Seerat Sahaba Rasool

Seerat Sahaba Rasool

سیرت صحابہ رسول اللہ ؐ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

سیرت صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 2

نام کتاب سیرت صحابه رسول سن اشاعت طبع دوم -......دسمبر 2009ء

Page 3

شان صحابه رسول می صلى الله از حضرت امام الزماں مسیح و مہدی دوراں علیہ السلام إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلُّهُمْ كَذَّكَاءِ قَدْ نَوَّرُوْا وَجْهَ الْوَرَى بِضِيَاءِ قَوْمٌ كِرَامٌ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَهُمْ كَانُوْا لِخَيْرِ الرُّسُلِ كَالْأَعْضَاءِ إِنِّي أَرى صَعْبَ الرَّسُوْلِ جَمِيعَهُمْ عِنْدَ الْمَلِيْكِ بِعِزَّةٍ قَعْسَاءِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ لَوْ قَدَرْتُ وَلَمْ أَمُتْ لَا شَعْتُ مَدْحَ الصَّحْبِ فِي الْأَعْدَاءِ يَا رَبِّ فَارْحَمْنَا بِصَحْبِ نَبِيِّنَا وَاغْفِرْ وَانْتَ اللهُ ذُوْالَاءِ ترجمہ.بلاشبہ تمام صحابہ سورج کی مانند ہیں انہوں نے اپنی روشنی سے مخلوق کا چہرہ منور کیا.وہ سب معزز اور بزرگ لوگ ہیں ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے.وہ خیر الرسل مل کے لئے بمنزلہ اعضاء کے تھے.میں رسول کے تمام صحابہ کو خدا کے حضور میں دائمی عزت کے مقام پر پاتا ہوں.اللہ جانتا ہے اگر مجھے قدرت ہوتی اور موت کا سامنا نہ ہوتا تو میں صحابہ کی تعریف ان کے تمام دشمنوں میں خوب پھیلا کر چھوڑتا.اے میرے رب ! ہم پر بھی نبی کے صحابہ کے طفیل رحم کر اور ہماری مغفرت فرما اور تو ہی نعمتوں والا (سرالخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 ص 341) ہے.

Page 4

انتساب ایک غلام کا ہدیہ عقیدت و تبریک ! اس رسول رحمت کے نام ! جنہیں اپنے صحابہ سے بہت پیار تھا.ان وفا شعار صحابہ کے نام! جو نعمت خلافت کے امین ، رب کائنات کی خوشنودی کے وارث اور آسمانِ ہدایت کے ستارے قرار پائے.اس مسیح و مہدی زمان کے نام ! جس نے دور اولین کو دور آخریں سے ملا کر خلافت علی منہاج النبوت کی نعمت تازہ کر دی.خلافت احمدیہ کی پہلی صدی کو دوسری سے ملانیوالے خلیفہ مہدی حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ کے نام ! جو صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کے تاریخ ساز عہد میں مسند خلافت پر جلوہ افروز اور الہی معنیت ونصرت سے تائید یافتہ ہیں.اور صلى الله جنہوں نے صحابہ کی شان میں فرمایا کہ ہمارے لئے تو آنحضرت ﷺ کے سب پیارے ہی بہت پیارے ہیں.(خطبہ جمعہ 2 جنوری 2009)

Page 5

تعارف سیرت و سوانح کا مضمون ہمیشہ ہی اپنی ذات میں اہل ذوق کے لئے باعث دلچسپی رہا ہے اور جب تذکرہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے تربیت یافتہ اور وفا شعار صحابہ کا ہو جو اپنا تن من دھن راہ مولیٰ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اس عظیم الشان نبی کے فیض اور کامل اطاعت کی برکت سے دنیا میں ایک حیرت انگیز اور بے نظیر انقلاب برپا کیا تو اس کا مطالعہ کہیں زیادہ پرکشش اور ایمان افروز ہو جاتا ہے.

Page 6

بسم الله الر نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم سیرت صحابہ رسول ﷺ کا ایمان افروز تذکره نمبر شمار فهرست عناوین صفح | ||| = پیش لفظ طبع اول دیباچه طبع دوم مهاجرین صحابه رضی الله عنهم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ 1 43 78 102 128 148 160 173 181 192 202 214 227 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ 1 -2345678 9 0 1 2 3 10 11 12

Page 7

15 15 14 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 22N22≈≈ 3 1 1 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ حضرت شماس بن عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ حضرت مقداد بن عمر ورضی اللہ عنہ حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ انصار صحابه رضى الله عنهم حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عمر و بن حرام رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ 240 250 256 259 264 273 289 306 318 324 331 338 344 346 352 365 371 379 382 387 391 396

Page 8

نمبر شمار 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 50 で فهرست مضامین حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ حضرت براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حضرت جر برعبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ حضرت زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ انڈیکس مضامین انڈیکس اسماء انڈیکس مقامات کتابیات کچھ 414 428 442 447 456 462 476 491 495 500 503 509 529 538 541 543 556 564 568

Page 9

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ (طبع اوّل) ہزاروں ہزاروں درود اور سلام ہوں اس محسنِ انسانیت پر جس نے اپنی تعلیم و تربیت فیض صحبت اور دعاؤں سے عرب کی بادیہ نشین وحشی قوم میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ وہ نہ صرف انسان بلکه با اخلاق اور با خدا انسان بن گئے.آپ نے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا مگر خالص سونے کی ڈلی کی طرح روشن اور چمکدار بنا دیا، بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے چرواہوں کو تخت شاہی پہ بٹھایا تو غلاموں کو بادشاہ بنا دیا ، ایک ان پڑھ اور امی قوم کو دنیا کا استاد ، معلم اور خدا نما وجود بنادیا.الغرض انہیں فرش سے اٹھایا اور عرش کے تارے بنادیا.کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کام پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار عرب کے وہ بادیہ نشین صحبت رسول میں ایسے باکمال انسان بن گئے کہ اپنے مال جان عزتیں اور وطن سب کچھ خدا اور اسکے رسول کے لئے قربان کر دیئے تبھی تو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ نے اپنے تربیت یافتہ غلاموں کو یہ سند عطا فرمائی کہ اصحابی کالنجوم میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے اور بلاشبہ اپنے علم و عمل ، صحبت صالحہ اور پاک نمونہ سے اصحاب رسول بہتوں کی ہدایت کا موجب بنے اور آج بھی ان کے پاکیزہ نمونے ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.اسی نقطہ نظر سے راقم الحروف نے مختلف اوقات میں صحابہ رسول کی سیرت و سوانح پر جو نقار بر بامضامین لکھے اور ان میں سے بعض اخبارات ورسائل میں بھی شائع ہوئے ،افادہ عام

Page 10

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم || کے لئے یکجا کر کے ایک رسالہ کی صورت میں طبع کئے جارہے ہیں.جس میں فی الوقت سات صحابہ کے حالات کا تذکرہ ہے.یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ تعلیم و تربیت کے لئے عظیم لوگوں کے سوانح و واقعات اور ان کی سیرت کا مطالعہ بے حد مفید اور گہرے اثرات رکھتا ہے.خدا کرے اس لحاظ سے یہ رسالہ بابرکت ثابت ہو اور صحابہ کے پاکیزہ نمونے ہم اپنی عملی زندگی میں جاری کرنے والے ہوں اور یہ علمی کاوش خدا کے حضور بھی مقبول ٹھہرے اور موجب ہدایت ہو.آمین

Page 11

III سم الله الرحمن الرحيم بسم دیباچه ( طبع دوم ) ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفی جیﷺ کے پیدا کردہ عظیم الشان انقلاب کا اعتراف دنیا آج تک کرتی چلی آئی ہے.دور حاضر کے ایک مصنف مسٹر مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب The Hundred یعنی ایک سواثر انگیز عظیم شخصیات میں سرفہرست حضرت محمد ﷺ کا نام نامی لا کر آپ کے بارہ میں کیا خوب لکھا ہے کہ دراصل آپ ہی تاریخ کی وہ منفر د شخصیت ہیں جو دینی ودنیوی ہر دو لحاظ سے بے حد کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے انتہائی مؤثر سیاسی (ملکی ) رہنما بن کر ابھرے.یہاں تک کہ آج ان کی وفات سے تیرہ سو سال بعد بھی ان کا طاقتو راثر وسعت پذیر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس شاندار تبدیلی کو وہ حیرت انگیز انقلاب قرار دیا ہے ” جو پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا تھا نہ کسی کان نے سنا.آپ کیا خوب فرماتے ہیں :.” سارا قرآن اول سے آخر تک یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ رسول اس وقت بھیجا گیا کہ جب تمام قو میں دنیا کی روح میں مرچکی تھیں اور فسا دروحانی نے بر و بر کو ہلاک کر دیا تھا تب اس رسول نے نئے سرے سے آکر دنیا کو زندہ کیا اور زمین پر تو حید کا دریا جاری کر دیا.اگر کوئی منصف فکر کرے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اول کیا تھے ؟ اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہو گئے اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق وصفا سے انہوں نے اپنے ایمان کو خونوں کے بہانوں سے پھر اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کے چھوڑنے اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگانے سے ثابت کر دکھلایا“ ( آئینہ کمالات اسلام ص ۲۰۵) و حضور ﷺ کے فیض صحبت اور تربیت سے...وہ صحابہ گویا بشریت کا چولہ اتار کر مظہر اللہ ہو گئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہوگئی تھی.( ملفوظات جلد ۴ ص ۵۹۵) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کامیابی کے ساتھ تخت خلافت کو مقررہ وقت تک زیب دے

Page 12

IV کر اپنی اپنی خدمات بجالا کر بڑی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی رضوان لے کر چل بسے.( ملفوظات جلد 4 ص 494) صحابہ کرام کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے رسول اللہ کی صحبت میں رہنے کیلئے کیا کچھ نہ کیا...ہماری جماعت کو لازم ہے کہ وہی رنگ اپنے اندر پیدا کریں.بدوں اس کے وہ اصلی مطلب کو جس کیلئے میں بھیجا گیا ہوں پا نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعوڈ کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کی جماعت سے ملنے والی ہے وَآخَرِينَ مِنهُم لَمَّا يَلْحَقُو ابھم (الجمعہ : 4).اس لئے ہمیشہ دل غم میں ڈوبتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بھی صحابہ کے انعامات سے بہرہ ور کرے.ان میں وہ صدق و وفا وہ اخلاص اور اطاعت پیدا ہو جو صحابہ میں تھی.“ ( ملفوظات جلد 1 ص405) حضرت مسیح موعود نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ اس انقلاب عظیم“ کو پوری شان اور تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے.سیرت صحابہ رسول “ کی زیر نظر کتاب میں اس ارشاد کی تعمیل بھی پیش نظر ہے.پچاس صحابہ رسول کے سوانح اور واقعات سیرت کا یہ مرقع اس عظیم انقلاب کی فرداً فرداً تفصیل ہے.قبل ازیں 1997 میں خاکسار کی طرف سے سات اصحاب رسول کی سیرت پر مشتمل مختصر رسالہ شائع ہوا تھا.اس کے بعد سے اب تک ایم ٹی اے پر سیرت صحابہ کے موضوع پر ہونے والی خاکسار کی بعض تقاریر اور جماعتی جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کے اضافہ کے ساتھ دلچسپ و مفید اور مستند حوالہ جات سے مزین یہ کتاب پیش خدمت ہے، جس کا تقاضا احباب کی طرف سے کیا جار ہا تھا.الحمد للہ کہ صد سالہ خلافت جو بلی کے با برکت سال میں عالمگیر جماعت احمدیہ کے قافلہ سالار حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور احباب جماعت کی خدمت میں خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ اور منتخب مہاجرین و انصار صحابہ کے تذکرہ پر مشتمل یہ ہدیہ تبریک پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ازواج مطہرات کے علاوہ دیگر اصحاب رسول پر مشتمل تقاریر ایم ٹی اے دوسری قسط میں کم از کم مزید پچاس کی تعداد میں مدون کر کے یکصد 100 کا عدد مکمل کرنے کا ارادہ ہے.

Page 13

انشاء الله العزيزو بالله التوفيق عاجز نے صد سالہ خلافت جوبلی جلسہ سالانہ برطانیہ ( 2008 ) کے موقع پر اپنے ، پیارے امام حضرت خلیفہ ایح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دوران اس کتاب کی تیاری کا ذکر کیا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نظارت اشاعت کو دکھا کر شائع ہو جائے.بعد میں خاکسار کی خواہش اور درخواست پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت نظارت اشاعت کے زیر اہتمام یہ کتاب شائع کرنے کی منظوری عطا فرمائی.راقم مکرم سید عبدالحی صاحب ناظر اشاعت کا بھی ممنون ہے جنہوں نے اس کتاب کا مسودہ ملاحظہ فرمایا اور اس کی اشاعت کا اہتمام کیا.فجزاهم الله احسن الجزاء خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے اس تاریخ ساز موڑ پر صحابہ رسول کی سیرت کے یہ ایمان افروز واقعات جہاں ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے عملی نمونے مہیا کریں گے، وہاں ان روشن ستاروں کے نورانی اخلاق صداقت و دیانت ، ایثار و وفا ، انکسار واطاعت عدل و انصاف، شجاعت و بسالت ، سادگی ، قناعت، محبت رسول ، صبر و رضا توکل علی اللہ اور مہمان نوازی کی قابل تقلید زریں مثالیں ہماری نسلوں کی تعمیر کردار کے لئے مشعل راہ ہوں گی.وہ نسلیں جنہوں نے تاریخ وسیرت کے سبق آموز واقعات سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ قربانیاں کرتے ہوئے قیامت تک نظام خلافت کی حفاظت کرتے چلے جانا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطاء فرمائے آمین.اس کتاب کی تیاری کے مختلف مراحل میں جن احباب کا تعاون شامل رہا ان سب کے لئے دعا کی درخواست ہے.خصوصاً لیکچرز کو کیسٹ سے صفحہ قرطاس پر لانے کا کام ہمارے مربیان مکرم محمد احمد نعیم صدیقی صاحب نے خود اور جاوید ناصر ساقی صاحب وغیرہ کے جز وقتی تعاون سے مکمل کیا.کمپوزنگ کے لئے عزیزم ندیم احمد صاحب کا رکن دعوت الی اللہ نے دفتری اوقات کے علاوہ وقت نکال کر یہ خدمت انجام دی.پروف ریڈنگ کے لئے خاکسار مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب معاون ناظر دعوت الی اللہ کا ممنون ہے.حضور انور کے ایک اصولی ارشاد کی تعمیل میں کتاب کا مکمل

Page 14

VI انڈیکس (باعتبار حروف تہجی ) بھی شامل کیا جارہا ہے تاکہ ریسرچ سکالرز اور حوالہ تلاش کرنے والوں کو سہولت ہو.اس سلسلے میں مجھے اپنے بیٹے عزیزم مکرم حافظ مظہر احمد طیب صاحب مربی سلسلہ بہ عنبر سبوحی اور مکرم عبدالقدیر قمر صاحب مربی سلسلہ کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے پروف ریڈنگ کے علاوہ انڈیکس کی تیاری میں مکرم عباس احمد صاحب مربی سلسلہ کی رہنمائی کے مطابق کام کیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے.اور اس کتاب کو نافع الناس بنائے آمین.

Page 15

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حلیه و نام و نسب 1 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قد لمبا، رنگ گورا، چہرہ دبلا، خفیف جسم، آنکھیں دھنسی ہوئی اور پیشانی ابھری ہوئی.آپ کا نام عبداللہ تھا.بعض روایات میں زمانہ جاہلیت میں نام عبدالکعبہ بھی آیا ہے.والد کا نام عثمان بن عامر اور کنیت ابوقحافہ تھی.شجرہ نسب آٹھویں پشت میں آنحضرت سے جاملتا ہے.والدہ کا نام سلمہ بنت صخر بن عامر تھا.کنیت ام الخیر مشہور تھی.حضرت ابو بکر نبی کریم کے دو سال بعد پیدا ہوئے.لقب عتیق تھا جس کے معنی آزاد کے ہیں.اس کی وجہ تسمیہ آگ سے آزاد ہونا بیان کی جاتی ہے.(1) اسی طرح صدیق بھی آپ کا لقب ہے جو آنحضرت کی بلاتر و د تصدیق کرنے پر عطا ہوا.ابتدائی حالات حضرت ابوبکر قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے تھے.عرب کے مختلف قبائل میں مختلف کام تقسیم تھے.اس قبیلہ کا کام خون بہا اور دیتیں جمع کرنا تھا.حضرت ابو بکڑا اپنے قبیلہ میں یہ اہم کام سرانجام دیتے.خون بہا کی رقوم جمع کرنے کے علاوہ فیصلے وغیرہ کرنے کی ذمہ داری بھی ان کی تھی.عرب کے رواج کے مطابق آپ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار کیا.کپڑے کی تجارت کرتے تھے.اعلیٰ اخلاق کے مالک اور ایماندار تاجر تھے.جاہلیت کے زمانہ میں بھی جبکہ شراب عربوں میں پانی کی طرح استعمال ہوتی تھی ،کبھی شراب نہ پی.علم انساب کے بڑے ماہر تھے.(2) رسول اللہ سے تعلق اور قبول اسلام آنحضرت حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد حضرت ابوبکر کے محلہ میں سکونت پذیر ہوئے.اس دوران ان سے دوستانہ ہوا.تقریباً ایک ہی قسم کی پاکیزہ عادات نیک خیالات اور پاک وصاف دل رکھنے کے باعث یہ دوستی گہری ہوتی گئی اس زمانہ میں حضرت ابوبکر نے رویا میں دیکھا کہ مکہ میں چاند اترا ہے اور اس کی سب گھروں میں روشنی پھیل گئی ہے.پھر وہ حضرت ابو بکر کی آغوش میں اکٹھا ہو گیا.انہوں نے یہ خواب بعض اہل کتاب کو سنائی تو تعبیر یہ بتائی گئی کہ نبی موعود کو ماننے کی سعادت

Page 16

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 2 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نصیب ہوگی.(3) جب آنحضرت نے دعویٰ نبوت فرمایا.حضرت ابوبکر صدیق “ ان دنوں باہر سفر پر تھے.واپس مکہ پہنچے تو آنحضرت کے دعوی نبوت کی خبر ہوئی فورا حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعویٰ کے بارے میں استفسار کیا.آپ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں تم مجھ پر ایمان لاؤ.حضرت ابو بکر نے فوراً بیعت کر لی اور یوں رسول اللہ کو ان کے اسلام پر بے حد خوشی ہوئی.(4) مولانا روم کیا خوب فرماتے ہیں:.لیک آں صدیق حق معجز نخواست گفت این روخود نه گوید غیر راست یعنی حضرت ابو بکر نے کوئی معجزہ آپ کی صداقت پر طلب نہ کیا اور چہرہ دیکھ کر ہی بیعت کر لی کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا.رسول کریم نے فرمایا کہ ” میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اسے کچھ نہ کچھ تر د دضرور ہوا.سوائے ابوبکر کے کہ جب میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے ذرہ برابر بھی تردد نہیں کیا.(5) علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر مردوں میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں اور ان کی چار پشتوں کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے.(6) حضرت ابن عباس سے شعمی نے پوچھا کہ سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا؟ انہوں نے کہا آپ نے حسان بن ثابت کے یہ شعر نہیں سنے.إِذَا تَذَكَّرتَ شَجرًا مِن أَخِي ثِقَةٍ فَاذْكُر أَخَاكَ أَبَا بَكْرِ بِمَا فَعَلَ خَيرَ الْبَرِيَّةِ أَتَقَاهَا وَأَعْدَلَهَا بَعدَ النَّبِيِّ وَأَوفَاهَا بِمَا حَمَلَ اَلثَّانِيُّ التَّالِيُّ المَحْمُودُ مَشْهَدُهُ وَأَوَّلُ النَّاسِ مِنهُم صَدَّقَ الرسَلَ وَثَانِيَ اثْنَيْنِ فِي غَارِ الْمِنيفِ وَقَد طَافَ العَدُوُّ بِهِ إِذْ صَعِدَا الجَبَلَ یعنی ” جب تمہارے دل میں کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اپنے بھائی ابوبکر کو بھی یاد کر لیا کرو اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یادرکھنے کے قابل ہیں.وہ آنحضرت کے بعد سب لوگوں سے زیادہ متقی اور منصف مزاج تھا اور سب سے زیادہ اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے

Page 17

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 3 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا تھا جو اس نے اٹھائی تھیں.وہی ابو بکر جو غار ثور میں آنحضور کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے وجود کو آپ کی اتباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اور جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا.اور وہ ان لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسول اللہ پر ایمان لائے تھے.ہاں وہ ابو بکر جسے قرآن میں دو میں سے دوسرا کہہ کر یاد کیا گیا ہے.اس وقت جب وہ پہاڑی پر چڑھے تھے اور دشمن نے اس غار کا گھیراؤ کرلیا تھا.‘(7) تبلیغ اسلام اسلام لانے کے بعد حضرت ابو بکر ہمہ تن اسلام کی تبلیغ اور دوسرے دینی کاموں میں مصروف ہو گئے.ان کی تبلیغی کا وشوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں قریش مکہ کے مایہ ناز فرزند اسلام کی آغوش میں آگئے.جن میں حضرت عثمان ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن عوف خاص طور پر قابل ذکر ہیں.یہ سب اصحاب عشرہ مبشرہ میں شمار ہوئے.رسول کریم نے ان کی زندگی میں ہی انہیں جنت کی بشارت دی.مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابو بکر نے جب مسلمان غلاموں کو ظلم وستم کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا تو انہیں خرید کر آزاد کرا دیا.ان آزاد ہونے والے غلاموں میں حضرت بلال ، عامر بن فہیرہ، نذیریہ ، نہد یہ اور جاریہ بن نوفل معروف ہیں.ان کے علاوہ بھی حضرت ابو بکڑ نے بیسیوں غلاموں کو خرید کر آزاد کروایا اور اپنا مال بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کیا.(8) راہ خدا میں تکالیف رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”جب لوگوں نے انکار کیا ابو بکر نے میری تصدیق کی اور اپنے مال اور جان سے میری مدد کی.حضرت ابو بکر نے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت تکالیف اٹھا ئیں.بعض دفعہ قریش مکہ نے اتنا مارا کہ سر کے بال گر گئے کیونکہ وہ آپ کے سر اور داڑھی کے بالوں کو پکڑ کر کھینچتے تھے.حضرت ابو بکر کے ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے.ابھی مسلمان چالیس افراد سے بھی کم تھے کہ انہوں نے آنحضرت سے بڑے اصرار کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ عبادت کرنے

Page 18

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 4 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست کی اور آپ کو خانہ کعبہ لے گئے اور عبادت کے بعد خطبہ دیا.کفار نے انہیں پاؤں اور جوتوں سے اتنا مارا کہ چہرہ کا حلیہ بگڑ گیا.پہچانے نہیں جاتے تھے.یہاں تک کہ آپ کو کپڑے میں اٹھا کر گھر پہنچایا گیا.اندیشہ تھا کہ جانبر نہ ہوسکیں گے.بے ہوشی میں کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتے تھے.شام کو جب ہوش آئی تو پہلا سوال یہ تھا ” میرے آقا کا کیا حال ہے؟ رسول اللہ ﷺ کو تو کوئی تکلیف نہیں پہنچی؟‘ (9) بیعت کے بعد حضرت ابوبکر کے پائے ثبات میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی وہ ہمیشہ دین کی اشاعت اور آنحضرت محلہ کی حفاظت کے لئے آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں کمر بستہ رہے اور آنحضور ﷺ کی خاطر کبھی اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی.رض ایک دفعہ ایک کافر نے ایک کپڑا آنحضرت ﷺ کے گلے میں ڈال کر بل دینے شروع کئے یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا.حضرت ابوبکر تشریف لائے.آنحضور کو ان ظالموں سے چھڑایا اور کہا " کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟“ ان ظالموں نے حضرت ابو بکر کو پکڑ لیا اور مار مار کر بے حال کر دیا.حضرت ابو بکر کی زبان پر یہ الفاظ تھے.پاک ہے اللہ جو جلال اور عزت والا ہے.(10) نوفل بن خویلد حضرت ابو بکر اور حضرت طلحہ کو ایک رسی سے باندھ دیا کرتا تھا تا کہ وہ نماز وغیرہ دینی کاموں سے رک جائیں.مگر یہ مصائب ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے.(11) جب مکہ میں تکالیف انتہا تک پہنچ گئیں تو حضرت ابوبکر کو دربار نبوی ﷺ سے ہجرت حبشہ کی اجازت مرحمت فرمائی گئی.ابھی مکہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک کافر سر دارا بن الدغنہ سے ملاقات ہوئی.اس کے پوچھنے پر سارا قصہ سنایا.اس نے کہا کہ آپ تو دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں.غریبوں کی مدد کرتے ہیں.ایسا مرنجاں مرنج انسان ہم مکہ سے نہیں جانے دیں گے.پھر وہ حضرت ابوبکر صدیق کو امان دے کر واپس لایا.حضرت ابوبکر صبح کے وقت قرآن شریف کی تلاوت بڑے در دو سوز اور خوش الحانی سے کرتے تو بچے بوڑھے سب جمع ہو جاتے.اہل مکہ نے اس پر تاثیر کلام کا اثر دیکھا تو ابن الدغنہ کے ذریعہ آپ کو بلند آواز میں قرآن پڑھنے سے روکنا چاہا.انہوں نے صاف

Page 19

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 5 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انکار کر دیا اور کہا کہ ”ابن الدغنہ تم اپنی امان واپس لے لو.میرے لئے خدا کی پناہ اور حفاظت کافی ہے.(12) ہجرت مدینہ اور مدینہ کے حالات: الله حضرت ابوبکر ہجرت حبشہ نہ کر سکے تو کچھ عرصہ بعد آنحضرت ﷺ سے مدینہ ہجرت کی اجازت طلب کی.حضور نے فرمایا : " ابوبکر ! انتظار کرو، شاید اللہ تمہارا کوئی اور ساتھی پیدا کر دے.“ چند دنوں کے بعد کفار مکہ نے دارالندوہ میں آنحضرت ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا.ادھر آنحضور ﷺ کو بذریعہ وحی الہی ہجرت کی اجازت مل گئی.آپ فوراً حضرت ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے.حضرت ابوبکر پہلے ہی تیار تھے.فوراً عرض کیا" الصحبة يا رسول اللہ کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اپنے اس غلام کو ہمراہی کا شرف بخشیں.حضرت اسماء کہتی ہیں کہ ہمارے ابا حضرت ابو بکر نے راہ خدا میں خرچ کرنے کے بعد ہجرت کے لئے جو کچھ بچا کر رکھا ہوا تھا وہ بطور زادراہ ساتھ لے گئے.یہ رقم پانچ ہزار درہم کے قریب تھی.ہجرت مدینہ کے مبارک سفر میں حضرت ابو بکر صدیق نے جس وفاداری اور جانثاری کا نمونہ دکھایا وہ عشق و وفا کی الگ داستان ہے.انہوں نے اپنی دو اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی آنحضرت کی خدمت میں بلا معاوضہ پیش کر دی.رسول اللہ نے قیمت ادا کرنے کی شرط پر قبول فرمائی.پھر غار ثور میں جان خطرہ میں ڈال کر رسول خدا کی معیت کی توفیق پائی جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا: ثاني اثنينِ اذْهُمَا فِي الغَار...الخ (سورۃ التوبہ: 40) یعنی وہ دو میں سے دوسرا جب کہ وہ غار میں تھے.جب وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو.اللہ ہمارے ساتھ ہے.تب اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور اس کی مدد سے ایسے لشکروں سے کی جو تم نہیں دیکھتے تھے.حضرت ابو بکر خود بیان کرتے تھے کہ جب تعاقب کرنے والے قریش کے سردار غار کے منہ پر پہنچ گئے تو میں نے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے ہو کر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے.نبی کریم ہے نے فرمایا اے ابو بکر تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے ساتھ تیسرا خدا ہے.‘(13) سفر ہجرت میں جب قریش مکہ رسول اللہ اللہ کے قتل کے در پے اور تعاقب میں تھے.حضرت

Page 20

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 6 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ابوبکر آپ کی حفاظت کی خاطر سراقہ کے تعاقب سے پریشان ہوکر رونے لگے فرمایا کیوں روتے ہو؟ عرض کیا ” خدا کی قسم اپنی جان کے خوف سے نہیں روتا آپ کی خاطر روتا ہوں کہ تعا قب والے پہنچ گئے ہیں.تب رسول کریم ﷺ نے دعا کی اور سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں جنس گئے.جب کئی بار ایسا ہوا تو خود سراقہ نے اپنے لئے دعا کی درخواست کی اور حضور کی دعا سے نجات پا کر اور انعام واکرام کے عہد و پیمان لے کر واپس لوٹا.اس طور پر آپ میثرب پہنچے.(14) ہجرت مدینہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد جب رسول نے انصار و مہاجرین میں مؤاخات قائم فرمائی.صدیق اکبر کے بھائی حضرت خارجہ بن زید انصاری ٹھہرے اور حضرت ابوبکر نے مدینہ کے مضافات میں سخ مقام پر ان کے ساتھ قیام فرمایا.خاندانی مراسم بڑھے تو حضرت خارجہ کی لڑکی حبیبہ سے حضرت ابو بکر نے شادی کی جن کے بطن سے اُم کلثوم ہوئیں.آپ کا دوسرا کنبہ جس میں حضرت عائشہ اور حضرت ام رومان شامل تھیں، حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر ٹھہرا ہوا تھا.حضرت ابو بکر با قاعدہ مدینہ ان کی خبر گیری کو جایا کرتے.مدینہ میں حضرت ابوبکر آنحضرت ﷺ کے دست راست اور مشیر خاص بن کر تمام مہمات دینیہ اور دینی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے.غزوات میں شرکت حضرت ابو بکر نے تمام غزوات میں بدر سے فتح مکہ تک رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہ کر عظیم الشان خدمات انجام دینے کی توفیق پائی.ہجرت مدینہ کے بعد سفر و حضر اور امن و جنگ کی ہر حالت میں حضرت ابوبکر رسول اللہ اللہ کے معاون و مددگار اور سلطان نصیر رہے.رسول اللہ علیہ کو حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد نکاح کی ضرورت پیش آئی.حضرت ابوبکر نے عمروں میں تفاوت کے باوجود نہ صرف اپنی لخت جگر حضرت عائشہ گا رشته بخوشی پیش کر دیا تھا بلکہ حضور کی ضرورت کے پیش نظر جلد رخصتی کی خاطر آپ کیلئے حق مہر کا انتظام بھی خود کیا.(15) غزوہ بدر میں رسول کریم ﷺ کیلئے بغرض حفاظت ایک جھونپڑی تیار کی گئی.حضرت علی بیان کرتے ہیں ” ہم سوچ ہی رہے تھے کہ اس نازک جگہ پر مشرکین کے حملہ سے حفاظت کیلئے کون ڈیوٹی

Page 21

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 7 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دے کہ معا حضرت ابوبکر تلوار سونتے وہاں کھڑے ہو گئے کہ جو حملہ آور اس طرف بڑھے گاوہ اس کا کام تمام کر دیں گے.بلاشبہ ابو بکر سب سے زیادہ بہادر انسان تھے.“ (16) جنگ سے پہلے رسول کریم ہے بے چین ہو کر دعائیں کر رہے تھے.اس وقت حضرت ابو بکر ہی آپ کو تسلی دے رہے تھے کہ 'یارسول اللہ ﷺ ! بس کریں آپ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کر دی.(17) غزوہ احد میں رسول کریم علیہ حضرت ابو بکر کی شجاعت اور بہادری دیکھ کر فرماتے تھے آپ اپنی تلوار روک رکھیں ہمیں آپ کی ذات کا نقصان قبول نہیں.“ (18) احد کے بعد رسول کریم ﷺ نے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا تو حضرت ابوبکر ان جانثاروں میں تھے جنہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے غزوہ حمراء الاسد میں شرکت کی.(19) غزوہ بنو مصطلق میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکر کے ہاتھ میں تھا.(20) اسی غزوہ سے واپسی پر حضرت عائشہ کے ہار کی گمشدگی اور قافلہ سے پیچھے رہ جانے کے باعث ’افک‘‘ کا افسوسناک واقعہ پیش آیا.جس میں آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہ پر منافقوں نے بہتان طرازی کی.اس ابتلاء میں حضرت ابو بکر کی عجیب مومنانہ شان ظاہر ہوئی.جب حضرت عائشہ رسول اللہ کے گھر سے اپنے والدین کے گھر آئیں تو حضرت ابو بکڑ نے کہا کہ رسول اللہ کی اجازت کے بغیر میں بیٹی کو بھی اپنے گھر میں نہیں رکھوں گا.پھر حضور کی ہدایت پر انہیں گھر میں ٹھہرایا.(21) حضرت عائشہ کی براءت نازل ہونے سے پہلے رسول کریم علیے ان کے گھر آئے اور حضرت عائشہ سے فرمایا ” اگر تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو تو بہ کرو.اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے.“ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے انتظار کیا کہ میرے والدین میری طرف سے کوئی جواب دیں.جب وہ خاموش رہے تو میں نے کہا کہ آپ لوگ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انہوں نے کہا ”ہم خدا کے رسول علیہ کو کیا جواب دیں.تب حضرت عائشہ نے خود اپنا موقف خوب کھول کر بیان کیا اسی موقع پر حضور پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ نور کی وہ آیات اتریں

Page 22

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 8 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن میں حضرت عائشہ کی براءت کا ذکر تھا.اس سارے عرصہ ابتلاء میں حضرت ابوبکر کی طرف سے کمال صبر و استقامت اور رسول اللہ ﷺ کے لئے ایثار و فدائیت کا نمونہ ظاہر ہوا.(22) صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی حضرت ابو بکر رسول اللہ علیہ کے ہمرکاب تھے.کفار کا نمائندہ عروہ بن مسعود مصالحت کیلئے آیا تو آپ سے کہنے لگا میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے گرد متفرق لوگ جمع ہیں جو مقابلہ کے وقت بھاگ جائیں گے.حضرت ابو بکر یہ سن کر جوش و غیرت رسول کے باعث خاموش نہ رہ سکے اور اسے سخت برا بھلا کہتے ہوئے جواب دیا کہ ”ہمارے بارے میں یہ کہتے ہو کہ ہم بھاگ جائیں گے یا آپ کو چھوڑ دیں گے؟ اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ پتہ چلا ابوبکر ہیں تو کہنے لگا اگر ان کا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ ابھی میں نے نہیں چکا یا تو ضرور اس کا جواب دیتا.بہر حال حضرت ابوبکر کی دینی غیرت اس موقع پر بھی خوب ظاہر ہوئی.(23) رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے وفادار ساتھی حضرت ابو بکر فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ کے دائیں جانب ہوتے ہوئے فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہے تھے.(24) امارت و امامت ابو بکر 9 ہجری میں فتح مکہ کے اگلے سال وفود عرب کی مدینہ میں آمد اور دیگر اہم امور کے پیش نظر رسول خدا حج بیت اللہ کے لئے مکہ نہ جا سکے اور حضرت ابوبکر کو امیر المج مقرر فرما کر مسلمانوں کے کثیر التعداد گروہ کے ساتھ روانہ فرمایا.مسلمانان عالم کا یہ پہلا آزادانہ حج تھا جس کی قیادت حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ ﷺ کی نیابت میں فرمارہے تھے.(25) حجتہ الوداع کے اگلے سال دس ہجری میں رسول اللہ یہ بیمار ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھانے تشریف نہ لا سکے تو امامت نماز کی سعادت حضرت صدیق اکبر کے حصہ میں آئی.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نے جب حضرت ابوبکر کو امامت کا ارشادفرمایا تو میں نے عرض کیا کہ 'یا رسول اللہ ﷺ وہ رقیق القلب ہیں.حضرت عمر کو ارشاد فرما دیجئے آپ نے فرمایا ابوبکر کو کہو کہ نماز پڑھائیں پھر میں نے حضرت حفصہ کی وساطت سے یہی بات رسول اللہ کو کہلوائی.آپ نے پھر وہی جواب دیا.حضرت حفصہ نے دوبارہ عرض کیا تو فرمایا ” تم وہ عورتیں ہو

Page 23

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 9 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جنہوں نے پوسٹ کو پھسلانے کی کوشش کی تھی.ابو بکر کو کہو کہ نماز پڑھائیں.(26) ایک دفعہ حضرت ابو بکڑ کی غیر موجودگی میں حضرت بلال نے حضرت عمر ونماز پڑھانے کے لئے کہہ دیا.جب حجرہ میں رسول اللہ ﷺ کو حضرت عمر کی آواز پہنچی تو فرمایا ابوبکر کہاں ہیں.اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابو بکر نماز پڑھائیں.(27) دراصل ان ارشادات میں حضرت ابو بکر کی امامت اور خلافت کی طرف اشارہ تھا جو آئندہ آپ کو عطاء ہونے والی تھی.وفات رسول اور قیام خلافت راشدہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر جب صحابہ مارے غم کے دیوانے ہو گئے اور ہزاروں بادیہ نشین مرتد ہو گئے اور ایک عجیب خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی.حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی بھی رسول اللہ کی محبت میں از خود رفتہ ہو کر یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں.وہ تلوار کھینچ کر یہ اعلان کرنے لگے کہ جو کہے گا کہ رسول اللہ عنہ فوت ہو گئے ہیں ، میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا.معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ اس اچانک صدمہ کے لئے تیار نہیں تھے.اس موقعہ پر حضرت ابو بکر کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا اور آپ استحکام خلافت کا باعث بنے.وہ روحانی قیادت جس کی صلاحیت آپ کے وجود میں مخفی تھی حالات کے تقاضا پر باذن الہی سامنے آئی اور آپ آنحضرت ﷺ اور اسلام کی حمایت میں آگے بڑھے.حضرت ابو بکر مدینے کے مضافات سیخ نامی بستی میں رہائش پذیر تھے آپ مدینے تشریف لائے آنحضرت کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا.پھر مسجد تشریف لے گئے وہاں حضرت عمرؓ اس وقت تلوار لے کر کھڑے ہوئے تھے.ان سے آپ نے فرمایا اے قسمیں اٹھا کر تقریر کرنے والے ٹھہر واور بیٹھ جاؤ.“ پھر صحابہ سے یوں مخاطب ہوئے.مَن كَانَ مِنكُم يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَد مَاتَ وَمَن كَانَ مِنكُم يَعْبُدُ اللَّهَ فإِنه حَتی لَا يَمُوتُ کہ جو تم میں سے محمد اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ یادرکھے کہ محد یہ فوت ہو چکے ہیں.اور تم میں سے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ یادر کھے کہ خدا زندہ ہے اس پر کبھی موت نہ آئے گی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّد إِلَّا رَسُول قَد خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( آل عمران : 145)

Page 24

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 10 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.حضرت عمر کا بیان ہے کہ جب انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوا.وہ کھڑے نہ رہ سکے اور غم کے مارے نڈھال ہو کر بیٹھ رہے.پھر تو مدینہ کے ہر شخص کی زبان پر یہ آیت تھی اور وہ رسول اللہ سے پہلے تمام انبیاء کی وفات کی دلیل سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کا اعلان کرنے کا حوصلہ پار ہا تھا.(28) الغرض وہ وقت بہت ہی نازک اور مشکل تھا.حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ”ہماری زندگیوں میں جتنے مواقع آئے ، ان میں اس سے زیادہ خطرناک موقع میں نے نہیں دیکھا.“ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ خلافت پورا ہونے والا تھا اور پہلے ایسا تجربہ موجود نہیں تھا کہ انتخاب کیسے ہو؟ اور کون خلیفہ مقرر ہو؟ جحضرت ابوبکر نے وفات رسول میلے کا اعلان کیا ہے.صحابہ صدمہ سے ایسے چور ہوئے کہ مسجد نبوی میں ایک آہ و بکا اور گریہ تھی بس ! لوگوں کو کچھ سمجھ نہ آتی تھی کہ کیا کریں اس دوران انصار مدینہ اپنے سردار سعد بن عبادۃ کے پاس ان کے ڈیرہ سقیفہ بن ساعدہ میں اکٹھے ہوئے.ادھر مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکر کے پاس حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور مہاجرین اکٹھے ہوئے اور سوچنے لگے کہ اسلام کے اوپر بڑا خطرناک وقت ہے کیا کیا جائے.حضرت علی ، حضرت زبیر اور اہل بیت کے افراد آنحضور علی کے گھر میں تجہیز و تکفین کے کاموں میں مصروف تھے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ” اے ابو بکر آئیے ہم انصار کے پاس چلیں.راستے میں ہمیں دو انصار بزرگ ملے انہوں نے یہ معلوم کر کے کہ ہم اپنے انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں.ہمیں فتنہ کے ڈر سے وہاں جانے سے منع کیا اور بتایا کہ وہ لوگ کسی اور طرف مائل ہو چکے ہیں تم اپنا کوئی الگ فیصلہ کرلو.وہاں جانا خطرناک ہے.میں نے کہا خدا کی قسم ! ہم تو ضرور وہاں جائیں گے.پھر جب سقیفہ بنو ساعدہ پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کمبل اوڑھ کر بیٹھا ہے.پتہ چلا کہ سردار خزرج سعد بن عبادہ کو بخار ہے.گویا اس بخار کی کیفیت میں امیر بنانے کے لئے اسے وہاں لایا گیا تھا.اس موقع پر انصار کا خطیب کھڑا ہوا اس نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے کہا ہم اللہ کے انصار اور اس کا لشکر ہیں پھر انصار کے مناقب بیان کر کے مہاجرین کو مخاطب کیا کہ آپ مہاجرین کی جماعت ہو.تمہاری قوم کے چند بدو چاہتے ہیں کہ ہمارا استیصال کریں اور

Page 25

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 11 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ امارت و حکومت سے ہمیں محروم کر دیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں جب وہ خاموش ہوا تو میں نے اس کا جواب دینا چاہا اور میں نے اس موقع کیلئے ایک بہت خوبصورت نقشہ ذہن میں اپنی تقریر کا سجایا ہوا تھا لیکن حضرت ابو بکر نے مجھے بات کرنے سے روک دیا.میں نے پسند نہ کیا کہ انہیں ناراض کروں کیونکہ مجھے حضرت ابو بکر کا بہت لحاظ تھا.اور وہ مجھ سے کہیں زیادہ بردبار اور زیادہ باوقار تھے.پھر انصار کا ایک اور خطیب کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ اے مہاجرین کی جماعت ! رسول کریم کسی بھی مہم کیلئے تمہارے ایک آدمی کے ساتھ ہمارا بھی ایک آدمی چنتے تھے جس سے صاف ظاہر ہے کہ امارت و حکومت ہم دونوں کا حق ہے.ایک امیر ہم میں سے اور ایک تم میں سے ہونا چاہیے.“ اس پر حضرت زید بن ثابت انصاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ مہاجرین میں سے تھے اور ہمارا امام بھی مہاجرین میں سے ہوگا اور ہم اس کے انصار و مددگار ہو نگے.حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابو بکر نے میری سوچوں سے کہیں بڑھ کر ایسی شاندار فی البدیہہ تقریر کی کہ مجمع پر ایک سکوت طاری ہو گیا.انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز انصار کے فضائل و مناقب سے کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب ہمیں تسلیم ! مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت کے ساتھ تعلق اور دینی و دنیوی وجاہت کے باعث قریش کا عرب میں ایک مقام ہے.اے انصار! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی خدمات کی بہترین جزا دے اور تمہارے اس خطیب زید بن ثابت کی رائے کو قائم فرمادے.اس کے علاوہ کسی رائے پر اکٹھے ہونا ممکن نہیں.اس وقت حضرت ابو بکر کے دائیں حضرت عمر اور بائیں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح تھے.جن کے ہاتھ پکڑ کر انہوں نے کہا کہ ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو میں اس کے لئے تیار ہوں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس آخری فقرہ کے علاوہ جو مجھے نا گوار ہوا حضرت ابوبکر کی باقی تقریر انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی.خدا کی قسم ! اگر مجھے اختیار ہو کہ میری گردن کاٹ دی جائے گی یا مجھے ایسے لوگوں کا امیر بنایا جائے گا جس میں حضرت ابو بکر موجود ہیں تو میں اپنی گردن کٹوا دوں لیکن ایسے لوگوں کا امیر بنا گوارا نہ کروں جن میں حضرت ابوبکر جیسا عظیم الشان انسان موجود ہو.‘ (29) اس موقع پر حضرت عمر نے انصار کے نیک جذبات کو بہت خوبصورت انداز میں ابھارا کہ تمہیں

Page 26

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 12 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ معلوم ہے کہ آنحضرت نے آخری بیماری میں امام کے مقرر کیا؟ تم میں سے کون گوارا کرے گا کہ انہیں اس مقام سے ہٹائے جس پر خدا کے رسول نے انہیں کھڑا کیا اور وہ حضرت ابو بکڑ سے آگے بڑھ کر امامت کرائے.انصار میں خدا ترسی تھی انہوں نے کہا ہم میں سے کوئی بھی ایسا پسند نہیں کرے گا.ہم استغفار کرتے اور اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ابوبکر سے آگے بڑھیں.(30) اس پر انصار میں سے حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر کہ لوگو! یہی تمہارے امام ہیں ان کی بیعت کرو.” حضرت عمر نے بھی حضرت ابو بکڑ سے عرض کیا آپ ہاتھ بڑھا ئیں اور ہماری بیعت لیں.چنانچہ سب مہاجرین و انصار نے بیعت کی.انصار میں حضرت زیڈ کے علاوہ حضرت بشیر بن سعد اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے.(31) کارنامے اور فتوحات رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں پر خوف اور خطرات کے مہیب بادل منڈلانے لگے تھے.کئی عرب قبائل نے ( مرتد ہو کر ) بغاوت کر دی اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.حضرت ابو بکر نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں میں وحدت قائم ہو جائے.دوسرا کام باغیوں اور منکرین زکوۃ کا قلع قمع کیا.فرمایا کہ آنحضرت کے زمانہ میں جو اونٹ کی تکیل بھی زکوۃ دیتا تھا وہ جب تک میں وصول نہ کر لوں اس سے جنگ کروں گا.‘‘ (32) چنانچہ سارا عرب ایک بار پھر زکوۃ ادا کرنے لگا.مرتدین کے زبردست فتنہ کا انسداد حضرت ابوبکر کا بڑا کارنامہ ہے.متعدد نو مسلم قبائل نے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بغاوت وارتداد کا اعلان کر دیا.حضرت ابو بکر نے جنگ کر کے ان کا بھی قلع قمع کیا.ان خطر ناک حالات میں رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق اسامہ کی سرکردگی میں لشکر بھی روانہ فرمایا اس کے علاوہ جمع قرآن کے عظیم الشان کام کا سہرا بھی آپ کے سر ہے.(33) ان کارناموں کی تفصیل آگے آرہی ہے جب خلافت راشدہ کا خدائی وعدہ پورا ہوا تو قیام خلافت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام خوف دور کر دئے.خلافت کو بتدریج استحکام نصیب ہوا.حضرت ابو بکر نے پہلا نہایت پر حکمت قدم یہ اٹھایا کہ قوم کی شیرازہ بندی کی.اہل بیت جو مشورہ خلافت کے وقت شامل نہ ہو سکے تھے.ان کے بارہ

Page 27

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 13 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں یہ حقیقت واضح ہونی چاہیئے تھی کہ وہ دل سے خلافت کے وفادار اور مطیع ہیں.ان میں حضرت علیؓ، حضرت فاطمہ ، اور حضرت زبیر قابل ذکر تھے.پہلا خطاب حضرت ابو بکر نے مسجد نبوی میں لوگوں کو اکٹھا کیا.حضرت علی اور حضرت زبیر کے بارے میں پوچھا کہ وہ بھی موجود ہیں.پھر بطور خاص انہیں بلوایا گیا.حضرت ابو بکڑ نے نہایت اثر انگیز خطاب کیا.آپ نے فرمایا:.وَاللهِ مَا كُنتُ حَرِيضًا عَلَى إِلامَارَةِ يَوْمًا وَلَا لَيْلَةً قَطُّ...الخ کہ خدا کی قسم ! مجھے کبھی بھی خلافت کے لئے خواہش یا رغبت پیدا نہیں ہوئی.نہ ہی کبھی میں نے پوشیدہ یا اعلانیہ اس کا مطالبہ کیا.ہاں فتنہ سے ڈرتے ہوئے میں نے اسے قبول کر لیا ہے مگر یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کی مجھے طاقت نہیں پھر بھی میں نے اٹھا لیا ہے.اب سوائے اس کے کہ اللہ مجھے طاقت دے مجھ میں تو اس کی ہمت نہیں اور میں تو اب بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے اگر کوئی اور طاقتور اور ہمت والا ہے جو اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے تو اٹھا لے.“ یہ بہت ہی اثر انگیز خطاب تھا جس کے آخر میں آپ نے حضرت علی کو مخاطب کر کے فرمایا اے علی ! داماد رسول! کیا آپ پسند کرو گے کہ مسلمانوں کی قوت پراگندہ ہو.پھر حضرت زبیر سے بھی یہی سوال کیا.ان دونوں نے کہا ” ہمارے دل میں صرف اتنی بات تھی کہ جب یہ مشورہ (خلافت) ہوا تو ہمیں اس میں شریک نہیں کیا گیا ورنہ ہماری بھی یہی رائے تھی اور ہے کہ حضرت ابوبکڑ ہی اس خلافت کے زیادہ اہل اورمستحق ہیں کہ آنحضرت نے انہیں اپنی زندگی میں امام بنایا اور وہ غار حرا میں رسول اللہ کے ساتھی تھے اور قرآن میں انہیں دو میں سے دوسرے“ کہہ کر یاد کیا گیا ہے.پھر ان دونوں بزرگان اہل بیت نے اعلانیہ بیعت کی.(34) یوں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا.حضرت علیؓ کے اس موقع پر موجود نہ ہونے کی ایک وجہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کی علالت میں ان کی تیمارداری بھی تھی.نیز اس عرصہ میں انہوں نے گھر میں رہتے ہوئے جمع

Page 28

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 14 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قرآن کا اہم کام بھی شروع کر رکھا تھا جس کے باعث سوائے نمازوں کے گھر سے کم نکلتے تھے.(35) فتنہ ارتداد و بغاوت و مدعیان نبوت دیگر خطرات میں سے ایک بڑا خطرہ جو خلافت اولیٰ کے فوراً بعد پیدا ہوا وہ ارتداد و بغاوت کا فتنہ تھا.عرب کے مختلف علاقوں میں کئی بادیہ نشین مرتد ہوکر زکوۃ سے منکر ہو گئے.پھر بعض لوگوں نے نبوت کے دعوے کر کے بغاوت کر دی.یمامہ کے مسیلمہ کذاب نے تو حضور کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا، اس کے بعد ایک عورت سجاح “ نے بھی یہ دعویٰ کر کے علم بغاوت بلند کیا اور مسیلمہ سے شادی رچا کر اتحاد کر لیا.کئی اور مدعیان نبوت بھی پیدا ہو گئے.انہوں نے بھی مرتدین وغیرہ کو اپنے ساتھ ملا کر بغاوت کر دی.یہ تھا اس وقت کے عرب کا نقشہ کہ ایک طرف مرتدین ہیں ، دوسری طرف مدعیان نبوت، تیسری طرف منکرین زکوۃ.اور مدینہ محض اسلام کا ایک جزیرہ بن کر رہ گیا.ان حالات میں اسلام کو بچانا ،مسلمانوں کی حفاظت کرنا اور خلافت کو استحکام عطا کرنا یہ حضرت ابو بکر کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے.چنانچہ علامہ ابن خلدون نے اس دور کی طوائف الملو کی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد تمام عرب مرتد ہو گیا.بعض قبیلے سارے کے سارے اور بعض جزوی حالت میں.نبی کریم کی وفات کے بعد مسلمانوں کی حالت تعداد کی کمی اور دشمن کی کثرت کے باعث بکریوں کے اس ریوڑ جیسی ہوگئی جو برسات کی اندھیری رات میں بغیر چرواہے کے رہ جائے.عرب کے خاص و عام مرتد ہو کر طلیحہ اسدی مدعی نبوت کے ساتھ مل گئے قبیلہ طے اور اسد اور غطفان بھی مرتد ہو گئے.“ پھر لکھا ہے: ” قبیلہ ہوازن نے زکوۃ روک لی.قبیلہ بنوسلیم کے خواص نے ارتداد کا اعلان کر دیا اور قریباً ہر جگہ سب لوگوں نے یہی کیا.ہذیل، بنو تغلب اور دیگر کئی قبائل نے سجاح کی پیروی کی اور ان تمام گروہوں نے مل کر مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا.“ (36) ابن اثیر نے لکھا ہے رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر جب مکہ پہنچی تو وہاں کا حاکم عتاب کے مارے چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا.قریب تھا کہ سارے کا سارا شہر مرتد ہو جاتا (37) باقی علاقے جہاں یہودی اور نصرانی تھے.ان کو الگ گھل کھیلنے کا ایک موقع مل گیا.

Page 29

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 15 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اس صورتحال کا نقشہ یوں بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ علیہ کی وفات کے بعد ہماری حالت ایسی ہوگئی حِدنَا اَن نَّهْلِكَ لَو لَا أَن مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا بِأَبِي بكرٍ کہ قریب تھا ہم تباہ و برباد ہو جاتے اگر اللہ تعالیٰ حضرت ابو بکر کے ذریعہ ہم پر احسان نہ فرماتا عین اس وقت جبکہ مرکز اسلام معاندین اور دشمنوں کے اندر گھرا ہوا تھا لشکر اسامہ کی روانگی کا ایک اور بہت بڑا امتحان در پیش آیا.آنحضور ﷺ نے اپنی زندگی میں شامی سرحد سے فوج کشی کے خطرہ سے بچنے کیلئے ایک لشکر حضرت اسامہ کی سرکردگی میں تیار کیا تھا.جس میں حضرت عمر اور دیگر بزرگ صحابہ بھی شامل تھے.صحابہ نے عرض کیا اے امیر المومنین ! اس وقت تمام عرب پراگندہ ہے، کئی قبائل مرتد ہو گئے ، نبوت کے دعویداروں کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں.خدا را! کچھ عرصہ کے لئے آپ اسامہ کے لشکر کو روک لیں.پہلے ان قریبی دشمنوں کا مقابلہ کریں.شامی سرحد تو دور ہے وہاں بعد میں لشکر بھجوایا جا سکتا ہے خدا تعالیٰ اپنے خلفاء کو کیا عجیب عظمت شان اور عزم و استقامت عطا کرتا ہے.وہی ابو بکر جن کے بارہ میں کل تک کہا جار ہا تھا کہ ان کو نماز پڑھانے کیلئے نہ کہا جائے کہیں رقت سے رو نہ پڑیں.آج حضرت عمر جیسا دل گردے والا انسان بھی ان سے آکر عرض کرتا ہے : یا حضرت! اسامہ کے لشکر کو روک لیں.“ مگر خدا کا وہ کوہ وقارخلیفہ شیر کی طرح گرجتے ہوئے فرماتا ہے.وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَو ظَنَنتُ أَنَّ الرِّبَاعَ تَحْطُفُنِي لَا نَفَرَ جَيشَ أَسَامَةَ كَمَا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ - (38) ” خدا کی قسم ! اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مدینہ میں آکر میرا جسم نوچ لیں گے.تب بھی میں اسامہ کے اس لشکر کو ضر ور روانہ کروں گا، جسے بھیجوانے کیلئے خدا کے رسول محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا.حضرت ابو بکر نے اس لشکر کو خود شہر کے باہر جا کر روانہ فرمایا.پھر حضرت ابو بکر مرتدین کی شورش کی طرف متوجہ ہوئے.پہلے تمام عرب کے مرتدین کے نام آپ نے خطوط لکھے.جن میں اطاعت قبول کرنے والوں سے صلح اور باغیوں سے جنگ کا اعلان تھا.آپ نے ہدایت فرمائی کہ ہر مجمع میں میرا یہ خط پڑھ کر سنایا جائے.“ مدینہ کی حفاظت

Page 30

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 16 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 11ھ میں یہ حالات پیدا ہو گئے کہ مدینہ کو گردو نواح کے قبائل سے سخت حملہ کا خطرہ ہوا.لشکر اسامہ کی روانگی کے بعد مدینہ میں لڑنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی اور مرکز اسلام کی حفاظت کا اہم مسئلہ در پیش تھا.حضرت ابو بکر نے مدینہ کے ناکوں پر حضرت علی ، زبیر طلحہ عبداللہ بن مسعود کو مقرر کیا اور اہل مدینہ کو مسجد نبوی میں اکٹھا کر کے تقریر کی اور مدینہ پر حملہ کی صورت میں ہنگامی تیاری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا یوں سمجھو دشمن صرف ایک دن کے فاصلے پر ہے.“ اس خطاب کے تیسرے ہی دن مرتدین نے مدینہ پر حملہ کر دیا.حضرت ابو بکر کو اطلاع ہوئی تو خودمدینہ میں موجود نفری کو لے کر اونٹوں پر سوار ہو کر نکلے.وقتی طور پر یہ جوابی کاروائی دیکھ کر دشمن منتشر ہو گئے.پھر واپس جا کر ذوالقصہ مقام پر یہ لوگ اکٹھے ہوئے.حضرت ابو بکر مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ خودان کے تعاقب میں نکلے.صحابہ نے عرض کیا ” امیر المومنین ! آپ مدینہ میں ٹھہرمیں آپ کو کوئی گزند پہنچی تو سارا نظام درہم برہم ہوگا ہم حاضر ہیں.حضرت ابو بکڑ نے کمال جرات اور حوصلہ سے فرمایا ” میں خود اس فتنہ کو ختم کرنے میں تمہارے ساتھ شریک ہونگا.اس طرح مدینہ کے گردونواح میں جس قدر فتنے تھے آپ نے خود ان کو فر و کیا.عرب کے دور دراز کے علاقوں میں الگ بغاوت ہو چکی تھی.اہل یمن نے مسلمان عاملوں کو واضح خط لکھے کہ تم ہمارے ملک میں گھس آئے ہو.اسے خالی کر دو اور جس قد را موال وغیرہ لئے ہیں وہ ہمارے حوالے کرو.یمامہ میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا راج تھا.جو دوسری دعویدار نبوت سجاح سے شادی کے بعد حق مہر میں کئی نمازیں معاف کر کے شراب اور زنا کو حلال قرار دیتا اور زکوۃ سے روکتا تھا.وہ سجاح کے لشکر کے ساتھ مل کر مقابلہ کیلئے تیار تھا.ایک اور مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد بنی اسد میں تھا.یہ تمام دعویدار اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار تھے.دیگر مرتدین ان کے علاوہ تھے.اس موقع پر صحابہ کے مابین بعض مرتدین کے ساتھ جہاد میں اختلاف رائے پیدا ہوا کیونکہ ان میں ایک طبقہ صرف زکوۃ سے انکار کر رہا تھا.حضرت عمر کی رائے تھی کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے جو لا الہ الا اللہ کہتا ہے اس سے جنگ نہیں کرنی اور یہ لوگ صرف زکوۃ کے انکاری ہیں.ان سے ہم کیوں جنگ کریں.اس پر حضرت ابو بکڑ نے کمال عزم سے فرمایا.

Page 31

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 17 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وَاللَّهِ لَو مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يَوَدُّوَنهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ لَقَاتَلْتُهُم عَلَيهِ اگر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہ لوگ ایک اونٹنی کا بچہ یا ایک نکیل بھی زکوۃ دیتے تھے تو میں ان سے اس کے لئے لڑوں گا اور رسول اللہ ﷺ کی جانشینی میں وہی کروں گا جو وہ کرتے تھے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے بھی شرح صدر ہو گئی کہ حضرت ابو بکر کا یہ فیصلہ بہت ہی درست تھا اور قرآن کریم میں بھی ان برحق خلفاء کی یہی تعریف ہے.الَّذِينَ إِن مَّكْتُهُم فِى الأَرضِ اَقَا مُوا الصَّلوةَ وَا تَوُا الزَّكَوةَ (الحج 42) کہ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت دیں تو یہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ کا اہتمام کریں گے.“ حضرت ابو بکر نے ان باغیوں کے مقابلہ کے لئے گیارہ مہماتی دستے تیار کئے اور اطراف مدینہ میں ان کو روانہ کیا.(39) یمامہ کی طرف آپ نے حضرت خالد بن ولید کے ساتھ اور حضرت ثابت بن قیس کی معاونت میں لشکر بھجوایا.جہاں بڑی شدید جنگ ہوئی اور پانچ صد صحابہ شہید ہو گئے جو قرآن شریف کے حفاظ تھے.تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ مسیلمہ کذاب کے فتنہ سے مسلمانوں کو نجات ملی اور وہ ہلاک ہوا.جمع قرآن حضرت ابو بکڑ کے دور کا ایک اور کارنامہ حفاظت قرآن ہے.جب جنگ یمامہ میں پانچ صد حفاظ شہید ہو گئے اور یہ خطرہ پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی حفاظت کا کیا بنے گا.یہ ایک بہت اہم اور نازک امر تھا جس پر دین کی بنیاد تھی.چنانچہ خلیفہ وقت حضرت ابو بکر نے اس کام کیلئے کا تب وحی حضرت زید بن ثابت کو مقرر کیا.جنہوں نے قرآن شریف کو جو متفرق اجزاء کی شکل میں تھا، مختلف صحابہ سے اس کی تحریری شہادتیں اکٹھی کر کے اسے ایک نسخہ میں جمع کروانے کا اہتمام کیا.پس حضرت ابو بکڑ کے دور میں محض خطر ناک فتنے ہی فرو نہیں ہوئے.بلکہ جمع قرآن جیسے عظیم الشان کام بھی ہوئے.(40) وراثت رسول کا فیصلہ

Page 32

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 18 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر سکا ایک زبردست کارنامہ وراثت رسول کا فیصلہ تھا.یہ ایک بہت نازک مرحلہ تھا جب اہل بیت کی طرف سے رسول اللہ اللہ کے ورثہ کا سوال اٹھایا گیا.ایک طرف اہل بیت رسول سے محبت اور جذباتی تعلق دوسری طرف منصب خلافت کی ذمہ داری سے قومی اموال کی تقسیم میں عدل کا تقاضا.حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ”ہمار اور یہ نہیں چلے گا اور ہمارا ترکہ صدقہ ہے.“ نہایت درجہ انصاف کے ساتھ یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ ان اموال میں سے اہل بیت فائدہ اٹھائیں گے.جس طرح نبی کریم ﷺ کی زندگی میں استفادہ کرتے تھے مگر یہ جائیداد بطور ورثہ تقسیم نہ ہوگی.حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا: ”رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابتوں اور رشتہ داریوں سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہے.لیکن میں ان اموال میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا نہ کسی خلاف عدل فیصلہ کا مرتکب ہوں گا.بلکہ جیسے رسول الله ع ان اموال میں تصرف فرماتے تھے وہی کروں گا.“ چنانچہ حضرت فاطمہ اس پر راضی ہو گئیں.(41) الغرض نبی کریم کی وراثت کا مسئلہ بھی حضرت ابو بکڑ نے ہمیشہ کیلئے حل کر دیا.جسے بعد حضرت علیؓ نے بھی قائم رکھا.اس کے ساتھ ہی حضرت ابو بکر کے مختصر سے دور میں فتوحات کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو گیا.فتوحات کے اعتبار سے آپ کا زمانہ خلافت وہ مقدس دور ہے جس میں بعد میں بننے والی مستقل اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی.چنانچہ آپ کے مبارک دور میں ہی حضرت خالد بن ولید (سیف اللہ ) اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں عراق ایران اور شام فتح ہوئے.فتوحات ایران آنحضور ﷺ کے زمانہ سے ہی ایران سے کشمکش شروع ہوگئی تھی.جب کسر کی شاہ ایران نے رسول اللہ ﷺ کا تبلیغی مراسلہ پھاڑ دیا اور کہا میرا غلام ہو کر مجھے ایسے خط لکھتا ہے.رسول اللہ نے فرمایا ” خدا اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے.پھر کسری نے یہودیوں کی سازش سے نبی کریم کی گرفتاری کے احکام بھی جاری کئے تھے.اب خود اس کی حکومت کے ٹکڑے ہونے کا عمل شروع ہو چکا تھا، کسری کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ، وہ چھ ماہ حاکم رہا پھر اس کی بیٹی پوران دخت حاکم بنی.

Page 33

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 19 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ قوم کیسے کامیاب ہوگی جس نے ایک عورت کو حاکم بنالیا ہے.“ (42) عراق کا علاقہ ایرانیوں کا باجگزار تھا اور ایرانی ان عرب قبائل پر حکومت کرتے تھے.ایرانیوں کی کمزوری کے بعد ان علاقوں میں طوائف الملوکی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس پر وہ قابو پانے کی کوشش میں تھے.عراق کے ایک سردار شنی بن حارثہ جو مسلمان ہو چکے تھے اور ایرانیوں کا تختہ مشق رہ چکے تھے.انہوں نے حضرت ابو بکر سے مدد مانگی تا ایرانیوں کے حملے سے بچا جا سکے.چنانچہ خالد بن ولید کو ان کی مدد کیلئے بھیجا گیا اور یوں فتوحات ایران کا سلسلہ شروع ہوا.کہاں رسول اللہ کی وفات پر مسلمانوں کی جان پر بن آئی تھی کہ اسلام اور مدینہ کا کیا بنے گا ؟ اور کہاں خلافت کی برکت سے دنیا کی دو بڑی حکومتوں کے ساتھ ٹکر کے بعد اسلام کی فتح کے سامان ہونے لگے.حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں ان دونوں بڑے محاذوں پر کام شروع ہو گیا.ایران میں حضرت خالد نے پہلے حیرہ فتح کیا.پھر جنگ ذات السلاسل ہوئی جس میں ایرانی جرنیل ہرمز کو شکست فاش ہوئی اور اس کی وہ قیمتی ٹوپی مال غنیمت میں آئی جس کی مالیت ایک لاکھ درہم تھی.حضرت ابو بکر نے اعزاز کے طور پر وہ ٹوپی حضرت خالد کو دے دی.اس کے علاوہ بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا.پھر جنگ مزار ہوئی.یہاں جو مال غنیمت ہاتھ آیا اس میں ہاتھی بھی شامل تھا سے مدینہ بھجوایا گیا.مدینے کے لوگ بڑے تعجب سے اسے دیکھتے تھے کیونکہ انہوں نے پہلی دفعہ ہاتھی دیکھا تھا.پھر جنگ وجہ ہوئی جس میں تمہیں ہزار ایرانی قتل یا غرق دریا ہوئے.پھر جنگ الیس ہوئی.جس میں نصرانیوں کا امیرانیوں کے ساتھ اتحاد تھا اور سب مل کر اسلام کے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ آور تھے.اس میں ستر ہزار ایرانی اور نصرانی کام آئے.مسلمانوں نے پہلی دفعہ وہاں سفید آٹے کی روٹیاں حیرانی سے دیکھیں کہ یہ سفید کپڑوں کے ٹکڑے ہیں.“ پھر امغیشیا کی فتح ہوئی جہاں سے اتنا مال غنیمت ملا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا.حضرت ابو بکر نے اس وقت فرمایا کہ اے قریش ! تمہارے شیر نے ایک شیر پرحملہ کر کے اسے مغلوب کر دیا اور عورتیں خالد جیسا بہادر پیدا نہیں کر سکتیں.اس کے بعد عین التمر فتح ہوا، جنگ دومتہ الجندل ہوئی.جنگ فراض ہوئی.جہاں رومیوں اور ایرانیوں کی متحدہ فوج تھی.ایک لاکھ آدمی اس میں مارے گئے تھے.الغرض

Page 34

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 20 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایران اور عراق کے محاذ پر یہ کامیابیاں ہوئیں.(43) فتوحات شام دوسری طرف حضور ﷺ کے آخری ایام میں رومیوں سے کشمکش کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا.آنحضور ع خود اپنی زندگی میں رومی سرحد پر غزوہ تبوک کیلئے گئے تھے.پھر اسامہ کا لشکر رومی سرحدوں پر بھیجا گیا تھا جہاں آپ کے قاصد حارث بن عمیر کو بصری کے حاکم نے قتل کروا دیا تھا اور جنگ موتہ ہوئی تھی.شامی سرحد پر خطرے سے نمٹنے کیلئے حضرت ابوبکر نے بعض اسلامی جرنیلوں کو مقرر کیا.ایک طرف دنیا کی بہت بڑی طاقت ایران سے جنگ جاری ہے تو ادھر دوسری بڑی طاقت شام سے جنگ چھڑ رہی ہے.حضرت ابو بکر کے ارشاد پر حضرت خالد نے مختلف محاذوں کے امراء کی افواج اکٹھی کر کے جنگ یرموک میں دشمن کا مقابلہ کیا.جہاں دو لاکھ سے زیادہ ایرانی فوج جمع تھی اور مسلمان کل ملا کر بھی پینتالیس ہزار تھے.بڑے کانٹے دار مقابلہ کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی.اس دوران ہی حضرت ابو بکر کی وفات ہوگئی.(44) الغرض حضرت ابو بکر کی خلافت کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان استحکام عطاء کیا.جس کا آغاز حالت خوف سے ہوا تھا.اللہ تعالیٰ نے قیام امن اور تمکنت دین کے وعدے پورے کر کے اڑھائی سالہ مختصر دور میں کتنی عظیم الشان فتوحات انہیں عطا کیں.حضرت علی نے ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس دین کو فتح کبھی کثرت لشکر سے نہیں ہوئی اور نہ قلت لشکر سے شکست ہوئی بلکہ یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے خود غالب کیا اور یہ اسی کا لشکر ہے جسے اس نے عزت وقوت دی اور یہ دین وہاں پہنچا جہاں پہنچنا تھا.خدا کا یہ وعدہ تھا پھر انہوں نے سورہ نور کی آیت استخلاف ( نمبر 56) پڑھی کہ اللہ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو خلیفہ بنائے گا اور ان کو تمنت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ خوفوں کو امن میں بدل دے گا.‘ (45) حضور علیہ کے مسلمانوں سے فتوحات کے جو وعدے تھے ان کا حضرت ابو بکر کے دور میں پورا ہونا بھی آپ کے استحکام خلافت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے.

Page 35

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات 21 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت ابو بکر آپ سے اڑھائی قدم آگے بڑھ گئے ہیں.چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے ٹھیک اڑھائی سال بعد وہ اپنے آقا سے جاملے.روایت ہے کہ کھانے میں زہر کے نتیجہ میں ایک سال بیمار رہ کر آپ کی وفات ہوئی.دوسری روایت میں آخری بیماری کا ایک فوری سبب یہ بھی درج ہے کہ سردی میں ٹھنڈے پانی کے غسل سے بخار ہوا جس کے دو ہفتے بعد آپ کی وفات ہوئی.وفات کے دن پوچھا آج کونسا دن ہے؟ پیر کا دن تھا.فرمایا رسول کریم ﷺ نے کب وفات پائی تھی.بتایا گیا پیر کو چنانچہ آپ بھی پیر کے روز ہی فوت ہوئے.(46) آپ کی عمر رسول کریم علیہ کی عمر کے مطابق 63 برس ہوئی.فضائل و خصائل نبی کریم علیہ نے حضرت ابو بکر کو جنت کے سرداروں میں سے قرار دیا.جیسا کہ ایمان لانے والوں میں آپ سب سے اول ٹھہرے.نبی کریم ﷺ نے انہیں یہ مژدہ بھی سنایا کہ وہ آپ کی امت میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے.(47) حضرت ابو بکر نے سفر ہجرت میں جان کو خطرے میں ڈال کر آنحضور کا ساتھ دیا.قرآن شریف میں انہیں ”ثانی اثنین کا خطاب دیگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معیت کی نوید سنائی گئی ہے.یہ تاریخی معیت خدا کے حضور ایسی مقبول ٹھہری کہ آپ سعادت دارین اور نبی کریم کی دائی معیت کے وارث بن گئے.آنحضرت نے فرمایا کہ روز قیامت ابوبکر کا حشر بھی میرے پہلو سے ہوگا.(48) نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر کے بلند روحانی مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوبکر اس امت کے بہترین اور افضل فرد ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو.“ (49) حضرت بانی جماعت احمدیہ نے حضرت ابوبکر کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا:." حضرت ابوبکر صدیق کامل عارف، اخلاق کے حلیم اور فطرت کے رحیم تھے.آپ نے انکساری اور تنہائی کا چولہ زیب تن کیا اور زندگی بسر کی.آپ بہت عفو، شفقت اور رحمت کرنے والے

Page 36

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 22 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے.محمد مصطفی علیہ سے تعلق بہت مضبوط تھا.آپ کی روح خیر الوریٰ کی روح سے ملی ہوئی تھی اور اس نور سے ڈھکی ہوئی تھی جس نور نے آپ کے پیشوا اور خدا تعالیٰ کے محبوب کو ڈھانپ رکھا تھا.آپ آنحضور علے کے نور اور آپ کے عظیم فیوض میں نہاں تھے اور آپ فہم قرآن اور سید الرسل ونفخر بنی نوع انسان کی محبت میں سب لوگوں پر فوقیت لے گئے تھے.جب آپ پر اخروی زندگی کا مضمون اور دیگر سر بستہ راز کھلے تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات کو خیر باد کہہ دیا.جسمانی رشتوں سے الگ ہو گئے اور محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے.آپ نے خدائے یگانہ کی خاطر جو زندگی کا مقصد حقیقی ہے اپنی ہر چاہت کو چھوڑ دیا.آپ کی روح نفسانی آلائشوں سے ہر طرح مبرا، ذات حق کے رنگ میں رنگین اور رضائے رب العالمین میں محو ہوگئی.جب کچی محبت الہی آپ کے نس نس میں ، آپ کے دل کی گہرائی اور روح کے ذرے ذرے میں گھر کر گئی اور اس محبت کے انوار اور آپ کے اقوال وافعال اور نشست و برخاست میں ظاہر ہوئے تو آپ کو صدیق کا خطاب ملا اور جناب خیر الواحبین کے دربار سے گہرا اور تازہ بتازہ علم عطا ہوا.چنانچہ سچ آپ کی ذات میں راسخ ملکہ اور فطرت اور عادت ہو گیا جس کے انوار آپ کی شخصیت کے ہر قول وفعل ، ہر حرکت وسکون اور حواس و انفاس سے ظاہر ہوئے اور آپ کو آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف سے منعم عليهم لوگوں میں شامل کیا گیا.آپ کتاب نبوت کے کامل پر تو تھے اور اہل جو دوسخا کے امام تھے اور آپ کا خمیر انبیاء کی بقیہ مٹی سے اٹھایا گیا تھا.“ (50) اخلاق وسیرت حضرت ابوبکر نہایت متواضع ، منکسر المزاج اور کم گو انسان تھے.آپ کی بہت کم روایات احادیث کی کتب میں آئی ہیں، تاہم جتنی روایات ہیں ان سے آپ کے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت پر خوب روشنی پڑتی ہے.طبعا کم گو ہونے اور ادب رسول کے تقاضہ کے پیش نظر آپ شاذ ہی نبی کریم سے کوئی سوال کرتے تھے.مگر جو سوال آپ نے کئے وہ بھی آپ کے بلند علمی مقام اور اعلیٰ سیرت وکردار کو ظاہر کرتے ہیں.توحید کا عرفان

Page 37

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 23 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر تو حید کامل پر بڑی شان سے قائم تھے.ایک دفعہ حضرت عثمان نے کہا " کاش ! میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ مشکل سوال دریافت کر لیا ہوتا کہ شیطانی وساوس کا کیا علاج ہے.“ حضرت ابو بکر نے فرمایا ” میں نے نبی کریم سے یہ سوال پوچھا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ کلمہ توحید پڑھ کر اس پر قائم ہو جانا ہی ایسے وساوس کا علاج ہے.“ (51) ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے تمہیں کلمہ اخلاص (یعنی شہادت توحید ) اور ایمان باللہ سے بڑھ کر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی.‘ (52) چنانچہ تو حید کی عظیم الشان صداقت پر کامل یقین و ایمان کے باعث ہی آپ صدیق کہلائے.اور اس وصف کو نبیوں کے دل کی طرح پاک وصاف کر دیا تھا اور دراصل یہی چیز منبع اور سر چشمہ ہے آپ کے تمام اخلاق عالیہ کا جن میں تعلق باللہ، خشیت ، تواضع ، صدق ، شجاعت انفاق فی سبیل اللہ اور خدمت خلق وغیرہ شامل ہیں.عبادت اور اخلاق فاضلہ کا حسین امتزاج انسان کے تعلق باللہ کا سب سے بڑا معیار اس کی عبادات اور دعائیں ہیں.اپنے گھر میں چھوٹی سی مسجد بنا کر حضرت ابوبکر کے قرآن پڑھنے اور عبادت کرنے کا ذکر گزر چکا ہے.بآواز بلند تلاوت کلام پاک کے جرم میں ہی آپ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا.قارہ قبیلہ کے رئیس ابن الدغنہ آپ کو یہ کہ کر واپس لائے کہ آپ جیسے با اخلاق آدمی کو ہمارے شہر سے کیسے نکالا جا سکتا ہے جو صلہ رحمی کرنے والے دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے، مہمان نواز اور مصائب میں مدد کرنے والے ہیں.سیرت صدیقی پر یہ شاندار گواہی دے کر ابن الدغنہ آپ کو اپنی امان میں مکہ میں دوبارہ واپس لایا تھا.عجیب توارد ہے کہ ابن الدغنہ کے بیان کردہ اوصاف ابو بکر وہی ہیں جو حضرت خدیجہ نے رسول کریم علی کے لئے پہلی وحی کے موقع پر بیان فرمائے تھے.(53) حضرت ابو بکر کو دعاؤں سے بھی خاص رغبت اور شغف تھا اور اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق اس تلاش میں رہتے تھے کہ اپنے مولیٰ سے کیا مانگیں اور کیسے مانگیں اور بار ہا نبی کریم ﷺ سے اپنے اس صلى الله ذوق کی تسکین کے لئے پوچھا.ایک دفعہ عرض کیا کہ مجھے اپنی نماز میں پڑھنے کے لئے کوئی عمدہ ہی دعا

Page 38

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتادیں.آنحضور ﷺ نے یہ دعا سکھائی: 24 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلماً كَثِيراً فَاغْفِرْ لِي مَعْفِرَةً مِن عِندِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (54) کہ اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا پس مجھے بخش دے.خاص اپنے پاس سے مغفرت عطاء کر اور مجھ پر رحم کر یقینا تو بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا سکھائی : اللهُمَّ إِنِّي أَسْتَلْكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ(55) کہ اے اللہ میں تجھ سے دنیا و آخرت میں معافی اور حفاظت کا طلب گار ہوں.یہی وجہ تھی کہ حضرت ابو بکر اس دعا کی طرف خاص توجہ دلاتے اور فرماتے کہ ایمان کے بعد عافیت کی دعا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں یعنی ایمان کی سلامتی مانگنی چاہیے.(56) خشیت حضرت ابو بکر کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ جب 9 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے آپ کو مسلمانوں کا امیرالج مقرر کر کے روانہ فرمایا اس کے بعد سورۃ تو بہ نازل ہوئی تو نبی کریم نے حضرت علی کو اس کی متعلقہ آیات کا اعلان حج کے موقع پر کرنے کی ہدایت فرمائی.حضرت ابو بکر کو عجیب دھڑ کا سا لگا کہ نامعلوم مجھ سے کیا کوتا ہی ہوئی جو اس خدمت کے لائق نہیں سمجھا گیا.چنانچہ جب آپ نبی کریم کی خدمت حاضر ہوئے تو بے اختیار ہو کر رو پڑے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا مجھ سے کوئی ناروا بات سرزد ہوئی ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا " اے ابو بکر ! تجھ سے تو خیر و بھلائی کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوا مگر سورۃ توبہ کی ان آیات کے لئے مجھے یہی حکم الہی تھا کہ میں خود یا مجھ سے خونی رشتہ رکھنے والا قریب ترین عزیز اس کا اعلان کرے.تب حضرت ابو بکر کی تسلی ہوئی.(57) آپ کی خشیت الہی اور انکسار کی شان کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے جب ایک دفعہ آپ کی حضرت عمرؓ کے ساتھ تکرا ر ہو گئی.حضرت ابو بکر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ عرض کر کے بتایا کہ اس کے بعد مجھے ندامت ہوئی اور میں عمر کے پاس حاضر ہو گیا تو

Page 39

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 25 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا.میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا آپ نے فرمایا اللہ آپ کو معاف کرے.ادھر حضرت عمرؓ کو بھی بعد میں احساس ندامت ہوا اور حضرت ابو بکر کے گھر آئے اور انہیں موجود نہ پا کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور گیا چہرہ ناراضگی سے سرخ ہو گیا.یہ دیکھ کر حضرت ابو بکر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بار بار عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ! غلطی میری تھی ( آپ گھر کو معاف کر دیں).نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا دیکھو جب تم لوگوں نے میرا انکار کیا تھا اس وقت ابو بکڑ نے میری تصدیق کی اور جان و مال نچھاور کر دیئے.کیا تم میرے ساتھی کو میرے لئے چھوڑو گے کہ نہیں ؟ (58) فہم اور علمی بصیرت حضرت ابوبکر کو قرآن شریف کا خاص فہم عطا ہوا تھا.بعض لوگوں نے سورۃ مائدہ کی آیت 6 سے (جس میں ذکر ہے کہ اے لوگو ! تم اپنے ذمہ دار ہو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں دے گی ) یہ استدلال کیا کہ برائیوں کا قلع قمع ہماری ذمہ داری نہیں کیونکہ ہر فرد کو اپنی ذاتی اصلاح کا حکم ہے.حضرت ابوبکر نے اس خیال کی سختی سے تردید کی اور فرمایا کہ یہ اس آیت کا درست مطلب نہیں.( کیونکہ آیت میں واحد کے بجائے جمع کے صیغے میں اصلاح معاشرہ کی قومی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ”جو لوگ برائی کو دیکھ کر اس کا ازالہ نہیں کرتے تو اس کی سزا سارے معاشرہ کو دی جاتی ہے.(59) اس لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر کما حقہ توجہ دینی چاہئے.حضرت ابو بکر نبی کریم ﷺ کے ارشادات کی بنیاد قرآنی آیات میں تلاش کرتے اور انکو افادہ عام کیلئے بیان فرماتے.حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہر بات سن کر ہمیشہ میں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے.حضرت ابوبکر نے مجھے ایک حدیث سنائی اور آپ نے سچ فرمایا کہ کوئی مسلمان جب کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کر کے دورکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اس گناہ کی معافی مانگے تو اسے بخش دیا جاتا ہے.یہ حدیث سنا کر بطور دلیل وہ دو آیات پیش کرتے تھے.ایک آل عمران کی آیت 136 جس میں ذکر ہے کہ مومنوں سے جب کوئی برائی سرزد ہوتی ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتے اور

Page 40

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 26 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں ان کی جزا مغفرت ہے.اور دوسری سورۃ نساء کی آیت 111 جس میں بیان ہے کہ جو شخص بدی اور ظلم کر کے اللہ سے بخشش کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا اور مہربان پائیگا.(60) حضرت ابو بکر قرآن کریم پر غور و تدبر اور نبی کریم ﷺ کی پاک صحبت کی برکت سے علمی عقدے حل کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ سورۃ نساء کی آیت 124 کے بارہ میں دل میں سوال پیدا ہوا کہ اگر ہر شخص کو اس کی ہر بدی پر سزا ملے گی تو نجات کیسے ہوگی؟ سخت فکر مندی سے نبی کریم ہے سے یہ سوال پوچھا تو آپ نے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا اللہ تجھ پر حم کرے اسے ابوبکر! تجھے اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے.دوسرے پوری امت کے لئے تسلی کا یہ جواب بھی سنایا کہ یہ جو آپ لوگ بیمار ہوتے یا تکلیف اٹھاتے یا غمگین ہوتے ہیں.یہ بھی بدی کی جزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں دیگر مومنوں کی کفایت فرمالیتا ہے.“ (61) سوره نصر نازل ہوئی تو رسول کریم نے صحابہ کی مجلس میں یہ آیات سنائیں جن میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح کے آنے اور فوج در فوج لوگوں کے دین اسلام میں داخل ہونے کا ذکر ہے حضرت ابوبکر رو پڑے.صحابہ حیران تھے کہ فتح کی خوشخبری پر رونا کیسا؟ مگر حضرت ابوبکر کی بصیرت اور فراست بھانپ گئی تھی کہ یہ آیت جس میں رسول اللہ ﷺ کے مشن کی تکمیل کا ذکر ہے، آپ کی وفات کی خبر دے رہی ہے.اور اپنے محبوب کی جدائی کے غم سے بے اختیار ہو کر رو پڑے.اور پھر اس کے صرف دوسال بعد نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی.حضرت ابوبکر کی اس خدا داد بصیرت کا تذکرہ صحابہ میں عام تھا.ایک اور موقع پر جب نبی کریم ﷺ نے مجلس میں ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ دنیا میں رہنا ہے یا خدا کے پاس حاضر ہونا ہے تو اس نے خدا کو اختیار کیا.حضرت ابوبکر اس پر بھی رو پڑے.صحابہ نے پہلے تعجب کیا مگر بعد میں انہیں پتہ چلا کہ اس بندہ خدا سے مراد ہمارے آقا ومولا حضرت محمد تھے.جنہوں نے دنیا پر خدا کے پاس جانے کو ترجیح دی.(62) حضرت ابو بکر کے علمی شغف کا اندازہ اس سوال سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے مسئلہ تقدیر کے

Page 41

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 27 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بارہ میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ انسان کی تقدیر خیر وشر کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے.تو پھر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اعمال میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پابند نہیں رکھا.اختیار دیا ہے کہ جو عمل نیک یا بد چاہے کرے پھر وہ تقدیر کے مطابق انجام کو پہنچتا ہے.(63) استحکام خلافت حضرت ابو بکر کے ذریعہ تقر رخلافت کے دونوں طریق یعنی انتخاب اور نامزدگی کھل کر واضح ہو گئے اور اس سے بھی آئندہ نظام خلافت کو ایک استحکام نصیب ہوا.حضرت ابو بکر کثرت رائے اور انتخاب کے ذریعہ خلیفہ مقرر ہوئے تھے جب انصار اور مہاجرین کے گروہ نے آپ کی بیعت کر کے خلیفہ تسلیم کر لیا.پھر خود حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کو اپنے بعد اہل رائے اصحاب کے مشورہ سے نشین مقرر کر کے بتادیا کہ تقر رخلافت کا دوسرا طریق نامزدگی ہے.(64) اطاعت رسول عالي حضرت ابوبکر میں استغناء اور اطاعت رسول کا نہایت اعلی جذبہ تھا.ایک دفعہ نبی کریم ہے نے سوال کرنے سے منع فرمایا.اس ارشاد کی کامل اطاعت کر کے دکھائی صحابہ بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات حضرت ابو بکر اونٹنی پر سوار ہوتے.اونٹ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اونٹ کو بٹھا کر خود نیچے اتر کر اپنے ہاتھ سے رسی اٹھاتے.صحابہ عرض کرتے کہ آپ ہمیں حکم فرماتے وہ جواب دیتے میرے حبیب رسول اللہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ لوگوں سے سوال نہیں کرنا (65) سبحان اللہ ! کیسا عجیب استغناء ہے اور کیسی شاندار انکساری.تواضع و انکسار اور پہلی تقریر حضرت ابو بکر میں تواضع اور انکسار تو جیسے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.انہوں نے غربت اور انکساری کا لباس اختیار کر لیا تھا.ان کی تواضع گفتگو سے صاف جھلکتی نظر آتی ہے.خلافت کے پہلے انتخاب کے موقع پر آپ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ کے نام لئے اور جب خلیفہ ہوئے تو اپنی پہلی تقریر میں اپنے انکسار کا یوں اظہار کیا کہ ” میں تو چاہتا تھا کہ یہ ذمہ داری میرے علاوہ کوئی اور

Page 42

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 28 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اٹھا تا.اب جبکہ میں نے یہ منصب قبول کر لیا ہے تو جتنی میری طاقت ہے میں اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرونگا.مجھے نبی کریم ﷺ کے معیار پر رکھ کر گرفت نہ کرنا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک خاص عصمت عطافرمائی تھی اور آپ معصوم تھے.“ (66) حضرت ابو بکر کی خشیت اور مقام عجز کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے ایک دفعہ نبی کریم نے فرمایا جو شخص تکبر سے اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر چلتا ہے اس کو آگ کا عذاب ہوگا.“ حضرت ابوبکر نے جو ڈھیلا تہبند باندھنے کے عادی تھے کمال انکسار سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تہبند تو میرا بھی لٹک جاتا ہے.نبی کریم نے انہیں یہ نوید سنائی کہ اے ابو بکر ! تو ان لوگوں میں سے نہیں.(67) کیونکہ آپ تہبند تکبر سے نہیں لٹکاتے تھے اسطرح نبی کریم ﷺ نے ہر ایسے شخص کے لئے جو طبعا فروتنی اور عاجزی رکھتا ہے یہ فرما کر دین میں تشدد کرنے والوں کے خیال کی اصلاح فرما دی.ایک دفعہ کسی نے آپ کو خلیفہ اللہ کہہ دیا یعنی خدا کے خلیفہ تو نہایت انکساری سے فرمایا دیکھو میں محمد کا خلیفہ ہوں.مجھے خلیفہ رسول کہو میں اسی پر راضی ہوں.“ (68) حضرت ابو بکر کے آخری سانس تھے آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ نے جذباتی کیفیت میں یہ شعر پڑھا وَابَيَضُ يُستَسقَى الغَمَامُ بِوَجِهه ثِمَالُ اليَتَــــامـى عِصمَةُ اللارَامِل کہ آپ وہ ہیں جن کے منہ کے صدقے بارش کی دعا کی جاتی ہے.آپ یتیموں کے والی اور بیواؤں کے سہارا ہیں.حضرت ابو بکر نے جان کنی کے عالم میں بھی اپنی یہ تعریف گوارا نہ کی اور نہایت انکسار سے فرمایا ” اے عائشہ! یہ مقام تو آنحضرت کا تھا.“ (69) آپ کی انگوٹھی پر یہ الفاظ کندہ تھے ”عبدٌ ذَلِيلٌ لِرَبِّ جَلِيلٍ.خدائے بزرگ و برتر کا ایک ادنی بندہ (70) حضرت ابوبکر مقام صدیقیت پر قائم تھے اور صدق و راستی سے اپنی طبعی مناسبت کے باعث اس کی پر زور تلقین فرماتے.ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے گلو گیر ہو گئے.روتے ہوئے فرمایا ” سچائی

Page 43

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 29 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اختیار کرو اس کے نتیجہ میں نیکی حاصل ہوتی ہے اور یہ جنت میں لیجانے کا ذریعہ ہے.“ (71) یزید بن ابوسفیان کو شام کا امیر مقرر کر کے روانہ کیا تو از راہ نصیحت واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ” مجھے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ تم کہیں اپنے عزیز واقارب سے اپنی امارت کے نتیجہ میں ترجیحی سلوک نہ کرو.یا درکھو میں نے نبی کریم سے سنا ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کا امیر بنایا جائے اور وہ کسی کو ڈر کر کچھ دیدے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے.“ (72) عشق رسول الله حضرت ابو بکر رسول اللہ اللہ کے عاشق صادق تھے.ابتداء میں رسول خدا کیلئے جاشاری کے زیر عنوان اور سفر ہجرت میں بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے.اسی سفر کے متعلق بیان فرماتے تھے کہ راستے میں ایک چرواہے سے دودھ لے کر حضور علی کو پلایا جب حضور ﷺ نے دودھ پی لیا تو میرا دل راضی ہو گیا.(73) یہ فقرہ آپ کی کمال محبت کو خوب ظاہر کرتا ہے.ایسے لگتا ہے جیسے خود آپ نے وہ دودھ پیا اور دل خوش ہو گیا.مرتے دم تک آقا سے اپنے عشق کا اظہار کرتے رہے.بار بار پوچھتے آج کیا دن ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا سوموار کا دن.فرمایا دیکھو اگر میں مر جاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا.مجھے وہ دن اور راتیں بھی محبوب ہیں، جو رسول اللہ سے کسی لحاظ سے مناسبت یا قربت رکھتی ہیں.(74) حضرت ابو بکر کو اہل بیت رسول سے بھی بڑی محبت تھی.آنحضور ﷺ کی وفات سے چند روز بعد کا واقعہ ہے.حضرت علیؓ آپ کے ساتھ کہیں جارہے تھے.راستہ میں حضرت حسن کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا.حضرت ابو بکر نے حضرت حسنؓ کو کندھوں پر اٹھالیا.فرمانے لگے ” خدا کی قسم نبی کریم ﷺ پر اس کی شکل گئی ہے.علی پر ہرگز ان کی شباہت نہیں.حضرت علی اس لطیف مزاح اور اظہار محبت سے لطف اندوز ہو کر مسکرانے لگے.(75) صلى الله شجاعت

Page 44

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 30 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے عظیم سانحہ پر جب بڑے بڑے بہادروں کے پتے پانی ہور ہے تھے ، آپ نے کیسی استقامت دکھائی اور کس طرح صحابہ رسول کی ڈھارس بندھائی.اس کا ذکر بھی ہو چکا ہے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو میدان جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا کرتا تھا کیونکہ سب سے زیادہ شدت سے حملہ وہیں ہوتا تھا.یہ مقام شجاعت حضرت ابو بکر اور حضرت علیؓ جیسے اصحاب کو حاصل تھا.حضرت علی نے ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم تو کہنے لگے ” حضرت ابوبکر سب سے زیادہ بہادر تھے.جنگ بدر میں ہم نے رسول اللہ کیلئے ایک جھونپڑی یا خیمہ تیار کیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب رسول اللہ ﷺ کا پہرہ کون دے گا تا کہ مشرک آپ پر حملہ نہ کر سکیں ؟ خدا کی قسم ! کسی شخص نے ادھر کا رخ نہیں کیا مگر ابو بکر تلوار لیکر اس پر حملہ آور ہوئے.یہ تھے تمام لوگوں سے بڑھ کر بہادر.میں نے انہیں مکہ میں اس حال میں بھی دیکھا کہ رسول اللہ کو کفار قریش نے گھیر رکھا ہے اور کوئی استہزاء و تمسخر کرتا تھا تو کوئی آواز کرتا.ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکر کے.انہوں نے کسی کو ادھر دھکیلا تو کسی کو ادھر پرے ہٹایا.“ (76) 66 حضرت ابو بکر نبی کریم ﷺ کے وزیر اور مشیر تھے.نازک لمحات میں آنحضور ﷺ کے لئے تسلی کا موجب ہوتے تھے.بدر کے موقع پر جب نبی کریم ﷺ جھونپڑی میں نہایت درد اور الحاح کے ساتھ دعا کر رہے تھے.حضرت ابوبکر سے اپنے آقا کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی حضور ﷺ کی خدمت میں کمال ادب سے عرض کیا یا رسول اللہ اب بس کیجئے.اللہ تعالیٰ کی فتح کے وعدے ضرور پورے ہو کر رہیں گے.“ (77) انفاق فی سبیل اللہ حضرت ابوبکر کے ایک ایک وصف اور فضلیت کو بیان کیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں.اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا یہ حال تھا کہ قبول اسلام کے بعد چالیس ہزار درہم کے مالک تھے جو سب خدا کی راہ میں خرچ کر دئے.غزوہ تبوک کے موقع پر تحریک کی گئی تو گھر کا سارا مال لا کر پیش کر دیا.

Page 45

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 31 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آنحضور نے فرمایا ” جتنا فائدہ مجھے ابو بکر کے مال نے دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا.(78) محنت کی کمائی اور رزق حلال کا اتنا خیال تھا کہ خلافت کے دوسرے ہی روز کپڑوں کی گھڑی اٹھا کر روزی کمانے چلے تو راستہ میں بعض جلیل القدر صحابہ ملے.انہوں نے کہا اب آپ کا خرچ بیت المال ادا کرے گا.آپ قومی ذمہ داریوں کو سنبھالیں.(79) خدمت خلق حضرت ابو بکر میں خدمت خلق کا جذ بہ بھی کمال کا تھا.خلافت سے قبل آپ مدینہ میں اپنے محلہ کے گھروں کی بکریوں کا دودھ دوہ کر دیا کرتے تھے.جب خلیفہ ہوئے تو قبیلہ کی ایک کم سن لڑکی کہنے لگی اب ہماری بکریاں کون دوہا کرے گا؟ حضرت ابو بکر کو پتہ چلا تو فرمایا ” میں ہی تمہاری بکریاں دو ہوں گا.اللہ تعالیٰ نے جو منصب مجھے عطا فرمایا ہے اس سے میرے اخلاق تبدیل نہیں ہوں گے.بلکہ مزید خدمتوں کی توفیق پاؤں گا.چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ قبیلہ کی بکریاں دوہ دیا کرتے تھے اور وہ لونڈی جس طرح کہتی اس کے مطابق یہ خدمت بخوشی انجام دیتے.(80) حضرت عمر مدینہ کی ایک نابینا عورت کی خبر گیری فرمانے گئے وہاں آکر دیکھا کہ کوئی دوسرا آدمی پہلے آکر اس کے کام کر جاتا تھا.ایک دفعہ پہلے آکر چھپ کر بیٹھ گئے تو دیکھا کہ حضرت ابو بکر خلیفۃ الرسول ﷺے پوشیدہ طور پر اس بڑھیا کی خدمت کرتے اور اس کے کام سرانجام دیا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے انہیں دیکھ کر کہا ” آپ ہی ایسے آدمی ہو سکتے تھے (81) حضرت ابوبکر حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر پہلو سے تمام نیکیوں کے جامع وجود تھے.ایک دن نبی کریم نے صحابہ کی تربیت کی خاطر ان کا محاسبہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آج اپنے کسی بیمار بھائی کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا انہیں اس کی توفیق ملی ہے.پھر فرمایا آج نفلی روزہ کس نے رکھا ہے؟ پتہ چلا کہ حضرت ابو بکر روزہ سے ہیں.پھر آپ نے صدقہ دینے اور مسکین کو کھانا کھلانے کے بارہ میں سوال کیا.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ انہوں نے اس کی بھی توفیق پائی ہے.پھر حضور نے کسی مسلمان بھائی کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابوبکر نے بتایا کہ میں نے نماز جنازہ میں بھی شرکت کی ہے.اس پر نبی کریم نے فرمایا کہ جس شخص نے ایک دن میں یہ

Page 46

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب نیکیاں جمع کرنے کی توفیق پائی اس پر جنت واجب ہوگئی.(82) یہی مضمون آنحضرت ﷺ کی ایک اور مجلس میں اس طرح بھی ظاہر ہوا.آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جنت کے مختلف دروازے ہوں گے.کوئی نماز کا دروازہ ہوگا تو کوئی صدقہ کا اور کوئی روزے کا یہ نیکیاں بجالانے والے مومن ان دروازوں سے جنت میں داخل ہوں گے اور جنت کے دربان فرشتے ان کو آواز دے کر بلائیں گے کہ اے نمازیو! آؤ اور نماز کے دروازے سے جنت میں داخل ہو جاؤ.اور اے صدقہ اور روزہ والو! تم اس دروازے سے جنت میں داخل ہو جاؤ“.حضرت ابو بکر نے بھی کیا لطیف سوال کیا کہ یا رسول اللہ جس شخص کو ایک دروازے سے بھی جنت میں داخلہ کی ندا آئے اسے حاجت تو نہیں کہ دوسرے دروازوں سے بھی بلایا جائے.مگر کیا کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہوگا جسے جنت کے تمام دروازوں سے دربان فرشتے پکاریں گے.حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! اے ابو بکر میں اُمید کرتا ہوں کہ تو ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوگا جسے تمام دروازوں سے جنت کے دربان فرشتے جنت میں آنے کی دعوت دیں گے.(83) اس طرح آنحضرت نے جہاں آپ کو تمام نیکیوں میں اعلیٰ ذوق اور کامل مقام کے حامل ہونے کی خوشخبری سنائی وہاں تمام مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ اگر تم بھی چاہتے ہو کہ سب دروازوں سے جنت میں بلائے جانے کا اعزاز پاؤ تو سیرت صدیقی اختیار کرو.جو نام ہے کامل اطاعت اور سپرداری کا اور خدا کی رضا پر راضی ہو جانے کا.مقام ابوبکر حضرت ابوبکر کے اس مقام بلند کی خبر حضرت جبرائیل نے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کو ان الفاظ میں دی کہ عتیق، یعنی آگ سے آزادا بو بکڑ کو کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے.(84) حضرت ابو بکر طبعا انکساری کے باعث اپنے الہامات وکشوف کا ذکر نہ کرتے تھے.بعض دفعہ کسی سوال کے جواب میں مجبوری سے ذکر کرنا پڑا تو پتہ چلا آخری بیماری میں صحابہ حضرت ابو بکر کی عیادت کو آئے تو عرض کیا کہ ہم آپ کے لئے کوئی طبیب نہ بلائیں؟ فرمایا میں نے ایک فرشتہ دیکھا ہے.انہوں نے کہا اس نے آپ کو کیا بتایا ؟ آپ نے فرمایا اس نے کہا ”ہم (یعنی اللہ ) جس بات کا

Page 47

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 33 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ارادہ کریں وہ ضرور کر دیتے ہیں.(85) ظاہر ہے کہ اس میں آپ کی وفات کی طرف اشارہ تھا.رسول کریم نے فرمایا ” مجھ پر سب سے زیادہ احسان اپنی دوستی اور مال سے ابوبکر کا ہے.اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو گہرا دوست بناتا تو ابوبکر کو اختیار کرتا.‘(86)حضرت حسان نے کیا خوب کہا وَكَانَ حِبَّ رَسُولِ الله قَد عَلِمُوا خَيرَ الْبَرِيَّةِ لَم يَعِدِلُ بِهِ رَجُلاً کہ دنیا جانتی ہے کہ حضرت ابو بکر رسول اللہ کے محبوب ترین فرد تھے.سب مخلوق سے بہتر وہ انسان جس کے مقابلہ کا کوئی شخص نہیں ہے.(87) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی قوم کے لئے جن میں ابوبکر موجود ہومنا سب نہیں کہ ان کو کوئی اور (نماز کی ) امامت کرائے.(88) ایک دفعہ ایک عورت رسول کریم کے پاس آئی.ملاقات کے بعد جاتے وقت کہنے لگی اگر میں آئندہ آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو کیا کروں.آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے نہ پاؤ، تو ابوبکر کے پاس آنا.‘ (89) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے اپنی بیماری میں فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلوا بھیجوں اور وصیت کر دوں.مبادا کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے یا خواہش کرنے والا خواہش کرے.پھر میں نے کہا کہ ابوبکر کے سوا اللہ بھی انکار کر دے گا اور مومن بھی رڈ کر دیں گے.‘‘(90) وفات ابو بکرہ پر حضرت علی کی تقریر حضرت ابو بکر کی وفات کے موقع پر ان کے کامران و کامیاب عہد خلافت کے بارے میں حضرت علی کی ایک جامع تقریر کا ذکر کرنا نہایت مناسب ہوگا.’ ” جب حضرت ابو بکر صدیق نے انتقال فرمایا تو مدینہ (رونے والوں کی ) آواز سے گونج اٹھا جیسا کہ رسول اللہ کی وفات کے دن (رونے والوں کی آواز سے ) گونج اٹھا تھا.پھر حضرت علی تشریف لائے اس حال میں کہ آپ انا اللَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ آج خلافت نبوت کا خاتمہ

Page 48

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 34 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہو گیا.حضرت ابوبکر کے مکان پر پہنچ کر انہیں چادر اوڑھا کر پھر حضرت علی نے یہ تاریخی خطبہ دیا.اے ابو بکر ! آپ رسول اللہ کے دوست تھے ، ان کے مونس تھے ، ان کے مرجع ومعتمد تھے، ان کے راز دار اور مشورہ دینے والے تھے ، آپ سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ فائق الایمان تھے اور سب سے زیادہ مضبوط یقین کے تھے اور سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتے تھے.آپ اللہ کے دین کے نافع تھے اور رسول اللہ کی نگہداشت میں سب سے زیادہ فائق تھے ، سب سے زیادہ اسلام پر شفقت کرنے والے تھے اور اصحاب رسول کے حق میں بہت بابرکت تھے اور سب سے زیادہ رسول اللہ اللہ کا حق رفاقت ادا کرنے والے تھے اور سب سے زیادہ مناقب میں اور سب سے افضل اسلامی امتیازات میں.اور سب سے بلند مرتبہ میں.اور سب سے زیادہ مقرب بارگاہ رسالت میں.اور سب سے زیادہ روش اور عادت اور مہربانی اور بزرگی میں رسول اللہ اللہ کے مشابہ اور سب سے زیادہ مرتبہ کے لحاظ سے اشرف اور سب سے زیادہ رسول اللہ علیہ کے نزدیک با عزت اور سب سے زیادہ آپ کے نزدیک قابل وثوق تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کی طرف سے اور اپنے رسول کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے.اے ابو بکر ! آپ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک بمنزلہ کان اور آنکھ کے تھے.آپ نے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق اس وقت کی جب تمام لوگ آپ کی تکذیب کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام اپنی کتاب میں صدیق رکھا.چنانچہ فرمایا وَالَّذِی جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِه - اوروه شخص جو سچ لایا اور وہ شخص جس نے اس کی تصدیق کی سچ کو لانے والے محمد ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے ابو بکر ہیں.اے ابو بکر ! آپ نے رسول اللہ کی غمخواری اپنے جان و مال سے اس وقت کی جب اور لوگ مال سے بخل کرتے تھے.آپ نے ان کی رفاقت مصائب کے ایسے وقت میں کی جبکہ اور لوگ آپ کی اعانت سے بیٹھ رہے تھے.آپ نے سختی کے زمانے میں ان کی صحبت اختیار کی.آپ صحابہ میں سب سے مکرم ثانی اثنین، غار میں رسول اللہ اللہ کے ساتھی تھے.جس وقت خدا کی طرف سے سکیت اور وقارا تارا گیا.آپ ہجرت میں رسول اللہ ﷺ کے رفیق اور دین میں اور امت میں ان کے خلیفہ تھے.آپ نے فرائض خلافت کو خوب ادا کیا اور اس وقت آپ نے وہ کام کیا

Page 49

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 35 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہ کیا تھا.آپ مستعد رہے جبکہ آپ کے ساتھی سستی ظاہر کرتے تھے.آپ میدان میں آگئے جبکہ وہ چھپ رہنا چاہتے تھے اور آپ قومی رہے جبکہ وہ ضعف ظاہر کرنے لگے.اور آپ نے طریقۂ رسول ﷺ کو مضبوط پکڑا جبکہ وہ لوگ ادھر ادھر بھٹکنے لگے.آپ کی خلافت منافقوں کی ذلت ، کافروں کی ہلاکت ، حاسدوں کی ناگواری اور باغیوں کی ناخوشی کا سبب تھی اور آپ اس وقت امرحق کے اجراء میں قائم ہوئے جبکہ اور لوگوں نے ہمتیں پست کر دی تھیں اور آپ ثابت قدم رہے جبکہ اور لوگوں میں تردد پیدا ہو گیا اور آپ نور الہی کے ساتھ خطرناک راستوں سے گذر گئے جبکہ اور لوگ توقف پذیر ہو گئے.پھر آپ کو راہ پر دیکھ کر سب نے آپ کی پیروی کی اور سب نے راہ پائی اور آپ آواز میں سب سے پست تھے اور فوقیت میں سب سے برتر.آپ کلام میں سب سے بہتر تھے.آپ کی گفتگو سب سے ٹھیک اور آپ کی خاموشی سب سے بڑھی ہوئی ہوتی تھی.آپ کا قول سب سے بلیغ ہوتا تھا اور آپ کا دل سب سے زیادہ شجاع تھا اور سب سے زیادہ امور ( دینی و دنیوی) کے پہچاننے والے تھے اور عمل کے لحاظ سے سب میں اشرف تھے (اے صدیق) قسم خدا کی آپ دین کے سردار تھے، ابتدا میں بھی جب لوگ دین سے بھاگے تھے اور آخر میں بھی جبکہ لوگ ( دین کی جانب متوجہ ہوئے آپ مسلمانوں کے مہربان باپ تھے.یہاں تک کہ سب مسلمان آپ کے بال بچے تھے اور جس بار کے اٹھانے سے وہ ضعیف تھے وہ بار آپ نے (اپنے سر پر اٹھالیا اور جو اموران سے فروگزاشت ہوئے تھے آپ نے ان کی نگہداشت کی اور جس کو انہوں نے ضائع کیا آپ نے اس کی حفاظت کی اور جس بات سے وہ جاہل رہے آپ نے اسے جان لیا اور جس وقت وہ (اجراء امور دین میں ) ست ہوئے تو آپ ( ان کاموں میں کمر باندھ کر ) مستعد ہو گئے اور جب وہ لوگ گھبرائے تو آپ نے صبر ( واستقلال) سے کام لیا.پس ان کے مطالب کے قصور کو معلوم کر لیا اور آپ کی رائے سے اپنے مقاصد کی طرف راہ یاب ہوئے تو انہوں نے اپنی مراد کو پایا اور آپ کے سبب سے (ان مدارج علیا کو ) پہنچے کہ جس کا انہیں گمان ہی نہ تھا (اے ابو بکر ) آپ کافروں پر ( تو ) عذاب آسمانی اور (غضب الہی کی) آگ تھے اور ایمانداروں کیلئے (خدا کی ) رحمت اور انس اور ( ایک مضبوط ) قلعہ تھے پس ( ان محامد و کمالات کے سبب ) آپ اس خلافت ( کے دریا) میں داخل ہوئے اور انتہا تک

Page 50

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 36 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور اس کے فضائل حاصل کر لئے اور اس کے سوابق پائے اور (باوجود یکہ یہ کام مشکل تھا مگر ) آپ کی حجت نے کمی نہ کی اور آپ کی بصیرت ضعیف نہ ہوئی اور آپ کے دل نے بزدلی نہ کی اور آپ کا قلب نہ گھبرایا اور آپ ( خلافت میں آکر ) حیران نہیں ہوئے.آپ مثل پہاڑ کے تھے جسے بادل کا گر جنا اور تیز آندھیاں اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکیں اور (اے ابو بکر در حقیقت) آپ موافق ارشاد رسول اللہ کے اپنی رفاقت اور مال سے سب سے زیادہ رسول ﷺ اللہ پر احسان کرنے والے تھے اور نیز حسب ارشاد نبوی آپ اپنے بدن میں ضعیف تھے مگر خدا کے کام میں قومی تھے.منکسر النفس تھے مگر خدا کے نزدیک با عظمت تھے.لوگوں کی نظروں میں جلیل ( القدر ) تھے ان کے دلوں میں بزرگ تھے.کسی شخص کو آپ پر موقع نہ ملتا تھا اور نہ کوئی گرفت کرنے والا آپ میں عیب نکال سکتا تھا اور نہ کوئی آپ سے (خلاف حق) کی طمع کر سکتا تھا اور نہ کسی کی آپ کے یہاں ( ناجائز ) رعایت تھی (جو) ضعیف و ذلیل تھا وہ آپ کے نزدیک قوی غالب تھا.یہاں تک کہ آپ اس سے حق دار کا حق لے لیتے تھے.اس بارہ میں قریب و بعید آپ کے نزدیک یکساں تھے.سب سے زیادہ مقرب آپ کے یہاں وہ تھا جو اللہ کا بڑا مطیع اور اس سے بڑا ڈر نے والا تھا.آپ کی شان حق ( کام کرنا ) اور بیچ بولنا اور نرمی کرنا تھی.آپ کی بات (لوگوں کیلئے ) حکم اور قطعی ( حکم ) تھی اور آپ کا کام سرا سر حلم و ہوشیاری تھا.آپ کی رائے علم اور عزم تھی آپ نے جب مفارقت کی تو (ہم کو اس حال میں چھوڑا) که راهہ صاف تھی اور دشواریاں آسان ہوگئی تھیں.اور ( ظلم و تعدی کی ) آگ بجھ گئی تھی اور آپ ( کی ذات) سے ایمان قوی ہوگیا تھا اور اسلام مستحکم اور مسلمان ثابت قدم ہو گئے تھے اور خدا کا حکم ظاہر ہو گیا تھا اگر چہ کافروں کو نا گوار گزرا.پس خدا کی قسم (اے ابو بکر) آپ (اوصاف حسنہ میں سب سے ) بڑھ گئے اور بہت دور پہنچے اور آپ نے اپنے بعد کے لوگوں کو سخت تعب ( و تکلیف) میں ڈالا ( کیونکہ امور خلافت میں آپ کی جیسی کوئی شخص کوشش نہیں کر سکتا ) اور واضح طور پر خیر تک پہنچے اب آپ نے (اپنی وفات کے صدمہ سے سب کو ) رونے ( اور غم کرنے ) میں مبتلا کیا.آپ کی مصیبت (وفات ) آسمان میں بڑی با عظمت ہے اور آپ کے (فراق) کی مصیبت نے لوگوں کو شکستہ ( دل اور ویران خاطر ) کر دیا.

Page 51

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 37 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون ہم اللہ سے اس کے حکم پر راضی ہوئے اور اس کا کام اسی کے سپرد کیا.قسم خدا کی رسول اللہ کے بعد کبھی مسلمان آپ کے جیسے شخص ( کی وفات) کی مصیبت نہ اٹھائیں گے.آپ دین کی عزت اور دین کی حفاظت اور دین کی پناہ میں تھے اور مسلمانوں کے مرجع و مادی اور ان کے فریا درس تھے اور منافقوں پر سخت اور (ان کے ) غصہ ( کا سبب ) تھے.اللہ آپ کو آپ کے نبی سے ملا دے اور ہمیں آپ کے غم میں صبر کرنے کے ) اجر سے محروم نہ رکھے اور آپ کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.راوی کا بیان ہے کہ سب لوگ ( اس تقریر کے وقت ) خاموش رہے یہاں تک کہ حضرت علی نے اپنی تقریر ختم کی اور جب آپ نے یہ تقریر ختم کی تو ) پھر سب روئے یہاں تک کہ ان کے رونے کی آواز بلند ہوئی.پھر سب نے کہا اے رسول اللہ کے داماد ! آپ نے سچ فرمایا.(91) شادی اور اولاد حضرت ابوبکر کی چار شادیاں تھیں.زمانہ جاہلیت میں قتیلہ بنت عبدالعزی سے نکاح کیا جس سے عبد اللہ اور اسماء پیدا ہوئے.دوسرا نکاح ام رومان کنانیہ سے کیا جن سے عبدالرحمن اور عائشہ (ام المومنین) ہوئے.زمانہ اسلام میں پہلے حضرت جعفر کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس سے شادی کی.جن سے محمد بن ابی بکر ہوئے.اسی طرح حبیبہ بنت خارجہ بن زید انصاریہ سے نکاح کیا جن سے آپ کی وفات کے بعد ام کلثوم پیدا ہوئیں.(92) امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ابوبکر ایک عظیم بہادر ، جری ، عبقری اور مرد خدا تھا.اس نے ہر اس شخص سے مقابلہ کیا جس نے اسلام کو چھوڑا.اس نے اسلام کی اشاعت کیلئے شدائد برداشت کیں.اور ان لوگوں کو ہلاک کیا جنہوں نے جھوٹے نبوت کے دعوے کئے تھے...آغاز سے ہی ، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، ابو بکر کے لئے میرے دل میں ایک محبت ڈالی گئی ہے اور میں نے اس کی رکاب کو پکڑ لیا اور اس کی پناہ میں آگیا اور تب اللہ نے مجھ پر اپنی رحمت نازل کی اور میری تائید فرمائی اور مجھے ان معزز

Page 52

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 38 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں میں سے بنادیا جو اس صدی کا مجدد ہے.یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا.آنحضور کی برکت اور ان مقرب لوگوں کی محبت کی وجہ سے ہے.خدا کی قسم ! ابو بکر آ نحضرت ﷺ کا صاحب حرمین بھی تھا مکہ اور مدینہ میں اور دونوں قبروں قمر غار اور قمر مدینہ میں بھی وہ حضرت محمد مصطفی کا ساتھی ہے.جس کی ذات اور خلافت کی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے.اگر صدیق اکبر نہ ہوتا تو اسلام کے اندر ضعف داخل ہو جاتا اسلام کو جو اللہ تعالیٰ نے حسن و جمال اور سرسبزی و شادابی بخشی وہ ابوبکر کی وجہ سے ہی عطا فرمائی.اس نے کوئی اجر نہیں مانگا اور رضائے باری کے لئے یہ سب کام کیا.اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم کر.پس اے نعمتوں والے تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کر نیوالا اور بہتر رحم کرنے والا ہے.اے اللہ ! تو ہم پر رحم فرما.آمین‘ (93) 1 - اصابہ جز 4 صفحہ 102 حواله جات -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 ابن ہشام جلد 1 صفحہ 288 روض الانف جلد 1 ص 288 سیرت الحلبیہ جلد 1 ص 275 ، البدایہ جلد 3 ص 29 ابن ہشام جلد 1 ص267 استیعاب جلد 1 صفحہ 341 طبری جلد 2 ص 314 اصا به جز 4 صفحه 102 و بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی بکر سیرت الحلبیہ جلد 1 ص 295 بخاری کتاب التفسیر (40) سورۃ المومن وسيرت الحلبیہ جلد 1 ص294 بھتی جلد 2 ص 167 12 بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي

Page 53

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -13 -14 -15 -16 39 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى و سیرت الحلبیہ جلد 2 ص 44، استیعاب جلد 3 ص 95 سیرت الحلبیہ جلد 2 ص 45 ومسند احمد جلد 1 ص5 ابن سعد جلد 8 ص 62 مجمع الزوائد جلد 9 ص 46 17 - بخاری کتاب التفسیر -18 -19 کنز العمال جلد 5 ص 658 بخاری کتاب المغازی 20 - بیھقی جلد 4 ص 48 21- مجمع الزوائد جلد 9 ص 237 -22 ابن ہشام جلد 3 ص346 23 بخاری کتاب الشروط باب الشروط والمصالحه 4 بخاری کتاب المغازی باب دخول النبی من اعلیٰ مکہ -25 -26 -27 -28 -29 ابن سعد جلد 3 صفحہ 174 بخاری کتاب المغازی مستدرک حاکم جلد 3 ص477، استیعاب جلد 3ص96 بخاری کتاب المغازی -30 بخاری کتاب الحدود، ابن سعد جلد 3 ص 151 بیھقی جلد 8 ص 143 ا ازالۃ الخفاء مترجم ص 240 ، استیعاب جلد 3 ص 97 31 مجمع الزوائد جلد 5 ص 183 وكنز العمال جلد 3 ص140،130 -32 -33 -34 بخاری کتاب الزکوة بخاری کتاب فضائل القرآن ازالۃ الخفاء ص 276

Page 54

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -35 -36 -37 -38 استیعاب جلد 3 ص99 تاریخ ابن خلدون ج 2 ص 60 تا 65 تاریخ ابن اثیر جلد 1 ص 134 تاریخ ابن اثیر جز 1 ص 142 40 39- بخاری کتاب الزکوۃ ، طبری مترجم اردو جلد 2 ص 63 -40 -41 بخاری فضائل القرآن مسند احمد جلد 1 ص9 42- بخاری کتاب المغازی -43 -44 ابن اثیر مترجم اردو جلد 3 ص87 تا 108 ابن اثیر مترجم جلد 3 ص 115 تا 141 45 نہج البلاغة قسم سوم ص 383 مطبوعہ مصر -46 مسند احمد جلد 1 صفحہ 8، استیعاب جلد 3 ص 101 47 - مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 73 مطبوعہ مصر 48- مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 68 -49 -50 -51 -52 -53 جامع الصغير صفحہ 5 سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 ص 355 ترجمه از عربی مسند احمد جلد 1 صفحہ 8 مسند احمد جلد 1 صفحہ 8 اصا به جلد 4 صفحہ 164 54- مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 4 -55 -56 ترمذی ابواب الدعوات مسند احمد جلد 1 صفحہ 5 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

Page 55

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -57 -58 -59 -60 -61 -62 -63 مسند احمد جلد 1 صفحہ 3 بخاری کتاب المناقب مسند احمد جلد 1 صفحہ 5 مسند احمد جلد 1 صفحہ 9 مسند احمد جلد 1 صفحہ 11 بخاری کتاب المناقب مسند احمد جلد 1 صفحہ 6 64- بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف -65 -66 -67 -68 -69 -70 -71 -72 -73 -74 -75 -76 مسند احمد جلد 1 صفحہ 5 مسند احمد جلد 1 صفحہ 5 بخاری کتاب اللباس استیعاب جلد 3 ص 98 بخاری کتاب المغازی استیعاب جلد 3 ص101 مسند احمد جلد 1 صفحہ 10 مسند احمد جلد 1 صفحہ 7 مسند احمد جلد 1 صفحہ 6 مسند احمد جلد 1 صفحہ 3 مسند احمد جلد 1 صفحہ 8 مجمع الزوائد جلد 9 ص 46 41 77 - بخاری کتاب المغازی -78 استیعاب جلد 3 ص 94، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 218 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

Page 56

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 42 -79 -80 -81 -83 ابن سعد جلد 3 صفحہ 184 مسند احمد جلد 1 صفحہ 8 ، اسد الغابہ جلد 3 ص 219 ابن اثیر مترجم جلد سوم ص 134 مجمع الزوائد جلد 3 ص 164 واسد الغابہ جلد 3 ص 217 بخاری کتاب الصوم 84 اسد الغابہ فی جلد 3 صفحہ 209 -85 -86 -87 حلیة الاولیاء جلد 1 صفحہ 34 مسند احمد جلد 4 صفحہ 4 استیعاب جلد 3 ص 93 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ترندی کتاب المناقب باب قوله لَا يَنبَغِي لقوم فيهم ابوبكر 89- ترمذی کتاب المناقب باب قوله لامرأة 90 بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف و مسلم کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر -91 -92 -93 مجمع الزوائد جلد 9 ص 46 ، ازاله الخفاء مترجم ص 265 تا 268 ابن اثیر جلد سوم ص 131 سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 ص393

Page 57

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 43 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت عمر فاروق آپ کا نام عمر تھا.قد لمبا، رنگ گندمی ، داڑھی گھنی جسم مضبوط ، آنکھیں سرخی مائل تھیں.والد خطاب بن نفیل بن عبدالعزئی والدہ حنتمہ بنت ہاشم مخزومیہ ابوجہل کی عم زاد تھیں.بعض روایات میں حنتمہ بنت ہشام آیا ہے جو ابو جہل کی بہن تھیں.قدلمبا تھا، رنگ سرخی مائل سفید اور جسم بھاری مضبوط تھا.نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم علیہ سے مل جاتا ہے آپ کے خاندان بنو عدی کے سپرد جھگڑوں کے فیصلے اور سفارت کا منصب تھا.(1) حضرت عمر بن الخطاب 13 عام الفیل میں پیدا ہوئے.رسول اللہ ﷺ سے عمر میں تیرہ سال چھوٹے تھے قریش کے معزز خاندان سے تعلق تھا.حضرت عمر نشرفائے عرب میں رائج الوقت فنون تیر اندازی ، شہسواری سے خوب واقف تھے.مکہ کے قریب عکاظ کے میلے میں کشتی جیتا کرتے تھے.(2) وہ اُس زمانے کے چند گنتی کے لوگوں میں سے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے.عرب کے دستور کے مطابق آپ نے بھی اپنے لئے تجارت کا ذریعہ معاش اپنایا.اس سلسلے میں کئی ممالک کے سفر کیے اور ان سے بہت کچھ سیکھا.آپ کی عمر ۲۷ برس ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ نے اعلانِ رسالت فرمایا.بادی النظر میں عمر جیسے آزاد منش نوجوان کو یہ اجنبی پیغام اپنے اور اہل وطن کے مزاج کے خلاف نظر آیا اور وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے.قبول اسلام حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بہت معروف ہے.پہلے پہل وہ سخت نفرت اور تعصب کا اظہار کرتے رہے.جو لوگ مسلمان ہورہے تھے ان پر سخت مظالم توڑے.جب دیکھا کہ ان کا جبر اور سختی لوگوں کو اسلام سے پیچھے نہیں ہٹا سکی تو ایک روز آنحضرت ﷺ کے قتل کے ارادہ سے گھر سے نکلے.اُدھر رحمۃ اللعالمین کا یہ حال تھا کہ عمر کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعائیں کر رہے تھے کہ اے

Page 58

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 44 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ! ابوجہل بن ہشام اور عمر بن الخطاب میں سے جو تجھے زیادہ پسند ہے اسے اسلام کی آغوش میں لے آ.(3) دراصل یہی دونوں سردار مکہ کی اسلام مخالف قیادت کے بڑے لیڈر تھے.آنحضور ﷺ کی دعائیں رنگ لائیں اور عمر میں رفتہ رفتہ تبدیلی آنے لگی.حضرت عمر کا اپنا بیان ہے کہ قبول اسلام سے پہلے ایک دفعہ میں رسول اللہ عنہ کی تلاش میں نکلا تو آپ بیت اللہ میں سورۃ الحاقہ کی تلاوت کر رہے تھے میں اس کلام کی حسن و خوبی پر متعجب ہوا اور دل میں کہا کہ یہ شخص شاعر نہیں ہو سکتا اسی وقت سے اسلام میرے دل میں گھر کر گیا.‘ (4) در اصل رسول اللہ علیہ کی دعا سے تقدیر الہی حرکت میں آچکی تھی.حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا فوری سبب وہ واقعہ ہوا جب وہ تلوار سونتے ہوئے آنحضور عے سے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے.راستے میں نعیم بن عبداللہ سے ملاقات ہوئی.انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کہاں کا قصد ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا میں اس فتنہ کا سد باب کرنے اور بانی اسلام کے قتل کے ارادے سے نکلا ہوں.اس نے کہا پہلے اپنے بہن اور بہنوئی کی تو خبر لو، جو مسلمان ہو چکے ہیں.وہ اسی حالت میں سیدھا اپنی بہن فاطمہ کے گھر چلے گئے.قریب پہنچے تو قرآن شریف کی آواز سنائی دی.گھر میں داخل ہو کر کہنے لگے ” جو کلام تم پڑھ رہے تھے پہلے وہ سناؤ جب انہوں نے کچھ پس و پیش کی تو وہ حالت جوش میں بہنوئی سے دست وگریبان ہو گئے.بہن چھڑانے کے لئے بیچ میں آئیں تو ان کا بھی لحاظ نہ رہا اور اس طرح اپنی بہن اور بہنوئی کو لہو لہان کر بیٹھے.اور انہیں کہا ” اس دین سے واپس لوٹ آؤ.“ حضرت فاطمہ بھی آخر حضرت عمر کی بہن تھیں.نہایت استقامت سے بولیں ”یہ نہیں ہوسکتا.اے عمر ! تم جو چاہو کر گزرو جتنا مرضی ظلم ڈھالو اب تو اسلام میرے دل میں گھر کر چکا ہے.حضرت عمرؓ ایک طرف اپنی بہن کی حالت زار دیکھ کر پشیمان تھے تو دوسری طرف انکا آہنی عزم اور استقلال دیکھ کر حیران ! آخر عمر گا دل پسیج گیا.کہنے لگے "اچھا مجھے کچھ قرآن تو سناؤ.‘ اس پر سورۃ طہ یا سورۃ حدید کی کچھ آیات آپ کو سنائی گئیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید ، عظمت و جبروت اور تسبیح وتحمید پر مشتمل تھیں.ان آیات نے حضرت عمرؓ کے دل پر بجلی کا سا اثر کیا.

Page 59

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 45 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے اپنی بہن کو جسے زدوکوب کر کے خون آلود کر چکے تھے، رات کے پہلے حصہ میں بھی یہ پڑھتے بنا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (العلق : 2 ) اور رات کے آخری حصہ میں بھی.علی الصبح آپ تلوار ہاتھ میں لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دارارقم میں حاضر ہو گئے.جب دروازہ پر دستک ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمر کو آنے دو.حضرت حمزہ کہنے لگے ”اگر وہ غلط ارادے سے آئے ہیں تو انہی کی تلوار سے ان کا کام تمام کر دیا جائے گا.“ حضرت عمر اندر آئے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ”عمر !کس ارادہ سے آئے ہو؟ عرض کیا حضور ! اسلام قبول کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں.پھر انہوں نے اسی وقت أَشْهَدُ اَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپ کی رسالت کی گواہی دی تو آنحضرت ﷺ نے خوشی سے بآواز بلند نعرہ تکبیر بلند کیا.(5) یہ پہلا نعرہ تکبیر تھا جو مسلمانوں نے مکہ میں حضرت عمر کے ہم آواز ہوکر بلند کیا، جس کی آواز بطحا کی پہاڑیوں میں گونجی.حضرت عمر کا زمانہ اسلام ساتویں سال نبوت کے قریب بنتا ہے.ابتلاء میں استقامت اس وقت تک چالیس کے قریب لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے.اس زمانہ میں اسلام کا اعلانیہ اظہار ظلم اور مصائب کو دعوت دینے کے مترادف تھا.حضرت عمر نے دانستہ طور پر مکہ کے سب سے زیادہ خبریں پھیلانے والے جمیل تجھی کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تا کہ ان کے اسلام کا چرچا ہو اور رؤسائے مکہ کو بھی پتہ چلے.حضرت عمر کے قبول اسلام کی خبر کا اڑ نا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا.مشرکین بکثرت ان کے گھر کے گرد جمع ہوئے.وہ نعرے لگارہے تھے کہ عمر بے دین ہو گیا.عمر صابی ہو گیا.حضرت عمرؓ کہتے تھے نہیں میں مسلمان ہوا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.اس دوران کئی دفعہ مشرکین سردار آپ پر حملہ آور ہوئے.ایک دفعہ عتبہ آپ سے گھتم گتھا ہو گیا.کفار کے پورے مجمع کے مقابل پر حضرت عمر نے بسا اوقات پورا پورا دن ڈٹ کر مقابلہ کیا.جو حملہ آور ان کے قریب آتا اسے پکڑ لیتے.حضرت عمر نے اس موقع پر اعلانیہ کہا کہ اگر ہم مسلمان تین سو افراد ہو گئے تو اے مشرکو! یا تمہیں مکہ کو چھوڑ نا ہوگا یا ہم

Page 60

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 46 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسے تمہارے لئے چھوڑ دیں گے.“ حضرت عمرؓ کے رشتے کے ماموں عاص بن وائل کو اس شدید مخالفت کا پتہ چلا تو انہوں نے حضرت عمر کو اپنی پناہ میں لینا چاہا.حضرت عمرؓ جیسے بہادر انسان نے گوارا نہ کیا کہ ان کے کمزور مسلمان بھائی تو ماریں کھائیں اور صبر سے مظالم برداشت کریں اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے طاقتور رشتہ داروں کی پناہ لے لیں.انہوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور آنحضرت مہ سے درخواست کی کہ خانہ کعبہ جا کر اعلانیہ نماز ادا کی جائے.آنحضرت مسلمانوں کو ہمراہ لے کر حضرت عمرؓ کے ساتھ صحن کعبہ میں پہنچے اور وہاں نماز ادا کی گئی.مکہ میں یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے اعلامیہ اسلام کا اظہار کیا.رسول خدا ﷺ نے حضرت عمرؓ کو فاروق“ کا لقب عطا فر مایا.یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا وجود.(6) ہجرت مدینہ جب مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت ہوئی تو حضرت عمرؓ نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا اور ہجرت بھی بڑی شان سے کی.نبی کریم عہ سے اجازت لے کر چند ساتھیوں کے ہمراہ پہلے خانہ کعبہ پہنچے.طواف کر کے مشرکین کو مخاطب کر کے کہا ” آج جس نے بھی میرا مقابلہ کرنا ہے حرم مکہ سے باہر آ کر کرئے، لیکن کسی کو اس کی ہمت نہ ہوئی.حضرت عبداللہ بن مسعود کہا کرتے تھے کہ حضرت عمر کے قبول اسلام کے بعد ہم اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرنے لگے تھے.(7) مدینہ پہنچ کر حضرت عمرؓ نے نواحی بستی قبا میں قیام کیا پھر آنحضرت ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے.مؤاخات کا سلسلہ قائم ہوا تو قطبہ بن مالک انصاری حضرت عمر کے اسلامی بھائی قرار پائے.اذان کا مشورہ حضرت عمر اب آنحضرت ﷺ کے قریبی ساتھی اور مشیر بھی تھے انہیں بہت عمدہ اور صائب مشورے پیش کرنے کی توفیق ملی.مدینہ میں پنجگانہ نمازوں کے اوقات کی تعیین کے مسئلے پر جب مشورہ ہوا تو صحابہ نے آگ جلا کر ، سینگ پھونک کر یا ناقوس بجا کر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی تجاویز دیں.حضرت عمرؓ نے یہ مشورہ دیا کہ کیوں نہ ایک آدمی مقرر کیا جائے جو لوگوں کو نماز کے لئے بلائے.رسول اکرم ﷺ کو یہ تجویز پسند آئی اس کے بعد اذان کے کلمات رؤیا کے ذریعے حضرت

Page 61

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 47 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عمرؓ اور ایک اور صحابی عبداللہ بن زید کو سکھائے گئے.آنحضرت ﷺ نے وہ کلمات سن کر حضرت بلال سے فرمایا کہ یہ کلمات بآواز بلند پڑھ کر تم لوگوں کو نماز کے لئے بلاؤ.حضرت عمر نے جب اپنی رو یا حضور ﷺ کو سنائی تو آپ نے فرمایا ” اس کے موافق وحی بھی آچکی ہے.“(8) دوسری تفصیلی روایت میں ذکر ہے کہ اذان نبی کریم ﷺ کو معراج کی رات بذریعہ وحی سکھائی گئی.(9) غزوات میں شرکت قریش مکہ نے مدینہ میں بھی آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا اور مدینہ پر چڑھائی کر دی.غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت عمر ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے دست وبازو بن کر رہے.غزوہ احد میں جب خالد بن ولید کے دستے نے اچانک دوبارہ حملہ کر کے مسلمانوں کو تتر بتر کر دیا.نبی کریم ﷺ صحابہ کی ایک مختصر جماعت کے ہمراہ پہاڑ کے دامن میں تشریف لائے.خالد نے ادھر کا رخ کرنا چاہا.رسول اللہ علیہ نے دعا کی.” خدایا! یہ لوگ یہاں نہ پہنچ پائیں.حضرت عمرؓ چند مہاجرین اور انصار کو لے کر آگے بڑھے اور حملہ کر کے خالد کے دستے کو پسپا کر دیا.اس موقع پر حضرت عمر کی غیرت ایمانی خوب ظاہر ہوئی.جب ابوسفیان طعنہ دے کر یہ کہہ رہا تھا کہ ہم نے محد کوقتل کر دیا.ہم نے ابوبکر کو تل کر دیا.ہم نے عمر کوقتل کر دیا.اگر یہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے.حضرت عمرؓ سے ضبط نہ ہو سکا اور جوش سے کہا ” اے دشمن خدا! تم جھوٹ کہتے ہو، یہ سب تمہیں ذلیل کرنے کے لئے اللہ کے فضل سے زندہ موجود ہیں.‘ (10) صلح حدیبیہ میں ۶ ہجری کے سفر حدیبیہ میں بھی حضرت عمر شریک تھے.اس موقع پر آپ کو ایک ابتلاء بھی پیش آیا.معاہدہ صلح کی بظاہر مسلمانوں کے مخالف شرائط دیکھ کر حضرت عمر آنحضرت ﷺ سے کہنے لگے یا رسول اللہ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ حضور نے فرمایا ہاں حق پر ہیں.عرض کیا پھر ہم باطل سے دب کر صلح کیوں کر رہے ہیں؟ پھر سوال کیا کہ کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم امن سے طواف کریں گے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال طواف کریں گے؟

Page 62

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 48 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ آپ نے یہ تو نہیں فرمایا.حضور نے فرمایا کہ میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ ہم امن کے ساتھ طواف کریں گے.آنحضرت نے اس موقع پر حضرت عمر گومزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ” میں خدا کا رسول ہوں اور خدا کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتا اور وہی میرا ساتھی اور مددگار ہے.حضرت عمر کو بعد میں اپنے ان سوالات کی وجہ سے بہت ندامت ہوتی تھی.اس کی تلافی کے طور پر انہوں نے بہت صدقہ اور خیرات بھی کیا.خیر! معاہدہ صلح ہوا جس پر حضرت عمرؓ کے بھی دستخط ہوئے اور رسول اللہ علیہ نے واپسی کا سفر اختیار فرمایا.حدیبیہ سے واپسی کے دوران سورۃ فتح نازل ہوئی آنحضرت نے سب سے پہلے حضرت عمرؓ کو یاد فرمایا.حضرت عمرؓ کہتے ہیں ” میں سخت خوف زدہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کا بلاوا ہے کہیں میرے بارہ میں ہی کوئی وحی نہ اتری ہو.“ جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا " آج مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ پیاری ہے پھر رسول اکرم نے سورۃ فتح کی ابتدائی آیات سنائیں.اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتحاً مبيناً یعنی ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح عطا کی ہے.(11) اس میں یہ اشارہ تھا کہ حدیبیہ کی یہ صلح آئندہ عظیم الشان فتوحات کی پیش خیمہ بنے والی ہے اور اپنی ذات میں فتح مبین ہے.فتح حدیبیہ کے معا بعد اس کی برکت سے خیبر فتح ہوا.فتح خیبر میں خدمات فتح خیبر کے موقع پر جن جرنیلوں کو باری باری سپہ سالاری کی خدمت سونپی گئی.اُن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ بھی تھے.اگر چہ خیبر کی آخری فتح حضرت علی کی سالاری میں مقدر تھی مگر اس میں حضرت عمر کی ایک خاص خدمت کا بھی دخل ہے.ہوا یوں کہ فتح خیبر سے ایک رات قبل حضرت عمرؓ حفاظتی گشت پر مامور تھے.اس دوران وہ کچھ یہودی جاسوس گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے.جو قلعہ سے مسلمانوں کے احوال معلوم کرنے نکلے تھے.حضرت عمرؓ نے اُن کو گرفتار کر کے قلعہ کے کمزور مقامات کے متعلق اور دیگر معلومات حاصل کر لیں.یہ سب باتیں اگلے روز فتح خیبر میں بہت ہی ممد اور معاون ثابت ہوئیں.یوں حضرت عمر نے فتح خیبر میں ایک اہم کردار ادا

Page 63

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 49 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کیا.جب وہ جاسوس کو پکڑ کر آنحضور ﷺ کی خدمت میں لے گئے تو آپ اس وقت نماز تہجد میں دعاؤں میں مصروف تھے.یہ تمام احوال اور معلومات حضور کی خدمت میں پیش کی گئیں.اگلے روز حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے ذریعہ یہ فتح ظہور میں آئی.(12) غزوہ تبوک میں بھی حضرت عمر نشریک ہوئے اور اس موقع پر غیر معمولی مالی قربانی کی توفیق پائی.وفات رسول پر رد عمل اھ میں آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی.صحابہ غم کے مارے دیوانے ہوئے پھرتے تھے.حضرت عمر جیسے عاشق رسول نے اس موقع پر وارفتگی کے عالم میں مسجد نبوی میں یہ اعلان کر دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضور ﷺ فوت ہو گئے ہیں میں اُس کا سر تن سے جدا کر دوں گا.حضرت ابوبکر نے اس موقع پر نہایت جرات سے خطبہ ارشاد فرمایا اور آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( آل عمران : 145) تلاوت کر کے اعلان کیا کہ محمد تو ایک رسول ہی تھے اور آپ سے پہلے تمام رسول وفات پاچکے.لہذا آپ کا وفات پانا کوئی اوپری بات نہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ قرآن تو میں پہلے بھی پڑھتا تھا مگر اس وقت مجھے ایسے لگا جیسے یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہو.جب یہ احساس ہوا کہ واقعی آنحضور ﷺ وفات پاگئے ہیں تو حالت سکتہ میں لگا جیسے کسی نے میری ٹانگیں کاٹ دی ہیں اور میں زمین پر ڈھیر ہو گیا.پھر تو مدینہ کی ہر گلی میں ہر شخص کی زبان پر یہ آیت تھی اور وہ روتے ہوئے گزشتہ تمام انبیاء کی وفات کی اس دلیل سے آنحضور ﷺ کی وفات کا اعلان کر رہے تھے.(13) خلافت ابوبکر اور حضرت عمرہ کا کردار رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد امت کے لئے سب سے اہم مسئلہ خلافت راشدہ کا قیام تھا.انصار اپنے سردار سعد بن عبادہ کے ڈیرے پر جمع ہوئے.اس وقت بہت نازک صورتحال پیدا ہوگئی جب انصار میں سے بعض نے یہ سوال اُٹھایا کہ انصار کا الگ امیر اور مہاجرین کا الگ امیر مقرر ہو.حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بھی وہاں پہنچے.پہلے حضرت عمرؓ بولنے لگے.عمر فر ماتے تھے کہ میں اس موقع پر بولنے کے لئے تیاری کر کے گیا تھا.مجھے خلافت کی ہرگز کوئی

Page 64

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 50 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خواہش نہ تھی میرا خیال تھا کہ شاید ابو بکر وہ بات نہ کرسکیں گے.مگر ابو بکر نے جب بات کی تو خوب اس کا حق ادا کیا اور فرمایا کہ ”ہم مہاجرین اور انصا مل کر یہ نظام چلائیں گے.ہم امراء ہوں گے تو تم ہمارے وزیر ہو گے.بے شک عمر کی بیعت کر لو یا ابو عبیدہ کی.“ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا نہیں بلکہ اے ابوبکر! ہم آپ کی بیعت کریں گے کہ آپ اور صرف آپ ہی ہمارے سردار اور ہمیں سب سے پیارے ہیں.پھر حضرت عمرؓ نے ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کی درخواست کی.(14) حضرت ابوبکر کی بیعت کے بعد حضرت عمران کے دست راست مشیر اور وزیر کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.حضرت ابوبکر نے خلافت کی مصروفیات کے باعث قضا کے معاملات حضرت عمرؓ کے سپر دفر ما دئے تھے.اس لحاظ سے آپ اسلام کے پہلے با قاعدہ قاضی تھے.(15) منصب خلافت اور پہلی تقریر حضرت ابو بکر نے آخری بیماری میں حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا.ان کی سخت طبیعت کی وجہ سے بعض لوگوں کو پریشانی ہوئی.حضرت طلحہ اور حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر سے عرض کیا کہ آپ نے کے جانشین مقرر کیا ہے.فرمایا ”عمر کو عرض کیا خدا کے حضور کیا جواب دیں گے فرمایا ” میں عمرہ کو تم دونوں سے زیادہ جانتا ہوں.میں خدا کی بارگاہ میں عرض کروں گا کہ میں نے موجود لوگوں میں سے سب سے بہتر کو جانشین مقرر کیا.حضرت ابوبکر کی وفات جمادی الآخر 13 ھ میں ہوئی اور حضرت عمر مسند خلافت پر متمکن ہوئے.آپ نے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا ”اے لوگو! مجھے تمہارے ذریعہ اور تمہیں میرے ذریعہ میرے دونوں ساتھیوں کے بعد آزمائش میں ڈالا گیا ہے.جو لوگ ہمارے سامنے موجود ہیں ان سے ہم خود معاملہ کریں گے اور جو یہاں نہیں وہاں مضبوط اور امانت دار والی مقرر کر دیں گے.جو نیکی کرے گا ہم اس سے حسن سلوک کریں گے اور جو برائی کا مرتکب ہوگا ہم اسے سزا دیں گے.اللہ آپ کو اور ہمیں معاف فرمائے.پھر خدا کے حضور یہ دعا کی اے اللہ میں سخت ہوں مجھے نرم کر دے، میں کمزور ہوں مجھے طاقتور کر دے، میں بخیل ہوں مجھے بھی بنادے.“ (16) فتوحات عمرة ۱۳ھ میں جب حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق حضرت عمر خلیفہ

Page 65

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 51 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہوئے.عراق میں اسلامی فوجیں برسر پیکار تھیں.ان فتوحات کی تکمیل ان کے عہد میں ہوئی.اس زمانے میں ایران سے بھی جنگ شروع ہو چکی تھی.آپ خود اس کی قیادت کرنے کے لئے مدینہ سے روانہ بھی ہو گئے مگر بعض صحابہ کے مشورے پر واپس تشریف لائے.تاہم اپنی ذاتی نگرانی میں عراق، ایران ، شام کی مہمات مکمل کروائیں.ان کے دس سالہ دور خلافت میں عراق و شام اور ایران و مصر میں اسلامی جھنڈا لہرانے لگا.آرمینیا، آذربائی جان اور جزائر بھی اسی دور میں فتح ہوئے.(17) عراق و شام کی فتوحات حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں ہوئیں ، جنہیں رسول خدا کے نے سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا تھا.حضرت عمرؓ ان کی فن حرب کی صلاحیتوں اور شجاعت کے معترف تھے.انہیں کئی معرکوں کا قائد مقرر فرمایا لیکن جب محسوس کیا کہ خلافت کے ادنیٰ اور مخلص غلام خالد کے بارہ میں لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہورہی ہے تو ان کی جگہ حضرت ابوعبیدہ کو سالا رلشکر مقرر فرمایا.حضرت خالد اطاعت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سپاہی کی حیثیت سے بدستور بہادری کے جوہر دکھاتے رہے.حضرت عمر نے یہ ارشاد فرما کر حضرت خالد کو ہر الزام سے بری قرار دیا ہے کہ ” میں نے تمہیں کسی شبہ کی بناء پر امارت سے معزول نہیں کیا بلکہ تمہارے بارہ میں لوگوں کی رائے میں خوش فہمی غالب ہونے سے اندیشہ ہوا کہ وہ تمہیں گمراہ نہ کر دے.اسی طرح فرمایا کہ ”میں نے خالد کو اسلئے معزول کیا تا معلوم ہو کہ اللہ اپنے دین کی خود مددفرماتا ہے.“ (18) حضرت عمرؓ کے عہد میں قادسیہ میں ایرانیوں سے فیصلہ کن جنگ ہوئی.شام کی فتوحات کا آخری فیصلہ بر موک میں ہوا.حضرت عمرؓ اس فتح کی خبر سنتے ہی سجدہ شکر بجالائے تھے.فتح بیت المقدس کے موقع پر عیسائیوں کے اسقف ( مذہبی سر براہ اعلیٰ ) کی اس خواہش پر کہ امیر المؤمنین خود تشریف لاکر معاہدہ صلح کریں.حضرت عمر نے ۱۶ھ میں بیت المقدس کا سفر اختیار کیا اور یوں اس تاریخی فتح کی تکمیل ہوئی.شہادت عمر حضرت عمر کی شہادت کے بارہ میں بھی رسول کریم ﷺ نے پیشگی خبر دیدی تھی.جب احد

Page 66

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 52 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہاڑ پر آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر عمر اور عثمان تھے آپ نے فرمایا تھا اے احد تھم جا کہ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں.(19) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے جنت میں حضرت عمر کا شاندار محل دیکھ کر رشک کا ذکر فر مایا اور ان کے نیک انجام کی خبر دی تھی.حضرت عمر دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا کرنا اور مجھے اپنے رسول کے شہر میں موت دینا.(20) خود حضرت عمر نے اپنی شہادت سے کچھ روز پہلے کہا "اے لوگو! میں نے ایک خواب دیکھی ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میرا وقت قریب آگیا ہے.میں نے ایک سرخ مرغ دیکھا جس نے مجھے دو دفعہ چونچیں ماریں.میں نے یہ خواب اسماء بنت عمیس سے بیان کی تو انہوں نے یہ تعبیر کی کہ مجھے کوئی عجمی شخص قتل کرے گا.‘ (21) حضرت عمر پر نماز فجر پڑھاتے ہوئے حملہ کیا گیا تھا.ظالم قاتل دودھاری چھرا لے کر حملہ آور ہوا اور حضرت عمرؓ کے کندھے اور پہلو میں حملہ کیا.پھر دائیں بائیں لوگوں پر بھی چھرے سے وار کرتا گیا.جس سے تیرہ نمازی زخمی ہوئے.ان میں سے سات شہید ہو گئے.بالآخر قاتل پر کمبل پھینک کر اسے پکڑ لیا گیا.حملہ آور نے خود کشی کر لی.حملہ کے بعد حضرت عمرؓ نے خود عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر انہیں امام کی جگہ کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے سورۃ کافرون اور اخلاص کے ساتھ مختصر نماز پڑھائی.حضرت عمر کو اُٹھا کر گھر لے جایا گیا.انہوں نے حضرت ابن عباس سے فرمایا پتہ کریں حملہ کرنے والا کون تھا ؟ وہ معلوم کر کے آئے اور بتایا کہ وہ مغیرہ کا غلام ابولو لو مجوسی تھا.حضرت عمرؓ نے پوچھا، وہ جو کاریگر تھا.انہوں نے کہا ہاں اس پر خوش ہو کر فرمایا ” میں نے تو اس سے حسن سلوک کا ہی حکم دیا تھا.اللہ کا شکر ہے کہ میری موت کسی مسلمان کہلانے والے کے ہاتھ سے نہیں ہو رہی.“ آپ کو دودھ پلایا گیا تو وہ زخم سے بہ نکلا.مسلمانوں نے اندازہ کر لیا کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں گے.(22) خوف خدا آخری وقت میں حضرت ابن عباس نے گھبراہٹ دیکھ کر تسلی دلاتے ہوئے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی محبت کا حق ادا کر دیا.حضور آپ سے بوقت وفات راضی تھے.حضرت ابوبکر

Page 67

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 53 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور بھی آپ نے وفا سے نبھایا اور وہ آپ سے راضی ہو کر رخصت ہوئے.پھر حضور علیہ کے صحابہ سے واسطہ پڑا اور آپ نے ان کا بھی خوب حق ادا کیا اور آپ کی جدائی کے وقت وہ سب آپ سے راضی ہیں.حضرت عمرؓ نے کمال انکساری سے فرمایا:.صلى الله ”رسول اللہ علیہ اور حضرت ابوبکر کا مجھ سے راضی ہونا تو واقعی اللہ کا احسان ہے.البتہ میری یہ گھبراہٹ آپ اور آپ کے اصحاب کی وجہ سے ہے کہ نامعلوم ان کے حق ادا کر سکا ہوں یا نہیں؟ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر سونا ہوتا تو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے پیش کر دیتا.پہلے اس سے کہ اس عذاب کو دیکھوں.‘(23) علی بن زید بیان کرتے ہیں جب حضرت عمر کو منجر مارا گیا تو حضرت علی عیادت کو آئے اور آپ کے سرہانے بیٹھ گئے.اسی اثنا میں حضرت عبد اللہ بن عباس بھی آگئے اور آپ کی تعریف کرنے لگے.حضرت عمرؓ نے فرمایا.ابن عباس تم جو کہ رہے ہو کیا اس کی گواہی دو گے؟ حضرت علیؓ نے اشارہ سے حضرت ابن عباس سے ہاں کہنے کو کہا.حضرت ابن عباس نے کہا جی حضور! تو حضرت عمرؓ نے فرمایا.تم اور تمہارے ساتھی مجھے کسی دھو کہ میں مبتلا نہیں کر سکتے.پھر آپ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا ” میرا سر تکیہ سے اٹھا کر مٹی پر رکھ دو شاید کہ خدا مجھ پر نظر کرم کرے اور رحم فرما دے.‘ (24) معیت رسول عہ کی خواہش بوقت بوفات حضرت ابن عمر سے فرمایا کہ ام المؤمنین عائشہ سے جا کر میر اسلام عرض کرو اور ”امیر المؤمنین“ کے الفاظ میرے لئے استعمال نہ کرنا کیوں کہ آج کے بعد میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہوں گا.ان سے کہنا عمر بن الخطاب اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ حجرہ عائشہ میں زمین کی اجازت چاہتے ہیں.حضرت ابن عمر گئے تو وہ بیٹھی اور ہی تھیں.انہوں نے پیغام پہنچایا تو حضرت عائشہ نے فرمایا ” میں نے یہ جگہ اپنی قبر کے لئے رکھی ہوئی تھی مگر آج حضرت عمر کی خاطر انہیں اپنے او پر ترجیح دیتے ہوئے قربانی کرتی ہوں.“ حضرت ابن عمر جب واپس آئے اور حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھاؤ پھر ابن

Page 68

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 54 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عمر سے پوچھا کیا خبر لائے؟ عرض کیا اے امیر المؤمنین! آپ کی خواہش کے مطابق حضرت عائشہ نے اجازت دے دی.فرمانے لگے.الحمد للہ! میری ذات کے لئے اس سے اہم کوئی چیز نہیں تھی.جب میری وفات ہو جائے تو میرا جنازہ اُٹھا کر وہاں لے جانا اور ایک دفعہ پھر حضرت عائشہ سے اس طرح اجازت طلب کرنا کہ عمر بن خطاب آپ کے حجرہ میں تدفین کی اجازت چاہتے ہیں اگر وہ اجازت دیں تو مجھے وہاں دفن کر دینا اور نہ مسلمانوں کے عام مقبرہ میں تدفین کرنا.“ (25) چنانچہ اپنے آقا ومولا اور ساتھیوں کے پاس حجرہ عائشہ میں آپ کی تدفین ہوئی.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر کا جنازہ رکھا گیا تو لوگ حضرت عمرؓ کے حق میں دعائیں کر رہے تھے کہ ناگاہ ایک شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور حضرت عمر کومخاطب کر کے کہا اللہ آپ پر رحم کرے.مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اکٹھا کر دے گا کیونکہ میں اکثر رسول اللہ گوفر ماتے سنتا تھا میں تھا اور ابو بکر و عمر تھے میں نے اور ابوبکر و عمر نے فلاں کام کیا.میں اور ابوبکر و عمر فلاں جگہ گئے.“ اس بناء پر مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے ساتھ ہی جگہ دے گا.ابن عباس کہتے ہیں میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ حضرت علی بن ابی طالب تھے.(26) حضرت عمرؓ کی وفات پر مسلمانوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق فرض نماز میں انہیں حضرت صہیب پڑھا رہے تھے.چنانچہ حضرت صہیب کو آگے کر دیا گیا اور انہوں نے حضرت عمرؓ کی نماز جنازہ پڑھائی.حضرت عمر 23 ذوالحجہ 23ھ کو قریباً ساٹھ سال کی عمر میں شہید ہوئے.آپ کا زمانہ خلافت ساڑھے دس برس تھا.(27) استحکام خلافت اور شوری حضرت عمر نے اپنے خداداد نور بصیرت سے استحکام خلافت کے سلسلہ میں عظیم الشان کردارادا کیا اور انتخاب خلافت کا پختہ اصول رائج فرما دیا.آپ کی خدمت میں اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اس سے پس و پیش کیا پھر ایک روز اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ ” میری وفات کے بعد خلافت کا فیصلہ چھ افراد کی یہ کمیٹی کرے گی جن میں علی بن ابی طالب ، عثمان بن عفان،

Page 69

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 55 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ طلحہ بن عبد اللہ سعد بن مالک ہونگے.یہ وہ بزرگ صحابہ ہیں کہ رسول اللہ بوقت وفات ان سے راضی تھے.اور سنو میں تمہیں حکومت، عدل اور تقسیم مال کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں.‘“ حضرت عمرؓ نے اس کمیٹی کو جسے آپ نے شوری قرار دیا.ہدایت فرمائی کہ ” تم باہم مشورہ سے خلیفہ کا انتخاب کرنا.اگر تین طرف دو دو آراء ہو جائیں تو پھر مجلس شوری ہی فیصلہ کرے گی ورنہ کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہوگا.اگر دو طرف آراء تین تین ہو جائیں تو عبدالرحمان کی رائے جس طرف ہوگی وہ قبول کرنا.اس طرح آپ نے گویا حضرت عبد الرحمان کو کمیٹی کا کنو میز مقرر کر کے انہیں حتمی رائے کا حق دیا.نیز کمیٹی کو تین دن میں فیصلہ کا پابند کیا.انتخاب خلافت کی درمیانی مدت کے لئے آپ نے حضرت صہیب رومی کو نمازوں کے لئے امام مقررفرمایا.شوریٰ کے آخری فیصلہ کا انکار یا مخالفت کرنے والے کے لئے سخت احکامات جاری فرمائے.خلافت کمیٹی کے اراکین قدیم مہاجرین صحابہ تھے.اس کے اجلاس کو پُر امن اور یقینی بنانے کے لئے مزید یہ اہتمام فرمایا کہ اپنی وفات سے چند لمحے قبل ایک مخلص اور وفاشعار عاشق رسول انصاری صحابی حضرت ابوطلحہ کو جو مدینہ کے سرداروں میں سب سے صاحب اثر وثروت تھے.پیغام بھجوایا کہ اے ابوطلحہ ! آپ اپنی قوم کے پچاس انصار ساتھیوں کے ساتھ ان اصحاب شوری کے ساتھ حفاظت کی ڈیوٹی دینا اور ان پر تیسرا دن گزرنے نہ دینا یہاں تک کہ وہ ارکان شوری میں سے کسی ایک کو اپنا خلیفہ مقرر کر لیں.‘ احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ انتظامات کرنے کے بعد پھر حضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ ! اب تو ان پر میری طرف سے جانشین اور نگہبان ہو جا.‘ (28) حضرت عمرؓ نے شوری کمیٹی برائے خلافت میں اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی رکن نامزد کیا تھا مگر ساتھ ہدایت فرمائی کہ ان کا نام خلافت کے لئے پیش نہ ہو سکے گا.پھر فرمایا ” میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو قدیم ہجرت کرنے والے بزرگ صحابہ کے لئے وصیت کرتا ہوں کہ ان کا حق پہچانیں اور ان کا پورا احترام کریں.دوسرے انصار کے حق میں وصیت کرتا ہوں.جن کا قرآن میں ذکر ہے کہ انہوں نے ایمان کو اور مہاجرین کو اپنے پاس جگہ دی کہ ان کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرتے ہوئے ان سے بہتر سلوک کیا جائے اور غلطی کرنے والے سے عفو

Page 70

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 56 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کیا جائے.عام شہروں کے باشندوں کے بارے میں بھی میں نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں کہ یہ اسلام کی ڈھال، آمدنی کا ذریعہ اور دشمن کے لئے رعب و دبدبہ کا موجب ہیں.ان سے ان کی خوشی کے مطابق صرف بچت میں سے ہی ٹیکس لئے جائیں.میں عرب کے بدوؤں کے بارے میں بھی نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں کہ یہ عرب کی جڑ اور مسلمانوں کی جمعیت ہیں.ان کے زائد اموال میں سے کچھ لے کر ان کے فقراء میں تقسیم کر دیا جائے.میں خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد پورا کیا جائے اور عام رعایا کے عہد بھی پورے کئے جائیں اور ان کی حفاظت کی خاطر جنگ بھی کرنی پڑے تو کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالے جائیں.“ (29) ازواج واولاد اسلام کی خاطر حضرت عمرؓ نے ہر قسم کی قربانیاں دیں.اپنا گھر بار اور ازواج خدا کی خاطر جس چیز کو چھوڑنا پڑا چھوڑ دیا.دو بیویوں کو مشرک ہونے اور مکہ میں رہ جانے کے باعث طلاق دینا پڑی.ایک مکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں فوت ہو گئیں.ایک اور بیوی کو بھی طلاق کی نوبت آئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سے بہتر ازواج عطا فرمائیں.ایک شادی عاتکہ بنت زید سے ہوئی.(30) رسول اللہ سے حضرت حفصہ کے ذریعہ مصاہرت کا رشتہ تھا.خاندان نبوت سے مزید تعلق کی خاطر ۱۷ھ میں حضرت فاطمہ اور حضرت علی کی صاحبزادی ام کلثوم سے حضرت عمر نے عقد کیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن سبب اور نسب منقطع ہو گا سوائے میرے سبب اور نسب کے، میں پسند کرتا ہوں کہ رسول اللہ سے میرا تعلق سہمی ونسبی پختہ ہو.“ چنانچہ حضرت علی نے اپنی بیٹی ام کلثوم امام حسین و حسن کے مشورہ سے حضرت عمر کو بیاہ دی.(31) مختلف بیویوں سے نو بیٹے تھے.جن میں عبداللہ کے علاوہ عبید اللہ اور عاصم علم وفضل میں خاص مشہور ہوئے.وہ رسول اللہ اللہ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے.علم وفضل حضرت عمر کو اللہ تعالیٰ نے خاص علم اور فضل سے نوازا تھا.آنحضور ﷺ نے ایک دفعہ علم

Page 71

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 57 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ و فضل کے متعلق اپنی ایک رؤیاء بیان فرمائی جس میں آپ نے دیکھا کہ ” آپ نے دودھ پیا اور اتنا سیر ہوکر پیا کہ وہ آپ کے ناخنوں سے باہر نکلنے لگا.پھر آپ نے یہ برتن حضرت عمر کو دے دیا.صحابہ نے پوچھا کہ آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ؟ آپ نے فرمایا اس کی تعبیر علم ہے.حضرت عمرؓ نے میرے علم سے وافر حصہ پایا ہے.“ دوسری رؤیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں بعض لوگوں کو قمیصیں پہنے دیکھا ہے.بعض اصحاب نے تو بہت چھوٹے چھوٹے قمیص پہنی ہوئے تھے بعض کے قمیص ان کے کندھوں تک آرہے ہیں تو کسی کے سینے تک اور بعض کے پیٹ تک ، مگر حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ کہ ان کا قمیص بہت لمبا ہے.اتنا لمبا کہ وہ اسے ٹخنوں سے نیچے زمین پر گھسیٹتے ہوئے آرہے ہیں.صحابہ نے عرض کیا اس کی کیا تعبیر ہے؟ رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی تعبیر دین سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کو دین میں خاص دسترس عطا فرمائی ہے.اور دین کا وافر حصہ انہیں کو بخشا ہے.“ (32) حضرت عبداللہ مسعودؓ کہتے تھے کہ اگر حضرت عمر کا علم ایک پلڑے میں رکھا جائے اور باقی لوگوں کا علم دوسرے پلڑے میں تو عمر کا پلڑا بھاری ہو جائے.‘ (33) حضرت عمر کو آئندہ جن عظیم الشان خدمات کی توفیق ملنے والی تھی ، ان کا تذکرہ بھی آنحضور ﷺ کی ایک عظیم الشان رویا میں ملتا ہے.حضور ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا ” میں نے.دیکھا کہ میں ایک ڈول کے ذریعہ سے کنوئیں سے پانی نکال رہا ہوں.پھر حضرت ابوبکر ایک دو ڈول نکالتے ہیں مگر کمزوری سے.ان کے بعد حضرت عمرؓ کے آتے ہی اچانک ڈول کی جسامت بڑھ جاتی ہے.فرمایا میں نے کبھی ایسا جوان مرد نہیں دیکھا جو اس شان کے ساتھ پانی کھینچے جیسے عمر نے یہ کام کیا.اور اس ڈول سے اتنا پانی نکالا کہ تمام لوگوں نے خوب پیا اور سیر ہو گئے اور تمام جانوروں نے بھی پیا اور سیر ہو گئے.‘(34) اس رویا میں دراصل حضرت عمرؓ کی اُن خدمات کی طرف اشارہ تھا جو ان کے دور خلافت میں مقدر تھیں.چنانچہ اپنے عہد خلافت میں انہیں عظیم الشان خدمت اور کارناموں کی توفیق ملی.اُن میں ایک اہم خدمت نظام خلافت کا استحکام ہے.اس کے علاوہ نظام شوری احتساب کے محکمہ کا

Page 72

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 58 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ با قاعدہ انتظام ، بیت المال کا باقاعدہ انتظام، ملکی نظم وضبط ، عدل وانصاف کا اہتمام، قاضیوں کی عدالتوں کا با قاعدہ نظام اور نظام فوج خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت عمرؓ اپنی فوج کے امراء کو تاکید فرماتے تھے کہ علم دین میں کمال پیدا کریں اور اسے رواج دیں کیونکہ باطل کو حق سمجھ کر اس کی پیروی کرنے والا یا حق کو باطل سمجھ کر اسے ترک کرنے والے کی بہر حال پرسش ہوگی اور جہالت کا عذر کام نہ آئے گا.(35) حضرت عمر اہل علم اور قدیمی خدام دین کی قدردانی فرماتے.نوجوان عالم حضرت ابن عباس کو انکے دربار میں خاص مرتبہ تھا.حضرت بلال کو ان کی خدمات کی وجہ سے سیدنا بلال کہہ کر بلاتے اور خاص مقام دیتے.غریب مہاجرین کو نو مسلم رؤسا پر بھی اپنے دربار میں ترجیح دیتے.امور سلطنت مشورہ سے طے کرتے حتی کہ بعض دفعہ اپنی رائے چھوڑ کر صحابہ کے مشورہ پر عمل فرمایا.الہام سے مناسبت حضرت عمر کو علم وفضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نور الہام ووحی کے ذریعہ روحانی علوم کے ساتھ بھی گہری مناسبت عطا فرمائی ہوئی تھی.آنحضور ﷺ نے آپ کی اسی دماغی مناسبت کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:.پہلی قوموں میں محدث ہوا کرتے تھے جو نبی تو نہیں ہوتے تھے مگر اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ کلام کرتا تھا.اگر میری اُمت میں ایسا کوئی ہے تو وہ عمر ہے.“ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کی اس اعلیٰ روحانی استعداد کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر فر مایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.‘ (36) رض دوسری روایت میں ہے کہ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر مبعوث کئے جاتے گویا اللہ تعالیٰ نے انہیں الہام کے ساتھ گہری مناسبت عطا فرمائی اور آپ اس لائق تھے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور الہام آپ پر نازل ہو اور اگر میرے معا بعد بنی اسرائیل کے سلسلۂ خلافت کی طرح نبوت جاری رہنی ہوتی

Page 73

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 59 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تو عمر نبی ہوتے.لیکن چونکہ میرے معابعد نبوت نہیں بلکہ خلافت کا نظام جاری ہونا ہے.اس لیے عمر خلافت کے منصب پر فائز ہوں گے.حضرت عمر کو ایسے غیر معمولی دماغی قومی عطا کئے گئے جوالی پیغام والہام سے گہری مناسبت رکھتے تھے.کتب حدیث وسیرت میں متعدد ایسے مقامات کا تذکرہ ہے جب حضرت عمر نے ایک رائے کا اظہار کیا اور اُسی کے موافق قرآن مجید میں وحی نازل ہوگئی.چند خاص مواقع کا ذکر حضرت عمر خود فرماتے ہیں ” مجھے اپنے رب سے تین مواقع پر بطور خاص موافقت عطا کی گئی.ایک مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کے بارے میں دوسرے پردہ کے متعلق تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں.(37) رسول اللہ علیہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حق حضرت عمرؓ کی زبان اور دل پر جاری کر دیا ہے.“ ابن عمر کہتے تھے کبھی لوگوں پر کوئی مشکل وقت نہیں آیا جس میں انہوں نے کوئی رائے دی ہو اور حضرت عمر نے بھی رائے دی ہو.مگر قرآن حضرت عمر کی رائے کے موافق اترا‘ (38) شوق عبادت و دعا حضرت عمرؓ کو عظیم الشان اخلاق فاضلہ نصیب ہوئے تھے.اخلاق فاضلہ کی جڑ تو دراصل خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کا ڈر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کے نتیجے ہی میں اعلیٰ اخلاق اور عادات انسان کو نصیب ہوتی ہیں.حضرت عمرؓ کی ایک بیوی آپ کی رات کی عبادت کا حال یوں بیان کرتی تھیں:.عشاء کی نماز کے بعد آپ سو جاتے اور پانی کا ایک برتن سرہانے رکھ لیتے.رات جب آنکھ کھلتی پانی میں ہاتھ ڈال کر منہ پر پھیر لیتے اور بیدار ہوکر اللہ کی عبادت کرتے اور رات کو کئی مرتبہ اُٹھ کر کرتے.یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت ہو جاتا.‘ (39) حضرت عمر کو مجاہدات وریاضت اور دعاؤں سے خاص شغف تھا.فتح مکہ سے واپسی پر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے اجازت چاہی کہ خانہ کعبہ میں ایک رات اعتکاف کی منت پوری کرنا چاہتا ہوں.حضور نے بخوشی اجازت فرمائی.ایک دفعہ مدینہ سے عمرہ پر جانے کی اجازت چاہی

Page 74

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 60 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا:.”اے بھیا! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا.‘ (40) حجۃ الوداع میں رسول اللہ کی دعائیہ کیفیات اپنانے کی خاطر آپ کے ساتھ ساتھ رہنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے.حضرت عبداللہ بن عمر حجۃ الوداع کا یہ خوبصورت منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حجر اسود کی طرف منہ کیا.پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے.اچانک توجہ فرمائی تو حضرت عمر بن الخطاب کو ( پہلو میں کھڑے) روتے دیکھا اور فرمایا ” اے عمر ! یہ وہ جگہ ہے جہاں ( اللہ کی محبت اور خوف سے ) آنسو بہائے جاتے ہیں.“ (41) میدان عرفات کی آخری شام رسول کریم گو خاص دعاؤں کی توفیق ملی.اس موقع کی ایک بڑی در دانگیز دعا احادیث میں مروی ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت عمرا کو بھی حضور کی معیت میں یہ سعادت عطا ہوئی ہوگی.چنانچہ رسول کریم ﷺہ ایک دن حضرت عمر کو دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا ”اے عمر! جانتے ہو میں تمہیں دیکھ کر کیوں مسکرایا ہوں؟ عرض کیا اللہ اور اسکا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرفہ کی شام اپنے عبادت گزاروں پر نظر کر کے فرشتوں کے سامنے فخریہ رنگ میں انکا ذکر کیا اور اے عمر ! تمہارا ذکر بطور خاص ہوا.‘ (42) قبولیت دعا حضرت عمر کا دعا پر بہت ایمان تھا.عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں.بعض اوقات حضرت عمرؓ کسی بچے کو پکڑتے اور اسے کہتے میرے لئے دعا کرو کیونکہ تم نے ابھی تک کوئی گناہ نہیں کیا.(43) ایک دفعہ قحط کے زمانہ میں حضرت عمرؓ نے لوگوں کو نماز استسقاء پڑھائی اور دعا کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا کر اپنے رب کے حضور عرض کرنے لگے.”اے میرے مولیٰ ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور تجھ سے ہی ابر رحمت کی امید رکھتے ہیں.ابھی اپنی جگہ ہی کھڑے تھے کہ بارش برسنے لگی! اسی دوران آپ کے پاس کچھ بدو آئے اور عرض کی کہ امیر المؤمنین ہم فلاں وقت فلاں جگہ تھے کہ ہم نے ایک بادل دیکھا جس سے نداء آرہی تھی ابو حفص ابر رحمت تیرے پاس آتا ہے! ابوحفص

Page 75

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابر رحمت تیرے پاس آتا ہے ! (44) خشیت الہی اور توحید پرستی 61 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عمر انتہائی خدا ترس انسان تھے.ایک دفعہ کسی باغ میں گئے اور تنہائی میں اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے.واہ! عمر بن الخطاب تو امیر المؤمنین ہو گیا ہے! خدا کی قسم اے خطاب کے بیٹے ! تمہیں تقویٰ اختیار کرنا ہو گاور نہ اللہ تمہیں عذاب دے گا.“ حضرت عمر قرآن شریف کی تلاوت نہایت بصیرت غور اور تدبر سے کرتے تھے.قرآن کے بڑے عالم تھے.نماز میں ان آیات کی بالخصوص تلاوت فرماتے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور حشر و نشر کے مضمون پر مشتمل ہوتی تھیں.تلاوت کرتے وقت ایسی خشیت اور ہیبت آپ پر طاری ہوتی کہ مسلسل روتے جاتے بسا اوقات آپ کی ہچکی بندھ جاتی.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ سورۃ یوسف کی آیات إِنَّمَا اشْكُوا بَى وَحُزْنِ إِلَى اللهِ پڑھتے ہوئے بعض اوقات آپ پر ایسی قلبی رقت طاری ہوتی کہ رونے کی آواز پچھلی صفوں میں سنی جاتی تھی.مؤاخذہ کا خوف آپ کو اس قد رتھا کہ کہا کرتے تھے کہ میرا تو دل چاہتا ہے کہ کاش برابر میں ہی چھوٹ جاؤں اور مجھ سے کوئی مواخذہ نہ ہو خواہ کوئی انعام نہ ہی دیا جائے.‘‘ (45) ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے درہ اُٹھا کر کسی کو پکارا.اس نے کہا میں آپ کو اللہ کے نام کی نصیحت کرتا ہوں.انہوں نے درہ پھینک دیا اور کہا تم نے بہت بڑے نام کی نصیحت کی.“ (46) صحابہ رسول اللہ علیہ حضرت عمرؓ کی معیت اس لئے اختیار کرتے تھے تاکہ ان سے تقویٰ کی را ہیں سیکھیں.(47) دل میں اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف تھا.ایک بار ایک تنکا اُٹھا کر کہنے لگے ” کاش میں اس تنکے کی طرح خس و خاشاک ہوتا.کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا.“ ہمیشہ خدا کے خوف سے لرزاں وترساں اور اسکی رحمت سے پر امید رہتے.فرمایا کرتے اگر آسمان سے آواز آئے کہ صرف ایک آدمی جہنم میں جائے گا تو مجھے اس بات کا اندیشہ اور ڈر ہوتا کہ کہیں وہ ایک میں ہی تو نہیں ہوں اور اگر کسی ایک آدمی کے جنت میں جانے کی آواز آئے تو میں خدا تعالیٰ سے امید اور توقع کروں گا کہ شاید وہ میں ہی

Page 76

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 62 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہوں.‘ (48) حضرت عمر کامل موحد انسان تھے.ایک دفعہ حج کے موقع پر حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے اس کا یوں اظہار کیا " اے حجر اسود میں تجھے بوسہ تو دے رہا ہوں مگر خوب جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے اور خدا کی قسم اگر میں نے رسول خدا کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا.‘ (49) خدا کی خاطر شمشیر برہنہ بے شک حضرت عمر طبعاً کچھ سخت گیر واقع ہوئے تھے اور جس بات کو نا جائز سمجھتے تھے، اس کے لئے آپ شمشیر بے نیام کی طرح سامنے آجاتے تھے اور اس کا کھل کر اظہار کرتے تھے.بار ہادر بار رسالت میں ایسے واقعات ہوئے.چنانچہ سفر فتح مکہ کے موقع پر جب صحابی رسول حاطب بن ابی بلتعہ نے قریش کے نام ایک مخفی چٹھی کے ذریعہ اس سفر کی اطلاع دینے کی کوشش کی اور آنحضرت کو بذریعہ وحی اطلاع ہونے پر حاطب کو پکڑ لیا گیا.تو حضرت عمرؓ نے حضور ﷺ کے سامنے عرض کیا کہ یہ شخص منافق ہے مجھے اجازت دیں کہ میں اسے قتل کر دوں.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اے عمر یہ بدر میں شامل ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی بخشش کا اعلان فرمایا ہے.اسی طرح عبد اللہ بن ابی بن سلول منافقین کے سردار کے جنازہ کے موقع پر ہوا.حضرت عمر کہتے ہیں کہ نامعلوم مجھے یہ جرات کہاں سے آئی تھی کہ میں حضرت محمد ﷺ کا دامن پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کا جنازہ مت پڑھائیں اس نے فلاں دن فلاں موقع پر حضور کے خلاف نا پسندیدہ بات کی تھی.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ نہیں میں اس کا جنازہ پڑھاؤں گا.حضرت عمرؓ دلیل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے کہ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْلَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ (التوبہ: 80) یعنی ” آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں.ستر مرتبہ بھی بخشش مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا.‘رسول اللہ علہ نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا اے عمر میں ستر سے زیادہ مرتبہ اس کے لئے استغفار کر لوں گا.اور پھر حضور نے عبداللہ بن ابی بن سلول کا جنازہ پڑھایا.(50)

Page 77

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 63 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نرمی و شتل طبیعت کی اس تمام تریختی اور شدت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ذمہ داری جب آپ پر ڈالی تو مزاج میں عجیب قسم کی نرمی آ گئی اور وہی بات ہوئی جو حضرت ابو بکڑ نے فرمائی تھی.جب ان سے شکایت کی گئی کہ آپ نے حضرت عمر کو خلافت کے لئے نامزد کیا ہے.ان کی طبیعت میں سختی ہے تو حضرت ابوبکر نے کہا جب خلافت کی ذمہ داری ان پر پڑے گی تو وہ ان کو نرم کر دے گی پھر واقعی ایسا ہی ہوا.(51) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسی نے مجھے فتح تستر کی خبر دے کر حضرت عمرؓ کے پاس بھجوایا، انہوں نے قبیلہ بکر بن وائل کے اسلام سے منحرف ہونے والوں کے بارہ میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین وہ لوگ اسلام سے مرتد ہو کر مشرکین سے جاملے ہیں.سوائے قتل کے ان کے لئے کوئی چارہ نہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا.اگر میں ان کو طاعت و صلح کے ساتھ واپس لے لوں تو مجھے تمام دنیا کے مال وزر سے زیادہ پسند ہے.میں نے کہا اگر آپ ان پر قدرت پالیتے تو کیا کرتے ؟ آپ نے فرمایا ”میں ان پر وہی دروازہ (اسلام کا) پیش کرتا جس سے وہ نکلے تھے کہ وہ اس میں پھر داخل ہو جائیں.اگر وہ ایسا کر لیتے تو ان سے اسلام قبول کر لیتا ورنہ زیادہ سے زیادہ انہیں قید کردیتا“.(52) مالی قربانی غزوہ خیبر میں حضرت عمر کو مال غنیمت میں زمین کا بڑا ٹکڑا ملاتو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس سے بہترین اور قیمتی مال مجھے آج تک نصیب نہیں ہوا.اس کے بارے میں جیسے آپ ارشاد فرما ئیں وہاں خرچ کروں.حضور نے فرمایا اگر پسند کرو تو اسے وقف کر دو کہ اصل محفوظ رہے اور اس کی آمد صدقہ میں خرچ ہو.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.یہ اسلام کا پہلا وقف تھا.(53) اس کے بعد کے غزوات فتح مکہ اور حنین میں بھی حضرت عمرؓ شامل ہوتے رہے.غزوہ تبوک کے موقع پر جب چندہ کی خاص تحریک ہوئی.حضرت عمر اس ارادہ سے اپنے گھر گئے کہ حضرت ابو بکر

Page 78

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 64 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے نیکیوں کی دوڑ میں سبقت لے جاتے ہیں.آج میں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال قربان کرنے میں انہیں بڑھنے نہیں دوں گا.اس جذبہ کے ساتھ اپنا نصف اثاثہ آنحضور کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا.آنحضرت نے پوچھا کہ عمر کیا لائے ہو ؟ عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنا نصف مال آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں.تھوڑی دیر میں حضرت ابو بکر تشریف لائے پوچھا کیا لائے ہو؟ عرض کیا جو کچھ گھر میں تھالا کر حضور کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ہے.گھر میں اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے اس روز سوچ لیا کہ یہ بوڑھا مجھے کبھی آگے نہیں بڑھنے دے گا.(54) حضرت اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ بازار گیا.ایک نو جوان عورت ان سے ملی اور عرض کیا اے امیر المؤمنین! میرا خاوند فوت ہو گیا اور بچے چھوٹے ہیں.جن کا فاقہ سے برا حال ہے.نہ ہماری کوئی کھیتی ہے نہ جانور اور مجھے ڈر ہے کہ یہ یتیم بچے بھوک سے ہلاک نہ ہو جائیں.اور میں ایماء غفاری کی بیٹی خفاف ہوں، میرا باپ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شامل تھا.حضرت عمر یہ سن کر اس بی بی کے احترام میں وہیں رک گئے فرمایا ' اتنے قریبی تعلق کا حوالہ دینے پر میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں.پھر گھر میں بندھے ایک مضبوط اونٹ پر دو بورے غلے کے بھرے لدوائے.ان کے درمیان دیگر اخراجات کے لئے رقم اور کپڑے رکھوائے اور اونٹ کی مہار اس خاتون کو تھما کر فرمایا یہ تو لے جاؤ اور انشاء اللہ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اور بہتر سامان پیدا فرما دے گا.“ ادھر جود وسخا کا یہ نظارہ دیکھنے والے حیران تھے.ایک نے تو کہہ بھی دیا اے امیر المؤمنین ! آپ نے اس عورت کو کچھ زیادہ ہی دے دیا ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا." تیری ماں تجھے کھوئے.خدا کی قسم! میں نے اس خاتون کے باپ اور بھائی کو دیکھا کہ ایک زمانے تک ہمارے ساتھ انہوں نے محاصرہ کیا پھر فتح کے بعد ہم مال غنیمت کے حصے تقسیم کرنے لگے.‘ (55) اتباع قرآن حضرت عمرہ کو قرآن سے عشق تھا.اور انتہائی محبت اور استغراق سے اس کی تلاوت کرتے ایک دفعہ سورہ تکویر کی تلاوت کی جب اس آیت پر پہنچے وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت جس کا ایک مطلب یہ

Page 79

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 65 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی لیا گیا ہے کہ اعمال نامے ظاہر کر دیے جائیں گے تو غش کھا کر گر پڑے.(56) زید بن اسلم والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بلال حضرت عمرؓ سے ملنے آئے وہ سوئے ہوئے تھے.بلال نے اسلم سے پوچھا تم حضرت عمر کو کیسا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا وہ تمام لوگوں میں سے بہترین انسان ہیں.مگر جب ناراض ہوں تو پھر معاملہ خطرناک ہو جاتا ہے.بلال کہنے لگے اگر میں ان کے پاس ہوں اور وہ ناراض ہو جائیں تو میں ان کے سامنے قرآن پڑھنا شروع کر دونگا یہاں تک کہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے.(57) ایک دفعہ ایک دیہاتی نے حضرت عمرؓ کے ایک دوست حر بن قیس کے ذریعے ان کی مجلس میں آنے کی اجازت طلب کی آتے ہی کہنے لگا.اے عمر آپ انصاف سے حکومت نہیں کرتے.حضرت عمر نے ناراضگی سے دیکھا تو حربن قیس نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی خُذِا لَعَفْوَ وَأْمُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (الاعراف: 200 ) کہ اے امیر المومنین ! ایسے لوگوں سے عفو سے کام لیں اور ایسے جاہلوں سے اعراض کریں.راوی کہتے ہیں یہ سنتے ہی حضرت عمر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا.ان کے بارہ میں کہا جاتا ہے كَانَ وَقَا فَا بِالْقُرآن کہ حضرت عمر نقر آنی حکم سنتے ہی فورارک جایا کرتے تھے اور قرآنی احکام کا بہت احترام اور لحاظ کرنے والے تھے.(58) اطاعت وحت رسول آنحضرت ﷺ سے آپ کو سچی محبت تھی اور اسوۂ رسول کو ہمیشہ مشعل راہ بناتے تھے.اور طبعاً ظاہری شان و شوکت کا بر محل اظہار کرنے کے حق میں تھے.ایک موقع پر جب ایک ماہ کے لئے حضور نے اپنی ازواج سے علیحدگی اختیار فرمائی.حضرت عمر نے آپ کو بالا خانہ میں ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے اس حال میں دیکھا کہ بدن پر چٹائی کے نشان تھے.انہوں نے بے قرار ہو کر آپ سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ قیصر و کسری تو کیسی شان میں اور آرام میں ہیں اور خدا کا رسول جن کے لئے یہ دنیا بنائی گئی ہے اس حال میں کہ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں جس سے بدن پر بدھیاں پڑگئی ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا اے عمر یہ دنیا ان لوگوں کو مبارک ہو جو اس کی فکر کرتے ہیں.(59) سادگی

Page 80

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 66 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو شان و شوکت کے دلدادہ اس وجود میں کیا انقلابی تبدیلی پیدا ہو چکی تھی.زمانہ خلافت میں ایک دفعہ صاحبزادی حضرت حفصہ نے عرض کیا کہ ابا جان ! اللہ تعالیٰ نے بہت فضل کئے اور بہت کچھ عطا فرمایا ہے.اب تو آپ عمدہ لباس سے پرہیز نہ کریں.حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ " خدا کی قسم میں تو اپنے آقا و مولا کے نقش قدم اور اسوہ پر چلوں گا تا مجھے آخرت کی خوشحالی نصیب ہو.پھر رسول کریم ﷺ کے زمانے کا ایسا دلگداز ذکر کیا کہ حضرت حفصہ بھی رونے لگیں.سادگی کا یہ عالم تھا کہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے حتی کہ وہی لباس پہن کر مجلس میں بھی تشریف لے جاتے تھے.(60) امانت حضرت عمر فرماتے تھے میں اللہ کے مال کے ساتھ اپنی نسبت یتیم کے مال کا معاملہ کرتا ہوں.جب تک حاجت نہ ہو میں اس سے بچتا ہوں.اور اگر ضرورت ہوتو جائز طور پر استعمال کر لیتا ہوں.آپ حسب ضرورت بیت المال سے قرض لیتے تھے.کبھی تنگ دستی کی حالت میں بیت المال کا نگران قرض کا مطالبہ کرتا تو کچھ مہلت لے کر انتظام فرما دیتے.زمانہ خلافت میں بھی اپنا ذریعہ معاش تجارت رکھا اور شام جانے والے قافلے میں اپنا حصہ ڈالتے تھے.ایک دفعہ جب قافلہ تیار تھا.حضرت عبدالرحمان بن عوف سے قرض لینا چاہا تو انہوں نے کہا کہ بیت المال سے قرض لے لیں.فرمایا ”وہاں سے اس لئے تجارتی قرض نہیں لیتا کہ اگر میں فوت ہو گیا تو تم کہو گے اس کا قرض معاف کر دو.میں ایسے شخص سے قرض لینا چاہتا ہوں جو بعد میں میرے مال سے اپنا قرض وصول کرے.‘‘ (61) حضرت عمرؓ کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ بیمار ہوئے تو اطباء نے آپ کے لئے شہد کا علاج تجویز کیا.بیت المال میں شہد موجود تھا.لیکن آپ نے مسلمانوں کی اجازت کے بغیر اس کا استعمال پسند نہ کیا.لوگوں کو مسجد نبوی میں جمع کیا.اور سب سے اجازت طلب کی کہ ”میں بیماری کی حالت میں بیت المال سے شہر ذاتی استعمال میں لانا چاہتا ہوں.اگر تم اجازت دو گے تو میں استعمال کرونگا ورنہ یہ مجھ پر حرام ہے.“ (62)

Page 81

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 67 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وفات سے پہلے اپنے بیٹے ابن عمر سے پوچھا کہ دیکھو میرے پر کتنا قرض ہے؟ حساب کرنے پر چھیاسی ہزار نکلا.اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر تو میرے خاندان کا مال کفایت کرے تو یہ قرض اس سے ادا کرنا ورنہ اپنے قبیلہ بنی عدی سے مدد حاصل کرنا پھر بھی پورا نہ ہو تو قریش سے مدد لے لینا.اس سے زیادہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا.(63) تواضع و انکسار حضرت عمرؓ کے رعب و ہیبت سے قیصر و کسری کانپتے تھے.مگر ان کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ مدینہ سے اس سفر کے لئے اس طرح روانہ ہوئے کہ ایک سواری پر وہ اور ان کا غلام باری باری سوار ہوتے تھے.بیت المقدس میں داخل ہوتے وقت شاہانہ پوشاک کی بجائے نہایت سادہ لباس زیب تن کر رکھا تھا.جس سے تواضع وسادگی صاف عیاں تھی.(64) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مالی فراخی ہوئی تو لوگوں نے نکاح پر حق مہر بہت زیادہ رکھنے شروع کر دیئے.آپ نے جائزہ لیا کہ امہات المؤمنین کا حق مہر پانچ سو درہم اور حضرت فاطمہ کا مہر چار سو درہم تھا.اس سے اجتہاد کرتے ہوئے اعلان کروایا کہ کسی کا مہر بھی رسول اکرم ﷺ کی بیٹی سے زیادہ نہ ہو گا.جس نے اس سے زیادہ حق مہر رکھا.اس کی زائد از حق مہر رقم بیت المال کو دلوا دی جائے گی.اس پر ایک عورت نے قرآن شریف سے دلیل لے کر رائے دی کہ یہ فیصلہ محل نظر ہے.کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو ڈھیروں ڈھیر مال دیا ہو تو اس سے کچھ بھی واپس نہ لو (النساء: 20) حضرت عمرؓ نے فرمایا ایک عورت نے ٹھیک کہا ہے اور عمر نے غلطی کھائی ہے.(65) ضبه بن محصن العنزی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب سے کہا کہ آپ حضرت ابو بکر سے بہتر ہیں.اس پر حضرت عمر رونے لگے اور فرمایا.” خدا کی قسم حضرت ابوبکر کی ایک رات اور ایک دن ہی عمر اور اس کی اولاد کی پوری زندگی سے بہتر ہے.کیا میں تمہیں ان کی اس رات اور دن کا کچھ حال سناؤں؟ میں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ! اس پر فرمایا ” ان کی رات تو وہ تھی جب رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے ہجرت کر کے رات کو جانا پڑا اور حضرت ابو بکر نے ان کا ساتھ دیا اور ان کا دن وہ تھا

Page 82

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 68 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور عرب مرتد ہو کر نماز اور زکوۃ سے منکر ہو گئے اس وقت انہوں نے میرے لوگوں سے نرمی کرنے کے مشورہ کے برخلاف جہاد کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اسمیں کامیاب کر کے ثابت فرمایا کہ وہ حق پر تھے.“ (66) نو بے حسی حضرت عمر نے ایک شخص کو نشہ میں پا کر سزا دینے کے لئے پکڑا تو اس نے آپ کو گالی دے دی آپ نے اسے چھوڑ دیا.پوچھا گیا امیرالمؤمنین آپ نے اسے کیوں چھوڑ دیا حالانکہ اس نے آپ کو گالی بھی دی؟ آپ نے فرمایا کہ ” مجھے غصہ آگیا تھا اور اب اگر میں اسے سزاد یتا تو اس میں میرے نفس کا دخل بھی ہوتا اور مجھے ہرگز پسند نہیں کہ میں اپنے نفس کی خاطر کسی مسلمان کو سزا دوں.“ (67) ایک طرف ہیبت اور جلال کا یہ عالم تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ حضرت عمر کا نام سن کر کا نپتے اور تھراتے تھے دوسری طرف تواضع و انکسار کی یہ کیفیت تھی کہ ایک دن صدقے کے اونٹوں کے بدن پر خود اپنے ہاتھ سے تیل مل رہے تھے.کسی نے کہا اے امیر المومنین یہ کام کسی خادم سے لیا ہوتا.فرمانے لگے مجھ سے بڑھ کر غلام اور کون ہوسکتا ہے؟ جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ ان کا خادم اور غلام ہے.(68) آپ کے دور خلافت کا واقعہ ہے.مکہ سے واپسی پر ضبجنان کی گھاٹیوں میں آپ کا قافلہ رُکا اس جگہ کثرت سے درخت اور گھاس پھوس تھی.حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب میں اپنے والد خطاب کے اونٹ لے کر اس جگہ آیا کرتا تھا.میرے والد بڑے سخت تھے.ایک بار میں جنگل سے اونٹ پر ایندھن کی لکڑیاں لے کر جاتا تو دوسری دفعہ جانوروں کے کھانے کے لئے سبز پتے لے کر جاتا.آج خدا نے مجھے مقام خلافت پر فائز فرمایا ہے جس سے بڑا کوئی مقام نہیں.پھر یہ شعر پڑھا لَاشَى وَ فِيْمَا تَرَى إِلَّا بَشَاشَتَهِ يَبْقَى الاله وَيُودِى المَالُ وَالوَلَدُ یعنی جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے.اس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے ایک عارضی خوشی کے اور باقی

Page 83

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 69 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رہنے والی صرف خدا کی ذات ہے جب کہ مال اور اولا دفنا ہو جاتے ہیں.حضرت عمر کی انگوٹھی پر یہ جملہ کندہ تھا.فی بِالمَوتِ وَاعِظَا يَا عُمُر اے عمر موت نصیحت کیلئے کافی ہے.(69) حق گوئی حضرت عمر نے فرمایا ”خدا کی قسم! اللہ کی ذات کے بارے میں جب میرا دل نرم ہوتا ہے تو وہ جھاگ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتا ہے.اور خدا کی خاطر جب میرا دل سخت ہوتا ہے تو وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے.رسول کریم نے حضرت عمرؓ کی اسی حق گوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اے عمر ! جس راستے پر تم آرہے ہوا اگر اس راستے پر شیطان بھی آرہا ہو تو وہ یہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لے گا.اسی طرح فرمایا اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمایا ہے.“ (70) حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو ایک حبشی لونڈی نے آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے منت مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامتی سے واپس لائے تو آپ کے سامنے ڈھولک بجا کر گانا گاؤں گی.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو تم نے نذر مانی ہے تو ڈھولک بجالو ورنہ نہیں.چنانچہ وہ ڈھولک بجانے لگی اتنے میں حضرت ابوبکر تشریف لائے وہ دف بجاتی رہی پھر علی آئے تو بھی وہ دف بجاتی رہی پھر عثمان آئے تو بھی بجاتی رہی پھر عمرہ تشریف لائے تو اس نے ڈھولک اپنے نیچے لی اور اس پر بیٹھ گئی.اس پر رسول اللہ ہی ہے.فرمایا اے عمر ! شیطان بھی تجھ سے ڈرتا ہے.میں بیٹھا تھا تو یہ دف بجاتی رہی ابو بکر علی اور عثمان آئے تو بھی یہ ڈھولک بجاتی رہی مگر اے عمر ! آپ آئے تو اس نے ڈھولک پھینک دی.‘ (71) رعایا پروری رض حضرت عمر اپنی رعایا کا بہت خیال رکھنے والے تھے.۱۸ ہجری میں عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر اپنی رعایا کے لئے بے چین ہو گئے.اس وقت آپ کی عجیب قلبی کیفیت تھی دور دراز سے غلہ اور دیگر اشیاء لوگوں کے لئے منگوا کر تقسیم کیں اور خود اپنے لئے مرغوب غذاؤں کا استعمال ترک کر دیا.گھی مہنگا ہو گیا تو اس کی بجائے تیل کھانے لگے.جس سے پیٹ میں تکلیف ہو جاتی مگر فرماتے اس وقت تک گھی نہ کھاؤں گا جب تک سب لوگ نہ کھانے لگیں.(72)

Page 84

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 70 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک دفعہ رات کو گشت میں تھے کہ ایک بدو کے خیمے کے پاس سے عورت کے رونے کی آواز آئی.پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ گھر میں ولادت متوقع ہے.کوئی عورت مدد کیلئے پاس نہیں ہے.آپ فوراً گھر واپس گئے اور اپنی بیوی حضرت ام کلثوم بنت علی کو ساتھ لے آئے.ام کلثوم نے وہاں جا کر اس عورت کی مدد اور خدمت کی اور کچھ دیر کے بعد آواز دی کہ اے امیر المومنین ! مبارک ہو آپ کے دوست کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے.وہ بدو چونکا کہ خدا کی شان امیر المومنین میرے گھر میں اپنی زوجہ مطہرہ کو لے کر آئے ہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا گھبراؤ نہیں کل میرے پاس آجانا بچے کے لئے وظیفہ بھی مقرر کر دیا جائے گا.(73) حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کا کتنا خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے خوب ہوتا ہے.اپنے زمانہ خلافت میں انہوں نے ایک رات گشت کے دوران ایک مسلمان سپاہی کی بیوی کو کچھ ایسے اشعار پڑھتے سنا جس میں وہ اپنے خاوند سے جدائی اور اداسی کا رونا رورہی تھی.حضرت عمر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرے خاوند کو محاذ پر گئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور اس کی یاد مجھے ستا رہی ہے.حضرت عمر نے فرمایا تم فکر نہ کرو میں اسے قاصد بھجوا کر بلواتا ہوں.دوسری طرف اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ سے جا کر فرمایا کہ ایک مسئلہ مجھے پریشان کر رہا ہے تم اس بارہ میں میری رہنمائی کرو، یہ بتاؤ کہ عورت کتنے عرصہ بعد خاوند کی ضرورت محسوس کرتی ہے؟“ حضرت حفصہ نے حیاء سے سر جھکا لیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کے بیان کرنے سے نہیں روکتا اس پر حضرت حفصہ نے انگلی سے تین چار ماہ یا چار چھ ماہ کا اشارہ کیا.حضرت عمرؓ نے فیصلہ صادر فرمایا کہ آئندہ مجاہدین کو چار سے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک محاذ جنگ پر نہ رکھا جائے.‘(74) عدل و انصاف حضرت عمر کا عدل و انصاف زبان زد عام تھا.حضرت زید بن ثابت کو آپ نے قاضی مقرر کیا تھا.ایک دفعہ خود ان کی عدالت میں ایک فریق کی حیثیت سے حاضر ہونا پڑا وہاں تشریف لے گئے.حضرت زید نے امیر المؤمنین کی تعظیم کے لئے کرسی خالی کر دی.حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ اس مقدمے میں یہ پہلی نا انصافی ہے.مطلب یہ تھا کہ قاضی کا یہ فرض ہے کہ ہر ایک سے عام

Page 85

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عدالتی طریق کار کے مطابق برتاؤ کرے.(75) 71 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عمر کا یہی عدل وانصاف تھا.جس کی بناء پر اہل یورپ کو بھی کہنا پڑا کہ اگر اسلام میں ایک اور عمرہ پیدا ہو جاتا تو آج عالم اسلام کا نقشہ کچھ اور ہوتا.حضرت عمر نے اہل بیت المقدس سے جو معاہدہ کیا وہ آزادی مذہب و ضمیر کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا.معاہدہ میں تحریر تھا ایلیاء کے رہنے والوں کو امان دی جاتی ہے، ان کے گر جاؤں اور مذہب سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا.مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہ ہوگا...اس معاہدے پر خدا اس کے رسول، خلفاء اور مسلمانوں کا ذمہ ہے.“ (76) مسیحیوں کے مذہبی سر براہ اعلیٰ اسقف کے ساتھ زیارت بیت المقدس کے دوران کلیسائے قیامت میں نماز کا وقت ہو گیا.انہوں نے کہا آپ یہیں نماز پڑھ لیں.حضرت عمر نے کمال دور اندیشی سے فرمایا اگر میں نے ایسا کیا تو مسلمان میری پیروی میں یہاں نماز پڑھیں گے اور آپ کو گر جاؤں سے نکال دیں گے.اور عہد امان کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہوگا.“ چنانچہ انہوں نے باہر تشریف لاکر کلیسائے قسطنطین کے دروازے کے سامنے مصلی بچھوا کر نماز پڑھی.یہ واقعہ ان کی اسلامی رواداری کی شاندار مثال ہے.(77) حضرت عمر نے اپنی شہادت سے چار روز قبل فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی دی تو میں اہل عراق کی بیواؤں کا ایسا بندوبست کرونگا کہ انہیں میرے بعد کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے.(78) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک تجارتی قافلہ نے مدینہ کے نواح میں عیدگاہ پر پڑاؤ کیا حضرت عمرؓ نے عبد الرحمن بن عوف سے کہا آئیں آج رات ہم ان کی حفاظت کی خاطر پہرہ دیں.چنانچہ وہ رات ان کا پہرہ دیتے اور نماز پڑھتے رہے.حضرت عمرؓ نے ایک بچے کے مسلسل رونے کی آواز سنی تو اس کی والدہ سے جا کر کہا کہ اللہ سے ڈرو اور بچے سے حسن سلوک کرو.وہ پھر رویا تو حضرت عمرؓ نے یہی کہا.جب رات کے آخری حصے میں بچہ پھر رویا تو حضرت عمر نے اس کی والدہ کو پھر نصیحت کی اور پوچھا کیا وجہ ہے تمہارا بیٹا رات بھر بے چین رہا.اس نے کہا دراصل میں اس کا دودھ

Page 86

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 72 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ چھڑانا چاہتی ہوں اور یہ ضد کرتا ہے.فرمایا 'وقت سے پہلے اس معصوم کا دودھ کیوں چھڑاتی ہو؟“ وہ کہنے لگی اس لئے کہ حضرت عمر دودھ پیتے بچے کا وظیفہ مقرر نہیں کرتے.حضرت عمر نے کہا تیرا بھلا ہو.اسے دودھ چھڑانے کی جلدی نہ کرو.پھر مسجد نبوی میں جا کر نماز فجر پڑھائی.غلبہ رقت کی وجہ سے تلاوت لوگوں کو سمجھ نہ آتی تھی.سلام پھیر کر اپنے آپ سے کہنے لگے.اے عمر! تیرا برا ہو!نا معلوم تم نے کتنے مسلمانوں کے بچوں کو قتل کیا پھر اعلان عام کر دیا کہ آئندہ سے دودھ چھڑوانے میں جلدی نہ کریں.آج سے ہر مسلمان نومولود کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے.(79) حضرت عمرؓ کے پاس ابوموسی کی طرف سے ( یمن سے ) ایک شخص آیا انہوں نے اس سے وہاں کے لوگوں کے بارے میں پوچھا اور فرمایا وہاں کی کوئی خبر؟ اس نے کہا کہ ایک شخص نے اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کا اعلان کر دیا ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا پھر تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہنے لگا ہم نے اسے قتل کر دیا.حضرت عمرؓ نے فرمایا تم نے اسے تین دن کی مہلت کیوں نہ دی.یتم ہر روز اسے کھانا کھلاتے اور پھر اسے تو بہ کرنے کو کہتے.شاید وہ تو بہ کر لیتا اور اللہ کے حکم کی طرف واپس لوٹ آتا.پھر فرمانے لگے اے اللہ ! میں وہاں موجود نہیں تھا اور نہ میں نے یہ حکم دیا ( کہ اس شخص کو ) قتل کر دیا جائے اور جب یہ بات مجھ تک پہنچی تو ہرگز مجھے اچھی نہیں لگی.(80) حضرت عمر ایک عیسائی راہب کے پاس سے گزرے تو وہاں رک گئے.اس راہب کو کسی نے آواز دے کر بلایا اور کہا.”یہ امیر المؤمنین ہیں.“ وہ راہب آیا.ترک دنیا اور فاقہ اور مسلسل عبادت کی وجہ سے وہ بے حال ہو چکا تھا.حضرت عمر نے اس کی یہ حالت دیکھ کر رو پڑے.کسی نے کہا کہ یہ تو عیسائی ہے آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمانے لگے مجھے علم ہے لیکن مجھے اس پر ترس آیا اور قرآن کی یہ آیت یاد آئی کہ کچھ لوگ عمل کرنے والے اور محنت کرنے والے ایسے ہونگے.جو بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو نگے.(سورۃ الغاشیہ آیت 5-4) مجھے اس کی محنت اور عبادت کا حال دیکھ کر اس پر ترس آیا کہ اس کے باوجود یہ بے چارا آگ میں جائے گا.(81) فضائل رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس نے عمر کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے عمر

Page 87

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 73 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی.اور عمر میری امت کا محدث ہے.پوچھا گیا کیسا محدّث؟ فرمایا جس کی زبان پر فرشتے کلام کرتے ہیں.“ (82) حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد آپ نے خلیفہ راشد کے طور پر آپ کی جانشینی کا حق ادا کیا.آپ کے دور میں ہی ”رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ کے خلیفہ کی لمبی ترکیب کی بجائے ”امیر المومنین کا لقب خلیفہ وقت کیلئے معروف ہوا.آپ کے عہد میں شام، عراق اور مصر کی وہ فتوحات ہوئیں اور بہت کثرت میں مال و غنیمت آیا جن کا وعدہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا.حضرت عمر نے صحابہ سے مشاورت کے بعد با قاعدہ دفتر دیوان بنایا جس میں ہر شخص کے مرتبہ کے مطابق وظیفہ مقرر ہوتا تھا.حضرت عمرؓ نے رمضان میں صلوۃ التراویح کے بابرکت طریق کو رواج دیا اور ہجری اور قمری کیلنڈر کا آغا ز فرمایا.جو آج تک جاری ہے.(83) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نبی کے نائب اور وزیر ہیں اور میرے وزیر اہل زمین میں سے ابوبکر و عمر ہیں.(84) رسول کریم ﷺ نے اپنے بعد ان دونوں بزرگ ہستیوں کی پیروی کی ہدایت فرما کر ان کی جانشینی کی طرف بھی اشارہ فرما دیا تھا.آپ نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کہ میں کتنا عرصہ تم میں باقی رہوں.پس میرے بعد ابو بکر و عمر کی پیروی کرنا.(85) اسی طرح فرمایا یہ دونوں (ابو بکر و عمر) اہل جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں.پہلوں اور پچھلوں میں سے سوائے نبیوں اور رسولوں کے.(86) حضرت مسیح موعود حضرت عمرؓ کے مناقب عالیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.حق یہ ہے کہ صدیق اکبر اور عمر فاروق بزرگ صحابہ میں سے تھے.اور انہوں نے اپنے حقوق ادا کرنے میں کوئی کوتا ہی نہیں کی.انہوں نے تقوی کو اپنا راستہ اور عدل کو اپنا طریق بنایا...اور میں نے شیخین یعنی حضرت ابو بکر اور عمر سے زیادہ کثرت فیض اور دین اسلام کی تائید کرنے والا کوئی نہیں دیکھا.یہ دونوں چاند سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی امت اور قوم کے سورج رسول اللہ کی پیروی کرنے والے تھے اور درحقیقت وہ آنحضرت کی محبت میں فنا تھے.اور ان کا

Page 88

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 74 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نیک انجام آنحضرت کے قرب کی صورت میں ہوا یعنی حضور کے پاس دفن ہوئے.اور اعلی درجہ کی دینی خدمات اور مسلمانوں پر احسانات کی سعادت انہوں نے پائی.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس پر متقی لوگ غافل نہیں رہتے.یہ فضل اس کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے.‘(87) مائیکل انیچ ہارٹ دنیا کی عظیم شخصیات میں52 نمبر پر حضرت عمر کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں.عمر کی کامیابیاں مؤثر ثابت ہوئیں.(حضرت) محمد کے بعد فروغ اسلام میں عمر کا نام نہایت اہم ہے.ان سریع الرفتار فتوحات کے بغیر شاید آج اسلام کا پھیلاؤ اس قدر ممکن نہ تھا.مزید برآں اس کے دور میں مفتوح ہونے والے علاقوں میں سے بیشتر عرب تمدن ہی کا حصہ بن گئے.ظاہر ہے کہ ان تمام کا میابیوں کا اصل محرک تو ( حضرت ) محمد ہی تھے.لیکن اس میں عمر کے حصہ سے صرف نظر کرنا بھی ایک بڑی ضا غلطی ہوگی.اس کی فتوحات (حضرت) محمد کی تحریک ہی کا نتیجہ تھیں.اس سے بلاشبہ کچھ پھیلاؤ عمل میں آتا لیکن ایسی عظیم وسعت عمر کی شاندار قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی.اس امر میں کچھ لوگوں کو ضرور تعجب ہو گا کہ مغرب میں عمر بن الخطاب کی شخصیت اس طور پر معروف نہیں ہے.تاہم یہاں اس فہرست میں اسے چار لی میگنی اور جولیس سیر زجیسی مشہور شخصیات سے بلند درجہ تفویض کیا گیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام فتوحات جو عمر کے دور خلافت میں واقع ہوئیں ، اپنے حجم اور پائیداری میں ان فتوحات کی نسبت کہیں اہم تھیں جو سینز ریا چارلی میگنی کی زیر قیادت ہوئیں.-1 -2 -3 -4 -5 حواله جات اسد الغابہ ج 4 ص 52 ، استیعاب جلد 3 ص 236 ابن سعد جلد 3 ص 325 ترندی کتاب المناقب باب مناقب عمر مجمع الزوائد جلد 9 ص62 مجمع الزوائد جلد 9 ص 62

Page 89

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 75 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسد الغابہ جلد 4 ص 57 والاصابہ جلد 2 ص 519، البدایہ جلد 3 ص 82،30 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر ابن ہشام جلد 2 ص 229 مجمع الزوائد جلد 1 ص328 بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہا دو کتاب المغازی باب غزوہ حدیبیہ سیرت الحلبیہ جلد 3 ص 41 13 - بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی المیت و کتاب المغازی باب مرض النبی بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر -14 -15 -16 -17 -18 استیعاب جلد 3 ص 239 ابن سعد جلد 3 ص 274 اسد الغابہ جلد 4 ص71 -19 استیعاب جلد 2 ص 343 ، عمر از محمد حسین سیکل ص 125 بخاری کتاب المغازی باب مناقب عمر 20 - بخاری کتاب فضائل المدینہ 21 - مناقب لابن الجوزی صفحہ 274 -22 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر و مجمع الزوائد جلد 9 ص 75 ، استیعاب جلد 3 ص 242 -23 -24 -25 -26 -27 -28 -29 -30 -31 -32 -33 -34 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر تاریخ مدینہ دمشق بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابو بکر ابن سعد جلد 3 ص367 ابن سعد جلد 3 ص 61,62 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر ابن سعد جلد 3 ص 265 ابن سعد جلد 3 ص 266 265 ، بیھقی جلد 7 ص 63 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر مجمع الزوائد جلد 9 ص69 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر

Page 90

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -35 کنز العمال جلد 5 ص 228 76 -36 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر وتر مذی کتاب المناقب مناقب عمر 37 مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل عمر 38- ترندی کتاب المناقب باب ان الله جعل الحق علی لسان عمر -39 -40 مجمع الزوائد بیھقی جلد 9ص73 ابوداؤد کتاب الوتر باب الدعاء 41 ابن ماجہ کتاب المناسک باب استلام الحجر 42- مجمع الزوائد جلد 9 ص 70 -43 مناقب عمر لا بن الجوزی صفحہ 224 44 کرامات اولیاء سیاق ماروی من کرامات امیر المؤمنین ابی حفص -45 -46 -47 -48 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر ابن سعد جلد 3 ص309 ابن سعد جلد 3 ص 291 ازالۃ الخفاء جلد 2 ص 174,175 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 49 جامع الترمذی کتاب الحج باب ما جاء في تقبيل الحجر -50 -51 -52 -53 بخاری کتاب الجنائز باب ما يكره من الصلاة على المنافقين ابن سعد جلد 3 ص 274 واسد الغابہ جلد 4 ص69 ترمذی کتاب المناقب بھی جلد 8 ص 207 بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الوقف، ابن سعد جلد 3 ص 358 54 ترمذی کتاب المناقب باب رجاه ان يكون ابوبكر ممن يدعى من جميع ابواب الجنه بخاری کتاب المغازی باب غزوة الحديبيه -55 -56 -57 -58 ازالۃ الخفاء جلد 2 ص 174 ابن سعد جلد 3 ص309 بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف باب خذ العفو...الخ 59- بخاری کتاب التفسیر سورۃ التحریم با تبعی مرضات از واجک...الخ -60 -61 -62 -63 ابن سعد جلد 3 ص 327 ابن سعد جلد 3 ص 198 ، 199 منتخب کنز العمال جلد 4 ص 418 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر

Page 91

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -64 ازالۃ الخفاء جلد 2 ص 61 77 المتطرف جلد 1 ص 192 و بین یدی عمر از خالد ص 114 مطبوعہ مصر 66 - منتخب کنز العمال جلد 4 ص 348 وابوداود کتاب الزكوة 67 - المستطرف جلد 1 ص588 -68 -69 کنز العمال جلد 6 ص353 استیعاب جلد 3 ص 236 ،243 70- ترندی کتاب المناقب باب مناقب عمر -71 -72 -73 -74 -75 -76 -77 -78 -79 -80 -81 -82 -83 -84 -85 -86 -87 ترندی کتاب المناقب باب قوله ان الشيطان ليخاف من عمر ابن سعد جلد 3 ص 312 ازالته الخلفاء جلد 2 ص 79 واسد الغابہ جلد 4 ص 71 کنز العمال جلد 8 ص 308 بیھقی جلد 9 ص 29 الفاروق شبلی ص 302 طبری جلد 5 ص 25 عمر فاروق اعظم مترجم ص 303 از محمد حسین ہیکل بخاری کتاب الفضائل اصحاب النبي باب قصة البیعہ ابن سعد جلد 3 ص 301 بھی جلد 8 ص 207 کنز العمال جلد 1 ص175 مجمع الزوائد جلد 9 ص 69,70، استیعاب جلد 3 ص240,243 استیعاب جلد 3 ص 236 ترندی کتاب المناقب باب اما وز یرای ترندی کتاب المناقب باب افتد و بالذین من بعدی ابی بکر و عمر ترندی کتاب المناقب باب ابو بکر و عمر سیدا کھول الجديد سر الخلافه ترجمه از عربی - ص346،345 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

Page 92

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 78 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت عثمان بن عفان آپ کا نام عثمان والد کا نام عفان بن ابی العاص بن امیہ اور والدہ کا نام اروی بنت کرویز بن ربیعہ تھا.آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت ﷺ کے جدامجد عبد مناف سے مل جاتا ہے.کنیت حضرت رقیہ کے بیٹے عبداللہ کی نسبت سے ابو عبداللہ تھی.(1) والدہ کی طرف سے رشتہ نبی کریم ﷺ سے نسبتا قریب تر ہے.لقب ” ذوالنورین‘ اس لیے ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں.(2) آپ کا خاندان جاہلیت میں غیر معمولی اقتدار رکھتا تھا اور بنوھاشم کے سوا کوئی اس کا ہمسر نہ تھا.آپ کے جد اعلیٰ امیہ بن عبد شمس قریش کے رؤسا میں سے تھے.آپ نے بھی عرب کے دستور کے مطابق تجارت سے اپنے ذریعہ معاش کا آغاز کیا.اور اپنی صداقت و دیانت کے باعث جلد ایک کامیاب تاجر ثابت ہوئے.قبول اسلام حضرت عثمان کی عمر 34 برس تھی جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے بارے میں سنا.بظاہر ان کے لئے یہ پیغام اجنبی تھا.مگر پاک طبیعت اور فطرت کو اس سچائی سے گہری مناسبت تھی.پہلے ہی رسول اللہ کے ظہور کی خبر بذریعہ رویا پاچکے تھے.ایک دفعہ وہ حضرت طلحہ کے ساتھ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے قرآن سنا کر اسلامی تعلیم پیش کی تو حضرت عثمان نے دل سے اسے قبول کیا اور یہ بھی اظہار کیا کہ یا رسول اللہ میں حال ہی میں ملک شام سے آیا ہوں.واپسی پر معان اور زرقاء مقام کے درمیان ہمارا پڑاؤ تھا.ہم سوئے ہوئے تھے کہ ایک اعلان کرنے والے نے کہا ”اے سونے والو! جا گو کہ احمد مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے.“ حضرت عثمان نے رسول اللہ کے دارار تم میں جانے سے بھی قبل بہت ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کر لیا تھا.(3)

Page 93

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 79 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دوسری روایات میں آپ کے قبول اسلام کے واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ مکہ میں پہلی دفعہ حضرت عثمان نے اپنی خالہ سعد کی بنت کریز سے سنا کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں.وہ اللہ کے پیغام کی طرف بلاتے ہیں اور ان کا دین غالب آئے گا.حضرت عثمان کہتے ہیں یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی.میں انہی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ حضرت ابو بکر نے ایک دوستانہ مجلس میں پوچھ لیا کن سوچوں میں گم ہو؟ میں نے خالہ کی بات کہہ سنائی اس پر انہیں تبلیغ کا موقع مل گیا.کہنے لگے اے عثمان ! تم حق وباطل میں فرق کر سکتے ہو اور ان اندھے بہرے گونگے بتوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان.میں نے کہا بات تو درست ہے.وہ کہنے لگے پھر تمہاری خالہ نے سچ ہی تو کہا ہے.اور اگر شوق ہے تو رسول اللہ کے پاس آکر ان سے کچھ کلام سنو.حضرت ابوبکر نے یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچادی.جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت پیدا کر دی.حضرت عثمان بیان کرتے ہیں ” میں اپنی خالہ ارویٰ بنت عبدالمطلب کی عیادت کرنے گیا وہاں حضور ﷺ سے ملاقات ہوئی.آپ نے مجھ پر نگاہ ڈالی.اس روز آپ کی ایک عجیب شان تھی.مجھے فرمایا عثمان تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا " مجھے تعجب ہے کہ ہمارے درمیان آپ کا ایک مقام ومرتبہ ہے اس کے باوجود آپ پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے.آپ نے بڑے جلال سے فرمایا.”لا الہ إِلَّا اللَّهُ.خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.خدا جانتا ہے یہ سن کر میں کانپ گیا.پھر آپ نے سورۃ ذاریات کی وہ آیات تلاوت کیں.جن میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت یوں بیان ہے اور آسمان میں تمہارا رازق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ دئے جاتے ہو اور زمین کے رب کی قسم یہ اس طرح سچ ہے جس طرح تم آپس میں باتیں کرتے ہو.“ (الذاریات 24,23 ) پھر وہاں سے نکلے تو میں بھی آپ 66 کے پیچھے گیا.رسول خدا ﷺ کی نظر جب مجھ پر پڑی تو فرمایا ” عثمان خدا کی جنت قبول کرو.میں تیری اور تمام مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں.“ حضرت عثمان کہتے ہیں کہ میں نے اُسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر دست مبارک میں ہاتھ دیا اور بیعت کر لی.(4)

Page 94

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مظالم پر صبر 80 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قبول اسلام کے بعد حضرت عثمان بھی کفار قریش کے مظالم کا تختہ مشق ستم بنتے رہے.چنانچہ قبول اسلام پر ان کے چا حکم بن ابی العاص بن امیہ نے آپ کو پکڑ کر رسوں سے باندھ دیا.وہ کہتا تم اپنے آباء اجداد کا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرتے ہو؟ خدا کی قسم میں تمہیں کھولوں گا نہیں جب تک یہ نیا دین چھوڑ نہ دو.حضرت عثمان کمال استقامت سے جواب دیتے ”خدا کی قسم میں یہ نہیں چھوڑوں گا.کبھی نہیں چھوڑونگا.جب چچانے اسلام پر ان کی مضبوطی دیکھی تو خود ہی تھک کر انہیں چھوڑ دیا.(5) شادی اور ہجرت حبشہ قبول اسلام کے بعد سب سے بڑی سعادت جو حضرت عثمان کے حصہ میں آئی وہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ سے آپ کی شادی ہے.جس کے کچھ عرصہ بعد اپنے اصحاب کی تکالیف دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ملک حبشہ میں ایک عادل بادشاہ ہے.جب تک مکہ میں حالات بہتر نہیں ہوتے آپ لوگ وہاں ہجرت کر جاؤ.خدا کی خاطر وطن چھوڑنے کی یہ قربانی کرنے والے اولین مجاہدین میں حضرت عثمان بھی تھے.(6) رسول کریم ﷺ نے آپ کو ہجرت میں سبقت کے لحاظ سے اول المہاجرین قرار دیا.چند سال حبشہ میں قیام کے بعد قریش کے اسلام لانے کی خبر سن کر آپ بعض دیگر مہاجرین کے ساتھ مکہ واپس آئے.ہر چند کہ قریش کے مسلمان ہونے کی خبر غلط نکلی.مگر آپ مہاجرین حبشہ کے ساتھ دوبارہ حبشہ واپس نہیں گئے.جب آپ نے مخالفین کی ایذاء رسانیوں اور بدکلامی سے پریشان ہو کر ہجرت کا ارادہ کیا تو رسول کریم ﷺ نے انہیں ارشاد فرمایا کہ اپنی اہلیہ صاحبزادی رقیہ کو بھی ہمراہ لے جائیں.غریب الوطنی میں تم میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے لئے صبر و قرار کا موجب ہوگا.چونکہ یہ کسی مسلمان کا مکہ چھوڑنے کا پہلا واقعہ تھا.رسول کریم ﷺ کو طبعا فکر دامنگیر تھی کہ اس کے تمام مراحل راز داری سے

Page 95

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 81 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ طے ہو جائیں.چنانچہ آپ فکر مندی سے اس پہلے مہاجر جوڑے کے بارے میں خبریں معلوم کرتے رہے.حضرت اسماء نے یہ خبر دی کہ حضرت عثمان ایک خچر پر پالان ڈال کر سمندر کی طرف گئے ہیں.(7) الغرض رسول اللہ ﷺ بڑی توجہ سے اپنے ان پیاروں کے احوال معلوم کرنے کی کوشش میں رہے.چنانچہ قریش کی ایک عورت نے آکر کہا اے محمد ! میں نے آپ کے داماد کو دیکھا ہے ان کے ساتھ اس کی بیوی تھی.آپ نے فرمایا " تم نے ان کو کس حال میں نے دیکھا ؟ اس نے کہا میں نے دیکھا کہ عثمان نے اپنی بیوی کو گدھے پر سوار کر رکھا ہے اور خود اسے ہانکتے جارہے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرط محبت میں اس جوڑے کو دعا دی.اللہ ان دونوں کے ساتھ ہو.(8) رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت لوط کے بعد حضرت عثمان وہ پہلا مہاجر ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ خدا کی راہ میں ہجرت کی ہے.(9) مواخات اسی دوران اللہ تعالیٰ نے ہجرت مدینہ کے سامان پیدا فرما دئیے.تو حضرت عثمان نے مع اہل و عیال مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی.وہاں حضرت حسان بن ثابت کے بھائی حضرت اوس بن ثابت کے گھر ٹھہرے.رسول کریم ﷺ نے مدینہ تشریف لاکر مؤاخات کا سلسلہ جاری فرمایا تو حضرت اوس بن ثابت کے ساتھ حضرت عثمان کی مواخات قائم فرمائی.(10) ہجرت مدینہ کے معابعد مسلمانوں کو جس بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا اوہ پینے کے پانی کی دقت تھی.مدینے میں ایک ہی کنواں بئر رومہ" تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا اور وہ اس کا پانی فروخت کیا کرتا تھا.حضرت عثمان نے یہ کنواں خرید کر راہ خدا میں وقف کر دیا.اور مسلمانان مدینہ کی یہ مشکل ہمیشہ کے لئے آسان کر دی.(11) بیوی کی تیمارداری ہجرت مدینہ کے بعد کفار مکہ جب مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو اسلام کے پہلے معرکہ غزوہ بدر کے

Page 96

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ موقع پر اپنی اہلیہ حضرت رقیہ کی بیماری کے باعث حضرت عثمان رسول کریم ﷺ کی اجازت سے شریک جنگ نہ ہو سکے تھے جس کا آپ کو د لی قلق تھا.لیکن چونکہ آپ رسول کریم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے مدینہ ٹھہرے تھے.رسول اللہ ﷺ نے بدر سے واپسی پر فرمایا کہ اے عثمان آپ کو شرکت کا اجر بھی ملے گا اور مال غنیمت سے حصہ بھی.‘ (12) صاحبزادی ام کلثوم سے شادی حضرت رقیہ اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکیں ان کے انتقال پر ملال پر حضرت عثمان افسردہ خاطر تھے کہ آپ کا رشتہ مصاہرت خاندانِ رسالت سے نہیں رہا.تب رسول خدا ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا نکاح آپ سے کر دیا.حضرت عثمان کے اہل خانہ سے حسن سلوک اور آپ کی وفا کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب حضرت ام کلثوم کی وفات ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر میری کوئی تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں وہ بھی عثمان سے بیاہ دیتا.غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ نجد کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان کو مدینہ میں اپنا جانشین مقررفرمایا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے دامادوں کیلئے اور جن کا میں داماد ہوا، ان کیلئے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان میں سے کسی کو آگ میں داخل نہ کرے.“ (13) کاتب وحی حضرت عثمان کو رسول اللہ علیہ کے کاتب وحی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک گھر میں مہاجرین کی مجلس تھی.ابوبکر وعمر عثمان علی، طلحہ زبیر عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص موجود تھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر شخص اپنے اپنے ساتھی کے ہمراہ کھڑا ہو.خود رسول اللہ علیہ حضرت عثمان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا ” آپ دنیا و آخرت میں میرے دوست ہو.“ (14) حدیبیہ میں شرکت حضرت عثمان غزوہ بدر کے بعد دیگر تمام غزوات میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہے

Page 97

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 83 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ہر حال میں آپ کا ساتھ دیا.سفر حدیبیہ میں بھی ساتھ تھے.رسول اللہ علیہ کی بصیرت نے جب یہ بھانپ لیا کہ قریش کی نیت لڑائی کی ہے اور وہ اس سال عمرہ کرنے نہیں دیں گے تو آپ نے حضرت عثمان کو ان کی خاندانی وجاہت و مرتبت کے باعث قریش کی طرف سفیر بنا کر مکہ بھجوایا.حضرت عثمان کو وہاں رابطے کرنے اور گفت و شنید میں دیر ہوگئی.اور کافی دیر تک ان کا کچھ حال معلوم نہ ہوا بلکہ یہ افواہ پھیل گئی کہ اہل مکہ نے ان کو شہید کر دیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر اپنے چودہ صد (1400) اصحاب سے موت پر بیعت لی کہ ہم جان دے دیں گے مگر عثمان کے خون کا بدلہ لئے بغیر نہیں ملیں گے.رسول خدا نے اس موقع پر حضرت عثمان کو عظیم الشان شرف عطا کیا کہ انہیں اس تاریخی بیعت میں شامل کرتے ہوئے آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے.اور یوں آپ نے تمام اصحاب کی بیعت لی.(15) یہ تاریخ ساز واقعہ بیعت رضوان کے نام سے معروف ہے کیونکہ اس بیعت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشنودی اور رضامندی کا اظہار قرآن شریف میں ہوا.(سورۃ الفتح : 20) تبوک میں مالی قربانی 9 ھجری میں غزوہ تبوک پیش آیا.مسلمانوں کو قیصر روم کے حملہ آور ہونے کی خبر پہنچی.رسول کریم ﷺ نے تبوک کا سفر اختیار فرمایا تا کہ رومیوں کو ان کی سرحدوں پر ہی روک دیا جائے.آپ نے جنگی ساز و سامان کے لئے مسلمانوں کو چندے کی تحریک کی اور فرمایا کہ ” جو شخص لشکر کی تیاری میں مدد کرے گا اور سامان جہاد مہیا کرے گا میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں.“ (16) حضرت عثمان ایک متمول تاجر تھے.اس موقع پر وہ دیگر صحابہ سے مالی قربانی میں سبقت لے گئے.انہوں نے ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات اپنے ذمے لے لیے ان کی تمام ضروریات پوری کیں اور تمہیں ہزار کی فوج میں سے دس ہزار مجاہدین کے لئے سامان جنگ مہیا کیا.جس میں نوصد پچاس اونٹ پچاس گھوڑے اور دس ہزار درہم کی خطیر رقم شامل تھی.رسول اللہ نے اس بر وقت امداد اور مالی قربانی سے اتنے خوش ہوئے کہ فرمایا ” آج کے بعد عثمان سکا کوئی عمل اُسے نقصان نہیں پہنچائے گا.‘ (17) حجتہ الوداع میں بھی حضرت عثمان آنحضرت مہ کے شریک سفر تھے.

Page 98

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 84 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قیام خلافت میں خدمات رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کی بیعت کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کئے.حضرت عمر کی نامزدگی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے تحریر فرمایا.حضرت عمر نے اپنی آخری بیماری میں چھ صحابہ کی کمیٹی بنائی اس میں بھی آپ شامل تھے جو انہوں نے خلافت کے انتخاب کے لئے مقرر فرمائی اور جس نے خلیفہ کا انتخاب انہی چھ افراد میں سے کرنا تھا.انتخاب خلافت اور پہلی تقریر 24ھ میں حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد خلافت کے انتخاب کے موقع پر شورٹی کمیٹی کے سر براہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے فیصلہ کے مطابق حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوئے.سب سے پہلے حضرت عبدالرحمان بن عوف نے بیعت کی.پھر حضرت علی اور تمام صحابہ نے جوق در جوق بیعت کی.اپنی پہلی مختصر تقریر میں فرمایا "اے لوگو! پہلے پہل جو کام کیا جائے وہ مشکل معلوم ہوتا ہے.آج کے بعد اور دن بھی آنے ہیں اگر میں زندہ رہا تو حسب حال وضرورت تقریر کیا کروں گا.بے شک مجھے تقریر کا ملکہ نہیں ہے مگر اللہ ہمیں سکھائے گا.‘ (18) آخری خطاب میں ارشادات مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی تقریر میں غیر معمولی تاثیر عطافرمائی.اپنے گھر کے محاصرہ کے دوران آخری ایام میں جو خطبات آپ نے ارشاد فرمائے ، آج بھی ان کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.محاصرہ کرنے والوں کو مخاطب کر کے فرمایا:.”اے میری قوم! مجھے قتل نہ کرو.میں حاکم وقت اور تمہارا مسلمان بھائی ہوں اور خدا کی قسم ! میں نے ہمیشہ اپنی استطاعت کے مطابق اصلاح کا ہی ارادہ کیا خواہ اس میں مجھے غلطی لگی یا میں نے درست کیا.اگر تم مجھے قتل کرو گے تو تمہاری وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی اور نماز ، جہاد اور غنیمت کی منصفانہ تقسیم سے محروم ہو جاؤ گے.“ آپ نے نہایت مؤثر اور فیصلہ کن وعظ کرتے ہوئے بڑے جلال سے فرمایا:.

Page 99

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 85 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں.مجھے بتاؤ کہ کیا میں نے خلافت پر کوئی غاصبانہ قبضہ کیا ہے اور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ بن گیا ہوں.یا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ میری خلافت کے ابتدائی زمانہ میں مجھے نہیں جانتا تھا یا خلافت کے آخری زمانہ میں اسے میرے بارے میں خبر نہیں.اے لوگو! مجھے قتل کر کے تم دشمن کا کبھی متحد ہو کر مقابلہ نہ کر سکو گے.اور انگلیاں کھول کر فرمایا تمہارے اند راس طرح واضح اختلاف پید اہو جائے گا.“ پھر آپ نے سورۃ ھود کی آیت 90 تلاوت کی جس میں ذکر ہے کہ اے میری قوم تمہیں میری مخالفت اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم پر وہ عذاب آئے جو قوم نوح ، قوم ھوڈ اور قوم صالح پر آچکا.اور لوط کی قوم تم سے دور نہیں ہے.(19) بہترین خدائی انتخاب اور فتوحات حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت عثمان کی بیعت خلافت کے بعد کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے میں سے سب سے بہتر انسان کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس بہترین انسان کے انتخاب میں کوئی کوتا ہی نہیں کی.(20) حضرت عثمان کے عہد میں بھی اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور طرابلس ، جزائر مراکش، قبرص اور آرمینا فتح ہوئے.اور سپین کی فتح کی داغ بیل پڑی.آپ کی خلافت کے پہلے چھ سال بہت امن و امان سے گزرے.فتنوں کا مقابلہ اس کے بعد جن فتنوں کا آغاز ہوا ان کے پس منظر میں دراصل کئی گہرے اسباب وعوامل کارفرما تھے.مگر ایک اہم سبب فتوحات کے نتیجہ میں مال و دولت کی فراوانی اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کا کثرت سے اسلام میں داخل ہونا تھا.(21) اس فتنے کا بانی مبانی در اصل عبد اللہ بن سبا تھا.جو مصر کا یہودی النسل باشندہ تھا.اور جس نے مختلف الخیال مفسدوں عبدالرحمان البلوی کنانہ کندی ،عمر وخزاعی، اشتریخی حکیم عبدی کو خلافت عثمان

Page 100

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 86 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف اکٹھا کر لیا تھا.یہ شورش جب اپنے عروج پر پہنچی تو حضرت عثمان سے خلافت کی دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا.حضرت عثمان نے نہایت پامردی اور استقامت سے اس ارشاد رسول پر اپنی زندگی کے آخری سانس تک عمل کر دکھایا جو آنحضرت ﷺ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ ” اے عثمان اللہ تجھے ایک پوشاک پہنائے گا اور اگر منافق اسے اتارنے کا ارادہ کریں تو تو اُسے مت اتارنا “ حضرت عثمان نے فرمایا کہ اس وصیت رسول کے مطابق میں آخری لمحے تک صبر کروں گا.(22) آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت عثمان کی شہادت اور آپ کے جنتی ہونے کی خبر دے دی تھی.ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ جبل احد پر تھے کہ پہاڑ میں کچھ جنبش پیدا ہوئی.آپ نے فرمایا " اے اُحد تھم جاتیرے پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں.نیز فرمایا ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرار فیق جنت میں عثمان ہوگا.‘ (23) حضرت ابو موسی اشعری کی روایت ہے کہ رسول کریم ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے پہرہ پر بٹھایا حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان نے باری باری اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی حضور نے سب کو اجازت کے ساتھ جنت کی نوید بھی سنائی.حضرت عثمان کے بارہ میں مزید یہ فرمایا ” ایک بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنے کے بعد ان کے حق میں بھی جنت کی بشارت پوری ہوگی.(24) پھر فرمایا ” عثمان حالت مظلومیت میں شہید کئے جائیں گے.“ (25) رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان کو شہادت اور جنت کی بشارت کے ساتھ صبر کی تلقین کی تو حضرت عثمان نے عرض کیا اگر رسول اللہ میرے لئے صبر کی دعا کریں گے تو پھر ہی صبر ممکن ہے.رسول اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ ! عثمان کو صبر عطا کر دے.پھر فرمایا اللہ تجھے صبر عطا کرے گا.(26) چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کو غیر معمولی صبر و قتل عطا فر مایا.چنانچہ جب آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو آپ کو کئی اصحاب نے باغیوں سے مقابلہ کی اجازت چاہی.مگر آپ نے یہی فرمایا کہ رسول اللہ اللہ نے مجھ سے ایک وعدہ فرمایا تھا اور میں اس کی طرف جانیوالا ہوں.(27) حضرت عثمان کے ساتھ محاصرہ کے دوران حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حسن ، حضرت ابن عمرؓ اور دیگر انصار مہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ محاصرین پر حملہ کر کے انہیں بھگایا.حضرت عثمان سے گھر

Page 101

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 87 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ میں جا کر ملاقات کی اور عرض کیا کہ دشمن کے ارادے آپ کے قتل کے ہیں آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت دے دیں.حضرت عثمان نے سختی سے ایک قطرہ خون بہانے سے بھی منع فرما دیا.(28) شام کے گورنر حضرت معاویہؓ نے حفاظت کیلئے فوج بھجوانا چاہی تو اس کی بھی اجازت نہ دی.گھر کے باہر سات سو اصحاب حضرت عبداللہ بن زبیر کی قیادت میں موجود تھے.اگر حضرت عثمان ان کو اجازت دیتے تو وہ دشمن کا استیصال کر سکتے تھے.ان میں حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت حسن بن علی بھی تھے.حضرت عثمان نے واضح فرما دیا تھا کہ ” جو میری اطاعت کرتا ہے اسے عبد اللہ بن زبیر کی اطاعت کرنی ہوگی.عبداللہ بن زبیر نے عرض کیا امیر المومنین! آپ کے پاس ایسی جماعت موجود ہے.جسے اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہے.آپ مجھے باغیوں سے لڑائی کی اجازت دیں.حضرت عثمان نے فرمایا میں اللہ کے نام پر تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی ایک آدمی کا خون بھی میری وجہ سے نہیں ہونا چاہیے.حضرت زید بن ثابت انصاری نے آکر عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین ! انصار مدینہ دروازے پر حاضر ہیں.اگر آپ حکم دیں تو ایک آواز پر دو دفعہ لبیک کہہ کر ہم اللہ کے مددگار بن کر دکھائیں گے.حضرت عثمان نے فرمایا ”نہیں جنگ نہیں کرنی.“ (29) صبر و استقامت حضرت عثمان خدا داد صبر وتحمل کا مجسمہ تھے.دراصل وہ سمجھ گئے تھے کہ امت کو کشت وخون سے بچانے اور استحکام خلافت کے لئے انہیں اپنی جان کی قربانی دینی پڑے گی.بالآخر انہوں نے یہ قربانی دے دی.مگر ارشاد رسول ﷺ کے مطابق صبر کرتے ہوئے یہ ثابت کر دکھایا کہ ” خلیفہ معزول نہیں کیا جاسکتا.“ (30) شہادت عثمان کا تذکرہ بہت دردناک ہے مرکز اسلام مدینہ منورہ میں اسلام کے اس عظیم الشان خلیفہ کو قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے حالت روزہ میں شہید کر دیا گیا.آپ کے خون کے قطرے سورۃ بقرہ کی آیت (138) فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ پر پڑے.جس کا مطلب ہے کہ اللہ خود ان لوگوں کیلئے کافی ہے اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.بچاتے ہوئے آپ کی اہلیہ حضرت نائلہ کی انگلیاں بھی کٹ گئیں.اور وفادار غلام اسود نے حملہ آوروں سے

Page 102

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 88 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ لڑ کر جان دے دی.حضرت عثمان کی شہادت دراصل ایک المی نقد رتھی.(31) حضرت حسان بن ثابت کو حضرت عثمان سے بہت محبت تھی انہوں نے آپ کی شہادت پر مرثیہ لکھا جس میں کہا:.ضَحُوا بِاشْمَطَ عَنْوانَ السُّجُودَ بِهِ يَقْطَعُ اللَّيْلَ تَسْبِيحَا وَقُرْآنًا صَبْرافِدَى لَكُم أُمِّي وَمَا وَلَدَتْ قَدْ يَنْفَعُ الصَّبْرُ فِي المَكْرُوهِ أَحْيَانًا (32) ظالموں نے ایک ایسے خوبصورت مرد کو قربان گاہ پر چڑھا دیا، جس کے ماتھے پر سجدوں کے نشان تھے اور جو رات عبادت اور قرآن پڑھنے میں گزار دیتا تھا.اے محبان عثمان ! صبر کرو میری ماں اور اولاد تم پر قربان ہو.کیونکہ اکثر نا پسندیدہ باتوں میں صبر ہی کام آتا ہے.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ان کی الماری سے ایک مقفل صندوق میں ایک تحریر ملی جو آپ کے ایمان ویقین کی پختگی کو خوب ظاہر کرتی ہے.یہ عثمان کی وصیت ہے.اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے.عثمان بن عفان گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اور یہ کہ جنت حق ہے اور جہنم بھی حق ہے اور یہ کہ اللہ ان کو جو قبروں میں ہیں ایسے دن اٹھائے گا جس میں کوئی شک نہیں.اللہ بھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا.اسی (عقیدہ) پر (عثمان) زندرہ رہے اسی پر مرے گا اور اسی پر اٹھایا جائے گا اگر اللہ چاہے.اسی تحریر کی پشت پر یہ اشعار درج تھے.غِنَى النَّفْسِ يُعْنِي حَتَّى يُحِلَّهَا وَإِن غَضَّهَا حَتَّى يَضُرَّ بِهَا الْفَقرُ وَمَاعُسرة فاصبر لَهَا إِن لَقِيتَهَا بگائِنَةٍ إِلَّا سَيَتَبَعُهَا يُسر وَمَن لم يُقاسِ الدَّهْرَ لَم يَعرف الأسى وَفِي عِبر الأيَّامِ مَاوَعَدَ الدَّهر دل کی امارت انسانی نفس کو بے نیاز اور عظیم بنادیتی ہے خواہ فقر وغربت اس کی عظمت کو کم کرے یہاں تک کہ اسے اس سے نقصان پہنچے.کسی آنے والی تنگی سے تیرا سامنا نہیں ہوگا مگر اس

Page 103

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 89 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد آسائش آئے گی اور جس نے زمانے کے مصائب برداشت نہیں کئے اسے ان کے مداوا کا بھی علم نہیں ہوتا اور اللہ نے جو وعدے کئے ہیں انقلاب زمانہ سے ہی ان کی تکمیل ہوتی ہے.حضرت عثمان مخالفین کے تین روزہ محاصرہ کے بعد 18 ذوالحجہ 35ھ میں بعمر 83 شہید ہوئے.آپ کا زمانہ خلافت گیارہ سال گیارہ ماہ بائیس دن بنتا ہے.(33) حلیه ولباس جس طرح آپ ظاہر آ خوبرو تھے ایسے ہی آپ کا باطن بھی خوبصورت تھا.آپ درمیانے قد اور گندمی رنگ کے خوبرو انسان تھے.ناک بلند ، دانت پیوستہ اور چمکدار تھے.جسم گداز داڑھی لمبی تھی جسے خضاب لگاتے تھے.دانت سونے کی تار سے بندھے تھے.عمدہ لباس زیب تن فرماتے تھے.ایک دفعہ قیمتی ریشمی چادر اوڑھی.فرمایا " یہ میری بیوی نائلہ کی ہے.ان کی خوشی کی خاطر کبھی میں بھی اوڑھ لیتا ہوں.‘ (34) موسیٰ بن طلحہ کا بیان ہے کہ ایک جمعہ کے روز میں نے حضرت عثمان کو دیکھا زرد تہ بند کے ساتھ آپ نے چادر زیب تن فرمائی تھی.عصا ہاتھ میں تھا اور آپ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت معلوم ہوتے تھے.(35) اولاد رسول اللہ کی صاحبزادیوں حضرت رقیہ اور ام کلثوم کے علاوہ آپ کے عقد میں چھ ازواج آئیں.حضرت رقیہ سے بیٹا عبداللہ کم سنی میں فوت ہو گیا تھا.دوسری بیوی حضرت فاختہ سے ہونے والے عبداللہ بھی بچپن میں فوت ہوئے.تیسری بیوی حضرت ام عمر و بنت جندب سے عمرو، خالد، ابان، عمر اور مریم پیدا ہوئے.حضرت فاطمہ بنت ولید سے ولید اور سعید ہوئے.حضرت ام البنین سے عبدالمالک پیدا ہوئے.حضرت رملہ بنت شیبہ سے عائشہ، ام ابان اور ام عمر و ہوئیں اور حضرت نائلہ (جو بوقت شہادت موجود تھیں) سے مریم ہوئیں.الغرض کثیر اولاد تھی.جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو آپ اسے بلوا کر پیار کرتے ساتھ لگا کر سونگھتے.وجہ پوچھی گئی تو فرمایا چاہتا ہوں کہ

Page 104

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 90 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کی محبت میرے دل میں پیدا ہو چکی ہو.(36) عبادت میں شغف حضرت عثمان کو عبادت وریاضت میں بہت شغف تھا.شہادت کے موقع پر آپ کی حرم حضرت نائلہ نے ظالم قاتلوں سے فرمایا تم نے ایک ایسے شخص کو شہید کیا جو بہت روزے رکھنے والا بہت عبادت گزار تھا.وہ نماز کی رکعت میں ساری رات کو تلاوت قرآن سے زندہ رکتھے تھے.(37) رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع کا بہت خیال تھا.بارہا ایسا ہوا کہ تمام صحابہ کے سامنے مکمل وضو کر کے دکھایا اور فرمایا کہ آنحضرت ﷺ اس طرح وضو فر مایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک جنازہ گزرا آپ احتراماً کھڑے ہو گئے اور پھر فرمایا کہ رسول اللہ علیہ بھی ایسا کیا کرتے تھے.حضرت عثمان قرآن شریف کے عاشق تھے.کاتب وحی کی خدمت انجام دینے کی توفیق ملی.خود حافظ قرآن تھے.آیات قرآنی سے استنباط واستدلال میں خاص ملکہ رکھتے تھے.علم الفرائض یعنی میراث میں بھی آپ کو گہری دسترس حاصل تھی.حضرت عثمان طبعاً کم گو تھے.مگر جب بات کرتے تو مکمل بات کرتے.(38) احادیث بیان کرنے میں آپ بہت احتیاط سے کام لیتے تھے.اس لئے آپ کی بہت کم روایات احادیث کی کتب میں ملتی ہیں.اخلاق فاضلہ حضرت عثمان بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” عثمان میرے صحابہ میں سے سب سے زیادہ میرے اخلاق کے مشابہ ہیں.“ (39) اور تمام اخلاق کی جڑ دیا ہے.اور حضرت عثمان فطرتاً با حیاء عفیف و راستبار اور پارسا انسان تھے.رسول کریم یہ بھی آپ کے باحیا ہونے کا خاص لحاظ رکھتے تھے.ایک دفعہ حضور صحابہ کے ساتھ بے تکلفی سے ایک کنوئیں کی منڈیر پر تشریف فرما تھے اور پانی کے اندر اپنی ٹانگیں اٹکا رکھی تھیں.زانوئے مبارک سے کچھ حصہ کھلا ہوا تھا کہ حضرت عثمان کے آنے کی اطلاع ہوئی آپ اپنا کپڑ ا سنبھال کر بیٹھ گئے.(40) اور فرمایا عثمان

Page 105

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 91 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے تو فرشتے بھی حیا کرتے ہیں.(41) آپ کے حیا کا یہ عالم تھا کہ تنہائی اور بند کمرے میں بھی کپڑے نہ اُتارتے تھے.حتی کہ غسل بھی لباس پہن کر کرتے تھے غسل کے وقت بیوی کی لونڈی کپڑے لے کر آتی تو فرماتے تم مجھے نہ دیکھنا کہ یہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے.“ (42) خوف خدا اس قدر تھا کہ قبرستان کو دیکھ کر بے چین ہو جاتے اور فرمایا کرتے کہ رسول اللہ ہی سے میں نے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سب سے پہلی منزل ہے اگر یہ معاملہ آسانی سے طے ہو گیا تو پھر باقی منزلیں بھی آسان ہیں.اور اگر یہاں دشواری پیش آئی تو دیگر مر حلے بھی مشکل ہوں گے.“ سنت رسول ماہ کی پیروی صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول اللہ نے حضرت عثمان کو اہل مکہ کی طرف بھجوایا تو آپ کے چچا زاد ابان بن سعید نے انہیں اپنی پناہ میں لیا.اپنی سواری پر سوار کروایا اور خود آپ کے پیچھے بیٹھ کر آپ کو مکہ لے کر آیا.آپ کے سادہ لباس کو دیکھ کر وہ کہنے لگا اے میرے چچا کے بیٹے ! یہ کیا بات ہے میں آپ کو نہایت عاجزانہ لباس میں دیکھتا ہوں.آپ بھی اپنی قوم کی طرح بڑا تہ بند پہنیں جسے لڑکا کر چلتے ہیں.حضرت عثمان نے فرمایا ہمارے آقا و مولا ایسا ہی لباس پہنتے ہیں.پھر اس نے کہا اے میرے چچا کے بیٹے آپ خود تو طواف کر لیں.حضرت عثمان نے فرمایا بھائی ! ہم کوئی چیز شروع نہیں کرتے اور کسی کام میں پہل نہیں کرتے جب تک کہ ہمارے ساتھی حضرت محمد وہ نہ کر لیں.(43) تواضع و سادگی سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں لونڈیوں اور غلاموں کے باوجود اپنے کام خود کرنا پسند کرتے.رات کو اٹھ کر وضوء کے پانی کا خود انتظام کرتے کسی نے کہا کہ خادم کی مدد لے لیا کریں فرمایا رات ان کے آرام کے لئے ہے.(44) طبیعت کا ایک گہرا وصف یہ تھا کہ آپ میں نرمی اور رقت بہت تھی.تواضع کی یہ انتہا تھی کہ ایک دفعہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے.عمرو بن العاص نے یہ کہنے کی

Page 106

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جسارت کی کہ اے عثمان آپ تو بہ کریں کہ آپ نے امت کو مشکل میں ڈال دیا ہے.بلکہ آپ کے ساتھ سب لوگ بھی تو بہ کریں.آپ نے بلا پس و پیش اسی وقت قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اُٹھایا اور کہا ”اے اللہ میں سب سے پہلے تیری درگاہ میں تو بہ کرتا ہوں.سب لوگوں نے بھی آپ کی پیروی میں ایسے ہی کیا.“ (45) حضرت عثمان میں اپنی حیرت انگیز مالی قربانی کے بعد کبھی ریا یا فخر کا کوئی شائبہ کبھی پیدا نہ ہوا ایک دفعہ کسی تنگ دست نے آپ کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا آپ امیر طبقہ کے لوگ بہت ثواب کما گئے ہو.تو حضرت عثمان نے پوچھا کیا تمہیں ہم پر رشک آتا ہے.اس نے کہا ہاں.فرمانے لگے ” خدا کی قسم ! تمہاری محنت کی کمائی سے ایک درہم خرچ کرنا دس ہزار درہم سے بڑھ کر ہے اور تمہارا تھوڑا بھی زیادہ سے بہتر ہے.‘ (46) سادگی خلافت کے زمانہ میں بھی آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا.مسجد نبوی میں قیلولہ کیلئے چٹائی پر لیٹ جاتے.چٹائی کے نشان آپ کے پہلو میں ہوتے.جسے دیکھ کر لوگ تعجب سے کہہ اٹھتے امیر المومنین کی یہ حالت ہے؟ (47) کھانے کا یہ حال تھا کہ مہمانوں کو گھر سے اعلیٰ کھانا کھلاتے مگر خود زیتون کے تیل اور سرکہ پر مشتمل کھانا تناول کرتے.(48) عدل گستری اپنے خادموں کے ساتھ معاملہ میں انکسار کے ساتھ عدل کی بھی عجب شان نظر آتی ہے.ایک دفعہ اپنے غلام سے فرمایا کہ میں نے تمہاری گوشمالی کی تھی یعنی کسی بات پر تنبیہ کیلئے کان مروڑے تھے اب مجھ سے بدلہ لے لو.اس نے آپ کا کان پکڑ لیا.فرمانے لگے اور سختی سے کان مروڑ و کہ اسی دنیا میں جو بدلہ چکا دیا جائے وہ کیا خوب ہے.“ (49) منصفانہ رائے دینے میں آپ کسی کا لحاظ نہ کرتے تھے.نافع بن عبد الحارث کہتے ہیں کہ

Page 107

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 93 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ مکہ آئے اور جمعہ کے دن دارالندوہ میں ٹھہر گئے تا کہ قریب سے بیت اللہ آجاسکیں.ایک دفعہ اپنی چادر دیوار پر لٹکائی تو ایک کبوتر اس پر آکر بیٹھ گیا.انہوں نے اس اندیشہ سے کہ چادر کو گندانہ کردے اسے اڑا دیا.وہ دوسری دیوار پر جا بیٹھا تو ایک سانپ نے اسے ڈس کر مار ڈالا.جمعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے مجھے اور حضرت عثمان سے کہا کہ تم دونوں میرے اس معاملہ میں فیصلہ کرو.میں نے حضرت عثمان سے کہا کہ میرے خیال میں تو حضرت عمر کو بطور فدیہ ایک بکرے کی قربانی کرنی چاہیے.حضرت عثمان نے فرمایا میرا بھی یہی خیال ہے.(50) سخاوت و فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ حضرت عثمان غنی دولتمند ہونے کے ساتھ بہت سخی اور فیاض بھی تھے.کوئی خیال کر سکتا ہے کہ شاید غیر معمولی دولت کی وجہ سے اُن کو غنی کا خطاب ملا.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان کو محض مالی فراخی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان مالی قربانیوں کی وجہ سے غنی“ کہا گیا ہے جو وہ دل کے غنا کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی راہ میں پانی کی طرح مال بہاتے تھے جسے دیکھ کر آج بھی انسان محو حیرت ہو جاتا ہے.حضرت عثمان ہی تھے جنہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ میں ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کیا کروں گا.اور پھر زندگی کے آخری سانس تک اس عہد کو نبھاتے رہے اور ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے چلے گئے.(51) - یہ کوئی معمولی قربانی نہیں ایک غلام کی قیمت ہزاروں درہم ہوا کرتی تھی.اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر جمعہ کو یہ مالی قربانی از خود اپنے ذمے لے لینا بہت بڑی بات ہے اور حضرت عثمان کی ہفتہ وار مالی قربانی کی غیر معمولی منفر د مثال ہے جو آپ نے قائم کر دکھائی.اپنے گھر کے محاصرہ کے دنوں میں آپ نے ہمیں غلام آزاد کئے.(52) مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کا ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کی فراہمی کا تھا.مدینے میں بئر رومہ ایک ہی بڑا کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا اور وہ اس کا پانی بیچا کرتا تھا.مسلمان حالت مفلسی میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے اُن کیلئے پانی خرید نا تو درکنار کھانے کو غذا تک میسر نہ تھی.یہ بہت کٹھن مرحلہ تھا.آنحضرت نے مسلمانوں کی تکالیف دیکھ کر تحریک عام فرمائی کہ کوئی

Page 108

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 94 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے جو ہیر رومہ خرید کر مسلمانوں کیلئے مفت پانی کا انتظام کر دے.میں ایسے شخص کے لئے جنت میں کنوئیں کی ضمانت دیتا ہوں.اس وقت حضرت عثمان آگے بڑھے اور اس یہودی کے ساتھ کنواں خریدنے کے لئے رابطہ کیا.عام حالات میں تو کنوئیں کی قیمت اتنی نہ تھی مگر وہ یہودی جانتا تھا کہ ایک ہی کنواں ہے اور مسلمان مجبور ہیں ، منہ مانگے دام مجھے ملیں گے تو وہ بیچنے ہی سے انکار کرتا تھا تا کہ اس کی قیمت بڑھ جائے.بالآخر جب راضی ہوا تو اس نے کہا میں آدھا کنواں بیچوں گا ایک دن آپ اس کا پانی استعمال کیا کریں اور ایک دن میں خود اس کا پانی بیچا کروں گا.وہ جب اس کے سوا کسی بات پر راضی نہ ہوا تو حضرت عثمان نے اس کنوئیں کی منہ مانگی قیمت بارہ ہزار درہم ادا کر دی جو اُس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی قیمت تھی.آپ کا مقصد محض خدا اور اس کے رسول کی خوشنودی اور رضا تھی.پھر خوشی خوشی جا کر وہ تحفہ آنحضرت کی خدمت میں پیش کر دیا.آنحضرت اپنی یہ مراد پا کر بہت خوش ہوئے اور حضرت عثمان غنی کو جنت کی خوش خبری عطافرمائی.(53) پھر حضرت عثمان نے مسلمانوں کے لئے مفت پانی کا اعلان کر دیا.ادھر یہودی نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان تو اپنی باری میں سارا پانی نکال کر لے جاتے ہیں اور اس کے پاس کوئی خریدنے کیلئے نہیں آتا تو اس کو احساس ہوا کہ اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے دوسرا آدھا حصہ بھی بیچ دینا چاہیئے تھا.اب وہ خود حضرت عثمان کے پاس آیا اور کہا کہ بقیہ حصہ بھی آپ خرید لیں حضرت عثمان اگر چاہتے تو اب قیمت حسب منشا گرا سکتے تھے مگر آپ نے کنوئیں کا دوسرا حصہ بھی آٹھ ہزار درہم میں خرید کر سا را کنواں مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.جب مسجد نبوی کی توسیع کا مسئلہ پیدا ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اردگرد کے مکانات خرید کر مسجد میں شامل کر لئے جائیں.اس کیلئے رقم کی ضرورت تھی تا کہ اردگرد کے مکان مسجد کے لئے خریدے جاسکیں.اس وقت بھی حضرت عثمان آگے بڑھے اور انہوں نے پندرہ ہزار درہم کی قربانی اُس وقت پیش کی اس کے نتیجے میں مسجد نبوی کی توسیع عمل میں آئی.(54) رسول کریم ہے کے ساتھ حضرت عثمان کو بھی توسیع کے وقت اینٹ رکھنے کی سعادت عطا ہوئی.(55) فتح مکہ کے بعد مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ کی توسیع کا معاملہ پیش ہوا.آنحضرت ﷺ نے تحریک

Page 109

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 95 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرمائی کہ وہ لوگ جو خانہ کعبہ کے قریب ارد گرد گھروں میں رہتے ہیں وہ خانہ خدا کے لئے خالی کرسکیں تو اُن کو گرا کر مسجد حرام کو وسیع کر دیا جائے.وہ بیچارے ایسا نہیں کر سکے کیونکہ اُن میں دوسری جگہ گھریا مکان خریدنے کی استطاعت نہیں تھی.اس وقت بھی حضرت عثمان کام آئے.انہوں نے دس ہزار دینار کی قربانی کی.اُس زمانے میں یہ بہت بڑی مالی قربانی تھی جس کی مدد سے ان لوگوں کو دوسری جگہوں پر مکان خرید کر دئیے گئے جو خانہ کعبہ کے پاس آباد تھے.حضرت ابوبکر کے زمانے میں مدینہ میں قحط پڑ گیا.حضرت عثمان کا تجارتی قافلہ سب سے پہلے مدینے پہنچا اونٹوں کی قطاروں کی قطاریں غلہ سے لدی ہوئی تھیں.مدینے کے تمام تا جر ا کٹھے ہو کر حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا بے شک منہ مانگا منافع لے لیں اور یہ قافلہ ہمیں بیچ دیں.دس ہزار درہم کی مالیت پر بارہ ہزار درہم کی پیش کش ہوئی حضرت عثمان نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ منافع ملتا ہے.میں اتنے میں نہیں دے سکتا کسی نے کہا کہ ہم پندرہ ہزار درہم دیتے ہیں یہ غلہ ہمیں بیچ دیں.انہوں نے کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں.مدینہ کے تاجر حیران تھے.انہوں نے کہا کہ ہم سب مدینہ کے باسی ہیں.اس سے بڑی بولی آپ کو کس نے دی اور کون ہے جو اس سے زیادہ آپ کو دے رہا ہے؟ حضرت عثمان نے کہا کہ وہ میرا خدا ہے جو ایک درہم کے مقابلے پر مجھے دس درہم کی نوید سناتا ہے.پھر حضرت عثمان نے اعلان کر دیا کہ میں ان تمام اونٹوں پر لدا ہوا مال مدینے کے غرباء کے لئے وقف کرتا ہوں.حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں مسلمانوں کا راشن ختم ہونے کے باعث فاقہ کی سخت تکلیف سے مسلمان سخت پریشان اور منافق خوش تھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا آج غروب آفتاب سے قبل اللہ تعالیٰ تمہارے لئے رزق کے سامان فرما دے گا.حضرت عثمان کو خبر ہوئی تو فرمایا اللہ اور اس کا رسول بالکل سچ فرماتے ہیں انہوں نے غلہ سے لدے ہوئے نو اونٹ رسول اللہ کی خدمت میں بھجوائے کہ ہدیہ قبول فرمائیں.رسول اللہ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور منافقوں پر اوس پڑ گئی.تب رسول اللہ نے ہاتھ اٹھائے اور عثمان کے لئے ایسی دعائیں کیں کہ اس سے پہلے یا بعد کسی کے حق میں ایسی دعائیں کرتے میں نے آپ کو نہیں

Page 110

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 96 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سنا.آپ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! عثمان کو بہت دے اے اللہ عثمان پر بہت فضل فرما.(56) صلہ رحمی حضرت عثمان صلہ رحمی کرتے ، اعز واحباب سے محبت و احسان سے پیش آتے تھے.بھوکوں کو کھانا کھلاتے اور زیر بار لوگوں کے بوجھ اُٹھاتے تھے.دوستوں کو ضرورت پر بڑی بڑی رقوم قرض دیتے.(57) بعض دفعہ قرض واپس بھی نہ لیتے ایک دفعہ حضرت طلحہ سے ایسا ہی معاملہ فرمایا اور فرمانے لگے کہ یہ آپ کی مروت کا صلہ ہے.حضرت عثمان کو اپنی شہادت کا اشارہ مل چکا تھا.چنانچہ شہادت کے موقع پر قریباً دو ماہ تک جب آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا اس محصوری کے دور میں جس ضبط و قتل کا آپ نے مظاہرہ کیا اور صحابہ کی طرف سے باغیوں کے مقابلے کی بار بار کی درخواستیں رڈ فرما دیں تا کہ امت میں قتل و خون نہ ہو.آپ فرماتے تھے کہ میں خلیفۃ الرسول ہو کر مسلمانی کا دعوی کرنے والوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا.انہی اخلاق کریمہ پر قائم رہتے ہوئے آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے.(58) حضرت عائشہ نے آپ کی شہادت پر فرمایا کہ عثمان سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والے تھے.(59) حضرت علی سے آپ کے بارہ میں پوچھا گیا تو فرمانے لگے وہ ایسا شخص ہے جو ملا اعلی یعنی در بار خداوندی میں بھی ” ذوالنورین کہلاتا ہے.(60) حضرت عثمان کو اپنے بابرکت دور میں اہم خدمات کی توفیق ملی.فتوحات اور انتظامی اصلاحات کے علاوہ مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع بھی آپ کی ایک اہم خدمت ہے.مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کی خدمت عہد نبوی میں بھی توسیع مسجد کی ضرورت کے پیش نظر حضرت عثمان نے قریبی قطعہ زمین خرید کر مسجد کی توسیع کروائی تھی.

Page 111

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 97 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں 24ھ میں پھر توسیع کا ارادہ کیا لیکن قرب مسجد نبوی میں رہنے والے لوگ کافی معاوضہ کے باوجود بھی راضی نہ ہوئے.پانچ سال بعد پھر صحابہ سے مشورہ کے بعد آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں توسیع مسجد نبوی کی خصوصیت سے تحریک کرتے ہوئے نہایت مؤثر تقریر کی جس کے نتیجہ میں لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات پیش کر دئے.اور آپ نے نہایت اہتمام سے اور ذاتی نگرانی میں اپنے عمال کے ذریعہ دس ماہ کے قلیل عرصہ میں اینٹ چونا اور پتھر کی خوبصورت اور مضبوط تعمیر کر کے مسجد کی لمبائی میں پچاس گز کا اضافہ کیا.جبکہ چوڑائی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.(61) حفاظت قرآن کا کارنامہ آپ کا ایک اور کارنامہ قرآن شریف کی حفاظت کی خاطر ایک قرآت قریش پر جمع و تدوین کر کے تمام اسلامی ممالک میں اس کی اشاعت عام کرنا ہے.اس کے نتیجہ میں قرآن شریف ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.آپ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک یا درکھا جائے گا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکر نے جنگ یمامہ میں حفاظ کے کثرت سے قتل ہونے کے بعد قرآن شریف کی متفرق تحریرات کو ایک جلد میں اکٹھا کروا دیا تھا.یہ مستند صحیفہ حضرت ابوبکر کی اپنی تحویل میں رہا پھر حضرت عمر کی حفاظت میں آیا ان کی وفات کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ نے مجموعہ سنبھالا.حضرت عثمان کے زمانہ میں حضرت حذیفہ بن الیمان ان کی خدمت میں حاضر ہوئے انہیں شام اور عراق کی جنگوں میں شرکت کا موقع مل چکا تھا.وہاں نہیں مختلف ممالک واقوام میں رائج قرآنی قراءتوں کے اختلاف سے اندیشہ ہوا کہ یہ سلسلہ بڑھ کر کوئی مشکلات پیدا نہ کرے.انہوں نے حضرت عثمان سے عرض کیا کہ یہود و نصاری کا اپنی کتاب میں اختلاف سے جو انجام ہوا اس کی نوبت سے پہلے مسلم امہ کی فکر کر لیں اور قرآن شریف کو سات قراء توں کی بجائے ایک قراءت پر رائج کر دیں.حضرت عثمان نے حضرت حفصہ سے اولین مستند قرآنی صحیفہ منگوایا.پھر حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت انصاری ، عبد اللہ بن زبیر ، سعید بن العاص ،عبدالرحمان بن حارث بن ہشام کو حکم دیا اور انہوں نے اس کی نقول تیار کیں.حضرت عثمان نے موخر الذکر تینوں قریش صحابہ سے کہا

Page 112

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 98 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہ جب تمہارا اور زید کا کسی آیت کی تلاوت یا قراءت میں اختلاف ہو تو قریش کی لغت کو ترجیح دیتے ہوئے قرآن تحریر کیا جائے کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں اترا ہے.چنانچہ ان اصحاب نے یہ کام کیا جب نقول تیار ہو گئیں تو پہلا نسخہ حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کو واپس بھجوا دیا اور نئے تیار شدہ نسخوں کی نقول مختلف ممالک میں بھجوا کر حکم دیا کہ اس کے علاوہ دیگر قراءتوں پر مشتمل کوئی نسخے ہوں تو وہ جلا دئے جائیں.(62) اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کیلئے قرآن شریف کی حفاظت کے سامان ہو گئے.آپ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک یادر ہے گا.چنانچہ آج اسلام کے مخالف مستشرقین بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں.نولڈ کے کا قول ہے:."Slight clerical errors there may have been but the Quran of Othman contains none but genuine elements, though sometimes in very strange order.Efforts of European scholars to prove the existence of later interpations in the Quran have failed." (ترجمہ) ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ( طرز تحریر کی ) ہوں تو ہوں، لیکن جو قرآن عثمان نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُس کا مضمون وہی ہے جو محمد نے پیش کیا تھا.گو اس کی ترتیب عجیب ہے.یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے.(63) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب سر الخلافہ میں حضرت عثمان کی شان میں فرماتے ہیں:.ابو بکر و عمر اور عثمان اصل صلاح و ایمان تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا.اور جو رحمان خدا کی عنایت سے خاص کئے گئے.اور ان کی اعلیٰ صفات پر کئی صاحب عرفان لوگوں نے گواہی دی ہے.انہوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے وطن ترک کئے.اور جنگ کے میدانوں میں کود پڑے اور خدا کی قسم اللہ تعالیٰ نے شیخین اور تیسری اس ہستی کو جو ذوالنورین ہے اسلام کے دروازوں کی طرح بنایا ہے.اور یہ خدائے خیبر کی فوج کے ہر اول دستے ہیں اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ کی پیروی میں وہ ایک بلند مقام پر ہیں اور وہ اُمَّةً وَسَطاً کے

Page 113

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 99 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مصداق ہیں اور وَايَّدَهُم بِرُوحِ مِنہ کہہ کر قرآن شریف میں رب العزت نے خود ان کی تعریف کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید ان کو حاصل ہے.اور ان کے انوار صدق اور آثار طہارت روشن تر ہو کر ظاہر ہو گئے ہیں.اور وہ ان راستبازوں میں سے تھے.جن سے اللہ راضی ہو گیا.اور وہ خدا سے راضی ہو گئے.اور انہیں وہ کچھ عطا کیا گیا.جو عالمین میں سے اور کو بخشا نہیں گیا.‘ (64) -1 -3 -4 که من ط من هنا -5 -6 -7 اسد الغابہ جلد 3 ص 376 اصا به جز 4 ص 223 ابن سعد ج 3 ص 55 حواله جات کنز العمال ج 13 ص 76 ، الاستیعاب علی حاشیہ الاصابہ جلد 4 ص 225 ابن سعد جلد 3 ص 55 ابن ہشام جلد 1 ص 343 مستدرک حاکم ج 4 ص 46 -8 البدایہ والنہایہ جلد 3 ص 66 ، 67 -9 -10 مجمع الزوائد جلد 9 ص 80 ابن سعد جلد 3 ص 55 ، 56 11 بخاری کتاب الوصایا باب اذا وقف ارضا 12 - بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان -13 ابن سعد جلد 3 ص 56 ، استیعاب جلد 3 ص 156 مجمع الزوائدج 9 ص 86 87 -14 -15 -16 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان 17 - ترندی کتاب المناقب باب مناقب عثمان ابن سعد جلد 3 ص 61 تا 63 -18 -19 -20 -21 -22 ابن سعد جلد 3 ص71،68،67 اصا به جز 4 ص 223 ابن سعد جلد 3 ص64 ترندی کتاب المناقب باب مناقب عثمان

Page 114

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 100 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان -23 -24 -25 -26 -27 -28 -29 -30 -31 -32 -33 -34 -35 -36 -37 -38 -39 -40 -41 -42 -43 -44 -45 -46 -47 -48 -49 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عثمان مجمع الزوائد جلد 9 ص 90 اسدالغابہ جلد 3 ص376 ریاض النضرہ جلد 2 ص 128 ابن سعد جلد 3 ص71،70 ابن سعد جلد 3 ص 72،71 ابن سعد ج 3 ص 74 اسد الغابہ جلد 2 ص 384 الریاض النضرہ جلد 2 ص 133 ، استیعاب جلد 3 ص 159 ابن سعد ج 3 ص 58 مجمع الزوائد جلد 9 ص 80، ابن سعد جلد 3 ص 54 ابن سعد جلد 3 ص54 تا 58 ابن سعد جلد 3 ص 76 ابن سعد جلد 3 ص 57 مجمع الزوائد جلد 9 ص 81 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان مجمع الزوائد جلد 9 ص82 ابن سعد جلد 3 ص 59 استیعاب جلد 1 ص 62 تا 64 ، مسند الرویانی جز 2 ص 254 ابن سعد جلد 3 ص60 ابن سعد جلد 3 ص69 کنز العمال جلد 3 ص 320 صفة الصفوة جلد 1 ص 116 حياة الصحابه جلد 2 ص 368 الریاض النضرہ جلد 2 ص 111 50- مسند الشافعی ص 47 51 - مجمع الزوائد جلد 9ص86

Page 115

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -52 اسد الغابہ ج 3 ص 383 101 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ -53 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان و عفوا سیدی عثمان ، ص54 54- نسائی کتاب الاحباس باب وقف المساجد 55 - مجمع الزوائد جلد 9ص86 56- مجمع الزوائد جلد 9 ص 85 -57 -58 -59 -60 -61 ابن سعد جلد 3 ص74 ابن سعد جلد 3 ص70 اصا به جز 4 ص 223 اصا به جز 4 ص 223 خلاصتہ الوفاءص 124 ، سيرة الصحابہ حصہ اول ص 228 62 - بخاری فضائل القرآن باب جمع القرآن -63 -64 انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ قرآن سر الخلافہ ص 14,13 روحانی خزائن جلد 8 ص 326 ، 327

Page 116

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 102 حضرت علی رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت علی درمیانہ قد ، سیاہ آنکھیں حسین چہرہ جیسے چودہویں کا چاند ، لمبی گردن فربہ جسم، چوڑے کندھے یہ تھے حضرت علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم خاندان بنی ہاشم کے چشم و چراغ.والد کا اصل نام عبد مناف اور کنیت ابو طالب تھی.والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں.حضرت علی کی کنیت ابوالحسن تھی.بعثت نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئے.(1) خاندان بنی ہاشم کو خانہ کعبہ کی خدمت کی سعادت حاصل تھی.اور اس لحاظ سے وہ تمام عرب میں مذہبی لیڈر سمجھے جاتے تھے.ابوطالب حضرت علی کے والد رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا تھے.انہوں نے آنحضرت کی پرورش کمال محبت اور شفقت سے کی بلکہ دعوی رسالت کے بعد جب کفار قریش کی مخالفت کا آغاز ہوا.ابو طالب نے رسول اکرم ﷺ کی حمایت کا بیڑا اٹھایا اور ہمیشہ آپ کے سامنے سینہ سپر رہے.خاندان ابو طالب تین سال تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور رہ کر دشمنان اسلام کا تختی مشق ستم بنتا رہا.عام روایات کے مطابق ابو طالب کو قبول اسلام کے برملا اظہار کی تو فیق نہیں ملی.مگر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ سچا جانا اور آپ کا ساتھ دیا.(2) ابوطالب کا اظہار صداقت ایک دفعہ ابوطالب نے اپنی بیماری میں رسول اللہ وے سے خواہش کی کہ اپنے اس رب سے دعا کریں کہ وہ مجھے اچھا کر دے.رسول اللہ ﷺ نے دعا کی جس سے ان کو فوری افاقہ ہوا.اس پر ابوطالب بے اختیار کہ اُٹھے ”اے محمد واقعی تجھے تیرے رب نے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور آپ بھی اے چا اللہ کی اطاعت کریں گے وہ بھی آپ کی 66 مانے گا.‘ (3) پھر ابوطالب نے جس جرات جواں مردی اور استقلال سے رسول کریم اللہ کی نصرت

Page 117

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 103 حضرت علی رضی اللہ عنہ حمایت کی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا.بلکہ ان کا نام ہمیشہ احسان مندی کے جذبات کے ساتھ یا درکھا جائے گا.حضرت علی کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد نے شفیق ماں کی طرح رسول اکرم ﷺ کی پرورش فرمائی تھی.انہیں نہ صرف قبول اسلام بلکہ ہجرت مدینہ کی بھی سعادت نصیب ہوئی.مدینہ میں ہی انہوں نے وفات پائی.رسول اللہ ﷺ نے اپنا قمیص مبارک ان کے کفن کے لئے عطا کیا اور فرمایا د میں ابو طالب کے بعد اس نیک سیرت خاتون کا ممنون احسان ہوں.“ قبول اسلام حضرت علی ابھی کم سن بچے تھے جب ان کے والد ابوطالب کو ایک بڑا کنبہ پالنے کا بوجھ اور تنگی اُٹھانی پڑی.آنحضرت ﷺ نے اپنے پیارے چا کا ہاتھ بٹانے کی خاطر حضرت علی کی کفالت اپنے ذمے لے لی.اور یوں حضرت علی شروع ہی سے آنحضرت ﷺ کے زیر تربیت آگئے.وہ دس سال کے ہوئے تو رسول اکرم ﷺ نے دعوی نبوت فرمایا.ایک دفعہ حضرت علیؓ نے آپ کو حضرت خدیجہ کے ساتھ عبادت کرتے دیکھا تو پوچھا کہ آپ کیا کر رہے تھے.آنحضرت ﷺ نے اپنے منصب نبوت کا ذکر کرتے ہوئے کفر و شرک کی تردید کی اور حضرت علی کو دعوت اسلام دی.حضرت علی تو پہلے ہی آپ کے فیض تربیت اور صحبت سے منور ہو چکے تھے.فوراً اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی.یوں تبلیغ کے عام اعلان سے پہلے بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی کو قبولیت اسلام کا شرف حاصل ہوا.اس وقت ان کی عمر 10 سے 15 برس تھی.فرماتے تھے کہ میں پہلا مرد ہوں جس نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے.(4) تائید حق اور دعوت الی اللہ چوتھے سال نبوت میں رسول کریم ﷺ کو رشتہ داروں کو ہوشیار کرنے کا حکم ہوا تو آپ نے حضرت علی کو ارشاد فرمایا کہ اپنے خاندان تک پیغام اسلام پہنچانے کے لئے ایک دعوت طعام کا اہتمام کریں.حضرت علی نے بکری کے پایوں کے سالن اور دودھ کا انتظام کیا اور خاندان کے چالیس

Page 118

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 104 حضرت علی رضی اللہ عنہ افراد کو اس دعوت پر بلایا گیا.دعوت کے بعد آنحضرت عمﷺ نے خاندان بنی مطلب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ” خدا کی قسم میں تمہارے سامنے دنیا و آخرت کی بہترین نعمت پیش کر رہا ہوں.کون ہے جو اس کام میں میرا معاون اور مددگار ہو گا ؟“ اس وقت خاندان میں سے کسی اور کو تو تو فیق نہ ہوئی ،مگر یہ کم سن بچہ کھڑا ہوا، جس کی آنکھوں سے آشوب چشم کی وجہ سے پانی بہ رہا تھا، مگر کمال ہمت وعزم سے اس نے کہا یا رسول اللہ ہر چند کہ میں کمزور اور ناتواں ہوں میں اس راہ میں آپ کی مدد کے لئے حاضر ہوں.“ رسول اللہ نے آپ کو بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور اپنے رشتہ داروں کے مجمع کے سامنے پھر یہی سوال دہرایا ، دوسری دفعہ پھر حضرت علی کے سوا کوئی اور نہ اُٹھا.تیسری مرتبہ بھی جب حضرت علی نے ہی نہایت دلیری اور جانبازی کے ساتھ اپنی خدمات اسلام کی تائید کے لئے پیش کر دیں تو رسول اللہ بہت خوش ہوئے.(5) حضرت علی کی فدائیت اور جانثاری حضرت علیؓ نے زندگی بھر اس تعلق کا حق خوب ادا کیا.چنانچہ اہل مکہ نے باہم مشورہ کر کے جب رسول اکرم کے گھر پر حملہ آور ہو کر آپ کو قید کرنے یا قتل کا منصوبہ بنایا.تو وحی الہی سے آپ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہو گئی.ہجرت مدینہ کا حکم ہوا تو حضور ﷺ نے احتیاطی تدبیر کے طور پر حضرت علی کو اپنے بستر پر استراحت کا حکم دیا.حضرت علی رسول اللہ ﷺ کی سرخ چادر اوڑھ کر لیٹ گئے.(6) تاکہ دشمنوں کو آپ کے مکہ چھوڑنے کا علم نہ ہو.ساری رات مشرکین نے حضرت علی کو نبی کریم ﷺ سمجھ کر حراست میں لئے رکھا.صبح وہ آپ کو گرفتار کرنے کے لئے لیکے تو آپ کی جگہ حضرت علی کو دیکھ کر سخت مایوس ہوئے.(7) اس دوران حضرت علی پر اسی طرح سنگ باری کی جاتی رہی جس طرح رسول اللہ ہے پر سنگباری کی جاتی تھی.(8) علی الصبح جب مشرکین نے رسول اللہ اللہ کی جگہ حضرت علی کو پایا تو پہلے ڈانٹ ڈپٹ کر آپ سے رسول اللہ ﷺ کا اتہ پتہ پوچھتے رہے.انہیں زدوکوب بھی کیا.پکڑ کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور کچھ دیر محبوس رکھا.جب حضرت علی نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ پرنگران نہیں تھا.تم نے انہیں مکہ

Page 119

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 105 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکل جانے کا کہا اور وہ چلے گئے تب کہیں آپ کی جان چھوٹی.(9) حضرت علی کا بائیس سال کی عمر میں رسول کریم ﷺ کی خاطر اپنی جان کو یوں خطرے میں ڈالنا ان کے اخلاص و فدائیت کو خوب ظاہر کرتا ہے.انہیں بجاطور پر حفاظت و خدمت رسول کی اپنی اس سعادت پر فخر تھا اپنے منظوم عربی کلام میں کیا خوب فرماتے ہیں:.وَقَيْتُ بِنَفْسِي خَيْرَمَنُ وَطِئَ الحَصَا وَمَن طاق بالبَيتِ العَتِيقِ وَبِالحَجَر وَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ فِي الغَارِ آمِنًا مُوقى وَفِي حِفظ الالهِ وَفِي سِتر وَبِتُ أَرَاعِيهِم وَلَم يَتِهِـمُـونِـــى وَقَد وَطَّنتُ نَفْسِى عَلَى القَتْلِ وَالأَسرِ یعنی میں نے اپنی جان فدا کر کے وادی بطح پر قدم رنجا فرمانیوالی بہترین ہستی کی حفاظت کی.ہاں اس وجود کی جو بیت اللہ اور حجر کا طواف کیا کرتا تھا.خدا کے رسول نے غار ( ثور) میں بے خوف کفار سے بیچ کر اللہ کی حفاظت وامان میں رات بسر کی.اور میں نے دشمن کی نگرانی کرتے ہوئے رات گزار دی اس طرح ( نڈر ہوکر ) کہ وہ مجھ پر کوئی تہمت نہیں لگا سکے.دراں حالیکہ میں نے اپنے آپ کو قتل اور قید کے لئے تیار کر لیا تھا.رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت علی دو تین روز کے بعد اہل مکہ کی امانتیں لوٹا کر ہجرت کر کے مدینہ آئے اور نبی کریم کے ساتھ فروکش ہوئے.سفر ہجرت میں بھی بہت تکلیف اٹھائی راتوں کو سفر کرتے اور دن چھپ کر گزارتے ، پیدل چلنے سے پاؤں زخمی ہو گئے مدینہ پہنچے تو رسول اللہ اللہ انہیں دیکھ کر رو پڑے اور گلے لگالیا.(10) رسول کریم ﷺ نے مکہ میں مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کرتے ہوئے اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں مواخات کے موقع پر حضرت علی کو اپنا بھائی اور ساتھی قرار دیتے ہوئے فرمایا تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو.(11)

Page 120

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 106 حضرت علی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شرکت اور بہادری بدر کا معرکہ پیش آیا تو رسول اکرم ۳۱۳ جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ سے نکلے آگے آگے دو علم تھے.ایک جھنڈا حضرت علی کے ہاتھ میں تھا.(12) بدر کے قریب پہنچے تو رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی کی سرکردگی میں ایک دستہ دشمن کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے روانہ فرمایا.انہوں نے نہایت حکمت عملی کے ساتھ یہ خدمت سر انجام دی.۷ ارمضان المبارک کو مسلمان اور کفار میدان بدر میں آمنے سامنے ہوئے.سردارانِ قریش نے مبارزت طلب کی پہلے تین انصاری مقابلے کے لئے نکلے.قریش نے مطالبہ کیا کہ ہمارے ہم پلہ قبیلہ قریش کے مردوں کو مد مقابل لایا جائے.تب رسول اللہ علیہ نے فرمایا کھڑے ہو جاؤ اے حمزہ اور اے علی تم مقابلہ پر نکلو.“ الله حضرت علی سفید پچکے میں نمایاں تھے.ارشاد رسول کی تعمیل میں یہ سر بکف جوان میدان میں اتر کر اپنے شکار پر جھپٹا.اپنے حریف ولید کا ایک ہی وار میں خاتمہ کر دیا پھر عبیدہ کی مددکو بڑھے اور ان کے حریف شیبہ کو بھی ختم کر کے دم لیا.جب مشرکین نے اپنے سرداروں کو یوں قتل ہوتے دیکھا تو مسلمانوں پر عام حملہ کر دیا.اس موقع پر شیر خدا حضرت علیؓ نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمنوں کی صفوں کی صفیں الٹ کر رکھ دیں.روایت ہے کہ حضرت علی بہادر سورما کی طرح دشمن کی صفوں پر ٹوٹے پڑتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اب یہ واپس مکہ جا کر وہاں کی کھجور میں کبھی نہ کھائیں گے.سرولیم میور نے حضرت علی کی اس بہادرانہ شان کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے کہ ” میدان بدر میں علی اپنے لمبے اور سرخ پھر میرے کے ساتھ اور زبیر اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادران الیڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے.دشمن کے واسطے گویا موت و پریشانی کا سامان ساتھ لے جاتے تھے.یہ وہ نظارے تھے جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیر ہوئے.‘ (13) حضرت فاطمہ سے شادی ۲ ہجری میں حضرت علی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حضرت فاطمہ سے عقد کی

Page 121

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 107 حضرت علی رضی اللہ عنہ درخواست کی جسے حضور ﷺ نے بخوشی قبول فرمایا.حضرت علی نے حق مہر میں اپنی ایک اونٹنی مالیتی 480 درہم اور زرہ مالیتی 20 در ہم کل پانچ صد در ہم پیش کی.نبی کریم نے ہدایت فرمائی کہ اس رقم کا ایک حصہ خوشبو وغیرہ کے لئے ، دوسراحصہ کپڑوں کے لئے اور تیسرا حصہ دیگر اخراجات میں صرف ہو.(14) اس با برکت نکاح کا اعلان خود درسول کریم ﷺ نے فرمایا جس میں مہاجرین وانصار کے بزرگ شامل ہوئے.رسول کریم علیہ نے خطبہ میں اللہ کی حمد کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح فرض قرار دیا ہے اور اس کے ذریعہ رحمی رشتے قائم فرمائے ہیں.قضاء وقدر کے مضمون کی طرف اہم اشارے فرما کر آپ نے اعلان نکاح فرمایا.حضرت علیؓ سے رضا مندی لی پھر چھوہاروں کا ایک طشت تقسیم کروایا اور حضرت علی اور فاطمیہ کو نیک نسل کی دعا دی.اور حضرت فاطمہ سے فرمایا تمہارا شوہر دنیا و آخرت میں سردار ہوگا یہ میرے اولین صحابہ میں سے اور علم وحلم میں دوسروں سے بڑھ کر ہیں.حضرت اسمائلا بنت عمیس کہتی تھیں کہ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب رسول کریم ان دونوں کیلئے بوقت رخصتی خاص دعا کر رہے تھے.(15) رسول پاک ﷺ نے دونوں میاں بیوی پر اپنے وضو کا پانی چھڑک کر دعائے خیر دی.حضرت فاطمہ کو آنحضرت نے نہایت سادگی سے رخصت فرمایا.گھریلو ضرورت کی چند چیزیں چارپائی بستر چادر آٹے کی چکی پیالہ اور چھانی ،مشکیزہ اور دو گھڑے ساتھ دئے.یہ تھی بوقت شادی سرکار دو عالم کی صاحبزادی کی کل کائنات.حضرت علی کی زندگی بھی درویشانہ تھی.دعوت ولیمہ تک کے لئے پاس کچھ نہ تھا.چنانچہ جنگل سے گھاس کاٹ کر شہر میں بیچی اور ولیمے کے لئے رقم اکٹھی کرنے کا ارادہ کیا.مگر جب یہ بھی ممکن نہ ہوا تو خود رسول کریم ہے، حضرت سعد اور بعض اور صحابہ کی اعانت سے پروقار ولیمہ کی تقریب ممکن ہوئی.جو کھجور منقہ جو کی روٹی پنیر اور شور بے کی دعوت تھی.اس زمانے کے اقتصادی حالات اور غربت و سادگی کا اندازہ حضرت اسماء کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے.آپ فرماتی تھیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا.(16) ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے تو سینے

Page 122

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 108 حضرت علی رضی اللہ عنہ میں درد ہونے لگا ہے.آپ کے ابا کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں، جا کر درخواست کرو کہ ہمیں بھی ایک خادم عطا ہو.فاطمہ کہنے لگیں خدا کی قسم ! میرے تو خود چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گئے پڑگئے ہیں.چنانچہ وہ نبی کریم کے پاس آئیں.آپ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا کہ سلام عرض کرنے آئی ہوں.پھر انہیں حضور ﷺ سے کچھ مانگتے ہوئی شرم آئی اور واپس چلی گئیں.حضرت علیؓ نے پوچھا کہ کیا کر کے آئی ہو؟ وہ بولیں کہ میں شرم کے مارے کوئی سوال ہی نہیں کرسکی.تب وہ دونوں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی خدمت میں اپنا حال زار بیان کر کے خادم کے لئے درخواست کی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم! میں تمہیں دے دوں اور اہل صفہ (غریب صحابہ ) کو چھوڑ دوں؟ جو فاقہ سے بے حال ہیں اور ان کے اخراجات کے لئے کوئی رقم میسر نہیں.ان قیدیوں کو فروخت کر کے میں ان کی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا.یہ سن کر وہ دونوں واپس گھر چلے گئے.رات کو نبی کریم ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے.وہ اپنے کمبل میں لیٹے ہوئے تھے.رسول اللہ ع کو دیکھ کر وہ اُٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا.اپنی جگہ لیٹے رہو.پھر فرمایا جو تم نے مجھ سے مانگا کیا میں اس سے بہتر چیز تمہیں نہ بتاؤں؟ انہوں نے کہا ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا یہ چند کلمات ہیں جو جبریل نے مجھے سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ احمد اللہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو.جب رات بستر پر جاؤ تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو.حضرت علیؓ فرماتے تھے جب سے رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ کلمات سکھائے میں انہیں آج تک پڑھنا نہیں بھولا.کسی نے تعجب سے پوچھا کہ جنگ صفین کے ہنگاموں میں بھی نہیں بھولے؟ کہنے لگے ہاں جنگ صفین میں بھی یہ ذکر الہی کرنا میں نے یادرکھا تھا.نبی کریم نے ایک اور صحابی کو یہی تسبیحات سو کی تعداد میں پڑھنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ اس تسبیح کی برکت تمہارے لئے سوغلاموں سے بڑھ کر ہے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم علیہ رات کو ہمارے گھر تشریف لائے مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لئے بیدار کیا.پھر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے کچھ دیر نوافل ادا کئے.اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو نماز

Page 123

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 109 حضرت علی رضی اللہ عنہ پڑھو.حضرت علی کہتے ہیں میں آنکھیں ملتا ہوا اُٹھا اور بڑ بڑاتے ہوئے کہ بیٹھا ”خدا کی قسم ! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں.ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اُٹھادے.رسول کریم ﷺے واپس لوٹے.آپ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی وَكَانَ الْإِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا “ (الكيف: 55) کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے.نبی کریم ﷺ نے حضرت علی اور ان کے خاندان کو اہل بیت میں سے قرار دیا، انکے لئے دعائیں کیں ان کی اعلیٰ تربیت کی اور نیک تو قعات رکھیں.روایت ہے کہ نبی کریم کے چھ ماہ تک فجر کی نماز کے وقت حضرت فاطمہ کے دروازے کے پاس گزرتے ہوئے فرماتے رہے.”اے اہل بیت ! نماز کا وقت ہو گیا ہے اور پھر سورہ احزاب کی آیت:33 پڑھتے کہ ” اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے.“ رسول کریم ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میں تجھے ایسے دعائیہ کلمات نہ سکھاؤں جو تم پڑھو تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت تمہیں نصیب ہو جائے.انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا یہ كلمات لا إلهَ إِلَّا الله العليم العَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ العَلِيُّ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ (17) یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ حلم والا اور جاننے والا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بہت بلند اور عظیم ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمانوں اور عظیم عرش کا رب ہے.غزوہ احد میں داد شجاعت بدر کے بعد معرکہ احد میں بھی شیر خدا حضرت علیؓ نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.جب مشرکین نے دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کیا اور اسلام کے علمبر دار مصعب بن عمیر شہید ہو گئے اس بھگدڑ میں کئی اصحاب کے پاؤں اکھڑ گئے.حضرت علی ان میں تھے جو ثابت قدم رہے.آپ نے موت

Page 124

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 110 حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ کی بیعت کی اور آگے بڑھ کر اسلامی جھنڈا سنبھالا.اور نہایت بے جگری سے لڑے.(18) مشرکین کے علمبر دار سعد بن ابوطلحہ نے حضرت علی کو للکارا.انہوں نے آگے بڑھ کر ایساوار کیا کہ وہ زمین پر ڈھیر ہو کر تڑپنے لگا.حضرت علی نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبرداروں کو تہ تیغ کیا.رسول اللہ نے کفار کی ایک جماعت دیکھ کر حضرت علی گوان پر حملہ کرنے کا ارشاد فرمایا.حضرت علی نے عمرو بن عبداللہ تھی کو قتل کر کے انہیں منتشر کر دیا.پھر کفار کے دوسرے دستہ پر حملہ کرنے کا حکم فرمایا اور علی نے شیبہ بن مالک کو ہلاک کیا.رسول اللہ ﷺکے فرمایا ہاں علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں.اس موقع پر بھی آواز سنی گئی کہ لا فتى إِلَّا عَلى لَا سَيفَ إِلَّا ذُو الفِقَارِ.کہ ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان مرد نہیں.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ احد میں بھگڈر کے بعد مجھے رسول اللہ علہ نظر نہ آئے.میں نے مقتولین کی نعشیں بھی دیکھ ڈالیں جب آپ گونہ پایا تو دل میں کہا کہ خدا کی قسم رسول اللہ بھاگنے والے تو نہیں اور نہ ہی مقتولین میں ہیں.معلوم ہوتا ہے خدا نے ہم سے ناراض ہو کر انہیں اٹھا لیا ہے.اب تو بہتر یہی ہے کہ میں لڑ کر جان دے دوں.چنانچہ میں نے لڑتے لڑتے تلوار کا اگلا سرا تو ڑ دیا.پھر حملہ کر کے آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ علیہ دشمن کے عین درمیان تھے.حضرت علی نے غزوہ احد سے واپسی پر اپنی تلوار حضرت فاطمہ کے سپرد کی اسے سنبھال رکھیں آج یہ جنگ میں خوب کام آتی ہے.رسول اللہ ﷺ نے سن کر فرمایا ہاں! اے علی ! آج آپ نے بھی خوب تلوار زنی کی ہے ،مگر فلاں صحابہ نے بھی کمال کر دکھایا.(19) مشرکین کے حملے کا زور ٹوٹا تو حضرت علی چند صحابہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کواحد پہاڑ کے دامن میں لے گئے.حضور کا چہرہ خون آلودہ تھا.آپ اپنی زرہ میں پانی بھر بھر لاتے اور حضرت فاطمہ آنحضرت ﷺ کے زخم مبارک دھوتیں پھر بھی خون بند نہ ہوا تو چٹائی جلا کر اس کی راکھ حضرت فاطمہ نے زخم میں ڈالی اور تب جا کر کہیں خون بند ہوا.غزوہ خندق میں

Page 125

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 111 حضرت علی رضی اللہ عنہ ۵ ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا.اس دوران میں ایک بار دشمن کے سواروں نے عرب کے مشہور اور بہا در پہلوان عبدوڈ کی سرکردگی میں خندق پار کر کے حملے کی کوشش کی.عبدو ڈ اسلحہ سے لیس اور زرہ بند ہو کر مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے للکارنے لگا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر آئے.حضرت علی اٹھے تو رسول اللہ ﷺ نے روک لیا.اس نے دوبارہ اور سہ بارہ للکارا تو حضرت علی پھر اٹھے.رسول اللہ علیہ نے فرمایا علی ! یہ عرب کا مشہور پہلوان عمر و بن عبدود ہے.حضرت علی نے کہا پرواہ نہیں اور پھر بہادرانہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھے.اس نے پوچھا تم کون ہو؟ کہا علی بن ابی طالب.اس نے کہا تمہارے چچاؤں میں سے کوئی تم سے بڑا مقابلہ پر آتا تو بہتر تھا.حضرت علیؓ نے مقابلہ پر آکر اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ سنا ہے تم نے عہد کر رکھا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تمہیں دوباتوں میں سے ایک قبول کرنے کے لئے کہے تو تم ضرور اسے قبول کرو گے.اس نے کہا ہاں.حضرت علیؓ نے کہا تو پھر میں پہلے تمہیں قبول اسلام کی دعوت دیتا ہوں.اس نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں.حضرت علیؓ نے کہا پھر آؤ مقابلہ کر لو.وہ بولا.بھتیجے! خدا کی قسم میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا.حضرت علی نے کہا مگر میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں اس پر عمر و کو سخت طیش آیا وہ گھوڑے سے اتر کر حضرت علیؓ کے مقابلہ کے لئے بڑھا.اس کی تلوار سے جیسے آگ کے شعلے نکل رہے تھے.وہ غضبناک ہو کر حضرت علی پر لپکا.وہ اپنی ڈھال کے ساتھ آگے بڑھے.عمرو کی تلوار کا وار انہوں نے ڈھال سے روکا.جو دوٹکڑے ہو کر رہ گئی.حضرت علی کے سر میں کچھ زخم آیا.انہوں نے عمرو کو کندھے پر تلوار ماری.وہ بڑے زور سے کٹ کر زمین پر گر پڑا تو غبار اٹھی.حضرت علی نے نعرہ تکبیر بلند کیا.رسول اللہ علیہ سمجھ گئے کہ انہوں نے دشمن کا کام تمام کر دیا ہے.ان کی اس کامیابی پر رسول اللہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا.حضرت عمر نے کہا اے علی ! اس پہلوان کی زرہ ہی اتار لیتے کہ وہ عرب کی بہترین زرہ استعمال کرتا تھا.حضرت علیؓ نے کہا میرے مد مقابل کی پشت عریاں ہوگئی تھی جس کے بعد اس کی زرہ اتارتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوئی.معرکہ خندق میں عبدود کا قتل ہونا ایک بڑی زبردست کامیابی تھی جس کے نتیجے میں باقی حملہ آور مرعوب ہوئے اور بالآخر پسپا ہوئے.قبائل یہود بنو نضیر اور بنوقریظہ کے اخراج اور ان کے حریف

Page 126

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 112 حضرت علی رضی اللہ عنہ بنو سعد کی سرکوبی میں بھی حضرت علیؓ نے نمایاں اور اہم کردارادا کیا.غزوہ بنوقریظہ میں حضرت علی پہلے موقع پر پہنچ گئے تھے.یہود نے رسول اللہ ﷺ اور ازواج مطہرات کے خلاف نازیبا ہرزہ سرائی شروع کر رکھی تھی.حضرت علی نے لوائے جنگ حضرت ابوقتادہ کے سپرد کر کے رسول اللہ ﷺ سے جا کر عرض کیا کہ آپ ان ناپاک لوگوں کے قریب نہ جائیں.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں خدشہ ہے کہ وہ بدزبانی کریں گے.‘ عرض کیا جی ہاں.فرمایا 6 مجھے دیکھ کر وہ یہ جرأت نہیں کر سکتے.‘ (20) حدیبیہ میں شرکت ہجری میں صلح حدیبیہ میں بھی حضرت علی رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ اور بیعت رضوان میں بھی شریک تھے.صلح نامہ بھی آپ نے ہی تحریر فرمایا.اس موقع پر آپ کی ایمانی غیرت کا نظارہ قابل دید تھا.جب معاہدہ میں رسول اللہ علیہ کے الفاظ لکھے جانے پر کفار نے اعتراض کیا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول نہیں مانتے اس لیے یہ الفاظ معاہدہ سے حذف کیے جائیں.رسول اللہ ہے نے قیام صلح اور امن کی خاطر یہ شرط مان لی تو حضرت علیؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ علے میں اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹانے کی جرات نہیں کر سکتا.رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے لفظ رسول اللہ یہ معاہدہ سے حذف کیا.(21) فاتح خیبر حضرت علی شیر خدا کو فاتح خیبر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے.خیبر کی طرف اچانک پیش قدمی سے یہود سراسیمہ ہو کر محصور ہو گئے.رسول اللہ ﷺہ روزانہ ایک شخص کو قائد لشکر مقرر فرماتے اور یہودیوں پر بھر پور حملہ کیا جاتا.وہ قلعے سے باہر آ کر لڑتے اور جب پسپا ہوتے تو قلعہ کے دروازے بند کر لیتے یوں خیبر کی فتح ایک معمہ بن گئی.محاصرہ خیبر کی ساتویں رات تھی رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ کل میں جس شخص کو قائد مقرر کر کے جھنڈا عطا کروں گا، خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ پر خیبر کوضرور فتح کرائے گا.وہ صحابہ جنہیں کبھی قیادت کی طلب نہیں ہوئی

Page 127

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 113 حضرت علی رضی اللہ عنہ تھی ، اس رات یہ تمنا کر رہے تھے کہ خیبر کی فتح کی سعادت انہیں عطا ہو جائے پھر اگلی صبح لوگوں نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ رسول اللہ نے علم لشکر حضرت علی کو عطا فر مایا وہ آشوب چشم کے مریض تھے.رسول کریم ﷺ نے اپنا لعاب دہن اُن کی آنکھوں پر لگایا اس سے وہ اچھے ہو گئے.حضرت علیؓ فرماتے تھے اس کے بعد کبھی مجھے آشوب چشم کی تکلیف نہیں ہوئی.حضرت علی معلم لے کر خیبر فتح کرنے کے لئے نکلے.اللہ تعالیٰ نے بالآخر آپ کے ہاتھ پر خیبر کی فتح کی بنیادرکھ دی.ہر چند کہ اس فتح میں رسول اللہ ﷺ کی خاص توجہ دعاؤں، قائدانہ صلاحیتیوں کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کی بدولت فتح کی رات حضرت عمرؓ نے گشتی پہرے کے دوران یہود کے کچھ جاسوس پکڑے تھے.جن سے علاوہ جنگی رازوں کے درونِ خانہ دشمن کے کئی کمزور پہلو بھی سامنے آئے.مسلمانوں کے حوصلے اس سے بہت بڑھ گئے.اگلے روز حضرت علی معلم جنگ لے کر میدان میں نکلے.پہلے یہود خیبر کا سب سے بڑا پہلوان مرحب آپ کے مقابلہ کے لئے آیا.اس نے بڑے تکبر سے رجزیہ شعر پڑھے.عَلِمَت خَيْبَرُ أَنِّي مَرحَبْ شاكِي السَلاحَ بَطَلَ مُجَرَّبُ کہ وادی خیبر کو علم ہے کہ میں مرحب سردار ہوں اسلحہ سے لیس ایک تجربہ کار پہلوان.جواب میں حضرت علی نے بڑی شان کے ساتھ جوابا یہ شعر پڑھے.اَنَا الَّذِي سَمَّتَنِي أُمِّي حَيدَرَه ضِرِ غَامُ آجَامٍ وَلَيْثٍ قَسَوَرَة کہ میں بھی وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حید ر رکھا ہے اور میں نر شیر کی طرح حملہ آور ہوتا ہوں.یہ کہہ کر حضرت علیؓ آگے بڑھے اور مرحب کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کا کام تمام کر دیا.اس کے بعد حضرت علی یہود کی صفیں پسپا کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کے آہنی دروازوں تک پہنچ گئے.خطرہ تھا کہ یہود حسب معمول اپنے آہنی دروازے بند کر لیتے اور ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑتا لیکن حضرت علی نے نہایت حکمت عملی سے آگے بڑھ کر بڑے گیٹ کو اپنے ایک ہاتھ سے پوری قوت سے پکڑے رکھا تا کہ یہودا سے بند نہ کر پائیں.دوسرے ہاتھ سے وہ دشمن کا مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے پیچھے آنے والے اسلامی لشکر کو قلعہ خیبر میں داخلے کا موقع مل گیا.یوں خیبر کی عظیم الشان فتح کا آغاز ہو گیا.اس کے بعد باقی قلعے آسانی سے فتح ہوتے

Page 128

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے.114 حضرت علی رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر بھی مسلمانوں کی خاموش پیش قدمی کا راز افشاء ہونے کا اندیشہ ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس قاصد عورت کو گرفتار کرنے کے لئے جو ایک خط لے کر کفار مکہ کی طرف جارہی تھی حضرت علی کی سرکردگی میں ایک دستہ روانہ فرمایا.آپ اپنی اس مہم میں بھی نہایت کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے.غزوہ حنین ایک عظیم الشان معرکے کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی تو وہ مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہو گئے.دشمن کے تیرانداز مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے.اس افراتفری کے عالم میں بارہ ہزار کے لشکر میں سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو چند بہادر ثابت قدم رہے.ان میں حضرت علیؓ نمایاں تھے.جنہوں نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے امیر لشکر پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کر دیا.اور یوں دیگر مجاہدین اسلام کے ساتھ مل کر دشمن کے لئے شکست کے سامان پیدا کر دیئے.۹ ہجری میں رسول اللہ ﷺ ہو نے غزوہ تبوک کا قصد فر مایا تو حضرت علی کو امیر مدینہ مقررفرما کر اہل مدینہ کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کے سپر دفرمائی.حضرت علی کو ایک طرف شرکت جہاد کی محرومی کا غم تھا تو دوسری طرف منافقین کے طعنوں سے رنجیدہ خاطر تھے کہ آپ عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑے جارہے ہیں.تب رسول پاک ﷺ نے ان خوبصورت الفاظ میں آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا.اَمَاتَرضى أن تَكُونَ مِنّى بِمَنزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسَى ---الخ کہ اے علی کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میری تجھ سے وہی نسبت اور قدرومنزلت ہو جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک تھی.البتہ تم میرے بعد نبی نہیں ہو گے.دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے بعد نبی کوئی نہیں ہو سکتا.اس سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میری عدم موجودگی میں تم بطورا میر محض میرے جانشین ہو گے لیکن نبی نہیں ہو گے.(22) اعلان برات غزوہ تبوک سے واپسی پر 9 ہجری میں رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق کو امیر حج

Page 129

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 115 حضرت علی رضی اللہ عنہ مقررفرمایا اس دوران سورۃ برات نازل ہوئی.جسے سورۃ تو یہ بھی کہتے ہیں.رسول کریم نے حضرت علی کو ارشاد فرمایا کہ وہ حضور کی نمائندگی میں مکے جا کر سورۃ سنائیں اور اس کے احکام کا اعلان عام کردیں.حضرت علیؓ نے اس کی تعمیل کی اور یہ آپ کی عظیم الشان سعادت تھی جو رسول اللہ ﷺ کی انتہائی قرابت کے علاوہ آپ کا دینی مرتبہ بھی خوب ظاہر کرتی ہے.(23) یمن میں خدمات ۹ ہجری میں حج سے واپسی کے بعد نبی کریم ﷺ نے مختلف اطراف عرب میں تبلیغی مہمات روانہ فرمائیں.حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ یمن کی طرف حضرت خالد بن ولید کو بھجوایا گیا میں انکے ہمراہ تھا.چھ ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد وہاں دعوت اسلام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی.اس کے بعد حضرت علیؓ کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ فرمایا اور خالد کو واپس بلا لیا.حضرت برا کہتے ہیں میں حضرت علی کے ساتھ رہا.ہم یمن کے قریب پہنچے تو لوگ اکٹھے ہونے شروع ہو گئے.حضرت علیؓ نے فجر کی نماز پڑھائی ، خطاب فرمایا رسول اللہ ﷺ کا پیغام پڑھ کر سنایا اور پورا قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہو گیا.حضرت علی نے رسول اللہ کی خدمت میں یہ لکھا حضور خوشی سے سجدہ میں گر گئے.الغرض تھوڑے ہی عرصے میں رسول کریم ﷺ کے اس تربیت یافتہ داعی الی اللہ نے اپنی تدابیر کے نتیجے میں پورے عمان قبیلے کو مسلمان کر لیا.یمن روانگی کے وقت حضرت علی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے قضا کے بارہ میں کچھ زیادہ علم نہیں.رسول کریم ﷺ نے آپ کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا اے اللہ ! اس کے دل کو ہدایت اور زبان کو سداد عطا کر.حضرت علی کہتے ہیں اس کے بعد کبھی مجھے دو فریق کے تنازعہ میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا.(24) حجۃ الوداع میں شرکت حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علی یمن ہی سے مکہ تشریف لائے.اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس یاد گار آخری حج میں شرکت کی سعادت پائی.احرام باندھتے ہوئے آپ نے نیت بھی کیسی باندھی کہ جو نیت رسول اللہ علیہ کی ہے، اسی کے مطابق میں بھی احرام باندھتا ہوں.رسول

Page 130

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 116 حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کی نیت حج اور عمرہ دونوں کی تھی.حضرت علی کو بھی حج وعمرہ کی توفیق ملی.حجتہ الوداع سے واپسی کے چند ماہ بعد ربیع الاول 11 ہجری میں رسول اللہ ﷺ بیمار ہو گئے.حضرت علی کو تیمار داری اور خدمت کی توفیق ملی.(25) وفات رسول پر حضور ﷺ کے قریب ترین عزیز ہونے کے باعث تجہیز وتکفین کے سب کام حضرت علی کے زیر انتظام سرانجام پائے.خلفائے راشدین کے دور میں خدمات حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو ان کی بیعت کے بعد حضرت علیؓ نے ان کے انصار و اعوان میں شامل ہونے کا شرف حاصل کیا.حضرت عمرؓ اپنے دور خلافت میں اہم کام اور مہمات کے فیصلے حضرت علی کے مشورے سے طے فرمایا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے ایک مجنون عورت کے ہاں چھ ماہ بعد بچے کی ولادت کو نا جائز سمجھ کر رحم کا ارادہ کیا.حضرت علیؓ نے مشورہ دیا کہ قرآن میں حمل اور دودھ چھڑانے کا عرصہ میں ماہ اور دودھ پلانے کا دو سال یعنی چو بیس ماہ مذکور ہے اس لئے اصل مدت حمل چھ ماہ بھی ہو سکتی ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ نے مجنون کو مکلف نہیں ٹھہرایا.اس پر حد جاری نہ ہوگی.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا.‘ (26) حضرت عمرؓ کو جب بیت المقدس کا تاریخی سفر پیش آیا تو مدینہ میں اپنا قائم مقام حضرت علی کو مقرر فرمایا.بعد میں یہ تعلق مضبوط ہو کر قرابت میں بدل گیا.جب حضرت علی کی صاحبزادی ام کلثوم حضرت عمر سے بیاہی گئیں.حضرت عمر نے بھی اس نکاح کا مقصد خاندان اہل بیت سے رشتہ مصاہرت کا اعزاز پانا ہی قرار دیا.حضرت عثمان غنی کے زمانہ خلافت میں حضرت علی ان کے مشیر رہے اور فتنہ دور کرنے کے لئے مخلصانہ مشورے دئے.حضرت عثمان کے استفسار پر حضرت علی نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ ان فتنوں کا ایک اہم سبب اموال کی کثرت ہے جن پر حضرت عمر کی طرح سخت گرفت ہونی چاہیے.حضرت عثمان کے محاصرے کے وقت بھی حضرت علیؓ نے نہایت جرات کے ساتھ محاصرین کو تنبیہ فرمائی کہ تمہارا یہ طریق نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے.مگر شر پسندوں نے آپ کی آواز پر کان نہ دھرا.پھر حضرت علی نے رسول اللہ ﷺ کا عمامہ پہنا اور تلوار ہاتھ میں لی.حضرت

Page 131

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 117 حضرت علی رضی اللہ عنہ حسن اور حضرت ابن عمرؓ آپ کے آگے تھے ، مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے ہمراہ انہوں نے محاصرین پر حملہ کر کے انہیں منتشر کر دیا.پھر حضرت عثمان سے عرض کیا کہ اس معاملہ کا حل ان محاصرین کے مسلح مقابلہ کے سوا کچھ نہیں جو خلیفہ وقت کے قتل کے درپے ہیں.مگر حضرت عثمان نے قسم دے کر فرمایا کہ میں اپنی خاطر کسی مسلمان کا سنگی برابر خون بہانے کی بھی اجازت نہیں دوں گا.حضرت علی نے اپنی رائے پر اصرار کیا تو حضرت عثمان پھر وہی جواب دیا.حضرت شداد بن اوس کہتے ہیں پھر میں نے حضرت علی کو حضرت عثمان کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا وہ کہہ رہے تھے، ”اے اللہ تو جانتا ہے کہ ہم نے اپنی تمام کوششیں صرف کر ڈالی ہیں.پھر وہ نماز کیلئے مسجد نبوی تشریف لے گئے تو ان سے عرض کیا گیا کہ آپ نماز پڑھا دیں.حضرت علیؓ نے فرمایا ایسی حالت میں جبکہ ہمارا امام اور خلیفہ محصور ہے میں تمہیں نماز نہیں پڑھا سکتا.میں اکیلے نماز پڑھ لوں گا.‘“ پھر آپ تنہا نماز پڑھ کر واپس گھر تشریف لے گئے تو صاحبزادے نے جا کر اطلاع دی کہ محاصرین نے قصر خلافت کی دیوار کود کر حملہ کر دیا ہے.حضرت علی نے رنجیدہ خاطر ہو کر کہا ” خدا کی قسم ! وہ انہیں قتل کر کے دم لیں گے.انہوں نے پوچھا حضرت عثمان کا یہ انجام کیسا ہے؟ فرمایا وہ جنت میں خدا کا قرب پانے والے ہیں.جب پوچھا گیا کہ محاصرین کا کیا انجام ہوگا تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا خدا کی قسم وہ آگ میں ہیں.اس کے بعد اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حسین کو بھجوادیا کہ خلیفہ وقت کے پہرے اور حفاظت کی ڈیوٹی انجام دیتے رہیں.(27) انتخاب خلافت حضرت عثمان کی شہادت کے المناک واقعہ کے بعد موجود اصحاب رسول اور دیگر سب لوگوں نے حضرت علی کی بیعت پر اتفاق کا اظہار کیا.آپ نے فرمایا یہ تمہارا حق نہیں ہے بلکہ بدر میں شامل ہونے والے بزرگ صحابہ کا حق ہے.وہ جس شخص کے بارے میں متفق ہونگے وہی خلیفہ ہونا چاہئے.چنانچہ تمام اصحاب بدر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سب آپ کو اس عہدہ کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں.ہاتھ بڑھا ئیں اور ہماری بیعت لیں.حضرت علیؓ نے پوچھا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کہاں ہیں؟ چنانچہ سب سے پہلے حضرت طلحہ نے آپ کی بیعت کی.پھر حضرت زبیر

Page 132

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 118 حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب نے بیعت کی.(28) دور خلافت الغرض مہاجرین اور انصار کے اصرار پر آپ نے یہ ذمہ داری قبول کر لی.حضرت علیؓ کے دور خلافت پر نظر کرتے ہوئے خود حضرت علی کے اس تبصرے کو نہیں بھولنا چاہیے.جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا دور اتنا پر آشوب اور پرفتن کیوں ہے؟ انہوں نے کمال حاضر جوابی سے کیسا مسکت جواب دیا کہ اس سے پہلے محمد اور آپ کے رفقاء کو میرے جیسے خدام میسر تھے.مجھے تمہارے جیسے ساتھی حاصل ہیں.مگر ان ناموافق حالات کے باوجود حضرت علی نے بھر پور کوشش کی کہ خلافت کو استحکام نصیب ہو.اور عدل فاروقی پھر قائم کیا جائے.ایک دفعہ یہود نجران نے ( جن کو حضرت عمرؓ نے جلا وطن کیا تھا) حضرت علیؓ سے واپسی کی اجازت چاہی.آپ نے اجازت نہ دی اور فرمایا حضرت عمر سے بہتر رائے کس کی ہوسکتی ہے؟ حضرت علی قومی اموال کی پوری حفاظت فرماتے اور اس میں کوتاہی پر گرفت کرتے.رعایا کے ساتھ شفقت سے پیش آتے.ان کے لئے ہمیشہ آپ کے دروازے کھلے رہتے.حضرت علی کی دینی خدمات میں سب سے اول دعوت الی اللہ اور مسلمانوں کی مذہبی اور دینی تعلیم ہے.ایک دفعہ ایک ایرانی نے آپ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر کیا خوب کہا تھا کہ خدا کی قسم اس عربی نے تو نوشیرواں کی یاد تازہ کر دی ہے.فضائل حضرت علی نعشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی وہ دس صحابہ جنہیں رسول کریم ﷺ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی.حضرت عمر فر ماتے تھے کہ حضرت علی کے تین فضائل ایسے ہیں کہ مجھے ان کا عطا ہونا سرخ اونٹوں کی دولت سے بھی زیادہ محبوب ہوتا.اول رسول اللہ ﷺ سے دامادی کا شرف دوسرے مسجد میں حضور کے ساتھ ان کا گھر اور تیسرے خیبر میں فتح کا جھنڈا عطا ہونا.(29) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حضرت علی کے فضائل پر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کی انتہائی قرابت اور آپ کے فیض صحبت میں تربیت و پرورش اور حضور ﷺ کی لخت جگر کے ان کے

Page 133

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 119 حضرت علی رضی اللہ عنہ عقد کی اہمیت کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ ان فضائل میں کوئی صحابی بھی حضرت علی کا ہم پلہ نہیں ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو میں پیارا ہوں اسے علی بھی پیارا ہے.اے اللہ! جوعلی گو دوست رکھے اسکا دوست اور اس کے دشمن کا دشمن ہو جا.اس کی مدد کرنے والے کی مدد کر “ حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کے وقت حضرت علی کے سوا کسی کو آپ سے بات کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی.(30) علمی مقام رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروزاہ ہے جو علم کا قصد کرے وہ اس کے دروازے پر آئے.ایک دفعہ رسول کریم علیہ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت کریں.آپ نے فرمایا کہ کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم ہو جاؤ.حضرت علیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے یہ تو کہہ دیا کہ اللہ میرا رب ہے باقی میری توفیق اللہ سے ہی ہے اسی پر میرا تو کل ہے اور اس کی طرف میں جھکتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا اے ابوالحسن! علم تمہیں مبارک ہو.تمہیں علم کا شربت پلایا گیا ہے اور تم نے بھی خوب سیر ہو کر پیا ہے.حضرت علیؓ نے آنحضرت معہ سے قرآن سیکھا اور یاد کیا تھا.آپ معانی قرآن اور آیات کے شان نزول سے خوب واقف تھے.فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک ایک آیت کے بارے میں یہ بیان کر سکتا ہوں کہ کون سی آیت کب کہاں اور کس کے بارے میں اتری.وفات رسول کے بعد آپ نے ایک عرصہ خدمت قرآن میں گزار دیا اور قرآنی سورتوں کو نزول کے لحاظ سے ترتیب دینے کی سعادت پائی.آیات کی تفسیر و تاویل کے بارے میں ان سے اس کثرت سے روایات مروی ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک جامع تفسیر قرآن بن جائے.ایک دفعہ کسی نے حضرت علی سے پوچھا کہ قرآن کے سوا بھی آپ کے پاس کچھ ہے.انہوں نے کیا خوب جواب دیا کہ ” میرے پاس قرآن کے فہم اور اس کی قوت کے سوا کچھ بھی نہیں.“ درحقیقت دیکھا جائے تو تمام علوم فہم قرآن کریم کے ہی تو خادم ہیں.چنانچہ قرآن کے تابع دیگر علوم حدیث وفقہ اور قضا کے بارے میں آپ کو غیر معمولی علم حاصل تھا.علم تصوف اور فن خطابت میں بھی

Page 134

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 120 حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کا پایہ بہت بلند ہے.آپ کی طرف کئی اشعار بھی منسوب ہیں جیسے غزہ خیبر کے رجزیہ اشعار علم تحویعنی عربی کلمات پر اعراب اور زیروز بر کے موجد بھی حضرت علی تھے.(31) شہادت حضرت علی کی شہادت بھی تقدیر الہی تھی جس کی خبر رسول کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں انہیں دی اور صبر کی تلقین فرمائی تھی.حضرت علی جب مدینہ سے کوفہ جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن سلام نے روکنا چاہا اور کہا ” مجھے آپ کی جان کے بارہ میں خطرہ ہے اور رسول اللہ نے مجھے یہ خبر دی تھی.خود حضرت علیؓ نے بھی شہادت سے قبل اپنی داڑھی کے خون آلود ہونے کا ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی.چنانچہ حضرت علی کو بد بخت عبدالرحمان بن ملجم خارجی نے فجر کی نماز پر آتے ہوئے شہید کر دیا.بعض روایات کے مطابق اس نے دوران نماز حضرت علی پر حملہ کیا.یہ در دناک سانحہ در اصل گروہ خوارج کی اس گہری سازش کا نتیجہ تھا جو ایک ہی دن میں صبح کی نماز پر کوفہ میں حضرت علی کو مصر میں حضرت عمر و بن العاص اور شام میں حضرت معاویہ پر قاتلانہ حملہ کے بارے میں تیار کی گئی.کوفہ کی ایک خارجی عورت بھی اس میں شریک تھی.جس نے قاتل سے حضرت علی کے قتل کے شرط پر نکاح کا وعدہ کیا تھا.قاتلوں نے اپنا منصوبہ بناتے ہوئے یہ جائزہ بھی لیا کہ حضرت علی اکیلے نمازوں پر تشریف لاتے ہیں.ان کے لئے کسی حفاظتی پہرہ کا کوئی انتظام نہیں اس لئے نماز پر آتے ہوئے حملہ کیا جائے.قاتل نے اپنے معاون کو مدد کیلئے تیار کرنے کی خاطر دنیا میں شہرت اور آخرت میں جنت کے خوب وعدے کئے.پھر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک فجر کو وہ حضرت علی پر حملہ آور ہو گئے.پہلے ابن ملجم کے ساتھی نے حملہ کیا جو خطا گیا پھر اس نے تلوار سے حملہ کیا اور کہا حکومت اللہ کی ہے تیری اور تیرے ساتھیوں کی نہیں.حضرت علیؓ نے تلوار کا وار لگتے ہی فُرتُ وَرَبِّ الكعبة کا نعرہ بلند کیا کہ رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.پھر فرمایا یہ شخص جانے نہ پائے چنانچہ اسے پکڑ لیا گیا.حضرت علیؓ نے فرمایا یہ قیدی ہے اس کی عزت کرو اور اچھی جگہ رکھو.اس کے تین دن بعد حضرت علی کی وفات ہوگئی.(32) حضرت امام حسنؓ نے حضرت علی کی شہادت پر تقریر کرتے ہوئے کہا ”اے لوگو! ایک ایسا شخص تم سے جدا ہوا کہ پہلے اس سے سبقت نہ لے سکے اور بعد میں

Page 135

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 121 حضرت علی رضی اللہ عنہ آنے والے اس کا مقام نہ پاسکیں گے.رسول اللہ ہے اسے جھنڈا عطا کرتے تھے اور جبریل و میکائیل اس کے دائیں بائیں لڑتے تھے.وہ فتح کے بغیر واپس نہ لوٹتا تھا اور اللہ نے اس رات اس کی روح قبض کی جس رات حضرت عیسی کی روح قبض ہوئی اور جس میں قرآن اترا یعنی 27 رمضان المبارک.یہ 40 ھ کا سال تھا.جس میں حضرت علی کی وفات قریباً ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر میں ہوئی ان کا دور خلافت چار سال نو ماہ رہا.“ (32) دراصل حضرت علی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفر واپسی کا اشارہ ہو چکا تھا.آپ مقاتلانہ حملہ کے بعد تین روز تک زندہ رہے اگر چہ زخم بہت گہرا نہ تھا مگر زہر آلود تلوار کے اس وار سے آپ جانبر نہ ہو سکے.علالت کے ان ایام میں عمروزی مر آپ کی عیادت کو آئے.آپ کا زخم دیکھ کر کہا کہ زخم بہت گہرا نہیں آپ اچھے ہو جائیں گے.آپ نے فرمایا ”نہیں میں تم سے جدا ہونے والا ہوں.اس پر صاحبزادی ام کلثوم رو پڑیں تو آپ نے فرمایا بیٹی ! جو میں دیکھ رہا ہوں اگر تم دیکھ لیتیں تو نہ روتیں.میں فرشتوں اور نبیوں کو دیکھ رہا ہوں اور محمد مجھے کہہ رہے ہیں اے علی ! تمہیں بشارت ہو کہ جہاں تم آتے ہو وہ اُس سے بہتر ہے جس میں تم ہو.آخری وقت میں حضرت علی اپنی وصیت سے فارغ ہوئے تو سب موجود لوگوں کو الوداعی سلام فر مایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! اس کے بعد کوئی بات نہیں کی سوائے لا الہ الا اللہ کے کلمہ کے یہاں تک کہ آپکی روح قبض ہوگئی.آپ کے صاحبزادوں نے آپ کو غسل دیا اور حضرت امام حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی.آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کا ترک ایک خوشبو تھی جو آپ کی وصیت کے مطابق میت کو لگائی گئی.حضرت علی کی وصیت کا ماحصل یہی تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اور محمد کی سنت کو ضائع نہ کرنا اور اسلام کے دونوں ستونوں نماز اور زکوۃ کو قائم کرنا.“ جب آپ سے عرض کی گئی کہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کر دیں تو فر مایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا تھا میں بھی نہیں کروں گا.عرض کیا گیا کہ اس بارہ میں آپ خدا کے حضور کیا جواب دیں گے؟ فرمایا میں کہوں گا اے اللہ ! تو نے مجھے جب تک چاہا ان لوگوں میں باقی رکھا پھر تو نے میری روح قبض کرلی اور تو خودان میں موجود اور نگران تھا اگر تو چاہے تو انکی اصلاح

Page 136

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 122 حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمائے چاہے تو بگاڑ دے.(33) اولاد حضرت فاطمہ الزہرہ بنت رسول سے حضرت علیؓ کی اولا د دو صاحبزادے حضرت امام حسنؓ ، امام حسین اور دو صاحبزادیاں حضرت زینب کبری اور ام کلثوم کبری تھیں.اس کے بعد مختلف اوقات میں آٹھ ازواج اور دیگر امہات الولد سے چودہ لڑکے اور انہیں لڑکیاں ہوئیں.آپ کی نسل پانچ بیٹوں سے چلی جو حسن و حسین کے علاوہ محمد بن الحنفیہ عباس بن کلا یبہ اور عمر بن تغلبیہ ہیں.ازواج کے نام یہ ہیں.(1) حضرت خولہ بنت جعفر حنفیہ (2) حضرت لیلیٰ بنت مسعود تمیمیه (3) حضرت ام البنين بنت حرام کلابیہ (4) حضرت اسماء بنت عمیس تعمیه (5) حضرت صہبا ا بنت ربیعہ تغلبیہ (6) رسول اللہ کی نواسی حضرت امامہ بنت ابی العاص قریشیہ (7) حضرت ام سعید بنت عروہ ثقفیہ (8) حضرت محياة بنت امرالقیس کلبیہ (34) اخلاق فاضلہ حضرت علی نے نہایت اعلیٰ اخلاق آنحضرت ﷺ ہی کی تربیت میں تو سیکھے تھے.حضور پاک کی پاک سیرت ہی آپ کے اخلاق تھے.سادگی کا یہ عالم تھا کہ خود بیان کرتے تھے میری شادی حضرت فاطمہ سے ہوئی تو ہمارا بستر ایک مینڈھے کی کھال کے سوا کچھ نہ تھا.اسی پر ہم رات کو سوتے تھے اور دن کو اس پر اپنے جانور کو چارا ڈالتے تھے.میرے پاس اس کے سوا کوئی خادم نہ تھا.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ کے شروع کی بات ہے.مجھے سخت بھوک اور فاقہ کی تکلیف پہنچی، میں باہر نکلا تو ایک عورت نے مٹی جمع رکھی تھی وہ اسے گیلا کر کے گار بنانا چاہتی ہے میں نے اس سے ایک ڈول پانی کے عوض ایک کھجور لینے پر سولہ ڈول پانی نکال کر دئے.جس سے میرے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے.پھر پانی سے ہاتھ دھو کر اس سے سولہ کھجور میں لیں اور رسول کریم ﷺ کے پاس لے کر آیا.آپ نے میرے ساتھ وہ کھجور میں تناول فرمائیں.فرماتے تھے کہ ایک زمانہ تھا مجھے بھوک اور فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتا تھا اور آج میرے وقف اموال صدقہ وغیرہ کی آمد ہی چالیس

Page 137

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 123 حضرت علی رضی اللہ عنہ ہزار درہم ہوتی ہے.جو خدا کی راہ میں خرچ کی توفیق ملتی ہے.فراخی کے باوجود آپ کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا.عام لباس موٹی چادر کا تھا ایک دفعہ وہ پہنی ہوئی تھی کہنے لگے یہ صرف چار درہم میں خریدی ہے.سفید ہلکی ٹوپی بھی استعمال فرماتے تھے.انگوٹھی پر اللہ الملک“ کندہ تھا کہ اللہ ہی بادشاہ ہے.(35) حضرت علی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت سعی کرتے تھے.کبھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے.انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ سے کچھ تکرار ہوئی تو مسجد نبوی میں جا کر زمین پر لیٹ رہے نبی کریم نے آکر پوچھا اور خود ان کے پیچھے مسجد گئے اور ان کو زمین پر لیٹے پا کر ابوتراب کی کنیت سے یاد فرمایا کہ مٹی کا باپ.(36) حضرت علی بیت المال میں حضرت ابو بکر کی طرح معاملہ کرتے تھے.کوئی بھی مال آتا تو فوراً تقسیم کر دیتے اور کچھ بچا کر نہ رکھتے سوائے اسکے کہ اس روز تقسیم میں کوئی دقت ہو.نہ تو خود بیت المال سے ترجیحا کچھ لیتے اور نہ کسی دوست یا عزیز کو اس میں سے دیتے.نیک دیندار اور امانت دار لوگوں کو حاکم مقرر فرماتے.خیانت پر سخت تنبیہ فرماتے.خدا کے حضور عرض کرتے ”اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے انہیں تیری مخلوق پر ظلم کا حکم نہیں دیا تھا.“ کوفہ میں معمول تھا کہ دو چادروں کا مختصر لباس پہن کر درہ ہاتھ میں لئے بازار میں گھوم رہے ہیں لوگوں کو اللہ کے تقویٰ اور سچائی کی تلقین کر رہے ہیں.اچھے سودے میں ماپ تول پورے کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں.ایک دفعہ بیت المال میں جو کچھ تھا تقسیم کر کے اس میں جھاڑو پھیر دیا.پھر دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا امید ہے کہ قیامت کے دن یہ میری گواہ ہوگی.(36) امانت و دیانت اور قناعت آپ کا شیوہ تھا حضرت عائشہ آپ کے بارے میں فرماتی تھیں کہ وہ بہت روزے رکھنے والے اور عبادت گزار تھے.(37) زبیر بن سعید قریشی کہتے ہیں کہ میں نے کسی ہاشمی کو آپ سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا.(38) خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا.کبھی کوئی سائل آپ کے گھر سے خالی ہاتھ نہ لوٹا.ایک طرف تواضع میں کمال حاصل تھا تو دوسری طرف شجاعت میں انتہا تھی.میدان جنگ میں شجاعت اور دشمن کے ساتھ حسن سلوک

Page 138

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 124 حضرت علی رضی اللہ عنہ میں بھی مردانگی کی ایک شان تھی.اپنے قاتل ابن ملجم کے بارہ میں بھی فرمایا کہ اسے اچھا کھانا کھلاؤ اور اچھا بستر دو.اگر میں زندہ رہا تو خود اس کی معافی یا سزا کا فیصلہ کروں گا اور اگر میں مر گیا تو اسے میرے ساتھ ملا دینا مگر اس کے ناک کان نہ کاٹنا.حضرت علی بلند پایہ خطیب تھے.نہایت فصیح و بلیغ مؤثر وعظ فرماتے.خوارج سے مقابلہ کے زمانہ میں آپ کے خطبات مشہور ہیں جو نہج البلاغہ میں آپ کی طرف منسوب ہیں اسمیں شک نہیں کہ حضرت علی کے فضائل کے بارہ میں مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہے جسے پیش نظر رکھنا چاہیے.رسول اللہ نے آپ سے بجا فرمایا تھا کہ ” آپ کی مثال حضرت عیسی کی ہے کہ جس سے یہودی ناراض ہوئے اور عیسائیوں نے انہیں اصل مقام سے کہیں زیادہ بڑھا کر پیش کیا.‘ خود حضرت علی فرماتے تھے کہ میرے بارہ میں دو آدمی ہلاک ہونگے ایک محبت سے غلو کرنے والا ، دوسرا جھوٹا اور بہتان تراش.ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ سے کسی نے کہا بعض شیعہ جو ( حب علی کے دعویدار ہیں ) یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علی دابتہ الارض ہیں جن کے خروج کی قرآن میں پیشگوئی ہے اور وہ قیامت سے پہلے پھر ظاہر ہونگے.اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا وہ جھوٹ کہتے ہیں یہ لوگ ہرگز حضرت علی سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں.اگر ان کی بات درست ہوتی اور حضرت علی نے دوبارہ ظاہر ہونا ہوتا تو ہم انکی میراث تقسیم نہ کرتے اور نہ ان کی بیوگان کا آگے نکاح کرتے.(39) امیر معاویہ نے ضرار صدائی سے کہا کہ حضرت علیؓ کے اوصاف بیان کرو.اس نے کہا اے امیر المومنین مجھے اس سے معاف فرمائیں.انہوں نے کہا تمہیں یہ بیان کرنے ہوں گے.وہ کہنے لگے کہ اگر آپ ضرور سننا ہی چاہتے ہیں تو پھر سنیں کہ ” خدا کی قسم وہ بلند حوصلہ اور مضبوط قومی کے مالک تھے.فیصلہ کن بات کہتے اور عدل - فیصلہ کرتے تھے ان کی جانب سے علم کا چشمہ پھوٹتا تھا اور حکمت ان کے اطراف سے ٹپکتی تھی.وہ دنیا اور اس کی رونقوں سے وحشت محسوس کرتے اور رات اور اس کی تنہائی سے انس رکھتے تھے.وہ بہت رونے والے، لمبا غور و فکر کرنے والے تھے.چھوٹا لباس اور موٹا سادہ کھانا پسند تھا.وہ ہم میں ہماری

Page 139

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 125 حضرت علی رضی اللہ عنہ طرح رہتے تھے.ہم سوال کرتے تو وہ ہمیں جواب دیتے اور جب ہم کسی خبر کی بابت دریافت کرتے تو ہمیں بتاتے.اور خدا کی قسم ہم ان کے ساتھ محبت و قرب کے تعلق کے باوجود ان کے رعب کی وجہ سے بات کرنے سے رکتے تھے.وہ دین دار لوگوں کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے پاس جگہ دیتے تھے.طاقتور کو اس کے باطل موقف میں طمع کا موقع نہ دیتے اور کمزور آپ کے عدل سے مایوس نہ ہوتا.اور خدا کی قسم ! میں نے انہیں بعض مقامات پر دیکھا جبکہ رات ڈھل چکی تھی اور ستارے ڈوب چکے تھے وہ اپنی داڑھی کو پکڑے ایسے مضطرب ہیں جیسے وہ شخص جسے سانپ کاٹ جائے اور وہ غمگین انسان کے رونے کی طرح روتے اور کہتے تھے اے دنیا ! تو میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے یا میری مشتاق ہوتی ہے.تجھ پر افسوس صد افسوس.میں تو تمہیں تین طلاقیں دے چکا ہوں جو واپس نہیں ہوسکتیں پس تمہاری عمر بہت محدود ہے اور تمہارا مقصد بہت حقیر ہے.آہ! زادراہ کتنی کم اور سفر کتنا لمبا ہے اور راستہ کتنا وحشت ناک ہے.یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور کہا اللہ ابوالحسن پر رحم کرے خدا کی قسم ! وہ ایسے ہی تھے.اے ضرار ! تمہارا غم ان کی وفات پر کیسا ہے؟ ضرار نے کہا اس ماں کی مامتا کا غم جس کا بچہ اس کی گود میں ذبح کر دیا جائے.‘(40) حضرت مسیح موعود د فر ماتے ہیں:." حضرت علی پاکباز اور متقی انسان تھے اور رحمان خدا کے محبوب بندوں میں سے تھے.اور خدائے غالب کے شیر تھے.آپ وہ بے مثال بہادر تھے میدان جنگ میں خواہ دشمنوں کی فوج سے مقابلہ ہوا اپنے مرکز سے کبھی پیچھے نہ ہٹے.کئی معرکہ ہائے جنگ میں اپنی شجاعت کے حیرت انگیز جو ہر دکھائے.اس کے ساتھ ساتھ آپ شیریں بیان اور مخلص انسان تھے.الغرض ہر ایک خوبی میں اور فصاحت و بلاغت میں کوئی آپ کا نظیر نہیں.اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے.علوم قرآنی میں آپ کو ایک سبقت حاصل تھی اور قرآنی نکات کے ادراک کا ایک خاص فہم آپ کو حاصل تھا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت علیؓ نے مجھے کتاب اللہ کی ایک تفسیر دی ہے اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے اور آپ کو اولیت کا شرف حاصل ہے.جو آپ کو دیا گیا اُس پر آپ کو مبارک ہو.چنانچہ میں نے وہ تفسیر لے لی اور میں نے حضرت علی کو پختہ اخلاق کا مالک اور تواضع اور منکسر المزاج اور

Page 140

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 126 حضرت علی رضی اللہ عنہ روشن اور روحانی انسان دیکھا اور خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ مجھے اور میرے عقیدے کے بارے میں خوب جانتے ہیں اور مجھے علی حسین سے ایک خاص مطابقت ہے جس کا بھید سوائے خدا کے اور کسی کو معلوم نہیں اور مجھے علی اور اُن کے دونوں صاحبزادوں سے محبت ہے اور جو ان سے دشمنی کرتے ہیں میں ان کا دشمن ہوا.‘ (41) حواله جات استیعاب جلد 3 ص 218 ، اصابہ جز 4 ص 269 ،اسدالغابہ جلد 4 ص 16 -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 +356 + ∞ -8 -9 -10 -11 -12 الو فالا بن جوزی ص 198 مستدرک حاکم جلداص 542 مكتبه النصر الحديث الرياض ابن سعد جلد 3 ص 21، استیعاب جلد 3 ص199 تفسیر طبری سورۃ الشعراء زیر آیت واند رعشیرتک الاقربین ابن سعد جلد 1 ص 228 مسند احمد جلد 1 ص 348 مستدرک حاکم جلد 3 ص 134 تاریخ طبری جلد 2 ص373 مستدرک حاکم جلد 3 ص 4 ، ابن سعد جلد 3 ص22، وابن ہشام جلد 2 ص 98، اسد الغا به جلد 4 ص19 الاصابہ جز 4 ص 269، استیعاب جلد 3 ص 203 ابن سعد جلد 3 ص 23 13 - مجمع الزوائد جلد 6 ص 81، لائف آف محمد صفحه 251 252 -14 -15 -16 -17 -18 له یا نه -20 بیھقی دلائل جلد 7 ص 235 و جلد 3 ص 160 وابن سعد جلد 3 ص 21 تا23 استیعاب جلد 3 ص 203، زرقانی جلد 2 ص 4 مسند احمد جلد 5 ص 9 35 و مجمع الزوائد جلد 4 ص50 مسند احمد جلد 1 ص 104، 91، 153 وابن سعد جلد 8 ص 24 ، ترمذی کتاب النفسير سورة الاحزاب، مسند احمد جلد 6 ص 344، مجمع الزوائد جلد 9 ص120،119 ابن سعد جلد 3 ص 23 مجمع الزوائد جلد 6 ص 114 ، 112 ، طبری جلد 2 ص 574، کنز العمال جلد 5 ص 274 ابن ہشام جلد 3 ص 241، مستدرک جلد 3 ص 32

Page 141

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 127 حضرت علی رضی اللہ عنہ -21 -22 -23 -24 ابن ہشام جلد 3 ص 253، واقدی جلد 2 ص 499 ، بخاری کتاب الجہاد باب المصالحه مجمع الزوائد جلد 9 ص 122 ، 123، سیرت الحلبیہ جلد 2 ص 38 تا 41 ، بخاری مغازی تبوک بخاری کتاب التفسير سورة براء.استیعاب جلد 3 ص216 استیعاب جلد 3 ص 203 25- بخاری کتاب الحج باب من احل في زمن النبی -26 -27 -28 -29 -30 استیعاب جلد 3 ص 206 اسد الغابہ جلد 4 ص 38 ، ریاض النضره فی مناقب العشره جلد 2 ص 128 اسد الغابہ جلد 4 ص 32،31 مجمع الزوائد جلد 9 ص 121 ، 104 مجمع الزوائد جلد 9 ص 104 ، 116 ، ازالۃ الخفاء 31 - منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 48 ، اسد الغابہ جلد 4 ص 33.استیعاب جلد 3 ص 208 تا 210، بخاری کتاب الدیات و مسند احمد جلد 4 ص 79 ، 100.فہرست ابن الندیم استیعاب جلد 3 ص 218 219.ابن سعد جلد 3 ص 35.اسد الغابہ جلد 4 ص 34.مجمع -32 -33 -34 -35 الزوائد جلد 9 ص 146 - اصابہ جز 4 ص 271 اسد الغابہ جلد 4 ص 38 ، 39 مجمع الزوائد جلد 9 ص 137 ، 139 ابن سعد جلد 3 ص 19، 20 کنز العمال جلد 7 ص 133 - اسد الغابہ جلد 4 ص 33، 24 واستيعاب جلد 3 36- مسلم کتاب المناقب باب مناقب علی و مجمع الزوائد جلد 9ص 121.استیعاب جلد 3ص 211 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد 5 ص 55 37- ترمذی کتاب المناقب فضل فاطمه 38- مستدرک حاکم جلد 3 ص 108 -39 -40 -41 استیعاب جلد 3 ص 219 ،204، مسند احمد جز 1 ص 160 ابن سعد جلد 3 ص 39 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 46 استیعاب جلد 3 ص 209 سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 ص 358 ( ترجمه از عربی )

Page 142

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حلیه و نام و نسب 128 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح لمبا قد ، دبلاجسم، چھر یا بدن، روشن پیشانی، بارعب چہرہ، تیکھے نقش شخشی داڑھی.یہ ہیں عبد نبوی ﷺ کے نو جوان صحابی ابو عبیدہ بن الجراح.اصل نام عامر بن عبد اللہ بن الجراح ہے.مگر دادا کی نسبت سے معروف ہیں اور نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں.سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے مل جاتا ہے.(1) قبول اسلام وفضائل حضرت ابو عبیدہ رسول اللہ اللہ کے دعویٰ نبوت کے بعد ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہیں.انہیں کو دارارقم کے تبلیغی مرکز بننے سے بھی پہلے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی.آپ حضرت ابوبکر صدیق جیسے عظیم الشان داعی الی اللہ کی تبلیغی کوششوں کا شیریں پھل تھے.سیرتِ صدیقی کی گہری چھاپ ان کے اخلاق و شمائل میں نمایاں نظر آتی ہے.انہوں نے ایمان واخلاص میں بہت جلد ترقی کی اور اصحاب رسول میں بہت بلند مقام پایا.آپ ان خوش نصیب دس صحابہ میں سے تھے جنہیں نبی کریم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی.(2) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو عبیدہ کو خوبصورت اخلاق اور کردار کے ساتھ قیادت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا.آنحضرت نے ایک دفعہ ان کی اس خوبی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خاندان قریش میں سے تین ایسے مردان حق ہیں.جو نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل، انتہائی حیادار اور مقام سیادت پر فائز ہیں.اور وہ ہیں ابو بکر و عثمان اور ابوعبیدہ بن الجراح.(3) پاکیزہ اوصاف کی بناء پر آپ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی علی کو بہت محبوب تھے، ایک دفعہ حضرت عائشہ نے رسول خدا سے بے تکلف گھر یلو گفتگو کے دوران پوچھا کہ آپ کو اپنے اصحاب میں سے سب سے پیارے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ابو بکر، انہوں نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا عمر، حضرت عائشہ نے تیسری مرتبہ پوچھا پھر کون رسول کریم ﷺ نے جواب دیا ابو عبیدہ بن

Page 143

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم الجراح (4) 129 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بلاشبہ ابوعبیدہ سے رسول خدا کی بیٹی محبت ان کے اخلاص و فدائیت ایثار اور خدمات دینی کے باعث تھی.انہوں نے عین عالم شباب میں اسلام قبول کیا اور اپنی جوانی خدمت دین میں گزار دی.ہجرت کا ابتلاء اسلام قبول کرتے ہی حضرت ابو عبیدہ کو جس ابتلاء کا سامنا کرنا پڑا وہ مال و اولا داور وطن کی قربانی کا ابتلاء تھا.مگر خدا کی خاطر اور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے کمال جواں مردی سے وہ اپنا سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے اور ملکہ کو خیر باد کہہ کر دور دراز کے اجنبی دیس حبشہ کی طرف ہجرت کی.انہوں نے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، نئے ٹھکانے اور تلاش معاش کے دوران مشکلات اور خوف و ہراس کا سامنا کیا.جب وہاں کچھ قدم جم گئے تو ہجرت مدینہ کا دوہرا امتحان پیش آیا.ان کی محبت رسول نے یہ گوارا نہ کیا کہ محبوب آقا تو مدینہ میں ہوں اور وہ حبشہ رہ کر آپ کے قرب اور پاک صحبت سے محروم رہیں.چنانچہ اس وطن ثانی حبشہ کو بھی خدا اور اس کے رسول کی خاطر ترک کر کے مدینہ منورہ کی طرف دوسری ہجرت کی سعادت پائی اور دو ہجرتوں کے اجر اور ثواب کے حق دار ٹھہرے.جو بلاشبہ آپ کے لئے باعث اعزاز اور موجب فخر ہے.جس کا اظہار دو ہجرتوں کا شرف پانے والے صحابہ بہت لطیف انداز میں کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت اسماء بنت عمیس (جنہوں نے ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں کی سعادت پائی تھی ) رسول اللہ سے ملاقات کے لئے ام المومنین حضرت حفصہ کے گھر آئیں.تھوڑی دیر بعد حضرت عمررؓ بھی حضور سے ملنے حاضر ہوئے اور یہ معلوم کر کے کہ حضرت اسماء وہاں موجود ہیں ان سے مخاطب ہو کر از راہ التفات فرمانے لگے کہ ”اے اسماء! ہمیں تم مہاجرین حبشہ پر مدینہ ہجرت کرنے میں اولیت حاصل ہے اور نبی کریم ﷺ سے تعلق اور محبت کے ہم زیادہ حقدار ہیں.حضرت اسماٹا نے مہاجرین حبشہ کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا.کہنے لگیں ”اے عمر! آپ کا یہ دعویٰ ہرگز درست نہیں.آپ لوگ تو آنحضرت ﷺ کی معیت میں رہے.وہ آپ کے کمزوروں اور فاقہ زدوں کا خود خیال رکھتے اور حتی

Page 144

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 130 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ الوسع ان کی ضروریات خود پوری فرماتے تھے.جب کہ ہم اجنبی ملک حبشہ میں تھے جہاں کسی دل میں ہمارے لئے کوئی نرم گوشہ نہ تھا.ہم سخت اذیتوں سے گزرے اور خوف و ہراس سے دو چار ہوئے اور یہ سب کچھ خدا اور اس کے رسول کی خاطر برداشت کیا ( اور اب آپ ہمیں یہ طعنہ دینے لگے ) خدا کی قسم! میرا کھانا پینا حرام ہے جب تک میں نبی کریم سے دریافت نہ کرلوں کہ حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے والوں میں کس کا درجہ زیادہ ہے.پھر واقعی حضرت اسماٹا نے نبی کریم کی خدمت میں حضرت عمر کی بات کہ سنائی.آنحضور نے پوچھا کہ پھر تم نے عمر کو کیا جواب دیا؟ حضرت اسماٹو نے بلا کم و کاست اپنا فصیح و بلیغ جواب بھی عرض کر دیا تو دربار رسالت سے یہ فیصلہ جاری ہوا کہ اے اسمان ! تم ٹھیک کہتی ہو.عمر اور ان کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنے والے محض اس قربانی کی بناء پر مہاجرین حبشہ سے زیادہ میرے تعلق محبت کے مستحق نہیں.اگر ان کی ایک ہجرت ہے تو بلاشبہ تمہاری دو ہجرتیں ہیں.( جس کی بناء پر گویا تم دوہرے اجر اور ثواب کے مستحق ہو ).(5) مقام امین ہجرتوں کی اس دوہری قربانی کے علاوہ حضرت ابو عبید ا کی جس خوبی نے صحابہ میں ممتاز کیا وہ یہ تھی کہ آپ ارشادِ ربانی وَالَّذِينَ هُمْ لاَ مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ (المومنون: 9) ( یعنی وہ مومن کامیاب ہو گئے جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں ) کے حقیقی مصداق تھے.حق یہ ہے کہ ایک مومن کامل کا یہی بلند و بالا مقام ہے.چنانچہ بظاہر نحیف و ناتواں ابوعبیدہ اصحاب رسول میں’القوی الامین کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے.یہ گویا ان کے حق میں زمانے کی شہادت تھی کہ وہ اپنی تمام امانتوں کے حق ادا کرنے میں خوب قادر تھے.(6) خلق خدا کی اس گواہی پر رسول خدا ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس وقت مہر تصدیق ثبت فرمائی ، 9 ہجری میں جب نجران کی عیسائی ریاست سے ایک وفد مدینہ آیا اور سالانہ خراج کی ادائیگی پر ان سے مصالحت ہوئی.اس موقع پر وفد نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ خراج کی وصولی کے لئے ایک ایسا شخص بھجوائیں جو امانتوں کا حق خوب ادا کرنے والا ہو.آپ نے فرمایا: ”ہاں! فکر نہ کرو میں ضرور تمہارے ساتھ ایک نہایت امین شخص روانہ کروں گا.“

Page 145

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 131 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اس وقت مجلس نبوی میں ایک عجب کیفیت تھی جب صحابہ رسول سر اٹھا اٹھا کر وفور شوق سے یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ دیکھیں اب یہ سعادت کس خوش بخت کے حصہ میں آتی ہے.انتظار کے لمحے ختم ہوئے اور رسول خدا ﷺ نے فرمایا ” ابوعبیدہ کھڑے ہوں“ جب وہ اپنی نشست پر سے اٹھے تو ہمارے آقاو مولا کی زبان فیض ترجمان سے ابو عبیدہ کو ایک دائمی اور تاریخی سند عطاء ہوئی آپ نے فرمایا: یہ ہے اس امت کا امین اور پھر صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا ” ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے.اے میری امت کے لوگو! ہما را امین ابو عبیدہ بن الجراح ہے.(7) حقیقت یہ ہے کہ امین الامت کا خطاب ابو عبیدہ کے لئے عظیم الشان اعزاز تھا جس میں دراصل ان کے پاکیزہ کردار کا خلاصہ بیان کر دیا گیا.ان کے حق میں کیا خوب فرمایا کہ میں اپنے صحابہ میں سے ہر ایک کے کسی خلق پر گرفت کر سکتا ہوں سوائے ابوعبیدہ کے جو بہت عمدہ واعلیٰ اخلاق کے حامل ہیں.“ (8) ہر چند کہ امین الامت کا بلند پایہ خطاب پانے والے اس عظیم انسان کی سیرت وسوانح پر پہلے بھی اہل قلم نے خامہ فرسائی کی ہے.راقم الحروف نے امین الامت‘ کی سیرت کا مطالعہ ادا ئیگی امانات کے اس اہم پہلو کے حوالہ سے کیا تو اس جوان رعنا کی سیرت ایک نئے حسین روپ میں جلوہ گر ہوئی.حضرت ابو عبیدہ بہت بھاری اموال کے بھی امین بنائے جاتے رہے، قومی امارت کی امانت بھی آپ کو سونپی گئی جس کے حق آپ نے خوب ادا کئے.اس جگہ جملہ اخلاق فاضلہ کا حق امانت ادا کر نے کے لحاظ سے سیرت ابوعبیدہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے.بدر میں تاریخی شرکت غزوہ بدر میں ایک سپاہی کی حیثیت سے آپ کی امانت کا امتحان یوں ہوا کہ مد مقابل لشکر کفار میں آپ کے بوڑھے والد عامر بھی برسر پیکار تھے.ابو عبیدہ ایک بہادر سپاہی کی طرح داد شجاعت دیتے ہوئے میدان کارزار میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے والد سے سامنا ہو گیا جو کئی بار تاک کر ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا تھا، ذرا سوچنے تو وہ کتنا کٹھن اور جذباتی مرحلہ ہوگا کہ ایک طرف باپ ہے اور دوسری طرف خدا اور اس کا رسول ہیں.جن کے خلاف باپ تلوار سونپ کر نکلا ہے ،مگر

Page 146

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 132 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ دنیا نے دیکھا کہ ابو عبیدہ جیسے قوی اور امین کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ خدا کی خاطر سونتی ہوئی شمشیر برہنہ نہیں رکے گی جب تک دشمنان رسول کا قلع قمع نہ کر لے خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو.اگلے لمحے میدان بدر میں ابو عبیدہ کا مشرک والد عامر اپنے موحد بیٹے کے ہاتھوں ڈھیر ہو چکا تھا.آفرین تجھ پر اے امین الامت آفرین! تو نے کیسی شان سے حق امانت ادا کیا کہ باپ کا مقدس رشتہ بھی اس میں حائل نہ ہو سکا.صحابہ اس تاریخی واقعہ پر وہ آیت چسپاں کرتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ ایسے کامل الایمان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو خدا کی خاطر اپنی رشتہ داریاں بھی قربان کر دیتے ہیں.(9) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَاذَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ * أُولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمُ ط جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ خُلِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَيكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الجادل: 23) تو کوئی ایسی قوم نہ پائے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر بھی ایمان لاتی ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی شدید مخالفت کرنے والے سے بھی محبت رکھتی ہو خواہ ایسے لوگ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا ان کے خاندان میں سے ہوں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنی طرف سے کلام بھیج کر ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں رہتے چلے جائیں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا وہ اللہ سے راضی ہو گئے وہ اللہ کا گروہ ہیں اور سن رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہوا کرتا ہے.غزوہ احد میں فدائیت بدر کے بعد احد کا معرکہ پیش آیا.جبل احد نے بھی حضرت ابو عبیدہ کے قومی اور امین ہونے کی گواہی دی جب اس امانت رسالت کی حفاظت کا سوال آیا جو رسول خدا کی ذات کی صورت میں

Page 147

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 133 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ موجود تھی ، ابو عبیدہ احد میں نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ کمال مردانگی اور فدائیت کا نمونہ دکھایا.حضرت ابوبکر صدیق بیان فرماتے ہیں کہ احد میں سنگباری کے نتیجہ میں آنحضور کے خود کی دونوں کڑیاں ٹوٹ کر جب آپ کے رخساروں میں دھنس گئیں میں رسول کریم ﷺ کی مدد کے لئے آپ کی طرف لپکا.دیکھا کہ سامنے کی طرف سے بھی ایک شخص دوڑا چلا آ رہا ہے.میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نازک وقت میں یہ شخص میری مدد اور نصرت کا موجب ہو.آگے جا کر دیکھا تو وہ ابو عبیدہ تھے جو مجھ سے پہلے حضور تک پہنچ چکے تھے.انہوں نے صورتحال کا جائزہ لے کر کمال فدائیت کے جذبہ سے مجھے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ حضور کے رخساروں سے یہ لوہے کی شکستہ کڑیاں مجھے نکالنے دیں پھر انہوں نے پہلے ایک کڑی کو دانتوں سے پکڑا اور پوری قوت سے کھینچا تو وہ باہر نکل آئی.مگر ابو عبیدہ خود پیٹھ کے بل جا گرے اور ساتھ ہی آپ کا اگلا دانت باہر آ گیا.پھر انہوں نے دوسرے رخسار سے کڑی اسی طرح پوری ہمت سے کھینچی تو اس کے نکلنے کے ساتھ آپ کا دوسرادانت بھی ٹوٹ گیا اور آپ دوبارہ پشت کے بل گرے.مگر آنحضرت ﷺ کو ایک سخت اذیت سے نجات دینے میں کامیاب ہو گئے اور آپ کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیا.کہتے ہیں حضرت ابو عبیدہ کے سامنے کے دورانٹ ٹوٹ جانے سے ان کا چہرہ اور خوبصورت ہو گیا اور لوگ کہا کرتے تھے کہ سامنے کے دوشکستہ دانتوں والا کبھی اتنا خوبصورت نظر نہیں آیا جتنے ابوعبیدہ.(10) احد کے بعد جملہ غزوات خندق، بنوقریظہ، خیبر، فتح مکہ حنین اور طائف وغیرہ کے معرکوں میں بھی حضرت ابو عبیدہ ایک مجاہد سپاہی کے طور پر خدمات بجالاتے ہوئے پیش پیش رہے.(11) امیر لشکر کی حیثیت سے بھی حضرت ابو عبیدہ نے اپنی امانتوں کا حق خوب ادا کیا.6 ہجری میں وہ قبیلہ ثعلبہ و انمار کی سرکوبی پر مامور کئے گئے اور کامیاب و کامران واپس لوٹے.(12) ذات السلاسل کی قیادت اور تعاون باہمی 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے بعد رسول خدا نے ملک شام کے مشرق میں ذات السلاسل کی مہم پر حضرت عمرو بن العاص کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ فرمایا ، جس میں کبار صحابہ کی نسبت اعراب اور بد دوغیرہ زیادہ تھے.وہاں جا کر پتہ چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے.اس لئے حضرت عمر و بن العاص

Page 148

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 134 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کمک طلب کی جس پر نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ کی سرکردگی میں مہاجرین کا ایک دستہ ان کی مدد کے لئے بھجوایا ، جس میں حضرت ابوبکر و عمر بطور سپاہی شریک تھے.رسول خدا نے خداداد بصیرت وفراست سے بوقت رخصت حضرت ابو عبیدہ کو نصیحت فرمائی کہ عمر و بن العاص کے پاس پہنچ کر دونوں امراء باہم تعاون سے کام کرنا.مگر جب وہاں پہنچے تو حضرت عمرو بن العاص نے اس خیال سے کہ ان کی امداد کے لئے بھجوائی گئی کمک ان کے تابع ہے حضرت ابو عبیدہ کے سپاہیوں کو ہدایت دے کر کام لینے لگے اور بزرگ مہاجرین صحابہ کی اس وضاحت کے باوجود کہ دونوں امراء اپنے دائرہ عمل میں بااختیار ہیں اور انہیں باہم مشورے اور تعاون سے کام کرنے کا حکم ہے.حضرت عمرو بن العاص کو اپنے حق امارت پر اصرار رہا.اس نازک موقع پر امانتوں کے سفیر حضرت ابو عبیدہ کا موقف کیسا پاکیزہ اور متقیانہ تھا.حضرت عمرو بن العاص سے آپ نے فرمایا کہ ” ہر چند کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد امیر کے طور پر بھجوایا ہے مگر ساتھ ہی باہم تعاون کا بھی ارشاد فرمایا.اس لئے آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں میری طرف سے ہمیشہ آپ کو تعاون ہی ملے گا اور میں آپ کی ہر بات مانوں گا.(13) دیکھئے ابو عبیدہ نے امارت کا حق امانت کس شان سے ادا کر دکھایا اور تعاون علی البر اور ایثار کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا.8 ہجری میں قریش کے بعض تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لئے رسول کریم نے آپ کو ایک اہم راز دارانہ کی مہم سونپی جس میں تین صد صحابہ آپ کی سرکردگی میں ساحل سمندر کی طرف روانہ کئے گئے.وہ زمانہ بہت تنگی کا تھا اور حسب دستور زادراہ کے لئے ہر سپاہی نے جو کچھ کھجوریں وغیرہ پاس رکھی تھیں وہ ختم ہونے کو آئیں تو فاقہ کشی کے ان ایام میں انصاری سردار قیس بن سعد کی طرف سے جود وسخا کا زبردست مظاہرہ ہوا.انہوں نے لشکر میں شامل بعض لوگوں سے واپسی مدینہ تک سواری کے اونٹ ادھار لے کر ذبح کروائے ہمراہیوں کو کھانا کھلانا شروع کیا.چند روز کے بعد حضرت عمرؓ نے سوال اٹھایا کہ سواریوں کے ختم ہو جانے پر آئندہ سفر کیسے جاری رکھا جا سکے گا ؟ چنانچہ حضرت ابوعبیدہ نے مزید اونٹ ذبح کرنے سے حکماً روک کر ایک مناسب حال فیصلہ فرمایا.دوسری طرف

Page 149

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 135 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ فاقہ کش لشکر کے لئے خوراک کا انتظام بھی آپ کی ذمہ داری تھی.آپ نے تمام سپاہیوں کے پاس باقی مانده زادراہ اکٹھی کر کے راشن کی دو بوریاں اکٹھی کرلیں اور آئندہ کے لئے راشن کی تقسیم کا ایسا نظام جاری کیا کہ ہر سپاہی کو زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ خوراک ملنے لگی.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ بعض ایسے دن بھی آئے جب روزانہ ایک شخص کو بمشکل ایک کھجور ملتی تھی.جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک کھجور کی قدر بھی ہمیں اس وقت آئی جب یہ اجتماعی زادراہ بھی ختم ہو گئی تو ہم نے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا اور جانوروں کی مینگنوں جیسا پاخانہ کرتے رہے.تب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ امین الامت ابو عبیدہ کی اس عادلانہ تقسیم اور دعاؤں نے خدا کی رحمت کو جوش دیا اور مولیٰ کریم نے ان فاقہ کشوں کی دعوت کا خودا اہتمام فرمایا اور سمندر کو حکم دیا کہ ایک بہت بڑی مچھلی راہ مولیٰ میں بھوک برداشت کرنے والوں کے لئے ساحل پر ڈال دے.چنانچہ اس مچھلی کا گوشت اور تیل مسلسل کئی روز استعمال کرنے سے صحابہ کی صحت خوب اچھی ہو گئی.تین صدا فراد کے لئے کئی روز تک خوراک بنے والی اس مچھلی کے متعلق طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی جسامت کیا ہوگی.حضرت ابوعبیدہ جیسے زیرک قائد نے اس الہی نشان کو محفوظ کرنے کا عمدہ انتظام بھی کر دیا.انہوں نے ساحل چھوڑنے سے قبل مچھلی کے ڈھانچے سے دو پسلیاں لے کر زمین میں گاڑ دیں اور پیمائش کی خاطر ایک شتر سوار کو نیچے سے گزارا تو وہ بآسانی گزر گیا.(14) الغرض اس سفر میں حضرت ابوعبیدہ کی قائدانہ صلاحتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں.عملی زندگی میں امانتوں کی ادائیگی میں یہ اہتمام ابو عبیدہ کے لئے مزید خدمات کے مواقع مہیا کرنے کا موجب ہوا.چنانچہ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ کو بہت اہم مالی ذمہ داریاں بھی تفویض فرمائیں.اموال بحرین کی امانت 8 ہجری میں حکومت کسری ایران کی باجگزار ریاست بحرین سے مصالحت ہوئی.حضرت علام بن حضرمی وہاں امیر مقرر ہوئے.(15) حضرت ابو عبیدہ جزیہ کی امانتیں وصول کر کے مرکز اسلام مدینہ لانے کے لئے مامور ہوئے.

Page 150

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 136 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ان کے صدق و امانت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ وہ بحرین سے ڈھیروں ڈھیر مال لے کر مدینہ آئے.انصار مدینہ کو خبر ہوئی تو وہ اگلے روز فجر کی نماز میں کثیر تعداد میں حاضر ہوئے.نماز فجر کے بعد نبی کریم نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” معلوم ہوتا ہے تم لوگوں کو ابوعبیدہ کے آنے کی اطلاع ہو گئی ہے.سو تمہیں بشارت ہو کہ تمہاری مرادیں پوری ہوں گی.مگر یاد رکھو! مجھے تمہارے فقر و افلاس کا اندیشہ نہیں بلکہ دنیا تمہارے لئے اس طرح فراخ کر دی جائے گی.جس طرح پہلی قوموں کے لئے کی گئی.لیکن اس کے نتیجے میں بالآخر وہ ہلاک ہو گئے.مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں تمہارا بھی وہ حال نہ ہو.‘ (16) امین الامت نجران میں اموال بحرین کی امانتوں کا حق ادا کرنے کے بعد حضرت ابو عبیدہ کو نجران میں مالی امور کا امین بنایا گیا.چنانچہ 9 ہجری میں جب نجران کا اعلیٰ سطحی وفد (جو حکومتی اور مذہبی نمائندوں پر مشتمل تھا) مدینہ آیا اور اہل نجران سے ان شرائط پر صلح ہوئی کہ 1 - دو ہزار حلے (چادریں) وہ سالانہ دیا کریں گے ہر حلہ ایک اوقیہ مالیت کا ہوگا اور اوقیہ کا وزن چالیس درہم ہو گا.-2- جو ملے ایک اوقیہ سے زیادہ قیمت کے ہوں گے ان کی قیمت کی زیادتی حلوں کی تعداد کی کمی سے اور جو کم قیمت ہوں گے ان کی قیمت کی کمی حلوں کی تعداد کی زیادتی سے پوری کرائی جائے گی.3- اگر حلوں کی مالیت کے برابر اسلحہ گھوڑے یا دیگر سامان دینا چاہیں تو قبول کر لیا جائے گا.‘ (17) اب ظاہر ہے ان شرائط پر عمل درآمد کروانا بھی ایک امانت دار شخص کا تقاضا کرتا تھا اور یہی سوال اہل نجران نے اٹھایا کہ اس معاہدے کی تعمیل کے لئے اپنا انتہائی امین شخص ہمارے ساتھ بھجوائیں.اس پر نبی کریم نے حضرت ابوعبیدہ کو امین الامت کا خطاب دے کر اس وفد کے ساتھ

Page 151

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 137 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نجران روانہ فرمایا اور حضرت ابو عبیدہ نے یہاں بھی خوب امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق پائی.انتخاب خلافت اولی 10 ہجری میں حضرت ابو عبیدہ حجتہ الوداع کے سفر میں بھی رسول اللہ ہے کے ہم رکاب تھے.جس کے بعد ہمارے آقا و مولا نے سفر آخرت اختیار فرمایا.رسول اللہ ﷺ کی وفات نے مسلمانوں کی زندگی پر ایک زلزلہ برپا کر دیا اپنے آقا کی المناک جدائی کے صدمے سے مغلوب صحابہ رسول بے چین اور بے قرار تھے اور مارے غم کے دیوانے ہوئے جارہے تھے.چنانچہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کے ایک سردار رسول اللہ سے تعلق محبت کی بناء پر انصار میں سے امیر مقرر کئے جانے کا سوال اٹھا رہے تھے.اس موقع پر جب خلافت ایسی اہم امانت کی سپر د داری کا مسئلہ زیر غور تھا.بزرگ صحابہ حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ نے انصار کو سمجھایا اور ہر ایک نے نہایت عجز اور انکسار سے اپنے بزرگ مہاجر بھائی کا نام پیش کر کے صدق دل سے اپنی بیعت پیش کی.حضرت ابوبکر نے فرمایا: دیکھو تم میں عمر موجود ہیں، جن کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا اور تم میں ابو عبیدہ بھی ہیں جن کو امین الامت کا خطاب دیا گیا ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو، بیعت کر کے اکٹھے ہو جاؤ.(18) حضرت عمر نے اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے ان دونوں بزرگوں کے نام لئے اور حضرت ابو بکر کے طبعی پس و پیش کو دیکھ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ سے یہاں تک کہا کہ ابو عبیدہ آپ بیعت لینے کے لئے ہاتھ بڑھا ئیں.میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں.اس پر ابو عبیدہ نے اپنی رائے کا حق امانت یوں ادا کیا کہ ' مجھے ہرگز ایسے شخص پر تقدم روا نہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے اپنی آخری بیماری میں ہمارا امام مقررفرمایا اور حضور ہی وفات تک انہوں نے ہمیں امامت کروائی.“ (19) پھر انصار صحابہ کو کیسی عمدگی سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو اے انصار! تم رسول اللہ کی نصرت کرنے والے اولین لوگ تھے.آج اس کو سب سے پہلے بدلنے والے نہ بن جانا.“ (20) الغرض خلافت اولیٰ کے انتخاب کے اہم اور نازک مرحلے پر بھی امین الامت حضرت ابو عبیدہ

Page 152

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 138 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اپنے خطاب کی خوب لاج رکھی اور امانت کا حق ادا کر دکھایا.حضرت عمر کو حضرت ابوعبیدہ کی عملی زندگی میں کامل امین ہونے پر جو بھر پور اعتماد تھا اس کا اظہار انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنی ایک دلی تمنا کے رنگ میں یوں کیا کہ اگر آج ابو عبید کا زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کر جاتا اور اس کے بارہ میں کسی سے مشورہ کی بھی ضرورت نہ سمجھتا اور اگر مجھ سے جواب طلبی ہوتی تو میں یہ جواب دیتا کہ خدا اور اس کے رسول کے امانت دار شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں.(21) شاندار فتوحات اور مفتوحین سے حسن سلوک خلیفہ اول حضرت ابو بکر نے بھی اپنے دور خلافت میں حضرت ابو عبید کا پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے ملک شام کے چاروں اطراف میں نبرد آزما تمام فوجوں کی کمان ان کے سپرد کی.آپ کے ماتحت چاروں لشکروں کے امیر تھے.متحدہ فوجوں نے فتح بصری و اجنادین کے بعد دمشق کا محاصرہ کیا تھا کہ حضرت ابو بکر کی وفات ہوگئی.حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت تک یہ طویل محاصرہ جاری رہا ایک روز حضرت خالد بن ولید شمال حکمت عملی سے منصوبہ بندی کر کے شہر کے ایک طرف سے فصیل پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور شہر کے اس حصہ کے دروازے کھول دیئے آپ کی سپہ اندر داخل ہوگئی اور شہر کی دوسری جانب ابوعبیده دروازه تو ڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے.عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ابوعبیدہ شہر فتح کرلیں گے تو انہوں نے حضرت خالد کے لئے مشرقی دروازہ کھول کر ان سے تحریری صلح کر لی.اگر چہ یہ ان کی واضح دھو کہ رہی تھی کیونکہ ایک تو حضرت خالد میر نہ تھے دوسرے ایک طرف سے شہر مفتوح ہونیکی حالت میں پورے شہر کی طرف سے مصالحت کی تحریر لاعلمی میں لی گئی ہر چند کہ دھو کہ کے ساتھ کئے گئے اس معاہدہ صلح کی کوئی اہمیت نہیں تھی مگر حضرت خالد عیسائیوں کو جو امان دے چکے تھے.حضرت ابو عبیدہ نے اسے واپس لینا پسند نہ فرمایا.اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ بے شک خالد امیر لشکر نہیں پھر بھی رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ کسی ایک مسلمان کی طرف سے دی گئی امان تمام مسلمانوں کی طرف سے پناہ مجھی جائے گی.(22) چنانچہ نصف شہر دمشق کے مفتوح ہونے کے باوجود اہل شہر کو

Page 153

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 139 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ قیدی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی مال غنیمت لوٹا گیا بلکہ مصالحت کے احکام جاری کرتے ہوئے اہل شہر کو مکمل امان دی گئی.ایک روایت میں خالدہ کے فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہونے اور ابو عبیدہ کے صلح کرنے کا ذکر ہے جو سیج نہیں.حضرت عمرؓ نے جب حضرت خالد کی بجائے حضرت ابو عبیدہ کو امیر لشکر مقررفرمایا تو حضرت خالد نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اے مسلمانو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں.حضرت ابو عبیدہ نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ خالد خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے.با اصول قائد معر کہ فل میں حضرت ابو عبیدہ کی خدمت میں جو رومی سفیر حاضر ہواوہ رومی جرنیلوں کے مقابل پر اسلامی جرنیل کی سادگی دیکھ کر اول تو پہچان ہی نہ سکا.پھر ملاقات کر کے ان کی سادگی وقار اور رعب سے بہت متاثر ہوا.اسی موقع پر اس سفیر نے وہ تاریخی پیشکش بھی کی کہ آپ کے ہر سپاہی کو ہم دو اشرفیاں دیں گے اگر آپ لوگ یہیں سے واپس چلے جاؤ.حضرت ابو عبیدہ جیسے جری اور امین انسان اصولوں کا یہ سودا کیسے کر سکتے تھے؟ چنانچہ اگلے روز دونوں فوجوں کے درمیان میدان جنگ میں بلا کا رن پڑا.حضرت ابوعبیدہ نے قلب لشکر میں رہ کر نہایت دانشمندی اور دلیری سے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے بہت بڑی رومی فوج کو شکست فاش دی.فتح حمص کے بعد لاذقیہ کا قلعہ بند شہر بھی ابوعبیدہ نے کمال دانشمندی سے اس طرح فتح کیا کہ مخفی طور پر کچھ خندقیں کھدوا کر اپنی فوج کا ایک حصہ وہاں چھوڑا اور باقی فوج کو کوچ کا حکم دیدیا.محصورین نے دیکھا کہ فوج پڑاؤ اٹھا چکی تو شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے.ابوعبیدہ کی سپاہ خندقوں سے نکل کر شہر میں داخل ہوگئی.( 24 ) اسلامی عدل کا شاندار نمونہ ان متواتر شکستوں کے بعد شہنشاہ روم نے ملک بھر سے فوجیں پر موک میں جمع کر

Page 154

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 140 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ لیں.حضرت ابوعبیدہ نے مقابلہ کے لئے جرنیلوں سے مشورہ طلب کیا تو یہ تجویز پیش ہوئی کہ مفتوحہ علاقوں کی تمام فوجوں کو مقابلہ کے لئے اکٹھا کیا جائے مگر اس صورت میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو مفتوح عیسائی باشندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ نا خطرے سے خالی نہ تھا اور دوسری طرف مفتوحہ علاقوں کے لوگوں سے جزیہ وخراج لے کر ان کی حفاظت کے وعدے کئے تھے.چنانچہ اس نازک موقع پر امین الامت حضرت ابو عبیدہ نے جو تاریخی فیصلہ فرمایا وہ آپ کی شان امانت کو خوب ظاہر کرتا ہے آپ نے فرمایا کہ مفتوحہ علاقوں سے فوجیں دمشق جمع ہوں اور وہاں کے باشندوں کو ان سے وصول شده جزیہ واخراج آپ نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ فی الوقت ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنے سے معزور ہیں اسلئے اپنی امانت واپس لے لو، چنانچہ حمص کے عیسائیوں اور دیگر مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کوئی لاکھ کی رقم واپس دی گئی ، اس بے نظیر عدل وانصاف اور ادائیگی امانت کا ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے کہا تمہاری عادلانہ حکومت ہمارے لئے پہلے کی ظالمانہ حکومت سے بہت بہتر ہے.اور مسلمان جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو مقامی عیسائی باشندے انہیں الوداع کرتے ہوئے روتے جاتے تھے اور دلی جوش سے یہ دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تم کو پھر واپس لائے.یہودیوں نے تو یہاں تک کہا کہ تو رات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا.اسکے ساتھ ہی انہوں نے شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور ہر جگہ پہرہ بٹھا دیا.(25) میدان وغا میں دعوت الی اللہ معرکہ یرموک سے پہلے فریقین میں سفارتوں کا تبادلہ ہوا تو جارج نامی رومی قاصد نے اسلامی لشکر گاہ میں آکر انہیں باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا پھر جب حضرت ابو عبیدہ نے اسلام کا پیغام اسے پہنچایا اور حضرت عیسی کے بارہ میں سورہ نساء کی وہ آیات سنائیں جن میں آپ کو خدا کا رسول اور کلمۃ اللہ کہا گیا ہے تو جارج نے حق وصداقت کی گواہی دیتے ہوئے اسلام قبول کر لیا اور واپس جانے سے انکار کر دیا مگر امین الامت نے باصرار اسے اسلامی سفیر حضرت خالد کے ساتھ واپس جانے پر مجبور کیا اور یوں سفارت کے حق امانت پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی.ان سفارتوں کے ناکام ہونے کے بعد ابو عبیدہ نے میدان یرموک میں اسلامی تاریخ کے سب سے

Page 155

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 141 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بڑے معرکہ کی قیادت کی جس میں تمہیں ہزار مسلمانوں نے کئی لاکھ رومی فوج کو شکست فاش دی اور تین ہزار مسلمانوں کے مقابل پر ستر ہزار رومی مارے گئے.(26) بیت المقدس کی تاریخی فتح بیت المقدس کی تاریخی فتح میں حضرت ابو عبیدہ نے اہم کردار کیا.حضرت عمرو بن العاص کے محاصرہ بیت المقدس کے دوران عیسائیوں نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ خلیفہ المسلمین حضرت عمر خود آکر اس مقدس شہر سے معاہدہ صلح طے کریں چنانچہ حضرت ابو عبیدہ کی درخواست پر حضرت عمرؓ نے خود تشریف لا کر معاہدہ صلح فرمایا 14ھ میں حضرت عمر نے خالد بن ولید کی جگہ ابو عبیدہ کو والی دمشق مقرر فرمایا.اسکے بعد ملک شام میں آپ ہی کے ذریعہ عہد فاروقی کی بہت ساری اصلاحات عمل میں آئیں.علاوہ ازیں حضرت ابو عبیدہ نے ایک عظیم الشان داعی الی اللہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک طرف شام میں آباد عیسائی عربی قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا انتظام کیا اور وہ آپ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے.دوسری طرف شامی اور رومی عیسائی بھی آپ کے اخلاق و کردار اور عدل و انصاف سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے.(27) طاعون عمواس اور ابو عبیدہ کا مقام رضا بالقضاء 18 ھجری میں حضرت ابو عبیدہ عمو اس مقام پر پڑاؤ کئے ہوئے تھے کہ شام میں مہلک طاعون پھوٹ پڑی.حضرت عمر ملک شام کے دورہ پر نکلے تھے.سرخ کے مقام پر حضرت ابوعبیدہ نے آپ کا استقبال کیا.یہاں پر آکر پتہ چلا کہ طاعون اور شدت اختیار کر چکی ہے.صحابہ کرام نے حضرت عمر کو مشورہ دیا کہ وہ یہیں سے واپس چلے جائیں اور طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہوں ورنہ وبا لگ جانے کا خطرہ ہے.(28) حضرت عمرؓ خودرضا بالقضاء کے اعلیٰ مقام پر تھے.آپ نے صحابہ کا مشورہ احتیاطی تدبیر کے طور پر بادل ناخواستہ قبول تو فرمالیا اور مدینہ واپس لوٹے لیکن بر ملا اظہارضرور فرماتے رہے کہ عین ملک شام کے سر پر پہنچ کر ان لوگوں نے طاعون کی وجہ سے مجھے واپس آنے پر مجبور کیا حالانکہ میں خوب

Page 156

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 142 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ جانتا ہوں کہ نہ تو میرا وہاں سے واپس لوٹنا مجھے موت کے منہ سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی میرا وہاں جانا مجھے میری موت کے مقررہ دن سے پہلے لقمہ اجل بنا سکتا تھا.مدینہ میں فرائض منصبی سے فارغ ہو کر جو نہی مجھے موقع ملا میں جلد پھر شام کا قصد کرونگا.(29) مسئلہ تقدیر سرغ میں انصار و مہاجرین سے حضرت عمرؓ کے مشورہ کے دوران یہ بحث چھڑی کہ حضرت عمر کو وباء زدہ علاقہ میں داخل نہیں ہونا چاہئے.صحابہ کا ایک گروہ اسکے خلاف تھا ان میں حضرت ابو عبیدہ بھی تھے جنہیں حضرت عمر نے طاعون زدہ علاقہ چھوڑ کر اپنے ساتھ مدینہ چلنے کی بھی دعوت دی تھی مگر انہوں نے اسلامی فوج کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی) حضرت ابوعبیدہ کی قلندرانہ رائے یہ تھی کہ حضرت عمرا کو دورہ مکمل کئے بغیر واپس نہیں جانا چاہئے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم موت سے بچنے کے لئے تقدیر سے بھاگیں گے ؟ حضرت عمر نے جو مسئلہ تقدیر پر گہری نظر رکھتے تھے فرمایا کہ ابوعبیدہ مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی ( آپ میرے بارے میں یہ خیال کریں کہ موت سے بچنے کی خاطر یہ اقدام کر رہا ہوں) اور پھر انہیں مسئلہ تقدیر سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جارہے ہیں اور ایک نہایت عمدہ مثال سے اسے یوں واضح فرمایا کہ اے ابو عبیدہ اگر آپ کو دو وادیوں میں اونٹ چرنے کا اختیار ہو جن میں ایک سرسبز و شاداب اور دوسری بنجر ہو اور آپ سرسبز وادی میں جانور چرائیں تو کیا یہ اللہ کی تقدیر سے نہیں ہو گا؟ اسکے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف ( جو موقع پر موجود نہیں تھے) نے آکر رسول اللہ کی ایک روایت سنا کر یہ مسئلہ واضح کر دیا.انہوں نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ لہ سے سنا ہے کہ اگر تمہیں کسی علاقہ میں وہا کا پتہ چلے تو اس سرزمین میں داخل نہ ہو اور اگر تم پہلے سے اس علاقہ میں موجود ہو تو اس سے بھاگ کرمت نکلو.اس پر حضرت عمر نے واپسی کے اپنے صائب فیصلہ پر اللہ کی حمد کی اور واپس روانہ ہوئے.(30) معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ ، عبد الرحمان بن عوف سے یہ حدیث سن کر اپنی اس رائے پر مزید پختہ ہو گئے کہ انہیں یہ وباز دہ علاقہ چھوڑنا نہیں چاہئے.چنانچہ مدینہ واپس پہنچ کر حضرت عمرؓ نے جب آپ کو ایک خط کے ذریعہ کسی کام کے عذر سے مدینہ بلوا بھیجا.آپ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید

Page 157

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 143 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ طاعون سے بچانے کے لئے مجھے مدینہ بلوار ہے ہیں عرض کیا کہ میں اسلامی لشکر کو چھوڑ کر آنا پسند نہیں کرتا حضرت عمرؓ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ اپنا لشکر کسی پر فضا جگہ پر منتقل کریں.چنانچہ آپ نے اس کی تعمیل کی اور جابہ منتقل ہو گئے.(31) بیماری اور وفات جابیہ میں خدا کی وہ تقدیر ظاہر ہوگئی جس کا ابو عبیدہ کو انتظار تھا.( عین ممکن ہے ان کا مدینہ نہ جانے پر اصرار بھی اس تقدیر الہی کا کوئی واضح اشارہ پانے کے نتیجہ میں ہو ) حضرت ابوعبیدہ بیمار ہوئے تو معاذ بن جبل کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”اے لوگو طاعون کی وبا بھی فی الحقیقت تمہارے رب کی رحمت اور تمہارے نبی کی دعوت ہے.بہت سے نیک لوگ اس میں جاں بحق ہوئے اور ابوعبیدہ بھی اپنے رب سے یہی دعا کرتا ہے کہ وہ مجھے اس شہادت سے حصہ عطاء فرمائے.پھر اسی طاعون سے آپ کی وفات ہوئی.(31) اس طرح ابو عبیدہ کی شہادت کی وہ بچی تمنا جو میدان جنگ میں پوری نہ ہوسکی تھی 58 سال کی عمر میں طاعون کے ذریعہ خدا نے پوری فرما دی.(32) آپ کا جنازہ وصیت کے مطابق حضرت معاذ بن جبل نے پڑھایا اور اس موقع پر صحابہؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو آج تم سے ایک ایسا شخص رخصت ہوا ہے کہ خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ اس سے زیادہ صاف دل، پاک سینہ ، سیر چشم ، حیاء دار اور لوگوں کا بہی خواہ میں نے کوئی نہیں دیکھا.پس اٹھو اور ا سکے لئے رحمت کی دعا مانگو.“ (33) واقعی حضرت ابو عبیدہ کی زندگی سادگی، عجز و انکسار، امانت و دیانت اور رعایا پروری کا خوبصورت نمونہ تھی.سادگی آپ کی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی کا ایک نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب حضرت عمرؓ شام

Page 158

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 144 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے.اسلامی فوجوں کے سالا را علیٰ حضرت ابوعبیدہ سادہ کپڑوں میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر استقبال کے لئے نکلے.مگر جب حضرت عمرؓ نے دیگر مسلمان جرنیلوں کو شامی قبائیں پہنے دیکھا ( جوانہوں نے خلیفہ وقت کے استقبال اور اعزاز کی خاطر زیب تن کی تھیں ) تو اس اندیشہ سے کہ یہ لوگ امیرانہ ٹھاٹھ اور عجمی عادات اور اسراف کی عادات اختیار نہ کرلیں ان کو تنبیہ فرمائی.مگر جب حضرت ابو عبیدہ کے ہاں فروکش ہوئے تو معاملہ برعکس تھا.وہاں ایک تلوار، ڈھال اور اونٹ کے پالان کے سوا کچھ نہ تھا.حضرت عمر نے فرمایا: ابو عبیدہ کچھ گھر کا سامان ہی بنالیا ہوتا.عرض کیا اے امیر المومنین ہمارے لئے بس یہی کافی ہے.(34) مجاہدین اسلام سے حسن سلوک آپ اپنے اوپر کچھ خرچ کرنے کی بجائے اپنے مجاہدوں اور سپاہیوں کا بہت خیال رکھتے.ایک دفعہ حضرت عمر نے آپ کو چار سود دینار اور چار ہزار درہم بطور انعام بھجوائے.آپ نے تمام رقم اپنی فوج کے سپاہیوں میں تقسیم کر دی اور اپنے لئے ایک حصہ بھی رکھنا پسند نہ کیا.حضرت عمر کو پتہ چلا تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ الحمد للہ ابھی مسلمانوں میں ابو عبیدہ جیسے لوگ موجود ہیں.(35) بے نفسی اس زہد اور بے نفسی کے باوجو ذخشیت کا یہ عالم تھا کہ آخری بیماری میں ایک صحابی رسول ہے آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے.دیکھا کہ ابو عبیدہ رور ہے ہیں.پوچھا کیوں روتے ہیں؟ فرمایا اس لئے روتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ مسلمانوں کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے ابو عبیدہ اگر تمہاری عمر وفا کرے اور فتوحات کے اموال آئیں تو تین خادم اور تین سواریاں تمہارے لئے کافی ہیں.اب میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے زیادہ غلام اور سواریاں ہیں.سوچتا ہوں کہ کس منہ سے اپنے آقا سے ملوں گا.آپ نے ہمیں وصیت فرمائی تھی کہ تم میں سے زیادہ میرے قریب اور میرا پیارا وہ شخص ہے جو مجھے اس حال سے آکر ملے جس حال پر میں چھوڑ کر جارہا ہوں.(36)

Page 159

145 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں ابو عبیدہ شامی فوجوں کے کمانڈر انچیف تھے.ایک دن افواج سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مجھے اپنے اوپر تقویٰ میں فضلیت نہ دے میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ سلامت رہوں.“ (37) حضرت ابو عبیدہ کی دانشمندی بے نفسی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھنے کا وہ واقعہ بھی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ حضرت ابو عبیدہ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا.جس میں حضرت ابو بکر کی وفات کا ذکر تھا اور حضرت عمرؓ نے حضرت خالد کو معزول کرتے ہوئے حضرت ابوعبیدہ کو امیر لشکر مقرر فرمایا تھا تو حضرت ابو عبیدہ نے خالد کو وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس وقت تک اس کی اطلاع نہیں کی جب تک اہل دمشق کے ساتھ صلح نہ ہوگئی اور معاہدہ صلح پر آپ نے حضرت خالد سے دستخط کروائے.حضرت خالد بن ولیڈ کو بعد میں پتہ چلا تو آپ سے شکوہ کیا مگر آپ ٹال گئے اور ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مطمئن کر دیا.اسلامی جرنیل حضرت خالد نے اس موقع پر اطاعت خلافت کا شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے کہا لوگو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں.حضرت ابو عبیدہ نے جواب میں کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ خالد خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور قبیلہ کا بہتریں نوجوان ہے.(38) رواداری حضرت ابو عبیدہ کا حسن سلوک اپنوں سے ہی نہیں پرایوں اور بیگانوں سے بھی رواداری اور احسان کا تھا.چنانچہ شام کی عیسائی رعایا کو آپ نے مکمل مذہبی آزادی عطا فرمائی اور اسلامی فتوحات کے بعد مفتوحہ علاقوں میں عیسائیوں پر ناقوس بجانے اور صلیب نکالنے کی جو پابندیاں تھیں، آپ نے ان میں نرمی اور آزادی عطا فرمائی.جس کا عیسائیوں پر بہت نیک اثر ہوا.الغرض حضرت ابو عبیدہ کو رسول خدا نے امین الامت کا جو خطاب عطا فر مایا تھا انہوں نے اس کی خوب لاج رکھی.آپ کی ساری زندگی ادائیگی امانات کا خوبصورت مرقع اور بہترین تصویر نظرآتی ہے.تبھی تو حضرت عمر آپ کو صحابہ رسول میں ایک ممتاز مقام کا حامل قرار دیتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمر نے اپنی مجلس میں ایک نہایت اچھوتے انداز میں حضرت ابو عبیدہ کے

Page 160

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 146 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کمالات کا تذکرہ کیا.پہلے اپنے مصاحبوں سے فرمایا کہ اپنی اپنی خواہش اور تمنا بیان کرو کسی نے کہا میرا دل کرتا ہے کہ سونے چاندی سے بھرا ہوا میرا گھر ہو اور وہ راہ خدا میں صدقہ کر دوں کسی نے کچھ اور تمنا کا اظہار کیا.حضرت عمر فرمانے لگے ” میرا دل کرتا ہے کہ ایک وسیع گھر ہو جو ابوعبیدہ جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو.“ (39) 1 - اصابه جز 4 صفحہ 11-10 2- اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 84 اسدالغابہ -3 اصابہ جز 4 صفحہ 2-1 4- اصابه جز 4 صفحہ 12 -5 -6 -7 1247 بخاری کتاب المغازی اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 85 حواله جات بخاری کتاب المغازی و کتاب المناقب 8- فضائل الصحابہ جلد 2 صفحہ 741 -9 -10 اصابه جز 4 صفحہ 11 ابن سعد جلد 3 صفحہ 410 واستيعاب جلد ص 342 11 - الاكمال ذكر ابو عبيدة -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 -21 -22 ابن سعد جلد 3 صفحہ 62 اصابہ جز 4 صفحہ 12 بخاری کتاب المغازی فتوح البلدان بخاری کتاب الرقاق فتوح البلدان صفحه 70 تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 123، استیعاب جلد 2 ص 342 فضائل الصحابہ جلد 2 صفحہ 741 بخاری کتاب الرقاق الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 413 فتوح البلدان صفحہ 127 ومسند احمد بن جلد 1 صفحہ 195

Page 161

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -23 -24 -25 -26 الفاروق صفحہ 123-122 فتوح البلدان صفحه 139-138 فتوح البلدان صفحہ 144-143 فتوح البلدان صفحه 141 147 27- الفاروق شبلی نعمانی صفحہ 132 -28 بخاری کتاب الطب باب ما یذکر فی الطاعون 29- مسند احمد بن فضیل جلد 1 صفحہ 19-18 حنبل -30 -31 بخاری کتاب الطب باب مائیڈ کر فی الطاعون مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 196 32- اصابہ جز 4 صفحہ 12 1234 -33 -34 -35 -36 -37 -38 -39 اصابہ جز 4 صفحہ 13 اصابه جز 4 صفحه 12 ابن سعد جلد 3 صفحہ 413 مسند احمد جلد 1 صفحہ 196 اصابه جز 4 صفحہ 12 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ طبری جز 4 صفحہ 255-254 بیروت ،مسند احمد جلد 4 ص90 ابن سعد جلد 3 صفحہ 413

Page 162

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 148 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حلیه و نام و نسب حضرت عبد الرحمن بن عوف لمبا قد ، سرخی مائل سفید رنگ، خوبصورت چہره، باریک بھوئیں، بھری ہتھیلیاں ، موٹی انگلیاں، نرم جلد، داڑھی اور سر کے بال رنگتے نہیں تھے.یہ تھے عبدالرحمن عوف.جن کا اصل نام عبدالکعبہ یا عمر و بن عوف تھا.ایمان لائے تو آنحضرت ﷺ نے عبدالرحمن نام رکھا جو ناموں میں آپ کو سب سے زیادہ پسند تھا.آپ ان دس خوش نصیب بزرگ اصحاب میں سے تھے جنہیں رسول اللہ علی اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہوئے.(1) والد کا نام عوف اور والدہ کا نام صفیہ یا شفا تھا.دونوں زہرہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، کنیت ابو محمد تھی.نسب آٹھویں پشت میں رسول کریم سے مل جاتا ہے.واقعہ فیل کے بعد دسویں سال میں پیدا ہوئے.(2) قبول اسلام رسول اکرم ﷺے کے دعویٰ نبوت کے وقت آپ کی عمر تیس برس سے زائد تھی.آپ ایک نیک مزاج اور پاک فطرت انسان تھے.زمانہ جاہلیت میں ہی شراب سے تائب ہو چکے تھے.نبی کریم ﷺ کے دعوئی سے پہلے حضرت عبدالرحمن کی ملاقات اپنے تجارتی سفر کے دوران یمن میں ایک بوڑھے سے ہوا کرتی تھی.وہ آپ سے پوچھا کرتا تھا کہ تمہارے اندر کوئی دعویدار نبوت تو ظاہر نہیں ہوا.جس سال حضور کی بعثت ہوئی اسے میں نے بتایا تو اس نے کہا کہ میں تجھے تجارت سے بہتر بشارت دیتا ہوں کہ یہ شخص نبی ہے تم فور آجاؤ ، اس کی تصدیق کرو اور میرے یہ اشعار سے جا کر سناؤ.واپس آکر حضرت ابو بکر سے ملاقات ہوئی اور اس واقعہ کا ذکر ہوا پھر رسول کریم کو یہ واقعہ اور اشعار آکر حضرت خدیجہ کے گھر سنائے اور اسلام قبول کر لیا.عبدالرحمن بہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے.قبول اسلام کے بعد آپ کو بھی وطن کی قربانی دینی پڑی.پہلے حبشہ ہجرت فرمائی پھر مدینہ رسول کی طرف دوسری ہجرت کی سعادت ملی.آپ ایک بہت اچھے تاجر تھے.مگر ہجرت کے

Page 163

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 149 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ وقت مال جائیداد بیوی بچے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رسول خدا ﷺ کے قدموں میں حاضر ہو گئے.مواخات حضور ﷺ نے حضرت سعد بن ربیع انصاری کو آپ کا بھائی بنایا حضرت سعد انصار میں بڑے مالدار اور فیاض انسان تھے.انہوں نے اس دینی اور روحانی رشتہ کا اتنا پاس کیا جس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں مل سکتی.وہ حضرت عبد الرحمن بن عوف سے کہنے لگئے رسول اکرم ﷺ نے آپ کو میرا بھائی بنایا ہے.یہ میرا مال اور جائیداد حاضر ہے، میں اس کو نصف نصف بانٹ دیتا ہوں.نصف آپ کی خدمت میں پیش ہے.میری دو بیویاں ہیں.آپ جسے پسند کریں میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور آپ ( عدت کے بعد ) نکاح کر لینا.حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی نہایت غیور اور سیر چشم انسان تھے.آپ کی غیرت نے اپنے اسلامی بھائی سے کچھ لینا گوارا نہ کیا.یہی کہا کہ ” خدا آپ کے مال اور اہل وعیال میں برکت ڈالے آپ مجھے صرف بازار کا راستہ بتا دیں.پھر آپ بنو قنیقاع کے بازار میں چلے گئے اور معمولی پونجی سے آپ نے گھی ، پنیر اور چمڑے کی تجارت شروع کر دی.پہلے ہی دن آپ کچھ گھی اور پنیر نفع میں کما کر لے آئے.چند دنوں میں اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ آپ نے نہایت سادگی سے عرب کے دستور کے مطابق ایک انصاری عورت کے ساتھ شادی کر لی.رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جسم پر مراسم شادی دیکھ کر رسول اکرم پہچان گئے اور بہت محبت سے پوچھا عبد الرحمن یہ کیا ہے؟ عرض کیا حضور شادی کر لی ہے.آنحضرت نے مہر کے بارے میں استفسار کیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے بتایا کہ گنٹھلی برابر سونا میں پہلے ہی حق مہر کے طور پر ادا کر چکا ہوں.حق مہر کی مالیت سے حضور کو اندازہ ہوا کہ مالی حالت بہتر ہونا شروع ہو چکی ہے تب فرمایا کہ اچھا اب اپنے دوستوں کے لئے دعوت ولیمہ کا بھی انتظام کرو خواہ ایک بکری ہی سہی.(3) یوں حضرت عبد الرحمن بن عوف نے مدینے میں رسول اللہ کی دعاؤں سے اپنی نئی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا.غزوات میں شرکت غزوات النبی کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف کو رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ

Page 164

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 150 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کمال استقامت اور شجاعت کے ساتھ خدمات بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی.غزوہ بدر میں اپنی شرکت کا دلچسپ حال آپ یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ معرکہ بدر میں میں نے اپنے دائیں بائیں دونوں جانب نگاہ ڈالی.جنگ میں جب تک دونوں پہلو صیح طور پر مضبوط نہ ہوں انسان لڑائی کا حق ادا نہیں کر سکتا.میں دیکھتا ہوں کہ دو نو جوان انصاری لڑکے میرے دائیں بائیں ہیں.ابھی میں ان کے بارہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں نے آہستہ سے باری باری مجھ سے پوچھا کہ چچا ابو جہل کہاں ہے؟ جو ہمارے آقا محمد ﷺ کے خلاف بد زبانی کرتا ہے.میں نے کہا وہ سامنے سخت پہرہ میں ابوجہل موجود ہے.کہتے ہیں کہ میرے اشارہ کی دی تھی کہ وہ دونوں باز کی طرح اپنے شکار پر جھپٹے اور ایسا وار کیا کہ آن واحد میں ابو جہل کی گردن تن سے جدا کر کے رکھ دی.(4) خود حضرت عبد الرحمن بن عوف نے بھی غزوہ بدر میں اپنا حق خوب ادا کیا.پھر غزوہ احد کا معرکہ پیش آیا تو اس جانبازی سے لڑے کہ بدن پر میں سے زیادہ زخم آئے تھے.پاؤں پر تو ایسے سخت زخم آئے تھے کہ اچھا ہونے کے بعد بھی لنگڑا کر چلا کرتے تھے.اسی طرح آپ کے اگلے دو دانت بھی گر گئے تھے.(5) دیگر مہمات میں شرکت چھ ہجری میں آنحضرت ﷺ نے آپ کو دومتہ الجندل کی مہم پر روانہ فرمایا.اپنے دست مبارک سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے سر پر عمامہ باندھا اور علم عطا کر کے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر روانہ ہوں قبیلہ کلب کو جا کر اسلام کی دعوت دیں اور اگر وہ معاہدہ صلح کی طرف مائل نہ ہوں تو پھر راہ خدا میں ان سے جہاد کی نوبت آئے تو جہاد کریں.مگر جنگ میں کسی کو دھوکہ نہ دینا بچوں کو نہ مارنا کسی پر زیادتی نہ کرنا اور جب اللہ تعالیٰ ان پر فتح دے تو ان کے سردار کی بیٹی تماضہ بنت اصبغ سے نکاح کر لینا.حضرت عبد الرحمن بن عوف دومۃ الجندل تشریف لے گئے.تو تین روز تک مسلسل تبلیغ کرتے رہے.اور عیسائی قبیلہ کلب کے سردار اصبغ اور اس کی قوم کے بہت سے لوگ آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں مسلمان ہو گئے.جبکہ باقی لوگوں نے جزیہ دینا منظور کیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے آنحضرت کے ارشاد کے مطابق قبیلہ کے سردار اصبغ کی بیٹی سے نکاح کیا اور انہیں بیاہ کر مدینہ

Page 165

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 151 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ لے آئے انہی کے بطن سے آپ کے صاحبزادہ ابوسلمہ پیدا ہوئے.جو بڑے فقیہ بنے.(6) فتح مکہ کے سفر میں بھی حضرت عبدالرحمن بن عوف شامل تھے.فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوف کی حضرت خالد بن ولید سے کسی معاملے میں تکرار ہوگئی.نبی کریم ﷺ کو خبر ہوئی تو خالد سے فرمایا کہ میرے اصحاب کو کچھ نہ کہو اگر تم خدا کی راہ میں جبل احد کے برابر بھی سونا صرف کرو تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.فتح مکہ سے حجۃ الوداع تک مہمات میں حضرت عبدالرحمن بن عوف شریک رہے.رسول کریم ﷺ نے انہیں سفر میں کسی عذر کی وجہ سے ریشم کے استعمال کی اجازت فرمائی تھی.قیام خلافت اور مشاورت میں کردار رسول اکرم ﷺ کی وفات کے سانحہ پر آپ حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے.حضرت ابوبکر کو بھی آپ پر بہت اعتماد تھا.آپ نے ہمیشہ حضرت ابوبکر کے مشیر اور معاون ہونے کا حق ادا کیا.۱۳ھ میں حضرت ابو بکڑ نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بلا کر اپنے جانشین کے بارہ میں مشورہ کیا اور حضرت عمر کا نام تجویز کیا.انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت عمرؓ کی اہلیت میں تو کوئی شبہ نہیں مگر طبیعت ذراسخت ہے.حضرت ابوبکڑ نے فرمایا کہ خلافت کا بوجھ پڑے گا تو خود بخودہی نرم ہو جائیں گے.حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجلس شوری قائم کی.عبدالرحمن بن عوف اس کے اہم رکن تھے.کئی معاملات میں آخری فیصلہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی رائے کے مطابق ہوا.عراق پر فوج کشی کے لئے جب کئی صحابہ نے حضرت عمر کو نہایت پر زور اصرار کے ساتھ اس لشکر کی کمان خود سنبھالنے کے لئے درخواست کی تو حضرت عمرؓ نے اس کا ارادہ کر لیا اور مدینہ پر حضرت علی کو امیر مقرر کر کے جہاد کیلئے روانہ ہوئے.ابھی مدینہ کے باہر پڑاؤ تھا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اس سفر کی مخالفت کرتے ہوئے پھر عرض کیا کہ لڑائی میں دونوں امکان ہوتے ہیں اور خدانخواستہ امیر المومنین کو کوئی نقصان پہنچ گیا تو اسلام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کی یہ رائے سن کر سب صحابہ اس کے قائل ہو گئے.مگر اب مشکل یہ تھی کہ اب اس

Page 166

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 152 لشکر کی کمان کون کرے.کیونکہ حضرت علی بھی بوجہ بیماری عذر بیان کر چکے تھے.حضرت عبد الرحمن بن بن عوف کی عمدہ رائے سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا.آپ نے اس لشکر کی سپہ سالاری کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاص کا نام تجویز کیا بعد کے واقعات نے بھی یہ ثابت کیا کہ حضرت سعد ہی اس لشکر کی قیادت کے اہل تھے.23 ہجری میں حضرت عمر پر فجر کی نماز میں قاتلانہ حملہ ہوا.تو انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر آگے مصلے پر کر دیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جلدی سے نماز مکمل کر لی.مشتمل حضرت عمر کو اٹھا کر گھر لایا گیا.حضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لئے جو چھ افراد پرست بنائی تھی اس کے فیصلہ کن رکن عبد الرحمن بن عوف تھے.(7) وفات کمیٹی اسٹھ میں حضرت عبد الرحمن بن عوف نے بعمر 75 سال وفات پائی.حضرت علیؓ نے آپ کے جنازے پر کھڑے ہو کر آپ کو داد تحسین دی.حضرت سعد بن ابی وقاص نے اس موقع پر کہا وائے افسوس ! کہ آج ایک پہاڑ جیسی کوہ وقار شخصیت ہم سے جدا ہوگئی.حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.(8) علم وفراست حضرت عبدالرحمن کو آنحضرت ﷺ کے قدیمی صحابی ہونے کے باعث علم وفضل کی سعادت بھی حاصل رہی تھی.رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی لوگ آپ سے مسائل دریافت کرتے اور آپ مستند جواب دیتے تھے.بعد میں بھی کئی مشکل مقامات پر آپ کو قومی سطح پر نہایت مفید مشورے دینے کی توفیق بھی حاصل ہوئی.حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں جب اہل بیت میں آنحضرت ﷺ کی وراثت کا سوال ہوا تو آپ نے اپنے ذاتی علم کی بنا پر وضاحت کی کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” آپ کے ترکے میں وراثت نہ چلے گی بلکہ وہ بیت المال کا حق ہوگا.“ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں جب ایران فتح ہوا تو آتش پرستوں سے معاملہ کرنے کا مسئلہ در پیش

Page 167

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 153 حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہوا کیونکہ قرآن کے ظاہری الفاظ سے جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لینے کا حکم معلوم ہوتا تھا.حضرت عبدالرحمن نے اجتہاد سے یہ عقدہ بھی حل کیا کہ آنحضور نے ان لوگوں کے ساتھ بھی اہل کتاب کا سلوک کیا اور انہیں ذمی قرار دیا تھا جیسے ہجر کے مجوسیوں سے سلوک ہوا.طاعون عمواس کے موقع پر حضرت عمر سرغ مقام سے حضرت عبدالرحمن کی روایت کی بناء پر ہی واپس لوٹ آئے تھے اور شام میں داخل نہیں ہوئے تھے.ان کی رائے ایسی پختہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے بوقت وصال یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نہایت صائب الرائے ، صاحب عقل و دانش اور سلیم الطبع ہیں انکی رائے کو بہت اہمیت دینا.اور اگر انتخاب خلافت میں کوئی مشکل پیدا ہو تو جس طرف حضرت عبدالرحمن بن عوف ہوں ان کا ساتھ دینا.حضرت عمر کی یہ رائے بلاشبہ ذاتی تجربے پر مشتمل تھی جو درست ثابت ہوئی.(9) اخلاق فاضلہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اعلی اخلاق کے مالک تھے.خوف خدا، حب رسول، صدق و عفاف،امانت و دیانت، رحم وکرم، فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ آپ کی روشن صفات تھیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا عبد الرحمن بن عوف مسلمانوں کے سرداروں میں سے سردار ہیں.وہ آسمان میں بھی امین ہیں اور زمین میں بھی ! خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک دن روزے سے تھے.دستر خوان لگایا گیا تو ان نعمتوں کو دیکھ کر بے اختیار رونے لگے آپ کو مسلمانوں کے ابتدائی زمانے کے فقر و فاقہ کے دن یاد آ گئے.کہنے لگے کہ میرا بھائی مصعب بن عمیر مجھ سے بہتر تھا مگر وہ جب شہید ہوا تو کفن کی چادر بھی نصیب نہ ہوئی سرڈھانکتے تھے تو پیر ننگے ہو جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتے تھے تو منہ نگا ہو جاتا تھا.پھر پاؤں پر گھاس ڈالی گئی اور سر کو کفن سے ڈھانک کر دفن کیا گیا.یہ تھا احد کے میدان کا شہید مصعب بن عمیر.آج دنیا کی کتنی نعمتیں ہمیں حاصل ہیں یہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ نیکیوں کا بدلہ کہیں ہمیں دنیا میں ہی نہ عطا کر دیا گیا ہو.یہ کہا اور اتنی رقت طاری ہو گئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا.(10) حضرت عبد الرحمان بن عوف وہ خوش قسمت صحابی ہیں جنہیں ایک وہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا جو امت میں کسی اور کو نصیب نہیں.آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے.حضور یے

Page 168

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 154 حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ قافلے سے کچھ پیچھے رہ گئے.نماز فجر کا وقت ہو گیا.نماز میں تاخیر کے اندیشے سے حضرت عبدالرحمان بن عوف نے نماز فجر شروع کروادی.نبی کریم کے بعد میں تشریف لائے اور آپ نے حضرت عبد الرحمان بن عوف کی اقتداء میں نماز ادا کی.(11) حضرت عبدالرحمان کو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اپنی عفت اور پاکدامنی کے باعث ایک اور اہم خدمت کی بھی توفیق ملی.اور وہ تھی ازواج مطہرات کی خدمت و حفاظت.رسول کریم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری ازواج کی خدمت کی توفیق پانے والا بہت ہی صادق اور راستباز ہوگا.حضرت عبدالرحمن بن عوف کو یہ خدمت کرنے کی توفیق ملی.آپ سفر حج میں ازواج مطہرات کے ساتھ جاتے اور ان کے لئے سواری اور پردے کا اہتمام کرتے.(12) مالی قربانی حضرت عبدالرحمن بن عوف بڑے مالدار تاجر تھے اور تجارت میں ایسی برکت پڑی کہ آپ عظیم الشان دولت کے مالک بنے.مگر کبھی حرص اور بخل کا خیال تک نہ آیا.ابوالھیاج راوی ہیں کہ میں نے ایک شخص کو طواف بیت اللہ میں یہ دعا کرتے سنا.اللَّهُمَّ قِنِي شُحَّ نَفْسِی.اے اللہ مجھے اپنے نفس کے بخل سے محفوظ رکھنا.میں نے پوچھا یہ کون ہے تو پتہ چلا کہ وہ عبدالرحمن بن عوف تھے.یہ دعا خوب مقبول ٹھہری.ایک دفعہ عبدالرحمن بن عوف کا تجارتی قافلہ مدینے آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف گیہوں ، آٹا اور دوسری اشیاء لدی ہوئی تھیں.مدینے میں اتنے بڑے تجارتی قافلے کے چرچے ہورہے تھے کہ حضرت عائشہ تک بھی خبر پہنچی.انہوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے کہ عبدالرحمان جنتی ہیں اور رینگتے ہوئے جنت میں جائیں گے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کو اطلاع ہوئی تو دوڑتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں آپ کو گواہ کر کے یہ لدا ہوا قافلہ اونٹ اور کجاوے سمیت میں خدا کی راہ میں وقف کرتا ہوں.اس کا پس منظر یہ تھا کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے ایک دفعہ فرمایا

Page 169

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 155 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ امیر آدمی ہو جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہو گے اسلئے اپنا مال خدا کو قرض دو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ سارا مال ؟ فرمایا ہاں.حضرت عبدالرحمن بن عوف اس پر آمادہ ہو گئے پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے جبریل نے ابھی خبر دی ہے کہ عبد الرحمن کو کہہ دو کہ مہمان کی مہمان نوازی کرے ہمسکین کو کھانا کھلائے ، سائل کو دے اور رشتہ داروں سے اس کا آغاز کرے تو مال پاک ہو جائے گا.سبحان اللہ ! کیا بے نفسی ہے اور دنیا سے بے رغبتی کا کیا عالم ہے.یہ وہ انقلاب تھا جو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ میں پیدا کر دیا تھا.کہ مال کی کثرت نے ان کے دلوں میں مال کی محبت کی بجائے مال عطا کرنے والے کی محبت پیدا کر دی.حضرت عبدالرحمان بن عوف نے ہمیشہ قومی اور مذہبی ضروریات کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں.سورہ تو بہ نازل ہوئی اس میں صدقہ و خیرات کی ترغیب کا مضمون بھی ہے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنا نصف مال کچھ چار ہزار کے قریب رقم پیش کر دی.پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار پیش کئے.اسی طرح جہاد کے لئے ضرورت پیش آئی تو پانچصد گھوڑے اور پندرہ سو اونٹ پیش کر دئیے.(13) عام صدقہ و خیرات کا تو یہ عالم تھا کہ ایک ایک دن میں تمہیں تمہیں غلام آزاد کر دیا کرتے تھے.ایک روایت کے مطابق انداز اتمیں ہزار غلام آزاد کئے.ان تمام خدمتوں کے باوجود کوئی فخر کا شائبہ تھا نہ غرور کا خیال بلکہ عجز وانکسار کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام سلمہ سے یہ عرض کیا کہ مجھے خوف ہے کہ کثرتِ مال مجھے ہلاک نہ کر دے.انہوں نے فرمایا کہ راہ خدا میں مال خرچ کیا کرو.حضرت عبدالرحمان بن عوف نے جیسے یہ نصیحت پلے باندھ لی تھی.وفات کے وقت بھی پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے خدا کی راہ میں وقف کر دئیے.بدر میں جو صحابہ شریک ہوئے تھے بوقت وفات ان کے حق میں یہ وصیت فرمائی کہ اب تک جتنے بدری صحابہ زندہ ہیں میرے ترکے میں سے ہر ایک کو چار صد دینار عطا کئے جائیں.اس وقت سو بدری صحابہ نموجود تھے.چنانچہ ان سب نے بشمول حضرت عثمان کی اس وصیت سے خوب فائدہ اُٹھایا.امہات المومنین کے لئے بوقت وفات ایک باغ کی وصیت کی جو چار لاکھ درہم میں فروخت

Page 170

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 156 حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہوا.حضرت عائشہ معبد الرحمان بن عوف کے بیٹے کو فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ کو اپنے بعد ازواج کے معاملات کی فکر رہتی تھی اللہ تعالیٰ تمہارے باپ عبدالرحمان کو جنت کے چشمہ سے سیراب کرے جنہوں نے ازواج رسول کیلئے اس خدمت کی توفیق پائی.(14) الغرض حضرت عبدالرحمن بن عوف کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت خوب عطا کیا اور آپ نے بھی دل کھول کر خدا کی راہ میں اپنا مال لٹا یا مگر مال میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ خدا نے ایسی برکت ڈالی کہ خود فرماتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو سونا ہو جاتی ہے.چنانچہ اس قدر فیاضی کے باوجود اپنے ورثاء کے لئے بہت مال چھوڑا.چار بیویوں کو ترکہ کے آٹھویں حصے کے طور پر اسی ، اسی ہزار دینار ملے.مال میں سونے کی اتنی بڑی بڑی اینٹیں تھیں کہ کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے.جائیداد غیر منقولہ اور نقدی کے علاوہ ایک ہزار اونٹ ،سوگھوڑے اور تین سو بکریاں بھی ترکے میں چھوڑیں.(15) یہ اس مخلص مہاجر کا ترکہ تھا جو راہ خدا میں خالی ہاتھ ملے سے مدینے ہجرت کر کے آ گیا تھا.اور نصف مال و جائیداد کی پیش کش حضرت سعد بن ربیع نے کی تو کمال استغناء کے ساتھ قبول نہیں کی تھی اور خدا پر کامل تو کل کرتے ہوئے محنت کرنے کو ترجیح دی تھی.پھر خدا نے بھی اس متوکل انسان کو ایسا نوازا کہ دولت کے انبار اس کے سامنے لگا دیئے.حضرت عبدالرحمان بن عوف کے پاس کیمیا گری کا نسخہ تھانہ جادو کی کوئی ایسی انگوٹھی کہ جس چیز کے ساتھ لگاتے تھے وہ سونا بن جاتی تھی.نہ ہی تجارت کا کوئی ایسا گر آپ کو ملا تھا کیونکہ محض دنیاوی تجارتیں ہرگز اتنے اموال عطا نہیں کر سکتیں.اگر کوئی گر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے سیکھا تھا تو وہ خدا سے تجارت کرنے کا گر تھا جہاں سات سو گنا سے بھی بڑھ کر منافع ملتا ہے اور اسی عرفان حاصل کرنے کے نتیجے میں آپ واقعی وہ پارس بن گئے تھے کہ جس چیز کے ساتھ وہ لگتا اسے سونا بنادیتا ہے.یہ وہ کیمیا گری تھی جو آپ نے آنحضرت مے سے سیکھی تھی اور اس کیمیا گری میں یقیناً آپ کی دعاؤں مجاہدات اور عبادات کا بھی گہرا دخل تھا.آپ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کیا کرتے تھے.نماز ظہر سے قبل لمبی نفل نماز پڑھتے اذان کی آواز سن کر مسجد روانہ ہو جاتے.نوافل سے خاص شغف تھا، رسول اللہ ﷺ سے آپ کی کئی روایات مروی ہیں.حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مسجد میں

Page 171

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 157 حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور قبلہ رُو ہو کر سجدے میں گر گئے اور بہت لمبا سجدہ کیا.یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپ کی روح قبض کرلی ہے.میں آپ کے قریب ہوا تو آپ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟ میں نے عرض کیا عبدالرحمن.فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح تو قبض نہیں کر لی.آپ نے فرمایا میرے پاس جبریل آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا.یہ سن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں.اکثر روزے رکھتے تھے.بارہا حج کی توفیق پائی.حضرت عمررؓ جس سال خلیفہ ہوئے اس سال انہوں نے آپ کو امیر حج مقرر فرمایا تھا.(16) آپ نہایت ذہن رسا انسان تھے.تجارت کے علاوہ زراعت کی طرف بھی توجہ فرمائی کیونکہ خیبر میں رسول اللہ نے ایک کثیر جا گیر آپ کو عطافرمائی تھی.آپ نے نہ صرف اسے سنبھالا بلکہ بہت سی اور قابل زراعت زمین خرید کر اس میں بھی کاشت کروائی.صرف ”جرف کی زمین میں ہیں اونٹ آبپاشی کیا کرتے تھے.ازواج و اولاد آپ ہجرت کے وقت بیوی بچے مکے میں چھوڑ آئے تھے.اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے بارہ بیویاں عطا کیں جن سے ۲ بیٹے اور ے بیٹیاں اولا د عطا ہوئی.اسلام سے قبل ام کلثوم بنت ربیعہ اور ام کلثوم بنت عقبہ بن محیط سے نکاح کیا تھا.آپ کی بیویوں میں قبیلہ کلب کے سردار کی بیٹی کے علاوہ غزال بنت کسری بھی تھیں جو ایران کے شاہی خاندان کسری کی شہزادی تھی مگر ان تمام تر نعمتوں اور آسائشوں کے باوجود حضرت عبدالرحمان بن عوف نے اپنا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہ ہونے دیا.وفات سے قبل بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو پوچھا کہ کیا مجھ پر غشی طاری ہوئی تھی بتایا گیا کہ ہاں تو فرمایا کہ میرے پاس دو فر شتے آئے ان میں کچھ پتی پائی جاتی تھی وہ مجھے لے کر چلے پھر دو اور فرشتے آئے جو زیادہ نرم اور رحم دل تھے.انہوں نے پہلے دو سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جاتے ہو انہوں

Page 172

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 158 حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا ” عزیز وامین کے پاس (فیصلہ کیلئے ) وہ دونوں بولے اسے چھوڑ دو یہ وہ شخص ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں تھا تب سے اس کے حق میں سعادت لکھی جاچکی ہے.(17)31ھ میں 75 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی آپ کی وصیت کے مطابق حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.(18) ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک ایسے شخص نے قرآن کی تلاوت کی جس کی آواز میں بہت سوز تھا، سب لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے سوائے عبد الرحمن بن عوف کے.رسول کریم ﷺ کے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا کہ عبد الرحمن کی آنکھ آنسو نہ بہائے تو اس کا دل روتا ہے.ایک اور موقع پر جب حضرت خالد کی تکرار حضرت عبد الرحمن سے ہوئی تو رسول کریم نے فرمایا کہ اے خالد ! میرے صحابہ کو کچھ نہ کہو تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو عبدالرحمن بن عوف کی اس صبح یا شام کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو اس نے خدا کی راہ میں جہاد کر کے گزارے.آپ کی وفات پر حضرت علیؓ نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جا اے عبدالرحمن ! اپنے مولا کے حضور حاضر ہو جا کہ تو نے دنیا کا صاف پانی پیا اور گدلا چھوڑ دیا.(19) سلامت بر تو اے مر دسلامت.اے سراج منیر کے روشن ستارے! تیری روشنی سے ایک دنیا نے ہدایت پائی اور ایک زمانہ روشنی پاتا رہے گا.اے عبدالرحمن بن عوف ! تجھ پر سلام.اے سلامتی کے شہزادے تجھ پر سلام.

Page 173

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 159 حواله جات حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمان بن عوف، استیعاب جلد 1 ص 388 اصا به جز 4 ص 176 اسد الغابہ جلد 3 ص 314,315، بخاری کتاب النکاح منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 78 بخاری کتاب المغازی اسدالغابہ جلد 3 ص314 -8 -9 -10 -11 -12 -13 اسدالغابہ جلد 3 ص 314 ، استیعاب جلد 3 ص 387 اصا به جز 4 ص 177 ، ابن سعد جلد 3 ص 130 ، طبری جلد 4 ص83، اسد الغابہ جلد 3 ص315 اسدالغابہ جلد 3 ص 317 ، استیعاب جلد 2 ص 390 اصا به جز 4 ص 177، مسند احمد جلد 1 ص193 اسد الغابہ جلد 3 ص 314 ، استیعاب جلد 3 ص 388 مسلم کتاب الصلوۃ واسدالغا به جلد 3 ص 316 اصا به جز 4 ص177 اسد الغابہ جلد 3 ص 16-315، استیعاب جلد 2 ص389، اصابہ جز 4 ص177، البدایہ جلد 7 ص 163 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص78 -14 اسد الغابہ جلد 3 ص 314,315، ترندی کتاب المناقب باب حکایة وصية عبد الرحمن -15 -16 -17 -18 اسدالغابہ جلد 3ص316,317 اسدالغابہ جز 4 ص 177 ابن سعد جلد 3 ص 134 اصا به جز 4 ص 177 ، استیعاب جلد 3 ص 387,390، ابن سعد جلد 3 ص 134 -19 اسد الغابہ جلد 3 ص 317 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 75

Page 174

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 160 حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت سعد کے والد مالک بن وھیب کا تعلق قریش کی شاخ بنوزہرہ سے تھا.اس لحاظ سے آپ رشتہ میں رسول اللہ کے ماموں تھے.کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی والدہ بھی بنوزہرہ قبیلہ سے اور حضرت سعد کی چچازاد تھیں.ایک دفعہ حضرت سعد کے تشریف لانے پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ میرے ماموں ہیں کوئی اور شخص مجھے اپنا ایسا ماموں تو دکھائے.والدہ حمنہ بنت سفیان بن امیہ بھی قریش سے تھیں.کنیت ابو اسحاق تھی.(1) قبول اسلام اور قربانی حضرت سعد نے چوتھے اور چھٹے سال نبوت کے درمیان اسلام قبول کیا.اس وقت آپ سترہ برس کے نوجوان تھے.خود بیان کرتے تھے کہ میں نے نماز فرض ہونے سے بھی پہلے اسلام قبول کیا تھا.آپ کا اسلام قبول کرنا بھی الٹمی تحریک کے نتیجہ میں تھا.آپ بیان کرتے تھے کہ اسلام سے قبل میں نے رویا میں دیکھا کہ گھپ اندھیرا ہے اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اچانک ایک چاند روشن ہوتا ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہوں.کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مجھ سے پہلے اس چاند تک پہنچے ہوئے ہیں.قریب جا کر معلوم ہوا کہ وہ زید بن حارثہ علی بن ابی طالب اور ابوبکر تھے.میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگ کب یہاں پہنچے؟ وہ کہتے ہیں بس ابھی پہنچے ہی ہیں.“ اس خواب کے کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ رسول الله علی مخفی طور پر اسلام کی دعوت دیتے ہیں.ایک روز میری آپ سے اجیاد گھائی میں ملاقات ہوئی.آپ نے اسی وقت نماز عصر ادا کی اور میں نے اسلام قبول کیا.مجھ سے پہلے سوائے ان تین مردوں کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا.(2) رض حضرت سعد فرماتے تھے کہ میں نے تیسرے نمبر پر اسلام قبول کیا اور سات دن تک مجھ پر ایسا وقت رہا کہ میں اسلام کا تیسرا حصہ تھا.(3)

Page 175

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 161 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے پر ابتلاء حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے نہایت نیکی اور احسان کا سلوک کرتا تھا.جب میں نے اسلام قبول کیا تو وہ کہنے لگی تم نے یہ نیاد دین کیوں اختیار کر لیا ہے.تجھے بہر حال یہ دین چھوڑنا پڑے گا.ورنہ میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی یہاں تک کہ مر جاؤں گی اور لوگ تمہیں ماں کے قتل کا طعنہ دیں گے.میں نے کہا اے میری ماں ایسا ہر گز نہ کرنا کیونکہ میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتا.مگر وہ نہ مانی حتی کہ تین دن اور رات گزر گئے اور والدہ نے کچھ کھایا نہ پیا صبح ہوئی تو وہ بھوک سے نڈھال تھیں.تب میں نے کہہ دیا کہ خدا کی قسم اگر آپ کی ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلیں تو بھی میں اپنا دین کسی چیز کی خاطر نہیں چھوڑوں گا.جب انہوں نے بیٹے کا یہ عزم دیکھا تو کھانا پینا شروع کر دیا.اس موقع کی مناسبت سے یہ آیت اتری.وَإِنْ جَاهَدُكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (المان (16) یعنی اگر وہ ( والدین) تجھ سے جھگڑا کریں کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی بات نہ مان اور دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ.(4) شجاعت و مردانگی ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نماز ادا کرنے کیلئے مختلف گھاٹیوں میں چلے جاتے اور یوں اپنی قوم سے مخفی نماز با جماعت ادا کرتے.ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اچانک مشرک ان پر چڑھ دوڑے اور پہلے تو انہیں نماز پڑھتے پا کرنا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے برا بھلا کہنے لگے.پھر ان پر حملہ آور ہوئے.حضرت سعد وہ شجاع اور بہادر مرد تھے جو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے دفاع کیلئے بڑی جرات سے آگے بڑھے اور اونٹ کی ہڈی جو ہاتھ میں آئی وہ مد مقابل شخص کے سر میں دے ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا.یہ پہلا موقع تھا کہ مجبوراً اپنے دفاع میں ایک مسلمان کے ہاتھوں کسی کا فر کا خون بہا.ورنہ مسلمان ہمیشہ فساد سے بچتے اور امن کی راہیں تلاش کرتے رہے.(5)

Page 176

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 162 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سکی دور میں رسول اللہ میلے کے ساتھ ابتدائی زمانہ اور شعب ابی طالب میں حضرت سعد کو بھی سخت تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ کے ساتھ پیشاب کرنے نکلا تو پاؤں کے نیچے کوئی سخت چیز آئی.وہ اونٹ کی کھال کا ٹکڑا تھا میں نے اسے اٹھا کر دھو یا پھر اسے جلا کر دو پتھروں سے باریک کر کے کھالیا اور اوپر سے پانی پی لیا اور تین دن تک کیلئے اس سے قوت حاصل کی.ہجرت مدینہ رسول کریم ﷺ کے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت سعد کو بھی مدینہ ہجرت کی توفیق ملی.اور وہ بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں اپنے بھائی عتبہ کے گھر میں ٹھہرے جنہوں نے پہلے سے مکہ میں ذاتی دشمنی کے باعث یہاں آکر ڈیرے ڈال رکھے تھے.ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے مواخات قائم فرمائی.حضرت سعد بن ابی وقاص کو پہلے مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیر اور اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کا بھائی بنایا.دوسعدوں کا ملنا بھی گویا ایک روحانی قران سعدین تھا.خدمات مدینہ آتے ہی حضرت سعد کی خدمات کا سلسلہ شروع ہو گیا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ شروع میں جب نبی کریم ﷺ مدینہ آئے تو مخدوش حالات کی وجہ سے رات آرام کی نیند نہ سو سکے تھے.ایک رات آپ نے فرمایا کہ آج خدا کا کوئی نیک بندہ پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا.تب اچانک ہمیں ہتھیاروں کی آواز سنائی دی رسول کریم ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی میں سعد ہوں.فرمایا کیسے آئے عرض کیا مجھے آپ کی حفاظت کے بارہ میں خطرہ ہوا اسلئے پہرہ دینے آیا ہوں.چنانچہ انہوں نے پہرہ دیا اور رسول کریم علی آرام سے اس رات سوئے.(6) جب نبی کریم ﷺ کو اطراف مدینہ میں کچھ مہمات بھجوانے کی ضرورت پیش آئی.پہلے حضرت حمزہ کے ساتھ ایک مہم میں شرکت کی سعادت عطا ہوئی.اس کے بعد حضرت عبیدہ بن حارث

Page 177

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 163 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھجوائی گئی ساٹھ افراد پر مشتمل مہم میں بھی آپ شریک تھے.اس موقع دشمن نے تیر برسائے.حضرت سعد کو بھی اپنی تیراندازی کے جوہر دکھانے کا موقع ملا.فرمایا کرتے تھے کہ میں پہلا عرب شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا.غزوہ بدر سے قبل رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد کو میں سواروں پر مشتمل ایک دستہ پر نگران مقرر کر کے خرار مقام پر بھجوایا.آپ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا.اس تجارتی قافلہ کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف خرچ کرنے کے عہد و پیمان تھے.(7) غزوات میں شرکت اور بہادری کفر و اسلام کے پہلے معرکہ بدر میں حضرت سعد گورسول اللہ علیہ کے ساتھ شرکت کی تو فیق ملی.وہ بیان کرتے تھے میں بدر میں شامل ہوا تو میرے چہرے میں ایک بال کے سوا کچھ نہ تھا.(یعنی اس وقت حضرت سعد کی صرف ایک بیٹی تھی) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے گھنی داڑھی جیسے بال عطا کئے (یعنی کثرت سے اولاد سے نوازا).(8) حضرت سعد کو بجاطور پر بدر میں شرکت پر فخر تھا.ان کے بیٹے عامر کہا کرتے تھے کہ حضرت سعد مہاجرین میں سے فوت ہونے والے آخری صحابی تھے.وفات کے وقت انہوں نے اپنا نہایت بوسیدہ اونی جبہ منگوایا اور فرمایا ” مجھے اس میں کفن دینا کہ بدر کے دن مشرکوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت میں نے یہی جبہ پہن رکھا تھا اور اس مقصد کیلئے آج تک سنبھال کے رکھا ہوا تھا.‘ (9) حضرت سعد نے غزوہ بدر میں شجاعت و بہادری کے شاندار جو ہر دکھائے.سردار قریش سعید بن العاص آپ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا، اس کی تلوار ذوالکفہ آپ کو بہت پسند آئی ابھی تقسیم غنیمت کا کوئی حکم نہ اترا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے وہ تلوار آپ سے واپس لے لی.پھر جب سورۃ انفال کی آیات نازل ہوئیں تو آپ نے حضرت سعد کو بلا کر وہ تلوار عطا فرمائی.حضرت سعد نے احد میں رسول اللہ علیہ کی حفاظت میں آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے کی سعادت پائی.ان کا بھائی عتبہ حالت کفر میں میدان احد میں مدمقابل تھا اس نے رسول اللہ اللہ کو زخمی کیا تھا.حضرت سعد کی غیرت ایمانی کا یہ حال تھا کہ فرمایا کرتے ” میں عقبہ سے زیادہ

Page 178

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 164 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا.“ غزوہ احد میں خالی درے سے کفار کے اچانک حملہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے اور وہ تتر بتر ہو گئے مگر حضرت سعد بن ابی وقاص ان معدودے چند صحابہ میں سے تھے جو ثابت قدم رہے.آپ تیراندازی کے ماہر تھے جب کفار نبی کریم ﷺ کو ہدف بنا کر ہجوم کر کے حملہ آور ہوئے تو آنحضرت اپنے ترکش سے حضرت سعد کو تیر عطا فرماتے اور کہتے ارم یا سَعدُ فِدَاکَ ابی و امی ! یعنی اے سعد تیر چلاؤ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.حضرت علی فرمایا کرتے تھے کہ حضرت سعد ہی وہ سعادت مند ہیں جن کے سوا اور کسی کیلئے میں نے آنحضور سے اس طرح فِدَاكَ اَبِی وَ أُمِّی کا جملہ نہیں سنا.معلوم ہوتا ہے حضرت علی کی مراد غزوہ احد سے ہوگی ورنہ حضرت طلحہ وزبیر کے بارہ میں بھی نبی کریم نے بعض اور مواقع پر یہ کلمات استعمال فرمائے.غزوہ احد ہی کا واقعہ ہے جب ایک مشرک حملہ آور نا پسندیدہ نعرے لگا تا بلند بانگ دعاوی اور تعلی کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا.نبی کریم ﷺ نے اس سے نبٹنے کا اشارہ فرمایا.حضرت سعد کا ترکش تیروں سے خالی تھا آپ نے تعمیل ارشاد کی خاطر زمین پر سے ایک بے پھل کا تیر اٹھایا اور تاک کر اس مشرک کا نشانہ لیا.تیرعین اس کی پیشانی میں اس زور سے لگا کہ وہ بدحواسی میں بر ہنہ ہوکر وہیں ڈھیر ہو گیا.چند لمحے قبل اس کی تعلیوں کے مقابل پر قدرت خداوندی سے اس کا یہ انجام دیکھ کر اور اس کے شر سے محفوظ ہو کر نبی کریم خوش ہو کر مسکرانے لگے.احد میں دشمن اسلام طلحہ بن ابی طلحہ بھی حضرت سعد کے تیر کا نشانہ بنا.ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہونے والی بعض جنگوں میں آپ کے ساتھ بعض مواقع پر حضرت طلحہ اور حضرت سعد کے سوا کوئی بھی موجود نہیں رہ سکا تھا.اس کے بعد حضرت سعد فتح مکہ ، حنین اور تبوک کے غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہے اور انہیں اپنی بہادری کے جو ہر کھل کر دکھانے کا موقع ملتا رہا.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد گودشمن کی خبر لانے کیلئے بھجوایا وہ دوڑتے ہوئے گئے اور واپس آہستہ چلتے ہوئے آئے رسول کریم نے وجہ دریافت کی تو حضرت سعد نے عرض کیا کہ واپسی پر میں اس لئے نہیں بھا گا کہ دشمن یہ نہ سمجھے

Page 179

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 165 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہ میں ڈر گیا ہوں اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد بڑا تجربہ کا آدمی ہے.(10) حضرت سعد بجا طور پر اپنی ان خدمات کو ایک سعادت جانتے تھے.جس کا اظہار انہوں نے اپنے ان اشعار میں بھی کیا ہے.وَلَا هَلْ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي حَمَيْتُ صَحَابِتِي بِصُدُورِ نَبْلِي اذُودُ بِهَا عَدُوِّهُمْ زِيَادًا بِكُلِّ حَزُونَةٍ وَ بِكُلِّ سَهْلِ فَمَا يَعتَدُّ رَامٍ مِنْ مَعَدٍ بِسَهِم مَعَ رَسُولِ اللَّهِ قَبْلِي (ترجمہ) سنو! رسول اللہ علیہ پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا میں نے اپنے تیروں کی نوک سے اپنے ساتھیوں کا دفاع کیا.ان تیروں سے میں نے خوب خوب ان کے دشمن کو میدانوں اور پہاڑوں میں پسپا کیا.معد قبیلہ کے کسی قابل ذکر تیرانداز کو مجھ سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی معیت کی ایسی سعادت عطا نہیں ہوئی.(11) صلى الله رسول اللہ ﷺ کی دعا اور با عمر ہونے کی پیشگوئی فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد شدید بیمار ہو گئے.بچنے کی کوئی امید نہ رہی.آپ مالدار انسان تھے اور اولا د صرف ایک بیٹی تھی ، آپ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنا پورا مال خدا کی راہ وقف کرنے کی اجازت چاہی.حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ بہت زیادہ ہے.حضرت سعد نے کہا نصف مال ہی قبول کر لیں.حضور نے وہ بھی قبول نہ فرمایا تو حضرت سعد نے ایک تہائی کی وصیت کی اجازت طلب کی.حضور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ایک تہائی مال کی وصیت کر دیں اگر چہ یہ بھی بہت ہے.اس سے زیادہ کی اجازت نہیں.اس موقع پر نبی کریم ﷺے ان کی عیادت کیلئے تشریف لائے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد کیلئے رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے نتیجہ میں عجب رحمت و برکت کے سامان پیدا فرما دئے.انہوں نے نہایت حسرت بھری اشکبار آنکھوں کے ساتھ یہ عرض کیا یا رسول اللہ اپنے وطن کی جس سرزمین کو خدا کی خاطر ہمیشہ کیلئے ترک کر دیا تھا اب میں اسی میں خاک ہو جاؤں گا.کیا میری ہجرت ضائع ہو جائے گی ؟ حضرت سعدؓ کے اس انداز نے رسول اللہ عے کے دل میں دعا کی بے اختیار تڑپ پیدا کر دی.

Page 180

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 166 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آپ نے اسی وقت بڑے اضطراب سے تکرار کے ساتھ یہ دعا کی اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْداً! اے اللہ سعد کو شفا عطا فرمایہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ اس کی قبولیت کا علم پا کر نبی کریم نے فرمایا " اے سعد خدا تجھے لمبی عمر عطا کرے گا اور تجھ سے بڑے بڑے کام لے گا اور تجھ پر موت نہیں آئے گی جب تک کہ کچھ قومیں تجھ سے نقصان اور کچھ فائدہ نہ اٹھا لیں پھر آپ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ میرے صحابہ کی ہجرت ان کیلئے جاری کر دے.“ (12) رسول اللہ کی دعا اور پیشگوئی کی برکت سے حضرت سعد نے لمبی عمر پائی اور عظیم الشان اسلامی فتوحات کے ہیر و ثابت ہوئے.عراق و ایران کی فتوحات میں اہم کردارادا کیا.حضرت ابوبکر کے زمانہ میں آپ ہوازن کے عامل رہے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایرانیوں جنگیں لڑیں اور ان کے اکثر علاقے فتح کئے.قادسیہ کے میدان میں ایرانیوں سے تاریخی جنگ میں سپہ سالار رستم اور ہاتھیوں کی زبردست فوج کا مقابلہ کیا.حضرت سعد اس وقت عرق النساء کی تکلیف سے بیمار تھے مگر آپ میدان جنگ کے قریب ایک قصر کے بالا خانے پر رونق افروز ہوکر جنگ میں اپنے قائمقام خالد بن عرطفہ کی رہنمائی فرماتے رہے وہ کاغذ پر ضروری ہدایات لکھ کر بھجواتے ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کا ریلہ حملہ آور ہوا تو قریب تھا کہ بجیلہ قبیلہ کے سواروں کے پاؤں اکھڑ جائیں حضرت سعد نے قبیلہ اسد کو پیغام بھجوایا کہ ان کی مدد کرو.جب قبیلہ اسد پر حملہ ہوا تو قبیلہ تمیم کو جو نیزہ بازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمہاری موجودگی میں ہاتھی آگے نہ بڑھنے پائیں وہ اپنے لئے میر لشکر کا یہ پیغام سن کر اس جوش سے لڑے کہ جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا.جنگ قادسیہ کے دوسرے روز شام کی امدادی فوجوں کے پہنچنے سے مسلمانوں کا جوش و جذ بہ اور بڑھ گیا.جنگ کے تیسرے روز حضرت سعد نے اپنے چند بہادروں کو حکم دیا کہ اگر تم دشمن کے ہاتھیوں کو ختم کر دو تو یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے.چنانچہ انہوں نے چند بڑے بڑے ہاتھیوں کو مار ڈالا جس کے نتیجے میں باقی ہاتھی بھاگ نکلے.یوں بالآخر میدان حضرت سعد کے ہاتھ رہا.مشہور زمانہ پہلوان رستم میدان سے بھاگتا ہوا مارا گیا.جنگ قادسیہ کے بعد حضرت سعد نے تمام عراق عرب کو زیرنگین کرنے کا فیصلہ کر لیا.اس جنگ کے بعد ایرانیوں پر آپ کا اتنار عب طاری تھا کہ جس علاقے سے گزرے بڑے بڑے سرداروں نے

Page 181

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 167 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ خود آ کر صلح کر لی.حضرت سعد نے بابل کو ایک ہی حملہ میں فتح کر لیا.پایہ تخت کے قریب بہرہ شیر مقام پر کسری کا شکاری شیر مقابلہ پر چھوڑا گیا جسے حضرت سعد کے بھائی ہاشم نے تلوار سے کاٹ کر رکھ دیا.یہ قلعہ دوماہ کے محاصرہ کے بعد فتح ہوا.اب بہرہ شیر اور پایہ تخت مدائن کے درمیان صرف دریائے دجلہ حائل تھا.ایرانیوں نے سب پل تو ڑ کر بیکار کر دئے تب حضرت سعد ا پنی فوج کو مخاطب ہوئے کہ ”اے برادران اسلام دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے آؤ اسے بھی عبور کر جائیں تو فتح ہماری ہے.یہ کہا اور اپنا گھوڑ ادریائے دجلہ میں ڈال دیا.دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے فوج نے اپنے سپہ سالار کی بہادری دیکھی تو سب نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئے اور دوسرے کنارے پر جا پہنچے.ایرانی یہ غیر متوقع حملہ کو دیکھ کر بھاگے اور معمولی مقابلے کے بعد مسلمانوں نے مدائن فتح کر لیا.مدائن کے ویران محلات دیکھ کر حضرت سعد کی زبان پر یہ آیات جاری ہو گئیں.(13) كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنْتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيْمٍ وَنَعْمَةٍ كَانُوْا فِيْهَا فَكِهِينَ كَذَلِكَ وَأَوْرَثْهَا قَوْمًا أَخَرِيْنَ ـ (الدخان: 26، 27 ) فتح مدائن عراق عرب پر تسلط قائم ہونے کی آخری کڑی تھی بڑے بڑے سرداروں سے صلح کے بعد تمام ملک میں امن و امان کی منادی کروادی گئی.اس کے بعد حضرت سعد نے جلولاء اور تکریت پر اسلامی جھنڈا لہرایا.اس سے آگے بڑھنے سے حضرت عمرؓ نے آپ کو روک دیا اور حکم دیا کہ پہلے مفتوح علاقوں کا نظم ونسق درست کیا جائے.حضرت سعد نے اس کی تعمیل کی اور نہایت عمدگی سے انتظام سلطنت چلایا.ایرانیوں سے اس قدر محبت والفت اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا کہ ان کے دلوں میں گھر کر لیا.بڑے بڑے امراء اس وجہ سے مسلمان ہوئے.دیلم کی چار ہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے مشہور تھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئی.

Page 182

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 168 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت سعد نے فاتح فوج کیلئے حضرت عمر کے حکم پر سرحدی علاقہ میں ایک نئے شہر کوفہ کی بنیا د رکھی.جہاں مختلف قبائل کو الگ الگ محلوں میں آباد کیا.وسط شہر میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی.اب کوفہ ایک لاکھ مسلمان سپاہیوں سے ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا تھا، حضرت سعد کے بارہ میں کچھ انتظامی شکایات پیدا ہونے لگیں.حضرت عمر نے تحقیق کروائی.حضرت جریر بن عبداللہ نے حضرت عمر کو آکر بتایا کہ حضرت سعد اپنی رعایا سے شفیق ماں کی طرح سلوک کرتے ہیں اور عوام کو قریش میں سے سب سے زیادہ محبوب شخصیت ہے.حضرت عمر نے یہ معلوم کر لینے کے باوجود کہ الزام بے بنیاد ہے کوفہ کی امارت کی تبدیلی کرنا ہی مناسب سمجھی اور حضرت سعد مدینہ آکر آباد ہو گئے.حضرت عمرؓ نے دوبارہ انکو والی کوفہ مقرر کرنا چاہا تو انہوں نے اہل کوفہ کی ناروا شکایات کی وجہ سے معذوری ظاہر کی جو حضرت عمر نے قبول کی اور فرمایا کہ میں نے سعد کو ان کی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا تھا اور آئندہ ان کو والی مقرر کرنے میں کوئی روک نہیں.“ حضرت عمر کو آخر عمر تک آپ کی خاطر ملحوظ رہی.چنانچہ آپ نے انتخاب خلافت کمیٹی مقرر کی جو چھ افراد پر مشتمل تھی.ان میں حضرت سعد کو بھی نامزد کیا اور فرمایا کہ اگر سعد خلیفہ منتخب ہوئے تو ٹھیک ورنہ جو بھی خلیفہ ہوگا وہ بے شک ان سے خدمت لے.(14) حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو حضرت سعد دوبارہ کوفہ کے والی مقرر ہوئے اور تین سال یہ خدمت انجام دی.اس کے بعد حضرت سعد نے مدینہ میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی.حضرت عثمان کے بعد حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کی مگر امور مملکت سے بے تعلق رہے.اس زمانہ کی شورش اور جنگوں میں حصہ نہ لیا.اسی زمانے میں ایک دفعہ اونٹ چرا ر ہے تھے.بیٹے نے کہا کیا یہ مناسب ہے لوگ حکومت کیلئے زور آزمائی کریں اور آپ جنگل میں اونٹ چرائیں.آپ نے اسے یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ خدا مستغنی اور متقی انسان سے محبت کرتا ہے.“ زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک آزمودہ کار جرنیل ہونے کے باوجود فتنے کے زمانہ میں کنج تنہائی اختیار کرنے کو ترجیح دی.کوئی پوچھتا تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ” میرے بعد ایک فتنہ

Page 183

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 169 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بر پا ہو گا جس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا.“ امارت کی خواہش نہ تھی.حضرت عثمان کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے عمرؓ اور بھائی نے کہا کہ اپنے لئے بیعت لیں.اس وقت ایک لاکھ تلوار میں آپ کی منتظر اور ساتھ دینے کو تیار ہیں.آپ نے فرمایا ” مجھے ان میں سے صرف ایک ایسی تلوار چاہیے جو مومن پر کوئی اثر نہ کرے صرف کافر کو کاٹے.“ آپ اس فتنہ کے زمانہ میں گھر بیٹھ رہے اور فرمایا ” مجھے اس وقت کوئی خبر بتا نا جب امت ایک امام پر اکٹھی ہو جائے.“ امیر معاویہ نے بھی انہیں مدد کو بلایا تو انہوں نے انکار کر دیا.حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کے بارے میں عمرو بن معدی کرب سے ( جو انکے علاقہ سے آئے تھے ) رائے لی تو انہوں نے بتایا کہ " سعد اپنے خیمہ میں متواضع ہیں.اپنے لباس میں عربی ہیں، اپنی کھال میں شیر ہیں.اپنے معاملات میں عدل کرتے ہیں تقسیم برابر کرتے ہیں اور لشکر میں دور رہتے ہیں ، ہم پر مہربان والدہ کی طرح شفقت کرتے ہیں اور ہمارا حق ہم تک چیونٹی کی طرح ( محنت سے ) پہنچاتے ہیں.حضرت سعد بیان کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا جب عسرت اور تنگی سے مجبور ہو کر ہمیں درختوں کے پتے بھی کھانے پڑے اور کوئی چیز کھانے کو میسر نہ ہوتی تھی.اور ہم بکری کی طرح مینگنیاں کرتے تھے.(15) جب حکومتوں کے مالک ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ان مخلص خدام دین کو خوب نوازا.مختلف وقتوں میں نو بیویاں کیں سترہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں ہوئیں.غذا اور لباس کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا.کبھی تکبر یا غرور پیدا نہیں ہوا.بلکہ سپہ سالاری اور گورنری کے اہم مناصب سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی بکریاں چرانے میں تامل نہیں کیا.رسول کریم ﷺ نے آپ کے حق میں ایک اور دعا مستجاب الدعوات ہونے کیلئے کی تھی کہ ”اے اللہ سعد جب دعا کرے اس کی دعا کو قبول کرنا یہ دعا مقبول ٹھہری اور حضرت سعد کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں لوگ آپ سے قبولیت دعا کی امید رکھتے اور بددعا سے ڈرتے تھے.(16) عامر بن سعد سے روایت ہے ایک دفعہ حضرت سعد ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو

Page 184

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 170 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو برا بھلا کہہ رہا تھا.حضرت سعد نے اسے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو برا بھلا کہہ رہے ہو جن کے ساتھ اللہ کا معاملہ گزر چکا.خدا کی قسم تم ان کی گالی گلوچ سے باز آؤ ورنہ میں تمہارے خلاف بد دعا کروں گا.وہ کہنے لگا یہ مجھے ایسے ڈراتا ہے جیسے نبی ہو.حضرت سعد نے کہا اے اللہ ! اگر یہ ایسے لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے جن کے ساتھ تیرا معاملہ گزر چکا تو اسے آج عبرت ناک سزا دے.اچانک ایک بد کی ہوئی اونٹنی آئی لوگوں نے اسے راستہ دیا اور اس اونٹنی نے اس شخص کو روند ڈالا.راوی کہتے ہیں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ سعد کے پیچھے جا کر بتا رہے تھے کہ اے ابواسحاق ! اللہ نے تیری دعا قبول کر لی.امارت کوفہ کے زمانہ میں جس شخص نے آپ پر جھوٹے الزام لگائے تھے اس کے بارے میں بھی آپ کی دعا قبول ہوئی اور وہ خدائی گرفت میں آیا.(17) وفات آپ مدینہ سے دس میل دور عقیق مقام پر ستر سال کی عمر میں 55ھ میں فوت ہوئے.جنازہ مدینہ لایا گیا.ازواج مطہرات کی خواہش پر اس بزرگ صحابی کا جنازہ کندھوں پر مسجد نبوی میں لایا گیا اور امہات المومنین بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئیں.مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے اور اپنے عظیم الشان کارناموں کی یادیں باقی چھوڑ گئے.آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی ان دس صحابہ میں سے جن کو رسول اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت عطا فرمائی.رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت سے لمبی عمر پائی اور عشرہ مبشرہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے.آپ کا علمی پایہ بہت بلند تھا حضرت عمرہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ” جب سعد رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کریں تو پھر اس بارہ میں کسی اور سے مت پوچھو.“ حضرت سعد نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.خوف خدا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے آخری حصے میں مسجد نبوی میں آکر نمازیں ادا کرتے تھے ، طبیعت رہبانیت کی طرف مائل تھی.مگر فرماتے تھے کہ رسول اللہ اللہ نے اگر اس سے روکا نہ ہوتا میں اسے ضرور اختیار کر لیتا.“ نظر بہت تیز تھی ایک دفعہ دور سے کچھ ھیولا سا نظر آیا تو ہمراہیوں سے پوچھا کیا ہے؟ انہوں نے کہا

Page 185

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 171 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پرندے جیسی کوئی چیز.حضرت سعد نے کہا مجھے تو اونٹ پر سوار نظر آتا ہے، کچھ دیر بعد واقعی سعد کے چا اونٹ پر آئے.آپ بہت نڈر اور جری انسان تھے.جس بات کو حق سمجھتے اس کا اظہار فرماتے.ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں میں مال تقسیم کیا اور ایک ایسے شخص کو کچھ عطا نہ فرمایا جو سعد کے نزدیک مخلص مومن تھا.انہوں نے آنحضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے ٹال دیا جب دوسری یا تیسری مرتبہ سعد نے باصرار اپنا سوال دہرایا کہ یہ شخص میرے نزدیک مخلص مومن ہے اور عطیہ کا حقدار ہے تو حضور نے فرمایا کہ اے سعد! بسا اوقات میں ان کو عطا کرتا ہوں جن سے تالیف قلبی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں.تب حضرت سعد کی تسلی ہوئی.حضرت سعدان بزرگ صحابہ میں سے تھے جن سے بوقت وفات رسول اللہ راضی تھے.رسول کریم ﷺ نے حجتہ الوداع سے واپسی پر مدینہ میں ایک خطبہ میں عشرہ مبشرہ کے نام لے کر ذکر فرمایا کہ آپ ان سے راضی ہیں.ان کا مقام پہچانو اور ان سے حسن سلوک کرو.ان میں حضرت سعد کا بھی لیا.کتنے خوش نصیب تھے سعد اور اسم بامسمی بھی کہ خدا کے رسول نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کر کے رضائے الہی کی کلید ان کو عطا فرما دی.(18) -1 -2 -3 حواله جات ترندی کتاب المناقب باب مناقب سعد، اسد الغا به جلد 2 ص 390 بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعد، اسد الغابہ جلد 3 ص 390 تا392 ابن سعد جلد 3 ص 139 -4 مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعد، اسد الغا به جلد 3 ص 292 -5 اسد الغابہ جلد 2 ص 391

Page 186

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -7 -8 -9 -10 -12 -13 -14 -15 172 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 71 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعد، ابن سعد جلد 3 ص 141-140 ، اصا به جز 3 ص84 ابن سعد جلد 3 ص 142 اسد الغابہ جلد 2 ص392 بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعد، ابن سعد جلد 3 ص 141 مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعد، ابن سعد جلد 3 ص 142، مجمع الزوائد جلد 9 ص 155 بخاری کتاب المغازی وابن سعد جلد 3 ص 144 بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعد، استیعاب جلد 3 ص 172 کامل ابن اثیر مترجم جلد 3 ص 198 تا 295 ص 251 تاص 254 اصا به جز 3 ص 84، استیعاب جلد 3 ص173 ابن سعد جلد 3 ص 140 ، اصابہ جز 3 ص 84 ، استیعاب جلد 3 ص173، اسد الغابہ ذکر سعد 16- مستدرک حاکم جلد 3 ص 500، مجمع الزوائد جلد 9 ص 154 -17 -18 اصا به جز 3 ص 83 ، استیعاب جلد 3 ص 172 اصا به جز 3 ص 84، مجمع الزوائد جلد 9 ص 157

Page 187

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 173 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت سعید بن زید آپ کا نام سعید والدہ کا نام فاطمہ اور والد زید بن عمرو بن نفیل تھے.قد لمبا اور بال بڑے اور گھنے تھے.حضرت سعید کا نسب دسویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے اور تیسری پشت میں حضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے.(1) ان کے والد زید وہ خوش قسمت انسان تھے جو جاہلیت کے تاریک دور میں بھی روشنی کا ایک چراغ تھے.اُس زمانے میں بھی وہ خالص دین ابراہیمی اور توحید پر قائم اور جاہلیت کی تمام بد رسوم سے محفوظ تھے حتی کہ بتوں کے نام پر ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت بھی آپ نہیں کھایا کرتے تھے.توحید پرست خاندان ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی اپنی بعثت سے قبل وادی بلدح میں زید سے ملاقات ہوئی آنحضور کے سامنے کھانا پیش کیا گیا.آپ نے مشرکین کا کھانا پسند نہیں فرمایا.حضرت زیڈ کے سامنے بھی جب یہ کھانا پیش ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں تمہارے بتوں کا چڑھاوا اور ان کے نام کا ذبیحہ نہیں کھاتا.‘ (2) حضرت سعید کے والد زید نے اپنے علاقہ میں شرک کی تاریکی سے نجات حاصل کرنے اور نور ہدایت کی تلاش میں دُور دراز کے سفر کئے.شام میں ایک یہودی خدا ترس عالم سے ملاقات ہوئی.اس نے کہا کہ خدا کے غضب سے حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب اختیار کرلو زید نے کہا کہ خدا کے غضب ہی سے تو میں بھاگ کر آیا ہوں.کوئی اور مذہب بتا دو.اس نے کہا کہ دین حنیف اختیار کر لو جو موحد ابراہیم کا مذہب تھا جو یہودی تھے نہ عیسائی “ وہاں سے چلے تو تلاش حق میں وہ ایک خدا ترس عیسائی عالم سے جاکر ملے اس نے صاف کہہ دیا کہ خدا کی لعنت کا طوق چاہتے ہو تو ہمارے مذہب میں آجاؤ.زید نے کہا پھر مجھے کوئی ایسا مذہب بتاؤ جس پر خدا کی لعنت نہ ہو.“

Page 188

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 174 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ اس نے بھی مشورہ دیا کہ دین ابراہیمی کی پیروی کرو.“ انہوں نے کہا ” اس کا مجھے علم ہے اور اسی دین پر میں قائم ہوں.رہی ان پتھروں اور لکڑی کی صلیب کی عبادت جن کو خود ہاتھ سے تراشا جائے ان کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے؟‘ (3) تب زید شام سے واپس لوٹے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ خدایا! تو گواہ رہ میں دین ابراہیمی کا پیرو ہوں اور زید کو بجاطور پر اپنی اس سعادت پر فخر تھا.مجیر بن ابی احصاب سے روایت ہے کہ سفر شام سے واپسی پر میں نے زید بن عمر وکو یو انہ بہت کے پاس دیکھا کہ وہ غروب آفتاب کا انتظار کرتے رہے پھر انہوں نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے دورکعت نماز ادا کی.پھر کہا یہ ابراہیم و اسماعیل کا قبلہ ہے.میں بتوں کی پرستش نہیں کرتا، نہ ان کی خاطر نماز پڑھتا ہوں نہ ہی ان کے لئے قربانی دیتا ہوں.نہ ان پر چڑھائی گئی قربانی کا گوشت کھاتا ہوں.نہ تیروں سے قسمت معلوم کرتا ہوں.زید حج میں عرفات میں ٹھہرتے اور یہ تلبیہ پڑھتے تھے لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ وَلَا نِدَّلَک.میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں نہ تیرا کوئی ہمسر ہے.پھر عرفہ سے واپس آتے ہوئے کہتے میں حاضر ہوں تیری عبادت کرنے والا.تیرا غلام.(4) زید ہی تھے جنہوں نے جاہلیت اور شرک کے اس گہوارہ مکہ میں یہ نعرہ بلند کیا تھا.أَرَبَّا وَّاحِدَ أَمُ أَلْفُ رَبِّ أَدِينُ إِذَا تَقَسَّـمَـتِ الْأُمُورُ تَرَكْتُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى جَمِيعًا كَذَالِكَ يَفْعَلُ الرَّجَلُ الْبَصِيرُ یعنی کیا میں ایک خدا پر ایمان لاؤں یا ایک ہزار ایسے بتوں کو خدا مانوں.جنہوں نے معاملات میں تقسیم کار کی ہوئی ہے ہر گز نہیں.میں نے لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے اور ہر صاحب بصیرت انسان ایسا ہی کرے گا.حضرت اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے زید کو کعبہ کے پاس یہ کہتے سنا.اے گروہ قریش خدا کی قسم ! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیمی پر قائم نہیں.“ عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ زید شرک اور بت برستی کے برخلاف ہو کر اپنی قوم سے کنارہ

Page 189

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 175 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کش تھے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ ” میں بنی اسماعیل میں سے ایک نبی کا منتظر ہوں.نامعلوم مجھے اس کا زمانہ میسر آ سکے گا یا نہیں؟ مگر میں اس پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ نبی ہے.تمہاری زندگی میں اگر وہ آ گیا تو تم اسے میر اسلام پہنچانا.عامر کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے دعوی کے بعد میں مسلمان ہوا تو حضور کو زید کا سلام پہنچایا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اس پر بھی سلام ہو اور اللہ اس پر رحم کرے.پھر فرمایا کہ میں نے زید کو جنت میں اپنی چادر گھسیٹ کر چلتے دیکھا ہے.(5) بعض عربوں میں جاہلیت کی ایک بدرسم لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا تھی.زید نے معصوم بچیوں کے حق میں آواز بلند کی.آپ ایسی بچیوں کی کفالت اپنے ذمہ میں لے کر ان کی جان کے لئے آمان مہیا کیا کرتے تھے.بچی کے جوان ہونے پر والدین سے کہتے کہ چاہو تو تمہیں واپس کر دیتا ہوں کہو تو اس کے سارے انتظام ( شادی بیاہ وغیرہ ) خود کرتا ہوں.(6) زید کے بیٹے سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ اگر آپ کا زمانہ پا تا تو ضرور ایمان لے آتا آپ اس کے لئے خدا سے بخشش طلب کریں.نبی کریم اللہ نے زید کے لئے بخشش کی دعا کی اور فرمایا وہ قیامت کے دن ایک امت ہوگا.‘ (7) نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے بعد مسلمان جب بھی سعید کے والد کا ذکر کرتے تو ان کے لئے بخشش اور رحم کی دعا کرتے.(8) قبول اسلام کے بعد استقامت اور اسکی برکت حضرت سعید بن زید ایسے موحد انسان کی اولاد تھے.جب رسول اللہ ﷺ نے تو حید کی آواز بلند کی تو حضرت سعید اولین لبیک کہنے والوں میں سے ہوئے.ان کی بیوی فاطمہ جو حضرت عمرؓ کی سگی بہن تھیں ساتھ ہی مسلمان ہوگئیں.حضرت عمر کوخبر ہوئی تو سخت رد عمل دکھایا انہیں قید و بند کی صعوبت دی.(9) حضرت عمرؓ ایک دفعہ غصے میں ان کے پاس پہنچے اور مار مار کر لہو لہان کر دیا.حضرت فاطمہ نے کہا اے عمر جو چاہو کر لو اب اس دل سے اسلام تو نہیں نکل سکتا.زخمی ہو کر ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ دیکھ کر حضرت عمر کا دل پسیجا اور انہوں نے وہ کلام سننے کی خواہش کی جو یہ دونوں پڑھ

Page 190

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 176 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ رہے تھے.کلام پاک کی عظمت و شوکت کا ایسا اثر ہوا کہ حضرت عمر کی کایا پلٹ گئی.اور رسول اللہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا.(10) غزوات میں شرکت ہجرت مدینہ کے وقت حضرت سعید ابتدائی مہاجرین کے ساتھ مدینہ پہنچے رسول اللہ ﷺ نے حضرت رافع بن مالک انصاری کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی.۲ ہجری میں حضرت سعید اور حضرت طلحہ کو آنحضرت ﷺ نے ایک مہم کے سلسلے میں شام کی طرف بھجوایا.ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھیں.اس مہم سے واپسی تک غزوہ بدر کا معرکہ سر ہو چکا تھا.رسول اللہ یہ فتح کے ساتھ بدر سے واپس لوٹ رہے تھے.حضرت سعید گو چونکہ دینی خدمت پر مامور ہونے کے باعث بدر کی شرکت سے محروم رہنا پڑا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے انہیں بدر کی غنیمت سے حصہ عطا فرمایا اور جہاد کے ثواب کی نوید بھی سنائی.حضرت سعید کو تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب رہنے کی تو فیق نصیب ہوئی.(11) شوق جہاد حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت ابو عبیدہ کے ذریعہ شام فتح ہوا.حضرت سعید ان کی پیدل فوج کے افسر تھے.محاصرہ دمشق اور جنگ یرموک میں انہیں نمایاں شجاعت کے مواقع عطا ہوئے.آپ کچھ عرصہ دمشق کے گورنر بھی رہے.مگر شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابوعبیدہ کو لکھا کہ میں جہاد سے محروم رہنا نہیں چاہتا اس لئے میرا یہ خط پہنچتے ہی کسی کو میری جگہ دمشق میں بھجوانے کی ہدایت فرمائیں تا کہ میں جہاد کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکوں.چنانچہ ان کی جگہ یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا گورنر مقرر کیا گیا.حضرت سعید نہایت نیک طبع اور مستغنی مزاج انسان تھے.عقیق کی جاگیر پر گزر بسر تھی.ایک

Page 191

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 177 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ عورت اروی نے جس کی زمین آپ کے رقبہ کے ساتھ ملتی تھی ان کی زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر دیا تو آپ اپنی جاگیر سے دستبردار ہو گئے اور کہا کہ یہ اس عورت کو دے دو.میں نے رسول الله ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص ناحق کسی کی زمین ایک بالشت بھی لیتا ہے اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا بوجھ اُٹھانا ہوگا.(12) قبولیت دعا حق و باطل میں فرق کی خاطر اس عورت کے بارہ میں حضرت سعید نے دعا کی کہ اے اللہ اگر یہ مظلوم نہیں ظالم ہے تو یہ اندھی ہو کر اپنے کنوئیں میں گرے اور میرا حق ظاہر کر دے تا مسلمانوں پر روشن ہو کہ میں ظالم نہیں ہوں.خدا کی شان کہ وادی عقیق میں سیلاب آنے سے زمین کی حدیں بھی ظاہر ہوگئیں اور وہ بڑھیا اسی طرح اندھی ہو کر ہلاک ہوئی اور عبرت کا ایسا نشان بنی کہ مدینہ کے لوگوں میں ضرب المثل بن گئی.لوگ جس کو بد دعا دیتے کہتے کہ خدا اُسے اروگی کی طرح اندھا کرے.(13) حضرت سعید اپنے زہد و ورع کے باعث فتنوں اور شورشوں سے محفوظ رہے.وہ فتنوں کے بارے میں رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ آپ نے فرمایا تاریک رات کی طرح فتنے ہونگے جن میں لوگ بہت تیزی سے داخل ہونگے.پوچھا گیا کیا وہ سب ہلاک ہونگے یا بعض.سعید کہنے لگے ان کے لئے قتل کافی ہے.(14) حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت سعید مسجد کوفہ میں فرمایا کرتے کہ خلیفہ وقت کے ساتھ جو سلوک ہوا اُس سے اگر اُحد کا پہاڑ بھی لرز اٹھے تو تعجب کی بات نہیں.“ (15) حضرت سعید عشرہ مبشرہ میں سے تھے.یعنی اُن دس صحابہ میں جنہیں رسول کریم ﷺ نے اُن کی زندگی میں جنت کی خوش خبری دی تھی.بلاشبہ یہ عظیم الشان اعزاز تھا.حق گوئی رض آپ حق گو اور بے باک تھے.حضرت مغیرہ بن شعبہ امیر معاویہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر

Page 192

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 178 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ رض تھے.ایک روز وہ جامع مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت سعید تشریف لائے.انہوں نے نہایت عزت و تکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا.دریں اثناء اہل کوفہ میں سے ایک شخص آیا اور حضرت علی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا.حضرت سعید اس پر سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں نے رسول کریم کو فرماتے سنا اور مجھے ہرگز اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں وہ کہوں جو رسول اللہ نے نہیں فرمایا اور کل جب میں آپ سے ملوں تو میری باز برس ہو.آپ نے فرمایا تھا.ابوبکر، عمر، عثمان علی ، طلحہ زبیر بن العوام ، سعد اور عبدالرحمان بن عوف جنت میں ہونگے اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا بھی نام لے دیتا.پوچھا گیا وہ کون ہے آپ خاموش رہے پھر پوچھا گیا تو کہا میں یعنی سعید بن زید.پھر کہنے لگے ان میں سے کسی ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شامل ہونا جس میں آپ کا چہرہ غبار آلودہ ہوا تمہارے عمر بھر کے اعمال سے بہتر ہے خواہ تمہیں عمر نوح عطا کی جائے.(16) روایات حدیث حضرت سعید کی روایات حدیث اگرچہ بہت قلیل ہیں مگر ان سے آپ کے ذوق کا اندازہ ضرور ہوتا ہے.یہ روایات وضو اور اس کے آداب، ایمانیات اور حب انصار سے متعلق ہیں.حضرت سعید بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو وضوء نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی اور جو وضوء کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا اس کا وضوء نہیں ہوتا.اور وہ اللہ پر ایمان نہیں لاتا جو مجھ پر ایمان نہیں لاتا اور جو انصار سے محبت نہیں کرتا.(17) بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے بھی حضرت سعید اعلیٰ مقام پر تھے اور اکثر یہ حدیث سنایا کرتے تھے کی سب سے بڑا سود یعنی حرام چیز مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ ہے.اسی طرح بیان کیا کہ رحم مادر کا لفظ اللہ کی صفت رحمان سے نکلا ہے جو قطع رحمی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے.(18) ایک اور روایت آپ سے مروی ہے کہ جوشخص اپنے مال و جان ،اہل وعیال اور دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے.(19)

Page 193

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات 179 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ حضرت سعید خاموش طبع اور گوشہ نشین قسم کے بزرگ تھے.اس لئے ان کے بہت کم حالات کتابوں میں ملتے ہیں.بلاشبہ آپ کی زندگی جنتیوں کی طرح پر سکون زندگی تھی.تبھی تو خدا ذو العرش کی طرف سے آپ کو جنتی ہونے کی عظیم الشان بشارت آنحضرت کے ذریعہ سے عطا ہوئی.آپ کی وفات عقیق میں 50 یا 51 ھ میں جمعہ کے روز ہوئی.ستر سال سے زائد عمر پائی.(20) حضرت عبد اللہ بن عمر نے نماز جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے جب یہ المناک خبر سنی تو فورا عقیق روانہ ہو گئے.جہاں حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت سعید کونسل دیا.حضرت عبد اللہ بن عمر نے نماز جنازہ پڑھائی.مدینہ لا کر حضرت سعید کو سپردخاک کیا گیا.(21) حضرت سعید نے مختلف وقتوں میں نوشادیاں کیں.ان بیویوں اور لونڈیوں سے کثیر اولاد ہوئی.آپ کے تیرہ لڑکوں اور سولہ لڑکیوں کے نام ملتے ہیں.حواله جات -1 -2 -3 -4 -5 -6 اسد الغابہ جلد 2 ص 306 بخاری کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید بن عمرو ابن سعد جلد 3 ص379 ابن سعد جلد 3 ص 380 ابن سعد جلد 3 ص379 ابن سعد جلد 3 ص 381 7- مسند احمد بن حنبل جلد 1 ، مسند سعیدص -8 ابن سعد جلد 3 ص 381 -9 -10 -11 بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعید بن زید ابن سعد جلد 3 ص 268 الاصابہ جز 3 ص 97 12- مسلم کتاب المساقاه باب تحریم الظلم -13 اصا به جز 3 ص 97

Page 194

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 -21 مسند احمد جلد 1 ص 189 180 بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعید بن زید ابو داؤد کتاب السنتہ فضائل العشرة مسند احمد جلد 6 ص 382 مسند احمد جلد 1 ص 190 مسند احمد جلد 1 ص 187 الاصابه جلد 3 ص 97 ومسند احمد جز1 ص221 ابن سعد جلد 3 ص 384 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ

Page 195

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 181 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نام ونسب حضرت زبیر بن العوام آپ کا نام زبیر والد کا نام عوام اور والدہ کا نام صفیہ تھا کنیت ابوعبداللہ تھی.نسب پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے مل جاتا ہے.آپ کی والدہ حضرت صفیہ انحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں.اور ام المومنین حضرت خدیجہ کے آپ حقیقی بھیجے تھے.حضرت ابو بکر کے داماد ہونے کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ سے ہم زلف ہونے کی نسبت بھی تھی.آپ ہجرت نبوی سے 28 سال قبل پیدا ہوئے.والد بچپن میں انتقال کر گئے تھے.والدہ نے تربیت میں تادیب اور سختی سے کام لیا.آپ کہا کرتی تھیں کہ اس کا مقصد زبیر کو ایک دانا اور بہادر انسان بنانا ہے.لڑکپن کا واقعہ ہے مکہ میں ایک نوجوان کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہو گیا.اس کو ایسا کہ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا.حضرت صفیہ کو خبر پہنچی تو اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے انہوں نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا.شکایت کرنے والوں سے پوچھا پہلے بتاؤ کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا.بہادر یا بزدل؟ (1) حضرت زبیر کا قد لمبا تھا سواری پر بیٹھتے تو پاؤں زمین کو چھوتے اور رنگ سفید، جسم ہلکا پھر تیلا ، رخسار ہلکے، داڑھی بھی ہلکی اور سرخی مائل تھی.(2) قبول اسلام اور تکالیف حضرت زبیر نے سولہ برس کی عمر میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر اسلام قبول کیا.اور قبول اسلام میں سبقت لینے والوں میں آپ کا ممتاز مقام تھا.کم سن ہونے کے باوجود بہادری اور جانثاری آپ کا طرہ امتیاز تھی.مکہ میں ابتداء میں آپ کی مؤاخات حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ہوئی.قبول اسلام کے بعد کوئی ایسا غزوہ نہیں ہوا جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرکت نہ کی ہو.(3) اسلام کے ابتدائی زمانہ مخالفت کی بات ہے کسی نے مشہور کر دیا کہ نبی کریم کو مشرکین نے

Page 196

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 182 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ گرفتار کر لیا ہے.حضرت زبیر نے سنتے ہی تلوار سونتی اور فور رسول اللہ کے پاس پہنچے.حضور نے دیکھ کر پوچھا یہ کیا.عرض کیا کہ حضور میں تو آپ کی گرفتاری کا سن کر دیوانہ وار آپ کی طرف چلا آیا ہوں.رسول اللہ نے نہ صرف اس جانثار فدائی کیلئے دعا کی بلکہ آپ کی تلوار کیلئے بھی دعا کی.(4) ابتدائے اسلام میں حضرت زبیر پر بھی بہت سختیاں ہوئیں ان کا چا ان کو چٹائی میں باندھ کر دھوئیں کی دھونی دیتا آپ کا دم گھٹنے لگتا.مگر آپ کلمہ تو حید کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے.اور ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ جو چاہو کر لو میں اس دین سے انکار نہیں کرسکتا.(5) ظلم و ستم انتہا کو پہنچا تو حبشہ ہجرت کی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد مدینہ ہجرت کی سعادت پائی.مکے میں قیام کے دوران بعد میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت طلحہ گو بھی آپ کا بھائی قرار دیا.شجاعت ہجرت مدینہ کے بعد حضرت سلمہ بن سلامہ سے بھائی چارہ ہوا جو بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے انصار میں سے معزز بزرگ تھے.آپ کی شجاعت و بہادری ضرب المثل تھی.غزوہ بدر میں زرد رنگ کا عمامہ سر پر باندھ رکھا تھا.مسلمانوں کے پاس کل دوگھوڑوں میں سے ایک پر وہ سوار تھے.اس جنگ میں وہ اس جانبازی اور دلیری سے لڑے کہ جس طرف نکل جاتے دشمن کی صفیں تہ و بالا کر کے رکھ دیتے.مشہور تھا کہ اس روز فرشتے بھی زبیر کی پگڑی جیسی زرد پگڑیاں پہنے نازل ہوئے تھے.(6) ایک مشرک نے بلند ٹیلے پر کھڑے ہو کر دعوت مبارزت دی حضرت زبیر لپک کر اس پر حملہ آور ہوئے.مگر تھوڑی دیر میں قلابازیاں کھاتے ہوئے ٹیلے سے نیچے آنے لگے.آنحضرت ہو نے فرمایا کہ دونوں میں سے جو پہلے زمین پر آرہے گا وہی ہلاک ہوگا.اور ایسا ہی ہواوہ مشرک پہلے زمین پر گرا اور مارا گیا.میدان بدر میں ایک اور سُور ما عبیدہ بن سعید سر سے پاؤں تک زرہ بند تھا اور صرف آنکھیں کھلی ہوئی تھیں.حضرت زبیر اس کے مقابلے میں بھی نکلے اور تاک کر اُس کی آنکھ میں ایسا نیزہ مارا کہ وہ

Page 197

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 183 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ دوسری طرف سے باہر نکل گیا.اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل کھینچ کر نیزہ نکالا گیا تو پھل ٹیڑھا ہو چکا تھا.آنحضرت نے زبیر کی بہادری کے نشان کے طور پر وہ نیزہ حضرت زبیر سے مانگ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا.حضور کی وفات کے بعد خلفائے راشدین میں یہ امانت بطور تبرک منتقل ہوتی رہی.یہاں تک کہ حضرت عثمان کے بعد حضرت زبیر کے بیٹے حضرت عبداللہ کے پاس یہ نیزہ پہنچا.جوان کی وفات تک ان کے پاس رہا.حضرت زبیر نے جس بے جگری سے میدان بدر میں داد شجاعت دی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سارا بدن زخموں سے چھلنی تھا.ایک زخم تو اتنا گہرا تھا کہ ہمیشہ کے لئے بدن میں گڑھا پڑ گیا.آپ کی تلوار میں بدر کے دن گردنیں مارتے مارتے دندانے پڑ گئے تھے.بلاشبہ آپ کی اس بہادری پر عرب کے شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے وَلَا غَيْبَ فِيهِم غَيْرَ أَنَّ سُيُوفَهُم بهِنَّ قُلُولٌ مِن كِرَاعِ الكَتَائِبِ کہ ان بہادروں میں کوئی عیب نہیں.اگر ہے تو بس یہ کہ ان کی تلواروں میں لڑائی اور جنگ آزمائی کے باعث بہت دندانے پڑچکے ہیں.اور یوں عرب شاعر نے بظاہر مذمت میں لپٹی ہوئی ان بہادروں کی مردانگی کی ایسی اعلیٰ درجہ کی تعریف کر دی کہ اس سے بڑھ کر اور کیا تعریف ہوگی.(7) غزوہ احد اور خندق میں جانثاری غزوہ احد میں مشرکین کے اچانک حملے کے وقت جب بڑے بڑے غازیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور جو چودہ صحابہ ثابت قدم رہے ان میں جانثار حواری رسول حضرت زبیر بھی تھے.جنگ احد میں مشرکین کے واپس جانے کے بعد رسول کریم ﷺ نے جب بعض اطلاعات کی بناء پر یہ خطرہ محسوس کیا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو آپ نے فرمایا ہم ان کا تعاقب کریں گے کون ساتھ دے گا.تب ستر صحابہ آپ کے ساتھ اس تعاقب میں شریک ہوئے.حضرت عائشہ حضرت عروہ سے فرماتی تھیں ان میں تمہارے نانا ابوبکر اور دادا حضرت زبیر بھی تھے.(8)

Page 198

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 184 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں حضرت زبیر کی ڈیوٹی خواتین کی حفاظت پر تھی جس کا حق آپ نے خوب ادا کیا.مدینہ کے یہود بنو قریظہ کے ساتھ اگرچہ مسلمانوں کا معاہدہ تھا لیکن مشرکین عرب کا چاروں طرف سے مدینہ پر ہجوم دیکھ کر وہ بھی بدعہدی پر اتر آئے.یہ شدید سردی کے دن تھے.رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو آواز دی کہ کوئی ہے جو بنوقریظہ کی خبر لائے؟ مارے سردی کے ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی.تین مرتبہ حضور کے آواز دینے پر ہر دفعہ ایک ہی آواز آئی اور یہ آواز جس بہادر اور جری پہلوان کی تھی وہ زبیر تھے.انہوں نے ہر دفعہ لبیک کہا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ! میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں.پھر زبیر جا کر دشمن کی خبریں لے آئے.جب آپ واپس لوٹے تو رسول اللہ اللہ نے آپ کی فدائیت سے خوش ہو کر فرمایا ہر نبی کا ایک حواری یعنی خاص مددگار ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے.(9) اس طرح فرمایا "اے زبیر؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! حضرت زبیر گوحدیبیہ میں بھی شرکت کی توفیق ملی اور رسول کریم نے بدر اور حدیبیہ میں شرکت کرنے والوں کے بارہ میں فرمایا تھا کہ ان میں سے کوئی آگ میں داخل نہ ہوگا.غزوہ خیبر میں بہادری پھر غزوہ خیبر کا موقع آیا تو یہود خیبر کا رئیس اور بہادر مرحب حضرت علیؓ سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا.اس کا بھائی یا سر نہایت غضبناک ہو کر اپنے بھائی کا انتقام لینے کیلئے میدان میں نکلا.اور کہا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے حضرت زبیر نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا.اور اس دیو ہیکل انسان کے مقابلے پر حضرت زبیر کو جاتے دیکھ کر ماں کی ممتا جا گی.آپ کی والدہ صفیہ پریشان ہو کر کہنے لگیں کہ آج زبیر کی خیر نہیں.مگر رسول خدا ﷺ نے فرمایا نہیں ایسا نہیں ہوگا.زبیر اس پر لازما غالب آئے گا.چنانچہ انہوں نے چند ہی لمحوں میں اس بہادر کو زیر کر لیا.فتح مکہ اور حنین میں خدمات فتح مکہ کے موقع پر بھی حضرت زبیر ٹوکلیدی خدمات کی توفیق ملی.پہلے آپ کو حضرت علی کے ساتھ اس مہم میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.جو ایک مخبری کرنے والی شتر سوار عورت کو گرفتار

Page 199

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 185 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کرنے کے لئے رسول خدا ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر بھجوائی تھی.اور اس سے آپ کامیاب و کامران واپس لوٹے.مگے میں داخلے کا وقت آیا دس ہزار قد وسیوں کے لشکر کے چھوٹے چھوٹے دستے بنائے گئے.آخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرت علی ہے موجود تھے اور اس دستہ کے علمبردار حضرت زبیر تھے.مکہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہونے کے بعد حضرت زبیر اور حضرت مقداد گھوڑوں پر سوار آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور ﷺ نے خود بڑی محبت کے ساتھ اپنے دست مبارک سے ان مجاہدوں کے چہروں سے گردو غبار صاف کی اور ان کے مال غنیمت کے حصے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ گھوڑ سواروں کے لئے ہم نے عام مجاہدین سے دو گنے حصے مقرر کئے ہیں.یہ گویا حضرت زبیر کی شاندار خدمات پر حضور کی طرف سے انعام کا اعلان تھا.(10) فتح مکہ کے بعد حنین کا معرکہ پیش آیا.حسنین کی گھاٹیوں میں چھپے ہوئے تیرانداز مسلمان مجاہدین کی نقل و حرکت دیکھ رہے تھے.حضرت زبیر کی بہادری اتنی زبان زد عام اور ضرب المثل تھی کہ کمین گاہوں میں چھپے ہوئے دشمنوں پر جب آپ نے حملے کا ارادہ کیا تو دشمنوں میں سے ایک شخص نے آپ کو پہچان لیا.وہ بے اختیار اپنے ساتھیوں کو پکار کر کہنے لگا.لات وغزی کی قسم یہ طویل القامت شہ سوار یقیناً زبیر ہے.اس کا حملہ بڑا خطرناک ہوتا ہے تیار ہو جاؤ.اس اعلان کی دی تھی کہ حضرت زبیر پر ایک دستے نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی.حضرت زبیر نے نہایت جرات اور دانشمندی کے ساتھ اس حملے کا مقابلہ کیا اور یہ گھاٹی دشمنوں سے بالکل خالی کروا کر دم لیا.جنگ یرموک میں شجاعت جنگ یرموک میں بھی حضرت زبیر کی غیر معمولی شجاعت دیکھنے میں آئی دوران جنگ ایک دفعہ چند نو جوانوں نے زبیر سے کہا کہ اگر آپ دشمن کے قلب لشکر میں گھس کر حملہ کریں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے.حضرت زبیر کو تائید الہی سے اپنی قوت بازو پر ایسا اعتماد تھا فرمانے لگے تم میرا ساتھ نہیں دے سکتے مگر جب ان سب نوجوانوں نے اصرار کیا تو آپ نے ان نوجوان بہادروں کے دستے کو ساتھ لیا اور دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کر دیا.رومی فوج کے قلب کو چیرتے ہوئے تنہا لشکر کے اس پار نکل گئے تمام ساتھی پیچھے رہ گئے تھے پھر آپ حملہ کرتے ہوئے واپس لوٹے تو رومیوں نے گھوڑے کی

Page 200

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 186 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ باگ پکڑ لی اور گھیرا ڈال کر ہر طرف سے آپ پر حملہ آور ہو گئے اور سخت زخمی کر دیا.آپ کی گردن پر تلواروں کے اتنے کاری زخم آئے کہ اچھے ہونے کے بعد بھی اس میں گڑھے باقی رہ گئے.حضرت عروہ کہا کرتے تھے حضرت زبیر کی پشت پر بدر کے زخم کے بعد یرموک کے زخم کا گڑھا تھا جس میں انگلیاں داخل کر کے میں بچپن میں کھیلا کرتا تھا.(11) موصل کے ایک بزرگ کی روایت ہے کہ ایک سفر میں میں حضرت زبیر کے ہمراہ تھا انہیں غسل کی ضرورت پیش آئی.میں نے ان کیلئے پردہ کیا میری نظر ان کے جسم پر پڑی تو وہ تلواروں کے نشانوں سے جگہ جگہ کٹا ہوا تھا.میں نے کہا کہ ایسے زخموں کے نشان میں نے کسی شخص پر نہیں دیکھے انہوں نے فرمایا ان میں ہر زخم رسول اللہ علیہ کے ساتھ خدا کی راہ میں لگا.(12) ایسے حیرت انگیز مجاہدوں کی شجاعت اور قربانیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ رومی فوج بھاگ گئی اور یرموک کے میدان میں مسلمانوں کو فتح ہوئی.اور وہ ملک شام کے تاج و تخت کے وارث بنے.فتح شام کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے مصر کا قصد کیا.حضرت عمرؓ نے ان کی مدد کے لئے دس ہزار کی فوج اور چار افسروں کی کمک بھیجی اور لکھا کہ ان افسروں میں سے ایک ایک ہزار سوار کے برابر ہے.ان میں سے ایک کمانڈر حضرت زبیر بھی تھے.حضرت عمرو بن العاص نے محاصرہ فسطاط کے جملہ انتظامات ان کے سپر دفرمائے تھے.سات ماہ ہو گئے محاصرہ ٹوٹنے کو نہ آتا تھا.حضرت زبیر نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ آج میں مسلمانوں پر اپنی جان فدا کرتا ہوں.یہ کہ کرننگی تلوار ہاتھ میں لئے اور قلعہ کی دیوار کے ساتھ سیڑھی لڑکائی اور اوپر چڑھ گئے تاکہ فصیل کو پھلانگ کر قلعے میں داخل ہو جائیں.چند اور صحابہ نے بھی ساتھ دیا.فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.تمام فوج نے جوابا ساتھ دیا.فسطاط کی سرز مین نعرہ ہائے تکبیر سے دہل اٹھی.عیسائی سمجھے کہ مسلمان قلعے کے اندر گھس آئے ہیں وہ بدحواس ہو کر بھاگے.دریں اثناء حضرت زبیر نے موقع پا کر قلعے کا دروازہ کھول وہ دیا.اسلامی فوج اندر داخل ہوگئی اور مقوقس شاہ مصر کی درخواست پر ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ طے پایا.

Page 201

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 187 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ خلفاء کا اعتماد حضرت عمر نے حضرت زبیر کی ذہانت و فراست اور آپ کی خدمات کے باعث انتخاب خلافت کمیٹی میں آپ کا بھی نام مقرر فرمایا تھا.حضرت عثمان کے زمانہ میں حضرت زبیر بڑھاپے کی عمر میں داخل ہو چکے تھے، اس لئے خاموشی سے باقی زندگی بسر کر دی.حضرت عثمان آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے.چنانچہ اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت عثمان جب شدید نکسیر پھوٹنے سے بہت زیادہ بیمار ہو گئے.اس سال حج پر بھی نہیں جاسکے اور اپنی نازک حالت کی بناء پر ذاتی وصیت تک بھی کر دی تو قریش کے بعض لوگوں نے عرض کیا کہ اپنے بعد جانشین مقرر کر دیں.آپ نے مشورہ کرتے ہوئے فرمایا کے جانشین کروں؟ اس سلسلہ میں حضرت زبیر کا نام آنے پر حضرت عثمان نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جہاں تک میر اعلم ہے وہ سب سے بہتر ہے اور وہ رسول اللہ علی کو بھی بہت زیادہ پیارے تھے.(13) ۳۵ ہجری میں فتنہ پردازوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا.تو حضرت زبیر نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے بھجوایا.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت زبیر نے رات کے وقت نماز جنازہ ادا کر کے ان کی وصیت کے مطابق مضافاتِ مدینہ میں سپردخاک کیا.جنت کی بشارت آپ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک انسان تھے حضرت زبیر کو رسول اللہ ﷺ نے آپ کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی اور وہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے.حضرت زبیر نے ۳۶ ھ میں ۶۴ برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا.ایک دفعہ رسول کریم ، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے.اس میں حرکت پیدا ہوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے حراء ابھم جا کہ تجھ پر سوائے نبی ،صدیق اور شہید کے کوئی نہیں.(14) حضرت زبیر فرمایا کرتے تھے کہ میرے جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جو رسول اللہ اللہ کی.

Page 202

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زخمی نہ ہوا ہو.(15) خشیت الهی 188 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حد درجہ احتیاط اور خشیت الہی کا یہ عالم تھا کہ آپ آنحضرت ﷺ کی روایات بھی کثرت سے بیان نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے عرض کیا کہ دیگر صحابہ کی طرح کثرت سے احادیث کیوں بیان نہیں کرتے فرمایا جب سے اسلام لایا ہوں رسول اللہ علی سے جدا نہیں ہوا.مگر رسول اللہ نے کی اس تنبیہہ سے ڈرتا ہوں.کہ جس نے میری طرف غلط بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے.“ (16) خدا خوفی ، حق پسندی، بے نیازی ، سخاوت اور ایثار حضرت زبیر کے خاص اوصاف تھے.آپ کی شجاعت اور مردانگی کا ذکر گزر چکا ہے.اسکندریہ کے محاصرہ نے طول کھینچا تو آپ نے سیڑھی لگا کر قلعے کی فصیل پار کرنا چاہی ساتھیوں نے کہا کہ قلعے میں سخت طاعون کی وبا ہے؟ آپ نے بے دھڑک فرمایا کہ ہم بھی طعن و طاعون کے لئے ہی آئے ہیں.پھر موت کا کیا خوف یہ کہا اور سیڑھی لگا کر دیوار پر چڑھ گئے.(17) حضرت زبیر گو رسول اللہ ﷺ نے جو حواری رسول کا لقب عطا فر مایا تھا.آپ کے اس ساتھی میں آنحضور ﷺ کے پاکیزہ اخلاق جلوہ گر تھے.امانت و دیانت کا یہ عالم تھا کہ لوگ کثرت سے امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے.فیاضی وعطا حضرت زبیر مالدار انسان تھے.مگر اس سے کہیں بڑھ کر وہ فیاض تھے.آپ کے ایک ہزار غلام تھے جو روزانہ اجرت پر کام کر کے خاص رقم لے کر آتے تھے مگر کبھی آپ نے یہ مال اپنے اوپر خرچ کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو آ تاوہ خدا کی راہ میں صدقہ کر دیتے.اصل ذریعہ معاش تجارت تھا.مال غنیمت سے بھی اس بہادر مجاہد نے بہت حصے پائے.آپ کے تمام اموال کا تخمینہ اس زمانے میں پانچ کروڑ دولاکھ درہم مکانات اور جائیداد غیر منقولہ کی

Page 203

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 189 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ صورت میں تھا.رسول کریم ﷺ نے بھی آپ کو مدینہ میں ایک وسیع قطعہ برائے مکان اور بنی نضیر کی اراضی میں سے بھی ایک قطعہ زمین عطا فرمایا تھا.(18) مقام حجرف اور وادی عقیق میں بھی آپ کی جاگیر تھی.جو حضرت ابوبکر نے عطا کی تھی.تربیت اولاد اولاد سے بہت محبت تھی.اور ان کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے.اپنے نو بیٹوں کے نام بدر اور احد میں شہید ہونے والے بزرگ صحابہ کے نام پر رکھے جیسے عبداللہ حمزہ، جعفر.اس تمنا کے اظہار کیلئے کہ خدا کی راہ میں قربان ہو جائیں.( 19 ) اور ان میں بھی اپنی طرح شجاعانہ رنگ پیدا کرنا چاہتے تھے.جنگ یرموک کے وقت حضرت عبداللہ بن زبیر کی عمر صرف دس سال تھی.حضرت زبیر انہیں جنگ بدر میں ساتھ لے گئے اور گھوڑے پر سوار کر کے میدان جنگ میں ایک آدمی کے سپرد کیا.تا کہ جنگ کے ہولناک مناظر دیکھ کر ان میں جرات پیدا ہو.اسی تربیت کا اثر تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر اپنے وقت کے بہادر اور شجاع انسان ٹھہرے.آپ کی طبیعت میں سادگی تھی.مال و دولت کی فراوانی کے باوجود اسراف کی طرف مائل نہیں ہوئے.البتہ آلات حرب کا بہت شوق تھا.جو یقیناً جہاد کی محبت کی وجہ سے تھا.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جو شورش ہوئی اس میں آپ کی رائے بھی قاتلین عثمان سے قصاص کے حق میں تھی.جبکہ بلوہ کی صورت میں ہونے والی اس شہادت کے قاتلوں کی تعیین اور بار ثبوت اپنی جگہ ایک مسئلہ تھی.اس اختلاف رائے میں ہی حضرت عائشہ اور حضرت علی کے مابین جنگ جمل میں آمنا سامنا ہوا.حضرت زبیر اور حضرت طلحہ حضرت عائشہؓ کے ہمراہ تھے.حضرت علیؓ نے حضرت زبیر سے کہا کہ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو ہمارے خلاف بھی کسی کی مدد نہ کر میں حضرت زبیر نے عرض کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں آپ کے مقابلہ سے دستبردار ہو جاؤں.حضرت علیؓ نے کہا کہ میں کیسے نہ پسند کروں گا جبکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد ہیں اور دیگر فضائل بیان کئے جس پر زبیر راضی ہو گئے.(20) پھر حضرت ابن عباس وغیرہ نے بھی توجہ دلائی تو آپ نے رائے بدل لی اور میدان جنگ سے واپس لوٹ آئے اس دوران ایک ظالم نے آپ پر حملہ کر کے شہید کر دیا.حضرت علی گو اس کی اطلاع

Page 204

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 190 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ زبیر کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو.اس طرح حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ.وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِّنْ غِلَّ اِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُتَقبِلِينَ ( الحجر :47) کہ ہم ان (جنتیوں ) کے سینوں سے کینہ نکال باہر کریں گے.وہ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے بھائی بھائی ہوں گے.جنگ جمل میں کنارہ کشی کے باوجود بعض فتنہ پردازوں نے آپ کو سازش سے شہید کیا.نیزہ کے پہلے حملہ کے بعد حضرت زبیر نے دفاع کیا تو حملہ آور کو اندازہ ہو گیا کہ وہ بچ نہیں سکے گا تب اس نے اللہ کا واسطہ دے کر امان چاہی تو آپ نے تلوار روک لی.اس نے پھر ساتھیوں کی مدد سے آپ کو شہید کیا.(21) حضرت زبیر کی وفات پر حضرت حسان بن ثابت نے اپنے اشعار میں ان کو خوب خراج تحسین پیش کیا ہے.أَقَامَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ وَهَدْيِهِ حَوَارِيُّه وَالقَولُ بِالفِعْلِ يَعْدِلُ هُوَ الفَارِسُ المَشْهُورُ وَالبَطَلُ الَّذِي يَصُولُ إِذَا مَا كَانَ يَوْمٌ مُحَجَّلُ إِذَا كَشَفَتْ عَنْ سَا قِهَا الْحَرُبُ حَشَّهَا بَا بَيَضَ سَبَّاقٌ إِلَى الْمَوتِ يَر مُل (22) یعنی که حواری رسول علیہ حضرت زبیر نے نبی کریم ﷺ کی سنت اور آپ کے عہد پر خوب قائم رہ کر دکھا دیا اور وہ قول کو فعل کے برابر کرتے تھے یعنی جو کہتے تھے اس پر عمل کرتے.وہی مشہور شہ سوار اور بہادر انسان تھے کہ جب دن روشن ہوتا تو وہ حملہ آور ہوتے تھے.( رات کو حملہ نہ کرتے) جب جنگ میں گھمسان کا رن ہوتا تو وہ اسے دہکا کر سفید کرتے اور دوڑتے ہوئے پہلے موت کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے.حضرت زبیر بیان کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے میرے لئے اور میری اولاد کیلئے بھی دعا کی تھی.رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے جس کا واسطہ زبیر سے پڑے تو زبیر اسلام کا ستون

Page 205

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے.(23) 191 حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حضرت عمر فر ماتے تھے اگر میں کوئی عہد کروں یا ترکہ کی وصیت کسی کے حق میں کروں تو پسند کروں گا کہ زیبرے کے حق میں کروں کہ وہ ارکان دین میں سے ہے.اصا به جز 3 ص 6 حواله جات ابن سعد جلد 3 ص 107 مجمع الزوائد جلد 9 ص 150 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 70 -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 -21 -22 -23 ابن سعد جلد 3 ص 102 اسد الغابہ جلد 2 ص 197 مجمع الزوائد جلد 9 ص151 اسد الغابہ جلد 2 ص 197 ، ابن سعد جلد 3 ص 102 بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر منتخب کنز العمال بر حاشیہ مند جلد 5 ص 69 ، بخاری کتاب المغازی بخاری کتاب المناقب باب مناقب زبیر ، استیعاب جلد 2 ص 91 ابن ہشام جلد 3 ص 385 ابن سعد جلد 3 ص 104 بخاری کتاب المناقب باب مناقب زبیر مجمع الزوائد جلد 9 ص 150 فتوح البلدان ص 220 بخاری کتاب المناقب باب مناقب الزبير مسلم کتاب الفضائل باب فضائل طلحه والر بیر و اسد الغابہ جلد 2 ص 197 ترندی کتاب المناقب باب منی عضو اللہ الا وقد جرح ابن سعد جلد 3 ص 107 ابن سعد جلد 3 ص 107 استیعاب جلد 2 ص 92، ابن سعد جلد 3 ص 110 ابن سعد جلد 3 ص 110 تا 113 مجمع الزوائد جلد 9 ص 151 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 68

Page 206

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 192 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت طلحہ بن عبید الله طلحہ کے والد عبیداللہ بن عثمان اور والدہ صعبہ بنت عبداللہ تھیں ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر آپ کا نسب رسول کریم ﷺ سے مل جاتا ہے.آپ کے والد آپ کے قبول اسلام سے قبل ہی وفات پاگئے تھے.البتہ والدہ صاحبہ نے اسلام قبول کیا اور بی عمر پائی.شہادت عثمان کے وقت بھی وہ زندہ تھیں.چنانچہ محاصرہ کے وقت یہ غیور خاتون اپنے گھر سے باہر آئیں اور اپنے بیٹے طلحہ سے کہا کہ وہ اپنے اثر سے معاندوں کو دور کریں حضرت صعبہ قریباً ۸۰ سال تک زندہ رہیں.حضرت طلحہ دعویٰ نبوت سے کوئی ۲۵ برس قبل پیدا ہوئے.ان کا رنگ گندمی اور چہرہ خوبصورت تھا.بال زیادہ تھے مگر بہت گھنگھریالے نہ تھے.بالوں کو خضاب نہیں لگاتے تھے.قبول اسلام اور تکالیف عرب دستور کے مطابق ہوش سنبھالتے ہی تجارتی مشاغل میں مصروف ہوئے.جوانی میں دور دراز کے تجارتی سفروں کے مواقع میسر آئے اپنے تجارتی سفروں کے دوران شام کے شہر بصرہ میں ایک راہب سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے پوچھا کہ کیا احمد ظاہر ہو گیا ہے.انہوں نے کہا کون احمد ؟ اس نے کہا ابن عبد اللہ بن عبد المطلب.اس نے اسی مہینہ میں ظاہر ہونا تھا اور وہ آخری نبی ہے اور اس نے حرم سے ظاہر ہو کر کھجوروں والی جگہ کی طرف ہجرت کرنی ہے.پس تم اس سے محروم نہ رہنا.حضرت طلحہ کہتے ہیں اسی وقت سے یہ بات میرے دل میں گڑ گئی.واپس مکہ آیا تو رسول کریم کی بعثت کا علم ہوا.صدیق اکبر کی صحبت اور دوستی کے ذریعہ سے ایک روز رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بازیابی کا موقع ملا اور حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں آپ نے اسلام قبول کرلیا.(1) انہیں آغاز اسلام میں ابتدائی آٹھ ایمان لانے والوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے.قبول اسلام کے بعد آپ بھی دیگر مسلمانوں کی طرح کفار کے مظالم کا تختہ مشق ستم بنتے رہے.آپ کا بھائی عثمان آپ کو اور آپ کے مسلمان کرنے والے ساتھی حضرت ابوبکر کو ایک ہی

Page 207

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 193 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ رسی میں باندھ کر مارا کرتا مگر یہ ظلم و استبداد استقامت کے ان شہزادوں میں کوئی لغزش پیدا نہ کرسکا.(2) مکہ میں قیام کے دوران رسول کریم ﷺ نے حضرت طلحہ کو حضرت زبیر کا بھائی بنا کر روحانی اخوت کا نیا رشتہ عطا کیا.ذریعہ معاش تجارت تھا.ہجرت مدینہ کے وقت آپ ملک شام اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ گئے ہوئے تھے.واپسی پر رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر سے ملاقات ہوئی اور حضرت طلحہ گوان کی خدمت میں کچھ شامی لباسوں کا تحفہ پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.آپ نے اہل مدینہ کے یہ احوال بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کئے کہ وہ کس طرح بے چینی سے سراپا انتظار ہیں.خود حضرت طلحہ نے مکہ پہنچ کر تجارتی امور سمیٹے ، اور پروگرام کے مطابق حضرت ابو بکر کے اہل وعیال کو لے کر مدینہ روانہ ہوئے.مدینہ پہنچ کر آپ حضرت اسعد بن زرارہ کے مہمان ٹھہرے اور رسول کریم نے حضرت ابی بن کعب انصاری کے ساتھ آپ کا بھائی چارہ کروایا.(3) غزوات میں شرکت اور فدائیت ہجرت کے دوسرے سال سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو غزوہ بدر میں حضرت طلحہ شامل نہ ہو سکے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو مدینہ میں شام کی طرف قافلہ قریش کی اطلاعات لینے کیلئے بھجوایا تھا.مگر رسول اللہ اللہ نے نہ صرف آپ کو بدر کے مال غنیمت سے حصہ عطا فر مایا بلکہ یہ ارشادفرمایا کہ آپ جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں ہیں.کیونکہ آپ خدا کی خاطر جہاد کی نیت اور ارادے رکھتے تھے (4) ایک سال بعد میدان احد میں آپ کو اپنی دلی تمنائیں پوری کرنے کے خوب خوب مواقع ملے.چنانچہ احد کے میدان میں کفار کے دوسرے حملہ کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی صفوں میں بھگدڑ مچی تو صرف چند صحابہ ثابت قدم رہ سکے.حضرت طلحہ ان میں سرفہرست تھے جو رسول خدا کے آگے وہاں سینہ سپر ہورہے تھے ، جہاں بلا کا رن پڑ رہا تھا.کفار اپنی تمام تر قوت جمع کر کے بانی اسلام کو نشانہ بنارہے تھے.چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہورہی تھی.نیزے اور تلوار میں چمک رہی تھیں.بہادر اور جانباز طلحہ نے جیسے عہد کر رکھا تھا کہ خود قربان ہو جائیں گے مگر اپنے آقا پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے وہ تیروں کو اپنے ہاتھوں پہ لیتے تو نیزوں اور تلواروں کے

Page 208

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 194 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سامنے اپنا سینہ تان لیتے.احد میں صحابہ کی ایک جماعت نے رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر موت پر بیعت کی تھی ان میں طلیحہ بھی شامل تھے جنہوں نے اس عہد کا حق ادا کر دکھایا.(5) نبی کریم ﷺے جنگ کا نقشہ ملاحظہ فرمانے کے لئے ذرا اونچا ہو کر حالات جنگ کو دیکھنا چاہتے تو حضرت طلحہ گھمسان کے اس رن میں اپنے آقا کے لئے بے چین و بے قرار ہو جاتے اور عرض کرتے لَا تُشْرِقِ يُصِيبُكَ سَهُمْ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ.رسول اللہ ﷺ آپ دشمن کی طرف جھانک کر بھی مت دیکھیے کہیں کوئی ناگہانی تیر آ کے آپ کو لگ جائے نَحْرِی دُونَ نَحْرِكَ يَارَسُولَ اللهِ.میرے آقا میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے سپر ہے.(6) کبھی دشمن ہجوم کر کے آپ پر حملہ آور ہوتے تو آپ شیروں کی طرح ایسے جھپٹتے کہ دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر کے آپ رسول اللہ کو ان کے نرغے سے نکال لاتے.ایک دفعہ ایک ظالم نے کسی ہلہ میں موقع پا کر رسول کریم عے پر تلوار کا بھر پور وار کیا.حضرت طلحہ نے اپنے ہاتھ پر لیا اور انگلیاں کٹ کر رہ گئیں تو زبان سے کوئی آہ نہیں نکلی بلکہ کہا کہ بہت خوب ہوا کہ طلحہ رسول خدا ﷺ کی حفاظت میں ٹنڈا ہو گیا.طلحہ الشلاء کے نام سے آپ مشہور تھے (7) یعنی ٹنڈ ا طلحہ اور بجاطور پر آپ کو حفاظت رسول میں ٹنڈا ہونے پر فخر تھا.الغرض حضرت طلحہؓ اسی جانبازی اور بہادری سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر کمر بستہ رہے.یہاں تک کہ دیگر صحابہ بھی مد کو آپہنچے تو مشرکین کے حملہ کی شدت میں کچھ کمی آئی.رسول خدا کو حضرت طلحہ نے اپنی پشت پر سوار کیا اور اُحد پہاڑی کے دامن میں ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا اس موقع پر رسول اللہ نے فرمایا کہ طلحہ نے آج جنت واجب کر لی.حضرت طلحہ کا سارا بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا.حضرت ابو بکر صدیق نے آپ کے بدن پر ستر سے زیادہ زخم شمار کئے آپ کہا کرتے تھے کہ احد کا دن تو طلحہ کا دن تھا.خود رسول اللہ نے آپ کی جانبازی کو دیکھ کر آپ کو طلحہ الخیر کا لقب عطا فر مایا کہ طلحہ تو سراسر خیر و بھلائی کا پتلا نکلا اور یہ تو مجسم خیر ہے.حضرت عمر آپ کو صاحب احد کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے کیونکہ احد کے روز حفاظت رسول کا سہرا آپ ہی کے سر تھا.نیز آپ کو خود اپنی اس غیر معمولی خدمت پر بجا طور پر فخر تھا اور خاص انداز سے یہ واقعہ سنایا کرتے تھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ احد میں ایسا وقت بھی آیا کہ دائیں جبریان اور بائیں طلحہ کے سوا کوئی

Page 209

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 195 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نہ تھا.(8) غزوہ احد کے بعد کے غزوات میں بھی حضرت طلحہ نمایاں خدمات کی توفیق پاتے رہے.حدیبیہ فتح مکہ اور حنین میں بھی آپ شریک تھے اور غزوہ احد کی طرح حنین میں بھی جب لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو طلحہ ثابت قدم رہے.9 ہجری میں قیصر روم کے حملہ کی خبر سن کر رسول کریم علی نے صحابہ کو غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم دیا.حضرت طلحہ نے اس موقع پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر ایک بیش بہا ر تم پیش کر دی اور بارگاہ رسالت سے فیاض کا لقب پایا.اسی دوران منافقین نے مسلمانوں کے خلاف ایک یہودی کے مکان پر جمع ہو کر ریشہ دوانیاں شروع کر دیں تو رسول کریم علی نے حضرت طلحہ گو یہ فرض سونپا کہ وہ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جا کر ان لوگوں کا قلع قمع کریں.آپ کو کامیابی کے ساتھ یہ خدمت سر انجام دینے کی توفیق ملی.(9) وصال رسول ﷺ اور خلافت ابو بکر حجۃ الوداع میں بھی حضرت طلحہ اپنے آقا کے ہمرکاب تھے.حج سے واپسی پر مدینہ پہنچ کر رسول کریم ﷺ کا وصال ہوا.دیگر صحابہ کی طرح اس عظیم سانحہ سے حضرت طلحہ گو جو صدمہ پہنچا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کیلئے مشورہ ہورہا تھا ، عاشق رسول ﷺ حضرت طلحہ جیسا جری انسان اپنے آقا کی جدائی میں دل گرفتہ کسی گوشہ تنہائی میں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر رہا تھا.خلافت سے اخلاص و وفا حضرت ابوبکر خلیفہ الرسول منتخب ہوئے تو طلحہ الخیر ان کے دست و باز و ثابت ہوئے.آپ محض اللہ جس بات کو حق سمجھتے بے لاگ اپنی رائے پیش کر دیا کرتے تھے.چنانچہ جب حضرت ابوبکر نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عمر کو خلیفہ منتخب کیا.تو یہ حضرت طلحہ ہی تھے جنہوں نے حضرت عمرؓ کی طبیعت کی سختی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت ابوبکر سے یہ عرض کی کہ آپ خدا کو کیا جواب دیں گے کہ اپنا جانشین کے مقرر کر آئے ہیں؟ حضرت ابوبکر کا فیصلہ بھی چونکہ خالصتا تقویٰ پرمبنی تھا آپ نے بھی کیا خوب جواب دیا فرمایا ”میں خدا سے کہوں گا کہ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر مقرر کر آیا

Page 210

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 196 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ہوں جوان میں سب سے بہتر تھا.واقعات نے یہی فیصلہ درست ثابت کیا کہ حضرت عمرؓ ہی اس منصب کے لئے سب سے زیادہ اہل تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت طلحہ گو ان کی بھر پور اعانت اور نصرت کی توفیق عطا فرمائی.(10) حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں مفتوح علاقوں کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم کرنے کی بجائے بیت المال کی ملکیت قرار دینے کی تجویز دی اور مفتوح لوگوں سے لگان وصول کرنے کی رائے سامنے آئی تاکہ اس کے ذریعہ مجاہدین کی ضرورتیں پوری کی جائیں.بظاہر یہ ایک نئی رائے تھی اس لئے صحابہ کی ایک بڑی جماعت اس کے حق میں نہیں تھی اور انہوں نے زمینوں کی تقسیم کی تائید کی تھی.تین روز تک اس مسئلہ پر بحث ہوئی.بالآخر حضرت طلحہ نے حضرت عمرؓ کے موقف کی بھر پور حمایت کی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ زمینیں تقسیم نہ کی جائیں بلکہ بیت المال کی ہی ملکیت رہیں.معرکہ نہاونڈ کے موقع پر حضرت عمرؓ نے ایرانی ٹڈی دل سے مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں سے مشورہ چاہا تو حضرت طلحہ نے حضرت عمر کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ امیر المؤمنین ہیں بہتر جانتے ہیں ہم غلام تو آپ کے حکم کے منتظر ہیں.جو حکم ہوگا ہم اس کی تعمیل کریں گے.ہم نے بار بار آزمایا کہ اللہ تعالیٰ انجام کارآپ کو کامیابی عطا فرماتا ہے.“ حضرت عمر بھی آپ کی اصابت رائے کے قائل تھے.چنانچہ حضرت عمر نے جن چھ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی انتخاب خلافت کے لئے مقر فرمائی تھی کہ وہ اپنے میں جس پر اتفاق کریں اسے خلیفہ منتخب کر لیں.اس کمیٹی میں حضرت طلحہ بھی شامل تھے.حضرت طلحہ کی بے نفسی، تواضع اور ایثار کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی رائے حضرت عثمان کے حق میں دے کر انہیں اپنے اوپر ترجیح دی اور اُن کا نام اس منصب کے لئے پیش کر دیا.چنانچہ حضرت عبد الرحمان بن عوف کی رائے اور حضرت طلحہ کی تائید سے حضرت عثمان ہی خلیفہ منتخب ہوئے.حضرت عثمان کے عہد خلافت کے آخری سالوں میں جب شورش عام ہوئی.تو حضرت طلحہ نے مشورہ دیا کہ اس فتنے کی تحقیق کے لئے پورے ملک میں وفود بھیجے جائیں.یہ رائے بہت صائب تھی.چنانچہ ۳۵ هجری میں محمد بن مسلمہ، اسامہ بن زید، عمار بن یاسر اور عبداللہ بن عمر و ملک کے مختلف حصوں

Page 211

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 197 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ میں تفتیش کے لئے روانہ کئے گئے.ان تحقیقات کا خلاصہ یہ تھا کہ کوئی قابل اعتراض بات انہوں نے نہیں پائی.( 11 ) اس سلسلہ میں ابھی کچھ عمل درآمد نہ ہونے پایا تھا کہ مفسدین نے مدینہ آ کر قصر خلافت کا محاصرہ کر لیا.حضرت عثمان ذاتی طور پر منافقین کے مقابلہ پر کوئی مدافعانہ کا روائی پہلے کرنے کے حق میں نہیں تھے.البتہ وعظ و نصیحت کرتے رہے.اس موقع پر حضرت طلحہ خلیفہ وقت کی اخلاقی مدد کر سکتے تھے وہ انہوں نے کی.مثلاً ایک موقع پر حضرت عثمان نے باغیوں کے سامنے اپنے فضائل ومناقب بیان کر کے طلحہ جیسے کبار صحابہ سے اس کی تائید چاہی تو محاصرین کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت طلحہ نے اعلانیہ اور کھلم کھلا محاصرین کے سامنے حضرت عثمان کی تائید کی.جب محاصرہ زیادہ خطرناک ہو گیا تو حضرت علی اور حضرت زبیر کی طرح حضرت طلحہ نے بھی اپنے صاحبزادے محمد گو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے قصر خلافت بھجوایا.جب مفسدین نے حملہ کرنے میں پہل کر دی تو محمد بن طلحہ نے بھی اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق ان کا مقابلہ کیا.(12) اور دوسرے معدد و چند محافظین کے ساتھ مل کر مفسدین کے سیلاب کو روکے رکھا مگر چند بد بخت دوسری طرف سے حضرت عثمان کے گھر میں گھس گئے اور خلیفہ راشد پر حملہ کر کے ان کی دردناک شہادت کا واقعہ سامنے آیا.دیگر صحابہ کی طرح حضرت طلحہ کو بھی اس سانحہ سے سخت صدمہ پہنچا.وہ جہاں حضرت عثمان کے لئے عفو ورحم کی دعائیں کرتے وہاں مفسدین کے مظالم دیکھ کر خدا کی بارگاہ میں ان کی گرفت کیلئے التجا کرتے.حضرت طلحہ تنہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.خشیت الہی اور محبت رسول سے آپ کا پیمانہ لبریز تھا.حضرت طلحہ نے اپنے مال و جان سے خدمت دین میں جس طرح سے اپنی دلی تمنا ئیں اور مرادیں پوری کیں اس پر خدائے ذوالعرش نے بھی گواہی دی.چنانچہ جب آیت رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعَهَدُو اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ (الاحزاب : 24) نازل ہوئی.اس میں ان مردان خدا کا تذکرہ تھا جنہوں نے اللہ سے اپنے عہد سچ کر دکھائے اور اپنی منتیں پوری کیں اور کچھ ہیں جو انتظار میں ہیں.رسول خدا ﷺ نے حضرت طلحہ سے فرمایا کہ اے طلحہ ؟ تم بھی ان خوش نصیب مردان وفا میں شامل ہو جو اپنی قربانی پوری کرنے کی انتظار میں ہیں.(13) حضرت طلحہ بڑے مالدار تاجر تھے.اس کے ساتھ فراخ دل اور سخی انسان بھی تھے.

Page 212

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انفاق فی سبیل اللہ 198 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کو دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق ملی تھی اور اسی موقع پر آنحضور ﷺ نے آپ کو فیاض کے لقب سے یاد فرمایا تھا.(14) آپ کے ہم عصر قیس بن ابی ہاضم کہا کرتے تھے کہ میں نے طلحہ سے زیادہ کسی کو خدا کی راہ میں بے لوث مال خرچ کرنے میں پیش پیش نہیں دیکھا.غزوہ ذی القرد میں چشمہ بیسان کے پاس سے مجاہدین کے ساتھ گزرتے ہوئے حضرت طلحہ نے اسے خرید کر خدا کی راہ میں وقف کر دیا تھا.اپنی جائیداد سات لاکھ درہم میں حضرت عثمان گو فروخت کی اور سب مال خدا کی راہ میں خرچ کر دیا.آپ کی بیوی سود فرمایا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ حضرت طلحہ گو اداس دیکھ کر وجہ پوچھی کہ کہیں مجھ سے تو کوئی خطا سرزد نہیں ہوگئی تو فرمانے لگے نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں دراصل میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی ہے اور میں اس فکر میں ہوں کہ اُسے کیا کروں.میں نے کہا اسے تقسیم کروا دیجیئے.آپ نے اسی وقت اپنی لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم کے مستحقین میں تقسیم کرادی.(15) حضرت طلحہ بنو تمیم کے تمام محتاجوں اور تنگ دست خاندانوں کی کفالت کیا کرتے تھے.لڑکیوں اور بیوگان کی شادیوں میں ان کی مدد کرتے.مقروضوں کے قرض ادا کرے.ایک دفعہ حضرت علیؓ نے کسی کو یہ شعر پڑھتے سنا فَتَى كَانَ يُدْنِيهِ الغِنَى مِنْ صَدِيقِهِ إِذَ امَّاهُوَا اسْتَغْنى وَيُبْعِدُهُ الْفَقْرُ یعنی میرا مروح ایسا شخص تھا کہ دولت و امارت اسے اپنے دوست کے اور قریب کر دیتی تھی جب بھی اسے دولت و فراخی نصیب ہوتی.اور غربت و فقر اسے اپنے دوستوں سے دور رکھتے یعنی کبھی تنگی میں بھی کسی سے سوال نہ کرتے.حضرت علیؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا ” خدا کی قسم ! یہ صفت حضرت طلیہ میں خوب پائی جاتی تھی.‘(16) ایثار و مهمان نوازی مہمان نوازی حضرت طلحہ کا خاص وصف تھا.ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین مفلوک الحال افراد نے اسلام قبول کیا.رسول کریم ﷺ نے پوچھا کہ صحابہ میں سے کون ان کی کفالت اپنے ذمہ لیتا

Page 213

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 199 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ہے.حضرت طلحہ نے بخوشی حامی بھر لی اور ان تینوں نو مسلموں کو اپنے گھر میں لے گئے اور وہیں ٹھہرایا اور ان کی میزبانی کرتے رہے.یہاں تک کہ موت نے انہیں آپ سے جدا کیا.اُن میں سے دو ساتھی تو یکے بعد دیگرے دوغزوات میں شہید ہوئے اور تیسرے طلحہ کے گھر میں ہی وفات پاگئے.طلح یکو جو خدا کے رسول ﷺ کے ان مہمانوں سے دلی محبت اور اخلاص پیدا ہو چکا تھا اس کا نتیجہ تھا کہ مہمانوں کی وفات کے بعد بھی خواب میں آپ کی اُن سے ملاقاتیں ہوئی.ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ وہ تینوں آپ کے ساتھ ہی جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں.مگر جو ساتھی جو سب سے آخر میں فوت ہوا وہ سب سے آگے ہے.اور سب سے پہلے مرنے والا سب سے پیچھے ہے.انہوں نے تعجب سے رسول کریم سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو بعد میں مرا اُسے زیادہ نیک اعمال کی توفیق ملی اس لئے وہ پہلوں سے بڑھ گیا.اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت طلحہ نے اپنی صحبت سے بھی ان نو مسلموں کی تربیت اپنے روحانی دستر خوان کے علاوہ انہیں خوب فیض عطا کیا اور وہ جنتی ٹھہرے.(17) حضرت طلحہ دوستی اخوت کے رشتے میں بھی کمال رکھتے تھے.حضرت کعب بن مالک انصاریؒ کو غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکنے کے باعث مقاطعہ کی سزا ہوئی تھی.جب رسول اللہ ﷺ نے ان کی معافی کا اعلان کیا اور وہ آنحضرت کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو مجلس میں سے حضرت طلحہ دیوانہ وار دوڑتے ہوئے ان کے استقبال کو آگے بڑھے اور مصافحہ کر کے انہیں مبارکبا د عرض کی.حضرت کعب انصاری نے بھی حضرت طلحہ کا اس اعلیٰ خلق کو کبھی فراموش نہیں کیا.وہ ہمیشہ یادکیا کر کے کہتے تھے کہ اس موقع پر مہاجرین میں سے کسی صحابی نے اس والہانہ گرمجوشی کا میرے ساتھ مظاہرہ نہیں کیا جس طرح حضرت طلحہ و فورِ جذبات میں اُٹھ کر دوڑے آئے.(18) شادی اور اولاد حضرت طلحہ کی پہلی شادی حضرت حمنہ بنت حجش سے دوسری حضرت ام کلثوم بنت ابی بکر سے تیسری شادی فارعہ بنت ابوسفیان سے اور چوتھی رقیہ بنت ابی امیہ سے ہوئی.ان چاروں بیویوں کی بہنیں رسول اللہ ﷺ کی ازواج تھیں.یوں آپ رسول اللہ ﷺ کے ہم زلف تھے.آپ کے اخلاق کا ایک خوب صورت نقشہ آپ کی اہلیہ ام ابان نے کھینچا ہے.انہیں بہت رشتے آئے تھے مگر

Page 214

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 200 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ انہوں نے حضرت طلحہ کی کئی شادیوں کے باوجود ان کے ساتھ نکاح کو ترجیح دی ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ حضرت طلحہ کے اخلاق فاضلہ ہیں.وہ فرماتی تھیں کہ میں طلحہ کے ان اوصاف کریمانہ سے واقف تھی کہ وہ ہنستے مسکراتے گھر واپس آتے ہیں اور خوش وخرم باہر جاتے ہیں.کچھ طلب کرو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے.نیکی کروتو شکر گزار ہوتے ہیں اور غلطی ہو جائے تو معاف کر دیتے ہیں.(19) بلاشبہ یہی وہ اخلاق ہیں جن کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا تھا کہ خَيْرُكُم أَحْسِنُكُمْ أَخْلَاقًا کہ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہیں.حضرت طلحہ کی کئی بیویوں سے اولاد تھی.حضرت حمنہ بنت بخش سے ایک بیٹا محمد نامی بہت عبادت گزار تھا اور سجاد لقب سے مشہور تھا.ایک بیٹا یعقوب بہت زبردست شہ سوار تھا جو واقعہ حرہ میں شہید ہو گیا.حضرت ام کلثوم بنت ابو بکر سے دو بیٹے اور ایک بیٹی عائشہ تھی.آپ کی ایک بیٹی ام اسحاق سے حضرت امام حسن نے شادی کی جس سے طلحہ نامی بیٹا ہوا.حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین نے ان سے شادی کی اور ایک بیٹی فاطمہ ان سے ہوئیں.(20) شہادت اور فضائل حضرت طلحہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی ان دس اصحاب رسول حملے میں سے جن کو آپ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی اور بوقت وفات انہیں پروانہ خوشنودی عطا فر مایا.رسول اللہ علی نے آپ کی کی ہے فرمایا جوئی میں چلتے پھرتے کو کیا چاہے نے آپ کی شہادت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا ” جو کوئی زمین پر چلتے پھرتے شہید کو دیکھنا چاہے شہادت عثمان کے بعد حضرت طلحہ بھی ان اصحاب میں شامل تھے جو قتل عثمان کا فوری انتقام لینے کے حق میں تھے.اسی جذباتی دور میں وہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ جنگ جمل میں بھی شامل ہو گئے.لیکن جب حضرت علی نے انہیں بلا کر ان کے فضائل اور سبقتوں کا ذکر کیا تو حضرت طلحہ بھی حضرت زبیر کی طرح مقابلہ سے دستبردار ہو گئے.لشکر سے جدا ہو کر پچھلی صفوں میں چلے گئے اس دوران کوئی تیر ٹانگ میں لگا جس سے عرق النساء کٹ گئی اور اس قدر خون جاری ہوا کہ وفات

Page 215

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 201 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ہوگئی.اس وقت آپ کی عمر 64 برس تھی یہ 75 ھ کا واقعہ ہے.(21) غزوہ احد میں جب حضرت طلحہ رسول اللہ ﷺ کو پشت پر اٹھا کر چٹان پر لے گئے تو رسول کریم نے فرمایا اے طلحہ جبریل آئے ہیں وہ تمہیں سلام کہتے ہیں اور وہ یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ قیامت کے دن تمہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور ہر خوف سے تمہاری حفاظت ہوگی.(22) حواله جات اصا به جز 3 ص 290 ، اصابہ جز 8 ص 125 ، استیعاب جلد 2 ص 320 -1 -2 -3 -4 -5 56 اسد الغابہ جلد 3 ص 59 ابن سعد جلد 3 ص 216 اسد الغابہ جلد 3 ص 59 الاصابہ جز 3 ص 290 - بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 اسد الغابہ جلد 3 ص 59 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 65، اسد الغابہ جلد 3 ص59 ابن ہشام جلد 4 ص 171 ابن سعد جلد 3 ص274 کامل ابن اثیر متر جم جلد 3 ص233 ،طبری جلد 6 ص 2930 طبری جلد 6 ص 3010 اسد الغابہ جلد 3 ص 61 اسد الغابہ جلد 3 ص 59 ابن سعد جلد 3 ص 220 اسد الغابہ جلد 3 ص 61 17 - ابن ماجہ کتاب تعبیر الرؤیا باب تعبیر رویا 18 بخاری کتاب المغازی غزوہ تبوک منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد 5 ص66 -19 -20 -21 2 ابن سعد جلد 3 ص 214 ، اصابہ جز 3 ص 292 استیعاب جلد 2 ص 20-319 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 67

Page 216

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 202 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب حضرت حمزہ خاندان قریش کے معزز اور صاحب وجاہت نوجوان تھے.سردار قریش عبدالمطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے.آپ کی والدہ ہالہ بنت اھیب بنوزھرہ قبیلہ سے تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چازاد بہن تھیں.حضرت حمز گارسول کریم کے رضاعی بھائی بھی تھے.تو یہ لونڈی نے دونوں کو دودھ پلایا تھا.حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ سے دو یا چار سال قبل پیدا ہوئے.اور آنحضرت کے دعوئی نبوت کے بعد ابتدائی پانچ سالوں میں دارارقم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی.(1) قبول اسلام حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی دلچسپ ہے.یہ ابتدائی مکی دور کی بات ہے وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے سخت ابتلاؤں اور مصائب کا زمانہ تھا جس میں نبی کریم ﷺ کی ذات بھی کفار کے مظالم سے محفوظ نہ تھی.ایک روز تو بد بخت ابو جہل نے حد ہی کر دی.کوہ صفا کے نزدیک آنحضرت کود یکھ کر سخت مشتعل ہوا اور گالی گلوچ کے بعد ایذاء دہی پر اتر آیا.آپ کو ذلت اور کمزوری کے طعنے دیتا رہا اور دست درازی کی.رسول کریم ﷺ نے یہ سب کچھ خاموشی اور صبر سے برداشت کیا اور اپنے گھر تشریف لے گئے.اتفاق سے عبداللہ بن جدعان کی لونڈی یہ سارا واقعہ دیکھ رہی تھی.ابو جہل تو سیدھا خانہ کعبہ چلا گیا.تھوڑی دیر بعد حضرت حمزہ تیر کمان اٹھائے شکار سے واپس لوٹے.وہ بڑے ماہر تیرانداز اور شکار کے بہت شوقین تھے.بالعموم شکار سے واپس آکر وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر کچھ دیر سرداران قریش کی مجلس میں بیٹھتے اور گھر واپس آتے.اس روز کوہ صفا کے پاس پہنچے ہی تھے کہ عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی نے رسول کریم ﷺ کی مظلومیت کا یہ واقعہ بڑے درد سے سنایا اور کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ کے بھتیجے محمد کے ساتھ ابوالحکم بن ہشام نے جو ظالمانہ

Page 217

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 203 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سلوک کیا کاش آپ اسے دیکھتے تو آپ کو ضرور ان پر ترس آتا.اس نے حضور کو یہاں بیٹھے دیکھا تو آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور جسمانی اذیت پہنچائی اور (حضرت) محمد نے جواب میں کچھ بھی تو نہ کہا.یہ سن کر حضرت حمزہ کا خون کھولنے لگاوہ اسی وقت سید ھے خانہ کعبہ پہنچے اور طیش میں آکر اپنی کمان ابوجہل کے سر پر دے ماری اور اسے کہنے لگے کہ تم آنحضرت کو برا بھلا کہتے اور ان پر ظلم کرتے ہو تو سن لو آج سے میں بھی اس کے دین پر ہوں اور آپ کا مسلک میرا مسلک ہے اگر ہمت ہے تو مجھے اس دین سے لوٹا کر دکھاؤ.ابو جہل اس حملے سے کچھ زخمی بھی ہو گیا تھا، بنومخزوم کے بعض لوگ اس کی مدد کیلئے اٹھے لیکن ابو جہل نے انہیں روک دیا کہ مبادا اس سے کوئی بڑا فتنہ پیدا ہو.حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے بعد قریش نے سمجھ لیا کہ اب مسلمان مضبوط ہو گئے ہیں اور وہ کچھ عرصہ ایک حد تک مسلمانوں کی ایذاء رسانی سے رکے رہے.(2) ہجرت مدینہ اور پہلے اسلامی علم بردار حضرت حمزہ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پہلے کلثوم بن ہدم کے مکان پر اور پھر سعد بن خیثمہ کے ہاں قیام کیا.مکہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کو حمزہ کا اسلامی بھائی بنایا تھا.مدینہ میں بھی یہ رشتہ اخوت قائم رہا.غزوہ احد پر جاتے ہوئے حضرت حمزہ نے حضرت زید کے حق میں وصیت فرمائی تھی.(3) مدینہ میں قریش کی نقل و حرکت اور ریشہ دوانیوں سے باخبر رہنے کیلئے نبی کریم ﷺ کو مہمات کی ضرورت پیش آئی جن میں حضرت حمزہ کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملتی رہی.چنانچہ اسلام کی پہلی مہم آپ کی سرکردگی میں ساحل سمندر کی طرف بھجوائی گئی تھی جس کا مقصد ابو جہل کی سرکردگی میں شام سے آنے والے قریش کے قافلہ کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا تھا جو تین صد سواروں پر مشتمل تھا.اس مہم میں تمہیں صحابہ حضرت حمزہ کی کمان میں تھے.اسی طرح اسلام کا پہلا جھنڈا بھی حضرت حمزہ کو ہی عطا کیا گیا.غزوہ بنو قینقاع میں بھی اسلام کے علمبر دار حضرت حمزہ ہی تھے.(4)

Page 218

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 204 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ خود داری اور دعا کی برکت ہجرت مدینہ کے بعد دیگر مسلمانوں کی طرح حضرت حمزہ کے مالی حالات بھی دگرگوں تھے.حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک روز انہی ایام میں حضرت حمزہ نبی کریم نے کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خدمت میرے سپر دفرما دیجئے تاکہ ذریعہ معاش کی کوئی صورت بھی پیدا ہو.نبی کریم ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ آپ کے اقارب اس تنگی کے زمانہ میں مسلمانوں پر بوجھ ہوں.آپ نے حضرت حمزہ سے فرمایا کہ اپنی عزت نفس قائم اور زندہ رکھنا زیادہ پسند ہے یا اسے ماردینا.حضرت حمزہ نے عرض کیا ” میں تو اسے زندہ رکھنا ہی پسند کرتا ہوں.‘ آپ نے فرمایا ” پھر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرو گویا محنت وغیرہ کے ذریعہ سے کام لو.(5) نبی کریم ﷺ نے اس دور میں آپ کو دعاؤں پر زور دینے کی بھی تحریک فرمائی اور بعض خاص دعائیں سکھائیں.چنانچہ حضرت حمزہ کی روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا تھا کہ اس دعا کو لازم پکڑو.اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ بِاسْمِكَ الاَعظَمِ وَرِاضْوَانِكَ الْأَكَبَرِ یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے اسم اعظم (سب سے بڑے نام) کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں اور تجھ سے تیری سب سے بڑی رضامندی چاہتا ہوں.(6) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت حمزہ کو دعاؤں پر کتنا ایمان اور یقین تھا اور کیوں نہ ہوتا جبکہ ان دعاؤں ہی کی برکت سے بظاہر اس تہی دست اور تہی دامن مہاجر کو اللہ تعالیٰ نے گھر بار اور ضرورت کا سب کچھ عطا فر مایا کچھ عرصہ بعد حضرت حمزہ نے بنی نجار کی ایک انصاری خاتون خولہ بنت قیس کے ساتھ شادی کی.نبی کریم ﷺ ان کے گھر میں حضرت حمزہ سے ملاقات کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.حضرت خولہ بعد میں نبی کریم ﷺ کی اس دور کی محبت بھری باتیں سنایا کرتی تھیں.فرماتی تھیں ایک دفعہ آنحضرت ہمارے گھر تشریف لائے میں نے عرض کیا اے خدا کے رسول مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر عطا کیا جائے گا جو بہت

Page 219

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 205 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ وسعت رکھتا ہوگا.حضور ﷺ نے فرمایا ”ہاں یہ سچ ہے.اور یہ بھی سن لو کہ مجھے عام لوگوں سے کہیں زیادہ تمہاری قوم انصار کا اس حوض سے سیراب ہونا پسند ہے.خواہ کہتی تھیں میں نے حضور میلے کی تواضع کرتے ہوئے اپنا وہ برتن جس میں کھانا یا شائد کچھ میٹھا تیار کیا گیا تھا.حضور علیہ کی خدمت میں گرم گرم پیش کر دیا.حضور نے اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا تو گرم کھانے سے آپ کا ہاتھ جل گیا.اس پر آپ نے فرمایا ”خوب ! پھر فرمانے لگے کہ انسان کا بھی عجیب حال ہے اگر اسے ٹھنڈک پہنچے تو بھی کہتا ہے خوب ہے اور اگر گرمی پہنچے تو بھی ایسا ہی اظہار کرتا ہے“.(7) اس حدیث سے نبی کریم ﷺ کے صبر ورضا کی وہ خاص کیفیت ظاہر ہوتی ہے جو عام لوگوں میں پائی نہیں جاتی.غزوہ بدر میں بہادری حضرت حمزہ بڑے قد آور وجیہ اور بہادر نوجوان تھے اور انہی صفات سے آپ اپنے ماحول میں پہچانے جاتے تھے.حضرت حمزہ کی شجاعت اور بہادری کے جو ہر اسلامی غزوات میں خوب کھل کر سامنے آئے.حضرت علی غزوہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی.رات بھر رسول اللہ یہ خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں اور تضرعات میں مصروف رہے.جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اور ہم ان کے سامنے صف آرا ہوئے تو نا گاہ ایک شخص پر نظری پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی.رسول کریم ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اے علی حمزہ جو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں بلا کر پوچھو کہ یہ سرخ اونٹ والا ان سے کیا کہ رہا ہے.پھر حضور ﷺ نے فرمایا اگر ان لوگوں میں کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والا شخص ہے.اتنی دیر میں حضرت حمزہ بھی آگئے.انہوں نے آکر بتایا کہ وہ سرخ اونٹ والا شخص عتبہ بن ربیعہ تھا جو کفار کولڑائی سے منع کر رہا تھا.جس کے جواب میں ابو جہل نے اسے کہا کہ تم تو بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو.عتبہ

Page 220

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 206 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے جوش میں آکر کہا کہ آج دیکھتے ہیں بزدل کون ہے؟ پھر عتبہ نے مسلمانوں کو دعوت مبارزت دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ہے جو دست بدست جنگ میں میرا مقابلہ کرے.اب انصار مدینہ کی وفا کا بھی امتحان تھا اور انہوں نے جو عہد اپنے پیارے آقا سے باندھا تھا آج اس کی خوب لاج رکھی اور سب سے پہلے انصار عتبہ کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھے.(8) عتبہ کے ساتھ اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید بھی تھا جب انصار انکے مقابلے میں آئے تو عتبہ نے پوچھا تم کون لوگ ہو انہوں نے بتایا ہم انصار مدینہ ہیں.عقبہ کہنے لگا، ہمیں تم سے کچھ غرض نہیں.ہم تو اپنے قبیلے کے لوگوں سے لڑنے کیلئے آئے ہیں.اس موقع پر ہمارے آقا مولیٰ حضرت محمد مصطفی نے قائدانہ بصیرت، کمال دانش مندی اور عالی حوصلگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اپنے عزیز و اقارب کو مقابلہ پر آنے کیلئے حکم فرمایا تو سب سے پہلے حضرت حمزہ اور حضرت علی کا نام لیا.آپ نے فرمایا اے حمز کا کھڑے ہو جاؤ اور اے علی ! اٹھو ، اے عبیدہ ! آپ مقابلے کیلئے نکلو.حضرت حمزہ ارشاد رسول ﷺ کی تعمیل میں عقبہ کے مقابلے میں آگے بڑے اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا.(9) حضرت ابو ڈ ر قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہ اور ان کے ساتھیوں نے جس شان کے ساتھ اس دعوت مبارزت کا جواب دیا تھا.اس کی طرف اشارہ کلام الہی میں بھی ہے کہ یہ دو قسم کے مدمقابل ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں برسر پیکار تھے.(10) حضرت حمزہ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ غزوہ بدر میں کفار میں دہشت ڈالنے کیلئے آپ نے شتر مرغ کا ایک پر کلفی کی طرح اپنی پگڑی میں سجا رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر جگہ نمایاں نظر آتے تھے.حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ امیہ بن خلف نے مجھ سے پوچھا کہ یہ شتر مرغ کی کافی والا شخص بدر میں کون تھا میں نے کہا رسول اللہ اللہ کے چا حمزہ بن عبد المطلب.وہ بولے یہی وہ شخص ہے جو ہم پر عجیب طرح تباہی و بربادی لے کر ٹوٹ پڑا تھا.(11) چنانچہ سرولیم میور نے بھی اپنی کتاب لائف آف محمد میں اس کا بطور خاص ذکر کیا ہے.کہ

Page 221

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 207 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حضرت حمزہ نے اس روز خوب بہادری کے جوہر دکھائے.یہ بہادر سور ماجدھر کا رخ کرتا ادھر موت کو بکھیرتا جاتا.بدر میں قید ہونے والے مشرک قیدیوں نے بھی گواہی دی کہ ہمارے لشکر کا سب سے زیادہ نقصان اس شتر مرغ کی کلافی والے شخص یعنی حضرت حمزہ نے کیا ہے.(12) غزوہ احد میں شجاعت غزوہ احد میں بھی حضرت حمزہ نے شجاعت کے کمالات دکھائے.آپ کی یہ بہادری قریش مکہ کی آنکھوں میں سخت کھٹکی تھی.یوں بھی غزوہ بدر میں حضرت حمزہ کے ہاتھوں قریش کا سردار طعیمہ بن عدی مارا گیا تھا.اس کے عزیزوں نے اپنے غلام وحشی سے یہ وعدہ کیا کہ اگر تم ہمارے چچا کے بدلے حمزہ کوقتل کر دو تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا.غزوہ احد میں سب سے پہلے مشرکین قریش کے نمائندے سباع بن عبد العزیٰ نے دست بدست جنگ کی دعوت دی.سب سے پہلے خدا کا شیر حمزہ ہی اس کے مقابلے کیلئے آگے بڑھا اور اسے مخاطب کر کے کہا ”اے سباع ! ختنے کرنے والی ام انمار کے لڑکے! کیا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دشمن ہو کر آیا ہے اور پھر پوری قوت سے اس پر حملہ آور ہو کر اس کا کام تمام کر دیا.(13) الغرض احد میں عام لوگ ایک ایک تلوار سے لڑ رہے تھے مگر حضرت حمزہ کے ہاتھ میں دو تلواریں تھیں اور وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر آپ کا دفاع کر رہے تھے اور یہ نعرہ بلند کر رہے تھے کہ میں خدا کا شیر ہوں.کبھی آپ دائیں اور بائیں حملہ آور ہوتے تو کبھی آگے اور پیچھے.اس حال میں آپ نے تمیں کفار کو ہلاک کیا.حضرت جابر بیان کرتے ہیں جنگ احد میں جب اچانک حملہ سے لوگ پسپا ہوئے اور اس دوران میں نے حضرت حمزہ کو فلاں درخت کے پاس دیکھا.آپ کہہ رہے تھے میں اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر ہوں.اے اللہ ! ان دشمنوں نے جو کچھ کیا میں اس سے براءت کا اظہار کرتا ہوں اور مسلمانوں کی پسپائی کیلئے معذرت خواہ ہوں.اچانک ایک موقعہ پر آپ کو ٹھوکر لگی اور آپ پشت کے بل گر گئے.وحشی آپ کی تاک میں تھا اسی وقت وہ آپ پر

Page 222

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 208 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حملہ آور ہوا.(14) وحشی کا اپنا بیان ہے کہ میں ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر حمزہ پر حملہ کرنے کی تاک میں تھا جونہی وہ میرے قریب ہوئے میں نے تاک کر انہیں نیزہ مارہ جو ان کی ناف میں سے گزرتا ہوا پشت سے نکل گیا.(15) نعش کی بے حرمتی عقبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند نے اپنے باپ کا انتقام لینے کیلئے (جو بدر میں حضرت حمزہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا) یہ نذرمان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چباؤں گی.چنانچہ حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد اس نے واقعی ایسا کیا اور حضرت حمزہ کا کلیجہ چبا چبا کر پھینک دیا.(16) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے بعد ابوسفیان نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کیا کہ آج بدر کے دن کا بدلہ ہم نے لے لیا ہے اور تم کچھ نعشوں کا مثلہ کیا ہوا دیکھو گے، اگر چہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن یہ بات مجھے کوئی ایسی بری بھی نہیں لگی.‘ (17) چنانچہ جب حضرت حمزہ کو دیکھا گیا تو ان کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا.نبی کریم اس حال میں جب حضرت حمزہ کی نعش پر آ کر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے.”اے حمزہ ! تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی.میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا“ پھر آپ نے فرمایا ” جبرائیل نے آکر مجھے خبر دی ہے حمزہ بن عبدالمطلب کو سات آسمانوں میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر لکھا گیا ہے.“ (18) آپ نے حضرت حمزہ کو مخاطب کر کے فرمایا اللہ کی رحمتیں تجھ پر ہوں جہاں تک میراعلم ہے آپ بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے اور نیکیاں بجالانے والے تھے اور آج کے بعد تجھ پر کوئی غم نہیں.‘‘ (19)

Page 223

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 209 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ یہ بھی فرمایا.کہ قیامت کے دن حمزہ شہداء کے سردار ہوں گے.میں نے فرشتوں کو حمزہ کو غسل دیتے دیکھا ہے.(20) حضرت علی اور زبیر منذ بذب تھے کہ حمزہ کی بہن صفیہ کو اس اندوہناک صدمے کی اطلاع کیسے کی جائے تب رسول کریم ﷺ نے حضرت صفیہ کے صبر کیلئے دعا کی چنانچہ انہوں نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا.(21) حضرت حمزہ کا کفن حضرت زبیر بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک عورت بڑی تیزی سے شہداء کی نعشیں دیکھنے کیلئے جارہی ہے.نبی کریم ﷺ نے پسند نہ فرمایا کہ وہ عورت یہ وحشت ناک منظر دیکھے اور ارشاد فرمایا کہ اسے روکو.زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے غور سے دیکھا میری والدہ صفیہ تھیں.میں دوڑتے ہوئے انکے شہدا ء تک پہنچنے سے پہلے ان تک پہنچ گیا.وہ ایک تنومند بہادر خاتون تھیں مجھے دیکھتے ہی دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا اور کہا پیچھے ہٹو میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی.میں نے عرض کیا کہ خدا کے رسول میلے نے آپ کو روکنے کیلئے فرمایا ہے.زبیر کہتے ہیں تب وہ وہیں رک گئیں اور دو چادریں جو اپنے ساتھ لائیں تھیں نکال کر مجھے دیں اور کہنے لگیں یہ دو کپڑے میں اپنے بھائی حمزہ کے کفن کیلئے لائی ہوں، ان میں اسے کفن دینا.ہم ان چادروں میں حمزہ کو کفن دینے لگے.تو اچانک ہماری نظر حمزہ کے پہلو میں پڑے ہوئے اپنے ایک مسلمان انصاری بھائی پر پڑی جو جنگ میں شہید ہوا تھا اور اس کی نعش کا بھی مثلہ کیا ہوا تھا.ہمیں اس بات سے بہت حیاء آئی کہ ہم حمزہ کو تو دو چادروں کا کفن دیں اور انصاری کو بے کفن ہی دفن کر دیں.چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک چادر سے انصاری کو کفن دیتے ہیں.اب مشکل یہ آن پڑی کہ ایک چادر بڑی تھی اور ایک چھوٹی تھی چنانچہ ہم نے قرعہ ڈالا اور جس کے قرعہ میں جو چادر نکلی اس میں اس کو کفن دیا.(22) کفن کے بعد نبی کریم نے سب سے پہلے حضرت حمزہ کیلئے دعائے مغفرت کی.(23)

Page 224

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 210 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حضرت حمزہ کے ساتھ ایک انصاری کا جنازہ رکھا گیا تھا.پھر ان کو اٹھا کر ایک اور میت کو ان کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی کریم میں ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے.پھر ان کو اٹھا کر ایک اور میت کو حمزہ کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی کریم ﷺ ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے.اس طرح اس روز ستر مرتبہ رسول کریم ﷺ نے دعائے مغفرت کی اور حضرت حمزہ کی میت ہر دفعہ حضور کے سامنے رہی.(24) رسول اللہ ﷺ کے چا اور مسلمانوں کے اس بہادر سردار حضرت حمزہ کی تدفین جس بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں ہوئی.صحابہ بڑے دکھ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جس چادر میں حمزہ کو کفن دیا گیا تھاوہ اتنی چھوٹی تھی کہ سر کو ڈھانکتے تھے تو ان کے پاؤں ننگے ہو جاتے تھے جب پاؤں پر ڈالتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا.بعد میں فراخی کے دور میں حضرت خباب وہ تنگی کا زمانہ یاد کر کے کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہ کا کفن ایک چادر تھی وہ بھی پوری نہ ہوتی تھی چنانچہ سرکوڈھانک کر پاؤں پر گھاس ڈالی گئی تھی.(25) حضرت عبد الرحمان بن عوف کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ روزہ سے تھے افطاری کے وقت پر تکلف کھانا پیش کیا گیا جسے دیکھ انہیں عسرت کا زمانہ یاد آ گیا اور کہنے لگے حمزہ ہم سے بہتر تھے مگر انہیں کفن کی چادر بھی میسر نہ آسکی تھی، اب یہ آسائشیں دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے اجر ہمیں اسی دنیا میں تو نہیں دے دیئے گئے.یہ کہہ کر رونے لگے اور کھانا ترک کر دیا.(26) صلى الله حضرت حمزہ کی شہادت کا غم اور دعائے رسول میں حضرت حمزہ کی جدائی مسلمانوں کے لئے یقیناً ایک بہت بڑا صدمہ تھا لیکن غزوہ احد میں تو ستر انصاری اور مہاجر شہید ہوئے تھے.(27) اور یوں انصار مدینہ کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی.آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر کمال حکمت عملی اور علم النفس کے باریک نکتہ سے انصار مدینہ کو ان کے اپنے صدمے بھلا کر ان کے رخ حضرت حمزہ کی شہادت کے عظیم قومی صدمے

Page 225

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 211 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی طرف موڑ دیئے اور پھر اپنے صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے انہیں نہایت خوبصورت انداز میں صبر کی تلقین بھی فرما دی.حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ آنحضرت علی، جب احد سے واپس لوٹے تو آپ نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتی اور بین کرتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ حمزہ کو کوئی رونے والا نہیں.انصار کی عورتوں کو پتہ چلا کہ وہ حضرت حمزہ کی شہادت پر بین کرنے کیلئے اکٹھی ہو گئیں.تب نبی کریم ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بین نہ کریں.‘ (28) اس طرح آنحضرت ﷺ نے نہایت پر حکمت طریق سے انصار کی عورتوں کے جذبات کا بھی خیال رکھا اور انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے حضرت حمزہ کے عظیم اور قومی صدمہ کی طرف توجہ دلائی جس کا سب سے بڑھ کر غم آپ کو تھا اور پھر حمزہ پر ماتم اور بین نہ کرنے کی تلقین فرما کر اپنا نمونہ پیش کر کے انہیں صبر کی موثر تلقین فرمائی.جہاں تک حضرت حمزہ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آنحضرت ﷺ کو آخر دم تک رہا.چنانچہ حضرت حمزہ کا قاتل وحشی جب طائف کے سفارتی وفد میں شامل ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا تو حضور نے اس سے پوچھا کہ تمہارا نام وحشی ہے اس نے اثبات میں جواب دیا.آپ نے فرمایا کیا تم نے حضرت حمزہ کو قتل کیا تھا.‘ وحشی نے عرض کیا کہ یہ بھی درست ہے.اس پر حضرت رسول اللہ اللہ نے صرف اتنا فرمایا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو ( کہ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے محبوب چچا کی یاد آئے گی ) (29) بوقت شہادت حضرت حمزہ کی عمر انسٹھ سال تھی (30) رسول اللہ نے خدا اور اس کے رسول کے شیر کا خطاب دیا اور بلاشبہ وہ اس لائق تھے جیسا کہ کعب بن مالک نے ان کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا.” میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہ کی موت پر انہیں رونے کا بجاطور پر حق بھی

Page 226

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 212 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ہے مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہوسکتا ہے وہ خدا کا شیر حمزہ کہ جس صبح وہ شہید ہوا دنیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جواں مرد ہوا ہے.اور آج ہمارے دل کی یہ آواز ہے.شہید حق کی نعش یہ نہ سر جھکا کے رویئے وہ آنسوؤں کو کیا کرے لہو سے منہ جو دھو چکا اے خدا کے شیر ! اے شہید حق و صداقت آپ پر سلام، ہزاروں سلام ! -1 الاصابه جز نمبر 2 ص 37 حواله جات مجمع الزوائد جلد 9 ص 267 ، سیرت ابن ہشام جلد نمبر 2 ص 48 3- ابن سعد جلد نمبر 3 ص9 -4 ابن سعد جلد نمبر 3 ص9,10 5 مسند احمد جلد نمبر 2 ص 175 6- اصا به جز نمبر 2 ص 37 7- مسند احمد جلد نمبر 2 ص 410 -8 -9 مسند احمد جلد نمبر 1 ص 117 ابو داؤد کتاب الجہاد باب في المبارزه 10 بخاری کتاب المغازی باب قتل ابو جهل -11 -12 ابن سعد جلد 3 ص 10 مجمع الزوائد جلد 6 ص 81 اسدالغابہ فی جلد 2 ص46 بیروت 13 - بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزه 14 - ابن سعد جلد نمبر 3 ص 12 ، مستدرک حاکم جلد 3 ص 199 واصا به جز نمبر 2 ص 37

Page 227

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 213 15- بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزة -16 -17 ابن سعد جلد نمبر 3 ص 12 مسند احمد جلد نمبر 1ص463 بيروت 18 - ابن ہشام جلد نمبر 3 ص 171 حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ 19 - منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص169 ابن سعد جلد نمبر 3 ص13 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 169 ابن سعد جلد نمبر 3 ص 16 -20 -21 ابن سعد جلد نمبر 3 ص 14 22.مسند احمد جلد نمبر 1 ص 117 -23 -24 -25 ابن سعد جلد نمبر 3 ص 11 مسند احمد جلد نمبر 1 ص 3,4 مسند احمد جلد 2 ص 396 -26 بخاری کتاب الجنائز باب اذالم يوجد الثوب -27 -28 ابن سعد جلد 3 ص 17 مسند احمد جلد 2 ص 84 29- بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزه -30 ابن سعد جلد 3 ص 10

Page 228

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 214 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب دراز قد خوبصورت شکل گورا رنگ ، یہ تھے رسول خدا ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف، جو عمر میں آپ سے دو تین سال ہی زیادہ تھے.ان کی والدہ نتیلہ بنت خباب بن کلیب وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے خانہ کعبہ کو ریشمی غلاف چڑھایا.کنیت ابوالفضل تھی.زمانہ جاہلیت سے قریش کے رؤسا میں سے تھے.بنو ہاشم کے سپرد بیت اللہ کی خدمت سقایہ ، یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور عمارة المسجد الحرام یعنی بیت اللہ کی آبادی اور قیام امن انہوں نے ورثہ میں پائی.دیگر تمام سرداران قریش اس خدمت میں حسب معاہدہ ان کے معاون و مددگار ہوتے تھے.اس لحاظ سے مکہ میں ایک شرف کا مقام انہیں حاصل تھا.(1) قبول اسلام اور تائید و نصرت بالعموم حضرت عباس کا زمانہ اسلام ان کی ہجرت مدینہ کے وقت خیال کیا جاتا ہے جو فتح مکہ سے معا پہلے ہوئی لیکن فی الواقعہ انہوں نے مکہ میں بہت ابتدائی زمانہ میں اپنی بیوی ام الفضل کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا.مگر بیت اللہ کی اہم خدمات کی سعادت اور مکہ میں مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کیلئے حضرت عباس کا مکہ رہنا ایک دینی ضرورت تھی.چنانچہ وہ رسول اللہ ہے کے ارشاد کے مطابق مکہ میں ہی رہ کر اہم خدمات بجالاتے رہے.حضرت عباس کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کی روایت ہے کہ ان کے والد حضرت عباس ہجرت مدینہ سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے دوسری روایت کے مطابق ام الفضل کے ساتھ حضرت عباس نے اسلام قبول کیا تھا.اس دوسری روایت کی تائید رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابورافع نے بھی کی ہے میں حضرت عباس کا غلام تھا اور ان کے سارے گھرانے بشمول حضرت عباس ان کی بیوی ام الفضل اور میں نے آغاز میں اسلام قبول کر لیا تھا.مگر عباس کو (اپنے منصب کی وجہ سے ) قوم قریش سے

Page 229

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 215 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ خدشات تھے اور وہ ان کی اعلانیہ مخالفت پسند نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا.(2) ام الفضل مکہ میں حضرت خدیجہ کے معا بعد اسلام لائی تھیں.رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور آرام فرماتے تھے.(3) ابتدائی زمانہ میں حضرت عباس کے قبول اسلام کیلئے حضرت عمر کی کوششوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو بالآخر کامیاب ہوئیں.حضرت عمران سے اپنی دوستی کی وجہ سے کہتے تھے کہ آپ مسلمان ہو جائیں آپ کا قبول اسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے بھی زیادہ محبوب ہے.“ چنانچہ جب حضرت عباس نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ ﷺ بھی بہت خوش ہوئے.آپ کے آزاد کردہ غلام ابورافع کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ علیہ کو حضرت عباس کے قبول اسلام کی خبر دی جس پر خوش ہوکر رسول کریم ﷺ نے انہیں آزاد کر دیا.(4) پس رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد مکہ میں حضرت عباس کا قیام رسول کریم ﷺ کی اجازت خاص کے ماتحت تھا.چنانچہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ہجرت کے بعد مکہ میں کوئی خبر رسول اللہ ﷺ پر منی نہیں رہتی تھی.حضرت عباس سب حالات آپ کو لکھ کر بھجواتے تھے.نیز ان کی موجودگی سے مکہ میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کو مدد اور تقویت حاصل ہوتی تھی.حضرت عباس رسول اللہ ﷺ سے مدینہ آنے کی اجازت طلب کرتے رہتے تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے آپ کو یہی لکھا کہ ” آپ کا وہاں ٹھہر نا عمدہ جہاد ہے“ چنانچہ وہ رسول اللہ کے ارشاد پر مکہ ٹھہرے رہے.(5) رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مدینہ سے قبل حضرت عباس کے قبول اسلام کی روایت دیگر تاریخی شواہد کی روشنی میں زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے.چنانچہ شعب ابی طالب کے زمانہ میں حضرت عباس نے رسول کریم ﷺ کا کھل کر ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ تین سال تک وہاں محصور رہے جبکہ بنو ہاشم میں سے بعض دیگر ابولہب وغیرہ کھل کر مخالفت کرتے رہے.شعب ابی طالب کے دوران رسول کریم ﷺ نے اپنی چچی ام الفضل کو بیٹے

Page 230

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 216 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کی بشارت دی انہوں نے حضرت عباس کو جا کر بتایا تو وہ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اپنے دائیں بٹھایا اور فرمایا ” یہ میرے چچا ہیں جو چاہے وہ اپنا ایسا چچا مقابلہ پر لائے.“ حضرت عباس نے جھینپتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ! حضور نے فرمایا ”میں یہ کیوں نہ کہوں جبکہ آپ میرے چا اور میرے والد کی نشانی ہیں اور چچا بھی والد ہوتا ہے پھر محاصرہ شعب ابی طالب کے دوران ہی ام الفضل کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا، اس کا نام آپ نے عبد اللہ رکھا اور خودا سے گڑتی دی.(6) ابوطالب کی وفات کے بعد مدینہ ہجرت سے قبل رسول اللہ ﷺ کا قابل اعتماد ٹھکا نہ حضرت عباس کا گھر تھا جہاں ذوالحجہ 12ھ میں انصار کے نمائندوں نے آکر ملاقات کی اور حضرت عباس کے مشورہ سے ہی حج کے بعد منی کی رات ایک پہاڑی گھاٹی میں مخفی اور محدود ملاقات طے ہوئی.عقبہ میں بارہ انصار کی اس پہلی بیعت سے قبل رسول اللہ کے خیر خواہ اور نمائندہ کے طور پر حضرت عباس ہی شریک ہوئے.انہوں نے انصار سے کھل کر یہ بات کی کہ آپ لوگ رسول کریم کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے ہیں، اور محمد ہم میں سب سے معزز اور قابل احترام ہیں.قبیلہ ان کی مکمل حفاظت کرتا ہے.اب تمہارا ان کو مدینہ لے کر جانا پورے عرب سے کھلم کھلا اعلان جنگ ہوگا.کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو.جب انصار مدینہ نے اپنے دلی جذبات کا مخلصانہ اظہار کیا اور رسول اللہ کی اطاعت و وفا اور حفاظت کا یقین دلایا تو نبی کریم نے کچھ وعظ کرنے کے بعد ان کی بیعت لی.اس بیعت میں بھی حضرت عباس نہ صرف شامل ہوئے بلکہ ابن سعد کی روایت ہے کہ انہوں نے اس تاریخی بیعت کے وقت رسول اللہ کا ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنا عہد بیعت از سرنو تازہ کیا.بعد کے زمانہ میں جب انصار مدینہ میں یہ سوال اٹھا کہ اس موقع پر سب سے پہلے کس نے بیعت کی تھی؟ تو سب کی رائے ہوئی کہ حضرت عباس سے پوچھا جائے انہوں نے اپنے ساتھ جن انصار کے حق میں بالترتیب رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی گواہی دی وہ حضرت برا، حضرت ابوالہیم اور حضرت اسعد تھے.(7) اگلے سال حج کے موقع پر پھر ستر انصار جب اسی گھاٹی میں اکٹھے ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ

Page 231

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 217 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ ہوئی تو صرف حضرت عباس رسول کریم میے کے ہمراہ تھے.آپ نے انصار سے فرمایا کہ مشرکین کے جاسوس تمہارے پیچھے ہیں.اس لئے تمہارے نمائندے مختصر بات کریں تا کہ مشرک تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں.‘ (8) حضرت عباس کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی ابن اسحاق کی کعب بن مالک سے یہ روایت محل نظر ہے کہ بیعت عقبہ کے وقت حضرت عباس اپنے دین پر تھے اور محض اپنے بھتیجے کی تائید کیلئے آئے تھے.(9) امر واقعہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہ علہ کی تائید کیلئے آئے تھے اور ابن اسحاق کی یہ رائے حضرت عباس کے اسلام مخفی رکھنے کی وجہ سے ہے.کیونکہ اس شدید مخالفت کے زمانہ میں ان کی یہی حکمت عملی رہی، انہوں نے اہل مدینہ کو عقبہ کی رات بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ”آج رات کے والوں نے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں تم اپنی سواریوں کی گھنٹیاں بھی اتار دینا اور بیعت کے بعد اپنا معاملہ مخفی رکھنا.ورنہ مجھے تمہارے بارے میں خوف ہے.چنانچہ اہل مدینہ نے حضرت عباس سے یہ سب کچھ خفی رکھنے کا وعدہ کیا.(10) عقبہ ثانیہ کے بعد کفار مکہ کے سخت رد عمل سے بھی حضرت عباس کے اخفاء کی حکمت سمجھ آجاتی ہے.رسول کریم نے لیلۃ العقبہ میں حضرت عباس کی مکمل تائید و حمایت کو ہمیشہ یاد رکھا.آپ فرماتے تھے اس رات میرے چچا عباس کے ذریعہ میری تائید و نصرت کی گئی.“ (11) حضرت عباس اپنے مخفی اسلام کی وجہ سے ہی جنگ بدر میں پہلے پہل لشکر کفار میں شامل نہیں ہوئے جب لشکر مر الظہر ان مقام پر پہنچا تو ابوجہل نے کہا کہ بنو ہاشم کے لوگوں کا اس لشکر میں شامل نہ ہونا فتح یا شکست دونوں صورتوں میں تمہارے لئے نقصان دہ ہے.پس جیسے بھی ہو ان کو اس جنگ میں ضرور شامل کرو خواہ زبردستی نکال کر ساتھ لے آؤ.چنانچہ اہل مکہ واپس جا کر حضرت عباس اور دیگر افراد بنو ہاشم کو ساتھ لائے اور انہیں لشکر کفار میں شامل کیا.(12) ادھر رسول کریم ﷺ کو بھی اس کی اطلاع ہو گئی.چنانچہ حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا ” مجھے خوب علم ہے کہ بنی ہاشم وغیرہ کے بعض لوگ مجبور جنگ کیلئے مکہ سے نکالے گئے ہیں.ہمیں ان سے جنگ کی ضرورت نہیں.اسلئے جو

Page 232

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 218 حضرت عباس بن مرد ی اللہ عنہ عباس، طالب عقیل اور نوفل کو جنگ میں پائے انہیں قتل نہ کرے.“ (13) بنو ہاشم کے مجبوراً جنگ میں شامل ہونے کے باوجود قریش کو اندیشہ ہائے دور و دراز تھے کہ وہ کہیں رسول اللہ کی تائید کرتے ہوئے انہیں نقصان نہ پہنچا دیں.چنانچہ انہوں نے دوران جنگ بنو ہاشم کو حکیم بن حزام کے زیر نگرانی ایک الگ خیمہ میں رکھنے کا حتیاطی انتظام کیا تھا.پھر جنگ کے دوران جب حضرت عباس اور عقیل کو عبیدہ بن اوس انصاری نے گرفتار کیا تو رسول کریم ﷺ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی جانیں بچ گئیں اور عبید گوفر مایا کہ ان دونوں کی ( صحیح سالم ) گرفتاری کیلئے فرشتے نے تمہاری مدد کی ہے.(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ان کی حفاظت کیلئے دعائیں کر رہے تھے ).جنگ کے بعد حضرت عباس نے پھر واپس مکہ جا کر اپنے مفوضہ فرائض انجام دینے تھے.اسلئے ضروری تھا کہ ان کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے ان سے دیگر کفار قید یوں جیسا معاملہ کیا جائے.یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس سے دیگر قیدیوں کا سا سلوک کرتے ہوئے رسیوں میں جکڑ کر باندھا گیا.رسول کریم ﷺ کو اپنے مسلمان چا کے قید میں جکڑے ہونے کی حالت میں کراہنے کی آواز سن کر بے چینی سے نیند نہیں آ رہی تھی.صحابہ کوخبر ہوئی تو انہوں نے حضرت عباس کے بندھن ڈھیلے کر دئے.رسول کریم ﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو.رہائی کیلئے حضرت عباس سے فدیہ کا مطالبہ بھی اسی لئے تھا کہ انہیں دیگر قیدیوں جیسا ہی سمجھا جائے.اس پر وہ خود تعجب سے کہہ اٹھے یا رسول اللہ ! میں تو دل سے مسلمان ہوں.مجھے مجبوراً جنگ میں لایا گیا ہے.نبی کریم نے کیا پر حکمت جواب دیا فرمایا ”اللہ آپ کے اسلام کو جانتا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور اس کی جزا عطا کرے گا.مگر ہم تو ظاہر پر فیصلہ کریں گے اسلئے آپ اپنا فدیہ ادا کریں.چنانچہ ان سے 20 اوقیہ سونافد یہ لیا گیا.یہ ایک مضبوط حکمت عملی تھی تا کہ اس کے بعد بھی حضرت عباس مکہ میں رہ کر رسول اللہ علیہ کیلئے کام کرسکیں.بعض صحابہ نے اس حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے ، حضرت عباس کے مسلمان ہونے کے ناطہ سے رسول کریم سے درخواست بھی کی کہ حضرت عباس کا فدیہ معاف کر دیا جائے لیکن رسول کریم نے بوجوہ یہ درخواست قبول نہیں

Page 233

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمائی.(14) 219 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ ی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان کے مطابق اس کے بعد حضرت عباس گو اس فدیہ سے کئی گنا زیادہ مال عطا کرنے کے سامان ہوئے.جیسا کہ اسیران بدر کے بارہ میں سورۃ انفال کی آیت 71 میں بھی وعدہ تھا.حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت عباس اور دیگر اسیران بدر کے بارہ میں اتری تھی کہ اے نبی ! تمہارے ہاتھ میں جو قیدی ہیں انہیں کہہ دے کہ اگر اللہ تمہارے دلوں میں ”خیر معلوم کرے گا تو جو ( فدیہ ) تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے.خود حضرت عباس بیان کرتے تھے کہ مجھ سے ہیں اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا تھا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس غلام عطا کئے جن میں سے ہر ایک کی قیمت ہیں اوقیہ تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے زمزم عطا کیا جو مکہ کے سب اموال سے بڑھ کر مجھے عزیز ہے.( ابولہب کی موت کے بعد یہ ذمہ داری براہ راست حضرت عباس کے حصہ میں آئی تھی اور اب میں اپنے رب سے اس آیت میں کئے گئے آخری وعدہ مغفرت کا امیدوار ہوں.فتح بحرین کے بعد جب اموال غنیمت آئے تو رسول کریم ﷺ نے حضرت عباس سے کہا کہ اس میں سے جتنا چاہیں لے لیں حضرت عباس نے ایک گٹھڑی بنالی جو اتنی بھاری تھی کہ اکیلے اٹھا نہ سکے اور رسول کریم سے کہا کہ اٹھواد ہیں.حضور مسکرائے اور فرمایا کہ گٹھڑی کو ہلکا کر کے جتنی طاقت ہے اتنا خود ہی اٹھائیں.حضرت عباس یہ مال لے کر کہتے جاتے تھے کہ اللہ کا وعدہ تھا جو پورا ہوا کہ جو تم سے لیا اس سے بہتر دے گا.‘ (15) غزوات میں شرکت بدر کا بدلہ لینے کیلئے کفار مکہ نے اگلے سال پھر جنگ کی تیاری کی اور احد کا معرکہ پیش آیا.جس کیلئے تین ہزار کا لشکر لے کر وہ مکہ سے نکلے جس میں تین ہزار اونٹ سات سوزرہ پوش اور دوسو گھڑ سوار تھے، حضرت عباس نے یہ تیاریاں دیکھیں تو بنی غفار کا ایک شخص اس شرط سے اجرت پر لیا کہ وہ ان کا خط تین دن کے اندر رسول کریم ﷺ کو مدینہ پہنچائے.اس میں اطلاع تھی کہ قریش کا تین ہزار کا صلى

Page 234

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 220 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ مسلح لشکر مدینہ کی طرف روانہ ہو چکا ہے آپ اپنا انتظام کر لیں قباء میں حضور کو یہ خط ملا آپ نے فوری طور پر صحابہ سے مشورہ کیا.چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نواح مدینہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے کچھ لوگ مقرر کر دئے جو آپ کو تازہ خبر پہنچاتے رہیں اور مدینہ کی حفاظت اور پہرہ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور بالآخر مسلمانوں کے مشورے سے مدینہ کے باہر جا کر دشمن کے مقابلہ کا فیصلہ کیا گیا اور احد میں یہ معرکہ پیش آیا.اس طرح حضرت عباس کی بروقت اطلاع سے مدینہ اچانک حملہ سے محفوظ رہا.(16) فتح خیبر کے موقع پر حضرت عباس مکہ میں ہی تھے.ایک شخص حجاج نامی نے مسلمانوں کی شکست کی خبر اڑا دی.حضرت عباس صخت پریشان ہوئے.بعد میں خیبر کی فتح کا علم ہوا تو رسول کریم سے ملاقات کیلئے مکہ سے روانہ ہوئے.چنانچہ رسول کریم ﷺ سے حصہ مقام پر ان کی ملاقات ہوئی.نبی کریم نے حضرت عباس کو غنیمت خیبر سے حصہ عطا فرمایا اور دوسو وسق (قریباً نو صدمن) کھجور سالانہ بھی مقررفرمائی.اس کے بعد حضرت عباس جملہ غزوات فتح مکہ، حنین، طائف اور تبوک میں رسول کریم کے ساتھ شریک رہے.(17) سفر فتح مکہ میں جب حضرت عباس کی جھہ میں رسول کریم ﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا يَا عَمَ إِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِى الهِجْرَةِ كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِينَ فِي النبوة (18) کہ اے میرے چا! آپ ہجرت میں اسی طرح خاتم المہا جرین ہیں جس طرح میں نبوت میں خاتم النبین ہوں.گویا حضرت عباس کا ارادہ ہجرت کے باوجود رسول اللہ کے ارشاد پر مکہ میں رہ کر اہم ذمہ داریاں ادا کرنا آپ کی ہجرت کی شان بڑھا گیا کہ آپ سب مہاجرین میں ہجرت کے لحاظ سے بلند مرتبہ اور افضل ٹھہرے.اس موقع پر خاتم کے معنے بھی خوب کھل کر سامنے آگئے کہ اس سے محض زمانی لحاظ سے آخری فرد مراد نہیں ہوتا بلکہ فضیلت و مرتبت میں آخری کا مفہوم ہوتا ہے ورنہ حضرت عباس کے بعد ہمیشہ کیلئے ہجرت کا خاتمہ اور مہاجر کا لقب ممنوع ماننا پڑے گا.جو خلاف واقعہ ہے.فتح مکہ کی رات جب حضرت عمر گشت کے دوران ابوسفیان کو گرفتار کر لائے تو حضرت عباس

Page 235

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 221 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دی اور یوں مکہ کی قیادت اس طرح ٹوٹ گئی کہ فتح مکہ کے موقع پر کفار کی طرف سے کوئی بڑی مزاحمت نہ ہو سکی.غزوہ حنین میں حضرت عباس رسول اللہ علیہ کے شانہ بشانہ ہوکر لڑے.ان کا اپنا بیان ہے کہ میں اور رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوسفیان بن حارث آپ کے ساتھ چھٹے رہے اور آپ سے کسی حال میں جدا نہیں ہوئے.حضور سفید خچر پر سوار تھے.حضرت عباس نے اس کی لگام تھام رکھی تھی.بنو ہوازن کے تیر اندازوں کے اچانک حملہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی.حضرت عباس جو بلند آواز تھے وہ کمال حکمت سے جوش دلا کر اصحاب رسول ﷺ کو آواز دینے لگے کہ کہاں ہیں حدیبیہ کے موقع پر بیعت کرنے والے؟ حضرت عباس بیان کرتے ہیں کہ میری اس آواز پر صحابہ میدان میں اس طرح واپس پلٹے جیسے گائے اپنے بچے کی آواز پر پلٹتی ہے.وہ لبیک لبیک کہتے ہوئے آئے اور کفار سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے لگے.پھر حضرت عباس نے انصار کو آواز دی.پھر باری باری ان کے قبائل کے نام لے کر بلایا یہاں تک کہ میدان جم گیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اب میدان جنگ خوب تپ گیا ہے.پھر آپ نے کنکروں کی مٹھی لے کر کفار پر پھینکی اور فرمایا محمد اللہ کی قسم اب یہ پسپا ہو گئے.‘ (19) مقام وفضائل رسول کریم علیہ حضرت عباس کی بہت عزت اور اکرام فرماتے تھے.آپ نے فرمایا ” عباس میرے بقیہ آباؤ اجداد میں سے ہیں.جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور چا بھی باپ کے قائمقام ہوتا ہے.“ (20) حضرت عباس نہایت دانش مند اور صائب الرائے تھے اور خاندان قریش کے رحمی رشتوں کے نمائندہ اور انکے ساتھ احسان کا سلوک کرنے والے تھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا عباس قریش میں سے زیادہ سخی اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں.چنانچہ حضرت عباس نے ستر غلام آزاد کئے.(21) رسول اللہ اللہ کے ہاں حضرت عباس کا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا اور صحابہ ان کی یہ فضیلت

Page 236

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 222 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ خوب پہچانتے تھے.وہ ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے پر عمل کرتے تھے.(22) ایک دفعہ حضرت عباس بیمار ہوئے اور موت کی تمنا کرنے لگے.رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ”موت کی تمنا نہ کرو کیونکہ اگر تو تم نیک ہو اور تمہیں اور مہلت مل جائے تو مزید نیکیوں کی توفیق مل جائے گی اور اگر معاملہ برعکس ہے اور پھر تمہیں مہلت مل گئی تو شاید اپنی کوتاہیوں سے معافی کی توفیق مل جائے اس لئے موت کی خواہش نہ کرو.“ چنانچہ حضرت عباس رسول اللہ ﷺ کی دعا سے صحت یاب ہوئے اور حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ پایا.صحبت رسول ﷺ کے نتیجہ میں انہیں دین کی گہری سمجھ عطا ہوئی اور وہ راضی برضا ہو گئے تھے.ان سے مروی احادیث سے بھی یہ بات جھلکتی ہے کہ ان کے رجحانات اور احساسات و خیالات کیسے پاکیزہ تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا اس شخص نے ایمان کا مزا چکھ لیا جواللہ کو رب ، اسلام کو دین اور محمد ﷺ کو رسول ماننے پر راضی ہو گیا.(23) حضرت عباس نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ” میں آپ کا چا ہوں اور عمر رسیدہ موت قریب ہے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو اللہ کے ہاں مجھے فائدہ دے.“ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” اے عباس ! تو میرا چا ہے اور میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا لیکن آپ اپنے رب سے یہ دعا کیا کرو.اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ ا الله میں تجھ سے عفو و عافیت کا طلبگار ہوں.یہ بات حضور نے تین بار فرمائی.سال گزرنے پر انہوں نے پھر یہ سوال کیا تو آپ نے انہیں یہی جواب دیا.(24) حضرت عباس صاحب رؤیا و کشوف تھے.رسول اللہ کی وفات کی پیشگی خبر انہیں بذریعہ رویا ہوئی جو انہوں نے خود رسول کریم ﷺ سے بیان کی کہ میں نے سورج یا چاند کو دیکھا کہ شاید اسے مضبوط رسیوں کے ساتھ زمین سے آسمان کی طرف اٹھالیا گیا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا' اس سے مراد تمھارا بھتیجا ہے.“ (25) خلفائے راشدین کا حسن سلوک رسول کریم ﷺ نے اپنے اہل بیت کے بارہ میں ارشاد فر مایا کہ کسی شخص کے دل میں ایمان

Page 237

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 223 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ میرے اہل بیت اور ان کے قرابت داروں سے میری وجہ سے محبت نہ کرے.‘‘ (26) رسول اللہ علیہ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانہ میں جب حضرت عباس اور دیگر اہل بیت کی طرف سے وراثت رسول کا سوال اٹھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ رسول کریم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ صدقہ ہوگا اور محمد کے اہل بیت اس میں سے اپنے گزارے کے اخراجات لیا کریں گے.میرا فیصلہ بھی یہی ہے باقی جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا تعلق ہے خدا کی قسم رسول اللہ اللہ کے قرابت دار مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے بڑھ کر پیارے ہیں.“ (27) حضرت عباس اور دیگر اہل بیت نے یہ فیصلہ بسر و چشم قبول کیا.حضرت عمرؓ حضرت عباس کی بہت قدر و منزلت فرماتے تھے.جب مدینہ میں قحط ہوتا تو حضرت عمرؓ، حضرت عباس کے نام کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے.چنانچہ 17 ھ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شدید قحط پڑا تو حضرت کعب نے کہا اے امیر المومنین بنی اسرائیل میں جب اس قسم کی مصیبت آتی تھی تو وہ انبیاء کے کسی قریبی رشتہ کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ علیہ کے چا ان کے والد کے قائمقام اور بنی ہاشم کے سردار موجود ہیں.چنانچہ وہ حضرت عباس کے پاس تشریف لے گئے اور قحط کی شکایت کی ، پھر حضرت عباس کو ساتھ لے کر منبر رسول ﷺ پر آئے اور یہ دعا کی.”اے اللہ ہم اپنے نبی ﷺ کے چا ( جو اس کے باپ جیسے ہیں ) کا واسطہ لے کر تیرے دربار میں حاضر ہیں تو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نہ کر.پھر حضرت عمرؓ نے حضرت عباس سے کہا اے ابو الفضل ! اب آپ کھڑے ہو کر دعا کریں، چنانچہ حضرت عباس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد بڑی درد بھری دعا کی.اے اللہ ! تیرے پاس بادل بھی ہیں اور پانی بھی ، پس بادلوں کو بھیج اور ان سے ہم پر پانی نازل فرما اور اس کے ذریعہ جڑوں کو مضبوط کر اور جانوروں کے تھنوں سے دودھ بھر دے.اے اللہ ! تو کوئی مصیبت کسی گناہ کے بغیر نازل نہیں فرما تا اور سوائے تو بہ کے اسے دور نہیں کرتا اور پوری قوم تیری طرف رخ کر کے آئی ہے پس ہم پر بارش برسا.اے اللہ!

Page 238

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 224 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ ہمارے نفوس اور گھروں کے حق میں ہماری شفاعت قبول فرمالے، اے اللہ ! ہم تجھے اپنے جانوروں اور چار پائیوں میں سے ان کا بھی واسطہ دیتے ہیں جو بولنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اے اللہ ! ہمیں خوب اطمینان بخش اور نفع رساں برسنے والے اور عام موسلا دھار بادل سے سیراب کر.اے اللہ ! ہم سوائے تیرے کسی سے امید نہیں کرتے ، نہ تیرے سوا کسی سے دعا کرتے ہیں اور نہ ہی تیرے سوا کسی سے رغبت رکھتے ہیں.اے اللہ ! ہم ہر بھوکے کی بھوک کا شکوہ اور ہر نگے کے نگ کی شکایت تجھ سے کرتے ہیں.ہر خوف زدہ کے خوف اور ہر کمزور کی کمزوری تیرے حضور پیش کرتے ہیں.الغرض حضرت عباس نے خدا کے رحم کو جوش دلانے والی ایسی دعائیں کیں جن کا مختلف احادیث میں ذکر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہاڑوں جیسے بادل امڈ آئے اور آسمان برسا اور خوب برسا.زمین کی زرخیزی لوٹ آئی اور لوگوں کو نئی زندگی نصیب ہوئی.(28) حضرت حسان بن ثابت نے اس تاریخی واقعہ کا ذکر یوں فرمایا.سَالَ الاِمَامُ وَقَدْ تَتَابَعَ جَدْبُنَا فَسَقَى الْغَمَامُ بِغُرَّةِ العَبّاسِ عَمُ النَّبِيِّ وَضَوءُ وَالِدِهِ الَّذِى وَرِثَ النَّبِيَّ بِذَاكَ دُونَ النَّاسِ احَيْيَ الإِلهُ بِهِ الْبِلاَدَ فَا صُبَحَتْ مُحْضَرَّةَ الأَجْنَابِ بَعْدَ الياس ( ترجمہ ) امام نے مسلسل قحط سالی کے بعد حضرت عباس کی پیشانی کا واسطہ دے کر دعا کی تو باران رحمت کا نزول ہو گیا ہاں وہ عباس جو رسول اللہ ﷺ کے چا اور اپنے اس والد کی روشنی ہیں جو نبی کریم کا باقی لوگوں سے بڑھ کر وارث ہے.خدا تعالیٰ نے اس بارش سے شہروں کو زندہ کر دیا اور ایک مایوسی کے بعد ان کی اطراف سرسبز ہوگئیں.بارش ہونے کے بعد لوگ حضرت عباس سے ملتے اور کہتے اے مکہ اور مدینہ کو بارش سے سیراب کرنے والے! تجھے مبارک ہو.حضرت عمر نے اس موقع پر یہ اصولی وضاحت بھی فرمائی کہ خدا کی قسم !یہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ چاہنے اور اس کے ہاں مقام ومرتبہ کا معاملہ ہے.“ (29) ایک دفعہ حضرت عمرؓ جمعہ پڑھانے کیلئے تشریف لا رہے تھے.حضرت عباس کے گھر کے پر نالے کے پاس سے گزر ہوا.جہاں دو چوزے ذبح کر کے ان کا خون پانی سے بہایا جا رہا تھا.اس

Page 239

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 225 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کے چھینٹے حضرت عمر پر بھی پڑے.انہوں نے گزرگاہ کے بیچ اس پرنالے کے اکھیڑنے کی ہدایت فرمائی.گھر واپس جا کر جمعہ کیلئے لباس بدل کر تشریف لائے اور جمعہ پڑھایا.حضرت عباس آئے اور عرض کیا کہ اس جگہ پر یہ پر نالہ خود نبی کریم نے لگایا تھا.حضرت عمرؓ نے حضرت عباس سے کہا اب میرا آپ کو حکم ہے کہ میری پشت پر سوار ہو کر وہ پر نالہ دوبارہ اسی جگہ رکھیں جہاں رسول کریم نے رکھا تھا.چنانچہ حضرت عباس نے ایسا ہی کیا.(30) حضرت عباس آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے.حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ان کا خاص احترام کرتے تھے.آپ کو دیکھ کر وہ گھوڑے سے اتر آتے اور کہتے رسول اللہ ﷺ کے چا ہیں.(31) 32ھ میں حضرت عثمان کی شہادت سے دو سال قبل 88 سال کی عمر میں حضرت عباس کی وفات ہوئی.حضرت عثمان نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.آپ کی تین شادیوں سے کئی بیٹیوں کے علاوہ دس بیٹے تھے.جن میں سے حضرت عبداللہ بن عباس معروف عالم با عمل بزرگ ہوئے.آپ کے اخلاق فاضلہ میں شجاعت ، بہادری، صلہ رحمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.(32) -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 حواله جات اسد الغابہ جلد 3 ص 109 ابن سعد جلد 4 ص 31، ابن سعد جلد 4 ص10 ابن سعد جلد 8 ص 277 مجمع الزوائد جلد 9 ص 268 ابن سعد جلد 4 ص 31 مجمع الزوائد جلد 9 ص 275 ابن سعد جلد 4 ص 8 ابن سعد جلد 1 ص 221 وابن سعد جلد 4 ص 7 تا...ابن ہشام جلد 2 ص49 ابن سعد جلد 4 ص 8 ابن سعد جلد 4 ص 31 ابن سعد جلد 4 ص 9

Page 240

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -13 -14 -15 -16 -17 -18 ابن سعد جلد 4 ص 10 ابن سعد جلد 4 ص 9 تا 14 ابن سعد جلد 4 ص 14 تا 16 الواقدی جلد 1 ص 203 ابن سعد جلد 4 ص 18 سيرة الحلبية جلد 3 ص 90 19- مسلم کتاب الجہاد باب غزوہ حنین اسدالغابہ جلد 3 ص 110 -20 -21 -22 226 اسد الغابہ جلد 3 ص 110 ، استیعاب جلد 2 ص 360 الاصابہ جز 4 ص30 23 - مسلم کتاب الایمان -24 مسند احمد جلد 1 ص210 25- دار می کتاب الرؤیا باب فی القمص والبر 26- ابن ماجہ المقدمہ باب فضل العباس بخاری کتاب المغازی باب حدیث النفير -28 -29 -30 -31 -32 استیعاب جلد 2 ص 260 اسدالغابہ جلد 3 ص 111 مسند احمد جلد 1 ص 206 الاستیعاب جلد 2 ص 360 اسدالغابہ جلد 3 ص112 حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ

Page 241

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 227 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت جعفر بن ابی طالب خاندان بنی ہاشم کے چشم و چراغ حضرت جعفر رسول کریم ﷺ کے چازاد بھائی تھے.حضرت علی کے برادر حقیقی اور عمر میں ان سے دس سال بڑے تھے.مگر حضرت علی کو رسول اللہ ﷺ کی تربیت کی برکت اور خود اپنی فطری سعادت کے طفیل قبول اسلام میں اولیت عطا ہوئی.قبول اسلام حضرت جعفر کے اسلام قبول کرنے کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ ایک روز نبی کریم علی محمو عبادت تھے.حضرت علی بھی آپ کے ساتھ عبادت میں شریک تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوطالب اپنے بیٹے جعفر کے ساتھ تشریف لائے اور اپنے بیٹے علی کو رسول اللہ کے ساتھ مصروف عبادت دیکھ کر جعفر سے بھی فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ عبادت میں شریک ہو جاؤ.حضرت علی رسول اللہ اللہ کے دائیں جانب تھے.جعفر نے بائیں جانب کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور یوں یہ دونوں بھائی اسلام کے ابتدائی کمزوری کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کے مضبوط دست و بازو بن گئے.آنحضرت کو اس سے بہت تقویت پہنچی.آپ بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے علم پا کر حضرت جعفر کو یہ خوشخبری سنائی کہ جس طرح تم نے آج اپنے اس بھائی کے پہلو اور ہاتھ مضبوط کئے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی جزا کے طور پر آپ کو جنت میں پرواز کیلئے دو پر عطا فرمائے گا.تب سے حضرت جعفر طیار “ اور ” ذوالجناحین" کے لقب سے ملقب ہوئے.(1) جس کا مطلب ہے دونوں پروں کے ساتھ پرواز کرنے والا (روحانی) پرندہ.مقام و مرتبه حضرت جعفر" کیلئے رسول اللہ کی اس خوشخبری میں دراصل اس روحانی مقام کی طرف بھی اشارہ تھا جو آئندہ شہادت کے بلند مرتبہ سے انہیں کو حاصل ہو نیوالا تھا.جس کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت جعفر گو جنت میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز دیکھا ہے.(2)

Page 242

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 228 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حضرت جعفرم پنی بعض منفر د خصوصیات کے لحاظ سے بیگانہ روزگار تھے.چنانچہ ایک موقع پر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی حملے کے بہت ہی پیاروں حضرت زید ، حضرت علییؓ اور حضرت جعفر کے مابین یہ سوال پیدا ہو گیا کہ حضور کو زیادہ پیار کس سے ہے؟ کیونکہ حضور کے کمال لطف و کرم کی بدولت ہر ایک ان میں سے اپنے آپ کو حضور کی محبتوں کا مورد اور زیادہ پیارا جانتا تھا.حضور سے پوچھا گیا تو آپ نے کمال شفقت سے سب پیاروں سے ہی دلداری فرمائی کہ سب ہی آپ کو محبوب تھے.مگر حضرت جعفر سے جو فر مایا اسے سن کر بے محابا حضرت جعفر" پر پیار آتا ہے.آپ نے فرمایا:.ے جعفر تو تو خلق و خلق یعنی صورت و سیرت میں میرے سب سے زیادہ مشابہ اور قریب ہے (3) ہجرت حبشہ بلا شبہ یہ ارشاد رسول ﷺ حضرت جعفہ کیلئے دین و دنیا میں سند امتیاز سے کم نہیں.حضرت جعفر نے ابتدائی زمانہ میں قبول اسلام کی سعادت پائی تھی.مسلمانوں کیلئے مکہ میں حالات نا موافق تھے.ان کو مصائب و آلام کا نشانہ بنایا جاتا تھا.حضرت جعفر نے بھی دیگر مسلمان مہاجرین کے ساتھ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا.اس سفر ہجرت میں آپ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتیں ظاہر ہوئیں.انہوں نے شاہ حبشہ کے شاہی دربار میں اسلامی وفد کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا.حضرت ام المومنین ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ ”جب ہم نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور شاہ حبشہ نجاشی کی پناہ حاصل کی تو یہ بہت خیر و برکت کی پناہ ثابت ہوئی.ہمیں مکمل مذہبی آزادی نصیب تھی اور ہم بلا روک ٹوک عبادت کرتے تھے.کسی قسم کی ناپسندیدہ زبانی یا جسمانی ایذارسانی کا سوال تک نہیں تھا.جب قریش کو اس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے دو معتبر قریشی سرداروں عبد اللہ بن ربیعہ اور عمر و بن العاص کو سفیر بنا کر مکہ کی عمدہ چیزوں کے تحائف کے ساتھ حبشہ بھجوایا.اس زمانہ میں اہل حبشہ مکہ سے چمڑا منگوایا کرتے تھے.چنانچہ مکہ والوں نے چمڑے کی کئی عمدہ مصنوعات حاصل کر کے حبشہ کے تمام بڑے بڑے سرداروں اور جرنیلوں کیلئے تحائف بھجوائے.اپنے سفراء کو ہدایت کی کہ نجاشی سے ملاقات سے پہلے ہر بڑے سردار اور جرنیل کو یہ تحائف پیش کر

Page 243

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 229 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے انہیں بتائیں کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان اپنا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر چکے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے اور ایک بالکل نئے دین کے ساتھ جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ.یہ لوگ آپ کے ملک میں آکر پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور ہم جو اپنی قوم کے فہمیدہ اور دانا سردار ہیں،شاہ حبشہ سے ملاقات کر کے انہیں واپس لے جانے کیلئے درخواست کرنا چاہتے ہیں اس لئے جب بادشاہ آپ حضرات سے مشورہ کرے تو آپ لوگ بھی یہی سفارش کریں کہ وہ ان کا موقف سنے بغیر ہمارے سپرد کر دے.ہم لوگ ان کے عیوب ونقائص کو خوب جانتے ہیں.جرنیلوں نے بالاتفاق ان سفیروں سے یہی کہا کہ ہم ایسا ہی کریں گے.سفرائے مکہ نے شاہ نجاشی کو بھی تحائف پیش کئے اور اپنا موقف پیش کر کے یہ کہا کہ یہ ناسمجھ نوجوان ہمارے عزیز و اقارب میں سے ہیں.انہیں ہمارے سپرد کر دیں تا کہ ہم انہیں مناسب سرزنش کر سکیں.ان سفیروں کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ کسی طرح نجاشی سے مسلمانوں کی بات سنے بغیر یہ فیصلہ کر والیا جائے.بادشاہ نے جب اپنے جرنیلوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اہل مکہ کے سفیر سچ کہتے ہیں.یہ واقعی عقلمند اور صاحب بصیرت لوگ ہیں اور ان نوجوانوں کے نقص و عیب کو خوب جانتے ہیں.انہیں ان کے ملک میں واپس لوٹا دینا چاہئے.“ منصف مزاج شاہ نجاشی اس پر سخت غضبناک ہو کر کہنے لگا.”خدا کی قسم ! ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہو گا کہ وہ لوگ جو میرے ملک میں آکر میرے پاس پناہ گزیں ہوئے اور خاص میری پناہ حاصل کرنے کیلئے آئے.میں اُن کی بات سنے بغیر کیسے ان کے حوالے کردوں.“ مسلمانوں کو نجاشی کے دربار میں بلایا گیا.وہ سخت مضطرب اور پریشان تھے کہ نہ جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ہو.مگر وہ خدا تعالیٰ پر کامل تو کل کرتے ہوئے شاہی دربار میں پیش ہوئے.در باری پادری اپنے صحائف کے ساتھ موجود تھے.نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا.نہ ہی پہلی کسی امت کا دین اختیار کیا نہ ہمارا دین.“ اس موقع پر بادشاہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے ان کی نمائندگی کا حق حضرت جعفر بن ابی طالب نے خوب ادا کیا.انہوں نے اس موقع پر نہایت مدلل اور عمدہ اور

Page 244

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 230 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خوبصورت تقریر کی اور کہا ” اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے.بتوں کی پرستش کرتے اور مردار کھاتے تھے.بدکاری اور رشتہ داروں سے بدسلوکی ہمارا معمول تھا.ہم میں سے طاقتور کمزور کو دبا لیتا تھا.اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف مبعوث فرمایا جس کی خاندانی شرافت اور صدق و امانت اور پاکدامنی سے ہم خوب واقف تھے.اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور یہ تعلیم دی کہ اس کے ساتھ ہم کسی اور کوشریک نہ ٹھہرائیں.نہ ہی پتھروں اور بتوں کی پرستش کریں اس نے ہمیں صدق و امانت ، صلہ رحمی ، پڑوسیوں سے حسن سلوک اور کشت وخون سے بچنے کی تعلیم دی بے حیائیوں ، جھوٹ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامنوں پر الزام لگانے سے منع کیا.ہمیں حکم دیا کہ ہم خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کریں.ہمیں نماز روزہ اور زکوۃ کی تعلیم دی.‘“ حضرت جعفر نے نجاشی کے سامنے اسلامی تعلیم کا خلاصہ نہایت عمدہ اور خوبصورت رنگ میں پیش کیا اور کہا ”ہم اس نبی پر ایمان لائے ہیں.اس کی تصدیق کی ہے.اس کی تعلیم کو مانا اور قبول کیا ہے.ہم خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے ہیں.جن چیزوں سے اس نے روکا ہے اس سے رکتے ہیں اور جو چیزیں اس نے ہمارے لئے جائز قرار دی ہیں ان کو جائز سمجھتے ہیں.بس یہی ہمارا جرم ہے جس کی بناء پر ہماری قوم نے ہم پر زیادتیاں کیں اور ہمیں سخت اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کر کے ہمارے دین سے برگشتہ کرنا چاہا تا کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کی بجائے بتوں کی پوجا کریں اور گندی اور ناپاک چیزوں کو حلال جائیں.جب ان کے ظلم اور زیادتیاں انتہا کو پہنچ گئیں.انہوں نے ہمیں اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے سے روک دیا تو ہم اپنا وطن چھوڑ کر آپ کے ملک میں پناہ لینے چلے آئے.ہم آپ کے عدل و انصاف کی شہرت کی وجہ سے کسی اور کی بجائے آپ کی پناہ حاصل کرنے کی اُمید پر یہاں چلے آئے.اے بادشاہ! ہمیں پوری اُمید ہے کہ اس ملک میں ہم پر کوئی ظلم یا زیادتی روا نہیں رکھی جائے گی.“ نجاشی حضرت جعفر کی اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ وہ دعویدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام لے کر آیا ہے، اس میں سے کچھ تمہارے پاس موجود ہے؟ حضرت جعفر نے اثبات میں

Page 245

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 231 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جواب دیا نجاشی نے کہا کہ اچھا مجھے اس میں سے کچھ کلام پڑھ کر سناؤ “ حضرت جعفر کی ذہانت و فطانت پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے فوری طور پر عین موقع کے محل اور مناسبت سے سورۃ مریم کی آیات کی تلاوت ایسی دلآویزی اور خوش الحانی سے کی کہ خدا ترس نجاشی بے اختیار رونے لگا.وہ رویا اور اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی.ساری محفل پر قرآن شریف کے اس پر تاثیر اور برحق کلام کا ایسا اثر ہوا کہ درباری پادری بھی رونے لگے.ان کے صحیفے ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئے.نجاشی یہ کلام الہی سن کر بے اختیار یہ کہ اٹھا ” خدا کی قسم ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اور موسیٰ کا کلام ایک ہی منبع اور سر چشمہ سے پھوٹے ہیں.پھر اس منصف مزاج بادشاہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا اے مکہ کے سفیر و! تم واپس لوٹ جاؤ.خدا کی قسم میں ان لوگوں کو ہر گز تمہارے حوالے نہیں کر سکتا.مکہ کے ان سفراء نے مزید مشورے کئے اور کہا کہ وہ بادشاہ کے سامنے مسلمانوں کے خراب عقائد اور عیوب بیان کر کے اس نیک اثر کو زائل کر کے ہی دم لیں گے اور اسے بتائیں گے کہ حضرت عیسی کو یہ عیسائیوں کے اعتقاد کے برخلاف محض ایک انسان مانتے اور اس کی تنقیص اور تو ہین کے مرتکب ہوتے ہیں.اگلے روز انہوں نے بادشاہ کے سامنے یہ موقف رکھا تو بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلوا بھیجا.بلاشبہ ان کے لئے یہ سخت پریشانی کی بات تھی.حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ اس نئی مصیبت سے ہم بہت فکر مند ہوئے.ایسی مصیبت سے اس سے پہلے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا.مسلمانوں نے باہم اکٹھے ہوکر مشورے کئے اور کہا کہ اگر بادشاہ نے حضرت عیسی کے مقام کے بارہ میں دریافت کیا تو ہم وہی بیان کریں گے جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے.چنانچہ جب بادشاہ نے ان سے سوال کیا کہ عیسی بن مریم کے بارہ میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ تو حضرت جعفر نے کہا کہ اس بارہ میں ہمارے نبی پر یہ کلام اترا ہے کہ عیسی اللہ کا بندہ اور اس کا رسول روح اللہ اور اس کا کلمہ ہے جو اس نے کنواری مریم کو عطا فر مایا.“ نجاشی نے زمین پر ہاتھ مارا اور ایک تنکا اٹھا کر کہنے لگا کہ ”حضرت عیسی کا مقام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں جو تم نے بیان کیا ہے.اس پر اس کے سردار اور جرنیل بڑبڑائے.مگر

Page 246

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 232 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نجاشی نے کمال جلالت شان کے ساتھ یہ عادلانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ' جاؤ اے مسلمانو ! تمہیں میری سرزمین میں مکمل امان ہے اگر تمہیں کوئی برا بھلا کہے گا تو اسے سزادی جائے گی.مجھے یہ ہرگز پسند نہیں کہ مال و دولت کے عوض میں تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچاؤں“ پھر شاہ حبشہ نے حکم دیا " عرب سفراء کے تحائف واپس لوٹا دیئے جائیں.ان کی ہمیں کوئی حاجت نہیں.خدا کی قسم !جب اللہ نے میرا ملک مجھے عطا فرمایا تو اس نے مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی جو میں عدل وانصاف کے قیام کے لئے رشوت لوں.“ الغرض یوں حضرت جعفر نے ایک زمانہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنے ملک و وطن اور اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی عے سے دور حبشہ کی سرزمین میں گزارا.رض ہجرت مدینہ جب حالات سازگار ہوئے تو حضرت جعفر گوجبشہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.فتح خیبر کے موقع پر مہاجرین حبشہ کا قافلہ حضرت جعفر کے ساتھ واپس آیا.اس وقت حضور تخیبر میں تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفر کی آمد پر آپ نے خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا.انہیں گلے لگایا، وفور محبت سے ان کی پیشانی چوم لی اور فرمایا کہ آج میں اتنا خوش ہوں کہ نہیں کہہ سکتا کہ فتح خیبر کی خوشی زیادہ ہے یا جعفر کی ملاقات کی خوشی بڑھ کر ہے.(4) مدینہ آنے پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل انصاری سے حضرت جعفر کی مواخات قائم فرمائی.جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ حضرت جعفر رسول اللہ ﷺ کے مشیروں اور وزیروں میں شامل ہو گئے.حضرت علی کی روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر نبی کو کچھ معز ز ساتھی عطا فرماتا ہے مجھے چودہ ایسے ساتھی عطا ہوئے ان میں آپ نے حضرت جعفر کا نام بھی لیا کہ وہ بھی میرے معزز وزراء میں شامل ہیں.(5) غزوہ موتہ میں شرکت الہی تقدیر میں حضرت جعفہ کیلئے اس سے بھی بڑا مقام یعنی شہادت کا بلند مرتبہ مقدر تھا.انہیں

Page 247

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 233 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپسی کو ابھی ایک سال بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ رومی سرحدوں پر شورش ہوئی.غسانی ریاست کے سردار شرجیل بن عمرو نے مسلمان سفیر کو قتل کروادیا جو شاہ بصری کی طرف رسول اللہ اللہ کا مکتوب گرامی لے کر جا رہے تھے یہ مسلمانوں کے ساتھ کھلا اعلان جنگ تھا.نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے اسلامی لشکر کو تیاری کا حکم دیا.تین ہزار سپاہ کا لشکر تیار ہوا.اب اس کے امیر کے تقرر کا سوال تھا.اس لشکر میں بزرگ صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری، مشہور جنگی کمانڈر حضرت خالد بن ولید کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے عم زاد اور مشیر خاص حضرت جعفر بن ابی طالب بھی شامل تھے جو شاہ حبشہ کے دربار میں بھی اسلامی وفد کی شاندار قیادت کر چکے تھے اور خاندانی وجاہت بھی رکھتے تھے.مگر رسول کریم ﷺ جہاں ان کی اعلیٰ روحانی قدروں کو مزید صیقل فرمانا چاہتے تھے وہاں خواص و عوام کو شرف انسانی کا عملی سبق دینے اور کئی حکمتوں کے پیش نظر آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید گو اس لشکر کا سالا راول مقرر کیا.حضرت جعفر شو نائب مقرر کرتے ہوئے فرمایا ” زید بن حارثہ کی شہادت کی صورت میں حضرت جعفر قائد لشکر ہوں گے اور ان کے بعد عبد اللہ بن رواحہ علم امارت سنبھالیں گے.“ حضرت جعفر نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اس فیصلہ پر سر تسلیم خم تو کرنا ہی تھا.صرف اتنا عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے اپنے اوپر زیڈ کے امیر بنائے جانے کا ہر گز خیال نہ تھا.رسول اللہ نے فرمایا ”خدا کے نام کے ساتھ روانہ ہو جاؤ تمہیں کیا معلوم کہ بہتر کیا ہے؟ ( 6 ) لشکر روانہ ہوا.موتہ کے مقام پر ایک لاکھ رومی فوج سے سخت مقابلہ ہوا، جس میں تینوں اسلامی سالار یکے بعد دیگر شہید ہوئے.بالآخر حضرت خالد بن ولید نے قیادت سنبھالی.عین اس روز اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو اس لشکر کے سارے احوال کی اطلاع فرما دی.(7) داد شجاعت اور شہادت رسول کریم ﷺ نے اہل مدینہ کو اکٹھا کرنے کیلئے منادی کروائی.پھر آپ منبر پر چڑھے اور خطبہ ارشاد فرمایا.آپ نے اس کشف کا ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ کو غزوہ موتہ کا نظارہ کرایا گیا

Page 248

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 234 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھا، ارشاد فرمایا ایک بہت تکلیف دہ خبر آئی ہے.کیا میں تمہیں اس غزوہ پر جانے والے تمہارے لشکر کے بارہ میں خبر دوں؟ ان مجاہدین نے میدان جنگ میں دشمن سے خوب مقابلہ کیا.سب سے پہلے امیرلشکر حضرت زید شہید ہو گئے.آپ سب ان کی بخشش کی دعا کرو.‘ اس پر صحابہ نے ان کی بخشش کی دعا کی.آپ نے فرمایا." پھر علم لشکر حضرت جعفر بن ابی طالب نے سنبھالا اور دشمن پر ٹوٹ پڑے اور بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا.میں ان کی عظیم الشان شہادت کا گواہ ہوں.پس ان کی بھی بخشش کی دعا کرو.تمام اصحاب رسول ﷺ نے حضرت جعفر کی بخشش کی بھی دعا کی.رسول کریم ﷺ نے ان امرا لشکر کے نیک انجام کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے جعفر زید اور عبد اللہ کے بارہ میں یہ نظارہ بھی دکھایا گیا کہ وہ ایک موتی کے خیمہ میں ہیں.ان میں سے ہر ایک الگ پلنگ پر ہے.(8) غزوہ موتہ میں اسلامی لشکر اور امرائے لشکر کی شہادتوں سے جو حالات ظاہر ہوئے اس سے ہمارے آقا ومولا کے فیصلہ کی حکمت بھی کھل جاتی ہے.اس جنگ میں پہلی مرتبہ آپ نے بالترتیب تین امراء کا تقرر فرمایا.بعد میں غزوہ موتہ سے واپس لوٹنے والے مجاہدین کی بیان کردہ تفاصیل سے بھی رسول اللہ ﷺ کی ان پیشگی بیان فرمودہ خبروں کی تائید و تصدیق ہوئی.چنانچہ قبیلہ بنی مرہ بن عوف کے ایک شخص عباد کے والد عبداللہ غزوہ موتہ میں شامل تھے.وہ حضرت جعفر کے لمحات شہادت کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں ” خدا کی قسم حضرت جعفر کی بہادری کا وہ نظارہ اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے جب وہ گہری سرخ رنگ کی گھوڑی سے چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کر کے دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور پھر واپس نہیں آئے یہاں تک کہ شہید ہو گئے.جعفر" پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی ٹانگیں اس عزم سے کاٹ دیں کہ اب خود بھی لڑ کر جان قربان کرنی ہے.اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے اے جنت پاکیزہ ! تجھے اور تیرے اتنے قریب آجانے کو خوش آمدید.رومیوں کا عذاب قریب آچکا ہے.جو کافر ہیں اور ہم سے دور کا رشتہ رکھتے ہیں.اب میرا یہی کام ہے کہ ان سے تلوار زنی کر کے مقابلہ کروں.رسول کریم علی اللہ نے حضرت جعفر کی بیوی حضرت اسماء سے فرمایا کہ "جعفر" ابھی

Page 249

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 235 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے ساتھ میرے سامنے سے گزرے ہیں.انہوں نے نے مجھے سلام کے بعد بتایا کہ فلاں دن میرا مشرکوں سے مقابلہ ہوا تھا اور مجھے تہتر کے قریب زخم جسم کے اگلے حصے میں تیر، تلوار اور نیزے کے آئے.جھنڈا میرے دائیں ہاتھ میں تھا وہ کٹ گیا تو میں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا وہ بھی کٹ گیا.اس کے عوض اللہ نے مجھے دو پر عطا کئے ہیں جن سے میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز ہوں.(9) حضرت عبداللہ بن عمرؓ ( جو اس غزوہ میں شریک تھے ) کی روایت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت جعفر نے کس بے جگری سے داد شجاعت دیتے ہوئے عظیم الشان شہادت پائی انکا بیان ہے جنگ کے بعد میدان موتہ میں ہم نے اپنے امیر حضرت جعفر کی نعش تلاش کی تو دیگر شہداء میں ان کو اس حال میں پایا کہ ان کے جسم میں تلواروں اور نیزوں کے ستر سے بھی زائد زخم تھے اور ان میں سے کوئی ایک زخم بھی پشت پر نہ تھا مسلمانوں کے اس بہادر جرنیل نے ہر وار اپنے سینہ پر لیا تھا.(10) یوں اپنی سپاہ کی طرف سے حق امارت ادا کر دکھایا تھا.اس طرح رسول اللہ ﷺ کی وہ بات بھی پوری ہوگئی جو آپ نے انہیں امیر مقرر کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ کیا معلوم کس کی امارت کب اور کہاں مناسب ہے؟ شہید کے خاندان سے حسن سلوک نبی کریم ہے کے حضرت جعفر سے تعلق محبت اور ان کے جذبہ فدائیت کی قدر دانی کا اندازہ ان واقعات سے بخوبی ہوتا ہے جو ان کے اہل وعیال کے ساتھ حضور کی شفقتوں کی صورت میں ظاہر ہوئے.آپ بنفس نفیس حضرت جعفر کے گھر ان کی شہادت کی خبر دینے تشریف لے گئے.حضرت جعفر کی بیوہ اسماء بنت عمیس کا بیان ہے ” جب حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر آئی تو رسول کریم ہمارے گھر تشریف لائے.میں گھر کے کام کاج آٹا وغیرہ گوندھنے کے بعد بچوں کو نہلا دھلا کر فارغ ہوئی ہی تھی.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے بچوں کو میرے پاس لاؤ.میں انہیں حضور کے پاس لے آئی.آپ نے ان کو گلے لگایا اور پیار کیا آپ کی آنکھوں میں آنسو اند آئے.اسماء کہتی ہیں میں نے گھبرا کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر امڈ

Page 250

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 236 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قربان.آپ کس وجہ سے روتے ہیں؟ کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارہ میں کوئی خبر آئی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ آج شہید ہو گئے.اسمامہ کہتی ہیں میں اس اچانک خبر کو سن کر چیخنے لگی.دیگر عورتیں بھی افسوس کے لئے ہمارے گھر اکٹھی ہو گئیں.رسول کریم ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے اور ہدایت فرمائی کہ "جعفر" کے گھر والوں کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا وغیرہ بنا کر بھجوانا کیونکہ اس صدمہ کی وجہ سے انہیں مصروفیت ہو گئی ہے.حضرت شعمی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت اسما کو شہادت جعفر کی اطلاع دے کر ان کے حال پر چھوڑ دیا تا کہ وہ آنسو بہا کرغم غلط کر لیں پھر آپ دوبارہ ان کے ہاں تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اور بچوں کیلئے دعا کی.(11) بلاشبہ چالیس سالہ حضرت جعفر کی جوانی کی ناگہانی موت کا صدمہ بہت بھاری تھا اور ہمارے آقا ومولا پر سب سے گراں تھا کہ جعفری نہیں بہت عزیز تھے.آپ نے کمال صبر و ضبط کا نمونہ دکھاتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا ” جو مقام شہادت ان شہداء کومل چکا ہے اس کی بناء پر خود ان کو بھی آج ہمارے پاس موجود ہونے سے زیادہ اُس مقام بلند کی خوشی حاصل ہے.“ (12) صبر ورضا حضرت جعفر اور دیگر شہداء کی اچانک شہادتوں پر مدینہ میں رنج والم کا جو فوری طبعی و جذباتی رد عمل ہو سکتا تھا اسے ممکنہ حد تک ہی روکا جا سکتا تھا.چنانچہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ شہدائے غزوہ موتہ کی اطلاع ملنے پر خود نبی کریم ہے جس میں تشریف فرما ہوئے.آپ کے چہرے سے حزن و ملال کے آثار صاف ظاہر تھے.ایک شخص نے آکر خاندان جعفر کی خواتین کی آہ و بکا کی شکایت کی.( اب ظاہر ہے زبردستی تو خواتین کو اس سے روکا نہیں جا سکتا تھا وعظ و تلقین ہی کی جاسکتی تھی ) آپ نے اس شخص سے یہی فرمایا کہ واپس جا کر ان عورتوں کو سمجھاؤ کہ آہ و بکا سے باز رہیں.وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس لوٹا اور کہنے لگا میں نے انہیں روکا تو ہے مگر وہ بات نہیں مانتیں.حضور خود سخت صدمہ کی حالت میں تھے.آپ نے پھر فرمایا پھر انہیں جا کر سمجھاؤ.وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر کہنے لگا کہ وہ کسی طرح بھی باز نہیں آتیں.آپ نے بیزاری سے فرمایا تو پھر ان کے منہ میں مٹی ڈالو یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو.حضرت عائشہ فرماتی تھیں میں یہ سارا نظارہ دیکھ کر دل ہی دل میں کہ رہی

Page 251

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 237 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھی کہ یہ بھی عجیب شخص ہے نہ تو عورتوں کو سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی نبی کریم کو صدمہ کی حالت میں بار بار تکلیف دینے سے ہی رکتا ہے.(13) بہر حال نبی کریم ﷺ نے حضرت جعفر کے اہل خانہ کے جذبات کا مناسب خیال رکھا جو آہ و بکا اضطراری حالت میں ان سے ظاہر ہوئی اس پر انہیں کچھ مہلت بھی دی.تیسرے روز آپ پھر حضرت جعفر کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ بس اب آج کے بعد میرے بھائی پر مزید نہیں رونا.‘ پھر ان کے یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام و انصرام اپنے ذمہ لیا اور فرمایا کہ میرے بھائی کے بیٹے میرے پاس لاؤ.حضرت جعفر کے بیٹے عبداللہ کا بیان ہے کہ ہمیں حضور کے پاس اس طرح لایا گیا جیسے مرغی کے چوزے پکڑ کر لائے جاتے ہیں.آپ نے حجام کو بلوایا ہمارے بال وغیرہ کٹوائے اور ہمیں تیار کروایا.بڑی محبت و پیار کا سلوک کیا اور فرمایا طیار کا بیٹامحمد تو ہمارے چچا ابوطالب سے خوب مشابہ ہے اور دوسرا بیٹا اپنے باپ کی طرح شکل اور رنگ ڈھنگ میں مجھ سے مشابہ ہے.پھر میرا ہاتھ پکڑا اور گویا خدا تعالیٰ کے سپر د کرتے ہوئے درد دل سے یہ دعا کی.اے اللہ جعفر کے اہل و عیال کا خود حافظ و ناصر ہو اور میری ( عبداللہ ) تجارت کی برکت کیلئے بھی دعا کی.ہماری والدہ اسماء نے آکر ہماری یتیمی کا ذکر کیا تو آپ نے انہیں تسلی دلاتے ہوئے فرمایا ان بچوں کے فقر وفاقہ کا خوف مت کرنا میں نہ صرف اس دنیا میں ان کا ذمہ دار ہوں بلکہ اگلے جہاں میں بھی ان کا دوست اور ولی ہوں گا.“ (14) نبی کریم ﷺ نے جو اپنے پاکیزہ اخلاق و عادات سے حضرت جعفر کی مشابہت کا ذکر فرمایا ہے اس کی ایک عمدہ مثال حضرت جعفر کی ہمدردی بنی نوع انسان اور خدمت خلق میں نظر آتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ غریب الوطنی اور مسافرت کے آرام و مصائب نے ان کے خلق میں اور بھی چمک پیدا کر دی تھی.حضرت جعفر مساکین و غرباء سے بہت محبت کیا کرتے تھے.وہ نہ صرف ان کی ضروریات بلکہ ان کے جذبات کا بھی خیال رکھتے.ان کی مجالس میں تشریف فرما ہو کر ان کے مسائل سنتے.الغرض ان کا یہ خلق ایسا نمایاں تھا کہ نبی کریم نے ان کی کنیت بیٹوں کی بجائے غرباء کی نسبت سے ابوالمساکین“ رکھ دی یعنی مساکین کا باپ.(15)

Page 252

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 238 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرۃا فتح خیبر کے زمانہ میں یمن سے ہجرت کر کے مدینہ آئے.وہ بھی ان غرباء و مساکین اصحاب صفہ میں شامل تھے جو دین کی تعلیم تربیت کی غرض سے مسجد نبوی سے گویا چھٹے رہتے تھے.حضرت جعفر کو ان مسکینوں کا کتنا خیال ہوتا تھا اس کا اندازہ حضرت ابو ہریرہ کی بپتا سے بآسانی کیا جاسکتا ہے.وہ بیان کرتے ہیں ان دنوں میں بھوکا پیاسا در رسول ﷺ سے چمٹار ہتا تھا اور بھوک اور فاقہ کی شدت سے نڈھال ہوتا.بسا اوقات خالی پیٹ ہونے کے باعث کنکریوں کے اوپر اوندھے منہ لیٹ کر اس تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرتا تھا گا ہے کسی صحابی رسول سے کسی خاص آیت کے بارہ میں استفسار کرتا ( جوغر با کوکھانا وغیرہ کھلانے کے مضمون پر مشتمل ہوتی ) حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی.مگر میری غرض احسن رنگ میں توجہ دلانا ہوتی تھی کہ شاید اس طرح وہ مجھے کھانا کھلا دیں.میں نے اس زمانہ میں دیکھا کہ مسکینوں کے حق میں سب لوگوں سے بہتر اگر کوئی شخص تھا تو وہ حضرت جعفر تھے.وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے.گھر میں جو موجود ہوتا ہمیں کھلاتے تھے.بعض اوقات تو وہ چمڑے کا مشکیزہ نما برتن جس میں شہد یا گھی ہوتا تھا اٹھا کر لے آتے اور ہم بھوک کے مارے اسے چیر پھاڑ کر اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی چاٹ لیتے تھے.“ (16) غالباً یہی وجہ تھی کہ ابوھریرہ بر ملا اپنی اس رائے کا اظہار کیا کرتے تھے کہ رسول کریم کے بعد حضرت جعفر طیار سے بہتر اور افضل انسان ہم نے کوئی نہیں دیکھا.‘ (17) شاعر در باد نبوی حضرت حسان بن ثابت نے حضرت جعفر کی شہادت کے موقع پر کیا خوب مرثیہ کہا:.وَكُنَّا نَرَىٰ فِى جَعْفَرٍ مِنْ مُحَمَّدٍ وَفَاءً وَامَرًا صَارَ مَاحَيثُ يُؤمَرُ فَلاَ زَالَ فِى الْإِسلامِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ دَعَائِمُ عِزّ لَا يَزُولُ ومُفَخَرُ یعنی ہم حضرت جعفر طیار کے نمونے میں وفا کا عظیم الشان نمونہ دیکھتے ہیں کہ جہاں جو فرمان ملا انہوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور آل ہاشم تو ہمیشہ ہی عزت کے ستون بن کر قابل فخر اسلامی خدمات بجا

Page 253

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لاتے رہے ہیں.(18) آمین.239 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگ اسلاف کی اعلیٰ صفات و اقدار زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.-1 _2 3 4 حواله جات الا کمال مع مشکوۃ: صفحہ: 1589 ترمذی ابواب المناقب مسند احمد جلد 5 صفحہ 204 ابن سعد جلد 4 صفحہ 123 ، استیعاب جلدص 313 _5 _6 _7 _8 _10 -11 -12 -13 -14 -15 _16 -17 -18 مسند احمد جلد 1 صفحہ 148 مسند احمد جلد 5 صفحہ 229 بخاری کتاب المغازی مسند احمد جلد 5 صفحہ 229 ، استیعاب جلد 1 ص314 ابوداؤ د کتاب الجہاد، استیعاب جلد 1 ص 314 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 155 بخاری کتاب المغازی مسند احمد جلد 6 صفحہ 372 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 156 بخاری کتاب المغازی بخاری کتاب المغازی مسند احمد جلد 1 ص 204 اصا به جز 2 ص 218 بخاری کتاب المناقب باب جعفر ترمذی ابواب المناقب الاصابہ ج 2 ص 249

Page 254

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حلیه و خاندان 240 حضرت مصعب بن عمیر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ در میانه قد حسین نقش، گورا رنگ، روشن چهره، در از زلفیں، چہرہ سے ملاحت اور ملائمت عیاں.یہ نو جوان رعنا خاندان قریش کے خوبرو چشم و چراغ مصعب بن عمیرہ ہیں.نسب تیسری پشت میں نبی کریم ﷺ سے جاملتا ہے.والدہ جناس بنت مالک مکہ کی مالدارخاتون تھیں.انہوں نے مصعب کی پرورش بہت ناز و نعمت سے کی.آپ بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہنتے.مکہ کی اعلیٰ درجہ کی خوشبو استعمال کرتے اور حضرم کے علاقہ کا بنا ہوا مشہور جوتا منگوا کر پہنتے تھے.(1) آنحضرت عله مصعب بن عمیر کو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مصعب سے زیادہ حسین و جمیل اور ناز و نعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا.(2) اسلام میں سبقت لے جانے کے لحاظ سے آپ کا شمار صاحب فضلیت صحابہ نہیں ہوتا ہے.مدینہ میں پہلی بار اسلام کا پیغام پہنچانے اور وہاں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ انصار مدینہ کو منظم کرنے کی تاریخی سعادت آپ کے حصہ میں آئی.حبشہ و مدینہ دو ہجرتوں کی توفیق پائی.بدر واحد میں اسلام کے علم بردار ہونے کا اعزاز پایا.(3) قبول اسلام اور آزمائش آغاز اسلام میں جب آنحضرت ﷺ دارارقم میں تھے.حضرت مصعب بن عمیر نے عین عالم جوانی میں بعمر 27 سال اسلام قبول کیا.مگر ابتداء اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشہ سے اسے مخفی رکھا.(4) چھپ چھپا کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے.ایک دفعہ عثمان بن طلحه ( کلید بردار کعبہ) نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں کو خبر کر دی.والدین نے ان کو قید کر دیا.بڑی مشکل سے بھاگ کر قید سے چھٹکارا حاصل کیا اور ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے.کچھ عرصہ بعد جب بعض مہاجرین حبشہ سے مکے میں بہتر حالات کی افواہیں سن کر واپس آئے تو ان میں مصعب بن عمیر بھی تھے.اگر چہ غریب الوطنی ، سفر کی صعوبتوں اور مصائب و آلام نے ناز و نعم کے

Page 255

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 241 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پروردہ اس حسین و جمیل شہزادے کی رعنائیاں چھین لی تھیں.پھر بھی صبر واستقامت کے پیکر مصعب اسلام پر پختگی سے قائم تھے.ماں نے لخت جگر کی حالت زار دیکھی تو ما متا تڑپ اٹھی.اس نے آئندہ سے مخالفت ترک کر دی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا.(5) حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ مصعب بن عمیر کو میں نے آسائش کے زمانہ میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی، راہ مولیٰ میں آپ نے اتنے سارے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا آپ کے جسم سے جلد اس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی اور نی جلد آتی ہے.(6) ایک دن ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی نے دیکھا مصعب بن عمیر اس حال زار میں آپ کی مجلس میں آئے کہ پیوند شدہ کپڑوں میں ٹاکیاں بھی چمڑے کی لگی ہیں.صحابہ نے دیکھا تو سر جھکا لئے کہ وہ بھی مصعب کی کوئی مدد کرنے سے معذور تھے.مصعب نے آکر سلام کیا.آنحضرت نے دلی محبت سے وعلیکم السلام کہا اور اس امیر کبیر نو جوان کی آسائش کا زمانہ یاد کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.پھر مصعب کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا الحمد للہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو.میں نے مصعب کو اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب شہر مکہ میں ان سے بڑھ کر صاحب ثروت و نعمت کوئی نہ تھا.یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی اسے کھانے پینے کی ہر اعلیٰ نعمت وافر میسر تھی.مگر خدا اور اس کے رسول کی محبت و نصرت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا.پھر خدا نے اس کے چہرہ کو نور عطا کیا ہے.‘(7) پھر حضور نے صحابہ سے فرمایا ” تمہارا کیا حال ہو گا جب صبح و شام تمہیں نئی پوشاک عطا ہوگی اور تمہارے سامنے ایک کے بعد کھانے کا دوسرا طشت رکھا جائیگا اور گھروں میں پردے لٹکے ہوں گے.صحابہ نے عرض کیا حضور وہ کیا ہی خوش وقت ہو گا.ہم عبادت کے لئے تو فارغ ہوں گے.حضور نے فرمایا ”نہیں تم آج جس حال پر ہو وہ زیادہ بہتر ہے اور زیادہ اجر وثواب کا موجب ہے.“ (8) مدینہ میں کامیاب دعوت الی اللہ 11 نبوی کے موسم حج میں رسول خدا ﷺ کا تعارف دعوت الی اللہ کے دوران مدینہ کے قبائل اوس وخزرج سے ہوا اور عقبہ مقام پر ان میں سے بارہ افراد نے آپ کی بیعت بھی کی جو بیعت اولیٰ

Page 256

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 242 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہے.جب یہ لوگ مدینہ واپس جانے لگے تو ان کی تعلیم و تربیت اور مدینہ میں دعوت اسلام کی مہم جاری کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ نے مصعب بن عمیر کو ساتھ بھجوایا.(9) ابن سعد کے مطابق اہل مدینہ کے نو مسلموں کے مطالبہ پر دینی تعلیم کے لئے حضرت مصعب کو بعد میں بھجوایا گیا.بہر حال حضرت مصعب وہاں پہنچ کر مدینہ کے سردا را سعد بن زرارہ کے گھر قیام کیا.مدینہ جاتے ہی تعلیم القرآن کا سلسلہ شروع کیا اور مقری یعنی استاد کے نام سے مشہور ہوئے.آپ نمازوں میں امامت کے فرائض بھی انجام دینے لگے.(10) مدینہ میں با قاعدہ نماز جمعہ جاری کرنے کی تاریخی سعادت بھی حضرت مصعب کے حصے میں آئی.آپ نے نبی کریم کی خدمت میں لکھا کہ اگر حضور ﷺ اجازت عطا فرما ئیں تو مدینہ میں نماز جمعہ شروع کر دی جائے.حضور ﷺ نے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس روز یہودی اپنے سبت کا اعلان کرتے ہیں.اس روز سورج کے ڈھلنے کے بعد دو رکعت نماز ادا کر کے خطبہ جمعہ دیا کرو.حضرت مصعب بن عمیر نے مدینہ میں نماز جمعہ کا آغاز کر دیا.حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر جو پہلا جمعہ پڑھا گیا.اس میں مدینہ کے بارہ افراد شامل ہوئے.اسلام کے اس پہلے جمعہ کے موقعہ پر مسلمانوں نے خوشی میں ایک بکری ذبح کی.اور یوں جمعہ میں شامل اپنے بھائیوں کی ضیافت کا بھی اہتمام کیا.(11) حضرت مصعب نے اسلام کے پہلے مبلغ کے طور پر بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا.آپ نے دعوت الی اللہ کے جذبہ سے سرشار ہو کر کمال محنت، اخلاص اور حکمت و محبت کے ساتھ مدینہ کے اجنبی لوگوں سے رابطہ اور اثر و رسوخ پیدا کر کے انہیں اسلام سے روشناس کرایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا بیج بو دیا.ایک کامیاب داعی الی اللہ کے طور پر ان کا کردار یقیناً آج بھی ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہے.آپ نے بالکل اجنبی شہر مدینہ میں تبلیغ کا آغاز اس طرح کیا کہ اپنے میزبان حضرت اسعد بن زرارہ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلوں میں جانے لگے.وہاں وہ مسلمانوں اور ان کے عزیزوں کے ساتھ مجلس کرتے انہیں تعلیم دین دیتے اور وہاں آنے والوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے.مگر جب لوگوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تو ایک محلہ کے سردار سعد بن معاد

Page 257

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 243 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر نے ان دونوں داعیان الی اللہ کو اس نئے دین سے باز رکھنے کا فیصلہ کیا.جس کے بعد اسید بن حضیر مصعب کی مجلس میں نیزہ تھامے داخل ہوئے.اسعد بن زرارہ نے یہ دیکھتے ہی مصعب سے سرگوشی کی کہ یہ اپنی قوم کا سردار آتا ہے اسے آج خوب تبلیغ کرنا.مصعب بولے کہ اگر یہ چند لمحے بیٹھ کر بات سننے پر آمادہ ہو جائے تو میں ضرور اس سے بات کروں گا.ادھر ا سید بن حضیر سخت کلامی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا کہ جان کی امان چاہتے ہو تو آئندہ سے ہمارے کمزوروں کو آکر بے وقوف بنانے کا یہ طریقہ واردات ختم کرو.حضرت مصعب نے نہایت محبت سے کہا کیا آپ ذرا بیٹھ کر ہماری بات سنیں گے؟ اگر تو آپ کو بات بھلی لگے تو مان لیجئے اور بری لگے تو بے شک اس سے گریز کریں.اُسید منصف مزاج آدمی تھے، بولے بات تو تمہاری درست ہے.اور پھر نیزہ وہیں گاڑ کر بیٹھ گئے.حضرت مصعب نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور ان تک پیغام حق پہنچایا.قران کی سچی تعلیم سن کر اُسید بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ کیسا خوبصورت کلام ہے! اچھا یہ بتاؤ اس دین میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے؟ اسعد اور مصعب نے انہیں بتایا کہ نہا دھو کر اور صاف لباس پہن کر حق کی گواہی دو پھر نماز پڑھو.انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر اُسید خود ہی کہنے لگے کہ میرا ایک اور بھی ساتھی ہے.یعنی سعد بن معاذ ، اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اس کی ساری قوم سے ایک شخص بھی قبول اسلام سے پیچھے نہیں رہے گا.اور میں ابھی اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں.اور انہوں نے سعد کو نہایت حکمت کے ساتھ مصعب کے پاس بھیجا.حضرت مصعب بن عمیر نے ان کو بھی نہایت محبت اور شیریں گفتگو سے رام کر لیا.انہیں قرآن سنا کر اسلام کا پیغام پہنچایا.چنانچہ حضرت سعد نے بھی اسلام قبول کر لیا.بلاشبہ یہ دن مدینہ میں اسلام کی فتح کے بنیا در رکھنے والا دن تھا.جس روز ایسے عظیم الشان با اثر سرداروں نے اسلام قبول کیا جنہوں نے اپنی قوم کو یہ کہ دیا میرا کلام کرنا تم سے حرام ہے جب تک مسلمان نہ ہو جاؤ.اس طرح عبد الاشہل کا سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا.(12) اور یوں مدینہ کے گھرانوں میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا.حضرت مصعب نے ایک سال تک مدینہ میں اشاعت اسلام کے لئے خوب سرگرمی سے کام کیا اور دعوت الی اللہ کے شیریں پھل آپ کو عطا ہوئے چنانچہ اگلے سال سن ۱۲ نبوی میں حج کے موقع

Page 258

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 244 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پر آپ مدینہ سے ۷۵ انصار کا وفد لے کر مکہ روانہ ہوئے.حضرت اسعد بن زرارہ بھی ساتھ تھے.اس وفد کی رسول اللہ اللہ سے ملاقات کا انتظام بھی عقبہ مقام پر کیا گیا.جہاں اس وفد نے آپ کی بیعت کی جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے.محبت رسول علی اور استقامت اس سفر میں حضرت مصعب کی محبت رسول کا ایک عجب نمونہ دیکھنے میں آیا.آپ مکہ پہنچتے ہی اپنی والدہ کے گھر ( جو مخالفت چھوڑ چکی تھیں) جانے کی بجائے سیدھے نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے.حضور ﷺ کی خدمت میں وہاں کے حالات عرض کئے اور مدینہ میں سرعت کے ساتھ اسلام پھیلنے کی تفصیلی مساعی کی رپورٹ دی.حضور ان کی خوشکن مساعی کی تفاصیل سن کر بہت خوش ہوئے.ادھر مصعب کی والدہ کو پتہ چلا کہ مصعب مکہ آئے ہیں اور پہلے انہیں آکر ملنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کے پاس چلے گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو پیغام بھیجا کہ او بے وفا ! تو میرے شہر میں اکر پہلے مجھے نہیں ملا.عاشق رسول ﷺ حضرت مصعب کا جواب بھی کیسا خوبصورت تھا کہ اے میری ماں ! میں مکہ میں نبی کریم ﷺ سے پہلے کسی کو ملنا گوارا نہیں کر سکتا.(13) حضور ﷺ سے ملاقات کے بعد والدہ کے پاس حاضر ہوئے.انہوں نے پھر مصعب کو صابی مذہب کا طعنہ دے کر راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کی.حضرت مصعب نے سمجھایا کہ میں خدا اور رسول کے دین پر ہوں جسے خدا نے اپنے اور اپنے رسول کیلئے پسند کیا ہے.والدہ نے محبت و پیار کے واسطے دیکر کہا کہ تمھیں کیا معلوم کہ میں نے تمہاری جدائی میں کتنے دکھ اٹھائے.جب تم حبشہ گئے تو ایک دفعہ اس وقت میں نے تمہاری خاطر بین کئے اور دوسری مرتبہ تمہارے بیثرب جانے پر ماتم کیا مگر تم ذرا احسان شناسی سے کام نہیں لیتے.مصعب نے کہا کہ ماں ! میں اپنے دین کو تو کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا.جتنا مرضی مجھے آزما لو.والدہ نے قید و بند کی دھمکی دی تو اب کے مصعب نے بھی ذراسختی سے جواب دیا کہ وہ کسی دھمکی میں نہیں آئیں گے، مجبور ہو کر والدہ رونے لگیں اور کہا جاؤ بچے تمہاری مرضی ! مصعب کا دل بھی پسیج گیا انہوں نے بہت پیار سے سمجھایا کہ اے میری ماں! میں آپ کا سچا ہمدرد ہوں اور مجھے آپ سے بے حد محبت ہے.میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ

Page 259

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 245 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آپ اسلام قبول کر لیں میری یہ آرزو پوری کر دیں اور خدا کے ایک ہونے اور محمد رسول اللہ علیہ اس کا رسول ہونے کی گواہی دے دیں.“ مصعب کی ماں نے کہا ” ستاروں کی قسم میں تمہارے دین میں ہرگز داخل نہ ہوگی.کیا آباؤ اجداد کا دین چھوڑ دوں؟ اور سب لوگ مجھے پاگل کہیں؟ پس جاؤ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑا اور میں اپنے دین پر قائم ہوں.(14) آہ ! مصعب کے لئے کتنی کڑی تھی یہ آزمائش مگر انہوں نے بھی خوب استقامت دکھائی آخر چند ماہ حضور علیہ کی صحبت میں گزارنے کے بعد حضرت مصعب 12 ربیع الاول کو مدینہ واپس لوٹے.مدینہ پہنچ کر آپ پھر اپنی دینی اور تبلیغی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.آپ ہی ہیں جنہوں نے مدینہ کو دارالہجرت کے طور پر رسول خدا کے لئے تیار کیا.یہاں تک کہ اگلے سال نبی کریم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے.تو مصعب کی دلی تمنائیں پوری ہوئیں.بہادری اور شجاعت دشمنان اسلام نے مدینہ میں بھی مسلمانوں کو چین کا سانس نہ لینے دیا اور جلد ہی بدر کا معرکہ پیش آیا.اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرہ کو یہ شاندار اور اعلی اعزاز بخشا کہ مہاجرین کا بڑا جھنڈا انہیں کو عطا فرمایا.(15) غزوہ احد میں بھی نہ صرف صاحب لواء ( علمبر دار اسلام ) ہو نیکی سعادت ان کے حصے میں آئی بلکہ نہایت دلیری اور بہادری سے جان کی بازی لگا کر انہوں نے اسلامی جھنڈے اور نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی شاندار مثال قائم کر دکھائی جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی.جب احد میں کفار مکہ کے دوبارہ غیر متوقع حملہ کے دوران مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا تو اسلامی علمبردار مصعب بن عمیر دشمن کے تابڑ توڑ حملوں کے مقابل پر میدان جنگ میں اسلامی علم تھامے ہوئے ڈٹ گئے.ابن اسحاق کے بیان کے مطابق وہ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کے آگے پیچھے لڑ رہے تھے کہ عبداللہ بن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے.ابن قمیہ کے حملہ سے آنحضور یہ بھی گر گئے تو وہ سمجھا کہ آنحضرت علی کو شہید کر دیا گیا ہے اور اس کا اعلان کر کے اس نے یہ خبر میدان احد میں مشہور کر دی.(16)

Page 260

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم علم اسلام کی حفاظت 246 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ابن سعد نے مصعب کی شہادت کی مزید تفصیل اس طرح دی ہے کہ عبد اللہ بن قمیہ نے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر آپ کے بازو پر (جس سے آپ نے جھنڈا تھام رکھا تھا) ایساوار کیا کہ اسے کاٹ کر رکھ دیا.مصعب نے بازو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا.ابن قمیہ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو اس شیر خدا نے دونوں ٹنڈے بازوؤں سے اسلامی پرچم کو اپنے سینے سے لگالیا.اور اسے سرنگوں نہیں ہونے دیا اور بآواز بلند اس آیت کی تلاوت کرنے لگے وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ طَافَائِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنقَلِبُ عَلَى عَقَبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ط ( آل عمران 145) ( ترجمہ ) محمد ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو گئے ہیں.اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو تم میں سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.آنحضرت ﷺ کی شہادت کی خبر مشہور ہو جانے کے بعد جب مسلمان سراسیمگی کے عالم میں تھے اور مارے غم کے انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا.بعض گھبرا کر اور بد دل ہو کر پیچھے بھی ہے.اس وقت مصعب کا یہ آیت پڑھتے ہوئے جان قربان کر دینا آپ کی کمال بہادری اور شجاعت ظاہر کرتا ہے.دوسرے لفظوں میں آپ اپنے آخری سانسوں میں بھی انس بن نضر مجیسے صحابہ کی طرح مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اگر نبی کریم شہید بھی ہو گئے ہیں تو محض گھبرانے یا پیچھے ہٹنے سے کیا حاصل؟ آگے بڑھو اور اسی راہ میں اپنی جانیں نچھاور کر دو جس راہ میں ہمارا آقا اپنی جان قربان کر گیا.خود مصعب نے اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اس پیغام کو عملاً بھی سچا کر دکھایا.مصعب کے دونوں ہاتھ قلم دیکھ کر اور انہیں مقابلہ سے عاجز پا کر عبداللہ بن قمیہ گھوڑے سے اتر آیا.تیسری مرتبہ اپنے نیزہ کے ساتھ آپ پر پوری قوت سے حملہ آور ہوا.نیزہ آپ کے بدن کے

Page 261

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 247 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پار ہو کر ٹوٹ گیا ساتھ ہی مصعب بھی گر پڑے اسلامی جھنڈا گر نے کو تھا کہ لپک کر آپ کے بھائی ابوالروم بن عمیر اور سویط بن سعد نے پکڑ لیا اور یوں حضرت مصعب نے میدان احد میں آخری دم تک اسلامی جھنڈا کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دی.(17) ابن اسحاق میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت پر نبی کریم ﷺ نے جھنڈا حضرت علی کو دیا.بوقت شہادت حضرت مصعب کی عمر چالیس سال تھی.(18) وفاء عهد اسلامی جھنڈے کا حق ادا کر نیوالا اور اپنے مسلمان ساتھیوں کو استقامت اور ثبات قدم کی آخری وصیت کر نیوالا یہ مجاہد اپنی شہادت کے وقت بھی پشت کے بل نہیں بلکہ چہرہ کے بل گرا.اور رسول اللہ جب ان کی نعش کے پاس پہنچے تو وہ چہرہ کے بل پڑے تھے.گویا دم واپسیں بھی اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی اور سجدہ ریز حضور نے ان کی نعش کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی:.مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالُ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب 24 ان مومنوں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کر دیا ( یعنی لڑتے لڑتے مارے گئے ) اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ا بھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل انہوں نے نہیں آنے دیا.اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے اس عاشق صادق کو مخاطب کر کے فرمایا اے مصعب ! خدا کا رسول تم پر گواہ ہے ( کہ واقعی تم اس آیت کے مصداق اور ان مردان وفا میں سے ہو جنہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے ) اور روز قیامت تم دوسروں پر گواہ بنائے جاؤ گے“.پھر آپ نے اپنے علمبر دار حضرت مصعب کو اس آخری ملاقات میں ایک اور اعزاز بھی بخشا.صحا ب پکو مخاطب کر کے فرمایا کہ:.”اے میرے صحابہ ! مصعب کی نعش کے پاس آکر اس کی زیارت کر لو اور اس پر سلام بھیجو.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا

Page 262

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 248 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ یہ اس کے سلام کا جواب دیں گئے.(19) اے مصعب بن عمیر ! تجھ پر سلام اے مبلغ اسلام اور اسلامی جھنڈے کے وفا شعار محافظ تجھ پر ہزاروں سلام.شہید احد، ماں باپ کے ناز و نعم کے پالے مصعب کا اس عالم بے ثبات سے رخصتی کا منظر بھی دیدنی تھا.مکہ میں بہترین لباس زیب تن کر نیوالے مصعب کو آخری دم پورا کفن بھی میسر نہیں آیا.فتوحات کے بعد جب مسلمانوں کو مالی کشائش اور فراخی عطا ہوئی صحابہ رسول مصعب کی قربانیوں اور اپنی اس بے چارگی کا عالم یاد کر کے اکثر رو پڑتے تھے کہ ہم اپنے بھائی مصعب کو پورا کفن بھی مہیا نہ کر سکے تھے.چنانچہ حضرت خباب کہا کرتے تھے کہ ہم نے نبی کریم کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر ہجرت کی اور ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا.مگر ہم میں سے بعض فوت ہو گئے اور انہوں نے اس اجر سے دنیا میں کوئی حصہ نہیں پایا.ان میں ایک مصعب بن عمیر بھی تھے جو احد کے دن شہید ہوئے اور ہمیں ان کے کفن کے لئے سوائے ایک چادر کے کچھ میسر نہ آیا.اور چادر بھی اتنی مختصر کہ اس سے مصعب کا سر ڈھانکتے تو پاؤں نظر آنے لگتے اور پاؤں ڈھا سکتے تو چہرہ ننگا رہتا.چنانچہ نبی کریم نے فرمایا کہ سرڈھانک دو اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال کر انہیں دفن کیا.(20) حضرت عبدالرحمن بن عوف کے سامنے ایک دفعہ جب روزہ کی افطاری کے وقت اعلی قسم کا کھانا پیش کیا گیا.(شاید انہیں مسلمانوں کی کم مائیگی کا وہی وقت یاد آ گیا ).تو کہنے لگے مصعب بن عمیر شہید ہوئے وہ مجھ سے بدرجہا بہتر تھے.مگر انکے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر آئی.مگر ہمارے لئے دنیا اتنی فراخ کر دی گئی کہ ڈر لگتا ہے کہیں ہماری نیکیوں کے بدلے اسی دنیا میں ہی نہ دے دیئے جائیں.پھر آپ رونے لگ پڑے اور کھانا نہیں کھایا.(21) جب میں ان پوشاکوں اور خلعتوں کا سوچتا ہوں جو اس شہید احد کو رب العزت کے دربار میں عطا ہوئی ہونگی تو بے اختیار دل سے پھر یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ آفرین صد آفرین.اے اسلام کے عظیم الشان بطل جلیل مصعب بن عمیر تجھ پر آفرین! کہ تو نے خصوصاً نو جوانوں کے لئے اپنے خوبصورت نمونے سے، ماں باپ کی قربانی، مال و دولت کی قربانی ، سادگی، وفا ایثار اور کامیاب دعوت الی اللہ کے

Page 263

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاندار سبق رقم کر کے دکھا دئیے.249 حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بنا کر دند خوش رسم بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 368 حواله جات -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 -17 ابن سعد جلد 3 صفحہ 116 اسدالغابہ جلد 4 صفحہ 368 الاصابه جز 6 صفحہ 101 ابن سعد جلد 3 صفحہ 116 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 370 ابن سعد جلد 3 صفحه 117 ومنتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 267 اصابه جلد 3 صفحہ 315 ابن ہشام جلد 2 صفحہ 187-186 مع الروض الانف ابن سعد جلد 3 صفحہ 118 ، ابن ہشام جلد 1 صفحہ 185، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 370 ابن سعد جلد 3 صفحہ 118 ابن ہشام جلد 3 صفحہ 153 ابن سعد جلد 3 صفحہ 120 ابن سعد جلد 3 صفحہ 120 ابن سعد جلد 3 صفحہ 120 ابن ہشام جلد 3 صفحہ 153 ابن سعد جلد 3 صفحہ 120 18 - ابن ہشام مع الروض الانف جلد 3 صفحہ 153 ، اکمال فی اسماء الرجال ذکر مصعب بن عمیر -19 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 370 20 بخاری کتاب الجنائز و کتاب المغازی -21 بخاری کتاب الجنائز

Page 264

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 250 حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ حضرت ابوسلمہ بن عبد الاسد آپ کا تعلق قبیلہ بنی مخزوم سے تھا اصل نام عبد اللہ بن عبدالاسد اور کنیت ابوسلمہ تھی.والدہ برہ بنت عبد المطلب آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں.اس لحاظ سے حضرت ابو سلمہ آنحضرت علیہ کے پھوپھی زاد تھے.آنحضرت علی ، حضرت حمزہ اور ابو سلمہ نے ابولہب کی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا تھا اسلئے ابوسلمہ حضور ﷺ کے رضاعی بھائی بھی تھے اور قریباً ہم عمر تھے.آپ کی بیوی ھند بنت ابی امیہ قبیلہ بنی مخزوم میں سے تھیں اور ام سلمہ کے نام سے معروف تھیں جواحد میں حضرت ابو سلمہ کی شہادت کے بعد آنحضرت ﷺ کے عقد میں آئیں اور ام المومنین کا مرتبہ پایا.(1) قبول اسلام اور صبر و استقامت حضرت ابوسلمہ نے بہت ابتدائی زمانے میں گیارہویں نمبر پر اسلام قبول کیا تھا.اس وقت آنحضرت عے بھی دارارقم میں نہیں گئے تھے اور وہاں تبلیغ کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا.قبول اسلام کے بعد مکہ میں جس طرح دیگر تمام صحابہ کو دکھوں اور اذیتوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا کچھ یہی حال حضرت ابو سلمہ کا ہوا.آپ نے اپنے ماموں حضرت ابو طالب کی پناہ لی.قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ حضرت ابوطالب کے پاس آئے کہ آپ نے ان کو کیوں پناہ دی ؟ جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو ابولہب نے ( باوجود یکہ ساری عمر اسلام کی مخالفت میں ہی گذاری ) پہلی دفعہ کسی مسلمان کی طرف داری کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابو طالب ان کو پناہ دیتا ہے تو اسے کچھ نہ کہو ورنہ میں بھی اس کا ساتھ دوں گا.(2) چنانچہ ابوسلمہ ابو طالب کی پناہ میں ایک عرصے تک رہے.اس کے بعد جب ہجرت حبشہ کا موقعہ آیا تو ابوسلمہ ابتدائی مہاجرین میں شامل تھے.اپنی بیوی حضرت ام سلمہ کو ساتھ لے کر انہوں نے حبشہ ہجرت فرمائی.وہاں سے واپسی ہوئی تو آنحضرت ﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے ہی ابوسلمہ نے مدینہ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی.آپ اولین ہجرت کرنے والوں میں

Page 265

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 251 حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ سے تھے ( 3 ) ان کی ہجرت کا واقعہ نہایت دردناک ہے.داستان ہجرت حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ مکہ میں جب اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تو ابوسلمہ نے اور میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا.اپنی سواری کا اونٹ تیار کیا ، ابوسلمہ نے مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو جو میری گود میں تھا سوار کروایا اور یوں یہ چھوٹا سا قافلہ ہجرت کیلئے روانہ ہوا.جب بنو مغیرہ کے قبیلے نے دیکھا کہ یہ لوگ ہجرت کر کے مدینہ جاتے ہیں تو وہ اور بنومخزوم کے لوگ کہنے لگے کہ اے ابو سلمہ اپنی جان کے تو تم خود مالک ہو لیکن ہمارے قبیلے کی عورت ام سلمہ کو تم کیوں کر اپنے ساتھ لے کر جاتے ہو کہ یہ دنیا کا سفر کر کے خاک چھانتی پھرے اور ذلیل ورسوا ہو ہم تو اپنی اس بیٹی کو تمہارے ساتھ جانے نہ دیں گے.خود جاتے ہو تو جاؤ.“ اس طرح ام سلمہ کے گھر والوں نے انہیں ابو سلمہ سے الگ کر لیا اور ابوسلمہ مدینہ روانہ ہو گئے.ام سلمہ کہتی ہیں ان کے پیچھے میرا برا حال ہوا ابوسلمہ کے قبیلہ کے لوگ آگئے.انہوں نے کہا کہ مسلمہ ہمارا بیٹا اور ہمارا خون ہے.یہ ہمارے حوالے کر دو.الغرض اس خاندان کے بکھرنے کی عجیب صورت پیدا ہوئی.ابوسلمہ پہلے ہی مدینہ جاچکے تھے ، ام سلمہ کو والدین اپنے ہاں لے گئے اور ان کے معصوم کم سن بچے سلمہ کو ددھیال والے چھین کر لے گئے.حضرت ابراہیم ، حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی قربانی کی یاد ایک دفعہ پھر تازہ ہوگئی.حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ " عجیب پریشانی کی کیفیت میرے لئے پیدا ہوئی.میرے بیٹے اور خاوند کے درمیان ایسی جدائی پڑی کہ میں تنہا سخت بے چین ہو کر ہر صبح با ہر میدان میں نکل جایا کرتی اور وہاں بے اختیار رویا کرتی تھی.ایک سال تک میرا یہ حال رہا جسے دیکھ کر لوگوں کو بھی ترس اور رحم آنے لگا یہاں تک کہ ایک سال کے بعد میرے ایک چچا زاد بھائی نے میرے قبیلے کے لوگوں سے کہا خدا کے بندو! تم کیوں اس عاجز مسکین عورت کو آزاد نہیں کرتے ، تب انہیں کچھ رحم آیا انہوں نے کہا اگر تم چاہتی ہو تو اپنے خاوند کے پاس مدینہ چلی جاؤ.اسی دوران ددھیال کو بھی کچھ احساس ہوا اور انہوں نے میرا بیٹا بھی میرے حوالے کر دیا اور میں مدینے جانے کیلئے تیار ہوگئی مگر میں تنہا تھی میرے ساتھ مدینہ جانے والا کوئی بھی نہ تھا، تنہا عورت

Page 266

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 252 حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ معصوم بچے کے ساتھ تین سو میل کا سفر کر کے مدینہ کیسے جاتی ؟ لیکن اللہ نے ایک عجب عزم حوصلہ اور ہمت حضرت ام سلمہ کو عطا کیا وہ فرماتی ہیں کہ میں ہجرت کا عزم کر کے سواری پر بیٹھی اور مکے سے کوئی دو میل کے فاصلے پر تنعیم پہنچی ہونگی ، کہ عثمان بن ابی طلحہ کلید بردار کعبہ سے سامنا ہوا جو نہایت شریف النفس انسان تھے.کہنے لگے کہ بنت ابو امیہ کہاں کا قصد ہے؟ میں نے کہا اپنے شوہر کے پاس مدینے جاتی ہوں اس نے کہا کہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے میں نے کہا ” تنہا ہوں یا میرا یہ کم سن بچہ ہے وہ کہنے لگے خدا کی قسم ! تمہاری جیسی عورت کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا.تین چاردن بیابان کا سفر ہے.پھر انہوں نے میرے اونٹ کی مہار تھام لی اور میرے ساتھ مدینہ روانہ ہو گئے.خدا کی قسم میں نے عربوں میں کوئی شریف النفس عثمان بن ابی طلحہ جیسا نہیں پایا.وہ میرے اونٹ کی مہار پکڑ کر روانہ ہوئے جب پہلے پڑاؤ پر پہنچے جہاں رات قیام کرنا تھا تو انہوں نے اونٹ بٹھایا اور پھر خود ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوئے میں نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا اور وہ ذرا فاصلے پر دوسرے درخت کے نیچے آرام کرنے کیلئے چلے گئے.پھر صبح ہوئی تو وہ آئے ، اونٹ کو تیار کیا.میں سوار ہوگئی انہوں نے اونٹ کی مہار تھامی اور پھر اس قافلے کو لے کر روانہ ہوئے.اس طرح تین دن رات میں انہوں نے مجھے بنی عمرو بن عوف کی بہستی قباء میں پہنچایا.جب دور سے آبادی کے آثار نظر آئے تو کہنے لگے تمہارا شوہر اسی بستی میں رہتا ہے.یہ کہہ کر وہیں سے واپس مکہ روانہ ہو گئے.حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں کہ اس وقت عثمان بن ابی طلحہ بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر میں نے ان سے زیادہ معزز شریف النفس انسان نہیں دیکھا (4) حضرت ام سلمہ فرمایا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم ! جتنی تکلیفیں اور اذیتیں اسلام قبول کرنے کے بعد ابوسلمہ کے خاندان نے اٹھائی ہیں.خدا تعالیٰ کی راہ میں میں نے ایسا کوئی اور خاندان نہیں دیکھا کہ جس نے ایک سال تک ایسی اذیتیں اور دکھ برداشت کئے ہوں کہ میاں بیوی اور بچے کو آپس میں جدا کر کے ایک سخت اذیت میں مبتلا رکھا گیا ہو.حضرت ابو سلمہ نے مدینہ آنے کے بعد قبا میں حضرت مبشر بن منذر کے پاس قیام کیا.آنحضرت ﷺ نے ابو سلمہ کی مواخات حضرت سعد بن خیثمہ کے ساتھ فرمائی تھی.اور ابوسلمہ گو ان کا

Page 267

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 253 حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ اسلامی بھائی بنایا تھا بعد میں نبی کریم ﷺ نے ان کو ایک مکان بھی مدینہ میں عطا فر مایا.غزوات میں شرکت اور قربانی رسول کریم ﷺ نے 2 ہجری میں غزوہ عشیرہ کے موقع پر حضرت ابوسلم کومدینہ کا امیر مقررفرمایا تھا.حضرت ابن عباس بیان کرتے تھے کہ ابو سلمہ کے حق میں قرآن کی یہ آیت ہے فَأَمَّا مَن أُوتِيَ كِتُبَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُ واكتبية (الحاقہ :20) گویا ابوسلمہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اس آیت کے مطابق دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ تمہارا نیکیوں کا اعمال نامہ ہے اس کو پڑھو! اور ان کا بھائی سفیان بن عبد الاسد جو اسلام کی دشمنی میں پیش پیش تھا اس کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا (5) حضرت ابوسلمہ بڑی بہادری کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے ،احد میں بہادری سے لڑے اور زخمی ہو گئے بازو میں شدید قسم کا زخم آیا جس کا علاج مہینہ بھر جاری رہا بظاہر زخم مندمل ہوتا ہوا نظر آیا لیکن ہجرت کے قریبا پندرہ ماہ بعد آپ کو بنی اسد کی طرف ایک اور مہم پر قطن مقام کی طرف جانا پڑا.(6) اس سفر سے چند دن کے بعد جب واپس لوٹے تو زخم دوبارہ ہرا ہو چکا تھا اس کے چند ماہ بعد ہی آپ کی وفات ہوگئی.آنحضرت ﷺ کو ان سے بہت دلی محبت اور پیار تھا ان کی بیماری میں ان کی عیادت کیلئے حضور ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے رہے بلکہ ان کے آخری وقت بھی آنحضرت مہ عیادت کیلئے ان کے ہاں تشریف لے کر گئے ہوئے تھے.شفقت رسول اور تلقین صبر روایات میں ذکر ہے کہ ابوسلمہ کے گھر موجود خواتین اور حضور کے مابین پردہ حائل تھا ، بعض عورتوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے عورتو! کیوں روتی ہو اور کیوں نا مناسب کلے اپنی زبان سے نکالتی ہو، یا درکھو ایسے وقت میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں اور تم لوگ جو کچھ اپنی زبان سے کہتے ہو اس پر وہ آمین کہتے ہیں اس لئے بے صبری کی کوئی بات یا کلمہ زبان سے نکالنا مناسب نہیں.“

Page 268

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 254 حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ آنحضرت عل ابوسلمہ کے آخری لمحات میں اپنی محبت اور پیار کا اس طرح اظہار کیا کہ جب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی اور آنکھیں پھٹی پھٹی نظر آ رہی تھیں.آپ نے آگے بڑھ کر خود اپنے دست مبارک سے اپنے اس رضاعی بھائی اور ساتھی کی آنکھیں بند کیں اور دعا کی کہ اے اللہ ابوسلمہ گو بخش دے اور اس کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر اور بعد میں اس کے اچھے جانشین پیدا فرما اور اے رب العالمین اسے اور ہم سب کو بخش دے.حضرت ابوسلمہ کی تدفین مدینہ میں ہوئی.ان کی وفات کا سانحہ احد کے بعد 4 ہجری میں بیان کیا جاتا ہے.آپ کی اولاد میں مسلمہ کے علاوہ عمر، زینب اور درہ تھیں زینب آپ کی وہ بیٹی ہے جو حبشہ کی ہجرت کے زمانہ میں پیدا ہوئی.(7) حضرت ام سلمہ بیان کیا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ ابوسلمہ انحضور ﷺ کی مجلس سے لوٹے تو بہت خوش تھے کہنے لگے میں نے آنحضرت ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے کہ کسی بھی شخص کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! اس مصیبت کا اجر اور بہترین بدلہ مجھے عطافرما تو اللہ تعالیٰ اس کا بہترین بدلہ اسے عطا کرتا ہے.اور حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ یہ دعا میں نے حضرت ابو سلمہ سے سنی ہوئی تھی.جب حضرت ابوسلمہ فوت ہو گئے تو مجھے ان کی یہ بات یاد آئی.دوسری طرف آنحضرت نے بھی تشریف لا کر مجھے تحریک کی کہ اس موقع پر یہ دعا کرو کہ اے اللہ ! اس مصیبت میں مجھے صبر کی توفیق دے اور اس کا بہتر بدلہ مجھے عطا کر.مگر ابوسلمہ مجھ سے ایسا حسن سلوک کرنے والے تھے کہ یہ دعا کرتے ہوئے میں نے دل میں سوچا کہ کیا ابوسلمہ سے بہتر بھی کوئی شخص ہو سکتا ہے؟ لیکن آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے یہ دعا کی اور پھر واقعہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے کہیں بہتر وجود یعنی آنحضرت علیہ مجھے عطا فرما دئے.جب آنحضرت ﷺ کی طرف سے ام سلمہ کو نکاح کا پیغام گیا تو انہوں نے کچھ تر ڈو کے ساتھ بعض عذر پیش کئے کہ میں ایک غیور اور عمر رسیدہ عورت ہوں مجھے سوکن کو برداشت کرنا مشکل ہوگا.دوسرے میری اولا دزیر کفالت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ عمر آپ کی زیادہ ہے تو میری بھی زیادہ ہے.اور غیور ہونے کی جہاں تک بات ہے تو اللہ تعالیٰ وہ نا واجب غیرت دعا سے دور کر دے گا.باقی رہی آپ کی اولاد تو وہ ہماری بھی اولاد ہوگی آنحضور ﷺ نے جب انہیں ہر پہلو سے تسلی کرا دی تو بالآخر

Page 269

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضور ﷺ کے ساتھ ان کی شادی ہو گئی.(8) 255 حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ اور ان کے چاروں بچے رسول کریم ﷺ کے ربیب بن کر آپ کے زیر سایہ پرورش پانے لگے.(9) حواله جات -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 اسدالغابہ جلد 3 ص 195 ابن ہشام جلد 2 صفحہ 121 ابن سعد جلد 3 صفحہ 24 ابن ہشام جلد 3 صفحہ 112 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 196 ، اصا به جز 4 ص 95، استیعاب جلد 3 ص71 ابن سعد جلد 3 صفحہ 240 اسدالغابہ جلد 3 ص197-196 مسند احمد وابن ماجه استیعاب جلد 3 ص 71 ،اسدالغابہ جلد 3 ص197-196

Page 270

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 256 حضرت شماس بن عثمان قریشی حضرت شماس بن عثمان رضی اللہ عنہ حضرت شماس کا اصل نام تو اپنے والد کے نام پر عثمان تھا.مگر سرخ وسفید رنگ میں اتنے حسین اور خوبصورت تھے کہ چہرہ سورج کی طرح دمکتا تھا.یہاں تک کہ ان کا لقب ہی شمس اور پھر شماس پڑ گیا یعنی سورج کی طرح روشن چہرہ والے.آپ قبیلہ بنی مخزوم میں سے تھے.والدہ صفیہ بنت ربیعہ بنو عبد شمس میں سے تھیں.اہلیہ ام حبیب ابتدائی ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے تھیں.انہوں نے ابتدائی زمانے میں ہی قبول اسلام کی سعادت حاصل کی ہے.(1)اہل مکہ کی مخالفت کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر حبشہ ہجرت کرنا پڑی.حبشہ ہجرت کرنے والے دوسرے گروہ میں حضرت شماس بھی شامل تھے.(2) بعد میں انہوں نے مدینہ ہجرت کی بھی توفیق پائی.یہاں آکر محلہ بنی عمرو بن عوف میں ٹھہرے اور حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے پاس قیام کیا.غزوہ بدر کا موقع آیا تو اس میں شامل ہوئے ، پھر غزوہ اُحد میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا.آخر وقت تک بنی عمرو بن عوف میں ہی قیام رہا.آنحضرت ﷺ نے حنظلہ بن ابی عامر کے ساتھ ان کی مواخات قائم کر کے اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک فرمایا تھا.حفاظت رسول میں جان کی قربانی حضرت شماس بدر اور احد میں نہایت دلیری اور بہادری کے ساتھ شریک ہوئے تھے.مگران کی غیر معمولی خدمت جو ان کے روشن چہرے کی طرح انکے سیرت اور کردار کو چار چاند لگا گئی اور ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ان کا نام زندہ کرنے والی بن گئی وہ ان کا احد کے میدان میں آنحضرت علی کی حفاظت کرتے ہوئے قربان ہو جانا ہے.میدان احد میں آنحضرت ﷺ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے والوں میں جہاں مشہور تیرانداز حضرت ابوطلحہ انصاری تھے اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ہاشمی بھی تھے جنہوں نے اپنا ہاتھ بطور ڈھال آنحضرت ﷺ کے چہرے کے سامنے کر رکھا تھا اور ہر آنے والا تیر اپنے ہاتھ پر لیتے تھے.وہاں حضرت شمس بھی ہیں جو آنحضرت ﷺ کے آگے اس

Page 271

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 257 حضرت شماس بن عثمان رضی اللہ عنہ طرح سینہ سپر ہو گئے کہچھو حضور نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ "شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو اسے ڈھال سے تشبیہ دے سکتا ہوں کہ وہ احد کے میدان میں میرے لیے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا اور میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں ہو کر حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا.آنحضرت یہ جدھر نظر ڈالتے شماس آپ کو نہایت بہادری اور دلیری سے لڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے.آپ نے دیکھا کہ جو حملہ آور بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا شماس اپنی تلوار کے ساتھ مقابلہ کر کے ان کو پیچھے ہٹاتا ہے.ظاہر ہے دشمن کا ہدف رسول کریم ﷺ کی ذات تھی.جب وہ آنحضور ﷺ پرحملہ میں کامیاب ہوئے اور زخمی ہونے کے بعد رسول کریم ﷺ پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی ، تب بھی شماس آگے ڈھال بن کر کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے.اس حالت میں ان کو مدینے لایا گیا اور حضرت عائشہ کے گھر میں تیمارداری کے لئے رکھا گیا.حضرت ام سلمہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں میرے گھر میں ان کی تیمار داری ہونی چاہیے.چنانچہ وہیں ان کی تیمارداری ہوئی.اس شدید زخمی حالت میں ایک دن اور ایک رات اس طرح گذارا کہ وہ کچھ کھا پی نہ سکتے تھے.اسی حال میں ان کی وفات ہو گئی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے ، جس طرح دوسرے شہداء کو بھی انکے لباس میں دفن کیا گیا.نیز فرمایا کہ شہداء کی طرح ان کی کوئی الگ نماز جنازہ بھی نہیں ہوگی.اور تدفین بھی میدان احد میں کی جائے جہاں دیگر شہداء احد کی تدفین ہوئی.گویا حضور ﷺ نے انکو ہر پہلو سے شہداءاُحد کے زمرے میں شامل فرمایا.اس خوش بخت حسین و جمیل جوان رعنا کی عمر صرف چون نیسبرس تھی جب وہ اپنے آقا ومولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر فدا ہو گیا.(3) اس جوان موت سے حضرت شماس کے اہل و عیال اور بہن بھائیوں کو صدمہ ہونا طبعی امر تھا.حضرت حسان بن ثابت نے اس پر مرثیہ کہا جس میں ان کی بہن کو تعزیت کرتے ہوئے وہ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ اے شماس کی بہن ! صبر کرو، دیکھو شماس بھی تو ایک انسان تھا.وہ بھی حضرت حمزہ کی طرح آنحضرت ﷺ پر فدا ہو گیا ہے.پس یہ ایک صبر کا معاملہ ہے تم بھی اس پر صبر کرو.یہ

Page 272

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 258 حضرت شماس بن عثمان رضی اللہ عنہ تھے حضرت شماس کہ بظاہر جن کا نام روایات میں بہت معروف نہیں ہے مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے آگے اور پیچھے ، حفاظت کرنے والوں میں انکو بطور ڈھال قرار دے کر انہیں وفا کی سند عطا فرما دی اور اُحد کے میدان میں شہادت پاکر اللہ تعالیٰ کے حضور انہوں نے شہادت کا بلند مرتبہ پایا.یہ مرتبہ بلند ملا جس کومل گیا -1 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 3 حواله جات -2 ابن سعد جلد 3 صفحہ 245 ابن سعد جلد نمبر 3 صفحہ 246

Page 273

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 259 حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ حضرت ابان بن سعید الاموی قریشی حضرت ابان کے والد سعید بن العاص الاموی کنیت ابواحیہ تھی.دادا عاص بدر میں حضرت علی کے ہاتھوں مارے گئے تھے.ان کی والدہ ھند بن مغیرہ مخزومیہ یا صفیہ خالد بن ولید کی پھوپھی تھیں.پانچویں پشت میں عبد مناف پر رسول اللہ ﷺ سے ان کا نسب مل جاتا ہے.ابان کے دو بھائیوں خالد اور عمر و مسلمانوں کے مقابلہ میں ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کر لیا تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کی سعادت پائی.جبکہ دو بھائی عاص اور عبیدہ بدر میں مارے گئے.ابان بھی آغاز میں اسلام کے سخت مخالف تھے.بھائیوں کے قبول اسلام پر ابان کو سخت صدمہ پہنچا جس کا اظہار انہوں نے اپنے اشعار میں یوں کیا.الالَيتَ ميتاً بالظريبة شاهد أَطَاعَامَعَا أَمَرَا لِنِّسَاءِ فَأَصْبَحَا لِمَا يَفتَرى فِي الدِّينِ عَمْرُو وَّ خَالِدُ يُصِيبَان مِن أَعْدَا لِنَا مَن يُكَايد یعنی اے کاش! ظریبہ مقام پر مدفون ہمارے آباؤ اجداد اس جھوٹ و افتراء کو دیکھ لیتے جو عمر و اور خالد نے کیا ہے تو کتنا برا مناتے.ان دونوں نے عورتوں والا کمزور دین قبول کر لیا اور ہمارے دشمنوں کے معاون و مددگار ہو گئے جو مخالفانہ تدبیریں کرتے رہتے ہیں.اس کے جواب میں ان کے مسلمان ہونے والے بھائی عمر ہ نے بھی کیا خوب کہا يَقُولُ إِذَا شَكَتْ عَلَيْهِ أُمُورُه اَلَالَيتَ مَيْتًا بِالطَّرِيْبَةِ يَنشُرُ فَدَع عَنْكَ مَيْتًا قَدَمَضَى لِسَبِيْلِهِ وَاقْبَلُ عَلَى الحَيِّ الَّذِي هُوَاَقْفَرُ یعنی جب ہمارے بھائی کے حالات اس کے مخالف ہوتے ہیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ظریبہ میں مدفون شخص زندہ ہو کر دیکھے.اے ہمارے بھائی ! ان مردوں کے ذکر کو چھوڑ و جو اپنی راہ پر روانہ ہو چکے اور ان زندوں پر توجہ کرو جو وطن سے بے وطن ہو چکے ہیں.حضرت ابان نے حدیبیہ اور خیبر کے درمیان اسلام قبول کیا.اس کا سبب یہ واقعہ ہوا کہ وہ تجارت کے لئے ملک شام کو گئے.وہاں ایک راہب سے ملاقات ہوئی اس سے رسول اللہ صلی اللہ بارہ میں مشورہ کیا اور بتایا کہ میں قریش سے ہوں اور ہم میں سے ایک شخص ظاہر ہوا ہے جو موسی

Page 274

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 260 حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ اور عیسٹی کی طرح رسول اللہ ہے ہونے کا دعویدار ہے.اس نے پوچھا تمہارے صاحب کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا محمد.راہب نے رسول اللہ ﷺے کی تمام صفات آپ کی عمر اور نسب سب بیان کر دئے تو ابان نے کہا یہ درست ہے.اس پر راہب نے کہا کہ یہ شخص پہلے عرب پر پھر ساری دنیا پر غالب آئے گا پھر ابان سے کہا کہ اس نیک شخص کو میر اسلام کہنا.ابان جب مکہ آئے تو رسول اللہ ہے کے بارہ میں تازہ احوال پوچھے مگر خلاف معمول آپ کی مخالفت میں کوئی بات نہیں کی.یہ حدیبیہ کے قریب کا واقعہ ہے پھر حضور ﷺ حدیبیہ تشریف لائے اور واپس مدینہ گئے تو ابان بھی پیچھے مدینہ پہنچے اور اسلام قبول کر لیا.(1) فتح خیبر کے بعد رسول کریم ﷺ نے حضرت ابان کی سرکردگی میں ایک مہم نجد کی طرف بھجوائی.یہ دستہ فتح خیبر کے بعد واپس لوٹا تو حضرت ابو ہریرہ نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اپنی رائے پیش کی کہ فتح خیبر کے مال غنیمت سے ان لوگوں کو حصہ نہیں ملنا چاہیے.جس پر ابان ناراض ہوئے.رسول کریم علیہ نے منع فرمایا اور پھر ان کیلئے غنائم خیبر سے حصہ نہیں نکالا.(2) دوسری روایت میں یہ تفصیل ہے کہ حضرت ابان بن سعید رسول کریم ﷺ کی خدمت میں فتح خیبر کے بعد حاضر ہوئے.نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کیا.حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کے رنگ میں عرض کیا کہ ابان ایک مسلمان ابن قوقل کا قاتل ہے.( ابن قوقل بدر میں ابان کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے ) حضرت ابان نے جواب صدق دل سے اسلام قبول کر چکے تھے کمال سردارانہ ذہانت اور حاضر جوابی سے اپنا موقف یوں پیش کیا کہ مضمون الٹ کر رکھ دیا.حضرت ابو ہریرہ سے کہنے لگے تمہارے جیسے شکایت کرنے والے شخص پر مجھے تعجب ہے جو دور کہیں ضان کے پہاڑ سے اتر کر آیا ہے اور مجھ پر ایک ایسے کی موت کا الزام لگا رہا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں مرتبہ شہادت عطا کر کے عزت و کرامت عطا فرمائی اور اسے اس بات سے روک دیا کہ میں اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوکر ذلیل ہوں.(3) غزوہ حدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ کو صلح پر آمادہ کرنے کیلئے رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا.اس موقع پر حضرت ابان بن سعید نے حضرت عثمان کو اپنی امان میں لیا اور

Page 275

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 261 حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ پورے اعزاز و اکرام سے مکہ لائے.وہ اپنی خاندانی اور ذاتی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سواری سے اتر آئے.حضرت عثمان کو زمین پر اپنے آگے سوار کیا اور خود انکے پیچھے بیٹھے اور انہیں پیشکش کی کہ مکہ میں آپ جہاں چاہیں جائیں.اب آپ بنو سعید کی امان میں ہیں جنہیں حرم میں عزت کا مقام حاصل ہے.حضرت ابان کی پناہ میں حضرت عثمان نے رسول کریم ﷺ کا پیغام اہل ملکہ کو پہنچایا.ابوسفیان اور دیگر سرداران قریش سے ملاقاتیں کیں.انہوں نے حضرت عثمان گوطواف کعبہ کی بھی پیشکش کی مگر حضرت عثمان نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے بغیر طواف نہیں کر سکتا.(4) رسول کریم ﷺ نے فتح بحرین کے بعد جب وہاں کے حاکم علاء بن حضرمی کی معزولی کے بعد حضرت ابان کو وہاں حاکم مقرر فرمایا.رسول کریم ﷺ کی وفات تک یہ وہاں حاکم رہے پھر مدینہ واپس آگئے.حضرت ابوبکر نے دوبارہ وہاں بھجوانا چاہا تو پہلے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مجھے اس کام پر نہ لگا ئیں تو بہتر ہے.مگر پھر خلیفہ وقت کی خواہش پر یمن کے ایک حصہ کے والی کے طور پر کام کیا.حضرت عمرؓ کے زمانہ تک یہ خدمت انجام دیتے رہے.(5) وہ ایک ذہین اور عادل حاکم تھے.ولایت یمن کے زمانہ کا واقعہ ہے.ان کے پاس فیروز نامی ایک شخص نے اپنے کسی عزیز ادویہ کے قتل کا مقدمہ پیش کیا جسے قیس بن مکشوح نے قتل کیا تھا.حضرت ابان نے قیس کو طلب کر کے پوچھا کہ کیا تم نے کسی مسلمان شخص کو قتل کیا ہے.اس نے بتایا کہ اول تو دا دو یہ مسلمان نہیں تھا.دوسرے میں نے اسلام سے پہلے اسے اپنے والد اور چاکے قتل کے بدلے میں مارا تھا.“ اس پر حضرت ابان نے اپنی تقریر میں یہ مسئلہ کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ رسول کریم نے جاہلیت کے تمام خون بہا معاف اور کالعدم قرار دے دئے تھے.اب اسلام کے زمانہ میں جو شخص کسی جرم کا مرتکب ہوگا ہم اس پر گرفت کریں گے.پھر حضرت ابان نے قیس سے کہا کہ میں یہ فیصلہ تمہیں لکھ کر دیتا ہوں.یہ تحریری فیصلہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کر کے توثیق کر والو.چنانچہ حضرت عمر کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس کی توثیق فرمائی.(6)

Page 276

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 262 حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ حضرت عثمان کی ہدایت پر حضرت ابان کے سپرد یہ اہم خدمت بھی ہوئی کہ وہ حضرت زید بن ثابت کو مصحف عثمان کے مطابق قرآن شریف کی املاء کرائیں.یہ خدمت بھی انہوں نے احسن رنگ میں انجام دی.(7) حضرت ابان کی وفات کے بارہ میں اختلاف ہے.ایک روایت کے مطابق 13 ھ میں جنگ اجنادین میں ، دوسری روایت کے مطابق 15ھ میں جنگ یرموک میں اور تیسری روایت کے مطابق 29ھ میں حضرت عثمان کی خلافت میں وفات ہوئی.یہ آخری روایت نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے.کیونکہ حضرت عثمان کے زمانہ میں انہیں قرآن شریف کی خدمت کی سعادت ملنے کا ذکر موجود ہے.(8) -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 حواله جات اسد الغابہ جلد 1 ص 36 ابن حبان جلد 4 ص 336 بخاری کتاب المغازی استیعاب جلد 1 ص 159 ، مسند احمد حدیث اصابہ ج 1 ص 10 ، اسد الغابہ جلد 1 ص 37 اصابه جز1 ص 10,11 استیعاب جلد 1 ص 160 اسدالغابہ جلد 1 ص 37

Page 277

Page 278

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 264 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ حضرت صہیب بن سنان رومی حضرت صہیب کے والد سنان بن مالک اور والدہ سلمیٰ بنت قعید تھیں.عرب کے ایک قبیلے سے آپ کا تعلق تھا.اور آپ کے والد یا چا ابلہ شہر پر سری شاہ ایران کی طرف سے حاکم تھے.ان کی رہائش موصل کے قریب دریائے فرات کے کنارے ایک بستی شتی نامی میں تھی.اس زمانے میں رومی فوجوں کی جنگ ایرانیوں سے جاری تھی.رومیوں کے ایک ایسے ہی حملے کے دوران کم سنی کی عمر میں مہیب بھی گرفتار ہو کر رومی علاقے میں لے جائے گئے اور وہاں ایک عرصہ تک رہے.اس دوران رومی زبان بھی سیکھی.جس کی وجہ سے عربی میں لکنت ہوتی تھی.ایک روایت کے مطابق بعد میں قبیلہ بنو کلب نے انہیں خرید کر مکہ میں بیچ دیا اور عبد اللہ بن جدعان التیمی نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا.دوسری روایت کے مطابق صہیب خودسن شعور کے بعد رومیوں کی قید سے فرار ہو کر سکے آئے اور عبد اللہ بن جدعان کے حلیف بن گئے.بعض اور روایات کے مطابق آپ کا اصل نام عمیرہ تھا، رومیوں نے آپ کا نام صہیب رکھا.رسول کریم ﷺ نے آپ کی کنیت ابویحی تجویز فرمائی تھی.(1) آپ کا رنگ سرخ تھا.میانہ قد، سر کے بال گھنے تھے مہندی لگاتے تھے.قبول اسلام گھر سے گمشدگی کے بعد آپ کی بہن امید اور چا لبید نے عرب کے میلوں میں اور حج وغیرہ کے مواقع پر آپ کو بہت تلاش کروایا مگر صہیب کہیں نہ ملے.عبداللہ بن جدعان کے پاس قیام کے دوران ہی آپ کی قسمت جاگی کہ آنحضرت ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا.انہیں بھی اس دعوی کی خبر ہوئی.آنحضور ﷺ کا پیغام سننے کے لئے دارارقم میں پہنچے اور اسلام قبول کیا.حضرت صہیب اور حضرت عمار بن یاسر نے ایک ہی زمانے میں اسلام قبول کیا.(2) حضرت عمار بن یاسر کا بیان ہے کہ جب دارار تم ابتدائی زمانہ اسلام میں تبلیغ کا مرکز تھا اور ابھی

Page 279

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 265 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ چندلوگوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا.میں دار ارقم کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ صہیب آگئے میں نے پوچھا کس مقصد سے آئے ہو؟ صہیب صاحب تجربہ، زیرک اور دانا انسان تھے کہنے لگے پہلے آپ بتاؤ کس ارادہ سے یہاں آئے ہو؟ عمار بن یاسر کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں تو محمد ﷺ کا پیغام اور کلام سننے کیلئے آیا ہوں تب صہیب نے کہا کہ میں بھی اسی ارادے سے آیا ہوں.ہم دونوں آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور ﷺ نے اسلام کا پیغام سمجھایا اور ہم دونوں نے اسی موقع پر اسلام قبول کر کے حضور ﷺ کی بیعت کی توفیق پائی.اس وقت تک جو لوگ اسلام قبول کر چکے تھے ان کی تعداد میں بیان کی جاتی ہے.لیکن اسلام کا اعلان یا اظہار کرنے والے حضرت ابوبکر کے علاوہ معدودے چند ہی تھے ایک تو خاندان یا سر نجس میں ان کی بیوی سمیہ اور بیٹے عمارہ تھے پھر حضرت خباب ، حضرت بلال اور حضرت صہیب.یہ وہ چند لوگ تھے جن کا کمزور مسلمان گھرانوں سے تعلق تھا.آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ہی بظاہر ان کی جائے پناہ تھے جو ان کے لئے غیرت رکھتے اور ڈھال بنتے تھے.ورنہ مختلف قبائل سے آکر حلیف بننے والے کمزوروں اور غلاموں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا کیونکہ ان کے اپنے کوئی خونی رشتہ دار تو تھے نہیں جو ان کی سپر بنتے.ان کے مالک ان کو کپڑے اور لوہے کی زرہیں پہنا کر تپتی ہوئی دھوپ میں لٹا دیتے اور یوں تکلیف اور اذیت سے وہ دن گزارتے.(3) روایت ہے کہ انہی مظلوموں کے بارہ میں یہ آیت اتری.وَالَّذِينَ هَا جَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعِدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَا هَدُوا وَ صَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعدِ هَا لَغَفُورٌ رَّحِيم - (النحل: 111 ) یعنی وہ لوگ جنہوں آزمائش میں پڑنے کے بعد ہجرت پھر جہاد کیا اور صبر سے کام کیا.تیرا رب اس کے بعد ضرور بخشنے والا اور مہربان ہے.ہجرت اور مال کی قربانی حضرت صہیب نے بھی انہی حالات میں مکے میں ابتلاؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے وقت گزارا یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کو ہجرت کی اجازت ہوئی تو انہوں نے بھی ہجرت کا قصد کیا.حضور اے اور حضرت ابوبکر کے بعد آخری ہجرت کرنے والوں میں حضرت صہیب شامل تھے.وہ مالدار تاجر

Page 280

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 266 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ تھے اور تجارت کے ذریعہ کافی مال کمایا تھا جب ہجرت کر کے مدینہ جانے لگے تو اہل مکہ نے ان سے کہا کہ تم تو ایک مفلس غلام کے طور پر ہمارے شہر مکہ میں آئے تھے.ہم تمہیں یہاں سے کمایا ہوا مال لے کر ہر گز جانے نہ دیں گے.صہیب نے کہا اگر مال یہیں چھوڑ دوں تو کیا پھر جانے دو گے؟ اور پھر انہوں نے اپنا نصف مال اہل مکہ کے حوالے کر دیا اور ہجرت مدینہ کا قصد کیا.(4) صہیب اپنے بیوی بچوں کو لے کر مدینے کی جانب روانہ ہوئے تو بعض قریش نے آپ کا پیچھا کیا وہ سواری سے اتر آئے.صہیب بہت بہادر اور زبردست تیرانداز تھے.انہوں نے اپنے ترکش کے تمام تیر نکال کر نیچے بکھیر دیئے اور کہا اے قریش ! تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے بہترین تیرانداز ہوں میرے ترکش کے آخری تیر کے ختم ہونے تک تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے.اسکے بعد میری تلوار سے تم کوٹڑ نا ہوگا.دوسری صورت یہ ہے کہ مجھے امن سے جانے دو اور اس کے عوض میں اپنے باقی مال کے بارے میں بھی تمہیں بتا دیتا ہوں وہ تم مکہ جا کر نکال لو.اس طرح کمال حکمت عملی سے انہوں نے کفار کے ساتھ معاملہ کیا اور اپنا سارا مال دے کر اور اپنا ایمان اور خاندان بچا کر مدینہ آگئے.صحابہ بیان کیا کرتے تھے کہ یہ آیت اسی موقع کی مناسبت سے اتری وَمِنَ النَّاسِ مَن يُشْرِئُ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ (البقرة:208) کہ لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنا تمام مال قربان کر کے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں.الغرض حضرت صہیب نے تمام مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا.حضرت صہیب جب آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے ان کے سفر کا حال سنا کہ کس طرح سارا مال دے کر جان اور ایمان بچالیا تو فرمایا کہ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے.رَبِحَ صُهَيْبُ رَبِحَ صهيب صہیب نے وہ سودا کیا ہے جو بہت نفع والا ہے کیونکہ انہوں نے دین کود نیا پر مقدم کیا تھا.صلى الله صحبت رسول علی اور دلداری مکہ سے آنے والے آخری مہاجرین میں حضرت علی اور حضرت صہیب بیان کئے جاتے ہیں.ہجرت کر کے جب وہ قبا میں آئے تو پتہ چلا کہ آنحضرت علی حضرت کلثوم بن ہرم کے پاس قیام فرما ہیں.وہاں ایسے وقت پہنچے تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بھی موجود تھے.اور کھجور میں تناول فرمار ہے

Page 281

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 267 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ تھے.ادھر سفر کی صعوبتوں اور تکالیف کے بعد صہیب کی ایک آنکھ دیکھنے کو آئی تھی.کفار نے ان کا سارا مال تو وہیں پر دھر لیا تھا.صہیب کہتے ہیں گندم کا تھوڑ اسا آٹا جوز ادراہ تھی ، ابواء مقام پر گوندھ کر اس کی روٹیاں بنالی تھیں.بھوک اور فاقے کی اس حالت سے گزر کر جب قبا پہنچے تو مدینہ کی تر و تازہ کھجور میں مجلس رسول میں ما حضر تھیں.بے تکلفی سے اس دعوت میں شریک ہوئے اور بے دھڑک وہ کھجوریں کھانے لگے.حضرت عمرہ کو صہیب سے خاص لگاؤ تھا.انہوں نے صہیب کو چھیڑتے ہوئے آنحضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ دیکھتے نہیں کہ صہیب کی ایک آنکھ دکھنے کو آئی ہے پھر بھی یہ بے دھڑک کھجوریں کھاتے چلے جارہے ہیں.گویا ان کی صحت کیلئے یہ مضر ہے.آنحضرت نے حضرت صہیب کو یہ توجہ دلائی کہ تمہاری آنکھ دکھنے کو آئی ہے اور پھر بھی بے دھڑک کھجور میں کھاتے جارہے ہو.حضرت صہیب نے بھی کیا پر مزاح جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں اپنی دوسری تندرست آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں.اس حاضر جوابی پر نبی کریم بے اختیار مسکرائے.(5) یہ ظرافت اپنی جگہ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ صہیب کو ایک فاقے کے بعد وہ کھجوریں میسر آئیں جو آنحضرت ﷺ کا تبرک بھی تھا اس لئے صہیب سے رہا نہ گیا.اس کے بعد آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر سے محبت بھرے شکوے کرنے لگے کہ مجھے کیوں اپنے ساتھ سفر ہجرت میں شریک کر کے خدمت کا موقع نہ دیا.پیچھے رہ کر مجھ پر یہ نوبت آئی کہ اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے بمشکل اپنی جان اور خاندان آزاد کروا کے لایا ہوں.حضور اکرم ﷺ نے اسی موقع پر فر مایا کہ یہ تو بہت ہی اعلیٰ اور نفع بخش تجارت ہے جو صہیب نے کی.“ غزوات میں شرکت مدینہ میں حضرت سعد بن خیثمہ کے پاس قیام رہا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت حارث بن الصمہ کے ساتھ آپ کا بھائی چارہ قائم فرمایا.اس کے بعد حضرت صہیب تمام غزوات میں حضوراکرم ﷺ کے شانہ بشانہ شریک ہوئے.بدر، احد، فتح خیبر اور فتح مکہ کے موقع پر بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا.حضرت صہیب طبعاً بہت زیادہ روایات بیان نہیں کرتے تھے تا ہم کہا کرتے تھے کہ غزوات

Page 282

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 268 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ رسول کے بارے میں جتنی باتیں مجھ سے پوچھنی ہیں پوچھ سکتے ہو.کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا ہے.دوسری روایت کے مطابق ان کا بیان ہے کہ بیعت کے بعد کی زندگی کے تمام اہم اور مشہور واقعات میں مجھے حاضر خدمت رہنے کی توفیق ملی ہے.آنحضور ﷺ نے جب بھی کوئی بیعت لی مجھے اس میں موجود ہونے کی سعادت عطا ہوئی.کوئی مهم حضور اکرم ﷺ نے نہیں بھجوائی مگر میں اس موقع پر حاضر تھا کوئی غزوہ آپ نے نہیں کیا مگر میں اس موقع پر موجود تھا بلکہ میں آپ کے دائیں اور کبھی بائیں ہوکر لڑتا تھا اور کبھی آگے سے اندیشہ ہوتا تو سامنے ہو کر لڑتا اور آنحضرت ﷺ کو کبھی اس حال میں نہیں چھوڑا کہ آپ میرے اور دشمن کے درمیان آگئے ہوں.یہاں تک کہ آنحضور ﷺ کی وفات ہوگئی، یعنی ہمیشہ رسول خدا ﷺ کے آگے سینہ سپر رہے اور کبھی دشمن کو آنحضرت کے سامنے نہیں ہونے دیا کہ حضور کا دشمن سے آمنا سامنا ہو.(6) اتمہ حضرت صہیب کی ان خوبیوں اور ان کے اعلیٰ اخلاق فاضلہ وصفات حسنہ کی وجہ سے ان کی تعریف فرماتے تھے.ایک موقع پر حضرت صہیب کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریم علی نے فرمایا کہ قومی لحاظ سے سبقت لینے والے چار ہیں.عربوں میں سبقت لینے والا میں ہوں (اور اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے نبی اَوَّلُ المُؤمِنِینَ کے مقام پر فائز تھے کہ اپنے خدا کی طرف سے نازل ہونے والے کلام پر سب سے پہلے آپ ہی ایمان لائے تھے ) پھر فرمایا کہ صہیب رومیوں میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور سلمان فارسی ایرانیوں میں سے پہلا پھل ہے جو مسلمانوں کو ملا اور اہل حبشہ میں سبقت لینے والے بلال ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہیے کہ وہ صہیب سے اسطرح محبت کرے جیسے ماں بیٹے سے محبت کرتی ہے.یہ ایک نو وارد غیر عرب کیلئے رسول اللہ ﷺ کا حسن سلوک تھا.ایک دفعہ حضرت ابو بکر ایک مشرک قیدی کو لے کر جارہے تھے حضرت صہیب نے کہہ دیا کہ اس کی گردن میں تلوار کی جگہ تھی یعنی لائق گردن زدنی تھا.اس پر حضرت ابو بکر ناراض ہوئے رسول کریم نے سبب پوچھا تو انہوں نے صہیب کی بات سنائی.آپ نے فرمایا ” تم نے صہیب کو ناراض تو نہیں

Page 283

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 269 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کیا ؟ خدا کی قسم ! اگر تم اس کو ایذاء پہنچاتے تو اللہ اور اسکے رسول گوایذا پہنچانے والے ہوتے.(7) حضرت عمرؓ سے محبت اور دوستی حضرت صہیب کو رومیوں سے نسبت دینے کی وجہ یہ ہے ان کے بچپن کا زمانہ رومیوں میں گزرا.رومی زبان ان کو آتی تھی.اور عربی بولنے میں کچھ لکنت بھی پائی جاتی تھی.حضرت عمر کے ساتھ حضرت صہیب کی بے تکلفی اور خاص محبت کا ذکر آتا ہے.ایک دفعہ حضرت عمر مدینہ کے نواح میں ان کی رہائش گاہ پر حضرت زید بن اسلم کے ساتھ گئے تو حضرت صہیب آوازیں دینے لگے یا ناس.یا ناس.تو حضرت عمرؓ کہنے لگے صہیب کو کیا ہوا کہ ہمیں دیکھتے ہی لوگوں کو پکارنے لگے ہیں.پتہ چلا کہ دراصل صہیب اپنے غلام یہنس کو بلا رہے تھے اور لکنت کی وجہ سے یہنس کو یا ناس کہہ رہے تھے.(ناس کے معنی ہیں لوگ ) حضرت عمرؓ نے اسی بے تکلفی میں ایک دفعہ صہیب سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ ایک دوستی اور محبت کا تعلق ہے.بہت قریب سے بھی دیکھنے کا موقع ملا اور تمہارے اندر کوئی عیب نہیں پایا.مگر دو تین باتیں عجیب سی لگتی ہیں.اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو میں تم پر کسی کو مقدم نہ کرتا اور تم میرے انتہائی گرم جوش دوست ہوتے.پہلی بات یہ تمہاری اولاد کوئی نہیں مگر کنیت ابویحیی رکھتے ہو جو ایک نبی کا نام ہے.حضرت صہیب نے کہا دراصل نبی کریم ﷺ نے میری یہ کنیت خود تجویز فرمائی تھی.اب میں مرتے دم تک اسے چھوڑ نہیں سکتا.دوسری بات حضرت عمر نے یہ فرمائی کہ تمہاری زبان عجمی ہے رومی زبان بولتے بھی ہوا اور عربی میں کچھ لکنت بھی ہے پھر بھی تم اپنے آپ کو عرب سے نسبت دیتے ہو.حضرت صہیب نے کہا کہ دراصل میں رومیوں میں سے نہیں البتہ بچپن میں وہاں رہنے کا موقع ضرور ملا دراصل میں عربی نژاد ہوں.چھوٹی عمر میں رومی مجھے قید کر کے لے گئے ورنہ عرب خاندان اور قبیلے سے ہی میرا تعلق ہے.تیسری بات حضرت عمرؓ نے یہ فرمائی کہ تم اس کثرت سے لوگوں کو کھانا وغیرہ کھلا دیتے ہو کہ مجھے ڈر لگتا ہے اس میں اسراف نہ ہو.حضرت صہیب نے کہا کہ یہ جو میں لوگوں کو کھلاتا ہوں دراصل آنحضرت ﷺ کی ایک نصیحت کی وجہ سے ہے.آپ نے فرمایا ” تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جولوگوں کو کھانا کھلاتے اور سلام کو رواج دیتے ہیں.حضور ﷺ کی یہ نصیحت جو

Page 284

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 270 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ آپ نے مدینہ آنے پر فرمائی تھی میں نے پلے باندھ لی اور اس پر مسلسل عمل کرتا ہوں اور سوائے جائز حق کے مال خرچ نہیں کرتا.(8) جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہے اس کے بعد سے حضرت عمرؓ کا حضرت صہیب کے ساتھ تعلق مزید گہرا ہوا.چنانچہ حضرت عمر نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کا جنازہ حضرت صہیب پڑھائیں گے اور جب تک نیا خلیفہ منتخب نہیں ہو جا تا نمازوں کی امامت بھی وہی کروائیں گے.روایات حدیث حضرت صہیب روایت حدیث میں احتیاط سے کام لیتے تھے ایک دفعہ فرمایا کہ خدا کی قسم ! میں تم کو حدیث سناتے ہوئے جب کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو وہی باتیں سناتا ہوں جو آپ نے فرما ئیں اور جب آپ کی جنگوں کے حالات سناؤں جن میں شامل ہوا تو کچھ اپنے تاثرات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں.حضرت صہیب کی چند ایک روایات ذخیرہ احادیث میں ملتی ہیں جو حضرت عمرؓ سے مروی ہیں.جن سے آپ کی محبت الہی کا خاص طور پر اظہار ہوتا ہے.اہل جنت کو خدا تعالیٰ کا دیدار کروانے سے متعلق ہے.حضرت صہیب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے یہ آیت پڑھی.لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ - (يونس: 27) کہ وہ لوگ جو احسان کرتے ہیں ان کو نیکی کے بدلہ کے علاوہ کچھ زیادہ بھی ملے گا.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر اس زیادہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے اور اہل نار دوزخ میں تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے جنت والو! اللہ تعالیٰ تم سے اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے.اہل جنت حیران ہونگے کہ وہ کونسا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے اعمال کے بدلہ میں ہمیں جنت تو دے دی.ہمارے چہرے بھی روشن کر دئے.اور آگ سے بچالیا اس سے بڑھ کر اور کونسا وعدہ ہو گا ؟ ابھی وہ یہ اظہار کر ہی رہے ہونگے کہ اللہ تعالیٰ اپنا حجاب ہٹائے گا اور جب وہ خدا تعالیٰ کا دیدار کریں گے تو لطف و محبت کی ایسی لہریں ان کے سینہ سے اٹھیں

Page 285

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 271 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ گی کہ جن سے بڑھ کر کوئی چیز ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والی نہیں ہوگی.(9) راضی برضا ایک اور روایت جو حضرت صہیب بیان کرتے تھے اس کا تعلق بھی راضی برضا ر ہنے سے ہے.ان کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک موقع پر مسکرا رہے تھے جس کے بعد صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں مسکرایا ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہی بیان فرمائیں.فرمایا کہ میں مومن کے حال پر ہنستا ہوں کہ اس کا حال بھی عجب ہے اس کے سب کام خیر ہی خیر ہوتے ہیں اور یہ بات مومن کے علاوہ اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی کیونکہ مومن رضا بالقضاء کے مقام پر ہوتا ہے.جب اسے خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور اس کا اجر پاتا ہے اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کی جزا عطا کرتا ہے.گویا حالت عسر ہو یا حالت سیسر ،مومن کیلئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے.(10) خدا اور قرآن سے محبت ایک اور روایت سے قرآن کے ساتھ حضرت صہیب کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو ان باتوں سے جن سے قرآن نے منع کیا ہے نہیں رکتا وہ حقیقی معنوں میں قرآن پر ایمان نہیں لاتا.اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ خود کس حد تک قرآن کے احکامات کے پابند تھے.حضرت صہیب ایک دعا رسول کریم سے بیان کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ پر تو کل سے تعلق رکھتی ہے وہ دعا یہ ہے.اَللَّهُمَّ بِكَ اَحُولُ وَبِكَ اَصُولُ وَ بِكَ اقَاتِلُ - حضرت صہیب بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم دشمن سے مقابلہ کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے.اے اللہ ! تیری مدد سے میں تدبیر کرتا ہوں اور تیری تائید سے میں حملہ کا جواب دیتا ہوں اور تیرے نام سے ہی لڑتا ہوں.(11) حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق حضرت صہیب نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انتخاب ہونے تک تین دن حضرت صہیب مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے رہے.(12)

Page 286

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 272 حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ خود حضرت صہیب شوال 38ھ میں فوت ہوئے.آپ کی عمر ستر یا بہتر سال بیان کی جاتی ہے.جنت البقیع میں دفن ہوئے.آپ کی وفات سے ایک اور روشن ستارہ ڈوب گیا.جو محبت الہی ، صله رحمی، اخوت و محبت سخاوت اور صداقت کے اخلاق فاضلہ سے روشن تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.اور ہمیں آپ کے پاکیزہ اخلاق قائم کرنے والا بنادے.آمین -1 -2 -3 د که به ط من هنا -4 -5 -6 -8 -9 -10 -11 -12 ابن سعد جلد 3 ص 226 حواله جات ابن سعد جلد 3 ص 227 ، اصابه جز 3 ص 254 اسد الغابہ جلد 3 ص33، مجمع الزوائد جلد 9 ص 305 ابن سعد جلد 3 ص 228 مجمع الزوائد جلد 9 ص 306 الاصابہ ج 2 ص 255 منتخب کنز العمال بر حاشیہ جلد 5 ص 202 اسد الغابہ جلد 3 ص34-33 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 202 ابن ماجه مقدمه مسلم کتاب الزھد باب المؤمن امره خیر مسند احمد حدیث صہیب باقی مسند الانصار 22802 ابن سعد جلد 3 ص229

Page 287

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 273 حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود بھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدیہ کی قوت قدسیہ کا ایک عجیب نشان تھے.بظاہر پستہ قد اور سانولے رنگ کے اس چرواہے کو آنحضرت ﷺ نے اپنے فیض صحبت میں لیا اور آسمان روحانیت کا ایک روشن ستارہ بنا دیا.حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک طرف علم و عمل کی معراج حاصل کی تو دوسری طرف کوفہ کی گورنری کے منصب تک پہنچے.نام و نسب اور قبول اسلام حضرت عبداللہ بن مسعود قبیلہ بنوھذیل سے تعلق رکھتے تھے.کنیت ابو عبد الرحمان تھی.آپ کی والدہ ام عبد اللہ بنت عبدود کو اسلام قبول کرنے اور صحابیہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا.(1) حضرت عبد اللہ کو بہت ابتدائی زمانے میں دارارقم میں ہی چھٹے نمبر پر اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ خود اپنے قبول اسلام کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا.اسی دوران نبی کریم اور حضرت ابوبکر میرے پاس تشریف لائے.ان کے اعلیٰ اخلاق اور بعض نشانات کو دیکھ کر اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی.شوق علم حضرت عبداللہ نے حضور ﷺ کو کچھ قرآنی آیات پڑھتے سنا تو آپ سے عرض کیا کہ مجھے بھی یہ کام سکھا دیں.نبی اکرم ﷺ نے آپ کا شوق علم دیکھ کر حوصلہ افزائی کی اور حوصلہ بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ ” تمہارے اندر تو سیکھنے کی استعداد خوب ہے (2) چنانچہ حضرت عبد اللہ نے نبی کریم ﷺ سے کلام الہی کا درس لیا.خود بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے خود حضور ﷺ سے ستر سورتیں سیکھیں.اور ایک زمانہ تھا کہ صحابہ میں سے کسی کو اتنی سورتیں یاد نہ تھیں.حضرت علی فرماتے تھے کہ اللہ کی کتاب کو سب سے پہلے زبانی یاد کر کے پڑھنے والے عبداللہ بن مسعود تھے.(3)

Page 288

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الی اللہ کا جذبہ 274 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو مکے میں مخالفت کے ابتدائی دور میں سرداران قریش کو قرآن شریف کی تلاوت بآواز بلند سنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے.یہ شرف وسعادت اخلاص و قربانی کے جس جذبے سے ان کے حصے میں آئی اس کا واقعہ بہت دلچسپ ہے.ہوا یوں کہ چند صحابہ رسول مجمع ہوئے اور دعوت الی اللہ کے حوالہ سے ذکر یہ چلا کہ ابھی تک ہم نے مخالفین کو قرآن شریف بلند آواز سے کبھی نہیں سنایا.حضرت عبداللہ بن مسعود نے بڑے شوق سے یہ پیش کش کی کہ وہ بذات خود اس خدمت کیلئے تیار ہیں.دیگر صحابہ کی یہ رائے تھی کہ اگر کوئی ایسا شخص یہ کام اپنے ذمہ لے جس کا قبیلہ دعوت الی اللہ کے اس متوقع مخالفانہ رد عمل کی صورت میں اس کا دفاع بھی کر سکے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا.کیونکہ عبد اللہ بن مسعود کے کمزور خاندان کے باعث انہیں زیادہ سخت رد عمل کا خدشہ تھا مگر عبد اللہ بن مسعود فرمانے لگے کہ آپ لوگ اس کی فکر نہ کریں.اللہ تعالیٰ خود میری حفاظت فرمائے گا.اور دوسرے دن چاشت کے وقت اس بہادر اور نڈر داعی الی اللہ نے خانہ کعبہ میں جا کر قریش کی مجلس کے قریب مقام ابراہیم پر سورۃ رحمان کی تلاوت شروع کر دی.پہلے تو وہ لوگ غور سے سنتے رہے پھر جب پتہ چلا کہ کلام پاک ان کو سنایا جارہا ہے تو وہ اٹھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کو آن دبوچا اور خوب ان کی پٹائی کی.مگر ابن مسعود ایک عجیب خدا داد استقامت کے ساتھ تلاوت کرتے چلے گئے یہاں تک کہ سورۃ رحمان کی تلاوت مکمل کر کے ہی واپس آئے صحابہ نے کہا کہ ہمیں اسی مار پٹائی کا اندیشہ تھا.عبداللہ بن مسعود بولے خدا کی قسم جب میں قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا تو دشمن مجھے سخت بے حقیقت معلوم ہوتے تھے اور گر کہو تو کل پھر سرداران قریش کے مجمع میں جا کر قرآن شریف کی تلاوت بآواز بلند سناؤں صحابہ نے کہا بس یہی کافی ہے.(4) ہجرت اور خدمت رسول مکہ میں مخالفت زیادہ ہوئی تو پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے

Page 289

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 275 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی توفیق ملی بعد میں آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی.(5) جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت معاذ بن جبل کے ہاں ٹھہرے مکے میں آپ کی مواخات حضرت زبیر بن العوام سے ہوئی تھی اور مدینے میں معاذ بن جبل آپ کے دینی بھائی بنے مدینہ کے ابتدائی زمانے میں آپ کے مالی حالات اچھے نہیں تھے.چنانچہ حضور ﷺ نے جب مہاجرین کیلئے مسجد نبوی کے قریب رہائش کا کچھ انتظام کیا تو بنوزہرہ کے بعض لوگوں نے عبداللہ بن مسعود کو اپنے ساتھ رکھنے میں کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی.آنحضرت عالیہ کو علم ہوا تو آپ نے اپنے اس غریب اور کمزور خادم کے لئے غیرت.دکھاتے ہوئے فرمایا کہ خدا نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے یا درکھو خدا تعالیٰ اس قوم کو بھی برکت عطا نہیں کرتا جس میں کمزور کو اسکا حق نہیں دیا جاتا.اور پھر حضور نے ابن مسعود کو مسجد کے قریب جگہ عطافرمائی جبکہ بنوزہرہ کو مسجد کے پیچھے ایک کونے میں جگہ دی.(6) حضرت عبد اللہ بن مسعود آغاز اسلام سے ہی رسول کریم علیہ کی ذاتی خدمت سے وابستہ ہو گئے تھے اور سفر وحضر میں حضور علیہ کی خاطر بظاہر چھوٹی مگر بنیادی اور اہم خدمات بجالایا کرتے تھے.مثلاً رسول اللہ کی مسواک وضو اور غسل کیلئے پانی کا بروقت مہیا کرنا.بیٹھنے کیلئے بچھونے اور آرام کیلئے بستر کا انتظام کرنا.وقت پر بیدار کرنا غسل کیلئے پردے کا اہتمام کرنا اور حضور علیہ کے جوتے سنبھالنا وغیرہ.اسی بناء پر ابن مسعود صاحب السواک، صاحب الوسادہ اور صاحب النعلین کے القاب سے بھی یاد کئے جاتے تھے.(7) ان خدمات کے باعث ان کا اکثر حضور ﷺ کے گھر میں آنا جانا رہتا تھا.اور رسول کریم ﷺ نے آپ کو اپنے گھر میں آنے کی خصوصی اجازت عطا کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب آپ میری آواز سن رہے ہوں اور دروازے کے آگے پردہ نہ ہو تو آپ کو گھر کے اندر آنے کی اجازت ہے سوائے اس کے میں خود کسی وقت روک دوں.(8) معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردہ کے احکام کے نازل ہونے سے پہلے کی بات ہوگی جیسا کہ نبی کریم کے ایک اور خادم حضرت انس کا بیان ہے کہ میں حضور ﷺ کے گھر آیا جایا کرتا تھا.(9) بہر حال

Page 290

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 276 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا آنحضرت عیہ کے گھر آنا جانا اس کثرت سے تھا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی جب یمن سے مدینہ آئے تو ابتدائی زمانہ میں ہم عبداللہ بن مسعود کو خاندان نبوی کا ہی ایک فرد سمجھتے رہے.کیونکہ ان کو اور ان کی والدہ کو ہم اکثر حضور علی کے گھر آتے جاتے دیکھتے تھے.(10) الغرض عبد اللہ بن مسعودؓ نے آنحضرت میﷺ کا دامن مضبوطی سے پکڑا اور آپ سے سیکھا اور خوب سیکھا.حسن تلاوت اور بے ریا سجدہ حضرت ابن مسعود رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ صحبت اور تربیت کے نتیجہ میں ایک عبادت گزار راستباز اور عالم با عمل انسان بن گئے.حضرت عمران کی عبادت گزاری اور حسن تلاوت کا ایک بہت صلى الله ہی خوبصورت واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت حضرت ابو بکر اور میں نبی کریم علی کے ساتھ مدینہ میں گشت کیلئے نکلے.دریں اثناء عبد اللہ بن مسعود کے پاس سے ہمارا گزرہواوہ فل نماز میں قرآن شریف کی تلاوت کر رہے تھے.نبی کریم پہ کھڑے ہوکر ان کی تلاوت سنتے رہے.پھر عبداللہ بن مسعود رکوع میں گئے اور سجدہ کیا اور یہ دعائیں کی کہ اے اللہ مجھے ایمان اور نہ ختم ہونے والا یقین عطا کر اور نبی کریم علیہ کی رفاقت اگلے جہاں میں نصیب فرما.آنحضرت ملے نے فرمایا کہ اے عبداللہ اب جو مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا اور جو بھی دعا کرو گے قبول ہوگی گویا چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج الله پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ فرمایا ” جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ قرآن شریف کو اس طرح ترو تازہ پڑھے جس حال میں وہ نازل کیا گیا ہے.تو اسے عبد اللہ بن مسعودؓ سے قرآن شریف سیکھنا چاہیے.“

Page 291

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 277 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روح مسابقت حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں صبح منہ اندھیرے اٹھا اور عبداللہ بن مسعود کو رسول اللہ اللہ کی یہ بشارت سنانے ان کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی وہ بولے آپ کا رات کے اس وقت میں کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا آپ کو نبی کریم علیہ کی ایک بشارت پہنچانے آیا ہوں عبداللہ بن مسعود کہنے لگے کہ حضرت ابو بکر آپ سے پہلے وہ بشارت مجھے پہنچا بھی چکے ہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اگر ابوبکر نے ایسا کیا ہے تو یہ انہی کا حق تھا کیونکہ وہ تو نیکیوں میں بہت ہی سبقت لے جانے والے ہیں.کبھی بھی کسی نیکی کے بارے میں ہمارا مقابلہ نہیں ہوا مگر ہمیشہ ہی ابوبکر ہم سے آگے بڑھ گئے.(11) عائلی زندگی حضرت عبداللہ بن مسعود کی شادی بنو ثقیف کے ایک اچھے گھرانے میں ہوئی.آپ کی اہلیہ حضرت زینب بنت عبداللہ مدینہ کی ایک مخیر خاتون تھیں وہ حضرت عبداللہ پراپنا مال خرچ کیا کرتی تھیں.ان کا اپنا بیان ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم میہ نے خواتین کو صدقے کی تحریک فرمائی.میرے میاں عبداللہ کے مالی حالات کمزور تھے میں نے ان سے پوچھا کہ جو صدقہ میں نے کرنا ہے اگر میں وہ آپ پر خرچ کر دوں تو کیا اس کا مجھے ثواب ملے گا؟ انہوں نے کہا تم خود آنحضرت ﷺ سے پوچھ لو.وہ کہتی ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک اور انصاری عورت زینب نامی یہی مسئلہ پوچھنے آئی ہوئی تھی.ہم نے حضرت بلال سے کہا کہ آپ ہی ہمیں آنحضور عے سے اس سوال کا جواب لا دو مگر ہمارے نام کا ذکر نہ کرنا.بلال نے جا کر جب حضور سے دریافت کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا پوچھنے والی کون ہیں؟ بلال نے عرض کیا حضور زینب ہیں حضور نے پوچھا کون سی زینب ؟ بلال نے عرض کیا ایک تو عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب اور دوسری زینب انصاریہ.آپ نے فرمایا ہاں ان دونوں کو بتا دو کہ ان کو دوہرا اجر ملے گا.ایک رشتہ دار سے حسن

Page 292

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلوک کا اجر دوسرا صدقے کا اجر (12) میدان بدر کے غازی 278 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مدنی دور میں حضرت عبداللہ بن مسعود کو جملہ غزوات النبی میں حضور ﷺ کے ساتھ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی.جنگ بدر میں دشمن اسلام ابو جہل کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے میں آپ کا بھی حصہ ہے اور وہ اس طرح کہ جنگ ختم ہوئی تو رسول کریم نے فرمایا کوئی ہے جو ابو جہل کے بارہ میں صحیح خبر معلوم کر کے آئے.عبداللہ بن مسعود تعمیل ارشاد کیلئے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ میدان بدر میں دشمن رسول ابو جہل ( جسے حضرت عفراء کے بیٹوں نے تلواروں سے حملہ کر کے بری طرح زخمی کیا تھا ) جان کنی کے عالم میں پڑا ہے.ابن مسعودؓ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم وہی بد بخت اور گمراہ کرنے والے بوڑھے ابو جہل ہو.اس بد بخت کو آخری لمحات میں بھی اپنے فخر و غرور سے نجات نہ ملی تھی.کہنے لگا کیا مجھ سے بھی بڑا کوئی سردار تم نے مارا ہے؟ گویا یہ طعنہ دیا کہ مجھ سے بھی بڑا کوئی سردار ہوگا جسے اس کی قوم نے مار دیا ہو.(13) عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں تب میں نے اس کا کام تمام کر دیا.غزوہ احد میں بھی حضرت عبد اللہ بن مسعود شامل تھے.بلکہ احد کے بعد کفار قریش کا تعاقب کرنے والے ان زخمی صحابہ میں بھی شامل تھے جن کی تعریف کر کے قرآن شریف میں ان کیلئے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا گیا ہے.(14) امارت کو فہ اور اطاعت خلافت حضرت نبی کریم علیہ کی وفات کے بعد عبداللہ بن مسعود نے شام کی فتوحات میں شریک ہونے کی سعادت پائی اور پھر حمص میں قیام پذیر ہو گئے.حضرت عمرؓ نے آپ کو وہاں سے بلوا کر اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کیلئے بطور مربی مقررفرمایا.اس وقت کوفہ کے امیر حضرت عمار بن یاسر تھے (15) حضرت عمر نے اہل کوفہ کو لکھا کہ اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے عبداللہ بن مسعود کو تمہاری تعلیم و تربیت کیلئے اپنی طرف سے ایثار کر کے بھیجا ہے.وگرنہ مرکز اسلام مدینہ میں

Page 293

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 279 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایسے عالم دین کی زیادہ ضرورت تھی پس تم ان سے خوب علم سیکھو.(16) بعد میں حضرت عثمان نے آپ کو کوفہ میں امیر مقرر فرما دیا اور قضاء اور بیت المال کی ذمہ داریاں بھی آپ کے سپر در ہیں.پھر جب بعض مصالح کی بناء پر حضرت عثمان نے آپ کو امارت سے ہٹا کر مدینے واپس بلایا تو کوفہ والے آپ کو واپس جانے نہ دیتے تھے اور کہتے کہ آپ یہیں رہیں.یہ ہماری ذمہ داری ہے کوئی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتا.اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت حضرت عثمان کی اطاعت مجھ پر واجب ہے اور میں ہر گز گوارا نہیں کر سکتا کہ ان کی نافرمانی کر کے فتنہ کا کوئی دروازہ کھولوں.(17) اور یوں آپ خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ واپس آگئے.فکر عاقبت حضرت ابن مسعود مدینہ آکر ایک دفعہ بیمار ہو گئے تو سخت گھبراہٹ طاری ہوئی صحابہؓ نے کہا کہ ہم نے تو کبھی کسی بیماری میں آپ کو ایسا پریشان نہیں دیکھا جیسا اس بیماری میں آپ فکرمند ہوئے ہیں.فرمانے لگے اس بیماری نے مجھے اچانک آن دبوچا ہے اور میں ابھی اپنے آپ کو آخرت کے سفر کیلئے تیار نہیں پاتا اسلئے زیادہ پریشان ہوں.(18) نبی کریم ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی تھی.پھر بھی خدا خوفی اور انکسار کا یہ عالم تھا کہ کہا کرتے تھے ” اے کاش مرجانے کے بعد اٹھایا نہ جاؤں اور حساب کتاب سے بچ جاؤں.“ (19) فراخی میں سادگی حضرت ابن مسعودؓ کے مالی حالات خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنے اچھے ہو گئے تھے کہ آخری عمر میں آپ نے اپنا وظیفہ لینا بھی چھوڑ دیا تھا.اس فارغ البالی کی حالت میں جبکہ نوے ہزار درہم آپ کا ترکہ تھا.اپنے کفن کے بارے میں یہی وصیت کی کہ وہ سادہ چادروں کا ہو اور قیمتی نہ ہو.نیز یہ خواہش کی کہ عثمان بن مظعون جوابتدائی

Page 294

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 280 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ زمانہ اسلام میں قربانی کرنے والے صحابی جو جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ان کے پہلو میں انہیں دفن کیا جائے.(20) سفر آخرت اور وصیت حضرت ابن مسعود کی وفات سے چند روز قبل ایک شخص نے مدینہ آکر انہیں اپنی خواب سنائی الله صلى الله کہ نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں اور عبداللہ بن مسعود نیچے بیٹھے ہیں حضور یہ فرمارہے ہیں کہ اے ابن مسعود اتنی بھی کیا بے مروتی ہے بس اب میرے پاس آجاؤ.آپ نے اس شخص کو قسم دے کر پوچھا کہ کیا واقعی تم نے یہ خواب دیکھی ہے.پھر فرمایا کہ اب میرا جنازہ پڑھے بغیر مدینہ سے واپس نہ جانا اور اس کے چند روز بعد ہی ان کی وفات ہوگئی.(21) یہ 32ھ کا واقعہ ہے جب کہ آپ کی عمر ساٹھ برس سے کچھ اوپر تھی.حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.(22) آپ نے اپنی آخری وصیت میں اپنے غلاموں کے ساتھ بھی احسان کی ہدایت کی کہ جو غلام پانچ سو درہم کی معمولی رقم ادا کر دے اسے آزاد کر دیا جائے.اپنے دینی بھائی حضرت زبیر بن العوام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی قائم فرمودہ مواخات کا حق بھی خوب ادا کیا.ان پر کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ میرے جملہ مالی امور کی نگرانی اور سپر دداری حضرت زبیر بن العوائم اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ذمہ ہوگی اور خاندانی معاملات میں ان کے فیصلے قطعی اور نافذ العمل ہوں گے.کسی بیٹی کی شادی ان دونوں کے مشورے کے بغیر نہیں ہوگی البتہ ان کی بیوہ زینب پر ایسی کوئی پابندی نہیں.(23) اخلاق فاضلہ حضرت ابن مسعودؓ کی وفات پر حضرت ابوموسیٰ نے ابو مسعود سے کہا آپ کا کیا خیال ہے عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنے بعد ایسی خوبیوں والا اور کوئی شخص پیچھے چھوڑا ہے.ابو مسعود کہنے لگے کہ

Page 295

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 281 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بات یہ ہے کہ یہ شرف و سعادت تو واقعی انہیں حاصل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب ہم حاضر نہیں ہو سکتے تھے تو یہ آپ کی خدمت کی توفیق پاتے اور آپ کی صحبتوں سے فیضاب ہوتے تھے.(24) حضرت عبداللہ بن مسعود بہت عابد و زاہد انسان تھے اور اس لحاظ سے صحابہ میں ان کا ایک خاص مقام تھا آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے تمیم بن حرام کا کہنا ہے کہ میں کئی صحابہ کی مجالس میں بیٹھا ہوں مگر عبد اللہ بن مسعود کی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت کی اپنی ہی شان تھی اور ان کا یہ انداز اور طریق مجھے بہت ہی بھلا معلوم ہوتا تھا.(25) حضرت عبداللہ کے علمی مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جن چار بزرگ صحابہ سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کی ہدایت فرمائی ان میں پہلے نمبر پر عبداللہ بن مسعود کا نام تھا.حضرت عبد اللہ بن عمر کہا کرتے تھے کہ جب سے میں نے نبی کریم ع سے قرآن سکھانے والوں میں پہلے نمبر پر عبداللہ بن مسعود کا نام سنا ہے اس وقت سے مجھے ان سے ایک دلی محبت ہے.(26) علمی مرتبه حضرت ابن مسعودؓ کے علمی مقام اور مرتبہ کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب معاذ بن جبل کی وفات کا وقت آیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ ہمیں کوئی نصیحت کریں تو انہوں نے فرمایا کہ علم اور ایمان کا ایک مقام ہے.جو بھی ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے پھر علم اور ایمان سیکھنے کیلئے معاذ بن جبل نے جن چار عالم با عمل بزرگوں کے نام لئے ان میں عبد اللہ بن مسعود کا نام بھی تھا.(27) اللہ تعالیٰ نے ابن مسعود کو دین کی سمجھ اور اجتہاد کی بصیرت سے نوازا تھا اور اس کے ذریعہ وہ امت کی رہنمائی فرماتے تھے.حضرت عمر جیسے بزرگ خلیفہ بھی آپ کی علمی مرتبت کی وجہ سے آپ کا

Page 296

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 282 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ احترام فرماتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.چنانچہ حضرت زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم امیر المومنین حضرت عمر کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دبلا پتلا پستہ قد شخص مجلس میں آیا ان کی طرف دیکھ کر حضرت عمر کا چہرہ تمتما اٹھا اور فرمانے لگے علم سے بھرا ہوا برتن، علم سے بھرا ہوا برتن.آپ نے یہ الفاظ تین دفعہ فرمائے اور جب وہ بزرگ قریب آئے تو ہم نے دیکھا کہ وہ بزرگ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تھے.(28) سنت رسول ع کی پابندی حضرت عبد اللہ بن مسعود سنت نبوی پر خوب کار بند تھے ایک دفعہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول کریم ہے کے دو صحابہ میں سے ایک صحابی روزہ افطار کرنے میں بھی جلدی کرتا ہے یعنی غروب آفتاب کے ساتھ ہی افطار کرتا ہے اور نماز بھی جلدی ادا کر لیتا ہے.( یعنی غروب آفتاب کے معاً بعد ).جبکہ ایک دوسرے صحابی یہ دونوں کام نسبتا تاخیر سے کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے پوچھا کہ جلدی کون کرتا ہے بتایا گیا کہ عبداللہ بن مسعود ایسا کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم مو کا بھی یہی دستور تھا.(29) سنت رسول ﷺ پر عمل کرنے کے شوق و جذب کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ نبی کریم ﷺ سے عادات و خصائل اور سیرت و شائل کے لحاظ سے آپ کے صحابہ میں سے قریب ترین کون ہے جس کا طریق ہم بھی اختیار کریں تو حضرت حذیفہ بیان فرماتے تھے کہ میرے علم کے مطابق چال ڈھال گفتگو اور اخلاق واطوار کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعود نبی کریم علی جوے کے سب سے زیادہ قریب ہیں.شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم فرماتے تھے کہ مجھے اپنی امت کیلئے وہی باتیں پسند ہیں جو عبد اللہ بن مسعود کو مرغوب ہیں.(30) بزرگ صحابہ کہا کرتے تھے کہ عبداللہ بن مسعود اللہ تعالیٰ سے قرب اور تعلق میں غیر معمولی مقام رکھتے ہیں.نبی کریم ﷺ اپنے جن صحابہ کے نمونہ کو شعل راہ بنانے کیلئے بطور خاص ہدایت فرماتے

Page 297

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 283 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے ان میں حضرت ابو بکر و عمر کے علاوہ عبداللہ بن مسعود کا نام بھی شامل ہے.آپ فرماتے عبداللہ بن مسعود کا طریق مضبوطی سے پکڑ لو.(31) طہارت و نفاست نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ صحبت نے مکہ کے اس غریب چرواہے کو ایک نہایت نفیس اور ظاہری و باطنی دونوں لحاظ سے ایک پاک وصاف وجود بنادیا تھا.چنانچہ آپ صفائی پاکیزگی اور نفاست کا غیر معمولی خیال رکھتے تھے.ان کے خادم تقبیح بیان کرتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود بہترین قسم کا سفید رنگ کا لباس زیب تن فرماتے اور اعلیٰ درجہ کی خوشبو استعمال فرماتے تھے.اسی طرح حضرت طلحہ بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ ایسی اعلیٰ درجہ کی منفر دخوشبو استعمال فرماتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں بھی اپنی خاص قسم کی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے.(32) عالم با عمل باطنی لحاظ سے نبی کر یم ﷺ کی صحبت نے حضرت ابن مسعود کو ایک متقی پرہیز گار اور عبادت گزارانسان بنا دیا تھا.عبادت اور نوافل سے ایسی رغبت تھی کہ فرض نمازوں اور تہجد کے علاوہ چاشت کے وقت کی نماز کا اہتمام بھی فرماتے.اسی طرح ہر سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے تھے اور پھر بھی یہ احساس غالب رہتا تھا کہ وہ کم روزے رکھتے ہیں.فرمایا کرتے تھے کہ اس سے زیادہ روزے اس لئے نہیں رکھتا کہ تہجد وغیرہ کی ادائیگی کیلئے بدن میں کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے.اسلئے نماز کو روزے پر ترجیح دیتے ہوئے نسبتا کم نفلی روزوں کا اہتمام کرتا ہوں.(33) حسن خطابت سنت رسول اے کے مطابق حضرت ابن مسعود صرف جمعرات کے روز وعظ فرمایا کرتے تھے جو بہت ہی مختصر اور جامع ہوتا تھا اور ان کا بیان ایسا دلچسپ اور شیریں ہوتا تھا کہ حضرت عبداللہ بن مرد اس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ جب تقریر ختم کرتے تھے تو ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کاش

Page 298

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 284 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابھی وہ کچھ اور بیان کرتے.شام کے وقت اس وعظ میں آپ بالعموم نبی کریم ﷺ کی احادیث میں سے صرف ایک حدیث سنایا کرتے تھے اور حدیث بیان کرتے وقت آپ کے جذب و شوق اور عشق رسول کا منظر دیدنی ہوتا تھا.آپ کے شاگر د مسروق کہتے ہیں ایک روز آپ نے ہمیں نبی کریم ہے کی ایک حدیث سنائی اور جب ان الفاظ پر پہنچے سَمِعْتُ رَسُولَ الله - کہ میں نے خدا کے رسول سے سنا تو مارے خوف اور خشیت سے آپکے بدن پر ایک لرزہ طاری ہو گیا.یہاں تک کہ آپ کے لباس سے بھی جنبش محسوس ہونے لگی.اس کے بعد احتیاط کی خاطر یہ بھی فرمایا کہ شاید حضور تو نے یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ.(34) حدیث بیان کرتے وقت یہ خشیت اور کمال درجہ احتیاط اس وعید اور گرفت کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے جو نبی کریم ﷺ نے غلط احادیث بیان کرنے والوں کیلئے بیان فرمائی.ایک اور روایت سے بھی ان کی اس احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے.عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سال تک عبداللہ بن مسعود کے پاس آتا جاتا رہاوہ حدیث بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ قال رسول اللہ ﷺ ( یعنی اللہ کے رسول نے فرمایا) کے الفاظ کہہ کر آپ پر ایک عجیب کرب کی کیفیت طاری ہوگئی اور پسینہ پیشانی سے گرنے لگا.پھر فرمانے لگے کہ اس قسم کے الفاظ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ حضور ﷺ نے فرمائے تھے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے مختصر خطاب کے بعد حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ اب وہ لوگوں وعظ کریں.انہوں نے مختصر وعظ کیا پھر حضرت عمرؓ سے فرمایا تو انہوں نے حضرت ابوبکر سے بھی مختصر وعظ کیا پھر کسی اور شخص سے فرمایا تو اس نے لمبی تقریر شروع کر دی.رسول اللہ نے فرمایا بیٹھ جاؤیا فرمایا خاموش ہو جاؤ پھر حضور نے عبداللہ بن مسعودؓ سے تقریر کیلئے فرمایا انہوں نے حمد و ثناء کے بعد صرف یہ کہا اے لوگو! اللہ ہمارا رب ہے قرآن ہمارا رہنما بیت اللہ ہمارا قبلہ اور محمد ہمارے نبی ہیں.دوسری روایت میں ہے انہوں نے کہا ہم اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر

Page 299

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 285 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راضی ہیں اور مجھے تمہارے لئے وہ پسند ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے.نبی کریم نے فرمایا ابن مسعودؓ نے درست کہا مجھے بھی اپنی امت کیلئے وہ پسند ہے جو ابن مسعودؓ نے پسند کیا.(35) مقام تقویٰ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے تھے کہ قرآن شریف کی سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 94 نازل ہوئی جس میں یہ ذکر ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے جب وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں پھر تقویٰ ( میں اور ترقی ) کریں اور ایمان لائیں پھر تقویٰ ( میں مزید ترقی ) کریں اور احسان کریں تو جو کچھ وہ کھائیں اس پر انہیں کوئی گناہ نہیں ( ہوگا ) اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.اس پر رسول اللہ اللہ نے مجھے فرمایا کہ تم بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہو جن کا اس آیت میں ذکر ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بہت دبلے پتلے سانولے رنگ اور پستہ قد کے تھے.ایک دفعہ حضور کے ساتھ شریک سفر تھے کہ آپ نے انہیں ایک جنگلی درخت سے اس کا پھل ( پہیلوں ) تو ڑ کر لانے کیلئے فرمایا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بکریاں چرانے کے زمانے میں جنگلوں کی خاک چھانی ہوئی تھی اور درختوں پر چڑھنے کا ڈھنگ خوب آتا تھا.اس لئے بڑی پھرتی سے درخت پر چڑھ گئے.بعض لوگ ان کی دبلی پتلی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسی مذاق کرنے لگے.نبی کریم ﷺ کو اپنے اس محبوب صحابی کی غیرت آئی.فرمایا کہ عبداللہ بن مسعود کی نیکیوں کا پلڑا قیامت کے دن بہت بھاری ہوگا.اتنا بھاری کہ احد پہاڑ سے بھی بڑھ کر.(36) گویا آپ نے اپنے خدام کو یہ سبق دیا کہ اسلام میں ظاہر سے بڑھ کر باطنی حسن کی زیادہ اہمیت اور قدرو منزلت ہے.کہ جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے وہی سب سے زیادہ معزز بھی ہے.روایات حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے حضرت ابو بکر و عمر سے روایات بیان کی ہیں.حضرت ابو بکر وعمرو

Page 300

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عثمان و علی ان سے بھی روایت کرتے ہیں.(37) 286 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہوں نے آغاز اسلام سے ہی اپنے آپ کو آنحضرت مﷺ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا اور حضور ﷺ کی ذاتی خدمت کی بھی کثرت سے توفیق پائی اور یہ سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا.اس لحاظ سے آپ نے آنحضرت کی پاکیزہ صحبت سے بہت استفادہ کیا اور برکات سے حصہ پایا.حضور کی پاک صحبت و تربیت نے عرب کے اس چرواہے کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ نبی کریم علیہ فرمایا کرتے تھے اگر میں اپنے صحابہ میں سے کسی کو بلامشورہ امیر مقرر کرنا چاہوں تو عبد اللہ بن مسعود کو امیر مقرر کروں.(38) زبان خلق کی شہادت حضرت علی اپنے زمانہ خلافت میں جب کوفہ تشریف لے گئے تو اس زمانہ میں عبد اللہ بن مسعود وہاں مقیم تھے.حضرت علی کی مجلس میں عبداللہ بن مسعود اور ان کی باتوں کا کچھ تذکرہ ہوا لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا کہ اے امیر المومنین ہم نے عبد اللہ بن مسعود سے بڑھ کر بہترین اخلاق والا اور نرمی سے تعلیم دینے والا اور بہترین صحبت اور مجلس کرنے والا اور انتہائی خدا ترس اور کوئی نہیں دیکھا.حضرت علی نے بغرض آزمائش ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ سچ سچ بتاؤ کہ عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق یہ گواہی صدق دل سے دیتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہنا.اے اللہ میں بھی عبداللہ بن مسعود کے بارہ میں یہی رائے رکھتا ہوں جو ان لوگوں کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر رائے رکھتا ہوں.(39) اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگان سلف کی پاکیزہ سیرت اور نیک اقدار زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 301

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 287 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ −1 اصا به جز 4 ص129 حواله جات 2- ابن سعد جلد 3 ص 151-150 ی که به آ -4 مسند احمد جلد نمبر 3 ص 151 و منتخب کنز العمال بر حاشیه مند جلد 5 ص 239 اسد الغابہ جلد نمبر 3 ص257 5- الاصابہ ج 4 ص 129 -6 -7 ابن سعد جلد 3 ص 151 ابن سعد جلد 3 ص 8- اصا به جز 4 ص 129 -9 -10 مسند احمد جلد نمبر 3 ص 238 بخاری کتاب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعود -11 - مسند احمد جلد نمبر 1 ص 38 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 236 12- مسند احمد جلد نمبر 3 ص 502 13 - بخاری کتاب المغازی غزوہ بدر -14 ابن سعد جلد 3 ص 153 15- اصابه جز 4 ص 130 16- ابن سعد جلد 3 ص 157 17- اصابه جز 4 ص 130 18- ابن سعد جلد 3 ص 158 19 - اکمال ذکر عبد اللہ بن مسعود ، ابن سعد جلد 3 ص158 20 - اسد الغابہ جلد 3 ص 260 ، ابن سعد جلد 3 ص159 -21 اسد الغابہ جلد 3 ص260 22- ابن سعد جلد 3 ص 160 ، اکمال ذکر عبد اللہ بن مسعود -23 -24 -25 ابن سعد جلد 3 ص159 ابن سعد جلد 3 ص160 الاصابہ جز 4 ص 130 26 بخاری کتاب المناقب مناقب عبد اللہ بن مسعود، مسند احمد جلد نمبر 2 صف 163 27- مسند احمد جلد نمبر 5 ص 243

Page 302

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -28 -29 ابن سعد جلد 3 ص 156 مسند احمد جلد نمبر 6 ص 48 288 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 30 - بخاری کتاب المناقب 31- ترمذی ابواب المناقب، منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 235 -32 -33 -34 -36 -37 ابن سعد جلد 3 ص 157 ابن سعد جلد 3 ص 155 ابن سعد جلد 3 ص 156 مسند احمد جلد نمبر 3 ص 156 منتخب کنز العمال برحاشیہ جلد 5 ص 238 مسند احمد جلد نمبر 1 ص 114 ابن سعد جلد 3 ص 160 ، اکمال زکر عبد اللہ بن مسعود 38- ترمذی ابوب المناقب -39 ابن سعد جلد 3 ص 156

Page 303

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 289 حضرت بلال بن رباح" حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ بلال نام بظاہر ایک سیاہ فام حبشی تھے.لمبے قد کے دُبلے پتلے ،ہوٹے ہونٹ ،موٹی ناک سوکھے گال گھنے بال.مکے کے خاندان بنی نج کی لونڈی حمامہ کے ہاں پیدا ہونے والے اس بچے سے کسی کو کیا رغبت اور دلچسپی ہو سکتی تھی ؟ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن یہ غلام زادہ اپنے مالکوں کا آقا بنا دیا جائے گا.محمد مصطفی کی قوت قدسیہ نے اس ناممکن کو کیسے ممکن بنایا ؟ اس سوال کا جواب حضرت بلال کی سچی کہانی ہے.سعادت از لی نے بلال کی دستگیری کی.رسول اللہ نے دعوی نبوت فرمایا تو بلال اولین ایمان لانے والوں میں شامل ہو گئے.پھر رسول کریم ﷺ کی صحبت نے آپ کو ایسا چمکایا کہ اس سیاہ قالب کے قلب منور سے نور کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر دنیا کو روشن کرنے لگیں.(1) ہمارے آقا ومولا حضرت محمد ﷺ نے اس خام سنگ سیاہ کو اپنے دست مبارک میں لے کر اس خوبی سے تراشا کہ وہ ایک خوبصورت چمکتا ہوا ہیرا بن گیا.اور شش جہات میں اپنا نور اور حسن بکھیر نے لگا.پھر یوں ہوا کہ وہی بلال محمد مصطفی ﷺ کی سچی غلامی کے طفیل ہم غلاموں کا بھی آقا بن گیا.اب وہ پیکر سیاہ نہ رہا بلکہ بلال نام ہو گیا صدق اور استقامت کا وہ نشان ہو گیا الفت و وفا اور صبر ورضا کا.وہ آواز بن گیا حق وصداقت کی.ابتلاء پر استقامت حضرت بلال ابتدائی سات ایمان لانے والوں میں شامل تھے جن میں حضرت ابو بکر، عمار، یاسر سمیہ، مقداد وغیرہ شامل ہیں.قریش مکہ کی مخالفت پر باقی لوگوں کے رشتہ دار اور عزیز تو اُن کی پشت پناہی کرتے تھے.لیکن بلال بیچارہ تو بے آسرا تھا.اُس کا کوئی سہارا نہ تھا.اُن کا مالک امیہ بن خلف اور دیگر مشرکین انہیں سخت اذیتیں دیتے تھے.امیہ لوہے کی زرہیں پہنا کر انہیں سخت چلچلاتی دھوپ میں پھینک دیتا.اور اُن سے کلمہ کفر کہلوانا چاہتا.کہ لات و عری کی خدائی کا اقرار کرو.مگر آفرین ہے بلال پر جس کی زبان سے سوائے احد کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلا.خدا کی راہ میں انہیں بہت

Page 304

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 290 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ بے عزت اور ذلیل کیا گیا.گلے میں رسی ڈال کر مکے کی گلیوں میں کھینچا گیا اور نوجوان لڑکوں کے حوالے کر دیا گیا.اور وہ سارا دن اُن کو شہر میں کھینچتے پھرتے مگر بلال اپنے صدق اور استقامت پر قائم رہے.(2) ابو جہل بلال کو توحید سے منحرف کرنے کے لئے سخت اذیتیں دیا کرتا تھا.مگر ایک ہی آواز جو ہمیشہ بلال کی زبان سے جاری ہوتی.وہ توحید کا نعرہ اور احد احد کی آواز تھی کہ خدا ایک ہے.خدا ایک ہے.ایک دفعہ ورقہ بن نوفل حضرت بلال کے پاس سے گزرے.اُس وقت انہیں سخت اذیت کا نشانہ بنایا جار ہا تھا.اور بلال دیوانہ وار احد ، احد، اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے، پکاررہے تھے.ورقہ بن نوفل انہیں دشمن کے چنگل سے تو چھڑا نہ سکے لیکن بلال کو دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ اے بلال اگر اس طرح تو حید کی خاطر تمہاری جان جاتی ہے تو پرواہ نہ کرنا خدا کی قسم میں وہ شخص ہوں گا.جو تمہاری قبر کو ہمیشہ کے لئے بطور ایک یاد گارنشان کے قائم رکھوں گا.“ (3) آزادی اور دیر رسول کی دربانی بلال کا مالک دشمن اسلام امیہ تپتی دوپہر کو سنگلاخ زمین پر پشت کے بل لٹا کر آپ کے سینے پر پتھر رکھ دیتا اور کہتا محمد کا انکار کرو ورنہ اسی حال میں مر جاؤ گے.مگر وہ پھر بھی یہی نعرہ بلند کرتے.خدا ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول.بلال کی یہ تکالیف اور دُکھ آنحضرت میے سے دیکھے نہ جاتے تھے.آپ نے ایک روز ابوبکر سے مشورہ فرمایا کہ اگر ہمارے پاس کچھ مال ہوتا تو ہم بلال کو خرید لیتے اور وہ بے چارہ اذیتوں سے بچ جاتا.حضرت ابو بکر نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ذریعہ سے بلال کے مالک امیہ سے بات کی اور حضرت ابو بکر کا ایک مضبوط غلام دے کر اس کے عوض حضرت بلال کو خرید لیا گیا جب کہ وہ پتھروں میں دبے پڑے تھے.پھر خدا تعالیٰ کی خاطر ابو بکر نے انہیں آزاد کر دیا.مکی دور میں جو مواخات ہوئی اُس میں ابو عبیدہ بن الجراح کو رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال کا دینی بھائی بنایا.بعد میں ابور ویجہ تھی بھی حضرت بلال کے دینی بھائی بنے ہیں.(4) حضرت بلال نے دنیوی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کی دائی

Page 305

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 291 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ غلامی اختیار کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا.وہ دیر رسول ﷺ سے چمٹ کر آپ کے ہی ہو گئے.آپ کی خدمات بجالانے لگے اور سفر وحضر میں آپ کے ساتھی بن گئے.اُس زمانے میں آنحضرت جعلی وہ دعوت الی اللہ کی مہمات کے لئے اردگرد کے علاقوں میں جایا کرتے تھے.حضرت بلال بھی آپ کے شریک سفر ہوتے اور مختلف مواقع پر بھوکے اور فاقے سے رہ کر بھی کئی روز تک آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان مہمات میں شریک ہوتے رہے.(5) رسول کریم علیہ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو کم از کم سات وزراء دیئے اور مجھے چودہ ایسے مشیر عطا فرمائے.پھر آپ نے بلال کی خدمات کی بدولت انہیں ان چودہ مددگاروں اور معاونین میں سے قرار دیا جو خاص طور پر آپ کو نصیب ہوئے.کفار مکہ بلال کو بڑی تحقیر سے دیکھا کرتے تھے اور جب آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کو دیکھتے تو حضور ﷺ کو مخاطب کر کے کہتے تھے کہ اے محمد ﷺ کیا آپ ان چند غلاموں پر راضی ہو گئے ہو.(6) بہر کیف مکہ میں مخالفت بڑھتی گئی اور مسلمانوں نے حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی.ہجرت اور یا دوطن حضرت بلال کو بھی مدینہ ہجرت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں حضرت عمار اور حضرت سعدؓ کے ساتھ مدینہ پہنچے.ابتدائی زمانے میں مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی اور مکہ کی یاد بھی بہت ستاتی تھی.اس زمانہ کے متعلق حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں اپنے والد حضرت ابو بکر اور حضرت بلال کی بیماری کا سن کر رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے ان کی خبر گیری کے لئے گئی.دیکھا کہ وہ بیمار ہونے کی حالت میں پڑے ہیں.بلال سے ان کا حال پوچھا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے.الا لَيْتَ شَعُرى هَلْ اَبِيْتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِى اِذْخَرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ اَرِدَنُ يَوْمًا مِّيَاهَ مَجِنَّةِ وَهَلْ يَبْدُونُ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ

Page 306

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 292 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کہ کیا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہم واپس اپنے پیارے وطن مکہ لوٹیں گے اور وہی جانی پہچانی گھاس اذخر اور جلیل ہمارے دائیں بائیں ہوگی اور ہاں کیا وہ دن بھی آئے گا جب ہم مجنہ کے چشموں کا پانی پئیں گے.اور شامہ اور طفیل کے علاقوں میں دوبارہ جائیں گے.آنحضرت ﷺ کو جب بلال کی یہ حالت عائشہ نے جا کر بتائی تو حضور ﷺ کی طبیعت میں دعا کی طرف توجہ ہوئی آپ نے دُعا کی کہ اے مولی مدینہ کی اس وبا کو یہاں سے دور کر دے اور کسی اور علاقہ میں لے جا.مولی ! جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں ان کو مدینہ ایسا محبوب کر دے اس کا ایسا پیار ان کے دلوں میں پیدا کر دے کہ مکہ کی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر مدینہ انہیں پیارا ہو جائے.(7) یہ دعا جس طرح قبول ہوئی اس کا ذکر آگے آئے گا.مؤذن اسلام مدینہ میں حضرت بلال کی بڑی سعادت اسلام کا پہلا موذن ہونے کی خدمت ہے.اس سے قبل مسلمان نماز کے لئے وقت کا اندازہ کیا کرتے تھے.مدینہ میں جب زیادہ لوگ جمع ہو گئے تو تجویز میں ہونے لگیں کہ نماز کے وقت میں ناقوس بجایا جائے یا قرنا (سینگ) پھونکا جائے.یہ مشورے ہورہے تھے کہ حضرت عبداللہ بن زید نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ ایک شخص اذان کے کلمات مجھے سناتا ہے.آنحضرت ﷺ نے وہ کلمات سن کر حضرت بلال کو یاد کیا.اور عبداللہ سے فرمایا کہ بلال کو یہ کلمات بتاتے جائیں کیونکہ بلال کی آواز بہت اونچی ہے اور لمبی سانس کے ساتھ یہ آواز کولمبا بھی کر لیتے ہیں.اس لئے اذان یہ کہیں گے.یوں بلال اسلام کے پہلے موذن ٹھہرے اور اپنی بلند ، خوبصورت آواز کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں اذان کی یہ سعادت سفر و حضر میں انہیں کو نصیب ہوتی رہی.(8) الله شفقت رسول علیہ اور حوصلہ افزائی حضور کے اس قرب اور صحبت کے نتیجہ میں بلال نے اعلیٰ تربیت کے بہت مواقع پائے.حضور انہیں سمجھاتے تھے کہ بلال ! جب اذان کہو تو ذرا آواز کو لمبا کر کے کلمات دہرا کر کہا کرو تا کہ دُور تک

Page 307

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 293 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ آواز پہنچے اور اقامت ذرا تیزی سے کہا کرو.اذان کے کلمے دو دو دفعہ دہراؤ اور اقامت کے کلمات ایک دفعہ دہرایا کرو.(9) ایک موقع پر جب بلال اذان نہ دے سکے.کسی اور شخص نے اذان کہی اور بلال حسب عادت اقامت کہنے لگے تو آنحضرت ﷺ نے سمجھایا کہ جو اذان کہتا ہے اقامت اسی کا حق ہے.بلال اوقات نماز کے منتظم تھے.آنحضرت ﷺ کو نمازوں کے اوقات میں اطلاع کرتے اور نمازوں کے لئے بلاتے تھے.ایک موقع پر وہ فجر کی اذان کے بعد جب آنحضرت ﷺ کو بلانے کے لئے گئے تو حضور و نوافل ادا کرنے کے بعد آرام فرما رہے تھے بلال نے آواز دی الصَّلوةُ خَيْرُ مِنَ النَّوْمِ نماز نیند سے بہتر ہے.آنحضرت ﷺ کو اپنے اس غلام کے یہ کلمے اتنے پسند آئے کہ آپ نے فجر کی اذان میں ان کو شامل کرنے کا ارشادفرمایا.(10) حضرت بلال نظر میں خرابی کے باعث صبح کی اذان بہت جلدی دے دیا کرتے تھے.آنحضرت فرماتے تھے کہ بلال تو تہجد کے وقت ہی اذان دے دیا کرتا ہے.اس لئے جو روزے رکھنے والے ہیں وہ بے شک کھاتے پیتے رہیں جب تک کہ عبد اللہ بن مکتوم اذان دے.(11) فروگذاشت پر رسول اللہ کا رد عمل اور شفقت ایک دن بلال نے غلطی سے کوئی آدھی رات کو ہی اذان کہہ دی.آنحضرت علیہ نے ان کو بلا کر فرمایا اب جاؤ اور مدینہ کی گلیوں میں اعلان کرو کہ مجھ سے غفلت ہوئی اور وقت کا پتہ نہیں چلا اور وقت سے پہلے اذان کہہ بیٹھا.خیبر کے سفر کا واقعہ ہے آنحضرت عالیہ واپس تشریف لا رہے تھے آدھی رات سے زیادہ وقت گزر چکا تھا.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کچھ دیر آرام کر لیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے نماز فجر کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے.حضرت بلال نے عرض کیا فجر کی نماز پر جگانے کا ذمہ میں لیتا ہوں.بلال کہتے ہیں پڑاؤ کیا گیا سب لوگ سو گئے اور میں اپنے اونٹ کے پالان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا.مگر آنکھ لگ گئی اور اس وقت کھلی جب سورج کی گرم شعاعوں نے مجھے جگایا.سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کی آنکھ کھلی حضور ﷺ نے پہلی بات ہی یہ پوچھی بلال کہاں ہے؟ اور جب میں

Page 308

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 294 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے تو فرمایا کہ تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ فجر کی نماز پر جگاؤ گے؟ ذہین بلال نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ میرے آقا! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اُسی خدا نے میری روح کو بھی قبض کئے رکھا جس نے آپ کی روح کو.آنحضرت ﷺ یہ سن کر مسکرا دئیے.صحابہ کو نماز کی تیاری کا حکم دیا اور نماز فجر با جماعت پڑھائی.اس کے بعد فر مایا اگر کسی موقع پر نماز بر وقت ادا ئیگی سے رہ جائے تو جب آنکھ کھلے یا یاد آ جائے اسی وقت نماز ادا کر لینی چاہیے.(12) حضرت بلال آنحضرت ﷺ کے محافظ اور پہریدار بھی تھے.مختلف مواقع پر وفود کی آمد پر یا عیدوں کے موقع پر آپ نیزہ لے کر آنحضرت ﷺ کے آگے آگے ہوتے تھے.عید کے میدان میں بلال رسول اللہ علیہ کی جائے نماز کے آگے نیزہ بطورسُترہ گاڑا کرتے تھے.(13) رسول اللہ ﷺ کے خزانچی بلال آنحضرت ﷺ کے خزانچی اور اکا ؤنٹنٹ بھی تھے.کئی دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صدقہ کے اموال اکٹھے کئے.جو مال آتا اپنے پاس جمع کرتے ان کا حساب کتاب رکھتے.یہ تمام ذمہ داری مکمل بھروسہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کے سپرد کر رکھی تھی.اس سلسلہ میں حضرت بلال ایک بہت دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر ایک مشرک نے مجھے کہا کہ آنحضرت کے لئے جو چیز بھی تمہیں ادھار پر لینا ہو یا کبھی کسی غریب اور مسکین کو کوئی کپڑایا چادر یا کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر دینا ہو وہ میرے سے لے لیا کرو میرے پاس اتنی فراخی ہے کہ میں تمہیں قرض پر سب چیزیں دے سکتا ہوں.حضرت بلال کہتے ہیں کہ جب اس کا ڈھیر سارا قرض جمع ہو گیا.ابھی چند دن قرض کی ادائیگی میں باقی تھے.ہمارے پاس قرض ادا کرنے کے لئے کچھ نہ تھا.اس مشرک نے مجھے بلا کر بری طرح ڈانٹا اور بہت سختی کرتے ہوئے کہا کہ ان چار دنوں میں لازماً تمہیں یہ قرض ادا کرنا ہوگا.بلال کہتے ہیں کہ میں رات کو سخت پریشانی کی حالت میں آنحضرت کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ آپ کے پاس قرض ادا کر نے کے لئے کچھ ہے؟ پھر اپنا حال بھی سنایا کہ میرے پاس بھی کچھ نہیں ہے اور یہ کہ یہودی تو مجھے بہت ذلیل ورسوا کرے گا اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو میں نواحی مسلمان قبائل کے پاس بھاگ کر چلا جاتا ہوں جب آپ کے پاس مال

Page 309

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 295 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ آئے گا اور قرض کی ادائیگی کے لئے رقم ہوگی تو میں پھر حاضر ہو جاؤں گا.بلال کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ سے یہ بات کر کے مدینہ سے بھاگ جانے کی تیاری کر کے سو گیا کہ علی الصبح کہیں نکل جاؤں گا.اپنا تھیلا تلوار اور جوتے پاس رکھے.صبح نماز سے پہلے میں نکلنے کو تھا کہ مجھے ایک شخص نے آواز دی کہ بلال تمہیں خدا کے رسول ﷺ یاد کرتے ہیں.میں حاضر خدمت ہوا تو آنحضرت علیہ نے فرمایا اے بلال وہ چار اونٹ جو باہر سامان سے لدے ہوئے کھڑے ہیں لے لو.ان میں کپڑے بھی تھے.کھانے پینے کی چیزیں بھی تھیں.حضور ﷺ نے فرمایا کہ فدک کے رئیس نے یہ چیزیں میرے لئے تحفہ کے طور پر بھیجی ہیں.جاؤ اپنے سارے قرضے اور واجبات ادا کر دو.‘ (14) غزوات میں شرکت حضرت بلال کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.بدر میں بھی آپ شریک ہوئے جنگ میں مشرکین کا سردار امیہ بن خلف بھی شامل تھا جو کبھی بلال کا مالک تھا.حضرت بلال اس پر حملہ آور ہوئے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف پناہ دینے لگے حضرت بلال نے نعرہ لگایا لا نجوتُ إِنْ نَجا اُمیہ اگر آج امتیہ بچ گیا تو پھر بلال کو نجات نہیں ہے اور بلال کے وار سے ظالم امیہ بچ نہ سکا اور کیفر کردار کو پہنچا.(15) حضرت بلال آنحضرت عیہ کے بہت ہی مستعد خادم تھے.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ حنین سے واپسی پر میں نے حضرت بلال کو دیکھا آنحضرت ﷺ نے انہیں آواز دی اور وہ اس طرح چھلانگ لگا کر اپنی جگہ سے اچھلے جیسے پرندہ اڑا کرتا ہے اور کہا لبیک اے میرے آقا میں حاضر ہوں.حضور نے فرمایا میرے گھوڑے کی زین ڈال دیں.(16) فتح مکہ میں بلال کا اعزاز آنحضرت حضرت بلال کی بہت دلداری فرمایا کرتے تھے.فتح مکہ کے موقع پر حضور نے حضرت بلال کو اپنے قافلہ خاص میں شامل فرمایا مکہ میں داخل ہوتے وقت حضرت اسامہ حضور کی سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے.حضرت ابو بکر آپ کے دائیں تھے تو حضرت بلال آپ کے بائیں قافلہ کے ہم رکاب چل رہے تھے.اس موقع پر آنحضرت نے بلال کا ایک اور حسین انتقام اس طرح

Page 310

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 296 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ لیا کہ آپ نے بلال کو فتح کا جھنڈ ا عطا کر کے فرمایا کہ " اے بلال! اسے جو ن مقام پر گاڑنا.اور پھر مکہ کی وادی میں جہاں بلال کو اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا.ایک اعلان بہت ہی تعجب سے سنا گیا جو یہ تھا کہ آج جو بلال تھبیشی کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اُسے امان دی جائے گی یہ بلال کے لئے کتنا بڑا اعزاز تھا.ان کے تمام دکھوں اور ان پر کئے گئے مظالم کا کیسا حسین انتقام تھا.(17) پھر آنحضرت علہ جب خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے تو اُس وقت بھی حضرت بلال آپ کے ساتھ تھے.اور حضرت بلال بیان کیا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے خانہ کعبہ کے عین وسط میں ستونوں کے درمیان دو نوافل ادا فرمائے.دنیا تو فتح کے شادیانے بجایا کرتی ہے.مگر محمد ﷺ نے اپنی عظیم فتح کا نقارہ بجانے کے لئے بھی تو حید کے مضمون کا انتخاب فرمایا اور ظہر کے وقت آپ نے حضرت بلال کو ہدایت فرمائی کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر آپ اذان کہو اور یوں تو حید کی منادی اور آنحضرت ﷺ کی رسالت کے اعلان کے ذریعہ سے جو حضرت بلال نے کیا مکہ میں فتح کا نقارہ بجایا گیا.(18) برکات صحبت رسول الله حضرت بلال آنحضرت ﷺ کے ساتھ غزوات حنین میں بھی شریک تھے.اس سفر سے واپسی پر ایک بدو نے اس وقت آپ سے کچھ مال مانگا جبکہ آپ تقسیم فرما چکے تھے.آپ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو کہ آئندہ مال ملے گا اس نے کہا ہمیں بشارتوں کے ہی وعدے ملتے ہیں.مال دینا ہے تو دیکھیئے تب آپ نے جوش میں آکر حضرت بلال سے فرمایا " یہ تو بشارت قبول نہیں کرتے تم ہی یہ بشارت قبول کر لو اور بلال کو بلا کر حضور ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی دیا ان کے ساتھ ابو موسی اشعری بھی تھے.حضرت ام سلمہ پر دے میں سے بولیں کہ اے بلال اپنی ماں کے لئے بھی اس بابرکت پانی میں سے کچھ بچا لینا.(19) بلال نے رسول اللہ ﷺ کو بہت قریب سے دیکھا اور آپ کی سچائی کے بہت سے نشانوں کے گواہ بنے.اُم مالک انصاریہ رسول اللہ لینے کے لئے گھی کا تحفہ چمڑے کے ایک برتن میں لے کر حاضر ہوئیں.حضور نے بلال کو فرمایا کہ گھی نکال کر برتن واپس کر دیں.انہوں نے ایسا ہی کیا مگر

Page 311

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 297 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ خاتون نے دیکھا کہ اس کا برتن بھرا ہوا ہے.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات بذریعہ وحی ظاہر ہوئی ہے.آپ نے استفسار فرمایا کہ کیوں کیا ہوا؟ عرض کیا آپ نے میرا تحفہ واپس لوٹا دیا.رسول اللہ ﷺ نے بلال کو بلا کر پوچھا.انہوں نے عرض کیا میں نے تو گھی کا برتن ایسے نچوڑ لیا تھا کہ مجھے خود سے شرم آنے لگی تھی.تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے خاتون! تجھے مبارک ہو یہ تو برکت ہے جو فوری ثواب اور اجر کے طور پر اللہ نے آپ کو عطا فرمائی.پھر حضور نے انہیں نماز کے بعد تسبیحات سبحان اللہ، الحمد للہ پڑھنے کے لئے سکھائیں.(20) حجۃ الوداع کے سفر میں بھی حضرت بلال آنحضور علے کے شریک سفر تھے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسامہ اور حضرت بلال کو ہم نے آنحضرت علیہ کے ساتھ حجۃ الوداع میں دیکھا ان میں سے ایک نے آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑی ہوئی تھی اور دوسرے نے کپڑے کے ساتھ آپ کو دھوپ سے سایہ کیا ہوا تھا.حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو خاموش کرانے کی ڈیوٹی بھی حضرت بلال کے سپر دفرمائی تھی.(21) رسول اللہ ﷺ کی شفقت بلال کی یہ مستعدی حضور ﷺ کو بہت ہی پیاری اور بھلی لگتی تھی.حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آنحضرت ﷺ کی اپنے گھر میں دعوت کی حضور ﷺ ابھی کھانا تناول فرمار ہے تھے.بُھنا ہوا گوشت چھری سے کاٹ کر مجھے عطا فرمانے لگے کہ اتنے میں بلال کی آواز آ گئی یا رسول اللہ ﷺ نماز کا وقت ہو گیا ہے.حضور ﷺ کو بلال کی اس مستعدی پر بہت ہی پیار آیا اور فرما یا مَالَهُ تَرِبَ يَدَاهُ اللہ اس کا بھلا کرے اس کو کیا ہو گیا یعنی ابھی تو ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور یہ نماز کے لئے بلانے لگا ہے.(22) مگر یہ بھی بلال کے ساتھ محبت کا ایک انداز تھا ورنہ آنحضرت علیہ کی جنت اور آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز ہی تھی.اور اکثر بلال کو یہی فرمایا کرتے تھے کہ قُمُ يَا بِلالُ وَأَرِحْنَا بِالصَّلوةِ - اے بلال کھڑے ہو.اقامت کہو اور نماز کے ساتھ ہمیں تسکین بہم پہنچاؤ کہ حضور ﷺ کی تمام پریشانیوں

Page 312

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 298 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کا حل اور نجات نماز میں ہی تھی.(23) اذان بلالی اور یا درسول آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت بلال صخت بے چین ہو گئے ابھی آپ کی تدفین عمل میں نہیں آئی تھی کہ وہ آخری اور یادگار اذان حضرت بلال نے مدینہ میں کہی اس وقت لوگوں کے دل صدمے سے سخت نڈھال تھے.بلال نے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللہ کہا تو ایک عجیب عالم تھا.عاشق رسول ہی ہے بلال کی آواز اپنے آقا کو نہ پا کر گلو گیر ہوگئی.لوگ روئے اور بہت روئے اور حضرت بلال کی یہ اذ ان لوگوں کے لئے ایک یا د رہ گئی.رسول اللہ ہے کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر آپ کو کہتے کہ اذان دیا کریں تو یہ عرض کرتے کہ اب رسول اللہ علی کے بعد اذان کہنے کو میرا جی نہیں چاہتا.حضرت ابو بکر بھی ان کی حالت سمجھتے اور فرماتے ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی.(24) معلوم ہوتا ہے کہ اَشْهَدُ اَنْ مُحَمَّداً رَّسُولُ الله کہتے ہوئے جب بلال کو حضور ﷺ کی یاد آتی تو اس کی تاب نہ لا سکتے تھے رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے بعد تو مدینہ میں بھی ان کا دل نہیں لگتا تھا.حضرت ابو بکر سے عرض کیا اجازت ہو تو میں شام کے علاقوں میں جہاں جہاد ہو رہا ہے وہاں چلا جاؤں تا راہ خدا میں جام شہادت نوش کر سکوں حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا ” میں بوڑھا ہو گیا ہوں میرا بھی تم پر کوئی حق ہے میرے پاس رک جاؤ.چنانچہ وہ کچھ عرصہ آپ کے پاس رک گئے.پھر باصرار عرض کیا اگر تو آپ نے مجھے خدا کی خاطر آزاد کیا تھا تو پھر میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیجیئے.تب حضرت ابو بکر نے آپ کو روکا نہیں اور یوں آپ شام تشریف لے گئے.بعض روایات کے مطابق بلال حضرت ابوبکر کی وفات تک مدینہ میں ہی رہے.پھر حضرت عمر سے اجازت لے کر جہاد کیلئے شام چلے گئے.حضرت عمرؓ نے پوچھا اذان کون دے گا تو حضرت بلال نے حضرت سعد قرظی کے بارہ میں مشورہ دیا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی اذان دیتے رہے.(25) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور وہ وہاں تشریف لے گئے تو جابیہ مقام پر حضرت بلال سے ملاقات ہوئی.حضرت بلال نے عرض کیا کہ مجھے اور میرے دینی بھائی ابورویحہ

Page 313

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 299 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کو شام میں ہی رہنے کی اجازت ہو.چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کی اجازت عطا فرما دی.حضرت عمر نے شام کی فتح کے بعد دیوان کا با قاعدہ دفتر قائم فرمایا جس میں اسلامی سپاہ کے نام قبیلہ کے مطابق لکھے جاتے تھے.انہوں نے حضرت بلال سے پوچھا کہ آپ کا دفتر دیوان کس کے سپرد کیا جائے.بلال نے کہا ابورویحہ کے ذمہ لگا دیں کیونکہ اس اخوت کی بناء پر جو رسول اللہ ہے نے قائم فرمائی تھی میں اس سے الگ ہونا نہیں چاہتا.چنانچہ حضرت عمر نے ابور و بچہ کوان کے پاس ہی رہنے دیا اور حبشہ کے سپاہیوں کا دفتر دیوان ان کے سپر دفرما دیا.(26) مدینہ میں آخری اذان ملک شام میں آکر اپنے محبوب کے شہر مدینہ کی وہ محبت جو آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کے نتیجہ میں بلال کے قلب صافی کو عطا ہوئی تھی ، بے چین کرنے لگی.حضرت بلال نے رویا میں دیکھا کہ آنحضرت تشریف فرما ہیں اور کہتے ہیں کہ اے بلال کتنی سخت دلی ہے کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کو آؤ.بلال اُٹھے تو بہت غمگین تھے اور اگلی صبح آپ نے مدینہ کی راہ لی.روضئہ رسول پر جا کر بہت روئے اور کوٹ پوٹ ہو گئے حضرت امام حسن و حسین سے ملاقاتیں ہوئیں.وہ ان سے ملتے اور ان کے بوسے لیتے تھے.حضرت امام حسن و حسین نے ایک خواہش کا اظہار کیا کہ اے بلال کل کی فجر کی اذان اگر تم کہو تو کیا مزہ رہے حضرت بلال نے ان کی اس خواہش کو قبول کیا اور اگلے دن فجر کی اذان کہی.کہتے ہیں کہ وہ ایک عجیب سماں تھا.جب مدینہ کی گلیوں میں ایک لمبے عرصہ کے بعد بلال کی وہی اذان گونج رہی تھی.لوگ تو کیا عورتیں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں اور جب بلال اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ الله کہتے تھے تو لوگ روتے اور بے اختیار روتے.حضرت عمر نے بھی سفر شام میں حضرت بلال سے اذان کہلوائی تھی.اور لوگ اس پر اتنا روئے تھے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی حضرت عمر کو اتنا روتے نہیں دیکھا.مدینہ کے سفر سے واپس جا کر دمشق میں 20ھ میں حضرت بلال کی وفات ہوئی.عمر ساٹھ سال سے کچھ اوپر تھی دمشق باب الصغير میں دفن ہوئے.(27)

Page 314

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فضائل بلال 300 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ اسراء کی رات جنت میں رسول کریم نے ایک آوازسی سنی اور جبریل سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آپ کے مؤذن بلال ہیں.نبی کریم نے اس سفر سے واپس تشریف لا کر فرمایا بلال کامیاب ہو گیا.میں نے اس کے لئے یہ یہ دیکھا ہے.(28) حضرت عمر فرمایا کرتے تھے ابُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَاعْتَقَ سَيِّدَنَا بِلالا.ابوبکر ہمارے آقا تھے، ہمارے سردار تھے، اور انہوں نے ہمارے آقا بلال کو آزاد کیا تھا.(29) حضرت عمرؓ ایک غیر معمولی احترام کا مقام حضرت بلال کو دیتے تھے اور یہی حال ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر کا تھا.جب ان کے سامنے ان کے حقیقی بیٹے بلال بن عبد اللہ کی تعریف کرتے ہوئے شاعر نے یہ شعر پڑھا.بَلالُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ خَيْرُ بِلالِ تو بے اختیار حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو آنحضرت کی غیرت آئی اور کہنے لگے نہیں نہیں ایسا مت کہو بِلالُ رَسُولِ اللَّهِ خَيْرُ بِلالِ محمد مصطفی علیہ کا بلال ہی سب سے بہترین بلال تھا.(30) حضرت زید بن ارقم کہا کرتے تھے کہ بلال کتنا ہی اچھا انسان ہے کہ شہداء کا سردار ہے اور موذنوں کا سردار ہے اور قیامت کے دن معز ز مؤذن بلال کی پیروی کرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے.گویا بلال جھنڈا لے کر ان کے آگے آگے ہوگا اور وہ ان کو جنت میں داخل کرنے کا موجب ہوگا.حضرت بلال رسول اللہ کی زندگی میں عیدین وغیرہ کے موقع پر ہاتھ میں نیزہ تھا مے آگے چلتے تھے.یہ نیزہ نجاشی شاہ حبشہ نے رسول کریم ملی کو تحفہ بھجوایا تھا.رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کیلئے یہی خدمت انجام دیتے رہے.(31) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ بلال کی میٹھی طبیعت اور اس کی شیریں زبان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ بلال کی مثال تو شہد کی مکھی جیسی ہے.جو میٹھے پھولوں اور کڑوی بوٹیوں سے بھی رس چوستی ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شیریں ہوتا ہے.(32) بلال حضرت ابو بکر کے آزاد کردہ اور تربیت یافتہ تھا اور سیرت صدیقی کی گہری چھاپ ان پر

Page 315

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم رض 301 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ تھی.لوگ کہتے تھے کہ بلال تو ابو بکر کی مٹی ہے یعنی طینت و سیرت صدیقی رکھتا ہے.(33) حضرت عمر آپ کو ہمارا آقا بلال کہتے.لوگ بلال کے پاس آکر ملتے ان کے فضائل و مناقب اور خدمات کا تذکرہ کرتے تو وہ کمال عاجزی سے فرمایا کرتے ”میں کیا ہوں ایک حبشی ہی تو ہوں.جو کل تک غلام تھا.‘ (34) رض ہاں اے بلال عبشی! آپ بھی سچ کہتے ہو مگر یہ بھی سچ ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی غلامی نے تجھے دنیائے اسلام کا آقا بنا دیا ہے.پھر رسول اللہ ﷺ کا یہ غلام آپ کے قدموں میں حاضر ہو گیا.حضور ﷺ نے آپ کی زندگی ہی میں آپ کے جنتی ہونے کی خبر تو دے ہی دی تھی.جب ایک روز آپ نے فرمایا تھا کہ اے بلال تم اپنا کوئی بہت ہی خوبصورت عمل بتاؤ جس کی وجہ سے میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے.میں نے پوچھا یہ کون ہے تو بتایا گیا کہ بلال ہے.بلال کہنے لگے میرے آقا ! مجھے تو اپنا کوئی بھی عمل خوبصورت نظر نہیں آتا ہاں اتنی بات ہے کہ ہمیشہ با وضوء رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور جب بھی وضو کرتا ہوں تو دورکعت نماز ضرور پڑھتا ہوں.بلال جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے تھے.(35) حضرت ابوبکر کا بلال پر رشک حضرت ابوبکر نے جب آنحضرت سے حضرت بلال کی سعادت کا یہ اعلان سنا تو وہ جو مسابقت فی الخیرات کے میدان میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتے تھے وہ بھی حضرت بلال پر رشک کرنے لگے اور کہا اے کاش میں بلال ہوتا ! اے کاش میں بلال کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ! ! اے کاش بلال کا باپ میرا باپ ہوتا اور میں بلال کی طرح ہو جاتا !!! اور یہ سعادت میرے حصہ میں آجاتی.(36) شادی و اولاد حضرت بلال کی عائلی زندگی کے بارہ میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ انہوں نے مجردزندگی گزاری اور شادی کہیں نہیں ہو سکی.حالانکہ تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہے کہ آنحضرت یہ

Page 316

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 302 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ نے ذاتی توجہ سے خود حضرت بلال کی شادی کروائی.چنانچہ آپ کی ایک شادی بنی عبدالبکیر میں ہوئی جو اپنی بہن کے رشتہ کی سفارش کے لئے آنحضور کے پاس آئے تو حضور نے فرمایا کہ اس سے اچھا رشتہ تو بلال کا ہے اور دوسری دفعہ پھر وہ اُسی جگہ رشتہ کی سفارش کے لئے آئے تو حضور نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حبشی کا رشتہ بتلاتا ہوں اور وہ بلال کا رشتہ ہے.چنانچہ انہوں نے اپنی بہن کی شادی حضرت بلال سے کر دی.اسی طرح بنی زہرہ کے عربی قبیلہ میں بھی حضرت بلال کی شادی ہوئی ہے.(37) پھر جس زمانہ میں بلال شام میں قیام پذیر تھے تو بنی خولان میں ایک شامی خاتون کے ساتھ بھی آپ کی شادی کا ذکر ملتا ہے.چنانچہ ابو دردانہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فتح بیت المقدس کے بعد جابیہ تشریف لے جانے لگے تو حضرت بلال نے ابو رویحہ کی شام میں تقرری کی درخواست کی جسے انہوں نے قبول فرمالیا جس پر حضرت بلال بہت خوش ہوئے کہ ابور ویحہ جس کا رسول اللہ علی نے مجھے بھائی بنایا تھا ساتھ ہوگا.پھر آپ اپنے اس بھائی کے ساتھ دورہ کرتے ہوئے بنی خولان کے ایک معزز شامی قبیلہ میں گئے ( اس زمانہ میں اہل شام کا اہل حبشہ سے رشتہ ناطہ کا دستور نہیں تھا مگر اسلام نے رنگ ونسل کی سب تمیز یکسر مٹادی تھی اس لئے ) جب حضرت بلال نے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے دینی بھائی ابورویحہ ( جو خود ایک غلام تھے جن کو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر جھنڈا دے کر فرمایا تھا کہ جو ان کے جھنڈے نیچے آیا امن میں ہے ) کے لئے بھی اس معز زقبیلہ میں رشتہ کی ایسی پر حکمت اور مؤثر تحریک کی کہ عصبیت جاہلیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے ان دونوں کی اپنے قبیلہ میں شادیاں کر دیں.حضرت بلال کی وہ عمدہ تحریک آپ کی ذہانت کی خوب داد دیتی ہے.آپ نے فرمایا ” اے بنی خولان میرا بھائی ابور ویحہ اور میں آپ کے قبیلہ میں شادی کرنا چاہتے ہیں بیشک ہم کا فر تھے پھر خدا نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی.ہم دونوں غلام تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی بخشی.ہم تہی دست و حقیر تھے خدا نے ہمیں غنی کر دیا.پس اگر آپ لوگ ہمیں رشتہ دیتے ہو تو الحمد للہ اور اگر انکار کرتے ہو تو (ہم مایوس نہیں ) سب قوت وطاقت اللہ کو حاصل ہے.“ چنانچہ ان دونوں کی شادی اس شامی قبیلہ میں ہوگئی.

Page 317

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 303 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ احادیث میں حضرت بلال کی ایک بیوی سے یہ روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ بلال مجھ سے جو بات تم تک پہنچائیں وہی یقینا سچی ہوگی اور بلال تم سے غلط بات نہیں کرے گا.پس تم بلال پر کبھی ناراض نہ ہونا ور نہ اس وقت تک تمہارا کوئی عمل قبول نہ ہوگا جب تک تم نے بلال کو ناراض رکھا.(38) بالعموم حضرت بلال کی اولاد کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا.کہ اولاد ہوئی جو شاید کم عمری میں فوت ہوگئی.غالباً اسی وجہ سے بلال کی کنیت ابو عبد اللہ ، ابوعمر اور ابوعبدالکریم بھی معروف تھی.(39) حضرت بلال کی وفات طاعون عمواس میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی.اور حلب شام میں تدفین عمل میں آئی.ابن زبر نے کہا آج ہمارا چاند ڈوب گیا.(40) اے بلال حبشی تجھ پر سلام محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کی بھی کیا شان ہے جس نے تجھ غلام کو ہمارا آقا بنا دیا.تجھے دیکھ کر حضرت عمرؓ بیچ ہی تو کہا کرتے تھے سیدنا بلال ہمارا آقا بلال.پس اے ہمارے آقا کے غلام مگر ہم غلاموں کے آقا بلال تجھ پر سلام کہ تو نے صدق و استقامت اور وفا کی ان مٹ داستانیں اپنے خون پسینے سے رقم کیں اور اپنی قوم حبشہ بلکہ افریقہ کے تاریک براعظم کا نام ہمیشہ کے لئے روشن کر دیا ایک بار پھر تجھ پر سلام.

Page 318

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 -2 -3 -4 304 حواله جات حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مسند احمد جلد 6 ص 13 وابن سعد جلد 3 ص 238 ، اصابہ جز1 ص171 اصابہ ج 1 ص 171 ، مسند احمد جلد 1 ص404 اسدالغابہ جلد 1 ص 207 اصا به جز 1 ص 171 ، ابن سعد جلد 3 ص 234 ، استیعاب جلد 1 ص 360 5- ابن ماجه مقدمه فضائل بلال +56 مسند احمد جلد 1 ص148، 420 -6 -7 -8 -9 مسند احمد جلد 1 ص 148 ، مسند احمد جلد 6 ص 83 اسدالغابہ جلد 1 ص307 ترمذی کتاب الصلوۃ باب 29 10- ترندی کتاب الصلوۃ، ابن ماجہ کتاب الاذان باب 3 ومسند احمد جلد 2 ص 48 -11 مسند احمد جلد 5 ص 9 -12- مسلم کتاب المساجد باب 55 و تر مندی کتاب التفسير سورة طه وابن سعد جلد 5 ص307 -13 -15 -16 بخاری کتاب اللباس باب 2 سنن ابوداؤ د کتاب الخراج والامارہ باب في يقبل بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر ابوداود کتاب الادب باب الرجل بنادى الرجل 17- سیرت الحلبیہ جلد 3 ص 97، ابن ہشام جلد 4 ص 91، بخاری مغازی فتح مکہ -18 ابن سعد جلد 3 ص 235 -19 مسلم کتاب فضائل الصحابه باب 38 -20 -21 -22 -23 -24 -25 -26 -27 مسند احمد جلد 1 ص 277 مسند احمد جلد 6 ص 402، ابن ماجہ کتاب المناسک باب 6 مسند احمد جلد 4 ص 252 مسند احمد جلد 5 ص 371 ابن سعد جلد 3 ص 236 اسد الغابہ جلد 1 ص 307 ، بخاری کتاب المناقب باب بلال بن رباح منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5ص150 اصابه جز1 ص70 اسدالغابہ جلد 1 ص 208

Page 319

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 305 حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ -28 -29 مسند احمد جلد 1 ص 257 بخاری کتاب المناقب باب مناقب بلال 30 - ابن ماجہ مقدمہ فضائل بلال مجمع الزوائد جلد 9 ص 300 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5ص150 -31 -32 -33 -34 مجمع الزوائد جلد 9 ص300 اصابه جز1 ص 171 ابن سعد جلد 3 ص 238 35- مسلم کتاب الفضائل باب فضائل بلال، استیعاب جلد 1 ص260 -36 -37 مجمع الزوائد جلد 9 ص 299 ابن سعد جلد 3 ص 238 38 - اصابہ ج 1 ص 70 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد 5ص149 -39 -40 اسدالغابہ جلد 1 ص206 اصابه جز1 ص171

Page 320

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 306 حضرت زید بن حارثہؓ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضرت زید وہ منفر د صحابی رسول ﷺ ہیں جن کے نام کا اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس دائمی کتاب قرآن مجید میں ذکر کر کے انہیں زندہ جاوید کر دیا ہے.(الاحزاب:38 ) آپ کا اصل نام بضمہ تھا.بنو کلب قبیلے سے تھے اور حارثہ بن شراحیل کے بیٹے تھے.آپ کی والدہ سعدی قبیلہ طے کی شاخ بنی معن سے تھیں وہ ایک دفعہ زید کو اس کے نھیال ملوانے لے گئیں.دریں اثناء بنی معن پر ان کے دشمن قبیلے بنی القین نے حملہ کر دیا اور جن لوگوں کو قیدی بنا کر لے گئے ان میں زید بھی تھے جو اس وقت آٹھ برس کے کم سن لڑکے تھے.بنی قین نے زید کو عرب کے مشہور میلے عکاظ میں آگے فروخت کر ڈالا.اب زید کا ستارہ قسمت جاگا اور قریش کے ایک سردار حکیم بن حزام نے انہیں اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لئے چودہ سو (1400) درہم میں خرید لیا.(1) رسول اللہ ﷺ کی غلامی پر فخر حضرت خدیجہ نے نبی کریم ﷺ سے شادی کے بعد اپنا یہ وفادار غلام اپنے قابل احترام اور عزیز شوہر کی ملکیت میں دے دیا اور زیڈ نبی کریم عملے کی محبت و شفقت میں دن گزارنے لگے.ادھر زیڈ کی جدائی میں اسکے گھر والوں کا برا حال تھا.ان کے حال زار کا کسی قدراندازہ اس مرثیہ سے ہوتا ہے جو زیڈ کے والد نے ان کی جدائی میں کہا.بَكَيْتُ عَــلــى زَيْدٍ وَلَمْ أَدْرِ مَافَعَلَ فَيُرجى امُ أَتَى دُونَهُ الأَجَلُ فَيَالَيْتَ شَعُرِى هَل لَّكَ الدَّ هَرَ رَجُعَةً فَحَسْبِى مِنَ الدُّنْيَا رَجُوعُكَ لِى بَـجَـلُ تُذكَرِنِيهِ الشَّمْسُ عِندَ طُلُوعِهَا وَتَعْرِضُ ذِكرَاهُ إِذَا قَارَبَ الطَّفَلُ

Page 321

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 307 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سَاَعْمَلُ نَصَّ العِيرِ فِي الْأَرْضِ جَاهِدًا وَلَا اســـــــام التـطــواف اوتَــــــام الابل سَاوُصِی به قَيْسُاً وَعَمْرُوا كِلَيْهِمَا وَأُوصِي يَزِيدًا ثُمَّ مِنْ بَعْدِهِم جَبَلْ (ترجمہ) ہائے میرے زید نے کیا کیا؟ میں اس کی جدائی پر خون کے آنسو روتا ہوں اور نہیں جانتا کہ کیا وہ کہیں زندہ بھی ہے کہ اس کے لوٹنے کی امید رکھی جائے یا اس پر موت وارد ہو چکی ہے.اے میرے بیٹے زید کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تو میرے جیتے جی کبھی لوٹ کر واپس بھی آئے گا.اگر میری یہ خواہش پوری ہو جائے تو مجھے دنیا میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.ہر نئے دن کا طلوع ہونے والا سورج مجھے زید کی یاد دلاتا ہے اور جب کسی بھی معصوم بچے کو میں اپنے پاس دیکھتا ہوں تو زید کا چہرہ سامنے آجاتا ہے.میرا یہ عزم ہے میں زید کی تلاش میں روئے زمین پر اونٹوں کو دوڑا دوڑا کر تھکا ماروں گا اور خواہ اونٹ تھک جائیں مگر میں اس گردش دنیا سے نہیں تھکوں گا جب تک کہ اپنا مقصد نہ پالوں اور میں اپنے بعد زیڈ کے بھائیوں قیس اور عمرو اور یزید اور جبل کو بھی یہی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اس مقصد کو کبھی نہ بھولیں.“ یہی تمنائیں اور ارادے لے کر قبیلہ کلب کے کچھ لوگ حج پر گئے.حسن اتفاق سے بالآخر انہوں نے زید کو تلاش کر ہی لیا اور اسے دیکھتے ہی پہچان لیا ، زیڈ بھی انہیں پہچان گئے اور اپنے گھر والوں کی حالت زار کا علم پا کر جواباً اپنے اہل خانہ کو اشعار کی زبان میں ہی جو محبت بھرا پیغام بھجوایا اس سے زیڈ کی ذہانت و فطانت کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے جس میں انہوں نے ایک طرف اپنے گھر والوں کو تسلی دلانے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ وہ خود کہاں اور کس حال میں ہیں.زیڈ کے اشعار کا مفہوم یہ ہے مجھ غریب الوطن کو اپنی قوم سے دور ہونے کی حالت میں ان سے ملنے کا بے حد شوق ہے.اگر چہ میں بیت اللہ اور مشعر الحرام کے پاس قیام پذیر ہوں.پس اے میری قوم اب اپنے اس غم کو ختم

Page 322

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 308 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر دو جس نے تمہیں تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے اور روئے زمین پر اپنے اونٹوں کو بھگا کر مت تھکاؤ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ معد قبیلے کے اس بہترین خاندان میں رہتا ہوں جو نسلاً بعد نسل ایک معزز خاندان چلا آ رہا ہے.(2) یہ پیغام جب زیڈ کے باپ تک پہنچا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہاوہ بے اختیار محبت والفت کے جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کہہ اٹھے رب کعبہ کی قسم ! میرا بیٹا مل گیا پھر حارثہ نے اپنے بیٹے زید کی گردن غلامی سے آزاد کرانے کے لئے فدیہ کا انتظام کیا اور اپنے بھائی کعب کو ساتھ لے کر مکہ کے لئے رخت سفر باندھا.پوچھتے بچھاتے یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں خانہ کعبہ میں حاضر ہوئے اور یہ مودبانہ درخواست پیش کی اے عبداللہ عبدالمطلب اور ہاشم کے صاحبزادے ! اے اپنی قوم کے سردار ! آپ لوگ جو حرم کے باسی اور بیت اللہ کے پڑوس میں رہنے والے ہیں.آپ قیدیوں کو آزاد کرتے اور انہیں کھانا کھلاتے ہیں.ہم اپنے بیٹے کے بارہ میں جو آپ کے پاس ہے حاضر ہوئے ہیں.ہماری درخواست ہے آپ ہم پر احسان کرتے ہوئے اس کا فدیہ قبول کر لیں اور اگر اس سے زیادہ فدیہ کا تقاضہ کریں تو ہم وہ بھی پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.رسول اللہ نے تعجب سے پوچھا وہ کون؟ انہوں نے کہازید بن حارثہ.اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ آپ لوگ فدیہ کے علاوہ بھی کسی بات پر راضی ہو سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کس بات پر ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے آزاد چھوڑ کر اختیار دے دیا جائے اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ جانے پر راضی ہو تو آپ اسے بغیر فدیہ کے ساتھ لے جاسکتے ہیں لیکن اگر وہ میرے پاس رہنے کا فیصلہ کرے تو خدا کی قسم جو شخص مجھے اختیار کرنا چاہتا ہے میں اس کے فیصلہ کے خلاف ہرگز نہ کروں گا.یہ نہایت منصفانہ فیصلہ سن کر زید کے والد اور چا کہنے لگے کہ آپ نے تو ہماری توقع سے بھی بڑھ کر انصاف بلکہ احسان کا سلوک ہم سے روا رکھا ہے ہمیں یہ فیصلہ بسر و چشم قبول ہے.آنحضرت نے زیڈ کو بلا کر پوچھا.تم ان لوگوں کو جانتے ہو یہ کون ہیں؟ زیڈ نے عرض کیا جی ہاں یہ میرے باپ اور چاہیں تب آپ نے فرمایا اور مجھے بھی تم خوب جانتے ہونا ! تم ایک زمانہ میری صحبت رہے ہو اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے چاہو تو ا پنے باپ اور چچا کے ساتھ واپس اپنے وطن چلے جاؤ اور مرضی ہے تو میرے پاس رہو.حضرت زیڈ

Page 323

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 309 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے (جو رسول اللہ اللہ کے احسانوں کے نتیجہ میں آپ کے عاشق صادق بن چکے تھے ) جو خوبصورت جواب دیا وہ دنیائے عشق و محبت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.زید نے کہا اے میرے آقا! میں ہر گز آپ کے مقابلے میں کسی اور کے ساتھ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا.اب آپ ہی میرے مائی باپ ہیں.زید کا یہ جواب سن کر اس کے والد اور چا حیران وششد رہ گئے.انہیں رسول اللہ کے اس حسن واحسان کا اندازہ نہیں تھا جو آپ اپنے غلام زیڈ کے ساتھ فرماتے تھے.وہ کہنے لگے تیر برا ہواے زید کیا تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے؟ کیا تو ان کو اپنے باپ اور اپنے چچا اور اپنے سب گھر والوں پر فوقیت دیتا ہے؟ زید نے کہا ہاں ! ” میں نے اس عظیم الشان انسان سے ایسا حسن سلوک دیکھا ہے کہ میرے لئے ممکن ہی نہیں کہ میں کبھی آپ کے مقابلے پر کسی اور کو ترجیح دے سکوں‘.(3) ایک اور روایت میں یہ ذکر ہے کہ زید کے بھائی جبلہ نے بھی حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی زیڈ کو میرے ساتھ روانہ کر دیں اس پر زیڈ نے اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ وہ و آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتے.بعد میں جبلہ کہا کرتے تھے کہ میرے بھائی زیڈ کی رائے میری رائے سے افضل تھی.(4) واقعی زیڈ نے جن کے ساتھ وفا کی وہ اس سے کہیں احسان اور وفا کرنے والے تھے.آنحضرت نے زید کی اس وفا سے بہت خوش ہوئے اور زیڈ کو اپنے ساتھ خانہ کعبہ میں لے جا کر یہ اعلان کیا.اے تمام لوگو جو حاضر ہو گواہ رہنا زید آج سے میرا بیٹا ہے میں اس کا وارث اور یہ میرا وارث ہے نبی کریم ﷺ کے احسان کا یہ سلوک دیکھ کر زیڈ کے والد اور چچا مطمئن ہوکر واپس لوٹ گئے تب سے زید بن حارثہ زید بن محمد کہلائے.(5) قبول اسلام اور مواخات اب زید خاندان رسالت کے فرد بن چکے تھے.بعض دوسری روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت کے دعوی نبوت سے پہلے کا ہے چنانچہ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب زید گو یہ اختیار دیا کہ چاہو تو میرے ساتھ رہو اور چاہو تو تم اپنے باپ کے ساتھ چلے جاؤ تو زید نے

Page 324

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 310 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آنحضرت کے قدموں میں رہنے کا فیصلہ کیا اور آنحضرت معہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت پر سرفراز فرمایا.زیڈ نے آپ کی تصدیق کی.آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور ابتدائی زمانہ میں آپ کے ساتھ نمازیں پڑھتے رہے.وہ پہلے مسلمان مرد اور سب سے پہلے نماز پڑھنے والے ہیں.(6) حضرت زیڈ کے قبول اسلام کے بارہ میں امام زھری کی یہ روایت ہے کہ زیڈ سے پہلے کسی اور کا قبول اسلام ہمارے علم میں نہیں.(7) اس کی تائید زید بن حارثہ کی اپنی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس کا تعلق آغاز وحی اور وضواور نماز سکھانے کے طریق سے ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جبرئیل اول جو وحی لے کر آئے اس میں نبی کریم علیہ کو وضو اور نماز کا طریق سکھایا گیا.(8) حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے بعد آنحضرت ﷺ نے زید اور اپنے چا حمزہ میں مواخات قائم فرمائی اور انہیں بھائی بھائی بنادیا.اللہ اللہ ایک غلام کی اتنی قدردانی مگر زید اب غلام تو نہیں تھے وہ رسول اللہ کے منہ بولے بیٹے بن چکے تھے.اگر چہ بعد میں قرآنی حکم اُدْعُوهُمْ لِآبَائِهِمُ (الاحزاب : 6) کے مطابق زید بن محمد عل اللہ کو دوبارہ زید بن حارثہ کہا جانے لگا.(9) رسول کریم ﷺ کی محبت اور انتظام شادی آنحضرت نے زید سے محبت واخوت دینی کا رشتہ خوب نبھایا اور ہمیشہ اس محبت والفت کا اظہار فرماتے رہے.جب نبی کریم نے اپنی چا زاد بہن اور قبیلہ قریش کی معزز خاتون حضرت زینب بنت جحش کا رشتہ حضرت زیڈ سے طے فرمایا اور اس طرح خاندانی تفاخر اور آزاد و غلام کی تمیز اور تفریق کی بدرسم عملاً اپنے پاؤں تلے روند ڈالی.یہ اور بات ہے کہ مزاج اور طبائع کی ناموافقت کے باعث یہ رشتہ دیر پا ثابت نہ ہوا اور بالاخر حضرت زید کو طلاق دینی پڑی مگر جیسا کہ اس رشتہ کا قائم ہونا بد رسوم مٹانے کے لحاظ سے تاریخ اسلام کا ایک شاندار واقعہ اور سیرت رسول گا ایک خوبصورت نمونہ ہے.پھر فتح مکہ کے موقع پر حضرت حمزہ کی جواں سال بیٹی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئی تو ان کی کفالت کا

Page 325

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 311 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سوال پیدا ہوا حضرت علی اور جعفر نے اپنی چچا زاد بہن کی کفالت پر اپنا حق جتلایا.حضرت زید نے عرض کیا یہ میرے دینی بھائی حمزہ کی بیٹی ہے آنحضرت نے اگر چہ اس بچی کو حضرت جعفر کے اہل خانہ کے سپر د کیا لیکن اس موقع پر حضرت زیڈ سے اپنے دلی تعلق اور لگاؤ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا اے زیڈ واقعی تو ہمارا دینی بھائی ہے تیرے ساتھ ایک محبت کا تعلق ہے.(10) اور امر واقعہ بھی یہی ہے حضرت زید در اصل حضور کے گھر کے ایک فرد تھے.چنانچہ حضور علیے نے زید کی حضرت زینب سے علیحدگی کے بعد اپنی خادمہ ام ایمن سے ان کی شادی کا انتظام کیا.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ام ایمن سے شادی کرنے والے کو میں جنت کی بشارت دیتا ہوں.یہ بشارت بھی حضرت زید کے حصے میں آئی.حضرت ام ایمن کے بطن سے حضرت زید کے بیٹے اسامہ پیدا ہوئے اور انہی کی کنیت کی نسبت آپ ابو اسامہ بھی کہلاتے تھے.آنحضرت عالیہ کو حضرت زید اور ان کے خاندان سے جو محبت تھی.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جو حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ایک قیافہ شناس آیا.اسامہ اور زیڈ دونوں باپ بیٹا لیٹے ہوئے تھے.اس قیافہ شناس کی نظر جو ان دونوں کے پاؤں پر پڑی تو کہنے لگا یہ پاؤں ایک دوسرے میں سے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں نبی کریم ﷺے اس بات سے بہت ہی خوش ہوئے اور یہ بات آپ کو بہت ہی پسند آئی.بڑی خوشی سے مجھے یہ بات بتاتے تھے کہ اس طرح ایک قیافہ شناس نے زید اور اسامہ کے باپ بیٹا ہونے کی گواہی دی ہے.(11) اسامہ حضور ﷺ کے گھر میں پلے بڑھے حضور ﷺ اس سے بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے بسا اوقات اپنی گود میں ایک طرف حضرت امام حسین کو اور دوسری طرف حضرت اسامہ کو بٹھا لیتے اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتے اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو ابھی ان سے محبت فرما.رسول اللہ ﷺ کی حضرت زینب سے شادی حضرت زیڈ اور زینب کی جدائی میں بھی اللہ تعالیٰ کی گہری حکمتیں اور مصلحتیں پنہاں تھیں.دراصل یہ ایک المی تقدیر تھی.حضرت زینب رسول اللہ کے عقد میں آئیں اور متبنی کی رسم کا حقیقی طور پر خاتمہ ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرَازَ وَجُنُكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ

Page 326

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 312 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِى اَزْوَاجِ اَدْعِيَا بِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللهِ مَفْعُولًا (الاحزاب: 38) یعنی جب زیڈ نے اس عورت کے بارہ میں اپنی خواہش پوری کر لی یعنی طلاق دے دی تو ہم نے اس عورت کا تجھ سے بیاہ کر دیا تا کہ مومنوں کے دلوں میں اپنے لے پالکوں کی بیویوں سے نکاح کرنے کے متعلق ان کو طلاق دے دینے کی صورت میں کوئی خلش نہ رہے اور خدا کا فیصلہ بہر حال پورا ہوکر رہنا تھا.متبنی کی رسم کالعدم ہونے کے حوالے سے حضرت زید کو یہ منفر د سعادت اور اعزاز وشرف بھی حاصل ہو گیا کہ وہ واحد صحابی رسول ہیں جن کا نام قرآن شریف میں مذکور ہوا.اس پر طرہ یہ کہ اس موقع پر قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کا مقام خاتم النبین کے حوالے سے بیان کیا گیا کہ آپ مسلمان مردوں میں سے کسی کے حقیقی باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں گویا آپ کو روحانی ابوت اپنی امت بلکہ تمام انبیاء کی حاصل ہے.حضرت زینب کے ساتھ عقد کی الہی تقدیر کے پورا کرنے کے لئے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ نے جو خوبصورت تدبیر اختیار کی ، اس پر دل عش عش کر اٹھتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ اور اپنے خدام کے جذبات کا خیال رکھنے کے لحاظ سے انسان آپ کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا.چنانچہ حضور نے حضرت زینب کو شادی کا پیغام بھجوانے کے لئے حضرت زید ہی کا انتخاب فرمایا.یہ احکام پردہ کے نزول سے پہلے کی بات ہے، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زینب کی عدت ختم ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید و فر مایا کہ آپ میری طرف سے حضرت زینب کے پاس جا کر میرا شادی کا پیغام دیں.حضرت زیڈ گئے تو حضرت زینب گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں حضرت زید کا اپنا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس پیغام کی وجہ سے حضرت زینب کا ایک عظیم مقام میرے دل میں پیدا ہو چکا تھا یہاں تک کہ مجھے ان کی طرف دیکھنے اور نظریں ملانے کی بھی ہمت نہیں ہورہی تھی.چنانچہ میں ان کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو گیا اور وہیں سے انہیں متوجہ کر کے آواز دی کہ اے زینب آپ کو بشارت ہو مجھے خدا کے رسول ﷺ نے آپ کے پاس شادی کا پیغام دے کر بھیجا

Page 327

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 313 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہے حضرت زینب نے بھی کیسا پاکیزہ اور متوکلانہ جواب دیا میں کسی بھی کام کا فیصلہ استخارہ کے بغیر نہیں کرتی.چنانچہ اسی وقت وہ اپنی سجدہ گاہ میں دعا کے لئے کھڑی ہو گئیں.دریں اثناء قرآن شریف کی سورۃ احزاب کی آیت 38 بھی نازل ہوگئی جس میں حضرت زینب سے آنحضرت کے نکاح کا ذکر ہے چنانچہ اس کے بعد یہ رشتہ طے پایا.(12) ہجرت مدینہ جب مدینہ ہجرت ہوئی تو حضرت زید کلثوم بن ہرم کے مکان پر آکر ٹھہرے.نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اوس کے سردار اسید بن حضیر اور حضرت زید کی مواخات قائم فرمائی.جب عقبہ بن ابی معیط سردار قریش کی بیٹی ام کلثوم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائیں تو حضور علی کے ہم زلف حضرت زبیر بن العوام آپ کے داماد حضرت عثمان بن عفان معززین قریش حضرت عبد الرحمان بن عوف اور حضرت عمر و بن العاص نے انہیں شادی کا پیغام بھیجا.حضرت زید نے بھی پیغام بھجوایا.ام کلثوم نے رسول کریم ﷺ سے مشورہ کیا تو آپ نے حضرت زید کے حق میں رائے دی چنانچہ ام کلثوم سے ان کی شادی ہوگئی.حضرت زید ز بر دست تیرانداز تھے اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیتیں رکھتے تھے.جملہ غزوات بدر، احد، خندق، حدیبیہ، خیبر اور فتح مکہ میں شرکت فرمائی.غزوۃ المریسیع کے موقع پر نبی کریم ہے نے آپ کو مدینہ میں امیر مقرر فرمایا.اس کے علاوہ آنحضرت نے نومہمات مختلف اطراف میں حضرت زید کی سرکردگی میں بھجوائیں اور انہیں ان کا امیر مقرر فرمایا.حضرت سلمہ بن الاکوع بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوا اور حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ نومہمات میں شریک ہوا جن میں رسول کریم نے انہیں ہم پر امیر مقرر فرمایا.(13) حضرت زید ایک دعا گو اور خدا پر توکل کرنے والے انسان تھے.ایک دفعہ انہوں نے طائف سے خچر اور مزدور کرایہ پر لیا.راستہ میں ایک ویرانہ آیا تو خچر والے نے وہاں رک کر انہیں اتار دیا.کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں کئی لاشیں پڑی ہیں.حضرت زید کو بھی اس نے قتل کرنا چاہا تو انہوں نے خواہش کی کہ مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو.اس نے کہا ان سب لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا مگر نماز ان کے

Page 328

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 314 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کچھ کام نہ آئی.نماز کے بعد جب وہ مزدور انہیں قتل کرنے لگا تو انہوں نے دعا کی کہ ائے ارحم الراحمین ! اچانک ایک آواز آئی ” اسے قتل نہ کرو.وہ ڈر گیا ادھر ادھر دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا تین دفعہ ایسا ہوا پھر اچانک ایک گھڑ سوار نمودار ہوا جس کے ہاتھ میں لوہے کی برچھی تھی اور سر پر آگ کا شعلہ نظر آتا تھا.اس سوار نے اس شخص کو ہلاک کر دیا پھر اس فرشتہ نے زیڈ سے کہا کہ جب تم نے پہلی دفعہ کہا ارحم الراحمین تو میں ساتویں آسمان پر تھا.دوسری آواز پر دوسرے آسمان پر اور تیسری پر تمہارے پاس تمہاری مدد کو پہنچا.(14) قائدانہ صلاحیت اور سنت رسول علی حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جب بھی کسی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ کو روانہ فرمایا ہمیشہ لشکر کی امارت ان ہی کے سپرد فرمائی اور اگر وہ آپ کے بعد زندہ رہتے تو شاید انہیں آپ کی جانشینی کی بھی توفیق ملاتی.بے شک یہ حضرت عائشہ کی اپنی ذاتی رائے ہے، مگر اس سے بنی کریم کے نزدیک حضرت زید کے مقام کا اندازہ بھی ہوتا ہے حضرت زید کے بعد نبی کریم نے ان کے جواں سال بیٹے اسامہ کو اپنی وفات سے پہلے ایک لشکر کا امیر مقرر فرمایا تو اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا نبی کریم نے اس موقع پر ایک تقریر فرمائی.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آج تم نے اسامہ کی امارت پر اعتراض کیا ہے تم نے اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا اور خدا کی قسم اسامہ امارت کے لائق اور قابل ہے اور وہ مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارا ہے.“ (15) حضرت زیڈ کے لئے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارہ میں نبی کریم کا یہ اظہار یقیناً قابل رشک ہے حضرت زید سے رسول کریم کی محبت کے بے ساختہ اظہار کا ایک خوبصورت واقعہ حضرت عائشہ یوں بیان فرماتی ہیں کہ زید بن حارثہ کسی مہم سے واپس مدینہ تشریف لائے اور رسول کریم میرے گھر میں تشریف فرما تھے.حضرت زید ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہوئے اور دروازہ کھٹکھٹایا.آنحضرت اپنے اس فدائی خادم کے استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے.ان کا بوسہ لیا اور گلے لگایا.(16) حضور ﷺ کی اس محبت شفقت کے باعث تمام صحابہ آپ سے محبت کرتے تھے.حضرت

Page 329

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 315 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رض عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے حضرت اسامہ بن زید کے لئے ساڑھے تین ہزار درہم اور میرے لئے تین ہزار کا وظیفہ مقرر کیا.میں نے اپنے والد حضرت عمر سے درخواست کی کہ آپ نے اسامہ کو مجھ پر فضیلت دی ہے حالانکہ غزوات میں شرکت کے لحاظ سے انہیں مجھ پر کوئی سبقت حاصل نہیں ہے حضرت عمر نے کیا پیارا جواب دیا کہ اسامہ کا باپ نبی کریم کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب تھا اور اسامہ آپ علیہ کو تم سے زیادہ عزیز تھا پس میں نے آنحضرت کے حبیب کو اپنے پیار پر ترجیح دی ہے.(17) غزوہ موتہ میں بنی کریم نے حضرت زید کو اس لشکر پر امیر مقرر فرمایا جس میں حضور کے عم زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور خالد بن ولید جیسے آزمودہ کار جرنیل شامل تھے.مگر آنحضرت نے حضرت زید کو امیر مقرر فرمایا جس پر بعض کو تعجب بھی ہوا.حضرت جعفر نے تو اس تعجب کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہے مجھے چنداں یہ اندیشہ نہ تھا کہ آپ زید کو مجھ پر امیر مقرر فرمائیں گے (ممکن ہے انہیں عبد اللہ بن رواحہ یا خالد کی امارت کا گمان غالب ہو ) نبی کریم نے فرمایا اللہ کا نام لے کر کوچ کرو.اسی میں تمہارے لئے بھلائی ہے.(18) زید کی شہادت اور نیک انجام جب غزوہ موتہ میں اسلامی فوج مشرکین کے آمنے سامنے ہوئی اور جیسا کہ اس زمانہ کا دستور تھا کہ امیر لشکر سواری پر سوار ہونے کی بجائے پیدل ہی جھنڈا اٹھا کر جنگ میں شریک ہوا کرتا تھا.(جس سے لشکر کے حو صلے اس خیال سے کہ امیر لشکر میدان میں موجود ہے بلند ہوتے تھے ) حضرت زید بن حارثہ نے جھنڈا اٹھایا اور دو بدو دستی لڑائی کا آغاز کیا اور لشکر نے آپ کا ساتھ دیا.اسلامی لشکر کی صفیں جمی ہوئی تھیں اور ان کے پاؤں نہیں اکھڑ رہے تھے کہ اس دوران دشمن کی فوج نے حضرت زید سالا لشکر کو نشانہ بنا کر تیروں کی بوچھاڑ کر دی حضرت زید نے اس وقت خوب خوب داد شجاعت دی.رسول خدا کے انتخاب امارت کا حق ادا کر دکھایا.نیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دی مگر لشکر کے پاؤں اکھڑنے نہیں دیئے.حضرت زید کی عمر پچپن سال تھی.جب انہوں نے جام شہادت نوش کیا.اللہ تعالیٰ حضرت زید کی اس بہادرانہ شجاعت کی خبر نبی کریم ﷺ کو فرما دی.آپ نے زید کی

Page 330

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 316 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا اس کی بخشش کی دعا کرو.وہ تو دوڑتے ہوئے جنت میں داخل ہوا.( یعنی جس شجاعت سے دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر جان دی ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رضا کی جنتوں کے دروازے اس پر کھول دیئے ) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو ایک خوبصورت لڑکی دیکھی جس کے حسن سے مجھے تعجب ہوا.میں نے پوچھا یہ کس کی خادمہ ہے.بتایا گیا کہ زید بن حارثہ کی ہے.(19) خالد بن شمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زید کی شہادت کی خبر نبی کریم ﷺ کو ہوئی اور آپ اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت زید کی صاحبزادی روتے ہوئے نبی کریم سے لپٹ گئیں حضور بھی رو پڑے.یہاں تک کہ شدت غم سے اپنے اس حبیب کی جدائی میں روتے ہوئے آپ کی سسکی نکل گئی.اس پر سعد بن عبادہ نے عرض کیا رسول اللہ یہ کیا ماجرا ہے؟ فرمایا یہ ایک حبیب کا اپنے محبوب سے اظہار محبت ہے.رسول کریم نے فرمایا مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ پیار اوہ ہے جس کے بارہ میں اللہ فرماتا ہے کہ اللہ نے اس پر انعام کیا ہے اور رسول نے بھی (یعنی زیڈ ) (20) سبحان اللہ! کیسا عظیم وہ عاشق صادق تھا جو اپنے پیارے خدام کی محبت کی ایسی لاج رکھتا تھا اور کتنا سعادت مند تھاوہ خادم رسول جو یہ مرتبہ بلند پا گیا کہ حبیب کبریاء کا حبیب ٹھہرا.سچ تو یہ ہے اے زید! آپ صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہی حبیب نہیں رہے بلکہ کل عالم کے حبیب ہو گئے ہیں.ہاں! ہر اس عاشق رسول کے محبوب جو اپنے آقا و مولا پر اپنی جان اور اپنی روح اور اپنی ہر عزیز ترین چیز نچھاور کرنے کو تیار ہے اور محبت رسول ہے جس کے ایمان کا جزو ہے اور خدا کا رسول جسے اپنی اولا داور ماں باپ سے بھی زیادہ پیارا ہے.-1 -3 -4 که ده ط من ه -5 حواله جات ابن سعد جلد 3 ص 41,42 ، اصابہ جز 3 ص 25 ابن سعد جلد 3 ص 41 ، استیعاب جلد 2 ص 116 ابن سعد جلد 3 ص 45 ، اصابه جز 3 ص 25 ترندی ابواب المناقب ذکر زید بن حارثه، منتخب کنز العمال بر حاشیہ جلد 5 ص 186 اصا به جز 3 ص 25 6 - مجمع الزوائد جلد نمبر 9 ص 274 منتخب کنز العمال جلد 5 ص186

Page 331

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 317 حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ -7 -8 اصا به جز 3 ص 25 مسند احمد جلد نمبر 4 ص 161 و مجمع الزوائد جلد 9 ص 274 -10 -11 مسند احمد حنبل جلد نمبر 1 ص 98 بخاری کتاب المناقب باب مناقب زید 12 مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 195 -13 ابن سعد جلد 3 ص 45 14- استیعاب جلد 2 ص 118 15 - بخاری کتاب المناقب باب مناقب زید بن حارثہ منتخب کنز العمال جلد 5 ص186 16- ترمذی ابواب المناقب باب مناقب زید بن حارثہ 17 - ترمذی ابواب المناقب باب مناقب زید بن حارثہ 18- مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص 300 -19 -20 ابن سعد جلد 3 ص 46 منتخب کنز العمال بر حاشیہ جلد 5 ص 186 ابن سعد جلد 3 ص 46,47 ، ترندی کتاب المناقب

Page 332

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 318 حضرت اسامہ بن زید حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ رسول اللہ اللہ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے فرزند تھے.زید یمن کے معزز قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے.انہیں غلام بنا کر عرب کے مشہور میلہ ” عکاظ میں بیچا گیا.حضرت حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لئے خریدا انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شادی کے بعد زید کو آنحضرت مے کے سپر د کر دیا.قبول اسلام اور محبت رسول زید بن حارثہ غلاموں میں سے سب سے پہلے اسلام لائے.جب ان کے والدین انہیں تلاش کرتے کرتے مکہ پہنچے اور آنحضور ﷺ سے عرض کی کہ زیڈ کو گھر جانے کی اجازت دی جائے تو آپ نے انہیں کو بلا کر اختیار دیا کہ چاہو تو والدین کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو تو میرے پاس رہو.زید کا دل رسول عربی ﷺ کا غلام ہو چکا تھا.بے اختیار بول اٹھے.”خدا کی قسم میں آپ پر ہر گز کسی کو تر جیح نہیں دوں گا.“ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے انہیں آزاد کر دیا بلکہ انہیں اپنا منہ بولا بیٹا ( لے پالک) بنا لیا اور آپ زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد کہلانے لگے.( آیت اُدعُ (الاحزاب : 6) کے نازل ہونے پر آپ کو پھر زید بن حارثہ کہا جانے لگا ).آنحضرت ﷺ نے زید سے فرمایا تھا کہ اے زید تو ہمارا بھائی اور آزاد کردہ ہے.(1) اسامہ کی والدہ رسول خدا ﷺ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کی کنیز تھیں نام بر کہ تھا.ام ایمن کی کنیت سے مشہور تھیں.انہیں بھی کچھ عرصہ بطور آیا اور کھلائی رسول کریم ﷺ کی دیکھ بھال اور پرورش کی سعادت حاصل ہوئی تھی.جب حضرت آمنہ یثرب میں آنحضور کے نھیال ملنے تشریف لے گئیں تو ام ایمن ساتھ تھیں.واپسی سفر پر ابواء مقام میں حضرت آمنہ کی وفات ہوئی.حضرت امّم ایمن نے ہی اس یتیم لیکن عظیم الشان بچے کو مکہ میں لاکر ان کے دادا عبدالمطلب کے سپر د کیا تھا.

Page 333

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 319 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ ام ایمن کو اماں کہہ کر پکارتے تھے.ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص جنتی عورت سے شادی کرنا چاہے تو ام ایمن سے کر لے.حضرت زید بن حارثہؓ نے یہ سنا تو ان کے ساتھ نکاح کر لیا.پھر ان کے بطن سے اسامہ پیدا ہوئے.یہ سارا خاندان رسول اللہ کا منظور نظر تھا.(2) غلام زادے سے محبت اسامہ اور زیڈ کی خوش قسمتی ملاحظہ ہو کہ دونوں کو جب رسول مہ یعنی رسول اللہ کے محبوب کا لقب دربار نبوی سے ملا.حضرت اسامہ کی کنیت ابو محمد اور ابوزید بھی مشہور تھی.حضرت اسامہ نے تو اپنی انگوٹھی پر بھی جب رسول کندہ کروایا تھا یعنی رسول اللہ کا پیارا.آنحضرت ﷺ کو اسامہ سے خاص محبت تھی.حضرت عمر فر ماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اسامہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے سوائے ( میری بیٹی ) فاطمہ کئے“ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ: ”اسامہ ہمارے دروازے کی دہلیز پر ٹھوکر کھا کر گر پڑے، چوٹ آئی ، خون پھوٹ پڑا.رسول اللہ اللہ نے مجھے خون صاف کرنے کو فرمایا.میں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کراہت محسوس کی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بوسہ دیا اور خود اپنے ہاتھ سے خون صاف کیا اور فر مایا اگر اسامہ لڑکی ہوتی تو میں اسے عمدہ پوشاک ولباس پہنا تا اور زیور سے آراستہ کرتا.“ غالباً یہ اس کے بعد کا واقعہ ہو گا جو حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے اسامہ کی ناک صاف کرنا چاہی.میں نے عرض کی حضور میلہ چھوڑئیے میں کر دیتی ہوں.فرمایا عائشہ اسامہ سے محبت کیا کرو میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں.‘ (3) خود اسامہ کہتے ہیں کہ آنحضرت انہیں اور حضرت حسین کو دونوں رانوں پر بٹھا لیتے اور فرماتے اے اللہ ان دونوں سے محبت کر میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی پر تاخیر کی آپ کسی کا انتظار فرمارہے تھے کچھ دیر بعد ایک سیاہ فارم لڑکا آیا تو پتہ چلا کہ اسامہ بن زید کا انتظار تھا.اہل یمن کہنے لگے کیا اس کی خاطر ہم روکے گئے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی آپ سے محبت کا سلوک فرماتے تھے.حضرت عمرؓ نے اسامہ کا وظیفہ پانچ ہزار اور اپنے بیٹے کا دو ہزار مقرر کیا.حضرت ابن عمر نے پوچھا آپ نے اسامہ کو مجھ پر فضیلت دی ہے حالانکہ میں ان غزوات میں بھی

Page 334

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 320 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ شریک ہوا جن میں وہ شریک نہ ہو سکے انہوں نے فرمایا اسامہ رسول اللہ علیہ کوتم سے زیادہ پیارا تھا اور اس کا باپ رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ سے زیادہ پیارا تھا.اس وجہ سے میں نے اسے تم پر ترجیح دی.لیکن یہ محبت محض اللہ تھی کبھی احکام الہی میں روک نہیں بنی.چنانچہ ایک دفعہ قبیلہ مخزوم کی ایک معز ز عورت نے چوری کی اس کی شرعی سزا ہاتھ کا ئنا تھی.جو قبیلہ کے لئے بے عزتی کا باعث تھی.لوگوں نے سوچا کہ حضور ﷺ سے کون سفارش کرے.بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ اسامہ کے سوا اور کوئی یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ وہ رسول خدا ﷺ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں.چنانچہ اسامہ کو بھیجا گیا تو حضور ﷺ نے نہایت درجہ عدل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسامہ کو ڈانٹ دیا اور فرمایا اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود کے بارہ میں سفارش کرتا ہے.بنی اسرائیل میں کوئی معزز چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتا اور اگر کمزور ایسا کرتا تو اس کے ہاتھ کاٹ دیتے پس اگر اس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا.‘(4) دینی خدمات حضرت زید 9ھ میں جنگ موتہ میں رومی سرحد پر شہید ہو گئے.آنحضرت نے وفات سے قبل رومیوں کے مقابلہ کے لئے جولشکر تیار کیا اس کا امیر حضرت اسامہ کو مقرر فرمایا.اس لشکر میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ ا یسے کبار صحابہ بھی شامل تھے.اسامہ اس وقت اٹھارہ برس کے تھے.اس لشکر کا پڑاؤ جرف مقام پر تھا ( جو مدینہ کے قریب ہی ہے ).حضور ﷺ بیمار ہو گئے اور یہی بیماری مرض الموت ثابت ہوئی.چنانچہ حضور کی علالت کے پیش نظر یہ لشکر روک دیا گیا.اسامہ جرف سے ملاقات کو آئے.حضور خاموش تھے.بات نہ کرتے تھے.اسامہ کہتے ہیں ” جب میں حاضر ہوا تو حضور نے دونوں ہاتھ مجھ پر رکھے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھائے.میں جانتا ہوں کہ حضور میرے لئے دعا فرمارہے تھے.“ سبحان اللہ آقا کی غلام پر شفقت کا عجیب عالم ہے کہ مرض الموت میں بھی اس یتیم بچہ کے لئے دعا گو ہیں.دراصل یہ آپ کی طبعی محبت کا اظہار تھا.(5) حضرت زید کی شہادت پر اسامہ کی بہن کو رسول اللہ ﷺ نے روتے دیکھا تو آپ بھی

Page 335

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 321 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رو پڑے تھے.سعد بن عبادہ نے عرض کی حضور ﷺ یہ کیا؟ فرمایا یہ جذبہ محبت ہے.غزوات میں شرکت آنحضرت کے زمانہ میں حضرت اسامہ کم سن تھے.تاہم آپ کو بھی بعض لڑائیوں میں شامل ہونے کا موقع ملا.چنانچہ ان کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر ایک کافر سامنے آیا.جب اسامہ وار کرنے لگے تو اس نے کلمہ شہادت پڑھ دیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.حضرت اسامہ نے اسے قتل کر دیا کہ موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے.حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول پاک کے پاس اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کیا اس شخص کے کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد تو نے اسے قتل کر دیا ؟ میں نے عرض کی حضور اس نے تو محض بیچنے کی خاطر کلمہ پڑھا تھا.فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا.اور پھر فرمایا کہ کیا تو نے اسے کلمہ شہادت پڑھنے کے باوجود قتل کر دیا ؟ اسامہ کہتے ہیں کہ حضور علی اللہ نے یہ فقرہ ( ناراضگی کے عالم میں ) اتنی بار دوہرایا کہ میں نے چاہا کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا.آج اسلام لا تا تو یہ غلطی سرزد نہ ہوتی اور رسول الله الله کی اس ناراضگی سے بچ جاتا.(6) اسامہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے عہد کر لیا کہ آئندہ کبھی کسی شخص کو جو لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھے گا قتل نہیں کروں گا.اسی لئے آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے زمانہ میں ان کے ساتھ جنگوں میں شامل نہ ہوئے اور یہی وجہ پیش کی کہ مبادا جنگ میں کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو قتل کر بیٹھوں.آپ نے حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ایام فتن دیکھے، لیکن فتنوں سے علیحدہ رہے اور یہ زمانہ الگ تھلگ گزا دیا.علی بن خشرم کہتے ہیں کہ میں نے امام وکیع سے پوچھا کہ فتنہ میں کون محفوظ رہا تو فرمانے لگے.آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں سے جو معروف لوگ فتنہ سے محفوظ رہے وہ چار ہیں.سعد بن مالک ، عبداللہ بن عمر محمد بن مسلمہ اور اسامہ بن زید.(7) امیر لشکر آنحضرت ﷺ نے جب اٹھارہ برس کی عمر میں حضرت اسامہ کوامیر لشکر مقر فرمایا تو بعض

Page 336

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 322 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ لوگوں نے کم سن اور غلام کا لڑکا ہونے کی وجہ سے ان کی امارت پر اعتراض کیا.آنحضرت گھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تم اسامہ پر عیب لگاتے ہو اور اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو اس سے پہلے تم نے اس کے باپ کے بارہ میں بھی ایسا ہی کیا تھا.حالانکہ وہ امارت کا اہل تھا اور تمام لوگوں سے زیادہ وہ مجھے محبوب تھا اور اب اس کا یہ بیٹا اس کے بعد مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارا ہے.پس اس کے بارہ میں تمہیں تا کیدی حکم دیتا ہوں.وہ تمہارے نیک لوگوں میں سے ہے.‘ (8) نیز رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں اسامہ کے زیر قیادت لشکر کی روانگی کی وصیت فرمائی.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر خلیفہ اول نے لشکر روانہ کرنے کے بارے میں مشورہ کیا تو حضرت عمر نے رائے پیش کی کہ ان نازک حالات میں جبکہ نو مسلم مرتد ہو چکے ہیں اور بہتیرے زکوۃ سے منکر ہیں.اندرونی انتشار کو فرو کرنے کے بعد یہ لشکر روانہ کیا جائے.حضرت ابوبکر نے نہایت جلال سے فرمایا ” خدا کی قسم اگر مدینہ کی گلیوں میں کتے عورتوں کو گھسیٹتے پھریں تو بھی اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا.کیا قحافہ کا بیٹا ابوبکر خلیفہ بنتے ہی پہلا کام یہ کرے کہ رسول اللہ ﷺ کا قائم کردہ لشکر روک دے.“ چنانچہ ان نازک حالات میں حضرت ابو بکر نے اسامہ کے لشکر کو روانہ فرما دیا.آپ شہر کے باہر تک الوداع کرنے ساتھ گئے.اسامہ گھوڑے پر سوار تھے اور خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر ساتھ پیدل چل رہے تھے.تب حضرت ابو بکر نے اسامہ سے کہا ”اگر مناسب سمجھوتو عمر کو میری مدد کے لئے پیچھے چھوڑ دو.“ چنانچہ حضرت اسامہ نے حضرت عمر کو بخوشی اجازت دے دی.اسی موقع پر بعض لوگوں نے پھر اسامہ کی امارت پر اعتراض کیا اور حضرت ابوبکر سے عرض کی کہ امیر لشکر کسی تجربہ کار شخص کو بنایا جائے.جبکہ لشکر میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے جسے قائد مقررفرمایا تھا، وہی اس لشکر کا امیر ہوگا.حضرت عمرؓ خلیفہ ہو گئے مگر پھر بھی جب حضرت اسامہ سے ملتے تو فرماتے اے امیر! آپ پر سلامتی ہو.اسامہ کہتے امیر المؤمنین ! اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ میرے جیسے غلام کیلئے یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں.حضرت عمر فر ماتے میں تو آپ کو تاحیات

Page 337

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 323 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیر کہتا رہونگا کیونکہ جب رسول اللہ ﷺہ فوت ہوئے تو آپ ہی ہم پر امیر مقرر تھے.(9) حضور کے وصال کے وقت حضرت اسامہ کی عمر قریباً 18، 20 سال تھی.آپ نے براہ راست آنحضرت ﷺ سے بھی احادیث روا کی ہیں.اپنے والد زید بن حارثہ اور والدہ ام ایمن سے بھی اور آپ سے دو بیٹوں حسن اور محمد کے علاوہ حضرت ابن عباس ، ابو ہریرہ، عروہ بن زبیر حسن بصری، عبید اللہ بن عبد اللہ ، ابو عثمان الہندی و غیر ہم روایت کرتے ہیں.آپ کا سینہ اقوال النبی کا خزینہ تھا.بڑے بڑے صحابہ کو جس بات پر شک ہوتا ان کی طرف رجوع کرتے.آخری عمر میں آپ دمشق کی ایک بستی مزہ میں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے پھر وادی القری میں کچھ عرصہ ٹھہرے.آخر میں مدینہ تشریف لائے اور حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جرف کے مقام پر 54 ہجری میں قریباً 64 سال کی عمر میں انتقال فرمایا.بعض کے نزدیک آپ کا سن وفات 85 ہجری ہے جبکہ معاویہ کا عہد امارت تھا.جنازہ مدینہ لایا گیا اور یہیں دفن ہوئے.(10) -1 -2 -3 که ده ط من -4 -5 -6 -7 -9 -10 اصا به جز 3 ص 25 حواله جات بخاری کتاب المناقب (زید) ، مجمع الزوائد جلد 9 ص 258، ترمذی مناقب اسامه استیعاب جلد 1 ص 170 ، اسد الغابہ جلد 1 ص65 استیعاب جلد 1 ص 170 ، بخاری کتاب المناقب باب ذکر اسامه منتخب کنز العمال بر حاشیه مند جلد 5 ص 316 بخاری کتاب المغازی اسد الغابہ جلد 1 ص 65 ، اصابه جز1 ص29 مسلم فضائل الصحابہ باب فضائل زید و اسامه تاریخ ابن اثیر جز1 ص 142 ، سیرت الحلبیہ، منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد 5 ص 135 اصا به جز 1 ص 29

Page 338

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 324 حضرت مقداد بن عمرو حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ حضرت مقداد بن عمرو کی کنیت ابو معبد تھی.شہر بہرا کے باشندے تھے.آپ لمبے قد اور گندمی رنگ کے تھے جسم بھاری بھر کم تھا.سر پر بال زیادہ تھے.داڑھی رنگا کرتے تھے جو بہت خوبصورت تھی نہ بہت بڑی اور نہ بہت چھوٹی.(1) جاہلیت میں اسود بن یغوث زہری کے حلیف بنے.انہوں نے منہ بولا بیٹا بنالیا اور تب سے مقداد بن عمرو کے بجائے مقداد بن اسود کہلائے.جب یہ آیت اتری ادْعُوهُمْ لا بَاءِ هِـمُ هُوَاقْسَطُ عِندَ الله (الاحزاب : 6) کہ لوگوں کو انکے باپوں کے نام سے یاد کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے.تو اپنی اصل ولدیت مقداد بن عمر و سے معروف ہوئے.(2) قبول اسلام اور ہجرت مقدا دزمانہ جاہلیت میں اپنے شہر بہراء میں کسی دشمن کا خون کر بیٹھے.ان کے قبیلے کے ذمہ دیت آئی.یہ وہاں سے بھاگ کر کندہ قبیلہ میں چلے گئے اور ان کے حلیف بن گئے.جب وہاں بھی ایسی نوبت آئی تو بھاگنا پڑا اور مکے میں آکر پناہ لی اور اسے اپنا وطن بنایا اور یہاں آکر اسود بن یغوث زہری کے حلیف بنے.(3) مقداد کی خوش قسمتی کہ مکے آئے تو یہاں اسلام کا غلغلہ بلند ہو چکا تھا.اور آغاز میں ہی انہیں اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ کا شمار اسلام قبول کرنے والے پہلے سات افراد میں ہوتا ہے.(4) مکہ میں کفار قریش کی طرف سے مصائب اور ابتلاء کا سامنا کرنا پڑا تو دیگر اصحاب کی طرح مجبوراً حبشہ ہجرت کی.وہاں سے واپسی ہوئی تو مدینہ ہجرت کا قصد کیا مگر اسمیں کفار مکہ کی طرف سے روکیں تھیں.آنحضرت سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جاچکے تھے.مقداد کسی ایسے حیلہ کی تلاش میں تھے جس سے وہ کفار کے چنگل سے نکل کر مدینہ ہجرت کر جائیں.کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ

Page 339

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 325 حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ نے اس کا سامان کر دیا.سردار مکہ مکرمہ کی سرکردگی میں کفار قریش کی ایک مہم مسلمانوں کے خلاف نکل رہی تھی.مقداد اس میں شامل ہو گئے اور جب مسلمانوں کے ساتھ مٹھ بھیر ہوئی تو موقع پاکر مسلمانوں کی طرف بھاگ آئے.(5) یوں بالآخر مقداد کو ہجرت کی سعادت نصیب ہوئی.مدینہ آکر ابتداء میں حضرت کلثوم بن ہرم کے پاس کچھ عرصہ قیام رہا.آنحضور ﷺ نے جبار بن صحر سے ان کی مؤاخات قائم کی اور بنی عدیلہ میں زمین کا ایک ٹکڑا بھی عطا فرمایا.(6) ضیافت رسول کا فیض اور برکت ہجرت کے ابتدائی زمانے میں جب مقداد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آئے تو حضور نے پہلے ذاتی مہمان رکھا.اس زمانہ کا ایک دلچسپ واقعہ خود بیان کیا کرتے تھے کہ حضور کے پاس چند بکریاں تھیں جن کے دودھ پر رسول اللہ کے مہمان صحابہ کا گزارا ہوتا تھا.دستور یہ تھا کہ ہم یعنی مقداد اور ان کے دو اور مہمان ساتھی بکریوں کا دودھ خود دوہتے اور اپنا حصہ پی کر سو جاتے.باقی دودھ ایک پیالے میں ڈھک کر آنحضور کے لئے بچار کھتے.ایک رات دینی کاموں میں مصروفیت کے باعث آنحضور کی گھر واپسی میں تاخیر ہوگئی.ادھر میری بھوک کی شدت اپنے حصہ کے دودھ سے کم نہ ہوئی تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ حضور کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا جائے.اس خیال کو مزید تقویت اس بات نے دی کہ حضور کو تو انصار نے دودھ وغیرہ پلا دیا ہوگا.اور وہ تو سیر ہو کر آئیں گے.چنانچہ میں اٹھا اور دودھ پی کر خالی پیالہ واپس اسی جگہ رکھ دیا.آنحضور کا دستور تھا کہ آپ واپس گھر تشریف لاتے.اگر لوگ سوئے ہوتے تو نہایت خاموشی سے دوسروں کو جگائے بغیر آہستہ آواز میں سلام کہتے.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سونے سے پہلے اس طرف گئے جہاں دودھ کا پیالہ پڑا ہوتا تھا مگر پیالہ خالی تھا.ادھر میں عرق ندامت سے پانی پانی ہو رہا تھا کہ مجھ سے کیا حرکت سرزد ہو گئی.اُدھر نبی کریم نے بآواز بلند یہ دعا کی کہ اے اللہ ! اس وقت میری بھوک کی حالت میں جو بھی مجھے کھلائے تو اسے کھلا اور جو مجھے پلائے تو اسے پلا “ کہتے ہیں تب مجھے کچھ ڈھارس بندھی میں فوراً اٹھا اور ان بکریوں کی طرف گیا جن کا دودھ پہلے دوہا جا چکا تھا.مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب بکری کے تھن کو میرا ہاتھ پڑا تو اسے دودھ سے بھرا ہوا پایا.میں نے دودھ سے اپنا برتن بھرا اور

Page 340

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 326 حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر آیا.حضور نے فرمایا کہ پہلے تم پی لو.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پہلے آپ پی لیں پھر میں ساری بات عرض کروں گا.حضور ﷺ نے دودھ پی لیا پھر بھی باقی بچ گیا.حضور ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اب تم پی لو.میں نے پیا جب خوب سیر ہو گیا تو بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں لوٹ پوٹ ہونے لگا حضور ﷺ نے فرمایا مقداد کیا بات ہے؟ تب میں نے سارا قصہ سنایا کہ یا رسول اللہ میں تو اس خیال سے آپ کے حصہ کا دودھ پی گیا تھا کہ آپ باہر سے پی کر آئیں گے.مگر جب آپ نے آکر یہ دعا کی تو میں اٹھا اور پھر یہ عجیب نشان ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ایک بکری کے تھنوں میں دوبارہ دودھ اتار دیا.میں ہنس اس لئے رہا ہوں کہ میں نے حضور کے دودھ کا حصہ بھی پیا اور اپنا بھی اور دودھ دوہنے کے بعد پھر خدا نے مجھے پلایا اور یوں میرے حق میں آپ کی دعا بھی قبول ہوگئی.حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک برکت تھی اور یہ تمہارے ساتھی جو سوئے ہوئے ہیں انہیں اس میں سے کیوں حصہ نہ دیا ؟ (7) غزوات میں شرکت دودھ حضرت مقداد بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضور ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں شرکت کی توفیق ملی ہے.یہ اچھے تیر اندازوں میں شمار کئے جاتے تھے اور بہت عمدہ گھڑ سوار بھی تھے.بدر میں اپنے گھوڑے سُبحہ پر سوار ہو کر شامل ہوئے.چنانچہ ایک روایت کے مطابق سب سے پہلا شخص جس نے گھوڑے پر بیٹھ کر جہاد کیا وہ حضرت مقداد تھے.(8) بدر کے موقع پر حضرت مقداد سے ایثار اور قربانی کا شاندار نظارہ دیکھنے میں آیا جس پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود بھی رشک سے کہا کرتے تھے کہ اے کاش! ایمانی جوش کا یہ نظارہ ہم سے ظاہر ہوتا.“ واقعہ یہ ہے کہ حضرت نبی کریم عجوہ سے بیعت عقبہ کے وقت انصار مدینہ سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ مدینہ میں رہ کر آپ کی حفاظت کریں گے.بدر کے موقع پر جب پہلی دفعہ اپنے دفاع کیلئے مدینہ سے باہر نکلنا پڑ رہا تھا.حضور اکرم ﷺ نے چاہا کہ اب انصار مدینہ سے دوبارہ مشورہ کر لیا جائے.اس موقع پر صحابہ کو جمع کر کے آپ نے ان سے مشورہ مانگا تو حضرت ابو بکر صدیق نے مشورہ

Page 341

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 327 حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ دیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم ہر قسم کی قربانی کیلئے حاضر ہیں اور حسب ضرورت باہر نکل کر بھی ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے.حضرت عمر نے بھی یہی مشورہ دیا لیکن حضور پھر بھی مشورہ طلب کر رہے تھے.غالباً آپ کا روئے سخن انصار مدینہ کی طرف تھا کہ ان میں سے کوئی مشورہ دے.دریں اثناء حضرت مقداد بن اسود کھڑے ہوئے.انہوں نے ایسی ایک پر جوش تقریر کی جس کا اثر انصار و مہاجرین سب پر ہوا اور سب ان جذبات سے سرشار ہو گئے جو حضرت مقداد کے تھے.انہوں نے عرض کیا ! ” یارسول اللہ ہم موسی کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں کہ یہ کہیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.خدا کی قسم ! ہم تو وہ وفاشعار غلام ہیں جو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی.آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.یارسول اللہ اگر آپ حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مقداد نے جب یہ جوش بھرے الفاظ کہے تو ہم نے دیکھا آنحضور ﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا.بے شک اس وقت ایثار و فدائیت کے جذبے اگر چہ تمام صحابہ کے دل میں موجیں ماررہے تھے مگر ان کو زبان حضرت مقداد نے دی.اس لئے آنحضور ﷺ کے چہرے پر رونق آنا ایک طبعی بات ہے کہ آنحضور کو خوش کرنے والے حضرت مقداد تھے.اسی لئے حضرت عبداللہ بن مسعود جیسے بزرگ صحابی بعد میں بھی بجا طور پر کہتے تھے کہ آج بھی میری یہ دلی تمنا ہے کہ وہ نظارہ جو میں نے مقداد سے دیکھا.اے کاش میری تمام نیکیاں مقداد کی ہوتیں اور یہ نظارہ مجھ سے ظاہر ہوا ہوتا، یعنی قربانی اور ایثار و وفا کے ان جذبوں کو زبان دینے والا سعادت مند میں ہوتا.(9) حضرت مقداد کی نیکی اور خدمات کا صلہ تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے از راہ شفقت ان کی شادی کا اہتمام کروایا.چنانچہ ہجرت کے بعد جب ایک دفعہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے مقداد سے کہا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے برجستہ کہا آپ ہی رشتہ دے دیں.جس پر وہ رنجیدہ بھی ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ ، حالات اور کفو میں تفاوت ہوگا.آنحضرت ﷺ کو جب پتہ چلا تو آپ نے مقداد سے فرمایا کہ میں اپنی چچازاد بہن ضباعہ بنت زبیر تم سے بیاہ دیتا ہوں.(10) رض

Page 342

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 328 حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے حضرت زبیر کی بیٹی ضباعہ ان سے بیاہ دی اور یوں حضور.ساتھ ایک تعلق مصاہرت بھی قائم ہو گیا.بعد میں مقداد خیبر کے معرکہ میں شامل ہوئے اور مال غنیمت سے حصہ ملا جو پندرہ وسق تھا.بعد میں حضرت معاویہؓ نے اسے ایک لاکھ درہم میں خریدا.شوق جہاد حضرت مقداد کے شوق جہاد کا وہی عالم تھا جس کا اظہار انہوں نے رسول کریم عہ کے سامنے کیا تھا کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.بعد کے زمانے میں جب بوڑھے ہو گئے اور بھاری بھر کم بھی تھے.کسی نے کہا کہ قرآن شریف نے تو مریض اور کمزور کو معذور قرار دیا ہے آپ کو جہاد پر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگے کہ قرآن کا حکم ہے اِنْفِرُ وا خِفَافًا وَثِقَالًا وَ جَاهِدُوا.(التوبہ: 42) کہ اے لوگو جہاد کیلئے نکلو خواہ ہلکے ہو یا بھاری.بالعموم اس آیت میں بھاری اور ہلکے کے معنے ہتھیار سے لیس یا بغیر ہتھیار کے کئے جاتے ہیں لیکن مقداد کہا کرتے تھے کہ ثِقالاً سے بھاری بھر کم بدن بھی مراد ہو سکتا ہے اور اگر میرا وزن بڑھ کر جسم بھاری بھی ہو چکا ہے تو بھی مجھے حکم ہے کہ جہاد کیلئے نکلنا چاہیے.چنانچہ آپ آخر دم تک با قاعدگی سے جہاد میں شامل ہوتے رہے.(11) انکسار ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے انہیں ایک مہم پر بھیجا اور اس کا امیر مقرر فرمایا.واپس آئے تو رسول کریم نے دریافت فرمایا کہ مہم کیسی رہی؟ دستہ کے امیر ہونے کی ذمہ داری کے بوجھ سے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کے بعد میں کبھی امیر بننا پسند نہیں کروں گا.(12) ظاہر ہے اس میں ان کی طبیعت کا انکسار بھی شامل ہوگا.آنحضرت ﷺ نے اپنے جن خاص اصحاب کا تعریفی رنگ میں ذکر کیا ہے ان میں حضرت مقداد بھی تھے.ایک موقع پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے سات وزراء( نائین ) عطا کئے ہیں پھر ان سات اصحاب میں حضرت مقداد کا بھی ذکر کیا.ایک اور موقع پر فرمایا کہ چار لوگوں سے مجھے

Page 343

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاص محبت ہے اور ان میں مقداد کا ذکر کیا.(13) 329 حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ اسی طرح فرمایا جنت جن لوگوں کیلئے مشتاق ہے ان میں حضرت مقداد بھی ہیں.(14) حضرت مقدار جرف مقام پر جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے فوت ہوئے.آپ کا جنازہ کاندھوں پر اٹھا کر مدینہ لایا گیا اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی.آپ کا سن وفات 33 ہجری ہے عمر 70 برس تھی.حضرت مقداد بیان کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج لوگوں کے قریب کر دیا جائے گا اور لوگ پسینہ سے شرابور ہوں گے.یہ کیفیت ان کے اعمال کی نسبت سے ہوگی.جن کے اعمال نسبتا اچھے ہونگے ان کو کم پسینہ آئے گا اور جن کے اعمال میں کمی ہوگی ان کو زیادہ پسینہ آئے گا مثلاً بعض کو گھٹنوں بعض کو کمر تک اور جن کے عمل کچھ اور کم ہوں گے ان کے مونہوں تک لگام ہوگی اور وہ عرق ندامت میں غرق ہو نگے.‘ (15) حضرت مقداد بے شک فوت ہو گئے مگر آنحضرت ﷺ کے سامنے انہوں نے جس فدائیت کا اظہار کیا تھا، اس حوالے سے وہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں.اور آج بھی دین کی راہ میں جذ بہ قربانی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مقداد کے تاریخی کلمات دہرائے جاتے ہیں.جن سے انہوں نے اپنے سچے جذبوں کو زبان دی تھی کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے لڑیں گے.کسی نے سچ ہی تو کہا ہے.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده ثبت است پر شد بعشق جریدہ عالم دوام شاں حواله جات -2 -4 -5 -6 ī ņ ♡ † 46 −1 -3 ابن سعد جلد 3 ص 163 ابن سعد جلد 3 ص 161 مستدرک حاکم جلد 3 ص 348 مستدرک حاکم جلد 3 ص 348 اسد الغابہ جلد 4 ص409 ابن سعد جلد 3 ص 161

Page 344

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 4 اصا به جز 6 ص34-133 330 بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر اصا به جز 3 ص484 مستدرک حاکم جلد 3 ص349 مستدرک حاکم جلد 3 ص 350 اصا به جز 3 ص 455 مجمع الزوائد جلد 9 ص 307 اسد الغابہ جلد 4 ص 410 حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ

Page 345

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 331 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت خباب بن الارت حضرت خباب کی کنیت ابوعبداللہ تھی.بچپن میں آپ قید ہو گئے اور مکہ میں آکر فروخت ہوئے قبیلہ بنوزھرہ کی ایک دولت مند خاتون اتم انمار نے انہیں خرید لیا.اس حوالہ سے ان کی نسبت کبھی بنی زہرہ کے آزاد کردہ غلام کے طور پر اور کبھی ان کے حلیف کے طور پر بیان کی جاتی ہے.قبول اسلام اور مصائب پر صبر حضرت خباب بہت ابتداء سے اسلام قبول کرنے والے اصحاب رسول میں سے ہیں جب آنحضرت علی ابھی دارارقم میں تھے.اس ابتدائی زمانہ میں جن سات افراد کا قبول اسلام نمایاں طور پر معلوم ہوتا ہے ان ” سابقون الاولون میں حضرت ابو بکر کے ساتھ حضرت خباب اور حضرت مقداد بن اسود شامل ہیں.(1) حضرت خباب بوجہ غلامی اپنا کوئی خاص قبیلہ نہیں رکھتے تھے.اس کمزوری کی وجہ سے آپ کو بہت مصائب اور ظلم و تشدد کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ تکالیف انہیں اسلام سے منحرف نہ کر سکیں.(2) روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیا جاتا.ایک طرف لوہا گرم ہو کر تیا دوسری طرف صحرائے عرب کی گرمی اور دھوپ کی تمازت ہوتی اور سخت تکلیف اور اذیت میں ان کے دن گزرتے.بعض دفعہ ان کے لوہارے کے کام کے دوران ان کے دہکائے انگاروں پر ہی ان کو لٹا دیا جاتا اور انکی پشت کو اس سے داغا جاتا.یہاں تک کہ پشت کا گوشت پگل پگل کر ان انگاروں کو سرد کرتا مگر ان ظالموں کے ظلم کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی.(3) ان تمام مصائب اور ابتلاؤں میں حضرت خباب نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا اور ظالم کا فر کبھی بھی ان کی زبان سے کلمہ کفر نکلوانے میں کامیاب نہ ہو سکے.آنحضرت علیہ حضرت خباب کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان سے بہت محبت کرتے تھے.آپ نے بظاہر اس معمولی لوہارے کا کام کرنے والے کو کبھی نظرا نداز نہیں کیا.بلکہ بسا اوقات

Page 346

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 332 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کوئلوں کی اس بھٹی پر جہاں وہ لوہے کا کام کرتے تھے آپ تشریف لے جاتے اور ان کی ہمت وڈھارس بندھایا کرتے.حضرت خباب کی مالکہ اتم انمار کو پتہ چلا کہ آنحضرت یہاں بھی آتے ہیں تو اس نے حضرت خباب گو اور زیادہ تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا.ان کی بھٹی کے انگاروں سے لوہے کی سلاخیں گرم کر کے وہ ان کا جسم داغا کرتی اور کہتی کہ اسلام کو چھوڑو گے یا نہیں؟ بالآخر انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پاس شکایت کی تو نبی کریم نے ان کے حق میں یہ دعا کی اللَّهُم أَنصُر حَبًّا باً.اے اللہ خباب کی نصرت فرما.اس دعا کا اثر عجیب معجزانہ رنگ میں ظاہر ہوا اور اُم انمار کو اچانک شدید سر درد کے دورے پڑنے لگے.یہ دورے اتنے سخت ہوتے کہ جانوروں کی طرح ام انمار کے چیخنے چلانے اور بلبلانے کی آوازیں بے اختیار نکلا کرتیں.طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ اس کا سرگرم لوہے سے داغا جائے.عربوں میں اس زمانے میں آخری علاج کے طور پر داغنے کا رواج تھا.یہ داغنے کی خدمت بھی حضرت خباب کے حصہ میں آئی.اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول کرتے ہوئے اس ظالم عورت سے حضرت خباب کا انتقام لینے کی عجیب راہ نکالی کہ حضرت خباب جنہیں وہ اسلام سے واپس لوٹانے کے لئے داغا کرتی تھی اب وہی خباب اسکے علاج کیلئے اس کا سر داغا کرتے.یوں اسے احساس دلایا گیا کہ اس نے خباب کو کتنی تکلیف اور اذیت پہنچائی ہے.اس کے بعد کبھی اس کی طرف سے خباب کو یہ دکھ دینے کا ذکر نہیں ملتا.(4) قبول اسلام پر مالی ابتلا ءاور صبر حضرت خباب لوہے کی تلواریں اور دیگر چیزیں بناتے تھے.مشرک سردار عاص بن وائل کو بھی انہوں نے ایک تلوار بنا کر دی تھی، جس کا معاوضہ اس نے ادا کرنا تھا لیکن جب بھی وہ قرض کا تقاضا کرتے ، وہ انکار کر دیتا.ان کے قبول اسلام کے بعد خاص طور پر وہ یہ طنز کرتا کہ مجھ سے دنیا میں کیوں قرض مانگتے ہو تمہارے عقیدے کے مطابق تو موت کے بعد اگلا جہاں بھی ہے جہاں ہم سارے اکٹھے ہونگے وہاں اپنا قرض بھی لے لینا اور اگر یہیں قرض لینا ہے تو پہلے محمد کا انکار کرو.جب تک انکار نہیں کرو گے اس وقت تک میں قرض نہیں دوں گا.اس طرح حضرت خباب سے استہزاء کرتے ہوئے وہ ٹالتا تھا اور یہ قرض آخر تک اس نے ادا نہیں کیا.قرآن شریف کی اس آیت

Page 347

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 333 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ میں اس جیسے لوگوں کا ہی ذکر ملتا ہے.اَفَرَتَيتَ الَّذِي كَفَرَ بِآتِنَا وَقَالَ لَا وَتَيَنَّ مَالاو وَلَدًا ( مریم : 78) کہ تم نے اس شخص پر غور کیا جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگلے جہاں میں مجھے اور مال و اولا د دئے جائیں گے.دور قربانی اور حضرت عمر کی قدردانی حضرت خباب کو ہجرت مدینہ کی توفیق ملی تو حضرت کلثوم بن ھدم کے پاس آ کر ٹھہرے (اور بدر سے کچھ پہلے تک قیام کیا) پھر سعد بن عبادہ کے پاس کچھ عرصہ ٹھہرے.آنحضرت کے ساتھ تمام غزوات بدر، احد اور خندق میں خدمات کی توفیق پاتے رہے.حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت خباب ان کی مجلس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حضرت خباب کو بلا کر اپنی خاص مسند پر بٹھایا اور فرمایا کہ ” خباب ! آپ اس لائق ہو کہ میرے ساتھ اس مسند پر بیٹھو.میں نہیں دیکھتا کہ تم سے بڑھ کر اور اس جگہ میرے ساتھ بیٹھنے کا کوئی مستحق ہو سوائے بلال کے کہ انہوں نے بھی اس ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کر کے بہت تکلیفیں اٹھائیں.“ حضرت خباب نے عرض کی اے امیر المومنین ! بے شک بلال بھی حق دار ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بلال کو بھی مشرکین کے ظلم سے بچانے والے موجود تھے.چنانچہ حضرت ابوبکر نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا لیکن میرا تو کوئی بھی نہیں تھا جو مجھے ان کے ظلم سے بچاتا اور ایک دن مجھ پر ایسا بھی آیا کہ مجھے کافروں نے پکڑ لیا اور آگ جلا کر اس کے اندر جھونک دیا میں آگ میں پڑا ہوا تھا.ایک ظالم نے میرے سینہ کے اوپر پاؤں رکھ دیا اور میرے لئے اس آگ سے بچنا ممکن نہ رہا.میری پشت انگاروں پر پڑے پڑے جل گئی.تب حضرت خباب نے اپنی پشت پر سے وہ کپڑا اٹھایا تو دیکھا گیا کہ کچھ سفید لکیروں کے نشان تھے انہوں نے بتایا کہ دہکتے کوئلوں سے ان کی چربی کے جلنے اور پگلنے کے نتیجہ میں یہ نشان پڑے تھے جو ہمیشہ کیلئے ان کی اذیتوں کے گواہ بن گئے.(5) صبر ورضا حضرت خباب بیان کرتے تھے کہ ان تکلیفوں ، اذیتوں، دکھوں کے شکوے ہم کہاں کرتے

Page 348

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 334 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ بالآخر اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی کے پاس حاضر ہو کر ہی اپنے دکھ عرض کیا کرتے تھے.ایک دفعہ ایسی ہی تکلیفوں اور مصیبتوں کی تاب نہ لاکر میں بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور صحن کعبہ میں ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے، دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک درخت کے سائے میں اپنا با زوسر کے نیچے رکھے لیٹے تھے میں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ ہمارے لئے دعا نہیں کریں گے؟ اس قوم نے تو ظلم کی حد کر دی اور ہمیں یہ ڈر پیدا ہونے لگا ہے کہ یہ کہیں ہمیں اپنے دین سے ہی منحرف نہ کر دیں.آنحضرت خاموش رہے اور دوسری طرف رخ پھیر لیا.خباب کہتے ہیں کہ میں نے دوسری دفعہ پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ گیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟ حضور پھر خاموش رہے تیسری دفعہ عرض کیا تو آنحضرت نے فرمایا کہ اے اللہ کے بند واللہ کا تقویٰ اختیار کر و صبر کرو اور صبر پر قدم مارتے چلے جاؤ.خدا کی قسم ! تم سے پہلے بھی خدا کے مظلوم بندے گزرے ہیں جن کے سر کے درمیان سے آرے چلا کر ان کے جسموں کو دو ٹکڑے کر دیا گیا.وہ اپنے ایمان سے پیچھے نہ ہٹے ان میں سے ایسے بھی تھے کہ لوہے کی گرم کنگھیوں سے ان کے جسم کا گوشت ان کی ہڈیوں سے نوچ لیا گیا.مگر خدا کے ان بندوں کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی.پس آج تمہیں بھی ان مصائب اور اذیتوں کے مقابل پر اور ہمت سے کام لینا ہوگا.یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بالآخر اپنے دین کے لئے فتح اور غلبہ کے سامان پیدا فرمانے والا ہے.(6) نبی کریم ﷺ کی یہ ایمان افروز باتیں ان مظلوموں کی ڈھارس بندھاتی تھیں.حضرت خباب کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ بہت متوکل انسان تھے.بعد کے زمانے میں ان کی قربانیوں کے طفیل خدا تعالیٰ کے بہت فضل اور انعام ان پر ہوئے لیکن ان کی نظر اس بات پر رہتی تھی کہ کہیں ایسانہ ہو کہ ہماری قربانیوں کے پھل ہمیں یہیں مل جائیں اور ہم اجر دنیا سے زیادہ حصہ نہ پالیں اور ہمارے آخرت کے اجر میں کوئی کمی نہ آجائے.آخری بیماری اور خشیت الہی چنانچہ حضرت خباب کی آخری بیماری میں بعض صحابہ ان کی عیادت کیلئے گئے وہ کہتے ہیں کہ خباب بڑی شدید بیماری اور تکلیف میں تھے جس کی وجہ سے ان کے پیٹ کو سات مرتبہ داغنا پڑا.

Page 349

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 335 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ خباب کہنے لگے مجھے تکلیف اتنی زیادہ ہے کہ دل کرتا ہے کہ موت ہی آجائے لیکن میں نے آنحضرت سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ موت کی تمنا نہ کرو گویا آخری وقت میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی تعمیل کی طرف توجہ تھی.پھر کہنے لگے میرا کفن لے کر آؤ اور مجھے دکھاؤ اور جب دکھایا گیا تو وہ اس زمانے کے عمدہ کپڑے خباطی کا کفن تھا اس کو دیکھ کر رو پڑے انکسار سے کہنے لگے اتنا اچھا اور عمدہ کفن مجھے دو گے؟ رسول اللہ ﷺ کے چا حضرت حمزہ شہید احد کو محض ایک چادر کفن کیلئے میسر آئی تھی جس سے ان کے پاؤں ڈھانپتے تو سرنگا ہو جاتا.سرڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے.تب ہم نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت پر پاؤں کو گھاس ڈال کر ڈھانک دیا اور یوں حضرت حمزہ کو پورا کفن نصیب نہ ہوا.رسول کریم کے زمانے میں میں ایک دینار یا درہم کا بھی مالک نہیں تھا اور آج رسول اللہ ﷺ کے فیض کی برکت سے میرے گھر کے ایک کونے کے صندوق میں ہی چالیس ہزار درہم موجود ہیں.مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ کہ ہمارے اعمال کی جزا کہیں اسی دنیا میں تو نہیں مل گئی اور کہیں آخری زندگی میں ہم اپنے اجروں سے محروم نہ کر دئے جائیں.“ اسی آخری بیماری میں بعض صحابہ ان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے.انہوں نے دیکھا کہ خباب شاید اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکیں تو ایک رنگ میں انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا اے خباب تمہیں بشارت ہو کہ کل یا پرسوں اپنے بزرگ اصحاب رسول سے جاملو گے.اس پر وہ رو پڑے جب طبیعت سنبھلی تو کہنے لگے ”یہ مت خیال کرنا کہ میں موت کے خوف سے رویا ہوں.خدا کی قسم ! تم نے میرے ایسے گروہ اور ساتھیوں کا ذکر کیا جن کا بھائی مجھے قرار دیا ان صحابہ کا تو بہت بلند مقام مرتبہ تھا پتہ نہیں میں ان کا بھائی ہونے کا اہل بھی ہوں یا نہیں؟ اور ہمیں اس دنیا میں جوا جر عطا کر دئے گئے وہ لوگ تو اس زمانے سے بہت پہلے گزر گئے انہوں نے دنیا کے بہت زیادہ مال و متاع سے فائدے نہیں اٹھائے جو ہم نے اٹھائے ہیں.یہ وہ خشیت اور تقویٰ کا مضمون ہے جس کی آنحضرت عیے نے ان کو نصیحت فرمائی تھی اور انہوں نے اسے خوب پلے باندھا اور آخری دم تک اسے سینے سے لگائے رکھا.(7)

Page 350

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 336 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ افتراق امت کے نتیجہ میں ہلاکت کی پیشگوئی حضرت خباب کی روایات میں سے ایک اہم روایت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ بہت لمبی نماز پڑھی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺہ آج معمول سے لمبی نماز آپ نے پڑھی اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور محبت اور رغبت کی نماز بھی تھی اور کچھ خوف اور ڈر کا پہلو بھی اس میں شامل تھا.چنانچہ آج اس نماز میں میں نے خدا تعالیٰ کے حضور تین دعائیں کی ہیں ان میں سے دو تو اللہ نے قبول کر لیں مگر ایک قبول نہیں کی پہلی دعا یہ کہ میرے مولا میری امت قہر سے ہلاک نہ ہو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کر لی دوسرے میں نے عرض کیا کہ میرے مولا غیر قوموں میں سے دشمن میری امت پر مسلط نہ کیے جائیں.یہ دعا بھی قبول ہوئی تیسرے میں نے عرض کیا کہ یہ امت فرقوں میں نہ بٹ جائے اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کے درپے نہ ہو جائے.مگر یہ دعا قبول نہیں کی گئی.(8) بد قسمتی سے یہی بدبختی آج مسلم امہ پر ظاہر ہورہی ہے اور ایک مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کا گلا کاٹنے کے درپے ہے.وفات اور انجام بخیر حضرت خباب کی وفات 37 ہجری میں بعمر تہتر سال کوفہ میں ہوئی.اہل کوفہ کا دستور تھا کہ شہر کے اندر ہی قبرستان میں اپنے مردے دفن کرتے تھے.حضرت خباب نے کہا کہ مجھے شہر سے باہر دفن کرنا.حضرت علی کا زمانہ خلافت تھا.جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ کے باہر چند قبریں دیکھ کر آپ نے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ حضرت خباب کی قبر ہے جو ان کی وصیت کے مطابق کوفے سے باہر بنائی گئی ہے.حضرت علی خلیفہ راشد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی.(9) اس موقع پر حضرت علی خلیفۃ الرسول نے ان کیلئے جو دعا کی اور جن تعریفی کلمات سے ان کا ذکر کیا اس سے حضرت خباب کی قابل قدر خدمات کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خباب پر رحم کرے.انہوں نے نہایت رغبت اور محبت کے ساتھ اسلام قبول کیا اور پھر اس

Page 351

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 337 حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ وقت ہجرت کی توفیق پائی جب ان کیلئے ہجرت کے حالات پیدا ہوئے.پھر جو زندگی انہوں نے گزاری وہ ایک مجاہد کی زندگی تھی وہ شدید ابتلاؤں میں سے گزرے اور مصائب و شدائد کا نشانہ بنائے گئے جس میں انہوں نے صبر اور استقامت کے نمونے دکھائے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا جو نیک اعمال بجالانے والے ہوں.پھر حضرت علی ان قبروں کی طرف گئے جو حضرت خباب کی قبر کے قریب بن چکی تھیں اور فرمایا مسلمان اہل قبور ! تم ہم سے آگے چلے گئے اور ہم تمہارے پیچھے جلد آنے والے ہیں.پھر دعا کی کہ اے اللہ ہمیں بھی بخش دے اور ان کو بھی اور ان کی لغزشیں معاف فرما دے.پھر کہنے لگے مبارک ہو ان لوگوں کو جنہوں نے آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے اس دنیا میں اعمال کئے اور جو تھوڑے پر راضی ہو گئے اللہ بھی ان سے راضی ہو گیا (10) ہماری بھی حضرت خباب کے حق میں دعا ہے کہ اللہ ان پر رحم کرے اور بلند درجات عطا فرمائے اور ان کے نیک نمونے ہمیں زندہ رکھنے کی توفیق دے.آمین حواله جات -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -10 مستدرک حاکم جلد 3 ص 382-381 ابن سعد جلد 3 ص 164 اسد الغابہ جلد 2 ص 98 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 98 ابن سعد جلد 3 صفحہ 165 مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 383 ابن سعد جلد 3 صفحہ 166 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 99 ابن سعد جلد 3 صفحہ 167 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 299

Page 352

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 338 حضرت اسعد بن زرارة حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ حضرت اسعد بن زرارہ کی کنیت ابو امامہ تھی جس سے زیادہ مشہور تھے.والدہ کا نام سعاد الضریعہ تھا.حضرت سعد بن معاذ رئیس انصار کے خالہ زاد بھائی تھے.ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا جن سے ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفے ﷺ کا نتھالی رشتہ بنتا ہے.آپ اسعد کے لقب سے مشہور تھے گویا آغاز سے ہی سعادت مند طبیعت پائی تھی.سچائی سے فطری لگاؤ تھا.روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ طبعاً موحد تھے.اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے عمارہ بن حزم اور عوف بن عفراء کے ساتھ بنو نجار کے بتوں کے خلاف جہاد کی توفیق پائی.(1) قبول اسلام اسعد کے قبول اسلام کا واقعہ بھی عجیب ہے اس زمانے میں مدینہ کے مختلف قبائل میں باہم آویزش تھی.جنگ کی تیاری ہو رہی تھی.اسعد اپنے ساتھی ذکوان کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک سردار دوست عتبہ بن ربیعہ کے ہاں امداد کے طالب ہو کر گئے ، وہیں حضور میلے کے دعوے کی تفصیل کا علم ہوا.آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ، حضور نے خود انکو اسلام کا پیغام سمجھایا.قرآن شریف کی تلاوت سنائی.وہ طبعا پہلے ہی توحید کی طرف راغب تھے.رسول اللہ کی مؤثر دعوت الی اللہ سے اسلام انکے دل میں گھر کر گیا.وہ اسلام قبول کر کے واپس مدینہ لوٹے.روایات میں ہے کہ مدینہ میں انہوں نے خاموشی سے اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کیا اسی کے نتیجہ میں چھ افراد پر مشتمل ایک ابتدائی وفد نے حج کے موقع پر ان کے ساتھ پہلی دفعہ عقبہ مقام پر حضور سے ملاقات کی.حضرت اسعد بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی شامل تھے اور بنو نجار کے نقیب (سردار ) کے طور پر انکو خدمت کی سعادت ملی.مؤرخ ابن اسحاق نے عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ کی دونوں بیعتوں میں حضرت اسعد کے شامل ہونے کا ذکر کیا ہے.(2) گواس زمانہ میں انکی عمرکم تھی لیکن سردارانہ فہم وفراست اللہ تعالیٰ نے بہت عطا کی تھی.

Page 353

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 339 حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ بیعت کی حقیقت بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعہ پر انکی دانش اور سنجیدگی کا اظہار حضرت عبادہ بن صامت کے بیان کے مطابق اس طرح ہوا کہ بیعت کے وقت حضرت اسعد بن زرارہ نے آنحضرت ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ اے لوگو! جانتے ہو کہ کس بات پر تم نبی کریم کی بیعت کر رہے ہو.اس کی حقیقت سمجھ کر بیعت کرنا، یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تمہیں سارے عرب کے ساتھ جنگ مول لینی پڑے گی ،تمام عجم کے ساتھ تمہاری لڑائی ہوگی اور تمام جن وانس کے ساتھ برسر پیکار ہو جاؤ گے ، انہوں نے بھی کیا خوب جواب دیا کہ ”ہاں اس شعور کے ساتھ ہم بیعت کر رہے ہیں کہ جو آنحضرت سے جنگ کرے گا ہم اس سے جنگ کریں گے اور جو آپ سے صلح کرے گا ہم اس سے صلح کریں گے، پھر بھی حضرت اسعد بن زرارہ نے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ نہیں چھوڑا بلکہ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس وقت بیعت کے موقع پر آپ جو شرط چاہیں عائد کر دیں، میں اس شرط پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں حضور نے فرمایا ” تم سب اس بات پر میری بیعت کر رہے ہو کہ یہ گواہی دو گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور تمہیں سننا اور اطاعت کرنا ہوگی اور باہم اختلاف پیدا نہیں کرنا اور تمہیں میری حفاظت کرنی ہوگی بالکل اسی طرح جس طرح اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہو.اس پر تمام لوگوں نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم بلا شبہ اسی طرح آپ کی حفاظت کریں گے.یہی حضرت اسعد کا مقصد تھا کہ بیعت کی حقیقت سب پر کھل جائے ، اس پر مجمع میں سے آواز آئی کہ اگر یہ سب کچھ ہم نے کیا تو ہمیں کیا ملے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا "جنت ملے گی اور اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے بھی ہمکنار ہو گے.دوسری روایت میں ہے کہ اسعد نے ( جو عمر میں سب انصار سے چھوٹے تھے ) کہا ”اے اہل میثرب ! ہم محمد رسول اللہ کے پاس صرف اس لئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور ہمیں خوب علم ہے کہ آج آپ کی بیعت کا نتیجہ میں سارے عرب سے دشمنی مول لینا اور اپنے پیاروں کو قتل کروانا ہے.پس اگر تو رسول اللہ ﷺ کو قبول کرتے ہو تو اس کا اجر تم کو اللہ تعالیٰ دے گا اور اگر اپنی جانوں کا خوف ہے تو ان کو چھوڑ دو.انہوں نے کہا اے اسعد ہم انکی بیعت کبھی نہ چھوڑیں گے نہ

Page 354

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 340 حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ اسمیں خیانت کریں گے پھر سب نے باری باری بیعت کی.(3) مدینہ میں پہلا جمعہ حضرت اسعد کے فضائل کا ذکر احادیث میں ملتا ہے کہ وہ سبقت جو ان کے حصے میں آئی اس میں ایک نماز جمعہ کا آغاز ہے.چنانچہ سب سے پہلا جمعہ جو مدینے میں پڑھا گیا ، اس کا انتظام و انصرام کرنے والے حضرت اسعد بن زرارہ تھے.انہوں نے ہی نماز جمعہ کی بناء وہاں پر ڈالی تھی مدینہ میں ایک بڑی حویلی یا دالان دو یتیم بچوں سھل اور کھیل کی ملکیت تھا.وہ دونوں حضرت اسعد بن زرارہ کی کفالت میں تھے.اس جگہ حضرت اسعد نے جمعہ کا انتظام کیا جس میں چالیس کے قریب لوگ شامل ہوئے.یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد کا واقعہ ہے.(4) روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس موقعہ پر مسلمانوں کے پہلے اجتماع کی خوشی میں حضرت اسعد نے ایک بکری بھی ذبح کروائی اور جمعہ میں شریک مسلمانوں کی دعوت کا انتظام کیا.حضرت اسعد بن زرارہ اس وقت تک نماز جمعہ پڑھاتے رہے.یہاں تک کہ اسلام کے پہلے مبلغ حضرت مصعب بن عمیر مدینہ تشریف لائے اس کے بعد امامت اور دیگر ذمہ داریاں انہوں نے سنبھال لیں پھر جب وہ اگلے سال بعض انصار کا وفد لیکر آنحضور ﷺ سے ملاقات کے لیے مکہ گئے تو اس دوران بھی حضرت اسعد بن زرارہ کو مدینے میں جمعہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوتی رہی.(5) حضرت کعب بن مالک شاعر در بار نبوی اور صحابی رسول جب جمعہ کیلئے نکلتے تو اذان کی آواز سن کر مسنون دعائیہ کلمات کے بعد استغفار پڑھتے اور خاص طور پر حضرت اسعد بن زرارہ کیلئے مغفرت کی دعا کیا کرتے.کسی کہنے والے نے انہیں کہا کہ ”یہ کیا بات ہے جمعہ کی اذان کے وقت آپ خاص طور پر اسعد بن زرارہ کیلئے بخشش کی دعا کرتے ہیں.“ انہوں نے کہا ” اسعد وہ شخص تھا جس نے آنحضرت کی مدینے میں تشریف آوری سے پہلے مدینے میں جمعہ کا آغاز کیا تھا.‘ (6) صلى الله خدمت رسول علی پھر نبی کریم ﷺ جب مدینے تشریف لے آئے تو انصار مدینہ نے بیعت عقبہ میں جو عہد کئے

Page 355

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 341 حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ تھے اس کے مطابق اپنا سب کچھ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.رسول اللہ اللہ کے قیام کیلئے ہر صحابی اپنا گھر پیش کر رہا تھا.حضور نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو.اسے جہاں حکم ہو گا رک جائے گی اور انہی لوگوں کا میں مہمان ہونگا.اونٹنی جہاں رکی وہاں سے قریب ترین گھر حضرت ابو ایوب انصاری کا تھا جہاں حضور نے قیام فرمایا اور چھ ماہ تک وہاں فروکش رہے.لیکن حضرت اسعد بن زرارہ نے یہ خیال کر کے حضور کی خدمت کی ازلی سعادت تو اب حضرت ابوایوب انصاری کے حصہ میں آگئی تو میں کسی اور ذریعہ سے حضور کی کوئی خدمت کرلوں.چنانچہ حضور کی اونٹنی کی باگ انہوں نے پکڑ لی اور اسے اپنے گھر لے کر گئے اور اس کی خدمت کی توفیق انہیں کوملتی رہی.(7) آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق تھے.مخیر لوگوں میں ان کا شمار تھا.اپنے قبیلے کے رئیس اور سردار بھی تھے.اس زمانے میں جب آنحضرت ﷺ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو سب کچھ چھوڑ کے آگئے تھے مدینے میں نئی جگہ آباد کاری کی کئی ضروریات سامنے تھیں.حضرت اسعد بن زرارہ نے اسی موقعہ پر حضور کی خدمت میں حسب ضرورت وہ تحفہ پیش کیا ہوگا جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے کہ آنحضور کے گھر میں بہت عمدہ خوبصورت قسم کا پلنگ تھا جس کے پائے ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے اور جو حضرت اسعد بن زرارہ نے بطور تحفہ آنحضرت کی خدمت میں پیش کیا تھا.(8) رسول کریم ﷺ کی مدینہ تشریف آوری پر جب مسلمانوں کیلئے مسجد کے قیام کی ضرورت پیدا ہوئی تو وہی احاطہ جو کھل اور کھیل کا تھا وہاں مسجد نبوی تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی حضرت اسعد نے یہ مخلصانہ پیشکش کی کہ ان دونوں بچوں کو میں راضی کرلوں گا یہ زمین مسجد کیلئے قبول کر لی جائے اور اس کے عوض انہوں نے بنی بیاضہ والا اپنا باغ پیش کر دیا (9) آنحضرت ﷺ نے رقم دیے بغیر وہ قطعہ زمین قبول کرنے پر رضامندی نہیں فرمائی.بیماری میں حضور علیہ کی شفقت حضرت اسعد بن زرارہ غزوہ بدر سے پہلے ہی بیمار ہو کر وفات پاگئے.انکوایسی بیماری لاحق ہوگئی جس سے چہرہ اور جسم سرخ ہو جاتا ہے.اس زمانے کے دستور کے مطابق اس بیماری کا علاج داغنے سے کیا جاتا تھا آنحضرت ﷺ کی مدینے ہجرت کے بعد حضرت اسعد وفات پانے والے پہلے

Page 356

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 342 حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ فرد ہیں.ہجرت کے بعد مدینہ میں مسلمانوں کیلئے نیا ماحول تھا یہود کی دشمنی الگ تھی ، آنحضرت علی کو فکر لاحق تھی کہ اس عاشق صادق اور وفا شعار صحابی کی بیماری یا موت دشمن کی خوشی کا موجب نہ ہوں.حضور ﷺ اسعد کی عیادت کیلئے ان کے گھر تشریف لے گئے.ان کی بیماری کا حال دیکھ کر آپ نے پہلے ہی تقدیر الہی کا مسئلہ کھول کر بیان کر دیا اور فرمایا کہ ” حضرت اسعد اس بیماری سے جانبر نہیں ہو سکیں گے اور یہود طعنہ زنی کریں گے کہ دیکھو! یہ کیسا نبی ہے اپنے وفا شعار ساتھی کو بھی بچا نہیں سکا.آپ نے فرمایا کہ ”سچ تو یہ ہے کہ نہ تو میں اپنے بارے میں بھی کوئی قدرت اور اختیار رکھتا ہوں نہ کسی دوسرے کیلئے مجھے کوئی طاقت حاصل ہے اس لئے کوئی مجھے ابو امامہ ( اسعد بن زرارہ) کے بارہ میں ملامت نہ کرئے تقدیر مبرم معلوم ہو جانے پر بھی حضور نے علاج اور تدبیر نہیں چھوڑی.آنحضور کے مشورہ سے بالآخر داغنے کا علاج کیا گیا مگر تقدیر الہی غالب آئی اور حضرت اسعد بن زرارہ اسی بیماری سے فوت ہو گئے.(10) اس موقع پر بھی آنحضرت ﷺ نے کمال محبت اور تعلق کا اظہار فرمایا ان کی وفات کے بعد حضور خود ان کے غسل دینے میں شریک ہوئے.انہیں تین چادروں کا کفن پہنایا اور خود نماز جنازہ پڑھائی.حضرت اسعد وہ پہلے خوش قسمت صحابی تھے جو جنت البقیع میں دفن ہوئے.نبی کریم ہے ان کے جنازہ کے ساتھ آگے آگے چلتے ہوئے جنت البقیع تک گئے اور یوں ایک اعزاز کے ساتھ اپنے وفا شعار ساتھی کی تدفین فرمائی.(11) حضرت اسعد کی وفات جنگ بدر سے پہلے اور ہجرت نبوی کے چھ ماہ بعد شوال کے مہینے میں رض ہوئی.جبکہ مسجد نبوی کی تعمیر جاری تھی.آنحضرت علے سے حضرت اسعد کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جو تین بیٹیاں کبشہ ، حبیبہ اور فارعہ چھوڑیں انکی وصیت اپنے آقا آنحضرت کے حق میں کی کہ رسول اللہ ﷺ ہی میری بچیوں کے نگران و محافظ ہوں گے اور ان کے حق میں جو مناسب فیصلہ ہو وہی فرمائیں گے.آنحضرت ﷺ نے بھی یہ حق خوب ادا کیا حضرت اسعد کی بچیوں کو اپنے گھر میں لے آئے.وہ آپ کے کنبہ کی طرح آپ ہی کے گھر میں رہتی تھیں.آپ کے گھر میں ہی پلی بڑھیں اور آنحضور نے ان کا بہت خیال رکھا.بعد

Page 357

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 343 حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب مختلف جنگوں میں مال غنیمت آیا جس میں سونا اور کچھ موتی تھے.آنحضر نے ان بچیوں کو بھی اس میں سے تحفہ عطا فر مایا.(12) حضرت اسعد کی وفات کے بعد آنحضرت علیہ کی خدمت میں انکے قبیلہ کے لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا سر دار فوت ہو گیا ہے ان کا کوئی اور قائمقام سردار ہمارے قبیلہ میں سے مقرر فرما دیں.حضور ﷺ نے فرمایا بنو نجار أَنْتُمْ إِخْوَانِي وَ أَنَا نَقِيبُكُمْ تم میرے بھائی ہو اور میں تمھارا نقیب ہوں.اسعد بن زرارہ کے بعد اب تم میری کفالت میں ہو.میں خود تمہارا خیال رکھوں گا اور تمھاری نگرانی کے حق ادا کروں گا (13) کتنے سعادت مند تھے اسعد! بلا شبہ وہ اسم بامسمی تھے جنہیں اپنے آقا و مولا کی اتنی شفقتیں عطا ہوئیں.ایں سعادت بزور بازو نیست حواله جات -1 -2 -3 -4 5 6 7 -5 -6 -8 -9 -10 -11 -12 -13 ابن سعد جلد 3 صفحہ 610.608 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 71 ابن سعد جلد 3 صفحہ 322 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 71 ابن سعد جلد 3 صفحه 609 اصابه فی جلد 1 صفحہ 32 مسلم جلد 3 صفحہ 1623 زادالمعاد جلد 1 صفحہ 132 زرقانی جلد اول صفحہ 264 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 71 ، ابن سعد جلد 3 ص611 ابن سعد جلد 3 صفحہ 612 ابن سعد جلد 3 صفحہ 611 ، استیعاب جلد 1 ص 175 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 72

Page 358

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 344 حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ نام ونسب، قبول اسلام حضرت خارجہ بن زید حضرت خارجہ بن زید کا تعلق بنو حارث بن خزرج سے تھا.والدہ کا نام سیدہ بنت عامر تھا.وہ اوس قبیلہ سے تھیں.حضرت خارجہ کو بیعت عقبہ میں شریک ہونے کی سعادت ملی.نبی کریم ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مواخات کا سلسلہ قائم فرمایا اور ہر آنے والے مہاجر کو مدینہ کے ایک انصاری کا بھائی بنا دیا.حضرت خارجہ بن زید کی خوش نصیبی کہ وہ صدیق اکبر حضرت ابو بکر کے اسلامی بھائی بنے.حضرت ابو بکر نے حضرت خارجہ بن زید کے گھر میں ہی قیام کیا اسلامی اخوت کا یہ رشتہ اور تعلق اتنا بڑھا کہ بالآخر حضرت خارجہ نے اپنی صاحبزادی حبیبہ کی شادی حضرت ابوبکر سے کر دی اور یوں دامادی کا رشتہ بھی اس خاندان سے قائم ہو گیا اور حضرت خارجہ حضرت ابوبکر کے خسر ٹھہرے.بدر واحد میں داد شجاعت حضرت خارجہ کو غزوہ بدر میں شریک ہونے کی سعادت بھی عطا ہوئی اور غزوہ احد میں بھی آپ شریک ہوئے بلکہ بڑی بہادری اور دلیری سے لڑتے ہوئے انہوں نے جام شہادت نوش کیا.حضرت خارجہ کو دس سے کچھ اوپر زخم آئے تھے.احد کے میدان میں زخموں سے نڈھال پڑے تھے کہ مشرکین مکہ کا سردار صفوان بن امیہ وہاں سے گذرا.اس بد بخت نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا اور کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے میرے والد امیہ بن خلف کو قتل کیا تھا.یہ کہہ کر اس نے حضرت خارجہ کا مثلہ کیا اور ان کے ناک اور کان کاٹ لئے اور کہا کہ محمد کے ایسے نمایاں ساتھی کو قتل کر کے میری آتش انتقام سرد ہوئی.(1) حضرت خارجہ کی صاحبزادی

Page 359

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 345 حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ حبیبہ حضرت ابو بکر کی زوجہ محترمہ تھیں.حضرت ابو بکر نے اپنی وفات کے وقت فرمایا ”میری اہلیہ حبیبہ بنت خارجہ جو امید سے ہیں ان کے ہاں مجھے بیٹی کی توقع ہے اور انکے حق میں وصیت بھی فرمائی.چنانچہ ام کلثوم بنت ابی بکر حضرت حبیبہ کے بطن سے پیدا ہوئیں حضرت خارجہ احد میں داستان و فارقم کرنے والے صحابی حضرت سعد بن ربیع انصاری کے ساتھ اکٹھے ایک ہی قبر میں دفن ہوئے.(2) -1 ابن سعد جلد 3 ص 524 حواله جات 2 اسدالغابہ جلد 2 صفحہ 72 واصا به جز 2 ص 85

Page 360

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 346 حضرت ابوالہیثم انصاری حضرت ابوالہیثم انصاری رضی اللہ عنہ حضرت ابوالہیثم بن القیبان الانصاری کا تعلق اوس قبیلے سے تھا.اصل نام مالک بن بلتی تھا والد کا لقب التیہان تھا.مگر آپ اپنی کنیت ابوالہیثم سے مشہور ہوئے.والدہ لیلیٰ بنت عقیک قبیلہ بلی سے تھیں.ابن اسحاق کے مطابق آپ بنی عبد الاشہل کے حلیف تھے.(1) قبول اسلام حضرت ابوالہیثم کو بھی ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے.وہ حضرت اسعد بن زرارہ کے ساتھ دوسرے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے تھے اور ان چھ افراد میں شامل تھے جو عقبہ میں مدینہ کے پہلے وفد کے طور پر آنحضرت ﷺ سے ملے.پھر بیعت عقبہ ثانیہ میں اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے.انصار کے قبیلہ بنی عبد الاشہل کے آپ نقیب تھے.اپنے قبیلے سے غیر معمولی محبت اور قربانی کا اظہار اس طرح کرتے تھے کہ میرا مرنا اور جینا میرے قبیلے کی خاطر ہو چکا ہے.ابوالہیثم انصار کے ایک اور وفا شعار سردار حضرت اُسید بن حضیر کے چچا زاد بھائی تھے.حضرت اسعد کے ساتھ انکی دوستی تھی یہ دونوں آغاز سے ہی تو حید پرست تھے.انہیں اسی سعادت ازلی کی بناء پر انصار مدینہ میں سے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.پھر مدینہ آکر ابتدائی زمانے میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی سعادت بھی آپ کو حاصل ہوئی.(2) ایثار و وفا بیعت عقبہ کے دوران اپنے دوست حضرت اسعد کی طرح حضرت ابوالبشیر نے بھی کمال وفا اور ایثار کا نمونہ دکھایا ہے.جب نبی کریم ﷺ اور انصار کے مابین معاہدہ طے ہور ہا تھا اور حضرت براء انصار کے نمائندہ کے طور پر گفتگو کر رہے تھے.حضرت ابو الہیثم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے اور بعض دیگر قبائل کے درمیان باہمی مدد کے کچھ معاہدے ہیں جب ہم اسلام قبول کر لیں

Page 361

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 347 حضرت ابوالہیثم انصاری رضی اللہ عنہ گے اور بیعت کر کے آپ ہی کے ہو جائیں گے تو ان معاہدوں کا معاملہ جیسے آنحضور ارشاد فرما ئیں گے ہوگا.ہم نے بہر حال آپ کی پیروی کرنی ہے اس موقع پر میں آپ کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں اور وہ دراصل ایک محبت بھری خواہش اور ایک بے قرار تمنا تھی جو ایک سچے عاشق کے دل میں اٹھی.کہنے لگے "یا رسول اللہ اب ہمارا تعلق آپ سے قائم ہورہا ہے.جب اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے اور آپ کی قوم پر آپ کو غلبہ نصیب ہو تو اس وقت آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم میں نہ چلے جائیں اور ہمیں داغ مفارقت نہ دیں، آنحضرت اپنے اس صحابی کی محبت بھری سوچ سے لطف اندوز ہو کر مسکرائے اور فرمایا ”تم کیسی باتیں کرتے ہو، اب تمہارا خون میرا خون ہو چکا ہے اب میں تم سے ہوں اور تم مجھ میں سے ہو ، جو تم سے جنگ کرے گا وہ مجھ سے جنگ کرے گا اور جو تم سے صلح کر دیگا وہ مجھ سے صلح کرے گا.‘ (3) یہ تھا انصار مدینہ کا رسول اللہ ﷺ سے محبت اور وفا کا تعلق ہے جس کی بنیاد میں بیعت عقبہ میں رکھی گئیں.غزوات اور مہمات میں شرکت ابوالہیثم مدینہ کے سردار اور بزرگ اصحاب میں سے تھے آنحضور نے حضرت عثمان بن مظعون کے ساتھ ان کی مواخات قائم فرمائی.حضرت ابوالہیثم کو تمام غزوات میں مالی قربانی کے علاوہ دیگر خدمات کی توفیق بھی ملی، بدر، احد اور خندق میں شریک ہو کر بہادری کے جوہر دکھائے.غزوہ موتہ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد نبی کریم نے حضرت ابوالہیثم کو خیبر میں کھجوروں کے پھل کا اندازہ کرنے کے لئے بھی بھجوایا تھا.وہاں مسلمانوں کی ملکیت میں جو باغات تھے.ان کے نصف پھل مسلمانوں اور نصف یہود کے حصہ میں آتے تھے، ضرورت تھی کہ کوئی ذمہ دار صاحب عدل و بصیرت شخص وہاں جا کر ان باغات کے پھلوں کے درست اندازے کرے تا یہود کوفتنہ کا موقع نہ ملے.یہ نہایت اہم خدمت اور نازک ذمہ داری حضور نے حضرت ابو الہیثم کے سپر دفرمائی.(4) حضرت ابوالہیثم سے مروی ایک مشہور حدیث یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو السلام علیکم کہتا ہے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اسکے ساتھ ورحمۃ اللہ کہنے والے کو ہیں نیکیاں اور و برکاتہ

Page 362

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے کو میں نیکیاں ملتی ہیں.‘ (5) دعوت اور صحابہ کی دعا 348 حضرت ابوالہیثم انصاری رضی اللہ عنہ ابوالہیثم بہت اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے.اس وجہ سے انہوں نے آنحضرت علی کی بہت دعائیں بھی پائی ہیں.چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ابوالہیشم نے بنی کریم ع کی دعوت کی اور آنحضور علیہ اپنے صحابہ کے ساتھ ان کے ہاں کھانا کھانے کیلئے تشریف لے گئے.یہ آغاز ہجرت کے زمانے کا واقعہ معلوم ہوتا ہے.جب مسلمانان مدینہ کے معاشی حالات کافی کمزور تھے.نبی کریم ﷺ نے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد خاص طور پر صحابہ کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اپنے اس بھائی کو بدلہ بھی تو دو.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا بدلہ دیں ؟ نبی کریم نے فرمایا کہ جب ایک شخص کسی کے گھر میں جا کر کھانا کھا تا اور پانی پیتا ہے تو اس کیلئے مناسب ہے کہ وہ اہل خانہ کیلئے دعا کرے نبی کریم نے اپنے اس نہایت ہی وفا شعار صحابی کیلئے دعا کروائی.(6) صلى الله خدمت رسول عام حضرت ابوالہیثم کی فدائیت اور جانثاری کا ایک اور خوبصورت واقعہ حضرت ابو ہریرہ یوں بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ایک دفعہ گھر سے ایسے وقت میں نکلے کہ بالعموم انسان ایسے وقت میں گھر سے نہیں نکلتا.معلوم ہوتا ہے تپتی دوپہر کا وقت تھا آپ مسجد نبوی میں تشریف لائے.اتفاق سے اسی وقت حضرت ابو بکر بھی تشریف لائے.نبی کریم نے پوچھا ابو بکر کیسے آنا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اس لئے نکلا ہوں کہ آپ کا دیدار ہو جائے اور آپ کی خدمت میں سلام عرض کر آؤں ، ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت عمر بھی آگئے حضور نے فرمایا عمر ? آپ کیسے آئے؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بھوک کے مارے آیا ہوں.آنحضرت نے فرمایا میرا بھی بھوک سے یہی حال ہورہا ہے.آؤ ابو الہیثم بن القیہان انصاری کے گھر چلتے ہیں.ابوالہیثم کھجوروں اور بکریوں کے بڑے ریوڑ کے مالک تھے.اتفاق سے اس زمانے میں ان کے اپنے گھر میں کوئی

Page 363

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 349 حضرت ابوالہیثم انصاری رضی اللہ عنہ خادم یا نو کر نہیں تھا.یہ مبارک قافلہ جب انکے گھر پہنچا تو حضرت ابوالہیثم کی بیوی نے خوش آمدید کہا.ابوالہیشم کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں وہ پانی لینے گئے ہوئے ہیں.کسی قدر انتظار کے بعد وہ آگئے.حضور کو اپنے گھر میں دیکھ کر اکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.پانی کا برتن رکھتے ہی وہ دوڑے چلے آئے اور آکر آنحضرت سے لپٹ گئے.حضور پر اپنی جان ومال وار نے لگے.میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! یا رسول اللہ خدا کا شکر ہے کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لائے.پھر عرض کیا کہ حضور آئیں میرے باغ میں تشریف لے چلیں.وہاں جا کر انہوں نے ایک چادر بچھا دی جس پر آنحضور تشریف فرما ہوئے.کھجوروں کا موسم تھا ابوالہیشم نے بھی بھانپ لیا کہ حضور ﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فوری طور پر کچھ کھانے کیلئے پیش کرنا چاہیے.وہ کھجور کے درخت سے جلدی سے ایک خوشہ کاٹ کر لے آئے جس میں کچے پکے ڈو کے بھی تھے اور پکی ہوئی کھجوریں بھی اور وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ابو الہیثم تم پکی پکی کھجور میں چن کر کیوں نہیں لے آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے چاہا آپ اپنی پسند کے مطابق پکی کھجور میں یاڈو کے خود چن کر کھا لیں.ابوالہیشم نے پھلوں کا یہ تحفہ پیش کرنے کے بعد سب کو پانی وغیرہ پلایا.آنحضور اور آپ کے اصحاب نے کھجوریں کھائیں اور نبی کریم ﷺ نے شکر نعمت کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا ” خدا کی قسم ! یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے، یعنی ٹھنڈا سایہ، تازہ کھجوریں، پینے کیلئے ٹھنڈا پانی یہی تو نعمتیں ہیں جن کا شکر ہم سب پر واجب ہے.ابوالہیثم اس دوران کھانے کا انتظام کرنے کیلئے جانے لگے تو حضور نے ان کے غیر معمولی اخلاص کے پیش نظر نصیحت فرمائی کہ دیکھنا ابوالہیثم اپنی کوئی ایسی بکری ذبح نہ کر دینا جو دودھ دینے والی ہو مبادا تم دودھ سے محروم ہو جاؤ.چنانچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی ہدایت کی روشنی میں ایک چھوٹا سا بکر وٹا ذبح کیا اور آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.رسول کریم علیہ کا تحفہ اور اس کی قدردانی حضور ﷺ کا اپنے صحابہ کے ساتھ کمال شفقت کا سلوک ہوتا تھا.آپ نے ابو الہیثم کو جب گھر میں خود کام کاج کرتے دیکھا تو فرمایا ” کیا گھر میں کوئی خادم نہیں ہے جو تمہاری مدد کر

Page 364

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 350 حضرت ابوالہیثم انصاری رضی اللہ عنہ دے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آجکل ہمارے پاس کوئی خادم نہیں ہے.آپ نے فرمایا ”اچھا جب ہمارے پاس کوئی قیدی وغیرہ آئیں تو یاد کروانا تمہارے لیے کسی خادم کا انتظام کر دیں گے.‘اس کے کچھ عرصے بعد آنحضور ﷺ کے پاس دو غلام آئے.آپ نے ابو الہیثم کو خود یاد کر کے فرمایا کہ ان دونوں میں سے جو چاہو چن لو، میں یہ خادم آپ کو تحفہ میں دیتا ہوں“ حضرت ابوالہیشم کی وفا شعاری ملاحظہ ہو کہنے لگے یا رسول اللہ یا اللہ ! آپ ان دونوں میں سے جو میرے لئے پسند کریں گے اس میں زیادہ برکت ہوگی.میری خواہش ہے کہ آپ خود میرے لئے ایک خادم کا انتخاب فرما دیں.نبی کریم نے فرمایا ” جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.پھر ان میں سے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا ” یہ خادم لے لو میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور میری نصیحت ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا.ابو الہیثم اس خادم کو گھر لے گئے تو وہی نصیحت اپنی بیوی کو بھی کی.آنحضرت ﷺ نے یہ خادم ہمیں دیتے ہوئے حسن سلوک کا ارشاد فرمایا ہے.تم نے اس سے کام لینا ہے.حضور کے حکم کا خیال رکھنا.ابوالہیثم کی بیوی بھی نہایت اطاعت شعار خاتون اور آنحضور سے محبت کرنے والی تھیں، وہ کہنے لگیں کہ اے ابوالہیثم ! پھر اس کا حق تو تبھی ادا ہو گا کہ تم اس غلام کو آزاد کر دو.ابوالہیثم نے اسی وقت اعلان کیا کہ خدا کے رسول کی خاطر آج سے میں نے اس غلام کو بھی آزاد کر دیا.آنحضرت نے اس موقع پر فرمایا کہ ”مہر نبی کا کوئی نہ کوئی قریبی ساتھی ہوتا ہے.جن سے وہ راز داری کی باتیں کرتا ہے وہ اسے نیکی کی تلقین کرتا اور برائی سے روکتا ہے.اور ایک راز دان یا مشیر برے مشورے دیتا ہے.جو شخص ایسے برے دوست سے بچایا گیا وہ محفوظ ہو گیا.حضور ﷺ کا ایک مطلب تو ظاہر تھا کہ ”ہر نبی کا ایک ساتھی اور راز دان ہوتا ہے.(7) دوسرے یہ اشارہ تھا کہ بیوی بھی ایک مشیر ہوتی ہے اس کی صورت میں بھی ابوالہیثم کواللہ تعالیٰ نے اچھا مشیر عطا کیا ہے.شہادت ایک روایت کے مطابق حضرت ابوالہیثم کی وفات 20 ہجری میں ہوئی بعض اور روایات میں ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ شرکت کی اور اس میں شہادت پائی.(8)

Page 365

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 ہے ؟ به آ -3 -4 -5 -6 5 6 7 ∞ -7 -8 اصابہ جز 4 ص 209 ابن سعد جلد 3 صفحہ 447 مسند احمد جلد 3 صفحہ 462 ابن سعد جلد 3 صفحہ 448 اصا به جز 7 صفحہ 55 351 حواله جات ابوداؤد کتاب الاطعمه باب الدعاء ترمذی ابواب الزهد باب معیشۃ النبی ابن سعد جلد 3 صفحہ 449 ، اصابہ جز 7 صفحہ 209 حضرت ابوالہیثم انصاری رضی اللہ عنہ

Page 366

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 352 حضرت سعد بن معاذ انصاری حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ حسین چہرہ ، موٹی آنکھیں، خوبصورت داڑھی یہ تھے حضرت سعد بن معاذ انصاری.ان کا تعلق اوس قبیلہ کی شاخ بنو عبدالا شہل سے تھا اور قبیلہ اوس کے سردار تھے.والدہ حضرت کبشہ بنت رافع نے بھی رسول اللہ علیہ کی بیعت اور صحابیت کا شرف پایا.نہایت مخلص ایثار پیشہ اور وفا شعار خاتون تھیں.حضرت سعد کی کنیت ابو عمر تھی.(1) قبول اسلام حضرت سعد کو مدینہ میں اسلام کے پہلے مبلغ حضرت مصعب بن عمیر کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.حضرت مصعب نے مدینہ میں اسلام کے پہلے مبلغ کے طور پر بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا.آپ نے دعوت الی اللہ کے جذبہ سے سرشار ہو کر کمال محنت ، اخلاص اور حکمت و محبت کے ساتھ مدینہ کے اجنبی لوگوں سے رابطہ اور اثر ورسوخ پیدا کر کے انہیں اسلام سے روشناس کرایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا بیج بو دیا.ایک کامیاب داعی الی اللہ کے طور پر ان کا کردار یقیناً آج بھی ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہے.آپ نے بالکل اجنبی شہر مدینہ میں تبلیغ کا آغاز اس طرح کیا کہ اپنے میزبان اسعد بن زرارہ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلوں میں جانے لگے.وہاں وہ مسلمانوں اور ان کے عزیزوں کے ساتھ مجلس کرتے انہیں دینی تعلیم دیتے اور وہاں آنے والوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے.مگر جب لوگوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تو ایک محلہ کے سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر نے ان دونوں داعیان الی اللہ کو اس نئے دین سے باز رکھنے کا فیصلہ کیا.جس کے بعد اسید بن حضیر حضرت مصعب کی مجلس میں نیزہ تھامے داخل ہوئے.اسعد بن زرارہ نے یہ دیکھتے ہی حضرت مصعب سے سرگوشی کی کہ یہ اپنی قوم کا سردار آتا ہے اسے آج خوب تبلیغ کرنا.مصعب بولے کہ اگر یہ چند لمحے بیٹھ کر بات سننے پر آمادہ ہو جائے تو میں ضرور اس سے بات کروں گا.ادھر اسید بن حضیر

Page 367

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 353 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سخت کلامی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا ” جان کی امان چاہتے ہو تو آئندہ سے ہمارے کمزوروں کو آکر بے وقوف بنانے کا یہ طریقہ واردات ختم کرو.“ حضرت مصعب نے نہایت محبت سے کہا کیا آپ ذرا بیٹھ کر ہماری بات سنیں گے؟ اگر تو آپ کو بات بھلی لگے تو مان لیجئے اور بری لگے تو بے شک اس سے گریز کریں.اُسید منصف مزاج آدمی تھے.بولے بات تو تمہاری درست ہے.اور پھر نیزہ وہیں گاڑ کر بیٹھ گئے.حضرت مصعب نے انہیں قرآن پڑھ کرسنایا اور ان تک پیغام حق پہنچایا.تو یہ سچی تعلیم سن کر اسید بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ کیسا خوبصورت کلام ہے! اچھا یہ بتاؤ اس دین میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے؟ اسعد بن زرارہ اور مصعب نے انہیں بتایا کہ نہا دھو کر اور صاف لباس پہن کر حق کی گواہی دو پھر نماز پڑھو.انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر اُسید خود ہی کہنے لگے کہ میرا ایک اور بھی ساتھی ہے.یعنی سعد بن معاد اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اس کی ساری قوم سے ایک شخص بھی قبول اسلام سے پیچھے نہیں رہے گا.اور میں ابھی اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں.اور انہوں نے سعد کو نہایت حکمت کے ساتھ مصعب کے پاس بھیجا.حضرت مصعب بن عمیر نے ان کو بھی نہایت محبت اور شیریں گفتگو سے رام کر لیا انہیں قرآن سنایا اور اسلام کا پیغام پہنچایا.چنانچہ حضرت سعد نے بھی اسلام قبول کر لیا.بلاشبہ یہ دن مدینہ میں اسلام کی فتح کے بنیا درکھنے والا دن تھا.جس روز ایسے عظیم الشان با اثر سرداروں نے اسلام قبول کیا حضرت سعد نے اپنی قوم کو یہ کہہ دیا ” میرا کلام کرنا تم سے حرام ہے جب تک مسلمان نہ ہو جاؤ.اس طرح عبد الاشہل کا سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا.(2) نڈر داعی الی اللہ علامہ ابن اثیر نے آپ کے قبول اسلام پر کیا خوب رائے دی ہے کہ حضرت سعد کا قبول اسلام سب لوگوں سے زیادہ برکت کا موجب ہوا کہ ان کی پوری قوم کے مردوں اور عورتوں کو ہدایت نصیب ہوئی جن کی تعداد قریباً ایک ہزار تھی.یہ مدینہ کا پہل محلہ تھا جو پورے کا پورا مسلمان ہو گیا.(3) اس واقعہ سے حضرت سعد کی کمال بصیرت، دانشمندی ، جرات و بہادری سچائی سے رغبت اور اسے پھیلانے کے شوق اور طبعی شرافت و سعادت قبیلے میں ان کے اثر رسوخ اور مقام کا بھی پتہ چلتا

Page 368

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 354 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہے.مسلمان ہونے کے بعد دور اندیش حضرت سعد نے اپنے قبیلہ کے نو مسلموں کی تربیت اور آگے تبلیغ کی خاطر مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیر کو اپنے پاس لے آئے.ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا اور اپنے ڈیرے پر لوگوں کو بلا کر حضرت مصعب کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے کام میں تیزی پیدا کی.رسول کریم علیہ نے ایک روایت کے مطاق حضرت سعد بن ابی وقاص سے آپ کی مواخات قائم فرمائی.دوسری روایت کے مطابق ان کے حضرت ابو عبیدہ بن الجرح کا دینی بھائی بنایا.(4) مسلمانوں کیلئے ہجرت مدینہ کے بعد پیدا ہونے والے غیر معمولی اور کٹھن حالات میں حضرت سعد جیسے با اثر سردار مدینہ کا قبول اسلام اہل مدینہ کیلئے ایک نعمت ثابت ہوا اور وہ حضرت ابو بکر و عمر کی طرح رسول اللہ علیہ کے دست و بازو اور عمدہ مشیر ثابت ہوئے.اللہ تعالیٰ نے ان کو سردارانہ شان کے ساتھ حزم و دانش بھی خوب عطا کی تھی اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک نڈر اور بے باک سردار تھے.مدینہ کے ابتدائی دور میں طواف کعبہ سردار مدینہ ہونے کے ناطے آپ کے ذاتی تعلقات سرداران مکہ سے بھی تھے.سردار قریش امیہ بن خلف سے تو ایسی گہری دوستی تھی کہ وہ ملک شام وغیرہ کے سفر پر جاتے ہوئے مدینہ میں حضرت سعد کا مہمان ٹھہرتا تھا.حضرت سعد مکہ جاتے تو اس کے ذاتی مہمان ہوتے.رسول کریم کی مدینہ تشریف آوری کے بعد پہلے سال کی بات ہے حضرت سعد عمرہ کرنے مکہ گئے اور اپنے دوست امیہ کے مہمان ٹھہرے لیکن چونکہ وہاں مسلمانوں کی سخت مخالفت تھی اسلئے از راہ احتیاط اپنے دوست امیہ سے کہا کہ کسی مناسب وقت میں جب بیت اللہ میں بہت ہجوم نہ ہو مجھے خاموشی سے خانہ کعبہ کا طواف کروادینا.“ امید ان کو سنسان دو پہر میں طواف کیلئے لے گئے مگر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ سردار مکہ ابو جہل سے آمنا سامنا ہو گیا اور اس نے امیہ سے پوچھ لیا کہ ابو صفوان ! یہ تیرے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میرے دوست سعد ہیں.ابو جہل نے سعد کو مخاطب ہو کر کہا میں تمہیں مکہ میں امن سے طواف کرتے دیکھ رہا ہوں.حالانکہ تم لوگوں نے بے دین لوگوں (مسلمانوں) کو پناہ دے رکھی ہے اور ساتھ ان کی مکمل حمایت و مدد کے اعلان بھی کرتے ہو.خدا کی قسم ! اگر سردار مکہ ابو صفوان تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو آج تم اپنے گھر والوں کی طرف صحیح سلامت واپس لوٹ کر نہ جاتے.

Page 369

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 355 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ حضرت سعد کی سردارانہ میت جاگی اور آپ نے بڑی سختی سے جواب دیا کہ اگر تم نے مجھے طواف بیت اللہ سے روکا تو یاد رکھو میں تمہارا مدینہ سے شام جانے والا تجارتی راستہ روک دونگا جو تمہارے لئے زیادہ تکلیف دہ اور مشکل ہوگا.اس پر حضرت سعد کے دوست امیہ نے معاملہ رفع دفع کرانے کی خاطر کہا کہ اے سعد! سردار مکہ ابوالحکم کے سامنے ایسے سخت لہجے میں بات نہ کرو.حضرت سعد نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر امیہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم ہمارے معاملہ میں نہ پڑو خدا کی قسم میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے تم مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوکر رہو گے.(5) اس واقعہ سے حضرت سعد کی جرات و شجاعت کے ساتھ ایمانی غیرت اور خدا کی ذات پر کامل تو کل کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تن تنہا دشمن کے نرغے میں ہوتے ہوئے بھی کوئی طاقت انہیں حق گوئی سے نہیں روک سکی.غزوہ بدر کے موقع پر جب کفار مکہ کے حملہ کا خطرہ تھانبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا کہ آیا مدینہ کے اندر رہ کر اپنا دفاع کیا جائے یامد بینہ کے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ ہو.جب مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور مقداد بن عمر و مشورہ دے چکے تو نبی کریم انصار مدینہ کے ساتھ عقبہ میں کئے گئے معاہدہ کہ وہ مدینہ میں آپ کی حفاظت کریں گے کی روشنی میں انکی رائے بھی لینا چاہتے تھے اس لئے بار بار فرماتے کہ ”لوگومشورہ دو “ اطاعت و وفا تب حضرت سعد بن معاذ نے انصار کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے عرض کیا.یا رسول اللہ معلوم ہوتا ہے آپ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.اس پر حضرت سعد نے عرض کیا ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور گواہی دی کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم برحق ہے اور ہم نے اس پر آپ سے پختہ عہد کئے کہ ہمیشہ آپ کی بات سن کر فورا اطاعت کریں گے.پس اے خدا کے رسول ! آپ کا جو ارادہ ہے اسکے مطابق آپ آگے بڑھیں انشاء اللہ آپ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے.اگر آپ اس سمندر میں کود جانے کیلئے ہمیں ارشاد فرما ئیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا.اور ہم کل دشمن سے مقابلہ کرنے سے گھبراتے

Page 370

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 356 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نہیں.ہم جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا خوب جانتے ہیں.ہمیں کامل امید ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہم سے وہ کچھ دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی.پس اللہ کی برکت کے ساتھ آپ جہاں چاہیں ہمیں لے چلیں.رسول کریم حضرت سعد کی یہ ولولہ انگیز تقریرین کر بہت خوش ہوئے.(6) جرات و بہادری حضرت سعد نے جو کہا وہ پورا کر کے دکھایا.رسول کریم علیہ کے ساتھ بدر و احد اور خندق میں شریک ہو کر خوب داد شجاعت دی.غزوہ بدر میں تو اوس قبیلہ کا جھنڈا ہی حضرت سعد بن معاذ کے پاس تھا.جسے اٹھائے وہ اپنے قبیلہ کی قیادت کرتے رہے.غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو کفار کے دوبارہ اچانک حملہ سے ہزیمت اٹھانی پڑی تو حضرت سعدان وفا شعار بہادروں میں سے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے.(7) غزوہ خندق میں بھی حضرت سعد شریک تھے.حضرت عائشہ اپنا یہ چشم دید واقعہ بیان کرتی تھیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر وہ بنی حارثہ کے قلعہ میں تھیں اور حضرت سعد بن معاذ کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں.اس وقت عورتوں کیلئے پردہ کے احکام نہیں اترے تھے.لوگ تیار ہو کر میدان جنگ کیلئے نکل رہے تھے.حضرت سعد بھی وہاں سے گزرے انہوں نے لو ہے کہ ایک مختصر سی زرہ پہنی ہوئی تھی بازوزرہ سے باہر تھے ہاتھ میں نیزہ تھا اور یہ شعر پڑھتے میدان جنگ کی طرف رواں دواں تھے.لَبّتْ قَلِيلًا يَلْحَقُ الحَيْجَا جَمَلْ مَا أَحْسَنَ المَوتُ إِذَا حَانَ الْأَجَلُ ابھی تھوڑی دیر میں ہمار اونٹ بھی میدان جنگ میں پہنچ جائے گا اور جب انسان کو اللہ کی طرف سے بلاوا آ جائے تو ایسے میں اس کی موت بھی کتنی خوبصورت ہوتی ہے.آپ کی والدہ نے بھی یہ سنا اور کہا میرے بیٹے ! ذرا جلدی کرو تم نے نکلنے میں دیر کر دی ہے.(8) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں میں نے کہا اے سعد کی ماں ! کاش سعد کی زرہ اس سے ذرا اور بڑی ہوتی کہ ان کے بازوؤں کی بھی حفاظت کرتی.پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ حضرت عائشہ کو گزرا تھا محاصرہ خندق کے دوران حضرت سعد کو ایک تیر کندھے میں آکر ایسا لگا کہ شریان پھٹ گئی اور خون کا فوارہ بہ نکلا جو تھمتا نہ تھا اور بظاہر جانبر ہونے کی کوئی امید نہ رہی.

Page 371

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سعد کی دعا 357 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس موقع پر حضرت سعد نے یہ دعا کی اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں اور جہاد بھی ایک ایسی قوم سے جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور اسے اس کے گھر سے نکالا.اے اللہ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تو نے غزوہ خندق کے ذریعہ سے آئندہ ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے.اگر تو قریش کی جنگ میں سے کچھ باقی ہے تو مجھے ان کے مقابلہ کیلئے زندہ رکھنا تا کہ میں تیری راہ میں ان سے جہاد کر سکوں اور اگر جنگ کا (قریباً) خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر میری رگ خون کھول دے اور اس زخم کو میری شہادت کا ذریعہ بنادے.ہاں مگر مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک یہود بنی قریظہ کے فتنہ سے تو میری آنکھیں ٹھنڈی نہ کردے.“ (9) حضرت سعد کی یہ دعا عجب شان سے قبول ہوئی اور ان کے زخم کا جاری خون بند ہو گیا.(10) صلى الله رسول اللہ ﷺ کی شفقت رسول اللہ اللہ نے اپنے اس وفا شعار صحابی کی تیمارداری کا حالت جنگ میں جس قدر خیال کیا وہ بھی قابل رشک ہے.جب حضرت سعد زخمی ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں علاج معالجہ کیلئے اسلم قبیلہ کی خاتون رفیدہ کے خیمہ میں رکھ کر تیمارداری کی جائے.رفیدہ نرسنگ اور مرہم پٹی کی ماہر تھیں دوسرے زخمیوں کیلئے ان کا خیمہ مسجد کے اندر نصب تھا، حضور کی منشاء یہ تھی کہ آپ حضرت سعد کا خود خیال رکھ سکیں.چنانچہ نبی کریم ﷺ ان کی بیماری کے ایام میں صبح و شام اس خیمے میں تشریف لے جاتے اور ان کا حال دریافت فرماتے.خون روکنے کیلئے نبی کریم نے عربوں میں رائج داغنے کے طریق سے بھی کام لیا جس سے خون رک کر ہاتھ کچھ پھول گیا اور پھر خون یہ پڑا.آپ نے دوبارہ داغا تب جا کر خون بند ہوا.رسول اللہ کانمونہ دیکھ کر صحابہ بھی سعد کی عیادت کیلئے حاضر ہوتے تھے.رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد کی عیادت کے دوران ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف بھی کی

Page 372

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 358 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور دعا دیتے ہوئے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قوم کے اس سردار کو بہترین جزا عطا کرےاے سعد! آپ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اللہ بھی آپ کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کرے گا.‘ (11) بنو قریظہ کا ثالثی فیصلہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ اوس اور بنو قریظہ کے مابین ایک دوسرے کی مدد کے عہد و پیمان تھے.مگر رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تمام اہل یثرب ایک میثاق مدینہ میں شامل ہوئے.جس کے مطابق بیرونی دشمن کے حملے کے وقت جملہ فریق ایک دوسرے کی مدد کے پابند تھے.جنگ احزاب کے موقع پر بنوقریظہ نے عہد شکنی اور خیانت کرتے ہوئے کفار مکہ کا ساتھ دیا.جنگ احزاب سے فارغ ہو کر رسول کریم نے الہی منشاء کے مطابق بنوقریظہ کو ان کی بد عہدی کی باز پرس کیلئے ان کے قلعوں کا محاصرہ کیا.اگر وہ بھی قبیلہ بنونضیر کی طرح کوئی معاہدہ صلح کرتے یا معافی کے طلب گار ہوتے تو رحمتہ العالمین ﷺ کے دربار رحمت سے امان ہی پاتے مگر انہوں نے اوس قبیلہ سے اپنے قدیم تعلقات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے فیصلہ کیلئے ان کے سردار حضرت سعد کو بطور ثالث قبول کیا.رسول کریم نے بھی حضرت سعد کی ثالثی سے اتفاق رائے کیا تو حضرت سعد کو فیصلہ کیلئے بلوایا گیا.وہ زخمی حالت میں ہی گدھے پر سوار کر کے لائے گئے.رسول کریم ﷺہ قوم کے اس سردار کے احترام میں خود بھی کھڑے ہو گئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا ” اپنے میں سے بہتر شخص کے اعزاز کیلئے کھڑے ہو جاؤ.نبی کریم ﷺ نے حضرت سعد کو بتایا کہ بنوقریظہ نے بطور ثالث آپ کے فیصلہ پر آمادگی ظاہر کی ہے.حضرت سعد نے ایک بہترین ماہر منصف کا کردارادا کرتے ہوئے پہلے بنو قریظہ سے پوچھا کہ جو فیصلہ میں اللہ کے عہد اور میثاق کے مطابق کروں گا تمہیں قبول ہوگا ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا.پھر حضرت سعد نے دوسری طرف اشارہ کیا جدھر نبی کریم اور آپ کے اصحاب تھے کہ کیا ان سب کو بھی اللہ کے عہد و میثاق کے مطابق میرا فیصلہ منظور ہوگا.رسول اللہ نے فرمایا منظور ہوگا.حضرت سعد نے توریت کے مطابق یہ فیصلہ سنایا کہ بدعهدی و بغاوت کی سزا کے طور پر بنوقریظہ کے جنگجو قتل اور عورتیں و بچے قید کئے جائیں.رسول کریم نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ بلاشبہ سعد کا یہ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہے.(12)

Page 373

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 359 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس فیصلہ سے حضرت سعد کی دعا کا وہ حصہ بھی پورا ہو گیا کہ بنو قریظہ کے فتنہ کے خاتمہ سے پہلے مجھے موت نہ آئے.اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کی سرکوبی انہیں کے ہاتھ سے کروائی.اب حضرت سعد اپنے مولیٰ سے راضی برضا وا پسی کیلئے ہمہ تن تیار تھے.آخری سفر فیصلہ بنوقریظہ کے بعد حضرت سعد اپنے خیمہ میں ہی زیر علاج تھے کہ ایک رات اچانک زخم پھوٹ پڑا اور خون بہ کر ساتھ کے خیمہ میں جانے لگا.انہوں نے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ حضرت سعد کے زخم سے خون جاری تھا.(13) نبی کریم ﷺ کو خبر ہوئی تو اپنے وفاشعار ساتھی کو دیکھنے خود تشریف لائے.آپ نے حضرت سعد کا سر اپنی گود میں رکھا.جسم سے بہنے والا خون رسول کریم پر گرنے لگا مگر آپ اس سے بے پرواہ ہوکر حضرت سعد کیلئے دعائیں کر رہے تھے.اور یہ معلوم کر کے کہ یہ سعد کا آخری وقت ہے انہیں الوداع کہہ رہے تھے.آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! سعد نے تیری راہ میں جہاد کیا اس نے تیرے رسول کی تصدیق کی اور اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داری ادا کی.پس اس کی روح کو اس طرح قبول کرنا جس طرح کوئی بہترین روح تیرے حضور قبول کی گئی.گویا اس کا آخری سفر رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً ہو اور شایان شان استقبال ہو.اس دعا کے شرف قبولیت کا ذکر آگے آ رہا ہے.حضرت سعد نے اپنے آقا کے محبت بھرے دعائیہ الفاظ سنے تو عالم شوق میں آنکھیں کھولیں اور رسول اللہ کے چہرہ پر آخری نظریں ڈال کر عجب وارفتگی میں کہا السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا إِنِّي أَشْهَدُ اَنَّكَ رَسُولُ اللهِ “ (14) کہ اے اللہ کے رسول ! ( میرے محبوب ) آپ پر سلام.بس میری تو آخری گواہی یہی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں یہ کہا اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی.سعد کی وفات کا صدمہ اور غم حضرت ابو بکر اس جانثار بھائی کی ناگہانی موت پر درد بھرے دکھ کا بلند آواز سے اظہار کر بیٹھے

Page 374

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 360 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تو نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا.حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر انا اللهِ وَإِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُونَ پڑھا کہ ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی تھیں اس صدمہ کے موقع پر میں ابوبکر کے رونے کی آواز ، حضرت عمرؓ کے رونے کی آواز سے الگ پہچانتی تھی اور یہ سب (اصحاب رسول ) آپس میں بہت ہی محبت کرنے والے تھے حضرت سعد کا جنازہ اٹھا تو دنیا نے دیکھا کہ خدا کے رسول حضرت محمد مصطفی میں اپنے اس عزیز اور محبوب صحابی کے جنازہ کو خود کندھا دے کر گھر سے باہر لائے اور جنازہ کے جلوس کی قیادت فرمائی.(15) بعض منافقوں نے اس موقع پر کہا کہ ہم نے سعد سے زیادہ ہلکا جنازہ کسی کا نہیں دیکھا.یہ بنوقریظہ کے خلاف فیصلہ کرنے کی وجہ سے ہوگا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرما یا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے فرشتے سعد کے جنازہ کو اٹھا رہے تھے.“ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ کی وفات پر ستر ہزار ایسے فرشتے پہلی دفعہ زمین پر اترے جنہوں نے اس سے پہلے زمین پر قدم نہیں رکھا تھا.‘ (16) حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دونوں قریبی ساتھیوں حضرت ابوبکر اور عمر کی وفات کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا صدمہ حضرت سعد بن معاذ کی وفات کا تھا.حضرت سعد نے عین عالم جوانی میں 37 برس کی عمر میں جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.(17) سعد کا مقام و مرتبہ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ایک سفر حج یا عمرے سے واپسی پر ذوالحلیفہ میں حضرت اسید بن حضیر انصاری کو ان کی بیوی کی ناگہانی قتل کی اطلاع ملی تو وہ مارے غم کے منہ پر کپڑا لے کر رونے لگے میں نے ان سے کہا کہ اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ رسول اللہ ﷺ کے قدیمی صحابی ہیں اور کئی نیک کاموں میں سبقت لے جانے والے ہیں.یہ آپ کو کیا ہوا کہ ایک عورت کی جدائی پر اتنا روتے

Page 375

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 361 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں.اس پر انہوں نے کچھ حوصلہ پا کر جواب دیا ” آپ بالکل سچ کہتی ہیں میری عمر کی قسم حق یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ کی موت کے بعد مجھے کسی کی موت پر رونا تو نہیں چاہیے.کیونکہ رسول کریم نے ان کیلئے جو فر مایا وہ کیا ہی خوب تھا کہ سعد بن معاذ کی وفات پر خدا کا عرش بھی جھوم اٹھا ہے.“ (18) حضرت اسماء بن یزید سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ کا جنازہ اٹھا تو ان کی والدہ کی چیخ نکل گئی رسول کریم ﷺ نے فرمایا ( میں جو بات بتانے والا ہوں اس سے ) ” تمہارے آنسورک جائیں گے اور تمہاراغم جاتا رہے گا.تمہارا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کی اپنے حضور حاضری پر خدا بھی خوش ہو گیا اور عرش بھی اس (پاک روح کی آمد ) پر جھوم اٹھا.“ دوسری روایت میں ہے کہ رحمان خدا کا عرش اللہ کے نیک بندے سعد کی وفات پر خوشی سے جھوم اٹھا تھا.“ (19) رسول کریم مے سے حضرت جبرائیل نے پوچھا کہ آج رات آپ کی امت میں کسی نے سفر آخرت اختیار کیا جو آسمان کے لوگ بھی اس پر خوش ہوئے.دوسری روایت میں ہے ”فرشتے سعد کی سعید روح کو پا کر خوش ہو گئے.“ (20) حضرت سعد کی اللہ سے ملاقات کی محبت میں عرش جھوم اٹھا.رسول اللہ ﷺہ سعد کی قبر میں اترے تو کچھ دیر اس میں ٹھہرے اور پہلے سبحان اللہ اور پھر الحمداللہ کہا.پوچھنے پر فرمایا کہ " سعد پر قبر میں تنگی ہونے لگی تو میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اس سے یہ حالت دور کر دے.چنانچہ اسے کشادہ کر دیا گیا.‘ (21) ایک شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا وَمَا اهْتَزَّ عَرشُ اللَّهِ مِنْ مَوْتِ هَالِك سَمِعُنَابِهِ إِلَّا لِسَعْدِ أَبِي عَمْرو کہ کسی مرنے والے کی موت سے کبھی عرش کے جھوم اٹھنے کا نہیں سنا سوائے سعد ابی عمرو کی وفات کے.(22) رسول اللہ اللہ کے دل پر کافی عرصہ تک اپنے اس وفا شعار ساتھی کا صدمہ تازہ رہا.ہراہم

Page 376

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 362 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کامیابی اور موڑ پر آپ سعد کو یاد کرتے رہے.کئی سال بعد شاہ اکید رومہ نے رسول اللہ کی خدمت میں کچھ ریشمی جے بطور تحفہ بھجوائے.رسول اللہ ﷺ نے زیب تن فرمائے.صحابہ کرام نے بہت تعجب سے ان کو دیکھا اور تعریف کی.رسول کریم نے فرمایا کہ تمہیں یہ جسے بہت اچھے لگ رہے ہیں؟ خدا کی قسم جنت میں سعد بن معاذ کے ریشمی رومال اس سے کہیں بہتر ہیں.(23) حضرت سعد کی والدہ نے اپنے لخت جگر کی جدائی پر ان کے فضائل گنواتے ہوئے یوں اپنے غم کا بوجھ ہلکا کیا.وَيلَ امِ سَعْدِ سَعْدًا بَرَاعَةً وَنَجُدًا بَعْدَ أَيَادٍ يَالَهُ وَمَجُدًا مُقَدَّماً سُدَّ بِهِ مَسَدًا اے ام سعد ! سعد کی جدائی پر افسوس ! جو ذہانت اور شجاعت کا پیکر تھا.جو بہادری اور شرافت کا مجسمہ تھا، اس محسن کی بزرگی کے کیا کہنے جو سب خلاء پر کرنے والا سردار تھا.حضرت عمر نے حضرت سعد بن معاذ کی والدہ کوروکنا چاہا کہ یہ ہیں نو حہ کی صورت نہ بن جائے تو نبی کریم نے فرمایا " اے عمر ! ٹھہر جاؤ.ہر نوحہ گر جھوٹی ہوتی ہے، جب وہ اپنے مرنے والے کے فضائل مبالغہ سے گنواتی ہے.مگر آج سعد کی والدہ نے اس کے بارے میں جو کہا یہ بالکل سچ ہے.پھر ام سعد سے فرمایا ” بس اس سے زیادہ کچھ نہ کہنا.خدا کی قسم ! جتنا مجھے علم ہے حضرت سعد بہت صاحب بصیرت مدبر انسان اور خدا کے حکموں کو خوب قائم کرنے والا تھا.‘ (24) ایمانی پختگی ، شغف نماز و خوف محاسبه حضرت سعد کے ایک مختصر اور عاجزانہ بیان سے ان کے روحانی مقام پر خوب روشنی پڑتی ہے.وہ کہا کرتے تھے کہ ” میں بے شک بہت کمزور ہوں مگر تین باتوں میں بہت پختہ ہوں.اول یہ کہ رسول کریم سے جو کچھ میں نے سنا اسے حق یقین کرتا ہوں.دوسرے میں اپنی کسی نماز میں بھی نماز کے علاوہ کوئی دوسرا خیال آنے نہیں دیتا.یہاں تک کہ نماز مکمل کرلوں تیسرے کوئی جنازہ حاضر نہیں ہوتا مگر میں اپنے آپ کو اس کی جگہ (مردہ) خیال کر کے سوچتا ہوں کہ اس سے کیا پوچھا جائے گا اور وہ کیا جواب دے گا.( گویا وہ سوال و جواب مجھے سے ہورہے ہیں ) (25)

Page 377

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 363 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ حضرت سعد کی اس مختصر جامع روایت سے ان کی عاجزی وانکسار کے ساتھ ان کی ایمانی پختگی محبت الہی اور رغبت نماز اور محاسبہ کے خوف کا خوب اندازہ ہوتا ہے یہ سب روحانی ترقی کے اعلیٰ اور قیمتی راز ہیں.حضرت عائشہ کا بیان ہے انصار کے تین افراد جوسب بنو عبد الاشہل میں سے تھے رسول اللہ کے بعد کسی کو ان پر فضیلت نہیں دی جاتی تھی اور وہ انصار میں سب سے بزرگ اور افضل سمجھے جاتے تھے اور میں پہلے نمبر پر حضرت سعد بن معاذ پھر حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر تھے.(26) حواله جات -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 الاصا به جز 2 ص 86 ابن ہشام جلد 3 ص 153 اسد الغابہ جلد 2 ص 296 ، ابن سعد جلد 3 ص 420 ابن سعد جلد 3 ص 421 بخاری کتاب المغازی.باب غزوۃ العبيرة ابن ہشام جلد 3 ص 34 دار المعرفته بیروت ابن سعد جلد 3 ص 421 اصا به جز 2 ص 88 بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی تمن الاحزاب ابن سعد جلد 3 ص422 ابن سعد جلد 3 ص 429 ، اسد الغابہ جلد 2 ص 297 بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی من لاحزاب واسد الغابہ جلد 2 ص 297 13 - بخاری کتاب المغازی -14 -15 -16 -17 ابن سعد جلد 3 ص 427 ابن سعد جلد 3 ص 431 ابن سعد جلد 3 ص 430 ، مجمع الزوائد جلد 9 ص308 ابن سعد جلد 3 ص433 18 - مجمع الزوائد جلد 9 ص 308 19 - ابن سعد جلد 3 ص 434 ، مستدرک حاکم جلد 3 ص206

Page 378

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -20 364 ابن سعد جلد 3 ص 423 ، ابن ہشام جلد 3 ص271 حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ 21- ابن ہشام جلد 3 ص 272 ، مستدرک جلد 3 ص206، مجمع الزوائد جلد 3 ص 46 -22 -23 -24 -25 ابن ہشام جلد 3 ص 282 مجمع الزوائد جلد 9 ص 310 ابن سعد جلد 3 ص 430 مجمع الزوائد جلد 9 ص 308 26 مجمع الزوائد جلد 9 ص 310

Page 379

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 365 حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نام و نسب حضرت سعد بن ربیع انصاری حضرت سعد بن ربیع انصاری وہ عاشق رسول صحابی تھے جو مجسم اخلاص و وفا اور فدائیت کا نادر نمونہ تھے.آپ کا تعلق بنو حارث بن خزرج سے تھا.والدہ ہریلہ بنت عنبہ تھیں.بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرنے کی سعادت عطا ہوئی.بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی شریک تھے.آپ انصار کے ان بارہ نقباء (سرداران) میں سے تھے جنہیں آنحضرت نے ان کے مختلف قبائل پر نگران مقررفرمایا تھا.حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی اسی قبیلہ بنی حارث کے ایک نقیب اور سردار تھے دوسرے نقیب حضرت سعد مقرر ہوئے.فن کتابت سے بھی واقف تھے (1) ایثار و قربانی مدینہ میں مواخات یعنی اسلامی برادری قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد کو حضرت عبد الرحمن بن عوف کا بھائی بنایا جو مکہ سے ہجرت کر کے تشریف لائے تھے.وہاں انکی اچھی تجارت تھی اور اہل ثروت لوگوں میں شمار ہوتے تھے.ہجرت کے وقت سب کچھ لٹا پٹا کر آ گئے.گھر بار بھی چھوڑا اور مال و دولت پر گو یالات مارکر رسول خدا ﷺ کے قدموں میں زندگی بسر کرنا بصد شوق قبول کیا.حضرت سعد بن ربیع اپنے اسلامی بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوف کو اپنے گھر لے گئے.ان کی خوب مہمان نوازی کی اور اس اسلامی رشتہ اخوت کا اتنا لحاظ کیا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی.آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا ” آپ کو میرا دینی بھائی بنایا گیا ہے میری خواہش ہے کہ میں اپنا سب مال و جائداد آپ کو نصف نصف تقسیم کر کے دے دوں اور اس حد تک ایثار کی پیشکش کی جو بظاہر ناممکن نظر آتی ہے.انہوں نے عبد الرحمن سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں اور ان میں سے جسے آپ چاہیں میں طلاق دے دوں گا تا کہ آپ بعد میں ان سے شادی کر سکیں اور یوں

Page 380

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 366 حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ ایثار اور قربانی کا انتہائی نمونہ حضرت سعد بن ربیع نے پیش کر دکھایا جو اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور سنہری حروف سے لکھا جائے گا.حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب غنا اور شان بے نیازی عطا فرمائی تھی.چنانچہ آپ نے حضرت سعد سے کہا کہ اے میرے بھائی اللہ تعالیٰ آپ کے اہل میں اور مال میں برکت ڈالے مجھے آپ صرف بازار کا رستہ بتا دیجئے.میں تاجر آدمی ہوں.اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاؤں گا.چنانچہ وہ بازار گئے اور کچھ کھن اور پنیر کی خرید و فروخت سے پہلے دن ہی کچھ بچا کر گھر لے آئے.پھر تو خدا تعالیٰ نے ان کی تجارت میں ایسی برکت ڈالی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تھوڑے ہی عرصہ مدینے میں ہی شادی بھی کر لی ایک روز نبی کریم نے ان کے جسم اور لباس سے کچھ شادی کے آثار دیکھ کر فرمایا اے عبدالرحمن شادی کی ہے تو ولیمہ بھی کرو خواہ ایک بکری ذبح کر کے ہی ہو.(2) سعد بن ربیع کا جذبہ خلوص واطاعت غزوہ احد سے پہلے کا واقعہ ہے حضرت عباس نے کفار مکہ کے تین ہزار مسلح لشکر جرار کی خبر بذریعہ خط رسول اللہ کو بھجوائی.یہ خط حضور ﷺ کوقباء میں ملا اور ابی بن کعب نے آپ کو خط پڑھ کر سنایا حضور ﷺ نے اسے یہ خبر مخفی رکھنے کی ہدایت کی.پھر آپ مشورہ کیلئے حضرت سعد بن ربیع کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا کہ گھر میں کوئی اور تو نہیں حضرت سعد نے کہا نہیں آپ بے تکلف اپنی بات کریں.پھر حضرت سعد نے بات سن کر تسلی دلائی کہ مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ اس کا بہتر نتیجہ پیدا فرمائے گا.حضور اللہ نے سعد کو بھی یہ خبر مخفی رکھنے کی ہدایت فرمائی.ادھر منافقین نے مدینہ میں مکہ کے حملہ کی افواہ پھیلا دی کہ اب مسلمان نہیں بچ سکتے.رسول اللہ ﷺ کے جانے کے بعد حضرت سعد کی بیوی نے ان سے رسول اللہ ﷺ کی راز دارانہ گفتگو کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے جھڑک دیا کہ تمہیں اس سے کیا غرض؟ وہ کہنے لگیں مجھے پتہ چل چکا ہے اور میں نے حضور کی بات سن لی تھی.حضرت سعد نے فورا مدینہ جا کر رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے تو عرض کیا تھا کہ آپ کی بات کوئی سن نہیں رہا مگر مجھے علم نہ تھا کہ میری بیوی نے ہماری بات سن لی ہے مجھے ڈر ہے کہ بات پھیلے تو حضور علی یہ نہ سمجھیں کہ مجھ سے ارادہ ایسا ہوا.رسول کریم ﷺ نے

Page 381

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیوی سے درگز رکرنے کا ارشاد فرمایا.داستان عشق و وفا 367 حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ربیع کے حالات حدیثوں میں بہت ہی کم آئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے اور آنحضرت علی کے ساتھ دو اڑھائی سال کا مختصر عرصہ خدمت انہیں نصیب ہوا لیکن جو ذکر ملتا ہے وہ آپ کی عظیم الشان قربانیوں اور کمال فدائیت کا ہی تذکرہ ہے.احد میں حضرت سعد کی شہادت کا واقعہ اپنی ذات میں رسول اللہ سے عشق و وفا کی داستان ہے جس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے اس فدائی صحابی سے کتنی محبت تھی.غزوہ احد میں ستر کے قریب مسلمان شہید ہو چکے تھے جب جنگ کے بادل چھٹے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو جا کر سعد بن ربیع انصاری کی خبر لے آئے؟ میں نے اسے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا پایا تھا.حضرت ابی بن کعب اور محمد بن مسلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم حاضر ہیں.چنانچہ یہ دونوں صحابی گئے اور میدان احد میں شہداء کی بکھری نعشوں کے درمیان ان کو تلاش کرنے لگے مگر سعد بن ربیع کہیں نظر نہ آئے.انہیں خیال آیا کہ حضرت سعد بن ربیع عاشق رسول تھے.انہیں رسول اللہ علے کا واسطہ دیگر تلاش کرنا چاہیے.تب انہوں نے میدان احد میں یہ آواز بلند کی کہ اے سعد بن ربیع ! خدا کا رسول تمہیں یاد کرتا ہے.اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جگہ کسی زخمی میں کچھ حرکت پیدا ہوئی.وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سعد بن ربیع تھے.حضرت ابی نے کہا کہ آنحضور ﷺ نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے حضور آپ کو سلام کہتے اور آپ کا حال پوچھتے تھے.حضرت سعد بن ربیع نے بھی جواب میں کیا ہی پیا را پیغام دیا کہا حضور کی خدمت میں جا کر میرا بھی سلام کہنا اور عرض کرنا کہ مجھے تیروں اور نیزوں کے بارہ شدید زخم پہنچے ہیں، جن سے بظاہر بچنا اب ممکن نظر نہیں آتا.حضرت سعد بن ربیع کو احساس تھا کہ یہ انکے آخری لمحات ہیں.جان کنی کے اس عالم میں جب وہ آخری الوداعی پیغام دینے لگے اس وقت انہیں اپنی بیوہ یا یتیم بچے یاد نہیں آئے اگر کوئی چیز یاد آئی تو وہ تھا خدا کا رسول اور اس کی محبت.چنانچہ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ یا رسول اللہ جتنے خدا کے فرستادہ نبی پہلے گزرے ہیں.ان کی آنکھیں اپنی قوم سے جتنی ٹھنڈی ہوئیں رض

Page 382

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 368 حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ ان سے بڑھ کر اللہ آپ کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی کرے.اور میری قوم کو بھی میرا سلام پہنچا کر کہنا ، جب تک خدا کا رسول ﷺ تمھارے اندر موجود ہے اس امانت کی حفاظت کرنا تم پر فرض ہے.یاد رکھو جب تک ایک شخص بھی تمھارے اندر زندہ موجود ہے اگر تم نے اس امانت کی حفاظت میں کوئی کوتاہی کی تو قیامت کے دن تمھارا کوئی عذر خدا تعالیٰ کے حضور قابل قبول نہیں ہوگا“ یہ پیغام دے کر حضرت سعدا اپنے مولیٰ کو پیارے ہو گئے.حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ میں سعد کے آخری لمحات میں ان کے پاس موجود رہا اور وفات کے بعد سعد بن ربیع کا یہ مقدس پیغام وفا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچایا.آنحضرت اپنے عاشق اور اپنے فدائی صحابی کا پیغام سن کر فرمانے لگے اللہ رحمتیں کرے سعد بن ربیع پر کہ جب تک وہ زندہ رہا اس نے اللہ اور رسول کی خیر خواہی کی اور مرتے دم بھی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کو چھوڑا نہیں.“ (3) یتیم بچیوں کی وراثت حضرت سعد بن ربیع کی شہادت کے ساتھ اسلامی احکام وراثت بھی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی وفات کے وقت ان کی دو بیٹیاں موجود تھیں.حضرت سعد بن ربیع کے بھائی نے عرب رواج کے مطابق ان کی جائیداد سنبھال لی.حضرت سعد کی بیوہ نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ سعد تو اللہ کو پیارے ہو گئے ان کی اولا د موجود ہے اور سعد کا ترکہ سوائے اس جائیداد کے کوئی نہیں.آئندہ بچیوں کے شادی بیاہ کے مسائل بھی ہونگے.لوگ بچیوں کا مال وغیرہ بھی دیکھا کرتے ہیں.عربوں کے دستور کے مطابق بچیوں کے چانے جائیداد سنبھال لی ہے.اس وقت تک وراثت کے کوئی احکام نہیں اترے تھے.آنحضرت خاموش رہے اور پھر جب آیت میراث اتری تو نبی کریم نے ایک روایت کے مطابق یہ ہدایت فرمائی کہ دو تہائی حصہ سعد کی دو بیٹیوں کو دیا جائے اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو اور جو بچ جائے وہ ان کے چچا کو دینے کیلئے ارشاد فرمایا.(4) دوسری روایت امام احمد کی ہے جس میں میراث کی تقسیم کا ذکر تو موجود ہے لیکن یہ تفصیل موجود

Page 383

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 369 حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نہیں کہ اس میں چا کو بھی حصہ دیا گیا تھا وہ روایت بھی حضرت جابر بن عبد اللہ کی ہے جو بیان کرتے ہیں کہ وہ جائیداد جو اسواق کے نام سے مشہور تھی.آنحضرت ﷺ نے بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں خود تشریف لے جا کر حضرت سعد بن ربیع کی بیٹیوں میں تقسیم کی.اس موقع پر وہاں آنحضور کیلئے گوشت اور روٹی کا کھانا پیش کیا گیا جو آپ نے اپنے اصحاب کیساتھ بیٹھ کر کھایا اور ظہر کی نماز ادا کی.پھر تقسیم جائیداد کے کام میں مصروف ہو گئے اور عصر کی نماز بھی وہیں پڑھائی.یہ پہلی جائیدا دتھی جو اسلامی احکام وراثت کے مطابق عورتوں میں تقسیم ہوئی.اور خود آنحضور نے اس کی تقسیم فرمائی.(5) مقام و مرتبه حضرت سعد بن ربیع کی غیر معمولی قربانیوں فدائیت اور ایثار کے وجہ سے صحابہ کے نزدیک ان کا جو مقام تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے خوب ہوتا ہے حضرت سعد بن ربیع کی صاحبزادی ام سید تھیں اور ان کی چچا زاد بہن حضرت حبیبہ حضرت ابو بکر کی اہلیہ تھیں وہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت ابوبکر کے گھر میں ایک دفعہ ملاقات کیلئے حاضر ہوئی.حضرت ابو بکڑ نے اپنا کپڑا جواو پر لیا ہوا تھا وہ انکے بیٹھنے کیلئے نیچے بچھا دیا اور حضرت ام سید اس پر بیٹھیں.اتنے میں حضرت عمر تشریف لائے اور انہوں نے پوچھا کہ یہ کس کی بیٹی ہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اے عمر ! یہ اس کی بیٹی ہے جو مجھ سے بھی بہتر تھا اور تم سے بھی.حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اے خدا کے رسول کے خلیفہ وہ کون شخص تھا جو آپ سے بھی اور مجھ سے بھی بہتر تھا.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ وہ سعد بن ربیع تھے جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں شہید ہوئے اور اس کے نتیجے میں جنت میں اپنا ٹھکانا بنالیا اور میں اور تم دونوں پیچھے رہ گئے.اور وہ ان شہادتوں کے اجر حضور ﷺ کے زمانے میں ہی پا کر جنتیوں کے وارث گئے.دوسری روایت میں ہے کہ ” بہترین وہ تھا جو عقبہ میں شریک ہوا.بدر میں شرکت کی سعادت پائی اور احد میں شہید ہوا یہ اس کی بیٹی ہے.(6) حضرت سعد اور حضرت خارجہ بن زید دونوں چچا زاد بھائی تھے.احد کے میدان میں شہادت کے بعد شہداء کو ایک ایک قبر میں دو دو تین تین کر کے دفن کیا گیا اور حضرت خارجہ بن زید اور حضرت سعد بن ربی اکٹھے دفن ہوئے.

Page 384

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 370 حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ربیع کا وہ پیغام جواحد کے میدان سے انہوں نے دیا تھا.وہ ایک عاشق رسول کا پیغام ہے ہر عاشق رسول ﷺ کو ی تحر یک کرتا ہے کہ آج ہم بھی خدا کے مامور اور اس کے خلیفہ کیلئے عشق و محبت کے ایسے نمونے زندہ کرنے والے ہوں.یہ پیغام ہمیں یاد کراتا ہے کہ ہم نے خلافت کی اس امانت کی حفاظت کرنی ہے جو آج ہمارے سپرد ہے.اگر ہم نے اس میں کوئی کوتاہی کی تو پھر ہمارا کوئی جواب خدا تعالیٰ کے حضور سنا نہ جائے گا اور کوئی عذر قبول نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی سب امانتوں کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے اور ان بزرگوں پر بھی رحم کرے اور انکی روحوں کو ٹھنڈک پہنچائے جو ایسے پیارے اور خوبصورت نمونے اور پیغام ہمارے لئے چھوڑ کر گئے.خدا رحمت کنند این عاشقاں پاک طینت را -1 -2 د که ده ط من ه -4 -5 -6 حواله جات ابن سعد جلد 3 صفحہ 523، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 371 بخاری کتاب النکاح باب الوليمة ولو بشاة ، واقدی جلد 1 ص 203 موطا کتاب الجہاد، ابن سعد جلد 3 صفحہ 524 ، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 377 نرمندی کتاب الفرائض باب ماجاء فی میراث البنات مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 385 اصابه جلد 3 صفحہ 77 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند احمد جلد 5ص190

Page 385

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 371 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ حضرت اسید بن حضیر انصاری حضرت اسید بن حضیر بن سماک کا تعلق اوس کی شاخ بنوعبدالا شہل سے تھا.آپ کے والد حضیر اور والدہ دونوں ہی قبیلہ اوس کی اسی شاخ سے تعلق رکھتے تھے.والد حضیر کتائب“ کے لقب سے مشہور تھے قبیلہ اوس کے مشہور شہ سوار اور رئیس تھے.اوس اور خزرج میں جو جنگیں آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف آوری سے پہلے ہوئیں ان میں اوس قبیلہ کی قیادت اسید کے والد حقیر نے کی اور اس جنگ میں فتح پائی تھی.ان کا مشہور قلعہ واقم تھا جہاں یہ قلعہ بند ہوئے.اسی جنگ بعاث میں حفیر مارے گئے تھے.اپنے والد کے بعد اسید بن حضیر قبیلہ کے سرداروں میں سے تھے.نہایت ذہین صاحب عقل اور صائب الرائے انسان تھے اور شرفاء میں آپ کا شمار ہوتا تھا.آپ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے.تیر اندازی اور تیرا کی کے ماہر تھے اور اس زمانے میں یہ تمام خوبیاں جس شخص کے اندر جمع ہوا کرتی تھیں اسے ” کامل یعنی ہر فن مولی کا خطاب دیا جاتا تھا اور یہ خطاب اپنے باپ کی طرح حضرت اسید نے بھی ورثہ میں پایا.(1) قبول اسلام حضرت اُسیڈ کو مدینہ کے پہلے مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیر کے ذریعہ قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی.حضرت مصعب جب مدینہ تشریف لائے اور حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر میں قیام فرما کر مدینہ کے مختلف محلوں میں دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا.حضرت سعد بن معاذ جوقبیلہ اوس کے سرداروں میں سے تھے انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت اسیڈ سے کہا کہ آپ جا کر حضرت مصعب کو اس بات سے روکیں کہ وہ ہمارے لوگوں کو بے وقوف نہ بنائے اور اگر اسعد بن زرارہ درمیان میں نہ ہوتے تو میں خود جا کر ان کو منع کرتا.چنانچہ اسیڈ اپنا نیزہ لے کر کھڑے ہوئے اور اس مجلس میں چلے گئے جہاں حضرت مصعب بن عمیر لوگوں کو دین کی تعلیم دے رہے تھے.اسیڈ نے

Page 386

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 372 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ بڑی سختی سے انہیں تبلیغ سے منع کیا اور کہا تم ہمارے لوگوں کو بے وقوف بنانا چھوڑ دو، اپنے گھر میں بیٹھے رہو.جو تمھارے پاس آئے اسے بے شک یہ تعلیم دو لیکن ہمارے محلہ میں گھر گھر یہ پیغام پہنچانے کی ضرورت نہیں.حضرت مصعب کو حضرت اسعد بن زرارہ نے بتا دیا تھا کہ یہ شخص قبیلہ کا سردار ہے.اگر آپ نے اسے زیر کر لیا تو سمجھو کہ یہ قبیلہ اسلام کی گود میں ہے.چنانچہ حضرت مصعب نے نہایت محبت پیار اور نرمی سے انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا.کہنے لگے دیکھو آپ ایک بزرگ سردار ہو.ہماری بات سن کے تو دیکھو اگر بھلی لگے تو قبول کرنا ورنہ رد کر دینا.حضرت اُسید واقعتا بڑے زیرک انسان بڑے لائق اور صائب الرائے تھے.انہوں نے کہا کہ بات تو تمھاری درست ہے اور پھر ان کی باتیں سنے کیلئے بیٹھ گئے.انہیں قرآن شریف سنایا اور اسلام کا پیغام پہنچایا وہ سن کر کہنے لگے یہ تو بہت ہی حسین پیغام ہے.مجھے بتاؤ کہ مسلمان ہونے کی کیا شرائط ہیں.حضرت مصعب بن عمیر نے بتایا کہ آپ کلمہ توحید ورسالت پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جاؤ گے پھر اسلام کی تعلیم کے مطابق نماز اور عبادت بجالانی ہوگی تو کہنے لگے کہ یہ باتیں اپنی جگہ مگر میرا ایک بھائی اور بہت پیارا دوست قبیلہ کا سردار سعد بن معاذ ہے.اسے کسی طرح اسلام میں داخل کرو پھر یہ سارا قبیلہ اسلام میں داخل ہو جائے گا.چنانچہ حضرت اُسید کمال حکمت عملی کے ساتھ سعد بن معاذ حضرت مصعب کے پاس لے کر آئے اور حضرت مصعب نے کمال دانش مندی اور حکمت سے محبت بھرے انداز میں ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا اور حضرت سعد نے اسلام قبول کر لیا اور یوں حضرت اسیڈ کے توسط سے نہ صرف اکیلے سعد اسلام میں داخل ہوئے بلکہ انکے مسلمان ہونے کے بعد شام تک ان کا تمام قبیلہ اسلام میں داخل ہو گیا.(2) حضرت اسید معقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے.نبی کریم ﷺ نے انصار میں جو بارہ سردار یا تعقیب مقرر فرمائے تھے ان میں سے ایک حضرت اسید بھی تھے جنہیں آپ نے بنی عبد الاشہل کا سردار مقرر فرمایا تھا.مدینہ میں بعد میں جو مواخات کا سلسلہ ہوا تو اس میں آنحضرت نے حضرت اسید بن حضیر کا بھائی حضرت زید بن حارثہ کو بنایا.اس سے بھی آنحضرت کے ان کے ساتھ تعلق محبت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زید جو آنحضرت ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے اور جن سے حضور نہایت پیار اور محبت کا تعلق رکھتے تھے.

Page 387

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 373 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ حضرت اسیڈ کی خوبیوں کو پہچانتے ہوئے زیڈ کے ساتھ حضور نے یہ مؤاخات قائم فرمائی.(3) غزوات میں شرکت حضرت اُسید بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور جب آنحضرت علی غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے ہیں تو حضرت اسید نے آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار پر فتح عطافرمائی اور آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کیں.میں اس غزوہ سے اس وجہ سے پیچھے رہ گیا میرا خیال تھا کہ اس میں صرف دشمن کے قافلہ سے مڈ بھیٹر ہوگی.اگر مجھے پتہ ہوتا کہ دشمن کے ساتھ مقابلہ ہے تو خدا کی قسم میں لازماً آپ کے ساتھ بدر کے میدان میں نکلتا اور ہر گز پیچھے نہ رہتا.رسول کریم حضرت اسید کے اخلاص سے خوب واقف تھے فرمانے لگے تم نے بالکل سچ کہا ہے.پھر بعد کے غزوات میں حضرت اسیڈ نے جہاد کا خوب حق ادا کیا.وہ احد میں آنحضور علی کے شانہ بشانہ شریک ہوئے.جب دوسری دفعہ حملہ ہوا جس میں بعض لوگوں کو پیچھے بھی ہٹنا پڑا.اس وقت بھی اسید ثابت قدم رہے احد کے میدان میں ان کو سات زخم آئے.اسی طرح غزوہ خندق میں بھی آنحضرت علی کے ساتھ شریک ہوئے بلکہ دوسوسپاہیوں کے ساتھ خندق کا پہرہ دینے کی سعادت بھی آپ کو ملتی رہی.خندق کے موقع پر ایک سخت امتحان کا وقت آیا جب غطفانی قبیلہ کی طرف سے حملہ کا خطرہ پیدا ہوا.آنحضرت ﷺ نے مشورہ کیلئے انصار کے بعض سرداروں کو بلایا.ان تمام مشوروں میں حضرت سعد بن معاذ کے ساتھ حضرت اسید بن حضیر بھی شریک تھے.انہوں نے ہی ان غطفانیوں کا یہ مطالبہ رد کرنے کا مشورہ دیا کہ مدینہ کی آدھی پیداوار ہمیں دے دو تو ہم تمھارا ساتھ دیں گے بڑے عزم اور استقلال کے ساتھ وہ اس ابتلاء میں آنحضرت کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے.دو عرب سردار عامر بن طفیل اور زید جب مدینہ آئے اور مدینہ کی کھجور کے حصہ کا مطالبہ کیا تو اسید بن حضیر اپنا نیزہ ان کے سر میں ٹھوکنے لگے اور کہا اے لومڑو ! یہاں سے چلے جاؤ.عامر نے کہا تم کون ہو؟ کہا اسید بن حضیر.وہ بولا حضیر کتائب؟ کہا.ہاں.وہ بولا تمہارا باپ تم سے بہتر تھا.حضرت اسیڈ نے کہا میں تم اور اپنے باپ سے بہتر ہوں.کیونکہ میرا باپ حالت کفر میں مر گیا.(4)

Page 388

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 374 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ حضرت اسید گواہل بیت کے ساتھ بہت عقیدت اور محبت کا تعلق تھا.غزوہ بنو مصطلق کے موقع پر جب حضور واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے.حضرت عائشہ گا ہارگم ہو گیا.مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا اور کوئی چشمہ بھی پاس نہ تھا نماز کا وقت ہو گیا ، وضو کیلئے پانی میسر نہ تھا لوگ سخت حیران و پریشان تھے حضرت ابوبکر حضرت عائشہ گوڈانٹنے لگے کہ یہ کیا سلسلہ ہے آپ کے ہار ہی گم ہوتے رہتے ہیں اس کی وجہ سے مسلمان تکلیف میں ہیں.نماز پڑھنی ہے اور وضو کیلئے پانی میسر نہیں.چنانچہ اس موقعہ پر تیم کی آیات اتریں کہ اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کر کے اس پر ہاتھ پھیر کر نماز ادا کر لی جائے یہ وضوء کا قائمقام ہے.یہ ایک بہت بڑی سہولت اور رخصت تھی.اس موقع پر حضرت اسید بن حضیر نے نہایت خوبصورت تبصرہ حضرت عائشہ کے بارے میں کیا جس سے ان کی اہل بیت سے عقیدت اور محبت خوب چھلکتی ہے انہوں نے کہا ماهِيَ بَاوّل بَرَكَتِكُم يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ اے آل ابو بکر تمھاری پہلی برکت تو نہیں.پہلے بھی ہم نے آپ کے ذریعہ بہت برکات پائی ہیں.یوں آنحضرت کے ساتھ محبت اور عقیدت کے باعث حضرت اسید بن حضیر کا آل ابی بکر حضرت عائشہ اور اہل بیت سے بھی ایک عقیدت کا تعلق تھا.صلح حدیبیہ کے بعد ابو سفیان نے ایک شخص کو آنحضرت ﷺ کے قتل کیلئے روانہ کیا.وہ مدینہ آ کر حضور ﷺ کی مجلس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا.خنجر اس نے چھپا رکھا تھا حضرت اسید نے کمال دانشمندی سے اس شخص کی حرکات کو پہچان لیا اور آنحضرت ﷺ نے بھی نشاندہی فرما دی کہ یہ شخص حملے کے ارادے سے آیا ہے.چنانچہ حضرت اسید بن حضیر مستعد ہو کر بیٹھ گئے جونہی وہ شخص آگے بڑھا اسیڈ نے اس کی لنگی ( نہ بند ) کو کھینچا اور اس کے اندر سے خنجر برآمد ہوا.وہ ڈرا کہ اب یہ مجھے پکڑیں گے ، اس نے حملے کی کوشش کی.حضرت اسید بن حضیر نے اسے دبوچ لیا.یہ حضرت اسیڈ کی زیر کی اور بہادری تھی کہ وہ حملہ آور نا کام ہو گیا.الغرض حضرت اسید کا شمار رسول کریم ﷺ کے عالی مرتبت صحابہ میں ہوتا تھا ان کی انہیں خوبیوں کی وجہ سے آپ قرمایا کرتے تھے نِعمَ الرَّجُلُ اُسید کہ اسید بن حضیر کتنا اچھا آدمی ہے.اہل بیت سے انکے تعلق اور عقیدت کا ایک واقعہ حضرت عائشہ اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ

Page 389

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 375 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ حضرت اسید انحضرت ﷺ کے ساتھ کسی مہم پر تھے کہ بعد میں حضرت اسید بن حضیر کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا.واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب ذوالحلیفہ مقام پر پہنچے تو مدینہ سے آنے والے بعض بچوں نے حضرت اسید کو یہ اطلاع دی کہ آپ کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں بلاشبہ یہ ایک اچانک اور نا گہانی صدمہ تھا.حضرت اسید کپڑے سے چہرہ ڈھانپ کر رونے لگے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں میں نے انہیں ڈھارس بندھائی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے، آپ تو آنحضرت کے بزرگ صحابہ اور اولین بیعت کر نیوالوں میں سے ہیں.ایک عورت کی وفات پر آپ اس طرح رور ہے ہیں.اس پر انہوں نے فوراً اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہنے لگے میری عمر کی قسم یقینا آپ نے سچی بات کہی ہے.ہمارا بھائی سعد بن معاذ عظیم سردار تھا اس کی وفات پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ آج سعد کی وفات پر عرش جھوم اٹھا ہے اس کی وفات کے بعد واقعہ کسی اور کی موت پر رونا بالکل بے سود ہے.حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ اس وقت ہمارے ساتھ اس سفر میں واپس تشریف لا رہے تھے اور یہ ساری باتیں سن رہے تھے اور حضرت اسید حضور کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے.(5) روحانی مقام حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ حضرت اسید کہا کرتے تھے کہ میری تین حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک حالت بھی مجھ پر طاری رہے تو میں لازماً اپنے آپکو اہل جنت میں سے شمار کروں اور اسمیں مجھے ذرہ برابر بھی شک نہ ہو.پہلی یہ کہ جب میں قرآن شریف کی تلاوت کروں یا کوئی اور تلاوت کرے اور میں سن رہا ہوں تو اس وقت مجھے پر خشیت کی جو حالت طاری ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو میں اپنے آپ کو جنتیوں میں سے شمار کروں.دوسرے جب نبی کریم علیہ خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور میں انتہائی توجہ سے حضور ﷺ کا وہ وعظ سنتا ہوں تو اس وقت میری جو حالت ہوتی ہے اگر وہ دائم ہو جائے تو میں لازماً جنتیوں میں سے ہو جاؤں.تیسرے جب میں کسی جنازے میں شامل ہوں تو میری یہ حالت ہوتی ہے کہ گویا یہ جنازہ میرا ہے اور ابھی مجھ سے پرسش ہورہی ہے اگر یہ کیفیت بھی ہر دم رہے تو لازماً میں اپنے آپ کو جنتیوں میں سے شمار کروں.(6) اس بیان سے حضرت اسید کی خدا خوفی اور خشیت الہی کا اندازہ ہوتا ہے.یہ اور بات ہے کہ

Page 390

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 376 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے ارشاد کی روشنی میں ہمیشہ یہ کیفیتیں طاری رہ ہی نہیں سکتیں ورنہ انسان فرشتے ہی ہو جا ئیں مگر یہ کیفیتیں جس شخص کے اندر پائی جاتی ہوں اس کے مقام کا اندازہ اس روایت سے خوب ہوتا ہے.یہاں حضرت اسیڈ کے کمال انکسار کا اظہار بھی ہے کہ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود کہتے ہیں کہ اگر یہ حالتیں مستقل ہوتیں تو پھر میں اپنے آپ کو اہل جنت میں سے شمار کرتا.حالانکہ ایسی اعلیٰ عارضی روحانی کیفیت والے شخص کے جنتی ہونے میں بھی کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے.حضرت اسید کی ایک اور خصوصیت عبادت اور نماز سے گہری محبت ہے.آپ اپنے محلے کی مسجد کے امام تھے.بیماری میں بھی نماز چھوڑ نا آپ کیلئے دو بھر ہوتا تھا.بعض دفعہ ایسی بیماری بھی ہوئی کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا مشکل تھا مگر پھر بھی نماز کیلئے مسجد حاضر ہوتے تھے اور نماز با جماعت کا ثواب نہ چھوڑتے تھے.کشفی نظارے حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے تھے کہ اسید بن حضیر ہم میں سب سے زیادہ خوش الحانی سے قرآن شریف کی تلاوت کرنے والے تھے.حضرت اسید صاحب کشف انسان بھی تھے.ایک دفعہ انہوں نے اپنا یہ واقعہ بنی کریم کو سنایا کہ میں تہجد کی نماز میں سورۃ بقرۃ کی تلاوت کر رہا تھا.قریب ہی ہمارا گھوڑا بندھا تھا پاس ہی میرا بیٹا سکی سویا ہوا تھا.جب میں قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگا تو اچانک میرا گھوڑ ابد کنے لگا میں خاموش ہوا تو گھوڑا بھی رک گیا.پھر جب میں بلند آواز سے تلاوت کرتا تو وہ بدکنے لگتا.میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ گھوڑا کوئی چیز آسمان پر دیکھ کر بدکتا ہے.میں اس ڈر سے کہ گھوڑے کے بدکنے سے اس کی لات میرے پاس سوئے بیٹے کو نہ لگ جائے ، تلاوت کرنے سے رک جاتا تھا.آنحضرت فرمانے لگے کہ اے اسید بن حضیر تجھے تلاوت جاری رکھنی چاہیے تھی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے تلاوت جاری رکھی.کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک سائبان ہے اور اس میں روشنیاں اور قمقمے ہیں مگر مجبوراً مجھے تلاوت اسلئے روکنی پڑی کہ گھوڑے کے بدکنے کی وجہ سے کہیں میرے بچے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.رسول کریم نے فرمایا کہ اے اسید بن حضیر یہ تو فرشتے تھے جو خوش الحانی سے تمہاری تلاوت قرآن سن کر قریب آگئے تھے اور انہوں نے چراغوں اور قمقوں کا روپ دھار لیا تھا اگر تم قرآن شریف کی

Page 391

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 377 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہتے تو خواہ دن چڑھ جاتا ایک دنیا یہ نظارہ کرتی کہ تم تلاوت کر رہے ہو اور آسمان سے ایک نور کا نزول ہو رہا ہے اور قمقمے جگمگ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں.‘ان نورانی کیفیات کا ایک عجیب گہرا تعلق حضرت اسید بن حضیر کی زندگی کے ساتھ وابستہ نظر آتا ہے.(7) جس کا ذکر سورۃ انفال کی آیت 30 میں بھی ہے کہ "اے مومنو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایسا امتیازی نشان پیدا کر دے گا اور ایسا نور عطا کرے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے.“ حضرت اسید انصار کے سرداروں میں سے تھے بعض دفعہ آنحضرت علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر رات گئے تک آپ سے مشورے کرتے تھے.ایک ایسی ہی تاریک رات کا واقعہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسید بن حضیر اور انکے ساتھ ایک اور صحابی حضرت عباد بن بشر آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کے پاس دیر تک مشورے کرتے رہے.جب یہ لوگ گھروں کو واپس لوٹنے لگے تو بہت تاریکی تھی دونوں صحابہ کے ہاتھ میں اپنی اپنی لاٹھی تھی.وہ بیان کرتے تھے کہ ہم نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ ایک روشنی ہماری لاٹھیوں سے نکل رہی ہے.جس میں راستہ دیکھ کر ہم اپنے گھروں میں پہنچے تب وہ روشنی ہم سے جدا ہوگئی.رسول کریم ﷺہ حضرت اسید بن حضیر کے ان فضائل روحانی کے باعث انہیں دوسروں پر فضیلت دیتے تھے.(8) خلفائے راشدین کی اطاعت حضرت ابو بکر آپ کا بہت احترام کرتے تھے اور آپ پر کسی دوسرے کو ترجیح نہیں دیتے تھے.جب حضرت اسید بن حضیر کوئی رائے پیش کرتے تو حضرت ابو بکر صدیق فرماتے کہ اب اس سے اختلاف مناسب نہیں.اسید بن حضیر کی رائے آگئی ہے.(9) حضرت عمر آپ کا بہت احترام کرتے اور دیگر انصار پر ان کو ترجیح دیتے تھے.حضرت ابوبکر کی بیعت خلافت کے موقع پر بھی حضرت اسید نے غیر معمولی اطاعت کا نمونہ دکھایا جب صحابہ سقیفہ بنو ساعدہ جمع ہوئے اور خزرج کے سردار سعد بن عبادہ نے اپنی امارت کی بات کی تو اسید بن حضیر جو اس قبیلے کے سردار تھے اپنے قبیلے کو اکٹھا کر کے کہا کہ دیکھو خزرج والے سعد بن عبادہ کو امیر بناتے ہیں تو بناتے رہیں ہم سب بہر حال حضرت ابوبکر کی بیعت کریں گے.اوس قبیلہ نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور یوں حضرت ابوبکر کی بیعت خلافت پر امت

Page 392

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 378 حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ میں وحدت قائم کرنے کی توفیق پائی اور اوس قبیلہ کی ہدایت کا موجب بنے.(10) آپ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں 20 ہجری میں ہوئی.حضرت عمرؓ سے خاص تعلق محبت کی وجہ سے آپ نے یہ وصیت کی کہ میرے بعد کے وراثت کے امور حضرت عمر ہی طے فرمائیں.(11) حضرت عمرؓ نے بھی خوب یہ تعلق نبھایا خود جا کر ان کا جنازہ ان کے محلہ بنوعبد لاشہل سے اٹھایا.جنازے کو کندھا دیا خود جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں تدفین کروائی.حالات دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ چار ہزار درہم ان پر قرض ہے ایک ہزار درہم سالانہ آمد ہوتی ہے.عام حالات میں ان کی زمین بیچ کر قرض ادا ہوتا مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں اپنے بھائی کی جائیداد ضائع نہیں کرنا چاہتا چنانچہ آپ نے قرض خواہوں کو پیغام بھیجا کہ اگر میری مانوتو مہلت دے کر ایک ہزار سالا نہ قرض کی قسط لینے کیلئے تیار ہو جاؤ.(12) حضرت عائشہ فرماتی تھی کہ انصار میں سے تین صحابہ ایسے تھے کہ ان جیسے صاحب فضیلت کسی اور صحابی کا ذکر انصار کے اوس قبیلے میں نہیں ملتا اور ان سب کا اوس قبیلے کی شاخ بنی عبدالاشہل سے تعلق تھا.ان میں ایک سعد بن معاذ تھے دوسرے اسید بن حضیر اور تیسرے عباد بن بشر -1 -2 -3 -6 -7 -8 -9 -10 حواله جات اصابہ جزا صفحه 48، ابن سعد جلد 3 صفحہ 604 السيرة النبوبيه لا بن ہشام ج 2 ص 77 تا 79 ابن سعد جلد 3 صفحہ 604 استیعاب جلد 1 ص186 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 468 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 310 بخاری کتاب فضائل القرآن باب نزول السکیه والملائگة بخاری مناقب الانصار باب اسید بن حضیر ابن سعد جلد 3 صفحہ 605 تاریخ طبری جلد 6 صفحه 104 11- اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 93 -12 ابن سعد جلد 3 صفحہ 606

Page 393

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 379 حضرت عباد بن بشر انصاری رضی اللہ عنہ حضرت عبادہ بن بشر انصاری حضرت عباد بن بشر کا تعلق قبیلہ بنی عبد الاشہل سے تھا.ابو بشر کنیت تھی.والدہ کا نام فاطمہ تھا، حضرت مصعب بن عمیر کے ذریعہ انہوں نے حضرت اسید بن حضیر انصاری سے پہلے اسلام قبول کیا تھا.مؤاخات ہوئی تو یہ حضرت ابوحذیفہ کے بھائی بنائے گئے.یہودی مجرم کعب الا شرف کی سزا دہی کیلئے حضرت محمد بن مسلمہ مقرر ہوئے تو حضرت عبادہ بن بشر نے ان کی خصوصی معاونت کی توفیق پائی.(1) غزوات میں شرکت " غزوہ بدر، احد دیگر غزوات میں شرکت کی توفیق ملی.آپ بہت پارسا اور عبادت گزار بزرگ تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں ' ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی میرے ہاں باری تھی.تہجد کے وقت جب آنحضور ﷺ اٹھے تو مسجد میں تلاوت قرآن کی آواز سنی تو پوچھا کہ یہ عباد کی آواز ہے.“ میں نے عرض کیا جی حضور رسول کریم ﷺ نے اس خوش نصیب صحابی کیلئے یہ دعا کی.اللهم ارحم عَبَّادًا (2) کہ اے اللہ عباد پر رحم کر.دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اے اللہ اس کو بخش دے.غزوۂ احد اور غزوہ احزاب میں بھی خدمات کا موقع ملا اور آنحضرت ﷺ کے خیمے کا پہرہ دینے کی سعادت ان کے حصہ میں آئی.غزوہ حدیبیہ میں حضرت عباد خالد بن ولید کے مقابلہ کی مہم پر جانے والے ہیں سواروں میں شامل تھے.(3) بعد میں رسول کریم ﷺ نے بنوسلیم ، مدینہ اور بنو مصطلق سے صدقات اکٹھا کرنے کی خدمت ان کے سپر دفرمائی.حضور کی ہدایات کے مطابق انہوں نے اس ذمہ داری کا حق خوش اسلوبی سے ادا کیا اور ان قبائل کو کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی.غزوہ حنین کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے حضرت عباد گو مال غنیمت کا نگران مقر فرمایا، اسی طرح نبی کریم کے حفاظتی دستہ کے بھی وہ نگران تھے.

Page 394

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نشان روشنی 380 حضرت عباد بن بشر انصاری رضی اللہ عنہ حضرت عباد کیسا تھ پیش آنے والا ایک خارق عادت نشان بھی قابل ذکر ہے جس میں ایک بزرگ صحابی حضرت اسید بن حضیر انصاری بھی آپ کے ساتھ شریک تھے.جب یہ دونوں ایک تاریک رات میں نبی کریم ﷺ کی مجلس سے واپس اپنے گھروں کو جارہے تھے تو دونوں کی لاٹھیوں سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے لگی تھیں جو تاریک رات میں دونوں کے لئے راہنمائی کا کام کر رہی تھیں.جب عباد کا گھر آ گیا تو حضرت اسید کی لاٹھی روشن ہوگئی.(4) پیشگی شہادت کی اطلاع حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ انصار میں سے قبیلہ بنی عبدالا ہل کے تین لوگ ایسے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں میں کوئی ان سے افضل نہیں اور وہ حضرت سعد، حضرت اسید اور حضرت عبادہ ہیں.نبی کریم ﷺ کی حضرت عباد کیلئے رحم کی دعائے خاص کے نتیجے میں جو ایک عظیم الشان مقام انہیں عطا ہوا ، وہ مقام شہادت ہے.انہیں شہادت کا بہت ہی شوق تھا.حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباد نے ایک دفعہ مجھے سنایا کہ میں نے رات خواب میں دیکھا کہ آسمان پھٹا ہے اور میں اس کے اندر داخل ہو گیا ہوں تو وہ جڑ گیا ہے اس رویا سے مجھے یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کا رتبہ عطا فرمائے گا.حضرت ابوسعید کہتے ہیں میں نے کہا ہاں یہ خواب اچھی معلوم ہوتی ہے.چنانچہ جنگ یمامہ میں یہ رویا پوری ہوئی.اس جنگ کے کٹھن امتحان میں حضرت عباد بن بشر نے کمال شجاعت اور مردانگی کا نمونہ دکھایا.حضرت ابوسعید بیان کرتے تھے کہ اس جنگ میں میں نے حضرت عباد گو دیکھا وہ انصار کو دشمن پر حملہ کیلئے بلا رہے تھے اور فرماتے تھے کہ اے انصار دوسرے لوگوں سے نمایاں اور ممتاز ہوکر تلواریں ہاتھ میں لئے میدان میں نکلو.پھر وہ انصار کے گروہ کو دوسرے لوگوں سے الگ کرتے تھے تا کہ ان کی بہادری دوسروں سے جدا ہو کر دنیا کے سامنے آئے ، اور کہتے تھے کہ اے گروہ انصار ! الگ ہو جاؤ.

Page 395

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 381 حضرت عباد بن بشر انصاری رضی اللہ عنہ پھر فرماتے ہمیں الگ کردو ہمارا انصار کا جتھہ الگ سے دشمنان اسلام کا مقابلہ کرے گا.چنانچہ انصار کا ایک ایسا جتھہ ترتیب دیا گیا جس میں ان کے سوا اور کوئی دوسرا نہ تھا ان میں حضرت عباد بن بشر حضرت ابودجانہ اور حضرت براو بن مالک تھے اور یہ سب دشمن پر حملہ آور ہوئے اور فتح پائی مگر اس فتح کیلئے حضرت عباد نے اپنی جان کی قربانی پیش کر دی اور جام شہادت نوش کر نیکی سعادت پائی.حضرت ابوسعید بیان کیا کرتے تھے کہ ”جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت عباد کے چہرے پر تلواروں کے اتنے نشان تھے کہ چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا.ان کے جسم کی ایک علامت سے ان کو پہچانا.یہ 12 ہجری کا واقعہ ہے.35 سال کی عمر میں جوان سال حضرت عباد نے شہادت پائی.(5) حضرت عباد بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا اے انصار کی جماعت !تم میرے ایسے قریب ہو جیسے جسم کا قریبی لباس اور باقی لوگ او پر کا لباس ہیں.“ (6) آج حضرت عباد کے حق ہماری بھی وہی دعا ہے جو آنحضرت ﷺ نے کی تھی اللَّهُمَّ ارْحَمُ عَبَّادًا اے اللہ حضرت عباد پر ہمیشہ اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا رہ! آمین حواله جات -1 -2 -3 نه من جنة -4 -5 -6 استیعاب جلد 1 ص 350 فتح الباری جلد 7 صفحه 94 استیعاب جلد 1 ص 351 ، ابن سعد جلد 3 صفحہ 440 استیعاب جلد 1 ص 351 350 الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد 3 صفحہ 441 استیعاب جلد 1 ص 352

Page 396

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 382 حضرت حرام بن ملحان حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ حضرت حرام بن ملحان کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا.وہ سعادت مند قبیلہ جسے آغا ز اسلام میں ہی آنحضرت ﷺ کی تائید و نصرت کی توفیق ملی.والدہ ملیکہ بنت مالک تھیں.وہ اُس اخلاص پیشہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ اپنے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی پر فدا کر دیا تھا.ان کی ایک بہن حضرت ام سلیم تھیں جو ابوطلحہ انصاری کی اہلیہ تھیں ان کے صاحبزادے انس بن مالک خادم رسول ہیں.جنہیں دس سال تک نبی کریم ﷺ کی خدمت کی توفیق ملی گویا حضرت حرام حضرت انس بن مالک کے ماموں تھے.خود ان کی بہن ام سلیم خاندان نبوی اور آنحضرت ﷺ کی ازواج اور آپ کے گھر کی خدمات میں پیش پیش ہوتی تھیں.آنحضرت کی عاشقہ صادقہ تھیں.(1) ان کی دوسری بہن حضرت ام حرام محضرت عبادہ بن صامت کی اہلیہ تھیں جن کی خواہش پر آنحضرت نے اُن کے حق میں خاص دعا کی.جس کے طفیل انہیں سمندر پار سفر کرنے کی سعادت اسلامی بحری بیڑے میں میسر آئی.(2) ہجرت مدینہ کے ابتدائی دور میں حضرت حرام بن ملحان کی شہادت کا واقعہ نہایت ہی عظیم الشان ہے.جس میں آپ نے ایک حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی.وہ مدینہ میں حضور علیہ کے فیض محبت سے تربیت یافتہ تھے.اس زمانہ میں جس قدر قرآن شریف نازل ہو چکا تھا.اسے حفظ کر کے انہوں نے قاری کا لقب پایا.دیگر نو جوانوں کو بھی قرآن شریف سکھاتے تھے اور اصحاب صفہ جو مسجد نبوی کے ایک مسقف چھتر نما چبوترہ میں رہتے تھے اُن کی خدمات میں آپ پیش پیش ہوتے تھے، اُن کے لئے پانی بھر کے لاتے ، خوراک کا بندو بست کرتے ہلکڑیاں کاٹ کر بیچتے اس سے خوراک کا انتظام کرتے اور ان کمزور اور فقراء صحابہ کی خدمت میں صرف کر دیتے.اور انہیں لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے.(3) دعوت الی اللہ کی راہ میں جان کی قربانی ایک دفعہ قبیلہ بنی عامر کا ایک وفدا اپنے سردار عامر بن الطفیل کی سرکردگی میں آنحضرت

Page 397

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 383 حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، وہ خود تو مسلمان نہ ہوا مگر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں تبلیغ اسلام کے لئے آپ کچھ لوگ بھجوائیں جو ہمیں دین اسلام سکھائیں تا کہ ہمارے قبیلے کے لوگ بھی اسلام میں داخل ہوسکیں.ان قبائل میں بھی اسلام کا پیغام نہیں پہنچا تھا.حضور نے فرمایا کہ مجھے اہل نجد سے خدشہ ہے کہ انہیں نقصان نہ پہنچائیں.اس نے کہا اس کا میں ذمہ دار ہونگا اور میری امان ہوگی.(4) حضور نے از راہ احتیاط بجائے ایک یا دو افراد کو بھجوانے کے ستر افراد پر مشتمل ایک قافلہ تیار کیا اور حضرت حرام بن ملحان کو اُن کا امیر مقرر فرمایا اور یہ قافلہ بنی عامر کی طرف روانہ ہوا.جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو حضرت حرام بن ملحان نے محسوس کر لیا کہ معاملہ کچھ دگرگوں ہے اور ان مخالفین اسلام نے ہمیں دھوکہ دے کر تبلیغ اور تعلیم قرآن کے نام پر بلایا ہے.حالانکہ وہ ان کے خون کے پیاسے ہیں اور موقع پاکر ان کی جانیں لینا چاہتے اور مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.حضرت حرام نے یہ محسوس کر کے اپنے قافلے کو بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہم سب وہاں اکٹھے جا کر پیغام نہ پہنچائیں تاکہ سارے کے سارے ان کے گھیرے میں نہ آجائیں بلکہ ایک بڑا گروہ پیچھے موجود رہے.پہلے میں خود اور میرا ایک ساتھی آگے پیغام پہنچانے کے لئے جائیں گے اگر تو وہ ہمارے ساتھ حسن معاملہ کریں اور محبت و امن سے پیش آئیں تو پھر باقی لوگ بھی آگے آجائیں اور پیغام اسلام کا فریضہ ادا کریں اور اگر ہمارے ساتھ ہی ان کا معاملہ اچھا نہ ہوا، تو پھر جو لوگ پیچھے ہونگے ان کو حسب حال فیصلہ کرنا ہوگا.یہ ایک نہایت دانشمندانہ اقدام اور عمدہ حکمت عملی تھی جو حضرت حرام بن ملحان نے پیش آمدہ حالات میں مرتب فرمائی.اس فیصلہ کے مطابق وہ آگے بڑھ کر اسلام کا پیغام پہنچانے لگے.اسی دوران بنی عامر کے سردار نے اپنے بعض ساتھیوں کو اشارہ کیا.وہ نیزوں کے ساتھ حضرت حرام بن ملحان پر حملہ آور ہو گئے.نیزہ ان کے گلے کی رگ میں پیوست ہوا اور خون کا ایک فوارہ چھوٹا.حضرت حرام بن ملحان نے اپنے ہاتھ سے اوک بنائی.اس میں وہ خون لے کر اپنے چہرے پر چھڑ کا اور بآواز بلند دو دفعہ یہ نعرہ بلند کیا.فزت وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.بعد میں وہ حالات اور واقعہ دیکھنے والے لوگوں نے بیان کیا کہ ہم حیران ہو کر کہتے تھے کہ اس شخص کی

Page 398

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 384 حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ عجب حالت ہے نیزہ لگنے کے بعد جب اس کی موت یقینی ہے اور خون بہہ رہا ہے.یہ کیسا شخص ہے کہ اپنی ہلاکت پر کامیابی کے نعرے بلند کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.انہیں کیا معلوم کہ وہ کامیابی جس کا اعلان حضرت حرام بن ملحان کر رہے تھے ، یہ خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی جان کی قبولیت اور شہادت کا مرتبہ اور اعزاز پانے کی قربانی تھی ، جو خدا تعالیٰ کے دربار میں مقبول ہوگئی.اس کے بعد بنی عامر قبیلہ کے لوگ باقی قافلہ پر حملہ آور ہو گئے سوائے دو افراد کے جنہوں نے بھاگ کر جان بچائی باقی سب اصحاب رسول ﷺ کو انہوں نے تہہ تیغ کر دیا.(5) شہداء بئر معونہ کی دعا اور رسول اللہ اللہ کو ان کی اطلاع یہ تمام اصحاب رسول جو خدا تعالیٰ کی راہ میں پیغام پہنچانے اور دعوت الی اللہ کے لئے نکلے تھے خدا کی راہ میں شہید ہو گئے.یہ واقعہ اسلامی تاریخ میں بئر معونہ کے نام سے مشہور ہے.حضرت حرام بن ملحان اور ان کی ساتھیوں نے اس موقع پر خدا تعالیٰ کے حضور ایک دعا کی کہ اے اللہ ہماری یہ شہادتیں اور ہماری یہ جانی قربانیاں جو تیری راہ میں ہم پیش کر رہے ہیں قبول فرمالے.“ اور اس آخری وقت میں ہماری یہ التجا بھی ہے کہ ہم سب تو یہاں تیری راہ میں جان دے رہے ہیں اور ہمارے آقا آنحضرت ﷺ کو اس واقعہ کا کوئی علم نہیں اور اس سرزمین میں تیرے سوا ہمارا کوئی ہمدردو ہاں خبر پہنچانے والا بھی نہیں.اللَّهُمَّ بَلَغُ عَنَّا نَبِيَّنَا.اے اللہ! ہمارا اسلام اپنے رسول اے تک پہنچا دینا اور انہیں ہماری خبر کر دینا.(6) چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ان جانیں قربان کرنے والوں کی دعا خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں قبول کی کہ حضرت جبریل نے آنحضرت علیہ تک نہ صرف ان صحابہ کا سلام پہنچایا بلکہ اُن کے تمام احوال اور ان کی شہادت کی اطلاع کی کہ وہ راضی برضا ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور اپنی جانوں کی قربانی پیش کر چکے ہیں.یہ اطلاع جب وحی الہی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ تک پہنچی.آپ نے صحابہ کو یہ روح فرسا خبر سنائی.حضور اور آپ کے اصحاب کو اچانک ستر کے قریب صحابہ کی شہادتوں سے بہت رنج و غم بھی ہوا اور تکلیف بھی پہنچی.حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں اس وحی کے الفاظ ( قرآن کی طرح) ایک زمانے تک پڑھا کرتے تھے کہ ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم

Page 399

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 385 حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ اپنے رب سے جاملے ہیں اور وہ ہم سے راضی ہے اور ہمیں بھی اس نے راضی کر دیا ہے.پھر یہ پڑھنا منسوخ ہوا یعنی بوجہ غیر قرآنی وحی ہونے کے اس کی تلاوت صحابہ نے ترک کر دی.حضور تمیں دن تک ان قبائل رعل ، ذکوان ، بنی لحیان اور عصیہ کے بارے میں یہ دعائیں کرتے رہے کہ اے اللہ ان قبیلوں پر جنہوں نے بدعہدی کر کے مسلمانوں پر یہ ظلم ڈھایا ہے.خود اپنی گرفت فرما اور ان کو تو خود پکڑ کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے اور خدائے رحمان کے نافرمان بندے بن کر بد عہدی کے مرتکب ہوئے ہیں.(7) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے تھے کہ ان شہداء کا مرتبہ بہت بلند تھا.حضور نے ان کی شہادتوں کو عظیم اور غیر معمولی قرار دیا.صحابہ بھی کہا کرتے تھے کہ جس شخص کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ وہ کسی کے حق میں یہ گواہی دے کہ وہ خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں تو بئر معونہ کے شہداء پر اسے یہ گواہی دینی چاہیے کہ یہ راہ حق کے شہید ہیں اور وہ ہیں جنہوں نے دعوت الی اللہ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر دیں.(8) گویا یہ وہ با وفا لوگ ہیں جو شہداء کہلانے کے لائق ہیں اور شہادت کے بلند اور عظیم الشان مرتبے جن کو حاصل ہیں.جب مدینہ میں تھے تو عجز اور انکسار کے ساتھ اصحاب صفہ کے غریب صحابہ کی مدد کرتے ، ان کی خدمت کرتے ، ان کو قرآن پڑھاتے تھے اور جب دیگر قوموں کو پیغام حق پہنچانے گئے وہاں راہ خدا میں جامِ شہادت نوش کر لیا.اللہ کی رحمتیں اور فضل ان پر ہوں.

Page 400

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 -2 2 3 4 5 6 7 % -6 -7 -8 386 حواله جات ابن سعد جلد 3 ص 514، اصابہ ج 8 ص 243 بخاری کتاب الجہاد باب غزوة المرأة في البحر مسلم کتاب الامارہ باب ثبوت الجزية للشهيد ابن ہشام جلد 3 ص 184 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجيع مجمع الزوائد جلد 6 ص 127 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجميع ابن سعد جلد 3 ص 515 حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ

Page 401

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 387 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام انصاری نام عبد اللہ بن عمرو بن حرام انصاری رنگ سرخ اور قد درمیانہ تھا.اپنے والد عمر و سے قبیلہ بنو سلمہ کی سرداری ورثہ میں پائی.والدہ رباب بنت قیس تھیں.حضرت جابر انصاری کے والد اور ابو جابر کی کنیت سے معروف تھے.باپ بیٹا دونوں نے عقبہ ثانیہ میں شریک ہوکر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی توفیق پائی اور عبداللہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے قبیلہ کے نقیب اور سردار مقرر ہوئے.(1) قبول اسلام حضرت کعب بن مالک انصاری بیان کرتے ہیں کہ 13ھ میں ( ہم انصار مدینہ حج کیلئے ملکہ گئے تو ) رسول اللہ اللہ کے ساتھ عقبہ میں منی کے درمیانی دن ہماری ملاقات طے ہوئی.جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمارے ساتھ جائڑ کے والد عبد اللہ بن حرام بھی تھے.وہ ہمارے سرداروں اور معززین میں سے تھے.ہم اپنی قوم کے مشرکوں سے اس وقت تک رسول اللہ ﷺ اور اسلام کا معاملہ مخفی رکھ رہے تھے.تب ہم نے ان سے بات کی کہ آپ ہمارے سردار اور معزز انسان ہیں مگر جس شرک پر آپ قائم ہیں ہم اس سے بیزار ہیں.ہم پسند نہیں کرتے کہ آپ اس کے نتیجہ میں جہنم کا ایندھن بنیں.پھر ہم نے انہیں اسلام کے بارہ میں بتایا اور رسول کریم سے عقبہ میں ملاقات کا ذکر کیا.انہوں نے بھی ہمارے ساتھ بیعت عقبہ میں شریک ہو کر اسلام قبول کر لیا اور اپنے قبیلہ بنوسلمہ کے نقیب مقرر ہوئے.(2) صلى الله رسول کریم ﷺ سے محبت حضرت عبد اللہ بن عمرو نے عقبہ میں جو عہد رسول اللہ سے باندھا تھا، اس کا حق خوب ادا کیا.انہیں رسول کریم سے والہانہ عشق تھا.ہجرت کے بعد ابتدائی مدنی دور میں رسول اللہ کی خدمت اور خوشنودی کی خاطر ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے.ایک دفعہ گھر میں کوئی میٹھی چیز کھیر وغیرہ تیار ہوئی.اپنے بیٹے حضرت جابر سے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھی تحفہ پیش کر کے آئیں.جب وہ

Page 402

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 388 حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی اللہ عنہ واپس آئے تو پو چھا رسول کریم نے کچھ فرمایا بھی تھا؟ انہوں نے بتایا کہ حضور نے پوچھا تھا کہ جابر! گوشت لائے ہو؟ حضرت عبداللہ نے کہا اچھا میرے آقا کو گوشت کی خواہش ہے.اسی وقت اپنے گھر کی بکری ذبح کی اور بھنا ہوا گوشت تیار کر کے حضور کی خدمت میں بھجوایا.رسول کریم کی زبان مبارک سے انصار اور ان کے خاندان کیلئے دل سے خاص دعا نکلی.آپ نے فرمایا اے انصار اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا کرے.خاص طور پر عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کے خاندانوں کو‘ (3) غزوات میں شرکت حضرت عبداللہ کو غزوہ بدر میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی.اسی طرح غزوہ احد میں بھی شریک ہوئے اور خدا کی راہ میں اپنی جان کی قربانی کی خواہش لے کر گئے.اپنی کم سن نوجوان لڑکیوں کے یتیم ہونے کا خوف انہیں اس عظیم سعادت سے روک نہ سکا.معلوم ہوتا ہے انہیں کسی رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت شہادت کی اطلاع دے دی تھی.میدان احد میں جاتے ہوئے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ ” مجھے امید ہے کل سب سے پہلے مجھے شہادت کی سعادت عطا ہو گی.میری موت کے بعد تم اپنی بہنوں کا خاص خیال رکھنا اور یہود کے قرض میرے کھجور کے باغات میں سے ادا کر دینا.(4) شہادت حضرت عبد اللہ کا سچا جذبہ شہادت خدا کے ہاں ایسا مقبول ٹھہرا کہ غزوہ احد میں مسلمانوں میں سب سے پہلے وہی شہید ہوئے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد اور ماموں احد میں شہید ہوئے تو میری والدہ ان کی نعشیں اٹھا کر مدینہ لے آئیں.پھر نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد معلوم ہوا کہ شہداء احد کو ان کی شہادت کی جگہ ہی دفن کرنا ہے تو انہیں واپس لے جا کر وادی احد میں دفن کیا گیا.(5) تدفین

Page 403

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 389 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ کے برادر نسبتی اور جگری دوست حضرت عمرو بن جموح بھی شہادت کی تمنالئے احد میں آئے اور پھر زندہ واپس نہیں لوٹے.نبی کریم نے ان دونوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا یہ دونوں بھائی دنیا میں بھی اکٹھے تھے اور باہم محبت کرتے تھے ان کو ایک قبر میں دفن کیا جائے.چنانچہ وہ ایک ہی قبر میں دفن ہوئے.‘ (6) حضرت جابرا اپنے والد کی اکلوتی نرینہ اولا د اور ساتھ بہنوں کے بھائی تھے.طبعا والد کی جدائی کا صدمہ بھاری تھا.شہادت کے بعد والد کے چہرہ سے کپڑا اٹھا کر بار بار دیکھتے انکا بوسہ لیتے اور روتے جاتے.ان کی پھوپھی فاطمہ بھی رونے لگیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” ان کی موت پر نہ ردو فرشتوں نے اپنے پروں سے ان کو سایہ کر رکھا ہے.“ (7) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد اور ماموں اکٹھے دفن کئے گئے تھے.میرا دل اس پر مطمئن نہ تھا.چنانچہ چھ ماہ بعد انہیں قبر سے نکال کر الگ دفن کیا گیا.دیکھا نعش صحیح سلامت تھی، سوائے کان کے معمولی گوشت کے جو کھایا گیا تھا.ایک دفعہ سیلاب آنے پر قبر کھل گئی تو دیکھا کہ جیسے حضرت عبداللہ آرام کی نیند سوئے ہیں.تدفین کے وقت انہیں ایک چادر میں کفن دے کر چہرہ اس سے ڈھانک کر پاؤں پر گھاس ڈالی گئی تھی اور وہ ویسے کے ویسے تھے.(8) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی خاطر ایسے خارق عادت نشان بھی دکھا دیتا ہے.دوبارہ شہادت کی خواہش حضرت عبد اللہ کی وفات کے بعد رسول کریم ﷺ نے حضرت جاڑا کو مغموم پا کر تعزیت فرمائی اور پوچھا مغموم کیوں ہو آؤ میں تمہیں خوش کروں اور بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کر کے سامنے بٹھایا اور فرمایا مجھ سے جو چاہو خواہش کرو میں تمہیں عطا کروں گا.حضرت عبداللہ نے عرض کیا اے میرے رب ! ہم نے تیری بندگی کا حق تو ادا نہیں کیا.اب تیرے سامنے خواہش کس منہ سے پیش کریں.“ پھر کہا ” بس اب تو اگر کوئی خواہش ہے تو یہی کہ مجھے پھر دنیا میں لوٹا دے تا کہ پھر تیرے نبی کے ساتھ ہو کر دشمن کا مقابلہ کروں اور ایک دفعہ پھر شہید ہو کہ آؤں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا

Page 404

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 390 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی اللہ عنہ میں اپنی کتاب میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ جنہیں ہم ایک دفعہ موت دے دیں وہ لوٹائے نہیں جاتے.دوسری روایت میں حضرت جابر کے چچا کے ساتھ بھی اسی سلوک کا ذکر ہے.(9) خوشخبری ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ نے عرض کیا کہ اے میرے رب ! جو ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انہیں ہمارے اس بلند مقام شہادت سے اطلاع فرما دے ( تا انہیں بھی اطمینان ہو ) اس پر سورۃ آل عمران کی آیات 170 تا 172 نازل ہوئیں جن میں یہ ذکر ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ عطا کیا ہے اس پر وہ خوش ہوتے ہیں اور اپنے پچھلوں کی وجہ سے جو ابھی ان سے نہیں ملے ،خوش ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ ھمگین ہیں.(10) -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 حواله جات ابن سعد جلد 3 ص 620،561 مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 461 مجمع الزوائد جلد 9 ص 317 ابن سعد جلد 3 ص 5663، اسد الغابہ جلد 1 ص 256.257 ابن سعد جلد 3 ص 562 مسند احمد جلد 5ص229 بخاری کتاب المغازی وابن سعد جلد 3 ص 561 ابن سعد جلد 3 ص 562 مجمع الزوائد جلد 9 ص 317 اسدالغابہ جلد 3 ص 233

Page 405

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 391 حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن جموح انصاری حضرت عمرو بن جموح انصار کے قبیلہ بنی بشم بن خزرج سے تعلق رکھتے تھے انہیں عقبہ کے موقع پر بیعت کرنے کی سعادت عطا ہوئی.بدر میں بھی شریک ہوئے ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے انہیں قبیلہ بنوسلمہ کا سردار مقررفرمایا.کیونکہ یہ بڑے سخی شخص تھے.اس کی تقریب کچھ یوں پیش آئی کہ انصار کے قبیلہ بن سلمہ کے کچھ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور ﷺ نے پوچھا کہ تمھارا سردار کون ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارا سر دار تو جد بن قیس ہے مگر وہ ہے بڑا بخیل.حضور ﷺ نے فرمایا " بخل سے بری تو کوئی بیماری نہیں.تمہارا سر دار تو عمرو بن جموع جیسا شخص ہونا چاہیے جو بہت ہی سخی انسان ہے“ حضور کا یہ اشارہ ہی وفا شعار انصار کیلئے عمرو بن جموع کی سرداری کا پروانہ ثابت ہوا.تب سے حضرت عمرو بن جموع بالاتفاق اپنے قبیلہ کے سردار مانے گئے چنانچہ انصار کا شاعر یوں نغمہ سرا ہوا.وَقَالَ رَسُولُ اللهِ وَالْحَقُّ قَولُه لِمَنْ قَالَ مِنَّا مَن تَسَمُّونَ سَيِّدِاً یعنی خدا کے رسول نے کیا ہی بیچ فرمایا تھا جب آپ نے ہم سے پوچھا کہ تمہارا سر دار کون ہے؟ فَسُودَعَمُرُو بْنُ الْجُمُوحِ لِجُودِهِ وَحَقٌّ لِعَمُرِو بِالنَّدَى أَن يُسَوَّدَا پھر عمرو بن جموح کو ان کی سخاوت کے باعث سردار مقررکیا گیا اور اپنی سخاوت اور جو دوسخا کی وجہ سے عمر وہی اس بات کے مستحق تھے کہ وہ سردار بنائے جاتے.پھر ان کی سخاوت کا حال یوں کیا ہے.(1) إِذَا جَاءهُ السُّوَّالِ اَذْهَبَ مَالَهُ وَقَالَ خُذُوهُ إِنَّهُ عَائِدٌ غَداً ان کے پاس جب کوئی سوال کرنے والا آتا ہے.وہ اپنے مال کو خدا کی راہ میں لٹا دیتے اور اس سائل کی ضرورت پوری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مال لے جاؤ کہ یہ تو کل پھر لوٹ کر ہمارے پاس واپس آنے والا ہے.

Page 406

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 392 حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ بیٹے کا باپ کو تبلیغ توحید کا انوکھا طریق حضرت عمرو بن جموح کے قبول اسلام کا قصہ بھی بہت ہی دلچسپ اور عجیب ہے.آغاز میں یہ مشرک اور بت پرست تھے اور اپنے گھر میں ہی لکڑی کا ایک بت بنا کر اسے منات کا نام دے رکھا تھا اور اس کی بڑی تعظیم اور پاک صاف رکھتے تھے.بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر بنوسلمہ کے بعض نوجوانوں نے بیعت کی، ان میں حضرت معاذ بن جبل بھی تھے.خود حضرت عمرو کے بیٹے معاذ نے بھی بیعت کرلی تھی.انہوں نے اپنے والد عمرو کو اسلام کی طرف دعوت دینے کی عجیب راہ نکالی.انہوں نے تدبیر یہ کی کہ حضرت عمرو کا وہ بت جسے انہوں نے اپنے گھر میں سجا رکھا تھا ، رات کو اسے وہاں سے اٹھا کر محلہ کے کوڑے کے گڑھے میں پھینک دیتے تھے.عمر ڈ دوبارہ اسے تلاش کر کے اپنے گھر میں لے آتے اور کہتے کہ اگر مجھے اس شخص کا پتہ چل جائے جو میرے بت کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے تو میں اسے عبرت ناک سزا دوں.اگلے دن پھر ان نو جوانوں نے اس بت کے ساتھ وہی سلوک کیا، وہ پھر گڑھے میں الٹا پڑا تھا.عمرو پھر اسے اٹھا لائے.تیسرے دن پھر اس بت کو صاف ستھرا کر کے سجا کے رکھا.ساتھ ہی اپنی تلوار بھی رکھ دی اور بت کو مخاطب کر کے کہا کہ خدا کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ کون تمھارے ساتھ یہ حرکتیں کرتا ہے لیکن اب میں تلوار بھی تمھارے ساتھ چھوڑے جا رہا ہوں.اب اپنی حفاظت خود کر لینا.اگلے دن جب پھر عمرو نے دیکھا کہ بت اپنی جگہ موجود نہیں اور پھر محلہ کے اس گڑھے کے اندر ایک مردہ کتے کے گلے میں وہ بت بندھا پڑامل گیا.عمر و یہ دیکھ کر بہت سٹ پٹائے اور سخت پریشان ہوکر یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ وہ بت جسے میں نے خدا بنا کر رکھا ہوا ہے اس میں تو اتنی قدرت اور طاقت بھی نہیں کہ تلوار پاس ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچا سکے اس نے میری کیا حفاظت کرنی ہے؟ اور طرفہ یہ ایک مردہ کتا اس کے گلے میں پڑا ہوا ہے.پھر یہ خدا کیسے ہو سکتا ہے اور یہی بات ان کے قبول اسلام کا موجب ہوگئی.چنانچہ اس موقع پر اس بت کو مخاطب کر کے انہوں نے جو اشعار کہے اس سے انکی اندرونی کیفیت خوب ظاہر ہوتی ہے.نَا اللَّهِ لَوْ كُنتَ الَهَا لَمْ تَكُنُ أَنْتَ وَكَلْبٌ وَسُطَ بِشِرِ فِي قَرَنْ اے بت !خدا کی قسم اگر تم واقعی سچے خدا ہوتے تو پھر یہ تو نہ ہوتا کہ تم ایک مردہ کتے کے گلے میں بندھے ایک گڑھے میں یوں پڑے ہوتے.

Page 407

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 393 حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ ذِي الْمِنَنِ الْوَاهِبِ الرِّزْقِ وَ دَيَّانِ الدِينِ پس اس احسان کرنے والے بلند و برتر اللہ کی میں تعریف کرتا ہوں جو رزق عطا کرنے والا اور انصاف کرنے والا ہے.(2) انصار میں سب سے آخر میں اسلام قبول کرنے والے عمرو بن جموح تھے لیکن بعد میں آکر وہ کئی پہلوں سے سبقت لے گئے.اور آنحضرت ﷺ اور اسلام کے ساتھ محبت میں بہت بڑھ گئے.رسول کریم ﷺ سے تو انہیں ایک عشق تھا.آپ کی ذاتی خدمات وہ بڑے شوق اور محبت سے بجا لاتے تھے.چنانچہ مدینہ کے ابتدائی دور ہجرت میں ہونے والی حضور علی کی شادیوں کے مواقع پر دلی محبت کے ساتھ آپ اپنی طرف سے دعوت ولیمہ کا اہتمام کرتے تھے.اپنے نسبتی بھائی حضرت عبداللہ بن عمرو کی طرح حضرت عمر و بن الجموح کو بھی غیر معمولی شوق جہاد تھا.شہادت کی تمنا شہادت کی تمنا آپ کے دل میں موجزن تھی.ایک دفعہ عمرو بن جموح آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلا کرتے تھے مگر دل جوان تھا جس میں شہادت کی تمنائیں ہر وقت مچلتی رہتی تھیں.عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید کیا جاؤں تو کیا میں اپنے اس لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آنحضرت نے فرمایا ”ہاں میں یہ امید کرتا ہوں کہ تمھیں اللہ تعالیٰ جنت میں مقام عطا فرمائے گا.پھر احد کے دن یہ شہید ہو گئے.ان کے نسبتی بھائی عبداللہ بن عمرو اور ان کے ایک آزاد کردہ غلام نے بھی جام شہادت نوش کیا.آنحضرت جب عمرو کی نعش کے پاس سے گذرے تو فرمایا اے عمرو میں تجھے جنت میں اپنے صحیح پاؤں کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں.پس حضرت عمرو نے اپنی جسمانی معذوری کے باوجود قربانی کا ایک عجیب نمونہ بعد میں آنے والوں کیلئے چھوڑا.قرآن شریف میں معذوروں کیلئے جہاد سے رخصت ہے مگر عمر و آنحضرت سے بار بار عرض کر کے جہاد میں شامل ہونے کی اجازت لے رہے تھے.بیٹے معذوری کی وجہ سے روکتے تھے مگر یہ کہتے کہ نہیں میں اس جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں.یہ وہ سچا جذبہ ہے جہاد کا جو آج بھی ہر دل میں موجزن ہونا چاہیے.چنانچہ جس

Page 408

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 394 حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ کے موقع پر حضور نے جہاد کی تحریک فرمائی تو عمرہ کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے ان کے بیٹوں نے انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیا.پھر جب احد کا موقع آیا تو عمر ہوا اپنے بیٹوں کو کہنے لگے کہ تم لوگوں نے مجھے بدر میں بھی شامل نہیں ہونے دیا تھا.احد کا موقع آیا ہے تم مجھے نہیں روک سکتے میں لازماً جاؤں گا اور احد میں شامل ہوں گا.اولا د نے والد کی معذوری کے حوالے سے روکنا چاہا تو کہنے لگے.میں خود حضور سے اس کی اجازت لے لوں گا.چنانچہ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرے بیٹے اس دفعہ پھر مجھے جہاد سے روکنا چاہتے ہیں.اور میں آپ کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں.خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دلی مراد قبول کرے گا اور مجھے شہادت عطا فرمائے گا اور میں اپنے اسی لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤں گا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے عمرو! بے شک اللہ تعالیٰ کو آپ کی معذوری قبول ہے اور جہاد تم پر فرض نہیں لیکن ان کے بیٹوں سے فرمایا کہ تم ان کو نیک کام سے روکو نہیں، ان کی دلی تمنائیں اگر ایسی ہیں تو پورا کرنے دو شاید اللہ تعالیٰ انہیں شہادت عطا فرما دے.چنانچہ حضرت عمرو نے اپنے ہتھیار لئے اور یہ دعا کرتے ہوئے میدان احد کی طرف روانہ ہوئے، اللهُمَّ ارزقنِی شَهَادَةً وَلَا تَرُدَّنِي إِلَى أَهِلَى خَائِباً اے اللہ اب مجھے شہادت عطا کرنا اور مجھے اپنے گھر کی طرف ناکام و نامراد واپس لے کر نہ آنا.اس دعا سے ظاہر ہے کہ صحابہ اپنی کامیابی اس بات میں جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ان کی جان کی قربانی قبول ہو جائے اور پھر واقعہ حضرت عمرو نے اپنی یہ خواہش پوری کر دکھائی.وہ میدان احد سے زندہ واپس نہیں لوٹے.ان کی بیوہ حضرت ہنڈاونٹ پر انکی لنعش اٹھا کر مدینہ لے آئیں.اسی جنگ میں حضرت ہند کا بیٹا خلا بھی شہید ہوا اور ان کے بھائی نے بھی جام شہادت نوش کیا تھا.جب نعش مدینہ پہنچی تو حضور نے فرمایا کہ شہداء احد کو میدان احد کے اندر ہی دفن کرنا ہے، چنانچہ حضرت ہنڈان کا جنازہ وا پس میدان احد لے گئیں اور وہیں پر ہی تدفین ہوئی.(3) احادیث میں حضرت عمرو بن جموح سے جو ایک روایت مروی ہے ،اس کا تعلق بھی رضائے الہی سے ہے.گویا راضی برضار ہنا ان کا دل پسند مضمون تھا.وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ایک بندہ اس وقت کامل مومن ہوتا ہے جب وہ کسی سے محبت کرے تو خدا کی

Page 409

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 395 حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ خاطر اور کسی سے ناراض ہو تو خدا کی خاطر اور جب بندہ ایسا کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی عطا کی جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے جو میرے اولیاء اور پیارے بن جاتے ہیں تو جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں تو میں بھی ان کا ذکر کرتا ہوں اور میں ان کو یا درکھتا ہوں.‘(4) رسول کریم ﷺ کی پیار کی نظر حضرت عمرو کو رسول اللہ مے سے بہت محبت تھی.رسول کریم ﷺ کی شادی پر وہی آپ کے ولیمہ کا انتظام کرتے تھے.(5) حضرت عمرو بن جموح اور حضرت عبد اللہ بن عمر و انصاری جان شار اور وفا شعار اصحاب رسول تھے جب شہید ہو گئے تو آنحضرت نے ان کی وفاؤں کو خوب یا درکھا اور فرمایا یہ دونوں بھائی دنیا میں بھی بہت محبت کیا کرتے تھے ان کو ایک ہی قبر میں دفن کرد و چنانچہ احد میں وہ دونوں ایک قبر میں دفن ہوئے (6) اور ان کی قبریں بھی باہمی الفت و محبت کا ایک عجیب نشان بن گئیں.روایت ہے کہ قریباً نصف صدی بعد جب سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں ان بزرگوں کی نعشیں زمین سے باہر نکل آئیں.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ان شہداء کی نعشوں کی ایک عجیب حفاظت کی شان ہم نے دیکھی کہ وہ اس حالت میں تھیں کہ ان کے اندر کوئی تغیر نہیں ہوا تھا.(7) اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ظاہری نشان بھی اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں اور اولیاء کے بارہ میں ظاہر کرتا ہے.-1 -2 - 2 3 4 5 6 N -4 -5 -6 -7 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 93 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 94 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 94 مسند احمد جلد 3 صفحہ 430 اصابه جز2 صفحہ 529 مسند احمد جلد 5 صفحہ 229 حواله جات موطا امام مالک کتاب الجہا د باب الدفن فی قبر واحد

Page 410

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب ابوا 396 حضرت ابی بن کعب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا.ابو المنذ راور الطفیل کی کنیت سے مشہور تھے.ان کی والدہ سہیلہ بنت اسود حضرت ابوطلحہ انصاری کی پھوپھی تھیں.اس لحاظ سے ابی آنحضرت ﷺ کے عاشق ابو طلحہ انصاری کے پھوپھی زاد بھائی ٹھہرے.قد درمیانہ تھا.آخری عمر میں بال سفید ہو گئے مگر ان پر رنگ نہیں چڑھاتے تھے.یہی یک رنگی مزاج کا بھی حصہ تھی.ابتدائی حالات زندگی بہت کم معلوم ہوتے ہیں.مگر اس قدر واضح ہے حضرت ابوطلحہ انصاری کے ہم نشین اور ہم نوالہ وہم پیالہ تھے.قبول اسلام عقبہ ثانیہ کے تاریخی موقع پر انہیں آنحضرت ﷺ کی بیعت میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.حضور علم کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ کی صحبت میں آئے.اس زمانہ میں عام طور پر عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا.مگر ابی بن کعب کتابت کا فن جانتے تھے.اس لئے روایات کے مطابق ہجرت نبوی کے بعد اہل مدینہ میں سب سے پہلے قرآن کریم کی کتابت کی سعادت انہی کو عطا ہوئی.ان کی عدم موجودگی میں حضرت زید بن ثابت یہ خدمت انجام دیا کرتے تھے.رسول کریم ﷺ کے خطوط کی کتابت کرنے کی بھی آپ کو توفیق ملتی رہی.(1) مدینہ آنے کے بعد حضور صلی اللہ نے انصار و مہاجرین میں مؤاخات کا سلسلہ جاری فرمایا.حضرت ابی حضرت طلحہ بن عبید اللہ قریشی کے اسلامی بھائی بنے.بعض روایات میں حضرت سعید بن زید کا بھائی بننے کا ذکر بھی آتا ہے.غزوات میں شرکت حضرت ابی کو غزوات میں بھی شرکت کا موقع ملا.چنانچہ بدر، خندق ، اور دیگر غزوات میں بھی آپ شامل ہوئے.(2)

Page 411

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 397 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ غزوہ احزاب کے موقع پر ایک کاری زخم آپ کو لگا جس کے نتیجے میں رگ کٹ گئی.حضوراکرم نے ان کا علاج داغنے کے ذریعے کروایا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے شفایاب ہوئے.(3) قبول اسلام کے بعد فن کتابت کے ہنر کے باعث بھی آپ کو غیر معمولی طور پر حضور اکرم ہے کی صحبت اور رفاقت کی نعمت عطا ہوئی.مدینہ کے ابتدائی زمانہ میں مختلف اہم مواقع پر حضور ﷺ کی معیت کا شرف حاصل ہوتا رہا.قاری قرآن آنحضرت کے فیض صحبت سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا.سب سے بڑی سعادت قرآن شریف سیکھنے لکھنے اور یاد کرنے کی تھی.یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ نے آپ کو بہترین قاری کی سند عطا فرمائی.حضور نے مدینے میں جن چار قراء سے بطور خاص قرآن شریف سیکھنے کی ہدایت مسلمانوں کو فرمائی ان میں حضرت ابی بن کعب بھی شامل تھے.آپ کی قرآن شریف کی قراءت اور حفظ نہایت عمدہ تھا.ایک موقع پر حضور مفجر کی نماز پڑھا رہے تھے.حضرت ابی قدرے تاخیر سے نماز میں شامل ہوئے.اس دوران حضور ﷺ سے کوئی آیت پڑھنے سے رہ گئی مقتدیوں میں کسی کی توجہ ادھر نہ ہوئی.حضرت اُبی نے نماز ختم ہونے کے بعد نہایت ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول گیا قرآن شریف کی کوئی آیت منسوخ ہو گئی ہے یا حضور ﷺ پڑھنا بھول گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں کوئی آیت تو منسوخ نہیں ہوئی.میں اس کا پڑھنا بھول گیا تھا.یوں ان کا انتقانِ حفظ حضور نے قبول فرمایا.(4) ایک دفعہ حضرت ابی کی ایک شخص سے تکرار ہوگئی جو قرآن شریف کسی اور لہجہ میں پڑھتا تھا حضرت ابی نے کہا کہ مجھے تو آنحضرت علیہ نے اس طرح پڑھایا ہے.اس نے اصرار کیا کہ میں نے حضور کے سامنے اسی طرح پڑھا اور حضور ﷺ نے مجھے منع نہیں فرمایا.حضرت ابی ان کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اللہ آپ نے مجھے فلاں آیت یوں پڑھائی ہے اور یہ صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے دوسرے لہجے میں یہ آیت سن کر منع نہیں فرمایا.حضور نے دونوں سے قرآن کی وہ آیت سنی اور فرمایا کہ دونوں نے ٹھیک پڑھا ہے.حضرت ابی

Page 412

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 398 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے بھی ٹھیک پڑھا اور اس نے بھی ٹھیک پڑھا ہے؟ تب حضور نے ابی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا کی اللَّهُمَّ اذهِبُ عَن أَبي شَكَّا کہ اے اللہ ابی کے دل سے شک دور کر دے.(5) حضور ﷺ کی مراد صحت تلفظ کے بارہ میں وسوسہ کی حد تک احتیاط یا دورانِ قراءت اس غلو سے تھی جو مناسب نہیں.اسی طرح سہولت کی خاطر جو مختلف قرا اُتوں کی رخصت آغاز میں تھی اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف اشارہ بھی تھا اور یہ سبق بھی کہ قرآن دنیا کی ساری قوموں کے لئے ہے جو اسے پڑھیں گے.پس جسے جتنی بھی سہولت ہے اور اس کی زبان پر جیسے لفظ ادا ہوتا ہے اس کوشش سے یہ حق ادا ہو جاتا ہے تو اس میں بہت سختی جائز نہیں.رسول اللہ سے تحصیل علم قرآن رسول اللہ ﷺ کی صحبت اور فیض کی برکت سے حضرت ابی کو تعلق باللہ میں ایک خاص مقام حاصل ہوا.جس کا اظہار اس واقعہ سے خوب ہوتا ہے.ایک دفعہ آنحضرت نے حضرت ابی سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں سور مہینہ کی تلاوت آپ کو سناؤں.حضرت ابی حیران و ششدر تھے اور خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ نے میرا نام لے کر فرمایا ہے کہ میں آپ کو قرآن شریف کی تلاوت سناؤں.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جبریل نے مجھے کہا کہ آپ کے رب کا ارشاد ہے کہ آپ یہ سورۃ ابی بن کعب کو سنائیں اور ملا علی میں تمہارا ذ کر اپنے نام اور نسب کے ساتھ ہوا.کہنے لگے کیا تمام جہانوں کے رب کے حضور میرا نام لے کر ذکر ہوا.آنحضرت نے فرمایا ہاں اللہ نے آپ کا نام لے کر مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے.حضرت ابی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے.پھر رسول اللہ علہ نے حضرت ابی گوسورہ بینہ کی تلاوت سنائی.(6) ترمذی کی روایت سے مزید یہ اشارہ ملتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو حضرت ابی کے سامنے بطور خاص سورۃ بینہ پڑھ کر سنانے میں حکمت دراصل اس کے بعض اہم مضامین کی طرف ان کو توجہ دلانا تھی.چنانچہ حضور نے انہیں سورہ بینہ سناتے ہوئے بعض جگہ رک کر کچھ زائد کلمات بطور تفسیر بھی ارشاد فرمائے.جیسے یہ جملہ کہ اب اللہ کے نزدیک اصل دین یہودیت ، عیسائیت اور مجوسیت نہیں بلکہ موحد دین اسلام ہے.آیت 7 میں الفاظ دین القیمہ “ کی تفسیر معلوم ہوتا ہے، اسی طرح

Page 413

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 399 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آیت 10,9 میں عمل صالح کرنے والوں کی جزا کا ذکر ہے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ جوشخص بھی نیکی کرے گا اس کی ناقدری نہ کی جائے گی.اور آخری آیت میں اپنے رب کی خشیت اختیار کرنے کا ذکر تھا جس میں دنیا داری اور مال روک بن سکتا ہے.اس کی تفسیر میں فرمایا اگر ابن آدم کے لئے مال کی ایک وادی ہوتو وہ اس کے ساتھ دوسری وادی چاہے گا اور اگر دوسری وادی مل جائے تو تیسری کا تقاضا کرے گا.اور ابن آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی چیز نہیں بھرتی اور اللہ تعالیٰ اس پر رجوع برحمت ہوتا اور تو بہ قبول کرتا ہے جو خود جھکتا اور خشیت اختیار کرتا ہے.(7) پس یہ رسول اللہ کی برمحل تفسیر کا بیان تھا نہ کہ سورۃ بینہ میں کوئی اضافہ جو بعد میں منسوخ ہو گیا جیسا کہ بعض لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں.آپ کے ایک شاگر د عبدالرحمن کہتے تھے کہ میں نے ابی سے عرض کیا کہ یہ بات سن کر تو آپ بہت خوش ہوئے ہونگے.حضرت اُبی نے کہا کہ تو کیا مجھے خوش نہیں ہونا چاہیے تھا؟ جبکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا (یونس: 59) اللہ کے فضل اور اس کی رحمتوں کو یاد کر کے خوش ہوا کرو اور اتنے بڑے فضل الہی اور رحمت خداوندی پر کہ بارگاہ الہی میں میرا ذ کر ہوا میں کیونکر خوش نہ ہوں.(8) یہ سعادت بھی حضرت ابی کو عطا ہوئی کہ حضور علمی لحاظ سے ان کی تربیت کے ساتھ ان کا امتحان بھی کرتے رہتے تھے.چنانچہ ایک موقع پر حضور نے حضرت ابی سے پوچھا کہ قرآن شریف کی کونسی آیت ایسی ہے جسے سب سے عظیم کہا جانا چاہیے؟ حضرت اُبی نے کمال ادب سے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.مگر جب حضور نے اصرار سے پوچھا تو حضرت ابی نے عرض کیا یا رسول اللہ آیت الکرسی ایسی آیت ہے جسے قرآن کریم کی عظیم آیت کہنا چاہیے.آنحضور ﷺ نے حضرت ابی کو اس موقع پر دربار رسالت سے سند علم عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ابی اللہ تیر علم مبارک کرے.واقعہ آیت الکرسی ہی قرآن کی عظیم آیت ہے.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.یہ وہ آیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی بادشاہت ، قدوسیت اس کی شان اور عظمت بیان کرتی ہے.آپ نے فرمایا گویا اس سورت کی زبان اور ہونٹ ہیں جن سے اُس خالق کا ئنات کی تقدیس

Page 414

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 400 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عظمت بیان کرتی ہے.حضرت ابی کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم نے اپنی وفات کے سال ان کے ساتھ سارے قرآن کا دور کیا اور فرمایا کہ ”جبریل نے مجھے کہا ہے کہ میں سارا قرآن آپ کو سناؤں اور وہ آپ کو سلام کہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابی حضرت عمرؓ سے کہا کرتے تھے کہ میں نے اس سے قرآن سیکھا جس نے جبریل سے تازہ بتازہ قرآن سیکھا.(9) اطاعت رسول ج نبی کریم ﷺ کو حضرت ابی کے ساتھ جو محبت تھی اس کا اظہار اس واقعہ سے خوب ظاہر ہے.آنحضور حضرت ابی کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں آواز دی.حضرت ابی اُس وقت نماز میں مصروف تھے.حضور ﷺ کی آواز سنتے ہی نماز مختصر کی اور سلام پھیر کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.آنحضرت ﷺ نے تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں نماز میں تھا.حضور ﷺ کی آواز سنتے ہی نماز مختصر کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں.آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمُ (الانفال : 25) کہ اے مومنو اللہ اور اس کا رسول جب تمہیں بلائیں تو لبیک کہتے ہوئے اس کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرو.اس لئے جب میں نے تمہیں آواز دی تو چاہیے تھا کہ نماز چھوڑ کر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جاتے.حضرت ابی نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ غلطی معاف ہو آئندہ انشاء اللہ ایسانہ ہو گا.پھر حضور علی نے از راہ شفقت فرمایا اے آئی ! کیا میں تمہیں ایک ایسی سورۃ نہ سکھاؤں جو توریت، انجیل اور زبور میں بھی موجود نہیں ، نہ ہی خود فرقان مجید میں ایسی کوئی سورۃ موجود ہے اور وہ سورۃ فاتحہ ہے.یہ وہ سات آیات ہیں جو اپنے مضامین اور معانی کے لحاظ سے قرآن عظیم کہلانے کی مستحق ہے.) عالم بالعمل حضرت ابی بن کعب ایک عالم باعمل انسان تھے.نہایت التزام کے ساتھ پنجگانہ نمازیں آنحضرت ﷺ کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے.ایک روز نماز فجر کے بعد کا ذکر کرتے ہیں آنحضرت

Page 415

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 401 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نماز سے غیر حاضر لوگوں کے بارے میں پوچھا کہ کیا فلاں فلاں شخص نماز پر آئے ہیں؟ عرض کیا گیا وہ حاضر نہیں ہیں.آپ نے فرمایا دو نمازیں فجر اور عشاء منافقوں پر بہت بھاری ہیں اور اگر ان کو علم ہو کہ ان نمازوں کا کتنازیادہ ثواب ہے تو وہ ضروران نمازوں میں حاضر ہوں.خواہ انہیں اپنے گھٹنوں کے بل آنا پڑے.(11) ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت ابی سے سوال کیا کہ ہمیں دوران سفر ایک چانک ملا ہے.اس کا کیا کریں؟ حضرت ابی بن کعب نے کیا خوب جواب دیا کہ یہ تو ایک کوڑا ہے.مجھے ایک دفعہ سودینار ملے تھے اور میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ ایک گم شدہ چیز ہے ملی ہے.آنحضور نے فرمایا کہ ایک سال تک اعلان کرتے رہو کہ جس کسی کے ہوں وہ لے لے.ایک سال تک اعلان کے باوجود جب کوئی مالک نہ آیا تو میں وہ دینار لے کر حضور کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا.حضور علیہ نے فرمایا کہ ایک سال اور اعلان کرو.چنانچہ مزید ایک سال اعلان کر کے پھر تیسری مرتبہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺے دوسرے سال بھی اعلان کے بعد اس کا کوئی مالک نہیں آیا.فرمایا ایک سال اور اعلان کرو.تیسرے سال اعلان کے بعد بھی جب کوئی نہیں آیا تو انہوں نے آنحضور ﷺ سے چوتھی مرتبہ پوچھا.آپ نے فرمایا اب بیشک یہ دینار اپنے استعمال میں لے آؤ.یوں حضرت ابی نے سائل کو اپنے عملی نمونہ سے بتایا کہ اس واقعہ سے سبق حاصل کرو.(12) حضرت ابی بن کعب جو خود بھی پنجگانہ نمازوں کا خاص التزام رکھتے تھے یہ واقعہ بھی بیان کرتے تھے کہ ایک صحابی مسجد نبوی سے دور مدینہ کے کنارے پر رہتے تھے لیکن جذ بہ واخلاص ایسا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کے شوق میں پانچوں نمازیں مسجد نبوی میں آکر ادا کرتے تھے.شدید گرمی ہو یا شدید سردی وہ طویل فاصلہ پیدل طے کر کے نماز کیلئے حاضر ہوتے.مجھے ان کی حالت پر ترس آتا.ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کوئی سواری گدھا وغیرہ ہی خرید لیتے جس سے پیدل چلنے کی مشکل آسان ہو جاتی.اس صحابی نے بھی کیا خوب جواب دیا کہ میری تو یہ تمنا ہے کہ مسجد آتے جاتے میرا ہر قدم اجر وثواب کا موجب ہو جائے.آنحضرت ﷺ کو جب اس شخص کی

Page 416

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 402 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نیک خواہش کا علم ہوا تو فرمایا ” اس شخص کی پر خلوص نیت قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کا اجر و ثواب اس کے حصے میں جمع کر دیا ہے.“ مستجاب الدعوات حضرت ابی بن کعب دعا گو انسان تھے.حضرت عمر بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم ایک سفر میں حضرت ابی کے ساتھ قافلہ کے آخر میں تھے کہ بادل امڈ آئے ، حضرت ابی نے دعا کی کہ اے اللہ ! اس بادل اور بارش کی اذیت سے ہمیں محفوظ رکھنا.آگے گئے تو قافلہ کے اگلے حصے کے کپڑے اور پالان بارش سے بھیگ چکے تھے انہوں نے ہم سے پوچھا کہ تمہارے کپڑے خشک ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا حضرت ابی کی دعا کی برکت سے اور تم نے بھی ہمارے ساتھ دعا کی ہوتی تو اس کی برکت سے فائدہ حاصل کرتے.ایک دفعہ حضرت ابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ بخار وغیرہ تکلیف کے آنے پر مومن کو کیا جز املتی ہے فرمایا نیکیوں کی صورت میں بدلہ ملتا ہے.حضرت ابی نے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے ایسا بخار دے دے جو تیری راہ میں جہاد اور بیت اللہ اور مسجد جانے سے روک نہ بنے.چنانچہ حضرت ابی کو ہمیشہ بخار رہتا تھا.(13) عشق رسول الله حضرت ابی رسول اللہ اللہ کے عاشق صادق تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی متنبہ کرنے والی آواز اور بڑے دل ہلا دینے والے جملے سے ہمیں رات کو تہجد کے لئے بیدار کیا کرتے اور فرماتے تھے’ دیکھو! ایک لرزہ پیدا کر دینے والی گھڑی آیا چاہتی ہے.موت سر پر کھڑی ہے اُٹھو اور اپنے رب کی بندگی بجالاؤ.اللہ کو یاد کرو تب ہم اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے.(14) ایک دفعہ حضرت ابی نے رسول اللہ سے ایک عجیب عاشقانہ رنگ میں پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! میں جب بھی دعا کرتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ آپ کی ذات پر درود بھیجوں.اگر دعا کا چوتھا حصہ میں درود پڑھا کروں تو کیا مناسب ہوگا؟ حضور نے فرمایا جتنا تمہارا جی چاہے

Page 417

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 403 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ درود پڑھو.چاہو اس سے زیادہ بھی پڑھ سکتے ہو.حضرت ابی نے حوصلہ پاکر عرض کیا یا رسول اللہ اگر اپنی دعا سے آدھا وقت درود پڑھوں تو کیا یہ مناسب ہوگا.حضور نے فرمایا ” جتنا چاہو پڑھو.اس سے زیادہ پڑھ لوتو اور اچھا ہے.ابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺہ اگر میں دعا میں دو تہائی حصہ درود شریف میں گزار دوں تو کیسا ہے؟ فرمایا جتنا چاہو پڑھو اور چاہو تو اس سے بھی زیادہ پڑھ سکتے ہو.تب حضرت ابی کے دل کی تمنا ان کی زبان پر آگئی عرض کیا یا رسول اللہ میرا تو دل کرتا ہے کہ میں اپنی دعا میں صرف درود ہی پڑھتا رہوں.حضور نے فرمایا ”اگر تم اپنی دعا کا زیادہ وقت درود میں گزارو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ہم و غم کا خود متکفل ہو جائے گا.تمہارے تمام گناہ بخشے جائیں گے اور یہ بات خدا کے حضور تمہارے لئے بلندی درجات کا موجب ہوگی.‘ (15) حضرت ابی بن کعب کو قرآن شریف سے بھی بہت محبت تھی.روایات میں آتا ہے آپ ایک ہفتہ میں قرآن شریف کا دور مکمل کر لیا کرتے تھے.(16) علم قرآن ایک موقع پر حضرت ابی نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ جب آپ موجود نہیں ہوتے تھے.میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اکتساب علم کرتا تھا.حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ نے آپ کو علم عطا فرمایا ہے پس آپ لوگوں کو علم سکھایا کریں.چنانچہ آپ باوجود اپنی مصروفیات عبادت کے لوگوں کی تعلیم کی خاطر وقت نکالا کرتے تھے.حضرت ابی کی قرآت رسمی نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ گہری نظر اور تدبر سے قرآن شریف پڑھتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ قرآن شریف کی آیت لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءِ من بَعْدُ ( الاحزاب: 53) یعنی اس کے اور تیرے لئے اور عورتیں جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان کے بدلے تو اور بیویاں کرلے.کے مطابق آنحضرت کو اپنی موجود بیویوں کے علاوہ کسی اور سے نکاح کی اجازت نہیں تھی.اگر حضور کی یہ ازواج مطہرات آپ کی زندگی میں فوت ہو جاتیں تو کیا پھر بھی یہ ممانعت قائم رہتی.حضرت ابی نے جواب دیا کہ قرآن شریف کی ایک اور آیت کے مطابق آنحضور کو اس صورت میں نکاح کا حق حاصل تھا.حضرت ابی بن کعب کی نظر غالبا اس آیت پر ہوگی وهَبَتْ

Page 418

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 404 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ (الاحزاب: 51) یعنی اگر کوئی عورت اپنے آپ کو نبی کے لئے ہبہ کردے اور نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.یہ اجازت عام مومنوں کے لئے نہیں صرف نبی کیلئے خاص ہے.(17) سورۃ سجدہ کی آیت ہے وَلَنُذِيقَلَهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْلى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ (السجدہ :22).یعنی ہم ان کو قریب کا عذاب چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے.اس کی تفسیر حضرت ابی یہ کرتے تھے کہ قریب کے عذاب سے مراد دنیا کے مصائب ہیں جو اس دنیا میں ان پر وارد ہوتے ہیں.(18) امانت و دیانت حضرت ابی صدق اور راستی پر قائم اپنے عہدوں اور امانتوں کے حق ادا کرنے والے تھے.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر آپ کو محصل زکوۃ مقرر فرما کر مدینہ کے نواحی قبائل بنی عذرہ اور بنی سعد میں بھجوایا.حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے وہاں جا کر ز کوۃ وصول کی.واپسی پر مدینہ کے قریب ایک ایسے مخلص مسلمان سے واسطہ پڑا جس کے تمام اونٹوں پر ایک ایک سالہ اونٹنی زکوۃ میں بنتی تھی.میں نے اس سے کہا کہ یک سالہ اونٹنی دے دو.اُس نے کہا آپ یک سالہ اونٹنی لے کر کیا کرو گے؟ نہ تو اس پر سوار ہوا جائے نہ بوجھ لادا جائے.میں آپ کو زکوۃ میں بڑی عمر کی بہتر اونٹنی دے دیتا ہوں جو کسی کام بھی آئے.حضرت ابی بن کعب جو آنحضرت کے تربیت یافتہ تھے.کہنے لگے میں تو محض ایک امین ہوں.مجھ سے یہ نہ ہوگا.ادھر وہ مخلص بھی اپنے اخلاص اور قربانی پر مصر تھا.انہوں نے کہا کہ پھر تم خود آکر حضور کی خدمت میں اونٹنی پیش کر دو.میں تو حق کے مطابق ہی لوں گا.چنانچہ وہ صحابی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ کا متصل ہمارے پاس آیا.میں اپنے حق سے بڑھ کر زکوۃ دینا چاہتا تھا مگر انہوں نے قبول نہیں کی.حضور ان کی قربانی پر خوش ہوئے.اور فرمایا " اگر آپ خوش دلی سے ایسا کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا اور اسطرح حضور نے ان کی یہ قربانی قبول فرمائی.(19) حضرت ابی بن کعب ایک بلند پایہ عالم انسان تھے.کئی صحابہ ان سے احادیث روایت کرتے

Page 419

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 405 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں.ان روایات کے تنوع سے حضرت ابی گا بلند علمی ذوق خوب ظاہر ہوتا ہے.مثلاً دجال کے بارے میں حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت کہ اس کی ایک آنکھ بہت تیز روشن ہوگی مصفے آئینہ کی طرح.یوں دجال کی بائیں آنکھ (یعنی دنیاوی بصیرت) کا تیز ہونا اور دنیاداری میں اس کی ہوشیاری اور دین کے لحاظ سے دائیں آنکھ سے محرومی کے مضمون کی طرف ابی بن کعب نے اشارہ کر دیا.(20) ختم نبوت کا مضمون بھی حضرت ابی نے ایک روایت میں بیان کیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء پر یہ نعمت نبوت جس طرح کمال اور اتمام کو پہنچی اسے خود آنحضرت نے ایک خوبصورت مثال میں یوں بیان فرمایا کہ نبیوں میں میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک خوبصورت گھر بنایا مگر ایک اینٹ کی جگہ اس میں خالی چھوڑ دی.لوگ اس محل کا حسن دیکھ کر عش عش کرتے تھے.مگر ایک اینٹ کی خالی جگہ دیکھ کر کہتے تھے کہ کاش یہ بھی مکمل ہو جاتی.پھر حضور فرماتے تھے فَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوضِعُ هذِهِ الَّلِبَنَةِ کہ میں نبیوں کی عمارت میں اس اینٹ کی طرح ہوں.(21) یعنی میں نے شریعت کی عمارت کو مکمل کر دیا.یہ ہے مقام ختم نبوت کہ شریعت کی وہ عمارت جو ہنوز نامکمل تھی.حضور اکرم کے آنے سے مکمل ہو گئی اب کسی شرعی نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی.لیکن اس عمارت شریعت کی آبادی اور صفائی ستھرائی کے لئے خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع ہوا.امت میں ہر صدی پر مجددین اور آخری زمانہ میں مسیح و مہدی کی خبر دی گئی.چنانچہ علامہ ابن حجر نے بھی اس حدیث کی تشریح میں یہی لکھا ہے کہ تکمیل عمارت شریعت کی اس مثال میں دراصل شریعت کے کمال کا مضمون بیان ہوا ہے کہ شریعت محمد یہ ماقبل شرائع کی نسبت کامل بلکہ اکمل ہے.رسول اللہ کی فضیلت کا یہ مضمون حضرت ابی بن کعب ایک اور حدیث سے یوں بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ” میں قیامت کے دن لوگوں کا امام، ان کا خطیب اور شفاعت کرنے والا ہوں گا مگر یہ کوئی فخر کی بات نہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک انعام اور اس کی عطا ہے.‘ (22) حضرت ابی بن کعب صوفی المشرب انسان تھے.آپ حدیث ”حنانہ کے بھی راوی ہیں.یعنی کھجور کے اس تنے کے رونے کا واقعہ جس کے ساتھ کھڑے ہوکر حضور وعظ فرمایا کرتے تھے.جب منبر رسول تیار ہو گیا اور اس پر کھڑے ہو کر حضور ﷺ نے خطبہ دینا شروع کیا تو اُس تنے

Page 420

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 406 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے رونے کی آواز سنائی دی.آنحضرت ﷺ نے تنے کے قریب جا کر اس پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا سکینت اختیار کرو.فلاسفر اس واقعہ کو ظاہری سمجھ کر انکار کر بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا.اس تمثیلی واقعہ سے صحابہ کو اشارہ رسول اللہ ﷺے کی جدائی کے لئے تیار کرنا اور آپ کی صحبت سے بھر پور استفادہ کی طرف توجہ دلانی مقصود تھی.چنانچہ حضرت ابی یہ روایت اس طرح بیان کرتے تھے کہ آنحضرت علیہ نے فرمایا یہ تنا میری جدائی سے غمگین ہو کر رونے لگ گیا ہے اور میں نے اسے تسکین دی اور کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہیں جنت میں گاڑ دیا جائے اور تمہیں دوام نصیب ہو جائے.اگر چا ہوتو یہ کٹا ہوا تنا پھر سے ہرا کر دیا جائے مگر اس تنے نے جنت کو اختیار کیا.“ (23) اس خوبصورت تمثیل میں صحابہ رسول کو یہ سمجھایا گیا تھا کہ آج رسول اللہ ﷺ نے محض تنے سے منبر کی جگہ تبدیل کی ہے.مگر ایک وقت آنے والا ہے کہ جب آپ اس دنیا سے آنکھیں بند کر کے اپنے صحابہ سے بھی جدا ہو نگے مگر یہ جدائی بھی عارضی ہوگی اور آخرت میں پھر آپ کے بچے غلام آپ کے ساتھ اکٹھے ہو جائیں گے.حضور کی جب وفات ہوئی تو یہ تنا رسول اللہ ﷺ کے عاشق صادق حضرت ابی کے سپر د کیا گیا اور ان کے پاس رہا یہاں تک کہ دیمک لگنے سے ضائع ہو گیا.خدمت جمع قرآن حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید کو دیگر دو انصاری اصحاب رسول کے ساتھ قرآن شریف جمع کرنے کی توفیق عطا ہوئی.(24) حضرت ابی قرآن شریف لکھوایا کرتے تھے.اور کاتب حسب قاعدہ ہر آیت کے دو تحریری ثبوت لے کر اسے قرآن میں اپنے موقع پر جمع و ترتیب کرتے.سورۃ توبہ کی آخری دو آیتوں کے بارے میں کچھ دقت پیش آئی.حضرت ابی نے گواہی دی کہ مجھے یاد ہے کہ حضور نے مجھے یہ آیات خود پڑھائی تھیں اور یہ سورۃ براءة کا حصہ ہیں.چنانچہ ان کے لئے دو تحریری گواہیوں کی تلاش شروع کی گئی.حضرت ابی کے بہترین قاری قرار دینے کی سند رسول پر مزید مہر تصدیق ثبت ہو گئی جب تحقیق و تفتیش کی گئی تو یہ دونوں آیات لکھی ہوئی اس صحابی کے پاس مل گئیں جس کی گواہی کو رسول اللہ ﷺ

Page 421

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 407 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دو کے برابر قرار دیا تھا.یوں حفاظت قرآن کے سلسلے میں حضرت ابی نے بہترین قاری ہونے کا حق ادا کر کے دکھا دیا.(25) حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی حضرت ابی و علمی خدمات کی توفیق عطا ہوتی رہی.علمی مرتبہ کی وجہ سے حضرت عمرؓ ان کا بہت اعزاز فرماتے تھے.چنانچہ ابونضرہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کا ایک شخص جابر حضرت عمرؓ کی خدمت میں کسی حاجت کے لئے حاضر ہوا.وہاں دیکھا کہ ایک بزرگ سفید ریش سفید لباس پہنے حضرت عمرؓ کے دربار میں موجود ہے.میں نے اس کے سامنے اپنی فصاحت و بلاغت کے جو ہر دکھاتے ہوئے دنیا کو حقیر کر کے پیش کیا تو انہوں نے فلسفہ دنیا و آخرت بیان کرتے ہوئے کہا یہ دنیا توشہ آخرت بھی تو ہے جہاں ہمیں ان اعمال کی توفیق ملتی ہے جن کا آخرت میں بدلہ دیا جائے گا.کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ اے امیر المومنین آپ کے پہلو میں یہ کون ہے؟ جو مجھ سے بہتر مضمون دنیا کے بارہ میں بیان کر رہا ہے.حضرت عمر نے فرمایا یہ مسلمانوں کے سردار ابی بن کعب ہیں.(26) حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں حضرت ابی کو مسجد نبوی میں نماز تراویح کا امام مقرر فرمایا.آپ نے دیکھا کہ لوگ رمضان کی راتوں میں تنہا یا الگ الگ ٹولیوں کی شکل میں نماز میں قرآن پڑھتے ہیں.آپ نے مرکزی نظام کے تحت نماز تراویح کا سلسلہ شروع فرمایا.حضرت عمر فر ما یا کرتے تھے یہ طریق پہلے کی نسبت کتنا عمدہ ہے کہ بجائے ٹولیوں میں قرآن پڑھنے کے لوگ ابی بن کعب جسے عمدہ اور بہترین قاری کے پیچھے قرآن سنتے ہیں.(27) حضرت ابی بن کعب جیسے عالم سے لوگ علم سیکھنے کے لئے آتے تھے اور طرح طرح کے الٹے سیدھے سوال بھی کیا کرتے ہیں.آپ حد درجہ سیدھی اور صاف بات کہنے کے عادی تھے جو بعض دفعه تلخ معلوم ہوتی تھی.چنانچہ ایک دفعہ آپ کے ایک شاگرد زرین خیش نے کہا کہ مجھ سے نرمی کیجیئے.میں آپ سے کچھ علم سیکھنا چاہتا ہوں.حضرت اللہ نے کہا مجھے پتہ ہے تم چاہتے ہو کہ مجھ سے قرآن کی ہر آیت کے بارے میں پوچھو اور سوال کرو.پھر واقعی زر نے کچھ ایسے ہی سوال کئے کہ فلاں صحابی تولیلۃ القدر کے بارے میں یہ کہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت ابی بن کعب نے

Page 422

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 408 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نہایت حکمت سے جواب دیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جو یہ کہتے ہیں کہ سارے سال عبادت کروتو لیلۃ القدر ملے گی ان کا مطلب یہ ہے کہ تم سارا سال عبادت چھوڑ کر محض کسی ایک رات پر انحصار نہ کر بیٹھو ورنہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رمضان کی طاق راتوں میں ایک رات لیلۃ القدر بھی ہوتی ہے جو ہم نے خود 27 رمضان کو پائی.(28) یوں اس عالم با عمل نے اپنے ذاتی تجربہ سے یہ مسئلہ حل کر دیا.حضرت ابی کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ ہمیں یا ہمارے مال کو جو بیماریاں یا نقصان پہنچتے ہیں ان کا کیا سبب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ گناہوں کو دور کرنے کے لئے ہیں.ابی بن کعب نے عرض کیا خواہ چھوٹی سی بیماری ہو آپ نے فرمایا خواہ کانٹا ہی چھے یا اس سے بھی کم تکلیف ہو.اس پر ابی نے یہ دعا کی کہ انہیں بخار موت تک نہ چھوڑے مگر ایسا نہ ہو کہ حج وعمرہ یا جہاد اور فرض نماز با جماعت کی ادائیگی سے روک دے.چنانچہ انہیں مسلسل بخار رہتا تھا اور جب بھی کوئی ان کا جسم چھوٹے حرارت محسوس ہوتی تھی.اور یہ حالت وفات تک رہی.(29) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں آپ کو علمی خدمات کی توفیق ملتی رہی.ایک دفعہ حضرت عمرؓ سے بے تکلفی سے پوچھا کہ آپ نے مجھے امیر مقرر نہیں کیا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ آپ کا دین آلودہ ہو.(30) آیت الرحم کا مسئلہ جس طرح ہر ما ہر شخص کے لئے بشری غلطی یا نسیان کا امکان ہوتا ہے اسی طرح حضرت ابی کے ماہر قاری ہونے کے باوجود خلیفتہ المسلمین حضرت عمر نے ان کا یہ موقف قبول نہیں فرمایا کہ رجم کی آیت قرآن میں شامل تھی.چنانچہ حضرت عمر فر مایا کرتے تھے کہ بے شک ہم میں سے بہتری قاری ائی ہیں، لیکن ہمیں ابی کا یہ موقف تسلیم نہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ رسول اللہ کے منہ سے جو سن لیا اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے خواہ اس کے بعد اور وحی اتری ہو.حالانکہ اللہ فرماتا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنُسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا ( البقرة: 107) یعنی ہم کوئی آیت منسوخ نہیں کرتے نہ ہی اسے بھلاتے ہیں مگر اس سے بہتر لے کر آتے ہیں.(31) حضرت عمر کا یہ فیصلہ دراصل ان قرآنی آیات کی تفسیر ہے کہ قرآن کی حفاظت کا خود اللہ کی

Page 423

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 409 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ذات نے ذمہ اُٹھایا ہے.کسی آیت کی منسوخی کے بعد بہتر لانے کے مضمون میں دراصل توریت کی آیت رجم کی طرف اشارہ ہے.جس کے مطابق رسول اللہ نے ایک یہودی جوڑے کو بد کاری کے جرم میں رحم کیا تھا.(32) گویا حضرت عمر بھی آیت الرجم کو کسی قرآنی آیت کی تفسیر سمجھتے تھے.حضرت ابی گوسورہ احزاب کے حوالہ سے رجم کا کوئی واقعہ یاد تھا.در اصل سورۃ احزاب آیت میں قُتِلُوا تَقْتِيلا (الاحزاب:62) میں تقتیل یعنی موت یا رجم کی سزا ان اشاعت فاحشہ کے مرتکب زنا کاروں کے لئے خاص ہے جنہوں نے مدینہ میں فحاشی کے اڈے قائم کر رکھے تھے.پھر سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ( الاحزاب:62) میں اشارہ ہے کہ پہلوں میں یہ سزا بطور الہی قانون تھی.جواب صرف مخصوص حالات میں ہی نافذ ہو سکتی ہے.کیونکہ سورہ نور کے نزول کے بعد سو کوڑوں کی سزا جرم زنا کی اصل حد ہے.اس وضاحت کی روشنی میں حضرت ابی کی وہ روایت حل ہو جاتی ہے جس سے بعض لوگ غلط فہمی سے سورۃ احزاب کا ایک حصہ منسوخ خیال کر بیٹھے ہیں.حالانکہ حضرت ابی بن کعب کا یہ قول کہ” میں نے سورۂ احزاب کو اس وقت بھی دیکھا ہے جب یہ بقرہ کے برابر تھی.“ (33) یوں حل ہو سکتا ہے کہ احزاب قدیم النزول سورت ہے اور بقرہ طویل النزول (جس کا زمانہ دو ہجری سے نو ہجری تک ممتد ہے ) حضرت ابی بن کعب کی یہ مراد ہوسکتی ہے کہ جب بقرہ احزاب کے برابر تھی یعنی اس کی صرف تہتر آیات اتری تھیں.اس وقت تک سورۃ احزاب ( کی 73 آیات) مکمل نازل ہو چکی تھی.دراصل یہود مدینہ مرورزمانہ سے تو رات کا حکم رحم ترک کر چکے تھے.رسول اللہ ہے کے پاس یہودی مرد و عورت جرم زنا میں لائے گئے آپ نے تو رات منگوا کر زنا کی سزا کا حکم تو ریت سے عربی میں پڑھوایا.جو عبرانی سے ترجمہ ہو کر یوں پڑھا گیا.الشَّيْخُ وَالشَّيْحَةُ إِذَا زَنَيَا فَارُ جُمُوهُما کہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت اگر زنا کریں تو ان کور جم کر دو.پھر اس کی تعمیل میں آپ نے ان کو رجم کر وایا اور فرمایا ” میں پہلا شخص ہوں جو اللہ کے اس حکم کو زندہ کر رہا ہوں.‘ (34) رسول الله علہ کے منہ سے تو رات کی یہ آیت سن کر اور اس پر عمل ہوتے دیکھ کر غالبا حضرت ابی اسے سورۃ احزاب کی آیات میں سے ایک آیت سمجھنے لگے حضرت عمرؓ نے اسکی سیچ فرما دی.حضرت

Page 424

410 سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ابی خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ قرآن میں اضافہ کے اعتراض کا خدشہ نہ ہوتا تو میں آیت الرحم قرآن میں (بطور تفسیر ) لکھوا دیتا.سورہ احزاب میں آیت الرحم پڑھنے کا یہی مطلب ہے کہ سورہ احزاب کی آیات ۶۱ تا ۶۳ نزول کے لحاظ سے سورہ نور کی آیت تجلید ( کوڑوں کے حکم والی ) سے بھی پہلی کی ہیں.اور کوڑوں کے حکم سے پہلے آیت سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ( الاحزاب:62) کی تفسیر میں مسلمان توریت کی آیت الرحم پڑھا کرتے تھے اور اس کا حکم عام رائج تھا.بعد میں کوڑوں کا حکم اصل اور عام ہو گیا اور رحم کا حکم صرف زنا کے عادی مجرموں اور اس کی تشہیر کرنے والوں کے لئے خاص رہا.سیدا المسلمین کا انکسار حضرت جندب بن عبداللہ المجلی بیان کرتے ہیں کہ میں حصول علم کی خاطر مد ینہ آیا.مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں بیٹھے علمی گفتگو کر رہے ہیں.دینی باتیں ہورہی ہیں.ایک حلقے میں ایک شخص دو چادر میں زیب تن کئے سادہ لباس میں ہے.ایسے لگتا ہے کہ سفر سے آیا ہے.میں اس حلقہ میں بیٹھ گیا.ان کی باتیں سنیں تو بڑی پسند آئیں.مجلس برخاست ہوئی.میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ سید المسلمین ابی بن کعب تھے.میں نے سوچا کہ ان سے تو اور صحبت ہونی چاہیئے.چنانچہ ان کے پیچھے ہو چلا.ان کے گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت ہی سادہ سا گھر ہے.عجیب زاہدانہ زندگی حضرت ابی بن کعب گزار رہے تھے.میں نے جا کر سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا.اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں اہل عراق میں سے ہوں.وہ فرمانے لگے اچھا وہی عراقی جو سوال بہت کرتے ہیں.کہتے ہیں مجھے اس پر طیش آ گیا میں نے اسی وقت گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھالئے اور قبلہ رخ ہو کر یہ دعا کرنے لگا کہ اے اللہ ہم تجھ سے شکایت کرتے ہیں.دیکھ ہم اتنی دور سے مال خرچ کر کے اپنی سواریاں تھکاتے ہوئے مدینہ میں حصول علم دین کے لئے آتے ہیں.اور یہ لوگ ہم سے سختی کرتے ہیں.“ حضرت ابی بن کعب کی خدا ترسی ملاحظہ ہو.اسی وقت رونے لگ گئے.جندب کہتے ہیں وہ مجھے منانے لگے اور ساتھ کہتے جاتے تھے کہ میرا ہر گز یہ مطلب نہ تھا میرا ہر گز یہ مطلب نہ تھا.دراصل کچھ

Page 425

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 411 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ لوگ واقعی کثرت سے سوال کرتے اور تنگ کر دیتے ہیں.میں اس سے بچنے کے لئے نصیحت کر رہا تھا.پھر فرمانے لگے جہاں تک تمہاری یہ شکایت ہے تم لوگ علم دین کے لئے آتے ہو.تمہارا خیال نہیں رکھا جاتا.میں یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ جمعہ تک اگر میں زندہ رہا تو ضرور اس بارے میں وعظ کروں گا.آنحضور کی باتیں لوگوں کو بتاؤں گا.اس واقعہ سے حضرت ابی کے تعلق باللہ کا اندازہ ہوتا ہے.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے انہیں سفر آخرت کا کوئی اشارہ مل چکا تھا.جندب کہتے ہیں کہ میں اگلے جمعہ کا انتظار کرنے لگا.مگر جمعرات کے دن مدینہ کی گلیوں میں اچانک ہجوم دیکھ کر میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے لوگوں نے کہا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ مسلمانوں کا سردار ابی بن کعب آج فوت ہو گیا ہے.یہ حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ تھا.انہوں نے ہی حضرت ابی کی نماز جنازہ پڑھائی.(35) اور یوں قرآن کا ایک عظیم قاری، ایک بے بدل عالم ، ہاں ایک عالم با عمل ایک عاشق رسول اس دنیا سے رخصت ہو گیا.حضرت ابی کی وفات کے بارہ میں ایک روایت یہ ہے کہ 20 ھ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں انتقال ہوا، لیکن درست روایت 30 کی سمجھی جاتی ہے کیونکہ آپ کے شاگردز ربن جیش نے حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے.(36) دوسرے حضرت عثمان کے زمانہ میں بھی آپ کو حضرت حفصہ کے پاس موجود اولین مستند قرآنی نسخہ کی مزید نقول تیار کرنے کی توفیق ملی.اس لحاظ سے اس زمانہ میں ان کی وفات والی روایت ہی زیادہ صحیح ہے.(37) اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 426

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ 412 سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 -2 -6 -7 ❤ 5 6 7 -3 -4 -5 -8 -9 حواله جات اسدالغابہ جلد 1 ص 50 ، استیعاب جلد 1 ص164 ابن سعد جلد 3 ص 498,499 مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء مسند احمد جلد 5 ص 123 مسند احمد جلد 5 ص 124 بخاری کتاب التفسير سورة البينه ومناقب مسند احمد جلد 3 ص489،استیعاب جلد 1 ص163 ترندی کتاب المناقب باب فضل ابی بن کعب مسند احمد جلد 5 ص 123 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 131 مسنداحمد جلد 5 ص 142 منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 132 133 ترمذی کتاب الفضائل باب فضل فاتحۃ الکتاب مسند احمد جلد 5 ص 140 بخاری کتاب اللقطه مسلم کتاب المساجد، مسند احمد جلد 5 ص 133 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 132 ترمذی کتاب صفۃ القیامة ترندی کتاب صفة القيامة باب في الترغيب بذكر الله ابن سعد جلد 3 ص 500 مسند احمد جلد 5 ص 132 مسلم صفة القيامة منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد 5 ص 132 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 -21 -22 -23 مسند احمد جلد 5 ص 142 مسند احمد جلد 5 ص 123 مسند احمد جلد 5 ص 137 فتح الباری جز 6 ص 559، مسند احمد جلد 5 ص 137 مسند احمد جلد 5 ص 137 مسلم کتاب المناقب باب من فضائل ابي مسند احمد جلد 5 ص 134 ابن سعد جلد 3 ص 499 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص 132 بخاری کتاب صلوۃ التراویح باب فضل من قام رمضان -27 -24 به به به له -25 -26

Page 427

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -28 -29 -30 -31 -32 -33 -34 -35 -36 -37 مسند احمد جلد 5 ص 131 اصابہ جلد 1 جز1 ص 17 ابن سعد جلد 3 ص499 413 مسند احمد جلد 5 ص 113 و بخاری کتاب التفسیر البقره بخاری کتاب المحاربین مسند احمد جلد 132 و مستدرک حاکم کتاب الحدود مسلم کتاب الحدود و شرح مسلم از علامه نووی ابن سعد جلد 3 ص 501 اسدالغابہ جلد 1 ص50 ابن سعد جلد 3 ص 502 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

Page 428

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و حلیہ 414 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل انصاری حضرت معاذ بن جبل انصاری لمبے قد ، گورے رنگ ، روشن چہرے،سفید چمکتے دانتوں ،موٹی سیاہ آنکھوں ،گھنی پلکوں اور گھنگریالے بالوں والے خوبصورت نوجوان تھے.وہ نہ صرف مردانہ حسن کا عمدہ نمونہ تھے.بلکہ حسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی سے بھی مالا مال تھے.صحابہ کرام بیان کرتے تھے کہ معاذ انصار کے نوجوانوں میں سے ایک بہترین نوجوان تھے.“صاحب علم ، باحیا اور جود وسخا کی خوبیوں سے متصف تھے.حضرت معادؓ بن جبل کا تعلق انصار کے خزرج قبیلہ سے تھا والدہ ہند بن سہل تھیں کنیت ابو عبد الرحمان تھی.قبول اسلام حضرت مصعب بن عمیر کی تبلیغ سے انہوں نے مدینہ میں اسلام قبول کیا اور پھر مکہ میں عقبہ ثانیہ کے موقع پر ستر انصار کے ساتھ حاضر ہو کر بیعت کی.اس وقت آپ عین عنفوان شباب میں تھے عمر صرف 18 برس تھی.مدینہ میں مواخات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت معاذ کو حضرت عبداللہ بن مسعود کا اسلامی بھائی بنایا گیا.ان کے ساتھ رہ کر آپ نے قرآن بھی سیکھا اور قرآن شریف کے قاری بنے اور آنحضور جن چار قر آسے خاص طور پر قرآن شریف سیکھنے کی ہدایت فرماتے تھے ان میں حضرت ابی ، حضرت سالم اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ آپ کا نام بھی حضور نے لیا کہ ان سے قرآن سیکھا کرو.(1) حضرت معاذ ا چھے عالم دین بھی تھے.نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انصار کے نوجوانوں میں سے سب سے بہتر اسلامی احکام اور حلال و حرام جاننے والے حضرت معاذ بن جبل ہیں.حضور کے زمانے میں مسائل بتانے کیلئے اور فتاویٰ کیلئے انصار میں سے خاص طور پر آپ کو امتیاز حاصل تھا اور حضرت ابی بن کعب اور زید بن ثابت کے ساتھ آپ بھی یہ خدمت بجالایا کرتے تھے.(2)

Page 429

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں شرکت 415 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ مختلف غزوات میں شامل ہونے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی.بدر، احد اور خندق میں حضور ﷺ کے ساتھ شریک تھے.دیگر غزوات نبوی میں بھی شامل ہونے کا موقعہ ملا.بعد کے زمانے میں جنگ یرموک میں بھی شامل ہوئے اور میمینہ کے افسر کے طور پر آپ نے اس تاریخی جنگ میں حصہ لیا.نہایت بہادری اور دلیری سے اس میں لڑے.ایک موقع پر جب گھمسان کا رن پڑ رہا تھا.آپ اپنے گھوڑے سے اتر آئے اور فرمایا کہ جو اس گھوڑے کا حق ادا کر سکتا ہو وہ اس پر سوار ہو کر لڑے.میں پیدل لڑوں گا اور بڑی بہادری سے پیدل لڑتے ہوئے آگے بڑھے.رسول اللہ ﷺ کی فیض محبت اور پاکیزہ نصائح آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت میں رہ کر آپ نے بہت کچھ سیکھا.بہت علم حاصل کیا، آپ کی صحبت میں تربیت پائی.حضور سے آپ کو ایک والہانہ عشق تھا.مسجد نبوی سے سب سے دور افتادہ محلہ بنی سلمہ میں قیام تھا لیکن آنحضور ﷺ کے ساتھ آکر نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے.محلے میں بھی آپ کو امام الصلوۃ مقرر کیا ہوا تھا اس لئے خاص طور پر عشاء کی نماز آنحضرت ﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں جا کر امامت کرتے تھے.کیونکہ قرآن شریف کا ایک بڑا حصہ آپ کو یاد تھا اور آپ کی قرآت نہایت عمدہ اور اعلیٰ تھی.ایک دفعہ حضرت معاذ نے عشاء کی نماز بہت لمبی پڑھا دی ،سورۃ بقرہ کی تلاوت اس میں فرمائی.ایک شخص جو اپنے کھیتوں میں کام کاج کر کے تھکا ہارا آیا تھا اس نے بھی آپ کے پیچھے نماز شروع کی لیکن جب یہ دیکھا اور محسوس کیا کہ یہ نماز تو زیادہ لمبی ہو چلی ہے، اس نے سلام پھیرا اور اپنی الگ نماز پڑھ کر وہ چلا گیا.دوسری روایتوں میں یہ ذکر ہے کہ اس نے کھیت میں جا کر پھر پانی وغیرہ لگا نا تھا.حضرت معاذ بن جبل کو جب علم ہوا تو انہوں نے اس بات کا بڑے دکھ کے ساتھ ذکر کیا کہ اس شخص نے نماز با جماعت کو چھوڑ کر نامناسب بات کی ہے اور یہ منافق ہے.اس شخص کو جب پتہ چلا تو اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے مجبوری سے نماز

Page 430

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 416 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ باجماعت چھوڑنی پڑی اور معاذ نے میرے منافق ہونے کا فتویٰ دیا ہے.آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا ! اے معاذ کیا تم فتنہ پیدا کرنے والے ہو؟ پھر بڑے پیار ومحبت سے یہ سمجھایا کہ عشاء کی نماز کو زیادہ لمبی نہ کیا کریں کیونکہ اس میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور مزدور پیشہ لوگ بھی.اس لئے مناسب ہے کہ عشاء کی نماز میں مختصر سورتیں پڑھیں جیسے والشَّمْسِ وَضُحَهَا يا سَبِّحُ اسْمَ رَبِّكَ الأعلى ہے یہ سورتیں پڑھ کر نماز مختصر کر لیا کریں.(3) نحضرت ﷺ کی معاذ کے ساتھ محبت و شفقت کا عالم بھی عجیب تھا حضور ﷺ نے اس نوجوان کو اپنے زیرسایہ رکھ کر اعلیٰ تربیت فرمائی تھی.حضرت معاد بیان کرتے ہیں ایک دفعہ آنحضور علیہ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے اپنے ساتھ سوار کر وایا اور فرمانے لگے کہ اے معالد بن جبل ! انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ علہ ! میں حاضر ہوں اور میری سعادت اور خوش بختی ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں حضور ﷺ نے تین مرتبہ معاد بن جبل کو آواز دی.انہوں نے ہر مرتبہ ہی اسی فدائیت اور جانثاری کے انداز میں جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.اس کے بعد حضور ﷺ نے انہیں ایک اہم حدیث سنائی.آپ نے فرمایا ” جو شخص صدق دل سے کلمہ تو حید پڑھ لے اس پر دوزخ حرام ہو جاتی ہے.حضرت معادؓ جبل بہت خوش ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں اس بات کا لوگوں میں اعلان نہ کر دوں.حضور علیہ نے فرمایا نہیں.اعلان نہ کرو کہیں ایسا نہ کہ لوگ عمل کرنا چھوڑ دیں اور محض اسی بات پر ہی انحصار کر لیں.چنانچہ حضرت معاذ بن جبل کی ایک اور روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ایک اور موقع پر مجھ سے یہ سوال کیا کہ اے معاد ! بندوں پر خدا کا کیا حق ہے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ بندوں پر خدا کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کی عبادت کا حق ادا کریں پھر آنحضور ﷺ نے پوچھا.اے معاذ! یہ بتاؤ کہ خدا پر بندوں کا کیا حق ہے تو حضرت معادؓ نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اگر بندے ایسا کریں شرک سے

Page 431

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 417 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ اجتناب کریں ، عبادت کرنے والے ہو جائیں تو پھر خدا پر یہ حق بن جاتا ہے کہ وہ ان کو جنت میں داخل کرے اور دوزخ کی آگ اس پر حرام کی جاتی ہے.(4) آنحضرت ﷺ کی صحبت میں تربیت پاتے ہوئے حضرت معادؓ بن جبل کی پسند اور ترجیحات خالصہ دینی ہو گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی محبت اور اسکی خوشنودی حاصل ہو.ایک موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ اے معاذ! کیا میں تمہیں جنت کا ایک دروازہ نہ بتاؤں عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو.لَاحَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.کوئی قوت اور کوئی طاقت کسی کو حاصل نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے.(5) ایک اور موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ اے معاذ! میں تم سے محبت کرتا ہوں.میں تمہیں ایک دعا نہ بتاؤں.پھر حضور علیہ نے ان کو ایک بہت ہی عمدہ اور خوبصورت دعا بھی سکھائی.اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسُنِ عِبَادَتِكَ.اے اللہ ! اپنے ذکر اور شکر کے لئے میری مدد فرما، اپنی خوبصورت عبادت کرنے کی مجھے توفیق دے.ایک اور سفر میں حضرت معاذ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کوئی ایسا عمل بتا ئیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ تم نے بہت عظیم بات پوچھی ہے.پھر حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہی کہ شرک نہ کرو، خدا تعالیٰ کی عبادت بجالا ؤ نماز ، زکوۃ ، اور رمضان کے روزے اور حج ادا کرو.یہ وہ باتیں ہیں جو انسان کو بالآخر جنت میں لے جاتی ہیں.پھر فرمایا کہ دو میں تمہیں خیر کے کچھ دروازے بھی بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ انسان کے گنا ہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے کہ جس طرح آگ پانی کو بجھا دیتی ہے اور رات کے حصے میں نماز کا ادا کرنا یعنی تہجد کی نماز یہ بہت ہی بہترین اور خوب ہے.یہ خیر کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور پھر حضور نے وہ آیت پڑھی.تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وطَمَعًا - (السجدہ :17 ) کہ مومنوں کا یہ حال ہے کہ رات کی تنہائیوں میں آرام دہ بستروں سے ان کے پہلوں جدا ہو جاتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کو پکارتے ہیں خوف کی حالت میں بھی اور طمع کی حالت میں بھی.پھر حضور ﷺ نے فرمایا ” ان تمام باتوں کی جڑ زبان ہے.حضرت معاذ نے

Page 432

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 418 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ عرض کیا یا رسول اللہ جو کچھ ہم بولتے ہیں کیا اس کی وجہ سے بھی مؤاخذہ ہوگا.حضور نے فرمایا اے معاذ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے کئی لوگ ہیں جو اس زبان کی وجہ سے جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے.آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ کی تربیت کرتے ہوئے مختلف مواقع پر آپ کو اسلام کے احکام یاد کروائے.کچھ دعائیں یاد کروائیں.ایک اور موقع پر دس ہدایات ان کو دی ہیں کہ ان باتوں کو یا درکھنا اور مراد یہ تھی کہ رفتہ رفتہ ان کی تربیت ہوتی چلی جائے.اسلام کے احکام اور شرعی امور کو یاد کرتے چلے جائیں.نبی کریم ﷺ اخلاقی لحاظ سے نہایت عمدہ اور پاک تعلیم آپ کو دیتے رہے.ایک موقع پر فرمایا کہ اے معاذ برائی کے بعد ہمیشہ نیکی کرو.برائی کے اثر کو یہ بات زائل کر دیتی ہے.ایک موقع پر فرمایا کہ " اے معاذ! ہمیشہ مظلوم کی دعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا.‘(6) ایک اور موقع پر جماعت سے اور نظام سے منسلک رہنے کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے معاذ! انسان کا بھیٹر یا شیطان ہوتا ہے اور جس طرح ریوڑ سے کوئی بھیڑ ا الگ ہو جائے تو بھیٹر یا اس پر حملہ کرتا ہے اور چیر پھاڑ کے رکھ دیتا ہے اسی طرح وہ انسان جو جماعت سے الگ ہو جاتا ہے شیطان وہ بھیڑیا ہے جو اسے ہلاک کر دیتا ہے اور تباہ و برباد کر دیتا ہے.اسی لیے ہمیشہ جماعت کے ساتھ رہنا اور کبھی جماعت سے الگ نہ ہونا.‘ ایک موقع پر دعوت الی اللہ کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے معاذ ! اگر ایک مشرک کو اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے سے مسلمان کر دے تو یہ دنیا کی تمام نعمتوں سے تمہارے لئے بڑھ کر ہے.“ (7) شفقت رسول علی و حسن سلوک آنحضرت ﷺ نے جہاں حضرت معاذ کے ساتھ محبت اور پیار کے تعلق میں یہ ہمدردی فرمائی کہ حسن تعلیم اور حسن تربیت سے انہیں آراستہ و پیراستہ کیا وہاں ان کے ساتھ ظاہری رنگ میں بھی جس حد تک ممکن تھا ان کیلئے ان سے ہمدردی فرمائی ہے.حضرت معاذ بن جبل کے مالی حالات کچھ اچھے نہیں تھے.ایک وقت میں ان پر بہت زیادہ

Page 433

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 419 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ قرض ہو گیا جتنے قرض خواہ تھے وہ تقاضا کرنے لگے کہ ہمارے قرضے تم ادا کرو.آنحضرت ﷺ نے حضرت معادؓ کو اپنے پاس طلب فرمایا اور چونکہ اندیشہ تھا کہ قرض خواہ ان کو تنگ کریں گے اس لئے ساتھ انہیں بھی بلوایا اور ان قرض خواہوں سے فرمایا کہ قرض اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ حضرت معاذ میں اب استطاعت نہیں رہی کہ قرض ادا کر سکیں اس لئے تم میں جو اس قرض کو معاف کر سکتے ہیں میں انہیں یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ یہ قرض معاف ہی کر دیں.چنانچہ بعض صحابہ کو یہ توفیق ملی اور انہوں نے اپنے قرض حضرت معاذ کو معاف کر دئیے اور کہا کہ اب ہم ان کے حالات کی وجہ سے ان سے اس قرض کا تقاضا نہیں کریں گے اور اپنے اس بھائی کے ساتھ احسان کا سلوک روارکھیں گے لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ ہم تو اپنا قرض لیں گے.آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ تمہاری جو بھی جائیداد ہے اس سے دستبردار ہو جاؤ اور میں اسے تمہارے قرض خواہوں میں تقسیم کر دیتا ہوں چنانچہ حضور ﷺ نے وہ مال ان قرض خواہوں پر تقسیم کر دیا اور ان قرض خواہوں کے سارے قرض پورے کردیئے.والی یمن اس کے بعد حضور نے ایک نہایت عمدہ تقریر حضرت معاذ بن جبل کے حق میں کی.پھر انہیں یمن کا نگران اور حاکم مقرر فرما کر روانہ کیا اور فرمایا کہ اے معاذ میں تمہیں اہل یمن کی تعلیم و تربیت کے لئے روانہ کرتا ہوں اور وہاں کی ذمہ داریاں سپرد کرتا ہوں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وہاں جا کر اصلاح احوال کی صورت پیدا کر دے اور تمہارے قرض وغیرہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں.چنانچہ حضور کی وفات تک بھی حضرت معاذ بن جبل وہاں بطور حاکم کے رہے.(8) اس کے بعد بھی ایک زمانے تک یہ خدمت بجالاتے رہے.آنحضرت نے حضرت معاذ کو جب یمن روانہ کیا تو یہ جانتے ہوئے کہ حضرت معادؓ.بہت ہی تقویٰ شعار انسان ہیں اور بطور حاکم کے یہ لوگوں سے کوئی ہدیہ وغیرہ قبول نہیں کریں گے.حضور نے انہیں فرمایا کہ اے معاذ ! تم پر یہ قرض کا بہت بوجھ ہے اسلئے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ اگر کوئی ہدیہ تمہیں ملے تو اس کو قبول کر لینا.“ (9) حضرت معاذ کو روانہ کرتے وقت آنحضرت ﷺ نے نہایت احسن رنگ میں ان کا امتحان لیا

Page 434

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 420 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ اور بعض نصیحتیں بھی فرمائیں.آپ جانتے تھے کہ معاذ بن جبل بے شک اٹھائیس برس کے نوجوان ہیں لیکن بہت کچھ سیکھ چکے ہیں.روانگی کے وقت حضور ﷺ نے از راہ آزمائش ان سے یہ پوچھا کہ ”اے معاذ! تم یمن جار ہے ہو فیصلے کس طرح کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اللہ کی کتاب کے مطابق اور قرآن شریف کے احکام کے مطابق فیصلے کروں گا.حضور ﷺ نے فرمایا اگر قرآن میں وہ تفصیلی احکام موجود نہ ہوئے تو پھر کیا کرو گے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہے میں پھر آپ کی سنت سے اور حدیث سے راہ نمائی چاہوں گا.حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہاں سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ملا تو پھر کیا کرو گے؟ عرض کیا یا رسول اللہ پھر میں اجتہاد کروں گا اور قرآن وسنت کی روشنی میں جو رائے سمجھ میں آئے گی اس کے مطابق فیصلہ کروں گا اور کوئی کوتا ہی نہیں کروں گا.آنحضرت اپنے اس ذہین نوجوان کی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمانے لگے خدا کا شکر ہے جس نے میرے اس نمائندہ اور سفیر کی صحیح راہنمائی کی کہ وہ اس رنگ میں فیصلے کرنے کی توفیق پائے.(10) یمن روانگی کے وقت حضور ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعرٹی کو یمن کے دوسرے حصے پر نگران مقرر کر کے فرمایا کہ ” تم دونوں لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا مشکل پیدا نہ کرنا لوگوں کو بشارت کی اور خوشخبری کی باتیں زیادہ بتانا.دین سے متنفر کرنے والی باتیں نہ بتانا اور ان کو دین سے دور نہ کر دینا.(11) حضور ﷺ نے انہیں یمن روانہ کرتے وقت یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اے معاذ ! لوگوں کے ساتھ حسن خلق کے ساتھ پیش آنا اور پھر بہت ہی محبت اور اعزاز کے ساتھ ان کو رخصت کیا، روایات میں ذکر ہے کہ حضرت معاذ اپنی سواری پر سوار تھے اور آنحضور ﷺ ان کو الوداع کرنے کیلئے مدینہ کے باہر تشریف لے گئے.حضور علیے ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے اور ان کے لئے دعائیں کر رہے تھے چنانچہ الوداع کرتے وقت حضور ﷺ نے ان کے لئے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! تو معاد کی ہمیشہ حفاظت کرنا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی ان کے دائیں بھی اور ان کے بائیں بھی ، ان کے اوپر بھی اور ان کے نیچے بھی اور اے میرے اللہ! تو معاد سے ہر قسم کے شر اور ہر قسم کے

Page 435

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 421 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ خطرات دور رکھنا، خواہ ان کا تعلق جنوں سے ہو خواہ انسانوں کے شرور سے ہو، ان تمام شرور سے ان کو بچانا.“ ادھر اہل یمن کو رسول اللہ ﷺ نے یہ پیغام بھجوایا کہ اے اہل یمن میں نے اپنے اہل میں سے نہایت ہی عمدہ اور بہترین شخص تمہارے پاس بھیجا ہے.علمی و عملی اور دینی لحاظ سے بھی یہ ایک بہترین مربی ہے.(12) تقویٰ اور خشیت الہی حضرت معاذ بن جبل حضرت ابو بکر کے زمانے میں بھی یمن کے حاکم تھے ، حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانہ میں پہلے سال حضرت عمر کو امیر الحاج بنا کر مکہ بھجوایا گیا اور یمن سے حضرت معاذ بھی حج کرنے کیلئے تشریف لائے تو ان کے ساتھ کچھ ان کے غلام بھی تھے، حضرت عمر نے پوچھ لیا کہ یہ غلام کیسے ہیں؟ حضرت معاذ نے عرض کیا کہ یہ مجھے تحفہ میں ملے ہیں یہ میرے غلام ہیں، حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ خلیفہ وقت حضرت ابوبکر کے سامنے یہ غلام پیش کر کے اور اجازت لے کر ان غلاموں کو اپنے تصرف میں لانا.حضرت معاذ نے کہا کہ آنحضور ﷺ نے مجھے ہدیہ قبول کرنے کی اجازت دی تھی اور بطور ہدیہ ہی یہ غلام مجھے ملے ہیں اسلئے میں اس میں کوئی عیب نہیں سمجھتا.لیکن اگلے روز انہوں نے ایک عجیب خواب دیکھی ، جس کی بناء پر حضرت عمر سے کہا کہ میں آپ کے مشورہ پر ہی عمل کروں گا ، رویا میں انہوں نے دیکھا کہ وہ پانی میں ڈوب رہے ہیں اور حضرت عمرؓ انہیں اس میں سے کھینچ رہے ہیں.“ چنانچہ حضرت عمر ان کے ساتھ حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے.معاذ نے عرض کیا کہ یہ میرے غلام ہیں جو مجھے ہدیہ میں ملے میں ان سے دستبردار ہوتا ہوں.“ حضرت ابوبکر نے فرمایا آپ ان سے دستبردار نہیں ہو سکتے.آنحضرت ﷺ نے آپ کو ہدیہ وصول کرنے کی اجازت دی تھی.اس لئے میری طرف سے بھی اجازت ہے اور اب یہ غلام آپ کے ہیں.حضرت معاذ بن جبل کا کمال تقویٰ اور خشیت یہ تھی کہ آپ نے غلاموں کے ساتھ جا کر نماز ادا کی.نماز پڑھنے کے بعد ان سے پوچھا کہ بتاؤ تم کس کی نماز پڑھتے ہو.انہوں نے کہا اللہ کی نماز پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا " پھر جاؤ اس اللہ کی خاطر میں تمہیں آزاد کرتا ہوں.‘ (13)

Page 436

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 422 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ بیٹھے کچھ پھل تناول فرمارہے تھے اہلیہ نے ایک سیب اٹھایا ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھا کہ غلام پاس سے گزرا ، بی بی نے وہ سیب اس غلام کو دے دیا.حضرت معاد اس پر بھی خفا ہوئے اور انہیں تادیب فرمائی کہ اپنا جوٹھا سیب غلام کو دینا مناسب نہیں تھا.(14) یہ گہرا دلی تقویٰ تھا جو حضرت معاذ کو عطا ہوا تھا.حضرت معاذ آنحضور ﷺ کی نصیحتوں پر بھی خوب عمل کرنے والے تھے.راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنا اور پہلوؤں کا بستر سے جدا ہو جانا ، اس نصیحت پر بھی آخر دم تک خوب عمل کیا ہے.احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ تہجد کی نماز ادا کرتے تو خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے جو آہ و بکا ہوتی ایک حدیث میں اس کا نقشہ یوں ہے اپنے رب کے حضور عرض کرتے ”اے میرے مولا! اس وقت سارا جہاں سویا ہوا ہے آنکھیں سوئی ہوئی ہیں.ستارے ڈوب چکے ہیں ، اے اللہ تو حی و قیوم ہے.میں تجھ سے جنت کا طلب گار ہوں مگر اس میں کچھ سست رو ہوں اور آگ سے دور بھاگنے میں کمزور اور ناتواں ہوں، اے اللہ تو مجھے اپنے پاس سے ہدایت عطا کر دے، وہ ہدایت جو مجھے قیامت کے دن بھی نصیب ہو جس دن تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا.‘ (15) محبت الہی اور راضی برضا حضرت معاذ بہت نڈر اور بے باک انسان تھے اور اللہ تعالیٰ سے ایک گہری محبت رکھتے تھے وفات کے وقت بھی آپ کی زبان پر جو کلے دعا کے جاری تھے اس میں یہی کہ رہے تھے.اللھم عَمِّي غَمُّكَ فَوَ عِزَّتِكَ أَنَّكَ لَتَعلَمُ أَنِّي اُحِبُّكَ اے اللہ ! میرا غم تیرا غم ہو چکا ہے.اور تیری عزت کی قسم تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں.(16) آپ کی وفات اس وبائی طاعون سے ہوئی جو شام کے علاقے میں پھیلی تھی.پہلے جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح عمواس میں فوت ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنے بعد اپنا قائمقام معاذ بن جبل کو مقرر کیا تھا.بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ طاعون سزا کے طور پر آئی ہے اس لئے ہلاکتیں ہورہی ہیں حضرت معاذ نے انہیں یہ سمجھایا کہ یہ طاعون تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے اور شہادت

Page 437

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 423 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ کا اجر عطا کرنے آئی ہے اور یہ اظہار بھی کیا کہ قبل اس کے کہ فتنوں کے زمانے آئیں میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ اسی طاعون سے ہی خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں.چنانچہ اسی طاعون کی بیماری میں آپ کی اہلیہ اور بچے بھی فوت ہوئے ، آپ نے کمال صبر کے ساتھ یہ صدمے برداشت کئے.پھر آپ کی وفات ہوئی.(17) یہ بھی دراصل نبی کریم ﷺ کی تربیت کا نتیجہ تھا.حضور ﷺ کی زندگی میں ان کا ایک بیٹا فوت ہوا تو آپ نے انہیں ایک تعزیتی خط لکھا جس سے ان کے ساتھ حضور ﷺ کے تعلق کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ آپ نے اپنے اصحاب کی کسی طرح تربیت فرمائی.آپ نے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ کے بعد تحریر فرمایا:.یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے معاذ بن جبل کی طرف ہے.آپ پر سلام ہو.میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں.اس کے بعد تحریر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم اجر عطا کرے اور آپ کو صبر الہام کرے اور ہمیں اور آپ کو شکر کی توفیق دے.(یا درکھو) ہماری جانیں، ہمارے مال اور ہماے اہل و عیال سب اللہ کی عطا ہیں.یہ امانتیں ہیں جو اس نے ہمارے سپر دفرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس بچے کے عوض سچی خوشی نصیب کرے اور اس کی موت کے بدلے تمہیں بہت سا اجر برکتوں اور رحمتوں اور ہدایت کا عطا کرے.اگر تم ثواب کی نیت رکھتے ہو تو صبر کرو اور واویلا کر کے اپنا اجر ضائع نہ کر بیٹھو کہ بعد میں تمہیں ندامت ہو اور جان لو کہ واویلا کرنے سے مردہ واپس نہیں آجاتا.نہ ہی جزع فزع اور بے صبری غم کو دور کرتی ہے اور جو مصیبت انسان کے مقدر میں ہے وہ تو آنی ہی ہوتی ہے.والسلام (18) دعا گو بزرگ حضرت معاذ بن جبل بہت دعا گو بزرگ تھے اور جو قرض ان پر چڑھ گئے ، اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کثرت کے ساتھ خرچ کرنے والے اور بہت سخی مزاج بزرگ تھے جو بھی آپ سے سوال کرتا اسے کبھی واپس نہیں لوٹاتے تھے اللہ تعالیٰ کا بھی آپ کے ساتھ یہی معاملہ تھا.چنانچہ کعب بن مالک کے صاحبزادے بیان کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت معاذ کے ساتھ عجیب سلوک تھاوہ

Page 438

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 424 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ نہایت حسین بھی تھے اور بڑے بھی بھی.اور مستجاب الدعوات بھی تھے.جو خدا سے مانگتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو عطا کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ان سے خاص معاملہ تھا، ایک عجیب فہم وفراست اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی تھی.علمی مقام حضرت عمر کے زمانے میں ایک بڑا پیچیدہ اور الجھا ہوا دینی مسئلہ سامنے آیا جو کم از کم مدت حمل اور انتہائی مدت سے تعلق رکھتا تھا.علم طب کی رو سے بعض اوقات حمل نو ماہ کے عرصہ سے بڑھ بھی سکتا ہے اور شاذ کے طور پر زیادہ سے زیادہ مدت اس کی دو سال تک بھی ہو سکتی ہے.ایک ایسا ہی واقعہ اس زمانہ میں سامنے آیا کہ ایک عورت کا شوہر دو سال سے غائب تھا اسے حمل ظاہر ہو گیا.حضرت عمر کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس عورت پر حد قائم ہونی چاہیے.حضرت معاد بن جبل نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر اس عورت کو رجم کی سزادی جائے تو اس بچے کا کیا قصور جو اس کے پیٹ میں ہے.اس پر حضرت عمر شرعی حد نافذ کرنے سے وقتی طور پر رک گئے.پھر جب اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو وہ اسکے حقیقی باپ کے عین مشابہ تھا.دوسال بعد جب اس کا والد واپس لوٹا تو اس نے تسلیم کیا کہ یہ اس کا ہی بیٹا ہے.شکل و شباہت سے بھی یہی ظاہر تھا.حضرت عمر نے اس موقع پر فرمایا کہ عورتیں اس بات سے عاجز آگئی ہیں کہ معاذ جیسا بچہ پیدا کریں.اگر معاد نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہو جاتا.“ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے طاعون عمواس میں حضرت معاذ کی وفات ہوگئی.حضرت عمرؓ نے بوقت وفات فرمایا اگر معاذ زندہ رہتے تو میں ان کو اپنے بعد اپنا جانشین نامزد کرتا اور اگر اللہ تعالیٰ اس بارہ میں مجھ سے سوال کرتا تو میں کہتا کہ آنحضرت ﷺ سے میں نے یہ سنا تھا کہ معاذ قیامت کے دن لوگوں کے سامنے اس حال میں آئے گا کہ اس کی بلندشان اور بڑا مرتبہ ہوگا.“ رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد اور حضرت معاذ غیر معمولی علم سوجھ بوجھ اور خدا داد تقویٰ کی وجہ سے خلیفہ الرسول حضرت عمر بھی ان کی قدردانی کرتے تھے.(19) حضرت معاذ بن جبل سے کئی صحابہ رسول بھی روایت کرتے تھے.ان میں حضرت عمرؓ ، ان کے

Page 439

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 425 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر ، ابو قتادہ ، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوامامہ ، حضرت ابولیلی انصاری ہیں.ڈیڑھ سو سے زائد احادیث آپ سے مروی ہیں.اس طرح کئی تا بعین بھی حضرت معادؓ سے روایت کرتے ہیں.(20) حضرت معاذ کی شخصیت بہت متاثر کن تھی اور بڑے وجیہ انسان تھے اپنے حلقہ درس میں علوم کے دریا بہایا کرتے تھے اور لوگ آپ کی راہنمائی کے متلاشی ہوا کرتے تھے.ابن حوشب ایک ایسے خوبصورت نظارے کا ذکر کرتے ہیں کہ میں نے ملک شام کے شہر حمص کی ایک مسجد میں دیکھا کہ ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور ایک حسین و جمیل شخص جس کے دانت دمک رہے ہیں درمیان میں بیٹھا ہے.مجلس میں کچھ اور معمر لوگ بھی تھے لیکن تمام لوگوں کی توجہ اس جوان رعنا کی طرف تھی.کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہو یا رائے لینی ہو وہ اس سے رجوع کرتے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ معاذ بن جبل ہیں.اسی طرح ابوا در لیس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دمشق کی مسجد میں ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ ایک نوجوان حسین و جمیل چمکدار دانتوں والا حلقہ احباب سے گھرا ہوا ہے.لوگوں کو کوئی الجھن پیش آتی یا سوال پیدا ہوتا تو وہ اس نوجوان سے راہنمائی لیتے اور اس کی رائے پوچھتے ، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ معاذ بن جبل ہیں.اگلے روز میں خاص طور پر ان سے ملاقات کرنے کیلئے دو پہر سے قبل ہی مسجد چلا گیا میں نے دیکھا حضرت معادا مجھ سے بھی پہلے وہاں موجود ، اور نماز ادا کر رہے تھے.انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے کہا کہ ”خدا کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں“ انہوں نے کہا کہ سوچ لو اللہ کی قسم ! کیا تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو، میں نے کہا ہاں ! خدا کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ پوچھا.میں نے پھر یہی عرض کیا کہ اللہ کی قسم آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے کہا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ان پر میری رحمت نازل ہوگی اور وہ میری محبت اور میری رحمت کے مستحق ہو گئے.“ (21)

Page 440

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق فاضلہ 426 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل وہ عظیم المرتبت صحابی تھے جنہوں نے نو عمری میں متنوع نیکیوں اور خوبیوں کو اپنے وجود میں جمع کر لیا.حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے کہ معاد بن جبل پر ہم قرآن شریف کی یہ آیت چسپاں کرتے تھے.كَانَ أُمَّةً قَانِتَا لِلَّهِ حَنِيفًا (نحل: 121) که (ابراہیم ) الله کا بہت ہی فرمانبردار اور توحید پر قائم ایک امت تھا.یعنی کئی خوبیوں اور نیکیوں کا جامع.وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ سوال کرتے تھے کہ تم معاذ کو امت کہتے ہو اول تو یہ آیت حضرت ابراہیم کے بارہ میں ہے.دوسرے امت جمع کا صیغہ ہے اکیلے معاد ایک امت یا جماعت کیسے ہو گئے؟ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود خود اس کا جواب دیتے تھے کہ یہاں امت کے معنی اس شخص کے ہیں جو خیر کی تعلیم دیتا ہے اور اتنی خوبیاں اور نیکیاں اپنے وجود میں جمع رکھتا ہے جس کی پیروی ہونی چاہیے اور ” قانت“ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا کامل فرمانبردار اور اطاعت گزار ہے.(22) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان چمکتے ہوئے روشن ستاروں کی طرح نیکیوں اور خیرات کے جامع بن جائیں.-1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 حواله جات اصابہ جز 6 ص 6 اسدالغابہ جلد 4 ص 376 بخاری کتاب الادب، مسند احمد جلد 3 ص 575، ابن سعد جلد 3 ص586 مسند احمد جلد 5 ص 238 مسند احمد جلد 5 ص 228 ابو داؤد کتاب الصلوة ، بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم مسند احمد جلد 5 ص 243 اسدالغابہ جلد 4 ص377 مسند احمد جلد 5 ص 585 بخاری و ابن سعد جلد 3 ص840

Page 441

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 11 - بخاری کتاب الاحکام 427 حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ -12 -13 -14 -15 -16 -17 مسند احمد جلد 5 ص 435، اصابہ ج 6 ص 107 ابن سعد جلد 3 ص 585 ابن سعد جلد 3 ص 586 اسدالغابہ جلد 3 ص 377 اسدالغابہ جلد 4 ص 377 ابن سعد جلد 3 ص589 18 مجمع الزوائد جلد 3 ص 3 -19 -20 -21 -22 ابن سعد جلد 3 ص590 اسدالغابہ جلد 4 ص378 ابن سعد جلد 3 ص587 اسدالغابہ جلد 4 ص 378

Page 442

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 428 حضرت ابوطلحہ انصاری حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نام زید بن سہل تھا، مدینہ کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تعلق تھا، نام سے زیادہ کنیت بوطلحہ سے مشہور ہیں.مدینہ کے رئیس تھے.زبر دست تیرانداز ، ماہر شکاری اور بہت بہادر انسان تھے.مشہور انصاری خاتون حضرت ام سلیم بنت ملحان کے شوہر تھے.(1) قبول اسلام آپ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے.مدینہ میں اسلام کا پیغام پہنچا تو ام سلیم نے جو مدینہ کی معزز اور عقلمند خاتون تھیں بے دھڑک اسلام قبول کر لیا.ان کے شوہر مالک اس پر ناراض ہو کر مدینہ سے چلے گئے.کچھ عرصہ بعد ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام بھیجا.ام سلیم نے جواب دیا کہ ابوطلحہ جیسے عظیم انسان کا پیغام رو تو نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارے درمیان کفر و اسلام کا اختلاف شادی میں مانع ہے.ہاں اگر ابوطلحہ اسلام قبول کر لیں تو میں ان کے مسلمان ہونے کی خوشی میں اپنا مہر بھی چھوڑ دوں گی اور ابوطلحہ کے قبول اسلام کو ہی اپنا مہر سمجھوں گی.چنانچہ ابوطلحہ نے اسلام قبول کر کے ام سلیم سے شادی کر لی.حضرت ثابت کہا کرتے تھے کہ میں نے آج تک کسی عورت کے بارہ میں نہیں سنا کہ اس کا مہر ایسا قابل عزت ہو جیسا کہ ام سلیم کا مہر تھا.(2) دین کی خاطر کی جانے والی یہ شادی بہت با برکت ثابت ہوئی اور اس گھرانے نے اخلاص اور ایمان میں ایک غیر معمولی ترقی کی.میاں بیوی اسلام کی خدمات میں ایک دوسرے سے سبقت لینے لگے.اپنے آقا حضرت محمد مصطفی علیہ کے ساتھ اخلاص و فدائیت کے عجیب اور حیرت انگیز نمونے ان سے دیکھنے میں آئے اور آپ کی ایسی بے تکلفی اس گھرانے کے ساتھ ہوئی کہ حضور ﷺ ان کے گھر کو اپنا ہی گھر سمجھتے اور اپنی ذاتی ضروریات کیلئے بلاتر دڈ انہیں یا دفرمایا کرتے تھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم جب مدینہ تشریف لائے تو ابوطلحہ کو فرمایا کہ کوئی ایسا

Page 443

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 429 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مناسب بچہ تلاش کرو جو ہمارے گھر کے کام کاج کر دیا کرے.میرے والد ابوطلحہ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا کہ حضور انس بہت سمجھدار لڑکا ہے یہ آپ کے کام کاج سنبھال لے گا.حضرت انس " کہتے ہیں کہ اس وقت سے مجھے نبی کریم کی خدمت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور غزوہ خیبر سے واپسی تک میں یہ خدمت انجام دیتا رہا.(3) نبی کریم ﷺ کے اس خاندان سے قربت و محبت کے گہرے مراسم قائم ہوئے.ابوطلحہ اور ام سلیم دونوں میاں بیوی دل و جان سے اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ پر فدا اور آپ کی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے.حضور علیہ کے گھر شادی وغیرہ کے موقع پر ام سلیم انتظام و انصرام اپنے ذمہ لے لیتی تھیں.حضرت صفیہ کی شادی کے موقع پر بھی انہیں تیار کرنے کی خدمت ام سلیم بجالائیں.حضرت زینب کی شادی کے موقع پر حضرت ام سلیم نے دعوت ولیمہ کے لئے کھانا اپنے گھر سے تیار کر کے بطور تحفہ بھجوایا.(4) حضرت ابوطلحہ بھی اپنی مخلص اور فدائی بیوی کی طرح ہر دم ہر قربانی کیلئے مستعد ہوتے تھے.عرض کرتے تھے کہ اے خدا کے رسول اللہ ! اپنی ضروریات و حاجات کے سلسلہ میں مجھے خدمت کا موقع عطافرمایا کریں اور جو حکم چاہیں ارشاد فرما ئیں آپ مجھے ہمیشہ ہر کام کیلئے مضبوط اور قوی پائیں گے.(5) رسول اللہ ﷺ کی شفقتیں چنانچہ حضور نے مختلف مواقع پر اس خاندان کو خدمت کے مواقع عطا فرمائے.ایک دفعہ مدینہ میں رات کو اچانک کچھ شور بلند ہوا.اس زمانہ میں بیرونی دشمن سے بھی خطرات درپیش تھے.نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے گردو نواح کا فوری جائزہ لینے کا ارادہ فرمایا اور ابوطلحہ کے گھر جا کر ان کا گھوڑا مندوب نامی عاریتہ لیا، جلدی میں اس کی نگی پشت پر زین ڈالنے کی زحمت بھی گوارا نہ فرمائی.واپس آکر فر مایا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں اور ابوطلحہ کے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اسے بہنے والے دریا کی طرح تیز رفتار اور رواں پایا ہے.ابوطلحہ کا یہ گھوڑا اٹریل تھا مگر اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی برکت سے ایسا تیز ہوا کہ کوئی گھوڑا دوڑ میں اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا.(6)

Page 444

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 430 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی اس گھرانے سے بے تکلفی تھی.آپ گا ہے لگا ہے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے.ایک دفعہ ام سلیم نے نبی کریم علیہ کی دعوت کی کھانا تناول فرمانے کے بعد رسول اللہ نے بغرض دعا کچھ نوافل با جماعت پڑھائے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور ہمارے گھر کے ایک بچے نے حضور کے پیچھے صف بنائی اور ہماری بوڑھی والدہ پیچھے کھڑی ہوئیں.(7) ابوطلحہ کے بچوں سے بھی نبی کریم ﷺ کا بے تکلفی محبت و پیار کا عجیب تعلق تھا.ابوطلحہ کے ایک کمسن بیٹے کو اہل خانہ پیارے سے ابو عمیر کی کنیت سے بلاتے تھے.ایک دفعہ نبی کریم علیہ نے اس بچے کو پریشان دیکھ کر سبب پوچھا.گھر والوں نے بتایا کہ ابو عمیر کا وہ پرندہ اچانک مر گیا ہے جس سے یہ کھیلتا تھا اس لئے غمزدہ ہے.نبی کریم ﷺ ابوعمیر سے اس پرندے کے بارہ میں پوچھ کر اس کا دل بہلانے لگے کہ اے ابو عمیر تمہارے پالتو پرندہ کیا ہوا؟ بعد میں نبی کریم ﷺ خوش نصیب گھرانے کے اس بچے سے پیارو محبت کے ساتھ اس کے پرندے کے بارے میں باتیں کیا کرتے.(8) حضرت ابوطلحہ کا کھجوروں کا باغ بیرحاء نامی مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا.نبی کریم ﷺے.اس میں گاہے بگا ہے تشریف لے جاتے تھے.کھجور میں تناول فرماتے اس کے کنوئیں کا تازہ ٹھنڈا پانی پیتے.(9) حضرت ابوطلحہ کو نبی کریم ﷺ کی محبت کا کمال عرفان عطا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں ان سے عشق و وفا کے عجیب نظارے ظاہر ہوئے.تبرکات نبوی عالی حضرت ابو طلحہ شمال ادب اور شوق سے حضور کے تبرکات جمع کرنے کی سعی کرتے اور ان کی حفاظت فرماتے تھے.جب آنحضور ﷺے بال کٹواتے تو ابوطلحہ وہ پہلے شخص ہوتے جو تبرک کی خاطر آپ کے بال حاصل کرتے تھے.(10) خود رسول اللہ اللہ کو ابوطلحہ کی اس خواہش اور تمنا کا احترام ہوتا تھا.چنانچہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے بال کٹوائے تو آدھے سر کے بال دیگر صحابہ نے لئے کسی کے حصہ میں ایک

Page 445

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 431 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور کسی کے دو بال آئے.پھر حضور ﷺ نے ابوطلحہ کو یاد فر مایا اور دوسرے نصف سر کے سارے بال ان کو عطا فرمائے.ابو طلحہ کے گھر میں یہ بال ام سلیم نے شیشی میں محفوظ کر کے رکھے ہوئے تھے جو لمبا عرصہ محفوظ رہے اور پورا گھرانہ اس سے برکت حاصل کرتا رہا.(11) حضرت ابوطلحہ نے رسول اللہ کا ایک پیالہ بھی تبر کا سنبھال کے رکھا ہوا تھا.جوشکستہ ہونے کے بعد لوہے کی تار سے جڑا تھا.حضرت انس نے ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی کہ لوہے کے تار کی بجائے سونے یا چاندی کے تار سے اس پیالے کا حلقہ باندھا جائے.حضرت ابوطلحہ نے یہ بھی گوارا نہ کیا اور انس کو کہہ کر روک دیا کہ نبی کریم ﷺ کی بنائی ہوئی چیز میں ہر گز کوئی تبدیلی نہیں کرنی.گویا اس متبرک پیالے کو ویسا ہی رہنے دو جیسا ہم نے نبی کریم سے پایا.چنانچہ حضرت انس نے ایسا ہی کیا.(12) مہمان نوازی مدینہ کے ابتدائی دور کے کٹھن اور مشکل حالات میں رئیس مدینہ ابوطلحہ اور ان کے خانوادے نے جس طرح نبی کریم ﷺ کی تائید و نصرت کی توفیق پائی وہ اپنی مثال آپ ہے.اس پر آشوب دور کا تذکرہ ہے، ایک دن ابوطلحہ نے ام سلیم سے آکر کہا کہ میں نے رسول کریم عے کی آواز میں ضعف محسوس کیا ہے جو مسلسل فاقہ کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے.کیا تمہارے پاس گھر میں کھانے کیلئے کچھ ہے؟ ام سلیم نے اثبات میں جواب دیا بلکہ جو کی کچھ روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر آپ نے حضرت انس کو رسول کریم ﷺ کے پاس بھیجوایا.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں حضور کے پاس مسجد نبوی میں حاضر ہوا آپ صحابہ کے ساتھ تشریف فرماتھے اور سامنے جا کر کھڑا ہو گیا.رسول اللہ ﷺ نے خود ہی استفسار فرمایا کہ کیا ابوطلحہ نے تمہیں کھانے کی کوئی چیز دے کر بھجوایا ہے.حضرت انسؓ نے عرض کیا جی حضور ! رسول اللہ ﷺ نے تمام حاضرین مجلس سے فرمایا چلو (ابوطلحہ) کے گھر چلیں میں نے آگے جا کر ابوطلحہ کوخبر کی رسول اللہ ﷺ صحابہ کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں.ابوطلحہ نے ام سلیم سے فکر مندی میں بات کی کہ رسول اللہ اللہ تو لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس کھانا پیش کرنے کا مناسب انتظام نہیں ہے.ام سلیم نے کمال تو کل سے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ، تب ابوطلحہ

Page 446

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 432 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ اللہ کے استقبال کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور حضور کو خود اپنے ساتھ لے کر آئے.حضور نے آتے ہی ام سلیم سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے کر آؤ.ام سلیم وہی روٹیاں لے آئیں.رسول کریم معدہ کے حکم پر ان روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے گئے اور ام سلیم نے اپنے ایک گھی کے بر تین میں پڑا کچھ گھی نکال کر ان پر ڈالا.پھر رسول اللہ ﷺ نے اس پر دعا کی اور فرمایا کہ دس دس کر کے صحابہ اندر آتے جائیں اور کھانا کھاتے جائیں.اس طرح موجود تمام حاضرین نے کھانا تناول کیا جن کی تعداد ستر کے قریب تھی.(13) اس واقعہ سے جہاں ابوطلحہ کی محبت و ادب رسول اور ام سلیم کے تو کل علی اللہ کا اندازہ ہوتا ہے وہاں نبی کریم ﷺ کی سیرت کا یہ خوبصورت پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ فاقہ کی حالت میں بھی تنہا کھانا پسند نہیں فرمایا جب تک اپنے فاقہ زدہ غلاموں کو بھی ساتھ شامل کر لیا، اور ابوطلحہ کے چند روٹیاں بھیجوانے کا ایسا لحاظ کیا کہ ان کے گھر تشریف لے جا کر انہی روٹیوں سے نہ صرف تمام صحابہ کی مہمان نوازی کروائی بلکہ سب کو ابوطلحہ کیلئے دعاؤں کا موقع بھی بہم پہنچایا اور یوں صحابہ کے مابین اخوت مودت کی ایک خوشگوار فضا قائم فرمائی.ایثار ابوطلحہ اور ان کے خاندان کو ایسی مہمان نوازی کی سعادت ان کے ایثار اور اہل خانہ کے خلوص کے باعث میسر آتی ہی رہتی تھی.چنانچہ ایک اور موقع پر نبی کریم کے کے پاس ایک مہمان آیا.آپ نے سب سے پہلے تو اپنے گھر ازواج مطہرات کے ہاں پیغام بھجوایا کہ مہمان نوازی کا کچھ انتظام کریں.اتفاق سے اس تنگی و فاقہ کے زمانہ میں کسی گھر سے کچھ میسر نہ آیا.اس کے باوجود نبی کریم نے اکرام ضیف کا بندو بست کرنے کیلئے صحابہ کو تحریک فرمائی کہ کون اس مہمان کو اپنے گھر لے جا کر تواضع کر سکتا ہے.حضرت ابوطلحہ نے بخوشی اس کی حامی بھر لی اور گھر جا کر اپنی اہلیہ سے کہا کہ رسول اللہ اللہ کا مہمان آیا ہے اس کی ضیافت کا اہتمام کریں.انہوں نے اپنی بے چارگی کا ذکر کیا کہ گھر میں تو صرف بچوں کیلئے معمولی سا کھانا ہے.لیکن ان ایثار پیشہ میاں بیوی نے یہ خوبصورت تدبیر کی کہ بچوں کو بھوکے سلا دیا جائے اور کھانا تیار کر کے مہمان کی خدمت میں پیش کیا جائے.چنانچہ ایسا

Page 447

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 433 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ ہی ہوا اور مین کھانے کے وقت گھر کی مالکہ چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھیں اور اسے گل کر دیا تا کہ رسول اللہ ﷺ کا مہمان پیٹ بھر کر کھانا کھالے اور اس طرح خود میزبان کھانے میں عملاً شریک نہ ہوئے مگر مہمان کے اعزاز و اکرام کی خاطر یہی کرتے رہے کہ گویا وہ کھانے میں شریک ہیں.خالی منہ ہلاتے ہوئے مچا کے لیتے رہے ، رات فاقہ سے گزاری اور رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر داری میں فرق نہ آنے دیا.صبح جب ابوطلحہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ رات ہمارے مہمان کے ساتھ جو سلوک تم لوگوں نے کیا خدا تعالیٰ بھی اس پر خوش ہو کر مسکرارہا تھا اور تمہاری یہ ادا ئیں اسے بہت پسند آئیں.صحابہ رسول کے ارشاد کا یہی وہ مضمون ہے جو قرآن شریف میں سورۃ الحشر آیت 10 میں بیان ہوا ہے یعنی خدا کے وہ مومن بندے اپنے نفسوں پر اپنے بھائیوں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود تنگی سے کیوں نہ ہوں.(14) صبر ورضا حضرت ابوطلحہ اور ان کی اہلیہ صبر ورضا کے بھی پیکر تھے.بعض ایسے عجیب نمونے میاں بیوی سے ظاہر ہوئے کہ عام حالات میں ان پر یقین کرنا ممکن نظر نہیں آتا مگر فی الحقیقت ایسے واقعات رونما ہوئے.ایک دفعہ حضرت ابوطلحہ کا بیٹا شدید بیمار تھا نہیں گھر سے باہر کسی کام سے جانا پڑا.دریں اثناء بچہ بقضائے الہی فوت ہو گیا.رات گئے واپس آکر ابوطلحہ نے بچے کا حال پوچھا آپ کی اہلیہ ام سلیم نے کمال صبر و رضا کے ساتھ یہ ذو معنی جواب دیا کہ بچہ پر سکون ہے اور مجھے امید ہے کہ اسے مکمل آرام ہے.حضرت ابوطلحہ نے اس سے ظاہری صحت کا مفہوم مراد لیا اور میاں بیوی نے خلوت میں رات بسر کی.ابوطلحہ اگلی صبح جب نماز کیلئے مسجد نبوی جانے لگے ام سلیم نے کہا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت ہم سے واپس لے لی ہے اور بچہ کے پرسکون ہونے سے میری یہی مراد تھی ابوطلحہ اس پر بہت تلملائے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جا کر شکایتاً عرض کیا کہ ام سلیم نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے.حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے آج رات کے ملاپ میں برکت ڈالے گا ، چنانچہ حضرت ام سلیم کے صبر و رضا کی یہ ادا اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی مقبول ٹھہری اور ان کی اولاد میں ایسی برکت پڑی کہ دس بیٹے ہوئے اور سب کے سب قرآن کے حافظ تھے.(15)

Page 448

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 434 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کو ابوطلحہ اور ان کی قوم سے جو محبت تھی اس کا اندازہ اس پیغام سے خوب ہوتا ہے جو حضور نے بوقت وفات ابوطلحہ کو دیا کہ اپنی قوم کو میرا سلام پہنچانا بلاشبہ وہ ایسے لوگ ہیں جو مجسم صبر ورضا ہیں گویا انہوں نے صبر کی لگا میں پہن رکھی ہیں.صبر جمیل کی اس سے اعلیٰ تصویر کشی اور کیا ہو سکتی ہے.(16) مالی قربانی حضرت ابوطلحہ مدینہ کے مالدار رئیس تھے مالی قربانی کے میدان میں بھی آپ کسی سے پیچھے نہ تھے بلکہ قربانی کا اعلیٰ ذوق تھا.چنانچہ بعض ایسی تاریخی اور مثالی قربانیوں کی تو فیق آپ نے پائی جو ہمیشہ یادرکھی جائیں گی.مسجد نبوی کے سامنے حضرت ابوطلیہ کو کھجوروں کا ایک قیمتی باغ تھا جو بیرحاء“ کے نام سے مشہور تھا نبی کریم اس باغ میں تشریف لے جا کر گا ہے لگا ہے آرام فرماتے اور اس کے پھل اور تازہ پانی کے لطف اندوز ہوتے جب قرآن شریف کی یہ آیت اتری.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) کہ کامل نیکی یہ ہے کہ تم وہ چیز خرچ کرو جو تمہیں زیادہ دل پسند اور محبوب ہے.حضرت ابوطلحہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اللہ تعالی مالی قربانی کے بارہ میں یہ ہدایت دیتا ہے اور میرا سب سے قیمتی اور پیارا باغ بیرحاء“ ہے.آج سے میں یہ باغ اللہ کے نام پر صدقہ کرتا ہوں اور خدا سے اس کے اجر و ثواب کا امیدوار ہوں.آپ جیسے پسند فرمائیں اسے استعمال میں لائیں.رسول کریم ہے اس عظیم قربانی پر بہت خوش ہوئے اور ابوطلحہ سے فرمایا کہ واہ واہ ! یہ تو بہت نفع بخش سودا ہے.پھر حضور ﷺ نے وہ باغ ابوطلحہ کے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کروا دیا، فرمایا ہم نے یہ صدقہ قبول کیا.اب آپ اپنے مستحق رشتہ داروں میں تقسیم کر دیں.(17) اطاعت رسول ما حضرت ابوطلحہ نے اطاعت رسول کے میدان میں بھی ایسے بے نظیر نمونے چھوڑے ہیں.جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائیں گے، ایسی نا قابل فراموش مثالیں سچے عشق کے

Page 449

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 435 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بغیر ممکن نہیں، چنانچہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے حضرت ابوطلحہ کے گھر میں ہم جلیسوں کی ایک محفل جمی ہوئی تھی.مہمانوں کی تواضع کیلئے حسب دستور شراب بھی پیش کی جارہی تھی کہ دریں اثناء مدینہ کی گلیوں میں ایک منادی کرنے والا یہ اعلان کرتا سنائی دیا کہ اے لوگو ! سنو شراب حرام کر دی گئی ہے.اس اعلان کا سننا تھا کہ ابوطلحہ نے اس نوجوان کو جو شراب کے جام تقسیم کر رہا تھا حکم دیا کہ شراب کے مٹکے تو ڑ دو اور ساری شراب بہادو اور اس نوجوان نے بھی فوری تعمیل کی اور چند لمحوں میں مدینہ کے گلی کوچوں میں یہ شراب بہنے لگی اور کسی نے اعلان کرنے والے سے پلٹ کر کوئی سوال تک نہیں کیا اور بے چون و چراں اس اعلان کی تعمیل کر دی گئی.(18) عقل محو حیرت ہے کہ جب شراب کے جام لنڈھائے جارہے ہوں ایسے میں اطاعت کا یہ شاندار نمونہ کہ محض ایک منادی کرنے والے کے اعلان پر شراب کے مٹکے تو ڑ کر اسے بہا دیا جائے اور کسی قسم کی تصدیق تحقیق کرنے کی بجائے تعمیل حکم کو اولیت دی جائے.اطاعت کی یہ ادا ئیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے تربیت یافتہ غلاموں میں ہی نظر آتی ہیں.غزوات میں شرکت حضرت ابوطلحہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہو کر شجاعت اور ایثار و فدائیت کے مظاہرے کرتے رہے.غزوہ بدر میں بھی آپ شریک تھے خود بیان کرتے تھے کہ جنگ بدر میں اسلامی لشکر کفار مکہ کے بالمقابل صف آراء تھا اور مسلمانوں کو تازہ دم کرنے اور ان کے آرام اور تسکین کیلئے عارضی طور پر نیند کے غالب آنے کا جو نشان عطا کیا گیا اس کا سورہ انفال کی ابتدائی آیات میں ذکر ہے آپ اس الہی نشان کے بذات خود شاہد تھے.چنانچہ میدان بدر میں اونگھ آجانے کے باعث آپ کے ہاتھ سے تلوار گر جاتی تھی آپ پھر پکڑتے اور وہ پھر گرتی تھی.(19) حضرت ابوطلحہ زبردست جنگجو تھے بلند آواز رکھتے تھے اور میدان جنگ میں شیر کی طرح گرج کر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے.نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ لشکر میں تنہا ابوطلحہ کی آواز ایک جماعت کی آواز پر بھی بھاری ہوتی ہے.(20)

Page 450

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد میں فدائیت اور جانثاری 436 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ معرکہ احد میں بھی حضرت ابوطلحہ نے شجاعت و بہادری کے خوب جو ہر دکھائے اور جان ہتھیلی پر رکھ رسول کریم ﷺ کی حفاظت کا حق ادا کر دکھایا.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جب کفار کے غیر متوقع حملہ سے مسلمانوں کی پسپائی ہوئی اور ایک وقت میں نبی کریم ﷺ چند صحابہ کے ساتھ میدان میں رہ گئے.اس وقت ابوطلحہ نبی کریم ﷺ کے آگے ڈھال بن گئے.کفار کے تیروں اور نیزوں کا واحد نشانہ رسول اللہ علے تھے اور ابوطلحہ آپ کے آگے سینہ سپر تھے.آپ زبردست تیرانداز تھے.بدر کے دن اس مرد میدان نے ایسی بلا کی تیراندازی کی کہ دو تین کمانیں توڑ ڈالیں.ایک شخص کے پاس تیروں کا تھیلا ہوتا تھا اس کی ڈیوٹی تیراندازوں کو تیر مہیا کرنا تھی.نبی کریم اسے فرماتے تھے کہ ابوطلحہ کے آگے تیر ڈال دو اور پھر جب ابوطلحہ نشانہ باندھ کر تیر چلاتے تو رسول اللہ ﷺ کی نظریں اس کا تعاقب کرتیں اور آپ سر اٹھا کر دیکھنا چاہتے کہ اس مجاہد کا تیر دشمن کی صفوں میں کہاں جاکے پڑا ہے.ابوطلحہ کو اپنے سے زیادہ اپنے آقا کی جان عزیز تھی.وہ نہایت ادب اور محبت سے عرض کرتے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یوں سراٹھا کے نہ دیکھا کیجئے.کہیں دشمن کا کوئی تیر میرے آقا کو گزند نہ پہنچائے.اللہ کے رسول ﷺ ! میں جو آپ کے آگے سینہ سپر ہوں.میرا سینہ آپ کی طرف پھینکے گئے ہر تیر کو کھانے کیلئے تیار ہے.(21) خوش نصیب ابوطلحہ انصار کے ساتھ میدان احد میں ہی ایک اور بزرگ جانثار صحابی (جو قریش سے مہاجرین میں سے تھے ) حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو بھی نبی کریم علے کے آگے پیچھے لڑنے اور کما ل فدائیت سے آپ کا دفاع کرنے کی سعادت عطا ہوئی.وہی طلحہ جنہوں نے رسول اللہ علیہ کے چہرہ کی حفاظت کے لئے اپنا ہاتھ بطور ڈھال تیروں کے آگے کر دیا تھا اور ہاتھ کی انگلیاں شل ہو کر وہ ٹنڈا ہو گیا تھا.(22) نام اور فدائیت میں مشابہت کے باعث بعض دفعہ ابوطلحہ (انصاری) اور طلحہ بن عبید اللہ (قریشی ) میں امتیاز نہیں رہتا اور تشابہ پیدا ہو جاتا ہے اس لئے یہ فرق مدنظر رکھنا ضروری ہے.

Page 451

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر 437 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا یہ جان نثار اور فدائی ابوطلحہ غزوہ خیبر میں بھی اپنے آقا کے ہمرکاب تھا.اور رسول اللہ ﷺ کے قرب میں رہ کر خدمات کی سعادت پا تا رہا، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے سوار تھا.جب ہم خیبر پہنچے تو ابوطلحہ کی سواری رسول اللہ ﷺ کی سواری کے اس قدر قریب تھی کہ میرے گھٹنے نبی کریم اللہ کی رانوں کو چھورہے تھے.(23) غزوہ خیبر سے واپسی پر بھی ابوطلحہ رسول کریم ﷺ کی حفاظت کے خیال سے قدم بقدم آپ کے ساتھ رہے.ایک موقع پر جب نبی کریم ﷺ کی وہ اونٹنی ٹھوکر لگنے سے گری جس پر حضور کے ساتھ ام المومنین حضرت صفیہ بھی سوار تھیں، حضور ﷺ کے ساتھ وہ بھی گر پڑیں.باوفا ابوطلحہ نے دیوانہ وار اپنے اونٹ سے چھلانگ لگا دی اور لپک کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میرے آقا! میں آپ پر قربان آپ کو کوئی گزند تو نہیں پہنچی.کوئی چوٹ تو نہیں آئی.آپ نے فرمایا نہیں تم پہلے عورت یعنی حضرت صفیہ کی خبر گیری کرو.ابو طلحہ نے کمال حیاداری کے ساتھ پہلے اپنے چہرہ پر کپڑا ڈال کر پردہ کیا تب ام المومنین کی طرف رخ کیا.اور پھر وہ کپڑا انہیں اوڑھا دیا اور حضرت صفیہ اطمینان سے اٹھ کر سنبھل گئیں.ابو طلحہ نے دریں اثناء حضور ﷺ کی اونٹنی کا پالان مضبوطی سے باندھا پھر حضور ﷺ کو اور حضرت صفیہ کو سوار کروا کے روانہ کیا.(24) فتح مکہ اور حنین میں شرکت فتح مکہ اور غزوہ حنین کے تاریخی معرکوں میں بھی حضرت ابوطلحہ شریک ہوئے.حنین کے موقع پر آپ کی زوجہ حضرت ام سلیم اپنے پاس ایک خنجر لئے شریک سفر تھیں.حضرت ابوطلحہ نے برسبیل تذکرہ نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کر دیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ام سلیم بھی کمر بند میں خنجر اڑ سے پھرتی ہیں.حضور اللہ نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ اس خنجر کو کیا کریں گی؟ وہ بولیں اگر کوئی دشمن رسول میرے قریب آیا تو اسے ٹھکانے لگائے بغیر نہ چھوڑوں گی.(25) حسنین کے موقع پر بھی ابوطلحہ نے شجاعت کے خوب جو ہر دکھائے.نبی کریم ﷺ نے اعلان

Page 452

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 438 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ فرمایا تھا کہ جو مجاہد کسی کا فر کو قتل کرے گا اس کا اسلحہ اور سواری بطور مال غنیمت اسے ملیں گے.ابوطلحہ کے ہاتھوں اس روز ہمیں دشمنان اسلام ہلاک ہوکر کیفر کردار کو پہنچے.(26) ابوطلحہ کی ایک اور سعادت رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد تدفین کیلئے جب یہ سوال پیدا ہوا کہ لحد بنائی جائے یا سیدھی قبر ہو تو حضرت عباس نے یہ معاملہ منشاء الہی کے حوالے کرتے ہوئے دو آدمی بیک وقت دونوں قسم کی قبر بنانے والوں کی طرف دوڑا دیئے.ابوعبید سیدھی قبر بناتے تھے جسے شق کہتے ہیں ان کی طرف جو قاصد گیا وہ اسے مل نہ سکے.ابوطلحہ محد بناتے تھے.ان کی طرف بھیجا ہوا آدمی کامیاب واپس لوٹا اور ابوطلحہ کو ہمراہ لایا.چنانچہ نبی کریم ﷺ کی لحد بنانے کی سعادت بھی ابوطلحہ کے حصہ میں آئی.(27) اور یوں عمر بھر خدمات رسول علے بجالانے والے ابوطلحہ کو اس آخری خدمت کی بھی توفیق ملی.شوق جہاد نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی بڑھاپے کی عمر میں جذ بہ وشوق جہاد سرد نہیں ہوا.چنانچہ خلافت ابوبکر و عمر میں بھی جہاد کی تو فیق پاتے رہے بلکہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جب پہلا اسلامی بحری بیٹ مہم پر روانہ ہونے لگا تو حضرت ابوطلحہ نے اس میں شرکت کی خواہش کی اور گھر والوں کو اس کیلئے اس طرح آمادہ کیا کہ قرآن شریف میں اِنْفِرُوا خِفَافَا وَ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا ( التوبه : 41) کا حکم ہے یعنی جہاد کیلئے ہلکے اور بوجھل ہر حال میں نکلو اور جہاد کروفرماتے تھے کہ اس آیت میں بوڑھوں اور جوانوں دونوں کیلئے حکم ہے کہ جہاد کیلئے نکلیں.بیٹوں نے کہا آپ کو تو رسول اللہ اور پھر ابوبکر و عمر کے زمانہ میں جہاد کی سعادت عطا ہوئی.اب ہم جو یہ فرض ادا کرنے کیلئے حاضر ہیں آپ آرام کریں ، مگر انہوں نے اصرار کر کے اس بحری سفر پر جانے کی تیاری کر کے روانہ ہوئے.اسی سفر میں ان کی وفات ہو گئی.دوران سفر ساتویں دن ایک جزیرہ کے پاس بحری بیڑہ آکر رکا تو وہاں انہیں دفن کیا گیا اس عرصہ میں آپ کی نعش بالکل محفوظ رہی اور اس میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی.

Page 453

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 439 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ حضرت ابوطلحہ کی وفات 34 ھ میں ہوئی.حضرت عثمان نے نماز جنازہ پڑھائی.(28) روایت حدیث میں احتیاط حضرت ابو طلحہ کو اگر چہ رسول کریم ﷺ کی صحبت و رفاقت میں ایک لمبا عرصہ گزارنے کی سعادت عطا ہوئی.مگر اپنی تواضع اور انکساری نیز احادیث کے بیان میں احتیاط کے باعث آپ کی روایات بہت کم ہیں.اور جو روایات ہیں وہ آپ کی گہری دینی بصیرت ، عمدہ مذاق اور معتدل مزاج کو ظاہر کرتی ہیں ، ایک اہم روایت دین اسلام کی طبعی سہولت اور نرمی سے متعلق رکھتی ہے.جس میں قرآن شریف کی صحت کے ساتھ تلاوت میں شدت اور سختی اختیار کر کے اسے مشکل بنانے کی بجائے ایک بنیادی عمومی اصول مد نظر رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.حضرت ابوطلحہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عمر کے سامنے قرآن شریف کی قراءت میں کچھ تغیر کیا، حضرت عمر نے کہا کہ میں نے تو نبی کریم ہے کے سامنے یہ تلاوت اس طرح کی تھی جو قدرے مختلف تھی.ابوطلحہ کہتے ہیں اس کے بعد ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس شخص نے قراءت کی تو حضور نے اس شخص کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے درست تلاوت کی ہے.حضرت عمر کو کچھ ناگواری ہوئی کیونکہ ان کے اعلیٰ معیار پر وہ قراءت پوری نہیں اترتی تھی.تب آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! قرآن شریف کی ہر قراءت درست ہے.بشرطیکہ یہ بنیادی بات مدنظر رہے کہ اسمیں معنوی تبدیلی نہ ہو اور معنے ایسے الٹ پلٹ نہ ہو جائیں کہ عذاب کی جگہ مغفرت و بخشش کا مضمون اور بخشش کی جگہ عذاب کا مضمون بنا دیا جائے.(29) دیگر روایات کا تعلق بھی اس عاشق رسول کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس قلبی لگاؤ اور محبت سے ہے جو ان کی طبیعت کا حصہ تھا.بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ علہ بہت ہشاش بشاش تھے.چہرے سے خوشی کے آثار ہویدا تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آج خاص بشاشت اور مسرت کے آثار نمایاں ہیں؟ فرمایا ہاں میرے رب کی طرف سے ایک آنے والے نے آکر مجھے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ " آپ کی امت میں سے آپ پر اگر کوئی ایک دفعہ درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں شمار کرے گا اور دس خطائیں معاف کرے گا اور اس کے دس درجے بلند کئے

Page 454

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 440 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ جائیں گے اور مزید یہ کہ اسی طرح کی رحمتیں اور برکتیں اس کی طرف بھی لوٹائی جائیں گی.‘ (30) اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں ہوں حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی آل پر اور آپ کے اس خاص رفیق حضرت ابوطلحہ پر اور خدا کرے کہ ان کے اخلاص و وفا کے نیک نمونے ہم ہمیشہ زندہ رکھنے والے ہوں.(آمین) حواله جات -1 اصا به جز 3 ص 28 2- نسائی کتاب النکاح -3 -4 -5 -6 -7 -8 بخاری کتاب الوصايا ابوداؤ و کتاب الاماره، بخاری کتاب النکاح ابن سعد جلد 3 ص507 بخاری کتاب الحصبه و کتاب الجہاد ترمذی ابواب الصلوة ابن سعد جلد 3 ص 506 و الشمائل النبوية الترندى 9 - بخاری کتاب التفسیر -10 -11 بخاری کتاب الوضوء ابن سعد جلد 3 ص 505 12 - بخاری کتاب الاشربہ -13 بخاری کتاب الاطعمه 14 - بخاری کتاب المناقب -15 -16 بخاری کتاب الادب اسد الغابہ جلد 2 ص232 بیروت 17- بخاری کتاب الزکوۃ وكتاب والوصايا -18 بخاری کتاب التفسير سورة المائده

Page 455

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -19 بخاری کتاب المغازی 20 اصا به جز 3 ذکر زید بن سہل 21 - بخاری کتاب المناقب -22 ابن سعد جلد 3 ص 217 23- مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 102 -24 بخاری کتاب الجہاد -25 -26 -27 -28 -29 -30 مسند احمد جلد 3 ص 112 مسند احمد جلد 3 ص114 مسند احمد جلد 4 ص260 ابن سعد جلد 3 ص507 مسند احمد جلد 4 ص30 مسند احمد جلد 4 ص29 441 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ

Page 456

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 442 حضرت ابودجانہ انصاری حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ نام سماک بن خرشتہ تھا.بعض نے سماک بن اوس بن خرشہ لکھا ہے.بنوخز رج قبیلے سے تعلق تھا، والدہ حزمہ بنت ہرملہ تھیں.حضرت سعد بن عبادہ سردار قبیلہ خزرج کے چازاد بھائی تھے.ہجرت سے قبل اسلام قبول کرنے کی سعادت عطا ہوئی ، نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور مسلمانوں میں باہم مواخات کا سلسلہ جاری فرمایا تو عتبہ بن غزوان کے ساتھ حضرت ابودجانہ کی مواخات قائم کر کے دونوں کو بھائی بھائی بنادیا.بدر اور احد میں شجاعت حضرت ابودجانہ کو رسول اللہ علیہ کی معیت میں تمام غزوات میں شامل ہونے کی سعادت ملی.غزوہ بدر میں نہایت بہادری سے شرکت کی.شجاعت اور مردانگی میں آپ کا ایک خاص انداز تھا.سرخ رنگ کی پٹی سر پر باندھ لیتے.یہ خونی رنگ کا کفن اس بات کا اظہار ہوتا کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر شہادت کے لئے تیار اور آمادہ ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں آیا ہوں.غزوہ اُحد میں بھی شرکت کی جب دوبارہ مسلمانوں پر کفار کا حملہ ہوا اور اس کی تاب نہ لاکر کا بعض مسلمانوں کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا تو آنحضرت تنہا میدان میں رہ گئے.جو چند صحابہ آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے ان میں حضرت ابودجانہ بھی تھے.اس موقع پر آنحضرت نے موت پر صحابہ کی بیعت لی.ابودجانہ بیعت کرنے والوں میں بھی شامل تھے.(1) احد میں دوبارہ جب گھمسان کا رن پڑا تو آنحضرت ﷺ کا خاص دفاع کرنے والے اور آپ کے آگے پیچھے اور دائیں اور بائیں لڑنے والے صحابہ میں طلحہ قریشی اور ابوطلحہ انصاری کے علاوہ ایک حضرت مصعب بن عمیر تھے.جنہوں نے اس راہ میں اپنی جان فدا کر نے کا حق ادا کر دکھایا.دوسرے صحابی حضرت ابودجانہ تھے جو آنحضور ﷺ کا دفاع کرتے انتہائی زخمی ہو گئے.انہیں بہت زخم آئے مگر حضور ﷺ کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہے.(2)

Page 457

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 443 حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ اللہ کی تلوار اُحد کے معرکہ کا وہ حیرت انگیز اور شاندار واقعہ آپ ہی سے متعلق ہے جب آنحضرت مع نے اپنی تلوار فضا میں لہراتے ہوئے پوچھا تھا کہ کوئی ہے جو آج میری اس تلوار کا حق ادا کرے؟ کون تھا جسے اس اعزاز کی تمنا نہ ہو.تمام صحابہ صدق دل سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اے کاش ! حضور کی یہ زائد تلوار جو آپ نے کسی تلوار کے دھنی کے لئے سنبھال رکھی ہے آج ہاتھ آجائے اور وہ میدان وغا میں بہادری کے جوہر دکھا سکیں آنحضرت ﷺ نے دوبارہ فرمایا کون ہے جو یہ تلوار اس عہد کے ساتھ لے کہ اس کا حق ادا کرے گا.صحابہ خاموش سوچ ہی رہے ہونگے کہ اس تلوار کا کیا حق ہمیں ادا کرنا ہوگا ؟ ابودجانہ وہ دبنگ اور متوکل انسان تھے کہ ایک عارفانہ شان کے ساتھ آگے بڑھے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ اس تلوار کا حق ادا کر کے دکھاؤں گا.یہ تلوار مجھے عطا فرمائیے.آنحضرت ﷺ نے آپ کا عزم و حوصلہ دیکھ کر تلوار ان کے حوالہ کردی.پھر ابودجانہ نے جرات کر کے عرض کیا یا رسول اللہ اب یہ بھی تو فرما دیجئے کہ اس تلوار کا کیا حق مجھے ادا کرنا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا ” یہ تلوار کسی مسلمان کا خون نہیں بہائے گی دوسرے کوئی دشمن کافر اس سے بچ کے نہ جائے اور پھر ابودجانہ نے واقعہ تلوار کا یہ حق ادا کر کے دکھا دیا.وادی احد گواہ ہے کہ وہ تلوار کفار کی گردنوں اور کھوپڑیوں پر چلی اور خوب چلی اور انہیں تہ تیغ کر دکھایا.(3) ابود جانہ تلوار لہراتے اور یہ رجز گاتے ہوئے میدانِ اُحد میں نکلے.اَنَا الَّذِي عَاهَدَ نِي خَلِيلِي وَنَحنُ بِالسَّفْحِ لَدَى النَّخِيلِ اَنْ لَّا اَقُوْمَ الدَّهْرَ فِى الكُيُولُ أَضْرِبٌ بِسَيفِ اللَّهِ وَالرَّسُولِ یعنی آج میرے پیارے دوست اور میرے آقا حضرت محمد نے مجھ سے ایک عہد لیا.ہاں! کھجوروں کے دامن میں، پہاڑوں کی اس گھائی میں یہ عہد آپ نے مجھ سے لیا کہ میں آپ کی اس تلوار کا حق ادا کر کے دکھاؤں اور خدا اور اس کے رسول کی تلوار کے ساتھ دشمنوں کی گردنیں ماروں.حضرت ابو دجانہ یہ تلوار لے کر اکڑتے ہوئے میدانِ جہاد میں نکلے اور صفوں میں جاکر کھڑے ہو گئے ، آنحضرت ﷺ نے جب ابودجانہ کی یہ چال دیکھی تو فرمایا کہ عام حالات میں

Page 458

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 444 حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ بڑائی کا ایسا اظہار اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں لیکن آج میدان جنگ میں دشمن کے مقابل پر ابودجانہ کے اکٹر کر چلنے کی یہ ادا خدا تعالیٰ کو بہت پسند آئی ہے.(4) الغرض اُحد میں حضرت ابودجانہ کے ہاتھ میں رسول اللہ ﷺ کی عطا فرمودہ اس تلوار نے خوب خوب جو ہر دکھائے.ولیم میور جیسے مستشرق کو بھی لکھنا پڑا کہ ” جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودجانہ ان پر حملہ کرتا تھا اور اس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد نے دی تھی ، چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا‘(5) اُحد سے واپسی پر حضرت علیؓ نے جب اپنی تلوار حضرت فاطمہ کے حوالے کی اور کہا کہ لو فاطمہ یہ میری تلوار سنبھالو اور دھو کر اسے رکھ دو کہ یہ تلوار کوئی ملامت والی تلوار نہیں ، قابل ستائش شمشیر ہے جس کے ذریعہ آج میں نے بھی حتی المقدور میدانِ اُحد میں حق شجاعت ادا کرنے کی کوشش کی.آنحضرت نے سن کر تائید کرتے ہوئے فرمایا ہاں اے علی واقعہ تم نے آج جنگ کا حق ادا کر دیا اور تمہاری تلوار نے بھی.مگر تمہارے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی تو یہ حق ادا کیا ان میں حارث بن الصمہ بھی ہے.ان میں ابودجانہ بھی شامل ہے جن کی تلواروں نے میدانِ اُحد میں کمال کر دکھایا.(6) شہادت حضرت ابودجانہ کی شہادت حضرت ابو بکر کے زمانہ میں جنگ یمامہ میں ہوئی ہے.اس موقع پر بھی نہایت ہی مردانگی اور شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے آپ نے جان قربان کی.اس جنگ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ جب مقابلہ ہوا تو وہ خود ایک باغ میں محصور تھا.درمیان میں ایک بہت بڑی دیوار حائل تھی.قلعہ کے دروازے بند تھے اور مسلمانوں کو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کس طرح سے اس باغ کے اندر داخل ہوں اور قلعہ کو کیسے فتح کیا جائے؟ اس موقع پر ابودجانہ کو ایک تدبیر سوجھی.انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے میری تلوار سمیت اُٹھا کر اس باغ کے اندر پھینک دو، مسلمانوں نے ان کی اس خواہش کے مطابق انہیں دیوار کی دوسری طرف پھینک دیا، ابودجانہ دشمن کے اس دوسری طرف پہنچ تو گئے جہاں دوسرے مسلمان پہنچ نہیں پارہے تھے لیکن دیوار سے پھینکے جانے کی وجہ سے ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی.اس زخم کے باوجود آپ قلعہ کے بڑے

Page 459

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 445 حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور تلوار سے لڑتے اور جہاد کرتے رہے اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہے.جب تک مسلمان اس دروازے سے باغ کے اندر احاطے میں داخل نہیں ہو گئے.انہوں نے جاکر مسیلمہ کذاب پر حملہ کیا.ایک اور صحابی بھی اس حملے میں شریک تھے لیکن مسیلمہ کذاب کو ہلاک کرنے والوں میں حضرت ابودجانہ بھی شامل تھے جن کی مدد سے مسیلمہ ہلاک ہوا.آپ نے بڑی بہادری اور جرات سے جا کر مسیلمہ کذاب پر حملہ کیا اور اس راہ میں لڑتے ہوئے جنگ یمامہ میں شہید ہوکر جان دے دی.(7) حضرت ابودجانہ کی شہادت ثقہ روایت کے مطابق جنگ یمامہ میں 12ھ میں ہوئی اور یوں آپ نے آنحضرت علی کی اس عطا فرمودہ تلوار ( جس کے ذریعے حضور نے آپ پر ایک عظیم الشان اعتماد کا اظہار کیا تھا) اس کا حق حضور کی وفات کے بعد جنگ یمامہ میں بھی ادا کر کے دکھا دیا.صفائی قلب و باطن حضرت ابو دجانہ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.ایک دفعہ بیمار ہوئے تو چہرہ چمک رہا تھا.کسی نے سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ اپنے دو اعمال کی وجہ سے میرا دل خوش ہے.شاید اللہ تعالیٰ ان کو قبول کر لے.ایک تو یہ کہ میں کبھی کوئی لغو کلام نہیں کرتا نہ کسی کے بارہ میں کوئی غیبت نہ کوئی لغو بات نہ کوئی لایعنی کلمہ اپنی زبان پر لاتا ہوں.دوسرے یہ کہ اپنا دل مسلمان بھائیوں کے لئے ہمیشہ صاف رکھتا ہوں اور کبھی کسی مسلمان کے لئے میرے دل میں کوئی کینہ اور بغض پیدا نہیں ہوا.(8) یہ وہ صاف اور پاک دل لوگ تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں نچھاور کر کے اپنی پاک باطنی پر مہر کردی.حضرت ابودجانہ کی شادی اپنے نھالی خاندان کی ایک خاتون آمنہ بنت عمرو سے ہوئی تھی.جس سے ایک بیٹے خالد کا ذکر ملتا ہے.(9) ان کی اولا د مدینہ اور بغداد میں آباد ہوئی.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نیک اور پاک نمونہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 460

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -2 -3 T N ♡ + LO -1 -4 -5 -6 -7 -8 -9 446 حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ ابن سعد جلد 3 ص 556 اصابہ ج 7 ص 57 حواله جات ابن سعد جلد 3 ص 556 ،مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل ابی دجانہ اسد الغابہ جلد 2 ص 352 لائف آف محمدص 251 252 بحوالہ سیرت خاتم النبین ابن سعد جلد 3 ص 557 اسد الغابہ جلد 2 ص 353 ابن سعد جلد 3 ص 557 ابن سعد جلد 3 ص 556

Page 461

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 447 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تعارف و قبول اسلام حضرت محمد بن مسلمہ دراز قد ، دو ہر ابدن ، گندم گوں رنگ، یہ تھے حضرت محمد مسلمہ انصاری جن کا تعلق اوس قبیلے سے تھا.آنحضرت ﷺ کی بعثت سے بائیس سال قبل پیدا ہوئے.ان کی خوش نصیبی کہ اس وقت نام محمد رکھا گیا، کنیت ابوعبدالرحمان معروف تھی.اسلام کے پہلے مبلغ حضرت مصعب بن عمیر جب مدینہ تشریف لائے ہیں تو ابتداء میں ہی ان کی تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں حضرت سعد بن معادؓ سے پہلے حضرت محمد بن مسلمہ مسلمان ہوئے.پھر رسول اللہ علیہ نے مواخات کا سلسلہ قائم فرمایا تو آپ کو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا اسلامی بھائی بنایا گیا.(1) حضرت ابو عبیدہ بن الجراح وہ بلند پایہ صحابی ہیں جو عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان صحابہ میں جنہیں آنحضرت ﷺ نے انہیں ان کی زندگی میں جنت کی نوید سنائی تھی.ان کے ساتھ محمد بن مسلمہ کا اسلامی رشتہ اخوت بھی ایک اعزاز تھا.حضرت محمد بن مسلم یکونہ صرف خود صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا بلکہ آپ کے پانچ بیٹوں جعفر عبداللہ، سعد ، عبدالرحمن اور عمر کو بھی آنحضرت ﷺ کی صحابیت کی سعادت نصیب ہوئی.(2) شہسوار رسول عالم رسول کریم محمد بن مسلمہ کی فدائیت، عزم راسخ، بہادری اور دلیری کی وجہ سے ان پر بہت اعتماد فرماتے تھے.چنانچہ آپ نے بڑی بڑی مہمات ان کے سپر دفرمائیں.جن کو سر کرتے ہوئے وہ نہایت کامیابی سے واپس لوٹے.چنانچہ ان خدمات کی وجہ سے انہیں فارس نبی اللہ یعنی آنحضرت کے شہسوار کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا.(3) وہ دلیر اور نڈر ایسے تھے کہ تنہا یہ شہسوار رسول اللہ علیہ کے دستے کا کام دیتے اور جس طرف بھجوائے جاتے کامیابی سے ہمکنار ہو کر واپس لوٹتے.غزوات رسول میں اسی جذبہ ایثار و فدائیت

Page 462

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 448 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہوتے.بدر میں حضور کے ساتھ شریک تھے.اُس کے بعد جب یہود بنو قینقاع کی طرف سے بدعہدی ظاہر ہوئی اور مدینہ سے انکے اخراج کا معاملہ سامنے آیا ، تو آنحضرت علیہ نے یہ نہایت نازک ذمہ داری حضرت محمد بن مسلمہ کے سپر دفرمائی.اور انہوں نے بنو قینقاع کی جلاوطنی اور اس ضمن میں اموال کی وصولی کی تمام ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کیں.اس کے بعد یہود بنو نضیر اور بنو قریظہ کے سرداروں کی بعض ریشہ دوانیوں قتل کے منصوبوں اور دیگر سازشوں کو کچلنے کے لئے انہوں نے غیر معمولی اہم خدمات انجام دیں.یہودی سردار کعب بن الاشرف کی طرف سے جب عہد شکنی ، بغاوت تحریک جنگ، فتنہ پردازی بخش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پائیہ ثبوت کو پہنچ گئے تو نبی کریم ﷺ نے حاکم مدینہ کے طور پر کعب کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا جو سزائے موت سے کم نہ ہو سکتی تھی.(4) رسول کریم ﷺ نے ازراہ حکمت مدینہ کے مخصوص حالات کی وجہ سے کعب کے باضابطہ اعلان قتل سے احتراز کیا تا کہ مدینہ خانہ جنگی اور کشت و خون سے بچ جائے.یہ نازک اور اہم ذمہ داری خاموشی سے ادا کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہ کو مقررفرمایا.انہوں نے عرض کیا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں کوئی عذر تر اشنا پڑے گا تا کہ مجرم کو گھر سے نکال کر کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے.نبی کریم ﷺ نے وسیع تر قومی وسیاسی مفاد کے پیش نظر اس کی اجازت دی.محمد بن مسلمہ نے ابونائلہ اور دو تین اصحاب کے ساتھ کعب کے مکان پر جا کر کچھ قرض کا مطالبہ کیا کہ نبی کریم ہ ہم سے صدقہ کا تقاضا کرتے ہیں.اس نے کہا کہ ابھی تو تم اور بیزار ہو کر اسے ترک کرو گے.محمد بن مسلمہ نے کہا اب تو ان کی پیروی کی ہے تو دیکھنا ہے کہ کیا انجام ہوتا ہے مگر تم بتاؤ قرض دو گے یا نہیں؟ اس نے اپنی طبعی شرارت سے بطور ضمانت عورتیں یا بیٹے رہن رکھنے کا مطالبہ کیا.آخر طے پایا کہ ہتھیار رہن رکھے جائیں اور محمد بن مسلمہ رات کا وعدہ کر کے واپس آگئے.یوں انہیں کعب کے ڈیرے پر کھلے عام ہتھیار لے جانے کی اجازت مل گئی.شام کو یہ پارٹی ہتھیار سے مسلح ہوکر وہاں پہنچی اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھیوں نے کعب کا کام تمام کر دیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کی اطلاع کر دی.(5)

Page 463

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 449 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اگلے روز یہود کا وفد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں کعب کے قتل کی شکایت لے کر آیا تو آپ نے کعب کی عہد شکنی، تحریک جنگ اور سازش قتل کے گھناؤنے جرائم گنوائے جس پر وہ خاموش ہو گئے.(6) الغرض محمد بن مسلمہ نے بغیر کسی نقصان کے نہایت حکمت اور دانش مندی کے ساتھ یہ تمام مہمات سرکیں.یہود بنونضیر کی بدعہدیاں سامنے آئیں تو آنحضرت ﷺ نے پھر حضرت محمد بن مسلمہ کو مامور فرمایا اور انہوں نے آنحضور ﷺ کی طرف سے وہاں جا کر یہ اعلان کیا کہ اے یہود! عہد شکنی کے نتیجے میں اب تمہارے اخراج کا فیصلہ کیا گیا ہے.اور پھر اس اعلان کے بعد بنونضیر کے اخراج کی تمام تر کا روائی حضرت محمد مسلمہ کی نگرانی میں مکمل ہوئی.غزوہ احزاب میں جب یہود بنو قریظہ نے غداری کی تو آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر بھی بعض ذمہ داریاں محمد بن مسلمہ کے سپر دفرمائیں.چنانچہ بنو قریظہ کے قیدیوں کو جمع کر کے سنبھالنے کی نازک ذمہ داری انہوں نے نہایت احسن رنگ میں ادا کی.غزوات میں شرکت اُحد کے غزوہ میں محمد بن مسلمہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک تھے اور کمال پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ انہوں نے حضور کا ساتھ دیا جب مسلمانوں پر درہ سے اچانک دوبارہ حملہ ہوا اور بعض لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور انہیں پیچھے ہٹنا پڑا.حضرت محمد بن مسلمہ ان چند جانثاروں میں سے تھے جو ثابت قدم رہے.غزوہ خندق میں بھی انہوں نے آنحضرت علیہ کے ساتھ شرکت کی اور اپنے سپر د جو ذمہ داریاں تھیں وہ بجالائے.حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ چودہ سوصحابہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے.ذوالحلیفہ سے آگے بڑھے تو از راہ احتیاط بطور پیشرو آپ نے سوسواروں کا ایک دستہ آگے بھیجا.ان کا امیر محمد بن مسلمہ کو مقرر فرمایا، انہوں نے آگے جا کر قریش سے ملاقات بھی کی اور اُن کو باخبر کیا کہ آنحضرت اُتنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لا رہے ہیں.الغرض حضرت محمد بن مسلمہ کو کبھی مجاہد اور کبھی امیر المجاہدین کے طور پر قریباً تمام غزوات میں

Page 464

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 450 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی معیت میں بھر پور شرکت کی سعادت ملی ہے.سوائے غزوہ تبوک کے جس میں آپ مدینہ کے امیر تھے.بعض اور غزوات میں بھی مدینہ میں اپنے پیچھے آنحضرت علیہ نے انہیں اپنا جانشین یا مقامی امیر مقررفرمایا، چنانچہ غزوہ قرقرة الکدر میں بھی ان کے مدینہ میں امیر مقرر کیا جانے کا ذکر ملتا ہے.مدینہ سے باہر بھی مختلف مہمات کا امیر مقرر کر کے آنحضور علیہ نے ان کو روانہ فرمایا ان میں سے ایک سریۂ قرطا ء ہے جو قبیلہ بنی بکر کی طرف آپ کی سرکردگی میں بھیجا گیا.تمہیں سواروں کا ایک دستہ آپ کے ہمراہ تھا اور بعض ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد تھیں جو نہایت کامیابی سے ادا کر کے آپ واپس لوٹے.دوسرا اہم موقع سریہ ذی القصہ کا تھا جس میں دس افراد کا امیر مقرر فرما کر آپ کو اس مہم پر روانہ کیا گیا یہ بہت اہم اور نازک مہم تھی جس میں اس دستہ نے بہت نقصان اُٹھایا اور حضرت محمد بن مسلمہ کے علاوہ ان کے باقی تمام ساتھی شہید ہو گئے.محمد بن مسلمہ کو بھی سخت چوٹیں آئیں اور دشمن ان کے کپڑے وغیرہ اتار کر برہنہ حالت میں انہیں کہیں پھینک گئے بعد میں بعض مسلمان وہاں سے گذرے تو انہوں نے ان کو سنبھالا اور واپس مدینہ لے کر آئے.حضرت محمد بن مسلمہ فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت علیہ کے جملہ غزوات کے بارہ میں جتنا چاہو مجھ سے پوچھو کیونکہ حضور کا کوئی بھی ایسا غزوہ نہیں جس میں مجھے شامل ہونے کی سعادت عطانہ ہوئی ہو سوائے غزوہ تبوک کے جس میں حضور نے مجھے اپنے بعد مدینہ میں قائمقام مقر رفرمایا تھا، اسی طرح فرمایا کرتے تھے کہ حضور نے مختلف مواقع پر جتنی مہمات بھی بھیجیں ہیں.ان میں کوئی بھی ایسی مہم نہیں جو مجھ پر خفی رہی ہو.یا تو میں اس مہم میں خود شامل تھا یا پھر جب بھی اس مہم کو بھیجا گیا تو اس کے بارہ میں پوری معلومات رکھتا تھا.(7) رسول کریم ع کی پیشگوئی حضرت محمد بن مسلمہ با وجود بڑی دلیری بے با کی اور نڈر ہونے کے، بہت امن پسند اور صلح جو تھے اور یہ صفت دراصل آپ کو آنحضرت عالیہ کی کامل اطاعت کے نتیجہ میں عطا ہوئی تھی.حضور کوان پر کامل اعتماد تھا.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ان کو اپنی تلوار عطا کرتے ہوئے ایک پیشگوئی فرمائی تھی.جو بڑی شان اور تفصیل کے ساتھ حضرت محمد بن مسلمہ کے حق میں پوری ہوئی اور وہ اعتماد

Page 465

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 451 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ جس کا اظہار حضور نے اپنے اس پیارے صحابی کے متعلق ظاہر فرمایا تھا، اس کا حق انہوں نے پورا کر دکھایا.حضور نے فرمایا تھا کہ ” جب تک مشرکین کے ساتھ تمہاری جنگ ہو.اس تلوار کے ساتھ اُن سے جنگ کرتے رہنا.جب وہ زمانہ آئے جب مسلمان باہم لڑنے لگیں اور ایک دوسرے پر تلوار اُٹھا ئیں تو یہ تلوار تو ڑ کر اپنے گھر میں بیٹھ رہنا یہاں تک کوئی خطا کار ہاتھ تم پر حملہ آور ہو یا تمہاری فیصلہ کن موت آجائے.یہ پیشگوئی بعینہ اسی طرح پوری ہوئی.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت محمد بن مسلمہ نے حضور کے اس ارشاد پر لفظاً لفظا عمل دکھایا.اختلافات کے اس زمانہ میں انہوں نے اپنی تلوار واقعہ تو ڑ کر نہایت زیر کی سے لکڑی کی ایک تلوار بنا کرمیان میں لٹکادی، کسی نے کہا لکڑی کی تلوار رکھنے سے فائدہ؟ کہنے لگے اس کی حکمت یہ ہے کہ رعب تو رہتا ہے کہ تلوار موجود ہے لیکن چونکہ آنحضور کا حکم ہے اس لئے اب لوہے کی تلوار تو میں نہیں رکھوں گا.اور یہ کڑی کی تلوار کسی کو گزند نہیں پہنچا سکتی.(8) فتنہ سے کنارہ کشی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت محمد بن مسلمہ نے جس طرح فتنوں کے زمانے میں اپنے آپ کو بچایا ہے اس کا ذکر ایک صحابی حضرت حذیفہ بن الیمان ( جن کو فتنے کے بارہ میں بہت روایات یاد تھیں ) بیان کیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت حذیفہ کہتے تھے کہ میں ایک شخص کو جانتا ہوں.جس پر فتنہ نے ذرہ برابر بھی کوئی اثر نہیں کیا اور وہ فتنہ سے کچھ بھی متاثر نہیں ہوئے.کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا کہ وہ کون شخص ہے تو انہوں نے کہاہ وہ محمد بن مسلمہ انصاری ہے جس کا فتنوں نے کچھ بھی نہیں بگاڑا رسول اللہ علیہ نے ان کے بارہ میں فرمایا تھا کہ کوئی فتنہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا.دوسرے انہوں نے آنحضرت معہ کی فتنہ سے بچنے کی نصیحت پر خوب عمل کیا.چنانچہ ضیعہ کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ کی وفات کے بعد فتنوں کے دور میں سفر کرتے ہوئے ایک جگہ پر پہنچا تھا تو میں نے دیکھا کہ ویرانے میں ایک خیمہ لگا ہے، میں نے پوچھا یہ کس کا خیمہ ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ محمد بن مسلمہ شصحابی رسول کا خیمہ ہے میں جب وہاں گیا تو ایک بوڑھے کو بیٹھے ہوئے دیکھا میں نے کہا اے بزرگ ! اللہ تجھ پر رحم کرے، مجھے ایسے لگتا ہے کہ آپ

Page 466

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 452 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے بہت ہی معزز لوگوں میں سے ایک فرد ہو اور بزرگ آدمی ہوں، مگر ویرانے میں کیوں ڈیرہ لگا رکھا ہے.اپنے وطن ، گھر بار، ہمسایوں کو چھوڑا اور یوں ویرانے میں آکر بس گئے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کہتے ہیں کہ محمد بن مسلمہ نے جواب دیا کہ میں فتنے کے خوف اور شر سے بچنے کے لئے شہروں کی آبادی اور رونق چھوڑ کر ویرانوں میں آکر بس گیا ہوں اور جب تک فتنے ٹل نہیں جاتے ، میرا یہی ارادہ ہے کہ میں ویرانوں میں یہ زندگی گزار دوں.(9) خلفائے راشدین کے دور میں خدمات آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کے زمانہ میں نمایاں خدمات حضرت محمد بن مسلمہ کے حصہ میں آئیں.حضرت عمر نے آپ کو صدقات کی وصولی پر مقر فر مایا، جمہینہ قبیلہ اور بعض اور قبائل سے صدقات وصول کرنے کی ذمہ داری وہ بجالاتے رہے، اسی طرح حضرت عمر نے عمال کی نگرانی اور احتساب کا سلسلہ بھی شروع فرمایا.اس اہم اور نازک کام میں مدد کے لئے آپ نے جس شخصیت کو چُنتا وہ حضرت محمد بن مسلمہ تھے.(10) حضرت عمرؓ کے بارہ میں روایت ہے کہ جب وہ کوئی ایسی نازک مہم کسی کو سونپنا چاہتے ، جس کے بارہ میں چاہتے کہ وہ کام اس طرح ہونا چاہیے جیسا کہ وہ چاہتے ہیں تو وہ نازک کام حضرت محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمایا کرتے تھے اور حضرت محمد بن مسلمہ کمال اطاعت سے جیسے حکم ہوتا تھا تمیل کرتے تھے.اس وجہ سے حضرت عمرؓ نے بھی ان پر خوب اعتماد کیا.چنانچہ مختلف علاقوں کے عمال اور امراء کے بارہ میں شکایتیں آتی تھیں.آپ بلا تردد ان کی تحقیق کے لئے حضرت محمد بن مسلمہ کو روانہ فرماتے تھے اور حضرت محمد بن مسلمہ کمال حکمت اور دانش مندی سے حضرت عمر کی خدمت میں مکمل درست تحقیقات پیش کرتے تھے.دراصل اس زمانہ میں اموال غنیمت آرہے تھے اور حضرت عمر یہ چاہتے تھے کہ مسلمان بہت جلد ان اموال میں اتنے منہمک نہ ہوں کہ محض دنیا دار ہو جائیں اُن روایات اور قدروں کو قائم رکھیں جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین نے قائم فرمائیں.حضرت سعد بن ابی وقاص کوفہ کے امیر تھے اُن کے بارہ میں حضرت عمرؓ کو یہ شکایت پہنچی کہ انہوں نے محل تعمیر کروا دیا ہے اور اُس کے آگے گیٹ لگا کر دربان مقرر کر دیے ہیں.ایک عام آدمی ان سے

Page 467

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 453 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ملاقات نہیں کر سکتا.آپ نے حضرت محمد بن مسلمہ کو روانہ کیا اور فرمایا کہ اپنی روایات کو ترک کر دینا، مناسب نہیں ہے اس لئے آپ جا کر فوری طور پر اس دروازے، گیٹ کو آگ لگا دیں جو مل کے آگے تعمیر کیا گیا ہے.حضرت محمد بن مسلمہ تو تعمیل کرنا جانتے تھے.انہوں نے کسی بات کی پرواہ کئے بغیر امیر کوفہ کے محل کے گیٹ کو آگ لگا دی.امیر کوفہ حضرت سعد بن ابی وقاص کو خبر ہوئی تو وہ آئے محمد ابن مسلمہ نے بتایا کہ مجھے تو خلیفہ وقت نے یہ ارشاد فرمایا تھا.جس کی تعمیل واجب تھی اور حضرت سعد نے بھی یہ بات بخوشی قبول کی.اس پہلو سے حضرت محمد بن مسلمہ حضرت عمرؓ کے بھی دست راست رہے.(11) اور انہوں نے کمال اعتماد کرتے ہوئے بڑی بڑی ذمہ داریاں انہیں سونپی یہاں تک کہ جب یہ اطلاعیں آئیں کہ بعض علاقوں کے امراء نے بہت اموال جمع کر لیے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اموال کی ایک حد مقرر فرما دی کہ اس حد تک ضرورت کے لئے رکھنے کی اجازت ہے اس سے زائد اموال نصف یا اس کے قریب واپس لے لئے جائیں.عمال سے ان اموال کی واپسی کے لئے بھی حضرت محمد بن مسلمہ کو مقرر کیا گیا.چنانچہ وہ نڈر اور بے باک ہو کر ان تمام امراء کے پاس پہنچے جو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مقرر تھے.اُن سے آپ نے وہ نصف اموال وصول کیے جو بیت المال میں جمع کئے گئے.(12).حضرت عثمان نے حضرت محمد بن مسلمہ کو پچاس سواروں پر امیر مقرر کر کے مصر سے آنے والے باغیوں سے گفتگو کیلئے بھیجا.ان میں سے ایک شخص قرآن ہاتھ میں لئے آگے بڑھا اور کہنے لگا یہ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم تلوار سے فلاں فلاں کو ہلاک کریں.حضرت محمد بن مسلمہ نے اسے خاموش کروادیا اور فرمایا تمہاری پیدائش سے بھی پہلے ہم ان قرآنی احکام کی تعمیل کر چکے ہیں.(13) شہادت حضرت محمد بن مسلمہ کی اولا ددس بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں.آپ کی وفات حضور کی پیشگوئی کے مطابق گھر میں بیٹھے ہوئے شہادت کی صورت میں ہوئی ، ایک شامی جوصو بہ اُردن کا رہنے والا تھا، قتل کے ارادے سے گھر میں گھس کر حملہ آور ہوا تلوار سے حملہ کر کے آپ کو شہید کر دیا.مخالفین آپ پر

Page 468

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 454 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ یہ الزام لگاتے تھے کہ امیر معاویہ کے حق میں آپ نے تلوار کیوں نہیں اُٹھائی اور ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا.حضرت محمد بن مسلمہ تو امن پسندی اور صلح جوئی کی خاطر آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں لکڑی کی تلوار بنا کر اپنے گھر میں بیٹھ رہے تھے ، آپ کی وفات ماہ صفر 46 ھ میں ہوئی.عمر 77 برس تھی.اوصاف کریمہ حضرت محمد بن مسلمہ شامل موحد ہونے کے باعث انتہائی شجاع تھے.ایثار و فدائیت، محبت رسول ، مال اطاعت آپ کی خصوصیات ہیں جو آپ کی زندگی میں نمایاں جھلکتی نظر آتی ہیں.آپ کی روایات حدیث بہت ہی کم ہیں.حالانکہ آنحضرت کے ساتھ تمام غزوات میں شامل ہوئے ، نہایت نازک اور اہم مہمات آپ کے سپرد ہوئیں لیکن احتیاط کی خاطر روایات کثرت سے بیان کرنا پسند نہیں کرتے تھے.تاہم چند روایات سے ہی آپ کی سچائی وسیع النظری اور قول سدید کا خوب اندازہ ہوتا ہے.آپ کے متعلق ایک روایت حضرت سہل بیان کرتے تھے کہ محمد بن مسلمہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی جگہ نکاح کے ارادہ سے پیغام دیا جائے تو اس سے پہلے عورت کو دیکھ لینے میں حرج نہیں.اب بظاہر یہ بات عام معاشرتی رواج یا دستور سے ہٹ کر ہی کیوں نہ ہو حضرت محمد بن مسلمہ نے نہ صرف اسے بیان کیا بلکہ اس پر عمل کرنے میں بھی انہوں نے تامل نہیں کیا.دوسری روایت آپ کی حضرت ابوبکر کے زمانہ سے متعلق ہے.اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ معلومات کا ذخیرہ آپ کے پاس موجود تھا جس کا پوچھنے پر اظہار کرتے تھے.علمی مرتبه حضرت ابو بکر کو یہ مسئلہ در پیش آیا کہ میراث میں دادی کا حصہ ہے کہ نہیں.انہوں نے فرمایا کہ مجھے اس بارہ میں حضور کی سنت یا واضح ارشاد معلوم نہیں.اگر کسی اور صحابی کو علم ہو تو وہ مجھے بتا دیں، حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ اس بارہ میں مجھے آنحضرت ﷺ کا ارشاد یاد ہے کہ آپ نے دادی کے لئے چھٹا حصہ مقر فرمایا تھا.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا ” اس بات کی تصدیق میں کوئی گواہی پیش

Page 469

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 455 حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کرے.‘ تلاش کرنے پر حضرت محمد بن مسلمہ کے پاس سے یہ روایت مل گئی.انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں گواہی دی کہ واقعی میری یادداشت کے مطابق بھی دادی کے لئے نبی کریم نے چھٹا حصہ مقرر فرمایا ہے.(14) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں حاملہ عورت کے چوٹ لگنے کے نتیجہ میں حمل ساقط ہونے کی دیت کے بارہ میں سوال اُٹھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے اس کا بدلہ ایک غلام یا لونڈی ہے.حضرت عمرؓ نے گواہی مانگی تو حضرت محمد بن مسلمہ نے گواہی دی کہ انہوں نے بھی حضور سے اس بارہ میں یہی سنا ہے.(15) یہ تھے حضرت محمد بن مسلمہ نہایت جلیل القدر، نڈر، بے باک،اطاعت کے پتلے اور ایثار وفدائیت کا مجسمہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے پاکیزہ نقوش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین -1 -2 - 2 3 4 5 6 ابن سعد جلد 3 ص 443 الاصابہ ج 6 ص 63 ابن سعد جلد 3 ص 445 حواله جات بخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف و ابو داؤد کتاب الخراج بخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن اشرف ابوداود کتاب الخراج و فتح الباری جلد 7 ص 262 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 ابن سعد جلد 3 ص 444 ابن سعد جلد 3 ص 445 ابن سعد جلد 3 ص 445 اصابه جز 6 س 64 اصابه جز 6 ص64 اسد الغابہ جلد 4 ص 330 منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5 ص266 ، ابن سعد جلد 3 ص443 مسند احمد جلد 4 ص 225 بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب السنه باب في اجتهاد القضا

Page 470

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 456 حضرت ابوایوب انصاری حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نام خالد بن زید.والدہ ہند بنت سعید تھیں نام کی نسبت کنیت ابوایوب زیادہ مشہور ہوئی.خزرج قبیلہ کے خاندان بنی نجار سے آپ کا تعلق تھا.یہ وہی خاندان ہے جسے رسول کریم ﷺ کے نیہال ہونے کا شرف حاصل ہے.حضرت ابوایوب اس خاندان کے رئیس تھے.آپ وہ خوش قسمت صحابی ہیں ، جنہیں عقبہ ثانیہ کے موقعہ پر حاضر ہو کر بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.واپس مدینہ تشریف لائے تو تبلیغ اسلام کرتے رہے.(1) مدینہ میں ہجرت رسول علیہ نبوت کے تیرھویں سال رسول خدا ﷺ نے مکہ میں اپنی قوم کے ظلم وستم سے تنگ آکر باذن الہی میثرب کی طرف ہجرت فرمائی.اہل بیثرب کو اطلاع ہوئی تو بے تابی سے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگے.ابوایوب اور ان کے ساتھی روزانہ مدینہ سے باہر حضور کے استقبال کے لئے جاتے اور شام کو واپس آ جاتے.آخر ان کی اُمیدیں برآئیں اور پیغمبر خدا صلح وسلامتی کے شہزادے یثرب کے قریب ایک بستی قبا میں تشریف فرما ہوئے اور اس کے بعد میثرب کا قصد فر مایا.اہل میثرب کے دل بلیوں اچھل رہے تھے.وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ خدا کا رسول بنفس نفیس ان میں تشریف لارہا تھا.رواج کے مطابق وہ ہتھیار بند اور مسلح ہو کر رسول اللہ کے استقبال کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے.بچوں نے جَاءَ رَسُولُ اللهِ جَاءَ رَسُولُ اللهِ کے نعره ہائے بلند سے یثرب کی دیواروں میں گونج پیدا کر دی تھی.مدینہ کی بچیاں جنہیں اسلام کی ”ناصرات“ کہنا چاہئے.آمد رسول پر آمدنت مبارک کا تحفہ ترانوں اور نغموں کی صورت میں یوں پیش کر رہی تھیں : طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الوِدَاع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع

Page 471

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 457 حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہ وداع گھاٹیوں سے آج ہم پر چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے.اللہ کی طرف بلانے والے بلاوے پر ہمارے لئے شکر واجب ہے.(2) شرف میزبانی رسول علی یثرب کی سوئی ہوئی قسمت جاگ اٹھی تھی اب وہ مدینۃ الرسول تھا.مدینہ کے ہر شخص کی خواہش تھی کہ خدا کا رسول اس کے گھر مہمان ہو.وہ آگے بڑھ کر حضور کی بلائیں لیتے اور عرض کرتے حضور ان کے گھر کو برکت بخشیں.رسول خدا ﷺ نے جو یہ شوق میزبانی دیکھا تو کسی کی حوصلہ شکنی گوارا نہ ہوئی.فرمایا میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو جہاں حکم ہوگا یہ ٹھہر جائے گی.خدا کی شان کہ یہ سعادت حضرت ابوایوب انصاری کے حصہ میں آئی اور مشیت ایزدی سے ناقہ رسول مقصواء ان کے گھر کے پاس رک گئی.رسول خدا ﷺ نے پوچھا کس کا گھر زیادہ قریب ہے.ابوایوب آگے بڑھے.عرض کی حضور میرے گھر کو شرف میزبانی بخشیں.روایات میں آتا ہے انصار مدینہ کا شوق مہمان نوازی اب بھی کم نہ ہوا تھا.تب قرعہ اندازی کی گئی.پھر بھی خوش قسمت ابوایوب انصاری کا نام نکلا.اور اس پر وہ جتنا فخر کریں کم ہے.بنو نجار کی لڑکیاں خوشی سے یہ گیت گانے لگیں.نَحْنُ جَوَارٍ لِبَنِي نَجَارٍ کہ ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں اور ہم کیا خوش قسمت ہیں کہ محمد رسول اللہ ہمارے محلہ میں ٹھہر نے کیلئے تشریف لائے ہیں.(3) محبت رسول علی يَا حَبَّذَا مُحَمَّدًا مِن جَارٍ ابوایوب مکان کے اوپر کے حصہ میں رہتے تھے.نچلی منزل حضور ﷺ کو پیش کر دی.ایک رات اتفاق سے اوپر والی منزل میں پانی کا ایک بڑا برتن ٹوٹ گیا اور پانی بہہ پڑا.ابوایوب کو فکر دامنگیر ہوئی.کہ مبادا چھت سے پانی ٹپک پڑے اور رسول خدا عدلیہ کو نچلی منزل میں تکلیف ہو.آپ فرماتے ہیں میں اور میری بیوی نے اپنا لحاف پانی پر ڈال کر اسے خشک کر کے دم لیا.علی الصبح ابوایوب خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ کہہ سنایا.عرض کی کہ حضور اوپر والی منزل

Page 472

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 458 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ میں قیام فرما ہو جائیں.ہم نیچے مقیم ہوں گے.رسول اللہ ﷺ نے منظور فرمالیا اور بالا خانے میں رہنے لگے.(4) رسول اللہ علیہ سے ابوایوب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ چھ یا سات ماہ کا سارا عرصہ جو آنحضرت ان کے ہاں فروکش رہے.آپ نے مہمانی کا حق خوب ادا کیا.اور سارا عرصہ رسول اللہ علیہ کا کھانا با قاعدگی سے تیار کر کے بھجواتے رہے.حضرت ابوایوب کی محبت رسول کا اندازہ لگائیے کہ جب کھانا بچ کر آتا تو اس پر رسول خدا کی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اور وہاں سے کھانا تناول کرتے.ایک دفعہ رسول اللہ نے کھانا تناول نہ فرمایا.ابوایوب جو رسول خدا ﷺ کا بچا ہوا تبرک کھانے کے عادی تھے.دوبارہ حاضر ہوئے عرض کی حضور بندہ تو آپ کے بچے ہوئے کھانے سے کھایا کرتا تھا.آج حضور نے کھانا تناول نہیں فرمایا.حضور نے فرمایا آج کھانے میں پیاز لہسن تھا اور میں اسے پسند نہیں کرتا.ابوایوب نے عرض کی حضور جسے آپ ناپسند فرماتے ہیں آئندہ سے میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں.(5) حضرت سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابوایوب نے حضور کی ریش مبارک سے کوئی چیز تنکا وغیرہ نکالا تو حضور نے دعا کی.”اے ابو ایوب! تجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچے.(6) اللہ اللہ! رحمت رسول کا بے کراں سمندر ہے ایک معمولی کام پر اتنی عظیم الشان دعا !! انصار مدینہ کے اخلاص و محبت کا ایک عجیب نظارہ اس وقت نظر آتا ہے.جب رسول خدا علی نے مؤاخات قائم فرمائی مختلف قبائل اور خاندان کے لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا.حضرت ابوایوب انصاری کے اسلامی بھائی حضرت مصعب بن عمیر قرار پائے.جو مدینہ میں اسلام کے پہلے مبلغ تھے.ناز و نعم میں پرورش پائی مگر دنیا و دولت پر لات مار کر اسلام میں آکر فقر اختیار کر لیا تھا.حضرت ابوایوب تمام غزوات میں شامل ہوئے.بدر سے لے کر آخری غزوہ تک کبھی پیچھے نہ رہے.غزوہ خیبر میں یہودی سردار حی بن اخطب مارا گیا اور اس کی بیٹی صفیہ حضور کے عقد میں آئیں.والد کے ساتھ ان کا خاوند بھی اسی جنگ میں ہلاک ہوا تھا.حضرت صفیہ کے رخصتانہ کی رات کا ذکر ہے حضور صبح نماز

Page 473

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 459 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ پڑھانے کے لئے اپنے خیمہ سے باہر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ابوایوب انصاری تلوار سونتے مستعد کھڑے ہیں.آپ نے پوچھا ابو ایوب! کیا بات ہے.عرض کی جان سے عزیز آقا! صفیہ کے عزیز اور رشتہ دار ہمارے ہاتھوں قتل ہوئے تھے، اس وجہ سے رسول اللہ علیہ کی حفاظت کے خیال سے مرے دل میں کئی اندیشے اور وسو سے اٹھتے تھے.اس لئے میں آج ساری رات حضور کے خیمہ کا پہرہ دیتا رہا ہوں.(7) محسن عالم کے دل سے اس وقت اپنے اس عاشق صادق کے لئے ساری رات حفاظت کرنے کے عوض جو دعانکلی وہ یتھی "اے اللہ ! ابوایوب کو ہمیشہ اپنی حفاظت اور امان میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں اور یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ ابو ایوب نے طویل عمر پائی اور آپ کا مزار آج تک قائم و دائم اور مرجع خلائق ہے.خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی ابوایوب جہاد میں شامل ہوتے رہے.حضرت علی نے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا تو حضرت ابوایوب کو مدینہ میں امیر مقر فرمایا اور پوچھا کہ مانگیں کیا مانگتے ہیں انہوں نے کہا میری ضرورت کے مطابق چار ہزار درہم وظیفہ اور آٹھ غلام کافی ہیں.حضرت علیؓ نے اس سے چار گنا وظیفہ میں ہزار اور چالیس غلام عطا فرمائے.(8) صحابہ کرام بھی ابو ایوب کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.عم زا درسول حضرت ابن عباس حضرت علی کی طرف سے بصرہ کے گورنر تھے.آپ ان کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے.ابن عباس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ جس طرح آپ نے رسول اللہ کے لئے اپنا گھر خالی کر دیا تھا.اپنا گھر آپ کے لئے پیش کر دوں.یہ کہ کر وہ اور ان کے گھر والے وہاں سے دوسرے مکان میں منتقل ہو گئے اور بھرا بھرا یا مکان مع سامان ان کے حوالے کر دیا.(9) جنگ قسطنطنیہ میں شرکت حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں آپ جنگ روم میں شامل ہوئے.رسول اللہ ﷺ نے قسطنطنیہ کی فتح کی خبر دی تھی.یہ فدائی صحابی اس خوشخبری کو بچشم خود دیکھنے کے متمنی تھے.غرضیکہ پیرانہ سالی میں اس جہاد میں بھی شمولیت فرمائی.اس سفر میں آپ بیمار ہو گئے.اس وقت یزید فوجوں کی

Page 474

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 460 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کمان کر رہا تھا وہ عیادت کے لئے حاضر خدمت ہوا اور عرض کی کہ کوئی خواہش؟ آپ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو میری طرف سے سلام کہنا.اور یہ پیغام دینا کہ جب میں مرجاؤں تو میرے جنازہ کو اٹھا کر دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکتے ہو لے جانا اور وہیں دفن کرنا.آپ نے اس آخری وقت میں ایک ایسی حدیث بھی سنائی جو ساری عمر کسی کو نہ سنائی تھی جو یہ ہے کہ ”جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا.“ آپ کی وفات ہوئی تو جنازہ اٹھایا گیا اور رات کے وقت دشمن کی سرزمین قسطنطنیہ میں جا کر وصیت کے مطابق دفن کر دیا گیا.اور دشمن کو تنبیہ کر دی گئی کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا مزار ہے.اس کی ہتک کی جرأت نہ کرنا.(10) ابن سعد نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ اہل قسطنطنیہ مزار ایوب پر عقیدت کی نظر سے حاضری یتے ہیں اور قحط کے دنوں میں ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں تو بارش برستی ہے.(11) ابوایوب انصاری کا مزار قسطنطنیہ استنبول ( ترکی ) میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے.راقم الحروف نے بھی 1989ء میں سفر انگلستان سے واپسی پر استنبول میں قیام کے دوران آپ کے مزار پر دعا کی سعادت پائی ہے.فالحمد للہ

Page 475

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 461 حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ حواله جات -1 اصابه جز1 ص89 2- زرقانی جلد 1 ص359 -4 -5 دل ط من هنا -6 بخاری کتاب الہجرت و مسلم وابن ہشام استیعاب جلد 2 ص 10 اسدالغابہ جلد 2 ص 81 اصابه جز1 ص90 -7- سیرت الحلبیہ باب فتح خیبر جلد 3 ص 44 -8 -9 -10 -11 اسدالغابہ جلد 2 ص 81 اسد الغابہ جلد 2 ص 81 اسدالغابہ جلد 2 ص 80 اسدالغابہ جلد 2 ص82

Page 476

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 462 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو خزرج سے تھا.والدہ کبشہ بنت واقب تھیں.ابو محمد اور ابو رواحہ کی کنیت سے مشہور تھے.معروف صحابی رسول نعمان بن بشیر کے ماموں تھے.آپ کا شمار ایمان میں سبقت لے جانے والے ان ابتدائی صحابہ میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے پاک کلام میں السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ ( یعنی سب سے پہلے آگے بڑھنے والے) کے خطاب سے نوازا گیا.بیعت میں سعادت حضرت عبد اللہ کو عقبہ ثانیہ کے موقع پر ستر صحابہ کے ساتھ بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ ان بارہ نقباء (سرداروں ) میں بھی شامل تھے جنہیں رسول کریم ﷺ نے انصار کے مختلف قبیلوں کی نگرانی سپر دفرمائی تھی.بنو الحارث بن خزرج کے آپ نقیب مقرر ہوئے تھے.علم کتابت سے آشنا تھے اور آنحضرت نے کیلئے آپ کتابت کی خدمت بھی بجالایا کرتے تھے.نبی کریم ﷺ جب مدینے تشریف لائے اور مواخات کا نظام قائم ہوا تو مقداد بن اسود کندی سے آپ کا اسلامی بھائی چارہ ہوا.(1) غزوات میں شرکت مدینہ پر کفار مکہ کے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو جوابی کاروائی کیلئے دفاعی مہمات منظم کرنا پڑیں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بھی ان میں شرکت کی توفیق ملی اور اپنی زندگی کے آخری غزوہ موتہ تک ان جملہ غزوات میں وہ شریک ہوتے رہے (2) غزوہ بدر میں بھی وہ شریک تھے بلکہ فتح بدر کے بعد آنحضرت ﷺ نے مدینہ کی نواحی بستیوں میں خوشخبری پہنچانے کیلئے جس شخص کا انتخاب کیا وہ حضرت عبداللہ بن رواحہ تھے جنہوں نے وہاں جا کر مسلمانوں کو فتح کی نوید سنائی.اگلے سال بدرا الموعد کیلئے جب نبی کریم معتہ تشریف لے گئے تو مدینہ میں اپنا جانشین اور امیر

Page 477

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 463 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو مقرر فرمایا.(3) حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت نبی کریم ﷺ سے بہت محبت رکھتے تھے.حضور کی صحبت اور مجالس سے بہت لگاؤ تھا.غزوہ بدر سے بھی پہلے کا واقعہ ہے نبی کریم ﷺ اپنے ایک صحابی حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کیلئے تشریف لے جارہے تھے.راستے میں مسلمانوں مشرکین اور یہود کی ایک مجلس جمی ہوئی تھی جن میں منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی بھی تھا.حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی اس مجلس میں موجود تھے.حضور کا وہاں سے گذر ہوا.عبد اللہ بن ابی کو یہ بات پسند نہ آئی کہ حضور اس مجلس میں تشریف لائیں.نبی کریم جس سواری پر تشریف لائے تھے ، اس سے کچھ گر دسی اڑی تھی.ابن ابی بڑی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا ہم پر گر دمت اڑاؤ.پھر جب حضور السلام علیکم کہ کر وہاں کچھ دیر کے اور قرآن شریف سنا کر اپنا پیغام پہنچانے لگے تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا کہ اے شخص! جو کچھ تو کہتا ہے اگر اس سے اچھا اور کچھ بھی نہیں تو بھی آپ اپنے گھر میں بیٹھے رہو.جو کوئی وہاں آجائے اس کو بے شک یہ پیغام پہنچاؤ اور قرآن سنا دیا کرو لیکن یہ ہماری بے تکلف مجالس ہیں ان میں آکر آپ ہمیں ایذاء نہ دیا کرو اور ہماری مجالس کا ماحول خراب نہ کیا کرو.حضرت عبداللہ بن رواحہ نجیسے غیرت ایمانی رکھنے والے فدائی وہاں موجود تھے.انہوں نے تمام موجود مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا یا رسول اللہ آپ ضرور ہماری مجالس میں تشریف لایا کیجئے ہم پسند کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی باتیں سنائیں اور ہمیں یہ بات انتہائی محبوب ہے کہ حضور ہم سے مخاطب ہوں یوں حضرت عبداللہ بن رواحہ نے اپنی غیرت ایمانی اور محبت کا اظہار نہایت بے باکی اور دلیری سے کر دکھایا.(4) ایک اور موقع پر آنحضرت ﷺ نے ایک مہم کیلئے کچھ اصحاب کو تیار کیا.حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی ان میں شامل تھے.جمعہ کا دن تھا مہم میں شامل باقی لوگ تو روانہ ہو گئے.جمعہ کی نماز میں حضور نے دیکھا کہ عبداللہ بن رواحہ مسجد میں موجود ہیں.نماز جمعہ کے بعد ان سے پوچھا کہ آپ نے تو آج صبح فلاں مہم پر روانہ ہونا تھا؟ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ میری بے حد خواہش اور تمنا تھی کہ میں نماز جمعہ میں حضور کے ساتھ شریک ہو کر حضور کا خطبہ سن لوں.اب میں فورا روانہ ہو جاؤں گا اور پیچھے سے جا کر اس دستہ سے جاملوں گا.وہ لوگ جہاں پڑاؤ کریں گے، رات ان کے ساتھ ہی

Page 478

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 464 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ قیام کروں گا.حضور نے فرمایا کہ زمین میں جو کچھ ہے اگر وہ سب بھی تم خرچ کر ڈالو تو جولوگ حسب ہدایت علی اصبح مہم پر روانہ ہو کر سبقت لے گئے وہ اجر اور ثواب تم ہرگز نہیں پاسکتے.‘ (5) گویا تمہارے لئے جمعہ کی خاطر پیچھے رہنے سے زیادہ متقدم تعمیل حکم کی خاطر جہاد کیلئے نکلنا تھا.حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے یہ نصیحت ہمیشہ کیلئے پلے باندھ لی اور اسے اپنی زندگی کا معمول بنالیا.چنانچہ اس کے بعد جب کسی غزوہ یا مہم کیلئے جانا ہوتا تھا تو حضرت عبداللہ بن رواحہ نسب سے پہلے اس دستے میں شامل ہوتے اور سب سے آخر میں مدینہ واپس لوٹا کرتے تھے تا کہ آپ ان میں شرکت کے ثواب سے محروم نہ رہ جائیں.(6) کئی غزوات میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو شرکت کی سعادت عطا ہوئی.بلند پایه پاکیزہ شاعری آپ ایک بہت بلند پایہ شاعر تھے.آنحضرت ﷺ کے دربار کے شعراء میں حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت کے علاوہ یہ تیسرے بلند پایہ شاعر تھے جن کی شاعری رزمی تھی.جنگوں کے موقع پر آپ کی اس شاعری کے جو ہر خوب کھلتے تھے.آپ مجاہدین کو خوب جوش دلاتے تھے.چنانچہ غزوہ خندق کے موقع پر آپ کے یہ اشعار صحابہ کرام آپ کے ساتھ مل کر پڑھتے تھے.اللَّهُمَّ لَو لَا أَنتَ مَا اهْتَدَيناً وَلَا تَصَدَّ قُنَا وَلَا صَلَّيْنَا اے اللہ اگر تو ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے.نہ ہمیں صدقہ دینے کی توفیق ملتی نہ نمازیں پڑھنے کی توفیق عطا ہوتی.فَانُزِلَنُ سَكِينَةٌ عَلَيْنَا وَثَبَتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَا قِينَا یعنی ” اے اللہ اس نازک ابتلاء کے دور میں ہم پر اپنی سکینت نازل کیجئیو اور دشمن کے ساتھ جب ہمارا مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما.“ کیسا عمدہ اور دعاؤں پر مشتمل پاکیزہ کلام ہے جو حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی رزمیہ شاعری میں ہمیں نظر آتا ہے، جس میں نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کے تشکر کا خوبصورت رنگ غالب ہے بلکہ وجوہات جنگ تک بیان ہیں کہ إِنَّ العِدَا قَدْ بَغَوا عَلَيْنَا إِن أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَينا

Page 479

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 465 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ یعنی یہ دشمن ہیں جنہوں نے ہم پر زیادتی کی ہے اور فتنہ وفساد کا ارادہ کیا ہے.جس کا ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور عمدہ دفاع سے فتنہ کو کچل دیں گے.(7) اس کے بعد مختلف غزوات میں عبداللہ بن رواحہ شامل ہوتے رہے.7 ہجری میں عمرہ القضاء ہوا.حدیبیہ کے مقام پر روکے جانے کی وجہ سے مسلمان عمرہ نہ کر سکے تھے.حسب معاہدہ اس سال انہوں نے اس کی توفیق پائی.آنحضرت ﷺے جب اپنے صحابہ کے ساتھ طواف کعبہ کیلئے تشریف لے گئے تو یہ موقع مسلمانوں کیلئے بڑا جذباتی تھا کہ سات سال تک خانہ کعبہ سے روکے جانے کے بعد آج وہ آزادی سے خدا کے گھر داخل ہو رہے تھے اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے دلی تمناؤں کو پورا کر رہے تھے اس موقع پر شاعر دربار نبوی حضرت عبد اللہ بن رواحہ آنحضرت ﷺ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے تھے اور بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنی رزمیہ شاعری کے یہ شعر پڑھ رہے تھے.خَلُو بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهِ خَلُو فَإِنَّ الْخَيْرَ مَعَ رَسُولِهِ یعنی اسے کفار مکہ آج آنحضرت ﷺ کے راستے کو خالی کر دو.ہاں آپ کے رستے سے ہٹ جاؤ کیونکہ تمام خیر و بھلائی خدا کے رسول کے ساتھ ہے.قَدْ اَنْزَلَ الرَّحْمَنُ فِي تَنْزِيلِهِ ضَربَا يُزِيلُ الهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ یعنی اسے کفار یا درکھو کہ رحمان خدا نے اپنے پاک کلام میں ہمیں یہ خبر دی ہے کہ ایسی جنگ سے تمہاری گردن زدنی اور ہلاکت تمھارے ساتھ پیش آنے والی ہے جس کے نتیجہ میں اس دن دوست دوستوں کو بھول جائیں گے.حضرت عبد اللہ بن رواحہ بڑے جوش وجذبہ سے یہ اشعار پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو روکا اور کہا کہ اے ابن رواحہ یہ اللہ کا حرم ہے اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے آپ ایسے جو شیلے شعر پڑھ رہے ہو.آنحضرت ﷺ بھی یہ اشعار سن رہے تھے آپ نے فرمایا اے عمر ! عبداللہ کو یہ اشعار پڑھنے دو.خدا کی قسم ! آج عبد اللہ بن رواحہ کا یہ کلام ان کفار کے دلوں میں نشتر سے بھی زیادہ تیزی

Page 480

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 466 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے چبھ رہا ہے اور تیروں سے بڑھ کر اس کا اثر ہے.پھر رسول کریم ﷺ نے انہیں ان اشعار کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کا مضمون پڑھنے کی ہدایت کی اور فرمایا اے عبد اللہ یہ کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ نَصَرَ عَبْدَهُ وَأَعَزَّ جُنْدَهُ و هَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہ یعنی خدا کے سوا کوئی شریک نہیں وہ ایک ہے اس نے اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکروں کو عزت عطا کی اور ان کو غلبہ دیا اور تما م لشکروں کو تنہا اس خدا نے ہی پسپا کر دیا.(8) آنحضرت ﷺ کو حضرت عبد اللہ بن رواحہ پر بہت اعتماد تھا.چنانچہ مختلف مہمات میں آپ انہیں روانہ فرماتے رہے.ایک بہت ہی اہم ہم خیبر کی تھی جہاں یہودیوں کے سردارا بورافع کی وفات کے بعد اسیر بن رزام یہودیوں کا رئیس بنا.اس نے تمام یہودیوں کو جمع کر کے اعلان کیا کہ مسلمانوں کے متعلق آج تک میرے پیش روؤں نے نرمی کی غلط پالیسی اختیار کی تھی.اب میں راست اقدام کر کے دکھاؤں گا اور ہمیں بہر حال مدینہ پر حملہ کرنا ہو گا.اس مقصد کیلئے اس نے ایک لشکر بھی تیار کیا آنحضرت ﷺ کو جب ان جارحانہ اقدامات کی اطلاع ملی تو آپ نے مصالحت کے لئے ایک خط اسیر بن رزام کی طرف بھجوایا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کو صلح کے سفیر کے طور پر اسیر بن رزام کے پاس تمہیں افراد کے قافلے کے ساتھ بھیجا.فتح خیبر کے بعد بھی اس علاقے میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ خدمات بجالاتے رہے چنانچہ اہل خیبر سے مصالحت کے وقت نصف پیداوار کا جو معاہدہ ہوا تھا کہ وہ اسے مسلمانوں کے حوالے کریں گے.آنحضرت ﷺے ہر سال اس پیداوار کا تخمینہ لگانے کیلئے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو خیبر بھجوایا کرتے تھے اور وہ نہایت ہی محتاط تخمینے لگانے میں کامیاب ہوتے رہے.(9) حضرت عبد اللہ بن رواحہ دربار رسول کے وہ تربیت یافتہ شاعر تھے جن کے حق میں سورۃ شعراء کی آیات 225 تا 228 اتریں.جو ایمان لاکر اعمال صالحہ بجالانے والے شعراء کو عام شعراء سے ممتاز کر کے پیش کرتی ہیں.ان آیات کے پیش نظر حضرت عبد اللہ بن رواحہ بجاطور پر کہا کرتے تھے.کہ خدا تعالیٰ کو یہ علم ہے کہ ہم جیسے شعراء بھی موجود ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارا بھی ذکر کر دیا اور میں شعراء کے اسی گروہ میں سے ہوں.

Page 481

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فی البدیہہ اشعار میں مدح رسول علی 467 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن رواحہ اپنا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ بیان کرتے تھے کہ ایک دن میں مسجد نبوی کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور کی مجلس ایک کونے میں جمی ہے کچھ لوگ تیزی سے میری طرف آئے اور مجھے بلانے لگے اے عبداللہ بن رواحہ! اے عبد اللہ بن رواحہ! میں سمجھ گیا کہ حضور نے مجھے یاد فرمایا ہے.حاضر خدمت ہوا تو آپ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا اور فرمانے لگے کہ اے عبد اللہ یہ تو بتاؤ کہ جب تمھارا ارادہ شعر کہنے کا ہوتا ہے تو کیسے کہتے ہو؟ حضرت عبداللہ کہتے ہیں حضور نے یہ بات اظہار پسندیدگی اور تعجب کے رنگ میں کہی.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ پہلے میں اس مضمون پر غور کرتا ہوں جس کے بارے میں کچھ کہنا ہو پھر شعر کہتا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا آج ہمارے سامنے مشرکین کے بارے میں کچھ اشعار کہو.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کہتے ہیں کہ اس وقت میرے پاس کوئی چیز تیار نہیں تھی.فی البدیہہ شعر کہنے تھے کچھ دیر غور کے بعد میں نے اشعار کہے.پہلے شعر میں ہی ان مشرکین کی مذمت تھی جن کا تعلق حضور کے خاندان سے بھی تھا اس لئے یہ بڑا کڑا امتحان بھی تھا.مجھے محسوس ہوا جیسے حضور کو وہ شعر نا گوار گزرا ہو.شعر یہ تھا.خَبْرُونِي أَثْمَانَ الْعَباءِ مَتَى كُنتُمْ بِطَارِيقَ إِذَا دَ أَنتَ لَكُمْ مُضَرٍّ یعنی ”اے مشرکین مکہ امجھے بتاؤ تو سہی تمھاری حیثیت اور قیمت ہی کیا ہے؟ محض ان جبوں کی قیمت کے برا بر جو تم نے پہن رکھے ہیں اور بس مجھے یہ تو بتاؤ کہ تم کب سے خانہ کعبہ کے متولی بن گئے ؟ تم خود تو بے دین تھے اور مضر نے تم کو اپنے دین پر قائم کیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے قریش کو محض قباؤں کی قیمت سے برابری کا طعنہ دیا تو حضور کے چہرے پر کچھ ناگواری سی آئی لیکن اگلے ہی اشعار میں ابن رواحہ نے رسول اللہ ﷺ کے خاندان بنو ہاشم کی قرار واقعی تعریف کر کے انہیں کفار سے الگ کر لیا وہ شعر یہ تھے يَا هَاشِمَ الْخَيْرِ إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْبَرِيَّةِ فَضْلاً مَالَهُ غِيَرُ مگر اے بنو ہاشم تم وہ قبیلہ ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق پر ایک ایسی فضیلت عطا فرمائی ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا اور پھر حضور کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا

Page 482

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 468 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ إِنِّي تَفَرَّدْتُ فِيْكَ الْخَيْرَاَ عْرِفُه وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنْ مَّا خَانَنِي الْبَصَرُ یعنی اے محمد مصطفی ﷺ ! میں آپ کے اندر ایسی منفرد خیر و بھلائی پاتا ہوں جسے میں اپنی فراست سے پہچانتا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میری آنکھ نے کوئی خیانت نہیں کی.آخر میں دعا دیتے ہوئے حضور کی خدمت میں عرض کیا فَثَبَّتَ اللهُ مَا آتَاكَ مِنْ حَسَنٍ تَثْبِيْتَ مُوْسَى وَنَصْرًا كَالَّذِي نُصِرُوا کہ اے محمد مصطفی ؟ اللہ تعالیٰ نے خوبیاں آپ کو عطا فرمائیں ہیں وہی آپ کو وہ ثبات قدم عطا فرمائے جو حضرت موسی کو بخشا گیا اور آپ کی اسی طرح تائید ونصرت بھی کرے.آنحضرت ﷺ نے یہ سنا تو بہت خوش ہوئے.چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتمانے لگا.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو دعا دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمہیں بھی ثابت قدمی عطا فرمائے“ یہ دعا حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے حق میں بڑی شان سے قبول ہوئی اور آپ کو شہادت کا مرتبہ عطا ہوا اور نہایت عالی شان ثبات قدم سے آپ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے.(10) علامہ مرزبانی نے منجم الشعراء میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ زمانہ جاہلیت کی شاعری میں بھی بہت قدر و منزلت رکھتے تھے اور زمانہ اسلام میں بھی انکو بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل تھا.بقول مرزبانی حضور کی شان میں ایک شعر حضرت عبداللہ نے ایسا کہا ہے کہ اسے آپ کا بہترین شعر کہا جاسکتا ہے.وہ شعر آپ کی دلی کیفیت کو خوب بیان کرتا ہے جس میں حضرت عبد اللہ نے آنحضرت علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا و لَوْ لَمَ تَكُنْ فِيهِ آيَات مُبَيَّنَةٌ كَانَتْ بَدِيْهَتُهُ، تُنبِيْكَ بِالخَبَرِ که محمد مصطفی میں ہے اگر سچائی اور صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے وہ تمام کھلے کھلے اور روشن نشانات نہ بھی ہوتے جو آپ کے ساتھ تھے تو بھی محض آپ کا چہرہ ہی آپ کی صداقت کیلئے کافی تھا.جو خود آپ کی سچائی کا اعلان کر رہا تھا.(11) آقا کی عیادت اور دعا آنحضرت ﷺ کو بھی اپنے اس عاشق صادق اور غلام سے بہت محبت تھی.ایک دفعہ حضرت

Page 483

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 469 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن رواحہ بیمار ہو گئے.اس بیماری میں غشی کے دورے آپ کو پڑنے لگے.نبی کریم ہے بنفس نفیس عیادت کیلئے ان کے گھر تشریف لے گئے.دیکھا کہ ان پر بے ہوشی طاری ہے.ان کی بہن عمرہ بھائی کا آخری وقت سمجھ کر بین کرنے لگی کہ اے میرے پہاڑ جیسے بھائی ! اے میرے عظیم بھائی ! آنحضرت ﷺ نے ایک طرف ان کو تسلی دلائی تو دوسری طرف حضرت عبد اللہ بن رواحہ کیلئے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہوئے عرض کیا.اے میرے مولا اگر عبد اللہ بن رواحہ کی اجل مقدر آگئی ہے اور یہ تقدیر مبرم ہے تو پھر اسکا آخری وقت آسان کر دے اور اسے مزید تکلیف میں نہ ڈال اور اگر اس کا آخری وقت نہیں آیا تو پھر اے میرے مولیٰ میں دعا کرتا ہوں کہ اسے شفا عطا فرمادے.حضور کی اس دعا کا عجب معجزانہ اثر ہوا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ہوش میں آگئے.طبیعت سنبھل گئی اور حضور کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ جب میری یہ بہن بین کر رہی تھی کہ ”میرے پہاڑوں جیسے عظیم بھائی تو فرشتے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تم واقعی ایسے تھے.بعد میں ان کی بہن نے غزوہ موتہ میں ان کی شہادت پر غیر معمولی صبر دکھایا اور کوئی واویلا یا بین نہیں کیا.(12) قیادت موتہ اور عجز وانکسار غزوہ موتہ جمادی الاولی 9 ہجری میں ہوئی.واقعہ یوں ہوا کہ نبی کریم نے بصرہ کے رئیس کے نام اپنے ایک صحابی کے ہاتھ اپنا خط بھجوایا تھا.راستے میں ایک غسانی نے رسول اللہ اللہ کے اس سفیر کو قتل کر دیا.مزید برآں رومی سرحد پر مسلمانوں کے خلاف فوجوں کا اجتماع ہو رہا تھا نبی کریم نے تین ہزار کا لشکر روانہ کیا اس کی قیادت حضرت زید بن حارثہ کے سپرد کی اور ارشاد فرمایا کہ اگر یہ شہید ہو گئے تو پھر حضرت جعفر بن طیار امیر لشکر ہونگے اور اگر وہ بھی شہید ہو گئے تو عبداللہ بن رواحہ قیادت سنبھالیں گے.اس لشکر کی روانگی اور الوداع کا وقت آیا تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رونے لگے لوگوں نے کہا کہ اے عبداللہ روتے کیوں ہو کہنے لگے کہ خدا کی قسم مجھے دنیا سے ہرگز کوئی محبت ہے نہ اس کا کوئی شوق لیکن میں نے اس آیت وَإِن مِنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا (مریم: 72) کے بارہ میں آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ ہر ایک شخص کو ایک دفعہ ضرور آگ کا سامنا کرنا ہے اور میں اس سے بہت ڈرتا ہوں ایسے وقت اللہ تعالیٰ مجھے استقامت عطا فرمائے اور کہیں میں

Page 484

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 470 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ڈنگ گا کر ٹھوکر نہ کھا جاؤں.نہ معلوم ایسے کسی ابتلاء کے وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہو.اس حوالے سے مجھے خوف آتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی استقامت بخشے اور شہادت کا موقعہ آئے تو استقامت کے ساتھ اس راہ سے گزر جاؤں تب ان کو صحابہ نے تسلی دلائی اور دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے لے جائے اور خیریت سے واپس لائے انہوں نے کہا کہ میں یہ دعا ئیں نہیں چاہتا.شہادت کی تمنا تھی.پھر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے وہ اشعار کہے جن سے ان کی شہادت کی تمنا خوب ظاہر ہوتی لكِنِّي أَسْتَلُ الرَّحْمَنَ مَغْفِرَةً وَضَرْبَةٌ ذَاتَ فَرْعٍ يَقْذِفُ الرَّبَدَا دد لیکن میں تو رحمن خدا سے مغفرت کا طلب گار ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ بیشک ایسے تیز وار مجھ پر ہوں جو جھاگ کی طرح اڑا کر رکھ دیں.“ أَوْطَعْنَةٍ بِيَدِى حَرَانِ مُجَهَّزَةٍ بِحِرْبَةٍ تَنْفُذُ الْأَحْشَاءَ وَالْكَبِدَا یا ایسے ہتھیا راور تیار کئے ہوئے تیر مجھ کو لگیں اور ایسے نیزے لگیں کہ جو آنتوں میں گھس کر جگر کے پار ہو جائیں.مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے.ہاں بس یہ ہو کہ خد اتعالیٰ کی راہ میں میری شہادت قبول ہو جائے.حَتَّى يَقُولُواذَ مَرُّوا عَلَى جَدَتَيْ يَا رَشَدَ اللَّهُ مِنْ غَازِ وَقَد رَشَدًا اور جب لوگ میری قبر سے گذریں تو کہیں کہ خدا اس کا بھلا کرے یہ کیسا عظیم غازی تھا اور کیسی عظیم الشان شہادت اس کو عطا ہوئی.یہ وہ تمنا ئیں تھیں جو حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے دل میں شہادت کیلئے مچل رہی تھیں.موتہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ غسانیوں نے مسلمانوں کے خلاف ھرقل شاہ روم سے مدد طلب کی اور اس نے دولاکھ کا لشکر مسلمانوں کے مقابلے کیلئے بھجوایا ہے.اس موقع پر مسلمان امرائے لشکر نے با ہم مشورہ کیا کہ حضور کی خدمت میں پیغام بھیجنا چاہیئے کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے کمک بھجوائی جائے یا پھر جو حضور کا ارشاد ہو اس پر عمل کیا جائے.اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے

Page 485

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 471 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے بہت حوصلے بڑھائے.اور انکی رزمیہ شاعری بھی خوب کام آئی.یہ تین ہزار کا لشکر دولاکھ کے لشکر کے مقابلے کیلئے آگے بڑھا.(13) حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی تمنائے شہادت کا ذکر حضرت زید بن ارقم یوں کیا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ مجھے اپنی اونٹنی کے پیچھے سوار کر کے غزوہ موتہ میں ہمراہ لے گئے.زیڈ بن ارقم کو حضرت عبداللہ بن رواحہ نے ایک یتیم بچے کے طور پر لیکر پالا اوران کی تربیت کی تھی.کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا جس میں اپنے اہل خانہ کی یاد کے ساتھ یہ ذکر تھا کہ اب میں کبھی لوٹ کر واپس گھر نہیں جاؤں گا.بڑے مزے سے وہ یہ شعر گنگنا رہے تھے.إِذَا أَدْ نَيْتَنِي وَحَمَلتِ رَحْلِى مَسِيرَةَ أَرْبَعِ بَعْدَ الحَسَاء فَشَانُكِ فَا نُعَمِي وَخَلاكِ ذَمٌ وَلَا اَرْجِعُ إِلَى أَهْلِيْ وَرَائِي ان اشعار میں حضرت عبداللہ اپنی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”جمعرات کی وہ شام جب تم نے میرے اونٹ کے پالان کو سفر جہاد کیلئے درست کیا تھا اور آخری دفعہ میرے قریب ہوئی تھی تیری وہ حالت کیا خوب اور مبارک تھی.تجھ میں کوئی عیب یا خرابی تو نہیں مگر اب میں اس میدان جنگ میں آچکا ہوں اور اس سے لوٹ کر میں تمھاری طرف کبھی واپس نہیں آؤنگا.“ گویا اپنے اہل خانہ کو یہ انکا غائبانہ الواداع تھا.کمسن زید نے یہ سنا تو افسردہ ہوکر رودیے.حضرت عبداللہ نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ اے ناسمجھ ! اگر اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائے تو تیرا نقصان کیا ہے بلکہ تم تو میری سواری لے کرا کیلئے آرام سے اس پر بیٹھ کر واپس لوٹو گے.(14) میدان جہاد میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے واقعی بہادری کے خوب جو ہر دکھائے.حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے تھے کہ حضرت جعفر کی شہادت ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ لشکر کے ایک جانب تھے لوگوں نے انکو بلایا.وہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے یہ رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے.يَانَفُسُ اَلَا تَقْتُلِيْ تَمُوتِي هذَا حَيَاضُ الْمَوْتِ قَد صَلَيْتِ

Page 486

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 472 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ وَمَا تَمَنَّيْتِ فَقَدْ لِقِيْتِ إِن تَفْعَلِي فَعَلَّهُمَا هُدِيْتِ اے میرے نفس ! کیا تم اس طرح لڑائی نہیں لڑو گے کہ جان دے دو.موت کے تالاب میں تم داخل ہو چکے ہو.جو خواہش (شہادت کی ) تم نے کی تھی.اسے پورا کرنے کا وقت آچکا ہے.اب اگر جان کا نذرانہ پیش کر دو تو شاید نیک انجام پا جاؤ.(15) مصعب بن شیبہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زید اور حضرت جعفر بھی شہید ہو گئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ میدان میں آگے تشریف لائے.جب انہیں نیز ہ لگا تو خون کی ایک دھار جسم سے نکلی.آپ نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور ان میں خون لے کر اپنے منہ کے اوپر مل لیا پھر وہ دشمن اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان گر گئے مگر آخری سانسوں تک سردار لشکر کے طور پر مسلمانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور نہایت مؤثر جذباتی رنگ میں مسلمانوں کو انگیخت کرتے ہوئے اپنی مدد کیلئے بلاتے رہے کہ دیکھوائے مسلمانو! یہ تمھارے بھائی کا لاشہ دشمنوں کے سامنے پڑا ہوا ہے.آگے بڑھو اور دشمنوں کو اپنے اس بھائی کے راستے سے دور کرو اور ہٹاؤ چنانچہ مسلمانوں نے اس موقع پر بڑے زور کے ساتھ کفار پر حملہ کیا اور پے در پے حملہ کرتے رہے یہاں تک کہ اس دوران حضرت عبد اللہ کی شہادت ہو گئی.(16) آنحضرت کو اہل موتہ کی شہادت کا تمام حال کشف کے ذریعے سے بتایا گیا ، آپ نے صحابہ سے سرداران موتہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر آخر عبد اللہ بن رواحہ بھی شہید ہو گئے.(17) رسول کریم ﷺ نے اپنے ان تینوں امراء لشکر کے بارے میں بیان فرمایا کہ میں نے ان کو جنت میں سونے کے تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے.(18) زہد و عبادت حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی زندگی نہایت عابدانہ اور زاہدانہ تھی نبی کریم فرمایا کرتے تھے " نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ الله بن رواحہ کہ عبداللہ بن رواحہ بھی کیا خوب اور کتنا اچھا آدمی ہے (19) شہادت کے بعد ان کی بیوہ کی شادی ہوئی تو اس شوہر نے کہا کہ عبد اللہ بن رواحہ کی پاکیزہ سیرت کے بارے میں مجھے کچھ بتاؤ خاتون نے کیا ہی خوبصورت گواہی دی.کہنے لگیں حضرت عبد

Page 487

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 473 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اللہ بن رواحہ کبھی گھر سے باہر نہیں جاتے تھے جب تک کہ دو رکعت نفل نماز ادا نہ کر لیں اسی طرح جب گھر میں داخل ہوتے تھے آپ کا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ وضو کر کے دو رکعت نفل نماز ادا کیا کرتے (20) حضرت عبداللہ کی دیگر عبادات کا بھی یہی حال تھا نفلی روزے رکھنے کا مجاہدہ بھی دوسروں سے بڑھ کر کرتے تھے حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آنحضرت کے ساتھ رمضان کے مہینے میں ایک غزوہ کیلئے نکلے.گرمی اتنی شدید تھی کہ ہم اپنے سروں کو گرمی سے بچانے کیلئے ہاتھوں سے ڈھانپتے تھے اور کسی کو یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ اس شدید گرمی میں روزہ رکھ سکے سوائے نبی کریم اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے.اس سے آپ کی جفا کشی اور مجاہدے کا خوب اندازہ ہوتا ہے.(21) اطاعت رسول اور پاکیزہ صحبت آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی محبت اور اطاعت کا اندازہ آپ اس واقعہ سے کر سکتے ہیں جو حضرت ابولیلی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت یہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اس دوران آپ نے فرمایا لوگو بیٹھ جاؤ حضرت عبداللہ بن رواحہ مسجد سے باہر خطبہ سننے کیلئے حاضر ہورہے تھے.وہ وہیں پر بیٹھ گئے آنحضرت نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا زَادَكَ الله حرصًا عَلَى طَوَاعِيَةِ اللهِ وَعَلَى طَوَاعِيَةِ رَسُوْلِهِ کہ اے عبداللہ بن رواحہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا تمہارا یہ جذ بہ اللہ تعالیٰ اور بڑھائے.(22) صحبت صالحین آخر میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی ایک بہت ہی پیاری خوبی کا بیان ضروری ہے کہ آ.صالحین کی صحبت بہت پسند کرتے اور اس کی خواہش رکھتے تھے.بطور خاص نیک لوگوں کی مجالس منعقد کیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت ابو درداء بیان کرتے تھے کہ میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے اوپر کوئی ایک ایسا دن آئے جب میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یا د نہ کروں.ہر روز میں ان کو یاد کرتا ہوں اور اس کی وجہ ان کی یہ خوبی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی جب بھی

Page 488

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 474 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ میرے سے ملاقات ہوئی اگر وہ پیچھے سے آرہے ہوتے تو اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیتے اور سامنے سے آرہے ہوتے تو سینے پر ہاتھ رکھتے اور فرماتے کہ اے ابو دردا ! آؤ ذرائل بیٹھیں اور ایمان تازہ کریں.کچھ ایمان کی باتیں کرلیں پھر میرے ساتھ بیٹھتے اور جب تک ہمیں موقع ملتا ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے.پھر فرماتے کہ اے ابو در داھ یہ ایمان کی مجالس ہیں.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو صحابہ کی صحبت اتنی پسند تھی کہ جب بھی کسی صحابی سے ملتے ان کو یہ تحریک کرتے کہ آؤ مل بیٹھیں اور کچھ گھڑی اپنے ایمان کو تازہ کریں.آنحضرت نے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ”عبداللہ بن رواحہ ایک ایسا شخص ہے جو نیک مجالس کو بہت پسند کرتا ہے اور ایسی مجالس منعقد کرتا ہے جن کو فرشتے بھی پسند کرتے ہیں.“ (23) آج جب عبد اللہ بن رواحہ شہادت کا بلند مرتبہ پا کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہیں ہم تصور کر سکتے ہیں کہ وہاں بھی نیک صحبتیں اور وہ پاک مجالس ان کو نصیب ہوتی ہونگی.اور بے اختیار دل سے وہی الفاظ نکلتے ہیں جو آنحضرت علیہ حضرت عبداللہ کوفرمایا کرتے تھے.نِعْمَ الرجُلُ عَبْدُ اللَّهِ بُنُ رَوَاحَةَ عبد اللہ بن رواحہ بھی کیا خوب انسان ہے.واقعی کتنے خوش قسمت تھے عبد اللہ بن رواحہ کہتے سعادت مند تھے وہ.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نیک اور پاک نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 489

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 475 حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ حواله جات 6637-1 اصابه جز 3 صفحہ 66 -2 -3 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 157 ابن سعد جلد 3 صفحہ 526,525 -5 مسلم کتاب الجہاد والسير باب في دعاء النبي مسند احمد جلد 1 صفحہ 224 6- اصابہ جز 3 صفحه 66 66371 - بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق 674% 8- اصابہ جز 4 صفحہ 67 -10 ابو داؤد کتاب الزکوۃ باب متى يخرص التمر ابن سعد جلد 3 صفحہ 528 11 - اصابه جز 4 صفحہ 67 اصا به جز 4 صفحہ 66 اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 158 -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 158 اسدالغا به جلد 3 صفحہ 158 اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 159 مسند احمد جلد 1 صفحہ 205 اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 159 اصابه جز 4 صفحہ 66 اصا به جز 4 صفحہ 66 -21 صحیح مسلم کتاب الصيام باب التخير في الصوم والفطر 22- اصابه جز 4 صفحہ 66 -23 اصا به جز 4 صفحہ 66

Page 490

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 476 حضرت جابر بن عبد الله حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبد اللہ بن عمر و بن حرام وہ جواں سال صحابی ہیں جن کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا.والدہ نسیبہ بنت عقبہ بن سلمہ میں سے تھیں.آپ وہ خوش نصیب انصاری ہیں جنہیں کم سنی میں اپنے والد کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شرکت کرنے اور اسی سال حج کے موقع پر مکہ میں اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ کے دادا عمر و اپنے خاندان کے رئیس تھے.ان کے بعد جابر تھے.ان کے والد عبداللہ نے ریاست سنبھال لی بیعت عقبہ کے موقع پر جابز کے والد حضرت عبداللہ بنو حرام کے نقیب مقرر ہوئے.بدر اور احد میں حضرت عبداللہ کو شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.گھر میں ان کی کم سن بیٹیاں تھیں جن کی نگہداشت کے لئے حضرت جابڑ کو گھر میں رکنا پڑا اور وہ بدر، احد میں شریک نہ ہو سکے.(1) والد کی شہادت غزوہ احد میں جاتے ہوئے آپ کے والد نے یہ نصیحت کی کہ میں احد میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو میرے بعد اپنی بہنوں کا خاص خیال رکھنا.ان کی نگہداشت کرنا (2) نیز وصیت کی کہ یہود سے جو قرض میں لے چکا ہوں وہ میرے کھجور کے باغات سے ادا کر دینا.حضرت عبداللہ اسی جذ بہ شوق شہادت کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے اور جام شہادت نوش کیا.وہ بہت بہادری اور بے جگری سے لڑے تھے جس کا دشمن نے بھی خوب انتقام لیا.چنانچہ حضرت عبداللہ کی شہادت کے بعد ان کی نعش کا مثلہ کیا گیا اور ناک ، کان کاٹ دئے گئے.چہرے کا حلیہ بگاڑ دیا گیا.حضرت عبد اللہ کی نعش پر جب ان کی بہنیں آئیں اور ان کے چہرے پر سے چادر اٹھائی تو بے اختیار آہ وزاری کرنے اور رونے لگیں، آنحضرت ﷺ نے ان کا یہ حال دیکھا تو ان کو دلاسا اور تسلی دلاتے صلى الله ہوئے فرمایا تَبْكِيْنَ اَوْ لَا تَبْكِينَ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُظِلُّهُ کہ تم روویانہ رو ملائکہ اس عظیم الشان شہید پر بدستور سایہ (رحمت) کئے رہے جب تک کہ اس کے جنازے کو اٹھایا نہیں گیا.(3)

Page 491

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 477 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ کی اولاد میں حضرت جابر کے علاوہ نو بیٹیاں تھیں جن کی نگہداشت حضرت جابر کے ذمہ آئی.بیٹیوں نے اپنے والد کی نعش اٹھانے کے لئے مدینہ سے اونٹ بھجوایا لیکن آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر سے یہ فرمایا کہ جہاں عبداللہ کے ساتھی دیگر شہدائے احد کی تدفین ہوگی وہیں عبد اللہ دفن ہوں گے اور حضرت جابر نے سرتسلیم خم کر دیا (4) حضرت عبداللہ کی شہادت کے بعد یتیم بہنوں کے واحد کفیل جابڑ تھے.چنانچہ حضرت عبداللہ کی اولاد کے ساتھ ہمیشہ آنحضرت ﷺ کا ایک عجیب محبت اور شفقت بھرا تعلق رہا.خاص طور پر جواں سال حضرت جابر رسول اللہ علیہ کی شفقتوں کے مورد ٹھہرے.(5) رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر جائز کو تسلی اور دلاسہ دیا.جابر کے چہرے پر آپ نے یاس اور فکر کے آثار دیکھے تو کتنی محبت سے فرمانے لگے جاڑا کیا وجہ ہے مغموم نظر آتے ہو ؟ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے والد احد میں شہید ہو گئے.پیچھے عیالداری اور قرض ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ خوشخبری سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو عطا کی.انہوں نے کہا ضرور اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں فرمایا مگر تمہارے باپ کو زندہ کر کے آمنے سامنے کلام کیا اور فرمایا اے میرے بندے مجھ سے جو چاہو خواہش کرو میں پوری کروں گا.تمہارے باپ نے کہا کہ اے میرے رب مجھے زندہ کر کے واپس بھیج کہ تیری راہ میں پھر دوسری دفعہ شہید ہو جاؤں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ ہماری سنت کے خلاف ہے جو لوگ مر جائیں ان کے بارے میں فیصلہ گزر چکا ہے م لاَ يَرْجِعُونَ وہ دنیا کی طرف واپس نہیں لوٹائے جاتے (6) یہ سن کر حضرت جابڑ کو کس قدر سکینت اور طمانیت عطا ہوئی ہوگی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا.بلکہ ان کے پورے خاندان اور شہید کی بینیم اولاد کیلئے یہ بہت بڑی تسلی تھی.ادائیگی قرض میں رسول اللہ اللہ کی کوشش اور دعا انهم اس کے بعد آنحضرت ﷺ کا حضرت جابر کے ساتھ شفقتوں بھرے سلوک کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہایت حیرت انگیز اور عجیب لطف وکرم کا ایک سلسلہ ہے.پہلی بڑی پریشانی حضرت جابڑ کے

Page 492

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 478 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ پورے خاندان کے لئے یہودی ساہوکاروں کے قرض کا بوجھ تھا.حضرت جابر بیان کرتے تھے کہ غزوہ احد کے بعد کھجور کے باغات پر جو پہلا پھل آیا.میری خواہش تھی کہ خواہ باغ کا سارا پھل بھی دینا پڑ ے اور قرض کا بوجھ اتر جائے تو خوش نصیبی ہوگی.چنانچہ میں نے یہود کو یہ پیش کش بھی کر دی کہ باغ کا سارا پھل لے لو اور قرض سے دستبردار ہو جاؤ مگر یہودیوں کی نظریں تو باغ پر تھیں کہ وہ قرض کو سود در سود بڑھا کر کسی طرح باغ قبضہ میں کر لیں.چنانچہ حضرت جابر انحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہودی قرض خواہوں کا تقاضا ہے کہ میں ان کا سارا قرض انہیں ادا کروں.آپ ان قرض خواہوں کے پاس میری سفارش کر دیں کہ وہ قسط وار کچھ اس سال اور کچھ ا گلے سال مجھ سے یہ قرض لے لیں اور یوں یہ قرض ادا ہوتا چلا جائے.آنحضرت ﷺ نے ان قرض خواہوں کو بلا کر حضرت جابر کی یہ سفارش کی کہ کچھ قرض اس سال لے لو کچھ اگلے سال لے لینا لیکن یہودی اس پر راضی نہ ہوئے.وہ سارا قرض یکمشت لینے پر مصر تھے، چنانچہ آنحضرت نے جب یہ دیکھا کہ کوئی صورت کارگر نہیں ہورہی تو آپ نے حضرت جابر سے فرمایا اچھا میں خود تمہارے باغ میں آؤں گا.حضور کی منشاء یہ معلوم ہوتی تھی کہ حالات کا جائزہ لے کر دعا کریں گے.چنانچہ حضرت جابر سے ہفتہ کا دن مقرر ہوا اور فرمایا کہ دن چڑھنے کے بعد میں خود تمہارے باغ میں آجاؤں گا.مقررہ وقت پر آنحضرت باغ میں تشریف لائے.حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی.خوب مزے لے لے کر وہ یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کس طرح آنحضرت ﷺ ان کے باغ میں تشریف لائے.آتے ہی آپ نے وضو کر کے دو نفل نماز ادا کی.اور دراصل یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے حضور تشریف لائے تھے آپ نے اپنے دونوں رفقا حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بھی اپنے اس پروگرام سے مطلع فرما دیا تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ کی آمد سے کچھ دیر کے بعد حضرت ابوبکر تشریف لے رض آئے تو انہوں نے بھی آتے ہی وضو کر کے دورکعت نماز پڑھ کر دعائیں کیں.ان کے بعد حضرت عمرؓ تشریف لائے اور انہوں نے بھی ویسا ہی کیا جو آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر نے کیا تھا اور دورکعت نماز پڑھ کر سایہ دار جگہ میں ستانے کے لئے بیٹھے تو تھوڑی دیر کے لئے حضور کی آنکھ لگ گئی جائز کہتے ہیں اس دوران میں نے ایک چھوٹا سا بکرا جو گھر پالا ہوا تھا ذبح کر کے آنحضرت ﷺ کے لئے کھانے

Page 493

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 479 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا انتظام شروع کیا.مجھے اندازہ تھا کہ آنحضرت اُٹھتے ہی وضو کے لئے پانی طلب کریں گے.میری خواہش تھی کہ آنحضرت ﷺ کے اٹھنے سے قبل ہی جتنی جلدی ہو سکے کھانے کا انتظام مکمل کرلوں اور آپ کے بیدار ہوتے ہی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ما حضر پیش کر دوں.چنانچہ ایسا ہی ہوا حضور اٹھے اور وضو کا پانی طلب کیا میں نے پانی وغیرہ پیش کیا پھر ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کر دیا تو کھانے میں گوشت دیکھ کر آنحضرت یہ فرمانے لگے اے جابر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں خوب علم ہے کہ ہمیں گوشت مرغوب خاطر ہے اور تم نے بڑی چاہت سے یہ گوشت تیار کر کے ہمارے لئے دعوت کا انتظام کیا ہے.حضرت ابو بکر وعمر بھی آکر شریک طعام ہوئے.چشمے کا ٹھنڈا پانی بھی تھا.میٹھے میں تازہ اور خشک کھجور بھی پیش کی گئی.یہ خوان نعمت سجا تو آنحضرت ﷺ کا جذ بہ شکر عجب انداز میں ظاہر ہوا آپ فرمانے لگے دیکھو یہی وہ نعمتیں ہیں جن کا سورۃ التکاثر کے آخر میں ذکر ہے کہ اس حساب کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے کس حد تک شکر نعمت کا حق ادا کیا.حضرت جابر بیان کرتے ہیں پھر آنحضرت ﷺ اٹھے اور کھانے کے بعد فرمانے لگے کہ اچھا اب باغ کو دیکھتے ہیں کہ کتنا پھل ہے باغ میں چلتے پھرتے ہوئے حضور زیر لب دعا کرتے رہے.اس موقع پر یہودی قرض خواہ بھی آئے ہوئے تھے.حضور کو دعا کرتے ہوئے دیکھ کر انہیں جابر پر سخت غصہ آ رہا تھا.آنحضور ﷺ نے ان سے پھر فرمایا ” دیکھو میں نے تم سے پہلے بھی کہا اب پھر سفارش کرتا ہوں جاب سے کچھ پھل اس سال لے لو کچھ اگلے سال لے لینا اور قرض میں مہلت دے دو.انہوں نے کہا کہ ہم تو اس پر آمادہ اور تیار نہیں ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ دیکھ لو یہ یتیموں کا مال ہے اور اسی وجہ سے میں سفارش بھی کر رہا ہوں.انہوں نے کہا کہ ہم تو اپنا پورا پورا قرض واپس لینا چاہتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر سے فرمایا کہ اچھا تم ایسا کرو کہ جتنی اقسام کی کھجوریں یہاں ہیں وہ چنو اؤ باغ کو اؤ اور ہر قسم کی کھجور کے الگ الگ ڈھیر بنوادو اور پھر ماپ کر ان یہودیوں کا قرض دینا ہے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ دیکھو آنحضرت ہمارے ہاں تشریف لا رہے ہیں تم نے بالکل حضور ﷺ سے کوئی سوال نہیں کرنا.

Page 494

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 480 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ میں نے طبعی حجاب کی وجہ سے بیوی کو اس سے روکا تھا.لیکن وہ باز نہیں آئی جب حضور ﷺے باغ میں چہل قدمی فرمانے کے بعد واپس جانے لگے اور دیکھا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے تو آپ نے حضرت ابو بکڑ سے فرمایا کہ ابوبکر نماز کا وقت ہو گیا ہے چلو واپس چلیں.دریں اثنا میری بیوی نے جھونپڑی سے تھوڑا سا سر باہر نکال کر عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے اور میرے شوہر کے لئے دعا تو کر جائیں حضور ﷺ دعا تو پہلے سے ہی کر رہے تھے اس وقت خاص طور پر آپ نے ان کے لئے دعا کی اے اللہ! ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں بھیج.اس پر بھی اور اس کے شوہر پر بھی.اور پھر مجھ سے تاکید فرمایا کہ تم نے یہ پھل کٹوا کر یہودیوں کو با قاعدہ ماپ کر قرض واپس کرنا ہے.کہتے ہیں کہ میں اس کام میں لگ گیا.پھل میں ایسی برکت پڑی اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان یہودیوں کا سارا قرض نہ صرف اس پھل سے ادا ہو گیا بلکہ قرض کے تمہیں وسق یعنی قریباً 67 من کھجور دینے کے بعد قریباً 38 من کے قریب باقی بھی بیچ رہی اور یہ خاص حضور ﷺ کی دعاؤں کی برکت تھی ورنہ باغ کو دیکھنے کے بعد بھی یہی اندازہ ہوتا تھا کہ یہ پورے کا پورا بھی پھل قرض کے لئے کفایت نہ کر سکے گا.دوسری روایت میں مزید تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں سے ایسی برکت رکھ دی کہ حضور علے جس ڈھیر پر بیٹھ کر خود ماپ کر یہود کو قرض دے رہے تھے ایسے لگتا تھا کہ اس ڈھیر سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ جوں کا توں ہے.قرض کی مکمل ادائیگی کے بعد جب میں دوڑتا ہوا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا اور یہ ذکر چھڑا کہ سارا قرض ادا ہو گیا ہے اور کھجوریں بچ بھی رہی ہیں.حضور ﷺ بہت خوش تھے آپ نے فرمایا اچھا! حضرت عمر کو بلا و حضرت ابو بکر کو بھی اطلاع ہوئی اور وہ بھی تشریف لے آئے.حضور نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ اے عمر جابر سے ذرا پوچھو تو سہی کہ اس کے قرض کا کیا بنا؟ حضرت عمر کا ایمان بھی کیسا کامل اور تو کل کیسا عجیب تھا عرض کیا یا رسول اللہ ! میں جابر سے کیوں پوچھوں آپ جب باغ میں چلے تھے اور زیر لب دعائیں کر رہے تھے مجھے تو اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ جابڑ کے حق میں ضرور کوئی معجزہ رونما ہوگا.رسول اللہ ہے نے فرمایا پوچھو تو سہی کہ یہ کہتے کیا ہیں کیا واقعہ ہوا.انہوں نے پھر کہا مجھے کامل ایمان اور یقین ہے کہ وہی معجزہ ہوا ہو گا جو حضور ﷺ کی برکت سے ہونا ہی تھا.جب تیسری مرتبہ رسول پاک ﷺ نے

Page 495

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 481 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرمایا پوچھو تو سہی! حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب تیسری دفعہ صحابہ سے کوئی بات فرماتے تھے تو وہ سر تسلیم خم کر دیتے تھے حضرت عمرؓ نے کہا جابر بتاؤ تو سہی کہ ہوا کیا ؟ تب حضرت جابر نے پورا قصہ کہہ سنایا.حضرت ابو بکر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے.حضرت عمرؓ نے بھی کہا دیکھو رسول پاک ﷺ کی دعاؤں کے بعد اس خاص توجہ کے نتیجہ میں کیسا نشان ظاہر ہوا.(7) الغرض حضرت جابر اور ان کا خاندان آنحضرت عاللہ کی محبتوں اور شفقتوں کا مورد ٹھہرا.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میرا آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک ایسا تعلق پیدا ہو گیا تھا کہ پھر میری زندگی میں کوئی ایسا غزوہ نہیں آیا کہ میں اس میں آپ سے پیچھے رہ گیا ہوں اور میں آپ کا ایسا گرویدہ ہوا کہ کوئی غزوہ مجھ سے خطا نہیں گیا چنانچہ حضور نے انہیں غزوات میں شرکت فرمائی ان میں سے سترہ میں مجھے شرکت کی توفیق ملی سوائے پہلے بدر اور احد کے غزوات کے.حضرت جابران غزوات میں شرکت کے اپنے احوال بھی بیان کرتے تھے جو احادیث کی کتب میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں اور عشق و محبت کے عجیب واقعات ہیں.جنگ خندق میں فاقہ اور جابر کی دعوت رسول ملے غزوہ خندق کے حوالے سے بھی حضرت جابر یہ قصہ بہت محبت بھرے انداز میں بیان کرتے تھے کہ حضور کے ساتھ ہم خندق کھودرہے تھے.قحط اور فاقہ کا زمانہ تھا.بھوک کی تکلیف کم کرنے کے لئے صحابہ نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے.خندق کی کھدائی میں ایک سخت چٹان آگئی اور حضور خود کدال لے کر وہ سخت پتھر توڑنے کے لئے آگے بڑھے.پیٹ سے کپڑا اٹھا تو ہم نے دیکھا کہ حضور نے شدت فاقہ سے بچنے کیلئے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے اور ہم نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا.عاشق رسول حضرت جابر سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حالت دیکھی نہ گئی.فورا اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے جا کر کہا کہ میں نے اپنے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کی فاقہ کی ایسی حالت دیکھی ہے جو خدا کی قسم نا قابل برداشت ہے پس تمہارے پاس جو بھی میسر ہے اس سے کھانے کا کچھ بندوبست کرو.اس نے کہا میرے پاس جو ہیں اور گھر میں ایک چھوٹا سا پالتو بکرا ہے.میں نے وہ بکرا ذبح کیا اور اس نے جو میں لئے.گوشت ہنڈیا میں ڈال کر پکنے کے لئے رکھ دیا گیا اور آٹا گوندھنے کے بعد

Page 496

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 482 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سنور نے لگا.خودحضرت جابر آنحضرت ﷺ کو بلانے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے آپ کے لئے تھوڑا سا کھانے کا انتظام کیا ہے.حضرت جابڑ کو اندازہ تھا کہ مدینہ میں فاقہ کا عالم ہے اور کھانا کم ہے.حضور کے ساتھ اگر دو تین افراد آجائیں تو کوئی حرج نہیں.حضور نے فرمایا کہ کھانا کتنا ہے میں نے ذکر کر دیا اور کہا حضور بس آپ کے لئے کھانے کا انتظام کیا ہے.آپ نے وہاں موجود سب لوگوں سے فرمایا اے اہل خندق! جابر نے ہمارے لئے دعوت کا انتظام کیا ہے چلو چلیں.لشکر کے سارے لوگ جو ایک ہزار کے قریب تھے کھانے کے لئے چل پڑے.جابر کہتے ہیں کہ میں حیران و پریشان اور سخت نادم تھا کہ ایک ہزار کا لشکر اور چھوٹا سا بکر وٹا.بنے گا کیا؟ کہتے ہیں کہ میں نے گھر جا کر اطلاع کی تو بیوی سخت ناراض ہوئی اور کہا کہ حضور نے تم سے کھانے کا پوچھ لیا تھا کہ کتنا ہے انہوں نے بتایا کہ حضور کا فرمان ہے کہ روٹی تنور سے شروع نہ کرنا نہ ہی ہنڈیا کو چولہے سے اتارنا اور ہمارے آنے کا انتظار کرنا جابر نے بیوی کو بتایا کہ حضور پورے لشکر کے ساتھ تشریف لے آئے ہیں حضور نے صحابہ سے فرمایا آرام سے داخل ہو.ادھر روٹی بنی شروع ہوگئی تو حضور خود ہاتھ سے روٹی تو ڑ کر اوپر گوشت رکھ کر صحابہ کو دیتے پھر ہنڈیا ڈھانک دیتے.ہنڈیا مسلسل اہل رہی تھی اور آٹے سے مسلسل روٹی پک رہی تھی.سب اصحاب نے کھانا کھایا بلکہ بعد میں کھانا بچ بھی رہا اور آنحضور ﷺ نے جابڑ کی اہلیہ سے فرمایا کہ یہ برکت والا کھانا ہے.مدینہ میں لوگوں کو بہت فاقہ پہنچا ہے، بھوک سے اُن کا بُرا حال ہے ، اس لئے باقی کھا نا مدینہ کے لوگوں میں تقسیم کر دوتا کہ ان کی بھوک دور ہو.(8) حضور کے زیر تربیت رہ کر حضرت جابر آپ کے قریبی با اعتماد ساتھی بن گئے.غزوہ بنومصطلق کے موقع پر جب لشکر روانہ ہونے لگا تو آنحضرت ﷺ اونٹ پر سوار تھے مگر حضرت جابڑ کوکسی کام کے لئے بھیجا ہوا تھا.آپ ان کا انتظار فرماتے رہے اور لشکر روانہ نہیں ہوا جب تک حضرت جابڑ کا وہ خصوصی مہم سر کر کے واپس آ نہیں گئے.غزوہ ذات الرقاع میں بھی حضرت جابر شریک تھے.اس سفر میں مسلمانوں کو صلوۃ الخوف پڑھنے کی بھی نوبت آئی.چنانچہ حضرت جابر نماز خوف پڑھنے کے طریقے بھی بیان کیا کرتے تھے.

Page 497

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 483 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضور سے اونٹ کا سودا اور قبولیت دعا اس سفر سے واپسی کے موقع پر حضور کی محبت اور شفقت کا ایک اور بہت ہی عجیب واقعہ حضرت جاب کے ساتھ گزرا جسے حضرت جابڑ ایک خاص محبت بھرے انداز سے یوں بیان کیا کرتے تھے کہ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر میرا سواری کا اونٹ جو پانی ڈھونے والا تھا اڑ گیا اور دیگر سواریوں کا ساتھ دینے سے رک گیا ایسا اڑیل ہوا کہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں تھا.حضرت جابر کہتے کہ میں دل ہی دل میں سخت اظہار افسوس اور ندامت کر رہا تھا اور میرے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ وائے افسوس! یہ ایسی سواری ملی ہے کہ میں لشکر میں سب سے پیچھے رہ گیا ہوں اور نہیں معلوم کہ اب یہ اونٹ چلتا بھی ہے کہ نہیں چلتا اور میرا کیا بنے گا، لوگوں سے پیچھے رہ جاؤں گا.آنحضرت ﷺ جو پیچھے تشریف لا رہے تھے ، آپ نے جابڑ کے افسوس بھرے کلمات سن لیے اور محبت سے فرمایا جا بڑ کیا بات ہے؟ کیا اظہار افسوس کر رہے تھے ، جابڑ کہتے ہیں کہ میں نے تو اپنی ایک خاص کیفیت میں وہ فقرے کہے تھے ، جو مجھے لفظ یا دبھی نہ رہے تھے.میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے اونٹ کا یہ حال ہے اور اس کی وجہ سے پریشان ہو کر میں اظہار افسوس کر رہا تھا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا ! اونٹ کو روک کر بٹھاؤ اور درخت سے اس کیلئے ایک چھڑی بناؤ.پھر حضور نے وہ چھڑی ہاتھ میں لی ، جابڑ کو اونٹ پر سوار کروا کے فرمایا کہ اب اس کی مہار کو مضبوطی سے تھام لو، جا بڑ بڑی مضبوطی سے اس پر جم کر بیٹھ گئے اور آنحضرت ﷺ نے پیچھے سے اونٹ کو چھڑی سے ہانکنا شروع کیا ، پہلے تو اونٹ نے اڑی کی اور اپنی جگہ پر یوں زور سے کو دا کہ جابر بیان کرتے ہیں کہ اگر میں اُونٹ کے ساتھ چمٹ نہ گیا ہوتا تو لازماً اس سے نیچے گر پڑتا لیکن اس کے بعد تو اونٹ کے اندر ایسی تیزی آئی اور وہ ایسا دوڑا کہ سب سے آگے وہ بھاگتا تھا جبکہ باقی سواریاں پیچھے رہنے لگیں اور یہ حضور کی توجہ اور دعا کا کمال تھا.“ اب آنحضرت ﷺ نے جابر کے ساتھ ایک اور دل لگی کی.آپ اپنے اس خادم کے ساتھ محبت و پیار کا اظہار بھی کرنا چاہتے تھے.اُسے کچھ انعام واکرام سے بھی نوازنا چاہتے تھے.مگر جانتے تھے کہ جابر رئیس کا بیٹا اور بڑا غیور ہے یوں کچھ قبول کرنا اور لینا اس کی عزت نفس کے خلاف اور اس پر بوجھ ہوگا.جابر نے اس موقع پر یہ ذکر بھی کیا یا رسول اللہ میری نئی نئی شادی ہوئی ہے اجازت ہو تو میں قافلے

Page 498

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 484 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ کر پہلے مدینہ پہنچ جاؤں حضور پہلے تو شفقت بھری باتیں کرنے لگے پھر فرمایا کہو شادی کہاں کی ہے.کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ حضرت جابر نے بتایا کہ بیوہ سے شادی کی ہے آپ نے انہیں چھیڑتے ہوئے فرمایا ہاں تمہیں کنواری عورتوں سے کیا غرض ؟ پھر فرمایا میاں ! تم اس نو عمری میں کنواری لڑکی سے شادی کرتے ایک دوسرے سے ہنس کھیل بیٹھتے.بیوہ سے کیوں شادی کر لی؟ حضرت جابڑ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے گھر میں تو بہنیں بھی تھیں جن کی کفالت میرے سپرد ہے میں نے سوچا اگر ان جیسی ایک اور نا تجربہ کار لڑکی بیاہ کر لے آؤں گا تو اور مشکل میں نہ پڑ جاؤں اس لئے ایک تجربہ کارعورت کو لے آیا ہوں جو ان کا خیال رکھے گی کنگھی پٹی کرے گی اور میرا گھر بھی سنبھالے گی.حضور نے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے، اب آنحضور ﷺ نے غیور حضرت جابڑ کی مدد کسی تحفہ کی صورت میں کرنا چاہی.پیار و محبت بھری باتیں کرتے ہوئے فرمایا جا برا چھا بتاؤ یہ اونٹ جواڑیل سا ہے، چلتا بھی نہیں مجھے بیچتے ہو.جابڑ کہتے ہیں جب وہ اونٹ رک گیا تھا تو میں نے اس سے تنگ آکر یہاں تک سوچا تھا کہ اس اونٹ کو یہیں چھوڑے جاتا ہوں پھر جب وہ کچھ چلنے لگا تو میں نے کہا کہ چلو اب تو اس کو لے کر جانا ہی ہو گا.اب حضور نے فروخت کرنے کا پوچھا تو میں نے کہا یا رسول اللہ میں اس کو بیچ ہی دیتا ہوں فرمایا ” کتنے میں بیچو گے؟ پھر خود ہی دل لگی کرتے ہوئے فرمانے لگے ایک درہم میں بیچتے ہو؟ حضرت جابر نے کہا کہ حضور صرف ایک درہم؟ (اس زمانے میں اونٹ مہنگے ہوتے تھے اور درہم ایک روپیہ ہی تھا) جابر نے کہا نہیں ایک درہم تو کچھ بھی نہ ہوا.آپ نے فرمایا ” یہ اونٹ چلتا تو تھا نہیں ایک درہم ہی کافی ہے پھر فرمایا ” چلو دو درہم ہی لے لو اچھا تین درہم لے لو.کیوں اپنے اس صحابی سے محبت پیار بھرے انداز میں دل لگی کرتے کرتے کہا اچھا تم ہی بتاؤ کیا لو گے؟ تو جابر نے کہا کہ میں تو کم از کم اس کا ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم لوں گا فرمانے لگے ٹو ایک اوقیہ ! اس اونٹ کی قیمت ایک اوقیہ ؟ “ یہ بھی کوئی اونٹ ہے چلتا تھا نہیں.ہے بھی پانی ڈھونے والا جانور ! اور قیمت پوچھو تو ایک اوقیہ ! پھر فرمانے لگے اچھا اب تم نے مانگا ہے تو ایک اوقیہ ہی سہی.میں یہ قیمت دے دوں گا.حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں بہت خوش ہوا.اونٹ سے اتر آیا اور اس کی مہار حضور کو تھما دی کہ لیجئے اب یہ آپ کا ہوا.آپ نے فرمایا ! نہیں نہیں تم اس پر سوار ہو کر مدینہ تک جا

Page 499

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 485 سکتے ہو بے شک وہاں پہنچ کر یہ میرے حوالے کر دینا.حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت جابر کہتے ہیں کہ صرار مقام پر میں نے حضور سے لشکر سے قبل مدینہ چلے جانے کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ رات تک انتظار کرلوتا کہ عورتیں گھروں میں تیاری کر لیں.نیز آپ نے جابر کو اولاد کے حصول کی سعی کے لئے کمال حکمت سے توجہ دلائی.جابر کہتے ہیں کہ میں مدینہ پہنچا تو اپنے ماموں کو بتایا کہ میرا اونٹ اڑیل ہو گیا تھا لہذا اسے بیچ دیا.چونکہ وہ گھر کا پانی ڈھونے والا اونٹ تھا اسلئے ماموں بھی ناراض ہوئے.مدینہ پہنچ کر میں نے کہا کہ اچھا اب یہ اونٹ بھی حضور کے حوالے کرنا ہے میں مسجد نبوی گیا.جب جابر وہ اونٹ لے کر مسجد نبوی پہنچے تو آپ نے فرمایا اے جابر تم نے سفر سے آکر دور کعت نفل پڑھے ہیں یہ حضور کی سنت تھی.جاڑا کو بھی اس کی نصیحت کی.چنانچہ انہوں نے دو رکعتیں ادا کیں.پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خزانچی بلال کو بلا کر فرمایا ایک اوقیہ کی رقم میں نے جابز کو دینی ہے وہ اسے ادا کر دو.اور ایک اوقیہ سے زائد اس کو وزن کر دینا اور خود حضور اونٹ کے اردگرد چکر لگانے لگے اسے دیکھ کر فرماتے ”واہ بھئی واہ! کیا عمدہ اونٹ ہم نے جابر سے خریدا ہے.خوب! عمدہ اونٹ ہے.بہت ہی اچھا بھئی! کیا خوب اونٹ ہے جو ہم نے صرف ایک اوقیہ میں جابر سے خرید لیا.“ جاب کہتے ہیں کہ میں بلال کے ساتھ گیا انہوں نے مجھے نہ صرف ایک اوقیہ دیا بلکہ حضور کے ارشاد کے مطابق ایک قیراط زائد بھی دے دیا.میں نے دل میں سوچا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جو زائد قیراط دیا ہے اس کو کبھی خرچ نہیں کروں گا.اسے میں بچا کے رکھتارہا اور ایک زمانے تک اس کو سنبھال کے اس کی بہت برکتیں بھی حاصل کیں.بعد میں واقعہ تر 640ھ میں مدینہ پر حملہ کے دوران وہ قیراط کہیں ضائع ہو گیا.گویا جاب نے قریب نصف صدی سے زائد عرصہ وہ قیراط سنبھال کے رکھا.جب میں نے حضور کے پاس آکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺے اب یہ آپ کا اونٹ ہے اور رقم میں نے بلال سے وصول پالی ہے.یہ کہ کر میں جانے لگا تو آنحضور نے مجھے آواز دیکر واپس بلایا ادھر آؤ مجھے ڈرلگا کہ کہیں یہ اب اپنا سودا واپس تو نہیں کرنے لگے.آپ نے مجھے بلا کر کہا کہ جابر! میں ایسا ہر گز نہیں ہوں کہ تمہارے اونٹ پر قبضہ کرلوں.جاؤ اپنا اونٹ بھی لے جاؤ اور قیمت بھی لے جاؤ.یہ دونوں چیزیں تمہاری ہوئیں ہماری طرف سے تحفہ اور اس غزوہ میں باقی لوگوں کے ساتھ جابر کا مال غنیمت میں

Page 500

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 486 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو حصہ بنتا تھا وہ انہیں الگ عطا فرمایا.کہتے ہیں کہ میں حضور کی شفقتوں پر حیران اور خوشی سے پھولے نہ سما تا تھا.راستہ میں مجھے ایک یہودی ملا.میں نے اس یہودی کو خوشی میں یہ سارا قصہ کہہ سنایا کہ میرے ساتھ خوب ہوئی.آنحضور ﷺ کو اونٹ بیچا تھا آپ نے پیسے بھی واپس کر دیے اور اونٹ بھی.وہ یہودی مجھے تعجب اور حیرت سے کہتا تھا کہ اچھا واقعی یہ اونٹ تم سے خریدا تھا پھر اونٹ بھی تمہارے حوالے کر دیا ہے اور قیمت بھی واپس کر دی.(9) حضرت جابر بیان کرتے تھے کہ یہی شفقتیں عمر بھر میں نے آنحضرت ﷺ سے دیکھی ہیں.اسی اونٹ کے واقعہ والی رات آنحضور ﷺ نے پچیس مرتبہ میرے لیے استغفار کیا اور اللہ سے بخشش چاہی (10) حضرت جابر نے 94 سال لمبی عمر پائی.خلافت راشدہ کا زمانہ بلکہ بعد میں ان امراء کا زمانہ بھی دیکھا جس کے بارے میں حضور نے فرمایا تھا کہ ظالم اور جابر حاکم ہوں گے.بلکہ حکومتی جبر وتشدد کا کچھ سامنا بھی آپ کو کرنا پڑا لیکن نہایت صبر اور استقامت کے ساتھ وہ زمانہ بھی گزار دیا.ان کی مہمان نواز بیوی ( جن کا ذکر ہو چکا ہے.) سہیلہ بنت مسعود تھیں.ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.دوسری اہلیہ ام حارث حضرت محمد بن مسلمہ انصاری قبیلہ اوس کے معزز رئیس کی بیٹی تھیں.ان سے اولا د عطا ہوئی.حضرت جابر نے آنحضرت ﷺ سے کثرت سے احادیث سنیں بلکہ جوانی کا زمانہ زیادہ تر آپ کی شفقتوں اور محبتوں کے زیر سایہ سفر و حضر میں گزارا.چنانچہ حضرت جابڑ کی روایات کی تعداد پانچ سو سے بھی زائد ہے.آنحضرت ﷺ کی احادیث سنے کا اور علم حاصل کرنے کا شوق بھی خوب تھا.چنانچہ آپ نے ملک شام اور مصر کے بعض طویل سفر محض حصول علم کی خاطر کیے اور وہاں جا کر احادیث سن کر پھر آگے بیان کیں.مسجد نبوی میں آپ کا حلقہ درس تھا جس میں لوگ آپ سے علم حدیث حاصل کرتے.(11) آنحضرت علیہ کے احسانوں اور شفقتوں کا یہ عالم تھا کہ جابڑ ایک دفعہ بیمار ہوئے آنحضور ﷺ ان کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے.جابر نے عرض کیا یا رسول اللہ میری اولاد کوئی نہیں صرف بہنیں ہیں.میں کلالہ کی حالت میں مر رہا ہوں اور وصیت کرنا چاہتا ہوں

Page 501

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 487 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہ میری بہنوں کو یہ دو تہائی مال مل جائے.معلوم ہوتا ہے آنحضرت نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے بعد اطلاع پا کر فرمایا جا بڑ! میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ اس بیماری میں تمہاری موت نہیں ہو گی.لیکن یوں تم اپنی بہنوں کے لئے اگر وصیت کرنا چاہتے ہو تو کر سکتے ہو.اور پھر جابڑ نے وہ وصیت کر دی.عطائے رسول عالم حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر حضور نے مجھے مال دینے کا وعدہ فرمایا کہ اے جابر بحرین کی طرف سے بہت مال آئے گا اور پھر میں تمہیں اس طرح دوں گا اور حضور نے اپنے دونوں ہاتھ بھر بھر کر اشارہ کیا کہ اس طرح دوں گا.اور تین دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایسا کیا.آپ کی زندگی میں تو بحرین کا مال نہیں آیا حضرت ابو بکر کی خلافت میں بحرین فتح ہوا اور اموال آئے تو حضرت ابو بکر نے منادی کرادی کہ اگر آنحضرت ﷺ کا کسی سے کوئی وعدہ تھا کہ آپ انہیں کچھ عطا فرمائیں گے تو وہ آئے اور آج مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر لے.حضرت جابر حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور عرض کیا کہ آنحضور ﷺ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا تھا.حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ جتنا مال حضور نے فرمایا تھا اتنا اپنے دونوں ہاتھ بھر بھر کر لے لو.حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے پہلے دونوں ہاتھ بھر کر مال اٹھایا پھر دوسری دفعہ پھر تیسری دفعہ ہاتھ بھر کر لے لئے.بعد میں اسے شمار کیا تو یہ ڈیڑھ ہزار درہم کے قریب مال تھا.یہ آنحضرت ﷺ کے حضرت جابڑ کے ساتھ احسانات کا وہ سلسلہ ہے جو حضور کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء کے ذریعے بھی جاری رہا.روایات حدیث جابڑ کی ایک اور روایت قراءت کے متعلق ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت مع قرآن سیکھتے تھے.اس میں اعرابی بھی تھے اور فصیح و بلیغ عربی بولنے والے بھی آنحضور ﷺ ہم سے سے قرآن سنتے تھے اور ہمیشہ ہمیں سہولت اختیار کرنے کی تعلیم دیا کرتے اگر اعرابی اپنے لہجے میں پڑھ رہے ہوتے تو آپ اپنے خاص انداز میں فرماتے کہ ٹھیک ہے یوں پڑھو آپ قرآن پڑھنے

Page 502

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 488 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ والوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ اس طریق سے پڑھنا درست ہے.یہ گویا قرآن شریف پڑھنے کی ترغیب اور سہولت کی تعلیم تھی.حضرت جابر وتر پڑھنے کے وقت سے متعلق ایک اہم روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو بکر سے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ آپ وتر رات کے پہلے حصے میں پڑھ لیتے ہو یا آخری حصہ میں حضرت ابو بکڑ نے بتایا کہ میں تو پہلے حصہ میں پڑھ لیتا ہوں.حضرت عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں تو آخری حصہ میں پڑھتا ہوں اس پر فرمایا کہ ابو بکرہ پختہ بات کے عادی ہیں اور حضرت عمر تو گل کرنے والے ہیں.یوں دونوں اصحاب کا طریق اپنے اپنے رنگ میں آنحضور ﷺ نے سراہا ہے.حضرت جابڑ کی ایک روایت میں ادا ئیگی قرض کی تلقین کا ذکر ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر ایک صحابی پر دو دینار کا قرض تھا.نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا.ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ میں وہ دینا ر اپنے ذمہ لیتا ہوں تب آنحضرت علی نے وہ جنازہ پڑھایا.بعد میں اگلے دن اس صحابی سے پوچھا کہ وہ جو دو دینا ر اپنے ذمہ لئے تھے وہ قرض ادا بھی کر دیا کہ نہیں ؟ اس سے ادا ئیگی قرض کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے.حضرت جابر نے دین میں جبر وا کراہ کی نفی کے بارے میں بھی ایک بہت عمدہ روایت بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ ہماری جنگ شروع ہو چکی ہے ان سے یہ جنگ اس وقت ختم ہو جائے گی جب وہ کلمہ پڑھ کر لَا اللهُ إِلَّا اللہ کہ دیں گے گویا کلمہ پڑھ لینا ہماری تلواروں کو روک دے گا.یہ فیصلہ ہمارا کام نہیں کہ وہ کلمہ دل سے پڑھ رہے ہیں یا محض زبان سے بلکہ فرمایا کہ کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں ان کے یہ حقوق قائم ہو جائیں گے اور وہ اپنے خون اور اموال ہم سے بچالیں گے اور پھر ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے.اللہ کے ساتھ ان کا معاملہ ہے کہ صدق دل سے کلمہ پڑھا ہے یا پھر حضور ﷺ قرآن شریف کی یہ آیت پڑھا کرتے تھے إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرَةٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍ ( الغاشیہ:22 ) کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی تعلیم ہے ”ہم نے تو نصیحت کرتے چلے جانا ہے، اپنا پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے.آگے وہ لوگ نصیحت پکڑتے ہیں یا نہیں.ہمیں ان پر نگران یا داروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ ان کے دلوں کو چیر

Page 503

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 489 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کر دیکھیں کہ آیا انہوں نے دل سے کلمہ پڑھا ہے یا نہیں، بلکہ ان کا یہ کلمہ قبول کر کے تمام اسلامی حقوق ادا کرنے ہیں اور اگر ان سے حالت جنگ میں ہوں تو اپنی تلوار میں روک کر اُن سے لڑائی ختم کر دینی ہے، کجا یہ کہ کسی کلمہ گو کے ساتھ لڑائی یا جنگ کا سلسلہ شروع کیا جائے.(12) حضرت جابڑ کی دیگر کثیر روایات میں رسول کریم کے ساتھ سفر و حضر کے متعدد واقعات و حالات ہیں.آداب معاشرت ، بیع و شراء کے آداب اور حضور کی بے تکلف مجالس کے تذکرے! جابڑ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نے ایک سفر میں فرمایا کہ کالی کالی پہیلوں تو ڑ کر لاؤ یہ بڑی میٹھی ہوتی ہیں، کہتے ہیں میں نے حضور سے کہا آپ کو بھی کیسے یہ پتہ ہے تو حضور نے فرمایا کہ ہاں میں نے بھی جنگل میں بکریاں چرائی ہیں.ہم نے پوچھایا رسول اللہ آپ نے کب بکریاں چرائی تھیں؟ آپ نے فرمایا کہ نبی بھی تو چروا ہے ہی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے یہ کام کروایا ہے.گویا جن سے دنیا کی اور لوگوں کی نگرانی کا کام لینا ہوتا ہے اُن سے تجربہ کے طور پر اللہ تعالیٰ یہ کام بھی لے لیتا ہے.قیام خلافت کے بارہ میں یہ روایت بھی حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم عہ نے فرمایا ” میرے معاً بعد خلفاء ہونگے خلفاء کے بعد امراء اور ان کے بعد بادشاہ اور ان کے بعد جابر اور ظالم حکمران.ان کے بعد میرے اہل بیت سے ایک شخص ہوگا جو زمین کو عدل سے بھر دے گا.آخری عمر میں حضرت جابر نا بینا ہو گئے تھے.94 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی.آپ مدینہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے.(13) آپ کی زندگی کا خلاصہ دولفظوں میں عشقِ رسول اور اتباع سنت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پاکیزہ اسوۃ پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین

Page 504

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 490 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ -1 -2 -4 -5 حواله جات اسد الغابہ جلد 1 ص 256 تا 257 ابن سعد جلد 3 ص 563 مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل عبد اللہ بن حرام الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد 3 ص 562 ترندی کتاب المناقب باب مناقب جابر 6 ترندی کتاب التفسير سورة آل عمران -7 -8 -9 -10 -11 بخاری کتاب البيوع و كتاب الاستقراض بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق بخاری، کتاب البیوع، کتاب الوکاله ، کتاب الاستقراض، کتاب المظالم کتاب الحصبه ، کتاب المغازی، کتاب النکاح، کتاب الطلاق ترندی کتاب المناقب باب مناقب جابر الاصابہ ج 1 ص 223 12 ترندی کتاب التفسير باب من سورة الغاشيه -13 الاصابہ ج 1 ص 223 ، استیعاب جلد 1 ص 293

Page 505

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تعارف 491 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ حضرت براء بن عازب انصاری حضرت براء بن عازب انصار مدینہ کے قبیلہ اوس کی شاخ بنوسلمہ میں سے تھے.کنیت ابوعمارہ تھی بعض نے ابو عمر و بھی کنیت بتائی.براء کے والد عازب کو بھی صحابیت کا شرف حاصل تھا.حضرت برانا ہجرت مدینہ کے وقت کم سن بچے تھے.یہی وجہ ہے کہ غزوہ احد میں بوجہ کم سنی شرکت نہ کر سکے.خود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اور مجھے کم سنی کے باعث بدر میں شرکت کی اجازت نہ لی تھی اور ہمیں واپس کر دیا گیا.پھر احد یا خندق میں اجازت مل گئی تو اس میں شریک ہوئے.(1) غزوات میں شرکت حضرت براء کا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ چودہ یا پندرہ غزوات میں شرکت کی توفیق ملی.حضرت براہ نے غزوات کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے سفروں میں بھی فیض صحبت سے حصہ پایا.وہ بجا طور فخر سے اپنی اس سعادت کا ذکر کرتے تھے کہ مجھے رسول کریم ﷺ کے ساتھ اٹھارہ سفروں میں شریک ہونے کا موقع ملا.(2) حضرت براتو نے صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں بھی شرکت کی سعادت پائی.وہ سفر حدیبیہ کا یہ تاریخی واقعہ بھی بیان کیا کرتے تھے کہ میدان حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کا پڑاؤ تھا.مسلمانوں کے پاس پانی ختم ہو گیا.نبی کریم ﷺ نے ایک تیر دیکر انہیں حدیبیہ کے خشک کنوئیں کی طرف بھجوایا کہ اس میں ڈال دیں.پھر رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت سے اس تیر کو کنوئیں میں ڈالنے سے پانی جوش مار کر نکلنے لگا.بعض دوسری روایات میں تیر لے کر کنوئیں میں اترنے والے کا نام ابن جندب بھی بیان ہوا ہے.حضرت براء بن عازب کو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مختلف مہمات میں کامیاب شرکت کی توفیق ملی.24 ھ میں فتح رے کی سعادت عطا ہوئی.(3)

Page 506

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 492 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ تستر میں حضرت برا کو شریک ہونے کا موقع ملا.حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ جمل صفین اور نہروان میں شریک ہو کر خوارج کے خلاف قتال کیا.(4) خشیت اور انکسار حضرت براء آنحضرت اللہ کے فیض صحبت سے تربیت یافتہ تھے.بعد کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت مسیب ان سے ملے اور کہا مبارک ہو.آپ نے رسول کریم علیہ کی صحبت ورفاقت پائی پھر حدیبیہ کے تاریخی موقع پر بیعت رضوان کی توفیق ملی.حضرت براٹر نے سن کر جواب دیا اے میرے بھتیجے تمہیں کیا پتہ اس کے بعد ہم نے کتنی نئی باتیں پیدا کر لی ہیں.(5) حضرت براگا اپنے والد حضرت ابو بکر و عمر اور دیگر بزرگ صحابہ کے واسطے سے احادیث روایت کرتے تھے اور کسی اظہار فخر کی بجائے نہایت عاجزی سے کہا کرتے کہ ” جتنی احادیث ہم تمہارے پاس بیان کرتے ہیں یہ سب ہم نے خود رسول اللہ علیہ سے نہیں سنیں ہم تو اونٹوں وغیرہ کے چرانے میں مصروف رہتے تھے.یہ احادیث ہم نے بزرگ صحابہ سے سنیں اور بیان کرتے ہیں.(6) صلى الله غیرت و عشق رسول عام حضرت براء بن عازب رسول اللہ ﷺ کے عاشق صادق تھے اور آپ کیلئے کچی غیرت رکھتے تھے رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ اس روز مدینہ کے لوگ اتنے خوش تھے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے خوش نہ ہوئے تھے.بچے بھی کہتے پھرتے تھے رسول اللہ آ گئے.رسول اللہ ﷺ آگئے.(7) نبی کریم ﷺ کا حلیہ کمال محبت میں ڈوب کر بیان کرتے اور کہتے رسول اللہ ﷺ کا درمیانہ قد تھا.سینہ چوڑا ، سیاہ بال کانوں کی لو تک تھے.ایک دفعہ آپ نے سرخ پوشاک زیب تن فرمائی تو اتنے حسین لگے کہ کبھی میں نے رسول اللہ سے خوبصورت کو ئی شخص نہیں دیکھا‘(8) ذوق بہت لطیف تھا ایک دفعہ کسی نے حضرت براء سے پوچھا کہ ” کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ تلوار کی دھار کی طرح چمک دار تھا.کہنے لگے نہیں بلکہ چاند کی طرح روشن تھا.(9)

Page 507

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 493 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ایک دفعہ کسی نے پوچھا ”اے برائو کیا غزوہ حنین میں تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے.انہوں نے بڑی غیرت سے جواب دیا ” مگر رسول اللہ کے قدم پسپا نہیں ہوئے.ہوازن کے تیراندازوں کے اچانک حملہ اور تیروں کی بوچھاڑ سے ہم پیچھے ہٹے مگر رسول اللہ سفید خچر پر سوار یہ نعرہ لگاتے آگے بڑھتے رہے کہ میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.“ (10) حضرت برائ کو قرآن سے بھی بہت محبت تھی اور رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو اور سنوار کر پڑھو.“ (11) حسن تلاوت کا عمدہ ذوق پایا تھا.بیان کرتے تھے کہ میں نے عشاء کی نماز میں نبی کریم علی ہے کوسورۃ التین پڑھتے سنا، اور رسول کریم ﷺ کی تلاوت سے بہتر کوئی آواز میں نے نہیں سنی.(12) حضرت براء اللہ رسول اور قرآن سے محبت کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے تھے.بیان کرتے تھے کہ رسول کریم علیہ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا.عیادت مریض، جنازے کے ساتھ جانا، چھینک کا جواب دینا، سلام کا جواب دینا، کسی کی قسم پوری کرنا، دعوت قبول کرنا ، مظلوم کی امداد کرنا اس طرح سات باتوں کی ممانعت کا بھی ذکر کرتے تھے جسمیں سونا چاندی اور ریشم کی پانچ اقسام شامل ہیں.حضرت براء نے دینی مسائل خوب سمجھ کر بیان کئے ، مثلاً قربانی کے بارہ میں بتاتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے چار قسم کے جانوروں کی قربانی کو جائز نہیں فرمایا.جس کی آنکھ ضائع ہو چکی ہو ، جو لنگڑی ہو، واضح بیمار ہو، لاغر دبلی پتیلی جس کی ہڈی میں گودانہ ہو.(13) آخری عمر میں کوفہ میں گھر بنایا اور یہیں آباد ہوئے حضرت مصعب بن عمیر کی امارت کے زمانہ میں کوفہ میں ہی 72ھ میں وفات پائی.(14)

Page 508

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 494 حواله جات اسد الغابہ جلد 1 ص 172 ، اصابہ جز1 ص 147 اصابہ ج 1 ص 172 اسد الغابہ جلد 1 ص 172،171 اصابہ ج 1 ص 147 ، استیعاب جلد 1 ص 240 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الحديبيه مسند احمد جلد 4 ص 283 مسند احمد جلد 4 ص284 مسند احمد جلد 4 ص 281 ،390 مسند احمد جلد 4 ص 281 مسند احمد جلد 4 ص284 مسند احمد جلد 4 ص 283 مسند احمد جلد 4 ص 302 ابن حبان جلد 2 ص 81 اصابه جز1 ص 147 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ

Page 509

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاندانی تعارف 495 حضرت براء بن مالک انصاری حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت برا کے والد مالک بن نضر تھے جو حضرت ام سلیم کے شوہر اور حضرت انس بن نضر شہید احد کے بھائی تھے.جو اپنی بیوی ام سلیم کے قبول اسلام پر ناراض ہوکر شام چلے گئے.برا کی والدہ بعض روایات کے مطابق تو ام سلیم ہی تھیں.اس لحاظ سے وہ انس بن مالک کے سگے بھائی تھے بعض دیگر روایات کے مطابق براء انس کے والد کی طرف سے بھائی تھے اور ان کی والدہ سماء تھیں.(1) انس بن نضر شہید احد کے یہ بھتیجے ، خوش آواز تھے.وہ رسول اللہ ﷺ کے مردوں کے قافلہ کے حدی خواں ہوتے تھے ، عورتوں کے حدی خواں انجثہ تھے.(2) شجاعت حضرت براء نے احد ، خندق وغیرہ میں تمام غزوات میں شرکت کی.صرف بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے.نہایت بہادر، شجاع اور نڈر تھے.حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ براہ کو مسلمانوں کے کسی لشکر کی قیادت نہ دینا کیونکہ یہ دشمن پر ہلاکت بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں.(3) ایران کے ساتھ جنگ خصوصاً فتح تستر میں یہ بات بڑی شان سے پوری ہوئی.مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہونے والی جنگ یمامہ میں بھی ان کی بہادری کے زبردست کارنامے مشہور ہوئے.حضرت ابوبکر کے زمانہ میں مسلیمہ کذاب کا خروج ہوا.وہ بنو حنیفہ کے چالیس ہزار مسلح لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کے مقابل آیا.مسیلمہ نے محض دعویٰ نبوت ہی نہیں کیا تھا بلکہ نئی شریعت ایجاد کر کے حرام کو حلال کیا، بعض نمازیں معاف کر کے زکوۃ سے انکار اور اسلام سے بغاوت کا اعلان کر کے امن وامان کا مسئلہ پیدا کر رہا تھا.اس بناء پر حضرت ابو بکڑ نے اس بغاوت کی سرکوبی ضروری سمجھی.حضرت ابوبکر نے حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں لشکر بھیجا اس میں حضرت براء بھی تھے.جنہوں نے حضرت خالد کے دست راست بن کر خدمات انجام دیں.

Page 510

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 496 حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ ایک موقع پر حضرت خالد بن ولید نے برا کی بہادری کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کو مقابلہ کیلئے تیار کریں چنانچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور اس طرح خطاب کیا.يَا أَهْلَ الْمُدِينَةِ لَا مَدِينَةَ لَكُمُ الْيَوْم - اے مدینہ والو! آج مدینہ کا خیال چھوڑ دو بس یہ یاد رکھو کہ اللہ ایک ہے اور اس کی خاطر جان قربان کرنے کے عوض جنت تمہاری منتظر ہے.اس پر جوش تقریر کے بعد صحابہ نے مل کر ایسا حملہ کیا کہ اہل یمامہ پسپا ہونے لگے اور پھر ایک قلعہ نما باغ میں محصور ہو گئے.حضرت براء نے اپنے دستہ سے کہا کہ ” مجھے اٹھا کر قلعے کے اندر پھینکو میں تن تنہا اندر جا کر دشمن سے جنگ کروں گا اور قلعہ کا دروازہ کھلوا کے دم لوں گا.اور پھر برا کو اٹھا کر باغ کی دیوار پر چڑھایا گیا.وہ چھلانگ لگا کر اندر اترے اور واقعی موت بن کر دشمن پر جھپٹے.انہوں نے قلعہ کا دروازہ کھولنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی.اس دوران انہیں نیزوں ، تیروں اور تلواروں کے اسی سے زیادہ زخم آئے کہ سب دشمنوں کا نشانہ براہ کی ذات تھی.مگر بالآخر بہادر براثر نے قلعہ کا دروازہ کھلوا کے چھوڑا.اس دوران برائ کا مقابلہ یمامہ کے سردار محکم سے ہوا جو بہت بہادرسور ما شمار ہوتا تھا.حضرت برا خود بیان کرتے تھے کہ وہ ایک بھاری بھر کم پہلوان تھا، جسے حمار الیمامہ یعنی یمامہ کا گدھا بھی کہتے تھے.اس کے ہاتھ میں سفید تلوار تھی.میں نے اس کی ٹانگوں پر حملہ کیا.مگر میر اوار خطا گیا البتہ اس صدمہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گدی کے بل گرا.میں نے اپنی تلوار میان میں ڈال لی اس کی تلوار لے کر پے در پے اس پر وار کئے یہاں تک کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا.اس دوران براو خود بھی زخمی ہو گئے.انہیں تلواروں اور نیزوں کے اسی سے زیادہ زخم آئے.حضرت خالد بن ولید نے یہاں ایک مہینہ پڑاؤ کیا یہاں تک کہ براہ کے زخم اچھے ہو گئے.(4) بہادرانہ کارنامے حضرت انس حضرت براء کی بہادری کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ عراق میں دشمن کے قلعوں میں سے کسی کا محاصرہ تھا.دشمن نے محاصرین کو خوفزدہ کر کے بھگانے کی ایک عجیب ترکیب ڈھونڈھ نکالی.انہوں نے لوہے کی زنجیروں کے ساتھ کنڈیاں اور نوچنے والی بکیں لگا کر ان کو آگ میں دھکا

Page 511

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 497 حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ کر مسلمانوں کے لشکر پر پھینک کر ان کا کوئی نہ کوئی آدمی اچک لیتے.ایک ایسے ہی حملہ میں لوہے کی کنڈیاں حضرت انس بن مالک کے کپڑوں میں پھنس گئیں.دشمن نے کھینچ کر انہیں زمین سے اٹھا لیا قریب تھا کہ وہ انہیں دیوار سے پرے کھینچ لیتے.کسی نے براہ کو اطلاع کی کہ اپنے بھائی کی خبر لو.وہ دوڑے آئے.دیوار سے لٹک کر اس گرم زنجیر کو پکڑ لیا جو سخت گرم تھی اور کھینچے جانے کی وجہ سے ان کے ہاتھ زخمی کر رہی تھی حتی کہ ان کے ہاتھوں کے جلنے سے دھواں اٹھنے لگا.مگر برار نے اسے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس زنجیر کو کاٹ کر دم لیا.پھر جود دیکھا تو ہاتھوں کی ہڈیاں نکل آئیں تھیں اور سارا گوشت جل کر اڑ گیا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بھائی خادم رسول حضرت انس کو آپ کے ذریعہ دشمن سے نجات دی.(5) حضرت برانڈ کی غیر معمولی شجاعت اور دلیری کا اندازہ انکے آخری عمر کے اس واقعہ سے خوب ہوتا ہے.جو ان کے بھائی حضرت انس کا بیان کردہ ہے.ان کا سچا جذبہ شہادت بھی اس سے خوب ظاہر ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ان کے ہاں ملاقات کیلئے گیا تو وہ پشت کے بل لیٹے کچھ شعر گنگنا رہے تھے.(غالبا ان میں خواہش شہادت اور اس سے محرومی کا ذکر ہوگا جیسا کہ انگلی گفتگو سے ظاہر ہے ) حضرت انسؓ نے میدان جہاد کے کارناموں کی یاد تازہ کرواتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خواہش سے بڑھ کر عطا کیا ہے جس پر آپ کو مطمئن ہونا چاہیے.انہوں نے کہا آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے بستر پر موت آئے گی.خدا کی قسم ایسا ہر گز نہ ہوگا اللہ تعالیٰ مجھے شہادت سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا اور جہاں تک بہادری کا سوال ہے میں تن تنہا میدان جہاد میں دعوت مبارزت دے کر ایک سو مد مقابل ہلاک کر چکا ہوں اور دوسروں کے ساتھ ملکر میدان جہاد میں جو مارے وہ اس کے علاوہ ہیں.گویا میں موت سے نہیں ڈرتا اور ایک روز میری شہادت کی آرزو ضرور بر آئے گی.(6) شوق شهادت کتنے بچے تھے حضرت براوا اپنی آرزوئے شہادت میں بلاشبہ وہ انہیں میں سے تھے جن کے بارہ میں قرآن شریف میں یہ تعریفی ذکر ہے.فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ

Page 512

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 498 حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ ينتظر.( الاحزاب : 24) کہ ان میں سے کچھ تو اپنی خواہش پوری کر چکے ہیں اور کچھ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں.براتھ نے شہادت کیلئے ایک زمانہ انتظار کیا.یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران سے جنگ شروع ہوئی.اس کے علاوہ ان کی بہادری کے کئی واقعات ہیں.10ھ میں ایرانی حاکم مکعبر فارسی جو کسری کا والی تھا قلعہ بند ہو گیا.حضرت علاء حضر می حاکم بحرین نے حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کوشش کی مگر اسے فتح نہ کر سکے پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح کیا.مکعبر مارا گیا.وہ لوگوں کے ہاتھ کا ٹا کرتا تھا اسی وجہ سے مکعبر نام پڑا.حضرت براء بن مالک وہ بہادر صحابی تھے جنہوں نے جنگ میں اس کو ہلاک کیا.(7) اس دور کا مشہور معرکہ قلعہ تستر کی فتح ہے جس میں حضرت برا نے ایرانیوں کے بہت بڑے جرنیل سے مقابلہ کر کے ہلاک کیا اور اس کے اسلحہ پر قبضہ کر لیا.بالآخر ایرانیوں کو اس معرکہ میں شکست اٹھانی پڑی.مغربی ایران میں تستر خوزستان کا شہر تھا حضرت عمرؓ کی طرف سے اس طرف حضرت ابوموسیٰ اشعری مقابلہ کیلئے بھجوائے گئے.کیونکہ یہاں ایرانی فوج بڑی تیاری کے ساتھ جمع ہو چکی تھی.ان کے لشکر کے میمنہ پر براء بن مالک اور میسرہ پر مجز ء کا تھے.گھوڑ سوار دستے پر انس.اہل تستر سے بڑی شدید جنگ ہوئی.حضرت انسؓ نے اس موقع پر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ایک پراگندہ باتوں والا آدمی قسم کھاتا ہے اور اللہ اسے پورا کر دتیا ہے اور میرے رب ! میں تجھے قسم کھا کر عرض کرتا ہوں یا تو ان لوگوں کو ہمارے زیر کر دے اور پھر مجھے موت دے کر اپنے نبی سے ملا دے.(8) یہ کہہ کر انہوں نے حملہ کیا اور بہت بڑے ایرانی جرنیل کو مار گرایا.اہل بصرہ و کوفہ نے مل کر حملہ کیا یہاں تک کہ تستر کے دروازے پر پہنچے.جہاں براٹھ بن مالک نے تلوار زنی کے جو ہر دکھائے.یہاں تک کہ ھرمز ان کے ہاتھوں شہید ہوئے.(9) حضرت براء کی شہادت 20 یا 23ھ میں حضرت عمر کی خلافت میں ہوئی.تستر میں ہی حضرت براء کی قبر ہے.(10)

Page 513

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 499 حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ حواله جات -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 اسدالغابہ جلد 1 ص 37 اصابہ ج 1 ص 147 ، مسند احمد جلد 3 ص254 اسدالغابہ جلد 1 ص 171 استیعاب جلد 1 ص 239 ، اصابہ ج 1 ص 148 ،اسدالغابہ جلد 1 ص171 طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد ص 325,324 طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 324، اصا به جز 1 ص 148 معجم البلدان زیر لفظ بحرین ترمذی کتاب جلد 4 ص 400 مجمع البلدان زیر تستر اصابہ ج 1 ص 148

Page 514

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 500 حضرت طلحہ بن براء انصاری رضی اللہ عنہ بیعت اور عشق رسول حضرت طلحہ بن براء انصاری حضرت طلحہ بن براء انصاری بنی عمرو بن عوف کے حلیف تھے.نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو یہ نوعمر لڑ کے تھے ، رسول اللہ ﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتے اور ملتے ہی حضور کی گہری محبت ان کے دل میں گھر کر گئی جس کے نتیجہ میں وہ دیوانہ وار آپ کے قریب ہوکر چمٹ جاتے اور آپ کی قدم بوسی کرتے.نبی کریم ﷺہ ایک نو جوان لڑکے میں اچانک یہ تبدیلی پا کر حیران ہوئے اور مسکرائے بھی.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں میں کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا پھر عرض کیا کہ اپنا ہاتھ بڑھا ئیں اور میری بیعت قبول کریں.آپ نے ازراہ امتحان فرمایا کہ خواہ میں والدین سے قطع تعلق کا حکم دوں تو بھی مانو گے یہ سوچ میں پڑ گئے.کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ اپنی والدہ سے بہت محبت اور احسان کا سلوک کرنے والے تھے.دوسری بار پھر بیعت کیلئے عرض کیا تو یہی جواب ملا.تیسری مرتبہ عرض کیا تو آپ نے پوچھا پھر کس چیز کی بیعت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا دین اسلام قبول کرنے اور آپ کی اطاعت کرنے کی بیعت! آپ نے فرمایا اچھا جاؤ اور اپنے باپ کو قتل کر کے آؤ.اب طلحہ اٹھے اور تعمیل ارشاد کیلئے چل پڑے.رسول کریم ﷺ نے واپس بلوایا اور فرمایا ” مجھے قطع رحمی کرنے اور رشتوں کے کاٹنے کیلئے نہیں بھیجا گیا.میں نے چاہا تھا کہ تمہاری آزمائش کروں کہ بیعت میں شک وشبہ کی کوئی کسر تو باقی نہیں.“ ابن شاہین نے طلحہ بن براء کے قبول اسلام کا قصہ براء بن مالک کی طرف منسوب کیا ہے.ممکن ہے براٹھا بن مالک نام کے دوسرے صحابی بھی ہوں ) (1) شفقت رسول پھر نبی کریم ﷺ کو بھی اپنے اس اطاعت شعار صحابی سے ایک عجیب محبت والفت ہو گئی.کچھ عرصہ بعد جب طلحہ بیمار ہو گئے تو سخت سردی کے ایام اور بارش کا موسم تھا.نبی کریم ﷺے اس کے باوجود طلحہ کے گھر ان کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لے گئے.آپ نے انہیں مدہوشی کی حالت میں پایا اور

Page 515

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 501 حضرت طلحہ بن براء انصاری رضی اللہ عنہ فرمایا ” جب انہیں ہوش آ جائے تو مجھے بلوالینا.“ دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا ” مجھے لگتا ہے کہ طلحہ موت کے اس حملہ سے جانبر نہ ہوسکیں گے اگر وفات ہو جائے تو مجھے اطلاع کر دینا اور جلدی دفن کرنا کیونکہ مسلمان کی میت کو گھر میں روک رکھنا اچھا نہیں.‘(2) حضرت طلحہ آدھی رات کے قریب ہوش میں آئے تو اپنے آقا کا خیال آیا اور پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ میری عیادت کیلئے تشریف لائے تھے.اہل خانہ نے حضور کی آمد کا ذکر کیا اور ہوش میں آنے پر انہیں بلوا لینے کی بات بتائی.وہ کہنے لگے اب آدھی رات کے وقت حضور کو نہ بلاؤ.مجھے رات کے وقت بلوانے میں آپ کے بارہ میں ایک تو یہود کی طرف سے بھی خطرہ ہے دوسرے یہ خدشہ ہے کہ کوئی سانپ بچھو اندھیری رات میں نقصان نہ پہنچائے.پھر کہا اگر آج رات میری موت واقع ہو جائے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور میرے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنے کی درخواست کر دینا.ادھر رسول کریم ﷺ کو بھی اپنے اس غلام صادق کی فکر تھی.دعائے رسول اور انجام بخیر فجر کی نماز کے بعد آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے طلحہ کا حال پوچھا تو پتہ چلا کہ وفات پاگئے ہیں آپ نے فورادعا کی.اَللَّهُمَّ الْقِهُ يَضْحَكُ اِلَيْكَ وَ اَنْتَ تَضْحَكُ إِلَيْهِ - کہ اے اللہ اس سے اس حال میں ملاقات کرنا کہ تو اس سے خوش ہو اور وہ تجھ سے خوش ہو.دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا مجھے اس کی موت کی اطلاع کرنا تا کہ میں خود جنازہ میں شامل ہوں اور تدفین جلدی کرنا.رات جلد تدفین کے باعث حضور کو اطلاع نہ ہو سکی اور نبی کریم ﷺ بنی سالم بن عوف نہ پہنچ سکے.خود حضرت طلحہ کی بھی یہی وصیت تھی کہ مجھے جلد دفن کر دینا اور میرے رب کے پاس مجھے پہنچا دینا.پھر صبح کے بعد نبی کریم ﷺ حضرت طلحہ کی قبر پر تشریف لے گئے.صحابہ نے صف بنائی.آپ نے طلحہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی خواہش کے مطابق دعائے مغفرت کی.بلاشبہ حضور کی طلحہ کے

Page 516

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 502 حضرت طلحہ بن براء انصاری رضی اللہ عنہ حق میں یہ دعا کہ اے اللہ تو انہیں خوش کر اور راضی ہو اس مناسبت سے تھی کہ حضور خود ان سے راضی تھے.(3) د که من -1 -2 -3 حواله جات اصابه جز1 ص149 ابوداؤد كتاب الجنائز طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 365، اصا به جز2 ص 288,289 اسدالغابہ جلد 3 ص56,57

Page 517

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام ونسب 503 حضرت انس بن مالک حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت انس انصار کے ایک معزز قبیلہ بنو نجار کے چشم و چراغ تھے.سلسلہ نسب خاندان نبوت تک پہنچتا ہے.والدہ ام سلیم بنت ملحان رسول خدا کی رشتہ میں خالہ تھیں.آپ دس سال قبل ہجرت میثرب میں پیدا ہوئے.ان کے والد اپنی بیوی کے قبول اسلام سے ناراض ہوکر شام چلے گئے اور وہیں وفات پائی.ادھر حضرت ام سلیم نے حضرت ابوطلحہ سے اسلام قبول کرنے کی شرط پر شادی کر لی ( یہی ابوطلحہ احد کے تیرانداز ہیں ).حضرت انس کا نام ان کے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا.وہی انس بن نضر نہیں جو میدان احد میں بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے.اسی سے اوپر زخم کھائے.ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا تھا پہچانی نہ جاتی تھی.بہن نے انگلی کی نشانی سے پہچانا تھا.خدمت رسول سرور کائنات جب بیشترب تشریف لائے تو کم سن انس رسول خدا ﷺ کو خوش آمدید و مرحبا کہنے والے خوش قسمت بچوں میں پیش پیش تھے اور پر جوش ہو کر مسرت و شادمانی کے عالم میں ”جاء رسول الله “ کا نعرہ بلند کر رہے تھے.گویا ساری کائنات سمٹ کر ان کے گھر آگئی ہو.اور پھر اس وقت تو حضرت انس خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے جب آپ کی والدہ ام سلیم نے آپ کو خدمت نبوی میں پیش کیا اور عرض کی تھی.” هَذَا أَنَس غُلاَمَ يَحْدُمُكَ“ حضور ! یہ بچہ انس آپ کی خدمت کرے گا اور انس خادم رسول ﷺ کے مبارک لقب سے یاد کئے جانے لگے.وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے.در نبوی کی گدائی سے بڑھ کر فخر کا کیا مقام ہوگا.(1) آپ نے خدمت رسول کا حق ادا کر دیا.فجر سے قبل خدمت اقدس میں حاضر ہوتے.حضور کے لئے وضو کے پانی کا انتظام کرتے.دو پہر کو گھر آتے پھر خدمت نبوی میں حاضر ہو جاتے.رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں آتے جاتے اور کے تمام ضروری امور سر انجام دیتے.ایک دفعہ نبی

Page 518

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 504 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کریم ﷺ نے آپ کو کسی ضروری کام کے لئے بھیجا اور فرمایا کہ کسی سے ذکر نہیں کرنا.والدہ نے پوچھا تو کہا کہ حضور نے منع فرمایا ہے.سبحان اللہ ! ماں بھی کیسی عظیم تھیں فرمانے لگیں بیٹا ! آنحضور ﷺ نے جوارشاد فرمایا ہے اس پر پورا عمل کرنا اور یہ راز کسی پر نہ کھولنا.حضرت انس نے اس خادمانہ تعلق کو صرف وفات رسول ہی جدا کرسکی.آپ نے اس تعلق کی بدولت دینی و دنیاوی برکات حاصل کیں.رسول خدا ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی تھی اللَّهُمَّ اكْثِرُ مَالَهُ وَ وَلَدَهُ وَبَارِكْ لَهُ فِمَا أَعْطَيْتَهُ وَاَدْخِلُهُ فِي الْجَنَّةِ کہ اے خدا انس کے مال و اولاد میں برکت دے اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں بھی برکت دے اور اسے جنت میں داخل کر ! خدا کے پیارے نبی ﷺ کے منہ سے نکلی بات نوشتہ تقدیر بن گئی.انس کا باغ سال میں دو بار پھل دیا کرتا تھا.آپ انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے اور اولاد کی تعداد آپ کی حیات بابرکات میں سو سے تجاوز کر گئی تھی.فرمایا کرتے تھے دو باتیں تو آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ لیں.تیسری بات یعنی جنت کا امیدوار ہوں“.(2) دیگر دینی خدمات حضرت انس رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کے خادم خاص کی حیثیت سے تمام غزوات میں شامل ہوئے اور آپ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین سے کامل اطاعت اور خدمت کا تعلق استوار رکھا.حضرت ابو بکر نے انہیں بحرین میں صدقات کا افسر مقرر کیا.حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں علم دین سکھانے کیلئے آپ کو متعین فرمایا.علاوہ ازیں خلفاء کے عہد میں ہونے والے تمام معرکوں میں بھی حضرت انس نشریک ہوئے.” جنگ تستر میں آپ پیدل فوج کے افسر اعلیٰ تھے.فتح کے بعد آپ ہی سالا را عظم ہرمزان کو بارگاہ خلافت میں اسلامی سپہ سالار حضرت ابوموسی اشعری کے ارشاد پر لے گئے تھے.بعد میں بصرہ میں مستقل سکونت ہوگئی.فتنہ وفساد کے ایام میں آپ نے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا.ایک دفعہ بد بخت حجاج نے آپ سے بدسلوکی کی.لوگوں میں ذلیل کرنے کی غرض سے گردن پر مہر لگوادی اور مزید سزا کی دھمکی دی.حضرت انس نے اطلاعاً اموی خلیفہ

Page 519

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 505 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ عبدالملک کو خط لکھا.عبدالملک نے حجاج کو سخت تنبیہ کی اور حضرت انسؓ سے معافی مانگنے کا حکم دیا.حجاج معافی کا خواستگار ہوا تو آپ نے اس کے کہنے پر ایک پروانہ خوشنودی خلیفہ کے نام دے دیا.(3) عشق رسول حضرت انس کو آنحضرت سے غایت درجہ عشق اور محبت تھی.آپ کے پاس رسول اللہ ملے کا ایک موئے مبارک تھا.وفات کے وقت فرمایا میری زبان کے نیچے رکھ دینا اور اسی طرح آپ دفن ہوئے.رسولِ خدا ﷺ کی ایک چھڑی بھی آپ کے پاس تھی.آپ کی وصیت کے مطابق وہ بھی آپ کے پہلو میں دفن کی گئی.سبحان اللہ ! محبوب کی جو شے بھی میسر تھی اس سے بوقت وفات بھی جدائی گوارا نہ کی تو رسول اللہ ﷺ کی جدائی ان پر کیسی شاق گزری ہوگی.وفات رسول کے بعد دیوانہ وبے خود ہو جاتے کہ اگر حسان کی پہلی نہ رہی تھی تو انس گا نور نظر بھی تو جاتا رہا تھا.اس حد درجہ محبت کا نتیجہ تھا کہ اکثر خواب میں ” خادم رسول اپنے آقا سے ملاقات کیا کرتا.آقا کی باتیں سناتے تو الفاظ میں نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے.(4) رسول کریم ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے تو ایک ایک خدو خال پر روشنی ڈالتے.آپ کا بیان کانوں میں امرت گھول دیتا.ایک دفعہ محبوب کی باتیں کرتے کرتے بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے کہ قیامت کے روز رسول اللہ ﷺے کا سامنا ہوگا تو عرض کروں گا کہ غلام حاضر ہے.جب مجلس میں ذکر رسول اللہ کرتے آقا کے لئے بے چین ہو جاتے تو گھر جا کر تبرکات نبوی نکالتے اور یوں دل بہلاتے.یہی جذبہ عشق رسول ﷺ آپ نے اپنے شاگردوں میں بھر دیا تھا اور اسی حب رسول کا نتیجہ تھا کہ آپ اتباع سنت کا خاص اہتمام فرماتے.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے (انس ) ابن سلیم سے بڑھ کر کسی کو آنحضرت ﷺ سے مشابہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا“.حضرت انس اپنی دس سالہ خدمت رسول ﷺ کا خلاصہ یوں بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال کے طویل عرصہ میں مجھے کبھی جھڑ کا تک نہیں.کبھی کسی غلطی یا تساہل پر

Page 520

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 506 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ زجر و تو بیخ نہیں فرمائی.والدین کی طرح لاڈ اور پیار کی خاطر حضور انس کو بیٹا اور انہیں“ کہہ کر پکارتے.کبھی از راه نداق يَا ذَ الاذنين ، یعنی دوکانوں والا کہہ کر یاد فرماتے.حمزہ ایک مٹر کی قسم کی سبزی کا نام ہے جسے آپ چنا کرتے تھے.حضور اسی وجہ سے از راہ صلى الله شفقت و محبت آپ کو ابو حمزہ کہا کرتے تھے اور پھر آپ اسی کنیت سے مشہور ہو گئے.(5) حضرت انس فرماتے ہیں کہ آنحضرت مع ازواج مطہرات کے علاوہ صرف آپ (انسٹ) کی والدہ کے گھر جایا کرتے تھے.کبھی کبھی وہاں دو پہر کو آرام بھی فرماتے.کھانا تناول فرماتے“.حضرت ام سلیم مخصوصاً اہم مواقع پر آنحضرت ﷺ کے خانگی امور سرانجام دیا کرتیں.حضرت زینب کے دعوت ولیمہ کا اہتمام آپ نے ہی کیا تھا.قبولیت دعا حضرت انس "مستجاب الدعوات بزرگ تھے.جعفر راوی ہیں کہ ایک دفعہ گرمی کے موسم میں حضرت انس کی زمینوں کا منشی ( کاردار ) حاضر ہوا اور عرض کی کہ زمین خشک پڑ گئی ہے.آپ کھڑے ہوئے.وضو کیا.باہر نکل کر دورکعت نوافل ادا کئے اور دعا کی.دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر بادل گھر آئے.خوب بارش ہوئی.پل بھر میں جل تھل ہو گیا.جب بارش تھمی تو حضرت انس نے ایک آدمی بھیجا کہ زمین میں جا کر دیکھو بادل کتنا برسا ہے.دیکھا تو آپ کی زمین کے آگے بارش نہ تھی.(الا ماشاء الله )(6) علمی خدمات حضرت انس سے کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہیں.سیرین، حمید الطویل، ثابت البنانی ، قتادہ، حسن بصری، زہری اور دوسرے بے شمار تابعین آپ سے روایت کرتے ہیں.آپ کی کل روایات کا شمار ہزاروں تک پہنچتا ہے.بخاری میں حضرت انس سے اتنی احادیث مروی ہیں.

Page 521

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 507 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ صحیح مسلم میں ستر اور متفق علیہ روایات کی تعداد یکصد اٹھائیس ہے.آپ نے خود رسول خدا علیہ کے علاوہ خلفائے راشدین، حضرت فاطمہ ، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت ابوذر، حضرت ابوطلحہ ، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت معاذ رضوان اللہ علیهم اجمعین وغیر ہم سے اکتساب علم کیا.شاگردوں میں حسن بصری ، سعید ابن جبیر ہچکی بن سعید انصاری وغیرہ معروف ہیں.حضرت انس روایت حدیث میں صاحب اصول صحابہ میں سے تھے جو روایت میں بہت احتیاط برتتے.حدیث بیان کرتے وقت خوف کی حالت طاری ہو جاتی اور از راہ احتیاط یہ الفاظ استعمال فرماتے کہ : ”قَالَ أَو كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی اس طرح یا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا علم حدیث کے علاوہ علم فقہ میں بھی آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا.فقہاء کے تین طبقوں میں سے آپ دوسرے طبقہ میں شمار ہوتے.حق گوئی و بے باکی اور تلقین عمل آپ کے نمایاں اوصاف تھے.آپ عموماً خوشبو استعمال کرتے.بلا کے تیرانداز تھے.اپنے بچوں سے تیراندازی کا مقابلہ کرتے اور اکثر ان سے سبقت لے جاتے.بصرہ میں سب سے آخری صحابی آپ ہی تھے.اسلام کے سراج منیر سے براہ راست فیض حاصل کرنے والا یہ آخری کو کب دری بھی 110 سال تک ایک عالم کو ضیاء بخشنے کے بعد سماء اسلام میں غروب ہو گیا.اسی موقع پر مورق نے کہا تھا ” آج نصف عالم جاتا رہا.“ بصرہ سے تقریبا چھ میل کے فاصلہ پر ”طف مقام میں آپ نے وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے.قطن بن مدرک الکلابی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور خادم رسول اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گیا.(7)

Page 522

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۴۴ به آ -3 -2 -1 -4 -5 -6 508 اصابہ ج 1 ص 74،71 حواله جات تر ندی کتاب المناقب باب انس بن مالک اسدالغابہ جلد 1 ص 128 اصابہ ج 1 ص 72 ترمذی کتاب مناقب باب انس بن مالک اصابہ ج 1 ص 72 اسدالغابہ جلد 1 ص 128 ،129 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

Page 523

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و نسب 509 حضرت سلمان فارسی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ہے کے آزاد کردہ غلام حضرت سلمان فارسی ملک ایران کے شہر رامہرمز یا اصفہان کے باشندے تھے.وہ آب الملک کی نسل سے تھے.نسب نامہ یہ ہے ، مابہ بن بوذ خشان بن مورسلان بن بہبوذان بن فیروز بن سھرک.اسلام سے پہلے ایران کے مجوسی اور آگ پرست مذہب سے تعلق تھا، نیک فطرت اور طبیعت کی از لی سعادت انہیں تلاش حق کے طویل سفر کے بعد بالآخر رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لے آئی.اس دوران انہوں نے کئی ملکوں کی خاک چھانی ،کئی راہبوں اور نصرانی رہنماؤں کی صحبت میں رہے.بعض یہودی مالکوں کے پاس غلام رہ کر قیام کیا.آخرمدینہ پہنچ کر تحقیق حق کے بعد اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی.ان سے جب نسب کے بارہ میں پوچھا جاتا تو کیا خوبصورت جواب دیتے کہ میں اسلام کا بیٹا سلمان ہوں.“ اور اس میں کیا شک ہے کہ وہ خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وطن اور آباؤ اجداد کو چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے اسلام کے کامل فرمانبردار بن گئے تھے.تبھی تو رسول کریم اللہ نے فرمایا " سَلِمَانُ مِنَّا اَهْلَ الْبَيتِ کہ سلمان ہمارے اہل بیت سے ہے.کتنا خوش قسمت تھا سلمان جس نے عجمی ہو کر رسول عربی سے اطاعت و وفا کا ایسا ناطہ جوڑا کہ آپ کے روحانی اہل بیت میں شامل ہو گیا.تبھی تو اصحاب رسول انہیں ” سلمان الخیر کے لقب سے یاد کرتے تھے گویا ان کا وجود خیر و بھلائی کا مجسمہ تھا.(1) سورۃ جمعہ کے نزول کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ سے سوال ہوا کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمُ (الجمعہ (4) سے دوسرا کونسا گر وہ مراد ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ مبعوث ہو کر تعلیم و تزکیہ فرمائیں گے.آپ نے اسی اسلام کے بیٹے حضرت سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا " لَو كَانَ الإِيمَانُ عِندَ الثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ أو قَالَ رِجَالٌ مِنْ هو لاء (2) که اگر ایمان شریاستارے کی بلندی پر بھی اٹھ گیا تو سلمان کی قوم سے ایک مرد یا کچھ لوگ اسے واپس زمین پر اتار لائیں گے.“

Page 524

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 510 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حضرت سلمان کی زندگی کی کہانی جہاں ایک مذہبی آدمی کیلئے سبق آموز اور ایمان افروز ہے وہاں ایک عام انسان کیلئے بھی نہایت دلچسپ ہے.ان کی آپ بیتی خود انہی کی زبانی مختلف و متفرق روایات کو جمع کرنے سے جو روپ دھارتی ہے.وہ کچھ یوں ہے.آپ بیتی میں ( سلمان ) اصبہان کی بستی تھی کا رہنے والا ایک ایرانی ہوں.میرے والد علاقہ کے زمیندار تھے، میں ان کی پیاری اولا د تھا.وہ مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ چاہتے تھے.اسی وجہ سے گھر سے باہر ایک قدم نہ رکھنے دیتے.لڑکیوں کی طرح گھر میں رکھ کر میری پرورش کی.میں نے فارسی زبان سیکھی اور مجوسی مذہب کے متعلق بڑی محنت سے کافی معلومات حاصل کیں.یہاں تک کہ آتش کدہ کا مستقل خادم بن گیا جس کا کام اس کی آگ کو ہمہ وقت روشن رکھنا اور کسی لحظہ بھی بجھنے نہ دینا تھا.میرے باپ کی بہت بڑی جاگیر تھی.ایک روز وہ اپنی عمارت کی تعمیر کے کام میں مصروف تھے.مجھے کہا کہ آج میں اس عمارت کی مصروفیت کے باعث زمینوں پر نہیں جاسکتا.تم جا کر کام دیکھ آؤ مگر زیادہ دیر نہ کرنا کہ مجھے جاگیر سے زیادہ تمہاری فکر ہو جائے.وہاں جو کام وہ کروانا چاہتے تھے اس کے متعلق مجھے ہدایات دیں.میں گھر سے زمینوں پر جانے کے ارادے سے نکلا، راستہ میں عیسائیوں کے گر جا کے پاس سے گزرا تو ان کی آوازیں سنیں وہ دعا ومناجات کر رہے تھے.چونکہ والد نے مجھے گھر میں ایک طرح سے قید ہی کر رکھا تھا اس لئے مجھے باہر کے لوگوں کے معاملات کا زیادہ علم نہیں تھا ، آواز سن کر اندر گیا کہ دیکھوں وہ کیا کر رہے ہیں.ان کی عبادت کا طریق مجھے اچھا لگا.میرا میلان ادھر ہو گیا ، اور ان کے بارے میں میری دلچسپی بڑھ گئی.میں نے دل میں کہا خدا کی قسم ! یہ مذہب ہمارے آتش پرست دین سے کہیں بہتر ہے.واللہ! میں ان سے جدا نہ ہوسکا.یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.نہ تو میں زمینوں میں جاسکا اور نہ ہی گھر واپس لوٹا.ادھر میرے والد کو میرے دیر تک گھر نہ پہنچنے سے پریشانی لاحق ہوئی اور انہوں نے میری تلاش میں لوگوں کو بھیجا.دین کا شوق نصرانی مذہب مجھے پسند آیا میں نے مسیحیوں سے پوچھا کہ اس دین کا مرکز کہاں ہے،

Page 525

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے کہا ملک شام میں.511 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ادھر میرے والد تمام کاموں سے بیزار مسلسل میری تلاش میں تھے.میرے واپس آجانے پر انہوں نے مجھے کہا بیٹے تم کہاں چلے گئے تھے؟ میں نے تمہیں جلد لوٹنے کی تاکید نہیں کی تھی ؟ میں نے کہا پیارے ابا ! میں ایک گرجے کے پاس سے گزرا جس میں کچھ لوگ عبادت کر رہے تھے.اسے دیکھ کر مجھے ان کا مذہب بہت پسند آیا.میں شام تک وہیں رکا رہا.مجھے لگتا ہے کہ ان کا دین ہمارے دین سے کہیں بہتر ہے.میرے والد بولے بیٹے ! اس دین میں کوئی خیر و بھلائی نہیں.تمھارا اپنادین اور تمھارے آبا ؤ اجداد کا دین اس سے کہیں بہتر ہے.میں نے کہا خدا کی قسم ! ہرگز نہیں، وہ دین ہمارے دین سے بہر حال بہتر ہے.تب ابا نے مجھے بہت ڈرایا.میرے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں.مجھے گھر میں قید کر دیا.سفرشام قید کے دوران نصرانیوں نے مجھ سے رابطہ کیا میں نے انہیں پیغام بھجوایا کہ جب تمہارے پاس شام سے عیسائی تاجروں کا کوئی قافلہ آئے تو مجھے اس کی اطلاع کرنا.میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ میں ان کا مذہب درست سمجھتا ہوں اور ان سے درخواست کی کہ مجھے ملک شام جانے والے کسی شخص کا پتہ دیں.اس کے بعد ان کے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا ایک وفد آیا تو انہوں نے مجھے اس کی اطلاع کی.میں نے کہا جب یہ قافلہ اپنے تجارتی کام ختم کر کے واپس اپنے ملک جانے لگے تو مجھے دوبارہ اطلاع کرنا.واپسی کے وقت انہوں نے پھر مجھے اطلاع کی.میں نے اپنے پاؤں سے زنجیریں اتار پھینکیں اور ان کے ساتھ شریک سفر ہوکر ملک شام جا پہنچا.دوسری روایت میں ملک شام تک پہنچنے کی بعض اور تفصیلات حضرت سلمان کی زبانی اس طرح ہیں کہ ہمارا تعلق مجوسی مذہب سے تھا.میری بستی کے لوگ سیاہ وسفید گھوڑے کی پوجا کرتے تھے جس کی کچھ حقیقت نہ تھی.اہل جزیرہ کا ایک عیسائی جب ہمارے علاقہ سے گزرتا تو ہمارا مہمان ٹھہرتا تھا.اس سے راہ و رسم تھی.رفتہ رفتہ اس نے ہمارے علاقہ میں اپنا گر جا بھی بنالیا.میں اس زمانہ میں فارسی لکھنا پڑھنا سیکھ رہا تھا.ایک اور لڑکا بھی میرے ساتھ پڑھتا تھا ایک دن وہ روتا ہوا آیا اور یہ بتایا

Page 526

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 512 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہ اس کے والد نے اسے اس گرجا میں جانے کی وجہ سے مارا ہے.اس نے کہا کہ تم بھی کبھی گرجے آؤ تو بہت خوبصورت باتیں سنو گے.چنانچہ اس کے ساتھ مجھے بھی گر جا جانے کا موقع ملا.دراصل جب سے میں نے ہوش سنبھالی میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے جستجو پیدا کر دی کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اس راہب سے ہم نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جنت و جہنم اور بہترین مذاہب کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کیا تم اپنا دین چھوڑو گے؟ میں نے کہا ہاں اگر وہ افضل دین ہو اور آسمان وزمین کے خالق کا پتہ دے.الغرض اس نے ہمیں بہت عمدہ جواب دئے.میں اس کے پاس زیادہ آنے جانے لگا، میرے ساتھی طالب علموں کو پتہ چلا تو وہ بھی ساتھ آنے لگے.ہماری بستی والوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے نصرانی سے کہا کہ اگر چہ تم اچھے ہمسائے ہو مگر ہمیں اپنے بچوں کے بارہ میں خوف ہے کہ تم انہیں دین کے بارہ میں فتنہ میں نہ ڈال دو اس لئے یہاں سے کوچ کرو.جاتے ہوئے راہب نے اس لڑکے کو بھی ساتھ لے جانا چاہا مگر اس نے والدین کی وجہ سے مجبوری ظاہر کی.ہم نے رامہرمز پہاڑ سے پیدل سفر شروع کیا راستہ میں اللہ پر توکل کرتے اور درختوں کے پھل کھاتے ہوئے گزارا کیا اور جزیرہ پہنچے پھر صیبین آئے میرے ساتھی راہب نے کہا کہ یہاں کچھ عبادت گزار لوگ آباد ہیں جن سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ہم اتوار کے دن ان کے پاس گئے تو ملاقات ہوئی.وہ ہمارے ساتھی کو دیکھ کر بہت خوشی سے ملے اور لمبا عرصہ غیر حاضر رہنے کا پوچھا اس نے بتایا کہ ایران میں بعض بھائیوں سے ملنے گیا تھا.راہبوں کے ساتھ وہاں سے چلنے لگے تو میں نے کہا مجھے انہیں لوگوں کے پاس چھوڑ دیں انہوں نے کہا آپ ان جیسی طاقت نہیں رکھتے.یہ تو اتوار سے اگلے اتوار تک ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں اور پوری رات جاگتے ہیں.ان میں ایک نوجوان کسی بادشاہ کا بیٹا بھی تھا جو حکومت و دولت چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر چکا تھا.اب میں ان کے ساتھ رہنے لگا.شام ہوئی تو شاہی خاندان کے اس نوجوان نے کہا یہ نو عمر لڑ کا ہلاک ہو جائے گا ،مناسب ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اسے اپنے زیر تربیت رکھ لے.سب نے کہا کہ تم ہی اسے اپنے ساتھ رکھ لو.تب انہوں نے مجھے کہا اے سلمان ! یہ روٹی ہے اور یہ سالن.جب

Page 527

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 513 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سورج غروب ہو تو کھانا کھا لینا اور جب اٹھو تو روزہ رکھ لینا اور جب جتنا جی چاہے نماز پڑھ لینا اور تھک جاؤ تو آرام کرنا پھر وہ اپنی عبادت میں ایسا مصروف ہوا کہ اس کے سوا اس نے میرے سے کوئی بات نہ کی نہ میری طرف دیکھا یہاں تک ایک ہفتہ گزر گیا کوئی مجھ سے کلام نہ کرتا تھا.ساتویں دن اتوار کو جب وہ اکٹھے ہو کر افطار کرتے تو ملاقات پر دعا سلام ہوتی پھر پورا ہفتہ چپ کا روزہ.میں تنہائی کے غم کا شکار وہاں سے بھاگنے کے منصوبے بنانے لگا پھر خیال آیا کہ دو تین دن اگلے اتوار تک صبر کرلوں.وہ لوگ مجھے ساتھ لے گئے اور گوشت روٹی سے خوب تواضع کی.پھر ہفتہ بھر کیلئے شہزادہ عبادت میں مصروف ہو گیا.اس کے بعد ایک دن اس نے مجھے کہا اے سلمان ! میں ذرا آرام کرنے لگا ہوں.جب سایہ فلاں جگہ پہنچے تو مجھے جگا دینا میں نے اس کی تھکان کی وجہ سے ترس کھا کر نہ جگایا.وہ گھبرا کر اٹھا اور ناراض ہوا کہ میں نے کیوں اسے نہ جگایا میں نے کہا آپ کے آرام کی خاطر ایسا کیا.انہوں نے کہا اے سلمان تیرا بھلا ہو یا درکھو! آج روئے زمین پر سب سے بہترین مذہب نصرانی ہے.میں نے کہا کیا آئندہ اس سے بہتر کوئی دین ہوگا ؟ یہ ایک ایسا جملہ تھا جو میری زبان بے ساختہ سے نکل گیا.اس نے کہا ہاں قریب ہے کہ ایک نبی مبعوث ہو.اگر اسے پاؤ تو اس کی پیروی کرنا.میں نے کہا اگر وہ نصرانی دین چھوڑنے کیلئے کہے تو بھی؟ اس نے کہا ہاں وہ نبی ہوگا.سوائے حق کے کچھ نہ کہے گا.خدا کی قسم اگر میں اس کا زمانہ پاؤں اور وہ مجھے آگ میں کودنے کا حکم دے تو میں ایسا کر گزروں.پھر وہ بیت المقدس سے نکلا تو ہم ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو ٹانگوں سے معذور تھا.اس نے اسے کہا تم معبد کے اندر گئے تو بھی مجھے کچھ نہ دیا.اب جاتے ہوئے ہی کچھ دے جاؤ.وہ اس کی طرف متوجہ ہوا مگر اسکے ساتھ نظریں ملائے بغیر کہا کہ مجھے اپنا ہاتھ دو.اس نے ہاتھ دیا تو اس نے کہا کہ اللہ کے نام سے کھڑے ہو جاؤ وہ معذور صحیح سالم کھڑا ہو گیا اور اپنے گھر چل پڑا.میں تعجب سے اسے دیکھتارہا اور ادھر میر اشہزادہ تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا غا ئب ہو گیا.نصرانی اسقت کا حال میں نے اہل شام سے پوچھا کہ اس دین کا سب سے بہترین شخص اور بڑا عالم کون ہے؟ انہوں

Page 528

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 514 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا اسقف یعنی پادریوں کا سردار.میں اس کے پاس چلا گیا اور اسے کہا کہ مجھے اس دین سے محبت پیدا ہوگئی ہے.میں چاہتا ہوں کہ گر جا میں رہ کر آپ کی خدمت کروں.آپ سے علم سیکھوں اور عبادت کروں.اس نے کہا ٹھیک ہے تم آجاؤ.میں گر جا آ گیا.مگر وہ شخص بہت برا انسان نکلا.وہ لوگوں کو صدقہ و خیرات کی تحریک کرتا تھا اور جب جرات ملتی تو وہ اپنے لئے جمع کر کے رکھ دیتا اور غربیوں اور مسکینوں کو نہ دیتا.یہاں تک کہ اس کے پاس سونے اور چاندی سے بھرے ہوئے سات گھڑے جمع ہو گئے.اس کے کاموں کی وجہ سے میرے دل میں اس کیلئے سخت نفرت پیدا ہوگئی.جب وہ فوت ہوا تو مسیحی اسے دفن کرنے کیلئے آئے.میں نے انہیں اس کی ساری کر تو تیں کھول کر بتا دیں.پہلے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ میں نے کہا میں تمہیں اس کا مال اور خزانہ دکھا سکتا ہوں.انہوں نے کہا اچھا ہمیں دکھاؤ.جب میں نے انہیں وہ جگہ بتائی تو واقعی وہاں سے سونے اور چاندی سے بھرے سات گھڑے نکلے جنہیں دیکھ کر انہوں نے کہا.خدا کی قسم ہم اسے ہرگز دفن نہیں کریں گے.پھر انہوں نے اسے سولی پر چڑھایا اور پتھروں سے سنگسار کر دیا.پھر اس کی جگہ وہ ایک اور شخص کو لے آئے جو دین کا بڑا عالم و فاضل تھا اور اخروی زندگی میں رغبت رکھنے والا عابد وزاہد اور بے حد نیک انسان تھا.میں نے کوئی پانچ نمازیں پڑھنے والا اس سے افضل نہیں دیکھا.نہ ہی دن رات میں کوئی اس سے زیادہ نیکی پر مداومت اختیار کرنے والا پایا.مجھے اس سے ایسی محبت ہوگئی کہ اس سے پہلے کسی سے نہیں ہوئی تھی.میں ایک عرصہ اس کے پاس ٹھہرا.جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے کہا کہ اے نیک بزرگ ! آپ کیلئے تو اللہ کا حکم آگیا ہے.اب مجھے کس کے سپر د کرتے ہیں اور کیا حکم دیتے ہیں.انہوں نے کہا میرے بیٹے خدا کی قسم مجھے کسی شخص کا پتہ نہیں جو آج اس دین اور اس کی بچی تعلیم پر قائم ہو جس پر میں قائم ہوں.نیک لوگ مرگئے اور بعد والوں نے دین کو بدل دیا اور اس کی بہت ساری باتیں ترک کر دیں.ہاں البتہ موصل میں فلاں شخص موجود ہے وہ میرے مسلک پر ہے تم اس کے پاس چلے جانا.ان کی وفات تک میں ان کے ساتھ انہی کے مسلک پر رہا.

Page 529

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 515 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ صحبت صالحین کے لئے سفر موصل و نصیر وفات کے بعد میں نے موصل آکر اس دوسرے بزرگ سے ملاقات کی اور اسے اپنا سارا حال سنا کر بتایا کہ فلاں بزرگ نے مجھے آپ سے ملاقات کی وصیت کی تھی اور بتایا تھا کہ آپ ان کے نیک مسلک پر ہیں.انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ میرے پاس رہو.میں نے انہیں بھی بہترین انسان پایا وہ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو عبادت کرتا تھا اور واقعی اپنے ساتھی کے مسلک پر قائم تھا.تین سال یہاں گزارے اور سرکہ تیل اور کچھ دانوں پر گز راوقات ہوتی رہی پھر ان کو بھی خدا کے حضور سے بلاوا آ گیا تو میں نے عرض کیا کہ فلاں بزرگ نے مجھے آپ کے پاس بھجوایا تھا.اب آپ مجھے کیا وصیت کرتے ہیں.انہوں نے کہا خدا کی قسم ! مجھے اہل مشرق میں کسی ایسے شخص کا علم نہیں جو ہمارے مسلک پر ہوا سوائے نصیبین میں ایک شخص کے اور وہ فلاں بزرگ ہے.تم اسے جا کر ملوا سے میرا سلام کہنا.چنانچہ ان کی وفات کے بعد میں نصیبین کے بزرگ کے پاس چلا گیا اور اسے اپنے حالات سے آگاہ کر کے بتایا کہ فلاں بزرگ نے مجھے آپ سے ملاقات کیلئے فرمایا تھا.انہوں نے بھی مجھے اپنے پاس ٹھہرایا.انہیں بھی میں نے پہلے دونوں بزرگوں جیسا ہی پایا.میں نے اس بہترین شخص کے ساتھ زندگی کے تین سال اور گزارے.بالآخر اسے بھی موت نے آن لیا.عموریہ کا سفر اور نبی موعود کی علامتیں بوقت وفات ان سے بھی میں نے وہی سوال کیا کہ مجھے کیا وصیت کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! ہمیں معلوم نہیں کہ اب کوئی شخص روئے زمین پر ہمارے مسلک پر ایسا باقی رہ گیا ہے جس کے پاس تم جاؤ.ہاں عمور یہ میں ایک شخص ایسا ہے جو ہمارے جیسا ہے.اگر تم پسند کرو تو وہاں چلے جاؤ.ان کی وفات کے بعد میں عموریہ کے بزرگ کے پاس گیا.انہیں اپنے حالات سے مطلع کیا.انہوں نے کہا کہ میرے پاس ٹھہر جاؤ میں نے اسے بھی اپنے ساتھیوں کے مسلک اور نیک اخلاق پر پایا.اس دوران میں نے محنت کر کے مال بھی کمایا اور کچھ گائیں بکریاں جمع کر لیں.پھر انکی وفات کا وقت آیا تو ان سے پوچھا کہ اب آپ مجھے کوئی وصیت کریں.انہوں نے کہا خدا کی قسم ! مجھے روئے

Page 530

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 516 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ زمین پر کسی شخص کا علم نہیں جس کے بارے میں تمہیں نصیحت کروں کہ وہاں چلے جاؤ.البتہ ایک نبی کی بعثت کا زمانہ آچکا ہے.جس کی بشارت حضرت عیسی نے دی تھی.وہ دین ابراہیمی کے ساتھ مبعوث ہوگا.سرزمین عرب سے نکلے گا.دو پتھر یلے میدانوں کے درمیان ایک کھجوروں والی سرزمین کی طرف ہجرت کرے گا.اس کی کچھ علامتیں بڑی واضح ہونگی.وہ تحفہ لے لے گا مگر صدقہ نہیں کھائے گا.اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی.اگر تم اس ملک میں جاسکو تو ضرور جاؤ.پھر وہ فوت ہو گئے اور میں ایک زمانہ تک عمور یہ میں ہی ٹھہرا رہا.یہود مدینہ کی غلامی پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ قبیلہ کلب کے کچھ تاجروں کا ہمارے شہر سے گزر ہوا.میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی گائیں اور بکریاں تمہیں دیتا ہوں.تم مجھے عرب کی سرزمین میں پہنچا دو.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.چنانچہ میں نے وہ جانوران کو دئے.انہوں نے مجھے اپنے ساتھ سوار کر والیا اور مجھے وادی القریٰ میں لے آئے.یہاں آکر انہوں نے مجھ سے زیادتی کرتے ہوئے غلام بنا کر ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا.میں اس کے پاس رہا.وہاں کھجور کے باغات دیکھ کر میں امید کرتا تھا کہ شاید یہی وہ شہر ہو جس کے بارے میں اس بزرگ نے مجھے بتایا تھا.مگر میرا دل مطمئن نہ تھا.میرے وہاں قیام کے دوران اس کا چچازاد بھائی مدینہ سے مکہ آیا.جو بنو قریظہ قبیلہ سے تھا.وہ مجھے خرید کر مدینہ لے آیا.خدا کی قسم ! مدینہ کو دیکھتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی شہر ہے جس کی نشانیاں عموریہ کے بزرگ نے بتائی تھیں.میں مدینہ ٹھہر گیا.اللہ تعالیٰ نے مکہ میں اپنا رسول مبعوث فرمایا تھا.میں غلامی کے کام کاج میں ایسا مصروف ہوا کہ اس کی خبر تک نہ ہوئی.پھر رسول اللہ ا ہے نے مدینہ ہجرت فرمائی.خدا کی قسم! میں کھجور کے درخت پر چڑھا ہوا اپنے مالک کا کام کر رہا تھا.میرا مالک نیچے بیٹھا ہوا تھا.اس کا چازاد بھائی اسکے پاس آیا اور کہا اللہ بنی قبیلہ کوقتل کرے.خدا کی قسم ! وہ اب قباء میں ایک ایسے شخص کے ساتھ اکٹھے ہور ہے ہیں جو مکہ سے ان کے پاس آیا ہے اور کہتے ہیں کہ وہ نبی ہے.“ سلمان کہتے ہیں یہ سنتے ہی میں چونک اٹھا.میری توجہ اپنے کام سے ہٹ گئی اور مجھے لگا کہ میں

Page 531

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 517 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ درخت سے اپنے مالک کے اوپر گر پڑوں گا.پھر میں کھجور کے درخت سے اترا اور ان کے چچا زاد سے بار بار پوچھنے لگا کہ تم کیا بات کر رہے تھے؟ اس پر میرا مالک سخت ناراض ہو.اور مجھے زوردار طمانچہ رسید کر کے کہا تمہیں اس سے کیا غرض ؟ میں نے کہا کچھ نہیں میں تو صرف ان کی بات کی وضاحت چاہتا تھا.ایک اور روایت میں مدینہ پہنچنے کی مزید تفصیل حضرت سلمان کی زبانی یوں ہے.دریں اثناء مدینہ کی طرف ایک تجارتی قافلہ آیا ، انہوں نے بتایا کہ نسل ابراہیم سے ایک دعویدار پیدا ہوا ہے جس کی قوم اس سے برسر پر کار ہے.وہ مدینہ آیا ہے ، ہمیں اندیشہ تھا کہ کہیں ہماری تجارت اس سے متاثر نہ ہو جائے مگر وہ اب مدینہ کا مالک ہوچکا ہے.میں نے کہا اس کی قوم کے لوگ اسے کیا کہتے ہیں.انہوں نے کہا وہ اسے ساحر اور مجنون کہتے ہیں.میں نے دل میں کہا کہ یہی تو اس کی نشانی ہے.پھر میں نے قافلہ کے سردار سے بات کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ مدینہ لے جاؤ.اس نے کہا کیا معاوضہ دو گے؟ میں نے کہا میرے پاس دینے کو تو کچھ نہیں بس مجھے اپنا غلام بنالو.دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ سوار کر والو.مجھے بس روٹی کا ایک ٹکڑا دے دیا کرنا اور اپنے شہر جا کر ا ہو تو غلام رکھ لینا اور چاہو تو بیچ دینا.جب ان کے شہر پہنچے تو اس شخص نے مجھے کھجور کے باغ میں پانی دینے پر لگا دیا.جیسے اونٹ پانی کھینچتا ہے اس طرح پانی کھینچ کھینچ کر میری پشت اور سینہ میں نشان پڑے.یہاں کوئی میری زبان نہیں سمجھتا تھا ایک دن ایک امیرانی بڑھیا پانی لینے آئی جو میری زبان جانتی تھی.اس سے میری بات ہوئی، میں نے اس سے کہا کہ مجھے اس دعویدار شخص کے بارہ میں کچھ بتاؤ وہ کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ صبح کی نماز کے بعد فلاں جگہ سے گزریں گے تو تم ان سے مل سکو گے چنانچہ اگلے روز کھجور میں لے کر حاضر خدمت ہوئے.دوسری روایت میں ہے کہ میں نے اپنے مالکوں کے گھرانے میں نبی کریم میلے کا ذکر سنا.اس کے گھر میں باعزت گزارہ ہو رہا تھا.میں نے گھر کی مالکہ سے کہا کہ مجھے ایک دن کی رخصت دو.وہ مان گئی تو میں نے جا کر اس دن لکڑیاں کاٹیں اور ان کو بیچ کر کھانا تیار کیا اور وہ کھانا لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ

Page 532

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 518 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ صدقہ ہے.جو حضور نے نہیں کھایا اور صحابہ کو دے دیا.حصول مراد ایک اور روایت میں حضرت سلمان نے یہ تفصیل بھی بیان کی ہے کہ اسی زمانے میں میں نے کھجور کی شاخوں سے چٹائی بننے کا کام سیکھا.میں ایک درہم سے چٹائی کا سامان خرید کر دو درہم میں چٹائی تیار کر کے بیچتا تھا اور ایک درہم خود استعمال میں لاتا تھا.مجھے پسند تھا کہ اپنے ہاتھ سے روزی کما کر کھاؤں.اسی دوران پتہ چلا کہ مکہ میں نبی ﷺ کا ظہور ہو چکا ہے پھر وہ ہجرت کر کے مدینہ آئے میں نے سوچا کہ موعود علامتوں اور نشانیوں سے متعلق ان کی آزمائش کروں.چنانچہ بازار سے اونٹ کا گوشت ایک درہم میں خریدا اور اس سے ثرید تیار کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ یہ صدقہ ہے آپ نے نہیں کھایا.اس وقت تک میری پاس کچھ کھجور میں بھی جمع ہو چکی تھیں.شام ہوئی تو وہ کھجور میں اور رقم لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں قباء میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ ایک نیک انسان ہیں اور آپ کے ساتھ غریب اور صاحب حاجت لوگ ہیں.میرے پاس صدقہ کی کچھ رقم جمع تھی.میرے خیال میں آپ لوگوں سے زیادہ اس کا مستحق اور کوئی نہیں.رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ تم کھاؤ اور خود اپنا ہاتھ روکے رکھا اور کچھ نہیں کھایا.میں نے دل میں سوچا کہ لو ایک علامت تو پوری ہوگئی.پھر میں واپس چلا گیا اور کچھ او رکھجور میں جمع کیں اور رسول کریم ﷺ بھی قباء سے مدینہ منتقل ہو گئے.پھر میں آپ کے پاس آیا اور اور یہ قباء عرض کیا کہ میں نے دیکھا ہے.کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے اور اب میں آپ کے اکرام کی خاطر تحفہ لے کر آیا ہوں.رسول کریم نے اس میں سے کھایا اور صحابہ نے بھی ساتھ کھایا.میں نے دل میں کہا دونشانیاں پوری ہوگئیں.پھر میں بقیع الغرقد میں رسول کریم ﷺ کے پاس آیا.آپ اپنے صحابہ کے ایک جنازہ کے ساتھ جارہے تھے.آپ نے دو چادرمیں زیب تن فرمائی تھیں اور صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے.میں گھوم کر آپ کی پشت کی طرف آکر دیکھنے لگا کہ وہ مہر نبوت نظر آ جائے جس کی نشانی بزرگ موصوف نے مجھے بتائی تھی.جب رسول کریم ﷺ نے مجھے گھومتے دیکھا تو آپ کو پتہ چل گیا کہ

Page 533

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 519 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ میں کسی بیان کردہ نشانی کی توثیق کرنا چاہتا ہوں.آپ نے اپنی پشت سے چادر اٹھا دی اور میں نے مہر نبوت دیکھ کر آپ کو پہچان لیا.پھر کیا تھا میں تو آپ سے چمٹ گیا.آپ کو چومنے لگا اور ساتھ روتا جاتا تھا.پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اب سامنے بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا اور اپنا سارا قصہ آپ کو کہہ سنایا.رسول اللہ ﷺ کو میری کہانی بہت پسند آئی اور آپ کو خواہش ہوئی کہ سارے صحابہ بھی یہ دلچسپ واقعہ نہیں.رسول خدا اسلمان کی آزادی میں کوشاں غلامی کے باعث میں رسول اللہ کے ساتھ غزوہ بدر اور احد میں شامل نہ ہو سکا.رسول اللہ ہے نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اپنے مالک سے مکاتبت کر لو یعنی اپنی آزادی کیلئے قیمت مقرر کروا کے اس کی ادائیگی شروع کرو.میں نے اپنے مالک سے معاہدہ کیا کہ میں اسے تین سو کھجور کے پھلدار پودے کاشت کر کے دوں گا اور چالیس اوقیہ سونا نقد ادا کر دوں گا.رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا اپنے ساتھی کی مددکرو.چنانچہ سب صحابہ نے کھجور کے درخت مہیا کرنے میں میری مدد کی.کسی نے تمیں درخت کسی نے ہیں درخت کسی نے پندرہ اور کسی نے دس.الغرض ہر شخص نے اپنی استطاعت کے مطابق مدد کی اور تین سو کھجور کے پودے اکٹھے ہو گئے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے سلمان ! اب جا کر یہ پودے گاڑنے کیلئے گڑ ہے کھود نے شروع کرو.جب اس سے فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آنا.میں نے گڑھے کھود کر حضور کو اطلاع کی تو آپ میرے ساتھ تشریف لے گئے.ہم کھجور کا ایک پودا اٹھا کر حضور کے قریب کرتے تھے اور حضور اپنے دست مبارک سے اسے گاڑتے تھے.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں سلمان کی جان ہے ان پودوں میں سے ایک بھی ضائع نہیں ہوا.اب حسب معاہدہ درخت لگانے کا کام تو مکمل ہوا چالیس اوقیہ کی ادائیگی باقی تھی.رسول اللہ ﷺ کی غلامی اور آپ کی شفقت ایک اور روایت میں حضرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ میرے مسلمان ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہود سے خرید لیا.نقد درہم کے ساتھ قیمت میں یہ شرط طے پائی کہ میں تین سو کھجوروں کا ایک باغ یہودیوں کو لگا کر دوں.جب وہ باغ پھل دینے لگے گا تو میں آزاد ہوں گا.نبی

Page 534

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 520 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے تمام درخت لگائے سوائے ایک درخت کے جو حضرت عمر نے لگایا.حضور نے کھجور کی جڑوں میں پانی ڈالنے کا طریق بھی مجھے سمجھایا.اگلے سال تمام درختوں نے پھل دیا سوائے اس ایک درخت کے.حضور نے پوچھا یہ کس نے لگایا تھا.تو پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ نے.حضور نے اسے اکھیڑ کر پھر لگایا تو اگلے سال وہ بھی پھل لے آیا.رسول کریم ﷺ کے پاس کسی غزوہ سے مرغی کے انڈے کے برابر سونا آیا.آپ نے پوچھا سلمان فارسی کس حال میں ہے؟ جس نے آزادی کیلئے معاہدہ کیا تھا.مجھے بلایا گیا.رسول اللہ ہے نے فرمایا اے سلمان! یہ سونا لو اور اپنے اوپر جو قرض باقی ہے ادا کر دو.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ذمہ قرض کے مقابل پر اس کی کیا حیثیت ہے.یہ تو بہت کم ہے.آپ نے وہ سونا ہاتھ میں لے کر زبان سے اس پر کچھ تبرک عطا کیا اور فرمایا اب یہ لے لو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ تمہاری ادائیگی کے سامان فرما دے گا.چنانچہ وہ سونا لے کر میں نے اس کا وزن کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے وہ پورا چالیس اوقیہ نکلا.میں نے اپنا سارا قرض ادا کر دیا اور آزاد ہو گیا.اس کے بعد پہلا غزوہ جس میں میں حضور کے ساتھ شریک ہوا وہ غزوہ خندق تھا پھر اس کے بعد تو کسی بھی غزوہ میں کبھی آپ سے پیچھے نہیں رہا.(3) حضرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے رسول کریم ﷺ کو اس شخص کے بارے میں بتایا جس نے مجھے حضور کی نشانیاں بتائی تھیں تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا وہ شخص جنت میں داخل ہو گا اس نے مجھے آپ کے نبی ہونے کے بارے میں رہنمائی کی تھی.آپ نے فرمایا کہ جنت میں اسلام قبول کرنے والا شخص ہی داخل ہوگا.غزوہ خندق میں حضرت سلمان کی بھر پور شرکت غزوہ احد سے واپسی پر ابوسفیان نے آئندہ سال پھر بدر میں جنگ کا اعلان کیا.یہود مدینہ اور غطفان کے ساتھ مل کر عرب کے تمام قبائل سے لشکر ا کٹھے کر کے مدینہ پر چڑھائی کر دی.جب وہ مکہ سے چلے تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا.حضرت سلمان فارسی اس وقت غلامی سے آزاد ہو کر پہلی دفعہ کسی جنگ میں شامل ہورہے تھے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایران میں

Page 535

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 521 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جب ہمیں محصور ہو جانے کا خطرہ ہو تو ہم اپنے گر دخندق کھود کر دفاع کرتے ہیں.(4) پیش آمده حالات میں مسلمانوں کو یہ رائے بہت پسند آئی.رسول کریم ﷺ نے خندق کی کھدائی کیلئے خود نشان لگائے.ہر دس افراد کے لئے چالیس ہاتھ جگہ کھدائی کیلئے مقررفرمائی.حضرت سلمان کافی مضبوط اور صحت مند تھے.مہاجرین نے کہا کہ سلمان ہمارے ساتھ خندق کی کھدائی میں شامل ہوں.انصار نے کہا ہم سے زیادہ ان پر کسی کا حق نہیں اور یہ ہم میں سے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلَ البَيْتِ - کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں.(5) ایک عرب شاعر نے حضرت سلمان کی یہ فضیلت یوں بیان کی ہے.لَقَد رَقَى سَلِمَانُ بَعدَرَقِّهِ مَنزِلَةٌ شَامِخَةَ البُنيَانِ وَكَيفَ لَا وَ المُصَطَفَى قَد عَدَّةَ مَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ العَظِيمِ الشَّانِ یعنی حضرت سلمان اپنی غلامی سے آزاد ہو کر ایک نہایت بلند مقام اور مرتبہ پر فائز ہوئے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ حضرت محمد مصطفیٰ علیہ نے انہیں اپنے عظیم الشان اہل بیت میں شمار فرمایا.(6) خندق کی کھدائی کے دوران نشان کا ظہور حضرت سلمان اور بعض اور صحابہ نے خندق کی کھدائی کے دوران ایک ایمان افروز نشان کے ظہور کا بھی ذکر کیا ہے.حضرت سلمان کہتے ہیں کہ میں نے خندق کے ایک حصہ میں کدال سے ضرب لگائی تو سخت چٹان سامنے آئی.رسول اللہ ﷺ میرے قریب ہی تھے.آپ نے کدال میرے ہاتھ سے لے لی اور اپنی چادر ایک طرف رکھ کر چٹان پر ضرب لگائی اور ایک شعلہ نکلا.آپ نے یہ آیت تلاوت کی.وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَ عَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - (الانعام 116) کہ تیرے رب کی بات سچائی اور عدل کے ساتھ پوری ہوئی.اس کی باتوں کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں اور وہ بہت سنے والا اور جاننے والا ہے.اس ضرب سے پتھر کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا.حضرت سلمان گھڑے دیکھ رہے تھے.پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی اور پھر وہی آیت پڑھی.دوبارہ ایک شعلہ پتھر سے نکلا اور پتھر کا ایک تہائی مزید شکستہ ہو گیا.پھر آپ نے تیسری ضرب لگائی اور وہی آیت پڑھی.ایک شعلہ بلند ہوا اور

Page 536

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 522 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ باقی پتھر بھی شکستہ ہو گیا.حضرت سلمان نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کی ہر ضرب پر میں نے دیکھا کہ ایک شعلہ بلند ہوا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے سلمان ! کیا تم نے بھی دیکھا تھا ؟ حضرت سلمان نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے یہ نظارہ دیکھا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو مجھے لئے کسری شاہ ایران کے کئی شہروں کا نظارہ کروایا گیا یہاں تک کہ میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.موجود صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں یہ فتوحات عطا کرے اور ان ممالک کے اموال غنیمت ہمارے حصہ میں آئیں.آپ نے یہ دعا کی.پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو قیصر شاہ روم کے شہروں کا نظاہ مجھے کروایا گیا اور میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.صحابہ نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ یہ فتوحات عطا فرمائے.رسول اللہ ﷺ نے پھر دعا کی.پھر میں نے تیسری بار ضرب لگائی تو میرے سامنے ملک حبشہ کے شہر اور اردگرد کی بستیاں دکھائی گئیں.میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.دوسری روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ ہر ضرب کے ساتھ رسول اللہ علیہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا اور صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ نعرے لگائے.(7) چنانچہ بعد کے زمانے میں حضرت سلمان نے یہ پیشگوئیاں اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھیں ایرانی فتوحات کے زمانہ میں آپ نے اسلامی لشکر کے امیر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی.ابوالبختری بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک لشکر کے امیر حضرت سلمان فارسی تھے.انہوں نے ایک ایرانی قلعہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا.لوگوں نے کہا آپ ان پر حملہ کیوں نہیں کرتے.آپ نے فرمایا کہ انہیں میرے پاس بلاؤ تا کہ میں انہیں اس طرح دعوت دوں جس طرح رسول اللہ علی پہلے دعوت اسلام دیا کرتے تھے.حضرت سلمان نے انہیں نہایت خوش اسلوبی سے دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو میں تم میں سے ایک فارسی شخص ہوں اور تم دیکھ رہے ہو کہ عرب میری اطاعت کرتے ہیں اگر تم مسلمان ہو جاتے

Page 537

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 523 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہو تو تمہارے حق ہمارے اوپر اور ہمارے حق تمہارے اوپر ہو نگے.دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے جزیہ ادا کرو.حضرت سلمان نے فارسی زبان میں بھی ان سے خطاب کیا اور کہا یہ آخری صورت قابل تعریف نہیں کہ ہم تم سے جنگ کریں.پھر بھی جب انہوں نے کوئی بات نہ مانی تو تین دن تک مسلسل یہی دعوت دیتے رہے بالآخر مجبوراً حملہ کرنا پڑا اور اس محل اور قلعہ کو ختم کرلیا.(8) عدل و اعتدال حضرت سلمان فارسی کے قبول اسلام کے بعد رسول کریم ﷺ نے ان کی مواخات حضرت ابو دردانہ سے قائم فرمائی.جب انکے گھر گئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی نے برا حال بنا رکھا ہے.سبب پوچھا تو کہنے لگیں تمہارے بھائی کی دنیا سے بے رغبتی نے اس حال پر پہنچایا ہے.وہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں.حضرت سلمان نے اپنے اس دینی بھائی کو اعتدال پر لانے کی تجویز کی.ابودردار ہم نے جب اپنے اس مہمان بھائی کو کھانا پیش کیا تو حضرت سلمان نے انہیں بھی ساتھ شامل ہونے کو کہا.انہوں نے بتایا کہ وہ نفلی روزے سے ہیں.حضرت سلمان نے کہا کہ میں بھی کھانا نہ کھاؤں گا جب تک آپ افطار نہ کریں.بے شک آپ ایک دن روزہ رکھیں اور ایک دن افطار کر لیں.حضرت ابو درداء عبادت کیلئے کھڑے ہونے لگے تو حضرت سلمان بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا آپ رات کا ایک حصہ سوئیں اور پھر نماز پڑیں.حضرت سلمان نے رسول کریم م سے جاکر عرض کیا تو حضور نے فرمایا سلمان ٹھیک کہتے ہیں.تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے، بیوی کا بھی تم پر حق ہے.دوست اور مہمان کا بھی تم پر حق ہے پس ہر حق دار کو اس کا حق دو.دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا سلمان تم سے زیادہ سمجھدار اور دین کی گہرائی سے واقف ہے.(9) علم و فضل حضرت سلمان نے اپنے تحقیقی سفروں اور علماء کی صحبت میں توریت کا بھی مطالعہ کیا تھا.وہ

Page 538

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 524 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ میں نے توریت میں پڑھا تھا کہ کھانے کے بعد وضو یعنی ہاتھ منہ دھونا کھانے کے موجب برکت ہے.میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس کا ذکر کیا کہ میں نے تورات میں اس طرح پڑھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ دراصل کھانے سے پہلے اور بعد میں دونوں دفعہ وضوء یعنی ہاتھ منہ دھونا موجب برکت ہے.(10) ایک دفعہ کسی غیر مسلم نے حضرت سلمان کو طعنہ دیا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے نبی تمہیں پیشاب پاخانے کے آداب سکھاتے ہیں.حضرت سلمان نے کمال حاضر جوابی سے اسی بات کو فضیلت کے طور پر اس رنگ میں پیش کیا اور فرمایا کہ ہاں وہ ہمیں یہ ادب سکھاتے ہیں کہ ہم دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کریں اور قبلہ رخ ہو کر پاخانہ نہ کریں اور صفائی کیلئے گوبر یا ہڈی کا استعمال نہ کریں.اور کم از کم تین ڈھیلے استعمال کریں.(11) حضرت سلمان فارسی نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ سیکھا اور یا درکھا.ابو عثمان کہتے ہیں میں حضرت سلمان کے ساتھ تھا.انہوں نے ایک درخت سے خشک ٹہنی تو ڑی اور اسے جھاڑا تو اس کے پتے گر گئے.اور کہنے لگے تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ پوچھا تو کہنے لگے رسول کریم یا اللہ نے ایک دفعہ میرے لئے ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ مسلمان بندہ جب اچھی طرح وضو کر کے پانچ نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اس خشک پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں یہ آیت پڑھی وَاَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ.(ھود: ((12) پھر یعنی دن کے اطراف اور رات کے اوقات میں نماز قائم کرو یقینا نیکیاں بدیوں کو مٹادیتی ہیں.سلمان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ”تمہیں پتہ ہے جمعہ کا دن کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ نے تمہارے باپ آدم کو پیدا کیا.جو شخص اس دن پاک صاف ہوکر جمعہ پڑھنے جائے اور امام کے نماز پڑھنے تک کسی سے کلام نہ کرے تو یہ اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے.“ (13) حضرت سلمان عملی زندگی میں سنت رسول کی خوب پابندی کرتے تھے.ایک دفعہ ایک مہمان

Page 539

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 525 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آیا تو آپ نے جو گھر میں تھا پیش کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ اگر رسول کریم ﷺ نے ہمیں تکلف سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم آپ کے لئے ضرور تکلف سے اہتمام کرتے.“ (14) حلال و حرام کے بارہ میں ایک دفعہ آپ نے یہ واضح اور اصولی ارشاد رسول بیان فرمایا کہ رسول کریم مے سے گھی یا پنیر وغیرہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا.جس چیز کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار کی وہ اس میں شمار ہوگی جس سے اس نے درگذر اور عفو فر مایا ہے.(15) حضرت سلمان نے اچھا حافظہ پایا تھا.رمضان کے فضائل کے بارہ میں آپ رسول اللہ ہے کی ایک نہایت مفصل اور جامع تقریر کا ذکر کیا کرتے تھے جو حضور نے شعبان کے آخری دن فرمائی تھی.(16) حضرت سلمان سے اصحاب رسول حضرت انس ، حضرت کعب بن عجرہ ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوسعید کے علاوہ کئی تابعین بھی روایت حدیث کرتے ہیں.اللہ اور رسول سے محبت رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ میں سے چار ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خاص محبت کا تعلق رکھتا ہے وہ سلمان ، مقداد، ابو ذر اور عمار بن یاسر ہیں.رسول کریم نے حضرت سلمان سے فرمایا کہ آپ مجھ سے کبھی بغض نہ رکھنا ورنہ اپنے دین سے دور ہو جاؤ گے.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ سے کیسے بغض یا عداوت رکھ سکتا ہوں حالانکہ اللہ نے مجھے آپ کے ذریعہ ہدایت عطا فرمائی.آپ نے فرمایا اگر تم عربوں سے بغض و عداوت رکھو گے تو سمجھو کہ مجھ سے عداوت ہے.(17) زہد و خشیت حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺہے رات کو حضرت سلمان سے مجلس فرماتے تھے اور بعض دفعہ تو لگتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ وقت بس انہیں کا ہو کر رہ گیا ہے.(18) حضرت سلمان نہایت محنتی انسان تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے رزق حاصل کرنا پسند کرتے

Page 540

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 526 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تھے.آپ کھجور کی شاخوں سے چٹائیاں بن کر روزی کماتے تھے.پانچ ہزار درہم کی رقم وظیفہ یا گزارہ کے طور پر حاصل ہوتی تھی وہ سب غرباء اور مساکین میں خرچ کر دیتے تھے.(19) بوقت وفات آپ کا ترکہ چند درہم کے سوا کچھ نہ تھا.آپ کی بیماری میں حضرت سعد معیادت کیلئے آئے تو یہ رونے لگے.انہوں نے کہا کہ آپ صحابی رسول نہیں روتے کیوں ہیں؟ کہنے لگے میں دنیا کے شوق یا آخرت کی ناپسندیدگی کی وجہ سے نہیں روتا.مگر رسول کریم ﷺ سے جو عہد بیعت باندھا تھا.ڈرتا ہوں کہ اسمیں کوئی زیادتی نہ کر لی ہو.آپ نے فرمایا تھا ایک شخص کیلئے ایک سوار کی زادراہ کے برابر کافی ہے.(20) آخری زمانہ میں حضرت سلمان عراق آکر آباد ہو گئے جب کہ آپ کے دینی بھائی ابو درداء شام میں تھے.دونوں میں خط و کتابت رہی.حضرت ابو درداء نے انہیں لکھا تھا کہ ہمارے جدا ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے مال بھی عطا کیا اور اولاد بھی دی.میں ارض مقدسہ میں مقیم ہوں.حضرت سلمان نے جوا با تحریر کیا کہ جہاں تک آپ نے مال کا ذکر کیا ہے تو یا درکھیں کہ خیر و برکت کثرت مال سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ بھلائی اس میں ہے کہ تمہارا احلم زیادہ ہواور تمہارا علم تمہیں فائدہ دے.جہاں تک آپ نے ارض مقدس میں آباد ہونے کا لکھا ہے تو محض کوئی زمین کسی کو کوئی فائدہ نہیں دیتی.پس اپنی رائے اور سمجھ کے مطابق اعمال کرتے جاؤ اور اپنے آپ کو ہمیشہ مردوں میں سے سمجھو.ایک دفعہ مدائن کے گورنر حضرت حذیفہ نے آپ سے کہا کہ ہم آپ کیلئے کوئی گھر کیوں نہ تعمیر کردیں.کہنے لگے کیوں؟ تم مجھے بادشاہ بنانا چاہتے ہو کہ مدائن میں آپ کے محل جیسا میرا حل ہو.انہوں نے کہا نہیں بالکل سادہ سا اور چھوٹا سا گھر.کہنے لگے ہاں یہ میرے دل کی بات کہی ہے.(21) حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہ بن یمان کے بعد حضرت سلمان فارسی کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا.(22) شادی و اولاد حضرت سلمان نے کندہ قبیلہ میں شادی کی تھی.بیوی کا نام بقیر ہ تھا.ایک روایت کے مطابق

Page 541

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 527 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آپ کی اولاد تین بیٹیاں تھیں.اور جب کہ ایک گروہ کی رائے ہے کہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں.بیٹے کا نام کثیر تھا.اصبہان میں تھا.بیٹیاں مصر میں تھیں.(23) 35ھ میں حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں وفات ہوئی.روایات کے مطابق وفات سے قبل حضرت عبداللہ بن مسعود سے ملاقات ثابت ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان کی وفات حضرت عبداللہ بن مسعود سے پہلے ہوئی.آپ کی عمر کے بارہ میں محیر العقول اور مبالغہ آمیز روایات مشہور ہیں کہ آپ کی عمر ساڑھے تین سو برس ہوئی اور آپ نے حضرت عیسی سے بھی ملاقات کی.علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمان کی عمر کے بارہ میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اکثر روایات میں اڑھائی سوسال عمر بیان ہے.اور اس سے زائد کے بارہ میں اختلاف ہے لیکن مزید تحقیق پر ثابت ہوا کہ ان کی عمر اسی سال ہوئی.(24) وفات حضرت بقیر کا زوجہ حضرت سلمان فارسی روایت کرتی ہیں کہ بوقت وفات حضرت سلمان اپنے چو بارے میں تھے جس کے چار دروازے تھے.مجھے کہنے لگے بغیر ہ! یہ دروازے کھول دو، میں آج کچھ پیش روفرشتوں کو آتے دیکھتا ہوں.نا معلوم وہ کس دروازے سے آجائیں.پھر انہوں نے مشک منگوایا اور کہا اسے پانی سے ملا کر ایک برتن میں رکھو پھر اسے میرے بستر کے گرد چھڑک دو پھر نیچے اتر جانا اور کچھ دیر بعد آکر مجھے بستر پر دیکھ جانا.میں نے واپس جا کر دیکھا تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی.(25) حضرت سلمان نے مدائن میں وفات پائی ان کا مزار مدائن میں ہے اس بستی کو سلمان پاک کہتے ہیں یہ طاق کسری سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے.حضرت حذیفہ کی قبر بھی حضرت سلمان فارسی کے پہلو میں ہے.(26)

Page 542

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -1 -2 -3 -4 528 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حواله جات اسد الغابہ جلد 2 ص 328، اصابہ جز 3 ص113 بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه مسند احمد جلد 5 ص 444.439 واسد الغابہ جلد 2 ص 328 تا 330 مجمع الزوائد جلد 9 ص 336 تا 342 تاریخ طبری جلد 2 ص 566 مستدرک جلد 3 ص 598 ، دلائل ابیھقی جلد 3 ص 399 ، ابن ہشام جلد 3 ص 240 سيرة المحلبيه باب غزوه الخندق نسائی کتاب الجہاد باب غزوه الترک، مجمع الزوائد جلد 6 ص 131 ، ابن ہشام جلد 3 ص 234 مسند احمد جلد 5 ص 440، ترندی 1548 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 -20 -21 -22 -24 -25 اصا به جز 4 ص 113 مسند احمد جلد 5 ص 441 مسند احمد جلد 4 ص437 مسند احمد جلد 5 ص437 اسد الغابہ جلد 2 ص 331 مسند احمد جلد 5 ص 441 ابن ماجہ 3367 ترندی 1726 مشکوۃ المصابيح كتاب الصوم مسند احمد جلد 5ص440 اسد الغابہ جلد 2 ص 331 اصا به جز 3 ص 114 ابن ماجہ 4104 ،مسند احمد جلد 5 ص438 اسد الغابہ جلد 2 ص 331 حیات القلوب جلد 2 ص 780 ، المسعودی جلد 2 ص 314 سیر اعلام النبلاء، جلد 1 ص 403 ، اصابہ جز 3 ص 13 واسد الغابه جلد 3 ص 333 اصا به جز 3 ص 113 سیر اعلام النبلا ءجلد 1 ص403

Page 543

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 529 حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ حضرت جریر بن عبد اللہ الجیلی حضرت جریر بن عبد اللہ کا تعلق یمن کے قبیلہ بجیلہ سے تھا.بجیلہ بنت سعد اس قبیلہ کی ایک بہادر خاتون تھیں جن سے یہ قبیلہ منسوب ہوا.(1) حضرت جریر کی کنیت ابوعمر و یا ابوعبداللہ مشہور تھی.قبول اسلام حضرت جریر کے قبول اسلام میں اختلاف ہے.طبرانی کی ایک روایت حضرت جریر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مبعوث ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اسلام قبول کرنے حاضر ہوا ہوں.آپ نے اپنی چادر میری طرف پھینکی اور فرمایا جب کسی قوم کا سردار آئے تو اس کی عزت کرو.ابتدائی زمانہ میں قبول اسلام کی یہ روایت کمزور ہے.علامہ ابن حجر کے نزدیک یہ روایت قبول کرنے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مجاز جریر کی روایت کا یہ مطلب لیا جائے کہ جب انہیں رسول اللہ کی بعثت کا علم ہوا انہوں نے حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا.گویا انہیں تاخیر سے یہ پتہ چلا.احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت جریر حجۃ الوداع میں لوگوں کو خاموش کرانے پر مامور تھے.حضور نے اس موقع پر جو خاص نصیحت فرمائی کہ میرے بعد آپس میں جنگ و جدل نہ کرنا ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنا.جو حضرت جریڑ کو خوب یاد تھی.واقدی نے حضرت جریری کا قبول اسلام رمضان 10ھ بیان کیا ہے.مگر یہ محل نظر ہے کیونکہ بعض اور قرائن سے حضرت جریر کا زمانہ اسلام اس سے پہلے معلوم ہوتا ہے.طبرانی کے مطابق حضرت جریر کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہ نے ہمیں فرمایا کہ تمہارا بھائی نجاشی فوت ہو گیا ہے.اس کے جنازے کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور نجاشی کی وفات کا زمانہ فتح خیبر 7ھ کے بعد کا ہے.(2) جریر کا اعزاز و اکرام حضرت عبداللہ بن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ صحابہ کی

Page 544

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 530 حضرت جریر بن عبد الله المجلی رضی اللہ عنہ مجلس میں تھا جن میں اکثر اہل یمن تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نے کشفی نظارہ سے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر یہ اطلاع دی کہ تمہارے پاس یمن کا بہترین شخص آنے والا ہے.یمن کے ہر قبیلہ کے لوگ اس امید و بیم میں انتظار کرنے لگے کہ شاید وہ آنے والا ان کے قبیلہ سے ہو.پھر نا گہاں دیکھا تو حضرت عبد اللہ بن جریر گھائی سے گویا چاند بن کر طلوع ہوئے ، وہ آئے اور رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی خدمت میں سلام عرض کیا.سب نے سلام کا جواب دیا، نبی کریم ﷺ نے اپنی چادران کیلئے بچھادی اور فرمایا "جریر ! آئیں اس چادر پر تشریف رکھیں، آپ خود بھی ان کے ساتھ اس چادر پر کچھ دیر تشریف فرما ہوئے.جب آپ جانے کیلئے اٹھے تو صحابہ رسول نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آج ہم نے آپ سے جریر کیلئے اکرام کا ایسا عجیب منظر دیکھا جو اس سے پہلے کسی اور کیلئے نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا یہ اپنی قوم کے سردار ہیں اس لئے ان کا عزت و احترام واجب ہے.(3) خود حضرت جریر بیان کرتے تھے کہ ”جب میں مدینہ کے قریب پہنچا تو میں نے اپنی سواری کو بٹھایا پھر اپنا تھیلا کھول کر اپنی پوشاک نکال کر زیب تن کی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے تیار ہوا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضور خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں.لوگوں نے آنکھوں آنکھوں میں مجھے کچھ اشارے کئے.میں نے اپنے قریب بیٹھے ساتھی سے پوچھا " اے اللہ کے بندے کیا خدا کے رسول نے میرا ذکر کیا ہے اس نے کہا آپ کا بہت عمدہ ذکر کیا ہے.دراصل دوران خطبہ ہی نبی کریم ﷺ کو میری آمد کا نظارہ کرایا گیا تھا.آپ نے میری آمد کی پیشگی اطلاع دیتے ہوئے صحابہ سے فرمایا کہ اس کے چہرے پر سر داری یا شاہی نشان ہے.میں نے اللہ کی طرف سے اس انعام پر اس کی خوب حمد کی.(4) حضرت براء بن عازب کی روایت ہے کہ جب حضرت جریر حضور ﷺ کی اطلاع کے مطابق آ گئے تو انہوں نے حضور کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ کو سلام کر کے بیعت کی سعادت پائی اور ہجرت کر کے مدینہ کے ہور ہے.شفقت رسول حضور ﷺ نے ان کی آمد پر پوچھا کہ تم کون ہو انہوں نے بتایا جریر بن عبداللہ البجلی.رسول کریم ﷺ نے انہیں اپنے پہلو میں جگہ دی.از راہ شفقت و برکت ان کے سر، چہرے، سینے اور

Page 545

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 531 حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ پیٹ پر ہاتھ پھیرا، حضرت جریر کو اچانک نہ جانے کیا خیال آیا کہ کہیں حضور کا ہاتھ زیر زار نہ چلا جائے وہ از راہ حیاء و شرم فوراً آگے جھک کر کبڑے سے ہو گئے.رسول کریم میہ ان کی اس بے ساختہ حرکت پر بہت محظوظ ہوئے.(5) رسول کریم ہے تو ان کے اور ان کی اولاد کیلئے برکت کی دعا کر رہے تھے.یہ دعا اللہ تعالیٰ کے شکر کے اظہار کے طور پر بھی تھی جس نے پیشگی اس نیک فطرت کے آنے کی خبر اپنے رسول کو عطا فرما دی.اور اس بات کے پورا ہونے پر خوشی کا اظہار بھی !! معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جریر یا اللہ تعالیٰ سے علم پا کر استقبال اور ان کا شرم و حیاء سے کبڑے ہو جانے کا دلچسپ نظارہ ہر دفعہ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو یاد آ جاتا رہا اور آپ اس سے محفوظ ہوتے رہے.چنانچہ حضرت جریر بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا رسول اللہ نے کبھی مجھے ملاقات سے نہیں روکا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کی نظر مجھ پر پڑی ہو اور آپ مسکرائے نہ ہوں.بہر حال ہر دفعہ انہیں دیکھ کر مسکرا نا یقیناً معنی خیز تھا.حضرت جریر کہتے ہیں کہ بیعت کے وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ مجھے بیعت کی وہ شرائط بتا دیں جن پر مجھے قائم رہنا ہے.آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے فرض نماز ادا کروگے، زکوۃ دو گے، مسلمانوں کی خیر خواہی کرو گے، اور (دشمن) کافروں سے بیزاری ظاہر کرو گے.‘ ( 6 ) حضرت جریر نے آخر وقت تک اس عہد بیعت کو خوب نبھایا.حضرت جریر بہت خوبصورت اور خوش شکل انسان تھے.قد چھ فٹ سے بھی لمبا تھا پاؤں پورا ایک فٹ تھا.حضرت عمرؓ نے انہیں کسی کھیل کے میدان یا فوجی پریڈ میں مختصر لباس میں دیکھا تو چاک چوبند متناسب جسم اور متوازن اعضاء دیکھ کر کہنے لگے ”میں نے ایسا خوبصورت جسم والا حسین و جمیل شخص پہلے نہیں دیکھا البتہ حضرت یوسف کے ایسے حسن کا ذکر ضرور سن رکھا ہے.“ چنانچہ حضرت عمر حضرت جریری کو اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے.(7) دعائے رسول اور خدمات جریر نبی کریم ﷺ نے حضرت جریر کے سپر دو قتافوقتا اہم ذمہ داریاں کیں.مشرکین نے فتح مکہ

Page 546

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 532 حضرت جریر بن عبد الله المعلی رضی اللہ عنہ کے بعد خانہ کعبہ کے مقابل پر پہلے سے بنائے گئے دیگر معبدوں کو بت پرستی کے اڈے اور اسلام کے خلاف سازشوں کے گڑھ بنانا چاہا.ان میں ایک اڈہ کعبہ یمانیہ تھا.جو ذی الخلصہ میں شعم قبیلہ نے بنا رکھا تھا.نبی کریم ﷺ نے حضرت جریر سے فرمایا کہ کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے نجات نہیں دلاؤ گے؟ حضرت جریر ڈیڑھ صد گھوڑ سواروں کا ایک دستہ لے کر روانہ ہوئے.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں گھوڑے پر جم کر نہ بیٹھ سکتا تھا.رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تو آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا یہاں تک کہ میں نے آپ کی انگلیوں کے آثار اپنے سینہ میں دیکھے.آپ نے فرمایا اللَّهُمَّ ثَبَتْهُ وَ اجْعَلَهُ هَادِياً مَهْدِیا.اے اللہ اسے گھوڑے پر جمادے اور اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادے.رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا خوب قبول ہوئی.(8) حضرت جریر نے دعا کی بدولت کما حقہ یہ خدمت انجام دی.وہیں سے اپنا نمائندہ حضور کی خدمت میں بھجوایا کہ حسب ارشاد کام مکمل ہو گیا ہے.رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت حضرت جریر کو یمن میں ایک یہودی عالم نے خبر دی کہ تمہارے نبی آج وفات پاگئے ہیں.بعد میں اس کی تصدیق ہوئی کہ سوموار کے روز ہی رسول کریم علیہ فوت ہوئے تھے.(9) حضرت عمر کے زمانہ میں عراق ، قادسیہ اور تستر کی جنگوں میں حضرت جریر نے بہت کارنامے انجام دئے.جب عراق کی جنگوں میں بعض جگہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو انہوں نے مدینہ سے کمک منگوائی.انہی دنوں حضرت عمرؓ کے پاس حضرت جریر کے قبیلہ بجیلہ کا وفد آیا تھا.انہوں نے حضرت جر بڑ کو اس قبیلہ کا امیر لشکر مقرر کر کے انہیں بطور کمک بھجوایا.گویا یہ بجیلہ بٹالین یار جمنٹ بن گئی جس نے ان جنگوں میں بہادرانہ کارنامے سرانجام دئے.فتح قادسیہ میں حضرت جریری کا بڑا حصہ تھا.(10) اخلاق فاضلہ عہد بیعت کا خیال آخر دم تک تھا جسے خوب نبھایا.بہت باریکی سے اس کا خیال رکھتے.کہتے تھے.” میں نے رسول اللہ اللہ کی بیعت سننے اور اطاعت کرنے پر کی تھی اور اس بات پر کہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا.جب کسی سے سودا خریدتے اور وہ اس چیز کی قیمت کی نسبت زیادہ پسند

Page 547

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 533 حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ ہوتی تو عام لوگوں کے اسلوب سے ہٹ کر ہمدردی و خیر خواہی اور وفاء بیعت کے تقاضا سے کہتے." تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ جو ہم نے تم سے خریدا ہے وہ ہمیں اس سے زیادہ اچھا لگتا ہے جو ہم نے تمہیں اسکے عوض دیا ہے.یعنی دھوکے میں سودا نہیں ہوا.یہ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کا انداز تھا.(11) حضرت جریڑا کوفہ میں قیام پذیر تھے.کوفہ کے امیر حضرت مغیرہ بن شعبہ فوت ہو گئے حضرت جریر نے بظاہر بے نظمی اور انتشار کے اس ہنگامی موقع پر مسلمانوں کو متحد رکھنے اور اہل کوفہ سے کمال ہمدردی کرتے ہوئے ایک خطبہ دیا.اس میں کہا ” تمہارا امیر فوت ہو گیا ہے نئے امیر کے آنے تک امن سے انتظار کرو.لوگو! اپنے امیر کیلئے مغفرت طلب کرو.وہ بھی تم سے عفو سے کام لیتا تھا.جب میں نے رسول کریم ﷺ کی بیعت خیر خواہی کی شرط پر کی تھی.اس مسجد کے رب کی قسم میں تمہارا خیر خواہ ہو کر یہ کہہ رہا ہوں.“ (12) حضرت جریر کی سیرت کے نمایاں وصف نرمی ، انکسار اور تواضع تھے.وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا جو نرمی سے محروم ہے وہ خیر سے محروم ہے.حضرت انس کہتے ہیں جزایر مجھ سے عمر میں بڑے تھے مگر سفر میں میری خدمت کرتے اور کہتے آپ انصار مدینہ میں سے ہیں اور رسول اللہ اللہ کے خادم رہ چکے ہیں.(13) حضرت جریر قبول اسلام کے بعد ہمیشہ تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی سعی کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ اچانک نامحرم عورت پر نظر پڑ جائے تو انسان کیا کرے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ نظر پھیر لیا کریں.(14) حضرت جریر اپنا آنکھوں دیکھا ایک اور عجیب نظارہ میں بیان کرتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد انہوں نے دیکھا کہ کسی غریب قوم کے فاقہ سے بد حال لوگوں کا ایک وفد آیا.رسول اللہ ﷺ کا رنگ ان کی فاقہ کی حالت دیکھ کر متغیر ہو گیا.پھر حضور نے خطبہ دیا جس میں سورۃ نساء کی پہلی اور سورۃ حشر کی آیت (19) وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ پڑھی اور مالی امداد کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کی جو توفیق ہو درہم ، کپڑے، گندم، کھجور حتی کہ نصف کھجور کی بھی توفیق ہو تو دو.ایک انصاری کچھ کھجور میں لے آئے پھر دوسرا کچھ اور لے آیا.یہاں تک کہ غلے کھانے اور

Page 548

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 534 حضرت جریر بن عبد الله المجلی رضی اللہ عنہ کپڑوں کا ڈھیر جمع ہو گیا.اسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ دمک اٹھا.فرمایا ”جس نے نیک سنت قائم کی اسے اس کا اجر اور اس پر عمل کرنے والوں کو اجر ضرور ملے گا.‘ (15) حضرت جریر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے سفر پر نکلے سامنے سے ایک سوار آتا تھا.رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تمہاری طرف آنے کا ارادہ رکھتا ہے.پھر اس سے پوچھا کہاں سے آرہے ہو.اس نے کہا اپنے کنبہ سے.کہاں جانا ہے بولا رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ نے فرمایا.تم ان کے پاس پہنچ گئے اس نے ایمان کے بارہ میں پوچھ کر ارکان ایمان کو تسلیم کیا اور اسلام قبول کر لیا.رسول کریم ﷺہ اسے دوران سفر اسلام کی تعلیم دے رہے تھے، اس دوران اس کے اونٹ کا پاؤں چوہے کے بل میں پڑا اور وہ غیر متوازن ہو کر اچانک گرا.جس پر وہ گردن کے بل گرا اور وہیں اس کی موت واقع ہوگئی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ.حضرت عمارہ حضرت حذیفہ لے آئے اور عرض کیا کہ فوت ہو گیا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے دو فرشتوں کو اس کے منہ میں جنت کے پھل دیتے دیکھا اور میں سمجھ گیا کہ جب اسکی وفات ہوئی تو اسے بھوک لگی تھی.اس نے بے شک اس عرصہ میں بظاہر کم عمل کرنے کی توفیق پائی مگر قبول اسلام اور اخلاص میں بہت زیادہ اجر پانے والا بن گیا.(16) پھر یہ فرمایا ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارہ میں الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْم (انعام: 83) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا.یہی لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں.حضور اس کے دفن کرنے میں خود شریک ہوئے.جریر اہل بیت سے ہے حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جریر کے بارہ میں اپنے تعلق کا اظہار ان محبت بھرے الفاظ میں فرمایا تھا.جَرِيرٌ مِنَّا أَهلَ البَيتِ - جریر تو اس طرح ہمارا اہل بیت ہے.جس طرح پیٹ کے ساتھ

Page 549

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 535 حضرت جریر بن عبد الله المعلی رضی اللہ عنہ پشت جڑی ہوئی ہے.رسول کریم ﷺ نے یہ الفاظ اپنے روحانی رشتہ کے اظہار کیلئے یا تو حضرت سلمان فارسی کیلئے استعمال فرمائے جو رسول اللہ پر نہایت اخلاص سے ایمان لائے اور کمال اطاعت اور وفا سے اس پر قائم رہے.یہی محاورہ امت میں آنے والے امام مہدی کیلئے بھی استعمال کیا کہ وہ ہمارے اہل بیت سے ہو گا اور حضرت جریر کو بھی ان کی خالص محبت و اطاعت کی وجہ سے اہل بیت میں سے قرار دیا.(17) حضرت جریر ایک دفعہ حضرت عمر کی مجلس میں تھے.شرکاء مجلس میں سے کسی سے بد بو اٹھی تو حضرت عمر نے فرمایا کہ میں اس بد بو پیدا کرنے والے شخص کو یہ حکم دیتا ہوں کہ وہ اٹھے اور جا کر وضو کرے.حضرت جریر نے عرض کی امیر المومنین! آپ ہم سب کو یہ ارشاد فرما ئیں کہ ہم وضو کر کے آئیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں سب وضوء کر کے آئیں.پھر حضرت جریر سے فرمایا آپ جاہلیت میں بھی سردار تھے اور اسلام میں بھی سردار ہو.حضرت جریر کا ایک پر حکمت قول معروف ہے کہ گونگا بن جانا چرب زبانی و دھوکہ دہی سے بہتر ہے اور گونگا ہونا گالی گلوچ کرنے سے بہتر ہے.(18) رسول کریم ﷺ نے حضرت جریر کو یمن میں بعض قبائل پر نگران مقرر کر کے بھجوایا تھا.حضرت عمر کے زمانہ میں وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے.حضرت عمرؓ نے پوچھا آپ نے حضرت سعد کو ان کی امارت میں کیسا پایا؟ حضرت جریر نے کیا خوبصورت اور فصیح و بلیغ آنکھوں دیکھا حال بیان کیا انہوں نے کہا ” میں نے انہیں قدر و منزلت میں سب سے زیادہ باعزت اور معذرت میں سب سے عمدہ پایا.وہ اپنے عوام کیلئے ایک شفیق ماں کی طرح ہیں جو انہیں وحدت کی لڑی میں پروئے رکھتے ہیں اس پر مستزاد ان کے وجود کی برکت ہے، انہیں کلید فتح و ظفر نصیب ہے.اور وہ 66 مقابلہ میں بہت مضبوط اور غالب ہیں.اور لوگوں کو قریش میں سے سب سے زیادہ عزیز ہیں.“ حضرت عمرؓ نے فرمایا اب عوام کا حال سنائیں.اس پر حضرت جریر نے کہا اس کی مثال ترکش کے ملے جلے تیروں کی سی ہے جن میں کچھ سیدھے پر والے ہیں اور کچھ ٹیڑھے نشانہ لگنے والے اور سعد بن ابی وقاص ایک ماہر ذہین نشانہ باز کی طرح ان کے ٹیڑھے پن کو درست کرتا ہے باقی اے عمر! دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے.

Page 550

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 536 حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ نے پوچھا لوگوں کے اسلام اور دین کی کیا حالت ہے.انہوں نے کہا وہ اپنے وقت پر نماز میں ادا کرتے ہیں اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرتے ہیں.حضرت عمرؓ نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا الحمد للہ جب نماز ہوتی ہے اور زکوۃ ادا کی جاتی ہے اور جب تک اطاعت ہے تب تک جماعت ہے.حضرت علی کو آپ پر کامل اعتماد تھا.انہوں نے حضرت جری کو حضرت معاویہ کی طرف اپنا سفیر صلح بنا کر روانہ کیا تھا.حضرت معاویہؓ نے انہیں پہلے تو کافی دیر روک رکھا.پھر ان کے ساتھ ایک چمڑے کا ٹکڑا بطور نشانی محض ایک مہر لگا کر بغیر کسی تحریر کے بھجوایا.اور ساتھ اپنا ایک نمائندہ بھجوایا جو حضرت جریر سے ان کی گفتگو کا احوال خود بیان کرے.(19) حضرت جریر کی وفات 51 سے 54ھ کے درمیان ہوئی.آخری عمر میں کوفہ میں اور قرقیساء میں بھی سکونت فرمائی.-1 -2 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11 حواله جات مسند احمد جلد 4 ص 358 ،اسدالغابہ جلد 1 ص379 الاصابہ ج 1 ص 242 طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 372 احمد وطبرانی بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 372 طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 372 مسند احمد جلد 4 ص357 بخاری کتاب المغازی مسند احمد جلد 4 ص364 اصابہ ج 1 ص 242,243 اسد الغابہ جلد 1 ص279 استیعاب جلد 1 ص 309 مند جلد 4 س 364

Page 551

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم -12 -13 -14 -15 -16 -17 -18 -19 مسند احمد جلد 4 ص364 مسند احمد جلد 4 ص 366 مند جلد 4 ص 359 مسند احمد جلد 4 ص 359 اصابہ ج 1 ص 243 اصابہ ج 1 ص 243-242 استیعاب جلد 1 ص 310،309 استیعاب جلد 1 ص 310 537 حضرت جریر بن عبد الله المجلی رضی اللہ عنہ

Page 552

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 538 حضرت عبد اللہ ذوالجباویں رضی اللہ عنہ تعارف و قبول اسلام حضرت عبدالله و والبجادین عبد اللہ بن عبد منهم ذوالبجادین کا اصل نام عبد العزیٰ تھا.قبیلہ مزینہ سے تعلق رکھتے تھے.حضرت عبد اللہ بن مغفل کے چچا تھے.بچپن میں یتیم ہو گئے.چچانے ناز و نعم اور محبت شفقت سے پرورش کی.جب عبد اللہ تک اسلام کا پیغام پہنچا تو انہوں نے اسے قبول کر لیا.چچا کو پتہ چلا تو اس نے عبداللہ کی والدہ کے ایماء پر دھمکی دی کہ اگر تم دین محمد کی پیروی کرو گے تو جو کچھ میں نے تمہیں دیا ہے سب واپس لے لوں گا.عبداللہ نے کمال استقامت سے جواب دیا کہ اب تو میں مسلمان ہو چکا ہوں.ان حالات میں انہوں نے ترک وطن کر کے رسول اللہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کر لیا.رسول کریم ﷺ نے انہیں اس مشرکانہ نام عبد العزئی کی بجائے عبداللہ کا بابرکت نام اور ذوالبجادین کا لقب عطا فرمایا اور لقب کے پس منظر میں حضرت عبداللہ کے قبول اسلام اور قربانی کی دردناک داستان آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کر دی.عبداللہ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی قوم کے لوگوں نے ان کے کپڑے تک اتار لئے.والدہ رہ نہ سکی اور ایک موٹی چادر اپنے بیٹے کو اوڑھادی.عبداللہ نسب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنا اسلام بچا کر اسی چادر میں گھر سے بھاگ نکلے.ارادہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آنے کا تھا.جب مدینہ کے قریب میں اس چادر کے دوٹکڑے کر کے نصف کا تہ بند بنایا اور دوسری نصف اوپر اوڑھ لی.مدینہ پہنچے.صبح کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺ کی نظر پڑی تو آپ نے نو وارد اجنبی پاکر پوچھا کہ آپ کون ہو؟ کہا عبد العزیٰ فرمایا نہیں تم آج سے عبداللہ ذوالبجادین ہو یعنی دو چادروں کے ٹکڑوں والے.بس تم میرے در پر دھونی مار کے بیٹھ رہو اور یہ وفا شعار رسول اللہ ﷺ کے در کا مجاور ہو گیا.دن رات بآواز بلند قرآن پڑھنے کا شغل رہتایا تسبیح وتحمید اور تکبیر میں وقت گزرتا.(1)

Page 553

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 539 حضرت عبداللہ ذوالجباویں رضی اللہ عنہ حسن متلاوت حضرت ابن الا در بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی ڈیوٹی پر مامور تھا.ایک رات حضور کسی کام سے باہر نکلے تو مجھے ڈیوٹی پر موجود پا کر میرا ہاتھ پکڑا.ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآواز بلند قرآن پڑھ رہا تھا.نبی کریم ﷺ نے تلاوت کا لہجہ سن کرفرمایا یہ کوئی ریا کار معلوم ہوتا ہے.ابن الا دریغ نے عرض کیا یہ شخص تو نماز میں بآواز بلند قرآن پڑھ رہا ہے.فرمایا تم یہ چیز زبر دستی اور طاقت سے حاصل نہیں کر سکتے.پھر ایک اور رات ایسا ہوا کہ میں حفاظت کی ڈیوٹی دے رہا تھا.رسول کریم میں کسی کام سے باہر تشریف لائے اور ہم ایک اور شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بلند آواز قرآن کی تلاوت کر رہا تھا.تب میں نے عرض کیا یہ بھی کہیں کوئی ریا کار نہ ہو.نبی کریم ﷺ نے اس کی آواز سن کر فرمایا نہیں نہیں.یہ تو عاجز اور جھکنے والا بندہ معلوم ہوتا ہے میں نے جا کر دیکھا تو عبداللہ ذوالبجادین تھے.(2) دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے ان کی بلند آواز تلاوت سن کر پوچھا یا رسول اللہ یہ ریا کار تو نہیں ہے فرما یار بہنے دو.وہ یقیناً دردمند دل والا انسان ہے.حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم نے ایک شخص کے بارہ میں جسے ذوالبجادین کہتے تھے فرمایا کہ یہ بڑا دردمند دل رکھنے والا ہے وجہ یہ تھی کہ وہ قرآن شریف کی تلاوت بڑی کثرت سے کرتا تھا اور بآواز بلند دعا بھی کرتا تھا.‘ (3) دعائے رسول اور انجام بخیر حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے.میں آدھی رات کو بیدار ہوا تو لشکر کے ایک حصہ میں آگ کے شعلہ کی روشنی دیکھی.وہاں پہنچا تو عبداللہ ذوالبجادین وفات پاچکے ہیں اور رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر عمر وہاں موجود ہیں.(4) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے تھے کہ اب بھی مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب غزوہ تبوک میں ذوالبجادین کی قبر میں اترے ہوئے تھے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر انہیں قبر میں اتار

Page 554

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 540 حضرت عبد اللہ ذوالجہادیں رضی اللہ عنہ رہے تھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.اپنے بھائی کو میرے قریب کرو.آپ نے قبلہ رخ سے انہیں لیا اور حد میں خود اپنے ہاتھوں سے اتارا.پھر رسول اللہ یہ قبر سے باہر تشریف لائے اور صحابہ نے قبر تیار کی.جب فارغ ہوئے تو رسول کریم نے قبلہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اللَّهُم إِنِّي أَمَسَيتُ عَنهُ راضِياً فَارض عَنهُ.اے اللہ میں اس سے راضی تھا تو بھی اس سے راضی ہو جانا.(5) حضرت عبداللہ بن مسعود کہا کرتے تھے کہ میں نے ذوالبجادین سے پندرہ سال قبل اسلام قبول کیا تھا.اس وقت میری دلی تمنا ہوئی کہ اے کاش! آج ذوالبجادین کی جگہ میں اس قبر میں دفن ہوتا اور رسول اللہ علیہ کی اس دعا کا وارث ٹھہرتا.(6) خوش نصیب تھے عبداللہ جو انجام بخیر کے ساتھ اس حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ رسول خدا ﷺ کی دعائے خاص کے وارث ہوئے.آپ سے حضرت عمر و بن عوف مزنی صحابی رسول بعض احادیث کے راوی ہیں.-1 -2 -3 -4 -5 -6 حواله جات اسد الغابہ جلد 3 ص 122,123 ، استیعاب جلد 3 ص 125 احمد بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 369 احمد بحوالہ مجمع الزوائد جلد 9 ص 369 اصابه جز 4 ص 98 مجمع الزوائد جلد 9 ص369 اسدالغابہ جلد 3 ص123

Page 555

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام و تعارف 541 حضرت زاہر بن حرام حضرت زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ حضرت زاہر ابن حرام کا تعلق بنا مجمع قبیلہ سے تھا.انہیں نبی کریم کے ساتھ غزوہ بدر میں شرکت کی توفیق ملی.حضرت انس اور حضرت سالم بیان کرتے تھے کہ زاہر بن حرام صحابی رسول صحراء کے رہنے والے تھے.وہ رسول کریم ﷺے کیلئے صحراء سے تھے لیکر آیا کرتے تھے.جب وہ واپس گاؤں جانے لگتے تو نبی کریم نے انہیں تحائف عطا فرما کر رخصت کرتے اور فرماتے زاہر ہمارا دیہاتی اور ہم اس کے شہری ہیں.ہر چند کہ زاہر ایک بالکل سادہ اور ادنیٰ سی شکل کا آدمی تھا.رسول کریم ہے اس کی سادگی اور اخلاص کی وجہ سے اس سے بہت محبت کرتے تھے.محبت رسول کے مورد ایک روز زاہرا پنا سامان فروخت کرنے گاؤں سے شہر آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی بجائے سیدھا گاؤں بازار سودا بیچنے چلے گئے.رسول کریم ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ منڈی میں اپنا سودا بیچ رہے ہیں.آپ نے اپنی محبت کے اظہار کیلئے پہلے تو زاہر کو کندھوں کے پیچھے سے پکڑ کر چھی ڈال لی پھر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے.ان کا منہ دوسری طرف تھا.حضور یہ کو دیکھ نہیں سکے.اپنے دھیان میں ہی کہنے لگے ، کون ہو مجھے چھوڑ دو! پھر جو گردن گھمائی تو دیکھا کہ رسول خدا ﷺ میں پہلے تو فرط محبت میں آپ کا ہاتھ چوما.پھر اپنے لاڈ اور پیار کا اظہار کرتے ہوئے خوشی سے اپنی پشت حضور کے سینہ سے ملنے لگے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی ہے جو اس غلام کو خریدے؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! پھر تو آپ مجھے بہت کم قیمت پائیں گے.نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں نہیں تم کم قیمت نہیں.اللہ کے ہاں تمہاری بڑی قدر ہے.دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا اللہ کے نزدیک تم بہت منافع پانے والے ہو.نیز یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ” ہر شہری کا کوئی دیہاتی ( رابطہ ) ہوتا ہے اور آل

Page 556

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 542 حضرت زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ محمد ﷺ کا دیہاتی زاہر بن حرام ہے.زاہر بعد میں کوفہ منتقل ہو گئے تھے.(1) حواله جات مسند احمد جلد 3 ص 161 - مجمع الزوائد جلد 9 ص 368 اصابہ ج 3 ص 2 اسد الغابہ جلد 2 ص192 ، جلد 3 ص 112 استیعاب جلد 2 ص 88

Page 557

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 543 آیات قرآنی انڈیکس مضامین سیرت صحابہ لن تنالو البر حتى تُنفقوا....434 انما اشكوبَتِي وحزني الى الله 61 انفرُوا خفافاً وثقالاً وجاهدوا.438،328 فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم 87 وان منكم الا واردها وكان الانسان اکثر شئى جدلا 108 | فَذَكَّر إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّر والذين هم لامانا تهم وعهدهم.130 فمنهم من قضى نحبه.لا تجد قوماً يومنون با الله.......469 488 497 132 وَتَمَت كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدقاً وعدلاً 521 و ان جاهداک علی...کم ترکو امن جنات وعيون 161 167 قَاماً مَنْ أُوتِيَ كِتابه بيمينِه فَيَقُولُ...253 أقم الصلواة طرفي النهار....ولتنظر نفس ما قدمت لغد احادیث للذين أحسنو الحسنى وزيادة....270 | اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.| آیتِ تیمم اور اس کا موقعہ نزول 374 524 533 58 58 فلما قضى زيد منها وطراً.....311 حضرت عمرؓ اس امت کے محدث ہیں اس شیطان حضرت عمرؓ کی راہ چھوڑ دیتا ہے.69 399 حضور کا حضرت عثمان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ 83 عظیم آیت آیتہ الکرسی قل بفضل الله وبرحمة 399 | آپ تمشرکین کا کھانا تناول کرنا نا پسند الله.يايها الذين امنوا اسْتَجيبوا لا 400 مجھے سات وزراء دیئے گئے ہیں 403 السلام علیکم کہنے پر دس نیکیاں 173 328 347 لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءِ ان وهبت نفسها للنبي.404 حضرت سعد کی موت پر خدا کا عرش جھوم گیا 361 و لنذيقنهم من العذاب الأدنى....404 خدا کی خاطر محبت، خدا کی خاطر ناراضگی 395 مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ قتلو اتقتيلاً...408 خدا تعالیٰ کا بندہ پر حق 409 پہلے عورت کی خبر گیری کرو 416 434 سُنةَ الله في الذين خَلو....409,410 سات باتوں کا حکم اور سات کی ممانعت 493 | کی تتجافى جنُوبُهُم عَنِ المَضَاجِع...417 لو كان الايمان عند الثريا لناله رجل 509 كانَ أُمَّةً قانتا لله حنيفاً.426

Page 558

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیوی کا تم پر حق ہے.جرير منا اهل البيت 544 522 الله 534 اللہ تعالیٰ کا فیصلہ جو لوگ مر جائیں.وہ لوٹ کر نہیں آتے آزادی آزادی پر غلامی کو ترجیح 309 اللہ کی کتاب پہلے زبانی یاد کر نیوالے 477 273 حضرت بلال علمی آزادی اللہ تعالیٰ کا حکم کہ ابی حضور کو قرآن سنائیں 398 290 حضرت خباب کی آزادی 337 | اجازت حضرت سنان کی آزادی کی قیمت 518 حضرت عمر اجازت سے مدینہ میں ٹھہرے 322 آنسو اجتہاد شہادت حضرت جعفر پر آنحضور کے آنسو.235 اجتہاد کا حکم حضرت مصعب کی حالت زار پر آنسور 241 ابتلاء ازواج 420 حضرت عبدالرحمن کی ازواج رسول کی خدمت 156 صلح حدیبیہ پر حضرت عمر کو بتلاء کا پیش آنا 47 اسلامی بیره نیک لوگ ابتلاء کا سامنا کرتے ہیں.161 عہد عثمانی میں پہلا اسلامی بیڑہ اذان الہام 438 سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان دی 292 حضرت عمر کی الہام سے مناسبت حضرت عبداللہ بن زید گورویا میں اذان کے الفاظ 292 امیر 58 مدینہ میں حضرت بلال کی آخری اذان 299 حضرت عمر، حضرت اسامہ سے ملتے تو کہتے اے حضرت بلال کی آذان پر مدینہ میں کہرام 298 امیر! حضرت ابو بکر میر حج بنائے گئے اذان بلال میں الصلوة خير من النوم کے امین 322 الفاظ کا اذان فجر میں شامل ہونا اطاعت 293 حضرت ابو عبید امین امت انکسار شراب کے مٹکے تو ڑ دیئے گئے 435 حضرت عمر کا انکسار اطاعت تک جماعت ہے.اطاعت رسول 535 حضرت ابو بکر کی تواضع و انکساری 473.400.27 130-136 67-68 27

Page 559

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امیر المومنین 545 بخل حضرت عمر اور امیر المومنین کا لقب 73 بخل سے بری کوئی بیماری نہیں.انفاق حضرت طلحہ بن عبید اللہ بخیل نہ تھے حضرت طلحہ اور انفاق سبیل اللہ 198 بلال امارت حضرت بلال کو امیہ کا تکالیف دینا حضور ” بھنا ہوا گوشت کھا لیتے تھے.حضرت اسامہ کی امارت پر اعتراض 322 بہادری حضرت محمد بن مسلمہ کا مدینہ میں امیر مقرر ہونا حضرت ابودجانہ کی غیر معمولی بہادری 450-449 حضرت سعد بن ابی وقاص کی بہادری 391 200 289 298 444 حضرت سعد کی امارت امامت حضرت معاذ کی دو دفعہ امامت انکسار حضرت براء بن عازب کا انکسار 534 415 492 حضرت علی کی بہادری 163-164-165 106-109-110 193 حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی بہادری حضرت براین مالک کی بہادری 497-496 بیت المقدس حضرت عمرؓ نے بیت المقدس میں نماز ادا نہیں کی 71 ایمان آئیں ایمان تازہ کریں 473-474 | بیعت سمجھ کر کرنا ایثار بیعت رضوان حضرت سعد بن ربیع کی عبد الرحمن کو دو بیویوں میں بیعت کے نتیجہ میں عرب سے دشمنی سے ایک کو طلاق دے کر نکاح کی پیشکش 149 اہل بیت جریر اہل بیت سے ہے 339 83 339 بیت المال سے شہد لینے کے لئے حضرت عمر کا اجازت لینا.534 بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلنا 67 348 بکمری بصیرت.حضرت ابو بکر کا فہم و بصیرت 25 نے نفسی.حضرت ابو عبیدہ کی بے نفسی 144 دودھ د دینے والی بکری ذبح نہ کرنا بخار.حضرت بلال اور حضرت ابو بکر کا بخار میں مبتلا رسول اللہ نے بکری کا دودھ پیا ہونا.291-292 349 325

Page 560

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نبی کریم نے بکریاں چرائیں 546 489 دودھ کی تعبیر علم پہلا شخص جس نے گھوڑے پر جہاد کیا 326 تیمارداری پیدل.حضرت ابوبکر گا حضرت اسامہ کے گھوڑے حضرت عثمان اور بیوی کی تیمار داری کے ساتھ پیدل چلنا 322 تقوی پانی.کنوئیں کا خشک پانی رسول اللہ کی دعا سے اٹھنے تقویٰ کے نتیجہ میں نور ماتا ہے.لگا 491 تجارت میں برکت پتھر.بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے 481 توریت کے مطابق فیصلہ پھل.پھل میں برکت پڑ گئی.480 پتھر.رسول اللہ کی ضرب سے پتھر کا ٹوٹنا 520 پہرہ.حضرت عمرؓ نے ایک قافلہ کا پہرہ دیا 72 تقدیر مسئلہ تقدیر تقریر 57 81 377 366 358 342 حضرت عمر کی خلافت کے بعد پہلی تقریر 50 پشت.حضرت طلحہ کا رسول اللہ کو اپنی پشت پر سوار کرنا کیا 196-197 حضرت مقداد کی پر جوش تقریر 327 حضرت عثمان کی خلافت کے بعد پہلی تقریر 84 تبلیغ بیٹے کا باپ کو تبلیغ کرنا392 حضرت عبدالرحمن بن عوف کی تبلیغ 150 حضرت عثمان کی آخری تقریر 84 حضرت ابو بکر کی وفات پر حضرت علی کی تقریر 33 حضرت خالد بن ولید کا یمن میں تبلیغ کرنا 115 حضرت علی کا یمن میں تبلیغ کرنا 115 تربیت حضرت ابوبکر کی تبلیغ سے مکہ کے مایہ ناز فرزند اسلام حضرت زبیر بن عوام کا تربیت اولاد لائے تبرک 8 تراویح حضرت ابی ، نماز تروایح کے امام 189 407 حضرت ابوطلحہ رسول اللہ کے کے بال بطور تبرک حضرت عمر و جنگ میں جانے کیلئے 394-393 حاصل کرتے تھے.متحمل.حضرت عمر کا تمل 430 68 تجارت حضرت ابو بکر کپڑے کی تجارت کرتے تھے 1 حضرت زبیر بن عوام تجارت کرتے تھے 188 تیرا تلوار آسمان پھٹنے سے مراد شہادت کا نصیب ہونا.380 مسلمان پر تلوار اٹھانے کی بجائے گھر بیٹھ رہنا.چاند کی تعبیر کہ نبی موعود کو ماننے کی توفیق ملے گی 1

Page 561

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 547 450-451 کی عبادت بجالانا ،نماز، زکوۃ،رمضان کے روزے رسول اللہ کی تلوار کا حق ادا ہوتا ہے.443 رکھا ، حج کرنا.417 417 ابو طلحہ انصاری زبر دست تیرانداز 436 جنت کا دروازہ.لاحول ولاقوۃ الا باللہ 435 جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے صحابی 342 اونگھ سے تلوار کا گرنا حضرت عبداللہ کے اشعار تلوار سے زیادہ کارگر جنت حضرت مقداد کی مشتاق ہے 465 حضرت ابو عبیدہ کو جنت کی بشارت 328 447 حضرت سعد بن ابی وقاص پہلے تیر انداز 163 جنت میں لنگڑے پاؤں والے کا داخل ہونا 394 حضرت صہیب بہترین تیرانداز تھے 266 حضرت زبیر کو جنت کی بشارت جنگ 187 جانشین رسول اللہ کا حضرت ابن رواحہ کو مدینہ میں جانشین آنحضرت کی قریش مکہ سے جنگ دفاعی تھی 134 مقررفرمانا.جاسوس 462 جاہلیت کے تمام خون بہا معاف جہاد 261 حضرت عمر نے یہودی جاسوس گرفتار کئے 48 حضرت سعید بن زید کی جہاد میں شرکت 176 جمعہ جمع قرآن 17 جمعہ آداب کے ساتھ جمعہ کی ادائیگی سے سابقہ جمعہ مدینہ میں پہلا جمعہ حضرت اسعد نے پڑھایا گناہوں کا کفارہ جنت جنت میں لے جانے والا عمل 523 ام سلیم کا جذبہ و بہادری 301 جھنڈا 340 437 اپنے لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جو بلال کے جھنڈے تلے آئے گا امان پائے گا جاؤں گا.394 حضرت زید دوڑتے ہوئے جنت میں داخل ہوئے جنازہ 296 315 حضرت سعد کے جنازہ کو رسول اللہ نے کندھا دیا ام یمن سے شادی کرنے والے کو جنت کی بشارت 310 جنت میں لے جانے والے ذرائع.شرک نہ کرنا ، خدا 360

Page 562

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چوری 548 علمی خدمات حضرت انس کی 506,507 بنی مخزوم کی عورت کا چوری کرنا اور حضرت اسامہ کی خیر و برکت مال سے نہیں بلکہ حلم وعلم سے ملتی ہے سفارش اور رسول اللہ کی ناراضگی چادر 320 حيت رسول اللہ نے حضرت جریر کیلئے چادر بچھائی 529 حضرت عمر کی خشیت الہی حفاظت مدینہ کی حفاظت.حضرت زبیر بن عوام کی خشیت الہی 15 خلق اخلاق فاضلہ حلال وحرام کے بارہ میں واضح ارشاد 524 حضرت علی کے اخلاق فاضلہ حمل ساقط ہونے کی دیت حفاظت رسول میں جان کی قربانی 525 61 188 122 170 455 حضرت سعد بن ابی وقاص کے اخلاق 256 حضرت عبدالرحمن بن عوف کے اخلاق فاضلہ 460 حضرت ابو عبیدہ کا اخلاق و کردار 128 23 جو شخص اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل 154-153 ہوگا.حق مہر اسلام قبول کرنا ہی حق مہر ہے 428 حضرت ابوبکر کے اعلیٰ اخلاق حق گوئی حضرت سعید بن زید کی حق گوئی 177 خلافت ابوبکر کا آغاز خدمات حضرت عثمان کے اخلاق فاضلہ حضرت ابن مسعود کا اہم خدمات رسول بجالا نا275 اخلاق فاضلہ (حضرت جریر کے ) لوگوں سے حسن خلق سے پیش آنا 162 30 حضرت سعد بن ابی وقاص کی خدمات حضرت ابو بکر کی خدمت خلق حضرت طلحہ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے رسول اللہ پر خرچ کرنے کا دوہرا اجر 277 خلافت 90 532 420 197 خادم حضرت خدیجہ کا خادم رسول اللہ کی خدمت حضرت عبدالرحمن بن عوف کا قیام خلافت میں کردار 306 یہ بچہ انس آپ کی خدمت کرے گا 503 حضرت عمر کا خلافت کمیٹی بنانا حضرت عمرؓ کی رسول اللہ کے مقبرہ میں دفن ہونے کی حضرت علی کا انتخاب خلافت خواہش 54 151 55 117 حضرت علی کا خلفائے راشدہ کے دور میں خدمات دینی خدمات حضرت انس کی 505-504 بجالانا | 116

Page 563

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 549 خندق حضرت سلمان فارسی کے مشورہ 520 | انت تضحك حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی خلافت سے وفا 195 رسول اللہ نے حضرت مقداد کے حق میں دعا کی داغنا 501 326 357 آنحضرت کی حضرت خباب کے حق میں دعائے داغنے سے زخم کا علاج حضرت سعد کا زخم داغا گیا 357 نصرت دعوت الی اللہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی دعوت الی اللہ 274 حضرت مصعب ایک کامیاب داعی الی اللہ 241 | میدان وغا میں دعوت الی اللہ دعا 140 حضرت زید کا دعا کرنا اور قتل سے بچ جانا 313 رسول اللہ کی حضرت سعد بن معاد کیلئے دعا 359 حضرت عمر کی قبولیت دعا 60 332 402 حضرت ابی بن کعب کی دعا کا قبول ہونا رسول اللہ کی حضرت عباد بن بشر انصاری پر رحم کیلئے دعا 379 رسول اللہ کی حضرت انس بن مالک کیلئے دعائے برکت 504 رسول اللہ کی حضرت عبداللہ ذوالبجادین کیلئے دعائے رضا دعا کی وجہ سے کھانے میں برکت پڑنا اونٹ کیلئے رسول اللہ کی دعا حضرت سعد کے حق میں رسول اللہ کا دعا کرنا 165 دعا سے معجزہ رونما ہونا 177 539 482 483 480 رسول اللہ کی حضرت جریر کیلئے دعائے ہدایت 531 حضرت سعید بن زید کی قبولیت دعا رسول اللہ نے حضرت ابوبکر کے سوال پر یہ دعا رسول اللہ کی حضرت عبد اللہ بن رواحہ کیلئے دعا489 سکھائی.اللهم انی ظلمت نفسی حضور کی ایک دعا اللهم بك احول..23 271 رسول اللہ کی حضرت حسین اور حضرت اسامہ کیلئے دعا حضرت سعد کی دعا کا قبول ہونا 357 حضرت انس کی دعا سے بارش برسی حضرت کعب کی حضرت سعد کیلئے دعا 340 رسول اللہ کی تین دعاؤں میں سے دو قبول 336 حضرت عمر کی دعائے شہادت 394 حضور کا بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا 481 حضرت عبداللہ بن رواحہ کی دلیری دادی کا وراثت میں حصہ درود شریف 319 506 463 454 رسول اللہ کی حضرت طلحہ بن براء کیلئے دعائے درود پڑھنے سے درجات بلند ہوتے ہیں 403 ، یضحک الیک و رضائے باری - اللهم القه یضحک الیک و درود پڑھنے سے گناہ بخشے جاتے ہیں 403

Page 564

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 550 درود پڑھنے سے اللہ تعالیٰ غم کا متکفل ہو جاتا ہے انداز 403 حضرت مقداد کی شادی کا اہتمام رسول اللہ پر کثرت سے درود بھیجنا 402 آپ ﷺ کی وراثت کا فیصلہ 439 آپ ﷺ کی ضیافت کا فیض نبی کریم پر دفعہ درود دعوت آپ مکہ کا سعد کی عیادت کرنا جنگ خندق میں حضرت جابر نے رسول اللہ کی آپ کی مدینہ آمد اور شاندار استقبال دعوت کی و هوپ 481 آپ کی مدح مصیبت کے وقت آپ کی دعا 540 327 17 325 357 456 468.467.466 حضرت خباب گوزرہ پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیا جاتا آپ کی آواز پر نماز کا مختصر کرنا 314 کلمہ گو کوقتل کرنے پر آپ کی ناراضگی دودھ آپ گوشت کی خواہش حضرت مقداد نے بکری کا دودھ دھو کر رسول اللہ کو جسے آپ نے قائد بنایا وہی قائد ہوگا 325 آپ کا حضرت زید کا بوسہ لینا پلایا حضرت مقداد نے رسول اللہ کے حصہ کا دودھ پی لیا آپ کا حضرت سلمان گوسونا دینا رازدان 254 400 321 388 323 314 519 255 حضرت ابو بکر کا حضرت بلال پر رشک کرنا 302 رحمت اللہ کی خاطر محبت سے نزول رحمت 425 ہر نبی کا راز دان ہوتا ہے 350 رونا.کھجور کے تنے سے رونے کی آواز کا آنا 406 رجم.آیت رجم کا مسئلہ 408 | رواداری رسول اللہ کی رفاقت کی خواہش 276 حضرت ابو عبیدہ کی رواداری 145 رسول اللہ کے بعد مسلمانوں کی حالت 14 رویا رسول اللہ کا حضرت اسامہ کا خون صاف کرنا 319 حضور کارویا میں حضرت عمر کو دودھ دینا.57 297 حضور ﷺ کا رویا میں ڈول کے ذریعہ سے پانی نکالنا آپ ﷺ کی سچائی کا نشان آپ ﷺ نے سرخ پوشاک نہیں پہنچی 492 پھر ابو بکر پھر عمر 57 آپ کا یہود کے پاس حضرت جابر کیلئے سفارش 478 حضرت عمر نے اذان کے متعلق خواب دیکھا 46 آپ کا ایک بدو زاھر سے اظہار شفقت کا منفرد |

Page 565

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 551 حضرت سعد بن ابی وقاص نے رویا ء دیکھا کہا یک روشن حضرت براء بن مالک کی شجاعت چاند کے پیچھے چلتا ہوں.خواب دیکھا کہ آسمان پھٹا ہے 160 شہادت.حضرت عثمان کی شہادت 380 شہادت کی تمنا 497،470 485 70 حضرت معاذ بن جبل کی خواب کہ پانی میں ڈوب رہا حضرت عبداللہ کی زندہ ہوکر پھر شہید ہونے کی ہوں روحانی مقام حضرت سعد 421 خواہش 362 زید کی شہادت حضرت ابو بکر نے دیکھا کہ مکہ میں چاند اترا ہے 1 دوبارہ شہادت کی خواہش زكوة 477 315 389 حضرت عمرو بن جموح کا شہادت کی آرزو کرنا 393 زکوۃ میں بہتر اونٹنی دیتا ہوں.404 حضرت علی کی شہادت.زره حضرت خباب کو ان کا آقا زرہ پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیتا 331 حضرت عمر کی شہادت شکست.رومی لشکر کو شکست دینا شریعت مسلم کذاب کی نئی شریعت سادگی.حضرت عمر کی زندگی انتہائی سادہ تھی.66 شعر پڑہتے ہوئے میدان جنگ کی طرف جانا حضرت عثمان کی سادگی.92.91 120 52 139 495 356 حضرت فاطمہ کی شادی میں سادگی 107 106 حضرت حسان کے حضرت جعفر کی شہادت پر اشعار سخاوت.حضرت عثمان کی سخاوت سزا.چوری کی سزا سعادت حضرت زید کی سعادت 238 غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے جانے والے اشعار 93 320 64,465 312 سنت.حضرت عثمان اور اتباع سنت رسول 91 حضرت عمر اور صہیب کے مابین سوال وجواب شجاعت.حضرت ابوبکر کی شجاعت حضرت عبداللہ بن رواحہ ایک بلند پایہ شاعر تھے 464 269 صبر قبول اسلام کے بعد حضرت عمر کا صبر 46 29 حضرت طلحہ کی میدان جنگ میں شجاعت 430 حضرت سعد بن ابی وقاص کی شجاعت 161 حضرت زبیر کی شجاعت 186،185،184،182 حضرت خباب کا تکالیف پر صبر حضرت عثمان کا صبر صبر پر قدم مارتے جاؤ کمال صبر کا مظاہرہ 333 80 334 433

Page 566

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 552 صحابہ کاموت پر بیعت کرنا 442 حضرت طلحہ بن براء انصاری کا عشق رسول 500 523 حضرت مصعب علم اسلامی کی حفاظت کرتے ہیں صفائی صدق 246 صدق دل سے کلمہ پڑھنے سے دوزخ حرام 416 عربوں میں شریف النفس عثمان بن ابی طلحہ 252 96 حضرت عثمان کا حضرت عبد اللہ کو امیر کوفہ مقرر صلہ رحمی.حضرت عثمان کی صلہ رحمی صلح عیسائیوں کی حضرت خالد سے تحریری صلح 138 فرمانا طواف حضرت سعد بن معاذ کا ہجرت کے بعد طواف کعبہ کرنا 354 278 عورت.حضرت عمر کا ایک عورت کی مدد کرنا 70 عورتوں کو صبر کی تلقین 253 نکاح سے قبل عورت کو دیکھنے کی اجازت 454 434 حضرت سعد بن ربیع کا حضرت عبد الرحمن بن عوف پہلے عورت کی خبر لو کے لئے طاعون اللہ تعالیٰ کی رحمت 422,423 عرب عربوں سے بغض رسول اللہ سے بغض ہے طلاق اسلامی بھائی کی خاطر ایک بیوی کو طلاق دینے پر 365 عمل کم اجر زیادہ غزوه 524 533 حضرت زید کا حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دینا غزوہ خیبر میں حضرت صفیہ نیا حضور کے عقد میں آنا آمادہ ہونا زید عبادت.حضرت عمر کا شوق عبادت 311 59 غنیمت 458 عدل.حضرت عمر کا قاضی کو عدل کی طرف متوجہ کرنا غزوہ حنین میں حضرت عبادہ مال غنیمت کے نگران حضرت عثمان کا عدل.عشق عشق رسول الله حضرت ابو بکر سکا عشق رسول الله 71 92 458 29 379 غلطی.حضرت عمرنا اپنی غلطی کا اعتراف کرنا 68 فتنہ فتنوں کے بارہ میں حضرت علی کا جواب 118 فتنوں پر حضرت عثمان کا صبر 86 حضرت علی سما عشق رسول الله 104 حضرت عثمان کے دور کے فتنے اور ان کا سد باب حضرت انس نما عشق رسول صل الله سعد بن ربیع عاشق رسول 505 367 85 فتوحات، حضرت عمرؓ کے دور کی فتوحات 51

Page 567

311 312 397 414 553 سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان کے دور کی فتوحات 85 دینا فتوحات ایران 19 | قرآن فرشتہ، حضرت عبدالرحمان کے پاس فرشتوں کا آنا حضرت زید بن حارثہ کا ذکر قرآن میں 157 | قاری فرشتوں کا تلاوت سننا 376 بہترین قاری ابی بن کعب عبداللہ پر فرشتوں کا سائیہ 476 | قراء حضرت سلمان فارسی کا فرشتوں کو دیکھنا 526 چار قراء سے قرآن سیکھنے کی ہدایت فضائل قبول اسلام حضرت ابوبکر کے فضائل 32.21 حضرت ابوبکر کا قبول اسلام حضرت علی کے فضائل 118 ، 125 ، 126 حضرت عمر کا قبول اسلام حضرت بلال کے فضائل حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے فضائل 300 200 حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا قبول اسلام حضرت علیؓ کا قبول اسلام آنحضرت کے شہسوار حضرت محمد بن مسلمہ 447 حضرت عثمان کا قبول اسلام فتنہ.حضرت محمد مسلمہ کوکوئی نقصان نہ پہنچا سکے 451 43 192 103 78 حضرت سعد بن ابی وقاص کا قبولِ اسلام 160 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قبول اسلام فتنہ سے محفوظ رہنے والے چار اصحاب رسول سعد بن حضرت زبیر بن عوام کا قبول اسلام مالک ،عبداللہ بن عمر، محمد بن مسلم، اسامہ بن زید قرآن پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی 321 487 حضرت خباب کا قبول اسلام حضرت سعید بن زید کا قبول اسلام 273 181 331 175 240 حضرت سلمان فارسی کا قبول اسلام 519،510 قرض حضرت بلال کے قرض کی ادائیگی 294,295 قرض والے شخص کی نماز جنازہ ادا نہ کرنا 488 قیدی.حضرت زید کا قیدی بننا 306 حضرت مصعب کا قبول اسلام حضرت عبدالرحمان بن عوف کا قبول اسلام 148 حضرت ابوعبیدہ کا قبولِ اسلام حضرت خارجہ کا قبول اسلام 128 344 حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کا قبول اسلام 387 قیافہ.قیافہ شناس کا اسامہ کو حضرت زید کا بیٹا قرار حضرت صہیب کا قبول اسلام 264

Page 568

479 518 321 335 554 227 سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جعفر کا قبول اسلام حضرت اسید بن حضیر کا قبول اسلام 371 کھجوروں میں برکت پڑنا حضرت ابوالہیثم کا قبول اسلام 346 رسول اللہ کا کھجور کے پودے لگانا حضرت ابوطلحہ کا قبول اسلام 428 کلمہ شہادت حضرت اسعد بن زرارہ کا قبول اسلام 338 حضرت اسامہ یا کلمہ گو کوقتل کرنا حضرت اسامہ بن زید کا قبول اسلام 318 کفن حضرت سعد بن معاون کا قبول اسلام 352 میرا کفن مجھے دکھاؤ حضرت ابوسلمہ مینا قبول اسلام حضرت جریر بن عبد اللہ کا قبول اسلام حضرت مقداد بن عمر وہ کا قبول اسلام حضرت ابی بن کعب کا قبول اسلام 250 528 324 396 كشف حضرت اسید صاحب کشف انسان تھے 376 کپڑے مسلمان ہونے پر حضرت عبداللہ کا لباس اتار لینا حضرت عبداللہ ذوالبجادین کا قبول اسلام 537 حضرت معاذ بن جبل کا قبول اسلام 414 قتل مرند ابوطلحہ کا گھوڑ ا دریا کی طرح تیز رفتار بیوی کی گواہی حضرت عمرؓ اس کے حق میں نہ تھے 63 گھی کا برتن فوری بھر جانا قربانی عبداللہ بن ابی کی گستاخی 537 429 472 297 463 مالی قربانی حضرت عثمان کی مالی قربانی 265.434 83 حضرت سعد بن ربیع کی قربانی 365 چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں 493 ہر قربانی کے لئے تیار 326 اللہ تعالیٰ کی حضرت عبداللہ سے بغیر حجاب کے گفتگو رسول اللہ کی لحد ابو طلحہ انصاری نے بنائی 438 حضرت خباب لوہار کا کام کرتے محکمہ.حضرت عمر کا مختلف محکمے قائم کرنا 331 58 قرآن کو سب سے پہلے حفظ کر کے پڑھنے والے مہمان نوازی حضرت طلحہ کی مہمان نوازی 198 477 424 424 448 مدت حمل کا مسئلہ معاد نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہو جاتا حضرت محمد بن مسلمہ کا قرض مانگنا 273 431 ابوطلحہ نے کھانے کی چیز بھجوائی ہے

Page 569

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کا تم پر حق مٹی رونے والیوں کے منہ پر مٹی ڈالو مبلغ 555 522 | نبي 236 رسول اللہ کا فرمانا میں نبی ہوں اور یہ جھوٹے ہیں وصایا حضرت عمر کی وصایا وراثت رسول ﷺ کا فیصلہ مدینہ کے پہلے مبلغ حضرت مصعب بن عمیر 352 وراثت 493 56.55 368 17 حضور اے کے مال میں وراثت نہ چلے گی 153.152 حضرت سعد بن ربیع کا اپنے اہل خانہ کو وصیت 367 453 332 408 محل امیر کوفہ امیر کوفہ کے محل کو آگ لگانا مال مال کا ابتلاء مال کو نقصان پہنچنے کا سبب نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر کا خطاب وتر 229,230 | حضرت ابو بکر شکارات کے پہلے اور حضرت عمر آخر عبداللہ بن مسعود کی نیکیوں کا پلڑا بہت بھاری ہوگا حصہ میں وتر پڑھنا 285 | ہجرت 488 80 60 130 بیماری میں بھی نماز نہ چھوڑنا 376 حضرت عثمان کی ہجرت حبشہ نبیوں کی مثال ایک محل سے 405 حضرت ابو عبیدہ کی ہجرت نماز حضرت ابو بکر کی حضوری کے ساتھ ہجرت 5 اگر نماز رہ جائے تو جب آنکھ کھلے یا یاد آئے ادا یتیم حضرت زید کا یتیم بچیوں کے حق میں آواز بلند کرے 294 | کرنا ابی بن کعب طویل فاصلہ طے کر کے نماز کے لئے آتا 401 نماز فجر اور عشاء منافقوں پر بھاری ہیں 401 نماز عشاءکولمبانہ کیا کرو نماز پڑھنے سے غلامی سے آزادی نصیب ہوگئی 416 175 421

Page 570

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 556 اسماء ابن مسعود ( نیز دیکھیں عبد اللہ بن آمنه 202، 318 مسعود ) 507 $283.285-284.276 298 296 290.289 ابان بن سعید 91،259،89 ، ابن ملجم خارجی 119 ،228، 231 | 333،326،322،320، 344 261.260 ابراهیم" 251،173 ، ابن اثیر 14 ابن اسحاق 338،161 ، 216 | <297 257.155 ابواسامہ 338،311 ، 342 ابوالبختری 521 359 369355 354.348 438.421 377.374 479 478.454.444 492.488.481 487.480 247 ابوالحسن 125،102.538.495 ابن الا درع 538 ابو جہل 202 203، 290، 43 ابوالحکم بن ہشام 202 ابوالعثمان النهدی 323 ابن الدغنہ 4 ، 5 ، 23 354 278 277.150.ابوالفضل 223،214 ابن جندب 491 ابوالھیاج 154 ابن حارث 220 ابوتراب 123 ابو حفص 61 ابن حجر 528 ابوامیه 252 ابودجانه ( 442 تا445) ابن خلدون 14 ابوایوب انصاری 460،341،6 381 ابن زبر 303 456 457 458 459 ابن سعد 242 ، 216 ، 460 ، ابو بکر 1 تا 38 ، 47 48 49 ، ابن شاہین 500 57.54.52 53 51.50 ابو درداء 302، 473، 474 525.522 63 64 68، 96، 70، ابورافع ابن عباس 57،54،52، 189 215.214 300.323.218.215 459.253 ابن عبدالبر 2 95.82 86.79 74.73 148 134 133.97 98 187.183.181.151 137 192 128.114 رض ابو رویحہ 303.302 ابوسعید خدری 299.291 ابن عمر 117،86،72،67,59، 320 ( نیز دیکھیں عبد اللہ بن عمر ) ابن قمیہ 246 524.381 380.376 178 189.166.160 299، 193، 195، 222 ، ابوسفیان 261 47 267 266 265.261 ابو سلمہ بن عبد الاسد ( 250 273.302 301 <289

Page 571

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (255ť ابو صفوان 354 ابوطلحہ ابو ہریرہ 557 ม $260.238.323.301 ( 428 تا 440) ابو کی 269 64 اسماعیل 174، 251 اسماء بن یزید 26،361 256، ،507 ،382 ،442، ابوالروم بن عمیر 247 اسماء بنت عمیں 52، 107 ، ابوعبدالرحمان 273 ابو عبد الکریم 303 ابو عبد الله 78، 303، 181، 528.331 ابو عثمان 164، 523 ابو عماره 491 ابوالہیثم بن تیهان (350346) ย ابوذر 130 234 129.122 216 $237.236.235 524.507.206 ابو طالب ،103، 216،102 250 ابو عمرو 303، 528 ، 491 ابی بن کعب 507،193، ابو عمیر 430 اسود بن یغوث 324 اسود 87 اسید بن حضیر 243، 313 ، 380 353 363.352 (378+371) (411396)367 366 ابو عبیدہ بن الجراح 27،11،10، 414، (146 128 51.50.49 206.176.106 صلى الله احمد علية 192، 78 اسیر بن رزام 466 اشتر نخعی 85 اصبغ 159 احمد (بن فضیل ) 268 اروی بنت عبد المطلب 79 ام ابان 89 ام اسحاق 200 ابوقتادة ابو قحافہ 112 1 ابولوء لو مجوسی 52 ابولہب 215، 219، 250 ابو محمد 148 ابو مسعود 280 ابو معبد 324 ابوموسی اشعری 63،86، 72، اروی بنت کرویز 78 ام البنين بنت حرام کلابیہ 122 اروی 176 ام الخير 1 اسامہ بن زید 15 ، 16 ، 20 | ام الفضل 216،215،214 314.296 311.196.(323 318) اسرافیل 235 اسعد بن زراره 193، 346 | ام انمار 331، 207، ام اليمن" 310، 311، 318 323-319 ام حارث ( بنت محمد بن مسلمہ ) 486 342 341 340 339.338 363.353.352.242.343 (378371).380 498 280 297,275 504 ام حبیب 256 ابونائلہ 448 اسقف 513 ام حرام 382 ام رومان 6

Page 572

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 558 ام سعید بنت عروه 122 انس بن نضر 503،495 جابر 207، 387، 388، 389 ام سلمہ 250 251 252، اوس بن ثابت 81 297 ایماء غفاری 64 ام سلیم 428، 382، 429، بجیلہ بنت سعد 528 ، 437 433.432.431 506 503.495 ام اسید 269 ام عبداللہ 173 براء بن عازب 491،115، $529.493.492 براء بن مالک 381 ، 495، *500.497 498.496 جارج ( رومی قاصد ) 140 جباد بن صخر 325 جبرائیل 32، 121، 195، <235 361 <201 جبلہ 309 جبل 307 ارضا جریر بن عبد الله (528 تا 535) جعفر طیار 310،189 ، 315 ، براء 216 ، 346 469 472.469 471 ام عمر و بنت جندب 89 برکه ( حضرت آمنہ کی کنیز ) 318 (227 تا 239 ) ام کلثوم بنت ربیع 157 برہ بنت عبدالمطلب 250 جعفر بن ( محمد بن مسلمہ (447 ام کلثوم ( بنت رسول الله ) 6، 37 93 122 121.78 89.116.82.200.ام كلثوم (بنت على) 70،56 بریده 69 جمیل کمی 45 بشیر بن سعد 12 جندب بن عبد اللہ 410 حارث بن الصمہ 267 306 حارث بن عمیر 20 حارثہ بن شراحیل 306 حارثہ 308 بقيره 526 ام کلثوم بنت عقبہ بن معيط 157 بلال بن عبد اللہ 300 ام مالک انصاریہ 299 بلال 265،3، 57 ، 65، حاطب بن ابی بلتعہ 62 امامہ بنت ابی العاص 122 345 344 342289).485 333.277 امیر معاویہ 2 ،124، 125، 303) 454.177 459 بوانہ (بت) 174 حبیبہ بنت خارجہ 6 حجاج 219 پوران دخت 18 حجیر بن ابی اهاب 174 امین الامت 137 امیہ بن خلف ،206 ، 289 290 ، تماضہ بنت اصبغ 150 حذیفہ بن یمان 97 ، 451، 344.295 282.525 533.524 تمیم بنت حرام 280 حر بن قیس 65 امیہ بن عبد شمس 78 ثابت 428 اميه 264 انجشه 495 ثابت بنانی 506،145 ثابت بنت قیس 17 انس بن مالک 63 ، 210 ، ثوبیہ 202،250 524.382 377.312 حرام بن ملحان 383، 382، 384 حسان بن ثابت 32 2، 224 • 122.88 121.238 جابر بن عبد اللہ 348 ،476366 | 258، 464، 81 (489 حسن بصری 5007 323

Page 573

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حسن ( بن اسامه (323 حسن 86، 56،87، 29 117.116 حسین 122،117، 126 ،.311.56.299.200 حضیر 371، 373 6 559 414-9887 71.262< • 336 335 334 <333 337.265 210 ė خديجة 1 ، 6، 215،103، 181 306-148 خطاب بن نفیل 43 بنت عبد الرحمان بن ابو بکر خطاب 69 حفصہ 84 حفصہ シ خفاف 64 8، 129، 56، 66، خولہ بنت جعفر 122 71 98.70 زید بن حارثة 160، 203،.319 323 318 زید بن عمر بن نفیل 173، 174، 175 زید 173، 228، 233، 234 320-306-269.زید بن وہب 281 زینب بنت جحش 311، 95 خولہ بنت قیس 204 ، 205 زینب بنت عبداللہ 277 زینب کبری 122 حکیم بن حزام 318 دارویه 261 حمار الیمامہ 496 وره 254 حمزہ ( 200 تا 106213، ذوالجناحین 227 250-162 ذہبی 526 زینب 277 ، 312 سالم 540 سباع بن عبد العزی 207 حمنہ بنت سفیان 160 رافع بن مالک 176 سجاح 14، 16 حناس بنت مالک 240 رسم 106 حنتمہ بنت باشم 43 رفید 0 375 حنظلہ بن ابی عامر 256 رقیہ 80 89 78 حیی بن اخطب 458 رمله بنت شیبہ 89 خارجہ بن زید 344 345 ، روم (مولانا) 2 369 خارجہ بن زید 6 خالد بن زید 456 خالد بن شمر 316 خالد بن عثمان 89 خالد بن عرفطه 166 ย سحماء 495 سراقہ 6 سعاد الضریعہ 338 سعد بن ابوطلحہ 110 زاہر بن حرام 541،540 سعد بن خیثمہ 203، 252 زبیر بن العوام 3، 10، 13، 242 313 280 274 (190181) زبیر بن سعید 123 زبير 13، 16، 117، 164،.197.193.178.169 خالد بن ولید 17 ، 19 ، 20 ، 82 209، 187 506 310.115 145 140 51.47 138، 315، 496 495، زید بن ارقم 471،300 زید بن اسلم 65 269 <259.233 خباب بن الارت 331 ، 332، رض سعد بن ربیع 149، 156، 367.365 سعد بن عبادہ 10، 49، 316، $377.321 سعد بن مالک 321، 55 سعد بن معاد (352 تا 363) +371 243 338.162 378375373.372 زید بن ثابت 11، 12 ، 17 | 447،

Page 574

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 560 سعد بن محمد بن مسلمہ ) 447 | شعبه 27 ، 51 ، 93، 156، طلیحہ بن خویلد 16 سعد قرضی 299 سعدی 306 253.226 طيار 237 ، 227 236 عاتکہ بنت زید 56 شقق 122،121 عاصم 56 353 299 291.109 380 106 عاص 259 صالح 217 سعید بن العاص 98، 259 صالح 85 سعید بن جبير 507 صعبه 192 سعید بن زید (173 تا 179) 98 صفوان بن امیہ 344 396 صفیہ بنت ربیعہ 256 سعید بن مسیب 458 سعید 89 181.148.437..259 سفیان بن عبد الاسد 253 سلمان الخير 509 سلمان فارسی (2720 سلمہ بن سلامه 182 سلمہ بنت صخر 1 سلمہ 251 ضرار صدائی 124، 125 طبرانی 528 +380 265 طعیمہ بن عدی 207 عباد 234 534-268 (526509) رض عامر بن سعد 169 عامر بن ربیعہ 174، 175 عامر بن طفیل 383، 373 عامر بن فہیرہ 3 عامر 131، 132 صفیه 209،459،458 ، مہباء بنت ربیعہ 122 صہیب بن سنان 54 ، 26455 ضباعه بنت زبیر 327 سلمہ بن اکوع 313 ضبه بن محصن العنزی 68 ضبیعہ 451 عائش 7،6، 8 ، 29،28، ‹ 96.54 37 53.33 <154.162.128 <123 ⚫ 291.236.155.200 281 189 183 <292 356 319 314.311 375 374 363 360 379 524 257 <378 سنان بن مالک 264 طلحہ بن ابی طلحہ 164 سو يبط بن سعد 247 سہل 340 سہیلہ بنت مسعود 485 سہیل 340 سیدہ بنت عامر 344 شاہ ولی اللہ 119 شرجیل بن عمر و 233 شریح بن ہانی 46 طلحہ بن براء 502،501 500 طلحہ بن عبد الله 55 عباد بن بشر 234 ، 363 378 377 عبادہ بن صامت 339،282 طلحہ بن عبید الله ( 192 تا 201 ) عباس بن کلابیہ 122 256 436.396| طلح 3، 4، 16، 117، 169 عباس بن مطلب 290 (226 214) 82 78.50 178 176 189 187.182.96 <442.282.190 طلیحہ اسدی 14 عبد الاشمل 243 عبدالرحمان البلوی 85 عبدالرحمان بن حارث 98

Page 575

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 561 عبد الرحمان بن عوف 3 ( 148 عبد اللہ بن عمرو بن حرام (387 تا عتاب 14 (1580 (389 عتبہ بن ربیعہ 208،205، عبد الرحمان بن محمد بن مسلمہ 447 عبد اللہ بن عمر 0 13، 198، 338 256.200 عبدالرحمان بن حجم 120 عبدالعزی 537 عبد اللہ بن قمیہ 246 عبدالکعبہ 148 عتبه 163، 45 عتیق 1 ، 32 عبد اللہ بن محمد بن مسلمہ 447 عثمان بن طلحہ 240،252 عبد اللہ بن ابی بن سلول 62، عبداللہ بن مرداس 283 عثمان بن عامر 1.463.63 عبد اللہ بن مسعودؓ ،14، 16، عثمان بن مظعون 279، 347 عبداللہ بن ام مکتوم 293 عبد اللہ بن بریدہ 60 عبد اللہ بن جدعان 202 عبد اللہ بن جراح 128 117.116(9978) 95.85.57.46 <208 196 177 192.168 169 385 408-326.181 221 224 200 198.197 526 507.426.414 <52.262 261 +260 +225 155 152.70.69.55 $539.538 عبد اللہ بن جریر 529 عبد اللہ بن مغفل 537 عبد الله بن حرام 477،476 عبد اللہ ذوالبجادین 337 ، 338 | 183 187،158، 189، 278 عبد الله بن حمزه 528 عبد اللہ بن ربیعہ 228 339.عبد الله 37 ، 214، 216، 411.323.321.279 313 <285.526.453.451 عبداللہ بن رواحہ 233 ، 315، 234، 183 237 (474 462)507.365 عبداللہ 308 عروہ 5 عروہ بن زبیر 323،76 عبد اللہ بن زبیر 87 عبدالمالک 89 عبد اللہ بن زید 292، 47 عبدالمطلب 318 308 202 گروه 183 عبداللہ بن سبا 85 عبد اللہ بن سلام 120 عبد اللہ بن عباس 225، 53، 187 524 152 عبد اللہ بن عباس 225، 53 187.152 عبد الله بن عبد المطلب 308 عبد اللہ بن عثمان 89 عبد اللہ بن عمر و بن العاص 135 ، عروہ بن مغیرہ بن شعبہ 43،42 عزی 289، 185 عطاء بن یزید اللیثی 3 عبدالملک 505 عبد مناف 102 عبدود 273 111 عطاء 239 عبدی 85 عفان بن ابی العاص 78 عبید اللہ بن عثمان 192 عقبہ بن ابی معیط 273 ،313 عبید اللہ بن عمر 56 عقبہ بن عامر 538 عقیل 98 عبید اللہ بن عبد اللہ 323 عفراء 277 عبیدہ بن حارث 162 عبیدہ بن سعید 182 عکاشہ بن محصن 56

Page 576

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 562 عکرمہ 325 علاء بن حضرمی 498 عمر و خزاعی 85 فاطمه (ام سعید بن زید ) 173 عمرة بنت عبدالرحمان 201 فاطمه 18،13، 107 ،108، علاء بن عبد الرحمان بن یعقوب عمر ( 43 تا 74 77 ،82 148 علی بن خشرم 321 علی بن زید 53 ، 444.56 122.110.109 507 224.98 91.9386.84 266 261 223 222 278 276.151.43 <267 300 314.299.285 <281 333.327 322 <320.319 402 400 355.354.348 54.53.50 30.49.48 96 86.70 69.56.82 فیروز 261 قبیلہ بنت عبدالعزی 37 قاده 506 تخافه 322 174،145،69،46، 151، 403، 407 408، 410، قطبہ بن مالک 46 فیس 307 452.439 438 424 421 102)190 189.158 <200 (126 عمار 533 455،453 ، 465 ، 478، 479 قیس بن ابی ہاضم 198 289، 278، 524 ، 492،488،480 ، 498 ، 519 | قیس بن سعد 134 رض عمار بن یاسر" 196 عمارہ بن حزم 338 عمار 278،289، 524 ،533 524، 530، 176،187 ، 178 قیس بن مشوح 261 195، 196، 269، 270 ، 271 کبشہ بنت رافع 352 153 302 301.300.299 118.152.142.141.186.264.495 175.129 عمر بن محمد بن مسلمہ 447 عمیرہ 264 عمر بن تغلبه 122 عوام 181 کبشہ بنت واقب 462 كبشه 342 کسری 18، 264، 521 ب بن اشرف 448، 379 ، کعب بن عجرہ 524 عمر و بن العاص 120، 133 ، عوف بن عفراء 338 کعب بن مالک 199، 211 ، 228.134 <186 313 387 340 223.216 231 124 12192.141 464.423 $526.259 عمرو بن جموح 388 عمر و بن عبداللہ 110 غزال بن کسری 157 کلثوم بن هدم 203، 266، فاختہ 89 325.313 کنانه کندی 85 عمر و بن عوف 252 539 ، فارعہ 342.148 لیلیٰ بنت ٹھیک 346 فاطمہ بنت اسد 103 لیلی بنت مسعود 122 عمرو بن عوف مزنی 539 فاطمہ بنت حسین 200 عمر و بن میمون 283 عمروذی مر 121 عمرو 307،111،259 ما به بن بوذخشان 509 فاطمہ بنت خطاب 44،175 مالک بن بلی 346 فاطمہ بنت ولید 89 ما مالک بن نضر 495

Page 577

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مالک بن وہیب 160 563 <532.455.454 مقداد بن اسود 462 مبشر بن منذر 252 مثنی بن حارثہ 18 مجزاءة 498 محکم 496 محمد بن طلحہ 200 محمد بن الخطية 122 ولید بن عتبہ 206 ولیم 106 ، 206 مقداد بن عمر و ( 324 تا 329) | وہب بن منبہ 2 مقداد 289 355،185، ہاجرہ 251 524 مقوقس 186 498 محمد بن مسلمہ (447 تا 455) ملیکہ 382 <367 486.321 مناف 78 محياة بنت امرؤ القيس 122 موسیٰ بن طلحہ 89 مرحب 113 مروان بن حکم 170 مرہ بن کعب 192 مریم بنت عثمان 89 مسروق 283 موسی 327،259، 468 ہارون 213 ہاشم 308 ہالہ بنت اھیب 202 ہرقل 470 ہرمز 19، 504 ہشام بن عروہ 75 ،76 بشیم 128 میکائیل 121 ،235 ہند بن مغیرہ 259 نافع بن عبدالحارث 93 ہند بنت سعید 456 ہور 85 نائلہ 87 ، 89، 90 نتیلہ بنت خباب بن كليب 214 | ياسر 289 نجاشی 229 230 231 سی بن أسيد 376 مسیلمہ 14، 16، 495 مسيب 492 301 528.232.نذیریہ 3 یزید 307 یزید بن ابوسفیان 28، 176 مصعب بن شیبہ 472 نسیبہ بنت عقبہ 476 یعقوب بن طلحہ 200 مصعب بن عمیر (240 تا 248 ) ، نعمان بن بشیر 471،462، 162 109 یوسف ،181،530، ، 152، نعیم بن عبداللہ مجمر 22،21 یمنس 269 458، 340، 352 353 ، نعیم بن عبد اللہ 44 354، 371، 372، 414، نوشیرواں 118 ، 493.447.442 معاذ بن جبل 143، 232 ، نوح 85 نوفل بن خویلد 4 نوفل 217 507.281 392 <274 (426414) نہدیہ 3 واقدی 528 معاویه 120، 87 ، 323، وحشی 211 208 535 ورقہ بن نوفل 290 مغیرہ بن شعبہ 177، 297، 52 وکیع 321

Page 578

سیرت صحا بہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 564 آرمينيا 85 ابلہ 264 ابواء 267 اجنادین 138 اجیا( گھائی) 160 فهرست مقامات سیرت صحابہ بہرہ شہر 167 بیت اللہ 308،105 ،355، بیت المقدس (ارض مقدس) 299،141 ، 525.513< بیسان (چشمه) 198 250.248.194 444 335.219 اردن 453 استنبول 460 اسکندریہ 188 اصبہان 510 اصفهان 509 امغیشیاء 19 تستر 63، 531 ،491،498، تکریت 167 شنی 264 ثور 1105 جابيه 143 ، 302 329.323.320.189.186 7 ایران 18، 19، 20، 51 ، 153، 166 ، 264 | جزائر 85 509 516 521.512.498.491.ایلیاء 71 باب الصغير 300 بابل 167 بحرین ،219، 261، 498،487، بدر 106، 109، بصره 192، 469،459، بصری 138 ،233، بقیع الغرقد 517 بلدح 173 بئر معونہ 384 بہراء 324 جلولاء 167 جنت البقیع 152، 158، 170، 8 7 3، 0 6 3، 280.272.329.342 جحفه 220 240 232 301 228 148.129* 324 268 259 291 256 274.250..521.233.228.جون 296 حدیبیه 112.91 64 48 47 8.220 491.449.379.374 259 260.195..465.492.485.200.7

Page 579

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حمص 139، 485،140، حنین 185، 220، حیرہ 19 565 صرار 485 صفین 492 238.385.382.108 ضجنان 68 خیبر 48،219،220 ، 49 ،112، 113 293.260 232 259.118 طائف 220 طرابلس 85 دارارقم 78، 250، 264 273،265 ، دار الندوة 93 دجلہ 167 طفیل 292 ظریبہ 259 عراق ،18، 51،19، 73 ، 167،166 496 دمشق 140 ، 176 ،138،300، 141 ،145 ، دومة الجندل 19،150 دیلم 167.531.525.عرب ،1 ، 16 ، 43، 70 ، 515،331،232 ، ذات السلاسل 19، 133 عرفه 174 عقبہ 242 ذوالحلیفہ 449،375، ز والخلصه 531 ذوالقصه 450،16، رامیز مز ( پہاڑ ) 509،512، عقیق (وادی) 176 ، 179،177 ، 18،170،186 عكاظ 318،306 ، 43، عمان 115 روم 195، 264،521،459، عمرة القضاء 465 زرقاء 78 عمواس 303 ، 424،141، سپین 85 سرغ 141، 142، عمور یہ 515 عین التمر 19 سقیفہ بنو ساعده 10 ، 137، 195 ، 377، سلمان پاک 526 شام 298، 300، 186، 51،18، 73، 141 غزوات غزوه احد 7، 47، 110، 132، 150، 164 245 210 207 201 203 189 183 257 256 278 240 267.276 < 388 373 369 367 344.333.313< 444 476.415.326 379 394.393.* 519.491 495.481.477.354.259.176 173.145.143.142< 511.513 525.425 495.486.355..510.512.شامه 292 شعب ابی طالب 102، 216،162، غزوہ بدر 131،6، 150 ، 163، 176، 193

Page 580

566 سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 450 (313 240 249 <267 245 <206-205< 531 341 344.373.463 256.481.495.71.460.459435.345.356 277.189.333.326 کعبہ یمانیہ 531 <467.465 296.202.95.46.4 388 391 415.غزوہ بنو قینقاع 203 غزوہ بنو مصطلق 7 ، 344، 373، 379، 482،.531 غزوہ تبوک 20، 64، 114، 195، 198 ، 219 | کوفہ 177 ،123 ، 168، 273 ، 278، 279 532.531 493 336 453 459 285449.437.429 327 267.220 238..534 " 538.450 غزوہ حنین 64، 114، 195،133 ، 220 ، 379 | کوه صفا 202.437 492.لاذقیہ 139 غزوہ خندق 111 ، 133، 184، 326،313، | مجنه 292 <526.525.168 167 415.397 374.358.356 357.333 170 168 95 94 93 72 153 ⚫ 495 519.491.449.298 224 210 204.203.197 49.46 33.31 19 322 321 <320.299 179 162 187 151.142 136 114 244 243 233 238 232 197 193 266 267 269 257 251.250.245 236 292 291 274 279 278 <276 365 366 382.355.241 322 324 353 481 459 420 414 412 <411 <401 516 338 324 322 341.444 <482 435 496 489.450.366-240 - 519.517 293.393 388.458.484.غزوہ خیبر 64، 120، 133، 184، 313، غزوہ ذات الرقاع 482، 483 غزوہ ذی القرد 198 غزوہ عشیره 253 غزوہ قرقرة الكدر 450 غزوہ مریسیع 313 غسان 233 6 139 فدک 295 فرات 264 فسطاط 186 مراکش 85 قادسیه 51، 531، 166 ، مر الظهر ان 217 مزار 19 مزة 323 267 252 517 قبرص 85

Page 581

567 سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشعر حرام 307 مصر 73،51 ، 85 ، 486،453 مقام ابراہیم 274،59، 151 114 95.78.45.231.104 240 267 229 220195.193.165 324 240 195 231 291.192.296.$449.289 273 292 290 <331 < 244-266-261 437 519.531 320 347 315 235 233.320*** 234.471.236 469 موصل 186، 514،264، نجد 260 نجران 130، 136 نصیبین 514،512، نهروان 492 نهاوند 196 واقم ( قلعہ ) 371 وعا 140 ولجه 19 یثرب 339، 358 457، یرموک 139 140، 176، 185، 186، یمامہ 17 380، 444، یمن ،115، 116 ،148، 238، 275،261،.534.529.421 419 420 319

Page 582

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 568 1 - القرآن الحکیم کتابیات ثم المفهرس الالفاظ للقرآن الكريم محمد فؤاد عبدالباقی.دارالمعرفۃ بیروت المراجع والمصادر 2- کتب حدیث جامع صحیح بخاری امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری متوفی (۲۵۴ھ) امام ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیر یم (۲۶۱ھ ) سنن الترمذی ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی (۲۷۹ھ) سنن ابوداؤد ابوداؤ د سلیمان ابن اشعث (۲۷۵ھ) سنن النسائی احمد بن شعیب النسائی (۳۰۳ھ ) سنن ابن ماجہ امام ابو عبد اللہ بن یزید بن ماجہ (۲۷۳ھ) موطا امام مالک امام مالک بن انس متوفی (۱۷۹ھ ) مسند احمد بن حنبل امام احمد بن حنبل م (۲۴۱ھ ) المکتبہ السلامی دار الفکر بیروت التاج الجامع الاصول فی احادیث الرسول الشيخ منصور علی ناصف دار احیاء التراث بیروت سنن دارمی المعجم الكبير المعجم الصغیر ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمان الدارمی (م 255) للحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد الطمر انی (م 360) مطبوعہ مصر للحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی دار الفکر بیروت مستدرک علی الصحيحين امام ابو عبد اللہ حاکم نیشاپوری دارالکتاب العلمیہ بیروت

Page 583

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجمع الزوائد ومنبع الفوائد سنن الکبری 569 المراجع والمصادر حافظ نور الدین علی بن ابی بکر سیستمی (م807ھ ) دار الکتاب العلمیہ بیروت حافظ ابو بکر احمد بن حسین البیھقی (م ۴۵۸ھ) مطبعة مجلس دائر المعارف مصر الترغيب والترهيب من الحديث الشريف امام حافظ عبد العظيم بن عبد القوى المنذری (م 656ھ) دار الكتب العلمیہ بیروت عمدة القاری شرح بخاری علامہ بدرالدین عینی (م ۷۵۵ ھ ) ادارة الطباعة المغيرية بمصر فتح الباری شرح بخاری تاريخ الصغير علامہ احمد علی ابن حجر عسقلانی (۵۸۵۴۴ ) دار النشر الكتب الاسلامية شارع شیش محل.لاہور امام بخاری المکتبة الاثریۃ.سانگلہ ہل جامع اہل حدیث باغ والی ضلع شیخو پوره الجامع الصغیر فی احادیث البشير والنذیر علامہ جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ ) طبع بمطبعة المدنية بمصر کنز العمال فی سنن الا قوال والاعمال علی بن حسام الدین هندی (م ۹۷۵ھ ) مکتبۃ التراث الاسلامی حلب منتخب کنز العمال مسند الشافعی حلیة الاولیاء برحاشیہ مسند احمد بن حنبل مطبوعہ بیروت ابی عبد الله محمد بن اور لیس شافی دار الکتب بیروت ابونعیم الاصفہانی ترجمہ مولانا محمد اصغر دارالاشاعت اردو بازار جناح روڈ کراچی صفۃ الصفوة ( جلد اول وثانى ) مصنف عبدالرحمن ابن الجوزی دار الفکر بیروت لبنان 1991 مشكوة المصابيح محمد بن عبد الله الخطيب التبریزی (۷۴۳۴ھ) موسوعة اطراف الحدیث النبوی شریف ابوها جر محمد السعبد بن بسونی (1989) دار الكتب العالمیة بیروت المعجم المفہرس للحديث الدکتورای و نسک (م 1936) مکتبہ بریل فی مدینة 3- کتب سیرت و تاریخ السيرة النبويه لا بن هشام مطبع مصطفی البابی الحلی مصر (مطبوعہ 1936م۲۱۳ھ ) الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام ابو عبدالرحمن سهیلی دار الفرقة للطباع والنشر بیروت لبنان (م۵۸۱ھ ) الطبقات الكبرى محمد بن سعد داراحیاء التراث العربی بیروت

Page 584

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 570 المراجع والمصادر شرح العلامہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ للقسطلانی (۵۹۴۳۴ ) دار الكتب العلمیة بیروت لبنان زاد المعاد في هدي خير العباد الامام عبد الله محمد بن ابی بکر موسته الرساله السيرة الحلبية من انسان العيون في سيرة علامہ علی بن برهان الدین اعلمی الشافعی (م 1044ھ ) دار المعرفۃ بیروت الامین والمامون السير والحمد یہ سیرت حلبیہ (اُردو) از علامه علی ابن برہان الدین حلبی مترجم مولا نا محمد اسلم قاسمی فاضل دیو بند.اُردو بازار.ایم اے جناح روڈ.کراچی دلائل النبو و معرفية احوال اصحاب الشريفہ ابوبکر احمد بن الحسین البیهقی دارا حیاء التراث العربی بیروت تالیف ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی (م597ھ ) الوفا باحوال المصطفے دار الكتب العلمیہ بیروت الجامع في السيرة النبوية سميرة الزايد المطبعة العلميه وفاء الوفاء باخباردارالمصطفےٰ نورالدین علی بن احمد اسمهو وی (م ۹۱۱ھ ) داراحیاء التراث العربی بیروت موسوعه نضرة النعيم في مكارم اخلاق دار الكتاب العربي صالح بن عبد اللہ عبدالرحمن بن محمد دارالوسیلہ وحمامه الرسول الكريم جدہ سعودیہ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ علامہ ابن الاثیر دار احیاء التراث العربی بیروت (م۶۳۰ ھ ) الاصابہ فی تمییز الصحابہ امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی ابن حجر عسقلانی (م۴۶۳ھ ) داراحیاء التراث العربي بيروت الاستیعاب فی معرفتہ الاصحاب ابو عمر یوسف بن عبد اللہ متوفی 463ھ دار الكتب العلمیہ بیروت الا کمال فی اسماء الرجال تاریخ الصحابه الکامل فی ضعفاء الرجال سیر اعلام النبلاء تاریخ مدینه دمشق فضائل الصحابه ولی الدین ابو عبد اللہ محمد بن عبد الله الخطیب مترجم مولانا اشتیاق احمد ، مولانا معراج الحق نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی حافظ ابو حاتم محمد بن حبان 354ھ دار الکتب العلمیہ بیروت حافظ ابی احمد عبد اللہ بن عدی الجرجانی (م۳۶۵ھ) دارالکتب العلمیة بیروت ستمس الدین 748ھ...ابن عسا کر دار المسیرت بیروت 1979 احمد بن حنبل مؤستہ الرسالہ مکہ مکرمہ

Page 585

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 571 علامہ محمد یوسف کاندہلوی کتب خانہ فیض لاہور علامہ معین الدین ندوی ادارہ اسلامیات انارکلی لاہور حياة الصحابه سیر الصحابه الفاروق شبلی نعمانی مکتبہ عالیہ لاہور مناقب عمر عمر فاروق اعظم محمد حسین هیکل مترجم حبیب اشعر مکتبہ جدید لاہور بین یدی عمر المراجع والمصادر ابن الجوزی ( ابی الفرج عبد الرحمان بن علی بن محمد ) بیروت لبنان کرامات اولیاء المستطرف عفو السیدی عثمان ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء نہج البلاغه سیر الصحابه تاریخ الرسل والملوک الكامل في التاريخ از خالد مطبوعه مصر حبة الله الاسکائی دار طیبہ ریاض طبع اول شہاب الدین محمد بن احمد الفتح شركية مكتبه ومطبوعہ مصر 1942 مصطفیٰ ثابت الشركة العالیہ ملنشر والتوزيع تورنتو کینڈا 1999 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مترجم اردو مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور جعفر حسین مفتی امامیه کتب خانه مغل حویلی اندرون موچی دروازه ندوة المنصفین ادارہ اسلامیات لاہور ابو جعفر محمد ابن جریر الطبری (م۳۱۰ھ ) مکتبہ خیاط بیروت علی بن ابی الکرم ابن الاثیر دار صادر بیروت مطبوعہ (1965ء) الکامل فی التاریخ اردو مترجم سید معین الحق مترجم حافظ رشید احمد نیوکراچی سوسائٹی نمبر 5 الامام عمادالدین ابو الفد او اسماعیل بن عمر بن کثیر (م۷۷۴ ھ ) مكتبة المعارف بيروت و مكتبة النصر الرياض البدایہ والنہایہ تاریخ ابن خلدون علامه ابن خلدون تاریخ یعقوبی کتاب الخراج القاضی ابو یوسف.بیروت مطبعہ المنیر یہ مصر یعقوبی احمد بن ابی یعقوب دارصاء بیروت تاريخ الخميس في احوال النفس النفيس شیخ حسین بن محمد الد یار البکر ی (م۱۵۸۲ء) موسه شعبان بیروت تاريخ الخلفاء جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ ) نور محمد اصح المطابع کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی

Page 586

سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ البغداد معجم البلدان 572 حافظ ابی بکر احمد بن على الخطيب البغدادی یاقوت الحموی.بیروت دار صادر بیروت (م ۶۲۶ ھ ) المراجع والمصادر فتوح البلدان (اُردو) نفیس اکیڈمی کراچی ابوالحسن احمد بن یحیی بن جابر البغدادی بالبلاذری مطبعته م ۲۷۹ھ كتاب المغازی (فتوح العرب ) اُردو از محمد بن عمر بن واقدی متوفی (207ھ ) مترجم ممتاز بیگ ذی شان ترجمه شروع الحرب 4- متفرق اُردو کتب سر الخلافہ ملفوظات آئینہ کمالات اسلام سيرة خاتم النبين ( أردو ) سيرة النبي ( أردو ) رحمۃ العالمین (اردو) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے از علامہ شبلی نعمانی دارالاشاعت اردو بازار کراچی محمد سلیمان منصور پوری سوانح عمری حضرت محمد صاحب (اُردو) شرده پر کاش دیوجی پر چارک بر محو دھرم پبلشر نرائن دت سہگل اینڈ سنز بک نقوش رسول نمبر جلد دہم شمارہ نمبر 130 سیلر اندرون لوہاری گیٹ لاہور.پنجاب آرٹ پر لیں.لاہور محمد طفیل.ادارہ فروغ اُردو.لاہور محمد ﷺ کے غیر مسلم مذاح اور ثنا خواں عصری صابری محمد احسن تہامی.دارالتذکیر پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظر میں مؤلف محمد محی پیام پبلشرز لاہور

Page 586