بھی بدل لیا تھا کیونکہ جس کمرہ میں آپ رہتے تھے وہ چونکہ مولوی صاحب کے مکان کے بالکل نیچے تھا اس لئے وہاں مولوی صاحب کے کراہنے کی آواز پہنچ جاتی تھی جو آپ کو بیتاب کر دیتی تھی.اور مولوی صاحب مرحوم چونکہ مرض کا ربنکل میں مبتلا تھے اس لئے ان کا بدن ڈاکٹروں کی چیر پھاڑی سے چھلنی ہو گیا تھا اور وہ اس کے درد میں بے تاب ہو کر کراہتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم حضرت صاحب کے مکان کے اس حصہ میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ملحق ہے اس مکان کے نیچے خود حضرت صاحب کا رہائشی کمرہ تھا.مولوی عبدالکریم صاحب کے علاوہ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے بھی حضرت صاحب کے مکان کے مختلف حصوں میں رہتے تھے اور شروع شروع میں جب نواب محمد علی خان صاحب قادیان آئے تھے تو ان کو بھی حضرت صاحب نے اپنے مکان کا ایک حصہ خالی کر دیا تھا.مگر بعد میں انہوں نے خود اپنا مکان تعمیر کروالیا.اسی طرح شروع میں مفتی محمد صادق صاحب کو بھی آپ نے اپنے مکان میں جگہ دی تھی.مولوی محمد احسن صاحب بھی کئی دفعہ حضرت صاحب کے مکان پر ٹھہر تے تھے.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بھی جب فیملی کے ساتھ آتے تھے تو عموماًحضرت صاحب ان کو اپنے مکان کے کسی حصہ میں ٹھہراتے تھے.دراصل حضرت صاحب کی یہ خواہش رہتی تھی کہ اس قسم کے لوگ حتی الوسع آپ کے قریب ٹھہریں.
سیرت المہدی 273 حصہ اوّل 302 بسم الله الرحمن الرحیم.بیان کیا مفتی محمد صادق صاحب نے کہ ایک دفعہ جب میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر تھا تو آپ کے کمرہ کا دروازہ زور سے کھٹکا اور سید آل محمد صاحب امروہوی نے آواز دی کہ حضور میں ایک نہایت عظیم الشان فتح کی خبر لایا ہوں.حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ جا کر ان کی بات سن لیں کہ کیا خبر ہے.میں گیا اور سید آل محمد صاحب سے دریافت کیا انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی کا فلاں مولوی سے مباحثہ ہوا تو مولوی صاحب نے اُسے بہت سخت شکست دی.اور بڑا رگیدا.اور وہ بہت ذلیل ہوا وغیرہ وغیرہ.اور مولوی صاحب نے مجھے حضرت صاحب کے پاس روانہ کیا ہے کہ جا کر اس عظیم الشان فتح کی خبر دوں.مفتی صاحب نے بیان کیا کہ میں نے واپس آکر حضرت صاحب کے سامنے آل محمد صاحب کے الفاظ دہرا دئیے.حضرت صاحب ہنسے اور فرمایا.(کہ ان کے اس طرح دروازہ کھٹکھٹانے اور فتح کا اعلان کرنے سے ) ” میں سمجھا تھا کہ شاید یورپ مسلمان ہو گیا ہے.مفتی صاحب کہتے تھے کہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدس کو یورپ میں اسلام قائم ہو جانے کا کتنا خیال تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گوتبلیغ کیلئے سب جگہیں برابر ہیں اور ہر غیر مسلم ایک سا مستحق ہے کہ اس تک حق پہنچایا جاوے اور ہر غیر مسلم کا مسلمان ہونا ہمارے لئے ایک سی خوشی رکھتا ہے خواہ کوئی بادشاہ ہو یا ایک غریب بھنگی لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض اوقات ایک خاص قوم یا خاص ملک کے متعلق حالات ایسے جمع ہو جاتے ہیں کہ اس کی تبلیغ خاص رنگ پیدا کر لیتی ہے.آجکل یورپ مسیحیت اور مادیت کا گھر ہے.پس لا ریب اس کا مسلمان ہونا اسلام کی ایک عظیم الشان فتح ہے.303 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مفتی محمد صادق صاحب نے کہ ایک دفعہ ہم چند دوست مسجد میں بیٹھے ہوئے خواجہ کمال الدین صاحب کی عادت نسیان کے متعلق باتیں کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اندر سے ہماری باتوں کو سن لیا اور کھڑ کی کھول کر مسجد میں تشریف لے آئے.اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ کیا باتیں کرتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ حضور خواجہ صاحب کے حافظہ کا ذکر ہورہا تھا.
برت المهدی 274 حصہ اوّل آپ ہنسے اور فرمایا کہ ہاں خواجہ صاحب کے حافظہ کا تو یہ حال ہے کہ ایک دفعہ یہ رفع حاجت کیلئے پاخانہ گئے اور لوٹا وہیں بھول آئے اور لوگ تلاش کرتے رہے کہ لوٹا کدھر گیا.آخر لوٹا پاخانہ میں ملا.مفتی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بالکل بے تکلف رہتے تھے اور ان کی ساری باتوں میں شریک ہو جاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجموعہ کی کا پیاں لکھی جارہی تھیں کہ مفتی صاحب امریکہ سے جہاں وہ تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے ہوئے تھے واپس تشریف لے آئے اور اپنی بعض تقریروں میں انہوں نے یہ باتیں بیان کیں.خاکسار نے اس خیال سے کہ مفتی صاحب کا اس کتاب میں حصہ ہو جاوے.انہیں درج کر دیا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ یوں تو حضرت صاحب اپنے سارے خدام سے ہی بہت محبت رکھتے تھے لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحب سے خاص محبت ہے.جب کبھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے تو فرماتے ”ہمارے مفتی صاحب“ اور جب مفتی صاحب لاہور سے قادیان آیا کرتے تھے تو حضرت صاحب ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک محبت اور اس کے اظہار کے اقسام ہیں جنھیں نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض وقت لوگ غلط خیالات قائم کر لیتے ہیں.انسان کی محبت اپنی بیوی سے اور رنگ کی ہوتی ہے اور والدین سے اور رنگ کی.رشتہ داروں سے اور رنگ کی ہوتی ہے اور دوسروں سے اور رنگ کی.رشتہ داروں میں سے عمر کے لحاظ سے چھوٹوں سے اور رنگ کی محبت ہوتی ہے اور بڑوں سے اور رنگ کی.خادموں کیساتھ اور رنگ کی ہوتی ہے اور دوسروں کے ساتھ اور رنگ کی.دوستوں میں سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ محبت اور رنگ کی ہوتی ہے.چھوٹوں کے ساتھ اور رنگ کی.اپنے جذبات محبت پر قابور رکھنے والوں کیساتھ اور رنگ کی ہوتی ہے ، اور وہ جن کی بات بات سے محبت ٹپکے اور وہ اس جذبہ کو قابو میں نہ رکھ سکیں انکے ساتھ اور رنگ کی وغیرہ وغیرہ.غرض محبت اور محبت کے اظہار کے بہت سے شعبے اور بہت سی صورتیں ہیں جن کے نظر انداز کرنے سے غلط نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.ان باتوں کو نہ سمجھنے والے لوگوں نے فضیلت صحابہ کے متعلق بھی بعض غلط خیال
سیرت المہدی 275 حصہ اوّل قائم کئے ہیں مثلاً حضرت ابوبکر اور حضرت علیؓ اور حضرت زید اور حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کی مقابلہ فضیلت کے متعلق مسلمانوں میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے.مگر خاکسار کے نزدیک اگر جہات اور نو عیت محبت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جاوے اور اس علم کی روشنی میں آنحضرت علی کے اُس طریق اور اُن اقوال پر غور کیا جاوے جن سے لوگ عموماً استدلال پکڑتے ہیں تو بات جلد فیصلہ ہو جاوے.حضرت علیؓ آنحضرت ﷺ کے عزیز تھے اور بالکل آپ کے بچوں کی طرح آپ کے ساتھ رہتے تھے.اس لئے ان کے متعلق آپ کا طریق اور آپ کے الفاظ اور قسم کی محبت کے حامل تھے.مگر حضرت ابو بکر آپ کے ہم عمر اور غیر خاندان سے تھے.اور سنجیدہ مزاج بزرگ آدمی تھے اسلئے ان کے ساتھ آپ کا طریق اور آپ کے الفاظ اور قسم کے ہوتے تھے، ہر دوکو اپنے اپنے رنگ کے معیاروں سے ناپا جاوے تو پھر موازنہ ہوسکتا ہے.مفتی محمد صادق صاحب سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی ہی محبت تھی جیسے چھوٹے عزیزوں سے ہوتی ہے.اور اسی کے مطابق آپ کا ان کے ساتھ رویہ تھا.لہذا مولوی شیر علی صاحب کی روایت سے یہ مطلب نہ سمجھنا چاہیے اور نہ غالبا مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مفتی صاحب کے ساتھ مثلاً حضرت مولوی نور الدین صاحب یا مولوی عبدالکریم صاحب جیسے بزرگوں کی نسبت بھی زیادہ محبت تھی.304 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے مجھ سے فرمایا کہ ایک بادشاہ نے ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے کاریگر سے کہا کہ تم اپنے ہنر اور کمال کا مجھے نمونہ دکھاؤ اور نمونہ بھی ایسا نمونہ ہو کہ اس سے زیادہ تمہاری طاقت میں نہ ہو.گویا اپنے انتہائی کمال کا نمونہ ہمارے سامنے پیش کرو.اور پھر اس بادشاہ نے ایک دوسرے اعلیٰ درجہ کے کا ریگر سے کہا کہ تم بھی اپنے کمال کا اعلیٰ ترین نمونہ بنا کر پیش کرو.اور ان دونوں کے درمیان اس بادشاہ نے ایک حجاب حائل کر دیا.کاریگر نمبر اول نے ایک دیوار بنائی اور اس کو نقش و نگار سے اتنا آراستہ کیا کہ بس حد کر دی.اور اعلیٰ ترین انسانی کمال کا نمونہ تیار کیا.اور دوسرے کاریگر نے ایک دیوار بنائی مگر اس کے اوپر
سیرت المہدی 276 حصہ اوّل کوئی نقش و نگار نہیں کئے لیکن اس کو ایسا صاف کیا اور چمکایا کہ ایک مصفا شیشے سے بھی اپنے صیقل میں وہ بڑھ گئی.پھر بادشاہ نے پہلے کاریگر سے کہا کہ اپنا نمونہ پیش کرو چنانچہ اس نے وہ نقش و نگار سے مزین دیوار پیش کی اور سب دیکھنے والے اُسے دیکھ کر دنگ رہ گئے.پھر بادشاہ نے دوسرے کا ریگر سے کہا کہ اب تم اپنے کمال کا نمونہ پیش کرو اس نے عرض کیا کہ حضور یہ حجاب درمیان سے اٹھا دیا جاوے.چنانچہ بادشاہ نے اُسے اٹھواد یا تو لوگوں نے دیکھا کہ بعینہ اس قسم کی دیوار جو پہلے کاریگر نے تیار کی تھی دوسری طرف بھی کھڑی ہے.کیونکہ درمیانی حجاب اُٹھ جانے سے دیوار کے سب نقش و نگار بغیر کسی فرق کے اس دوسری دیوار پر ظاہر ہو گئے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب حضرت صاحب نے مجھے یہ بات سنائی تو میں سمجھا کہ شاید کسی بادشاہ کا ذکر ہوگا اور میں نے اس کے متعلق کوئی زیادہ خیال نہ کیا لیکن جب حضرت مسیح موعود نے ظلی نبوت کا دعوی کیا تو تب میں سمجھا کہ یہ تو آپ نے اپنی ہی مثال سمجھائی تھی.چنانچہ میں نے ظلی نبوت کا مسئلہ یہی مثال دیکر غوث گڑھ والوں کو سمجھایا اور وہ اچھی طرح سمجھ گئے.پھر جب لاہوریوں کی طرف سے مسئلہ نبوت میں اختلاف ہوا تو اس وقت غوث گڑھ کی جماعت کو کوئی تشویش پیدا نہیں ہوئی اور انہوں نے کہا کہ یہ بات تو آپ نے ہم کو پہلے سے سمجھائی ہوئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی حضرت مسیح موعود کا کمال اسی میں ہے کہ آپ نے اپنے لوح قلب کو ایسا صیقل کیا کہ اس نے سرور کائنات کے نقش و نگار کی پوری پوری تصویر اتار لی اور لا ریب جو کوئی بھی اپنے دل کو پاک وصاف کر دیگا وہ اپنی استعداد کے مطابق آپ کے نقش و نگار حاصل کر لے گا.محمد رسول اللہ ﷺ بخیل نہیں ہیں بلکہ بخل ہم میں ہے جو آ پ کی اتباع کو کمال تک نہیں پہنچاتے.اللهم صل عليه و على آله و علی اصحابه و علی عبدك المسيح الموعود و بارک وسلم و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.تمام شُد
63636363638 العلمية الا سيرة المهدى حصہ دوم تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے 888888
سیرت المہدی 279 حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم نَحمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم وعلى عبده المسيح الموعود مع التسليم عرض حال عن عمر بن الخطاب رضی الله تعالى عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَالِكُلِّ امْرِيُّ مَانَوَى (رواه البخاری) سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل طبع ہو کر ہدیہ ناظرین ہو چکا ہے.اس میں بوجہ سہو کا تب نیز بوجہ اس کے کہ جلدی کی وجہ سے بعض روایات کی پوری طرح نظر ثانی نہیں ہو سکی.بعض خفیف خفیف غلطیاں رہ گئی ہیں جن کی اصلاح انشاء اللہ اس حصہ یعنی حصہ دوم میں کر دی جائے گی.اب آج بتاریخ ۲۷ رمضان ۱۳۲۳ھ مطابق ۲ مئی ۱۹۲۴ء بروز جمعہ یہ خاکسار سیرۃ المہدی کے حصہ دوم کو شروع کرتا ہے.تکمیل کی توفیق دینا باری تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.انسان ضعیف البنیان کا ارادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.پس میری دعا اور التجا اسی ذات سے ہے کہ اے ضرورت زمانہ کے علیم اور میرے دل کے خبیر تجھے سب قدرت حاصل ہے.مجھے توفیق دے کہ تیرے مسیح و مہدی کے سوانح و سیرت واقوال و احوال وغیرہ کو جمع کروں تا کہ اس ہدایت کے آفتاب سے لوگوں کے دل منور ہوں اور تا اس چشمہ صافی سے تیرے بندے اپنی پیاس بجھائیں اور تا تیرے اس مامور ومرسل کے نمونہ پر چل کر تیرے متلاشی تجھ تک راہ پائیں اور تا تیرے برگزیدہ رسول نبیوں کے سرتاج محمد مصطفی ﷺ کے اس ظل کامل اور بروز اکمل کی بعثت کی غرض پوری ہو اور تیرے بندے بس تیرے ہی بندے ہو کر زندگی بسر کریں.اللھم امین خاکسار راقم آثم مرزا بشیر احمد قادیان
سیرت المہدی 281 حصہ دوم بسم اللہ الرحمن الرحیم 305 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ جب میں لدھیانہ میں تھا اور چہل قدمی کے لئے باہر راستہ پر جارہا تھا تو ایک انگریز میری طرف آیا اور سلام کہہ کر مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا آپ کے ساتھ کلام کرتا ہے.میں نے کہا ”ہاں“ اس پر اس نے پوچھا کہ وہ کس طرح کلام کرتا ہے؟ میں نے کہا اسی طرح جس طرح اس وقت آپ میرے ساتھ باتیں کر رہے ہیں.اس پر اس انگریز کے منہ سے بے اختیار نکلا سبحان اللہ اور پھر وہ ایک گہری فکر میں پڑ کر آہستہ آہستہ چلا گیا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ اُس کا اس طرح سبحان اللہ کہنا آپ کو بہت عجیب اور بھلا معلوم ہوا تھا.اسی لئے آپ نے یہ واقعہ بیان کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں جب حضرت مسیح موعود کے دعوی کو دیکھتا ہوں تو دل سرور سے بھر جاتا ہے.بھلا جس طرح یہ شیر خدا کا مر دمیدان بن کر گر جاہے کسی کی کیا مجال ہے کہ اس طرح اسی میدان میں بقائمی ہوش و حواس افترا کے طور پر قدم دھرے اور پھر لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيلِ لَا خَذْ نَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنُهُ الْوَتِينُ (الحاقة :۴۵ تا ۴۷) کے وعید کی آگ اسے جلا کر راکھ نہ کر دے ، مگر یہ یا درکھنا چاہیے کہ خدائی قانون میں ہر جرم کی الگ الگ سزا ہے اور لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کے ماتحت صرف وہی شخص سزا پا سکتا ہے جو خدائے خالق و مالک کی طرف جسے وہ ذات وصفات ہر دو میں اپنی ذات وصفات بلکہ جمیع مخلوقات سے واضح طور پر غیر اور
سیرت المہدی 282 حصہ دوم ممتاز و متباین یقین کرتا ہو.بطریق افترا بقائمی ہوش و حواس الفاظ معینہ کی صورت میں کوئی قول یا اقوال منسوب کر کے اس بات کا دعویٰ شائع کرے کہ یہ کلام خدا نے مجھے الہام کیا ہے اور وہ خدائی کلام کو خود اپنے کلام اور خیالات سے ہر طرح ممتاز ومتباین قرار دیتا ہو.یعنی کسی خاص مقام یا خاص حالت یا خاص قسم کے دل کے خیالات کا نام الہام الہی رکھنے والا نہ ہو.اور نہ خود خدائی کا دعوے دار بنتا ہو.جیسا کہ نیچریوں یا برہم سماجیوں یا بہائیوں کا خیال ہے.اگر یہ شرائط جو آیت لَوْ تَقَوَّلَ سے ثابت ہیں مفقود ہوں تو خواہ ایک شخص تئیس سال چھوڑ کر دوسو سال بھی زندگی پائے وہ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کے وعید کے ماتحت سزا نہیں پائے گا.گو وہ اور طرح مجرم ہو اور دوسری سزائیں بھگتے جیسا کہ مثلاً وہ شخص جو خواہ ساری عمر چوری یا دھو کہ یا فریب یا اکل بالباطل وغیرہ کے جرائم میں ماخوذ ہوکر ان جرموں کی سزائیں پاتا رہا ہو.اگر وہ ڈاکہ زن نہیں ہے تو وہ کبھی بھی ڈاکہ کے جرم کی سزا نہیں پاسکتا.فَافُهم - 306 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا اس وقت وہ حوالہ حضرت کو یاد نہیں تھا اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا لہذا شمانت کا اندیشہ پیدا ہوا مگر حضرت صاحب نے بخاری کا ایک نسخہ منگایا اور یونہی اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلد جلد ایک ایک ورق اس کا الٹانے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور کہا کہ لو یہ لکھ لو.دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے.اور کسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا.جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا ہوا اسی لئے میں ان کو جلد جلد الٹا تا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ سوائے اس جگہ کے کہ جس پر حوالہ درج تھا باقی تمام جگہ آپ کو خالی نظر آئی.
سیرت المہدی 283 حصہ دوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول سے اس روایت کے سننے کے بعد ایک دفعہ خاکسار نے ایک مجمع میں یہ روایت زیادہ تفصیلی طور پر مفتی محمد صادق صاحب سے بھی سنی تھی.مفتی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالبا نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی.سواوّل تو بخاری ہی نہیں ملتی تھی اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی اور اعتراض کرنے والے مولوی کے سامنے حوالہ کا جلد رکھا جانا از بس ضروری تھا.اس پر آپ نے بخاری اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور چند چند صفحات کے بعد فرماتے تھے کہ یہ لکھ لو.اس جلدی کو دیکھ کر کسی خادم نے عرض کیا کہ حضور ذرا اطمینان سے دیکھا جاوے تو شاید زیادہ حوالے مل جاویں.آپ نے فرمایا کہ نہیں بس یہی حوالے ہیں جو میں بتا رہا ہوں.ان کے علاوہ اس کتاب میں کوئی حوالہ نہیں کیونکہ سوائے حوالہ کی جگہ کے مجھے سب جگہ خالی نظر آتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آدمی اللہ کا ہو کر رہے پھر وہ خود حقیقی ضرورت کے وقت اسکے لئے غیب سے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اگر اس وقت تقدیر عام کے ماتحت اسباب میسر نہ آ سکتے ہوں اور ضرورت حقیقی ہو تو تقدیر خاص کے ماتحت بغیر مادی اسباب کے اسکی دستگیری فرمائی جاتی ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو.مگر وہ شخص جس کی نظر عالم مادی سے آگے نہیں جاتی اس حقیقت سے نا آشنار ہتا ہے،مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے:.فلسفی کو منکر حنانه است از حواس انبیاء بیگانه است اس واقعہ کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ یہ واقعہ میرے سامنے پیش آیا تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ تھا اور میں اس میں کا تب تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے پرچوں کی نقل کرتا تھا.مفتی محمد صادق صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ غالبا حضرت صاحب کو نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی.اس میں جناب مفتی صاحب کو غلطی لگی ہے.کیونکہ مفتی صاحب وہاں نہیں تھے.نون خفیفہ و قیلہ کی بحث تو دہلی میں مولوی محمد بشیر سہسوانی تم بھو پالوی کے ساتھ تھی.اور تلاش حوالہ بخاری کا واقعہ لدھیانہ کا ہے.بات یہ تھی کہ
سیرت المہدی 284 حصہ دوم لدھیانہ کے مباحثہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا تھا.بخاری موجود تھی.لیکن اس وقت اس میں یہ حوالہ نہیں ملتا تھا.آخر کہیں سے تو ضیح تلویح منگا کر حوالہ نکال کر دیا گیا.صاحب توضیح 66 نے لکھا ہے.کہ یہ حدیث بخاری میں ہے.اور اس واقعہ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ:.روایت نمبر ۳۰۶ میں حضرت حکیم الامت خلیفہ اسیح اول کی روایت سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے اور حضرت مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کی روایت سے اس کی مزید تصریح کی گئی ہے.مگر مفتی صاحب نے اُسے لدھیانہ کے متعلق بیان فرمایا ہے اور نونِ ثقیلہ والی بحث کے تعلق میں ذکر کیا ہے.جو درست نہیں ہے.مفتی صاحب کو اس میں غلطی لگی ہے.لدھیانہ میں نہ تو نونِ ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث ہوئی اور نہ اس قسم کے حوالہ جات پیش کرنے پڑے.نونِ ثقیلہ کی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر بھو پالوی والے مباحثہ کے دوران میں پیش آئی تھی.اور وہ نون ثقیلہ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے تھے.اور جہاں تک میری یا د مساعدت کرتی ہے اس مقصد کے لئے بھی بخاری کا کوئی حوالہ پیش نہیں ہوا.الحق دہلی سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے.دراصل یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ”محد ثیت اور نبوت پر بحث ہوئی تھی.یہ مباحثہ محبوب رائیوں کے مکان متصل لنگے منڈی میں ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا.جس میں حضرت عمر کی محدثیت پر استدلال تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا.اور بخاری خود بھیج دی.مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود نکال کر پیش کیا.اور یہ حدیث صحیح بخاری پارہ ۱۴ حصہ اول باب مناقب عمرہ میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں.عن ابی ھریرۃ رضی الله تعالى عنه.قال النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم قد كان فيمن قبلكم من بنى اسرائيل رجال يُكَلَّمُونَ من غيران يكونوا انبياء فَإِنْ يَكُ مِنْ أُمَّتِى مِنْهُمْ اَحَدٌ فَعُمَر - جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی.تو
رت المہدی 285 حصہ دوم فریق مخالف پر گویا ایک موت وارد ہوگئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی پر مباحثہ ختم کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایتوں میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق خاکسار ذاتی طور پر کچھ عرض نہیں کر سکتا.کہ اصل حقیقت کیا ہے.ہاں اس قدر درست ہے کہ نونِ ثقیلہ والی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر والے مباحثہ میں پیش آئی تھی.اور بظاہر اس سے بخاری والے حوالہ کا جوڑ نہیں ہے.پس اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہلی والے مباحثہ کا نہیں ہے.آگے رہا لا ہور اور لدھیانہ کا اختلاف ،سواس کے متعلق میں کچھ عرض نہیں کر سکتا.نیز خاکسار افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ سیرۃ المہدی کا حصہ سوم زیر تصنیف ہے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی فوت ہو چکے ہیں.پیر صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایات کا ایک عمدہ خزانہ تھے.307 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی.اور اس وقت گھر میں کوئی اور اس کام کو کرنے والا نہ تھا اس لئے حضرت صاحب اس چوزہ کو ہاتھ میں لے کر خود ذبح کرنے لگے مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی.جس سے بہت خون بہہ گیا.اور آپ تو بہ تو بہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے.پھر وہ چوزہ کسی اور نے ذبح کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی چوٹ وغیرہ اچا نک لتی تھی تو جلدی جلدی تو بہ تو بہ کے الفاظ منہ سے فرمانے لگ جاتے تھے.دراصل جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ عموماً کسی قانون شکنی کا نتیجہ ہوتی ہے.خواہ وہ قانون شریعت ہو یا قانون نیچر یعنی قانون قضاء وقد ریا کوئی اور قانون ، پس ایک صحیح الفطرت آدمی کا یہی کام ہونا چاہیے کہ وہ ہر قسم کی تکلیف کے وقت تو بہ کی طرف رجوع کرے.اور یہی مفہوم إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے کا ہے جس کی کہ قرآن شریف تعلیم دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ کبھی جانور وغیرہ ذبح نہ کئے تھے.اس لئے بجائے چوزہ کی گردن کے اپنی انگلی پر چھری پھیر لی.اور یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ آپ قانون ذبح کے عملی پہلو سے واقف نہ تھے.واللہ اعلم.
سیرت المہدی 286 حصہ دوم پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ:.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عصر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے.بائیں ہاتھ کی انگلی پر پٹی پانی میں بھیگی ہوئی باندھی ہوئی تھی.اس وقت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس سے پوچھا.کہ حضور نے یہ پٹی کیسے باندھی ہے؟ تب حضرت اقدس علیہ السّلام نے ہنس کر فرمایا کہ ایک چوزہ ذبح کرنا تھا.ہماری اُنگلی پر چھری پھر گئی.مولوی صاحب مرحوم بھی ہنسے اور عرض کیا کہ آپ نے ایسا کام کیوں کیا.حضرت نے فرمایا.کہ اس وقت اور کوئی نہ تھا.308 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند احباب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ جو مشہور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بادل کا سایہ رہتا تھا.یہ کیا بات ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ ہر وقت تو بادل کا سایہ رہنا ثابت نہیں.اگر ایسا ہوتا تو کوئی کافر کافر نہ رہتا.سب لوگ فوراً یقین لے آتے کیونکہ ایسا معجزہ دیکھ کر کون انکار کر سکتا تھا دراصل سنت اللہ کے مطابق معجزہ تو وہ ہوتا ہے کہ جس میں ایک پہلو اخفاء کا بھی ہواور فرمایا کہ ہر وقت بادل کا سایہ رہنا تو موجب تکلیف بھی ہے علاوہ ازیں اگر ہر وقت بادل کا سایہ رہتا تو کیوں گرمی کے وقت حضرت ابو بکر آپ پر چادر تان کر سایہ کرتے اور ہجرت کے سفر میں آپ کے لئے کیوں سایہ دار جگہ تلاش کرتے ؟ ہاں کسی خاص وقت کسی حکمت کے ماتحت آپ کے سر پر بادل نے آکر سایہ کیا ہو تو تعجب نہیں.چنانچہ ایک دفعہ ہمارے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوا تھا پھر آپ نے وہ واقعہ سنایا جو بٹالہ سے قادیان آتے ہوئے آپ کو پیش آیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ حصہ اول میں درج ہو چکا ہے.309 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلے دن لدھیانہ میں بیعت ہوئی تو سب سے پہلے حضرت مولوی نور الدین صاحب نے بیعت کی.ان کے بعد میر عباس علی نے اور پھر خواجہ علی صاحب مرحوم نے کی.اس دن میاں عبداللہ صاحب سنوری اور شیخ حامد علی صاحب مرحوم اور مولوی عبد اللہ صاحب جو خوست کے رہنے والے تھے اور بعض اور آدمیوں نے بیعت کی
سیرت المہدی 287 حصہ دوم میں موجود تھا مگر میں نے اُس دن بیعت نہیں کی.کیونکہ میر انشاء قادیان کی مسجد مبارک میں بیعت کرنے کا تھا جسے آپ نے منظور فرمایا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی موجود تھے مگر انہوں نے بھی اس وقت بیعت نہیں کی بلکہ کئی ماہ بعد بیعت کی.مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ روایت نمبر ۳۰۹ میں مخدومی مکرمی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نے پہلے دن کی بیعت میں مولوی عبد اللہ صاحب کے ذکر میں فرمایا ہے کہ وہ خوست کے رہنے والے تھے.یہ درست نہیں.دراصل مولوی عبداللہ صاحب کو بہت کم لوگ جانتے ہیں.وہ خوست کے رہنے والے نہ تھے.اس میں صاحبزادہ صاحب کو سہو ہوا ہے.مولوی عبداللہ صاحب اس سلسلہ کے سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے بیعت لینے کی اجازت دی تھی.آپ تنگئی علاقہ چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے.میں نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے نام حضرت اقدس کا مکتوب اور اجازت نامہ الحکم کے ایک خاص نمبر میں شائع کر دیا تھا.310 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے سونے کی کیفیت یہ تھی کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جاگ اُٹھتے تھے اور منہ سے آہستہ آہستہ سبحان اللہ سبحان اللہ فرمانے لگ جاتے تھے اور پھر سو جاتے تھے.311 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی کے حصہ اول میں بعض غلطیاں واقع ہو گئی ہیں.جن کی اصلاح ضروری ہے.(۱) صفحہ سے روایت نمبر 1 ( صحیح نمبر11) میں الفاظ پیدا ہونے لگی تو منگل کا دن تھا.اس لئے حضرت صاحب نے دُعا کی کہ منگل گزرنے کے بعد پیدا ہو چنانچہ وہ منگل گزرنے کے بعد بدھ کی رات کو پیدا ہوئی کی بجائے الفاظ پیدا ہونے لگی تو منگل کا دن تھا اس لئے حضرت صاحب نے دُعا کی کہ خدا اسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفو ظ ر کھے سمجھے جاویں.(۲) صفحہ ۵۸.روایت نمبر ۷ ۸ ( صحیح نمبر ۸۹ ) میں الفاظ اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئے اور فرمایا “ کے بعد الفاظ
سیرت المہدی 288 حصہ دوم " آپ ہمارے مہمان ہیں اور لکھنے سے رہ گئے ہیں زائد کئے جاویں.(۳) صفحه ۶۶ روایت نمبر ۹۸ ( صحیح نمبر ۱۰۰) میں الفاظ پھر اسی طرح لیٹ گئے“ کی بجائے الفاظ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی سمجھے جاویں.(۴) صفحه ۶۶.روایت نمبر ۹۸ ( صحیح نمبر ۱۰۰) میں اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کے بعد ” کرتہ پڑ کے الفاظ لکھنے سے رہ گئے ہیں.زائد کئے جاویں.(۵) صفحہ ۱۲۱.روایت نمبر ۱۳۳) صحیح نمبر ۱۳۶) میں ” کا پی مذکور میں“ کے الفاظ کے بعد بجائے ۳۱ مارچ“ کے الفاظ ۳ مارچ سمجھے جاویں.نیز ” مربی ام کی بجائے الفاظ مربی انبہ.اور دودھ کی بجائے لفظ ”شیر“ سمجھے جاویں.(۶) صفحه ۱۲۴ روایت نمبر ۱۳۷ ( صحیح نمبر ۱۴۰) میں مگر ایک دفعہ جب حضرت صاحب کہیں قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے.(تا) پولیس نے اس بلوہ کی تحقیقات شروع کر دی تھی“ کے الفاظ کے بجائے مندرجہ ذیل عبارت سمجھی جاوے مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بھرتی اُٹھائی تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھ بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اس کے مکان پر حملہ آور ہو گئے.پہلے تو احمدی بچتے رہے.لیکن جب اُنھوں نے بے گناہ آدمیوں کو مارنا شروع کیا اور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمدیوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآخر حملہ آوروں کو بھا گنا پڑا چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتا لگا کہ احمدیوں کا ڈران سے نہیں بلکہ اپنے امام سے ہے.اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کی.(۷) صفحه ۱۲۶ روایت نمبر ۱۳۸( صحیح نمبر (۱۴) میں امرتسر سے آدمی اور چھپر کے بعد الفاظ کا سامان“ زائد کئے جاویں.(۸) صفحه ۲۴۲ روایت نمبر ۲۶۶ ( صحیح نمبر۲۷۲) میں عیسائی ہو جاؤں گا اور اور بھی بہت سے لوگ عیسائی ہو جائیں گے“ کی بجائے الفاظ حق کو قبول کرلوں گا اور اور بھی بہت سے لوگ حق کو قبول کر لیں گے، سمجھے
سیرت المهدی جاویں.289 اس کے علاوہ روایات کے نمبر میں بھی غلطی ہوگئی ہے جو درج ذیل ہے:.حصہ دوم (۱) صفحہ ۳ پر روایت نمبر ۵ کے بعد کی روایت بلا نمبر لکھی گئی ہے اس کا نمبر سمجھا جانا چاہیے؛ (۲) صفحه ۴۱ پر روایت نمبر ۶۰ کی بعد کی روایت کا نمبر نہیں لکھا گیا، اس کا نمبر ا ۶۰.اور صحیح نمبر ۶۲ سمجھا جانا چاہیے.(۳) صفحه ۱۴۲ روایت نمبر ۱۴۸ کے بعد کی روایت کا نمبر درج نہیں اس کا نمبر ۱ / ۱۴۸ اور صیح نمبر۱۵۲ سمجھا جانا چاہیے.(۴) صفحه ۲۴ اپر روایت نمبر ۱۶۵ کی بعد کی روایت کا نمبر درج نہیں اس کا نمبر ۱۶۶.اور صحیح نمبر ۷۰ سمجھا جانا چاہیے.(۵) صفحه ۹۶ ۱ پر روایت نمبر ۱۷۹ کے بعد کی روایت کا نمبر دوبارہ نمبر ۷۹ الکھا گیا ہے اس کا نمبر ۱ /۱۷۹ اور صحیح نمبر ۱۸۴ سمجھا جانا چاہیے.(۶) اس طرح سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی کل روایت کا نمبر ۲۹۹ کی بجائے ۳۰۴ بنتا ہے چنانچہ اسی کوملحوظ رکھ کر حصہ دوئم کی پہلی روایت کو ۳۰۵ کا نمبر دیا گیا ہے.312 بسم الله الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب آھم کی پیش گوئی کی میعاد قریب آئی تو اہلیہ صاحبہ مولوی نورالدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہتا ہے کہ ایک ہزار ماش کے دانے لے کر ان پر ایک ہزار دفعہ سورہ الم تَرَ كَيْفَ پڑھنی چاہیے اور پھر ان کو کسی کنوئیں میں ڈال دیا جاوے اور پھر واپس منہ پھیر کر نہ دیکھا جاوے.یہ خواب حضرت خلیفہ اول نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا.اس وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے اور عصر کا وقت تھا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اس خواب کو ظاہر میں پورا کر دینا چاہیے.کیونکہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی خواب خود آپ یا احباب میں سے کوئی دیکھتے تو آپ اسے ظاہری شکل موجودہ ایڈیشن میں یہ ساری تصحیحات کر لی گئی ہیں: ناشر
سیرت المہدی 290 حصہ دوم میں بھی پورا کرنے کی سعی فرماتے تھے.چنانچہ اس موقعہ پر بھی اسی خیال سے حضرت نے ایسا فر مایا.اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے میرا اور میاں عبداللہ صاحب سنوری کا نام لیا اور حضرت نے پسند فرمایا اور ہم دونوں کو ماش کے دانوں پر ایک ہزار دفعہ سورہ الم تَرَ كَيْفَ پڑھنے کا حکم دیا.چنانچہ ہم نے عشاء کی نماز کے بعد سے شروع کر کے رات کے دو بجے تک یہ وظیفہ ختم کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حصہ اوّل میں میاں عبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی بھی درج ہو چکی ہے.اور مجھے میاں عبداللہ صاحب والی روایت سن کر تعجب ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فعل کس حکمت کے ماتحت کیا ہے.کیونکہ اس قسم کی کارروائی بظاہر آپ کے طریق عمل کے خلاف ہے لیکن اب پیر صاحب کی روایت سے یہ عقدہ حل ہو گیا ہے کہ آپ کا یہ فعل در اصل ایک خواب کی بنا پر تھا جسے آپ نے ظاہری صورت میں بھی پورا فرما دیا.کیونکہ آپ کی یہ عادت تھی کہ حتی الوسع خوابوں کو ان کی ظاہری شکل میں بھی پورا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.بشرطیکہ ان کی ظاہری صورت شریعت اسلامی کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو اور اس خواب میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح اصحاب فیل (جو عیسائی تھے ) کے حملہ سے خدا نے کعبہ کومحفوظ رکھا اور اپنے پاس سے سامان پیدا کر کے ان کو ہلاک و پسپا کیا اسی طرح آتھم کی پیش گوئی والے معاملہ میں بھی عیسائیوں کا اسلام پر حملہ ہوگا اور ان کو ظاہراً اسلام کے خلاف شور پیدا کرنے کا موقعہ مل جائے گا.لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کو شکست و ہزیمت کا سامان پیدا کر دے گا اور یہ کہ مومنوں کو چاہیے کہ اس معاملہ میں خدا پر بھروسہ کریں اور اسی سے مدد کے طالب ہوں اور اس وقت کو یا درکھیں کہ جب مکہ والے کمزور تھے اور ان پر ابرہ کا شکر حملہ آور ہوا تھا اور پھر خدا نے ان کو بچایا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر صاحب اور میاں عبداللہ صاحب کی روایتوں میں بعض اختلافات ہیں جو دونوں میں سے کسی صاحب کے نسیان پر مبنی معلوم ہوتے ہیں.مثلاً میاں عبداللہ صاحب نے اپنی روایت میں بجائے ماش کے چنے کے دانے بیان کئے ہیں.مگر خواہ ان میں سے کوئی ہو ماش اور چنے ہردو کی تعبیر علم الرویاء کے مطابق غم واندوہ کی ہے.جس میں یہ اشارہ ہے کہ آتھم والے معاملہ میں بظاہر کچھ غم پیش آئے گا.مگر یہ غم واندوہ سورۃ الفیل کے اثر کے ماتحت بالآخر
سیرت المہدی 291 حصہ دوم تاریک کنوئیں میں ڈال دیا جاوے گا.واللہ اعلم.313 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک خون کے مقدمہ میں میں اسیسر مقرر ہوا تھا چنانچہ آپ اسیسر بنے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ اسیر نہیں بنے تھے بلکہ انکار کر دیا تھا.سویا تو کسی صاحب کو ان میں سے نسیان ہوا ہے یا ہر دوروایتیں دو مختلف واقعات کے متعلق ہیں.واللہ اعلم.314 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ یہ جو سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کی روایت سے حضرت کا الہام درج ہوا ہے کہ سلطنت برطانیہ تا هفت سال.بعد ازاں باشد خلاف واختلال.اور حاجی عبدالمجید صاحب کی یہ روایت درج ہوئی ہے کہ سلطنت برطانیہ تا ہشت سال.بعد ازاں ایام ضعف و اختلال.یہ میرے خیال میں درست نہیں ہے.میں نے حضرت صاحب سے یہ الہام اس طرح پر سُنا ہے.قوت برطانیہ تا ہشت سال.بعد ازاں ایام ضعف و اختلال.میں نے اس کے متعلق حضرت سے عرض کیا کہ اس میں روحانی اور مذہبی طاقت کا ذکر معلوم ہوتا ہے.یعنی ہشت سال کے بعد سلطنت برطانیہ کی مذہبی طاقت یعنی عیسائیت میں ضعف رونما ہو جائیگا.اور سچے مذہب یعنی اسلام اور احمدیت کا غلبہ شروع ہو جائے گا.حضرت نے فرمایا کہ جو ہوگا وہ ہور ہیگا ہم پیش از وقت کچھ نہیں کہہ سکتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری رائے میں الفاظ الہام کے متعلق پیر صاحب کی روایت درست معلوم ہوتی ہے.واللہ اعلم.315 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی فضل دین صاحب پلیڈ ر قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ محکمہ ڈاک کی طرف سے میرے خلاف مقدمہ ہوا تھا.جس میں فیصلہ کا سارا دارو مدار میرے بیان پر تھا یعنی اگر میں سچ بول کر صحیح صحیح واقعہ بتا دیتا تو قانون کی رو سے
سیرت المہدی 292 حصہ دوم یقیناً میرے لئے سزا مقدر تھی اور اگر جھوٹ بول کر واقعہ سے انکار کر دیتا تو محکمہ ڈاک کسی اور ذریعہ سے میرے خلاف الزام ثابت نہیں کر سکتا تھا.چنانچہ میرے وکیل نے بھی مجھے یہ مشورہ دیا کہ اگر بچنا چاہتے ہیں تو انکار کر دیں مگر میں نے یہی جواب دیا کہ خواہ کچھ ہو جاوے میں خلاف واقعہ بیان نہیں کروں گا اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو نہیں بچاؤں گا.وغیرہ وغیرہ.مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب کے اس بیان کے خلاف بعض غیر احمدیوں نے بڑے زور شور کے ساتھ یہ شائع کیا ہے کہ یہ ساری بات بناوٹی ہے.ڈاک خانہ کا کوئی ایسا قاعدہ نہیں ہے جو بیان کیا جاتا ہے اور گویا نعوذ باللہ یہ سارا قصہ مقدمہ کا اپنی راست گفتاری ثابت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے.والا ڈاکخانہ کا وہ قاعدہ پیش کیا جائے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس اعتراض کی فکر تھی اور میں نے محکمہ ڈاک کے پرانے قوانین کی دیکھ بھال شروع کی تو ۱۸۶۶ء کے ایکٹ نمبر ۱۴ دفعہ ۱۲ و ۵۶ اور نیز گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفکیشن نمبر ۲۴۴۲ مورخہ ۷ / دسمبر ۱۸۷۷ء دفعہ ۴۳ میں صاف طور پر یہ حوالہ نکل آیا کہ فلاں فعل کا ارتکاب جرم ہے جس کی سزا یہ ہے یعنی وہی جو حضرت صاحب نے لکھی تھی اور اس پر مزید علم یہ حاصل ہوا کہ ایک عینی شہادت اس بات کی مل گئی کہ واقع میں حضرت صاحب کے خلاف محکمہ ڈاک کی طرف سے ایسا مقدمہ ہوا تھا اور وہ اس طرح پر کہ میں اس حوالہ کا ذکر گورداسپور میں ملک مولا بخش صاحب احمدی کلرک آف دی کورٹ کے ساتھ کر رہا تھا کہ اوپر سے شیخ نبی بخش صاحب وکیل آگئے جو کہ گورداسپور کے ایک بہت پرانے وکیل ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے مخالفین میں سے ہیں چنانچہ انہوں نے مولوی کرم دین جہلمی والے مقدمہ میں بڑی سرگرمی سے حضرت صاحب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ یہ مقدمہ میرے سامنے گورداسپور میں ہوا تھا اور مرزا صاحب کی طرف سے شیخ علی احمد وکیل مرحوم نے پیروی کی تھی.چنانچہ مولوی فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے کہنے پر شیخ نبی بخش نے مجھے ایک تحریری شہادت لکھ دی جس کی عبارت یہ ہے:.” مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا صاحب پر ڈاک خانہ والوں نے مقدمہ فوجداری دائر کیا تھا اور وہ پیروی کرتے تھے.مرزا صاحب کی طرف سے شیخ علی احمد وکیل پیروکار تھے.میں اور شیخ علی احمد کچہری میں اکٹھے
سیرت المہدی 293 حصہ دوم کھڑے تھے جبکہ مرزا صاحب (ان کو اپنا مقدمہ بتا رہے تھے.خواہ مقدمہ کم محصول کا تھا یا لفافہ ( میں ) مختلف مضامین کے کاغذات ( ڈالنے ) کا تھا.بہر حال اسی قسم ( کا ) تھا.چونکہ میں نے پیروی نہیں کی اس لئے دفعہ یاد نہیں رہی.فقط نبی بخش ۲۲ / جنوری ۱۹۲۴ء.‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدمہ کا ذکر ” آئینہ کمالات اسلام میں کیا ہے.316 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت صاحب کو بیعت لینے کا حکم آیا تو سب سے پہلی دفعہ لدھیانہ میں بیعت ہوئی.ایک رجسٹر بیعت کنندگان تیار کیا گیا جس کی پیشانی پر لکھا گیا بیعت تو بہ برائے حصول تقوی وطہارت اور نام معہ ولدیت وسکونت لکھے جاتے تھے.اوّل نمبر حضرت مولوی نورالدین صاحب بیعت میں داخل ہوئے ، دوئم میر عباس علی صاحب، ان کے بعد شائد خاکسار ہی سوئم نمبر پر جاتا لیکن میر عباس علی صاحب نے مجھ کو قاضی خواجہ علی صاحب کے بلانے کے لئے بھیج دیا کہ اُن کو بلا لاؤ غرض ہمارے دونوں کے آتے آتے سات آدمی بیعت میں داخل ہو گئے ان کے بعد نمبر آٹھ پر قاضی صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور نمبر نو میں خاکسار داخل ہوا پھر حضرت صاحب نے فرمایا کہ شاہ صاحب اور کسی بیعت کرنے والے کو اندر بھیج دیں.چنانچہ میں نے چوہدری رستم علی صاحب کو اندر داخل کر دیا اور دسویں نمبر پر وہ بیعت ہو گئے.اس طرح ایک ایک آدمی باری باری اندر جا تا تھا.اور دروازہ بند کر دیا جا تا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیعت اولیٰ میں بیعت کرنے والوں کی ترتیب کے متعلق روایات میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے جو یا تو کسی راوی کے نسیان کی وجہ سے ہے اور یا یہ بات ہے کہ جس نے جو حصہ دیکھا اس کے مطابق روایت بیان کر دی ہے.6317 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ ابھی ہماری عمر میں سال کی ہی تھی کہ بال سفید ہونے شروع ہو گئے تھے اور میرا خیال ہے کہ پچپن سال کی عمر تک آپ کے سارے بال سفید ہو چکے ہوں گے.اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کے حالات
سیرت المہدی 294 حصہ دوم زندگی کے مطالعہ سے پتا لگتا ہے کہ وفات کے وقت آپ کے صرف چند بال سفید تھے.دراصل اس زمانہ میں مطالعہ اور تصنیف کے مشاغل انسان کی دماغی طاقت پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں.با ینہمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عام قولی آخر عمر تک بہت اچھی حالت میں رہے اور آپ کے چلنے پھرنے اور کام کاج کی طاقت میں کسی قسم کی انحطاط کی صورت رونما نہیں ہوئی بلکہ میں نے بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب سے سُنا ہے کہ گو درمیان میں آپ کا جسم کسی قدر ڈھیلا ہو گیا تھا لیکن آخری سالوں میں پھر خوب سخت اور مضبوط معلوم ہوتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی عبدالرحیم صاحب کو جسم کے دبانے کا کافی موقع ملتا تھا.318 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت صاحب قادیان کے شمال کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے.میں اور شیخ حامد علی مرحوم ساتھ تھے.میرے دل میں خیال آیا کہ سنا ہوا ہے کہ یہ لوگ دل کی باتیں بتا دیتے ہیں.آؤ میں امتحان لوں.چنانچہ میں نے دل میں سوال رکھنے شروع کئے.اور حضرت صاحب انہی کے مطابق جواب دیتے گئے.یعنی جو سوال میں دل میں رکھتا تھا اسی کے مطابق بغیر میرے اظہار کے آپ تقریر فرمانے لگ جاتے تھے.چنانچہ چار پانچ دفعہ لگا تار اسی طرح ہوا اس کے بعد میں نے حضرت صاحب سے عرض کر دیا کہ میں نے یہ تجربہ کیا ہے.حضرت صاحب سُن کر ناراض ہوئے اور فر ما یاتم شکر کر تم پر اللہ کا فضل ہو گیا.اللہ کے مرسل اور اولیاء غیب دان نہیں ہوتے آئندہ ایسا نہ کرنا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے حضرت صاحب کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میں دل میں کوئی سوال رکھ رہا ہوں.بلکہ آپ کیسا تھ جاتے جاتے خود بخود دل میں سوال رکھنے شروع کر دیئے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بچے اور جھوٹے مدعیوں میں ایک یہ بھی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا ہر بات میں اپنی بڑائی ڈھونڈتا اور بزرگی منوانا چاہتا ہے اور بچے کا صرف یہ مقصود ہوتا ہے کہ راستی اور صداقت قائم ہو.چنانچہ ایک جھوٹا شخص ہمیشہ ایسے موقع پر ناجائز فائدہ اُٹھا کر دوسروں کے دل میں اپنی بزرگی کا خیال پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر سچا آدمی اپنی عزت اور بڑائی کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ راستی کو قائم کرتا ہے خواہ بظاہر اس میں اس کی بزرگی کو صدمہ ہی پہنچتا ہو.
سیرت المہدی 295 حصہ دوم 319 بسم الله الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھے بذریعہ خط اطلاع دی کہ میں جب شروع میں قادیان گیا تو ایک شخص نے اپنے لڑکے کو حضرت صاحب کے سامنے ملاقات کے لئے پیش کیا.جس وقت وہ لڑکا حضرت صاحب کے مصافحہ کیلئے آگے بڑھا تو اظہار تعظیم کے لئے حضرت کے پاؤں کو ہاتھ لگانے لگا.جس پر حضرت صاحب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے ایسا کرنے سے روکا اور میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے جوش میں فرمایا کہ انبیاء دنیا میں شرک مٹانے آتے ہیں اور ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے نہ کہ شرک قائم کرنا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو اسلام کا لب لباب ہی ادب واحترام ہے چنانچہ اَلطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَب کا بھی یہی منشاء ہے کہ ہر چیز کا اس کے مرتبہ کے مطابق ادب و احترام کیا جاوے نہ کم نہ زیادہ کیونکہ افراط و تفریط ہر دو ہلاکت کی راہیں ہیں.320 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی.آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اول شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دودو رکعت کر کے آخر شب میں ادا فرماتے تھے.جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اللَّهُ لَا إِلهَ إِلَّا هُو سے وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ تک اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قرآت فرماتے تھے اور رکوع اور سجود میں يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغیث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ در اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے اس لئے لوگ عموماً سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں قادیان میں چونکہ صبح اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہو بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور
سیرت المہدی 296 حصہ دوم بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو.اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبین تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہوا سکے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے چنانچہ تبتین کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے.حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہو گئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے.321 بسم اللہ الرحمن الرحیم.منشی عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام الہی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ آپ اس صدی کے مجدد ہیں (ابھی تک آپ کو مسیحیت و مہدیت کا دعوای نہ تھا ) تو آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ جوار دو اور انگریزی ہر دوزبانوں میں شائع کیا گیا تھا یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اس زمانہ کا مجدّد مقررفرمایا ہے اور مجھے اس کام کیلئے مامور فرمایا ہے کہ میں اسلام کی صداقت بمقابلہ دوسرے مذاہب کے ثابت وقائم کروں اور نیز اصلاح اور تجدید دین کا کام بھی میرے سپرد فرمایا گیا ہے اور نیز آپ نے یہ بھی لکھا کہ میرے اندر روحانی طور پر مسیح ابن مریم کے کمالات ودیعت کئے گئے ہیں.اور آپ نے تمام دنیا کے مذاہب کے متبعین کو دعوت دی کہ وہ آپ کے سامنے آکر اسلام کی صداقت کا امتحان کریں اور اپنے روحانی امراض سے شفاء پائیں یہ اشتہار میں ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا اور منشی عبداللہ صاحب سنوری بیان کرتے ہیں پھر بڑے اہتمام کے ساتھ تمام دنیا کے مختلف حصوں میں بذریعہ رجسٹر ڈ ڈاک اس کی اشاعت کی گئی.چنانچہ تمام بادشاہوں و فرماں روایان دول و وزراء ومدبرین و مصنفین و علماء دینی و نوابوں و راجوں وغیرہ وغیرہ کو یہ اشتہار ارسال کیا گیا اور اس کام کے لئے بڑی محنت کے ساتھ پتے حاصل کئے گئے اور حتی الوسع دنیا کا کوئی ایسا معروف
سیرت المہدی 297 حصہ دوم آدمی نہ چھوڑا گیا جو کسی طرح کوئی اہمیت یا اثر یا شہرت رکھتا ہو اور پھر اسے یہ اشتہار نہ بھیجا گیا ہو کیونکہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ جہاں جہاں ہندوستان کی ڈاک پہنچ سکتی ہے وہاں وہاں ہم یہ اشتہار بھیجیں گے نیز میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کا اردو حصہ پہلے چھپ چکا تھا اور انگریزی بعد میں ترجمہ کرا کے اس کی پشت پر چھاپا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اشتہارابتداء غالبا۱۸۸۴ء میں شائع کیا گیا اور پھر بعد میں شحنہ حق “ اور ” آئینہ کمالات اسلام اور برکات الدعا“ کے ساتھ بھی اس کی اشاعت کی گئی.اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے اس کے ترجمہ کے لئے مجھے میاں الہی بخش اکو نٹنٹ لاہور کے پاس بھیجا تھا اور فرمایا تھا کہ وہیں لاہور میں اس کا ترجمہ کرا کے چھپوا لیا جاوے.322 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی کے حصہ اول کی روایت نمبر 4 میں جو سنگترہ کا واقعہ خاکسار نے لکھا ہے اس کے متعلق میرے ایک بزرگ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ روایت قابل توجیہہ ہے اور مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ چونکہ اس وقت حضرت میاں صاحب یعنی حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ ابھی بالکل بچہ تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو خوش کرنے کے لئے بطور مزاح کے ایسا کیا ہو گا کہ چپکے سے اپنی جیب میں سے سنگترہ نکال کر درخت پر ہاتھ مارا ہوگا اور پھر ان کو وہ سنگترہ دے دیا ہو گا.ورنہ اگر واقعی ایسا خارق عادت امر پیش آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تصنیف یا تقریر میں اس کا ذکر فرماتے جیسا کہ آپ نے کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کا ذکر فرمایا ہے.خاکسار اس رائے کو وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے اور عقلاً اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور اسی لئے خاکسار نے جب یہ روایت لکھی تھی تو اسے بغیر نوٹ کے چھوڑ دیا تھا لیکن خاکسار اس واقعہ کے ظاہری پہلو کو بھی ہرگز ناممکن الوقوع نہیں سمجھتا اور نہ میرے وہ بزرگ جنہوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے ایسا خیال فرماتے ہیں.اور میرے نزدیک حضرت صاحب کے اسے شائع نہ کرنے سے بھی یہ استدلال یقینی طور پر نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ حضرت کی طرف سے بچہ کو خوش کرنے کے لئے مزاحا ظہور پذیر ہوا تھا جہاں تک میں نے غور کیا ہے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو نشانات وہ اپنے کسی نبی یا مامور کے ہاتھ پر
سیرت المہدی 298 حصہ دوم ظاہر کرتا ہے وہ عموماً و قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو مخالفین کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو مؤمنین کے لئے ظہور پذیر ہوتے ہیں.اوّل الذکر قسم میں اخفاء کا پردہ زیادہ رکھا جاتا ہے.اور احتمالات کے پہلو زیادہ گھلے رہتے ہیں مگر ثانی الذکر قسم میں مقابلہ اخفاء کم ہوتا ہے اور کچھ کچھ شہود کا پہلو غالب ہوتا جاتا ہے.یہ اس لئے کہ خدا وند تعالے انے اپنے نہایت حکیمانہ فعل سے یہ مقدر کیا ہے کہ ایمان کی ابتدا غیب سے شروع ہو اور پھر جوں جوں ایک انسان ایمان کے راستہ پر قدم اُٹھاتا جاتا ہے اس کے لئے علی قدر مراتب شہود کے دروازے کھولے جاتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں اور میرے اس یقین کے میرے پاس وجوہ ہیں کہ کئی نشانات انبیاء ومرسلین پر ایسے ظاہر ہوتے ہیں کہ جن کا وہ کسی فرد بشر پر بھی اظہار نہیں کرتے.کیونکہ وہ محض انکی ذات کے لئے ہوتے ہیں اور ایسے نشانات میں ان کے مقام قرب و عرفان کے مطابق پورا پورا شہود کا رنگ ہوتا ہے.پس اگر کوئی خارق عادت امر حضرت مسیح موعود پر ظاہر ہوا ہو اور حضرت نے اس کو عام طور پر ظاہر نہ کیا ہو تو میرے نزدیک یہ بات ہرگز قابل تعجب نہیں ہے.واللہ اعلم.یہ حقیقت جو خاکسار نے بیان کی ہے آنحضرت ﷺ (فدا نفسی) کے حالات زندگی میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑے کھانے سے زیادہ آدمیوں کے شکم سیر ہو جانے اور تھوڑے پانی سے ایک بڑی جماعت کے سیراب ہو جانے اور آپ کی انگلیوں سے پانی کے پھوٹ پھوٹ کر بہنے وغیرہ وغیرہ واقعات صرف صحابہ کی جماعت کیلئے ظاہر ہوئے اور مشرکین کو ( جن کو بظاہر ان باتوں کی زیادہ ضرورت تھی ) ان نشانات میں سے حصہ نہ ملا.جس کی یہی وجہ تھی کہ جو نشانات مشرکین کو دکھائے گئے.ان میں زیادہ اخفاء مقصود تھا.ہاں اس موقعہ پر مجھے یہ بھی یاد آیا کہ خود حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر کھانے کے زیادہ ہو جانے کا خارق عادت امرظاہر ہوا مگر اس کے دیکھنے والے صرف آپ کے خاص خاص صحابہ تھے اور آپ نے کبھی ان باتوں کا عام طور پر اظہار نہیں فرمایا اور کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کو جو آپ نے ظاہر فرمایا تو اول تو خود اس کے متعلق میاں عبداللہ صاحب کی روایت سے ظاہر ہے کہ ابتداء آپ نے اسے مخفی رکھنے کی کوشش فرمائی تھی اور پھر میاں عبداللہ صاحب کے اصرار پر اسے بڑی لمبی چوڑی تمہید کے بعد ظا ہر فر مایا تھا.علاوہ ازیں
سیرت المہدی 299 حصہ دوم اس کے بیان کرنے میں خاص حکمت تھی اور یہ کہ مسئلہ قدامت روح و مادہ کی بحث میں خلق مادہ کے اثبات کے لئے اس کے اظہار کی ضرورت پیش آگئی تھی اور چونکہ گرتہ جس پر چھینٹے پڑے تھے موجود تھا اور اس کے ساتھ ایک دوسرے شخص کی (جو اس واقعہ کے وقت عاقل بالغ مرد تھا اور حضرت کیساتھ کوئی دنیاوی یا جسمانی تعلق نہ رکھتا تھا ) عینی شہادت بھی موجود تھی اس لئے آپ نے اس واقعہ کو خدمت اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے ظاہر فرمایا اور ایک آریہ معترض پر حجت پوری کی.وَاللهُ أَعْلَمُ.علاوہ ازیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ اس روایت میں حضرت والدہ صاحبہ بھی راو یہ ہیں.323 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی کے حصہ اول کی روایت نمبر ۱۰ ( صحیح نمبر 1) میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.اس کا مطلب بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے.کیونکہ انہوں نے اس سے ایسا نتیجہ نکالا ہے کہ گویا منگل کا دن ایک منحوس دن ہے جس میں کسی کام کی ابتداء نہیں کرنی چاہیے.ایسا خیال کرنا درست نہیں اور نہ حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا بلکہ منشاء یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے دن اپنی برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں.مثلاً جمعہ کا دن مسلمانوں میں مسلمہ طور پر مبارک ترین دن سمجھا گیا ہے.اس سے اتر کر جمعرات کا دن اچھا سمجھا جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ اپنے سفروں کی ابتداء اس دن میں صلى الله فرماتے تھے.خلاصہ کلام یہ کہ دن اپنی برکات و تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں اور اس تو ازن اور مقابلہ میں منگل کا دن گویا سب سے پیچھے ہے.کیونکہ وہ شدائد اور ختی کا اثر رکھتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی مذکور ہے نہ یہ کہ نعوذ باللہ منگل کا د کوئی منحوس دن ہے.پس حتی الوسع اپنے اہم کاموں کی ابتداء کے لئے سب سے زیادہ افضال و برکات کے اوقات کا انتخاب کرنا چاہیے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوئی نقصان برداشت کیا جاوے یا کسی ضروری اور اہم کام میں توقف کو راہ دیا جاوے ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا شخص نقصان اُٹھا تا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جولوگ دنوں وغیرہ کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں.ان پر بالآ خر تو ہم
سیرت المہدی 300 حصہ دوم پرستی غالب آجاتی ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی کا اصول جیسا کہ اشخاص کے معاملہ میں چسپاں ہوتا ہے.ویسا ہی دوسرے امور میں بھی صادق آتا ہے اور یہ سوال کہ دنوں کی تاثیرات میں تفاوت کیوں اور کس وجہ سے ہے.یہ ایک علمی سوال ہے جس کے اُٹھانے کی اس جگہ ضرورت نہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حصہ اول کی منگل والی روایت میں ایک غلطی واقع ہوگئی تھی جواب حصہ دوئم کی روایت نمبر ۱۱ میں درست کر دی گئی ہے.324 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق ذاتی کا مطالعہ کیا جاوے تو خدا اور اس کے رسول کی محبت ایک نہایت نمایاں حصہ لئے ہوئے نظر آتی ہے.آپ کی ہر تقریر وتحریر ہر قول و فعل ہر حرکت و سکون اسی عشق و محبت کے جذبہ سے لبریز پائے جاتے ہیں.اور یہ عشق اس درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی.دشمن کی ہر سختی کو آپ اس طرح برداشت کر جاتے تھے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں اور اس کی طرف سے کسی قسم کی ایذا رسانی اور تکلیف دہی اور بد زبانی آپ کے اندر جوش و غیظ و غضب کی حرکت نہ پیدا کرسکتی تھی مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کے خلاف ذراسی بات بھی آپ کے خون میں وہ جوش اور ابال پیدا کر دیتی تھی کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال کیوجہ سے نظر نہ جم سکتی تھی.دشمن اور دوست ، اپنے اور بیگانے سب اس بات پر متفق ہیں کہ جو عشق و محبت آپ کو سرور کائنات کی ذات والا صفات سے تھا اس کی نظیر کسی زمانہ میں کسی مسلمان میں نہیں پائی گئی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی زندگی کا ستون اور آپ کی روح کی غذا بس یہی محبت ہے.جس طرح ایک عمدہ قسم کے اسفنج کا ٹکڑہ جب پانی میں ڈال کر نکالا جاوے تو اس کا ہر رگ وریشہ اور ہرخانہ وگوشہ پانی سے بھر پور نکلتا ہے اور اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہتا کہ جس میں پانی کے سوا کوئی اور چیز ہو، اسی طرح ہر دیکھنے والے کو نظر آتا تھا کہ آپ کے جسم اور روح مبارک کا ہر ذرہ عشق الہی اور عشق رسول سے ایسا بھر پور ہے کہ اس میں کسی اور چیز کی گنجائش نہیں اللهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّم.واقعی جو ایمان محبت سے خالی ہے وہ ایک کوڑی کے مول کا نہیں.وہ ایک خشک فلسفیانہ عقیدہ ہے
سیرت المہدی 301 حصہ دوم جس کا خدا کے دربار میں کچھ بھی وزن نہیں.اعمال کا ایک پہاڑ جو عشق و محبت سے معترا ہے محبت کے ایک ذرہ سے جو اعمال سے خالی ہو وزن میں کمتر ہے.مجھے وہ وقت کبھی نہیں بھولتا.جب میں نے حدیث میں یہ پڑھا کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا کہ تم جو قیامت کا پوچھتے ہو تو اس کیلئے تم نے تیاری کیا کی ہے؟ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ نماز ، روزہ اور صدقہ وغیرہ کی تیاری تو زیادہ ہے نہیں.مگر ہاں اللہ اور اس کے رسول کی محبت دل میں رکھتا ہوں، مجھے وہ وقت نہیں بھولا کہ جب میں نے اس شخص کا یہ قول پڑھا اور میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی اور میں اس خوشی کو کبھی نہیں بھولوں گا اور نہ بھول سکتا ہوں کہ جب میری نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداه نفسی ) کے اس جواب پر پڑی کہ انتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ یعنی تسلی رکھ تو وہیں رکھا جاویگا جہاں تیرے محبوب لوگ ہوں گے ایک اور دوسرے موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ الْمَرْأُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ یعنی انسان کو اس کے محبوب لوگوں کے پاس رکھا جاوے گا.میرا یہ مطلب نہیں حاشا وکلا کہ اعمال کے پہلو کو کمزور کر کے دکھاؤں.قرآن شریف نے مومن کی شان میں جہاں جہاں بھی ایمان کا ذکر کیا ہے وہاں لازماً ساتھ ہی اعمال صالح کا بھی ذکر کیا ہے.اور یہ بات عقلاً بھی محال ہے کہ محبت اور ایمان تو ہومگر اعمال صالح کے بجالانے کی خواہش اور کوشش نہ ہو عملی کمزوری ہو جانا ایک علیحدہ امر ہے مگر سنت نبوی کی اتباع اور اعمال صالح کے بجالانے کی خواہش اور کوشش کبھی ایمان سے جدا نہیں ہو سکتے اور جو شخص محبت کا مدعی ہے اور اپنے محبوب کے احکام اور منشاء کے پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے.پس میرے اس بیان سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اعمال کی اہمیت کو کم کر کے دکھاؤں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اخلاص و محبت کی اہمیت کو واضح کروں اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کروں کہ خشک ملانوں کی طرح آنکھیں بند کر کے محض شریعت کے پوست پر چنگل مارے رکھنا ہرگز فلاح کا راستہ نہیں ہے.325 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ تمہارے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بچپن کی بے پروائی میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہوگئی اس پر حضرت مسیح موعود
سیرت المہدی 302 حصہ دوم کو اتنا غصہ آیا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے غصہ میں مبارک احمد کے شانہ پر ایک طماچہ مارا جس سے اس کے نازک بدن پر آپ کی انگلیوں کا نشان اُٹھ آیا اور آپ نے اس غصہ کی حالت میں فرمایا کہ اسکو اس وقت میرے سامنے سے لے جاؤ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم ہم سب بھائیوں میں سے عمر میں چھوٹا تھا اور حضرت صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا.حضرت صاحب کو اس سے بہت محبت تھی چنانچہ اس کی وفات پر جو شعر آپ نے کتبہ پر لکھے جانے کیلئے کہے اس کا ایک شعر یہ ہے جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر مبارک احمد بہت نیک سیرت بچہ تھا اور وفات کے وقت اس کی عمر صرف کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی.لیکن حضرت صاحب نے قرآن شریف کی بے حرمتی دیکھ کر اس کی تادیب ضروری سمجھی.326 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں نبی بخش صاحب متوطن بن باجوہ ضلع سیالکوٹ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں میں نے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی بنا کر پیش کرنا چاہتا ہوں اسکے نگینہ پر کیا الفاظ لکھے جاویں؟ حضرت صاحب نے فرمایا مولا بس، کے الفاظ لکھ دیں.چنانچہ میں نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی انگوٹھی ہے جس کا سیرۃ المہدی حصہ اول کی روایت نمبر ۱۶ میں ذکر گزر چکا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ”مولا بس“ کے الفاظ گویا ایک طرح الیس الله بکاف عبده “ کا ترجمہ ہیں اور اس حالت رضا و فنا کو ظاہر کر رہی ہیں جو حضرت مسیح موعود کے قلب صافی پر ہر وقت طاری رہتی تھی.327 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اترے ہوئے کپڑوں کو ناک کے ساتھ لگا کر سونگھا ہے.مجھے کبھی بھی ان میں پسینہ کی بو نہیں آئی.یہ خیال مجھے اس طرح آیا کہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ ( خاکسار کی نانی اماں ) سے یہ سنا تھا کہ جس طرح اور لوگوں کے کپڑوں میں پسینہ کی بو ہوتی ہے اس طرح حضرت صاحب کے کپڑوں
سیرت المہدی 303 حصہ دوم میں بالکل نہیں ہوتی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ظاہری صفائی کے متعلق اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ احکام پائے جاتے ہیں اور فسل کرنے اور کپڑے صاف رکھنے اور خوشبو لگانے کی بہت تاکید آئی ہے.کیونکہ علاوہ طبی طور پر مفید ہونے کے ظاہری صفائی کا باطنی صفائی پر بھی اثر پڑتا ہے.اور روح کی شگفتگی اور بشاشت ، جسم کی طہارت اور پاکیزگی سے متاثر ہوتی ہے.اس وجہ سے انبیاء اور مرسلین کو خصوصاً ظاہری صفائی کا بہت خیال رہتا ہے.اور وہ اپنے بدن اور کپڑوں کو نہایت پاک وصاف حالت میں رکھتے ہیں.اور کسی قسم کی عفونت اور بد بو کو اپنے اندر پیدا نہیں ہونے دیتے.کیونکہ ان کو ہر وقت خدا کے دربار میں کام پڑتا ہے اور فرشتوں سے ملاقات رہتی ہے جہاں کسی قسم کی بدبودار چیز کو رسائی نہیں ہو سکتی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن نماز میں سجدہ کیا کرتے تھے وہاں سے کئی کئی دن تک بعد میں خوشبو آتی رہتی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود بہت کثرت کے ساتھ خوشبو کا استعمال فرماتے تھے.ورنہ جیسا کہ بعض وقت عوام سمجھنے لگ جاتے ہیں.یہ کوئی معجزہ نہیں ہوتا اور نہ کوئی خارق عادت بات ہوتی ہے بلکہ غیر معمولی صفائی اور طہارت کے نتیجہ میں یہ حالت پیدا ہو جاتی ہے.مگر افسوس کہ آج کل کے مسلمان جہاں اور خوبیوں کو کھو بیٹھے ہیں وہاں صفائی اور طہارت کی خوبی سے بھی الا ماشاء اللہ معرا ہیں اور جن لوگوں کو کچھ تھوڑا بہت صفائی کا خیال رہتا ہے ان کی نظر بھی صرف سطحی صفائی تک محدود رہتی ہے.یعنی اوپر کے کپڑے جو نظر آتے ہیں وہ تو صاف رکھے جاتے ہیں.لیکن بدن اور بدن کے ساتھ کے کپڑے نہایت درجہ میلے اور متعفن حالت میں رہتے ہیں.328 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے بیان فرمایا کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے حدیث پڑھتا تھا تو ایک دفعہ گھر میں مجھ سے حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ میاں تم آج کل مولوی صاحب سے کیا پڑھا کرتے ہو؟ میں نے کہا بخاری پڑھتا ہوں.آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مولوی
سیرت المہدی 304 حصہ دوم صاحب سے یہ پوچھنا کہ بخاری میں نہانے کا ذکر بھی کہیں آتا ہے یا نہیں ؟ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نہانے وغیرہ کے معاملہ میں کچھ بے پروائی فرماتے تھے اور کپڑوں کے صاف رکھنے اور جلدی جلدی بدلنے کا بھی چنداں خیال نہ رکھتے تھے.اس لئے ان کو متوجہ کرنے کے لئے حضرت صاحب نے یہ الفاظ فرمائے ہوں گے.329 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم لاہوری نے اپنے مکان پر حضرت صاحب کو دعوت دی چنانچہ حضرت صاحب ان کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.اس موقعہ پر مستری محمد موسیٰ صاحب نے حضرت صاحب سے سوال کیا کہ حضور لوگوں میں مشہور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بدن مبارک پر لکھی نہیں بیٹھتی تھی اور آپ جب پاخانہ کرتے تھے تو زمین اسے فور انگل لیتی تھی کیا یہ درست ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ فضول باتیں ہیں جو یو نہی بعد میں لوگوں نے بنالی ہیں اور پھر آپ نے چند منٹ تک اس قسم کے مسئلوں کے متعلق ایک مختصری اصولی تقریر فرمائی جس کا ماحصل یہ تھا کہ انبیاء اپنے جسمانی حالات میں دوسرے لوگوں کی طرح ہوتے ہیں.اور خدا کے عام قانون کے باہر ان کا طریق نہیں ہوتا.میں اسوقت بچہ تھا مگر یہ باتیں اور اس مجلس کا نقشہ اب تک میرے ذہن میں اسی طرح تازہ ہے.330 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے غصہ کی حالت میں بھی گالی یا گالی کا ہمر نگ لفظ نہیں سُنا.زیادہ سے زیادہ بیوقوف یا جاہل یا احمق کا لفظ فرما دیا کرتے تھے اور وہ بھی کسی ادنیٰ طبقہ کے ملازم کی کسی سخت غلطی پر شاذ و نادر کے طور پر.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت صاحب کسی ملازم کی سخت غلطی یا بیوقوفی پر جانور کا لفظ استعمال فرماتے تھے ، جس سے منشاء یہ ہوتا تھا کہ تم نے جو یہ فعل کیا ہے یہ انسان کے شایانِ شان نہیں بلکہ جانوروں کا سا کام ہے.331 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مجھے چھپیس
سیرت المہدی 305 حصہ دوم سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عادات و اطوار اور شمائل کو بغور دیکھنے کا موقعہ ملا ہے.گھر میں بھی اور باہر بھی میں نے اپنی ساری عمر میں آج تک کامل طور پر تصنع سے خالی سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی کو نہیں دیکھا.حضور کے کسی قول یا فعل یا حرکت وسکون میں بناوٹ کا شائبہ تک بھی میں نے کبھی محسوس نہیں کیا.332 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیار سے چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح سے کہ کبھی کسی بچہ کا پہنچہ پکڑ لیا.اور کوئی بات نہ کی خاموش ہورہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پاؤں پکڑ کر اس کے تلوے کو سہلانے لگے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کی اس روایت نے میرے دل میں ایک عجیب درد آمیز مسرت و امتنان کی یاد تازہ کی ہے کیونکہ یہ پہنچہ پکڑ کر خاموش ہو جانے کا واقعہ میرے ساتھ بھی (ہاں اس خاکسار عاصی کے ساتھ جو خدا کے مقدس مسیح کی جوتیوں کی خاک جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا) کئی دفعہ گذرا ہے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ ورنہ ہم کہاں بزم شہر یار کہاں.“ 333 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ والد بزرگ وار ( یعنی خاکسار کے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم) نے اپنا ایک بانات کا کوٹ جو مستعمل تھا ہمارے خالہ زاد بھائی سید محمد سعید کو جو ان دنوں میں قادیان میں تھا کسی خادمہ عورت کے ہاتھ بطور ہدیہ بھیجا.محمد سعید نے نہایت حقارت سے وہ کوٹ واپس کر دیا اور کہا کہ میں مستعمل کپڑا نہیں پہنتا.جب وہ خادمہ یہ کوٹ واپس لا رہی تھی تو راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میر صاحب نے یہ کوٹ محمد سعید کو بھیجا تھا مگر اس نے واپس کر دیا ہے کہ میں اُترا ہوا کپڑا نہیں پہنتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی.تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ ہم پہنیں گے اور ان سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے.334 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم
سیرت المہدی 306 حصہ دوم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دفعہ دو پہر کے وقت میں مسجد مبارک میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعود ا کیلے گنگناتے ہوئے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ٹہلتے بھی جاتے تھے.كنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر میری آہٹ سن کر حضرت صاحب نے چہرے پر سے رومال والا ہاتھ اُٹھالیا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.حضرت حسان آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور گویا آپ کے درباری شاعر تھے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر یہ شعر کہا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھا.پس تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے پرواہ نہیں کیونکہ مجھے تو بس تیری ہی موت کا ڈر تھا جو واقع ہو چکی.اس شعر کہنے والے کی محبت کا اندازہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں.مگر اس شخص کے سمند ر عشق کی تہ کو کون پہنچے کہ جو اس واقعہ کے تیرہ سوسال بعد تنہائی میں جب کہ اسے خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہیں.یہ شعر پڑھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بہ نکلتا ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کی آنکھیں بات بات پر آنسو بہانے لگ جاتی ہیں بلکہ وہ وہ شخص ہے کہ جس پر اس کی زندگی میں مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور غم والم کی آندھیاں چلیں مگر اس کی آنکھوں نے اس کے جذبات قلب کی کبھی غمازی نہیں کی.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ:.یہ شعر كُنتَ السَّوَادَ لناظرى الخ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا تھا.اور مجھے سُنا کر فرمایا.کہ کاش احسان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعرحستان کے ہوتے.پھر آپ چشم پر آب ہو گئے.اس وقت حضرت اقدس نے یہ شعر کئی بار پڑھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسان بن ثابت کے شعر کے متعلق
سیرت المہدی 307 حصہ دوم پیر سراج الحق صاحب سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں.جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہوگی.ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت جھلکتی ہے جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی.اور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ بلند معیار نظر نہیں آتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرت علی کے متعلق نظر آتا ہے.335 بسم اللہ الرحمن الرحیم..ماسٹر محمد نذیر احمد خان صاحب متوطن نا دون ضلع کانگڑہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ کیلئے دھرم سالہ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں امید وار محرر ہوا تھا.ان دنوں کا واقعہ ہے کہ میں دفتر میں بیٹھا تھا اور میرے ہاتھ میں ریویو آف ریـلـیـجــنـز کا پر چہ تھا کہ دھرم سالہ کے ڈسٹرکٹ بورڈ کا ہیڈ کلرک جس کا نام پنڈت مولا رام تھا دفتر ضلع میں کسی کام کیلئے آیا.جب اس کی نظر ریویو آف ریلیجنز پر پڑی تو اس نے حیران ہو کر مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی احمدی ہیں؟ میں نے کہا ہاں میں احمدی ہوں.اس نے کہا تو پھر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جو حضرت مرزا صاحب کیساتھ میرا گذرا ہے چنانچہ اس نے بیان کیا کہ میں ایک مذہبی خیال کا آدمی ہوں اور چونکہ مرزا صاحب کی مذہبی امور میں بہت شہرت تھی میں نے ان کے ساتھ بعض مذہبی مسائل میں خط و کتابت شروع کی.اس خط و کتابت کے دوران میں میں نے ان کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں بعض اعتراض تھے.حضرت مرزا صاحب کا جو جواب میرے پاس اس خط کا آیا اس میں میرے اعتراضات کے متعلق کچھ جوابات لکھ کر پھر مرزا صاحب نے یہ لکھا تھا کہ پنڈت صاحب ! آپ ان باتوں میں الجھے ہوئے ہیں حالانکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا کا غضب آسمان پر بھڑک رہا ہے اور اس کا عذاب سالوں میں نہیں ،مہینوں میں نہیں ، دنوں میں نہیں ، گھنٹوں میں نہیں ،منٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں زمین پر نازل ہونے والا ہے.ان الفاظ کو پڑھ کر مجھ پر بہت اثر ہوا اور میں نے دل میں کہا کہ خواہ کچھ بھی ہومرزا صاحب ایک نیک آدمی ہیں ان کی بات یونہی رائیگاں نہیں جاسکتی.چنانچہ میں ہر لحظہ اسی انتظار میں تھا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے اور
سیرت المہدی 308 حصہ دوم میں نے اسی خیال میں اس رات کو سوتے ہوئے مرزا صاحب کا یہ خط اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا.صبح کو جب میں اُٹھا تو حسب عادت اشنان کی تیاری کرنے لگا اور اپنے ملازم کو میں نے بازار سے وہی لانے کیلئے بھیجا اور اپنے مکان میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا.اس وقت اچانک زلزلے کا ایک سخت دھکا آیا اور اس کے بعد پیہم اس طرح دھکوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ میرے دیکھتے دیکھتے آنافانا دھرم سالہ کی تمام عمارتیں ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئیں ؛ اس وقت حضرت مرزا صاحب کے اس خط کا مضمون میری آنکھوں کے سامنے پھر رہا تھا اور میرے منہ سے بے اختیار نکل رہا تھا کہ واقعی یہ دنوں اور گھنٹوں اور منٹوں کا عذاب نہیں بلکہ سیکنڈوں کا عذاب ہے.جس نے ایک آن کی آن میں تمام شہر کو خاک میں ملا دیا ہے اور اس کے بعد میں حضرت مرزا صاحب کا بہت معتقد ہو گیا اور میں اُن کو ایک واقعی خدا رسیدہ انسان اور مصلح سمجھتا ہوں.ماسٹر نذیر خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب وہ یہ قصہ بیان کر چکا تو دفتر ضلع کے ایک ہند و کلرک نے بطور اعتراض کے کہا کہ مرزا صاحب پر ایک جرم کی سزا میں جرمانہ بھی تو ہوا تھا.ابھی میں نے اس کا جواب نہیں دیا تھا کہ پنڈت مولا رام خود بخو د بولا کہ ہاں ایک بیوقوف نے جرمانہ کر دیا تھا مگر عدالت اپیل میں وہ بری ہو گئے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی زلزلہ ہے جو ۴ ارا پریل ۱۹۰۵ء کو آیا تھا اور جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں متعد دجگہ ذکر کیا ہے.یہ زلزلہ ہندوستان کی تاریخ میں بے مثال تھا چنانچہ میں نے انسائیکلو پیڈیا میں پڑھا ہے کہ اس زلزلہ میں علاوہ لاکھوں کروڑوں روپیہ کے نقصان کے پندرہ ہزار جانوں کا بھی نقصان ہوا تھا.336 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی اور آپ پر نالے کو پنالہ فرمایا کرتے تھے اور کلام کے دوران میں کبھی کبھی جوش کی حالت میں اپنی ٹانگ پر ہاتھ بھی مارا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب کی یہ روایت درست ہے مگر یہ لکنت صرف کبھی کبھی کسی خاص لفظ کے تلفظ میں ظاہر ہوتی تھی ور نہ ویسے عام طور پر آپ کی زبان بہت صاف چلتی تھی اور ٹانگ پر ہاتھ مارنے کے صرف یہ معنی ہیں کہ کبھی
سیرت المہدی 309 حصہ دوم کبھی جوش تقریر میں آپ کا ہاتھ اُٹھ کر آپ کی ران پر گرتا تھا.337 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور عبدالرحیم خان صاحب پسر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری مسجد مبارک میں کھانا کھا رہے تھے جو حضرت کے گھر سے آیا تھا.ناگاہ میری نظر کھانے میں ایک مکھی پر پڑی چونکہ مجھے مکھی سے طبعاً نفرت ہے میں نے کھانا ترک کر دیا.اس پر حضرت کے گھر کی ایک خادمہ کھانا اُٹھا کر واپس لے گئی.اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت حضرت اقدس اندرون خانہ کھانا تناول فرما رہے تھے.خادمہ حضرت کے پاس سے گذری تو اس نے حضرت سے یہ ماجرہ عرض کر دیا حضرت نے فوراً اپنے سامنے کا کھانا اُٹھا کر اس خادمہ کے حوالے کر دیا کہ یہ لے جاؤ اور اپنے ہاتھ کا نوالہ بھی برتن میں ہی چھوڑ دیا.وہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس وہ کھا نا لائی اور کہا کہ لو حضرت صاحب نے اپنا تبرک دیدیا ہے.اس وقت مسجد میں سید عبدالجبار صاحب بھی جو گذشتہ ایام میں کچھ عرصہ بادشاہ سوات بھی رہے ہیں، موجود تھے چنانچہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے.338 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور میں قیام پذیر تھے ایک دفعہ رات کو بارش ہونی شروع ہو گئی.اس وقت حضرت اقدس مکان کی چھت پر تھے جہاں پر کہ ایک برساتی بھی تھی بارش کے اُتر آنے پر حضور اس برساتی میں داخل ہونے لگے مگر اس کے عین دروازے میں مولوی عبداللہ صاحب متوطن حضر و ضلع کیمبل پور نماز تہجد پڑھ رہے تھے.انہیں دیکھ کر آپ دروازہ کے باہر کھڑے ہو گئے اور اسی طرح بارش میں کھڑے رہے حتی کہ مولوی عبداللہ صاحب نے اپنی نماز ختم کر لی پھر آپ برساتی میں داخل ہوئے.339 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ اول ہی اؤل جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمانہ مجددیت میں لدھیانہ تشریف لے گئے اس وقت سوائے ایک شخص
رت المہدی 310 حصہ دوم یعنی میر عباس علی صاحب جو اس عاجز کے خسر اور چاتھے کوئی اور حضرت کی صورت سے آشنا نہ تھا اس سفر میں تین آدمی حضرت صاحب کے ہمراہ تھے.مولوی جان محمد صاحب اور حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب ، میر عباس علی صاحب اور ان کے ساتھ کئی ایک اور آدمی پلیٹ فارم کا ٹکٹ لے کر حضرت صاحب کے استقبال کے لئے سٹیشن پر گئے اور گاڑی میں آپ کو ادھر اُدھر تلاش کرنے لگے لیکن حضرت صاحب کہیں نظر نہ آئے.کیونکہ آپ گاڑی کے پہنچتے ہی نیچے اتر کر سٹیشن سے باہر تشریف لے آئے تھے اور پھاٹک کے پاس کھڑے تھے.خوش قسمتی سے میں بھی اس وقت وہیں کھڑا تھا کیونکہ مجھے خیال تھا کہ حضرت صاحب ضرور اسی راستہ سے آئیں گے.میں نے اس سے قبل حضرت صاحب کو دیکھا ہوا نہیں تھا.لیکن جو نہی کہ میری نظر آپ کے نورانی چہرہ پر پڑی میرے دل نے کہا کہ یہی حضرت صاحب ہیں اور میں نے آگے بڑھ کر حضرت صاحب سے مصافحہ اور دست بوسی کر لی.اس کے بعد میر عباس علی صاحب وغیرہ بھی آ گئے اس وقت حضور کی زیارت کے لئے سٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا.جن میں نواب علی محمد صاحب رئیس جھجر بھی تھے.نواب صاحب مذکور نے میر صاحب سے کہا کہ میر صاحب! میری کوٹھی قریب ہے اور اس کے گرد باغ بھی ہے.بہت لوگ حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے آئیں گے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرالیا جاوے.میر صاحب نے کہا کہ آج کی رات تو ان مبارک قدموں کو میرے غریب خانہ میں پڑنے دیں کل آپ کو اختیار ہے.نواب صاحب نے کہا کہ ہاں بہت اچھا.غرض حضرت صاحب کو قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بٹھا کر ہمارے محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان میں اتارا گیا.نماز عصر کا وقت آیا تو حضرت صاحب نے اپنی جرابوں پر مسح کیا.اس وقت مولوی محمد موسیٰ صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب دونوں باپ بیٹا موجود تھے ان کو مسح کرنے پر شک گذرا تو حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا.ہاں جائز ہے اس کے بعد مولوی محمد موسیٰ صاحب نے عرض کیا کہ حضور نماز پڑھا ئیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی عبدالقادر صاحب پڑھائیں پھر اس کے بعد مولوی عبد القادر صاحب ہی نماز پڑھاتے رہے.اس موقعہ پر حضرت
سیرت المہدی 311 حصہ دوم صاحب غالباً تین دن لدھیانہ میں ٹھہرے.بہت لوگ ملاقات کے لئے آتے جاتے تھے اور حضرت صاحب جب چہل قدمی کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے تو اس وقت بھی بڑا مجمع لوگوں کا ساتھ ہوتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ سفر غالبًا ۱۸۸۴ء کے قریب کا ہوگا میر عباس علی صاحب جن کا اس روایت میں ذکر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے ملنے والے تھے مگر افسوس کہ دعوی مسیحیت کے وقت ان کو ٹھوکر لگی اور وہ زمرہ مخالفین میں شامل ہو گئے اور پھر جلد ہی اس دنیا سے گذر گئے.نواب علی محمد صاحب رئیس جھجر لدھیانہ میں رہتے تھے اور حضرت صاحب سے بہت اخلاص رکھتے تھے.مگر افسوس کہ اوائل زمانہ میں ہی فوت ہو گئے.قاضی خواجہ علی صاحب بھی بہت پرانے اور مخلص لوگوں میں سے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں.مولوی عبد القادر صاحب بھی جو حکیم محمد حمر صاحب کے والد تھے کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں اور ان کے والد مولوی محمد موسیٰ صاحب تو اوائل زمانہ میں ہی فوت ہو گئے تھے.مولوی جان محمد جو حضرت صاحب کے ہمراہ لدھیانہ گئے تھے قادیان کے رہنے والے تھے اور حضرت صاحب کے ایک مخلص خادم تھے.ان کے لڑکے عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہوں گے میاں غفارا یکہ بان جو کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکا ہے.مولوی جان محمد کا بھائی تھا.340 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے تھے.قریب آٹھ دس آدمی حضور کے ہمراہ تھے.اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا.حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابرہیم علی خان صاحب نے اپنے اہل کاروں کو لدھیا نہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لا کر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرمائیں.کیونکہ نواب ابراہیم علی خان صاحب کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا.حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے
سیرت المہدی 312 حصہ دوم سواریاں لے جائیں تا کہ آپ باغ میں جا کر نواب صاحب کو دیکھیں.مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے چنانچہ آپ پیدل ہی گئے.اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا، جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے.نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت سے سلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ قریب چھپ جائے گا.اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئے اندر بیٹھیں چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کوٹھی کے اندر چلے گئے اور قریباً آدھ گھنٹہ اندر رہے.چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں.اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی جامع مسجد کی طرف چلے آئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے.مسجد میں پہنچ کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضو کریں اور پھر دورکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کریں.کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں اور ہم بھی دعا کرتے ہیں.غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دُعا کی اور پھر اس کے بعد فورا ہی لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور باوجود اصرار کے مالیر کوٹلہ میں اور نہ ٹھہرے.341 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان کے سکول میں پڑھتا تھا تو اس زمانہ میں جولوگ حضور کے لئے کوئی پھل وغیرہ بطور ہدیہ لاتے تھے تو بعض اوقات میرے ہاتھ اندرون خانہ کو بھجواتے تھے عموماً حضور کچھ پھل بندہ کو بھی عطا فرما دیتے تھے اور بعض دفعہ تحریر کے کام میں اس قدر استغراق ہوتا تھا کہ بغیر میری طرف نظر اٹھانے کے فرما دیتے تھے کہ رکھ دو.میں رکھ کر چلا آتا تھا.﴿342 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک بڑا موٹا کتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں گھس آیا اور ہم بچوں نے اسے دروازے
سیرت المہدی 313 حصہ دوم بند کر کے مارنا چاہا.لیکن جب کتے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتا لگ گیا اور آپ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کر کتے کو چھوڑ دیا.343 بسم الله الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ مکرمی لسی ڈار ساکن آسنور علاقہ کشمیر اپنے بھائی حاجی عمر ڈار صاحب سے روایت کرتے تھے کہ جب میں ( عمر ڈار صاحب) پہلی دفعہ قادیان میں بیعت کے لئے آیا تو میرے یہاں پہنچنے کے بعد جو پہلی تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی وہ حقوق اقرباء کے متعلق تھی چونکہ میں نے اپنے بھائی (سی ڈار ) کا کچھ حق دبایا ہوا تھا.میں سمجھ گیا اور کشمیر پہنچ کر ان کا حق ان کو ادا کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین سے اصلاح خلق کا کام لینا ہوتا ہے اس لئے وہ عموماً ایسا تصرف کرتا ہے کہ جو کمزوریاں لوگوں کے اندر ہوتی ہیں.انہی کے متعلق ان کی زبان پر کلام جاری کرا دیتا ہے.جس سے لوگوں کو اصلاح کا موقعہ مل جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں اور حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک پر بھی بسا اوقات آپ کے مخاطب لوگوں کے حالات اور ضروریات کے مطابق کلام جاری ہوتا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حاجی عمر ڈار صاحب مرحوم آسنور کشمیر کے ایک بہت مخلص احمدی تھے اور اپنے علاقہ کے رئیس تھے اور اب ان کے لڑکے بھی سلسلہ کے ساتھ خوب اخلاص رکھتے ہیں.344 بسم الله الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میرے والد میاں حبیب اللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی ہونے سے قبل وہابی (اہلحدیث) تھا میں نے اپنا پاؤں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں کیساتھ ملانا چاہا مگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کیسا تھ رکھا تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سر کا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لئے اس طریق سے باز آ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فرقہ اہل حدیث اپنی اصل کے لحاظ سے ایک نہایت قابل قدر
سیرت المہدی 314 حصہ دوم فرقہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان بدعات سے آزاد ہو کر اتباع سنت نبوی سے مستفیض ہوئے ہیں.مگر انہوں نے بعض باتوں پر اس قدر نا مناسب زور دیا ہے اور اتنا مبالغہ سے کام لیا ہے کہ شریعت کی اصل روح سے وہ باتیں باہر ہو گئی ہیں.اب اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز میں دونمازیوں کے درمیان یونہی فالتو جگہ نہیں پڑی رہنی چاہیے بلکہ نمازیوں کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے تا کہ اول تو بے فائدہ جگہ ضائع نہ جاوے.دوسرے بے ترتیبی واقع نہ ہو تیرے بڑے آدمیوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ وہ بڑائی کی وجہ سے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑے ہوسکیں وغیر ذالک.مگر اس پر اہل حدیث نے اتناز ورد یا اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی.اب گویا ایک اہل حدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخواہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے.345 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ میں ایک دن مسجد مبارک کے پاس والے کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم تشریف لائے اور اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف لے آئے اور تھوڑی دیر میں مولوی محمد احسن صاحب امروہی بھی آگئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود سے حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے خلاف بعض باتیں بطور شکایت بیان کرنے لگے اس پر مولوی عبدالکریم صاحب کو جوش آگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہر دو کی ایک دوسرے کے خلاف آوازیں بلند ہو گئیں اور آواز میں کمرے سے باہر جانے لگیں.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.لَا تَرُفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ.(الحجرات:٣) (یعنی اے مومنو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز کے سامنے بلند نہ کیا کرو) اس حکم کے سنتے ہی مولوی عبد الکریم صاحب تو فوراً خاموش ہو گئے اور مولوی محمد احسن صاحب تھوڑی دیر تک آہستہ آہستہ اپنا جوش نکالتے رہے اور حضرت اقدس وہاں سے اٹھ کر ظہر کی نماز کے واسطے مسجد مبارک میں تشریف لے گئے.
سیرت المہدی 315 حصہ دوم 346 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کہ میں قادیان میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام تصنیف فرما رہے تھے حضرت صاحب نے جماعت کے ساتھ مشورہ فرمایا کہ علماء اور گدی نشینوں میں کس طرح تبلیغ ہونی چاہیے..اس کے متعلق باہم تبادلہ خیالات شروع ہوا.حضرت نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے تو عربی زبان میں کوئی تصنیف ہونی چاہیے مگر مشکل یہ ہے کہ میں کوئی ایسی اچھی عربی جانتا نہیں ہوں.ہاں میں اردو میں مضمون لکھ لاتا ہوں اور پھر مل ملا کر عربی کر لیں گے.چنانچہ حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور پھر جب حضور باہر تشریف لائے تو کچھ عربی لکھ کر ساتھ لائے جسے دیکھ کر مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب حیران رہ گئے حتی کہ مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ میں نے عربی کا بہت مطالعہ کیا ہے لیکن ایسی عمدہ عربی میں نے کہیں نہیں دیکھی.حضور نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے متعلق دُعا کی تھی سوخدا کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھایا گیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عربی زبان کا علم معجزانہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا تھا حتی کہ آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ خواہ ساری دنیا کے علماء اور عرب اور مصر اور شام کے ادیب باہم مل کر میرا مقابلہ کرنا چاہیں مگر خدا ان کو عربی کی تصنیف میں میرے مقابلہ میں ذلت کی شکست دیگا.اور وہ ہرگز میرے جیسا پر مغز اور لطیف اور ملیح اور فصیح اور بلیغ کلام تصنیف نہیں کر سکیں گے.چنانچہ باوجود آپ کے متعدد مرتبہ چیلنج دینے کے کسی کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ سب کے دل محسوس کرتے تھے کہ آپ کا عربی کلام اپنی معنوی اور ادبی خوبیوں کی وجہ سے ان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر ظہور پذیر ہوا جس کا مطالعہ جہاں تک ادب عربی کی درسی تعلیم کا تعلق ہے بالکل معمولی تھا اور جس نے صرف عام معروف درسی کتب اوائل عمر میں استاد سے پڑھی تھیں اور بس مگر جب خدا نے اپنے پاس سے اپنی تقدیر خاص کے ماتحت اسے علم عطا کیا تو پھر وہی تھا کہ عرب و عجم کوللکارتا تھا کہ کوئی میرے مقابلہ میں آئے مگر کسی کو سر اُٹھانے کی جرات نہ ہوتی تھی.کسی نے کیا خوب کہا ہے وو جے تو اُسدا ہو رہیں تے سب جگ تیرا ہو 66
سیرت المہدی 316 حصہ دوم 347 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ انور محمد صاحب سا کن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں ابھی بالکل نوجوان تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا شرف مجھے نصیب ہوا اور وہ اس طرح پر کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم جو ہمارے گاؤں کے پاس موضع تھے غلام نبی کے رہنے والے تھے.وہ بعارضہ اسہال یعنی سنگر یہنی سخت بیمار ہو گئے اور علاج کیلئے قادیان آئے اور پھر قادیان میں ہی رہنے لگ گئے ان کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب بہت بزرگ آدمی ہیں اور ان کو الہام بھی ہوتا ہے.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب پٹھانکوٹ کی ریلوے لائن ابھی جاری ہوئی تھی.حافظ حامد علی صاحب کی بات سن کر مجھے حضرت کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا اور میں نے اپنے والد صاحب سے اجازت لی.انہوں نے خوشی سے اجازت دی اور کہا کہ مرزا صاحب بہت بزرگ آدمی ہیں تم ان کے پاس بے شک جاؤ چنانچہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.انہی دنوں میں مسجد مبارک کی بنیاد رکھی گئی تھی مگرا بھی مسجد تعمیر نہ ہوئی تھی.چونکہ میں حافظ قرآن تھا حضرت صاحب نے مجھے قرآن شریف سنانے کیلئے فرمایا جسے سُن کر آپ بہت خوش ہوئے پھر دو ایک دن ٹھہر کر میں چلا آیا اور حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے جلدی جلدی آکر ملنا چاہیے.اس کے بعد میں ہفتہ عشرہ کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا تھا.ان دنوں میں میں نے دیکھا کہ حضور کی زبان مبارک پر سبحان اللہ اور سبحان الله و بحمدہ کے الفاظ اکثر رہتے تھے.اور ایک دفعہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ قناعت سے انسان خوش رہتا ہے.اس زمانہ میں حضور کے پاس سوائے دو تین خادموں کے اور کوئی نہ ہوتا تھا.پھر بعد میں آہستہ آہستہ دو دو چار چار آدمیوں کی آمد ورفت شروع ہو گئی.ان دنوں میں میرے ایک عزیز دوست حافظ نبی بخش صاحب بھی جن کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی تھی میرے ہمراہ قادیان جایا کرتے تھے.رات ہوتی تو حضرت صاحب ہم سے فرماتے کہ آپ کہاں سوئیں گے.ہم حضور سے عرض کرتے کہ حضور ہی کے پاس سور ہیں گے اور دل میں ہمارے یہ ہوتا تھا کہ حضور جب تہجد کے لئے رات کو اُٹھیں گے تو ہم بھی ساتھ ہی اُٹھیں گے.مگر آپ اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھ لیتے تھے اور ہم کو بر بھی نہ ہوتی تھی.جب آپ اُٹھتے تھے تو چراغ روشن
سیرت المہدی 317 حصہ دوم فرمالیتے تھے.مگر جب لیٹتے تو چراغ گل کر لیتے تھے بعض اوقات ہم آپ کو چراغ گل کرتے دیکھتے تو دل میں بہت شرمندہ ہوتے تھے ان دنوں میں حضرت صاحب بعد نماز عصر سیر کیلئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے.اور کوس کوس دو دو کوس نکل جایا کرتے تھے بعض وقت مغرب کی نماز باہر ہی پڑھ لیا کرتے تھے اور مجھے امام کر لیتے تھے اور آپ خود مقتدی ہو جاتے تھے.ایک دن آپ نے فرمایا کہ آج کس طرف سیر کو چلیں ؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! آج قتلے کی نہر کی طرف چلیں.حضور مسکرانے لگے اور فرمایا کہ کسی نے ایک بھوکے سے پوچھا تھا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ دو روٹیاں.سومیاں نور محمد کا بھی یہی مطلب ہے کہ اسی راستے سے اپنے گاؤں کی طرف نکل جائیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ نور محمد صاحب پرانے اور مخلص آدمی ہیں.ان کا گاؤں فیض اللہ چک قادیان سے قریباً چار پانچ میل کے فاصلہ پر جانب شمال مغرب آباد ہے اور موضع تقتلہ جس کا اس روایت میں ذکر ہے قادیان سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے جو فیض اللہ چک کے راستہ میں پڑتا ہے.حافظ نور محمد صاحب کی قادیان میں ابتدائی آمد کا زمانہ ۱۸۸۴ء کے قریب کا معلوم ہوتا ہے.واللہ اعلم.(348) بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور جا کر ٹھہرے تھے اور ماسٹر مرلی دھر آریہ کے ساتھ آپ کا مباحثہ ہوا تھا.آپ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان پر ٹھہرے تھے.شیخ صاحب حضرت صاحب سے بہت ادب کے ساتھ پیش آتے تھے ان دنوں میں آپ نے یہ رویا دیکھا تھا کہ شیخ مہر علی صاحب کے مکان کے فرش کو آگ لگ گئی ہے.اور آپ نے خود پانی لے کر اسے بجھایا ہے.اور آپ نے اس کی تعبیر یہ فرمائی تھی کہ شیخ صاحب پر کوئی بلا آنے والی ہے چنانچہ آپ نے قادیان واپس آکر شیخ مہر علی صاحب کو ایک خط کے ذریعہ اس بات کی اطلاع بھی دے دی تھی کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے.آپ بہت تو بہ واستغفار کریں.اس کے بعد شیخ صاحب کے خلاف ایک سنگین فوجداری مقدمہ شروع ہو گیا اور ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ ہندواور مسلمانوں میں جو ہوشیار پور میں بلوہ ہوا تھا اس کے شیخ صاحب ذمہ دار ہیں.چنانچہ شیخ صاحب ماخوذ کر
سیرت المہدی 318 حصہ دوم لئے گے.اس زمانہ میں جب ہم حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو حضور فرمایا کرتے تھے کہ شیخ مہر علی کے واسطے دُعا کیا کریں.اور اگر کسی کو ان کے متعلق کوئی خواب آوے تو بتادے اور صبح کے وقت دریافت فرمایا کرتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے یا نہیں ؟ اور فرماتے تھے کہ رسول کریم ﷺ بھی صحابہ سے اسی طرح دریافت فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ جو ہم گئے تو فرمایا کہ شیخ صاحب کے واسطے دُعا کر کے سونا.حافظ نبی بخش صاحب نے ہنس کر عرض کیا کہ یہ ( یعنی خاکسار نور محمد ) بہت وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو وظیفہ نہیں کرتا صرف قرآن شریف ہی پڑھتا ہوں.آپ مسکرا کر فرمانے لگے کہ تمہاری تو یہ مثال ہے کہ کسی شخص نے کسی کو کہا کہ یہ شخص بہت عمدہ کھانا کھایا کرتا ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو کوئی اعلیٰ کھانا نہیں کھاتا صرف پلاؤ کھایا کرتا ہوں.پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف سے بڑھ کر اور کون سا وظیفہ ہے.یہی بڑا اعلیٰ وظیفہ ہے.349 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں اور حافظ نبی بخش صاحب حضرت صاحب کی ملاقات کے لئے گئے تو آپ نے عشاء کے بعد حافظ نبی بخش صاحب سے مخاطب ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ”میاں نبی بخش آپ کہاں لیٹیں گے؟ میاں نور محمد تولید کی مشق کر رہے ہیں، بات یہ تھی کہ اس وقت میں جہاں لیٹا ہوا تھا میرے نیچے ایک ٹکڑا سرکنڈے کا پڑا تھا جو قد آدم لمبا تھا.اسے دیکھ کر آپ نے بطور مزاح ایسا فرمایا.کیونکہ دستور ہے کہ مردہ کو کسی سرکنڈہ سے ناپ کر لحد کو اس کے مطابق درست کیا کرتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت بانداق واقع ہوئی تھی اور بعض اوقات آپ اپنے خدام کے ساتھ بطریق مزاح بھی گفتگو فرمالیتے تھے.دراصل حد اعتدال کے اندر جائز خوش طبعی بھی زندہ دلی کی علامت ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت یہ بھی بعض اوقات اپنے صحابہ سے خوش طبعی کے طریق پر کلام فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ اور حضرت علی اور بعض دوسرے صحابہ کھجور میں کھا رہے تھے کہ آپ کو حضرت علیؓ کے ساتھ مزاح کا خیال آیا اور آپ نے اپنی کھائی ہوئی کھجوروں کی گٹھلیاں بھی حضرت علی
سیرت المہدی 319 حصہ دوم کے سامنے رکھنی شروع کر دیں اور بعد میں فرمایا کہ دیکھو کس نے زیادہ کھجوریں کھائی ہیں؟ چنانچہ دیکھا تو حضرت علی کے سامنے کھجوروں کی گٹھلیوں کا ایک خاصہ ڈھیر لگا رکھا تھا.کیونکہ علاوہ آنحضرت ﷺ کے دوسرے صحابہ نے بھی اپنی گٹھلیوں کا بیشتر حصہ حضرت علی کے سامنے جمع کر دیا تھا یہ دیکھ کر حضرت علی پہلے تو کچھ شرمائے کہ میں سب سے زیادہ پیٹو ثابت ہوالیکن جوانی کی عمر تھی اور ذہن بھی رسا ر کھتے تھے فوراً بولے کہ بات یہ ہے کہ میں نے تو صرف کھجور کا گودا کھایا ہے اس لئے میرے سامنے گٹھلیاں جمع نظر آتی ہیں.لیکن دوسرے لوگ گٹھلیاں بھی ساتھ ہی چٹ کر گئے ہیں.اس لئے ان کے سامنے گٹھلیاں نظر نہیں آتیں.اس پر آنحضرت ﷺ بہت ہنسے.اسی طرح ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے ایک عمر رسیدہ بوڑھی عورت نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے واسطے دعا فرمائیں کہ خدا مجھے جنت میں جگہ دے.آپ نے فرمایا کہ جنت میں تو کوئی بوڑھی عورت نہیں جائیگی.وہ بے چاری بہت گھبرائی مگر آپ نے جلد ہی یہ کہہ کر اس کی تسلی کی ، کہ بات یہ ہے کہ جنت میں سب لوگ جوان بنا کر داخل کئے جاویں گے.غرض جائز اور مناسب مزاح شانِ نبوت کے منافی نہیں بلکہ زندہ دلی کی علامت ہے اور مجھ سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت با مذاق طبیعت رکھتے تھے اور بعض اوقات تو خودا بتداء مزاح کے طور پر کلام فرماتے تھے.350 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہمارے گھر میں ایک خادمہ عورت رہتی تھی جس کا نام مہر و تھا.وہ بیچاری ایک گاؤں کی رہنے والی تھی اور ان الفاظ کو نہ بجھتی تھی جو ذرا زیادہ ترقی یافتہ تمدن میں مستعمل ہوتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اسے فرمایا کہ ایک خلال لاؤ ، وہ جھٹ گئی اور ایک پتھر کا ادویہ کوٹنے والا کھرل اُٹھا لائی جسے دیکھ کر حضرت صاحب بہت ہنسے اور ہماری والدہ صاحبہ سے ہنستے ہوئے فرمایا کہ دیکھو میں نے اس سے خلال مانگا تھا اور یہ کیا لے آئی ہے.اسی عورت کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ میاں غلام محمد گا تب امرت سری نے دروازہ پر دستک دی اور کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ کا تب آیا ہے.یہ پیغام لے کر وہ حضرت صاحب کے
سیرت المہدی 320 حصہ دوم پاس گئی اور کہنے لگی کہ حضور قاتل دروازے پر کھڑا ہے اور بلاتا ہے.حضرت صاحب بہت ہنسے.351 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ شروع شروع میں حافظ حامد علی صاحب مرحوم حضرت صاحب کو مہندی لگا یا کرتے تھے.بعض اوقات میں بھی حاضر ہوتا تھا تو حضرت صاحب کمال سادگی کے ساتھ میرے ساتھ گفتگو فرمانے لگ جاتے تھے جس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ بات چیت کی وجہ سے چہرہ میں کچھ حرکت پیدا ہوتی تھی اور مہندی گرنے لگ جاتی تھی.اس پر بعض اوقات حافظ حامد علی صاحب مرحوم عرض کرتے تھے کہ حضور ذرا دیر بات چیت نہ کریں مہندی ٹھہرتی نہیں ہے.میں لگا کر باندھ لوں تو پھر گفتگو فرمائیں.حضرت صاحب تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر کسی خیال کے آنے پر گفتگو فرمانے لگ جاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں کچھ عرصہ میاں عبداللہ نائی اور آخری زمانہ میں میاں عبد الرحیم نائی حضرت صاحب کو مہندی لگاتے تھے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب میاں عبداللہ صاحب نے یہ روایت بیان کی تو حضرت صاحب کی یاد نے ان پر اس قدر رقت طاری کی کہ وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گئے.یہ محبت کے کرشمے ہیں.بسا اوقات ایک معمولی سی بات ہوتی ہے مگر چونکہ وہ ایک ذاتی اور شخصی رنگ رکھتی ہے اور اس سے محبوب کے عادات و اطوار نہایت سادگی کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں.اس لئے وہ بعض دوسری بڑی اور اہم باتوں کی نسبت دل کو زیادہ چوٹ لگاتی ہے.352 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نورمحمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا یہ جو حدیث میں مرقوم ہے کہ اگر انسان اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے.یہ کیا مسئلہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شرمگاہ بھی تو جسم ہی کا ایک ٹکڑا ہے اس لئے یہ حدیث قوی نہیں معلوم ہوتی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کا یہ قول درست نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ بات آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکلی ہوئی معلوم نہیں ہوتی.اور حدیث میں روایتاً کوئی ضعف ہوگا.واللہ اعلم.353 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود
سیرت المہدی 321 حصہ دوم علیہ السلام ہمارے گاؤں فیض اللہ چک میں تشریف لے گئے اور ہماری متصلہ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور بوقت مغرب بڑی مسجد میں لوگوں کے اصرار سے جا کر نماز پڑھائی.اس کے بعد آپ موضع حصہ غلام نبی میں تشریف لے گئے.کیونکہ وہاں آپ کی دعوت تھی.354 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا تو اس کے بعد میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ حافظ صاحب اب بجائے والدین کے اللہ تعالے کو سمجھو وہی تمہارا کارساز اور متکفل ہو گا.چنانچہ تا حال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور ذرہ نوازی سے میری دستگیری فرمائی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ انبیاء اور اولیا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ایک زندہ چیز ہوتی ہے جس کی زندگی کو دیکھنے والا اسی طرح محسوس کرتا ہے.جس طرح دوسری جاندار چیزوں کی زندگی دیکھی اور محسوس کی جاتی ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے نزدیک گویا خدا کا وجود ایک علمی دریافت ہے جس سے اگر کوئی شخص علمی فائدہ اُٹھانا چاہے تو اُٹھالے اور بس بلکہ ان لوگوں کا تعلق خدا تعالیٰ کیساتھ ایسا ہی محسوس و مشہود ہوتا ہے جیسا کہ دورشتہ داروں کا یا دو دوستوں کا باہمی تعلق ہوتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ خدا کا تعلق اس درجہ یا اس قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ دوستوں یا رشتہ داروں کا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ محسوس ومشہور ہونے میں وہ اسی نوعیت کا ہوتا ہے جیسا کہ دنیاوی تعلقات ہوتے ہیں.یعنی دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں کا اپنے والدین اور بھائیوں، بہنوں اور بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ ایک تعلق ہے اسی طرح اس ہستی کیساتھ بھی جسے خدا کہتے ہیں ان کا ایک معین تعلق ہے.گو وہ اپنے درجہ عمق یا وسعت میں دنیوی تعلقات سے ہزار درجے بڑھ کر ہو اور یہ تعلق ان لوگوں کی عملی زندگی کے تمام شعبوں میں بلکہ ہر حرکت و سکون اور قول و فعل میں اسی طرح ( گودرجہ میں بہت بڑھ چڑھ کر محسوس طور پر اثر ڈالتا ہوا نظر آتا ہے جیسا کہ دنیوی تعلقات اثر ڈالتے ہیں یعنی جس طرح ایک شخص اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ میل ملاقات رکھتا ہے ان سے اپنے معاملات میں مشورہ لیتا ہے کسی ضرورت یا تکلیف اور مصیبت کے وقت ان
سیرت المہدی 322 حصہ دوم سے مدد چاہتا ہے ان کیلئے اپنے دل میں محبت رکھتا ہے اور ان کے دل میں اپنی محبت کو پاتا ہے ان کے مفاد کو اپنے مفاد سمجھتا ہے اور ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا ہے ان کی خوشیوں اور غموں میں ان کا شریک حال ہوتا ہے.وغیر ذلک.گویا اپنی کوئی الگ انفرادی زندگی نہیں گزارتا.بلکہ ان کے ساتھ مل کر ایک متحدہ حیات کا منظر پیش کرتا ہے اسی طرح انبیاء اور اولیا کا تعلق جو وہ ذات باری تعالیٰ کے ساتھ رکھتے ہیں.ایک زندہ حقیقت کا حکم رکھتا ہے اور ہر دیکھنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ جس طرح کسی کا کوئی باپ ہوتا ہے اور کوئی بیٹا کوئی بیوی اور کوئی بھائی اور کوئی دوست اسی طرح انبیاء و اولیاء اور صالحین خدا کے ساتھ ایک رشتہ رکھتے ہیں جو خواہ خادم و آقا والا ہی رشتہ ہے مگر محبت و وفا داری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا.میں اپنے اندر ایک عجیب حالت محسوس کرتا ہوں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ” أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ “ کے نزول کے حالات کو پڑھتا ہوں.آپ کے والد ماجد بیمار ہوتے ہیں اور آپ کو الہام ہوتا ہے کہ ” وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق“ یعنی آج شام کو ان کی دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے.آپ ان بوجھوں کو دیکھ کر جو والد کی وفات سے آپ پر پڑنے والے تھے کچھ فکر مند ہوتے ہیں اور ایک لمحہ نظر کے لئے خیال آتا ہے کہ بعض وجوہ معاش والد کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں وہ فوت ہو جائیں گے تو پھر کیا ہو گا.اس پر جھٹ دوسرا الہام نازل ہوتا ہے.اَليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ “ یعنی اے میرے بندے! کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تیرا رب تیری دستگیری کے لئے کافی نہیں ہے؟ اللہ اللہ کیا ہی محبت بھرا کلام ہے.کوئی سمجھتا ہوگا کہ یہ زجر کا کلمہ ہے.مگر جو ایسا خیال کرتا ہے.میں اسے محبت کے کوچہ سے محض ہاں بالکل محض نا آشنا خیال کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک ایسے موقعہ پر اظہار محبت کے واسطے اس سے زیادہ مناسب اور بہتر الفاظ چنے نہیں جاسکتے تھے.یہ ایسا ہی کلام ہے جیسا کہ مثلا کسی کا کوئی دور کا رشتہ دار کسی سے جدا ہونے لگے تو وہ اس پر کرب کا اظہار کرے 66 اور یہ سمجھنے لگے کہ اب گویا میرا کوئی پوچھنے والا نہیں رہا.حالانکہ اس کا حقیقی باپ جو اسے دل و جان چاہتا ہو اس کے پاس موجود ہو.ایسے وقت میں باپ اپنے اس گھبرائے ہوئے بیٹے سے کیا کہے گا یہی نا کہ بیٹا کیا تو اپنے باپ کی محبت کو بھول گیا.کیا تیرا یہ دور کا رشتہ دار تجھ سے تیرے اپنے باپ کی نسبت زیادہ محبت
سیرت المہدی 323 حصہ دوم رکھتا ہے اور تیری زیادہ خبر گیری کر سکتا ہے؟ پس خدا کا یہ کلام بھی اسی طرح کا ہے کہ اے میرے بندے! کیا ہم تجھے تیرے باپ کی نسبت کم چاہتے ہیں جو تو ہمارے ہوتے ہوئے باپ کے فوت ہونے پر اس طرح گھبراہٹ کا اظہار کرتا ہے؟ پس یہ ایک محبانہ کلام ہے جس کا ہر لفظ عشق و محبت میں ڈوبا ہوا ہے اور اگر کوئی دوسرا طریق کلام کا اختیار کیا جاتا جس میں یہ استفہامیہ طریق نہ ہوتا تو وہ ہرگز اس محبت کا حامل نہیں ہو سکتا جو کہ موجودہ الفاظ سے ظاہر ہورہی ہے.پس اس الہام میں کوئی ایمانیات کا سوال نہیں ہے یعنی محض علمی طور پر اس بات کی طرف توجہ دلا نا مقصود نہیں ہے کہ خدا اپنے بندوں کی دستگیری فرمایا کرتا ہے اور اے میرے بندے تو اس حقیقت سے غافل نہ ہو بلکہ اس محبت کا اظہار مقصود ہے جو ذات باری تعالیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھی اور ایک محبت آمیز گلہ کے طریق پر اس گھبراہٹ کا دور کرنا مقصود ہے جو ایک عارضی خیال کے طور پر حضرت مسیح موعود کے دل میں والد کی وفات کی خبر پا کر پیدا ہوئی تھی اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اب پوری طرح خدا کی محبت کا مزا چکھ چکے تھے اور اس شراب طہور کے نشہ میں متوالے ہو چکے تھے جو خدائے قدوس کے اپنے ہاتھوں نے تیار کر کے آپ کے سامنے پیش کی تھی.اس لئے حافظ نوراحمد کے والد کی وفات پر آپ کو اس سے بہتر عزا پر سی کا طریق نہ سوجھا کہ حافظ صاحب اگر اب تک آپ ایسا نہ سمجھتے تھے تو کم از کم اب سے ہی اپنے رب کو اپنے والد کی جابجا سمجھو اور اسی کو اپنی امیدوں اور اپنی محبت کا تکیہ گاہ بناؤ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہ نکتہ ہے جسے جس نے سمجھا وہ فلاح پا گیا.اے میرے آقا ومولا ! مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ تجھ سے کچھ مانگوں کیونکہ تیرا کوئی حق ادا کروں تو مانگتے ہوئے بھی بھلا لگتا ہوں.مگر تو خود کہتا ہے کہ مانگو اور تو نے یہ شرط نہیں لگائی کہ نیک شخص مانگے اور عاصی نہ مانگے پس اپنے پاک مسیح کی طفیل جس سے کچھ دور کی نسبت رکھتا ہوں مجھ پر بھی اپنی محبت کا ایک چھینٹا ڈال تا کہ ان مردہ ہڈیوں میں کچھ جان آئے اور اس پیا سے اور جھلسے ہوئے دل میں کوئی تازگی پیدا ہو اور اے مجھے اپنی مرضی سے نیست سے ہست میں لانے والے ایسا نہ کر ہاں تجھے تیری ذات کی قسم ایسا نہ کر کہ میں اپنی شامت اعمال کی وجہ سے تیرے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹ جاؤں.
سیرت المہدی 324 حصہ دوم پڑھ 355 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی قطب الدین صاحب طبیب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی دفعہ لدھیانہ تشریف لے گئے تھے.اس وقت میں لدھیانہ میں ہی تھا اور ڑھا کرتا تھا.مجھے حضور کے آنے کی خبر ہوئی تو میں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے سٹیشن پر گیا تھا.جہاں میر عباس علی اور قاضی خواجہ علی صاحب اور نواب علی محمد صاحب آپ کے استقبال کیلئے گئے ہوئے تھے.چنانچہ میں نے پہلی دفعہ حضرت صاحب کے ساتھ ٹیشن لدھیانہ پر ہی ملاقات کی اور پھر اس کے بعد کئی دفعہ حضور کے جائے قیام پر بھی حاضر ہوتا رہا.اور میں نے جب پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھا تو میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ گویا میراجسم اندر سے بالکل پکھل گیا ہے اور قریب تھا کہ میں بیہوش ہو کر گر جاتا مگر سنبھلا رہا.پھر اس کے بعد میں حضرت صاحب کی ملاقات کے لئے قادیان بھی آتا رہا.اس وقت تک ابھی صرف مجددیت کا دعویٰ تھا اور بیعت کا سلسلہ بھی شروع نہ ہوا تھا.اور جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو اس وقت مسجد مبارک کی تعمیر شروع تھی اور جس دن حضرت صاحب کے کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کا واقعہ ہوا اس دن بھی میں قادیان میں حضرت کی خدمت میں حاضر تھا.356 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی قطب الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سلسلہ بیعت سے قبل جب صرف مجددیت کا دعوی تھا.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں حضور کو صدق دل سے سچا سمجھتا ہوں اور مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس رنگ کا اثر اہل اللہ کی صحبت میں سنا جاتا ہے وہ میں حضور کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے اندر نہیں پاتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ملک کا ایک چکر لگا ئیں اور سب دیکھ بھال کر دیکھیں کہ جس قسم کے اہل اللہ آپ تلاش کرتے ہیں اور جواثر آپ چاہتے ہیں وہ دنیا میں کہیں موجود بھی ہے یا نہیں یا یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پھر میں نے اسی غرض سے تمام ہندوستان کا ایک دورہ کیا اور سب مشہور مقامات مثلاً کراچی، اجمیر، بمبئی ، حیدر آباد دکن، کلکتہ وغیرہ میں گیا اور مختلف لوگوں سے ملا اور پھر سب جگہ سے ہو کر واپس پنجاب آیا.اس سفر میں مجھے بعض نیک آدمی بھی ملے لیکن وہ بات نظر نہ آئی جس کی مجھے تلاش تھی.پھر میں وطن
سیرت المہدی 325 حصہ دوم جانے سے پہلے حضرت صاحب کی ملاقات کیلئے قادیان کی طرف آیا مگر جب بٹالہ پہنچا تو اتفاقاً مجھے ایک شخص نے اطلاع دی کہ حضرت مرزا صاحب تو یہیں بٹالہ میں ہیں.چنانچہ میں حضرت کی ملاقات کے لئے گیا.اس وقت آپ مولوی محمد حسین بٹالوی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.میں جب گیا تو آپ باہر سیر سے واپس مکان کو تشریف لا رہے تھے چنانچہ میں حضور سے ملا اور حضور نے مجھ سے سفر کے حالات دریافت فرمائے جو میں نے عرض کئے اور پھر میں بٹالہ سے ہی واپس وطن چلا گیا.اس سفر میں نصیر آباد میں جو اجمیر کی طرف ایک جگہ ہے مجھے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو حضرت صاحب کے بہت معتقد تھے اور حضرت کے ساتھ خط و کتابت رکھتے تھے.ان لوگوں نے مجھے اپنے پاس مستقل طور پر ٹھہرانا چاہا اور میرے لئے ایک معقول صورت گزارے کی بھی پیش کی لیکن مجھے شرح صدر نہ ہوا.بعد میں جب حضرت صاحب نے مسیح و مہدی ہونے کا دعوی کیا تو یہ لوگ مرتد ہو گئے اور تب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ مجھے وہاں ٹھہرنے کے لئے کیوں شرح صدر نہیں ہوا تھا.اگر میں وہاں ٹھہر جاتا تو ممکن ہے خود بھی کسی ابتلا میں پڑ جاتا.خیر اس کے بعد کچھ عرصہ گذرا اور میں قادیان نہ آیا.اسی دوران میں سلسلہ بیعت بھی شروع ہو گیا اور میسحیت کا دعوی بھی ہو گیا.لیکن گومیں بدستور معتقد ر ہا اور کبھی مخالفوں کی مخالفانہ باتوں کا میرے دل پر اثر نہیں ہوا کیونکہ میں خود اپنی آنکھوں سے حضرت صاحب کو دیکھ چکا تھا لیکن میں بیعت سے رکا رہا.اس کے بعد ایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے مجھ سے تحریک فرمائی کہ بیعت میں داخل ہو جانا چاہیے.میں نے عرض کیا کہ مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں دل سے سچا سمجھتا ہوں لیکن اتنا بڑا دعویٰ بھی ہو اور پھر میں اثر سے محروم رہوں اور اپنے اندر وہ بات نہ پاؤں جو اہل اللہ کی صحبت میں سنی جاتی ہے تو پھر مجھے کیا فائدہ ہوا.یہ سن کر حضرت صاحب نے فرمایا ایسی صورت میں آپ کو واقعی بیعت میں داخل نہیں ہونا چاہیے.ہاں آپ کچھ عرصہ میرے پاس قیام کریں.پھر اگر تسلی و تشفی ہو تو آپ کو اختیار ہے.چنانچہ میں کچھ عرصہ یہاں ٹھہرا اور پھر بیعت سے مشرف ہو کر چلا گیا.جب میں نے بیعت کی درخواست کی تو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ کیا آپ کو اطمینان ہو گیا ہے؟ میں نے عرض
سیرت المہدی 326 حصہ دوم کیا کہ حضور آپ کی صداقت کے متعلق تو مجھے کبھی بھی شک نہیں ہوا ہاں ایک اور خلش تھی سو وہ بھی بڑی حد تک خدا نے دور فرما دی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ بعض لوگوں نے ان کے سامنے بھی بعض اوقات....حضرت صاحب کے متعلق اسی قسم کے خیال کا اظہار کیا تھا کہ آپ کی صداقت کے دلائل تو لا جواب ہیں اور آپ کی بزرگی بھی اظهر من الله من الشمس ہے.لیکن جو اثر اہل اللہ کی صحبت کا سُنا جاتا ہے وہ محسوس نہیں ہوتا.چونکہ ممکن ہے اسی قسم کے خیالات بعض اور لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوئے ہوں اس لئے اپنے علم کے مطابق خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خیال دو وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ کوئی نیا خیال نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے انبیاء ومرسلین کے زمانہ میں بعض لوگوں کے اندر پیدا ہوتا چلا آیا ہے.دراصل اگر غور سے دیکھا جاوے.تو انبیاء کے متعلق لوگوں کے چار گروہ ہو جاتے ہیں.اول وہ منکرین جو نہ انبیاء کے دعوی کی صداقت کو مانتے ہیں.اور نہ ان کی ذاتی بزرگی اور روحانی اثر کے قائل ہوتے ہیں.دوسرے وہ منکرین جو بوجہ میل ملاقات اور ذاتی تعلقات کے انبیاء کی بزرگی اور ان کے روحانی اثر کے تو ایک حد تک قائل ہوتے ہیں لیکن پرانے رسمی عقائد کی بنا پر دعوی کی صداقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے منکر رہتے ہیں.تیسرے وہ مصدقین اور ماننے والے جن پر انبیاء کے دعوی کی صداقت بھی روشن وظاہر ہوتی ہے اور ان کے روحانی اثر کو بھی وہ علی قدر مراتب محسوس کرتے اور اس سے متمتع ہوتے ہیں اور چوتھے وہ مصدقین جو ان کے دعوی کی صداقت کو تو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور عمومی رنگ میں ان کی بزرگی کو بھی مانتے ہیں اور اس لئے بالعموم ان کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن اپنے اندر کوئی روحانی اثر محسوس نہیں کرتے اور اسی لئے اس جہت سے کچھ شکوک میں مبتلا رہتے ہیں.اس جگہ ہمیں چوتھے گروہ سے کام ہے.جو صداقت کا تو قائل ہوتا ہے اور بزرگی کو بھی تسلیم کرتا ہے.لیکن اپنے اندر روحانی اثر جیسا کہ چاہتا ہے محسوس نہیں کرتا.سو جاننا چاہیے کہ یہ حالت انسان کی دو وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اول تو یہ ہے کہ بعض اوقات اپنی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے انسانی روح کے وہ دروازے اور کھڑکیاں جن میں سے کسی بیرونی روح کا اثر ان تک پہنچ سکتا ہے بند ہو جاتی ہیں اور اس لئے وہ
سیرت المہدی 327 حصہ دوم فیضان جوان تک پہنچ سکتا تھا ان تک پہنچنے سے رکا رہتا ہے اور بعض وقت غفلت ایسی غالب ہوتی ہے کہ انسان یہ خیال نہیں کرتا کہ خود میری کھڑکیاں اور دروازے بند ہیں.بلکہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ باہر سے روشنی ہی نہیں آرہی اور اس طرح بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنے کے منبع فیض کی فیض رسانی پر حرف گیری کرنے لگ جاتا ہے.حالانکہ ایسے وقت میں چاہیے کہ انسان اپنی فکر کرے اور اپنے دل کی کھڑکیاں کھولے تا کہ آفتاب ہدایت کی روشنی اور دھوپ اس کے اندر داخل ہو کر اس کی تاریکیوں کو دور اور اس کی آلائشوں کو صاف کر سکے مگر کیا ہی بد قسمت ہے وہ شخص جس نے یہ تو دیکھا اور سمجھا کہ سورج طلوع کر چکا ہے.لیکن اس نے اپنے دل کی کھڑکیاں نہ کھولیں اور اسی خیال میں اپنی عمر گزار دی کہ سورج کی روشنی میں کچھ نقص ہے کہ وہ مجھ تک نہیں پہنچتی.دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف تو لوگ منہاج نبوت سے نا واقف ہوتے ہیں اور بوجہ بعد از زمانہ نبوت نبیوں کے حالات اور ان کے طرز طریق اور ان کے فیض رسانی کی صورت سے نا آشنا ہوتے ہیں اور دوسری طرف فقیروں اور ولیوں کے متعلق انہوں نے ایسے ایسے قصے اور حالات سنے اور پڑھے ہوتے ہیں جو گو محض فرضی اور جھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ ان کے اندر ولائت کا ایک معیار قائم کر دیتے ہیں جس کے مطابق وہ پھر دوسروں کو پر کھتے ہیں اور اس کے مطابق نہ پانے پر شکوک وشبہات میں مبتلا ہونے لگ جاتے ہیں.مثلاً فرض کرو کہ کسی نے یہ سُنا ہو کہ شیر وہ جانور ہے جس کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور گردن بہت لمبی ہوتی ہے اور دم بہت چھوٹی ہوتی ہے اور قد دس فٹ یا اس سے بھی زیادہ بلند ہوتا ہے وغیر ذالک.تو وہ جب کبھی کوئی اصل شیر دیکھے گا تو لا محالہ یہی خیال کرے گا کہ یہ تو شیر نہیں ہے کیونکہ جو نقشہ اس کے ذہن میں شیر کا ہے.اس کے مطابق وہ اسے نہیں پائے گا.پس نبوت و ولایت کا ایک غلط نقشہ دل میں قائم ہو جانا بھی انسان کو اسی قسم کے شبہات میں مبتلا کر دیتا ہے.پس ایسے حالات میں انسان کو چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کرے اور منہاج نبوت اور سنت نبوی کو اپنے سامنے رکھے اور زید وبکر کے متعلق جو محض فرضی اور جھوٹے قصے مشہور ہوں ان پر نہ جاوے اور اپنے معیار کو اس روشنی میں قائم کرے جو قرآن شریف اور سرور کائنات کے سوانح کے مطالعہ سے اسے حاصل ہو.ایک
سیرت المہدی 328 حصہ دوم مسلمان کے واسطے بہر حال قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت مسلّم ہے.پس کیا وجہ ہے کہ زید و بکر کے متعلق وہ ایسی باتوں کو سچا تسلیم کرے.جو قرآن مجید اور آنحضرت ﷺ میں بھی نہیں پائی جاتیں.مسلمانوں میں ولیوں اور بزرگوں کے متعلق ایسے ایسے مبالغہ آمیز اور لا یعنی قصے اور خوارق مشہور ہیں کہ سُن کر حیرت آتی ہے اور تعجب ہے کہ یہ قصے صرف زبانوں تک محدود نہیں بلکہ بدقسمتی سے مسلمانوں کے لٹریچر میں بھی راہ پاچکے ہیں.اس دھو کے کے پیدا ہونے کی ایک یہ وجہ بھی ہے.کہ جیسا کہ میں نے اس کتاب کے حصہ اول میں لکھا تھا علم توجہ نے بھی مسلمانوں کو بہت تباہ کیا ہے.یہ علم ایک مفید علم ہے اور اس سے کئی صورتوں میں فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی اپنی نقصان رسانی میں کچھ کم نہیں.مسلمانوں میں جب روحانیت کم ہوئی اور لا مذہبی اور مادیت کا رنگ پیدا ہونے لگا تو جولوگ نیک اور متقی تھے ان کو اس کا فکر پیدا ہوالیکن وہ اپنی روحانی حالت کو بھی ایسا قوی نہ پاتے تھے کہ ضلالت کے اس طوفان کو د باسکیں.پس انہوں نے عوام کو تباہی سے بچانے کے لئے یہ راہ نکالی کہ علم توجہ سے جسے انگریزی میں Hypnotism کہتے ہیں کام لینا شروع کیا اور مذہب کی آڑ میں اس علم سے لوگوں کو مسخر کرنا چاہا.چنانچہ وقتی طور پر اس کا فائدہ بھی ہوا اور لوگ مادیت اور جھوٹی آزادی کی رو میں بہہ جانے سے ایک حد تک بچ گئے.مگر یہ خطرناک نقصان بھی ساتھ ہی ہوا کہ آہستہ آہستہ ایک طرف تو خود توجہ کرنے والے بزرگ اس امر کی اصلی حقیقت سے نا آشنا ہوتے گئے اور دوسری طرف عوام اس نشہ میں ایسے مخمور ہوئے کہ بس اسی کو دین و مذہب اور اسی کو روحانیت اور اسی کو جذب واثر قرار دینے لگے اور ولایت کا ایک نہایت غلط معیار ان کے اندر قائم ہو گیا.حالانکہ علم توجہ دنیا کے علموں میں سے ایک علم ہے جسے مذہب کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے.بلکہ ہر شخص اپنی محنت اور استعداد کے مطابق اسے کم و بیش حاصل کر سکتا ہے گویا جس طرح ایک رونے والے بچے کو ماں اپنے آرام کے لئے افیم کی چاٹ لگا دیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ بچہ افیم کو ہی اپنی غذا سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس کے ملنے پر تسکین و راحت پاتا ہے اور اس کے بغیر روتا اور چلاتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح
سیرت المہدی 329 حصہ دوم مسلمانوں کا حال ہوا یعنی علم توجہ کے نتیجہ میں جو ایک خمار اور سرور کی حالت عموما معمول کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اسی کو وہ اپنی روحانی غذا سمجھنے لگ گئے اور اصل خوراک کو جو ان کی روح کا حصہ بن سکتی اور اس کی بقا کا وجب ہے بھلا دیا_فانا لله و انا اليه راجعون.357 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کا اعلان فرمایا تو اس سے اسلامی دنیا میں ایک خطر ناک شور برپا ہو گیا اور چند سال تک یہ طوفان بے تمیزی ترقی کرتا گیا اور مخالفت کی آگ زیادہ تیز ہوتی گئی اور نہ صرف مسلمان بلکہ آریہ اور عیسائی بھی یکجان ہو کر آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے خلاف اس قدر زہر اگلا گیا اور اس قدر بد زبانی سے کام لیا گیا کہ اللہ کی پناہ اور عملی طور پر بھی ایذا رسانی اور تکلیف دہی کے شرمناک طریق اختیار کئے گئے اور لوگوں کو آپ کی طرف سے بدظن کرنے کیلئے طرح طرح کے الزامات آپ کے خلاف لگائے گئے اور آپ کو کافر، مرتد، دجال، بے دین ، دہریہ، دشمن اسلام، دشمن رسول ٹھگ باز ، دوکاندار وغیرہ وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا گیا.ان حالات میں آپ نے جن الفاظ میں علیحدگی میں بیٹھے ہوئے اپنے رب کو مخاطب کیا وہ میں درج ذیل کرتا ہوں.یہ ایک نظم ہے جو آپ کی زبان سے جاری ہوئی اور جس میں آپ کی قلبی کیفیات کا کچھ تھوڑا خا کہ ہے، آپ فرماتے ہیں:.اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما اے کہ میداری تو بردلہا نظر اے کہ از تو نیست چیزے مُستر گر تو می بینی مرا پر فسق و شر گر تو دیدستی که هستم بد گہر پاره پاره گن من بدکار را شاد کن این زمرہ اغیار را بر دل شاں ابر رحمت ہا بیار ہر مرادشاں بفضل خود برآر آتش افشاں بر در و دیوار من دشمنم باش و تبه کن کار من بندگانت یافتی قبله من آستانت در مرا از یافتی
سیرت المہدی 330 در دل من آن محبت دیده کز جہاں آں راز را پوشیده با من از روئے محبت کارکن اند کے افشائے آں اسرار کن اے کہ آئی سوئے ہر جوئندہ واقعی از سوز ہر سوزنده حصہ دوم ہا زاں تعلق با که با تو داشتم زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم خود بروں آ از پئے ابراء من اے تو کہف و ملجا و ماوائے من آتش کاندر دلم افروختی و زدم آن غیر خود را سوختی ہم ازاں آتش رخ من بر فروز ویں شب تارم مبدل گن بروز یعنی اے میرے قادر زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے ! اے میرے رحیم اور مہربان اور ہادی آقا ! اے دلوں کے بھیدوں کو جاننے والے جس پر کوئی بات بھی مخفی نہیں ہے! اگر تو مجھے شرارت اور فسق سے بھرا ہوا پاتا ہے اور اگر تو یہ دیکھتا ہے کہ میں ایک بدطینت آدمی ہوں تو تو مجھ بدکار کو پارہ پارہ کر کے ہلاک کر دے.اور میرے اس مخالف گروہ کے دلوں کو خوشی اور راحت بخش اور ان پر اپنی رحمت کے بادل برسا اور ان کی ہر خواہش کو اپنے فضل سے پورا فرما اور اگر میں ایسا ہی ہوں جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو تو میرے درودیوار پر غضب کی آگ نازل کر اور خود میرا دشمن بن کر میرے کاروبار کو تباہ و برباد کر دے.لیکن اے میرے آقا! اگر تو مجھے اپنے بندوں میں سے سمجھتا ہے اور اپنے آستانہ کو میرا قبلہ توجہ پاتا ہے اور میرے دل میں اس محبت کو دیکھتا ہے جسے تو نے دنیا کی نظروں سے اس کی شامت اعمال کی وجہ سے پوشیدہ رکھا ہے تو اے میرے خدا میرے ساتھ محبت کا معاملہ کر اور اس چھپے ہوئے راز کو ذرا ظاہر ہونے دے.اے وہ کہ جو ہر تلاش کرنے والے کی طرف خود چل کر آتا ہے اور اے وہ کہ جو ہر سوز محبت میں جلنے والے کی سوزش قلب سے آگاہ ہے.میں تجھے اس تعلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میرے دل میں تیرے لئے ہے اور اس محبت کو یاد دلا کر عرض کرتا ہوں کہ جس کے درخت کو میں نے اپنے دل میں نصب کیا ہے کہ مجھے ان الزاموں سے بری کر نے کے لئے تو خود اُٹھ ، ہاں اے میری پناہ اور میرے ملجاؤ و مالوے تو ایسا ہی کر.وہ آتش محبت جو تو نے میرے
سیرت المہدی 331 حصہ دوم دل میں شعلہ زن کی ہے جس کی لپٹوں سے تو نے میرے دل میں غیر کی محبت کو جلا کر خاک کر دیا ہے اب ذرا اسی آگ سے میرے ظاہر کو بھی روشن فرما.اور اے میرے مولا ! میری اس تاریک و تاررات کو دن سے بدل دے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض حالات میں خود انسان کا اپنے منہ سے نکلا ہوا کلام بھی اس کے صدق دعوئی پر ایک یقینی شہادت ہوتا ہے.358 بسم اللہ الرحمن الرحیم.چوہدری حاکم علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب اپریل ۱۹۰۵ء میں بڑا زلزلہ آیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے باغ میں تشریف لیجا کر ڈیرہ لگا لیا تھا اور اور بھی اکثر دوست باغ میں چلے گئے تھے ان دنوں میں میں بھی اپنے اہل وعیال سمیت قادیان آیا ہوا تھا.حضرت صاحب باغ میں تشریف لے گئے تو اس کے بعد قادیان میں طاعون پھیل گیا.میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہاں باغ میں تشریف رکھتے ہیں اور اکثر دوست بھی یہیں آگئے ہیں اور سب نے یہاں کسی نہ کسی طرح اپنی رہائش کا انتظام کر لیا ہے مگر میرے پاس یہاں نہ کوئی خیمہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا زائد کپڑا ہے جس کے ساتھ چھپر وغیرہ تان سکوں اور نہ کوئی اور انتظام کی صورت ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہم تو یہاں زلزلہ کی وجہ سے آئے تھے.لیکن اب قصبہ میں طاعون پھیلا ہوا ہے اور چونکہ ہم کواللہ تعالیٰ اس حالت سے قبل یہاں لے آیا تھا اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کسی وجہ سے منشاء ہے کہ ہم فی الحال یہیں پر قیام کریں ورنہ ہمیں اور کوئی خیال نہیں ہے.آپ شہر میں ہمارے مکان میں چلیں جائیں.اس سے زیادہ محفوظ جگہ اور کوئی نہیں.چنانچہ میں حضور کے مکان میں آ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ شریعت کا ایک حکم ہے کہ جس جگہ طاعون یا کوئی اور اسی قسم کی وبائی بیماری پھیلی ہوئی ہو وہاں نہیں جانا چاہیے اور نہ ایسی جگہ کے باشندوں کو وہاں سے نکل کر کسی دوسری بستی میں جانا چاہیے کیونکہ اس طرح و با کے زیادہ پھیل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ جس جگہ طاعون کا زور ہو وہاں سے نکل کر ارد گرد کے کھلے میدانوں میں بھی جا کر ڈیرہ لگانا منع ہے.کیونکہ جس طرح طاعون زدہ علاقے سے نکل کر کسی دوسری آبادی
سیرت المہدی 332 حصہ دوم میں جانا مرض کے پھیلانے کا موجب ہو سکتا ہے اس طرح کھلے میدانوں میں جا کر ڈیرے لگانا نہیں ہوسکتا بلکہ ایسا کرنا تو سراسر مفید ہے اور اس سے مرض کو بہت حد تک روکا جاسکتا ہے چنانچہ جہاں شریعت نے وبا زدہ علاقہ سے نکل کر دوسری آبادی میں جانے کو روکا ہے وہاں ارد گرد کے گھلے میدانوں میں پھیل جانے کو مستحسن قرار دیا ہے اور اس کی سفارش کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خاص استثنائی معاملہ تھا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی تھی کہ تیری چار دیواری (جسمانی اور روحانی) کے اندر کوئی شخص طاعون سے نہیں مرے گا کیونکہ ایسے تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت میں ہو نگے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ قادیان میں کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں طاعون آیا اور بعض اوقات ایک حد تک بیماری کا زور بھی ہوا.مگر آپ کے مکان میں کسی شخص کا اس وبا سے مرنا تو در کنار کبھی کوئی چوہا بھی اس بیماری سے نہیں مرا حالانکہ آپ کے مکان کے چاروں طرف طاعون کا اثر پہنچا اور بالکل ساتھ والے متصل مکانات میں بھی طاعون کے کیس ہوئے مگر آپ کا مکان خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کے مطابق بالکل محفوظ رہا.اسی طرح گو آپ کے روحانی مکان کی چاردیواری کی اصل تعیین کا علم صرف خدا کو ہے اور صرف بیعت اور ظاہری حالت سے اس کے متعلق کوئی یقینی قیاس نہیں ہو سکتا لیکن آپ کے مخلص اور یک رنگ خادم بالعموم اس بیماری کے اثر سے نمایاں طور پر محفوظ رہے اور خدائی وعدہ کے مطابق طاعون کی بیماری ایک خارق عادت طور پر سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اور ترقی کا موجب ہوئی.چنانچہ اگر اشاعت سلسلہ کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جاوے تو صاف نظر آتا ہے کہ جس سرعت کیساتھ طاعون کے زمانہ میں سلسلہ کی ترقی ہوئی ہے ایسی سرعت اس وقت تک اور کسی زمانہ میں نہیں ہوئی.نہ طاعون کے دور دورہ سے قبل اور نہ اس کے بعد.چنا نچہ حضرت خلیفہ اسیح ثانی بیان فرماتے تھے کہ جن دنوں میں اس بیماری کا پنجاب میں زور تھا ان دنوں میں بعض اوقات پانچ پانچ سو آدمیوں کی بیعت کے خطوط ایک ایک دن میں حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے تھے.اور یہ سب کچھ اس خدائی پیش گوئی کے مطابق ظہور میں آیا جو پیش از وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے شائع کی گئی تھی.
سیرت المہدی 333 حصہ دوم 359 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی دینی ضرورت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ اعلان فرما دیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقید تا اہل حدیث تھے.حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا جس میں لکھا به می سجاده رنگین کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نبود زراہ ورسم منزلها اور اس کے نیچے ” نور الدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے.اس کے بعد جب مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب حنفی مذہب کا اصول کیا ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اصول یہ ہے کہ قرآن شریف سب سے مقدم ہے اگر اس کے اندر کوئی مسئلہ نہ ملے تو آنحضرت ﷺ کے فعل وقول کو دیکھنا چاہیے جس کا حدیث سے پتا لگتا ہے اور اس کے بعد اجماع اور قیاس سے فیصلہ کرنا چاہیے.حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر مولوی صاحب آپ کا کیا مذہب ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی مذہب ہے.اس پر حضرت صاحب نے اپنی جیب سے مولوی صاحب کا وہ کارڈ نکالا اور ان کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ مولوی صاحب شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر چہ میں اپنی رائے میں تو اہل حدیث ہوں.لیکن چونکہ میرا پیر طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو اس لئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپ کو شفی کہتا ہوں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ احمدیت کے چرچے سے قبل ہندوستان میں اہل حدیث کا بڑا چرچا تھا اور حنفیوں اور اہل حدیث کے درمیان ( جن کو عموماً لوگ وہابی کہتے ہیں ) بڑی مخالفت تھی اور آپس میں مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے گو یا جانی دشمن ہورہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف فتوی بازی کا میدان گرم تھا.حضرت مسیح موعود
سیرت المہدی 334 حصہ دوم علیه السلام گو در اصل دعوی سے قبل بھی کسی گروہ سے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے.جس سے تعصب یا جتھہ بندی کا رنگ ظاہر ہو لیکن اصولاً آپ ہمیشہ اپنے آپ کو منفی ظاہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لئے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا.حالانکہ اگر عقائد و تعامل کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ کا طریق حنفیوں کی نسبت اہل حدیث سے زیادہ ملتا جلتا ہے.360 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی.جب وہ آپ سے ملا تو باتوں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیر ذالک.آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں.میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کیلئے بطور ایک چار دیواری کے سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے.پس اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نا اہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا.اور امت محمدیہ میں ایک اختلاف عظیم کی صورت قائم ہو جاتی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چار اماموں نے جو اپنے علم و معرفت اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے.مسلمانوں کو پراگندہ ہو جانے سے محفوظ رکھا.پس یہ امام مسلمانوں کے لئے بطور ایک چار دیواری کے رہے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے اور ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے اماموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ کو خصوصیت کے ساتھ علم ومعرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے.361 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجود سورۃ فاتحہ کو ضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورة
سیرت المہدی 335 حصہ دوم فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی.کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے.اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہو کر اس کی تلاوت کو سننا چاہیے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہیے.اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہل حدیث کے مؤید تھے مگر باوجود اس عقیدہ کے آپ غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی.362 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ عصمت جو تمہاری سب سے بڑی بہن تھی وہ جمعہ سے پہلی رات کو صبح کی نماز سے قبل پیدا ہوئی تھی اور بشیر اول اتوار سے قبل رات کو بعد از نصف شب پیدا ہوا تھا اور محمود ( یعنی حضرت خلیفہ ثانی) ہفتہ سے پہلی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے تھے اور شوکت پیر کے دن چار بجے شام کے پیدا ہوئی تھی اور تم ( یعنی یہ خاکسار ) جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور شریف بھی جمعرات کی صبح کو قبل طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور مبارکہ منگل سے پہلی رات کے نصف اول میں پیدا ہوئی تھیں.اور مبارک بدھ کے دن سہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور امۃ النصیر کے متعلق یاد نہیں اور امۃ الحفیظ شائد پیر سے پہلی رات عشاء کے بعد پیدا ہوئی تھیں.نیز والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ جب مبارکہ پیدا ہونے لگیں تو حضرت صاحب نے دُعا کی تھی کہ خدا اسے منگل کے شدائد والے ) اثر سے محفوظ رکھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دن اپنی تاثیرات اور افاضہ برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں مفصل بحث کی ہے یہ تاثیرات قانون نیچر کے ماتحت ستاروں کے اثر کا نتیجہ ہیں.363 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس سفارش کی کہ مولوی یار محمد صاحب کو مدرسہ میں بطور مدرس کے لگا لیا جاوے.مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور تو ان کی حالت کو جانتے ہیں.حضرت
سیرت المہدی 336 حصہ دوم صاحب مسکرا کر فرمانے لگے کہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں مگر پھر بھی لگا لینا چاہیے.خاکسار عرض کرتا ہے که مولوی یارمحمد صاحب ایک بڑے مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کو بہت محبت تھی مگر چونکہ ان کے اندر ایک خاص قسم کا دماغی نقص تھا اس لئے غالبا اسے مدنظر رکھتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب نے حضرت صاحب کی سفارش پر یہ الفاظ عرض کئے ہوں گے.لیکن بایں ہمہ حضرت صاحب نے ان کے لگائے جانے کی سفارش فرمائی جو شائد اس خیال سے ہوگی کہ ایک تو ان کیلئے ایک ذریعہ معاش ہو جائیگا اور دوسرے شائد کام میں پڑنے سے ان کی کچھ اصلاح ہو جاوے.اور یہ جو حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں ان کو آپ سے بدتر جانتا ہوں.یہ اس لئے تھا کہ مولوی یار محمد صاحب کی اس دماغی حالت کا نشانہ زیادہ تر خود حضرت مسیح موعود رہتے تھے.اور بہتر کی جگہ بدتر کا لفظ استعمال کرنا غالبا معاملہ کی اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کیلئے تھا اور شائد کسی قدر بطور مزاح بھی ہو.364 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دائی کو بلا کر اس سے شہادت لی تھی کہ آپ کی ولادت توام ہوئی تھی اور یہ کہ جولڑ کی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ پہلے پیدا ہوئی تھی اور اس کے بعد آپ پیدا ہوئے تھے اور پھر اس کے تحریری بیان پر اس کے انگوٹھے کا نشان بھی ثبت کروایا تھا اور بعض دوسری بوڑھی عورتوں کی شہادت بھی درج کروائی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی.365 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی کی زبانی سُنا ہے کہ ایک دفعہ کوئی انگریزی خوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ عربی زبان میں مفہوم کے ادا کرنے کے لئے انگریزی کی نسبت زیادہ طول اختیار کرنا پڑتا ہے.حضرت صاحب فرمانے لگے کہ اچھا آپ انگریزی میں ” آب من“ کے مفہوم کو کس طرح ادا کریں گے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کے لئے ”مائی واٹر“ کے الفاظ ہیں.حضرت صاحب
سیرت المہدی 337 حصہ دوم نے فرمایا کہ عربی میں صرف ”مائی“ کہنا کافی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ یہ صرف ایک وقتی جواب بطور لطیفے کا تھا.ورنہ یہ نہیں کہ حضرت صاحب کے نزدیک صرف یہ دلیل اس مسئلہ کے حل کے لئے کافی تھی.366 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعوئی کی تحقیق کے لئے آیا ہوں.اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا.اس کے جواب میں جو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح ومہدی ہونے کا دعوئی ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے.اس وقت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آ گیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی.حضرت صاحب نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا.اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے.فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ ما رہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا.367 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا.کہ انبیاء کے متعلق بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ہسٹیریا کا مرض ہوتا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے.دراصل بات یہ ہے کہ انبیاء کے حواس میں چونکہ بہت غیر معمولی حدت اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے نا واقف لوگ غلطی سے اسے ہسٹیر یا سمجھنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ دراصل وہ ہسٹیریا نہیں ہوتا بلکہ صرف ظاہری صورت میں ہسٹیریا سے ملتی جلتی حالت ہوتی ہے.لیکن لوگ غلطی سے اس کا نام ہسٹیر یا رکھ دیتے ہیں.
سیرت المہدی 338 حصہ دوم 368 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے وہ با قاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵ جون ۱۸۹۸ء ہے.زررہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے.اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:.اقرار یہ ہے کہ عرصہ میں سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا.بعد میں سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہوں زررہن دوں تب فک الرہن کرالوں.ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہو نہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا.قبضہ اس کا آج سے کرا دیا ہے اور داخل خارج کرا دونگا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سرکاری فصل خریف ۱۹۵۵ ( بکرمی ) سے مرتہنہ دے گی اور پیداوار لے گی.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویز کردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے.369 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰ ) روپیہ مقرر کیا گیا تھا اور حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اور جب حضرت صاحب کی وفات کے بعد ہماری چھوٹی ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمد معبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہوا تو مہر (۱۵۰۰۰) مقرر کیا گیا اور یہ مہر نامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا.لیکن ہم تینوں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھیں کسی کا مہر نامہ تحریر ہوکر رجسٹری نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا.دراصل مہر کی تعداد زیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا با قاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونایہ شخصی حالات پر
سیرت المہدی 339 حصہ دوم موقوف ہے.چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سر کار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو با قاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم با قاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگوں کی شہادتیں اس پر ثبت ہو جاویں.کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے.پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے.370 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا.آپ نے وہ بال ایک گھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کو سر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاکہ باندھ کر اسے اپنی بیت الدُّعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا.اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دُعا کی تحریک رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت اله عا میں لٹکی رہی.لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی.371 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتروا دیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھوٹا کریں.جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقار کا موجب ہے اور مونچھوں کا بڑھا ناجب اور تکبر پیدا کرتا ہے.لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کر دی ہے.اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے.منشاء صرف یہ ہے
رت المهدی 340 حصہ دوم کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتر واد ینی مناسب ہے.جس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے.اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے.مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتروانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہو جاوے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے.372 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے.بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹیریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں.مثلا کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا.چکروں کا آنا.ہاتھ پاؤں کا سرد ہو جانا.گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا یا ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا وغیر ذالک.یہ اعصاب کی ذکاوت حس یا تکان کی علامات ہیں اور ہسٹیریا کے مریضوں کو بھی ہوتی ہے اور انہی معنوں میں حضرت صاحب کو ہسٹیریا یا مراق بھی تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری جگہ جو مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ جو بعض انبیاء کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ہسٹیریا تھا یہ ان کی غلطی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جس کی تیزی کی وجہ سے ان کے اندر بعض ایسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو ہسٹیریا کی علامات سے ملتی جلتی ہیں.اس لئے لوگ غلطی سے اسے ہسٹیر یا سمجھنے لگ جاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب جو کبھی کبھی یہ فرما دیتے تھے کہ مجھے ہسٹیریا ہے یہ اسی عام محاورہ کے مطابق تھاور نہ آپ علمی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ یہ مسٹر یا نہیں.بلکہ اس سے ملتی جلتی علامات ہیں جو ذکاوت حس یا شدت کار کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ
سیرت المہدی 341 حصہ دوم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ایک بہت قابل اور لائق ڈاکٹر ہیں.چنانچہ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ ہمیشہ اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوتے تھے اور ڈاکٹری کے آخری امتحان میں تمام صوبہ پنجاب میں اول نمبر پر رہے تھے اور ایام ملازمت میں بھی ان کی لیاقت و قابلیت مسلم رہی ہے.اور چونکہ بوجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریبی رشتہ دار ہونے کے ان کو حضرت صاحب کی صحبت اور آپ کے علاج معالجہ کا بھی بہت کافی موقعہ ملتا رہتا تھا اس لئے ان کی رائے اس معاملہ میں ایک خاص وزن رکھتی ہے جو دوسری کسی رائے کو کم حاصل ہے.373 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پر یونہی کھیل تفریح کے طور پر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلا لیا کرتے تھے.اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوں تو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے.نیز حضرت خلیفہ اسیح ثانی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلا نا طاعونی مادہ کو مارنے اور ہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرر رساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزوں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے.374 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چا چوہدری شیر محمد صاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی جمعہ مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی تو اس وقت میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھا.چونکہ شہر میں مخالفت کا خطرناک زور تھا اور حضرت صاحب کے اہل وعیال بھی سفر میں ساتھ تھے.اس لئے حضرت صاحب مباحثہ کی طرف جاتے ہوئے مکان کی حفاظت کے لئے مجھے ٹھہرا گئے تھے
سیرت المہدی 342 حصہ دوم.چنانچہ آپ کی واپسی تک میں نے مکان کا پہرا دیا اور میں نے دل میں یہ پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں اپنی جان دے دوں گا لیکن کسی کو مکان کی طرف رخ نہیں کرنے دوں گا.مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ میرے چچا ایک خوب مضبوط آدمی تھے اور ہمارے خاندان میں انہوں نے سب سے پہلے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی.375 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چا چوہدری شیر محمد صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب حضرت مولوی نور الدین صاحب قرآن شریف کا درس دیا کرتے تھے تو کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کا درس سننے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ فرمایا بھی کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحب درس دے رہے تھے تو ان آیات کی تفسیر میں جن میں جنگ بدر کے وقت فرشتوں کی فوج کے نازل ہونے کا ذکر آتا ہے.حضرت مولوی صاحب کچھ تاویل کرنے لگے کہ اس سے روحانی رنگ میں قلوب کی تقویت مراد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا تو فرمانے لگے کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں.اس وقت واقعی مسلمانوں کو فرشتے نظر آئے تھے.اور کشفی حالات میں ایسا ہو جاتا ہے کہ صاحب کشف کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کشفی نظارہ میں شریک ہو جاتے ہیں.پس اس موقعہ پر بھی آنحضرت ﷺ کے اس کشفی نظارہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو شامل کر لیا تاکہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ نزول ملائکہ کی حقیقت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب توضیح مرام ازالہ اوہام اور خصوصاً آئینہ کمالات اسلام میں مفصل بحث فرمائی ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہونے سے پہلے سرسید احمد خان مرحوم کے خیالات اور ان کے طریق استدلال کی طرف مائل تھے اس لئے بسا اوقات معجزات اور اس قسم کے روحانی تصرفات کی تاویل فرما دیا کرتے تھے اور ان کی تفسیر میں اس میلان کی جھلک احمدیت کے ابتدائی ایام میں بھی نظر آتی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آہستہ آہستہ یہ اثر دھلتا گیا
سیرت المہدی 343 حصہ دوم اور خالص پر تو نبوت سے طبیعت متاثر ہوتی گئی.376 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ آتھم کے مباحثہ کے قریب ہی کے زمانہ میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک ملازم لڑکے مسمی چراغ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیان کیا کہ باہر دو میںمیں آئی ہیں.حضرت صاحب اس وقت چھت کے صحن پر ٹہل رہے تھے.فرمایا کیوں آئی ہیں؟ اس نے اپنے اجتہاد کی بنا پر کہہ دیا کہ بحث کرنے کے لئے آئی ہیں.حضور فوراً اپنا چغہ پہن کر اور عصا ہاتھ میں لے کر نیچے اترے اور احمد یہ چوک میں تشریف لے گئے.جب ان میموں نے حضور صاحب کو دیکھا تو کہا کہ مرزا صاحب ہم نے فلاں گاؤں میں جانا ہے ہمارے لئے کوئی سواری کا انتظام کر دیں.موجودہ یکہ کو ہم یہیں چھوڑ دیں گے.حضرت صاحب نے کسی خادم کو اس کا انتظام کرنے کا حکم دیا اور خود واپس گھر میں تشریف لے آئے.در اصل ان میموں نے بطور رئیس قصبہ کے آپ سے یہ امداد مانگی تھی مگر چراغ نے یہ سمجھ کر کہ حضور ہمیشہ عیسائیوں کے ساتھ مباحثات میں مصروف رہتے ہیں اپنی طرف سے یہ اجتہاد کر لیا کہ یہ میمیں بھی اسی کام کے لئے آئی ہیں.377 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کیلئے نیا کرتہ بنوالاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے.اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہاتھ ایک نیا کر یہ بھجوا کر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی.گھر میں تلاش سے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی اترا ہوا بے دھلا کر تہ موجود نہیں.جس پر آپ نے اپنا مستعمل کر نہ دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا دیئے جانے کا حکم فرمایا.میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کر نہ لے جانا چاہتا ہے.حضور نہس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے.چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دیدیا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالبا یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی.لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُترا
سیرت المہدی 344 حصہ دوم ہوا میلا بے دھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کرتے ہوئے گھر میں پہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو ڈھلا ہوا کر نہ دیدیا گیا.378 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے تو جہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کیطرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوا ہوتا تھا.اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کیلئے گر گابی ہدیۂ لا تا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے.اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے.379 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہا سال اسہال کا عارضہ رہا تھا.چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے.بارہا دیکھا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے.380 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خودان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بہت خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے.381 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے.حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ معہ کچھ ناشتہ کے ان سے
سیرت المہدی 345 حصہ دوم ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے.ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں.آپ نے فرمایا.سفر میں روزہ ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے.چنانچہ ان کو ناشتہ کروا کے ان کے روزے نڑ وادیئے.382 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صفائی کا بہت خیال ہوتا تھا.خصوصاً طاعون کے ایام میں اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جا کر ڈالتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تا کہ ضرر رساں جراثیم مر جاویں اور آپ نے ایک بہت بڑی آہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی.جسے کو ملے ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دئیے جاتے تھے.اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد بھی کمرہ کھولا جاتا تھا تو پھر بھی وہ اندر سے بھٹی کی طرح نپتا تھا، نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کی عجیب شان ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اسباب کی اتنی رعایت کرتے ہیں کہ دیکھنے والے کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ ان کی نظر میں انہی اسباب کے ہاتھ میں سارا قضاء وقدرکا معاملہ ہے اور اگر ان کی رعایت نہ رکھی گئی تو پھر کام نہیں بن سکتا اور دوسری طرف ان کو خدا کی ذات پر اس درجہ تو کل ہوتا ہے کہ اسباب کو وہ ایک مردہ کیڑے کی طرح سمجھتے ہیں اور ایک سطحی نظر رکھنے والا انسان اس حالت کو دیکھ کر حیرانی میں پڑ جاتا ہے لیکن دراصل بات یہ ہوتی ہے کہ جس قدر بھی رعایت وہ اسباب کی رکھتے ہیں وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ اسباب کے ہاتھ میں کوئی قضاء وقدر کی چابیاں ہیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ اسباب خدا کے پیدا کردہ ہیں اور خدا کا احترام یہ چاہتا ہے بلکہ یہ خدا کا حکم ہے کہ اس کے پیدا کردہ اسباب کی رعایت ملحوظ رکھی جاوے.پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں سب سے اعلیٰ مقام پر کھڑے ہوتے ہیں اس لئے اسباب کی رعایت رکھنے میں بھی وہ دوسروں سے فائق نظر آتے ہیں.لیکن اصل بھروسہ ان کا خدا کی ذات کے سوا اور کسی چیز پر نہیں ہوتا اور دراصل یہی وہ تو حید کا
سیرت المہدی 346 حصہ دوم نکتہ ہے جس پر قائم کرنے کیلئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں اور غور کیا جاوے تو یہ مقام کوئی آسان مقام نہیں بلکہ ہر وقت کا مجاہدہ اور نہایت پختہ ایمان چاہتا ہے عموماً لوگ اسباب کو کام میں لاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسباب کو جو بھی طاقت اور اثر حاصل ہے وہ سب خدا کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اور اپنی ذات میں وہ ایک مُردہ کیڑے سے بھی بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے اور یہ کمزوری ایک حد تک ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم صرف رسمی طور پر خدا کو نہیں مانتے بلکہ واقعی اور حقیقت دل کی بصیرت کے ساتھ اس پر ایمان لائے ہیں.ہر شخص اپنے دل کے اندر غور کر کے دیکھے کہ جب اس کا کوئی قریبی عزیز سخت بیمار ہو جاتا ہے یا اس کے خلاف کوئی نہایت سنگین مقدمہ کھڑا ہو جاتا ہے یا وہ کسی ایسے قرضہ یا مالی بوجھ کے نیچے دب جاتا ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہے اور جس کے ادا نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنی یقینی تباہی نظر آتی ہے تو وہ کس طرح بے تاب ہو کر ڈاکٹروں کی طرف بھاگتا اور علاج معالجہ میں منہمک ہو جاتا ہے یا وہ کس طرح وکیلوں کے پیچھے پیچھے جاتا اور ان کو باوجود ایک بڑی رقم بطور فیس کے دینے کے ان کی خوشامد اور منت سماجت کر کے ان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بعض اوقات اگر موقعہ پائے تو عدالت کی خوشامد کرتا اور سفارشوں کے ذریعہ اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے.یا وہ کس طرح سرمایہ داروں کے در کی جبہ سائی کرنا اور ان سے روپیہ حاصل کر کے اپنی مالی مصیبت سے رہائی پانے کی راہ تلاش کرتا ہے اور یہ ساری کارروائی وہ اس طرح منہمک ہو کر کرتا ہے کہ گویا خدا تو صرف ایک نام ہی نام ہے اور اصل حاجت براری کا موجب یہی اسباب ہیں.کیونکہ اسباب کے میسر نہ آنے پر وہ مایوس ہونے لگتا ہے اور یقین کر لیتا ہے کہ بس اب اس کی رہائی کی کوئی صورت نہیں اور یہی وہ مخفی شرک ہے جس سے نجات دینے کے لئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں جو آکر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب کو اختیار کرو کیونکہ وہ خدا کے پیدا کردہ ہیں اور خدا کی حکمت ازلی نے ان کے اندر تاثیرات ودیعت کی ہیں.جن سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو لیکن ساتھ ہی ہر وقت تمہارے دل اس یقین سے معمور رہیں کہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے.اور اگر اس منبع سے چشمہ فیض بند ہو جاوے تو یہ اسباب ایک مُردہ کیڑے سے زیادہ حقیقت نہیں
سیرت المہدی 347 حصہ دوم رکھتے تم ایمان لاؤ کہ کو نین ملیریا کے کیٹروں کو مارتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ ایمان تمہارے دلوں میں قائم ہو کہ اس کی یہ خاصیت خدا کی طرف سے ہے.خود بخود نہیں.اور اگر خدا چاہے تو اس سے اس کی یہ خاصیت چھین کر ایک مٹی کے ڈلے میں وہی خاصیت پیدا کر دے یا محض اپنے حکم سے بلاکسی درمیانی سبب کے وہ نتائج پیدا کر دے جو کو نین پیدا کرتی ہے.یہ ایمان کہنے کو تو ہر مومن کے دل میں ہوتا ہے لیکن کم ہیں بہت ہی کم ہیں جن کے دل عملاً اس ایمان کی زندہ حقیقت سے منور ہوتے ہیں.اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگ تو اسباب کو ترک کر دیتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہو رہے گا.اور اس طرح خدا کے پیدا کردہ سامانوں کی بے حرمتی کر کے خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں اور بعض اس طرح اسباب پر گرتے ہیں کہ گویا خدا کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہونا ہے ان اسباب سے ہونا ہے یہ دونوں گروہ راہ صواب سے دُور اور پر دہ ظلمت میں مستور ہیں.اور حق پر صرف وہی ہے جو انبیاء کی سنت پر چل کر اسباب کی پوری پوری رعایت رکھتا ہے مگر اس کا دل اس زندہ ایمان سے معمور رہتا ہے کہ ان اسباب کے پیچھے ایک اور طاقت ہے جس کے اشارہ پر یہ سب کا رخانہ چل رہا ہے اور جس کے بغیر یہ سب اسباب بالکل مردہ اور بے تاثیر ہیں.مگر یہ مقام ایمان کا ایک بڑے مجاہدہ کے بعد حاصل ہوتا ہے اور اس پر قائم رہنا بھی ہر وقت کا مجاہدہ چاہتا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشنده 383 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں انٹرنس کا امتحان دے کر ۱۸۹۷ء میں قادیان آیا تو نتیجہ نکلنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے؟ آخر ایک دن میں نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں گلاب کے پھول دیکھے ہیں.فرمانے لگے اس کی تعبیر تو غم ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میں اس سال امتحان میں فیل ہو گیا.نیز ویسے بھی جن دنوں میں کوئی اہم امر حضور کے زیر نظر ہوتا تھا تو آپ گھر کی مستورات اور بچوں اور
سیرت المہدی 348 حصہ دوم خادمہ عورتوں تک سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو بڑے غور اور توجہ سے اسے سنتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج کل کی مادیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ لوگ خوابوں کے قائل نہیں رہے اور انہیں کلیۂ جسمانی عوارض کا نتیجہ سمجھتے ہیں حالانکہ گو اس میں شک نہیں کہ بعض خواہیں جسمانی عوارض کا نتیجہ بھی ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ خدا کی طرف سے آئندہ ہونے والے امور یا مخفی باتوں کے متعلق خواب میں نظارے دکھائے جاتے ہیں.جو وقت پر پورے ہو کر خوابوں کی سچائی پر مہر تصدیق کا کام دیتے ہیں اور ان سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی آدمی دوسری محسوس و مشہور چیزوں کا انکار کر دے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب ہمیشہ اپنے تعلیمی امتحانوں میں اعلیٰ نمبروں پر کامیاب ہوتے رہے ہیں اور ان کا اس دفعہ انٹرنس میں فیل ہونا اس وجہ سے تھا کہ اس سال چونکہ لیکھرام کے قتل کی وجہ سے ہندوؤں میں بہت سخت مخالفت تھی اس لئے بہت سے مسلمان بچے ہندو ممتحنوں کے غیظ و غضب کا شکار ہو گئے تھے.کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کو امتحان کے پر چوں پر اپنے نام لکھنے پڑتے تھے جس سے ممتحن کو ہندو مسلمان کا پتہ چل جاتا تھا.384 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مبارک احمد فوت ہو گیا اور مریم بیگم جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی بیوہ رہ گئی تو حضرت صاحب نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ لڑ کی ہمارے گھر میں ہی آجاوے تو اچھا ہے.یعنی ہمارے بچوں میں ہے سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کرلے تو بہتر ہے.چنانچہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ زیادہ تر ای بنا پر حضرت خلیفتہ امسیح ثانی نے مریم بیگم سے شادی کی ہے نیز والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ جب حضرت صاحب کے سامنے تم لڑکوں کی شادی کی تجویز ہوتی تھی اور کبھی یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ فلاں لڑکی کی عمر لڑکے کی عمر کے قریباً قریباً برابر ہے.جس سے بڑے ہو کر لڑکے کو تکلیف کا اندیشہ ہے.کیونکہ عموماً عورت جلد بوڑھی ہو جاتی ہے اور مرد کے قومی دیر تک قائم رہتے ہیں تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے.اگر ضرورت ہوگی تو بڑے ہو کر بچے اور شادی کر لیں گے.نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اس بات کو پسند
سیرت المہدی 349 حصہ دوم فرماتے تھے کہ اسلامی حدود کوملحوظ رکھتے ہوئے احمد کی زیادہ شادیاں کریں تاکہ نسل جلدی جلدی ترقی کرے اور قوم پھیلے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بے شک نسل کی ترقی کا یہ ایک بہت عمدہ ذریعہ ہے اور نیز اس طرح یہ فائدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتوں کو اپنے سامنے زیادہ بچوں کی تربیت کا موقعہ مل سکتا ہے.جو قومی فلاح و بہبود کے لئے بہت ضروری ہے.لیکن تعددازدواج کے متعلق عدل وانصاف کی جو کڑی شرطیں اسلام پیش کرتا ہے.ان کا پورا کرنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں.ہاں جن کو یہ توفیق حاصل ہو اور ان کو کوئی جائز ضرورت پیش آجائے وہ بے شک زیادہ بیویاں کریں تا کہ علاوہ ان فوائد کے جو اوپر بیان ہوئے ہیں یہ فائدہ بھی حاصل ہو کہ ایسے لوگوں کے نیک نمونے سے وہ بدظنی اور بدگمانی دُور ہو جو بعض لوگوں کے بدنمونے کے نتیجہ میں تعدد ازدواج کے متعلق اس زمانہ میں خصوصاً حلقہ نسواں میں پیدا ہورہی ہے.385 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ سلطان احمد ( یعنی مرزا سلطان احمد صاحب) ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اور اس کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہیں رہا.386 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی اور ان کے والد میر حسام الدین صاحب قادیان میں موجود تھے حضرت صاحب کے سامنے ذکر ہوا کہ میر حسام الدین صاحب کی بیوی فوت ہو چکی ہے.جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب کہیں اور شادی کرالیں.بلکہ میر حامد شاہ صاحب سے فرمایا کہ میر حسام الدین صاحب کی شادی کا بندوبست کرا دیں.اس وقت میر حسام الدین صاحب بہت معمر تھے.387 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ انسپکٹر جنرل آف ہاسپٹلز کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ سب ڈاکٹر جو برانچ ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں سال میں دوماہ ضلع کے صدر ہسپتال میں جا کر کام کیا کریں تاکہ نئے نئے تجربات اور طریق کار سے واقف رہیں
رت المهدی 350 حصہ دوم چنانچہ نمبر وار ڈاکٹروں کی ڈیوٹی شروع ہوئی اور میری باری آنے والی تھی.مجھے بہت تردد اور فکر ہوا کیونکہ ہر سال معہ اہل وعیال و سامان وغیرہ کے ضلع میں جانا ایک سخت مصیبت تھی اتفاقا میں چند روز کی رخصت لے کر قادیان آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں یہ سب ماجرا عرض کیا.حضور نے فرمایا ، آپ فکر نہ کریں شائد آپ کی باری وہاں جانے کی نہ آوے گی.گو آپ نے شائد کا لفظ بولا تھا لیکن میرے دل کو اطمینان ہو گیا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ انسپکٹر جنرل کی طرف سے میرے نام ایک حکم آگیا کہ تم اس ڈیوٹی سے مستثنی ہو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خاص حالات کی باتیں ہوتی ہیں اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو بات بھی انبیاء فرما دیں وہ اسی طرح وقوع میں آجاتی ہے.ابنیاء عالم الغیب نہیں ہوتے.388 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب شروع دعوی مسیحیت میں دہلی تشریف لے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی.اس وقت شہر میں مخالفت کا سخت شور تھا ، چنانچہ حضرت صاحب نے افسران پولیس کے ساتھ انتظام کر کے ایک پولیس مین کو اپنی طرف سے تنخواہ دینی کر کے مکان کی ڈیوڑھی پر پہرہ کے لئے مقرر کرالیا تھا.یہ پولیس مین پنجابی تھا.اس کے علاوہ ویسے بھی مردانہ میں کافی احمد کی حضرت صاحب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے.389 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں ۱۹۰۰ء میں پہلی دفعہ قادیان میں آیا تو حضور ان دنوں میں صبح اپنے باغ کی طرف سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.چنانچہ جب حضرت صاحب باغ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ گیا اور حضور نے شہتوت منگوا کر درختوں کے سائے کے نیچے خدام کے ساتھ مل کر کھائے اور پھر مجھے مخاطب فرما کر اپنے دعوی کی صداقت میں تقریر فرمائی.میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی صداقت کے متعلق تو کوئی شبہ نہیں رہا لیکن اگر بیعت نہ کی جاوے اور آپ پر ایمان رکھا جاوے کہ آپ صادق ہیں ، تو کیا حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسے ایمان سے آپ مجھ سے روحانی فیض حاصل نہیں کر سکتے.بیعت سنت انبیاء ہے اور اس سنت میں بہت بڑے فوائد اور حکمتیں ہیں.چنانچہ سب سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ انسان کے نفسانی درخت کا جو
سیرت المہدی 351 حصہ دوم کڑوا پھل اور بد ذائقہ اثر ہے اسے دور کرنے کے لئے ایک پیوند کی ضرورت ہے اور وہ پیوند بیعت کامل ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کڑوے ترش اور بدذائقہ پھل دار درخت کو اگر میٹھا اور لذیذ بنانا ہوتو پھر کسی عمدہ خوش ذائقہ شیریں پھل دار درخت کے ساتھ اسے پیوند کرتے ہیں اور اس طرح اس کے بدذائقہ اور کڑوے پھل خود بخود شیریں اور عمدہ ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب کسی انسان کا نفسانی پھل خراب گندہ اور بدمزہ ہو تو ایک پاک نفس کی بیعت یعنی اس کے روحانی تعلق اور توجہ اور دُعا وغیرہ سے پیوند ہوکر یہ بھی حسب استعداد پاک نفس اور مطہر وظل انبیاء ہو جاتا ہے.اور بغیر اس بیعت اور تاثیر روحانی کے اس کا روح محروم رہتا ہے نیز مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بیعت کے فوائد پر تقریر فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا یہ فائدہ بیعت کا کوئی کم ہے کہ انسان کے پہلے سارے گناہ بخشے جاتے ہیں.390 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حقیقہ الوحی طبع ہو رہی تھی.ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو حقیقۃ الوحی میں سعد اللہ لدھیانوی کے بیٹے کے نامرد ہونے کے متعلق تحدی کی گئی ہے اس کو کاٹ دیا جاوے.کیونکہ اگر اس نے مقدمہ کر دیا تو نامرد ثابت کرنا مشکل ہوگا.مگر حضرت صاحب نے انکار کیا.خواجہ صاحب نے پھر عرض کیا کہ اس سے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ خواجہ صاحب اگر اس نے مقدمہ کیا تو ہم آپ کو وکیل نہیں کریں گے.اس کے کچھ دن بعد جب خواجہ صاحب لاہور چلے گئے تو مولوی محمد علی صاحب نے سیر کے وقت حضرت صاحب سے عرض کیا کہ خواجہ صاحب کا خط آیا ہے کہ مجھے سعد اللہ کے متعلق اتنا فکر ہے کہ بعض اوقات رات کو نیند نہیں آتی یا تو وہ مر جاوے یا حضرت صاحب اس کے بیٹے کے نامرد ہونے کے الفاظ اپنی کتاب سے کاٹ دیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ سعد اللہ کو جلد ہی موت دے دے.اس کے چند دن بعد تار آیا کہ سعد اللہ لدھیانوی مر گیا ہے اور حضرت صاحب نے سیر میں اس کا ذکر کیا اور مولوی محمد
سیرت المہدی 352 حصہ دوم علی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اب خواجہ صاحب کو لکھ دیں کہ آپ تو کہتے تھے کہ وہ الفاظ کاٹ دیں.لیکن اب تو ہمیں اور بھی لکھنا پڑا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ صاحب نے از راہ ہمدردی اپنی رائے پر اصرار کیا ہو گا کہ مبادا یہ بات شماتت اعداء کا موجب نہ ہو جائے.مگر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے صرف ایک قانون دان کی حیثیت میں غور کیا.اور اس بات کو نہیں سوچا کہ خدائی تصرفات سب طاقتوں پر غالب ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اب سعد اللہ کا لڑکا بھی لا ولد مر چکا ہے.391 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت صاحب کی مجلس میں عورتوں کے لباس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا تنگ پاجامہ جو بالکل بدن کے ساتھ لگا ہوا ہوا اچھا نہیں ہوتا.کیونکہ اس سے عورت کے بدن کا نقشہ ظاہر ہو جاتا ہے.جوستر کے منافی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ صوبہ سرحد میں اور اس کے اثر کے ماتحت پنجاب میں بھی عورتوں کا عام لباس شلوار ہے.لیکن ہندوستان میں تنگ پاجامہ کا دستور ہے.اور ہندوستان کے اثر کے ماتحت پنجاب کے بعض خاندانوں میں بھی تنگ پاجامے کا رواج قائم ہو گیا ہے.چنانچہ ہمارے گھروں میں بھی بوجہ حضرت والدہ صاحبہ کے اثر کے جو دتی کی ہیں ، زیادہ تر تنگ پاجامے کا رواج ہے.لیکن شلوار بھی استعمال ہوتی رہتی ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ ستر کے نکتہ نگاہ سے تنگ پاجامہ ضرور ایک حد تک قابل اعتراض ہے اور شلوار کا مقابلہ نہیں کرتا.ہاں زینت کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں یعنی بعض بدنوں پر تنگ پاجامہ سجتا ہے اور بعض پر شلوار.اندریں حالات اگر بحیثیت مجموعی شلوار کو رواج دیا جاوے تو بہتر ہے.یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت نے تو اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی رہنا ہے اور اگر باہر بھی جانا ہے تو عورتوں میں ہی ملنا جلنا ہے تو اس صورت میں تنگ پاجامہ اگر ایک حد تک ستر کے خلاف بھی ہو تو قابل اعتراض نہیں لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ اول تو اس قسم کا ستر شریعت نے عورتوں کا خود عورتوں سے بھی رکھا ہے اور اپنے بدن کے حسن کو بیجا طور پر بر ملا ظاہر کرنے سے مستورات میں بھی منع فرمایا ہے علاوہ ازیں گھروں میں علاوہ خاوند کے بعض ایسے مردوں کا بھی آنا جانا ہوتا ہے جن سے مستورات کا پردہ تو نہیں ہوتالیکن یہ بھی نہایت معیوب بلکہ ناجائز
سیرت المہدی 353 حصہ دوم ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے اپنے بدن کے نقشہ اور ساخت کو بر ملا ظاہر کرے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایسے تنگ پاجامہ کو جس سے بدن کا نقشہ اور ساخت ظاہر ہو جاوے نا پسند کرنا نہایت حکیمانہ دانشمندی پر مبنی اور عین شریعت اسلامی کے منشاء کے مطابق ہے.ہاں خاوند کے سامنے عورت بے شک جس قسم کا لباس وہ چاہے یا اس کا خاوند پسند کرے پہنے.اس میں حرج نہیں.لیکن ایسے موقعوں پر جبکہ گھر کے دوسرے مردوں کے سامنے آنا جانا ہو یا غیر عورتوں سے ملنا ہو، شلوار ہی بہتر معلوم ہوتی ہے.ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک تنگ پاجامہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بدن کے ساتھ بالکل پیوست نہیں ہوتا.بلکہ کسی قدر ڈھیلا رہتا ہے اور اس سے عورت کے بدن کی ساخت پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی.ایسا تنگ پاجامہ گوشلوار کا مقابلہ نہ کر سکے مگر چنداں قابل اعتراض بھی نہیں اور ہمارے گھروں میں زیادہ تر اسی قسم کے پاجامہ کا رواج ہے.قابل اعتراض وہ پاجامہ ہے کہ جو بہت تنگ ہو یا جسے عورت ٹانک کر اپنے بدن کے ساتھ پیوست کر لے.واللہ اعلم.392 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی فضل دین صاحب وکیل نے مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ مولوی کرم دین جہلمی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ سوال ہوا تھا کہ کیا واقعی آپ کی وہی شان ہے جو آپ نے اپنی فلاں کتاب میں لکھی ہے؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ”حقیقۃ الوحی“ میں لکھا ہے کہ یہ سوال تریاق القلوب کے متعلق تھا.لیکن دراصل یہ درست نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کتاب کے نام کے متعلق نسیان ہو گیا ہے یا سہو ابلا محسوس کئے تریاق القلوب کا نام لکھا گیا ہے.کیونکہ حق یہ ہے کہ عدالت میں تحفہ گولڑویہ پیش کی گئی تھی اور تحفہ گولڑو یہ ہی کی ایک عبارت پیش کر کے یہ سوال کیا گیا تھا.اس کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری عدالت میں جو اس مقدمہ کی مسل محفوظ ہے اس میں تحفہ گولڑویہ کا نام درج ہے اور یہ صاف طور پر لکھا ہے کہ تحفہ گولڑویہ کی ایک عبارت کے متعلق یہ سوال تھا.چنانچہ مسل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان آپ کے اپنے الفاظ میں اس طرح پر درج ہے:.تحفہ گولڑویہ میری تصنیف ہے.یکم ستمبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی.پیر مہر علی کے مقابلہ پرلکھی ہے.
سیرت المہدی 354 حصہ دوم یہ کتاب سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی سوال.جن لوگوں کا ذکر صفحہ نمبر ۴۸ لغائت نمبر ۵۰ اس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کا مصداق ہیں؟ جواب.خدا کے فضل اور رحمت سے میں اس کا مصداق ہوں.سوال.ان روحانی طاقتوں کو کام میں لا کر جس سے جھوٹے اور بچے ہیرے شناخت کئے گئے آپ نے کرم دین کے دونوں خطوں کو پرکھا یعنی ۴۰p اور مضمون مندرجہ سراج الاخبار جہلم اور نیز نوٹ ہائے مندرجہ حاشیہ اعجاز اسیح؟ جواب.میں نے نہ ان صفحات میں اور نہ کسی اور جگہ کبھی دعوی نہیں کیا کہ میں عالم الغیب ہوں.سوال - صفحہ ۲۹ کی سطر ۶ سے جو مضمون چلتا ہے وہ آپ نے اپنی نسبت لکھا ہے؟ جواب.میں اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرتا ہوں.اور صفحہ ۸۹ پر بھی جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی نسبت لکھا ہے.سوال.بلحاظ اندراج صفحات ۳۰،۲۹، ۸۹،۵۰،۴۹،۴۸ تحفہ گولڑویہ آپ نے کرم دین کے خطوں کو اور محمد حسین کی تحریر کو پر کھا ؟ جواب.ایسی عام طاقت کا میں نے کبھی دعوی نہیں کیا.سوال.جو طاقت چند پیسوں کے کھوٹے ہیروں پر برتی گئی تھی اور جس سے وہ ہیرے شناخت کئے گئے تھے وہ عام تھی یا خاص؟ جواب.وہ خاص طاقت تھی کبھی انسان دھو کہ کھا لیتا ہے.اور کبھی اپنی فراست سے ایک بات کی تہ تک پہنچ جاتا ہے.سوال.روحانی طاقت سے جو کچھ غیب ظاہر ہوتا ہے اس میں غلطی ہوتی ہے؟ جواب.اس میں اجتہادی یعنی رائے لگانے میں غلطی لگ جاتی ہے.طاقت میں غلطی نہیں ہوتی.الخ آپ کے اس بیان سے جس کی مصدقہ نقل دفتر تالیف و تصنیف قادیان میں موجود ہے ظاہر ہے کہ سوال
سیرت المہدی 355 حصہ دوم تحفہ گولڑویہ کے متعلق تھا نہ کہ تریاق القلوب کے متعلق.اور حضرت صاحب نے جو کسی جگہ اپنی بعد کی تحریر میں تریاق القلوب لکھا ہے تو اس کی وجہ نسیان یا سہو قلم ہے کیونکہ خودحضرت صاحب کا مصدقہ بیان جو اسی وقت تحریر میں آکر مسل کے ساتھ شامل ہو گیا تھا اس کو غلط ثابت کر رہا ہے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس سوال و جواب کا مضمون بھی اس بات کو قطعی طور پر ثابت کر رہا ہے کہ اس وقت تحفہ گولڑویہ پیش کی گئی تھی نہ کہ تریاق القلوب.کیونکہ اس سوال و جواب میں جو بچے اور جھوٹے ہیروں کے شناخت کئے جانے کے متعلق ذکر ہے وہ صرف تحفہ گولڑویہ کے اندر ہے اور تریاق القلوب میں قطعاً ایسا کوئی مضمون درج نہیں ہے.چنانچہ جن صفحات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کے مطابق ہر دو کتب کا مطالعہ کر کے اس بات کی صداقت کا فیصلہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب کی اس روایت سے مولوی شیر علی صاحب کی اس روایت کی تصدیق ہو گئی جو حصہ اول میں درج ہو چکی ہے اور جس میں اس موقعہ پر تحفہ گولڑویہ کا پیش کیا جانا بیان کیا گیا ہے.393 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں حیات محمد صاحب پنشنز ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لے گئے.تو میں ان دنوں میں لائن پولیس میں تھا اور میں نے حضرت صاحب کی تشریف آوری پر تین دن کی رخصت حاصل کر لی تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گاڑی جہلم کے سٹیشن پر پہنچی تو سٹیشن پر لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بس جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے.اور مرد ، عورت، بچے، جوان، بوڑھے پھر ہندو مسلمان، سکھ، عیسائی، یورپین ، ہر مذہب و قوم کے لوگ موجود تھے اور اس قدر گھمسان تھا کہ پولیس اور سٹیشن کا عملہ با وجود قبل از وقت خاص انتظام کرنے کے قطعاً کوئی انتظام قائم نہ رکھ سکتے تھے.اور اس بات کا سخت اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کوئی شخص ریل کے نیچے آکرکٹ نہ جائے.یا لوگوں کے ہجوم میں دب کر کوئی بچہ یا عورت یا کمزور آدمی ہلاک نہ ہو جاوے.لوگوں کا ہجوم صرف سٹیشن تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ سٹیشن سے باہر بھی دور دراز فاصلہ تک ایک سا ہجوم چلا جاتا تھا اور جس جگہ بھی کسی کو موقعہ ملتا تھا وہ وہاں کھڑا ہو جاتا تھا.حتی کہ
سیرت المہدی 356 حصہ دوم مکانوں کی چھتوں اور درختوں کی شاخوں پر لوگ اس طرح چڑھے بیٹھے تھے کہ چھتوں اور درختوں کے گرنے کا اندیشہ ہو گیا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک انگریز اور لیڈی فوٹو کا کیمرہ ہاتھ میں لئے ہوئے ہجوم میں گھرے ہوئے کھڑے تھے کہ کوئی موقع ملے تو حضرت صاحب کا فوٹو لے لیں.مگر کوئی موقعہ نہ ملتا تھا اور میں نے سنا تھا کہ وہ پچھلے کئی سٹیشنوں سے فوٹو کی کوشش کرتے چلے آرہے تھے.مگر کوئی موقع نہیں ملا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریل سے اتر کر اس کوٹھی کی طرف روانہ ہوئے جو سردار ہری سنگھ رئیس اعظم جہلم نے آپ کے قیام کے لئے پیش کی تھی تو راستہ میں تمام لوگ ہی لوگ تھے اور آپ کی گاڑی بصدر مشکل کوٹھی تک پہنچی.جب دوسرے دن آپ عدالت میں تشریف لے گئے تو مجسٹریٹ ڈپٹی سنسار چند آپ کی تعظیم کے لئے سروقد کھڑا ہو گیا اور اس وقت وہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ جگہ نہیں ملتی تھی.بعض لوگ عدالت کے کمرے میں الماریوں کے اوپر اور بعض مجسٹریٹ کے چبوترے پر چڑھے ہوئے تھے.جہلم میں اتنے لوگوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی کہ ہمارے وہم و خیال میں بھی نہ تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار البدر بابت آخر جنوری ۱۹۰۳ء میں سفر جہلم کے حالات مفصل درج ہیں.اس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تھے اور ۱۶ کی صبح کو جہلم پہنچے اور ۱۹؍ جنوری کو واپس قادیان تشریف لائے.راستہ میں کچھ دیر لاہور میں بھی قیام فرمایا.اس سفر میں کم و بیش ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی.راستہ کے سٹیشنوں پر بھی لوگوں کا غیر معمولی ہجوم ہوتا تھا.چنانچہ لاہور کے غیر احمدی اخبار ”پنجہ فولاد کی مندرجہ ذیل عبارت اس پر شاہد ہے.جہلم کی واپسی پر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی وزیر آباد پہنچے.باوجود یکہ نہ انہوں نے شہر میں آنا تھا اور نہ آنے کی کوئی اطلاع دی تھی اور صرف سٹیشن پر ہی چند منٹوں کا قیام تھا.پھر بھی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر خلقت کا وہ ہجوم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی.اگر سٹیشن ماسٹر صاحب جو نہایت خلیق اور ملنسار ہیں ، خاص طور پر اپنے حسن انتظام سے کام نہ لیتے تو کچھ شبہ نہیں کہ اکثر آدمیوں کے کچل جانے اور یقیناً کئی ایک کے کٹ جانے کا اندیشہ تھا.مرزا صاحب کے دیکھنے کیلئے ہندو اور مسلمان یکساں شوق سے موجود تھے.دیکھوالحکم بابت ۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء.
سیرت المہدی 357 حصہ دوم 394 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب مولوی محمد علی صاحب سے کوئی بات وغیرہ دریافت کرنی ہوتی تھی تو آپ بجائے اس کے کہ ان کو اپنے پاس بلا بھیجتے خود مولوی صاحب کی کوٹھری میں تشریف لے آیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مولوی محمد علی صاحب آپ کے مکان کے ایک حصہ میں رہائش رکھا کرتے تھے اور ان کا کام کرنے کا دفتر اس چھوٹی سی کوٹھری میں ہوتا تھا.جو مسجد مبارک کے ساتھ جانب شرق واقع ہے.395 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ہمیں یہ خیال آیا تھا کہ تبلیغ کے لئے انگریزی کے سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور ہمیں امید تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ہمیں اس کا علم عطا کر دے گا.بس صرف ایک دورات دُعا کی ضرورت تھی.لیکن پھر یہ خیال آیا کہ مولوی محمد علی صاحب اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی انگریزی کی تعریف بھی کی جاتی ہے.اس لئے ہماری توجہ اس امر کی طرف سے ہٹ گئی.396 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری سالوں میں فرماتے تھے کہ اب تبلیغ و تصنیف کا کام تو ہم اپنی طرف سے کر چکے اب ہمیں باقی ایام دُعا میں مصروف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے دنیا میں حق وصداقت کو قائم فرمائے اور ہمارے آنے کی غرض پوری ہو.چنانچہ اسی خیال کے ماتحت آپ نے اپنے گھر کے ایک حصہ میں ایک بیت الڈ عا بنوائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بیت الدعا حضرت صاحب کے رہائشی کمرے کے ساتھ واقع ہے اور اس کی پیمائش شمالاً جنوباً چارفٹ دس انچ اور شرقا غر با پانچ فٹ سات انچ ہے.6397 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے سے دل میں خوشی اور بشاشت اور اطمینان پیدا ہوتے تھے اور خواہ انسان کتنا بھی متفکر اور غمگین یا مایوس ہو ، آپ کے سامنے جاتے ہی قلب کے اندر مسرت اور سکون کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی.
سیرت المہدی 358 حصہ دوم 398 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو بدنی سزا دینے کے بہت مخالف تھے اور جس استاد کے متعلق یہ شکایت آپ کو پہنچتی تھی کہ وہ بچوں کو مارتا ہے.اس پر بہت ناراض ہوتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو استاد بچوں کو مار کر تعلیم دینا چاہتا ہے.یہ دراصل اس کی اپنی نالا ئکتی ہوتی ہے.اور فرماتے تھے دانا اور عقلمند استاد جو کام حکمت سے لے لیتا ہے وہ کام نالائق اور جاہل استاد مارنے سے لینا چاہتا ہے.ایک دفعہ مدرسہ کے ایک استاد نے ایک بچے کو کچھ سزادی تو آپ نے سختی سے فرمایا کہ پھر ایسا ہوا تو ہم اس استاد کو مدرسہ سے الگ کر دیں گے.حالانکہ ویسے وہ استاد بڑا مخلص تھا اور آپ کو اس سے محبت تھی.بعض اوقات فرماتے تھے کہ استاد عموما اپنے غصہ کے اظہار کے لئے مارتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سرکاری ضابطہ تعلیم میں بھی بچوں کو بدنی سزاد ینے کی بہت ممانعت ہے اور صرف ہیڈ ماسٹر کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کسی اشد ضرورت کے وقت مناسب بدنی سزا دے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ بچوں کو سزا نہیں دینی چاہیے.اس سے یہ منشاء نہیں کہ گویا بدنی سزا بالکل ہی ناجائز ہے اور کسی صورت میں بھی نہیں دینی چاہیے.بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ یہ جو بعض مدرسین میں بات بات پر سزا دینے کے لئے تیار ہو جانے کی عادت ہوتی ہے اسے سختی کے ساتھ روکا جاوے.اور صرف خاص حالات میں خاص شرائط کے ماتحت اس کی اجازت ہو والا ویسے تو شریعت نے بھی اپنی تعزیرات میں بدنی سزا کو رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی بعض اوقات بچوں کو بدنی سزا دی ہے.لیکن غصہ سے مغلوب ہوکر مار نا یا بات بات پر مارنا یا بری طرح مارنا وغیر ذالک.یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے مگر افسوس ہے اور میں اپنے چشم دید تجربہ کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ اکثر استاد خواہ وہ اسے خود محسوس کریں یا نہ کریں.غصہ سے مغلوب ہونے کی حالت میں سزا دیتے ہیں.یعنے جب بچے کی طرف سے کوئی غفلت یا جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو اس وقت اکثر استادوں کی طبیعت میں نہایت غصہ اور غضب کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس حالت سے مغلوب ہو کر وہ سزا دیتے ہیں اور اس میں اصلاح کا خیال عملاً مفقود ہوتا ہے.بلکہ
سیرت المہدی 359 حصہ دوم ایک گونہ انتقام کا رنگ اور اپنا غصہ نکالنے کی صورت ہوتی ہے.جو بجائے مفید ہونے کے الٹا نقصان کا موجب ہو جاتی ہے.اس نقص کی اصلاح کے لئے یہ ایک عمدہ قاعدہ ہے کہ کوئی ماتحت استاد بدنی سزا نہ دے.بلکہ جب اسے یہ ضرورت محسوس ہو کہ کسی لڑکے کو بدنی سزاملنی چاہیے تو وہ اسے ہیڈ ماسٹر کے پاس بھیج دے اور پھر اگر ہیڈ ماسٹر مناسب سمجھے تو اسے بدنی سزا دے.اس طرح علاوہ اس کے کہ ہیڈ ماسٹر بالعموم ایک زیادہ تجربہ کار اور زیادہ قابل اور زیادہ فہمیدہ شخص ہوتا ہے.چونکہ اسے اس معاملہ میں کوئی ذاتی غصہ نہیں ہوگا.اس لئے اس کی سزا مصلحانہ ہوگی اور کوئی ضرر رساں اثر پیدا نہیں کرے گی.اور اگر ہیڈ ماسٹر بطور خود کسی بچے کو بدنی سزا دینی چاہے تو اس کے لئے میری رائے میں یہ قید ضروری ہے کہ وہ جس وقت سزا کا فیصلہ کرے اس وقت کے اور عملاً سزا دینے کے وقت کے درمیان کچھ مناسب وقفہ رکھے تا کہ اگر اس کا یہ فیصلہ کسی مخفی اور غیر محسوس جذبہ انتقام کے ماتحت ہو یا غصہ یا غضب کی حالت سے مغلوب ہوکر دیا گیا ہوتو وہ بعد کے ٹھنڈے لمحات میں اپنے اس فیصلہ میں ترمیم کر سکے.واللہ اعلم.399 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات ہماری جماعت کے طالب علم مجھے امتحانوں میں کامیابی کی دعا کیلئے کہتے ہیں اور گو یہ ایک معمولی سی بات ہوتی ہے.لیکن میں ان کے واسطے توجہ کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ اس طرح ان کو دعا کی طرف رغبت اور خیال پیدا ہو.400 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک دن سخت گرمی کے موسم میں چند احباب دو پہر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اندر حاضر ہوئے جہاں حضور تصنیف کا کام کر رہے تھے.پنکھا بھی اس کمرہ میں نہ تھا بعض دوستوں نے عرض کیا کہ حضور کم از کم پنکھا تو لگوالیں تا کہ اس سخت گرمی میں حضور کو کچھ آرام تو ہو.حضور نے فرمایا کہ اس کا یہی نتیجہ ہو گا نا کہ آدمی کو نیند آنے لگے اور وہ کام نہ کر سکے.ہم تو وہاں کام کرنا چاہتے ہیں جہاں گرمی کے مارے لوگوں کا تیل نکلتا ہو.یہ بات میں نے ان لوگوں سے سنی ہے جو اس وقت مجلس میں موجود تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ
سیرت المہدی 360 حصہ دوم کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی خصوصیت تھی.کہ آپ سخت گرمی میں بغیر پنکھے کے تصنیف کا کام کر لیتے تھے.ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ شدت گرمی کے وقت اگر پنکھا نہ ہوتو گو اور کام تھوڑے بہت ہوسکیں.لیکن تصنیف کا کام بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.خصوصاً جن لوگوں کو پسینہ زیادہ آتا ہو ان کے لئے تو بغیر پنکھے کے لکھنے کا کام کرنا ایک مصیبت ہو جاتا ہے.چنانچہ خود میرا بھی قریباً یہی حال ہے.علاوہ ازیں گو بعض نادان لوگ اسے ایک وہم قرار دیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدا کا کوئی ایسا خاص فضل تھا کہ زیادہ دن لگا تار شدت کی گرمی نہیں ہوتی تھی اور بروقت بارشوں وغیرہ سے ٹھنڈ ہوتی رہتی تھی.اس احساس کا اظہار میرے پاس بہت سے فہمیدہ دوستوں نے کیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے باشعور لوگوں کی رائے کسی وہم پر بنی ہو.اور یہ بات اصول جغرافیہ کے بھی خلاف نہیں ہے کیونکہ تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ بعض اسباب کے نتیجہ میں بارشوں اور خنک ہواؤں کے زمانہ میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور ہر زمانہ میں بالکل ایک سا حال نہیں رہتا.پس اگر خدا کے منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایسے سامان پیدا ہو گئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں بر وقت بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں کا سلسلہ عام طور پر قائم رہا ہوتو یہ کوئی تعجب انگیز امر نہیں.401 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ چند خدام کے باوا صاحب کا چولہ دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کچھ کپڑے بچھا کر جماعت کے لوگ معہ حضور کے بیٹھ گئے.مولوی محمد احسن صاحب بھی ہمراہ تھے.گاؤں کے لوگ حضور کی خبر سُن کر وہاں جمع ہونے لگے تو ان میں سے چند آدمی جو پہلے آئے تھے مولوی محمد احسن صاحب کو مسیح موعود خیال کر کے ان کے ساتھ مصافحہ کر کر کے بیٹھتے گئے.تین چار آدمیوں کے مصافحہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ان کو دھو کہ ہوا ہے.اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب ہر ایسے شخص کو جو ان کے ساتھ مصافحہ کرتا تھا حضور کی طرف متوجہ کر دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات آنحضور ﷺ کی مجلس میں بھی ایسا دھو کہ لگ جاتا تھا دراصل
سیرت المہدی 361 حصہ دوم چونکہ انبیاء کی مجلس بالکل سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک ہوتی ہے اور سب لوگ محبت کے ساتھ باہم ملے جلے بیٹھے رہتے ہیں.اور نبی کے لئے کوئی خاص امتیازی شان یا مسند وغیرہ کی صورت نہیں ہوتی اس لئے اجنبی آدمی بعض اوقات عارضی طور پر دھوکا کھا جاتا ہے.402 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب معہ چند خاص احباب کے مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے.فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی مجلسوں میں نمایاں فرق ہے.حضرت اقدس کی مجلس میں ہمیشہ نمایاں خوشی اور بشاشت ہوتی ہے اور کیسا ہی غم ہوفور دور ہو جاتا ہے.برخلاف اس کے حضرت مولوی صاحب کی مجلس میں ایک غم اور درد کی کیفیت دل پر محسوس ہوتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قلب انسانی سے مختلف قسم کی روئیں جاری ہوتی رہتی ہیں.جن سے اس کے ارد گرد کی چیزیں متاثر ہوتی ہیں اور جس قسم کے جذبات اور احساسات کسی شخص کے دل میں غالب ہوں اسی قسم کی اس کی رو ہوتی ہے.انبیاء چونکہ بشاشت اور نشاط اور امید اور مسرت کا مژدہ لیکر دنیا میں آتے ہیں.اور مایوسی وغیرہ کے خیالات ان کے پاس نہیں پھٹکتے اور ان کا دل بھی خدا کے خاص الخاص افضال و برکات اور رحمتوں کا مہبط رہتا ہے.اس لئے ان کی مجلس اور صحبت کا یہ لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ پاس بیٹھنے والے اس مخفی رو کے ذریعہ سے جو ان کے دل سے جاری ہوتی رہتی ہے اسی قسم کے جذبات و احساسات اپنے اندر محسوس کرنے لگ جاتے ہیں.برخلاف اس کے بعض دوسرے لوگوں کے قلب پر چونکہ خوف اور خشیت اللہ اور خدا کی ناراضگی کے ڈر کے خیالات کا غلبہ رہتا ہے.اس لئے ان کی مجلس بھی خاموش طور پر غم اور درد کے خیالات کا موجب ہوتی ہے.بہر حال یہ مجلسی اثر صدر مجلس کی اپنی قلبی کیفیات کا نتیجہ ہوتا ہے.واللہ اعلم.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی صحبت کا یہ اثر واقعی نہایت نمایاں تھا کہ انسان کا دل خوشی اور امید اور ایک گونہ استغناء کے خیالات سے بھر جاتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس ساری دنیا اپنی ہی اپنی ہے اور یہ کہ دنیا کی ساری طاقتیں ہمارے سامنے بیچ ہیں.
سیرت المہدی 362 حصہ دوم 403 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ایک طالب علم جو کالج میں پڑھتا تھا وہ میرے پاس آکر بیان کرنے لگا کہ کچھ عرصہ سے میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.اور میں ان کا بہت مقابلہ کرتا ہوں مگر وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتے.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے اسے مناسب نصیحت کی اور کہا کہ تم اپنی حالت سے مجھے اطلاع دیتے رہا کرو.مگر اس کی حالت رو بہ اصلاح نہ ہوئی.بلکہ اس کے یہ شبہات ترقی کرتے گئے.پھر جب وہ قادیان آیا تو میں نے اسے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا.حضرت صاحب نے اس کے حالات سُن کر فر مایا کہ آپ کا لج میں جس جگہ بیٹھا کرتے ہیں وہ جگہ بدل دیں.اس کے کچھ عرصہ بعد جب وہ پھر قادیان آیا تو کہنے لگا کہ اب میرے خیالات خود بخو دٹھیک ہونے لگ گئے ہیں.اور اس نے یہ بیان کیا کہ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ جس جگہ میں پہلے بیٹھتا تھا اس کے ساتھ ایک ایسے طالب علم کی جگہ تھی جو دہریہ تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ انسان کے قلب سے مخفی طور پر اس کے خیالات کی رو جاری ہوتی رہتی ہے.جو پاس بیٹھنے والوں پر اپنا اثر پیدا کرتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ طالب علم کمزور طبیعت کا ہوگا اور باوجود خدا پر ایمان رکھنے کے اس کا قلب اپنے دہریہ پڑوسی کی مخفی رو سے متاثر ہو گیا لیکن چونکہ حضرت صاحب نے اپنی فراست سے سمجھ لیا تھا کہ یہ اثر کسی دہریہ کے پاس بیٹھنے کا ہے اس لئے آپ نے اسے نصیحت فرمائی کہ اپنی جگہ بدل دے.چنانچہ یہ تجویز کارگر ہوئی اور اس کی اصلاح ہو گئی.علم توجہ جسے انگریزی میں ہپنا ٹزم کہتے ہیں وہ بھی اسی مخفی قلبی رو کا نتیجہ ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ہپنا ٹزم میں توجہ ڈالنے والا ارادہ اور شعور کے ساتھ اپنی توجہ کا ایک مرکز قائم کرتا ہے لیکن اس قسم کی عام حالت میں بلا ارادہ ہر شخص کے قلب سے ایک رو جاری رہتی ہے اور اسی لئے یہ رو ہپنا ٹزم کی رو کی نسبت بہت کمزور اور بطی الاثر ہوتی ہے.و 404 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفاخانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے.وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے اسکے متعلق
سیرت المہدی 363 حصہ دوم کیا حکم ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے.آپ کو عذر کر دینا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں.405 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ قادیان کے قصابوں نے کوئی شرارت کی تو اس پر حضرت صاحب نے حکم دیا کہ ان سے گوشت خرید نا بند کر دیا جاوے.چنانچہ کئی دن تک گوشت بندر ہا اور سب لوگ دال وغیرہ کھاتے رہے.ان دنوں میں نے ( مولوی سید سرور شاہ صاحب نے ) حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے پاس ایک بکری ہے وہ میں حضور کی خدمت میں پیش کرتا ہوں حضور اسے ذبح کروا کے اپنے استعمال میں لائیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارا دل اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے دوست دالیں کھا ئیں اور ہمارے گھر میں گوشت پکے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت صاحب اس بات کے قائل تھے کہ سب مومنوں کے گھر میں ایک سا کھانا پکنا چاہیے اور سب کا تمدن و طریق ایک سا ہونا چاہیے بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ گوشت خریدنے کی ممانعت کی گئی تھی آپ کے اخلاق نے یہ گوارا نہیں کیا کہ آپ اپنے لئے تو کوئی خاص انتظام کر لیں اور دوسرے ذی استطاعت احباب جو گوشت خریدنے کی طاقت تو رکھتے تھے مگر بوجہ ممانعت کے رکے ہوئے تھے دالیں کھائیں والا ویسے اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ اعتدال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق جس طرح کا چاہے کھانا کھائے.406 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیان فرماتے تھے کہ میں حضرت صاحب کے مکان کے اوپر کے حصہ میں رہتا ہوں.میں نے کئی دفعہ حضرت صاحب کے گھر کی عورتوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سُنا ہے کہ حضرت صاحب کی تو آنکھیں ہی نہیں ہیں.ان کے سامنے سے کوئی عورت کسی طرح سے بھی گذر جاوے ان کو پتہ نہیں لگتا.یہ وہ ایسے موقعہ پر کہا کرتی ہیں کہ جب کوئی عورت حضرت صاحب کے سامنے سے گذرتی ہوئی خاص طور پر
سیرت المہدی 364 حصہ دوم گھونگھٹ یا پردہ کا اہتمام کرنے لگتی ہے.اور ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کی آنکھیں ہر وقت بیچی اور نیم بند رہتی ہیں اور وہ اپنے کام میں بالکل منہمک رہتے ہیں ان کے سامنے سے جاتے ہوئے کسی خاص پردہ کی ضرورت نہیں.نیز مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ باہر مردوں میں بھی حضرت صاحب کی یہی عادت تھی کہ آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اور ادھر ادھر آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی آپ کو عادت نہ تھی.بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے حالانکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے جتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے.6407 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب معہ چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھول کر رکھیں ور نہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں.408 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے گناہوں پر غالب آنے کا مادہ رکھ دیا ہے پس خواہ انسان اپنی بداعمالیوں سے کیسا ہی گندہ ہو گیا ہو وہ جب بھی نیکی کی طرف مائل ہونا چاہے گا اس کی نیک فطرت اس کے گناہوں پر غالب آجائے گی اور اس کی مثال اس طرح پر سمجھایا کرتے تھے کہ جیسے پانی کے اندر یہ طبعی خاصہ ہے کہ وہ آگ کو بجھاتا ہے.پس خواہ پانی خود کتنا ہی گرم ہو جاوے حتی کہ وہ جلانے میں آگ کی طرح ہو جاوے لیکن پھر بھی آگ کو ٹھنڈا کر دینے کی خاصیت اس کے اندر قائم رہے گی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی لطیف نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائی اور ہندو مذہب تباہ ہو گئے اور لاکھوں مسلمان کہلانے والے انسان بھی مایوسی کا شکار ہو گئے.409 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ
سیرت المہدی 365 حصہ دوم السلام کی زبان مبارک پر بعض فقرے کثرت کے ساتھ رہتے تھے.مثلاً آپ اپنی گفتگو میں اکثر فرمایا کرتے تھے دست در کار دل بایار، خداداری چه غم داری ، الاعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيٍّ ، آنچنان صیقل زدند آئینه نماند، گر حفظ مراتب نہ کی زندیقی، مَا لَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتَرَكُ كُلُّهُ ، اَلطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَبٌ ، ب تا جیست از لطف الهی بنه بر سر برو هر جا کہ خواہی 410 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے.411 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بچہ نے گھر میں ایک چھپکلی ماری اور پھر ا سے مذا قأمولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی چھوٹی اہلیہ پر پھینک دیا جس پر مارے ڈر کے ان کی چھینیں نکل گئیں.اور چونکہ مسجد کا قرب تھا ان کی آواز مسجد میں بھی سنائی دی.مولوی عبد الکریم صاحب جب گھر آئے تو انہوں نے غیرت کے جوش میں اپنی بیوی کو بہت کچھ سخت سست کہا حتی کہ انکی یہ غصہ کی آواز حضرت مسیح موعود نے نیچے اپنے مکان میں بھی سن لی.چنانچہ اس واقعہ کے متعلق اسی شب حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا کہ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے ، مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو لطیفہ یہ ہوا کہ صبح مولوی صاحب مرحوم تو اپنی اس بات پر شرمندہ تھے اور لوگ انہیں مبارک بادیں دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام مسلمانوں کا لیڈ ررکھا ہے.412 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شہادت کیلئے ملتان تشریف لے گئے تو راستہ میں لاہور بھی اترے اور وہاں جب آپکو یہ علم ہوا کہ مفتی محمد صادق صاحب بیمار ہیں تو آپ ان کی عیادت کیلئے انکے مکان پر تشریف لے گئے.اور ان کو دیکھ کر حدیث کے یہ الفاظ فرمائے کہ لَا بَأْسَ طَهُورًا إِنْشَاءَ اللَّهُ -
سیرت المہدی 366 حصہ دوم یعنی کوئی فکر کی بات نہیں انشاء اللہ خیر ہو جائے گی اور پھر آپ نے مفتی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ بیمار کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ، آپ ہمارے لئے دعا کریں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۹۷ء میں کیا تھا.413 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں خوب تیرنا آتا ہے اور فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ اوائل عمر میں ڈھاب کے اندر ڈوبنے لگا تھا اور ایک بوڑھے عمر رسیدہ آدمی نے مجھے پانی سے نکالا تھا.وہ شخص کوئی اجنبی آدمی تھا جسے میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ بعد میں دیکھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ گھر کے بچوں نے چندہ جمع کر کے قادیان کی ڈھاب کیلئے ایک کشتی جہلم سے منگوائی تھی اور حضرت صاحب نے بھی اس چندہ میں ایک رقم عنایت کی تھی.6414 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک ابتدائی زمانہ میں احباب کے جمع ہونے کی وجہ سے ایک جلسہ کی سی صورت ہو گئی اور لوگوں نے خواہش کی کہ حضرت صاحب کچھ تقریر فرما ئیں.جب آپ تقریر کیلئے باہر تشریف لے جانے لگے تو فرمانے لگے کہ مجھے تو تقریر کرنی نہیں آتی میں جا کر کیا کہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے جو یہ کہا تھا کہ لا يَنطَلِقُ لِسَانِي (الشعراء: ۱۴) اس کا بھی یہی مطلب تھا کہ میں تقریر کرنا نہیں جانتا.مگر خدا جس کو کسی منصب پر کھڑا کرتا ہے اس کو اس کا اہل پا کر ایسا کرتا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی بھی ہوتی ہے تو اسے خود پورا فرما دیتا ہے.چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں پہنچے تو آپ کی زبان ایسی چلی کہ حضرت ہارون جن کو وہ اپنی جگہ منصب نبوت کے لئے پیش کر رہے تھے.گویا بالکل ہی پس پشت ہو گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے وہ تقریر کی طاقت دی کہ دنیا داروں نے آپ کی سحر بیانی کو دیکھ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس شخص کی زبان میں جادو ہے.415 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ قادیان کے پاس گاؤں کا ایک سکھ جاٹ جو عرصہ ہوا فوت ہو گیا ہے اور وہ بہت معمر آدمی تھا مجھ سے
سیرت المہدی 367 حصہ دوم بیان کرتا تھا کہ میں مرزا صاحب ( یعنی حضرت صاحب) سے بیس سال بڑا ہوں اور بڑے مرزا صاحب ( یعنی حضرت صاحب کے والد صاحب) کے پاس میرا بہت آنا جانا رہتا تھا.میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بڑا افسر یا رئیس بڑے مرزا صاحب سے ملنے کیلئے آتا تھا تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب ! آپ کے بڑے لڑکے ( یعنی مرزا غلام قادر ) کے ساتھ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا.وہ جواب دیتے تھے کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے لیکن وہ الگ الگ ہی رہتا ہے اور لڑکیوں کی طرح شرم کرتا ہے اور شرم کی وجہ سے کسی سے ملاقات نہیں کرتا.پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ) کو بلواتے تھے.مرزا صاحب آنکھیں نیچے کئے ہوئے آتے اور اپنے والد سے کچھ فاصلہ پر سلام کر کے بیٹھ جاتے.بڑے مرزا صاحب ہنستے ہوئے فرماتے کہ لواب تو آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا ہے اور پیر صاحب نے لکھا ہے کہ وہی سکھ جاٹ ایک دفعہ قادیان آیا اس وقت ہم بہت سے آدمی گول کمرے میں کھانا کھا رہے تھے.اس نے پوچھا کہ مرزا جی کہاں ہیں ؟ ہم نے کہا اندر ہیں اور چونکہ اس وقت آپ کے باہر تشریف لانے کا وقت نہیں ہے اس لئے ہم بلا بھی نہیں سکتے کیونکہ آپ کام میں مشغول ہو نگے.جب وہ تشریف لائیں گے مل لینا.اس پر اس نے خود ہی بے دھڑک آواز دیدی کہ مرزا جی ذرا باہر آؤ.حضرت اقدس برہنہ سر اسکی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا سردار صاحب! اچھے ہو ، خوش ہو.بہت دنوں کے بعد ملے.اس نے کہا ہاں میں خوش ہوں مگر بڑھاپے نے ستا رکھا ہے.چلنا پھرنا بھی دشوار ہے پھر زمینداری کے کام سے فرصت کم ملتی ہے.مرزا جی آپ کو وہ پہلی باتیں بھی یاد ہیں.بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا مسیتر ہے.نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ آپ کو ہنس کر کہتے تھے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں ملا کر وا دیتا ہوں.دس من دانے تو گھر میں کھانے کو آجایا کریں گے.پھر آپ کو وہ بھی یاد ہے کہ بڑے مرزا صاحب مجھے بھیج کر آپ کو اپنے پاس بلا بھیجتے تھے.اور آپ کو بڑے افسوس کی نگاہ سے دیکھتے تھے.کہ افسوس میرا یہ لڑکا دنیا کی ترقی سے محروم رہا جاتا ہے.آج وہ زندہ ہوتے تو یہ چہل پہل دیکھتے کہ کس طرح ان کا وہی مسیت لڑ کا بادشاہ بنا بیٹھا
سیرت المہدی 368 حصہ دوم ہے.اور بڑے بڑے لوگ دور دور سے آکر اس کے در کی غلامی کرتے ہیں.حضرت اقدس اس کی ان باتوں کو سُن کر مسکراتے جاتے تھے اور پھر آخر میں آپ نے فرمایا.ہاں مجھے یہ ساری باتیں یاد ہیں.یہ سب اللہ کا فضل ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور پھر بڑی محبت سے اسے فرمایا کہ ٹھہرو میں تمہارے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہوں اور یہ کہہ کر آپ اندر مکان میں تشریف لے گئے.پیر صاحب لکھتے ہیں کہ پھر وہ بڑھا سکھ جاٹ میرے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا.اور کہنے لگا کہ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یلر کاملا ہی رہے گا اور مجھے فکر ہے کہ میرے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا.ہے تو وہ نیک مگراب زمانہ ایسا نہیں.چالاک آدمیوں کا زمانہ ہے.پھر بعض اوقات آب دیدہ ہو کر کہتے تھے کہ غلام احمد نیک اور پاک ہے.جو حال اس کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے.پیر صاحب کہتے ہیں کہ یہ باتیں سناتے ہوئے وہ سکھ خود بھی چشم پر آب ہو گیا اور کہنے لگا آج مرزا غلام مرتضی زندہ ہوتا تو کیا نظارہ دیکھتا؟ 416 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتاب ” تذکرۃ المہدی“ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک میمن سیٹھ بمبئی کا قادیان آیا اور پانچ سو روپیہ حضرت صاحب کے لئے نذرانہ لایا اور آتے ہی مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آیا ہوں.اور ابھی واپس چلا جاؤں گا.مجھے زیادہ فرصت نہیں.ابھی اندر اطلاع کر دیں تا کہ میں ملاقات کر کے واپس چلا جاؤں.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں رقعہ لکھا اور سارا حال اس شخص کا لکھ دیا حضرت صاحب نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ان کو کہہ دیں کہ اس وقت میں ایک دینی کام میں مصروف ہوں ظہر کی نماز کے وقت انشاء اللہ ملاقات ہوگی.اس سیٹھ نے کہا کہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ میں ظہر تک ٹھہروں.میں نے پھر لکھا کہ وہ یوں کہتا ہے.مگر حضرت صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ واپس چلا گیا.ظہر کے وقت جب آپ باہر تشریف لائے تو بعد نماز ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک میمن سیٹھ حضور کی زیارت کے لئے آیا تھا.اور پانچ صدرو پی نذرانہ بھی پیش کرنا چاہتا تھا.حضرت صاحب نے فرمایا ہمیں اس کے روپے سے کیا غرض؟ جب اسے فرصت نہیں تو ہمیں کب فرصت ہے جب اسے خدا کی غرض نہیں تو ہمیں دنیا کی کیا غرض ہے.
سیرت المہدی 369 حصہ دوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء جہاں ایک طرف شفقت اور توجہ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں.وہاں صفت استغناء میں بھی وہ خدا کے ظل کامل ہوتے ہیں.اور بسا اوقات ان کو اپنی فراست فطری سے یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں شخص قابل توجہ ہے یا نہیں؟ 417 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نے تذکرۃ المہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ قادیان میں بہت سے دوست بیرون جات سے آئے ہوئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر تھے اور منجملہ ان کے حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب اور محمد خان صاحب اور منشی محمد اروڑا صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ غلام احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرھم بھی تھے.مجلس میں اس بات کا ذکر شروع ہوا کہ اولیاء کو مکاشفات میں بہت کچھ حالات منکشف ہو جاتے ہیں.اس پر حضرت اقدس تقریر فرماتے رہے اور پھر فرمایا کہ آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان حاضر الوقت لوگوں میں بعض ہم سے پیٹھ دیئے ہوئے بیٹھے ہیں اور ہم سے روگرداں ہیں.یہ بات سُن کر سب لوگ ڈر گئے اور استغفار پڑھنے لگ گئے.اور جب حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے تو سید فضل شاہ صاحب بہت گھبرائے ہوئے اٹھے اور ان کا چہرہ فق تھا اور انہوں نے جلدی سے آپ کے دروازہ کی زنجیر ہلائی.حضرت صاحب واپس تشریف لائے اور دروازہ کھول کر مسکراتے ہوئے پوچھا.شاہ صاحب کیا بات ہے؟ شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں حضور کو حلف تو نہیں دے سکتا کہ ادب کی جگہ ہے اور نہ میں اوروں کا حال دریافت کرتا ہوں.صرف مجھے میرا حال بتا دیجئے کہ میں تو روگرداں لوگوں میں سے نہیں ہوں؟ حضرت صاحب بہت ہنسے اور فرمایا نہیں شاہ صاحب آپ اُن میں سے نہیں ہیں.اور پھر ہنستے ہنستے دروازہ بند کر لیا.اور شاہ صاحب کی جان میں جان آئی.418 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میری اہلیہ مجھ سے کہتی تھی کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی یہ نماز عید گاہ میں
سیرت المہدی 370 حصہ دوم ہوئی تھی.اور اسی دن شام سے قبل بادل آگئے تھے.مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ مجھے یہ نماز یاد نہیں بلکہ مجھے یہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ ایک عام احساس تھا کہ زیادہ دن تک لگا تار شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی اور بر وقت بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے موسم عموماً اچھا رہتا تھا.بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسی زمانہ میں لوگ آپس میں یہ باتیں بھی کیا کرتے کہ اس زمانہ میں زیادہ دن تک لگاتار شدت کی گرمی نہیں پڑتی اور جب بھی دو چار دن شدت کی گرمی پڑتی ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے بارش وغیرہ کا انتظام ہو جاتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو میں نے بعض دوسرے لوگوں سے بھی سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں نماز استسقا نہیں پڑھی گئی.لیکن اگر کبھی پڑھی بھی گئی ہو تو یہ دو باتیں آپس میں مخالف نہیں ہیں.کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ عام طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہی صورت رہی ہو کہ زیادہ دن تک لگا تار شدت کی گرمی نہ پڑتی ہو.اور وقت کی بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے موسم عموماً اچھا رہتا ہو.لیکن کبھی کسی سال نسبت زیادہ گرمی پڑنے اور نسبتاً زیادہ عرصہ بارش کے رکے رہنے سے نماز استسقاء کی ضرورت بھی سمجھی گئی ہو.پس عام طور پر موسم کے اچھا رہنے کا احساس اور کبھی ایک آدھ دفعہ نماز استسقاء کا پڑھا جانا ہر گز آپس میں ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں.اور یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ جس زمانہ میں عموماً موسم عمدہ رہتا ہو اس زمانہ میں بوجہ اچھے موسم کی عادت ہو جانے کے موسم کا تھوڑا بہت اونچ نیچ بھی لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو جاتا ہے اور وہ موسم کی خرابی کی شکایت کرنے لگ جاتے ہیں.پس اگر کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی تو وہ بھی غالباً کسی ایسی ہی احساس شکایت کے ماتحت پڑھی گئی ہوگی.یعنی بوجہ عموماً اچھے موسم کے عادی ہو جانے کے لوگوں نے موسم کے تھوڑے بہت اونچ نیچ پر ہی نماز استسقاء کے پڑھے جانے کی ضرورت محسوس کر لی ہوگی.علاوہ ازیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں کے اندر قادیان میں یہ ایک عام احساس تھا کہ زیادہ شدت کی گرمی نہیں پڑتی اور جب بھی چند دن لگا تار گرمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے ایسا انتظام ہو جاتا ہے کہ بارشوں یا بادلوں یا ٹھنڈی ہواؤں سے
سیرت المہدی 371 حصہ دوم موسم اچھا ہو جاتا ہے.یہ ایک صرف نسبتی امر ہے اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدا کا قانون قدرت بدل گیا تھا اور گرمیوں کا موسم سرما میں تبدیل ہو گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ خدا کا کوئی ایسا فضل تھا کہ لگا تار شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی.اور بر وقت بارشوں اور بادلوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے عموماً موسم اچھار ہتا تھا.ورنہ ویسے تو گرما گرما ہی تھا اور سر ما سر ما ہی.اور یہ بات عام قانون نیچر کے خلاف نہیں ہے کیونکہ علم جغرافیہ اور نیز تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ بارشوں اور خنک ہواؤں کے زمانہ میں ایک حد تک اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور ہر زمانہ میں بالکل ایک سا حال نہیں رہتا.بلکہ کبھی بارشوں اور خنک ہواؤں کی قلت اور گرمی کی شدت ہو جاتی ہے اور کبھی ہر وقت بارشوں اور بادلوں اور خنک ہواؤں سے موسم میں زیادہ گرمی پیدا نہیں ہوتی چنانچہ گورنمنٹ کے محکمہ آب و ہوا کے مشاہدات بھی اسی پر شاہد ہیں.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدا کی طرف سے ایسے سامان جمع ہو گئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم عموماً اچھا رہتا ہو تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں اور نہ اس میں کوئی خارق عادت امر ہے.واللہ اعلم.در اصل خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی دو طرح نصرت فرماتا ہے.اول تو یہ کہ بسا اوقات وہ اپنی تقدیر عام یعنی عام قانون قدرت کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیتا ہے جوان کے لئے نصرت و اعانت کا موجب ہوتے ہیں اور گوز یادہ بصیرت رکھنے والے لوگ اس قسم کے امور میں بھی خدائی قدرت نمائی کا جلوہ دیکھتے ہیں.لیکن عامتہ الناس کے نزدیک ایسے امور کوئی خارق عادت رنگ نہیں رکھتے.کیونکہ معروف قانون قدرت کے ماتحت ان کی تشریح کی جاسکتی ہے.دوسری صورت خدائی نصرت کی تقدیر خاص کے ماتحت ہوتی ہے.جس میں تقدیر عام یعنی معروف قانون قدرت کا دخل نہیں ہوتا اور یہی وہ صورت ہے جو عرف عام میں خارق عادت یا معجزہ کہلاتی ہے.اور گو اس میں بھی ایک حد تک سنت اللہ کے مطابق اخفاء کا پردہ ہوتا ہے.لیکن ہر عقلمند شخص جسے تعصب نے اندھانہ کر رکھا ہو.اس کے اندر صاف طور پر خدا کی قدرت خاص کا نظارہ دیکھتا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ نے قسم اول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اپنے عام قانون قدرت کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیئے ہوں
سیرت المہدی 372 حصہ دوم کہ جن کے نتیجہ میں موسم عموماً اچھا رہتا ہو اور بادل اور بارشیں اور خنک ہوا ئیں بر وقت وقوع میں آکر زیادہ دن تک لگا تار گرمی کی شدت نہ پیدا ہونے دیتی ہوں تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں.آخر جہاں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کو آسان کرنے کے لئے اپنی عام قدرت کے ماتحت ڈاک اور تار اور ریل اور دخانی جہاز اور مطبع وغیرہ کی سہولتیں پیدا کر دیں اور دوسری طرف اپنی تقدیر خاص کے ماتحت ہزاروں خارق عادت نشان ظاہر فرمائے وہاں اگر اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ نے خصوصیت کے ساتھ تصنیف کا کام کرنا ہے جو عموماً اچھے موسم کو چاہتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے اپنی عام تقدیر کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم میں عموماً زیادہ شدت کی گرمی نہ پیدا ہوتی ہو.تو کسی عقل مند مومن کے نزدیک جائے اعتراض نہیں ہو سکتا.باقی رہا حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں کبھی ایک آدھ دفعہ نماز استسقاء کا پڑھا جانا.سواس سے بھی جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا.واللہ اعلم.6419 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانہ میں مبعوث فرمایا ہے کہ رمضان کا مہینہ سردیوں میں آتا ہے اور روزے زیادہ جسمانی تکلیف کا موجب نہیں ہوتے اور ہم آسانی کے ساتھ رمضان میں بھی کام کر سکتے ہیں.مولوی صاحب کہتے تھے کہ ان دنوں میں رمضان دسمبر میں آیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس زمانہ کی جنتری کو دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعوی ۱۸۹۱ء میں فرمایا تھا.اور ۱۸۹۱ء میں رمضان کا مہینہ اارا پریل کو شروع ہوا تھا.گویا یہ رمضان کے مہینہ کے لئے موسم سرما میں داخل ہونے کی ابتدا تھی.چنانچہ ۱۸۹۲ء میں رمضان کے مہینہ کی ابتدا ۳۱ مارچ کو ہوئی.اور ۱۸۹۳ء میں ۲۰ مارچ کو ہوئی.اور اس کے بعد رمضان کا مہینہ ہر سال زیادہ سردیوں کے دنوں میں آتا گیا.اور جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو اس سال رمضان کے مہینہ کی ابتدا یکم اکتوبر کو ہوئی تھی.اس طرح گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا زمانہ تمام کا تمام ایسی حالت میں گذرا کہ رمضان کے روزے سردی کے موسم میں آتے رہے.اور یہ خدا تعالیٰ کا
سیرت المہدی 373 حصہ دوم ایک فضل تھا جو اس کی تقدیر عام کے ماتحت وقوع میں آیا.اور جسے حضرت مسیح موعود کی نکتہ شناس طبیعت نے خدا کا ایک احسان سمجھ کر اپنے اندر شکر گذاری کے جذبات پیدا کئے.420 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ۲۶ مارچ ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود نے اپنے دعوئی مسیحیت کا اعلانی اشتہار شائع کیا تو اس وقت آپ لدھیانہ میں مقیم تھے.اور کئی ماہ تک وہیں مقیم رہے.اس جگہ ۲۰ جولائی ۱۸۹۱ء سے لے کر ۲۹ جولائی ۱۸۹۱ ء تک آپ کا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا مباحثہ ہوا جس کی سرگذشت رسالہ الحق لدھیانہ میں شائع ہو چکی ہے.شروع اگست میں آپ لدھیانہ سے چند دن کے لئے امرتسر تشریف لائے اور پھر واپس لدھیانہ تشریف لے گئے.امرتسر آنے کی یہ وجہ ہوئی کہ لدھیانہ میں مخالفت کا بہت زور ہو گیا تھا اور لوگوں کے طبائع میں ایک ہیجان کی حالت پیدا ہو گئی تھی.کیونکہ مولوی محمد حسین نے مباحثہ میں اپنی کمزوری کو محسوس کر کے لوگوں کو بہت اشتعال دلانا شروع کر دیا اور فساد کا اندیشہ تھا.جس پر لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر نے مولوی محمد حسین کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لدھیانہ سے چلا جاوے اس حکم کی اطلاع جب حضرت صاحب کو پہنچی تو بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ چونکہ یہ امکان ہے کہ آپ کے متعلق بھی ایسا حکم جاری کیا گیا ہو یا جاری کر دیا جاوے اس لئے احتیاطاًالدھیانہ سے چلے جانا چاہیے چنانچہ آپ امرتسر تشریف لے آئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھی جس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر کی چٹھی آئی کہ آپ کے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا کہ آپ لدھیانہ سے چلے جاویں.بلکہ آپ کو بمتابعت وملحوظیت قانون سرکاری لدھیانہ میں ٹھہرنے کے لئے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے دیگر رعایا تابع قانون سر کا انگریزی کو حاصل ہیں.المرقوم ۱۶ را گست ۱۸۹۱ ء.اس کے بعد آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک وہاں مقیم رہے اور پھر قادیان تشریف لے آئے اس کے کچھ عرصہ بعد آپ پھر لدھیانہ گئے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے.دہلی چونکہ ان دنوں میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جا تا تھا اس لئے آپ کو خیال تھا کہ وہاں اتمام حجت کا اچھا موقعہ ملے گا.اور مخالفین نے بھی وہاں مخالفت کا پور از ور ظاہر کر رکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں جا کر ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار شائع کیا
سیرت المہدی 374 حصہ دوم جس میں دہلی والوں کو اپنے دعوی کی طرف دعوت دی اور اس اشتہار میں مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی اور مولوی ابومحمد عبد الحق صاحب کو مباحثہ کے لئے بھی بلایا.تا کہ لوگوں پر حق کھل جاوے اور اپنی طرف سے مباحثہ کے لئے تین شرطیں بھی پیش کیں.اس کے بعد آپ نے ۶ را کتوبر کو ایک اور اشتہار دیا.اور اس میں دہلی والوں کے افسوس ناک رویہ کا اظہار کیا اور یہ بھی لکھا کہ چونکہ مولوی عبدالحق صاحب نے ہم سے بیان کیا ہے کہ میں ایک گوشہ گزیں آدمی ہوں اور اس قسم کے جلسوں کو جن میں عوام کے نفاق و شقاق کا اندیشہ ہو پسند نہیں کرتا.اور نہ حکام کی طرف سے حفظ امن کا انتظام کروا سکتا ہوں اس لئے اب ہم ان سے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہم سے بپا بندی شرائط مباحثہ کر لیں.اس اشتہار کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی سید نذیر حسین صاحب نے خفیہ خفیہ مباحثہ کی تیاری کر لی اور پھر خود بخو دلوگوں میں مشہور کر دیا کہ فلاں وقت اور فلاں روز فلاں جگہ مباحثہ ہو گا اور عین وقت پر حضرت صاحب کے پاس آدمی بھیجا کہ مباحثہ کے لئے تشریف لے چلئے.حضرت صاحب نے جواب دیا کہ یہ کہاں کی دیانتداری ہے کہ خود بخود یک طرفہ طور پر بغیر فریق ثانی کی منظوری اور اطلاع کے اور بغیر شرائط کے تصفیہ پانے کے مباحثہ کا اعلان کر دیا گیا ہے اور مجھے عین وقت پر اطلاع دی گئی ہے.اور مجھے تو اس صورت میں بھی انکار نہ ہوتا اور میں مباحثہ کیلئے چلا جاتا مگر آپ کے شہر میں مخالفت کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں آوارہ گرد بد معاش میرے مکان کے اردگر دشرارت کی نیت سے جمع رہتے ہیں اور ذمہ دار لوگ انہیں نہیں روکتے بلکہ اشتعال انگریز الفاظ کہ کہہ کر الٹا جوش دلاتے ہیں.پس جب تک میں اپنے پیچھے اپنے مکان اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت کا انتظام نہ کرلوں میں نہیں جاسکتا اور علاوہ ازیں ابھی تک جائے مباحثہ اور راستہ میں بھی حفظ امن کا کوئی انتظام نہیں ہے.حضرت صاحب کے اس جواب پر جو سراسر معقول اور شریفانہ تھا دہلی والوں نے ایک طوفان بے تمیزی بر پا کر دیا اور شور کرنا شروع کیا کہ مرزا مباحثہ سے بھاگ گیا ہے اور شہر میں ایک خطرناک شور مخالفت کا پیدا ہو گیا اور جدھر جاؤ بس یہی چرچہ تھا اور ہزاروں مفسد فتنہ پرداز لوگ حضرت صاحب کے مکان پر آ آ کر گلی
سیرت المہدی 375 حصہ دوم میں شور و پکار کرتے رہتے تھے.اور طرح طرح کی بدزبانی اور گالی گلوچ اور طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزاء سے کام لیتے تھے.اور بعض شریر حملہ کر کے مکان کے اندر گھس آتے اور اپنے شور و غوغا سے آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے.اس حالت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۷ا راکتو بر۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس کے اندر تمام حالات اور گذشتہ سرگذشت درج کی اور بالآخر لکھا کہ اب میں نے حفظ وامن کا انتظام کر لیا ہے اور جس تاریخ کو مولوی سید نذیر حسین پسند کریں میں ان کے ساتھ مباحثہ کرنے کیلئے حاضر ہو جاؤں گا.اور جو فریق اس مباحثہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی لعنت ہو.اور آپ نے بڑے غیرت دلانے والے الفاظ استعمال کر کے مولوی نذیر حسین کو مناظرہ کیلئے ابھارا چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ ۲۰/اکتو بر ۱۸۹۱ء کو فریقین جامع مسجد دہلی میں جمع ہو کر مسئلہ حیات ممات مسیح ناصری میں بحث کریں اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل سن کر مولوی سید نذیر حسین صاحب مجمع عام میں خدا کی قسم کھا جائیں کہ یہ دلائل غلط ہیں اور قرآن شریف اور حدیث صحیح مرفوع متصل کی رو سے مسیح ناصری زندہ جسم عصری آسمان پر موجود ہیں اور اسی جسم کے ساتھ زمین پر نازل ہونگے.اور پھر اگر ایک سال کے عرصہ کے اندراندرمولوی صاحب پر خدا کا کھلا کھلا عذاب نازل نہ ہو تو حضرت صاحب اپنے دعوئی میں جھوٹے سمجھے جاویں.چنانچہ ۲۰/اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ہزارہا لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے اور شہر میں ایک خطر ناک جوش پیدا ہو گیا.بعض خدام نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ حضور لوگوں کی طبائع میں خطر ناک اشتعال ہے اور امن شکنی کا سخت اندیشہ ہے.بہتر ہے کہ حضور تشریف نہ لے جائیں کیونکہ لوگوں کی نیت بخیر نہیں ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو ہم کسی صورت میں بھی رک نہیں سکتے کیونکہ ہم نے خود دعوت دی ہے اور پیچھے رہنے والے پر لعنت بھیجی ہے پس خواہ کیسی بھی خطر ناک حالت ہے ہم خدا کے فضل اور اس کی حفاظت پر بھروسہ کر کے ضرور جائیں گے.چنانچہ آپ نے بعض دوستوں کو مکان پر حفاظت کیلئے مقرر فرمایا اور روانہ ہو گئے اس وقت بارہ آدمی آپ کے ساتھ تھے اور آپ ان کے ساتھ گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوئے.جب آپ مسجد میں پہنچے تو ہزار ہا لوگوں کا مجمع تھا اور ایک عجیب طوفان بے تمیزی کا نظارہ تھا.آپ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لوگوں کے اس
سیرت المہدی 376 حصہ دوم متلاطم سمندر میں سے گذرتے ہوئے مسجد کی محراب میں پہنچے اس وقت لوگ عجیب غیظ و غضب کی حالت.میں آپ کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا اور اگر پولیس کا انتظام نہ ہوتا تو وہ ضرور کوئی حرکت کر گذرتے.مگر پولیس کے افسر نے جو ایک یورپین تھا نہایت محنت اور کوشش کے ساتھ انتظام کو قائم رکھا اور کوئی عملی فساد کی صورت نہ پیدا ہونے دی تھوڑی دیر کے بعد مولوی سید نذیر حسین صاحب مع اپنے شاگرد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالمجید وغیرہ کے پہنچ گئے اور ان کے ساتھیوں نے ان کو مسجد کے ساتھ ایک دالان میں بٹھا دیا.اتنے میں چونکہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا نماز شروع ہوئی لیکن چونکہ حضرت صاحب اور آپ کے ساتھی گھر پر نماز جمع کر کے آئے تھے اس لئے آپ نماز میں شامل نہیں ہوئے نماز کے بعد لوگوں نے شرائط کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ مباحثہ حیات ممات مسیح ناصری کے مضمون پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت کے متعلق ہونا چاہیے.اور ادھر سے ان کو یہ جواب دیا گیا ہے کہ مضمون کی طبعی ترتیب کو بگاڑ نا اچھا نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا جبکہ لوگوں کے دل میں یہ خیالات پختہ طور پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں زمین پر نازل ہوں گے تو جب تک یہ مسئلہ صاف نہ ہولے کسی اور مسئلہ کو چھیڑ نا یونہی وقت کو ضائع کرنا ہے.جس مسند پر بیٹھنے کے حضرت مرزا صاحب مدعی بنتے ہیں جب لوگوں کے نزدیک وہ مسند خالی ہی نہیں ہے اور حضرت عیسی اس پر رونق افروز ہیں تو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت پر بحث کرنا فضول ہے.کیونکہ کوئی شخص مسیح ناصری کو زندہ مانتے ہوئے حضرت مرزا صاحب کے دعوی کی طرف توجہ نہیں کرسکتا.پس حضرت مرزا صاحب کے دعوئی مسیحیت پر تب بحث ہو سکتی ہے کہ جب پہلے اس مسند کا خالی ہونا ثابت کر لیا جاوے.پولیس کا انگریز افسر جو اس موقعہ پر موجود تھا وہ اس بات کو خوب سمجھ گیا اور اس نے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ جو بات مرزا صاحب کی طرف سے پیش کی جارہی ہے کہ پہلے مسیح ناصری کی حیات ممات کے مسئلہ پر بحث ہونی چاہیے وہی درست ہے مگر مولویوں نے نہ مانا اور ایک شور پیدا کر دیا.اس کے بعد مولوی نذیر حسین صاحب کے قسم کھانے کے متعلق بحث ہوتی رہی مگر اس سے بھی مولویوں نے حیل و حجت کر کے
سیرت المہدی 377 حصہ دوم انکار کر دیا اس وقت لوگوں میں ایک عجیب اضطراب اور غیظ و غضب کی حالت تھی.اور کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ اور کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی..اس موقع پر علیگڑھ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ محمد یوسف صاحب نے حضرت صاحب کے پاس آکر کہا کہ لوگوں کے اندر یہ سخت شور ہے کہ آپ کا عقیدہ خلاف اسلام ہے.اگر یہ درست نہیں تو آپ اپنا عقیدہ لکھ دیں تا کہ میں لوگوں کو بلند آواز سے سُنا دوں.حضرت صاحب نے فوراً لکھ دیا کہ میں مسلمان ہوں اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور شریعت قرآنی کو خدا کی آخری شریعت یقین کرتا ہوں اور مجھے کسی اسلامی عقیدہ سے انکار نہیں وغیر ذالک.ہاں میرے نزدیک قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ مسیح ناصری جو بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو کر آئے تھے فوت ہو چکے ہیں.محمد یوسف صاحب نے بہت کوشش کی کہ حضرت صاحب کی اس تحریر کو بلند آواز سے سُنا دیں.مگر مولویوں نے جن کی نیت میں فساد تھا.سُنانے نہ دیا اور لوگوں میں ایک شور پیدا ہو گیا.اور مولویوں کے بہکانے اور اشتعال دلانے سے وہ سخت غیظ و غضب میں بھر گئے جب افسر پولیس نے یہ حالت دیکھی کہ لوگوں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے.اور وہ اپنے آپ سے باہر ہوئے جاتے ہیں.تو اس نے اپنے ماتحت افسر کو حکم دیا کہ فورا مجمع کو منتشر کر دیا جائے جس پر اس پولیس افسر اور محمد یوسف صاحب آنریری مجسٹریٹ نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ کوئی مباحثہ وغیرہ نہیں ہو گا سب صاحب چلے جاویں.اور پولیس کے سپاہیوں نے لوگوں کو منتشر کرنا شروع کر دیا.اس وقت سب سے پہلے مولوی نذیر حسین صاحب اور اُن کے شاگرد اور دوسرے مولوی رخصت ہوئے کیونکہ وہ دروازہ کے قریب بیٹھے تھے.پس انہوں نے موقع کو غنیمت جانا اور چل دئیے جب زیادہ لوگ مسجد سے نکل گئے تو حضرت صاحب بھی اُٹھ کر باہر تشریف لائے اور بہت سے سپاہی اور پولیس افسر آپ کے اردگرد تھے جب آپ دروازہ شمالی پر آئے تو آپ کے خادموں نے اپنی گاڑیاں تلاش کیں.کیونکہ ان کو آنے جانے کا کرایہ دینا کر کے ساتھ لائے تھے اور کرا یہ پیشگی دے دیا گیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ لوگوں نے ان کے مالکوں کو بہ کا کر روانہ کردیا تھا اور دوسری بھی کوئی گاڑی ایک منٹم ٹانگہ پاس نہ آنے دیتے
سیرت المہدی 378 حصہ دوم تھے.اس طرح حضرت صاحب کو قریباً پندرہ منٹ دروازہ پر انتظار کرنا پڑا اور اس اثنا میں لوگوں کے گروہ در گروہ جو مسجد کے باہر کھڑے تھے.بلوہ کر کے حضرت صاحب کی طرف آنے لگے.افسر پولیس ہوشیار تھا اس نے حضرت صاحب سے کہا کہ آپ فوراً میری گاڑی میں بیٹھ کر اپنے مکان کی طرف روانہ ہو جائیں.کیونکہ لوگوں کا ارادہ بد ہے چنانچہ حضرت صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب دونوں اس گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے.اور باقی لوگ بعد میں پیدل مکان پر پہنچے.اس موقع پر حضرت صاحب کے ساتھ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور سید امیر علی شاہ صاحب اور غلام قادر صاحب فصیح اور محمد خان صاحب کپورتھلوی اور حکیم فضل دین صاحب بھیروی اور پیر سراج الحق صاحب اور چھ اور دوست تھے.اس جامع مسجد والے واقعہ کے تین چار دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے مکان پر ہی مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کے ساتھ تحریری مباحثہ ہوا جس میں یہ باہم فیصلہ ہوا تھا کہ طرفین کے پانچ پانچ پرچے ہوں گے.لیکن جب حضرت مسیح موعود نے دیکھا کہ مولوی محمد بشیر صاحب کی طرف سے اب انہی پرانی دلیلوں کا جو غلط ثابت کی جاچکی ہیں اعادہ ہو رہا ہے.اور وہ کوئی نئی دلیل پیش نہیں کرتے.تو آپ نے فریق مخالف کو یہ بات جتا کر کہ اب مناظرہ کو آگے جاری رکھنا تضیع اوقات کا موجب ہے تین پر چوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا.اور فریق مخالف کے طعن و تمسخر کی پرواہ نہیں کی یہ مناظرہ الحق دہلی کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور ناظرین دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت صاحب نے واقعی اس وقت بحث کو ختم کیا کہ جب مولوی محمد بشیر کی پونچھی ختم ہو چکی تھی اور صرف تکرار سے کام لیا جارہا تھا.دراصل انبیاء ومرسلین کو دنیا کی شہرت سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ ان کو صرف اس بات سے کام ہوتا ہے کہ دنیا میں صداقت قائم ہو جاوے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر اک دوسری چیز کو قربان کر دیتے ہیں.ان کی سب عزتیں خدا کے پاس ہوتی ہیں اور دنیا کی عزت اور دنیا کی نیک نامی کا ان کو خیال نہیں ہوتا اور پھر جب وہ خدا کی خاطر اپنی ہر عزت اور نیک نامی کولات ماردیتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے ان کے لئے آسمان سے عزت اترتی ہے اور دین ودنیا کا تاج ان کے سرکا زیور بنتا ہے.میں اپنے اندر عجیب لذت و سرور کی لہر محسوس کرتا ہوں اور خدائے قدوس کی غیرت و محبت ،
سیرت المہدی 379 حصہ دوم وفاداری و ذرہ نوازی کا ایک عجیب نظارہ نظر آتا ہے.کہ جب میں اس واقعہ کو پڑھتا ہوں کہ جب ایک دفعہ قبل دعوئی میسحیت لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی محمد حسین بٹالوی کے مقابلہ میں بعض حنفی اور وہابی مسائل کی بحث کے لئے بلایا اور ایک بڑا مجمع لوگوں کا اس بحث کے سننے کے لئے جمع ہو گیا اور مولوی محمد حسین نے ایک تقریر کر کے لوگوں میں ایک جوش کی حالت پیدا کر دی اور وہ حضرت صاحب کا جواب سننے کے لئے ہمہ تن انتظار ہو گئے.مگر حضرت صاحب نے سامنے سے صرف اس قدر کہا کہ اس وقت کی تقریر میں جو کچھ مولوی صاحب نے بیان کیا ہے اس میں مجھے کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی کہ جو قابل اعتراض ہو.اس لئے میں اس کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.کیونکہ میرا مقصد خوانخواہ بحث کرنا نہیں بلکہ تحقیق حق ہے.آپ کے اس جواب نے جو مایوسی اور استہزا کی لہر لوگوں کے اندر پیدا کی ہوگی وہ ظاہر ہے مگر آپ نے حق کے مقابل میں اپنی ذاتی شہرت و نام و نمود کی پرواہ نہیں کی اور ڈر گئے بھاگ گئے ذلیل ہو گئے“ کے طعن سنتے ہوئے وہاں سے اُٹھ آئے.مگر خدا کو اپنے بندے کی یہ ”شکست“ جو اس کی خاطر اختیار کی گئی تمام فتوں سے زیادہ پیاری ہوئی اور ابھی ایک رات بھی اس واقعہ پر نہ گذری تھی کہ اس نے اپنے اس بندے کو الہام کیا کہ خدا کو تیرا یہ فعل بہت پسند آیا اور وہ تجھے بہت عزت اور برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور پھر عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے گئے کہ جو گھوڑوں پر سوار تھے.اور تعداد میں سات تھے.جس میں غالباً یہ اشارہ تھا.کہ ہفت اقلیم کے فرمانروا تیرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو کر تجھ سے برکتیں پائیں گے.یہ خدائی غیرت اور خدائی محبت اور خدائی وفاداری اور خدائی ذرہ نوازی کا ایک کرشمہ ہے.اور حضرت صاحب پر ہی بس نہیں بلکہ ہر ایک وہ شخص جو خالصتاً خدا کی خاطر بغیر کسی قسم کی نفس کی ملونی کے خدا سے اس قسم کا پیوند باندھے گا وہ یقیناً اسے ایسا ہی مہربان پائے گا.لان ذلك سنة الله ولن تجد لسنة الله تبديلا الغرض حضرت مسیح موعود نے مولوی محمد بشیر کے ساتھ مباحثہ کرتے ہوئے بجائے پانچ پر چوں کے تین پر چوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا.اور پھر غالباً اسی روز دہلی سے روانہ ہوکر پٹیالہ تشریف لے آئے جہاں ان دنوں میں ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب
سیرت المہدی 380 حصہ دوم مرحوم ملازم تھے.اور یہاں آکر آپ نے ایک اشتہار مورخہ ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۱ء کے ذریعہ سے مولوی محمد اسحاق کو وفات حیات مسیح ناصری کے مسئلہ میں بحث کی دعوت دی.مگر کوئی مباحثہ نہیں ہوا.اور اس کے بعد آپ قادیان واپس تشریف لے آئے.مگر ۱۸۹۲ء کے شروع میں آپ پھر عازم سفر ہوئے اور سب سے پہلے لاہور تشریف لے گئے.جہاں ۳۱ / جنوری کو آپ کی ایک پبلک تقریر ہوئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری کے ساتھ ایک مباحثہ بھی ہوا.جوس فروری ۱۸۹۲ء کو ختم ہوا.لاہور سے آپ سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے جالندھر اور جالندھر سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور لدھیانہ سے واپس قادیان تشریف لے آئے.اور اس طرح آپ کے دعوئی مسیحیت کے بعد کے ابتدائی سفروں کا اختتام ہوا.۱۸۹۳ء کے ماہ مئی میں آپ پھر قادیان سے نکلے اور امرتسر میں ڈپٹی عبداللہ انتم عیسائی کے ساتھ تحریری مباحثہ فرمایا جس کی روئداد جنگ مقدس میں شائع ہو چکی ہے.یہ مباحثہ ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء کو شروع ہو کر ۵/ جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا اور حضرت صاحب نے اپنے آخری پرچہ میں آتھم کے لئے خدا سے خبر پا کر وہ پیشگوئی فرمائی جس کے نتیجہ میں آٹھم بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچا.انہی دنوں میں آپ نے ایک دن یعنی ، اذی قعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷ رمئی ۱۸۹۳ء کو مولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عیدگاہ کے میدان میں مباہلہ فرمایا اور گو حضرت صاحب نے اپنے اشتہار مورخہ ۳۰ شوال ۱۳۱۰ھ میں ہندوستان کے تمام مشہور علماء کو جو مکفرین میں سے تھے مباہلہ کیلئے بلایا تھا لیکن سوائے مولوی عبدالحق غزنوی کے کوئی مولوی میدان میں سامنے نہیں آیا ( اس ساری سر گذشت کیلئے ملاحظہ ہو حضرت صاحب کی تصانیف ازالہ اوہام والحق لدھیانہ والحق دہلی و جنگ مقدس و اشتہارات مورخه ۳۰ شوال ۱۳۱۰ھ و مورخه ۹ رذی قعده ۱۳۱۰ھ و نیز اشتہارات مورخ ۲ راکتو بر و ۶ /اکتوبر و ۱۷ اکتوبر و ۲۳ /اکتوبر ۱۸۹۱ ء و ۲۸ جنوری و ۳ فروری و ۱۷/ مارچ ۱۸۹۲ء و خط و کتابت مابین حضرت صاحب و میر عباس علی مورخه ۶ و ۷ و مئی ۱۸۹۲ و تذکرۃ المہدی حصہ اول وسيرة امسیح موعود مصنفہ حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ ) اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ اس مباہلہ میں کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی حضرت صاحب نے فریق مخالف کیلئے بددعا کی تھی بلکہ صرف یہی دعا کی تھی کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری
سیرت المہدی 381 حصہ دوم ہوں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو چنانچہ حضرت صاحب نے مباہلہ سے قبل ہی اپنے اشتہار مورخہ ۹ ذیقعد ۱۳۱۰۰ھ مطابق ۲۶ رمئی ۱۸۹۳ء میں یہ شائع فرما دیا تھا کہ میں صرف اپنے متعلق اس قسم کی دعا کروں گا.چنانچہ اس مباہلہ کے بعد جو ترقی خدا نے حضرت صاحب کو دی وہ ظاہر ہے.اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں ایک اور اشتہار مباہلہ آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع فرمایا.اور اس میں آپ نے ایک سال کی میعاد بھی مقررفرمائی.اور یہ بھی شرط لگائی کہ اگر اس عرصہ میں میں عذاب الہی میں مبتلا ہو جاؤں یا میرے مقابل پر مباہلہ کرنے والوں میں سے خواہ وہ ہزاروں ہوں کوئی ایک شخص بھی خدا کے غیر معمولی عذاب کا نشانہ نہ بنے تو میں جھوٹا ہوں.اور آپ نے بڑی غیرت دلانے والے الفاظ میں مولویوں کو ابھارا مگر کوئی سامنے نہیں آیا.421 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمدردی اور وفاداری کے ذکر میں یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے.کہ اگر ہمارا کوئی دوست ہو اور اس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملے کہ وہ کسی گلی میں شراب کے نشے میں مدہوش پڑا ہے تو ہم بغیر کسی شرم اور روک کے وہاں جا کر اسے اپنے مکان میں اُٹھالا ئیں اور پھر جب اسے ہوش آنے لگے تو اس کے پاس سے اُٹھ جائیں تا کہ ہمیں دیکھ کر وہ شرمندہ نہ ہو.اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وفاداری ایک بڑا عجیب جو ہر ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرابیوں اور فاسق فاجروں کو اپنا دوست بنانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ منشاء یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہو اور وہ کسی قسم کی عملی کمزوری میں مبتلا ہو جاوے.تو اس وجہ سے اسکا ساتھ نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اسکے ساتھ ہمدردی اور وفاداری کا طریق برتنا چاہیے اور مناسب طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے.کیونکہ دراصل یہی وہ وقت ہے جبکہ اسے اپنے دوستوں کی حقیقی ہمدردی اور ان کی محبت آمیز نصائح کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت پر چھوڑ کر الگ ہو جانا دوستانہ وفاداری کے بالکل خلاف ہے ہاں البتہ اگر خود اس دوست کی طرف سے ایسے امور پیش آجاویں کہ جو تعلقات کے قطع ہو جانے کا باعث ہوں تو اور
سیرت المہدی 382 حصہ دوم بات ہے.انسان کو حتی الوسع اپنے لئے ہمیشہ اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا چاہیے.لیکن جب کسی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہو جائیں تو پھر ان تعلقات کا نبھانا بھی ضروری ہوتا ہے اور صرف اس وجہ سے کہ دوست کی طرف سے کو ئی عملی کمزوری ظاہر ہوئی ہے یا یہ کہ اس کے اندر کوئی کمزوری پیدا ہوگئی ہے.تعلقات کا قطع کرنا جائز نہیں ہوتا بلکہ ایسے وقت میں خصوصیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت اور دوستانہ نصیحت کو کام میں لانا چاہیے اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ لوگ یہ اعتراض کریں گے کہ ایک خراب آدمی کے ساتھ کیوں تعلقات رکھے جاتے ہیں.مومن کو لوگوں کے گندوں کو دھونے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اگر وہ ایسے موقعوں پر چھوڑ کر الگ ہو جائے گا تو علاوہ بے وفائی کا مرتکب ہونے کے اپنے فرض منصبی میں بھی کوتاہی کرنے والا ٹھہر یگا.ہاں بے شک جس شخص کی اپنی طبیعت کمزور ہو اور اس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ بجائے اپنا نیک اثر ڈالنے کے خود دوسرے کے ضرر رساں اثر کو قبول کرنا شروع کر دیگا تو ایسے شخص کیلئے یہی ضروری ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے دوست سے میل جول ترک کر دے اور صرف اپنے طور پر خدا تعالیٰ سے اس کی اصلاح کے متعلق دعائیں کرتا رہے.بچے بھی بوجہ اپنے علم اور عقل اور تجربہ کی خامی کے اس قسم کے اندر شامل ہیں یعنی بچوں کو بھی چاہیے کہ جب اپنے کسی دوست کو بد اعمالی کی طرف مائل ہوتا دیکھیں یا جب ان کے والدین یا گارڈین انہیں کسی خراب شخص کی دوستی سے منع کریں تو آئندہ اس کی صحبت کو کلیہ ترک کر دیں.“ 422 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دعولی مسیحیت سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بہت تعلق تھا چنانچہ مجھے یاد ہے کہ قادیان سے انبالہ چھاؤنی جاتے ہوئے آپ مع اہل وعیال کے مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر بٹالہ میں ایک رات ٹھہرے تھے اور مولوی صاحب نے بڑے اہتمام سے حضرت صاحب کی دعوت کی تھی نیز ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان کیا کہ جس جس جگہ حضرت والد صاحب ( یعنی خاکسار کے نانا جان مرحوم) کا قیام ہوتا تھا وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی عموماً تشریف لایا کرتے تھے مثلاً انبالہ چھاؤنی لدھیانہ.پٹیالہ.فیروز پور چھاؤنی میں آپ تشریف لے گئے تھے اور سب سے زیادہ آپ لدھیانہ میں
سیرت المہدی 383 حصہ دوم رہے.حضور کی سب سے بڑی لڑکی عصمت انبالہ چھاؤنی میں پیدا ہوئی تھی اور باقی سب بچے قادیان میں پیدا ہوئے.بیعت اولی.فتح اسلام - توضیح مرام کی اشاعت مباحثہ مولوی محمد حسین اور وفات عصمت لدھیانہ میں ہوئے.انبالہ میں کچھ مدت کیلئے ایک بنگلہ کرایہ پر لیا تھا اور لدھیانہ میں ہمارے رہائشی مکان کے ساتھ بالکل ملحق شاہزادہ والا گوہر کا ایک اور بڑا مکان محلہ اقبال گنج میں تھا وہ کرایہ پر لے لیتے تھے.جب حضور لدھیانہ تشریف لاتے تھے تو ہم سب حضور کے مکان میں آجاتے تھے اور ہمارے والا مکان مردانہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا چنانچہ اسی میں مولوی محمد حسین والا مباحثہ بھی ہوا تھا.اس کے سوا کسی اور جگہ حضور نے الگ مکان نہیں لیا اور نہ کسی جگہ حضور اتنا زیادہ ٹھہرے.423 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹرمحمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سر کے بال منڈوانے کو بہت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کی علامت ہے نیز حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے سر کے بال عقیقہ کے بعد نہیں مونڈے گئے.چنانچہ آپ کے سر کے بال نہایت باریک اور ریشم کی طرح ملائم تھے اور نصف گردن تک لمبے تھے لیکن آپ کی ریش مبارک کے بال سر کے بالوں کی نسبت موٹے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جو میر صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب کے بال نصف گردن تک لمبے تھے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ان لوگوں کے بال نظر آتے ہیں جنھوں نے پٹے رکھے ہوتے ہیں اس طرح آپ کے بال نظر آتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گو آپ کے بال لمبے ہوتے تھے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ نہایت نرم اور باریک تھے اور گھنے بھی نہ تھے وہ پٹوں کی طرح نظر نہ آتے تھے.424 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پرندوں کا گوشت پسند تھا اور بعض دفعہ بیماری وغیرہ کے دنوں میں بھائی عبدالرحیم صاحب کو حکم ہوتا تھا کہ کوئی پرندہ شکار کر لائیں.اسی طرح جب تازہ شہد معہ چھتہ کے آتا تھا تو آپ اسے پسند فرما کر نوش کرتے تھے.شہد کا چھتہ تلاش کرنے اور توڑنے میں بھائی عبد العزیز صاحب خوب ماہر تھے.خاکسار
سیرت المہدی 384 حصہ دوم عرض کرتا ہے کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اور بھائی عبدالعزیز صاحب ہر دو نومسلمین میں سے ہیں.بھائی عبدالرحیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بڑے شوق سے حصہ لیتے تھے اور حضرت صاحب بھی از راه شفقت بعض متفرق خدمات ان کے سپرد فرما دیتے تھے.آجکل وہ ہمارے مدرسہ سه تعلیم الاسلام میں دینیات کے اول مدرس ہیں.425 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بالکل بے تکلفی سے گفتگو فرماتے تھے.میں آپ کی خدمت میں اپنے سارے حالات کھل کر عرض کر دیتا تھا اور آپ ہمدردی اور توجہ سے سنتے تھے اور بعض اوقات آپ اپنے گھر کے حالات خود بھی بے تکلفی سے بیان فرما دیتے تھے اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے تھے جس سے دل کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی تھیں.426 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی قطب الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں جب میں نے علم طب کے حاصل کرنے کی طرف توجہ کی تو میں نے بعض ابتدائی درسی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی ماہر فن سے علم سیکھنے کا ارادہ کیا اور چونکہ میں نے حکیم محمد شریف صاحب امرتسری کے علم و کمال کی بہت تعریف سنی تھی اس لئے میں ان کے پاس گیا اور علم سیکھنے کی خواہش کی مگر انہوں نے جواب دیدیا اور ایسے رنگ میں جواب دیا کہ میں ان کی طرف سے مایوس ہو گیا.اسکے بعد میں جب قادیان آیا تو میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں طب کا علم کسی ماہر سے حاصل کرنا چاہتا ہوں.حضرت صاحب نے حکیم محمد شریف صاحب کا نام لیا میں نے عرض کیا کہ انہوں نے تو جواب دیدیا ہے.حضرت صاحب فرمانے لگے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے عام حالات کے ماتحت دوسرے کی درخواست کو رد کر دیتا ہے لیکن جب اس امر کے متعلق اس کے پاس کسی ایسے شخص کی سفارش کی جاتی ہے جس کا اسے خاص لحاظ ہوتا ہے تو پھر وہ مان لیتا ہے.پس ہمیں بھی امید ہے کہ حکیم صاحب ہماری سفارش کو رد نہیں کریں گے.چنا نچہ میں حضرت صاحب کی سفارش لے کر گیا تو حکیم صاحب خوشی کے ساتھ رضامند ہو گئے اور کہنے لگے کہ تم
سیرت المہدی 385 حصہ دوم ایک ایسے شخص کی سفارش لائے ہو جس کا کہنا میں نے آج تک کبھی رد نہیں کیا اور نہ کرسکتا ہوں.6427 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض اوقات ایک انسان بداعمالی میں مبتلا ہوتا ہے اور ترقی کرتا جاتا ہے حتی کہ دوزخ کے منہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک پلٹا آتا ہے اور وہ نیکی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہو جاتا ہے.اور ایک دوسرا شخص نیک ہوتا ہے اور اچھے اعمال بجالاتا ہے.حتی کہ جنت کے منہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر اسے کوئی ٹھوکر لگتی ہے اور وہ بدی کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انجام خراب ہو جاتا ہے.اور میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ حدیث بیان فرما کر فرماتے تھے کہ جو شخص بداعمالی میں زندگی گزارتا ہے لیکن بالآخر اسی دنیا میں اسکا انجام نیک ہو جاتا ہے وہ بھی عجیب نصیبے والا انسان ہوتا ہے کہ اس جہان میں بھی وہ اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار لیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی اسے جنت میں جگہ ملتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص ساری عمر بداعمالی میں مبتلارہ کر آخری عمر میں تو بہ کا موقعہ پا کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے وہ سب سے زیادہ خوش نصیب ہے کیونکہ اگر دوسرے حالات مساوی ہوں تو یقیناً ایسا شخص اُس شخص سے رتبہ میں بہت کم ہے جو دنیا کی زندگی بھی خدا کے لئے تقویٰ و طہارت میں صرف کرتا ہے مگر ہاں چونکہ آخری عمر کی تو بہ مقدم الذکر شخص کی نجات اخروی کا موجب ہو جاتی ہے.اس لئے اس میں شک نہیں کہ وہ خاص طور پر خوش نصیب سمجھا جانا چاہیے.اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایسا شخص اس جہان میں بھی اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار لیتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص خدا کے لئے اس دنیا میں زندگی گذارتا ہے اور اپنی خواہشات نفسانی کو دبا کر رکھتا ہے اس کی زندگی کو ئی تلخی کی زندگی ہوتی ہے.کیونکہ گو مادی نقطہ نگاہ سے اس کی زندگی تلخ سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس کیلئے وہی خوشی کی زندگی ہوتی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ خدا کیلئے زندگی گزارنے والا جو روحانی سرور اور لطف اپنی زندگی میں پاتا ہے وہ ہرگز ایک دنیا دار کو اپنی جسمانی لذات میں حاصل نہیں ہو
سیرت المہدی 386 حصہ دوم سکتا.پس حضرت صاحب کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک دنیا دار شخص اپنے رنگ میں خوش رہتا ہے کیونکہ اس کی جسمانی خواہشات بالکل آزاد ہوتی ہیں.428 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھ سے بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے اور میں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بیان فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور اللہ تعالی اس سے پوچھے گا کہ اگر تو نے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا ہے تو بیان کر اور وہ جواب دیگا اے میرے خدا میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا.خدا فرمائے گا کہ اچھی طرح یاد کر کے اپنا کوئی ایک نیک عمل ہی بیان کر دے.وہ جواب دیا کہ مجھے اپنا کوئی ایک نیک عمل بھی یاد نہیں ہے.خدا فرمائے گا اچھا یہ بتا کہ کیا تو نے کبھی میرے کسی نیک بندے کی صحبت اُٹھائی ہے؟ وہ کہے گا اے میرے خدا میں کبھی تیرے کسی نیک بندے کی صحبت میں نہیں بیٹھا.خدا فرمائے گا اچھا یہ بتا کہ کیا کبھی تو نے میرے کسی نیک بندے کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیگا کہ اے میرے خدا مجھے زیادہ شرمندہ نہ کر میں نے کبھی تیرے کسی نیک بندے کو دیکھا بھی نہیں.خدا فرمائیگا تیرے گاؤں کے دوسرے کنارے پر میرا ایک نیک بندہ رہتا تھا کیا فلاں دن فلاں وقت جب کہ تو فلاں گلی میں سے جار ہا تھا اور وہ میرا بندہ سامنے سے آتا تھا تیری نظر اس پر نہیں پڑی ؟ وہ جواب دیگا ہاں ہاں میرے خدا اب مجھے یاد آیا اس دن میں نے بے شک تیرے اس بندے کو دیکھا تھا مگراے میرے خدا ! تو جانتا ہے کہ صرف ایک دفعہ میری نظر اس پر پڑی اور پھر میں اس کے پاس سے نکل کر آگے گذر گیا ، خدا فرمائے گا.میرے بندے جا میں نے تجھے اس نظر کی وجہ سے بخشا.جا اور میری جنت میں داخل ہو جا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال خدا کے رحم اور بخشش کو ظاہر کرنے کیلئے بیان فرماتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مثال کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ انسان خواہ اس دنیا میں کیسی حالت میں رہا ہو اور کیسی بداعمالی میں اس کی زندگی گزرگئی ہو وہ محض اس قسم کی وجہ کی بنا پر بخش دیا جاوے گا بلکہ منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان دنیا میں ایسی حالت میں رہا ہے کہ اس کی فطرت کے اندر نیکی اور
سیرت المہدی 387 حصہ دوم سعادت کا تم قائم رہا ہے لیکن اس تخم کو نشو ونما دینے والے عناصر اسے میسر نہیں آئے اور وہ ہمیشہ بدصحبت اور غافل کن حالات میں گھرا رہنے کی وجہ سے بداعمالی کا مرتکب ہوتا رہا ہے.مگر اس کا فطری میلان ایسا تھا کہ اگر اسے نیکی کی طرف مائل کرنے والے حالات پیش آتے تو وہ بدی کو ترک کر کے نیکی کو اختیار کر لیتا تو ایسا شخص یقیناً خدا کی بخشش خاص سے حصہ پائے گا.علاوہ ازیں حق یہ ہے کہ گوگوئی خشک مزاج مولوی میرے اس ریمارک پر چونکے لیکن خدا کی بخشش اور رحم کیلئے کوئی قاعدہ اور قانون تلاش کرنا یہ محض لاعلمی اور تنگ خیالی کی باتیں ہیں.اس کے عذاب وسزا کے واسطے بیشک قواعد اور قوانین موجود ہیں جو خود اس نے بیان فرما دیئے ہیں.لیکن اسکے رحم کے واسطے کوئی قانون نہیں کیونکہ اس کی یہ صفت کسی نہ کسی صورت میں ہر وقت ہر چیز پر ہر حالت میں اور ہر جگہ جاری رہتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷ ( یعنی میرا اعذاب تو صرف میری مقرر کردہ قانون کے ماتحت خاص خاص حالتوں میں پہنچتا ہے لیکن میری رحمت ہر وقت ہر چیز پر وسیع ہے.اس آیت کریمہ میں جو مَنُ اشَاء کا لفظ ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا کا عذاب تو اس کی مرضی کے ماتحت ہے لیکن اس کی رحمت مرضی کے حدود کو تو ڑ کر ہر چیز پر وسیع ہوگئی ہے.بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لفظ قر آنی محاورہ کے ماتحت خدائی قانون کی طرف اشارہ کرنے کیلئے آتا ہے یعنی مراد یہ ہے کہ خدا کا عذاب اس کے قانون کے ماتحت خاص خاص حالتوں میں آتا ہے لیکن خدا کی رحمت کیلئے کوئی قانون نہیں ہے.بلکہ وہ صرف خدا کی مرضی اور خوشی پر موقوف ہے اور چونکہ خدا کی صفت رحمت اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے اس لئے اس کی یہ صفت ہر وقت ہر چیز پر ظاہر ہو رہی ہے اور بسا اوقات اس کی رحمت ایسے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کی کو نہ نظر اس کا موجب دریافت کرنے سے قاصر رہتی ہے اور ممکن ہے کہ بعض صورتوں میں اس کا کوئی بھی موجب نہ ہوتا ہو سوائے اس کے کہ خدا رحیم ہے اور اپنے پیدا کردہ بندے پر رحم کرنا چاہتا ہے اور بس.والله اعلم.429 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب
سیرت المہدی 388 حصہ دوم میں ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے قادیان آیا تو اس وقت نماز ظہر کے قریب کا وقت تھا اور میں مہمان خانہ میں وضو کر کے مسجد مبارک میں حاضر ہوا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں ہی تشریف رکھتے تھے اور حضور کے بہت سے اصحاب حضرت کے پاس بیٹھے تھے.میں بھی مجلس کے پیچھے ہو کر بیٹھ گیا.اس وقت شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور چشمہ معرفت کیلئے سکھ مذہب کے متعلق بعض حوالجات حضور کے سامنے پیش کر رہے تھے اور حضور کبھی کبھی ان کے متعلق گفتگو فرماتے تھے اور بعض دفعہ ہنستے بھی تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ حضور کے بائیں طرف بیٹھے تھے.میں جب آکر بیٹھا تو مجھے کچھ وقت تک یہ شبہ رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں.کیونکہ میں حضرت مولوی صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان پوری طرح یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ہیں یا وہ.لیکن پھر گفتگو کے سلسلہ میں مجھے سمجھ آگئی.جب حوالہ جات کے متعلق گفتگو بند ہوئی تو میں بیعت کی خواہش ظاہر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف آگے بڑھنے لگا.جس پر سید احمد نور صاحب کا بلی نے کسی قدر بلند آواز سے کہا کہ یہ شخص مسلمان ہونا چاہتا ہے اسے رستہ دے دیا جاوے.میں دل میں حیران ہوا کہ مسلمان ہونے کے کیا معنی ہیں.لیکن پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہونا مسلمان ہونا نہیں ہے تو اور کیا ہے.چنانچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو گیا اس وقت میرے ساتھ ایک اور شخص نے بھی بیعت کی تھی بیعت کے بعد دعا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز کرائی اور حضرت مسیح موعود نے پہلی صف سے آگے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ جانب شمال حضرت مولوی صاحب کی اقتدا میں نماز ادا کی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز فریضہ ادا کرتے ہی اندرون خانہ تشریف لے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود آخری ایام میں ہمیشہ امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور آپ کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اول ہمیشہ مصلے پر آپ والی جگہ کو چھوڑ کر بائیں
سیرت المہدی 389 حصہ دوم جانب کھڑے ہوا کرتے تھے.اور کبھی ایک دفعہ بھی آپ مصلے کے وسط میں یا دائیں جانب کھڑے نہیں ہوئے اور اب حضرت خلیفہ ثانی کا بھی یہی طریق ہے.اور ایسا غالبا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کے خیال سے کیا جاتا ہے.واللہ اعلم.430 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کسی سفر پر تشریف لے جانے لگتے تھے تو عموماً مجھے فرما دیتے تھے کہ ساتھ جانے والوں کی فہرست بنالی جاوے اور ان دنوں میں جو مہمان قادیان آئے ہوئے ہوتے تھے.ان میں سے بھی بعض کے متعلق فرما دیتے تھے کہ ان کا نام لکھ لیں اور اوائل میں حضرت صاحب انٹر کلاس میں سفر کیا کرتے تھے اور اگر حضرت بیوی صاحبہ ساتھ ہوتی تھیں تو ان کو اور دیگر مستورات کو زنانہ تھرڈ کلاس میں بٹھا دیا کرتے تھے.اور حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ زنانہ سواریوں کو خو د ساتھ جا کر اپنے سامنے زنانہ گاڑیوں میں بٹھاتے تھے.اور پھر اس کے بعد خود اپنی گاڑی میں اپنے خدام کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے.اور جس سٹیشن پر اتر نا ہوتا تھا اس پر بھی خود زنانہ گاڑی کے پاس جا کر اپنے سامنے حضرت بیوی صاحبہ کو اتارتے تھے.مگر دوران سفر میں سٹیشنوں پر عموماً خود اتر کر زنانہ گاڑی کے پاس دریافت حالات کے لئے نہیں جاتے تھے.بلکہ کسی خادم کو بھیج دیا کرتے تھے.اور سفر میں حضرت صاحب اپنے خدام کے آرام کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور آخری سالوں میں حضور عموماً ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لئے ریز رو کر والیا کرتے تھے اور اس میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر فرماتے تھے.اور حضور کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے.مگر مختلف سٹیشنوں میں اتر اتر کر وہ حضور سے ملتے رہتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور الگ کمرہ کو اس خیال سے ریزرو کروالیتے تھے کہ تا کہ حضرت والدہ صاحبہ کو علیحدہ کمرہ میں تکلیف نہ ہو.اور حضور اپنے اہل وعیال کے ساتھ اطمینان کے ساتھ سفر کر سکیں نیز آخری ایام میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے وقت عموماً ہر ٹیشن پر سینکڑوں ہزاروں زائرین کا مجمع ہوتا تھا اور ہر مذہب اور ملت کے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ حضور کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے.اور مخالف و موافق ہر قسم کے لوگوں کا مجمع ہوتا
سیرت المہدی 390 حصہ دوم تھا.اس لئے بھی کمرہ کا ریز رو کرانا ضروری ہوتا تھا تا کہ حضور اور حضرت والدہ صاحبہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ اپنے کمرہ کے اندر تشریف رکھ سکیں اور بعض اوقات حضور ملاقات کرنے کے لئے گاڑی سے باہر نکل کرسٹیشن پر تشریف لے آیا کرتے تھے.مگر عموماً گاڑی ہی میں بیٹھے ہوئے کھڑکی میں سے ملاقات فرما لیتے تھے اور ملنے والے لوگ باہر سٹیشن پر کھڑے رہتے تھے.نیز مفتی صاحب نے بیان فرمایا کہ جس سفر میں حضرت ام المومنین حضور کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں اس میں میں حضور کے قیام گاہ میں حضور کے کمرہ کے اندر ہی ایک چھوٹی سی چار پائی لے کر سورہتا تھا تا کہ اگر حضور کو رات کے وقت کوئی ضرورت پیش آئے تو میں خدمت کر سکوں چنانچہ اس زمانہ میں چونکہ مجھے ہوشیار اور فکرمند ہو کر سونا پڑتا تھا تا کہ ایسا نہ ہو حضرت صاحب مجھے کوئی آواز دیں اور میں جاگنے میں دیر کروں اس لئے اس وقت سے میری نیند بہت ہلکی ہوگئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کبھی مجھے آواز دیتے تھے اور میری آنکھ نہ ھلتی تھی تو حضور آہستہ سے اُٹھ کر میری چارپائی پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور میرے بدن پر اپنا دست مبارک رکھ دیتے تھے جس سے میں جاگ پڑتا تھا اور سب سے پہلے حضور وقت دریافت فرماتے تھے اور حضور کو جو الہام ہوتا تھا حضور مجھے جگا کر نوٹ کر وا دیتے تھے.چنانچہ ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ حضور نے مجھے الہام لکھنے کیلئے جگایا مگر اس وقت اتفاق سے میرے پاس کوئی قلم نہیں تھا چنانچہ میں نے ایک کوئلہ کا ٹکڑا لے کر اس سے الہام لکھا لیکن اس وقت کے بعد سے میں با قاعدہ پنسل یا فاؤنٹین پین اپنے پاس رکھنے لگ گیا.431 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموما صبح کے وقت سیر کیلئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور عموماً بہت سے اصحاب حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے بعض طالب علم بھی حضور کے ساتھ جانے کے شوق میں کسی بہانہ وغیرہ سے اپنے کلاس روم سے نکل کر حضور کے ساتھ ہو لیتے تھے.اساتذہ کو پتہ لگتا تھا تو تعلیم کے حرج کا خیال کر کے بعض اوقات ایسے طلبہ کو بلا اجازت چلے جانے پر سز او غیرہ بھی دیتے تھے مگر بچوں کو کچھ ایسا شوق تھا کہ وہ عموماً موقعہ لگا کر نکل ہی جاتے تھے.
سیرت المہدی 391 حصہ دوم 432 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں میں کسی وجہ سے اپنی بیوی مرحومہ پر کچھ خفا ہوا جس پر میری بیوی نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی بڑی بیوی کے پاس جا کر میری ناراضگی کا ذکر کیا اور حضرت مولوی صاحب کی بیوی نے مولوی صاحب سے ذکر کر دیا.اس کے بعد میں جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مفتی صاحب آپ کو یا د رکھنا چاہیے کہ یہاں ملکہ کا راج ہے.بس اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا مگر میں ان کا مطلب سمجھ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے یہ الفاظ عجیب معنی خیز ہیں کیونکہ ایک طرف تو ان دنوں میں برطانیہ کے تخت پر ملکہ وکٹور یا متمکن تھیں اور دوسری طرف حضرت مولوی صاحب کا اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خانگی معاملات میں حضرت ام المومنین کی بات بہت مانتے ہیں اور گویا گھر میں حضرت ام المومنین ہی کی حکومت ہے، اور اس اشارہ سے مولوی صاحب کا مقصد یہ تھا کہ مفتی صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے.433 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود یہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے.جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضور کے ساتھ ادب واحترام کوملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھے چنانچہ ایک دفعہ میں لا ہور سے حضور کی ملاقات کیلئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کیلئے رضائی وغیرہ نہیں تھی میں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے حضور مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنائت فرما دیں.حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک ڈھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور ڈھسا میرا ہے.آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں.میں نے رضائی رکھ لی اور ڈھسا واپس بھیج دیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضور اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے.
سیرت المہدی 392 حصہ دوم چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگایا جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا.حضرت صاحب نے اس سے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے.کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا.اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں.اور پھر آپ نے اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا.ایک دفعہ سفر جہلم کے دوران میں جب کہ حضور کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مفتی صاحب ! مجھے پیشاب کثرت کے ساتھ آتا ہے کوئی برتن لائیں جس میں میں رات کو پیشاب کر لیا کروں.میں نے تلاش کر کے ایک مٹی کا لوٹا لا دیا جب صبح ہوئی تو میں لوٹا اُٹھانے لگا تا کہ پیشاب گرا دوں مگر حضرت صاحب نے مجھے روکا اور کہا کہ نہیں آپ نہ اُٹھا ئیں میں خود گرا دوں گا اور باوجود میرے اصرار کے ساتھ عرض کرنے کے آپ نے نہ مانا اور خود ہی لوٹا اُٹھا کر مناسب جگہ پیشاب کو گرا دیا.لیکن اس کے بعد جب پھر یہ موقع آیا تو میں نے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ میں گراؤں گا جس پر حضرت صاحب نے میری عرض کو قبول کر لیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ مجھے دو گھڑیاں عنایت فرمائیں اور کہا کہ یہ ایک عرصہ سے ہمارے پاس رکھی ہوئی ہیں اور کچھ بگڑی ہوئی ہیں آپ انہیں ٹھیک کرالیں.اور خود ہی رکھیں.6434 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے.اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے.تا کہ جب ایک قلم گھس جاوے تو دوسری کے لئے انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے لیکن ایک دن جب کہ عید کا موقعہ تھا میں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نہیں پیش کیں.اس وقت تو حضرت صاحب نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت کا خط آیا کہ آپ کی وہ نہیں بہت اچھی ثابت ہوئی ہیں.اور اب میں انہیں سے لکھا کروں گا.آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوں کی بھیج دیں.چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوادی اور اس کے بعد میں اسی
رت المهدی 393 حصہ دوم قسم کی نہیں حضور کی خدمت میں پیش کرتا رہا.لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مال میں کچھ نقص پیدا ہو گیا اور حضرت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا جس پر مجھے آئندہ کیلئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر دامنگیر ہوا اور میں نے کارخانہ کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضرت مسیح موعود کی خدمت میں تمہارے کارخانہ کی نہیں پیش کیا کرتا تھا لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا اور اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں؟ اور پھر میں نے حضور کے دعاوی وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی.کچھ عرصہ کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیا مفت ارسال کی جو میں نے حضرت کے حضور پیش کر دی.اور اپنے خط اور اس کے جواب کا ذکر کیا.حضور یہ ذکر سن کر مسکرائے مگر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو اس وقت حاضر تھے ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ جس طرح شاعر اپنے شعروں میں ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف گریز کرتا ہے اس طرح آپ نے بھی اپنے خط میں گریز کرنا چاہا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نبوں کے پیش کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے دعاوی کا ذکر شروع کر دیا لیکن یہ کوئی گریز نہیں ہے بلکہ زبردستی ہے.435 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن صاحب مرحوم امام ہوئے تھے.لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہو گئی تھی.بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی.436 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود
سیرت المہدی 394 حصہ دوم علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کیلئے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے.کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں.حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں.چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا.حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا اور جب کبھی آپ روتے بھی تھے تو صرف اس حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں.اس سے زیادہ آپ کو روتے نہیں دیکھا گیا.437 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الہ دین عرف فلاسفر نے جن کی زبان کچھ آزا د واقع ہوئی ہے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی کچھ گستاخی کی جس پر حضرت مولوی صاحب کو غصہ آگیا اور اُنہوں نے فلاسفر کو ایک تھپڑ مار دیا.اس پر فلاسفر صاحب اور تیز ہو گئے اور بہت برا بھلا کہنے لگے جس پر بعض لوگوں نے فلاسفر کوخوب اچھی طرح زدو کوب کیا.اس پر فلاسفر نے چوک میں کھڑے ہو کر بڑے زور سے رونا چلانا شروع کر دیا اور آہ و پکار کے نعرے بلند کئے.یہ آواز اندرون خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں تک بھی جا پہنچی اور آپ بہت سخت ناراض ہوئے.چنانچہ آپ نماز مغرب سے قبل مسجد میں تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور آپ مسجد میں ادھر ادھر ٹہلنے لگے اس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی موجود تھے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس طرح کسی کو مارنا بہت ناپسندیدہ فعل ہے اور یہ بہت بُری حرکت کی گئی ہے.مولوی عبدالکریم صاحب نے فلاسفر کے گستاخانہ رویہ اور اپنی بریت کے متعلق کچھ عرض کیا مگر حضرت صاحب نے
سیرت المہدی 395 حصہ دوم غصہ سے فرمایا کہ نہیں یہ بہت ناواجب بات ہوئی ہے.جب خدا کا رسول آپ لوگوں کے اندر موجود ہے تو آپ کو خود بخود اپنی رائے سے کوئی فعل نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا وغیرہ ذلک.حضرت صاحب کی اس تقریر پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رو پڑے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی اور عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا فرمائیں اور اس کے بعد مارنے والوں نے فلاسفر سے معافی مانگ کر اسے راضی کیا اور اسے دودھ وغیرہ پلایا.438 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فخر الدین صاحب ملتانی ثم قادیانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ۱۹۰۷ء میں حضرت بیوی صاحبہ لاہور تشریف لے گئیں تو ان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کیلئے بٹالہ تک تشریف لے گئے.میں نے بھی مولوی سید محمد احسن صاحب مرحوم کے واسطے سے حضرت صاحب سے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت حاصل کی اور حضرت صاحب نے اجازت عطا فرمائی مگر مولوی صاحب سے فرمایا کہ فخر الدین سے کہہ دیں کہ اور کسی کو خبر نہ کرے اور خاموشی سے ساتھ چلا چلے ، بعض اور لوگ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہم رکاب ہوئے.حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہار باری باری اُٹھاتے تھے.قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھول کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورۃ فاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسر اور ق نہیں اُلٹا.راستہ میں ایک دفعہ نہر پر حضرت صاحب نے اتر کر پیشاب کیا اور پھر وضو کر کے پالکی میں بیٹھ گئے اور اسکے بعد پھر اسی طرح سورۃ فاتحہ کی تلاوت میں مصروف ہو گئے.بٹالہ پہنچ کر حضرت صاحب نے سب خدام کی معیت میں کھانا کھایا اور پھر سٹیشن پر تشریف لے گئے جب حضرت صاحب سٹیشن پر پہنچے تو گاڑی آچکی تھی اور حضرت بیوی صاحبہ گاڑی سے اتر کر آئی ہوئی تھیں اور حضرت صاحب کو ادھر اُدھر دیکھ رہی تھیں.حضرت صاحب بھی بیوی صاحبہ کو دیکھتے پھرتے تھے کہ اتنے میں لوگوں کے مجمع میں حضرت بیوی صاحبہ کی نظر حضرت صاحب پر پڑ گئی اور انہوں نے ”محمود کے ابا کہہ کر حضرت صاحب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر حضرت صاحب نے سٹیشن پر
سیرت المہدی 396 حصہ دوم ہی سب لوگوں کے سامنے بیوی صاحبہ کے ساتھ مصافحہ فرمایا اور ان کو ساتھ لے کر فرودگاہ پر واپس تشریف لے آئے.439 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج بتاریخ ۷ اکتو بر ۱۹۲۷ء بروز جمعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بہت بڑی یادگار اور خداوند عالم کی ایک زبر دست آیت مقبرہ بہشتی میں سپرد خاک ہوگئی یعنی میاں عبداللہ صاحب سنوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود کا وہ کرتہ جس پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے دفن کر دیا گیا.خاکسار نے سیرۃ المہدی حصہ اول میں میاں عبداللہ صاحب کی زبانی وہ واقعہ قلم بند کیا ہے جو حضرت مسیح موعود کے کرتہ پر چھینٹے پڑنے کے متعلق ہے.حضرت صاحب نے میاں عبداللہ صاحب کے اصرار پر ان کو یہ کر نہ عنایت کرتے ہوئے ہدایت فرمائی تھی کہ یہ کر نہ میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر ان کے ساتھ دفن کر دیا جاوے تاکہ بعد میں کسی زمانہ میں شرک کا موجب نہ بنے.سو آج میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر وہ ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا.مجھے یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ دکھایا تھا اور میں نے وہ چھینٹے بھی دیکھے تھے جو خدائی ہاتھ کی روشنائی سے اس پر پڑے تھے.اور جب آج آخری وقت میں غسل کے بعد یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا تو اس وقت بھی خاکسار وہاں موجود تھا.میاں عبداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا دیا ہوا ایک صابن کا ٹکڑا اور ایک بالوں کو لگانے کے تیل کی چھوٹی بوتل اور ایک عطر کی چھوٹی سی شیشی بھی رکھی ہوئی تھی اور فسل کے بعد جو اسی صابن سے دیا گیا.یہی تیل اور عطر میاں عبداللہ صاحب کے بالوں وغیرہ کو لگایا گیا.اور کرتہ پہنائے جانے کے بعد خاکسار نے خود اپنے ہاتھ سے کچھ عطر اس کرتہ پر بھی لگایا.نماز جنازہ سے قبل جب تک حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ کی آمد کا انتظار رہا لوگ نہایت شوق اور درد و رقت کے ساتھ میاں عبداللہ صاحب کو دیکھتے رہے جو اس کرتہ میں ملبوس ہو کر عجیب شان میں نظر آتے تھے اور جنازہ میں اس کثرت کے ساتھ لوگ شریک ہوئے کہ اس سے قبل میں نے قادیان میں کسی جنازہ میں اتنا مجمع نہیں دیکھا.اس کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح کے سامنے میاں عبداللہ صاحب کو اس کرتہ کے ساتھ بہشتی مقبرہ کے خاص
سیرت المہدی 397 حصہ دوم بلاک میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسابقون اوراولون خدام کیلئے مخصوص ہے، دفن کیا گیا اور حضرت خلیفہ مسیح نے دفن کئے جانے کے وقت فرمایا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ کرتہ بعد نسل میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا ان کی ایک حلفیہ شہادت اخبار میں شائع ہونی چاہیے تا کہ کسی آئندہ زمانہ میں کوئی شخص کو کی جعلی کرنہ پیش کر کے یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کرتہ ہے جس پر چھینٹے پڑے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب مرحوم سابقون اولون میں سے تھے اور حضرت مسیح موعودؓ کے ساتھ ان کو ایک غیر معمولی عشق تھا.میرے ساتھ جب وہ حضرت صاحب کا ذکر فرماتے تھے تو اکثر ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور بعض اوقات ایسی رقت طاری ہو جاتی تھی کہ وہ بات نہیں کر سکتے تھے، جب وہ پہلے پہل حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی اور اس کے بعد آخری لمحہ تک ایسے روز افزوں اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مرحوم نے اس تعلق کو نبھایا کہ جوصرف انبیاء کے خاص اصحاب ہی کی شان ہے.ایسے لوگ جماعت کیلئے موجب برکت ورحمت ہوتے ہیں اور ان کی وفات ایک ایسا قومی نقصان ہوتی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی.مرحوم کو اس خاکسار کے ساتھ بہت انس تھا اور آخری ایام میں جب کہ وہ پنشن لے کر قادیان آگئے تھے.انہوں نے خاص شوق کے ساتھ ہمارے اس نئے باغ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جو فارم کے نام سے مشہور ہے اور جو یہ خاکسار کچھ عرصہ سے تیار کروا رہا ہے اور پھر مرحوم نے اس انتظام کو ایسی خوبی کے ساتھ نبھایا کہ میں اس کے تفکرات سے قریباً بالکل آزاد ہو گیا.اللہ تعالیٰ مرحوم کو عالم اُخروی میں اعلیٰ انعامات کا وارث کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص قرب میں جگہ عطا فرمائے جن کا عشق مرحوم کی زندگی کا جزو تھا اور مرحوم کے پسماندگان کوصبر جمیل کی توفیق دے.اللھم آمین بوقت وفات مرحوم کی عمر کم و بیش چھیاسٹھ سال کی تھی.وفات مرض فالج سے ہوئی جسمیں مرحوم نے تیرہ دن بہت تکلیف سے کاٹے.فالج کا اثر زبان پر بھی تھا اور طاقت گویائی نہیں رہی تھی مگر ہوش قائم تھے.یوں تو سب نے مرنا ہے مگر ایسے پاک نفس بزرگوں کی جدائی دل پر سخت شاق گذرتی ہے اور زیادہ
سیرت المہدی 398 حصہ دوم افسوس یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ صحبت یافتہ یکے بعد دیگرے گذرتے جاتے ہیں اور ابھی تک ہم میں اکثر نے ان سے وہ درس وفانہیں سیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے لائے تھے اور جس کے بغیر ایک مذہبی قوم کی ترقی محال ہے.440 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ہماری تائی صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں تمہارے تایا سے عمر میں چند ماہ بڑی تھی اور تمہارے تایا تمہارے ابا سے دو سال بڑے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حساب سے ہماری تائی صاحبہ کی عمر اس وقت جو اکتو بر ۱۹۲۷ء ہے قریباً ستانوے سال کی بنتی ہے مگر یہ عمروں کا معاملہ کچھ شکی سا ہے کیونکہ سارا حساب زبانی ہے ، اس زمانہ میں عمروں کے متعلق کوئی تحریری ضبط نہیں تھا.نیز تائی صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہارے دادا کے ہاں صرف چار بچے پیدا ہوئے.سب سے بڑی مراد بیگم تھیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے اور پھر تمہارے ابا اور ان کے ساتھ ایک لڑکی توام پیدا ہوئی مگر یہ لڑ کی جلد فوت ہو گئی.ان سب میں دو، دو سال کا فرق تھا.6441 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گذرتی ہے تو اس وقت تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں میں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والد صاحب بہت ماہر طبیب ہیں.آپ ان سے علاج کرائیں چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے.جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تایا مجلس لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں تمہارے ابا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب تھے.تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے.اس کے بعد میں جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہو چکے تھے
سیرت المہدی 399 حصہ دوم اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جارہی تھی.چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا.اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ ( قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے ) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی اور وہ گاؤں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے.بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمد ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہوگی.چنانچہ میر صاحب نے مان لیا.اور ہم یہاں آکر رہنے لگے ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپور سے قادیان آتے تھے.تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے.اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی.ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کیلئے تیار کئے اور بھیجے گی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوادیتی ہوں.چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آ کر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گزار ہوئے تھے.اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے ان کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی تھی.اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے.لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت برا منایا کہ کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں.کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام اُن کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں انہیں تکلیف پہنچاتی تھیں مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے.ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہتے تھے کہ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے.اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے اور چونکہ تمہاری اماں اس وقت جوان ہو چکی تھیں ہمیں ان کی شادی کا فکر پیدا ہوا.اور میر صاحب نے ایک خط تمہارے ابا کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے دعا کریں خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے.تمہارے ابا نے جواب میں لکھا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں.اور آپ کو
سیرت المہدی 400 حصہ دوم معلوم ہے کہ گومیری پہلی بیوی موجود ہے اور بچے بھی ہیں مگر آج کل میں عملاً مجردہی ہوں وغیر ذالک.میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں اسے بُرا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا.اور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں کے لئے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی حالانکہ پیغام دینے والوں میں سے بعض اچھے اچھے متمول آدمی بھی تھے اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمہارے نانا کے بہت تعلقات تھے انہوں نے کئی دفعہ تمہارے ابا کے لئے سفارشی خط لکھا اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بڑے نیک اور شریف اور خاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق تھا.دوسرے ان دنوں میں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا.بالآخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی.اسے رشتہ دے دو.میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا.جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا.کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے کیا ساری عمر اسے یونہی بٹھا چھوڑو گی.میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجہ اچھا ہے.میر صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزا غلام احمد کا بھی خط آیا ہوا ہے.جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے میں نے کہا کہ اچھا.پھر غلام احمد کولکھ دو.چنانچہ تمہارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا اور اس کے آٹھ دن بعد تمہارے ابا دہلی پہنچ گئے.ان کے ساتھ ایک دو نو کر تھے اور بعض ہندو اور مسلمان ساتھی تھے.جب ہماری برادری کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا ہے.اور کئی لوگ ان میں سے اسی ناراضگی میں نکاح میں شامل بھی نہیں ہوئے مگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہوا تھا.نکاح پڑھا کر رخصتانہ کر دیا.تمہارے ابا اپنے ساتھ کوئی زیور یا کپڑا وغیرہ نہیں لے گئے تھے.بلکہ صرف ڈھائی سو روپیہ نفقد لے گئے تھے.اس پر بھی برادری والوں نے بہت طعن دیئے کہ اچھا نکاح ہوا ہے کہ کوئی زیور کپڑا ساتھ نہیں آیا.جس کا جواب ہماری طرف سے یہ دیا گیا کہ مرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں
سیرت المہدی 401 حصہ دوم کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں ہیں.اور گھر کی عورتیں ان کے مخالف ہیں.اور پھر وہ جلدی میں آئے ہیں.اس حالت میں وہ زیور اور کپڑے کہاں سے بنوا لاتے.الغرض برادری کی طرف سے اس قسم کے طعن تشنیع بہت ہوئے اور مزید برآں یہ اتفاق ہوا کہ جب تمہاری اماں قادیان آئیں تو یہاں سے ان کے خط گئے کہ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوں اور شائد میں اس غم اور گھبراہٹ سے مر جاؤں گی.چنانچہ ان خطوں کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لوگوں کو اور بھی اعتراض کا موقعہ مل گیا اور بعض نے کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تو اس کی نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیوں خراب کی اس پر ہم لوگ بھی کچھ گھبرائے اور رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد میر صاحب قادیان آکر تمہاری اماں کو لے گئے.اور جب وہ دہلی پہنچے تو میں نے اس عورت سے پوچھا جس کو میں نے دلی سے ساتھ بھیجا تھا کہ لڑکی کیسی رہی؟ اس عورت نے تمہارے ابا کی بہت تعریف کی اور کہا کہ لڑکی یونہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہوگی ورنہ مرزا صاحب نے تو ان کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں.اور تمہاری اماں نے بھی کہا کہ مجھے انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا مگر میں یونہی گھبرا گئی تھی اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد تمہاری اماں پھر قادیان آگئیں اور پھر بہت عرصہ کے بعد واپس ہمارے پاس گئیں.442 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے جو پہلے راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے اور آج کل قادیان میں ہجرت کر آئے ہوئے ہیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط دیا جو حضور نے سیٹھی صاحب کو اپریل ۱۸۹۸ء میں اپنے دست مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا.اس خط میں مسئلہ سود کے متعلق حضرت کا ایک اصولی فیصلہ درج ہے اور اس لئے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الہی پر
سیرت المہدی 402 حصہ دوم اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کر دے گا.اُس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیے.اور سود کے بارے میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے.اور وہ یہ ہے کہ جس قد ر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جگہ جمع کرتے جائیں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں.اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو.بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو.میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے.حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے.لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جائے یعنی اشاعت دین پر خرچ کیا جائے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں جیسے چوری یار ہر نی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہو سکتا ہے.دیکھنا چاہیے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں.کس قدر روپیہ کی ضرورت ہے.گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں.اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں.یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بریگا نہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے.اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں.یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں.اس ضرورت کے وقت یہ ایک
سیرت المہدی 403 حصہ دوم ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے سوشکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں.ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دیگا.ہاں ماسوائے اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیے زیادہ خیریت ہے.“ والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان -۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان ( کیا ہے) خرچ ہوسکتا ہے.اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا.غ ، خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط سے جسے میں خوب اچھی طرح پہچانتا ہوں کہ وہ آپ ہی کا ہے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پریت لگتی ہیں.(۱) سودی آمدنی کا روپیہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکتا ہے.بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑ جاوے تو اس کے واسطے یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے.مسلمان تاجر جو آج کل گرد و پیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کر سکتے ہیں.(۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپے سے الگ حساب کر کے جمع کرنا چاہیے تا کہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جا سکے.(۳) سود کا روپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے.(۴) سودی آمد کا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہو سکتا ہے جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً
سیرت المہدی 404 حصہ دوم طبع واشاعت لٹریچر.مصارف ڈاک وغیر ذلک.(۵) دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جا سکتے ہیں جن کا استعمال گوافراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضامندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں یعنی ان کے حصول میں کوئی رنگ جبر اور دھو کے کا نہ ہو جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈا کہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتا ہے.(۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتوی کی مؤید ہے.(۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو عمد سود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اسی صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپے کا وارث بن جاوے.(۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میں جو طریق سود کے لین دین کا قائم ہو گیا ہے اور جس کی وجہ سے فی زمانہ کوئی بڑی تجارت بغیر سودی لین دین میں پڑنے کے نہیں کی جاسکتی.وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینامذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہوگا.کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کو جو ایک تاجر تھے اور اسی قسم کے حالات ان کو پیش آتے تھے اس فتویٰ کی اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قرار دیا ہے.گویا حضرت صاحب کا منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو ایک غرض و غایت بنا کر کاروبار نہ کرے.لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گردو پیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے تو اس میں مضائقہ نہیں اور اس صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سود میں ملوث ہونے کے اندیشہ میں مسلمان لوگ تجارت چھوڑ دیں یا اپنے کاروبار کوصرف معمولی دکانوں تک محد و درکھیں جن میں سود کی دقت بالعموم پیش نہیں آتی.اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کر لیں.(۹) اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کی بہبودی کے لئے بینک بھی جاری کئے جا سکتے ہیں جن میں اگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے تو بشرائط مذکورہ بالا حرج نہیں.
سیرت المہدی 405 حصہ دوم (۱۰) جو شخص اس فتویٰ کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عند اللہ ثواب کا مستحق ہوگا.(۱۱) ایک اصولی بات اس خط میں موجودہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں.اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کر لینی کافی ہے کہ کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے اور یہ نہیں کہ ان کے سامنے بالکل ہی نہ آئے.کیونکہ بعض عورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیے کہ خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی ایسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے تھے جو غیر محرم ہوتی تھی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریب بندی ہوتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کیا کرتا تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں.لیکن بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ دراصل وہ اسی حکمت سے تھا.(۱۲) ایک بات حضرت صاحب کے اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو موجودہ نازک وقت اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میں سب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت ونصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں.اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے اس کے اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے پورے دستخط کے صرف ”غ “ کا حرف درج فرمایا ہے جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں.443 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ ابھی حضرت مسیح
سیرت المہدی 406 حصہ دوم موعود علیہ السلام کا کوئی دعوئی وغیرہ نہیں تھا اور میں نے آپ کا نام تک نہیں سُنا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نظارہ دکھایا گیا جس میں میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ بہت سے عالی مرتبہ صحابہ بھی تھے اور اس جماعت میں ایک شخص ایسا تھا جس کا لباس وغیرہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ سے مختلف تھا اس کے متعلق میں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ کون شخص ہے؟ جس پر آپ نے فرمایا هذا عیسى یعنی یہ ایسے صحیح ہیں اور آپ نے فرمایا کہ یہ قادیان میں رہتا ہے اور تم اس پر ایمان لانا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے قادیان کی تلاش شروع کی اور ضلع لدھیانہ میں ایک قادیان گاؤں ہے وہاں آیا گیا مگر کچھ پتا نہ چلا.آخر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب لدھیانہ تشریف لے گئے تو میں آپ کا نام سُن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے دیکھتے ہی آپ کو پہچان لیا کہ یہ وہی ہیں جو مجھے آنحضرت ﷺ کے ساتھ خواب میں دکھائے گئے تھے اور جن کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ یہ عیسی ہیں تم اس پر ایمان لانا مگر اس وقت آپ کو مسیحیت کا کوئی دعوی نہ تھا اور نہ ہی سلسلہ بیعت شروع ہوا تھا غرض اس وقت سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقدین میں شامل ہو گیا اور جب پہلی دفعہ لدھیانہ میں بیعت ہوئی تو میں نے پہلی بیعت کے دوسرے دن چونسٹھ نمبر پر بیعت کی اور پہلے دن سب سے پہلی بیعت حضرت مولوی نور الدین صاحب نے کی تھی اور ان کے دوسرے نمبر پر شائد میر عباس علی نے کی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ صاحب بہت پرانے آدمیوں میں سے ہیں اور ان دنوں قادیان ہجرت کر کے آگئے ہیں اور معمر آدمی ہیں.6444 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کہ میں قادیان میں آیا ہوا تھا حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ امرتسر سے کچھ سودا منگوانا ہے آپ جا کر لے آئیں اور آپ نے مجھے بٹالہ تک سواری کے لئے اپنا گھوڑا دینا چاہا مگر میں نے یہ کہ کر عذر کیا کہ حضور گھوڑے کو میں کہاں سنبھالتا پھروں گا میں بٹالہ تک پیدل ہی چلا جاتا ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں بٹالہ میں میاں عبد الرحیم صاحب ہیں ان کے مکان پر گھوڑا چھوڑ جانا اور آتے ہوئے لے آنا.میں
سیرت المہدی 407 حصہ دوم نے عرض کیا نہیں حضور میں پیدل ہی جاتا ہوں چنانچہ میں پیدل گیا اور بٹالہ سے ریل پر سوار ہوکر امرتسر سے سودا لے آیا.حافظ صاحب بیان کرتے تھے کہ میاں عبد الرحیم صاحب مولوی محمد حسین بٹالوی کے والد تھے اور حضرت صاحب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے.نیز حافظ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود گھوڑے کی اچھی سواری کر لیتے تھے میں نے کئی دفعہ اوائل میں آپ کو گھوڑے پر چڑھے ہوئے دیکھا ہے باوجود اس کے کہ آپ کا دایاں ہاتھ بوجہ ضرب کے کمزور تھا.آپ اچھی سواری کرتے تھے.اور شروع شروع میں آپ کے گھر میں کوئی نہ کوئی گھوڑار ہا کرتا تھا.445 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے مجھ سے بیان کیا کہ شروع شروع میں بوجہ اس کے میری بیوی کو اٹھرا کا مرض تھا میری اولا دضائع ہو ہو جاتی تھی اور اس کے لئے میں ایک دفعہ قادیان آیا اور حضرت خلیفتہ امسیح اول کا علاج شروع کیا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کے لئے عرض کرتارہا انہی دنوں میں ایک دن میں حضرت خلیفہ اول کے مطب میں بیٹھا تھا کہ آپ تشریف لائے اور مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے.میاں غلام نبی تمہیں مبارک ہو! اب تمہیں زیادہ علاج وغیرہ کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمہارے لئے لڑکے کی بشارت دے دی ہے اور پھر انہوں نے مجھے یہ قصہ سُنایا کہ آج صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین کے ساتھ سیر کے لئے اپنے باغ کو تشریف لے گئے تھے.تمہاری بیوی بھی ساتھ چلی گئی تھی اور میری بیوی اور بعض مستورات بھی ساتھ تھیں باغ میں جا کر حضرت مسیح موعود نے کچھ شہتوت منگوائے جس پر بعض عورتیں حضرت کے لئے شہتوت لانے کے واسطے گئیں اور تمہاری بیوی بھی گئی.مگر اور عورتیں تو یونہی درخت پر سے شہتوت جھاڑ کر لے آئیں مگر تمہاری بیوی باغ کے ایک طرف جا کر اور خود شہتوت کے درخت پر چڑھ کر اچھے اچھے شہتوت اپنے ہاتھ سے توڑ کر لائی.حضرت صاحب نے جب ان دونوں شہتوتوں کو دیکھا تو فرمایا کہ کیا بات ہے یہ شہتوت میلے ہیں اور یہ بہت صاف ہیں؟ حضرت بیوی صاحبہ نے عرض کیا کہ یہ جو صاف شہتوت ہیں یہ غلام نبی کی بیوی خود درخت پر چڑھ کر آپ کے لئے ایک ایک دانہ تو ڑ کر لائی ہے اس پر حضرت صاحب
سیرت المہدی 408 حصہ دوم بہت خوش ہوئے اور اس کے لئے دعا فرمائی اور فرمایا کہ خدا اسے بچہ دے !میاں غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک لڑکا عطا کیا لیکن لڑکا ڈیڑھ سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا اور میں نے اس کی وفات پر حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ یہ لڑکا تو حضور کی دعا اور بشارت سے ہوا تھا.مگر یہ بھی فوت ہو گیا ہے.حضور نے میرے اس خط کے جواب میں مندرجہ ذیل خط ارسال فرمایا.ے ارا کتوبر ۱۹۰۲ء.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلے.مجھی عزیزی.میاں شیخ غلام نبی صاحب سلمہ تعالے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.کارڈ پہنچا آپ کو اپنے فرزند دلبند کی وفات پر بہت صدمہ ہوا ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے.یہ خیال آپ دل میں نہ لاویں کہ اس بچے کی پیدائش تو بطور معجز تھی پھر وہ کیوں فوت ہو گیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا نَفُسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُبُسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ (البقرة: ۱۰۷) یعنی اگر کوئی نشان یا معجزہ ہم دور کر دیتے ہیں تو اس سے بہتر اور نشان ظاہر کرتے ہیں اور اولاد کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے.اِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (الانفال: (۲۹) یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولا د تمہارے لئے فتنہ ہے.یعنی آزمائش کی جگہ ہے.خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ تم میں سے کون قائم رہتا ہے اور کون ٹھوکر کھاتا ہے.بالخصوص جبکہ آپ کی عمر ہنوز بہت چھوٹی ہے اور مرد کو تو نوے ۹۰ برس کی عمر میں بھی اولا د ہو سکتی ہے اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ اب کی دفعہ تو ثواب حاصل کر لو اور اس آیت کی رو سے موعودہ رحمت میں سے حصہ لے لوجو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرہ:۱۵۶) سو ہر گز خوف نہ کرو اور خدا تعالیٰ کے دوسرے معجزہ کے منتظر رہو.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان.“ میاں غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا یہ خط مجھے ملا تو مجھے بہت ہی خوشی
سیرت المہدی 409 حصہ دوم ہوئی اور لڑکے کی وفات کا سارا غم دل سے ڈھل گیا اور جو لوگ ماتم پرسی کیلئے اس وقت میرے گھر آئے ہوئے تھے ان سب سے میں نے کہہ دیا کہ اب آپ لوگ جائیں مجھے کوئی غم نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے ایک اور لڑکے کی بشارت لکھ کر بھیجی ہے.چنانچہ میاں غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور لڑ کا عطا کیا جو خدا کے فضل سے اب تک زندہ موجود ہے اور اس کا نام کرم الہی ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے صاحب اولاد ہے.446 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود دعا کا ذکر کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دعا کی تو یہ مثال ہے کہ ”جو منگے سومر رہے، مرے سومنگن جائے“ یعنی جو شخص مانگتا ہے اسے اپنے واسطے ایک موت قبول کرنے کو تیار ہو جانا چاہیے اور جو مر رہا ہو وہی مانگنے کیلئے نکلتا ہے.مطلب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کیلئے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت وارد کرے اور آستانہ درگاہ باری پر ایک بے جان مردہ کی طرح گر جاوے اور خدا کے دروازے کے سوا اپنی ساری امیدوں کو قطع کر دے.اور مصرع کے دوسرے حصہ کا مطلب یہ ہے کہ مانگتا بھی دراصل وہی ہے جو مر رہا ہو یعنی جسے کوئی ایسی حقیقی ضرورت پیش آگئی ہو کہ اس کے لئے سوائے سوال کے کوئی چارہ نہ رہے لیکن دعا کے مسئلہ کے ساتھ صرف مصرع کے پہلے حصہ کا تعلق معلوم ہوتا ہے.واللہ اعلم.447 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو ہمارے حقیقی ماموں ہیں ان کا ایک مضمون الحق دہلی مورخہ ۱۹/۲۶ جون ۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہوا تھا یہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک بہت عمدہ مضمون ہے اور میر صاحب موصوف کے ہیں سالہ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی ہے.لہذا درج ذیل کیا جاتا.میر صاحب تحریر فرماتے ہیں: احمدی تو خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں موجود ہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی مگر احمد کے
سیرت المہدی 410 حصہ دوم دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے احمدیوں میں بھی ایک فرق ہے.دیکھنے والوں کے دل میں ایک سرور اور لذت اسکے دیدار اور صحبت کی اب تک باقی ہے.نہ دیکھنے والے بارہا تاسف کرتے پائے گئے کہ ہائے ہم نے جلدی کیوں نہ کی اور کیوں نہ اس محبوب کا اصلی چہرہ اس کی زندگی میں دیکھ لیا.تصویر اور اصل میں بہت فرق ہے اور وہ فرق بھی وہی جانتے ہیں جنھوں نے اصل کو دیکھا.میرا دل چاہتا ہے کہ احمد (علیہ السلام) کے حلیہ اور عادات پر کچھ تحریر کروں.شاید ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس ذات بابرکت کو نہیں دیکھا حظ اُٹھاویں.حلیہ مبارک : بجائے اس کے کہ میں آپ کا حلیہ بیان کروں اور ہر چیز پر خود کوئی نوٹ دوں یہ بہتر ہے کہ میں سرسری طور پر اس کا ذکر کرتا جاؤں اور نتیجہ پڑھنے والے کی اپنی رائے پر چھوڑ دوں.آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ ” آپ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے“ مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرایہ نہ ہو کہ یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا.“ اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اس امت کیلئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا.آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت، ہیبت اور استکبار نہ تھے.بلکہ فروتنی ، خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ میں بیان کرتا ہوں کہ جب حضرت اقدس چولہ صاحب کو دیکھنے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سایہ میں کپڑا بچھا دیا گیا اور سب لوگ بیٹھ گئے.آس پاس کے دیہات اور خاص قصبہ کے لوگوں نے حضرت صاحب کی آمدسُن کر ملاقات اور مصافحہ کیلئے آنا شروع کیا.اور جو شخص آتنا مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف آتا اور اُن کو حضرت اقدس سمجھ کر مصافحہ کر کے بیٹھ جاتا.غرض کچھ دیر تک لوگوں پر یہ امر نہ کھلا ، جب تک خود مولوی صاحب موصوف نے اشارہ سے اور یہ کہہ کر لوگوں کو ادھر متوجہ نہ کیا کہ
سیرت المہدی 411 حصہ دوم حضرت صاحب یہ ہیں بعینہ ایسا واقعہ ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ کو مدینہ میں پیش آیا تھا.وہاں بھی لوگ حضرت ابو بکر کو رسول خدا سمجھ کر مصافحہ کرتے رہے جب تک کہ انہوں نے آپ پر چادر سے سایہ کر کے لوگوں کو ان کی غلطی سے آگاہ نہ کر دیا.جسم اور قد آپ کا جسم ڈبلا نہ تھا نہ آپ بہت موٹے تھے البتہ آپ دوہرے جسم کے تھے.قد متوسط تھا اگر چہ نا پانہیں گیا مگر اند از آپانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب ہوگا.کندھے اور چھاتی کشادہ اور آخر عمر تک سیدھے رہے نہ کمر جھکی نہ کندھے تمام جسم کے اعضاء میں تناسب تھا.یہ نہیں کہ ہاتھ بے حد لمبے ہوں یا تاتگیں یا اپنے اندازہ سے زیادہ لگا ہوا ہو.فرض کسی قسم کی بدصورتی آپ کے جسم میں نہ تھی.جلد آپ کی متوسط درجہ کی تھی نہ سخت، نہ کھردری اور نہ ایسی ملائم جیسی عورتوں کی ہوتی ہے.آپ کا جسم پلپلا اور نرم نہ تھا بلکہ مضبوط اور جوانی کی سی تختی لئے ہوئے.آخر عمر میں آپ کی کھال کہیں سے بھی نہیں لٹکی نہ آپ کے جسم پر جھریاں پڑیں.آپ کا رنگ:.رنگم چوگندم است و بموفرق بین ست زاں ساں که آمدست در اخبار سرورم آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی.اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائی کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلاء مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا.کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا.علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اسکے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں.یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا.اور ایمان کا نور بد کار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہوسکتا.ہتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژمردہ ہیں اور دل سخت منقبض
سیرت المہدی 412 حصہ دوم ہیں.بعض لوگ ناواقفی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں.ہر طرف سے اداسی کے آثار ظاہر ہیں.لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو ر ہے ہیں کہ اے خداوند ہمیں رسوا مت کر یو.غرض ایسا کہرام مچ رہا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہورہے ہیں مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سر بر آور دوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکرا تا ہوا.ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں.ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی.اِطَّلَعَ اللهُ عَلى هَمِّهِ وَغَمّه - مجھے الہام ہوا اس نے حق کی طرف رجوع کیا حق نے اس کی طرف رجوع کیا.کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اس نے اپنی سُنا دی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے.ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بے فکر اور بے غم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے.اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دیدیا.اور پھر اس نے آتھم کا رجوع اور بیقراری دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دیدی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خود ہی اسے چھوڑ دیتا ہے کہ جاؤ ہم تم پر رحم کرتے ہیں.ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.رام کی پیشگوئی پوری ہوئی مخبروں نے فوراً اتہام لگانے شروع کئے.پولیس میں تلاشی کی درخواست کی گئی.صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس یکا یک تلاشی کیلئے آموجود ہوئے.لوگ الگ کر دیئے گئے اندر کے باہر باہر کے اندر نہیں جاسکتے.مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی تحریر کا مشتبہ نکلے تو پکڑ لیں مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے اور خود پولیس افسروں کو لیجا لیجا کر اپنے بستے اور کتا بیں تحریریں اور خطوط اور کوٹھریاں اور مکان دکھا رہے ہیں.کچھ خطوط انہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کر لئے ہیں.مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ.گویا نہ صرف بے گناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام حجت کا موقعہ نزد یک آتا جاتا ہے.برخلاف اس کے باہر جولوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں کو دیکھو وہ ہر ایک کانسٹیبل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کر سہمے جاتے ہیں.ان کا رنگ فق ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں فکر ہے خود افسروں کو بلا بلا کر اپنے بستے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اسکے چہرے پر ایک
سیرت المہدی 413 حصہ دوم مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیشگوئی کی پورے طور پر کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی آلائش اور سازش سے پاک ثابت ہوگا.غرض یہی حالت تمام مقدمات، ابتلاؤں مصائب اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینان قلب کا اعلیٰ اور اکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں.آپ کے بال :.آپ کے سر کے بال نہایت باریک سیدھے، چکنے، چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے.گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے.گردن تک لمبے تھے.آپ نہ سرمنڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کترواتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پیٹے رکھے جاتے ہیں.سر میں تیل بھی ڈالتے تھے.چنبیلی یا حنا وغیرہ کا.یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے.ریش مبارک :.آپ کی داڑھی اچھی گھندا تھی، بال مضبوط ،موٹے اور چمکدار سید ھے اور نرم، حنا سے سرخ رنگے ہوئے تھے.ڈاڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل آپ کتر وادیتے تھے یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے.داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتر وائے تھے اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں.ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی.اور بہت خوبصورت.نہ اتنی کم کہ چھدری اور نہ صرف ٹھوڑھی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں.وسمہ مہندی :.ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگا یا کرتے تھے.پھر دماغی دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے وسمہ ترک کر دیا تھا.البتہ کچھ روز انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا مگر پھر ترک کر دیا.آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے.اس سے ریش مبارک میں سیاہی آگئی تھی.مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جوا کثر جمعہ کے جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوایا کرتے تھے.
سیرت المہدی 414 حصہ دوم ریش مبارک کی طرح موچھوں کے بال بھی مضبوط اور اچھے موٹے اور چمکدار تھے.آپ کہیں کتر واتے تھے.مگر نہ اتنی کہ جو وہابیوں کی طرح مونڈی ہوئی معلوم ہوں نہ اتنی لمبی کہ ہونٹ کے کنارے سے نیچی ہوں.جسم پر آپ کے بال صرف سامنے کی طرف تھے.پشت پر نہ تھے اور بعض اوقات سینہ اور پیٹ کے بال آپ مونڈ دیا کرتے تھے یا کتر وادیتے تھے.پنڈلیوں پر بہت کم بال تھے اور جو تھے وہ نرم اور چھوٹے اس طرح ہاتھوں کے بھی.چہرہ مبارک : آپکا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا اور حالانکہ عمر شریف ۷۰ اور ۸۰ کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام ونشان نہ تھا.اور نہ متفکر اور غصہ ور طبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے.رنج، فکر، تر در یا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنندہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار ہی دیکھتا تھا.آپ کی آنکھوں کی سیاہی ، سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آپ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کر بھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثر ہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی.گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے.اس جگہ یہ بات بھی بیان کے قابل ہے کہ آپ نے کبھی عینک نہیں لگائی اور آپ کی آنکھیں کام کرنے سے کبھی نہ تھکتی تھیں.خدا تعالیٰ کا آپ کے ساتھ حفاظت عین کا ایک وعدہ تھا جس کے ماتحت آپ کی چشمانِ مبارک آخر وقت تک بیماری اور تکان سے محفوظ رہیں البتہ پہلی رات کا ہلال آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں نظر نہیں آتا.ناک حضرت اقدس کی نہایت خوبصورت اور بلند بال تھی ، پتلی ، سیدھی، اونچی اور موزوں نہ پھیلی ہوئی تھی نہ موٹی.کان آنحضور کے متوسط یا متوسط سے ذرا بڑے.نہ باہر کو بہت بڑھے ہوئے نہ بالکل سر کے ساتھ لگے ہوئے قلمی آم کی قاش کی طرح اوپر سے
سیرت المہدی 415 حصہ دوم بڑے نیچے سے چھوٹے.قوت شنوائی آپ کی آخر وقت تک عمدہ اور خدا کے فضل سے برقرار رہی.رخسار مبارک آپ کے نہ پچکے ہوئے اندر کو تھے نہ اتنے موٹے کہ باہر کو نکل آویں.نہ رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں.بھنویں آپ کی الگ الگ تھیں.پیوستہ ابرونہ تھے.پیشانی اور سر مبارک: پیشانی مبارک آپ کی سیدھی اور بلند اور چوڑی تھی اور نہایت درجہ کی فراست اور ذہانت آپ کے جبیں سے ٹپکتی تھی.علم قیافہ کے مطابق ایسی پیشانی بہترین نمونہ اعلیٰ صفات اور اخلاق کا ہے.یعنی جو سیدھی ہو نہ آگے کو نکلی ہوئی نہ پیچھے کو دھسی ہوئی اور بلند ہو یعنی اونچی اور کشادہ ہو اور چوڑی ہو.بعض پیشانیاں گواونچی ہوں مگر چوڑ ان ماتھے کی تنگ ہوتی ہے ، آپ میں یہ تینوں خوبیاں جمع تھیں.اور پھر یہ خوبی کہ چیں بجبیں بہت کم پڑتی تھی.سر آپکا بڑا تھا، خوبصورت بڑا تھا، اور علم قیافہ کی روسے ہر سمت سے پورا تھا.یعنی لمبا بھی تھا، چوڑا بھی تھا، اونچا بھی اور سطح اوپر کی.اکثر حصہ ہموار اور پیچھے سے بھی گولائی درست تھی.آپ کی کنپٹی کشادہ تھی اور آپ کی کمال عقل پر دلالت کرتی تھی.لب مبارک :.آپ کے لب مبارک پہلے نہ تھے مگر تاہم ایسے موٹے بھی نہ تھے کہ برے لگیں.دہانہ آپ کا متوسط تھا.اور جب بات نہ کرتے ہوں تو منہ کھلا نہ رہتا تھا.بعض اوقات مجلس میں جب خاموش بیٹھے ہوں تو آپ عمامہ کے شملہ سے دہان مبارک ڈھک لیا کرتے تھے.دندان مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہو گئے تھے یعنی کیڑا لبعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی.چنانچہ ایک دفعہ ایک ڈاڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑ گیا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا.مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں.مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں.اگر چہ گرم کپڑے سردی گرمی برابر پہنتے تھے.تاہم گرمیوں میں پسینہ بھی خوب آجا تا تھا مگر آپ کے پسینہ میں کبھی بو نہیں آتی تھی خواہ کتنے ہی دن بعد کرتا بدلیں اور کیسا ہی موسم ہو.گردن مبارک :.آپ کی گردن متوسط لمبائی اور موٹائی میں تھی.آپ اپنے مطاع نبی کریم ﷺ کی
سیرت المہدی 416 حصہ دوم طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے غسل جمعہ حجامت ، حنا ، مسواک روغن اور خوشبو کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دُور تھا.لباس:.سب سے اول یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آپ کو کسی قسم کے خاص لباس کا شوق نہ تھا.آخری ایام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے.خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جو اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید بقر عید کے موقعہ پر اپنے ہمراہ نذرلاتے تھے وہی آپ استعمال فرمایا کرتے تھے.مگر علاوہ ان کے کبھی کبھی آپ خود بھی بنوالیا کرتے تھے.عمامہ تو اکثر خود ہی خرید کر باندھتے تھے.جس طرح کپڑے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے اُس طرح ساتھ ساتھ خرچ بھی ہوتے جاتے تھے یعنی ہر وقت تبرک مانگنے والے طلب کرتے رہتے تھے.بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپ ایک کپڑا بطور تبرک کے عطا فر ماتے تو دوسرا بنوا کر اس وقت پہنا پڑتا اور بعض سمجھدار اس طرح بھی کرتے تھے کہ مثلاً ایک کپڑا اپنا بھیج دیا اور ساتھ عرض کر دیا کہ حضور ایک اپنا اترا ہوا تبرک مرحمت فرما دیں.خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا.اب آپ کے لباس کی ساخت سنئے.عموماً یہ کپڑے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے.کر تہ یا قمیض ، پائجامہ ،صدری ،کوٹ ، عمامہ.اس کے علاوہ رومال بھی ضرور رکھتے تھے اور جاڑوں میں جرا ہیں.آپ کے سب کپڑوں میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت کھلے کھلے ہوتے تھے.اور اگر چہ شیخ صاحب مذکور کے آوردہ کوٹ انگریزی طرز کے ہوتے مگر وہ بھی بہت کشادہ اور لمبے یعنی گھٹنوں.نیچے ہوتے تھے اور جیتے اور چوغہ بھی جو آپ پہنتے تھے تو وہ بھی ایسے لمبے کہ بعض تو ان میں سے ٹخنے تک پہنچتے تھے.اسی طرح گرتے اور صدریاں بھی کشادہ ہوتی تھیں.بنیان آپ کبھی نہ پہنتے تھے بلکہ اس کی تنگی سے گھبراتے تھے.گرم تمیں جو پہنتے تھے ان کا اکثر او پر کا بٹن کھلا رکھتے تھے.اسی طرح صدری اور کوٹ کا اور تمیض کے کفوں میں اگر بٹن ہوں تو وہ بھی ہمیشہ گھلے
سیرت المہدی 417 حصہ دوم رہتے تھے.آپ کا طرز عمل مَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ “ کے ماتحت تھا کہ کسی مصنوعی جکڑ بندی میں جو شرعاً غیر ضروری ہے پابند رہنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا اور نہ آپ کو کبھی پرواہ تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برش کیا ہوا ہے یا بٹن سب درست لگے ہوئے ہیں یا نہیں صرف لباس کی اصلی غرض مطلوب تھی.بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے.آپ کی توجہ ہمہ تن اپنے مشن کی طرف تھی اور اصلاح امت میں اتنے محو تھے کہ اصلاح لباس کی طرف توجہ نہ تھی.آپ کا لباس آخر عمر میں چند سال سے بالکل گرم وضع کا ہی رہتا تھا.یعنی کوٹ اور صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے اور یہ علالت طبع کے باعث تھا.سردی آپ کو موافق نہ تھی.اس لئے اکثر گرم کپڑے رکھا کرتے تھے.البتہ گرمیوں میں نیچے کر یہ لمل کا رہتا تھا بجائے گرم گرتے کے.پاجامہ آپ کا معروف شرعی وضع کا ہوتا تھا ( پہلے غرارہ یعنی ڈھیلا مردانہ پاجامہ بھی پہنا کرتے تھے.مگر آخر عمر میں ترک کر دیا تھا مگر گھر میں گرمیوں میں کبھی کبھی دن کو اور عادتا رات کے وقت تہ بند باندھ کر خواب فرمایا کرتے تھے.صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے مگر کوٹ عموماً باہر جاتے وقت ہی پہنتے اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دوکوٹ بھی پہنا کرتے بلکہ بعض اوقات پوستین بھی.صدری کی جیب میں یا بعض اوقات کوٹ کی جیب میں آپکا رومال ہوتا تھا.آپ ہمیشہ بڑا رومال رکھتے تھے.نہ کہ چھوٹا معلمینی رومال جو آج کل کا بہت مروج ہے اسی کے کونوں میں آپ مشک اور ایسی ہی ضروری ادویہ جو آپ کے استعمال میں رہتی تھیں اور ضروری خطوط وغیرہ باندھ رکھتے تھے اور اسی رومال میں نقد و غیرہ جونز رلوگ مسجد میں پیش کر دیتے تھے باندھ لیا کرتے.گھڑی بھی ضرور آپ اپنے پاس رکھا کرتے مگر اس کی کنجی دینے میں چونکہ اکثر ناغہ ہو جاتا اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا.اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے.گھڑی کو ضرورت کیلئے رکھتے نہ زیبائش کیلئے.
رت المهدی 418 حصہ دوم آپ کو دیکھ کر کوئی شخص ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنع ہے یا یہ زیب وزینت دنیوی کا دلدادہ ہے.ہاں البتہ وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کے ماتحت آپ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے.صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہو تو بیت الخلا میں خود فینائل ڈالتے تھے.عمامہ شریف آپ ململ کا باندھا کرتے تھے اور اکثر دس گز یا کچھ اوپر لمبا ہوتا تھا.شملہ آپ لمبا چھوڑتے تھے کبھی کبھی شملہ کو آگے ڈال لیا کرتے اور کبھی اس کا پلہ دہن مبارک پر بھی رکھ لیتے.جبکہ مجلس میں خاموشی ہوتی.عمامہ کے باندھنے کی آپ کی خاص وضع تھی.نوک تو ضرور سامنے ہوتی مگر سر پر ڈھیلا ڈھالا لپٹا ہوا ہوتا تھا.عمامہ کے نیچے اکثر رومی ٹوپی رکھتے تھے اور گھر میں عمامہ اُتار کر صرف یہ ٹوپی ہی پہنے رہا کرتے مگر نرم قسم کی دوہری جو سخت قسم کی نہ ہوتی.جرا ہیں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور ان پر مسیح فرماتے.بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرا ہیں اوپر تلے چڑھا لیتے.مگر بار ہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی.کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی.کبھی ایک جراب سیدھی دوسری الٹی.اگر جراب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول ﷺ کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کر لیا کرتے تھے جس میں سے ان کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے.جوتی آپ کی دیسی ہوتی ، خواہ کسی وضع کی ہو، پوٹھواری ، لاہوری.لدھیانوی، سلیم شاہی ہر وضع کی پہن لیتے مگر ایسی جو کھلی کھلی ہو.انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا.گر گابی حضرت صاحب کو پہنے میں نے نہیں دیکھا.جوتی اگر تنگ ہوتی تو اس کی ایڑی بٹھا لیتے مگر ایسی جوتی کے ساتھ باہر تشریف نہیں لیجاتے تھے.لباس کے ساتھ ایک چیز کا اور بھی ذکر کر دیتا ہوں وہ یہ کہ آپ عصا ضرور رکھتے تھے.گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا تب تو نہیں مگر مسجد اقصی کو جانے کے وقت یا جب باہر سیر وغیرہ کیلئے
سیرت المہدی 419 حصہ دوم تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہوا کرتا تھا.اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اس پر سہارا یا بوجھ دے کر نہ چلتے تھے جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے.موسم سرما میں ایک دھتہ لیکر آپ مسجد میں نماز کیلئے تشریف لایا کرتے تھے جو اکثر آپ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا.اور اسے اپنے آگے ڈال لیا کرتے تھے.جب تشریف رکھتے تو پھر پیروں پر ڈال لیتے.کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ ،صدری، ٹوپی ، عمامہ رات کو اتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں.وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے.موسم گرما میں دن کو بھی اور رات کو تو اکثر آپ کپڑے اُتار دیتے اور صرف چادر یانگی باندھ لیتے.گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے تو اس کی خاطر بھی کر تہ اُتار دیا کرتے.تہ بندا اکثر نصف ساق تک ہوتا تھا اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالتوں میں مجھے یاد نہیں کہ آپ بر ہنہ ہوئے ہوں.آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یہ یا تو رومال میں یا اکثر ازار بند میں باندھ کر رکھتے.روئی دار کوٹ پہننا آپ کی عادت میں داخل نہ تھا.نہ ایسی رضائی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے بلکہ چادر پشمینہ کی یادھہ رکھا کرتے تھے اور وہ بھی سر پر کبھی نہیں اوڑھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی تھی.گلوبند اور دستانوں کی آپکو عادت نہ تھی.بستر آپ کا ایسا ہوتا تھا کہ ایک لحاف جس میں پانچ چھ سیر روٹی کم از کم ہوتی تھی اور اچھالمبا چوڑا ہوتا تھا.چادر بستر کے اوپر اور تکیہ اور تو شک.تو شک آپ گرمی ، جاڑے دونوں موسموں میں بسبب سردی کی ناموافقت کے بچھواتے تھے.تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات قلم ، بستہ اور کتابیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجودرہا کرتی تھیں کیونکہ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی.اور مَـــا انـــا مِـنَ
سیرت المہدی 420 حصہ دوم الْمُتَكَلِّفِينَ کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا.ایک بات کا ذکر کرنا میں بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے نہ بدلا کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا تب بدلتے تھے.خوراک کی مقدار : قرآن شریف میں کفار کیلئے وارد ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الانعام (محمد : ۱۳) اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ کا فرسات انتڑی میں کھاتا اور مومن ایک میں.مرادان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا اور دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے.جب مومن کا یہ حال ہوا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا.آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا.بلکہ سنتو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہوا کرتی تھی.اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضوردن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے.خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے.عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ کھانا نوش فرمایا کرتے تھے.علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے.مگر جہاں تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا.اوقات:.معمولاً آپ صبح کا کھانا ، ابجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھالیا کرتے تھے.کبھی شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھایا ہو.شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی.مگر کبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے.مگر معمول دو طرح کا تھا جن دنوں میں آپ بعد مغرب، عشاء تک باہر تشریف رکھا کرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہوا کرتا تھا ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان.مدتوں آپ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے.اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک
سیرت المہدی 421 حصہ دوم میں بچھا کرتا تھا.اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دستر خوان پر بیٹھا کرتے تھے.یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے.ایسے دستر خوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے بیں چھپیں تک ہو جایا کرتی تھی.گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے تو آپ کبھی تنہا مگر اکثرام المومنین اور کسی ایک یاسب بچوں کو ساتھ لیکر تناول فرمایا کرتے تھے.یہ عاجز کبھی قادیان میں ہوتا تو اس کو بھی شرف اس خانگی دستر خوان پر بیٹھنے کا مل جایا کرتا تھا.سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا.سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے.اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے.کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے:.جب کھانا آگے رکھا جاتا یا دستر خوان بچھتا تو آپ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے.کیوں جی شروع کریں؟ مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا یا سب کے آگے کھانا آ گیا.پھر آپ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھاتے.کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے.اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہوں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جور کا بی آپ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا.بہت بوٹیاں یا ترکاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کرٹکڑا کھا لیا کرتے تھے.لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے تھے.اور یہ آپ کی عادت تھی دستر خوان سے اٹھنے کے بعد سب سے زیادہ ٹکڑے روٹی کے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے.آپ
سیرت المہدی 422 حصہ دوم اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یہ کہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا.بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے.اور پھر انگلی کا سرا شور بہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تاکہ لقمہ نمکین ہو جاوے.پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی کھایا کرتے تھے.اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یا صرف کسی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھالیا کرتے تھے.آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوت حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے.بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو کھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا.ہڈیاں چوسنے اور بڑا نوالہ اُٹھانے ، زور زور سے چپڑ چپڑ کرنے ، ڈکاریں مارنے یا رکابیاں چاٹنے یا کھانے کے مدح و ذم اور لذائذ کا تذکرہ کرنے کی آپ کو عادت نہ تھی.بلکہ جو پکتا تھا وہ کھا لیا کرتے تھے.کبھی کبھی آپ پانی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی.اکڑوں بیٹھ کر آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دائیاں گھٹنا کھڑا رکھتے.کیا کھاتے تھے؟ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقصد آپ کے کھانے کا صرف قوت قائم رکھنا تھا نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا اس لئے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوت قائم رہتی تھی تا کہ آپ کے کام میں حرج نہ ہوعلاوہ بریں آپ کو چند بیماریاں بھی تھیں.جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پر ہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرما لیتے تھے اور اگر چہ آپ سے اکثر یہ پوچھ لیا جاتا تھا کہ آج آپ کیا کھائیں گے مگر جہاں تک ہمیں معلوم ہے خواہ کچھ پکا ہو آپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے اور کبھی کھانے کے بدمزہ ہونے پر اپنی ذاتی وجہ سے
رت المهدی 423 حصہ دوم خفگی نہیں فرمائی بلکہ اگر خراب پکے ہوئے کھانے اور سالن پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لئے اور یہ کہہ کر کہ مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہو گا.روٹی آپ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے.ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اور بکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے.بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعا تو مکھن ہے اور پھر ہم ناحق بدگمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں.مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی.کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقر خانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے.گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی یہ دال ماش کی یا اوڑ دھ کی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کا ضلع مشہور ہے.سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دستر خوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیب جانور کا آپ کھاتے تھے.پرندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر ، فاختہ وغیرہ کے لئے شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے.مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیے تھے.بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے.اور بنی اسرائیل میں اس کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی.حضور کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیا مگر آپ نے فرمایا کہ جائز ہے.جس کا جی چاہے کھا لے مگر حضور ﷺ نے چونکہ اس سے کراہت فرمائی اس لئے ہم کو بھی اس سے کراہت ہے.اور جیسا کہ وہاں ہوا تھا یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمان خانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا مگر آپ نے اسے اپنے قریب نہ آنے دیا.
سیرت المہدی 424 حصہ دوم مرغ کا گوشت ہر طرح کا آپ کھا لیتے تھے.سالن ہو یا بھنا ہوا.کباب ہو یا پلاؤ.مگر اکثر ایک ران پر ہی گزارہ کر لیتے تھے.اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بیچ بھی رہا کرتا تھا.پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گداز اور گلے گلے ہوئے چاولوں کا اور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوالیا کرتے تھے.مگر گڑ کے اور وہی آپ کو پسند تھے.عمدہ کھانے یعنی کباب ، مرغ ، پلا دیا انڈے اور اسی طرح فیرنی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوایا کرتے تھے جب ضعف معلوم ہوتا تھا.جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی ان دنوں میں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گزارہ کر لیتے.دودھ، بالائی پکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوت کے قیام اور ضعف کے دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں.بعض لوگوں نے آپ کے کھانے پر اعتراض کئے ہیں.مگر اُن بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض لگے ہوئے ہیں اور باوجود ان کے وہ تمام جہان سے مصروف پریکار ہے.ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اس کی نظر ہے.اصلاح امت کے کام میں مشغول ہے.ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہوئی ہے.دن رات تصانیف میں مصروف ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی اور عربی میں اور پھر وہی اُن کو لکھتا اور وہی کاپی دیکھتا.وہی پروف درست کرتا اور وہی اُن کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے.پھر سینکڑوں مہمانوں کے ٹھہر نے اُترنے اور علی حسب مراتب کھلانے کا انتظام.مباحثات اور وفود کا اہتمام.نمازوں کی حاضری مسجد میں روزانہ مجلسیں اور تقریریں.ہر روز بیسیوں آدمیوں سے ملاقات.پھر ان سے طرح طرح کی گفتگو.مقدمات کی پیروی.روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے اور پھر گھر میں اپنے بچوں اور اہل بیت کو بھی وقت دینا اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دعا ئیں.غرض اس قدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لئے قوت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کرے تو کون بیوقوف اور ناحق شناس ظالم طبع انسان ہے جو اس کے اس فعل پر اعتراض کرے.کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی.
سیرت المہدی 425 حصہ دوم مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت کے لئے اس کا استعمال نہیں کرتے.پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی نیت اور کام کرنے والے کے لئے تو وہ فرض ہے.حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسانوں کے لئے وہی کھانے یعیش میں داخل ہیں.اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاؤں کو صرف بطور قوت لایموت اور سد رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہو گا کہ اس خوراک کو لذائذ حیوانی اور حظوظ نفسانی سے تعبیر کرے.خدا تعالیٰ ہر مومن کو بدظنی سے بچائے.دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے.کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ ادھر دودھ پیا اور اُدھر دست آگیا اس لئے بہت ضعف ہو جاتا تھا.اس کے دور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے.دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی میں آپ کسی بھی پی لیا کرتے تھے اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرما لیتے تھے.ان چیزوں کے علاوہ شیرہ بادام بھی گرمی کے موسم میں جس میں چند دانہ مغز بادام اور چند چھوٹی الائچیاں اور کچھ مصری پیس کر چھن کر پڑتے تھے.پیا کرتے تھے.اور اگر چہ معمول نہیں مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر یخنی گوشت یا پاؤں کی پیا کرتے تھے یہ یخنی بھی بہت بدمزہ چیز ہوتی تھی یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا رس ہوا کرتا تھا.میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے.گاہے بگا ہے خود بھی منگواتے تھے.پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور، بمبئی کا کیلا ، ناگپوری سنگترے ،سیب ،سردے اور سرولی آم زیادہ پسند تھے.باقی میوے بھی گا ہے ما ہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے.گنا بھی آپ کو پسند تھا.شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدا نہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی
سیرت المہدی 426 حصہ دوم کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدانہ نڑوا کرسب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے.چائے کا میں پہلے اشارہ کر آیا ہوں آپ جاڑوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے.مگر عادت نہ تھی.سبز چائے استعمال کرتے اور سیاہ کو نا پسند فرماتے تھے.اکثر دودھ والی میٹھی پیتے تھے.زمانہ موجودہ کے ایجادات مثلاً برف اور سوڈا لیمونیڈ جنجر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے.بلکہ شدت گرمی میں برف بھی امرتسر.لاہور سے خود منگوالیا کرتے تھے.بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو کسی قسم کا پر ہیز نہ تھا نہ اس بات کی پر چول تھی کہ ہندو کی ساختہ ہے یا مسلمانوں کی.لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے.مٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے.میٹھے بھرے ہوئے سموسے یا بیدا نہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لئے منگوار کھتے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں.ایک بات یہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ آپ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور آپ دریافت فرمالیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس کس چیز کی اس کو عادت ہے.چنانچہ مولوی محمد علی ایم.اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا.تب تک آپ کو ان کی خاطر داری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ ، چائے لہسکٹ، مٹھائی ، انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا.تب آپ کو تسلی ہوتی.اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملا زمان لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا.بعض
سیرت المہدی 427 حصہ دوم موقعہ پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کیلئے سالن نہیں بچا یا وقت پر ان کے کھانا رکھنا بھول گیا تو اپنا سالن یا سب کھانا اسکے لئے اُٹھوا کر بھجوا دیا.بار ہا ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس تحفہ میں کوئی چیز کھانے کی آئی تو یا خود کوئی چیز آپ نے ایک وقت منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی یا خراب ہوگئی.اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا.یہ دنیا دار کا کام نہیں.ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طور پر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں.اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش فرمائی اور وہ اسی وقت کسی نو وارد یا مرید با اخلاص نے لا کر حاضر کر دی.آپ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی.پان البتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کیلئے یا کبھی گھر میں سے پیش کر دیا گیا تو کھا لیا کرتے تھے.یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہوئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے.حقہ تمباکو کو آپ ناپسند فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر کچھ حقہ نوشوں کو نکال بھی دیا تھا.ہاں جن ضعیف العمر لوگوں کو مدت العمر سے عادت لگی ہوئی تھی ان کو آپ نے بسبب مجبوری کے اجازت دے دی تھی.کئی احمدیوں نے تو اس طرح پر حقہ چھوڑا کہ ان کو قادیان میں وارد ہونے کے لئے حقہ کی تلاش میں تکیوں میں یا مرزا نظام الدین وغیرہ کی ٹولی میں جانا پڑتا تھا.اور حضرت صاحب کی مجلس سے اُٹھ کر وہاں جانا کیونکہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں جانے کا حکم رکھتا تھا اس لئے با غیرت لوگوں نے حقہ کو الوداع کہی.ہاتھ دھونا وغیرہ:.کھانے سے پہلے عموماً اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کرتے تھے.اور سردیوں میں اکثر گرم پانی استعمال فرماتے.صابن بہت ہی کم برتتے تھے.کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے.بعض ملانوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہرگز یہ تھی کی بھی کھانا کے بعد فرماتے تھے اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے جوا کثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے.
سیرت المہدی 428 حصہ دوم رمضان کی سحری کیلئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پر اٹھا ہوا کرتا تھا.اگر چہ آپ اس میں سے تھوڑ اسا ہی کھاتے تھے.کھانے میں مجاہدہ:.اس جگہ یہ بھی ذکر کر نا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں گوشتہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشاء الہی سے رکھے اور خوراک آپکی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کرنے کے بعد ہوتی تھی.اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے.تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو مگر اپنی جماعت کیلئے عام طور پر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغی اور قلمی خدمات کو مخالفان اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا.پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہش مند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے؟.لنگر خانہ میں آپ کے زمانہ میں زیادہ تر دال اور خاص مہمانوں کیلئے گوشت پکا کرتا تھا.مگر جلسوں یا عیدین کے موقعہ پر جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقعہ ہوتو آپ عام طور پر اس دن گوشت یا پلاؤ یا زردہ کا حکم دے دیا کرتے تھے کہ غربا کو بھی اس میں شریک ہونے کا موقع ملے.الہام:.کھانا کھلانے کی بابت آپ کو ایک الہامی حکم ہے.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَ تذکره صفحه ۶۳۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) یعنی اے نبی بھوکے اور سوال کرنے والے کو کھلاؤ.ادویات:.آپ خاندانی طبیب تھے.آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی طبیب گزر چکے ہیں اور آپ نے بھی طب سبقا سبقا پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطلب نہیں کیا.کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے.آپ اکثر مفید اور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی.اور آخر میں تو آپکی ادویات کی الماری میں زیادہ تر انگریزی ادویہ ہی رہتی تھیں.مفصل ذکر طبابت کے نیچے آئے گا.یہاں اتناذ کر کر دینا ضروری ہے کہ آپ کئی قسم کی مقوی دماغ ادویات
سیرت المہدی 429 حصہ دوم کا استعمال فرمایا کرتے تھے.مثلاً کوکا کولا.مچھلی کے تیل کا مرکب.ایسٹن سیرپ کو نین.فولا دوغیرہ اور خواہ کیسی ہی تلخ یا بد مزہ دوا ہو آپ اس کو بے تکلف پی لیا کرتے.سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے.اور ہمیشہ نہایت اعلی قسم کا منگوایا کرتے تھے.یہ مشک خرید نے کی ڈیوٹی آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجد مفرح عنبری کے سپرد تھی.عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی کی معرفت بھی آتے رہے.مشک کی تو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فورا نکال لیا.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کا ارادہ اس مضمون کو مکمل کرنے کا تھا مگر افسوس کہ نامکمل رہا اور اس کے باقی حصص ابھی تک لکھے نہیں گئے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس مضمون میں کہیں کہیں کسی قدر لفظی تبدیلی کر دی ہے.448 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف سے فال لینے سے منع فرمایا ہے.449 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے قرضہ سے نجات پانے کے لئے یہ دعا سکھائی تھی کہ پانچوں فرض نمازوں کے بعد التزام کے ساتھ گیارہ دفعہ لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ پڑھنا چاہیے اور میں نے اس کو بار ہا آزمایا ہے اور بالکل درست پایا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس قسم کی باتیں بطور منتر جنتر کے نہیں ہوتیں کہ کوئی شخص خواہ کچھ کرتار ہے وہ محض اس وظیفہ کے ذریعہ سے قرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے.بلکہ خدا کے پیدا کردہ اسباب کی رعایت نہایت ضروری ہے.اور ان معاملات میں اس قسم کی دعاؤں کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرے حالات موافق ہوں تو ایسی
سیرت المہدی 430 حصہ دوم دعا خدا کے رحم کو اپنی طرف کھینچنے کا موجب ہوتی ہے.نیز اس دعا کے الفاظ بھی ایسے ہیں کہ وہ اس قسم کے معاملات میں خدا کے رحم کو ابھارنے والے ہیں.واللہ اعلم.450 کی بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حقیقۃ الوحی کے عربی استفتاء کا پروف دیکھتے وقت مولوی محمد احسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ فلاں لفظ تو صحیح ہے مگر حضور نے اس پر نشان لگایا ہے.حضور نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی نشان نہیں لگایا.اور مولوی صاحب کے عرض کرنے پر کہ پھر یہ نشان کس نے لگایا ہے حضرت صاحب نے فرمایا کہ شائد میر مہدی حسین صاحب نے لگایا ہوگا.مولوی صاحب نے کہا کہ میر صاحب کو کیا حق تھا ؟ حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ان کو بھی ایک حق ہے جسے دخل بے جا کہتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے آخری ایام میں میر مہدی حسین صاحب حضرت صاحب کے کتب خانہ کے مہتم ہوتے تھے اور حضرت صاحب کے دیکھنے کے بعد کبھی کبھی اپنے شوق سے کاپی اور پروف وغیرہ دیکھ لیا کرتے تھے اور ان کی عادت میں چونکہ کسی قدر وہم ہے بعض اوقات اپنے خیال میں کسی لفظ کو سہو کا تب سمجھ کر اپنی رائے سے درست کرنا چاہتے تھے.451 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ نماز میں آپ نے ناک پر دائیاں ہاتھ پھیر کر کھلی کی.اسی طرح دوسری دفعہ میں نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام نے پاؤں کی کھجلی دائیں پاؤں سے رفع فرمائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح یا سیرت کے لحاظ سے اس روایت میں کوئی بات خاص طور پر قابل ذکر نہیں ہے.لیکن میں نے اس وجہ سے درج کر دیا ہے کہ تا یہ پتہ لگے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اپنے آقا کی حرکات وسکنات کا بار یک مطالعہ رکھتے تھے.دراصل یہ بات صرف غیر معمولی محبت سے حاصل ہو سکتی ہے کہ اس قدر جز کی باتیں محسوس طور پر نظر میں آکر ذہن میں محفوظ رہ جائیں.اس قسم کی روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق میرے پاس بہت پہنچی
سیرت المہدی 431 حصہ دوم ہیں جن کے اندر آپ کی سیرت و سوانح کے متعلق کوئی خاص مواد نہیں ہے.لیکن ان سے آپ کے صحابہ کی اس غیر معمولی محبت کا پتہ لگتا ہے جو ان کو آپ کی ذات سے تھی مگر میں نے بخوف طوالت عموماً ایسی روایات کو درج نہیں کیا.452 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بخاری میں حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے دو برتن علم کے دیئے ہیں ایک کو تو میں نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے اور اگر دوسرا ظاہر کروں تو میرا گلا کاٹا جاوے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی بعض باتیں بعض صحابہ سے مخفی رکھتے تھے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کا اگر یہی مطلب ہے تو چاہیے تھا کہ اس طرح کی خاص باتیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر وغیرہ خاص خاص صحابہ کو بتلائی جاتیں نہ کہ صرف ابو ہریرہ کو.پھر فرمایا کہ بعض اوقات انسان کو کوئی بات بتلائی جاتی ہے تو وہ اس کو اپنی سمجھ کے مطابق بڑی عظمت اور اہمیت دے کر خود بتلانا نہیں چاہتا.453 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا حضرت صاحب نے فرمایا کہ چلو ذرا سیر کر آئیں.چنانچہ حضرت صاحب بڑے بازار میں سے ہوتے ہوئے اس طرف تشریف لے گئے جہاں اب ہائی سکول ہے.جب سیر کرتے کرتے واپس شہر کو آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے يُنْجِيكَ مِنَ الْغَمِّ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا اور آپ نے فرمایا کہ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیں ہے شائد آئندہ کوئی غم پیش آئے.جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو الیس اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہے اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کالا یا جو بہت خراب تھا اور پڑھا نہیں جاتا تھا.یہ معلوم کر کے آپ کو بہت تشویش ہوئی اور فرمایا کہ حکیم محمد شریف ہمارا دوست ہے اور اس کو دل کی
سیرت المہدی 432 حصہ دوم بیماری ہے نگینہ گم ہو جانے سے اسے بہت تشویش ہوئی ہوگی اور اندیشہ ہے کہ اس کی بیماری زیادہ نہ ہو جاوے اور کتاب کے ورق کے متعلق فرمایا کہ بہت ردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بالکل خراب چھپتی ہے.اس طرح لوگ اسے نہیں پڑھیں گے اور ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں کہ دوبارہ اچھی کر کے چھپوا ئیں.المختصر حضرت صاحب اسی وقت بٹالہ کی طرف پا پیادہ روانہ ہو گئے اور میں اور دو اور آدمی جو اس وقت موجود تھے ساتھ ہو لئے.جب ہم دیوانیوال کے تکیہ پر پہنچے تو حضور نے فرمایا کہ نماز پڑھ لیں اور حضور نے خاکسار کو فرمایا کہ رحیم بخش تو نماز پڑھا.چنانچہ میں نے ظہر اور عصر کی نماز جمع کرائی جس کے بعد ہمارے ساتھی تو علیحدہ ہو گئے اور حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہو کر امرتسر پہنچے.جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہو کر کہا کہ یہ آپ کا نگینہ گم ہو گیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے اور جب مطبع میں جا کر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی جس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا.اس کے بعد آپ نے فرمایا رحیم بخش چلو رام باغ کی سیر کر آئیں.شہر سے باہر سیر کرتے کرتے خاکسار نے عرض کیا مرزا جی جولی ہوتے ہیں کیا وہ بھی باغوں کی سیر کیا کرتے ہیں؟ وہ تو عبادت الہی میں رات دن گزارتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ باغ کی سیر منع نہیں ہے پھر ایک قصہ سنایا کہ ایک بزرگ تھے وہ عمر بھر عبادت الہی کرتے رہے اور جب آخر عمر کو پہنچے تو خیال آیا کہ اپنے پیچھے کچھ نیکی چھوڑ جائیں چنانچہ ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر کتاب لکھنے بیٹھے تو چونکہ دنیا کا کچھ بھی دیکھا ہوا نہیں تھا کوئی مثال نہیں دے سکتے تھے کہ کس طرح نیکی اور بدی پر جزا سزا کا ہونا وغیرہ سمجھائیں آخر ان کو دنیا میں پھر کر دنیا کو دیکھنا پڑا اور پھر انہوں نے میلے وغیرہ بھی دیکھے.پھر آپ نے مجھ سے مسکراتے ہوئے فرمایا رحیم بخش ! ہم نے بھی براہین میں گلاب کے پھول کی مثال دی ہوئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۲ء یا۱۸۸۳ء یا ۱۸۸۴ء کا معلوم ہوتا ہے.کیونکہ براہین کی طبع کا یہی زمانہ ہے لیکن یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس روایت میں اليْسَ اللهُ بكَافٍ عَبْدَهُ والے نگینہ کی تیاری کا زمانہ بھی یہی بتایا گیا ہے.حالانکہ حضرت صاحب کی تحریرات سے ایسا
سیرت المہدی 433 حصہ دوم معلوم ہوتا ہے ( گواس معاملہ میں صراحت نہیں ہے ) کہ جب ہمارے دادا صاحب کی وفات ہوئی اور اس سے قبل حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا تو اسی زمانہ میں حضرت صاحب نے یہ انگوٹھی تیار کر والی تھی.سو یا تو اس روایت میں جو نگینہ کی تیاری کا ذکر ہے یہ کوئی دوسرا واقعہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ نگینہ دو دفعہ تیار کرایا گیا ہے اور یا اس کی پہلی تیاری ہی بعد میں براہین احمدیہ کے زمانہ میں ہوئی ہے یعنی الہام ۱۸۷۶ء میں ہوا ہے.جبکہ دادا صاحب کی وفات ہوئی اور انگوٹھی چند سال بعد میں تیار کرائی گئی ہے.اور اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی مؤخر الذکر صورت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے.واللہ اعلم.454 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب سے میں نے سُنا ہے کہ مولوی کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت صاحب بٹالہ کے رستے گورداسپور کی طرف روانہ ہوئے.آپ کے ساتھ رتھ میں خود خواجہ صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم تھے اور باقی لوگ یکوں میں پیچھے آرہے تھے.اتفاق یکے کچھ زیادہ پیچھے رہ گئے اور رتھا اکیلی رہ گئی.رات کا وقت تھا آسمان ابر آلود تھا اور چاروں طرف سخت اندھیرا تھا.جب رتھ وڈالہ سے بطرف بٹالہ آگے بڑھا تو چند ڈا کو گنڈاسوں اور چھریوں سے مسلح ہو کر راستہ میں آگئے اور حضرت صاحب کی رتھ کو گھیر لیا اور پھر وہ آپس میں یہ تکرار کرنے لگ گئے کہ ہر شخص دوسرے سے کہتا تھا کہ تو آگے ہو کر حملہ کر مگر کوئی آگے نہ آتا تھا اور اسی تکرار میں کچھ وقت گذر گیا اور اتنے میں پچھلے یکے آن ملے اور ڈا کو بھاگ گئے.قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب بیان کرتے تھے کہ اس وقت یعنی جس وقت ڈاکو حملہ کر کے آئے تھے میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی پیشانی سے ایک خاص قسم کی شعاع نکلتی تھی جس سے آپ کا چہرہ مبارک چمک اُٹھتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان اور بٹالہ کی درمیانی سڑک پر اکثر چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہو جاتی ہیں مگر اس وقت خدا کا خاص تصرف تھا کہ ڈا کو خود مرعوب ہو گئے اور کسی کو آگے آنے کی جرات نہیں ہوئی.قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ خواجہ صاحب سے انہی دنوں میں بمقام پشاور سنا تھا.
سیرت المہدی 434 حصہ دوم 455 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور جا کر ٹھہرے تو میں ان دنوں خواجہ صاحب کا ملازم تھا.اور حضرت صاحب کی ڈاک لا کر حضور کو پہنچایا کرتا تھا.اور ڈاک میں دو تین خط بیرنگ ہوا کرتے تھے جو میں وصول کر لیتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیتا تھا اور حضرت صاحب مجھے ان کے پیسے دیدیا کرتے تھے.ایک دن میں نے خواجہ صاحب کے سامنے بیرنگ خط وصول کئے تو خواجہ صاحب نے مجھے روکا کہ بیرنگ خط مت لو.میں نے کہا میں تو ہر روز وصول کرتا ہوں اور حضرت صاحب کو پہنچا تا ہوں اور حضرت نے مجھے کبھی نہیں روکا.مگر اس پر بھی مجھے خواجہ صاحب نے سختی کیسا تھ روک دیا.جب میں حضرت صاحب کی ڈاک پہنچانے گیا تو میں نے عرض کیا کہ حضور آج مجھے خواجہ صاحب نے بیرنگ خط وصول کرنے سے سختی سے روک دیا ہے.حضور فرما ئیں تو میں اب بھی بھاگ کر لے آؤں.حضرت صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے کہ ان بیرنگ خطوں میں سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ہوتا اور یہ خط گمنام ہوتے ہیں.اگر یہ لوگ اپنا پتہ لکھ دیں تو ہم انہیں سمجھا سکیں مگر شاید یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں حالانکہ ہمارا کام مقدمہ کرنا نہیں ہے.اس دن سے میں نے بیرنگ خط وصول کر نے چھوڑ دیئے.456 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں نے خواجہ کمال الدین صاحب کی زبانی سُنا ہے کہ جن دنوں میں حضرت صاحب کے خلاف مولوی کرم دین نے گورداسپور میں مقدمہ دائر کر رکھا تھا اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب حضرت صاحب کی طرف سے پیروی کرتے تھے.ان دنوں میں ایک دفعہ خواجہ صاحب کچھ دنوں کے لئے پشاور اپنے اہل وعیال کے پاس آئے جہاں وہ اس زمانہ میں پریکٹس کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ حضرت مولوی عبدالکریم مرحوم بھی حضرت صاحب سے اجازت لے کر پشاور دیکھنے کیلئے چلے آئے.خواجہ صاحب نے بیان کیا کہ جب میں پشاور آیا تو بیوی بچوں کو بہت پریشان حال پایا کیونکہ ان کے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہیں تھا اور وہ کچھ دنوں سے قرض لے کر گزارہ کرتے تھے جس پر میں نے بیوی کے تین سو روپے کے کڑے فروخت کر دیئے اور
سیرت المہدی 435 حصہ دوم اس طرح اپنے گزارہ کا انتظام کیا اس حالت کا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو بھی علم ہو گیا اور انہوں نے واپس آکر گورداسپور میں حضرت صاحب سے ساری کیفیت عرض کر دی.حضرت صاحب کو یہ واقعہ سن کر رنج ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ہم انشاء اللہ دعا کریں گے.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے اندرون خانہ سے تین سو روپے میاں محمود احمد صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ ثانی ) کے ہاتھ مولوی عبدالکریم صاحب کو بھجوائے کہ یہ روپیہ خواجہ صاحب کیلئے ہے ان کو دیدیں.مولوی صاحب نے میاں صاحب کو میرے پاس بھیج دیا.مجھے جب یہ روپیہ ملا تو میں اسے لے کر فوراً مولوی صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ کیسا روپیہ ہے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہاری حالت حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر دی تھی اور اب حضرت صاحب نے یہ روپیہ بھجوایا ہے.میں نے عرض کیا مولوی صاحب آپ نے یہ کیا غضب کر دیا.مولوی صاحب نے فرمایا اگر حضرت صاحب سے عرض نہ کیا جا تا تو اور کس سے کہا جاتا.اللہ تعالیٰ کے نیچے ہمارے لئے اس وقت حضور ہی ہیں.تم خاموش ہو کر روپیہ لے لو اور خدا کا شکر کرو یہ روپیہ بہت بابرکت ہے.اور حضرت صاحب نے تمہارے واسطے دعا کا بھی وعدہ فرمایا ہے.چنانچہ میں نے وہ روپیہ رکھ لیا اور پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ گورداسپور میں ہی میرے پاس مقدمات آنے لگ گئے اور روز دو چار موکل آجاتے تھے اور میں نے اس قدر جلد حضرت کی دعا کا اثر دیکھا کہ جس کی کوئی حد نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ کسی قدر اختلاف کے ساتھ حضرت خلیفہ امسیح ثانی سے بھی سنا ہوا ہے.مگر اس کی تفصیل مجھے یاد نہیں رہی.457 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی کو سر پر تول چندر چڑ جی بنگالی کا ایک رشتہ دار گاڑی میں مل گیا اور اسے انہوں نے تبلیغ کی اور وہ بہت متاثر ہوا اور ان کے ساتھ قادیان چلا آیا اور یہاں آکر مسلمان ہو گیا.نام کی تبدیلی کے متعلق کسی نے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ ان کا اپنا نام بھی اچھا ہے بس نام کے ساتھ احمد زیادہ کر دوکسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں.لوگوں نے اس کے بنگالی طرز کے بال کروا دئیے جسے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ
سیرت المہدی 436 حصہ دوم بال کیوں کر وا دیئے؟ پہلے بال بھی اچھے تھے بلکہ اب خراب ہو گئے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اسکے بال ایسے رنگ میں کروا دیئے ہوں گے جو قریباً منڈے ہوئے کے برابر ہوں اور ایسی طرز کے بال حضرت صاحب پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ سر کے بال منڈانے کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کا طریق ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام لانے کے وقت نام بدلنا ضروری نہیں ہوتا ہاں البتہ اگر مشرکانہ نام ہو تو وہ ضرور بدل دینا چاہیے.458 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے وزیر محمد خان صاحب سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود باہر کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب بھی تھے اور میں بھی شریک تھا.اس وقت اندر سے قیمہ بھرے ہوئے کریلے حضرت مائی صاحبہ نے بھجوائے اور حضرت صاحب نے ایک ایک کریلا حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب کے سامنے رکھ دیا اور اسکے بعد دو کریلے حضرت صاحب کے سامنے رہے.مجھے خیال آیا کہ شاید حضرت صاحب میرے سامنے کوئی کریلا نہیں رکھیں گے.مگر یہ خیال آنا ہی تھا کہ حضرت صاحب نے وہ دونوں کریلے اُٹھا کر میرے سامنے رکھ دیئے.میں نے بہت عرض کیا کہ ایک حضور بھی لے لیں مگر حضرت صاحب نے نہیں لیا.459 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں جب ابتداء ۱۸۸۱ء میں قادیان آیا تو اس وقت میرے اندازہ میں حضرت صاحب کی عمر پینتالیس سال کے قریب معلوم ہوتی تھی اور ابھی آپ کی شادی حضرت ام المومنین کے ساتھ نہیں ہوئی تھی.460 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں محمد خان صاحب نمبر دار گل منج ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کہ میری عمر سولہ سترہ سال کی تھی میں اپنے گاؤں کے ایک آدمی کے ساتھ امرتسر اپنے ایک رشتہ دار سے ملنے گیا اور واپسی پر ہم قادیان میں سے گذرے چونکہ نماز عصر کا وقت
سیرت المہدی 437 حصہ دوم تنگ ہو رہا تھا ہم نماز پڑھنے کیلئے بڑی مسجد میں چلے گئے.وہاں ہم نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے ٹہل رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں کوئی کتاب تھی.جب ہم نماز سے فارغ ہو چکے تو حضرت صاحب نے ہم سے پنجابی زبان میں پوچھا.لڑکو! تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ گل منبج میں ہے.جس پر آپ نے ہم سے گل منبج کا فاصلہ دریافت کیا.اور میں نے عرض کیا کہ قادیان سے چار پانچ میل پر ہے.پھر حضرت صاحب نے فرمایا کہ کیا تمہارے گاؤں میں میری کتاب پہنچ گئی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ وہاں تو کوئی کتاب نہیں گئی.حضرت صاحب نے فرمایا دور دراز جگہوں میں تو وہ پہنچ گئی ہے تجب ہے تمہارے گاؤں میں نہیں پہنچی.تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں کتاب دیتا ہوں.سوحضرت صاحب ہم دونوں کو لے کر مسجد مبارک کے ساتھ والی کوٹھری میں تشریف لے گئے.وہاں بہت کتا ہیں رکھی تھیں.حضرت صاحب نے دریافت فرمایا تمہارے گاؤں میں کتنے آدمی پڑھے ہوئے ہیں.میں نے زیادہ کتابوں کے لالچ سے کہہ دیا کہ آٹھ نو آدمی پڑھے لکھے ہیں.حالانکہ صرف چار پانچ آدمی پڑھے ہوئے تھے.ان دنوں میں میں تیسری جماعت میں پڑھا کرتا تھا.اسکے بعد تمام علاقہ میں حضرت صاحب کا چرچا ہونے لگ گیا کہ قادیان والا مرزا مہدی اور مسیح ہو نی کا دعوی کرتا ہے.اور میں نے جلد ہی بیعت کر لی.461 ) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس معہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور غلام قادر صاحب فصیح لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں تشریف رکھتے تھے.دعویٰ مسیحیت ہو چکا تھا اور مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی حضور کے مقابلہ میں آکر شکست کھا چکا تھا.غرض لدھیانہ میں ایک شورش ہو رہی تھی اور محرم بھی غالبا قریب تھا.اس پر لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر کو اندیشہ ہوا کہ کہیں لدھیانہ میں ان مولویوں کیوجہ سے فساد نہ ہو جاوےان کولدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دیا اور اس کام کیلئے ڈپٹی کمشنر نے ڈپٹی دلاور علی صاحب اور کرم بخش صاحب تھانہ دار کو مقرر کیا.ان لوگوں نے مولوی محمد حسین کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سُنا کر لدھیانہ سے رخصت کر دیا.اور پھر وہ حضرت صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور سڑک پر کھڑے ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی ،حضرت
سیرت المهدی 438 حصہ دوم صاحب نے ان کو فوراً اندر مکان میں بلالیا اور ہم لوگوں کو حضرت صاحب نے فرما دیا کہ آپ ذرا باہر چلے جائیں.چنانچہ ڈپٹی صاحب وغیرہ نے حضرت صاحب کے ساتھ کوئی آدھ گھنٹہ ملاقات کی اور پھر واپس چلے گئے.ہم نے اندر جا کر حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں آئے تھے ؟ جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کا ایک پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہتر ہے کہ آپ کچھ عرصہ کیلئے یہاں سے تشریف لے جائیں.حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے اور ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے.انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ہم ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سو شکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہو گئی.اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکرفرمایا اور بعض خاندانی چٹھیات کی نقل بھی ساتھ لگادی.اس چٹھی کا غلام قادر صاحب فصیح نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھر اسے ڈپٹی کمشنر صاحب کے نام ارسال کر دیا گیا.وہاں سے جواب آیا کہ آپ کیلئے کوئی ایسا حکم نہیں ہے.آپ بے شک لدھیانہ میں ٹھہر سکتے ہیں جس پر مولوی محمد حسین نے لاہور جا کر بڑا شور برپا کیا کہ مجھے تو نکال دیا گیا ہے اور مرزا صاحب کو اجازت دی گئی ہے.مگر کسی حاکم کے پاس اس کی شنوائی نہیں ہوئی.اس کے بعد دیر تک حضرت صاحب لدھیانہ میں رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے سنا ہوا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت صاحب احتیاطاً امرتسر چلے آئے تھے اور امرتسر میں آپ کو ڈپٹی کمشنر کی چٹھی ملی تھی جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے.واللہ اعلم.ان دونوں روایتوں میں سے کون سی درست ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ٹھیک ہوں.یعنی حضرت صاحب ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کی ملاقات کے بعد احتیاطاً امرتسر چلے آئے ہوں.لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کو ڈپٹی کمشنر کے حکم کے متعلق غلط نبی پیدا ہو گئی تھی اور ڈپٹی کمشنر کا منشاء صرف مولوی محمدحسین کے رخصت کئے جانے کے متعلق تھا چنانچہ ڈپٹی کمشنر کے جواب سے جو دوسری جگہ نقل کیا جا چکا ہے.پتہ لگتا ہے کہ اس نے کبھی بھی
سیرت المهدی 439 حصہ دوم حضرت صاحب کے متعلق ایسے خیال کا اظہار نہیں کیا.واللہ اعلم.462 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کا می سفیر روم قادیان آیا اس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے دیر میں سب کو ہٹا دیا.جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہو گئے تو آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں.مولوی صاحب مرحوم دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے یہاں تک کہ آپ کو افاقہ ہو گیا.463 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لیکھر ام کے قتل کے واقعہ پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی تلاشی ہوئی تو پولیس کے افسر بعض کا غذات اپنے خیال میں مشتبہ سمجھ کر ساتھ لے گئے اور چند دن کے بعد ان کا غذات کو واپس لے کر پھر بعض افسر قادیان آئے اور چند خطوط کی بابت جس میں کسی ایک خاص امر کا کنایہ ذکر تھا حضرت صاحب سے سوال کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ حضرت صاحب نے فوراً بتا دیا کہ یہ خطوط محمدی بیگم کے رشتے کے متعلق ہیں اور امر معلومہ سے مراد یہی امر ہے اور یہ خط مرزا امام دین نے میرے نام بھیجے تھے جو میرا چازاد بھائی ہے اور محمدی بیگم کا حقیقی ماموں ہے.اس پر مرزا امام دین کو پولیس والوں نے حضور کے مکان کے اندرہی بلوالیا.اور اس سے سوال کیا کہ کیا یہ خط آپ کے لکھے ہوئے ہیں؟ وہ صاف مکر گیا.پھر زیادہ زور دینے پر کہنے لگا کہ مجھے ٹھیک معلوم نہیں ہے.اس پر مرزا امام دین کا خط پہچاننے کیلئے اس سے ایک سادہ کاغذ پر عبارت لکھوائی گئی تو مبصروں اور کاتبوں نے دونوں تحریروں کو ملا کر یقینی طور پر پولیس افسروں کے اوپر ثابت کر دیا کہ یہ خطوط مرزا امام دین ہی کے لکھے ہوئے ہیں.جب مرزا امام دین کو کوئی گنجائش مفر کی نہ رہی اور پولیس افسر نے کسی قد رسختی سے پوچھا تو کہنے لگا شاید میرے ہی ہوں اور بالآخر صاف تسلیم کر لیا کہ میرے ہی ہیں اور امر معلومہ
سیرت المہدی 440 حصہ دوم سے وہی مراد ہے جو مرزا غلام احمد صاحب ( حضرت مسیح موعود ) نے بیان کیا ہے.اس واقعہ کے وقت کئی لوگ موجود تھے اس سارے دوران میں مرزا امام دین کے چہرہ پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا اور حاضرین نے اسکی ذلت کو خوب محسوس کیا.بعد ازاں پولیس افسر چلے گئے اور تلاشی کا معاملہ رفع دفع ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اپنی خانہ تلاشی کا ذکر اشتہار مورخہا ارا پریل ۱۸۹۷ء میں کیا ہے.جہاں لکھا ہے کہ یہ خانہ تلاشی ۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم کے جس ماموں کا ذکر سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر ۷۹ امیں ہے وہ یہی صاحب مرزا امام دین تھے.464 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے.مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے.الا ماشاء اللہ.اور جنازوں کی نماز عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود پڑھاتے تھے.465 6 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ ملا وامل کے متعلق یہ واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ملا وامل تپ کہنہ سے سخت بیمار ہو گیا اور یہ خیال ہو گیا کہ اسے دق ہے.جب دواؤں سے فائدہ نہ ہوا تو میں نے اسے چوزہ کی یخنی کچھ عرصہ تک مسلسل استعمال کرنے کیلئے بتائی اس پر پہلے تو اس نے بوجہ گوشت خور نہ ہونے کے اعتراض کیا مگر بالآخر اس نے مان لیا اور کچھ عرصہ تک اس کا استعمال کرتا رہا حتی کہ اس کا بخار بالکل جاتارہا.اس واقعہ کے ایک عرصہ بعد پھر ملا وامل ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب مجھے پھر کچھ حرارت محسوس ہونے لگی ہے.خوف ہے کہ پھر نہ اسی طرح بیمار ہو جاؤں اور اشارہ یہ بھی ذکر کیا کہ پہلی دفعہ آپ نے چوزہ کی یخنی بتائی تھی.میں نے اس کی نبض دیکھی تو کچھ حرارت وغیرہ معلوم نہ ہوئی.اس پر میں نے خیال کیا کہ شائد وہ پھر چوزے کا استعمال کرنا چاہتا ہے.مگر خود بخود استعمال کرنے سے حجاب کرتا ہے اور بطور معالج کے میری اجازت حاصل کرنا چاہتا ہے.چنانچہ میں نے اسے کہ دیا کہ ہاں چوزہ کی یخنی بہت مفید ہے ضرور استعمال کرو.
سیرت المہدی 441 حصہ دوم 466 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے ایک کاغذ کی تلاش کے لئے اپنے پرانے بستے دیکھنے کے لئے دیئے وہ کا غذ تو نہ ملالیکن اس بستہ میں مجھے لالہ ملا وامل کے پرانے خطوط دستیاب ہوئے جو اس نے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت صاحب کے نام دینی مسائل کی دریافت کے متعلق لکھے تھے اور ایک جگہ حضرت صاحب کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ الہام ملا.بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے لیکن تعجب ہے کہ آج کل در مشین میں اس کا “ کی بجائے جس کا چھپا ہوا ہے نیز ایک بستہ میں مجھے ایک پر چہ ملا جس پر حضور کا اپنا تخطی یہ مضمون لکھا ہوا تھا کہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة : ۵) سے یہ مراد ہے کہ جولوگ اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس وحی پر جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی ہے اور اس وحی پر بھی یقین رکھتے ہیں جو آخری زمانہ میں مسیح موعوڈ پر نازل ہوگی.467 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب سا کن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ میں نے سُنا ہے کہ ایک دفعہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا کبھی حضور کو بھی ریا پیدا ہوتا ہے حضور نے فرمایا اگر آپ چار پائیوں کے اندر کھڑے ہوں تو کیا آپ کو ریا پیدا ہو؟ پھر فرمایا کہ ریا تو اپنی جنس میں ہوتا ہے.مطلب یہ کہ انبیاء اپنے روحانی کمال کی وجہ سے گویا دوسرے لوگوں کی جنس سے باہر ہوتے ہیں اور دنیا سے کٹ کر ان کا آسمان کے ساتھ پیوند ہو جاتا ہے.پس وہ اہل دنیا کے اندر ریا نہیں محسوس کرتے.468 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے تحریری طور پر بیان کیا کہ میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے سُنا ہے کہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے اگر کبھی کسی مقدمہ
سیرت المہدی 442 حصہ دوم میں یا اور کسی طرح کسی حاکم کے سامنے جانا ہو تو جانے سے پہلے سات مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ لینی چاہیے.اور سات مرتبہ اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر یا عزیز “ لکھ لینا چاہیے.اس طرح اللہ تعالیٰ کا میابی دیتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے یہ طریق غالباً حالت استغناء عن غیر اللہ اور حالت تو کل علی اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہے.469 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک والے نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش کے وقت کہا تھا.اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (البقرة: ۳۱) سوحضرت آدم سے تو کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی نظر مستقبل پر جاپڑی ہوگی.یعنی ان کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ آئندہ نسل آدم میں ایسے ایسے واقعات ہوں گے.اس سے ہمیں بعض اوقات خیال آتا ہے کہ یہ جو ہمارے بعض مخالف کہتے ہیں کہ ان کو ہمارے خلاف الہام ہوا ہے ممکن ہے کہ یہ بھی جھوٹے نہ ہوں اور کسی آئندہ کے زمانہ میں ہمارے سلسلہ میں بعض خرابیاں پیدا ہو جائیں جیسا کہ بعد زمانہ سے ہر امت میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مخالفوں کے الہام کا سچا یا جھوٹا ہونا تو الگ سوال ہے.لیکن حضرت صاحب کی احتیاط اور حسن ظنی کمال کو پہنچی ہوئی ہے.جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.ایک طرف مخالفین ہیں جو ہزار ہانشانات دیکھ کر اور سینکڑوں دلائل و براہین کا مطالعہ کر کے پھر بھی جھوٹا اور مفتری کہتے چلے جاتے ہیں اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود ہیں کہ باوجود اس یقین کامل کے کہ آپ حق پر ہیں اور آپ کے مخالفین سراسر باطل پر ہیں.آپ ان کے متعلق حسن ظنی کا دامن نہیں چھوڑتے اور جھوٹا کہنے سے تامل فرماتے ہیں اسی قسم کا منظر آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی میں بھی نظر آتا ہے.ابن صیاد جس کے متعلق بعض صحابہ نے یہاں تک یقین کر لیا تھا کہ وہ دجال ہے وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے آتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ مجھے خدا کا رسول نہیں مانتے ؟ آپ جواب میں یہ نہیں فرماتے کہ تو جھوٹا ہے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ میں تو خدا کے سارے رسولوں کو مانتا ہوں.اللہ للہ اللہ اللہ کیا شان دلر بائی ہے.
سیرت المہدی 443 حصہ دوم 470 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے حضرت مسیح موعود کی زندگی کے مندرجہ ذیل واقعات ذیل کے سنین میں وقوع پذیر ہوئے ہیں.واللہ اعلم.۱۸۳۶ء یا ۱۸۳۷ء.ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴۲ء یا ۱۸۴۳ء.ابتدائی تعلیم از منشی فضل الہی صاحب.۱۸۴۶ء یا ۱۸۴۷ء.صرف و نحو کی تعلیم از مولوی فضل احمد صاحب.۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ء.حضرت مسیح موعود کی پہلی شادی (غالبا).۱۸۵۳ء یا ۱۸۵۴ء نحو منطق و حکمت و دیگر علوم مروجہ کی تعلیم از مولوی گل علی شاہ صاحب اور اسی ز کے قریب بعض کتب طب اپنے والد ماجد سے.۱۸۵۵ء یا ۱۸۵۶ء.ولادت خان بہادر مرز اسلطان احمد صاحب (غالباً).۱۸۵۷ء یا ۱۸۵۸ء.ولادت مرز افضل احمد (غالبا).۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رویا میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور اشارات ماموریت.۱۸۶۴ ۶ تا ۱۸۶۸ء.ایام ملا زمت بمقام سیالکوٹ.۱۸۶۸ء.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا انتقال.۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء.مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بعض مسائل میں مباحثہ کی تیاری اور الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.جو غالبا سب سے پہلا الہام ہے.۱۸۷۵ ء یا ۱۸۷۶ء.حضرت مسیح موعود کا آٹھ یا نو ماہ تک لگا تار روزے رکھنا.( غالباً ) ۱۸۷۶ء تعمیر مسجد اقصیٰ.الہام اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبُدَہ.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد کا انتقال.
سیرت المہدی ۱۸۷۷ء.444 حصہ دوم اخبارات میں مضامین بھیجوانے کا آغاز ( غالباً)، مقدمہ از جانب محکمہ ڈاک خانہ (غالبا) سفر سیالکوٹ.۱۸۷۸ء.انعامی مضمون رفتی پانچ صد روپیہ بمقابلہ آریہ سماج.تیاری تصنیف براہین احمدیہ ( غالباً) ۱۸۷۹ء.ابتداء تصنیف براہین احمدیہ واعلان طبع واشاعت.۱۸۸۰ء.اشاعت حصہ اول و دوئم براہین احمدیہ.۱۸۸۲ء.اشاعت حصہ سوئم براہین احمدیہ والهام ماموریت - قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ - ۱۸۸۳ء.وفات مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت مسیح موعود علیہ السلام.۱۸۸۴ء.اشاعت حصہ چہارم براہین احمدیہ اشتہار اعلان دعوی مجددیت و اشتہار دعوت برائے دکھانے نشان آسمانی تعمیر مسجد مبارک حضرت مسیح موعود کے کرتے پر چھینٹے پڑنے کا نشان.نکاح حضرت ام المومنین بمقام دہلی.۱۸۸۵ء.لیکھرام کا قادیان میں آنا.قادیان کے آریوں کے ساتھ نشان آسمانی دکھانے کی قرار داد.۱۸۸۶ء.چلہ ہوشیار پور.الہام درباره مصلح موعود.مناظرہ ماسٹر مرلی دھر بمقام ہوشیار پور.ولادت عصمت - تصنیف و اشاعت سرمه چشم آریہ.۱۸۸۷ء.تصنیف و اشاعت شحنہ حق.ولادت بشیر اوّل.۱۸۸۸ء.پیشگوئی درباره مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری و نکاح محمدی بیگم.وفات بشیر اول.اشتہا ر اعلان ۱۸۸۹ء.ولادت حضرت مرزا بشیر الدین محمداحمدخلیفہ اسی عالی بیعت اولی بمقام لدھیانہ سفر علیگڑھ ۱۸۹۰ء.تصنیف فتح اسلام و توضیح مرام.
سیرت المہدی 445 حصہ دوم ۱۸۹۱ء.سفر لدھیانہ - اشاعت فتح اسلام و توضیح مرام - اعلان دعوی مسیحیت.دعوت مباحثہ بنام مخالف علماء.مناظرہ مولوی محمد حسین بٹالوی بمقام لدھیانہ (الحق لدھیانہ) سفر دہلی.تیاری مناظرہ مولوی نذیرحسین دہلوی بمقام جامع مسجد دہلی.مناظرہ مولوی محمد بشیر بھو پالوی بمقام دہلی (الحق دہلی ) سفر پٹیالہ.ولادت شوکت.وفات عصمت - تصنیف و اشاعت ازالہ اوہام.اعلان دعوئی مہدویت طلاق زوجہ اول.فتویٰ کفر - تصنیف و اشاعت آسمانی فیصلہ.پہلا سالانہ جلسہ.۱۸۹۲ء.سفر لاہور.مناظرہ مولوی عبد الحکیم کلانوری بمقام لاہور سفر سیالکوٹ.سفر جالندھر.وفات شوکت.تصنیف و اشاعت نشان آسمانی.موت مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری.ابتداء تصنیف آئینہ کمالات اسلام.۱۸۹۳ء.بقیہ تصنیف و اشاعت آئینہ کمالات اسلام.قادیان میں پریس کا قیام.دعوت مباہلہ بنام مخالفین مخالفین کو آسمانی نشان دکھانے کی دعوت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی میعادی چھ سال.عربی میں مقابلہ کی دعوت - تصنیف و اشاعت بركات الدعاء ولادت خاکسار مرزا بشیر احمد - تصنیف و اشاعت حجت الاسلام وسچائی کا اظہار.مناظرہ آتھم بمقام امرتسر و پیشگوئی در باره آتھم (جنگ مقدس) مباہلہ عبد الحق غزنوی بمقام امرتسر - تصنیف و اشاعت تحفہ بغداد وكرامات الصادقین و شہادۃ القرآن.۱۸۹۴ء تصنیف و اشاعت حمامة البشرکی.نشان کسوف و خسوف - تصنیف واشاعت نورالحق و اتمام الجنه و رالخلافہ پیشگوئی آنھم کی میعاد گذر جانے اور آتھم کے بوجہ رجوع الی الحق کے نہ مرنے پر مخالفین کا شور و استہزاء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جوابی اشتہارات.تصنیف و اشاعت انوار الاسلام.
حصہ دوم سیرت المہدی 446 ۱۸۹۵ء ولادت مرزا شریف احمد صاحب - تصنیف من الرحمن.اس تحقیق کے متعلق کہ عربی ام الالسنہ ہے تصنیف و اشاعت نور القرآن.سفر ڈیرہ بابا نانک - تصنیف واشاعت ست بچن.بابا نانک علیہ الرحمۃ کے مسلمان ہونے کی تحقیق کا اعلان.مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر واقع سری نگر کی تحقیق کا اعلان.تصنیف واشاعت آریہ دھرم.۱۸۹۶ء تحریک تعطیل جمعہ.موت آتھم.ابتدا تصنیف انجام آتھم.تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی.نشان جلسہ اعظم مذاہب لا ہور.اشاعت انجام آتھم.مخالف علماء کو نام لے لے کر مباہلہ کی دعوت.موت لیکھرام.ولادت مبارکہ بیگم.تلاشی مکانات حضرت مسیح موعود علیہ السلام - تصنیف واشاعت استفتاء وسراج منیر و تحفہ قیصریہ.وجہ اللہ محمود کی آمین و سراج الدین عیسائی کے سوالوں کا جواب.قادیان میں ترکی قونسل کی آمد - مقدمه اقدام قتل منجانب پادری مارٹن کلارک.مقدمہ انکم ٹیکس.الحکم کا اجراءامرتسر سے.سفر ملتان برائے شہادت میموریل بخدمت وائسرائے ہند برائے اصلاح مذہبی مناقشات.ابتدائی تصنیف کتاب البریہ تجویز قیام مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان.۱۸۹۸ء قیام مدرسه تعلیم الاسلام قادیان - اشاعت کتاب البریہ.پنجاب میں طاعون کے پھیلنے کی پیشگوئی.احکم کا اجراء قادیان سے.تصنیف فریاد درد تصنیف واشاعت ضرورة الامام -تصنیف مجسم الہدے.تصنیف و اشاعت راز حقیقت و کشف الغطاء.جماعت کے نام رشتہ ناطہ اور غیر احمدیوں کی امامت میں نماز پڑھنے کے متعلق احکام.تصنیف ایام اصلح.۱۸۹۹ء اشاعت ایام الصلح.مقدمہ ضمانت برائے حفاظت امن منجانب مولوی محمد حسین بٹالوی - تصنیف و اشاعت حقیقۃ المہدی.تصنیف مسیح ہندوستان میں.ولادت مبارک احمد.تصنیف و اشاعت ستارہ قیصرہ.جماعت میں عربی کی تعلیم کے لئے سلسلہ اسباق کا جاری کرنا.تصنیف تریاق القلوب
سیرت المہدی 447 حصہ دوم 1900ء مسجد مبارک کے رستہ میں مخالفین کی طرف سے دیوار کا کھڑا کر دیا جانا.تصنیف تحفہ غزنویہ.خطبہ الہامیہ بر موقع عید الاضحی.بشپ آف لاہور کو مقابلہ کا چیلنج تجویز عمارت منارة المسیح.فتویٰ ممانعت جہاد.تصنیف و اشاعت رسالہ جہاد تصنيف لجة النور - ابتدا تصنيف تحفہ گولڑویہ.تصنیف و اشاعت اربعین.جماعت کا نام احمدی رکھا جانا.1901 ء بقیہ تصنیف تحفہ گولڑویہ تصنیف خطبہ الہامیہ تصنیف واشاعت اعجاز مسیح.بشیر وشریف ومبارکہ کی آمین.مقدمہ دیوار و ہدم دیوار.۱۹۰۲ ء رسالہ ریویو آف ریجنز اردو انگریزی کا اجراء تصنیف و اشاعت دافع البلاء والہدے.تصنیف نزول اسی.اشاعت تحفہ گولر و یہ تحفہ غزنویہ خطبہ الہامیہ وتریاق القلوب - البدر کا قادیان سے اجراء.نکاح خاکسار مرزا بشیر احمد.نکاح و شادی حضرت خلیفہ اسیح ثانی.تصنیف و اشاعت کشتی نوح و تحفهہ ندوہ.مناظره مابین مولوی سید سرور شاہ صاحب و مولوی ثناء اللہ امرتسری بمقام مد ضلع امرتسر تصنیف و اشاعت اعجاز احمدی در یویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی مولوی ثنااللہ کا قادیان آنا.۱۹۰۳ء تصنیف واشاعت مواہب الرحمن.سفر جہلم برائے مقدمہ مولوی کرم دین.تصنیف واشاعت نسیم دعوت و سناتن دھرم.منارة امسیح کی بنیادی اینٹ کا رکھا جانا.طاعون کا پنجاب میں زور اور بیعت کی کثرت کا آغاز.ولادت امۃ النصیر.مقدمہ مولوی کرم دین گورداسپور میں.شہادت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید بمقام کا بل - تصنیف و اشاعت تذکرۃ الشہادتین وسيرة الابدال.وفات امت النصير ۱۹۰۴ء مقدمه مولوی کرم دین گورداسپور میں.سفر لاہور اور لیکچر لاہور.سفر سیالکوٹ اور لیکچر سیالکوٹ.اعلان دعوی مثیل کرشن.ولادت امتہ الحفیظ بیگم.فیصلہ مقدمہ مولوی کرم دین ماتحت عدالت میں
سیرت المہدی 448 حصہ دوم ۱۹۰۵ء مقدمه مولوی کرم دین کا فیصلہ عدالت اپیل میں.بڑا زلزلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا باغ میں جا کر قیام کرنا.تصنیف براہین احمدیہ حصہ پنجم.البدر کا بدر میں تبدیل ہونا.وفات حضرت مولوی عبد الکریم صاحب.وفات مولوی برہان الدین صاحب جہلمی.تجویز قیام مدرسہ احمدیہ قادیان.سفر دہلی و قیام لدھیانہ و امرتسر ولیکچر ہر دو مقامات.الہامات قرب وصال - تصنیف و اشاعت الوصیت.تجویز قیام مقبرہ بہشتی.۱۹۰۶ء اشاعت ضمیمہ الوصیت - ابتدا انتظام بہشتی مقبرہ.قیام صدر انجمن احمد یہ قادیان - تصنیف واشاعت چشمہ مسیحی.تصنیف تجلیات الہیہ.شادی خاکسار مرزا بشیر احمد.ولادت نصیر احمد پسر حضرت خلیفہ المسیح ثانی تشخیز الاذہان کا اجراء.۱۹۰۷ء تصنیف و اشاعت قادیان کے آریہ اور ہم.ہلاکت اراکین اخبار شبھ چپتک قادیان.ہلاکت ڈوئی ہلاکت سعد اللہ لدھیانوی.تصنیف و اشاعت حقیقۃ الوحی.ولادت امۃ السلام دختر خاکسار مرزا بشیر احمد.نکاح مبارک احمد وفات مبارک احمد توسیع مسجد مبارک.نکاح مرزا شریف احمد.نکاح مبارکہ بیگم.جلسہ وچھو والی لاہور و مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام.۱۹۰۸ء تصنیف و اشاعت چشمہ معرفت.فنانشل کمشنر پنجاب کا قادیان آنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات.سفر لاہور.رؤسا کو تبلیغ بذریعہ تقریر تصنیف لیکچر پیغام صلح.الہام درباره قرب وصال.وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام بمقام لاہور.قیام خلافت و بیعت خلافت بمقام قادیان.تدفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام.471 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل شائع ہوا تو اس ر ایک طویل تنقیدی مضمون ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے پیغام صلح لا ہور میں شائع ہوا تھا.جس میں بعض اصولی اعتراض سیرۃ المہدی حصہ اول کے متعلق کئے گئے تھے اور بعض روایات پر تفصیلی جرح بھی کی گئی تھی.اس مضمون کا جواب میری طرف سے گذشتہ سال الفضل میں شائع ہوا.جس میں ڈاکٹر صاحب
سیرت المہدی 449 حصہ دوم موصوف کے جملہ اصولی اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا.اور بعض تفصیلی اعتراضات کا جواب بھی لکھا گیا تھا.لیکن پیشتر اس کے کہ میں ڈاکٹر صاحب کے سارے اعتراضات کا جواب ختم کرتا.مجھے اس سلسلہ مضمون کو بعض ناگزیر وجوہات سے درمیان میں چھوڑنا پڑا.اب بعض دوستوں کی تحریک پر میں اس جگہ ڈاکٹر صاحب کے اصولی اعتراضات کا جواب درج کرتا ہوں اور تفصیلی اعتراضات کے متعلق صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ ان کا جواب کچھ تو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.کچھ سیرۃ المہدی کے موجودہ حصہ یعنی حصہ دوئم میں متفرق طور پر آ گیا ہے اور کچھ اگر ضرورت ہوئی تو انشاءاللہ پھر کسی موقعہ پر بیان کر دیا جاوے گا.کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات میں ایک کتاب سیرۃ المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی.اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اُسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے.جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم وگمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس معاندانہ نظر سے دیکھے گا.جس سے کہ بعض غیر مبائعین نے اسے دیکھا ہے.مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے.میری امیدوں کو ایک سخت ناگوار صدمہ پہنچایا ہے.جرح و تنقید کا ہر شخص کو حق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا.بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے.کیونکہ اس قسم کی بحثیں جو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں.طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی تنویر کا موجب ہوتی ہیں.کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آجاتے ہیں.اور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیں اور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی.اس لئے ایسے مضامین سے وہ بدنتائج بھی پیدا نہیں ہوتے.جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا مضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر صاحب
سیرت المہدی 450 حصہ دوم کے طویل مضمون میں شروع سے لیکر آخر تک بغض و عداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیں.اور ان کے مضمون کا لب ولہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے.جابجا تمسخرآمیز طریق پر ہنسی اڑائی گئی ہے.اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعار کے استعمال سے مضمون کے تقدس کو بری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے.مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا.مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے.مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو.پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصول انتقام کے ماتحت لا کر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا.میں انسان ہوں.اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان.اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پاک ہوتی ہے اور نہ ایسا دعوای کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے.میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں.محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا.اگر اس میں میں نے غلطی کی ہے یا کوئی دھوکہ کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبہ کرے تا کہ اگر یہ اصلاح درست ہو تو نہ صرف میں خود آئندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہو جاؤں.بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہونے سے بچ جائیں.لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے.اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخرآمیز طریق کو اختیار کر کے بجائے اصلاح کرنے کے بغض و عداوت کا ختم ہوئے.اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوں میں کدورت پیدا ہو اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت نامناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب و ملت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا.میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کر کے ان کے اس افسوس ناک رویہ کوثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا.لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب ان عبارتوں کو نقل کر کے
سیرت المہدی 451 حصہ دوم مزید بدمزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے.پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کے اپنے طرز تحریر میں آئندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوں کو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی ہوں دورفرما کر مجھے اپنی رضامندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اللھم آمین.اصل مضمون شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اور بات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کام نہیں لیا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پر ریویو کرنے لگا ہے.اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالے.یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کر کے کتاب کے حسن و قبح کا ایک اجمالی ریو یولوگوں کے سامنے پیش کرے.تاکہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر پہلو سے آگاہی حاصل کرسکیں.یہ اصول دنیا بھر میں مسلم ہیں.اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے چنانچہ یہود و نصاری کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْ ءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتب.(سورة البقرة: ۱۱۴) يعنى یہود و نصارے ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن ان کو نظر ہی نہیں آتے اور یہود یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ نصاری میں کوئی خوبی نہیں ہے اور نصارے یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے معر ا ہیں.حالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیے کہ تو رات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں.پھر فرماتا ہے.لَا يَجْرِمَنَّكُمُ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَنْ لَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى (المائدة: 9) یعنے کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دے دے کیونکہ بے انصافی تقوی سے بعید ہے اور پھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے.چنانچہ شراب وجوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے
سیرت المہدی 452 حصہ دوم فرماتا ہے.فِيْهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرة: ۲۲۰) یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضرر اور نقصان ہے.مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں.کیسی منصفانہ تعلیم ہے.جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے.مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زریں اصول کو نظر انداز کر کے اپنا فرض محض یہی قرار دیا ہے کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں.میں ڈاکٹر صاحب سے امانت و دیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے ؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟ کیا سیرۃ المہدی میں کوئی ایسی نئی اور مفید معلومات نہیں ہیں.جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے.تو میں خاموش ہو جاؤں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اور دیانت داری پر مبنی نہیں ہے اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی عداوت میں عموماً کسی چیز کی بھی پروا نہیں کرتے.آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کیلئے ہی آپ کی بعض خوبیاں بھی ذکر کر دی جائیں تا کہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو حض عداوت پر مبنی ہے.اور لوگ ان کی تنقید کو ایک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کر کے دھو کہ میں آجائیں.لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایساسنگین جرم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہو گئے ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنے مضمون کو مقبول بنانے کیلئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کر دی جائیں.مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ سیرۃ المہدی پر ایک نظر“ مگر شروع سے لے کر آخر
سیرت المہدی 453 حصہ دوم تک پڑھ جاؤ.سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا.گویا یہ نظر“ عدل وانصاف کی نظر نہیں ہے.جسے حسن و قبح سب کچھ نظر آنا چاہیے.بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے.جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی.مکرم ڈاکٹر صاحب ! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے اور اپنے دل و دماغ کو اس بات کا عادی بنائیے کہ وہ اس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کر سکیں.جسے آپ اپنا دشمن تصورفرماتے ہوں.میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں.گو آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے.اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں.جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اول کے متعلق قائم کی ہے سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے.وہ یہ ہے کہ کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرۃ المہدی کہلانے کی حقدار ہی نہیں.زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں.اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کرنے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا.ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کما حقہ مطالعہ کر لے.تا کہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میں آگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہو.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے.اگر وہ ذرا تکلیف اُٹھا کر اس عرض حال کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اور میں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں.چنانچہ سیرۃ المہدی کے عرض حال میں میرے یہ الفاظ درج ہیں بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرۃ یا سوانح سے کوئی تعلق
رت المهدی 454 حصہ دوم نہیں لیکن جس وقت استنباط و استدلال کا وقت آئے گا (خواہ میرے لئے یا کسی اور کیلئے ) اس وقت غالبا وہ اپنی ضرورت خود منوا لیں گی.میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جاسکتا ہے.پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہو جانے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض کو پیش کرنا سوائے اس کے اور کیا معنے رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کر دینے کا شوق ہے.میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃ المہدی میں بعض بظاہر لاتعلق روایات درج ہیں.اور اپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیا ہوں.تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے.اور پھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا.ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کر دیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کر کے اس کا اجمالی جواب دیا ہے.اور پھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے.مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا.اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کر دیا ہے تا کہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقید صرف ان کی حدت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے.اور اعتراضات کے نمبر کا اضافہ مزید برآں رہے.افسوس! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال واستنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا.تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کر دیا جاوے.اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیرۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعود کی سیرۃ پر روشنی نہیں پڑتی.اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کر سکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرما دیتے کہ اس کی کتاب سیرة کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے.
سیرت المہدی 455 حصہ دوم دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے.پس اگر ان کثیر التعدادروایات کی بنا پر کتاب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیے.اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجود ہر مخلص احمدی کیلئے ایسا ہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آجاوے وہی کم ہے اور جذبہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو.لاتعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کرنے دیتا.پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے تو اس خیال سے کہ یہ باتیں بہر حال ہیں تو ہمارے آقا ہماری جان کی راحت اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعود ہی کے متعلق.میرا یہ علمی جرم اہل ذوق اور اہل اخلاص کے نزدیک قابل معافی ہونا چاہیے.مگر ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے.مگر تاریخ عالم اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبہ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیے.آپ اشعار کا شوق رکھتے ہیں.یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا.ے خلق میگوید که خسر و بت پرستی میکند آرے آرے میکنم با خلق و عالم کار نیست بس یہی میرا جواب ہے.حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں.تانه دیوانه شدم ہوش نیا مد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احساں کر دی پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑ اسا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیے.تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض وغایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے
سیرت المہدی 456 حصہ دوم گی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کا تعلق ہے.چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں ” میرا ارادہ ہے.واللہ الموفق، کہ جمع کر دوں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فرمائی ہیں اور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں.نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں یا جو آئندہ پہنچیں.اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے.اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کر دوں تا کہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہو جاوے.اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو ذکر سے نہ رہ جائے کیونکہ اگر اسوقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی.اور نہ بعد میں ہمارے پاس اسکی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میں نے اسی غرض کو مد نظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظر انداز کر کے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کیلئے میرے خلاف ایک الزام دھر دیا ہے.چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اسکے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے.اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرما دیں.خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں.انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہو جائے گا کہ سیرۃ کا لفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے.دراصل سیرۃ کی کتب میں تمام وہ روایات درج کر دی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں.جس کی سیرت لکھنی مقصود ہوتی ہے.مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متداول کتاب ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا.لیکن اسے کھول کر اول سے آخر تک پڑھ جاویں.اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت صلی
سیرت المہدی 457 حصہ دوم اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہ راست بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طور پر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت و سوانح پر اثر ڈالتی ہیں.اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کر دیا ہے.بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ نہ معلوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں.لیکن اہل نظر و فکر ان سے بھی آپ کی سیرت و سوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں.مثلاً صحابہ کے حالات ہمیں اس بات کے متعلق رائے قائم کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم وتربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا.یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا.اور کس حالت میں چھوڑا.اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرۃ وسوانح کے لحاظ سے لاتعلق نہیں کہہ سکتا.اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک وقوم کی حالت کا مفصل بیان درج ہوتا ہے جو بادی النظر میں ایک بلاتعلق بات سمجھی جاسکتی ہے.لیکن درحقیقت آپ کی سیرۃ وسوانح کو پوری طرح سمجھنے کیلئے ان باتوں کا علم نہایت ضروری ہے.الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو جس کی سیرۃ لکھی جارہی ہے بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور ریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں جن کو ایک جلد باز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد ولا تعلق باتیں سمجھ سکتا ہے.حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے.پھر بعض وہ علمی نکتے اور نئی علمی تحقیقا تیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میں بیان کی جاتی ہیں تا کہ یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ کس دل و دماغ کا انسان ہے.اور اسکی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اسکے تنگ اور تقریر
سیرت المہدی 458 حصہ دوم محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قدم بڑھا دیا ہے.ورنہ اگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج و متعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نلگتی.اور اسی وسیع مفہوم کو مدنظر رکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہر قسم کی روایات درج کر دی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیں دے سکتا.میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس بات سے حضرت مسیح موعود کی سیرۃ وسوانح کے متعلق مفید استدلالات کر سکیں.جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کر دیں.اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روایتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا.لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اُٹھایا ہے.اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے ان سے مدد حاصل کی ہے.اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ما تحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہو جاتا.پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لاتعلق سمجھے جانے کی بنا پر رد نہیں کر دینا چاہیے.ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں.مگر جو روایت اصول روایت و درایت کی رو سے صحیح قرار پائے.اور وہ ہو بھی حضرت مسیح موعود کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لاتعلق یا غیر ضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کر دینا چاہیے.بہر حال میں نے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہو سکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قرار دی جاسکیں.اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اٹھایا ہے اور مثالیں نہیں
سیرت المہدی 459 حصہ دوم دیں.ورنہ میں مثالیں دے کر بتاتا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیر متعلق نظر آتی ہیں.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کیلئے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیر سے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کرونگا جن کا بظاہر آنحضرت ﷺ کی سیرۃ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت ﷺ کی سیرۃ سے ثابت کریں گے.میں انشاء اللہ اتناہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی ان روایات کا حضرت مسیح موعود کی سیرت سے ثابت کر دونگا جن کو ڈاکٹر صاحب غیر متعلق قرار دیں گے.خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے.اور مورخین اسکو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنیوالے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں.اور کیا بلحاظ اس کے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کر نیکا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جا سکے گا.میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنایا ہے.دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے کہ گو کتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط و استدلال بعد میں ہوتا رہے گا.لیکن عملاً خوب دل کھول کر بخشیں کی گئی ہیں.اور جگہ جگہ استدلال و استنباط سے کام لیا گیا ہے.چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں.
سیرت المہدی 460 حصہ دوم " مصنف صاحب کا دعوی ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم.پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب استنباط و استدلال سے کام لیا ہے.الخ.اس اعتراض کے جواب میں سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے.یعنی وہ کون سا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں.اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دی ہے.اور پھر یہ بھی فرض کر لیا جائے.کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال و استنباط سے کام لیا ہے.پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو چیں بجبیں ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی.اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے.میں اب بھی یہی کہوں گا کہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بدظنی کی طرف مائل کر دیتی ہیں.ناظرین غور فرمائیں.کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اسکے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیں.اور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کودیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالبا صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے ان کو داخل کر لیا گیا ہے.کیا یہ طریق عمل انصاف و دیانت پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کر دی گئی ہیں.اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں میں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کونسا ہو گیا؟ اور وہ کونسا خطر ناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے.اس
رت المہدی 461 حصہ دوم تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھا ایک حد تک ناظرین کو حاصل ہو گئی.میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا او وہ وعدہ میں نے پورا کیا.استدلال و استنباط کی امید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیا ہوں.گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اُٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اُٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہور ہے ہیں.فرماتے ہیں ایک طرف یہ سب بخشیں دیکھو اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا.تو حیرت ہو جاتی ہے.“ مکرم ڈاکٹر صاحب ! بے شک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ور نہ اگر کوئی قدردان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا.یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال و استنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے.حالانکہ اس کا سیاق و سباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے.اگر ڈاکٹر صاحب جلد بازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہو جاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جو نہی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں اور اس بات کی تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں.میں ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ اس طرح وہ مفت میں اپنا مذاق اڑواتے ہیں مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے.میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے ” میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے متعلق جتنی بھی روائتیں جمع ہو
حصہ دوم رت المهدی 462 سکیں ان کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کر لیا جائے.ترتیب و استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا.کیونکہ وہ ہر وقت ہو سکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہوا تو پھر نہ ہو سکے گا اس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب و استدلالات کے کام کو بعد کے لئے چھوڑا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں.پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گویا ناظرین کے ساتھ ایک دھو کہ کیا گیا ہے.اس کے جواب میں میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے کئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھو کہ بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکر یہ سمجھا جانا چاہیے.لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کہ وہ معنی ہی نہیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہو جاتے ہیں.چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں.ترتیب واستنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا.‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو تر تیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں چنانچہ میرے اس دعوای کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دور آگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے.وہ الفاظ یہ ہیں.میں نے بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کاموں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا.بعض روایات یقیناً ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ داری کلیاً.خاکسار پر ہے ( دیکھو عرض حال سیرۃ المہدی )
سیرت المہدی 463 حصہ دوم ان الفاظ کے ہوتے ہوئے کوئی انصاف پسند شخص استنباط واستدلال سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دئے جاتے ہیں بلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے.جن کی مختلف روایات کو ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں.ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا اور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل و انصاف پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے؟ میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیں کئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں.اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان استدلالات“ کو جو ان کی طبیعت پر گراں گذرے ہیں وہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیا ہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے اس کتاب میں ترتیب و استنباط و استدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں.اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں.جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں.کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جا بجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں.امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی.علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں میں نے استدلال و استنباط کا ذکر کیا ہے وہاں وہ استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ و اخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیں.بھنے منشاء یہ ہے کہ جو
سیرت المہدی 464 حصہ دوم روایات بیان کی گئی ہیں اور جو واقعات زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ واخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کر لیا گیا ہے اور استدلال و استنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کر دیا گیا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں.جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال و استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہیگا وہاں دو قسم کے استدلالات مراد ہیں.اوّل.وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضرورت پیش آتی ہے.اور دوسرے وہ استدلالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق و عادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اور ان دونوں قسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے.والشاذ كالمعدوم.باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے، سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا.اور نہ ہی ان کا ملتوی کرنا درست تھا.کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہو جاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کر دی تھی کہ گو میں نے استدلالات نہیں کئے.اور صرف روایات کو جمع کر دیا.لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دیئے ہیں.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے.ہاں بے شک میں نے ایک دو جگہ بعض بحشیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں.لیکن ان بحثوں کو استدلالات اور تشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے.بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کر کے میں نے انہیں درج کر دیا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے.مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم و تربیت کے ماتحت کیسی
سیرت المہدی 465 حصہ دوم جماعت تیار کی ہے.ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مورخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا.بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم و تربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے.لیکن اس بات کو بہر حال تسلیم کرنا پڑیگا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہراتعلق رکھتی ہے.جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا سکتا.اس بحث کو ختم کرنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: " مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہیگا.مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم.پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں.الخ گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال و استنباط قرار دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آسکتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہدی میں درج کر دیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں درج کر دیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرت سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا.تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا؟ میں واقعی حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بنا پر استدلال واستنباط رکھا ہے.اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال و استنباط کے نام سے یاد کرتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی
سیرت المہدی 466 حصہ دوم فرما ئیں.تو وہ یقیناً ان الفاظ کو خارج کر دینے کا فیصلہ فرمائیں گے.پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے.چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں میرا ارادہ ہے والله الموفق.کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں.اور وہ جو دوسروں نے لکھی ہیں.نیز جمع کروں تمام وہ زبانی دو روایات....الخ اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کرنے اور ایک جگہ جمع کر دینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے.اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قرار دیا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب ! مجھے آپ معاف فرما ئیں مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا.لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل و انصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی.تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ.روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے.یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف و نحو کو نظر انداز کر کے عربی صرف و نحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے...مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے.یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیر اس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے.دراصل منتقدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے
سیرت المہدی 467 حصہ دوم ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتا.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ بزعم خود کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کر سکیں.اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب ولہجہ میں کرتے ہیں.جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر و تمسخر کا رنگ نظر آتا ہے.بہر حال اب جب کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کر کے پبلک کےسامنے پیش کیا ہے مجھے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں.کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں.بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے.میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک و تیمن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیت الدعا میں جا کر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں.اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں.کہ بغیر کسی تصنع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اس طرح لکھی گئیں.جس طرح کہ عربی عبارت کا دستور ہے.بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے.میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیا کہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں.پھر جب بعد میں بیت الدعا سے باہر آکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اور پھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی.لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میری کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قرار دیں یا حسن ظنی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت و احترام پر محمول خیال فرمالیں.مگر بہر حال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعا کے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر کھی تھیں بدلنا نہیں چاہا.چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہوگئیں.اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایسا کیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلیٰ چیزیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے.اور اگر نیت بخیر ہو تو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی
سیرت المہدی 468 چاہیے نہ کہ جائے اعتراض.لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا.حصہ دوم والله على ما اقول شهيد ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اُتر جاتا ہے وہاں روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ خاکسار عرض کرتا ہے ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ عرض کرتا ہے خاکسار اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں.ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو! مکرم ڈاکٹر صاحب ! حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محو حیرت ہونے لگتے ہیں.افسوس! چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں راویوں کے ” صادق و کاذب عادل وثقہ ہونے کے متعلق کوئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں.کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسری یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے گویا کتاب کے اندر مرسل روایتیں درج ہیں جو پا یہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اڑایا ہے کہ احادیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن محد ثین کی '' تنقید اور باریک بینیوں“ کا نام ونشان نہیں اور روایات کے جمع کرنے میں ” بھونڈا پن اختیار کیا گیا ہے الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے اور مصنف یعنی خاکسار نے ” مفت میں اپنا مذاق اُڑوایا ہے چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ راویوں کے صادق و کاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں.میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملا حظہ فرمائیے ان میں بھی راویوں کے صادق و کاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا.کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ و سیرت کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق و کاذب ، ثقہ و عدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج
سیرت المہدی 469 حصہ دوم ہوتے ہیں.جن سے ان کے صادق و کاذب، عادل و غیر عادل، حافظ و غیر حافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے.اور انہیں کتب کی بنا پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیر صحیح، مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں.مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نہ معلوم کیا ناراضگی ہے کہ وہ اس بات میں بھی مجھے مجرم قرار دے رہے ہیں.کہ میں نے کیوں سیرۃ المہدی کے اندر ہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیں کئے.حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تو میں اس راوی کا ثقہ و عادل ہونا ثابت کرتا اور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے.اور وہ راوی واقعی اس بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتا ہوں.سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے اور بس.روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا (۱) راوی جھوٹ بولنے سے متہم تو نہیں؟ (۲) اس کے حافظہ میں تو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں؟ (۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے.گو یہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو.(۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لیکر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کر دینے کا عادی تو نہیں؟ (۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں؟ (1) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق و کاذب ، حافظ وغیر حافظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو.وغير ذالک اور جہاں تک میر اعلم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میں علی قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے.واللہ اعلم.اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے.
سیرت المہدی 470 حصہ دوم اس جگہ میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ بعض صورتوں میں ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک راوی حافظ و عادل نہ ہولیکن جو روایت وہ بیان کرتا ہو وہ درست ہو.ایسی حالت میں بھی اگر دوسرے قرائن سے روایت کی صحت کا یقین ہو تو روایت کے لے لینے میں چنداں حرج نہیں.اور گو یہ مقام اندیشہ ناک ہے لیکن علم کی تلاش میں بعض اوقات اندیشہ ناک جگہوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے.دوسرا حصہ اس اعتراض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی راوی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا.پس ضرور اس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہوگی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاتی ہیں.میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں.لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۂ متروک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسا اوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں.دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے.بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو.مثلاً فرض کرو کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یا در ہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا.اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا.اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت واقعی کمزور سمجھی جائے گی.لیکن دراصل اگر میرے حافظہ اور فہم نے غلطی نہیں کی.تو وہ بالکل صحیح اور درست ہوگی.بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو.جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قراردی جاتی ہیں.مگر بایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میں وہ ہلکی ہی اترے گی.اس طرح عملاً بہت سی باتوں میں فرق پڑ جاتا ہے.پس باوجود ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو کمزور سمجھی جانی چاہیے.میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کر سکتے
سیرت المہدی 471 حصہ دوم.کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں.عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایات کو درج کر دیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بد یہی ہوگا.اس لئے ان کی کمزوری بھی لوگوں کے سامنے رہے گی اور مناسب جرح و تعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اُٹھا سکیں گے.احادیث کو ہی دیکھ لیجئے.ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں.اور چونکہ ان کی روایتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سد باب کیا جا سکتا ہے.بہر حال مناسب حدود کے اندر اندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے رد کئے جانے کے قابل نہ ہوں.اور ان سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نَفْعُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ اثْمِها والا معاملہ ہے.واللہ اعلم.یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلا واسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کر دیا ہے.اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتا ہوں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی.سیرۃ المہدی کے صفحہ نمبر ۱۳۲ روایت ۱۴۳ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے اور اس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے الہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا.میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلا واسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کر دیا جائے تا کہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اُٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی
سیرت المہدی 472 حصہ دوم سامنے رہے.ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کونسی روایت ان کے مد نظر ہے.لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گومحدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں.کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیا کرتے بلکہ یہ کام تحقیق و تنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں.لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کرلوں گا اور آئندہ مزید احتیاط سے کام لوں گا.ہاں ایک غیر واضح سی مثال روایت نمبر ۷۵ کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفتہ امسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی.لیکن خود مرعوب ہو کر بدحواس ہو گیا.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھا تھا یا کسی کی زبانی سنا تھا.اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا ؟ اس کے جواب میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اندر کوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال امتنع ہو ( مثلاً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہو یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو ) تولا محالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خود اپنا چشم دید واقعہ بیان کر رہا ہے اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوگی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ اس کا چشم دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے.بہر حال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خود اپنی دیکھی ہوئی بات بیان کر رہا ہے.اسی لئے میں نے اس سے سوال کر کے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی.ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہوا ہے کہ راوی کی روایت کسی بلا واسطہ علم پر مبنی نہیں ہے وہاں میں نے خودسوال کر کے تصریح کرالی ہے.چنانچہ جو مثال مولوی سید سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی.مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی
سیرت المہدی 473 حصہ دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے دعوئی مسیحیت سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے.اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے.پس لا محالہ مجھے یہ شک پیدا ہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا.چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے سوال کیا اور انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا چنانچہ میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کر دی.الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے.لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہوں.اور غلطی کا اعتراف کر لینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلت نہیں بلکہ موجب عزت ہے.پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کوئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے.تو میں نہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہونگا.افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کرنے کے خیال سے اعتراض کر دیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلا وجہ حقیر اور بے فائدہ ثابت کرنے کا طریق اختیار کیا جاتا ہے.ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اُٹھائے.مصنف کی بھی تنویر ہو اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے.اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں.جو مبایعین اور غیر مبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تمام احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اور ضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہوسکتا.اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے.خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیر ہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کر ناولوں کی کدورت کو زیادہ کرنے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے.پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرۃ المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان
سیرت المہدی 474 حصہ دوم کی تنقید اور باریک بینیوں کا نشان تک نہیں ہے.محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت و احترام ہے اور گو جائز طور پر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل وسینہ میں موجود ہوتی ہے یا کم از کم ہونی چاہیے.لیکن میرے دل کا یہ حال ہے وَاللَّهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ کہ ائمہ حدیث کا خوشہ چین ہونے کو بھی اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں.اور ان کے مد مقابل کھڑا ہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی ناچیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں.میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں وہ نقل کی نیت سے ہر گز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہو بھی تو میرے نزدیک اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب ! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقش پا پر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیں گے.حضرت مسیح موعود کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو تو احمدیوں کی زبان ہی عربی ہو جائے.پس اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف ونحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے.تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کرتے ہوئے بھلے نہیں لگتے.باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی.سو وہ تو مسلم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان کا سا دل و دماغ اور علم و عمل عطا فرمائے.پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہو سکا چھان بین اور تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے.اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں.وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کر سکوں گا کہ میں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا.آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ سیرۃ المہدی ” ایک گڑ بڑا مجموعہ ہے نیز یہ کہ میں نے ” مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے آپ کو مبارک ہو اس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں.اگر سیرۃ المہدی ایک گڑ بڑا مجموعہ ہے تو بہر حال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے.میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلا کسی ترتیب کے درج کیا ہے.پھر نہ معلوم آپ نے اسے ایک گڑ بڑا مجموعہ قرار دینے میں کونسی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے.آج اگر وہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی
سیرت المہدی 475 حصہ دوم ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا.بہر حال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اُٹھایا گیا.اور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑ بڑ مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں.اور مذاق اُڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی.مکرم ڈاکٹر صاحب ! آپ خود ہی مذاق اُڑانے والے ہیں.سنجیدہ ہو جائیے.بس نہ میرا مذاق اڑے گا اور نہ آپ کی متانت اور سنجیدگی پر کسی کو حرف گیری کا موقعہ ملے گا.آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں.یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے.پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے.وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں : احادیث رسول اللہ ﷺ سے ایک سیڑھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے.یعنی ہر ایک روایت کو بسم الله الرحمن الرحیم سے شروع کیا ہے.پڑھنے والے کو سمجھ نہیں آتا کہ یہ موجودہ زمانے کی راویوں کی کوئی روایت شروع ہو رہی ہے......یا قرآن کی سورۃ شروع ہو رہی ہے.خاصہ پارہ عم نظر آتا ہے.گویا جابجا سورتیں شروع ہورہی ہیں.حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہونے لگی.اسی کا نام بچوں کا کھیل ہے.“ میں اس اعتراض کے لب ولہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کچھ کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں.اب کہاں تک اسے دہرا تا جاؤں.مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی.تعصب بھی بُری بلا ہے میں تبرک و تیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللہ لکھتا ہوں.اور ڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں.مگر مکرم ڈاکٹر صاحب اس معاملہ میں گو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے.لیکن بسم الله الرحمن الرحیم کا لکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا.آپ کے اعتراض کا اصل مطلب یہ معلوم ہوتا ہے.کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے.اس کے خلاف کرو تا کہ نقل کرنے کے الزام نیچے نہ آجاؤ.میں کہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں
سیرت المہدی 476 حصہ دوم دفعه چھوڑ سکتا اگر قرآن شریف کو باوجود اس کے کہ وہ خدا کا کلام اور مجسم برکت و رحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولی سمجھی جانی چاہیے.آنحضرت ﷺ ( فدا نفسی ) فرماتے ہیں کل امر ذی بال لا يُبدأ ببسم الله فهو ابتر - یعنی ہر کام جو ذراسی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہو جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرانا مناسب نہیں تھا.تو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے؟ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک بسم الله درج کر دی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا.جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں.دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کر رکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو خدا کے نام سے شروع ہو جانا چاہیے اور یہی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا منشاء ہے جواو پر درج کیا گیا ہے.اسلام نے تو اس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت و سکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کر دیا ہو.اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا سونا جاگنا، بیوی کے پاس جانا، گھر سے نکلنا،گھر میں داخل ہونا شہر سے نکلنا، شہر میں داخل ہونا کسی سے ملنا، کسی سے رخصت ہونا، رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا، کپڑے بدلنا، کسی کام کو شروع کرنا کسی کام کوختم کرنا بغرض زندگی کی ہر حرکت وسکون میں خدا کے ذکر کو داخل کر دیا ہے.اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبر دست دلائل میں سے ایک دلیل ہے.مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللہ لکھنے پر کیوں چیں بجبیں ہور ہے ہیں میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کر دیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد و کفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور غوغا کچھ اچھا بھی لگتا.لیکن ایک طرف اس
سیرت المہدی 477 حصہ دوم چیخ و پکار کو دیکھئے.اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے.جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مناسب تھی.تو حیرت ہوتی ہے.خیر جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو.بلکہ زندگی کی ہر حرکت و سکون کو خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تا کہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو.چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہر سورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے.تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے.اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں.اس لئے ضروری تھا کہ میں اس کی ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا.اگر سیرۃ المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہوئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں.تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سبھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم الله الرحمن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا.لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفر دحیثیت رکھتی ہے اس لئے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے.جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کو رکھا ہے.بہر حال اگر قرآن شریف اپنی ہر سورت کے آغاز میں بسم اللہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے.باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحدلڑی میں ترتیب کے ساتھ پروٹی ہوئی ہیں.تو سیرۃ المہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتی کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی کو ایک گڑ بر مجموعہ قرار دیا ہے بدرجہ اولی بسم اللہ سے شروع کی جانی چاہئیں اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللہ کے شروع نہیں کیا.در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے
سیرت المہدی 478 حصہ دوم اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر و خوبی سرانجام دینا ایک نہایت مشکل امر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعا کے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے.یہ اگر ایک بچوں کا کھیل ہے تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزار ہاسنجید گیوں سے بڑھ کر پسند ہے.اور جناب ڈاکٹر صاحب موصوف سے میری یہ بصد منت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکا ئیں.مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگر میں نے تصنع کے طور پر لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہو سکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوں اس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا.اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اُٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں.بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا.چھٹا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے.وہ یہ ہے کہ:.در اصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہے.یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں.جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے.نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے نہ لا ہوری احمدیوں کے، نہ کسی محقق کے.بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود پر صاف زد پڑتی ہے.مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوں پر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روا میتیں مضبوط کر کے دل میں نہایت خوش ہوتے معلوم ہوتے ہیں.الخ.اس اعتراض کے لب ولہجہ کے معاملہ کو والہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا ہے.کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کر دیا جائے.اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جاسکتی ہے جو اپنی
سیرت المہدی 479 حصہ دوم ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پرواہ نہیں کرتا.اور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب و ذیشان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں.تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کر دینے کو کوئی معمولی بات نہ جائیں.یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خدا کو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی امداد کرنا اس کی سنت میں داخل ہے.مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتا ہوں.کہ وہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق وصداقت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف.یہ نیت کا معاملہ ہے میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں.ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آ گئی ہے.وہ عرض کرتا ہوں.ایک جنگ میں اسامہ بن زید اور ایک کافر کا سامنا ہوا.کافراچھا شمشیر زن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ کو بھی ایک موقعہ خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر حملہ کیا کافر نے اپنے آپ کو خطرے میں پا کر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیا کہ مسلمان ہوتا ہوں مگر اسامہ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار کے گھاٹ اُتار دیا.بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت ﷺ کو کر دی.آپ حضرت اسامه پرسخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا آپ نے فرمایا اے اسامہ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد مار دیا؟ اور آپ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے.اسامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھا تا کہ بچ جاوے.آپ نے جوش سے فرمایا أَفَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا امْ لَا یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا.کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں.اسامہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنُ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِكَ الْيَوْمِ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ! میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کرتا.تا کہ آنحضرت ﷺ کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی.میں بھی جو رسول پاک کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں.آپکی اتباع میں ڈاکٹر
سیرت المہدی 480 حصہ دوم صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرناک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتا کہ اس کے اندر کیا ہے.بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں.ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا.لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیا جائے؟ میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کر کے درج کی ہے کہ اس سے غیر مبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھے تک پہنچا ہےاسے بعد مناسب تحقیق کے درج کر دیا ہے.وَلَعَنَتُ اللَّهِ عَلَى مَنْ كَذَبَ بایں ہمہ اگر میری یہ کتاب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ متفقین کے اوقات گرامی کے شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے.ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں.اور جو بات دراینا غلط ہو وہ خود روایت کی رُو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپکے مزیل شان بھی ہیں اور ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست بازیقین کرتا ہوان روایات کو قبول نہیں کر سکتا.راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے مگر حضرت مسیح موعود پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ، ہمارا مشاہدہ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کر سکتا.خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں.مگر سیرۃ المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ.اس اعتراض کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جوروایات واقعی اور حقیقتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور ان کے متعلق بہر حال یہ قرار دینا ہو گا کہ اگر
سیرت المہدی 481 حصہ دوم را وی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا.اس لئے روایت کرنے میں ٹھو کر کھا گیا ہے.اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہو گئی ہے.جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑ گیا ہے.واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کوکسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا.پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپکی مسلم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقل مند ا سے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لا سکتا اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے لیکن بایں ہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے.درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرات کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرر رساں نتائج پیدا کر سکتا ہے.دراصل جہاں بھی استدلال و استنباط اور قیاس و استخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطر ناک احتمالات و اختلافات کا دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے.ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں.اور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں اور کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا.والشاذ كالمعدوم.لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال و استنباط کرنے اور اس کا ایک مفہوم قرار دے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے راستہ پر چل نکلتا ہے اور حق و باطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے رد کر دو یا جو بات حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے تو اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقل مند اصولاً اس کا منکر نہیں ہوسکتا.لیکن اگر ذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگاہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح و تعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال و استنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گرا تا چلا جائے.بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل
سیرت المہدی 482 حصہ دوم کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہو سکتی.مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کارے دارد.اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعوی کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے.اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریرات کے خلاف ہو اسے کوئی احمدی قبول نہیں کر سکتا.مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے جن کا حل نہایت دشوار ہو جاتا ہے اور مجھے ایسے شخص کی جرات پر حیرت ہوگی جو یہ دعوی کرے کہ حضرت کی تحریرات کا مفہوم معین کرنے میں اس کا فیصلہ ہر صورت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھا دھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قرار دے کر رڈ کر دیا جائے.ایک عامیانہ فعل ہوگا جو کسی صورت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر بنی نہیں سمجھا جاسکتا.مثال کے طور پر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات ہر دوفریق کے سامنے ہیں لیکن مبائعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور غیر مبائعین یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعوی نہیں کیا.اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود کی تحریرات پر ہے.اب اگر درایت کے پہلوکو آنکھیں بند کر کے ایسا مرتبہ دیدیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ جو روایت غیر مبائعین کو ایسی ملے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت ثابت ہوتی ہو تو وہ اسے رڈ کر دیں.کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے اور اگر کوئی روایت مبائعین کے سامنے ایسی آئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے.اسی طرح مبائعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا اور غیر مبائعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیر احمدی مخالف نہیں ہیں
سیرت المہدی 483 حصہ دوم ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعود کے طریق عمل کے خلاف نہیں.اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اسکے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اگر کسی مبائع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے.یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے رڈ کر دیتے کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے.اور جب کوئی روایت کسی غیر مبائع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام غیروں کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو.وہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے.ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کارروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہو جائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چار دیواری میں ایسی طرح محصور ہو کر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے.اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کر چکا ہے ان کے خلاف ہراک بات خواہ وہ کیسی ہی پختہ اور قابل اعتماد ذرائع سے پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہو رڈ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کما حقہ غور نہیں فرمایا.ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہو جاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی روایت کورڈ کئے جانے کے قابل قرار دیتے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرما ئیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیاد رکھی جانی چاہیے وہ روایت ہی ہے.اور علم تاریخ کا سارا دارو مدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کرنے کیلئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کر ترک کر دیا ہو.متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیۂ صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی
سیرت المہدی 484 حصہ دوم ہے البتہ بعد کے مؤرخین میں سے بعض نے درایت پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیا دروایت پر ہی رکھی ہے.اور درایت کو ایک حد مناسب تک پر کھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے.واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور جو فہم و فراست میں بھی اچھا ہے.اور روایت کے دوسرے پہلوؤں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بنا پر رڈ کر دیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی.یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے.کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خود غرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں.خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی رو سے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقع ہو چکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے کسی استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کریں.سوائے اسکے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو.جس کے مفہوم کے متعلق اُمت میں اجماع ہو چکا ہو.مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا.ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو.اس کا منکر نہیں.پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعوی نہیں کیا تو خواہ بظاہر وہ روایت میں مضبوط ہی نظر آئے.ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے ) کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگانا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود کی صریح تحریرات ( یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے ) کے مخالف ہے لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر و اسلام یا خلافت یا جنازہ غیر احمدیان وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو.ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کر دیں.اور اس سے استدلال واستنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر
سیرت المہدی 485 حصہ دوم چھوڑ دیں تا کہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے.اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی در ائت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کر دینگے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر بنی نہیں سمجھا جاسکتا.پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف ”محمودی‘ خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیں اور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے.حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعتراض کا حق نہیں تھا.کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤید ہیں.تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے.کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل اور تحریروں کے خلاف تھیں.ان کو میں نے رد کر دیا ہے.اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں اور یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں.کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ ہیں.صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہو تو حضرت مسیح موعود کو راست باز ماننے والا تو قطعا اسکو قبول نہیں کرسکتا........ہم راوی پر حرف آنے کو قبول کر سکتے ہیں مگر مسیح موعود پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ، ہماری ضمیر، ہمارا مشاہدہ.ہمارا تجربہ قطعاً قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا.“ پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں.رڈ کر دیا اور درج نہیں کیا.اور اس طرح میری کتاب ”محمودی عقائد کی کتاب بن گئی تو میں نے کچھ برا نہ کیا.بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا موجب بنا اور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکر یہ سمجھا جانا چاہیے.نہ کہ قابل ملامت اور اگر ڈاکٹر
سیرت المہدی 486 حصہ دوم صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی رو سے تو میں اپنے فہم کے مطابق پڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پر کھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم وفراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں.تو گو ایسا ممکن ہو.لیکن ڈر صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب ”پیغامی عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی.اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہو جائے.مکرم ڈاکٹر صاحب ! افسوس! آپ نے اعتراض کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں.ایک طرف تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب "محمودی عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف روایتیں درج کر دی ہیں.اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں میں کروں تو کیا کروں؟ اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتا ہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے.ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں.مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو.اسے رڈ کرتا جاؤں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہو جائیں کہ اب یہ کتاب روایت و درایت ہر دو پہلو سے اچھی ہے.کیونکہ اس میں کوئی بات لا ہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں.اگر جرح و تعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے.یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مد نظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے روایت و درایت دونوں پہلوؤں کو دیانت داری کے ساتھ علی قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاں بات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے.اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے.بلکہ جو
سیرت المہدی 487 حصہ دوم بات بھی روایت کے رو سے میں نے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے رو سے بھی اسے حضرت مسیح موعود کی صریح اور اصولی اور غیر اختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا.اور آپ کے مسلم اور غیر مشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے اسے قابل رد نہیں سمجھا.اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گوشاید احتیاط اسی میں ہو جو میں نے کیا ہے.لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محد و در کھے.اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہوا سے درج کرلے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کیلئے چھوڑ دے جو عند الضرورت استدلال و استنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں.والا نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا ذاتی مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے بہت سی کچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم رہ جائے گی.یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علی وجہ البصیرت قائم ہوں.والله اعلم ولا علم لنا الا ما علمتنا خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان ۱۴/ نومبر ۱۹۲۷ء
63636363638 العلمية الا سيرة المهدى حصہ سوم تالیف لطیف حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے 888888
سیرت المہدی 491 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوعُود حصہ سوم عرض حال خاکسار اللہ تعالے کا ہزار ہزار شکر بجالاتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے سیرت المہدی کے حصہ سوم کے شائع کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللَّهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيمِ - سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کے بعد حصہ دوم ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا اور اب ۱۹۳۹ء میں حصہ سوم شائع ہورہا ہے اس عرصہ میں سیرۃ المہدی حصہ اول کا دوسرا ایڈیشن بھی ۱۹۳۵ء میں نکل چکا ہے جس میں پہلے ایڈیشن کی بعض غلطیوں کی اصلاح کی جاچکی ہے اور بعض قابل تشریح باتوں کی تشریح بھی درج ہو چکی ہے.اور اب حصہ اول کا یہی ایڈیشن مستند سمجھا جانا چاہئیے.سیرۃ المہدی حصہ دوم کی اشاعت کے بعد بعض ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے میں سمجھا کہ شاید آئندہ میں اس کام کو جاری نہیں رکھ سکوں گا مگر بالآخر خدا نے اس حالت کو بدل دیا اور مجھے توفیق دی کہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کو مرتب کر سکوں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ الْوَكِيْلِ.حصہ سوم جو اس وقت دوستوں کے ہاتھ میں جا رہا ہے.اس میں میں نے اپنی حاشیہ آرائی کو بہت کم کر دیا ہے.یعنی وہ لمبے لمبے تشریحی نوٹ جو میں پہلے دو حصوں میں لکھتا رہا ہوں.تیسرے حصہ میں ان کا رنگ بدل کر انہیں مختصر کر دیا گیا ہے تاکہ روایات کا قدرتی حسن مصنوعی تزئین کے سامنے مغلوب نہ ہونے پائے ، تاہم کہیں کہیں جہاں ضروری تھا وہاں تشریح درج کی گئی ہے.یہ تشریح دو قسم کے موقعوں پر درج ہوئی ہے.اول ایسے موقعوں پر کہ جہاں تشریح کے بغیر روایت کا صحیح مطلب سمجھنے میں غلط نہی کا امکان نظر آیا ہے.دوسرے جہاں کسی اضافہ سے روایت کی حقیقی غرض کو مزید جلا ملنے کی امید ہوئی ہے.ان کے سوامیں نے کوئی تشریحی نوٹ نہیں دیا.
سیرت المہدی 492 حصہ سوم اس حصہ کی تیاری میں مجھے مولوی شریف احمد صاحب مولوی فاضل نے بہت امداد دی ہے جنہیں میں نے اسی غرض کے لئے اپنے ساتھ لگالیا تھا یعنی روایات کی نقل اور انتخاب کا کام زیادہ تر انہوں نے کیا ہے فَجَزَاهُ الله خيرًا مگر آخری نظر خود میں نے ڈالی ہے اور ایک ایک لفظ میری نظر سے گزرا ہے اور میں نے متعدد جگہ درستی کی ہے اور تشریحی نوٹ سب کے سب میرے اپنے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور آپ کے الفاظ اپنے اندر وہ عظیم الشان روحانی اثر اور زندگی بخش جو ہر رکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک روایت انسان کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہو سکتی ہے مگر یہ اثر زیادہ تر مطالعہ کرنے والے کی اپنی قلبی کیفیت اور پھر خدا کے فضل پر منحصر ہے.پس میری یہ دُعا ہے کہ اللہ تعالی اس مجموعہ کو اس کے پڑھنے والوں کے لئے بابرکت کرے.اس کی خوبیوں سے وہ متمتع ہوں اور اس کے نقصوں کی مضرت سے محفوظ رہیں اور اس سے وہ نیک غرض حاصل ہو جو میرے دل میں ہے بلکہ اس سے بھی بہتر اور اس سے بھی بڑھ کر.اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے میری اس ناچیز خدمت کو میرے لئے فلاح دارین کا ذریعہ بناوے.آمين اللهم آمين.اس نوٹ کے ختم کرنے سے پہلے مجھے صرف اس قدر مزید عرض کرنا ہے کہ خدا کے فضل سے اس وقت میرے پاس سیرۃ المہدی کے حصہ چہارم کے لئے بھی کافی مواد موجود ہے.اس حصہ میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض قدیم صحابہ کی روایات ہوں گی جن میں سے مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کی بعض روایات نہایت ایمان پرور ہیں.مگر ابھی تک اس حصہ کی تکمیل باقی ہے اور تشریحی نوٹ اور نظر ثانی کا کام بھی رہتا ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے حصہ چہارم کی اشاعت کی بھی جلد توفیق عطا کرے کیونکہ زندگی تھوڑی ہے اور کام بہت.اور کام کی توفیق بھی خدا کے فضل پر موقوف ہے اور ہمارے ہر کام میں وہی سہارا ہے.خاکسار راقم آثم مرزا بشیر احمد قادیان مورخه ۳/ فروری ۱۹۳۹ء
سیرت المہدی 493 حصہ سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحيم نَحمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود مع التسليم عن عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه قال سمعتُ النبيَّ صلّى الله عليه وسلّم يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَالِكُلِّ امْرِيَّ مَانَوَى (رواه البخاری) 472 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں جو غلطیاں رہ گئی تھیں یا جہاں جہاں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان تھا ان کی اصلاح حصہ دوم میں نیز حصہ اول کے طبع دوم میں کر دی گئی تھی.لیکن اس کے بعد بعض مزید ایسی باتیں معلوم ہوئی ہیں جو قابل اصلاح یا قابل تشریح ہیں.علاوہ ازیں حصہ دوم میں بھی بعض غلطیاں رہ گئی تھیں.سو اس جگہ حصہ اول وحصہ دوم دونوں کی باقی ماندہ غلطیوں کی اصلاح یا قابل تشریح باتوں کی تشریح درج کی جاتی ہے.اس کے بعد اگر کوئی مزید غلطی معلوم ہوئی تو اس کی آئندہ اصلاح کر دی جائے گی:.(۱) روایت نمبر ۱۹ کی بناء پر جو اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے متعلق ہسٹ یا یا مراق کے بارے میں مخالفین کی طرف سے کیا گیا تھا.اس کا اصولی جواب طبع دوم کی اسی روایت یعنی روایت نمبر 19 میں دیا جا چکا ہے مزید بصیرت کے لئے روایات نمبر ۲۹۳٬۸۱، ۳۶۵، ۳۶۹، اور ۴۵۹ بھی ملاحظہ کی جائیں جن سے اس سوال پر مزید روشنی پڑتی ہے.
سیرت المہدی 494 حصہ سوم (۲) روایت نمبر ۲۲ میں حضرت مسیح موعود السلام کے الہامات کی نوٹ بک کے متعلق جو یہ الفاظ آتے ہیں.کہ اب وہ نوٹ بک کہاں ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی کے پاس ہے.اس میں بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں.(۳) روایت نمبر ۳۷، ۴۶ ، ۱۲۷ حصہ اول طبع دوم میں یہ بیان کیا گیا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی صاحبہ مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے بڑے بھائی مرزا محمد بیگ کے ساتھی بیاہی گئی تھیں.مگر یہ کہ وہ جلد فوت ہو گیا.اس بارہ میں والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد صاحب نے جو ہماری بھا وجہ ہیں مجھ سے بیان کیا.کہ ہماری پھوپھی مراد بی بی کی شادی مرز امحمد بیگ کے ساتھ نہیں ہوئی تھی.بلکہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث کے ساتھ ہوئی تھی.مرزا محمد بیگ مرزا احمد بیگ سے چھوٹا تھا.اور بچپن ہی میں فوت ہو گیا تھا.(۴) روایت نمبر اہ کی بناء پر جو بعض کمینہ مزاج مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کے متعلق استہزاء کا طریق اختیار کیا تھا.اس کا مفصل جواب حصہ اول طبع دوم کی اسی روایت یعنی روایت نمبر ۵۱ میں درج کیا جا چکا ہے.اسی ضمن میں روایات نمبر ۴۴،۲۵، ۹۸، ۴۱۲،۱۳۴،۱۲۹ اور نمبر ۴۳۸ بھی قابل ملاحظہ ہیں جن سے اس بحث پر مزید روشنی پڑتی ہے.(۵) روایت نمبر ۵۵ میں حضرت والدہ صاحبہ کے یہ الفاظ درج ہیں کہ ”چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا.اس کے متعلق یہ بات قابلِ نوٹ ہے.کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا.اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے.حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں.(۲) روایت نمبر ۹۸ حصہ اول طبع دوم میں میاں عبداللہ صاحب سنوری نے ذکر کیا ہے.کہ انہوں نے میاں محمد حسین صاحب مراد آبادی خوشنویس کے بعد چوتھے نمبر پر بیعت کی تھی.مگر جو ابتدائی رجسٹر بیعت کنندگان مجھے حال ہی میں ملا ہے اس کے اندراج کے لحاظ سے ان کا نام نمبر پر درج ہے.
سیرت المہدی 495 حصہ سوم (۷) اسی روایت نمبر ۹۸ میں میاں عبداللہ صاحب سنوری نے پہلے دن کی بیعت کی تاریخ ۲۰ رجب ۱۳۰۶ء مطابق ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء بیان کی ہے.مگر رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹؍ رجب اور ۲۱ / مارچ ظاہر ہوتی ہے یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں کا مقابلہ بھی غلط ہو جاتا ہے اس اختلاف کی وجہ سے میں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰ رجب کو ۲۳ مارچ ثابت ہوئی ہے.پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہو گیا ہے اور یا اس ماہ میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی.واللہ اعلم.(۸) روایت نمبر ۳۰۶ میں خارق عادت طور پر بخاری کا حوالہ مل جانے کا واقعہ مذکور ہے اور اس کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں کہ: "مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالبا نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی.سواؤل تو بخاری ہی نہ ملتی تھی.اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی الخ.اس واقعہ کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ یہ واقعہ میرے سامنے پیش آیا تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ تھا اور میں اس میں کا تب تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرچوں کی نقل کرتا تھا.مفتی محمد صادق صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ غالباً حضرت صاحب کو نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی.اس میں جناب مفتی صاحب کو غلطی لگی ہے.کیونکہ مفتی صاحب وہاں نہیں تھے.نون خفیفہ وثقیلہ کی بحث تو دہلی میں مولوی محمد بشیر سہسوانی ثم بھو پالوی کے ساتھ تھی.اور تلاش حوالہ بخاری کا واقعہ لدھیانہ کا ہے.بات یہ تھی کہ لدھیانہ کے مباحثہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا تھا.بخاری موجود تھی.لیکن اس وقت اس میں یہ حوالہ نہیں ملتا تھا.آخر کہیں سے توضیح تلویح منا کرحوالہ نکال کر دیا گیا.صاحب توضیح نے لکھا ہے.کہ یہ حدیث بخاری میں ہے.اور اسی واقعہ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ:.روایت نمبر ۳۰۶ میں حضرت حکیم الامت خلیفہ مسیح اول کی روایت سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے اور وو
سیرت المہدی 496 حصہ سوم حضرت مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کی روایت سے اس کی مزید تصریح کی گئی ہے.مگر مفتی صاحب نے اُسے لدھیانہ کے متعلق بیان فرمایا ہے اور نونِ ثقیلہ والی بحث کے تعلق میں ذکر کیا ہے.جو درست نہیں ہے.مفتی صاحب کو اس میں غلطی لگی ہے.لدھیانہ میں نہ تو نونِ ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث ہوئی اور نہ اس قسم کے حوالہ جات پیش کرنے پڑے.نونِ ثقیلہ کی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر بھو پالوی والے مباحثہ کے دوران میں پیش آئی تھی.اور وہ نون ثقیلہ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے تھے.اور جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے اس مقصد کے لئے بھی بخاری کا کوئی حوالہ پیش نہیں ہوا.الحق دہلی سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہے.دراصل یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ”محد ثیت اور نبوت پر بحث ہوئی تھی.یہ مباحثہ محبوب رائیوں کے مکان متصل لنگے منڈی میں ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا.جس میں حضرت عمر کی محدثیت پر استدلال تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا.اور بخاری خود بھیج دی.مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود نکال کر پیش کیا.اور یہ حدیث صحیح بخاری پارہ ۱۴ حصہ اول باب مناقب عمرہ میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں عن ابی ھریرة رضی الله تعالى عنه.قال النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم قد كان فِيمَن قبلكم من بنى اسرائيل رجال يُكَلَّمُونَ من غيران يكونوا انبياءَ فَإِنْ يَكُ مِنْ أُمَّتِى مِنْهُمْ اَحَدٌ فَعُمَر - جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی.تو فریق مخالف پر گویا ایک موت وارد ہو گئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی پر مباحثہ ختم کر دیا‘.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایتوں میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق خاکسار ذاتی طور پر کچھ عرض نہیں کر سکتا.کہ اصل حقیقت کیا ہے.ہاں اس قدر درست ہے کہ نونِ ثقیلہ والی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر والے مباحثہ میں پیش آئی تھی.اور بظاہر اس سے بخاری والے حوالہ کا جوڑ نہیں ہے.پس اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہلی والے مباحثہ کا نہیں ہے.آگے رہا لا ہور اور لدھیانہ کا اختلاف ،سواس کے متعلق میں کچھ عرض نہیں کر سکتا.نیز خاکسار افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ سیرۃ المہدی کا حصہ سوم زیر تصنیف ہے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی فوت ہو چکے ہیں.پیر صاحب
سیرت المہدی 497 حصہ سوم موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایات کا ایک عمدہ خزانہ تھے.(۹) روایت نمبر ۳۰۷ کی تشریح میں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ایک چوزہ ذبح کرتے ہوئے زخمی ہو گئے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ :.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عصر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے.بائیں ہاتھ کی انگلی پر پٹی پانی میں بھیگی ہوئی باندھی ہوئی تھی.اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس سے پوچھا.کہ حضور نے یہ پٹی کیسے باندھی ہے؟ تب حضرت اقدس علیہ السلام نے ہنس کر فر مایا کہ ایک چوزہ ذبح کرنا تھا.ہماری اُنگلی پر چھری پھر گئی.مولوی صاحب مرحوم بھی ہنسے اور عرض کیا کہ آپ نے ایسا کام کیوں کیا.حضرت نے فرمایا.کہ اس وقت اور کوئی نہ تھا.(۱۰) روایت نمبر ۳۰۹ کی تشریح میں جس میں لدھیانہ کی پہلے دن کی بیعت کا ذکر ہے.مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ روایت نمبر ۳۰۹ میں مخدومی مکرمی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نے پہلے دن کی بیعت میں مولوی عبداللہ صاحب کے ذکر میں فرمایا ہے کہ وہ خوست کے رہنے والے تھے.یہ درست نہیں.دراصل مولوی عبد اللہ صاحب کو بہت کم لوگ جانتے ہیں.وہ خوست کے رہنے والے نہ تھے.اس میں صاحبزادہ صاحب کو سہو ہوا ہے.مولوی عبداللہ صاحب اس سلسلہ کے سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے بیعت لینے کی اجازت دی تھی.آپ تنگئی علاقہ چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے.میں نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے نام حضرت اقدس کا مکتوب اور اجازت نامہ الحکم کے ایک خاص نمبر میں شائع کر دیا تھا.(۱۱) روایت نمبر ۳۳۴ کی تشریح میں جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایک شعر پڑھ کر چشم پر آب ہو گئے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا.کہ :.یہ شعر كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِئ الخ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا تھا.اور مجھے سُنا کر فرمایا.کہ کاش !احسان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعرحستان کے ہوتے.پھر آپ چشم پر آب ہو گئے.اس وقت حضرت اقدس نے یہ شعر کئی بار پڑھا.
سیرت المہدی 498 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسان بن ثابت کے شعر کے متعلق پیر سراج الحق صاحب سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں.جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہوگی.ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت جھلکتی ہے.جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی.اور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ بلند معیار نظر نہیں آتا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرت علی کے متعلق نظر آتا ہے.(۱۲) حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت نمبر ۴۱۰ جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے.کہ جو شخص ہماری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا.اس کے ایمان کے متعلق مجھے شبہ ہے.اس کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ یہ روایت غلط درج ہوگئی ہے.اصل روایت یوں ہے یعنی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے یہ فرمایا تھا.کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا.اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے“.473 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایات کے نمبروں میں بعض غلطیاں ہوگئی ہیں.ان کی اصلاح درج ذیل کی جاتی ہے:.(الف) روایت نمبر ۳۱۴ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۱۴ درج ہو گیا ہے اس کا نمبر ۳۱۴/۱ اور صحیح نمبر ۳۱۵ چاہئے.(ب) روایت نمبر ۳۴۱ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۴۱ درج ہو گیا ہے.اس کا نمبر ۱/ ۳۴۱ اور صحیح نمبر ۳۴۳ چاہئے.(ج) روایت نمبر ۳۶۹ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۶۹ درج ہو گیا ہے اس کا نمبر ۳۶۹/۱ اور صحیح نمبر ۳۷۲ چاہئے.اس طرح تین روایتوں کی زیادتی کی وجہ سے سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۶۸ کی بجائے در اصل ۴۷۱ نمبر پر ختم ہوتی ہے.چنانچہ اسی کوملحوظ رکھتے ہوئے حصہ سوم کی پہلی روایت کو ۴۷۲ نمبر
سیرت المہدی دیا گیا ہے.ا 499 حصہ سوم علاوہ ازیں حصہ دوم میں بعض لفظی غلطیاں بھی رہ گئی ہیں مثلاً:.(الف) روایت نمبر ۳۰۵ میں لا خَذْنَاهُ بِالْيَمِينِ “ کی بجائے لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ “ چاہیے.(ب) روایت نمبر ۳۵۲ میں ”نقطہ کی بجائے ” نکتہ چاہیئے.(ج) روایت نمبر ۶ ۴۰ میں شیقل“ کی بجائے صیقل“ چاہئے.(د) روایت نمبر ۴۱۱ میں ” لا يَنطِقُ لِسَانِی “ کی بجائے ” لَا يَنْطَلِقُ لِسَانِی چاہیے.(ھ) روایت نمبر ۴۶۸ میں علمی نقطے کی بجائے علمی نکتے چاہئے.۲ 474 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے مکرمی میر محمد الحق صاحب سے جو میرے ماموں ہیں وہ ابتدائی رجسٹر بیعت ملا ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سلسلہ بیعت شروع ہونے پر بیعت کرنے والوں کے اسماء درج فرمایا کرتے تھے.یہ رجسٹر میر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات میں سے ملا تھا.لیکن افسوس ہے.کہ اس قیمتی دستاویز میں سے پہلا ورق ضائع ہو چکا ہے.جس کی وجہ سے ابتدائی آٹھ ناموں کا پتہ نہیں چل سکتا.کہ وہ کن اصحاب کے تھے البتہ نمبر ۹ سے لے کر نمبر ۴۷۵ تک کے اسماء محفوظ ہیں.ان میں سے ابتدائی ۶۲ اسماء درج ذیل کئے جاتے ہیں.اس رجسٹر میں کئی اندراجات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے ہیں.جن کے خط کو میں پہچانتا ہوں اور بعض دوسروں کے درج کردہ ہیں.جن میں بعض جگہ حضرت خلیفہ اول کا خط بھی نظر آتا ہے.ابتدائی آٹھ ناموں کی ترتیب کے متعلق چونکہ دوسری روایات سے ( دیکھو نمبر ۹۸، ۳۰۹، ۳۱۵) کسی حد تک پتہ مل سکتا ہے.اس لئے اس حصہ میں رجسٹر کی کمی زبانی روایات کی روشنی میں قیاسا پوری کر دی گئی ہے.بہر حال اس رجسٹر کے ابتدائی اندراجات حسب ذیل ہیں.ا روایت نمبر 472 میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جو صحیحات اور اضافے فرمائے ہیں وہ سیرت المہدی جز اول اور جزء دوم میں متعلقہ مقامات پر شامل کر دئے گئے ہیں.(سید عبدالحی ) موجودہ ایڈیشن میں ان تمام مقامات پر تصحیح کر دی گئی ہے.(سید عبدالحی )
500 سیرت المہدی نمبر تاریخ تاریخ ہجری عیسوی قق نام مع ولدیت ۱۹ رجب ۲۱ مارچ حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور موجود و سکونت پیشه و غیره ملازم شاہی جموں یہ حصہ یعنی نمبرا ١٨٨٩ء // سے نمبر ۸ تک میر عباس علی صاحب لدھیانہ زبانی روایات منشی باشم علی صاحب سنور ریاست پٹیالہ پٹواری کی بناء پر یا محمد حسین صاحب مراد آباد خوشنویسی قیاسی طور پر مولوی عبد اللہ صاحب خوست یا چارسده درج کیا گیا ہے.منشی اله بخش صاحب لدھیانہ والله اعلم یہ نام ابھی تک معلوم نہیں خاکسار ہوسکا قاضی خواجہ علی صاحب (مؤلف) لدھیانہ حافظ حامد علی ولد فتح محمد تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور کاشت قادیان ضلع گورداسپور منشی رستم علی موضع مدار ضلع جالندھر کانگڑہ ملازمت پولیس ولد شہاب خاں تحصیل جالندھر علاقہ قیصری ڈی انسپکٹر پولیس کا نگرہ عبد اللہ ولد کریم بخش سنور محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ غوث گڑھ تھا نہ ملازمت پٹواری بعد محمد حسین صاحب گمانوں تحصیل ریاست پٹیالہ نمیبرم سر ہند ریاست پٹیالہ ۵۱۳۰۶ 1 L २ 3 // // ۶ // // // // // // // //
501 موجود و سکونت پیشه و غیره کیفیت لدھیانہ محلہ صوفیاں ملازمت سیرت المہدی نمبر تاریخ تاریخ ہجری نام مع ولدیت عیسوی میر عنایت علی ولد ۲۱ مارچ وا رجب ۱۲ ۱۳۰۶ھ ۱۸۸۹ء میر ولایت علی 1 ۱۳ // // شہاب دین ولد متاب دین حصہ غلام نبی ضلع گورداسپور جموں ملازمت // // ۱۴ २ شیخ نورالدین قصبہ نبت ضلع مظفر نگر مالیر کوٹلہ ملازمت ریاست ولد شیخ جان محمد کوٹلہ // // ۱۵ صالح محمد خاں ولد عمر بخش خاں ملازمت ریاست مالیر کوٹلہ // ۱۶ عبدالحق عبد الحق خلف عبدالسمیع لدھیانہ محلہ رنگریزاں پیشه نوکری لا // // محمد یوسف ولد کریم بخش سنور محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ ملازمت مدرسی ریاست پٹیالہ // // ۱۸ محمد بخش ولد عبد اللہ لدھیانہ محلہ بیٹریاں کتب فروشی چانن شاہ ولد گلاب شاہ اکبر پور ضلع مالیر کوٹلہ میراں بخش ولد بہادر خاں کبیر دریاست پٹیالہ تحصیل امر گڑھ کاشت نمبر دار علی محمد ولد احمد شاہ قضاء رام سنگھ ولد نندا کوٹلہ مالیر مختار کاری نبی بخش ولد رانجهه کبیر وریاست پٹیالہ کاشت تحصیل امر گڑھ // // // // // σ ۲۱ // // ۲۲ // // ۲۳
سیرت المہدی 502 نمبر تاریخ تاریخ نام مع ولدیت موجود و سکونت پیشه و غیره کیفیت ہجری عیسوی وا رجب ۲۱ مارچ ۲۴ ۵۱۳۰۶ علی محمد ولد گلاب خاں کاشت ١٨٨٩ء // ۲۵ مولوی فتح علی موضع و با نانوالی موضع خیری ریاست متوکل ولد فضل الدین تحصیل سیالکوٹ جموں جاگیر راجہ امر سنگھ ۲۶ Σ // // (منشی) روڑ اولد جیون کپورتھلہ محلہ قصاباں نقشہ نویسی جوڈیشنل عدالت مجسٹریٹ کپورتھلہ ملازمت رحیم بخش ولد کریم بخش سنور محلہ خوشا بیاں ریاست پٹیالہ حشمت اللہ ولد فیض بخش سنور.ریاست پٹیالہ محلہ ملانہ ملازمت مدرس ریاست پٹیالہ محمد بخش ولد عبد الرحیم سیالکوٹ خاص دکانداری بزازی وغیرہ علی محمد ولد اللہ بخش سنور محلہ مجاوراں ملا زمت زنبور چی ریاست پٹیالہ ریاست پٹیالہ ابراہیم ولد منشی اللہ بخش سنور ریاست پٹیالہ ملازمت مدرس محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ محمد ابراہیم سنور محلہ تنبواں ملازمت پٹواری ولد منشی کریم بخش ریاست پٹیالہ ریاست پٹیالہ // // ۲۷ // ۲۸ // ۲۹ // // ۳۰ "/ // ۳۱ 5 ۳۲
سیرت المہدی نمبر تاریخ تاریخ ہجری نام مع ولدیت عیسوی ٣٣ ١٩ رجب ۲۱ مارچ ولی محمد ولد عبد الله ۱۳۰۶ھ ۱۸۸۹ء // // ۳۴ // // ۳۵ // // // ۳۷ // // ۳۸ // ۳۹ // // ۴۰ // // ۴۱ ۴۲ } 503 پٹیالہ محلہ ڈیک بازار موجود و سکونت پیشه و غیره متوکل مستعفی احمد حسن خلف محمد اکبر ایضاً محلہ بارہ دری خورد ملازمت ریاست پٹیالہ حر کوٹھے کینچی خلیفہ محمد عیسی سنور.ریاست پٹیالہ محلہ ملانہ ایضا محر پلیئن.والد میانجی فضل علی ریاست پٹیالہ جان محمد ولد ر ولد و پٹیالہ محلہ بارہ دری خورد ملازم بذیل سپاہی پلین خدا بخش ولد درگاہی پٹیالہ قریب دروازه شیرانوالہ باغبان مرزا سعادت بیگ سامانه علاقہ پٹیالہ محلہ ولد مرزا رستم بیگ اندر کوٹ عرف امام گڑھ مرز امحمد یوسف بیگ ولد مرزا رستم بیگ میرزا ابراہیم بیگ ولد مرزا یوسف بیگ محمد حفیظ بیگ ولد منور بیگ "/ تجارت ۱۹ رجب ۲۱ مارچ اللہ دین ولد کریم بخش بھیرہ ضلع شاہ پور چھاؤنی شاہ پور عرضی نویس ۱۳۰۶ھ ١٨٨٩ء صدرشاہ پور کیفیت
سیرت المہدی 504 نمبر تاریخ تاریخ نام مع ولدیت ہجری عیسوی موجود و سکونت پیشه و غیره کیفیت // // ۴۳ عبدالکریم ولد محمد سلطان سیالکوٹ مدرس بورڈ اسکول " ۴۴ سید عبد الرزاق ولد علی محمد کریام تھانہ راہوں ضلع کڑیا نہ تھا نہ پھلور ضلع متوکل نمبر ۴۳ کا اندراج حضرت خلیفہ اول جالندھر جالندھر کے ہاتھ کا معلوم ہوتا ہے.خاکسار - مؤلف // ۴۵ مسماة منان زوجہ علی بخش جھنٹ ضلع لدھیانہ زمینداری // // ۴۶ فرزند حسین ولد علی نواز ماچھی دار ضلع لدھیانہ لدھیانہ ملازمت بوجه کاغذ دریده ہو سکے تحریر مشتبہ ہے لدھیانہ ملازمت ۴۷ ۲۰ رجب ۲۲ مارچ اللہ دین ولد جیوے خان لدھیانہ محلہ رنگریزاں ما بیا ولد پیر بخش غوث گڑھ ریاست پٹیالہ غوث گڑھ زمینداری تعلقہ گہمانوں قا در بخش ولد نتیا رتن گڑھ تھانہ سانیوال رتن گڑھ زمینداری بیگا ولد سادو گھڑیں پور تحصیل رو پر ضلع گھڑیں پور زمینداری انبالہ امیر الدین ولد فضل الدین جسووال ماچھیواڑہ جسووال خیاطی و زمینداری حافظ نور احمد ولد قا در بخش لدھیانہ محلہ موچھ پورہ نوراحمد لدھیانہ تجارت ۱۸۸۹ء ۵۱۳۰۶ // // ۴۸ // // ۴۹ // // ۵۰ // // ۵۱ // // ۵۲
سیرت المہدی نمبر تاریخ تاریخ ہجری نام مع ولدیت عیسوی 505 موجودہ سکونت پیشه و غیره کیفیت ۵۳ ۲۰ رجب ۲۲ مارچ ضیاء الدین کوٹ قاضی محمد خاں تحصیل کوٹ قاضی محمد خاں معلم و امام مسجد ۵۱۳۰۶ ولد قاضی غلام احمد وزیر آباد ضلع گوجرانواله ١٨٨٩ء // // ۵۴ محمد تقی ولد محمد یوسف سنور.ریاست پٹیالہ سنور.محلہ تنبواں عمر ۱۰سال // // محمد مصطفیٰ ولد محمد ابراہیم ۱۲ ساله ۵۶ روز شنبه ۲۳ مارچ محمد خلیل ولد محمد سلطان لدھیانہ محلہ اقبال سنج برج لناں تحصیل پٹوار گری و میر محله پٹوارگری لا ۲۱ رجب ۸۹ء // ۵۸ // ۵۹ // // // // ۶۰ บ لدھیانہ اقبال گنج ظفر احمد ولد محمد ابراہیم بوڈ ہانہ ضلع مظفر نگر کپورتھلہ اپیل نویسی محکمہ مجسٹر یٹی کپورتھلہ محمد خاں ولد دلاور خاں ریاست را مپورحال کپورتھلہ کپورتھلہ اہلمد فوجداری محکمہ محلہ شیر گڑھ اسٹنٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ عبد الرحمن ولد حبیب اللہ سرادہ تحصیل با پور ضلع میرٹھ کپورتھلہ اہلمد محله جرنیلی ریاست کپورتھلہ حاجی ابراہیم چھاؤنی انبالہ صدر تجارت قطع تعلقہ و روز ہفتہ ۲۳ مارچ اسمعیل ولد صدر الدین موضع چهار و تھانہ راجپورہ ۸۹ء // // ۶۲ ولى مدبراً زمینداری عبد الکریم ولد امیر علی ايضاً ايضاً
سیرت المہدی 506 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے.کہ جیسا کہ روایت نمبر ۹۸ میں بیان کیا جا چکا ہے پہلی بیعت بمقام لدھیانہ ہوئی تھی.جس میں مطابق روایات چالیس اشخاص نے یکے بعد دیگرے بیعت کی تھی.پہلے آٹھ نام جو اس رجسٹر سے ضائع ہو چکے ہیں.ان میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کا نام مسلمہ طور پر اول نمبر پر تھا اور دوسرے نمبر پر میر عباس علی صاحب کا نام تھا.باقی ناموں کے متعلق قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا.مگر قاضی خواجہ علی صاحب کے نمبر کے متعلق میر عنایت علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے خاکسار سے متفقہ طور پر بیان کیا ہے.کہ قاضی خواجہ علی صاحب موصوف کا نمبر آٹھ تھا.اور نمبر چار پر محمد حسین صاحب خوشنویس کا نام تھا.جیسا کہ مندرجہ بالا فہرست کے اندراج نمبر 1 میں مذکور ہے.اور باقی ناموں کی ترتیب قیاساً درج کی گئی ہے.واللہ اعلم.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فہرست میں جو ایک ہندو کا نام درج ہے.اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر کوئی شخص عقیدت اور اخلاص سے بیعت کی استدعا کرتا تھا اور ساتھ ہی اپنے بعض عقائد کی نسبت مجبوری بھی ظاہر کرتا تھا کہ وہ انہیں فی الحال نہیں چھوڑ سکتا تو آپ اس کی بیعت قبول کر لیتے تھے جو گویا ایک گونہ محدود اور مشروط قسم کی بیعت ہوتی تھی.مگر بسا اوقات ایسا شخص بعد میں جلدی ہی پوری طرح صاف ہو جایا کرتا تھا.پس یہ جو اس فہرست میں ہندو کا نام درج ہے.یہ اگر کو ئی مخفی نومسلم نہیں ہے تو ممکن ہے کہ کوئی ایسی ہی صورت ہو.چنانچہ نواب محمدعلی خان صاحب نے بھی ابتدا میں اس عہد کے ساتھ بیعت کی تھی کہ وہ بدستور شیعہ عقیدہ پر قائم رہیں گے.مگر بیعت کے بعد جلد ہی شیعیت کا داغ دھل گیا.اور سُنا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی جب بیعت کی تو اس کے کچھ عرصہ بعد تک نیچریت کے دلدادہ رہے.مگر آخر مسیحی نور کے سامنے یہ تاریکی قائم نہ رہ سکی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے متعلق خود فرماتے ہیں.مد تے در آتش نیچر فرو افتاده بود ایں کرامت ہیں که از آتش بروں آمد سلیم خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس نوٹ کے لکھنے کے بعد مجھے مکرم میر عنایت علی صاحب سے معلوم ہوا
سیرت المہدی 507 حصہ سوم ہے کہ یہ شخص مسمی رام سنگھ جو پہلی بیعت میں شامل تھا وہ نو مسلم تھا اور اس کا اسلامی نام شیخ عبدالعزیز تھا.اس وقت وہ فوت ہو چکا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالبا بیعت کے وقت وہ نیا نیا مسلمان ہوا ہو گا.اس لئے شناخت کے لئے سابقہ نام ہی لکھ دیا گیا.واللہ اعلم.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیعت کنندگان کے رجسٹر سے جو مجھے مکرم میر محمد اسحاق صاحب کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا.کہ آیا بیعت کے وقت ہی اس رجسٹر میں فوراً اندراج کر لیا جاتا تھا.یا کہ بیعت کے بعد چند اسماء ا کٹھے درج کر لئے جاتے تھے.مؤخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ بوقت اندراج اصل ترتیب سے کسی قدر اختلاف ہو جاتا ہو.بلکہ بعض اندراجات سے شبہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا.کیونکہ بعض صورتوں میں زبانی روایات اور رجسٹر کے اندراج میں کافی اختلاف ہے.اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے سامنے کا نوٹ بھی یہی ظاہر کرتا ہے.واللہ اعلم.475 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار کے حقیقی ماموں ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد سوال کیا کرتے تھے.کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرماویں.اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر یوں فرمایا کرتے تھے.کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں.اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں.اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں.نیز آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے.کہ استغفار کیا کریں.سورۃ فاتحہ پڑھا کریں.درود شریف پر مداومت کریں.اسی طرح لاحول اور سبحان اللہ پر مواظبت کریں.اور فرماتے تھے.کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منتر جنتر کی طرح وظائف کے قائل نہ تھے.بلکہ صرف دُعا اور ذکر الہی کے طریق پر بعض فقرات کی تلقین فرماتے تھے.476 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض خاص فقرات
سیرت المہدی 508 حصہ سوم حضور کی زبان پر اکثر جاری رہتے تھے.چنانچہ فرمایا کرتے تھے.الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ - لَا يُلْدَعُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ.بے حیا باش و ہر چہ خواہی کن.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فقرہ نمبر۲ کا ترجمہ بھی اکثر سُنا ہے یعنی مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا.477 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں سے بیعت صرف زبانی لیتے تھے.ہاتھ میں ہاتھ نہیں لیتے تھے.نیز آپ بیعت ہمیشہ اُردو الفاظ میں لیتے تھے.مگر بعض اوقات دہقانی لوگوں یا دیہاتی عورتوں سے پنجابی الفاظ میں بھی بیعت لے لیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے پتہ لگتا ہے.کہ آنحضرت بھی عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے اُن کے ہاتھ کو نہیں چھوتے تھے.دراصل قرآن شریف میں جو یہ آتا ہے کہ عورت کو کسی غیر محرم پر اظہار زینت نہیں کرنا چاہئے.اسی کے اندریس کی ممانعت بھی شامل ہے.کیونکہ جسم کے چھونے سے بھی زینت کا اظہار ہو جاتا ہے.478 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ جو اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّاَتُوبُ الیہ پڑھنے کا کثرت سے حکم آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک ڈنسب یعنی دم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے.اور یہ انسان کے لئے بدنما اور اس کی خوبصورتی کے لئے ناموزوں ہے.اس واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دعا مانگے اور استغفار کرے تا کہ اس حیوانی دُم سے بچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور ایک مکرم انسان بنا رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں غالباً یہ لفظی لطیفہ بھی مد نظر ہے کہ ذنب یعنی گناہ حقیقةً ایک دنب یعنی دم ہے.جو انسان کی اصلی فطرت کے خلاف اس کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہے.گویا جس طرح ذنب اور ڈنب یعنی دُم کے الفاظ اپنی ظاہری صورت میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں.اسی طرح ان
سیرت المہدی 509 حصہ سوم میں معنوی مشابہت بھی ہے.واللہ اعلم.479 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ میں گھوڑی سے گر پڑا.اور میری داہنی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی.اس لئے یہ ہاتھ کمزور ہو گیا تھا.کچھ عرصہ بعد میں قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا.حضور نے پوچھا.شاہ صاحب آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کلائی کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ کی انگلیاں کمزور ہوگئی ہیں اور اچھی طرح مٹھی بند نہیں ہوتی.حضور دعا فرمائیں کہ پنجہ ٹھیک ہو جائے.مجھ کو یقین تھا کہ اگر حضور نے دعا فرمائی تو شفا بھی اپنا کام ضرور کرے گی.لیکن بلا تامل حضور نے فرمایا.کہ شاہ صاحب ہمارے مونڈھے پر بھی ضرب آئی تھی جس کی وجہ سے اب تک وہ کمزور ہے.ساتھ ہی حضور نے مجھے اپنا نشانہ نگا کر کے دکھایا اور فرمایا کہ آپ بھی صبر کریں.پس اس وقت سے وہی ہاتھ کی کمزوری مجھ کو بدستور ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ اب یہ تقدیر ٹلنے والی نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب اپنے اصحاب سے کس قدر بے تکلف تھے کہ فوراً اپنے شانہ نگا کر کے دکھا دیا.تا کہ شاہ صاحب اسے دیکھ کر تسلی پائیں.480 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب سا کن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود سے پوچھتے تھے.کہ یا حضرت! ہم کونسا وظیفہ پڑھا کریں؟ تو حضور فرماتے کہ الحمد للہ اور درود شریف اور استغفار اور دُعا پر مداومت اختیار کرو اور دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کثرت سے پڑھا کرو.481 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کرا کر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ آؤ ہم اور تم برابر برابر کھڑے ہو کر قد نا ہیں.پھر انہوں نے میرے بائیں طرف کھڑے ہو کر کندھے
سیرت المہدی 510 حصہ سوم سے کندھا ملایا.تو اس وقت دونوں برابر برابر رہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ یہ اوائل زمانہ کا رویاء ہوگا.کیونکہ بعد میں تو آپ کو وہ روحانی مرتبہ حاصل ہوا کہ امت محمدیہ میں آپ سب پر سبقت لے گئے.جیسا کہ آپ کا یہ الہام بھی ظاہر کرتا ہے کہ آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا.اور آپ نے صراحت کے ساتھ لکھا بھی ہے کہ مجھے اس امت کے جملہ اولیاء پر فضیلت حاصل ہے.482 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی نظم لکھتے اور ایسے موقعہ پر کسی اردو لفظ کی تحقیق منظور ہوتی.تو بسا اوقات حضرت ام المومنین سے اس کی بابت پوچھتے تھے.اور زیادہ تحقیق کرنی ہوتی تو حضرت میر صاحب یا والدہ صاحبہ سے بھی پوچھا کرتے تھے.کہ یہ لفظ کس موقعہ پر بولا جاتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت والدہ صاحب چونکہ دہلی کی تھیں اس لئے روز مرہ کے اردو محاوروں میں انہیں زیادہ مہارت تھی.جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فائدہ اٹھا لیتے تھے مگر یہ استعانت صرف روزمرہ کے محاورہ تک محدود تھی.ورنہ علمی زبان میں تو حضرت صاحب کو خود کمال حاصل تھا.483 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے اور صحیح طریق کسی زبان کے سیکھنے کا یہ نہیں ہے کہ پہلے صرف و نحو پڑھی جائے.بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُسے بولا جائے.بولنے سے ضروری صرف و نحو خود آجاتی ہے.چنانچہ اسی لئے اس خاکسار کو ۱۸۹۵ء میں حضرت صاحب نے قریباً ایک ہزار فقرہ عربی کا مع ترجمہ کے لکھوایا.روزانہ پندرہ بیس کے قریب فقرے لکھوا دیتے.اور دوسرے دن سبق سُن کر اور لکھوا دیتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ طریق غالبا صرف بولنے اور عام استعداد پیدا کرنے کے لئے ہے.ور نہ علمی طور پر عربی زبان کی مہارت کے لئے صرف ونحو کا علم ضروری ہے.
سیرت المہدی 511 حصہ سوم 484 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ان مسائل میں جن میں حلت وحرمت کا سوال در پیش ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.کہ یہ یاد رکھنا چاہئے.کہ شریعت نے اصل اشیاء کی حلت رکھی ہے.سوائے اس کے جہاں حرمت کی کوئی وجہ ہو یا ظاہری حکم حرمت کا موجود ہو.باقی إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ پر منحصر ہے.نیت درست ہو تو عمل مقبول ہو جاتا ہے.درست نہ ہو تو نا جائز ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا.کہ سوائے ایسے مسائل کے جن میں شریعت نے کوئی تصریح کی ہو، اکثر صورتوں میں آپ الاعمال بالنیات پر بنیادرکھتے تھے.اور مسائل کے جواب میں یہی فقرہ دُہرا دیتے تھے.485 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ حضور سے کسی بچہ نے پوچھا.کہ کیا طوطا حلال ہے.مطلب یہ تھا کہ ہم طوطا کھانے کے لئے مارلیا کریں.حضور نے فرمایا.میاں حلال تو ہے.مگر کیا سب جانور کھانے کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ خدا نے سب جانور صرف کھانے ہی کے لئے پیدا نہیں کئے.بلکہ بعض دیکھنے کے لئے اور دُنیا کی زینت اور خوبصورتی کے لئے بھی پیدا کئے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے بھی یہی فرمایا تھا کہ سارے جانور نہیں مارا کرتے کیونکہ بعض جانور خدا نے زینت کے طور پر پیدا کئے ہیں.لیکن خاکسار کی رائے میں کسی جانور کی کثرت ہو کر فصلوں وغیرہ کے نقصان کی صورت ہونے لگے تو اس کا انسداد کرنا اس ہدایت کے خلاف نہیں ہے.486 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نماز میں آنکھیں کھول ر توجہ قائم نہیں رہتی.اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ آنکھوں کو خوابیدہ رکھا کرو.
سیرت المہدی 512 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا.487 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب آئینہ کمالات اسلام چھپ رہی تھی.تو ان دنوں میں میں قادیان آیا اور جب میں جانے لگا تو وہ اسی (۸۰) صفحہ تک چھپ چکی تھی.میں نے اس حصہ کتاب کو ساتھ لے جانے کے لئے عرض کیا.اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے اعتراض کیا کہ جب تک کتاب مکمل نہ ہو، دی نہیں جاسکتی.تب حضور نے فرمایا.جتنی چھپ چکی ہے میاں غلام نبی صاحب کو دے دو.اور لکھ لو کہ پھر اور بھیج دی جائے گی.اور مجھے فرمایا کہ اس کو مشتہر نہ کرنا.جب تک کہ مکمل نہ ہو جائے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حضور کی شفقت تھی.کہ اپنے مخلصین کی خواہش کو ر ڈ نہیں فرماتے تھے ور نہ حضور جانتے تھے کہ جب تک کوئی کتاب مکمل نہ ہو جائے اس کی اشاعت مناسب نہیں ہوتی اور بعض جہت سے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیٹھی غلام نبی صاحب اب فوت ہو چکے ہیں.چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور راولپنڈی میں دکان کرتے تھے.نہایت مخلص اور یک رنگ تھے.488 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بابومحمد عثمان صاحب لکھنوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ۱۹۱۸ء میں قادیان گیا تھا.اور چونکہ لالہ بڈھا مل کا ذکر اکثر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے.اس لئے میں نے ان سے ملنا چاہا.ایک دن بورڈنگ سے واپسی پر بازار میں اُسکے پاس گیا.اور ایک دکان پر جا کر اس سے ملاقات کی.میں نے کہا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل عمر میں دیکھا ہے.آپ نے ان کو کیسا پایا.کہنے لگا.کہ میں نے آج تک مسلمانوں میں اپنے نبی سے ایسی محبت رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا.اس پر میں نے کہا.کہ آپ نے ان کے دعوئی کو کیوں قبول نہ کیا.اس کے جواب میں اس نے کہا.یہ ذکر جانے دیجئے.یہ لمبی بحث ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی کتب میں زیادہ ذکر لالہ ملاوامل اور لالہ شرمیت
سیرت المہدی 513 حصہ سوم صاحبان کا آتا ہے اس لئے میں خیال کرتا ہوں کہ بابو صاحب کو نام کی غلطی لگی ہے.غالباً وہ لالہ ملا وامل صاحب سے ملے ہونگے جواب تک زندہ ہیں.6489 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا.کہ ۱۹۰۴ء میں میں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا.ان سب کا مضمون یہ تھا.کہ میں زبان سے تو بے شک خدا تعالیٰ کا اور حشر و نشر کا مُقر ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امر واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خدا تعالے کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جاگزین ہو جاوے وغیرہ وغیرہ.دوسروں کی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا.کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے.آپ یہاں آجاویں.حدیث شریف میں وارد ہے کہ مَنْ أَتَى إِلَيَّ شِبرا الخ پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا.اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہو گیا.490 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام سے عرض کی.کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا.کہ رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمُنِیُ پڑھا کرو.اَلْحَمْدُ لِلہ کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا ہے.491 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتا آیا ہوں.اور سب سے پہلے میں نے آپ کو مرزا غلام مرتضی صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا.جب کہ میں بالکل بچہ تھا.آپ کی عادت تھی.کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے.اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے.اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے.پھر جب صبح کی اذان ہوتی.تو سُنتیں گھر
سیرت المہدی 514 حصہ سوم میں پڑھ کر نماز کے لئے مسجد میں جاتے اور باجماعت نماز پڑھتے.نماز کبھی خود کراتے کبھی میاں جان محمد امام مسجد کرا تا.نماز سے آکر تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے.میں نے آپ کو مسجد میں سنت نماز پڑھتے نہیں دیکھا.سنت گھر پر پڑھتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا دین محمد صاحب مرزا نظام الدین صاحب کے برادر نسبتی ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے.اور حضرت صاحب کے سخت مخالف تھے.مرزا دین محمد صاحب ایک عرصہ سے احمدی ہو چکے ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد مرحوم امام مسجد تھا اور قوم کا کشمیری تھا.نیک اور سادہ مزاج انسان تھا.اور اکثر حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا.492 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب میں حضرت صاحب کے پاس سوتا تھا.تو آپ تہجد کے لئے نہیں جگاتے تھے.مگر صبح کی نماز کے لئے ضرور جگاتے تھے اور جگاتے اس طرح تھے کہ پانی میں انگلیاں ڈبو کر اس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتے تھے.میں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے اور پانی سے کیوں جگاتے ہیں.اس پر فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے اور فرمایا کہ آواز دینے سے بعض اوقات آدمی دھڑک جاتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی آنحضرت یہ کی اتباع کرتے تھے.493﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ مجھے کسی جگہ نو کر کرا دیں.حضور نے فرمایا.ہمارے واقفوں میں سے ایک ڈپٹی کلکٹر نہر ہیں ان سے سفارش کر دینگے.مگر اس کے بعد میں خود ہی دوسری جگہ نوکر ہو گیا.لیکن بالآخر نہر ہی کی طرف آگیا اور اٹھائیس سال ملازمت کی.494 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود
سیرت المہدی 515 حصہ سوم علیہ السلام کی عادت میں داخل تھا کہ اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کرتے تھے.طبی معاملات میں حکیموں ڈاکٹروں سے.قانونی باتوں میں وکلاء سے.فقہی مسائل میں علماء سے.مکان کی تعمیر ہو تو اوور سیروں یا راجوں مستریوں سے.گھر کا معاملہ ہو تو اہل بیت سے.اردو زبان کے کسی لفظ کے متعلق کوئی بات ہو.تو ہماری والدہ صاحبہ اور میر صاحب مرحوم سے.غرض آپ کی عادت تھی کہ چھوٹی بڑی ہر بات میں ایک یا زیادہ اہل لوگوں کو بلا کر مشورہ اور تبادلہ خیال کر لیا کرتے تھے.اسی طرح بہت سے معاملات مجلس احباب میں بعد مشورہ طے پاتے تھے.غرض آپ حتی الوسع ہر معاملہ میں مشورہ لیا کرتے تھے.پھر جس بات پر انشراح ہو جاتا.اُسے قبول کر لیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی بہت کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے.دراصل اسلامی نظام کی بنیاد ہی اولاً مشورہ اور بعدۂ توکل پر ہے.495 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضور علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے.اِتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ.یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور کی مدد سے دیکھتا ہے.496 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد جب باغ میں رہائش تھی تو ایک دن حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کا جنازہ پڑھ دیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پورا واقعہ یوں ہے کہ ان ایام میں آپ نے جب ایک دفعہ کسی احمدی کا جنازہ پڑھا تو اس میں بہت دیر تک دُعا فرماتے رہے اور پھر نماز کے بعد فرمایا کہ ہمیں علم نہیں کہ ہمیں اپنے دوستوں میں سے کس کس کے جنازہ میں شرکت کا موقعہ ملے گا.اس لئے آج میں نے اس جنازہ میں سارے دوستوں کے لئے جنازہ کی دُعا مانگ لی ہے اور اپنی طرف سے سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے.497 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ پیر منظور محمد
سیرت المہدی 516 حصہ سوم صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے زلزلہ کے بعد باغ میں مقیم تھے تو ایک دن آپ کو ایک الہام ہوا تھا.کہ تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت“ یہ الہام کہیں چھپا نہیں.پھر اس کے بعد ہی کچھ دن میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی بیمار ہو گئے اور چند روز میں فوت ہو گئے.498 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.اور قرآن مجید کا تذکرہ تھا.آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ نے اپنی تمام جائیداد لله تقسیم کر دی.اس پر کسی نے اس بزرگ سے کہا.کہ کیا ہی اچھا ہوتا.اگر آپ اپنے بیٹے کی لئے بھی کچھ رکھ لیتے.تو اس بزرگ نے جواب دیا.کہ میں اپنے بیٹے کے لئے سورۃ واقعہ چھوڑتا ہوں.کیونکہ حدیث شریف میں فضائل قرآن میں لکھا ہے کہ جو شخص ہر روز سورۃ واقعہ ورد کے طور پر پڑھتا ہے.اس کو اللہ تعالے فاقہ سے بچاتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو یہ ایک خاص قسم کی حالت سے متعلق ہوگی ورنہ عام حالات میں اسلامی تعلیم یہ ہے.کہ ورثاء کا حق مقدم ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ الله حضرت سعد بن ابی وقاص بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنا سارا مال صدقہ کرنا چاہا.مگر آنحضرت ﷺ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا.کہ ورثاء کو بے سہارا نہیں چھوڑ نا چاہئے.499 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ غالباً دوسرا یا تیسر اسالانہ جلسہ تھا.کہ حضور ایک دن عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا.کہ مولوی صاحب ( مراد غالباً حضرت خلیفہ اول ہیں.خاکسار (مؤلف) میرے دل میں یہ آیات گزری ہیں.کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ۷۰) اور يَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (الماعون : ۸).پھر حضور نے ان آیات کی اس قدر تشریح فرمائی.کہ حاضرین نے متاثر ہو کر چیخیں مارنی شروع کر دیں.بعد ازاں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے سورۃ مریم کی قراءت سے نماز شروع کی.اور بحالتِ نماز بھی ویسا
سیرت المہدی 517 حصہ سوم ہی رونے اور چیخنے کا شور پڑا ہوا تھا.جو بعد میں کم نظر آیا ہے.دوسرے روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر میں فرمایا کہ دُعا میں اس قدر اثر ہے.کہ اگر کوئی کہے کہ دعا سے پہاڑ چل پڑتا ہے تو میں اُسے یقین کرونگا اور اگر کوئی کہے کہ دعا سے درخت نقل مکانی کر جاتا ہے تو میں اسے سچ مانوں گا.ایک مسلمان کے پاس سوائے دُعا کے اور کوئی ہتھیار نہیں.یہی تو وہ چیز ہے جو انسان کی رسائی خدا تعالے تک کر دیتی ہے.500 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق میں بعض باتیں خاص طور پر نمایاں تھیں.اور ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کبھی کسی کی دل شکنی کو پسند نہیں فرماتے تھے.اور اس سے بہت ہی بچتے تھے.اور دوسروں کو بھی منع فرماتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری طبیعت پر بھی یہی اثر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا یہ ایک خاص نمایاں پہلو تھا.کہ حتی الوسع دوسروں کی انتہائی دلداری فرماتے اور دل شکنی سے بچتے تھے.501 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک حال محلہ دارالفضل قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ میرا لڑکا عبدالرحمن ہائی سکول میں تعلیم پاتا تھا وہ بعارضہ بخار محرقہ و سرسام تین چار دن بیمار رہ کر قادیان میں فوت ہو گیا.میں اس وقت فیض اللہ چک میں ملازم تھا.مجھے اطلاع ملی تو قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس سے فارغ ہوکر میں واپس فیض اللہ چک چلا گیا.پھر میں آئندہ جمعہ کے دن قادیان آیا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کے پہلے محراب میں جو کھڑکیوں کے درمیان ہوتا تھا.تشریف فرما تھے.میں اندر کی سیٹرھیوں سے مسجد میں گیا.جب حضور کی نظر شفقت مجھ پر پڑی تو حضور نے فرمایا: آگے آجاؤ.وہاں پر بڑے بڑے ارکان حضور کے حلقہ نشین تھے.حضور کا فرمانا تھا کہ سب نے میرے لئے راستہ دیدیا.حضور نے میرے بیٹھتے ہی محبت کے انداز میں فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بچہ کی موت پر بہت صبر کیا ہے.میں نعم البدل کے لئے دعا کروں گا.چنانچہ اس دُعائے نعم البدل کے نتیجہ میں خدا نے مجھے ایک اور بچہ دیا جس کا نام فضل الرحمن ہے جو آج کل بحیثیت مبلغ گولڈ کوسٹ افریقہ میں کام کر رہا ہے.
سیرت المہدی 518 حصہ سوم 502 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ بنی بخش صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ میں ایک دفعہ بوجہ کمزوری نظر حضرت خلیفہ اول کے پاس علاج کے لئے حاضر ہوا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کہ شاید موتیا اُتریگا.میں نے دو اور ڈاکٹروں سے بھی آنکھوں کا معائنہ کرایا.سب نے یہی کہا کہ موتیا اتر یگا.تب میں مضطرب و پریشان ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام حال عرض کر دیا.حضور نے الْحَمْدُ لِلہ پڑھ کر میری آنکھوں پر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا ” میں دُعا کرونگا اس کے بعد پھر نہ وہ موتیا اترا اور نہ ہی وہ کم نظری رہی اور اسی وقت سے خدا کے فضل و کرم سے میری آنکھیں درست ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ صاحب اس وقت اچھے معمر آدمی ہیں اور اس عمر کو پہنچ چکے ہیں جس میں اکثر لوگوں کو موتیا بند کی شکایت ہو جاتی ہے.503 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک کشمیری بھائی نے اپنے نوزائیدہ لڑکے کی ولادت پر مجھے خط لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نام دریافت کر کے تحریر کرو.میں نے حضرت اقدس سے اس بارہ میں استفسار کیا.حضور نے فوراً ہی عبدالکریم نام تجویز فرمایا.پھر کچھ خیال آیا.تو مجھ سے دریافت فرمایا کہ اس کے باپ کا کیا نام ہے.میں نے نام بتایا جواب مجھے یاد نہیں.حضور نے فرمایا.کہ اچھا جو نام پہلے مونہہ سے نکلا ہے.( یعنی عبدالکریم ) وہی ٹھیک ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں تعلیم پاتے تھے.اور اب کشمیر میں محکمہ جنگلات میں ملازم ہیں.504 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اکثر اصحاب اپنے بچوں کے نام حضور علیہ السلام سے رکھواتے تھے اور حضور نام تجویز فرما دیتے تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب کے بڑے لڑکے کا نام عبد الرحمن اور بندہ کی دو بہنوں کے نام حلیمہ اور امۃ اللہ بھی حضور ہی کے تجویز کردہ ہیں.
سیرت المہدی 519 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حضرت صاحب عموماً بچہ کا نام رکھتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کے ناموں کی مناسبت ملحوظ رکھتے تھے.ہیں.505 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بعض اوقات ناموں سے نفاول لیتے تھے.نیز تبرک کے طور پر لوگ آپ سے بچوں کے نام رکھوا لیتے تھے.اور آپ اکثر اس بات کا خیال رکھتے تھے.کہ باپ بیٹے کے نام میں یا بھائی بھائی کے نام میں مناسبت ہو.نیز آپ عموماً بچوں کے نام رکھنے میں فاطمہ اور سعید نام نہ رکھتے تھے.فاطمہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے.کہ اگر خواب میں بھی نظر آئیں تو بالعموم اس سے مراد ھم و غم ہوتا ہے.کیونکہ حضرت فاطمہ کی تمام عمر رنج و تکالیف میں گزری اور سعید کے متعلق فرماتے تھے کہ ہم نے جس کا نام بھی سعید سُنا اُسے بالعموم برخلاف ہی پایا.الا ماشاء الله - خاکسار عرض کرتا ہے کہ علم الرویاء میں حضرت فاطمہ کو دیکھنا د نیوی لحاظ سے تکالیف کا مظہر ہوتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اُخروی لحاظ سے ضرور مبارک ہوگا.کیونکہ حضرت فاطمہ سَيِّدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّةَ اور سعید کے متعلق غالباً بعض نامبروں کے تلخ تجربہ سے حضور کو خیال پیدا ہو گیا ہوگا.506 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری حال محلہ دار الرحمت قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالے کی طرف سے یہ فراست دی گئی تھی کہ حضور علیہ السلام کو بعض دفعہ دوسرے شخص کی دل کی بات کا علم ہو جایا کرتا تھا.جس وقت میرالڑ کا ظہوراحمد پیدا ہوا تو میں قادیان میں آیا.مسجد مبارک میں چند دوست بیٹھے تھے.میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں چاہتا ہوں.کہ میرے لڑکے کا نام حضور میرے بڑے لڑکے نثار احمد کے نام پر رکھیں لیکن میرا بھی یہی خیال تھا اور دوسرے احباب نے بھی کہا کہ حضور عمو ماً والد کے نام پر بچہ کا نام رکھتے ہیں.اس لئے غالباً اب بھی حضور ایسا ہی کرینگے.حافظ حامد علی صاحب نے حضور کو میرے آنے کی اطلاع دی اور بچہ کی پیدائش کا بھی ذکر کیا.حضور مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور مجھے مبارکباددی اور فرمایا کہ اس کا نام ظہور احمد رکھیں.
سیرت المہدی 520 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں امام الدین صاحب نے جو یہ کہا ہے کہ حضور کو دل کی بات کا علم ہو جا تا تھا.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ حضرت صاحب عالم الغیب تھے.کیونکہ غیب کا علم صرف خدا کو حاصل ہے.البتہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے تربیت کا کام لینا ہوتا ہے.اس لئے بعض اوقات اللہ تعالیٰ ایسا تصرف فرماتا ہے کہ لوگوں کے دل میں جو خیالات کی روچل رہی ہوتی ہے.اس سے انہیں اطلاع دے دی جاتی ہے.507 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ انور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی.اس لئے وہ گلاس میں نے وہیں رکھ دیا.کسی شخص نے عرض کی.کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ یہ روایت اگر درست ہے.تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی.ورنہ حضور کا طریق یہی تھا.کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے.اور اس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طور پر ظاہر ہو جاوے.جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے.مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور.508 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک نوجوان عرب جو حافظ قرآن اور عالم تھا ، آکر رہا اور آپ کی تائید میں اس نے ایک عربی رسالہ بھی تصنیف کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی شادی کا فکر کیا.میرے گھر کے ایک حصہ میں میرے استاد حافظ محمد جمیل صاحب مرحوم رہا کرتے تھے.ان کی بیوی کی ایک ہمشیرہ نو جوان تھی.حضرت صاحب نے ان کو رشتہ کے لئے فرمایا.انہوں نے جواباً عرض کیا کہ لڑکی کے والد سے دریافت کرنا ضروری ہے.لیکن میں حضور کی تائید کروں گا.اتنے میں خاکسار حسب عادت قادیان گیا.جب میں نے
سیرت المہدی 521 حصہ سوم مسجد مبارک میں قدم رکھا.تو اس وقت حضرت صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور وہ عرب صاحب موجود تھے.حضرت اقدس نے فرمایا.کہ هَذَا رَجُلٌ حَافِظٌ نُورٍ مُحَمَّد “ اور حضور نے فرمایا.کہ میاں نور محمد آپ عرب صاحب کو ہمراہ لے جائیں اور وہ لڑکی دکھلا دیں.بعد نماز ظہر میں عرب صاحب کو ساتھ لے کر فیض اللہ چک کو روانہ ہوا.آپ کے ارشاد کے ماتحت کارروائی کی گئی.مگر انہوں نے پسند نہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں کرا دی.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ایک عرب صاحب جو آخری زمانہ میں قادیان آ کر رہے تھے.ان کا نام عبدائی تھا اور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرا دی تھی.سو اگر اس روایت میں انہی کا ذکر ہے.تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے.یا شاید یہ ور ہوں گے.509 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جس سال حضور نے عید الاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تھا.اس سال (۹) رذی الحج ) کو یعنی حج کے دن اعلان کر دیا تھا کہ آج ہم دعا کریں گے.لوگ اپنے نام رقعوں پر لکھ کر بھیج دیں.چنانچہ قریباً تمام اصحاب الصفہ اور مہمانان نے اپنے نام لکھ کر حضور کی خدمت میں پہنچا دیئے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ خاص خاص موقعوں پر لوگ اس طرح ناموں کی فہرست بنا کر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے بھیجا کرتے تھے بلکہ بعد میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب روزانہ ہی ایسی فہرست ڈاک کے خطوط میں سے منتخب کر کے اور نیز دیگر حاجت مندانِ دُعا کے نام لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کی مراد اصحاب الصفہ سے وہ اصحاب ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض صحبت کی خاطر اپنے وطنوں کو چھوڑ کر قادیان میں ڈیرہ جما بیٹھے تھے.جیسا کہ حضور کے الہام میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے.510 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب بعض مخلصین
سیرت المہدی 522 حصہ سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہو کر جانے لگتے اور دعا کے لئے عرض کرتے تو حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ گاہ بگاہ خط کے ذریعہ سے یاد دہانی کراتے رہیں.میں انشاء اللہ دعا کرونگا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض دوستوں کی عادت تھی.کہ حضور کی خدمت میں دُعا کے لئے قریباً روزانہ لکھتے تھے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک دوست کو کوئی کام در پیش تھا.جس پر انہوں نے مسلسل کئی ماہ تک ہر روز بلا ناغہ حضور کی خدمت میں دُعا کے لئے خط لکھا.511 بسم الله الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ یعنی امّ المؤمنين أَطَالَ اللهُ بَقَالَهَا نے مجھے سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا.جس کا دماغ پر بھی اثر تھا.اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا.مرزا نظام الدین صاحب کے عزیزوں نے حضرت صاحب کو اطلاع دی آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور مناسب علاج کیا.علاج یہ تھا کہ آپ نے مُرغا ذبح کرا کے سر پر باندھا.جس سے فائدہ ہو گیا.اس وقت باہمی سخت مخالفت تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہوگی ورنہ آخری زمانہ میں تو حضرت خلیفہ اول جو ایک ماہر طبیب تھے ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے یاممکن ہے کہ یہ کسی ایسے وقت کی بات ہو.جب حضرت خلیفہ اول عارضی طور پر کسی سفر پر باہر گئے ہونگے مگر بہر حال حضرت صاحب کے اعلیٰ اخلاق کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ ایک دشمن کی تکلیف کا سنکر بھی آپ کی طبیعت پریشان ہوگئی.اور آپ اس کی امداد کے لئے پہنچ گئے.512 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو کبھی کبھار پاؤں کے انگوٹھے پر نقرس کا درد ہو جایا کرتا تھا.ایک دفعہ شروع میں گھٹنے کے جوڑ میں بھی درد ہوا تھا.نہ معلوم وہ کیا تھا.مگر دوتین دن زیادہ تکلیف رہی.پھر جونکیں لگانے سے آرام آیا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ نقرس کے درد میں آپ کا انگوٹھا سوج جاتا تھا.اور سُرخ بھی ہو جاتا تھا اور بہت درد ہوتی تھی.خاکسار نے بھی درد نقرس حضرت صاحب سے ہی ورثہ میں پایا ہے حضرت خلیفہ
سیرت المہدی 523 حصہ سوم المسیح الثانی کو بھی کبھی کبھی اس کی شکایت ہو جاتی ہے.513 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے ٹخنے کے پاس پھوڑا ہو گیا تھا.جس پر حضرت صاحب نے اس پر سکہ یعنی سیسہ کی نکیا بندھوائی تھی جس سے آرام آ گیا.514 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ کوئی امروہہ کا آدمی قادیان آیا.اس کے کان بند تھے.اور نلکی کی مدد سے بہت اونچا سنتا تھا.اس نے حضرت صاحب کو دعا کے لئے کہا.حضور نے فرمایا.ہم دُعا کریں گے.اللہ تعالے سب چیزوں پر قادر ہے پھر اللہ نے اپنا فضل کیا کہ اس نے حضور علیہ السلام کی ساری تقریر سن لی.جس پر وہ خوشی کے جوش میں کود پڑا.اور نلکی تو ڑ کر پھینک دی.515 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مباحثہ میں آتھم نے ایک دفعہ ایسے سوالات کئے کہ ہمارے بعض احباب گھبرا گئے کہ ان کا جواب فوراً نہیں دیا جا سکتا اور بعض احباب نے ایک کمیٹی کی اور قرآن شریف اور انجیل کے حوالہ سے چاہا کہ حضرت صاحب کو امداد د ہیں.میں نے مولوی عبدالکریم صاحب کو مزاحاً کہا کہ کیا بوتیں بھی مشورہ سے ہوا کرتی ہیں.اتنے میں حضرت صاحب تشریف لے آئے اور حضور کچھ باتیں کر کے جانے لگے تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ اگر کل کے جواب کے لئے مشورہ کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.اس پر حضرت صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ ” آپ کی دُعا کافی ہے.اور فوراً تشریف لے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ انبیاء اکثر امور میں مشورہ لیتے ہیں.اور ان سے بڑھ کر کوئی مشورہ نہیں لیتا مگر بعض ایسے اوقات ہوتے ہیں کہ جن میں وہ دوسرے واسطوں کو چھوڑ کر محض خدا کی امداد پر بھروسہ کرنا پسند کرتے ہیں.علاوہ ازیں مشورہ کا بھی موقعہ اور حل ہوتا ہے اور کسی دشمن کی طرف سے علمی اعتراض ہونے پر انبیاء عموماً محض خدا کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہیں.چنانچہ اس موقعہ پر خدا نے عیسائیوں کو ذلیل کیا.
سیرت المہدی 524 حصہ سوم 516 بسم الله الرحمن الرحیم.شیخ غلام حسین صاحب لدھیانوی ہیڈ ڈرافٹسمین سنٹرل آفس نئی دہلی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ فرمان علی صاحب بی.اے.اسٹنٹ انجینئیر ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداس پور نے جو کہ ۱۹۱۵ء میں لیڈی ہارڈنگ کا لج نئی دہلی کی عمارت تعمیر کر رہے تھے.مجھ سے ذکر کیا تھا.کہ ایک دفعہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوئی نے جو کہ عالم جوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے ہیں.ان سے بیان کیا.کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضورا کثر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ میں نے دیکھا.کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بیقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کو نہ سے دوسرے کو نہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں.جیسے کہ ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے.میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ حالت جاتی رہی.صبح میں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے.کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی.یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.”میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے.اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں.ان کا خیال آتا ہے.تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے.اور یہ اسلام ہی کا درد ہے.جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹ متصل بٹالہ کے رہنے والے تھے اور قدیم مخلص صحابہ میں سے تھے.نیز خاکسار خیال کرتا ہے.کہ یہ واقعہ ابتدائی زمانہ کا ہے.517 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر دین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں وتروں کے متعلق سوال کیا کہ وہابی پانچ وتر بھی پڑھتے ہیں.تین بھی پڑھتے ہیں اور ایک بھی.ان میں سے کونسا طریق درست ہے.حضور نے فرمایا.کہ میں تو تین وتر
سیرت المہدی 525 حصہ سوم پڑھتا ہوں.دوا لگ اور ایک الگ.ہاں ایک بھی جائز ہے.اس کے بعد میں نے بھی ہمیشہ حضور ہی کی طرح وتر پڑھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ سیکھواں ایک گاؤں کا نام ہے.جو قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب واقع ہے.اس جگہ کے تین بھائی میاں جمال الدین.میاں امام الدین اور میاں خیر الدین صاحبان حضرت صاحب کے قدیم اور مخلص صحابہ میں سے ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ گومیاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کا مجھ سے قریباً روز کا ملنا ہے.لیکن ان کی اکثر روایات مجھے مکرم مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور نے لکھ کر دی ہیں.فَجَزَاهُ اللَّهُ خَيْرًا.518 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے تھے.اسی طرح میرے بھائی امام الدین صاحب کے بھی.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ کشتہ فولاد قلمی سیاہی کی طرح کا دو ماہ کے حمل پر ایک رتی ہمراہ دودھ یا پانی استعمال کرانا شروع کر دیں.اور بچہ کے پیدا ہونے کے بعد بھی دُودھ چھوڑنے تک جاری رکھا جائے.اس نسخہ کے استعمال سے خدا کے فضل و کرم سے میرے بچے زندہ رہے.جن میں سے ایک مولوی قمر الدین مولوی فاضل ہیں.میرے بھائی امام دین صاحب کے لڑکے بھی اس کے بعد زندہ رہے.جن میں سے ایک مولوی جلال الدین صاحب شمس حال مبلغ لندن ہیں.اور بھی سینکڑوں آدمیوں کو یہ نسخہ استعمال کرایا.اور نہایت مفید ثابت ہوا.519 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ چودھری حاکم علی صاحب نے ان سے ذکر کیا تھا کہ میں نے مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا ہے کہ اللہ تعالے ایک ولی کو بھی خراب اولاد کی بشارت نہیں دیتا.چہ جائیکہ مسیح موعود کو وہ ایسی خبر دے.یہ حضور علیہ السلام اپنی اولاد کے حق میں فرماتے تھے کہ وہ بُرے نہیں ہونگے بلکہ متقی اور صالح ہوں گے کیونکہ خدا تعالے نے ان کی نسبت بشارت دی ہے.
سیرت المہدی 526 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اصول کو اپنی کتب میں بھی بیان کیا ہے.مگر میں جب اپنے نفس میں نگاہ کرتا ہوں.تو شرم کی وجہ سے پانی پانی ہو جاتا ہوں.کہ خدا تعالے ہمارے جیسے کمزور انسان کی پیدائش کو بھی بشارت کے قابل خیال کرتا ہے.پھر اُس وقت اس کے سوا سارا فلسفہ بھول جاتا ہوں.کہ خدا کے فضل کے ہاتھ کو کون روک سکتا ہے.اَللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ - 520 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے بھائی محمود احمد صاحب ساکن ڈنگہ ضلع گجرات سے سُنا ہے کہ جن دنوں کرم دین والا مقدمہ گورداسپور میں دائر تھا عموماً حضرت اقدس مقدمہ کی تاریخوں پر قادیان سے علی الصبح روانہ ہوتے تھے اور نماز فجر راستہ میں ہی حضرت مولوی فضل الدین صاحب بھیروی کی امامت میں ادا فرماتے تھے.ایک دفعہ بڑاں کی نہر کے قریب نماز فجر کا جو وقت ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز فجر کا وقت ہو گیا ہے یہیں نماز پڑھ لی جائے.اصحاب نے عرض کی کہ حضور حکیم مولوی فضل الدین صاحب آگے نکل گئے ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ساتھ ہیں.حضور علیہ الصلوۃ والسلام خاموش ہو گئے اور خود ہی امامت فرمائی.پہلی رکعت فرض میں آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص تلاوت فرمائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں فطرتا اس قسم کی روایتوں کے لینے میں تامل کرتا ہوں جن میں اس وقت کے ایک مخالف گروہ پر زد پڑتی ہے.مگر جب میرے پاس ایک روایت پہنچتی ہے اور میں اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں دیکھتا.اور نہ ہی راوی میں کوئی طعن پاتا ہوں تو اُس کے قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ شاید اس قسم کے واقعات خدائی تصرف کے ماتحت وقوع پذیر ہوئے ہوں وَاللَّهُ أَعْلَمُ - 521 بسم الله الرحمن الرحیم.حافظ محمدابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ غالبا ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے مسجد مبارک میں سوال کیا.کہ حضور اگر غیر احمدی
سیرت المہدی 527 حصہ سوم باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو ہم اس وقت نماز کیسے پڑھیں؟ آپ نے فرمایا.تم اپنی الگ پڑھ لو.اس نے کہا کہ حضور جب جماعت ہو رہی ہو تو الگ نماز پڑھنی جائز نہیں.فرمایا: کہ اگر ان کی نماز باجماعت عند اللہ کوئی چیز ہوتی تو میں اپنی جماعت کو الگ پڑھنے کا حکم ہی کیوں دیتا ان کی نماز اور جماعت جناب الہی کے حضور کچھ حقیقت نہیں رکھتی.اس لئے تم اپنی نماز الگ پڑھو اور مقررہ اوقات میں جب چاہو ادا کر سکتے ہو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس وقت کسی مسجد میں دوسروں کی جماعت ہورہی ہوضرور اسی وقت نماز پڑھی جائے کیونکہ اس سے بعض اوقات فتنہ کا احتمال ہوتا ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ ایک احمدی بہر حال الگ نماز پڑھے.اور دوسروں کے پیچھے نہ پڑھے.522 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار نے ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور بارہا حضرت احمد علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ عدالت میں پیشی کے واسطے تیزی سے سڑک پر جارہے ہیں اور سامنے سے کوئی شخص دودھ یا پانی لایا تو آپ نے وہیں بیٹھ کر پی لیا اور کھڑے ہوکر نہ پیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا نا جائز نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ بیٹھ کر تسلی سے پیا جاوے.523 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ حضور اگر چند لمحوں کے لئے بھی جماعت سے اُٹھ کر گھر جاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السلام علیکم کہتے.524 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے فرمایا.کہ لوگ حضرت صاحب کو تنگ کرتے ہیں اور بار بار دعا کے لئے رقعہ لکھ کر اوقات گرامی میں حارج ہوتے ہیں.میں نے خیال کیا کہ میں بھی حضور کو بہت تنگ کرتا ہوں شاید
سیرت المہدی 528 حصہ سوم روئے سخن میری ہی طرف ہو.سوئیں اسی وقت حضور کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اگر حضور ہماری ان باتوں سے تنگ ہوتے ہوں تو ہم انہیں چھوڑ دیں.حضور نے فرمایا.نہیں نہیں بلکہ بار بار لکھو، جتنا زیادہ یاد دہانی کراؤ گے اتنا ہی بہتر ہوگا.525 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت کی عادت میں دن کے کسی خاص وقت میں قیلولہ کرنا داخل نہ تھا.آرام صرف کام پر منحصر تھا.بعض اوقات نصف شب یا اس سے زیادہ یا کبھی کبھی تمام رات ہی تحریر میں گزار دیا کرتے تھے.صبح کی نماز سے واپس آکر بھی سولیا کرتے تھے اور کبھی نہیں بھی سوتے تھے.سیر کو اکثر سورج نکلے تشریف لے جایا کرتے تھے اور گھر سے نکل کر احمد یہ چوک میں کھڑے ہو جاتے اور جب تک مہمان جمع نہ ہو لیتے کھڑے رہتے اور اس کے بعد روانہ ہوتے.526 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصافحہ کبھی صرف دائیں ہاتھ سے کرتے تھے اور کبھی دائیں اور بائیں دونوں سے کرتے تھے مخلصین آپ کے ہاتھوں کو بوسہ بھی دیتے تھے اور آنکھوں سے بھی لگاتے تھے اور بسا اوقات حضور کے کپڑوں پر بھی برکت حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پھیرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ سب نظارے سوائے دونوں ہاتھوں کے مصافحہ کے میں نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.527 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر یرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مستعمل کتاب ازالہ اوہام میرے پاس بطور تبرک کے رکھی ہے.اس میں حضرت صاحب نے اپنے ہاتھ سے ایک شعر لکھا ہوا ہے.جو میرے خیال میں حضور کا اپنا بنایا ہوا ہے.شعریہ ہے.اس قوم مرا نشانه نفرین کرد ہر حملہ که داشت برمن مسکین کرد خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ میری قوم نے مجھے نفرت و حقارت کا نشانہ بنا
سیرت المہدی 529 حصہ سوم رکھا ہے اور کوئی حملہ ایسا نہیں جو وہ کرسکتی تھی اور پھر اس نے مجھ غریب پر وہ نہیں کیا.528 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مقبرہ بہشتی میں دو قبروں کے کتنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خود لکھے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کا نمونہ ہیں کہ اس مقبرہ کے کتبے کس طرح کے ہونے چاہئیں.اب جو کتبے عموماً لکھے جاتے ہیں ان سے بعض دفعہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ شخص کہاں دفن ہے یا اس کے اندر کیا کیا خوبیاں تھیں یا سلسلہ کی کس کس قسم کی خدمت اس نے کی ہے.دو کتے جو حضور نے خود لکھے وہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور صاحبزادہ مبارک احمد کے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کتبہ ہمارے نانا جان مرحوم نے لکھا تھا اور حضرت خلیفہ اول نے درست کیا تھا.اور حضرت خلیفہ اول کا کتبہ غالباً ہمارے نانا جان مرحوم نے لکھ کر حضرت خلیفہ ثانی کو دکھا لیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتبہ میں حضرت خلیفہ اول نے صرف اتنی تبدیلی کی تھی کہ جہاں نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کتبہ کے آخر میں علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ لکھے تھے اُسے حضرت خلیفہ اول نے بدل کر عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ مُحَمَّدٍ الصَّلَوةُ وَالسَّلَام کے الفاظ کر دیئے تھے.529 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام روپیہ کا حساب بڑے اہتمام سے لیتے تھے اور جس شخص کے پاس کسی کام کے لئے روپیہ دیا ہو اور اس کا حساب مشتبہ ہو تو خفا بھی ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی طریق تھا.جو میر صاحب نے بیان فرمایا ہے لیکن خاص اصحاب کی صورت میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ دی ہوئی رقم کا کوئی حساب نہیں لیتے تھے بلکہ جو رقم بھی خرچ کے بعد واپس کی جاتی تھی یا مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا تھا آپ حسب صورت پیش آمدہ بغیر کوئی سوال کئے رقم لے لیتے یا دے دیتے تھے.530﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبدالرحمن صاحب کشمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضور کے پاس کہیں سے روپیہ آتا تھا تو حضور مجھے بلا لیتے
سیرت المہدی 530 حصہ سوم اور بلا گفتی روپیہ دے دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس وقت روپیہ لے لو، نہ معلوم پھر کب ہاتھ میں آئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم حضرت صاحب کے خاص خادم تھے جنہیں حضرت صاحب گھر کی ضروریات اور مہمانوں وغیرہ کی مہمانی کے لئے روپیہ دیا کرتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت اور روایت نمبر ۵۲۹ میں جو تضاد نظر آتا ہے یہ حقیقی تضاد نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے موقعہ کے لحاظ سے دونوں روایتیں درست ہیں اور حافظ حامد علی صاحب نے جو بات بیان کی ہے یہ غالباً خاص خاص لوگوں کے متعلق یا خاص حالات میں پیش آتی ہوگی.531) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی شاہ صاحب لودھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب اول ہی اول حضور اقدس لدھیانہ تشریف لائے تھے تو صرف تین آدمی ہمراہ تھے.میاں جان محمد صاحب و حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب جو کہ اب تک زندہ موجود ہے غالباً تین روز حضور لدھیانہ میں ٹھہرے.ایک روز حضور بہت سے احباب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے خاکسار بھی ہمراہ تھا راستہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا.اس وقت لالہ ملا وامل نے حضور سے کہا کہ نماز پڑھ لی جائے آنحضور نے وہیں پر مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی کی اقتداء میں نماز ادا کی اور ملا وامل ایک پاس کے چری کے کھیت کی طرف چلا گیا وَ اللهُ اَعْلَمُ وہاں نماز پڑھی ہو.نیز اس وقت لالہ ملا وامل کا یہ حال تھا کہ اگر اُن کو کہا جاتا کہ آپ سونے کے وقت چار پائی لے لیا کریں تو وہ جواب دیتے مجھے کچھ نہ کہو.حضرت کے قدموں میں نیچے زمین پر ہی لیٹنے دو.حضرت اقدس عموماً صبح کی نماز خود ہی پڑھایا کرتے تھے.6532 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں محمد خان صاحب ساکن گل منح ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ابتداء میں حضرت صاحب مسجد مبارک میں خود نماز پڑھایا کرتے تھے.ایک آدمی آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا اور پیچھے صرف چار پانچ مقتدی کھڑے ہو سکتے تھے.اور جو آدمی پہلے نماز کے وقت دائیں جانب آبیٹھتا.اس کو عرض کرنے کا موقعہ مل جاتا.ایک روز میں بھی سب سے اوّل وضو کر کے مسجد مبارک میں دائیں جانب جا بیٹھا پھر حضور علیہ السلام تشریف لے آئے اور میرے قریب آکر
سیرت المہدی 531 حصہ سوم بیٹھ گئے اتنے میں چار پانچ آدمی پیچھے سے آئے وہ بڑے ذی عزت معلوم ہوتے تھے.میں نے حضور علیہ السلام کے پاؤں دبانے شروع کر دیئے اور حضور کی خدمت میں شرماتے ہوئے عرض کیا کہ حضور مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جس کے ذریعہ سے دین ودنیا میں کامیابی حاصل ہو.حضور نے فرمایا.استغفار بہت پڑھا کرو.سواب تک یہی میرا وظیفہ ہے.533 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مولوی گل علی شاہ صاحب سے جو حضرت صاحب کے استاد تھے ایک سید نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ (نعوذ باللہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوزخ میں پڑے ہیں اور جگہ جگہ زخم ہیں اور آگ جل رہی ہے اور باہر انگریزوں یا گوروں کا پہرہ ہے اس خواب کو سن کر مولوی گل علی شاہ صاحب کو سخت غم ہوا اور عقیدہ بھی بدل گیا اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شکوک پیدا ہو گئے.جب گل علی شاہ صاحب غمزدہ ہو کر یہ خواب کسی سے بیان کر رہے تھے تو اوپر سے حضرت اقدس علیہ السلام سبق کے لئے آگئے تو آپ نے یہ خواب سُن کر اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ وہ شخص جس نے یہ خواب دیکھی ہے وہ خود مجزوم ہو جائے گا اور عیسائی ہو کر دوزخ میں گرے گا.سو ایسا ہی ہوا کہ وہ عیسائی ہوا اور پھر کوڑھی ہوکرمر گیا.اس تعبیر کو سُن کر مولوی گل علی شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور ان کا عقیدہ بھی درست ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر ۲۵۳ میں بھی یہ واقعہ باختلاف الفاظ بروایت مولوی شیر علی صاحب بیان ہو چکا ہے اور مولوی گل علی شاہ صاحب حضرت صاحب کے بچپن کے استاد تھے.534) بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں خاکسار خواجہ کمال الدین صاحب کے ہاں رہتا تھا.اس زمانہ میں خواجہ صاحب نے اپنے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعریف کے دوران میں کہا کہ حضور کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی نئی کتاب لکھتے ہیں تو میرے پاس اس کتاب کی ایک جلد ضر ور روانہ فرما دیتے ہیں یا اپنے ہاتھ سے خود مرحمت فرماتے ہیں.اور فرمایا کرتے کہ اس کو شروع سے آخر تک قانونی
سیرت المہدی 532 حصہ سوم نقطہ نگاہ سے ملاحظہ کر لو.میں اس کو محض حکم کے مطابق پڑھ لیتا ہوں گومیں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ حضرت کی کتابیں قانونی نگاہ سے دیکھنے کی محتاج نہیں بلکہ اس سے حضور کا یہ مقصود ہوتا ہے کہ میں حضور کی تصنیف کو پڑھ لوں اور سلسلہ کی تعلیم سے واقف رہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ محقق صاحب دہلی کے رہنے والے ہیں اور میں نے سُنا ہے کہ ہمارے ننھیال سے ان کی کچھ رشتہ داری بھی ہے.کسی زمانہ میں غیر مبایعین کے سرگروہوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے.خوب ہوشیار آدمی ہیں.اور اب خدا کے فضل سے مبالع ہیں.535 - بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں میں نے ایک خاص بات دیکھی.کہ جتنی مرتبہ حضور باہر تشریف لاتے.میں دوڑ کر السلام علیکم کہتا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا.حضور فوراً اپنے ہاتھ میرے ہاتھ میں اس طرح دے دیتے کہ گویا اُس ہاتھ میں بالکل طاقت نہیں ہے یا یہ کہ وہ خالص اس لئے میرے سپرد کیا گیا ہے کہ جو چا ہو اس ہاتھ سے برتاؤ کر لو.میں اس ہاتھ کو لے کر خوب چومتا اور آنکھوں سے لگا تا اور سر پر پھیرتا.مگر حضور کچھ نہ کہتے بیسیوں مرتبہ دن میں ایسا کرتا مگر ایک مرتبہ بھی حضور نے نہیں فرمایا کہ تجھے کیا ہو گیا ابھی تو مصافحہ کیا ہے.پانچ پانچ منٹ بعد مصافحہ کی ضرورت نہیں.﴿536﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب آنقم کا مباحثہ امرتسر میں ہوا تو پہلے دن حضرت صاحب مع اُن خدام کے جن کے پاس داخلہ کے ٹکٹ تھے وہاں تشریف لے گئے کیونکہ داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا.کوٹھی کے دروازہ پر ٹکٹ دیکھے جاتے تھے اور صرف ٹکٹ والے اندر جانے پاتے تھے.میں بچہ ہی تھا اور ساتھ چلا گیا تھا.محمد کبیر میرا خالہ زاد بھائی بھی ہمراہ تھا.ہم نے حضرت صاحب سے کہا کہ ہم بھی اندر چلیں گے.اس وقت گوٹکٹ پورے ہو چکے تھے اور ہم مباحثہ کو پوری طرح سمجھ بھی نہ سکتے تھے.مگر حضرت صاحب نے ہماری درخواست پر ایک آدمی ڈپٹی عبداللہ انتم یا پادری مارٹن
سیرت المہدی 533 حصہ سوم کلارک کے پاس بھیجا کہ ہمارے ہمراہ دور کے آگئے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان کو اپنے ہمراہ لے آئیں.انہوں نے اجازت دے دی اور ہم سب کے ساتھ اندر چلے گئے.کوئی اور ہوتا تو ہم کو واپس گھر بھیج دیتا کہ تمہارا یہاں کوئی کام نہیں مگر یہ حضرت صاحب ہی کی دلداری تھی جو آپ نے ایسا کیا.537 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت صاحب آخری سفر میں لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے ایک کام در پیش ہے دُعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا.مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں.دوسرے دن صبح مبارکہ بیگم سے حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیا کوئی خواب دیکھا ہے؟ مبارکہ بیگم نے یہ خواب سنائی تو حضرت صاحب نے فرمایا.یہ خواب اپنی اماں کو نہ سُنانا.مبارکہ بیگم کہتی ہیں کہ اس وقت میں نہیں سمجھی تھی کہ اس سے کیا مراد ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خواب بہت واضح ہے اور اس سے یہ مراد تھی کہ حضرت صاحب کی وفات کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ کہ آپ کے بعد حضرت مولوی صاحب خلیفہ ہوں گے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کی عمر گیارہ سال کی تھی.دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب اس سفر پر تشریف لے جاتے ہوئے بہت متامل تھے کیونکہ حضور کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ اسی سفر میں آپ کو سفر آخرت پیش آنے والا ہے.مگر حضور نے سوائے اشارے کنایہ کے اس کا اظہار نہیں فرمایا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہماری ہمشیرہ کا یہ خواب غیر مبایعین کے خلاف بھی حجت ہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کی طرف صریح اشارہ ہے.538﴾ بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نورمحمد صاحب سا کن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخری سفر میں لاہور جانے کا ارادہ فرمایا.اور سامان اورسواری
سیرت المہدی 534 حصہ سوم وغیرہ کا انتظام ہو چکا تو رات کو میاں شریف احمد صاحب کو بخار ہو گیا حضور کو رات کے وقت یہ الہام ہوا مباش ایمن از بازی روزگار جو آپ نے صبح کو سُنایا.آپ نے حکم دیا.کہ آج کا جانا ملتوی کر دو.کل کو دیکھا جائے گا اور حضور علیہ السلام نے پہلے بھی لکھ دیا ہوا تھا کہ مجھ کو اللہ تعالے سے مطلع کیا جا چکا ہے کہ اب میری عمر قریب الاختتام ہے.دوسرے روز حضور تشریف لے گئے اور وہاں لا ہور ہی حضور کا انتقال ہوا.انسا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فارسی الہام کے یہ معنی ہیں کہ زندگی کی چال سے امن میں نہ رہ کہ یہ دھوکہ دینے والی چیز ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لاہور جا کر حضرت صاحب کو اپنی وفات کے متعلق اس سے بھی زیادہ واضح الہام ہوئے تھے.مثلاً ایک الہام یہ تھا کہ مکن تکیه بر عمر ناپائدار یعنی اس نا پائدار عمر پر بھروسہ نہ کر کہ یہ اب ختم ہو رہی ہے.اور ایک الہام جو غالباً آخری الہام تھا یہ تھا کہ الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ یعنی اب کوچ کا وقت آ گیا ہے.کوچ کا وقت آ گیا ہے.اس الہام کے چار پانچ روز کے بعد آپ انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 533 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ سفر ملتان کے دوران میں حضرت صاحب ایک رات لاہور میں شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کے ہاں بطور مہمان ٹھہرے تھے.ان دنوں لاہور میں ایک کمپنی آئی ہوئی تھی.اس میں قدِ آدم موم کے بنے ہوئے مجسمے تھے.جن میں بعض پُرانے زمانہ کے تاریخی بہت تھے اور بعض میں انسانی جسم کے اندرونی اعضاء طبی رنگ میں دکھائے گئے تھے.شیخ صاحب مرحوم حضرت صاحب کو اور چند احباب کو وہاں لے گئے اور حضور نے وہاں پھر کر تمام نمائش دیکھی.جانا پڑا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا سفر ۱۸۹۷ء میں ہوا تھا.اور حضور کو وہاں ایک شہادت کے لئے 540 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت صاحب کی زندگی کے آخری سالوں میں ایک شخص میاں کریم بخش نامی بیعت میں داخل ہوا اور قادیان میں ہی رہ پڑا یہ
سیرت المہدی 535 حصہ سوم شخص بڑا کاریگر باورچی تھا.حضرت صاحب جب کبھی اُسے کھانے کی فرمائش کرتے تو اس کا کمال یہ تھا کہ اتنی تھوڑی دیر میں وہ کھانا تیار کر کے لے آتا کہ جس سے نہایت تعجب ہوتا.حضرت صاحب فرماتے ، میاں کریم بخش کیا کہنے سے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا؟ اور اس کی پھرتی پر اور عمدہ طور پر تعمیل کرنے پر بڑے خوش ہوتے تھے اور اس خوشی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے.پھر اس خوشی نے اس کو ایسا خوش قسمت کر دیا کہ وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا.اور آپ کے عین قدموں کی طرف اسے جگہ ملی.541 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سید محمد علی شاہ صاحب انسپکٹر نظارت بیت المال قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں ابتداء میں حضور کی بیعت کے لئے قادیان آیا تو ارادہ یہ تھا کہ میں حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرونگا.نماز کے بعد بیعت کا وقت آیا اور لوگ بھی بیعت کے لئے موجود تھے مگر مجھے سب سے پہلے موقعہ ملا.اس کے بعد کئی لوگوں نے اپنی نظمیں سنائیں.مولوی محمد اسمعیل صاحب ساکن ترگڑی نے بھی اپنی پنجابی نظم ” چٹھی مسیح اور اس کا جواب سنایا.جسے سُن کر آنحضور مع خدام خوب ہنسے اور فرمایا.اسے شائع کر دو دو تین روز کی پاکیزہ صحبت کے بعد میں نے حضرت اقدس سے گھر جانے کی اجازت طلب کی.فرمایا.”ابھی ٹھہرو.دو تین روز کے بعد پھر اجازت کے لئے عرض کیا.فرمایا.”ابھی ٹھہر.تیسری مرتبہ پھر حضور سے اجازت طلب کی.فرمایا کہ اچھا اب آپ کو اجازت ہے میں نے عرض کیا کہ حضور میں کا ٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں صرف اکیلا احمدی ہوں اور کا ٹھ گڑھ کے اردگرد دس دس میل تک کوئی احمدی نہیں ہے اور ہمارے خاندان سادات میں سے میرے ماموں سلسلہ مقدسہ کے سخت دشمن ہیں.اس لئے حضور دعا فرمائیں.فرمایا خدا تعالے آپ کو اکیلا نہیں رکھے گا.اور آہستہ آہستہ لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگے.یہاں تک کہ اب کا ٹھ گڑھ میں ایک بڑی جماعت ہے.542 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیدمحمد علی شاہ صاحب انسپکٹر نظارت بیت المال نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۶ ء کے قریب میرے ہاں لڑکا تولد ہوا.اس کا نام حضور علیہ السلام نے احمد علی رکھا.قریباً دس ماہ بعد وہ لڑکا فوت ہو گیا.جس کی اطلاع پر حضور علیہ السلام نے نعم البدل لڑکے کی بشارت دی.۱۹۰۷ء میں دوسرا لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام حضور علیہ السلام نے عنایت علی شاہ رکھا.اور اس کے لئے دعائیں فرمائیں.جو
سیرت المہدی قبول ہوئیں.536 حصہ سوم 543 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں سیر کے لئے تشریف لے گئے.اس وقت حضور کے دست مبارک میں ایک بید کا عصا تھا.ایک درخت پر پھل اتارنے کے لئے وہ عصا مارا مگر وہ عصا درخت میں ہی اٹک گیا اور ایسی طرح پھنسا کہ اُترنے میں ہی نہ آتا تھا.اصحاب نے ہر چند سوٹا اتارنے کی کوشش کی.مگر کامیابی نہ ہوئی.میں نے عرض کیا کہ حضور میں درخت پر چڑھ کر اتار دیتا ہوں اور میں جھٹ چڑھا اور عصا مبارک استارلایا.حضور اس قدر خوش اور متعجب ہوئے کہ بار بار محبت بھرے الفاظ میں فرماتے تھے کہ ”میاں نبی بخش یہ تو آپ نے کمال کیا.کہ درخت پر چڑھ کر فوراً سوٹا اُتار لیا.کیسے درخت پر چڑھے اور کس طرح سے درخت پر چڑھنا سیکھا.یہ سوٹا تو ہمارے والد صاحب کے وقت کا تھا.جسے گویا آج آپ نے نیا دیا ہے.‘ حضور راستہ میں بھی بار بار فرماتے تھے کہ میاں نبی بخش نے درخت پر چڑھ کر سوٹا اتارنے میں کمال کیا ہے.نیز حضور کی عادت میں داخل تھا کہ خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا کسی کوٹھو کے لفظ سے خطاب نہ کرتے تھے حالانکہ میں چھوٹا بچہ تھا.مجھے کبھی حضور نے تو سے مخاطب نہ کیا تھا.544 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نبی بخش صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان آیا تو ان ایام میں ایک چھوٹی چار پائی بیت الفکر میں موجود رہتی تھی اور کمرہ میں قہوہ تیار رہتا اور پاس ہی مصری موجود ہوتی تھی.میں جتنی دفعہ دن میں چاہتا قہوہ پی لیتا.حضور فرماتے اور پیو اور پیو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان دنوں میں حضور کسی تصنیف میں مصروف ہوں گے اور بدن میں چستی قائم رکھنے کے لئے چائے تیار رہتی ہوگی جس سے آپ آنے جانے والے کی تواضع بھی فرماتے رہتے ہونگے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر حضور کے مکان کے اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک سے متصل جانب شمال ہے جس میں سے ایک کھر کی نما دروازہ مسجد میں کھلتا ہے.545 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ
سیرت المہدی 537 حصہ سوم السلام ایک مرتبہ گھر میں فرمانے لگے.کہ لڑکے جب جوان ہو جائیں تو ان کی رہائش کے لئے الگ کمرہ ہونا چاہئے.چنانچہ فلاں لڑکے کے لئے اس کو ٹھے پر ایک کمرہ بنا دو.546 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سب دوست اس موضوع پر ایک مضمون لکھیں.کہ مذہب کیا ہے اور کامل مذہب کیسا ہونا چاہئے.کچھ دنوں کے بعد بہت سے مضامین آگئے اور بہت سے مقامی اور بعض بیرونی دوست خود سُنانے کے لئے تیار ہو گئے.اس پر آپ نے کبھی مسجد میں اور کبھی سیر میں ان مضامین کوسنا شروع کر دیا.حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی عبد الکریم صاحب.میاں معراج الدین صاحب عمر.خواجہ جمال الدین صاحب کے مضمون اور بہت سے دیگر احباب کے مضامین سُنائے گئے.کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا.آخر میں حضرت صاحب نے اپنا مضمون بھی سُنایا.مگر اپنا مضمون غالباً سیر میں سُنایا کرتے تھے.اس میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ آپ نے لکھا کہ ہر مضمون نگار نے مذہب کے معنے ”راستہ“ کے کئے ہیں.مگر مذہب کے معنے ”روش“ کے ہیں پس مذہب وہ روش اور طریق رفتار ہے جسے انسان اختیار کرے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عربی لغت کی رُو سے مذہب کے معنی رستہ اور روش ہر دو کے ہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ مؤخر الذکر معنوں میں جو لطافت اور وسعت ہے وہ مقدم الذکر میں نہیں.547 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تقریر یا مجلس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے تو بسا اوقات ان محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرماتے.کہ ” ہمارے آنحضرت نے یوں فرمایا ہے.اسی طرح تحریر میں آپ آنحضرت ﷺ کے نام کے بعد صرف آپ نہیں لکھتے تھے بلکہ پورا درود یعنی ” صلے اللہ علیہ وسلم“ لکھا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اس کمال کے مقام پر تھی جس پر کسی دوسرے شخص کی محبت نہیں پہنچتی.548 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نبی بخش صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح
سیرت المہدی 538 حصہ سوم موعود علیہ السلام موسم گرما میں بعد نماز مغرب مسجد مبارک کے شاہ نشین پر مع خدام حضرت خلیفہ اول و مولوی عبد الکریم صاحب و خواجہ کمال الدین صاحب و ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیره رونق افروز تھے.کسی کام کے لئے بٹالہ تار دینا تھا.اس وقت چونکہ قادیان میں تار گھر نہ تھا.حضور نے فرمایا بٹالہ جانے کے لئے کوئی تیاری کرلے.دو آدمی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم تیار ہیں.فرمایا ٹھہرو میں نیچے سے تار کی فیس لا دیتا ہوں.ہر چند اصحاب متذکرہ بالا نے عرض کیا کہ حضور نیچے جانے کی تکلیف نہ فرمائیں.ہم فیس ادا کر دینگے اور صبح حضور وہ رقم واپس دے دیویں مگر حضور نے نہ مانا اور فوراً نیچے چلے گئے اور تار کی فیس دے کر اُن کو روانہ کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں قادیان میں نہ تار تھی نہ ریل تھی اور نہ ٹیلیفون تھا.مگر اب کئی سال سے یہ تینوں ہیں.تار کے متعلق بعض اوقات بڑی مشکل کا سامنا ہوتا تھا کیونکہ آنے والی تار بٹالہ سے قادیان تک ڈاک میں آتی تھی اور جو تار قادیان سے بھجوانی ہوتی اُس کے لئے خاص آدمی بٹالہ بھجوانا پڑتا تھا اور اس طرح عموماً تار کی غرض فوت ہو جاتی تھی.مگر اب خدا کے فضل سے جہاں تک ذرائع رسل و رسائل کا تعلق ہے قادیان بڑے شہروں کی طرح ہے.549 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سید محمد علی شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے ایک شاگرد نے مجھے شیشم کی ایک چھڑی بطور تحفہ دی.میں نے خیال کیا کہ میں اس چھڑی کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرونگا چنانچہ خاکسار نے قادیان پہنچ کر بوقت صبح جبکہ حضور سیر سے واپس تشریف لائے وہ چھڑی پیش کر دی.حضور کے دست مبارک کی چھڑی میری پیش کردہ چھڑی سے بدرجہا خوبصورت و نفیس تھی لہذا مجھے اپنی کو تہ خیالی سے یہ خیال گزرا کہ شاید میری چھڑی قبولیت کا شرف حاصل نہ کر سکے.مگر حضور نے کمال شفقت سے اُسے قبول فرما کر دعا کی.بعد ازاں تین چار روز تک حضور علیہ السلام میری چھڑی کو لے کر باہر سیر کو تشریف لے جاتے تھے جسے دیکھ کر میرے دل کو تسکین و اطمینان حاصل ہوا.پھر حضور بدستور سابق اپنی پرانی چھڑی ہی لانے لگے اور میری پیش کردہ چھڑی کو گھر میں رکھ
سیرت المہدی لیا.539 حصہ سوم 550 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ میرے سامنے مندرجہ ذیل اصحاب کے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز باجماعت پڑھی ہے.(۱) حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول (۲) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی (۳) حضرت حکیم فضل الدین صاحب مرحوم بھیروی (۴) پیر سراج الحق صاحب نعمانی (۵) مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی (1) بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب (۷) حضرت میر ناصر نواب صاحب (۸) مولوی سید سرور شاہ صاحب (۹) مولوی محمد احسن صاحب (امروہی) (۱۰) پیر افتخار احمد صاحب.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری روایتوں سے قاضی امیرحسین صاحب اور میاں جان محمد کے پیچھے بھی آپ کا نماز پڑھنا ثابت ہے.دراصل آپ کا یہ طریق تھا کہ بالعموم خود امامت کم کراتے تھے اور جو بھی دیندار شخص پاس حاضر ہوتا تھا اُسے امامت کے لئے آگے کر دیتے تھے.551 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بچپن میں تمہاری (یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد کی) آنکھیں بہت خراب ہو گئی تھیں.پلکوں کے کنارے سُرخ اور سوجے رہتے تھے اور آنکھوں سے پانی بہتا رہتا تھا.بہت علاج کئے مگر فائدہ نہ ہوا.حضرت صاحب کو اس بات کا بہت خیال تھا.آخر ایک روز الہام ہوا.”بَرَّقَ طِفْلِی بَشِیر ، یعنی میرے بچے بشیر کی آنکھیں روشن ہوگئیں.اس کے بعد ایک دوا بھی کسی نے بتائی وہ استعمال کرائی گئی.اور خدا کے فضل سے آنکھیں بالکل صاف اور تندرست ہو گئیں.میر صاحب بیان فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ا کثر اوقات جب تم حضرت صاحب کے سامنے جاتے تو آپ محبت کے انداز سے تمہیں مخاطب کر کے فرماتے تھے کہ " بَرَّقَ طِفْلِی بَشِير میرے بچے بشیر کی آنکھیں روشن ہوگئی ہیں.66 خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری ظاہری آنکھیں تو بے شک صاف اور تندرست ہو گئیں اور میں نے
سیرت المہدی 540 حصہ سوم خدا کے فضل سے حصہ پالیا.اور میں اس کا شکر گزار ہوں.لیکن اگر خدا کی یہ بشارت صرف ظاہر تک محدود تھی تو خدا کی شان کے لحاظ سے یہ کوئی خاص لطف کی بات نہیں اور اس کے فضل کی تعمیل کا یہ تقاضا ہے کہ جس طرح ظاہر کی آنکھیں روشن ہوئیں اسی طرح دل کی آنکھیں بھی روشن ہوں اور خدائی الہام میں تو آنکھ کا لفظ بھی نہیں ہے.پس اے میرے آقا! میں تیرے فضل پر امید رکھتا ہوں کہ جب میرے لئے تیرے در بار کی حاضری کا وقت آئے تو میری ظاہری آنکھوں کے ساتھ دل کی آنکھیں بھی روشن ہوں.نہیں بلکہ جیسا کہ تیرے کلام میں اشارہ ہے، میرا ہر ذرہ روشن ہو کر تیرے قدموں پر ہمیشہ کے لئے گر جائے.این است کام دل ، گر آید میترم 552 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص وحی الہی کا دعوی کرے اور ایک جماعت بنالے اور اس کا مذہب دنیا میں اچھی طرح رائج اور قائم ہو جائے اور مستقل طور پر چل پڑے.تو سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص سچا تھا اور یہ کہ اس کا مذہب اپنے وقت میں سچامذ ہب تھا کیونکہ جھوٹے مدعی کا مذہب کبھی قائم نہیں ہوتا.فرماتے تھے کہ اس وقت دنیا میں جتنے قائم شدہ مذہب نظر آتے ہیں.ان سب کی ابتداء اور اصلیت حق پر تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے یہ اصول اپنی کتب میں بھی متعدد جگہ بیان فرمایا ہے مگر ساتھ تصریح کی ہے کہ کسی مذہب کا دُنیا میں پوری طرح راسخ ہو جانا اور نسل بعد نسل قائم رہنا اور قبولیت عامہ کا جاذب ہو جانا شرط ہے.553 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن مجید کے بڑے بڑے مسلسل حصے یا بڑی بڑی سورتیں یاد نہ تھیں.بے شک آپ قرآن کے جملہ مطالب پر حاوی تھے مگر حفظ کے رنگ میں قرآن شریف کا اکثر حصہ یاد نہ تھا.ہاں کثرتِ مطالعہ اور کثرت تدبر سے یہ حالت ہوگئی تھی کہ جب کوئی مضمون نکالنا ہوتا تو خود بتا کر حفاظ سے پوچھا کرتے تھے کہ اس معنے کی آیت کونسی ہے یا آیت کا ایک ٹکڑا پڑھ دیتے یا فرماتے کہ جس آیت میں یہ لفظ آتا ہے وہ آیت
سیرت المہدی کونسی ہے.541 حصہ سوم 554 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ فجر کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.اور بعض اصحاب بھی حلقہ نشین تھے تو اس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا.کہ حضرت اقدس کا دعوی تو مسیح موعود ہونے کا ہے.مگر مہدی جو اس زمانہ میں آنا تھا.کیا وہ کوئی علیحدہ شخص ہوگا.اسی وقت حضور علیہ السلام نے تقریر شروع فرما دی اور بیان فرمایا کہ میں مسلمانوں کے لئے مہدی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بُروز ہوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود یعنی حضرت مسیح ناصری کا مثیل بن کر آیا ہوں.حضور نے لمبی تقریر فرمائی جس سے میری پوری تسلی ہو گئی.اسی طرح اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کوکوئی اعتراض پیدا ہوتا تو حضور کو اللہ تعالے کی طرف سے اس کا علم دیا جاتا تھا اور حضور علیہ السلام اُسے بذریعہ تقریر رد فرما دیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کو علم غیب نہیں ہوتا.پس ایسی روایتوں کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامورین سے اصلاح کا کام لینا ہوتا ہے اس لئے انہیں بسا اوقات دوسروں کے خیالات کا علم دیا جاتا ہے.یا بغیر علم دینے کے ویسے ہی ان کی زبان کو ایسے رستہ پر چلا دیا جاتا ہے جو سامعین کے شکوک کے ازالہ کا باعث ہوتا ہے.555 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک اشتہار دیا.جس میں رفع یدین.آمین وغیرہ کے مسائل تھے اور جواب کے لئے فی مسئلہ دس روپیہ انعام مقرر کیا تھا.دس مسائل تھے.حضرت صاحب نے مجھے سُنایا اور فرمایا.کہ دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے.جب نماز ہر طرح ہو جاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے.اس وقت ہمیں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہے نہ کہ ان مسائل میں بحث کی.اس وقت تک ابھی حضور کا دعوی نہ تھا.پھر آپ نے اسلام کی تائید میں ایک مضمون لکھنا شروع کیا.اور میری موجودگی میں دو تین دن میں ختم کیا اور فرمایا.میں فی مسئلہ ہزار روپیہ انعام رکھتا ہوں.یہ براہین احمدیہ کی ابتدا تھی.جس میں اسلام کی تائید میں دلائل درج کئے گئے تھے.
سیرت المہدی 542 حصہ سوم 556 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب فوت ہو گئے.تو آپ سابقہ چوبارہ چھوڑ کر اس چوبارہ میں جو مرزا غلام قادر صاحب نے جدید بنایا تھا آگئے.یہ مسجد مبارک کے ساتھ تھا.اس چوبارہ کے ساتھ کوٹھڑی میں کتب خانہ ہوتا تھا.جس میں عربی فارسی کی قلمی کتب تھیں.اس کے بعد میں عموماً اپنے گاؤں میں رہنے لگ گیا.اور سال میں صرف ایک دو دفعہ قادیان آتا تھا.جب میں آتا تو حضرت صاحب کے پاس ہی رہتا تھا کیونکہ حضرت صاحب فرماتے تھے.جب آؤ تو میرے پاس ٹھہرا کرو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں چوبارہ سے مراد غالبا وہ دالان ہے جو بیت الفکر کے ساتھ جانب شمال ہے اور کوٹھڑی سے خود بیت الفکر مراد ہے جو مسجد کے ساتھ متصل ہے.557 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدقہ میں جانور کی قربانی بہت کیا کرتے تھے.گھر میں کوئی بیمار ہو یا کوئی مشکل در پیش ہوئی یا خود یا کسی اور نے کوئی منذر خواب دیکھا تو فوراً بکرے یا مینڈھے کی قربانی کرا دیتے تھے.زلزلہ کے بعد ایک دفعہ غالباً مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے نے خواب میں دیکھا کہ قربانی کرائی جائے.جس پر آپ نے چودہ بکرے قربانی کرا دیئے.غرضیکہ ہمیشہ آپ کی سنت یہی رہی ہے اور فرماتے تھے کہ یہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے صدقہ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ غرباء اور یتامیٰ اور بیوگان کو تلاش کر کے گوشت پہنچانا چاہئے.تا کہ ان کی تکلیف کے دور ہونے سے خدا راضی ہو اور فرماتے تھے کہ کچھ گوشت جانوروں کو بھی ڈال دینا چاہئے کہ یہ بھی خدا کی مخلوق ہے.558 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے کتب خانہ کے مینیجر محمد سعید صاحب.حکیم فضل الدین صاحب مرحوم.پیر سراج الحق صاحب.پیر منظور محمد صاحب.میر مہدی حسین صاحب وغیرہ لوگ مختلف اوقات میں رہے
سیرت المہدی 543 حصہ سوم 66 ہیں.جو فرمائش آتی یا حکم ہوتا وہ حضرت صاحب کی طرف سے مہتمم کتب خانہ کے پاس بھیج دیا جاتا.وہ کتاب کا پارسل بنا کر رجسٹری یا وی.پی کر کے بھیج دیتا.وی.پی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کا ہوتا تھا.ایک مہر ربڑ کی ” اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ " کی بنوائی گئی تھی.اور اعلان کر دیا تھا کہ جس کتاب پر یہ مہر اور ہمارے قلمی دستخط دونوں موجود نہ ہوں وہ مال مسروقہ سمجھا جائے گا.یہ مہر مہتم کتب خانہ کے پاس رہتی تھی.جو کتا ہیں باہر جاتیں ان پر وہ مُہر لگا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس وہ کتابیں دستخط کے لئے بھیج دی جاتی تھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا انتظام غالباً خاص خاص اوقات میں خاص مصلحت کے ماتحت ہوا ہوگا.ورنہ میں نے حضرت صاحب کے زمانہ کی متعدد کتب دیکھی ہیں جن پر حضرت صاحب کے دستخط نہیں ہیں گو بعض پر میں نے دستخط بھی دیکھے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص زمانہ میں یہ احتیاط برتی گئی تھی.559 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گھر کا کوئی کام کرنے سے کبھی عار نہ تھی.چار پائیاں خود بچھا لیتے تھے.فرش کر لیتے تھے.بسترہ کر لیا کرتے تھے.کبھی یکدم بارش آجاتی تو چھوٹے بچے تو چار پائیوں پر سوتے رہتے.حضور ایک طرف سے خود ان کی چار پائیاں پکڑتے دوسری طرف سے کوئی اور شخص پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کروا لیتے.اگر کوئی شخص ایسے موقعہ پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجوڑ کر جگانا چاہتا تو حضور منع کرتے اور فرماتے کہ اس طرح یکدم ہلانے اور چیخنے سے بچہ ڈر جاتا ہے.آہستہ سے آواز دے کر اُٹھاؤ.560 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی والے مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ کی پیشی دھار یوال میں مقرر ہوئی تھی.اس موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام سے عرض کیا کہ حضور محمد بخش تھانیدار کہتا ہے.کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے.اب میرا ہاتھ دیکھے گا.حضرت صاحب نے فرمایا.”میاں امام الدین ! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا.اس کے بعد میں نے دیکھا.کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت در دشروع ہو گئی.اور وہ اس
سیرت المہدی 544 حصہ سوم درد سے تڑپتا تھا.اور آخر اسی نامعلوم بیماری میں وہ دنیا سے گذر گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لفٹینینٹ ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی.ایم.ایس نے جو کہ محمد بخش صاحب تھانیدار کے پوتے ہیں مجھ سے بیان کیا.کہ ان کے دادا کی وفات ہاتھ کے کار بنکل سے ہوئی تھی.اس کا ذکر روایت نمبر ۲۵۶ میں بھی آچکا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے والد شیخ نیاز محمد صاحب تھانہ دار مخلص احمدی ہیں.وَقَالَ اللهُ تَعَالَى : يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ( الروم :۲۰) 561 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت صاحب کے ایک ماموں زاد بھائی مرزا علی شیر ہوتے تھے.جو حضرت صاحب کے سالہ بھی تھے.وہ جالندھر میں پولیس میں ملازم تھے.ان کی لڑکی عزت بی بی کے بعد ان کی اولا دمر جاتی تھی.پھر ان کے ایک لڑکا ہوا جو بہت خوبصورت اور ہونہار معلوم ہوتا تھا.جب وہ قریباً تین سال کا ہوا تو وہ بیمار ہو گیا......جب وہ بیمار ہوا تو مجھے گھر سے کہا گیا کہ مرزا صاحب سے کہو کہ اُسے آکر دیکھ جائیں اور دوا دیں.(اس وقت دادا صاحب فوت ہو چکے تھے ) حضرت صاحب اس زمانہ میں گھر نہیں جایا کرتے تھے.میں عرض کر کے ساتھ لے گیا.حضرت صاحب نے دیکھا اور دوا بھی بتائی.پھر واپس آکر شام کو حسب دستور فرمانے لگے.استخارہ کرو.میں استخارہ کر کے سویا.تو رات کو مجھے خواب آیا.کہ ایک کھیت میں ہل چل رہا ہے اور ہل میں دو بیل لگے ہوئے ہیں جس میں دائیں طرف کا بیل گورے رنگ کا تھا.میں نے دیکھا کہ ہل چلتے چلتے وہ بیل الٹ کر گر گیا اور پھر مر گیا.صبح اٹھ کر میں نے یہ خواب حضرت صاحب سے بیان کی.آپ نے خواب نامہ نکال کر دیکھا.جس کے بعد میں نے تعبیر پوچھی تو فرمانے لگے.آپ لوگ زمیندار ہیں.زمینداروں والے نظارے خواب میں نظر آجاتے ہیں.میں نے اصرار کیا کہ تعبیر بتائیے.تو فرمایا.کہ سب خوابیں درست نہیں ہوتیں.بعض اوقات خیال سے بھی خواب آجاتی ہے.مگر میں نے پھر بھی اصرار کیا.جس پر فرمایا.کہ تم تعبیر بتا دو گے اور شور پڑ جائے گا.اگر وعدہ کرو کہ نہ بتاؤ گے تو بتاؤں گا.میں نے وعدہ کیا تو آپ نے بتایا.کہ یہ لڑ کا فوت ہو جائے گا.چنانچہ دوسرے دن وہ لڑکا فوت ہو گیا.
سیرت المہدی 545 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا علی شیر کو میں نے دیکھا ہے.بہت مشرع صورت تھی اور ہاتھ میں تسبیح رکھتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے.ان کی لڑکی عزت بی بی ہمارے بھائی مرزا فضل احمد کے عقد میں آئی تھی اور وہ بھی اوائل عمر میں سخت مخالف تھی مگر اب چند سال سے سلسلہ میں داخل ہیں.562 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عبد المحي حب عرب نے مجھ سے ایک روز حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ہی ذکر کیا کہ حضرت صاحب کی سخاوت کا کیا کہنا ہے.مجھے کبھی آپ کے زمانہ میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی.جوضرورت ہوتی.بلا تکلف مانگ لیتا اور حضور میری ضرورت سے زیادہ دے دیتے اور خود بخود بھی دیتے رہتے.جب حضور کا وصال ہو گیا تو حضرت خلیفہ اول حالانکہ وہ اتنے بھی مشہور ہیں میری حاجت براری نہ کر سکے.آخر تنگ ہو کر میں نے ان کو لکھا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ تو بن گئے.مگر میری حاجات پوری کرنے میں تو ان کی خلافت نہ فرمائی.حضرت صاحب تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا کرتے تھے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے میری امداد کی.مگر خدا کی قسم ! کہاں حضرت صاحب اور کہاں یہ.ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.563 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول سخت بیمار ہو گئے.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب وہ حضور کے مکان میں رہتے تھے.حضور نے بکروں کا صدقہ دیا.میں اس وقت موجود تھا.میں رات کو حضرت خلیفہ اول کے پاس ہی رہا اور دواء پلاتا رہا.صبح کو حضور تشریف لائے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ حضور! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ اہتمام سے پلاتے رہے ہیں.حضور علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے.یہ بہشتی کنبہ ہے.یہ الفاظ چند بار فرمائے.564 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پیشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت احمد علیہ السلام کو بار ہا نماز فریضہ اور تہجد پڑھتے دیکھا.آپ نماز نہایت اطمینان سے
سیرت المہدی 546 حصہ سوم پڑھتے.ہاتھ سینے پر باندھتے.دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو سہار لیتے.آمین آہستہ پڑھتے تھے.رفع یدین کرتے تھے.رفع سبابہ یاد نہیں.مگر اغلبا کرتے تھے.تہجد میں دورکعت وتر جد اپڑھتے اور پھر سلام پھیر کر ایک رکعت الگ پڑھتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ میرے علم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رفع یدین نہیں کرتے تھے اور مجھے حضرت صاحب کا رفع سبابہ کرنا بھی یاد نہیں.گو میں نے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ آپ رفع سبابہ کرتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب اپنی تحریرات میں حضرت صاحب کا عموماً حضرت احمد علیہ السلام کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں.اس لئے میں نے ان کی روایت میں وہی قائم رکھا ہے.اور یہ جو قاضی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں سے سہارا دیتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ جوانی کے زمانہ میں آپ کا دایاں ہاتھ ایک چوٹ لگنے کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا.اور اسے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی.565 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بمقام گورداسپور ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بخار تھا.آپ نے خاکسار سے فرمایا کہ کسی جسیم آدمی کو بلاؤ جو ہمارے جسم پر پھرے.خاکسار جناب خواجہ کمال الدین صاحب وکیل لاہور کو لایا.وہ چند دقیقہ پھرے.مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کا وجود چنداں بوجھل نہیں کسی دوسرے شخص کو لا ئیں.شاید حضور نے ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب دہلوی کا نام لیا.خاکساران کو بلا لا یا.جسم پر پھر نے سے حضرت اقدس کو آرام محسوس ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کیفیت اعضاء شکنی کے وقت کی ہوگی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ صاحب اور ڈاکٹر صاحب مرحوم ہر دو نہایت بھاری جسم کے تھے.شاید کم و بیش چار چارمن کے ہو نگے.اور ڈاکٹر صاحب کسی قدر زیادہ وزنی تھے.اور ان کا قد بھی زیادہ لمبا تھا.گوویسے خواجہ صاحب بھی اچھے خاصے لمبے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب نے جو ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب کو دہلوی لکھا ہے یہ
سیرت المہدی 547 حصہ سوم درست نہیں وہ اصل میں گوڑیانی کے رہنے والے تھے.566 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جماعت کپورتھلہ دُنیا میں سب سے پہلی احمدی جماعت ہے یہ وہ جماعت ہے جس کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریری پیشگوئی موجود ہے.اور اخبار میں بھی شائع ہو چکی ہے کہ جماعت کپورتھلہ دنیا میں بھی میرے ساتھ رہی ہے اور قیامت کو بھی میرے ساتھ ہوگی“.خدا گواہ ہے.میں نے اس کو فخر سے نہیں عرض کیا.محض خدا کی نعمت کا اظہار کیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۷۹ میں بھی ذکر گذر چکا ہے.نیز اس وقت بوقت تحریر حصہ سوم میاں فیاض علی صاحب مرحوم فوت ہو چکے ہیں.567 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب او جلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز کا واقعہ ہے کہ ایک دودھ کا بھرا ہوا لوٹا حضور کے سرہانے رکھا ہوا تھا.خاکسار نے اُسے پانی سمجھ کر ہلا کر جیسا کہ لوٹے کو دھوتے وقت کرتے ہیں پھینک دیا.جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ دودھ تھا.تو مجھے سخت ندامت ہوئی لیکن حضور نے بڑی نرمی اور دلجوئی سے فرمایا اور بار بار فرمایا.کہ بہت اچھا ہوا کہ آپ نے اُسے پھینک دیا.دودھ اب خراب ہو چکا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ علاوہ دلداری کے حضرت صاحب کا منشاء یہ ہوگا، کہ لوٹے وغیرہ کی قسم کے برتن میں اگر دودھ زیادہ دیر تک پڑا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبدالعزیز صاحب حضرت صاحب کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور اب ایک عرصہ سے پٹوار کے کام سے ریٹائر ہوکر قادیان میں سکونت پذیر ہو چکے ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی عبدالعزیز صاحب کی بہت سی روایات مجھے مکرم مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور نے لکھ کر دی ہیں.فَجَزَاهُ اللَّهُ خَيْرًا.568 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب او جلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک شخص مسمی سانوں ساکن سیکھواں نے میرے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.اب وہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہیں.ان کو نزول الماء کی بیماری تھی.حضرت خلیفہ اول کو آنکھیں دکھا ئیں.تو
سیرت المہدی 548 حصہ سوم انہوں نے فرمایا.کہ پہلے پانی آکر بینائی بالکل جاتی رہے گی.تو پھر ان کا علاج کیا جائے گا.ان کو اس سے بہت صدمہ ہوا.اس کے بعد انہوں نے یہ طریق اختیار کیا.کہ جب کبھی وہ قادیان آتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھنے کا موقعہ پاتے تو حضور کا شملہ مبارک اپنی آنکھوں سے لگا لیتے.کچھ عرصہ میں ہی ان کی بیماری نزول الماء جاتی رہی اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی آنکھیں درست رہیں.کسی علاج وغیرہ کی ضرورت پیش نہ آئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس قسم کی معجزانہ شفا کے نمونے آنحضرت کی زندگی میں بھی کثرت سے ملتے ہیں اور حدیث میں ان کا ذکر موجود ہے.569 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے تھے.کہ جب حضرت صاحب نے دوسری شادی کی.تو ایک عمر تک تجرد میں رہنے اور مجاہدات کرنے کی وجہ سے آپ نے اپنے قولی میں ضعف محسوس کیا.اس پر وہ الہامی نسخہ جو از وجام عشق کے نام سے مشہور ہے.بنوا کر استعمال کیا.چنانچہ وہ نسخہ نہایت ہی بابرکت ثابت ہوا.حضرت خلیفہ اول بھی فرماتے تھے.کہ میں نے یہ نسخہ ایک بے اولا د میر کو کھلایا تو خدا کے فضل سے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا.جس پر اس نے ہیرے کے کڑے ہمیں نذر دیئے.نسخہ زرجام عشق یہ ہے.جس میں ہر حرف سے دوا کے نام کا پہلا حرف مراد ہے.زعفران.دار چینی.جائفل.افیون.مشک.عقرقر حا.شنگرف.قرنفل یعنی لونگ.ان سب کو ہموزن کوٹ کر گولیاں بناتے ہیں اور روغن سم الفار میں چرب کر کے رکھتے ہیں اور روزانہ ایک گولی استعمال کرتے ہیں.الہامی ہونے کے متعلق دو باتیں سنی گئی ہیں.ایک یہ کہ یہ نسخہ ہی الہام ہوا تھا.دوسرے یہ کہ کسی نے یہ نسخہ حضور کو بتایا.اور پھر الہام نے اسے استعمال کرنے کا حکم دیا.وَاللهُ اَعْلَمُ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے مولانا مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل نے بیان کیا کہ روغن سم الفار
سیرت المہدی 549 حصہ سوم کی مقدار اجزاء کی مقدار سے ڈھائی گنا زیادہ ہوتی ہے.یعنی اگر یہ اجزاء ایک ایک تولہ کی صورت میں جمع کئے جائیں تو روغن سم الفار ڈھائی تولہ ہو گا.اور اسی طرح مولوی صاحب نے بیان کیا.کہ ان اجزاء میں بعض اوقات مردار پر بھی اسی نسبت سے یعنی فی تولہ جزو پر ڈھائی تولہ مروار یہ زیادہ کر لیا جاتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ ایسی اول ایسا ہی کیا کرتے تھے.اور حضرت خلیفہ مسیح اول روغن سم الفار اس طرح تیار کروایا کرتے تھے کہ مثلاً ایک تولہ سم الفار کو باریک پیس کر اسے دوسیر دودھ میں حل کر کے دہی کے طور پر جاگ لگا کر جما دیتے تھے اور پھر اس دہی کو بلو کر جو مکھن نکلتا تھا اسے بصورت گھی صاف کر کے استعمال کرتے تھے.اور نسخہ میں جو روغن سم الفار کی مقدار بتائی گئی ہے.وہ اسی روغن سم الفار کی مقدار ہے نہ کہ خود سم الفار کی.اور تیار شدہ دوائی کی خوراک نصف رتی سے ایک رتی تک ہے جو دن رات میں ایک دفعہ کھائی جاتی ہے اور کبھی کبھی ناغہ بھی کرنا چاہئے.570 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.اور الہام ہے کہ نـزلـت الرحمة على الثلاثة.الْعَيْنِ وَعَلَى الْأُخْرَيَين - یعنی تمہارے تین اعضاء پر خدائی رحمت کا نزول ہے.ایک ان میں سے آنکھ ہے اور دو اور اعضاء ہیں.فرماتے تھے.دوسرے دو اعضاء کا نام الہام میں اس لئے نہیں لیا گیا.کہ ان کا نام بھی عین ہی معلوم ہوتا ہے ایک تو گھٹنے جسے عربی میں عین کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک میں دعا مشہور ہے کہ دیدے گھٹنے سلامت رہیں اور دوسرے عین انسان کے عقل وحواس کو بھی کہتے ہیں.پس آنکھ گھٹنے اور عقل وحواس آپ کے مرتے دم تک خدا کے فضل و کرم سے ہر نقص اور مرض سے محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسرے دو اعضاء کے متعلق صرف استدلال ہے ، تصریح نہیں.تصریح صرف آنکھ کے متعلق ہے.571 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ اپنے مخلصین کی بیماری میں ان کی عیادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے
سیرت المہدی 550 حصہ سوم چنانچه منشی محمد اکبر صاحب مرحوم بٹالہ والے جب اپنی مرض الموت میں قادیان میں بیمار ہوئے تو آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں محمد اکبر صاحب مرحوم بہت مخلص اور شیدائی تھے اور غالباً بٹالہ میں دکانداری یا ٹھیکہ کا کام کرتے تھے.آخری بیماری میں وہ قادیان آگئے تھے اور غالباً انہیں اس جگہ رکھا گیا تھا جہاں اب مدرسہ احمدیہ ہے.572 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ حضرت صاحب نے بہت مرتبہ زبانِ مبارک سے فرمایا کہ میں نے بار ہا بیداری میں ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہ راست حاصل کی ہے.خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور یا کم درجہ کی ہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیداری کی ملاقات سے کشف مراد ہے اور حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کئی ایسی حدیثیں ہیں جو محد ثین کے نزدیک کمزور ہیں.مگر در حقیقت وہ درست اور صحیح ہیں.573 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کئی مرتبہ حضور علیہ السلام نے اپنی تقاریر میں فرمایا کہ حضرت پیران پیر بڑے اولیاء اللہ میں سے ہوئے ہیں لیکن ان کی نسبت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی نہیں ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیرانِ پیر سے سید عبدالقادر جیلانی ” مراد ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں گذشتہ مجددین امت محمدیہ میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سید عبدالقادر صاحب جیلانی " کے ساتھ سب سے زیادہ محبت تھی اور فرماتے تھے کہ میری روح کو ان کی روح سے خاص جوڑ ہے.574 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غالباً ۱۸۹۲ء میں ایک دفعہ خارش کی تکلیف بھی ہوئی تھی.اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد ایک دفعہ ہنس کر فرمانے لگے کہ خارش والے کو کھجانے سے اتنا لطف آتا ہے کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ہر بیماری کا
سیرت المہدی 551 حصہ سوم اجر انسان کو آخرت میں ملے گا.سوائے خارش کے.کیونکہ خارش کا بیمار دنیا میں ہی اس سے لذت حاصل کر لیتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خارش کی تکلیف مرزا عزیز احمد صاحب کی پیدائش پر ہوئی تھی.جو غالبا ۱۸۹۱ء کا واقعہ ہے.اس کا ذکر روایت نمبر ۲۶۲ میں بھی ہو چکا ہے.575 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ رزق کی تنگی بسا اوقات ایمان کی کمزوری کا موجب ہو جاتی ہے.یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں مصائب اور مشکلات سے کوئی خالی نہیں یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا کے اولیاء کرام بھی اس سے خالی نہیں رہتے.مگر انبیاء اور اولیاء کی تکالیف کا سلسلہ رُوحانی ترقیات کا باعث ہوتا ہے.اور دنیا داروں پر جو مصائب اور مشکلات کا سلسلہ آتا ہے وہ ان کی شامت اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے.نیز فرمایا کہ جب تک مصائب و آلام بصورت انعام نظر نہ آنے لگیں اور ان سے ایک لذت اور سرور حاصل نہ ہو.اس وقت تک کوئی شخص حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا.576 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر ذکر کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قصر نماز کے متعلق سوال کیا.حضور نے فرمایا.جس کو تم پنجابی میں وانڈھا کہتے ہو.بس اس میں قصر ہونا چاہئے.میں نے عرض کیا کہ کیا کوئی میلوں کی بھی شرط ہے.آپ نے فرمایا.نہیں.بس جس کو تم وانڈھا کہتے ہو وہی سفر ہے جس میں قصر جائز ہے.میں نے عرض کیا کہ میں سیکھواں سے قادیان آتا ہوں.کیا اس وقت نماز قصر کر سکتا ہوں.آپ نے فرمایا.ہاں.بلکہ میرے نزدیک اگر ایک عورت قادیان سے نگل جائے تو وہ بھی قصر کرسکتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ سکھواں قادیان سے غالباً چار میل کے فاصلہ پر ہے اور منگل تو شاید ایک میل سے بھی کم ہے.منگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے.اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی منگل تک ہی گیا ہو اس کے لئے قصر جائز
سیرت المہدی 552 حصہ سوم ہو جائے گا یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کام کے لئے صرف منگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہو جاتا ہے.یا یہ بھی ممکن ہے کہ منگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لئے سفر قرار دیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے.والله اعلم 577 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں موسم گرما میں مسجد مبارک میں عشاء کی نماز ہونے لگی تو تکبیر سُنتے ہی نیچے مرزا امام الدین، مرزا نظام الدین صاحبان کے احاطہ میں سے جہاں پر کئی ڈھول وغیرہ بجانے والے آئے ہوئے تھے.ان لوگوں نے ڈھول اور نفیری وغیرہ اس طرح بجانے شروع کئے کہ گویا وہ اپنی آوازوں سے نماز کی آواز کو پست کرنا چاہتے ہیں اور غالبا یہ ان عمالیق کے اشارہ سے تھا.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بڑے جَهِيرُ الصَّوت تھے.(اتنے کہ صبح کی اذان ان کی نہر کے پل پر سنی جاتی تھی ) انہوں نے بھی قرآت بلند کی.ڈھول والوں نے اپنا شور اور بلند کیا.مولوی صاحب قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ رہے تھے.أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى ثُمَّ أَولَى لَكَ فَاَولی - (القيامة : ۳۵) ( یعنی تجھ پر ہلاکت ہو.ہاں اے گندے انسان! تجھ پر پھر ہلاکت ہو ) اس آیت کو بار بار دہراتے تھے.اور ہر دفعہ ان کی آواز اونچی ہوتی چلی جاتی تھی.گویا شیطان سے مقابلہ تھا.دیر تک یہ مقابلہ جاری رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے.غرض مولوی صاحب نے اس وقت اتنی بلند آہنگی سے نماز اور قرآت پڑھی کہ سب نے سُن لی.اور شوراگر چہ سخت تھا.مگر یہ شور اُن کی پُر شوکت آواز کے آگے مغلوب ہو گیا.آیت بھی نہایت با موقعہ تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جو عمالیق کا لفظ بیان کیا ہے اس سے مراد مرزا صاحبان مذکور ہیں.جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام نصف ترا نصف عمالیق را“ میں عمالیق کا لفظ استعمال ہوا ہے.عمالیق عربوں میں پرانے زمانہ میں ایک جابر قوم گذری ہے.578 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹرمیر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن مسجد مبارک کی مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے فرمایا کہ حضرت داؤد کا قول ہے کہ میں نے کسی نیک آدمی کی
سیرت المہدی 553 حصہ سوم اولا دکوسات پشت تک بھوکا مرتے نہیں دیکھا.فرمایا.اللہ تعالے کو اپنے نیک بندے کا جتنا لحاظ ہوتا ہے وہ اس واقعہ سے سمجھ میں آسکتا ہے جو قرآن میں مذکور ہے کہ ایک نیک شخص کے یتیم بچوں کے مال کو محفوظ کرنے کے لئے خدا نے موسیٰ علیہ السلام اور خضر کو بھیجا کہ اس دیوار کو درست کر دیں.جس کے نیچے ان کا مال مدفون تھا.فرماتے تھے.کہ خدا نے جو یہ فرمایا ہے.کہ كَانَ اَبُوهُمَا صَالِحًا ( الكهف : ۸۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے خودا چھے نہ تھے.بلکہ صرف ان کے باپ کے نیک ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو ان کا لحاظ تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے سات پشت والی بات حضرت خلیفہ اول کے واسطہ سے سُنی ہوئی ہے مگر اس میں بھوکا مرنے کی بجائے سوال کرنے کے الفاظ تھے.یعنی حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ایک نیک آدمی کی اولاد کو خدا تعالے سات پشت تک سوال کرنے سے بچاتا ہے یعنی نہ تو ان کا فقر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے اور نہ ہی ان کی غیرت اس حد تک گرتی ہے کہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں.579 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ میرے والد صاحب نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ جب میں شروع شروع میں احمدی ہوا تو قصبہ شوپیاں علاقہ کشمیر کے بعض لوگوں نے مجھ سے کہا.کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ” صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَلَّمَكَ اللهُ يَا رَسُولَ الله کے پڑھنے کے متعلق استفسار کروں.یعنی آیا یہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں.سو میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اس بارہ میں خط لکھا.حضور نے جواب تحریر فرمایا.کہ یہ پڑھنا جائز ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس استفسار کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آنحضرت ﷺ وفات پاچکے ہیں تو کیا اس صورت میں بھی آپ کو ایک زندہ شخص کی طرح مخاطب کر کے دُعا دینا جائز ہے.سو اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت مسیح موعود کا فتویٰ یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آپ کی روحانیت زندہ ہے اور آپ اپنی امت کے واسطے سے بھی زندہ ہیں.اس لئے آپ
سیرت المہدی 554 حصہ سوم کے لئے خطاب کے رنگ میں دعا کرنا جائز ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے ایک شعر میں آنحضرت ﷺ سے مخاطب ہو کر آپ سے مدد اور نصرت بھی چاہی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:.”اے سید الوری ! مد دے وقت نصرت است یعنی اے رسول اللہ ! آپ کی امت پر ایک نازک گھڑی آئی ہوئی ہے.میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے.580 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت اقدس احباب میں تشریف فرما ہوتے تھے.تو ہمیشہ اپنی نگاہ نیچی رکھتے تھے اور آپ کو اس بات کا بہت کم علم ہوتا تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب یا کوئی اور بزرگ مجلس میں کہاں بیٹھے ہیں.بلکہ جس بزرگ کی ضرورت ہوتی خصوصاً جب حضرت مولوی نورالدین صاحب کی ضرورت ہوتی تو آپ فرمایا کرتے مولوی صاحب کو بلاؤ.حالانکہ اکثر وہ پاس ہی ہوتے تھے.ایسے موقعہ پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرما دیتے تھے کہ حضرت ! مولوی صاحب تو یہ ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا موقعہ عموماً حضرت خلیفہ اول کے متعلق پیش آتا تھا.کیونکہ آپ ادب کے خیال سے حضرت صاحب کی مجلس میں پیچھے ہٹ کر بیٹھتے تھے.حالانکہ دوسرے لوگ شوق صحبت میں آگے بڑھ بڑھ کر اور حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھتے تھے.وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا.581 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن جب سیر کو جانے سے قبل حضور علیہ السلام چوک متصل مسجد مبارک میں قیام فرما تھے.تو آپ نے خاکسار کو فرمایا.کہ مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول) کو بلا لاؤ.خاکسار بلالا یا.سیر میں جب مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیچھے رہ جاتے تو حضور علیہ السلام سے عرض کیا جاتا کہ حضور ! مولوی صاحب پیچھے رہ گئے ہیں.تو حضور علیہ السلام صرف قیام ہی نہ فرماتے بلکہ بعض اوقات مولوی صاحب کی طرف لوٹتے بھی تا کہ مولوی صاحب جلدی سے آکر مل جائیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا نظارہ میں نے بھی متعدد دفعہ دیکھا ہے.مگر واپس لوٹنا مجھے یاد نہیں
سیرت المہدی 555 حصہ سوم بلکہ میں نے یہی دیکھا ہے کہ ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتظار میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اول بہت آہستہ چلتے تھے اور حضرت صاحب بہت زود رفتار تھے.مگر اس زود رفتاری کی وجہ سے وقار میں فرق نہیں آتا تھا.582 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خوابوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذکر فرما رہے تھے.میں نے عرض کیا.مومن کی رو یا صادقہ کس قسم میں سے ہے؟ فرمایا الْقَاءِ مَلَک ہے“.583 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سائیں ابراہیم صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور نے مجھے بواسطه مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل ایک تحریر ارسال کی ہے.جو سائیں ابراہیم صاحب کی املا پر مولوی قمر الدین صاحب نے لکھی تھی اور اس پر بعض لوگوں کی شہادت بھی درج ہے.اس تحریر میں سائیں ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائے دعویٰ میں دھرم کوٹ کے ہم پانچ گس نے بیعت کی تھی یعنی (۱) خاکسار (۲) مولوی فتح دین صاحب (۳) نور محمد صاحب (۴) اللہ رکھا صاحب اور (۵) شیخ نواب الدین صاحب.اس وقت رادھے خان پٹھان ساکن کروالیاں پٹھاناں اچھا عابد شخص خیال کیا جا تا تھا.وہ دھرم کوٹ بگہ میں بھی آتا جاتا تھا.اور مولوی فتح دین صاحب سے اس کی حضرت صاحب کے دعوی کے متعلق گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی اور بعض اوقات سخت کلامی تک بھی نوبت پہنچ جاتی تھی.۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے کہ رادھے خان مذکور دھرم کوٹ آیا اور مولوی فتح دین صاحب سے دورانِ گفتگو میں سخت کلامی کی.اس پر مولوی صاحب نے تو بہ اور استغفار کی تلقین کی کہ ایسی باتیں حضرت صاحب کی شان میں مت کہو.مگر وہ باز نہ آیا اور کہا کہ میں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں.میں جو کچھ کہتا ہوں سچ کہتا ہوں.مباہلہ کر کے دیکھ لو.اس پر مولوی صاحب مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے.اور مباہلہ وقوع میں آ گیا.مباہلہ کے بعد احمدی احباب نے آپس میں تذکرہ کیا کہ مباہلہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر کر لیا گیا ہے.یہ ٹھیک نہیں ہوا.اس پر حضور اقدس کی
سیرت المہدی 556 حصہ سوم خدمت میں جانے کے لئے تیاری ہوئی.ہم پانچوں قادیان پہنچے.نماز عشاء کے بعد مولوی فتح دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو واقعہ مباہلہ سُنایا اور کہا کہ ایسا ہو چکا ہے اور چالیس دن میعاد مقرر کی گئی ہے.حضور دعا فرمائیں.حضور نے معاً فرمایا : کیا تم خدا کے ٹھیکیدار تھے؟ تم نے چالیس دن میعاد کیوں مقرر کی؟ یہ غلط طریق اختیار کیا گیا ہے.یہ بھی دریافت فرمایا کہ مباہلہ میں اپنے وجود کو پیش کیا گیا ہے یا کہ ہمارے وجود کو؟ مولوی صاحب نے کہا.حضور اپنا وجود ہی پیش کیا ہے.حضور نے فرمایا کہ آئندہ یا د رکھو کہ مباہلہ میں میرا وجود پیش کرنا چاہئے نہ کہ اپنا.اس کے بعد حضور کچھ دیر گفتگو فرما کر تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہے.پھر فرمایا.میں دُعا کرتا ہوں آپ بھی شامل ہو جائیں.دعا نہایت رفت بھرے الفاظ سے شروع ہوئی.عشاء کے بعد سے لے کر تہجد کے وقت تک دُعا ہوتی رہی.آخر دُعا ختم ہوئی اور حضور نے فرمایا.جاؤ دُعا قبول ہوگئی ہے اور خدا کے فضل سے تمہاری فتح ہے.ہم لوگ اسی وقت واپس آگئے.نماز فجر راستہ میں پڑھی.واپس آکر ہم لوگ مباہلہ کے انجام کے منتظر رہے اور دعا کرتے رہے.حضرت اقدس نے بھی دعا جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی تھی.میعاد میں دس دن باقی رہ گئے تو رادھے خان نے آ کر پھر سخت کلامی کی.اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر جنگل میں دُعا کرنے کے لئے چلا گیا.مجھے یہ بھی یاد ہے.کہ اس نے لوگوں کو کہا تھا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے.اس دعا کے بعد وہ اپنے گاؤں کو واپس جا رہا تھا.کہ راستہ میں اس کی پنڈلی کی ہڈی پر چوٹ لگی.اس سے اس کے سارے جسم میں زہر پھیل گیا.رادھے خان جسم کا پتلا دبلا تھا.مگر اس چوٹ کی وجہ سے اس کا جسم پھولتا گیا.حتی کہ چار پائی سے بالشت بھر باہر اس کا جسم نکلا ہوا نظر آتا تھا.اس بیماری میں مولوی فتح الدین صاحب اس کے پاس گئے.اور تو بہ واستغفار کی تلقین کی مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوا.پھر جب چالیس دن میں ایک دن باقی تھا.تو وہ واصل جہنم ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذالک.العبد ( دستخط ) ابراہیم بقلم خود ساکن دھرم کوٹ بگه تحصیل بٹالہ العبد : ( دستخط) محمد جان بقلم خود ضلع گورداسپور میں اس واقعہ کی تصدیق کرتا ہوں.کتبہ: قمر الدین مولوی فاضل -۱۵/۷/۳۲ العبد :.نشان انگوٹھا روڑا احمدی ساکن دھرم کوٹ بگہ.
سیرت المہدی 557 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی قمر الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب میں دھرم کوٹ بگہ سے اس روایت کو لے کر واپس قادیان آیا.تو ایک دن میں نے اس واقعہ کا ذکر چوہدری مظفر الدین صاحب بنگالی ، بی.اے سے کیا تو وہ بہت محظوظ ہوئے اور کہا کہ یہ بہت عجیب واقعہ ہے.کسی دن دھرم کوٹ چلیں اور سائیں ابراہیم صاحب کی زبانی سنیں.میں نے کہا بہت اچھا.کسی دن چلیں گے.چنانچہ ہم نے جانے کے لئے ایک دن مقرر کیا.بٹالہ تک گاڑی میں جانا تھا.رات کو بارش ہو گئی.صبح سویرے گاڑی پر پہنچنا تھا.باقی سب دوست تو پہنچ گئے مگر چوہدری صاحب نہ پہنچ سکے.ہم گاڑی پر چلے گئے.بعض دوست چوہدری صاحب کے نہ پہنچ سکنے پر افسوس کرنے لگے.مگر میں نے کہا.چوہدری صاحب ضرور پہنچ جائیں گے.ہم بذریعہ گاڑی بٹالہ پہنچے اور وہاں سے دھرم کوٹ چلے گئے.ابھی تھوڑا ہی وقت گذرا تھا کہ چوہدری صاحب سائیکل پر پہنچ گئے.دھرم کوٹ ہم نے پہلے سے اطلاع کی ہوئی تھی کہ ہم لوگ فلاں غرض کے لئے آرہے ہیں.چوہدری صاحب کے پہنچنے پر ہم سب خوش ہوئے کیونکہ در حقیقت یہ سفر انہی کی تحریک پر کیا گیا تھا.ایک مجلس منعقد کی گئی اور سائیں ابراہیم کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ وہ سارا واقعہ مباہلہ سُنائیں.سائیں صاحب موصوف نے سارا واقعہ سُنایا.واقعہ سُن کر ایمان تازہ ہوتا تھا.ہمارے علاوہ اس مجلس میں مقامی جماعت کے لوگ بھی کافی تعداد میں شامل تھے.جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بھی تھے.سب نے سائیں صاحب کے واقعہ مذکورہ سُنانے پر تائید کی اور کئی احباب نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد دھرم کوٹ بگہ کے بہت سے احباب سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسنون طریق مباہلہ یہ ہے.کہ مباہلہ کے لئے ایک سال کی میعاد مقرر کی جائے اور اسی واسطے حضرت صاحب چالیس روز میعاد کے مقرر ہونے پر ناراض ہوئے ہونگے.مگر خدا نے حضرت کی خاص دعا کی وجہ سے چالیس روز میں ہی مباہلہ کا اثر دکھا دیا.اور احمدیوں کو نمایاں فتح دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ثابت کر دیا مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے.جو حضرت صاحب کی خاص توجہ سے خدا نے خاص حالات میں پیدا کر دی.ورنہ عام حالات میں ایک سال سے کم میعاد نہیں ہونی
سیرت المہدی 558 حصہ سوم چاہئے.آنحضرت ﷺ نے بھی جب اہل نجران کو مباہلہ کے لئے بلایا تھا تو اپنی طرف سے ایک سال کی میعاد پیش کی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ فرمان علی صاحب بی.اے.ریٹائر ڈ انـجـيـنـنيـر د محکمه انہا رسا کن دھرم کوٹ بگہ نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے کیونکہ انہوں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ان کے والد شیخ عزیز الدین صاحب بھی واقعہ مباہلہ مابین مولوی فتح الدین صاحب و رادھے خان پٹھان ساکن کر والیاں اکثر لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے.اور جن باتوں کی وجہ سے وہ احمدیت کے حق میں متاثر ہوئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی.584 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گھر سے یعنی حضرت اماں جی نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب آخری سفر لاہور میں وفات سے چند روز قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا که الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيل» یعنی کوچ پھر کوچ ( جو آپ کے قرب موت کی طرف اشارہ تھا ) تو حضرت صاحب نے مجھے بلا کر فرمایا.کہ جس حصہ مکان میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں.اُس میں آپ آجائیں اور ہم پ والے حصہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا نے الہام میں الرحيل فرمایا ہے جسے ظاہر میں اس نقل مکانی سے پورا کر دینا چاہئے اور معذرت بھی فرمائی کہ اس نقل مکانی سے آپ کو تکلیف تو ہوگی.مگر میں اس خدائی الہام کو ظاہر میں پورا کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ مکان بدل لئے گئے.مگر جو خدا کی تقدیر میں تھا.وہ پورا ہوا اور چند دن بعد آپ اچانک وفات پاگئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملا اغلسی کے فرشتے حضرت مسیح موعود کے اس فعل کو دیکھ کر وجد میں آتے ہونگے کہ یہ خدا کا بندہ خدمت دین کا کس قدر عاشق ہے کہ جانتا ہے کہ مقدر وقت آپہنچا ہے مگر خدائی تقدیر کو پیچھے ڈالنے کے لئے لفظوں کی آڑ لے کر اپنی خدمت کے وقت کو لمبا کرنا چاہتا ہے.یہ ایک محبت و عشق کی کھیل تھی.جس پر شاید رب العرش بھی مسکرا دیا ہو.اَللهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَ عَلَى مُطَاعِهِ وَبَارِكْ وَسَلَّم.585 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ میں نے دیکھا ہے کہ شروع میں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عموماً ”مرزا جی“ کہتے تھے.پھر ”مرزا صاحب“ کہنے
سیرت المہدی 559 حصہ سوم لگے.اس کے بعد ” حضرت صاحب.پھر حضرت اقدس یا حضرت مسیح موعود اور جب بالمشافہ گفتگو ہوتی.تو احباب عموماً آپ کو حضور کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے.مگر بعض لوگ کبھی کبھی ” آپ بھی کہہ لیتے تھے.586 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب متوطن پٹیالہ حال انچارج نورہسپتال قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں ۱۹۰۵ء کے موسم گرما کی چھٹیوں میں جبکہ اپنے سکول کی نویں جماعت کا طالبعلم تھا.پہلی مرتبہ قادیان آیا تھا.میرے علاوہ مولوی عبداللہ صاحب عربی مدرس مہندر کالج و ہائی سکول پٹیالہ.حافظ نور محمد صاحب مرحوم سیکرٹری جماعت احمدیہ پٹیالہ مستری محمد صدیق صاحب جو آج کل وائسرائیگل لاج میں ملازم ہیں.شیخ محمد افضل صاحب جو شیخ کرم الہی صاحب کے چازاد بھائی ہیں اور اُس وقت سکول کے طالب علم تھے، میاں خدا بخش المعروف مومن جی جو آج کل قادیان میں مقیم ہیں اس موقعہ پر قادیان آئے تھے.ہم مہمان خانہ میں ٹھہرے تھے.ہمارے قریب اور بھی مہمان رہتے تھے جن میں سے ایک شخص وہ تھا جو فقیرانہ لباس رکھتا تھا.اس کا نام مجھے یاد نہیں.وہ ہم سے کئی روز پہلے کا آیا ہوا تھا.جس روز ہم قادیان پہنچے.اس فقیرانہ لباس والے شخص نے ذکر کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا تھا کہ میری بیعت لے لیں.آپ نے فرمایا.کچھ دن یہاں ٹھہر و.بیعت کی کیا، جلدی ہے ہو جائے گی ، وہ شخص دو تین روز تو رکا رہا.لیکن جس روز ہم یہاں پہنچے اسی شام یا اگلی شام کو بعد نماز مغرب یا عشاء (ان دنوں حضرت صاحب نماز مغرب کے بعد مسجد میں مجلس فرمایا کرتے تھے.اور عشاء کی نماز جلدی ہوا کرتی تھی ) حضور نے لوگوں کی بیعت لی.ہم طلباء نے بھی بیعت کی.( گومیں بذریعہ خط ۲.۱۹۰۱ء میں بیعت کر چکا تھا.اور اس سے بھی پہلے ۱۸۹۹ء میں جبکہ میری عمر پندرہ سولہ سال کے قریب تھی.اپنے کنبہ کے بزرگوں کے ساتھ جن میں میرے دادا صاحب مولا بخش صاحب اور والد صاحب رحیم بخش صاحب اور میرے بڑے بھائی حافظ ملک محمد صاحب بھی تھے.حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی والد حکیم محمد عمر صاحب کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو چکا تھا.یہ بیعت مسجد احمد یہ میں ڈیک بازار پٹیالہ میں ہوئی تھی ) اس وقت اس شخص نے بھی چپکے سے بیعت کرنے والوں کے ساتھ ہاتھ
سیرت المہدی 560 حصہ سوم رکھ دیا.اگلی صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضرت مسیح موعود حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے موجودہ سکونتی مکان کی بنیادوں کا معائنہ کرنے کے لئے اس جگہ پر تشریف فرما تھے.کہ ہم مہمانان موجودۃ الوقت بھی حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہو گئے.اسی وقت اُس مہمان نے آگے بڑھ کر کہا.حضور میں نے رات بیعت کر لی ہے.حضور نے ہنس کر فرمایا.بیعت کر لینا ہی کافی نہیں ہے.بلکہ استقامت اختیار کرنا اور اعمال صالحہ میں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے.اسی طرح کی مختصر مگر مؤثر تقریر حضور نے فرمائی.حکمت الہی ہے کہ وہ شخص اگلے روز ہی ایسی باتیں کرنے لگا.کہ گویا اس کو سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.اور ایک دوروز تک دشنام دہی تک نوبت آ گئی.اور اسی حالت میں وہ قادیان سے نکل گیا.ہمارے دورانِ قیام میں جو کہ دس بارہ روز کا عرصہ تھا.بعض اور واقعات بھی ہوئے.ان میں سے ایک حضرت صاحب کے سر پر چوٹ لگنے کا واقعہ ہے.حضور وضو کر کے اُٹھے تھے کہ الماری کے گھلے ہوئے تختہ سے سر پر چوٹ آئی اور کافی گہرا زخم ہو گیا جس سے خون جاری ہوا.بہت تکلیف پہنچی.اس کی وجہ سے مسجد میں تشریف نہ لا سکتے تھے اور ہم نے بھی اجازت اندر حاضر ہو کر لی تھی.دوسرا واقعہ یہ ہے.کہ انہی دنوں حضور کو ” فَفَزِعَ عِيسَى وَمَنْ مَّعَهُ “ والا الہام ہوا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ الماری کے تختہ کی چوٹ کا واقعہ میرے سامنے ہوا تھا.حضرت صاحب کسی غرض کے لئے نیچے جھکے تھے اور الماری کا تختہ کھلا تھا.جب اُٹھنے لگے تو تختہ کا کونہ سر میں لگا اور بہت 66 چوٹ آئی.یہ واقعہ اس کمرہ میں ہوا تھا جو حجرہ کہلاتا ہے.587 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب نے عربی زبان کے اُم الالسنة ہونے کا اظہار فرمایا.تو اس کے بعد یہ تحقیق شروع ہوئی کہ بہت سے عربی کے الفاظ اپنی شکل پر یا کچھ تغیر کے ساتھ دوسری زبانوں میں موجود ہیں.چنانچہ آپ نے نمونہ کے طور پر چند الفاظ سُنائے.اس پر یہ چر چا اس قدر بڑھا کہ ہر شخص اردو، انگریزی فارسی ہندی وغیرہ میں عربی الفاظ ڈھونڈ نے لگا.اور جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لاتے.تو لوگ اپنی اپنی تحقیقات پیش کرتے.بعض الفاظ کو حضرت صاحب قبول فرما لیتے اور بعض کو چھوڑ دیتے.انہی دنوں میں فرمایا.کہ عربی
سیرت المہدی 561 حصہ سوم میں زمین کو ارض کہتے ہیں اور انگریزی میں ارتھ کہتے ہیں اور یہ دونوں باہم ملتے جلتے ہیں.اب یہ دیکھنا ہے کہ اصل میں یہ کس زبان کا لفظ ہے اور کس زبان میں سے دوسری زبان میں لیا گیا ہے.سو یہ اس طرح معلوم ہو جائے گا کہ ارتھ کے لغوی معنے اور اس کی اصلیت انگریزی لغت میں نہیں ملے گی.برخلاف اسکے عربی میں ارض کے وہ لغوی اور بنیادی معنے موجود ہیں جن کی مناسبت کے لحاظ سے زمین کو ارض کہتے ہیں.چنانچہ عربی میں ارض اس چیز کو کہتے ہیں جو تیز چلتی ہو.مگر باوجود تیز رفتاری کے پھر ایسی ہو کہ وہ ایک بچھونے کی طرح ساکن معلوم ہو.اب نہ صرف اس سے عربی لفظ کے اصل ہونے کا پتہ لگ گیا.بلکہ اس علم سے جو اس لفظ میں مخفی ہے.یہ بھی پتہ لگ گیا کہ یہ الہامی زبان ہے، انسان کی بنائی ہوئی نہیں.اور اس میں موجودہ سائنس کی تحقیقات سے پہلے بلکہ ہمیشہ سے زمین کی حرکت کا علم موجود ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس بارے میں عربی کی دوسب سے بڑی لغتوں یعنی لسان العرب اور تاج العروس کو دیکھا ہے ان دونوں میں ارض کے لفظ کے ماتحت یہ دونوں معنے موجود ہیں.کہ حرکت میں رہنے والی چیز اور ایسی چیز جو ایک فرش اور بچھونے کی طرح ہو.بلکہ مزید لطف یہ ہے کہ ان لغتوں میں لکھا ہے کہ ارض کے روٹ میں جس حرکت کا مفہوم ہے وہ سیدھی حرکت نہیں بلکہ چکر والی حرکت ہے چنانچہ جب یہ کہنا ہو کہ میرے سر میں چکر ہے تو اس وقت ارض کا لفظ بولتے ہیں.588 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض اوقات حضور علیہ السلام کسی جنسی کی بات پر ہنستے تھے اور خوب ہنستے تھے.یہاں تک میں نے دیکھا ہے کہ بنسی کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں پانی آجاتا تھا.جسے آپ انگلی یا کپڑے سے پونچھ دیتے تھے.مگر آپ کبھی بیہودہ بات یا تمسخر یا استہزاء والی بات پر نہیں ہنستے تھے.بلکہ اگر ایسی بات کوئی آپ کے سامنے کرتا تو منع کر دیتے تھے.چنانچہ میں نے ایک دفعہ ایک تمسخر کا نا مناسب فقرہ کسی سے کہا.آپ پاس ہی چار پائی پر لیٹے تھے.ہوں ہوں کر کے منع کرتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور فرمایا.یہ گناہ کی بات ہے.اگر حضرت صاحب نے منع نہ کیا ہوتا تو اس وقت میں وہ فقرہ بھی بیان کر دیتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے مجھے ایک بات یاد آ گئی کہ ایک دفعہ جب میں ابھی بچہ تھا
سیرت المہدی 562 حصہ سوم ہماری والدہ صاحبہ یعنی حضرت ام المؤمنین نے مجھ سے مزاح کے رنگ میں بعض پنجابی الفاظ بتا بتا کران کے اردو مترادف پوچھنے شروع کئے.اس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ شاید حرکت کے لمبا کرنے سے ایک پنجابی لفظ اردو بن جاتا ہے.اس خود ساختہ اصول کے ماتحت میں جب اوٹ پٹانگ جواب دیتا تھا تو والدہ صاحبہ بہت ہنستی تھیں اور حضرت صاحب بھی پاس کھڑے ہوئے ہنستے جاتے تھے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی مجھ سے ایک دو پنجابی الفاظ بتا کر ان کی اردو پوچھی اور پھر میرے جواب پر بہت ہنسے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں نے کہا کی اردو گوتا بتایا تھا.اور اس پر حضرت صاحب بہت ہنے تھے.589 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.ایک دفعہ مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی شیر علی صاحب کو بلا کر کچھ ارشاد فرمایا.یا ان سے کچھ پوچھا مولوی صاحب نے (غالباً حضور کے رعب کی وجہ سے گھبرا کر ) جواب میں اس طرح کے الفاظ کہے کہ حضور نے یہ عرض کیا تھا.تو میں نے یہ فرمایا تھا بجائے اس کے کہ اس طرح کہتے کہ حضور نے فرمایا تھا تو میں نے عرض کیا تھا.اس پر اہل مجلس ہنسی کو روک کر مسکرائے.مگر حضرت صاحب نے کچھ خیال نہ فرمایا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول تو حضرت صاحب کو ادھر خیال بھی نہ گیا ہوگا.اور اگر گیا بھی ہو تو اس قسم کی بات کی طرف توجہ دینا یا اس پر مسکرانا آپ کے طریق کے بالکل خلاف تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کو چوک کر اس قسم کے الفاظ کہ دینا خودمولوی صاحب کے متعلق بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کمال شفقت کے ان کے دل میں حضرت صاحب کا اتنا ادب اور رعب تھا کہ بعض اوقات گھبرا کر منہ سے اُلٹی بات نکل جاتی تھی.590 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے بڑے لڑکے میاں عبدالحی مرحوم کا نکاح بہت چھوٹی عمر میں حضرت صاحب نے پیر منظور محمد صاحب کی چھوٹی لڑکی ( حامدہ بیگم ) کے ساتھ کرادیا تھا.بعد میں معلوم ہوا.کہ وہ دونوں رضاعی بھائی بہن ہیں.اس پر علماء جماعت کی معرفت اس مسئلہ کی چھان بین ہوئی کہ رضاعت سے کس قدر دودھ پینا مراد
سیرت المہدی 563 حصہ سوم ہے اور کیا موجودہ صورت میں رضاعت ہوئی بھی ہے یا نہیں.آخر تحقیقات کر کے اور مسئلہ پر غور کر کے یہ فیصلہ ہوا کہ واقعی یہ ہر دو رضاعی بہن بھائی ہیں اور نکاح فسخ ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے اس وقت حضرت صاحب اس طرف مائل تھے کہ اگر معمولی طور پر کسی وقت تھوڑا سا دودھ پی لیا ہے.تو یہ ایسی رضاعت نہیں جو باعث حرمت ہو اور حضور کا میلان تھا کہ نکاح قائم رہ جائے مگر حضرت خلیفہ اول کو فقہی احتیاط کی بناء پر انقباض تھا.اس لئے حضرت صاحب نے فسخ کی اجازت دیدی.591 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دوست نے مسجد مبارک میں مغرب کے بعد سوال کیا.کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب کا طعام تمہارے لئے حلال ہے تو عیسائی تو ناپاک چیزیں بھی کھا لیتے ہیں.پھر ہم ان کا کھانا کس طرح کھا سکتے ہیں.فرمایا.اہل کتاب سے دراصل اس جگہ قرآن شریف نے یہودی مراد لئے ہیں جن کے پاس شریعت تھی اور جو اس کے حامل اور عامل تھے اور انہی لوگوں کا ذبیحہ اور کھانا جائز ہے.کیونکہ وہ بہت شدت سے اپنی شریعت کے احکام پر عمل کرتے ہیں.عیسائیوں نے تو سب باتیں شریعت کی اڑا دیں اور شریعت کو لعنت قرار دیدیا.پس یہاں وہ مراد نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر میر صاحب کی اس روایت کے ظاہری اور عام معنی لئے جائیں تو اس میں کسی قدر ندرت ہے جو عام خیال کے خلاف ہے اور میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعامل کے بھی خلاف ہے.جہاں تک میر اعلم ہے حضرت صاحب کو عیسائیوں کی تیار شدہ چیزوں کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا.بلکہ ہندوؤں تک کی چیزوں میں پر ہیز نہیں تھا.البتہ اس روایت کا یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ عیسائیوں نے طریق ذبح کے معاملہ میں شرعی طریق کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کے اس قسم کے کھانے سے پر ہیز چاہئے.مگر باقی چیزوں میں حرج نہیں.ہاں اگر کوئی چیز اپنی ذات میں حرام ہو تو اس کی اور بات ہے.ایسی چیز تو عیسائی کیا مسلمان کے ہاتھ سے بھی نہیں کھائی جائے گی.
سیرت المہدی 564 حصہ سوم 592 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسئلہ دریافت کیا.کہ حضور فاتحہ خلف امام اور رفع یدین اور آمین کے متعلق کیا حکم ہے.آپ نے فرمایا.کہ یہ طریق حدیثوں سے ثابت ہے.اور ضرور کرنا چاہئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاتحہ خلف امام والی بات تو حضرت صاحب سے متواتر ثابت ہے مگر رفع یدین اور آمین بالجهر والی بات کے متعلق میں نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہو کیونکہ اگر حضور ا سے ضروری سمجھتے تو لازم تھا کہ خود بھی اس پر ہمیشہ عمل کرتے.مگر حضور کا دوامی عمل ثابت نہیں بلکہ حضور کا عام عمل بھی اس کے خلاف تھا.میں سمجھتا ہوں کہ جب حافظ صاحب نے حضور سے سوال کیا تو چونکہ سوال میں کئی باتیں تھیں.حضور نے جواب میں صرف پہلی بات کو مدنظر رکھ کر جواب دیدیا یعنی حضور کے جواب میں صرف فاتحہ خلف امام مقصود ہے.واللہ اعلم.ا 593 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہماری عادت تھی کہ جب ہم حضرت صاحب کو قادیان ملنے آتے ، تو ہمیشہ اپنے ساتھ کبھی گئے یا گڑ کی روڑی ضرور لایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ نے فرمایا.ہمارے لئے سرسوں کا ساگ بھیجنا.وہ گوشت میں ڈال کر عمدہ پکتا ہے.ہم نے وہ ساگ فیض اللہ چک سے بھیج دیا.بعد ازاں ہم نے گاؤں میں یہ بات سنی کہ دہلی میں آپ کی شادی ہو گئی ہے.اس پر میں اور میرے دوست حافظ نبی بخش صاحب آپ کی ملاقات کے لئے آئے.تو حضور بہت خوش ہوکر ملے.میں نے ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا.آپ نے فرمایا.کہ جب آپ کے لڑکا پیدا ہوگا تو ہم بھی دیں گے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور نے یہ بات کہ ہم بھی دینگے ، تنبول وغیرہ کے رنگ میں نہیں کہی ہوگی بلکہ یونہی اظہار محبت و شفقت کے طور پر کہی ہوگی.گو ویسے حضور شادیوں وغیرہ کے موقعہ پر تنبول کے طریق کو بھی نا پسند نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے نیک نیتی سے ایسا کیا جائے اور اسے لازمی نہ قرار دیا
سیرت المہدی 565 حصہ سوم جاوے تو یہ ایک بروقت امداد کی صورت ہے.594 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ رمضان کی لیلۃ القدر کی بابت حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے.کہ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس رات کچھ بادل یا ترشح بھی ہوتا ہے.اور کچھ آثار انوار و برکات سماویہ کے محسوس ہوتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی علامت حدیثوں میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن غالباً یہ منشا نہیں ہے کہ بادل یا ترشح کی شرط بہر صورت لازمی ہے اور میرے خیال میں ایسا بھی ممکن ہے کہ مختلف علاقوں میں ليـلـة الــقــدر مختلف راتوں میں ظاہر ہو اور حق تو یہ ہے کہ لیلۃ القدر کا ماحول پیدا کرنا ایک حد تک انسان کی خود اپنی حالت پر بھی موقوف ہے ایک ہی وقت میں ایک شخص کے لئے لیلة القدر ہوسکتی ہے مگر دوسرے کے لئے نہیں.والله اعلم.595 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات الہام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کلامِ الہی بندہ کی اپنی زبان پر بلند آواز سے ایک دفعہ یا بار بار جاری ہو جاتا ہے اور اس وقت زبان پر بندے کا تصرف نہیں ہوتا.بلکہ خدا کا تصرف ہوتا ہے اور کبھی الہام اس طرح ہوتا ہے کہ لکھا ہوا فقرہ یا عبارت دکھائی دیتی ہے اور کبھی کلام لفظی طور پر باہر سے آتا ہواسنائی دیتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ کلام الہی تین موٹی قسموں میں منقسم ہے.اول وحی.یعنی خدا کا براہ راست کلام خواہ وہ جلی ہو یا خفی.دوسرے مِنْ وَرَاءِ حِجاب والی تصویری زبان کا الہام مثلاً خواب یا کشف وغیرہ.تیسرے فرشتہ کے ذریعہ کلام.یعنی خدا فرشتہ سے کہے اور فرشتہ آگے پہنچائے اور پھر یہ تینوں قسمیں آگے بہت سی ماتحت اقسام میں منقسم ہیں.میر صاحب والی روایت میں آخری قسم ، وحی میں داخل ہے اور شاید پہلی قسم بھی ایک رنگ وحی کا رکھتی ہے مگر درمیانی قسم مِن وَرَاءِ حِجاب سے تعلق رکھتی ہے.واللہ اعلم.
سیرت المہدی 566 حصہ سوم 596 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جیسے زکوۃ یا صدقہ سادات کے لئے منع ہے ویسا ہی صاحب توفیق کے لئے بھی اس کا لینا جائز نہیں ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ سُنا ہوا ہے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل سخت اضطرار کی حالت میں جبکہ کوئی اور صورت نہ ہو.ایک سید بھی زکوۃ لے سکتا ہے.597 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت صاحب معتدل موسم میں بھی کئی مرتبہ چھلی رات کو اُٹھ کر اندر کمرہ میں جا کر سو جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی فرماتے تھے کہ ہمیں سردی سے متلی ہونے لگتی ہے.بعض دفعہ تو اُٹھ کر پہلے کوئی دوا مثلاً مشک وغیرہ کھا لیتے تھے اور پھر لحاف یا رضائی اوڑھ کر اندر جائیٹتے تھے.غرض یہ کہ سردی سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور اس کے اثر سے خاص طور پر اپنی حفاظت کرتے تھے.چنانچہ پچھلی عمر میں بارہ مہینے گرم کپڑے پہنا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بالعموم گرمی میں بھی جراب پہنے رکھتے تھے اور سردیوں میں تو دو دو جوڑے اوپر تلے پہن لیتے تھے مگر گرمیوں میں کر تہ عموماً ململ کا پہنتے تھے.598 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک حال محلہ دار الفضل قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ہر موسم کا پھل مثلاً خربوزہ اور آم کافی مقدار میں باہر سے منگواتے تھے.خربوزہ علاقہ بیٹ سے اور آم دریا کے پار سے منگاتے تھے.بعض اوقات جب میں بھی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور اپنے دست مبارک سے خربوزہ کاٹ کر مجھے دیتے اور فرماتے.میاں نبی بخش یہ خربوزہ میٹھا ہوگا اسکو کھاؤ اور آپ بھی کھاتے.اسی طرح آموں کے موسم میں حضرت صاحب نہایت محبت و شفقت سے مجھے آم بھی عنایت فرماتے اور بار بار فرماتے.یہ آم تو ضرور میٹھا ہوگا.اس کو ضرور کھاؤ.خاکسار عرض کرتا ہے.بیٹ سے دریائے بیاس کے قریب کا نشیبی علاقہ مراد ہے اور پار سے ضلع ہوشیار پور کا علاقہ مراد ہے جس میں آم زیادہ ہوتا ہے.
سیرت المہدی 567 حصہ سوم 599 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں مع احباب کے تشریف رکھتے تھے.میں باہر سے آیا اور السلام علیکم عرض کیا.حضور سے مصافحہ کرنے کی بہت خواہش پیدا ہوئی.لیکن چونکہ مسجد بھری ہوئی تھی اور معزز احباب راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے.میں نے آگے جانا مناسب نہ سمجھا.ابھی میں کھڑا ہی تھا اور بیٹھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ حضور نے میری طرف دیکھ کر فرمایا.میاں عبدالعزیز آؤ.مصافحہ تو کرلو.چنانچہ دوستوں نے مجھے راستہ دیدیا اور میں نے جا کر مصافحہ کر لیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو اپنے مخلص اصحاب کی انتہائی دلداری مد نظر رہتی تھی.اور آپ کا دل ان کی محبت سے معمور رہتا تھا.اس موقعہ پر حضرت صاحب نے محسوس کر لیا ہوگا کہ میاں عبدالعزیز صاحب مصافحہ کی خواہش رکھتے ہیں مگر راستہ بند ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں.اس لئے آپ نے آواز دے کر پاس بلا لیا.600 بسم الله الرحمن الرحیم مینشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک دفعہ کرم دین جہلمی کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے.کچہری کے وقت حضور احاطہ کچہری میں ایک جامن کے درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر مع خدام تشریف فرما تھے.حضور کے لئے دودھ کا ایک گلاس لایا گیا.چونکہ حضور کا پس خوردہ پینے کے لئے سب دوست جدوجہد کیا کرتے تھے.میرے دل میں اس وقت خیال آیا.کہ میں ایک غریب اور کمزور آدمی ہوں.اتنے بڑے بڑے آدمیوں میں مجھے کس طرح حضور کا پس خوردہ مل سکتا ہے.اس لئے میں ایک طرف کھڑا ہو گیا.حضور نے جب نصف گلاس نوش فرمالیا تو بقیہ میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا.میاں عبدالعزیز بیٹھ کر اچھی طرح سے پی لو.601 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ جب حضور علیہ السلام نماز کے وقت تشہد میں بیٹھتے تو تشہد پڑھنے کی
سیرت المہدی 568 حصہ سوم ابتداء ہی میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ بنا لیتے تھے اور صرف شہادت والی انگلی کھلی رکھتے تھے.جو شہادت کے موقعہ پر اُٹھاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب کے والد چونکہ اہل حدیث میں سے آئے تھے.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو غور کی نظر سے دیکھتے تھے.مگر مجھ سے مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا ہے کہ ابتداء سے ہی ہاتھ کی انگلیوں کے بند کر لینے کا طریق انہیں یاد نہیں ہے.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہو.واللہ اعلم.602 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں پہلے اہلِ حدیث تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات و رسائل کشمیر میں پہنچے.تو سب سے پہلے میرے کان میں حضور کا یہ شعر پڑا.کہ مولوی صاحب! کیا یہی تو حید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے“ سومیں وہاں پر ہی بیعت کے لئے بے قرار ہو گیا اور نفس میں کہا کہ افسوس اب تک ہم دیو کی ہی تقلید کرتے رہے.سو میں نے تم دونوں بھائیوں کو ( خاکسار عبدالرحمن اور برادر مکرم عبدالقادر صاحب) سرینگر میں اپنے ماموں کے پاس چھوڑ کر فوراً قادیان کی راہ لی اور جب یہاں پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا.کہ حضور میری بیعت لے لیں.حضور نے فرمایا.بیعت کیا ہے.بیعت عبرت ہے اس کے بعد میری اور چند اور اصحاب کی بیعت لے لی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ فرمانا کہ بیعت عبرت ہے اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی گزشتہ زندگی کو ایمان اور اعمال کے لحاظ سے عبرت کا ذریعہ بنا کر آئندہ کے لئے زندگی کا نیا ورق الٹ لے.603 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیعوں کے عقائد کے ضمن میں ایک غالی شیعہ کی کہانی کبھی کبھی سنایا کرتے تھے.فرماتے تھے کہ
سیرت المہدی 569 حصہ سوم ایک شیعہ جب مرنے لگا.تو اس نے اپنی اولا د کو جمع کیا اور کہا کہ میں تم کواب مرتے وقت ایک وصیت کرتا ہوں.جس کو اگر یا درکھو گے تو تمہارا ایمان قائم رہے گا اور یہ نصیحت میری تمام عمر کا اندوختہ ہے.وہ نصیحت یہ ہے کہ آدمی اس وقت تک سچا شیعہ نہیں ہو سکتا جب تک اُسے تھوڑی سی عداوت حضرت امام حسنؓ سے بھی نہ ہو.اس پر اس کے عزیز ذرا چونکے تو وہ کہنے لگا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی خلافت بنوامیہ کے سپرد نہ کر دیتے اور ان سے صلح نہ کر لیتے تو شیعوں پر یہ مصیبت نہ آتی.اصل میں ان کا قصور تھا.سو دل میں ان سے کچھ عداوت ضرور رکھنی چاہئے.پھر چپ ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا کہ اب اس سے بڑھ کر نکتہ بتا تا ہوں.میرے مرنے کا وقت قریب آگیا ہے مگر یہ سُن رکھو کہ شیعہ سچا وہی ہے جو تھوڑی سے عداوت حضرت علیؓ کے ساتھ بھی رکھے.کیونکہ حضرت علی شیر خدا اور رسول خدا کے وصی تھے.مگر ان کی آنکھوں کے سامنے ابو بکر اور عمر نے خلافت غصب کر لی.مگر وہ بولے تک نہیں.اگر اس وقت وہ ہمت دکھاتے تو منافقوں کا غلبہ اس طرح نہ ہو جاتا.اس کے بعد وہ پھر خاموش ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا.لواب اس سے بھی ضروری بات بیان کرتا ہوں.بچے شیعہ کو ضرور تھوڑی سے عداوت آنحضرت سے بھی رکھنی چاہئے کہ اگر وہ ابو بکر اور عمر کا فیصلہ اپنے سامنے کر جاتے اور علی کی خلافت سب کے سامنے کھول کر بیان کر دیتے اور اپنا جانشین انہیں بنا جاتے تو پھر یہ فساد اور مصیبتیں کیوں آتیں.ان کا بھی اس میں قصور ہے کہ بات کو کھولا نہیں.پھر ذرا اُٹھ کر کہنے لگا کہ اب تو میرے آخری سانس ہیں.ذرا آگے آجاؤ.دیکھوا گر تم دل سے شیعہ ہو.تو جبرائیل سے بھی ضرور تھوڑی سے عداوت رکھنا.جب خدا نے وحی حضرت علی کی طرف بھیجی تو وہ حضرت علی کی بجائے آنحضرت کی طرف لے آیا اور اس طرح ہمارا تمام کام بگاڑ دیا.خواہ بھول گیا یا جان بوجھ کر ایسا کیا مگر اس کا قصور ضرور ہے.اس کے بعد ذرا چپ رہا.جب بالکل آخری وقت آگیا.تو کہنے لگا ذرا اور نزدیک ہو جاؤ.یہ آخری بات ہے اور بس.جب وہ لوگ آگے ہوئے تو کہنے لگا.آدمی اس وقت تک کامل شیعہ نہیں ہو سکتا.جب تک کچھ تھوڑی سی عداوت خدا سے بھی نہ رکھے.کیونکہ سارا فساداسی سے نکلا ہے.اگر وہ ان تمام معاملات کو پہلے ہی صفائی سے طے کر دیتا اور جھگڑوں میں نہ الجھا تا تو نہ حضرت علی محروم ہوتے نہ امام حسین شہید ہوتے اور نہ غاصب کامیاب ہوتے.یہ کہہ کر بیچارے کا دم
سیرت المہدی نکل گیا.570 حصہ سوم اس قصہ کے بیان کرنے سے حضرت صاحب کا مطلب یہ تھا.کہ انسان اگر شیعوں والے عقائد اختیار کرے گا تو اس کا لازمی اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ اہل بیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ تک کو ترک کرنا پڑے گا اور ان سے بدظنی کرنی پڑے گی.سوایسا مذ ہب بالبداہت باطل ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے بھی حضرت صاحب سے یہ روایت سنی ہوئی ہے.حضرت صاحب جب یہ روایت فرماتے تھے تو بہت ہنستے تھے اور جب اس شیعہ کی زبانی عداوت رکھنے کا ذکر فرماتے تھے تو بعض اوقات انگلی کے اشارے سے فرمایا کرتے تھے کہ بس اتنی سی عداوت فلاں سے بھی چاہئے اور اتنی سی فلاں سے.604 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مرحوم کا نام اصل میں کریم بخش تھا.حضرت صاحب نے ان کا یہ نام بدل کر عبدالکریم رکھ دیا.میں نے اس تبدیلی کے بہت دیر بعد بھی مولوی صاحب مرحوم کے والد صاحب کو سُنا کہ وہ انہیں کریم بخش ہی کہہ کر پکارتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی ترکیب کے نام زیادہ پسند تھے.605 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتابوں کی کاپی اور پروف خود دیکھا کرتے تھے.اور جب کوئی عربی کتابیں لکھتے.تو وہ خود بھی دیکھتے تھے اور بعض علماء کو بھی دکھانے کا حکم دیدیا تھا.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تو عربی اور فارسی کتب کے تمام پروف بطور ایک صبح کے بالاستیعاب دیکھتے تھے.ایک دفعہ ایک عربی کتاب کی بابت فرمایا.کہ اس کے پروف مولوی عبدالکریم صاحب کے دیکھنے کے بعد مولوی نورالدین صاحب کو بھی دکھائے جایا کریں.کسی نے عرض کیا کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ فرمانے لگے.مولوی صاحب ہماری کتابیں کم پڑھتے ہیں.اس طرح ان کی نظر سے گذر جائیں گی.
سیرت المہدی 571 حصہ سوم 606 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک مرتبہ صبح کے وقت میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی.مگر میں نے اس خواہش کا کسی کے سامنے اظہار نہ کیا.اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ آج ہم باغ کی طرف سیر کے لئے جائیں گے.چنانچہ اسی وقت چل پڑے.باغ میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں.باغ کے رکھوالے دو بڑے ٹوکرے شہتوتوں سے بھرے ہوئے لائے اور حضور کے سامنے رکھ دیئے.سب دوست چار پائیوں پر بیٹھ گئے.بے تکلفی کا یہ عالم تھا.کہ حضور پائینتی کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور دوست سرہانے کی طرف.سب دوست شہتوت کھانے لگے.حضور نے میر ناصر نواب صاحب مرحوم سے فرمایا.کہ میر صاحب! شہتوت میاں عبدالعزیز کے آگے کریں.چنانچہ کئی مرتبہ حضور نے یہی فرمایا.حالانکہ میں کھا رہا تھا.پھر بھی حضور نے ٹوکرا میرے آگے کرنے کی بار بار تاکید فرمائی.میں شرمندہ ہو گیا.کہ شاید حضور کو میری خواہش کاعلم ہو گیا ہے.607 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ جب کبھی کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو السّلام علیکم کہتا تھا تو حضورعموماً اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتے اور محبت سے سلام کا جواب دیتے.608 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر محمد عمر صاحب لکھنوی جب لاہور میں پڑھتے تھے تو ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد واپس چلے گئے.بعد میں کسی نے عرض کیا.کہ حضور ان کی داڑھی منڈھی ہوئی تھی.حضور نے بڑے تعجب سے فرمایا: اچھا کیا ان کی داڑھی منڈی ہوئی تھی ؟ ہم نے غور نہیں کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو آنکھ اُٹھا اٹھا کر تاڑنے کی عادت نہیں تھی.اور داڑھی کے متعلق عموماً فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو پہلے ایمان کا فکر ہوتا ہے.اگر ایمان درست اور کامل ہو جائے تو یہ کمزوریاں خود بخو دور ہو جاتی ہیں.جو شخص اسلام کو سچا جانتا ہے اور ہمیں دل سے صادق سمجھتا ہے اور جانتا
سیرت المہدی 572 حصہ سوم ہے کہ اسلام کی ہر تعلیم رحمت ہے تو وہ جب دیکھے گا کہ آنحضرت ﷺے داڑھی رکھتے تھے اور ہم بھی داڑھی رکھتے ہیں تو اس کا ایمان اس سے خود داڑھی رکھوالے گا لیکن ایمان ہی خام ہو تو خالی داڑھی کیا فائدہ پہنچاسکتی ہے.پس با وجود داڑھی منڈوانے کو بُرا سمجھنے کے آپ اپنی تقریر و تحریر میں اس کا زیادہ ذکر نہیں فرماتے تھے.بلکہ اصل توجہ ایمان کی درستی اور اہم اعمال صالحہ کی طرف دیتے تھے اور اگر کوئی داڑھی منڈوانے والا شخص آپ کی مجلس میں آتا تھا تو آپ اُسے ٹوکتے نہیں تھے.609 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب جب مسجد میں بیٹھ کر گفتگو فرماتے تو بعض لوگ درمیان میں دخل در معقولات کر بیٹھتے اور بات کاٹ کر اپنے قصے شروع کر دیتے مگر حضرت اقدس اس سے کبھی رنجیدہ خاطر نہ ہوتے.اگر چہ دوسرے احباب اس امر کو بہت محسوس کرتے کہ ہم دُور دُور سے حضرت کی باتیں سننے آتے ہیں مگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے ہمیں حضور کے کلام سے محروم کر دیتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ درست ہے کہ حضرت صاحب ہر شخص کی بات کو خواہ وہ لاتعلق اور لایعنی ہی ہو.اور خواہ کتنی لمبی ہو تو جہ سے سنتے تھے.مگر حضور کی بات کاٹنے کے متعلق جو بات محقق صاحب نے کہی ہے اس کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اکثر ایسا ہوتا تھا.بلکہ صرف بعض نا سمجھ لوگ کبھی کبھی ایسا کر بیٹھتے تھے.ورنہ سمجھدار لوگ آپ کی بات کاٹنے کو بے ادبی خیال کرتے تھے.610 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس عاجز کے استاد تھے.میں نے عربی.انگریزی.فارسی اور قرآن مجید کا کچھ حصہ ان سے پڑھا ہے.وہ ٹھنڈے پانی کے بہت عاشق تھے.بیت الفکر کے اوپر جو کمرہ مسجد مبارک کے بالا ئی صحن میں کھلتا ہے اس میں رہا کرتے تھے.پیاس لگتی تو کسی دوست یا شاگرد کو مسجد اقصی میں تازہ پانی لانے کے لئے بھیجتے اور جب وہ شخص واپسی پر گلی میں نظر آتا.تو اوپر سے ہی کھڑکی کے اندر سے آواز دیتے کہ جلدی لاؤ ورنہ پانی کی آب ماری جائے گی.غرض ان کو ٹھنڈے پانی اور برف سے بے حد رغبت تھی.
سیرت المہدی 573 حصہ سوم جب کبھی حضرت صاحب امرتسر یا لاہور سے برف منگواتے.تو ان کو ضرور بھیجا کرتے تھے اور کبھی مولوی صاحب مرحوم مجھے فرماتے کہ گھر میں برف ہے؟ میں کہتا کہ ہاں ہے.تو کہا کرتے.کہ حضرت صاحب سے نہ کہنا کہ عبد الکریم مانگتا ہے مگر کسی طرح سے لے آؤ.میں آکر حضرت سے کہتا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے کچھ برف چاہئے.یہ نہ کہتا کہ وہ مانگ رہے ہیں.آپ فرماتے کہ ہاں ضرور لے جاؤ.بلکہ خود نکال کر دیدیتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد اقطے کے کنوئیں کا پانی خنکی کے لئے بہت مشہور تھا اور سارے قادیان میں اول نمبر پر سمجھا جاتا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بہت ادبی مذاق رکھتے تھے.اور انہیں اس بات کی طرف بہت توجہ تھی کہ اپنے کلام میں فصاحت پیدا کریں.اس روایت میں بھی ”پانی کی آب“ کا محاورہ ان کی ادبی ندرت کی طرف اشارہ کر رہا ہے.611 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام تمام گذشته مشهور بزرگان اسلام کا نام ادب سے لیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے.اگر کوئی شخص کسی پر اعتراض کرتا.کہ فلاں شخص کی بابت لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے یا ایسا فعل کیا ہے.تو فرمایا کرتے كه "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ہمیں کیا معلوم کہ اصلیت کیا ہے اور اس میں کیا سر تھا.یہ لوگ اپنے زمانے کے بڑے بزرگ ہوئے ہیں.ان کے حق میں اعتراض یا سوء اد بی نہیں کرنی چاہئے.حضرت جنید.حضرت شبلی.حضرت بایزید بسطامی.حضرت ابراہیم ادھم.حضرت ذوالنون مصری.چاروں ائمہ فقہ.حضرت منصور - حضرت ابوالحسن خرقانی و غیر هم صوفیاء کے نام بڑی عزت سے لیتے تھے اور بعض دفعہ ان کے اقوال یا حال بھی بیان فرمایا کرتے تھے.حال کے زمانہ کے لوگوں میں آپ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کو بزرگ سمجھتے تھے.اسی طرح آپ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی.حضرت مجد دسر ہندی.سید احمد صاحب بریلوی اور مولوی اسمعیل صاحب شہید کو اہل اللہ اور بزرگ سمجھتے تھے.مگر سب سے زیادہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کا ذکر فرماتے تھے.اور ان کے مقالات بیان کیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ اگر کسی گذشتہ بزرگ کا کوئی قول یا فعل
سیرت المہدی 574 حصہ سوم آپ کی رائے اور تحقیق کے خلاف بھی ہو تو پھر بھی اس وجہ سے کسی بزرگ پر اعتراض نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر انہوں نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے کوئی بات کہی ہے یا کسی معاملہ میں انہیں غلطی لگی ہے تو اس کی وجہ سے ان کی بزرگی میں فرق نہیں آتا اور بہر حال ان کا ادب ملحوظ رکھنا چاہئے.612 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ ایک مرتبہ میں قادیان گیا.حضور علیہ السلام نے فرمایا.میاں نور محمد ! تم قادیان میں رہا کرو.اور قرآن شریف پڑھا کرو.تمہارے کام کے لئے ہم ایک آدمی نوکر رکھ دیتے ہیں.کیونکہ اس زمانہ میں ایک روپیہ ماہوار پر زمیندارہ کے لئے آدمی مل سکتا تھا.میں نے جوا با عرض کیا کہ حضور میں اپنے والد صاحب سے پوچھ کر عرض کروں گا.بعد ازاں میں نے والد صاحب سے اس امر کا تذکرہ کیا.انہوں نے کہا.کہ میں خود حضرت صاحب سے اس بارہ میں بات کروں گا.چنانچہ والد صاحب حضرت صاحب سے ملے.حضور علیہ السلام نے فرمایا.کہ شیخ صاحب ہم نے آپ کے بیٹے کو یہاں رہنے کے لئے کہا ہے.کیونکہ میاں حامد علی کے والد نے بھی ان کو یہاں ہی چھوڑ دیا ہے.والد صاحب نے عرض کیا.کہ جناب جس مکان میں چھ سات چراغ جل رہے ہوں اگر وہاں سے ایک اٹھا لیا جائے تو روشنی میں کوئی خاص کمی واقع نہ ہوگی اور جس گھر میں فقط ایک چراغ ہو اور اس کو اٹھا دیا جائے تو بالکل اندھیرا ہو جائے گا.اس طرح میرے والد صاحب نے ہنس کر بات ٹال دی.کیونکہ میاں حامد علی کے پانچ چھ بھائی تھے اور میں گھر میں والد کا ایک ہی بیٹا تھا.لیکن مجھ کو اس بات پر سخت افسوس ہوا اور اب تک ہے.کہ والد صاحب نے حضرت کی بات کو قبول کیوں نہ کر لیا.اور مجھے اس موقعہ سے مستفید کیوں نہ ہونے دیا.613 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش اور عمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصہ سے زیر غور چلا آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے.کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے اور آپ کی عمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں ( دیکھو ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۹۳) کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں
سیرت المہدی 575 حصہ سوم ہوئی تھی.جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا.البتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض ایسے امور بیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ کی عمر کی تعیین کی جاتی رہی ہے.ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتا ہے.اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتا ہے.اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیر بحث چلا آیا ہے.کہ صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے؟ میں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیا ہے اور اپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ گو مجھے یہ خیال غالب رہا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶ء عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے.مگر ابھی تک کوئی تاریخ معین نہیں کی جاسکی تھی لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں.جن سے معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے.جو بروز جمعہ ۱۴؎ شوال ۱۲۵۰ء بجری مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق یکم پھاگن سمہ ۱۸۹۱ بکرمی ہے اس تعیین کی وجوہ یہ ہیں:.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعیین اور تصریح کے ساتھ لکھا ہے.جس میں کسی غلطی یا غلط نبی کی گنجائش نہیں.کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی.(دیکھو تحفہ گولڑو یہ بار اول صفحہ ۱.حاشیہ ) (۲) ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مجھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی.(۳) مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے.مثلاً آپ کا یہ فرمانا کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے تھے(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) اور یہ کہ اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی ( تریاق القلوب صفحہ ۶۸) وغیرہ وغیرہ.
سیرت المہدی 576 حصہ سوم میں نے گذشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور دوسروں سے بھی کرایا ہے.تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ بھا گن کے مہینہ میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ رکس رکس سن میں اکٹھے ہوتے ہیں اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش ۱۴ رشوال ۱۲۵۰ء ہجری مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ عیسوی ہے جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہوگا.تاریخ معه سن عیسوی تاریخ چاند معه سن ہجری دن تاریخ ہندی مہینہ معد سن بکرمی ۴ فروری ۱۸۳۱ء ۲۰ شعبان ۱۲۴۶ھ جمعہ ۷ پھا گن سمه ۱۸۸۷ بکرم ۱۷ فروری ۱۸۳۲ء ۱۴؍ رمضان ۱۲۴۷ھ // ۸ فروری ۱۸۳۳ء ۱۷ ررمضان ۱۲۴۸ھ // ۲۸ فروری ۱۸۳۴ء ۱۸ رشوال ۱۲۴۹ھ // ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء ۷ارشوال ۱۲۵۱ھ // ۵ فروری ۱۸۳۶ء ۷ ارشوال ۱۲۵۱ھ // ۲۴ فروری ۱۸۳۷ء ۱۸/ذیقعده ۱۲۵۲ھ ۹ رفروری ۱۸۳۸ء ۲۰ / ذیقعده ۱۲۵۳ھ // یکم فروری ۱۸۳۹ء ۱۵/ذیقعده ۱۲۵۴ھ // یکم بھا گن سمه ۱۸۸۸ بکرم ۴/ پچھا گن سمه ۱۸۸۹ بکرم ۵/ پھاگن سمه۱۸۹۰ بکرم یکیم پھاگن سمه ۱۸۹۱ بکرم ۱۳ پھاگن سمه ۱۸۹۲ بکرم ۴ر پھاگن سمه ۱۸۹۳ بکرم ۷ر پھاگن سمه ۱۸۹۴ بکرم ۱۳ پھاگن سمه ۱۸۹۵ بکرم ۲۱ فروری ۱۸۴۰ء ۱۶ رذی الحج ۱۲۵۵ھ // ۱۴ پھاگن سمه ۱۸۹۶ بکرم (اس کے لئے دیکھو تو فیقات الہامیہ مصری اور تقویم عمری ہندی) اس نقشہ کی رُو سے ۱۸۳۲ عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جاسکتی ہے.مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں.اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ عیسوی میں ہوئی تھی.پس ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ عیسوی مطابق ۱۴ رشوال ۱۲۵۰ هجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے.اور اس حساب کی رُو سے وفات کے وقت جو ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ هجری ( اخبار احکم ضمیمه مورخه ۲۸ رمئی ۱۹۰۸ء) میں ہوئی.آپ کی عمر پورے ۷۵
سیرت المہدی 577 حصہ سوم سال ۶ ماہ اور دس دن کی بنتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ معتین طور پر معلوم ہوگئی ہے.ہمارے احباب اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ اسی تاریخ کو بیان کیا کریں گے.تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے اور ہم لوگ اس بارہ میں ایک معین بنیاد پر قائم ہو جائیں.۸۰ اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام الہی میں یہ بتایا گیا تھا.کہ آپ کی عمر اتنی " یا اس سے پانچ چار کم یا پانچ چار زیادہ ہوگی.(حقيقة الوحی صفحہ (۹۶) اگر اس الہام الہی کے لفظی معنے لئے جائیں.تو آپ کی عمر پچھتر ، چھہتر.یا اسی یا چوراسی ، پچاسی سال کی ہونی چاہئے.بلکہ اگر اس الہام کے معنے کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر یا اسی " یا ساڑھے چوراسی سال کی ہونی چاہئے.اور یہ ایک عجیب قدرت نمائی ہے کہ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال کی بنتی ہے.اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے.کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے کہ میری ولادت ہوئی.اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں.کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سورۃ " و العصر“ کے اعداد سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نکلتا ہے جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹ سال بنتا ہے (دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحه ۹۳-۹۴-۹۵ حاشیہ) یر زمانہ اصولاً ہجرت تک شمار ہونا چاہئے.کیونکہ ہجرت سے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے.اب اگر یہ حساب نکالا جائے.تو اس کی رُو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ بنتا ہے کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے انکالنے سے ۵۹۸۹ رہتے ہیں.اور ۵۹۸۹ میں سے ۴۷۳۹ منہا کرنے سے پورے ۱۲۵۰ بنتے ہیں.گویا اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتا ہے.فالحمد لله علی ذالک.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مضمون میری طرف سے اخبار الفضل مورخہار اگست ۱۹۳۶ء میں بھی
سیرت المہدی شائع ہو چکا ہے.578 حصہ سوم 614 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ کے جس قدر آدمی ہیں.سب کو حضور علیہ السلام سے اپنے اپنے طریق کے مطابق محبت تھی اور ہے مگر جس قد رادب و محبت حضور سے حضرت خلیفہ اول کو تھا.اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے چنانچہ ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا.وہاں ذکر ہوا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کو ارشاد فرمایا.مگر یہ کہ وہ دوست راضی نہ ہوا.اتفاقاً اس وقت مرحومہ امۃ الحی صاحبہ بھی جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں.حضرت مولوی صاحب اس دوست کا ذکر سُن کر جوش سے فرمانے لگے.کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی اس لڑکی کو نہالی ( نہالی ایک مہترانی تھی جو حضرت صاحب کے گھر میں کماتی تھی) کے لڑکے کو دید و تو میں بغیر کسی انقباض کے فورا دے دونگا.یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا.مگر نتیجہ دیکھ لیں کہ بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی.جو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسن واحسان میں نظیر ہے.615 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا تو یہ نہیں ہو گا کہ سب دُنیا مسلمان ہو جائے گی اور دیگر مذاہب معدوم ہو جائیں گے.بلکہ یہ ہوگا.کہ دوسرے لوگ اس طرح رہ جائیں گے جیسے آجکل چوہڑے یا چمار یا سانسی وغیرہ ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عظیم الشان تغیر احمدیت کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے اور ایک دن ایسا تغیر ہوکر رہے گا.یعنی دنیا کی موجودہ تہذیب مٹ جائے گی.اور موجودہ حکومتیں خاک میں مل جائیں گی اور اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ دنیا میں ایک نئے زمین و آسمان کی بنیادر کھے گا.اس وقت ظاہری اسباب کے ماتحت یہ باتیں عجیب نظر آتی ہیں.مگر ان کے لئے آسمان پر خدائی چکی حرکت میں ہے اور فرشتوں کی فوج انقلاب کا بیج بونے میں مصروف ہے.یہ انقلاب کس طرح آئے گا ؟ اس کا علم صرف خدا کو
سیرت المہدی 579 ہے.مگر وہ آئے گا ضرور.کیونکہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا.حصہ سوم ہاں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یوں ہوگا کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ خود موجودہ مغربی تہذیب میں تباہی کا بیچ پیدا کر دے گا.اور موجودہ حکومتوں کو ایک دوسرے کے خلاف اٹھنے کے لئے اُبھارے گا.جس سے وہ اور ان کی تہذیب اپنی ہی پیدا کی ہوئی آگ میں بھسم ہو جائیں گے.اور دوسری طرف خدا احمدیت کے پودے کو درجہ بدرجہ مضبوط کرتا جائے گا.تا کہ جب پرانے آثار مٹیں.تو احمدیت کی عمارت اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہو.مگر یہ درمیانی عرصہ احمدیت کے لئے پھولوں کی سیج نہیں ہے.بلکہ کانٹوں اور پتھروں کی سلوں کا رستہ ہے.اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے جنگلوں اور پُر خطر وادیوں اور خون کی ندیوں میں سے ہوکر گزرنا پڑے گا.مگر انجام بہر حال وہی ہے کہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا “.616 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.کہ موت انسان کی ترقی کے لئے لا بدی ہے اور انسان کا اس دُنیا سے رخصت ہونا ایسا ہے جیسے کہ لڑکی کا ماں باپ سے جدا ہو کر خاوند کے گھر جانا.جس طرح لڑکی کا خدا داد جو ہر اور کمال ( یعنی اولاد پیدا کرنا) بغیر ماں باپ کے ہاں سے چلے جانے کے ظاہر نہیں ہوسکتا.اسی طرح انسان کا حقیقی کمال اور جو ہر بھی اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا.جب تک وہ موت کے راستہ سے اس دنیا سے جدا نہ ہو.617 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی.ایم.ایس نے مجھ سے بیان کیا کہ میرے دادا میاں محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس بٹالہ کے کاغذات میں سے مجھے ایک مسودہ ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ملا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک چٹھی امیر کا بل کے نام ہے جو غالباً فارسی زبان میں تھی.جس کا ترجمہ اردو میں میرے دادا صاحب نے کیا یا کرایا تھا اور یہ ترجمہ شاید گورنمنٹ ریکارڈ کے لئے تھا.حضرت مسیح موعود کا خط یہ ہے:.
سیرت المہدی 580 حصہ سوم بسم الله الرحمن الرحيم نحمد و نصلی علی رسوله الكريم (ترجمہ) ہم خدا کا شکر کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں.عاجز خدا کی پناہ لینے والے غلام احمد کی طرف سے (خدا اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور اس کی تائید کرے) بحضور امیر ظلّ سُبحانی.مظهر تفضّلاتِ یزدانی - شاہ ممالک کابل ( اللہ اس کو سلامت رکھے ) بعد دعوات سلام و رحمت و برکت کے باعث اس خط لکھنے کا وہ فطرت انسانی کا خاصہ ہے کہ جب کسی چشمہ شیریں کی خبر سنتا ہے.کہ اس میں انسان کے لئے بہت فوائد ہیں.تو اس کی طرف رغبت اور محبت پیدا ہوتی ہے.پھر وہ رغبت دل سے نکل کر اعضاء پر اثر کرتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس چشمہ کی طرف دوڑے اور اس کو دیکھے.اور اس کے میٹھے پانی سے فائدہ اٹھائے اور سیراب ہو جائے اسی طرح جب اخلاق فاضلہ اور عادات کریمانہ اور ہمدردی اسلام و مسلمین اس بادشاہ نیک خصال کی اطلاع ہندوستان میں جابجا ہوئی اور ذکر پاک پھل اس شجرہ مبارک دولت اور سلطنت کا ہر شہر وملک میں مشہور ہوا اور دیکھا گیا کہ ہر شریف اور نجیب آدمی اس بادشاہ کی مدح میں تر زبان ہے تو مجھے کہ اس قحط الرجال کے زمانہ میں بسبب کمی مردمانِ اولوالعزم کے غم اور اندوہ میں زندگی بسر کرتا ہوں.اس قد رسرور اور فرحت حاصل ہوئی کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے اس کیفیت کو بیان کر سکوں.خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ایک ایسے مبارک وجود سے بے شمار وجودوں کو بہت اقسام کی تباہی سے بچا رکھا ہے.اصل میں وہ آدمی بہت خوش قسمت ہیں کہ جن میں ایسا بادشاہ جہاں پناہ نیک نہاد اور منصف موجود ہے اور وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے بعد عرصہ دراز کے اس نعمت غیر مترقبہ کو حاصل کیا.خداوند کریم کی بہت نعمتیں ہیں.کہ کوئی ان کو شمار نہیں کر سکتا مگر بزرگ تر نعمتوں میں سے وجود دو انسانوں کا ہے.اول وہ جو راستی اور راستبازی کی قوت سے پُر ہوئے اور طاقت رُوحانی حاصل کی.اور پھر وہ گرفتاران ظلمت اور غفلت کو نور معرفت کی طرف کھینچتے ہیں.اور خالی اندرونوں کو متاع معارف کے دیتے ہیں.اور اپنے نقدس کے سبب سے کمزوریوں کو اس دنیا سے بسلامتی ایمان لے جاتے ہیں.دوسرا وہ آدمی ہے.جنہوں نے نہ اتفاق اور بخت سے بلکہ بمقتضاء جو ہر قابل کے ( یعنی ان میں مادہ بادشاہی کا خدا نے دیا ہوا تھا کہ ضرور بادشاہ
سیرت المہدی 581 حصہ سوم بنے ) خدا کی طرف سے سلطنت اور بادشاہت حاصل کی اور حکمت اور مصلحت خداوندی ان کو اپنی ذات کا قائم مقام اور ان کے احکام کو اپنے قضاء قد ر کا مظہر بناتی ہے اور کئی ہزار جان اور مال و آبرو کی ان کے سپرد کرتی ہے.ضرورۃ یہ لوگ شفقت اور رحم اور چارہ سازی دردمنداں اور غریبوں و بیکسوں کے حال پر نگران اور حمایت اسلام و مسلماناں میں خدا کا سایہ ہوتے ہیں.اس فقیر کا یہ حال ہے کہ وہ خدا جو بر وقت بہت مفاسد اور گمراہی کے مصلحت عام کے واسطے اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو اپنا خاص بنا لیتا ہے.تا اس کے ذریعہ گمراہوں کو ہدایت ہو.اور اندھوں کو روشنی اور غافلوں کو تو فیق عمل کی دی جائے اور اس کے ذریعہ دین اور تعلیم معارف و دلائل کی تازہ ہو.اُسی خدائے کریم و رحیم نے اس زمانہ کو زمانہ پرفتن اور طوفانِ ضلالت و ارتداد کو دیکھ کر اس ناچیز کو چودھویں صدی میں اصلاح خلق اور اتمام حجت کے واسطے مامور کیا.چونکہ اس زمانہ میں فتنہ علمائے نصاریٰ کا تھا.اور مدار کا ر صلیب پرستی کے توڑنے پر تھا.اس واسطے یہ بندہ درگاہ الہی مسیح علیہ السلام کے قدم پر بھیجا گیا.تاوہ پیشگوئی بطور بروز پوری ہو.کہ جو عوام میں مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی بابت مشہور ہے.قرآن شریف صاف ہدایت فرماتا ہے.کہ دُنیا سے جو کوئی گیا وہ گیا.پھر آنا اس کا دُنیا میں ممکن نہیں.البتہ ارواح گذشتہ گان بطور بروز دنیا میں آتی ہیں.یعنی ایک شخص ان کی طبیعت کے موافق پیدا کیا جاتا ہے.اس واسطے خدا کے ہاں اُس کا ظہور اُسی کا ظہور سمجھا جاتا ہے.دوبارہ آنے کا یہی طریق ہے.کہ صوفیوں کی اصطلاح میں اس کو بروز کہتے ہیں.ورنہ اگر مُردوں کا دو بار آنا روا ہوتا تو ہم کو بہ نسبت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے حضرت سید الوری خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی زیادہ ضرورت تھی.لیکن آنحضرت نے ہر گز فرمایا نہیں کہ میں دوبارہ دُنیا میں آؤں گا.ہاں یہ فرمایا.کہ ایک شخص ایسا آئیگا کہ وہ میرا ہم نام ہوگا.یعنی میری طبیعت اور خُو پر آئے گا.پس مسیح علیہ السلام کا آنا بھی ایسا ہی ہے نہ ویسا کہ اس کا نمونہ دنیا کے اول اور آخر میں موجود نہیں.اسی واسطے امام مالک اور امام ابن حزم اور امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے اماموں کا یہی مذہب تھا.اور بہت بزرگانِ دین اسی مذہب پر گئے ہیں.البتہ عوام کہ جو بہ پسند ہوتے ہیں اور اس نکتہ معرفت سے بے خبر ہیں.ان کے خیال میں یہ بات بیٹھی
سیرت المہدی 582 حصہ سوم ہوئی ہے.کہ مسیح کا نزول جسمانی ہو گا ور اس روز عجب تماشہ ہوگا.جیسا کہ غبارہ کاغذی جو آگ سے بھرا ہوا ہو.بلندی سے نیچے کی طرف اترتا ہوا دکھائی دیوے.ایسا ہی ان کے خیال میں مسیح کا نزول ہوگا.اور بڑی شوکت سے نزول ہوگا.اور ہر طرف سے یہ آتا ہے وہ آتا ہے سُنا جاویگا.لیکن یہ خدا کی عادت نہیں.اگر ایسا عام نظارہ قدرت کا دکھلایا جاوے تو ایمان بالغیب نہیں رہتا.وہ آدمی سخت خطا پر ہیں.جنہوں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ اب تک عیسے علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں.ہرگز ایسا نہیں ہے.قرآن بار بار مسیح کی وفات کا ذکر کرتا ہے.اور حدیث معراج نبوی کی جو صحیح بخاری میں پانچ جگہ موجود ہے اس کو مردوں میں بتاتی ہے.پس وہ کس طرح سے زندہ ہے.لہذا اعتقاد حیات مسیح کا رکھنا قرآن اور حدیث کے برخلاف چلنا ہے اور نیز آیت کریمہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ (المائدة: ۱۱۸) سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے.کہ نصاری نے اپنے مذہب کو عیسی علیہ السلام کے مرنے کے بعد خراب کیا ہے نہ کہ ان کی زندگی میں.بالفرض اگر عیسے علیہ السلام اب تک زندہ ہیں تو ہمیں لازم ہے کہ ہم اس بات کا بھی اقرار کریں کہ اس وقت تک نصاری نے اپنے مذہب کو خراب نہیں کیا.اور بالکل صواب پر ہیں.ایسا خیال کفر صریح ہے.پس جو کوئی قرآن کی آیتوں پر ایمان رکھتا ہے اُسے ضروری ہے کہ وہ مسیح کی وفات پر بھی ایمان لائے.اور یہ بیان ہمارے ان دلائل میں سے بہت تھوڑا سا حصہ ہے.جن کو ہم نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے.جسے تفصیل سے دیکھنا منظور ہو وہ ہماری کتابوں میں تلاش کرے.الْقِصَّه ضرور تھا.کہ آخر زمانہ میں اس امت سے ایک ایسا شخص نکلے کہ جس کا آنا حضرت عیسے علیہ السلام کے آنے کے ساتھ مشابہ ہو اور حدیث کسر صلیب جو صیح بخاری میں موجود ہے بلند آواز سے کہہ رہی ہے کہ ایسے شخص کا آنا نصاریٰ کے غلبہ کے وقت ہو گا.اور ہر دانشمند جانتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں نصاری کا غلبہ رُوئے زمین پر ایسا ہے کہ اس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.اور فریب علمائے نصاری اور ان کی کارستانی ہر ایک طرح کے مکر و فریب میں یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ یقینا کہہ سکتے ہیں کہ دقبال معہود یہی خراب کرنے والے اور تحریف کرنے والے کتب مقدسہ کے ہیں.جنہوں نے قریب دو
سیرت المہدی 583 حصہ سوم ہزار کے انجیل اور توریت کے ترجمے ہر زبان میں بعد تحریف شائع کئے اور آسمانی کتابوں میں بہت خیانتیں کیں اور چاہتے ہیں کہ ایک انسان کو خدا بنایا جائے.اور اس کی پرستش کی جائے اب انصاف اور غور سے دیکھنا چاہئے کہ کیا اُن سے بڑا د قبال کوئی گزرا ہے کہ تا آئندہ بھی اس کی امید رکھی جاوے.ابتدائے بنی آدم سے اس وقت تک مکر وفریب ہر قسم کا انہوں نے شائع کیا ہے جس کی نظیر نہیں.پس اس کے بعد وہ کونسا نشان ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جس سے یقین یا شک تک پیدا ہو سکے کہ کوئی دوسرا د قال ان سے بڑا کسی غار میں چھپا ہوا ہے.ساتھ اس کے چاند اور سورج کو گرہن لگنا جو اس ہمارے ملک میں ہوا ہے.یہ نشان ظہور اُس مہدی کا ہے جو کتاب دار قطنی میں امام باقر کی حدیث سے موسوم ہے.نصاری کا فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے اور ان کی گندی گالیاں اور سخت تو ہین ہمارے رسول کی نسبت علماء نصاری کی زبان و قلم سے اس قدر نکلیں جس سے آسمان میں شور پڑ گیا.حتی کہ ایک مسکین اتمام حجت کے واسطے مامور کیا گیا.یہ خدا کی عادت ہے کہ جس قسم کا فسادزمین پر غالب ہوتا ہے اُسی کے مناسب حال مجد دزمین پر پیدا ہوتا ہے.پس جس کی آنکھ ہے وہ دیکھے کہ اس زمانہ میں آتش فساد کس قسم کی بھڑکی ہے اور کونسی قوم ہے جس نے تبر ہاتھ میں لے کر اسلام پر حملہ کیا ہے.کن کو اسلام کے واسطے غیرت ہے وہ فکر کریں.کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا غلط.اور آیا یہ ضروری نہ تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر جس میں کہ فتنوں کی بنیاد رکھی گئی.چودھویں صدی کے سر پر رحمت الہی تجدید دین کے لئے متوجہ ہوئی ؟ اور اس بات پر تعجب نہیں کرنا چاہئے.کہ کیوں اس عاجز کو عیسے علیہ السلام کے نام پر بھیجا گیا ہے.کیونکہ فتنہ کی صورت ایسی ہی روحانیت کو چاہتی تھی.جبکہ مجھے قوم مسیح کے لئے حکم دیا گیا ہے تو مصلحتاً میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا.آسمان سے نشان ظاہر ہوتے ہیں.اور زمین پکارتی ہے کہ وہ وقت آگیا.میری تصدیق کے لئے یہ دو گواہ موجود ہیں ( خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت حضرت مسیح موعود کے دو فارسی شعروں کا ترجمہ ہے ) اسی واسطے خداوند کریم نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا.کہ تو خوش ہو کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا.اور قدم محمد یاں بلند مینار پر پہنچ گیا ہے یہ کام خداوند حکیم وعلیم کا ہے اور انسان کی نظر میں عجیب.( یہ حضرت مسیح موعود کے ایک
سیرت المہدی 584 حصہ سوم الہام کا ترجمہ ہے.مؤلف ) جو کوئی مجھے پورے ظہور سے پہلے شناخت کرے اس کو خدا کی طرف سے اجر ہے.اور جو کوئی آسمانی تائیدوں کے بعد میری طرف رغبت کرے وہ نا چیز ہے اور اس کی رغبت بھی ناچیز ہے اور مجھ کو حکومت وسلطنت اس جہاں سے کچھ سروکار نہیں.میں غریب ہی آیا اور غریب ہی جاؤ نگا.اور خدا کی طرف سے مامور ہوں کہ لطف اور نرمی سے اسلام کی سچائی کے دلائل اس پر آشوب زمانہ میں ہر ملک کے آدمیوں کے سامنے بیان کروں.اسی طرح مجھے دولت برطانیہ اور اس کی حکومت کے ساتھ جس کے سایہ میں میں امن سے زندگی بسر کر رہا ہوں کوئی تعرض نہیں.بلکہ خُدا کا شکر کرتا ہوں اور اس کی نعمت کا بجالاتا ہوں.کہ ایسی پر امن حکومت میں مجھ کو دین کی خدمت پر مامور کیا.اور میں کیونکر اس نعمت کا شکر ادا نہ کروں.کہ باوجود اس غربت و بے کسی اور قوم کے نالائقوں کی شورش کے میں اطمینان کے ساتھ اپنے کام کو سلطنت انگلشیہ کے زیر سایہ کر رہا ہوں.اور میں ایسا آرام پاتا ہوں کہ اگر اس سلطنت کا میں شکر ادا نہ کروں تو میں خدا کا شکر گزار نہیں ہو سکتا.اگر ہم اس بات کو پوشیدہ رکھیں تو ظالم ٹھہرتے ہیں.کہ جس طرح سے پادریان نصاری کو اپنے مذہب کی اشاعت میں آزادی ہے ایسی ہی آزادی ہم کو اسلام کی اشاعت میں حاصل ہے.بلکہ اس آزادی کے فوائد ہمارے لئے زیادہ ہیں.جس طرح کہ ہم اہلِ اسلام کو اس آزادی کے فوائد حاصل ہیں دوسروں کو وہ نصیب نہیں.کیونکہ وہ باطل پر اور ہم حق پر ہیں.اور چھوٹے آزادی سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.بلکہ اس آزادی سے ان کی پردہ دری زیادہ ہوتی ہے اور اس روشنی کے زمانہ میں ان کا مکر زیادہ ظاہر ہوتا ہے.پس یہ ہم پر خدا کا فضل ہے.کہ ہمارے واسطے ایسی تقریب پیدا ہوئی.اور یہ نعمت خاص ہم کو عطا ہوئی.البتہ علماء نصاری کو اپنی قوم کی امداد سے لاکھوں رو پید اپنی انجیلوں اور جھوٹوں کے پھیلانے میں ملتے ہیں اور ہم کو کچھ نہیں ملتا.اور ان کے مددگار ملک یورپ میں مور و ملخ کی طرح ہیں.اور ہمارا سوائے خدا کے دوسرا کوئی مددگار نہیں.پس اگر ہمارے کاروبار میں ناداری کے سبب کوئی حرج واقع ہو.تو یہ دولت برطانیہ کا قصور نہیں.بلکہ یہ ہماری اپنی قوم کا قصور ہے کہ دین کے کام میں غفلت کرتے ہیں.اور بہت آدمی وقت امداد کو منافقانہ بہانوں اور جھوٹے ظنتوں سے اپنے سر سے دُور کرتے ہیں.ہاں اپنے نگ و ناموس کے کاموں میں گھوڑوں کی طرح دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس زمانہ میں اسلام صد با
سیرت المہدی 585 حصہ سوم دشمنوں میں اکیلا ہے.اور ہر ایک مذہب میدان میں اُترا ہوا ہے.دیکھیں کس کو فتح ہوتی ہے.پس یہی وقت ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں اور فلسفہ کے اعتراضوں کو جلد سے جلد دُور کریں اور قرآن کریم کی سچائی تمام خویش و بیگانہ پر ظاہر کریں.اور خدا کے کلام کی عزت دلوں میں بٹھا دیں.اور کوشش کریں کہ اس مذہبی لڑائی میں ہم کو فتح حاصل ہو.اور جان توڑ کوشش کریں کہ نصرانیت کے وسوسوں میں جو گر فتار ہیں ان کو گمراہی کے چاہ سے باہر نکالیں.اور جو ہلاکت کے قریب پہنچ گئے ہیں.ان کو بچاویں.یہی ہے ہمارا کام جو ہمارے ذمہ ہے.یورپ اور جاپان دونوں ہمارے ہدیہ کے منتظر ہیں.اور امریکہ ہماری دعوت کے واسطے کشادہ دہان ہے.پس سخت نا مردی ہے کہ ہم غافل بیٹھیں.غرض یہ کام ہمارے ذمہ ہے اور یہی ہماری آرزو ہے جسے ہم خدا سے طلب کرتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں.کہ خدا ہمارے مددگار پیدا کرے اور ہم منتظر ہیں کہ کب کسی طرف سے نسیم اور بشارت آتی ہے.اے شاہ کا بل ! اگر آپ آج میری باتیں سنیں اور ہماری امداد کے واسطے اپنے مال سے مستعد ہوں.تو ہم دُعا کریں گے کہ جو کچھ تو خدا سے مانگے وہ تجھے بخشے.اور بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور تیری عمرو زندگی میں برکت بخشے.اور اگر کسی کو ہمارے دعوی کی سچائی میں تامل ہو تو اس کو اسلام کے سچا ہونے میں تو کوئی تامل نہیں ہوگا.چونکہ یہ کام اسلام کا کام ہے اور یہ خدمت دین کی خدمت ہے اس واسطے ہمارے وجود اور دعووں کو درمیان میں نہ سمجھنا چاہئے.اور اسلام کی امداد کے واسطے خالص نیت کرنی چاہئے.اور تائید یہ سبب محبت حضرت سید المرسلین کے کرنی چاہئے.اے بادشاہ ! اللہ تجھے اور تجھ میں اور تجھ پر اور تیرے لئے برکت دے.جان لیں کہ یہ وقت وقت امداد کا ہے.پس اپنے واسطے ذخیرہ عاقبت جمع کر لیں.کیونکہ میں آپ کو نیک بختوں سے دیکھتا ہوں.اگر اس وقت کوئی آپ کا غیر سبقت لے گیا.تو بس آپ کا غیر سبقت لے گیا.اور سبقت کرنے والے سبقت کرنے والے ہیں اللہ کے نزدیک.اور اللہ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا.اور اللہ کی قسم میں اللہ کی طرف سے مامور ہوں.وہ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اور اُسی نے
سیرت المہدی 586 حصہ سوم مجھے اس صدی کے سر پر دین کے تازہ کرنے کے لئے اُٹھایا ہے.اس نے دیکھا کہ زمین ساری بگڑ گئی ہے اور گمراہی کے طریقے بہت پھیل گئے ہیں.اور دیانت بہت تھوڑی ہے اور خیانت بہت.اور اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کو دین کے تازہ کرنے کے لئے چن لیا.اور اسی نے اس بندہ کو اپنی عظمت اور کبریائی اور اپنے کلام کا خادم بنایا.اور خدا کے واسطے خلق اور امر ہے.جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے.اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے.پس خدا کے کام سے تعجب مت کرو.اور اپنے رخساروں کو بدظنی کرتے ہوئے اُونچانہ اُٹھاؤ.اور حق کو قبول کرو.اور سابقین میں سے بنو.اور یہ خدا کا ہم پر اور ہمارے بھائی مسلمانوں پر فضل ہے.پس ان لوگوں پر حسرت ہے جو وقتوں کو نہیں پہچانتے اور اللہ کے دنوں کو نہیں دیکھتے اور غفلت اور سُستی کرتے ہیں.اور ان کا کوئی شغل نہیں سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو کافر بنا ئیں اور بچے کو جھٹلا ئیں.اور اللہ کے لئے فکر کرتے ہوئے نہیں ٹھہر تے اور متقیوں کے طریق اختیار نہیں کرتے.پس یہ وہ لوگ ہیں.جنہوں نے ہم کو کا فر بنایا.اور ہم پر لعنت کی اور ہماری طرف نسبت کیا جھوٹا دعوی نبوت کا.اور انکار معجزہ اور فرشتوں کا.اور جو کچھ ہم نے کہا اس کو نہیں سمجھا اور نہ اس میں تدبر یعنی فکر کرتے ہیں.اور انہوں نے جلدی سے اپنے منہ کھولے اور ہم ان امور سے بری ہیں جو انہوں نے ہم پر افتراء کئے.اور ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں.اور اللہ پر اور اس کی کتاب قرآن پر اور رسول خدا پر ایمان رکھتے ہیں.اور ہم ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم لائے اور ہم تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم تہ دل سے گواہی دیتے ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ - یہ ہیں ہمارے اعتقاد اور ہم ان ہی عقائد پر اللہ تعالے کے پاس جائیں گے اور ہم بچے ہیں تحقیق خدا تمام عالم پر فضل کرنے والا ہے.اس نے اپنے ایک بندہ کو اپنے وقت پر بطور مجد د پیدا کیا ہے کیا تم خدا کے کام سے تعجب کرتے ہو اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے.اور نصاری نے حیات مسیح کے سبب فتنہ برپا کیا.اور کفر صریح میں گر گئے.پس خدا نے ارادہ کیا کہ ان کی بنیاد کو گرا دے اور ان کے دلائل کو جھوٹا کرے.اور ان پر ظاہر کر دے کہ وہ جھوٹے ہیں.پس جو کوئی قرآن پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے فضل کی طرف رغبت کرتا ہے پس اُسے لازم ہے کہ میری تصدیق کرے.اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہو.اور جس
سیرت المہدی 587 حصہ سوم نے اپنے نفس کو میرے نفس سے ملایا.اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے رکھا.اس کو خدا دنیا میں اور آخرت میں بلند کرے گا.اور اس کو دونوں جہان میں نجات پانے والا بنائے گا.پس قریب ہے کہ میری اس بات کا ذکر پھیلے اور میں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں.اور میرا شکوہ اپنے فکر وغم کا کسی سے نہیں سوائے اللہ کے.وہ میرا رب ہے میں نے تو اس پر تو کل کیا ہے.وہ مجھے بلند کرے گا اور مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا.اور مجھے عزت دیگا اور ذلت نہیں دے گا.اور جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ خطا پر تھے.اور ہماری آخری دُعا یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف خدا کے واسطے ہے اور وہ تمام عالموں کا پالنے والا ہے.الملتمس عبدالله الحمد غلام احمد ماہ شوال ۱۳۱۳ھ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس ترجمہ میں کہیں کہیں خفیف لفظی تبدیلی کی ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے....کہ میں نے جب یہ خط بغرض اطلاع حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کیا.تو آپ نے فرمایا.کہ کچھ عرصہ ہوا خواجہ حسن نظامی صاحب نے شائع کیا تھا کہ نے ایک دفعہ مرزا صاحب نے امیر کابل کو ایک دعوتی خط لکھا تھا.جس پر اس نے جواب دیا کہ لکھدو.کہ اینجا بیا یعنی اس جگہ افغانستان میں آجاؤ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جواب حضرت مسیح موعود کو تو نہیں پہنچا.لیکن اگر یہ بات درست ہے تو اس سے امیر کا بل کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم انگریزی حکومت میں آرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ دعوے کر رہے اور انگریزی حکومت کو سراہ رہے ہوا گر میرے ملک میں آؤ تو پتہ لگ جائے.بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ خود اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے خدائی دربار میں گھنٹی بج رہی ہے.چنانچہ اس پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ بچہ سقہ کے ہاتھ سے امیر عبدالرحمن کا خاندان معزول ہو کر ملک سے بھاگ گیا اور اس کی جگہ اللہ تعالیٰ دوسرے خاندان کو لے آیا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس خط کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط عربی میں لکھا گیا تھا.یا شاید فارسی میں ہو اور کچھ فقرات عربی کے ہوں.نیز معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت صاحب نے یہ خط امیر کابل کو بھجوایا.تو راستہ میں پولیس نے لیکر اس کی نقل رکھ لی اور ترجمہ بھی کر
سیرت المہدی 588 حصہ سوم لیا.اور اصل آگے جانے دیا.نقل غالبا گورنمنٹ کے بالا دفاتر میں چلی گئی ہوگی.اور ترجمہ پولیس کے ماتحت دفتر میں پڑا رہا.واللہ اعلم.الصلوة 618 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دسمبر ۱۹۰۷ ء میں آریہ سماج لاہور کا ایک جلسہ تھا.جس میں جمیع مذاہب سے خواہش کی گئی تھی کہ وہ اس مضمون پر تقریر کریں.کہ کیا دنیا میں کوئی الہامی کتاب ہے؟ اگر ہے تو کونسی ہے؟ حضرت مسیح موعود بھی اس جلسہ کے واسطے مضمون لکھوا ر ہے تھے اور غلام محمد صاحب احمدی کا تب کو امرتسر سے بلوایا تھا.وہ گھر پر مضمون لکھ رہا تھا.آپ نماز جمعہ کے واسطے اس مکان میں تشریف لائے.جس میں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے ( یعنی خاکسار مؤلف ) سکونت رکھتے ہیں.سید محمد احسن صاحب امام ا تھے.حضرت صاحب نے خصوصیت سے کہلا بھیجا تھا.کہ خطبہ مختصر ہو.کیونکہ ہم مضمون لکھوا ر ہے ہیں اور کا تب لکھ رہا ہے.وقت تھوڑا باقی ہے.وہ مضمون غالباً یکم یا ۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کوسنایا جانا تھا.اور اغلبا اس دن ۲۸ یا ۲۹ نومبر ۱۹۰۷ء کی تاریخ تھی.مگر سید صاحب نے باوجود حضرت اقدس کے صریح ارشاد کے خطبہ اس قدر لمبا پڑھا.کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کافی عرصہ بعد مسجد اقطے تشریف لے گئے.اور وہاں نماز جمعہ پڑھانے کے بعد واپس بھی تشریف لے آئے.مگر سید صاحب کا خطبہ ابھی جاری تھا.خطبہ میں دو امور کا ذکر تھا.ایک حضرت مسیح ناصری کے حواریوں کے مائندہ مانگنے کا ذکر تھا اور یہ کہ ہمارے امام کے ساتھ بھی مائدہ یعنی لنگر خانہ ہے.اور نیز اس سے رُوحانی غذا بھی مراد ہے.دوم قدرت ثانیہ کے بارہ میں تذکرہ تھا.الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت تحمل سے وہ خطبہ سنتے رہے.باوجود اس کے کہ آپ کو نہایت ضروری کام در پیش تھا.مگر حضرت کی پیشانی پر کوئی بل نظر نہ آیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحب خود شریک ہوتے تھے اور امام الصلوۃ مولوی سید محمد احسن
سیرت المہدی 589 حصہ سوم صاحب یا مولوی سید سرور شاہ صاحب ہوتے تھے.اور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اول امام ہوتے تھے.دو جمعوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود بوجہ طبیعت کی خرابی کے عموماً مسجد اقصے میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے اور مسجد مبارک چونکہ بہت تنگ تھی اس لئے اس میں سارے نمازی سمانہیں سکتے تھے.لہذا دو جگہ جمعہ ہوتا تھا.واقعہ مندرجہ روایت مذکورہ بالا ان دنوں کا ہے.جبکہ مسجد مبارک میں توسیع کے لئے عمارت لگی ہوئی تھی.ان ایام میں مسجد مبارک والا جمعہ میرے موجودہ مکان کے جنوبی دالان میں ہوا کرتا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب نے جو بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب مضمون لکھوار ہے تھے اس سے یہ مراد نہیں کہ کسی شخص کو پاس بٹھا کر املا کر وار ہے تھے بلکہ غرض یہ ہے کہ حضور لکھ لکھ کر کا تب کو دے رہے تھے.علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل تشریح ہے کہ قاضی صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ مولوی محمد احسن صاحب نے دانستہ ایسا کیا.بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ مولوی صاحب کو بات کے لمبا کرنے کی عادت تھی.اس لئے باوجود حضرت صاحب کے ارشاد کے وہ اس رو سے بچ نہیں سکے.619 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود سیالکوٹ تشریف لے جا رہے تھے.تو راستہ میں خاکسار کو ملنے کا موقعہ نہ ملا.کیونکہ خاکسار گورداسپور سے جارہا تھا اور حضور قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ سے گاڑی پر سوار ہوئے تھے.میں نے لاہور پہنچ کر مولوی محمد علی صاحب سے ذکر کیا کہ مجھے بٹالہ سے لاہور تک حضرت کو بوجہ ہجوم خلقت کے ملنے کا موقعہ نصیب نہیں ہوا لیکن سیالکوٹ سے دوسٹیشن ورے مجھے ہجوم کم نظر آیا.چنانچہ میں اپنے کمرے سے بھاگتا ہوا حضرت کے کمرہ کے پاس پہنچ گیا.حضرت مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا.میاں عبدالعزیز آپ بھی پہنچ گئے.سیالکوٹ پہنچ کر حضور نے میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر قیام فرمایا.اور منتظمین کو بلا کر فرمایا کہ منشی اروڑا خانصاحب اور میاں عبدالعزیز کو رہائش کے لئے ایک الگ جگہ دو.اور ان کا اچھی طرح سے خیال رکھنا کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ادنیٰ سے ادنیٰ خدام کا بھی کتنا خیال رکھتے تھے.
سیرت المہدی 590 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اس سفر کا ذکر معلوم ہوتا ہے جو حضرت صاحب نے ۱۹۰۴ء میں کیا تھا.620 بسم الله الرحمن الرحیم.میاں خیر دین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسماۃ تابی حضرت مسیح موعود کی ایک خادمہ تھی.اس کی ایک نواسی کا نکاح ایک شخص مسمی فقیر محمد سکنہ قادیان سے تجویز ہوا.حضرت صاحب نے فقیر محمد کو ایک اشٹام کا کاغذ لانے کی ہدایت فرمائی.جب وہ کاغذ لے آیا تو حضرت صاحب نے گول کمرہ میں میری موجودگی میں فقیر محمد کی طرف سے تحریر ہونے کے لئے مضمون بنایا.کہ میں اس عورت سے نکاح کرتا ہوں اور / ۵۰۰ روپیہ مہر ہو گا.اور اس کے اخراجات کا میں ذمہ دار ہوں گا.اور اس کی رضا مندی کے بغیر (یا یہ فقرہ تھا.کہ اس کی حیات تک ) دوسرا نکاح نہ کرونگا.یہ کاغذ آپ نے مجھے اشٹام پر نقل کرنے کے لئے دیا.چنانچہ میں نے وہیں نقل کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ نکاح میں زائد شرائط مقرر کرنا جائز ہے.اور حضرت صاحب نے لکھا ہے (چشمہ معرفت صفحہ ۲۳۷، ۲۳۸) کہ نکاح ثانی کے متعلق عورت کی طرف سے یہ شرط بھی ہو سکتی ہے.کہ میرا خاوند میرے ہوتے ہوئے نکاح ثانی نہیں کرے گا.کیونکہ تعدد ازدواج اسلام میں جائز ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہے.621 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوائے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی اور امہ الحفیظ بیگم کی شادی کے باقی اپنے سب بچوں کی مجلس نکاح میں بذات خود شریک تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کا نکاح رڑکی میں ہوا تھا.جہاں حضرت خلیفہ اول شمع ایک جماعت کے بطور برات بھیجے گئے تھے.اور وہیں نکاح ہوا تھا.رخصتانہ بعد میں ہوا جب ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آگرہ میں تھے.میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف کا نکاح حضرت صاحب کے گھر کے اندر صحن میں ہوا تھا.جہاں اب حضرت ام المؤمنین رہتی ہیں.اس موقعہ پر حضرت صاحب نے امرتسر سے اعلیٰ قسم کے چوہارے کافی مقدار میں تقسیم کرنے کے لئے منگوائے تھے.جو مجلس میں کثرت سے تقسیم کئے گئے.بلکہ بعض مہمانوں نے تو اس کثرت سے چوہارے کھا لئے کہ دوسرے دن حضرت صاحب کے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ کئی آدمیوں کو اس کثرت کی وجہ
سیرت المہدی 591 حصہ سوم سے پچپش لگ گئی ہے.میاں شریف احمد صاحب کا نکاح بھی حضرت صاحب کے گھر میں ہی ہوا تھا.مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا.مبارک احمد مرحوم کا نکاح بھی حضرت صاحب نے اپنے سامنے گھر کے اندر کیا تھا.مگر وہ اسی سال فوت ہو گیا.امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح حضور کے وصال کے بعد ہوا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام روحانی حکیم تھے اور حضرت خلیفہ اول جسمانی حکیم تھے.ان ہر دو نے اپنے بچوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں کر دی تھیں.میرے خیال میں جو نیا کا آجکل حال ہے اس کے لحاظ سے ابتدائی عمر کی شادی باوجود اپنے بعض نقائص کے تقویٰ اور طہارت کے لحاظ سے بہتر ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم کا نکاح اس کی بیماری کے ایام میں ہوا تھا.مگر وہ بقضائے الہی چند دن بعد فوت ہو گیا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ابتدائی عمر کی شادی واقعی کئی لحاظ سے بہتر ہے.ایک تو اس ذریعہ سے شروع میں ہی بد خیالات اور بد عادات سے حفاظت ہو جاتی ہے.دوسرے جو جوڑ میاں بیوی کا چھوٹی عمر میں ملتا ہے وہ عموماً زیادہ گہرا اور مضبوط ہوتا ہے.تیسرے چھوٹی عمر کی شادی میں یہ فائدہ ہے کہ اولاد کا سلسلہ جلد شروع ہو جاتا ہے.جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب والد کے گذرنے کا وقت آتا ہے تو بڑی اولا د چھوٹی اولاد کے سہارے کا باعث بن سکتی ہے.اسی طرح اور بھی بعض فوائد ہیں.پس مغربی تقلید میں بہت بڑی عمر میں شادی کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں.اس طرح عمر کا ایک مفید حصہ ضائع چلا جاتا ہے.بے شک کم عمری کی شادی میں بعض جہت سے نقصان کا پہلو ہے.مگر نَفْعُهَا اَكْبَرُ مِنْ إِثْمِهَا کے اصول کے ماتحت فی الجملہ یہی بہتر ہے.واللہ اعلم.622 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے اپنی ایک مجلس میں بیان کیا کہ میں نے ایک رات مٹھائی کھانے میں کثرت کی.جس سے رات بھر تکلیف رہی اور پیٹ میں بہت ریاح اور قراقر رہا.اس پر مجھے الہام ہوا.کہ بطنُ الْأَنْبِيَاءِ صَامِت.یعنی انبیاء کا پیٹ خاموش ہوتا ہے.اس عاجز نے یہ بات سُن کر ذہن میں رکھی.اور اس کے بعد ہمیشہ گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس کا خیال رکھا.اور بات کو بیچ پایا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کی جسمانی طہارت اور نظافت ایک حد تک اس وجہ سے بھی ہوتی
592 حصہ سوم سیرت المہدی ہے کہ وہ اپنی عادات میں بہت معتدل ہوتے ہیں اور کوئی ایسی چیز استعمال نہیں کرتے جو بد بو پیدا کرے یا پیٹ میں ریاح پیدا کرے یا کسی اور طرح کی گندگی کا باعث ہو.اس احتیاط کی وجہ علاوہ ذاتی طہارت اور نظافت کی خواہش کے ایک یہ بھی ہے کہ انبیاء کو ذات باری تعالے اور ملائکۃ اللہ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور اللہ اور اس کے فرشتے بوجہ اپنی ذاتی پاکیزگی کے انسان میں بھی پاکیزگی کو بہت پسند کرتے ہیں.623 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء میں یا اس کے قریب عید الاضحیٰ سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو لکھا کہ جتنے دوست یہاں موجود ہیں ان کے نام لکھ کر بھیج دو.تامیں ان کے لئے دُعا کروں.حضرت مولوی صاحب نے سب کو ایک جگہ جہاں آجکل مدرسہ احمدیہ ہے اور اُس وقت ہائی سکول تھا جمع کیا اور ایک کاغذ پر سب کے نام لکھوائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سارا دن اپنے کمرہ میں دروازے بند کر کے دُعا فرماتے رہے.صبح عید کا دن تھا.آپ نے فرمایا مجھے الہام ہوا ہے.کہ اس موقعہ پر عربی میں کچھ کلمات کہو.اس لئے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اس وقت قلم دوات لے کر موجود ہوں اور جو کچھ میں عربی میں کہوں لکھتے جائیں.آپ نے نماز عید کے بعد خطبہ خود پہلے اردو میں پڑھا.مسجد اقصیٰ کے پرانے صحن میں دروازے سے کچھ فاصلہ پر ایک کرسی پر تشریف رکھتے تھے.حضور کے اُردو خطبہ کے بعد حضرت مولوی صاحبان حسب ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ ال آپ کے بائیں طرف کچھ فاصلہ پر کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ گئے.اور حضور نے عربی میں خطبہ پڑھنا شروع فرمایا.اس عربی خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز بہت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی.تقریر کے وقت آپ کی آنکھیں بند ہوتی تھیں.تقریر کے دوران میں ایک دفعہ حضور نے حضرت مولوی صاحبان کو فرمایا.کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اس وقت پوچھ لیں ممکن ہے کہ بعد میں میں خود بھی نہ بتا سکوں اس وقت ایک عجیب عالم تھا.جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.یہ خطبہ حضور کی کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتداء میں السلام
سیرت المہدی 593 حصہ سوم چھپا ہوا ہے.آپ نے نہایت اہتمام سے اس کو کا تب سے لکھوایا.اور فارسی اور اُردو میں ترجمہ بھی خود کیا.اس خطبہ پر اعراب بھی لگوائے.اور آپ نے فرمایا.کہ جیسا جیسا کلام اُتر تا گیا.میں بولتا گیا.جب یہ سلسلہ بند ہو گیا.تو میں نے بھی تقریر کو ختم کر دیا.آپ فرماتے تھے.کہ تقریر کے دوران میں بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے نظر آجاتے تھے.آپ نے تحریک فرمائی کہ بعض لوگ اس خطبہ کو حفظ کر کے سُنا ئیں.چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس خطبہ کو یاد کیا.اور مسجد مبارک کی چھت پر مغرب وعشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں اس کو پڑھ کر سنایا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مولوی شیر علی صاحب کی یہ روایت مختصر طور پر حصہ اول طبع دوم کی روایت نمبر ۱۵۶ میں بھی درج ہو چکی ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر نے بعض اصحاب سے چند عد دروایات لکھ کر ایک کاپی میں محفوظ کی ہوئی ہیں.یہ روایت اسی کا پی میں سے لی گئی ہے.آگے چل کر بھی اس کاپی کی روایات آئیں گی.اس لئے میں نے ایسی روایات میں مولوی عبد الرحمن صاحب کے واسطے کو ظاہر کر دیا ہے.مولوی عبدالرحمن صاحب خود صحابی نہیں ہیں.مگر انہوں نے یہ شوق ظاہر کیا ہے کہ ان کا نام بھی اس مجموعہ میں آجائے.اس کاپی میں جملہ روایات اصحاب جو بوجہ نابینائی یا ناخواندگی معذور تھے ان کی روایات مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے اپنے ہاتھ سے خود لکھی ہیں.624 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ دہلی میں واصل جہنم واصل خان فوت ہو گیا تو مجھے یاد ہے کہ آپ نے اس کے متعلق سب سے پہلے حضرت خلیفہ اول کو بلا کر اُن سے علیحدگی میں بات کی تھی.اور یہ الہام سُنا کر واصل خاں کی بابت دریافت فرمایا تھا.اس وقت حضرت صاحب اور حضرت مولوی صاحب کے سوا اور کوئی نہ تھا.البتہ خاکسار پاس کھڑا تھا اور شاید مجھے ہی بھیج کر حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا.اور آپ مولوی صاحب کو مسجد مبارک کے پاس والے حصہ میں اپنے مکان کے اندر ملے تھے.اور زمین پر ایک چٹائی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے تھے.نیز اس الہام کے الفاظ جو مجھے زبانی یاد تھے.یہ تھے کہ دہلی میں واصل خاں واصل جہنم
سیرت المہدی 594 حصہ سوم ہوا.مگر جو الفاظ اخبارات میں شائع ہوئے ہیں وہ اس طرح پر ہیں جس طرح شروع روایت میں درج کئے گئے ہیں.اور غالب وہی صحیح ہونگے.کیونکہ زبانی یاد میں غلطی ہو جاتی ہے.واللہ اعلم 625 بسم اللہ الرحمن الرحیم.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ۱۱ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سیالکوٹ میں تھا.وہاں مجھے مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب جو کہ حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی والدہ ماجدہ ہیں سے ملنے کو موقعہ ملا.اس وقت میرے ہمراہ مولوی نذیر احمد صاحب فاضل سیکرٹری تبلیغ جماعت احمد یہ سیالکوٹ اور چوہدری عصمت اللہ خان بی.اے.پلیڈ رلا کپور، سیکرٹری جماعت احمدیہ لائکپور بھی تھے.مائی صاحبہ اپنے مکان کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی تھیں.ہم نے ان کو نہ پہنچانا.مگر انہوں نے ہم کو پہچان کر السلام علیکم کہا.اور فرمایا کہ ادھر تشریف لے آئیں.مائی صاحبہ کی عمر اس وقت ۱۰۵ سال ہے.مائی صاحبہ نے بتایا.کہ غدر کے زمانہ میں جب یہاں بھا گڑ پڑی اور دفاتر اور کچہریوں کو آگ لگی تو اس وقت میں جوان تھی.دورانِ گفتگو میں مائی صاحبہ نے بتایا کہ مجھے مرزا صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے اس وقت سے واقفیت ہے کہ جب آپ پہلے پہل سیالکوٹ تشریف لائے تھے اور یہاں ملازمت کے زمانہ میں رہے تھے.مرزا صاحب کی عمر اس وقت ایسی تھی کہ چہرے پر مس پھوٹ رہی تھی.اور آپ کی ابھی پوری داڑھی نہ تھی.سیالکوٹ تشریف لانے کے بعد حضرت مرزا صاحب میرے والد صاحب کے مکان پر آئے.اور انہیں آواز دی اور فرمایا.میاں فضل دین صاحب آپ کا جو دوسرا مکان ہے.وہ میری رہائش کے لئے دے دیں.میرے والد صاحب نے دروازہ کھولا اور آپ اندر آگئے.پانی ، چار پائی ہمصلی وغیرہ رکھا.مرزا صاحب کا سامان بھی رکھا.آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے.مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا.ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا.میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے.مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے.میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب
سیرت المہدی 595 حصہ سوم قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں.اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے.مائی صاحبہ نے حضرت مسیح موعود کی باتیں بتلاتے ہوئے متعدد دفعہ کہا.میں قربان جاؤں آپ کے نام پر.یہ بیان حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی موجودگی میں میں نے لیا.اور حافظ صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کے سامنے بتلایا.کہ یہی باتیں میں اپنے ماموں اور نانے سے بھی سُنا کرتا تھا.مائی صاحبہ نے بتلایا کہ پہلے مرزا صاحب اسی محلہ میں ایک چوبارہ میں رہا کرتے تھے.جو ہمارے موجودہ مکان واقع محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ہے.جب وہ چوبارہ گر گیا.تو پھر مرزا صاحب میرے باپ کے مکان واقع محلہ کشمیری میں چلے گئے.چوبارہ کے گرنے کا واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس چوبارہ میں خلیل.منشی فقیر اللہ وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے.تو مرزا صاحب نے کہا باہر آ جاؤ.جب وہ سب باہر دوسرے مکان کی چھت پر آئے.تو چوبارہ والا چھت بیٹھ گیا.حافظ محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں.کہ خلیل کہتا تھا.کہ چو بارہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی.کہ جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا.مائی صاحبہ نے بتلایا کہ مرزا صاحب عموماً اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور سر پر بھی چادر اوڑھ لیتے تھے.اور اتنا ہی منہ کھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے.میرے والد بتلاتے تھے کہ مکان کے اندر جا کر چادرا تا ر دیتے تھے حافظ صاحب نے بتلایا کہ ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ اہلمد تھے.مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آجاتے.تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں.فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیں گے.گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے.اور نیز انہوں نے بتلایا.کہ جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے.محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے.کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے.اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے.مائی صاحبہ نے بتلایا کہ جب مرزا صاحب دوسری دفعہ بعد از دعوی سیالکوٹ آئے تو حکیم حسام الدین صاحب مرحوم کے مکان پر مجھے بلایا.اور میرا حال پوچھا.اور میں نے بیعت بھی کی.اس وقت مرزا صاحب بمع کنبہ آئے تھے.
سیرت المہدی 596 حصہ سوم مرزا صاحب جب تیسری دفعہ آئے.لوگوں نے آپ پر کوڑا ڈالا.حافظ صاحب نے اس موقعہ پر بتلایا کہ اس محلہ کے مولوی حافظ سلطان نے جو میرے استاد تھے، لڑکوں کو جھولیوں میں راکھ ڈلوا کر انہیں چھتوں پر چڑھا دیا.اور انہیں سکھایا.کہ جب مرزا صاحب گذریں.تو یہ راکھ ان پر ڈالنا.چنانچہ انہوں نے ایسا کیا.مائی صاحبہ اور حافظ صاحب دونوں نے بتلایا.کہ حافظ سلطان کا مکان ہمارے سامنے ہے.یہ گھر بڑا آباد تھا.تمہیں چالیس آدمی تھے.مگر اس واقعہ کے بعد سیالکوٹ میں طاعون پڑی اور سب سے پہلے اس محلہ میں طاعون سے حافظ سلطان اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے گھر کے لوگ جو انتیس کے قریب تھے طاعون سے مر گئے اور چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے.اور جن لوگوں نے انہیں غسل دیا وہ بھی مر گئے اور جو شخص عیادت کرنے کے لئے آیا وہ بھی مر گیا.( دستخط ) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ.ناظر دعوۃ تبلیغ حال مقیم سیالکوٹ.مورخہ ۱ ارستمبر ۱۹۳۵ء.محرره سید فیاض حیدر حیدر منزل سیالکوٹ شہر.مورخہ ۱ارستمبر ۱۹۳۵ء خاکسارعرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا بیان کے نیچے مندرجہ ذیل نوٹ درج ہیں.نوٹ اول :.مندرجہ بالا بیانات ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے میری موجودگی میں مائی حیات بی بی صاحبہ اور ان کے لڑکے حافظ محمد شفیع صاحب کی روایات کی بناء پر قلمبند کرائے.دونوں پنجابی میں باتیں بتاتے تھے.جن کو ناظر صاحب ان کی موجودگی میں اردو میں ساتھ ساتھ لکھاتے جاتے تھے“ مورخہ ۱۱ستمبر ۱۹۳۵ء.( دستخط ) عصمت اللہ خاں وکیل لائلپور حال مقیم سیالکوٹ.نوٹ ثانی: ” میں نے وہ مکان جا کر دیکھا ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اثنائے قیام سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام میں رہا کرتے تھے.یہ مکان محلہ چودھری سلطان میں واقع ہے اور اس کے ساتھ پہلو میں جانب جنوب چراغ دین صاحب کا مکان ہے جو دو منزلہ ہے.لیکن پہلے ایک
سیرت المہدی 597 حصہ سوم منزلہ تھا.اور موجودہ شکل بعد کی ہے.چراغ دین صاحب بیان کرتے ہیں.کہ جب مرزا صاحب یہاں رہا کرتے تھے.تو اس وقت میری عمر ۱۰.اسال کی تھی.اور اس وقت مرزا صاحب کی داڑھی ذرا ذرا سی تھی.جب آپ کام کاج سے فارغ ہو کر باہر سے آتے تو کسی سے بات نہ کرتے اور اندر ہر وقت لکھنے پڑھنے کا ہی کام کرتے.اب وہ مکان جس میں مرزا صاحب رہتے تھے.ماسٹر عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر نے جو احمدی ہیں خرید کیا ہوا ہے.پہلے اس مکان میں صرف ایک ہی دروازہ تھا بعد میں جب تقسیم ہوا تو درمیاں میں دیوار حائل کر کے دو دروازے نکال لئے گئے ہیں.مرزا صاحب اس کو ٹھڑی میں رہتے تھے جو ان کے مکان کے ساتھ ہے اور اب تک وہ کوٹھڑی اسی حالت میں ہے.“ محرره سید فیاض حیدر ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء.زین العابدین ناظر دعوة و تبلیغ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء.چراغدین بقلم خود۱۵ارستمبر ۱۹۳۵ء.یہ بیان مندرجہ ذیل اصحاب کی موجودگی میں لیا گیا.جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں.( دستخط ) محمد الدین بقلم خود ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء.( دستخط ) چودھری محمد شریف مولوی فاضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء.(دستخط) بقلم خود ظہوراحمد.احمدی.۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب کی داڑھی کسی قدر دیر کے ساتھ آئی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی ملازمت سیالکوٹ کے ایام کے متعلق شمس العلماء مولوی میرحسن صاحب سیالکوٹی کی دو عدد روایتیں ( نمبر ۱۵۰ نمبر ۲۸۰) پہلے حصوں میں گذر چکی ہیں.626 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱/۸ اکتو بر ۱۹۰۴ء بعد تین بجے شام جبکہ مقدمہ کرم دین کا فیصلہ سنایا جانا تھا اوّل کرم دین کو عدالت میں بلایا گیا اور اس کو پچاس روپیہ جرمانہ ہوا.اور اس کے بعد ایڈیٹر سراج الاخبار کو بلایا گیا.اور اُسے چالیس روپیہ جرمانہ ہوا.اس وقت حضرت اقدس قبل اس کے کہ آپ بُلائے جائیں مجھ سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے.کہ درمیانی ابتلاء ہیں مگر عدالت عالیہ سے بریت ہے.اتنے میں حضور کو بلایا
سیرت المہدی 598 حصہ سوم گیا.تو مجسٹریٹ نے حضرت اقدس کو پانچ سو روپیہ اور حکیم فضل دین صاحب کو دوصد رو پیہ جرمانہ کیا.اسی وقت مبلغ ایک ہزار روپیہ کا نوٹ پیش کیا گیا.اور باقی تین صد روپیہ واپس لیا گیا.اتنے میں چار بج گئے.اور خواجہ کمال الدین صاحب نے مجسٹریٹ سے پوچھا.کہ اب عدالت برخاست ہو چکی ہے.کیا میں فیصلہ کے متعلق کچھ بات کر سکتا ہوں ( یعنی آزادی کے ساتھ غیر عدالتی رنگ میں اظہارِ خیال کر سکتا ہوں.خاکسارمؤلف) مجسٹریٹ نے کہا.ہاں.تب خواجہ صاحب نے کہا.کہ یہ خاک فیصلہ ہے.کہ میں نے کرم دین کو کذاب ثابت کر دیا.اور باوجود اس کے حضرت اقدس کو اس بات پر جرمانہ بھی کر دیا گیا کہ اس کو کذاب کیوں کہا ہے.حالانکہ کذاب کو کذاب کہنا کوئی جرم نہیں.مجسٹریٹ خاموش رہا.تب خواجہ صاحب نے کہا.کہ سات صد روپیہ ہمارا امانت ہے.ابھی تھوڑے عرصہ میں واپس لے لیں گے.چنانچہ اپیل میں حضرت صاحب بری قرار دیئے گئے.اور وہ روپیہ واپس مل گیا.مگر کرم دین کا نام ہمیشہ کے لئے کذاب درج رجسٹر رہا.اور اس کا جرمانہ بھی قائم رہا.627 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے جہاد کے بارہ میں عرض کیا کہ مسلمان بادشاہوں نے ہمیشہ دفاعی جنگ تو نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ ہم تو صرف آنحضرت اور خلفائے راشدین کی طرف سے جواب دینے کے ذمہ دار ہیں اور کسی کے نہیں.ان کے جہاد ہمیشہ دفاعی تھے.باقی بعد کے مسلمان بادشاہوں کی طرف سے جواب دہی کی ذمہ واری ہم نہیں لے سکتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے.اور آنحضرت ﷺ کی جملہ لڑائیاں دفاعی تھیں.مگر یہ یا درکھنا چاہئے.کہ دفاعی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر انفرادی لڑائی آپ نے اس وقت کی جبکہ غنیم فوج لے کر چڑھ آیا.اس قسم کا دفاع احمقانہ دفاع ہوتا ہے بلکہ اس کا نام دفاع رکھنا ہی غلط ہے.پس دفاع سے صلى الله مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی غرض و غایت دشمن کے خلاف اپنے آپ کو محفوظ کرناتھی.یعنی دشمن اسلام کو مٹانا چاہتا تھا اور آپ اسلام کو محفوظ کرنے کے لئے میدان میں نکلے تھے اور ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ بسا اوقات جنگی تدبیر کے طور پر خود پیش دستی کر کے دشمن کو حملہ سے روکنا بھی دفاع کا حصہ ہوتا ہے.
سیرت المہدی 599 حصہ سوم 628 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ شکل کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے دو ٹائپ ہیں.ایک سلطانی اور دوسرا فضلی.یعنی ایک وہ جو مرزا سلطان احمد صاحب سے مشابہ ہیں اور دوسرے وہ جو مرزا فضل احمد صاحب سے مشابہت رکھتے ہیں.سلطانی ٹائپ میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایده الله بنصرہ العزیز.صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.مبارک احمد مرحوم - امة النصير مرحومہ اور امة الحفیظ بیگم شامل ہیں.اور فضلی جماعت میں عصمت مرحومہ.شوکت مرحومہ.صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ( یعنی خاکسار مؤلف ) اور مبارکہ بیگم شامل ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کی خود ساختہ اصطلاح کی رُو سے سلطانی ٹائپ سے لمبا کتابی چہرہ مراد ہے.اور فضلی ٹائپ سے گول چہرہ مراد ہے.نیز ایک الہام جو خاکسار کی پیدائش کے متعلق حضرت صاحب کو ہوا تھا.کہ يُدْنى مِنكَ الْفَضلُ ( یعنی فضل تیرے قریب کیا جائے گا ) اس کے ایک معنی حضرت صاحب نے یہ بھی لکھے ہیں.کہ فضل احمد کی شکل سے مشابہت رکھنے والا بچہ پیدا ہوگا نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم کے متعلق مجھے شبہ ہے کہ وہ بقول میر صاحب سلطانی ٹائپ میں شامل نہیں تھا.بلکہ فضلی ٹائپ میں شامل تھا یا شاید بین بین ہوگا.واللہ اعلم.629 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ غلیل سے جو پرندے مارے جاتے ہیں.ان کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.کہ تکبیر پڑھ کر مارلیا کرو اور فرماتے تھے کہ غلیل اور بندوق کا حکم بھی تیر کی طرح ہے.یعنی اگر جانور ذبح سے پہلے ہی مرجائے تو وہ حلال ہے.یہ ذکر اس بات پر چلا تھا.کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اکثر پرندے غلیل سے مار کر لایا کرتے تھے.میں نے عرض کیا کہ کئی پرندے وہیں ذبح سے پہلے مر جاتے ہیں.تو بھائی جی ان کو حرام سمجھ کر چھوڑ آتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ تکبیر پڑھ کر مارلیا کریں.پھر اگر ذبح سے پہلے مر بھی جائیں تو جائز ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جاوے یعنی اس کے ذبح کرنے کا موقعہ نہ ملے.تو تکبیر پڑھنے کی صورت میں وہ جائز ہے یہ مراد نہیں کہ ذبیح کا
سیرت المہدی 600 حصہ سوم موقعہ ہومگر پھر بھی ذبح نہ کیا جائے.630 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے علم میں بذریعہ ریل حسب ذیل جگہوں کا سفر کیا ہے.گورداسپور.پٹھانکوٹ.امرتسر.لاہور.سیالکوٹ.جموں.جہلم.دہلی.لدھیانہ.جالندھر.انبالہ چھاؤنی.فیروز پور چھاؤنی.پٹیالہ.ملتان اور علی گڑھ.اور حضرت صاحب نے ہوشیار پور کا مشہورسفر بذریعہ سڑک کیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب یکہ پر ڈلہوزی بھی تشریف لے گئے تھے.نیز سٹور بھی گئے تھے مگر وہ پٹیالہ کے سفر کا حصہ ہی تھا.631 بسم اللہ الرحمن الرحیم حکیم عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار ( یعنی بسمل صاحب) کا عقیدہ معتزلہ کے قریب قریب تھا.گو والدین حنفی مذہب اور نقشبندی مشرب تھے.لیکن بعض اساتذہ کی تلقین سے میرا عقیدہ رفض اور اعتزال کی طرف مائل ہو گیا تھا.اور ارجح المطالب “ کے چھاپنے پر مجھ کو ناز تھا.کہ یکا یک میرے مہربان دوست مفتی محمد صادق صاحب سے مجھ کو حضرت مسیح موعود کی تصنیف کتاب ” سر الخلافہ عاریتاً ہاتھ آئی.اس کتاب کے مطالعہ نے ایک ہی دن میں میرے عقیدے میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا.رات کے گیارہ بج چکے تھے.کتاب دیکھ رہا تھا.نیند کا غلبہ ہو گیا.اور سو گیا.خواب میں جناب امام حسین کی زیارت ہوئی کہ ایک بلند مقام پر استادہ ہیں اور ایک صاحب سے فرمارہے ہیں کہ مرزا صاحب کو جا کر خبر کر دو کہ میں آگیا ہوں.صبح اُٹھ کر میں نے قادیان کا تہیہ کر لیا اور لاہور سے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسے کے ساتھ قادیان آیا.رات بٹالہ میں گزاری.صبح جب دارالامان پہنچا تو مولوی سید عبداللطیف صاحب شہید سے مہمان خانہ میں ملاقات ہوئی.ان کا چہرہ دیکھتے ہی وہ رات کے خواب کی شبیہ آنکھوں میں آگئی.مگر اللہ رے غفلت ! ایک خیال تھا کہ فوراً دل سے اتر گیا.حضرت اقدس علیہ السلام ہنوز برآمد نہ ہوئے تھے.کہ
سیرت المہدی 601 حصہ سوم مسجد مبارک میں جا کر حضور کی تشریف آوری کا انتظار کرنے لگا.اتنے میں حضرت حکیم الامت (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب.خاکسار مؤلف ) تشریف لے آئے.ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی.کہ دروازہ کھلا اور آفتاب رسالت بیت الشرف سے برآمد ہوا.خاکسار درود پڑھتا ہوا آگے ہوا.اور دست بوس حاصل کیا.دستر خوان بچھا اور حقائق و معارف کا دریا بہنے لگا.عصمت انبیاء کا مسئلہ حضور نے اس وضاحت سے حل فرمایا.کہ میرا دل وجد کرنے لگ گیا.یہ عجالہ اس کی تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا.کیونکہ بعض علماء کا مذہب ہے کہ انبیاء محفوظ ہوتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ قبل از بعثت محفوظ ہوتے ہیں.اور بعد از بعثت معصوم.اور بعض کے نزدیک صغائر سے محفوظ اور کبائر سے معصوم ہوتے ہیں اور بعض کے نزدیک محض تبلیغ وحی میں معصوم اور دیگر کبائر وصغائر میں محفوظ ہوتے ہیں.حضور علیہ السلام کی تقریر اس شرح بسط کے ساتھ تھی.کہ جس کے اعادہ کے لئے وقت کی ضرورت ہے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُسکی پوری تفصیل خاکسار شاید ادا بھی نہ کر سکے.تناول طعام کے بعد حضرت حرم سرائے میں تشریف لے گئے.مسجد سے اکثر اصحاب چلے گئے.اور ایک گھنٹہ کے بعد حضرت پھر برآمد ہوئے.اور مولوی عبدالکریم صاحب کو یاد فرمایا.مولوی صاحب کے حاضر ہونے کے بعد ارشاد فرمایا.اس وقت یہ شعر الہام ہوا ہے.چودور خسر وی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند و خاکسار نے عرض کیا.دور نخسر وی ایک صدی کے بعد شروع ہوگا.جیسا کی حضرت عیسے علیہ قسطنطین اعظم کے عہد سے شروع ہوا تھا.حضرت نے فرمایا.نہیں جلد شروع ہوگا.پھر میں السلام کے بعد نے عرض کیا.مسلماں را مسلماں باز کردند کے معنے شاید یہ ہیں کہ غیر احمدیوں کو احمدی بنایا جائے گا.فرمایا اس کے معنے اور ہیں، وقت پر دیکھ لو گے.پھر جب ملکانہ میں مسلمانوں کے مرتد گروہ خلیفہ ثانی کے عہد میں دوبارہ مسلمان ہوئے.تو یاد آگیا کہ مصرع الہامی کے معنے در حقیقت مسلمانوں کو جو ارتداد کی بلا میں مبتلاء ہو چکے ہیں.پھر مسلمان کرنے کے ہیں.خدا کا شکر ہے کہ میں نے اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا.دوسرے روز مہمانخانہ میں خاکسار ایک نو وارد مہمان سے ملا.اس کے پاس فارسی در نشین کا
سیرت المہدی 602 حصہ سوم مطالعہ کرنے کو بیٹھ گیا.کتاب کو کھولتے ہی اس شعر پر نگاہ جائگی.کر بلائے است سیر ہر آنم صدحسین است در گریبانم یہ شعر پڑھ کر سوچ رہا تھا.کہ مہمانخانہ کے دروازہ پر نظر پڑی.دیکھا کہ مولانا سید عبداللطیف صاحب تشریف لا رہے ہیں.میں اُٹھ کر ان سے ملاقات کرنے کو گیا.پھر جب سید صاحب مذکور کابل میں پہنچ کر شہید ہو گئے.تو اس شعر کے معنے خاکسار پر ظاہر ہوئے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مولوی عبید اللہ بسمل جو ابھی چند دن ہوئے قریباً نوے سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں فارسی اور تاریخ کے نہایت کامل استاد تھے.حتی کہ میں نے مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل سے سُنا ہے کہ ان کے متعلق ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ مولوی صاحب فارسی کے اتنے بڑے عالم ہیں کہ مجھے رشک ہوتا کہ کاش مجھے یہ علم عربی میں حاصل ہوتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب مرحوم شاعر بھی تھے اور بہت زندہ دل تھے.شروع شروع میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مدرس بھی رہ چکے ہیں.چنانچہ میں بھی ان سے پڑھا ہوں.اُردو میں بھی نہایت ماہر تھے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے آمین.محرره ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۸ء.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب کی خواب میں جو یہ ذکر ہے کہ خواب میں امام حسین نے یہ کہا کہ مرزا صاحب سے کہدو کہ میں آگیا ہوں اس میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.جو قریب کے زمانہ میں ہونے والی تھی.واللہ اعلم 632 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر غلام احمد صاحب.آئی.ایم.ایس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.کہ میرے والد شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس سندھ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے بعد اندر تشریف لے جارہے تھے تو میں نے ایک کپڑ ا حضرت صاحب کو دیا.جو کہ حضرت ام المؤمنین کے لئے تھا.حضور نے میری طرف چنداں توجہ نہ کی اور نہ ہی نظر اُٹھا کر دیکھا کہ کس نے دیا ہے.اس کے بعد ایک دن میری والدہ صاحبہ نے مجھ سے ذکر کیا.کہ ایک دفعہ حضرت اُم المؤمنين نے ان سے فرمایا کہ ایک دن حضرت صاحب ہنستے ہوئے اندر تشریف لائے اور ایک کپڑا
سیرت المہدی 603 حصہ سوم مجھے دے کر فرمایا.کہ معلوم ہے یہ کپڑا تمہیں کس نے دیا ہے؟ پھر فرمایا.یہ اسی کے بیٹے نے دیا ہے جس نے تمہارے ٹرنک لیکھرام کی تلاشی کے وقت تو ڑے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ شیخ نیاز محمد صاحب میاں محمد بخش کے لڑکے ہیں.جو حضرت صاحب کے زمانہ میں کئی سال تک بٹالہ میں تھا نہ دار رہے تھے.اور سخت مخالف تھے.حضرت صاحب کو اس خیال سے کس قدر روحانی سرور حاصل ہوا ہو گا.کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مخالفین کی اولا دکو پکڑ پکڑ کر حضور کے قدموں 66 میں گرا رہا ہے.633 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور کو الہام ہوا." لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ “.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.اس کے ساتھ ایک بڑا نشان ہو گا.چنانچہ ان چاروں فقروں کو ایک کاغذ پر خوشخط لکھوا کر مسجد مبارک کی شمالی دیوار پر لگوا دیا گیا.جہاں یہ کاغذ مدت تک لگا رہا.اسی طرح ایک دفعہ ایک الہام " غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَهُ دَفَعَ إِلَيْهِ مِنْ مَّالِهِ دَفَعَةٌ “ ہوا.تو اس کو بھی اسی طرح لگوایا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ بعض الہامات یا فقرات وغیرہ یاد دہانی یا دعا یا یادگار کے لئے مسجد یا مکان کے کسی حصہ میں آویزاں کروا دیتے تھے.634 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی سابق کلرک محکمہ ریلوے لا ہور نے بواسطه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک سفر میں لاہور اسٹیشن پر اُترے تو ایک مسجد میں جو ایک چبوترے کی شکل میں تھی.آرام کے لئے بیٹھ گئے یہ مسجد اس جگہ تھی جہاں اب پلیٹ فارم نمبر ۴ ہے.پنڈت لیکھرام وہاں آیا.اور اس نے حضرت صاحب کو جھک کر سلام کیا تو حضور نے اس سے منہ پھیر لیا.دوسری مرتبہ پھر اس نے اسی طرح کیا.پھر بھی آپ نے توجہ نہ فرمائی.اس پر بعض خدام نے عرض کیا کہ حضور! پنڈت لیکھرام سلام کے لئے حاضر ہوا ہے.آپ نے فرمایا.ہمارے سید و مولی محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں دینے والے کا ہم سے کیا تعلق ہے؟ اسی طرح وہ سلام کا جواب حاصل کرنے میں نا کام چلا گیا.
سیرت المہدی 604 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اسی واقعہ کا ذکر بروایت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی روایت نمبر ۲۸۱ میں بھی ہو چکا ہے.635 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم تاجر لاہور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی اور دعوت کا اہتمام خاکسار کے سپرد کیا.پلاؤ نرم پکا.غفلت باورچیوں کی تھی.شیخ صاحب کھانا کھلانے کے وقت عذر خواہی کرنے لگے کہ بھائی غلام حسین کی غفلت سے پلاؤ خراب ہو گیا ہے.آپ نے فرمایا.کہ گوشت.چاول.مصالحہ اور گھی سب کچھ اس میں ہے.اور میں گلے ہوئے چاولوں کو پسند کرتا ہوں.یہ آپ کی ذرہ نوازی کی دلیل ہے.کہ غلطی پر بھی خوشی کا اظہار فرمایا.ممکن ہے کہ حضور دانے دار پلاؤ کو پسند فرماتے ہوں.لیکن خاکسار کوملامت سے بچانے کے لئے ایسا فرمایا ہو.636 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے صبح کے قریب جگایا.اور فرمایا.کہ مجھے ایک خواب آیا ہے.میں نے پوچھا کیا خواب ہے.فرمایا.میں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک پنا ہوا ہے.میں نے تعبیر پوچھی.تو کتاب دیکھ کر فرمایا.کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا.اس کے بعد میں چار دن یہاں رہا.میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا.جس میں ہزار سے زائد روپیہ تھا.مجھے اصل رقم یاد نہیں.جب مجھے خواب سنائی.تو ملا وامل اور شرم پت کو بھی بلا کر سُنائی.جب منی آرڈر آیا.تو ملا وامل و شرم پت کو بلایا.اور فرمایا.کہ لو بھئی یہ منی آرڈر آیا ہے.جا کر ڈاکخانہ سے لے آؤ.ہم نے دیکھا تو منی آرڈر بھیجنے والے کا پتہ اس پر درج نہیں تھا.حضرت صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ کس نے بھیجا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آجکل کے قواعد کے رُو سے رقم ارسال کنندہ کو اپنا پتہ درج کرنا ضروری ہوتا ہے.ممکن ہے اس زمانہ میں یہ قاعدہ نہ ہو.یا مرز دین محمد صاحب کو پتہ نہ لگا ہو.637 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ
سیرت المہدی 605 حصہ سوم ایک دفعہ میں اپنے گاؤں سیکھواں سے قادیان آیا.حضور علیہ السلام کی عادت تھی کہ گرم موسم میں عمو ماً شام کے وقت مسجد مبارک کے شاہ نشین پر تشریف فرما ہوتے اور حضور کے اصحاب بھی حاضر رہتے.اس روز عشاء کی نماز کے بعد آپ شاہ نشین پر تشریف فرما ہوئے.میر ناصر نواب صاحب نے قادیان کے بعض گھمار طبقہ کی بیعت کا ذکر کیا.اور کہا کہ یہ لوگ حضرت صاحب سے کوئی خاص تعلق پیدا نہیں کرتے مولوی عبدالکریم صاحب نے میر صاحب موصوف کے کلام کے جواب میں کہا.کہ دیہاتی لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں.اسی اثنا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ ہوگئی.تو آپ نے فرمایا.کہ کیا بات ہے مولوی صاحب نے میر صاحب اور ان کی گفتگو کا تذکرہ کر دیا.اس پر حضرت صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کی تائید فرمائی اور فرمایا.کہ میر صاحب دیہات کے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں.میں اس وقت مجلس میں اپنی کمزوریوں کو یاد کر کے اور یہ خیال کر کے کہ میں بھی دیہاتی ہوں مغموم ومحزون بیٹھا ہوا تھا.لیکن اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ میاں جمال الدین صاحب و میاں امام الدین ومیاں خیر الدین تو ایسے نہیں ہیں.جب حضور نے ہم تین بھائیوں کو عام دیہاتیوں سے مستقئنے کر دیا تو میرے تمام ہموم دور ہو گئے.اور میرا دل خوشی سے بھر گیا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی اعراب لوگوں کا ایمان اسی طرح کا ہوتا تھا.مگر ان سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوتے ہیں.جو نبی کی صحبت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں.اور خدا کے فضل سے ہماری جماعت کے اکثر دیہاتی نہایت مخلص ہیں.دراصل ایمان کی پختگی کا مدار شہری یا دیہاتی ہونے پر نہیں بلکہ صحبت اور استفاضہ اور پھر علم و عرفان پر ہے.لیکن چونکہ نبی سے دور رہنے والے دیہاتیوں کو یہ موقعے کم میسر آتے ہیں.اس لئے وہ عموماً کمزور رہتے ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو اعراب کا لفظ آتا ہے.اس کے معنے دیہاتی کے نہیں ہیں.بلکہ اس سے مجلس نبوی سے دور رہنے والے باد پیشین لوگ مراد ہیں.﴿638 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت
سیرت المہدی 606 حصہ سوم صاحب کو سخت کھانسی ہوئی.ایسی کہ دم نہ آتا تھا.البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا.اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی.تا کہ آرام سے پڑھ سکیں.639 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت صاحب مسواک بہت پسند فرماتے تھے.تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے.گوالتزاما نہیں.وضو کے وقت صرف انگلی سے ہی مسواک کر لیا کرتے تھے.مسواک کئی دفعہ کہ کر مجھ سے بھی منگائی ہے.اور دیگر خادموں سے بھی منگوالیا کرتے تھے.اور بعض اوقات نماز اور وضو کے وقت کے علاوہ بھی استعمال کرتے تھے.640 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب بشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کی ۲۷ تاریخ تھی.منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری بھی سیکھواں سے قادیان آئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح نماز فجر کے لئے تشریف لائے اور فرمایا.کہ آج شب گھر میں دردزہ کی تکلیف تھی (ہمشیرہ مبارکہ بیگم اسی شب میں پیدا ہوئی تھیں خاکسار مؤلف) دعا کرتے کرتے لیکھر ام سامنے آگیا.اس کے معاملہ میں بھی دعا کی گئی.اور فرمایا.کہ جو کام خدا کے منشاء میں جلد ہو جانے والا ہو.اس کے متعلق دُعا میں یاد کرایا جاتا ہے.چنانچہ اس کے چوتھے روز لیکھر ام مارا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ۱۸۹۷ء مطابق ۱۳۱۴ھ کا واقعہ ہے.مبارکہ بیگم ۲۷ / رمضان ۱۳۱۴ھ کو پیدا ہوئی تھیں.جو غالبا۲ مارچ ۱۸۹۷ء کی تاریخ تھی.اور لکھر ام عید کے دوسرے دن 4 مارچ بروز ہفتہ زخمی ہو کر 4 اور ے کی درمیانی شب کو بعد نصف شب اس دُنیا سے رخصت ہوا تھا.مبار کہ بیگم کی ولادت کی دُعا کے وقت حضرت صاحب کے سامنے عالم توجہ میں لیکھرام کا آجانا اور حضرت صاحب کا اس کے معاملہ میں بھی دُعا کرنا اور پھر اس کا چار روز کے اندر اندر مارا جانا ایک عجیب تصرف الہی ہے.جس کے تصور سے ایمان تازہ ہوتا ہے.641 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر 11 حصہ اول طبع دوم اور روایت نمر ۳۶۰
سیرت المہدی 607 حصہ سوم حصہ دوم میں ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی پیدائش کے دن میں اختلاف ہے.یعنی مقدم الذکر روایت میں منگل سے بعد والی رات مذکور ہے اور مؤخر الذکر روایت میں منگل سے پہلی رات بیان کی گئی ہے اس کے متعلق مجھے مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل نے بتایا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وہ منگل سے پہلی رات تھی.اور مولوی صاحب کی دلیل یہ ہے کہ حضرت صاحب نے تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ مبارکہ بیگم ۲۷ ؍رمضان ۱۳۱۴ھ کو پیدا ہوئی تھیں.اور تفصیلی طور پر حساب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال ۲۷ رمضان کو منگل کا دن تھا.اور چونکہ قمری مہینوں میں رات دن سے پہلے شمار ہوتی ہے.اس لئے ثابت ہوا.کہ وہ منگل کے دن سے پہلی رات تھی.اور شمسی حساب کی رُو سے وہ یکم مارچ اور ۲ / مارچ ۱۸۹۷ء کی درمیانی رات بنتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی بعض تحریرات سے معلوم ہوتا ہے.کہ لیکھرام کے قتل کی اطلاع قادیان میں اسی دن آئی تھی جس دن مبار کہ بیگم کا عقیقہ تھا اور مندرجہ بالا حساب سے پیدائش کے بعد عقیقہ کا ساتواں دن پیر کا دن بنتا ہے جو ۸ / مارچ کا دن تھا.لیکن حضرت صاحب کے ایک اشتہار سے پتہ لگتا ہے کہ لیکھرام کے قتل کی اطلاع قادیان میں 19 مارچ کو آئی تھی.پس یا تو عقیقہ بجائے ساتویں دن کے آٹھویں دن ہوا ہو گا.اور یا 9 مارچ کی باقاعدہ اخباری اطلاع سے پہلے کوئی زبانی اطلاع ۸/ مارچ کو آ گئی ہوگی.واللہ اعلم.642 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ میں قبل از دعوی بھی حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا.غالباً انہی ایام کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ مجھے ایک خواب آیا کہ حضرت صاحب ہماری سیکھواں کی مسجد میں تشریف لائے ہیں.میرے ذہن میں اس وقت یہ آیا کہ حضرت صاحب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کیا کرتے ہیں کہ آپ بلند قامت تھے مگر حضرت صاحب تو خود بھی بلند قامت ہیں.اسی وقت میرا ذہن اس بات کی طرف منتقل ہو گیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بیان کی.آپ نے فرمایا کہ قسم کھا کر بیان کرو.چنانچہ میرے ایسا کرنے پر آپ ایک چھوٹی کاپی نکال لائے اور اُس میں یہ خواب اپنے قلم سے درج کی.اور فرمایا کہ اگر کوئی انسان فنافی الرسول ہو جائے تو
سیرت المہدی 608 حصہ سوم در حقیقت وہ وہی بن جاتا ہے.اور فرمایا کہ ”ہمارا ارادہ ہے کہ ایسی خوابوں کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے.643 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی فخر الدین صاحب پنشنر حال محلہ دارالفضل قادیان نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ غالباً ۱۸۹۸ ء یا ۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے.کہ پہلی دفعہ خاکسار قادیان آیا.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی.حضور انور کی زیارت کے لئے ہر وقت دل میں تڑپ رہتی تھی لیکن حضور کی مصروفیت دینی کی وجہ سے سوائے نمازوں یا صبح کی سیر کے موقعہ نہیں ملتا تھا.ایک دن صبح ۸-۹ بجے کے درمیان چھوٹی مسجد ( مسجد مبارک ) میں بیٹھا تھا کہ ساتھ کے شمالی کمرہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز سنائی دی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی مرد کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں.میں نے دریچے کی دراڑوں سے دیکھا.تو معلوم ہوا کہ حضرت اقدس ٹہل رہے ہیں.اور کوئی راج مکان کی مرمت یا سفیدی کر رہا ہے.باتوں باتوں میں آریوں کی مخالفت کا ذکر آ گیا اور قادیان کے آریوں کی ایذا دہی کے ضمن میں آپ نے اس مستری کو مخاطب کر کے فرمایا.ہمارا دل چاہتا ہے کہ جہاں ان لوگوں کی مڑھیاں ہیں وہاں گائیوں کے ذبح کرنے کے لئے مذبح بنایا جائے.بس یہ فقرہ تھا جو میں نے سُنا.اور آج حضور کی اس بات کو پورا ہوتے دیکھتا ہوں.کہ اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طور پر مذبح اسی جگہ کے قریب بنایا.جہاں ہندوؤں کی مڑھیاں ہوا کرتی تھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام جملہ غیر مذاہب کے لوگوں کی بہت دلداری فرماتے تھے اور ان کی دل شکنی سے پر ہیز فرماتے تھے.لیکن جب قادیان کے غیر مسلموں کی ایذارسانی حد سے گذرگئی تو پھر آپ نے کسی علیحدگی کے وقت میں ایمانی غیرت میں یہ الفاظ کہہ دیئے ہوں گے.جو خدا نے پورے کر دیئے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن مڑھیوں کا اس روایت میں ذکر ہے وہ اب چند سال سے دوسری جگہ منتقل ہو گئی ہیں.مگر یہ جگہ بدستور مڑ ہیوں کی یاد میں محفوظ ہے.اور اب آکر اسی کے قریب مدیح بنا ہے.
سیرت المہدی 609 حصہ سوم 644 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی امام الدین صاحب آف گولیکی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ خاکسار کا لڑکا قاضی محمد ظہور الدین اکمل ایام تعلیم انٹرنس میں گجرات کے ہائی سکول میں پڑھتا تھا.وہ سخت بیمار ہو گیا.چنانچہ آئندہ ترقی نہ کر سکا.ہر چند علاج معالجہ کے علاوہ فقراء سے دعائیں کروائیں.مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.آخر ایک ماہر طبیب نے میری والدہ مرحومہ اور مجھے الگ بلا کر کہہ دیا کہ آپ اس لڑکے کی ادویہ پر کچھ زیادہ خرچ نہ کریں.کیونکہ اب تپ دق دوسرے درجہ میں ہے جو کہ جلد ہی تیسرے درجہ تک پہنچ کر بالکل مایوس کر دیگا.اب صبر کریں.ادھر عالموں اور مشائخوں نے بھی نا امید کر دیا.اور صبر ہی کو کہا.اگر چہ میں ان دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مرید ہو گیا تھا.مگر کچھ شکوک تھے اور کچھ موانع دنیوی تھے آخر میں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے ہمراہ جوان ایام میں میرے پاس پڑھتے تھے.قادیان دارالامان میں آیا اور ہم نے مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھایا.اسی اثناء میں میں نے حضور سے عرض کر دی.کہ حضور میرالڑ کا بعارضہ تپ دق بیمار ہے اور اطبا نے مایوس کر دیا ہے اور میں نے یہ بات سنی ہوئی ہے.کہ ”سُورُ الْمُؤْمِنِ شَفَاءُ ، یعنی مومن سے بچا ہوا کھانا شفا ہوتا ہے.اس لئے آپ کے پس خوردہ کا سائل ہوں.حضور نے تناول فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ اٹھا لو.یہ الفاظ سنتے ہی مولوی غلام رسول صاحب نے فوراً دستر خوان سے حضرت اقدس کا پس خوردہ اٹھا لیا اور روٹی کے بھورے بنا کر محفوظ کر لئے.اور گولیکی جا کر آہستہ آہستہ برخوردار کو کھلانے شروع کر دیئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اُسے شفا دے دی.یہ واقعہ تقریباً ۱۸۹۸ء کا ہے.645 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسیح کے بے باپ پیدا ہونے کا ذکر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے مسیح کو بے باپ پیدا کیا تا کہ یہ ظاہر کرے کہ اب بنی اسرائیل میں ایک مرد بھی ایسا باقی نہیں رہا جس کے نطفہ سے ایک پیغمبر پیدا ہو سکے.اور اب اس قوم میں نبوت کا خاتمہ ہے اور آئندہ بنی اسمعیل میں نبی پیدا ہونے کا وقت آگیا ہے.
سیرت المہدی 610 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اس نکتہ کو اپنی بعض کتابوں میں بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ خدا نے بنی اسرائیل سے نبوت کا انعام تدریجا چھینا ہے.اوّل اوّل حضرت یحیی کو ایک بوڑھے اور مایوس شخص کے گھر خارق عادت طور پر پیدا کیا.جس سے یہ جتانا منظور تھا.کہ اب بنی اسرائیل سے نبوت کا انعام نکلنے والا ہے اور وہ اپنے اعمال کی وجہ سے محروم ہو چکے ہیں.صرف خدا کے فضل نے سنبھال رکھا ہے.اس کے بعد حضرت مسیح کو ایک ایسی عورت کے بطن سے پیدا کیا.جسے کبھی کسی مرد نے نہیں چھوا تھا اور چونکہ نسل کا شمار پدری جانب سے ہوتا ہے اس لئے گویا بڑی حد تک بنی اسرائیل سے نبوت کو چھین لیا.اور آخر آنحضرت ﷺ کو پیدا کر کے نبوت کو کلی طور پر بنو اسمعیل کی طرف منتقل کر لیا گیا.646 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ عربی خطبہ الہامیہ جو آپ نے بقرعید کے موقعہ پر بیان فرمایا تھا.وہ خطبہ الہامیہ کتاب کا صرف باب اوّل ہی ہے.باقی کتاب الہامی خطبہ نہیں ہے.اس خطبہ کے بعد آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض لوگ اسے حفظ کر لیں.اس پر خاکسار اور مولوی محمد علی صاحب نے اسے حفظ کر لیا تھا.حضور فرماتے تھے کہ ہم کسی دن مسجد کی مجلس میں سنیں گے مگر اس کے سننے کا موقعہ نہ ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ ۱۹۰۰ء کی عید اضحی کے موقعہ پر ہوا تھا اور اصل الہامی خطبہ مطبوعہ کتاب کے ابتدائی ۳۸ صفحات میں آگیا ہے.اگلا حصہ عام تصنیف ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ سے یہ مراد نہیں کہ اس خطبہ کا لفظ لفظ الہام ہوا.بلکہ یہ کہ وہ خدا کی خاص نصرت کے ماتحت پڑھا گیا اور بعض بعض الفاظ الہام بھی ہوئے.647 بسم الله الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جہلم کے سفر میں خاکسار حضرت صاحب کے ہمراہ تھا.راستہ میں اسٹیشنوں پر لوگ اس کثرت سے حضرت صاحب کو دیکھنے کے لئے آتے تھے.کہ ہم سب تعجب کرتے تھے کہ ان لوگوں کو کس نے اطلاع دے دی ہے.بعض نہایت معمولی اسٹیشنوں پر بھی جو بالکل جنگل میں واقع تھے بہت کثرت سے لوگ پہنچ گئے تھے.
سیرت المہدی 611 حصہ سوم یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی خاص کشش ان کو کھینچ کر لائی ہے.جہلم پہنچ کر تو حد ہی ہوگئی.جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے.لوگوں کے لئے حضرت صاحب کو دیکھنے کے واسطے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ حضرت کو ایک مکان کی چھت پر بٹھا دیا گیا ورنہ اور کوئی طریق اس وقت اختیار کرنا بوجہ اثر دہام کے ناممکن تھا.اس سفر میں سید عبداللطیف صاحب شہید بھی حضرت کے ہمراہ تھے.احاطہ کچہری میں مجھے سے حضور باتیں کر رہے تھے کہ عجب خان صاحب تحصیلدار نے فرط محبت سے حضور کی خدمت میں ہاتھ دینے کے لئے عرض کی حضور نے اپنا ہاتھ بڑھایا.عجب خان صاحب نے حضور کے ہاتھ کو بوسہ دیا.یہ سفر جہلم کرم دین جہلمی کے مقدمہ میں پیش آیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عجب خان صاحب تحصیلدار زیدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں.افسوس کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد وہ خلافت سے منحرف ہو کر غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے.648 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جھاڑی بوٹی کے بیر ( کو کن بیر ) حضرت جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلل الانبیاء کی خدمت میں خاکسار نے تحفةً پیش کئے.اس کے کچھ وقت بعد حضور تھوڑی دیر کے لئے لیٹے تو دائیں جانب شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم پاؤں دبا رہے تھے اور بائیں طرف خاکسار تھا.خاکسار کا ہاتھ اتفاقا حضور کی جیب سے چھو گیا.تو فرمایا.یہ وہی بیر ہیں جو آپ میرے لئے لائے تھے.میں ان کو بہت پسند کرتا ہوں.جب حضرت اقدس اندر تشریف لے گئے.تو شیخ صاحب نے فرمایا.بھئی تم بڑے خوش نصیب ہو.کہیں سے مانگ کر ایک دھیلے کے بیر لائے ہو اور حضرت اقدس سے پروانہ خوشنودی حاصل کر لیا.میں تو سات روپیہ کے انگور لایا تھا.اس کا ذکر ہی نہیں ہوا.میں نے عرض کی کہ آپ کو مطبوعہ سرٹیفیکیٹ ازالہ اوہام اور انجام آتھم میں مل چکا ہے اور خاکسار کو زبانی سرٹیفیکیٹ مل گیا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ہدیہ کی قبولیت اور اس پر خوشنودی کسی کے بس کی بات نہیں.یہ دینے والے کی نیت اور اخلاص پر مبنی ہے.جس میں ہدیہ کی قیمت کا کوئی دخل نہیں.ویسے شیخ رحمت اللہ صاحب
سیرت المہدی 612 حصہ سوم مرحوم حضرت صاحب کے لئے بہت کثرت سے ہدیے لاتے تھے.اور حضرت صاحب ان پر خوش تھے.649 بسم اللہ الرحمن الرحیم مفتی فضل الرحمن صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک دفعہ دورانِ مقدمہ گورداسپور میں رات کے دو بجے کے قریب میں اپنے کمرہ میں سویا ہوا تھا کہ کسی نے میرا پاؤں دبایا.میں فوراً جاگ اُٹھا.اندھیرا تھا.میں نے پوچھا کون ہے؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.میاں فضل الرحمن ! مولوی یار محمد صاحب ابھی قادیان سے آئے ہیں.وہ بتلاتے ہیں.کہ والدہ محمود احمد بہت بیمار ہیں.میں خط لکھتا ہوں.آپ جلدی گھوڑا تیار کریں اور ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب لائیں.چنانچہ میں نے اُٹھ کر کپڑے پہنے.اور گھوڑے کو دانہ دیا.اور حضور السلام اپنے کمرہ میں خط لکھتے رہے.جب میں گھوڑا تیار کر چکا.تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے صبح کی اذان کہی.اور میں خط لیکر گھوڑے پر سوار ہو گیا.اور فوراً قادیان پہنچا.یہاں اس وقت چھوٹی مسجد میں نماز صبح پڑھی جارہی تھی.میں نے گھر پر فور دستک دی اور لفافہ ام الـمـؤمـنيــن عليها السلام کے ہاتھ میں دیا اور عرض کیا کہ مولوی یار محمد صاحب نے وہاں جا کر آپ کی علالت کا ذکر کیا تو حضور نے مجھے فوراً روانہ کیا.انہوں نے کہا کہ الحمد للہ میں تو اچھی بھلی ہوں.ان کو کوئی غلطی لگی ہوگی.میں نے عرض کیا کہ لفافہ میں سے خط آپ نکال لیں اور لفافہ پر مجھے اپنے قلم سے خیریت لکھ دیں.چنانچہ آپ نے خیریت لکھدی.اور میں لیکر فورا واپس ہوا.جب میں گورداسپور پہنچا.تو گھوڑا باندھ کر خط لیکر اندر گیا.تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے فرضوں سے سلام پھیرا تھا.میں نے السلام علیکم کہا.تو حضور اقدس نے فرمایا.کہ کیا آپ ابھی یہیں ہیں میں نے عرض کیا.کہ حضور میں تو جواب بھی لے آیا ہوں.فرمایا.یہ کیسے ممکن ہے.میں نے رسید پیش کی.تو حضرت اقدس اس امر پر تمام دن ہنستے اور متعجب ہوتے رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو واقعات پرانی کتابوں میں جنات کے متعلق پڑھتے تھے.یہ واقعہ اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے.کہ صبح کی اذان کے وقت مفتی صاحب گورداسپور سے چلے اور سولہ سترہ میل کے فاصلہ پر قادیان پہنچے اور پھر اس قدر فاصلہ دوبارہ طے کر کے واپس گورداسپور پہنچ گئے اور ہنوز ابھی صبح کی نماز ختم ہی
سیرت المہدی 613 حصہ سوم ہوئی تھی.یہ درست ہے کہ مفتی صاحب نے جوانی کے عالم میں گھوڑے کو خوب بھگایا ہوگا.اور وہ ماشاء اللہ خوب شاہسوار ہیں.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اذان اور نماز میں اس دن غیر معمولی توقف ہو گیا ہو.یا اذان غلطی سے کسی قدر قبل از وقت دیدی گئی ہو.یا مفتی صاحب ختم نماز سے تھوڑی دیر بعد پہنچے ہوں.مگر انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ بس ابھی نماز ختم ہوئی ہے وغیر ذالک.مگر پھر بھی تینتیں چونتیس میل کے سفر کا اذان اور ختم نماز کے درمیان یا اس کے جلد بعد طے ہو جانا بظاہر نہایت تعجب انگیز ہے.واللہ اعلم.تاہم کوئی بات تعجب انگیز ہوئی ضرور ہے.کیونکہ مفتی صاحب یہ واقعہ متعدد دفعہ سُنا چکے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ میرے سامنے حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی سُنایا تھا.اور حضرت امیر المؤمنین حیرت کا اظہار کر کے خاموش ہو گئے تھے اور خود مفتی صاحب بھی بہت تعجب کیا کرتے ہیں کہ ایسا کیونکر ہو گیا مگر کہا کرتے ہیں کہ واقعہ یہی ہے.اگر کسی قدر اندازے کی غلطی اور کسی قدر یاد کی غلطی اور کسی قدر بیان کی بے احتیاطی کی بھی گنجائش رکھی جائے.تو پھر بھی یہ واقعہ بہت تجب کے قابل ہے.650 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمدابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا.ایک دفعہ ایام جلسہ میں سیر سے واپسی پر جہاں اب مدرسہ تعلیم الاسلام ہے.حضور علیہ السلام تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر گئے.ایک دوست نے چادر بچھا دی جس کو پنجابی میں لوئی کہتے ہیں.اس پر حضور علیہ السلام بیٹھ گئے.مگر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو ابھی بچہ تھے کھڑے رہے اس پر حضور علیہ السلام نے دیکھ کر فرمایا: میاں محمود! تم بھی بیٹھ جاؤ.اس پر آپ چادر پر بیٹھ گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا عام طریق یہ تھا کہ یا تو اپنے بچوں کو صرف نام لے کر بلاتے تھے اور یا خالی میاں کا لفظ کہتے تھے.میاں کے لفظ اور نام کو ملا کر بولنا مجھے یاد نہیں مگر ممکن ہے کسی موقعہ پر ایسا بھی کہا ہو.651 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ فلاں غیر احمدی مولوی حضرت رض
سیرت المہدی 614 حصہ سوم صاحبزادہ صاحب ( یعنی حضرت امیر المومنین خلیفة المسح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے مضامین رسالہ تشید الا ذہان میں پڑھ کر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب کے بعد ان کا بیٹا ان کی دکان چلائے گا.حضور علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف نظر اٹھا کر صرف دیکھا اور زبانی کچھ نہ فرمایا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دعافرما رہے ہیں.652 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاجاموں میں میں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور ازار بند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا.ریشمی ازار بند کے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اور جلدی جلدی آتا ہے تو ایسے ازار بند کے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے.653 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ حکیم فضل دین صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے قرآن پڑھایا کریں آپ نے فرمایا اچھاوہ چاشت کے قریب مسجد مبارک میں آجاتے اور حضرت صاحب ان کو قرآن مجید کا ترجمہ تھوڑ اسا پڑھا دیا کرتے تھے یہ سلسلہ چند روز ہی جاری رہا پھر بند ہو گیا.عام درس نہ تھا صرف سادہ ترجمہ پڑھاتے تھے.یہ ابتدائی زمانہ مسیحیت کا واقعہ ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی طریق پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کو بھی کچھ حصہ قرآن شریف کا پڑھایا تھا.654 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی وجہ سے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نماز نہ پڑھا سکے.حضرت خلیفہ اسی اوّل ” بھی موجود نہ تھے.تو حضرت صاحب نے حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو نماز پڑھانے کے لئے ارشاد فرمایا.انہوں نے عرض کیا کہ حضور تو جانتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا مرض ہے اور ہر وقت ریح خارج ہوتی رہتی ہے.میں نماز کس طرح سے پڑھاؤں؟ حضور نے فرمایا حکیم صاحب آپ کی اپنی نماز باوجود اس تکلیف کے ہو جاتی ہے یا
سیرت المہدی 615 حصہ سوم نہیں؟ انہوں نے عرض کیا.ہاں حضور.فرمایا کہ پھر ہماری بھی ہو جائے گی.آپ پڑھائیے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اخراج ریح جو کثرت کے ساتھ جاری رہتا ہو، نواقض وضو میں نہیں سمجھا جاتا.655 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سل دق کے مریض کے لئے ایک گولی بنائی تھی.اس میں کو نین اور کافور کے علاوہ افیون.بھنگ اور دھتورہ وغیرہ زہریلی ادویہ بھی داخل کی تھیں اور فرمایا کرتے تھے کہ دوا کے طور پر علاج کے لئے اور جان بچانے کے لئے ممنوع چیز بھی جائز ہو جاتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ شراب کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ تھا.کہ ڈاکٹر یا طبیب اگر دوائی کے طور پر دے تو جائز ہے.مگر باوجود اس کے آپ نے اپنے پڑدادا مرزا گل محمد صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں ان کی مرض الموت میں کسی طبیب نے شراب بتائی.مگر انہوں نے انکار کیا اور حضرت صاحب نے اس موقعہ پر ان کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے موت کو شراب پر ترجیح دی.اس سے معلوم ہوا.کہ فتویٰ اور ہے اور تقوی اور.656 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کر کے جب واپس گھر تشریف لائے.تو حضرت میاں صاحب سے (خليفة المسيح الثاني ایدہ اللہ تعالیٰ جن کی عمر اس وقت ۱۰-۱۲ سال کی ہوگی.پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی.میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا.تو حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یا درکھا ہے.657 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے.ایک شخص نے آیت شریفہ اَوَمَنُ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ (الانعام: ۱۲۳) الخ کا مطلب حضور علیہ السلام سے دریافت کیا.مرزا یعقوب
سیرت المہدی 616 حصہ سوم بیگ صاحب بھی اس وقت پاس موجود تھے.انہوں نے اس شخص سے کہا کہ حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ اول) سے اس آیت کا مطلب پوچھ لینا.اس نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کر کے کہا.کہ میں تو صرف حضرت صاحب کا ہی مرید ہوں اور کسی کا نہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے تبسم فرما کر فرمایا کہ ہر شخص کا مذاق علیحدہ ہوتا ہے.اور پھر اس آیت شریفہ کے معنے بیان فرمائے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے اپنی طرف سے یہ خیال کر کے اس شخص کو روکا ہو گا.کہ ایسی معمولی بات کے لئے حضرت صاحب کو تکلیف نہیں دینی چاہئے.مگر حضرت صاحب نے اس کی دلداری کے لئے اس کی طرف توجہ فرمائی.اور ویسے بھی جبکہ ایک قرآنی آیت کے معنی کا سوال تھا تو آپ نے مناسب خیال فرمایا کہ خود اس کی تشریح فرما دیں.ویسے عام فقہی مسائل میں حضرت صاحب کا یہی طریق ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص کوئی مسئلہ پوچھتا تھا تو آپ فرما دیتے تھے کہ مولوی صاحب سے پوچھ لیں یا مولوی صاحب پاس ہوتے تو خود انہیں فرما دیتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کیسے ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو لوگ خلافت ثانیہ کے موقعہ پرٹھوکر کھا گئے.ان میں میرے خیال میں دو شخص ایسے تھے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ سے بہت محبت تھی اور آپ بھی ان سے محبت فرماتے تھے.ایک مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم اور دوسرے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم.مگر افسوس کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر انہیں ٹھوکر لگ گئی.658 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی.کہ عبداللہ چکڑالوی مجھے کہتا تھا.کہ آیت كُلُّ شَيْ ءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص: ۸۹) سے ثابت ہے کہ روحیں فنا ہو جاتی ہیں اور کہیں آتی جاتی نہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا.کہ اس کے معنے تو یہ ہیں.کہ ہر شے معرض ہلاکت اور فنا میں ہے سوائے خدا کی توجہ اور حفاظت کے یعنی كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا بِوَجْهِہ.پھر فرمایا.اگر رُوحوں کو بقا ہے تو وہ بھی خدا کی موهبت ہے اور اگر ایک آن کے لئے کسی وقت ان پر فنا آجائے تو بھی کوئی حرج نہیں.
سیرت المہدی 617 حصہ سوم 659 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب او جلوی نے بیان کیا کہ میں ۱۸۹۰ء کے قریب موضع جگت پور کولیاں تحصیل گورداسپور میں پٹواری تھا.91ء میں کوشش کر کے میں نے اپنی تبدیلی موضع سیکھواں تحصیل گورداسپور میں کروالی.اس وقت میں احمدی نہیں تھا.لیکن حضرت صاحب کا ذکر سُنا ہوا تھا.مخالفت تو نہیں تھی.لیکن زیادہ تر یہ خیال روک ہوتا تھا کہ علماء سب حضرت صاحب کے مخالف ہیں.سیکھواں جا کر میری واقفیت میاں جمال الدین و امام الدین و خیر الدین صاحبان سے ہوئی.انہوں نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ازالہ اوہام پڑھنے کے لئے دی.میں نے دعا کرنے کے بعد کتاب پڑھنی شروع کی.اس کے پڑھتے پڑھتے میرے دل میں حضرت صاحب کی صداقت میخ کی طرح گڑ گئی اور سب شکوک رفع ہو گئے.اس کے چند روز بعد میں میاں خیر الدین کے ساتھ قادیان گیا تو گول کمرے کے قریب پہلی دفعہ حضرت صاحب کی زیارت کی.حضرت صاحب کو دیکھ کر میں نے میاں خیر دین صاحب کو کہا کہ یہ شکل جھوٹوں والی نہیں ہے.چنانچہ میں نے بیعت کر لی.بیعت کرنے کے بعد کثرت سے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا.اور شاذ و نادر ہی کبھی کوئی دن گزرتا تھا کہ میں مع میاں جمال الدین وغیرہ قادیان نہ آتا.ورنہ ہر روز قادیان آنا ہمارا معمول تھا.اگر کبھی عشاء کے وقت بھی قادیان آنے کا خیال آتا تو اسی وقت ہم چاروں چل پڑتے اور باوجو د سردیوں کے موسم کے نہر میں سے گزر کر قادیان پہنچ جاتے.اگر ہم میں سے کوئی کسی روز کسی مجبوری کی وجہ سے قادیان نہ پہنچ سکتا.تو باقی پہنچ جاتے.اور واپس جا کر غیر حاضر کوسب باتیں سُنا دیتے.میں حضرت صاحب کے قریب سب سفروں میں حضرت کے ہمراہ رہا ہوں.مثلاً جہلم.سیالکوٹ.لاہور.گورداسپور.پٹھانکوٹ وغیرہ ، چنانچہ حضرت خلیفہ مسیح اول میرے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ معلوم نہیں میاں عبد العزیز ملازمت کا کام کس وقت کرتے ہیں.کیونکہ ہمیشہ قادیان میں ہی نظر آتے ہیں.660 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے اور احاطہ کچہری میں جامن کے درختوں کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے.کہ شیخ علی احمد صاحب وکیل و مولوی محمد حسین صاحب ریڈر اور ایک
سیرت المہدی 618 حصہ سوم اور شخص جس کا نام مجھے یاد نہیں.حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ آپ اس مقدمہ میں راضی نامہ کر لیں.حضرت صاحب نے فرمایا.میری طرف سے راضی نامہ کیا معنی رکھتا ہے.یہ تو کرم دین کا کام ہے جس نے دعوی کیا ہوا ہے.ان لوگوں کے بار بار کہنے کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا.کہ میں تو جو کچھ کر رہا ہوں.خدا کے فرمانے کے مطابق کر رہا ہوں.اور خدا مجھ سے اسی طرح باتیں کرتا ہے جس طرح کہ اس وقت میں آپ سے باتیں کر رہا ہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ کسی لڑائی کی ابتداء اپنی طرف سے نہیں کرتے.لیکن جب دوسرے کی طرف سے ابتداء ہوتی ہے تو پھر وہ صلح کے لئے بھی اپنی طرف سے ابتداء نہیں کرتے.جب تک دوسرا فریق اس کے لئے خود نہ جھکے.661 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ محمد ابراہیم صاحب محلہ دارالفضل قادیان نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کا دن تھا.آدمیوں کی کثرت تھی.میں حضرت صاحب سے بہت دُور فاصلہ پر تھا.حضور لوگوں سے مصافحہ کر رہے تھے.میں نے بھی چاہا کہ حضور سے مصافحہ کروں مگر آدمیوں کی بھیڑ تھی.حضور نے مجھے دیکھ کر فرمایا.کہ حافظ صاحب! یہیں ٹھہرو میں آتا ہوں.حضور میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے مصافحہ کیا.اور اکثر حضور علیہ السّلام، السلام علیکم پہلے کہا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حافظ صاحب آنکھوں سے نابینا ہیں اور پرانے اور مخلص صحابہ میں سے ہیں.ایک دفعہ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ حضرت صاحب کو اس مکان کے راستے سے ملنے کے لئے گئے تھے.جس میں آج کل میں رہتا ہوں.اس وقت نہ معلوم کس مصلحت سے حضرت صاحب نے حافظ صاحب سے فارسی زبان میں گفتگو فرمائی تھی.662 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ محمد ابراہیم صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب میں پہلی دفعہ ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملا ہوں تو حضور سیر کو جارہے تھے.اس
سیرت المہدی 619 حصہ سوم وقت آپ نے فرمایا.کہ مجھے آج الہام ہوا ہے.حَربًا مُهَيَّجا، جس کے معنے ہیں کہ لڑائی کے لئے تیاری کر و.حضور جب سیر سے واپس تشریف لائے اور بعد میں ظہر کی نماز کے لئے آئے.تو اس وقت آپ کے ہاتھ میں اشتہار تھا.آپ نے فرمایا.کہ یہ اشتہارا بھی آریوں کی طرف سے آیا ہے.جس میں بہت گالیاں لکھی ہوئی ہیں.اور اس میں یہ بات بھی لکھی ہوئی تھی کہ اگر ہم سے مناظرہ و مباحثہ نہ کرو گے تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا مذہب جھوٹا ہے.اور تمہارے پاس کوئی سچائی نہیں ہے.اکثر دفعہ ایسا ہوتا تھا.کہ حضور صبح کو کوئی الہام سُناتے تھے.اور معا اس کا ظہور ہو جاتا تھا.میں جب سے حضور کے پاس آیا ہوں.کبھی حضور نے بارش کے لئے دُعا نہیں کی.بلکہ جب کبھی بارش کی ضرورت ہوتی تو آپ فرماتے اب تو سخت گرمی ہے اور بارش کی ضرورت ہے اسی دن چند گھنٹے بعد بارش ہونی شروع ہو جاتی.اور اس کے بعد اس موسم میں پھر کبھی گرمی کی نوبت نہ پہنچتی.ایک دو دن کا وقفہ کر کے پھر بارش ہو جایا کرتی.663 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے.664 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام فرماتے تھے.کہ انبیاء کے لئے عصمت ہے.وہ ہمیشہ گناہ سے پاک ہوتے ہیں.مگر چونکہ وہ دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ ہیں.تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور دوسرے لوگ بھی گناہوں سے پاک ہو سکتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے حفاظت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.انبیاء گناہ سے معصوم ہوتے ہیں.اور انبیاء کے سوا اور لوگ جو اتنی ترقی کر لیتے ہیں کہ گناہ کرنے سے بکنی آزاد اور پاک ہو جاتے ہیں.ان کو محفوظ کہا جاتا ہے.665 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خان مرتد بڑا خواب بین شخص تھا.اس کے دماغ کی بناوٹ ہی ایسی تھی.کہ ذرا اونگھ آئی اور خواب آیا یا الہام ہوا.وہ یا تو ابتداء زمانہ طالب علمی میں قادیان آیا کرتا تھا.یا پھر ایک مدت دراز کے بعد لمبی رخصت لے کر حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب کو الہام کے الفاظ اور تاریخ کے بارہ میں غلطی لگی ہے کا پی الہامات حضرت مسیح موعود صفحہ 5 کے 66 مطابق یہ 8 رفروری 1903ء کا الہام ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں الْحَرْبُ مُهَيَّجَةٌ “ بدر میں 13 فروری 1903ء صفحہ 25 پر یہ الہام ان الفاظ میں شائع ہوا تھا.”حَرُبٌ مُّهَيَّجَةٌ “ (ملاحظہ ہو تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 380 مطبوعہ 2004ء) (نظارت اشاعت )
سیرت المہدی 620 حصہ سوم قادیان آیا اور یہاں وہ حضرت صاحب کو ہر روز مغرب و عشاء کے درمیان اپنی تفسیر سُنایا کرتا تھا اور داد چاہتا تھا.جو جو باتیں اور عقائد اور اعتراض عبد الحکیم خاں نے مرتد ہوتے وقت بیان کئے ہیں وہ سب آجکل غیر مبایعین میں موجود ہیں.دراصل ان لوگوں کو اس نے ہلاک کیا اور خود اس کو اس کی خواب بینی اور بلھی صفات نے ہلاک کیا.چنانچہ ایک دفعہ ان لوگوں نے یہ تجویز پیش کی.کہ ریویو میں حضرت صاحب کا اور احمدیت کی خصوصیات کا ذکر نہ ہو بلکہ عام اسلامی مضامین ہوں تا کہ اشاعت زیادہ ہو.اخبار وطن میں بھی یہ تحریک چھپی تھی.جس پر حضرت صاحب نے نہایت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہمیں چھوڑ کر کیا آپ مُردہ اسلام کو پیش کریں گے؟ عبدالحکیم خاں نے حضور کو لکھا تھا.کہ آپ کا وجود خادمِ اسلام ہے نہ کہ عین اسلام.مگر حضرت صاحب کے اس فقرہ نے اس کی تردید کر دی کہ دراصل آپ کا وجود ہی روح اسلام ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مسئلہ بہت باریک ہے کہ کسی مذہب میں اس مذہب کے لانے والے کے وجود کو کس حد تک اور کس رنگ میں داخل سمجھا جاسکتا ہے.مگر بہر حال یہ ایک مسلّم صداقت ہے کہ نبی کے وجود سے مذہب کو جد انہیں کیا جاسکتا.یہ دونوں باہم اس طرح پروئے ہوئے ہوتے ہیں جس طرح ایک کپڑے کا تانا اور بانا ہوتا ہے جن کے علیحدہ کرنے سے کپڑے کی تار پود بکھر جاتی ہے.بے شک بعض خام طبع موحدین اسے شرک قرار دے سکتے ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال خود شرک میں داخل ہے کہ ایک خدائی فعل کے مقابلہ میں اپنے خیال کو مقدم کیا جائے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خوابوں کا مسئلہ بھی بڑا نازک ہے.کئی خوا میں انسان کی دماغی بناوٹ کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اکثر لوگ ان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.666 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً سجدوں میں لوگوں کو آجکل کی نسبت بہت زیادہ روتے سُنا ہے.رونے کی آواز میں مسجد کے ہر گوشہ سے سُنائی دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے.جس نماز سے پہلے حضرت صاحب کی کوئی خاص تقریر اور نصیحت ہو جاتی تھی.اس نماز میں تو مسجد میں گویا ایک گہرام برپا ہو جاتا تھا.یہاں تک کہ سنگدل سے سنگدل آدمی بھی
سیرت المہدی 621 حصہ سوم متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے.ایک جگہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ دن میں کم از کم ایک دفعہ تو انسان خدا کے حضور رولیا کرے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے لئے خلوت میں بیٹھ کر نعماء الہی کو یاد کرنا اور انبیاء و اولیاء کے حالات اور ان کی قربانیوں کو آنکھوں کے سامنے لانا خوب نسخہ ہے.667 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے حضور کے ساتھ ریل میں سفر کرنے کا اتفاق نصیب ہوا.جیسا کہ عام لوگ ریل میں سوار ہر کر باہر سے آنے والے مسافروں سے ترش روئی کے ساتھ پیش آتے ہیں.اس وقت بھی بعض اصحاب نے یہ رویہ اختیار کیا.ان میں سے یہ ناچیز بھی تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسافر کے لئے جگہ خالی کر دی.اور مجھے یوں مخاطب کیا کہ اخلاق دکھانے کا یہی موقعہ ہے.اس پر میں بہت شرمسار ہوا.یہ آپ کے اخلاق فاضلہ میں سے ایک عام مثال ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنجابی میں ایک بڑی سچی مثل ہے کہ یا راہ پیا جانے یا وا پیا جانے یعنی کسی شخص کے اخلاق کی اصل حالت دو موقعوں پر ظاہر ہوتی ہے یا تو سفر میں جبکہ اکثر صورتوں میں انسان ننگا ہو جاتا ہے اور یا جب کسی شخص کے ساتھ معاملہ پڑے تو اس وقت انسان کی اغراض اُسے اصلی صورت میں ظاہر کر دیتی ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اصل اخلاق یہ ہیں کہ خرابی کی طرف کھینچنے والی طاقتیں موجود ہوں اور پھر انسان اچھے اخلاق پر قائم رہے مثلاً خیانت کے موقعے موجود ہوں اور پھر انسان دیانتدار رہے.ورنہ عام حالات میں تو ہر شخص دیانتدار نظر آتا ہے.ریل میں بھی یہی صورت پیش آتی ہے.کہ چونکہ جگہ کی تنگی ہوتی ہے.اس لئے لوگ اپنے آرام کی خاطر دوسرے مسافروں کے آنے پر بداخلاقی دکھاتے ہیں.حالانکہ یہی اخلاق دکھانے کا موقعہ ہوتا ہے ورنہ کھلی جگہ کے ہوتے ہوئے دوسروں کی آؤ بھگت کرنا کوئی اعلیٰ خلق نہیں.668 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ محمد ابراہیم صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان
سیرت المہدی 622 حصہ سوم کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خاص کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ کمرہ بھی چھوٹا تھا اور ہماری جماعت کے اکثر معزز لوگ حضور سے خاص مشورہ کے لئے آئے ہوئے تھے.میں بھی ملاقات کی غرض سے گیا.جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں جوتے ایک طرف کر کے جگہ بنانے لگا.حضور نے مجھے دیکھا اور فرمایا کہ آپ آگے آجائیے ، جگہ میرے پاس موجود ہے.اگر چہ جگہ بہت تنگ تھی.مگر حضور کے الفاظ سُن کر لوگ خود پیچھے ہٹنے شروع ہو گئے اور حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا.669 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ محمدابراہیم صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب میری پہلی بیوی فوت ہو گئی.تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کے لئے عرض کیا.آپ نے فرمایا.میں دعا کروں گا.بعض دوستوں نے کہا.کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہئے کہ حضور آپ کے لئے رشتہ کا انتظام فرماویں.میں نے جواب دیا کہ میں نے دعا کے لئے عرض کر دیا ہے.انشاء اللہ آسمان سے ہی انتظام ہو جائے گا.ابھی ہیں دن گزرے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس گجرات کے ضلع سے ایک خط آیا.کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ اگر رشتہ کی ضرورت ہو تو ایک رشتہ موجود ہے.حضرت مولوی صاحب نے بغیر میرے پوچھنے کے اپنی طرف سے خط لکھدیا کہ ہم کو منظور ہے اور مجھے فرمانے لگے کہ آپ کی شادی کا انتظام ہو گیا ہے.میں نے پوچھا.حضور کہاں.فرمایا.آپ کو اس سے کیا؟ آخر وہ معاملہ جناب الہی نے نہایت خیر وخوبی سے تکمیل کو پہنچایا اور ہمارے لئے نہایب با برکت ثابت ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو حافظ صاحب کی اطلاع کے بغیر از خودرشتہ طے کر لیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ حافظ صاحب کو آپ کا ہر فیصلہ منظور ہوگا.ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بالغ مرد کی رضامندی کے بغیر بھی رشتہ ہوسکتا ہے.یہ ایک خاص تعلق کا اظہار تھا.670 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نماز استسقاء ہوئی تھی.یہ نماز اس بڑ کے درخت کے نیچے ہوئی تھی جہاں
سیرت المہدی 623 حصہ سوم گذشتہ سالوں میں جلسہ گاہ مستورات تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس بڑ کے نیچے اور اس کے ساتھ والے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی دفعہ عید بھی ہوئی تھی.اور جنازے بھی اکثر یہیں ہوا کرتے تھے.اس طرح یہ بڑبھی گویا ہماری ایک ملتی یادگار ہے.یہ بڑ اس راستہ پر پل کے قریب ہے جو قادیان کی پرانی آبادی سے دارالانوار کی طرف کو جاتا ہے.6671 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے کہا کہ آپ اسلام پر ایک پبلک لیکچر دیں.چنانچہ مولوی صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ میں نے اپنے اس زمانہ کے علم کے مطابق بڑے زورشور سے لیکچر دیا اور حضرت صاحب بھی اس میں شریک ہوئے.مولوی صاحب فرماتے تھے.کہ اس وقت تک میں نے ابھی بیعت نہ کی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے حضرت صاحب سے قدیم تعلقات تھے جو غالبا حضرت خلیفہ اول کے واسطہ سے قائم ہوئے تھے.مگر مولوی صاحب موصوف نے بیعت کچھ عرصہ بعد کی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جماعت کے بہترین مقررین میں سے تھے.اور آواز کی غیر معمولی بلندی اور خوش الحانی کے علاوہ ان کی زبان میں غیر معمولی فصاحت اور طاقت تھی جو سامعین کو مسحور کر لیتی تھی.672 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا.اعتکاف نہیں کیا.زکوۃ نہیں دی تسبیح نہیں رکھی.میرے سامنے ضَبُ یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا.صدقہ نہیں کھایا.زکوۃ نہیں کھائی.صرف نذرانہ اور ہد یہ قبول فرماتے تھے.پیروں کی طرح مصلی اور خرقہ نہیں رکھا.رائج الوقت درود و وظائف ( مثلاً پنج سورہ.دعائے گنج العرش.درود تاج حزب البحر.دعائے سریانی وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے.
سیرت المہدی 624 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں آپ کے لئے مالی لحاظ سے انتظام نہیں تھا.کیونکہ ساری جائداد وغیرہ اوائل میں ہمارے دادا صاحب کے ہاتھ میں تھی اور بعد میں تایا صاحب کا انتظام رہا.اور اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ ایک تو آپ جہاد کے کام میں منہمک رہے.دوسرے آپ کے لئے حج کا راستہ بھی مخدوش تھا.تا ہم آپ کی خواہش رہتی تھی کہ حج کریں.چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کے بعد آپ کی طرف سے حج بدل کروا دیا.اعتکاف ماموریت کے زمانہ سے قبل غالباً بیٹھے ہوں گے مگر ماموریت کے بعد بوجہ قلمی جہاد اور دیگر مصروفیت کے نہیں بیٹھ سکے.کیونکہ یہ نیکیاں اعتکاف سے مقدم ہیں.اور زکوۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے.البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیور پر زکوۃ دیتی رہی ہیں اور تسبیح اور رسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے.673 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میں مائی اور پیا تھا.اسی وجہ سے پہلی رات کا چاند نہ دیکھ سکتے تھے.مگر نزدیک سے آخر عمر تک باریک حروف بھی پڑھ لیتے تھے.اور عینک کی حاجت محسوس نہیں کی.اور وراثہ آنکھوں کی یہ حالت حضرت صاحب کی تمام اولا دمیں آئی ہے کہ دُور کی نظر کمزور ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ کبھی رمضان یا عید میں پہلی رات کا چاند دیکھنا ہوتا تھا تو آپ کسی دوست کی عینک منگا کر دیکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے.674 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز حضرت صاحب مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے ہوئے کچھ گفتگو فرمارہے تھے.ان دنوں قادیان میں طاعون شروع تھا.بعض لوگوں نے جو قادیان کے گھمار وغیرہ تھے، آکر بیعت کر لی.تو میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے کہا." الْأَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا “ (التوبه: ۹۷) کہ اعرابی ایسے ویسے ہی ہوتے ہیں یعنی ان لوگوں کو کوئی سمجھ نہیں ہوتی.ڈر کے مارے یا دیکھا دیکھی بیعت کر لیتے ہیں اور دل میں ایمان نہیں ہوتا.حضرت صاحب نے میر صاحب کے جب یہ الفاظ سنے.تو فرمایا.میر صاحب! سب لوگ
سیرت المہدی 625 حصہ سوم یکساں نہیں ہوتے.جیسے مثلاً سیکھواں والے ہیں.اس طرح حضور نے ہم تینوں بھائیوں کو اس طبقہ سے مستثنے کر دیا.جو ہماری انتہائی خوشی کا باعث ہوا.چکی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی روایت میاں خیر دین صاحب کی زبانی نمبر ۶۳۷ کے ماتحت بھی گذر 675 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ رعلیہ السلام نے ایک دن فرمایا.کہ جس طرح بلی کو چوہوں کے ساتھ ایک طبعی مناسبت ہے کہ جس وقت دیکھتی ہے حملہ کرتی ہے.اسی طرح مسیح کو دجال کے ساتھ طبعی نفرت ہے کہ جس وقت دیکھتا ہے حملہ کرتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے دل میں اس زمانہ کی مادیت اور دہریت کے خلاف کس قدر جوش تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہاں بلی چوہے کی مثال صرف ایک خاص رنگ کی کیفیت کے اظہار کے لئے بیان کی گئی ہے.ورنہ اصل امر سے اس مثال کو کوئی تعلق نہیں.وَقَالَ اللهُ تَعَالَى : - إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيَ اَنْ يَضُرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا (البقرة: ۲۷) 676 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے جالندھری نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۹۱-۱۸۹۰ء تھا جب میں پہلی مرتبہ قادیان حاضر ہوا.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ فتح اسلام کی پہلی کاپی کے پروف دیکھ رہے تھے.میں ابھی بچہ ہی تھا آپ نے میرے دائیں ہاتھ کی کلائی پکڑ کر میری بیعت قبول فرمائی اور الفاظ بیعت بھی اس وقت بعد کے الفاظ سے مختلف تھے.جن میں سے ایک فقرہ یاد رہ گیا.کہ میں منہیات سے بچتا رہوں گا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ماسٹر صاحب موصوف سکھ سے مسلمان ہوئے ہیں.اور خدا کے فضل سے تبلیغ کے نہایت دلدادہ ہیں.ابھی گذشتہ ایام میں انہیں اس بات کے لئے جیل خانہ میں جانا پڑا کہ انہوں نے باوا نا تک صاحب کو مسلمان لکھا تھا.مگر انہوں نے اس تکلیف کو نہایت بشاشت اور خوشی سے برداشت کیا.
سیرت المہدی 626 حصہ سوم 677 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی.اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کے قریب میں نے چند نو مسلموں کی طرف سے دستخط کروا کر ایک اشتہار شائع کیا.جس کا عنوان ” قادیان اور آریہ سماج تھا.اس اشتہار سے پنجاب میں شور پڑ گیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.” حَربًا مُّهَيَّجا یعنی جنگ کو جوش دیا گیا ہے.اس پر قادیان کے آریوں نے بھی جلسہ کیا.اس کے جواب میں حضرت صاحب نے اپنی کتاب «نسیم دعوت “ تالیف فرمائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کا ذکر روایت نمبر ۶۶۲ میں بھی ہو چکا ہے.678 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال نے مجھ سے بیان کیا کہ جب بچپن میں قادیان میں میری آمد ورفت شروع ہوئی تو میں مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام قادر صاحب کو تو خوب جانتا تھا اور ان سے ملتا تھا.مگر حضرت صاحب کو نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ گوشہ نشین تھے.صرف مسجد میں نماز کے لئے جاتے تھے.والا کبھی نظر نہیں آتے تھے.کمرہ بند رکھ کر اس کے اندر رہتے تھے.میں نے پہلی دفعہ حضرت صاحب کو اس وقت دیکھا.جب میں ایک دفعہ گھر سے دادا صاحب یعنی مرزا غلام مرتضے صاحب کا کھانا لایا.اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب سیڑھیوں سے چڑھ کر اپنے کمرہ میں چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا.میں نے تعجب کیا کہ یہ کون شخص ہے.اس پر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہے.تو بتایا گیا کہ دادا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے.نیز مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ دادا صاحب کی وفات کے وقت میری عمر گیارہ سال کی تھی.679 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب میں نے حضرت صاحب کو پہلے دن دیکھا تو مجھے آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا.سو دوسرے دن غالبا جب ظہر کی نماز پڑھ کر حضرت صاحب گھر آئے اور کمرہ میں جانے لگے.تو میں پیچھے ہولیا.اور جب کمرہ کا دروازہ بند کرنے لگے.میں نے اس کے اندر ہاتھ دیدیا.آپ نے مجھ سے پوچھا.کیوں بھئی کیا کام ہے؟ میں نے کہا.صرف ملنا ہے.فرمایا.اچھا آجاؤ.چنانچہ میں کمرہ میں چلا گیا اور حضرت صاحب نے دروازہ بند کر لیا.اس الہام کے الفاظ کے سلسلہ میں ملاحظہ ہونوٹ زمیر روایت نمبر ۶۶۲
سیرت المہدی 627 حصہ سوم حضرت صاحب نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں مرزا نظام الدین صاحب کا پھوپھی زاد بھائی اور مرز انتھا بیگ صاحب کا بیٹا لنگر وال سے ہوں.اس پر حضرت نے مجھے پہچان لیا.اس کے بعد میں آپ کے پاس آنے جانے لگا.اور آپ کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے لگ گیا.پھر اس کے بعد حضرت صاحب کا کھانا بھی میں ہی اندر سے لاتا اور کھلاتا تھا.گھر میں سب کھانے کا انتظام والدہ صاحبہ مرزا سلطان احمد صاحب کے سپر د تھا.اس کے قبل حضرت صاحب نے ایک چھکا رکھا ہوتا تھا.جس میں کھانا وغیرہ رکھدیا جاتا تھا اور حضرت صاحب اُسے اوپر چوبارہ میں کھینچ لیتے تھے.اس طرح میری حضرت صاحب کے ساتھ بہت محبت ہوگئی اور حضرت صاحب نے مجھے فرمایا.تم میرے پاس ہی سو رہا کرو اور بعض دفعہ میں کھانے میں بھی شریک ہو جاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا دین محمد صاحب کی ہمشیرہ مرزا نظام الدین صاحب کے عقد میں تھیں.یہ شادی بہت پرانی تھی.یعنی مرزا دین محمد صاحب کے ہوش سے قبل ہوئی تھی.مرزا دین محمد صاحب کی سگی پھوپھی مرزا غلام محی الدین صاحب کے گھر تھیں.گویا مرزا نظام الدین صاحب مرزا دین محمد صاحب کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے.680 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں میری آمد و رفت حضرت صاحب کے پاس ہوئی.ان ایام میں حضرت صاحب اپنے موروثیوں وغیرہ کے ساتھ مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے.کیونکہ دادا صاحب نے یہ کام آپ کے سپرد کیا ہوا تھا.تایا صاحب باہر ملازم تھے.جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے.جب گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر مجھے سوار کر دیتے تھے.خود آگے آگے پیدل چلے جاتے.نوکر نے گھوڑا پکڑا ہوا ہوتا تھا.کبھی آپ بٹالہ کے راستہ والے موڑ پر سوار ہو جاتے اور کبھی نہر پر.مگر اس وقت مجھے اتارتے نہ تھے.بلکہ فرماتے تھے کہ تم بیٹھے رہو.میں آگے سوار ہو جاؤ نگا.اس طرح ہم بٹالہ پہنچتے.ان ایام میں بٹالہ میں حضرت صاحب کے خاندان کا ایک بڑا مکان تھا.یہ مکان یہاں محلہ اچری دروازے میں تھا.اُس میں آپ ٹھہرتے تھے.اس مکان میں ایک جولاہا حفاظت کے لئے رکھا ہوا تھا.مکان کے چوبارہ میں آپ رہتے تھے.شام کو اپنے کھانے
سیرت المہدی 628 حصہ سوم کے لئے مجھے دو پیسے دیدیتے تھے.ان دنوں میں بھٹیاری جھیوری کی دکان سے دو پیسے میں دوروٹی اور دال مل جاتی تھی.وہ روٹیاں میں لا کر حضرت صاحب کے آگے رکھ دیتا تھا.آپ ایک روٹی کی چوتھائی یا اس سے کم کھاتے.باقی مجھے کہتے کہ اس جولا ہے کو بلاؤ.اسے دیدیتے اور مجھے میرے کھانے لئے چار آنہ دیتے تھے اور سائیں کو دو آنہ دیتے تھے.اس وقت نرخ گندم کا روپیہ سوا رو پید فی من تھا.بعض دفعہ جب تحصیل میں تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے.جب تین یا چار بجتے تو تحصیل سے باہر آتے تو مجھے بلا کر ایک روٹی کھانے کے ناشتہ کے لئے دیدیتے اور خود آپ اس وقت کچھ نہ کھاتے تحصیل کے سامنے کنوئیں پر وضو کر کے نماز پڑھتے اور پھر تحصیلدار کے پاس چلے جاتے اور جب کچہری برخاست ہو جاتی تو واپس چلے آتے.جب بٹالہ سے روانہ ہوتے تو پھر بھی مجھے سارا رستہ سوار رکھتے.خود کبھی سوار ہوتے اور کبھی پیدل چلتے.پیشاب کی کثرت تھی.اس لئے گاہے بگا ہے ٹھہر کر پیشاب کرتے تھے.681 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتداء میں میں نے حضرت صاحب سے بھی کچھ پڑھا ہے.ایک فارسی کی کتاب تھی.وہ پڑھی تھی.لالہ ملا وامل.شرم پت اور کشن سنگھ بھی پڑھتے تھے.ملا وامل وشرم پت حکمت پڑھتے تھے اور کشن سنگھ قانون کی کتاب پڑھتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ ملا وامل اور لالہ شرم پت کا ذکر حضرت صاحب کی اکثر کتابوں میں آچکا ہے اور کشن سنگھ قادیان کا ایک باشندہ تھا جو سکھ مذہب کو بدل کر آریہ ہو گیا تھا.مگر کیس رہنے دیئے تھے.اس لئے اُسے لوگ کیسوں والا آریہ کہتے تھے.اب ان تینوں میں سے صرف لالہ ملا وامل زندہ ہیں.محرره ۱۰/۱۰/۳۸ 682 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمد و رفت اچھی طرح ہوگئی اور میں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا.تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کر کے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی
سیرت المہدی 629 حصہ سوم استخارہ کراتے تھے.استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے " يَا خَبِیرُ اخْبِرُنِي “ پڑھا کرو.اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو.میں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوا ہیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آ کر اطلاع دیتا تھا.پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور میں سب کو جا کر اطلاع دیتا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا غلام مرتضے صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے.مرز اغلام مرتضے صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے.اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا.اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولا د میں سے صرف مرزا اگل محمد ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دیئے ہوں گے.683 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقع بٹالہ پر تشریف فرما تھے.میں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا.کھانے کا وقت ہوا.تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے.حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں.مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھا.ابتداء میں مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زاہدانہ زندگی کی وجہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس قسم کے واقعات دوسرے لوگوں سے بھی سُنے ہیں کہ دعویٰ سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور اس طرح پیش آتے تھے جس طرح انہیں آپ کے ساتھ خاص عقیدت ہے.مگر جب مخالفت ہوئی تو اُسے بھی انتہا تک پہنچا دیا.684 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب
سیرت المہدی 630 حصہ سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایا ہوا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی.اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے.حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سرمنڈا ہوا دیکھا تو اُسے ناپسند فرمایا اور آئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت منافق یا یہود کی ہے.مجھے یاد نہیں رہا.کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامتِ منافق یا علامت یہود کونسالفظ فرمایا.مگر آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ضرور نکلے تھے کہ منافق یا یہود.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سرمنڈانا خوارج کی علامت ہے اور اسے نا پسند فرماتے تھے.685 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت اقدس نے مینار کی بنیاد رکھوائی تو اس کے بعد کچھ عمارت بن کر کچھ عرصہ تک مینار بننا بند ہو گیا تھا.اس پر حضور نے ایک اشتہار دیا کہ اگر سو آدمی ایک ایک سو روپیہ دے دیویں تو دس ہزار روپیہ جمع ہو جائے گا اور مینار تیار ہو جائے گا.اور ان دوستوں کے نام مینار پر درج کئے جائینگے ہم تینوں بھائیوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم مع والد یکصد روپیل کر ادا کر سکتے ہیں.اگر حضور منظور فرمائیں.تو حضور نے بڑی خوشی سے منظور فرمایا.اور ہم نے سور و پیدا دا کر دیا.686 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطرات کے وقت ہمیشہ احتیاط کا پہلو مد نظر رکھتے تھے.چنانچہ طاعون کے ایام میں دروازہ پر پہرہ رہتا تھا.کہ دیہات کی ہر کس و ناکس عورت گندے کپڑوں کے ساتھ اندر نہ آنے پائے ( کیونکہ گھی وغیرہ فروخت کرنے کے لئے دیہات کی عورتیں آتی رہتی تھیں) اسی طرح آپ کو شہتیر والا مکان ناپسند تھا اور فرماتے تھے کہ ایسی چھت خطرناک ہوتی ہے.خود اپنی رہائش کے دالان کی چھت جس میں چار شہتیر تھے بدلوا کر صرف کڑیوں والی چھت ڈالوائی تھی.اسی طرح آپ نے لدھیانہ سے دہلی جاتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں
سیرت المہدی 631 حصہ سوم کرنال والی لائن سے سفر کیا.کیونکہ دوسری طرف سے راستہ میں دو دفعہ دریا کائیل آتا تھا.اور ان دنوں میں کچھ حادثات بھی ریلوں کے زیادہ ہوئے تھے.اسی ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے.کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح اول کے بھتیجے نے جو ایک نشہ باز اور خطر ناک آدمی تھا.حضور کو ایک خط تحریر کیا.اور اس میں قتل کی دھمکی دی.کچھ دن بعد وہ خود قادیان آ گیا.آپ نے جب سُنا تو حضرت خلیفہ اول کو تاکیدا کہلا بھیجا کہ اسے فورار خصت کر دیں.چنانچہ مولوی صاحب نے اُس کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لکڑی کے شہتیر ہوتے تھے.جن سے یہ خطرہ ہوتا تھا.کہ اگر شہتیر ٹوٹے تو ساری چھت گر جائے گی.مگر آجکل لوہے کے گاڈر نکل آئے ہیں.جو بہت محفوظ ہوتے ہیں.687 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ارکانِ اسلام میں سب سے زیادہ نماز پر زور دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو“.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنوار کر پڑھنے سے یہ مراد ہے کہ دل لگا کر پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جائے.اور نماز میں خشوع خضوع پیدا کیا جائے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں ایسی کیفیت پیدا کر لے تو وہ گویا ایک مضبوط قلعہ میں آجاتا ہے.688 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹر نی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آ کر حضور کے مکان میں رہی اور حضور کی خدمت کرتی تھی.اس بیچاری کوسل کی بیماری تھی.جب وہ فوت ہوگئی تو اس کا ایک دو پٹہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے یاد دہانی کے لئے بیت الدعا کی کھڑکی کی ایک آہنی سلاخ سے بندھوا دیا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ڈاکٹر نی مرحومہ بہت مخلصہ تھی اور اس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کا اخلاص بھی ترقی کر گیا تھا.689 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریب ۹۳ تک گول
سیرت المہدی 632 حصہ سوم کمرہ ہی مہمان خانہ ہوتا تھا.پھر اس میں پریس آ گیا.جب یہاں مہمان خانہ تھا تو یہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا.اور کا تب بھی اسی جگہ مسودات کی کاپیاں لکھا کرتا تھا اور حضرت صاحب کا ملاقات کا کمرہ بھی یہی تھا.ان دنوں میں مہمان بھی کم ہوا کرتے تھے.۹۵ء میں حضرت والد صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب پنشن لیکر قادیان آگئے اور چونکہ اس وقت پر لیس اور مہمانوں کے لئے فصیل قصبہ کے مقام پر مکانات بن چکے تھے.اس لئے میر صاحب گول کمرہ میں رہنے لگے اور انہوں نے اس کے آگے دیوار روک کر ایک چھوٹا سا صحن بھی بنالیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گول کمرہ اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک کے قریب احمد یہ چوک پر واقع ہے اس کے ماتھے کی دیوار گول ہے.ابتداء زمانہ خلافت میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایده الله نے بھی کئی سال تک اس میں اپنا دفتر رکھا تھا.690 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹرمیر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ جب قادیان کی فصیل کی جگہ پر مکانات بنے تو سب سے پہلے دو بڑے کمرے اور دو کوٹھڑیاں شمالی جانب تعمیر ہوئیں.وہ بڑا کمرہ جواب حضرت خلیفة المسیح الثانی کا موٹر خانہ ہے.یہ ضیاء الاسلام پر یس کے لئے بنا تھا اور اس کے ساتھ کا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا.جس میں حضرت خلیفہ اول مدت العمر مطب کرتے رہے.اس کے ساتھ شمالی جانب دو کوٹھڑیاں بنیں.ایک شرقی جانب جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کتب خانہ رہتا تھا اور دوسری غربی جانب جس میں خاص مہمان ٹھہرا کرتے تھے.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی اور دیگر معزز مہمان ان ایام میں اسی کوٹھڑی میں ٹھہر تے تھے.691 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اپنے خاندانی حالات کا متعدد جگہ ذکر کیا ہے.جن میں سے مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر قابل ذکر ہیں :.(1) كتاب البریه ص۱۳۴ تا ۶۸ ۱ حاشیہ.(۲) ازاله اوهام - باراوّل ص ۱۱۹ تا ۱۳۳ حاشیہ.
سیرت المہدی 633 (۳) آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی - ص ۴۹۸ و ص ۵۴۱ (۴)استفتاء عربی.ص۷۷.(۵)لجة النور-ص۶ تااا.(۶) تریاق القلوب بار اول ص ۳۵ حاشیہ ص ۶۴ و ضمیمہ نمبر ۳ منسلکہ کتاب مذکور.(۷) کشف الغطاء - ص ۲ تا.(۸) شهادت القرآن بار دوم ص ۸۴ تا ۸۸.(۹) تحفہ قیصریہ ص ۴ وص ۱۹،۱۸.(۱۰) ستارہ قیصرہ ص ۳.(۱۱) اشتہار ۱۰.دسمبر ۱۸۹۴ء واشتہار ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء وغیره حصہ سوم 692 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی تو بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضور ہمارا نام بھی اس فہرست میں درج کیا جائے.یہ دیکھ کر ہم کو بھی خیال پیدا ہوا کہ حضور علیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیا ہمارا نام درج ہو گیا ہے یا کہ نہیں.تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کئے ہوئے ہیں.مگر ہمارے ناموں کے آگے "مع اہل بیت“ کے الفاظ بھی زائد کئے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۶،۹۷ء میں تیار کی تھی.اور اسے ضمیمہ انجام آتھم میں درج کیا تھا.احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا.کیونکہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳، اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے.(دیکھو ضمیمه انجام آنقم صفحه ۴۰ تا ۴۵)
سیرت المہدی 634 حصہ سوم 693 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ طاعون دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گی کہ یا تو یہ گناہ کو کھا جائے گی اور یا آدمیوں کو کھا جائے گی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ معنوی رنگ میں طاعون کے اندر وہ دوسرے عذاب بھی شامل ہیں جو خدا کی طرف سے اپنے مسیح کی تائید کے لئے نازل ہوئے یا آئندہ ہوں گے.694 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.بسا اوقات اگر کوئی شخص اس گورنمنٹ کے آگے سچ بولے تو وہ پکڑا جاتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے سامنے سچ بولے تو چھوٹ جاتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی دنیوی اور آسمانی حکومتوں میں یہ ایک بڑا لطیف فرق ہے اور یہ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ دنیوی حکومتیں بسا اوقات جھوٹ کو ترقی دینے والی بن جاتی ہیں حالانکہ آسمانی حکومت جھوٹ کو مٹاتی ہے.695 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی کرم دین جہلمی کے مقدمہ کے دوران میں لالہ آتما رام مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں بعض سوالات کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کرم دین نے اپنے اپنے عقائد بیان کئے تھے.اس بیان کی مصدقہ نقل میرے پاس موجود ہے.جس میں ایک نقشہ کی صورت میں جوابات درج ہیں.یہ جوابات جو بعض اہم مسائل پر مشتمل ہیں.بصورت ذیل ہیں:.عقائدمرزا غلام احمد صاحب قادیانی مستغیث ( یعنی مولوی کرم دین ) کا جواب ا.حضرت عیسے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.ا.عیسے علیہ السلام زندہ ہیں.، ۲.حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے ۲ نہیں تھے اور غشی کی حالت میں زندہ ہی اتار لئے گئے تھے.
سیرت المہدی 635 حصہ سوم.حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر مع جسم عنصری ۳.گئے نہیں گئے.۴.حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نہیں اترینگے ۴.آسمان سے اتریں گے.اگر لڑائی کی اور نہ کسی قوم سے وہ لڑائی کریں گے.ضرورت ہو گی تو لڑائی کریں گے.اگر امن کا زمانہ ہوگا تو نہیں کریں گے.۵.ایسا مہدی کوئی نہیں ہوگا جو دُنیا میں آکر عیسائیوں ۵.مہدی علیہ السلام آئیں گے اور ایسے اور دوسرے مذاہب والوں سے جنگ کرے گا.اور زمانہ میں آئیں گے جب بدامنی اور غیر اسلام اقوام کو قتل کر کے اسلام کو غلبہ دے گا.فساد دنیا میں پھیلا ہو گا.فسادیوں کو مٹا کر امن قائم کریں گے..اس زمانہ میں جہاد کرنا یعنی اسلام پھیلانے کیلئے ۶.اس زمانہ میں برٹش انڈیا میں جہاد کرنا حرام ہے.لڑائی کرنا بالکل حرام ہے.ے.یہ بالکل غلط ہے کہ مسیح موعود آکر صلیبوں کو ۷.یہ مسئلہ بحث طلب ہے توڑتا اور سؤروں کو مارتا پھرے گا.۸.میں مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود اور امام ۸.میں نہیں مانتا.زمان اور مجد دوقت اور ظلی طور پر رسول اور نبی اللہ ہوں اور مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے.مسیح موعود اس امت کے تمام گذشتہ اولیاء سے افضل و مسیح موعود مرزا صاحب نہیں اور نہ وہ ہے.کسی سے افضل ہیں.
سیرت المہدی 636 حصہ سوم ۱۰.مسیح موعود میں خدا نے تمام انبیاء کے صفات اور ۱۰.مرزا صاحب نہ مسیح موعود ہیں.اور نہ فضائل جمع کر دیئے ہیں.ا.کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے.ان میں اوصاف نبوت میں سے کوئی ہیں.الا.بحث طلب ہے.۱۲.مہدی موعود قریش کے خاندان سے نہیں ہونا ۱۲.مہدی موعود قریش کے خاندان سے چاہئے.ہوگا.۱۳.امت محمدیہ کا مسیح اور اسرائیلی مسیح دو الگ الگ شخص ۱۳ مسیح ایک ہی ہے اور وہ اسرائیلی ہے.ہیں اور مسیح محمدی اسرائیلی مسیح سے افضل ہے.۱۴.حضرت عیسی علیہ السلام نے کوئی حقیقی مُردہ زندہ ۱۴.حضرت عیسی علیہ السلام نے مُردے نہیں کیا.زندہ کئے.۱۵.آنحضرت ﷺ کا معراج جسم عصری کے ساتھ ۱۵.آنحضرت کا معراج جسم عنصری کے نہیں ہوا.ساتھ ہوا.۱۶.خدا کی وحی آنحضرت ﷺ کے ساتھ منقطع نہیں ۱۶.منقطع نہیں ہوئی.ہوئی.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ یہ مقدمہ ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور ہوا تھا.نیز خاکسار - عرض کرتا ہے.کہ عدالت کے ان سوالوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو جوابات دیئے ہیں.وہ سب کے سب اہم مسائل پر مشتمل ہیں.اور آپ کے جوابات سے نبوت اور افضلیت بر مسیح ناصری وغیرہ کے مسائل بھی خوب واضح ہو جاتے ہیں.696 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُم الـمـؤمـنـيـن کو اپنے دائیں جانب
سیرت المہدی 637 حصہ سوم بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے.حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے.کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے.ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو.تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.میں نے حضرت اُم المؤمنین سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی.مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا.کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکر آجایا کرتا ہے.اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو.697 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دورہ ہوا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے.اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فور اروزہ توڑ دیا.آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے.698 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ کتا بیں جواکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں.نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے.عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے.بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا.جس میں کاغذ اور کتا بیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے.تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا.اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا.البتہ بسا اوقت ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے اور ا کثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے.699 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مرزا دین محمد صاحب لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی زمانہ میں حافظ معین عرف ما نا حضرت صاحب کے پاس اکثر آیا کرتا تھا.میں جب حضرت صاحب کا کھانا لاتا.تو
سیرت المہدی 638 حصہ سوم آپ اُسے رکھ لیتے اور فرماتے کہ حافظ مانا کے لئے بھی کھانا لاؤ.میں اس کے لئے عام لنگری کھانا ( یعنی زمیندارہ کھانا ) لاتا.جب وہ آجاتا.تو آپ حافظ مانے کو فرماتے کھانا کھاؤ اور خود بھی اپنا کھانا شروع کر دیتے.آپ بہت آہستہ آہستہ اور بہت تھوڑا کھاتے تھے.جب معین الدین اپنا کھانا ختم کر لیتا.تو آپ پوچھتے کہ اور لو گے؟ جس پر وہ کہتا.کہ جی ، ہے تو دیدیں.جس پر آپ اپنا کھانا جو قریباً اسی طرح پڑا ہوتا تھا.اُسے دیدیتے تھے.آپ چوتھائی روٹی سے زیادہ نہیں کھاتے تھے.اور سالن دال بہت کم لگاتے تھے مگر اکثر اوقات سالن دال ملالیا کرتے تھے.اس طرح مانا سب کچھ کھا جاتا تھا.ان ایام میں بالعموم سہ پہر کے بعد آپ مجھے ایک پیسہ دیتے کہ اس کے چنے بھنو الا ؤ.میں بھنو الا تا.پھر تھوڑے سے دانے کھا کر پانی پی لیتے.اور ایک پیسہ کے دانے کئی دن تک کام آتے رہتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ معین الدین جواب کئی سال ہوئے فوت ہو چکا ہے ایک نابینا شخص تھا.مگر نہایت مخلص شخص تھا حضرت صاحب کے پاؤں دبایا کرتا تھا.اور کبھی کبھی حضرت صاحب کو پنجابی شعر بھی سُنایا کرتا تھا.اور گوغریب تھا مگر چندہ بہت باقاعدہ دیتا تھا.700 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کے ایام میں آخری مرحلہ پر خواجہ کمال الدین صاحب نے گورداسپور سے ایک خط حضرت صاحب کے نام دیا اور زبانی بھی کہا کہ یہ عرض کر دینا کہ حکام کی نیت بد ہے.حضور دعا فرمائیں.میں وہ خط لے کر قادیان آگیا.وہ خط حضور نے پڑھ لیا.میں نے زبانی بھی عرض کیا مگر حضور نے کچھ جواب نہ دیا.پھر عرض کی.پھر جواب نہ ملا.پھر تیسری دفعہ عرض کرنے پر مسکرا کر فرمایا.کہ میں ایسے کاموں کے لئے دعا نہیں کرتا.خدا تعالے سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص حالت اور خاص مقام محبت کی بات ہے.ورنہ آپ سے بڑھ کر دعا کس نے کرنی ہے.دراصل آپ کا منشاء یہ تھا کہ میں خدا کے دین کی خدمت میں مصروف ہوں.اگر اس خدمت میں مجھ پر کوئی ذاتی تکلیف وارد ہوتی ہے تو میں اس کے لئے دُعا نہیں کرونگا کیونکہ خدا خود دیکھ رہا ہے.وہ میری حفاظت فرمائے گا اور اگر اس کے منشاء کے ماتحت مجھ پر کوئی تکلیف ہی آنی ہے تو
سیرت المہدی 639 حصہ سوم بے شک آئے میں اس کے برداشت کرنے میں راحت پاؤں گا.701 بسم الله الرحمن الرحیم مینشی عبد العزیز صاحب او جلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۱ء کا ذکر ہے.جبکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گورداسپور میں فوجداری دعوی کیا ہوا تھا اور حضور خانصاحب علی محمد صاحب پنشنر کے مکان متصل مسجد حجاماں میں مقیم تھے.خاکسار اور میاں جمال الدین اور امام الدین و خیر الدین صاحبان ساکنان سیکھواں حضور کے ساتھ تھے.باقی دوست دوسری جگہ ٹھہرے ہوئے تھے.ایک دن حضور کو پیچش کی شکایت ہوگئی.بار بار قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تھے.حضور نے ہمیں سوئے رہنے کے لئے فرمایا جب حضور رفع حاجت کے لئے اُٹھتے تو خاکسار اسی وقت اُٹھ کر پانی کا لوٹا لے کر حضور کے ساتھ جاتا.تمام رات ایسا ہی ہوتا رہا.ہر بار حضور یہی فرماتے کہ تم سوئے رہو.صبح کے وقت حضور نے مجلس میں بیٹھ کر ذکر فرمایا کہ مسیح کے حواریوں اور ہمارے دوستوں میں ایک نمایاں فرق ہے.ایک موقعہ مسیح پر تکلیف کا آتا ہے تو وہ اپنے حواریوں کو جگاتے ہیں.اور کہتے ہیں جاگتے رہو اور دعائیں مانگومگر وہ سو جاتے ہیں.اور بار بار جگاتے ہیں مگر وہ پھر سو جاتے ہیں.لیکن ہم اپنے دوستوں کو بار بار تاکید کرتے ہیں کہ سور ہو.لیکن وہ پھر بھی جاگتے ہیں.چنانچہ خاکسار کا نام لے کر فرمایا.کہ میں نہیں جانتا کہ میاں عبدالعزیز تمام رات سوئے بھی ہیں کہ نہیں.میرے اٹھنے پر فوراً ہوشیاری کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور باوجود میرے بار بار تاکید کرنے کے کہ سوئے رہواُٹھ کھڑے ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح ناصری کا یہ قول سچا ہے اور ضرور سچا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو ہر غیر متعصب شخص کو ماننا پڑے گا.کہ جو شیر میں پھل حضرت مسیح موعود کی صحبت نے پیدا کیا ہے وہ حضرت مسیح ناصری کی صحبت ہرگز پیدا نہیں کر سکی.حضرت مسیح موعود کے انفاس قدسیہ نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ایسی جماعت پیدا کر دی جو آپ کے لئے اپنی جان قربان کر دینے کو سب فخروں سے بڑھ کر فخر مجھتی تھی اور آپ کی ذراسی تکلیف پر اپنا ہر آرام و راحت قربان کر دینے کو تیار تھی.مگر حضرت
سیرت المہدی 640 حصہ سوم مسیح ناصری بارہ آدمیوں کی قلیل جماعت کو بھی سنبھال نہ سکے.اور ان میں سے ایک نے تمہیں روپے لے کر آپ کو پکڑوا دیا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے حفظ امن کا مقدمہ غالباً ۱۸۹۹ء کو ہوا تھا.اس لئے سنہ کے متعلق میاں عبدالعزیز صاحب کو غالباً سہو ہوا ہے.702 بسم الله الرحمن الرحیم منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ گورداسپور میں جناب چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر احمدی تھے.ایک دن دو پہر کے قریب وہ میرے پاس موضع او جلہ میں جو کہ میرا اصل گاؤں ہے تشریف لائے اور مجھ کو علیحدہ کر کے کہا.کہ ابھی ایک تار محکمانہ طور پر امرتسر سے آیا ہے کہ جو وارنٹ مرزا صاحب کی نسبت جاری کیا گیا ہے اس کو فی الحال منسوخ سمجھا جائے.چودھری صاحب نے کہا کہ وارنٹ تو ہمارے پاس ابھی تک کوئی نہیں پہنچا.لیکن ہمارے اس ضلع میں سوائے حضرت صاحب کے مرزا صاحب اور کون ہو سکتا ہے.اس لئے آپ فوراً قادیان جا کر اس بات کی اطلاع حضرت صاحب کو دے آئیں.چنانچہ میں اسی وقت قادیان کی طرف روانہ ہوا.قادیان او جلہ سے کوئی ۷ امیل کے فاصلہ پر ہے.میں سیکھواں سے ہوتا ہوا شام کو یا صبح کو قادیان پہنچا اور حضرت.صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی.لیکن حضرت صاحب نے اس وقت کوئی توجہ نہ فرمائی.عصر کے بعد حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم امرتسر سے آئے اور انہوں نے بھی حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ کسی پادری نے حضور پر امرت سر میں دعوی دائر کیا ہے.جس کی خبر کسی طرح سے انہیں مل گئی ہے.اس بات کوسُن کر حضرت اقدس نے فوراً مجھے بلوایا اور فرمایا کہ آپ کی بات کی تصدیق ہوگئی ہے.فوراً گورداسپور جا کر چودھری رستم علی صاحب سے مفصل حالات دریافت کر کے لاؤ.میاں خیر الدین سیکھوانی بھی اس وقت قادیان میں تھے.میں نے ان کو ساتھ لیا.اور ہم دونوں اسی روز شام کو گورداسپور پہنچ گئے.چودھری رستم علی صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو اس وقت تک اس سے زیادہ علم نہیں ہو سکا.آپ فوراً امرت سر چلے جائیں اور وہاں کے کورٹ انسپکٹر سے جس کا نام پنڈت ہر چرند اس تھا.میرا نام لے کر معاملہ دریافت کریں.چودھری صاحب نے مجھے ریلوے پولیس کے ایک کنسٹیبل کے ہمراہ کر دیا.جو مجھے رات اپنے
سیرت المہدی 641 حصہ سوم پاس رکھ کر اگلے دن صبح پنڈت صاحب کے مکان پر لے گیا.پنڈت صاحب نے مجھے کہا کہ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ایک دن ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے مجھے بلوا کر یہ دریافت کیا تھا کہ اگر مستغیث امرت سرکا رہنے والا ہوا اور ملزم ہوشیار پور کا تو کیا دعویٰ امرت سر میں کیا جاسکتا ہے.اور میں نے جواب دیا تھا.کہ اگر وقوعہ بھی ہوشیار پور کا ہے تو دعوی بھی وہیں کیا جا سکتا ہے.چنانچہ ہر دو صاحب میرے ساتھ اس امر میں بحث بھی کرتے رہے.پنڈت صاحب نے نائب کورٹ کو بھی بلا کر دریافت کیا لیکن اس نے بھی کوئی اطلاع نہ دی.میں اتنی خبر لے کر گورداسپور آیا اور چودھری رستم علی صاحب کو بتایا.انہوں نے کہا.کہ حضرت اقدس کی خدمت میں اسی طرح جا کر عرض کر دو.چنانچہ میں اور میاں خیر الدین صاحب اسی وقت قادیان آئے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا.جب ہم قادیان کے لئے چل پڑے.تو اسی روز امرت سر سے حکم آیا کہ مارٹن کلارک نے جو استغاثہ زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری امرت سر میں دائر کیا ہے اور جس کا وارنٹ پہلے بھیجا جا چکا ہے.جس وارنٹ کے روکنے کے لئے تار بھی دی گئی تھی.وہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں تبدیل کیا جاتا ہے.گورداسپور سے اسی روز حضرت صاحب کو نوٹس جاری کر دیا گیا کہ اگلے روز ڈپٹی کمشنر کا مقام بٹالہ میں ہوگا اور وہیں آپ پیش ہوں.چودھری رستم علی صاحب نے اس حکم کے جاری ہونے سے پہلے موضع او جلہ میں آکر منشی عبد الغنی صاحب نقل نویس گورداسپور کو جو میرے چھوٹے بھائی ہیں اور اُس وقت سکول میں تعلیم پارہے تھے.ایک خط اس مضمون کا لکھوا کر دیا.کہ کل بٹالہ میں حضور کی پیشی ہے.اس کا انتظام کر لینا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ مولوی رسول بخش کی طرح موقعہ دیا جائے.(ایک شخص مولوی رسول بخش پر ان دنوں میں ایک فوجداری مقدمہ بنایا گیا تھا.جس میں اُسے مہلت نہ دی گئی تھی اور فوراً زیر حراست لے لیا گیا تھا ) یہ خط چودھری صاحب نے میرے بھائی سے لکھوا کر میرے ایک ملازم سمی عظیم کے ہاتھ قادیان روانہ کر دیا.میں اس ملازم کو قادیان میں دیکھ کر سخت حیران ہوا کہ وہ اتنی جلدی کیوں کر پہنچ گیا ہے.اس نے مجھے وہ خط دیا.میں نے اس کی اطلاع اندر حضور کو بھیجی.حضور اسی وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے اور مجھے خط پڑھ کر سُنانے کا حکم دیا.میں نے سُنایا.حضور نے فرمایا.اسی وقت تم گورداسپور چلے جاؤ اور چودھری
سیرت المہدی 642 حصہ سوم صاحب سے مل کر شیخ علی احمد وکیل کو لے کر کل صبح بٹالہ پہنچ جاؤ.اسی وقت حضرت صاحب نے مرزا ایوب بیگ صاحب کو لاہور روانہ فرمایا کہ وہ وہاں سے شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک وکیل کو لے کر کل بٹالہ پہنچ جائیں.خاکسار مع میاں خیر الدین صاحب اور اپنے ملازم میاں عظیم کے اسٹیشن چھینا کی طرف گورداسپور والی گاڑی میں سوار ہونے کے لئے روانہ ہوا.بارش کی وجہ سے کیچڑ زیادہ تھا اور ہمارے پاؤں سخت پھسلتے تھے.بار بارگر تے اور پھر اٹھکر چلتے.خشیت کا اس وقت یہ حال تھا.کہ زارزار رو رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے.سیکھواں راستہ میں آتا تھا.وہاں پہنچ کر میر سانون کو جس کا گھر راستہ پر ہے میاں امام الدین و جمال الدین کو السلام علیکم دینے کے لئے بھیج کر خود اسی طرح سے آگے چل پڑے.ایک میل کے فاصلہ پر میاں امام الدین و جمال الدین صاحب بھی ہمیں مل گئے.باہم مشورہ کر کے میاں امام الدین کو گھر کی حفاظت کے لئے واپس بھیج دیا اور میاں جمال الدین صاحب ہمارے ساتھ ہوئے.ہم چاروں بمشکل افتان و خیزاں گاڑی کے وقت چھینا پہنچے.شام کو گورداسپور پہنچ کر چودھری صاحب کو ملے اور حضرت کا پیغام سُنایا.شیخ علی احمد صاحب اس روز اپنے گاؤں دھرم کوٹ رندھاوا میں گئے ہوئے تھے.وہاں ایک شخص کو روانہ کیا گیا.کہ شیخ صاحب کو کل لے کر بٹالہ پہنچ جانا.خاکسار اور چودھری صاحب را نا جلال الدین صاحب انسپکٹر پولیس گورداسپور کے پاس مشورہ کے لئے گئے.انہوں نے ہمیں تسلی دلائی کہ اتنی زبر دستی نہیں ہوگی اور ہمیں ضرور موقعہ دیا جائے گا.بہر حال اگلے روز صبح میاں خیر الدین، جمال الدین اور خاکسار بٹالہ پہنچ گئے.شیخ علی احمد صاحب بھی پہنچ گئے.سرکاری طور پر حضور کو بٹالہ تشریف لانے کا ڈپٹی کمشنر کا نوٹس پہنچ گیا.لاہور سے شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی فضل دین صاحب وکیل آگئے.اور دوسرے دوست بھی پہنچ گئے.مگر مقد مہ اس روز پیش ہو کر ملتوی ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مارٹن کلارک کے مقدمہ کے ابتدائی حالات یعنی اس مقدمہ کے مقدمات حضرت صاحب کی کسی کتاب میں درج نہیں تھے.سوالحمد للہ کہ اس روایت میں مل گئے ہیں.ہاں اصل مقدمہ کا ذکر حضور نے اپنی تصنیف ”کتاب البریہ" میں مفصل تحریر فرمایا ہے.بلکہ مقدمہ کی مسل بھی درج کر دی ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب وکیل جن کا اس روایت میں ذکر ہے وہ
سیرت المہدی 643 حصہ سوم لاہور کے ایک غیر احمدی وکیل ہوتے تھے جواب فوت ہو چکے ہیں.اور چوہدری رستم علی صاحب جن کا اس روایت میں ذکر ہے وہ ایک نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے اور سلسلہ کے لئے مالی قربانی میں نہایت ممتاز تھے.عرصہ ہوا فوت ہوچکے ہیں.703 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب زلزلہ کے بعد باغ میں تشریف رکھتے تھے.تو آپ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم کی وہ نظم لکھنی شروع کی.جس میں پروردگار.ثمار - کار.سنار وغیرہ قوافی آتے ہیں.آپ نے ہمیں فرمایا.کہ اس طرح کے قوافی جمع کر کے اور لکھ کر ہم کو دو کہ ہم ایک نظم لکھ رہے ہیں.اس پر میں نے اور حضرت میاں صاحب نے اور اور لوگوں نے آپ کو بہت سے قافیے اس وزن کے لکھ کر پیش کئے.اور زبانی بھی عرض کئے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس وقت میں نے بھی بعض قافیے سوچ کر عرض کئے تھے.اور حضرت میاں صاحب سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی مراد ہیں.اور زلزلہ سے مراد۱۹۰۵ء کا زلزلہ ہے جس کے بعد آپ کئی ماہ تک اپنے باغ میں جا کر ٹھہرے تھے.یہ وہی باغ ہے جس کے قریب بعد میں مقبرہ بہشتی قائم ہوا.صلى الله 704 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹوں کے نام طیب اور طاہر تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ تاریخی روایتوں میں اس کے متعلق اختلاف ہے.بعض مورخین کا خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ایک لڑکا عبداللہ تھا.اور اسی کے یہ دوزائد نام طاہر اور طیب تھے.اور بعض طاہر اور طیب کو دو جداجد الڑ کے قرار دیتے ہیں.اور اس روایت سے مؤخر الذکر روایت کی تصدیق ہوتی ہے.ان کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے دو اور بیٹے قاسم اور ابراہیم بھی تھے.مگر سب بچپن میں فوت ہو گئے.اور 705 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں اور عورتوں میں نصیحت اور وعظ کے دوران میں حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت ایوب
سیرت المہدی 644 حصہ سوم علیہ السلام کے ابتلاؤں کے قصے اکثر سنا یا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا کہ نصیحت کے لئے گذشتہ انبیاء اور صلحاء کے حالات سُناتے تھے.706 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آقا جونو کر کو سزا دیتا ہے.یا خدا تعالے جو بندہ پر گرفت کرتا ہے وہ بعض اوقات صرف ایک گناہ کا نتیجہ نہیں ہوتا.مگر بہت سی سابقہ باتیں جمع ہو کر یہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں اور آپ اس بات کو سمجھانے کے لئے ایک حکایت بھی بیان کیا کرتے تھے.کہ ایک دفعہ مہاراجہ شیر سنگھ نے اپنے ایک باورچی کو کھانے میں نمک زیادہ ڈالنے کی سزا میں حکم دیا کہ اس کی سب جائیداد ضبط کر کے اسے قید خانہ میں ڈال دیا جائے.اس پر کسی اہلکار نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ مہاراج اتنی سی بات پر یہ سزا بہت سخت ہے.راجہ کہنے لگا کہ تم نہیں جانتے.یہ صرف نمک کی سزا نہیں.اس کم بخت نے میرا سو بکرا ہضم کیا ہے.707 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی.حضور علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے.تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعاؤں کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی.جس کا یہ مصرع ہے." اے خدا! اے چارہ آزار ما ! خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جور وحانیت سے پر ہے.مگر معروف مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں صرف مسنون دعائیں بال جھر پڑھنی چاہئیں.باقی دل میں پڑھنی چاہئیں پس اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت صاحب نے اس وقت خاص کیفیت کے رنگ میں اس پر اعتراض نہیں فرمایا ہو گا.اور چونکہ ویسے بھی یہ واقعہ صرف ایک منفرد واقعہ ہے اس لئے میری رائے میں حضرت صاحب کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہوگا.کہ لوگ اس طرح کر سکتے ہیں.یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت صاحب
سیرت المہدی 645 حصہ سوم نے اس وقت سکوت اختیار کر کے بعد میں پیر صاحب کو علیحدہ طور پر سمجھا دیا ہو.کہ یہ مناسب نہیں.کیونکہ پیر صاحب کی طرف سے اس کی تکرار ثابت نہیں.واللہ اعلم.708 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی عبداللہ صاحب مولوی فاضل سابق مدرس ڈیرہ بابا نانک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل خط شیخ فتح محمد صاحب کے پاس دیکھا تھا.یہ خط حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے نام تھا.مگر خط کا مضمون شیخ فتح محمد صاحب کے متعلق تھا اور لفافہ پر حضرت خلیفہ اول کا جموں والا پتہ درج تھا.مکر می اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فتح محمد حصول بشارت کے لئے دو رکعت نماز وقت عشاء پڑھ کر اکتالیس دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس کے اول اور آخر گیارہ گیارہ دفعہ درود شریف پڑھے اور مقصد کے لئے دُعا کر کے رُو بقبلہ باوضو سور ہے.جس دن سے شروع کریں.اسی دن تک اس کو ختم کریں.انشاء اللہ العزیز وہ امر جس میں خیر اور برکت ہے، حالتِ منام میں ظاہر ہوگا.والسلام خاکسار غلام احمد ۹ / مارچ ۱۸۹۰ء اس خط کے نیچے یہ نوٹ درج تھا.کہ:.بباعث ضعف و علالت فتح محمد کی طرف خطا نہیں لکھا گیا.709 بسم الله الرحمن الرحیم.ماسٹر عبدالرؤف صاحب مہاجر متوطن بھیرہ نے بواسطه مولوی عبدالرحمن مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب صبح کے وقت سیر کو باہر تشریف لے گئے.تو اس وقت مسجد اقصے کے پاس ہی میں نے جنوں کے متعلق عرض کیا.کہ " قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرْمِنَ الْجِنِّ “ (الجن : ۲) میں کیا واقعہ میں جن ہی تھے یا کوئی اور قوم مراد ہے.حضرت صاحب نے فرمایا.یہ ایک پہاڑی قوم تھی.جو عمالقہ نام سے مشہور تھی.باقی ہم جنات کا انکار نہیں کرتے کیونکہ اگر جنات کا انکار کیا جائے تو پھر روح کا بھی انکار کرنا پڑے گا.کیونکہ رُوح بھی نظر نہیں آتی.اس طرح فرشتوں اور خدا کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیوں کہ یہ بھی نظر نہیں آتے.ماسٹر عبدالرؤف صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ
سیرت المہدی 646 حصہ سوم واقعہ ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء کا ہے.710 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر عبدالرؤف صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری سفر میں لا ہور جانے لگے تو اس وقت بھائی شیر محمد صاحب کی دکان ( متصل مدرسہ احمدیہ ) کے پاس ایک الہام اپنی موت کے متعلق سُنایا.جو سا را یاد نہیں.مفہوم اس کا یہ تھا.” اَلرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ “ گویا کوچ کا وقت ہے.مگر میں نے یہ سمجھا.کہ اس الہام میں حضور کی قرب موت کی طرف تو اشارہ ہے مگر وقت ایسا قریب نہیں اور ابھی کچھ عمر باقی ہے.اس وقت اور لوگ بھی ہمراہ تھے.آخر کار حضور لا ہور جا کر بیمار ہو گئے اور دستوں کی بیماری سے آخر مئی ۱۹۰۸ء میں اس دار فانی سے رحلت فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - خاکسار عرض کرتا ہے کہ ماسٹر عبدالرؤف صاحب کو مغالطہ ہوا ہے جو الہام حضرت صاحب کو لاہور جاتے ہوئے ہوا تھا وہ ” مباش ایمن از بازی روزگار.تھا.الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ“ کا الهام بعد کا ہے.جولاہور میں ہوا تھا.711 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک رنگون کا تاجر ابوسعید عربی حضرت صاحب سے ملنے آیا تھا.اور ا کثر سوالات کیا کرتا تھا.اور آنحضرت جوابات دیا کرتے تھے.وہ کہتا تھا.کہ میں دہلی دربار کی غرض سے آیا تھا.مگر اب تو وہاں جانے کو دل نہیں کرتا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ابوسعید صاحب در اصل عرب نہیں تھے مگر بعض عربی ممالک میں رہ چکنے کی وجہ سے عرب کہلاتے تھے.712 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی عبداللہ صاحب مولوی فاضل سابق مدرس ڈیرہ بابا نانک نے مجھ سے بیان کیا.کہ میں نے مندرجہ ذیل خط شیخ فتح محمد صاحب کے پاس دیکھا ہے.جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا اور یہ خط خود شیخ فتح محمد صاحب کے نام تھا.
سیرت المہدی 647 حصہ سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا مہربانی نامہ پہنچا.آپ کے ترددات بہت طول پذیر ہو گئے ہیں.خدا تعالی رہائی بخشے شاید ایک ہفتہ ہوا میں نے آپ کو خواب میں دیکھا.گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں.کہ میں کیا کروں.تو میں نے آپ کو یہ کہا ہے.خدا سے ڈر اور جو چاہے کر.سو آپ تقویٰ اختیار کریں.اللہ جل شانہ آپ کوئی راہ پیدا کر دے گا.خاکسار غلام احمد از لود یا نه محله اقبال گنج ۱۸ مارچ ۹۱ء خط کے نیچے یہ نوٹ درج تھا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ از طرف عاجز حامد علی یہ الہامی الفاظ جس روز آپ کا خط آیا.اسی روز معلوم ہوئے تھے.713 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت صاحب کے لئے جب کوئی شخص تحفہ لاتا.تو آپ بہت شکر گزار ہوتے تھے.اور گھر میں بھی اس کے اخلاص کے متعلق ذکر فرمایا کرتے اور اظہار کیا کرتے تھے.کہ فلاں شخص نے یہ چیز بھیجی ہے.714 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں بعض لوگوں کا قاعدہ تھا.کہ اپنی کسی ضرورت یا مصیبت کے ایام میں ہر روز دُعا کے لئے خط لکھا کرتے تھے.جب متواتر بلا ناغہ مدت تک ایسے خطوط کسی شخص کی طرف سے موصول ہوتے رہتے تو حضور فرمایا کرتے تھے.کہ اب تو ہم کو بھی اس کے لئے خاص خیال پیدا ہو گیا ہے.چنانچہ اسی طرح ایک دفعہ منشی محبوب عالم صاحب لاہوری تاجر بائیسکل نے اپنے کسی مطلب کے لئے روزانہ کارڈ لکھنا شروع کر دیا.آخر ایک دن پڑھتے پڑھتے حضور فرمانے لگے کہ میاں محبوب عالم تو اب ہمارے پیچھے ہی پڑ گئے.اب ہم بھی ان کے لئے خاص طور پر دعا کریں گے.چنانچہ دعا کی اور ان کا کام جو اپنے نکاح کے متعلق تھا
سیرت المہدی 648 حصہ سوم بخیر و خوبی پورا ہو گیا.715 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید جب قادیان سے رخصت ہو کر واپس وطن جانے لگے.تو حضرت صاحب بمعہ ایک گروہ کثیر مہمانان کے ان کو الوداع کہنے کے لئے دُور تک بٹالہ کی سڑک پر تشریف لے گئے.آخر جب مولوی صاحب شہید رخصت ہونے لگے.تو سڑک پر ہی حضرت صاحب کے قدموں پر گر پڑے.اور جدائی کے غم کے مارے ان کی چیخیں نکل گئیں اور زار زار رونے لگے.حضرت صاحب نے ان کو بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور تسلی دی اور رخصت کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر ۲۶۰ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہو چکا ہے.716 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر دین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرا ایک لڑکا شیر خوارگی میں فوت ہو گیا.اس کے بعد جب میں قادیان آیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ میں شام کے قریب ٹہل رہے تھے.میرے السلام علیکم عرض کرنے پر فرمایا کہ تمہارا لڑکا فوت ہو گیا ہے.غم نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ درخت کا پھل سب کا سب قائم نہیں رہا کرتا.بلکہ کچھ گر بھی جایا کرتا ہے مگر اس سے بھی اتنا ثابت ہو جاتا ہے کہ درخت بے ثمر نہیں ہے.اور آئندہ کے لئے امید پیدا ہوتی ہے.717 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں.یہ خطوط افسران سرکار انگلشیہ کی طرف سے ہمارے آباو اجداد کے نام ہیں.اور اصل کا غذات میرے پاس محفوظ ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خطوط اور سندات ان کے علاوہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتب میں شائع فرما چکے ہیں.اور جو خود خاکسار بھی سیرۃ المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۳۳ میں درج کر چکا ہے.
سیرت المہدی 649 (1) حصہ سوم مرزا صاحب مشفقی مهربان دوستان مرز اغلام مرتضیٰ خاں صاحب رئیس قادیان بصد شوق ملاقات واضح ہو.کہ پچاس گھوڑے مع سواران زیر افسری مرزا غلام قادر برائے امداد سر کار و سرکوبی مفسدان مرسلہ آں مشفق ملاحظہ حضور سے گذرے.ہم اس ضروری امداد کا شکر یہ ادا کر کے وعدہ کرتے ہیں.کہ سرکار انگریزی آپ کی اس وفاداری اور جاں نثاری کو ہرگز فراموش نہ کرے گی.آں مشفق اس مراسلہ کو بمراد اظہار خدمات سرکار اپنے پاس رکھیں.تا کہ آئندہ افسران انگریزی کو آپ کے خاندان کی خدمات کا لحاظ رہے.فقط الراقم (مسٹر ) جیمس نسبٹ ( صاحب بہادر ) ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور دستخط بحروف انگریزی ۵۷ء مقام گورداسپور خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد ماجد تھے.جنہوں نے ۱۸۵۷ء کے غدر کے موقعہ پر اپنی گرہ سے پچاس گھوڑے اور ان کا سارا ساز وسامان مہیا کر کے اور پچاس سوارا اپنے عزیزوں اور دوستوں سے تیار کر کے سرکار کی امداد کے لئے پیش کئے تھے.(۲) از پیش گاہ (مسٹر ) جیمس نسبٹ ( صاحب بہادر ) ڈپٹی کمن دستخط بحروف انگریزی مہر دفتر ڈپٹی کمشنر گورداسپور عزیز القدر مرزا غلام قادر ولد مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بمقابلہ باغیان نا عاقبت اندیش ۵۷ ء آں عزیز القدر نے بمقام میر تھل اور ترموں گھاٹ جو شجاعت اور وفاداری سرکار انگریزی کی طرف سے ہو کر ظاہر کی ہے.اس سے ہم اور افسرانِ ملٹری بدل خوش ہیں.ضلع گورداسپور کے رئیسوں میں سے اس موقعہ پر آپ کے خاندان نے سب سے بڑھکر وفاداری ظاہر کی ہے.آپ کے خاندان کی وفاداری کا سرکار انگریزی کے افسران کو ہمیشہ مشکوری کے ساتھ خیال رہے
سیرت المہدی 650 حصہ سوم گا.بہ جلد وئے اس وفاداری کے ہم اپنی طرف سے آں عزیز القدر کو یہ سند بطور خوشنودی عطا فرماتے ہیں.المرقوم یکم اگست ۵۷ء خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا غلام قادر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے جو حضرت صاحب سے چند سال بڑے تھے اور ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے.دستخط بحروف انگریزی جنرل نکلسن بهادر (۳) تہور پناہ شجاعت دستگاه مرزا غلام قادر خلف مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان.چونکہ آپ نے اور آپ کے خاندان نے بمقابلہ باغیان بداندیش و مفسدان بدخواه سرکار انگریزی غدر ۱۸۵۷ء میں بمقام ترموں گھاٹ و میر تھل وغیرہ نہایت دلد ہی اور جاں نثاری سے مدد دی ہے.اور اپنے آپ کو سر کا ر انگریزی کا پورا وفادار ثابت کیا ہے.اور اپنے طور پر پچاس سوار معہ گھوڑوں کے بھی سرکار کی مدداور مفسدوں کی سرکوبی کے واسطے امداداً دیئے ہیں.اس واسطے حضور ایں جناب کی طرف سے بنظر آپ کی وفاداری اور بہادری کے پروانہ ہذا سنداً آپ کو دے کر لکھا جاتا ہے کہ اس کو اپنے پاس رکھو.سرکار انگریزی اور اس کے افسران کو ہمیشہ آپ کی خدمات اور ان حقوق اور جاں شاری پر جو آپ نے سرکار انگریزی کے واسطے ظاہر کئے ہیں.احسن طور پر توجہ اور خیال رہے گا.اور ہم بھی بعد سر کو بی وانتشار مفسدان آپ کے خاندان کی بہتری کے واسطے کوشش کریں گے.اور ہم نے مسٹر نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو بھی آپ کی خدمات کی طرف توجہ دلا دی ہے.فقط المرقوم اگست ۱۸۵۷ء خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس خط کے ایک ماہ بعد یعنی ماہ ستمبر ۱۸۵۷ء میں جنرل نکلسن بہا در دہلی کی فتح میں مارے گئے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خطوط اور سندات مجھے جس صورت میں ملی ہیں.میں نے اسی صورت میں درج کر دی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس قسم کے خطوط یا سندات فارسی یا اردو میں لکھے جاتے تھے.اور ممکن ہے کہ کوئی انگریزی نقل دفتر میں رہتی ہو.اور اصل بھجوادیا جاتا ہو.واللہ اعلم
سیرت المہدی 651 حصہ سوم 718 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین بھیں والے کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے.اور میں بھی وزیر آباد سے سیدھا گورداسپور پہنچا.صبح کی نماز پڑھکر حضرت لیٹے ہوئے تھے.میں دبانے لگ گیا.میرے دبانے پر حضرت صاحب نے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور مصافحہ کے لئے میری طرف ہاتھ بڑھایا.مصافحہ کر کے فرمایا.حافظ صاحب آپ اچھے ہیں.تو میں نے عرض کیا.کہ حضور مجھے پہچانتے ہیں.فرمایا.حافظ صاحب کیا میں آپ کو بھی نہیں پہچانتا؟“.یہ پاک الفاظ آج تک میرے سینے میں محبت کا ولولہ پیدا کرتے ہیں.اور جب یاد آتے ہیں تو سینے کو ٹھنڈک پہنچتی ہے.اتفاقاً اس دن جمعہ تھا.چوہدری حاکم علی صاحب نے عرض کیا.کہ حضور نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا.کہ حافظ صاحب جو ہیں یہ جمعہ پڑھائیں گے.یہ فقرہ سُن کر میں اندر ہی اندر گھبرایا کہ میں اس مامور الہی کے آگے کس طرح کھڑا ہوں گا.میں تو گنہگار ہوں.الغرض جب جمعہ کا وقت آیا تو میں جماعت کے ایک طرف آنکھ بچا کر بیٹھ گیا.کہ کوئی اور جمعہ پڑھا دے گا.مگر جب اذان ہوئی.تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کہاں ہیں.میں نے حاضر ہو کر عرض کی.حضور میری جرات حضور کے آگے کھڑا ہونے کی نہیں.فرمایا نہیں آپ کھڑے ہو جائیں اور خطبہ پڑھیں.آپ کے لئے میں دعا کرونگا.آخر تعمیل حکم کے لئے ڈرتا ڈرتا کھڑا ہو گیا.خدا واحد لاشریک جانتا ہے کہ جب میں کھڑا ہو گیا تو اللہ نے ایسی جرأت پیدا کر دی اور ایسا شرح صدر ہو گیا کہ میں نے بے دھڑک خطبہ پڑھا.میں سمجھتا ہوں کے یہ حضور کی دعا کی برکت تھی.اس کے بعد آج تک میں اپنے اندر اس دُعا کا اثر دیکھتا ہوں.7193 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں محمد حسین خانصاحب ٹیلر ماسٹر ساکن گوجرانوالہ حال قادیان نے بواسطه مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ تقریباً ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے.کہ میں قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو ملا اور عرض کی کہ میں حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے آیا ہوں.ابھی تھوڑی دیر ہی حضرت مولوی صاحب کے مطب میں بیٹھے گذری تھی کہ کسی نے اطلاع دی کہ حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما ہیں.حضرت مولوی صاحب نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور لا کر مسجد مبارک کے
سیرت المہدی 652 حصہ سوم محراب میں حضور کے پاس جا کر بٹھا دیا.اور حضور سے کہا.کہ یہ ڈاکٹر حسن علی صاحب کے پھوپھی زاد بھائی ہیں.اور حضور سے ملاقات کے لئے آئے ہیں.حضور میری طرف متوجہ ہوئے اور بات چیت شروع کر دی.میں نے اپنے بچپن سے لے کر اس وقت تک تمام حالات سُنا دیئے.اثنائے گفتگو میں حضور نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا.اور فرمایا.کہ آپ کی آنکھیں خراب ہیں.میں نے عرض کیا.کہ بچپن سے ہی میری آنکھیں خراب چلی آتی ہیں.والد صاحب بچپن میں فوت ہو گئے تھے.بہت تکالیف برداشت کرتا رہا.استادوں کی بھی خدمت کی.ایک مرتبہ میں کوہ مری گیا تھا.تو کچھ آرام آ گیا تھا.پھر اس کے بعد دوبارہ آنکھیں خراب ہو گئیں.حضور نے فرمایا.آپ کا کام کوہ مری اچھا چل سکتا ہے.آپ وہیں چلے جائیں.میں نے عرض کی.کہ اب میں سکھر میں رہتا ہوں.سکھر اور کوہ مری میں تقریباً پانچ چھ سوکوس کا فاصلہ ہے.ایک کاروباری آدمی کے لئے جگہ تبدیل کرنا سخت مشکل ہے.تو حضور نے فرمایا.کہ خدا تمہیں شفا دے گا.اور اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہیں مسجد میں بیٹھے بیٹھے ہی میری آنکھیں بالکل صاف ہو کر ٹھیک ہوگئیں.اب میری عمر ۵۶ یا ۷ ۵ سال کی ہے.اب تک مجھے عینک کی چنداں ضرورت نہیں ہے.پھر میں نے عرض کیا.کہ میرا چھوٹا بھائی بہت متعصب ہے.اور میں چاہتا ہوں.کہ وہ بھی احمدی ہو جائے.حضور دعا فرمائیں.حضور نے جواب میں فرمایا.کہ آپ کے ارادے بہت نیک ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا کرے گا.اس وقت میرے بھائی کی یہ حالت تھی کہ ایک مرتبہ ان کے پاس اخبار بدر گیا تو ان کے دوست مولوی محبوب عالم صاحب ان کے پاس موجود تھے.انہوں نے کہا.بابو صاحب ذرا اخبار تو دکھا ئیں.تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ اخبار نہیں پڑھنا چاہئے.کیونکہ یہ قادیان کا اخبار ہے اور اس کے دیکھنے سے آدمی پر ایک قسم کا جادو ہو جاتا ہے.مولوی محبوب عالم صاحب نے کہا.کہ مرزا صاحب تو قادیان میں بیٹھے ہیں.کیا ہمیں زبر دستی بازو سے پکڑ کر لے جائیں گے اور انہوں نے زبر دستی اخبار لے لیا.جب پڑھا تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر تھا.اور ساتھ ہی قرآن مجید کی آیات سے استدلال کیا ہوا تھا.تو ان پر فورا ہی جادو کا سا اثر ہو گیا.غیر احمدی علماء کو بلایا اور ان سے گفتگو کی.وہ خود بھی عالم تھے.مگر
سیرت المہدی 653 حصہ سوم کچھ فیصلہ نہ ہو سکا.مگر مجھے تار دے کر گوجرانوالہ سے بُلایا.جب میں وہاں پہنچا.تو میں نے دیکھا کہ رات کے گیارہ بجے وہ دعا میں مشغول ہیں.میرے جاتے ہی انہوں نے توفی کا مسئلہ پیش کیا اور میں نے اس کا جواب دیا.میں نے کہا.کہ جس لفظ کی علاء کو کچھ سمجھ نہیں آتی.وہ کسی جاہل سے پوچھ لینا چاہئے گاؤں کا پٹواری اور چوکیدار اور تھانے کا منشی عموماً جاہل ہوتے ہیں.ان سے پوچھنا چاہئے.کہ وہ جو روز مرہ متوفی وغیرہ لکھتے ہیں.تو کیا ان کا مطلب مرنے والے کے متعلق یہ ہوتا ہے.کہ وہ آسمان پر چڑھ گیا یا یہ کہ مرکز زمین میں دفن ہوا.جب متوفی سے مراد آپ مرا ہوا شخص سمجھتے ہیں تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس سے زمین میں دفن ہونا مراد نہیں.تو جواب میں انہوں نے کہا کہ بھائی ہمیں تو مرزا صاحب کے پاس قادیان لے چلو.اور بیعت کرا دو.اس پر میں اپنے بھائی اور مولوی صاحب موصوف اور تین اور دوستوں کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے پاس حاضر ہوا.اور ان سب کی بیعت کرادی.اور دعا کے لئے خدمت اقدس میں عرض کیا.پھر بعد میں جب لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو ایک پٹھان نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا.کہ متواتر چھ ماہ میں نے آپ سے نقرس کا علاج کروایا ہے.مگر کچھ بھی آرام نہیں آیا.مگر آج یہ واقعہ ہوا.کہ جب حضور کھڑکی سے باہر نکلے.تو سب لوگ استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے مگر میں کچھ دیر سے اُٹھا.تو اتفاقاً حضور کا پاؤں میرے پاؤں پر پڑ گیا.اس وقت میں نے محسوس کیا.کہ میری نقرس کی بیماری اچھی ہو گئی ہے.جب نماز کے بعد حضور اندر تشریف لے جانے لگے.تو میں نے عرض کیا.کہ حضور ہے تو بے ادبی کی بات.مگر آپ میرے پاؤں پر پاؤں رکھ کر چلے جائیں.حضور نے مری درخواست پر ایسا کر دیا.اور اب مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل صحت ہے.اس پر مولوی نور الدین صاحب نے جواب میں فرمایا.کہ بھائی میں تو معمولی حکیم ہی ہوں.لیکن وہ تو خدا کے رسول ہیں.ان کے ساتھ میں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں میں نے تو معمولی دواہی دینا تھی.
سیرت المہدی 654 حصہ سوم اس واقعہ کے گواہ مولوی محبوب عالم صاحب اور میرے بھائی بابومحمد رشید صاحب اسٹیشن ماسٹر اور مستری علم دین صاحب ہیں.720 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں طاعون پڑی اور مرزا نظام الدین کے خاندان کے بہت سے افراد اس طاعون میں مبتلاء ہو کر فوت ہو گئے.تو مرزا نظام الدین حضرت خلیفہ اول کے مکان پر آئے اور دروازہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر زار زار رونے لگے.جب حضرت مولوی صاحب نے ہمدردی کے رنگ میں اس کا سبب دریافت کیا تو مرزا صاحب نے اسی طرح روتے ہوئے کہا.مولوی صاحب ! کیا ہماری مصیبت کا کوئی علاج نہیں ؟ میں نے تو اب کوئی مخالفت نہیں کی.مولوی صاحب کچھ وقت خاموش رہے اور پھر فرمایا.مرزا صاحب میں خدائی تقدیر کو کس طرح بدل سکتا ہوں.پھر جو افراد بیمار تھے.ان کے علاج معالجہ کے لئے ہمدردانہ رنگ میں مشورہ دیا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچازاد بھائی تھے اور وہ اور ان کے بڑے بھائی مرزا امام دین صاحب ساری عمر حضرت صاحب کے سخت مخالف رہے اور ہر طرح کی ایذا پہنچائی اور سلسلہ حقہ کو مثانے کی ہر رنگ میں کوشش کی.جس کا ذکر گذشتہ روایتوں میں گذر چکا ہے.لیکن بالآخر جب مرزا نظام الدین صاحب کے بڑے بھائی مرزا امام دین صاحب فوت ہو گئے اور خدا کے فضل سے جماعت نے بھی اتنی ترقی کر لی تو مرزا نظام الدین صاحب نے محسوس کر لیا کہ اب یہ ہمارے بس کی بات نہیں رہی.اور بعض دوسرے لحاظ سے بھی مرزا نظام الدین صاحب کمزور ہو گئے تو انہوں نے آخری وقت میں مخالفت کی شدت کو ترک کر دیا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس روایت میں جس طاعون کا ذکر ہوا ہے ، وہ ۱۹۱۰ء میں پڑی تھی.جس میں مرزا نظام الدین صاحب کے بہت سے اقرباء مبتلاء ہوکر فوت ہو گئے تھے.
سیرت المہدی 655 حصہ سوم 721 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں.یہ خطوط شہنشاہان دہلی کی طرف سے ہمارے آباؤ اجداد کے نام ہیں.اور اصل کا غذات میرے پاس محفوظ ہیں.ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے اور ان کے نیچے مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم کا ایک عالمانہ نوٹ بھی درج کیا جاتا ہے.جو مولوی صاحب مرحوم نے ان خطوط کو دیکھ کر لکھا تھا.مولوی صاحب مرحوم علم تاریخ اور فارسی زبان کے نہایت ماہر اور عالم تھے.ترجمہ بھی مولوی صاحب موصوف کا کیا ہوا ہے.(0) منشور محمد فرخ سیر غازی شاہنشا مهند توان بادشاہ غازی باقی میماند زبدة الاماثل والاقران میرزا فیض محمد خان مستمال بوده.بداند که چون دریں وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سُبحانی از وفاکیشی و خیر سگالی و جان نثاری شما مسرور ومبتهج شده است - لهذا حکم جهان مطاع عالم مطيع شرف صدور می یا بد که آن اخلاص نشان را در سلک امرائی هفت هزاری منضبط کرده و جا داداه از خطاب عضد الدولة مفتخر و ممتاز فرموده می شود - باید که در موکب فیروزی کوکب خود را موجود و حاضر ساخته مدام بوفا کیشی و خیر سگالی بندگان عرش آشیانی ساعی و مصروف می بوده باشد.فقط تحرير بتاريخ نوز دهم شهر شوال جلوس مهر مدوّر
سیرت المہدی 656 ترجمه حصہ سوم بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خاں شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظلِ سبحانی آپ کی وفاکیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں.اس لئے حکم جہاں مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کر کے اور جگہ دے کر عضد الدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے.چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوں کی وفاکیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں.۱۹ ماه شوال ۴ جلوس خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرزا فیض محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کے دادا تھے اور خط کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے.کہ یہ خط ۱۷۱۶ء میں لکھا گیا تھا.کیونکہ فرخ سیر ۱۷۱۳ء میں تخت پر بیٹھا تھا اور یہ خط سنہ جلوس کے بعد چوتھے سال کا ہے.(۲) منشور عہد محمد شاہ بادشاہ ہندوستان اخلاص و عقیدت دستگاه میرزا گل محمد مستمال بوده بدانند.دریں وقت سلالة النجباء فضیلت و کمالات پناه حیات الله مفصل حقیقت شما حالی گردانید باید که در هر باب خاطر جمع نموده در امکنه خودها آباد و مطمئن باشند و اینجانب را متوجه احوال خود انگاشته چگونگی را ارسال دارند بکار هائے خود بکمال خاطر جمعی مشغول و سرگرم باشند و هرگاه احدی از عازمان متوجه آن سر زمین خواهد شد بر مضمون تعلیقچه اطلاع یافته در باره آن اخلاص نشان غور واقعی بعمل خواهد آورد.تحریر فی التاریخ بیست و چهارم شهر جیب د مجری مہر باشد محمود فر محل فعاله محمد 1141
سیرت المہدی 657 ترجمه حصہ سوم اخلاص وعقیدت دستگاه میرزا گل محمد ( شاہی ) دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں.اس وقت برگزیده شرفا و نجبا فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ نے خود آپ کی بیان کردہ حقیقت کی تفصیل سے آگاہ کیا.لا زم ہے کہ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنی جگہ میں آباد اور مطمئن رہیں اور ایں جانب کو اپنے حالات کی جانب متوجہ سمجھ کر اپنے حالات کی کیفیت ارسال کرتے رہیں اور اپنے کار متعلقہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ مشغول اور سرگرم رہیں.جب کوئی کار پرداز اس سر زمین کی طرف متوجہ ہو گا.تو تعلیقہ ( رپورٹ ) کے مضمون پر اطلاع پا کر اس اخلاص نشان کے بارہ میں واقعی غور عمل میں لایا جائے گا.محرره ۲۴ ؍رجب ۱۱۶۱ ہجری خاکسار عرض کرتا ہے.کہ مرزا گل محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کے والد تھے.یہ وہی عالی مرتبہ بزرگ ہیں جن کے تقویٰ اور طہارت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ” کتاب البریہ میں بڑے تعریفی رنگ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صاحب خوارق و کرامات تھے.(۳) منشور عهد شاه عالم ثانی بادشاه هندوستان نجابت و معالی پناه میرزا گل محمد بتوجهات خاطر عالی مستمال بوده بداند که دریں وقت رایات عالی وزیر آباد را رشک فروردین و اردی بهشت فرموده فضیلت و کمالات مآب سیادت و نجابت انتساب بطاله حسن اخلاق او را بعرض رسانید در هر باب خاطر خود را جمعداشت نموده در جائیگاه خودها سکونت داشته باشد که انشاء الله تعالی در حین ورود مسکن فیروزی مامن غور و پرداخت احوال آنها.بواقعی
سیرت المہدی 658 حصہ سوم خواهد شد در کمال اطمینان و دیانتداری و کلائی خود را روانه درگاه نمایند.۱۲۱۱ هجری ترجمه مہر کلاں جو دریدہ ہے نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد خان خاطر عالی کی تو جہات سے دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں کہ اس وقت لشکر شاہی نے وزیر آباد کو فروردین اور اردی بہشت کا رشک بنایا ہے.فضیلت و کمالات تاب بٹالہ کے رہنے والے نے آپ کا حسن اخلاص عرض کیا ہے.ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنے گھر بار میں سکونت رکھیں.انشاء اللہ جس وقت مسکن فیروزی مامن میں ورود ہو گا.اس وقت آپ کے حالات کی واقعی غور و پرداخت کی جائے گی.کمال اطمینان کے ساتھ اپنے وکلاء درگاہ میں روانہ کریں.۱۲۱۱ ہجری مہر خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط زیادہ دریدہ ہے.اور بعض حصوں کا بالکل پتہ نہیں چلتا.(N) منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان عالیجاه رفیع جائیگاه اخلاص و عقیدت دستگاه گل محمد خان بسلامت باشد بعده آنکه عریضه که دریں وقت بخصوص چگونگی احوالات و روئیداد و اخلاص و خدمت گذاری خود و غیره مواد که قلمی و ارسال داشته بود رسید حقائق آن واضح و حـالـی گردید.عریضه مرسله ترقی خواه را در نظر بهادران حضور فیض گنجور خاقانی گذرانیده شد و در جواب رقم قدر تو ام مالک مطاع اشرف بسرافرازی آن عالیجاه شرف اصدار یافته که بزیارت آن مشرف دار بعمل خواهد
سیرت المہدی 659 حصہ سوم آورد در هر باب خاطر جمعداشته و مستعد خواهش دیوانی بوده نویسان حالات باشد.بتاریخ جمادی الثانی ۱۲۱۳ هجری مہر بیضوی جو بہت مدھم ہے ترجمه عالیجاه بلند مرتبہ اخلاص اور عقیدت کے دستگاہ رکھنے والے گل محمد خاں سلامت رہو.بعدۂ وہ عریضہ کہ آپ نے اپنی چگونگی حالات اور روئیداد و اخلاص و خدمت گزاری وغیرہ مواد کے خصوص میں لکھا تھا.اس کی حقیقت واضح ہوئی.اس عالیجاہ کا عریضہ حضور فیض گنجور کے بہادروں کے سامنے پیش ہو گیا.اس کے جواب میں اس عالیجاہ کی سرفراز کی نسبت رقم قد ر توام مالک و مطاع اشرف کا حکم صادر ہوا ہے.مشرف دار یعنی ناظر اعلے اس کو عمل میں لائے گا.دیوانی ضرورتوں کے مستعد ہو کر اپنے حالات لکھتے رہیں.محرره ماه جمادی الثانی ۱۲۱۳ء ہجری خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط بھی کچھ دریدہ ہے اور بعض حصے اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے.(۵) منشور عهد عالمگیر ثانی بادشاه هندوستان عمدة الاماثل والا قران گل محمد خان بدانند عریضه که درین وقت بخصوص احوالات و روئیداد خود قلمی و ارسال داشته بود رسید چگونگی آن واضح شد.باید که خاطر خود را بهر باب جمعداشت و مطمئن خاطر بوده مشغول امورات خود و احوالاتی که باشد همه روزه بعرض رسانند.بتاریخ شهر رجب ۱۲۱۶هجری ترجمه برگزیدہ اکا بر ومعاصر گل محمد خاں معلوم کریں کہ اس وقت آپ کے عریضہ سے جس میں خصوصیت
سیرت المہدی 660 حصہ سوم کے ساتھ آپ نے اپنی روئیداد اور حالات قلمبند کر کے بھیجا ہے، تمام کیفیت واضح ہوئی.چاہیئے کہ آپ ہر بات میں مطمئن اور خاطر جمع ہو کر اپنے متعلقہ امور میں مشغول رہیں اور اپنے روزمرہ کے حالات لکھتے رہیں.محرره ماه رجب ۱۲۱۶ ہجری مہر ان خطوط کے متعلق مولوی عبید اللہ صاحب بسمل نے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم شہنشاہ ہندمحمد فرخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب نوراللہ مرقدہ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں.پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے.در باراکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوتی تھی.کہ ہشت ہزاری کا منصب ولیعہد اور خاندانِ شاہی کے شہزادوں کے لئے خاص تھا.اور اراکین در بار ووزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے.شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا.جس وقت گل گنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالا نواب غازی الدین خان بہا در فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لئے مامور فرمایا.تو اس کوشش ہزاری کا عہدہ دیا.چنانچہ اس وقت کا نامہ نگار نعمت خاں متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے.دوششے کہ آں شش هزاری شش هزار سوار زدہ بود اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے.کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا.جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا.ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی.ہفت ہزاری شو و ہر چہ خواہی بکن یعنے ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا.الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ
سیرت المہدی 661 حصہ سوم مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع ورفیع سمجھا جاتا تھا.تاریخ شاہد ہے.دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے.تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا.اور اسلامی دُنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں بر پا ہوگئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا.جس کے چمکتے ہوئے فرمانرواؤں کو استمالت قلوب کی وجہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا.غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدوله دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے.اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا.ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء در بار کو اعتصا والدولہ.احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں.ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک - عماد الملک.خان جہاں.خان دوراں کے خطابات سے اپنے اپنے امراء ورؤساء کی دلجوئی کرتی رہی ہیں.مغل ایمپائر کے زرین عہد میں فرمانروایان اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے.شاہ اکبرثانی نے سرسید کو جوادالدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھا.جس کو سرسید کے ارادت مند آج تک اُن کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں.سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیف قلوب باتباع شاہان مغلیہ والیان ٹونک کو امیر الدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا.اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب طاب اللہ شاہ کے نام ہے جس میں انکو عضد الدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے.وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیان ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسید کے خطاب جوادالدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے.کیونکہ فرخ سیر شہنشاہ ہندوستان تھا.اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین
سیرت المہدی 662 حصہ سوم مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے.خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران تاب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے.علاوہ برائیں عضد الدولہ کا وہ معزز خطاب ہے جو بنو عباس کے خلفاء کی جانب سے ایک ذی شوکت سلطان عضدالدولہ دیلمی کو ملا تھا.جس کے خاندان کی طرف حدیث کی مشہور کتاب ”دیلمی منسوب ہے.اس نسبت سے بھی حضرت غفران مآب کا خطاب عضدالدولہ بمقابلہ دیگر رؤساء کے خطابات اعتضادالدولہ واحتشام الدولہ وشجاع الدولہ وآصف الدولہ و سراج الدولہ و وزیر الدولہ سے اشرف واعلیٰ ہے.جہاں تک خاکسار کی نظر سے بعض بعض امراء ورؤساء پنجاب کے پرانے کاغذات اور سلاطین مغلیہ کے مناشیر گذرے ہیں.کوئی منشور ایسا نہیں گذرا.جس میں اس درجہ کا خطاب کسی رئیس خاندان کو منجانب شاہانِ مغلیہ عطا ہوا ہو.تیسرا لفظ.امور مذکورہ صدر کے سوا اس منشور میں خصوصیت کے ساتھ ایک حرف صاد کا درج ہے.جو جلی قلم سے نہایت نظر فریب خوش خط روشن سیاہی کے ساتھ ثبت ہے یہ حرف شہنشاہ محمد فرخ سیر کے خاص قلم کا ہے.جو ان کی خوشنودی مزاج کی دلیل ہے.اور منشور کی شان کو دوبالا کر رہا ہے.کیونکہ شاہانِ مغلیہ جس منشور کو وقیع کرنا چاہتے تھے تو اس پر اپنے دست خاص سے صادر کر دیتے تھے نعمت خاں عالی اپنے وقائع میں اس حرف صاد کی نسبت لکھتا ہے.سمادشش صاد است از کلک فرنگی ببخن یعنی چھٹا حرف صاد ہے جو بادشاہ اپنے ہاتھ سے مناشیر پر ثبت کرتا ہے.دوسرامنشورشاہنشاہ ہندوستان محمد شاہ کا ہے جو جلالت تاب میرزا گل محمد صاحب آنَارَ اللَّهُ بُرْهَانَهُ کی طرف ہے.اس پر ایک مہر کا نقش ہے.جس کے حروف یہ ہیں.بالله محمود في كل فعاله محمد غالباً به نقش خاص شاہی ہاتھ کی انگوٹھی کی مُہر کا ہے اور نہایت خوشخط کندہ کیا ہوا ہے.مگر افسوس ہے کہ پھیکا لگا ہے جس کے حروف ماند پڑ گئے ہیں.خاکسار نے آئی گلاس منگوا کر نہایت دقت کے بعد
سیرت المہدی پڑھا ہے.663 حصہ سوم فرخ سیر ہندوستان کے عہد میں جبکہ دارالسلطنت کے نواح واطراف کے رؤساء کی خودسری نے سلطنت کی باگ ڈور کو ڈھیلا کر رکھا تھا.باوجود یکہ قادیان دہلی سے بعید فاصلہ پر تھا اور آمدورفت کے وسائل بھی کم اور راستہ بھی طویل تھا.مگر غفران تاب نے سلطنت کی وفاداری کو اپنے خاندان کو آل تمغ سمجھ کرارادتمندانه عرائض سے اپنی نجابت کا ثبوت دیا.جن کے جواب میں فرخ سیر نے نہایت محبت آمیز الفاظ کے ساتھ اپنا منشور مع خطاب ارسال کیا.اس منشور اور اس کے بعد کے مناشیر میں بلند حوصلگی اور علو ہمت ثابت کرنے والی یہ بات ہے.کہ غفران ماب نے تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے دربار دہلی میں جانا پسند نہ کیا.کیونکہ اس وقت کے دربار کا نقشہ متملق اور چاپلوس اور خوشامدی اراکین سے راجہ اندر کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا.ملا ہی ومناہی اور ارباب نشاط ڈوم ڈھاریوں سے ہر وقت دربار پر رہتا تھا.غفران ماب نے پنجاب میں رہ کر سلطنت کی وفاداری کا اظہار سرمایہ دیانت سمجھا.مگر جاہ طلبی کو دُور ہی سے دھکا دیا.العظمة لله کیا ہی ہمت عالی تھی کہ شریعت غرز اکو مد نظر رکھتے ہوئے دنیاوی اعزاز کی طرف قدم نہ اٹھایا.ورنہ اس وقت اگر دربار میں پہنچ جاتے تو شاہی عطیات سے مالا مال ہو جاتے اور گرانمایہ جاگیر پاتے.فرخ سیر کے منشور کے بعد جب نہایت غور سے مغفرت انتساب میرزا گل محمد صاحب طاب اللہ ثراہ کے اسمی جس قدر مناشیر ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے.تو ایک اور ہی کیفیت نظر آتی ہے.کہ شاہانِ دہلی کے دربار سے بار بار دعوتی مناشیر صادر ہوتے ہیں.دہلی تو دور سہی وزیر آباد تو دروازے پر ہے.مگر وہ زہد و ورع کا دلدادہ بادشاہ کو ملنے تک نہیں جاتا.اس پر وفاداری کا یہ حال ہے.کہ متواتر عرائض بھیجے جاتے ہیں.اور بھیجے بھی ایسے شخص کی وساطت سے جو دربار میں بھی نہایت متقی اور پر ہیز گار مانا جا تا تھا.جس کو خود محمد شاہ بادشاہ جیسا رنگیلا اور شاہ عالم ثانی فضیلت مآب کمالات دستگاه سیادت و نجابت پناہ سید حیات اللہ کہہ کر پکارتے ہیں.الغرض جہاں میرزا گل محمد صاحب کی کرامات ، زبان زد خلائق ہیں.یہ بات بھی کم نہیں.کہ
سیرت المہدی 664 حصہ سوم آپ نہایت متقی اور پرہیز گار اور علم دوست انسان تھے.ان مناشیر میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے.کہ غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب اور مغفرت نصاب میرزا گل محمد صاحب نے اظہار وفا کیشی کے عرائض بھیج کر اس کے معاوضہ میں جا گیر یا منصب یا خطاب کی استدعا نہیں کی.کیونکہ ان مناشیر میں شاہانِ دہلی نے نہیں لکھا کہ آپ کے طلب کرنے پر یا آپ کی استدعا پر یہ خطاب یا منصب عطا کیا جاتا ہے.بلکہ دربار دہلی نے اپنی خوشی اور خورسندی مزاج سے خطاب اور منصب دیئے ہیں.اور ان عرائض کو ایسے وقت میں نعمت غیر مترقبہ سمجھا ہے.جس وقت اکثر نمک خوار رؤساء جوانب واطراف میں اطاعت سے سرکو بی کر رہے تھے.بالآخر بآداب عرض ہے.کہ اول تو ان سب منا شیر کا فوٹو لے لیا جاوے.ورنہ فرخ سیر کے منشور کا عکس تو ضرور لے لینا چاہئے.اس کے ساتھ انگریزی اور اردو ترجمے بھی ہوں.اگر الفضل میں اس کی کا پیاں چھاپ دی جائیں تو جماعت کے افراد اپنے امام علیہ السلام کے اسلاف کرام کے اعزاز اور مناصب اور علو ہمت پر واقفیت حاصل کر کے ایمان کو تازہ کر لیں.والسلام خاکسار عبید اللہ بسمل احمدی قادیان ۲۴ جنوری ۱۹۳۵ء 722 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقہ سے بہت کراہت کرتے تھے.بلکہ بعض اوقات اس کے متعلق بعض لوگوں پر ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا.مگر سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی جب تشریف لاتے تھے.تو ان کے لئے کہدیا تھا کہ وہ بے شک حقہ پی لیا کریں.کیونکہ سیٹھ صاحب معمر آدمی تھے اور پرانی عادت تھی.یہ ڈر تھا کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں.نیز سیٹھ صاحب بیمار بھی رہا کرتے تھے.چنانچہ ان کو ذیا بیطیس بھی تھا اور کا ر بنکل بھی ہوا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراس کے بڑے تاجر تھے اور نہایت مخلص تھے انہوں نے ۱۸۹۳ء کے آخر میں ہندوستان کے مشہور واعظ مولوی حسن علی صاحب مرحوم کے ساتھ حضرت صاحب کی بیعت کی تھی.مگر افسوس کہ آخری عمر میں ان کی تجارت بہت کمزور ہو گئی تھی.ایک دفعہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا.کہ
سیرت المہدی 665 قادر ہے وہ بارگہ جو ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے“ حصہ سوم چنانچہ ایسا ہی ہوا.کہ یہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا اور پھر نہ سنبھلا اور آج تک کوئی شخص یہ بھید نہ پاسکا کہ اس یکرنگ فدائی پر یہ دور کس طرح آیا.723 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عبــدالـمـحـی عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک نکاح کیا تھا.مگر بعد رخصتانہ انہیں اپنی بیوی پسند نہ آئی.جس پر حضور کی خدمت میں عربی میں خط لکھا کہ میری بیوی میں یہ یہ جسمانی نقص ہیں جن کی وجہ سے مجھے اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی.حضور نے ان کے رقعہ پر ہی یہ مختصر سا فقرہ لکھ کر واپس کر دیا.كمُ اطْفَ السِّرَاجَ وَافْعَلْ مَاشِتُتَ خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ چراغ بجھا لیا کرو اور پھر جو جی میں آئے کیا کرو.مطلب یہ تھا کہ جب شادی کر لی ہے تو اب بیوی کے بعض جسمانی نقصوں کی وجہ سے اس سے بے اعتنائی برتنا ٹھیک نہیں.اگر دیکھنے سے رغبت پیدا نہیں ہوتی.تو چراغ بجھا دیا کرو.تاکہ نظر کام کرنے سے رک جائے اور نقص اوجھل رہیں.اس طرح رغبت ہو جائے گی.مگر افسوس ہے کہ عرب صاحب اپنے دل پر غالب نہ آسکے اور بالآخر بیوی کو طلاق دیدی.724 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے ایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں ایک پیٹنٹ مقوی دوا بھیجی کہ حضور بہت محنت کرتے ہیں اسے استعمال فرمائیں.حضرت صاحب نے ایک دن استعمال کی.تو اسی دن پیشاب کی تکلیف ہوگئی.اس کے بعد حضور نے وہ دوا استعمال نہ کی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حکیم صاحب مرحوم لاہور کے رہنے والے تھے.اور بہت مخلص تھے.حضرت صاحب اکثر ان کی معرفت لاہور سے سودا منگایا کرتے تھے.725 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ اگر کبھی کوئی شخص
سیرت المہدی 666 حصہ سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسم کی عام کمزوری کے دُور کرنے کا نسخہ پوچھتا.تو آپ زیادہ تر یخنی اور شیرہ بادام بتایا کرتے تھے.اور دواؤں میں ایسٹن سیرپ یعنی کچلہ کو نین اور فولاد کا شربت بنایا کرتے تھے.726 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اوائل میں میں حقہ بہت پیا کرتا تھا.یہاں تک کہ پاخانہ میں بھی حقہ ساتھ لے جایا کرتا تھا.تب جا کر پاخانہ ہوتا تھا.ایک مرتبہ حضرت اقدس جالندھر تشریف لائے.جماعت کپورتھلہ اور یہ خاکسار بھی حاضر خدمت ہوئے.وعظ کے دوران میں حقہ کی بُرائی آگئی.جس کی حضور نے بہت ہی مذمت کی.وعظ کے ختم ہونے کے بعد خاکسار نے عرض کی.کہ حضور میں تو زیادہ حقہ پینے کا عادی ہوں.مجھ سے وہ نہیں چھوٹ سکے گا.ہاں اگر حضور دعا فرمائیں.تو امید ہے کہ چھوٹ جائے.حضور نے فرمایا.آؤ بھی دعا کریں سو آپ نے دُعا فرمائی اور اثناء دُعا میں حاضرین آمین آمین کہتے رہے.حضور نے دیر تک خاکسار کیلئے دعا کی.رات کو میں نے خواب میں دیکھا.کہ حقہ میرے سامنے لایا گیا ہے.میں نے چاہا کہ ذرا حقہ پیوں.جب میں حقہ کو مُنہ سے لگانے لگا.تو حقہ کی نلی ایک سیاہ پھنیر سانپ بن گئی.اور یہ سانپ میرے سامنے اپنے پھن کو لہرانے لگا.میرے دل میں اس کی سخت دہشت طاری ہوگئی.مگر اسی حالت رؤیا میں میں نے اس کو مار ڈالا.اس کے بعد میرے دل میں حقہ کی انتہائی نفرت پیدا ہو گئی.اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے حقہ چھوڑ دیا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ میاں فیاض علی صاحب پرانے صحابہ میں سے تھے.اب چند سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں.6727 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ۱۸۹۰ء میں قادیان مسجد مبارک میں بیعت کی تھی.مجھ سے پیشتر چند گنتی کے آدمی بیعت میں داخل ہوئے تھے.اس وقت میں سوائے اپنے اور جماعت کپورتھلہ کے کسی مہمان کو مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان پر نہ دیکھتا تھا.حضرت اقدس دستِ مبارک سے زنانہ مکان سے کھانا لے آتے تھے.اور ہمارے
سیرت المہدی 667 حصہ سوم ساتھ بیٹھ کر تناول فرماتے تھے اور خاکسار سوائے شاذ و نادر کے ہمیشہ ہر ایک مباحثہ اور سفر میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہے.728 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ خاکسار نے حضور اقدس علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے مولویوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے.اس لئے حضور کچھ ارشادفرماویں.آپ نے فرمایا.کہ جب کہیں گفتگو کا موقعہ ملے.تو دُعا کرلیا کرنا.اور یہ کہدیا کرنا کہ میں نے حق کو پہچانا اور قبول کرلیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ یہ نصیحت بہت مختصر ہے مگر اس میں تاثیرات کا خزانہ مخفی ہے.729 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے خاکسار کا ہاتھ پکڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ حضور یہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ہیں.اس پر حضور نے فرمایا.کہ میں ان کو اچھی طرح پہچانتا ہوں.یہ تو بہت دفعہ آئے ہیں.730 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی.فرمایا.دُعا کرونگا.پھر دوسرے دن اسی طرح عرض کی.پھر تیسرے دن بھی عرض کی.اس پر فرمایا.کہ مولوی صاحب آپ تو اس طرح سے کہتے ہیں جیسے آپ کی عمر اسی سال کی ہو گئی ہے.آپ کے ہاں تو بیسیوں لڑکے ہو سکتے ہیں.سو الحمد للہ کہ اب میں صاحب اولاد ہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے.کہ مردکواولا د سے جلد مایوس نہیں ہونا چاہئے.اگر کوئی خاص نقص نہ ہو تو اسی نوے سال تک مرد کے اولا دہو سکتی ہے.731 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں محمد عبد الرحمن صاحب مسکین فریدآبادی ( برادر اکبر ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی) نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ۱۹۰۱ء میں ایک مرتبہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس مسجد مبارک میں تھی.میں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی
سیرت المہدی 668 حصہ سوم فرمائش پر حضرت صاحب کی خدمت میں وہ نظم پڑھی جو کہ میں نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھی تھی.جس کے دواشعار نمونةً درج ہیں.مثیل مسیح نے جو دعو کئی پکارا صلیب نصار کی کیا پارا پارا غلامان گروه پادری بس ہوا ہارا ہارا احمد کو آیا فرارا ان اشعار کوسُن کر حضرت اقدس بہت محظوظ ہوئے اور حضور علیہ السلام نے منہ پر رومال رکھ کر بمشکل ہنسی کو روکا.اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی عبدالکریم صاحب اور نواب محمد علی خانصاحب بھی بہت ہی ہنسے اور خوش ہوئے.اس خوشی میں مجھ کو تین کتابیں (ایام اصلح.الوصیت.مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کی تصنیف کردہ احادیث مسیح موعود ) بطور انعام عنایت فرمائیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتب کے نام کے متعلق میاں عبدالرحمن صاحب کو سہو ہوا ہے.کیونکہ الوصیت تو لکھی ہی ۱۹۰۵ء میں گئی تھی.یا ممکن ہے سنہ کے متعلق سہو ہوا ہو.نیز روایت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انعام کس نے دیا تھا.میرا خیال ہے کہ حضرت خلیفہ اول یا نواب صاحب نے دیا ہوگا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے.کہ میاں عبدالرحمن بیچارے شعر کے وزن و قوافی سے واقف نہیں تھے.اس لئے بعض اوقات ان حدود سے متجاوز ہو جاتے تھے.اور الفاظ بھی عجیب عجیب قسم کے لے آتے تھے (اس لئے مجلس میں ہنسی کی یفیت پیدا ہوگئی ہو گی.مگر بہر حال بہت مخلص تھے.اسی غزل کا آخری شعر یہ تھا کہ:.نوائین نے جب کہ مجھ کو پکارا گیا افرا تفری میں مضموں ہمارا اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میاں عبدالرحمن صاحب یہ غزل لکھ رہے تھے تو نواب صاحب کے دو صاحبزادوں نے انہیں کسی کام کے لئے پے در پے آواز دی.اور اس گھبراہٹ میں ان کا مضمون اور شعر دماغ میں منتشر ہو کر رہ گئے.میاں عبد الرحمن صاحب نواب صاحب کے ہاں نوکر تھے.732 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۱ ء یا ۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے.کہ میں دارالامان میں موجود تھا.ان دنوں میں ایک نواب صاحب حضرت خلیفة المسیح اول کی خدمت میں علاج کے لئے آئے ہوئے تھے.جن کے لئے ایک الگ
سیرت المہدی 669 حصہ سوم مکان تھا.ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے.جن میں سے ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا.اور عرض کیا.کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں.آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں.اس لئے نواب صاحب کا منشاء ہے کہ آپ ان کے ہمراہ وہاں تشریف لے چلیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.کہ میں اپنی جان کا مالک نہیں.میرا ایک آقا ہے اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے.پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد مبارک میں بیٹھ گئے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا.حضور نے فرمایا.اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے.لیکن مولوی صاحب کے وجود سے یہاں ہزاروں لوگوں کو ہر روز فیض پہنچتا ہے.قرآن مجید اور احادیث کا درس دیتے ہیں.اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں.ایک دنیا داری کے کام کے لئے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے.اس دن جب عصر کے بعد حضرت مولوی صاحب درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے.فرمایا مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے.وہ یہ کہ میں ہر وقت اسی کوشش میں رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے.آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے میرے آقا نے میری نسبت ایسا خیال ظاہر کیا ہے.کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا.733 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسط مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کابل کے مہاجرین پہلے پہل ہجرت کر کے قادیان آئے تو ظہر کی نماز کے وقت کھڑکی کے پاس میں نے اور پٹھانوں نے حضرت صاحب کے لئے کپڑا بچھا دیا.لیکن حضور دوسری کھڑکی سے تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے.میں نے عرض کیا.کہ حضور ہم نے تو دوسری کھڑکی کے پاس کپڑا بچھایا تھا.حضور نے فرمایا.کہ چلو وہاں ہی سہی.اور اُٹھ کر دوسری کھڑکی کے پاس تشریف فرما ہو گئے.734 بسم الله الرحمن الرحیم.ماسٹر اللہ دتنا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کے وقت حضور تشریف رکھتے تھے.کپورتھلہ کے ایک
سیرت المہدی 670 حصہ سوم دوست مہاراجہ کپورتھلہ کا حال سُنا رہے تھے.کہ سرکا ر آپ سے بہت محبت رکھتے ہیں.حضور ان کو کوئی کتاب بھیجیں.اس پر حضور نے فرمایا.ہم سرکاروں کو نہیں بھیجا کرتے.بلکہ غریبوں کو بھیجا کرتے ہیں اگر غریب لوگ اس پر عمل کرینگے.تو اللہ تعالے ان کو ہی سر کار بنادے گا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب نے بادشاہوں اور فرمانرواؤں کے نام دعوتی مراسلات بھیجے ہیں.کیونکہ آخر اس طبقہ کا بھی حق ہے.مگر اس موقعہ پر آپ نے غالباً اس لئے استغناء ظاہر کیا ہوگا کہ تجویز پیش کرنے والے نے راجہ صاحب کی تبلیغ کو ایک بہت بڑی بات سمجھا ہو گا.اور خیال کیا ہو گا کہ راجہ صاحب مان لیں تو نہ معلوم پھر کیا ہو جائے گا.جس پر حضور نے استغناء کا اظہار کر کے غرباء کے طبقہ کو زیادہ قابل توجہ قرار دیا.735 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص عبد الحق صاحب بی.اے جولدھیانہ کے ایک مولوی کا بیٹا تھا اور عیسائی ہوگیا تھا، حضور کے پاس آیا.اس نے دل میں کچھ سوال سوچے کہ اگر ان کے جواب میرے پوچھنے کے بغیر دے دیئے گئے تو میں مان لونگا.سو اس وقت ایسا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس میں گفتگو شروع کر کے ان سوالوں کے جواب دے دیئے.اور وہ شخص مسلمان ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ حضرت صاحب نے یہ بیان کر کے کہ انہیں یہ سوال در پیش ہیں کوئی تقریر فرمائی.بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اس موقعہ پر ایسی تقریر فرمائی جس میں ان سوالوں کا جواب خود بخود آ گیا.اس قسم کا تصرف الہی اور بھی متعد دروایتوں سے ثابت ہے.736 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یا کسی کی درخواست پر دُعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ منہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی و چہرہ مبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتا تھا.اور آپ آلتی پالتی مار کر دُعا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ دوزانو ہوکر دُعا فرماتے تھے.اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دُعا کے وقت
سیرت المہدی 671 حصہ سوم دوزانو ہو جایا کرتے تھے.یہ دُعا کے وقت حضور کا ادب الہی تھا.737 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے کئی دفعہ فرمایا کہ بندہ جب تنہائی میں خدا کے آگے عاجزی کرتا ہے اور اس سے دعا کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تو اگر اس حالت میں کوئی دوسرا اس پر مطلع ہو جائے تو اس کو اس سے زیادہ شرمندگی ہوتی ہے جتنی کہ اگر کسی بدکار کو کوئی عین حالت بدکاری میں دیکھ لے تو اُسے ہوتی ہے.اُسے قتل ہو جانا اور مر جانا بہتر معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اس کی اس حالت پر کوئی غیر مطلع ہو جائے.خاکسار عرض کرتا ہے یہ بات عام عبادت اور عام دُعا کے لئے نہیں ہے بلکہ تنہائی کی خاص دعا اور خشوع خضوع کی حالت کے متعلق ہے جبکہ بندہ گویا ننگا ہوکر خدا کے سامنے گر جاتا ہے.738 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ ایک دن رسول خدا صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ نے پچھلی رات اپنے بستر میں نہ پایا.اُٹھ کر دیکھا تو آپ گھر میں موجود نہ تھے.انہوں نے خیال کیا کہ شاید کسی اور بیوی کے گھر میں تشریف لے گئے ہونگے چنانچہ وہ دبے پاؤں تلاش کرتی ہوئی باہرنکلیں تو دیکھا کہ آپ قبرستان میں زمین پر اس طرح پڑے تھے جس طرح فرش پر کوئی چادر بچھی ہوئی ہو.اور خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے.سَجَدَتْ لَكَ رُوحِی وَجَنَانِی» یعنی اے میرے خالق و مالک ! میری رُوح اور میرا دل تیرے حضور سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو بھلا یہ کسی مکار کا کام ہے.جب تک سچا عاشق نہ ہو تب تک ایسا نہیں ہوسکتا.اسی لئے تو کفار آپ کے حق میں کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلَى رَبِّہ یعنی محمد تو اپنے خدا پر عاشق ہو گیا ہے.739 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ رمضان شریف میں تہجد پڑھنے کے متعلق حضور سے کسی نے سوال کیا یاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تہجد کے لئے اول وقت اٹھنا چاہئے نہ کہ عین صبح کی نماز کے ذرا قبل.ایسے وقت میں تو کتے بھی بیدار ہو جاتے ہیں.
سیرت المہدی 672 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول وقت سے رات کا حصہ مراد نہیں بلکہ تہجد کے وقت کا اول حصہ مراد ہے یعنی نصف شب کے جلد بعد.آنحضرت ﷺ کا بھی یہ طریق ہوتا تھا کہ تہجد ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ لمبی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو صبح کی اذان سے قبل کسی قدر استراحت کا موقعہ مل جاتا تھا لیکن نو جوان بچے اگر تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے صبح کی اذان سے کچھ وقت پہلے بھی اُٹھ لیا کریں تو ہرج نہیں.740 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور احمد یہ بلڈنکس میں حضور تشریف فرما تھے کہ شر قبور بھینی سے ایک ضعیف العمر ناتواں شخص مستقیم نام حضور کے خدمت میں زیارت کے لئے آیا.احباب کے گھر مٹ میں وہ حضور تک نہ پہنچ سکا اور بلند آواز سے بولا.حضور میں تو زیارت کے لئے آیا ہوں.حضور نے فرمایا.بابا جی کو آگے آنے دو.لیکن وہ اچھی طرح اُٹھ نہ سکا.اس پر حضور نے فرمایا.بابا جی کو تکلیف ہے اور پھر حضور خود اٹھ کر اس کے پاس آبیٹھے.741 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بابا کریم بخش صاحب سیالکوٹی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ۶ ، ۱۹۰۵ء کے جلسہ کا واقعہ ہے.کہ میں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لئے آیا.اس وقت مسجد اقصیٰ چھوٹی تھی.میں نے جوتیوں پر اپنی لوئی بچھا دی.اور چودھری غلام محمد صاحب و میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی بھی وہاں نماز پڑھنے لگے.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آگئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے.نماز سے فارغ ہونے کے بعد قریب کے مکان والے آریہ نے گالیاں دینا شروع کر دیں.کیونکہ اس کے مکان کی چھت پر بعض اور دوست نماز پڑھ رہے تھے.جب وہ گالیاں دے رہا تھا.حضور منبر پر تشریف لے گئے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے حالات اور لوگوں کے مظالم بیان کرنے شروع کئے.جس پر اکثر دوست رونے لگے.اسی اثناء میں میں کسی کام کے لئے بازار میں اُترا.واپسی پر دیکھا کہ بھیڑ زیادہ ہے.اتنے میں حضور کے یہ الفاظ میرے کان میں پڑے کہ ”بیٹھ جاؤ جو حضور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمارہے تھے.میں یہ الفاظ سنتے ہی وہیں بازار میں بیٹھ گیا.اور بیٹھے بیٹھے
سیرت المہدی 673 حصہ سوم مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچا.اور حضور کی تقریرسنی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی قسم کا واقعہ حدیث میں بھی ایک صحابی عبد اللہ بن رواحہ کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اس قسم کی آواز سن کر گلی میں ہی بیٹھ گئے تھے.یہ محبت اور کمال اطاعت کی نشانی ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ احمدیت میں اخلاص کا نمونہ عین صحابہ کے نقش قدم پر چلتا ہے.742 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلاب لیا ہوا تھا کہ دو تین خاص مرید جن میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی تھے عیادت کے لئے اندر ہی گھر میں حاضر ہوئے.اس وقت خاکسار کو بھی حاضر ہونے کی اجازت فرمائی.خاکسار نیچے فرش پر بیٹھنے لگا.اس پر حضور اقدس نے فرمایا.کہ آپ میرے پاس چار پائی پر بیٹھ جائیں.خاکسار الآمُرُ فَوقَ الأَدَبِ “ کو حوظ رکھ کر چار پائی پر بیٹھ گیا.بوقت رخصت میں نے بیعت کے لئے عرض کی.فرمایا.کل کر لینا.میں نے دوبارہ عرض کیا کہ آج جانے کا ارادہ ہے.اس پر حضور نے چار پائی پر ہی میری بیعت لی.اور دُعا فرمائی.اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے مجھ کو مبارکباد دی کہ یہ خاص طور کی بیعت لی گئی ہے.743 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے تو راستہ میں فرمایا.آج رات مجھے یہ الہام ہوا ہے.رُبَّ أَغْبَرَ اشْعَتْ لَوْ أَقْسَمَ بِاللهِ لَا بَرَّهُ.اور فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعد اللہ لدھیانوی کی موت کے تتعلق ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سعد اللہ کا ذکر روایت نمبر ۳۹۰ میں بھی گزر چکا ہے.اور عربی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات ایک گرد آلود شخص جس کے بال پریشانی کی وجہ سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں خدا کی محبت پر ناز کر کے اس کی قسم کھا کر ایک بات کہتا ہے اور باوجود اس کے کہ اس بات کا پورا ہونا بظاہر اس الہام کے الفاظ میں راوی مذکور کو سہو ہوا ہے.الہام کے اصل الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمائے ہیں یہ ہیں رُبَّ أَشْعَتْ أَغْبَرَ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَابَرَّهُ " 66 ( تذکرہ ایڈیشن چهارم صفحه ۵۸۱)
سیرت المہدی 674 حصہ سوم مشکل ہوتا ہے خدا اس شخص کی خاطر اسے پورا کر دیتا ہے.اور اس کی عزت رکھ لیتا ہے.67440 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جھنگی والے پیر اپنے ایک بھائی کا علاج کروانے کے لئے قادیان آئے اور مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں ٹھہر نا چاہا.مگر جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو حضور نے ان کے قیام وغیرہ کا بندوبست اپنے ہاں کروالیا.حضرت خلیفہ اول نے انہیں تین دن ٹھہرایا.اس وجہ سے ان کو حضور علیہ السلام کے پاس آنا پڑتا تھا.ایک دن مسجد مبارک میں ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ سفر کی کتنی حد ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کو سفر کی کیا ضرورت پیش آتی ہے.انہوں نے کہا کہ مریدوں کے پاس جانے کو دورہ کرنا پڑتا ہے.اس پر فرمایا.اگر آپ بیٹھے رہیں تب بھی جو قسمت میں ہے مل جائیگا.دیکھو ہم کبھی اس نیت سے باہر نہیں گئے.یہاں ہی اللہ تعالے سب کچھ بھیج دیتا ہے.اگر آپ بھی سفر نہ کریں تو دونوں کسریں ( نماز اور رزق ) جاتی رہیں.﴿745 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی مجد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب یا کسی اور شخص نے ملاں محمد بخش ساکن لاہور عرف جعفر زٹلی کا ایک کارڈ پیش کیا.جس میں لکھا تھا کہ آریوں نے مسلمانوں کو بھی اپنے جلسہ میں مدعو کیا ہے.آپ حضرت مرزا صاحب کو میرا سلام کہہ دیں اور عرض کر دیویں کہ اسلام کی عزت رکھی جائے اور حضرت صاحب اس موقعہ پر ایک مضمون لکھیں اس پر حضرت صاحب نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ لوگ بڑے بے حیاء ہیں.ایک طرف تو ہم کو کافر کہتے ہیں اور دوسری طرف ہم کو سلام کہتے ہیں اور اسلام کی اعانت کے واسطے دعوت دیتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جعفر زٹلی ایک بڑا ہی بدگو معاند تھا.لیکن جب آریوں کے مقابلہ پر اپنی بے بضاعتی دیکھی اور اپنے گروہ میں کسی کو اس کا اہل نہ پایا تو نا چار حضرت صاحب کی طرف رجوع کیا کیونکہ ان لوگوں کا دل محسوس کرتا تھا کہ اگر باطل کا سر کچلنے کی کسی میں طاقت ہے تو وہ صرف حضرت صاحب ہیں.746 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ
سیرت المہدی 675 حصہ سوم خاکسار کو اکثر موقعہ ملتا رہا ہے کہ آنحضرت کے پاؤں یا بدن دبائے یا کھانے کے واسطے ہاتھ دُھلائے.میاں شادی خان صاحب ( حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے خسر ) آپ کے خادم ہوتے تھے اور وہ آپ کے واسطے کھانا لایا کرتے تھے.حضرت صاحب جب روٹی کھاتے تھے تو ساتھ ساتھ روٹی کے ریزے بناتے جاتے تھے اور فراغت پر ایک خاصی مقدار ریزوں کی آپ کے سامنے سے اُٹھا کرتی تھی جو پرندوں وغیرہ کو ڈالدی جاتی.آپ کے کھانے میں لنگر کا شور بہ مع ترکاری ہوتا تھا.اکثر اوقات دہی اور آم کا اچار بھی ہوتا تھا.ان ایام میں آپ زیادہ تر رہی اور اچار کھایا کرتے تھے.خاکسار اور مولوی عبداللہ جان صاحب پشاوری اکثر آپ کا پس خوردہ کھا لیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عبداللہ جان صاحب جن کا اس جگہ ذکر ہے وہ میرے نسبتی برادر یعنی میری بیوی کے حقیقی بھائی ہیں.مگر افسوس ہے کہ حضرت خلیفة المسیح اول کے بعد غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے.رض 6747 بسم اللہ الرحمن الرحیم میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے متعدد مرتبہ دیکھا کہ حضرت اقدس جب بیعت لیتے.تو حضور جب یہ الفاظ فرماتے ، کہ اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کئے اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.تو میرے گناہوں کو بخش دے.تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ، تو تمام آدمی رونے لگ جاتے تھے اور آنسو جاری ہو جاتے تھے کیونکہ حضرت صاحب کی آواز میں اس قدر گداز ہوتا تھا کہ انسان ضرور رونے لگ جاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ الفاظ یوں یاد ہیں کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.748 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب نے چھوٹی مسجد میں جمعہ پڑھایا.حضرت صاحب بھی وہیں جمعہ میں موجود تھے.مولوی صاحب نے درود شریف پڑھکر خطبہ پڑھا.اور اس میں انہوں نے اس درود سے یہ استدلال کیا کہ حضرت ابراہیم جو ابوالانبیاء ہیں.ان پر تمام انبیاء اور ان کی امتیں اسی طرح صلوٰۃ اور برکت کی
سیرت المہدی 676 حصہ سوم دعائیں پڑھتی ہیں اور اسی دُعا اور برکت کا یہ اثر ہے کہ آج ہم میں بھی ایک نبی پیدا ہوا جو ہم میں اس وقت موجود ہے.وہ خطبہ بہت ہی لطیف تھا.میں غور سے ٹکٹکی باندھ کر حضرت اقدس کے چہرہ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اس خطبہ کا حضرت صاحب پر کیا اثر ہوتا ہے.لیکن حضور علیہ السلام پر اس خطبہ کا کوئی خاص اثر میں نے محسوس نہ کیا.اس دن نماز مغرب کے بعد بھی حضور کافی عرصہ تک مسجد میں بیٹھے رہے.مگر حضرت صاحب نے اس خطبہ کے متعلق کچھ ذکر نہ کیا.میرے دل میں خیال آیا کہ حضرت صاحب کو ایک نیا مضمون ملا ہے.اب حضرت صاحب اس پر کوئی الگ مضمون تحریر فرمائیں گے مگر حضرت صاحب نے اپنی کسی کتاب میں اس مضمون کا ذکر تک نہیں کیا.جس سے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس ادھر ادھر کی باتیں اڑا لینے والے نہ تھے بلکہ وہی کہتے تھے جو خدا آپ کو بتلاتا تھا.749 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں نماز جنازہ خود حضور ہی پڑھاتے تھے.حالانکہ عام نمازیں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبد الکریم صاحب پڑھاتے تھے.کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جمعہ کو جنازہ غائب ہونے لگا تو نماز تو مولوی صاحبان میں سے کسی نے پڑھائی اور سلام کے بعد حضرت مسیح موعوڈ آگے بڑھ جاتے تھے اور جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے.مگر حضرت خلیفة المسیح اوّلی کے جتنے بچے فوت ہوئے.ان کی نماز جنازہ حضرت مولوی صاحب نے خود ہی پڑھائی.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل نماز ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کی وجہ میں اچھی طرح سمجھا نہیں.شاید کبھی حضرت صاحب نے خود مولوی صاحب سے ایسا فرمایا ہو یا شاید یہ وجہ ہو کہ چونکہ حضرت صاحب بہت رقیق القلب تھے اور نماز جنازہ میں امام کے دل پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اول اپنے بچوں کے تعلق میں حضرت صاحب کو کوئی جذباتی صدمہ پہنچانا پسند نہ فرماتے ہوں خصوصاً جبکہ آپ جانتے تھے کہ مومنوں کے معصوم بچے بہر حال جنتی ہوتے ہیں.750 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس کے غناء ذاتی کا ذکر فرمایا کرتے تھے.اسی ذکر میں بیان فرمایا کرتے تھے
سیرت المہدی 677 حصہ سوم کہ بدر کی جنگ میں جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا حد درجہ کو پہنچا دی تو حضرت ابو بکر نے کہا کہ یا رسول اللہ ! جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح کا وعدہ ہے تو پھر آپ اس قدر مضطرب کیوں ہوتے ہیں.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ابو بکر کی معرفت سے بہت زیادہ تھی.اور آنحضرت ﷺہ خدا کی صفت غناء ذاتی کے بہت زیادہ عارف تھے مگر ابوبکر کو صرف خدا کے ظاہری وعدہ کا خیال تھا.اس لئے جہاں ابو بکر کو خدائی وعدہ کی وجہ سے تسلی تھی آنحضرت علی باوجود تسلی یافتہ ہونے کے خدا کے غناء ذاتی کے خیال سے بھی خائف تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فارسی شعر ہے جس کا ایک مصرع یہ ہے اور کیا خوب مصرع ہے کہ:.6600 ہر کہ عارف تر است ترساں تر“ 751 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ ء یا ء کا واقعہ ہے کہ آریوں کا ایک اخبار شجھ چنتک قادیان سے شائع ۰۷ ہوتا تھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کثرت کے ساتھ دل آزار مضامین شائع ہوتے تھے.ہمیں اس اخبار کو پڑھ کر از حد غصہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس کا جواب نہ دے.ہم خود جواب لکھیں گے.چنانچہ حضرت صاحب نے رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم تالیف فرمایا.اس رسالہ میں اپنے نشانات پیش کر کے لالہ ملاوامل اور لالہ شرمیت کو چیلنج دیا کہ وہ میرے ان نشانات کے گواہ ہیں.اگر یہ نشانات برحق نہیں تو حلفیہ انکار کر کے اشتہار شائع کریں.پھر دیکھو کہ عذاب الہی کس طرح ان پر مسلط ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ تو ممکن ہے کہ یہ لوگ حق کو ٹالنے کے لئے بغیر الفاظ مباہلہ یا قسم کے ایسا اشتہار دیدیں.مگر یہ ممکن نہیں کہ مؤکد بعذاب قسم کے ساتھ انکار کر کے کوئی اشتہار شائع کریں.آپ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ نے ان دونوں ( یعنی لالہ ملا وامل ولالہ شرمیت کو ) اولا د بھی دی ہوئی ہے اس لئے کہ اگر یہ قسم کھا کر اشتہار دیں گے تو ان کی اولا د پر بھی عذاب نازل ہوگا.
سیرت المہدی 678 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار شجھ چشتک اپنی گندہ دہنی میں انتہا کو پہنچ گیا تھا.اس پر اللہ تعالے کی غیرت جوش میں آئی اور چند دن کے اندر اندر اس کا سارا عملہ طاعون کا شکار ہو گیا.ان لوگوں کے نام اچھر چند اور سومراج وغیرہ تھے.752 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی.اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ ء کے قریب شیخ عبدالرشید صاحب سوداگر چرم بٹالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے باپ نے مجھے عاق کر دیا ہے یا کر دینے والا ہے جس سے میں محروم الارث ہو جاؤنگا.حضور نے شیخ صاحب موصوف کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھبراؤ مت.مجھے دُعا کے لئے یاد دلاتے رہو.خدا بہتر سامان کر دے گا.چنانچہ ہفتہ عشرہ کے بعد بٹالہ سے خبر آئی کہ شیخ صاحب کا باپ مر گیا ہے.753 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلمی ثم افریقوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری بیعت کا موجب ایک مولوی صاحب ہوئے جو لاہور انجمن اسلامیہ کے سالانہ جلسہ پر پنڈال سے باہر وعظ کر رہے تھے.وہ قرآن کریم کو ہاتھ میں لیکر حلفیہ طور پر بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحب (نعوذ باللہ ) کوڑھی ہو گئے ہیں.اس لئے کہ وہ (نعوذ باللہ ) نبیوں کی ہتک کرتے تھے.جس کو شک ہو قادیان جا کر دیکھ لے.خدا کی شان ہے کہ یہ سُن کر میرے دل میں قادیان جانے کی تحریک پیدا ہوئی.جب میں آیا.تو حضرت صاحب کو بالکل تندرست پایا.تب میں نے حضور کو سارا قصہ سُنایا.حضور نے ہنس کر فرمایا.یہ مولوی ہمارے مقابلہ میں جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں.تب میں نے آپ کی بیعت کر لی کہ میں ان جھوٹوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا.بیعت کے ایک سال بعد حضور کرم دین کے مقدمہ کے تعلق میں شہر جہلم میں آئے.برلپ در یا جماعت جہلم نے ایک کوٹھی حضور کی رہائش کے لئے مقرر کر رکھی تھی.شام کے وقت جب حضور کے سامنے کھانا رکھا گیا.تو حضور نے فرمایا.میں گوشت ایک سال سے نہیں کھاتا.پلاؤ کا ایک تھال بھرا پڑا تھا.مگر حضور نے خمیری روٹی کے چند لقمے شوربہ میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پتلا کر کے کھائے.مگر پلاؤ کھانے سے انکار کیا.اس پر ہم لوگوں نے عرض کیا کہ
سیرت المہدی 679 حصہ سوم حضور تبر کا ایک لقمہ ہی اٹھا لیں.اس پر آپ نے چند دانے چاولوں کے اٹھا کر منہ میں ڈالے.باقی چاول ہم لوگوں نے تبرک کے طور پر تقسیم کر لئے.دوسرے دن جب ڈپٹی سنسار چند کے سامنے وکلاء کی تقاریر ہوئیں.تو ساڑھے چار بجے واپسی پر غلام حیدر صاحب تحصیلدار نے حضور سے کہا کہ آج خواجہ کمال الدین صاحب نے بہت عمدہ تقریر کی ہے ( خواجہ صاحب بھی اس وقت ساتھ ہی تھے ) حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ ابھی کیا ہے، آئندہ خواجہ صاحب کی اور بھی اچھی تقریر ہوگی.سوہم نے دیکھا کہ بعد میں خواجہ صاحب کی تقریر حضور کی دُعا کے مطابق بہت قابل تعریف ہوتی تھی.مگر افسوس کہ خواجہ صاحب نے اسے اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھا اور خلیفہ اول کی وفات پر ٹھوکر کھا کر خلافت سے الگ ہو گئے.جہلم میں حضور کے ساتھ شہزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید بھی تھے.حضور احاطہ کچہری میں ان کے ساتھ فارسی میں گفتگو فرمارہے تھے اور اردگر دلوگوں کا ہجوم تھا.ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور اردو میں تقریر فرمائیں تا کہ عام لوگوں کو بھی کچھ فائدہ ہو.اس پر حضور نے اردو میں تقریر شروع کر دی.آپ نے فرمایا.مسلمانوں کے تمام فرقے مہدی کے منتظر ہیں.مگر مہدی نے تو بہر حال ایک شخص ہی ہونا تھا اور وہ میں ہوں.اگر میں شیعوں کو کہوں کہ میں تمہارا مہدی ہوں جو کچھ تمہاری روایات میں درج ہے.وہ صحیح ہے اور اسی طرح سنیوں اور وہابیوں کو بھی کہوں تا کہ سب مجھ سے راضی ہو جائیں تو یہ ایک منافقت ہے.ان کو اتنا معلوم نہیں کہ مہدی کا نام حکم عدل ہے.وہ تو سب فرقوں کا صحیح فیصلہ کرے گا.جس کی غلطی ہوگی اس کو بتائے گا تب وہ سچا ہو گا.بس یہی وجہ ہے کہ سب فرقے ہمارے دشمن ہو گئے ہیں.ورنہ ہم نے ان کا اور کیا نقصان کیا ہے اور حضور دیر تک گفتگو فرماتے رہے.اسی روز حضور نے کوٹھی پر عورتوں میں بھی ایک تقریر فرمائی.جس میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو میں نے جو تم کو نصیحت کی ہے یہ میری آخری نصیحت ہے جس طرح کوئی مرنیوالا اپنے لواحقین کو آخری وصیت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب میں واپس لوٹ کر نہ آؤں گا.اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ تم پھر مجھے اس شہر میں نہ دیکھو گے.اس لئے تم کو چاہئے کہ میری نصیحت کو دل کے کانوں سے سنو.اور اس پر عمل کرو.چنانچہ ابھی مقدمہ کی پہلی ہی تاریخ تھی اور کسی کو پتہ نہ تھا کہ کتنی اور پیشیاں ہوں گی اور کتنی مرتبہ حضور
سیرت المہدی 680 حصہ سوم کو جہلم آنا پڑے گا.مگر خدا کی قدرت کہ اس کے بعد مقدمہ ہی گورداسپور میں تبدیل ہو گیا.پھر حضور کو جہلم نہ جانا پڑا.اس کے بعد جہلم میں میری سخت مخالفت ہوئی.میں نے قادیان آ کر حضور سے افریقہ جانے کی اجازت طلب کی.حضور نے فرمایا.کہ جب انسان سچائی قبول کر لیتا ہے تو پہلے ضرور ابتلاء آتے ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس قد را بتلاؤں میں مبتلا کرنے والا ہوتا ہے.اس لئے مجھے ڈر ہے کہ باہر کہیں اس سے زیادہ ابتلاء نہ آجائے.میرے خیال میں آپ صبر سے کام لیں.اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا.کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ایک دوست نبی بخش افریقہ سے آئے.میں نے اُن سے حالات کا تذکرہ کیا.وہ مجھے افریقہ لے جانے پر رضا مند ہو گئے.اس وقت میں نے حضور سے پوچھا اور حضور نے اجازت دیدی اور میں ان کے ہمراہ چلا گیا اور خدا نے وہاں مجھے بیوی اور بچے بھی دیئے اور ہر طرح سے اپنا فضل کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سفر جہلم ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا.754 بسم الله الرحمن الرحیم.شیخ عبد الحق صاحب ولد شیخ عبداللہ صاحب ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالبا اس جلسہ سالانہ کا ذکر ہے.جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد اقصے میں اپنی تقریر میں اپنے آپ کو ذوالقر نین ثابت کیا تھا.جلسہ کے بعد ایک ایرانی بزرگ مسجد کے صحن میں حضرت خلیفتہ اسیح اول کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور بزبان فارسی حضور سے سلسلہ کلام شروع تھا.اور چند آدمی حلقہ کئے ہوئے وہاں اس بزرگ کی گفتگوسُن رہے تھے.خاکسار بھی شامل ہو گیا.کافی عرصہ تک یہ سلسلہ کلام جاری رہا.چونکہ سامعین میں سے اکثر فارسی نہ سمجھتے تھے.اس لئے ایک دوست نے کسی دوست کو کہا کہ آپ تو فارسی کلام اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے ذرا ہمیں بھی مطلب سمجھا دیں.چنانچہ اس دوست نے پنجابی میں وہ کلام سُنا دی.جس کا ماحصل یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے اس ایرانی بزرگ سے دریافت کیا.کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں.جواب ملا کہ شیراز کا باشندہ ہوں.پھر آپ نے دریافت فرمایا.کہ آپ یہاں کیسے تشریف لائے.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب آپ کو پہنچی ہیں یا وہاں احمد یہ جماعت کا کوئی فرد پہنچ گیا تھا جس نے آپ کو حضور کے دعوئی کی تبلیغ کی؟ ایرانی
سیرت المہدی 681 حصہ سوم بزرگ نے جواب دیا کہ نہ تو کوئی کتاب پہنچی تھی اور نہ ہی کسی مبلغ نے مجھے تبلیغ کی ہے.میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہاں آیا ہوں.اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ بعد نماز تہجد کشف میں نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی.ایسی حالت میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب ایک اور بزرگ اسی تخت نورانی پر جس پر آنحضرت جلوہ افروز تھے ہمنشین ہیں.اور اس بزرگ کی شکل و شباہت حضور علیہ السلام سے تقریباً ملتی جلتی ہے.میں نے آنحضرت سے عرض کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ امام مہدی علیہ السلام ہیں.جو آج کل قادیان میں نازل ہو چکے ہیں.اس ارشاد نبوی کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اور میں اس تلاش میں لگ گیا.کہ قادیان کا پتہ چلے.چنانچہ بڑی کوشش کے بعد معلوم ہوا کہ پنجاب میں لاہور کے قریب ایک گاؤں قادیان ہے اور وہاں ایک شخص نے دعویٰ مہدویت کیا ہے.اس مکاشفہ کی بناء پر میں یہاں پہنچ گیا ہوں.اور جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا شرف نیاز حاصل کیا تو دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس تخت پر بیٹھے ہوئے تھے.6755 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی مسیح موعود کے جلد بعد بیعت میں داخل ہوئے تھے.اور ابتداء میں ہر طرح کا جوش اور اخلاص دکھاتے تھے.چنانچہ ازالہ اوہام میں حضرت صاحب نے ان کا ذکر بھی کیا ہے.وہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے بہت عزیز دوست تھے.ان کو نہ آتھم کے زلزلہ کے وقت ابتلاء آیا اور نہ محمدی بیگم کے نکاح کے فسخ کے وقت ابتلاء آیا.بلکہ ابتلاء آیا تو عجیب طرح آیا.یعنی حضرت صاحب جب چولہ صاحب دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابانا نک تشریف لے گئے اور پھر ست بچن لکھنے کا ارادہ فرمایا.تو ان صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا.کہ واہ یہ خوب مسیح اور مہدی ہیں جو ایسی فضول باتوں کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ بابا نانک مسلمان تھے.یہ کام ایسے عہدہ کے شایان نہیں.غرضیکہ وہ پھر ایسے الگ ہوئے کہ مرتے دم تک ادھر رُخ نہ کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فصیح صاحب آتھم والے مناظرہ میں ہماری طرف سے پریذیڈنٹ مقرر
سیرت المہدی 682 حصہ سوم ہوئے تھے.اچھے انگریزی خواں تھے مگر افسوس ہے کہ بعد میں ٹھوکر کھا گئے.گومیں نے سنا ہے کہ ٹھوکر کھانے کے بعد بھی فصیح صاحب نے کبھی عملی مخالفت نہیں کی.صرف الگ ہو کر خاموش ہو گئے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ فصیح صاحب کا یہ اعتراض کہ مسیح ہو کر چولہ کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں نہایت بودا اور کم فہمی کا اعتراض ہے کیونکہ چولہ کی تحقیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نہایت اہم تحقیق ہے جو ایک بڑی قوم کے متعلق نہایت وسیع اثر رکھتی ہے.مجھے تو اس نظارہ سے ایک خاص سرور حاصل ہوتا ہے.اور حضرت صاحب کی شان کی رفعت کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندوؤں اور بدھوں اور عیسائیوں وغیرہ کے بانیوں کو حضرت صاحب نے نیچے رسول ثابت کر کے مسلمانوں کی طرف کھینچ لیا.اور سکھوں کے بانی کو مسلمان ثابت کر کے راستہ صاف کر دیا.اس کے بعد باقی ہی کیا رہا.756 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب ڈیرہ بابا نانک ( تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور ) چولہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.تو یہ عاجز بھی ہمراہ تھا.میں اور شاید حافظ حامد علی مرحوم حضرت صاحب کے یکے میں بیٹھے تھے.اور باقی اصحاب دوسرے بیگوں میں تھے.ہم علی الصبح قادیان سے روانہ ہوئے اور بٹالہ پہنچتے ہی دوسرے یئے گئے اور سید ھے ڈیرہ نانک روانہ ہو کر دو پہر کے وقت پہنچے.وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے آرام کیا.اور عصر کے بعد حضرت صاحب چولہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.دس پندرہ آدمی آپ کے ہمراہ تھے.جن میں شیخ رحمت اللہ صاحب بھی تھے.جس کمرہ میں چولہ رکھا ہوا تھا.اس میں بمشکل ہم سب سما سکے.درمیان میں ایک بڑی ساری گھڑی تھی.جو قریباً گز بھر اونچی ہوگی.چولہ صاحب اس کے اندر تھا.اور اس کے اوپر درجنوں قیمتی کپڑوں کے رومال چڑھے ہوئے تھے.جو سکھ امراء اور راجوں نے چڑھائے تھے.زیارت کرانے والا بڑھا مہنت وہاں اس روز موجود نہ تھا.اس لئے دکھلانے کا کام ایک نوجوان کے سپر د تھا جو اس کا لڑکا یا رشتہ دار تھا.جب بہت سے رُو مال کھل چکے تو چند سکھ جو اس وقت وہاں موجود تھے وہ تو احترام کے خیال سے سرنگوں ہو گئے.آخر جب چولہ صاحب پر نظر
سیرت المہدی 683 حصہ سوم پڑی تو وہ سب بالکل ہی سجدہ میں جا پڑے.ہمیں چولہ صاحب کی پہلی تہہ پر صرف چند آیات اور حروف نظر آئے.وہ لکھ لئے گئے.پھر مجاور سے کہا گیا.کہ چولہ صاحب کی دوسری طرف بھی دکھاوے.اُس نے پس و پیش کیا.کہ اتنے میں پانچ سات روپے شیخ رحمت اللہ صاحب نے اسی وقت اس کے ہاتھ میں دیدئے.اس پر اس کی آنکھیں گھل گئیں.جس پر اس نے چولہ دوسری طرف جو تہ شدہ تھی دکھائی.پھر اُسے کہا گیا کہ ذرا اس کی تہہ کو کھولو.اس نے اسے شاید سوء اد بی خیال کیا اور تامل کیا.اتنے میں شیخ صاحب نے یا کسی اور دوست نے کچھ اور روپے اس کی مٹھی میں رکھدیئے اس پر اس نے طوعاً وکر ہا ایک تہہ کھولدی.ہمارے دوست کا غذ پنسل لئے چاروں طرف کھڑے تھے.فوراً جو آیت یا حرف نظر آتے لکھ لیتے یا دوسرے کو لکھا دیتے.اس کے بعد مزید کھولنے کا مطالبہ کیا گیا.تو وہ مہنت ہاتھ جوڑنے لگا اور بہت ہی ڈر گیا.مگر جونہی اس کی مٹھی گرم ہوئی.تو ساتھ ہی اس کا دل بھی نرم ہو گیا اور اس نے ایک تہ اور کھولدی.غرضیکہ اسی طرح منت خوشامد ہوتی رہی اور ہر تہہ کھولنے پر روپے بھی برستے رہے اور کئی احباب نے اپنے جوش کی وجہ سے اس نقرہ باری میں کافی حصہ لیا.تا کہ کسی طرح سارا چولہ نظر آ جائے.کیونکہ یہ شبہ بھی تھا.کہ کہیں چولہ صاحب پر قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور ہندی یا گورمکھی عبارت بھی ساتھ درج نہ ہو.آخر جب کئی تہیں کھل چکیں.تو آخری حملہ اس مہنت پر یوں ہوا کہ ہر طرف سے روپے برسنے شروع ہو گئے اور جب وہ ان کے چننے میں مشغول ہوا.تو کسی دوست نے پھرتی کے ساتھ جھپٹ کر چولہ صاحب کو خود پکڑ کر سارا کھول کر حاضرین کے سامنے لٹکا دیا.اور اس طرح اندر اور باہر ہر طرف سے دیکھ کر معلوم ہو گیا.کہ سوائے قرآن مجید کی آیات کے اور کوئی عبارت چولہ صاحب پر نہیں ہے.مگر اس حرکت سے وہ بے چارہ سکھ تو بدحواس ہو گیا.ادھر اس نے روپے چنے تھے کہ کہیں وہ سینکڑوں رومالوں کے ڈھیر میں گم نہ ہو جائیں.ادھر ا سے مسلمانوں کے ہاتھ سے چولہ صاحب کا اس طرح نکال کر اور کھول کر رکھ دینا ایسا خطر ناک معلوم ہوا کہ اس کے اوسان خطا ہو گئے.آخر ایک طرف تو وہ زبانی منت خوشامد کرنے لگا اور دوسری طرف جلدی جلدی روپے چنے لگا.تا کہ پھر چولہ صاحب کو اپنے قبضہ میں کرلے.مگر اتنے میں ہمارا کام بھی ہو چکا تھا.اور آیات بھی سب نقل ہو چکی تھیں اور جو
سیرت المہدی 684 حصہ سوم باقی سکھ زائرین تھے وہ سب سجدے میں پڑے تھے.اس لئے کوئی شور وشر نہ ہوا.صرف مجاور کی زبان پر واہ گرو اور بس جی بس کے الفاظ بطور پروٹسٹ جاری تھے.مگر روپے کی بارش سے اس کا دل خوش تھا کہ اتنی رقم یکمشت اسے مل گئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ چولہ صاحب کے متعلق یہ ایک نہایت اہم تحقیق تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ منکشف ہوئی اور حضرت صاحب نے اپنی ایک تصنیف ست بچن میں اسے مفصل لکھا ہے اور دوسرے دلائل کے ساتھ ملا کر ثابت کیا ہے کہ باوا نا تک صاحب ایک پاکباز مسلمان ولی تھے جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کے دل سے قائل تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے سکھ بھائیوں کو ہمارے اس عقیدہ سے ناراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے ہمارے دلوں میں با واصاحب کی عزت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے اور ہم انہیں دلی انشراح کے ساتھ خدا کا ایک عالی مرتبہ ولی سمجھتے ہیں اور ان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈیرہ بابا نانک کا سفر ۱۸۹۵ء میں ہوا تھا.757 بسم الله الرحمن الرحیم - شیخ عبدالحق صاحب ولد شیخ عبداللہ قانونگو ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی بزرگ قادیان آئے تھے.اور کئی ماہ تک قادیان میں رہے.میں ان کی آمد سے تین چار ماہ بعد پھر قادیان آیا اور ان کو مسجد مبارک میں دیکھا.غالبا جمعہ کا دن تھا.بعد نماز جمعہ اس بزرگ نے فارسی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میری بیعت قبول فرمائی جاوے.حضور نے فرمایا پھر دیکھا جائیگا.یا ابھی اور ٹھہر ہیں.اس پر اس ایرانی بزرگ نے بڑی بلند آواز سے کہنا شروع کیا.جس کا مفہوم یہ تھا کہ یا تو میری بیعت قبول فرمائیں یا مجھے اپنے دروازہ سے چلے جانے کی اجازت بخشیں.ان لفظوں کو وہ بار بار دہراتے اور بڑی بلند آواز سے کہتے تھے.اس وقت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے کھڑے ہو کر سورہ حجرات کی یہ آیت پڑھی کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ (الحجرات : ٣)
سیرت المہدی 685 حصہ سوم اور فر مایا کہ مومنوں کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ نبی کی آواز سے اپنی آواز کو اونچی کر یں.یہ سخت بے ادبی ہے.آپ کو یوں نہیں کرنا چاہئے لیکن وہ ایرانی بزرگ اپنا لہجہ بدلنے میں نہ آیا.آخر اسے چند آدمی سمجھا کر مسجد کے نیچے لے گئے اس کے بعد معلوم نہیں کہ وہ بزرگ یہاں رہے یا چلے گئے اور اس کی بیعت قبول ہوئی یا نہ ہوئی.خاکسار عرض کرتا ہے یہ وہی ایرانی صاحب معلوم ہوتے ہیں.جن کا ذکر روایت نمبر ۴ ۷۵ میں ہو چکا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بیعت لینے میں توقف کیا تو شاید آپ نے اس ایرانی شخص میں کوئی کھی یا خامی دیکھی ہوگی اور آپ چاہتے ہو نگے کہ بیعت سے پہلے نیت صاف ہو جائے اور اس ایرانی نے جو حضرت صاحب کو خواب میں دیکھا تھا تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے.کہ ضرور دل بھی صاف ہو چکا ہوگا کیونکہ بسا اوقات ایک انسان ایک خواب دیکھتا ہے مگر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اس خواب کے اثر کو قبول نہیں کرتا اور دل میں کبھی رہتی ہے.واللہ اعلم.758 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان کے جس قبرستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد دفن ہوتے رہے ہیں.وہ مقامی عیدگاہ کے پاس ہے.یہ ایک وسیع قبرستان ہے جو قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن افراد کی قبروں کا مجھے علم ہو سکا ہے ان میں سے بعض کا خاکہ درج ذیل ہے اس خاکہ میں شاہ عبداللہ صاحب غازی کی قبر بھی دکھائی گئی ہے جو ایک فقیر منش بزرگ گزرے ہیں.مجھے یہ اطلاع اس قبرستان کے فقیر جھنڈ وشاہ سے بواسطہ شیخ نور احمد صاحب مختار عام مرحوم ملی تھی.اور شاہ عبداللہ غازی کے متعلق مجھے والدہ عزیزم مرزا رشید احمد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مرزا گل محمد صاحب (پڑ دادا حضرت صاحب) کے زمانہ میں ایک فقیر مزاج بزرگ گذرے ہیں.جن کے مرنے پر مرزا گل محمد صاحب نے ان کا مزار بنوادیا تھا.ہماری ہمشیرہ امتہ النصیر کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہے.
سیرت المہدی 686 مائی صاحب جان صاحبہ بیوہ مرزا غلام حیدر صاحب یعنی بچی حضرت صاحب شمال حصہ سوم شاہ عبد اللہ غازی حضرت مسیح موعود حضرت مرز اگل محمد صاحب پڑدادا دادا حضرت صاحب مرز اعطا محمد صاحب احاطہ مزار شاہ عبد اللہ غازی مشرق موصوف فرزند شاہ صاحب والدہ حضرت مسیح موعود حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ مرز اعطا محمد صاحب یعنی دادی حضرت صاحب مائی لاڈلی بیگم صاحبہ عرف مائی لاڈ و اہلیہ اہلیہ مرزاگل محمد صاحب مرزا غلام قادر صاحب برادر کلاں پڑ دادی حضرت صاحب حضرت صاحب چچا حضرت صاحب مرزا غلام حید ر صاحب مرزا غلام محی الدین صاحب چچا حضرت صاحب مراد بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت صاحب جنت بی بی ہمشیرہ حضرت صاحب 759 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں محمد فضل الہی صاحب ریڈ رسب حج درجہ اول سیالکوٹ نے ایک خط حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی ایده الله تعالے کی خدمت میں ارسال کیا تھا.اور اس کے ہمراہ ایک حلفیہ بیان پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھرا داس کا بھجوایا تھا.پنڈت صاحب دو دو تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں اور کسی زمانہ میں نائب مدرس قادیان تھے.اور آجکل آپ پر دھان آریہ سماج دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ہیں.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
سیرت المہدی 687 حصہ سوم نے یہ خط اور اسکے ساتھ کا حلفیہ بیان خاکسار کو برائے اندراج سیرۃ المہدی بھجوا دیا تھا.میاں محمد فضل الہی صاحب کا خط درج ذیل ہے.اس کے بعد پنڈت دیوی رام صاحب کا حلفیہ بیان درج کیا جائیگا.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بخدمت حضرت امیر المؤمنین حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.میرے آقا کچھ عرصہ ہوا ایک شخص دیوی رام سکنہ دو دو چک تحصیل شکر گڑھ نارووال جاتے ہوئے گاڑی میں ملا اور اس نے ذکر کیا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں کچھ عرصہ دعوی سے قبل رہا ہوں.اس نے کچھ واقعات زبانی سُنائے تھے.میں نے اس پر اپنی احمدیت کا ذکر نہ کیا اور کہا کہ میں تم سے پھر ملوں گا.حسرت تھی کہ قبل از موت اس سے اپنے آقا کے حالات سُن کر تحریر کرلوں مگر بہت عرصہ فرصت نہ ملی.اس سال میں نے ایک ماہ کی رخصتیں وقف کر دی تھیں.چونکہ مرکز سے مجھے کوئی اطلاع نہ ملی.اس لئے میں نے ان رخصتوں میں یہ کام سرانجام دینا تجویز کیا.میں ۱۵.ستمبر ۱۹۳۵ء کو بمعہ مولوی محمد منیر احمدی اس کے پاس گیا.اور بیان لف ہذا اس سے سن کر تحریر کیا.میں نے اسے اپنا احمدی ہونا نہ بتلایا تھا.اور نہ اس نے پوچھا تھا یہ آریہ بہت نیک سیرت ہے اور خوب ہوشیار اور حق گو ہے.میں نے اپنی عقل کے ماتحت اس پر بہت سوالات کئے اور دعویٰ سے قبل کے حالات سنے اور قلمبند کئے.آخر میں میں نے کہا کہ پنڈت جی میں نے ساڑھے پانچ گھنٹے بیان میں صرف کئے.اور میں نے بہت کوشش کی ہے کہ آپ مرزا صاحب کا کوئی عیب مجھے بتادیں.مگر میں حیران ہوں کہ آپ نے میرا مطلب پورا نہ کیا.میرا اس سے مطلب یہ تھا کہ وہ مجھے مرزا صاحب کے خلاف موجودہ فضاء کے ماتحت مجھے مخالف مان کر کچھ بتائے گا.اس نے پانچ منٹ سوچ کے بعد پھر کہا کہ میں کیا بتاؤں اگر کوئی عیب ہو تو میں بتاؤں، جھوٹ کس طرح بولوں.دوران تحریر بیان میں نے انتہائی کوشش کی کہ مخالف حضور کے متعلق کچھ کہے.مگر قربان جاؤں اس پیارے کی پاکیزگی پر کہ مخالف نے ایک حرف بھی نہ کہا اور میرے زور دینے پر کہا تو صرف اس قدر کہ مرزا صاحب نے بعد ازاں جب مذہبی دنیا میں آئے تو میں نے سُنا ہے کہ دو آدمیوں کو قتل کروا دیا تھا ایک لیکھرام کو وغیرہ.میں نے کہا.یہ میرے مطلب سے بعید ہے میں نے صرف آپ کی
سیرت المہدی 688 حصہ سوم زندگی قبل از دعویٰ لینی ہے اور ساتھ ہی میں نے آپ کی عینی شہادت لینی ہے.ایک محقق کی حیثیت سے مجھے بعد کے واقعات یا شنید سے کوئی تعلق نہیں.اس پر اس نے کچھ نہیں کہا.میں حضور کو تمام بیان ارسال کرتا ہوں.اگر حضور اس کو پڑھ کر پسند کریں تو پھر میری خواہش ہے کہ میں اس کو پہلے یہاں چند اخبار مقامی میں چھپواؤں اور پھر الفضل میں اشاعت ہو.میرا ارادہ ہے کہ اس کا فوٹو بھی حاصل کروں.حضور بعد ملاحظہ اس کو میرے پاس واپس ارسال فرماویں.اگر کسی اور محقق نے جانا ہوں.تو مجھے مطلع کیا جائے تاکہ میں بھی اس کے ساتھ پھر جاؤں.میری بیوی بیمار ہے.اور نیز مقروض ہوں.حضور دُعافرمائیں.والسلام خاکسار محمد فضل الہی احمدی ریڈ رسب حج درجہ اول سیالکوٹ ۷ اکتوبر ۱۹۳۵ء.بیان پنڈت دیوی رام ولد شھر اداس قوم پنڈت سکنہ دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور با قرار صالح عمر ۷۰-۷۵سال میں ۲۱ جنوری ۱۸۷۵ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیا تھا میں وہاں چار سال رہا.میں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس اکثر جایا کرتا تھا اور میزان طب آپ سے پڑھا کرتا تھا.آپ کے والد مرزا غلام مرتضے صاحب زندہ تھے.مرزا غلام احمد صاحب ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا.آپ پانچ وقت نماز پڑھنے کے لئے مسجد خاص ( مسجد اقصیٰ مراد ہے خاکسار مؤلف ) میں جایا کرتے تھے.جب آپ کے والد ماجد فوت ہوئے.تو اسی مسجد کے صحن میں صندوق میں ڈال کر دفن کئے گئے اور وہ قبر پختہ بنادی گئی.مرزا سلطان احمد صاحب پسر مرزا غلام احمد صاحب حکمت کی کتابیں اپنے دادا سے پڑھا کرتے تھے اور میں بھی گاہے بگا ہے ان کے پاس جایا کرتا تھا.کچھ عرصہ کے بعد میر ناصر نواب صاحب جو محکمہ نہر میں ملازم تھے.ان کا ہیڈ کوارٹر بھی خاص قادیان میں تھا اور وہ وہابی مذہب کے تھے.مرزا صاحب اہل سنت والجماعت کے تھے.کبھی کبھی دونوں کو اکٹھے نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا.تو اکثر اپنے اپنے مذہب کے
سیرت المہدی 689 حصہ سوم متعلق بحث و مباحثہ کیا کرتے.میں بھی فارسی کی کوئی کتاب سُنانے یا میزان طب پڑھنے کے لئے پانچ بجے شام کے قریب مسجد میں چلا جایا کرتا تھا.کچھ عرصہ بعد میر ناصر نواب صاحب نے اپنی لڑکی کا نکاح مرزا غلام احمد صاحب سے کر دیا.مرزا صاحب نے سنت سنگھ جٹ جو بوٹر کلاں کا رہنے والا تھا.اس کو مسلمان بنا لیا.پادری کھڑک سنگھ سے بھی ایک دفعہ مباحثہ ہوا.۶۷۸.۷۷ء میں سوامی دیانند کا بھی شہرہ ہو چکا تھا.مرزا صاحب کا ایک تحریری مباحثہ بھی ہوا تھا.اخبارات میں انادی اور ورنوں کے متعلق بحث ہوتی رہی.آپ کی عمر اس وقت چھپیں تمہیں سال کے درمیان تھی.مرزا صاحب پانچ وقت نماز کے عادی تھے.روزہ رکھنے کے عادی تھے.اور خوش اخلاق.متقی اور پرہیز گار تھے.قانون اور حکمت میں بھی لائق تھے.اگر چہ وکالت کے امتحان میں فیل ہو گئے تھے.کچھ مدت اس سے قبل سیالکوٹ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کلرک یا سپرنٹنڈنٹ رہے تھے.انہی ایام میں ایک گوپی ناتھ مرہٹہ بھاگ کر ریاست جموں میں ایک باغ میں رہائش رکھتا تھا.اس کے متعلق گورنمنٹ کا حکم تھا.کہ اگر اسکوتحصیلدار پکڑے تو اس کو اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے گا.اور اگر ڈپٹی کمشنر پکڑے تو اسے کمشنر بنا دیا جائے گا.چنانچہ وہ مرہٹہ مرزا صاحب کی ملازمت کے ایام میں ایک ڈپٹی کمشنر کے قابو آیا.اس کا بیان مرزا صاحب نے قلمبند کیا.کیونکہ اس مرہٹہ کا مطالبہ تھا کہ میں اپنا بیان ایک خاندانی معزز شریف افسر یا حاکم کو لکھواؤں گا.اور اس نے خاندانی عزت و نجابت کے لحاظ سے مرزا صاحب کو منتخب کیا.یہ حالات مرزا صاحب نے خود اپنی زبان سے سُنائے تھے اور یہ بھی سُنایا تھا کہ میں نے وکالت کے امتحان کی تیاری کی تھی اور بائیس امیدوار شاملِ امتحان ہوئے تھے.نرائن سنگھ امیدوار جو کہ میرا واقف تھا اس نے عین امتحان میں گڑ بڑ کی اور اس کا علم متحن کو ہو گیا.اور اس نے بائیس کے بائیس امیدوار فیل کر دیے.کیونکہ اس امر کا شور پڑ گیا تھا.جب سوامی دیانند سے مباحثہ ہوتا تھا.تو اسی نرائن سنگھ نے مرزا صاحب کا ایک خط بند لفافہ میں جس میں دو کاغذ لکھے ہوئے تھے محکمہ ڈاک میں بھیج دیئے تھے کہ مرزا صاحب نے جرم کیا ہے.چنانچہ سپرنٹنڈنٹ صاحب محکمہ ڈاکخانہ جات نے مقدمہ فوجداری مرزا صاحب پر چلا کر ضلع گورداسپور اسٹنٹ صاحب کے پاس بھیج دیا.مرزا صاحب ملزم ٹھہرائے گئے.ان دنوں مرزا صاحب کے بڑے بھائی مرزا
سیرت المہدی 690 حصہ سوم غلام قادر صاحب جو کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے.وہ مقدمہ پر ایک گدھا جس پر اخباروں کا بوجھ لدا ہوا تھا.جن کے نام اودھ سے اخبار ”رہبر ہند آتا تھا ثبوت کے لئے لائے.چنانچہ ایک طرف مدعی سپر نٹنڈنٹ محکمہ ڈاک تھے اور دوسری طرف مرزا صاحب اکیلے تھے.اور جرم یہ تھا کہ مرزا صاحب نے دو آرٹیکل ایک لفافہ میں بند کئے.اور ان کے بھائی نے چند ایک وکیل مرزا صاحب کی امداد کے واسطے کھڑے کر دیئے.مگر مرزا صاحب نے ان کو کہہ دیا کہ میں اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہوں اور عدالت کو جواب دوں گا.چنانچہ بحث ہوئی.مرزا صاحب نے سپرنٹنڈنٹ سے سوال کیا کہ مجھ کو میرا جرم بتلایا جائے.سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مفصل بیان کیا کہ ایک تو آپ نے مطبع میں مضمون دیا.دوسرے اس میں ایک رقعہ لکھا ہوا تھا.مرزا صاحب نے اس کے جواب میں ایک گدھے کا بوجھ ثبوت میں پیش کیا.کہ رقعہ جز ومضمون تھا.چنانچہ میرے سابقہ اخبارات کو ملاحظہ فرمایا جائے.کہ میں یہی خط لکھتا رہا ہوں.چنانچہ پہلے ایڈیٹر صاحب میرے مضمون ذیل کو اخبار میں چھپوا دیں اور اس کے آگے یہ مضمون ہے.یہ ایک جزو ہے یا کہ دو اور بہت سے اخبارات مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ کو پیش کئے.سامعین کثرت سے موجود تھے.مرزا صاحب باعزت طور پر بری ہو گئے.یہ واقعہ میری موجودگی کا ہے.نرائن سنگھ نے یہ اس لئے کیا کہ جب امتحان وکالت میں ممتحن نے تمام لڑکوں کو فیل کر دیا.تو تمام لڑکوں نے ممتحن سے کہا کہ یہ سب شرارت ناقل اور پوچھنے والے نرائن سنگھ کی ہے.تمام لڑکوں کو کیوں فیل کیا گیا ہے.چنانچہ نرائن سنگھ کا نام شرارت کنندہ درج کیا گیا.اس لئے نرائن سنگھ کو مرزا صاحب سے پر خاش تھی.جس کی وجہ سے اس نے یہ مقدمہ مرزا صاحب کے خلاف دائر کر وایا تھا.نرائن سنگھ اس وقت امرتسر میں تھا.مرز اصاحب اور نگ زیب شہنشاہ ہند کے خاندان سے تھے.ان کے والد صاحب کشمیر کے صوبہ دار بھی رہ چکے تھے.مرزا صاحب قابل حکیم تھے اور پنجاب میں گیارھویں درجہ پر کرسی ملتی تھی اور ان کی جا گیر آٹھ میل چوڑی تھی.مستورات کا پردہ بالکل ٹھیک رکھا جاتا تھا.حکمت دھرم ارتھ کرتے تھے اور کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے.مرزا غلام مرتضے صاحب والد مرزا غلام احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں
سیرت المہدی 691 حصہ سوم کشمیر سے واپس آیا تھا.کچھ دنوں کے بعد نواب یا ر قند نے اپنے علاج کے واسطے مراسلہ بھیجا تھا اور میں چند آدمی ہمراہ لے کر وہاں پہنچا.اور میرے استقبال کے لئے شاہی حکیم اور چند معزز عہد یدار آئے اور میں نے اسلامی طریق کے مطابق نواب صاحب کو السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا.اور اپنی رہائش کا بندوبست ایک باغ میں کرایا.شاہی حکماء نے میرا امتحان کرنے کے لئے ایک سوال مجھ سے کیا کہ ایک بچہ ماں کے شکم میں کس طرح چھانگا ہو جاتا ہے.میں نے اسی وقت جملہ حکماء کو کہا.کہ ایک سوال مجھ سے بھی حل نہیں ہو سکا.شاید آپ میں سے کوئی حل کر سکے.کہ کیا پہلے مرغی پیدا ہوئی یا پہلے انڈا پیدا ہوا.اس پر جملہ حکماء خاموش ہو گئے.اگلے دن صبح کو میں نے مریض کو دیکھا اور بیماری کی تشخیص کی.اور علاج شروع کرنے سے پہلے چند شرائط نواب صاحب سے منظور کروائیں.کہ اگر کوئی غلیظ چیز یا پاک چیز جس طریق پر استعمال کراؤں.نواب صاحب کو کرنا ہوگا اور کسی حکیم یا متعلقین میں سے کسی کو ناراض ہونے اور اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا.نسخہ علاج ذیل میں درج ہے.سترمن بھینس کا گوبر اور کچھ لکڑی حرم سرائے کے صحن میں جمع کرائی جائے.اور مستورات کو پردہ کا حکم دیا جائے.چنانچہ نواب صاحب کو برہنہ کھڑا کیا گیا اور گوبر کا چبوترہ ان کے گردا گرد کیا گیا.سر کے اُوپر ایک ڈھکنا رکھا گیا.آنکھیں نتھنے اور منہ کھلا رہا.گوبر کے ارد گرد باہر کی طرف لکڑی چنائی گئی اور ان کو آگ لگا دی گئی.نواب صاحب روتے اور چلاتے رہے.جب لکڑیاں جل گئیں مزدوروں نے ان کو دور پھینکا.اور گو بر بھی ہٹا دیا گیا.جب چھ چھ انچ تک گوبر ان کے گر درہا.تو میں نے حکماء کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا.وزراء اور اس کے متعلقین کی موجودگی میں میں نے وہ گوبر انکے جسم سے خودا تارا.اور ان دوستوں کو دکھلایا مری ہوئی جوئیں اس گوبر کے ساتھ تھیں.اور واپسی پر نواب صاحب نے ایک حقہ چاندی کا.اور ایک تھال سونے کا اور ایک لوٹا سونے کا اور ایک دُھہ.ایک لنگی.ایک یارقندی ٹو اور چار بدرے نقد روپیہ بطور تحفہ کے نذر کے دیئے.میں نے اس وقت نواب سے سوال کیا کہ کیا یہ اشیاء میری حکمت کے عوض ہیں یا کہ بطور تحفہ.نواب صاحب نے وزیروں کی طرف اشارہ کیا کہ معقول جواب دیں.کچھ مدت خاموش رہنے کے بعد بطور تحفہ بتلایا.میں نے روپے کے بدرے واپس کر دیئے.اور باقی اشیاء جو تحفہ کے طور پر تھیں لے
سیرت المہدی 692 حصہ سوم لیں.اور واپس چلا آیا.مرزا صاحب نے سوال حکماء کا یہ جواب دیا کہ جس وقت نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے.کل اجزائے بدن اس میں گر جاتے ہیں.اور اپنی اپنی مدتوں پر جیسے کہ قدرت ہے بڑھتے رہتے ہیں.اور وہ مادہ جو کہ بازوؤں کی طرف آتا ہے چلتے چلتے کسی خاص وجہ سے رک جائے اور وہ منتشر ہوکر دو جگہ پر تقسیم ہو کر پڑ جاتا ہے جیسا کہ پانی آتے آتے کسی تھوڑی سے رکاوٹ یا اونچائی کے سبب دوحصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ویسے ہی اس مادہ کی خاصیت ہے.کبھی نر انگشت کی طرف رکاوٹ ہوگئی.تو دو حصے ہو گئے اور کبھی چھنگلی کی طرف رکاوٹ ہوئی تو وہ دو ہوگئیں.مگر مرزا صاحب کے سوال کا جواب حکماء نے نہ دیا.نواب صاحب کی بیماری جسم میں جوؤں کی تھی اور مرزا صاحب کی شہرت حکمت یارقند سے سُن کر حکماء نے بلوایا تھا.مرزا غلام احمد صاحب کی غذا سادہ ہوتی تھی.آپ کے نوکر کا نام جان محمد تھا اور آپ کے استاد کا نام گل محمد تھا جو نہیں روپیہ ماہوار پر دونوں بھائیوں کو پڑھایا کرتے تھے.مرزا صاحب کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور شریفانہ برتاؤ تھا.خندہ پیشانی سے پیش آتے.متواضع اور مہمان نواز تھے.کبھی کبھی دیگ پکوا کر غرباء اور مساکین کو کھلاتے تھے.حکمت کی اجرت نہ لیتے تھے اور نسخہ لکھ کر بھا وامل برہمن پنساری کی دکان پر سے دوائی لانے کے لئے کہتے تھے.مرزا صاحب کا ہندوؤں کے ساتھ مشفقانہ تعلق تھا.مرزا صاحب ہر وقت مذہبی کتب و اخبارات کا مطالعہ کرتے اور انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی.مرزا صاحب کی خدمت میں ایک لڑکا عنایت بیگ تھا.اس کو میرے پاس پڑھنے کے لئے بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اس کو دوسرے لڑکوں سے علیحدہ رکھنا تا کہ اس کے کان میں دوسرے لڑکوں کی بُری باتیں نہ پڑیں.اور یہ عادات قبیحہ کو اختیار نہ کر لے.مرزا صاحب بازار میں کبھی نہ آتے تھے صرف مسجد تک آتے تھے اور نہ کسی دکان پر بیٹھتے تھے.مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے.مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ ”غلام احمدتم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے.اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں.جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگارہتا ہے.اگر کسی کی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تھا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دیدیا کرتے تھے
سیرت المہدی 693 حصہ سوم اور مرزا صاحب بہ تحمیل تا بعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے.مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے.مقدمہ پر لا چاری امر میں جاتے تھے.اور کسی آدمی کی نظر میں گرے ہوئے نہ تھے.اور مذہبی بحث میں ایک شیر ببر کی طرح ہوشیار ہو جاتے تھے.شائستگی اور نرمی اور شیریں کلامی سے بات کیا کرتے تھے.طبع کے علیم اور بردبار تھے.میں نے مرزا صاحب کی طبیعت میں کبھی غصہ نہیں دیکھا.مرزا صاحب بے نماز بھائی بندوں اور دیگر لوگوں سے نفرت کیا کرتے تھے.مستورات کو ہمیشہ نماز کی تلقین کیا کرتے.جھوٹ سے ہمیشہ نفرت کرتے تھے.والد صاحب کے ساتھ کبھی کبھی ضرورت کے وقت بات کرتے اور مرزا سلطان احمد کے ساتھ بھی اسی طرح کبھی کبھی ضرورت کے وقت گفتگو کرتے تھے.میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ مرزا صاحب کو دُنیا سے محبت ہے.نہ ہی اولاد سے دنیاوی محبت کرتے سُنا ہے.مرزا صاحب نے والد ماجد کی وفات پر کسی قسم کے رنج یا افسوس یا غصہ کا اظہار نہ کیا تھا اور نہ ہی کسی جزع فزع کا اظہار کیا تھا.مرزا غلام احمد صاحب کی نسبت میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ انہوں نے چھوٹی عمر میں کوئی بُرا کام خلاف شریعت یا مذہب کیا ہو اور نہ ہی دیکھا تھا.عام شہرت ان کے متعلق اچھی تھی.مرزا صاحب کو سنگترہ اور آم اور بھونے ہوئے دانے پسند تھے.حلوائی کی چیز کو کھاتے ہوئے میں نے کبھی نہ دیکھا.روٹی کھایا کرتے تھے اور روٹی موٹی ہوتی تھی.میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ میرے روبرو رفع یدین - آمین بالجہر.ہاتھ باندھنے کے متعلق ہتکبیر پڑھنے کے متعلق بحث ہوتی کہ آیا یہ امور جائز ہیں یا نا جائز ہیں.ان ایام میں آپ کے دوست کشن سنگھ کنگھی گھاڑا.شرم پت اور ملاوائل تھے.اور یہ لوگ مرزا صاحب کے پاس کبھی کبھی آتے میں نے ایک مرتبہ مرزا صاحب سے سوال کیا کہ دنیا واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود.آپ نے جواب میں فرمایا کہ یہ ظہورِ رہی ہے.میں نے کہا کہ ظہور کتنی قسم کا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا.دو قسم کا ہوتا ہے.ایک ذہنی اور ایک خارجی.ذہنی کی مثال دی کہ کسی نے نظم بنادی.کسی نے برتن بنادیا.کسی نے نقش بنا دیا.خارجی یہ کہ مادہ سے کوئی چیز لے کر دوسری شکل بنادینا.
سیرت المہدی 694 حصہ سوم ایک دفعہ میں نے سوال کیا تھا کہ ارواح ایک دفعہ ہی پیدا کر دی گئی تھیں یا مختلف وقتوں میں پیدا ہوتی ہیں.اس کا جواب مجھے یاد نہیں رہا.اسی طرح ایک دفعہ میں نے سوال کیا کہ اگر تمام ارواح مکتی پائینگی.تو خدا کا خزانہ خالی ہو جائے گا.تو پھر خدا بے کار بیٹھے گا ؟ اسی طرح ایک اور سوال کیا کہ خدا قادر ہے.کیا وہ کوئی اور خدا پیدا کر سکتا ہے.جواب فرمایا نہیں، میں نے کہا.تب خدا کی قادریت ٹوٹ جاتی ہے.فرمایا نہیں.کیونکہ اس کی صفت وخـــــد لاشریک کے خلاف ہے.اس لئے یہ نہیں ہوسکتا.مرزا صاحب شرکاء کو ذلیل کرنانہ چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی بُرائی چاہتے تھے.شرکاء گھر میں بھی مرزا صاحب کی عزت کرتے تھے.بحث کے متعلق جو میں آپ سے کبھی کبھی سوالاً جواباً کیا کرتا تھا.فرمایا.کہ دو خطوط متوازی لیں خواہ ان کو کتنی دور تک بڑھاتے چلے جاؤ وہ کبھی نہ ملیں گے.اسی طرح بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا.مرزا ساحب منطق بھی جانتے تھے اور سکول میں کوئی جماعت نہ پڑھے ہوئے تھے.میں نے مرزا صاحب کو نہ کبھی بدنظری کرتے دیکھا اور نہ سُنا.بلکہ وہ بد نظری کو نا پسند فرماتے اور دوسروں کو روکتے تھے.ہمیشہ ادب کا لحاظ رکھتے تھے اور زائرین کی عزت و تکریم کرتے تھے.جب کبھی کوئی چیز منگواتے ، پیسے پہلے دیا کرتے تھے.مرزا صاحب چشم پوش تھے.کبھی کسی میلہ یا تماشہ یا کسی اور مجلس میں نہ جایا کرتے.بلکہ ان کے بیٹے شرم کی وجہ سے آپ کے پاس نہ آتے تھے.نوکروں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتے تھے.ان دنوں مرزا صاحب اکیلے صبح سویرے اور شام کو سیر کو جایا کرتے تھے.میں نے ان کو پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتے دیکھا ہے.گھر سے چھوٹی سی گلی مسجد کو جاتی تھی.اس راستہ سے گذر کر مسجد میں جاتے تھے.صرف اکیلے ہی ہوا کرتے تھے.اگر دو تین ہو جاتے تو مرزا صاحب جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور اگرا کیلے ہوتے تو اکیلے ہی پڑھ لیتے.ان دنوں قادیان میں مسلمان عموماً بے نماز تھے.قمار بازی میں مشغول رہتے تھے.مسلمانوں کی آبادی کم تھی.ان دنوں بڑھا فقیر چور مشہور تھا اور نہالہ برہمن اور خوشحال چند.یہ دونوں مقدمہ باز مشہور تھے.نہالہ برہمن نے اپنی دونوں لڑکیاں چوری کے الزام میں قید کر وادی تھیں.خوشحال چند
سیرت المہدی 695 حصہ سوم پٹواری رشوت کے الزام میں قید ہو گیا تھا.ان دنوں نیکی.تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی مسلمانوں میں مشہور تھے.مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے.معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے.مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنجوقت نماز پڑھتے دیکھا ہے.مرزا صاحب گوشہ نشین تھے.ہمیشہ مطالعہ اور عبادت میں مشغول رہتے تھے.کتب کی تصانیف اور اخبار کے مضامین بھی تحریر فرماتے تھے.میرے ساتھ مرزا صاحب کے تعلقات دوستانہ تھے.آپ بڑے خندہ پیشانی سے ملنے والے.خوش خلق حلیم الطبع منکسر المزاج تھے.تکبر کرنا نہ آتا تھا.طبیعت نرم تھی.خاندان کے دوسرے افراد طبیعت کے سخت اور تند تھے.مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹھیک نہ تھا.نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے.تمام خاندان میں سے صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے.مرزا کمال الدین تارک الدنیا تھے.مرزا نظام الدین اور امام الدین میں تمام دُنیا کے عیب تھے.میری موجودگی میں مرزا غلام احمد صاحب نے کبھی کوئی عیب نہیں کیا اور نہ کبھی میں نے اس وقت سُنا تھا.صرف ایک سکھ کو مسلمان کر دیا تھا.یہ عیب ہے.اس کے سوا میں نے کوئی عیب نہ دیکھا ہے اور نہ سُنا ہے.مرزا صاحب خوش شکل جوان تھے.خوبصورت اور میانہ قد کے تھے.سر پر پٹے تھے.مرزا صاحب بوقت کلام تھوڑا ساڑک جاتے تھے.یعنی معمولی سی لکنت تھی.مگر کلام کے سلسلہ میں کوئی فرق نہ آتا تھا.اور آپ کا رکنا غیر موزوں نہ تھا.تحریر میں زبر دست روانی تھی.صاحب قلم اور سلطان القلم تھے.کلام پُر تاثیر تھی.پیشانی کشادہ تھی.داڑھی چار انگشت کے قریب بھی تھی.سر پر کبھی ٹوپی نہ پہنتے تھے.ہاں سفید پگڑی یا لنگی پہنتے تھے.چونہ پہنتے تھے.اور گزارہ (یعنی غرارہ) بھی پہنتے تھے.تہہ بند بہت کم نہانے کے وقت پہنتے تھے.میں نے مرزا صاحب کو کبھی ننگے نہیں دیکھا.تین کپڑے ہمیشہ بدن پر رکھتے تھے مسجد میں چوغہ پہن کر آتے تھے.گھر کی ضروریات کا انتظام نہ خود کرتے تھے اور نہ دخل دیتے تھے.مرزا سلطان احمدیا ان کے بھائی وغیرہ کرتے تھے.میں نے مرزا صاحب کو کبھی بیوی کا زیور یا کپڑے بنواتے یا منگواتے نہ دیکھا نہ سُنا ہے.کپڑا ہمیشہ سادہ موسم کے لحاظ سے ہوا کرتا تھا.سردی میں کبھی سیاہ رنگ کا چوغہ استعمال
سیرت المہدی 696 حصہ سوم کرتے تھے.سردی میں موزے پہنتے تھے.انگریزی جوتی نہ پہنتے تھے.بلکہ دیسی جوتی ہی استعمال کرتے تھے.جس کمرہ میں آپ رہتے تھے.اسی میں کھانا کھایا کرتے تھے.ایک گھڑا پانی کا پاس ہوتا تھا.رہائش کے کمرہ میں ایک دری ہوتی تھی.صرف ایک چار پائی باہر ہوتی تھی.میں نے مرزا صاحب کو کبھی لیٹے ہوئے نہیں دیکھا“.یہاں پنڈت دیوی رام صاحب کا بیان ختم ہوتا ہے.اور اس کے نیچے ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ نوٹ درج ہے:.سن کر درست تسلیم کیا.میں نے مندرجہ بالا بیان خدا کو حاضر و ناظر جان کر درست اور صحیح تحریر کرا دیا ہے.اس میں کوئی خلاف واقعہ یا مغالطہ نہیں“.گواه شد محمد منیر از هر دور واله ( دستخط) پنڈت دیوی رام بقلم خود ریٹائر ڈمدرس و سابق مدرس قادیان حال آپ پر دھان آریہ سماج دو دو چک تحصیل شکر گڑھ حال وارد قصبه دود و چک ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنڈت دیوی رام صاحب کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت صاحب موصوف سمجھدار اور فہیم اور صداقت پسند انسان ہیں.کیونکہ بار یک بار یک باتوں کو دیکھا اور یادرکھا ہے اور بلاخوف اظہار کر دیا ہے.اور فی الجملہ ساری روایت بہت صحیح اور درست ہے.مگر کہیں کہیں پنڈت صاحب کو خفیف سی غلطی لگ گئی ہے.مثلاً عمر کا اندازہ غلط ہے.لیکن غور کیا جائے تو اتنی لمبی روایت میں جو عرصہ دراز کے واقعات پر مشتمل ہو.خفیف غلطی روایت کے وزن کو بڑھانے والی ہوتی ہے نہ کہ کم کرنے والی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بیان ۱۹۳۵ء میں لکھا گیا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت جو ۱۹۳۹ء ہے پنڈت صاحب زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں.روایت واقعی خوب ہے.760 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ
سیرت المہدی 697 حصہ سوم السلام کو مائی صاحب جان صاحبہ زوجہ مرزا غلام حیدر صاحب نے دودھ پلایا تھا.مرزا غلام حیدر صاحب حضرت صاحب کے حقیقی چچا تھے.مگر جب مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی حضرت صاحب کے مخالف ہو گئے تو مائی صاحب جان بھی مخالف ہو گئی تھیں.اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں وہ اس قدر مخالف تھیں کہ مجھے دیکھ کر وہ چھپ جایا کرتی تھیں اور سامنے نہیں آتی تھیں.نیز مجھ سے والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو ماں کے سوا دوسرے کا دودھ پلانے کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ جوڑا پیدا ہوئے تھے اور چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ کا دودھ دونوں بچوں کے لئے مکتفی نہیں ہوتا تھا.اس لئے مائی صاحب جان نے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا.761 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بھائی عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں شروع شروع میں سکھ مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہوا.اور یہ غالباً ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے.تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے سپر دفرمایا تھا.اور مولوی صاحب کو ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے دینی تعلیم دیں اور خیال رکھیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے پڑھانا شروع کر دیا.اور حضرت صاحب کے ارشاد کی وجہ سے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر گھر میں کھانا کھلایا کرتے تھے.کچھ.عرصہ کے بعد میں نے عرض کیا کہ آپ کو میرے آنے کی وجہ سے پردہ کی تکلیف ہوتی ہے.اس لئے مجھے اجازت دیں کہ میں لنگر میں کھانا شروع کر دوں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.نہیں ہمیں کوئی تکلیف نہیں.پھر جب میں نے اصرار کیا.تو فرمایا.تمہیں یاد نہیں؟ حضرت صاحب نے مجھے تمہارے متعلق کس طرح تاکید کی تھی.اب دیکھنا مجھے گناہ نہ ہو.میں نے کہا نہیں گناہ نہیں ہوتا.میں خود خوشی سے لنگر میں کھانا کھانا چاہتا ہوں.اس پر آپ نے مجھے اجازت دیدی.پھر جب کچھ عرصہ بعد میر اوقت مدرسہ میں لگ گیا.اور مجھے کچھ معاوضہ ملنے لگا.تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا.کہ آپ مجھے اجازت دیں.کہ میں اپنے کھانے کا الگ انتظام کرلوں.حضرت صاحب نے فرمایا.نہیں آپ لنگر سے کھاتے رہیں اور جو آمد ہوتی ہے.اسے اپنی دوسری ضروریات میں خرچ کر لیا کریں.مگر میرے اصرار پر فرمایا.کہ
سیرت المہدی 698 حصہ سوم اچھا آپ کو اصرار ہے تو ایسا کر لیں.گو ہماری خوشی تو یہی تھی کہ آپ لنگر سے کھانا کھاتے رہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی صاحب موصوف مدرسہ میں ایک لمبی ملازمت کے بعد اب پینشن پر ریٹائر ہو چکے ہیں.اور کچھ عرصہ نواب محمد علی خانصاحب کے پاس بھی ملازم رہے ہیں.بہت نیک اور صالح بزرگ ہیں.762 بسم اللہ الرحمن الرحیم.بھائی عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں مسلمان ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد جبکہ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں دبارہا تھا.حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا.تم شادی کیوں نہیں کر لیتے.میں نے کہا.حضرت میری تو کوئی گزارہ کی صورت نہیں ہے.میں شادی کیسے کروں.اور میں ابھی پڑھتا بھی ہوں.فرمایا نہیں تم شادی کرلو.خدا رازق ہے.میں نے شرماتے ہوئے کہا.کہاں کرلوں؟ فرمایا کہ جو مرزا افضل بیگ قصور والے کی بہن بیوہ ہوئی ہے اس سے کرلو.میں نے عرض کیا.حضرت وہ تو بیوہ ہے.فرمایا.تو کیا ہرج ہے.ابھی اس کی عمر زیادہ نہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیوہ عورتوں سے شادی کی ہے.مگر مجھے دل میں انقباض تھا.آخر حضرت صاحب کا اصرار دیکھ کر میں راضی ہو گیا.اور خدا کے فضل سے میں نے اس شادی سے ایسا سکھ پایا کہ شاید ہی کسی نے پایا ہوگا.763 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ انگلستان نے مجھے ایک مضمون لکھ کر لندن سے ارسال کیا تھا.اس مضمون میں وہ حضرت مسیح موعود کی عمر کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.الفضل مورخہ اار جون ۱۹۳۳ء میں سید احمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کے متعلق بہت سے مفید حوالے جمع کئے ہیں اور مکر می مولوی اللہ دتا صاحب نے اپنی کتاب تفهـــمــاتِ ربانیہ میں ص۱۰۰ سے ص ۱۱۲ تک آپ کی عمر کے متعلق عالمانہ بحث کی ہے.لیکن دونوں صاحبوں نے دراصل مخالفین کے اعتراضات کو مدنظر رکھا ہے.سید صاحب نے اہلحدیث مجریہ ۲۶ مئی ۱۹۳۳ء اور
سیرت المہدی 699 حصہ سوم مولوی صاحب نے عشرہ کاملہ کا جواب دیا ہے.میرے نزدیک آپ کی عمر کا سوال ایسا ہے کہ اُسے مستقل حیثیت سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے.عمر کے متعلق الہامات:.الہام ثَمَانِينَ حَوْلًا اَوْ قَرِيبًا مِّنْ ذَالِكَ أَوْنَزِيدُ عَلَيْهِ سَنِيِّنًا وَتَرى نَسُلاً بَعِيدًا ( اربعین نمبر س طبع دوم صفحہ ۲۶ - ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ طبع دوم صفحہ ۲۹) اور الہام وترى نَسُلًا بَعِيْدًا وَلَنُحْيِيَنَّكَ حَيوةً طَيِّبَةً ثَمَانِينَ حَوْلًا اَوْقَرِيبًا مِنْ ذَالِكَ (ازالہ اوہام حصہ دوم طبع اول صفحہ ۶۳۵ - ۶۳۴) کا مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے:.”جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو ۴ ۷ اور ۸۶ کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷) پس اگر آپ کی عمر نشسی یا قمری حساب سے اس کے اندراندر ثابت ہو جائے تو یہ الہامات پورے ہو جاتے ہیں.یعنی اگر آپ کی پیدائش ۱۸۳۶ء و ۱۸۲۲ء کے اندر ثابت ہو جائے.تو کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا.تاریخ پیدائش کا تعین : یقینا ہماری طرف سے جو کچھ اس بارہ میں لکھا گیا ہے.اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے الہامات پورے ہو گئے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا تعین ایک بالکل الگ سوال ہے.اس لئے دیکھنا چاہئے کہ ان الہامی حدود کے اندراندر حضور بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جاسکتی ہے.یہ یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی کیونکہ حضہ فرماتے ہیں:.عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالے کو معلوم ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۹۳) اسی طرح غالباً ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کوئی یاد داشت نہیں کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کی عمر کے لکھنے کا کوئی طریق نہ تھا.ایسی صورت میں اصل تاریخ پیدائش کا فیصلہ دو ہی طرح ہوسکتا ہے.یا تو کسی کے پاس کوئی ایسی مستند تریل جائے.جس میں تاریخ پرانے زمانہ کی لکھی ہوئی ہو یا حضرت
سیرت المہدی 700 حصہ سوم مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخالفین کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ زیادہ میلان کس سن کی طرف ہے.پیشتر اس کے کہ مختلف تحریرات پر اس طرح نظر ڈالی جائے.دو تین امور قابل غور ہیں اور وہ یہ کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل تحریر سے مجھے دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے.“ ( اعجاز احمدی صفحه ۳) یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ آتھم ۲۷ / جولائی ۱۸۹۶ء کو مرا تھا.( انجام آتھم صفحہ ) اس لئے آپ کی عمر ۷۶ سال ہوئی.درست نہیں معلوم ہوتا.کیونکہ حضرت مسیح ود علیہ السلام نے جس رنگ میں اپنی عمر آتھم کے برابر ظاہر کی ہے وہ ایسا نہیں کہ صرف اسی حوالہ کو لے کر نتیجہ نکالا جائے.آتھم کے مقابلہ میں جس امر پر آپ زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ”ہم دونوں پر قانونِ قدرت یکساں مؤثر ہے.(اشتہار انعامی ۲ ہزار روپیہ مورخہ ۲۰ ستمبر ۱۸۹۴ء) پھر فرماتے ہیں.”ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانونِ قدرت کے نیچے ہیں“.(اشتہار انعامی ۴ ہزار روپیہ ) عمر کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے.وہ اس طرح ہے.اگر آتھم صاحب ۶۴ برس کے ہیں تو (اشتہار انعامی ۲ ہزار روپیه مورخه ۲۰ ستمبر ۱۸۹۴ء) یہ عاجز قریباً ۶۰ برس کا ہے.پھر فرماتے ہیں.اور بار بار کہتے ہیں ( یعنی آتھم صاحب) کہ میری عمر قریب ۶۴ یا ۶۸ برس کی ہے...دیکھو میری عمر بھی تو قریب ۶۰ برس کے ہے“.(اشتہار انعامی ۴ ہزار روپیہ ) پھر فرماتے ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ قریب ۷۰ برس کی میری عمر ہے.اور پہلے آپ اس سے اسی سال کے کسی پر چہ نور افشاں میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر ۶۴ برس کے قریب ہے.پس میں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ.کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں.کہ شاید میں فوت نہ ہو جاؤں.مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہو سکتا.اگر آپ ۶۴ برس کے ہیں.تو میری عمر بھی قریبا ۶۰ برس کے ہو چکی ہے“.(اشتہار انعامی ۳ ہزار روپیه مورخه ۱۵ /اکتوبر ۱۸۹۶ء) پس ان واضح تحریروں کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر آتھم کے بالکل برابر نہیں قرار دی جاسکتی.بلکہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.”بہتیرے سوسو برس زندہ رہتے ہیں مگر عبداللہ آتھم کی
سیرت المہدی 701 حصہ سوم جیسا کہ ” نورافشاں“ میں لکھا گیا ہے صرف اب تک ۶۴ برس کی عمر ہے جو میری عمر سے صرف چھ یا سات برس زیادہ ہے.ہاں اگر مسیح کی قدرت پر بھروسہ نہیں رہا.....مرنے کا قانونِ قدرت ہر ایک کے لئے مساوی ہے.جیسا آتھم صاحب اس کے نیچے ہیں.ہم بھی اس سے باہر نہیں اور جیسا کہ اس عالم کون وفساد کے اسباب ان کی زندگی پر اثر کر رہے ہیں.ویسا ہی ہماری زندگی پر بھی مؤثر ہیں“.(انوار الاسلام حاشیہ صفحہ ۳۶.۳۷) پس میں سمجھتا ہوں.کہ آتھم کے مقابلہ میں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے.وہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک موٹا دہا کوں کا اندازہ ہے.اصل غرض آپ کی عمر کو معین کرنا نہیں.بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ زندہ رکھنا اور مار نا خدا کے اختیار میں ہے اور قانونِ قدرت کے اثر کے لحاظ سے دونوں کی عمروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے.دوسرا امر جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مقامات پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ ”جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی.تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا“ تریاق القلوب صفحه ۶۸ و براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۰۵ اور آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۴۸) لیکن جہاں تک مجھے علم ہے آپ نے یہ کہیں نہیں فرمایا.سب سے پہلا الہام قریباً ۳۵ برس سے ہو چکا ہے.یہ اندازہ لگانا کہ چونکہ اربعین ۱۹۰۰ء میں تالیف ہوئی.اس لئے آپ کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ثابت ہوئی.درست نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا.کہ ثَمَانِينَ حَوْلًا والا الہام 66 سب سے پہلا الہام ہے اور نہ یہ کہ سب سے پہلا الہام.....چالیس برس کی عمر میں ہوا.تیسرا امر یہ ہے کہ ایک کتاب کی کسی عبارت کو اس کتاب کی تاریخ اشاعت سے ملا کر نتیجہ نکالتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے.کیونکہ عبارت کے لکھے جانے کی تاریخ اور کتاب کی تاریخ اشاعت میں بہت بڑا فرق ممکن ہے.مثلاً نزول امسیح اگست ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئی ہے لیکن اس کا صفحہ ۱۱۷.اگست ۱۹۰۲ء میں لکھا گیا.جیسا کہ اسی صفحہ پر لکھا ہے ” آج تک جو ۱۰ را گست ۱۹۰۲ ء ہے“.البتہ اشتہارات اور ماہواری رسائل کی صورت اور ہے ان کی تاریخ اشاعت پر نتیجہ نکالنے میں غلطی کا کم احتمال ہے.حقیقة الوحی
سیرت المہدی 702 حصہ سوم 66 ایک ضخیم کتاب ہے اس کے صفحہ ۲۰۱ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” میری عمر اس وقت ۶۸ سال کی ہے.یہاں ظاہر ہے کہ لفظ ” اس وقت سے کتاب کی تاریخ اشاعت فرض کر لینا نہایت غلط ہو گا.کیونکہ اشاعت کی تحریر ۱۵ رمئی ۱۹۰۷ ء کتاب پر لکھی ہوئی ہے.چوتھی بات قابل غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر شمسی حساب مد نظر رکھتے تھے یا قمری.سو اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں.عام طور پر آپ کا طریق اپنی تصانیف اشتہارات اور خطوط میں ملک کے رواج کے مطابق سمسی حساب اور تاریخ کا شمار تھا.گو قمری سن بھی کہیں کہیں درج کیا گیا ہے.مگر کثرت سے عموما شمسی طریق کو ہی آپ مد نظر رکھتے تھے.اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کا اندازہ بیان فرمایا ہے.وہاں شمسی سال ہی مراد لئے جائینگے قمری نہیں.خواہ کہیں کہیں قمری سن بھی آپ نے بیان فرما دیا ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”جب میری عمر ۴۰ برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا.دوسری جگہ فرماتے ہیں.” ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں خدا تعالے کیطرف سے یہ عاجز شرف مکالمه مخاطبہ پاچکا تھا.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) گویا کہ۱۲۹۰ھ میں آپ کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی.آپ کی وفات ۱۳۲۶ء میں ہوئی.گویا قمری حساب سے پورے۳۶ برس آپ شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے ممتاز رہے اور شمسی حساب سے ۳۵ سال.اس طرح آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۳ء ثابت ہوئی.ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۹۷ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” میری عمر ۷۰ برس کے قریب ہے.یہ کتاب اندرونی شہادت سے ثابت ہے.کہ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی.( سید احمد علی صاحب نے جو حوالہ اس ضمن میں دیا ہے وہ درست نہیں.گود وسرے مقامات سے یہ ثابت ہے ) اس لئے آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء معلوم ہوئی.ریویو بابت نومبر، دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۴۷۹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” میری عمر ۷۰ سال کے قریب ہے.حالانکہ ڈوئی صرف ۵۵ سال کی عمر کا ہے.اسی طرح تتـمـه حقیقة الوحی
سیرت المہدی 703 حصہ سوم صفحہ اے پر فرماتے ہیں.” میری طرف سے ۲۳ را گست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا.جس میں یہ فقرہ ہے کہ ”میں عمر میں ۷۰ برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے“.ان دونوں حوالوں سے نتیجہ نکالتے وقت ایک تیسرا حوالہ بھی جو اسی کے متعلق ہے.مگر کچھ پہلے کا ہے.مد نظر رکھنا چاہئے.اور وہ یہ ہے ”میری عمر غالباً ۶۶ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے“.( ریویوار دوستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۴۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وے برس کے قریب سے مراد آپ کی یہ ہے کہ ۶۶ سال سے کچھ زیادہ “اگر اس وقت آپ کی عمر ۶۷ سال مجھی جائے تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء بنی.کتاب البریہ سے جو عبارت سیرۃ المہدی حصہ اول میں نقل کی گئی ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری.ایک طرف ان کا دُنیا سے اٹھایا جانا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھے سے شروع ہوا.“ اس سے معلوم ہوا.کہ والد بزرگوار کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چالیس برس کے قریب تھی اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلہ مکالمات الہیہ کے شرف کے وقت آپ نے اپنی عمر متعدد مقامات پر چالیس برس بیان فرمائی ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کب ہوئی؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۷۰ میں آپ کے والد بزرگوار کے انتقال کو ۱۸۷۶ء میں قرار دیا ہے.لیکن جہاں تک مجھے علم ہے.اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر فیصلہ کن ہے اور وہ یہ ہے.کہ نزول اسیح صفحہ ۱۱۷.۱۱۸ پر آپ تحریر فرماتے ہیں.آج تک جو دس اگست ۱۹۰۲ء ہے.مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو ۲۸ برس ہو چکے ہیں.گویا یہ واقعہ ۱۸۷۴ء کا ہے.اس میں سے ۴۰ نکالیں.تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۴ء ثابت ہوتی ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے.کہ آپ کی پیدائش ۱۸۳۶ء سے پہلے پہلے ہی ہے.اس کے بعد یا ۱۸۳۹ءکسی صورت میں بھی صحیح نہیں قرار
سیرت المہدی دیا جاسکتا.704 حصہ سوم کتاب البریہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں.”میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا.اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے انکے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا اسی طرح آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ صفحہ ۵۴۳ ۵۴۴ پر بھی آپ یہی فرماتے ہیں.”سو اس کے متعلق تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۱۶ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا.یعنی قادیان رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آ گیا تھا ( سیرۃ المہدی حصہ اول روایت نمبر ۱۲۹) اور پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جا گیر پر قابض ہو گیا.غلام مرتضیٰ کو واپس بلا لیا.اور اس کی جڑی جاگیر کا ایک معقول حصہ اُسے واپس کر دیا.اس پر غلام مرتضے اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں شامل ہو گیا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں.اس سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام مرتضے صاحب مرحوم کشمیر کی فتح کے وقت رنجیت سنگھ کی فوج میں شامل تھے.کشمیر ۱۸۱۹ء میں فتح ہوا.اس لئے معلوم یہ ہوتا ہے.کہ گومرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم قادیان میں واپس آگئے تھے.مگر قادیان کے اردگرد کے گاؤں ابھی تک نہیں ملے تھے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضے قادیان میں واپس آئے.اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے.کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کود با کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی.سو ہمارے دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا.“ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۶،۱۷۵ حاشیه ) پشاور ۱۸۲۳ء میں رنجیت سنگھ کے ماتحت آیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مصائب کا سلسلہ گوختم ہو گیا تھا مگر ابھی فراخی نہیں شروع ہوئی تھی.مرزا غلام مرتضے صاحب مرحوم کو اکثر فوجی خدمات پر باہر رہنا پڑتا ہوگا اور گھر کا گزارہ تنگی ترشی سے ہوتا ہوگا.حتی کہ غالبا ۱۸۳۳ء کے قریب انہوں نے کشمیر
705 حصہ سوم سیرت المہدی جانے کا ارادہ کر لیا.جس کی طرف آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی صفحه ۵۴۳ میں اشارہ کیا گیا ہے اور غالباً ۳۴ ۱۸۳۳ء میں رنجیت سنگھ نے اپنے مرنے سے پانچ سال پہلے قادیان کے اردگرد کے پانچ گاؤں ان کی جڑی جاگیر کے ان کو واپس کر دیئے.اس وقت وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں نمایاں خدمات بھی کر چکے تھے.اور ان کا حق بھی ایک طرح دوبارہ قائم ہو گیا تھا.پس اس حساب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۳۴ ۱۸۳۳ء کے قریب ماننی پڑتی ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے مخالفین آپ کی عمر کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں.لیکھرام کا جو حوالہ سید احمد علی صاحب نے درج کیا ہے.اس کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۶ء بنتی ہے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے حوالوں سے ۱۸۲۹ء اور ۱۸۳۳ء پیدائش کے سن نکلتے ہیں.لیکن میرے نزدیک ان سے بڑھ کر جس مخالف کا علم ہونا چاہئے.وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں.جن کو بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا ہے.ان کے اشاعت السنہ ۱۸۹۳ء کے حوالہ سے آپ کی پیدائش ۱۸۳۰ء کے قریب بنتی ہے.غرض ۱۸۳۶ ء انتہائی حد ہے.اس کے بعد کا کوئی سن ولادت تجویز نہیں کیا جاسکتا.بحیثیت مجموعی زیاده تر میلان ۱۸۳۳ء اور ۱۸۳۴ء کی طرف معلوم ہوتا ہے.کیونکہ شرف مکالمہ مخاطبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ معین ہیں.اور یہ واقعی ایک اہم واقعہ ہے.جس پر تاریخ پیدائش کی بنیا د رکھی جا سکتی ہے.۱۲۹۰ ھ ایک تاریخ ہے اور اس حساب سے ۱۸۳۳ء کی پیدائش ثابت ہوتی ہے.دوسرا اہم واقعہ آپ کے والد ماجد کے انتقال کا ہے.انسانی فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت کے متعلق جو رائے ہے وہ بھی زیادہ وزن دار مجھنی چاہئے.سو اس کے متعلق آپ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی.اور اپنے والد صاحب کی وفات ۱۸۷۴ء میں معین فرما دی.خلاصہ میرے نزدیک یہ نکلا کہ ۳۴ ۱۸۳۳ء صحیح ولادت قرار دیا جاسکتا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بالصَّواب اس جگہ در دصاحب کا مضمون ختم ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرمی مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ لندن نے یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر اور تاریخ پیدائش کی تعیین کے متعلق لندن سے ارسال کیا تھا اور یہی مضمون
سیرت المہدی 706 حصہ سوم اخبار الفضل ۳.ستمبر ۱۹۳۳ء میں شائع ہو چکا ہے.مضمون بہت محنت اور تحقیق کے ساتھ لکھا ہوا ہے مگر جیسا کہ میں روایت نمبر ۶۱۳ میں لکھ چکا ہوں مجھے اس تحقیق سے اختلاف ہے کیونکہ میری تحقیق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بنتی ہے.اور در دصاحب نے جو ہمارے دادا صاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء لکھی ہے.یہ بھی میری تحقیق میں درست نہیں.بلکہ صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہے جیسا کہ حضرت صاحب نے سرکاری ریکارڈ کے حوالہ سے کشف الغطاء میں لکھی ہے.لیکن ایسے تحقیقی مضامین میں رائے کا اختلاف بھی بعض لحاظ سے مفید ہوتا ہے.اس لئے باوجود اس مضمون کے نتیجے اور اس کے بعض حصص سے اختلاف رکھنے کے میں نے مکرمی در دصاحب کے اس محققانہ مضمون کو بعینہ درج کر دیا ہے.6764 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً رات کو سونے سے پہلے دبوایا کرتے تھے.کبھی خود باہر سے خدام میں سے کسی کو بلا لیتے تھے.مگر ا کثر حافظ معین الدین عرف مانا آیا کرتے تھے.میں بھی سوتے وقت کئی دفعہ دبانے بیٹھ جایا کرتا تھا.ایک دن فرمانے لگے.میاں تم نے مدت سے نہیں دبایا.آؤ آج ثواب حاصل کرلو.765 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض اوقات گرمی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پشت پر گرمی دانے نکل آتے تھے تو سہلانے سے انکو آرام آتا تھا.بعض اوقات فرمایا کرتے.کہ میاں ”جلون“ کرو.جس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ انگلیوں کے پوٹے آہستہ آہستہ اور نرمی سے پشت پر پھیرو.یہ آپ کی اصطلاح تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ”جلون ایک پنجابی لفظ ہے جس کے معنی آہستہ آہستہ کھجلانے کے ہیں.766 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو دفعہ بیعت کی.ایک دفعہ غالباً ۱۸۹۶ء میں مسجد اقصے میں کی تھی.اس وقت میرے ساتھ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب مرحوم نے بیعت کی تھی.دوسری دفعہ گھر میں جس دن حضرت ام المؤمنین نے ظاہری بیعت کی اسی دن میں نے بھی کی تھی.حضرت ام المؤمنین کی بیعت آپ نے
سیرت المہدی 707 حصہ سوم ان کا ہاتھ پکڑ کر لی تھی.باقی تمام مستورات کی صرف زبانی بیعت لیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب مرحوم قصور کے رہنے والے تھے اور بہت مخلص تھے.لاہور کے مشہور ایڈووکیٹ خان بہادر مولوی غلام محی الدین صاحب انہی کے لڑکے ہیں.مگر افسوس ہے کہ باپ کے بعد وہ جماعت سے قطع تعلق کر چکے ہیں.767 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اتنی بلند تھی کہ اگر کبھی مسجد مبارک کی چھت پر جوش کے ساتھ تقریر فرماتے تو آپ کی آواز باغ میں سُنائی دیتی تھی.نیز جب آپ تصنیف فرمایا کرتے تو اکثر اوقات ساتھ ساتھ اونچی آواز میں خاص انداز سے اپنا لکھا ہوا پڑھتے بھی جاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ ابتداء میں بہت آہستہ آواز سے تقریر شروع فرماتے تھے.لیکن بعد میں آہستہ آہستہ آپ کی آواز بہت بلند ہو جاتی تھی.اور باغ سے وہ باغ مراد ہے جو قادیان سے جنوب کی طرف ہے جس کے ساتھ مقبرہ بہشتی واقع ہے اور آپ کا اپنے لکھے ہوئے کو پڑھنا گنگنانے کے رنگ میں ہوتا تھا.788 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی غلام احمد صاحب المعروف مجاہد خاکسار مؤلف کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں کہ:.(0) سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۴۷۰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات کا نقشہ دیتے ہوئے آپ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت کا زمانہ ۱۸۸۴ تحریر کیا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.دو حافظ صاحب بلکہ تمام علماء اسلام اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعوی ہے اور جس میں بہت سے مکالمات الہیہ درج ہیں.اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گزر چکے ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الہیہ شائع کیا گیا ہے.اور نیز الہام الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ جو میرے والد صاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیا تھا اور امرتسر میں ایک مُہر کن
سیرت المہدی 708 حصہ سوم سے کھدوایا گیا تھا وہ انگشتری اب تک موجود ہے......اور جیسا کی انگشتری سے ثابت ہوتا ہے یہ بھی چھبیس برس کا زمانہ ہے.....حافظ صاحب کی یہ مجال تو نہ ہوئی کہ اس امر کا اظہار کریں.جو اکیس سال سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے.(دیکھو اربعین طبع اول مطبوعہ دسمبر ۱۹۰۰ء نمبر ۳ صفحه ۷.۸) اس تصریح کی رو سے اول براہین احمدیہ حصہ چہارم کا زمانہ ۱۸۷۹ء چاہئے.دوم الہام الیس اللَّهُ بِكَافٍ عَبدہ کا زمانہ ۱۸۷۳ء چاہئے.چنانچہ س کی تصدیق نزول مسیح صفحہ 114 سے بھی ہوتی ہے.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے والد ماجد کی وفات ۱۸۷۴ء میں قرار دی ہے.اور اسی کتاب کے صفحہ ۲۰۷ میں ۱۸۷۵ء میں قرار دی ہے.اور اسی وقت وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ اور أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کا الہام ہونا ظاہر کیا گیا ہے.مگر سیرۃ المہدی میں آپ کی تحقیق سے حضرت میرزا غلام مرتضے صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں قرار دی گئی ہے اور براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں قرار دی گئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اربعین میں حضرت صاحب نے اشاعت براہین کا زمانہ محض تخمینی طور پر لکھا ہے اور کوئی معتین سن بیان نہیں کیا یا شاید اس سے براہین کی اشاعت مراد نہ ہو بلکہ محض تصنیف مراد ہو.کیونکہ بہر حال یہ یقینی ہے اور خود براہین میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ براہین حصہ چہارم کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی.باقی رہا دادا صاحب کی وفات کی تاریخ اور الہام وَ السَّمَاءِ وَالطَّارِق کا سوال.سو بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تحریروں میں ایسا ہی لکھا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دوسری تحریروں سے دادا صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ثابت ہوتی ہے (دیکھو کشف الغطاء) اور چونکہ سرکاری ریکارڈ بھی اسی کا مؤید ہے.اس لئے میں نے اسے ترجیح دی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کسی تحریر میں ۱۸۷۴ء حضرت صاحب نے محض یاد کی بناء پر لکھا ہے اس لئے ذہول ہو گیا ہے جیسا کہ تاریخوں کا اختلاف بھی یہی ظاہر کرتا ہے.مگر بہر حال صحیح سن ۱۸۷۶ ء ہے.اور چونکہ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق کا الہام یقینی طور پر دادا صاحب کی وفات سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کے متعلق بھی ۱۸۷۶ء کی تاریخ ہی درست سمجھی جائیگی.واللہ اعلم.(ب) حقيقة الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ ان الہاموں سے پہلا
سیرت المہدی 709 حصہ سوم الہام اور پہلی پیشگوئی تھی جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کی ( مراد الہام وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق ہے ) گویا پہلا الہام وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق قرار دیا ہے.(حقیقۃ الوحی صفحه ۲۱۰،۲۰۹) مگر آپ نے 'بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ ینگے والے الہام کو اول قرار دیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حقیقۃ الوحی کے حوالہ سے یہ مراد ہے کہ یہ الہام وہ پہلا الہام تھا جو میں نے پورا ہوتے دیکھا نہ یہ کہ نزول کی ترتیب کے لحاظ سے یہ پہلا الہام تھا.بہر حال جب ایک طرف یہ ثابت ہے کہ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق والا الہام ۱۸۷۶ء کا ہے اور دوسری طرف ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“ کا الہام حضرت صاحب نے براہین احمدیہ میں صراحت کے ساتھ ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء میں نازل ہونا بیان کیا ہے.تو ثابت ہوا کہ یہ الہام پہلے کا ہے اور میں اس کو پہلا الہام مجھتار ہا ہوں.ہاں اب تذکرہ کی اشاعت نے اس معاملہ کو پھر قابل تحقیق بنادیا ہے.جہاں نزول مسیح کے حوالہ سے بعض الہاموں کو ۱۸۶۸ء سے بھی پہلے کا ظاہر کیا گیا ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ نزول مسیح کے تاریخی اندازے تخمینی ہیں اور یقینی نہیں کہ صحیح ہوں.واللہ اعلم.(ج) آپ کی تحقیق سے تصنیف و اشاعت استفتاء وسراج منیر ۹۷ء میں وقوع پذیر ہوئی ہے حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۵ اس امر کا مثبت ہے کہ سراج منیر کی تصنیف مارچ ۸۶ء سے پہلے شروع ہو گئی تھی اور اس اشتہار مورخہ یکم مارچ میں اس رسالہ (سراج منیر ) کو قریب الاختتام قرار دے کر صرف چند ہفتوں کا کام باقی رہنا ظاہر کیا گیا ہے.اور اگر اشتہار کی طباعت اول کی تاریخ ( آخر اشتہار سے) رکھی جاوے تو ۲۰ فروری ۸۶ء ظاہر ہوتی ہے اور اُسی جگہ اسی اشتہار کی تاریخ طباعت بار دوم ۱۸۹۳ء ظاہر کی گئی ہے.اور اسی اشتہار کی دوبارہ اشاعت پر نوٹ حاشیہ صفحه ۵۵ پر اس امر کا اظہار ہے کہ اس رسالہ سراج منیر کی تصنیف واقعی پہلے ہو چکی تھی اور اشاعت بے شک بعد میں ہوئی ہے.نیز تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۹۴ کے اشتہار سے بھی سراج منیر کی تصنیف پہلے کی ثابت ہے.نیز تبلیغ رسالت صفحہ ۱۲۴ حصہ اول میں بھی سراج منیر کی اشاعت کو اس لئے ملتوی رکھنا ظاہر کیا گیا
سیرت المہدی 710 حصہ سوم ہے.کہ ہنوز بشیر اول کے متعلق مفصل علم نہ ہوا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب کا یہ اعتراض درست نہیں ہے.جس سراج منیر کی تصنیف کا ذکر ابتدائی کتابوں اور اشتہاروں میں آتا ہے وہ اور تھی جو طبع نہیں ہوئی.اور جو سراج منیر ۱۸۹۷ء میں آکر شائع ہوئی وہ اور ہے چنانچہ خود مؤخر الذکر سراج منیر میں متعدد جگہ اس کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ کتاب ۱۸۹۷ء میں لکھی گئی تھی.مثلاً ملاحظہ ہوں صفحہ ۲۱،۱۷، ۴۸ ۷۴.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب نے اوائل میں ایک کتاب سراج منیر لکھنے کا ارادہ کیا تھا اور غالباً کچھ حصہ لکھا بھی ہوگا.مگر وہ طبع نہیں ہوئی.اور پھر اس کے بعد آپ نے ۱۸۹۷ء میں ایک اور رسالہ سراج منیر کے نام سے لکھ کر شائع فرما دیا.واللہ اعلم.(د) آنجناب نے تصنیف و اشاعت حقيقة الوحی‘۱۹۰۷ء میں قرار دی ہے.حالانکہ حقیقة الوحی ہی کے صفحات صفحہ ۳۹۲،۶۷ و تمه صفحه ۳۲،۲۶،۲۳،۶،۵ حاشیه ۳۳ شروع وصفحه ۳۹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء تصنیف ۱۹۰۶ء میں ہوئی.بلکہ یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو حقیقۃ الوحی کاتب نے بھی لکھ لی تھی اور پھر تتمہ حقیقۃ الوحی البتہ جنوری، فروری، مارچ واپریل ۱۹۰۷ء میں لکھا گیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ درست ہے کہ حقیقۃ الوحی کا معتد بہ حصہ واقعی ۱۹۰۶ء میں لکھا گیا تھا مگر تصنیف کی تکمیل ۱۹۰۷ء میں ہوئی تھی.اور میری یہی مراد تھی مگر غلطی سے صرف ۱۹۰۷ء کی طرف ساری کتاب کو منسوب کر دیا گیا.769 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر یر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۴۷۰ میں سنین کے لحاظ سے جو واقعات درج ہیں.ان میں سے بعض میں مجھے اختلاف ہے.جو درج ذیل ہے:.ا.(الف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے والد مرزا غلام مرتضے صاحب مرحوم کی وفات کی تاریخ ۲۰.اگست ۱۸۷۵ء تحریر فرمائی ہے (دیکھو نزول اسیح صفحہ ۲۰۷) مگر سیرۃ المہدی میں ۱۸۷۶ء درج ہے.پھر ایک اور جگہ حضرت صاحب نے اپنے والد کی وفات جون ۱۸۷۴ء لکھی ہے ( نزول مسیح صفحه (۱۱۶)
سیرت المہدی 711 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت صاحب کی تحریر کا اختلاف ظاہر کر رہا ہے کہ آپ نے یہ تاریخیں زبانی یادداشت پر قیاسا لکھی ہیں.مگر میں نے جو تاریخ لکھی ہے وہ سرکاری ریکارڈ سے لکھی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ۱۸۷۶ء ہی درست ہے.اور خود حضرت صاحب کی کتاب کشف الغطاء میں بھی یہ سرکاری حوالہ درج ہے.(ب) پھر میر صاحب فرماتے ہیں کہ اسی ضمن میں یہ بھی عرض ہے کہ حضرت صاحب نے نزول المسیح کے صفحہ ۲۳۲ میں جو تاریخ اس خط کی لکھی ہے جو پٹیالہ سے لکھ کر بھیجا گیا تھا وہ ۱۸۸۷ء ہے مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ ۹۲ ء کا واقعہ ہے جبکہ ہم پٹیالہ میں تھے اور میاں محمد الحق صاحب دو سال کے تھے.۸۷ء میں تو وہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے.اور ہم 91ء میں پٹیالہ تبدیل ہو کر گئے تھے.اسی طرح حقیقۃ الوحی صفحہ۲۵۲ میں حضور نے سفر جہلم ۱۹۰۴ء میں لکھا ہے.مگر یہ سفر ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا.سوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارے میں ذہول ہوا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ باتیں میر صاحب نے یونہی ضمناً بیان کر دی ہیں ورنہ سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۴۶۷ سے انہیں تعلق نہیں ہے.(۲) حضرت صاحب نے اپنے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ۱۸۸۱ء میں لکھی ہے.( نزول مسیح صفحہ ۲۲۵) اور آپ نے سیرۃ المہدی میں ۸۳ لکھی ہے.اور اسی طرح ایک اور جگہ حضرت صاحب نے ان کی وفات ۸۷ء میں لکھی ہے.(نزول المسیح صفحہ ۲۱۷) خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا.جیسا کہ اختلاف سنین سے ظاہر ہے.مگر میرا اندراج سرکاری ریکارڈ پر بنی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی درست ہے.(۳) آپ نے سرخی کے چھینٹوں والا واقعہ سیرۃ المہدی حصہ دوم میں ۱۸۸۴ء میں لکھا ہے مگر حضرت صاحب اس کو تقریباً ۱۸۸۷ء میں لکھتے ہیں.( نزول اسیح صفحہ ۲۲۶) خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۱۸۸۷ء کا اندازہ تو بہر حال درست معلوم نہیں ہوتا اور حضرت صاحب نے بھی اسے یونہی تخمینی رنگ میں لکھا ہے.البتہ ممکن ہے کہ تذکرہ کا اندراج درست ہو جو ۱۸۸۵ء ہے
سیرت المہدی 712 حصہ سوم دیکھو تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۱۳۱) مگر مجھے ابھی تک اسی طرف میلان ہے کہ یہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا دہلی کا نکاح ۱۸۸۵ء میں بیان کیا ہے ( نزول مسیح صفحه ۲۰۸) مگر سیرۃ المہدی میں ۱۸۸۴ء درج ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے خیال میں ۱۸۸۴ء ہی درست ہے.کیونکہ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھے اس کی معین تاریخ بتائی تھی.مگر حضرت صاحب نے محض تخمینا لکھا ہے.جیسا کہ نزول اسیح کے اکثر تاریخی انداز سے تخمینی ہیں.(۵) حضرت صاحب نے مسیح ہونے کا اعلان بجائے ۱۸۹۱ء کے جیسا کہ سیرۃ المہدی میں لکھا گیا ہے۱۸۹۰ء میں کیا تھا.اس کے متعلق میرا ثبوت یہ ہے کہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۷۹ مکتوب نمبر ۵۷ جو حضرت صاحب نے ۱۵ جولائی ۱۸۹۰ء کو تحریر فرمایا ہے.اس میں لکھا ہے کہ کئی مولوی مجھے ضال اور جہنمی کہتے ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہتے ہیں.کہ میں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اترنا ثابت کر دونگا.پس صرف تصنیف فتح اسلام و توضیح مرام ہی ۹۰ء میں تصنیف نہیں ہوئی.بلکہ اعلان دعویٰ مسیحیت بھی۱۸۹۰ء میں ہو گیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری مراد اس اعلان سے اشاعت تھی.اور چونکہ اس کی تحریری اشاعت بذریعہ رسالہ فتح اسلام ۱۸۹۱ء میں ہوئی تھی.اس لئے میں نے اسے ۱۸۹۱ء میں رکھا ہے.گو یہ درست ہے کہ ویسے زبانی طور پر اور خطوط کے ذریعہ اعلان۱۸۹۰ء میں ہو گیا تھا.چاہئے تھا.(۶) ۱۸۹۱ء کے واقعات میں آپ نے وفات عصمت کے بعد سفر امرتسر نہیں لکھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا.(۷) ۱۸۹۱ء میں سفر پٹیالہ کو آپ نے وفات عصمت سے پہلے تحریر فرمایا ہے.حالانکہ الٹ لکھنا خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا صحیح علم نہیں ہے.ممکن ہے ایسا ہی ہو.(۸) آپ نے ۱۸۹۴ء کے واقعات میں حضرت صاحب کا سفر چھاؤنی فیروز پور نہیں لکھا.
سیرت المہدی 713 حصہ سوم حضرت صاحب اس سال ہمارے ہاں ایک دو روز کے لئے تشریف لائے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا.(۹) شروع ۱۸۹۵ء میں جب میں قادیان مڈل کا امتحان دے کر آیا تھا.تو حضرت صاحب نے قریباً تین ماہ مجھے ایک ہزار عربی فقرہ بنا کر یاد کرایا تھا.پیر سراج الحق صاحب میرے ہم سبق تھے.مگر حضرت صاحب قریباً میں فقرے روزانہ مجھے چاشت کے وقت لکھوا دیتے تھے اور دوسرے دن سن لیتے تھے.اور پھر لکھوا دیتے تھے.آپ نے ان اسباق کا ذکر ۱۸۹۹ء کے واقعات میں کیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم غالبا مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذریعہ ہوا تھا.لیکن چونکہ میر صاحب ۱۸۹۵ء کے متعلق یقین ظاہر کرتے ہیں.اس لئے غالباً ایسا ہی ہوگا.اور من الرحمن کی تصنیف کا زمانہ بھی جو ۱۸۹۵ ء ہے اسی کی تائید کرتا ہے.(۱۰) ۱۸۹۵ء میں آپ نے تصنیف و اشاعت ست بچن اور تصنیف و اشاعت آریہ دھرم کو الگ الگ کر کے لکھا ہے.حالانکہ پہلے ایڈیشن میں یہ دونوں کتب اکٹھی ایک جلد میں شائع کی گئی تھیں.اور ایک ہی دن ان کی اشاعت ہوئی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں تھا.(۱۱) آپ نے ۱۸۹۶ء کے واقعات میں لکھا ہے.تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی.نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور.میرے نزدیک یوں چاہیئے.” تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی نشان لاہور“ جلسہ اعظم مذاہب لاہور.بس اس سال یہی دو باتیں ہوئیں.مضمون قلمی تحریر تھا.جو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے آخر دسمبر میں سنایا.جلسہ میں سنانے کے لئے یہ مضمون پیر سراج الحق صاحب نے خوشخط قلمی لکھا تھا.پھر ۱۸۹۷ء میں رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب میں وہ پہلی دفعہ شائع ہوا.پس اشاعت ۹۷ء میں ہوئی.ہاں اگر جلسہ میں پڑھے جانے سے مراد اشاعت ہے.تو ٹھیک ہے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ اشاعت سے میری مراد اس کا پبلک میں پڑھا جانا تھی.گو یہ درست ہے کہ اس کی طباعت ۱۸۹۷ء میں ہوئی تھی.
سیرت المہدی 714 حصہ سوم (۱۲) ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آپ نے جلسہ جو بلی شصت سالہ ملکہ وکٹوریہ کا ذکر نہیں کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے یہ ذہول ہوا ہے.میر صاحب کا بیان درست ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جو بلی پر قادیان میں جلسہ ہوا تھا.(۱۳) آپ نے ۱۹۰۱ء میں دو ماہ تک مسلسل نمازیں جمع کرنے کا ذکر نہیں کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی درست ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک نمازیں جمع ہوئی تھیں.گوسنہ کے متعلق مجھے کوئی ذاتی علم نہیں تھا.مگر اب میں نے دیکھ لیا ہے کہ یہی سنہ درست ہے.(۱۴)۱۹۰۶ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایده الله بنصرہ العزیز کے نکاح و شادی کا ذکر ہے.میں دونوں موقعوں پر شریک تھا.نکاح کے لئے ہم رڑ کی گئے تھے.اور رخصتانہ کے لئے ہم ایک لمبے عرصہ کے بعد آگرہ میں گئے تھے.یہ یاد نہیں.کہ یہ ایک سال کے ہی دو واقعات ہیں یا کہ سنہ بدل جاتا ہے.(۱۵)۱۹۰۶ء میں وفات نصیر احمد کا ذکر نہیں کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا ذکر سہوارہ گیا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا بچہ نصیر احمد ۱۹۰۶ء میں پیدا ہو کر اسی سال کے دوران میں فوت ہو گیا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے.کہ میر صاحب نے جو نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۴۶۷ کے متعلق لکھا ہے اس کے علاوہ اسی روایت کے متعلق ایک نوٹ مولوی غلام احمد صاحب المعروف مجاہد کا بھی روایت نمبر ۷۶۸ میں گذر چکا ہے.نیز خاکسارا اپنی طرف سے عرض کرتا ہے کہ ۱۸۸۵ء میں شہب آسمانی کے گرنے کا واقعہ بھی قابل اندراج ہے اور ۱۸۹۴ء میں کسوف خسوف کا واقعہ قابل اندراج ہے اور ۱۸۹۲ء میں نکاح محمدی بیگم ہمراہ مرزا سلطان محمد بیگ اور آغاز میعاد پیشگوئی قابل ذکر ہے اور ۱۹۰۱ء میں تصنیف و اشاعت اشتہار ایک غلطی کا ازالہ“ کا اندراج ہونا چاہئے.﴿770 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں محمد طفیل صاحب ساکن دھرم سالہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا
سیرت المہدی 715 حصہ سوم کہ ان سے لالہ ڈھیر و مل صاحب گھڑی ساز نے بذریعہ تحریر بیان کیا تھا.کہ:.وو مجھے ایک واقعہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی صداقت کا یاد ہے جو کہ میرے دوست پنڈت مولا رام صاحب ہیڈ کلرک ڈسٹرکٹ بورڈ دھر مسالہ نے جو کہ ہوشیار پور کا رہنے والا تھا ، مجھے سے ذکر کیا تھا.پنڈت صاحب موصوف کا میرے ساتھ دوستانہ سلوک تھا.وہ ہر بات جو قابلِ ذکر ہوتی تھی.میرے ساتھ کیا کرتے تھے.چنانچہ جب ۱/۴ پریل ۱۹۰۵ء کو زلزلہ آیا.جس سے دھرم سالہ وکانگڑہ تباہ ہوا تھا.وہ زلزلہ ۶ بجگرم منٹ پر ہوا تھا.زلزلہ ہونے سے ۵ منٹ پیشتر پنڈت مولا رام صاحب نے میرے ساتھ ذکر کیا تھا.کہ کل شام کا مرزا صاحب موصوف کا خط آیا ہوا ہے.رات کو میں پڑھ نہ سکا.ابھی پڑھ رہا ہوں.مرزا صاحب کی تحریر زیادہ دلچسپ ہوتی ہے اور علمی ہوتی ہے.اس لئے مجھے پڑھنے کا بڑا شوق ہے.اور توجہ سے پڑھا کرتا ہوں.اور جب کبھی کسی امر کے متعلق کوئی سوال مجھے درپیش ہوتا ہے تو میں مرزا صاحب کی خدمت میں لکھدیا کرتا ہوں.ان کی طرف سے مجھے ایسا جواب آتا ہے کہ اس کے پڑھنے سے میرے تمام شکوک دُور ہو جاتے ہیں.چنانچہ آج بھی میرے ایک سوال کا جواب مرزا صاحب موصوف کی طرف سے آیا ہے اور میں اس کو پڑھ رہا تھا.کہ زلزلہ آ گیا.میں خط پڑھتے پڑھتے اپنے مکان سے باہر نکل آیا.اور مرزا صاحب کے خط کی بدولت میری جان بچ گئی.چنانچہ جس وقت میں نے پنڈت صاحب موصوف کو باہر دیکھا.مرزا صاحب کا خط ان کے ہاتھ میں تھا.یہ ذکر پنڈت صاحب نے مجھ سے کیا جو کہ بالکل صحیح ہے اور ساتھ ہی میں بھی اس بات پر اعتقاد رکھتا ہوں.کہ جو کلام مرزا غلام احمد صاحب کرتے تھے.وہ خدا سے علم پا کر کرتے تھے.اور آپ واقعی خدا رسیدہ انسان تھے.لہذا یہ بچے کلمات محمد طفیل ومحمد حسین ٹیلر ماسٹر جن کا تعلق جماعت احمدیہ قادیان سے ہے.ان کی خواہش پر قلمبند کرتا ہوں.کا تب محمد طفیل احمدی دھرم ساله ( دستخط ) لالہ ڈھیرو مل گھڑی ساز بقلم خود مورخه ۹/اکتوبر ۱۹۳۲ء خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی واقعہ ہے جس کا ذکر سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۳۵ میں ماسٹر نذیر خان صاحب کی زبانی ہو چکا ہے.یعنی یہ کہ حضرت مسیح موعود نے پنڈت مولا رام صاحب کو اپریل
سیرت المہدی 716 حصہ سوم ۱۹۰۵ء میں ایک خط لکھا تھا.جس میں یہ تحریر فرمایا تھا.کہ خدا کا عذاب بالکل سر پر ہے اور گھنٹوں اور منٹوں اور سیکنڈوں میں آنے والا ہے اور لطف یہ ہے کہ پنڈت صاحب اس خط کو پڑھ ہی رہے تھے یا پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ ۴ را پریل ۱۹۰۵ء والا زلزلہ آ گیا جس نے ضلع کانگڑہ میں خطرناک تباہی مچائی اور ہزاروں انسان ہلاک ہو گئے اور لاکھوں کروڑوں روپے کی جائیداد خاک میں مل گئی.771 بسم اللہ الرحمن الرحیم.شیخ عبدالحق صاحب ساکن وڈالہ بانگر تحصیل وضلع گورداسپور نے مجھے سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ غالباً ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء کا ذکر ہے.خاکسار راقم تحصیل دار بندوبست کے سرشتہ میں بطور محرر کام کرتا تھا.چونکہ بندوبست کا ابتداء تھا اور عملہ بندوبست ابھی تھوڑا آیا ہوا تھا.تحصیلدار بندوبست صرف دو ہی آئے ہوئے تھے.اس لئے دو تحصیلوں کا کام تحصیلدار صاحبان کے سپر د تھا.جن تحصیلدارصاحب کے ماتحت خاکسار کام کرتا تھا.ان کے سپر د تحصیل بٹالہ اور گورداسپور کا کام تھا.تحصیل بٹالہ میں موضع رتر چھتر المعروف مکان شریف میں ایک بزرگ حضرت امام علی شاہ صاحب گذرے ہیں.دُور دُور تک لوگ ان کے معتقد ہیں.اور اکثر دیہات میں آپ کے مریدوں نے بہت کثرت کے ساتھ اپنی اراضیات بزرگ موصوف کے نام منتقل کر دی ہوئی ہیں.اس وراثت کے متعلق شاہ صاحب مذکور کی اولا د میں باہمی تنازعہ ہو گیا.جناب میر بارک اللہ صاحب جو ان دنوں گدی نشین تھے.وہ ایک خاص حصہ رقبہ میں سے بعض وجوہات کے ماتحت اپنے چھوٹے بھائی میر لطف اللہ شاہ صاحب کو حصہ دینا نہیں چاہتے تھے.اس پر میر لطف اللہ شاہ صاحب نے تقسیم اراضی کا مقدمہ تحصیلدار بندوبست کے محکمہ میں دائر کر دیا.اس مقدمہ کی پیروی کے لئے دونوں بھائی ہمارے محکمہ میں تاریخ مقررہ پر عموماً آیا کرتے تھے.اتفاقاً ایک دن جو جمعہ تھا.تحصیلدار صاحب کا مقام کوٹ ٹو ڈرمل جو قادیان کے قریب ہے ، ہوا.اور اسی دن شاہ صاحبان کی پیشی تھی.اس لئے ہر دو صاحبان کوٹ ٹو ڈرمل تشریف لائے.خاکسار بغرض ادا ئیگی جمعہ باجازت تحصیلدار صاحب قادیان آیا.اور جمعہ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت میں پڑھا.جمعہ سے فارغ ہو کر جب حضور گھر تشریف لیجا رہے تھے تو ابھی اسی دروازہ میں تھے جس میں بالعموم
سیرت المہدی 717 حصہ سوم آپ مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے.کہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میر لطف اللہ شاہ مکان شریف والے حضور کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہیں.حضور ا جازت فرما ئیں تو وہ آئیں.حضور نے اجازت دی.اور آپ وہیں مسجد مبارک میں اس دریچہ کے ساتھ جو جانب شمالی گوشہ مغربی سے گلی میں کھلتا ہے.ٹیک لگا کر بیٹھ گئے.خاکسار کو بھی حضور کے پاس ہی بیٹھنے کا موقعہ مل گیا.میر لطف اللہ شاہ صاحب تشریف لائے اور حضور کے سامنے جنوبی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے.اس وقت مسجد مبارک کوچہ کے بالائی حصہ پر ہی واقع تھی اور ابھی اس کی توسیع نہیں ہوئی تھی.اس لئے اس کا عرض بہت تھوڑا تھا.حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ رونق افروز تھے.اور شاہ صاحب سامنے جنوبی دیوار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.حضور نے شاہ صاحب سے دریافت فرمایا.کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں.انہوں نے مقدمہ کا سارا ماجرہ بیان کیا.اس سارے طویل قصہ کو سُننے کے بعد حضور نے فرمایا.شاہ صاحب جب انسان دنیا کو چھوڑتا ہے اور مولا کریم کی طرف اس کی توجہ مبذول ہو جاتی ہے تو وہ آگے آگے دوڑتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے دوڑتی ہے.لیکن جب انسان خدا سے منہ موڑ لیتا ہے اور دنیا کے پیچھے پڑتا ہے.تو اس وقت دنیا آگے آگے دوڑتی ہے اور وہ پیچھے پیچھے جاتا ہے.مطلب حضور کا یہ تھا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ کے بزرگ دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کے بن گئے تھے.تو دنیا کی جائداد میں خود بخود اُن کی طرف آگئیں.اور اب آپ نے خُدا سے وہ تعلق قائم نہ رکھا اور انہیں جائدادوں پر گر گئے.تو اب وہی جائدادیں آپ کے لئے نصب العین ہو گئی ہیں.اور آپ کی ساری توجہ دنیا طلبی میں صرف ہو رہی ہے.مگر پھر بھی جائدادیں ہاتھ سے نکلی جا رہی ہیں.اس وقت شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا کی جائے.حضور نے دُعا کی اور شاہ صاحب واپس مکان شریف چلے گئے.اس وقت مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول بھی وہاں موجود تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ رتر چھتر یعنی مکان شریف ڈیرہ بابا نانک کے قریب ہے اور اس وقت اس کے گدی نشین صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سخت مخالف ہیں.مگر ان میں سے خدا نے ایک نیک وجود احمدیت کو بھی دے رکھا ہے.میری مراد لیفٹینٹ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ہیں.جو اسی خاندان میں
سیرت المہدی 718 حصہ سوم سے ہیں اور نہایت مخلص احمدی ہیں.772 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھا.مصافحہ کیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا.جو عام طور پر رائج ہے.اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے.773 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چہ صدقہ اور زکوۃ سادات کے لئے منع ہے.مگر اس زمانہ میں جب ان کے گزارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے.تو اس حالت میں اگر کوئی سید بھوکا مرتا ہو اور کوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوۃ یا صدقہ میں سے دیدیا جائے.ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے.774 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ آنتم کے متعلق پیشگوئی کے دوران میں ایک دفعہ مجھے خواب آیا.کہ اس پیشگوئی کی میعاد کے مطابق عبد اللہ آتھم کے مرنے کا آخری دن یہ ہے.خواب میں وہ دن بھی بتایا گیا.اس وقت میں خواب میں بہت غور سے سورج کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کہیں عبد اللہ آتھم کے مرنے سے پہلے سورج غروب نہ ہو جائے اور خواب میں میں نے دیکھا کہ سورج غروب ہونے کے عین قریب ہو گیا.اور عبد اللہ آتھم کے مرنے کی کوئی خبر نہ آئی.پھر میں نے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً پڑھنا شروع کیا.مگر سورج غروب ہو گیا اور پھر بھی کوئی خبر نہ آئی.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.اور یہ خواب حضرت صاحب کو سُنایا.حضور نے حساب لگا کر فرمایا کہ ہاں آخری دن تو وہی بنتا ہے.جو آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہے.اور یہ بھی فرمایا.کہ میں بھی جب اس کے متعلق دعا کرتا ہوں.تو دُعا میں پورے طور پر توجہ قائم نہیں ہوتی.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت آتھم پہلی میعاد میں نہ مرا.اور اسے خدائی الہام کے مطابق کہ ”بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.مہلت مل گئی.775 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر
سیرت المہدی 719 حصہ سوم بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ ابھی چھوٹی مسجد وسیع نہ ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظہر یا عصر کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور بیٹھ گئے.اس وقت ایک میں تھا اور ایک اور شخص تھا.اس وقت حضور نے فرمایا.خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کا مطالعہ کرنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حسن سے مراد خدا تعالیٰ کے صفات حسنہ ہیں.اور احسان سے مرادان صفات حسنہ کا ظہور ہے یعنی خدا تعالیٰ کے وہ انعام و افضال جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کی محبت کے یہی دو بڑے ستون ہیں.776 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں تھے کہ میں حاضر خدمت ہوا.حضور نے فرمایا کہ اس وقت اشتہار طبع کرانے کی ضرورت ہے کیا اس کے لئے آپ کی جماعت ساٹھ روپے کا خرچ برداشت کر لے گی.میں نے اثبات میں جواب دیا.اور فوراً کپورتھلہ واپس آکر اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی.اور احباب جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کیا.اور ساٹھ روپے لے کر میں اُڑ گیا.اور لدھیانہ جا کر حضور کے سامنے یہ رقم پیش کر دی.چند روز بعد منشی اروڑا صاحب لدھیانہ آگئے.میں وہیں تھا.ان سے حضور نے ذکر فرمایا کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقعہ پر امداد کی ہے.منشی اروڑ ا صاحب نے عرض کی کہ حضور نے مجھے یا جماعت کو تو پتہ بھی نہیں.حضور کس امداد کا ذکر فرماتے ہیں.اس وقت منشی اروڑا صاحب کو اس بات کا علم ہوا کہ میں اپنی طرف سے روپیہ دے آیا ہوں.اس پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوئے کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتلایا.میں ثواب سے محروم رہا.حضرت صاحب سے بھی عرض کی.حضور نے فرمایا.منشی صاحب خدمت کرنے کے بہت سے موقعے آئیں گے.آپ گھبرائیں نہیں.مگر اس بناء پرمنشی صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت ایک خاص جماعت تھی.اور نہایت مخلص تھی.ان میں سے تین دوست خاص طور پر ممتاز تھے.یعنی میاں محمد خان صاحب مرحوم مینشی اروڑے خان صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب.اوّل الذکر بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے
سیرت المہدی 720 حصہ سوم اور ثانی الذکر خلافت ثانیہ میں فوت ہوئے اور مؤخر الذکر ابھی تک زندہ ہیں.اللہ تعالے انہیں تا دیر سلامت رکھے اور ہر طرح حافظ و ناصر ہو.آمین.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم منشی ظفر احمد صاحب کے اس اخلاص کے اظہار میں تین لطافتیں ہیں.ایک تو یہ کہ جور تم جماعت سے مانگی گئی تھی وہ انہوں نے خود اپنی طرف سے پیش کر دی.دوسرے یہ کہ پیش بھی اس طرح کی کہ نقد موجود نہیں تھا تو زیور فروخت کر کے روپیہ حاصل کیا.تیسرے یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جتایا تک نہیں کہ میں خود اپنی طرف سے زیور بیچ کر لایا ہوں.بلکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے رہے کہ جماعت نے چندہ جمع کر کے یہ رقم بھجوائی ہے.دوسری طرف منشی اروڑے خاں صاحب کا اخلاص بھی ملاحظہ ہو کہ اس غصہ میں منشی ظفر احمد صاحب سے چھ ماہ ناراض رہے کہ اس خدمت کے موقعہ کی اطلاع مجھے کیوں نہیں دی.یہ نظارے کس درجہ روح پرور ، کس درجہ ایمان افروز ہیں.اے محمدی سلسلہ کے برگزیدہ مسیح! تجھ پر خدا کا لاکھ لاکھ درود اور لاکھ لاکھ سلام ہو کہ تیرا ثمر کیسا شیریں ہے.اور اے محمدی مسیح کے حلقہ بگوشو! تم پر خدا کی لاکھ لاکھ رحمتیں ہوں کہ تم نے اپنے عہد اخلاص و وفا کو کس خوبصورتی اور جاں نثاری کے ساتھ نبھایا ہے.6777 بسم اللہ الرحمن الرحیم مینشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں جب میں قادیان جاتا تو اس کمرے میں ٹھہرتا تھا.جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور جس میں سے ہو کر حضرت صاحب مسجد میں تشریف لے جاتے تھے ایک دفعہ ایک مولوی جو ذی علم شخص تھا.قادیان آیا.بارہ نمبر دار اس کے ساتھ تھے.وہ مناظرہ وغیرہ نہیں کرتا تھا بلکہ صرف حالات کا مشاہدہ کرتا تھا.ایک مرتبہ رات کو تنہائی میں وہ میرے پاس اس کمرہ میں آیا.اور کہا کہ ایک بات مجھے بتائیں کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلغ عبارت نہیں لکھ سکتا.ضرورمرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہونگے.اور وہ وقت رات کا ہی ہو سکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں.میں نے کہا مولوی محمد چراغ اور مولوی معین الدین ضرور آپ کے پاس رات کو رہتے ہیں.یہ علماء رات کو ضرور امداد کرتے ہیں.حضرت صاحب کو میری یہ آواز پہنچ گئی.اور حضور اندر بہت ہنسے.حتی کہ مجھ تک آپ کی ہنسی کی آواز آئی.اس کے بعد مولوی مذکور اُٹھ کر چلا گیا.اگلے روز جب
سیرت المہدی 721 حصہ سوم مسجد میں بعد عصر حسب معمول حضور بیٹھے تو وہ مولوی بھی موجود تھا.حضور میری طرف دیکھ کر خود بخودہی مسکرائے اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ اُن علماء کو انہیں دکھلا بھی تو دو اور پھر ہنسنے لگے.اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ حضور نے سُنایا اور وہ بھی ہنسنے لگے.میں نے چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا.چراغ ایک بافندہ ان پڑھ حضرت صاحب کا نوکر تھا.اور معین الدین صاحب ان پڑھ نابینا تھے.جو حضرت صاحب کے پیر دبایا کرتے تھے.وہ شخص ان دونوں کو دیکھ کر چلا گیا.اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر آیا اور حضور سے عرض کیا کہ مجھے بیعت فرما لیں.اب کوئی شک وشبہ میرے دل میں نہیں رہا.اور اس کے بارہ ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی بیعت ہو گئے.حضرت صاحب نے بیعت اور دعا کے بعد ان مولوی صاحب کو مسکراتے ہوئے فرمایا.کہ یہ مٹھائی منشی صاحب کے آگے رکھد و کیونکہ وہی آپ کی ہدایت کا باعث ہوئے ہیں.6778 بسم اللہ الرحمن الرحیم.پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا.لاہور میں غالبا وفات سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج مجھے دست زیادہ آگئے ہیں.چنانچہ میں نے تین قطرے کلوروڈین کے پی لئے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر رہتی تھی.مگر آخری مرض میں جہاں تک مجھے یاد ہے صرف وفات والے دن سے قبل کی رات اسہال لگے تھے.مگر ممکن ہے.کہ ایک دو روز پہلے بھی معمولی شکایت پیدا ہو کر پھر دب گئی ہو.6779 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے پیر منظور محمد صاحب بیان کرتے تھے.کہ ایک دن میری مرحومہ اہلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر سے آئیں اور کہنے لگیں کہ آج حضرت صاحب نے میاں بشیر احمد صاحب ( یعنی خاکسار مؤلف ) کو بلا کر فرمایا.” جو تم میرے بیٹے ہو گے تو ناول نہیں پڑھو گے“.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ واقعہ یاد نہیں.مگر اس روایت سے مجھے ایک خاص سرور حاصل ہوا ہے کیونکہ میں بچپن سے محسوس کرتا آیا ہوں کہ مجھے ناول خوانی کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوئی.نہ بچپن میں نہ
سیرت المہدی 722 حصہ سوم جوانی میں اور نہ اب.بلکہ ہمیشہ اس کی طرف سے بے رغبتی رہی ہے حالانکہ نو جوانوں کو اس میں کافی شغف ہوتا ہے اور خاندان میں بھی بعض افراد کبھی کبھی ناول پڑھتے رہے ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت صاحب نے کسی کو ناول پڑھتے دیکھا ہوگا.یا کسی اور وجہ سے ادھر توجہ ہوئی ہو گی.جس پر بطریق انتباہ مجھے یہ نصیحت فرمائی.اور الحمد للہ میں حضرت صاحب کی توجہ سے خدا کے فضل کے ساتھ اس لغو فعل سے محفوظ رہا.780 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین نے ایک دن سُنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھا نوتھی.وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑ رہی تھی.حضور کو دبانے بیٹھی.چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی.اس لئے اُسے یہ پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں.وہ حضور کی ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا.بھا نو آج بڑی سردی ہے.بھانو کہنے لگی.”ہاں جی تڈے تے تہاڑی لتاں لکڑی وانگر ہویاں ہویاں ایں.یعنی جی ہاں جبھی تو آج آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو بھانو کو سردی کی طرف توجہ دلائی تو اس میں بھی غالباً یہ جتانا مقصود تھا کہ آج شاید سردی کی شدت کی وجہ سے تمہاری حس کمزور ہورہی ہے اور تمہیں پتہ نہیں لگا کہ کس چیز کو دبا رہی ہو.مگر اس نے سامنے سے اور ہی لطیفہ کر دیا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھانو مذکورہ قادیان کے ایک قریب کے گاؤں بسرا کی رہنے والی تھی.اور اپنے ماحول کے لحاظ سے اچھی مخلصہ اور دیندار تھی.781 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہے کہ کہیں سے ایک بہت بڑالو ہے چینی کا پیالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا.جس کی بڑائی کی وجہ سے معلوم نہیں اہل بیت نے یا خود حضرت صاحب نے اس کا نام كاسة المسیح رکھ دیا اور اسی نام سے وہ مدتوں مشہور رہا.ان دنوں حضرت صاحب کو کچھ پھنسیوں وغیرہ کی تکلیف جو ہوئی.تو
سیرت المہدی 723 حصہ سوم آپ نے ایک نسخہ جس میں منڈی بوٹی.مہندی.عناب.شاہترہ.چرائتہ اور بہت سی اور مصفی خون ادویات تھیں اپنے لئے تجویز کیا.یہ ادویہ اس كاسة المسيح “ میں شام کو بھگوئی جاتیں اور صبح مل کر اور چھان کر آپ اس کے چند گھونٹ پی لیتے اور دوسروں سے بھی کہتے کہ پیو یہ بہت مفید ہے.یہ خاکسارا اکثر اس کو اپنی ہاتھ سے تیار کرتا تھا.اس لئے تھوڑ اسا پی بھی لیتا تھا.مگر اس میں بدمزگی.بیک اور تلخی کمال درجہ کی تھی.اکثر لوگ تو پینے سے ہی جی چراتے.اور جو ایک دفعہ پی لیتے وہ پھر پاس نہ پھٹکتے تھے.مگر حضور خود اس کو مدت تک پیتے رہے.بلکہ جسے کوئی تکلیف اس قسم کی سنتے اسے اس میں سے حصہ دیتے.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے یہ خیال کر کے کہ یہ ایک بہت عمدہ دوا ہوگی.اسے پینے کی خواہش ظاہر کی.جس پر حضرت صاحب نے ان کو چند گھونٹ بھجوا دیئے.مگر اس کو چکھ کر مولوی صاحب مرحوم کی حالت بدل گئی اور انہوں نے اپنی فصیح و بلیغ زبان میں اس کی وہ تعریف کی کہ سننے والے ہنس ہنس کر لوٹ گئے.مگر حضور علیہ السلام کی طبیعت ایسی تھی کہ کیسی ہی بدمزہ ، تلخ اور ناگوار دوا ہو.آپ کبھی اس کے استعمال سے ہچکچاتے نہ تھے اور بلا تامل پی لیتے تھے.782 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ عمامہ کا شملہ لمبا چھوڑتے تھے.یعنی اتنا لمبا کہ ٹرین کے نیچے تک پہنچتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ میر صاحب موصوف کی روایت بہت پختہ ہوتی ہے.مگر جہاں تک مجھے یاد ہے آپ کا شملہ بے شک کسی قدر لمبا تو ہوتا تھا مگر اتنا لمبا نہیں ہوتا تھا کہ ٹرین سے نیچے تک جا پہنچے.واللہ اعلم.783 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حسن ظنی کی تاکید میں ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر سُنایا کرتے تھے اور وہ حکایت یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک دفعہ تکبر سے توبہ کی اور عہد کیا کہ میں آئندہ اپنے تئیں سب سے ادنی سمجھا کرونگا.ایک دفعہ وہ سفر پر گیا اور ایک دریا کے کنارے پہنچ کر کشتی کی انتظار کرنے لگا.اس وقت اس نے کچھ فاصلہ پر دیکھا کہ ایک آدمی اور
سیرت المہدی 724 حصہ سوم ایک عورت بیٹھے ہیں.اور غالبا وہ بھی کشتی کا انتظار کر رہے ہیں.ان کے پاس ایک بوتل ہے.کبھی اس میں سے ایک گھونٹ وہ مرد پی لیتا ہے اور کبھی عورت پیتی ہے.یہ دیکھ کر اس نے دل میں کہا.کہ یہ دونوں کس قدر بے حیاء ہیں کہ دریا کے گھاٹ پر لوگوں کے سامنے بے حجاب بیٹھے شراب پی رہے ہیں.ان سے تو میں بہر حال اچھا ہوں.اتنے میں دریا کے پار کی طرف سے کشتی کنارے کے قریب آئی اور اہر کے صدمہ سے الٹ گئی.اس میں چھ آدمی تھے.یہ نظارہ دیکھ کر وہ عورت کا ساتھی اُٹھا اور دریا میں کود پڑا.اور ایک ایک کر کے پانچ آدمیوں کو نکال لایا.پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اب آپ بھی اس چھٹے آدمی کو نکالیں یا دور دور بیٹھے دوسروں پر ہی بدظنی کرنا جانتے ہیں.سنئے یہ عورت میری والدہ ہے اور اس بوتل میں پینے کا پانی ہے جو ہم نے سفر میں محفوظ کر رکھا ہے.یہ سن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور باطنی سے توبہ کی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی بزرگ ہو گا جسے کشفی صورت میں اس شخص کے اندرونہ کا علم ہو گیا ہو گا.یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قصہ محض نصیحت اور عبرت کے لئے وضع کیا گیا ہو.784 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنے خدا پر نیک ظن رکھے.تمام غلط عقائد کی جڑ اللہ تعالے پر بدظنی ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ذلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِى ظَنَنتُم بِرَبِّكُمُ اَرْدَاكُمُ (حم السجده: (۲۴) یعنی اے کا فرو! تم نے جو بدظنی خدا پر کی اسی نے تم کو ہلاک کیا.اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے آنا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بی.یعنی خدا فرماتا ہے کہ جس طرح میرا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتا ہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حدیث نہایت وسیع المعانی اور لطیف المعانی ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.785 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے فرمایا کہ بعض اوقات ہمارے اپنے دو آدمی ہمارے پاس آتے ہیں اور ان کا آپس میں
سیرت المہدی 725 حصہ سوم جھگڑا یا مقدمہ ہوتا ہے.اور دونوں نذر دیتے ہیں.اور دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ مقدمہ ان کے حق میں فتح ہو.ہم دونوں کی نذر قبول کر لیتے ہیں.اور خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ان میں سے جو سچا ہو اور جس کا حق ہوا سے فتح دے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر کا مرید کی نذررڈ کرنا مرید کے لئے موت سے بڑھ کر ہوتا ہے اس لئے سوائے اس کے کہ کسی پر کوئی خاص ناراضگی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب کی نذرقبول فرما لیتے تھے اور سب کے لئے دعا کرتے تھے اور ہر ایک کو اپنے اپنے رنگ میں دعا فائدہ پہنچاتی تھی.کسی کو فتح کے رنگ میں اور کسی کو اور رنگ میں.786 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں میں اور اہلیہ بابو شاہ دین رات کو پہرہ دیتی تھیں.اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا.کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیا کروں تو مجھے جگا دینا.ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوتے سُنے اور آپ کو جگا دیا.اس وقت رات کے بارہ بجے تھے.ان ایام میں عام طور پر پہرہ پر مائی تجھ.منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی رسول بی بی صاحبہ میری رضاعی ماں ہیں اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کی بیوہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم تھے.مولوی عبدالرحمن صاحب ان کے داماد ہیں.787 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں قادیان میں تھا اور اوپر سے رمضان شریف آ گیا.تو میں نے گھر آنے کا ارادہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.نہیں سارا رمضان یہیں رہیں.میں نے عرض کی.حضور ایک شرط ہے کہ حضور کے سامنے کا جو کھانا ہو وہ میرے لئے آجایا کرے.آپ نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ دونوں وقت حضور برابر اپنے سامنے کا کھانا مجھے بھجواتے رہے.دوسرے لوگوں کو بھی یہ خبر ہو گئی اور وہ مجھ سے چھین لیتے
سیرت المہدی 726 حصہ سوم تھے.یہ کھانا بہت سا ہوتا تھا.کیونکہ حضور بہت کم کھاتے تھے.اور بیشتر حصہ سامنے سے اسی طرح اٹھ کر آجاتا تھا.788 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی کبھی دورانِ سر کی تکلیف ہو جاتی تھی.جو بعض اوقات اچانک پیدا ہو جاتی تھی.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب گھر میں ایک چارپائی کو کھینچ کر ایک طرف کرنے لگے تو اس وقت آپ کو اچانک چکر آ گیا اور آپ لڑکھڑا کر گرنے کے قریب ہو گئے.مگر پھر سنبھل گئے.یہ اس صحن کا واقعہ ہے جس میں اب حضرت خـــــلــــفـة المسیح الثانی کے حرم اول رہتے ہیں.789 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر براہین احمدیہ کی طباعت دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.تو کتاب کی طباعت کے دیکھنے کے بعد مجھے فرمایا.میاں رحیم بخش چلو سیر کر آئیں.جب آپ باغ کی سیر کر رہے تھے تو خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت آپ سیر کرتے ہیں.ولی لوگ تو سُنا ہے شب وروز عبادت الہی کرتے رہتے ہیں.آپ نے فرمایا.ولی اللہ دوطرح کے ہوتے ہیں.ایک مجاہدہ کش جیسے حضرت باوا فرید شکر گنج.اور دوسرے محدث جیسے ابوالحسن خرقانی محمد اکرم ملتانی مجد دالف ثانی وغیرہ.یہ دوسری قسم کے ولی بڑے مرتبہ کے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے بکثرت کلام کرتا ہے.میں بھی ان میں سے ہوں.اور آپ کا اس وقت محمد محمیت کا دعوی تھا.اور فرماتے تھے کہ محدث بھی ایک طرح نبی ہوتا ہے.اس کی وحی بھی مثل وحی نبی کے ہوتی ہے.اور آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى الْقَى الشَّيْطَانُ فِی أُمُنِيَّتِهِ (الحج: ۵۳) الخ میں نبی کے ساتھ ایک قراءت میں محدّث کا لفظ بھی آیا ہے.اور اس کی وحی محفوظ ہوتی ہے.الغرض جب آپ کی یہ کلام خاکسار نے سنی.تو عرض کیا کہ آپ میری بیعت لے لیں.آپ اس وقت بیعت نہ لیتے تھے.فرمایا کہ بیعت تو دلی اعتقاد کا نام ہے.اگر تمہارا دلی اعتقاد اور پورا ایمان ہے تو تم بیعت میں ہو.غرض خاکسار تو اس وقت سے ہی آپ کی بیعت میں تھا.پھر جب حضور سے اجازت لے کر طالب علمی کے واسطے ہندوستان گیا.اور ایک مدت تک وہاں
سیرت المہدی 727 حصہ سوم رہا.اور جب کا نپور سے آکر دہلی طب پڑھتا تھا.تو حضور دہلی تشریف لے گئے.اس وقت میرا آپ پر یہی اعتقادر ہا.پھر جب میں پنجاب میں آیا.تو اپنے والد کو جو بوڑھے تھے.بیعت میں داخل کروایا.اور بیوی و دیگر رشتہ داروں کی بیعت بھی کروائی اور آپ کے ہر الہام و وحی پر میرا ایمان تھا کہ وہ صادق ہے.رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے آپ کو مرتبہ نبوت ملا تھا تا کہ خدمت قرآن اور احیاء اسلام آپ کے ہاتھ سے ہواور مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ جو کچھ آپ کا دعوی تھاوہ بیچ ہے.میری پیدائش سمت بکر می ۱۹۱۴ کی ہے اور ۱۸۵۷ عیسوی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی رحیم بخش صاحب اب کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں.ان کا گاؤں تلونڈی جھنگلاں قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب واقع ہے.اور خدا کے فضل سے اس گاؤں کا بیشتر حصہ احمدی ہے.790 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک عرب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہوا افریقہ کے بندروں کے اور افریقن لوگوں کے لغو قصے سُنانے لگا.حضرت صاحب بیٹھے ہوئے ہنستے رہے.آپ نہ تو کبیدہ خاطر ہوئے اور نہ ہی اس کو ان لغو قصوں کے بیان کرنے سے روکا کہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہے.بلکہ اس کی دلجوئی کے لئے اخیر وقت تک خندہ پیشانی سے سنتے رہے.791 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ علیل تھی.مگر جب آپ نے سیر فرماتے وقت دیکھا کہ بہت سے لوگ آگئے ہیں اور سننے کی خواہش سے آئے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ چونکہ دوست سننے کی نیت سے آئے ہیں.اس لئے اب اگر کچھ بیان نہ کروں تو گناہ ہوگا.لہذا آج کچھ بیان کرونگا.اور فرمایا.لوگوں میں اطلاع کر دیں.792 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ
سیرت المہدی 728 حصہ سوم ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ ہم اپنے گاؤں میں دو شخص احمدی ہیں.کیا ہم جمعہ پڑھ لیا کریں.حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.کیوں مولوی صاحب؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا.جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے.اور حدیث شریف سے ثابت ہے کہ دو شخص بھی جماعت ہیں.لہذا جائز ہے.حضور علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا کہ فقہاء نے کم از کم تین آدمی لکھے ہیں.آپ جمعہ پڑھ لیا کریں.اور تیسرا آدمی اپنے بیوی و بچوں میں سے شامل کر لیا کریں.793 بسم الله الرحمن الرحیم.ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی.اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر رونق افروز تھے.میں نے عرض کی کہ بعض لوگوں نے میرے سامنے اعتراض کیا تھا کہ پنڈت لیکھر ام اور عبد اللہ آتھم کی پیشگوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں بلکہ انسانی دماغ اور منصوبہ کا نتیجہ تھیں.میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئیاں ظاہری عوارض اور کمزوریوں کی بناء پر ہوتیں.تو حضور اس طرح پیشگوئی کرتے.کہ لیکھرام جو جوان اور مضبوط اور تندرست انسان ہے.اگر یہ رجوع کر لے تو بچایا جائے گا اور یہ کہ عبداللہ تھم جو بوڑھا اور عمر رسیدہ ہے یہ بہر حال مرے گا.مگر حضور نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان عوارض ظاہری اور تقاضائے عمر کے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی کہ لیکھرام اگر چہ نوجوان اور مضبوط ہے مگر وہ مر جائیگا اور عبداللہ اعظم اگر چہ بوڑھا ہے لیکن وہ اگر رجوع کرلے تو بچایا جائے گا.اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ واقعی یہ اچھا استدلال ہے پھر فرمایا کہ دراصل پیشگوئی کے اعلان کے بعد عبد اللہ آتھم نے جلسہ گاہ مباحثہ میں ہی رجوع کر لیا تھا اور منہ میں انگلی ڈال کر کہا تھا کہ میں نے تو حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کو دقبال نہیں کہا.حالانکہ وہ ایسا کہہ چکا تھا.6794 بسم اللہ الرحمن الرحیم شیخ حمد بخش صاحب بھنگالی مہاجر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ مارچ ۱۹۰۷ء میں میں اور مولوی محمد صاحب آف مزنگ لاہور براستہ بٹالہ قادیان پیدل چل کر آئے تھے.چونکہ مولوی محمد صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بہنوئی اور کڑم
سیرت المہدی 729 حصہ سوم (یعنی سدھی) تھے.اس لئے ہم رات کو بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی مسجد میں ٹھہرے.مولوی محمد حسین صاحب ہمیں شام کو مسجد میں ملے اور کہا کہ صبح مل کر جانا.کیونکہ میں نے ایک دو پیغام مرز اصاحب کو بھیجنے ہیں.مگر ہم کو نہ تو روٹی کے لئے پوچھا اور نہ ہی رات کوسونے کے لئے کہا.چنانچہ ہم شیخ نبی بخش صاحب ٹھیکیدار کے ہاں رات کو ٹھہرے اور صبح بعد نماز فجر جب ہم قادیان کو روانہ ہونے لگے.تو اس وقت مولوی محمد حسین صاحب قادیان والے راستہ کے موڑ تک جو بٹالہ کے بوچڑ خانہ کے نزدیک ہے ہمیں آکر ملے اور ہمیں یہ دو پیغام دیئے.ا.مرزا صاحب کو کہ دینا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہوگا.۲.ایم عبدالرشید کو مرزا صاحب کہہ دیں کہ ان کے والد صاحب کو جو روپیہ میرے پاس جمع ہے وہ حساب کر کے اپنے حصہ کا روپیہ لے لیویں.باقی جب اس کے بھائی بالغ ہوں گے.تو وہ اپنے اپنے حصہ کا روپیہ لے لیویں گے.ہم بروز جمعہ حضرت صاحب سے بعد نماز جمعہ مسجد مبارک میں ملے اور بعد مصافحہ ہر دو پیغام حضور کی خدمت میں عرض کر دیئے.پہلے پیغام کا جواب حضرت صاحب نے یہ دیا.کہ امید نہیں کہ اب مولوی محمد حسین صاحب کے گھر لڑکا پیدا ہو.اگر ہو بھی جائے تو میری اور ان کی مثال ایسی ہوگی جیسے کہ ایک بادشاہ ہو جس کے پاس بڑا خزانہ ہو اور ایک شخص کے پاس صرف ایک پیسہ ہو.چونکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالہ کی اہلیہ ان دنوں اپنی لڑکی کے پاس مولوی محمد صاحب کے گھر مزنگ گئی ہوئی تھی.تو تخمینا عرصہ ایک ماہ کے بعد مولوی محمد صاحب نے مزنگ سے مجھے خط لکھا.کہ مولوی محمد حسین صاحب کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے.یعنی جو پیشگوئی لڑکے کی تھی وہ غلط نکلی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد صاحب اب فوت ہو چکے ہیں.ان کے لڑکے شیخ عبدالعزیز صاحب مشہور شخص ہیں جو حکومت پنجاب کے ماتحت پریس برانچ کے انچارج رہے ہیں.مگر احمدی نہیں ہوئے اور شیخ عبدالرشید صاحب والے معاملہ کے متعلق میں نے خود شیخ صاحب موصوف سے پوچھا تھا.وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے معتقد تھے اور آپس میں بہت
سیرت المہدی 730 حصہ سوم تعلقات تھے اور میرے والد نے مولوی صاحب کو کچھ روپیہ دے رکھا تھا مگر پھر مولوی صاحب باوجود مطالبہ کے اس روپے کو واپس کرنے میں نہیں آتے تھے اور والد صاحب کی وفات کے بعد مجھے بھی ٹالتے رہے.آخر میں نے تو زور دے کر آہستہ آہستہ وصولی کر لی.مگر میرے غیر احمدی بھائیوں سے مولوی صاحب نے کہہ کر روپیہ معاف کرالیا.6795 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری مسجد ( یعنی مسجد مبارک کو اللہ تعالیٰ نے نوح کی کشتی کا مثیل ٹھہرایا ہے.سو یہ شکل میں بھی کشتی کی طرح ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اصلی مسجد مبارک کی بالائی منزل کشتی کی طرح ہی تھی یعنی لمبی زیادہ تھی اور چوڑی بہت کم اور اس کے پہلو میں شہ نشین تھا.بعد کی توسیع میں وہ قریباً مربع شکل کی بن گئی ہے.796 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمد صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام احد یہ چوک میں کھڑے تھے تو مولوی برہان الدین صاحب جہلمی مرحوم نے عرض کیا کہ حضرت کچھ ایسا ہو کہ اندر کھل جائے.اس پر آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ تھے.بادشاہ نے ان کو بلوا بھیجا کہ میں تم کو اپناوز میر بنانا چاہتا ہوں.اس بزرگ نے یہ قطعہ بادشاہ کولکھ کر بھیج دیا.چوں چتر چنبری رُخ بختم سیاه باد آید اگر بدل ہوس تخت چنبرم زاں دم کہ یافتم خبر از ملک نیم شب صد ملک نیمروز بیک جو نمی خرم اس بادشاہ کے چتر کا رنگ سیاہ تھا.اور اس کے ملک کا نام ملک نیمروز تھا اور بادشاہ کا لقب چنبر خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان فارسی اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر میں چنبر بادشاہ کے تخت کی ہوس کروں تو میرے بخت کا منہ بھی چنبر کے چتر کی طرح سیاہ ہو جائے.جس وقت سے مجھے ملک نیم شب
سیرت المہدی 731 حصہ سوم ( یعنی عبادت و تہجد گزاری) پر آگاہی ہوئی ہے.اس وقت سے میرا یہ حال ہے کہ میں ایک سو ملک نیمروز کو ایک جو کے دانہ میں بھی خریدنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ آپ ملک نیم شب کی طرف توجہ دیں.اس سے آپ کا اندر خود بخود کھل جائے گا.797 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمد صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ جب لیکھرام کے قتل کی خبر قادیان پہنچی تو اسے سُن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ مسلمانوں کے لئے یہ ایک ابتلاء ہے.798 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے ایام میں ایک دوائی تریاق الہی تیار کرائی تھی.حضرت خلیفہ اول نے ایک بڑی تحصیلی یا قوتوں کی پیش کی.وہ بھی سب پسوا کر اس میں ڈلوا دیئے.لوگ کو ٹتے پیتے تھے.آپ اندر جا کر دوائی لاتے اور اس میں ملواتے جاتے تھے.کونین کا ایک بڑا ڈبہ لائے اور وہ بھی سب اسی کے اندر الٹا دیا.اسی طرح وائینم اپی کاک کی ایک بوتل لا کر ساری الٹ دی.غرض دیسی اور انگریزی اتنی دوائیاں ملا دیں کہ حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ طبی طور پر تو اب اس مجموعہ میں کوئی جان اور اثر نہیں رہا.بس روحانی اثر ہی ہے.ان دنوں میں جو مریض بھی حضور کے پاس آتا.خواہ کسی بیماری کا ہو.اُسے آپ یہی تریاق الہی دیدیتے.اور جہاں طاعون ہوتی وہاں کے لوگ حفظ ما تقدم کے لئے مانگ کر لے جاتے تھے.ایک شخص کے ہاں اولاد نہ تھی اور بہت کچھ طاقت کی کمزوری بھی تھی.اس نے دعا کے لئے عرض کیا.آپ نے اُسے تریاق الہی بھی دی اور دعا کا وعدہ بھی فرمایا.پھر اس کے ہاں اولا د ہوئی.اس دوائی کا ایک کنستر بھرا ہوا گھر میں تھا.جو سب اسی طرح خرچ ہوا.کبھی کسی کو اس کے دینے میں بخل نہ کیا.حالانکہ قریباً دو ہزار روپیہ کے تو صرف یا قوت ہی اس میں پڑے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کنستر میں نے بھی دیکھا تھا.ایک پورا کنستر تھا جو منہ تک بھرا ہوا تھا بلکہ شاید اس سے بھی کچھ دوائی بڑھ رہی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق ہوتا تھا کہ علاج میں کسی ایک دوائی پر حصر نہیں کرتے تھے بلکہ متعدد دو یہ ملا دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ معلوم نہیں خدا
سیرت المہدی 732 حصہ سوم نے کس میں شفا رکھی ہے بلکہ بعض اوقات فرماتے تھے کہ ایک دوائی سے بعض کمزور لوگوں میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کا فضل عموماً پر دے کے پیچھے سے آتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص مقام کی بات ہے ورنہ طبی تحقیق کرنے والوں کے لئے علیحدہ علیحدہ چھان بین بھی ضروری ہوتی ہے.تا کہ اشیاء کے خواص معتین ہوسکیں.799 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مدتوں دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے.کبھی پلاؤ اور زردہ پکتا تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ان دونوں چیزوں کو ملا لیا کرتے.آپ یہ دیکھ کر فرماتے کہ ہم تو ان دونوں کو ملا کر نہیں کھا سکتے.کبھی مولوی صاحب مرحوم کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتا ہے اور کسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے تو حضور فور ادستر خوان پر سے اٹھ کر بیت الفکر کی کھڑکی میں سے اندر چلے جاتے اور اچار لے آتے.800 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمد صاحب نے ایک دن سنایا کہ بشیر اول کے عقیقہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر سبز عمامہ تھا.اور حضرت خلیفہ اول کے دوسرے نکاح کے وقت حضور بھی شامل مجلس ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے سر پر زری کا کلاہ تھا.اور گورداسپور کے مقدمہ میں زری دارلنگی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کا دوسرا نکاح خود پیر صاحب کی ہمشیرہ سے ہوا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ عام طور پر حضرت صاحب کے سر پر سفید ململ کی پگڑی ہوتی تھی جس کے اندر نرم رومی ٹوپی ہوا کرتی تھی.801 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کی اللہ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالے
سیرت المہدی 733 حصہ سوم نے اس جگہ حضرت عیسے کی الوہیت توڑنے کے لئے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے.جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ” بھر جائی کانیئے سلام آکھناں واں جس سے مقصود کا نا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا.اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے، نہ کہ مریم کی صد یقیت کا اظہار.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنجابی کا معروف محاورہ ”بھابی کانیئے سلام“ ہے.اس لئے شاید مولوی صاحب کو الفاظ کے متعلق کچھ سہو ہو گیا ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ منشا نہیں تھا کہ نعوذ باللہ حضرت مریم صدیقہ نہیں تھیں بلکہ غرض یہ ہے کہ حضرت عیسے کی والدہ کے ذکر سے خدا تعالے کی اصل غرض یہ ہے کہ حضرت عیسے کو انسان ثابت کرے.802 بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں نماز جمعہ کے لئے مسجد اقصے میں تمام لوگ سمانہ سکتے تھے.تو کچھ لوگ جن میں خواجہ کمال الدین صاحب بھی تھے.ان کو ٹھوں پر ( جو اب مسجد میں شامل ہو گئے ہیں اور پہلے ہندوؤں کے گھر تھے ) نماز ادا کرنے کے لئے چڑھ گئے.اس پر ایک ہند و مالک مکان نے گالیاں دینا شروع کر دیں کہ تم لوگ یہاں شور با کھانے کے لئے آجاتے ہو اور میرا مکان گرانے لگے ہو.غرضیکہ کافی عرصہ تک بد زبانی کرتا رہا.نماز سے سلام پھیرتے ہی حضور علیہ السلام نے فرمایا.کہ سب دوست مسجد میں آجائیں.چنانچہ دوست آگئے اور بعد جمع صلوتین حضور علیہ السلام منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایک مبسوط تقریر فرمائی.جس میں قادیان کے آریوں پر تحری فرماتے ہوئے فرمایا کہ اور لوگ اگر بچ جائیں تو ممکن ہے.مگر قادیان کے آریہ نہیں بچ سکتے.اور اس وقت حضور علیہ السلام کی طبیعت میں اس قدر جوش تھا کہ اثنائے تقریر میں آپ بار بارعصائے مبارک زمین پر مارتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصاء کو زمین پر مارنے سے یہ مراد نہیں کہ لٹھ چلانے کے رنگ میں مارتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو چھڑی آپ کے ہاتھ میں تھی.اُسے آپ کبھی کبھی زمین سے اٹھا کر اس کے سم سے
سیرت المہدی 734 حصہ سوم زمین کو ٹھکراتے تھے.جیسا کہ عموماً جوش کے وقت ایسا شخص کرتا ہے جس کے ہاتھ میں چھڑی ہو.803 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک سالانہ جلسہ پر حضور علیہ السلام کے لئے مسجد اقصے کے صحن میں اندرونی دیوار کے ساتھ ہی منبر بچھایا گیا.چونکہ احباب سے مسجد کے باہر کا مشرقی حصہ بھی بھرا ہوا تھا.جونہی حضور علیہ السلام نے اپنا ایک قدم مبارک منبر پر رکھا ایک شخص نے جواب غیر مبائع ہے.آواز دی کہ حضور مسجد کے باہر کی طرف زیادہ لوگ ہیں.منبر باہر کی طرف درمیان صحن میں رکھا جائے.حضور علیہ السلام نے اپنا پاؤں مبارک اٹھا لیا.اس پر اندر مسجد سے دوسرے شخص نے جو وہ بھی اب غیر مبائع ہے آواز دی کہ حضور مسجد کے اندر بہت سے لوگ ہیں ان کو آواز نہ آئے گی.منبر یہیں رہے.مگر ایک سیالکوٹ کے چوہدری صاحب نے جو کہ مبایعین میں سے ہیں اس کو منع کیا.اور منبر در میان صحن میں رکھا گیا.804 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے اپنے دادا، بابا چٹو کو قادیان میں لا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ حضور ان کو سمجھائیں.فرمایا کہ پیر فرتوت ہے.اس کا سمجھنا مشکل ہے.قریشی صاحب کے دادا صاحب سیر میں نہیں گئے تھے.بلکہ قریشی صاحب بھی ان کی رہائش کے انتظام میں مشغول تھے اور ساتھ نہیں گئے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قریشی صاحب کے دادا بابا چٹو اہل قرآن تھے.جنہیں لوگ چکڑالوی کہتے ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے اس عقیدہ پر ان کی وفات ہوئی تھی.805 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بواسطہ مولوی شیر علی صاحب مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میراں بخش سودائی نے بڑی مسجد سے آتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نام لے کر آواز دی کہ اوئے غلام احمد ا آپ اسی وقت کھڑے ہو گئے.اور فرمایا ”جی“ اس نے کہا ” اوسلام تے آکھیا کر آپ نے فرمایا ” السلام علیکم اس نے کہا ” معاملہ ادا کر حضور نے جیب میں سے رومال نکال کر جس میں چونی یا اٹھتی بندھی ہوئی تھی کھول کر اُسے دیدی.وہ خوش ہو کر گھوڑیاں گانے لگا.
سیرت المہدی 735 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ میراں بخش قادیان کا ایک باشندہ تھا اور پاگل ہو گیا تھا.بوڑھا آدمی تھا اور قادیان کی گلیوں میں اذانیں دیتا پھرتا تھا.میں نے اسے بچپن میں دیکھا ہے.وہ بعض اوقات خیال کرتا تھا کہ میں بادشاہ ہوں اور مجھے لوگوں سے معاملہ کی وصولی کا حق ہے.806 بسم الله الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اکثر طور پر امام صلوۃ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوتے تھے اور وہ بالجبر نمازوں میں بسم الله بالجبر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے.اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتداء میں ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحب کسی سے تعرض نہیں فرماتے تھے.اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں.مگر خود آپ کا اپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے اسے اکثر اختیار کیا ہے.807 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۶ ء کی بات ہے کہ ایک سائل نے جو اپنے آپ کو نوشہرہ ضلع پشاور کا بتا تا تھا اور مہمان خانہ قادیان میں مقیم تھا، حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میری مدد کی جائے.مجھ پر قرضہ ہے.آپ نے جواب لکھا کہ قرض کے واسطے ہم دعا کریں گے اور آپ بہت استغفار کریں.اور اس وقت ہمارے پاس ایک روپیہ ہے جو ارسال ہے.808 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے مختلف حصوں میں رہائش تبدیل فرماتے رہتے تھے.سال ڈیڑھ سال ایک حصہ میں رہتے.پھر دوسرا کمرہ یا دالان بدل لیتے.یہاں تک کہ بیت الفکر کے اوپر جو کمرہ مسجد مبارک کی چھت پر کھلتا ہے اس میں بھی آپ رہے ہیں.اور ان دنوں میں گرمی میں آپ کی اور اہل بیت کی چار پائیاں اوپر کی مسجد میں جو محن کی صورت میں ہے بچھتی تھیں.
سیرت المہدی 736 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جس زمانہ کا ہوش ہے میں نے آپ کو زیادہ تر اس کمرہ میں رہتے دیکھا ہے جس میں اب حضرت اماں جان رہتی ہیں جو بیت الفکر کے ساتھ شمالی جانب واقع ہے.809 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میری پہلی شادی کی تیاری ہوئی تو میں دہلی کے شفا خانہ میں ملازم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے متعلق خط و کتابت ہوتی تھی.میں پہلے اس جگہ راضی نہ تھا.آپ نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ لڑکی کے اخلاق اچھے نہیں ہیں تو پھر بھی تم اس جگہ کو منظور کر لو.اگر اس کے اخلاق پسندیدہ نہ ہوئے.تو میں انشاء اللہ اس کے لئے دعا کروں گا.جس سے اس کے اخلاق درست ہو جائیں گے.حضور کے خط کی نقل یہ ہے:.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم ۳۱ را گست ۱۹۰۵ء عزیزی میر محمد اسمعیل سلمہ تعالے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ : میں نے تمہارا خط پڑھا.چونکہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہے کہ جو امر اپنے نزدیک بہتر معلوم ہو اس کو پیش کیا جائے.اس لئے میں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو طرح طرح کی بدچلنیوں کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نسل خراب ہوگئی ہے.لڑکیوں کے بارے میں مشکلات پیدا ہوگئی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ بڑی بڑی تلاش کے بعد بھی اجنبی لوگوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے کئی بد نتیجے نکلتے ہیں.بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے باپ یا دادوں کو کسی زمانہ میں آتشک تھی اور کئی مدت کے بعد وہ مرض ان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.بعض لڑکیوں کے باپ دادوں کو جذام ہوتا ہے تو کسی زمانہ میں وہی مادہ لڑکیوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے.بعض میں سل کا مادہ ہوتا ہے.بعض میں دق کا مادہ اور بعض کو بانجھ ہونے کی مرض ہوتی ہے اور بعض لڑکیاں اپنے خاندان کی بدچلنی کی وجہ سے پورا حصہ تقویٰ کا اپنے اندر نہیں رکھتیں.ایسا ہی اور بھی عیوب ہوتے ہیں کہ اجنبی لوگوں سے تعلق پکڑنے کے
سیرت المہدی 737 حصہ سوم وقت معلوم نہیں ہوتے.لیکن جو اپنی قرابت کے لوگ ہیں.ان کا سب حال معلوم ہوتا ہے.اس لئے میری دانست میں آپ کی طرف سے نفرت کی وجہ بجز اس کے کوئی نہیں ہوسکتی کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ بشیر الدین کی لڑکی دراصل بدشکل ہے یا کانی یعنی یک چشم ہے یا کوئی ایسی اور بدصورتی ہے جس سے وہ نفرت کے لائق ہے لیکن بجز اس کے کوئی عذر صحیح نہیں ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکیوں کے اپنے والدین کے گھر میں اور اخلاق ہوتے ہیں اور جب شوہر کے گھر آتی ہیں تو پھر ایک دوسری دُنیا ان کی شروع ہوتی ہے.ماسوا اس کے شریعت اسلامی میں حکم ہے کہ عورتوں کی عزت کرو اور ان کی بد اخلاقی پر صبر کرو اور جب تک ایک عورت پاک دامن اور خاوند کی اطاعت کرنے والی ہو.تب تک اس کے حالات میں بہت نکتہ چینی نہ کرو.کیونکہ عورتیں پیدائش میں مردوں کی نسبت کمزور ہیں.یہی طریق ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی بد اخلاقی برداشت کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنی عورت کو تیر کی طرح سیدھی کر دے وہ غلطی پر ہے.عورتوں کی فطرت میں ایک کبھی ہے.وہ کسی صورت سے دُور نہیں ہو سکتی.رہی یہ بات کہ سید بشیر الدین نے بڑی بداخلاقی دیکھلائی ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ جو لوگ لڑکی دیتے ہیں.ان کی بداخلاقی قابل افسوس نہیں.جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے اوائل میں کچھ بد اخلاقی اور کشیدگی ہوتی ہے اور وہ اس بات میں بچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگر گوشہ لڑکی کو جو ناز و نعمت میں پرورش پائی ہوتی ہے.ایک ایسے آدمی کو دیتے ہیں.جس کے اخلاق معلوم نہیں.اور وہ اس بات میں بھی بچے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکی کو بہت سوچ اور سمجھ کے بعد دیں.کیونکہ وہ ان کی پیاری اولاد ہے اور اولاد کے بارہ میں ہر ایک کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے اور جب تم نے شادی کی اور کوئی لڑکی پیدا ہوئی.تو تم بھی ایسا ہی کرو گے.لڑکی والوں کی ایسی باتیں افسوس کے لائق نہیں ہوا کرتیں.ہاں جب تمہارا نکاح ہو جائے گا.اور لڑکی والے تمہارے نیک اخلاق سے واقف ہو جائیں گے تو وہ تم پر قربان ہو جائیں گے.پہلی باتوں پر افسوس کرنا دانائی نہیں.غرض میرے نزدیک اور میری رائے میں یہی بہتر ہے کہ اس رشتہ کو مبارک سمجھو.اور اس کو قبول کر لو.اور اگر ایسا تم نے کیا تو میں بھی تمہارے لئے دُعا کروں گا.اپنے کسی مخفی خیال پر بھروسہ مت کرو.جوانی اور نا تجربہ کاری کے خیالات قابلِ
سیرت المہدی 738 حصہ سوم اعتبار نہیں ہوتے.موقعہ کو ہاتھ سے دینا سخت گناہ ہے.اگر لڑ کی بد اخلاق ہوگی تو میں اس کے لئے دعا کر دوں گا کہ اس کے اخلاق تمہاری مرضی کے موافق ہو جائیں گے اور سب کبھی دُور ہو جائے گی.ہاں اگر لڑ کی کو دیکھا نہیں ہے تو یہ ضروری ہے کہ اول اس کی شکل و شباہت سے اطلاع حاصل کی جائے.لڑکپن اور طفولیت کے زمانہ کی اگر بد شکلی بھی ہو تو وہ قابل اعتبار نہیں ہوتی.اب شکل وصورت کا زمانہ ہے.میری نصیحت یہ ہے کہ شکل پر تسلی کر کے قبول کر لینا چاہئے.مولود بے شک پڑھے.آخر وہ تمہارا ہی مولود پڑھے گی.حرج کیا ہے.والسلام مرزا غلام احمد ( آخر صفحہ کے بعد ) مکرر یہ کہ اس خط کے پڑھنے کے بعد صاف لفظوں میں مجھے اس کا جواب ایک ہفتہ کے اندر بھیج دیں.والدعا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خط بیاہ شادی سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق ایک نہایت ہی قیمتی فلسفہ پر مبنی ہے اور یہ جو حضرت صاحب نے خط کے آخر میں مولود کے متعلق لکھا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ممانی صاحبہ اپنے والدین کے گھر میں غیر احمدیوں کے رنگ میں مولود پڑھا کرتی تھیں.اور غالبا ان کے والد صاحب کو اصرار ہو گا کہ وہ بدستور مولود پڑھا کریں گی.جس پر حضرت صاحب نے لکھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں.جب لڑکی بیاہی گئی اور خاوند کے ساتھ اس کی محبت ہو گئی تو پھر اس نے ان رسمی مولودوں کو چھوڑ کر بالآخر گو یا خاوند کا ہی مولود پڑھنا ہے.سوالیسا ہی ہوا.اور اب تو خدا کے فضل سے ہماری ممانی صاحبہ احمدی ہو چکی ہیں.810 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا تھا:.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عزیز مبارک احمد ۶ ارستمبر ۱۹۰۷ء بقضاء الہی فوت ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ہم اپنے
سیرت المہدی 739 حصہ سوم رب کریم کی قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں.تم بھی صبر کرو.ہم سب اس کی امانتیں ہیں اور ہر ایک کام اس کا حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے.والسلام مرزا غلام احمد خاکسار عرض کرتا ہے کہ کہنے کو تو اس قسم کے الفاظ ہر مومن کہ دیتا ہے.مگر حضرت صاحب کے منہ اور قلم سے یہ الفاظ حقیقی ایمان اور دلی یقین کے ساتھ نکلتے تھے اور آپ واقعی انسانی زندگی کو ایک امانت خیال فرماتے تھے اور اس امانت کی واپسی پر دلی انشراح اور خوشی کے ساتھ تیار رہتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہمارے حقیقی ماموں ہیں.اس لئے ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود اپنے چھوٹے عزیزوں کی طرح خط و کتابت فرماتے تھے.ان کی پیدائش ۱۸۸۱ء کی ہے.حضرت مسیح موعود نے ان کا ذکر انجام آتھم کے ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں ۷۰ نمبر پر کیا ہے مگر چونکہ سید محمد اسمعیل دہلوی طالب علم کے طور پر نام لکھا ہے.اس لئے بعض لوگ سمجھتے نہیں.ست بچن میں بھی ان کا نام انہی الفاظ میں درج ہے.811 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پہلے کوئی کنو آں نہ تھا.نہ مہمان خانہ میں کوئی کنواں تھا.اس وقت پانی دو کنوؤں سے آیا کرتا تھا.ایک تو عمالیق کے دیوان خانہ میں تھا اور دوسرا تائی صاحبہ مرحومہ کے گھر کے مردانہ حصہ میں تھا.ایک دفعہ ہر دو جگہ سے حضرت صاحب کے سقہ کو گالیاں دے کر ہٹا دیا گیا.اور پانی کی بہت تکلیف ہو گئی.گھر میں بھی اور مہمان خانہ میں بھی.اس پر حضرت صاحب نے ایک خط لکھا اور عاجز کو فرمایا.کہ اس خط کی کئی نقلیں کر دو.چنانچہ میں نے کر دیں.وہ خط حضور نے مختلف احباب کو روانہ فرمائے.جن میں ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم کا نام مجھے اچھی طرح یاد ہے.اس خط میں مخالفین کے پانی بند کرنے کا ذکر لکھ کر یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمارا اپنا کنوآں ہونا چاہئے تا کہ ہماری جماعت پانی کی تکلیف سے مخلصی پائے اور کنویں کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی.اس کے بعد سب سے پہلے حضور کے گھر کے اندر کنواں بنایا گیا.
سیرت المہدی 740 حصہ سوم یر اندازاً ۱۸۹۵ء یا ۱۸۹۶ء کا یا اس کے قریب کا واقعہ ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے بعد وہ دوسرا کنو آں بنا تھا جو مدرسہ احمدیہ کے جانب شمال اور احمد یہ چوک کے پاس ہے.اس سے پہلے قادیان کی آبادی میں حضرت صاحب کے قبضہ میں صرف مسجد اقصے والا کنواں تھا.مگر وہ کسی قدر دور تھا اور چند سیڑھیاں چڑھ کر اس تک پہنچنا پڑتا تھا.812 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کی وجہ سے گورداسپور بمعہ اہل وعیال ٹھہرے ہوئے تھے.ایک دن آپ کی پشت پر ایک پھنسی نمودار ہوئی.جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی.خاکسار کو بلایا اور دکھایا اور بار بار پوچھا کہ یہ کار بنکل تو نہیں.کیونکہ مجھے ذیا بیطس کی بیماری ہے.میں نے دیکھ کر عرض کی کہ یہ بال تو ڑیا معمولی پھنسی ہے.کار بنکل نہیں ہے.دراصل حضرت صاحب کو ذیا بطیس اس قسم کا تھا جس میں پیشاب بہت آتا ہے مگر پیشاب میں شکر خارج نہیں ہوتی.اور یہ دورے ہمیشہ محنت اور زیادہ تکلیف کے دنوں میں ہوتے تھے.اور بکثرت اور بار بار پیشاب آتا تھا.اور یہ ایک عصبی تکلیف تھی.اور بہت پیشاب آکر سخت ضعف ہو جاتا تھا.ایک دفعہ کسی ڈاکٹر نے عرض کیا کہ پیشاب کا ملاحظہ شکر کے لئے کرالینا چاہئے.فرمانے لگے نہیں.اس سے تشویش زیادہ ہوگی.اس خاکسار نے بھی کیمیاوی ملاحظہ نہیں کیا تھا.مگر ہمیشہ کے حالات دیکھ کر تشخیص کی تھی کہ مرض نروس پالیوریا ہے.مگر حضرت صاحب کی ایک تحریر سے مجھے علم ہوا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے پیشاب میں شکر بھی پائی گئی تھی.813 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نو مسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی.اس کے نکاح کا ذکر ہوا.تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی نے عرض کی کہ مجھ سے کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دیدی اور نکاح ہو گیا.دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکار کر دیا اور
سیرت المہدی 741 حصہ سوم خلع کی خواہش مند ہوئی.خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں.ابھی صبر کرے.پھر اگر کسی طرح گزارہ نہ ہو تو خلع ہوسکتا ہے.اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کر کے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے.(یعنی قوتِ رجولیت بالکل معدوم ہے ) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دیدی.مگر احتیاطاً ایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا.لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی.بالآخر ضلع ہو گیا.814 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب پشاوری نے مجھ سے ایک روز بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خادم پیرا نامی ہوتا تھا.اس سے حضرت اقدس کی موجودگی میں کسی نے دریافت کیا کہ تو حضرت صاحب کو کیا مانتا ہے ؟ پیرا کہنے لگا کہ تھوڑے دناں توں کہندے ہن کہ میں مسیح آں، یعنی تھوڑے عرصہ سے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ جواب سن کر مسکرانے لگے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیرا ایک پہاڑی ملازم تھا اور بالکل جاہل اور نیم پاگل تھا.مگر بعض اوقات پتہ کی بات بھی کر جاتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ اس سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بٹالہ کے سٹیشن پر کہا کہ تمہارے مرزا صاحب نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے.جو جھوٹا ہے اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے.پیرے نے جواب دیا.مولوی صاحب میں تو کچھ پڑھا لکھا نہیں ہوں.مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ لوگوں کو بہکانے کے لئے آپ کی بٹالہ کے سٹیشن پر آ آ کر جوتیاں بھی گھس گئی ہیں مگر پھر بھی دنیا مرزا صاحب کی طرف کھی چلی آتی ہے.815 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے واسطے تشریف لے جاتے اور بازار میں سے گذرتے تو بعض ہندو دکاندار اپنے طریق پر ہاتھ جوڑ کر حضور علیہ السلام کو سلام
سیرت المہدی 742 حصہ سوم کرتے اور بعض تو اپنی دکان پر اپنے رنگ میں سجدہ کرنے لگتے.مگر حضرت صاحب کو خبر نہ ہوتی.کیونکہ آپ آنکھیں نیچے ڈالے گذرتے چلے جاتے تھے.ایک دن مستری صاحب نے بعض عمر رسیدہ ہندو دکانداروں سے دریافت کیا.کہ تم مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہو جو سجدہ کرتے ہو.انہوں نے جواب دیا.کہ یہ بھگوان ہیں، بڑے مہا پرش ہیں.ہم ان کو بچپن سے جانتے ہیں.یہ خدا کے بڑے بھگت ہیں.دُنیا بھر کو خدا نے ان کی طرف جھکا دیا ہے.جب خدا ان کی اتنی عزت کرتا ہے تو ہم کیوں نہ ان کی عزت کریں.مستری صاحب نے بیان کیا کہ جب سے قادیان میں آریہ سماج قائم ہوئی ہے.تب سے آریوں نے ہندوؤں کو غیرت اور شرم دلا کر اور مجبور کر کے ایسی حرکات تعظیمی سے روک دیا ہے مگر ان کے دل حضرت صاحب پر قربان تھے.اور وہ آپ کی بے حد عزت کرتے تھے.مستری صاحب کا بیان ہے کہ میں نے متعدد مرتبہ قادیان کے ہندوؤں سے حضرت صاحب کے حالات دریافت کئے مگر کبھی کسی ہندو نے حضرت صاحب کا کوئی عیب بیان نہیں کیا.بلکہ ہر شخص آپ کی تعریف ہی کرتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مستری صاحب کو تفصیلی حالات کا علم نہیں ہے اور نہ وہ قادیان کے سب ہندوؤں سے ملے ہیں.قادیان کے ہندوؤں کا ایک طبقہ قدیم سے مخالف چلا آیا ہے اور گو یہ درست ہے کہ وہ حضرت صاحب میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے مگر مخالفت میں انہوں نے کبھی کمی نہیں کی البتہ بیشتر حصہ پُرانے سناتنی طریق پر ہمیشہ مؤدب رہا ہے.816 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لنگر خانہ میں ایک شخص نان پز اور باور چی مقررتھا.اس کے متعلق بہت شکایات حضور کے پاس پہنچیں.خصوصاً مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی طرف سے بہت شکایت ہوئی.حضور نے فرمایا.دیکھو وہ بے چارہ ہر روٹی کے پیچھے دو دفعہ آگ کے جہنم میں داخل ہوتا ہے ( یعنی تندور کی روٹی لگاتے وقت ) اور اتنی محنت کرتا ہے.اگر آپ کوئی واقعی دیانتدار باورچی مجھے لا دیں.تو میں آج اسے نکال دوں.اس مطالبہ پر سب خاموش ہو گئے.پھر فرمایا کہ اگر کوئی شخص واقعی اعلئے درجہ کا متقی
سیرت المہدی 743 حصہ سوم امین اور دیانت دار ہو تو خدا اسے اس حالت میں رکھتا ہی نہیں کہ اُسے ایسی اد نے نوکری نصیب ہو.اُسے تو غیب سے عزت و رزق ملتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد خدا نے اس شخص کو حضرت مسیح موعود کی برکت اور ان کی خدمت کے طفیل عزت کی زندگی عطا کی اور رزق وافر سے حصہ دیا.817 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میری آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہے.میرے لئے دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا.میں دُعا کروں گا.اور فرمایا آپ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول) سے اطریفل زمانی بھی لے کر کھائیں.الحمد للہ کہ اس کے بعد آج تک خاکسار کو پھر کبھی یہ عارضہ نہ ہوا.818 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن سیر کے وقت حضور علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کو بعض مخفی باتیں بھی بتلائی تھیں جن کے اظہار کرنے کی اجازت آپ کو صرف بعض خاص لوگوں میں تھی.اور عام لوگوں میں وہ ظاہر نہیں کی گئیں.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں تو یہ آیا ہے کہ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ.الآية (المائده : ۶۸) یعنی اے رسول جو کچھ خدا نے تجھ پر نازل کیا ہے اسے لوگوں تک پہنچادو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو کسی ایسی بات کے چھپانے کی ہدایت نہیں ہوئی جو کسی شرعی حکم کی حامل تھی یا اس کو شریعت کی تشریح سے تعلق تھا.ورنہ بعض انتظامی امور میں یافتن سے تعلق رکھنے والی باتوں میں ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر اخفاء کا حکم ہوا ہو جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے اور حضرت صاحب کے الہاموں میں بھی ہے.واللہ اعلم.819 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی گھر میں ننگے پیر بھی پھر لیتے تھے.خصوصاً اگر پختہ فرش ہوتا تھا تو بعض اوقات ننگے پاؤں
سیرت المہدی 744 حصہ سوم ٹہلتے بھی رہتے تھے اور تصنیف بھی کرتے جاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا انداز بالکل بے تکلفانہ تھا اور زندگی نہایت سادہ تھی.820 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے کی ممانعت ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب عملاً بھی اس حدیث کے مفتی کے ساتھ پابند تھے.چنانچہ ایک دفعہ غالباً سیالکوٹ میں آپ کی چارپائی ایک بے منڈیر کی چھت پر بچھائی گئی تو آپ نے اصرار کے ساتھ اس کی جگہ کو بدلوا دیا.اسی طرح کا ایک واقعہ گورداسپور میں بھی ہوا تھا.821 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ تسبیح پڑھنے کے متعلق یہ قصہ سنایا.کہ کوئی عورت کسی پر عاشق تھی.وہ ایک ملا کے پاس اپنی کامیابی کے لئے تعویذ گنڈا لینے گئی.ملاں اس وقت تسبیح پڑھ رہا تھا.عورت نے پوچھا.مولوی جی ! یہ کیا کر رہے ہو؟ مولوی جی کہنے لگے.مائی اپنے پیارے کا نام لے رہا ہوں.وہ عورت حیران ہو کر کہنے لگی.ملاں جی ! نام پیارے کا اور لینا گن گن کر.یعنی کیا کوئی شخص معشوق کا نام بھی گن گن کر لیتا ہے؟ وہ تو بے اختیار اور ہر وقت دل اور زبان پر جاری رہتا ہے.اس قصہ سے حضرت صاحب کا منشاء یہ تھا کہ ایک سچے مومن کے لئے خدا کا ذ کر تسبیح کی قیود سے آزاد ہونا چاہئے.822 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے اور شادی بیاہ وغیرہ کی جو رسوم رائج ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو اہلحدیث کی طرح کلی طور پر رڈ نہیں کر دیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے جو مشرکانہ یا مخالف اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی تو جیبہ فوائد کی نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس اس فائدہ یا ضرورت کے لئے یہ رسم ایجاد ہوئی ہے مثلاً نیو تہ (جسے پنجابی میں نیوند را کہتے ہیں) امداد باہمی کے لئے شروع ہوا.لیکن اب وہ ایک تکلیف دہ رسم ہو گئی ہے.823 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ
سیرت المہدی 745 حصہ سوم میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے.یعنی یہ دونوں آپس میں چُھو جاتے تھے.824 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب اور شیخ غلام رسول صاحب متوطن کشمیر بیان کرتے تھے کہ ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر ایک ہی دستر خوان پر جملہ اصحاب کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے.اور اس صورت میں کشمیری اصحاب کو بھی اسی مقدار میں کھانا ملتا تھا جتنا کہ دیگر اصحاب کو.اس پر ایک دن مسیح موعود علیہ السلام نے کھانے کے منتظم کو حکم دیا کہ کشمیر کے لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں.ان کو بہت کھانا دیا کرو.اس پر ہم کو زیادہ کھا نا ملنے لگا.825 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی قطب الدین صاحب ساکن شر ط علاقہ کشمیر بیان کرتے تھے کہ جب میں احمدی ہوا تو چونکہ ابتدا میں شرط میں کوئی اور احمدی نہ تھا.لہذا میری مخالفت شروع ہوئی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مخالفت کی نسبت ایک خط ارسال کیا اور دعا کے لئے درخواست کی.جس کا جواب حضور علیہ السلام نے یہ رقم فرمایا کہ صبر کرو.وہاں بھی بہت لوگ ایمان لائیں گے.خواجہ عبدالرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعد میں اگر چہ شر ط والے لوگ تو ابھی تک ایمان نہیں لائے.لیکن اس کے بالکل متصل گاؤں موسومہ کنیہ پورہ سارے کا سارا احمدی ہو گیا.اور علاقہ میں کئی اور جگہ احمدیت پھیل گئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ صاحب جلدی کرتے ہیں.اگر حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہے تو تسلی رکھیں شر ط بھی بیچ نہیں سکتا.826 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسر موعود کی پیشگوئی شائع فرمائی تو آپ کی زندگی میں ہی ایک شخص نور محمد نامی جو اس گاؤں کا نام اب ناصر آباد ہے.سید عبدلی
سیرت المہدی 746 حصہ سوم پٹیالہ کی ریاست میں کہیر و گاؤں کا رہنے والا تھا پسر موعود ہونے کا مدعی بن بیٹھا اور بعض جاہل طبقہ کے لوگ اس نے اپنے مرید کر لئے.سُنا ہے یہ لوگ قادیان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے.اور ایک دفعہ ان کا ایک وفد قادیان بھی آیا تھا.انہوں نے حضرت صاحب کو سجدہ کیا.مگر حضرت صاحب نے سختی سے منع فرمایا.وہ لوگ چند روز رہ کر واپس چلے گئے.اور پھر نہیں دیکھے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مجانین اور غالی لوگوں کا وجود ہر قوم میں ملتا ہے.827 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا تھا.کہ پھر بہار آئی تو آئے شلج کے آنے کے دن“.اُس سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر بہار کے موسم میں ایک نہ ایک حملہ سخت سردی کا ضرور ہو جاتا ہے.828 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ جو حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس بھجواتے ہوئے خدا نے حکم دیا تھا کہ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيْنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشى (طه: ۴۵) اس میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کا بہت لحاظ کیا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نصیحت کی ہے کہ یہ بادشاہ ہے اس لئے اس کے ساتھ اس کے رتبہ کے موافق نرمی اور ادب سے گفتگو کی جائے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول بھی یہ نکتہ بیان کیا کرتے تھے اور غالباً انہوں نے حضرت صاحب سے ہی سُنا ہوگا.واللہ اعلم.829 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ ایک شخص زنبورکو آیت وَإِذَا بَطَشْتُمُ بَطَشْتُمُ جَبَّارِین پڑھ کر ہاتھ سے پکڑ لیا کرتا تھا اور اس کو تکلیف نہیں ہوتی تھی.نیز فرمایا کہ بعض بچے کھیل کے طور پر ایک سوا پنڈلی کے گوشت میں سے آر پار چھید کر نکال دیا کرتے تھے.
سیرت المہدی 747 حصہ سوم 830 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب سرسید احمد خاں صاحب نے اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ دُعا محض ایک عبادت ہے ورنہ اس کی وجہ سے خدا اپنی قضاوقد ر کو بدلتا نہیں.جو بہر حال اپنے مقررہ رستہ پر چلتی ہے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ ”برکات الدعا، تصنیف کر کے شائع فرمایا اور اس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ دعا محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں خدا اپنی قضا وقد ر کو بدل بھی دیتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اور اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسلامی تعلیم کے ماتحت ثابت کیا کہ اس بارے میں سرسید کا عقیدہ درست نہیں ہے.جب یہ کتاب چھپ کر تیار ہو گئی تو آپ نے اس کا ایک نسخہ سرسید کو بھی بھجوایا.جس پر سرسید نے حضرت مسیح موعود کو ایک خط لکھا.اور اس خط میں معذرت کے طریق پر لکھا کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں اس لئے مجھ سے غلطی ہوئی اور یہ کہ جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے وہی درست ہوگا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل روحانی معاملات میں ذاتی تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے سرسید نے کئی باتوں میں غلطی کھائی ہے.مگر اس میں شبہ نہیں کہ سرسید مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور یہ بھی ان کی سعادت تھی کہ متنبہ کئے جانے پر انہوں نے قبولیت دعا کے مسئلہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا.مگر معجزات وغیرہ کے معاملہ میں ان کا عام میلان آخر تک قائم رہا.کہ اہل مغرب کے اعتراض سے مرعوب ہو کر فوراً تاویلات کی طرف مائل ہونے لگتے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا.کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ سرسید اور حضرت مسیح موعود کی مثال ایسی ہے کہ جب اسلام پر کوئی اعتراض ہو تو سرسید کی حالت تو ایسی نظر آتی ہے کہ گویا ہا تھ جوڑ کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نہیں سرکار! اسلام نے تو ایسا نہیں کہا.اسلام کا تو یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ایسی ہے کہ اعتراض ہونے پر گویا تلوار لے کر سامنے تن جاتے ہیں کہ جو کچھ اسلام نے کہا ہے وہی ٹھیک ہے اور جو تم کہتے ہو وہ غلط اور جھوٹ ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ بہت ہی لطیف اور درست مثال دی ہے اور یہ مثال بحجتی بھی انہی کی زبان سے ہے کیونکہ وہ گھر کے بھیدی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام
سیرت المہدی 748 حصہ سوم ان کے متعلق فرماتے ہیں:.مد تے در آتش نیچر فرو افتاده بود این کرامت ہیں کہ از آتش بروں آمد سلیم 831 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک چیرا بھائی مرزا کمال الدین تھا.یہ شخص جوانی میں فقراء کے پھندے میں پھنس گیا تھا.اس لئے دُنیا سے کنارہ کش ہو کر بالکل گوشہ گزین ہو گیا مگر وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح حضرت صاحب سے پرخاش نہ رکھتا تھا.علاج معالجہ اور دم تعویذ بھی کیا کرتا تھا.اور بعض عمدہ عمدہ نسخے اس کو یاد تھے.چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ میاں محمد اسحاق کے علاج کے لئے ان سے ہی گولیاں اور ادویہ وغیرہ منگایا کرتی تھیں اور حضرت صاحب کو بھی اس کا علم تھا.آپ بھی فرماتے تھے کہ کمال الدین کے بعض نسخے اچھے ہیں.اب مرزا کمال الدین کو فوت ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں مگر ان کے تکیہ میں اب تک فقیروں کا قبضہ ہے.عرس بھی ہوتا ہے مگر کچھ رونق نہیں ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے چا مرزا غلام محی الدین صاحب کے تین لڑکے تھے.سب سے بڑے مرزا امام الدین تھے جو بہت لانبے اور وجیہہ شکل تھے اور مخالفت میں بھی سب سے آگے تھے.ان کی لڑکی خورشید بیگم صاحبہ ہمارے بڑے بھائی خان بہا در مرزا سلطان احمد صاحب کے عقد بہادرمرزا میں آئی تھیں.اور عزیزم مرزا رشید احمد انہی کے بطن سے ہیں.دوسرے بھائی مرزا نظام الدین تھے جن کی نسل سے مرزا گل محمد صاحب ہیں اور تیسرے بھائی مرزا کمال الدین تھے جن کا اس روایت میں ذکر ہے.وہ ہمیشہ مجرد رہے.مرزا کمال الدین مخالفت میں حصہ نہیں لیتے تھے.832 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں نواب محمد علی خان صاحب نے قادیان میں ایک فونوگراف جس کے ریکارڈ موم کے سیلنڈروں کی طرح گول ہوتے تھے منگایا تھا.اس میں حضرت خلیفہ اول نے اپنا لیکچر بھرا.مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید بھرا.اسی طرح دیگر احباب نے نظمیں اور اذان وغیرہ بھریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اُسے
سیرت المہدی 749 حصہ سوم سُنا.چونکہ اس وقت وہ مجو بہ چیز تھی.لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت نے بمعہ دیگر چنداہل ہنود کے اسے دیکھنا اور سُنا چاہا اور چونکہ نواب صاحب سے براہ راست ان کا تعلق نہ تھا اور حضرت صاحب پر ان کو دیرینہ تعلق کا دعوی تھا.اس لئے انہوں نے حضرت صاحب سے ہی درخواست کی.حضور نے ایک اردو نظم تیار کر کے مولوی عبدالکریم صاحب کو دی کہ ریکارڈ میں بھر دیں.چنانچہ ان کو وہ نظم اور دیگر ریکار ڈ سُنائے گئے.یہ تبلیغی نظم در مشین میں درج ہے.اس زمانہ کے ریکارڈ چونکہ موم کے ہوتے تھے.اس لئے مرور زمانہ سے ان کے نقش خراب ہو گئے اور اب صاف سنے نہیں جاسکتے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی نظم ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے کہ :.آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے ڈھونڈ و خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں یہ آلہ گراموفون کہلاتا ہے.اور اس کے ریکارڈ توے کی طرح چیٹے ہوتے ہیں اور صرف کارخانوں میں تیار ہو سکتے ہیں.833 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت میں لاہور میں تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا.جب آپ فوت ہوئے.تو میں اور ایک اور احمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتے لینے گئے.مجھے یہ یاد نہیں کہ کسی بزرگ نے پتے لانے کے لئے کہا تھا.میں روتا جا رہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیں وہاں سے پیتے تو ڑ کر لایا تھا.گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو نسل دیا گیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب کو فنسل ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے دیا تھا.834 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ایک دوست سے یہ واقعہ سُنا ہے کہ جناب خان بہا در مرز سلطان احمد صاحب.جب ای.اے.سی کا
سیرت المہدی 750 حصہ سوم امتحان دینے کے لئے لاہور گئے تو جہاں دوسرے امیدوار مقیم تھے وہاں ہی مرزا صاحب ٹھہر گئے.ان امیدواروں میں سے کوئی بی.اے تھا اور کوئی ایم.اے تھا اور کوئی ایل ایل بی تھا.ان ایام میں ایک رات مرزا سلطان احمد صاحب ذرا جلدی لیٹ گئے.دوسرے امیدوار ابھی جاگ رہے تھے.انہوں نے آپ کو سو یا ہو سمجھ کر آپس میں مذاق شروع کر دیا.کہ ان مرزا صاحب کو بھی امتحان کا شوق چرایا ہے.ایسے ایسے قابل لوگوں کو تو پاس ہونے کی امید نہیں اور یہ خواہ مخواہ امتحان میں آکو دے.ان کی یہ گفتگو سن کر مرزا صاحب نے دل میں کہا.کہ میں حضرت والد صاحب کو دعا کے واسطے کہہ تو آیا ہوں.اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا تھا.ضرور دعا کرینگے.خدا کرے کہ میں کامیاب ہو جاؤں تا کہ ان لوگوں کے مذاق کا جواب مل جائے.انہی خیالات میں آپ سو گئے اور قریباً چار بجے صبح کو آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے اور آپ نے مرزا سلطان احمد کو ہاتھ سے پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا ہے.یہ خواب دیکھ کر مرزا سلطان احمد صاحب کی آنکھ کھل گئی.اور انہوں نے خود ہی اس خواب کی تعبیر کی کہ میں ضرور کامیاب ہو جاؤنگا.اتنے میں دیگر امیدوار بھی بیدار ہو گئے.اور مرزا سلطان احمد صاحب نے ان کو کہا کہ دیکھورات تم لوگ میرا مذاق اُڑا رہے تھے.اب تم دیکھنا کہ میں ضرور کامیاب ہو کر آؤں گا اور تم دیکھتے رہ جاؤ گے.انہوں نے ازراہ مذاق کہا.کہ کیا آپ کو بھی اپنے والد صاحب کی طرح الہام ہوتا ہے.مرزا سلطان احمد صاحب نے کہا.بس اب تم دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب اس امتحان میں بفضلہ کامیاب ہو گئے.اگر چہ مرزا صاحب اس وقت حضرت صاحب کی بیعت میں داخل نہ تھے.مگر ان کو حضور کی دُعا اور وحی پر یقین اور ایمان تھا.چنانچہ اس سے پہلے مرزا صاحب نے تحصیلداری میں کامیابی کے واسطے بھی حضرت صاحب سے دعا کرائی تھی اور پھر تحصیلدار ہو گئے تھے.میں نے سُنا ہے کہ اس وقت انہوں نے پہلے ماہ کی تنخواہ حضرت صاحب کے پاس بھیجی.کہ میری طرف سے لنگر خانہ میں بطور چندہ آپ قبول فرما ئیں.مگر آپ نے اس روپیہ کے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا یہ نعمت صرف احمدی لوگوں کے لئے ہے.ایک غیر احمدی کا چندہ اس میں نہیں لیا جاسکتا.اگر تم دینا چاہتے ہو تو سکول میں دیدو.کیونکہ اس میں تمہارا بیٹا بھی پڑھتا ہے.
سیرت المہدی 751 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس واقعہ کے متعلق کوئی ذاتی علم نہیں ہے اور نہ کوئی اور اطلاع ہے اس لئے میں اس کی صحت یا عدم صحت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.مگر اس قدر بات مجھے بھی معلوم ہے جو سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر ۲۰۸ میں گذر چکی ہے کہ ایک دفعہ جب تحصیلداری کے امتحان کے لئے مرزا سلطان احمد صاحب نے حضرت صاحب کو دُعا کے لئے لکھا تھا تو حضرت صاحب نے ناراضگی کے ساتھ ان کا رقعہ پھینک دیا تھا کہ بس دُنیا کا خیال ہی غالب رہتا ہے.مگر اسی رات حضرت صاحب کو خدا نے الہام کیا کہ ہم اس کو پاس کر دینگے.چنانچہ وہ کامیاب ہو گئے.835 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ چندلوگوں نے ایک احمدی سے مباحثہ کے دوران میں کہا کہ مرزا صاحب کا اپنا بیٹا ان کو نبی نہیں مانتا.پہلے اس کو مناؤ پھر ہم سے بات کرنا.یہ بات بڑھی اور مرزا سلطان احمد کی شہادت پر فیصلہ قرار پایا.چنانچہ وہ احمدی اور ان کے مخالف مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس گئے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ مرزا صاحب یعنی اپنے والد صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟ مرزا سلطان احمد صاحب نے جواب دیا کہ میں نے بنی اسرائیل کے انبیاء کا حال پڑھا ہے.اگر وہ ان حالات کی بناء پر نبی کہلانے کے مستحق ہیں تو میرے والد صاحب ان سے بہت زیادہ نبی کہلانے کے مستحق ہیں.اس پر کسی نے کہا کہ پھر آپ ان کو مان کیوں نہیں لیتے.جواب دیا کہ میں دنیا داری میں گرفتار ہوں اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بیعت کر لینے کے بعد بھی میرے اندر دنیا کی نجاست موجود رہے.اس سے ایک عظمند یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ غیر احمدی ہونے کے ایام میں بھی مرزا سلطان احمد صاحب دل میں حضرت اقدس علیہ السلام کی کس قدر عزت کرتے تھے.اپنے مقدس باپ کا اثر ان کے اندر اس قدر موجود تھا کہ نائب تحصیلدار کے بعد تحصیلدار.پھرای.اے.سی پھر افسر مال پھر ڈپٹی کمشنر وغیرہ رہے مگر کسی جگہ آج تک مرزا صاحب سے کسی کو شکایت نہیں ہوئی.انہوں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، نہ ظلم کیا نہ جھوٹ بولا اور نہ رشوت قبول کی.بلکہ ڈالی تک قبول نہ کرتے تھے.یہ تمام خوبیوں کا مجموعہ انہیں وراشتا باپ سے ملا تھا.نہ صرف اس قدر بلکہ ان کے بچوں میں بھی فطرتا یہ باتیں
سیرت المہدی 752 حصہ سوم موجود ہیں.مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے بھی سرکاری ملازم ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ ان کے دفتر والے ماتحت اور افسر بلکہ ہمسایہ تک ان کے چلن اور اخلاق کے مدح خواں ہیں.اسی ضمن میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ ایک زمانہ میں حضرت میاں محمود احمد صاحب.میاں محمد الحق صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب تالاب کے کنارے بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے.گوئیں بچہ تھا.مگر میری فطرت میں تحقیق کا مادہ تھا.کھڑے ہو کر گھنٹوں دیکھتا کہ یہ لوگ کھیل میں گالی گلوچ یا جھوٹ یا نخش کلامی بھی کرتے ہیں یا نہیں.مگر میں نے ان حضرات کو دیکھا کہ کبھی کوئی جھگڑا نہ کرتے تھے.حالانکہ کھیل میں اکثر جھگڑا ہو جایا کرتا ہے.اسی طرح اکثر دفعہ میں میاں بشیر احمد صاحب و میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ شکار کے لئے جایا کرتا تھا.دونوں حضرات کے پاس ایک ایک ہوائی بندوق ہوا کرتی تھی اور پرندوں کا شکار کرتے تھے.ہر جگہ میرا یہ مقصد ہوتا تھا کہ میں دیکھوں کہ ان لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں.پھر حضرت میاں محمود احمد صاحب مغرب کے بعد اکمل صاحب کی کوٹھڑی میں آکر بیٹھا کرتے تھے اور میں بھی وہاں بیٹھارہتا تھا.شعر و شاعری اور مختلف باتیں ہوتی تھیں.مگر میں نے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہ دیکھی.بلکہ ان کی ہر بات حیرت انگیز اخلاق والی ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب پیغام پارٹی خصوصا شیخ رحمت اللہ صاحب نے مجھے کہا.کہ میر صاحب! آپ میاں صاحب یعنی خلیفة امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) اور اکمل کی پارٹی میں بہت بیٹھا کرتے ہیں.ذرا پتہ لگائیں کہ یہ بدر میں آجکل کوئل.بلبل اور فاختہ کیسی اُڑتی ہیں.اس زمانہ میں قاضی اکمل صاحب کی اس قسم کی اکثر نظمیں شائع ہوتی تھیں.چنانچہ میں رات دن اس امر کی تلاش میں رہتا کہ مجھے کوئی بات مل جائے تو میں پیغام پارٹی کو اطلاع دوں.مگر میں جس قدر حضرت میاں صاحب کی صحبت میں رہا كُونُوا مَعَ الصَّادِقِین کا کرشمہ مجھ پر اثر کرتا چلا گیا.ان لوگوں کا خیال تھا کہ میاں محمود احمد صاحب ، میاں محمد اسحاق صاحب اور قاضی اکمل مل کر کوئی خاص ایجی ٹیشن پھیلا رہے ہیں.کیونکہ ان دنوں میں میاں محمد الحق صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آیا خلیفہ انجمن کے ماتحت ہے یا خلیفہ کے ماتحت انجمن ہے گو میاں محمد اسحاق صاحب کم عمر
سیرت المہدی 753 حصہ سوم کے تھے.مگر ان کا دماغ اور ذہن بڑے غضب کا تھا.غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مصاحب اور رشتہ دار اور اولاد ہر ایک اس قدر گہرے طور پر حضرت صاحب کے رنگ میں رنگین ہو گئے تھے کہ بے انتہا جستجو کے بعد بھی کوئی آدمی ان میں کوئی عیب نہ نکال سکتا تھا.میں خود پیروں کے خاندان میں پیدا ہوا ہوں.اور پیروں فقیروں سے بیحد تعلقات اور رشتہ داریاں ہیں.مجھے اس کے متعلق ایک حد تک تجربہ ہے.وہ لوگ اپنے مریدوں میں بیٹھ کر جس قدر اپنی بزرگی جتاتے ہیں.اسی قدر وہ در پردہ بدچلن اور بد اخلاق ہوتے ہیں کہ اپنے نفس، زبان، ہاتھ اور دل و آنکھ پر قابو نہیں رکھ سکتے.اسی طرح ان کی اولا د اور رشتہ دار ہوتے ہیں.اور جو دکھاوا ہوتا ہے وہ سب دکانداری کی باتیں ہوتی ہیں.836 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد خاں صاحب ساکن گل منسج نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب کثرت سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنے لگے.تو ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مسجد اقصیٰ میں لیکچر دیا.تین گھنٹہ تک تقریر فرماتے رہے.اس روز لا ہور کے کئی آدمی بھی موجود تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر بھی یہیں تھے.اور قادیان کے ہندو بھی مسجد میں موجود تھے.اس تقریر میں حضرت صاحب نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ میں اکیلا ہی بٹالہ جایا کرتا تھا.اور کبھی کبھی میرے ساتھ ملا وامل اور شرم پت بھی جایا کرتے تھے.انہیں ایام میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو کہا کہ میں تیری طرف آنے کے لئے لوگوں کے راستہ کو کثرت استعمال سے ایسا کر ڈونگا کہ ان میں گڑھے پڑ جائیں گے.مگر تم نے دل میں گھبرانا نہیں.خدا خود تیرا سارا سروسامان تیار کرے گا.یہ خیال نہ کرنا کہ میں لوگوں کو رہائش کی جگہ اور کھانا کہاں سے مہتا کر کے دُوں گا.آپ نے فرمایا.اب دیکھ لو کہ خدا نے کس طرح میرے لئے ساز وسامان تیار کر دیا ہے کہ جتنے مہمان بھی آتے ہیں ان کا گزارہ بخیر و خوبی ہوتا ہے.مگر قادیان کے لوگوں نے مجھے نہ مانا.پھر اسی وقت جبکہ حضور یہ تقریر فرمارہے تھے میں کسی ضرورت کے لئے مسجد سے نیچے اترا تو مجھے دوسکھ ملے.ایک اندھا تھا اور دوسرا جوان عمر تھا.انہوں نے کچھ سنگترے اور سودا سلف خریدا ہوا تھا.اندھے سکھ نے دوسرے کو کہا کہ ادھر سے چلو.ذرا شلوگ بانی سن لیں.پھر وہ دونوں مسجد کے اوپر چڑھ گئے اور میں بھی ان کے
سیرت المہدی 754 حصہ سوم پیچھے مسجد میں واپس آ گیا.اور وہ لوگوں میں آکر بیٹھ گئے.اتنے میں اندھا سکھ بولا.” بھائیو.پیار یو.متر و.میری اک عرض وا“ اس کا انداز یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تقریر میں رخنہ ڈال کر اپنے مذہب کے متعلق کچھ پر چار کرنا چاہتا ہے.جس پر قریب کے لوگوں نے اسے روک دیا کہ بولو نہیں وعظ ہو رہا ہے.دومنٹ کے بعد پھر اس اندھے نے پہلے کی طرح کہا.پھر لوگوں نے اُسے روک دیا.اس پر نو جوان سکھ نے گالیاں دینی شروع کر دیں.اس وقت پولیس کا انتظام تھا اور محمد بخش تھانیدار بھی آیا ہوتا تھا.لوگوں نے تھانیدار کو کہا کہ دو سکھ مسجد میں گالیاں نکال رہے ہیں.تھانہ دار اس وقت مرز انظام الدین کے دیوان خانہ میں کھڑا تھا.اور دو سپاہی اس کے ساتھ تھے.وہ گئے تو اُن سکھوں کو پکڑ کر دیوان خانہ میں لے گئے.حضرت صاحب کے تقریر ختم کرنے کے دو گھنٹہ بعد کسی شخص نے آکر بتایا.کہ تھانیدار نے ان سکھوں کو مارا ہے.حضرت صاحب نے اسی وقت فرمایا کہ تھانیدار کو کہو کہ ان کو چھوڑ دے.اس پر اس تھانیدار نے ان سکھوں کو چھوڑ دیا.837 بسم الله الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانگی زندگی بھی اللہ تعالیٰ ہی کے کاموں میں گذرتی تھی.ہر وقت یا تحریر کا کام ہوتا تھایا غور وفکر اور ذکر الہی کا.کبھی میں نے حضور کو اپنے بچوں سے لاڈ کرتے نہیں دیکھا باوجود یکہ ان سے آپ کو بہت محبت تھی.اور کبھی کسی خادمہ کو کوئی حکم دیتے بھی نہیں دیکھا.حضور گھر میں بھی زیادہ کلام نہ کرتے تھے.سنجیدہ اور متین رہتے تھے.آپ بہت کم سوتے تھے.اور بہت کم کھانا کھاتے تھے اور بعض اوقات ساری ساری رات لکھتے رہتے تھے.اندرون خانہ میں بھی نہایت سادہ رہتے تھے.یہ سب خانگی امور ایسے ہیں.جو خدا کے فضل سے میرے دل میں گالنَّقْشِ فِی الْحَجَر ہیں اور بفضلہ تعالے دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی بلا آنحضور علیہ السلام پر ایمان لانے سے مجھے نہیں روک سکتی.کیونکہ میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے.838 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر گوہرالدین صاحب جب انٹرنس کے امتحان میں پہلی دفعہ ناکام ہوئے.تو انہوں نے میرے روبرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس میں اپنی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے دعا
سیرت المہدی 755 حصہ سوم کے لئے التجا کی.حضور نے نہایت الفت اور محبت سے دلجوئی کے طور پر مندرجہ ذیل جواب خط کی پشت پر ارقام فرمایا:.السلام علیکم ایک روپیہ پہنچا.جزاکم اللہ تعالے خدا تمہیں پھر کامیاب کرے.اس میں خدا تعالے کی حکمت ہے.میں تمہارے دین اور دُنیا کے لئے دُعا کروں گا.کچھ غم نہ کرو.خدا داری چہ غم داری.پھر پاس ہو جاؤ گے.“ یہ خط برادرم ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس اب تک محفوظ ہے.چنانچہ وہ دوسرے سال انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور اب بفضلہ تعالے برہما میں سب اسسٹنٹ سرجن ہیں اور بہت عزت کی زندگی گذار رہے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب سکول کے بچوں کو بھی کس محبت کے ساتھ یاد فرماتے تھے.839 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مارچ ۱۹۰۸ء میں جب ہم طلباء انٹرنس کے امتحان کے لئے امرتسر جانے لگے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت حاصل کرنے کے لئے حضور کے مکان پر حاضر ہوئے.جب حضور کو اطلاع کرائی گئی تو دروازہ پر پہنچتے ہی حضور نے فرمایا.خدا تم سب کو پاس کرے اس کے بعد ہم نے یکے بعد دیگرے حضور سے مصافحہ کیا.ایک لڑکا مسمی عطا محمد بعد میں دوڑتا ہوا آیا.اس وقت حضور ہمیں رخصت فرما کر چند قدم اندرون خانہ میں جاچکے تھے.تو عطا محمد مذکور نے حضور کا پیچھے سے دامن پکڑ کر زور سے کہا.”حضور میں رہ کا گیا ہوں.اس پر حضور مڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوئے.اور مصافحہ کر کے اس کو بھی رخصت کیا.یہ دوست اب سب اسٹنٹ سرجن ہیں.خواجہ عبدالرحمن صاحب نے مزید بیان کیا کہ اس سال سولہ طلباء انٹرنس کے امتحان میں شامل ہوئے تھے.جن میں سے کئی ایک تو اسی سال پاس ہو گئے.اور باقی کچھ دوسرے سال پاس ہوئے اور بعض جو پھر بھی پاس نہ ہوئے.وہ بھی حمد اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی دُعا سے اچھی حیثیت میں ہیں.اور اپنے
سیرت المہدی 756 حصہ سوم اپنے کاروبار اور ملا زمتوں میں خوش زندگی گزار رہے ہیں.840 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف ) ابتداء میں مدرسہ ہائی سکول میں لوئر پرائمری میں داخل کرائے گئے.تو ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب ہائی سکول کے بورڈنگ میں تشریف لائے اور حافظ غلام محمد صاحب (سابق مبلغ ماریشس) سے فرمانے لگے.کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے میاں بشیر احمد کو بورڈنگ میں داخل کرنے کا حکم دیا ہے.آپ ان کا خیال رکھا کریں.خاکسار بھی اس وقت پاس ہی کھڑا تھا.میر صاحب نے میرے متعلق فرمایا کہ یہ میاں صاحب کا بستہ گھر سے لایا اور لے جایا کرے گا.صاحبزادہ صاحب اس کے بعد دن کو بورڈنگ میں ہی رہا کرتے تھے.اور رات کو گھر چلے آتے تھے.اور میں بستہ بردار غلام تھا.حضرت ام المؤمنين سلمها الله تعالى ماہوار کچھ نقدی بھی عطا فرماتی تھیں.مگر میرا اصل معاوضہ حضور کی خوشنودی اور دعا تھی.841 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں جب رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جاتے تھے تو پانی کا لوٹالا زم ساتھ لے جاتے تھے اور اندر طہارت کرنے کے علاوہ پاخانہ سے باہر آ کر بھی ہاتھ صاف کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ طہارت سے فارغ ہو کر ایک دفعہ سادہ پانی سے ہاتھ دھوتے تھے اور پھر مٹی مل کر دوبارہ صاف کرتے تھے.842 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے.وہ قادیان آکر مسلمان ہو گئے.نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا.ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو.وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے.فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے ستر عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے.اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں.
سیرت المہدی 757 حصہ سوم 843 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی مرحوم کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوا.جب میں نے یہ روایت سنی تو بہت تعجب ہوا.کیونکہ میرا خیال تھا کہ انبیاء کواحتلام نہیں ہوتا.پھر بعد فکر کرنے کے اور طبی طور پر اس مسئلہ پر غور کرنے کے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ احتلام تین قسم کا ہوتا ہے ایک فطرتی.دوسرا شیطانی خواہشات اور خیالات کا نتیجہ اور تیسر امرض کی وجہ سے.انبیاء کو فطرتی اور بیماری والا احتلام ہوسکتا ہے.مگر شیطانی نہیں ہوتا.لوگوں نے سب قسم کے احتلام کو شیطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کا یہ خیال درست ہے کہ انبیاء کو بھی بعض اقسام کا احتلام ہوسکتا ہے اور میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بچپن میں اس حدیث کو پڑھا تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا.تو اس وقت بھی میں نے دل میں یہی کہا تھا کہ اس سے شیطانی نظارہ والا احتلام مراد ہے نہ کہ ہر قسم کا احتلام.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جو فطرتی احتلام اور بیماری کے احتلام کی اصطلاح لکھی ہے یہ غالباً ایک ہی قسم ہے.جس میں صرف درجہ کا فرق ہے یعنی اصل اقسام دو ہی ہیں.ایک فطرتی احتلام جو کسی بھی طبعی تقاضے کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے شیطانی احتلام جو گندے خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے.واللہ اعلم.844 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشاب کر کے ہمیشہ پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے.میں نے کبھی ڈھیلہ کرتے نہیں دیکھا.845 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندھیرے میں نہیں سویا کرتے تھے.بلکہ ہمیشہ رات کو اپنے کمرہ میں لائین روشن رکھا کرتے تھے اور تصنیف کے وقت تو دس پندرہ موم بتیاں اکٹھی جلا لیا کرتے تھے.846 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ” قادیان کے آریہ اور ہم کی نظم لکھ رہے
سیرت المہدی 758 حصہ سوم تھے.جس کے آخر میں دُعا یہی ہے.وفا یہی ہے.وغیرہ آتا ہے.تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی مرحومہ کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں.حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں ایک نظم لکھ رہا ہوں.جس میں یہ یہ قافیہ ہے آپ بھی کوئی قافیہ بتا ئیں.مولویانی مرحومہ نے کہا.ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں.تو میں بتاؤں کیا.حضرت صاحب نے ہنس کر فر مایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے اور پھر بھی آپ شکایت کرتی ہیں کہ کسی نے پڑھایا نہیں.مطلب حضرت صاحب کا یہ تھا کہ ” پڑھایا نہیں“ کے الفاظ میں جو پڑھا“ کا لفظ ہے.اسی میں قافیہ آ گیا ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا.847 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموما گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے.ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا.کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹنا کھدے.اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھدیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فارغ ہو کر باہر تشریف لائے.تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا.جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا.تو آپ نے اُسے بلوایا.اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا.اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے اس لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تا کہ اُسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہوسکتا.اس کے سوا آپ نے اُسے کچھ نہیں کہا.848 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم گھر کی چند لڑ کیاں تربوز کھا رہی تھیں.اس کا ایک چھلکا مائی تابی کو جالگا.جس پر مائی تابی بہت ناراض ہوئی.اور ناراضگی میں بددعا ئیں دینی شروع کر دیں.اور پھر خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر شکایت بھی کر دی.اس پر حضرت صاحب نے ہمیں بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے.ہم نے سارا واقعہ سُنا دیا.جس پر آپ مائی تابی پر ناراض ہوئے کہ تم نے میری اولاد کے متعلق بددعا کی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی تابی قادیان کے قریب کی ایک بوڑھی عورت تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتی تھی اور اچھا اخلاص رکھتی تھی.مگر ناراضگی میں عادت بد دعائیں دینے لگتی تھی.نیز
سیرت المہدی 759 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے خان بہادر مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کی لڑکی ہیں جو حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی ہیں.مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو خلافتِ ثانیہ کے موقعہ پر ٹھوکر لگی اور وہ غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے لیکن الحمد للہ کہ میرے گھر سے بدستور جماعت میں شامل ہیں اور وابستگان خلافت میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے والد ماجد کو بھی ہدایت نصیب فرمائے.آمین لے 849 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی امیر بی بی عرف مائی کا کو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز با قاعدہ پڑھیں.قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں.جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں.اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو.اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی.تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو.تا کہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے.850 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی کا کونے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھواں کی بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ تازہ جلیبیاں لائی.حضرت صاحب نے ان میں سے ایک جلیبی اٹھا کر منہ میں ڈالی.اس وقت ایک راولپنڈی کی عورت پاس بیٹھی تھی.اس نے گھبرا کر حضرت صاحب سے کہا.حضرت یہ تو ہندو کی بنی ہوئی ہیں.حضرت صاحب نے کہا.تو پھر کیا ہے.ہم جو سبزی کھاتے ہیں.وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے.اور اسی طرح بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا.851 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی کا کونے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے بھائی خیر دین کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ شام کا وقت گھر میں بڑے کام کا وقت ہوتا ہے اور مغرب کی نماز عموماً قضا ہو جاتی ہے.تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرو کہ ہم کیا کیا کریں.میں نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ گھر میں کھانے وغیرہ کے انتظام میں مغرب کی نماز قضا ہو جاتی ہے.اس کے متعلق کیا حکم لے اس کتاب کی اشاعت کے بعد خان بهادر مولوی غلام حسن صاحب پشاوری نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ کی بیعت کر لی تھی.(ناشر)
سیرت المہدی 760 حصہ سوم ہے.حضرت صاحب نے فرمایا.میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اور فرمایا کہ صبح اور شام کا وقت خاص طور پر برکات کے نزول کا وقت ہوتا ہے.اور اس وقت فرشتوں کا پہرہ بدلتا ہے.ایسے وقت کی برکات سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہئے.ہاں کبھی مجبوری ہو تو عشاء کی نماز سے ملا کر مغرب کی نماز جمع کی جاسکتی ہے.مائی کا کونے بیان کیا کہ اس وقت سے ہمارے گھر میں کسی نے مغرب کی نماز قضا نہیں کی اور ہمارے گھروں میں یہ طریق عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ شام کا کھانا مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے ہیں تا کہ مغرب کی نماز کو صحیح وقت پر ادا کرسکیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی کا کونے جو قضا کا لفظ استعمال کیا ہے یہ عرف عام میں غلط طور پر استعمال ہونے لگا ہے.ورنہ اس کے اصلی معنے پورا کرنے اور ادا کرنے کے ہیں نہ کہ کھونے اور ضائع کرنے کے.مجھے اس کا اس لئے خیال آیا کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب نے بھی ایک جگہ اس لفظ کے غلط استعمال کے متعلق ذکر کیا ہے.852 بسم اللہ الرحمن الرحیم.مائی کا کونے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب نے جماعت میں بکروں کی قربانی کا حکم دیا تھا.تو ہم نے بھی اس ارشاد کی تعمیل میں بکرے قربان (صدقہ ) کروائے تھے.اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے خواب دیکھا.کہ ایک بڑا بھاری جلوس آرہا ہے اور اس جلوس کے آگے کوئی شخص رتھ میں سوار ہو کر چلا آرہا ہے.جس کے ارد گرد پردے پڑے ہوئے ہیں اور لوگوں میں شور ہے کہ محمد ﷺ آگئے.محمد ی آ گئے.میں نے آگے بڑھکر رتھ کا پردہ اُٹھایا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے تھے.آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا.کیا تم نے صدقہ نہیں کیا؟ میں نے کہا.حضور ہم نے تو صدقہ کروا دیا ہے.آپ نے فرمایا اور کروا دو.چنانچہ میں نے اور صدقہ کروا دیا.اس زمانہ میں دو روپیہ میں بکر امل جاتا تھا.اور ہم نے پانچ پیسے میں سیر گوشت خریدا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالبا اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت صاحب ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے بعد باغ میں جا کر ٹھہرے تھے.853 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص
سیرت المہدی 761 حصہ سوم بمبئی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی زیارت کو آیا.اس کی داڑھی اور مونچھیں سب سفید تھیں.حضور نے ملاقات کے بعد ان سے پوچھا.آپ کی کیا عمر ہوگی.وہ شخص کہنے لگا کہ حضرت میں نے تو اپنا کوئی بال سیاہ دیکھا ہی نہیں نکلتے ہی سفید ہیں.یاد نہیں کہ اس نے اپنی عمر کتنی بتائی.اس کی بات سے حضرت صاحب نے تعجب کیا.اور پھر گھر میں جا کر بھی بیان کیا کہ آج ایک ایسا شخص ملنے آیا تھا.8549 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دیدی.پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا.تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں.چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے.اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہو جائے.اسی لئے آپ نے تحریک کر کے شادی کروائی تھی.855 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہر الہی سلسلہ کا پہلا اور آخری نبی قتل سے محفوظ رکھا جاتا ہے.مگر درمیانی نبی اگر ان کے ساتھ مخصوص طور پر حفاظت کا وعدہ نہ ہو اور وہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا کر چکے ہوں تو وہ قتل ہو سکتے ہیں چنانچہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا.اور محمدی سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل سے محفوظ رکھا.اور میرے ساتھ بھی اس کا حفاظت کا وعدہ ہے.مگر فرماتے تھے کہ حضرت بیچی علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے.856 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری سے پہلے حضرت بیچی علیہ السلام بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سید احمد صاحب بریلوی بطور ا رہاص کے مبعوث کئے گئے کیونکہ وہ تیرہویں صدی کے مجد دتھے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ ایک عجیب مشابہت ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام
سیرت المہدی 762 حصہ سوم قتل ہوئے اسی طرح سید احمد صاحب بریلوی بھی قتل ہوئے.اور اس طرح خدا نے دونوں سلسلوں کے میحوں میں ایک مزید مشابہت پیدا کر دی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے آگے اور پیچھے دونوں طرف کسی نہ کسی رنگ میں اثر پیدا کرتی ہے اور نبوت کا یہ اثر ہے کہ اس سے پہلے ارہاص کا سلسلہ ہوتا ہے اور بعد میں خلافت کا.گویا نبوت کا وجود اپنے کمال میں تین درجوں میں ظاہر ہوتا ہے.پہلا درجہ ارہاص کا ہے جسے گویا کہ یوں سمجھنا چاہئے کہ جیسے سورج کے نکلنے سے پہلے شفق میں روشنی پیدا ہوتی ہے.دوسرا درجہ نبوت کا ہے جو اصل نور اور ضیاء کا مقام ہے.اور اس کے بعد تیسرا درجہ خلافت کا ہے جو نبی کے گذر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے.ارہاص کے اظہار کی صورت مختلف رنگوں میں ہو سکتی ہے یعنی بعض اوقات تو کسی بڑے نبی سے پہلے کسی چھوٹے نبی یا ولی یا مجد دکو نبی کے لئے راستہ صاف کرنے کے واسطے بھیجا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصری اور حضرت مسیح موعود کے وقت میں ہوا.اور بعض اوقات کوئی خاص فرد مبعوث نہیں ہوتا.بلکہ اللہ تعالے ایسی رو چلا دیتا ہے جس سے بعض سعید فطرتیں متاثر ہوکر نور نبوت کی تیاری میں لگ جاتی ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.یعنی آپ کی بعثت سے پہلے عرب میں چند افراد ایسے پیدا ہو گئے.جو شرک سے منتظر ہو کر خدائے واحد کی تلاش میں لگ گئے اور اپنے آپ کو حنیفی “ کہہ کر پکارتے تھے.اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارہاص ہر دو رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے.یعنی کسی فرد کی بعثت کی صورت میں بھی.اور ایک رو کی صورت میں بھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ارہاص کے لفظی معنے بنیادرکھنے یا کسی چیز کو مضبوط کرنے کے ہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ سلسلہ ارہاص کے ذریعہ نور نبوت کی ابتدائی داغ بیل قائم کرتا ہے.اس لئے اس سلسلہ کو یہ نام دیا گیا.اور خلافت کے لفظ کی حقیقت ظاہر ہی ہے کہ نبی کی وفات کے بعد جو سلسلہ خلفاء کا نبی کے کام کو جاری رکھنے اور تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائم ہوتا ہے.وہ خلافت ہے.جس کے لفظی معنے کسی کے پیچھے آنے اور قائم مقام بننے کے ہیں.واللہ اعلم.857 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی
سیرت المہدی 763 حصہ سوم عبدالکریم صاحب سیالکوٹی میرے ماموں زاد بھائی تھے اور میرے بہنوئی بھی تھے.اور عمر میں مجھ سے قریباً آٹھ سال بڑے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت مجھ سے پہلے کی تھی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ تحریک کرتے رہتے تھے.کہ میں بھی بیعت کرلوں.غالباً ۱۸۹۳ء میں ایک خواب کی بناء پر میں بھی بیعت کے لئے تیار ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا.اس وقت اتفاق سے میرے سامنے ایک شخص حضرت صاحب کی بیعت کر رہا تھا.میں نے جب بیعت کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سنے کہ میں دین کو دُنیا پر مقدم رکھوں گا “ تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ بہت بھاری ذمہ واری ہے جسے میں نہیں اٹھا سکوں گا.اور میں بغیر بیعت کئے واپس لوٹ گیا.اس کے بعد ایک دفعہ مولوی صاحب مرحوم نے میری ہمشیرہ سے کہا کہ محمد اسمعیل لوگوں کو تو تبلیغ کرتا رہتا تھا اور خود بیعت نہیں کرتا.یہ بات سمجھ نہیں آتی.میری ہمشیرہ نے مجھے جب یہ بات سُنائی.تو میں نے خود مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا.ہاں.تو میں نے مولوی صاحب کو کہا کہ میں علیحدگی میں بیعت کرونگا.اور میرے دل میں یہ خیال تھا کہ میں حضرت کم صاحب سے عرض کرونگا کہ ہر بات میں دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا اقرار مجھ سے نہ لیں.یعنی اس عہد سے مجھے معاف کر دیں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا.پھر اس کے کچھ عرصہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.اور دل میں ارادہ تھا کہ حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دُوں گا.لیکن جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا ”آجائیں اس ” آجائیں“ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے وہ تمام خیالات بھول گئے اور میں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا اور بیعت کر لی.بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے ان خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں.اگر ہم دین کو مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ میں دُنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا.اس صورت میں بیعت کی غرض و غایت
سیرت المہدی 764 حصہ سوم اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے.858 بسم اللہ الرحمن الرحیم منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال جوسیالکوٹ کے رہنے والے تھے ان کے والد کا نام شیخ نورمحمد تھا.جن کو عام لوگ شیخ نتھو کہ کر پکارتے تھے.شیخ نور محمد صاحب نے غالباً ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور سید حامد شاہ صاحب مرحوم کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.ان دنوں سر محمد اقبال سکول میں پڑھتے تھے اور اپنے باپ کی بیعت کے بعد وہ بھی اپنے آپ کو احمدیت میں شمار کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد تھے چونکہ سرا قبال کو بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا.اس لئے ان دنوں میں انہوں نے سعد اللہ لدھیانوی کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ایک نظم بھی لکھی تھی.مگر اس کے چند سال بعد جب سرا قبال کا لج میں پہنچے.تو ان کے خیالات میں تبدیلی آگئی.اور انہوں نے اپنے باپ کو بھی سمجھا بجھا کراحمدیت سے منحرف کر دیا.چنانچہ شیخ نورمحمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس میں یہ تحریر کیا کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور میں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا.لہذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں.اس پر حضرت صاحب کا جواب میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے نام گیا.جس میں لکھا تھا.کہ شیخ نور محمد کو کہد یویں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہیں.اس کے بعد شیخ نور محمد صاحب نے بعض اوقات چندہ وغیرہ دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے قبول نہ کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے میاں مصباح الدین صاحب نے بیان کیا کہ ان سے کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بیان کیا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور آپ نے وہاں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوئے تھے اور ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی ہجوم ہو گیا تھا.تو اس وقت ڈاکٹر سرمحمد اقبال بھی وہاں موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بعد میں سلسلہ سے نہ صرف منحرف ہو گئے تھے بلکہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید طور پر
سیرت المہدی 765 حصہ سوم مخالف رہے ہیں اور ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جوز ہر پھیلا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈا تھا مگر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب درمیان میں کچھ عرصہ علیحدہ رہنے کے بعد حال ہی میں پھر سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے صاحبزادے یعنی سر محمد اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب سب حج تو سلسلہ کے نہایت مخلص نو جوانوں میں سے ہیں.859 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں ایک احمدی تھے.وہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں قادیان آئے.حضور ایک دن سیر کو نکلے تو احمد یہ چوک میں سیر میں ہمراہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑے ہو گئے.ان دہلی والے دوست کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا.فرمایا کہ یہ آپ کا لڑکا ہے؟ انہوں نے عرض کیا.جی ہاں.پھر پوچھا اس کا کیا نام ہے انہوں نے کہا خورشید الاسلام مسکرا کر فرمانے لگے خورشید تو فارسی لفظ ہے اور ترکیب نام کی عربی ہے.یہ غلط ہے.صحیح نام شمس الاسلام ہے.اس کے بعد ان صاحب نے اس بچہ کا نام بدل کر شمس الاسلام رکھدیا.860 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے پنجابی مثل ہے کہ کتا راتوں گھوڑ اسا توں.آدمی باتوں“.یعنی گفتا تو ایک رات میں چراغوں کا تیل چاٹ کر موٹا ہو جاتا ہے (اگلے زمانہ میں لوگ مٹی کے کھلے چراغ جلایا کرتے تھے.اور ان میں تل یا سرسوں کا تیل استعمال ہوتا تھا.جسے بعض اوقات کتنے چاٹ جایا کرتے تھے ) اور گھوڑ ا سات دن کی خدمت سے بارونق اور فربہ ہو جاتا ہے.مگر آدمی کا کیا ہے وہ اکثر ایک بات سے ہی اتنا خوش ہو جاتا ہے کہ اس کے سنتے ہی اس کے چہرہ اور بدن پر رونق اور صحت اور سُرخی آجاتی ہے اور فوراً ذرا سی بات ہی ایک عظیم الشان تغیر اس کی حالت میں پیدا کر دیتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس موقع پر مجھے حضرت مسیح ناصری کا یہ قول یاد آ گیا ' آدمی روٹی سے نہیں جیتا اس میں طلبہ نہیں کہ انسانی خلقت میں خدا نے ایسا مادہ رکھا ہے کہ اس پر جذبات بہت گہرا اثر کرتے ہیں اور کسی کی ذرا سی محبت بھری نظر اس کے اندر زندگی کی لہر پیدا کر دیتی ہے اور ذرا سی چشم نمائی اس کی امنگوں پر اوس ڈال رہتی ہے.
سیرت المہدی 766 حصہ سوم 861 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہو کر بیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْن فِي بُيُوتِكُنَّ کے الفاظ آئے ہیں.یہ امہات المومنین سے خاص تھا.دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے.بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے.862 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عمدہ کاغذ پر صحیح اور خوشخط کتابیں چھپوانے کا خاص خیال تھا.سب سے پہلے تو محمد حسین صاحب مراد آبادی کا تب تھے جو نہایت مخلص بزرگ تھے.انہوں نے کچھ حصہ ابتدائی کتابوں کا لکھا.اس کے بعد امرتسر کے میاں غلام محمد کا تب سالہا سال تک کتابت کرتے رہے چونکہ حضرت صاحب کو ان کی صحیح نویسی اور خط پسند تھا.اس لئے ہمیشہ ان کو ہی بلا لیا کرتے تھے.پہلے وہ پندرہ ،ہیں روپیہ ماہوار خشک پر آئے تھے.پھر کہنے لگے حضور کھانا پکانے میں بڑا وقت ضائع ہوتا ہے.اس لئے لنگر سے کھانا لگادیں.آپ نے منظور کر لیا اور تنخواہ بھی جاری رکھی پھر ایک مدت بعد کہا کہ حضور یہ کھانا میرے مزاج کے موافق نہیں.میں بیمار ہو جاؤں گا.حضور روٹی کی جگہ پانچ روپیہ نقد بڑھا دیں.اور میں خود پکانے کا بندوبست کروں گا.آپ نے یہ بھی منظور فرمالیا.اور اس طرح تنخواہ میں پانچ کا اضافہ ہو گیا.پھر ایک مدت بعد پہلے کی طرح وقت نہ ملنے کی شکایت کی.اور کہا میں حضور کا کام وقت پر نہیں دے سکتا.سارا دن روٹی اور چولہے کے جھگڑے میں گذر جاتا ہے.حضور اپنے ہاں سے روٹی لگا دیں.آپ نے لگا دی اور رقم بھی قائم رہی.پھر ایک عرصہ بعد روٹی کی شکایت کرنے لگے.اس کی جگہ پانچ روپے مزید بڑھا لئے.غرض وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے.یہانتک کہ آخر تنخواہ چالیس روپیہ اور روٹی پر آگئی.اس کے بعد خدا کا فضل ہوا کہ پیر منظور محمد صاحب نے حضور کو اس فکر سے بالکل مستغنی کر دیا.اور جیسی خوشخط صاف صاف صحیح کتابت آپ چاہتے تھے وہ پیر صاحب کے واسطے سے حاصل ہوگئی.اور سالہا سال پیر جی حضور کی کتابیں لکھتے رہے.آخر پھر آخری ایام میں جب پیر جی اپنی بیماری کی وجہ سے لاچار ہو گئے.تو پھر میاں غلام محمد کو بلوایا
سیرت المہدی 767 حصہ سوم گیا اور اس نے بعض آخری کتب لکھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر منظور صاحب نے صرف خدمت کی خاطر اور حضرت صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کتابت سیکھی تھی اور خط میں ایک نیا طریق ایجاد کیا تھا.جو بہت صاف اور خوبصورت اور کھلا کھلا تھا.مگر افسوس ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے معذور ہو گئے.پیر صاحب حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے صاحبزادے ہیں اور نہایت صوفی مزاج بزرگ ہیں.قاعدہ یسر نا القرآن انہی کا ایجاد کردہ ہے.جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی ایک نظم میں تعریف فرمائی ہے.863 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنا باغ ٹھیکہ پر دیتے تھے تو پھل کی کچھ جنس ضرور اپنے لئے مقرر فرمالیتے تھے.بیدانہ شہتوت کے موسم میں دو تین دفعہ سب حاضر الوقت احباب کو لے کر ضرور باغ کی طرف سیر کے لئے جاتے تھے اور تازہ بیدا نہ تڑوا کر سب کے ہمراہ نوش فرمایا کرتے تھے.وہ چادر جس میں ٹھیکیدار بیدا نے گرایا کرتا تھا.اسی طرح لا کر سب کے سامنے رکھدی جاتی تھی.اور سب احباب اس چادر کے گرد حلقہ باندھکر بیٹھ جاتے اور شریک دعوت ہوتے.اور آپ بھی سب کے ساتھ ملکر بالکل بے تکلفی کے رنگ میں نوش فرماتے.864 بسم اللہ الرحمن الرحیم.والدہ صاحبہ عزیز مرزا رشید احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے سُنا ہوا ہے کہ اگر کبھی کوئی عورت بچپن میں حضرت صاحب کے متعلق سندھی کا لفظ استعمال کرتی تھی تو دادا صاحب بہت ناراض ہوتے تھے.کہ میرے بیٹے کا نام بگاڑ دیا ہے.اس طرح نہ کہا کرو.بلکہ اصل نام لے کر پکارا کرو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حصہ اول طبع دوم کی روایت نمبر 51 میں لفظ سندھی کے متعلق ایک مفصل نوٹ گذر چکا ہے جو قابل ملاحظہ ہے.جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندی میں سندھی کے معنے جوڑا پیدا ہونے والے کے ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود تو ام پیدا ہوئے تھے اس لئے بعض عورتیں آپ کو بچپن میں کبھی کبھی اس نام سے پکار لیتی تھیں.مگر چونکہ اس طرح اصل نام کے بگڑنے کا احتمال تھا اس لئے دادا صاحب منع
سیرت المہدی 768 حصہ سوم فرماتے تھے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ مرزا رشید احمد سے ہمارے بھائی خان بہادرمرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی بیوہ مراد ہیں.جو حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائی مرزا امام دین کی لڑکی ہیں اور ان کی پھوپھی صاحبہ سے ہماری تائی صاحبہ مراد ہیں جو حضرت صاحب کی بھا وجہ تھیں اور مرزا امام الدین کی سگی ہمشیرہ تھیں اور دادا صاحب سے ہمارے اپنے دادا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مراد ہیں.865 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکئی دفعہ یہ شعر پڑھتے سُنا ہے.اور فرمایا کرتے تھے کہ زبان کے لحاظ سے یہ بڑا فصیح و بلیغ شعر؟ یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھنؤ خاکسار عرض کرتا ہے کہ شعر واقعی بہت لطیف ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت صاحب نے اسے صرف اس کی عام خوبی کی وجہ سے ہی پسند نہیں کیا ہوگا بلکہ غالبا آپ اپنے ذہن میں اس کے معانی کو خود اپنے پیش آمدہ حالات پر بھی چسپاں فرماتے ہوں گے.866 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھے کئی بار حضرت احمد علیہ السلام کی مٹھیاں بھرنے اور پاؤں دبانے کا موقعہ ملا ہے آپ کے جسم کا گوشت بہت سخت اور خوب کمایا ہوا تھا.ایک دفعہ کسی بدبخت نے بجائے پاؤں دبانے کے آپ کے پاؤں پر چونڈھیاں بھرنی شروع کر دیں.مگر آپ خاموشی سے برداشت کرتے رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مٹھیاں بھرنا اور چونڈھیاں لینا پنجابی الفاظ ہیں.ان سے ہاتھ کی ہتھیلی سے جسم کو دبانا اور چٹکیاں لینا مراد ہے.867 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت احمد علیہ السلام جب مقدمہ گورداسپور کے ایام میں عدالت کے انتظار میں لب سٹرک گورداسپور میں گھنٹوں تشریف فرما رہتے تو بسا اوقات لوگ خیال کرتے کہ آپ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں.مگر آپ اکثر
سیرت المہدی 769 حصہ سوم کسی اور خیال میں مستغرق ہوتے تھے.اور بعض اوقات مجلس میں بیٹھے ہوئے بھی مجلس سے جُدا ہوتے تھے.868 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا اور ازالہ اوہام وغیرہ تصنیف فرمایا.تو اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ مرزا صاحب کون ہیں.ایک دفعہ میں بخار کے عارضہ سے بیمار تھا کہ چوہدری محمد بخش صاحب چچا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم را ولپنڈی تشریف لائے اور میرے پاس ذکر کیا کہ تم کو نئی بات سُنائیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی کیا ہے کہ میں مسیح موعود اور مہدی ہوں.میں نے دریافت کیا کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کا کیا حال ہے.انہوں نے جواب دیا.کہ وہ تو دونوں مان گئے ہیں.میں نے کہا کا رڈلاؤ.چنانچہ میں نے بلا تو قف بیعت کا خط لکھدیا.جب بیماری سے اُٹھا اور دارالامان آیا تو سکتے والے نے ایک مکان پر اتار دیا.دیکھا تو مرزا امام دین تخت پوش پر بیٹھے ہوئے بوہڑ کے نیچے حقہ پی رہے تھے.ان سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں.تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو.میں نے بتایا کہ راولپنڈی سے آیا ہوں.جس پر انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب اس ساتھ والے مکان میں ہیں.میں دروازہ پر آیا تو شیخ حامد علی صاحب مرحوم باہر آئے اور مجھے اندر بالا خانہ پر لے گئے.اوپر جا کر دیکھا کہ ایک چار پائی بان سے بنی ہوئی تھی.اور ایک پرانا میز تھا.جس پر چند ایک پرانی کتابیں پڑی ہوئی تھیں اور فرش پر ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی.پاس ہی ایک گھڑا پانی کا تھا.ایک پرانا صندوق جس کا رنگ غالباً سبز تھا وہ بھی پڑا تھا.حضرت صاحب کھڑے تھے.میں نے جا کر السلام علیکم عرض کیا.حضرت صاحب نے سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کر کے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.میں نے ادب کی خاطر عرض کیا کہ حضور آپ تو کھڑے ہیں اور میں چار پائی پر بیٹھ جاؤں.اتنے میں ایک مستری صاحب آگئے انہوں نے کہا کہ حکم مانو اور جس طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں اسی طرح کرو.اس پر میں چار پائی پر بیٹھ گیا.حضرت جی نے صندوق کھولا اور مصری نکال کر گلاس میں ڈالی اور پانی ڈال کر قلم سے ہلا کر آپ نے دست مبارک سے یہ شربت کا گلاس مجھے دیا اور فرمایا کہ آپ گرمی میں آئے ہیں یہ شربت پی لیں.لیکن میں حیران تھا کہ یا الہی ہم نے تو بہت پیر دیکھے ہیں.یہتو بالکل سادہ انسان ہے.کوئی
سیرت المہدی 770 حصہ سوم پیروں والا چلن نہیں.پھر حکم دیا کہ اب گرمی سخت ہے اس لئے آپ آرام کریں.حافظ صاحب نے مجھے گول کمرہ میں چارپائی بچھا دی.وہاں پر میں سویا رہا.پھر ظہر کے وقت مسجد میں حضرت جی کی اقتداء میں نماز پڑھی.اور اس وقت غالباً ہم تینوں ہی تھے ( یعنی میں.حافظ حامد علی اور حضرت جی ) میں چند یوم یہاں ٹھہرا.اور پھر حضرت جی سے براہین احمدیہ مانگی.آپ نے فرمایا کہ ختم ہو چکی ہے.مگر ایک جلد ہے جس پر میں تصحیح کرتا ہوں.اس میں بھی پہلا حصہ نہیں ہے.مگر پہلا حصہ تو فقط اشتہار ہے آپ یہی تین حصے لے جائیں.وہ کتاب لے کر میں واپس آ گیا.ان دنوں دار الامان بالکل اجاڑ تھا.پھر تھوڑی مدت کے بعد سُنا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ ینگے“ میں نے عرض کی کہ حضور وہ بادشاہ تو آئیں گے جب آئیں گے.آپ مجھ کو تو ایک کپڑا عنایت فرمائیں.حضرت صاحب نے اپنا گر نہ مرحمت فرمایا.جواب تک میرے پاس موجود ہے.ان ایام میں میں جب کبھی قادیان آتا تو دیکھتا تھا کہ حضرت صاحب مہمانوں سے مل کر کھانا کھاتے تھے اور روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں ڈالتے جاتے تھے اور اچھی چیزیں ہم لوگوں کے لئے پکوا کر لاتے اور چائے وغیرہ جو چیز پکتی ، عنایت فرماتے اور بڑی محبت اور اخلاق سے پیش آتے.جتنی دفعہ باہر تشریف لاتے.اس عاجز سے محبت سے گفتگو فرماتے اور فرماتے کہ میں نے آپ کے لئے دُعا لازم کر دی ہے.ایک دفعہ میں بمعہ اہل وعیال قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان میں رہتا تھا.قریباً بارہ بجے رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دستک دی.میں جب باہر آیا تو دیکھا کہ حضور ایک ہاتھ میں لوٹا اور گلاس اور ایک ہاتھ میں لیمپ لئے کھڑے ہیں.فرمانے لگے کہ کہیں سے دودھ آ گیا تھا.میں نے خیال کیا کہ بھائی صاحب کو بھی دے آؤں.سبحان اللہ کیا اخلاق تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ ینگے والا الہام بہت پرانا ہے مگر ممکن ہے کہ اس زمانہ میں پھر دوبارہ ہوا ہو.یا سیٹھی صاحب نے اسے اس وقت سُنا ہو.869 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ دودھ کی برف کی مشین جس میں قلفا یا صندوقچی کی برف بنائی جاتی ہے، خرید کر منگائی
سیرت المہدی 771 حصہ سوم اور اس میں گاہے بگا ہے برف بنائی جاتی تھی.ایک دن ایک برف بنانے والے کی بے احتیاطی اور زیادہ آگ دینے کی وجہ سے وہ پھٹ گئی اور تمام گھر میں ایمونیا کے بخارات ابر کی طرح پھیل گئے.اور اس کی تیزی سے لوگوں کی ناکوں اور آنکھوں سے پانی جاری ہو گیا مگر کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ پرانی طرز کی مشین تھی جسے ایک طرف پانی میں رکھتے تھے اور دوسری طرف سے آگ دیتے تھے اور تقریبا دو تین گھنٹے میں برف جم جاتی تھی.870 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے قادیان کی وہ حالت دیکھی ہے جبکہ یہاں کے عام لوگ اردو سمجھ نہیں سکتے تھے.بڑی بڑی عمر کے مردلنگوٹی باندھتے تھے اور قریب بر ہنہ رہتے تھے.رات کو عورت مرد کپڑے اتار کر سرہانے رکھ دیتے تھے اور ننگے لحاف میں گھس جاتے تھے.بچے بڑی عمر تک ننگے پھرتے تھے.سروں میں بیچ میں سے بال منڈے ہوئے ہوتے تھے.خدا رسول کا نام تک نہیں جانتے تھے.پڑھا لکھا کوئی کوئی ہوتا تھا.دال یا گڑیالسی یا آم کا اچار بس یہی نعماء تھیں.سواری کے لئے بیل گاڑی یا یکہ ہوتا تھا.بیمار ہوں تو کوئی علاج کا انتظام نہ تھا.مکانات تنگ اور کچے اور گندے تھے.یا اب حضور کی برکت سے یہاں کے ادنیٰ لوگ بھی علم والے.اچھی پوشش اور ستر دار کپڑا پہننے والے.متمول.جائز نعمتیں کھانے والے.پڑھے لکھے.دین کا علم رکھنے والے ہو گئے ہیں.قادیان میں پختہ اور عمدہ مکانات بکثرت بن گئے ، مدر سے قائم ہو گئے.کمیٹی بن گئی.ہسپتال ہو گیا.موٹر ہو گئے.طرح طرح کا تجارتی مال آ گیا.تار آ گیا اور اب تو ریل.ٹیلیفون اور بجلی بھی آگئی ہے.غرض دین کے ساتھ دنیاوی عروج بھی آگیا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں ان ترقی اور آرام کے سامانوں کو دیکھ کر کبھی کبھی خیال کرتا ہوں کہ خدا کی طرف سے قربانی کا مطالبہ بھی عجیب رنگ رکھتا ہے.کہ ایک طرف قربانی کا مطالبہ فرماتا ہے اور پھر دوسری طرف قربانی کے خفیف سے اظہار پر خود ہی سب کچھ دینا شروع کر دیتا ہے.یا شاید ہماری کمزوری کو دیکھ کر ہم سے خاص طور پر نرمی کا سلوک کیا گیا ہے.مگر میں خیال کرتا ہوں کہ ابھی بعض بڑی قربانیوں کا زمانہ آگے آنے والا ہے.واللہ اعلم
سیرت المہدی 772 حصہ سوم 871 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے دو دفعہ دیکھا کہ مہمان خانہ میں بعض لوگوں نے روزوں پر زور دیا تو ان میں جنون کے آثار پیدا ہو گئے اور بہت دودھ پلا کر اور علاج کر کے ان کی خشکی دور ہوئی.اور کئی دن میں اچھے ہوئے.یہ دونوں واقعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں.اور دونوں سرحد کی طرف کے لوگوں کے متعلق ہیں.حضور فرماتے تھے کہ جب تک خدا کی طرف سے اشارہ نہ ہو.اپنی طاقت سے زیادہ روزے رکھنے اور پھر غذا نہ کھانا آخر مصیبت لاتا ہے.اور فرماتے تھے کہ ہم نے تو ایمائے الہی سے روزوں کا مجاہدہ کیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فلسفہ کو حضرت صاحب نے کتاب البریہ میں بیان کیا ہے.872 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس سفر دہلی میں جو آپ نے اوائل دعوی میں ۱۸۹۱ء میں کیا تھا میں اور والدہ صاحبہ حضرت صاحب کے ساتھ تھے.میر صاحب یعنی والد صاحب کی تبدیلی پٹیالہ ہوئی تھی.وہ وہاں نئے کام کا چارج لینے گئے تھے.اس لئے ہم کو حضرت صاحب کے ساتھ چھوڑ گئے تھے.حضرت صاحب نواب لوہارو کی کوٹھی کے اوپر جو مکان تھا اس میں اُترے تھے.یہیں ایک طرف مردانہ اور دوسری طرف زنانہ تھا.اکثر اوقات زنانہ سیڑھی کے دروازوں کو بند رکھا جاتا تھا.کیونکہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے اوپر چڑھ آتے تھے اور نیچے ہر وقت شور و غوغا رہتا تھا اور گالیاں پڑتی رہتی تھیں.بدمعاش لوگ اینٹیں اور پتھر پھینکتے تھے.میری والدہ صاحبہ نے ایک روز مجھے سُنایا کہ جو بُڑھیا روٹی پکانے پر رکھی ہوئی تھی.وہ ایک دن کہنے لگی کہ بیوی یہاں آجکل دہلی میں کوئی آدمی پنجاب سے آیا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں حضرت عیسے ہوں اور امام مہدی ہوں.اس نے شہر میں بڑا فساد مچا رکھا ہے اور کفر کی باتیں کر رہا ہے.کل میرا بیٹا بھی چھری لیکر اس کو مارنے گیا تھا.کئی بلے کئے.مگر دروازہ اندر سے بند تھا کھل نہ سکا.مولویوں نے کہہ رکھا ہے کہ اس کو قتل کر دو.مگر میرے لڑکے کو موقعہ نہ ملا.اس بیچاری کو اتنی خبر نہ تھی کہ جن کے گھر میں بیٹھی وہ یہ باتیں کر رہی ہے یہ انہی کا ذکر ہے اور اسی گھر پر حملہ کر کے اس کا بیٹا آیا تھا.اور بیٹے صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ میری ماں اسی گھر میں کام کرتی ہے.
سیرت المہدی 773 حصہ سوم 873 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی تو ابتداء دعوے مسیحیت سے ہی بیعت میں داخل ہو گئے تھے.مگر ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب جو بڑے طنطنہ کے آدمی تھے وہ اعتقاد تو عمدہ رکھتے تھے مگر بیعت میں داخل نہیں ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بڑے تھے اور سیالکوٹ کے زمانہ کے دوست بھی تھے.میر حامد شاہ صاحب ہمیشہ ان کو بیعت کے لئے کہتے رہتے تھے مگر وہ ٹال دیتے تھے.ان کو اپنی بڑائی کا بہت خیال تھا.ایک دفعہ شاہ صاحب ان کو قادیان لے آئے اور سب دوستوں نے ان پر زور دیا کہ جب آپ سب کچھ مانتے ہیں تو پھر بیعت بھی کیجئے.خیر انہوں نے مان لیا مگر یہ کہا کہ میں اپنی وضع کا آدمی ہوں.لوگوں کے سامنے بیعت نہ کرونگا.مجھ سے خفیہ بیعت لے لیں.میر حامد شاہ صاحب نے اسے ہی غنیمت سمجھا.حضرت صاحب سے ذکر کیا تو آپ نے منظور فرمالیا اور علیحدگی میں حکیم صاحب مرحوم کی بیعت لے لی.874 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پلیگ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوا جس کا نام ” درونج عقربی“ ہے اور اس کی شکل بچھو کی طرح ہوتی ہے تاگے میں باندھکر گھر میں کئی جگہ لڑکا دی تھی.اور فرماتے تھے کہ حکماء نے اس کی بابت لکھا ہے کہ یہ ہوا کو صاف کرتی ہے.875 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نورمحمد صاحب ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ بشیر اول فوت ہو گیا اور خاکسار بطور تعزیت حضرت صاحب کے پاس گیا اور عرض کی کہ حضور مخالفین اس واقعہ پر بہت تمسخر کرتے ہیں تو آپ نے جواب میں یہ آیات پڑھکر سُنا دیں.مَانَنُسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (البقرة: ۱۰۷) اور حَتَّى إِذَا اسْتَايْنَسَ الرُّسُلُ وُظَنُّو انَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا (يوسف: ١١١) خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان آیات قرآنی کے معنے یہ ہیں کہ ہم جب کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا فراموش کر دیتے ہیں تو پھر اس سے بہتر آیت لاتے ہیں یا اسی کی مثل لے آتے ہیں اور جب خدا کے
سیرت المہدی 774 حصہ سوم رسول یہ دیکھتے ہیں کہ بظاہر مایوسی کی حالت پیدا ہوگئی ہے اور خیال کرتے ہیں کہ ہم سے جو وعدہ ہوا تھا شاید اس کے کچھ اور معنے تھے تو ایسے وقت میں ہمارے فرشتے ان کی نصرت کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور وہ بات جو بظاہر بگڑی ہوئی نظر آتی تھی پھر سنبھل جاتی ہے.876 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے دوستوں میں سے ایک شخص چراغ علی نامی تھصہ غلام نبی کے رہنے والے تھے اور وہ حافظ حامد علی صاحب کے چچا تھے ، ان کو شادی کی ضرورت تھی.ہم نے متفق ہو کر ان کی شادی موضع کھارہ میں کروادی.مگر وہ اس شادی کے چند روز بعد ہی فوت ہو گئے.ہم نے شادی کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ نہ کیا تھا.جب حضور کو معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے تو آپ نے فرمایا کہ میاں حامد علی تم نے ہم کو کیوں نہ بتایا کہ اس کی شادی کرنے لگے ہیں.اس کی شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی کیونکہ اس کو ضعف جگر کا مرض 66 تھا اور موجودہ حالت میں وہ شادی کے قابل نہیں تھا.چنانچہ وہ شادی کے چند روز بعد فوت ہو گئے.877 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے احباب کو جب خط لکھتے تو یا تو حِبّى فى الله “ یا مکر می اخویم لکھ کر مخاطب کرتے تھے.کئی دفعہ مجھے ڈاک میں ڈالنے کو لفافے دیتے تو میں پتے دیکھتا کہ کس کے نام کے خط ہیں سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور زین الدین ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی اور میاں غلام نبی صاحب سیٹھی راولپنڈی کے پتے مجھے اب تک یاد ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تینوں اصحاب اس وقت جو جنوری ۱۹۳۹ء ہے فوت ہو چکے ہیں.کُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان وَيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَام - (الرحمن: ۲۸،۲۷) 878 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواگر تیم کرناہوتا تو بسا اوقات تکیہ بالحاف پر ہی ہاتھ مار کر تیم کرلیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گردنکلتی ہے وہ تیم کی غرض سے کافی ہوتی
سیرت المہدی 775 حصہ سوم ہے.لیکن اگر کوئی تکیہ بالحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گرد نہ ہوتو پھر اس سے تیم جائز نہ ہوگا.879 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی.اس کی پیدائش انبالہ چھاؤنی کی تھی اور فوت لدھیانہ میں ہوئی.اُسے ہیضہ ہوا تھا.اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑ گئی تھی.یعنی وہ شربت کو پسند کرتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے لئے شربت کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے.رات کو وہ اٹھا کرتی تو کہتی ابا شربت پینا.آپ فوراً اٹھکر شربت بنا کر اسے پلا دیا کرتے تھے.ایک روز لدھیانہ میں اس نے اسی طرح رات کو اُٹھکر شربت ما نگا.حضرت صاحب نے اُسے شربت کی جگہ غلطی سے چنبیلی کا تیل پلا دیا.جس کی بوتل اتفاقأشربت کی بوتل کے پاس ہی پڑی تھی.لڑکی بھی وہ شربت پی کر سو رہی.صبح جب تیل کم اور گلاس چکنا دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہوگئی ہے مگر خدا کے فضل سے نقصان نہیں ہوا.نیز میر صاحب نے بیان کیا کہ لڑکی کے فوت ہونے کے بعد حضرت صاحب بمعہ ام المؤمنین وغیرھا لدھیانہ سے ایک ہفتہ کے لئے امرتسر تشریف لے گئے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت ہماری والدہ کی اولاد میں سب سے بڑی تھی اور وہ ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی تھی اور ۱۸۹۱ء میں فوت ہوئی.880 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ا یکدفعہ اس جگہ جہاں اب نواب صاحب کے شہر والے مکان کا دروازہ ہے اور فخر الدین ملتانی کی دکان ہوتی تھی.کچھ زمین خالی پڑی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں ایک کچا مکان تعمیر کرنا چاہا.جب راج مزدور لگے تو مرزا امام الدین مع اپنے رفیقوں کے آگیا اور گالی گلوچ اور فساد پر آمادہ ہو گیا.حضرت صاحب کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ تعمیر بند کردو اور فساد نہ کرو.چنانچہ وہ زمین یونہی پڑی رہی.کچھ مدت بعد جب مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین ایک مقدمہ پر بٹالہ یا گورداسپور گئے ہوئے تھے تو تمام مہمانوں ، ملازموں اور مدرسہ کے لڑکوں نے مل کر مزدوروں کی طرح سامانِ عمارت لا کر اور گارا وغیرہ تیار کر کے اس مکان کو دن بھر میں تیار کر دیا.جب عمالیق واپس آئے.تو سر پکڑ کر رہ گئے مگر پھر کیا کر سکتے تھے کیونکہ جگہ تو
سیرت المہدی 776 حصہ سوم حضرت صاحب کی ہی تھی اور وہ صرف شرارت کر رہے تھے.یہ وہ مکان تھا جس میں مولوی شیر علی صاحب سالہا سال تک رہتے رہے ہیں اور اب اس میں نواب صاحب کا مکان ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ اسی رنگ میں ایک دفعہ موجودہ مدرسہ احمدیہ کی عمارت کا ایک کمرہ بھی راتوں رات تیار ہوا تھا.دراصل مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحبان محض سینہ زوری سے حضرت صاحب کے بعض مملکات سے حضور کو محروم کرنا چاہتے تھے اور حضرت صاحب فساد سے بچتے ہوئے رُک جاتے تھے لیکن جب ان لوگوں کی قادیان سے غیر حاضری کی وجہ سے موقعہ ملتا تھا تو جلدی جلدی عمارت کھڑی کر دی جاتی تھی.881 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قادیان کے سادات میں ایک صاحب سید محمد علی شاہ صاحب تھے.وہ مقامی غیر احمد یوں میں اور حکام میں بھی کچھ اثر ورسوخ رکھتے تھے اور قادیان کے رہنے والے مسلمانوں میں معزز بھی تھے.انہوں نے کئی دفعہ بیعت کا ارادہ ظاہر کیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت نہ لی.فرمایا جب آپ نے ہمیں مان لیا اور بیعت کا ارادہ کر لیا تو آپ مرید ہی ہیں مگر بیعت ہم اس وجہ سے نہیں لیتے کہ آپ موجودہ حالات میں جماعت سے باہر رہ کر بہتر طور پر خدمت بجالا سکتے ہیں.جو جماعت کے آدمی سر انجام نہیں دے سکتے چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہوں نے بالآخر بیعت کر لی تھی اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں حضرت عباس کو بھی اسی قسم کے حالات میں کچھ عرصہ اپنے اسلام کو مخفی رکھنا پڑا تھا.یعنی وہ آپ کے منشاء کے ماتحت ظاہر طور پر ایمان لانے سے رُکے رہے تھے.882 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے گھر سے یعنی والدہ ولی اللہ شاہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی سنتے ہیں.لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں.ہم پر کچھ مرحمت ہونی چاہئے.کیونکہ ہم اسی غرض سے آئے ہیں کہ کچھ فیض حاصل کریں.حضور بہت خوش
سیرت المہدی 777 حصہ سوم ہوئے اور فرمانے لگے کہ جو بچے طلب گار ہیں ان کی خدمت کے لئے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں.ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں.اس سے پہلے حضور نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں فرمایا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کو جمع کر کے روزانہ تقریر شروع فرما دی جو بطور درس تھی.پھر چند روز بعد حکم فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب درس کے لئے بیٹھے اور سب عور تیں جمع ہوئیں.چونکہ ان کی طبیعت بڑی آزاد اور بے دھڑک تھی.تقریر کے شروع میں فرمانے لگے.کہ اے مستورات ! افسوس ہے کہ تم میں سے کوئی ایسی سعید روح والی عورت نہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تقریر یا درس کے لئے توجہ دلاتی اور تحریک کرتی.تمہیں شرم کرنی چاہئے.اب شاہ صاحب کی صالحہ بیوی ایسی آئی ہیں جس نے اس کار خیر کے لئے حضور کو توجہ دلائی اور تقریر کرنے پر آمادہ کیا.تمہیں ان کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے.نیز حضرت خلیفہ اول بھی اپنی باری سے تقریر اور درس فرمانے لگے.اس وقت سے مستورات میں مستقل طور پر تقریر اور درس کا سلسلہ جاری ہو گیا.883 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے حرم یعنی اماں جی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود آخری دفعہ لا ہور تشریف لے جانے لگے اور اسی سفر میں آپ کی وفات ہوئی تو میں دیکھتی تھی کہ آپ اس موقعہ پر قادیان سے باہر جاتے ہوئے بہت متامل تھے اور فرماتے بھی تھے کہ میرا اس سفر پر جاتے ہوئے دل رُکتا ہے.مگر چونکہ حضرت ام المومنین اور بچوں کی خواہش تھی اس لئے آپ تیار ہو گئے.پھر جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ نے اپنے کمرہ کو جو حجرہ کہلاتا تھا خود اپنے ہاتھ سے بند کیا اور جب آپ اس کے دروازہ کو قفل لگا رہے تھے.تو میں نے سنا کہ آپ بغیر کسی کو مخاطب کرنے کے یہ الفاظ فرما رہے تھے کہ اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے.جس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ اسی سفر کی حالت میں آپ کی وفات ہو جائیگی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اور بھی کئی قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب خدائی الہامات کی بنا پر یقین رکھتے تھے کہ آپ کی وفات کا وقت آپہنچا ہے.اور یہ کہ اسی سفر لاہور میں آپ کو سفر آخرت پیش
سیرت المہدی 778 حصہ سوم آجائے گا.مگر باوجود اس کے جس تسلی اور اطمینان کے ساتھ آپ نے آخر وقت تک اپنے کام کو جاری رکھا وہ آپ ہی کا حصہ ہے.اور یقیناً وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اپنے منجانب اللہ ہونے پر کامل یقین تھا اور آپ کے لئے آخرت کی زندگی ایسی ہی یقینی تھی جیسی کہ یہ زندگی ہے.ورنہ کوئی دوسرا ہوتا تو اس موقعہ پر ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہو جاتے.884 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے تین مہینے کی رخصت لے کر معہ اہل واطفال قادیان میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا.ان دنوں میں ایسا اتفاق ہوا کہ والدہ ولی اللہ شاہ کے دانت میں سخت شدت کا درد ہو گیا.جس سے اُن کو نہ رات کو نیند آتی تھی اور نہ دن کو.ڈاکٹری علاج بھی کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.حضرت خلیفہ اول نے بھی دوا کی مگر آرام نہ آیا.حضرت ام المومنین نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی بیوی کے دانت میں سخت درد ہے اور آرام نہیں آتا.حضرت نے فرمایا کہ ان کو یہاں بلائیں کہ وہ مجھے آکر بتائیں کہ انہیں کہاں تکلیف ہے.چنانچہ انہوں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ مجھے اس دانت میں سخت تکلیف ہے.ڈاکٹری اور مولوی صاحب کی بہت دوائیں استعمال کی ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا.آپ نے فرمایا کہ آپ ذرا ٹھہریں.چنانچہ حضور نے وضو کیا اور فرمانے لگے کہ میں آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں.آپ کو اللہ تعالی آرام دے گا.گھبرائیں نہیں.حضور نے دو نفل پڑھے اور وہ خاموش بیٹھی رہیں.اتنے میں انہیں محسوس ہوا کہ جس دانت میں درد ہے اس دانت کے نیچے سے ایک شعلہ قدرے دھوئیں والا دانت کی جڑھ سے نکل کر آسمان کی طرف جا رہا ہے اور ساتھ ہی درد کم ہوتا جاتا ہے.چنانچہ جب وہ شعلہ آسمان تک جا کر نظر سے غائب ہو گیا تو تھوڑی دیر بعد حضور نے سلام پھیرا اور وہ درد فوراً رفع ہو گیا.حضور نے فرمایا.کیوں جی! اب آپ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے عرض کی حضور کی دُعا سے آرام ہو گیا ہے.اور ان کو بڑی خوشی ہوئی کہ خُدا نے ان کو اس عذاب سے بچالیا.885 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ
سیرت المہدی 779 حصہ سوم ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کبھی حضور نے فرشتے بھی دیکھتے ہیں؟ اس وقت حضور بعد نماز مغرب مسجد مبارک کی چھت پر شہ نشین کی بائیں طرف کے مینار کے قریب بیٹھے تھے.فرمایا کہ اس مینار کے سامنے دو فرشتے میرے سامنے آئے.جن کے پاس دو شیریں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیاں انہوں نے مجھے دیں اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کے لئے ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ رویا چھپ چکا ہے.مگر الفاظ میں کچھ اختلاف ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب اس وقت جو جنوری ۱۹۳۹ء ہے وفات پاچکے ہیں اور جن ڈاکٹر عبداللہ صاحب کا اس روایت میں ذکر ہے اس سے شیخ محمد عبداللہ نومسلم مراد ہیں.جو افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے بیعت خلافت سے منحرف ہیں.886 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں اور لڑکیوں کے لئے کسی قدر زیور اور رنگین کپڑے اور ہاتھوں میں مہندی پسند فرماتے تھے اور آجکل جو عورتوں کا مردانہ فیشن دنیا میں مروج ہوتا جارہا ہے وہ ان دنوں میں بہت کم تھا.اور حضور کو پسند نہ تھا.887 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی نے ایک پارسل نمک لگی ہوئی یعنی محفوظ کی ہوئی مچھلی کا بھیجا.وہ مچھلی اس علاقہ میں نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی تھی.حضرت صاحب نے بہت شوق سے وہ پارسل کھلوایا.مچھلی کا کھلنا تھا کہ تمام مکان بدبو سے بھر گیا.(دراصل مچھلی سڑی ہوئی نہ تھی.بلکہ اس میں ایسی ہی بساندھ ہوتی ہے.وہاں کے لوگ اُسے بھون کر کھاتے ہیں اور واقعی نہایت لذیذ ہوتی ہے.مگر بساندھ اور بد بو برابر رہتی ہے.) حضرت صاحب نے فرمایا.کہ اسے لے جاؤ اور گاؤں سے دور لے جا کر ڈھاب کے کنارے دفن کر دو.اس میں سخت بد بو ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو بد بو سے بہت نفرت تھی.888 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود
سیرت المہدی 780 حصہ سوم علیہ السلام کے زمانہ میں جب لوگ حضور سے ملنے قادیان آتے یا جلسہ اور عیدین وغیرہ کے موقعوں پر آتے تو بہت دیر تک ٹھہرا کرتے تھے.آج کل لوگ ان موقعوں پر بہت کم آتے ہیں اور آتے ہیں تو بہت کم ٹھہرتے ہیں.ان ایام میں بعض لوگ پیدل بھی اپنے وطن سے آتے تھے.ایک شخص وریام نامی تھا جو جہلم سے پیدل آتا تھا.اور ایک مولوی جمال الدین صاحب سید والہ ضلع شیخو پورہ کے تھے جو بمعہ ایک قافلہ کے پیدل کوچ کرتے ہوئے قادیان آیا کرتے تھے.حضور علیہ السلام کا بھی قاعدہ تھا کہ کثرت سے ملتے رہتے اور قادیان میں بار بار آنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے.889 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں الہ دین فلاسفر اور پھر اس کے بعد مولوی یار محمد صاحب کو ایک زمانہ میں قبروں کے کپڑے اتار لینے کی دھت ہوگئی تھی.یہاں تک کہ فلاسفر نے ان کو بیچ کر کچھ روپیہ بھی جمع کر لیا.ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس طرح ہم بدعت اور شرک کو مٹاتے ہیں.حضرت صاحب نے جب سنا تو اس کام کو ناجائز فرمایا.تب یہ لوگ باز آئے اور وہ روپیہ اشاعت اسلام میں دے دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف ناجائز کاموں سے روکا ہے بلکہ جائز کاموں کے لئے ناجائز وسائل کے اختیار کرنے سے بھی روکا ہے.890 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں اله دین عرف فلاسفر کو بعض لوگوں نے کسی بات پر مارا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علم ہوا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ عدالت میں جائے اور تم وہاں اپنے قصور کا اقرار کر لو تو عدالت تم کو سزاد یگی اور اگر جھوٹ بولو اور انکار کردو.تو پھر تمہارا میرے پاس ٹھکانا نہیں.غرض آپ کی ناراضگی سے ڈر کر اُن لوگوں نے اسی وقت فلاسفر سے معافی مانگی اور اس کو دودھ پلایا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر ۴۳۴ میں بھی ہو چکا ہے اور مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فلاسفر صاحب منہ پھٹ تھے.اور جو دل میں آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے اور مذہبی بزرگوں کے احترام کا خیال نہیں رکھتے تھے.چنانچہ کسی ایسی ہی حرکت پر بعض لوگ انہیں مار بیٹھے تھے مگر حضرت مسیح موعود نے اسے
سیرت المہدی 781 حصہ سوم پسند نہیں فرمایا.آجکل فلاسفر صاحب اسی قسم کی حرکات کی وجہ سے جماعت سے خارج ہو چکے ہیں.891 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے پہلی مرتبہ دسمبر ۱۹۰۲ء میں بموقعہ جلسہ سالانہ حضرت احمد علیہ السلام کو دیکھا.حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کا بل بھی ان ایام میں قادیان میں مقیم تھے.حضرت اقدس ان سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے.892 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی مرتبہ قادیان آیا تو حضرت اقدس ان ایام میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھا کرتے تھے اور مسجد مبارک میں جو گھر کی طرف کو ایک کھڑکی کی طرز کا دروازہ ہے اس کے قریب دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے.بحالت نماز ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے اور اکثر اوقات نماز مغرب سے عشاء تک مسجد کے اندر احباب میں جلوہ افروز ہو کر مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے تھے.893 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت اقدس حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ساتھ اس کوٹھڑی میں نماز کے لئے کھڑے ہوا کرتے تھے جو مسجد مبارک میں بجانب مغرب تھی.مگر ۱۹۰۷ء میں جب مسجد مبارک وسیع کی گئی.تو وہ کوٹھڑی منہدم کر دی گئی.اس کو ٹھری کے اندر حضرت صاحب کے کھڑے ہونے کی وجہ اغلبا یہ تھی کہ قاضی یار محمد صاحب حضرت اقدس کو نماز میں تکلیف دیتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی یار محمد صاحب بہت مخلص آدمی تھے.مگر ان کے دماغ میں کچھ خلل تھا.جس کی وجہ سے ایک زمانہ میں ان کا یہ طریق ہو گیا تھا کہ حضرت صاحب کے جسم کو ٹولنے لگ جاتے تھے اور تکلیف اور پریشانی کا باعث ہوتے تھے.894 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام نکاح کے معاملہ میں قوم اور کفو کو تر جیح دیتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ لوگوں نے بات کو بڑھالیا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ عام حالات میں اپنی قوم کے اندر اپنے کفو میں شادی کرنا کئی لحاظ سے اچھا ہوتا ہے.مگر یہ خیال کرنا کہ کسی حالت میں بھی
سیرت المہدی 782 حصہ سوم قوم سے باہر رشتہ نہیں ہونا چاہئے غلطی ہے.اور کفو سے مراد اپنے تمدن اور حیثیت کے مناسب حال لوگ ہیں.خواہ وہ اپنی قوم میں سے ہوں یا غیر قوم سے.895 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اول اول جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو ہمارے پاس بار بار آنا چاہئے تا کہ ہمارا فیضان قلبی اور صحبت کے اثر کا پر تو آپ پر پڑ کر آپ کی روحانی ترقیات ہوں.میں نے عرض کی کہ حضور ملازمت میں رخصت بار بار نہیں ملتی.فرمایا.ایسے حالات میں آپ بذریعہ خطوط بار بار یاد دہانی کراتے رہا کریں.تاکہ دُعاؤں کے ذریعہ توجہ جاری رہے.کیونکہ فیضانِ الہی کا اجرا قلب پر صحبت صالحین کے تکرار یا بذریعہ خطوط دُعا کی یاددہانی پر منحصر ہے.896 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قہوہ پی رہے تھے کہ حضور نے مجھ کو اپنا بچا ہوا قہوہ دیا.اور فرمایا.زینب یہ پی لو.میں نے عرض کی.حضور یہ گرم ہے باور مجھ کو ہمیشہ اس سے تکلیف ہو جاتی ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا بچا ہوا قہوہ ہے ہم پی لو.کچھ نقصان نہیں ہو گا.میں نے پی لیا.اور اس کے بعد پھر بھی مجھے قہوہ سے تکلیف نہیں ہوئی.897 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عربی کی دولغت کی کتابیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش نظر سب سے زیادہ رہتی تھیں.چھوٹی لغتوں میں سے صراح تھی اور بڑی لغات میں سے لسان العرب.آپ یہی دولختیں زیادہ دیکھتے تھے.گو کبھی کبھی قاموس بھی دیکھ لیا کرتے تھے.اور آپ لسان العرب کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے.898 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دن حضرت مسیح موعود کے مکان کی مہترانی ایک حصہ مکان میں صفائی کر کے آئی.حضرت صاحب اس وقت دوسرے حصہ میں تھے.آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے صفائی تو کی مگر اس صحن میں جو نجاست پڑی تھی وہ نہیں اٹھائی.اس مہترانی نے کہا کہ جی میں تو سب کچھ
سیرت المہدی 783 حصہ سوم صاف کر آئی ہوں.وہاں کوئی نجاست نہیں ہے.آپ اُٹھکر اس کے ساتھ اس حصہ مکان میں آئے.اور دکھا کر کہا کہ یہ کیا پڑا ہے؟ اور حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا تھا کہ اس عورت نے اس مکان میں جھاڑو تو دیا مگر نجاست نہیں اُٹھائی اور یونہی چلی آئی ہے.ورنہ مجھے بھی خبر بی تھی کہ وہاں نجاست پڑی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں ظاہر فرما دیتا ہے.جس سے تعلقات کی بے تکلفی اور اپنا ہٹ کا اظہار مقصود ہوتا ہے.899 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نمار ظہر یا عصر شروع ہو چکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نماز تو ڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کر کے نماز میں آملے.اور جو حصہ نماز کا رہ گیا تھا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا.یہ معلوم نہیں.کہ حضور بھول کر بے وضو آ گئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے.900 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی تدریجی رنگ میں آہستہ آہستہ مقدر ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آتا ہے کہ گزَرُعٍ اَخْرَجَ شَطْأَهُ (الفتح :۳۰) مگر فرماتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی دائمی ہوگی.اور اس کے بعد قیامت سے قبل والے فساد کے سوا کوئی عالمگیر فساد نہیں ہوگا.یہ بھی فرماتے تھے کہ خدا ہماری جماعت کو اتنی ترقی دے گا کہ دوسرے لوگ ذلیل اچھوت لوگوں کی طرح رہ جائینگے.201 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ایک یکہ میں بٹالہ سے دارالامان آئے.راستہ میں میں نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب! عام طور پر مشہور ہے کہ جس کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی رویت نصیب ہو جاوے.اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے.میں نہیں جانتا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے.لیکن ہم لوگ جو خدا کے رسول کو ہاتھ لگاتے اور بوسہ دیتے اور مٹھیاں بھرتے ہیں حتی کہ میں تو اس قدر بے ادب ہوں کہ جب نماز میں حضرت صاحب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں تو اس کی پروا نہیں کرتا کہ نماز ٹوٹتی ہے یا
سیرت المہدی 784 حصہ سوم نہیں.مونڈھا گہنی جو بھی آپ کے ساتھ لگ سکے لگاتا ہوں.کیا دوزخ کی آگ ہم کو بھی چھوئے گی.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ بھائی صاحب بات تو ٹھیک ہے لیکن تابعداری شرط ہے.اللہ ! اللہ.یہ اس وقت کی حالت ہے.اور اب ڈاکٹر صاحب کی یہ حالت ہے کہ حضرت صاحب کے جگر گوشہ اور خلیفہ وقت سے منحرف ہور ہے ہیں.902 بسم اللہ الرحمن الرحیم.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جولائی ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور کی کچہری سے باہر تشریف لائے اور خاکسار سے کہا کہ انتظام کرو کہ نماز پڑھ لیں.خاکسار نے ایک دری نہایت شوق سے اپنی چادر پر بغرض جانماز ڈال دی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ظہر وعصر ادا کی.اس وقت غالباً ہم ہیں احمدی مقتدی تھے.نماز سے فارغ ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ دری حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تھی.اور انہوں نے وہ لے لی.903 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام نماز جماعت میں ہمیشہ پہلی صف کے دائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے.یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آجکل موجودہ مسجد مبارک کی دوسری صف شروع ہوتی ہے.یعنی بیت الفکر کی کو ٹھری کے ساتھ ہی مغربی طرف.امام اگلے حجرہ میں کھڑا ہوتا تھا.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص پر جنون کا غلبہ ہوا.اور وہ حضرت صاحب کے پاس کھڑا ہونے لگا اور نماز میں آپ کو تکلیف دینے لگا.اور اگر کبھی اس کو پچھلی صف میں جگہ ملتی تو ہر سجدہ میں وہ صفیں پھلانگ کر حضور کے پاس آتا اور تکلیف دیتا اور قبل اس کے کہ امام سجدہ سے سراٹھائے وہ اپنی جگہ پر واپس چلا جاتا.اس تکلیف سے تنگ آکر حضور نے امام کے پاس حجرہ میں کھڑا ہونا شروع کر دیا مگر وہ بھلا مانس حتی المقدور وہاں بھی پہنچ جایا کرتا اور تایا کرتا تھا.مگر پھر بھی وہاں نسبتاً امن تھا.اس کے بعد آپ وہیں نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ مسجد کی توسیع ہوگئی.یہاں بھی آپ دوسرے مقتدیوں سے آگے امام کے پاس ہی کھڑے ہوتے رہے.مسجد اقصے میں جمعہ اور عیدین کے موقعہ پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے.وہ معذور شخص جو ویسے مخلص تھا، اپنے خیال
سیرت المہدی 785 حصہ سوم میں اظہار محبت کرتا اور جسم پر نا مناسب طور پر ہاتھ پھیر کر تبرک حاصل کرتا تھا.خاکسارعرض کرتا ہے کہ اس کا ذکر روایت ۸۹۳ میں بھی ہو چکا ہے.904 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک کا امام کا حجرہ بیت الفکر حصہ مکان حضرت صاحب نیا اضافه مسجد گھر کا دروازہ سیٹرھیاں غسلخانه اس کے تین حصے تھے.ایک چھوٹا مغربی حجرہ امام کے لئے تھا.جس میں دوکھڑ کیاں تھیں.درمیانی حصہ جس میں دو صفیں اور فی صف چھ آدمی ہوتے تھے.اسی میں بیت الفکر کی کھڑکیاں کھلتی تھی اور اس کے مقابل پر جنوبی دیوار میں ایک کھڑکی روشنی کے لئے کھلتی تھی.تیسرا باہر کا مشرقی حصہ اس میں عموماً دو اور بعض اوقا ت تین صفیں اور فی صف پانچ آدمی ہوا کرتے تھے.اسی میں نیچے سیٹرھیاں آتی ہیں.اور ایک دروازہ اس کا غسلخانہ میں تھا.جواب چھوٹے کمرہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے.اسی تیسرے حصہ میں ایک دروازہ شمالی دیوار میں حضرت صاحب کے گھر میں گھلتا تھا.غرضیکہ اس زمانہ میں مسجد مبارک میں امام سمیت تئیس آدمیوں کی بافراغت گنجائش تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو کمرہ بطور غساخانہ دکھایا گیا ہے اس میں حضرت صاحب کے گرتہ پر سُرخی کے چھینٹے پڑنے کا نشان ظاہر ہوا تھا.
سیرت المہدی 786 حصہ سوم 905 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر حمد المعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ قلمی تحریر دیکھی ہے.جس میں حضور نے اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ کی بابت لکھا تھا کہ وہ انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے.اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ میں منشی محمد خاں صاحب مرحوم منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب نمایاں خصوصیت رکھتے تھے.باقیوں کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے.906 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھے.بلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا بھی دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے.پھر جو کوئی شخص مفید بات کہدے اس پر بھی عمل کرتے تھے.اور اگر کسی کو خواب میں کچھ معلوم ہوا تو اس پر بھی عمل فرماتے تھے.پھر ساتھ ساتھ دُعا بھی کرتے تھے.اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں سے مشورہ بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میں مدد لیتے تھے.غرض علاج کو ایک عجیب رنگ کا مرکب بنا دیتے تھے اور اصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا.907 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ موسم گرما میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کے بالائی حصہ میں بعد نماز مغرب تشریف رکھتے تو عموماً مغربی (0) کی بالائی چھت پرانی مسجد مبارک مشرق
سیرت المہدی 787 حصہ سوم شاہ نشین کے نشان (X) پر بیٹھا کرتے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب عام طور پر نشان (۱) پر اور مولوی نورالدین صاحب نشان (ب) کی جگہ پر ہوتے تھے.اور حضرت مسیح موعود کی بائیں طرف دوسرے خاص احباب بیٹھتے تھے.باقی سب نیچے یا جنوبی شہ نشین پر بیٹھتے تھے.اس نقشہ کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے مناروں کے نشان ہیں جن میں ایک تو توسیع کے وقت اُڑ گیا تھا اور دوساتھ کی دیوار میں جذب ہو گئے ہیں اور ایک جو جنوب مشرقی کونے میں ہے ابھی تک اسی طرح قائم ہے.908 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حاجی محمد اسمعیل صاحب ریٹائر ڈاسٹیشن ماسٹر حال محلہ دارالبرکات قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۸ء کو شام کے وقت میں حضرت میاں محمد یوسف صاحب مردان کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا.چونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں.میں نے دریافت کیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ کھانا کھانے کا کتنی دفعہ شرف حاصل ہوا.فرمایا.دو دفعہ مختلف موقعوں پر موقعہ ملا.پہلی دفعہ تو گول کمرہ میں اور دوسری بار بٹالہ کے باغ میں جو کچہریوں کے متصل ہے.جہاں حضرت صاحب کسی گواہی کے لئے تشریف لے گئے تھے.اس موقعہ پر چالیس پچاس دوست حضور کے ہمرکاب تھے.کھانا دارالامان سے پک کر آ گیا تھا.فرش بچھا کر دو قطاروں میں دوست بیٹھ گئے.میں دوسری قطار میں بالکل حضرت صاحب کے سامنے بیٹھا تھا.اتنے میں ایک ہندو وکیل صاحب آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کے الہامات میں جو دافع البلاء میں شائع ہوئے ہیں ایک الہام میں شرک کا رنگ ہے اور وہ الہام أَنْتَ مِنِّى بِمَنزِلَةِ ولدى“ ہے.حضرت صاحب نے اس کے جواب میں ابھی کوئی کلمہ اپنی زبان مبارک سے نہ فرمایا تھا کہ میں نے فوراً کہا کہ وہاں ایک تشریحی نوٹ بھی تو ہے.وکیل نے انکار کیا کہ وہاں کوئی نوٹ نہیں.میں نے کہا کہ کتاب لاؤ میں دکھا دیتا ہوں.اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب کہاں ہے.حسنِ اتفاق سے اس وقت میرے پاس حضرت صاحب کی سب کتب موجود تھیں.جن کی میں نے خوبصورت جلدیں بندھوائی ہوئی تھیں اور وہ کتب میں مشہور مباحثہ مد کے سلسلہ میں اپنے ہمراہ لے گیا تھا.کیونکہ مباحثہ ہماری تحریک پر ہی ہوا تھا.میں نے فورا ہاتھ صاف کرتے ہوئے کتاب دافع البلاء کی جلد نکالی.قدرت خداوندی
سیرت المہدی 788 حصہ سوم تھی کہ جو نہی میں نے کتاب کھولی تو پہلے وہی صفحہ نکلا جس میں یہ الہام اور تشریحی نوٹ درج تھا.میں نے وہ کتاب وکیل صاحب کو پڑھنے کے لئے دی.یہ نوٹ پڑھکر وکیل صاحب کو تو بہت ندامت ہوئی.لیکن مجھے اب تک اپنی اس جسارت پر تعجب آتا ہے کہ میں حضور کی موجودگی میں اس طرح بول پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سارے عرصہ میں خاموش رہے.یہ واقعہ کھانے کے درمیان میں ہوا تھا.اس وقت حضرت صاحب کے چہرہ پر خوشی نمایاں تھی.حضور نے اپنے سامنے والی قیمہ کی رکابی مجھے عنایت کر کے فرمایا کہ آپ اس کو کھالیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام میں ” بمنزلة ولد “ کہا گیا ہے نہ کہ ولد جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اسی طرح محبت کرتا ہے اور اسی طرح آپ کی حفاظت فرماتا ہے جس طرح ایک باپ اپنے بچے کےساتھ کرتا ہے.909 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسارلدھیانہ محلہ اقبال گنج میں حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس بیٹھ کر اپنے محلہ صوفیاں میں واپس گھر آیا.اور پھر کسی کام کے لئے جو بازار گیا تو حضور علیہ السلام چوڑا بازار میں صرف اکیلے ہی بڑی سادگی سے پھر رہے تھے.اور اس وقت صرف واسکٹ پہنی ہوئی تھی.کوٹ نہ تھا.واللہ اعلم کس خیال میں پھر رہے تھے.ورنہ حضور کو اکیلے پھرتے لدھیانہ میں نہ دیکھا تھا.اور خاکسار بھی اسی خیال سے سامنے نہ ہوا کہ شاید کوئی بھید ہو گا.پھر اسی لدھیانہ میں خاکسار نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام دہلی سے واپس لدھیانہ تشریف لائے تو حضور کی زیارت کے لئے اس قد راسٹیشن پر ہجوم ہو گیا تھا کہ بڑے بڑے معزز لوگ آدمیوں کی کثرت اور دھکا پیل سے زمین پر گر گئے تھے اور پولیس والے بھی عاجز آگئے تھے.گردوغبار آسمان کو جارہا تھا اور حضور اقدس علیہ السلام نے بھی بڑی محبت سے لوگوں کو فرمایا:.کہ ہم تو یہاں چوبیس گھنٹے ٹھہریں گے، ملنے والے وہاں قیامگاہ پر آجائیں.ایک وقت اکیلے یہاں پھرتے دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ اس قدر ہجوم آپ کی زیارت کے لئے جمع ہو گیا تھا.اس مؤخر الذکر سفر میں حضور علیہ السلام نے لدھیانہ میں ایک لیکچر دیا.جس میں ہندو، عیسائی،
سیرت المہدی 789 حصہ سوم مسلمان اور بڑے بڑے معزز لوگ موجود تھے.تین گھنٹے حضور اقدس نے تقریر فرمائی.حالانکہ بوجہ سفر دہلی کچھ طبیعت بھی درست نہ تھی.رمضان کا مہینہ تھا.اس لئے حضور اقدس نے بوجہ سفر روزہ نہ رکھا تھا.اب حضور اقدس نے تین گھنٹہ تقریر جو فرمائی تو طبیعت پر ضعف سا طاری ہوا.مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا.جس پر نا واقف مسلمانوں نے اعتراضاً کہا کہ مرزا رمضان میں دودھ پیتا ہے اور شور کرنا چاہا.لیکن چونکہ پولیس کا انتظام اچھا تھا.فوراً یہ شور کرنے والے مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے.اس موقعہ پر یہاں پر تین تقاریر ہوئیں.اول مولوی سید محمد احسن صاحب کی.دوسرے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی.تیسرے حضور اقدس علیہ السلام کی.پھر یہاں سے حضور امرتسر تشریف لے گئے.وہاں سُنا ہے کہ مخالفوں کی طرف سے سنگباری بھی ہوئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بازار میں اکیلے پھرنے کی بات تو خیر ہوئی مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ حضور بازار کے اندر صرف صدری میں پھر رہے تھے.اور جسم پر کوٹ نہیں تھا کیونکہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ گھر سے باہر ہمیشہ کوٹ پہن کر نکلتے تھے.پس اگر میر صاحب کو کوئی غلطی نہیں لگی تو اس وقت کوئی خاص بات ہوگی یا جلدی میں کسی کام کی وجہ سے نکل آئے ہوں گے یا کوٹ کا خیال نہیں آیا ہوگا.910 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے سے میری لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا.کہ میں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہی ہوں.گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی.بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گذر جاتی تھی.مجھ کو اس اثنا میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی.بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا.دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا.پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند ، نہ غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوئی بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا.اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کے لئے بھی اسی طرح کئی راتیں گزارنی پڑیں.تو حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ
سیرت المہدی 790 حصہ سوم ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے.اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے.911 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اول کے درس میں جب آیت وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِى إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي وود غَفُورٌ رَّحِيمٌ (يوسف: (۵۴) آیا کرتی تو آپ کہا کرتے تھے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب کے سامنے بھی یہ بات کسی دوست نے پیش کر دی.کہ مولوی صاحب اسے اِمْرَأَةُ الْعَزِیز کا قول کہتے ہیں.حضرت صاحب فرمانے لگے.کیا کسی کا فریا بد کا عورت کے منہ سے بھی ایسی معرفت کی بات نکل سکتی ہے.اس فقرہ کا تو لفظ لفظ کمال معرفت پر دلالت کرتا ہے.یہ تو سوائے نبی کے کسی کا کلام نہیں ہوسکتا.یہ بجز اور اعتراف کمزوری کا اور اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس کی صفات کا ذکر یہ انبیاء ہی کی شان ہے.آیت کا مضمون ہی بتا رہا ہے.کہ یوسف کے سوا اور کوئی اسے نہیں کہہ سکتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر ۲۰۴ میں بھی آچکا ہے.912 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ کسی تکلیف کے علاج کے لئے اس عاجز کو یہ حکم دیا.کہ ڈاکٹرمحمد حسین صاحب لا ہوری ساکن بھائی دروازہ سے (جو مدت ہوئے فوت ہو چکے ہیں ) نسخہ لکھوا کر لاؤ.اور اپنا حال بھی لکھدیا.اور بتا بھی دیا.چنانچہ میں ڈاکٹر صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا.اور ان سے نسخہ لا کر حضرت صاحب کو دیا.ڈاکٹر صاحب سے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ان سے پہلے بھی علاج کرایا کرتے تھے اور مشورہ بھی لیا کرتے تھے.913 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب پنجاب میں طاعون کا دور دورہ ہوا اور معلوم ہوا کہ چوہوں سے یہ بیماری انسانوں میں پہنچتی ہے.تو حضرت صاحب نے بلیوں کا خیال رکھنا شروع کر دیا بلکہ بعض اوقات اپنے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ بلیوں کے سامنے رکھدیا کرتے تھے.تا کہ وہ گھر میں ہل جائیں.چنانچہ اس زمانہ سے اب تک دار مسیح موعود میں بہت سی بلیاں رہتی ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک زمانہ میں تو ہمارے گھر میں بلیوں کی اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ وہ
سیرت المہدی 791 حصہ سوم تکلیف کا باعث ہونے لگی تھیں.جس پر بعض بلوں کو پنجروں میں بند کروا کے دوسری جگہ بھجوانا پڑا تھا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ باوجود خدائی وعدہ کے کہ آپ کی چار دیواری میں کوئی شخص طاعون سے نہیں مرے گا.آپ کو خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کا کتنا خیال رہتا تھا.914 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ حضور سے عرض کیا کہ مجھے کھانا کھاتے ہی بیت الخلاء جانے کی حاجت ہونے لگتی ہے.حضور فرمانے لگے.ایسے معدہ کو حکیموں نے بخیل معدہ کہا ہے.یعنی جب تک اس کے اندر کچھ نہ پڑے تب تک وہ پہلی غذا نکالنے کو تیار نہیں ہوتا.915 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایک اہم امر کے لئے دیوان حافظ سے بھی فال لی تھی.لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ کس امر کے لئے فال لی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فال بھی ایک قسم کی قرعہ اندازی ہے اور اگر اس کے ساتھ دعا شامل ہوتو وہ ایک رنگ کا استخارہ بھی ہو جاتی ہے.مگر میں نے سُنا ہے کہ حضرت صاحب قرآن شریف سے فال لینے کو نا پسند فرماتے تھے.916 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے.اور دوسری دو چار پائیوں پر مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے.اور ایک بوری نیچے پڑی ہوئی تھی.اس پر میں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا.میرے پاس مولوی عبدالستار خان صاحب بزرگ بھی تھے.حضرت صاحب کھڑے تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا.کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چار پائی پر آکر بیٹھ جائیں.مجھے شرم محسوس ہوئی.کہ میں حضور کے ساتھ برابر ہو کر بیٹھوں.حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چار پائی پر آجائیں.میں نے عرض کی
سیرت المہدی 792 حصہ سوم کہ حضور میں یہیں اچھا ہوں.تیسری بار حضور نے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چار پارٹی پر آکر بیٹھ جائیں.کیونکہ آپ سید ہیں.اور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے.حضور کے اس ارشاد سے مجھے بہت فرحت ہوئی.اور میں اپنے سید ہونے کے متعلق حق الیقین تک پہنچنے کے لئے جو آسمانی شہادت چاہتا تھا وہ مجھے مل خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو تو اپنے سٹیڈ ہونے کا ثبوت ملنے پر فرحت ہوئی اور مجھے اس بات سے فرحت ہوئی ہے کہ چودہ سو سال گذر جانے پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت کی اولاد کا کس قدر پاس تھا.اور یہ پاس عام تو ہمانہ رنگ میں نہیں تھا.بلکہ بصیرت اور محبت پر مبنی تھا.917 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے تو میں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی.ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا.میں شرم کے مارے آپ سے عرض نہ کر سکتی تھی.مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میری بیماری سے کسی طرح حضور کو علم ہو جائے تا کہ میرے لئے حضور دعا فرمائیں.میں حضور کی خدمت کر رہی تھی.کہ حضور نے اپنے انکشاف اور صفائی قلب سے خود معلوم کر کے فرمایا.زینب تم کو مراق کی بیماری ہے.ہم دُعا کرینگے.تم کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو.مگر میں ایک قدم بھی پیدل نہ چل سکتی تھی.اگر دو چار قدم چلتی بھی تو دوره مراق و خفقان بہت تیز ہو جا تا تھا.میں نے اپنے مکان پر جانے کے لئے جو حضور کے مکان سے قریباً ایک میل دور تھا.ٹانگے کی تلاش کی مگر نہ ملا.اس لئے مجبور امجھ کو پیدل جانا پڑا.مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی مگر خدا کی قدرت ، جوں جوں میں پیدل چلتی تھی آرام معلوم ہوتا تھا.حتی کہ دوسرے روز پھر میں پیدل حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق جاتا رہا اور بالکل آرام آگیا.918 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ عرصہ کی بات ہے کہ میں لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں صبح کے وقت بیٹھا قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ایک چارپائی پر فخر الدین ملتانی بھی بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا.اتنے میں مجھے فخر الدین
سیرت المہدی 793 حصہ سوم ملتانی نے کہا کہ دیکھو میر صاحب! مولوی محمد حسین بٹالوی جا رہا ہے.میں نے پوچھا کہاں؟ تب اس نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو.میں ننگے پاؤں اور ننگے سر جس طرح بیٹھا ہوا تھا اسی طرح اُن کے پیچھے بھاگا.دیکھا تو ایک وزنی بیگ اُٹھائے مولوی صاحب اسٹیشن کی طرف جارہے ہیں.میں نے جا کر السلام علیکم کہا اور ان کا بیگ لے لیا.کہ میں آپ کے ساتھ لئے چلتا ہوں.پہلے انہوں نے انکار کیا مگر میرے اس اصرار پر مجھے دیدیا کہ آپ ضعیف ہیں اور اتنا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے.اس پر انہوں نے جزاک اللہ کہا اور میں ساتھ ہولیا.راستہ میں کہا کہ میں نے ٹمٹم کا انتظار کیا مگر نہ ملی.اگر ٹمٹم کا انتظار کرتا تو شاید گاڑی نکل جاتی.مجھے ضروری مقدمے میں جانا ہے.آپ نے بڑی تکلیف کی.میں نے کہا کہ نہیں مجھے بڑی راحت ہے کہ آپ ایک معمولی سے معمولی آدمی کی طرح اتنا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیں اور انى مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهانتک کی ایک نئے رنگ میں تصدیق کر رہے ہیں.یہ فقرہ سُن کر مولوی صاحب بہت ناراض ہوئے اور مردود میرزائی کہہ کر وہ بیگ مجھ سے چھین لیا اور پھر چل پڑے مگر میں کچھ دُور اُن کے ساتھ گیا اور منت خوشامد سے بیگ پھر اٹھا لیا.اس پر کہنے لگے کہ مرزا نے تم لوگوں پر جادو کر دیا ہے.تم تو دیوانہ ہو گئے ہو.اس میں کیا دھرا ہوا ہے.ہم تو انہیں بچپن سے جانتے ہیں.ان کے کچے چٹھے ہمیں معلوم ہیں.میں نے کہا آج تک تو کسی نے ان کا کچا چٹھا شائع نہیں کیا.کہنے لگے کوئی سنتا بھی ہو.بُری بات لوگ فوراً قبول کر لیتے ہیں اور نیک بات کی طرف کان بھی نہیں دھرتے.میں نے کہا آپ سچ فرما رہے ہیں.ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے ایسا ہی برتاؤ کیا.کیونکہ بوجھ بہت تھا اس لئے مولوی صاحب نے میرے لئے بھی پلیٹ فارم کا ٹکٹ خرید لیا اور چونکہ ریل بالکل تیار تھی.سوار ہو کر چلے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع میں حضرت صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سخت مخالفت کی اور کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اسے اٹھایا تھا اور میں ہی اسے گراؤنگا.اس وقت مولوی صاحب کی ملک میں بہت عزت تھی.اور وہ بازار میں سے گزرتے تھے تو لوگ دور سے دیکھ کر ادب کے طور پر کھڑے ہو جاتے تھے.اور اہل حدیث فرقہ کے تو وہ گویا امام تھے.اس وقت حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب کے متعلق الہا بتایا کہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ
سیرت المہدی 794 حصہ سوم اهانتگ.یعنی جو شخص مجھے گرانے اور ذلیل کرنے کے درپے ہے.ہم خودا سے ذلیل ورسوا کر دینگے.چنانچہ اس کے بعد آہستہ آہستہ مولوی محمد حسین صاحب پر وہ وقت آیا جس کا نقشہ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں تھا.اور بازاروں میں اپنا سامان اٹھائے پھرتے تھے اور اپنے ہم خیال لوگوں کی نظر سے بھی بالکل گر گئے تھے.919 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر یر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرز تحریر میں ایک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ حضور جب کسی لفظ یا سطر کو کاٹتے تو اس طرح کاٹتے تھے کہ پھر کوئی اسے پڑھ نہ سکے.یہ نہیں کہ صرف ایک لکیر پھیر دی.بلکہ اس قد ر ہر دار اور پاس پاس کر کے قلم سے لکیریں پھیر تے کہ کٹے ہوئے ایک حرف کا پڑھنا بھی ممکن نہ ہوتا تھا.920 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں بہت چھوٹا تھا یعنی چار پانچ سال کا ہونگا.تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبالہ چھاؤنی میں مجھے انگریزی مٹھائی کی گولیاں دیا کرتے تھے اور میں ان کو چڑیا کے انڈے کہا کرتا تھا.یہ حضرت صاحب کی بڑی لڑکی عصمت کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی تھی.اور خود میر صاحب کی پیدائش غالبا ۱۸۸۱ء کی ہے.921 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرمالیتے تھے اور کھاتے بھی تھے.اسی طرح بازار سے ہند و حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے.ایسی اشیاء اکثر نقد کی بجائے ٹو نبو کے ذریعہ سے آتی تھیں.یعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیز کا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے.مہینہ بعد دُکاندار وہ ٹو نبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا.اس کو چیک کر کے آپ حساب ادا کر دیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ہندوؤں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس
سیرت المہدی 795 حصہ سوم کے کھانے میں پر ہی نہیں تھا.آجکل جو عموماً پر ہیز کیا جاتا ہے.اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے.922 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چند روز کے لئے ہمارے ہاں بمعہ اہل و عیال فیروز پور چھاؤنی تشریف لائے.ایک دن وہاں ایک شیخ صاحب کی کوٹھی پر گئے جو انگریزی اشیاء کے تاجر تھے.شیخ محمد جان صاحب وزیر آبادی چونکہ ان کے واقف تھے اس لئے وہ حضور کو یہ دُکان دکھانے لے گئے.وہاں مالک دُکان نے ایک کھلونا دکھایا جس میں ایک بلی اور ایک چوہا تھا.اس کو کنجی دی جاتی تو چوہا آگے بھاگتا تھا اور بلی اس کے پیچھے دوڑتی تھی.اسے دیکھ کر کچھ دیر تو مسیح ناصری کے پرندوں کا ذکر ہوتا رہا.پھر آپ چلے آئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی جن کی عمر اس وقت چار سال کے قریب تھی ہمراہ تھے.اور کسی دوست یا ملا زم کی گود میں تھے.جب کچھ راستہ چلے آئے تو میاں صاحب نے اس شخص کی گود میں اینٹھنا شروع کیا.پھر کچھ بگڑ کر لاتیں مارنے لگے اور آخر رونا شروع کر دیا.بہت پوچھا مگر کچھ نہ بتایا.آخر بار بار پوچھنے پر ہاتھ سے واپس چلنے کا اشارہ کیا.اس پر کسی نے کہا شاید اس دوکان پر بلی اور چوہا پھر دیکھنا چاہتے ہیں.یہ کہنا تھا کہ میاں صاحب روتے روتے چیخ کر کہنے لگے کہ میں نے بلی چوہالینا ہے.اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ میاں گھر چل کر منگا دیں گے مگر وہ نہ مانے.آخر حضرت صاحب سب جماعت کے ہمراہ واپس آئے اور تاجر کی کوٹھی پر پہنچ کر دروازہ پر ٹھہر گئے.شیخ محمد جان صاحب اندر جاکر وہ کھلونا لے آئے.حضرت صاحب نے کہا اس کی قیمت کیا ہے؟ میں دیتا ہوں مگر شیخ محمد جان صاحب نے کہا کہ اس کوٹھی کے مالک ہمارے دوست اور ملنے والے ہیں اور یہ ایک حقیر چیز ہے.وہ حضور سے ہرگز قیمت نہیں لیں گے.اس پر آپ نے وہ کھلونا میاں صاحب کو دیدیا.اور سب لوگ گھر واپس آئے.923 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مختلف زمانوں میں حضور علیہ السلام کے زیر نظر مختلف مضامین رہا کرتے تھے.میں نے دیکھا کہ آپ بعض دنوں میں کسی خاص مضمون پر ہر مجلس میں ذکر کرتے.تقریریں کرتے اور مختلف پہلوؤں سے اس پر روشنی ڈالتے یہاں تک کہ
سیرت المہدی 796 حصہ سوم کچھ دنوں میں اس مضمون کے سب پہلو واضح اور مدلل ہو جاتے.اس کے بعد میں دیکھتا کہ پھر وہی مضمون آپ کی کسی کتاب میں آجا تا اور شائع ہو جاتا.924 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصنیف کے بارے میں یہ طریق نہیں تھا کہ جو عبارت ایک دفعہ کھی گئی اسی کو قائم رکھتے تھے بلکہ بار بار کی نظر ثانی سے اس میں اصلاح فرماتے رہتے تھے اور بسا اوقات پہلی عبارت کو کاٹ کر اس کی جگہ نئی عبارت لکھ دیتے تھے.اصلاح کا یہ سلسلہ کتابت اور طباعت کے مراحل میں بھی جاری رہتا تھا.میں نے حضرت صاحب کے مسودات اور پروفوں میں کثرت کے ساتھ ایسی اصلاح دیکھی ہے.25 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رؤیا میر عباس علی صاحب سے بیان کیا تھا جو یہ تھا کہ ہم کسی شہر میں گئے ہیں اور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیں.اور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے.جن کا جواب دیا گیا.لیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے.نماز کے لئے کہا کہ آؤ تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی.اس وقت ہم کو ایک کھلے کمرہ میں بٹھایا گیا.لیکن اس میں کھانا نہ کھلایا گیا.پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھلایا گیا.اور اس میں بڑی دقت سے کھانا کھایا گیا.آپ نے یہ رو یا بیان کر کے فرمایا کہ شاید وہ تمہارا لدھیانہ ہی نہ ہو.پھر یہ رویا لدھیانہ میں ہی منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا.حضرت صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر دعوت ہوئی.جہاں پہلے ایک کھلے کمرہ میں بٹھا کر پھر ایک تنگ کمرہ میں کھانا کھلایا گیا.پھر وہاں ایک شخص مولوی عبدالعزیز صاحب کی طرف سے منشی احمد جان صاحب کے پاس آیا اور آ کر کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قادیان والے مرزا صاحب ہمارے ساتھ آکر بحث کر لیں یا کو توالی چلیں.اس پر منشی صاحب نے کہا کہ ہم نے کونسا قصور کیا ہے کہ کو تو الی چلیں.اگر کسی نے اپنے شکوک رفع کروانے ہیں تو محلہ صوفیاں میں آجائے.جہاں حضرت
سیرت المہدی 797 حصہ سوم صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں.اس رویا کے پورا ہونے پر لالہ ملا وامل نے شہادت دی کہ واقعی وہ رویا پورا ہوگیا.اور خاکسار بھی حضرت صاحب کے ساتھ اس دعوت میں شریک تھا جہاں رویا پورا ہوا.926 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے واپس ملازمت پر گیا.تو کچھ روز اپنی بیعت کو خفیہ رکھا کیونکہ مخالفت کا زور تھا.اور لوگ میرے معتقد بہت تھے.اس وجہ سے کچھ کمزوری سی دکھائی یہاں تک کہ میں نے اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ذکر نہ کیا.لیکن رفتہ رفتہ یہ بات ظاہر ہوگئی اور بعض آدمی مخالفت کرنے لگے لیکن وہ کچھ نقصان نہ کر سکے.گھر کے لوگوں نے ذکر کیا کہ بیعت تو آپ نے کر لی ہے لیکن آپ کا پہلا پیر ہے اور وہ زندہ موجود ہے، وہ ناراض ہو کر بددعا کرے گا.ان کی آمد ورفت اکثر ہمارے پاس رہتی تھی.میں نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بیعت کی ہے.اور جن کے ہاتھ پر بیعت کی ہے وہ مسیح اور مہدی کا درجہ رکھتے ہیں.باقی کوئی خواہ کیسا ہی نیک یا ولی کیوں نہ ہو.وہ اس درجہ کو نہیں پہنچے سکتا.اور ان کی بددعا کوئی بداثر نہیں کرے گی.کیونکہ الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.میں نے اپنے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا ہے.اپنی نفسانی غرض کے لئے نہیں کیا.الغرض وہ میرے مرشد کچھ عرصہ بعد بدستور سابق میرے پاس آئے اور انہوں نے میری بیعت کا معلوم کر کے مجھ کو کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا.جب مرشد آپ کا موجود ہے تو اس کو چھوڑ کر آپ نے یہ کام کیوں کیا؟ آپ نے ان میں کیا کرامت دیکھی؟ میں نے کہا.کہ میں نے ان کی یہ کرامت دیکھی ہے کہ ان کی بیعت کے بعد میری رُوحانی بیماریاں بفضل خدا دور ہوگئی ہیں اور میرے دل کو تسلی حاصل ہو گئی ہے.انہوں نے کہا کہ میں بھی ان کی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں.کہ اگر تمہارا لڑ کا ولی اللہ ان کی دُعا سے اچھا ہو جائے تو میں سمجھ لونگا کہ آپ نے مرشد کامل کی بیعت کی ہے.اور اس کا دعویٰ سچا ہے.اس وقت میرے لڑکے ولی اللہ کی ٹانگ بسبب ضرب کے خشک ہوکر چلنے کے قابل نہیں رہی تھی.ایک لاٹھی بغل میں رکھتا تھا.اور اس کے سہارے چلتا تھا اوراکثر دفعہ گر پڑتا تھا.اس بات پر تھوڑا عرصہ گذرا تھا کہ باوجود اسکے کہ پہلے کئی ڈاکٹروں اور سول سرجنوں کے علاج کئے
سیرت المہدی 798 حصہ سوم تھے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تھا.اتفاقاً ایک نیا سول سرجن سیالکوٹ میں آگیا جس کا نام میجر ہیوگو تھا.وہ رعیہ میں شفا خانہ کا معائنہ کرنے کے لئے بھی آیا.تو میں نے اُسے ولی اللہ شاہ کو دکھایا.اس نے کہا کہ علاج سے اچھا ہو سکتا ہے.مگر تین دفعہ آپریشن کرنا پڑے گا.چنانچہ اس نے ایک دفعہ سیالکوٹ میں آپریشن کیا.اور دو دفعہ شفاخانہ رعیہ میں جہاں میں متعین تھا آپریشن کیا.ادھر میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے بھی تحریر کیا.خدا کے فضل سے وہ بالکل صحت یاب ہو گیا اور لاٹھی کی ضرورت نہ رہی.تب میں نے اس بزرگ کو کہا کہ دیکھئے خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی دعا کیسی قبول ہوئی.اس نے کہا کہ یہ تو علاج سے ہوا ہے.میں نے کہا کہ علاج تو پہلے بھی تھا.لیکن اس علاج میں شفا صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے.927 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تو ولی اللہ شاہ کی والدہ کو خیال رہتا تھا کہ سابقہ مرشد کی ناراضگی اچھی نہیں.ان کو بھی کسی قدر خوش کرنا چاہئے تا کہ بددعا نہ کریں.ان کو ہم لوگ پیشوا کہا کرتے تھے.ولی اللہ، شاہ کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اچھا جانتی تھیں اور آپ کی نسبت حسن ظن تھا.صرف لوگوں کے طعن و تشنیع اور پیشوا کی ناراضگی کا خیال کرتی تھیں اور بیعت سے رُکی ہوئی تھیں.اس اثناء میں وہ خود بہت بیمار ہوگئیں اور تپ محرقہ سے حالت خراب ہو گئی.ان کی صحت یابی کی کچھ امید نہ تھی.میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے برادر زادہ شیر شاہ کو جو وہاں پڑھتا تھا.قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے اور مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں کسی نسخہ کے حاصل کرنے کے لئے روانہ کر دو.امید ہے کہ خدا وند کریم صحت دیگا.چنانچہ اس کو روانہ کر دیا گیا اور وہ دوسرے دن قادیان پہنچ گیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست دُعا پیش کی.حضور نے اسی وقت توجہ سے دُعا کی اور فرمایا کہ میں نے بہت دُعا کی اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے گا.ڈاکٹر صاحب سے آپ جا کر کہیں کہ گھبرائیں نہیں.خدا تعالیٰ صحت دے گا اور حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ آپ نسخہ تجویز فرمائیں.انہوں نے نسخہ تجویز کر کے تحریر فرما دیا.جس روز شام کو حضور نے قادیان میں دعا فرمائی.اس سے دوسرے روز شیر شاہ نے واپس آنا
سیرت المہدی 799 حصہ سوم تھا.وہ رات ولی اللہ شاہ کی والدہ پر اس قد رسخت گذری کہ معلوم ہوتا تھا کہ صبح تک وہ نہ بچیں گی.اور ان کو بھی یقین ہو گیا کہ میں نہیں بچوں گی.اسی روز انہوں نے خواب میں دیکھا کہ شفاخانہ رعیہ میں جہاں میں ملا زم تھا اس کے احاطہ کے بیرونی طرف سٹرک کے کنارہ ایک بڑا سا خیمہ لگا ہوا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیمہ مرزا صاحب قادیانی کا ہے.کچھ مرد ایک طرف بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھی ہوئی ہیں.مرد اندر جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں.پھر عورتوں کی باری آئی وہ بھی ایک ایک کر کے باری باری جاتی ہیں.جب خود ان کی باری آئی.تو یہ بہت ہی نحیف اور کمز ورشکل میں پردہ کئے ہوئے حضور کی خدمت میں جا کر بیٹھ گئیں.آپ نے فرمایا.آپ کو کیا تکلیف ہے.انہوں نے انگلی کے اشارہ سے سینہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھ کو بخار ہے.دل کی کمزوری اور سینہ میں درد ہے.آپ نے اسی وقت ایک خادمہ کو کہا کہ ایک پیالہ میں پانی لاؤ.جب پانی آیا.تو آپ نے اس پر دم کیا اور اپنے ہاتھ سے ان کو وہ دیا اور فرمایا.اس کو پی لیں.اللہ تعالیٰ شفا دیگا.پھر سب لوگوں نے اور آپ نے دعا کی اور وہ پانی انہوں نے پی لیا.پھر والدہ ولی اللہ شاہ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں.اور اسم شریف کیا ہے.فرمایا کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور میرا نام غلام احمد ہے اور قادیان میں میری سکونت ہے.خدا کے فضل سے پانی پیتے ہی ان کو صحت ہوگئی.اس وقت انہوں نے نذر مانی کہ حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے جلد حاضر ہوں گی.فرمایا بہت اچھا.بعد اس کے وہ بیدار ہو گئیں.جب انہوں نے یہ خواب دیکھی.تو ابھی شیر شاہ قادیان سے واپس نہ پہنچا تھا.بلکہ دوسرے دن صبح کو پہنچا.اس رات کو بہت مایوسی تھی اور میرا خیال تھا کہ صبح جنازہ ہو گا لیکن صبح بیدار ہونے کے بعد انہوں نے آواز دی کہ مجھ کو بھوک لگی ہے.مجھے کچھ کھانے کو دو اور مجھے بٹھاؤ.اسی وقت ان کو اٹھایا اور دودھ پینے کے لئے دیا.اور سخت حیرت ہوئی کہ یہ مردہ زندہ ہوگئیں.عجیب بات تھی کہ اس وقت ان میں طاقت بھی اچھی پیدا ہوگئی اور اچھی طرح گفتگو بھی کرنے لگیں.میرے پوچھنے پر انہوں نے یہ سارا خواب بیان کیا اور کہا کہ یہ سب اس پانی کی برکت ہے جو حضرت صاحب نے دم کر کے دیا تھا اور دعا کی تھی.صبح کو وہ خود بخود بیٹھ بھی گئیں.اور کہا کہ مجھ کو فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دو.کیونکہ میں عہد کر چکی ہوں کہ میں آپ کی بیعت کے لئے حاضر ہونگی.میں نے کہا ابھی آپ کی طبیعت کمزور ہے اور سفر کے قابل نہیں.جس وقت آپ کی حالت
سیرت المہدی 800 حصہ سوم اچھی ہو جائے گی.آپ کو پہنچا دیا جائے گا.لیکن وہ برابر اصرار کرتی رہیں کہ مجھ کو بے قراری ہے جب تک بیعت نہ کرلوں مجھے تسلی نہ ہوگی.اور شیر شاہ بھی اس روز قادیان سے دوائی لے کر آ گیا.اور سب ماجرا بیان کیا کہ حضرت صاحب نے بڑی توجہ اور در ددل سے دعا کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اچھے ہوجائیں گے.جب میں نے تاریخ کا مقابلہ کیا تو جس روز حضرت صاحب نے قادیان میں دُعا کی تھی.اسی روز خواب میں ان کو زیارت ہوئی تھی اور یہ واقعہ پیش آیا تھا.اس پر ان کا اعتقاد کامل ہو گیا اور جانے کے لئے اصرار کرنے لگیں.چنانچہ ان کو صحت یاب ہونے پر قادیان ان کے بھائی سید حسین شاہ اور شیر شاہ ان کے بھتیجے کے ساتھ روانہ کر دیا.حضرت صاحب نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور فرمایا کچھ دن اور ٹھہر ہیں.وہ تو چاہتی تھیں کہ کچھ دن اور ٹھہریں.مگر ان کا بھتیجا مدرسہ میں پڑھتا تھا اور بھائی ملازم تھا اس لئے وہ نہ ٹھہر سکیں اور واپس رعیہ آگئیں.ایک دن کہنے لگیں کہ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ نے دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا.میں اور مسیح دونوں ایک ہیں.وہ انگلیاں وسطی اور سبابہ تھیں.چونکہ ولی اللہ شاہ کی والدہ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں.پیغمبروں اور اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں.ان کو خواب کے دیکھنے سے حضرت صاحب پر بہت ایمان پیدا ہوگیا تھا اور مجھ سے فرمانے لگیں کہ آپ کو تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہئے اور سخت بے قراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھانا چاہئے.زندگی کا اعتبار نہیں.ان کے اصرار پر میں تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان پہنچا.سب اہل و عیال ساتھ تھے.حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی.اور بہت ہی عزت کرتے تھے اور خاص محبت و شفقت اور خاطر تواضع سے پیش آتے تھے.928 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لنگر کا انتظام حضور علیہ السلام کے ابتدائی ایام میں گھر میں ہی تھا.گھر میں دال سالن پکتا اور لوہے کے ایک بڑے توے پر جسے لوہ کہتے ہیں روٹی پکائی جاتی.پھر باہر مہمانوں کو بھیج دی جاتی.اس لوہ پر ایک وقت میں دو، تین نوکرانیاں بیٹھ کر روٹیاں یکدم پکا لیا کرتی تھیں.اس کے بعد جب باہر انتظام ہوا تو پہلے اس مکان میں لنگر خانہ منتقل ہوا جہاں اب نواب صاحب کا شہر والا مکان کھڑا ہے.پھر باہر مہمان خانہ میں چلا گیا.
سیرت المہدی 801 حصہ سوم 929 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مفصلہ ذیل ادویات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے صندوق میں رکھتے تھے.اور انہی کو زیادہ استعمال کرتے تھے.انگریزی ادویہ سے کونین، ایسٹن ،سیرپ، فولاد، ارگٹ، وائٹینیم اپی کاک ، کولا اور کولا کے مرکبات ،سپرٹ ایمونیا.بیدمشک ، سٹرنس وائن آف کا ڈلور آئل.کلوروڈین کا کل پل سلفیورک ایسڈ ایرو میٹک، سکاٹس ایملشن رکھا کرتے تھے.اور یونانی میں سے.مُشک عنبر، کافور، ہینگ ، جدوار.اور ایک مرکب جو خود تیار کیا تھا یعنی تریاق الہی رکھا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ ہینگ غرباء کی مشک ہے.اور فرماتے تھے کہ افیون میں عجیب و غریب فوائد ہیں.اسی لئے اسے حکماء نے تریاق کا نام دیا ہے.ان میں سے بعض دوائیں اپنے لئے ہوتی تھیں اور بعض دوسرے لوگوں کے لئے کیونکہ اور لوگ بھی حضور کے پاس دوا لینے آیا کرتے تھے.930 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز صبح کے وقت کچھ پہلے تشریف لے آئے.ابھی کوئی روشنی نہ ہوئی تھی.اس وقت آپ مسجد کے اندراندھیرے میں ہی بیٹھے رہے.پھر جب ایک شخص نے آکر روشنی کی تو فرمانے لگے کہ دیکھو روشنی کے آگے ظلمت کس طرح بھا گتی ہے.931 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز پیر سراج الحق صاحب سرساوی اپنے علاقہ کے آموں کی تعریف کر رہے تھے کہ ہمارے علاقہ میں آم بہت میٹھے ہوتے ہیں.جو لوگ ان کو کھاتے ہیں.تو گٹھلیوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں.گویا لوگ کثرت سے آم چوستے ہیں.اس وقت حضرت اقدس بھی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.فرمایا.پیر صاحب جو آم میٹھے ہوتے ہیں وہ عموماً ثقیل ہوتے ہیں اور جو آم کسی قدر ترش ہوتے ہیں وہ سریع الهضم ہوتے ہیں.پس میٹھے اور ترش دونوں چوسنے چاہئیں.کیونکہ قدرت نے ان کو ایسا ہی بنایا ہے.932 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح
سیرت المہدی 802 حصہ سوم موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا.اور مسیح موعود کا زمانہ تکمیل اشاعت کا زمانہ ہے.933 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حافظ معین الدین عرف مانا مؤذن مقرر تھا.اور کچھ وقت احمد نور کا بلی بھی مؤذن رہے ہیں.اور میں بھی کچھ عرصہ اذان دیتا رہا ہوں.اور دوسرے دوست بھی بعض وقت اذان دیدیتے تھے.گویا اس وقت مؤذن کافی تھے.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو مؤذن ایک ہی وقت اذان دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے.ایک روز ایک شخص نے اذان دینی شروع کی تو حافظ معین الدین نے بھی شروع کر دی.پھر حافظ صاحب ہی اذان دیتے رہے اور دوسرا شخص خاموش ہو گیا.میں نے ایک روز صبح کے وقت اذان دی تو حضرت اقدس اندر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا.کیونکہ رمضان شریف کا مہینہ تھا.اس وقت شوق کی وجہ سے مؤذنوں میں بھی جھگڑا ہوتا رہتا تھا.ایک کہتا تھا کہ میں نے اذان دینی ہے اور دوسرا کہتا تھا میں نے دینی ہے.بعض وقت مولوی عبدالکریم صاحب بھی اذان دید یا کرتے تھے.934 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے کہ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ضلع گورداسپور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میں آکر ٹھہرے ہوئے تھے.ان کو شکار دیکھنے کا شوق تھا.وہ مرزا نظام الدین صاحب کے مکان سے باہر نکلے اور ان کے ساتھ چند کس سانسی بھی جنہوں نے کتے پکڑے ہوئے تھے نکلے.مولوی غلام علی صاحب نے شاید حضرت صاحب کو پہلے سے اطلاع دی ہوئی تھی یا حضرت صاحب خودان کی دلداری کے لئے باہر آگئے.بہر حال اس وقت حضرت صاحب بھی باہر تشریف لے آئے.اور آپ آگے آگے چل پڑے اور ہم پیچھے پیچھے جا رہے تھے.اس وقت حضرت صاحب کے پاؤں میں جو جو تا تھا.وہ شاید ڈھیلا ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک کرتا جاتا تھا.مگر وہ بھی حضرت صاحب کو اچھا معلوم ہوتا.چلتے
سیرت المہدی 803 حصہ سوم چلتے پہاڑی دروازہ پر چلے گئے.وہاں ایک مکان سے سانسیوں نے ایک بلے کو چھیڑ کر نکالا.یہ بلا شاید جنگلی تھا جو وہاں چھپا ہوا تھا.جب وہ بلا مکان سے باہر بھاگا تو تمام کتنے اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے.یہاں تک کہ اس بلے کو انہوں نے چیر پھاڑ کر رکھدیا.یہ حالت دیکھ کر حضرت صاحب چپ چاپ واپس اپنے مکان کو چلے آئے اور کسی کو خبر نہ کی.معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ دیکھ کر آپ نے برداشت نہ کیا اور واپس آگئے.935 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۹۸-۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر قادیان کے نزدیک ایک گاؤں کے احمدی جلسہ پر آئے.یہ گاؤں فیض اللہ چک یا حصہ غلام نبی یا سیکھواں تھا.جو قادیان سے قریب ہی واقع تھا.وہاں کے لوگوں نے برسبیل تذکرہ ذکر کیا کہ ہمارے گاؤں کے اکثر لوگ بہت مخالف ہیں اور حضرت صاحب اور آپ کے مریدوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اگر ان کو دلائل سُنا ئیں تو سنتے نہیں.اس پر ایک مرحوم دوست حافظ محمد حسین صاحب نابینا جو ڈنگہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے کہنے لگے کہ میں تمہارے گاؤں میں آؤنگا اور غیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہر ونگا اور غیر احمدی بن کر تم سے مباحثہ کرونگا.پھر جب شکست کھا جاؤنگا تو مخالفین پر اچھا اثر پڑے گا.نیز وہ اس بہانے سے تمہارے دلائل سُن لیں گے.غرض یہ سمجھوتہ ہو گیا.جلسہ کے بعد وہ لوگ اپنے گاؤں چلے گئے اور حافظ صاحب مرحوم ایک دو روز بعد اس گاؤں میں پہنچے اور غیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرے.اور وہاں للکار کر کہا کہ یہاں کوئی میرزائی ہے؟ میرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا.لاؤ میں ان کو تو بہ کراؤں.غیر احمدیوں نے کہا.ہاں یہاں فلاں شخص ہیں.حافظ صاحب نے کہا کہ ان کو بلاؤ تو میں ان کو قائل کروں اور بحث میں شکست دوں.وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور مجمع ہو گیا.احمدی بلائے گئے.سوال و جواب شروع ہوئے اور حیات وفات مسیح پر بحث ہونے لگی.پہلے تو حافظ صاحب نے مشہور مشہور دلیلیں غیر احمد یوں والی پیش کیں.پھر ہوتے ہوتے احمدیوں نے ان کو دبانا شروع کیا.آخر وہ بالکل خاموش ہو گئے اور یہ کہ دیا کہ میں آگے نہیں چل سکتا.واقعی ان دلائل کا مقابلہ نہیں ہو سکتا.غیر احمدیوں کو شبہ پڑ گیا کہ یہ شخص سکھایا ہوا آیا ہے.ورنہ اگر یہ شخص غیر احمدی ہوتا.تو فوراً اس طرح قائل نہ ہوتا.اس پر انہوں نے حافظ صاحب کو بُرا بھلا
سیرت المہدی 804 حصہ سوم کہا بلکہ غالباً جسمانی تکلیف بھی دی.اور آخر حافظ صاحب نے احمدیوں کے گھر میں آکر پناہ لی.حضرت صاحب کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو آپ کو بہت ناگوار گزرا.اور آپ نے فرمایا کہ یہ بہت نامناسب حرکت کی گئی ہے.ہمارے دوستوں کو ایسا طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے.936 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شرعی طور پر زنا کے الزام کا گواہ جب تک سلائی اور سرمہ دانی والی حالت کی چشم دید گواہی نہ دے تب تک اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے یہ الفاظ ایک حدیث کا ترجمہ ہیں.جس کے یہ الفاظ ہیں کہ كَالْمِيْلِ فِي الْمِكْحَلَةِ - 937 بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِيَّةُ الْمَسْجِد ہیں.اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے.938 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود سر کے دورہ میں پیر بہت جھواتے تھے اور بدن زور سے دبواتے تھے.اس سے آپ کو آرام محسوس ہوتا تھا.939 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب تک مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے.اور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا.قنوت میں پہلے قرآنی دُعا ئیں پھر بعض حدیث کی دُعائیں معمول ہوا کرتی تھیں.آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے.جو دُعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں.ان کو بیان کر دیتا ہوں.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - (البقرة: ۲۰۲) رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدُ تْنَا عَلَى رُسُلِكَ.(ال عمران : ۱۹۵)
سیرت المہدی 805 حصہ سوم رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرُلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ - (الاعراف: ۲۴) رَبَّنَا هَبْ لَنَامِنُ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ـ (الفرقان: ۷۵) رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا.....(البقرة:۲۸۷) رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ـ (الفرقان: ۶۶) رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ - (الاعراف: ۹۰) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ - (يونس : ٨٦) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا..........(ال عمران: 9) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمُ فَآمَنَّا.....ال عمران: ۱۹۴) اللَّهُمَّ اَيْدِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِيْنَ بِالْإِمَامِ الْحَكَمِ الْعَادِلِ - اللَّهُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِيْنَ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِينَ مُحَمَّدٍ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْهُمْ - خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے، کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر.940 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب کبھی کوئی ایسا اعتراض یا مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا یا کسی کی تحریر کے ذریعہ حضور کو پہنچتا کہ جس کا جواب دینا ضروری ہوتا.تو عام طور پر حضرت صاحب اس اعتراض یا مسئلہ کے متعلق مجلس میں اپنے دوستوں کے سامنے پیش کر کے فرماتے کہ اس معترض کے اعتراض میں فلاں فلاں پہلوں فروگذاشت کئے گئے ہیں.یا اس کی طبیعت کو وہاں تک رسائی نہیں ہوئی ، یا یہ اعتراض کسی سے سُن کر اپنی عادت یا فطرت کے خبث کا ثبوت دیا ہے.پھر حضور اس اعتراض کو مکمل کرتے اور فرمایا کرتے کہ اگر اعتراض ناقص ہے.تو اس کا جواب بھی ناقص رہتا ہے.اس لئے ہماری یہی عادت ہے کہ جب کبھی کسی مخالف کی طرف سے کوئی اعتراض اسلام کے کسی مسئلہ پر پیش آتا ہے.تو ہم پہلے اس اعتراض پر غور
سیرت المہدی 806 حصہ سوم کر کے اس کی خامی اور کمی کو خود پورا کر کے اس کو مضبوط کرتے ہیں اور پھر جواب کی طرف توجہ کرتے ہیں.اور یہی طریق حق کو غالب کرنے کا ہے.941 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ فوجداری کی جوابدہی کے لئے جہلم کو جارہے تھے.یہ مقدمہ کرم دین نے حضور اور حکیم فضل الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کے خلاف توہین کے متعلق کیا ہوا تھا.اس سفر کی مکمل کیفیت تو بہت طول چاہتی ہے.میں صرف ایک چھوٹی سی لطیف بات عرض کرتا ہوں جس کو بہت کم دوستوں نے دیکھا ہوگا.جب حضور لاہور ریلوے سٹیشن پر گاڑی میں پہنچے تو آپ کی زیارت کے لئے اس کثرت سے لوگ جمع تھے جس کا اندازہ محال ہے کیونکہ نہ صرف پلیٹ فارم بلکہ باہر کا میدان بھی بھرا پڑا تھا اور لوگ نہایت منتوں سے دوسروں کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ ہمیں ذرا چہرہ کی زیارت اور درشن تو کر لینے دو.اس اثناء میں ایک شخص جن کا نام منشی احمد الدین صاحب ہے ( جو گورنمنٹ کے پنشنرز ہیں اور اب تک بفضلہ زندہ موجود ہیں اور انکی عمر اس وقت دو تین سال کم ایک سو برس کی ہے لیکن قومی اب تک اچھے ہیں اور احمدی ہیں) آگے آئے جس کھڑکی میں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں گورہ پولیس کا پہرہ تھا اور ایک سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت کا افسر اس کھڑکی کے عین سامنے کھڑا نگرانی کر رہا تھا.کہ اتنے میں جرات سے بڑھ کر منشی احمد الدین صاحب نے حضور سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.یہ دیکھ کر فوراً اس پولیس افسر نے اپنی تلوار کو الٹے رُخ پر اس کی کلائی پر رکھ کر کہا کہ پیچھے ہٹ جاؤ.اس نے کہا کہ میں ان کا مرید ہوں اور مصافحہ کرنا چاہتا ہوں.اس افسر نے جواب دیا کہ اس وقت ہم ان کی حفاظت کے ذمہ وار ہیں.ہم اس لئے ساتھ ہیں کہ بٹالہ سے جہلم اور جہلم سے بٹالہ تک بحفاظت تمام ان کو واپس پہنچادیں.ہمیں کیا معلوم ہے کہ تم دوست ہو یا دشمن ممکن ہے کہ تم اس بھیس میں کوئی حملہ کر دو.اور نقصان پہنچاؤ.پس یہاں سے فوراً چلے جاؤ.یہ واقعہ حضرت صاحب کی نظر سے ذرا ہٹ کر ہوا تھا کیونکہ آپ اور طرف مصروف تھے.اس کے بعد راستہ میں
سیرت المہدی 807 حصہ سوم آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا.میں بھی سفر میں آنحضور کے قدموں میں تھا.حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتظام ہے جو اپنے وعدوں کو پورا کر رہا ہے.242 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت لدھیانہ میں حضرت صاحب کا مباحثہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے ہوا.تو یہ مباحثہ دیکھ کر میاں نظام الدین لدھیانہ والا احمدی ہو کر قادیان میں آیا.وہ بیان کیا کرتا تھا کہ میں کس طرح احمدی ہوا.کہتا تھا کہ مولوی محمد حسین نے مجھ کو کہا کہ مرزا صاحب سے دریافت کرو کہ کیا حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں ہیں؟ میں نے جا کر حضرت صاحب سے دریافت کیا.تو آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کے پاس حیات مسیح کا کوئی ثبوت ہو تو ایک دو آیات قرآن شریف سے لاکر پیش کریں.میں نے کہا.ایک دو کیا ہم تو ایک سو آیت قرآن شریف سے پیش کر دینگے.آپ نے فرمایا جاؤ جاؤ لاؤ.جب میں مولوی محمد حسین صاحب کے پاس آیا تو میں نے کہا کہ مرزا صاحب سے میں یہ اقرار لے کر آیا ہوں کہ ایک دو آیت کیا ہم قرآن شریف سے ایک سو آیت پیش کردیں گے.جس پر مرزا صاحب مان لیں گے.مولوی صاحب نے کہا ” جا.وے تیری بیٹی ڈب جائے یہ اقرارتوں کیوں کر آیا ؟ مولوی نظام الدین کہتے تھے کہ میں نے جب یہ الفاظ مولوی صاحب کے منہ سے سنے تو میں سمجھا کہ مولوی صاحب کے پاس کوئی ثبوت نہیں.اس پر میں نے آکر بیعت کر لی.حضرت صاحب اس وقت عموماً مسجد مبارک میں بیٹھ جایا کرتے تھے.جب کبھی میاں نظام الدین صاحب یہ واقعہ سنایا کرتے تھے تو حضرت صاحب سن کر بہت ہنسا کرتے تھے.میاں نظام الدین صاحب اس واقعہ کو اکثر دوستوں کے پاس بیان کیا کرتے تھے.کیونکہ وہ پھر قادیان میں ہی رہے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ یوں سُنا ہوا ہے کہ جب مولوی نظام الدین صاحب نے یہ اقرار لے لیا کہ اگر حیات مسیح کے متعلق آپ کو ایک آیت بھی دکھا دی جائے تو آپ فورا مان لیں گے تو وہ بہت خوشی خوشی مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ میں مرزا صاحب سے یہ اقرار لے آیا ہوں اب جلدی سے مجھے چند آیات نکال دیں.مولوی محمد حسین نے ناراض ہو کر کہا.او بے وقوف ! ہم مرزا صاحب کو
سیرت المہدی 808 حصہ سوم حدیث کی طرف کھینچ رہے تھے تو انہیں پھر قرآن کی طرف لے گیا.مولوی نظام الدین نے کہا.مولوی صاحب! اگر قرآن آپ کے ساتھ نہیں تو پھر میں تو اس کے ساتھ ہوں جس کے ساتھ قرآن ہے.مولوی صاحب نے کہا تو بیوقوف اور جاہل ہے.تجھے کچھ پتہ نہیں اور لوگوں سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو.43 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بھائی جمال الدین مرحوم نے ایک دن بیان کیا کہ ایک دفعہ میں لاہور اس ارادہ سے گیا کہ کچھ حدیث پڑھ آؤں.ان دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب چینیا نوالی مسجد میں رہتے تھے.میں نے دیکھا کہ وہ صبح تہجد کے وقت اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھایا کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گو یا حدیث کے حافظ ہیں اور مجھے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑے عالم ہیں.جب میں واپس آیا اور حضرت صاحب کے پاس ایک روز ذکر کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب اپنے شاگردوں کو زبانی حدیث پڑھاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا کہ وہ زبر دست عالم ہیں.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا.وہ ہمارے مقابل پر جواب لکھے.خدا اس کا سارا علم سلب کر لے گا.سوایسا ہی ظہور میں آیا کہ وہ کوئی جواب نہیں لکھ سکا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس میں محبہ نہیں کہ ظاہری علم کے لحاظ سے مولوی محمد حسین بٹالوی بہت بڑے عالم تھے اور کسی زمانہ میں ہندوستان کے علم دوست طبقہ میں ان کی بڑی قدر تھی.مگر خدا کے مسیح کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر انہوں نے سب کچھ کھو دیا.6944 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مصنف عصائے موسے کو جب لاہور میں طاعون ہوا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ بات پیش ہوئی کہ حضور نے اعجاز احمدی“ میں لکھا ہے کہ مولوی محمد حسین اور مصنف ” عصائے موسی“ رجوع کرلیں گے.اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو مرنے دو.خدائی کلام کی تاویل بھی ہوسکتی ہے.آخر وہ طاعون سے ہی مر گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مصنف عصائے موسیٰ سے بابو الہی بخش اکاؤنٹنٹ مراد ہے جو شروع میں
سیرت المہدی 809 حصہ سوم معتقد ہوتا تھا.مگر آخر سخت مخالف ہو گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذ باللہ فرعون قرار دیکر ان کے مقابل پر اپنے آپ کو موسیٰ کے طور پر پیش کیا مگر بالآخر حضرت صاحب کے سامنے طاعون سے ہلاک ہوکر خاک میں مل گیا.6945 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک روز بٹالہ میں جمعہ پڑھنے کے لئے گیا.اس وقت میں جب بٹالہ جاتا تھا تو مولوی محمد حسین صاحب کے پیچھے جمعہ پڑھا کرتا تھا.انہوں نے بٹالہ میں خلیفیاں والی مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا.جب انہوں نے خطبہ شروع کیا تو کہنے لگے کہ دیکھو مرزا حضرت مسیح ناصری کو سائنسیوں اور گنڈیوں سے تشبیہ دیتا ہے اور کیسی ہتک کرتا ہے.مجھے یہ الفاظ سُن کر نہایت جوش پیدا ہوا.اور میں نے اسی وقت اُٹھ کر مولوی صاحب کوٹو کا کہ جو نقشہ مسیح کا آپ پیش کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے اور کس سے تشبیہ دی جائے ؟ مگر مولوی صاحب نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا.اور نہ ہی یہ کہا کہ خطبہ میں بولنا منع ہے.بلکہ خاموشی سے بات کو پی گئے.اس وقت ابھی مخالف کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت نہ ہوئی تھی.1946 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ بقول ہمارے مخالفین کے جب مسیح آئے گا اور لوگ اس کو ملنے کے لئے اس کے گھر پر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ مسیح صاحب باہر جنگل میں سور مارنے کے لئے گئے ہوئے ہیں.پھر وہ لوگ حیران ہو کر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور باہر سوروں کا شکا رکھیلتا پھرتا ہے.پھر فرماتے تھے کہ ایسے شخص کی آمد سے تو ساہنسیوں اور گنڈیلوں کو خوشی ہو سکتی ہے.جو اس قسم کا کام کرتے ہیں.مسلمانوں کو کیسے خوشی ہوسکتی ہے.یہ الفاظ بیان کر کے آپ ہنستے تھے.یہاں تک کہ اکثر اوقات آپ کی آنکھوں میں پانی آجا تا تھا.1947 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی کے رواج دینے کی طرف توجہ تھی تو ان دنوں میں حضرت صاحب مجھے بھی عربی فقرات لکھواتے تھے اور ان میں نصیحت کے لئے بھی کبھی کبھی مناسب فقرے لکھوا دیتے تھے.چنانچہ ایک
سیرت المہدی 810 حصہ سوم دفعہ کا سبق شعروں میں بنا کر دیا تھا.پھر میں نے دیکھا کہ دو تین سال بعد تھوڑے تغیر کے ساتھ وہی اشعار آپ نے انجام آتھم میں درج کر دئے اور وہ شعر جو اس وقت یاد کرائے تھے یہ ہیں:.ا اطع ربّك الجبّار اهل الاوامر وخف قهره واترك طريق التجاسر اپنے جبار اور صاحب حکم رب کی اطاعت کر اور اس کے قہر سے ڈر اور دلیری کا طریقہ چھوڑ دے ٢.وكيف على نار النهابر تصبر وانت تأذى عنــد حـر الهـواجـر اور تو دوزخ کی آگ پر کس طرح صبر کرے گا حالانکہ تجھے تو دوپہر کی گرمی سے بھی تکلیف ہوتی ہے...ووالله ان الفسق صِل مدمر كَمَلْمَسِ أَفعى ناعم في النواظر اور خدا کی قسم بدکاری ایک ہلاک کر نیوالا سانپ ہے جو سانپ کی کھال کی طرح دیکھنے میں اچھی معلوم ہوتی ہے.۴.فلا تختروا الطغواى فإنّ الهنا غيور على حرماته غیر قاصر پس سرکشی نہ اختیار کرو کیونکہ ہمارا خدا بڑا غیرتمند ہے اور اپنی حرام کی ہوئی چیزوں کے کرنے والے کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑے گا..ولا تقعدن يا بنَ الكِرَام بمفسد فترجع من حـب الشـريـر كـخـاسـر اور اے بزرگوں کے بیٹے تو شریروں کے پاس نہ بیٹھا کر کیونکہ تو شریروں سے محبت کر کے نقصان ہی اٹھائے گا..ولا تحسبن ذنبًا صغيرًا كهين فان وداد الذنب احدى الكبائر اور چھوٹے گناہ کو ہلکا نہ سمجھ کیونکہ چھوٹے گناہوں کر پسند رکھنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے.واخر نصحى توبة ثم توبة وموت الفتى خير له من مناكر اور میری آخری نصیحت یہ ہے کہ تو بہ کر پھر توبہ کر اور ایک جوان کا مر جانا اس کے گناہ کرنے سے اچھا ہے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شعر نمبر۳ اور ۶ میں انجام آتھم میں درج کرتے وقت کچھ تبدیلی کی ہے.نمبر ۳ کا مصرعہ اس طرح کر دیا ہے.”و حُبّ الهوى وَاللهِ صلّ مدمر“ اور نمبر 4 کے مصرعہ میں.الذنب کی جگہ اللمم کا لفظ رکھ دیا ہے.
سیرت المہدی 811 حصہ سوم 948 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جہاں تک میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے نتیجہ نکالا ہے وہ یہی ہے کہ حضور لڑکیوں کے پیدا ہونے کی نسبت لڑکوں کی پیدائش کو زیادہ پسند کرتے تھے اور زیادہ خوش ہوتے تھے اور اس معاملہ میں ان لوگوں کی رائے نہ رکھتے تھے جو کہا کرتے ہیں کہ لڑکی لڑکا چونکہ خدا کی دین ہیں.اس لئے ہماری نظر میں دونوں برابر ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس میں کیا قحبہ ہے کہ اگر اور حالات برا بر ہوں تو کئی لحاظ سے لڑکا لڑکی سے افضل ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور فرق تو ظاہر ہی ہے کہ عام حالات میں لڑکا دین کی زیادہ خدمت کر سکتا ہے.949 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک قصہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ تھا اس کی لڑکی پر کوئی فقیر عاشق ہو گیا اور کوئی صورت وصل کی نہ تھی.کہاں وہ فقیر اور کہاں وہ بادشاہ زادی ! آخر وہ فقیر اس غم میں مر گیا.جب غسل دیگر اور کفن پہنا کر اسے دفن کرنے کے لئے تیار کیا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ ابھی ہل رہے ہیں.کان لگا کر غور سے سُنا.تو یہ شعر سُنائی دیئے.جانان مرا بمن بیارید ویں مردہ تنم بدو سپارید در زنده مدارید گر بوسہ دہد بریں لبانم بادشاہ نے سُن کر کہا اچھا اس کی آزمائش کر لو.چنانچہ شہزادی کو کہا کہ اس مُردہ کو بوسہ دو.اس کے بوسہ دینے کی دیر تھی کہ وہ شخص اُٹھ بیٹھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہے تو یہ ایک قصہ مگر اس سے حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا کہ گو ہر مقصود کا مل جانا ایک ایسی چیز ہے کہ گویا مردہ کو بھی زندہ کر دیتی ہے.950 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر یر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود رام نے ایک دن فرمایا کہ ایک شاعر غنیمت نامی تھا اس نے ایک دن یہ مصرعہ کہا:.
سیرت المہدی 812 حصہ سوم صبا شرمنده می گردد بُر وئے گل نگه کردن پھر بہت غور اور فکر کیا کہ اس کے ساتھ کا دوسرا مصرعہ بنے.مگر نہ بنا.اور وہ مدتوں اسی فکر میں غلطاں پیچاں رہا.اتفاقیہ ایک دن وہ تھوڑا سا کپڑا خرید نے بزاز کے ہاں گیا.جہاں بزاز نے بیسیوں تھان اس کے سامنے کھول ڈالے.مگر اُسے کوئی کپڑا پسند نہ آیا.جب دُکان سے چلنے لگا تو بزاز کو وہ تمام تھان نئے سرے سے تہہ کرنے پڑے اور اسے بڑی دقت ہوئی.اس حالت کو دیکھ کر غنیمت بہت شرمندہ ہوا اور پھر بجلی کی طرح اس کے دل میں دوسرا مصرعہ آگیا اور وہ شعر پورا ہو گیا.چنانچہ شعر یہ ہے صبا شرمنده می گرددبُر وئے گل نگه کردن که رخت غنچه را وا کرد و نتوانست ته کردن خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ نسیم صبا شرم کی وجہ سے پھول کی طرف نظر نہیں اُٹھا سکتی کہ اس نے کلی کا منہ کھول تو دیا مگر پھر اس کے بند کرنے کی طاقت نہ پائی.951 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے ہم تینوں بھائیوں سے فرمایا کہ بٹالہ میں جاؤ.سُنا ہے کہ ایک مولوی آرہ سے آ رہا ہے اس نے بڑی مسجد مولوی صوفی شاہ والی میں جمعہ پڑھانا ہے.دیکھ سن آؤ کہ ہمارے متعلق کیا بیان کرتا ہے.ہم تینوں برادر بٹالہ میں گئے.پہلے ہم مولوی محمد حسین کی مسجد میں گئے.مولوی صاحب وہاں موجود تھے اور ان کے علاوہ دو تین اور آدمی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے.ہم بھی وہاں جا کر بیٹھ گئے.اس اثناء میں ایک شخص آیا اور اس نے آکر مولوی صاحب سے کہا کہ مجھے کچھ روپیہ زکوۃ سے دلوادیں.وہاں مولوی صاحب کے برادروں میں سے محمد عمر نامی بیٹھا ہوا تھا.مولوی صاحب نے اس کو کہا کہ اس شخص کو شیخ عبد الکریم کے پاس لے جاؤ اور زکوۃ سے کچھ دلوا دو.شیخ محمد عمر نے جانے سے انکار کر دیا.بھائی جمال الدین مرحوم نے کہا.مولوی صاحب اگر حضرت مرزا صاحب ایک آدمی کو کہیں تو سو آدمی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے.اس پر مولوی صاحب نے جوش میں آکر کہا کہ یہ کوئی حق کی دلیل ہے.جواب میں کہا گیا کہ پھر حق کس کو کہتے ہیں اس پر
سیرت المہدی 813 حصہ سوم مولوی صاحب اُٹھ کر گھر چل پڑے.بھائی جمال الدین مرحوم نے اس وقت کہا.مولوی صاحب آپ کو حضرت مرزا صاحب نے اپنی عربی کتابوں میں جواب کے لئے مخاطب کیا ہے.ان کا جواب کیوں نہیں دیتے.اس پر وہ کہنے لگے.ہاں اس کا جواب ایک طالب علم لکھ رہا ہے.بھائی جمال الدین نے کہا کہ مخاطب تو آپ ہیں.طالب علم کو کیا حق ہے کہ وہ اس کا جواب دے.مگر مولوی صاحب نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور گھر کو چلے گئے.راستہ میں ایک گدھا ایندھن کا لدا ہوا کھڑا تھا.اس کے پاس کھڑے ہوکر اس کے مالک سے سودا کرتے رہے.ہم پھر سب قادیان آگئے.کیونکہ وہ آرہ والا مولوی بٹالہ میں نہیں آیا تھا.952 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آتھم سے مباحثہ مقرر ہوا تو حضور امرتسر جانے کی تیاری کرنے لگے اور ہم تینوں بھائی بھی ساتھ تھے اور دیگر دوست بھی ہمراہ تھے.جب امرتسر پہنچے تو مباحثہ کی جگہ کے لئے ایک کوٹھی جو عیسائیوں کی تھی مقرر ہوئی.یہ مباحثہ تحریری تھا.ہر ایک فریق کے ساتھ دو دو کا تب تھے.اس طرف حضرت صاحب اپنا مضمون لکھواتے اور دوسری طرف آتھم اپنا مضمون لکھوا ر ہا تھا.بعد میں دونوں فریق کے مضمون سنائے جاتے.وہ کتاب جس میں یہ مباحثہ درج ہے ”جنگ مقدس“ کے نام سے شائع ہو چکی ہے.جب حضرت صاحب مباحثہ سے فارغ ہو کر شہر میں آئے اور ہال بازار میں آپ جارہے تھے اور تمام جماعت پیچھے پیچھے جارہی تھی تو اس وقت حضرت صاحب نے سفید کپڑے کا چوغہ پہنا ہوا تھا.وہ چوغہ نیچے سے کچھ پھٹا ہوا تھا.میاں چٹولا ہوری بھی پیچھے پیچھے جا رہا تھا.وہ اس پھٹی ہوئی جگہ کو ہر ایک کو دکھاتا تھا کہ آپ کو کوئی خبر نہیں کہ میرا چوغہ پھٹا ہوا ہے.اس کی اس سے غرض یہ تھی کہ اگر کوئی دُنیا دار ہوتا تو ایسے کپڑے پہنے اپنی ہتک سمجھتا.ہم تین دن ٹھہر کر چلے آئے تھے.باقی مباحثہ ہمارے بعد ہوا تھا.953 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدا میں قادیان کے سب مقیم احمدی لنگر سے کھانا کھاتے تھے.حضرت خلیفہ اول بھی گول کمرہ میں مہمانوں کے دستر خوان پر کھانا کھانے کے لئے آیا کرتے تھے.اس دستر خوان پر حضرت صاحب شریک نہیں ہوتے تھے.ان
سیرت المہدی 814 حصہ سوم دنوں میں کھانا کھلانے کا انتظام محمد سعید کے سپر د تھا.وہ حضرت مولوی صاحب سے کسی بات پر ناراض ہوا اور ارادتا ان کے آگے خراب دال اور خراب روٹیاں رکھتا اور دیگر مہمانوں کے آگے سالن یا تازہ کھانا اور اچھی روٹی رکھتا تھا مگر حضرت مولوی صاحب بکمال بے نفسی و مسکینی مدتوں اسی کھانے کو کھاتے رہے اور کوئی اشارہ تک اس کی اس حرکت کے متعلق نہ کیا.پھر اس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ لوگ اپنے گھروں میں انتظام کھانے کا کرنے لگے تو ان دنوں میں چند دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت مولوی صاحب اگر کبھی بیمار ہوتے اور حضرت صاحب کو معلوم ہوتا کہ مولوی صاحب کے کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں ہے آپ اپنے ہاں سے ان کے لئے کھانا بھجوانا شروع کر دیتے تھے جو مدت تک با قاعدہ ان کے لئے جاتا رہتا تھا.954 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے لا ہور کی پہلی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورداسپور میں کرائی تھی.جب رشتہ ہونے لگا تو لڑکی کو دیکھنے کے لئے حضور نے ایک عورت کو گورداسپور بھیجا تا کہ وہ آکر رپورٹ کرے کہ لڑکی صورت وشکل وغیرہ میں کیسی ہے اور مولوی صاحب کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں.چنانچہ وہ عورت گئی.جاتے ہوئے اسے ایک یاداشت لکھ کر دی گئی.یہ کاغذ میں نے لکھا تھا اور حضرت صاحب نے بمشورہ حضرت ام المؤمنین لکھوایا تھا.اس میں مختلف باتیں نوٹ کرائی تھیں.مثلاً یہ کہ لڑکی کا رنگ کیسا ہے.قد کتنا ہے.اس کی آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں ، ناک، ہونٹ ، گردن، دانت، چال ڈھال وغیرہ کیسے ہیں.غرض بہت ساری باتیں ظاہری شکل وصورت کے متعلق لکھوا دی تھیں کہ ان کی بابت خیال رکھے اور دیکھ کر واپس آکر بیان کرے.جب وہ عورت واپس آئی اور اس نے ان سب باتوں کی بابت اچھا یقین دلایا تو رشتہ ہو گیا.اسی طرح جب خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے اپنی بڑی لڑکی حضرت میاں صاحب ( یعنی خلیفہ لمسیح الثانی) کے لئے پیش کی.تو ان دنوں میں یہ خاکسار ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس چکرانہ پہاڑ پر جہاں وہ متعین تھے بطور تبدیل آب و ہوا کے گیا ہوا تھا.واپسی پر مجھ سے لڑکی کا حلیہ وغیرہ تفصیل سے پوچھا گیا.پھر حضرت میاں صاحب سے بھی شادی سے پہلے کئی لڑکیوں کا نام لے لے کر حضور نے ان کی والدہ
سیرت المہدی 815 حصہ سوم کی معرفت دریافت کیا کہ ان کی کہاں مرضی ہے.چنانچہ حضرت میاں صاحب نے بھی والدہ ناصر احمد کو انتخاب فرمایا اور اس کے بعد شادی ہو گئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ کر تسلی کر لینی چاہئے کہ کوئی نقص نہ ہو.چنانچہ ایک دفعہ ایک مہاجر صحابی کو جو ایک انصاری لڑکی سے شادی کرنے لگا تھا فرمایا کہ لڑکی کو دیکھ لینا، کیونکہ انصار کی لڑکیوں کی آنکھ میں عموماً نقص ہوتا ہے.اور حضرت صاحب نے جو مولوی محمد علی صاحب کی شادی کے وقت شکل وصورت کی تفصیل کے متعلق سوالات کئے تو یہ غالباً مولوی صاحب کے منشاء کے تحت کیا ہوگا.955 بسم اللہ الرحمن الرحیم.میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مولوی کرم الدین جہلمی کا مقدمہ گورداسپور میں تھا.تو مجسٹریٹ نے پانچ صد روپیہ حضرت صاحب کو اور دوصد حکیم فضل دین صاحب کو اور پچاس روپیہ مولوی کرم الدین کو جرمانہ کیا تھا.حضرت صاحب کی طرف سے اپیل ہوئی اور کل جرمانہ سات صد روپیہ واپس مل گیا مگر مولوی کرم الدین کا جرمانہ قائم رہا.اس فیصلہ کے بعد موضع اٹھوال ضلع گورداسپور میں جماعت احمدیہ نے جلسہ کیا اور بعض علماء قادیان سے بھی وہاں گئے.کچھ تقاریر ہوئیں.بعد میں بارش شروع ہوگئی.اور بہت سے احمدی وغیر احمدی دوست ایک بڑے مکان میں جمع ہو کر بیٹھ گئے.اس وقت علی محمد درزی ساکن سوہل نے تقریر شروع کردی که مولوی کرم دین کو فتح ہوئی ہے کیونکہ مرزا صاحب پر جرمانہ ہوا ہے.میں نے جب یہ آواز سنی تو میں نے اُسے کہا میرے سامنے آکر بیان کرو.اس نے آکر تقریر شروع کر دی.میں نے کہا سنو! اس مقدمے میں حضرت مرزا صاحب کی فتح ہوئی ہے.اس نے کہا کہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ میری فتح ہوگی مگر گورداسپور میں جرمانہ ہوا.میں نے کہا کہ اگر اپیل سے جرمانہ واپس آجائے تو کیا پھر بھی سزا قائم رہتی ہے؟ کہنے لگا ہاں سزا قائم رہتی ہے.میں نے تمام حاضرین کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ لوگ شہادت دے سکتے ہیں کہ جو شخص اپیل میں بری ہو جائے اس پر پہلا جرم قائم رہتا ہے یا کہ وہ بری ہو جاتا ہے.تمام دوستوں نے کہا کہ وہ بری ہو جاتا ہے.اور کوئی جرم باقی نہیں رہتا.پھر بھی وہ انکار ہی کرتا رہا.میں نے کہا
سیرت المہدی 816 حصہ سوم کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جو قید ہوئی تھی کیا وہ مجرم ہیں یا کہ ان کو بری سمجھا جاتا ہے.جب میں نے یہ واقعہ پیش کیا.تو وہ ایسا خاموش ہوا کہ کوئی جواب اس سے بن نہ پڑا.لوگوں نے بھی اس کا بُراحال کیا.اس پر وہ بہت ہی نادم اور شرمندہ ہوا.پھر میں نے اس کو اس طور پر سمجھایا کہ حضرت صاحب نے اس مقدمہ سے پہلے شائع کیا ہوا تھا کہ ایک تو مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون یعنی خدا تعالیٰ اس فریق کے ساتھ ہے جو متقی ہے اور دوسرا الہام یہ تھا کہ عدالت عالیہ سے بری کیا جائے گا“.اب دونوں کو ملا کر دیکھو کہ یہ کیسی عظیم الشان صداقت ہے جو پوری ہوئی.956 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمداسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ایک دفعہ کسی شخص کا ذکر سُنانے لگے کہ وہ عورت پر سخت عاشق ہو گیا.اور باوجود ہزار کوشش کے وہ اس عشق کو دل سے نہ نکال سکا.آخر حضرت صاحب کے پاس آیا.اور طالب دُعا ہوا.حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص اس عورت سے ضرور بدکاری کرے گا.مگر میں بھی پورے زور سے اس کے لئے دُعا کرونگا چنانچہ وہ شخص قادیان ٹھہرا رہا.اور حضور دُعا کرتے رہے.یہاں تک کہ اس نے ایک روز مولوی صاحب سے کہا کہ آج رات خواب میں میں نے اس عورت کو دیکھا اور خواب میں ہی اس سے مباشرت کی اور میں نے اس دوران میں اس کی شرمگاہ کو جہنم کے گڑھے کی طرح دیکھا.جس سے مجھے اس سے اس قدر خوف اور نفرت پیدا ہوئی کہ یکدم وہ آتشِ عشق ٹھنڈی ہوگئی اور وہ محبت کی بے قراری سب دل سے نکل گئی.بلکہ دل میں دوری پیدا ہوگئی اور خدا کے فضل اور حضور کی دعا کی برکت سے میں بدکاری سے بھی محفوظ رہا اور وہ جنون بھی جاتا رہا.اور حضور نے جو بات میری بابت کہی تھی وہ ظاہر رنگ سے بدل کر خدا نے خواب میں پوری کرا دی.یعنی میں نے اس سے تعلق بھی کر لیا اور ساتھ ہی مجھے گناہ سے بھی بچالیا.غالبا یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور متمول آدمی تھا اور اُس نے حضرت صاحب کی بیعت بھی کی تھی.مگر تعلق کو آخر تک نہیں نبھایا.957 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ
سیرت المہدی 817 حصہ سوم السلام نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک دفعہ ایک گڈی گتا بھی رکھا تھا.وہ دروازے پر بندھا رہتا تھا اور اس کا نام شیر و تھا.اس کی نگرانی بچے کرتے تھے.یا میاں قدرت اللہ خانصاحب مرحوم کرتے تھے جو گھر کے دربان تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کتے کی ضرورت ان دنوں میں پیش آئی تھی جب حضرت صاحب باغ میں جا کر ٹھہرے تھے اور وہاں حفاظت کی صورت نہیں تھی.مگر اس کے بعد کتا شہر والے مکان میں بھی آگیا.1958 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ملتان کے سفر میں جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک رات لاہور ٹھہرے تھے.وہاں ایک احمدی نے جو بیچارہ علم نہ رکھتا تھا حضرت صاحب سے کہا کہ حضور میرے ہاں دعوت قبول فرمائیے.حضور نے کچھ عذر کیا.وہ کہنے لگا.اگر حضور قبول نہیں کرینگے تو وعید نازل ہوگی.حضرت صاحب اس کی اس جہالت کی بات پر ہنس پڑے اور دعوت قبول فرمالی.ان دنوں میں لیکھرام اور آتھم کی پیشگوئیوں کے تذکرہ کی وجہ سے وعدہ الہی اور وعید الٹی کا لفظ کثرت سے لوگوں کی زبانوں پر تھا.اس نے بھی اپنی جہالت میں یہ لفظ حضرت صاحب کی شان میں کہہ دیا.959 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ایک مرتبہ میرا ایک لڑکا مسمی عنایت اللہ بیمار ہو گیا.میں اُسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس برائے علاج لے گیا.آپ نے بعد نماز عشاء فرمایا کہ اس لڑکے کو باہر ہوا میں لے جائیں.کیونکہ اس کو تپ محرقہ ہے اور ہمارے مکان چونکہ گرم ہیں اس لئے یہاں مناسب نہیں.اور ایک بادکش بھی ہم کو دی اور آدھ سیر مصری دے کر فرمایا.کہ گاؤ زبان کے پتے بھگو کر اسکو دیتے رہو.ہم اسے اسی وقت باہر لے گئے.وہاں دو تین روز رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علاج کرواتے رہے.مگر وہ زیادہ بیمار ہو گیا.لہذا ہم اسے موضع کھارہ سے گھر واپس لے گئے.گھر آکر اس کو آرام ہو گیا.مگر کلی صحت نہ ہوئی تھی.اس لئے دوبارہ پھر حضرت صاحب سے اس کا حال بیان کیا کہ حضور اس کو پیٹ میں درد ہے.آپ نے حکم دیا کہ اس کے پیٹ میں سدا ہو گیا ہے.رومی مصطگی اور گلقند
سیرت المہدی 818 حصہ سوم کھلاؤ.چونکہ ہر روز قادیان جانا پڑتا تھا.اور اس کو صحت نہ ہوتی تھی.تو حضور نے فرمایا کہ اس کو پھر قادیان لے آؤ.پھر یہاں ہی علاج ہوتا رہا.اور خدا کے فضل سے اس کو صحت ہوگئی.اور جب میں قادیان میں ہی تھا تو مجھے پیغام ملا کہ میرے گھر ایک اور لڑکا پیدا ہوا ہے اور پہلے لڑکے کو بھی اللہ تعالیٰ نے کامل شفا عنایت کر دی ہے.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ لڑکا خدا کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے صحت یاب ہو گیا ہے.اور اس کا ایک بھائی بھی پیدا ہوا ہے.حضور اس کا نام تجویز فرماد میں آپ نے فرمایا کہ اس کا نام رحمت اللہ رکھو.کیونکہ یہ نام رسول کریم ﷺ کا ہے جیسے فرمایا: وما ارسلنک الاّ رحمة للعالمين 960 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نورمحمد صاحب سا کن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں حسب معمول قادیان گیا.وہاں دیکھا تو ہمارے ایک دوست برکت علی گول کمرہ میں بیمار پڑے ہیں اور تپ محرقہ سے زبان بند ہو چکی تھی.حضرت علیہ السلام نے فرمایا کر عرق گاؤ زبان اور شربت بنفشہ اس کے منہ میں ڈالو.میں شام تک اسی طرح کرتا رہا.اسی روز امرتسر سے ایک کا تب آیا.جس کو حضور علیہ السلام نے بلایا تھا.چونکہ ازالہ اوہام کی کاپی شروع ہوئی تھی.آپ نے فرمایا کہ آج تو ہمارے ایک دوست بیمار ہیں.کل کام شروع کرایا جائیگا.میاں برکت علی صاحب حافظ حامد علی صاحب کے بہنوئی اور مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کے والد ماجد تھے.صبح ہوتے ہی حضور نے فرمایا کہ میاں حامد علی ان کو گھر لے جاؤ.اس پر اُن کو فیض اللہ چک لا یا گیا اور فیض اللہ چک آتے ہی فوت ہو گئے.انــالـــه وانـا اليـه راجعون.961 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت آتھم کے متعلق یہ مشہور ہوا کہ وہ معیاد کے اندر فوت نہیں ہوا.تو حضور علیہ السلام نے حکم دیا کہ دیہات میں روٹیاں پکوا کر تقسیم کرو اور کہو کہ یہ روٹیاں فتح اسلام کی روٹیاں ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے حضرت صاحب کی مراد یہ تھی کہ پیشگوئی اپنی شرائط کے مطابق
سیرت المہدی 819 حصہ سوم پوری ہوگئی ہے اور آتھم کا معیاد کے اندر نہ مرنا بھی پیشگوئی کی صداقت کی علامت تھا کیونکہ اس نے خائف ہوکر رجوع کیا تھا.پس آپ چاہتے تھے کہ اس خوشی کا دیہات میں چر چا کیا جاوے.962 بسم اللہ الرحمن الرحیم.حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہمارے والد صاحب مرحوم مرض الموت سے بیمار تھے تو ہم کو بوقت دو پہر الہام ہوا.والسماء والطارق.ہم نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب کا آج ہی شام کے بعد انتقال ہوگا.اور ہمارے دل میں فکر پیدا ہوا کہ ہمارے لئے کوئی اور کام یا روزگار کی صورت نہیں.صرف آپ کی پنشن اور تعلقہ داری پر ہی گزارہ ہوتا تھا.اور اس پر معا الہام ہوا.الیس الله بکاف عبده “.یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.سبحان الله !خدا نے اپنی کفالت کا کیا ثبوت دیا کہ ہزارہا مہمان اور ہزاروں کام سلسلہ کے کس طرح اس الہام الہی کے تحت انجام پذیر ہورہے ہیں.اور آپ نے اس الہام کو اپنی مُہر میں کھد والیا تھا.963 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محد المعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان بٹالہ کے سفر میں یکہ.پالکی اور پہلی میں سوار ہوتے دیکھا ہے مگر گھوڑے پر نہیں دیکھا.لیکن سُنا ہے کہ جوانی میں گھوڑے کی سواری بہت فرمائی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ پالکی سے مراد وہ سواری ہے جسے کہا لوگ کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور وہ کندھوں کے برابر ہی اونچی رہتی ہے.964 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے زیادہ تر بسر اواں یا بشر کی طرف تشریف لے جاتے تھے.کبھی کبھی منگل یا بٹالہ کی سڑک پر بھی جاتے تھے.اور شاذ و نادر کسی اور طرف بھی.اور عام طور پر ڈیڑھ سے دو میل تک باہر نکل جاتے تھے.اور جب حضرت صاحب سیر کو جاتے یا گھر میں ٹہلتے تو تیز قدم چلا کرتے تھے.آپ کی چال مستعد جوانوں کی سی تھی.
سیرت المہدی 820 حصہ سوم خاکسار عرض کرتا ہے کہ بسر اواں قادیان سے مشرق کی طرف ہے اور بتر شمال کی طرف ہے اور نگل جنوب کی طرف ہے اور بٹالہ مغرب کی طرف ہے.965 بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں معراج الدین صاحب عمر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق الفضل مورخہ ۱۳ اگست ۱۹۳۷ء میں ایک مضمون شائع کرایا تھا.اس میں وہ لکھتے ہیں کہ :.جن لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا شرف حاصل ہے.ان میں سے ایسے بہت اصحاب موجود ہیں.جنہوں نے آپ کی زبان مبارک سے بار ہا سنا کہ آپ اپنی عمر کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم پیدا ہوئے تو پھاگن کا مہینہ تھا (یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں ہندی بکرمی سنہ مروج ہے اور اس پھاگن سے مراد وہی مروجہ بکرمی سن ہے.) اور جمعہ کا روز تھا.پچھلی رات کا وقت تھا.اور قمری حساب سے چاند کی چودھویں رات تھی.یہی بات اخی مکرمی حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی کتاب ذکر حبیب کے صفحہ نمبر ۲۳۹ پرلکھی تھی.جس کو ناظرین دیکھ سکتے ہیں.اگر چہ یہ بات مجھے یاد بھی تھی.لیکن حال میں ذکر حبیب کے مطالعہ سے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ بیان مستحضر ہو گیا ہے.اور میں نے تحقیق کرنا شروع کردی.کیونکہ میرے دل میں تحقیق کرنے کی زور سے تحریک پیدا ہوئی.خوش قسمتی سے میری مرتبہ کتاب تقویم عمری جو ایک سو پچیس برس کی جنتری کے نام سے بھی موسوم ہے.میرے سامنے آگئی اور میں نے غور سے اس کا مطالعہ کیا یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ولادت کے سال اور وقت کے متعلق فرمایا ہے.اس کی تلاش سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ آپ کی ولادت جس جمعہ کو ہوئی تھی وہ ۱۴ ماہ رمضان المبارک ۱۲۴۷ ہجری کا دن تھا.اور بحساب سمت بکرمی یکیم پھا گن سمہ ۱۸۸۸ کے مطابق تاریخ تھی جو عیسوی سن کے حساب سے ۱۷ فروری ۱۸۳۲ء کے مطابق ہوتی ہے.پس اس طریق سے حضور موصوف کی عمر ہر حساب سے حسب ذیل ثابت ہوتی ہے.(الف) بحساب سمت ہندی بکرمی آپ یکم بھا گن سمہ ۱۸۸۸ بکرمی کو پیدا ہوئے اور جیٹھ سمہ
سیرت المہدی 821 حصہ سوم ۱۹۱۶۵ بکر می کو آپ کا رفع ہوا.گو یا ہندی بکرمی سالوں کی رو سے آپ کی عمر ۶ے سال چار ماہ ہوئی.(ب) عیسوی سال ۷ار فروری ۱۸۳۲ء کو آپ کی ولادت ہوئی اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ اپنے خالق حقیقی رفیق اعلے سے جاملے.پس اس حساب سے آپ نے ۶ ۷ سال دو ماہ اور ۹ دن عمر پائی.( ج ) سن ہجری مقدس کے مطابق آپ ۱۴ / رمضان المبارک ۱۲۴۷ھ کو پیدا ہوئے.اور ۹ ربیع الاول ۱۳۲۶ھ کو خدا سے جاملے.اس حساب سے آپ کی عمر ۷۸ سال ۵ ماه اور ۲۵ دن ہوئی.یعنی ساڑھے اٹھہتر سال ہوئی.اس سے اب صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ آنحضرت کی عمر الہی الہام کے مطابق ۸۰ سال کے قریب ہوئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں اپنی تحقیق روایت نمبر ۶۱۳ میں درج کر چکا ہوں.میاں معراج الدین صاحب عمر کی تحقیق اس سے مختلف ہے لیکن چونکہ دوستوں کے سامنے ہر قسم کی رائے آجانی چاہئے اس لئے میں نے اسے درج کر دینا ضروری سمجھا ہے.ویسے میری رائے میں جس نتیجہ پر میں پہنچا ہوں وہ زیادہ صحیح اور درست ہے.واللہ اعلم.966 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھے آجکل غم وہم نے بہت تنگ کر رکھا ہے.تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے ایک عرق تیار کیا ہے.وہ روز پی لیا کرو.شراب تو حرام ہے لیکن ہم نے یہ عرق خود حلال تیار کیا ہے.سو حضور متواتر ایک ماہ تک مجھے یہ عرق روزانہ ایک چھٹانک صبح ایک چھٹانک شام کو عنایت فرماتے رہے.پھر میں نے نسخہ دریافت کیا تو فرمایا کہ اس میں جدوار.عرق کیوڑا.بیدمشک اور مشک یعنی کستوری پڑتی ہے.مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ تم سے تیار نہیں ہو سکے گا..یہاں سے ہی لے جاؤ.جب ختم ہو جائے تو لکھ دینا.ہم اور بھیج دینگے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے سمجھ لیا ہوگا کہ سیٹھی صاحب کا غم و ہم کسی جسمانی
سیرت المہدی 822 حصہ سوم عارضہ کی وجہ سے ہے.اس لئے آپ نے طبی نسخہ تجویز فرمایا.ویسے بھی بعض ظاہری علاج دل میں فرحت اور امنگ پیدا کر دیتے ہیں.967 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت لے کر واپس چلا تو حضور علیہ السلام وداع کرنے کے لئے باہر باغ کی طرف تشریف لے آئے.جب رخصت ہو کر میں یکہ میں بیٹھنے لگا تو حضور فرمانے لگے کہ واپس چلو.میں نے عرض کی کہ حضور یکہ والا ناراض ہوگا.فرمایا کہ چار آنے کے پیسے ہم اس کو دیدینگے.چنانچہ حضور مجھے واپس لے آئے.افسوس میری بد بختی تھی کہ میں حضور کی منشاء کو نہ سمجھا اور پھر تیسرے چوتھے دن رخصت لے کر واپس چلا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالبا اس وقت حضرت صاحب کو کوئی اشارہ ہوا ہوگا یا کسی وجہ سے حضور نے یہ سمجھا ہو گا کہ اس وقت سیٹھی صاحب کا سفر کرنا مناسب نہیں.اس لئے روک لیا ہوگا.968 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک رجسٹری خط بھیجا.میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مقدمہ سخت ہے اور حاکم اعلیٰ نے بھی ایماء کر دیا ہے کہ سزا ضرور دو.اس صورت میں مبشر الہامات شاید محکمہ اپیل میں پورے ہوں.سوایسا ہی ہوا کہ حاکم نے پانچ صدر و پیہ جرمانہ کیا.جوا پیل میں واپس آ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کا واقعہ ہے.969 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا کہ حضور غلام نبی کو مراق ہے.تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے.اور مجھ کو بھی ہے.یہ طبیعتوں کی مناسبت ہے.جس قد ر ایسے آدمی ہیں کھچے چلے آوینگے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ روایت نمبر ۳۶۹/۱،۳۶۰،۱۹ میں تشریح کی جاچکی ہے اس سے طبی اصطلاح والا مراق مراد نہیں.بلکہ جس کی غیر معمولی تیزی اور طبیعت کی ذکاوت مراد ہے.جس کے اندر
سیرت المہدی 823 حصہ سوم یہ احساس بھی شامل ہے کہ جب ایک کام کا خیال پیدا ہو تو جب تک وہ کام ہو نہ جاوے.چین نہ لیا جاوے اور اس کی وجہ سے طبیعت میں گھبراہٹ رہے.970 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن بڑی مسجد میں بیٹھے تھے.مسجد کے ساتھ جو گھر ہندوؤں کے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جگہ اگر مسجد میں شامل ہو جائے تو مسجد فراخ ہو جاوے.حضور کے چلے جانے کے بعد حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ آج مرزا نے یہ سارے مکان لے لئے.سواب آ کر حضور علیہ السلام کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ یہ مکانات مسجد میں مل گئے.ہمارا تو اس وقت بھی ایمان تھا کہ حضرت صاحب کی سرسری باتیں بھی پوری ہو کر رہیں گی.کیونکہ حضور بن بلائے بولتے نہ تھے.971 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی شاذ و نادر ہی مجلس ایسی ہوتی ہوگی.جس میں پر پھر کر وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ذکر نہ آجا تا ہو.آپ کی مجلس کی گفتگو کا خلاصہ میرے نزدیک دو لفظوں میں آجاتا ہے ایک وفات مسیح اور دوسرے تقوی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ وفات مسیح عقائد کی اصلاح اور دوسرے مذاہب کو مغلوب کرنیکے کام کا خلاصہ تھا اور تقویٰ اصلاح نفس کا خلاصہ ہے.مگر آج کل وفات مسیح سے بحث کا میدان بدل کر دوسری طرف منتقل ہو گیا ہے.972 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب ( یعنی خاکسار مؤلف ) جب چھوٹے تھے تو ان کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی بہت عادت ہوگئی تھی.ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے ”ابا جیٹی حضرت صاحب تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے.کوٹھڑی میں جاتے.شکر نکال کر ان کو دیتے.اور پھر تصنیف میں مصروف ہو جاتے.تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے
سیرت المہدی 824 حصہ سوم پہنچ جاتے.اور کہتے ”با چٹی ( چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا.اور مراد یہ تھی کہ چھٹے رنگ کی شکر لینی ہے ) حضرت صاحب پھر اٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے.غرض اس طرح ان دنوں میں روازانہ کئی کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ہوتی رہتی تھی.مگر حضرت صاحب باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے.بلکہ ہر دفعہ ان کے کام کے لئے اٹھتے تھے.یہ ۱۸۹۵ ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری پیدائش اپریل ۱۸۹۳ء کی ہے.973 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اصل میں عربی زبان کی ستائیس لاکھ لغت ہے جس میں سے قرآن مجید میں صرف چار ہزار کے قریب استعمال ہوئی ہے.عربی میں ہزار نام تو صرف اُونٹ کا ہے اور چارسو نام شہد کا.974 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے.مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.“ 975 بسم اللہ الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے.یعنی:.آپ نہایت رؤف رحیم تھے تھی تھے.مہمان نواز تھے.اشجع الناس تھے.ابتلاؤں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے.عفو، چشم پوشی ، فیاضی، دیانت، خاکساری، صبر، شکر، استغناء، حیا، غض بصر ، عفت ، محنت ، قناعت، وفاداری، بے تکلفی ، سادگی، شفقت، ادب الهی ، ادب رسول و بزرگان دین، حلم، میانه روی، ادا ئیگی حقوق، ایفائے وعدہ.چستی ، ہمدردی، اشاعت دین، تربیت حسن معاشرت، مال کی نگہداشت، وقار،طہارت، زندہ دلی اور مزاح، راز داری، غیرت، احسان، حفظ مراتب حسن ظنی ، ہمت اور اولوالعزمی ،خودداری ، خوش روئی اور کشادہ پیشانی کظم غیظ، کف ید وکف لسان، ایثار معمور الاوقات ہونا، انتظام،اشاعت علم ومعرفت ،خدا اور اس کے رسول کا عشق ، کامل اتباع رسول، ی مختصراً آپ کے اخلاق و عادات تھے.
سیرت المہدی 825 حصہ سوم آپ میں ایک مقناطیسی جذب تھا.ایک عجیب کشش تھی ، رعب تھا ، برکت تھی ، موانست تھی ، بات میں اثر تھا، دُعا میں قبولیت تھی ، خدام پروانہ وار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھے.اور دلوں سے زنگ خود بخوددُھلتا جاتا تھا.بے صبری.کینہ.حسد ظلم.عداوت.گندگی.حرص دنیا.بدخواہی.پردہ دری.غیبت.کذب.بے حیائی.ناشکری.تکبر.کم ہمتی.بجل.ترش روئی و سمج خلقی.بُزدلی.چالا کی.فحشاء.بغاوت.بجز.کسل.ناامیدی.ریا.تفاخر نا جائز.دل دکھانا.استہزاء تمسخر.بدظنی.بے غیرتی.تہمت لگانا.دھوکا.اسراف و تبذیر.بے احتیاطی.چغلی.لگائی بجھائی.بے استقلالی.لجاجت.بے وفائی.لغوحرکات یا فضولیات میں انہماک ، ناجائز بحث و مباحثہ.پُرخوری - کن رہی.افشائے عیب.گالی.ایذاء رسانی.سفلہ پن.ناجائز طرفداری.خود بینی.کسی کے دُکھ میں خوشی محسوس کرنا.وقت کو ضائع کرنا.ان باتوں سے آپ کوسوں دور تھے.آپ فصیح و بلیغ تھے.نہایت عقلمند تھے.دوراندیش تھے.بچے تارک الدنیا تھے.سلطان القلم تھے اور حسب ذیل باتوں میں آپ کو خاص خصوصیت تھی.خدا اور اس کے رسول کا عشق ،شجاعت ، محنت ، تو حید و توکل علی اللہ، مہمان نوازی ، خاکساری ، اور نمایاں پہلو آپ کے اخلاق کا یہ تھا کہ کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی نا پسند فرماتے تھے.اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے.آپ نماز با جماعت کی پابندی کرنے والے، تہجد گزار ، دُعا پر بے حد یقین رکھنے والے ،سوائے مرض یا سفر کے ہمیشہ روزہ رکھنے والے ،سادہ عادات والے سخت مشقت برداشت کرنے والے اور ساری عمر جہاد میں گزارنے والے تھے.آپ نے انتقام بھی لیا ہے.آپ نے سزا بھی دی ہے.آپ نے جائز بختی بھی کی ہے.تادیب بھی فرمائی ہے یہاں تک کہ تادیبا بعض دفعہ بچہ کو مارا بھی ہے.ملازموں کو یا بعض غلط کا رلوگوں کو نکال بھی دیا ہے.تقریر تحریر میں تختی بھی کی ہے.عزیزوں سے قطع تعلق بھی کیا ہے.بعض خاص صورتوں میں توریه کی اجازت بھی دی ہے.بعض وقت سلسلہ کے دشمن کی پردہ دری بھی کی ہے.( مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی
سیرت المہدی 826 حصہ سوم کے مہدی کے انکار کا خفیہ پمفلٹ) بددعا بھی کی ہے.مگر اس قسم کی ہر ایک بات ضرورتا اور صرف رضائے الٹی اور دین کے مفاد کے لئے کی ہے نہ کہ ذاتی غرض سے.آپ نے جھوٹے کو جھوٹا کہا.جنہیں لٹیم یا زنیم لکھا وہ واقعی لیم اور زنیم تھے.جن مسلمانوں کو غیر مسلم لکھا وہ واقعی غیر مسلم بلکہ اسلام کے حق میں غیر مسلموں سے بڑھ کر تھے.مگر یہ یا درکھنا چاہئے کہ آپ کے رحم اور عفو اور نرمی اور حلم والی صفات کا پہلو بہت غالب تھا.یہاں تک کہ اس کے غلبہ کی وجہ سے دوسرا پہلو عام حالات میں نظر بھی نہیں آتا تھا.آپ کو کسی نشہ کی عادت نہ تھی.کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے، کوئی لغو بات نہ کیا کرتے تھے، خدا کی عزت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے.آپ نے ایک دفعہ علانیہ ذب تہمت بھی کیا.ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا.تو آپ نے اس کی درخواست پر اُسے معاف کر دیا.ایک فریق نے آپ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہا مگر حاکم پر حق ظاہر ہو گیا.اور اس نے آپ کو کہا.کہ آپ ان پر قا نو نا دعوی کر کے سزا دلا سکتے ہیں مگر آپ نے درگذر کیا.آپ کے وکیل نے عدالت میں آپ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی.مگر آپ نے اُسے روک دیا.غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دُنیا کے سامنے پیش کیا.جو معجزانہ تھا.سراپا حسن تھے.سراسر احسان تھے.اور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ ہے.صلے اللہ علیہ وسلم اور بس.آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق میں نے دیکھا کہ میں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں.یہ نہیں کہ میں نے یونہی کہدیا ہے.میں نے آپ کو اس وقت دیکھا.جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا.مگر میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں.کہ میں نے آپ سے بہتر ، آپ سے زیادہ خلیق ، آپ سے زیادہ نیک ، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر
سیرت المہدی 827 حصہ سوم بری اور اسے شاداب کر گئی.اگر حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی.کہ كان خلقه القرآن تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ کان خلقُهُ حُبَّ محمد واتباعه عليه الصلوة والسلام خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے اپنی اس روایت میں ایک وسیع دریا کوکوزے میں بند کرنا چاہا ہے.ان کا نوٹ بہت خوب ہے اور ایک لمبے اور ذاتی تجربہ پر مبنی ہے اور ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ہے.مگر ایک دریا کو کوزے میں بند کر نا انسانی طاقت کا کام نہیں.ہاں خدا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے اور میں اس جگہ اس کوزے کا خاکہ درج کرتا ہوں جس میں خدا نے دریا کو بند کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " 66 ” جرى الله في حلل الانبياء “ یعنی خدا کا رسول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہوا ہے.اس فقرہ سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیکوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی.آپ ہر نبی کے ظل اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپ میں جلوہ فگن تھیں.کسی نے آنحضرت سے متعلق کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے:.حسن یوسف ، دم عیسے ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری یہی ورثہ آپ کے ظل کامل نے بھی پایا مگر لوگ صرف تین نبیوں کو گن کر رہ گئے.خدا نے اپنے کوزے میں سب کچھ بھر دیا.اللهم صل عليه وعلى مطاعه محمد وبارک وسلم و احشرنی ربّ تحت قدميهما ذلک ظنی بک ارجو منک خیرا.آمین ثم آمین اس جگہ سیرۃ المہدی کاحصہ سوم ختم ہوا.واخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العلمين)