Language: UR
علي الصلاة والسلام سیرت موعود یعقوب على عرفانى
شائع کرده...نظارت اشاعت صدر انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ کمپوزنگ.عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچی.ضیاء الاسلام پریس ربود.چناب نگر
نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض ناشر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سیرت، شمائل و اخلاق اور عادات کے بارہ میں جاننا یقیناً ہر احمدی کی خواہش ہے اور محبت امام الزمان کا تقاضا بھی ہے کہ ہمیں حضور کے شب و روز کے بارہ میں آگاہی ہو.ایک لمبے عرصہ کے بعد نظارت اشاعت احباب کی خدمت میں سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اس اشاعت کو ایڈیشن اوّل کے عین مطابق ترتیب دیا گیا ہے.تمام حوالہ جات کو اصل کتب سے چیک کر کے درست کر دیا گیا ہے نیز منظوم فارسی کلام کا ترجمہ حاشیے میں دے دیا گیا ہے.یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے.افسوس کہ حصہ چہارم با وجود تلاش کے دستیاب نہیں ہوسکا اس لئے وہ شامل اشاعت نہیں باقی چاروں حصے پیش خدمت ہیں.اس کتاب کی پروف ریڈنگ کا کام مکرم محمد یوسف صاحب شاہد مربی سلسلہ نے کیا اور کمپوزنگ مکرم عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ نے کی ہے.قارئین سے درخواست ہے کہ نظارت اشاعت کے تمام کارکنان کو جنہوں نے اس سلسلہ میں خدمت کی توفیق پائی ہے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.فجزاهم الله احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو سیرت پاک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو پڑھنے اور اس کو اپنی زندگیوں میں جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ناظر اشاعت اگست ۲۰۱۶ء
صفحہ نمبر ۴ // // 1.11 // ۱۲ // ۱۳ // ۱۴ 1 فہرست مضامین سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ اوّل عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل آپ کی شکل ولباس و طعام اور مذاق طبیعت کا تذکرہ حلیہ مبارک کو یا درکھنا ضروری ہے سیح موعود اور ابن مریم کے حلیہ میں فرق حلیہ مبارک کا خلاصہ حلیہ مبارک جسم اور قد آپ کا رنگ آپ کے بال ریش مبارک وسمه مهندی چہرہ مبارک پیشانی اور سر مبارک لب مبارک گردن مبارک لباس نمبر شمار ۴ ۶ Λ ۹ 1.۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶
2 نمبر شمار ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ عنوان حضرت مسیح موعود کے الہامات میں کپڑوں کا ذکر الہام الہی کے ماتحت دو مرتبہ رومال گم ہو گیا اعجاز نما کرتہ اعجاز نما کرتہ کے متعلق ثناء اللہ امرتسری پر اتمام حجت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی شہادت حلف اٹھانے کا نظارہ انگشتری پہلی انگوٹھی کس طرح تیار ہوئی مولی بس والی انگوٹھی کی کیفیت منی آرڈروں پر بھی ایک وقت مہر لگاتے تھے عصا لباس کے متعلق اہل بیت یا دوسرے احباب کی روایات غرارہ کا استعمال ترک ہوا حضرت ام المؤمنین کی روایت لباس شب صفحہ نمبر ۱۹ ۲۱ ۲۸ // ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ V ۳۸ ۴۰ // ام ۴۲ // ۴۳ " ریشمی ازار بند کا استعمال لباس کے متعلق متفرق باتیں پاجامہ کو پلیٹ حضرت مخدوم الملت کی آنکھ سے لباس پر نظر کمر باندھ کر باہر نکلنا ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶
3 عنوان خوراک صفحہ نمبر ۴۵ // ۴۶ ۴۸ // ۵۱ // ۵۲ ۵۳ ۵۴ // ۵۶ ۵۸ ۶۰ ۶۱ ۶۲ مقدار اوقات کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے کیا کھاتے تھے؟ سالن دودھ برف شیره بادام میوہ جات مٹھائی ہاتھ دھونا وغیرہ کھانے میں مجاہدہ ادویات کھانے کے متعلق کچھ اور کھانے میں مجاہدہ نمبر شمار ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ عمدہ غذا کے اہتمام کے متعلق منشی عبدالحق لاہوری کا مشورہ کھانے کے متعلق گرفت کی عادت نہ تھی خدمت دین میں کھانے کا خیال بھی نہ رکھتے تھے ۵۶ خوردن برائے زیستن و ذکر کردن پر عمل
صفحہ نمبر ۶۲ ۶۳ // ۶۴ // ۶۶ ۶۸ // ۶۹ // ۷۰ اے ۷۴ ۷۵ 24 ZA 4 نمبر شمار عنوان ۵۷ ادویات کا استعمال ۵۸ عادات و معمولات ۵۹ نماز کے متعلق معمول حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ و حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت نانا جان وغیرہ کی شہادت نوری ڈھونکا جب استراحت نہ فرماتے تو کیا معمول تھا خواب سننے اور سنانے کی عادت ہمیشہ باوضور ہنا آپ کے معمولات میں تھا رات کو بھی تحریری کام کرنے کی عادت تھی اخبار پڑھنے کی عادت تصنیف و تالیف کے متعلق آپ کا معمول خطوط نویسی میں آپ کی عادت سیر کی عادت ۶۰ บ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ ۷۰ مطالعہ کتب کی عادت اے معمولات مجلس ۷۲ معمولات سفر حضرت مسیح موعود اور فلسفہ اخلاق امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفہ اخلاق اور حضرت مسیح موعود کے فلسفہ اخلاق میں امتیاز خلق کی تعریف دونوں کی نظر میں ۷۳ ۷۴ ۷۵
5 نمبر شمار 24 <^ ۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ لا ٨٨ ۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ عنوان خُلق اور خلق کے بیان میں غزالی اور مہدی کا امتیاز اقسام خلق کے بیان میں حضرت مسیح موعود کا یگانہ طریق فلسفه اخلاق میں نہایت باریک بحث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصول (۱) اخلاق فاضلہ کا صدور برمحل (۲) اخلاق فاضلہ اتصال بالمبدء کے لئے ہیں (۳) اخلاق فاضلہ کی علت غائی کیونکر پیدا ہو اصل معیار اخلاق صراط مستقیم پر قائم ہونا ہے حق و حکمت کے اقسام ثلاثہ یا اخلاق فاضلہ کی تثلیث حق العباد اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم کا امتیاز یا ادائے خدمت اور تزکیہ نفس کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ واقعات کی روشنی میں ایصال خیر کے ماتحت اخلاق عفو و درگزر حضرت مسیح موعود کے عفو و درگز ر پر ربانی شہادت آپ کے عفو و درگزر کے دوجدا گانہ مقامات خدام سے عفو و درگزر (۱) محمد اکبر خان صاحب سنوری کا واقعہ (۲) ایک اور واقعہ (۳) ایک چاول چرانے والی خادمہ کا واقعہ (۴) حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کا ایک واقعہ صفحہ نمبر ۸۰ ۸۲ ۸۳ ۸۵ ۸۶ ۸۸ ۹۱ ۹۲ ۹۷ // ۹۸ // ۹۹ 1.1+1 //
6 عنوان (۵) حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح کا واقعہ (1) حافظ حامد علی مرحوم کا واقعہ (۷) حافظ غلام محی الدین مرحوم کا واقعہ دشمنوں سے سلوک حضرت مسیح ناصری اور مسیح موعود کا مقابلہ (۱) شوکت میرٹھی کے متعلق (۲) ڈاکٹر کلارک کو معاف کر دیا میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے (۳) مولوی محمد حسین بٹالوی پر احسان (۴) قادیان کے سکھوں اور ہندوؤں کا مقدمہ (۵) نہال سنگھ بانگر و پر دوران مقدمہ میں احسان (۶) اپنے عم زاد بھائیوں کو باوجود اُن سے دکھ اٹھانے کے معاف کر دیا (۷) مرز انظام الدین صاحب کا ایک اور واقعہ حضرت مسیح موعود کی خصوصیت اکرام ضیف اکرام ضیف کی روح آپ میں فطرتاً آئی تھی قبل بعثت اور بعد بعثت کی مہمان نوازی (۱) ایک عجیب واقعہ (۲) مہمان نوازی کے لئے ایثار کلی کی تعلیم ایک کہانی کے رنگ میں (۳) ڈاکٹر عبداللہ صاحب نو مسلم کا واقعہ (۴) مولوی علی احمد بھا گلپوری کا واقعہ صفحہ نمبر ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+2 ۱۰۸ ۱۰۹ " ۱۱۲ ۱۱۵ ١١٦ ١١٩ ۱۲۱ ۱۲۲ // ۱۲۳ // ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۷ نمبر شمار ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1++ 1+1 ۱۰۲ ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ 1.+4 1.2 ۱۰۸ 1+9 11.۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵
صفحہ نمبر ۱۲۸ ۱۳۰ ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۹ ۱۴۲ ۱۴۳ ۱۵۳ // ۱۵۸ ۱۵۹ 17.۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ // ۱۶۵ ۱۶۸ 7 عنوان (۵) حضرت مولوی حسن علی صاب کا واقعہ اور اعتراف مہمان نوازی (۶) حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا واقعہ (۷) منشی عبد الحق نومسلم کا واقعہ (۸) ایک ہندو سادھو کی تواضع (۹) مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی ابونصر آہ مرحوم کا واقعہ (۱۰) خاکسار مؤلّف کا اپنا واقعہ (۱۱) میاں رحمت اللہ باغانوالہ کا واقعہ مہمان نوازی پیرا جمالی نظر بغدادی مولوی کا واقعہ ڈاکٹر پینل کا واقعہ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ دوم عرض حال عیادت و تعزیت حضرت مسیح موعود در قیق القلب تھے لالہ شرمیت رائے کی عیادت لالہ ملا وامل صاحب کو رمینگن کا درد ہو گیا ایک غیر احمدی کی عیادت میں ایفائے عہد کی شان بھی جلوہ نما ہے مهر حامد کی عیادت مولوی محمد دین صاحب کی علالت کا واقعہ میرا ذاتی واقعہ نمبر شمار 117 ۱۱۷ ۱۱۸ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۴
8 نمبر شمار ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۳۸ عنوان پیرا پہاڑیا کی علالت پر خان صاحب اکبر خان صاحب پر خفگی حاجی فضل حسین مہاجر شاہ جہان پوری کی عیادت حاجی شہاب الدین صاحب اور بابا الہی بخش کی عیادت میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے اور ہا نہ جانا صفحہ نمبر 121 ۱۷۲ // ۱۷۳ ۱۷۵ ۱۷۶ // 129 ۱۸۰ ۱۸۴ ۱۸۷ ۱۸۹ ١٩٠ ۱۹۱ // ۱۹۲ ۱۹۳ // ۱۹۴ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے جانا عیادت کا دوسرا طریق ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۵ ۱۴۶ ایوب صادق مرحوم کی علالت پر ایک خط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی عیادت بذریعہ خط مولوی عبد الکریم صاحب کی آخری علالت حضرت اقدس کا سلوک ایام علالت میں اجمالی نظر (۱) سامان جو مہیا کیا گیا (۲) علاج ۱۴۷ مفتی فضل الرحمن صاحب کے واقعات عنایت الرحمن کی عیادت عنایت الرحمن کی تعزیت حضرت حکیم الامت کی اہلیہ کی عیادت ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۲ حفصہ کی عیادت اور حیرت انگیز علاج قبولیت دعا کا ہتھیار اور اس کے استعمال کا اعجازی طریق ۱۵۳ مفتی صاحب کی عیادت
صفحہ نمبر ۱۹۶ ١٩٦ ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۹ // // ۲۰۴ // ۲۰۵ // ۲۰۶ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۰ // ۲۱۲ 9 عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تعزیت حافظ ابراہیم صاحب کی اہلیہ کی تعزیت قاضی غلام حسین صاحب کے بیٹے کی تعزیت تحریری تعزیت حضرت حکیم الامت کے بیٹوں کے تعزیت نامے ایک اور تعزیت نامہ چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کے نام تعزیت نامہ سندر داس کی تعزیت کا خط چوہدری صاحب کے نام پہلا خط تعزیت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اس کی غیرت مردانِ خدا کی قبولیت کا راز حضرت مسیح موعود کا مقام خدا کی محبت میں غیر اللہ کی محبت سے نجات کی دعا دوسرا خط تعزیت نواب محمد علی خان صاحب کی بیگم صاحبہ اولیٰ کی وفات پر تعزیت کا خط دوسرا خط خدا اپنے پیاروں کو امتحان میں ڈالتا ہے نواب صاحب کی نسبت الہام میاں بیوی کا رشتہ سب سے نرالا ہوتا ہے خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی اہلیہ کلاں کی تعزیت نمبر شمار ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ 17.۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۴ ۱۶۵ ۱۶۶ ۱۶۷ ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۰ 121 ۱۷۲ ۱۷۳
10 نمبر شمار ۱۷۴ عنوان حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی کی بہو کی تعزیت صفحہ نمبر ۲۱۳ // ۲۱۴ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۳ ۲۳۶ ۲۳۷ // ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۴۲ ۲۴۳ // ۲۴۷ ۲۴۸ صبر اور رضا بالقضا پہلا خط دوسرا خط صاحبزادی عصمت کی وفات واقعہ بشیر اوّل صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا حادثہ دار الامان میں آج کل ( منقول از الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء) حضرت مسیح موعود کے رضا بالقضا کا نمونہ صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت اقدس کی تقریر باغ میں اعلی ایمان صاف نشان بغیر امتحان ترقی محال رضا بالقضا کانمونہ مرز افضل احمد صاحب کی وفات اخوت وخلت عہد دوستی کی رعایت مرحوم محمد افضل کا واقعہ حضرت حکیم الامت اور حکیم فضل الدین کا واقعہ ۱۷۵ ۱۷۶ 122 KA ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۶ ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ 190 ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ فصیح صاحب کا واقعہ
صفحہ ۲۴۹ // ۲۵۰ ۲۵۳ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۵۹ ۲۶۰ ۲۶۱ // ۲۶۲ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۵ ۲۶۸ ۲۷۰ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۴ 11 نمبر شمار عنوان ۱۹۴ میرا ایک ذاتی واقعہ احباب کے لئے اپنے آرام کو قربان کر دینا حضرت منشی اروڑے خان صاحب رضی اللہ عنہ کا واقعہ میر عباس علی صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی میر عباس علی صاحب او د بانوی ہندوؤں اور غیر قوموں سے تعلقات غصہ اور غیرت دینی اپنی حقیقی چچی کے ہاں جانا چھوڑ دیا اقارب سے قطع تعلق غیرت دینی پنڈت لیکھرام کا واقعہ جنگ مقدس میں اس خلق کا اظہار آریہ سماج لا ہور کا واقعہ صاحبزادہ مبارک احمد ( اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا ) کا واقعہ بیماری اور تیمارداری قولنج زحیری سے بیمار ہوئے زمانہ بعثت کے بعد علالت ایک اور واقعہ عام حالت آپ کی تیمارداری ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۳
صفحہ نمبر ۲۷۵ ۲۷۸ ۲۸۱ ۲۸۳ ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۹۰ // // ۲۹۱ ۲۹۲ // // ۲۹۴ 12 صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا واقعہ علاج معالجہ بھی کرتے تھے عنوان ایک یتیم کے معالجہ میں سرگرمی ایک غریب الوطن لڑکے کی تیمارداری جود و سخا و احسان و عطا جود وسخا کی حقیقت پر ایک نظر عمل صالح کے دوا جزاء سخاوت کے اجزائے خیر آپ سائل کو رد نہ کرتے ایک عجیب واقعہ آپ کسی کی ضرورت کا احساس کر کے سوال کی بھی نوبت نہ آنے دیتے تھے نہالا بہار وراج کے ساتھ سلوک میاں غفارے کی شادی میں قیمتی زیور دے دیا سوال کی بار یک صورتوں میں بھی آپ دے دیتے کپڑے عموماً دیتے رہتے تھے عام طور پر آپ حصہ صدقہ کر دیتے تھے ایک مر گدا کا قصہ مرزا میراں بخش کا معاملہ (لگان) پیالہ بھر دیا مخفی عطا کا ایک عجیب واقعہ نمبر شمار ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۲ ۲۳۳
صفحہ نمبر ۲۹۵ ۲۹۶ // ۲۹۷ // ۲۹۸ // ۲۹۹ ۳۰۳ ۳۰۵ ۳۰۶ ۳۰۷ ۳۰۸ " ۳۰۹ ۳۱۰ 13 عنوان نمبر شمار ۲۳۴ ایک سکھ کوجو دشمن تھا قیمتی مشک دے دیا ۲۳۵ جود و عطا میں آپ کا ایثار ۲۳۶ پہلا واقعہ ۲۳۷ دوسرا واقعہ ۲۳۸ خط نمبر امتعلق مرزا امام الدین صاحب ۲۳۹ مرزا محمد بیگ مرحوم کی سپارش ۲۴۰ ۲۴۱ ۲۴۲ ۲۴۳ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۷ ۲۴۸ خط نمبر (2) ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ سوم عرض حال عطائے کوزہ تھوڑادینا جانتے ہی نہ تھے صندوقچی ہی آگے رکھ دی حضرت سید فضل شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ہر سائل کو عطاء کے لئے تیار رہتے تھے میں نے حضرت کو پیسہ دیتے نہیں دیکھا دوسرے کے سوال کا انتظار نہ کرتے ۲۴۹ تریاق الہی کی عطاء ۲۵۰ ۲۵۱ احباب کی خوشیوں میں فیاضانہ حصہ لیتے تھے شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی کا واقعہ
14 نمبر شمار ۲۵۲ ۲۵۳ عنوان خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک قیمتی کوٹ کیونکر لے لیا بے تکلفی اور سادہ زندگی ۲۵۴ حضرت مسیح موعود کی مجلس کا رنگ ۲۵۵ سادگی کی شان کا ایک جلوہ تصویر کے وقت صفحہ نمبر ۳۱۱ ۳۱۴ ۳۱۶ ۳۱۸ // ۳۲۰ ۳۲۲ ۳۲۳ ۳۲۵ ۳۲۷ // ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۳۰ ۳۳۴ ۳۳۶ مکان ولباس میں سادگی ۲۵۶ ۲۵۷ کھانے کی سادگی ۲۵۸ مباحثہ انتم کا ایک واقعہ ۲۵۹ ۲۶۰ ۲۶۱ ۲۶۲ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۵ چولا صاحب کے معائنہ کے سفر کا ایک واقعہ جنگِ مقدس کے ایام کا ایک اور واقعہ سادگی صاحبزادہ سراج الحق صاحب کا ایک واقعہ مقدمہ جہلم کا ایک واقعہ مفتی صاحب کا ایک اور واقعہ جو حضرت مسیح موعود کا معجزہ ہے اس مقدمہ کا ایک اور واقعہ سادگی اور بے تکلفی کے چندا ور واقعات ۲۶۶ منشی کرم علی صاحب کے بیٹے رحمت اللہ کا حضرت کو چمٹ جانا صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب کا واقعہ ذِكْرُ الْحَبِيبِ حَبِيبٌ فَاسِقُ الله خدام سے حسنِ سلوک ۲۶۸ ۲۶۹ ۲۷۰
صفحہ نمبر ۳۶۶ // ۳۳۷ "/ // ۳۳۸ ۳۴۰ ۳۴۱ ۳۴۳ // ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۹ ۳۵۱ ۳۵۲ ۳۵۴ ۳۵۵ 15 نمبر شمار ۲۷۱ آقا اور نوکر کے تعلقات ۲۷۲ مامور من اللہ کی زندگی عنوان حضرت مسیح موعود کو ہمیشہ خادم میسر تھے خادم سے سلوک حافظ حامد علی صاحب مرحوم کا ذکر خیر پیرا کا واقعہ ۲۷۳ ۲۷۴ ۲۷۵ ۲۷۶ ۲۷۷ ۲۷۸ حضرت حکیم فضل دین صاحب مرحوم اور ملازمین پریس کا سوال منشی غلام محمد کاتب کے ساتھ سلوک ۲۷۹ لنگر خانہ کے ایک ملازم کا واقعہ ۲۸۰ میاں نجم الدین صاحب داروغہ لنگر خانہ میاں شمس الدین صاحب کا ایک واقعہ خدام سے حسن سلوک پر جامع بیان مرزا اسماعیل بیگ صاحب کا واقعہ حضرت مسیح موعود علیه السلام به حیثیت باپ تربیت اولاد اور بچوں پر شفقت بچوں کی پرورش اور خبر گیری بچوں کو سزا دینے کی ممانعت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو آداب مسجد سکھاتے ہیں رحم کی تعلیم دیتے ہیں ۲۸۱ ۲۸۲ ۲۸۳ ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۹ بڑوں کا ادب کرنے کی تعلیم دیتے ہیں
16 نمبر شمار ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۲ عنوان بچوں کی دلداری کا کہاں تک خیال رہتا صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک اور واقعہ بچوں کے ہم جولیوں سے سلوک صفحہ نمبر ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۰ ۳۶۱ ۳۶۲ ۳۶۳ ۳۶۴ ۳۶۵ ۳۶۹ ۳۷۱ ۳۷۲ ۳۷۴ ۳۷۵ // ۳۷۷ بچوں کی باتوں سے اکتاتے نہ تھے ابا و اکھول بچوں کے علاج معالجہ میں بڑی مستعدی سے کام لیتے دینی معاملات میں بچوں کے سوال کو بھی اہمیت دیتے تھے سبق یاد نہ کرنے پر بچوں پر خفا نہ ہوتے محبت پدری کا مظاہرہ اولاد کے متعلق آپ کی خواہش یہ تھی کہ وہ خادم دین ہوں بچوں کی تربیت کہانیوں کے ذریعہ بچوں کی شادی کے متعلق طرز عمل بچوں پر عام شفقت بچوں کی خوابوں کو بھی آپ نظر انداز نہ فرماتے تھے آپ بچوں کو گود میں اٹھایا کرتے تھے بچوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے پہلی شادی اُس عہد کا طریق تمدن حُسنِ معاشرت ۲۹۳ ۲۹۴ ۲۹۵ ۲۹۶ ۲۹۷ ۲۹۸ ۲۹۹ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲ ٢٠٣ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۰۸
صفحہ نمبر ۳۷۸ ۳۸۱ ۳۹۰ ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۵ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۹ // ۴۰۱ ۴۰۹ ۴۱۳ ۴۱۴ ۴۱۵ ۴۱۶ ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۲۱ ۴۲۴ 17 نمبر شمار عنوان ۳۰۹ حضرت مسیح موعود کا طرز عمل ۳۱۰ حسن معاشرت پر جامع بیان حضرت مخدوم الملت کے قلم.سے ۳۱۱ حسن معاشرت کا نتیجہ ۳۱۲ مساوات ومواسات ۳۱۴ ۳۱۵ کھانا کھاتے وقت کوئی امتیاز نہ کرتے خواجہ صاحب کو دال ملی اور ہماری شکایت ہوئی طریق خطاب میں احترام ٣١٦ الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَبٌ ۳۱۷ ۳۱۸ رشتہ ناطہ میں بھی آپ نے امتیاز نہیں رکھا خدا تعالیٰ کی مخلوق سے عام ہمدردی کا جذبہ حضرت مسیح موعود کی ہمدردی دعا کے رنگ میں با بوشاہ دین صاحب مرحوم کا واقعہ اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم حلم وحوصلہ اور ضبط نفس و بُردباری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غصہ حضرت مسیح موعود کے خُلق حلم کی شان ۳۱۹ ۳۲۰ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۳ ۳۲۴ اندرون خانہ زندگی میں حوصلہ اور حلم کے مناظر منشی عبد الحق لاہوری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا انتظام ۳۲۶ شور و شر کرنے والوں کو منع نہیں کرتے تھے بلکہ ادھر توجہ ہی نہ ہوتی تھی ۳۲۷ بیماری اور بیماری کے بعد آپ کے حوصلہ اور حلم کا نمونہ جلوت میں ان اخلاق کا نمونہ ۳۲۸
صفحہ نمبر ۴۲۵ " ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۳۱ "/ ۴۳۳ ۴۳۸ ۴۴۳ ۴۴۵ ۴۴۹ ۴۵۲ ۴۵۳ ۴۵۶ // ۴۵۸ // ۴۵۹ 18 عنوان نمبر شمار ۳۲۹ لاہور کے دو واقعات ۳۳۰ ۳۳۱ ادعائی مہدی کا حملہ اور حضرت کا جوش رحمت ایک بدزبان بھری مجلس میں ۳۳۲ میر عباس علی صاحب کی شوخی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ضبط ۳۳۳ ضبط نفس مخدوم الملت کی آنکھ اور قلم سے ۳۳۴ ایک بد زبان ہندوستانی اور حضرت کا حوصلہ ۳۳۵ ۳۳۸ ۳۳۹ ۳۴۰ ۳۴۱ شیخ عبدالرحمان صاحب فرید آبادی کا واقعہ ایک لکھنوی حضرت مسیح موعود کی خدمت میں اس کی شوخیاں اور حضرت کا حلم وضبط نفس سیالکوٹ کے سفر میں حلم وضبط نفس کے نظارے گالیوں کا پلندہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب پنڈت لیکھرام کے قتل پر تلاشی سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ چہارم سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم الـ عرض حال سیرت و شمائل دعاؤں کے آئینہ میں دعا کے متعلق آپ کے بعض ملفوظات ۳۴۲ ۳۴۳ (۱) دعا کی ماہیت ۳۴۴ (۲) دعا ایک فطرتی امر ہے ۳۴۵ (۳) دعا اور قضاء وقدر ۳۴۶ (۴) دعا اور تدبیر کا باہمی تعلق
صفحہ نمبر ۴۶۰ ۴۶۱ ۴۶۲ ۴۶۳ ۴۶۴ "/ ۴۶۶ ۴۶۶ ۴۶۷ ۴۶۹ ۴۷۵ ۴۸۶ ۴۸۹ ۴۹۰ ۴۹۱ 19 نمبر شمار ۳۴۷ ۳۴۸ عنوان (۵) دعا اور تدبیر میں تناقض نہیں ہے (1) عارفوں اور مجو بوں کی دعا میں کیا فرق ہے؟ ۳۴۹ (۷) قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۵۷ (۸) دعا کے اثر کے لئے صفات الہیہ کالحاظ ضروری ہے (۹) دعا میں اسباب کی رعایت ضروری ہے (۱۰) غیر اللہ سے دعا اور سوال غیر مومنانہ طریق ہے (۱۱) دعا سے کیا ملتا ہے (۱۲) قبولیت دعا کے متعلق ایک اصول (۱۳) دعا کا اصل مقصد اطمینان قلب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی خصوصیات آپ کی زندگی کا مقصد ۳۵۸ ابتدائی دور کی دعائیں ۳۵۹ عہد بعثت کی دعائیں ۳۶۰ دعاؤں کا علمی امتیاز ۳۶۱ آپ کی دعاؤں کا ایک اور شاندار پہلو بيت الدعا آخری بات ۳۶۲ ۳۶۳ ۳۶۴ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے متعلق کچھ اور ۳۶۵ ہر کام سے پہلے دعا نماز عصر میں استخارہ ۳۶۶
صفحہ نمبر ۴۹۱ // ۴۹۲ " // ۴۹۴ ۴۹۶ ۴۹۷ ۵۰۱ // ۵۰۲ ۵۰۳ // ۵۰۴ // 20 20 نمبر شمار ۳۶۷ ۳۶۸ مجلس میں دعا مجسم دعا عنوان بخل اگر جائزہ ہوتا ایک خاص دعا احباب کے واسطے دعا بذریعہ دعا شک کا ازالہ ۳۶۹ ۳۷۰ ۳۷۲ ۳۷۳ عشق الہی ۳۷۴ غیر مبایعین سے فیصلہ کی آسان راہ ۳۷۵ دعا کے ذریعہ آسمانی فیصلہ ۳۷۷ صلوۃ اور دعا میں فرق دعا میں بڑی قوت ۳۷۸ دعا کرنا موت اختیار کرنے کے برابر ۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۲ دعا میں علیحدگی اپنی زبان میں دعا حقیقت دعا ایں دعائے شیخ ۳۸۳ ہر دعا سے قبل سورہ فاتحہ ۳۸۴ ۳۸۵ سب کے واسطے دعا بيت الدعا ۳۸۶ دعا کرنے میں ہلاکت
صفحہ نمبر ۵۰۴ ۵۰۷ ۵۰۹ ۵۱۱ ۵۱۳ ۵۱۴ ۵۱۶ ۵۱۹ ۵۲۱ ۵۲۲ ۵۲۳ ۵۲۴ ۵۲۶ ۵۲۷ ۵۲۸ ۵۳۱ ۵۳۳ 21 عنوان نمبر شمار ۳۸۷ حقیقت دعا ۳۸۸ اوروں سے دعا کرانا ۳۸۹ ایک طریقہ دعا ۳۹۰ دعا سے عربی تصنیف ۳۹۱ ۳۹۲ زمانہ بعثت سے قبل کی دعائیں (۱) بچپن میں دعا کا جذبہ ۳۹۳ (۲) عہد شباب کی دعائیں ۳۹۴ (۱) اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات پر خطاب کرتے ہیں ۳۹۵ (۲) حضرت مسیح موعود کی پرانی دعا ۳۹۶ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی تجلیات اور اعجاز ۳۹۷ نور محمدی کے ظہور کے لئے دعائیں ۳۹۸ (۳) مولوی عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے دعا عبداللہ غزنوی سے دعا اور اُس کا جواب (۴)۱۸۷۴ء کی ایک دعا (۵) قرآن مجید کے فہم کے لئے دعا (1) حق کی تائید اور فتح کے لئے دعا (۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے دعا (۸) امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے دعائیں (۹) زمانہ خلوت کی ایک مناجات ۳۹۹ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۴ ۴۰۵
صفحہ نمبر ۵۳۵ ۵۳۸ "/ ۵۳۹ ۵۴۶ ۵۴۹ ۵۵۰ ۵۵۲ ۵۵۳ ۵۵۴ ۵۵۶ ۵۶۱ ۵۶۲ ۵۶۴ ۵۷۲ ۵۷۴ ۵۷۹ ۵۸۰ 22 عنوان نمبر شمار ۴۰۶ مناجات (۱۰) خدا طلبی کے لئے اظہار مدعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منظوم دعا (۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا بیت اللہ میں (۱۲) ایک اور دعا (۱۳) معرفت الہی کے لئے دعا (۱۴) دعا کا ایک نیا اسلوب به اظہار شکر (۱۵) اکیلے وقت کی دعا اکیلے وقت کی دعا (۱۶) تمام قوموں کی ہدایت کے لئے دعا (۱۷) ایک دعوت مباہلہ کی دعا نمونه مضمون مباہلہ از جانب مؤلف رساله هذا بعثت کے بعد کی دعائیں (۱۸۱۱) حضرت مسیح موعود اپنے مولیٰ کے حضور (۱۹/۲) آسمانی شہادت اور فیصلہ کے لئے دعا (۲۰/۳) کافر کہنے والوں کے لئے دعا (۲۱/۴) اپنی قوم کے لئے دعا (۲۲/۵) اس قسم کی کچھ اور دعائیں (۲۳/۶) دعا برائے نشان ۴۰۷ ۴۰۸ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۱ ۴۱۲ ۴۱۳ ۴۱۴ ۴۱۵ ۴۱۶ ۴۱۷ ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۲۰ ۴۲۱ ۴۲۲ ۴۲۳ ۴۲۴
صفحہ نمبر ۵۸۰ ۵۸۱ ۵۸۴ // ۵۸۵ ۵۸۶ ۵۸۹ ۵۹۳ ۵۹۶ ۵۹۷ ۵۹۸ ۵۹۹ ۶۰۷ ۶۰۹ " ۶۱۰ ۶۱۴ ۶۲۳ 23 نمبر شمار ۴۲۵ ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۱ ۴۳۲ (۲۴۱۷) لقاء اللہ کا جوش (۲۵/۸) عشق صادق ایک نور ہے (۲۶/۹) فارسی کلام میں سے کچھ (۲۷/۱۰) امر فیصل کی دُعا (۲۸/۱۱) رضائے الہی کی طلب (۲۹/۱۲) عذاب الہی سے بچنے کی دعا (۳۰/۱۳) انعامات الہیہ کا شکر (۳۱/۱۴) عشق و محبت الہی کے اثرات عنوان ۴۳۳ (۳۲/۱۵) زندگی کے حقیقی مقصد کے لئے التجا ۴۳۴ (۳۳/۱۶) جاودانی زندگی کی تڑپ ۴۳۵ (۳۴/۱۷) غم دین میں طلب جنون ۴۳۶ (۳۵/۱۸) موجودہ عذاب کی پیشگوئی اور بچاؤ کی تدبیرودُعا 333333 (۳۶/۱۹) اولاد کے حق میں دعائیں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں (۵) حمایت اسلام کی بنیاد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد سے ہوگی (1) کثرت اولاد کی پیشگوئی (۷) مصلح موعود کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود کی اپنی اولاد کے متعلق دعائیں الہامی دعائیں
24 (۱) طہارت باطنی کی دعا عنوان (۲) ایک خطرناک مرض سے شفا پانے کی دُعا (۳) ایک مدقوق کی صحت کے لئے دعا صفحہ نمبر ۴۶۳ ۶۲۴ "/ ۶۲۶ "/ ۶۲۷ ۶۲۸ ۶۲۹ ۶۲۹ "/ ۶۳۰ // // // ۶۳۵ // ۶۳۷ (۴) جماعت مومنین کی دُعا (۵) برکات تامہ کی دعا (۱۳ تا ۱۶) مختلف دعا میں (۱۷) بعض بد زبان اقربا کے متعلق دُعا (۱۸) رفع غم وعطائے بیکراں کی دُعا (۲۳ ۲۴) حضرت ام المومنین کی صحت کی دعا (۲۵) ایک بلا کے ٹلا دینے کی دُعا نمبر شمار ۴۴۴ ۴۴۵ ۴۴۶ ۴۴۷ ۴۴۸ ۴۴۹ ۴۵۰ ۴۵۱ ۴۵۲ ۴۵۳ ۴۵۴ (۲۷) رفع مرض کی دعا ۴۵۵ (۲۸) سلسلہ کی ترقی کی دُعا ۴۵۶ (۲۹) ایک اور رفع مرض کی دُعا ۴۵۷ (۳۰) آیت اللہ کے لئے دعا ۴۵۸ (۳۱) دشمن کی ہلاکت اور اپنی حفاظت کی دعا (۳۲) مرض سے شفا کی دعا (۳۳) متفرق دعائیں (۳۴) عذاب کی پیشگوئی کے تاخیر وقت کی دعا آخری بات ۴۵۹ ۴۶۰ ۴۶۱ ۴۶۲ (۵۶) اسم اعظم ۴۶۳ (۵۷) باطل کو کچل دینے کی دعا ۴۶۴
عل الصلوة والسلام حیح بود کے شمالك عادا اخلاق كان كرا خص اقل خواجہ پر یس بار میں حمد جودی مالک مطبع پینٹر کے اہتمام و حمید کرت ان اقایان شایع بار اول تاریخ اشاعت اپنی ۱۹۳۲ء قیمت علاوہ محصول ڈاک تعداد جلد
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل حصّہ اوّل آپ کی شکل ولباس و طعام اور مذاق طبیعت کا تذکرہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور اخلاق کے بیان سے پیشتر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے شمائل کا تذکرہ کیا جاوے اور شمائل میں آپ کی شکل و شباہت.لباس و طعام.مذاق طبیعت اور عادات داخل ہیں.اس مقصد کے لئے اگر چہ تصویر سے بھی کام لیا جا سکتا ہے مگر تصویر صرف شکل وصورت کو تو ظاہر کر سکتی ہے اور وہ بھی آخر تصویر ہے لیکن وہ دوسرے حالات پر روشنی نہیں ڈال سکتی.آپ کے حلیہ مبارک کو ایک مرتبہ میرے مکرم معظم بھائی ڈاکٹر سید محمد اسمعیل صاحب خلف اکبر حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ نے لکھا تھا.اور میں اُسے آپ کے حلیہ کا بہترین بیان یقین کرتا ہوں اس لئے میں اسے ہی درج کرتا ہوں.کسی جگہ ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس میں کمی بیشی بھی کر دوں گا وہ بھی بطور نوٹ کے.یہ امر بھی یادرکھنا چاہیے کہ باوجود یکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمہ شفقت اور کامل کرم فرما تھے لیکن آپ کا چہرہ مبارک ایسا پُر رعب اور پُر شوکت تھا، تجلیات الہیہ کی ایک شان اس سے ہو ید اتھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا موعود علیہ السلام حصّہ اوّل کہ کوئی شخص منکی لگا کر آپ کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا.دلبری اور رعنائی کے وہ لوازم جو ایک خوبصورت اور وجیہ چہرہ پر نمایاں ہونے چاہئیں وہ کامل صفائی کے ساتھ درخشاں تھے.بہر حال اگر چہ آپ کے چہرہ کو پورے طور پر کامل غور کے ساتھ دیکھنے کا اتفاق کم ہوتا تھا لیکن چونکہ شوق بار بار دیکھنے والے کی آنکھ کو اٹھا دیتا تھا اس لئے آپ کے حلیہ مبارک کو لکھنے والا نہ صرف اس وجہ سے بلکہ اس پاک رشتہ کی وجہ سے جو اس کو حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہے یعنی آپ حضرت ام المومنین کے بھائی ہیں بہت موقع ملا ہے.پس میں اسے نہایت صحیح اور درست یقین کرتا ہوں اور دلائل اور قرائن کے لحاظ سے نہیں بلکہ میں خود چوبیس برس تک متواتر اس چہرہ مبارک کو دیکھتا رہا اس کا ایک گواہ ہوں.اور نہ اس سے بہتر بیان کرسکتا ہوں.لہذا انہیں کے الفاظ میں درج کرتا ہوں وِ بِاللهِ التَّوْفِيقِ.حلیہ مبارک کو یا درکھنا ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلیہ کو یا درکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کے حلیہ کو خود بھی بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے لمیہ کوحلیہ ماثور قرار دیا ہے.اور قصیدہ الہامیہ میں صاف فرمایا ہے.موعودم و حلية ماثور آمدم حیف است گر بدیده نه بینند منظرم رنگ چوگندم است و بموفرق بین است زاں ساں کہ آمد است در اخبار سرورم سید جدا کند ز مسیحائے احمرم این مقدمم نہ جائے شکوک است و التباس اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلیہ مبارک ایک ماثور حلیہ ہے اور آنحضرت علیہ نے چونکہ مہدی اور مسیح ایک شخص کی دو شانیں بیان فرمائی ہیں اور اس کی آمد اپنی آمد اور بعثت ثانی مِنْ وَجْهِ قرار دی ہے اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کے حلیہ مبارک کو ہم یا درکھیں کیونکہ یہ حلیہ مسیح ناصری علیہ السلام سے ممتاز اور جدا ہے.اور آپ کے حلیہ کا صحیح ناصری علیہ السلام کے حلیہ سے الگ ہونا آپ کی صداقت کی ایک دلیل ہے اور یہ قرینہ ہے اس بات کا کہ آنے والا مسیح موعود اسی امت سے ہوگا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے اس دلیل کو پیش کیا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا مسیح موعود اور ابن مریم کے حلیہ میں فرق حصّہ اوّل صحیح بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہلاتی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کا خلیہ سُرخ رنگ لکھا ہے جیسا کہ عام طور پر شامی لوگوں کا ہوتا ہے ایسا ہی اُن کے بال بھی خمدار لکھے ہیں.مگر آنے والے مسیح کا رنگ ہر ایک حدیث میں گندم گوں لکھا ہے اور بال سیدھے لکھے ہیں اور تمام کتاب میں یہی التزام کیا ہے کہ جہاں کہیں حضرت عیسی نبی علیہ السلام کے حلیہ لکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو ضرور بالالتزام اُس کو احمر یعنی سُرخ رنگ لکھا ہے اور اس احمر کے لفظ کو کسی جگہ چھوڑ انہیں.اور جہاں کہیں آنے والے مسیح کا حلیہ لکھنا پڑا ہے تو ہر ایک جگہ بالالتزام اس کو آدم یعنی گندم گوں لکھا ہے یعنی امام بخاری نے جو لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھے ہیں جس میں ان دونوں مسیحوں کا ذکر ہے وہ ہمیشہ اس قاعدہ پر قائم رہے ہیں جو حضرت عیسی بنی اسرائیلی کے لئے احمر کا لفظ اختیار کیا ہے اور آنے والے مسیح کی نسبت آدم یعنی گندم گوں کا لفظ اختیار کیا ہے.پس اس التزام سے جس کو کسی جگہ صحیح بخاری کی حدیثوں میں ترک نہیں کیا گیا.بجز اس کے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عیسی ابن مریم بنی اسرائیلی اور تھا اور آنے والا مسیح جو اسی امت میں سے ہوگا اور ہے ورنہ اس بات کا کیا جواب ہے کہ تفریق حُلیتین کا پورا التزام کیوں کیا گیا.ہم اس بات کے ذمہ وار نہیں ہیں اگر کسی اور محدث نے اپنی ناواقفی کی وجہ سے احمر کی جگہ آدم اور آدم کی جگہ احمر لکھ دیا ہو مگر امام بخاری جو حافظ حدیث اور اول درجہ کا نقاد ہے اُس نے اس بارے میں کوئی ایسی حدیث نہیں لی جس میں مسیح بنی اسرائیلی کو آدم لکھا گیا ہو یا آنے والے مسیح کو احمر لکھا گیا ہو.بلکہ امام بخاری نے نقل حدیث کے وقت اس شرط کو عمد الیا ہے اور برابر اوّل سے آخر تک اس کو ملحوظ رکھا ہے.پس جو حدیث امام بخاری کی شرط کے مخالف ہو وہ قبول کے لائق نہیں، (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۰.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۰،۱۱۹)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ اول اس امر کے سمجھ لینے کے بعد کہ حضرت مسیح ابن مریم اَحْمَرُ اللَّون تھے.اور حضرت مسیح موعود گندم گوں جیسا کہ آں حضرت علیہ نے فرمایا تھا.اب میں آپ کا حلیہ مبارک بیان کرتا ہوں.احمدی تو خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں موجود ہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی ہیں مگر ان میں احمد کے دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے احمدیوں میں بھی ایک فرق ہے.دیکھنے والوں کے دل میں ایک سرور اور لذت اس کے دیدار اور صحبت کی اب تک باقی ہے.نہ دیکھنے والے بارہا تاسف کرتے پائے گئے کہ ہائے ہم نے جلدی کیوں نہ کی اور کیوں نہ اس محبوب کا اصلی چہرہ اس کی زندگی میں دیکھ لیا تصویر اور اصل میں بہت فرق ہے اور وہ فرق بھی وہی جانتے ہیں جنہوں نے اس کو دیکھا.میرا دل چاہتا ہے کہ احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے حلیہ اور عادات پر کچھ تحریر کروں.شاید ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس ذات بابرکات کو نہیں دیکھا حظ اُٹھاویں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حلیہ مبارک حصّہ اوّل بجائے اس کے کہ میں آپ کا حلیہ بیان کروں اور ہر چیز پر خود کوئی نوٹ دوں یہ بہتر ہے کہ میں سرسری طور پر اس کا ذکر کرتا جاؤں اور نتیجہ پڑھنے والے کی اپنی رائے پر چھوڑ دوں.حلیہ مبارک کا خلاصہ آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ ” آپ مردانہ حسن کا اعلیٰ نمونہ تھے.مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرایہ نہ ہو کہ یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا.اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اس امت کیلئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا.آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونیت، ہیبت اور استکبار نہ تھے.بلکه فروتنی ، خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ میں بیان کرتا ہوں کہ جب حضرت اقدس چولہ صاحب کو دیکھنے ڈیرہ بابا نا تک تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سایہ میں کپڑا بچھا دیا گیا اور سب لوگ بیٹھ گئے.آس پاس کے دیہات اور خاص شہر کے لوگوں نے حضرت صاحب کی آمد سُن کر ملاقات اور مصافحہ کیلئے آنا شروع کیا.اور جو شخص آتا مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف آتا اور اُن کو حضرت اقدس سمجھ کر مصافحہ کر کے بیٹھ جاتا.غرض کچھ دیر تک لوگوں پر یہ امر نہ کھلا ، جب تک خود مولوی صاحب موصوف نے اشارہ سے اور یہ کہہ کر لوگوں کو اُدھر متوجہ نہ کیا کہ ” حضرت صاحب یہ ہیں بعینہ ایسا واقعہ ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں پیش آیا تھا.وہاں بھی لوگ حضرت ابو بکر کو رسول خدا سمجھ کر مصافحہ کرتے رہے جب تک کہ انہوں نے آپ پر چادر سے سایہ کر کے لوگوں کو اُن کی غلطی سے آگاہ نہ کر دیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جسم اور قد حصّہ اوّل آپ کا جسم ڈبلا نہ تھا نہ آپ بہت موٹے تھے البتہ آپ دوہرے جسم کے تھے.قد متوسط تھا اگر چہ ناپانہیں گیا مگر انداز پانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب ہوگا.کندھے اور چھاتی کشادہ اور آخر عمر تک سیدھے رہے نہ کمر جھکی نہ کندھے ، تمام جسم کے اعضاء میں تناسب تھا.یہ نہیں کہ ہاتھ بے حد لمبے ہوں یا ٹانگیں یا پیٹ اندازہ سے زیادہ نکلا ہوا ہو.غرض کسی قسم کی بدصورتی آپ کے جسم میں نہ تھی.جلد آپ کی متوسط درجہ کی تھی نہ سخت نہ گھر دری اور نہ ایسی ملائم جیسی عورتوں کی ہوتی ہے.آپ کا جسم پلپلا اور نرم نہ تھا بلکہ مضبوط اور جوانی کی سی سختی لئے ہوئے.آخر عمر میں آپ کی کھال کہیں سے بھی نہیں لٹکی نہ آپ کے جسم پر جھریاں پڑیں.آپ کا رنگ رنگم چو گندم است و بمو فرق بین است زاں سال که آمد است در اخبار سرورم آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی.اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائی.کبھی کسی صدمہ فٹ نوٹ.یہ سچ ہے کہ آپ کا رنگ کبھی زرد نہ تھانہ ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ مسیح موعود دوز رد رنگ کی چادروں میں ملبوس ہو گا.اس لفظ کو ظاہری لباس پر حمل کرنا تو لغو خیال ہوگا.کیونکہ زردرنگ کے پہننے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی لیکن اگر اس لفظ کو ایک کشفی استعارہ قرار دے کر مجرین کے مذاق اور تجارب کے موافق یہ معقول تعبیر ہوگی کہ حضرت اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت جبکہ وہ مسیح ہونے کا دعوی کریں گے کسی قدر بیمار ہوں گے اور حالتِ صحت اچھی نہیں رکھتے ہوں گے کیونکہ کتب تعبیر کی رو سے زردرنگ کی پوشاک پہننے کی یہی تاویل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دو بیماریاں تھیں ایک دوران سرکی اور ایک کثرت پیشاب کی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی اس علالت کی طرف اشارہ فرمایا تھا.با وجود اس کے کہ یہ بیماریاں آپ کو لاحق تھیں مگر یہ امرواقع ہے کہ آپ کے چہرہ پر زردی کبھی نمایاں نہ ہوتی تھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل رنج، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا.کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا.علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور قسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمامیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں.یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا.اور ایمان کا نور بد کار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہو سکتا.آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آ گیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژمردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں.بعض لوگ ناواقفی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں.ہر طرف سے اداسی کے آثار ظاہر ہیں.لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رور ہے ہیں مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سر برآوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکرا تا ہوا.ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی.اِطَّلَعَ اللهُ عَلى هَمِّهِ وَ غَمه - مجھے الہام ہوا.اس نے حق کی طرف رجوع کیا ، حق نے اس کی طرف رجوع کیا.کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اس نے اپنی سُنا دی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے.ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بے فکر اور بے غم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دے دیا.اور پھر اُس نے آتھم کا رجوع اور بیقراری دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دیدی اور اب اس طرح سے خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خود ہی اسے چھوڑ دیتا ہے کہ جاؤ ہم تم پر رحم کرتے ہیں.ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.لیکھرام کی پیشگوئی پوری ہوئی.مخبروں نے فورا اتہام لگانے شروع کئے.پولیس میں تلاشی بقیہ نوٹ.بلکہ جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کا رنگ گندم گوں فرمایا ہے وہ شان ہر وقت اس رنگ میں نمایاں اور آشکار رہتی تھی تا کہ اس نشان کی شہادت ملتی رہے اور لباس میں جو زرد رنگ کا اشارہ تھا وہ ہمیشہ ایک دائمی بیماری کی صورت میں ظاہر رہا.(عرفانی)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا حصّہ اوّل کی درخواست کی گئی.صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس یکا یک تلاشی کیلئے آموجود ہوئے.لوگ الگ کر دیئے گئے اندر کے باہر باہر کے اندر نہیں جاسکتے.مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی تحریر کا مشتبہ نکلے تو پکڑ لیں مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے اور خود پولیس افسروں کو لیجا لیجا کر اپنے بستے اور کتا بیں تحریریں اور خطوط اور کوٹھڑیاں اور مکان دکھا رہے ہیں.کچھ خطوط انہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کر لئے ہیں.مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ.گویا نہ صرف بے گناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام حجت کا موقعہ نزدیک آتا جاتا ہے.برخلاف اس کے باہر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں کو دیکھو وہ ہر ایک کنسٹبل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کر سہمے جاتے ہیں.ان کا رنگ فق ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں فکر ہے خود افسروں کو بلا بلا کر اپنے بستے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیشگوئی کی پورے طور سے کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی آلائش اور سازش سے پاک ثابت ہوگا.غرض یہی حالت تمام مقدمات ، ابتلاؤں، مصائب اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینانِ قلب کا اعلیٰ اور اکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں.آپ کے بال سر کے بال نہایت باریک سیدھے چکنے چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے.گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے.گردن تک لمبے تھے.آپ نہ سر منڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کتر واتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پیٹے رکھے جاتے ہیں.سر میں تیل بھی ڈالتے تھے.چنبیلی یا حنا وغیرہ کا.یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریش مبارک 11 حصّہ اوّل آپ کی داڑھی اچھی گھندار تھی ، بال مضبوط موٹے اور چمکدار سید ھے اور نرم حنا سے سرخ رنگے ہوئے تھے.داڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل آپ کتر وادیتے تھے.یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے.داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہو جانے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتر وادیئے تھے اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں.ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی.بہت خوبصورت.نہ اتنی کم کہ چھدری اور نہ صرف ٹھوڑھی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں.وسمه مهندی ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگا یا کرتے تھے.پھر دماغی دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے وسمہ ترک کر دیا تھا.البتہ کچھ روز انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا.مگر پھر ترک کر دیا.آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب (سیالکوٹی ) نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے.اس سے ریش مبارک میں سیا ہی آگئی تھی.مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جو اکثر جمعہ کے جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی فٹ نوٹ.مکرمی ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب لکھتے ہیں کہ مہندی عموماً نائی سے لگواتے تھے ایک حد تک یہ درست ہے.مگر آپ حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے بھی لگوایا کرتے تھے.بلکہ ابتداء حامد علی ہی کثرت سے لگایا کرتے تھے اور کچھ ایسا اتفاق بھی ہو جاتا تھا کہ جب حافظ حامد علی صاحب نے مہندی لگائی تو کوئی نہ کوئی الہام ہوا ہے.حافظ حامد علی صاحب کو میں نے خود بھی مہندی لگاتے دیکھا ہے.۱۹۰۵ء میں دہلی کے سفر سے جب واپس تشریف لائے تو ہمقام امرتسر خان محمد شاہ مرحوم کے مکان کی بالائی منزل پر حافظ حامد علی صاحب نے مہندی لگائی.یہ واقعہ تو میرے دیکھنے کا ہے مگر اکثر حافظ صاحب سے لگوالیتے تھے.اور اس کو بعض اوقات فرمایا بھی کہ جب تو مہندی لگاتا ہے تو الہام بھی ہوتا ہے.اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ الہام اس کے مہندی لگانے سے ہوتا تھا.بلکہ بعض اوقات ایسا اتفاق ہوا کہ اس نے جس دن مہندی لگائی تو کوئی نہ کوئی الہام بھی ہوا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضر اوّل آپ نائی سے لگوایا کرتے تھے.ریش مبارک کی طرح موچھوں کے بال بھی مضبوط اور اچھے موٹے اور چمکدار تھے.آپ لہیں کتر واتے تھے.مگر نہ اتنی کہ جو وہابیوں کی طرح مونڈی ہوئی معلوم ہوں نہ اتنی لمبی کہ ہونٹ کے کنارے سے نیچی ہوں.جسم پر آپ کے بال صرف سامنے کی طرف تھے.پشت پر نہ تھے اور بعض اوقات سینہ اور پیٹ کے بال آپ مونڈ دیا کرتے تھے یا کتروا دیتے تھے.پنڈلیوں پر بہت کم بال تھے اور جو تھے وہ نرم اور چھوٹے.اس طرح ہاتھوں کے بھی.چہرہ مبارک آپ کا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا اور حالانکہ عمر شریف ستر اور اسی کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام ونشان نہ تھا.اور نہ متفکر اور غصہ ور طبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے.رنج فکر ہتر در یاغم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنندہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار ہی دیکھتا تھا.چشم آپ کی آنکھوں کی سیاہی ، سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آپ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کر بھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے.اس جگہ یہ بات بھی بیان کے قابل ہے کہ آپ نے کبھی عینک نہیں لگائی اور آپ کی آنکھیں کام کرنے سے کبھی نہ تھکتی تھیں.خدا تعالیٰ کا لے حضرت اقدس کو مرض ذیا بیطس کی وجہ سے آنکھوں کا بہت اندیشہ تھا کیونکہ اس مرض کے غلبہ سے آنکھ کی بینائی کم ہو جاتی ہے اس اندیشہ کی وجہ سے دعا کی تو الہام ہو نَزَلَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى ثَلَثِ الْعَيْنِ وَ عَلَى الْأَخْرَيَيْنِ یعنی رحمت تین اعضا پر نازل ہوگی.ایک تو آنکھ اور دو اور عضو.چنانچہ یہ الہام آخر وقت تک پورا رہا.(عرفانی)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل آپ کے ساتھ حفاظت معین کا ایک وعدہ تھا جس کے ماتحت آپ کی چشمانِ مبارک آخر وقت تک بیماری اور تکان سے محفوظ رہیں البتہ پہلی رات کا ہلال آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں نظر نہیں آتا.ناک حضرت اقدس کی نہایت خوبصورت اور بلند بالا تھی ، پتلی ، سیدھی ، اونچی اور موزوں نہ پھیلی ہوئی تھی نہ موٹی.کان آنحضور کے متوسط یا متوسط سے ذرا بڑے.نہ باہر کو بہت بڑھے ہوئے نہ بالکل سر کے ساتھ لگے ہوئے.قلمی آم کی قاش کی طرح اوپر سے بڑے نیچے سے چھوٹے.قوت شنوائی آپ کی آخر وقت تک عمدہ اور خدا کے فضل سے برقرار رہی.رخسار مبارک آپ کے نہ پچکے ہوئے اندر کو تھے نہ اتنے موٹے کہ باہر کو نکل آویں.نہ رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں.بھنویں آپ کی الگ الگ تھیں.پیوستہ ابرونہ تھے.پیشانی اور سر مبارک پیشانی مبارک آپ کی سیدھی اور بلند اور چوڑی تھی اور نہایت درجہ کی فراست اور ذہانت آپ کے جبیں سے ٹپکتی تھی.علم قیافہ کے مطابق ایسی پیشانی بہترین نمونہ اعلیٰ صفات اور اخلاق کا ہے.یعنی جو سیدھی ہو نہ آگے کو نکلی ہوئی نہ پیچھے کو دھسی ہوئی اور بلند ہو یعنی اونچی اور کشادہ ہو اور چوڑی ہو.بعض پیشانیاں گواونچی ہوں مگر چوڑ ان ماتھے کی تنگ ہوتی ہے، آپ میں یہ تینوں خوبیاں جمع تھیں.اور پھر یہ خوبی کہ چھیں جیں بہت ہی کم پڑتی تھی.سر آپ کا بڑا تھا، اور علم قیافہ کی رو سے ہر سمت سے پورا تھا.یعنی لمبا بھی تھا ، چوڑا بھی تھا، اونچا بھی اور سطح اوپر کی اکثر حصہ ہموار اور پیچھے سے بھی گولائی درست تھی.سرحدی لوگوں کے سروں کی طرح پیچھے سے پچکا ہوا نہ تھا.آپ کی کنپٹی کشادہ تھی اور آپ کی کمال عقل پر دلالت کرتی تھی.لب مبارک لب مبارک پتلے نہ تھے مگر تاہم ایسے موٹے بھی نہ تھے کہ برے لگیں.دہانہ آپ کا متوسط تھا.اور جب بات نہ کرتے ہوں تو منہ کھلا نہ رہتا تھا.جیسے بعض آدمیوں کی عادت ہے.بعض اوقات مجلس میں جب خاموش بیٹھے ہوں تو آپ عمامہ کے شملہ سے دہانِ مبارک ڈھک لیا کرتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ حصّہ اوّل دندانِ مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہو گئے تھے یعنی کیڑا لبعض داڑھوں کو لگ گیا تھا جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی.چنانچہ ایک دفعہ ایک داڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑ گیا تھا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا.مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں.مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں.اگر چہ گرم کپڑے سردی گرمی برابر پہنتے تھے تاہم گرمیوں میں پسینہ بھی خوب آجا تا تھا مگر آپ کے پسینہ میں کبھی بو نہیں آئی تھی خواہ کتنے ہی دن کے بعد کرتا بدلیں اور کیسا ہی موسم ہو.گردن مبارک گردن مبارک آپ کی متوسط لمبائی اور موٹائی میں تھی.آپ اپنے مطاع نبی کریم ﷺ کی طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے.غسل جمعہ، حجامت، حنا، مسواک، روغن اور خوشبو کنگھی اور آئینہ کا استعمال برا بر مسنون طریق سے آپ فرمایا کرتے تھے مگر بانکے یا بنے ٹھنے رہنا آپ کی شان سے بہت دور تھا.لباس سب سے اول یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آپ کو کسی قسم کے خاص لباس کا شوق نہ تھا.آخری ایام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے.خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیص وغیرہ جواکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید بقر عید کے موقعہ پر اپنے ہمراہ نذر لاتے تھے وہی آپ استعمال فرمایا کرتے تھے.مگر علاوہ ان کے کبھی کبھی آپ خود بھی بنوا لیا کرتے تھے.عمامہ تو اکثر خود ہی خرید کر باندھتے تھے.جس طرح کپڑے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے اُسی طرح ساتھ ساتھ خرچ بھی ہوتے جاتے تھے.یعنی ہر وقت تبرک مانگنے والے طلب کرتے رہتے تھے.بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپ ایک کپڑا بطور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ اول تبرک کے عطا فر ماتے تو دوسرا بنوا کر اسی وقت پہنا پڑتا اور بعض سمجھدار اس طرح بھی کرتے تھے کہ مثلاً ایک کپڑا آپ بنوا کر بھیج دیا اور ساتھ عرض کر دیا کہ حضور ایک اپنا اترا ہوا تبرک مرحمت فرما دیں.خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا.اب آپ کے لباس کی ساخت سنئے.عموماً یہ کپڑے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے.کرتہ یا قمیص، پائجامہ ،صدری، کوٹ ، عمامہ.اس کے علاوہ رومال بھی ضرور رکھتے تھے اور جاڑوں میں جرا ہیں.آپ کے سب کپڑوں میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت کھلے کھلے ہوتے تھے.اور اگر چہ شیخ صاحب مذکور کے آوردہ کوٹ انگریزی طرز کے ہوتے مگر وہ بھی بہت کشادہ اور لیے یعنی گھٹنوں سے نیچے ہوتے تھے اور جیسے اور چونہ بھی جو آپ پہنتے تھے تو وہ بھی ایسے لمبے کہ بعض تو ان میں سے ٹخنے تک پہنچتے تھے.اسی طرح گرتے اور صدریاں بھی کشادہ ہوتی تھیں.بنیان آپ کبھی نہ پہنتے تھے بلکہ اس کی تنگی سے گھبراتے تھے.گرم قمیص جو پہنتے تھے اُس کا اکثر اوپر کا بٹن کھلا رکھتے تھے.اسی طرح صدری اور کوٹ کا اور قمیض کے کنوں میں اگر بٹن ہوں تو وہ بھی ہمیشہ کھلے رہتے تھے آپ کا طرز عمل " مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ “ کے ماتحت تھا کہ کسی مصنوعی جکڑ بندی میں جو شرعاً غیر ضروری ہے پابند رہنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا اور نہ آپ کو کبھی پرواہ تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برش کیا ہوا ہے یا بٹن سب درست لگے ہوئے ہیں یا نہیں.صرف لباس کی اصل غرض مطلوب تھی بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہیں بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کا جوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے.آپ کی توجہ ہمہ تن اپنے منصب کی طرف تھی اور اصلاح امت میں اتنے محو تھے کہ اصلاح لباس کی طرف توجہ نہ تھی.آپ کا لباس آخر عمر میں چند سال سے بالکل گرم وضع کا ہی رہتا تھا.یعنی کوٹ اور صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے اور یہ علالت طبع کی وجہ سے تھا.سردی آپ کو موافق نہ تھی اس لئے اکثر گرم کپڑے رکھا کرتے تھے.البتہ گرمیوں میں نیچے کر یہ یلمل کا رہتا تھا.بجائے گرم کرتے کے.پاجامہ آپ کا معروف شرعی وضع کا ہوتا تھا.پہلے غرارہ یعنی ڈھیلا مردانہ پاجامہ بھی پہنا کرتے تھے مگر آخر عمر میں ترک کر دیا تھا.مگر گھر میں کبھی کبھی گرمیوں میں دن کو اور عاد تا رات کے وقت نہ بند باندھ کر خواب فرمایا کرتے تھے.
سیرت برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17 حصّہ اوّل صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے مگر کوٹ عموماً باہر جاتے وقت ہی پہنتے اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دوکوٹ بھی پہنا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات پوستین بھی.صدری کی جیب میں یا بعض اوقات کوٹ کی جیب میں آپکا رومال ہوتا تھا.آپ ہمیشہ بڑا رومال رکھتے تھے.نہ کہ چھوٹا جنٹل مینی رومال جو آج کل کا بہت مروج ہے اسی کے کونوں میں آپ مشک اور ایسی ہی ضروری ادویہ جو آپ کے استعمال میں رہتی تھیں اور ضروری خطوط وغیرہ باندھ رکھتے تھے اور اسی رومال میں نفذ وغیرہ جونز رلوگ مسجد میں پیش کر دیتے تھے باندھ لیا کرتے.گھڑی بھی آپ ضرور اپنے پاس رکھا کرتے مگر اس کی کنجی دینے میں چونکہ اکثر ناغہ ہو جاتا اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا.اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے.گھڑی کو ضرورت کیلئے رکھتے نہ زیبائش کیلئے.آپ کو دیکھ کر کوئی ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنع ہے یا یہ زیب وزینت دنیوی کا دلدادہ ہے.ہاں البتہ وَالرُّجُزُ فَاهْجُرُ کے ماتحت آپ صاف ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے.یہاں تک کہ صفائی کا اس قدرا ہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہو تو بیت الخلا میں خود فینائل ڈالتے تھے.عمامہ شریف سے آپ ململ کا باندھا کرتے تھے اور اکثر دس گ یا کچھ اوپر لمبا ہوتا تھا.شملہ آپ لمبا چھوڑتے تھے کبھی کبھی شملہ کو آگے ڈال لیا کرتے اور کبھی اس کا پلہ دہن مبارک پر بھی رکھ لیتے.جبکہ مجلس میں خاموشی ہوتی.عمامہ کے باندھنے کی آپ کی خاص وضع تھی.نوک تو ضرور سامنے ہوتی مگر سر پر ڈھیلا ڈھالا لپٹا ہوا ہوتا تھا.عمامہ کے نیچے اکثر رومی ٹوپی رکھتے تھے اور گھر میں عمامہ اُتار کر صرف یہ ٹوپی ہی پہنے رہا کرتے مگر نرم قسم کی دوہری جو سخت قسم کی نہ ہوتی.لے اخبار عام چونکہ آپ پڑھا کرتے تھے وہ بھی اس میں کبھی کبھی باندھ لیتے.(عرفانی) کے عمامہ میں نے کبھی رنگ دار نہیں دیکھا البتہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ رَبُّہ نے اپنی سیرت المہدی میں چو ہدری غلام محمد صاحب بی.اے کی ایک روایت لکھی ہے کہ جب میں ۱۹۰۵ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہوئی تھی.ممکن ہے ان کو نگی سے دھوکا ہوا ہو.اوائل میں آپ نے لبی کلاہ بھی ٹوپی کی بجائے رکھی ہے).(عرفانی)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا وعود علیہ السلام ۱۷ حصہ اول جرا میں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور اُن پر مسح فرماتے.بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرا ہیں اوپر تلے چڑھا لیتے مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی.کبھی تو آگے سرا لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑھی کی جگہ پیر کی پشت پر آ جاتی.کبھی ایک جراب سیدھی دوسری الٹی.اگر جراب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول ﷺ کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کر لیا کرتے تھے جن میں سے اُن کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے.جوتی آپ کی دیسی ہوتی ، خواہ کسی وضع کی ہو ، پٹواری ، لاہوری.لدھیانوی سلیم شاہی ہر وضع کی پہن لیتے مگر ایسی جوکھلی کھلی ہو.انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا.گر گائی حضرت صاحب کو پہنے میں نے نہیں دیکھا.حضرت خلیفہ اسیح "البتہ پہنا کرتے تھے.جوتی اگر تنگ ہوتی تو اس کی ایڈی بٹھا لیتے.افٹ نوٹ.گرگابی کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ حضرت صاحب نے گرگابی بھی پہنی ہے حضرت ام المؤمنین کی ☆ روایت سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ نے اپنی سیرت المہدی میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گر گابی لے آیا.آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا الٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہو کر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان بنا دیئے تھے مگر باوجود اس کے آپ الٹا سیدھا پہن لیتے اس لئے آپ نے اسے (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۸۳ مطبوعه (۲۰۰۸ء) اتار دیا.میں نے خود حضرت کو گر گابی پہنے ہوئے دیکھا اور آپ کی زبان مبارک سے خود سنا بھی کہ آپ کو اس کے دائیں بائیں پاؤں کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے ایک مرتبہ گر گابی کے دائیں بائیں پاؤں کے نشان میں سفید اور سیاہ ڈورے باندھے گئے تھے لیکن چونکہ حضرت اقدس کی توجہ اور طرف مصروف تھی وہ اس کی طرف خیال بھی نہیں رکھ سکتے تھے اور بایاں پاؤں دائیں میں کبھی پڑ جاتا اور تکلیف ہو جاتی.اس لئے آپ نے اسے اتار دیا اور پھر ساری عمر دیسی جوتی ہی پہنتے رہے.(عرفانی)
سیرت نضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸ حصہ اول لباس کے ساتھ ایک چیز کا اور بھی ذکر کر دیتا ہوں وہ یہ کہ آپ عصا ضرور رکھتے تھے.گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا تب تو نہیں مگر مسجد اقصی کو جاتے وقت یا جب باہر سیر وغیرہ کے لئے تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہوا کرتا تھا.اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اُس پر سہارا یا بوجھ دے کر نہ چلتے تھے جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے.موسم سرما میں ایک دُھتہ لے کر آپ مسجد میں نماز کے لئے تشریف لایا کرتے تھے جو اکثر آپ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا اور اُسے اپنے آگے ڈال لیا کرتے تھے.جب تشریف رکھتے تو پھر پیروں پر ڈال لیتے.کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ، صدری، ٹوپی ، عمامہ اتار کر رات کو تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن اُن کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے.موسم گرما میں دن کو بھی اور رات کو تو اکثر آپ کپڑے اُتار دیتے اور صرف چادر یانگی باندھ لیتے.گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے تو اُس کی خاطر بھی کرتہ اُتار دیا کرتے.تہ بندا اکثر نصف ساق تک ہوتا تھا اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالتوں میں مجھے یاد نہیں کہ آپ بر ہنہ ہوئے ہوں.آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یا تو رومال میں یا اکثر ازار بند میں باندھ کر رکھتے.روئی دارکوٹ پہننا آپ کی عادت میں داخل نہ تھا.نہ ایسی رضائی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے بلکہ چادر پشمینہ کی یا دھتہ رکھا کرتے تھے اور وہ بھی سر پر کبھی نہیں اوڑھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی تھی.گلو بند اور دستانوں کی آپ کو عادت نہ تھی.بستر ایسا ہوتا تھا کہ ایک لحاف جس میں پانچ چھ سیر روٹی کم از کم ہوتی تھی اور اچھا لمبا چوڑا ہوتا تھا.چادر بستر کے اوپر اور تکیہ اور تو شک.تو شک آپ گرمی جاڑے دونوں موسموں میں یہ سبب سردی کی ناموافقت کے بچھواتے تھے.تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات قلم ، بستہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۹ حصّہ اوّل اور کتا ہیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجود رہا کرتی تھیں کیونکہ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی.اور مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا.ایک بات کا ذکر کرنا میں بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے نہ بدلا کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آجا تا تب بدلتے تھے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک حالات محبین کے لئے یاد حبیب کا کام دیں گے.ہاں یہ باتیں گو کچھ لوگوں کو اس وقت فضول معلوم ہوں مگر آئندہ نسلیں اس زمانہ کی ہر بات اور ہر معلومات کو قدر کی نظر سے دیکھیں گی.پیٹ بھرے پر کھانے کا ذکر شاید اچھا نہ معلوم ہو مگر جب بھو کے آئیں گے تب ان کو دعوت کا سالطف معلوم ہوگا.حضرت مسیح موعود کے الہامات میں کپڑوں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کو خدا تعالیٰ نے ایک برکت کا ذریعہ قرار دیا ہے چنا نچہ آپ کو اس کے متعلق الہام ہوا.آپ تحریر فرماتے ہیں.اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو.اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ.ہر ایک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۹ ایڈیشن اول روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۲) خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ بادشاہ دکھائے بھی ہیں اور آپ نے بارہا اس کا ذکر فرمایا تھا.بہر حال خدا تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ بادشاہ آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا الہام الہی کے ماتحت دو مرتبہ رومال گم ہو گیا ۱۸۸۷ء کا واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمیں موضع گجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھہ غلام نبی ہمارے ساتھ تھا جب صبح کو ہم نے جانے کا قصد کیا تو الہام ہوا کہ اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہو گا چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک 66 چادر اور ہمارا ایک رومال گم ہو گیا اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی.“ حصّہ اوّل نزول مسیح صفحه ۲۳۰- روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۸،۶۰۷) فٹ نوٹ متعلق لباس.پیٹی یا پٹکا.حضرت اقدس کے لباس میں ایک بات رہ گئی ہے کہ آپ جب باہر تشریف لے جایا کرتے تھے تو کمر بھی ضرور باندھا کرتے تھے اور یہ پڑ کا عموماً ململ کا ہوتا تھا اور بہت بڑا ہوتا تھا.کئی گز کا خوب اچھی طرح سے باندھا کرتے تھے.ایک مرتبہ آپ کو درد گردہ کی شکایت ہوئی تو آپ نے فلالین کا پڑکا باندھنا بھی شروع کر دیا تھا.آپ کی عادت شریف میں کبھی نہ تھا کہ باہر آئیں اور کوٹ پہن کر نہ آئیں ہاں گھر کے دروازہ تک ( جب کبھی کسی نے آواز دی ) جس حالت میں ہوتے تشریف لے آتے تھے اور وہ لباس عموماً یہی ہوتا تھا گرمیوں میں کرتے.اُس پر صدری اور سر پر رومی ٹوپی جو نرم بغیر پھندنے کے عموماً ہوتی تھی مگر یہ حالت آپ کی صرف گھر کے دروازہ تک محدود تھی.مسجد میں کبھی صرف ٹوپی پہن کر تشریف نہ لاتے تھے.ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی تو فرمایا "میاں عید کے دن بھی ٹوپی حضرت خلیفہ امسیح ان ایام میں عام طور پر ٹوپی پہنا کرتے تھے مگر اس کے بعد آپ نے گڑی کی طرف توجہ کی.بہر حال آپ مجردٹوپی پہن کر کبھی باہر نہ آتے تھے اور نہ پگڑی بدوں ٹوپی کے پہنتے تھے.ایک مرتبہ پگڑی کو چین بھی لگی ہوئی دیکھی گئی تھی.وہ آپ کی کسی خواہش کا نتیجہ نہ تھی بلکہ کسی نے لگادی تو ویسے ہی پہن لی.اگر چہ صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ کپڑوں کے متعلق آپ کو یہ خیال نہ ہوتا تھا جو بن سنور کر رہنے والے لوگوں میں ہوتا ہے بلکہ جیسا بھی ہوتا پہن لیتے.آتھم کے مباحثہ میں آپ نے سفید لٹھے کا ایک کوٹ پہنا ہوا تھا اور اسی کوٹ میں قریباً ایک بالشت کا سوراخ تھا یعنی وہ ایک طرف سے پھٹا ہوا تھا آخری دن تک آپ وہی کوٹ پہنے رہے اور ذرا بھی پروا نہیں کی اس لئے کہ آپ کے مزاج میں تکلف اور نمائش نہ تھی.( عرفانی)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۱ ایسا ہی ۱۸۸۸ء کا واقعہ آپ نے لکھا ہے کہ.ایک دفعہ ہمیں لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم و غم پیش آئے گا.اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی چنانچہ جب کہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اتار کر سید محمد حسن خان صاحب وز میر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تا کہ وضو کریں پھر جب نماز سے فارغ ہو کر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رو مال گر گیا ہے تب ہمیں وہ الہام یاد آیا.“ حصّہ اوّل نزول المسیح صفحه ۲۳۱.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۹) اعجاز نما کرتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک اعجاز نما کرتہ ہے جو مخدومی حضرت مولوی عبد اللہ سنوری کے پاس ہے جو اس کرتہ پر اعجازی سرخ روشنائی کے قطرے پڑنے کے وقت خود موجود تھے چونکہ یہ ایک عظیم الشان نشان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کا تذکرہ اپنی تصنیفات میں کیا ہے اس لئے میں بھی تفصیل سے اس کو لکھ دینا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سرمہ چشم آریہ کے ایک حاشیہ میں اس کشف کو لکھا ہے :- یہ ایک ستر ربوبیت ہے جو کلمات اللہ سے مخلوقات الہی پیدا ہو جاتی ہے اس کو اپنی اپنی سمجھ کے موافق ہر یک شخص ذہن نشین کر سکتا ہے چاہے اس طرح سمجھ لے کہ مخلوقات کلمات النبی کے اخلال و آثار ہیں یا ایسا سمجھ سکتا ہے کہ خود کلمات الہی ہی ہیں جو بقدرت الہی مخلوقیت کے رنگ میں آجاتے ہیں کلام الہی کی عبارت ان دونوں معنے کے سمجھنے کے لئے وسیع ہے اور بعض مواضع قرآن کی ظاہر عبارت میں مخلوقات کا نام کلمات اللہ رکھا گیا ہے جو تجلیات ربوبیت ہے بقدرت الہی لوازم و خواص جدیدہ حاصل کر کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ حدوث کے کامل رنگ سے رنگین ہو گئے ہیں اور درحقیقت یہ ایک سران اسرار خالقیت میں سے ہے جو عقل کے چرخ پر چڑھا کر اچھی طرح سمجھ میں نہیں آ سکتے اور عوام کے لئے سیدھا راہ سمجھنے کا یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کرنا چاہا وہ ہو گیا اور سب کچھ اسی کا پیدا کردہ اور اسی کی مخلوق اور اسی کے دست قدرت سے نکلا ہوا ہے.لیکن عارفوں پر کشفی طور سے بعد مجاہدات یہ کیفیت حدوث کھل جاتی ہے اور نظر کشفی میں کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام ارواح واجسام کلمات اللہ ہی ہیں.جو بحکمت کا ملہ الہی پیرا یہء حدوث و مخلوقیت سے متلبس ہو گئے ہیں مگر اصل محکم جس پر قدم مارنا اور قائم رہنا ضروری ہے یہ ہے کہ ان کشفیات و معقولات سے قدر مشترک لیا جائے یعنی یہ کہ خدائے تعالیٰ ہر یک چیز کا خالق اور محدث ہے اور کوئی چیز کیا ارواح اور کیا اجسام بغیر اس کے ظہور پذیر نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے کیونکہ کلام الہی کی عبارت اس جگہ در حقیقت ذوالوجوہ ہے اور جس قد ر قطع اور یقین کے طور پر قرآن شریف ہدایت کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہر یک چیز خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر و وجود پذیر ہوئی ہے اور کوئی چیز بغیر اس کے پیدا نہیں ہوئی اور نہ خود بخود ہے سو اس قدر اعتقاد ابتدائی حالت کے لئے کافی ہے پھر آگے معرفت کے میدانوں میں سیر کرنا جس کو نصیب ہوگا اس پر بعد مجاہدات خود وہ کیفیت کھل جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُم سُبُلَنَا (العنکبوت: ۷۰) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے ہم ان کو وہ اپنی خاص را ہیں آپ دکھلاویں گے جو مجرد عقل اور قیاس سے سمجھ میں نہیں آسکتیں اور درحقیقت خدائے تعالیٰ نے اپنے عجیب عالم کو تین حصہ پر منقسم کر رکھا ہے.(۱) عالم ظاہر جو آنکھوں اور کانوں اور دیگر حواس ظاہری کے ذریعہ اور آلات خارجی کے توسل سے محسوس ہوسکتا ہے.(۲) عالم باطن جو عقل اور قیاس کے ذریعہ سے سمجھ میں آسکتا ہے.حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۳ (۳) عالم باطن در باطن جو ایسا نازک اور لا یدرک و فوق الخیالات عالم ہے جو تھوڑے ہیں جو اس سے خبر رکھتے ہیں وہ عالم غیب محض ہے جس تک پہنچنے کے لئے عقلوں کو طاقت نہیں دی گئی مگر ظن محض.اور اس عالم پر کشف اور وحی اور الہام کے ذریعہ سے اطلاع ملتی ہے نہ اور کسی ذریعہ سے اور جیسی عادت اللہ بدیہی طور پر ثا بت اور متحقق ہے کہ اس نے ان دو پہلے عالموں کے دریافت کرنے کے لئے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے انسان کو طرح طرح کے حواس و قوتیں عنایت کی ہیں.اسی طرح اس تیسرے عالم کے دریافت کرنے کے لئے بھی اس فیاض مطلق نے انسان کے لئے ایک ذریعہ رکھا ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام اور کشف ہے جو کسی زمانہ میں بکتی بند اور موقوف نہیں رہ سکتا بلکہ اس کے شرائط بجالانے والے ہمیشہ اس کو پاتے رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے.چونکہ انسان ترقیات غیر محدودہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خدائے تعالیٰ بھی عیب بخل و امساک سے بکلی پاک ہے.پس اس قوی دلیل سے ایسا خیال بڑا نا پاک خیال ہے جو یہ سمجھا جائے جو خدائے تعالیٰ نے انسان کے دل میں تینوں عالموں کے اسرار معلوم کرنے کا شوق ڈال کر پھر تیسرے عالم کے وسائل وصول سے بکلی اس کو محروم رکھا ہے.پس یہ وہ دلیل ہے جس سے دانشمند لوگ دائمی طور پر الہام اور کشف کی ضرورت کو یقین کر لیتے ہیں اور آریوں کی طرح چار رشیوں پر الہام کو ختم نہیں کرتے جن کی مانند کوئی پانچواں اس کمال تک پہنچنا ان کی نظر عجیب میں ممکن ہی نہیں بلکہ عقلمند لوگ خدائے تعالیٰ کے فیاض مطلق ہونے پر ایمان لا کر الہامی دروازوں کو ہمیشہ کھلا سمجھتے ہیں اور کسی ولایت اور ملک سے اس کو مخصوص نہیں رکھتے ہاں اس صراط مستقیم سے مخصوص رکھتے ہیں جس پر ٹھیک ٹھیک چلنے سے یہ برکات حاصل ہوتے ہیں.کیونکہ ہر یک چیز کے حصول کے لئے یہ لازم پڑا ہوا ہے کہ انہیں قواعد اور طریقوں پر عمل کیا جائے جن کی پابندی سے وہ چیز مل سکتی ہے.غرض عقلمند لوگ عالم کشف کے عجائبات حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴.سے انکار نہیں کرتے بلکہ انہیں ماننا پڑتا ہے کہ جس جواد مطلق نے عالم اول کے ادنی ادنیٰ امور کے دریافت کرنے کے لئے انسان کو حواس وطاقتیں عنایت کی ہیں وہ تیسرے عالم کے معظم اور عالی شان امور کے دریافت سے جس سے حقیقی اور کامل تعلق خدائے تعالیٰ سے پیدا ہوتا ہے اور کچی اور یقینی معرفت حاصل ہو کر اسی دنیا میں انوار نجات نمایاں ہو جاتے ہیں کیوں انسان کو محروم رکھتا بے شک یہ طریق بھی دوسرے دونوں طریقوں کی طرح کھلا ہوا ہے اور صادق لوگ بڑے زور سے اس پر قدم مارتے ہیں اور اس کو پاتے ہیں اور اس کے ثمرات حاصل کرتے ہیں عجائبات اس عالم ثالث کے بے انتہا ہیں اور اس کے مقابل پر دوسرے عالم ایسے ہیں جیسے آفتاب کے مقابل پر ایک دانہ خشخاش.اس بات پر زور لگانا کہ اس عالم کے اسرار عقلی طاقت سے بکلی منکشف ہو جائیں یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک انسان آنکھوں کو بند کر کے مثلاً اس بات پر زور لگائے کہ وہ قابل رؤیت چیزوں کو قوت شامہ کے ذریعہ سے دیکھ لے بلکہ عجائبات عالم باطن در باطن سے عقل ایسی حیران ہے کہ کچھ دم نہیں مارسکتی کہ یہ کیا بھید ہے.روحوں کی پیدائش پر انسان کیوں تعجب کرے اسی دنیا میں صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کنہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے.بعض اوقات صاحب کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بے شمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باز نہ تعالیٰ اس کی آواز بھی سن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سن لیتا ہے جس کی صورت اس پر منکشف ہوئی ہے.بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گزشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ملاقات ہر یک نیک بخت روح یا بد بخت روح کے کشف قبور کے طور پر ہوسکتی ہے چنانچہ خود اس میں مؤلف رسالہ ہذا صاحب تجربہ ہے اور یہ امر حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ ہندوؤں کے مسئلہ تناسخ کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحب کشف اپنی توجہ اور قوت تاثیر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صد ہا کوسوں کے فاصلہ کے باز نہ تعالیٰ عالم بیداری میں ظاہر ہو جاتا ہے حالانکہ اس کا وجود عنصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا اور عقل کے زور سے ایک چیز کا دو جگہ ہونا محال ہے سو وہ محال اس عالم ثالث میں ممکن الوقوع ہو جاتا ہے اسی طرح صد ہا عجائبات کو عارف بچشم خود دیکھتا ہے اور ان کو ر باطنوں کے انکار سے تعجب پر تعجب کرتا ہے جو اس عالم ثالث کے عجائبات سے قطعا منکر ہیں.راقم رسالہ ہذا نے اس عالم ثالث کے عجائبات اور نادر مکاشفات کو قریب پانچ ہزار کے بچشم خود دیکھا اور اپنے ذاتی تجربہ سے مشاہدہ کیا اور اپنے نفس پر انہیں وارد ہوتے پایا ہے.اگر ان سب کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بڑی بھاری کتاب تالیف ہو سکتی ہے.ان سب عجائبات میں سے ایک بڑی عجیب بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ بعض کشفی امور جن کا خارج میں نام و نشان نہیں محض قدرتِ غیبی سے وجود خارجی پکڑ لیتے ہیں اگر چہ صاحب فتوحات و فصوص و دیگر اکثر اکابر متصوفین نے اس بارے میں بہت سے اپنے خود گذشت قصے اپنی تالیفات میں لکھے ہیں لیکن چونکہ دید و شنید میں فرق ہے اس لئے مجرد ان قصوں کی سماعت سے ہم کو وہ کیفیت یقینی حاصل نہیں ہو سکتی تھی.جو اپنے ذاتی مشاہدہ سے حاصل ہوئی.ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں نے عالم کشف میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہو گا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے اور یا درکھنا چاہیے کہ مکاشفات اور رویا صالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفات جمالیہ یا جلالیہ الہی انسان کی شکل پر متمثل ہو کر صاحب کشف کو نظر آ جاتے ہیں اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادر مطلق ہے اور یہ امرار باب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے جس سے حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ کوئی صاحب کشف انکار نہیں کر سکتا ) غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت متخیله کے آگے ایسی دکھلائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے اس ذات بے چون و بے چگون کے آگے وہ کتاب قضاء وقدر پیش کی گئی اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو اس عاجز کی طرف چھڑ کا اور بقیہ سرخی کا قلم کے مونہہ میں رہ گیا اس سے اس کتاب پر دستخط کر دیے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دور ہوگئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سرخی کے تازہ بہ تازہ کپڑوں پر پڑے چنانچہ ایک صاحب عبد اللہ نام جوسنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہو کر بیٹھے ہوئے تھے دو یا تین قطرہ سرخی کے ان کی ٹوپی پر پڑے.پس وہ سرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آ گئی.اسی طرح اور کئی مکاشفات میں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے مشاہدہ کیا گیا ہے اور اپنے ذاتی تجارب سے ثابت ہو گیا جو بلاشبہ امور کشفیہ کبھی کبھی باز نہ تعالیٰ وجود خارجی پکڑتے ہیں یہ امور عقل کے ذریعہ سے ہر گز ذہن نشین نہیں ہو سکتے بلکہ جو شخص عقل کے گھمنڈ اور غرور میں پھنسا ہوا ہے وہ ایسی باتوں کو سنتا ہے نہایت تکبر سے کہے گا کہ یہ سراسر امر محال اور خیال باطل ہے اور ایسا کہنے والا یا تو دروغگو ہے یا دیوانہ یا اس کو سادہ لوحی کی وجہ سے دھوکا لگا ہے اور بہ باعث نقصان تحقیق بات کی تہ تک پہنچنے سے محروم رہ گیا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ان عقلمندوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ امور جن کی صداقت پر ہزار ہا عارف و راستباز اپنے ذاتی تجارب سے شہادتیں دے گئے ہیں.اور اب بھی دیتے ہیں اور صحبت گزین پر ثابت کر دینے کے لئے بفضلہ تعالیٰ اپنی ذمہ داری لیتے ہیں کیا وہ ایسے خفیف امور ہیں جو صرف منکرانہ زبان ہلانے سے باطل ہو سکتے ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ عالم کشف کے عجائبات تو ایک طرف رہے جو عالم عقل ہے یعنی جس عالم تک عقل کی رسائی ہونا ممکن ہے اس عالم کا بھی ابھی تک عقل حصہ اول
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا علیہ السلام ۲۷ حصہ اول نے تصفیہ نہیں کیا اور لاکھوں اسرار الہی پردہ غیب میں دبے پڑے ہیں.جن کی عقلمندوں کو ہوا تک نہیں پہنچی.ایک فصلی لکھی جو پلید اور ناپاک زخموں پر بیٹھتی ہے اور اکثر گدھے یا بیل وغیرہ جو زخمی اور مجروح ہوں ان کو ستاتی ہے اس کے اس عجیب خاصہ پر کوئی فلسفی دلیل عقلی نہیں بتلا سکتا کہ وہ اکثر برسات میں تکون کے طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی اولا دصرف کیڑے ہوتے ہیں کہ جو ایک ایک سیکنڈ میں دس دس ہیں نہیں تھیں تھیں اس کے اندر سے نکلتے جاتے ہیں کیا یہ عقل کے برخلاف ہے یا نہیں کہ مادہ اور نر دونوں نوع واحد میں داخل ہوں اور ان کے بچے ایسے ہوں کہ اس نوع سے بکلی خارج ہوں.ایسا ہی اگر چھپکلی کو ( جس کو پنجاب میں کر لی کہتے ہیں ) درمیان سے کاٹا جائے تو اس کا نیچے اور اوپر کا دھڑ دونوں الگ الگ تڑپتے ہیں اور مضطر بانہ حرکت کرتے ہیں اگر بقول پنڈت دیا نند صاحب روح بھی جسم کی قسم ہے تو اس سے ضرور لازم آتا ہے کہ روح دو ٹکڑے ہو گیا ہو اور اگر روح کو جسم اور جسمانی ہونے سے منز ہ خیال کریں اور اس کا تعلق جسم سے ایسا ہی مجہول الکیفیت و برتر از عقل و فہم خیال کریں جیسے روح کا حدوث برتر از عقل و فہم ہے تو پھر البتہ کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا.ہاں پنڈت دیا نند کا مذہب جڑھ سے اکھڑتا ہے.اسی طرح عقلمندوں کی عقل ناقص کی تراش وخراش پر بہت اعتراض اٹھتے ہیں اور ان کو آخر کا رنہایت شرمساری سے منہ کے بل گرنا پڑتا ہے اور پھر انجام کار بہت خوار اور ذلیل ہو کر اسی بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی بے انتہا عجیب و غریب قدرتوں کا احاطہ کرنا انسان کا کام نہیں.66 هر چه دا نا کند کند نادان لیک بعد از کمال رسوائی ، (سرمه چشم آریہ صفحہ ۱۲۵ تا ۱۳۴ حاشیہ.روحانی خزائن جلد نمبر۲ صفحه ۱۷۳ تا ۱۸۲ حاشیه ) ترجمہ - عقل مند جو کچھ کرتا ہے، بیوقوف بھی آخر وہی کرتا ہے لیکن بہت خواری اٹھانے کے بعد.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۸ اعجاز نما کرتہ کے متعلق ثناء اللہ امرتسری پر اتمام حجت حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کرتہ اب تک مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کے پاس موجود ہے اور اس پر سرخی کے نشان اب تک قائم ہیں.اس کشف کے متعلق منکر امرتسری نے اہل حدیث ے جولائی ۱۹۱۶ء میں اعتراض کیا.اس اعتراض کا جواب الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۱۶ء میں شائع کر دیا گیا.اس جواب کے دیتے ہوئے ایڈیٹر صاحب الفضل نے ثناء اللہ امرتسری کو چیلنج کیا کہ اگر وہ اس کو فرضی اور محض افتر ایقین کرتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ اہل حدیث میں اپنے یقین کے ثبوت میں حلف بِلَعْنَةِ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِين شائع کر دیں خدا تعالیٰ خود ہی جھوٹ اور سچ میں امتیاز کر دے گا ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ دل سے اس واقعہ کی صداقت کے قائل ہیں اور بظاہر ایک منافقانہ طرز اختیار کی ہوئی ہے.اس پر باوقات مختلف الفضل اور اہل حدیث میں مختصر نوٹ نکلے.مگر مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے الفضل کے نوٹ کو پڑھ کر اپنی شہادت لکھ کر ایڈیٹر صاحب الفضل کو بھیج دی.جو انہوں نے ۲۶ ستمبر ۱۹۱۶ء کے الفضل میں شائع کر دی اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیج الثانی کے حکم کے ماتحت اس کشف کے متعلق ثناء اللہ کے رو برو جمع عام میں جس جگہ ثناء اللہ چاہے اور جن الفاظ میں چاہے یہ عاجز قسم کھانے کو تیار ہے نیز یہ عاجز مباہلہ کے لئے بھی حاضر ہے غرضیکہ وہ جس طرح بھی چاہے اطمینان کرلے“.مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی شہادت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس شہادت کو ادا کیا ہے.الفضل ۲۷ جولائی میں حضرت اقدس نبی اللہ کے مشہور کشف پر بد بخت ثناء اللہ کا حملہ دیکھ کر دل بیتاب ہو گیا.چونکہ حضرت اقدس اس دار فانی میں موجود نہیں لیکن جس کے روبرو یہ واقعہ ظہور میں آیا ہے یہ عاجز تا حال زندہ موجود ہے اس واسطے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ ضروری سمجھا کہ اس شہادت کو ادا کر دوں.چونکہ یہ واقعہ اس عاجز کی آنکھوں کے سامنے کا ہے گو بہت عرصہ کا ہے مگر بخوبی من و عن یاد ہے.۱۸۸۲ ء یا ۱۸۸۳ء سے یہ عاجز حضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں حاضر ہونے کا شرف رکھتا ہے ۱۸۸۴ء یا ۱۸۸۵ء کا یہ واقعہ ہے.کیونکہ اس کشف کو حضرت اقدس نے اوّل سُرمہ چشم آریہ میں درج فرمایا ہے اور یہ رسالہ ہوشیار پور کے ایک آریہ کے ساتھ مباحثہ ہے اور ہوشیار پور حضرت اقدس ۱۸۸۶ء میں باذن الہی دو ماہ قیام پذیر رہے تھے.اس دو ماہ کے اخراجات روزانہ خوردونوش اس عاجز کے پاس ایک پاکٹ بک میں جو حضرت اقدس کا ہی عطیہ ہے معہ تاریخ و ماہ وسال درج ہیں جو ۱۸۸۶ء ہے.اوائل میں یہ عاجز کئی کئی ماہ حضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں رہا کرتا تھا اور خصوصاً ماہ رمضان میں تو ضرور ہی حاضر خدمت رہتا تھا.۱۸۸۴ ء یا ۱۸۸۵ء کے رمضان المبارک میں بھی یہ عاجز حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھا.انہی ایام میں ر علیہ السلام مسجد مبارک کے مشرقی حجرہ میں قیام فرمایا کرتے تھے.اس مکان میں جو کہ غسل خانہ کے طور کا غسل وغیرہ کے واسطے بنوایا تھا نیا پلستر کرایا گیا تھا اور یہ ٹھنڈا تھا اس میں نشست فرمایا کرتے تھے.اور اسی میں تحریر وغیرہ کا کام بھی کیا کرتے تھے.اس وقت اس حجرہ یعنی غسل خانہ کی یہ شکل نہ تھی جواب ہے.اس کا دروازہ مسجد مبارک کے زینہ میں تھا اور مسجد مبارک کی طرف ایک روشن دان تھا اور ایک دریچہ گول کمرہ کی چھت کے اوپر اور ایک چھوٹا دریچہ گول کمرہ کی چھت کے نیچے تھا.ان ہی ایام میں حضرت اقدس صبح کی نماز اول وقت پڑھ کر تھوڑی دیر اس حجرہ میں لیٹ جایا کرتے تھے.اس میں ایک چھوٹی سی چار پائی سن کے بان کی بچھی رہتی تھی.اور اس کے برابر ایک چھوٹی چوکی ہوتی تھی جس پر کاغذ قلم دوات رکھی رہتی تھی.انگریزی قلم و سیاہی اس وقت حضور استعمال نہیں فرمایا کرتے تھے.ایک مٹی کی دوات میں دیسی سیاہی حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا وعود علیہ السلام اور قلم ہوتی تھی جو اس چوکی پر رکھی رہتی تھی.دوسری شادی مبارک چونکہ حضور کی ابھی نہیں ہوئی تھی اس واسطے حضور عالی دن کو مسجد مبارک کے حجرہ میں اور رات کو مسجد مبارک کی چھت پر مقام فرمایا کرتے تھے اور یہ عاجز بھی اسی جگہ روز وشب رہا کرتا تھا ان ہی ایام میں حضرت اقدس اذان بھی خود ہی دیا کرتے تھے اور جماعت بھی آپ ہی کرایا کرتے تھے صرف دو تین مقتدی ہوا کرتے تھے.ایک یہ عاجز اور ایک حافظ حامد علی صاحب اور ایک آدھ کوئی اور.مہمانوں کی آمدو رفت کا سلسلہ بہت ہی کم تھا وہ بھی صرف گرد و نواح کے.اسی قسم کی پیاری پیاری اور ایمان بڑھانے والی باتیں تو بہت ہیں جنہیں چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا مگر طوالت مضمون سے ڈر کر اصل مدعا عرض کرتا ہوں.رمضان شریف میں یہ عاجز حاضر خدمت سرا پا برکت تھا کہ آخری عشرہ میں ۲۷ تاریخ کو جمعہ تھا اس جمعہ کی صبح کی نماز پڑھ کر حضرت اقدس حسب معمول حجرہ مذکور میں جا کر چار پائی پر لیٹ گئے اور یہ عاجز پاس بیٹھ کر حسب معمول پاؤں مبارک دبانے لگ گیا.حتی کہ آفتاب نکل آیا اور حجرہ میں بھی روشنی ہوگئی.حضرت اقدس اس وقت کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اور منہ مبارک پر اپنا ہاتھ کہنی کی جگہ سے رکھا ہوا تھا.میرے دل میں اس وقت بڑے سرور اور ذوق سے یہ خیالات موجزن تھے.کہ میں کیا خوش نصیب ہوں.کیا ہی عمدہ موقعہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے کہ مہینوں میں مہینہ مبارک رمضان شریف کا ہے اور تاریخ بھی جو ۲۷ ہے مبارک ہے اور عشرہ بھی مبارک ہے اور دن بھی جمعہ ہے.جو نہایت مبارک ہے.اور جس شخص کے پاس بیٹھا ہوں وہ بھی نہایت مبارک ہے.اللہ اکبر کس قدر برکتیں آج میرے لئے جمع ہیں.اگر خداوند کریم اس وقت کوئی نشان حضرت اقدس کا مجھے دکھلا دے تو کیا بعید ہے.میں اسی سرور میں تھا اور پاؤں ٹخنہ کے قریب سے دبا رہا تھا کہ یکا یک حضرت حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۳۱ اقدس کے بدن مبارک پر لرزہ سا محسوس ہوا.اس لرزہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا ہاتھ مبارک منہ پر سے اٹھا کر میری طرف دیکھا اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے.شاید جاری بھی تھے اور پھر اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر لیٹے رہے.جب میری نظر ٹخنہ پر پڑی تو اس پر ایک قطرہ سرخی کا جو پھیلا ہوا نہیں بلکہ بستہ تھا مجھے دکھلائی دیا، میں نے اپنی شہادت کی انگلی کا پھول اس قطرہ پر رکھا تو وہ پھیل گیا.اور سرخی میری انگلی کو بھی لگ گئی.اس وقت میں حیران ہوا اور میرے دل میں یہ آیت گزری صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةٌ "يز یہ بھی دل میں گزرا کہ اگر یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں شاید خوشبو بھی ہو.چنانچہ میں نے اپنی انگلی سنگھی مگر خوشبو وغیرہ کچھ نہ تھی.پھر میں ٹخنہ کی طرف سے کمر کی طرف دبانے لگا تو حضرت اقدس کے کرتہ پر بھی چند داغ سرخی کے گیلے گیلے دیکھے مجھ کو نہایت تعجب ہوا اور میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور حجرہ کی ہر جگہ کو اچھی طرح دیکھا مگر مجھے سرخی کا کوئی نشان حجرہ کے اندر نہ ملا.آخر حیران سا ہو کر بیٹھ گیا اور بدستور پاؤں دبانے لگ گیا حضرت صاحب منہ پر ہاتھ رکھے لیٹے رہے تھوڑی دیر کے بعد حضور اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے یہ عاجز بدستور پھر کمر وغیرہ دبانے لگ گیا.اس وقت میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور پر یہ سرخی کہاں سے گری.پہلے تو ٹال دیا پھر اس عاجز کے اصرار پر وہ سارا واقعہ بیان فرمایا جس کو حضرت اقدس تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج فرما چکے ہیں مگر بیان کرنے سے پہلے اس عاجز کو رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ اور کشفی امور کا خارج میں وجود پکڑنا حضرت محی الدین ابن عربی کے واقعات سنا کر خوب اچھی طرح سے ذہن نشین کرا دیا تھا کہ اس جہان میں کاملین کو بعض صفات الہیہ جمالی یا جلالی متمثل ہو کر دکھلائی دے جاتی ہیں.پھر حضرت اقدس نے مجھے فرمایا کہ آپ کے کپڑوں پر بھی کوئی قطرہ گرا.میں نے اپنے کپڑے ادھر ادھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضرت میرے پر تو کوئی قطرہ نہیں ہے حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۳۲ فرمایا.اپنی ٹوپی پر ( جو سفید مکمل کی تھی ) دیکھو.میں نے ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی کہ میرے پر بھی ایک قطرہ خدا کی روشنائی کا گرا.اس عاجز نے وہ کر تہ جس پر سرخی گری تھی تبر کا حضرت اقدس سے باصرار تمام لے لیا.اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤں گا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے.کیونکہ حضرت اقدس اس وجہ سے اسے دینے سے انکار کرتے تھے کی میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنالیں گے.اور اس کی پوجا شروع ہو جائے گی.غرض کہ بہت ہی رد و قدح کے بعد دیا.جو میرے پاس اس وقت تک موجود ہے اور سرخی کے نشان اس وقت تک بلاکم وکاست بعینہ موجود ہیں.یہ ہے سچی عینی شہادت.اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین کی وعید کافی ہے.میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سیج ہے.اگر جھوٹ ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ! لعنت !! لعنت !!! مجھے پر خدا کا غضب ! غضب !! غضب !!! عاجز عبد اللہ سنوری حصّہ اوّل اس شہادت کی اشاعت پر پھر اہل حدیث کو چیلنج کیا گیا اور اس نے لکھا کہ ہمارے محلہ کی مسجد میں آکر قسم کھائیں چنانچہ اس مقصد کے لئے ۲۵ نومبر ۱۹۱۶ء کومنشی غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل، میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور مولوی عبداللہ سنوری صاحب امرتسر پہنچے اور ثناء اللہ صاحب سے خط وکتابت ہوئی.جب خط و کتابت سے معاملہ طے ہوتا نظر نہ آیا تو یہ جماعت ۲۷ نومبر ۱۹۱۶ء کی صبح کو مولوی ثناء اللہ صاحب کی مسجد میں پہنچی.ثناء اللہ صاحب نے اس پیالہ کو ٹلانے کی ہر چند کوشش کی مگر مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے آخر اس کو مجبور کیا کہ وہ قسم کھلوائے.یہ تمام کیفیت ایڈیٹر صاحب الفضل نے 9 دسمبر ۱۹۱۶ء کے اخبار میں اور شاید علیحدہ بھی چھاپ دی ہے.میں اس میں سے صرف حلف اٹھانے کا نظارہ درج کر دیتا ہوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۳۳ حصّہ اوّل حلف اٹھانے کا نظارہ اس کے بعد میاں عبداللہ صاحب نے اپنا وہی بیان پڑھ کر سنایا جو ہم اوپر درج کر آئے ہیں.اور ایسے درد ناک اور مؤثر لہجہ میں سنایا کہ مولوی ثناء اللہ کے حاشیہ نشینوں کے چہرے بھی قبولیت اثر کی شہادت دے رہے تھے.اور جب میاں عبد اللہ صاحب نے اپنے تمام بیان کو پڑھ کر نہایت رقت آمیز لہجہ میں بایں الفاظ حلف اٹھائی کہ.یہ ہے سچی عینی شہادت ! اگر میں نے جھوٹ بولا ہوتو لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کی وعید کافی ہے.میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے پڑھا ہے سراسر سچ ہے.اگر جھوٹ ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ! لعنت !! لعنت !! مجھ پر خدا کا غضب ! غضب !! غضب !!! تو سامعین کا نپ اٹھے.اور جس کسی کے دل میں ایک ذرہ بھی خوف خدا تھا اس کا بشرہ بتا رہا تھا کہ اس پر خاص اثر ہوا ہے اور پھر جب میاں صاحب نے یہ کہا کہ میں نے یہ حلف تو اٹھالی ہے لیکن اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ کافی نہ ہو تو وہ خود جن الفاظ میں چاہیں مجھ سے قسم کھلا لیں میں اپنی اولا د.اپنے مال اور اپنی جان.غرضیکہ ہر چیز کی قسم کھانے کے لئے تیار ہوں.اس وقت اپنے سامنے مولوی صاحب جس طرح چاہیں اپنی تسلی کر لیں.میں نے اس سرخی کے نشان کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ٹخنے پر پڑا تھا اپنی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا تھا.اس سے میری انگلی کو بھی سرخی لگ گئی تھی.اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو میری انگلی کیا میرے جسم کا ذرہ ذرہ جہنم میں ڈالا جائے.اور سب سے بڑا جو عذاب ہے وہ مجھ پر نازل کیا جائے“.اس طرح پر اس اعجاز نما کرتہ کے ذریعہ ثناء اللہ امرتسری پر اتمام حجت ہوئی.یہ کر نہ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے اب تک موجود ہے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے پاس ہے جو ان کے ساتھ دفن کیا جائے گا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے یہی وعدہ لے کر یہ کر نہ عطا فرمایا تھا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگشتری ۳۴ حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگوٹھی پہنا کرتے تھے اور آپ نے تین قسم کی انگوٹھیاں تیار کرائی تھیں.ایک پر الیسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کھدا ہوا تھا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے.دوسری انگوٹھی پر الہام غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِي الخ درج تھا اور تیسری پر مولی بس.یہ حضرت صاحب کا الہام نہیں بلکہ یہ ایک خاص رویا سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ میں آگے چل کر انشاء اللہ اس کے متعلق بیان کروں گا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس انگوٹھی کے متعلق لکھا ہے کہ :- تیسری وہ جو آخری سالوں میں تیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی.یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوں اس پر کیا لکھواؤں حضور نے جواب دیا ” مولی بس“ چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کر انگوٹھی آپ کو پیش کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی.حضرت مسیح موعود کی وفات کے ایک عرصہ بعد والدہ صاحبہ نے ان تینوں انگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوں بھائیوں کے لئے قرعہ ڈالا.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اسیح ثانی کے نام نکلی.غَرَسُـتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِی والی خاکسار کے نام اور مولی بس والی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی.ہمشیرگان کے حصہ میں دو اور اسی قسم کے تبرک آئے.“ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا علیہ السلام ۳۵ حصّہ اوّل پہلی انگوٹھی کس طرح تیار ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پہلی انگوٹھی حضرت مرزا غلام مرتضی خان صاحب مرحوم کی وفات کے بعد تیار ہوئی اور وہ ایک نشان ہے سیرت مسیح موعود کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں اس کے متعلق میں مفصل لکھ چکا ہوں.دیکھو صفحہ ۸۵.( حیات احمد جلد اصفحہ ۱۳۲ ۱۳۳۰) مختصر یہ ہے کہ مرزا صاحب قبلہ مرحوم کی وفات کے متعلق جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ الہام اطلاع دی تو آپ فرماتے ہیں کہ " بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ اُنہیں کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے.جو اُن کی حیات سے مشروط تھی.اس لئے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا.اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اس الہام الہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے.در حقیقت یہ امر بار ہا آزمایا گیا ہے کہ وحی الہی میں دلی تسلی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الہی پر ہو جاتا ہے.افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعویٰ الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے الہام طنفی امور ہیں نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی.ایسے الہاموں کا ضرر ان کے نفع سے زیادہ ہے مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ الہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اسکے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں.غرض جب مجھ کو الہام ہوا کہ آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ تو میں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوامل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اُس کو سُنایا اور اُس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ تاوہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تا مولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے.اب حضرت خلیفہ ثانی کے پاس ہے.عرفانی ) مولی بس والی انگوٹھی کی کیفیت حصّہ اوّل (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹ ،۲۲۰) ۳۰ /نومبر ۱۹۰۵ء کو حضرت سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی قادیان سے جانے والے تھے.اور وہ مہمان خانہ جدید میں اترے ہوئے تھے.حضرت اقدس وہاں تشریف لائے اور سیٹھ صاحب کو مخاطب کر کے وہ الہامات سنائے جو ۲۹ نومبر ۱۹۰۵ء کی شب کو ہوئے تھے.اور اسی سلسلہ میں تقریر فرماتے رہے دورانِ تقریر میں فرمایا.”میرے ایک چچا صاحب فوت ہو گئے تھے (مرزا غلام محی الدین صاحب مراد ہیں ایڈیٹر ).عرصہ ہوا میں نے ایک مرتبہ اُن کو عالم رویا میں دیکھا اور اُن سے اُس عالم کے حالات پوچھے کہ کس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے.انہوں نے کہا کہ ”اس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے.جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو دو فرشتے جو سفید پوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں مولی بس.مولی بس“.فرمایا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ ا ودعلیہ السلام ۳۷ حصہ اول حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے تو یہی لفظ مولی بس موزوں ہوتا ہے.اور پھر وہ قریب آ کر دونوں انگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں.اے روح ! جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ.“ فر ما یا طبعی امور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے روح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے.توریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نقنوں کے ذریعہ زندگی کی روح پھونکی گئی.“ الحکم جلد ۹ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم نمبرا) یہ رویا مولی بس والی انگشتری کے نقش کا ماخذ ہے چونکہ اَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کا مفہوم صحیح مولی بس میں ہی ادا ہوتا تھا اس لئے زندگی کے آخری حصہ میں جب کسی نے انگشتری بنا کر پیش کرنے کے لئے عرض کیا تو آپ نے اس کو مولی بس لکھدیا.اور یہی انگشتری آپ کی وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی.کیسا عجیب معاملہ ہے کہ موت ہی کے نقشہ میں یہ مولی بس سنایا اور دکھایا گیا تھا.اور وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں یہ انگوٹھی تھی.آپ کو اپنے والد ماجد کی وفات پر خدا تعالیٰ نے آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے پیارے اور تسلی بخش الفاظ میں مطمئن فرمایا تھا اور آپ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اس انگشتری سے پچھلوں کو بتایا کہ مولی بس.یہ ایک ذوقی بات ہے.حضرت کی اس تقریر میں جو سیٹھ عبد الرحمان صاحب کو رخصت کے وقت خطاب کر کے فرمائی ان الفاظ پر غور کرو کہ فرمایا.حقیقت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے یہی لفظ مولیٰ بس موزوں ہوتا ہے.یہ کلمات اس وقت کوئی نہ سمجھ سکتا تھا کہ ایک نشان اور پیشگوئی کا رنگ رکھیں گے مگر واقعات نے بتایا کہ آپ کی انگشتری اس آخری وقت کے بعد یہ تسلی دے گی.بہر حال اس طرح پر یہ آخری اور تیسری انگشتری تیار ہوئی دوسری انگشتری آپ کے ایک الہام کو اپنے اندر رکھتی ہے.منی آرڈروں پر بھی ایک وقت مہر لگاتے تھے 66 ایک زمانہ میں آپ منی آرڈروں پر اور رجسٹریوں کی رسیدات پر دستخط کرتے وقت ساتھ ہی مہر بھی لگا دیا کرتے تھے.۱۸۹۸ء کے آغاز میں آپ نے کتابوں پر بھی اپنی مہر لگانے اور دستخط
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸ حصہ اول کرنے کا حکم دیا تھا اس کے لئے ایک ربڑ کی مہر الیس اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کی بیضوی شکل کی بنوائی تھی چنانچہ آپ کتاب کے شروع کے صفحہ پر دستخط معہ تاریخ اپنی قلم سے فرماتے اور مہر بھی لگائی جاتی تھی اس کے متعلق ۲۰ ستمبر ۱۸۹۸ء کو آپ نے ایک اشتہار بھی شائع فرمایا تھا.جو الحکم مورخہ ۲۰ تا ۲۷ رستمبر ۱۸۹۸ء میں طبع ہوا.عصا آپ ہاتھ میں چھڑی رکھا کرتے تھے اور عام طور پر یہ چھڑی دستہ والی ہوتی تھی.مختلف دستہ والی چھڑیاں آپ کے ہاتھ میں دیکھی گئی ہیں.ایک چھڑی بھیرہ سے ایک دوست تیار کر کے لائے تھے جس پر سیپ کا کام کیا ہوا تھا اور اُس پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود لکھا ہوا تھا.عصا کے متعلق یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ آپ ہمیشہ چھڑی ہاتھ میں لے کر باہر نکلا کرتے تھے اور آپ کی عادت شریف میں یہ بات بھی داخل تھی کہ آپ ہر قسم کی چھڑی استعمال کر لیتے لیکن یہ ضروری ہوتا تھا کہ وہ دستہ والی ہو.انگریزی فیشن کی چھڑیاں جو نازک سی ہوتی ہیں کبھی آپ کے ہاتھ میں نہیں دیکھیں یعنی بہت سبک اور نازک نہیں بلکہ ہمیشہ کسی قدرموٹی اور مضبوط چھڑی جوعموماً بید کی ہوتی استعمال فرماتے تھے.ڈانگ یا لٹھ کی صورت میں کبھی آپ نے استعمال نہیں فرمائی.البتہ قبل بعثت بانس کے ڈھانگو کا استعمال کیا ہے کیونکہ اس وقت اس کا رواج تھا.پھر جب مختلف قسم کی لکڑیوں کی چھڑیاں بن کر بازار میں آنے لگیں تو آپ نے استعمال فرمائیں.کٹو اور بید کی لکڑی کی چھڑی عموماً آپ نے استعمال کی ہے.باوجود اس کے کہ چھڑی ہمیشہ استعمال فرماتے تھے مگر آپ کی طبیعت میں استغراق اور توجہ الی اللہ اس قدر تھی کہ روز ہاتھ میں رہنے والی چیز کو بھی بعض وقت بھول جاتے تھے.خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی سیرت المہدی جلد اول کے صفحہ ۲۲۷ میں لکھا ہے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا.ایک دن حضرت صاحب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ حصہ اول کچہری کی طرف تشریف لے جانے لگے اور حسب معمول پہلے دعا کیلئے اس کمرہ میں گئے جو اس غرض کیلئے پہلے مخصوص کر لیا تھا.میں اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ باہر انتظار میں کھڑے تھے اور مولوی صاحب کے ہاتھ میں اس وقت حضرت صاحب کی چھڑی تھی.حضرت صاحب دعا کر کے باہر نکلے تو مولوی صاحب نے آپ کو چھڑی دی.حضرت صاحب نے چھڑی ہاتھ میں لے کر اُسے دیکھا اور فرمایا.یہ کس کی چھڑی ہے؟ عرض کیا گیا کہ حضور ہی کی ہے جو حضور اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اچھا میں نے تو سمجھا تھا کہ یہ میری نہیں ہے.“ سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۲۴۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا لباس کے متعلق اہل بیت یا دوسرے احباب کی روایات حصّہ اوّل اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لباس کے متعلق عموما تمام باتیں آچکی ہیں تاہم سیرت المہدی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ رَبُّه نے بعض روایات حضرت ام المومنین اور دوسرے احباب کی لکھی ہیں.میں ان میں سے بھی جو زائد بات ہے یہاں درج کر دیتا ہوں.غرارہ کا استعمال ترک ہوا حضرت ام المومنین کی روایت سے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے.اوائل میں غرارے استعمال فرمایا کرتے تھے پھر میں نے کہہ کر وہ ترک کروا 66 دیئے.اس کے بعد آپ معمولی پاجامے استعمال کرنے لگ گئے.“ (سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۸۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) خان بہا در مرز اسلطان احمد صاحب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ.والد صاحب عموماً غرارہ پہنا کرتے تھے مگر سفروں میں بعض اوقات تنگ پاجامہ بھی پہنتے تھے.“ ( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۰۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) حضرت ام المؤمنین کی روایت سیرت المہدی کے صفحہ ۵۳ میں حضرت صاحبزادہ صاحب بروایت حضرت أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهَا السَّلام فرماتے ہیں کہ ”والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ حصّہ اوّل قمیص کے کفوں کے متعلق بھی اسی قسم کے الفاظ فرمائے تھے.خاکسار(حضرت صاحبزادہ صاحب ) عرض کرتا ہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لئے انگریزی طرز کی گرم قمیص بنوا کر لایا کرتے تھے.آپ انہیں استعمال تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیں فرماتے تھے.کیونکہ اول تو کفوں کے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے دوسرے بٹنوں کے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لئے مشکل تھا.بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں.خاکسار (صاحبزادہ صاحب) عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود کا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑا مل جاتا تھا پہن لیتے تھے.مگر عموما انگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لئے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوار کھے بہت گھبراتے تھے.گھر میں آپ کے لئے صرف ململ کے گرتے اور پگڑیاں تیار ہوتی تھیں.باقی سب کپڑے عموما ہدیہ آپ کو آ جاتے تھے.( یہ اس زمانہ کی بات ہے جب آپ نے دعویٰ مسیح موعود اور مہدی مسعود کا کیا.اس سے پہلے کپڑے گھر میں تیار ہوتے تھے.عرفانی) وو والدہ صاحبہ (حضرت ام المومنین ) بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے گرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہونی تھی میں نے پورے تھان کے گرتے تیار کئے.حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے گرتے کیا کرنے ہیں مگر میں نے تیار کر لئے ان میں سے اب تک بہت سے گرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں.“ (سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۸۳ مطبوعه ۲۰۰۸ء) لباس شب 66 صاحبزادہ صاحب بروایت حضرت ام المومنین تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ رات کو سوتے ہوئے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ 66 پاجامہ اتار کر تہ بند باندھ لیتے تھے اور عموماً کر یہ بھی اتار کر سوتے تھے.“ ریشمی ازار بند کا استعمال حصّہ اوّل سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۶۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت صاحبزادہ صاحب بروایت حضرت ام المومنین تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عمو ما ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لئے ریشمی ازار بندر کھتے تھے تا کہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو.سوتی ازار بند میں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی." پاجامہ کو پلیٹ سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۶۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) لباس کے متعلق متفرق باتیں حضرت اقدس عام طور پر ابتدائے شباب میں اور قبل دعوئی الہام و زمانہ تصنیف براہین میں عموماً غرارہ کا استعمال کرتے تھے اور عرف عام میں جو پاجامہ شرعی کہلاتا ہے اس طرز کا بھی پہنتے رہے ہیں.تہ بند باندھ کر کبھی مجلس میں نہیں آئے اور نہ باہر نکلے.مبعوثیت کے عہد میں جب مختلف قسم کے پار چات ہدایا کے رنگ میں آنے لگے تو گرم پاجامے کھلے پانچوں کے آتے تھے اور بعض اوقات وہ زیادہ لمبے ہوتے تو حضرت صاحب ان کو پلیٹ ڈلوا لیتے تھے.کوئی شخص پائجاموں کو پلیٹ ڈلوا تا ہوا میں نے نہیں دیکھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ عالیہ بناؤ سنگھار یا فیشن کی طرف نہ تھی بلکہ آپ لباس کی غرض ستر پوشی اور گرمی و سردی سے بچاؤ یقین کرتے تھے.اور اسی پر عمل تھا.اس لئے لباس کے متعلق ان باتوں کو جو عام طور پر آرائش پسند دنیا کی نظروں میں ضروری ہوں غیر ضروی سمجھتے تھے.اس لئے کہ اس قسم کے تکلفات میں وقت ضائع ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ مولا نا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.حضرت مخدوم الملتہ کی آنکھ سے لباس پر نظر حصّہ اوّل لباس کا یہ حال ہے کہ پشمینہ کی بڑی قیمتی چادر ہے.جس کی سنبھال اور پڑتال میں ایک دنیا دار کیا کیا غور و پرداخت کرتا اور وقت کا بہت سا حصہ بے رحمی سے اس کی پرستش میں صرف کر دیتا ہے حضرت اسے اس طرح خوار کر رہے ہیں کہ گویا ایک فضول کپڑا ہے.واسکٹ کے بٹن نیچے کے ہول میں بند کرتے آخر رفتہ رفتہ سبھی ٹوٹ جاتے ہیں.ایک دن تعجب سے فرمانے لگے کہ بٹن لگانا بھی تو آسان کام نہیں ہمارے تو سارے بٹن جلدی ٹوٹ جاتے ہیں اور فرمایا کہ حقیقت میں ان میں تضیع اوقات بہت ہے اگر چہ آرام بھی ہے.غرض لباس سے آپ کو دل چسپی نہیں بے شک ایک دنیا پرست حقیقت ناشناس ظاہر بین اچھا لباس دیکھ کر اس کہنہ میں پے نہیں لے جاسکتا اور قریب ہے وہ اپنے نفس پر قیاس کر کے کہے کہ آپ کو اچھے لباس سے تعلق ہے.مگر رات دن پاس بیٹھنے والے اس بے التفاتی کی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں.ایک روز فرمایا کہ ”ہم تو اپنے ہاں سے کاتے اور بنائے ہوئے کپڑے پہنا کرتے تھے اب خدا تعالیٰ کی مرضی سے یہ کپڑے لوگ لے آتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اُن میں اور اِن میں کوئی تفاوت نظر نہیں آتا.“ کمر باندھ کر باہر نکلنا میں نے اوپر لکھا ہے کہ حضرت صاحب کمر باندھا کرتے تھے اور سیر کو جب نکلتے تو عموماً کمر باندھ کر نکلتے تھے.مئی ۱۹۰۲ ء کے پہلے ہفتہ میں آپ بیمار ہو گئے.۰ ارمئی ۱۹۰۲ء کو جبکہ عشاء کی نماز کے تھوڑی دیر بعد شمال کی جانب سے خوب چمکتا اور گر جتا بادل آیا اور اول اول خفیف سا ترشح ہوا.میں ( حضرت مخدوم الملۃ ) اور مکرم مولوی نور الدین فاروقی ( رضی اللہ عنہ بیت الفکر میں بیٹھے بات چیت کر رہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ حصہ اول تھے اتنے میں مفتی فضل الرحمن صاحب نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت صاحب چاہتے ہیں کہ اس ٹھنڈی ہوا اور ترشح میں باہر نکلیں آپ کی کیا رائے ہے مولوی صاحب نے کسی قدر پس و پیش کے بعد جو اُن کے علم کے لحاظ سے ضروری تھا کہ واقعات موجودہ کی بنا پر ان کے دل میں پیدا ہوتا مفتی صاحب سے کہا کہ عرض کر دو کہ پیٹھ اور کمر پر گرم کپڑا اچھی طرح لپیٹ لیں اور باہر نکل آئیں.غرض حضرت اقدس علیہ السلام باہر نکلے اور بہت دیر تک باہر ہی لیٹے رہے.“ اس کے بعد عموماً گرم پٹکا باندھتے رہے.ایک مرتبہ جب گورداسپور میں مقدمات کا سلسلہ جاری تھا.سخت بارش ہوئی اور قادیان اور گورداسپور کے درمیان پانی کا ایک تانتا لگا ہوا تھا اور علاوہ بریں وہاں کچھ حالات اچھے نہ تھے.مذہبی عناد کی وجہ سے مختلف دشمنوں کی سازشیں ڈراتی تھیں.حضرت اقدس کو تاریخ پر جانا تھا مگر وہاں سے خواجہ کمال الدین صاحب نے خاص آدمی بھیج کر عرض کیا کہ حضور تشریف نہ لائیں.جب آدمی قادیان پہنچا تو آپ کمر باندھ کر نکل چکے تھے آپ نے فرمایا کہ نبی جب کمر باندھ کر نکلتا ہے تو پیچھے نہیں ہٹتا.یہی الفاظ فرمائے یا اس کے ہم معنی فرمائے مگر مطلب یہی تھا اور یہ ضرور فرمایا کہ نبی جب کمر باندھ لیتا ہے اس واقعہ کے بیان کرنے سے میری غرض صرف یہ ہے کہ باہر سفر کو جب نکلتے تو عموماً کمر باندھ کر نکلتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ حصّہ اوّل مقدار خوراک قرآن شریف میں کفار کے لئے وارد ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد:۱۳) اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ کا فرسات انتڑیوں میں کھاتا اور مومن ایک میں.مرادان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا اور دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے.جب مومن کا یہ حال ہوا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا.آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا.بلکہ ستو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہوا کرتی تھی.اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے.خواہ کھانا کیساہی عمدہ اور لذیذ ہواور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے.عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ کھانا نوش فرمایا کرتے تھے.علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے.مگر جہاں تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا.اور ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ آپ سالن بہت ہی کم کھاتے تھے.اوقات عموماً آپ صبح کا کھانا دس بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھا لیا کرتے تھے.کبھی شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھایا ہو.شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی مگر کبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے.مگر معمول دو طرح کا تھا جن دنوں میں آپ بعد مغرب عشاء تک باہر تشریف رکھا کرتے تھے اور کھانا گھر میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۴۶ حصّہ اوّل کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہوا کرتا تھا ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان.مدتوں آپ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا.اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دستر خوان پر بیٹھا کرتے تھے.یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت مرزا صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے ایسے دستر خوان پر تعدا دکھانے والوں کی دس سے بیس پچیس تک ہو جایا کرتے تھی.( بعض اوقات بہت زیادہ ہوتے تھے اور عام طور پر مخصوص نہ ہوتے تھے بلکہ اوائل میں سب اکٹھے کھایا کرتے تھے کوئی تخصیص نہ ہوتی تھی صبح کا کھانا گول کمرہ میں اور شام کا مسجد مبارک کی چھت پر موسم گرما میں.اور سردیوں میں مسجد مبارک میں ، جب اندر کنواں بن رہا تھا ان ایام میں بعض اوقات نیچے کے ایک مکان میں بھی کھایا کرتے تھے.عرفانی) گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے تو آپ کبھی تنہا مگر اکثر ام المومنین اور کسی ایک یا سب بچوں کو ساتھ لے کر تناول فرمایا کرتے تھے.یہ عاجز ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب) کبھی قادیان میں ہوتا تو اس کو بھی شرف اس دستر خان پر بیٹھنے کامل جایا کرتا تھا.سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے.اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا.سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے.اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے.کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے جب کھانا آگے رکھا جاتا یا دستر خوان بچھتا تو آپ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے.کیوں جی شروع کریں؟ مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا یا سب کے آگے کھانا آ گیا.پھر آپ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے.اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھاتے.کھانے میں کوئی جلدی یا کوئی حرکت ناشائستہ آپ سے صادر نہ ہوتی البتہ آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے.برخلاف عام مولویوں کے طریقہ کے جو کھانے میں اتنا مصروف ہوتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ حصّہ اوّل ہیں کہ پھر ان کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا.بچارے کوئی بات دین و دنیا کی کیا کریں.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے.اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہوں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جور کا بی آپ کے سامنے سے اٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا.بہت بوٹیاں یا ترکاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کر ٹکڑا کھا لیا کرتے تھے.لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے تھے.اور یہ آپ کی عادت تھی.دستر خوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ روٹی کے ٹکڑے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے.آپ اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یکہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا اور بعض شخص تبرک کے بہانے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے حضرت صاحب کا سب پس خوردہ آپ کے اٹھتے ہی اٹھالیا کرتے تھے.بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے.اور پھر انگلی کا سر شور بہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تا کہ لقمہ نمکین ہو جاوے.پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھایا کرتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکئی کی روٹی کھاتے تھے.اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یا صرف کسی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھا لیا کرتے تھے.آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوت حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے.بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو کھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا.ہڈیاں چوسنے اور بڑا نوالہ اُٹھانے.زور زور سے چپڑ چپڑ کرنے.ڈکاریں مارنے یا رکا بیاں چاٹنے یا خود کھانے پر بہت گفتگو کرنے اور اُس کے مدح و ذم اور لذائذ کا تذکرہ کرنے کی آپ کی عادت نہ تھی بلکہ جو پکتا تھا وہ کھالیا کرتے تھے.کبھی کبھی آپ پانی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی.اکڑوں بیٹھ کر آپ کو کھانے کی عادت نہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ حصّہ اوّل تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دایاں گھٹنا کھڑا رکھتے.کیا کھاتے تھے؟ میں نے پہلے ذکر کیا کہ مقصد آپ کے کھانے کا صرف قوت قائم رکھنا تھا نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا.اس لئے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوت قائم رہتی تھی تا کہ آپ کے کام میں ہرج نہ ہو.علاوہ بریں آپ کو چند بیماریاں بھی تھیں جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پر ہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرمالیتے تھے.اور اگر چہ آپ سے اکثر یہ پوچھ لیا جاتا تھا کہ آج آپ کیا کھائیں گے مگر جہاں تک ہمیں معلوم ہے خواہ کچھ پکا ہو آپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے.اور کبھی کھانے کے بدمزہ ہونے پر اپنی ذاتی وجہ سے تنگی نہیں فرمائی نہ کبھی ایسا ہوا کہ تندمزاج انسانوں کی طرح ہانڈی یا سالن کی رکابی اٹھا کر دے ماری ہو.بلکہ اگر خراب پکے ہوئے کھانے اور سالن پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لئے اور یہ کہہ کر کہ مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہوگا.روٹی آپ آپ تندوری اور ہاتھ ( چولہے ) کی دونوں قسم کی کھاتے تھے ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اور بکرم بھی استعمال فرمالیا کرتے تھے.بلکہ ولایتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعا تو مکھن ہے پھر ہم ناحق بدگمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں.مکئی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرمایا کرتے تھے اور باقر خانی اور کلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے.سالن میں نے ابھی ذکر کیا آپ بہت کم کھاتے تھے.گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی یہ دال ماش کی یا اڑدھ کی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کا ضلع
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ حصہ اول مشہور ہے.سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دستر خوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیب جانور کا آپ کھاتے تھے.پرندوں کا گوشت آپ کو بہت مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر ، فاختہ وغیرہ کے لئے شیخ عبد الرحیم صاحب نومسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے.مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیئے تھے.بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے اور بنی اسرائیل میں اس کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی.حضور کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیا مگر آپ نے فرمایا کہ جائز ہے.جس کا جی چاہے کھا لے مگر رسول کریم نے چونکہ اس کی کراہیت فرمائی اس لئے ہم کو بھی اس سے کر اہمیت ہے.اور جیسا کہ وہاں ہوا تھا یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمان خانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا مگر آپ نے اسے اپنے قریب نہ آنے دیا.مرغ کا گوشت ہر طرح کا آپ کھا لیتے تھے.سالن ہو یا بھنا ہوا.کباب ہو یا پلاؤ.مگر اکثر ایک ران پر ہی گزارہ کر لیتے تھے.اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بیچ بھی رہا کرتا تھا.پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گداز اور گلے ہوئے چاولوں کا اور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوالیا کرتے تھے مگر گڑ کے اور وہی آپ کو پسند تھے.عمدہ کھانے یعنی کباب.مرغ.پلاؤ یا انڈے اور اسی طرح فرنی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوایا کرتے تھے جب ضعف معلوم ہوتا تھا.جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی ان دنوں میں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گزارہ کر لیتے.دودھ ، بالائی.مکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوت کے قیام اور ضعف کے دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں.بعض لوگوں نے آپ کے کھانے پر اعتراض کئے ہیں مگر اُن بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض لگے ہوئے ہیں اور باوجود ان کے وہ تمام جہان سے مصروف پر کار ہے.ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اُس کی نظر ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ اول اصلاح امت کے کام میں مشغول ہے.ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہوئی ہے گورنمنٹ سے الگ قسم کے تعلقات ہیں.دن رات تصانیف میں مصروف ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی اور عربی میں اور پھر وہی اُن کو لکھتا اور وہی کاپی دیکھتا.وہی پروف درست کرتا اور وہی اُن کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے.پھر سینکڑوں مہمانوں کے ٹھہر نے اتر نے اور علی حسب مراتب کھلانے کا انتظام.مباحثات اور وفود کا اہتمام.پنج وقتہ نمازوں کی حاضری.مسجد میں روزانہ مجلسیں اور تقریر ہیں.ہر روز بیسیوں آدمیوں سے ملاقات اور پھر ان سے طرح طرح کی گفتگو.مقدمات کی پیروی.روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے پھر گھر میں اپنے بچوں اور اہل بیت کو بھی وقت دینا.اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دعائیں.غرض اس قدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لئے قوت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کرے تو کون بیوقوف اور ناحق شناس ظالم طبع انسان ہے جو اس کے اس فعل پر اعتراض کرے.کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت کے لئے اس کا استعمال نہیں کرتے.پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی نیت اور کام کرنے والے کے لئے تو وہ فرض ہے.حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسان کے لئے وہی کھانے تشویش میں داخل ہیں.اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاؤں کو صرف بطور قُوت لا يموت اور سدِ رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہو گا کہ اس خوراک کو لذائذ حیوانی اور حظوظ نفسانی سے تعبیر کرے.خدا تعالیٰ ہر مومن کو بدظنی سے بچائے.دودھ دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے.کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ ادھر دودھ پیا اور اُدھر دست آ گیا اس لئے بہت ضعف ہو جاتا تھا.اس کے دور کرنے کے لئے دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ حصّہ اوّل دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے.برف دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی میں آپ کسی بھی پی لیا کرتے تھے اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرما لیتے تھے.شیره بادام ان چیزوں کے علاوہ شیرہ بادام بھی گرمی کے موسم میں جس میں چند دانہ مغز بادام اور چھوٹی الا ئچیاں اور کچھ مصری پیس چھان کر پیا کرتے تھے.اور اگر چہ معمولاً نہیں مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر یخنی گوشت کی یا پاؤں کی پیا کرتے تھے.یہ یخنی بھی بہت بدمزہ چیز ہوتی تھی یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا رس ہوا کرتا تھا.میوہ جات میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر مرید بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے.گاہے بگا ہے خود بھی منگواتے تھے.پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور بمبئی کا کیلا ، ناگپوری سنگترے ،سیب ، سر دے اور سر ولی کے آم زیادہ پسند تھے.باقی میوے بھی گا ہے ما ہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے گنا بھی آپ کو پسند تھا.شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدانہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدا نہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے.اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے.چائے کا میں پہلے اشارہ کر آیا ہوں.آپ جاڑوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے.مگر عادت نہ تھی.سبز چائے استعمال کرتے اور سیاہ کو نا پسند
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۵۲ حصّہ اوّل فرماتے تھے.اکثر دودھ والی میٹھی پیتے تھے.زمانہ موجودہ کی ایجادات مثلاً برف اور سوڈا لیمونیڈ ، جنجر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے.بلکہ شدت گرمی میں برف بھی امرتسر ، لاہور سے خود منگوالیا کرتے تھے.اور گردہ کے درد کی تکلیف کی وجہ سے سوڈا واٹر اور بھٹ تیتر کا گوشت بار ہا استعمال فرمایا.مٹھائی بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو کسی قسم کا پر ہیز نہ تھا اس بات کی پر چول نہ تھی کہ ہندو کی ساختہ ہے یا مسلمانوں کی.لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے.یہ مٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے.میٹھے بھرے ہوئے سموسے یا بیدانہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لئے منگوار کھتے تھے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں.ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور آپ دریافت فرما لیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس کس چیز کی اُس کو عادت ہے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کا جب تک نکاح نہیں ہوا تب تک آپ کو ان کی خاطر داری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ کئی برس خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ ، چائے ، بسکٹ، مٹھائی، انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا.تب ان کو تسلی ہوتی.اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملا زمان لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا.بعض موقع پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کے لئے سالن نہیں بچایا وقت پر ان کے لئے کھانا رکھنا بھول گیا تو اپنا سالن یا سب کھانا اسکے لئے اُٹھوا کر بھجوا دیا بارہا ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس تحفہ میں کوئی چیز کھانے کی آئی یا خود کوئی چیز آپ نے ایک وقت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۵۳ حصّہ اوّل منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی یا خراب ہوگئی اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا.یہ دنیا دار کا کام نہیں.ان سب اشیاء کا نام پڑھ کر ایک شخص دھوکا کھا سکتا ہے کہ حضرت صاحب ہر قسم کے عمدہ عمدہ کھانے مٹھائیاں میوے وغیرہ وغیرہ سب چیزیں خوب کھاتے تھے سو یا د رکھنا چاہیے کہ میرا بیان ہیں پچیس برس کے مشاہدہ پر حاوی ہے یہ اشیاء آپ نے اپنے دستر خوان پر استعمال فرمائی ہیں.یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت آپ کا خوان یغما بنا رہتا تھا.اور پھر یہ کہ ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طور پر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش فرمائی اور وہ اسی وقت کسی نو وارد یا مرید با اخلاص نے لا کر حاضر کر دی.آپ کو عادت کسی چیز کی نہ تھی.پان البتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کے لئے یا کبھی گھر میں سے پیش کر دیا گیا تو کھالیا کرتے تھے.یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہوئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے.حقہ تمبا کو آپ ناپسند فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر کچھ حقہ نوشوں کو مہمان خانہ سے نکال بھی دیا تھا.ہاں جن ضعیف العمر لوگوں کو مدت العمر سے عادت لگی ہوئی تھی ان کو آپ نے بسبب مجبوری کے اجازت دے دی تھی.کئی احمدیوں نے تو اس طرح پر حقہ چھوڑا کہ ان کو قادیان میں وارد ہونے کیلئے حقہ کی تلاش میں تکیوں میں یا میرزا نظام الدین صاحب وغیرہ کی ٹولی میں جانا پڑتا تھا.اور حضرت صاحب کی مجلس سے اٹھ کر وہاں جانا چونکہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں جانے کا حکم رکھتا تھا اس لئے با غیرت لوگوں نے حقہ کو الوداع کہی.ہاتھ دھونا وغیرہ کھانے سے پہلے عموماً اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کرتے تھے.اور سردیوں میں اکثر گرم پانی استعمال فرماتے صابن بہت ہی کم برتتے تھے.کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے.بعض ملانوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہر گز نہ تھی کلی بھی کھانا کے بعد فرماتے تھے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے جوا کثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے.حصّہ اوّل رمضان کی سحری کیلئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کی بجائے ایک پر اٹھا ہوا کرتا تھا.اگر چہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے.کھانے میں مجاہدہ اس جگہ یہ بھی ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشائے الہی سے رکھے اور خوراک آپ کی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کرنے کے بعد ہوتی تھی.اور سحری بھی نہ کھاتے تھے.اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے تا کہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو.مگر اپنی جماعت کے لئے عام طور پر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغ اور قلمی خدمات کو مخالفان اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا.پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہش مند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے؟ لنگر خانہ میں آپ کے زمانہ میں زیادہ تر دال اور خاص مہمانوں کے لئے گوشت پکا کرتا تھا.مگر جلسوں یا عیدین کے موقع پر جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقع ہو تو آپ عام طور پر اس دن گوشت یا پلاؤ یا زردہ کا حکم دے دیا کرتے تھے کہ غربا کو بھی اس میں شریک ہونے کا موقع ملے.ادویات آپ خاندانی طبیب تھے.آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی طبیب گزر چکے ہیں اور آپ نے بھی طب سبقاً سبقاً پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطلب نہیں کیا.کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے.آپ اکثر مفیدا ور مشہور ادویہ اپنے گھر میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۵۵ حصّہ اوّل موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی.اور آخر میں تو آپ کی ادویات کی الماری میں زیادہ تر انگریزی ادویہ رہتی تھیں.مفصل ذکر طبابت کے نیچے آئے گا.یہاں اتنا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ آپ کئی قسم کی مقوی دماغ ادویات کا استعمال فرمایا کرتے تھے.مثلاً کوکا.کولا.مچھلی کے تیل کا مرکب.ایسٹن سیرپ.کونین.فولاد وغیرہ.اور خواہ کیسی ہی تلخ یا بدمزہ دوا ہو آپ اس کو بے تکلف پی لیا کرتے.سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عبر استعمال فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے.یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی حکیم محمد حسین صاحب ( موجد ) مفرح عنبری کے سپر دتھی.عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کی معرفت آتے رہے.مشک کی تو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فورا نکال لیا.کھانے کے متعلق کچھ اور اگر چہ جناب میر صاحب نے حضرت مسیح موعود کے کھانے کے متعلق بہت کچھ لکھ دیا ہے اور بحیثیت ایک خاندان کے ممبر اور ہر وقت اندر رہنے والے انسان کے اُن کے بیان کو خاص اہمیت ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ بعض باتوں کا ذکر اگر نہ کیا گیا تو یہ حصہ نا تمام رہ جائے گا.اوائل میں جب حضرت مسیح موعود گوشتہ تنہائی میں رہتے تھے اور رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزارتے تھے ان ایام میں آپ بھنے ہوئے چنے اور ریوڑیاں ملا کر استعمال کیا کرتے تھے.اور یہ بطور شوق کے نہیں بلکہ بعض اوقات اس لئے کہ نیند کا وقت ٹل جاوے اور بعض اوقات اس وجہ سے کہ اپنا کھانا چونکہ دوسروں کو دے دیا کرتے تھے اس لئے آپ چنوں پر گزارہ کر لیتے تھے.شکر کی ڈلیاں بھی آپ کبھی کبھی سالن کی بجائے استعمال کر لیتے تھے.ماموریت کے عہد میں ایک مرتبہ آپ کی بھوک بند ہوگئی اور بہت دنوں تک یہ حالت ہوئی کہ کوئی چیز مرغوب نہ ہوتی تھی کبھی کبھی شکر کی ڈلی کے ساتھ ایک آدھ لقمہ کھا لیتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶ حصّہ اوّل طیور کے شوربے کو بھی آپ پسند فرماتے تھے.انہیں ایام میں اس کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا.بعض وقت ایک چڑیا بھی کافی ہوتی تھی.ایک زمانہ تک آپ دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ساتھ کھاتے تھے.لیکن جب آپ کی بھوک بند ہوگئی اور کھانے سے گونہ نفرت ہو گئی تو آپ نے اس عادت کو مہمانوں کے آرام کے لئے ترک کر دیا.اس لئے کہ آپ دستر خوان پر اس وجہ سے کہ طبیعت میں خواہش نہ تھی بیٹھ نہ سکتے تھے اور اگر جلد اٹھ جائیں تو احتمال تھا کہ کوئی مہمان بھوکا نہ رہ جائے.پس آپ نے یہ وجہ بیان کر دی اور مہمان پھر اپنے وقت پر کھانا کھاتے رہے.گرمی کے موسم میں جب آم کی فصل ہوتی تو آپ گڑ مبا بھی کبھی کبھی تیار کراتے تھے اور کھایا کرتے تھے.کھانے میں مجاہدہ مکرم میر صاحب نے کھانے کے متعلق مجاہدہ کا ذکر کیا ہے لیکن یہ بیان نا تمام اور ناقص رہ جائے گا اگر میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی اس کو بیان نہ کر دوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں.میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو.بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں.ہاں حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا موعود علیہ السلام ۵۷ لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہلِ بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالا نا بہتر ہے پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کوخبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدرکھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدرقلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے.ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کرسکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام السلام ۵۸ حصّہ اوّل لائق نہیں ہوسکتا.لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ صفحه ۱۹۶ تا ۲۰۰ حاشیه ) عمدہ غذا کے اہتمام کے متعلق منشی عبدالحق لاہوری کا مشورہ منشی عبد الحق صاحب اکو نٹنٹ لاہوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں ان احباب میں سے تھے جو مخلص سمجھے جاتے تھے.چنانچہ اس زمانہ میں حضرت اقدس کو لاہور میں اگر کوئی کام ہوتا تھا تو منشی عبد الحق صاحب کو لکھا جاتا تھا.منشی عبدالحق صاحب.منشی الہی بخش صاحب اور حافظ محمد یوسف صاحب یہ ایک ہی پارٹی کے لوگ تھے اور اپنے وقت میں حضرت مسیح موعود سے محبت واخلاص کا اظہار کرتے تھے.مگر فی الحقیقت اُن کے ان اعمال میں ریا یا کسی اور مرض کی ملونی ضرور تھی جس نے آخر کار ان کو الگ کر دیا.اس وقت چونکہ ان کا تذکرہ مقصود نہیں اس لئے محض تعارف کے لئے اس قدر لکھا گیا اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اپنے مقام پر ان کے متعلق کسی قدر تفصیل سے لکھا جائے گا.انہی منشی عبد الحق صاحب کا تذکرہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امرتسر کے مقام پر آٹھم کے مباحثہ کے ایام میں کھانے کے متعلق ایک مشورہ دیا میں خود اس مجلس میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے موجود تھا.اور میری آنکھوں کا دیکھا ہوا اور کانوں کا سنا ہوا واقعہ اور مکالمہ ہے.میرے محترم مخدوم الملت حضرت مولانا عبد الکریم رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کولکھا ہے پس میں ان کے ہی الفاظ میں اس کو درج کر دیتا ہوں.جن دنوں امرتسر میں ڈپٹی آتھم سے مباحثہ تھا (مئی ۱۸۹۳ء) ایک رات خان محمد شاہ مرحوم کے مکان پر بڑا مجمع تھا اطراف سے بہت سے دوست مباحثہ دیکھنے آئے ہوئے تھے.حضرت اُس دن جس کی شام کا واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں معمولاً سر درد سے بیمار ہو گئے تھے شام کو جب مشتاقان زیارت ہمہ تن چشم انتظار ہورہے تھے حضرت مجمع میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ تشریف لائے.منشی عبدالحق صاحب لاہوری پنشنر نے کمال محبت اور رسم دوستی کی بنا پر بیماری کی تکلیف کی نسبت پوچھنا شروع کیا اور کہا کہ ” آپ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے آپ کو چاہیے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال رکھا کریں اور ایک خاص مقوی غذا لازماً آپ کے لئے ہر روز تیار ہونی چاہیے.“ حضرت نے فرمایا’ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر کا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پروا نہیں کرتیں.اس پر ہمارے پرانے موحد خوش اخلاق نرم طبع مولوی عبد اللہ غزنوی کے مرید نشی عبدالحق صاحب فرماتے ہیں.”اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے.میرا یہ حال ہے کہ میں کھانے کے لئے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میر احکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمام خاص میں کوئی سر مو فرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لیں.میں ایک طرف بیٹھا تھا منشی صاحب کی اس بات پر اس وقت خوش ہوا اس لئے کہ یہ بات بظاہر میرے محبوب آقا کے حق میں تھی اور میں خود فرط محبت سے اسی سوچ بچار میں رہتا تھا کہ معمولی غذا سے زیادہ عمدہ غذا آپ کے لئے ہونی چاہیے.اور ایک دماغی محنت کرنے والے انسان کے حق میں لنگر کا معمولی کھا نا دلِ مَا يَتَحَلَّل نہیں ہوسکتا.اس بنا پر میں نے منشی صاحب کو اپنا بڑا مؤید پایا اور بے سوچے سمجھے ( در حقیقت ان دنوں الہیات میں میری معرفت ہنوز بہت سا درس چاہتی تھی ) بوڑھے صوفی اور عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت کے تربیت یافتہ تجربہ کار کی تائید میں بول اٹھا کہ ہاں حضرت ! منشی صاحب درست فرماتے ہیں.حضور کو بھی چاہیے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں.حضرت نے میری طرف دیکھا اور قسم سے فرمایا: ”ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پر ہیز کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے میں زکی الجس آدمی اور ان دنوں تک عزت و بے عزتی کی دنیا داروں کی حصّہ اوّل
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا عرفی اصطلاح کے قالب میں ڈھالنے اور اپنے تئیں ہر بات میں کچھ سمجھنے اور ماننے والا ! بس خدا ہی خوب جانتا ہے کہ میں اس مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا اور مجھے سخت افسوس حصّہ اوّل ہوا کہ کیوں میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی بوڑھے تجربہ کار نرم خوصوفی کی پیروی کی.برادران! اس ذکر سے جسے میں نے نیک نیتی سے لکھا ہے میری غرض یہ ہے کہ اس انسان میں جو مجبوراً پاکیزہ فطرت اور حقوق کا ادا کرنے والا اور اخلاق فاضلہ کا معلّم ہو کر آیا ہے اور دوسرے لوگوں میں جنہیں نفس نے مغالطہ دے رکھا ہے کہ وہ بھی کسی کی صحبت میں کوئی گھائی طے کر چکے ہیں اور ہنوز انہوں نے اخلاق سے ذرا بھی حصہ نہیں لیا بڑا فرق ہے.“ ( سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ۱۴ تا ۶ کھانے کے متعلق گرفت کی عادت نہ تھی ☆ منشی عبدالحق صاحب اور حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ کوتو یہ جواب دیا.بایں کبھی کبھی اگر گھر میں کسی خاص کھانے کے لئے ہدایت فرماتے اور اس کی تعمیل کسی وجہ سے نہ ہوتی تو آپ اس پر گرفت نہ فرماتے.چنانچہ خود حضرت مخدوم الملت فرماتے ہیں.اگر کبھی کوئی خاص فرمائش کی ہے کہ وہ چیز ہمارے لئے تیار کر دو اور عین اس وقت کسی ضعف یا عارضہ کا مقتضا تھا کہ وہ چیز لازماً تیار ہوتی اور اس کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا اور کبھی کبھی جو لکھنے یا تو جہ الی اللہ سے نزول کیا ہے تو یاد آ گیا ہے کہ کھانا کھانا ہے اور منتظر ہیں کہ وہ چیز آتی ہے آخر وقت اس کھانے کا گذر گیا اور شام کے کھانے کا وقت آگیا ہے اس پر بھی کوئی گرفت نہیں.اور نرمی سے پوچھا ہے اور عذر کیا گیا ہے کہ دھیان نہیں رہا تو مسکرا کر الگ ہو گئے ہیں.اللہ! اللہ ! ادنی خدمت گار اور اندر کی عورتیں جو کچھ چاہتی ہیں پکاتی کھاتی ہیں حمد نوٹ.اس کتاب میں مصنفہ مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی " شائع کردہ ابوالفضل محمود صاحب از قادیان کے مطابق حوالہ جات دیئے گئے ہیں.( ناشر )
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل اور ایسا تصرف ہے کہ گویا اپنا ہی گھر اور اثاث البیت ہے اور حضرت کے کھانے کے متعلق کبھی ذہول اور تغافل بھی ہو جائے تو کوئی گرفت نہیں.کبھی نرم لفظوں میں بھی یہ نہ کہا کہ دیکھو یہ کیا حال ہے؟ تمہیں خوف خدا کرنا چاہیے.یہ باتیں ہیں جو یقین دلاتی ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما نا سچ ہے کہ میں اپنے رب کے ہاں سے کھاتا اور پیتا ہوں.اور حضرت امام علیہ السلام بھی فرماتے ہیں ؎ من می زیم بوحی خدائے کہ با من است پیغام اوست چون نفس روح پر ورم حقیقت میں اگر یہ سچ نہ ہو تو کون تاب لاسکتا ہے اور ان فوق العادت فطرت رکھنے والے انسانوں کے سوا کس کا دل گردہ ہے کہ ایسے حالات پر قناعت کر سکے.“ (سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۳۰،۲۹) خدمت دین میں کھانے کا خیال بھی نہ رکھتے تھے مجھے یاد ہے کہ حضرت لکھ رہے تھے ایک خادمہ کھا نالائی اور حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کھانا حاضر ہے فرمایا خوب کیا مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں آواز دینے کو تھا.وہ چلی گئی اور آپ پھر لکھنے میں مصروف ہو گئے.اتنے میں کتا آیا اور بڑی فراغت سے سامنے بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتنوں کو بھی خوب صاف کیا اور بڑے سکون اور وقار سے چل دیا.اللہ! اللہ! ان جانوروں کو بھی کیا عرفان بخشا گیا ہے وہ کتا اگر چہ رکھا ہوا اور سدھا ہوا نہ تھا مگر خدا معلوم اسے کہاں سے یہ یقین ہو گیا کہ یہ پاک وجود بے شر اور بے ضرر وجود ہے اور یہ وہ ہے کہ جس نے کبھی چیونٹی کو بھی پاؤں تلے نہیں ملا اور جس کا ہاتھ دشمن پر بھی نہیں اٹھا.غرض ایک عرصہ کے بعد ظہر کی اذان ہوئی تو آپ کو پھر کھانا یاد آیا.آواز دی.خادمہ دوڑی آئی.عرض کیا کہ میں مدت ہوئی کھانا آپ کے آگے رکھ کر آپ کو اطلاع کر گئی تھی اس پر آپ نے مسکرا کر فرمایا اچھا تو ہم شام کو ہی کھائیں گے.میں نے یہ واقعات آپ کی خوراک دکھانے کے سلسلہ میں بیان کئے ہیں لیکن بادنی تامل یہ بات ان سے ظاہر اور ثابت ہے کہ آپ کا مقصد عالی ان چیزوں سے بالکل دور تھا.اسلام کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲ حصّہ اوّل خدمت میں آپ اس قدر مصروف اور خود رفتہ رہتے تھے کہ کھانے کے اوقات یا اقسام کا خیال تک بھی نہ آتا تھا.اگر لذائذ زندگی اور حظ نفس ملحوظ ہوتا تو صبح سے شام تک انہیں چیزوں میں مصروف رہتے مگر یہاں حالت بالکل الگ واقع ہوئی.بڑے بڑے آدمیوں کی زندگیوں کے کھانے پینے کے اوقات کی پابندی بھی ایک ضروری چیز کبھی گئی ہے.اور حقیقت میں ایک قابل قدر چیز ہے.لیکن جو شخص خدمت اسلام کو ہی مقدم کر چکا ہو اور جس کی زندگی کی غایت اور مقصود یہی ایک چیز ہو وہ اس کی طرف ایک طفیلی چیز کی طرح توجہ کرتا ہے نہ اصل مقصد کے رنگ میں.آپ کا یہ استغراق خدا کے لئے تھا اپنے نفس کے لئے یا کسی کی وجہ سے نہ تھا.خوردن برائے زیستن و ذکر کردن پر عمل حسنِ عقیدت کی بنا پر نہیں بلکہ واقعات نفس الامری کے طور پر کہتا ہوں کہ آپ نے کھانے کا اہتمام والتزام اس نیت سے کبھی نہ کرایا کہ وہ حفظ نفس کا کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے بلکہ مقصد خوردونوش سے مقصد حیات تھا اور متعدد واقعات اس کو بتاتے ہیں کہ آپ نے بعض چیزوں کو ایسے طور پر استعمال کیا جس سے زبان کوئی لطف ذائقہ نہیں اٹھ سکتی تھی.اور یہ دلیل تھی اس امر کی کہ آپ کسی چیز کو ضرور تا قیام زندگی کا ایک موجب سمجھ کر استعمال کرتے تھے.ایک مرتبہ آپ کے پاس بہت سے سیب آئے اور جہاں تک مجھ کو یاد ہے یہ ڈالی میاں حاجی عمر ڈار مرحوم نے بھجوائی تھی.آپ بجائے اس کے کہ سیب کو تراش کر کھاتے چند دانے لے کر ان کا پانی نکلوایا اور پی لیا.اور فرمایا کہ ”میں اس لئے پیتا ہوں کہ قلب کے لئے مفید ہے.آپ کی زندگی میں اس قسم کے واقعات بہت ملیں گے.ادویات کا استعمال آپ ادویات کا استعمال بھی فرماتے تھے اور پوری مقدار کھایا کرتے تھے.صبر کی گولیاں جن کو آپ پیٹ کی جھاڑو فرمایا کرتے تھے ہر وقت رومال میں بندھی رہتی تھیں.ایسا ہی مشک بھی اس لئے کہ دوران سر کا دورہ بعض وقت اچانک ہو جاتا تھا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ حصّہ اوّل عادات و معمولات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل اور خوراک ولباس وغیرہ کے متعلق آپ کے عملی خصائص کے تذکرہ کے بعد میں آپ کے معمولات اور عادات پر کچھ لکھتا ہوں.اگر چہ ہر ایک باب بجائے خود ایک مستقل کتاب لکھوانی چاہتا ہے لیکن یہ میرے امکان سے باہر ہے.اس لئے میں جو کچھ بھی لکھ سکتا ہوں لکھ دینا چاہتا ہوں.بڑے بڑے اہل قلم اور نکتہ رس مؤرخ آئیں گے اور وہ خدا کے اس محبوب کے تذکروں سے دنیا کی ہر زبان میں ایک لذیذ اور منحنیم ذخیرہ مہیا کریں گے.آپ کے معمولات کا خلاصہ تو صرف اسی فقرہ میں آجاتا ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر لحظہ دین کی خدمت اور اشاعت ہی کے لئے وقف تھا.آپ اپنے ہر سانس کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت اور تائید ہی میں بسر کرنا چاہتے تھے اور بسر کرتے تھے.ایک موقع پر فرمایا کہ ”میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے کہ یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جاوے.“ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کی زندگی قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین کا پورا نمونہ اور عملی تفسیر تھی.چونکہ عبادات پر علیحدہ بحث کی گئی ہے اس لئے میں اس حصہ کو اس جگہ درج نہ کروں گا بلکہ صرف ان امور کا تذکرہ میرے زیر نظر ہے جو عام طور پر معمولات و عادات میں آسکتے ہیں.نماز کے متعلق معمول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول شروع سے یہ تھا کہ آپ سنن اور نوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے.یہ التزام آپ کا آخر وقت تک رہا.البتہ جب کبھی فرض نماز کے بعد دیکھتے کہ بعض لوگ جو پیچھے سے آکر جماعت میں شریک ہوئے ہیں اور ابھی انہوں نے نماز ختم نہیں کی اور راستہ نہیں ہے تو آپ مسجد میں سنتیں پڑھا کرتے تھے.یا کبھی کبھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۴ حصّہ اوّل جب مسجد میں بعد نماز تشریف رکھتے تو سنن مسجد میں پڑھا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ و حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت ناناجان وغیرہ کی شہادت چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عام عادت تھی کہ ایک زمانہ میں بعض طالب علموں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید سنن ضروری نہیں.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے ۲۷ رذی الحجہ ۱۳۲۶ ہجری کے درس قرآن مجید میں فرمایا.حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اندرونِ خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر میں بھی کرتا ہوں اور اس سے بعض نادان بچوں کو بھی غالبا یہ عادت ہوگئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فورا مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سنتوں کی ادائیگی سے محروم ہو جاتے ہیں.ان کو یا درکھنا چاہیے کہ حضرت صاحب ( علیہ الصلوۃ والسلام ) اندر جاکر سب سے پہلے سنتیں پڑھا کرتے تھے.ایسا ہی میں بھی کرتا ہوں.کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اس عمل درآمد کے متعلق گواہی دے.اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حسب العادت مجلس درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآوازِ بلند کہا بیشک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سنتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں جا کر فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فورا سنتیں پڑھنے کھڑے ہوتے.اور نما ز سنت پڑھ کر پھر اور کوئی کام کرتے.ان کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہی شہادت دی.اور ان کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحاق صاحب نے اور پھر حضرت اقدس (علیہ السلام ) کے پرانے خادم حافظ حامد علی صاحب ( آج مرحوم )
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ ا وعود علیہ السلام حصّہ اوّل نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا.(ایڈیٹر ).“ نوری ڈھونکا فجر کی نماز کے بعد آپ تھوڑی دیر استراحت فرماتے جیسا کہ میں نے سیرت مسیح موعود کی پہلی جلد کے دوسرے نمبر میں ذکر کیا ہے ( حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ ۲۲۸ شائع کردہ نظارت اشاعت) اور آپ اس کو نوری ڈھونکا کہا کرتے تھے.یہ زمانہ قبل بعثت کی بات ہے کہ آپ نے اس استراحت کو نوری ڈھونکا فرمایا.آپ کے اس معمول کا ذکر اور تصدیق مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو اعجاز نما کرتہ کے متعلق انہوں نے بیان کی ہے.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ رات کا ایک بہت بڑا حصہ آپ عبادت اور دعا میں گزار دیتے تھے اس لئے فجر کی نماز کے بعد آپ تھوڑی دیر کے لئے استراحت فرمالیا کرتے.جب استراحت نہ فرماتے تو کیا معمول تھا عام عادت یہ ضرور تھی مگر بعثت کے بعد جب مصروفیت بڑھ گئی تو یہ حالت نہ رہی کبھی استراحت فرمالیتے اور کبھی نہیں.اور جب آپ مسجد میں فجر کی نماز کے بعد بیٹھ جاتے تو اس عرصہ میں آپ کے معمولات میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ عام طور پر خدام کو وعظ و نصیحت فرماتے یا کسی خواب یا الہام کا اظہار فرماتے اور اگر کسی کو کوئی خواب آیا ہوتو وہ سنتے اور اس کی تعبیر فرماتے.اور بعض عام معاملات پر بھی گفتگو فرماتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق بالکل حضرت رحمۃ للعالمین ﷺ کے طریق عمل سے ملتا ہے.حضرت نبی کریم ﷺ بعد نماز فجر مسجد میں بیٹھ جاتے اور آپ ان کو وعظ ونصیحت فرماتے.اور اکثر صحابہ سے پوچھتے کہ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو.اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا اور آپ اس کی تعبیر کرتے یا اپنا کوئی رؤیا بیان کرتے.غرض یہی طریق حضرت مسیح موعود کے معمول میں پایا جاتا ہے جبکہ آپ فجر کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے اور آفتاب کے اچھی طرح سے نکل آنے تک بیٹھے رہتے.اس موقعہ پر ہر قسم کی گفتگوؤں کا سلسلہ جاری رہتا اور کبھی کبھی بڑی لمبی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۶ حصّہ اوّل تقریریں بھی آپ فرماتے.ان تمام امور کی تصریح اور تفسیر الحکم اور بدر کی ڈائریوں میں ملے گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد نبوت میں قلم بند ہوکر شائع ہوئیں.خواب سننے اور سنانے کی عادت میں نے کی پہلی جلد میں صفحہ ۸۴ پر اس امر کا ذکر کیا ہے کہ ”خوابوں کی تعبیر اور کیفیت کے سمجھنے کا بھی ایک خاص مذاق اور ملکہ تھا.گھر والے سب کے سب اور دوسرے لوگ بھی اس بات کے قائل تھے.کہ علم تعبیر الرؤیا میں 66 مرزا صاحب کو بہت مہارت ہے.اور ان کی تعبیریں صحیح ہوتی ہیں.“ حیات احمد جلد اصفحه ۱۰۴ شائع کردہ نظارت اشاعت ) پھر اسی جلد کے دوسرے نمبر میں لالہ ملا وامل صاحب سے ابتدائی ملاقات کے سلسلہ میں صفحه ۱۴۸/۵۲ پر ان کی ہی روایت سے میں نے لکھا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد حضرت مرزا صاحب کی عادت تھی کہ تھوڑی دیر سو جایا کرتے اور اس کو نوری ڈھونکا کہا کرتے تھے اس نوری ڈھونکے کی حالت میں ہم دوکان کھولنے سے پہلے وہاں جاتے اور آپ کو جا جگاتے.وہ آواز دینے پر فور ابلاکسی اظہار ناراضگی یا تکاہل کے اٹھ بیٹھتے اور دریافت کرتے کہ کیا کیا خواب آئی ہے.اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہوتی یا انہیں آئی ہوتی تو بیان کرتے.( حیات احمد جلد اصفحه ۲۲۸ شائع کردہ نظارت اشاعت) ایسا ہی اسی نمبر کے صفحہ ۱۹۱۱۹۴ پر ”میاں غفارا نمازی بن گیا“ کے عنوان کے نیچے بھی آپ کی اس عادت شریفہ کا ذکر کیا ہے کہ اس کو نماز اور درود شریف پڑھنے کی تاکید کی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ”جو خواب وغیرہ آیا کرے صبح کو سنایا کرو.چنانچہ اُن سب کا یہ معمول ہو گیا.اور تعبیر جو حضرت صاحب بیان کرتے وہ صحیح ثابت ہوتی.“ ( حیات احمد جلد اصفحه ۳۰۳ شائع کردہ نظارت اشاعت) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی سیرت المہدی میں بھی آپ کی اس عادت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا شریفہ کا اظہار کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہر شخص کی خواب توجہ سے سنتے حصّہ اوّل اور بسا اوقات نوٹ بھی فرمالیتے (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۳۰ مطبوعه (۲۰۰۸ء) غرض یہ امر تو اتر کے طور پر ثابت ہے کہ آپ کی عادت شریفہ تھی کہ آپ خوابوں کو سنا کرتے اور ان کی تعبیر فرمایا کرتے.آپ کی بیان کردہ تعبیریں شائع ہو چکی ہیں اور خواب کی فلاسفی اس کے اقسام اور خواب کے متعلق بعض دوسرے ضروری امور اور جزئیات پر آپ نے نہایت لطیف معقول اور عام فہم تقریریں فرمائی ہیں.یا اپنی تصانیف اور مکتوبات میں ذکر کیا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ ان تقریروں اور مکتو بات کو اس بیچ میر ز نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے.دوسرے آدمیوں کی بعض رؤیا اور کشوف پر جو سلسلہ سے متعلق ہوں یا اسلام کے لئے کسی رنگ میں مؤثر ہوں آپ خاص طور پر نوٹ فرماتے اور توجہ کرتے تھے.صاحبزادہ بشیر احمد صاحب نے اپنی رؤیا کا ذکر اپنی سیرت کے صفحہ ۱۹ پر کیا ہے.(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۳۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ایسا ہی حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی وہ مشہور رویا آپ نے اپنی نوٹ بک میں قلم بند کی جو جماعت میں تفرقہ اور فتنہ خلافت کے متعلق ہے.جس کا ذکر حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ۱۹۱۴ ء کے سالانہ جلسہ پر کیا اور آپ کی وہ تقریر ”برکات خلافت کے نام سے شائع ہوئی جس کے صفحہ ۱۳۴ لغایت ۳۸ پر اس کا ذکر ہے.یہ رویا ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے.آپ لکھتے ہیں کہ ۸ مارچ کو میں نے یہ رویا دیکھی تھی اور وہ اس طرح کہ جس رات کو میں نے یہ رؤیا دیکھی اسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا.آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں یہ رؤیا مجھے لکھوادے چنانچہ میں لکھوا تا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے.پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا.پھر تینوں رویا لکھیں.ان تینوں رویا کے اردگرد
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ حصہ اول اس سے پہلی اور پچھلی تاریخوں کے الہام حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے موجود ہیں.( کا پی لوگوں کو دکھائی گئی ) اور یہ کاپی اب تک میرے پاس ہے اور ہر ایک طالب حق کو دکھائی جاسکتی ہے.“ اس سے آپ کی اس عادت کا پتہ لگتا ہے ہے.( صفحه ۳۷ و ۳۸) اس بیچ میر زراقم نے ایک دفعہ ۱۸۹۸ء میں ایک رؤیا دیکھی جو حضرت خلیفہ ثانی کے اقتدار اور اقبال و کامیابی پر دلالت کرتی ہے اور اس میں مجھے ایک کاغذ بھی دکھایا گیا جس پر لکھا ہوا تھا نظام الملک اور پھر وہ دن آگئے اور اس آخری فقرہ کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے اس الہام سے متعلق ہے.وہ دن آئیں گے کہ خدا تعالیٰ اپنی افواج کے ساتھ آئے گا.میں نے جب یہ خواب صبح کی نماز کے بعد سنائی تو یکا یک حضرت کی طبیعت میں ایک جوش پیدا ہوا.اور فرمایا دعا کرو چنانچہ سب نے ہاتھ اٹھائے اور آپ نے بہت لمبی دعا کی.غرض آپ خوابوں کے سنے سنانے اور ان کی تعبیر کی ایک عادت رکھتے تھے اور یہ امر آپ کے معمولات میں داخل تھا.ہمیشہ با وضور ہنا آپ کے معمولات میں تھا آپ کے معمولات اور عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ ہمیشہ باوضور ہتے.مکرمی مولوی محمد فضل صاحب چنگوی نے ”نَهْجُ المُصلی “ کے صفحہ۳۲ پر اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی سیرت المہدی جلد اول کے صفحہ ۲۰ پر بروایت ام المومنین رضی اللہ عنہا لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر وقت باوضو رہتے تھے.مختلف سفروں میں خود میں نے بھی اس امر کا مشاہدہ کیا کہ آپ جب کبھی پیشاب یا رفع حاجت کر کے آتے تو وضو کر لیتے تھے.رات کو بھی تحریری کام کرنے کی عادت تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت شریف میں یہ بات داخل تھی کہ رات کو بھی عموماً تحریر کا کام کیا کرتے تھے اور یہ کام عموماً موم بتیوں کی روشنی میں کرتے تھے.ابتدائی زمانہ میں دیسی چراغ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ حصّہ اوّل جلایا کرتے تھے پھر بعثت کے بعد عموماً موم بتی ہی سے کام لیا ہے.مٹی کے تیل کو آپ پسند نہ کرتے تھے مگر ہری کین استعمال کی ہے.اخبار پڑھنے کی عادت آپ کو اخبار پڑھنے کی بھی عادت تھی.اپنی بعثت سے پہلے اخبار وکیل ہندوستان.سفیر ہند امرتسر ، نورافشاں لودہانہ ، برادر ہند لا ہور، وزیر ہند سیالکوٹ ، منشور محمدی بنگلور، ودیا پر کاش امرتسر، آفتاب پنجاب لاہور، ریاض ہند امرتسر اور اشاعۃ السنہ بٹالہ خرید کر پڑھا کرتے تھے.ان میں سے بعض اخبارات میں خود بھی مضامین لکھتے تھے.اخبار بینی کا مذاق آپ کو دائی تھا.بعثت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے لگے.جو براہ راست غیر زبانوں کے اخبارات آپ کے پاس آتے تھے آپ ان کا ترجمہ کرا کر سنتے اور اگر ان میں کوئی مضمون اسلام کے خلاف ہوتا تو اس کا جواب لکھوا کر شائع کرتے تھے.اور جو خود پڑھ سکتے تھے وہ ضرور پڑھتے اور اخبار کے پڑھنے کے متعلق آپ کا معمول یہ تھا کہ تمام اخبار پڑھتے اور معمولی سے معمولی خبر بھی زیر نظر رہتی.آخری زمانہ میں اخبار عام کو یہ عزت حاصل تھی کہ آپ روزانہ اخبار عام کو خریدتے تھے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے رومال میں باندھ رکھتے تھے.اور بعض اوقات اخبار عام میں اپنا کوئی مضمون بھی بھیج دیتے تھے اخبار عام کی بے تعصبی اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے.تصنیف و تالیف کے متعلق آپ کا معمول آپ نے جب سے اشاعت حق کے لئے قلم ہاتھ میں لیا آپ کی عادت میں یہ امر داخل تھا کہ کاغذ کے نیچے کوئی چیز بطور زیر مشق کے استعمال نہیں کی.بلکہ عام طریق یہ تھا کہ ایک سفید کاغذ بغیر رول کے لے کر اس کے دونوں طرف شکن ڈال لیا کرتے تھے جو قدیم طریق تھا.اور پھر جب لکھنے لگتے تو تھوڑے تھوڑے فاصلے سے بطور مسطر کے شکن ڈالتے اور لکھتے جاتے جب وہ صفحہ ختم ہو جاتا تو تازہ لکھے ہوئے حصہ کو اوپر کر کے شروع صفحہ والے حصہ کو الٹ لیتے اور اس طرح پر بغیر استعمال
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ اول بلاٹنگ پیپر کے لکھتے جاتے.نہ آپ کو اس کے نیچے کسی چیز کے رکھنے کی ضرورت ہوتی اور نہ خشک کرنے کے لئے کسی بلاٹنگ پیپر کی.زمانہ بعثت سے پہلے آپ جب لکھتے تھے تو بہت سے کاغذات جو چھپے ہوئے ہوں اور کچھ حصہ ان کا سفید ہو ان پر لکھ لیا کرتے اور سیالکوٹی کا غذ استعمال کرتے تھے.جب فرنچ پیپر فل سکیپ سائز کا جاری ہوا تو اکثر آپ اسی پر لکھتے.اس وقت آپ دیسی کالی سیاہی اور واسطین کا قلم استعمال فرماتے تھے لیکن جب آپ مامور ہو گئے اور بیعت کا سلسلہ جاری ہو گیا اور انگریزی قلم عام ہو گئے اور بلیو بلیک سیاہی عام ہوگئی تو آپ نے لوہے کے قلم سے کام لینا شروع کیا.سیاہی عام طور پر آپ سرخ رنگ کی استعمال فرماتے تھے اور اخیر عمر میں ٹیڑھے نب استعمال فرماتے تھے.ایک زمانہ تک شمشیر قلم نب بھی آپ نے استعمال کئے ٹیڑھے نب کا رواج حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے دیا پھر یہی نب آپ کو پسند تھا.تحریر کے وقت حضور کی عادت تھی کہ گنگناتے بھی جاتے تھے.مضمون لکھ کر دوبارہ پڑھتے اور ہر دفعہ جب مضمون پر نظر ثانی کرتے تو اس میں اضافہ کرتے یہاں تک کہ کاپی اور پروف تک پر اضافہ کرتے جاتے اور آخری پروف تک بھی بعض اوقات ایزادی ہوتی رہتی تھی اس سے پایا جاتا ہے کہ آپ کے دماغ میں مضامین کی آمد کس زور سے تھی اور اس کا چشمہ کوئی دوسری ہستی تھی.تحریر کے وقت یہ بھی آپ کی عادت شریف میں داخل تھا کہ اکثر شہل کر لکھا کرتے تھے اور اس مطلب کے لئے دو طرف دوات رکھ لیا کرتے تھے ٹہلتے بھی جاتے اور لکھتے بھی جاتے تھے.بعض لوگوں کو آپ کی اس عادت پر تعجب بھی ہوا کہ ٹہل کر کتاب پڑھی تو جاتی ہے مگرلکھی نہیں جاتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اس عادت کو خود جب ذکر فرماتے تھے تو یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مضامین چلتے پھرتے ہیں یعنی ان میں حس اور زندگی ہے.مخطوط نویسی میں آپ کی عادت جب آپ اپنے کسی خادم کو خط لکھتے تو ہمیشہ آپ کی عادت میں داخل تھا کہ بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّی سے ابتدا کیا کرتے اور آپ کے خط میں القاب عام طور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل پر جبى فى الله - اخویم ہوا کرتے تھے اور مکرمی بھی لکھا کرتے تھے خواہ کوئی شخص کتنے ہی چھوٹے درجہ کا ہو.اور آپ کے ساتھ جو لوگ ارادت اور عقیدت کا تعلق رکھتے تھے وہ آپ کے غلاموں کے غلام ہونا اور کہلانا بھی اپنی عزت سمجھتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو ہمیشہ اکرام اور احترام کے الفاظ سے یاد فرمایا کرتے تھے اور آپ کی عادت میں تھا ہی نہیں کہ کسی کو صرف نام لے کر پکاریں بلکہ کوئی نہ کوئی تعظیمی لفظ شامل کر لیتے اور جمع کا صیغہ بغرض تعظیم استعمال فرماتے تھے.آپ کہہ کر خطاب کرتے.یہ تمام امور آپ کے مکتوبات کے ملاحظہ سے عیاں ہیں جن کی کچھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور بعض اپنے اپنے وقت پر انشاء اللہ العزیز شائع ہو جائیں گی.آج تک ان مکتوبات کی اشاعت کی توفیق ( بجز ایک کتاب کے ) اسی عاجز کوملی ہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.سیر کی عادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں یہ بات بھی داخل تھی کہ آپ روزانہ سیر کو جایا کرتے تھے اور یہ عادت آپ کو اس وقت سے تھی جب سے آپ نے ہوش سنبھالا تھا ابتداء تنہا جایا کرتے تھے پھر جب لالہ ملا وامل اور شرمپت رائے آپ کے پاس آنے جانے لگے تو یہ لوگ بھی سیر میں ساتھ ہوا کرتے تھے.اور سیر کا وقت سردی کے دنوں میں آٹھ یا نو بجے اور گرمیوں میں صبح ہی جیسا کہ میں حیات احمد کے صفحہ ۴۸ پر درج کر آیا ہوں کہ لالہ ملا وامل کہتے ہیں.سردیوں کے دنوں میں آٹھ یا نو بجے کے قریب اور گرمیوں میں صبح ہی سیر کو چلے جاتے اور دو اڑھائی میل تک ہوا خوری کے لئے جاتے اور اس عرصہ میں واقعات جاریہ اور مذہبی معاملات پر تبادلہ خیالات ہوتا تھا.کبھی کبھی تفریح مگر نہایت پاک اور 66 بے ضرر تفریح کی باتیں بھی ہوتی رہتی تھیں.“ حیات احمد جلد اصفحه ۲۲۸ شائع کردہ نظارت اشاعت) تفریح انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے فطرت صحیحہ کا یہ صحیح نقشہ ہے اور انبیاء جو انسانوں کی راہنمائی کے لئے آتے ہیں وہ زندگی کے ہر شعبہ اور صیغہ میں اسوہ حسنہ ہوتے ہیں.پس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل مزاح اور تفریحی امور میں بھی وہ کامل نمونہ ہوتے ہیں.یہ سلسلہ سیر کا اخیر عمر تک بدستور جاری رہا اور سفر حضر میں کبھی بند نہیں ہوا.یعنی جب آپ کہیں باہر تشریف لے جاتے مثلاً لودہانہ ، لاہور ، سیالکوٹ ، دہلی وغیرہ تو بھی آپ نے سیر کے سلسلہ کو بند نہیں کیا.بعثت اور ماموریت کے بعد جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو سیر کا نظارہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا تھا اور آج قلم میں یہ طاقت نہیں کہ اس نظارہ کی دلچسپیوں کا مرقع کھینچ سکے.خدام کی جماعت کا ایک تانتا لگا ہوا ہوتا تھا اور کئی سو گز کے فاصلے تک یہ جماعت پھیلی ہوئی ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام عصا ہاتھ میں لئے ہوئے چلے جایا کرتے تھے اور تمام راستہ میں تعلیم اسلام اور حقائق و معارف قرآنی کا ایک دریا موجیں مارتا ہوا بہا کرتا تھا.میں ان خوش نصیب انسانوں میں سے ہوں (وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ) که خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ ان سیروں کے حالات الحکم کے ذریعہ شائع کرنے کے قابل رہا.صبح کی سیر الحکم کا ایک خاص عنوان ہوا کرتا تھا آپ نے بیماری میں بھی اس سیر کو بہت ہی کم ملتوی کیا بلکہ بیماری کا ایک علاج سمجھتے تھے اور فی الحقیقت فائدہ ہوا کرتا تھا.آپ کے معمولات سیر میں یہ بات بھی داخل تھی کی حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر تھوڑی دیر ٹھہر کران کا انتظار بھی فرمالیا کرتے تھے اور جب حضرت مولوی صاحب ساتھ ہوتے اور وہ چونکہ سبک رفتار تھے پیچھے رہ جاتے اور حضرت اقدس کو معلوم ہوتا تو اکثر ٹھہر کر ان کو ساتھ ملالیتے اور سیر کے فاصلے کو مختصر کر دیتے.بعض خاص دوستوں کی مشایعت کے لئے آپ دور تک تشریف لے جایا کرتے.ان معزز احباب میں سے جن کو یہ عزت نصیب ہوئی حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ ، مولوی حسن علی صاحب مرحوم.سیٹھ عبد الرحمان صاحب مرحوم مدراسی - مفتی محمد صادق صاحب.مسٹر ڈکسن صاحب سیاح.نواب مہدی نواز جنگ.منشی محمد اروڑا مرحوم کے نام میں اس جگہ بیان کرتا ہوں اور یوں یہ عزت اور سعادت اکثر کے حصہ میں آئی ہے ممکن ہوا تو اکرام ضیف میں اس کا بیان وضاحت سے کیا جائے گا.آپ کی یہ عادت چلنے پھرنے کی ایسی عام تھی کہ ریلوے کے سفر میں بھی آپ کو جہاں گاڑی کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۷۳ حصّہ اوّل انتظار کرنا پڑتا پلیٹ فارم پر ٹہلتے رہتے تھے.سیر کے لئے کبھی کبھی آپ بالکل تنہا بھی چلے جاتے تھے اور کسی کو علم بھی نہ دیتے تھے.جب ایسی حالت ہوتی تھی تو اس وقت آپ کا مقصد جنگل میں چھپ کر دعا کرنا ہوتا تھا.چنانچہ ایک موقعہ پر خود آپ نے لکھا ہے جونزول مسیح کے صفحہ ۲۳۴ پیشگوئی نمبر ۱۱۷ کے ضمن میں شائع ہوا ہے کہ ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور تو کل پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جا کر اس نہر کے کنارہ پر دعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے جب ہم دعا کر چکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے.دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.“ تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تا کہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں.چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباوہ روپیہ اسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا.“ (روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۱۲ ) کبھی کبھی آپ حضرت ام المومنین کو بھی ہمراہ لے کر سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے.معمولات یا آداب سیر میں یہ مشاہدہ میں آیا کہ کوئی ترتیب صف بندی کے طور پر نہ ہوتی تھی.چونکہ ہر شخص کو یہ خیال ہوتا تھا کہ میں حضرت کے قریب رہوں اس لئے ایک دوسرے پر گویا گرے پڑتے تھے اور بسا اوقات اکثر لوگ آپ سے آگے ہو جاتے تھے مگر کبھی آپ نے کسی کو نہ کہا کہ کیوں آگے ہو گئے ہو.اور بعض دفعہ لوگوں کی ٹھوکر سے آپ کا عصا گر پڑتا تو آپ کبھی پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھتے کہ کس کی بے احتیاطی سے ایسا ہوا.گردو غبار اڑ کر آپ کے کپڑے خاک آلود ہو جاتے تھے مگر آپ پروا نہ کرتے اور نہ کبھی ذکر کرتے بلکہ ایک مرتبہ حضرت مخدوم الملت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ حصّہ اوّل نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جب سیر کو تشریف لے جاتے ہیں آپ کو گردوغبار کے اڑنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے آپ کا چہرہ اور کپڑے سب گرد آلود ہو جاتے ہیں آپ ان لوگوں کو منع کر دیں کہ ساتھ نہ چلا کریں ایک دو آدمی ہمراہ لے جایا کریں.آپ نے فرمایا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں بلکہ بہت بڑی خوشی ہے میں ان کو اس بات سے روک نہیں سکتا یہ خدا کا فعل ہے خدا نے ہمیں یہی فرمایا ہے وَلَا تَسْلَمُ مِّنَ النَّاسِ یعنی لوگوں کی ملاقات سے ہرگز نہ تھکنا“.جب آپ واپس ہوتے تھے تو اکثر لوگ کوشش کرتے کہ ان کو یہ سعادت نصیب ہو کہ وہ اپنے رو مال یا پگڑی سے اس گردوغبار کو صاف کریں.سیر کے لئے آپ عموماً بسراواں کی طرف یا بوٹر کی طرف جاتے تھے.بہت شاذ ننگل کی طرف اور بٹالہ کی طرف جاتے تھے.ابتدائی زمانہ میں عام طور پر بوٹر کی طرف جایا کرتے تھے اور شام کو بھی تشریف لے جاتے تھے.مطالعہ کتب کی عادت شروع ہی سے آپ کو مطالعہ کتب کا شوق تھا چونکہ آپ کا خاندان ہمیشہ سے ایک علم دوست خاندان تھا ایک بہت بڑا کتب خانہ بھی آپ کے ہاں تھا جس میں ہر قسم کی کتا بیں موجود تھیں.آپ اکثر گوشہ تنہائی میں رہتے اور مطالعہ کتب میں مصروف رہتے.آپ کی عادت شریف میں یہ بات داخل تھی کہ جب آپ کمرہ کے اندر ہوتے تو ہمیشہ دروازہ بند کر کے زنجیر لگا دیتے.آپ کو مذہبی اور دینی کتب کے مطالعہ کا شوق تھا اور سب سے زیادہ قرآن شریف ہی کو آپ پڑھتے تھے.مختلف مذاہب کی کتابوں کو بھی پڑھتے تاکہ ان کی حقیقت سے واقف ہوں اور اسلام کی حقیقت اور برتری جملہ ادیان پر ثابت کرسکیں.بعثت کے بعد چونکہ آپ کی مصروفیت بہت بڑھ گئی تھی اور سلسلہ کے انتظام اور تالیف و تصنیف کے کاموں سے فرصت بہت ہی کم ملتی تھی اس لئے یہ مطالعہ بھی ضرور تا کم ہو گیا.اور ابتدائی زمانہ کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ حضر اول مطالعہ کتب کی کیفیت باقی نہ رہی تاہم کوئی عجیب اور نئی کتاب آتی تو آپ اسے پڑھ لیتے اور اگر انگریزی میں ہوتی تو اس کا خلاصہ اور ضروری حصص سن لیتے.میں آپ کی اس عادت پر کسی قدر وضاحت سے سیرت کے نمبر دوم صفحہ ۱۰۸ ( حیات احمد جلد اول صفحه ۱۷۲ ۱۷۳ شائع کردہ نظارت اشاعت ) پر لکھ آیا ہوں.معمولات مجلس مجلس میں جب آپ تشریف رکھتے تھے تو عام طور پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے جبکہ آپ فرش پر بیٹھے ہوتے تھے اور جب مسجد کے شہ نشین پر بیٹھتے تو ہمیشہ اس طریق سے نشست فرماتے تھے جس طرح پر کرسی پر بیٹھا کرتے ہیں.گرمی کے موسم میں دستار مبارک اتار کر رکھ لیا کرتے تھے.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ کے منہ سے بہت آہستہ مگر اثر اور درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں سبحان اللہ سنا جایا کرتا تھا.اگر کوئی تذکرہ نہ شروع ہو تو آپ علی العموم خاموش رہتے اور کلام کرتے وقت ابتداء آواز ذرا نرم اور دھیمی ہوتی تھی مگر پھر رفتہ رفتہ بلند ہوتی جاتی تھی خصوصاً جب آپ تبلیغی تقریر کر رہے ہوں یا کسی معترض کا جواب دے رہے ہوں تو آپ کی تقریر میں ایک خاص جوش ، قوت اور اثر ہوتا.اگر دستار مبارک پہنے ہوئے ہوں اور خاموش بیٹھے ہوں تو شملہ کا پلّہ دہن مبارک پر رکھ لیا کرتے تھے اور جب کسی کو خطاب کرتے تو ہمیشہ ایسے الفاظ سے جن میں اکرام پایا جاوے.آپ کے لفظ سے خطاب کرتے.مجلس میں کبھی کوئی لغو بات نہ ہوتی تھی.اگر کوئی شخص اپنا حال سنانے لگے یا کوئی مضمون نظم و نثر سنانے کے لئے اجازت مانگے تو آپ کبھی نہ روکتے اور نہ درمیان میں بولتے.سنتے رہتے خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو دوسرے نا پسند کرتے ہوں مگر آپ کبھی بھی اشارتا، کنایتاً یا صراحتا اس کی مذمت نہ کرتے.البتہ اگر کوئی خاص دینی پہلو ہو اور اس کی غلطی کی عدم اصلاح سے نقصان ہوتا ہو تو نہایت ہی لطیف پیرائے میں اس کی اصلاح فرما دیتے.بات کرتے وقت جوش میں ران پر ہاتھ بھی مارتے تھے اور گر جانے کا تلفظ گڑ جانے سے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 24 حصہ اول کرتے تھے.جب تک مجلس میں بیٹھتے اور کوئی موقعہ کلام کا آتا تو ہمیشہ قرآن کریم کے حقائق و معارف اور دشمنانِ اسلام کی تردید پر گفتگو ہوتی رہتی.واقعات حاضرہ پر بھی کبھی کبھی سلسلہ گفتگو شروع ہو جاتا.غرض حالات وقت کے لحاظ سے بھی باتیں ہوا کرتی تھیں اور بعض وقت ایسی بات بھی ہو جاتی جو تھوڑی دیر کے لئے حاضرین میں کسی لطیفہ کا رنگ پیدا کر دیتی تھی.مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ کی مجلس میں کوئی ایسا مزاح ہوا ہو جو اخلاقی حیثیت سے گرا ہوا سمجھا جاوے.معمولات سفر آپ کو سیر و سیاحت کا بطور تفریح کے کبھی شوق اور عادت نہ تھی اور کوئی سفر محض اس نیت اور خیال سے آپ نے نہیں کیا.زمانہ بعثت سے پہلے آپ کو بعض مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے والد صاحب مرحوم و مغفور کی اطاعت کے لئے جانا پڑتا تھا اور یہ سفر بٹالہ، گورداسپور، ڈلہوزی اور لاہور تک محدود تھے.اسی زمانہ میں آپ نے سیالکوٹ اور جموں کے دوسفر بغرض ملازمت کئے.ہاں اس حصہ عمر میں بعض صلحا کے پاس بھی آپ جایا کرتے تھے.جس کا ذکر میں پہلی جلد ( یعنی حیات احمد جلد اوّل ) میں کر چکا ہوں.بعثت کے بعد آپ کے سفروں کی غرض و غایت صرف اعلائے کلمتہ الاسلام اور تبلیغ دین قویم تھی اور اسی میں ان سفروں کو بھی میں شامل کرتا ہوں جو اس حصہ زندگی میں آپ کو ان مقدمات کی پیروی کے لئے کرنے پڑے جو اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے آپ پر یا آپ کی جماعت کے بعض افراد پر کئے.یہ سفر گورداسپور، بٹالہ، دھار یوال، پٹھان کوٹ، جہلم، ملتان تک بغرض پیروی مقدمات اور امرتسر، جنڈیالہ، لاہور، جالندھر، کپورتھلہ ، پٹیالہ، سنور علی گڑھ ، انبالہ، فیروز پور، لودہانہ ، دہلی تک بغرض تبلیغ و دعوت حق کئے.ان سفروں کی تفاصیل کے لئے یہ مقام نہیں بلکہ اس کتاب میں دوسری جگہ ہے.یہاں صرف آپ کے معمولات سفر کا بیان مقصود ہے.ان سفروں میں جو آپ نے بعثت سے پہلے زمانہ میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ مرحوم و مغفور کی اطاعت پیروی کا نمونہ دکھانے کے لئے کئے آپ کے معمولات بہت مختصر تھے.کسی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام LL حصہ اول قسم کا سامان آپ ساتھ نہیں لیتے تھے.صرف وہی لباس ہوتا تھا جو آپ پہنے ہوئے ہوتے تھے اور ایک مختصر سا بستر ایک لوٹا اور ایک گلاس بھی لیا کرتے تھے.بعثت کے بعد سفروں کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی اور سفروں میں ایک جماعت ساتھ ہوا کرتی تھی.اس لئے آپ کا معمول تھا کہ بہت سی موم بتیاں مختلف قسم کی ضروری ادویات دیا سلائی وغیرہ تک ساتھ رکھا کرتے تھے تا کہ جب جس چیز کی ضرورت ہو تلاش نہ کرنی پڑے چونکہ اس وقت تک انڈی پینڈنٹ قلم نہ نکلے تھے قلم کاغذ دوات یہ چیزیں بھی ساتھ رکھا کرتے تھے.لمبے سفروں میں جو تبلیغی سفر تھے عام طور پر حضرت ام المومنین اور بچوں کو ساتھ رکھتے تھے.یکہ کی سواری میں آپ اندر بیٹھا کرتے تھے اور ریلوے کے سفر میں سیکنڈ کلاس میں ابتداء تھرڈ اور انٹر میں سفر کیا کرتے تھے.مگر آپ تھرڈ ، انٹریا سیکنڈ کی کوئی تمیز یا خصوصیت نہ کرتے تھے بلکہ صرف بیت الخلا کی ضرورت کے لحاظ سے درجہ کو پسند کرتے تھے.اس لئے کہ آپ کو بار بار پیشاب آتا تھا اور عام طور پر آپ کا طریق تھا که علی الصباح سفر پر روانہ ہوتے.جب ریلوے سفر ہوتا تو ریل کے اوقات کے لحاظ سے بعد دو پہر بھی روانہ ہوتے.رات کے پہلے حصہ میں سفر کو پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ تھوڑی دیر آرام کر کے پھر سفر کرنا چاہیے اور ثابت نہیں ہے کہ رات کے ابتدائی حصہ میں کبھی آپ نے سفر کیا ہو.اس سے میری مراد یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے سفر کا آغا ز رات کے ابتدائی حصے میں کیا ہو.ریل کے سفر میں بھی اس کو ملحوظ رکھتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا حضرت مسیح موعود اور فلسفہ اخلاق حصّہ اوّل اگر چہ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حصہ آپ کے شمائل واخلاق کے لئے مخصوص ہے اور مجھ کو آپ کے اخلاقی کمالات اور اعجاز ہی کی تفسیر واقعات کی روشنی میں کرنی چاہیے مگر اس سے پیشتر کہ میں آپ کے مختلف اخلاقی فضائل کو دکھاؤں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلسفہ اخلاق پر مختصرسی بحث کروں تا کہ یہ معلوم ہو کہ حقیقت اخلاق کو جس طرح پر حضرت مسیح موعود نے بیان کیا ہے اس کی نظیر گزشتہ تیرہ سو سال کے اندر امت محمدیہ میں نہیں ملتی.امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفہ اخلاق اور حضرت مسیح موعود کے فلسفہ اخلاق میں امتیاز حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے بھی اِحیاء العلوم میں فلسفہ اخلاق کو بیان کیا ہے گوان کا فلسفه اخلاق تمام تر یونانی حکما کے اصولوں سے مستنبط ہے.جس کو انہوں نے ابن مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق (جو یونانی فلسفہ اخلاق کا نچوڑ ہے) سے لیا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ فلسفہ اخلاق پر لکھا ہے اور بیان کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے خاص علم اور تفہیم وتعلیم کا عطر ہے جیسا کہ میں آگے چل کر دونوں کے فلسفہ اخلاق میں ایک موازنہ قائم کر کے دکھاؤں گا.(انشاء اللہ العزیز ) خلق کی تعریف دونوں کی نظر میں خلق کی تعریف میں امام صاحب فرماتے ہیں.روح میں ایسے ملکہ راسخہ کا پایا جانا جس کی وجہ سے انسان سے اچھے یا برے افعال بلا تکلف آپ سے آپ سرزد ہوں.66 الغزالی مصنفہ علامہ شبلی نعمانی ناشرایم ثناء اللہ خاں.۲۶ ریلوے روڈ لا ہور طبع دوم - صفحہ ۲۶ از سر عنوان احیاء العلوم کا فلسفہ اخلاق) آگے چل کر امام صاحب نے لکھا ہے کہ: خلق کے وجود کے لئے افعال کا صادر ہونا شرط نہیں صرف یہ شرط ہے کہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ حصّہ اوّل طبیعت میں اس قسم کی کیفیت موجود ہو کہ اگر کام کرنے کے سامان اور مواقع ہاتھ آئیں 66 تو بلا تکلف وہ کام ظہور میں آئے.“ الغزالی مصنفہ علامہ شبلی نعمانی صفحه ۲۶ از بر عنوان احیاء العلوم کا فلسفہ اخلاق) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نفس اخلاق کے متعلق یہ بتایا ہے کہ طبعی جذبات بطور امہات الاخلاق ہیں اور اخلاق کا کمال روحانیت کے کمال کو پیدا کرتا ہے آپ نے طبعی جذبات اور اخلاق میں ایک امتیاز کر کے دکھایا ہے جو غزالی اور دوسرے فلاسفروں کی تصنیفات میں نہیں پایا جاتا.خواہ وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے.پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلسفہ اخلاق کو تمام ماہرین نفسیات اور اخلاقیات سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ آخر الذکر لوگ طبعی جذبات اور اخلاقی امور میں مابہ الامتیاز نہیں قائم کر سکے.برخلاف اس کے حضرت مسیح موعود نے ایک مابہ الامتیاز قائم کر کے دکھایا ہے چنانچہ فرماتے ہیں.خدا کے پاک کلام نے تمام نیچرل قومی اور جسمانی خواہشوں اور تقاضوں کو طبعی حالات کی مد میں رکھا ہے اور وہی طبعی حالتیں ہیں جو بالا رادہ تربیت اور تعدیل اور موقع بینی اور محل پر استعمال کرنے کے بعد اخلاق کا رنگ پکڑ لیتی ہیں.ایسا ہی اخلاقی حالتیں روحانی حالتوں سے کوئی الگ باتیں نہیں ہیں بلکہ وہی اخلاقی حالتیں ہیں جو پورے فنا فی اللہ اور تزکیہ نفس اور پورے انقطاع الی اللہ اور پوری محبت اور پوری محویت اور پوری سکینت اور اطمینان اور پوری موافقت باللہ سے روحانیت کا رنگ پکڑ لیتی ہیں.طبعی حالتیں جب تک اخلاقی رنگ میں نہ آئیں کسی طرح انسان کو قابل تعریف نہیں بنا تیں.کیونکہ وہ دوسرے حیوانات بلکہ جمادات میں بھی پائی جاتی ہیں.ایسا ہی مجرد اخلاق کا حاصل کرنا بھی انسان کو روحانی زندگی نہیں بخشا.بلکہ ایک شخص خدا تعالیٰ کے وجود سے بھی منکر رہ کر اچھے اخلاق دکھلا سکتا ہے.دل کا غریب ہونا یا دل کا حلیم ہونا یا صلح کار ہونا یا ترک شر کرنا اور شریر کے مقابلہ پر نہ آنا یہ تمام طبعی حالتیں ہیں اور ایسی باتیں ہیں جو ایک نا اہل کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا بھی حاصل ہو سکتی ہیں جو اصل سرچشمہ نجات سے بے نصیب اور نا آشنا محض ہے حصّہ اوّل اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر ، اصفحه ۳۲۶،۳۲۵) گویا آپ نے انسانی معراج اور انسانیت کا کمال ہر ایک خلق کو محل اور موقعہ پر استعمال کرنے میں بتایا ہے جس سے وہ روحانیت ملتی ہے جس کے ذریعہ انسان خدا کی راہ میں وفاداری کے ساتھ قدم مارتا اور اسی کا ہو جاتا ہے اور پھر جو اس کا ہو جاتا ہے اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا.اور اس مقام پر وہ عارف ہوتا ہے جو خدا کی ایک مچھلی ہے اور اس کے ہاتھ سے ذبح کی گئی ہے اور اس کا پانی خدا کی محبت ہے.او پر میں نے بتایا ہے کہ حضرت غزالی علیہ الرحمۃ نے یونانی فلسفہ کا خلاصہ اور نچوڑ یہ بتایا ہے کہ وہ طبیعت میں ملکہ راسخہ کے ہونے ہی کو اخلاق سمجھتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام طبیعی حالتوں کو نہایت ادنی درجہ دیتے ہیں اور وہ اپنی طبعی حالتوں میں قطعاً اخلاق کہلانے کی مستحق نہیں ہیں کیونکہ محض طبعی حالتوں میں بعض اوقات درندے بھی انسان سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.اور ان پر خلیق کے لفظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا جیسا کہ ایک کتے یا بکری یا بعض دوسرے پالتو جانوروں سے اپنے مالک کے ساتھ محبت اور انکسار ظاہر ہو تو اس کتے یا بکری یا جانور کوخلیق نہیں کہیں گے اس طرح پر حضرت مسیح موعود نے طبعی حالتوں اور اخلاقی حالتوں میں ایک امتیاز کر کے دکھایا ہے اور اس فلسفہ اخلاق کی بنیاد آپ نے قرآن کریم پر رکھی ہے.یونانیوں یا دوسرے فلاسفروں کے تخیلات پر اس کی بنیاد نہیں رکھی.یہ وہ امتیاز ہے جو قیامت تک قرآن کریم کی شان بلند کا اظہار کرے گا.اور حضرت مسیح موعود کو اخلاقیات کے تمام معلموں اور فلاسفروں سے اعلیٰ مقام پر کھڑا کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیشتر کچھ شک نہیں اخلاق پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں مگر اس حقیقت کو کسی نے منکشف نہیں کیا.طلق اور خلق کے بیان میں غزالی اور مہدی کا امتیاز خُلق اور خلق کے متعلق امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ.خلق اور خلق قریب المعانی الفاظ ہیں جو اکثر ساتھ ساتھ استعمال کئے جاتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ΔΙ حصّہ اوّل ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں شخص کا خُلق اور خلق دونوں اچھا ہے یعنی اس کا ظاہر بھی اچھا 66 ہے اور باطن بھی.‘“ و, الغزالی مصنفہ علامہ شبلی نعمانی صفحه ۱۲۶،۱۲۵.زیر عنوان احیاء العلوم کا فلسفه اخلاق) اس کا مقابلہ کر و حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان سے آپ فرماتے ہیں.جاننا چاہیے کہ خلق خاء کی فتح سے ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خُلق خا کے ضمہ سے باطنی پیدائش کا نام ہے.اور چونکہ باطنی پیدائش اخلاق سے ہی کمال کو پہنچتی ہے نہ صرف طبعی جذبات سے.اس لئے اخلاق پر ہی یہ لفظ بولا گیا ہے طبعی جذبات پر نہیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر ۱ صفحه ۳۳۲) وو پھر اس حقیقت کو آپ نے کسی قدر وضاحت سے آگے چل کر یوں بیان کیا ہے کہ.یہ بات بھی بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جیسا کہ عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خُلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسار ہی کا نام ہے یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خلق ہے.مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک قوت رقت ہے وہ جب بذریعہ عقل خدا داد کے اپنے محل پر مستعمل ہوتو وہ ایک خلق ہے.ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو شجاعت کہتے ہیں.( عَلَى هَذَا الْقِيَاسِ) اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ صفحه ۳۳۲) اب حضرت غزالی اور حضرت مسیح موعود کے فلسفہ اخلاق کا امتیاز اور کمال صاف صاف اور کھلا کھلا نظر آتا ہے.غرض طبعی حالت اور اخلاقی حالت میں کسی نے امتیاز کر کے نہیں بتایا یہ لگا نہ فخر قابلِ ناز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۸۲ حصّہ اوّل اقسام خلق کے بیان میں حضرت مسیح موعود کا یگانہ طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلق کے اقسام یا ارکان بیان کرنے میں بھی جس جدت کو اختیار کیا ہے وہ بجائے خود ایک اعجازی رنگ رکھتی ہے.غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ.خلق کے اقسام بہت ہیں لیکن اصلی ارکان جس سے اور تمام شاخیں نکلتی ہیں چار ہیں.علم ، غضب، شہوت اور عدل.انہیں قوتوں کے اعتدال کا نام حسن خلق ہے“ الغزالی مصقله علامہ شبلی نعمانی صفحه ۲۷ از سر عنوان احیاء العلوم کا فلسفہ اخلاق) الغزالی کے مصنف مولانا شبلی نے رکن چہارم عدل کا خود ہی انکار کر کے تین رکن اخلاق کے بتائے ہیں.مجھ کو یہاں اس پر تبصرہ اور تنقید نہیں کرنا ہے کہ غزالی اور شبلی میں سے کون حق پر ہے بلکہ مجھ کو یہ دکھانا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے تقسیم اخلاق میں جو طریق اختیار کیا ہے وہ ممتاز ویگا نہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے طبعی حالتوں کی تعدیل اور ترتیب اور برمحل استعمال کو اخلاق قرار دیا.اور اس کی اقسام میں بتایا کہ.اخلاق دو قسم کے ہیں.اوّل وہ اخلاق جن کے ذریعہ سے انسان ترک شر پر قادر ہوتا ہے.دوسرے وہ اخلاق جن کے ذریعہ سے انسان ایصالِ خیر پر قادر ہوتا ہے اور ترک شر کے مفہوم میں وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کوشش کرتا ہے کہ تا اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنی آنکھ یا اپنے کسی اور عضو سے دوسرے کے مال یا عزت یا جان کو نقصان نہ پہنچاوے یا نقصان رسانی اور کسر شان کا ارادہ نہ کرے اور ایصال خیر کے مفہوم میں تمام وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنے مال یا اپنے علم یا کسی اور ذریعہ سے دوسرے کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا السلام ۸۳ حصّہ اوّل مال یا عزت کو فائدہ پہنچا سکے.یا اس کے جلال یا عزت ظاہر کرنے کا ارداہ کر سکے.یا اگر کسی نے اس پر کوئی ظلم کیا تھا تو جس سزا کا وہ ظالم مستحق تھا اس سے درگذر کر سکے اور اس طرح اس کو دکھ اور عذاب بدنی اور تاوان مالی سے محفوظ رہنے کا فائدہ پہنچا سکے یا اس کو ایسی سزادے سکے جو حقیقت میں اس کیلئے سراسر رحمت ہے.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰صفحه ۳۴۰،۳۳۹) یہ ہے وہ جامع تقسیم اخلاق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے.غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تقسیم اور اس تقسیم کا مقابلہ کرو.بالکل واضح اور بین فرق نمایاں ہے.امام غزالی صاحب اس تقسیم و تحدید میں ابن مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق کے پیرو ہیں اور حضرت مسیح موعود اخلاق کی تقسیم و تحدید میں قرآن مجید کے متبع ہیں.آپ قرآن مجید کی شان بلند اور نبی کریم ﷺ کی اعجازی تعلیم کا جلال ظاہر کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ جلسہ مذاہب کی اس تقریر کے پڑھنے سے ظاہر ہے کہ آپ نے یہ سب کچھ قرآن مجید ہی سے استنباط کر کے دکھایا ہے.فلسفه اخلاق میں نہایت باریک بحث فلسفہ اخلاق میں ایک نہایت لطیف اور دقیق بحث یہ آتی ہے کہ اخلاق میں اصلاح وفساد کی قابلیت ہے یا نہیں.امام غزالی نے اخلاق کی تقسیم و تحدید کے بعد یہی بحث کی ہے اور اس میں قد مائے یونان کے مختلف سکول آف تھاٹس کا ذکر کیا ہے اور انہیں کے اقوال اور اصولوں کی پیروی کر کے ارسطو کی رائے اختیار کی ہے.چونکہ اس اہم اور نازک بحث میں مجھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرہ امتیاز دکھانا ہے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اولاً الغزالی سے اس حصہ کو نقل کروں جو اس بحث کے متعلق ہے.چنانچہ مولا ناشبلی فرماتے ہیں.امام صاحب نے اس تحدید و تقسیم کے بعد اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ اخلاق میں اصلاح وفساد کی قابلیت ہے یا نہیں؟ قد مائے یونان اس بات کے قائل تھے کہ انسان بالطبع شریر اور بداخلاق پیدا ہوا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ ہے لیکن تربیت و تعلیم سے خوش اخلاق ہو سکتا ہے.رواقین اس کے خلاف تھے.اور انسان کو بالطبع پاکیزہ خو خیال کرتے تھے.جالینوس نے ان دونوں مذہبوں کو اس دلیل سے باطل کیا تھا کہ مثلاً اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام آدمی حلقہ ایک ہیں تو کوئی شخص تعلیم سے بھی شریر نہیں ہوسکتا.خود تو اس میں سرے سے شرارت کا مادہ ہی نہیں، دوسروں سے سیکھ سکتا تھا.لیکن پہلے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ تمام آدمی نیک ہیں اس لئے جب خود سکھلانے والے میں شرارت کا وجود نہیں تو وہ کسی دوسرے کو شرارت کی تعلیم کیونکر دے سکتا ہے؟ جالینوس کا ذاتی مذہب یہ ہے کہ بعض انسان بالطبع شریر ہوتے ہیں بعض بالطبع نیک بعض دونوں کے بیچ بیچ میں ہوتے ہیں اور صرف یہی اخیر فرقہ اصلاح کے قابل ہوتا ہے.ارسطو نے کتاب الاخلاق میں یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ بداخلاقی یا خوش اخلاقی کوئی چیز انسان کی طبعی اور جہتی نہیں جو کچھ ہے تعلیم و تربیت کا اثر ہے البتہ تعلیم وتربیت کی قابلیت کے مدارج مختلف ہیں.امام صاحب نے ارسطو کی رائے اختیار کی وہ لکھتے ہیں کہ موجودات کی دو قسمیں ہیں.ایک وہ جو مکمل طور پر پیدا ہوئیں اور ہمارے اختیار سے باہر ہیں مثلاً آفتاب، ماہتاب، زمین.دوسرے وہ جو ناقص پیدا کی گئیں اور ان میں یہ قابلیت رکھی گئی ہے کہ تربیت سے کامل ہو جائیں.مثلاً کسی درخت کا پیج کہ اس وقت وہ بیج ہے لیکن درخت بن سکتا ہے.اخلاق انسانی اسی دوسری قسم میں داخل ہیں.اس قدر ضرور ہے کہ تمام آدمیوں کی جبلتیں یکساں نہیں ہیں بعض کے اخلاق بآسانی اصلاح پذیر ہو سکتے ہیں اور بعض کے بمشکل.66 حصّہ اوّل الغزالی مصنفہ علامہ شبلی نعمانی صفحه ۳۰،۱۲۹ از سریعنوان احیاء العلوم کا فلسفہ اخلاق) لے رواقین یونانی فلسفہ اخلاق کا وہ مذہب ہے جس کی تعلیم یہ تھی کہ انسان کو رنج و راحت غم و مسرت دونوں سے غیر متاثر رہنا چاہیے اور جو کچھ پڑے اسے صبر وسکون کے ساتھ جھیلنا چاہیے.اس کا بانی زمینو ہوا ہے.( ۳۰۸ قبل مسیح ) ( ایڈیٹر )
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصول اس بارہ میں وہی ہے جو انبیاء علیہم السلام نے ہمیشہ پیش کیا ہے.آپ اس بارہ میں کسی فلسفی کے مقلد اور معتقد نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کے طریق وتعلیم کے پیرو ہیں اور خود خدا تعالیٰ سے آپ نے اس راہ مستقیم کو براہ راست بھی حاصل کیا.جس طرح پر انبیاء علیہم السلام اور فلاسفروں کے ایمان میں فرق ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے فلسفہ اخلاق میں فرق ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گناہ کو انسانی فطرت کا خاصہ یا جز وقرار نہیں دیا جیسا کہ غلطی سے عیسائیوں نے سمجھ رکھا ہے.اور نہ گناہ کو کوئی ایسی چیز قرار دیا جو قطعاً دور ہی نہ ہوسکتی ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی صفات غَافِرُ الذَّنْبِ اور قَابِلُ التَّوبِ کو پیش کر کے بدلائل قو یہ ثابت کیا ہے کہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں.مجھ کو یہاں یہ بحث نہیں کرنی ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کو ایک طبعی قوت قرار دیا ہے اور اس قوت کا جائز اور ناجائز استعمال ہی اس کو بد اخلاقی یا خوش اخلاقی بنا دیتا ہے.اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو باہر سے آتی ہے بلکہ جیسے تلوار کو صیقل کرنے سے اس کی چمک اور تیزی اندر ہی سے پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح طبعی قوتوں کی تعدیل و ترتیب سے اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جلسہ دھرم مہوتسو والا مضمون ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) خوب روشنی ڈالتا ہے.غرض حضرت مسیح موعود نے فلسفہ اخلاق میں ارسطو یا غزالی کا اتباع نہیں کیا بلکہ آپ نے انبیاء علیہم السلام کے طریق کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلیم پا کر اخلاقی تعلیم کے وہ اصول پیش کئے جو قرآن مجید نے تعلیم کئے ہیں.چونکہ اس مقام پر مجھ کو اخلاقیات کی تقسیم کر کے ہر ایک خلق کے متعلق تفصیلی بحث نہیں کرنی ہے بلکہ مختصر طور پر حضرت مسیح موعود کے فلسفہ اخلاق کے امتیاز کو دکھانا ہے اس واسطے میں ان امور کو بیان کروں گا جو آپ کے فلسفہ میں خصوصیت رکھتے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا (۱) اخلاق فاضلہ کا صدور برمحل ۸۶ حصّہ اوّل آپ سے پہلے جن لوگوں نے فلسفہ اخلاق پر بحث کی ہے انہوں نے اس بات کی تصریح نہیں کی مثلاً وہ احسان کو عمدہ چیز بتائیں گے لیکن اس کو عدل کے ساتھ نہیں رکھیں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ اخلاق فاضلہ اسی وقت اخلاق فاضلہ ہیں جب ان کا صدور برمحل ہو اور اس میں رعایت عدل ہو اور یہ اصول آپ نے قرآن مجید کی اس آیت سے مستنبط کیا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبى ( النحل (٩١) چنانچہ فرمایا احسان کو خدا تعالیٰ نے عدل سے مؤخر کیا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ احسان وہی قابل تعریف ہے کہ جس میں عدل کی رعایت مفقود نہ ہو.یعنی وضع شے کا غیر محل میں نہ ہو کیونکہ عدل کے یہی معنے ہیں جو ہر ایک شے کو اپنے محل پر وضع کریں.پس ایسا احسان کہ مثلاً کوئی شخص چوری کر کے کسی کو مروت سے کچھ دے دے یہ احسان جائز نہیں ہے کیونکہ یہ عدل کی پابندی سے نہیں یا مثلاً ایسا احسان کہ حق دار کے حق سے تغافل کر کے کسی دوسرے سے سلوک کرے.اسی طرح ایک خلق فاضل جو احسان میں داخل ہے وہ عدل کی پابندی سے محمود ہے اور اگر عدل کی پابندی نہ رہے یعنی ایسا رحم ہو کہ جس میں عدل فوت ہو جائے یا ایسا عفو ہے کہ جس میں عدل فوت ہو جائے وہ جائز نہیں.“ الحکم مورخ ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم نمبرا) (۲) اخلاق فاضلہ اتصال بالمبدء کے لئے ہیں دوسری بات جو اخلاق فاضلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اصولی طور پر بتائی ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کی علت غائی اتصال بالمبدء ہے.انسان کی پیدائش کی علت غائی خدا تعالیٰ کا فرمانبردار عبد بننا ہے.اس لئے جب تک اس میں یہ حقیقت اخلاق فاضلہ کی نمایاں نہ ہو یہ بات
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ حصہ اول پیدا نہیں ہو سکتی.اور اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاق فاضلہ میں اگر عدل یعنی بر محل صدور کا التزام نہ ہو تو اس سے یہ حقیقت نہیں پیدا ہوسکتی چنانچہ فرماتے ہیں.یادر ہے کہ احسان کے معاملہ میں ہر ایک شخص کو ایثار تو درست ہے یعنی اپنا حق بطور احسان کے دوسرے کو دے دے مگر یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے کا حق احسان میں تلف کرے اسی طرح عفو میں یہ جائز نہیں کہ ایسے موقع میں کہ مقتضا عدل کا قصاص ہو عفو کرے لیکن یادر ہے کہ عدل سے مراد و ضَعُ الشَّيْءٍ فِي مَحَلَّه ہے.اور جمع ہونا عدل اور عفو یا عدل اور احسان یا عدل اور انتقام کا ایک محل میں اجتماع ضدین میں سے نہیں ہے اور عدل میں بہر حال سزا دینا لازم نہیں بلکہ حقیقت عدل کی یہ ہے کہ جو ایک امر باعث اکثر اغلب لوگوں کی بھلائی کا ہے وہی بجالا یا جائے یعنی وضع شے کا اپنے محل پر کیا جائے.اس صورت میں عدل اور اخلاق فاضلہ میں کچھ تضاد نہیں بلکہ اخلاق فاضلہ وہی اچھے ہیں کہ جب عدل کے ساتھ جمع ہوں اور جو علت غائی اخلاق فاضلہ کی ہے یعنی اتصال بالمبدء کے لئے ذریعہ ہونا وہ تبھی متحقق ہو سکتی ہے کہ جب بشمول عدل اخلاق فاضلہ صادر ہوں کیونکہ خداوند تعالیٰ حق محض ہے اور ہر ایک امر جو حقانیت سے خالی ہو وہ ذریعہ اس کے حصول کا نہیں ہوسکتا.بلکہ اس سے بعد اور دوری پیدا ہوتی ہے اور اس جگہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اخلاق فاضلہ فی نفسہ کچھ چیز ہی نہیں بلکہ وہ اس لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں کہ تا حصول وصال الہی کے لئے وسائل ہوں.پس وہ اسی حالت میں وسیلہ ٹھہر سکتے ہیں کہ جب عَلَى وَجْهِ الْحَقِّ وَ الْحِكْمَةِ صادر ہوں کیونکہ جب اخلاق عَلَى وَجْهِ الْحَقِّ وَالْحِكْمَةِ صادر ہوں گے تو انسان کو التزام حق کا ایک ملکہ پیدا ہو جائے گا اور وہ حقانی طرح کا آدمی بن جائے گا اور یہ امر اس کے لئے باعث اتصال بالمبدء کا ہے کیونکہ التزام حق کو بجز مبدء قدیم کے اور کسی چیز سے تشبیہ اور مناسبت نہیں اور جب تک انسان تخلق باخلاق اللہ اختیار نہ کرے درجہ محویت کا اس کو حاصل نہیں ہوسکتا.(الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵، صفحہ ۳ کالم نمبر ۲۱)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۸ حصّہ اوّل اس بیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق فاضلہ کی اصل غرض بتا دی ہے اور عیسائیوں کے اس فلسفہ نجات کا استیصال کر دیا ہے جو وہ مسئلہ کفارہ کی بنیاد قائم کرنے کے لئے اس اصول پر قرار دیتے ہیں کہ عدل اور رحم یکجا جمع نہیں ہو سکتے آپ نے اس عام خیال سے ممتاز اصل بتایا ہے عدل کی حقیقت وَضْعُ الشَّيْءٍ فِي مَحَلَّه ہے اور یہ تمام صفات کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے فلسفہ اخلاق پر بحث کرنے والوں میں سب سے ممتاز طریق یہی ہے.(۳) اخلاق فاضلہ کی علت غائی کیونکر پیدا ہو اخلاق فاضلہ کی تقسیم تعریف اخلاق فاضلہ کی تقسیم و تجدید ) اخلاق فاضلہ کے صدور کا مقام و محل اور اخلاق فاضلہ کی غرض و غایت کو پہلے تمام اخلاقین سے ممتاز طریق پر آپ نے بیان کر کے پھر حصول اخلاق کے طریقوں میں بھی یگانہ رنگ اختیار کیا ہے.اس بارہ میں تربیت و تعلیم کا جوطریق امام غزالی نے یا دوسرے اخلاقین نے بیان کیا ہے وہ اخلاق کی ظاہری حالت سے متجاوز نہیں ہوتا.اس لئے کہ انہوں نے اخلاق فاضلہ کی علت غائی پر بحث نہیں کی اور سطحی طور پر اس سے گزر گئے ہیں مگر حضرت مسیح موعود نے انسانی پیدائش کی علت غائی کو مد نظر رکھ کر اس پر بحث کی ہے.حصول اخلاق کے لئے یہ اصل بتایا کہ اولاً نیت درست ہو.حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی یہی تعلیم دی ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ اور آج تیرہ سوسال کے بعد واضعانِ قوانین نے افعال میں نسیت کو مقدم کیا ہے جب تک نیت کی تصریح نہ ہو کوئی جرم، جرم نہیں سمجھا جاسکتا.اور یہ اصل حضرت مسیح موعود نے اپنے آقا سید ولد آدم میہ اور قرآن مجید ہی سے لی ہے آپ نے خطرات اور عزیمت میں فرق کر کے بتایا ہے کہ مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں لیکن جب انسان عزیمت کر لیتا ہے تو وہ قابل مواخذہ ہو جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے " وَلكِنْ يُؤَاخِذُكُمُ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ (البقرة: ۲۲۶) یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہوگا.یہ نہایت قیمتی اور نا دراصل ہے جس سے دنیا کے تمام دوسرے مذاہب اور ان کی کتب خالی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۸۹ حصہ اول ہیں.قرآن مجید ہی نے نیات اور مرکز قوی اور اعصاب افعال کو صرف کرنے اور پاک رکھنے کا گر بتایا ہے اور اس کی ابتدا نیت سے ہوتی ہے.پس حضرت مسیح موعود نے صدور اخلاق کے لئے پہلی چیز نیت بتائی ہے اور اس کے لئے یہ قرار دیا کہ چونکہ انسان کی اصل غرض اتصال بالمبدء ہے لہذا وہ اپنے اخلاق کو اس نیت کا تابع کرے چنانچہ فرماتے ہیں.اخلاق فاضلہ کی ورزش سے یہ غرض ہے کہ وہ اتصال بالمبدء کے لئے ذریعہ ہوں یعنی ایسے طور سے استعمال میں ہوں کہ جس سے انسان اپنی ذات سے بالکل محوہو کر اتصال بالمبدء حاصل کرے اور وہ طریق بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ انسان اپنے اخلاق کو محض اس نیت سے استعمال کرے جو وہ خدا کے اخلاق کے تابع ہو جائیں اور جیسے سایہ اپنے وجود میں کچھ چیز ہی نہیں بلکہ وہ اصل سے ہی پیدا ہوتا ہے اور اصل کی ہی متابعت میں محو ہوتا ہے ویسا ہی سالک کے لئے لازم ہے کہ اس کو اپنی ذات میں نفی اخلاق کا درجہ حاصل ہو یعنی ایسا ہو کہ اس کے لئے کوئی بھی صفت نہیں.نہ اس میں رحم کی صفت ہے نہ عفو کی نہ قہر کی نہ لطف کی اور ان صفتوں کو اس میں پیدا کرنے والا محض اخلاق الہی ہوں اور یہ اخلاق اسی طور سے اس سے صادر ہوں کہ جن سے تو حید فعلی پیدا ہوتی ہے اور توحید فعلی اخلاق کی تب ہی پیدا ہوتی ہے کہ جب اخلاق انسان کے به تبعیت اخلاق اپنے خالق کے صادر ہوں اور خالق کے تمام اخلاق میں حقیقی نیکی بھری ہوئی ہے جو حق اور حکمت پر مبنی ہے دنیا میں صرف اس کا لطف ہی نہیں پا یا جا تا بلکہ قہر بھی پایا جاتا ہے لیکن خالق کا مقصود بالذات نہ لطف ہے نہ قہر بلکہ حقیقی نیکی مقصود بالذات ہے اور لطف اور قہر اس کے لباس ہیں اور جس طرح تبدیل لباس سے صاحب لباس کی ذات میں کوئی فرق نہیں آتا اسی طرح تبادل لطف اور قہر سے حقیقی نیکی میں کچھ تبدیلی واقع نہیں ہوتی چونکہ خدا اپنے بندوں سے حقیقی نیکی بجالاتا ہے اس لئے وہ شخص جو تو حید فعلی کے حصول کا خواہاں ہو اس کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تو حید فَنَا فِی اخْلَاقِ اللہ سے حاصل ہوتی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۰ ہے اور مرتبہ فَنَا فِی اَخْلَاقِ اللہ کا تب متحقق ہوسکتا ہے کہ جس طرح خداوند تعالیٰ حقیقی نیکی کو بجالاتا ہے.نہ مجازی نیکی کو یہ بھی حقیقی نیکی کا مصدر ہو جائے ”علی آنُ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ (البقرة: ۲۱۷)‘ ، پس حقیقی نیکی کا مصدر ہوا تو با عث فَنَا فِي اَخلاقِ اللہ کے مرتبہ تو حید فعلی کا پالے گا“.حصہ اول ( الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲ ،۳۰) اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اخلاق فاضلہ فی نفسہ کچھ چیز نہیں بلکہ وہ قو تیں خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے عطا فرمائی ہیں تا کہ انسان فنا فی اخلاق اللہ کا مرتبہ حاصل کر کے تو حید فعلی کو حاصل کرے.اصل معیار اخلاق صراط مستقیم پر قائم ہونا ہے پھر آپ نے بتایا ہے کہ اخلاق کا اصل معیار صراط مستقیم پر قائم ہونا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ جب تک اعتدال اور توسط کا مقام انسان کو اپنے افعال و اعمال میں حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ نہ اس حقیقت کو پاسکتا ہے جو فنافی اخلاق اللہ کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس لئے اس کو حقیقی نیکی اور تو حید فعلی کا درجہ بھی نصیب نہیں ہوتا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.اب جبکہ مدار فنا فی اخلاق اللہ کا حقیقی نیکی ٹھہری تو ایسی حقیقی نیکی پر قدم مارنا صراط مستقیم ہے اور اسی کا نام توسط اور اعتدال ہے کیونکہ تو حید فعلی جو مقصود بالذات ہے وہ اس سے حاصل ہوتی ہے اور جو شخص اس نیکی کے حاصل کرنے میں متساہل رہے وہ درجہ تفریط میں ہے اور جو شخص اس سے آگے بڑھے وہ افراط میں پڑتا ہے ہر جگہ رحم کرنا افراط ہے کیونکہ محل کے ساتھ بے محل کا پیوند کر دینا اصل پر زیادتی ہے اور یہی افراط ہے اور کسی جگہ بھی رحم نہ کرنا یہ تفریط ہے...اور وضع شے کا اپنے محل پر کرنا یہ توسط اور اعتدال ہے کہ جو صراط مستقیم سے موسوم ہے.جس کی تحصیل کے لئے کوشش کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض کیا گیا ہے اور اُس کی دعا ہر نماز میں بھی مقرر ہوئی ہے جو صراط مستقیم کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ حصّہ اوّل مانگتا رہے کیونکہ یہ امر اس کو تو حید پر قائم کرنے والا ہے کیونکہ صراط مستقیم پر ہونا خدا کی صفت ہے علاوہ اس کے صراط مستقیم کی حقیقت حق اور حکمت ہے.“ (الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم نمبر ۳) حق و حکمت کے اقسام ثلاثہ یا اخلاق فاضلہ کی تثلیث پس اگر وہ حق اور حکمت خدا کے بندوں کے ساتھ بجالا یا جاوے تو اس کا نام حقیقی نیکی ہے اور اگر خدا کے ساتھ بجالایا جاوے تو اس کا نام اخلاص اور احسان ہے اور اگر اپنے نفس کے ساتھ ہو تو اس کا نام تزکیہ لنکس ہے اور صراط مستقیم ایسا لفظ ہے کہ جس میں حقیقی نیکی اور اخلاص ما بعد اور تزکیہ نفس تینوں شامل ہیں.اب اس جگہ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے تین قسم پر ہے علمی اور عملی اور حالی اور پھر یہ تینوں تین قسم پر ہیں علمی میں حق اللہ حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے اور عملی میں اُن حقوق کو بجالا نا.مثلاً حق علمی یہ ہے کہ اس کو ( اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھنا اور اس کو مبدء تمام فیوض کا اور جامع تمام خوبیوں کا اور مرجع اور ماب ہر ایک چیز کا اور منزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جاننا اور جامع صفات کاملہ ہونا اور قابل عبودیت ہونا اسی میں محصور رکھنا یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے.اور عملی صراط مستقیم یہ ہے جو اس کی طاعت اخلاص سے بجالانا اور طاعت میں اس کا کوئی شریک نہ کرنا اور اپنی بہبودی کے لئے اسی سے دعا مانگنا اور اسی پر نظر رکھنا اور اسی کی محبت میں کھوئے جانا یہ عملی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے.اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ ہے جو ان کو اپنا بنی نوع خیال کرنا اور بندگانِ خدا سمجھنا اور بالکل پیچ اور نا چیز خیال کرنا کیونکہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو ان کا وجود بیچ اور نا چیز ہے اور سب فانی ہیں.یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۹۲ حصّہ اوّل اور عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ حقیقی نیکی بجالانا یعنی وہ امر جو حقیقت میں ان کے حق میں اصلح اور راست ہے بجالا نا یہ توحید عملی ہے کیونکہ موحد کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتی ہیں جیسے عجب اور یا اور تکبر اور حــقــد اور حسد اور غرور اور حرص اور بخل اور غفلت اور ظلم ان سب سے مطلع ہونا اور جیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی ان کو اخلاق رذیلہ جانا یہ علمی صراط مستقیم ہے اور یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کی جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے.اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے جو نفس سے ان اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرنا اور صفت تختی عن الرذائل اور تجلّی بالفضائل سے متصف ہونا، یہ عملی صراط مستقیم ہے اور یہ تو حید حالی ہے کیونکہ موحد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے خالی کرے اور اس کو فنافی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو.“ 66 الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ نمبر ۳ کالم نمبر ۴۳) حق العباد اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم کا امتیاز یا ادائے خدمت اور تزکیہ نفس کی حقیقت پھر اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود نے ایک اور باریک اور لطیف امتیاز ان اخلاق میں بتایا ہے جو ذاتی ونفسی خوبیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کا نام تزکیہ نفس رکھا جاسکتا ہے اور ان اخلاق میں جو دوسروں پر مؤثر ہوتے ہیں.اس فلسفہ کا امتیاز بتاتے ہوئے آپ نے اخلاق پر بحث کرنے والوں سے بالکل جدا گانہ طرز اختیار کی ہے اگر چہ دونوں قسمیں تزکیہ نفس سے تعلق رکھتی ہیں یعنی تزکیہ نفس کے ساتھ ہی مخلوق خدا کی ہمدردی و خدمت کا جوش بھی انسان میں پایا جاتا ہے مگر اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ بار یک امتیاز کو اخلاقین نے اس حیثیت سے بیان نہیں کیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.اس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک فرق باریک ہے...اور وہ یہ ہے جو عملی صراط مستقیم حق النفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے اور ایک باطنی شرف ہے.خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آوے یا نہ آوے لیکن حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور تبھی متحقق ہوتی ہے کہ جب افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے اور شر ط خدمت کی ادا ہو جائے غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد ادائے خدمت میں ہے اور عملی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں یہ تزکیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہوسکتا ہے لیکن حق العباد بجز مجالست بنی آدم کے ادا نہیں ہوسکتا.اسی لئے فرمایا گیا جو رہبانیت اسلام میں نہیں.اب جاننا چاہیے جو صراط مستقیم علمی اور عملی سے غرض اصلی توحید علمی اور توحید عملی ہے یعنی وہ تو حید جو بذریعہ علم کے حاصل ہو اور وہ تو حید جو بذریعہ عمل کے حاصل ہو.پس یا درکھنا چاہیے جو قرآن شریف میں بجز توحید کے اور کوئی مقصود اصلی قرار نہیں دیا گیا اور باقی سب اس کے وسائل ہیں ایسا ہی اخلاق فاضلہ کا حاصل کرنا توحید عملی کے قائم کرنے کے لئے ہے کہ تا انسان کے آئینہ وجود میں اخلاق اللہ کا عکس منعکس ہو کر اس کو بالکل خودی اور ہستی سے محو کرے.پس اگر انسان بطور خدمت مخلوق کے اپنے اخلاق کو معرض ظہور میں لاتا ہے تو یہ سارا کام اس غرض سے ہوتا ہے کہ تا اپنے افعال کو مبدء قدیم کے افعال میں فانی اور گم کرے جیسا فرمایا ہے اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام:۱۹۳) اور جیسا فرمایا بِي يَسْمَعُ بِي يَبْصُرُ بِي يَمْشِي بِي يَبْطِشُ “ اور اس حالت میں کہ افعال اس کے افعالِ الہی کا ایک سایہ ہوتے ہیں تو اس صورت میں بجز التزام حق اور حکمت کے اور کسی چیز کا التزام اُس کے افعال میں نہیں آتا اور جو مقتضا حق اور حکمت کا حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۹۴ حصّہ اوّل ہو وہی اُس سے صادر ہوتا ہے اور اسی کو وہ اصل محکم سمجھ کر اس سے جو کمی بیشی ہو اس کو افراط اور تفریط سمجھتا ہے.ایسا ہی تزکیہ نفس کی حالت میں توحید عملی غرض ہوتی ہے اور اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ تا اپنے صحن قلب کو دخل غیر اللہ سے پاک اور صاف کرے.“ (الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه کالم نمبر ) امام غزالی نے اخلاقی امراض کی تقسیم پر بڑی موشگافی کی ہے اور متاخرین نے اس کی بہت داد دی ہے اور کچھ شک نہیں وہ قابل قدر بھی ہے لیکن حضرت مسیح موعود نے اخلاقی امراض کی تقسیم اور اس کے علاج میں جو طریق اختیار کیا ہے وہ اپنی نوعیت میں ہی نہیں کہ نرالا اور مکمل ہے بلکہ وہ انسانی زندگی کے مقصد اور مدعا کو پورا کرنے والا ہے.حق العباد حق النفس میں عملی صراط مستقیم کا امتیاز بتاتے ہوئے ایک ایسے جامع طریق پر اخلاقی امراض اور اُن کے علاج کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ طریق کوئی شخص بیان نہیں کر سکتا جب تک اس نے خدا تعالیٰ سے خاص قوت نہ پائی ہو اور وہ اس کی روح سے نہ بولتا ہو.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.ایسا ہی تزکیہ نفس کی حالت میں توحید عملی غرض ہوتی ہے اور اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ تا اپنے صحن قلب کو دخل غیر اللہ سے صاف اور پاک کرے اور بلا شبہ اخلاق رذیلہ سب غیر اللہ ہیں جو کسی خود غرضی کے منشاء سے پیدا ہو جاتے ہیں.ایک شخص جو تکبر کرتا ہے اس کو اپنے نفس کو بزرگ بنانا مد نظر ہوتا ہے.ایسا ہی معجب میں بھی اپنے نفس کی خوبی دیکھی جاتی ہے.بخل میں بھی اپنی ہی خودداری منظور ہوتی ہے.حرص بھی اپنا ہی نفس خوش کرنے کے لئے ہوا کرتی ہے.پس انسان کی فلاح کلی شرک سے اسی میں ہے کہ وہ اخلاق ذمیمہ سے تزکیہ اپنے نفس کا کر کے توحید عملی اختیار کرے اور اسی کی طرف اشارہ ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا (الشمس: ۱۰) اور اسی کی طرف اشارہ ہے الَّذِینَ امَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَيْكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمُ مُهْتَدُونَ (الانعام: ۸۳) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو کسی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۹۵ نوع کے شرک سے ملوث نہ کیا انہیں کو خطرات عذاب سے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں یعنی ان کا قول اور فعل اور حال سب خدا کے لئے ہو گیا.ایمان بھی خالصاً خدا پر لائے اور توحید فی ذات اللہ اور توحید فی صفات اللہ کا درجہ پایا.اور پھر اپنی اخلاقی قوتوں کو بھی خدا کی راہ پر خرچ کیا یعنی توحید فی تبعیت اخلاق اللہ اختیار کی اور یہ تو حید فی تبعیت اخلاق اللہ اس لئے تو حید ہے کہ اس سے اپنی صفات سے فتالا زم آتی ہے.اور پھر تو حید آخری جو تو حید حالی ہے یہ ہے جو نفس کو اخلاق رذیلہ اور ہر ایک خواہش ماسوی اللہ سے پاک کر کے انس اور شوق الہی میں مستغرق کریں.یہ اس لئے تو حید ہے جو اس میں فنا اپنی ذات سے لازم آتی ہے کیونکہ بکلی تزکیہ نفس کا تبہی ہوتا ہے جب نفس ہی درمیان میں نہ رہے.صیقل زدم آن قدر کہ آئینہ نماند.یہ توحید بوجہ کامل دعا اور تضرع سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ اپنے وجود اور اپنی خواہشوں سے بکلی منقطع ہو جانا وضع عادت انسان کے برخلاف ہے اس لئے محض اپنے علم اور زور سے اس مہم کو فتح کرنا نہایت درجہ مشکل ہے اور عبودیت خالص بجز اس توحید کے ممکن نہیں اسی لئے اس توحید کے حاصل کرنے کے لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا ہے.کیونکہ يجر فضل الہی کے یہ تو حید حاصل نہیں ہو سکتی.اب خلاصہ یہ ہے کہ تو حید تین قسم کی ہے ایک توحید علمی کہ جو صحیح عقائد سے حاصل ہوتی ہے.دوسری توحید عملی کہ جو قومی اخلاقی کو خدا کے راستہ میں محو کرنے سے یعنی فنافی اخلاق اللہ سے حاصل ہوتی ہے.تیسری تو حید حالی جو اپنے ہی نفس کا حال اچھا بنانے سے حاصل ہوتی ہے یعنی نفس کو کمال تزکیہ کے مرتبہ تک پہنچانا اور غیر اللہ سے صحن قلب کو بالکل خالی کرنا اور نابود اور بے نمود ہو جانا یہ تو حید بوجہ کامل تب میسر آتی ہے کہ جب جذ بہ الہی انسان کو پکڑے اور بالکل اپنے نفس سے نابود کر دے اور بجر فضل الہی کے نہ یہ علم سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ عمل سے اس کے لئے عابدین مخلصین کی زبان پر نعرہ حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ حصّہ اوّل ايَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة: ۵) بے بَلِ اللهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ (النساء:۵) لیکن جو شخص ظلم صریح اور کذب فاش کو چھوڑ دے اور حتی الوسع و استطاعت تزکیہ نفس میں مجاہدہ کرے اس کو جناب الہی سے امیدوار ہونا چاہیے جو اس توحید کا پیالہ اس کے نصیب کرے.گرچه وصالش نہ بکوشش ہند ہر قدراے دل کہ توانی بکوش ،، (الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴ کالم نمبر ۳۰۲) یہ مضمون جس کے اقتباس میں نے اوپر دیئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے قریباً پچاس برس پہلے لکھا تھا اور اس کی اشاعت کی سعادت صرف ایڈیٹر احکام کے حصہ میں آئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلسفہ اخلاق کا بیان اور بھی طویل ہوسکتا تھا جبکہ میں تمام اخلاقی امراض کو لے کر ان کے فلسفہ علامات اور اسباب اور علاج پر بحث کرتا مگر میرے مد نظر یہ امر نہیں ہے بلکہ مجھے یہ دکھانا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے فلسفہ اخلاق میں ابنیاء علیہم السلام کے طریق کو اختیار کیا.فلاسفروں کا اتباع نہیں کیا اور خدا تعالیٰ سے خاص علم پا کر آپ نے اس کو دنیا پر ظاہر کیا.آپ نے اخلاق کی تقسیم دو طرح پر کی ہے ایصال خیر اور ترک شر.میں آئندہ آپ کے اخلاق میں اسی تقسیم کو مد نظر رکھوں گا.وَ بِاللهِ التَّوفيق ترجمہ.اگر چہ اس کا وصال کوشش سے حاصل نہیں ہو سکتا، پھر بھی اے دل جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوشش کرے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۹۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ واقعات کی روشنی میں ایصال خیر کے ماتحت اخلاق حصّہ اوّل فلسفہ اخلاق کی بحث میں میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تقسیم دو قسموں پر کی ہے اخلاق متعلق ایصال خیر و اخلاق متعلق ترک شر انہیں ہر دو اقسام کے ماتحت میں آپ کے اخلاق فاضلہ کا بیان کرتا ہوں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ.عفو و درگزر ان اخلاق میں سے جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں پہلا خلق عفو و درگزر رہے.یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا اور بجائے سزا دینے یا دلانے کے اس کے قصور سے چشم پوشی اور درگزر کرنا چنانچہ قرآن مجید نے فرمایا ہے ” وَالكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ “ (ال عمران : ۱۳۵) یعنی ایک آدمی وہ ہیں جو غصہ ہونے کے محل پر اپنا غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے کے محل پر معاف کر دیتے ہیں.آؤ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کریں کہ آپ میں یہ خلق کس حد تک اور کس رنگ میں پایا جاتا ہے.یادر ہے اخلاق فاضلہ میں سے عفو اور درگزر ایک ایسی صفت ہے جو انسان کے کمال کا ایک خاص نشان ہے اس لئے کہ جب تک انسان اپنے غصہ و انتقام کے جذبات پر کامل قدرت اور حکومت حاصل نہ کر لے اس وقت تک یہ قوت اس میں پیدا نہیں ہوسکتی کہ وہ دوسروں کے قصوروں کو بر محل معاف کر دے.اس اخلاقی قوت کی عظمت اور شان اسی قدر بڑھتی جاتی ہے جس قدر ان واقعات اور حالات کی اہمیت ہو جن کے صدور اور ظہور پر کسی شخص سے اس اخلاق کا نمونہ دیکھا جاتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود کے عفو و در گزر پر ربانی شہادت حضرت مسیح موعود کے اس خلق کو واقعات کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے یہ بتادینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے اس خُلق عظیم کے متعلق ربانی شہادت بھی موجود ہے یعنی خدا تعالیٰ کی اس وحی میں جو آپ پر نازل ہوئی آپ کے اس خلق کا ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحْمُ عَلَيْهِمْ ، یعنی تو لوگوں کے ساتھ رحم اور لطف کے ، ساتھ پیش آ.اور فرمایا یا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ “ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی ہے.” وَمَا اَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ “ اور ہم نے تجھ کو تمام دنیا پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے.غرض بہت سے الہامات میں آپ کے اس خلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اگر واقعات کی روشنی میں یہ صداقت ظاہر نہیں ہوتی تو الہامات بجائے خود ایک دعوی ہوتے.ان الہامات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی میں ایسے واقعات اور حالات پیش آنے والے تھے کہ آپ کے اس خلق کا ظہور ہوگا.اور وہ ہوا چنانچہ آپ کی زندگی کے بہت سے واقعات اس کی زبردست شہادت ہیں کہ دنیا کے معاملات میں آپ کو کسی پر غصہ نہ آتا اور آپ اپنے خطا کاروں کو موقع اورمحل کے لحاظ سے ہمیشہ معاف کر دیتے تھے.آپ نے بے محل اس خلق کا کبھی استعمال نہیں کیا.اگر آپ کسی پر غصہ اور خفا ہوئے تو وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول علیا ہے اور اس کی کتاب کے لئے غیرت کا مقام ہوتا تھا نہ کچھ اور.کیونکہ غیرت اور حمیت کے احساسات کو زندہ رکھنا اور نشونما دینا بھی ایک خلق عظیم ہے.اب میں واقعات کی روشنی میں اس خلق کو دکھاؤں گا جس کو دوسرے الفاظ میں آپ کے اخلاقی معجزات کہتا ہوں.آپ کے عفو و درگزر کے دوجدا گانہ مقامات آپ کے عفو و درگزر کے دو جدا جدا مقامات میں دکھانا چاہتا ہوں.دوستوں سے ، دشمنوں سے.اولاً میں وہ واقعات پیش کروں گا جو آپ کے خدام اور دوستوں سے متعلق ہیں اور پھر آپ کے اس سلوک کا ذکر کروں گا جو آپ اپنے دشمنوں سے کرتے تھے.وَ بِاللهِ التَّوفيق.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ حصّہ اوّل خدام سے عفو و درگزر (۱) محمد اکبر خان صاحب سنوری کا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادموں میں سے ایک محمد اکبر خان صاحب سنوری ہیں جو مدت سے دارالامان میں ہجرت کر کے آگئے اور اب یہاں ہی رہتے ہیں اس واقعہ کے قلم بند کرنے کے وقت تک وہ خدا کے فضل سے زندہ ہیں وہ حضرت اقدس کے عملی طور پر خادم تھے اور خادم کو اپنے مالک و آقا کے حضور متعدد مرتبہ پیش ہونے کا بھی موقع ملتا ہے اور اس کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات آتے ہیں جبکہ اس سے کسی فرض کی ادائیگی یا تکمیل میں کوئی نقص اور کمی پیدا ہو اور اس کے کسی فعل سے مالک کے مال یا آرام پر اثر پڑے اور وہی وقت اس کے اخلاق کے ظہور اور انداز ہ کا ہوتا ہے.خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تو ہم کو حضرت اقدس نے اپنے مکان میں ٹھہرایا.حضرت اقدس کا قاعدہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلایا کرتے تھے اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے جن دنوں میں میں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی.ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی.اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گر پڑی اور تمام مسودات جل گئے علاوہ ازیں اور بھی چند چیزوں کا نقصان ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کے کئی مسودات ضائع ہو گئے ہیں تو تمام گھر میں گھبراہٹ ، میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی کیونکہ حضرت اقدس کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے.لیکن جب حضور کو معلوم ہوا تو حضور نے اس واقعہ کو یہ کہہ کر رفت گذشت کر دیا کہ خدا کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہو گیا.تھوڑی دیر کے لئے اس واقعہ پر غور کیا جاوے.حضرت اقدس ایک کتاب تصنیف کر رہے ہیں اور شبانہ روز محنت سے اس کا مسودہ لکھا گیا ہے.آن کی آن میں وہ ایک خادمہ کی غفلت اور بے پروائی سے ضائع ہو گیا ہے دوسری طرف کا تب اور پریس کے اخراجات سر پر پڑ رہے ہیں ایسے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ اول موقع پر اگر کوئی اور آقا ہو تو خدا جانے اس کے غصہ اور غضب کی کیا حالت ہوتی مگر خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور فرستاده مسیح موعود علیہ السلام کے عفو اور درگزر کی شان کو ملاحظہ کرو کہ اس کے قلب مطہر پر اس سے کچھ اثر ہی نہیں پڑتا.اور وہ نہ نقصان کی پرواہ کرتا ہے اور نہ اسے غصہ آتا ہے بلکہ اس نقصان پر خدا کا شکر اس لئے کرتا ہے کہ اس نے اپنے فضل سے مزید نقصان سے محفوظ رکھا.(۲) ایک اور واقعہ اسی طرح پر خان صاحب اکبر خان صاحب نے بتایا کہ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر سے حضرت اقدس کے مکان پر جانے کے لئے پہلے بھی اسی طرح ایک راستہ ہوتا تھا.( جس مقام پر آج کل دروازہ ہے یہاں چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی اور اس کے نیچے ایک لکڑی کی سیڑھی ہوتی تھی.ایڈیٹر ) جیسا کہ اب ہے اور اس میں نیچے اترنے کے لئے ایک دیار کی سیڑھی لگی ہوئی تھی.ایک دفعہ میں لالٹین اٹھا کر حضرت اقدس کو راستہ دکھانے لگا اتفاق سے لالٹین ہاتھ سے چھوٹ گئی لکڑی پر تیل پڑا اوپر سے نیچے تک آگ لگ گئی ہمیں بہت پریشان ہوا.بعض لوگ بھی کچھ بولنے لگے لیکن حضرت اقدس نے فرمایا ” خیر ! ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں مکان بچ گیا.“ یہ واقعہ اپنی نوعیت میں اس پہلے سے کم نہیں بلکہ ایک طرح بڑھ کر ہے وہ غفلت تو ایک بچہ کی تھی مگر یہ حرکت ایک تجربہ کار آدمی سے وقوع میں آئی مگر حلم و عفو کے مجسمہ نے اسے بھی معاف ہی کر دیا اور اس نقصان کو نظر انداز کر کے اس بات کا خیال فرمایا کہ مکان بچ گیا.اس میں دراصل یہ بھی ایک سبق ہے کہ ایسے موقعہ پر انسان کس طرح پر اپنے غیظ و غضب کے جذبات کو دبا سکتا ہے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اس نقصانِ عظیم کا خیال کرے جس کے ہونے کا احتمال ہوسکتا تھا.بہر حال آپ نے دونوں موقعوں پر درگزر سے کام لیا.اور نہ تو خان صاحب کو کچھ کہا اور نہ ان کی صاحب زادی کو.یہ واقعات آپ کی سیرت کے ایک اور پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ کیسا قلب مطمئن آپ کے سینہ میں تھا اور کوئی گھبراہٹ اور اضطراب آپ کو آہی نہیں سکتی تھی چونکہ سکینت قلب پر الگ اسی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا 1+1 حصّہ اوّل کتاب میں لکھا گیا ہے اس لئے اس پر اس وقت زیادہ بحث کی ضرورت نہیں.(۳) ایک چاول چرانے والی خادمہ کا واقعہ حضرت مخدوم الملت مولا نا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ الحکم میں ہفتہ وار ایک خط لکھا کرتے تھے جو نہایت مقبول ہوتے تھے.ان خطوط میں سے بعض میں آپ نے حضرت مسیح موعود یہ السلام کی سیرت کے بعض حصص بھی لکھے جو کے نام سے الگ بھی شائع ہوئی ہے.اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اندر سے کچھ چاول چرائے چور کا دل نہیں ہوتا اور اس لئے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بے تابی اور اس کا ادھر ادھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا.شور پڑ گیا.اس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گھری چاولوں کی نکلی.ادھر سے ملامت اُدھر سے پھٹکار ہورہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے اُدھر آ نکلے پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا.فرمایا.محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خدا تعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو ( مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۲۵) غور کرو اور بتاؤ کہ کیا یہ کسی معمولی حوصلہ اور قلب کے انسان کا کام ہے یا یہ فعل ایسے عالی ہمت سے سرزد ہو سکتا ہے جس کا دل ہر قسم کی تلخی سے صاف کردیا گیا ہو اور کو ہ وقار ہو.چوری کی ہے اور خوب کی ہے اور معلوم نہیں کہ کتنے دنوں اور عرصہ سے یہ کام جاری تھا مگر خدا کا برگزیدہ فرستادہ ظاہر ہو جانے اور پکڑے جانے پر بھی صاف معاف کر دیتا ہے اور نہ صرف معاف کرتا ہے بلکہ کچھ دے دیتا ہے.اور دوسروں کو فضیحت سے روکتا ہے.(۴) حضرت خلیفہ امسیح ثانی کا ایک واقعہ حضرت مولا نا عبد الکریم رضی اللہ عنہ اپنی اسی سیرت میں لکھتے ہیں.د محمود ( حضرت خلیفہ ثانی) چار ایک برس کا تھا.حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ
سیرت ت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۲ حصّہ اوّل رہے تھے میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا.پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو سیاق عبارت کو ملانے کے لئے کسی گذشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی.اس سے پوچھتے ہیں خاموش اس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے.آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیئے عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہو گا.اور در حقیقت عادتا ان سب کو علی قدر مراتب بُری حالت اور مکر وہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا.مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں ”خوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے.“ مولا نا فرماتے ہیں کہ اس موقعہ پر بھی ابنائے زمانہ کی عادات سے مقابلہ کئے بغیر ایک نکتہ چین نگاہ کو اس نظارہ سے واپس نہیں ہونا چاہیے.“ ( مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۲۱،۲۰) حقیقت میں اس صدمہ اور تکلیف کو وہ شخص محسوس کر سکتا ہے جس نے بحیثیت ایک مصنف کے کبھی کام کیا ہو اُس کی گھبراہٹ اور اضطراب کا اس وقت اندازہ کرنا چاہیے جبکہ اس کی محنت اور تلاش کی ساری متاع ایک دم میں ضائع ہو جائے مگر دیکھو! کہ یہ خدا کا برگزیدہ ذرا بھی چیں بہ جبیں نہیں ہوتا وہ اس کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور اپنے خدا پر اسے اس قدر ایمان ہے کہ وہ بہتر سے بہتر عطیہ کا یقین رکھتا ہے اس سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اُس کی تصانیف اس کی اپنی محنت اور کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اسے خدا سے پاتا ہے اور اس کے لا انتہا خزانوں پر ایک لذیذ ایمان رکھتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا (۵) حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح کا واقعہ اسی سلسہ میں حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ایک دفعہ اتفاق ہوا جن دنوں حضرت تبلیغ لکھا کرتے تھے ( آئینہ کمالات اسلام میں جو تبلیغ ہے.ایڈیٹر ) مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے حضرت نے ایک بڑا بھاری دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغت خدا داد پر حضرت کو بڑا ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کے لئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیے مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی واپسی پر کہ ہنوز راستہ ہی میں تھے مولوی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں مولوی صاحب کے ہاتھ سے وہ مضمون گر گیا واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے.حضرت معمولاً اندر چلے گئے میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت نے مضمون نہیں بھیجا اور کا تب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے.مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں کو دوڑایا کہ لیجیو، پکڑ یو لیکیو کا غذراہ میں گر گیا.مولوی صاحب اپنی جگہ بڑے بخل اور حیران تھے کہ بڑی خفت کی بات ہے.حضرت کیا کہیں گے یہ عجیب ہوشیار آدمی ہے ایک کاغذ اور ایسا ضروری کاغذ بھی سنبھال نہیں سکا.حضرت کو خبر ہوئی معمولی ہشاش بشاش چہرہ تبسم ریز لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر د وادو اور تکاپو کیوں کیا گیا ؟ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر ہمیں عطا فرما دے گا.“ حصّہ اوّل ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۲۱) اس واقعہ کونظر امعان سے دیکھو! اگر کوئی اور شخص ہوتا تو اس کی خفگی اور خشونت کا اندازہ بھی نہ ہوسکتا.آپے سے باہر ہو جاتا مگر یہ عفو اور رحم کی زندہ تصویر بجائے اس کے کہ افسوس کرے بجائے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ حصہ اول اس کے کہ کوئی ذرا بھی اثر یا حرکت خفگی کی ظاہر کرے الٹا اس بات پر افسوس کرتا ہے کہ مولوی صاحب کو اس کے گم ہو جانے سے تشویش ہوئی.مولوی صاحب کی تکلیف کا اسے احساس ہے اور اپنے حرج اور تکلیف کو بھول ہی گیا ہے.دنیا کے مصنفین میں اس کی نظیر بتاؤ کبھی نہیں ملے گی.ان سب باتوں کی جڑ خدائے زندہ اور قادر کی ہستی پر ایمان ہے یہ ایمان ہر وقت قومی کو زندہ اور تازہ رکھتا اور ہر قسم کی پژمردگی اور افسردگی سے بچاتا رہتا ہے جو دنیا داروں کو بسا اوقات بڑی بڑی شرمناک حرکات پر مجبور کرتی ہے.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۲۲٬۲۱) (۶) حافظ حامد علی مرحوم کا واقعہ اوپر کے واقعات سے پایا جاتا ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا نقصان کر دے آپ معاف کر دیتے اور معمولی چشم نمائی بھی نہیں کرتے تھے اور اس میں ایسا اثر اور جادو تھا کہ انسان ایک فوری تبدیلی کے لئے تیار ہو جاتا تھا.حافظ حامد علی صاحب حضرت کے پرانے خدام میں سے تھے اور باوجود ایک خادم ہونے کے حضرت صاحب ان سے اس قسم کا برتاؤ اور معاملہ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہے اور یہ بات حافظ حامد علی صاحب ہی پر موقوف نہ تھی.حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اور کوئی عزیز آپ کو نہیں.بہر حال حافظ حامد علی صاحب کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپ نے دیئے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آؤ.حافظ حامد علی صاحب کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا.پس وہ کسی اور کام میں مصروف ہو گئے اور اپنے مفوض کو بھول گئے.ایک ہفتہ کے بعد حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ ( جو اُن ایام میں میاں محمود اور ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں.آپ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں بعض رجسٹر ڈ خط بھی تھے اور آپ ان کے جواب کے منتظر تھے.حامد علی کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا حامد علی ! تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے.ذرا فکر سے کام کیا کرو.“ 66
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۰۵ حصّہ اوّل ضروری اور نہایت ضروری خطوط جن کے جواب کا انتظار مگر خادم کی غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں.اور بجائے ڈاک میں جانے کے وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں جا ملتے ہیں اس پر کوئی باز پرس کوئی سزا اور کوئی تنبیہ نہیں کی جاتی ! (۷) حافظ غلام محی الدین مرحوم کا واقعہ حافظ غلام فی الدین مرحوم بھیرہ کے باشندہ تھے اور حضرت حکیم الامت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ کے رضائی بھائی تھے ، حضرت مولوی صاحب کے ساتھ ہی قادیان میں آگئے اور آپ کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے.وہ مولوی صاحب کے مکان میں ڈیوڑھی کے اس کمرہ میں رہا کرتے تھے جو مفتی فضل الرحمان صاحب کے اندرونی دروازہ کے بالمقابل ہے یا یوں کہو کہ ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ کو ہے.اور جس کی کھڑکیاں گلی کی طرف ہیں.حافظ صاحب جلد سازی کا کام کیا کرتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاک لایا کرتے تھے اور ڈاک لے بھی جایا کرتے تھے.چونکہ ڈاک خانہ میں وہی جایا کرتے تھے اس لئے دوسرے اکثر دوستوں کے خطوط لے آتے اور جب ڈاک میں ڈالنے کو جاتے تو لے بھی جاتے.اُس وقت ڈاک خانہ معمولی ایک برانچ آفس تھا اور کوئی لیٹر بکس شہر میں نہیں رکھا ہوا تھا خصوصیت کے ساتھ وہ اس کام کو حضرت کی خدمت یقین کر کے کرتے تھے.پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی جب پوری ہوئی اور وہ لاہور میں قتل ہو گیا تو اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانہ تلاشی بھی ہوئی.یہ تلاشی بجائے خود ایک نشان تھا.اسی سلسلہ میں حافظ غلام محی الدین صاحب کے حجرہ کی بھی تلاشی ہو گئی.اس تلاشی میں بہت سے خطوط تو ایسے برآمد ہوئے جو ابھی حضرت کے پاس نہیں پہنچے تھے اور بہت سے ایسے بھی نکلے تھے جو ابھی ڈاک خانہ میں ڈالے نہ گئے تھے.بات یہ تھی کہ حافظ صاحب ڈاک لاتے تو اپنے حجرہ میں بیٹھ کر سارٹ کرتے اسی حالت میں بعض خطوط رکھ دئے گئے اور ان کا اٹھانا یاد نہ رہا.اسی طرح کوئی آیا اور خط دے گیا کہ ڈاک خانہ میں ڈالنا ہے اور وہ بھول گئے.غرض اس طرح پر بہت سے خطوط ان کے حجرہ سے نکلے جو
1+4 حصّہ اوّل سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ تو تقسیم ہوئے تھے اور نہ ڈاک میں ڈالے گئے تھے.حضرت اقدس کو اطلاع ہوئی اور اس وقت اس کا علم ہو جا نالازمی تھا کیونکہ ان کے حجرہ کی تلاشی ہو رہی تھی.پولیس کو یہ خیال تھا کہ کوئی خط و کتابت پائی جاوے جس سے اس قتل کا تعلق ہو اور حافظ صاحب چونکہ ایک قسم کے پوسٹ ماسٹر بنے ہوئے تھے اس لئے ان کے کاغذات کو دیکھا گیا تھا.غرض جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علم ہوا اور وہ خطوط بھی پیش ہوئے تو آپ نے حافظ صاحب سے ہنستے ہوئے پوچھا کہ ” حافظ جی ! یہ خط رکھنے کے لئے تو نہیں دیئے گئے تھے اگر آج یہ نہ دیکھے جاتے تو پتہ بھی نہ لگتا اور ہم سمجھتے رہتے کہ خط لکھ دیا ہوا ہے.ادھر دوسرے لوگ سمجھتے کہ ہم خط لکھ چکے ہیں.خیر جو ہو گیا اچھا ہو گیا مصلحتِ الہی یہی ہوگی.“ حافظ صاحب بیچارے شرمندہ اور نادم تھے مگر حضرت نے اس سے زیادہ نہ کچھ کہا اور نہ پھر کبھی ذکر ہی کیا کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا تھا.اور نہ ان کو اس ڈاک کے کام سے معزول کیا بلکہ وہی ہمیشہ جب تک زندہ رہے اور کام کرنے کے قابل رہے ڈاک خانہ سے جا کر ڈاک لاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے دیئے ہوئے خطوط ڈاک خانہ میں جا کر پوسٹ کرتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام دشمنوں سے سلوک عفوو درگزر کے حیرت انگیز نظارے حصّہ اوّل میں نے آپ کے خدام کے کچھ واقعات بیان کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسے حالات میں بھی عفو اور درگزر سے کام لیتے تھے جہاں بڑے بڑے عالی حوصلہ انسان بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور اپنے غیظ و غضب کے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے لیکن ان واقعات اور حالات کو دیکھ کر کوئی نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں محض دوستوں سے مخصوص تھیں مگر یہ بات نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق کی شان دشمنوں کے مقابلہ میں اور دشمنوں سے سلوک کرنے میں اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے.حضرت مسیح ناصری اور مسیح موعود کا مقابلہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے یہ تعلیم تو بے شک دی ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرومگر اس کا عملی نمونہ آپ کی زندگی میں نہیں پایا جاتا.آپ کو وہ مقدرت اور موقع نصیب نہیں ہوا کہ آپ کے دشمن پکڑے ہوئے آپ کے سامنے آتے اور آپ ان کو معاف کر دیتے.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس خوش نما تعلیم کا معلم اس پہلو میں کن اخلاق کا مالک تھا.اس سے نعوذ باللہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ہتک نہیں.وہ خدا تعالیٰ کے ایک مامور ومرسل اور نبی تھے اور قرآن کریم نے آپ کی شان اور عظمت کا ذکر فرمایا ہے.جس پر ہر ایک مسلمان ایمان لاتا ہے.اور میں بھی ایمان لاتا ہوں.لیکن اس امر واقعہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کو یہ دولت نصیب نہیں ہوئی کہ اپنے عہد میں نہ تو اقتدار وحکومت کا کوئی موقع انہیں ملا اور نہ کوئی ایسی تقریب ہی پیدا ہوئی کہ وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے سکتے تھے اور انہیں اس خُلق کے اظہار کا موقع ملا اور معاف کر دیا اور اس طرح پر اپنے دشمنوں سے محبت اور پیار کا کوئی نمونہ دکھا سکتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو بہت ہی بلند اور اعلیٰ ہے جن کو یہ موقع على وَجْهِ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل الاسم حاصل ہوا.اور وہ مکہ جہاں سے آپ بے حد تکالیف اٹھا کر ہجرت پر مجبور و مامور ہوئے تھے.وہ مکہ جہاں آپ کے خادموں پر انتہائی مظالم اور ستم توڑے گئے اور نا اہل و ناحق شناس دشمنوں نے غریب اور ضعیف مسلمان عورتوں تک پر ظلم کئے جب آپ نے اس کو فتح کیا اور ایک شہنشاہ فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ کو حق تھا کہ ان ظالموں کو ان کے ناسزا افعال کی سزا دیتے اور وہ اپنے کیفر کردار کو پاتے مگر آپ نے ان کو معاف کر دیا.دنیا کی تاریخ میں عفو و رحم کی ایسی مثال نہ ملے گی.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آپ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ اسی رنگ میں برتاؤ کیا جس کی مثالیں آپ کے آقا و محسن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نمایاں تھیں.یہ سچ ہے کہ آپ کے سامنے آپ کے دشمن اس حیثیت میں نہیں آئے کہ آپ ایک فاتح سلطان کی طرح ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف حالات کا فرق ہے ورنہ صورت واقعات وہی تھی.ایسی حالت میں دشمن آپ کے سامنے آتے ہیں کہ آپ جائز اور بجاطور پر ان سے انتقام لے سکتے ہیں اور آپ کو موقع اور اختیار حاصل ہے مگر آپ نے اس حالت میں تلخ سے تلخ دشمنوں کو معاف کیا ہے اور کبھی بھی تو یہ کوشش اور خواہش نہیں کی کہ ان سے انتقام لیا جاوے.میں ان واقعات کو تاریخی ترتیب سے درج کرنے کی کوشش نہیں کروں گا.اس لئے کہ یہاں یہ ترتیب مدنظر نہیں ہے بلکہ آپ کے اخلاق کی ایک شان کو دکھانا ہے.(۱) شوکت میرٹھی کے متعلق میرٹھ سے احمد حسین شوکت نے ایک اخبار شحنہ ہند جاری کیا ہوا تھا.یہ شخص اپنے آپ کو مجد دالسنہ مشرقیہ کہا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا.جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا.اور اس طرح پر جماعت کی دل آزاری کرتا.میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی کیونکہ وہاں ہی سے وہ گندہ پر چہ نکلتا تھا.۲ اکتو بر ۱۹۰۲ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب شیخ عبدالرشید صاحب جو ایک معزز زمیندار اور تاجر ہیں تشریف فرما تھے.حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 حضر اوّل ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنہ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں.حضرت حجتہ اللہ نے فرمایا ”ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے.یہ گناہ میں داخل ہوگا اگر ہم خدا کی 66 تجویز پر تقدم کریں.اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں.“ جو لوگ اس گندہ لٹریچر سے واقف نہیں وہ اس فیصلہ کی اہمیت سمجھ نہیں سکتے.مگر جنہوں نے اس کو دیکھا ہے وہ یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس شخص سے عدالت کے ذریعہ انتقام لیا جاتا تو عقلاً ، عرفاً، اخلاق جائز ہوتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز پسند نہ فرمایا.یہ پہلا ہی موقع نہ تھا کہ حضرت اقدس نے اپنے دشمن کو اس طرح پر معاف کر دیا بلکہ اس قسم کا ایک واقعہ اس سے پہلے بھی گزرا.(۲) ڈاکٹر کلارک کو معاف کر دیا میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جو امرت سر کے میڈیکل مشن کے مشنری تھے اور مباحثہ آتھم میں عیسائیوں کی جانب سے پریذیڈنٹ تھے ایک دن خود بھی مناظر رہے.انہوں نے ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا.یہ مقدمہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا اور بالآخر محض جھوٹا اور بناوٹی پایا گیا اور حضرت اقدس عزت کے ساتھ اس مقدمہ میں بری ہوئے.میں جو اس مقدمہ کو شائع کرنے والا ہوں اور ایک عینی شاہد ہوں اس وقت عدالت میں موجود تھا جب کپتان ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے کہا کہ ” کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے.“ حضرت مسیح موعود نے فرمایا.دو میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.“ اس موقع پر اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا جس پر قتل کے اقدام کا مقدمہ ہو وہ اپنے دشمن سے ہر ما انتقام لینے کی کوشش کرتا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کو معاف کرو کی تعلیم پر صحیح
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا 11.حصّہ اوّل عمل کر کے دکھایا.ایک وقت تھا کہ مارٹن کلارک نے مباحثہ امرتسر میں حضرت اقدس کو اور آپ کی جماعت موجودہ کو چائے کی دعوت دی مگر آپ نے غیرت اسلامی کی بناء پر اس دعوت کو مستر دکیا کہ یہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو گالیاں دیتا ہے اور آپ کی تکذیب پر زور دیتا اور مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کے لئے پورا زور لگاتا ہے اور مجھے دعوت دیتا ہے.میری غیرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کے ہاں چائے پیئوں.اس حیثیت کا دشمن ہو اور پھر ذاتی طور پر اس نے حضرت مسیح موعود کو خطرناک سازش کا نشانہ بنانا چاہا ہو.اس میں وہ بری ہوکر اپنے اور نبی کریم کے دشمن سے جائز طور پر انتقام لے سکتے تھے مگر آپ نے ایک منٹ کے لئے بھی اس کو گوارانہ فرمایا اور کوئی مقدمہ کرنانہ چاہا.یہ عفو اور درگز را گرایسی حالت میں ہوتا کہ آپ کو قدرت نہ ہوتی تو اس کی کچھ قدرو قیمت نہ ہوتی لیکن یہ ایسے موقع پر آپ نے دکھایا کہ آپ کو حق تھا اور قانونی طور پر آپ سزا دلا سکتے تھے مگر آپ نے پسند نہ فرمایا اور معاف کر دیا.یہ واقعہ ممکن ہے کہ کسی شخص کو شبہ میں ڈالے کہ شاید فریق مخالف کی طاقت اور رسوخ کے باعث ایسا نہ کیا گیا ہو لیکن یہ شبہ محض لغو اور بے اصل ہوگا.اس لئے کہ اسی بارسوخ اور طاقتور فریق سے مقدمہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا اور انہوں نے اپنے تمام رسوخ اور قوت سے کام لے لیا تھا بلکہ بعض بڑے پادریوں نے بھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو کہا اور سفارش کی مگر مجسٹریٹ کا جواب یہ تھا کہ مجھ سے ایسی بدذاتی نہیں ہوسکتی کہ میں انصاف کو ہاتھ سے چھوڑوں.تو یہ شبہ محض بے اصل ہے.جس چیز نے حضرت اقدس کو روکا وہ ایک ہی چیز تھی کہ آپ اپنے دشمنوں سے انتقام نہیں لینا چاہتے تھے اور اپنے عمل سے درگز را ور عفو کا سبق دینا چاہتے تھے.ڈاکٹر مارٹن کلارک کی ذات سے آپ کو کوئی دشمنی نہ تھی بلکہ آپ کو اس کے عقائد باطلہ اور اس کے اس طریق عمل سے نفرت تھی جو وہ اسلام کے متعلق رکھتا تھا.اس لئے اگر آپ بذریعہ عدالت اس کو سز ا دلاتے تو اس غیرت مذہبی اور اخلاص فی الدین کے خلاف ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے فطرتا آپ کو دیا تھا اور اس میں نفسانیت کے کسی شائبہ کا شبہ بھی گزرسکتا تھا.گوانصاف اور عقل کے نزدیک یہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل انتقام صحیح ہوتا اس لئے کہ ڈاکٹر کلارک نے آپ کی عزت و آبرو اور آپ کی جان پر حملہ کیا تھا.مگر آپ کو جب موقع دیا گیا تو آپ نے پسند نہیں کیا کہ اس سے وہی سلوک کیا جائے جس کا اس نے خود ارتکاب کیا.گو وہ اس کا مستحق تھا.اور یہ پہلی مثال نہ تھی آپ کی زندگی میں اس کی بہت کثرت سے مثالیں ملتی ہیں اور بعض کا میں یہاں بھی ذکر کروں گا.(۳) مولوی محمد حسین بٹالوی پر احسان اسی مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں مولوی محمد حسین بٹالوی ایک گواہ کی حیثیت سے حضرت مسیح موعود کے خلاف پیش ہوئے.مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ بٹالہ کے رہنے والے تھے.ابتدا میں انہوں نے حضرت مسیح موعود کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ پر ایک زبردست ریویو لکھا اور حضرت کا اکرام و احترام بہت کرتے تھے.مگر بعد میں کسی مخفی شامت اعمال کی وجہ سے وہ مخالف ہوئے اور خطر ناک مخالفت کا رنگ انہوں نے اختیار کیا.یہ مقام ان کی مخالفت کی نوعیت اور اس بارہ میں اس کی تفاصیل اور تذکرہ کا نہیں.وہ اتنا تلخ دشمن تھا کہ کفر وقتل کے فتوے اسی نے شائع کرائے اور بالآخر وہ اس مقدمہ اقدام قتل میں عیسائیوں کا گواہ ہو کر آیا.اور وہ یہ ثابت کرنے کے لئے آیا تھا کہ فی الحقیقت جو الزام لگایا گیا ہے وہ گویا ( نعوذ باللہ درست ہے.عدالت میں اس کے ساتھ کیا گزرا اور اس کی کس طرح پر کرکری ہوئی میں اسے بھی چھوڑ دیتا ہوں کہ یہ حصہ مخصوص ہے اس کی سیرت و سوانح کے اس باب سے جو آپ کے دشمنوں کے انجام کے متعلق ہے.غرض اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی یہ پوزیشن تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود کے خلاف گواہ تھا روزانہ عدالتوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک فریق اپنے مخالف گواہوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے.ان کی عزت و وقار پر واقعات حقہ سے قطع نظر ایسے حملے ہوتے ہیں کہ وہ عاجز ہو جاتے ہیں.مولوی محمد حسین صاحب جب حضرت کے خلاف دل کھول کر گواہی دے چکے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُن پر جرح کا موقع دیا گیا.حضرت کی طرف سے مولوی فضل الدین پلیڈ ر لا ہور وکیل تھے جو اس سلسلہ میں داخل نہیں ہیں انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب پر کچھ ایسے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۱۲ حصہ اول سوالات کرنے چاہے جو ان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیتے.اُس نے حضرت مسیح موعود سے کہا کہ میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں مگر حضرت صاحب نے ان کو روک دیا اور باصرار اور بزور روکا.مولوی فضل الدین صاحب اپنے فرض منصبی کو دیانت داری سے ادا کرنے کے لئے اور اپنے موکل کی صفائی اور بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ایسے تلخ دشمن اور معاند گواہ کو اصلی صورت میں دکھا دینا چاہتے تھے اور اگر وہ سوالات ہو جاتے تو خدا جانے مولوی محمد حسین صاحب اس مقام پر کھڑے رہ سکتے یا گر جاتے.مگر حضرت نے قطعاً اجازت نہ دی بلکہ ایک باران کو کسی قدر سختی سے روک دیا کہ میں ہرگز اجازت نہیں دیتا.یہ ایسی بات ہے کہ اس کے اپنے اختیار سے باہر ہے اور میں اس کی عزت کو بر باد نہیں کرنا چاہتا.آخر مولوی فضل الدین صاحب بھی رک گئے.مولوی فضل الدین صاحب احمدی نہیں مگر اس بلند ہمتی نے انہیں ہمیشہ آپ کا مداح رکھا ہے.خیال کرو کہ مولوی محمد حسین تو جان تک کا دشمن ہے اور آپ کو ایک قاتل ثابت کرنا چاہتا ہے اور آپ کی یه شان رحم و در گزر ہے کہ ایک امر واقعہ کے متعلق بھی ( جو کوشش کی حیثیت و حالت پر ایک اثر ڈال سکتا ہے اور جو صحیح ہے ) اپنے وکیل کو اجازت نہیں دیتے کہ اس سے پوچھا جائے محض اس لئے کہ وہ ذلیل نہ کیا جاوے.اس تمام خطرناک نتیجہ کے لئے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیتے ہیں مگر دشمن کو اس امر سے بچا لیتے ہیں.اس درگز رو علو ہمتی کی نظیر تلاش کرو نہیں ملے گی.(۴) قادیان کے سکھوں اور ہندوؤں کا مقدمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے ابتدائی ایام میں ہماری یہ حالت تھی کہ قادیان کی زمین باوجود فراخی کے ہم پر تنگ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کے مالکوں میں سے تھے لیکن باوجود اس کے بھی آپ کی غریب اور قلیل جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی.بعض اوقات باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے دامن میں قادیان کے شریر اور خبیث مخالفوں نے پاخانہ ڈلوا دیا اور ایک ٹوکری مٹی کی بھی غریب مہاجرین کو اٹھانی مشکل ہو جاتی تھی اور کوئی دن ہم پر ایسا نہ گزرتا تھا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا موعود علیہ السلام ۱۱۳ حصّہ اوّل کہ ہماری کہیاں اور ٹوکریاں قادیان کے ظالم طبع دشمن نہیں لے جاتے تھے.اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ چونکہ خود حضرت اقدس کے اقارب اور عم زاد بھائی (جن کا سردار مرزا امام الدین تھا ) دشمن تھے.اس لئے اُن کی حمایت اور شہ سے ایسا ہوتا تھا.سید احمد نور مہاجر جب اپنے ملک سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تو انہوں نے ڈھاب میں ایک موقعہ پر حضرت اقدس کی اجازت سے اپنا مکان بنانا چاہا.چنانچہ جب انہوں نے تعمیر مکان شروع کی تو قادیان کے سکھوں اور بعض برہمنوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کو اور اس کے بھائی کو مارا.اس کشاکش میں ایک برہمن کو بھی چوٹ لگی اور اس کی پیشانی میں سے خون نکل آیا.سید احمد نور بھی لہو لہان ہو گیا.اس واقعہ کو دیکھ کر میں (راقم ) مرزا نظام الدین صاحب اور دفعدار چوکیدار ان کے پاس گیا اور ان کو موقع پر لا کر دکھایا کہ سکھوں کی بہت بڑی تعداد ( شاید ہی کوئی گھر میں رہا ہو ) اس موقع پر حملہ آوروں کی صورت میں موجود ہے.مرزا نظام الدین صاحب ان کو وہاں سے ہٹا لائے اور سمجھایا.حضرت صاحب کو میں نے اور مفتی فضل الرحمان صاحب نے اطلاع کی اور واقعات کا اظہار کیا.آپ نے فرمایا کہ باہم صلح اور مجھوتہ کر دینا چاہیے جس طرح بھی ہو.“ چنانچہ میں نے اور مفتی صاحب نے ہر چند کوشش کی.ہماری موجودگی میں تو یہ سب لوگ یہی کہتے تھے کہ ہاں صلح ہو جانی چاہیے عدالت میں نہیں جانا چاہیے مگر دراصل اس شخص کو جس کی پیشانی سے خون نکلا ( اور اس کا نام پالا رام تھا) کو کہا کہ جا کر نالش کرو.چنانچہ اس نے جا کر حضرت مولوی نورالدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور سید احمد نور پر نالش کر دی.یہ مقدمہ سردار غلام حیدر خاں صاحب مزاری کے اجلاس میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء یہی تھا کہ مقدمہ نہ ہو اور ہم ہر طرح صلح کی کوشش کرتے تھے.لیکن جب کامیابی نہ ہوئی اور فریق مخالف نالش کرنے کے لئے چلا گیا تو چونکہ یہ بلوہ تھا اس لئے پولیس کو اطلاع دی گئی.پولیس نے اپنی تفتیش سے جرم ثابت پا کر سولہ آدمیوں کا چالان کر دیا.اور یہ مقدمہ بھی سردار غلام حیدر صاحب کے اجلاس میں تھا.قادیان کے آریوں نے انتہائی کوشش کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۱۴ حصّہ اوّل کہ ہمارے خلاف مقدمہ خطرناک طور پر ثابت ہومگر چونکہ اس کی بنا محض جھوٹ پر تھی اس لئے وہ پہلی ہی پیشی میں خارج ہو گیا اور دوسرے مقدمہ میں جو پولیس نے چالان کیا تھا ملزموں پر فرد جرم لگائی گئی.آخر شہادت صفائی بھی گزرگئی اور اب صرف آخری مرحلہ تھا یعنی صرف فیصلہ اس کے متعلق یقینی تھا کہ ملزم سزایاب ہوں گے کیونکہ روئداد مقدمہ میں جرم ان پر ثابت ہو چکا تھا.اس مرحلہ پر ملزمین لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملا وامل اور بعض دوسرے لوگوں کو لے کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اقدس ان لوگوں سے اس مکان میں ملے جو حضرت صاحب زادہ مرزا شریف احمد صاحب کا حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے اوپر بنا ہوا ہے.اس موقعہ پر انہوں نے بڑی معذرت کی اور یہ بھی کہا کہ آپ کے بزرگ ہمیشہ ہم سے سلوک کرتے آئے ہیں اور یہ بھی بڑے موثق وعدوں کے ساتھ کہا کہ آئندہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی عرضداشت کو سن کر معاف کر دیا.اور مجھ کو حکم دیا کہ میں عدالت سردار غلام حیدر صاحب میں جا کر حضرت صاحب کی طرف سے کہوں کہ حضرت صاحب نے ان لوگوں کو معاف کر دیا ہے اور ہم نے مقدمہ چھوڑ دیا ہے.میں نے واقعات کی صورت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ مقدمہ پولیس نے چالان کیا ہے اس میں سرکار مدعی ہے.سولہ ملزم ہیں پولیس سولہ ملزموں کا رہا ہو جانا کبھی پسند نہیں کرے گی.اور ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہم یہ مقدمہ بطور راضی نامہ ختم کر دیں کیونکہ ہم مدعی نہیں پھر مقدمہ ایسے مرحلے پر ہے کہ صرف حکم باقی ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ ”ہمارے اختیار میں جو کچھ ہے وہ کر لینا چاہیے.میں نے ان کو معاف کر دیا ہے.میری طرف سے جا کر کہہ دیا جاوے کہ انہوں نے معاف کر دیا ہے.ہم کو اس سے کچھ غرض نہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے.اگر عدالت منظور نہ کرے تو اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے فوراً چلے جاؤ.“ دوسرے دن تاریخ تھی میں اور مفتی فضل الرحمن صاحب گئے اور عدالت میں جاکر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۱۵ حصّہ اوّل حضرت اقدس کا فیصلہ سنادیا.وہی تاریخ حکم سنانے کے لئے مقرر تھی.پولیس کو قدرتی طور پر جو افسوس ہونا چاہیے تھا وہ ظاہر ہے.مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ اب کیا ہوسکتا ہے؟ آپ کا کیا اختیار ہے؟ سرکار مدعی ہے.تمام روئداد مقدمہ ختم ہو چکی ہے صرف حکم باقی ہے.میں نے عرض کیا کہ کچھ بھی ہو حضرت صاحب نے معاف کر دیا ہے آپ کا جو اختیار ہے آپ کریں ہم کو یہی حکم ہے اور وہ آپ تک پہنچا دیا.اس پر مجسٹریٹ صاحب بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جب حضرت صاحب نے معاف کر دیا تو میں بھی معاف ہی کرتا ہوں.اور ملزموں کو مخاطب کر کے اس نے کہا کہ ایسا مہربان انسان کم دیکھا گیا ہے جو دشمنوں کو اس وقت بھی معاف کر دے جبکہ وہ اپنی سزا بھگتنے والے ہوں اور بہت ملامت کی کہ ایسے بزرگ کی جماعت کو تم تکلیف دیتے ہو.بڑے شرم کی بات ہے آج تم سب سزا پاتے مگر یہ مرزا صاحب کا رحم ہے کہ تم کو جیل خانہ سے بچا دیا.یہ واقعہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ قادیان میں کسی کو معلوم نہ ہو.یہ وہ دشمن تھے جنہوں نے حضرت صاحب کے مہمانوں کے دامنوں میں پاخانہ ڈلوایا اور ایسا ذلیل فعل کیا جو انسانیت کو اس پر ماتم کرنا پڑتا ہے مگر باوجود اس کے آپ کے رحم اور عفوکو دیکھو کہ آخری وقت میں جبکہ وہ سزا کا حکم سننے کو تیار تھے معاف کر دیا.عفو اور درگزر کی ایسی مثال کم ملے گی اسی کے ضمن میں مجھے ایک اور واقعہ کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ (۵) نہال سنگھ بانگر و پر دوران مقدمہ میں احسان اسی مقدمہ کے دوران ایک شخص سنتا سنگھ بانگر و بھی ملزم تھا.اس کا ایک چا نہال سنگھ بانگر و تھا.ادھر اس نے فریق مخالف کو مقدمہ دائر کرنے پر آریوں کے ساتھ مل کر ا کسایا تھا چند ہی روز بعد اُسے مشک کی ضرورت پڑی اور یہ ظاہر بات ہے کہ وہ نہایت قیمتی چیز ہے.میں اس وقت موجود تھا جبکہ وہ حضرت اقدس کے دروازہ پر گیا اور دستک دی.حضرت صاحب باہر تشریف لائے اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 117 حصّہ اوّل نے کہا کہ ”مرزا صاحب مشک کی ضرورت ہے کسی جگہ سے ملتی نہیں آپ کچھ مشک دیں.“ حضرت صاحب کو علم تھا کہ یہ اس فتنہ میں ایک لیڈر کی طرح حصہ لیتا ہے.حضرت صاحب نے بجز اس کے کچھ جواب نہیں دیا کہ ٹھہرو میں لاتا ہوں.چنانچہ آپ اندر تشریف لے گئے اور قریباً نصف تو لہ مشک اس کے حوالہ کر دی.یہ ہے عفو و عطا کی ایک عدیم المثل نظیر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیریکٹر میں پائی جاتی ہے.(۶) اپنے عم زاد بھائیوں کو باوجود اُن سے دکھ اٹھانے کے معاف کر دیا جن دوستوں کو قادیان آنے کا اتفاق ہوا ہے ان کو دفتر بیت المال اور محاسب کے محل وقوع کا پتہ ہے اور اس کے سامنے گول کمرہ ہے.دفتر محاسب اور گول کمرہ کی دیوار کے درمیان سے بازار اور مسجد اقصیٰ کو راستہ جاتا ہے اور چھوٹی مسجد کو بھی.آج سے چھپیس برس پیشتر نہ تو گول کمرہ کے سامنے کے احاطہ کی دیوار میں تھیں اور نہ دفتر محاسب کے کمرے تھے.دفتر محاسب کے کمروں کی بجائے ایک چاردیواری بدوں چھت کے تھی اور اس جگہ کسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں کا خراس ہوتا تھا.بالآخر یہ جگہ خاکسار ایڈیٹر الحکم کے توسط سے خریدی گئی اور توسیع مسجد مبارک کے لئے اسے مخصوص کیا گیا.نیچے دفاتر اور اوپر کا حصہ شامل مسجد مبارک ہو گیا.غرض وہ گلی جو بازار اور جامع مسجد کو جاتی ہے ایک شارع عام تھی.حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین کو حضرت صاحب اور سلسلہ کے ساتھ عداوت اور عناد تھا.اور وہ کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اٹھا نہ رکھتے تھے.ایک مرتبہ اُس نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جو بازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا.دیوار ہماری آنکھوں کے سامنے بن رہی تھی اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے.اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ ہم کچھ نہ کر سکتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم تھی کہ شر کا مقابلہ شر سے نہ کرو.ورنہ اگر چہ جماعت اس وقت بہت ہی قلیل تھی اور قادیان میں بہت ہی تھوڑے آدمی تھے لیکن اگر اجازت ہوتی تو وہ دیوار ہرگز نہ بن سکتی.چنانچہ ایک دوسرے موقعہ پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے حضرت کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا حصہ اول ذاتی زمین پر ایک مکان بنانے کا ارادہ کیا گیا اور فریق مخالف نے روکنے کا ارادہ کیا تھا تو ایک ہی دن میں وہ پورا مکان بن گیا تھا.وہ ایام عجیب ایام تھے.ابتلاؤں پر ابتلا آتے تھے اور جماعت ان ابتلاؤں کے اندر ایک لذیذ ایمان کے ساتھ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتی تھی.غرض وہ دیوار چن دی گئی اور اس طرح ہم سب کے سب پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مسجد مبارک میں جانے سے روک دیئے گئے.اور مسجد مبارک کے لئے حضرت صاحب کے مکانات کا ایک چکر کاٹ کر آنا پڑتا تھا.یعنی اس کوچہ میں سے گزرنا پڑتا تھا جو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے مکان کے آگے سے جاتا ہے اور پھر منور بلڈنگ کے پاس سے بازار کی طرف کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کی طرف کو چلا جاتا ہے.جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے.بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دن تھے.راستہ میں کیچڑ ہوتا تھا اور بعض بھائی اپنے مولی حقیقی کے حضور نماز کے لئے جاتے ہوئے گر پڑتے تھے.اور ان کے کپڑے گارے کیچڑ میں لت پت ہو جاتے تھے.ان تکلیفوں کا تصور بھی آج مشکل ہے جبکہ احمد یہ چوک میں پکے فرش پر سے احباب گزرتے ہیں.حضرت مسیح موعود اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے.مگر کچھ چارہ سوائے اس کے نہ تھا کہ حضرت رَبُّ الْعِزَّت کے سامنے گڑ گڑا ئیں.غرض وہ دیوار ہو گئی.راستہ بند ہو گیا.اور پانی تک بند کر دیا گیا.آخر مجبور اعدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلہ کے موافق خود دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی جو بجائے خود ایک نشان تھا اور اس کی تفصیل انہیں دنوں میں الحکم میں چھپ چکی ہے.( دیکھوالحکم ۲۴ راگست ۱۹۰۱ء) عدالت نے نہ صرف دیوار گرانے کا حکم دیا بلکہ حرجانہ اور خرچہ کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کر دی.ناظرین خیال کریں گے کہ جس فریق نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو اس قدر تکلیف دی ہو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ حصّہ اوّل کہ ان کی آمد ورفت کا راستہ محض ایذا دہی کے لئے بند کر دیا ہو اور پانی بند کر کے کربلا کا نمونہ دکھایا ہو کیا وہ فریق اس قابل تھا کہ اس کے ساتھ کوئی سلوک کیا جاتا ؟ اس جرم کی پاداش میں جو سلوک بھی ان سے کیا جاتا وہ عقل اور انصاف واخلاق کے معیار پر بالکل جائز اور درست ہوتا مگر اخلاق اور اعلیٰ اخلاق کے معلم کی زندگی کے آئینہ میں دیکھو کہ وہ ان دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے.حضرت اقدس نے کبھی اس خرچہ اور حرجہ کی ڈگری کا اجرا پسند نہ فرمایا.یہاں تک کہ اس کی میعاد گزرنے کو آ گئی.جب گورداسپور میں مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تو خواجہ کمال الدین صاحب نے محض اس خیال سے کہ اس کی میعاد نہ گزر جائے اس کے اجرا کی کارروائی کی.اور اس میں حسب ضابطہ نوٹس مرزا نظام الدین صاحب کے نام جاری ہوا کہ اس وقت فریق ثانی میں سے وہی زندہ تھے.مرزا امام الدین فوت ہو چکے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کی کچھ خبر نہ تھی.مرزا نظام الدین صاحب کو جب نوٹس ملا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھا.میں اس وقت قادیان میں موجود تھا.مرز انظام الدین صاحب نے مجھ کو وہ خط سنایا.اس کا مضمون یہ تھا کہ دیوار کے مقدمہ کے خرچہ وغیرہ کی ڈگری کے اجرا کا نوٹس میرے نام آیا ہے اور میری حالت آپ کو معلوم ہے.اگر چہ میں قانونی طور پر اس روپیہ کے ادا کرنے کا پابند ہوں اور آپ کو بھی حق ہے کہ آپ ہر طرح وصول کریں.مجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف آپ کو پہنچتی رہی ہے.مگر یہ بھائی صاحب کی وجہ سے ہوتا تھا.مجھ کو بھی شریک ہونا پڑتا تھا.آپ رحم کر کے معاف فرما دیں تو آپ اس قابل ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ اُس خط کا مفہوم تھا اور یہ بھی چاہا گیا تھا کہ اگر معاف نہ کریں تو باقساط وصول کرلیں.حضرت اقدس اس وقت گورداسپور میں مقیم تھے اور یہ بھی بارشوں کے ایام تھے.حضرت اقدس کے پاس جس وقت خط پہنچا آپ نے سخت رنج کا اظہار کیا کہ کیوں اجرا کرائی گئی ہے.مجھے سے کیوں دریافت نہیں کیا گیا.اس وقت خواجہ صاحب نے عذر کیا کہ محض میعاد کو محفوظ کرنے کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا 119 حصّہ اوّل لئے ایسا کیا گیا ؤ الا اجرا مقصود نہ تھا“.حضرت اقدس نے اس عذر کو بھی پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجبرانہ کرایا جاوے.ہم کو دنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں.انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لئے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا.“ اور اُسی وقت ایک مکتوب مرزا نظام الدین صاحب کے نام لکھا اور مولوی یار محمد صاحب کو دیا کہ وہ جہاں ہوں ان کو جا کر فوراً پہنچائیں.چنانچہ مولوی یار محمد صاحب اسے لے کر قادیان پہنچے اور قادیان میں انہیں نہ پا کر اور یہ معلوم کر کے کہ مرزا نظام الدین صاحب موضع مسانیاں گئے ہوئے ہیں، مسانیاں پہنچے.اور وہاں جا کر وہ خط ان کو دیا گیا جس میں نہایت ہمدردی کا اظہار تھا اور ان کو اس ڈگری کے کبھی اجرا نہ کرنے کے متعلق یقین دلایا گیا تھا اور سب کچھ معاف کر دیا تھا.مرزا نظام الدین صاحب پر اس خط کا جواثر ہوا وہ ان کی زندگی کے باقی ایام سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے عملاً مخالفت کو ترک کر دیا تھا.میں نے نہایت سادہ الفاظ میں واقعات کو لکھ دیا ہے اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عفو و درگزر کی جو نمایاں مثال نظر آتی ہے مجھ کو ضرورت نہیں کہ اسے رنگ آمیزی سے پیش کروں.یہ ہے عفو و درگذر کا نمونہ اور دشمنوں کو معاف کرنے کی تعلیم کا عملی سبق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو دیا.(۷) مرزا نظام الدین صاحب کا ایک اور واقعہ اسی سلسلہ میں مجھے ایک اور واقعہ کا اضافہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف معاف ہی نہیں کر دیا بلکہ مزید احسان اور لطف فرمایا.ہمارے ایک نہایت ہی دوست اور حضرت کی راہ میں فدا شدہ بھائی حضرت حکیم فضل الدین رضی اللہ عنہ کے ساتھ قادیان
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۲۰ حصّہ اوّل کے ایک جولاہا نے ( جو ہمیشہ مقدمہ بازی کرنا ضروری سمجھتا تھا) ایک زمین کے متعلق جہاں آج کل شیخ نورالدین تاجر کا مکان ہے مقدمہ بازی شروع کر دی.وہ جگہ دراصل حضرت ہی کی تھی.حکیم فضل الدین صاحب کو دے دی گئی تھی.سو اس جو لا ہانے حکیم صاحب مرحوم کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا.چونکہ حضرت اقدس پسند نہ فرماتے تھے کہ شرارتوں کا مقابلہ کیا جاوے آپ نے حکیم فضل الدین صاحب کو حکم دیا کہ جواب دہی چھوڑ دو.زمینوں کی پروا نہیں خدا تعالیٰ چاہے گا تو آپ ہی دے دے گا.زمین خدا کی ہے.مرزا نظام الدین صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ آپ اپنے حق کو تو چھوڑتے ہیں مجھے ہی زمین دے دیں اور میں قیمت بھی دے دوں گا.چنانچہ انہوں نے ایک پرا میسری نوٹ بھی لکھ کر بھیج دیا.حضرت نے فرمایا کہ مرزا نظام الدین صاحب ہی کو یہ ٹکڑا زمین کا دے دیا جاوے.چنانچہ وہ قطعہ زمین کا دے دیا گیا جو بعد میں مرزا صاحب موصوف نے ایک معقول قیمت پر حضرت کے ایک خادم کے ہاتھ فروخت کر دیا.مگر حضرت نے کبھی اس زمین کی قیمت یا پرا میسری نوٹ کی رقم کا مطالبہ نہ فرمایا.اس لئے کہ آپ کی فطرت ہی میں احسان و مروت رکھی گئی تھی.یہ واقعہ ایسے وقت کا ہے کہ اس مقدمہ کی کل کا رروائی ختم ہو چکی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی فریق ثانی نے بطور شہادت طلب کرایا تھا اور اس طرح پر آپ کو اور آپ کی جماعت کو تکلیف رسانی میں کمی نہ کی تھی.مقدمہ کی حالت یہ تھی کہ اس میں اب حکم سنانا باقی تھا اور وہ ہمارے حق میں تھا مگر آپ نے ایسے وقت میں اس زمین کو مرزا نظام الدین صاحب کے عرض کرنے پر ان کو دے دیا.امر واقعہ کے طور پر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ سلسلہ کے ابتدائی ایام میں مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے زیر اثر لوگوں کی وجہ سے ہماری جماعت کو ایسی تکالیف پہنچ چکی تھیں کہ قدرتی طور پر کوئی دنیا داران کے مقابلہ میں ہوتا تو ان کی تکلیف اور ایذا رسانی کے لئے منتقمانہ طور پر جو چاہتا کرتا مگر نہیں.حضرت مسیح موعود کو جب موقعہ ملا اور ان پر ایک اقتدار حاصل ہوا تو آپ نے اسی طرح 66 لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ “ کہہ دیا جس طرح پر سید الرسل مﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۱ حصّہ اوّل اکرام ضيف اکرام ضیف یعنی مہمان نوازی ان اخلاق فاضلہ میں سے ہے جو سوسائٹی اور تمدن کے لئے بمنزلہ روح کے ہیں.مہمان نوازی سوسائٹی میں احترام اور امن کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اس سے عناد اور حسد دور ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد بڑھتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکرام ضیف کے لئے خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے بلکہ اس کو ایمان کے نتائج اور ثمرات میں سے قرار دیا ہے چنانچہ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمُ ضَيْفَة.یعنی جو شخص خدا تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے.ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک یہ اخلاقی قوت اس میں نشو ونما نہیں پاتی.اکرام ضیف میں بہت سی باتیں داخل ہیں یا یہ کہو کہ اس کے مختلف اجزاء ہیں.اس کے حقوق کی رعایت کرنا ، مرحبا کہنا ، نرمی کرنا ، اظہار بشاشت کرنا ، حسب طاقت کھانا وغیرہ کھلانا اور اس کے آرام میں ایثار سے کام لینا اور جب وہ روانہ ہو تو اس کی مشایعت کرنا.اکرام ضیف انبیاء علیہم السلام کی سنت میں داخل ہے اور حقیقت میں یہ خلق کامل طور پر ان میں ہی پایا جاتا ہے.اور پھر اس کا کامل ترین نمونہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ اور آپ کے بروز حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے.خدا تعالیٰ کی ایک مخلوق ان کے پاس بغرض حصول ہدایت آتی ہے اور وہ حق پہنچانے کے لئے اپنے دل میں ایک جوش اور تڑپ رکھتے ہیں اور پھر سنت اللہ کے موافق ان کی مخالفت بھی شدید ہوتی ہے مگر ہر حالت میں وہ اپنے مہمانوں کے آرام اور خاطر مدارات میں کبھی فرق نہیں کرتے اور ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے مہمانوں کو آرام ملے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود کی خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ تھی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آپ کو وحی الہی کے ذریعہ سے آنے والی مخلوق کی خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ تیرے پاس دور دراز سے لوگ آئیں گے اور ایسا ہی فرمایا " لا تُصَعْرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِّنَ النَّاسِ.غرض یہاں تو پہلے ہی سے مہمانوں کے بکثرت آنے کی خبر دی گئی تھی اور پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کو وسعت اور دل میں حوصلہ پیدا کر رکھا تھا.اور مہمان نوازی کے لئے آپ گویا بنائے گئے تھے.اب میں آپ کی زندگی کے واقعات میں انشاء اللہ العزیز دکھاؤں گا کہ آپ نے کس طرح پر مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور ایک اسوہ حسنہ اکرام ضیف کا چھوڑا.اکرام ضیف کی روح آپ میں فطرتا آئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جس خاندان میں پیدا کیا وہ اپنی عزت و وقار کے لحاظ سے ہی ممتاز نہ تھا بلکہ اپنی مہمان نوازی اور جود وسخا کے لئے بھی مُشَارُ إِلَيْهِ تھا.اس خاندان کا دستر خوان ہمیشہ وسیع تھا.جس عظیم خاتون کو حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام جیسا بیٹا جننے کا فخر حاصل ہے وہ خاص طور پر مہمان نوازی کے لئے مشہور تھیں.قادیان میں پرانے زمانہ کے لوگ ہمیشہ ان کی اس صفت کا اظہار کیا کرتے تھے اور میں نے بلا واسطہ ان سے سنا جنہوں نے اس زمانہ ہی کو نہیں پایا بلکہ اس مائدہ سے حصہ لیا.چنانچہ میں سیرت مسیح موعود کے صفحه ۱۴۰ پر حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ مرحومہ کا ذکر کر چکا ہوں اور ان کی اس اخلاقی خوبی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے.مہمان نوازی کے لئے ان کے دل میں نہایت جوش اور سینہ میں وسعت تھی.وہ لوگ جنہوں نے ان کی فیاضیاں اور مہمان نوازیاں دیکھی ہیں ان میں سے بعض اس وقت تک زندہ ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں اگر باہر سے یہ اطلاع ملتی کہ چار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۳ حصّہ اوّل آدمیوں کے لئے کھانا مطلوب ہے تو اندر سے جب کھانا جاتا تو آٹھ آدمیوں سے بھی 66 زائد کے لئے بھیجا جاتا اور مہمانوں کے آنے سے انہیں خوشی ہوتی.“ ( حیات احمد جلد اول صفحه ۲۱۷ شائع کردہ نظارت اشاعت ) گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیر مادر کے ساتھ مہمان نوازی کو پیا تھا.جب سے آپ نے آنکھ کھولی اس خوبی کو سیکھا.اور پھر جب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے ان کو سح کیا اور معطر فرمایا تو حالت ہی بدل گئی اور وہ قو تیں جو آپ میں بطور بیج کے تھیں ایک بہت بڑے درخت کی صورت میں نمودار ہوئیں.آپ پہلے سے خدا تعالیٰ کی وحی پاکر ان مہمانوں کے استقبال اور اکرام کے لئے تیار تھے جن کے آنے کا خدا نے وعدہ فرمایا تھا.قبل بعثت اور بعد بعثت کی مہمان نوازی آپ کی مہمان نوازی پر کبھی کسی وقت نے کوئی خاص اثر نہیں پیدا کیا.جب آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ ہوئے تھے اس وقت بھی بعض لوگ آپ کے پاس آتے تھے.ان کی مہمان نوازی میں بھی آپ کا وہی طریق تھا جو ماموریت کے بعد تھا.پہلے جب بہت ہی کم اور کبھی کبھار کوئی شخص آتا تھا اس وقت کوئی خاص التفات نہ تھی کہ خرچ کم ہے بعد میں جب سینکڑوں ہزاروں آنے لگے تو کوئی غیر التفاتی نہیں ہوئی کہ بہت آنے لگے ہیں.غرض ہر زمانہ میں آپ کی شان مہمان نوازی یکساں پائی جاتی ہے، یعنی کیفیت وہی رہی.مہمانوں کی کثرت نے اس میں ترقی کا رنگ پیدا کیا، کوئی کمی نہیں ہوئی.اب میں واقعات کی روشنی میں آپ کے اس خلق عظیم کی تصویر دکھاتا ہوں.(۱) ایک عجیب واقعہ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب جب سے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں آنے لگے ہیں ان کو ایک خاص مذاق اور شوق رہا ہے کہ وہ اکثر باتیں حضرت کی نوٹ کرلیا کرتے اور دوستوں کو سنایا کرتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۴ حصّہ اوّل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اخلاق کا ذکر برادرم منشی محمد عبد اللہ بوتالوی سے کیا اور منشی محمد عبد اللہ صاحب نے مجھے لکھ کر بھیجا جو میں نے ۲۱ را پریل ۱۹۱۸ء کے الحکم میں سیرت المہدی کا ایک ورق کے عنوان سے چھاپ دیا.اس میں اکرام ضیف کے عنوان کے نیچے یہ واقعہ درج ہے کہ: ایک مرتبہ ایک مہمان نے آ کر کہا کہ میرے پاس بستر ا نہیں ہے.حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب کو (جو ۱۹۱۸ء میں مختصرسی دوکان قادیان میں کرتے تھے اور حضرت کے پرانے مخلص خادم تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اللهُمَّ ارْحَمْهُ) کہا کہ اس کو لحاف دے دو.حافظ حامد علی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا.وغیرہ وغیرہ.اس پر حضرت نے فرمایا کہ اگر یہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ ہوگا اور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مر گیا تو ہمارا گناہ ہوگا.“ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ وہ مہمان بظا ہر کوئی ایسا آدمی نہ معلوم ہوتا تھا جو کسی دینی غرض کے لئے آیا ہو بلکہ شکل وصورت سے مشتبہ پایا جا تا تھا مگر آپ نے اس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں کیا اور اس کی آسائش و آرام کو اپنے آرام پر مقدم کیا.(۲) مہمان نوازی کے لئے ایثار کلی کی تعلیم ایک کہانی کے رنگ میں وہی صاحب حضرت مفتی صاحب کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مہمان کثرت سے آگئے.بیوی صاحبہ (حضرت ام المومنین ) گھبرائیں.( اس زمانہ میں مہمانوں کا کھانا سب اندر تیار ہوتا تھا اور تمام انتظام و انصرام اندر ہوتا تھا اس لئے گھبرا جانا معمولی بات تھی.عرفانی) مجھے مفتی محمد صادق کو ) جو مکان حضرت صاحب نے دے رکھا تھا وہ بالکل نزدیک تھا.( یہ وہ مکان ہے جہاں آج کل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رہتے ہیں.اُس وقت یہ مکان نہایت شکستہ حالت میں تھا.بعد میں خاکسار عرفانی نے اسے خرید لیا اور خدا نے اسے توفیق دی کہ اس کا 1/3 حصہ حضرت اقدس کے نام
حصّہ اوّل سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ ہبہ کر دے.خدا تعالیٰ اسے قبول فرمائے.آمین.پھر وہ سارا مکان حضرت کے قبضہ میں آ گیا.خص عرفانی ) میں سنتا رہا.حضرت صاحب نے بیوی صاحبہ کو ایک کہانی سنانی شروع کی.فرمایا ایک شخص کو جنگل میں رات آ گئی.اس نے ایک درخت کے نیچے بسیرا کر دیا.اس درخت کے اوپر ایک کبوتر اور کبوتری کا گھونسلہ بنا ہوا تھا.وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہمارے ہاں مہمان آیا ہے.اس کی کیا خاطر کریں.نرنے کہا کہ سردی ہے بسترا اس کے پاس نہیں ہم اپنا آشیانہ گراد میں اس سے آگ جلا کر یہ رات گزار لے گا.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.انہوں نے سوچا اب اس کے واسطے کھانا نہیں ہے ہم دونوں اپنے آپ کو نیچے گرادیں تا کہ وہ ہمیں بھی کھالے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس لطیف پیرایہ میں اکرام ضیف کی تاکید فرمائی حضرت ام المومنین کواللہ تعالیٰ نے خود ایک وسیع حوصلہ دیا ہے اور وہ مہمانوں کی خدمت و دلداری میں جوحصہ لیتی ہیں اس سے وہ لوگ خوب واقف ہیں جن کی مستورات سالانہ جلسہ پر آتی ہیں.شروع شروع میں قادیان میں ضروری اشیاء بھی بڑی دقت سے ملا کرتی تھیں تو مہمانوں کی کثرت بعض اوقات انتظامی دقتیں پیدا کر دیا کرتی تھی.یہ گھبراہٹ بھی انہیں دقتوں کے رنگ میں تھی.یہ واقعہ حضرت صاحب کی مہمان نوازی کا ہی بہترین سبق نہیں بلکہ مہمانوں کے لئے وہ اعلیٰ درجہ کی محبت و ایثار جو آپ میں تھا اور جو آپ اپنے گھر والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے تھے اس کی بھی نظیر ہے پھر آپ کے حسن معاشرت پر بھی معا روشنی ڈالتا ہے کہ کس رفق اور اخلاق کے ساتھ ایسے موقعہ پر کہ انسان گھبرا جاتا ہے اصل مقصد کو زیر نظر رکھتے ہیں.( عرفانی ) (۳) ڈاکٹر عبداللہ صاحب نو مسلم کا واقعہ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نیاز حاصل کرنے کے لئے لا ہور سے دو دن کی رخصت لے کر آیا.( ڈاکٹر صاحب انجمن حمایت اسلام کے شفا خانہ میں کام کرتے تھے.ایڈیٹر ) رات کی گاڑی پر بٹالہ اترا اس لئے رات وہیں رہا.اور صبح سویرے اٹھ کر قادیان کو روانہ ہو گیا.اور ابھی سورج تھوڑا ہی نکلا تھا کہ یہاں پہنچ گیا.میں پرانے بازار کی طرف
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصّہ اوّل سے آرہا تھا.جب میں مسجد اقصیٰ کے قریب جو بڑی حویلی (ڈپٹی شنکر داس کی حویلی ) ہے وہاں پہنچا تو میں نے اس جگہ ( جہاں اب حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا مکان ہے.اور اس وقت یہ جگہ سپید ہی تھی ).حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک مزدور کے پاس جو اینٹیں اٹھا رہا تھا کھڑے ہوئے دیکھا.حضرت صاحب نے بھی مجھے دیکھ لیا.آپ مجھے دیکھتے ہی مزدور کے پاس سے آ کر راستہ پر کھڑے ہو گئے.میں نے قریب پہنچ کر السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا.آپ نے وعلیکم السلام فرمایا اور فرمایا کہ اس وقت کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں رات بٹالہ رہا ہوں اور اب حضور کی خدمت میں وہاں سے سویرے چل کر حاضر ہوا ہوں.آپ نے فرمایا کہ پیدل آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور.افسوس کے لہجے میں فرمایا کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہوگی.میں نے عرض کیا کہ حضور کوئی تکلیف نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ چائے پیو گے یاسی ؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں پیوں گا.آپ نے فرمایا تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمارے گھر گائے ہے جو کہ تھوڑ اسا دودھ دیتی ہے.گھر والے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لئے اس وقت کسی بھی موجود ہے اور چاء بھی ، جو چاہو پی لو.میں نے کہا حضور لسی پیوں گا.آپ نے فرمایا اچھا چلو مسجد مبارک میں بیٹھو.میں مسجد میں آکر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر کے بعد بیت الفکر کا دروازہ کھلا.میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضور ایک کوری ہانڈی معہ کوری چینی کے جس میں کسی تھی خود اٹھائے ہوئے دروازہ سے نکلے، چینی پر نمک تھا اور اس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا.حضور نے وہ ہانڈی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور خود اپنے دست مبارک سے گلاس میں کسی ڈالنے لگے میں نے خود گلاس پکڑ لیا.اتنے میں چند اور دوست بھی آگئے میں نے انہیں بھی لسی پلائی اور خود بھی پی.پھر حضور خود وہ ہانڈی اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے.حضور کی اس شفقت اور نوازش کو دیکھ کر میرے ایمان کو بہت ترقی ہوئی اور یہ حضور کے اخلاق کریمانہ کی ایک ادنیٰ مثال ہے.ڈاکٹر عبداللہ صاحب اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے زندہ ہیں اور یہ خود ان کا اپنا بیان ہے.سادگی کے ساتھ اس واقعہ پر غور کرو کہ حضرت مسیح موعود کے کیریکٹر (سیرت) کے بہت سے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ حصّہ اوّل پہلوؤں پر اس سے روشنی پڑتی ہے.آپ کی سادگی اور بے تکلفی کی ایک شان اس سے نمایاں ہے.اکرام ضیف کا پہلو واضح ہے.اپنے احباب پر کسی بھی قسم کی برتری حکومت آپ کے قلب میں پائی نہیں جاتی.اور سب سے بڑھ کر جو پہلو اس مختصر سے واقعہ میں پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے دوستوں ( جو آپ کے خادم کہلانے میں اپنی عزت و فخر یقین کرتے اور آپ کی کفش برداری اپنی سعادت سمجھتے ہیں ) کی تکلیف کا احساس از بس ہے.ڈاکٹر صاحب کے پیدل چل کر آنے پر فوراً آپ کے قلب مطہر کو اس تکلیف کا احساس ہوا جو عام طور پر ایک ایسے شخص کو جو پیدل چلنے کا عادی نہ ہو دس گیارہ میل کا سفر کرنے سے ہوسکتی ہے.غرض یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے.(۴) مولوی علی احمد بھا گلپوری کا واقعہ مولوی علی احمد صاحب ایم.اے بھاگلپوری بیان کرتے ہیں کہ میں جب پہلی مرتبہ دارالامان میں فروری ۱۹۰۸ء کو آیا.جب حضرت اقدس مسیح موعود عَلَيْهِ التَّحِيَّةُ وَالسَّلام کا وجود باجود ہم میں موجود تھا.یوں تو حضرت اقدس کی مہمان نوازی اور اکرام ضیف کے قصے زبان زد خاص و عام ہیں لیکن میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ علاوہ خلیل اللہ جیسی مہمان نوازی کے حضور کو اپنے ان خدام کے وابستگان کا جن کو اس دار فانی سے رحلت کئے ایک عرصہ گزر گیا تھا کتنا خیال تھا اور ان کی دلجوئی حضور فرماتے تھے.میں جس دن یہاں پہنچاتو ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ اسلام متعینہ نائجیریا نے حضور کو ایک رقعہ کے ذریعہ مجھ جیسے بیچ میرز آدمی کے آنے کی اطلاع کی اور اس میں اس تعلق کو بھی بیان کیا جو مجھے حضرت مولانا حسن علی صاحب واعظ اسلام رضی اللہ عنہ سے تھا جن کی وفات فروری ۱۸۹۶ء میں واقع ہوئی تھی.میں نے بچشم خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا کہ حضور نے مہمان خانہ کے مہتموں کو بلا کر سخت تاکید میری راحت رسانی کی فرمائی.وہ بیچارے کچھ ایسے پریشان سے ہو گئے.میں نے انہیں یہ کہہ کر کہ میں یہاں آرام اٹھانے اور مہمان داری کرانے کے لئے نہیں آیا ہوں میں اس مقصد کے حصول کی کوشش میں آیا ہوں جس کو لے کر حضور مبعوث ہوئے ہیں ان کو مطمئن کیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۲۸ حصّہ اوّل (۵) حضرت مولوی حسن علی صاحب کا واقعہ اور اعتراف مہمان نوازی حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری پہلے اسلامی مشنری تھے جنہوں نے ۱۸۸۶ء میں پٹنہ کے ایک سکول کی ہیڈ ماسٹری سے استعفیٰ دے کر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا اہم فریضہ اپنے ذمہ لیا.وہ ۱۸۸۷ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ پر تشریف لائے اور امرتسر میں بابو محکم الدین صاحب مختار عدالت اور دوسرے لوگوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا.اس وقت آپ نے کوئی دعوی نہیں کیا تھا.اور نہ ابھی بیعت لیتے تھے البتہ براہین احمدیہ اور دوسری کتابیں شائع ہو چکی تھیں.اکثر نیک دل اور سلیم الفطرت لوگ آپ سے فیض پانے کے لئے قادیان بھی آتے رہتے تھے.مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے اپنے واقعہ کا خود اپنی قلم سے ذکر کیا ہے جو ان کی کتاب تائید حق میں چھپا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.”جب میں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا نام سنا.جو مرزا غلام احمد کہلاتے ہیں ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان نامی میں رہتے ہیں اور عیسائیوں، برہموؤں اور آریہ سماج والوں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک کتاب براہین احمد یہ نام بنائی ہے جس کا بڑا شہرہ ہے.ان کا بہت بڑا دعویٰ یہ ہے کہ ان کو الہام ہوتا ہے.مجھ کو یہ دعوی معلوم کر کے تعجب نہ ہوا.گو میں ابھی تک اس الہام سے محروم ہوں جو نبی کے بعد محدث کو ہوتا رہا ہے لیکن میں اس بات کو بہت ہی عجیب نہیں سمجھتا تھا.مجھ کو معلوم تھا کہ علاوہ نبی کے بہت سے بندگانِ خدا ایسے گزرے ہیں جو شرف مکالمہ الہیہ سے ممتاز ہوا کئے ہیں.غرض میرے دل میں جناب مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے کی خواہش ہوئی.امرتسر کے دو ایک دوست میرے ساتھ چلنے کو مستعد ہوئے.ریل پر سوار ہوا بٹالہ پہنچا.ایک دن بٹالہ میں رہا پھر بٹالہ سے یکہ کی سواری ملتی ہے اس پر سوار ہو کر قادیان پہنچا.مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے.جناب مرزا صاحب کے مکان پر میرا وعظ ہوا.انجمن حمایت اسلام لاہور کے لئے چندہ بھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۹ ہوا.میرے ساتھ جو صاحب تشریف لے گئے وہ مرزا صاحب کے دعویٰ الہام کی وجہ سے سخت مخالف تھے اور مرزا صاحب کو فریبی اور مگار سمجھتے تھے.لیکن مرزا صاحب سے مل کر ان کے سارے خیالات بدل گئے اور میرے سامنے انہوں نے جناب مرزا صاحب سے اپنی سابق کی بدگمانی کے لئے معذرت کی ، مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھے کو بہت تعجب سا گزرا.ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں.مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی.امرتسر میں تو مجھے پان ملا.لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا ناچارالا چی وغیرہ کھا کرصبر کیا.میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بُری عادت کا تذکرہ کر دیا.جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پائے.سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوائے گئے تھے.حصّہ اوّل ( تائید حق صفحه ۵۵-۵۶) یہ واقعہ اس شخص نے بیان کیا ہے جو اسلامی جوش تبلیغ اور اپنی قربانی کے لحاظ سے بے غرض اور صاف گو تھا اور واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ آپ کا کوئی دعوی مسیحیت یا مہدویت کا نہ تھا اور نہ آپ بیعت لیتے تھے.ایک مہمان کی ضرورت سے واقف ہو کر اس قدر تر ڈ د اور کوشش کہ سولہ کوس کے فاصلہ سے پان منگوایا گیا.مہمان نوازی کے اس وصف نے اس شخص کو جو ہندوستان کے تمام حصوں میں پھر چکا تھا اور بڑے بڑے آدمیوں کے ہاں مہمان رہ چکا تھا ، حیران کر دیا.اس کی سعادت اور خوش قسمتی تھی کہ اسے سات سال بعد ۱۸۹۴ء میں پھر قادیان لا ئی اور اس کو حضرت اقدس کی غلامی کی عزت بخشی جس پر وہ ساری عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا.غرض یہ واقعہ بھی اپنی نوعیت میں ایک عجیب روشنی آپ کے وصف مہمان نوازی پر ڈالتا ہے.
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۰ حصّہ اوّل (۶) حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا واقعہ فرمایا کہ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوئی رضی اللہ عنہ نے ایک واقعہ اپنی ذات کے متعلق تحریر ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے اور ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے حضور مرحوم و مغفور کی خدمت میں قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے واسطے عرض کیا.حضور اندر تشریف رکھتے تھے اور چونکہ حضور کی رافت و رحمت بے پایاں نے خادموں کو اندر پیغام بھجوانے کا موقعہ دے رکھا تھا اس واسطے اس عاجز نے اجازت طلبی کے واسطے پیغام بھجوایا.حضور نے فرمایا کہ وہ ٹھہریں ہم ابھی باہر آتے ہیں“ یہ سن کر میں بیرونی میدان میں گول کمرہ کے ساتھ کی مشرقی گلی کے سامنے کھڑا ہو گیا.اور باقی احباب بھی یہ سن کر کہ حضور باہر تشریف لاتے ہیں پروانوں کی طرح ادھر اُدھر سے اس شمع انوار الہی پر جمع ہونے کے لئے آگئے.یہاں تک کہ حضرت سیدنا مولانا نورالدین صاحب بھی تشریف لے آئے اور احباب کی جماعت اکٹھی ہوگئی.ہم سب کچھ دیر انتظار میں خم بر سر راہ رہے کہ حضور اندر سے برآمد ہوئے.خلاف معمول کیا دیکھتا ہوں کہ حضور کے ہاتھ میں دودھ کا بھرا ہوا لوٹا ہے اور گلاس شاید حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اور مصری رومال میں ہے.حضور گول کمرہ کی مشرقی گلی سے برآمد ہوتے ہی فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب کہاں ہیں؟ میں سامنے حاضر تھا فی الفور آگے بڑھا اور عرض کیا حضور حاضر ہوں.حضور کھڑے ہو گئے اور مجھ کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.میں اسی وقت زمین پر بیٹھ گیا.گلاس میں دودھ ڈالا گیا اور مصری ملائی گئی.مجھے اس وقت یہ یاد نہیں رہا کہ حضرت محمود نے میرے ہاتھ میں گلاس دودھ بھرا دیا یا خود حضور نے ( میں
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ اس واقعہ کو دیکھنے والا ہوں خود حضرت نے گلاس اپنے ہاتھ سے دیا.اور میری آنکھ اب تک اس مؤثر نظارے کو دیکھتی ہے گویا وہ بڑا گلاس حضرت کے ہاتھ سے میر صاحب کو دیا جا رہا ہے.ایڈیٹر ) مگر یہ ضرور ہے کہ حضرت محمود اس کرم فرمائی میں شریک تھے.صورت یہ تھی کہ حضرت نے مصری گھول کر لوٹے میں ڈالی اور اس کو ہلایا اور گلاس میں دودھ ڈال کر اچھی طرح سے ہلایا.پھر حضرت گلاس میں ڈالتے اور گلاس حضرت محمود کے ہاتھ میں ہوتا.پھر حضرت گلاس لے کر میر صاحب کو دیتے.بعض دوستوں نے خود یہ کام کرنا چاہا مگر حضرت نے فرمایا نہیں نہیں کچھ حرج نہیں.ایڈیٹر ) میں نے جب وہ گلاس پی لیا تو پھر دوسرا گلاس پر کر کے عنایت فرمایا گیا میں نے وہ بھی پی لیا.گلاس بڑا تھا میرا پیٹ بھر گیا.پھر اسی طرح تیسرا گلاس بھرا گیا میں نے بہت شرمگین ہو کر عرض کیا کہ حضور اب تو پیٹ بھر گیا ہے.فرمایا اور پی لو.میں نے وہ تیسرا گلاس بھی پی لیا.پھر حضور نے اپنی جیب خاص سے چھوٹی چھوٹی بسکٹیں نکالیں اور فرمایا کہ جیب میں ڈال لو راستہ میں اگر بھوک لگی تو یہ کھانا.میں نے وہ جیب میں ڈال لیں.حضرت محمود لوٹا اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے.اور حضور نے فرمایا کہ چلو آپ کو چھوڑ آئیں.میں نے عرض کیا کہ حضور اب میں سوار ہو جاتا ہوں اور چلا جاؤں گا حضور تکلیف نہ فرمائیں مگر اللہ رے کرم و رحم کہ حضور مجھ کو ساتھ لے کر روانہ ہو پڑے.باقی احباب جو موجود تھے ساتھ ہو لئے اور یہ پاک مجمع اسی طرح اپنے آقا مسیح موعود کی محبت میں اس عاجز کے ہمراہ روانہ ہوا.حضور حسب عادت مختلف تقاریر فرماتے ہوئے آگے آگے چلتے رہے یہاں تک کہ بہت دور نکل گئے.تقریر فرماتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے.یہاں تک کہ حضرت سیدنا ومولانا مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے قریب آکر مجھے کان میں فرمایا کہ.آگے ہو کر عرض کرو اور رخصت لو جب تک تم اجازت نہ مانگو گے حضور آگے بڑھتے چلے جائیں گے.میں حسب ارشاد والا حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۲ حصّہ اوّل آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور اب سوار ہوتا ہوں حضور تشریف لے جائیں.اللہ ! اللہ ! کس لطف سے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ.اچھا ہمارے سامنے سوار ہو جاؤ.میں یکہ میں بیٹھ گیا اور سلام عرض کیا تو پھر حضور واپس ہوئے.مجھے یاد ہے کہ محمد شادی خان صاحب بھی اس وقت بٹالہ جانے کے واسطے میرے ساتھ سوار ہوئے تھے.انہوں نے حضور کی اس کریمانہ عنایت خاص پر تعجب کیا اور دیر تک راستہ میں مجھ سے تذکرہ کرتے رہے اور ہم خوش ہو ہو کر آپ کے اخلاق کریمانہ کے ذکر سے مسرور ہوتے تھے.اے خدا کے پیارے اور محمد کے دلارے مسیح موعود تجھ پر ہزار ہزا ر سلام ہوں کہ تو اپنے خادموں کے ساتھ کیسا مہربان تھا.تیری محبت ہمارے ایمانوں کے لئے اکسیر تھی.جس سے ہمارے مس خام کو کندن ہونے کا شرف حاصل ہے.تیرے اخلاق کریمانہ اب بھی یاد آ آ کر خدا تعالیٰ کے حضور میں ہمارے قرب کا موجب ہورہے ہیں.“ حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ خود راقم الحروف کی آنکھوں کے سامنے گزرا ہے.نہ صرف یہ بلکہ ایسے بہت سے واقعات کا عینی شاہد اللہ کے فضل سے ہے.اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور سیرت کے میں صرف اس اسوہ ہی کو پیش نہیں کر رہا ہوں جو مہمان نوازی، اکرام ضیف اور مشایعت مہمان کے پہلوؤں پر حاوی ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور کو اپنا کام آپ کرنے میں قطعاً تامل نہ ہوتا تھا اور معا یہ واقعہ آپ کی صداقت کی بھی ایک زبردست دلیل ہے.اگر تکلف اور تصنع کو آپ کے اخلاق کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا تو آپ اپنے مخلص اور جانثار مریدوں کے درمیان اس طرح پر کھڑے ہو کر اپنے ایک خادم کو دودھ نہ پلاتے جیسے ایک خادم اپنے آقا کو پلاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ محبت اور ہمدردی مخلوق کے اس مقام پر کھڑا تھا جہاں انسان باپ سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہوتا ہے.وہ اپنے خادموں کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۳۳ حصّہ اوّل غلام نہیں بلکہ اپنے معزز اور شریف بھائی سمجھتا تھا.ان کے اکرام و احترام سے وہ سبق دیتا تھا کہ ہم کو کس طرح پر اپنے بھائیوں سے سلوک کرنا چاہیے اور کس طرح ایک دوسرے سے احترام کے اصول پر کار بند ہو کر اس حقیقی عزت و احترام کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے جو مومنین کا خاصہ ہے.کیا دنیا کے پیروں اور مُرشدوں میں اس کی نظیر پائی جاتی ہے؟ ہر گز نہیں.ہاں یہ نظیر اگر ملے گی تو اس جماعت میں جو انبیاء علیہم السلام کی جماعت ہے اور یا ان لوگوں میں ملے گی جنہوں نے منہاج نبوت پر خدا تعالیٰ کی تجلیوں اور فیوض کو حاصل کیا ہے.(۷) منشی عبد الحق نو مسلم کا واقعہ منشی عبدالحق بی.اے جو مولوی چراغ الدین صاحب قصوری مدرس مشن سکول لاہور کے فرزند رشید ہیں اور ایک زمانہ میں عیسائی ہو گئے تھے اور لاہورمشن کالج میں بی.اے کلاس میں پڑھتے تھے.انہوں نے الحکم اور حضرت اقدس کی بعض تحریروں کو پڑھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا کہ وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں.اس پر حضرت خلیفۃ اللہ نے ان کو لکھ بھیجا تھا کہ وہ کم از کم دوماہ کے لئے قادیان آجائیں.چنانچہ وہ ۲۳ دسمبر ۱۹۰۱ء کو بعد دو پہر قادیان پہنچے.حضرت اقدس کی طبیعت ان ایام میں ناساز تھی مگر با وجود ناسازی مزاج کے آپ دوسرے مہمانوں اور اس حق جو مہمان کے لئے باہر تشریف لے آئے اور سیر کو تشریف لے گئے.اور تمام راستہ میں آتی اور جاتی دفعہ برا بر تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا.اس تبلیغ کا نتیجہ تو آخر میں یہ ہوا کہ یہ نو جوان مسلمان ہو گیا اور برہان الحق ایک رسالہ بھی تالیف کیا اور بھی چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے.مگر میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ با وجود ناسازی طبیعت آپ مہمان نوازی کے اعلیٰ مقام پر ہونے کے باعث باہر تشریف لائے اور یہ دیکھ کر کہ وقت کو غنیمت سمجھنا چاہیے آپ نے پوری تبلیغ فرمائی اور آخر میں منشی عبدالحق صاحب کو فر ما یا کہ وو ” آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پاسکتا ہے جو بے تکلف
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۳۴ حصّہ اوّل ہو پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں.“ پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: الحکم مورخه ۳۱ جنوری ۱۹۰۲ء صفحیہ کالم نمبر ۲) دو یک دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.“ الحکم مورخه ۳۱ جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲) منشی عبدالحق صاحب پر تو جو اثر حضرت کی تبلیغ کا ہوا تھا اس کو آپ کے اس خلق مہمان نوازی نے اور بھی قوی کر دیا اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے منشی صاحب مسلمان ہو گئے اور اب تک مسلمان ہیں.انہوں نے میاں سراج الدین صاحب بی.اے کا بھی ذکر کیا ( یہ وہی سراج الدین ہے جس کے نام پر سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب شائع ہوا ہے ).اس نے حضرت اقدس کی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی خوبی کو خدا جانے کس آنکھ سے دیکھا.جب وہ یہاں سے گیا ہے تو حضرت اقدس اس کو چھوڑنے کے لئے تین میل تک چلے گئے تھے.اس کا ذکر اس نے منشی عبد الحق سے ان الفاظ میں کیا کہ جب میں آیا تھا تو وہ تین میل تک مجھے چھوڑنے آئے تھے.میں اس موقع پر سلیم الفطرت قلوب سے اپیل کروں گا کہ وہ غور کریں.حضرت مسیح موعود ایک شخص کو ( جو عیسائی ہو گیا تھا اور اس کے رشتہ دار وغیرہ اسے قادیان اس غرض سے لائے تھے کہ اسے کچھ فائدہ پہنچے.چونکہ وہ دراصل اپنے بعض مقاصد کو لے کر عیسائی ہو گیا تھا اس لئے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکا ) چھوڑ نے جارہے ہیں.کیا یہ کسی ذاتی غرض و مقصد کا نتیجہ ہے یا محض شفقت اور ہمدردی لئے جارہی تھی.آپ کی فطرت میں یہ جوش تھا کہ کسی نہ کسی طرح یہ روح بچ جاوے اور اس وقت اور موقع کو غنیمت سمجھ کر آپ نے اکرام ضیف بھی کیا اور تبلیغ بھی کی مگر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکا.الغرض منشی عبدالحق صاحب جب تک یہاں رہے حضرت کی مہمان نوازی کے معترف رہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا یہ السلام ۱۳۵ حصہ اول اور اس کا اُن کے قلب پر خاص اثر تھا.میں نے ان ایام میں دیکھا کہ حضرت قریباً روزانہ منشی عبدالحق کو سیر سے واپس لوٹتے وقت یہ فرماتے کہ." آپ مہمان ہیں ، آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بے تکلف کہیں کیونکہ میں تو اندر رہتا ہوں اور نہیں معلوم ہوتا کہ کس کو کیا ضرورت ہے.آج کل مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں.آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیا کریں.مہمان نوازی تو میرا فرض ہے.“ (۸) ایک ہندو سادھو کی تواضع (اخبار الحکم ۷ فروری ۱۹۰۲ء صفحه ۵) اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ایک ہندوسا دھوکوٹ کپورہ سے آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا مسلمانوں کے لئے تو کوئی خاص تردد اور تکلیف نہیں ہوسکتی کیونکہ لنگر جاری تھا اور جاری ہے وہاں انتظام ہر وقت رہتا ہے لیکن ایک ہندو مہمان کے لئے خصوصیت سے انتظام کرنا پڑتا ہے اور چونکہ وہ انتظام دوسروں کے ہاں کرانا ہوتا ہے اس لئے اس کی مشکلات ظاہر ہیں تا ہم حضرت اقدس ہمیشہ ایسے موقعہ پر بھی پورا التزام مہمان نوازی کا فرماتے تھے.۶ اکتوبر کی شام کو اُس نے حضرت اقدس سے ملاقات کی.آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہیے.ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لئے بندوبست کیا جاوے.“ چنانچہ فورا یہ انتظام کیا گیا.آپ کے دستر خوان پر دوست دشمن کی کوئی خاص تمیز نہ تھی.ہر شخص کے ساتھ جو آپ کے یہاں مہمان آجاتا آپ پورے احترام اور فیاضی سے برتاؤ کرتے تھے.اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل شیشہ سے بھی نازک ہوتا ہے اس لئے بہت رعایت اور توجہ کی ضرورت ہے اور بار بار لنگر خانہ کے خدام کو خود تاکید فرمایا کرتے تھے.اور محض اسی خیال سے کہ مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو آپ نے اپنی حیات میں لنگر خانہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا تا کہ بعض ضوابط اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ حصہ اول قواعد کی پابندیاں کسی کے لئے تکلیف کا موجب نہ ہو جائیں.اور آپ کا یہ بھی معمول تھا کہ آپ ہر مہمان کے متعلق اس امر کا بھی التزام رکھتے تھے کہ وہ کس قسم کی عادات کھانے کے متعلق رکھتا ہے.مثلاً اگر حیدر آباد یا کشمیر سے کوئی مہمان آتا تو آپ اس کے کھانے میں چاول کا خاص طور پر التزام فرماتے کیونکہ وہاں کی عام غذا چاول ہے.اور اس امر کی خاص تاکید کی جاتی اور کوشش یہ رہتی تھی کہ مہمان اپنے آپ کو اجنبی نہ سمجھے بلکہ وہ یہی سمجھے کہ اپنے گھر میں ہے.حضرت اقدس کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ جب وہ مہمانوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتے تھے تو ہمیشہ سب مہمانوں کے کھا چکنے کے بعد بھی بہت دیر تک کھاتے رہتے اور غرض یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص حجاب نہ کرے اور بھوکا نہ رہے اس لئے آپ بہت دیر تک کھانا کھاتے رہتے.اگر چہ آپ کی خوراک بہت ہی کم تھی غرض آپ کی مہمان نوازی عدیم المثال تھی اور آپ کا دستر خوان بہت وسیع تھا.(۹) مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی ابونصر آہ مرحوم کا واقعہ مولوی ابوالکلام آزاد ( جو آج کل مسلمانوں کے سیاسی لیڈروں میں مشہور ہیں ) کے بڑے بھائی مولوی ابونصر آہ مرحوم ۲ رمئی ۱۹۰۵ء کو قادیان تشریف لائے تھے اور اخلاص ومحبت سے آئے تھے.حضرت اقدس نے ان سے خطاب کر کے ایک مختصر سی تقریر کی تھی.انہوں نے قادیان سے جانے کے بعد امرتسر کے اخبار وکیل میں اپنے سفر قادیان کا حال شائع کیا تھا.اگر چہ اس میں بعض دوسری باتوں کا بھی ذکر ہے اور اگر میں صرف اس حصہ کو یہاں درج کر دیتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی پر روشنی ڈالتا ہے تو اس بات کے موضوع کے لحاظ سے مناسب تھا مگر اس مضمون کے نا تمام چھاپنے سے وہ اثر جو بہیت مجموعی پڑتا ہے کم ہو جاتا ہے اس لئے میں ان خیالات کو پورا درج کر دیتا ہوں.وہ فرماتے ہیں میں نے اور کیا دیکھا ؟ قادیان دیکھا.مرزا صاحب سے ملاقات کی ، مہمان رہا.مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے.میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا.مرزا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۷ صاحب نے ( جب کہ دفعتاً گھر سے باہر تشریف لے آئے تھے ) دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی.آج کل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ میں (جو خود ان ہی کی ملکیت ہے ) قیام پذیر ہیں.بزرگانِ ملت بھی وہیں ہیں.قادیان کی آبادی تقریباً تین ہزار آدمیوں کی ہے.مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے.نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے.رستے کچے اور ناہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان تک آئی ہے اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے.آتے ہوئے یکہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لوٹنے کے وقت نصف کی تخفیف کر دی.اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میں تو کیا آٹھ قدم بھی میں آگے نہ بڑھ سکتا.اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا.اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولا نا عبدالکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے.مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں.جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کے خسر ہیں.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی ، ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز ، مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم.جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پرلے درجہ کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے.افسوس مجھے اور اشخاص کا نام یاد نہیں ورنہ میں ان کی مہر بانیوں کا بھی شکر یہ ادا کرتا.مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے.حصّہ اوّل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۳۸ حصّہ اوّل آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز.مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا.بُردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گو یا متبسم میں رنگ گورا ہے بالوں کو دنا کا رنگ دیتے ہیں.جسم مضبوط اور محنتی ہے سر پر پنجابی وضع کی سپید پگڑی باندھتے ہیں.سیاہ یا خا کی لمبا کوٹ زیب تن فرماتے ہیں پاؤں میں جراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے.عمر قریبا چھیاسٹھ سال کی ہے.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں بہت خوش اعتقاد پایا.میری موجودگی میں بہت سے معزز مہمان آئے ہوئے تھے جن کی ارادت بڑے پایہ کی تھی.اور بے حد عقیدت مند تھے.مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا.”ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں.“ (اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے ).میں جس شوق کو لے کر گیا تھا ساتھ لایا.اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے واقعی قادیان نے اس جملہ کو اچھی طرح سمجھا ہے حَسنُ خُلُقَكَ وَلَوْ مَعَ الكُفَّارِ.میں نے اور کیا دیکھا ؟ بہت کچھ دیکھا مگر قلم بند کرنے کا موقع نہیں اسٹیشن جانے کا وقت سر پر آچلا ہے پھر کبھی بتاں گا کہ میں نے کیا دیکھا.راقم آہ دہلوی.(الحکم ۲۴ مئی ۱۹۰۵ء صفحه۱۱،۱۰) افسوس ہے کہ مولانا ابونصر آہ کو موت نے فرصت نہ دی ورنہ وہ دوبارہ قادیان میں آتے اور ضرور آتے اور جو وعدہ کر کے وہ یہاں سے گئے تھے اسے پورا کرتے.سلسلہ کے لئے ایک محبت اور اخلاص کی آگ ان کے سینہ میں سلگ چکی تھی اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۹ حصّہ اوّل اس اخلاص کا نیک بدلہ انہیں دے گا.مولانا ابونصر کی یہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل و اخلاق کا ایک مختصر سا مرقع ہے.(۱۰) خاکسار مؤلّف کا اپنا واقعہ میں پہلی مرتبہ ۱۸۹۳ء کے مارچ مہینے کے اواخر میں قادیان آیا.راستہ سے ناواقف تھا اور بٹالہ گاڑی شام کے قریب آتی تھی.دن تھوڑا سا باقی تھا.میرے پاس کچھ سامان سبزی وغیرہ کی قسم سے تھا.مجھے یکہ کوئی نہ ملا.میں نے ایک مزدور جو بٹالہ میں جوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا ساتھ لیا.وہ بڑھا آدمی تھا اور اس کا گھر دوانی وال تھا.راستہ میں جب وہ اپنے گاؤں کے قریب پہنچا تو اس نے کہا کہ میں گھر سے ہو آؤں اور گھر والوں کو اطلاع دے آؤں کہ قادیان جاتا ہوں.اسے گھر میں اچھی خاصی دیر ہو گئی اور آفتاب غروب ہو گیا.میں نے بٹالہ میں راستہ کی کچھ تفصیلات معلوم کی تھیں کہ نہر آئے گی اس سے آگے ایک چھوٹی سے پکی آئے گی وہاں سے قادیان کو راستہ جاتا ہے.رات اندھیری تھی ہم دونوں چلے آئے مگر وہ بھی راستہ سے پورا واقف نہ تھا.نہر پر پہنچے تو چونکہ نہر بند تھی ہمیں کچھ معلوم نہ ہوا کہ نہر آگئی ہے اور اس لئے آگے جو نشان بتایا گیا تھا اس کا بھی پتہ نہ لگا.اور ہم ہر چو وال کی نہر پر جاپہنچے مگر سفر کی طوالت وقت کے زیادہ گزرنے سے معلوم ہوتی تھی گوشوق کی وجہ سے کچھ تکان نہ تھی.میں نے اس بڑھے مزدور سے کہا کہ تم کہتے تھے میں راستہ سے واقف ہوں اور ہم کو بٹالہ سے چلے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ابھی تک وہ موڑ نہیں آتا یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کچھ پتہ نہیں لگتا.الغرض جب ہم ہر چو وال پہنچے تو جا کر معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں.اتفاقاً وہاں ایک آدمی مل گیا اور اس نے ہم کو ہماری غلطی پر آگاہ کیا.اور ہم واپس ہوئے اور لیل کلاں کے قریب آکر پھر بھولے مگر اس وقت دو تین آدمی لیل سے نکل کر باہر جارہے تھے کہ انہوں نے ہم کو سیدھے راستہ پر ڈال دیا.اس پریشانی میں اس رفیق سفر پر بہت غصہ آتا تھا مگر اس کا نتیجہ کچھ نہ تھا.آخر اس راستہ پر جو لیل سے قادیان کو آتا ہے ہم قادیان کے باغ کے قریب پہنچے.باغ کے پاس آئے تو آگے پانی تھا.باغ کی طرف سے ہم نے آواز دی تو ایک شخص نے کہا چلے آؤ پانی پایاب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۰ حصّہ اوّل ہے.غرض وہاں سے گزر کر مہمان خانہ پہنچے.رمضان کا آغاز تھا اور لوگ اس وقت اٹھ رہے تھے مہمان خانہ کی کائنات صرف دو کو ٹھریاں ایک دالان تھا جو مطب والا ہے.باقی موجودہ مہمان خانہ تک پلیٹ فارم ہی تھا.حضرت حافظ حامد علی مرحوم کو خبر ہوئی کہ کوئی مہمان آیا ہے.اس وقت مہمان خانہ کے مہتم کہو، داروغہ کہو ، خادم سمجھو سب کچھ وہی تھے.میرے وہ واقف و آشنا تھے.جب وہ آکر ملے تو محبت اور پیار سے انہوں نے مصافحہ اور معانقہ کیا اور حیرت سے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے.میں نے جب واقعات بیان کئے تو بیچارے بہت حیران ہوئے.میں نے وہ سبزی وغیرہ ان کے حوالے کی وہ لے کر اسی وقت اندر گئے.اور حضرت صاحب کو اطلاع کی.میرا خیال ہے کہ تین بجے کے قریب قریب وقت تھا.حضرت صاحب نے اُسی وقت مجھے گول کمرہ میں بلالیا.اور وہاں پہنچنے تک پُر تکلف کھانا بھی موجود تھا.میں اس ساعت کو اپنی عمر میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس محبت اور شفقت سے بار بار فرماتے تھے آپ کو بڑی تکلیف ہوئی.میں عرض کرتا رہا نہیں حضور تکلیف تو کوئی نہیں ہوئی معلوم بھی نہیں ہوا.مگر آپ بار بار فرماتے ہیں راستہ بھول جانے کی پریشانی بہت ہوتی ہے.اور کھانا کھانے کے لئے تاکید فرمانے لگے.مجھے شرم آتی تھی کہ آپ کے حضور کس طرح کھاؤں میں نے تامل کیا مگر آپ نے خود اپنے دست مبارک سے کھانا آگے کر کے فرمایا کہ کھاؤ بہت بھوک لگی ہوگی.سفر میں تکان ہو جاتا ہے.آخر میں نے کھانا شروع کیا تو پھر فرمانے لگے کہ خوب سیر ہوکر کھاؤ شرم نہ کرو.سفر کر کے آئے ہو.حضرت حامد علی صاحب بھی پاس ہی بیٹھے تھے اور آپ بھی تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ آرام فرمائیں میں اب کھالوں گا.حضرت اقدس نے اس وقت محسوس کیا کہ میں آر کی موجودگی میں تکلف نہ کروں.فرمایا اچھا حامد علی تم اچھی طرح سے کھلا ؤ اور یہاں ہی ان کے لئے بستر بچھا دو تا کہ یہ آرام کر لیں اور اچھی طرح سے سو جائیں.“ آپ تشریف لے گئے مگر تھوڑی دیر بعد ایک بستر الئے ہوئے پھر تشریف لے آئے.میری حالت اس وقت عجیب تھی ایک طرف تو میں آپ کے اس سلوک پر نادم ہو رہا تھا کہ ایک واجب الاحترام ہستی اپنے ادنی غلام کے لئے کس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ حصہ اول مدارات میں مصروف ہے.میں نے عذر کیا کہ حضور نے کیوں تکلیف فرمائی.فرمایا ”نہیں نہیں تکلیف کس بات کی آپ کو آج بہت تکلیف ہوئی ہے اچھی طرح سے آرام کرو.“ غرض آپ بستر رکھ کر تشریف لے گئے اور حافظ حامد علی صاحب میرے پاس بیٹھے رہے.انہوں نے محبت سے کھانا کھلایا اور بستر بچھا دیا.میں لیٹ گیا تو مرحوم حافظ حامد علی نے میری چاپی کرنی چاہی تو میں نے بہت ہی عذر کیا تو وہ رکے مگر مجھے کہا کہ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ ذرا دبا دینا بہت تھکے ہوں گے.ان کی یہ بات سنتے ہی میری آنکھوں سے بے اختیار آنسونکل گئے کہ اللہ ! اللہ ! کس شفقت اور محبت کے جذبات اس دل میں ہیں.اپنے خادموں کے لئے وہ کس درد کا احساس رکھتا ہے.فجر کی نماز کے بعد جب آپ تشریف فرما ہوئے تو پھر دریافت فرمایا کہ نیند اچھی طرح آگئی تھی.اب تکان تو نہیں.غرض اس طرح پر اظہار شفقت فرمایا کہ مجھے مدت العمر یہ لطف اور سرور نہ بھولے گا.میں چند روز تک رہا اور ہر روز آپ کے لطف و کرم کو زیادہ محسوس کرتا تھا.جانے کے لئے اجازت چاہی تو فرمایا نوکری پر تو جانا نہیں اور دو چار روز رہو میں پھر ٹھہر گیا.آخر آپ کی محبت و کرم فرمائی کے جذبات کا ایک خاص اثر لے کر گیا اور وہ کشش تھی کہ مجھے ملا زمت چھوڑ ا کر یہاں لائی اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کیا کہ مجھے اس آستانہ پر دھونی رما کر بیٹھ جانے کی توفیق عطا فرمائی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ میں نے مختصراً اس واقعہ کو صاف اور سادہ الفاظ میں بیان کر دیا ہے.میں اس وقت ایک غریب طالب علم تھا اور کسی حیثیت سے کوئی معروف درجہ نہ رکھتا تھا.مگر حضرت اقدس کی مہمان نوازی اور وسعت اخلاق سب کے لئے یکساں تھی.وہ ہر آنے والے کو سمجھتے تھے کہ یہ خدا کے مہمان ہیں.ان کی آسائش ، تالیف قلوب اور ہمدردی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے آپ کی پیاری پیاری باتوں اور آرام دہ برتاؤ کو دیکھ کر گھر بھی بھول جاتا تھا.ہر ملاقات میں پہلے سے زیادہ محبت اور شفقت کا اظہار پایا جاتا تھا.اور مخفی طور پر خادم مہمان خانہ کو ہدایت ہوتی تھی کہ مہمانوں کے آرام کے لئے ہر طرح خیال رکھو.اور براہ راست انتظام اپنے ہاتھ میں اس لئے رکھا تھا کہ مہمانوں کوکسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا السلام ۱۴۲ حصّہ اوّل (۱۱) میاں رحمت اللہ باغانوالہ کا واقعہ میاں رحمت اللہ باغانوالہ سیکرٹری انجمن احمد یہ بنگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص خادموں میں سے ہیں اور بنگہ کی جماعت میں ان کے بعد خدا تعالیٰ نے بڑی برکت اور ترقی بخشی.۱۹۰۵ء میں جبکہ حضرت اقدس باغ میں تشریف فرما تھے.میاں رحمت اللہ قادیان آئے ہوئے تھے اور وہ مہمان خانہ میں حسب معمول ٹھہرے ہوئے تھے.میاں نجم الدین مرحوم لنگر خانہ کے داروغہ اور مہتم تھے.ان کی طبیعت کسی قدر کھڑی واقع ہوئی تھی.اگر چہ اخلاص میں وہ کسی سے کم نہ تھے.اور سلسلہ کی خدمت اور مہمانوں کے آرام کا اپنی طاقت اور سمجھ کے موافق بہت خیال رکھتے تھے.اور مجتہدانہ طبیعت پائی تھی.میاں رحمت اللہ صاحب نے کچھ تکلف سے کام لیا.روٹی کچھی ملی اور وہ بیمار ہو گئے.مجھ کوخبر ہوئی میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ روٹی کچی تھی.اور تنور کی روٹی عام طور پر کھانے کی عادت نہیں مجھے ان کی تکلیف کا احساس ہوا.میری طبیعت بے دھڑک کسی واقعہ ہوئی ہے.میں سیدھا حضرت صاحب کے پاس گیا.اطلاع ہونے پر آپ فوراً تشریف لے آئے.اور باغ کی اُس روش پر جو مکان کے سامنے ہے ٹہلنے لگے.اور دریافت فرمایا کہ میاں یعقوب علی کیا بات ہے؟ میں نے واقعہ عرض کر کے کہا کہ حضور ! یا تو مہمانوں کو سب لوگوں پر تقسیم کر دیا کرو اور یا پھر انتظام ہو کہ تکلیف نہ ہو.میں آج سمجھتا ہوں اور اس احساس سے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے مامورو مرسل کے حضور اس رنگ میں کیوں عرض کی؟ مگر اس رحم و کرم کے پیکر نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی کہ میں نے کس رنگ میں بات کی ہے.فرمایا ”آپ نے بہت ہی اچھا کیا کہ مجھ کو خبر دی میں ابھی گھر سے چپاتیاں پکوانے کا انتظام کر دوں گا.اور میاں نجم الدین کو بھی تاکید کرتا ہوں اُسے بلا کر میرے پاس لاؤ.یہ بہت اچھی بات ہے.اگر کسی مہمان کو تکلیف ہو تو فوراً مجھے بتاؤ.لنگر خانہ والے نہیں بتاتے اور ان کو پتہ بھی نہیں لگ سکتا.اور یہ بھی فرمایا کہ میاں رحمت اللہ کہاں ہیں؟ وہ زیادہ بیار تو نہیں ہو گئے اگر وہ آسکتے ہوں تو ان کو بھی یہاں لے آؤ.“ میں نے واپس آکر میاں رحمت اللہ صاحب سے ذکر کیا.وہ بیچارے بہت محجوب ہوئے کہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۳ حصہ اول آپ نے کیوں حضرت کو تکلیف دی.میری طبیعت اب اچھی ہے.خیر میں ان کو حضرت کے پاس لے گیا اور میاں نجم الدین صاحب کی بھی حاضری ہوئی.حضرت نے میاں رحمت اللہ صاحب سے بہت عذر کیا کہ بڑی غلطی ہو گئی.آپ کو تکلف نہیں کرنا چاہیے تھا.میں باغ میں تھا اور نہ تکلیف نہ ہوتی.اب انشاء اللہ انتظام ہو گیا ہے.جس قدر حضرت عذر اور دلجوئی کریں میں اور میاں رحمت اللہ اندر ہی اندر نادم ہوں اور پھر جتنے دن وہ رہے حضرت نے روزانہ مجھ سے دریافت فرمایا کہ تکلیف تو نہیں.میاں نجم الدین صاحب کو بھی بہت تاکید اور وعظ فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کے مہمان ہیں یہ خدا کے لئے آتے ہیں اور گھروں کا آرام چھوڑ کر آتے ہیں.اگر ان کی صحت ہی درست نہ رہے تو یہ اس غرض کو کیونکر حاصل کر سکیں گے جس کے لئے یہاں آتے ہیں.بہت کچھ ان کو سمجھایا اور وہ اپنے طریق کے موافق عذر کرتے رہے.میرا مطلب اس سے یہ دکھانا ہے کہ اگر کسی مہمان کو ذراسی بھی تکلیف ہو تو آپ فوراً بے قرار ہو جاتے تھے اور جب تک اس کو اطمینان اور آرام کی حالت میں نہ دیکھ لیں آپ صبر نہ کرتے تھے.مہمان نوازی پر اجمالی نظر آپ کی مہمان نوازی کے واقعات اور مثالیں اس کثرت سے ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کیا جاوے تو بجائے خود ایک مستقل کتاب ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ جس کو توفیق دے گا وہ اس خصوص میں ایسا ذخیرہ جمع کر دے گا.آپ کی عام خصوصیات مہمان نوازی میں یہ تھیں کہ (۱) آپ مہمان کے آنے سے بہت خوش ہوتے تھے اور آپ کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ مہمان کو ہر ممکن آرام پہنچے.اور آپ نے خدام لنگر خانہ کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ فورا آپ کو اطلاع دی جاوے.اور یہ بھی ہدایت تھی کہ جس ملک اور مذاق کا مہمان ہو اس کے کھانے پینے کے لئے اسی قسم کا کھانا تیار کیا جاوے.مثلاً اگر کوئی مدراسی، بنگالی یا کشمیری آگیا ہے تو ان کے لئے چاول تیار ہوتے تھے.ایسے موقعہ پر فرمایا کرتے تھے کہ اگر ان کی صحت ہی درست نہ رہی تو وہ دین کیا سیکھیں گے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ حصّہ اوّل ایک مرتبہ سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن حیدر آباد سے ایک جماعت لے کر آئے.سید صاحب ان ایام میں ایک خاص جوش اور اخلاص رکھتے تھے.حیدرآبادی لوگ عموماً ترش سالن کھانے کے عادی ہوتے ہیں.آپ نے خاص طور پر حکم دیا کہ ان کے لئے مختلف قسم کے کھٹے سالن تیار ہوا کریں تا کہ ان کو تکلیف نہ ہو.ایسا ہی سیٹھ اسماعیل آدم بمبئی سے آئے تو ان کے لئے بلا ناغہ دونوں وقت پلاؤ اور مختلف قسم کے چاول تیار ہوتے تھے.کیونکہ وہ عموماً چاول کھانے کے عادی تھے.مخدومی حضرت سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ بھی ان ایام میں قادیان میں ہی تھے.غرض آپ اس امر کا التزام کیا کرتے تھے کہ مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف کھانے پینے میں نہ ہو.(۲) یہ امر بھی آپ کی مہمان نوازی کے عام اصولوں میں داخل تھا کہ جس وقت کوئی مہمان آتا تھا اسی وقت اس کے لئے موسم کے لحاظ سے چاء یاکسی یا شربت مہیا کرتے اور اس کے بعد کھانے کا فوری انتظام ہوتا تھا اور اگر جلد تیار نہ ہو سکتا ہو یا موجود نہ ہوتو دودھ ڈبل روٹی یا اور نرم غذا فواکہات غرض کچھ نہ کچھ فوراً موجود کیا جاتا اور اس کے لئے کوئی انتظار آپ روا نہ رکھتے.بعض اوقات دریافت فرما لیتے اور بعض اوقات کھانا ہی موجود کرتے.ایسے واقعات ایک دو نہیں سینکڑوں سے گزر کر ہزاروں تک ان کا نمبر پہنچتا ہے.جناب قاضی امیرحسین صاحب بھیروی جو عرصہ دراز سے ہجرت کر کے قادیان بیٹھے ہوئے ہیں ایک زمانہ میں امرتسر کے مدرستہ المسلمین میں ملازم تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں امرتسر سے قادیان میں آیا اور حضرت صاحب کو اطلاع دی.آپ فوراً تشریف لائے اور شیخ حامد علی صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ قاضی صاحب کے لئے جلد چائے لاؤ.یہ ایک واقعہ نہیں علی العموم ایسا ہی ہوتا تھا.(۳) آپ کی مہمان نوازی کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ مہمان کے جلدی واپس جانے سے خوش نہ ہوتے تھے بلکہ آپ کی خواہش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ وہ زیادہ دیر تک رہے.تا کہ پورے طور پر اس کے سفر کا مقصد پورا اور آپ کی دعوت کی تبلیغ ہو سکے.اس لئے جلد اجازت نہ دیتے تھے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ حصّہ اوّل بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی کچھ دن اور رہو آپ کے جو پرانے خدام ہوتے تھے ان کے ساتھ خصوصیت سے یہی برتا ؤ ہوتا تھا.ایک مرتبہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی یہاں آئے وہ ان دنوں میں مجسٹریٹی کے ریڈر تھے وہ ایک دو دن کے لئے یونہی موقع نکال کر آئے تھے مگر جب اجازت مانگیں تو یہی ہوتا رہا کہ چلے جانا ابھی کون سی جلدی ہے اور اس طرح پر ان کو ایک لمبا عرصہ یہاں ہی رکھا.اصل بات یہ ہے کہ آپ دل سے یہی چاہتے تھے کہ احباب زیادہ دیر تک ٹھہریں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ حضرت کی اس سیرت سے کہ بہت چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے پاس رہیں.یہ نتیجہ نکالا کرتا ہوں کہ یہ آپ کی صداقت کی بڑی بھاری دلیل ہے اور آپ کی روح کو کامل شعور ہے کہ آپ منجانب اللہ اور راست باز ہیں.جھوٹا آدمی ایک دن میں گھبرا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو دھکے دے کر نکالتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کا پول کھل جائے.(۴) آپ کی مہمان نوازی کی چوتھی خصوصیت یہ تھی کہ مہمان کے ساتھ تکلف کا برتاؤ نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ اس سے بالکل بے تکلفانہ برتاؤ کرتے تھے.اور وہ یقین کرتا تھا کہ وہ اپنے عزیزوں اور غمگسار دوستوں میں ہے.اور اس طرح پر وہ تکلف کی تکلیف سے آزاد ہو جا تا تھا.حضرت خلیفہ نورالدین صاحب آف جموں ( جو حضرت اقدس کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور جنہوں نے بعض اوقات سلسلہ کی خاص خدمات کی ہیں جیسے قبر مسیح کی تحقیقات کے لئے انہوں نے کشمیر کا سفر کیا اور اپنے خرچ پر ایک عرصہ تک وہاں رہ کر تمام حالات کو دریافت کیا ) بیان کرتے ہیں کہ جن ایام میں حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نواب صاحب کی درخواست پر مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے میں قادیان آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ مجھے دونوں وقت کھانے کے لئے او پر بلا لیتے اور میں اور آپ دونوں ہی مل کر کھانا کھاتے.اور بعض اوقات گھنٹہ گھنٹہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہتے اور انوسینٹ ریکری ایشن ( تفریح بے ضرر ) بھی ہوتی رہتی.ایک دن ایک چاء دانی چائے سے بھری ہوئی اٹھا لائے اور فرمایا کہ خلیفہ صاحب یہ تم نے پینی ہے یا میں نے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۶ حصّہ اوّل خلیفہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور اس کا کیا مطلب؟ فرمایا ہمارے گھر والوں پر حرام ہے اس سے اور بھی تعجب خلیفہ صاحب کو ہوا.ان کو منتعجب پا یا تو فرمایا یہ حرام طبقی ہے شرعی نہیں.ان کی طبیعت اچھی نہیں اور چائے ان کو مضر ہے.غرض یہ بظاہر ایک لطیفہ سمجھا جا سکتا تھا مگر آپ کی غرض اس واقعہ سے یہ بھی تھی کہ خلیفہ صاحب خوب سیر ہو کر پئیں کیونکہ گھر میں تو کسی نے چائے پینی نہ تھی اور حضرت کو یہ خیال تھا کہ خلیفہ صاحب بوجہ کشمیر میں رہنے کے چائے کے عادی سمجھے جا سکتے ہیں اور چائے بہت پیتے ہوں گے.اس لئے آپ ان کی خاطر داری کے لئے بہت سی چائے بنوا کر لائے.اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تم نے اور میں نے ہی پینی ہے تا کہ ایک قسم کی مساوات کے خیال سے ان کو تکلف نہ رہے غرض مہمانوں میں کھانے پینے اور اپنی ضروریات کے متعلق بے تکلفی پیدا کر دیتے تھے تا کہ وہ اپنا گھر سمجھ کر آزادی اور آرام سے کھا پی لیں.اسی بے تکلفی پیدا کرنے کے لئے کبھی کبھی شہتوت بیدانہ کے ایام میں باغ میں جا کر ٹوکرے بھروا کر منگواتے اور مہمانوں کو ساتھ لے کر خود بھی انہی ٹوکروں میں سے سب کے ساتھ کھاتے.آہ! وہ ایام کیا مبارک اور پیارے تھے.ان کی یاد آتی ہے تو تڑپا جاتی ہے.دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا سفر میں بھی جب کبھی ہوتے تو اپنے مہمانوں کا خاص خیال رکھتے.جن ایام میں گورداسپور مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے ہوئے تھے احباب کو معلوم ہے کہ کس طرح پر مہمانوں کی خاطر مدارات کا خیال رکھا جاتا تھا.آموں کے موسم میں آموں کے ٹوکرے منگوا کر اپنے خدام کے سامنے رکھتے.ایک مرتبہ خواجہ صاحب کے لئے آموں کا ایک بار خر خریدا گیا.احباب مذاق کرتے تھے کہ خواجہ صاحب آموں کا گدھا کھا گئے.خواجہ صاحب کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا اور حضرت اقدس ان کے احساسات کا خیال
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ حصہ اول رکھتے تھے اس لئے ان کے لئے خاص طور پر اہتمام ہوتا.اور خود خواجہ صاحب بھی شب دیگ وغیرہ پکاتے رہتے.میرا مطلب ان واقعات کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اپنے مہمانوں اور خادموں کے ساتھ بے تکلفی کا برتاؤ کیا کرتے تھے.ایسا ہی حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت سے حضرت صاحبزادہ صاحب نے سیرت المہدی میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ مولوی صاحب اور چند اور آدمی جن میں خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب بھی تھے حضرت اقدس کی ملاقات کو اندر مکان میں حاضر ہوئے.آپ نے خربوزے کھانے کو دیئے.اور مولوی صاحب کو ایک موٹا سا خربوزہ دیا اور فرمایا کہ اسے کھا کر دیکھیں کیسا ہے؟ پھر آپ ہی مسکرا کر فرمایا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے پھیکا ہی ہوگا.چنانچہ وہ پھیکا ہی نکلا.یہ لطیفہ بھی بے تکلفی کی ایک شان اپنے اندر رکھتا ہے.(۵) آپ کی مہمان نوازی کی ایک یہ بھی خصوصیت تھی کہ آپ مہمانوں کے آرام کے لئے نہ صرف ہر قسم کی قربانی کرتے تھے بلکہ ہرممکن خدمت سے کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے اور اُسے شائع کیا ہے کہ چار برس (۱۸۹۶ء کا غالباً واقعہ ہے کیونکہ۱۹۰۰ء میں آپ نے یہ بیان شائع کیا تھا.عرفانی) کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لودہانہ گئے ہوئے تھے.جون کا مہینہ تھا مکان نیا نیا بنا تھا.میں دو پہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا.حضرت ٹہل رہے تھے.میں ایک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا آپ نے بڑی محبت سے پوچھا.آپ کیوں اٹھے.میں نے عرض کیا کہ آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سورہوں.مسکرا کر فرمایا.میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے.( مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب صفحه ۴۰) یہ محبت یہ دلسوزی اور خیر خواہی ماں باپ میں بھی کم پائی جاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۴۸ حصہ اول کی طرف سے یہ ان لوگوں میں ہی ودیعت کی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہدایت کے لئے مامور ہو کر آتے ہیں.اور اگر یہ ہمدردی مخلوق الہی کے لئے ان کے دل میں نہ ہو تو وہ ان مشکلات کے پہاڑوں اور مصائب کے دریاؤں سے نہ گزر سکیں جو تبلیغ حق کی راہ میں آتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس انتہائی دلسوزی اور غم خواری کا نقشہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴) یعنی اس ہم و غم میں کہ لوگ کیوں خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور صراط مستقیم کو اختیار کر کے اس مقصد زندگی کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے اُن کو پیدا کیا گیا ہے تو اپنے آپ کو ہلاک کر دے گا.یہ جوش مخلوق کی ہدایت کے لئے اور اُن کی ہمدردی کے لئے خاصہ انبیاء علیہم السلام ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کی خصوصیات بیان کر رہا تھا اور اس میں حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح پر آپ ان کے آرام کے لئے ایک پہرہ دار کی طرح کام کرتے تھے.سچ ہے.بخیر و عافیت بگذرد شب اندر خواب که پاسبانی ایشاں بصد عنا باشد (1) چھٹی خصوصیت آپ کی مہمان نوازی کی یہ تھی کہ حفظ مراتب کی ہدایت کے ساتھ عام سلوک اور تعلقات میں آپ مساوات کے برتا ؤ کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے.اس بات کا بے شک لحاظ ہوتا تھا کہ مہمانوں کو ان کے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے اتارا جاتا اور یہ حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل تھی.مگر خبر گیری اور مہمان نوازی کے عام معاملات میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا.۱۹۰۵ء کے سالانہ جلسہ پر کھانے وغیرہ کا انتظام میرے سپرد تھا اور میری مدد کے لئے اور چند دوست ساتھ تھے ہم نے مولوی غلام حسین صاحب پشاوری اور ان کے ہمراہیوں کے لئے خاص طور پر چند کھانوں کا انتظام کرنا چاہا.حضرت اقدس تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کیفیت طلب فرماتے تھے کہ کھانے کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ حصّہ اوّل کیا انتظام ہے، کس قدر تیار ہو گیا ، کس قدر باقی ہے، کیا پکا یا گیا ہے اس سلسلہ میں یہ بھی میں نے عرض کیا کہ ان کے لئے خاص طور پر انتظام کر رہے ہیں.فرمایا کہ میرے لئے سب برابر ہیں اس موقع پر امتیاز اور تفریق نہیں ہو سکتی.سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا ہونا چاہیے.یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں.مولوی صاحب کے لئے الگ انتظام ان کی لڑکی کی طرف سے ہو سکتا ہے اور وہ اس وقت میرے مہمان ہیں اور سب مہمانوں کے ساتھ ہیں اس لئے سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے خبر دار کوئی امتیاز کھانے میں نہ ہو.اور بھی بہت کچھ فرمایا اور غر بائے جماعت کی خصوصیت سے تعریف کی اور فرمایا کہ جیسے ریل میں سب سے بڑی آمدنی تھرڈ کلاس والوں کی طرف سے ہوتی ہے اس سلسلہ کے اغراض و مقاصد کے پورا کرنے میں سب سے بڑا حصہ غربا کے اموال کا ہے اور تقویٰ طہارت میں بھی یہی جماعت ترقی کر رہی ہے.غرض اس طرح نصیحت کی فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ.آپ ہرگز عام برتا ؤ اور سلوک میں کوئی امتیاز نہ رکھتے تھے گومنازل و مراتب مناسبہ کو بھی ہاتھ سے نہ دیتے تھے اور یہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی تھیں تھی.(۷) ساتویں خصوصیت یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ ہمارے دوست خصوصاً کثرت سے آئیں اور بہت دیر تک ٹھہریں اگر چہ زیادہ دیر تک ٹھہر نا وہ سب کا پسند کرتے تھے.غیروں کے لئے اس لئے کہ حق کھل جائے اور اپنوں کے لئے اس لئے کہ ترقی کریں.کثرت سے آنے جانے والوں کو ہمیشہ پسند فرمایا کرتے تھے.اس کی تہ میں جو غرض اور مقصود تھا وہ یہی تھا کہ تا وہ اس مقصود کو حاصل کر لیں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے.حضرت مولا نا عبد الکریم رضی اللہ عنہ نے آپ کی اس خصوصیت کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت کبھی پسند نہیں کرتے تھے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں.آنے پر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے خوش ہوتے ہیں اور جانے پر کرہ سے رخصت دیتے ہیں اور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں.اب کی دفعہ دسمبر میں (۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے ) بہت کم لوگ آئے اس پر بہت اظہار افسوس کیا اور فرمایا ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں.وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اُکتائیں اور فرمایا جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا اسے ڈرنا چاہیے کہ شرک میں مبتلا ہے.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جاوے تو ہمارے مہمات کا متکفل خدا ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں.ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے.یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے نکال دینا چاہیے.میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت کو تکلیف دیں.ہم تو سکتے ہیں یونہی بیٹھ کر روٹی کیوں تو ڑا کریں.وہ یاد رکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں.ایک روز حکیم فضل الدین ( رضی اللہ عنہ ) نے عرض کیا کہ حضور میں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن ہی کروں گا.یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو.فرمایا آپ کا یہاں بیکار بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری بڑا کام ہے.غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا یہ عذر کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں عذر کیا تھا اِنَّ بيوتنا عَوْرَةُ اور خدا تعالیٰ نے اُن کی تکذیب کردى إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا 66 حصّہ اوّل ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب صفحه ۵۰،۴۹)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۵۱ حصہ اول غرض آپ کو اپنے خدام کے متعلق خصوصیت سے یہ خواہش رہتی تھی کہ آپ بہت بار بار آئیں اور کثرت سے آئیں اور ان کے قیام کی وجہ سے جو کچھ بھی اخراجات ہوں ان کو برداشت کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے.(۸) آٹھویں خصوصیت یہ تھی کہ مہمان نوازی کے لئے دوست دشمن کا امتیاز نہ تھا بلکہ بریں خوان یغما چه دشمن چه دوست کا مضمون آپ کے دستر خوان پر نظر آتا تھا.جیسا کہ میں نے آپ کے اخلاق عفو درگزر میں دکھایا ہے کہ یہ خلق خادموں اور دوستوں تک محدود نہ تھا اسی طرح مہمان نوازی بھی وسیع اور عام تھی.کسی خاص قوم اور فرقہ تک محدود نہ تھی.بلکہ ہندو، مخالف الرائے مسلمان، عیسائی یا کسے باشد جو بھی آجاتا اس کے ساتھ اسی محبت سے پیش آتے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی میں بروایت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری لکھا ہے کہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیت الفکر میں ( مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے ) بیٹھے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرمیت یا شاید لالہ ملا وامل نے دستک دی.میں اٹھ کر کھڑ کی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے.“ (سیرت المہدی جلدا روایت نمبر ۸۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اسی طرح ایک مرتبہ بیگو وال ریاست کپورتھلہ کا ایک ساہوکار اپنے کسی عزیز کے علاج کے لئے آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع ہوئی.آپ نے فوراً اس کے لئے نہایت اعلیٰ پیمانہ پر قیام و طعام کا انتظام فرمایا اور نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ ان کی بیماری کے متعلق دریافت کرتے رہے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ امسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر تاکید فرمائی.اسی سلسلہ میں آپ نے یہ بھی ذکر کیا کہ سکھوں کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں کو ایک مرتبہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ حصّہ اوّل بیگو وال جانا پڑا تھا.اس گاؤں کے ہم پر حقوق ہیں.اس کے بعد بھی اگر کوئی وہاں آجا تا تو آپ ان کے ساتھ خصوصاً بہت محبت کا برتا ؤ فرماتے.ایک دفعہ مولوی عبدالحکیم جو نصیر آبادی کہلاتا تھا قادیان میں آیا.یہ بہت مخالف تھا اور وہی مولوی تھا جس نے لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے۱۸۹۲ء میں مباحثہ کیا تھا اور اس مباحثہ کے کاغذات لے کر چلا گیا تھا ، وہ قادیان میں آیا.حضرت کو اطلاع ہوئی.حضرت نواب صاحب نے اپنا مکان قادیان میں بنوا لیا تھا اور وہ اس وقت کچا تھا اس کے ایک عمدہ کمرہ میں اس کو اتارا گیا اور ہر طرح اس کی خاطر تواضع کے لئے آپ نے حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ کوئی شخص اس سے کوئی ایسی بات نہ کرے جو اس کی دشکنی کا موجب ہو.وہ چونکہ مخالف ہے اگر کوئی ایسی بات بھی کرے جو رنج دہ اور دل آزاری کی ہو تو صبر کیا جاوے.چنانچہ وہ رہا.میں اس مباحثہ میں جو لاہور فروری ۱۸۹۲ء میں ہوا تھا موجود تھا اور مجھے معلوم تھا کہ اس مباحثہ کے کاغذات وہ لے گیا تھا اور واپس نہ کئے تھے.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ جناب مجھے آپ کی بڑی تلاش تھی آپ کے پاس وہ مباحثہ کے پرچے ہیں.مہربانی کر کے مجھے دے دیں.آپ کے کام کے نہیں اور اگر اپنا پر چہ نہ بھی دیں تو حرج نہیں مگر حضرت اقدس والے پرچے ضرور دے دیں.مولوی عبدالحکیم صاحب کو خیال تھا کہ شاید اسے کوئی اور نہیں جانتا اور حضرت صاحب نے تو اس مباحثہ کا ذکر بھی نہیں فرمانا تھا تا کہ اسے ندامت نہ ہو.بلکہ اخلاق و مروت کا اعلیٰ برتا ؤ فرماتے رہے.مولوی صاحب بڑے جوش سے آئے تھے کہ میں مباحثہ کروں گا اور وہ اپنے مکان پر مخالفت کرتے تھے اور بڑے جوش سے کرتے تھے.ہم ان کی مخالفت کو سنتے اور جیسا کہ حکم تھا نہایت ادب اور محبت سے ان کی تواضع کرتے رہے آخر جب ان سے میں نے مباحثہ لاہور کے پرچے مانگے تو اس کے بعد وہ بہت جلد تشریف لے گئے اور وعدہ کر گئے کہ جاتے ہی بھیج دوں گا.ان کے ساتھ ہی وہ مباحثہ کے کاغذات ختم ہوئے باوجود یکہ وہ مخالفت پر اتر آیا تھا اور مخالفت کرتا رہا مگر حضرت اقدس نے اس لئے کہ وہ مہمان تھا اس کے اکرام اور تواضع کے لئے ہم سب کو حکم دیا اور سب نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ اس کی تعمیل کی.اس نے مادہ وغیرہ تو کوئی نہ کیا اور چپکے سے چل دیا.بغدادی مولوی کا واقعہ حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی کوئی دعوی نہ کیا تھا.آپ مجاہدات کر رہے تھے اور عام آدمیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے.ایک مولوی آیا جو بغدادی مولوی کے نام سے مشہور تھا.خصوصیت سے وہ وہابیوں کا بہت دشمن تھا اور جہاں جاتا تھا ان کی بہت مخالفت کرتا وہ قادیان میں بھی آیا تھا باوجود یکہ وہ بہت گالیاں دیتا تھا حضرت اقدس نے اس کی بہت خدمت و تواضع کی اور اکرام مہمان کے شعار کو ہاتھ سے نہ دیا.وہ اپنے وعظ میں وہابیوں کو گالیاں دیتا رہا.بعد میں لوگوں نے کہا کہ جس کے گھر میں تم ٹھہرے ہوئے ہو وہ بھی تو وہابی ہے پھر وہ چپ ہی ہو گیا.حضرت اقدس نے اس واقعہ کو خود بیان کیا ہے مگر اس کا نام نہیں لیا.احسان کے متعلق تقریر کرتے ہوئے فرمایا ایک عرب ہمارے ہاں آیا وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتا تو گالیوں پر اتر آتا.اس نے یہاں آ کر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اور وہابیوں کو بُرا بھلا کہنے لگا.ہم نے اس کی کچھ پرواہ نہ کر کے اس کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اس کو کہا کہ جس کے گھر تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے.اس پر وہ خاموش ہو گیا اور اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ 66 تھا کیونکہ میں قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں.“ ڈاکٹر پینل کا واقعہ ( بدر مورخہ ۴ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ے کالم نمبرا.زیر عنوان کمیاب ڈائری) بنوں کے ایک میڈیکل مشنری ڈاکٹر پینل تھے.یہ شخص بڑا دولت مند اور آنریری طور پر کام کرتا تھا.بنوں اور اس کے نواح میں اس نے اپنا دجل پھیلایا.ایک مرتبہ وہ ہندوستان کے سفر پر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۴ حصّہ اوّل بائیسکل پر نکلا اور اس نے اپنے ساتھ کچھ نہیں لیا تھا.ایک مسلمان لڑکا بھی اس کے ساتھ تھا.وہ قادیان میں آیا اور یہاں ٹھہرا.حضرت اقدس نے باجود یکہ وہ عیسائی اور سلسلہ کا دشمن تھا.اس کی خاطر تواضع اور مہمان داری کے لئے متعلقین لنگر خانہ اور دوسرے احباب کو خاص طور پر تاکید فرمائی اور ہر طرح اس کی خاطر و مدارات ہوئی.اس نے اپنے اخبار تحفہ سرحد بنوں میں غالباً اس کا ذکر بھی کیا تھا.اور آپ کا یہ طریق تھا کہ آپ مہمانوں کے آنے پر لنگر خانہ والوں کو خاص تاکید فرمایا کرتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ ۲۵ دسمبر ۱۹۰۳ء کو جب کہ بہت سے مہمان بیرونجات سے آگئے تھے میاں نجم الدین صاحب مہتم لنگر خانہ کو بلا کر فرمایا کہ: ”دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہواور بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو.سردی کا موسم ہے چائے پلا ؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میرا احسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو“ (اخبار البدر مورخه ۸ / جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳ کالم نمبر۱) اور یہ ایک مرتبہ نہیں ہمیشہ ایسی تاکید کرتے رہتے.بعض وقت یہ بھی فرماتے کہ میں نے تم پر حجت پوری کر دی ہے.اگر تم نے غفلت کی تو اب خدا کے حضور تم جواب دہ ہو گے.ایسا ہی ایک مرتبہ ۲۲ /اکتوبر ۱۹۰۴ء کو فرمایا دلنگر خانہ کے مہتم کو تاکید کردی جاوے کہ وہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مدنظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اسے خیال نہ رہتا ہو اس لئے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہیے کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو ہمارا یہ حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدنظر رکھیں.بعض وقت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا موعود علیہ السلام ۱۵۵ حصّہ اوّل کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے.میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں اس لئے معذور ہوں.مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائم مقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں.“ (اخبار الحکم مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ کالم ۳ صفحه۲ کالم نمبر )
على الصلوة والسلام حضرت مسیح موعود کے شمال اخلاق کا تذکرہ تاریخ اشاعت دوسرا حصہ اپریل ۶۱ انا یا انسانی ترتیب اور آفتاب برقی پریس مریم با تمام محمد عب الا من ساس سنٹر چھپوا کر تر این سال قادیانی شایع کیا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ عرض حال سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حصہ شمائل واخلاق کی پہلی جلد مئی ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی تھی اور دوسرا حصہ اس سلسلہ میں قریبا ایک سال بعد شائع ہورہا ہے.اس توقف اور تعویق کی وجہ میرا سفر یورپ بھی ہو گیا جس کی عزت وسعادت حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کرم و نوازش کے طفیل مجھے حاصل ہوئی.وہاں سے واپس آنے کے بعد سیرت کی کا پیاں مطبع میں بھیج دی گئیں مگر حالات ایسے پیدا ہوئے کہ اب تک وہ وہاں نہ چھپ سکیں.خدا کا شکر ہے کہ اب میں اس کو شائع کرنے کے قابل وہ ہو سکا.مجھے یہ افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ اس کی اشاعت بہت ہی محدود ہے، احباب توجہ کریں تو اس کے جلد جلد شائع ہونے کی امید ہو سکتی ہے.بہر حال افتان و خیزاں جیسا مجھ سے ہو سکے گا اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے ماتحت اپنے سید و مولی کے سوانح وسیرت کو شائع کرتا رہوں گا کہ ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے خاکسار عرفانی تراب منزل قادیان ۴ را پریل ۱۹۲۵ء
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ عیادت و تعزیت انسان پر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جبکہ وہ کسی نہ کسی قانون صحت کی خلاف ورزی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے اس وقت اس کی حالت عجیب ہوتی ہے.بیماری انسان کو اپنی کمزوری اور بے بسی کا یقین دلا دیتی ہے اور موت کو اُس کے سامنے لاکھڑا کر دیتی ہے.اس وقت جبکہ وہ طاقتوں اور اختیارات کو جاتے دیکھتا ہے تو انسانی ہمدردی اور دلجوئی کا از بس محتاج ہوتا ہے.اور اس کی حالت حقیقت میں اس بچہ سے کم نہیں ہوتی جس کی زندگی کی ہر ضرورت دوسروں کے سہارے اور آسرے پر ہوتی ہے.بلکہ اس سے کسی قدر بدتر ہوتی ہے کہ اسے اپنی بے بسی کے شعور کے ساتھ ایک کرب اور تکلیف بھی ہوتی ہے.بیماری جہاں خود بیمار کے اخلاق اور ایمان کے لئے ایک معیار ہوتی ہے اسی طرح دوسرے لوگوں کے اخلاق اور ہمدردی عامہ کے پر کھنے کا بھی ایک ذریعہ ہے.بیماروں کی عیادت کرنا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.اس خلق کا تعلق مواسات عامہ سے ہے.انسان اپنے رشتہ داروں ، عزیزوں ، بزرگوں یا ان لوگوں کی عیادت کرنے یا بیماری میں ان کی ممکن خدمت کرنے سے مضایقہ نہیں کرتا جہاں کسی نہ کسی نفع ذاتی کی امید ہو یا یہ عیادت و تیمارداری کبھی خوشامد کے رنگ میں ہوتی ہے اور کبھی بعض اور اغراض ذاتیہ کے ماتحت.لیکن محض خدا کی رضا کے لئے بیماروں کی بیمار پرسی یا اُن کے علاج میں سعی کرنا محض ان لوگوں کا کام ہے جن کے قلوب کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہو اور اس کا صحیح اندازہ اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ عیادت کرنے والے اور مریض کے تعلقات اور مراتب کا پتہ لگ جاوے مثلاً اگر ایک آقا اپنے غلام کی عیادت کے لئے جا رہا ہے تو صاف معلوم ہوگا کہ اس کو جو چیز لے جارہی ہے وہ محض خدا کی مخلوق سے ہمدردی ہے.تب ہی تو وہ نمائش اور تکلف کے مقام سے اُتر کر اس کی طرف قدم بڑھا رہا ہے اور اگر کوئی چھوٹے درجہ کا آدمی کسی بڑے آدمی کی عیادت کے لئے جا رہا ہے تو یہ ناممکن نہیں کہ وہ محض اخلاص اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کے خیال سے نہ جار رہا ہو لیکن اس کا یہ فعل مختلف قسم کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام شکوک کا محل ضرور ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے اس خلق کا مشاہدہ بھی ایسا مؤثر اور دلگداز ہے کہ انسان کو حیران کئے بغیر نہیں رہتا.خود ان مریضوں نے جن کی عیادت و ہمدردی کے لئے آپ نے قدم اٹھایا اس کا احساس کیا اور شکر گزاری کی روح ان کے اندر سے بول اٹھی ہے.حضرت مسیح موعود رقیق القلب تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام با وجود اس قوت اور شجاعت اور اطمینان کے جو آپ کے قلب میں پایا جا تا تھا رقیق القلب بھی بہت تھے اور بعض اوقات اپنے خدام اور دوستوں کی تکلیف کو دیکھ نہ سکتے تھے.یہ رقیق القلبی کسی کمزوری کا نتیجہ ہ تھی بلکہ انتہائی ہمدردی اور محبت کا ثمر تھی جو وہ اپنے خدام سے رکھتے تھے.مصائب اور مشکلات میں آپ ایک کوہ وقار تھے جیسا کے اس کا ذکر الگ باب میں ہو گا.لیکن جہاں آپ کی ہمدردی اور جوش خیر خواہی زور پر ہوتا تھا وہاں وہ کسی کے دکھ کو دیکھ نہ سکتے تھے.آپ کی اس فطرت کا اظہار حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ کی بیماری میں پورے کمال سے دیکھا گیا اور اس کا ذکر بھی میں اسی باب میں دوسری جگہ انشاء اللہ العزیز کرنے والا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام باوجود رقیق القلب ہونے کے پھر بھی عیادت کو تشریف لے جاتے تھے اور اس عیادت میں دوست ، دشمن ، مومن ، کافر کی تخصیص نہ تھی اور یہی کیفیت حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی میں نظر آتی تھی.اب میں واقعات اور حالات کو بیان کر کے بتاؤں گا کہ آپ کی عیادت میں یہ امتیاز اور تفرقہ نہ تھا اور صرف اسی ایک خلق میں نہیں بلکہ آپ تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ اللهِ پر عمل کر کے ربوبیت عامہ کے ان فیوض اور فیضانوں کا پر تو ڈالتے تھے جو انسان ربوبیت کی چادر کے نیچے آکر ڈال سکتا ہے اور سب سے زیادہ اس سے رنگین وہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح حق کے لئے مامور ہو کر آتے ہیں.بہر حال آپ اس خلق کے اظہار میں کبھی کسی قسم کا تفرقہ اور امتیاز نہ کرتے تھے.بلکہ آپ کا یہ فیضان عام نہیں بلکہ اعم تھا جیسا کہ واقعات بتائیں گے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۱ لالہ شرمپت رائے کی عیادت لالہ شرم پت رائے کا ذکر اس سیرت وسواخ میں بار بار آتا ہے اور آئے گا.وہ قادیان کے رہنے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپ کی بعثت کے ایام سے بھی پہلے آیا کرتے تھے اور آپ کے بہت سے نشانات کے وہ گواہ تھے اور باوجود بار بار کے مطالبوں کے کبھی انہوں نے مؤکد بہ عذاب حلف کر کے انکار نہ کیا.ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے مجھے اس وقت قادیان ہجرت کر کے آجانے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی ان کے شکم پر ایک پھوڑا ہوا اور اس دنبل نے نہایت خطرناک شکل اختیار کی.حضرت اقدس کو اطلاع ہوئی.آپ خود لالہ شرمیت رائے کے مکان پر جو نہایت تنگ و تار تھا تشریف لے گئے آپ کے ساتھ اکثر دوست تھے اور راقم الحروف بھی تھا.لالہ شرمپت رائے صاحب کو آپ نے جا کر دیکھا وہ نہایت گھبرائے ہوئے تھے.ان کو اپنی موت کا یقین ہو رہا تھا.بے قراری سے ایسی باتیں کر رہے تھے جیسا کہ ایک پریشان انسان ہو.حضرت صاحب نے اس کو بہت تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں میں ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو مقرر کر دیتا ہوں وہ اچھی طرح علاج کریں گے.اس وقت قادیان میں ڈاکٹر صاحب ہی ڈاکٹری کے لحاظ سے اکیلے اور بڑے ڈاکٹر تھے.چنانچہ دوسرے دن حضرت اقدس ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے گئے اور ان کو خصوصیت کے ساتھ لالہ شرمیت رائے کے علاج پر مامور کر دیا اور اس علاج کا کوئی بار لالہ صاحب پر نہیں ڈالا گیا.آپ روزانہ بلا ناغہ ان کی عیادت کو جاتے اور جب زخم مندمل ہونے لگا اور ان کی وہ نازک حالت عمدہ حالت میں تبدیل ہوگئی تو آپ نے وقفہ سے جانا شروع کر دیا مگر اس کی عیادت کے سلسلہ کو اس وقت تک جاری رکھا جب تک کہ وہ بالکل اچھا ہو گیا.آپ کی عادت تھی کہ جب آپ تشریف لے جاتے تو ہنستے ہوئے اس کے گھر میں داخل ہوتے.یعنی جیسی متبسم صورت تھی.اس ہنسی اور کشادہ پیشانی کا ایک اثر ساتھ والوں اور مریض پر پڑتا اور اس کو بہت کچھ تسلی دیتے اور فرماتے فکر نہ کرو میں دعا کرتا ہوں تم اچھے ہو جاؤ گے.اورخود لالہ شرمپت رائے کی بھی یہ حالت تھی کہ وہ ہمیشہ جب حضرت صاحب تشریف لے جاتے تو کہتا تھا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا کہ میرے لئے دعا کرو.لالہ ملا وامل صاحب کورمیگن کا درد ہو گیا لالہ ملاوامل صاحب کا ذکر بھی اس سیرت میں متعدد مرتبہ آتا ہے اور آئے گا مجھے ان کی معرفی کی زیادہ ضرورت نہیں جب ان کی عمر بائیس سال کی تھی وہ بعارضہ عرق النساء ( ر بینگن کا درد ) بیمار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ صبح و شام ان کی خبر ایک خادم جمال کے ذریعہ منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جا کر عیادت کرتے.صاف ظاہر ہے کہ لالہ ملا وامل صاحب ایک غیر قوم اور غیر مذہب کے آدمی تھے لیکن چونکہ وہ حضرت اقدس کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کو ایک تعلق مصاحبت کا تھا.آپ کو انسانی ہمدردی اور رفاقت کا اتنا خیال تھا کہ ان کی بیماری میں خود ان کے مکان پر جا کر عیادت کرتے اور خود علاج بھی کرتے تھے.ایک دن لالہ ملا وال صاحب بیان کرتے ہیں کہ چار ماشہ صبران کو کھانے کے لئے دے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات بھر میں انیس مرتبہ لالہ صاحب کو اجابت ہوئی اور آخر میں خون آنے لگ گیا اور ضعف بہت ہو گیا.علی الصباح معمول کے موافق حضرت کا خادم دریافت حال کے لئے آیا تو انہوں نے اپنی رات کی حقیقت کہی اور کہا کہ وہ خود تشریف لاویں.حضرت اقدس فورا ان کے مکان پر چلے گئے اور لالہ ملا وامل صاحب کی حالت کو دیکھ کر تکلیف ہوئی فرمایا کچھ مقدار زیادہ ہی تھی مگر فوراً آپ نے اسبغول کا لعاب نکلوا کر لالہ ملا وامل صاحب کو دیا جس سے وہ سوزش اور خون کا آنا بھی بند ہو گیا اور ان کے در دکو بھی آرام آگیا.حضرت صاحب کی پوزیشن کے لحاظ دیکھا جاوے تو وہ اپنے شہر کے ایک رئیس اعظم اور مالک تھے اور اس خاندانی وجاہت کے لحاظ سے اس طرح پر کسی کے گھر نہیں آتے جاتے تھے مگر انسانی ہمدردی اور غمگساری نے کبھی آپ کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا کیونکہ وہ دوسروں کو آرام پہنچانے اور نفع رسانی کے لئے ہی پیدا ہوئے تھے اس لئے مرضی کی عیادت میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز اپنے پرائے کا نہ کرتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۳ ایک غیر احمدی کی عیادت میں ایفائے عہد کی شان بھی جلوہ نما ہے اگست ۱۹۰۲ء میں ایک قریشی صاحب بہار ہو کر دار الامان میں حضرت حکیم الامت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ سے علاج کرانے کے لئے آئے.انہوں نے متعدد مرتبہ حضرت کے حضور دعا کے لئے عرض کی.حضور نے دعا کا وعدہ فرمایا.۱۰ / اگست ۱۹۰۲ء کی شام کو اس نے حضرت اقدس کی خدمت میں بتوسط حضرت حکیم الامت عرض کیا کہ میں آپ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں کے متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا.آپ نے خود اس کے مکان پر ۱۱ راگست ۱۹۰۲ء کو جانے کا وعدہ فرمایا.چنانچہ جب حسب معمول سیر کو نکلے تو خدام کے حلقہ میں وہ اس کے مکان پر پہنچے تا کہ عیادت بھی ہو جاوے اور جو وعدہ خود آنے کا کیا تھا وہ بھی پورا ہو جائے.قریشی صاحب اس وقت اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں آج کل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نشست گاہ سے اندر جانے کی ڈیوڑھی ہے.یہ مکان جیون سنگھ جھیو رکا کہلا تا تھا.جس کو خاکسار عرفانی نے خدا کے فضل سے خرید کر ہبہ کرنے کی توفیق پائی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذالك - حضرت اقدس اس مریض کے پاس تشریف لے گئے اور بطور عیادت استفسار مرض و دیگر حالات کرتے رہے اور آخر میں آپ نے اس کو مناسب طور پر تبلیغ فرمائی.جوان ہی ایام میں الحکم میں طبع ہو گئی تھی جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ یہ واقعہ حضرت کے ایفائے عہد کی شان کو بھی لئے ہوئے ہے.میر حامد کی عیادت مهر حامد قادیان کے ارائیوں میں پہلا آدمی تھا جو حضرت مسیح موعود کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا اور اب تک اس کا خاندان خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہے.مہر حامد علی نہایت غریب مزاج تھا اس کا مکان فصیل قادیان سے باہر اس جگہ واقع تھا جہاں گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور روڑیاں جمع ہوتی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ ہیں.سخت بدبو اور تعفن ہوتا تھا اور زمین دار آدمی تھے خود اس کے مکان میں بھی صفائی کا التزام نہ تھا.مویشیوں کا گوبر اور دوسری چیزیں اسی قسم کی پڑی رہتی تھیں اور سب جانتے ہیں کہ زمیندار کی یہ قیمتی متاع ہوتی ہے جس کو وہ کھاد کے طور پر استعمال کرتا ہے.بہر حال اسی جگہ وہ رہتا تھا وہ بیمار ہوا اور وہی بیماری اس کی موت کا موجب ہوئی.حضرت اقدس متعدد مرتبہ اپنی جماعت مقیم قادیان کو لے کر اس کی عیادت کو تشریف لے گئے جب عیادت کو جاتے تو قدرتی طور پر بعض لوگوں کو اس تعفن اور بد بو سے سخت تکلیف ہوتی اور حضرت مسیح موعود بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے اور بہت کرتے اس لئے کہ فطرتی طور پر یہ وجو د نظافت اور نفاست پسند واقع ہوا تھا مگر اشارتاً یا کنایہ نہ تو اس کا اظہار کیا اور نہ اس تکلیف نے آپ کو اس عیادت اور خبر گیری کے لئے تشریف لے جانے سے کبھی روکا.آپ جب جاتے تو اس سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے اور اس کی مرض اور اس کی تکلیف وغیرہ کے متعلق بہت دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے.مناسب موقعہ ادویات بھی بتاتے اور توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے تھے.وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ایک معمولی زمیندار تھا اور یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ کے زمین داروں میں ہونے کی وجہ سے وہ گویا رعایا کا ایک فرد تھا.مگر آپ نے کبھی تفاخر اور تفوق کو پسند نہ فرمایا.اس کے پاس جب جاتے تھے تو اپنا ایک عزیز بھائی سمجھ کر جاتے تھے اور اس طرح پر اس سے باتیں کرتے اور اس کی مرض اور اس کے علاج کے متعلق اس قدر دلچسپی لیتے کہ دیکھنے والے صاف طور پر کہتے تھے کہ کوئی عزیزوں کی خبر گیری بھی اس طرح نہیں کرتا.بعض ادوایات جن کی ضرورت ہوتی اور کسی جگہ سے میسر نہ ہوتیں تو خود دے دیتے.غرض آپ نے متعدد مرتبہ مہر حامد مرحوم کی عیادت فرمائی.اگر چہ مہر صاحب فوت ہو گئے مگر ان کو جو تسلی اور اطمینان اور خوشی اس امر کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) اس کی عیادت کو آتے اور خبر گیری فرماتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے.بعض وقت میں دیکھتا تھا کہ سرور سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.وہ اپنے گھر کو ، اپنی حیثیت کو دیکھتا اور حضرت مسیح موعود کودیکھتا کہ آپ اپنی جماعت کو لے کر اس کی عیادت کے لئے آ رہے ہیں اور اس کو الگ اور اس کی بیوی بچوں کو جو وہاں موجود
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۶۵ ہوتے نہایت ہی پیارے الفاظ میں تسلی اور اطمینان دلاتے اور رو بخدا رہنے کی وصیت فرماتے رہتے.خدا تعالیٰ کی تقدیر مبرم اور اجل مقدر تھی.مہر حامد فوت ہو گیا آپ نے خود اس کا جنازہ پڑھا اور اس کے اخلاص اور وفا دارانہ تعلق کا ذکر کرتے رہے.اس کا خاندان احمدی تھا اس کے بڑے بیٹے میاں مہرالدین مرحوم کے ساتھ اسی محبت اور پیار سے پیش آتے جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے سے.غرض آپ نے مہر حامد کی عیادت کے لئے جانے سے نہ تو اپنی حیثیت اور رتبہ کا کبھی خیال کیا اور نہ اس بات نے آپ کو کبھی روکا کہ اس کا مکان ایسی جگہ اور ایسی حالت میں ہے کہ وہاں تعفن اور بد بو سے دماغ پھٹا پڑتا ہے اور نہ کسی اور چیز نے.آپ بڑی ہی بشاشت کے ساتھ جاتے اور عیادت فرماتے تھے.مولوی محمد دین صاحب کی علالت کا واقعہ مولوی محمد دین صاحب بی اے ( علیگ) احمدی مبلغ امریکہ کے نام سے سب آگاہ ہیں مولوی صاحب نے ایک عرصہ تک رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کی اور سالہا سال تک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر اور بعد میں مینیجر رہے.وہ قادیان میں انٹرنس پاس کر کے آئے تھے اور پھر قادیان ہی کی تربیت میں انہوں نے بی.اے کی ڈگری علی گڑھ کالج سے حاصل کی.قادیان میں اُن کو بیماری ہی لائی تھی اور صرف بیماری ہی جو جسمانی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ سے دور ہوئی بلکہ آپ کے اخلاق کریمانہ اور توجہ باطنی نے انہیں پھر یہاں ہی کا کر دیا اور وہ واپس نہ جا سکے.جب وہ اولاً آئے تھے تو ان کو ایک ناسور تھا جس کے علاج سے وہ تھک چکے تھے.قادیان میں رہتے ہوئے ان کو ایک مرتبہ طاعون ہو گیا.حضرت اقدس نے ان کی تیمارداری کا ایسا انتظام فرمایا کہ حقیقت میں وہ انتظام مولوی صاحب کے والدین اور اعزا بھی نہ کر سکتے.آپ نے ان کے لئے ایک خیمہ کھلی ہوا میں بطور سیگر یکیشن کیمپ کے لگوا دیا اور برادرم شیخ عبد الرحیم صاحب نو مسلم کو خصوصیت کے ساتھ ان کی تیمارداری کے لئے مقررفرمایا جنہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل واطاعت کا وہ نمونہ دکھایا کہ باوجود یکہ طاعونی حملے کی اس شدت میں رشتہ دار اور والدین تک طاعونی مریضوں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سے بھاگنے لگے تھے اپنے ایک بھائی کی عیادت و خبر گیری میں وہ کمال ایثار وقربانی کا دکھایا کہ جسے تک کوئی پاک روح کسی کے قلب کو ہر قسم کے خطرات ووساوس سے پاک نہ کر دے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی.حضرت اقدس روزانہ دو تین مرتبہ خاص طور پر مولوی محمد دین صاحب کی خبر منگواتے اور اپنے ہاتھ سے دوائی تیار کر کے بھیجتے.یہ تو اسباب کے ماتحت آپ کی عملی زندگی تھی.اس کے ساتھ آپ نے ان کے لئے جو دعائیں کی ہوں گی ان کا اندازہ مشکل سے ہوسکتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب اس حملہ میں محفوظ رہے اور خدا تعالیٰ نے اُن کو سلسلہ کا ایک مفید و مخلص خادم بنایا.یہ اخلاقی اعجاز انہوں نے اور پاس والوں نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور دیکھنے والوں کو اب تک یاد ہے مولوی صاحب نے خود اپنے واقعہ کو نہایت مختصر الفاظ میں لکھا ہے اور یہ ذاتی شہادت ہے جو بہت ہی موثر اور موقر ہوتی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں.۱۹۰۱ء میں میں سخت بیمار ہو گیا قریباً ایک سال سے زائد عرصہ تک ڈاکٹروں اور حکیموں کا علاج کرانا پڑا لیکن مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا.ان دنوں میں حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کر رہا تھا.مجھے میرے مکرم و معظم و حسن بزرگ منشی تاج الدین صاحب مرحوم پنشنرا کا ؤنٹنٹ نے قادیان آنے کا مشورہ دیا.مجھے سٹیشن پر آ کر گاڑی میں خود سوار کر کے گئے.میں قادیان پہنچا اور پہلے پہل میں نے حضرت مسیح موعود کو جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا میری طبیعت نے فیصلہ کر لیا کہ یہ منہ تو جھوٹے کا نہیں ہو سکتا.بعد میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی بیماری کا حال سنایا.آپ نے میرا ناسور دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا اس کا رخ دل کی طرف ہو گیا ہے.مجھے فرمایا کہ اس کے لئے دوا کی نسبت دعا کی ضرورت زیادہ ہے.مجھے بتلایا کہ مسجد مبارک میں ایک خاص جگہ بیٹھنا میں خود تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاؤں گا اور تمہارے متعلق دعا کے لئے عرض کروں گا.میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا السلام ۱۶۷ اس دریچہ کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لایا کرتے تھے حضرت مولوی صاحب بڑھے اور مجھے پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا.میرے مرض کے متعلق صرف اتنا کہا کہ بہت خطرناک ہے میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود کا چہرہ ہمدردی سے بھرا ہوا تھا.مجھ سے حضور نے دریافت کیا کہ یہ تکلیف آپ کو کب سے ہے.میں تیرہ ماہ سے اس دکھ میں مبتلا تھا.لوگ آرام کی نیند سویا کرتے تھے لیکن مجھے درد چین نہیں لینے دیتی تھی اس لئے میں اپنے مکان کے بالا خانہ میں ٹہلا کرتا تھا اور میرے اردگردسونے والے خواب راحت میں پڑے ہوتے تھے.میں نے مہینوں راتیں رو کر اور ٹہل کر کاٹی ہوئی تھیں.حضرت کے ان ہمدردانہ و محبت انگیز کلمات نے چشم پر آب کر دیا.شکل تو دیکھ چکا تھا.اتنے بڑے انسان کا مجھ ناچیز کو آپ کے لفظ محبت آمیز و کمال ہمدردانہ لہجہ میں مخاطب کرنا ایک بجلی کا اثر رکھتا تھا.میں اپنی بساط کو جانتا تھا میری حالت یہ تھی.محض ایک لڑکا میلے اور پرانے دریده وضع کپڑے، چھوٹے درجہ و چھوٹی قوم کا آدمی میرے منہ سے لفظ نہ نکلا سوائے اس کے کہ آنسو جاری ہو گئے.حضرت نے یہ حالت دیکھ کر سوال نہ دہرایا مجھے کہا کہ میں تمہارے لئے دعا کروں گا فکر مت کرو.انشاء اللہ اچھے ہو جاؤ گے“.مجھے اس وقت اطمینان ہو گیا کہ اب اچھا ہو جاؤں گا.پھر میں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں آیا تو صرف آپ نے ذرہ بھر خوراک جدوار کی میرے لئے تجویز فرمائی اور اتنی مقدار مجھے کہا کہ پتھر پر گھس کر اس ناسور پر لگا دیا کروں تھوڑے ہی عرصہ میں مجھے افاقہ ہو گیا اور ایک مہینہ میں میں اچھا ہو گیا.یہ پہلا واقعہ ہے کہ مجھے حضرت سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میری خوش قسمتی مجھے بیمار کر کے قادیان میں لے آئی.چنانچہ میں نے وطن کو خیر باد کہہ کر قادیان کی رہائش اختیار کر لی.اس کے بعد میری شامت اعمال مجھ پر پھر سوار ہوئی حضرت نے لکھا کہ جو شخص سچے دل اور پورے اخلاص کے ساتھ تقویٰ کی
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ راہ پر قدم مارتا ہے اور آپ کا سچا مرید ہے اس کو طاعون نہ چھوئے گی.لیکن میں ہی نابکار نکلا جو احمد یوں میں سے طاعون میں مبتلا ہوا حالانکہ ہندوؤں اور غیر احمدیوں میں سے بچیں چھپیں آدمی روز مرے.لیکن باوجود اس امر کے کہ میرا وجود بد نام کنندہ نکو نامے چند تھا تا ہم حضرت کی خدمت میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ اس کا باپ بھی اس کو لینے آیا تھا لیکن اس نے قادیان چھوڑ نا پسند نہیں کیا.حضرت نے باوجود اس سخت کمزوری کے میرے لئے دعا کی اور دوا بھی خود ہی تجویز فرمائی چنانچہ مجھے معلوم ہوا کہ حضور خود کمال مہربانی سے اپنے ہاتھوں روزانہ دوائی تیار کر کے بھیجتے ہیں اور دو تین وقت روزانہ میری خبر منگواتے ، یہ کمال شفقت ایک گمنام شخص کے لئے جو نہ دنیوی اور دینی لیاقت رکھتا نہ کوئی دینی یا دنیوی وجاہت ایک ادنی اور ذلیل خادموں میں سے تھا.میرا ایمان ہے کہ میں آپ کی دعاؤں سے ہی بچ گیا ورنہ جن دنوں میں بیمار ہوا طاعونی مادہ ایسا زہریلا تھا کہ شاذ ہی لوگ بچتے تھے.میرے لئے یہ اخلاق کریمانہ قولی اور فعلی ایسے تھے کہ نقش کا لحجر.مجھے یہ محبت و شفقت اپنے گھر میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی تھی اس لئے میں تو گرویدہ حسن واحسان ہو گیا.اب میری یہی دعا ہے کہ میرا انجام بخیر ہو جائے.میں اپنے اس محسن و محبوب سے مر کر بھی جدا نہ ہوں.آمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِين“ میرا ذاتی واقعہ آغاز ۱۸۹۸ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تو فیق دی کہ میں ہجرت کر کے قادیان آ گیا اور دنیا کی بہتری کی آئندہ امیدوں کو جو ملازمت کے سلسلہ سے وابستہ تھیں خدا کی رضا کے لئے میں نے چھوڑ دیا.الحکم ( جو امرتسر میں جاری کیا گیا تھا اور جس کا مستقل ہیڈ کوارٹر لاہور تجویز کیا گیا تھا ) قادیان میں منتقل کر لیا.اس سال کے آخر میں حضرت مسیح موعود نے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو ایک اشتہار مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے دو ہمراز رفیقوں زیتی اور تبتی کے متعلق شائع کیا.مولوی محمد حسین نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۶۹ خوفزدہ ہو کر آغاز دسمبر ۱۸۹۸ء میں اسلحہ خود حفاظتی کے لئے ایک درخواست دی اور بٹالہ کے سب انسپکٹر نے (جوان ایام میں سخت مخالف تھا اور خدا کے عظیم الشان نشانات میں سے یہ امر ہے کہ اس کا خاندان اب ایک نہایت ہی مخلص احمدی خاندان ہے جو سلسلہ کے لئے ہر ایک قربانی میں اپنی سعادت سمجھتا ہے اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ.اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آخر میں سب انسپکٹر موصوف نے ایک زبر دست نشان دیکھ کر مخالفت سے توبہ کر لی تھی.عرفانی ) ان حالات میں زیر دفعہ ۱۰۷ حفظ امن کی ضمانت کے لئے رپورٹ کی تھی اور اس طرح پر مولوی محمد حسین والا مقدمہ شروع ہو گیا.اس کی ایک تاریخ پیشی پر حضرت اقدس کو پٹھان کوٹ جانا پڑا مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل تھا.رات کو میں یکا یک سخت بیمار ہو گیا.درد معدہ کا حملہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی پیشاب پاخانہ بھی بند ہو گیا.میں جس کمرہ میں سویا ہوا تھا اس میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم تھے.میں اُن کی نزاکت طبع سے واقف تھا.ان کے آرام کا خیال کر کے میں ہائے تک منہ سے نہ نکال سکتا تھا اور درد ہر آن بڑھتا جاتا تھا.آخر میں نہایت تنگ ہو کر دوسرے کمرے میں جو اس کے ساتھ ہی تھا جہاں حضرت حکیم الامت سوئے پڑے تھے آیا اور ان کے پہلو میں اس نیت سے لیٹ گیا کہ وہ کروٹ بدلیں تو عرض کروں.چنانچہ انہوں نے کروٹ بدلا تو میں نے کہا ہائے میری یہ آواز حضرت کے کان میں بھی پہنچی جو اس کے ساتھ ہی کمرے میں استراحت فرما تھے.قبل اس کے کہ مولوی صاحب اٹھتے حضرت اقدس فوراً اٹھ کر تشریف لے آئے اور پوچھا میاں یعقوب علی کیا ہوا ؟ ان الفاظ میں محبت اور ہمدردی کا ایک ایسا نشہ تھا کہ میں کبھی نہیں بھول سکتا.حضرت کی آواز کے ساتھ ہی حضرت حکیم الامت اور دوسرے احباب اٹھ بیٹھے میں نے اپنی حالت کا اظہار کیا.آپ نے مولوی صاحب کو فرمایا کہ میں دوائی دیتا ہوں چنانچہ آپ چند گولیاں لائے جو صبر کی گولیاں تھیں اور مجھ کو کھلا دی گئیں اور اس کے ساتھ ہی نہایت تسلی اور اطمینان دلایا کہ گھبراؤ نہیں ابھی آرام آجائے گا.میں دعا بھی کرتا ہوں.حضرت کی اس توجہ کو دیکھ کر تمام احباب کو میرے ساتھ کمال ہمدردی پیدا ہوگئی یہاں تک کہ حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا نازک طبیعت اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۰ معذور بزرگ مجھ کو دبانے کے لئے بیٹھ گیا.اب صبح ہو رہی تھی اور تمام قافلہ قادیان کو روانہ ہورہا تھا جوں جوں وقت قریب آتا جاتا میری جان گھٹی جارہی تھی مگر حضرت کو خاص طور پر توجہ تھی.میں نے عرض کیا حضور یا تو مجھے ساتھ لے جائیں یا لاہور پہنچا دیں.میں درد سے اس قدر بے قرار تھا اور میری حالت ایسی نازک معلوم ہوتی تھی کہ گویا موت اپنی طرف کھینچ رہی ہے.آپ میری گھبراہٹ پر بار بار تسلی دیتے اور فرماتے کہ نہیں میں سب انتظام کر کے جاؤں گا اور تم کو آرام آجائے گا اور اگر کہو گے تو میں آج نہیں جاؤں گا.میں آپ کی اس شفقت و عنایت کو دیکھتا اور شرمندہ ہوتا تھا.آخر قرار پایا کہ حکیم فضل دین صاحب اور میاں اللہ دیا جلد ساز لودہانہ کو میرے پاس چھوڑا جاوے اور باقی قافلہ قادیان کو روانہ ہو جائے.روانگی کے وقت تک مجھ کو ایک دوا جابت ہو کر کچھ آرام ہو چلا تھا.آپ نے حکیم صاحب کو خاص طور پر تاکید کی کہ دیکھو کوئی تکلیف نہ ہو اور آپ نے ایک خاص رقم حکیم صاحب کے حوالہ کی تا کہ کوئی دقت نہ ہو اور جب مجھے آرام ہو جائے تو قادیان لے کر آویں چنانچہ دوسری گاڑی کی روانگی تک اگر چہ میں اس قابل تو نہ تھا کہ قادیان کو روانہ ہوسکوں مگر میرے لئے وہاں ٹھہر نا بھی موت سے کم نہ تھا.اس لئے میں حکیم صاحب اور میاں اللہ دیا صاحب کے ہمراہ قادیان کو چلا آیا.قادیان پہنچنے پر مجھے دو دن تک تکلیف اور ضعف رہا.حضرت اقدس برابر دریافت فرماتے رہے اور ہر طرح تستی اور اطمینان دلاتے رہے.واقعہ بالکل صاف اور سادہ ہے مگر جب انسان اس کو اس رنگ میں دیکھے کہ میری کوئی شخصیت اور اثر نہ تھا.میں خادم اور ادنی خادم تھا.میری علالت کا آپ نے اس طرح احساس کیا جس طرح پر اپنے کسی عزیز سے عزیز وجود کا.اور اس کے لئے اپنے آرام اور اپنے مال کی قربانی کو نہایت ہی حقیر سمجھا.یہ بات میری کسی قابلیت کی وجہ سے نہ تھی بلکہ محض ہمدردی کا نتیجہ اور نمونہ تھی جو آپ کو ہر شخص سے تھی.کوئی بھی بیمار ہو اس کے لئے آپ کے دل میں ایسا ہی جوش ہمدردی اور محبت کا تھا اور محض خدا کی مخلوق پر شفقت کے رنگ میں ہوتا تھا اور اس کی ہی رضا کے لئے.چنانچہ ذیل میں ایک واقعہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا 121 میں بیان کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ وہ شخص جو کبھی کسی پر بڑے سے بڑے نقصان پر ناراض نہ ہوتا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ناراض ہونا جانتا ہی نہ تھا وہ اپنے ایک خادم پر محض اس وجہ سے ناراض ہوتا ہے کہ اس نے ایک بیمار کی تیمارداری میں کیوں غفلت کی ؟ چنانچہ ذیل کے واقعہ سے اس کی حقیقت عیاں ہو جائے گی اور اس سے صاف کھل جاتا ہے کہ مخلوق خدا کی غمگساری حالت علالت میں آپ کے دل میں کس قدر تھی.پیرا پہاڑیا کی علالت پر خان صاحب اکبر خان صاحب پر خفگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں میں ایک شخص پیرا پہاڑ یا تھا جو ضلع کانگڑہ کا باشندہ تھا.وہ آپ کی بعثت اور ماموریت سے پہلے قادیان میں آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں بحیثیت ایک خادم کے رہنے لگا.اس کی حالت ایک نیم وحشی کیسی تھی.وہ ہر ایک قسم کے آداب اور انسانیت کے معمولی لوازم سے بھی ناواقف تھا.مگر حضرت اقدس کو کبھی اُس پر ناراض ہونے کا موقع نہ ملا.یہ امر میں کسی دوسرے موقع پر شاید ذکر کروں گا.وہ بیمار ہو گیا اور اسے طاعون ہوا.اس کو حسب دستور سیر یکیشن کیمپ میں پہنچا دیا گیا.حضرت اقدس نے خان صاحب اکبر خان صاحب سنوری کو خصوصیت سے اس کی تیمار داری اور ضروری انتظام متعلق علاج کے لئے مقرر کیا.حضرت اقدس کی خدمت میں ڈاکٹر قاضی محبوب عالم صاحب جے پور سے نہایت اعلیٰ درجہ کا عرق کیوڑہ بھیجا کرتے تھے اور ایک کافی مقدار حضرت کے پاس موجود تھی.یہ عرق نہایت قیمتی ہوتا تھا.آپ نے اس کی بوتلیں خان صاحب کے سپرد کیں اور چند ہدایات دیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس کی گلٹی پر جونکیں لگوادیں، اس کے علاج میں کسی خرچ کا مضائقہ نہ کیا جاوے.بار بار اس کی خیریت کی خبر دریافت کرتے تھے.خان صاحب نے جونکوں والے کو تلاش کیا مگر وہ جو نہیں مہیا نہ کر سکا.اس طرح پر اس کی تعمیل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۷۲ نہ ہوئی.خان صاحب نے خیال کیا کہ دوسرے وقت انتظام ہو جائے گا.مگر نہ ہوا غفلت ہوگئی.پیرا کی موت مقدر تھی اور تقدیر مبرم تھی وہ فوت ہو گیا.حضرت کو جب یہ معلوم ہوا کہ خان صاحب جونکیں نہیں لگوا سکے اور قادیان سے باہر سے جونکیں منگوانے میں انہوں نے غفلت کی ہے تو آپ بہت ناراض ہوئے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا کہ اگر یہاں سے نہ ملی تھیں تو کیوں نہ بٹالہ یا کسی دوسری جگہ سے منگوالی گئیں خواہ کچھ بھی خرچ ہو جاتا.خان صاحب کو حضرت کی اس ناراضگی کا بہت احساس ہوا اور اب تک ہے اور جب اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں.حاجی فضل حسین مہاجر شاہ جہان پوری کی عیادت حاجی فضل حسین صاحب مہاجر شاہ جہان پوری نہایت مخلص مہاجر اور ارادت مند احمدی تھے.بہت صفائی پسند اور زندہ دل طبیعت رکھتے تھے.باوجود پیرانہ سالی کے بھی بالوں کو خوب سنوار کر رکھا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی ان کی اس صفائی اور نظافت کو مسرت آمیز نظر سے دیکھا کرتے تھے.وہ بیمار ہوئے تو مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ ان کی عیادت کے لئے عموماً جایا کرتے تھے بلکہ کچھ عرصہ تک تو معمول ہو گیا کہ ہر روز سیر کو نکلتے وقت مریضوں کی عیادت کو چلے جاتے.حاجی شہاب الدین صاحب اور بابا الہی بخش کی عیادت حاجی شہاب الدین لود بانوی اور بابا الہی بخش صاحب مالیر کوٹلوی جب بیمار ہوئے تو آپ ان کی عیادت کو بھی لازماً جاتے.حاجی شہاب صاحب بہت تیز مزاج تھے.مگر اخلاص مند دل اُن کے پہلو میں تھا.بابا الہی بخش بہت معمر تھا اور مالیر کوٹلہ کا رہنے والا تھا وہ بیمار ہو گیا اور اس حالت میں حب وطن کے جذبہ کی بجھی ہوئی چنگاری اس کے قلب میں سُلگ پڑی اس نے اسے بے قرار کیا اور حضرت مسیح موعود سے ایک روز اُس نے اجازت چاہی آپ نے فرمایا کہ اب تم ضعیف ہو گئے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۳ ہو اور بیمار بھی ہو مت جاؤ زندگی کا اعتبار نہیں.اس نے کہا کہ تو خدا کا رسول ہے تو سچا رسول ہے بے شک تو خدا کا رسول ہے میں تجھ پر ایمان لایا ہوں اور صدق دل سے تجھے خدا کا رسول مانا ہے میں تیری نافرمانی اور حکم عدولی کو کفر سمجھتا ہوں.بار بار یہ کہتا تھا اور دایاں ہاتھ اٹھا کے اور انگلی سے آپ کی طرف اشارہ کر کے بڑے جوش سے کہتا اور آپ اس کی باتوں کو سن کر بار بار ہنستے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے بس اب آرام کرو اور یہیں رہو اور جانے کا نام مت لو.اس کی آنکھوں سے پانی جاری تھا.یہ کہتا ہوا مہمان خانہ کو لوٹا کہ اللہ کے رسول کا فرمانا بسر و چشم منظور ہے.(روایت پیر سراج الحق صاحب ) میاں الہی بخش یہاں ٹھہر گئے اور مہمان خانہ میں رہتے تھے.حضرت صاحب ان کی عیادت کو جاتے رہے اور تھوڑے عرصہ کے بعد وہ فوت ہو گئے اور اب مقبرہ بہشتی میں آرام کرتے ہیں.یہ لوگ جن کا میں نے ذکر کیا ہے دنیوی وجاہت اور مالی حیثیت سے ممتاز نہیں تھے بلکہ غربا کی جماعت میں سے تھے ہاں اپنے اخلاص کے لحاظ سے قابلِ رشک اور واجب الاحترام تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی عیادت کے لئے جاتے تھے اس لئے کہ آپ کی نظر مادی امتیازات پر کبھی نہ پڑتی تھی بلکہ اس معاملہ میں جو چیز آپ کے مد نظر تھی وہ عام انسانی ہمدردی تھی اور جس چیز کو آپ پسند کرتے تھے وہ وہی تھی جو خدا کی نگاہ میں پسندیدہ تھی.عیادت مرضی کے لئے حضرت نے کبھی امتیاز کو جائز ہی نہیں رکھا بلکہ غرباء کی عیادت کے لئے عموماً آپ جاتے تھے اور اخلاص فی الدین ہی ایک چیز تھی جو آپ کی توجہ اور نظر شفقت کو خصوصیت سے کھینچ سکتی تھی.میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے لو د ہا نہ جانا عیادت کے لئے بعض اوقات آپ نے سفر بھی کئے ہیں.لودہا نہ میں ایک میر عباس علی صاحب صوفی تھے.ابتدا میں حضرت اقدس کے ساتھ بڑی محبت اور اخلاص تھا.اور براہین احمدیہ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کو یہ ارادت پیدا ہوئی یہاں تک کہ براہین احمدیہ کی پہلی جلد کو دیکھ کر اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ شخص نے کہا تھا کہ اس سے نبوت کی بُو آتی ہے اور دعویٰ مسیحائی تک اس نے اپنے اخلاص کا بہترین نمونہ دکھایا.مگر کسی مخفی شامت اعمال نے بالآخر اسے کاٹ ڈالا.۱۸۸۴ء میں اس کی ارادت و عقیدت ترقی کر رہی تھی اور اس سال اکتوبر میں وہ بیمار ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی بیماری کا خط ملا آپ نے باوجود یکہ خود بیمار تھے اور از بس مصروف تھے مگر حق دوستی اور اخوت کی اس قدر رعایت کی کہ خود اُن کی عیادت کے لئے لودہا نہ جانا ضروری سمجھا.چنانچہ پہلے ان کو ایک خط لکھا جو یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مخدوم مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سَلَّمَة- السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.یہ عاجز چند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا آج بروز چار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا ( یہ میر امداد علی صاحب میر عباس علی صاحب کے رشتہ میں بھتیجے تھے.عرفانی ) جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تردد لاحق ہوا.اگر چہ میں بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے.مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت ہی تشویش پیدا ہوگئی.خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرماوے.اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت ۱۴ /اکتوبر تک وہیں آکر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرمادے.آپ کے لئے بہت دعا کروں گا اور اب تَوَكُلًا عَلَی اللہ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرما دیں.۱/۸ کتو بر ۱۸۸۴ء مطابق ذی الحجہ.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۶۰۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۷۵ چنانچہ حضرت اقدس اس وعدہ کے مطابق ۱۴ را کتوبر ۱۸۸۴ء کو لودہا نہ تشریف لے گئے اور میر صاحب کی عیادت کر کے واپس چلے آئے اور خدا تعالیٰ نے ان کو شفا بھی دے دی.عیادت کے لئے باہر جانے کا ایک اور واقعہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ ے متعلق ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے جانا حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ جموں میں شاہی طبیب تھے اور حضرت اقدس کے ساتھ جو محبت اور عقیدت کا عملی رنگ آپ میں تھا دوسروں میں اس کی نظیر نہیں.اس کمال کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کا خلیفہ اور جانشین بنا دیا.۱۸۸۸ء میں مولوی صاحب بیمار ہو گئے.حضرت حکیم فضل دین صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس کو اطلاع کی.آپ نے فوراً اس خط کے آنے پر جموں جانے کا ارادہ کر لیا.چنانچہ روانگی سے پہلے آپ نے مندرجہ ذیل خط لکھا.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سَلَّمَهُ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج رجسٹری شدہ خط کے روانہ کرنے کے بعد ا خویم حکیم فضل دین صاحب کا خط جو بلف خط ہذا روانہ کیا جاتا ہے.آپ کی علالت طبع کے بارے میں پہنچا.اس خط کو دیکھ کر نہایت تر ڈر پیدا ہوا اس لئے میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ کی عیادت کے لئے آؤں.اور میں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو من کل الوجوہ تندرست دیکھوں وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.سو ہفتہ کے دن یعنی ساتویں تاریخ جنوری ۱۸۸۸ء کو روانہ ہونے کا ارادہ ہے آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے سواگر ہفتہ کے دن روانہ
سیرت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام 127 ہوئے تو انشاء اللہ اتوار کو کسی وقت پہنچ جائیں گے.اطلاع دہی کے لئے لکھا گیا ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداس پور پنجم جنوری ۱۸۸۸ء روز پنجشنبہ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۴ ۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس اطلاع کے بعد آپ حسب وعدہ جموں تشریف لے گئے.خاکسار عرفانی نے جموں میں اس مکان کو دیکھا ہے جہاں حضرت فروکش ہوئے تھے اس کے لئے میں مخدومی خلیفہ نورالدین صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالٰی کا رہین منت ہوں کہ خصوصیت سے وہ مجھے اس مکان میں لے گئے.غرض آپ نے عیادت کے لئے سفر بھی کئے.خطوط کے ذریعہ عیادت کا سلسلہ بہت وسیع تھا.اگر میں ان خطوط کو جو محض عیادت کے لئے لکھے گئے ہیں درج کرنا شروع کروں تو اخلاق و شمائل کا یہ حصہ انہیں خطوط پر ختم ہو جائے اور خطوط باقی رہ جائیں.عیادت کا دوسرا طریق عیادت کے لئے باوجود یکہ آپ تشریف لے جاتے تھے لیکن یہ بھی ایک صحیح واقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے قلب کو مخلوق کی ہمدردی اور غم گساری کے لئے جہاں استقلال سے مضبوط کیا ہوا تھا وہاں محبت اور احساس کے لئے اتنار قیق تھا کہ آپ اپنے مخلص احباب کی تکالیف کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکتے تھے اور اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ اس موقع تکلیف پر پہنچ جاویں تو طبیعت بگڑ نہ جاوے اس لئے بعض اوقات عیادت کے لئے خود نہ جاتے اور دوسرے ذریعہ سے عیادت کر لیتے یعنی طبیب یا ڈاکٹر کے ذریعہ سے حالات دریافت کرتے رہتے اور مریض کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ذریعہ تسلی دیتے رہتے.آپ نے اپنی اس رقت قلبی کا اظہار بھی بعض اوقات فرمایا.ایوب صادق مرحوم کی علالت پر ایک خط مرحوم ایوب صادق ایک نہایت صادق ایک نہایت ہی مخلص اور پُر جوش احمدی نو جوان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کو عاشقانہ ارادت تھی.وہ بیمار ہو گئے اور اسی بیماری میں آخر وہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 122 مولیٰ کریم کے حضور جاپہنچے.اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے پاس بمقام فاضل کا تھے.ان پر حضرت اقدس کی محبت کا غلبہ ہوا تو انہوں نے خواہش کی کہ حضرت کو دیکھیں خود ان کا آنا نہایت ہی مشکل ہو گیا تھا کیونکہ سفر کے قابل نہ تھے اور اس جوش کو دبا بھی نہ سکتے تھے انہوں نے حضرت اقدس کو خط لکھا کہ حضور اس جگہ فاضل کا میں آن کرمل جاویں میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں حضور کی زیارت کروں.پھر اسی مضمون کا ایک تار بھی دیا.حضرت مسیح موعود نے اس کے جواب میں جو خط ان کو لکھا اس سے اس فطرت کا اظہار نمایاں طور پر ہوتا ہے جو آپ میں رقت قلبی کی تھی.خط بنام مرزا ایوب بیگ مرحوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبی عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب و محبی عزیز مرزا یعقوب بیگ صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت جو میں دردسر اور موسمی تپ سے یک دفعہ سخت بیمار ہو گیا ہوں مجھ کو تار ملی.جس قدر میں عزیزی مرزا یوب بیگ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خدا تعالیٰ کو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز ناامید نہ ہونا چاہئے.میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں جہاں تک انسانی طاقت ہے اب میں اس سے زیادہ کوشش کروں گا مجھے پاس اور نزدیک سمجھو نہ دور.میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں اس درددل کو بیان کروں.خدا کی رحمت سے ہرگز ناامید مت ہو، خدا بڑے فضل اور کرم کا مالک ہے اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرستی میں جلد تر دیکھوں.اس علالت کے وقت جو تار مجھ کوملی میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام السلام ۱۷۸ سے چلی جاتی ہے.میرے گھر میں ایوب بیگ کے لئے سخت بیقرار ہیں اس وقت ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا کیونکہ کل سے وہ بھی مبتلا ہیں اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے مشکل سے اندر کچھ جاتا ہے.اس کے جوش سے آپ بھی ہو گیا ہے وہ نیچے پڑے ہوئے ہیں اور میں اوپر کے دالان میں ہوں.میری حالت تحریر کے لائق نہ تھی لیکن تار کے درد انگیز اثر نے مجھے اٹھا کر بٹھا دیا.آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں معلوم نہیں کہ جو میں نے ایک بوتل میں دوار وانہ کی تھی وہ پہنچی یا نہیں ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی اور مالش معلوم نہیں ہر روز ہوتی ہے یا نہیں.آپ ذرہ ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں اور خدا بہت قادر ہے.تسلی دیتے رہیں.چوزہ کا شور با یعنی بچہ خورد کا ہر روز دیا کریں.معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ یہ ہے کہ کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے.والسلام ۲۵ / اپریل ۱۹۰۰ ء خاکسار مرزا غلام احمد ( عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام) یہ خط ہمدردی اور غمخواری کا ایک مرقع ہے جو آپ کے قلب میں اپنے مخلص خدام کے لئے تھی.خود بیمار ہیں.گھر میں بیمار ہیں.مگر اپنے ایک عزیز خادم کی علالت کی خبر پا کر بیقرار ہو جاتے ہیں اور اگر اس حالت میں دیکھنے کی طاقت رکھتے تو اپنی بیماری کی ذرہ بھی پروانہ کر کے جانے کو آمادہ ہیں.ممکن ہے کہ نادان کو یہ خیال پیدا ہو کہ اس قدر رقت قلبی، شجاعت اور استقلال کو کم کر دیتی ہے.مگر ایسا خیال بے ہودہ اور فضول ہو گا اس لئے کہ شجاعت اور قلبی قوت کے ظہور و بروز کا یہی ایک موقع نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوسرا مقام ہے.اس کیفیت کا مشاہدہ اس وقت کرو جبکہ وہ دشمنوں کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے اور ہر قسم کی مشکلات اور مصائب کے حملے آپ پر ہورہے ہیں مگر یہ کوہ وقار انسان اپنی جگہ سے جنبش نہیں کرتا اور ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا.اسی کتاب میں ان قوتوں اور اخلاق کے مشاہدات دوسری جگہ پیش کئے گئے ہیں یہ رقت انتہائی محبت اور دلسوزی کا نتیجہ ہوتی ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۷۹ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی عیادت بذریعہ خط اسی طرح ایک مرتبہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ میں بیمار ہو گئے.اور حضرت کو مخدومی حضرت میر حامد شاہ صاحب نے اطلاع دی آپ نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو فوراً خط لکھا.اس واقعہ کو میں خود حضرت مخدوم الملت کے ہی الفاظ میں قلم بند کرتا ہوں.فرماتے ہیں.میں گزشتہ اکتوبر (اکتوبر ۱۸۹۹ء) میں بیمار ہو گیا اور اس وقت چند روز کے لئے سیالکوٹ میں گیا ہوا تھا.میری حالت بہت نازک ہو گئی میرے عزیز مکرم دوست میر حامد شاہ صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ضلع سیالکوٹ نے میری بیماری کے متعلق حضرت کو خط لکھا آپ نے اس کے جواب میں جو خط لکھا میں اُسے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں اس لئے کہ میرے نزدیک وہ خط حضرت کے مظہر اللہ ہونے کی بڑی دلیل ہے وَ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ “اور وہ یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی عبدالکریم صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.اس وقت قریباً دو بجے کے وقت وہ خط پہنچا جو ا خویم سید حامد شاہ صاحب نے آپ کے حالات علالت کے بارہ میں لکھا ہے.خط کے پڑھتے ہی کوفت و غم سے وہ حالت ہوئی جو خدا تعالیٰ جانتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنا خاص رحم فرمائے میں خاص توجہ سے دعا کروں گا.اصل بات یہ ہے کہ میری تمام جماعت میں آپ دو ہی آدمی ہیں جنہوں نے میرے لئے اپنی زندگی دین کی راہ میں وقف کر دی ہے.ایک آپ ہیں اور ایک حکیم مولوی نورالدین صاحب.ابھی تک تیسرا آدمی پیدا نہیں ہوا.اس لئے جس قد رقلق ہے اور جس قدر بے آرامی ہے بجز خدا تعالیٰ کے اور کون جانتا ہے.اللہ تعالیٰ شفا بخشے اور رحم
سیرت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ فرمائے اور آپ کی عمر دراز کرے.آمین ثم آمین.جلد کامل صحت سے مجھے اطلاع بخشیں.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۴ اکتوبر ۱۸۹۹ء (سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صفحہ ۴۵، ۴۶.یہ خط الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ ۵ پر بھی شائع شدہ ہے) حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا سے شفا بخشی اور وہ پھر جلد قادیان تشریف لے آئے اور قادیان سے پھر واپس نہ گئے.یہ خط بہت سے ضروری امور پر روشنی ڈالتا ہے.۱۸۹۹ء کے آخر تک حضرت اقدس اپنی جماعت میں جن پاک ہستیوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں کامل فدائی یقین کرتے تھے وہ دوہی وجود تھے حکیم الامت اور مخدوم الملت.باوجود یکہ اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد احسن امروہی موجود تھے.یہ ایک نکتہ معرفت ہے.سیرت کے اس مقام پر میں زیادہ بحث اس پر نہیں کرنا چاہتا.غرض خطوط کے ذریعہ آپ اکثر عیادت کرتے رہتے تھے اور قادیان میں اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہو جس کے ساتھ تعلقات اخلاص و ارادت مضبوط ہوں اور اسے خدا تعالیٰ کے لئے ایک متقی و مومن پائیں آپ اس کی عیادت سے پر ہیز نہ کرتے.اور عام ہمدردی کے طور پر بھی بلا امتیاز ہندو و مسلمان عیادت کرتے تھے.لیکن بعض اوقات آپ اپنے قلب کی رقت کی وجہ سے خود جا کر نہ دیکھ سکتے تھے.مگر اس کے علاج میں تگ و دو اور سعی میں ذرا بھی فرق نہ کرتے تھے.یہ نظارہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی اُس علالت میں کمال صفائی سے دیکھنے میں آیا جو بالآخران کی موت کا موجب ہوئی.مولوی عبد الکریم صاحب کی آخری علالت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اگست ۱۹۰۵ء کے تیسرے ہفتہ میں یکا یک بیمار ہوئے اور ایک چھوٹی سی پھنسی بَيْنَ الْكَتفَینِ ظاہر ہوئی جو بالآخر کا ر بنکل تشخیص ہوئی.اتفاق سے ڈاکٹر مرزا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ یعقوب بیگ صاحب تین ماہ کی رخصت لے کر آئے تھے.انہوں نے مکرمی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی مدد سے اپریشن کیا.متعدد مرتبہ اپریشن کی ضرورت پیش آئی اور بعض اوقات سخت نازک حالت ہوگئی اور ایسی نوبت آئی کہ اس سے جانبر ہونا طبی فتوی کی رو سے ناممکن تھا.مگر حضرت اقدس کی دعاؤں کے طفیل وہ جانبر ہو گئے.۴ ستمبر ۱۹۰۵ء کو یہی حالت تھی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اس حالت کا اظہار ان الفاظ میں کیا.اپریشن کے بعد قریباً شام تک میں مولوی صاحب کے پاس بیٹھا رہا ، ہاتھ پاؤں بالکل سرد ہو گئے نبض بالکل کمزور تھی اور باقاعدہ نہ چلتی تھی کسی وقت ایک دوحرکتیں دل کی بالکل ساقط ہو جاتی تھیں گویا کہ دل حرکت کرتے کرتے رک جاتا تھا.ہوش نہ تھا اور اس کے علاوہ پیٹ میں نفخ بہت تھا.اصل میں مولوی صاحب کو ذیا بیطیس کی وجہ سے عام کمزوری بہت تھی اس کے علاوہ شدت دردوکرب کی وجہ سے کئی دن سے غذا اندر نہ گئی تھی اس پر اپریشن بڑا بھاری ہوا بہت سا خون گیا.کلوروفارم بہت سی مقدار میں سونگھنا پڑا اس لئے ان کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی.ہم نے ہر قسم کا علاج کیا کہ دل اپنی اصلی حالت پر آ کر ہوش آئے مگر کوئی بات کارگر نہ ہوئی اور ان کی عام حالت نیچے ہی نیچے جاتی تھی.ہمارے عزیز بھائی ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اسٹنٹ سرجن پروفیسر میڈیکل کالج لاہور بھی قریب چار بجے کے قریب تشریف لائے وہ بھی اُن کی حالت دیکھ کر سخت پریشان و حیران ہوئے اور انہوں نے کہا کہ بظاہر ان کے بچنے کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی.حضرت اقدس گھڑی گھڑی مولوی صاحب کا حال دریافت کرتے تھے.آپ کی خدمت میں ان کی نازک حالت کی اطلاع دی گئی تو اس کی خبر سننے سے جیسے کہ ایک حقیقی غم گسار اور بچے شفیق کو صدمہ ہوتا ہے آپ کو صدمہ محسوس ہوا اور جیسے کے والدین کو اپنے عزیز بیٹے کے لئے ایک تڑپ اور اضطراب ہوتا ہے واللہ کہ ہم نے اس سے زیادہ اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ مسیح میں اپنے روحانی فرزند کے لئے پایا.پھر آپ اندر تشریف لے گئے.کچھ مشک لائے.فرمایا کہ مولوی صاحب کو دو.پھر آپ دعا میں مشغول ہو گئے.کہا کہ ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہی ہے اور فرمایا کہ خدا کے فضل سے نا اُمید نہ ہونا چاہیے وہ چاہے تو مردہ میں جان ڈال دے اُس کو سب قدرت ہے مشک بھی دیا گیا.پیشتر اس کے اس سے بہت زیادہ طاقتو را دو یہ دی جا چکی تھیں.بلکہ جلد میں بذریعہ ہائی پوڈ رلک سرنج Hypoderlic Syringe ( یعنی باریک پیچکاری ) دی جا چکی تھی.کچھ اثر نہ ہوا تھا.مگر میں اس بات کا شاہد ہوں اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب گواہ ہیں کہ ادھر حضرت مسیح موعود نے دعا کے لئے سجدہ میں سر رکھا اور ادھر مولوی صاحب کی حالت جو نہایت خطر ناک تھی اصلاح پکڑنے لگی اور ابھی حضرت دعا سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ نبض بالکل درست اور طاقتور ہوگئی جیسے کہ کبھی کوئی ضعف نہ تھا.اس وقت ڈاکٹر محمدحسین صاحب کے منہ سے بے اختیار یہ کلمہ نکلا کہ ان کی نبض کا درست ہونا ایک معجزہ ہے".میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس حالت کے بعد اس ضعف کی حالت میں اور دل کے بالکل رہ جانے کے بعد کسی کا دل قوی ہو گیا اور حالت درست ہوگئی ہو.“ (الحکم مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۶ ء صفحه ۴ ) یہ صرف ایک دن کی حالت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے ورنہ حضرت اقدس کی حالت ان ایام میں جو کچھ تھی میں احکام میں اس کی تفصیل لکھ چکا ہوں.اس دن سے کہ مولوی صاحب پر عمل جراحی کیا گیا رات کا سونا تقریباً حرام ہو گیا تھا با وصفیکہ چوٹ لگنے اور بہت سا خون نکل جانے کی وجہ سے حضرت اقدس کو تکلیف تھی اور دوران سر کی بیماری کی شکایت تھی لیکن یہ کریم النفس وجود ساری رات رب رحیم کے حضور مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے دعاؤں میں لگا رہا.یہ ہمدردی اور ایثار ہر شخص میں نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۸۳ ماموروں کی ہی یہ شان ہے کہ اپنی تکالیف کو بھی دوسروں کی خاطر بھول جاتے ہیں بلکہ قریب موت پہنچ جاتے ہیں.حضرت اقدس نصف شب سے آخر شب تک مصروف دعا رہے اس عرصہ میں مولوی صاحب ممدوح کے دروازہ پر آن کر حال بھی پوچھا ساری دنیا سوتی تھی مگر یہ خدا کا جری جاگتا تھا.اپنے لئے نہیں اپنی اولاد کے لئے نہیں اپنے کسی ذاتی مقصد اور اغراض کے لئے نہیں.صرف اس لئے کہ تا رحیم و کریم مولیٰ کے حضور اپنے ایک مخلص کی شفا کے لئے دعا کرے.غرض حضرت کئی رات بالکل نہیں سوئے جس سے طبیعت کو بہت مضمحل ہو گئی مگر اس اضمحلال نے آپ کو تھکا یا نہیں.ایک دن فرماتے تھے میں نے بہت دعا کی ہے اس قدر دعا کی ہے اگر تقدیر مبرم نہیں تو انشاء اللہ بہت مفید ہوگی.پھر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی اس قسم کا اضطراب اور فکر میں نے اپنی اولاد کے لئے بھی نہیں کیا.نہ خود دعاؤں میں مصروف رہے بلکہ بعض خدام کو بلا کر کہا کہ تم ساری رات دعائیں کرو اور اس طرح پر اپنے بھائی کی مدد کرو.میں الفاظ نہیں لاسکتا جو اس نقشہ کو دکھاؤں اور کیونکر دکھاؤں مصور کا قلم بھی نہیں دکھا سکتا کہ آپ دعاؤں کی قبولت پر کیسا ایمان رکھتے ہیں اور اس کو کیسی اکسیر اپنے تجربہ سے مانتے ہیں.فرمایا میں نے ہر چند چاہا کہ دو چار منٹ کے لئے ہی سو جاؤں مگر میں نہیں جانتا کہ نیند کہاں چلی گئی.یہ باتیں ایک روز آپ نے صبح کو بیان فرمائیں.بعض خدام نے عرض کی حضور اس وقت جا کر آرام کرلیں.فرمایا اپنے اختیار میں تو نہیں میں کیونکر آرام کر سکتا ہوں جبکہ میرے دروازہ پر ہائے ہائے کی آواز آتی ہے.میں تو اس قلق اور کرب کو جو مولوی صاحب کو ہوا دیکھ بھی نہیں سکتا ( اللہ رے رقت قلب.ایڈیٹر ) اس لئے میں اوپر نہیں گیا.غرض آپ کو بہت در دو کرب ہے.میں یقینا کہتا ہوں کہ حضرت مخدوم الملت کو تو جو درد اور تکلیف ہے وہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ ہے ہی لیکن حضرت خلیفتہ اللہ کو اس سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر اس کا درد ہے اس سے پہلے کئی مرتبہ فرمایا کہ دعا ہو نہیں سکتی جب تک دوسرے کے دکھ اور در دکو میں اپنے اوپر نہ لے لوں وہ نظارہ اب دیکھا گیا.غرض مولوی عبد الکریم صاحب کی علالت کے ایام میں جہاں بہت سے نشانات اعجازی احیا کے کرشمے ہم نے دیکھے وہاں اس رقتِ قلب کا بھی مشاہدہ کیا جو حضرت مسیح موعود میں تھی.باوجود یکہ حضرت صاحب نچلی منزل میں رہتے تھے اور مولوی صاحب مرحوم بالا خانہ پر رہا کرتے تھے آپ نے بار ہا فرمایا کہ میں نے کئی مرتبہ شام کی نماز کے لئے وضو اس نیت سے کیا ہے کہ اوپر جا کر نماز پڑھوں گا ( موسم گرما میں جیسا کہ آج کل بھی معمول ہے مغرب اور عشا اور فجر کی نمازیں چھت پر پڑھی جاتی تھیں اور یہ چھت مولوی صاحب کے کمرہ سے ملحق تھی.عرفانی ) اور نیز مولوی صاحب کو دیکھوں گا مگر میں ضعف دل کی وجہ سے سیٹرھیاں نہیں چڑھ سکا.“ حضرت اقدس کا سلوک ایام علالت میں اجمالی نظر اب میں اس حصہ کو ختم کرنے کے لئے حضرت اقدس کے اس سلوک کا اجمالی ذکر کرتا ہوں جو آپ نے حضرت مخدوم الملتہ سے ایامِ علالت میں کیا اور اسے میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے الفاظ میں درج کرتا ہوں.جس روز سے کہ مولوی صاحب علیل ہوئے اس گھڑی تک کہ انہوں نے اس جہاں سے اپنے تعلقات کا انقطاع کیا مجھے مولوی صاحب مرحوم و مغفور کی خدمت میں رہ کر سعادت حاصل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے موقع دیا اور چونکہ حضرت اقدس اپنے خاص کرم اور مہربانی سے مولوی صاحب مرحوم کے متعلق ہر ایک علاج میں اور ان کے کھانے پینے کی ہر ایک چیز کے متعلق خاکسار سے مشورہ لیتے اور مولوی صاحب کی طبیعت بعض اوقات رات کو بگڑ جاتی تھی اس لئے مجھے اس وقت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ حضرت صاحب کی خدمت میں اطلاع دینے کی ضرورت ہوتی تھی اور دن میں کئی دفعہ ایسا موقع ہوا کہ جب مولوی محمد علی صاحب یا ایک دو اور احباب کے سوائے کوئی نہ ہوتا تھا.حضرت اقدس کو مولوی صاحب کی بیماری میں جو تبدیلیاں ہوتی تھیں ان کو اُن سے اطلاع دی جاتی تھی.ہر ایک دفعہ جب ہم اطلاع دیتے حضرت اقدس خود تشریف لاتے اور حال دریافت کرتے اور بعض اوقات خود بخود تشریف لاتے اور مولوی صاحب کا حال معلوم کرتے.اس لئے خاکسار کو خدا کے فضل سے مولوی صاحب کی اس علالت میں حضرت اقدس کے اخلاق اور ان کی محبت اور ایثار جو ان کو اپنے خدام کے لئے ہے اس کے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے.بعض اوقات ہم نے حضرت اقدس کو سخت کرب اور گھبراہٹ اور ابتلاء کی گھڑیوں میں مولوی صاحب کی نازک حالت کی اطلاع دی ہے جبکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا وہ پیارا رفیق جس نے اپنی ہر ایک خواہش پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خدمت دین کو مقدم کیا ہوا تھا اور ہمارا وہ حبیب جس نے کہ اپنے وجود کے ایک ایک ذرہ کو امام معصوم اور ہادی برحق کی راہ میں ایک بار نہیں بلکہ صد ہزار بار شمار کیا ہوا تھا اور جو اپنے دل سے ہر ایک دوست کا قدر دان تھا.جس کو کہ وہ دیکھتا کہ اسے اعلائے کلمۃ اللہ واشاعت دین کے لئے ادنی سا بھی جوش ہے اس وقت ہم دیکھتے تھے کہ وہ نو جوان جو اپنے شہر کا اور اپنے ملک کا اور اپنی قوم کا اور اسلام کا فخر تھا کہ اس کی کشتی عمر ایسی سخت بیماری کے طوفان میں تلاطم میں پڑی ہے.اصل میں یہ وقت ہوتا ہے کسی کی بچی محبت اور اخلاص کو پرکھنے کا اور نیز اس بات کا کہ اسے خدا تعالیٰ کی قوت پر کیسا ایمان ہے اور اس کا تعلق خدا کے ساتھ کیسا ہے کیونکہ ایسی نازک حالت میں خصوصاً جبکہ معالج ڈاکٹر اور طبیب بھی پاس کے عالم میں ہوں سوائے ایسے لوگوں کے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہو کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا اور حضرت اقدس نے مولوی صاحب کی بیماری میں اپنی کمال محبت اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۸۶ ایثار کا اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ اور توکل کا نمونہ دکھا یا وہ ایک اہل بصیرت کے لئے کافی ثبوت ہے.حضرت اقدس کے من جانب اللہ ہونے کا اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا سچا تعلق ہونے کا اور اس بات کا کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ آج امت میں دیکھنا چاہے تو حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے بڑھ کر اور کوئی نہیں.چاہے کوئی تمام دنیا میں ڈھونڈ ھے اور میں بعض امور کو پیش کرتا ہوں.اگر چہ میں نے حضرت اقدس کے کمال اخلاق اور محبت اور مہربانی کا نمونہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں بیان کرسکوں.اور حضرت اقدس نے اپنے ایک عزیز مخلص دوست کو بے آرامی میں پا کر جو اپنے نفس پر باوجود اس قد رضعف اور بڑھاپے اور کمزوری کے ہر ایک قسم کا آرام حرام کر دیا تھا.اور ان کو اس عزیز کے لئے جو تڑپ اور دلی توجہ اور اضطراب تھا میں نہیں جانتا کہ میں اس کو کس طرح بیان کروں اور کن الفاظ میں ظاہر کروں البتہ ہمارے دلوں پر اس کا ایک نقشہ ہے اور ہماری روح اور ایمان کو اس سے ایک تروتازگی پہنچی ہے جو خدا کے فضل سے قیامت تک مٹنے والی نہیں اور اگر کوئی اہل دل دلوں پر نظر ڈال کر حقائق معلوم کر سکتا ہے تو ہم حاضر ہیں اگر باور نہ ہو تو ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھ لے.ماسوائے اس کے حضرت اقدس کو خدا تعالیٰ کی جناب میں تضرع اور نیاز اور خشوع و خضوع نہایت درجہ کا تھا.دن اور رات میں حضرت صاحب کا بہت کم حصہ ایسا گزرتا ہوگا جو حضرت احدیت کے حضور میں دعا سے خالی ہو.اور بعض دفعہ کئی کئی گھنٹہ دعا میں مصروف رہتے اور سجدہ سے سر نہ اٹھاتے.میں نہیں جانتا کہ یہ نقشہ کس طرح سے پبلک کے سامنے پیش کروں کہ وہ حضرت اقدس کے تبتل الی اللہ اور ان کے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات کو سمجھ سکیں.اس میں شک نہیں کہ جیسے کہ اس عالم کے بار یک در بار یک راز اور حقائق قدرت کو دیکھنے کے لئے ایک دور بین یا خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے سوا ہماری آنکھیں بے کار ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۷ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے اسرار قدرت کو دیکھنے کے لئے جو ایک وراء الوراء ہستی ہے یہ آنکھیں بے کار ہیں.جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک دور بین آنکھ عطا نہ ہو ایسے ہی جو لوگ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں ان کی معرفت کا بھی حاصل کرنا خدا کے فضل کے سوائے ناممکن ہے.ہر زمانہ میں ہر ایک رسول اور مجد د کے وقت میں لوگوں نے اپنی عدم معرفت کے سبب ٹھو کر کھائی ہے اور قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم سے یہی سنت اللہ ہے اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس امت محمدیہ کو پہلوں کے نمونہ سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ اس امام برحق کی مخالفت سے اس خدا کے عذاب کے نیچے نہ دیں.آمین.اور وہ مستہر تین میں سے نہ بنیں اور خدا کے خوف اور خشیت کو اپنے دلوں میں جگہ دیں.آمین.(۱) سامان جو مہیا کیا گیا جن لوگوں نے قادیان دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی آبادی قریباً چار پانچ ہزار ہے.وہاں پر معمولی ضروریات کا مہیا ہونا بھی مشکل ہے چہ جائیکہ ایسے بیمار کے لئے ہر ایک ضروری چیز بہم پہنچ سکے.مگر حضرت اقدس مرزا صاحب نے اس عزیز کی تیمارداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.مولوی صاحب جس چیز کے کھانے کی خواہش ظاہر کرتے حضرت اقدس فوراً آدمی بھیج کر لاہور یا امرتسر سے منگوا دیتے یا اگر یہ خاکسار یا خلیفہ صاحب یا مولوی نورالدین صاحب کسی دوائی یا خاص غذا کے لئے عرض کرتے یا خود حضرت اقدس ان کے لئے کوئی چیز تجویز کرتے تو فوراً امرتسر یالا ہور سے منگوا لیتے.مولوی صاحب کے لئے انگور ، سردے، انار، وغیرہ ہر ایک قسم کا پھل ہر وقت موجود رہتا.مولوی صاحب کو صحت میں بھی ٹھنڈے پانی سے ہمیشہ بڑی محبت رہی ہے یہاں تک کہ موسم سرما میں بھی چھت کے اوپر پانی رکھوا چھوڑتے تھے.اور وہی یخ کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸ طرح کا پانی جاڑوں میں پیتے تھے.اس بیماری میں چونکہ شروع سے ہی تپ کی شکایت ساتھ ساتھ رہی بعض اوقات حرارت زیادہ ہو جاتی تھی مولوی صاحب کو برف کی بہت ضرورت محسوس ہوتی تھی اس لئے حضرت اقدس نے ان کے لئے یہ التزام کیا ہوا تھا کہ اکٹھی دو تین من برف منگوا لیتے اور پھر جب وہ قریب ختم کے ہوتی تو اور آدمی لاہور یا امرتسر بھیج کر اتنی ہی برف منگواتے اور اس ذخیرہ کو کم نہ ہونے دیتے.جس وقت کہ مولوی صاحب کا انتقال ہوا ایک من کے قریب برف موجود تھی اور مولوی یار محمد صاحب اور برف لانے کے لئے حضرت کے حکم سے لاہور جانے کو تیار تھے کہ یہ حادثہ ہو گیا.مولوی صاحب کو چونکہ بہت ضعف ہو گیا تھا کوئی بوجھل غذا ہضم نہ کر سکتے تھے اس لئے ایک مہینے سے زائد عرصہ سے رات کے لئے حضرت اقدس تین چار مرغ کی یخنی ہر روز تیار کرواتے اور بکرے کے گوشت کا جگ سوپ اس کے علاوہ اکثر تیار کر وا دیتے.بعد میں حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی گئی کہ یہ یخنی وغیرہ جو دی جاتی ہے اس میں مقدار بہت ہوتی ہے.مگر اصل طاقت کا جزو کم ہوتا ہے.انگلینڈ سے تیار ہو کر ایک قسم کا گوشت کاست آتا ہے.( وائیتھ صاحب کا پرفکیڈ بیف جوس Wythe's Beef juice) وہ مدت تک مولوی صاحب مرحوم کو دیا گیا.ایک شیشی جس میں قریب دو اونس (ایک چھٹانک ) کی غذا ہوتی تھی.تین روپیہ میں آتی.حضرت اقدس نے اس کی کئی شیشیاں ان کے لئے خریدیں.بلکہ جس وقت مولوی صاحب کا انتقال ہوا برادرم شیخ رحمت اللہ نے تین شیشیاں اسی غذا کی مولوی صاحب کے لئے بھیجی تھیں جو خاکسار کو پہنچیں.شیخ صاحب کو مولوی صاحب مرحوم سے خاص محبت و اخلاص رہا ہے.چونکہ پہلی شیشیاں اس غذا کی قریب اختتام کے تھیں میں نے شیخ صاحب کو لکھا تھا کہ جلدی بھیج دیں انہوں نے فورا ہی اس کی تعمیل کی اور اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ رفیق کی رفاقت اور آخر خدمت میں حصہ لیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.آمین.(۲) علاج مولوی صاحب کے علاج کے لئے دو اسسٹنٹ سرجن یعنی خاکسار اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جو خدا کے فضل سے اپنے علم اور تجربہ کی رو سے یکتائے دہر ہیں ہر وقت موجود رہتے تھے.ڈاکٹر محمد حسین صاحب اسٹنٹ سرجن واسسٹنٹ پروفیسر میڈیکل کالج لاہور اور ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امرتسر سے مشورہ کے لئے تشریف لاتے اور مولوی صاحب کے لئے ہر ایک قسم کی دوائی اور عمل جراحی کے لئے اوزار قادیان جیسی جگہ میں بہم پہنچاتے.یہاں تک کہ ایک اوزار منگوایا تا کہ مولوی صاحب کو کلور و فارم سنگھانے کی ضرورت نہ رہے اور اس سے جگہ بے حس کر کے آپریشن کئے جاویں.چنانچہ بعد میں دوسرے کار بنکل ودنبل وغیرہ پر آپریشن کرنے میں اس سے بہت مدد لی.یہ ایسا اوزار ہے کہ اکثر ہسپتالوں میں بھی موجود نہیں ہوتا.حضرت اقدس نے مولوی صاحب کے علاج میں کثرت سے روپیہ خرچ کیا اور کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ گئی تھی کہ جس کی نسبت خیال بھی ہو سکے کہ مولوی صاحب کے علاج کے لئے مفید ہوگی اور ان کے لئے باہم نہ پہنچائی گئی ہو.اور مولوی صاحب کی یہ کیسی خوش قسمتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہر ایک سامان باہم پہنچایا اور ان کے لئے جو کوشش کی گئی کسی راجہ یا نواب کے نصیب ہو تو ہو ورنہ عام امراء کے لئے بھی اس قد رکوشش ہونی محالات سے ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود کی برکت سے تھا ورنہ مجھے خوب یاد ہے کہ ان کے والد صاحب فرماتے تھے.اگر ہم اپنی تمام جائیداد بھی نیلام کر دیتے اور چاہتے کہ ہمارے بیٹے کا اس قدر ڈاکٹر اور حکیم علاج کرتے رہیں اور ان
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰ کی خدمت میں دن رات مصروف رہیں تو بالکل ناممکن تھا بلکہ اتنے لمبے عرصہ کے لئے ایک دفعہ دن میں بھی کسی لائق ڈاکٹر کو دکھانا مشکل تھا.“ الحکم مورخه ۱ / فروری ۱۹۰۶ صفحه ۴ ، ۵ ) غرض حضرت مسیح موعود عیادت کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے اور آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ آپ سے بڑھ کر مریضوں کا خیر خواہ اور ہمدرد دوسرا بہت ہی کم ہوگا.مفتی فضل الرحمن صاحب کے واقعات ,, مفتی فضل الرحمن صاحب کے نام سے احمد یہ پبلک یقیناً واقف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اور آپ کے اہل بیت کے ساتھ ان کو خاص طور پر محبت اور ارادت ہے مفتی صاحب کی جب شادی کی تجویز ہوئی اور خلیفہ اول نے حضرت کو لکھا تو حضرت نے اسے بہت ہی پسند فرمایا اور یہ بھی لکھا کہ مفتی صاحب کے متعلق مجھے الہام ہوا سیھدی “ چنانچہ حضرت کے مشورہ کے ماتحت حضرت حکیم الامت نے اپنی لڑکی حفصہ کا رشتہ مفتی صاحب سے کر دیا.مفتی صاحب حضرت حکیم الامت کے بھتیجے بھی ہیں کیونکہ وہ مفتی صاحب کے پھوپھا تھے.شادی کے بعد قریب زمانہ ہی سے مفتی صاحب قادیان آگئے.اور خدا تعالیٰ نے ان کو صاحب اولا د کیا.حضرت مسیح موعود کے ارشاد اور مشورہ سے چونکہ رشتہ ہوا تھا حضرت صاحب کو خاص طور پر خیال رہتا تھا.مفتی صاحب کے گھر سے اور حضرت مولوی صاحب مرحوم خلیفہ اول کے بڑے گھر کے اخلاص کی وجہ سے بھی حضرت صاحب بہت محبت اور عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اور چونکہ مفتی صاحب کی ساس یعنی حضرت خلیفہ اول کی بڑی بیوی اول المهاجرات میں سے تھے اور سلسلہ کے ساتھ ان کو خاص محبت تھی اس لئے حضور علیہ السلام بھی ان پر بہت نظر محبت رکھتے تھے.مفتی فضل الرحمن صاحب کی خوش دامن ان کی پھوپھی بھی تھی.چونکہ ان کے اولاد نرینہ نہ تھی اس لئے اپنی لڑکی حفصہ کو جو مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیوی تھی اپنے پاس ہی رکھتی تھیں.حفصہ کو بھی حضور علیہ السلام سے بڑا اعتقاد اور محبت تھی جیسا کہ مفتی صاحب نے اس کی سوانح عمری میں مفصل بیان کیا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام عنایت الرحمٰن کی عیادت ۱۹۱ حضرت مفتی صاحب کا سب سے بڑا لڑکا جو پہلا لڑ کا کہنا چاہئے بہرا اور گونگا تھا.اسی طرح دوسرالڑ کا بھی.پہلالڑ کا تو پیدائشی ہی مریض تھا مگر دوسرا لڑکا جس کا نام عنایت الرحمن تھا اچھا خاصہ تندرست تھا مگر نہ سنتا تھانہ بولتا تھا.یہ لڑ کا جب ساڑھے چار سال کا تھا اور سخت بیار ہو گیا.یعنی اس کو ٹائی فائیڈ فیور (Typhoid Fever) ہو گیا تو حضور علیہ السلام اکثر اس کی علالت کے ایام میں اس کو دیکھنے کے لئے آتے تھے اور ہمیشہ تنہا تشریف لاتے تھے اور بچہ کو دیکھ کر مناسب تجاویز بتلا کر تشریف لے جاتے تھے.مفتی صاحب ان ایام میں گورداس پور کے مقدمہ میں تاریخوں پر حضرت کے ساتھ جایا کرتے تھے.جس روز آخری دفعہ حضور گورداسپور تشریف لے جانے لگے اور گھر سے نکل کر اس بچہ کو جا کر دیکھا تو اس کی حالت کو نازک پایا تو آپ نے باہر آ کر مفتی صاحب کو فرمایا کہ آج گورداسپور نہ جاویں یہیں ٹھہریں.چنانچہ آپ تشریف لے گئے.دوسرے دن صبح بچہ فوت ہو گیا.عنایت الرحمن کی تعزیت اس سے دوسرے دن آپ گورداسپور سے تشریف لے آئے تو مفتی صاحب چھوٹی لڑکی حفیظہ کو اٹھائے ہوئے حضور کو مہمان خانہ کے قریب جا کر ملے تو آپ نے فرمایا.میں نے آپ کے بچہ کی وفات سنی بہت رنج ہوا.میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرمادے گا اور وہ سننے اور بولنے والا ہوگا.لطیفہ: یہاں مفتی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے گھر میں دولڑ کیاں اور دولڑ کے پیدا کرنے ہیں.اب یہ لڑکی ہے اس کے بعد اگر دوسری لڑکی ہوئی تو نعم البدل نہ ہوگا اگر لڑکا ہوگا تو نعم البدل سمجھوں گا.آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ میاں ہمارے خدا میں تو یہ بھی طاقت ہے کہ آئندہ لڑکیوں کا سلسلہ ہی منقطع ہو جاوے.چنانچہ مولا کریم کے قربان جاؤں.اس کے بعد مفتی صاحب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ کے گھر میں متواتر چھ لڑ کے پیدا ہوئے اور سب سننے والے اور بولنے والے.گو یہ ایک ذاتی لطیفہ ہے مگر حضرت اقدس کی قبولیت دعا کا ایک اعجازی نمونہ ہے.حضرت حکیم الامت کی اہلیہ کی عیادت مفتی صاحب کی خوش دامن جب مرض الموت میں بیمار ہوئی تو آپ اکثر ان کی بیمار پرسی کو تشریف لایا کرتے تھے اور حالت پوچھا کرتے تھے.وہ ہمیشہ یہی عرض کرتی کہ آپ دعا کریں کہ مجھے جمعہ کے روز موت آوے اور آپ خود میرا جنازہ پڑھیں.چنانچہ حکم الہی سے عین نماز جمعہ کے پڑھ چکنے کے بعد مفتی صاحب اور حضرت خلیفہ اول نماز جمعہ پڑھ کر اس کو دیکھنے آئے تو مریضہ نے پوچھا کہ کیا جمعہ ہو گیا ہے.کہا گیا کہ ہاں تو کہا کہ ہٹ جاؤ ہٹ جاؤ مجھے گھبراؤ ہوتا ہے اور چند منٹ میں فوت ہو گئیں.حضور علیہ السلام نے بعد نماز عصر اس کا جنازہ پڑھا اور فرمایا کہ میں نے عہد کیا ہوا تھا کہ خواہ میں کیسا ہی بیمار ہوں ان کا جنازہ ضرور خود پڑھوں گا.سو الْحَمدُ لِلہ کہ میرا وعدہ پورا ہو گیا.ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جس قدر لوگ اس جنازہ میں شامل ہوئے ہیں میں نے ان سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے.ایک شخص نے متعجب ہو کر حضرت مولوی صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ یہ کس طرح فرمایا.تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ کیا تم پڑھا نہیں کرتے اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا سے پہلے تو زندہ کے لئے دعا مانگا کرتے ہو.گو یہ بھی ایک لطیفہ ہے مگر وہ لوگ بڑے ہی خوش قسمت ہیں جو اس جنازہ میں شریک تھے الْحَمْدُ لِلہ میں بھی ان میں سے ہوں.نماز جنازہ سے فارغ ہو کر دوسرے روز آپ مفتی صاحب کے گھر میں تشریف لائے اور اکیلے تشریف لائے.حفصہ مفتی صاحب کی اہلیہ کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت میں جگہ دے دی ہے تم فکر اور غم نہ کرو.میں بھی تمہارا باپ ہوں جس چیز کی ضرورت ہوا کرے مجھ سے کہا کرو.اس نے رو کر عرض کیا کہ میں کمزور انسان ہوں.میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں یہ اکثر بیمار رہتے ہیں وہ ان کے لئے اکثر دعائیں کیا کرتی تھی.آپ کو توجہ دلاتی تھی اب میں کس سے کہوں گی.فرمایا مجھ سے کہا کرو.سرسے پگڑی اتار کر دے دی اور فرمایا کہ اس کا ایک ایک کر نہ بنا کرسب بچوں کو پہنا دو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۳ اور خود اس رومی ٹوپی کو سر پر رکھ کر تشریف لے گئے جو پگڑی کے اندر آپ رکھا کرتے تھے.اس کے چند روز بعد پھر تشریف لائے اس وقت حضرت ام المؤمنین بھی ساتھ تھیں فرمایا کیا پک رہا ہے؟ حفصہ نے عرض کیا کہ گوشت ! حضرت ام المؤمنین کو فرمایا کہ دیکھو کیا پک رہا ہے.جب انہوں نے ڈھکنا اٹھا کر دیکھا اور فرمایا کہ ہاں گوشت ہے تو فرمایا میں نے سمجھا دال پکا رہی ہے اور یوں ہی گوشت بتلا دیا.بہر حال اس کے بعد وفات تک اپنے عہد پر قائم رہے جو آپ نے حفصہ سے کیا تھا کہ مجھ سے کہا کرو.حفصہ کی عیادت اور حیرت انگیز علاج عزیز عبدالحفیظ کی تولید پر جب حفصہ کو موسم سرما میں گذاز یعنی ٹیٹس (Tetnus) ہوا ( جس مرض سے اُن ایام میں بہت سی عورتیں تلف ہوئی تھیں ) تو جب نماز مغرب کے بعد مفتی صاحب نے جا کر حضور سے عرض کیا کہ اس کی گردن میں کچھ درد اور کشش ہے.تو فورافرمایا کہ یہ تو کذاز کا ابتدا ہے.مولوی صاحب کو بلاؤ.مفتی صاحب نے کہا کہ انہوں نے حبّ شفا بتلائی ہے.تو فوراً خود تشریف لے آئے اور مریضہ کو خود آکر دیکھا.فرمایا دس رتی ہینگ دے دو اور ایک گھنٹہ کے بعد اطلاع دو.جب مفتی صاحب نے جا کر اطلاع دی کہ کچھ افاقہ نہیں ہوا تو فرمایا دس رتی کونین دے دو.اور ایک گھنٹہ کے بعد اطلاع دو.پھر کہا گیا کہ کوئی افاقہ نہیں.فرمایا دس رتی مشک دے دو.اور مشک اپنے پاس سے دیا.گھنٹہ کے بعد عرض کیا گیا کہ مرض بڑھ رہا ہے.فرمایا دس تولہ کسٹرائل دے دو.کسٹرائل دینے کے بعد مریضہ کو سخت تے ہوئی اور حالت نازک ہوگئی.سانس اکھڑ گیا آنکھیں پتھر اگئیں.قبولیت دعا کا ہتھیار اور اس کے استعمال کا اعجازی طریق مفتی صاحب بھاگے ہوئے گئے فوراً حضور نے پاؤں کی آہٹ سن کر دروازہ کھولا.عرض کیا گیا.فرمایا دنیا کے اسباب کے جتنے ہتھیار تھے وہ ہم چلا چکے ہیں.اس وقت کیا وقت ہے؟ عرض کیا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ گیا بارہ بج چکے ہیں.تم جاؤ میرے پاس صرف ایک دعا کا ہتھیار باقی ہے.میں اس وقت سر اٹھاؤں گا جب وہ اچھی ہو جائے گی.چنانچہ مفتی صاحب کا ایمان دیکھو کہ گھر میں آکر الگ کمرہ میں چار پائی ڈال کر سور ہے کہ وہ جانے اور اُس کا خدا.مجھے اب کیا فکر ہے.مفتی صاحب کہتے ہیں کہ جب صبح میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ برتنوں کو درست کر رہی ہے میں نے پوچھا کیا حال ہے کہا کوئی دو گھنٹہ بعد آرام ہو گیا تھا.مفتی صاحب کی عیادت ۱۸۹۷ء میں مفتی صاحب کو خود محرقہ بخار ہوا اور بہت سخت بخار ہوا.حضور علیہ السلام ہر روز صبح کے وقت ان کے دیکھنے کو تشریف لے آتے تھے اور خود علاج فرماتے اور مولوی صاحب مرحوم کو تاکید کیا کرتے.ایک روز نماز عشاء کے بعد جب مولوی صاحب تشریف لائے اور مولوی قطب الدین صاحب بھی ساتھ تھے تو مفتی صاحب کی حالت بے ہوشی کی تھی.مولوی صاحب نے ڈیوڑھی میں جا کر مولوی قطب الدین کو فر مایا آج حالت نازک ہے امید نہیں کہ صبح تک جانبر ہو.مفتی صاحب کی خوش دامن دروازہ کے پاس سن رہی تھیں.مولوی صاحب تو اپنے گھر تشریف لے گئے اور مفتی صاحب کی خوش دامن دوڑی ہوئی حضور علیہ السلام کے پاس پہنچیں اور حالت عرض کی.آپ نے فرمایا میں ایک ضروری مضمون لکھ رہا ہوں.آپ مولوی صاحب سے جا کر میری طرف سے تاکید کریں.انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو یہ فرما گئے ہیں کہ حالت نازک ہے.فرمایا ہیں ، میں نے تو ابھی اس سے بہت کام لینا ہے.مضمون کو وہیں چھوڑ دیا اور تشریف لے آئے اور دیکھا.فرمایا بہت اچھا میں چل کر دعا کرتا ہوں.رات بارہ بجے کے قریب مفتی صاحب کو ایک دست خون کا آیا پھر دوسرا، پھر تیسرا، یہاں تک کہ آنکھیں کھل گئیں.صبح کی نماز کے وقت حضور جب مسجد میں تشریف لائے تو یہ سب قصہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بیان کیا اور فرمایا کہ بارہ بجے کے قریب میرے دل میں ڈالا گیا کہ اب آرام ہو گیا ہے.اسی وقت ماسٹر عبدالرحمان صاحب نومسلم جالندھری کو حکم دیا کہ جاؤ دریافت کرو.آرام کے کیا معنی ہیں.چنانچہ جب وہ جواب لے کر آگئے کہ میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۱۹۵ ان سے مل کر آیا ہوں طبیعت اچھی ہے تو پھر آپ نے نماز صبح پڑھی اس کے بعد بہت عرصہ تک مفتی صاحب کو تریاق الہی کھانے کو دیتے رہے جو ان ایام میں تیار ہوا تھا.غرض آپ کو حضرت مولوی صاحب کے خاندان کے ساتھ بہت ہی محبت تھی.اور اس کے بعد حضرت حکیم الامت کے چھوٹے گھر میں بچوں کے واقعات وفات ہوتے رہے تو آپ کو اس کا ہمیشہ احساس ہوتا اور آپ کی دعاؤں سے آخر حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ذکور اور اناث اولاد ایسی دی جو جیتی جاگتی ہے.آہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت حضرت خلیفہ اول کی آخری بیٹی جو بہت بڑی عالم تھیں فوت ہو چکی ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.عرفانی) حضرت مولوی صاحب کی علالت پر بھی جب کبھی ہو جاتی تو آپ متواتر عیادت کے لئے جاتے اور اکثر خود ادویات تیار کراتے اور آپ غذا کے لئے خاص طور پر انتظام فرماتے.مختصر یہ ہے کہ نہ صرف آپ عیادت فرماتے بلکہ اپنے خدام اور دوسرے لوگوں کی بیماریوں میں اس قدر ہمدردی اور دلجوئی کا طریق اختیار کرتے کہ ان کے قلب سے فکر وغم جاتا رہتا.میں نے اوپر حضرت حکیم الامت کی اہلیہ کلاں کی بیماری اور وفات کا تذکرہ کیا ہے.اس سلسلہ میں اتنا اور اضافہ کرتا ہوں جو اگر چہ درج شدہ واقعہ کی تائید ہی ہے مگر اس کی صحت کی زبردست شہادت ہے کہ آپ نے ۲۸ جولائی ۱۹۰۵ء کو جس روز مرحومہ فاطمہ (اہلیہ کلاں حضرت حکیم الامت ) کا انتقال ہوا.در بار شام میں قبل از عشاء خود ہی ذکر کر کے فرمایا کہ ”وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتی تھیں کہ میرا جنازہ آپ پڑھا ئیں اور میں نے دل میں پختہ وعدہ کیا ہوا تھا کہ کیسا ہی بارش یا آندھی وغیرہ کا وقت ہو.میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.آج اللہ تعالیٰ نے ایسا عمدہ موقعہ دیا کہ طبیعت بھی درست تھی اور وقت بھی صاف میسر آیا اور میں نے خود جنازہ پڑھایا.بعض واقعات اس سلسلہ میں ایسے بھی ہیں جو زیادہ تر آپ کے خوارق اعجاز یہ سے تعلق رکھتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٦ ہیں اس لئے میں ان کو سیرت کے اس باب میں انشاء اللہ ذکر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.اب میں چاہتا ہوں کہ تعزیت کے متعلق آپ کے معاملات کا ذکر کروں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تعزیت عیادت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل کو واقعات کے ساتھ میں دکھا چکا ہوں.تعزیت کے متعلق بھی آپ کا طرز عملی طور پر یہی تھا کہ بعض صورتوں میں آپ اگر موقع ہو تو زبانی تعزیت فرماتے اور یا تحریر.آپ تعزیت کرتے وقت اس امر کوملحوظ خاطر رکھتے کہ بشریت کی وجہ سے جو صدمہ اور رنج کسی شخص کو پہنچا ہے اسے اپنی عارفانہ نصائح اور دنیا کی بے ثباتی کو واضح کر کے کم کر دیں.ایسے موقعوں پر بعض وقت انسان کا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا ہے اور ماسوی اللہ کی محبت کو قربان کر دیتا ہے اس لئے آپ کا معمول یہی تھا کہ ایسے موقع پر انسان کے ایمان کے بچانے کی فکر کرتے اور ایسے رنگ میں اس پر اثر ڈالتے کہ تمام هم و غم بھول جاتا اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ غالب ہو جاتی.بہت سے واقعات میری نظر سے گزرے ہیں اور بیسیوں خطوط میرے سامنے ہیں جن میں آپ نے اپنے مخلص خدام کو ایسے حادثات اور واقعات پیش آجانے پر تعزیت فرمائی.میں ان واقعات کو کسی خاص ترتیب سے نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ میرا کام اس وقت صرف اسی قدر ہے کہ جہاں تک ممکن ہو واقعات کو جمع کر دوں.پیچھے آنے والے ترتیب کا لحاظ رکھ لیں گے اور اپنے اپنے مذاق پر جس اسلوب سے چاہیں گے انہیں پیش کریں گے.حافظ ابراہیم صاحب کی اہلیہ کی تعزیت حافظ ابراہیم صاحب بہت پرانے مخلص مہاجر ہیں ، معذور ہیں.۳۱ جولائی ۱۹۰۶ء کو ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا.یکم اگست ۱۹۰۶ ء کو حضرت اقدس نے ان کی بیوی کی تعزیت کی اور ان کو مخاطب کر کے فرمایا:.آپ کو اپنی بیوی کے مرنے کا بہت صدمہ ہوا ہے اب آپ صبر کریں تا کہ آپ.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ کے واسطے ثواب ہو.آپ نے اپنی بیوی کی بہت خدمت کی ہے.باوجود اس معذوری کے کہ آپ نابینا ہیں آپ نے خدمت کا حق ادا کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا اجر ہے.مرنا تو سب کے واسطے مقدر ہے.آخر ایک نہ ایک دن سب کے ساتھ یہی حال ہونے والا ہے مگر غربت کے ساتھ بے شر ہو کر مسکینی اور عاجزی میں جولوگ مرتے ہیں ان کی پیشوائی کے واسطے گویا بہشت آگے آتا ہے.قاضی غلام حسین صاحب کے بیٹے کی تعزیت جون ۱۹۰۵ء کے اوائل میں قاضی غلام حسین صاحب وٹرنری اسسٹنٹ ( جو آج کل حصار کے کیٹل فارم (Cattle Farm) میں سپرنٹنڈنٹ ہیں اس وقت بھی وہاں ہی تھے ) کا بچہ چند روز بیمار ہو کر فوت ہو گیا تھا.چند روز ہی کی عمر اس نے پائی تھی.وہ حاضر ہوئے.آپ نے ان کو خطاب کر کے تعزیت فرمائی.فرمایا.جو بچہ مرجاتا ہے وہ فرط ہے.انسان کو عاقبت کے لئے بھی کچھ ذخیرہ چاہیے.میں لوگوں کی خواہش اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں.کون جانتا ہے اولا د کیسی ہوگی.اگر صالح ہو تو انسان کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعوات ہو تو عاقبت میں بھی فائدہ دے سکتی ہے.اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اولاد کی خواہش کیوں ہے، اور جو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہاں تک محدود رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہو اور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے.اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہو سکتی ہے کہ کوئی ولد صالح پیدا ہو جو بندگانِ خدا میں سے ہو.لیکن جو لوگ آپ ہی دنیا میں غرق ہوں وہ ایسی نیست کہاں سے پیدا کر سکتے ہیں انسان کو چاہیے کہ خدا سے فضل مانگتار ہے.تو اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے.نیت صحیح پیدا کرنی چاہیے ورنہ اولا دہی عبث ہے.دنیا میں ایک بے معنی رسم چلی آتی ہے کہ لوگ اولا د ما نگتے ہیں اور پھر اولاد سے دکھ اٹھاتے ہیں.دیکھو حضرت نوح
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا علیہ السلام ۱۹۸ کالڑکا تھا کس کام آیا ؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان جو اس قدرمرادیں مد نظر رکھتا ہے اگر اس کی حالت خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو تو خدا اس کی مرادوں کو خود پوری کر دیتا ہے.اور جو کام مرضی الہی کے موافق نہ ہوں ان میں انسان کو چاہیے کہ خود خدا تعالیٰ کے ساتھ موافقت کرے.تحریری تعزیت جس طرح پر آپ کے معمولات میں یہ بات داخل تھی کہ آپ خطوط کے ذریعہ عیادت کرلیا کرتے تھے.اسی طرح سے عموماً خطوط کے ذریعہ تعزیت بھی فرمایا کرتے تھے.تعزیت ناموں میں آپ کا طریق مسنون یہی تھا کہ دنیا کی بے ثباتی کا نقش دل پر بٹھانے کے لئے کوشش فرماتے اور ایسا رنگ فرماتے جس سے اس صدمہ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے اور قلب پر ایک سکینت اور تسلی کی روح کا نزول ہو.اس کے لئے کبھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کو پیش کرتے.کبھی اس کی غیرت ذاتی کا پُر شوکت بیان فرماتے جس کو سن کر انسان غیر اللہ کی محبت سے کانپ اٹھے اور اپنے اندر سے ان تمام بتوں کو نکال کر پھینک دے جو غیروں کی محبت کے اُس کے قلب میں رکھے ہوئے ہیں.اور کبھی ان طریقوں کا بھی اظہار فرماتے جو عملی صورت میں اس غم اور حادثہ کی کوفت کو دور کرنے والے ہوں.غرض آپ تحریری طور پر تعزیت فرماتے تھے.ابتدا میں ایسے خطوط خود اپنے ہاتھ سے ہی لکھا کرتے تھے.لیکن جب کثرت سے سلسلہ پھیل گیا اور آپ کی مصروفیت کا دامن وسیع ہو گیا تو اس قسم کے خطوط کے لئے کا تب ڈاک کو بھی حکم دے دیتے تھے مگر اپنے مخلص احباب کے لئے اس وقت تک بھی یہی دستور تھا کہ اپنے ہاتھ سے خط تحریر فرمایا کرتے اور بعض دوستوں کے لئے آپ کا معمول تھا کہ رجسٹری کرا کر خط ہو یا پیکٹ کتاب و اشتہار بھیجا کرتے تھے.ایسے پیکٹ خود اپنے ہاتھ سے بھی بنا لیتے.ورنہ ان پر پتہ تو لازماً اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے.میں ذیل میں چند تعزیت نامے آپ کے درج
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۹ کرتا ہوں.ان سے معلوم ہو جائے گا کہ تعزیت تحریری میں آپ کا اسلوب کیا تھا.حضرت حکیم الامت کے بیٹوں کے تعزیت نامے حضرت مولا نا مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ ابھی جموں میں ملازم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا اعلان بھی نہیں کیا تھا.مولوی صاحب کو اسی زمانہ سے آپ کے ساتھ اخلاص و ارادت کا بے نظیر تعلق تھا.اگست ۱۸۸۵ء میں حضرت مولوی صاحب کے دو بچے یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے اور تیسرا بیمار ہو گیا.آپ نے اس موقعہ پر حضرت مولوی صاحب کو تعزیت کا خط لکھا.یہ خط قبولیت دعا کا بھی ایک نمونہ ہے اور اس میں دعا کے قبول ہونے کا ایک گر بھی بتایا گیا ہے.میں اس خط کو جو یہاں درج کر رہا ہوں وہ آپ کا نمونہ تعزیت دکھانے کے مقصد سے درج کر رہا ہوں.آپ تحریر فرماتے ہیں:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مکرم و مخدوم حکیم نور الدین صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.حال صدمہ وفات دولخت جگران مخدوم و علالت طبیعت پسر سوم سن کر موجب حزن و اندوه ہوا.اللہ تعالیٰ جَلَّشَانُہ آپ کو صدمہ گزشتہ کی نسبت صبر عطا فرمادے اور آپ کے قرۃ العین فرزند سوم کو جلد تر شفا بخشے.انشاء اللہ القدیر یہ عاجز آپ کے فرزند کی شفاء کے لئے دعا کرے گا.اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل وکرم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جميع شرائط کی جامع ہے.یہ امرکسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے.صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس کی مرضات حاصل کرنے کے لئے اگر آپ خفیہ طور پر اپنے فرزند دلبند کی شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کر رکھیں تو عجیب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کی اس صدق دلی کو قبول فرما کر ورطہ عموم سے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۰ آپ کو مخلصی عطا فرما دے.وہ اپنے مخلص بندوں پر اُن کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے.اس کو نذروں کی کچھ حاجت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا اسی راہ سے متحقق ہوتا ہے.استغفار اور تضرع اور تو بہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں بیچ اور بے سود ہیں.اپنے مولیٰ پر قوی امید رکھو اور اس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قوی الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا.اور اپنے سچے رجوع دلانے والوں کو ورطہ عموم میں نہیں چھوڑتا.رات کے آخری پہر میں اٹھواور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجالاؤ.اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو کہ اے میرے محسن اور میرے خدا میں ایک تیرا نا کارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.توں نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سو اب بھی مجھ نالائق اور پر گناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں.آمین ثم آمین.مگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے، فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقرار اور اپنے مولیٰ کے انعام و کرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں جوش دلی چاہیے اور رقت اور گر یہ بھی.یہ دعا معمولات اس عاجز سے ہے اور در حقیقت اسی عاجز کے مطابق حال ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنه ۲۰ اگست ۱۸۸۵ء حضرت حکیم الامت نے اس خط پر یہ نوٹ فرمایا ہے.وو الحکم مورخه ۲۴ فروری ۱۹۰۰ ء صفحه ۶،۵) یہ لڑ کا اس وقت اس مرض سے بچ گیا تھا پھر دوبارہ سُعَال وَ اُمُّ الصّبیان میں انتقال کر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ گیا.اِنِّی بِفِرَاقِهِ لَمَحْرُونٌ وَادْعُوا اللَّهَ بَدْلَهُ نورالدین ایک اور تعزیت نامہ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۱،۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ایسا ہی ستمبر ۱۸۸۶ء میں حضرت حکیم الامت کا ایک بچہ فوت ہو گیا.۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء کو آپ نے مندرجہ ذیل تعزیت نامہ تحریر فرمایا.بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مخدومی فکر می اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.استماع واقعہ وفات فرزند دلبند آن مخدوم سے حزن و اندوہ ہوا.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.خدا وند کریم بہت جلد آپ کو نعم البدل عطا کرے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے.انسان کے لئے اس کے گوشہ ، جگر کا صدمہ بڑا بھارا زخم ہے اس لئے اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے.اللہ جل شانہ آپ کو جلد تر خوش کرے.آمین ثم آمین مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کے نام تعزیت نامہ حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ کے اول الخادمین اور مخلصین میں سے ایک تھے.اپنی ساری عمر ساری کمائی کو وہ اس راہ میں خرچ کر دینا ایک معمولی بات سمجھتے تھے.ان کے گھر میں ایک ہی بیٹا تھا اور وہ فوت ہو گیا.آپ نے ان کو مندرجہ ذیل تعزیت نامہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبّی اخویم چوہدری رستم علی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى - السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں.اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو اس غم کو غلط کریں خدا تعالیٰ نعم البدل اجر عطا کر دے گا.وہ ہر چیز پر قادر ہے.خدا تعالیٰ کے خزانوں میں بیٹوں کی کمی نہیں.غم کو انتہا تک لے جانا اسلام کے خلاف ہے.میری نصیحت محض اللہ ہے جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے.اگر آپ کو اولا د اور لڑکوں کی خواہش ہے تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں.علاوہ اس کے شریعت اسلام کی رو سے دوسری شادی بھی سنت ہے میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ ایک دوسری شادی بھی کر لیں جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاندان سے ہو.اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا اور تقویٰ تعد ِد ازدواج کو چاہتا ہے.اچھی بیوی جو نیک اور موافق اور خوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے.قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے اس کی تلاش ضرورضرور رکھیں.آپ ابھی نوجوان ہیں خدا تعالیٰ اولا د بہت دے دے گا.اس کے فضل پر قوی امید رکھیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۷۸ ۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٠٣ سندرداس کی تعزیت کا خط چوہدری صاحب کے نام چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نام ایک نوجوان کے ساتھ محبت تھی وہ سمجھتے تھے کہ وہ مسلمان ہو جائے گا اور یہ محبت انکی ایک عشق کا رنگ رکھتی تھی.اس کے لئے وہ حضرت اقدس کو خطوط بھی لکھتے رہتے تھے وہ بیمار ہوا اور فوت ہو گیا.چوہدری صاحب کو اس کا صدمہ اپنے کسی عزیز سے کم نہ ہوا.حضرت اقدس نے تعزیت نامہ اس وفات پر لکھا وہ بہت ہی سبق آموز اور مؤثر ہے.آپ نے نہ صرف ایک بلکہ متواتر دو تعزیت نامے لکھے جن کو میں یہاں درج کرتا ہوں.پہلا خط تعزیت بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مکر می اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۱۳ ۱۴ فروری ۱۸۸۸ء کی گزشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خواہیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم و غم و مصیبت معلوم ہوتی تھی.میں نہایت وحشت وتر ڈو میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا چنانچہ کل سندر داس کی وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا، إِنَّ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی غم تھا جس کی طرف اشارہ تھا.خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے.(1) ترا با ہر کہ رودر آشنائی است قرار کارت آخر برجدائی است (۲) ز فرقت بردلے باری نباشد که با میرنده اش کار نباشد ترجمہ.ا.تجھے جس کسی سے بھی دوست کا تعلق ہے اس کا انجام آخر جدائی ہے.۲.اس شخص کی جدائی سے دل کو صدمہ نہیں ہوتا جسے مرنے والے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اس کی غیرت مجھے کبھی ایسا موقع چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا جیسا آج ہے.جاننا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی.ایمان جو ہمیں سب سے زیادہ پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں.اللہ جل شانہ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرة: ١٦٢) - یعنی جو مومن ہیں وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے محبت ایک خاص حق اللہ جَلَّ شَانُہ کا ہے.جو شخص اس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہوگا.تمام برکتیں جو مردان خدا کو ملتی ہیں.تمام قبولیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزہ سے ملتی ہیں.مردان خدا کی قبولیت کا راز ہرگز نہیں بلکہ وہ تو حید فی المحبت سے ملتی ہیں اسی کے ہو جاتے ہیں اسی کے ہو رہتے ہیں اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں.میں خوب اس درد کی حقیقت کو پہچانتا ہوں جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یک دفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے.لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میں ہے کہ ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور نہ ہونا چاہیے؟ ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا جس سے الہی محبت باہر ہو خواہ وہ بیٹا یا دوست کوئی ہو ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر نعمت و رحمت الہی تدارک نہ کرے تو سلپ ایمان کا خطرہ ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ حضرت مسیح موعود کا مقام خدا کی محبت میں سوار سو آپ یہ اللہ جل شانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا.عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرۃ: ۲۷) اور نیز ایک جگہ فرماتا ہے.مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِيبَةِ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (التغابن :۱۲) یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ لہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو خدا تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے.یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی وہ اسے سمجھا دیتا ہے اور خدا کو ہر ایک چیز معلوم ہے.میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا.اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے.چاہیے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں.غیر اللہ کی محبت سے نجات کی دعا يَا أَحَبُّ مِنْ كُلِّ مَحْبُوبِ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَتُبْ عَلَيَّ وَادْخِلْنِي فِي عِبَادِكَ الْمُخْلَصِينَ.آمین والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵رفروری ۱۸۸۸ء الحکم مورخه ۱ را گست ۱۹۰۱ء صفحه ۹ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۳۹٬۵۳۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۶ دوسرا خط تعزیت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مند و می مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کے ساتھ ربط ملاقات پیدا کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بدلا دیا جائے تا عاقبت درست ہو.سند رداس کی وفات کے زیادہ غم سے آپ کو پر ہیز کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ کا ہر ایک کام انسان کی بھلائی کے لئے ہے گو انسان اس کو سمجھے یا نہ سمجھے.جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد بیعت ایمان لینا شروع کیا تو اس بیعت میں یہ داخل تھا کہ اپنا حقیقی دوست خدا تعالیٰ کو ٹھہرایا جائے اور اس کے ضمن میں اس کے نبی اور درجہ بدرجہ تمام صلحاء کو اور بغیر علت دینی کے کسی کو دوست نہ سمجھا جائے یہی اسلام ہے جس سے آجکل لوگ بے خبر ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: ۱۱۲) یعنی ایمانداروں کا کامل دوست خدا ہی ہوتا ہے وبس.جس حالت میں انسان پر خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کا حق نہیں تو اس لئے خالص دوستی محض خدا تعالیٰ کا حق ہے.صوفیاء کو اس میں اختلاف ہے.کہ جو مثلاً غیر سے اپنی محبت کو عشق تک پہنچاتا ہے اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ اکثر یہی کہتے ہیں کہ اس کی حالت حکم کفر کا رکھتی ہے گو احکام کفر کے اس پر صادر نہیں ہو سکتے.کیونکہ باعث بے اختیاری مرفوع القلم ہے تاہم اس کی حالت کفر کی صورت میں ہے کیونکہ عشق اور محبت حق الله جل شانہ کا ہے اور وہ بددیانتی کی راہ سے خدا تعالیٰ کا حق دوسرے کو دیتا ہے اور یہ ایک ایسی صورت ہے جس میں دین اور دنیا دونوں کے وبال کا خطرہ ہے.راست بازوں نے اپنے پیارے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا.اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۰۷ میں دیں تا توحید کی حقیقت انہیں حاصل ہو.سو میں آپ کو خالصتاً لِلله نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اس حزن و غم سے دست کش ہو جائیں اور اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں تا وہ آپ کو بخشے اور آفات سے محفوظ رکھے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان یکم مارچ ۱۸۸۸ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۴۱،۵۴۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ان تعزیت ناموں پر مجھے کسی ریمارک کی ضرورت نہیں ان سے حضرت مسیح موعود کا وہ مقام معلوم ہوتا ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کے بعد ملا تھا اور آپ کے قلب پر دنیا کی ساری محبتیں سرد ہو چکی تھیں اور یہی روح اور قوت آپ اپنے مخلص دوستوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے.یہ بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کہنے اور حق کی طرف بلانے میں آپ کو کوئی چیز روک نہیں ہو سکتی تھی.دنیا کے گدی نشین اور علماء کی یہ حالت نہیں وہ اپنے دوستوں کو جس رنگ کا پاتے ہیں اُسی رنگ کے جواز کی صورتیں پیدا کر دیتے ہیں گویا وہ خود ان کے نص کی اتباع کرتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود کا طریق بالکل جدا گانہ ہے.آپ نے اپنے ایک نہایت مخلص خادم میں ایک غلطی کا احساس کیا کہ وہ غیر اللہ سے محبت کا وہ رنگ رکھتے ہیں یا پیدا کر رہے ہیں جو خدا کی غیرت اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.آپ نے اس حالت میں کہ ان کا دل صد مہ رسیدہ تھا اس کی اصلاح کے لئے پردہ برانداز نصیحت فرمائی ہے.جس سے اس حقیقی خیر خواہی اور محبت الہی کا بھی پتہ لگتا ہے.جو آپ کو چوہدری رستم علی صاحب سے تھی.غرض تعزیت میں آپ کا یہ رنگ تھا.کہ دنیا اور اس کے متعلقات کی محبت سرد ہو جائے.اور انسان اپنی توجہ اور محبت کی عنان کو خدا تعالیٰ ہی کی طرف رکھے.اس قسم کی تعزیت انسان کے زخمی دل پر فی الحقیقت مرہم کا کام دیتی ہے آپ نے اس سے تعلیم دی ہے کہ ہم کو تعزیت کے لئے کیا طریق
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ اختیار کرنا چاہیے.لوگ ایسے موقع پر ایسی باتیں کرتے ہیں جو بجائے تسلی اور اطمینان کے جگر دوز اور غم والم کے محرکات ہو جاتی ہیں اور بجائے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے اس سے دور پھینک دیتی ہیں.اب تعزیت کے دو خط اور درج کرتا ہوں.جو آپ نے مخدومی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو ان کی پہلی بیگم صاحبہ کی وفات پر لکھے.نواب محمد علی خان صاحب کی بیگم صاحبہ اولیٰ کی وفات پر تعزیت کا خط بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج صدمہ عظیم کی تار مجھ کوملی.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمادے اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے.میں اس درد کو محسوس کرتا ہوں جو اس ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہوگا.اور میں دعا کرتا ہوں کہ آئندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے آپ کو بچاوے اور پردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے.میرا اس وقت آپ کے درد سے دل دردناک ہے اور سینہ نظم سے بھرا ہے.خیال آتا ہے کہ دنیا کیسی بے بنیاد ہے.ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہوا ہو، ویران بیابان دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولادکو اور اقبال اور سعادت بخشے.لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یا درکھیں.پہلی دو تاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمار ہیں.تیسرا مہینہ ہے.دست اور مروڑ ہیں.کمزور ہو گئے ہیں.بعض وقت ایسی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام السلام ۲۰۹ حالت ہو جاتی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ فشی پڑ گئی.اور حاملہ کی غشی گویا موت ہے.دعا کرتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقع بھی نہ ملا.تاریں بہت بے وقت پہنچیں.اب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ پہلے ہی بہت نحیف ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں.اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں.ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کو دل پر غالب نہ ہونے دیں میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطر ناک حالت ہو جاتی ہے...خاکسار غلام احمد از قادیان دوسرا خط ۸/ نومبر ۱۸۹۸ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۲۳۲ ۲۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر اور استقامت بخشے اور اس مصیبت کا اجر عطا فرمادے.دنیا کی بلائیں ہمیشہ نا گہانی ہوتی ہیں.یہ نہایت ضروری ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو.آپ دوسری شادی کی تجویز کریں.میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو اس صدمہ سے دل پر کوئی حادثہ نہ پہنچے.جہاں تک ممکن ہو کثرت غم سے پر ہیز کر یں دنیا کی یہی رسم ہے.نبیوں اور رسولوں کے ساتھ یہی ہوتی آئی ہے.
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ خدا اپنے پیاروں کو امتحان میں ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ جس سے پیار کرتا ہے اُسے کسی امتحان میں ڈالتا ہے اور جب وہ اپنے امتحان میں پورا نکلتا ہے تو اس کو دنیا اور آخرت میں اجر دیا جاتا ہے.نواب صاحب کی نسبت الہام ایک امر آپ کو اطلاع دینے لائق ہے کہ آج جو پیر کا دن ہے.یہ رات پیر کی جو گزری ہے.اس میں غالباً تین بجے کے قریب آپ کی نسبت الہام ہوا اور وہ یہ ہے کہ فَبِأَيِّ عَزِيزِ بَعْدَهُ تَعْلَمُونَ اللَّهُ جَلَّ شَانُہ کا کلام ہے.وہ آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اس حادثہ کے بعد اور کونسا بڑا حادثہ ہے جس سے تم عبرت پکڑو گے اور دنیا کی بے ثباتی کا تمہیں علم ہوگا.میاں بیوی کا رشتہ سب سے نرالا ہوتا ہے درحقیقت اگر چہ بیٹے بھی پیارے ہوتے ہیں.بھائی اور بہنیں بھی عزیز ہوتی ہیں لیکن میاں بیوی کا علاقہ ایک الگ علاقہ ہے جس کے درمیان اسرار ہوتے ہیں.میاں بیوی ایک ہی بدن اور ایک ہی وجود ہو جاتے ہیں ان کو صد ہا مرتبہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ سوتے ہیں وہ ایک دوسرے کا عضو ہو جاتے ہیں.بسا اوقات ان میں ایک عشق کی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے اس محبت اور با ہم انس پکڑنے کے زمانہ کو یاد کر کے کون دل ہے جو پر آب نہیں ہو سکتا.یہی وہ تعلق ہے جو چند ہفتہ باہر رہ کر آخر فی الفور یاد آتا ہے.اسی تعلق کا خدا نے بار بار ذکر کیا ہے کہ باہم محبت اور انس پکڑنے کا یہی تعلق ہے.بسا اوقات اس تعلق کی برکت سے دنیوی تلخیاں فراموش ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس تعلق کے محتاج تھے.جب سرور کائنات صلی اللہ.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۱ علیہ وسلم بہت ہی غمگین ہوتے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے.اَرِحُنَا يَا عَائِشَة یعنی اے عائشہ میں خوش کر کہ ہم اس وقت غمگین ہیں.اس سے ثابت ہے کہ اپنی پیاری بیوی.پیارا رفیق اور انیس عزیز ہے جو کہ اولا د کی ہمدردی میں شریک غالب اور غم کو دور کرنے والی اور خانہ داری کے معاملات کی متوتی ہوتی ہے.جب وہ ایک دفعہ دنیا سے گزر جاتی ہے تو کیسا صدمہ ہے اور کیسی تنہائی کی تاریکی چاروں طرف نظر آتی اور گھر ڈراؤنا معلوم ہوتا ہے اور دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے.سواس الہام میں خدا تعالیٰ نے یہی یاد دلایا ہے کہ اس صدمہ سے دین میں قدم آگے رکھو.نماز کے پابند اور سچے مسلمان بنواگر ایسا کرو گے تو خدا جلد اس کا عوض دے گا اور غم کو بھلا دے گا.وہ ہر ایک بات پر قادر ہے یہ الہام تھا اور پیغام تھا اس کے بعد آپ ایک تازہ نمونہ دین داری کا دکھلائیں.خدا برحق ہے، اور اس کے حکم برحق ، تقویٰ سے غموں کو دور کر دیتا ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد نومبر ۱۸۹۸ء ) مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ پنجم صفحه ۳۰۴٬۳۰۳ مطبوعه ارجون ۱۹۴۴ء) اس تعزیت کے خط نے حضرت نواب صاحب کی حالت بدل دی اور واقعات بتلاتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس تعزیت نامہ سے ایک زندگی کی روح پائی جو ان کو نیچے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف اٹھا کر لے گئی اور اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہ شرف اور عزت دی جو دنیا میں کسی اور کے حصہ نہیں آسکتی.اس امتحان کے بعد پھر انہوں نے حضرت کے منشا کے موافق دوسری شادی کی اور وہ خاتون نیک دل بھی خدا کی مشیت کے ماتحت اور بطور ایک نشان کے فوت ہو گئی.تب اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے وہ سامان پیدا کیا جس نے ان کو دنیا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ میں ممتاز اور مختص کر دیا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تعلقات صہری قائم ہوئے.سیرت کے اس حصہ میں نواب صاحب کے فضائل پر بحث کرنا مقصود نہیں مگر میں واقعات کی اس شہادت کو مخفی نہیں رکھ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات پر عمل کرنے کا یہ ثمرہ ہے اور الہام الہی پر ایمان لا کر صبر ورضا کے مراحل طے کر کے اس امتحان میں پورا تر نے کا یہ اجر ہے.خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی اہلیہ کلاں کی تعزیت ۲۲ جولائی ۱۹۰۵ء کو مکرمی خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی اہلیہ کلاں کی وفات کا ذکر آیا تو آپ نے جناب مفتی محمد صادق صاحب کو ارشاد فرمایا کہ ” ہماری طرف سے ان کو تعزیت نامہ لکھ دیں کہ صبر کریں موت فوت کا سلسلہ لگا ہوا ہے.صبر کے ساتھ اجر ہے.فرمایا قبولیت دعا حق ہے لیکن دعا نے موت فوت کے سلسلہ کو بھی بند نہیں کیا.تمام انبیاء کے زمانہ میں یہی حال ہوتا رہا ہے.وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے ایمان کو اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہو اور ہماری خواہش پوری ہو.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن شریف میں آتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرُ إِطْمَانَ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةُ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (الحج: (١) - یعنی بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک کنارے پر کھڑے ہو کر کرتے ہیں.اگر اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو اطمینان ہو جاتا ہے اور اگر کوئی فتنہ پہنچے تو منہ پھیر لیتا ہے.ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کا نقصان ہے اور یہ نقصان ظاہر ہے.فرمایا صحابہ کے درمیان بھی بیوی بچوں والے تھے اور سلسلہ بیماری اور موت فوت کا بھی ان کے درمیان جاری تھا.لیکن ان میں ہم کوئی ایسی شکایت نہیں سنتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۳ جیسے کہ اس زمانہ کے بعض نادان شکایت کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ دنیا کی محبت کو طلاق دے چکے تھے وہ ہر وقت مرنے کے لئے تیار تھے.تو پھر بیوی بچوں کی ان کو کیا پروا تھی.وہ ایسے امور کے واسطے کبھی دعائیں نہ کراتے تھے اور اسی واسطے ان میں کبھی شکایتیں بھی پیدا نہ ہوتی تھیں.وہ دین کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر چکے ہوئے تھے.“ حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کی بہو کی تعزیت حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی سلسلہ کے ان مخلصین اور سَابِقُونَ الْأَوَّلُون میں سے تھے جو حضرت اقدس کو بہت ہی عزیز تھے.جنہوں نے سلسلہ کی اعانت میں بڑی مالی قربانیاں کیں اور بالآخر بڑے خطرناک مالی ابتلاؤں میں بلوئے گئے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور آپ کی دعاؤں نے آپ کے قلب کو مطمئن اور آپ کے ایمان کو زندہ ایمان بنا دیا تھا.یہ امر آپ کو ان مکتوبات سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو لکھے ( یہ مجموعہ الْحَمدُ لِلہ ایڈیٹر الحکم نے چھاپ دیا ہے ) انہیں مالی ابتلاؤں کے درمیان ان کو یہ صدمہ بھی پیش آیا کہ ان کے پیارے بیٹے سیٹھ احمد کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا.حضرت مسیح موعود السلام نے اس موقعہ پر تعزیت کے دو خط سیٹھ صاحب کو لکھے.میں اس باب کو انہیں مکتو بات پر ختم کر دیتا ہوں.پہلا خط مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سَلَّمَهُ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آج آپ کی تار کے ذریعہ سے یک دفعہ ایک غم کی خبر یعنی واقعہ وفات عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کا سُن کر دل کو بہت غم اور صدمہ پہنچا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۱۴ رَاجِعُونَ.دنیا کی نا پائیداری اور بے ثباتی کا یہ نمونہ ہے کہ ابھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ عزیز موصوف کی اس شادی کا اہتمام ہوا تھا اور آج وہ مرحومہ قبر میں ہے.جس قدر اس ناگہانی واقعہ سے آپ کو اور سب عزیزوں کو صدمہ پہنچا ہو گا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور نعم البدل عطا فرما دے اور عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی عمر لمبی کرے آمین ثم آمین.اس خبر کے پہنچنے پر ظہر کی نماز میں جنازہ پڑھا گیا اور نماز میں مرحومہ کی مغفرت کے لئے بہت دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس غم اور صدمہ کی عوض میں بہت خوشی پہنچاوے.آمین.باقی تادم تحریر خیریت ہے.دوسرا خط والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۱۳ / اگست ۱۸۹۹ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۴۰۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مخدومی مکر می اخویم سیٹھ صاحب سَلَّمَهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.مجھے سخت افسوس ہے جس کو میں بھول نہیں سکتا کہ مجھ کو قبل اس حادثہ وفات کے وقت اس کامل دعا کا موقع نہیں ملا جوا کثر کرشمہ قدرت دکھلاتی ہے.میں دعا تو کرتا رہا مگر وہ اضطراب جو سینہ میں ایک جلن پیدا کرتا ہے اور دل کو بے چین کرتا ہے وہ اس لئے کامل طور پر پیدا نہ ہوا کہ آپ کے عنایت نامہ جات میں جو حال میں آئے تھے یہ فقرہ بھی درج ہوتا رہا کہ اب کسی قدر آرام ہے اور آخری خط آپ کا جو
سیرت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ نہایت اضطراب سے بھرا ہوا تھا اس تار کے بعد آیا جس میں وفات کی خبر تھی.اس خانہ ویرانی سے جو دوبارہ وقوع میں آگئی رنج اور غم تو بہت ہے اور نہ معلوم آپ پر کیا کیا قلق اور رنج گزرا ہوگا لیکن خدا وند کریم ورحیم کی اس میں کوئی بڑی حکمت ہوگی.یہ بیماری طبیبوں کے نزدیک متعدی بھی ہوتی ہے اور اس گھر میں جو ایسی بیماری ہو سب کو خطرہ ہوتا ہے اور خاوند کے لئے سب سے زیادہ.سوشاید ایک یہ بھی حکمت ہو.خدا وند تعالیٰ عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی عمر دراز کرے اور اس کے عوض میں بہتر صورت عطا فرمائے.یہ ضروری ہے کہ آپ اس غم کو حد سے زیادہ اپنے دل پر نہ ڈالیں کہ ہر ایک مصیبت کا اجر ہے اور مناسب ہے کہ اب کی دفعہ ایسے خاندان سے رشتہ نہ کریں جن میں یہ بیماری ہے اور نیز جو آپ نے اپنے لئے تحریک کی تھی اس تحریک میں سُست نہ ہوں.خدا تعالیٰ پر توکل کر کے ہر ایک کام درست ہو جاتا ہے.باقی سب خیریت ہے.کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے انشاء اللہ القدیر دو تین ہفتہ تک چھپ جائے گی باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۶ استمبر ۱۸۹۹ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۴۰۳ مطبوعه ۲۰۰۸ء) غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیادت اور تعزیت کے لئے ہمیشہ مسنون طریق اختیار کرتے اور ان لوگوں کو ایسے طور پر تسلی اور حوصلہ دلاتے کہ اس وقت وہ ہم و غم ان کے دل سے ضرور کا فور ہو جاتا.اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے قلب مطمئن سے وہ بات نکلا کرتی تھی اور اس میں سچی ہمدردی اور حقیقی غم گساری کی روح ہوتی تھی.تکلف اور دنیا سازی نہیں ہوتی تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۶ لوگ عیادت یا تعزیت ایک رسم کے طور پر کرتے ہیں.یا اس کو ایک قسم کا اخلاقی تبادلہ سمجھتے ہیں کہ فلاں شخص میری عیادت کے لئے آیا تھا.اس لئے مجھے بھی جانا چاہیے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محض ان کے شفقت عَلى خَلْقِ اللہ کے اصول پر اور صبح کے رنگ میں اس خُلق عظیم کا ظہور ہوتا تھا اور یہی رنگ ہمارے عملی نقطہ نگاہ میں مدنظر رہنا ضروری ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۷ صبر اور رضا بالقضا یہ نہایت عالی مقام ہے جو ہر شخص کو میسر نہیں آتا.صبر بظاہر تو ایک نیچرل اور طبعی امر ہے جو انسان کو ان مصیبتوں اور دکھوں اور بیماریوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے مگر یہ صبر کوئی اخلاق میں داخل نہیں اور نہ انسان کے اخلاقی کمال کا ثبوت اور نہ کسی نیکی کے رنگ میں اجر کا موجب ہوسکتا ہے بلکہ وہ ایک طاقت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرور تا خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے.کیونکہ انسان یہ قدرت اور قوت نہیں رکھتا کہ ایک طویل زمانہ تک اس مصیبت پر ماتم کرتا رہے.بلکہ طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت رو تا چیختا ، سر پیٹتا ہے.آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہتا ہے پس یہ طبعی حرکت ہے.اخلاق سے اس کو کچھ تعلق نہیں بلکہ اس کے متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالی کی امانت سمجھ کر کوئی منہ پر نہ لاوے اور یہ کہے کہ خدا کا تھا اور خدا نے لے لیا اور ہم اس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں.یہ ابتلا اور مصائب کبھی خوف کے رنگ میں کبھی بھوک کے رنگ میں کبھی نقصان مال و جان اور کبھی نقصان ثمرات و نتائج کی صورت آتے ہیں جن میں اولاد کی اموات بھی ہوتے ہیں.پس اگر ان ابتلاؤں میں اس کی زندگی ایک مومن اور وفادار مومن کی ہے اور وہ صابر اور رضا بالقضا کے مقام پر کھڑا ہے تو قابل عزت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کے ابتلا اور مشکلات آئے مگر ان مصائب اور مشکلات نے آپ کے صبر اور رضا بالقضا کے مقام سے نیچے کو جنبش نہیں دی.پہاڑ کی طرح آپ اپنے مقام پر کھڑے رہے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے گئے.میں واقعات سے دکھاتا ہوں کہ آپ نے اپنے اخلاق کے اعجازی نمونے اس شعبہ اخلاق میں کس طرح دکھائے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا صاحبزادی عصمت کی وفات ۲۱۸ حضرت کی نسل سیدہ (حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ ) میں سب سے پہلی اولاد عصمت تھی.یہ وہ لڑکی تھی جس کی پیدائش پر دشمنوں نے بہت شور مچایا تھا کہ بیٹے کی بشارت تھی لڑکی پیدا ہوئی.اس کی پیدائش اور وفات دونوں ایک قسم کے ابتلا تھے.پیدائش پر مخالفین نے قسم قسم کے دکھ دینے والے اشتہار دیئے.استہزا اور ٹھٹھا کیا گیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی سنت کو جانتے تھے کہ خدا کے پیاروں پر ہنسی کی جاتی تھی.آپ خدا تعالیٰ کی بشارت فرزند پر ایمان رکھتے تھے اور اس وقت بھی اعلان کرتے تھے کہ ضرور بیٹا ہو گا.یہ تو الہام میں نہیں تھا کہ ابھی ہوگا یا اس حمل سے ہوگا بہر حال اس شماتت و استہزا میں بھی اپنے مولیٰ کریم سے اسی طرح خوش تھے.آخر وہ لڑکی لودہانہ میں بیمار ہوئی اور اُسے ہیضہ ہو گیا.آپ اس کے علاج میں اس قدر مصروف تھے کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں مگر بار یک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی پرورش اور رعایت مد نظر ہے.غرض عصمت کے بیمار ہونے پر آپ اُس کے علاج میں یوں دوا کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف و اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکا ہی نہیں کر سکتا.مگر جب وہ مرگئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں.اور جب سے کبھی ذکر تک ہی نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی.یہ مصالحت اور مسالمت خدا کی قضا و قدر سے بحجر منجانب اللہ لوگوں کے اور سے ممکن نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صاحبزادی عصمت کی وفات سے جہاں تک بشریت کا تعلق ہے گونا صدمہ ہوا جو اسی حد تک تھا مگر خدا تعالیٰ کی مقادیر سے کامل صلح اور مسالمت تھی اور آپ خدا کے اس فعل پر خوش و خرم تھے آپ کی خوشی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پہلے سے صاحبزادی مرحومہ کے متعلق آپ کو الہام بھی ہو گیا تھا."كَرَمُ الْجَنَّةِ دَوْحَةُ الْجَنَّةِ “ جس کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا السلام ۲۱۹ تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی.خدا تعالیٰ اپنے مخلص اور برگزیدہ بندوں کو قبل از وقت ایک واقعہ سے مطلع کر دیتا ہے.اور یہ اس کا فضل ہوتا ہے تا کہ وہ اس کے لئے تیار ہو جائیں.واقعہ بشیر اوّل جس طرح عصمت کی پیدائش اور موت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ابتلا سے گزرنا پڑا اور آپ نے اپنے ثبات قدم اور صدق و وفا کا ایک کامل نمونہ دکھایا اس طرح پر بشیر اول کی وفات پرتو وہ طوفان بے تمیزی پیدا ہوا کہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا اور خدا کی تائید اور اس کی نصرت اس کے ساتھ نہ ہوتی اور خدا کی مقادیر سے کامل صلح نہ ہوتی اور اس پر کامل اور زندہ ایمان نہ ہوتا تو شاید خودکشی کر لیتا.ہر طرف سے مخالفت کا ایک طوفان برپا کیا گیا اور کثرت سے اشتہارات اور خطوط مخالفوں نے شائع کئے.مجھ کو یہاں ان تمام حالات کا ذکر کرنا مقصود نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک مصلح موعود کی بشارت دی تھی.اس عظیم الشان مولود کے متعلق حضرت اقدس منتظر تھے.اعلان کے بعد عصمت پیدا ہوئی اور اس پر ایک طوفان بے تمیزی بر پا ہوا.حضرت اقدس کے پائے ثبات کو اس سے کوئی تزلزل نہیں ہوا.یہ امر اس اشتہار سے بخوبی ظاہر ہے جو اشتہار محک اخیارو الاشرار“ کے عنوان سے ریاض ہند پریس امرتسر میں چھپوا کر شائع کیا چنا نچہ آپ اس میں لکھتے ہیں.”ہم نے اُلفت میں تری بارا ٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا ہر ایک مومن اور پاک باطن اپنے ذاتی تجربہ سے اس بات کا گواہ ہے کہ جولوگ صدقِ دل سے اپنے مولیٰ کریم جَلَّ شَانُہ سے کامل وفاداری اختیار کرتے ہیں وہ اپنے ایمان اور صبر کے اندازہ پر مصیبتوں میں ڈالے جاتے ہیں اور سخت سخت آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں.ان کو بد باطن لوگوں سے بہت کچھ رنج وہ باتیں سنی پڑتی ہیں اور انواع واقسام کے مصائب و شدائد کو اٹھانا پڑتا ہے اور نا اہل لوگ طرح طرح کے منصوبے اور رنگ رنگ کے بہتان ان کے حق میں باندھتے ہیں اور اُن کے نابود کرنے کی فکر میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۰ لگے رہتے ہیں یہی عادت اللہ ان لوگوں سے جاری ہے جن پر اس کی نظر عنایت ہے.غرض جو اُس کی نگاہ میں راست باز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اٹھاتے چلے آئے ہیں.سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے اس لئے اگر ہم بھی خویش و بیگانہ سے کچھ آزار اٹھائیں تو ہمیں شکر بجالانا چاہیے.اور خوش ہونا چاہیے کہ ہم اس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لائق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ میں دکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں“.مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۰۸ طبع بار دوم ) اس اشتہار سے جہاں یہ ظاہر ہے کہ اس وقت کس قد رسب و شتم اور ہنسی ٹھٹھا کیا گیا وہاں یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ خدا کی مقادیر سے کس قدر صلح رکھتے تھے اور کس قدر رضا بالقضا کے عامل تھے.غرض صاحبزادی عصمت کی پیدائش پر مخالفین نے شور مچایا اور پھر اس پر طرہ یہ کہ وہ بھی فوت ہو گئی.اس کے بعد اس بشارت موعودہ کے زیر نظر جب بشیر اول پیدا ہوا تو اجتہادی طور پر حضرت اقدس نے اس بشیر کو موعود خیال کرنا چاہا مگر خود پیشگوئی میں جو الفاظ تھے وہ اس کی موت پر دلالت کرتے تھے چنانچہ اس وعدہ الہی کے ماتحت بشیر اول بھی فوت ہو گیا.بشیر اول ۷ راگست ۱۸۸۷ء کی رات کو ڈیڑھ بجے کے قریب پیدا ہوا تھا اور ۱۴ نومبر ۱۸۸۸ء کو بروز یک شنبہ اپنی عمر کے سولہویں مہینے بوقت صبح فوت ہو گیا.بشیر اوّل کے عقیقہ کی تقریب پر بہت سے لوگ آئے تھے اور اس کی پیدائش پر ایک اشتہار بعنوان خوشخبری شائع ہوا تھا لیکن جب اس قدر اعلان واشتہار اس کے متعلق ہو چکا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت اور مشیت سے بشیر اوّل کو بلا لیا.بشیر اول کی وفات والدین کے لئے بیٹے کے داغ کی حیثیت سے ہی بڑا صدمہ نہ تھا بلکہ سب سے بڑا دکھ اور تکلیف اور ہمت آزما ابتلا یہ تھا کہ مخالفین نے ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا.عیسائیوں آریوں اور مخالف الرائے مسلمانوں نے اس پر شور مچایا اور مختلف قسم کے اشتہار شائع کئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اس پر جو حقانی تقریر شائع کی ہے اس میں ابتدا ء لکھا ہے کہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ عجیب طور کا شور و غوغا خام خیال لوگوں میں اٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کج دلی کی راہیں ظاہر کی گئیں.مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افترا ہے انہوں نے اس بچہ کی وفات پر انواع و اقسام کی افتر اگھڑنی شروع کی.( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۴۱ اطبع بار دوم - روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۴۴۷) اگر ان اشتہارات کے بعض حصے میں یہاں درج کروں تو ہر شخص کا حوصلہ نہیں کہ ان کو سن بھی سکے.مگر حضرت مسیح موعود کے حوصلہ اور رضا بالقضا کے نمونہ کو دیکھو کہ آپ نہ صرف خود آرام یافتہ اور تسلی یافتہ قلب رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو آپ سے تعلق اور ارادت رکھتے تھے ان کو بھی اس موقع پر معرفت کے پانی سے سیراب کرتے ہیں.حقانی تقریر جو اس موقع پر آپ نے شائع کی وہ دیکھنے کے قابل ہے.اس میں حقانی علوم اور معرفت کے دریا بہا دیئے ہیں.کیا کوئی پریشان خاطر صدمہ رسیدہ دل ایسے موقع پر ربانی معرفت کے چشمہ کو جاری کر سکتا ہے.آزرده دل آزرده کند انجمنی را ایک صحیح مقولہ ہے.لیکن حضرت مسیح موعود کی مجلس میں دیکھا ہے کہ کیسا ہی غم زدہ ہو آپ کے پاس بیٹھ کر تلی اور اطمینان پاتا تھا.جس سے پایا جاتا ہے کہ آپ کو ایک مطمئن قلب اور معرفت کی مسرت و انبساط سے معمور دل دیا گیا تھا ، جو اطمینان اور سکینت کی لہریں ہر طرف بجلی کی لہروں کی طرح پھیلا رہا تھا.بشیر اؤل کی وفات پر آپ نے حضرت حکیم الامت کو ایک لمبا خط لکھا اس میں تحریر فرمایا کہ اس جگہ یہ بھی تحریر کے لائق ہے کہ اس کی موت سے پہلے اللہ جل شانہ نے اس عاجز کو پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کر چکا ہے اور اب فوت ہو جائے گا اسی وجہ سے اس کی موت نے اس عاجز کی قوت ایمانی کو بہت ترقی دی اور آگے قدم بڑھایا.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
سیرت ضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ اور اسی اشتہار میں آپ نے بیعت لینے کا اعلان کیا.غور کرو کہ ایک طرف مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور اعتراضوں کی بھر مار اور بوچھاڑ ہو رہی ہے اور آپ بیعت کے لئے لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں؟ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے نہ ہوتا اور آپ خدا کے بلائے نہ بولتے اور بشیر اؤل کی وفات آپ کی ایمانی اور عرفانی ترقیات کا موجب نہ ہوتی تو ایسی حالت میں کوئی دنیا دار مد تر کبھی بھی اس قسم کا شتہار بیعت کے لئے جاری نہ کرتا.یہ حالات کیا ظاہر کرتے ہیں یہ کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر ابتلا اور آزمائش کے وقت خوشی ہوتی اور آپ شرح صدر سے رضا بالقضا کا ایک مکمل نمونہ ہوتے تھے.میں اس موقع پر ” حقانی تقریر کا مندجہ ذیل اقتباس دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ آپ کی معرفت اور بصیرت کی ترقی اور آپ کے علوم میں ازدیاد اور آپ کے قلب مطمئن کی ایک تفسیر اور تصویر ہے.یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ کی اجتہادی غلطی سے ربانی پیش گوئیوں کی شان و شوکت میں فرق آجاتا ہے یا وہ نوع انسان کے لئے چنداں مفید نہیں رہتیں یا وہ دین اور دینداروں کے گروہ کو نقصان پہنچاتی ہیں کیونکہ اجتہادی غلطی اگر ہو بھی تو محض درمیانی اوقات میں بطور ابتلاء کے وارد ہوتی ہے اور پھر اس قدر کثرت سے سچائی کے نور ظہور پذیر ہوتے ہیں اور تائیدات الہیہ اپنے جلوے دکھاتے ہیں کہ گویا ایک دن چڑھ جاتا ہے اور مخاصمین کے سب جھگڑے ان سے انفصال پاجاتے ہیں.لیکن اس روز روشن کے ظہور سے پہلے ضرور ہے کہ خدائے تعالیٰ کے فرستادوں پر سخت سخت آزمائشیں وارد ہوں اور ان کے پیرو اور تابعین بھی بخوبی جانچے اور آزمائے جائیں تا خدا تعالیٰ بچوں اور کچوں اور ثابت قدموں اور بُزدلوں میں فرق کر کے دکھلا دیوے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ عشق اول سرکش و خونی بود تا گریز دہر کہ بیرونی بود ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے اُن کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام ونشان مٹادیوے کیونکہ یہ تو ہر گز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے بچے اور وفا دار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچاوے اور الہی معارف کے بار یک دقیقے اُن کو سکھاوے.یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت داؤد کی ابتدائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تفرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں کہ اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ حمید حاشیہ.زبور میں حضرت داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے جو انہوں نے ابتلائی حالت میں کیں ایک یہ ہے اے خدا تو مجھ کو بچالے کہ پانی میری جان تک پہنچے ہیں.مگر میں گہری پہنچ میں جھنس چلا جہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں.میں چلاتے چلاتے تھک گیا.مگر میری آنکھیں دھندلا گئیں.وہ جو بے سبب میرا کینہ رکھتے ہیں.شمار میں میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں.اے خداوند رب الافواج وہ جو تیرا انتظار کرتے ہیں میرے لئے شرمندہ نہ ہوں.وہ جو تجھ کو ڈھونڈتے ہیں وہ میرے لئے ندامت نہ اٹھاویں.وے پھاٹک پر بیٹھے ہوئے میری بابت بکتے ہیں اور نشے بازمیرے حق میں گاتے ہیں.تو میری ملامت کشی اور میری رسوائی اور میری بے حرمتی سے آگاہ ہے.میں نے تا کا کہ کیا کوئی میرا ہمدرد ہے کوئی نہیں.(دیکھوز بو ۶۹) ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے ابتلاء کی رات میں جس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا السلام ۲۲۴ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء اُن مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے اُنہوں نے پالئے.ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے بچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مردوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مور دغضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ اُن پر ذرا مہربان نہیں بلکہ اُن کے دشمنوں پر مہربان ہے اور اُن کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سُست اور دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا باران پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا بقیہ حاشیہ.قدرتضرعات کئے وہ انجیل سے ظاہر ہیں تمام رات حضرت مسیح جاگتے رہے اور جیسے کسی کی جان ٹوٹتی ہے غم واندوہ سے ایسی حالت ان پر طاری تھی وہ ساری رات رور وکر دعا کرتے رہے کہ تا وہ بلا کا پیالہ کہ جوان کے لئے مقدر تھائل جائے پر باوجود اس قدر گریہ وزاری کے پھر بھی دعا منظور نہ ہوئی کیونکہ ابتلاء کے وقت کی دعا منظور نہیں ہوا کرتی.پھر دیکھنا چاہیئے کہ سیدنا ومولانا حضرت فخر الرسل و خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتلاء کی حالت میں کیا کیا تکلیفیں اٹھا ئیں اور ایک دُعا میں مناجات کی کہ اے میرے رب میں اپنی کمزوری کی تیری جناب میں شکایت کرتا ہوں اور اپنی بیچارگی کا تیرے آستانہ پر گلہ گزار ہوں میری ذلت تیری نظر سے پوشیدہ نہیں جس قدر چاہے سختی کر کہ میں راضی ہوں جب تک تو راضی ہو جائے مجھ میں بجز تیرے کچھ قوت نہیں.منہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ اور جس قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اُسی قدر اُن کی ہمت بلند اور ان کی شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہو گئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے غرض انبیاء و اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلاء نازل ہوتے ہیں اور انہیں کی قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے عوام الناس جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کر سکتے ویسے اس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص اُن محبوبانِ الہی کی آزمائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑ جاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا صبر نہیں کر سکتے کہ ان کے انجام کے منتظر رہیں.عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جَلَّ شَانُــهُ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اُس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کر دیوے بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اُس کے برگ اور بار میں برکت ہو.پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کیلئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں اور جس شخص کو اس سنت کے برخلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی.اور نیز یا درکھنا چاہیے کہ یہ نہایت درجہ کی بدقسمتی و نا سعادتی ہے کہ انسان جلد تر بدظنی کی طرف جھک جائے اور یہ اصول قرار دے دیوے کہ دنیا میں جس قدر خدائے تعالیٰ کی راہ کے مدعی ہیں وہ سب مگار اور فریبی اور دوکاندار ہی ہیں کیونکہ ایسے ردی اعتقاد سے رفتہ رفتہ وجو د ولایت میں شک پڑے گا اور پھر ولایت سے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ انکاری ہونے کے بعد نبوت کے منصب میں کچھ کچھ ترددات پیدا ہو جاویں گے.اور پھر نبوت سے منکر ہونے کے پیچھے خدائے تعالیٰ کے وجود میں کچھ دغدغہ اور خلجان پیدا ہو کر یہ دھوکا دل میں شروع ہو جائے گا کہ شاید یہ ساری بات ہی بناوٹی اور بے اصل ہے اور شاید یہ سب اوہام باطلہ ہی ہیں کہ جولوگوں کے دلوں میں جمتے ہوئے چلے آئے ہیں.سواے سچائی کے ساتھ بجان و دل پیار کرنے والو اور اے صداقت کے بھوکو اور پیاسو! یقیناً سمجھو کہ ایمان کو اس آشوب خانہ سے سلامت لے جانے کیلئے ولایت اور اسکے لوازم کا یقین نہایت ضروریات سے ہے.ولایت نبوت کے اعتقاد کی پناہ ہے اور نبوت اقرار وجود باری تعالیٰ کیلئے پناہ.پس اولیا ء انبیاء کے وجود کیلئے سیخوں کی مانند ہیں اور انبیاء خدا تعالیٰ کا وجود قائم کرنے کیلئے نہایت مستحکم کیلوں کے مشابہ ہیں سوجس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں اُس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے اور جس کو نبی کی کامل معرفت نہیں وہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت سے بھی بے بہرہ ہے اور ایک دن ضرور ٹھوکر کھائے گا اور سخت ٹھوکر کھائے گا اور مجرد دلائل عقلیہ اور علوم رسمیہ کسی کام نہیں آئیں گی.اب ہم فائدہ عام کیلئے یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتے ہیں کہ بشیر احمد کی موت نا گہانی طور پر نہیں ہوئی بلکہ اللہ جل شانہ نے اُس کی وفات سے پہلے اس عاجز کو اپنے الہامات کے ذریعہ سے پوری پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کر چکا ہے اور اب فوت ہو جاوے گا بلکہ جو الہامات اُس پسر حمد حاشیہ.خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں.(۱) اول یہ کہ کوئی مصیبت اور غم واندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اُس نے خود فرمایا ہے.وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ - أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ الجزو نمبر ٢ (البقرة: ۶ ۱۵ تا ۱۵۸) یعنی ہمارا یہی قانون قدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے ہیں اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ متوفی کی پیدائش کے دن میں ہوئے تھے ان سے بھی اجمالی طور پر اُس کی وفات کی نسبت بو آتی تھی اور مترشح ہوتا تھا کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلاء عظیم کا موجب ہوگا جیسا کہ یہ الہام إِنَّا اَرْسَلْنَاهُ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِيرًا كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ كُلُّ شَيْءٍ تَحْتَ قَدَمَيْهِ یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں یعنی اُس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو اس کی موت سے مراد ہے ظہور میں آجائیں گی.سو تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلاء کی تاریکیاں تھیں جو لوگوں کو اس کی موت سے پیش آئیں اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا اور آیت کریمہ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا (البقرۃ: ۲۱) کے مصداق ہو گئے اور الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اُس عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسر متوفی کے قدم اٹھانے کے بعد پہلی ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق.اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا بقیہ حاشیہ.صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جوصبر کرتے ہیں.(۲) دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و تبیین وائمہ واولیاء وخلفاء ہے.تا اُن کی اقتداء وہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور اُن کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں سوخدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں.پس اول اُس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تابشرِ الصَّابِرِينَ کا سامان مومنوں کے لئے طیار کر کے اپنی بشریت کا مفہوم پورا کرے سو وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں محض اللہ شریک ہوئے بطور فرط کے ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کا شفیع ٹھہر گیا اور اندر ہی اندر بہت سی برکتیں ان کو پہنچا گیا اور یہ بات کھلی کھلی الہام الہی نے ظاہر کر دی کہ بشیر جوفوت ہو گیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا بلکہ اس کی موت اُن سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی.جنہوں نے محض اللہ اس کی موت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۸ شروع ہوا یعنی پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلا کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے اور جس طرح ظلمت ظہور میں آ گئی اسی طرح یقیناً جاننا چاہیئے کہ کسی دن وہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آ جائے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے.جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹادے گی اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مُردہ دلوں کے منہ سے نکلے ہیں اُن کو نابود اور نا پدید کر دے گی یہ الہام جو ابھی ہم نے لکھا ہے ابتدا سے صدہا لوگوں کو بہ تفصیل سنا دیا گیا تھا چنانچہ منجملہ سامعین کے مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی بھی ہیں اور کئی اور جلیل القدر آدمی بھی.اب اگر ہمارے موافقین و مخالفین اسی الہام کے مضمون پر غور کریں اور دقت نظر سے دیکھیں تو یہی ظاہر کر رہا ہے کہ اس ظلمت کے آنے کا پہلے سے جناب الہی میں ارادہ ہو چکا تھا جو بذریعہ الہام بتلایا گیا اور صاف ظاہر کیا گیا کہ ظلمت اور روشنی دونوں اس لڑکے کے قدموں کے نیچے ہیں یعنی اس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے اُن کا آنا ضرور ہے سواے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی بشیر کی موت نے جیسا بقیہ حاشیہ سے غم کیا اور اس ابتلاء کی برداشت کر گئے کہ جو اس کی موت سے ظہور میں آیا غرض بشیر ہزاروں صابرین وصادقین کے لئے ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا تھا اور اس پاک آنے والے اور پاک جانے والے کی موت ان سب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہو گئی.اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کے تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا.جیسا کہ بشیر اول کی موت سے پہلے.ار جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں اس کے بارہ میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے اور وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.يَخْلُقُ اللهُ مَا يَشَآءُ اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کی پیدائش ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیر کے متعلق پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے.منہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۲۹ کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا ایسا ہی اس پیشگوئی کو بھی کہ جو ۲۰ فروری کے اشتہار میں ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہوں گے.بالآخر یہ بھی اس جگہ واضح رہے کہ ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعوی کو قبول کرتے ہیں یا ر ڈ اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین بلکہ ہم سب سے اعراض کر کے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں گو بعض ہم میں سے اور ہماری ہی قوم میں سے ایسے بھی ہیں کہ وہ ہمارے اس طریق کو نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو معذور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو ہم پر ظاہر کیا گیا ہے وہ ان پر ظاہر نہیں اور جو ہمیں پیاس لگا دی گئی ہے وہ انہیں نہیں.كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِه - (بنی اسرائیل: ۸۵).“ 66 (روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۴۵۷ تا ۴۶۴) صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا حادثہ اسی قسم کے واقعات میں سے صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات کا واقعہ ہے.صاحبزادہ مبارک احمد خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے ایک نشان تھا اور خدا تعالیٰ نے اس کی پیدائش سے پیشتر اس کے متعلق مبشر وعدہ فرمایا اور وہ وعدہ کے موافق آیا اور وعدہ کے موافق اٹھایا گیا.مبارک احمد بیمار ہوا آپ نے اس کی تیمارداری میں رات دن ایک کر دیئے اور ایک دنیا دار آپ کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ یقیناً یہ قیاس کرتا کہ اس شخص کے لئے اس بچے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں مگر یونہی مبارک احمد اپنے مولیٰ سے جاملا آپ کا چہرہ ایسا بشاش اور مطمئن تھا گویا وہ عید کا دن تھا.چونکہ یہ واقعہ میری آنکھ نے دیکھا اور خدا تعالیٰ کے فضل نے مجھے توفیق دی تھی کہ میں ان حالات کو اسی وقت شائع کر دوں اس موقع پر میں نے اخبار احکام ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء میں جو مضمون میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ نے شائع کیا تھا یہاں درج کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی حضرت اقدس کی وہ تقریر بھی درج کرتا ہوں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت فرمائی جب کہ صاحبزادہ مبارک احمد کا جنازہ باغ میں رکھا ہوا تھا.جو لوح مزار مبارک احمد ہے.ان تمام کو یکجائی نظر سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضا بالقضا کے کس اعلیٰ مقام پر تھے.نہ صرف آپ بلکہ حضرت ام المومنین کے صبر و ثبات کا بھی اسی سے ثبوت ملتا ہے.دار الامان میں آج کل ( منقول از الحکم ۲۴ تمہر ۱۹۰۷ء ) دار الامان خدا تعالیٰ کے فیوضات و برکات کا مربط ہے اور كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شان ہر نیا دن نئی برکات لے کر آتا ہے خدا کا برگزیدہ بندہ سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالی کی عجیب و غریب تجلیات کا مظہر بنا ہوا ہے.صاحبزادہ مبارک احمد صاحب.کے انتقال نے آپ کی سچائی خدا تعالیٰ کی ہستی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نئی زندگی عطا فرمائی ہے اور نقطہ حل ہو گیا کہ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے صاحبزادہ صاحب کے انتقال کے متعلق خدا تعالیٰ کی پیش گوئی کے پورا ہونے پر الحکم کی پچھلی اشاعت میں لکھا جا چکا ہے اس کے اعادہ کی حاجت نہیں مگر یہاں مجھے ایک خاص بات کا ذکر کرنا ہے جو خصوصیت سے ایمان کو زندہ کرنے والی بات ہے اور جس کی نظیر دنیا میں بجز انبیاء علیہم السلام کے گروہ کے نہیں مل سکتی وہ کیا ہے؟
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۳۱ حضرت مسیح موعود کے رضا بالقضا کا نمونہ دنیا میں صبر اور استقلال کی تعلیم دینے والے اور رضا بالقضا اور قِيَامِ فِي مَا أَقَامَ اللہ کے لئے لمبے لمبے وعظ کہنے والے اور درس دینے والے دیکھے ہیں لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کے کسی ابتلاء اور امتحان کے نیچے آئے ہیں تو انہوں نے وہ بُزدلی اور کم ہمتی دکھائی ہے جس کی حد نہیں فی الحقیقت کامل ایمان اور خدا پرستی کے کمال کا ایک ہی امتحان ہے کہ انسان مصائب اور محسر میں قدم پیچھے نہ ہٹائے بلکہ آگے بڑھائے اب یہ چشم دید واقعہ ہے اس کا ایک یا دو گواہ نہیں بلکہ صد ہا لوگ ہیں جو آج کل اس واقعہ ناگزیر کی تقریب کی وجہ سے اور حسب معمول یہاں آ رہے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ خدا کا معطر کیا ہوا مسیح موعود کس جلال اور شوکت کے ساتھ اس واقعہ صاحبزادہ صاحب کو بیان کرتا ہے.عام طور پر اگر غور کیا جاوے تو وہ انسان جو ستر برس کے قریب ہوا اور جس کا ہونہار نیک سعادت مند بچہ فوت ہو جاوے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے مگر یہاں معاملہ ہی الگ ہے.حضرت مسیح موعود اس واقعہ کو ایسے جوش اور مزے سے بیان کرتے ہیں کہ الفاظ نہیں ملتے جو اس کیفیت کو ظاہر کیا جاوے.حضرت مسیح موعود خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیش گوئیاں پوری ہو گئیں.حضرت مسیح موعود خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کے امتحان میں پورے اترے، سب سے بڑھ کر جو امر مسرت کا موجب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا چنا نچہ حضرت مسیح موعود پر یہ وحی ہوئی ہے کہ خدا خوش ہو گیا انسانی زندگی کی اگر کوئی غرض اور غایت ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ خدا اس سے خوش ہو جاوے اور وہ خدا سے راضی ہو جاوے اور اس طرح پر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ کا نمونہ کامل بن جاوے.پس یہ کس قدر خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے سے خوش ہو نے کا اظہار کر دیا.یہ چھوٹی سی بات نہیں یہی وہ بات ہے جس کے لئے نبیوں کی بعثت ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جو سلوک کی تمام منزلوں کا انتہائی مقام کہنا چاہیے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا علیہ السلام ۲۳۲ پس آج کل دار الامان میں خدا تعالیٰ کا نزول ہو رہا ہے.ایک نئی شان میں جن لوگوں کو آج کل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے وہ بڑے ہی خوش قسمت ہیں کیونکہ وہ ایک ایسا عملی سبق پڑھ رہے ہیں جس کو تقریر یا تحریر کی صورت میں ادا کرنا مشکل.نادان اور ناحق شناس دشمن اس واقعہ پر استہزا کریں گے.وہ کریں اور زور سے کریں کیونکہ اسی سے خدا تعالیٰ کی نصرت اور غیرت میں جو وہ اپنے بندے کے لئے رکھتا ہے غیر معمولی جوش اور حرکت پیدا ہوتی ہے.اعتراض کرنا آسان امر ہے لیکن اگر حیا اور ایمان کوئی چیز ہے اور ضرور ہے تو اعتراض کرنے سے پہلے اس امر کو بحضور دل یا درکھنا چاہیے کہ کیا انبیاء علیہم السلام کی جماعت اس قسم کے امتحانوں اور آزمائشوں سے الگ رہی ہے.احمق کے نزدیک یہ انگلی رکھنے کی جگہ ہے مگر دانش مند کے از دیاد ایمان کا موجب.جب ایک سلیم الفطرت اس امر پر غور کرتا ہے کہ حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ بچوں نے وفات پائی تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور بھی مضبوط ہوتا ہے کیونکہ وہ اندازہ کرتا ہے اس صبر اور رضا بالقضا کا جو گیارہ موتوں پر آپ نے دکھایا.بہر حال اعتراض کرنے والے احمق ان باتوں کو کب دیکھتے ہیں خدا تعالیٰ کی آیات کے نزول پر ان کا تو محبت اور رجس اور بھی بڑھتا ہے.ایمان والوں ہی کے ایمان بڑھا کرتے ہیں.مگر انہیں یا درکھنا چاہیے کہ یہاں تو خدا تعالیٰ نے اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ حَلِیم کہہ کر ایک اور بشارت دی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کی ذریت کے بڑھنے کا آج نہیں اکیس برس پہلے اعلان کیا ہوا ہے.اسی میں بعض کے کم عمری میں فوت ہونے کی پیش گوئی ہے.اس کی جسمانی اور روحانی نسل بڑھ رہی ہے اور بڑھے گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے کہ ابراہیم کی طرح اس سے ایک قوم نکالے.ہاں إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ کی وحی بھی اسے ہو چکی ہے پس ناخدا ترس معترض کو ڈرنا چاہیے.“ (اخبارالحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۲)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۳۳ صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت اقدس کی تقر یہ باغ میں فرمایا ” قضا و قدر کی بات ہے.اصل مرض سے ( مبارک احمد نے ) بالکل مخلصی پالی تھی.بالکل اچھا ہو گیا تھا.بخار کا نام ونشان بھی نہ رہا تھا.یہی کہتا رہا کہ مجھے باغ میں لے چلو.باغ کی خواہش بہت کرتا تھا سو آ گیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی موت کی خبر دے رکھی تھی.تریاق القلوب میں لکھا ہے." انّى اَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَاصِيْبُهُ " مر قبل از وقت ذہول رہتا ہے اور ذہن منتقل نہیں ہوا کرتا.پھر ایک جگہ پیشگوئی ہے.” ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.پھر کئی دفعہ یہ الہام بھی ہوا ہے.اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ كُمْ تَطْهِيرًا “ اور پھر اہل بیت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے."يَايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ “ اور پھر فرمایا ہے ” يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمُ.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے یہ بڑا تطہیر کا موقع ہے.ان کو بڑے بڑے تعلقات ہوتے ہیں اور اُن کے ٹوٹنے سے رنج بہت ہوتا ہے.میں تو اس سے بڑا خوش ہوں کہ خدا کی بات پوری ہوئی.گھر کے آدمی اُس کی بیماری میں بعض اوقات بہت گھبرا جاتے تھے.میں نے اُن کو جواب دیا تھا کہ آخر نتیجہ موت ہی ہونا ہے یا کچھ اور ہے.دیکھو ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُدعُونَ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ( الـمـؤمــن :(1) یعنی اگر تم مجھ سے مانگوتو قبول کروں گا اور دوسری جگہ فرمایا.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۴ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.(البقرة: ۱۵۶ تا ۱۵۸) اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے بھی امتحان آیا کرتے ہیں.مجھے بڑی خوشی اس بات کی بھی ہے کہ میری بیوی کے منہ سے سب سے پہلا کلمہ جو نکلا ہے وہ یہی تھا کہ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.کوئی نعرہ نہیں مارا.کوئی چیچنیں نہیں ماریں.اصل بات یہ ہے کہ دُنیا میں انسان اسی واسطے آتا ہے کہ آزمایا جاوے.اگر وہ اپنی منشاء کے موافق خوشیاں مناتا رہے اور جس بات پر اس کا دل چاہے وہی ہوتا رہے تو پھر ہم اس کو خدا کا بندہ نہیں کہہ سکتے.اس واسطے ہماری جماعت کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کی تقسیم کی ہوئی ہے اس لیے اس تقسیم کے ماتحت چلنے کی کوشش کی جاوے.ایک حصہ تو اس کا یہ ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو مانتا ہے.اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اپنی منواتا ہے.جو شخص ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اس کی مرضی کے مطابق کرتار ہے اندیشہ ہے کہ شاید وہ کسی وقت مرند ہو جاوے.کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پر ہی تکلیف اور ابتلا کا زمانہ آیا ہے بلکہ ابتدا سے سب نبیوں پر آتا رہا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کا بیٹا جب فوت ہوا تھا تو کیا انہیں غم نہیں ہوا تھا.ایک روایت میں لکھا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ بیٹے فوت ہوئے تھے.آخر بشریت ہوتی ہے.غم کا پیدا ہونا ضروری ہے.مگر ہاں صبر کرنے والوں کو پھر بڑے بڑے اجر ملا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں کا منشا یہی ہے کہ انسان رضا بالقضا سیکھے.جو شخص اپنے ہاتھ سے آپ تکلیف میں پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے لیے ریاضات اور مجاہدات کرتا ہے وہ اپنے رگ پٹھے کی صحت کا خیال بھی رکھ لیتا ہے اور اکثر اپنی خواہش کے موافق ان اعمال کو بجالاتا ہے اور حتی الوسع اپنے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵ آرام کو مدنظر رکھتا ہے.مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی امتحان پڑتا ہے اور کوئی ابتلا آتا ہے تو وہ رگ اور پیٹھے کا لحاظ رکھ کر نہیں آتا.خدا کو اس کے آرام اور رگ پیٹھے کا خیال مد نظر نہیں ہوتا.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا تعالیٰ کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اسی واسطے اُدعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بشارت نہیں دی مگر وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَى.....الآية (البقرة: ۱۵۶) میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.غرض یہی طریق ہے جس سے انسان خدا تعالیٰ کو راضی کر سکتا ہے نہیں تو اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک بن جاوے اور اپنی مرضی کے مطابق اُسے چلانا چاہے تو یہ ایک خطرناک راستہ ہوگا جس کا انجام ہلاکت ہے.ہماری جماعت کو منتظر رہنا چاہیے کہ اگر کوئی ترقی کا ایسا موقع آجاوے تو اس کو خوشی سے قبول کیا جاوے.آج رات کو ( مبارک احمد نے ) مجھے بلایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور مصافحہ کیا جیسے اب کہیں رُخصت ہوتا ہے اور آخری ملاقات کرتا ہے.جب یہ الہام نِّيْ اَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَاصِيْبُهُ “ ہوا تھا تو میرے دل میں کھٹکا ہی تھا.اسی واسطے وو 66 میں نے لکھ دیا تھا کہ یا یہ لڑکا نیک ہوگا اور رو بخدا ہوگا یا یہ کہ جلد فوت ہو جائے گا.قرآن شریف پڑھ لیا تھا.کچھ کچھ اردو بھی پڑھ لیتا تھا اور جس دن بیماری سے افاقہ ہوا میر اسا را اشتہار پڑھا اور یا کبھی کبھی پرندوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہو جا تا تھا.فرمایا.” بڑا ہی بد قسمت وہ انسان ہے جو خدا تعالیٰ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ کے ساتھ تو دوست والا معاملہ چاہیئے.کبھی اس کی مان لی اور کبھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی منوالی.۲۳۶ زبخت خویش برخوردار باشی بشرط آں کہ بامن یار باشی ہمارے گاؤں میں ایک شخص تھا.اس کی گائے بیمار ہوگئی.صحت کے لیے دُعائیں مانگتا رہا ہو گا مگر جب گائے مرگئی تو وہ دہر یہ ہو گیا.خدا نے اپنی قضا و قدر کے راز مخفی رکھے ہیں اور اس میں ہزاروں مصالح ہوتے ہیں.میرا تجربہ ہے کہ کوئی انسان بھی اپنے معمولی مجاہدات اور ریاضات سے وہ قرب نہیں پاسکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا آنے پر پاسکتا ہے.زور کا تازیانہ اپنے بدن پر کون مارتا ہے.خدا تعالیٰ بڑا رحیم وکریم ہے.ہم نے تو آزمایا ہے ایک تھوڑا سا دُکھ دے کر بڑے بڑے انعام واکرام عنایت فرماتا ہے.وہ جہان ابدی ہے جو لوگ ہم سے جدا ہوتے ہیں وہ تو واپس نہیں آسکتے ہاں ہم جلدی اُن کے پاس چلے جاویں گے.اس جہان کی دیوار کچی ہے اور وہ بھی گرتی جاتی ہے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہاں سے انسان نے لے ہی کیا جانا ہے.اور پھر انسان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب جانا ہے.جب جائے گا بھی تو بے وقت جائے گا اور پھر خالی ہاتھ جائے گا.ہاں اگر کسی کے پاس اعمال صالحہ ہوں تو وہ ساتھ ہی جائیں گے.بعض آدمی مرنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں میرا اسباب دکھا دو اور ایسے وقت میں مال و دولت کی فکر پڑ جاتی ہے.“ (اخبار الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۶،۵) اعلیٰ ایمان فرمایا.کل والا الہام کہ ” خدا خوش ہو گیا “ ہم نے اپنی بیوی کو سنایا تو اس نے سن کر کہا مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مرجا تا تو میں پروانہ کرتی.تر جمہ.تو اپنے نصیبہ کا پھل خوب کھائے گا بشرطیکہ میرا دوست بن جائے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ودعلیہ السلام ۲۳۷ فرمایا یہ اس الہام کی بناء پر ہے کہ ”میں خدا کی تقدیر پر اضی ہوں“.اور پھر چار دفعہ یہ الہام بھی ہوا تھا.اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.اور پھر ” ہے تو بھاری امتحان مگر خدائی امتحان کو قبول کر.اور پھر لائف آف پین (Life Of Pain) یعنی تلخ زندگی.فرمایا.اگر یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو ایک انسان بھی انکار نہیں کر سکتا.صاف نشان اور پھر پیدا ہوتے ہی الہام ہوا تھا اِنِّی اَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ وَاصِيَبُهُ میرے دل میں خدا نے اسی وقت ڈال دیا تھا.تب ہی تو میں نے لکھ دیا تھا یا یہ لڑکا نیک ہوگا اور رو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ جلد فوت ہو جائے گا.کوئی بد معاش اور راستی کا دشمن ہو تو اور بات ہے.مگر یکجائی طور پر نظر کرنے سے ایک دشمن بھی مان جائے گا کہ یہ جو کچھ ہوا ہے خدائی وعدوں کے مطابق ہوا ہے.اور پھر یہ الہام بھی ہوا تھا.اِنِّی مَعَ اللهِ فِي كُلِّ حَالٍ.اب بتلاؤ ایسی صاف بات سے انکارکس طرح ہو سکتا ہے.اصل میں ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.اگر انسان عمدہ عمدہ کھانے گوشت پلاؤ اور طرح طرح کے آرام اور راحت میں زندگی بسر کر کے خدا کو ملنے کی خواہش کرے تو یہ محال ہے.بغیر امتحان ترقی محال بڑے بڑے زخموں اور سخت سے سخت ابتلاؤں کے بغیر انسان خدا کومل ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت:۳) غرض بغیر امتحان کے تو بات بنتی ہی نہیں اور پھر امتحان بھی ایسا جو کہ کمر کو توڑنے والا ہو.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑھ کر مشکل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا موعود علیہ السلام امتحان ہوا تھا جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ۲۳۸ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ ( الم نشرح: ۴۳) جب سخت ابتلا آئیں اور انسان خدا کے لئے صبر کرے تو پھر وہ ابتلا فرشتوں سے جاملاتے ہیں.انبیاء اسی واسطے زیادہ محبوب ہوتے ہیں کہ ان پر بڑے بڑے سخت ابتلا آتے ہیں اور وہ خود ہی ان کو خدا تعالیٰ سے جاملاتے ہیں.امام حسین پر بھی ابتلا آئے اور سب صحابہ کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کہ وہ سخت سے سخت امتحان میں ڈالے گئے.رضا بالقصا کانمونہ فرمایا.مبارک احمد کی وفات پر میری بیوی نے یہ بھی کہا ہے کہ ”خدا تعالیٰ کی مرضی کو میں نے اپنے ارادوں پر قبول کر لیا ہے اور یہ اس الہام 66 کے مطابق ہے کہ میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے.“ فرمایا.پچھپیں برس شادی کو ہوئے اس عرصہ میں انہوں نے کوئی واقعہ ایسا نہیں دیکھا جیسا اب دیکھا میں نے انہیں کہا تھا کہ ایسے محسن اور آقا نے جو ہمیں آرام پر آرام دیتا رہا اگر ایک اپنی مرضی بھی کی تو بڑی خوشی کی بات ہے.فرمایا.ہم نے تو اپنی اولاد وغیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اور ہم بھی خدا تعالیٰ کا مال ہیں جنہوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتا ہے ان کو غم نہیں ہوا کرتا.(اخبار الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۹،۸) جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہما رے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا وعود علیہ السلام ۲۳۹ برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر لوح مزار صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) ان تمام تحریروں کو یکجائی نظر سے پڑھنے کے بعد جو اثر ایک شخص کے قلب پر ہونا چاہیے وہ یہی ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی رضا ہی اپنی زندگی کا مقصد اور منتہائے مراد سمجھتے تھے اور اپنے نمونہ سے انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ کوئی حادثہ اور واقعہ جو ایک دنیا دار کے پائے ثبات و ہوش کو جنبش دے سکتا ہے اور جن واقعات نے اکثر وں کو پاگل بنا دیا اور بعضوں کی خود کشی تک نوبت پہنچ گئی اس مرد خدا کو ان واقعات نے ذرا بھی جنبش نہیں دی.مرز افضل احمد صاحب کی وفات مرز افضل احمد صاحب حضرت اقدس کے دوسرے بیٹے تھے جو خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب پنشنز ڈپٹی کمشنر کے چھوٹے بھائی تھے.اگر چہ حضرت اقدس کی بعثت اور ماموریت کے بعد وہ آپ کے پاس نہیں آئے تھے اور خان بہادر ہی کے پاس رہتے تھے اور خود بھی ایک سرکاری عہدہ دار تھے.وہ عین عنفوانِ شباب میں فوت ہو گئے.ان کی لاش قادیان میں لائی گئی اور اپنے خاندانی قبرستان میں مدفون ہوئے.مغرب کی نماز کے بعد آپ اپنی جماعت کے ساتھ مسجد مبارک کی چھت پر حسب معمول تشریف فرما تھے.ایک خادم نے عرض کیا مرز افضل احمد صاحب فوت ہو گئے اور ان کی لاش لا کر دفن کر دی گئی.میں جو اُس وقت حضرت اقدس کے بالکل قریب بیٹھا ہوا تھا دیکھ رہا تھا کہ اس کا حضرت اقدس کے چہرہ پر کیا اثر ہوتا تھا.یہ خبر اسی وقت حضرت نے نہ سنی تھی بلکہ اس سے پہلے بھی سن چکے تھے میں نے دیکھا کہ حضرت قدرتی اثر سے تو متاثر ہیں مگر آپ نے سن کر یہی فرمایا کہ ” ہم سب مرنے ہی والے ہیں بلکہ جس قدر انسان زمین پر چلتے پھرتے ہیں یہ چلتی پھرتی قبریں ہی ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ“.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ یہ الفاظ جب آپ کے منہ سے نکل رہے تھے تو وہ ایک تاثیر درد میں ڈوبے ہوئے تھے مگر اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی رضا اور دنیائے فانی کی بے ثباتی کا جذبہ پیدا کر رہے تھے لوگ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں.دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ لیکن یہاں حضرت مسیح موعود کے نابالغ اور جوان بچوں کو فوت ہوتے دیکھا مگر کبھی آپ نے زبان سے یا اپنے حالات سے کسی قسم کی بے صبری اور خدا سے دوری کا اظہار نہ کیا بلکہ آپ نے اپنے طرز عمل سے دکھایا کہ آپ خدا کی رضا پر ہر طرح خوش و خرم ہیں.یہ واقعات وہ ہیں جو آپ کی اولاد کے متعلق ہوئے اس کے علاوہ اور بھی واقعات موت فوت کے ایسے ہوئے ہیں جو آپ کے عزیزوں اور بزرگوں کے حادثات تھے مثلاً والدین کی وفات، بڑے بھائی کی وفات.ہر ایک موقع پر آپ نے اسی رضا بالقضا کا نمونہ دکھایا.آپ کی حالت ہر ایک واقعہ کے وقت ایک خاص رنگ رکھتی تھی.حضرت والدہ صاحبہ کو آپ سے بہت محبت تھی اور آپ ان کو دنیا میں ایک سپر سمجھتے تھے.کبھی کبھی آپ کے ذکر پر چشم پر آب ہو جاتے تھے لیکن ایسی محسن اور بابرکت والدہ کے فوت ہو جانے پر آپ نے کسی قسم کی بے صبری کا نمونہ نہ دکھایا.اور اسی طرح حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات پر باوجودان نقصانات کے خطرہ کے جوان کی وفات سے دنیوی طور پر وابسطہ تھا آپ نے صبر و استقلال کے ساتھ اس حادثہ کو برداشت کیا.پر اور اسی طرح اپنے بڑے بھائی کی وفات کے غم کو پی لیا اور خدا کی تقدیر سے راضی ہو گئے خاندان میں اور عزیزوں کی وفات ہوئی مگر آپ نے نہ صرف رضا بالقضا کا نمونہ دکھایا بلکہ سب کو اس کی تلقین کی.گھر والے اب تک یہی کہتے ہیں کہ ہمیشہ کسی ایسے موقع پر آپ تسلی دیا کرتے تھے.پھر ان جانی حادثات کے علاوہ مالی ابتلا آپ کے خاندان پر بعثت سے پہلے آئے.مگر کبھی آپ نے شکوہ نہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ کیا.اور مامور ہونے کے بعد دنیا نے مخالفت کی.آپ کی عزت و آبرو اور جان اور مال کو خطرہ میں ڈالا.مگر کوئی وقت آپ پر نہ آیا کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی رضا میں قدم آگے نہ بڑھایا ہو.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ اخوت وخلت اخوت اور خلت کی حقیقت در اصل مومنین ہی میں پائی جاتی ہے اس میں شک نہیں کہ خونی اور جسمانی تعلق بھی ایک اخوت پیدا کرتا ہے اور دنیا کے اغراض اور مصالح اور مفاد بھی ایک خلت پیدا کرتے ہیں مگر ان ہر دو صفات کی حقیقت ایمان سے ہی پیدا ہوتی ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی، بھائی ہی تھے جو بُری مثال انہوں نے اخوت کی تاریخ میں چھوڑی ہے وہ برادران یوسف کی ضرب المثل سے ظاہر ہے قرآن کریم نے اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے کہ حقیقی اخوت اور حقیقی خُلت محض ایمان سے ہی قائم ہوتی ہے.پس کسی شخص میں اخوت اور خلت کا جس قدر معیار بلند ہوگا اسی قدر اس کے ایمان کا درجہ بلند ہوگا اور اس خصوص میں انبیاء علیہم السلام کا مقام سب سے اعلیٰ ہوتا ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر بلند مقام پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میں ان صفات کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان کی بھی وہی شان نظر آتی ہے جو آپ کے اور ہم سب کے آقا و سردار حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات زندگی میں پائی جاتی ہے.احمق اور نادان خیال کرتے ہیں کہ یہ تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسری ہو جاتی ہے حالانکہ یہ بات غلط محض ہے.حضرت مسیح موعود کو جو کچھ ملا وہ آپ کا نہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے اور احمد قادیانی کہ آئینہ میں احمد مگی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جلوہ گر ہے.غرض اخوت اور خلت کا اعلیٰ مقام بدوں کامل الایمان ہونے کے متحقق نہیں ہوتا.آؤ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات میں اس حقیقت کو دیکھیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام عہد دوستی کی رعایت ۲۴۳ ایک دن آپ نے عہد دوستی کے متعلق فرمایا کہ میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے مجھے اُس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لا چار ہیں ، ورنہ ہمارا مذ ہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرد ہو تو بلا خوف لَوْمَةَ لائِم کے اُسے اٹھا کر لے آئیں گے.فرمایا.عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہیے.اور دوستوں سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آجاوے اُسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہیے.مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی حاشیہ صفحہ ۴۶) اس سے حضرت مسیح موعود کے دل میں عہد دوستی کی جو قدرو قیمت ہے اس کا بآسانی اندازہ ہو جاتا ہے اور آپ اس شخص کو بہت ہی ناپسند فرماتے تھے جو اس عہد کی رعایت نہ کرتا اس کے متعلق میں آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.مرحوم محمد افضل کا واقعہ با بومحمد افضل صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ کے مخلص نو جوانوں میں سے تھے.عہد دوستی کے لحاظ سے اور ہم عصر ہونے کی وجہ سے اُن کا مجھ پر حق ہے اور آج انیس برس کے بعد میں اس حق کا بہت ہی تھوڑا حصہ ادا کرتا ہوں اور اُسے مُردوں کی صف سے نکال کر زندہ جاوید احباب کی صف میں کھڑا کرنا چاہتا ہوں.مرحوم محمد افضل کے مفصل حالات کا یہ موقع نہیں مگر میں اتنا کہوں گا کہ وہ نہایت مستقل مزاج
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۴۴ اور مستقیم الاحوال تھے.اور قادیان میں انہوں نے جو قیام اختیار کیا تھا محض خدا کی رضا کے لئے.اس کا ذکر میں ابھی حضرت مولانا عبد الکریم کے الفاظ میں کروں گا.مگر جو واقعہ ان کی اس تبدیلی کا محرک ہوا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے اس حصہ کو واضح کرتا ہے کہ آپ عہد دوستی اور عہد زوجیت کا احترام نہ کرنے والے سے ناراض ہو جاتے ہیں.لیکن وہ ناراضگی محض خدا کی رضا اور اپنے خادم کی اصلاح کے لئے ہوتی تھی.بابو محمد افضل افریقہ میں ملازم تھے اور بہت خوشحال اور فارغ البال تھے سلسلہ کے کاموں میں خصوصیت سے حصہ لیتے اور تبلیغ کا ایک جوش ان کے دل میں تھا.ان کی دو بیویاں تھیں اور وہ قادیان میں رہتی تھیں ۱۸۹ء میں انہوں نے حضرت حکیم الامت کو ایک خط لکھا اور کچھ روپیہ بھیجا اور اپنی ایک بیوی کو افریقہ بلایا اور ی بھی لکھ دیا کہ جو بیوی آنے سے انکار کرے اس کو طلاق دے دی جاوے.حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت اقدس کے حضور پیش کر دیا.آپ نے فرمایا کہ وہ تو جب طلاق دے گا مگر اُسے لکھ دو کہ ایسے شخص کا ہمارے ساتھ تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ جو اتنے عزیز رشتہ کو ذراسی بات پر قطع کر سکتا ہے وہ ہمارے تعلقات میں وفاداری سے کیا کام لے گا.یہ ارشاد اکسیر ہو گیا اور محمد افضل کو فی الحقیقت افضل بنا گیا.حضرت اقدس کی ناراضگی کی جب اطلاع ہوئی تو اسے سمجھ آگئی کہ باہمی تعلقات کی کیا قیمت ہوتی ہے.اور اس نے دنیا کے تمام مالوفات کو چھوڑ کر یہ پسند کیا کہ ایسے ہی محسن اور اعلیٰ اخلاق کے انسان کی صحبت ہے جہاں باقی زندگی بسر کرنی چاہیے چنانچہ وہ دنیا کی تمام امیدوں اور امنگوں کو یکسر چھوڑ کر آگئے اور پھر انہوں نے وہ تبدیلی کی کہ حیرت انگیز ہے میں اس کا ذکر حضرت مخدوم الملت کے الفاظ میں کر دیتا ہوں.اس مرحوم بھائی (محمد افضل) کی لائف کا گہرا مطالعہ کر کے مجھے ایک بات عجیب نظر آئی ہے اور وہی اس قابل ہے کہ طالبان حق وارشاد کے لئے اسوہ اور نمونہ بنے.گزشتہ زندگی میں جہاں تک مجھے معلوم ہے ہمارا یہ مالوف و مرحوم بھائی کبھی نہ تو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ اس قابل ہوا کہ نمونہ ٹھہرتا اور نہ اس کے حالات اور تقلبات دیکھنے اور برتنے والوں کی نگاہ میں شہرت عام اور بقائے دوام کے استحقاق کا کوئی نشان رکھتے تھے.اس لحاظ سے ان کی زندگی بہت ہی محدود ہے.مگر ایک عارف کی بازدید کے لحاظ سے ابدی اور نہایت بابرکت ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا کی دلکش نظارہ گاہوں کی فرحت بخش ہواؤں میں پیٹ بھر کر سیر کرنے کے بعد ہمارے مغفور بھائی کو معلوم ہوا کہ یہ سب فانی اور خیالی تھیٹر ہے اور ان نا پائیدار لذتوں پر سرنگوں ہونے کا انجام اچھا نہیں.اس روحانی تبدیلی نے انہیں قادیان کی طرف متوجہ کیا جو ابدی اور باقی لذتوں اور واقعی روح افزا نظاروں کی سارے جہاں میں ایک جگہ ہے.اس کشش اور میلان کی انہوں نے بلا مدافعت پیروی کی.قادیان میں آئے چند روز رہے پورے بے سامان اور عیال کثیر اور بظاہر معاش کا کوئی امید دلانے والا منظر نہیں با ایں ہمہ صدق دل سے عزم کر لیا کہ جو ہو سو ہو.یہاں سے نہیں جاؤں گا.یہ ایک فقرہ یا عہد ہے جو بہت سے مونہوں سے نکلا.میرے کانوں نے سنا ہے اور حافظہ نے یا درکھا مگر کہنے والوں نے آخر کا ر ایسا دکھایا کہ انہوں نے منہ سے کوئی مردانہ بات نہیں نکالی تھی بلکہ تھوک پھینکی تھی.خدا تعالیٰ نے بھی ان کے دل کو دیکھ کر ان کے عہد اور وعدہ پر توفیق نازل نہ فرمائی مگر مرحوم محمد افضل کے خلوص نیت کا ثبوت خواستیم اعمال نے دے دیا اور سب قیل اور قال کا خاتمہ کر دیا.مرحوم کے دل میں مدت سے خیال تھا کہ قادیان میں ایک اخبار نکالا جاوے.اس مضمون کا ایک مفصل خط ایک دفعہ انہوں نے افریقہ سے مجھے لکھا تھا.یہاں وہ قیام کے عزم بالجزم اور دوام سکونت کے اسباب کی تلاش اور نگہداشت نے انہیں اس ارادہ پر پختہ کر دیا اور آخر انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ فلاح دارین کا یہی ایک ذریعہ ہے اس سے قوم کی خدمت بھی ہو گی اور قوت لایموت بھی مل جائے گا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۴۶ البدر نکالا مختلف اوقات میں نہیں شروع سے آخری دم تک ( مرحوم افضل کے عہد میں.عرفانی) انہیں مصیبتیں اور رکاوٹیں پیش آئیں.شاید کم ہی لوگ واقف ہوں گے مرحوم اور اس کے عیال نے بسا اوقات دن کو آدھا پیٹ کھانا کھایا اور رات کو بھوکے سو گئے اور اکثر خشک نون ، مرچ کے ساتھ کچی پکی مستی روٹیاں کھا کر گزارہ کیا.کچی پکی میں نے اس لئے کہا کہ ایندھن خریدنے کی طاقت بھی نہ ہوتی.نہ صرف بچے بچھٹے پرانے کپڑوں میں ادھر اُدھر پھرتے نظر آتے بلکہ خوبصورت نوجوان باپ بھی اسی رحم انگیز ہیئت میں باہر نکلتا اور کاروبار کرتا ہے.ایک لائق اور بہتوں سے افضل منشی انگریزی میں عمدہ دستگاہ رکھنے والا باہر نکل کر خوب کمانے اور عمد ہ گزران والا ، کونسی بات تھی جس نے اسے ایسی زاہدانہ زندگی کے اختیار کرنے پر مجبور کیا ، اس کا جواب صاف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت اور آپ کی معیت کی لذت.غرض مرحوم کے اخلاق میں یہ استقامت اور استقلال کا خلق مجھے قابل قدر اسوہ نظر آیا ہے یہی وہ نور ہے جس سے اللہ تعالیٰ ملتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے نو جوان بھائی کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی استقامت کے نمونے سے بہتوں کو مستفید کرے.آمین عبدالکریم ۳/اپریل ۱۹۰۵ء البدر مورخه ۶ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲) مرحوم افضل کے اندر یہ تبدیلی صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خلق نے کی کہ آپ رعایت عہدِ دوستی یہاں تک کرتے ہیں کہ ایک شخص جو اپنے تعلقات کو اس طرح پر توڑ دینے کو آمادہ ہے وہ اس قابل نہیں کہ ہمارے ساتھ رہے.چنانچہ اس نے سمجھ لیا کہ ایسا ہی وجود ہوسکتا ہے جس کی صحبت اور معیت انسان کی زندگی میں روح اور اطمینان پیدا کر سکتی ہے اور پھر جو انقلاب اس کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۴۷ زندگی میں ہوا وہ اوپر کی سطروں سے نمایاں ہے.وہی افضل جو بیوی کو افریقہ نہ آنے پر چھوڑ دینے پر آمادہ تھا خود قادیان چلا آیا اور مرکز ہم سے الگ ہوا.جن مصائب اور مشکلات معیشت میں سے وہ گزرا ان کا کسی قدر نقشہ او پر دکھایا گیا ہے.مگر اس کی تکالیف کی داستان اس سے بھی لمبی ہے.میں نے یہاں مرحوم افضل کی سیرت کو نہیں دکھانا.یہ ایک واقعہ کا بیان تھا اور میں نے ان حالات کولکھ دینا عہد دوستی اور حق معاصرت کی ادائیگی سمجھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں پچیس برس کے بعد آنے والے دوستوں میں اپنے مرحوم بھائی کو زندہ کر رہا ہوں اور بہت ہوں گے جو اس کے اُسوہ سے انشاء اللہ سبق لیں گے.غرض حضرت مسیح موعود عہد دوستی کی بہت بڑی قدر کرتے تھے.حقوق دوستی میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ محض خدا کی رضا کے لئے ہو ، دنیا کی کوئی غرض درمیان میں نہ ہو اور دوستی ہو جانے کے بعد پھر انسان اپنے مال کو اپنے دوستوں سے عزیز نہ رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے ہمیشہ اس کو دکھایا ہے.حضرت حکیم الامت اور حکیم فضل الدین کا واقعہ ایک مرتبہ حکیم الامت حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود سے چارسور و پیہ قرض لیا اور جب مولوی صاحب کے اپنے خیال اور وعدہ کے موافق ادا ئیگی کا وقت آیا تو انہوں نے وہ روپیہ حضرت کی خدمت میں واپس کیا تو حضرت اقدس نے وہ روپیہ مولوی صاحب کو یہ کہ کر واپس کیا کہ آپ نے میرے روپیہ کو اپنے روپیہ سے الگ سمجھا ہے اور یہ ایسے طور پر فرمایا کہ مولوی صاحب گویا بیدار ہو گئے.کسی دوسرے موقع پر حکیم فضل الدین صاحب کو بھی کچھ روپیہ لینے کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے حضرت سے روپیہ لیا.واپسی کے وقت انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے حضرت صاحب سے کچھ روپیہ قرض لیا ہوا ہے واپس کرنا ہے تو حضرت مولوی صاحب نے ان کو کہا کہ میں یہ غلطی کر کے جھاڑ کھا چکا ہوں تم نے ایسا نہ کرنا.قرض کا روپیہ اس کو سمجھ کر واپس نہ کرنا.حضرت صاحب نے قرض قرار دے کر نہیں دیا.کسی اور طریق پر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ چا ہو تو واپس کرو.اگر چہ قرض اور دادوستد میں یہ اصول عام نہیں قرار پاسکتا مگر انتہا کی محبت اور خلت کا یہ تقاضا ضرور ہے کہ انسان اپنے دوستوں کے لئے اپنے مال کو قربان کر سکے.حضرت اقدس نے اپنے اس نمونہ سے یہ دکھایا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے لئے (حقیقت میں اپنے خدام کے لئے ان کو دوستی کی عزت دینا تو آپ کا خاص کرم ہے.عرفانی) روپیہ کی کبھی پرواہ ہی نہ کرتے تھے.اور کبھی دوستوں سے حساب بھی نہ مانگتے تھے.یہاں تک کہ جب تک لنگر خانہ کا اہتمام اپنے ہاتھ میں رکھا لنگر کے مہتمم سے کبھی حساب نہ مانگا.جب اس نے آکر جو کچھ مانگا دے دیا.فصیح صاحب کا واقعہ منشی غلام قادر فصیح جو پنجاب گزٹ سیالکوٹ کے ایڈیٹر اور حضرت حکیم الامت کے ہم زلف تھے (افسوس ہے آخر میں بعض عملی کمزوریوں اور شامت اعمال نے انہیں عملاً سلسلہ سے الگ کر دیا.عرفانی ) کو ایک مرتبہ بہت سا روپیہ ایقاظ الناس“ اور بعض دوسری عربی کتابوں کے لئے دیا.وہ اس کا حساب بنا کر لائے اور حضرت کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ میں اپنے دوستوں سے حساب نہیں کرتا اپنے مال کا حساب نہیں ہوتا.میں اپنے دوستوں پر اعتماد کرتا ہوں اور پھر کیا کوئی اپنے اموال کو ضائع کرتا ہے.“ غرض ان کا کاغذ پھاڑ ڈالا اور اس کو نا پسند کیا.اور یہ بات کسی خاص شخص سے مخصوص نہ تھی سب کے ساتھ یہی برتاؤ اور سلوک تھا.کسی کی ضرورت کا احساس آپ اس کے بیان کرنے سے پہلے کرتے اور اس خیال اور ٹوہ میں رہتے کہ کوئی تکلیف میں نہ ہو اور اگر آپ کے علم میں آتا تو فوراً اس کے لئے مالی قربانی کرتے.پھر حقوق دوستی میں سے یہ بات بھی ہے کہ اپنے دوستوں کے حق میں اچھی بات کہے اور ان کے خلاف سن نہ سکے اور اگر کوئی ان پر زبانی حملہ کرے تو اس کی مدافعت کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت شریف تھی کہ آپ کبھی اپنے خدام کے خلاف کوئی بات سن نہ سکتے تھے.اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ آپ کی نظر ہمیشہ ہر شخص کی خوبیوں پر ہوتی خواہ وہ کتنی ہی خفیف سی بات کیوں نہ ہوتی.یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو قرآن مجید نے اس کے متعلق کیا نمونہ بتایا ہے.قمار اور شراب کے متعلق سوال ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے قلیل المقدار نفع کا بھی ذکر کر دیا.اس میں یہی سبق ہے کہ ادنیٰ سے ادنی خوبی بھی ہو تو انسان اس پر نظر ر کھے.اور اس کو نظر انداز نہ کرے.میرا ایک ذاتی واقعہ کسی دوست نے ایک مرتبہ میری کوئی شکایت کی.میں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں میں سب سے بڑھا ہوا تھا اور بڑھا ہوا ہوں اور یہ سچ ہے کہ میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے اور آپ کے محض رحم سے آپ کی خدمت میں حاضر رہا.اس دوست کو کہا کہ دیکھو اگر مرزا نظام الدین صاحب سے جا کر معاملات کو طے کرانا ہو تو کیا میں خود کر سکتا ہوں.میاں یعقوب علی یہ کام بہت عمدگی سے کر لیتے ہیں.وہ معاملہ اس قسم کا تھا.آپ نے اسی رنگ میں اپنے اس سب سے کمزور خادم کو اس رنگ میں نواز دیا.غرض آپ کی عادت میں یہ بات تھی کہ آپ اپنے خدام کی طرف سے ہمیشہ ذب کرتے اور کسی کی شکایت نہ سن سکتے تھے.احباب کے لئے اپنے آرام کو قربان کر دینا انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ خود آرام کو چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ دوسروں کی تکلیف کی بھی پرواہ نہیں کرتا چہ جائیکہ وہ اپنے آرام کو دوسروں پر قربان کر دے یہ خوبی اور کمال ہر شخص میں پیدا نہیں ہوتا.ایثار مومن کی عادات میں داخل ہے اور حقوق احباب میں یہ ایثار داخل ہے.احباب کے حقوق میں جن باتوں کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں اتحاد و بے تکلفی ہو.ایثار ہو، احسان و سلوک ہو، اور تعارف ہو.یہ باتیں جب کسی شخص میں کامل طور پر اپنے دوست کے لئے پائی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جائیں تو وہ حقیقی دوست کہلانے کا مستحق ہے.۲۵۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایثار کی بہت سی مثالیں اور واقعات ہیں اور اس ایثار میں دوست و دشمن سب شامل ہیں.میں اس وقت صرف دوستوں کے لئے ایثار کا ذکر کرتا ہوں اور وہ بھی اس لئے کہ حقوق دوستی میں ایثار داخل ہے.ورنہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایثار پر اس وقت ہی بحث کروں گا جب آپ کے جو دوسخا اور بذل وعطا کے کمالات کا اظہار ہوگا.دوستوں کے لئے آپ کے ایثار کی ایک مثال میں ذیل میں پیش کرتا ہوں.حضرت منشی اروڑے خان صاحب رضی اللہ عنہ کا واقعہ حضرت منشی اروڑے خان صاحب جماعت کپورتھلہ کے ایک مخلص و ممتاز بزرگ تھے جو آخر تحصیل دار ہو کر پنشن یاب ہوئے اور قادیان ہی میں آکر دھونی رما کر بیٹھ گئے اور مرکر ہی یہاں سے اٹھے.اُن کے حالات زندگی انشاء اللہ العزیز توفیق ملنے پر جدا گانہ لکھے جائیں گے وہ حضرت کے ساتھ عاشقانہ رنگ رکھتے تھے کوئی موقع حضرت کی زندگی میں نہیں آیا جو کوئی اہمیت رکھتا ہو اور وہ حضرت کے پاس نہ آئے ہوں.انہوں نے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود کے اس تعلق کا ذاتی واقعہ بیان کیا جو حضور کو اپنے دوستوں سے تھا وہ یہ ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گورداسپور ایک ضروری کام کے لئے جانا تھا آپ جب قادیان سے روانہ ہوئے تو بہت سے لوگ آپ کی مشایعت کے لئے اس سڑک تک جو کہ بٹالہ کو جاتی ہے آپ کے ساتھ آئے.اس سڑک پر جا کر آپ ٹھہر گئے اور واپس قادیان آنے والے لوگوں سے مصافحہ کر کے فرمایا کہ تم واپس چلے جاؤ.اور چنداصحاب جنہوں نے آپ کے ساتھ گورداسپور جانا تھا ان کو فرمایا کہ تم آگے چلو اور مجھ کو کہا کہ تم ٹھہرو.سب اصحاب چلے گئے صرف میں اور حضرت صاحب اور یکہ والا وہاں رہ گئے.حضور نے فرمایا کہ مجھ کو پاخانہ جانا ہے میں قریب کے کنوئیں سے ایک لوٹا پانی کا بھر لایا اور حضور کو دے دیا.آپ قریباً ایک گھنٹہ میں فارغ ہو کر آئے.گاڑی کا
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ وقت چونکہ تنگ ہور ہا تھا اس لئے میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے بٹالہ میں اپنی لڑکی سے ملنا ہے اور وقت بہت کم ہوتا جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ تم اس یکہ پر سوار ہو کر آگے چلو اور اپنا کام کر کے پھر مجھے راستہ میں آملنا.میں نے عرض کیا حضور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں تو یکہ پر سوار ہو کر چلا جاؤں اور حضور کو اکیلا چھوڑ جاؤں.اور حضور پیدل چلیں.آپ نے فرمایا اس میں کوئی ہرج نہیں تم یکہ پر سوار ہو جاؤ.پھر بھی میں نے سوار ہونے کی جرات نہ کی اور سوار نہ ہونے پر اصرار کرتا رہا.حضور نے فرمایا.الا مُرُ فَوقَ الْادَبِ.تم اس کو ہمارا حکم سمجھو اور فور أسوار ہو جاؤ.اس کے بعد ناچار مجھے سوار ہونا پڑا اور میں روانہ ہو گیا.راستہ میں بٹالہ کے قریب سینکڑوں لوگ برلب سڑک حضور کی انتظار میں بیٹھے ہوئے میں نے دیکھے انہیں دیکھ کر میں اپنے مسیح کی شفقت اور نوازش کو یاد کر کے وجد میں آ گیا.میں نے خیال کیا کہ وہ انسان جس کے دیکھنے کے منتظر ہزاروں لوگ گھروں سے نکل کر راستہ میں انتظار کرتے ہیں وہ اپنے مریدوں سے شفقت کا وہ برتاؤ کرتا ہے کہ ان کے لئے خود تکلیف اٹھانی پسند کرتا ہے.میں بٹالہ پہنچ کر اپنی لڑکی کے گھر گیا اور اس کی خیر و عافیت دریافت کر کے وہاں سے قادیان آنے والی سڑک کی طرف روانہ ہو گیا تا کہ حضور سے ملوں.میں نے اپنے واقف کارلوگوں سے بھی کہا کہ آؤ میں تمہیں حضرت مرزا صاحب کو دکھاؤں ، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے اور جب بٹالہ شہر سے نکل کر کچی سڑک پر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ خدا کا مسیح تن تنہا ہاتھ میں عصا پکڑے پیدل تشریف لا رہا ہے.میں یکہ سے اتر گیا اور حضور کو بٹھالیا.حضور نے مجھے بھی ساتھ ہی بیٹھنے کا حکم دیا اور اس طرح پر حضور بٹالہ اسٹیشن پر پہنچے.صرف میرے یہ کہنے پر کہ مجھے اپنی لڑکی سے بٹالہ ملنا تھا اور اب چونکہ وقت تنگ ہو گیا ہے اس لئے نہیں مل سکوں گا.حضور نے خود پیدل چلنا منظور فرمایا اور یکہ میں بٹھا کر روانہ کر دیا تا کہ یکہ ایک آدمی کو لے کر جلدی بٹالہ پہنچ جائے.دوسرے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ یکہ پر بیٹھے ہوتے تو حضور کی زیارت کرنے والے لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے یکہ کے چلانے میں بہت دیر لگتی اور اس طرح پر میں اپنی لڑکی کے پاس نہ جاسکتا تھا.حضور نے میری ایک معمولی سی خواہش کے پورا کرنے کے لئے خود تو تکلیف اٹھائی لیکن میرے دل کا ذرا بھی رنجیدہ اور ملول ہونا پسند نہ فرمایا.ایسے اخلاق کا نمونہ صرف ان ہی لوگوں 66 سے ظہور پذیر ہوتا ہے جو تَخَلَّقُوا بِاَخلاقِ اللہ کا کامل نمونہ ہوتے ہیں ورنہ ہر ایک انسان کا ایسے اخلاق والا ہونا کوئی آسان کام نہیں.“ میں نے دیکھا ہے کہ جب منشی اروڑے خان صاحب یہ واقعہ بیان کرتے تھے تو ان کی آنکھیں پرنم اور آواز میں ایک رقت اور سوز پیدا ہو جاتا تھا.یہ واقعہ کلارک کے مقدمہ کا ہے.گورداسپور میں منشی اروڑے خان صاحب اپنے ایک واقف و آشنا کے ہاں چند احباب کو لے گئے تھے.چونکہ منشی صاحب بڑے بے تکلف دوست تھے اور احباب کی خاطر تواضع میں وہ خود بہت ہی فراخ دلی اور وسعت حوصلہ سے کام لیا کرتے تھے اور اکثر لوگوں سے جو ان سے تعلق رکھتے موقع مناسب پر مدد کرنے سے کبھی فرق نہ کرتے تھے اس لئے وہ اپنے ایسے دوستوں کے ہاں جب جاتے تو وہ خود بے تکلفی سے کھاتے پیتے تھے.غرض گورداس پور جا کر انہوں نے اپنے ایک واقف کار کے ہاں مختلف چیزوں کا آرڈر دے دیا دوسرے روز شام کی گاڑی سے ہم سب واپس ہو رہے تھے.حضرت صاحب قادیان کو جارہے تھے اور میں اور بعض دوسرے دوست امرتسر اور کپورتھلہ وغیرہ کو.غرض منشی صاحب کے قلب پر اس واقعہ کا ایک خاص اثر تھا بلکہ بعض وقت وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس وقت کو بعض وقت یاد کرتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی.اگر میں اس ضرورت کا اظہار نہ کرتا تو حضرت صاحب کو یہ تکلیف نہ ہوتی.مگر میں انہیں کہتا کہ منشی صاحب! اگر آپ ظاہر نہ کرتے تو مسیح موعود کا یہ اخلاقی معجزہ ظاہر نہ ہوتا کہ آپ نے ایثار کا کامل نمونہ دکھایا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا علیہ السلام ۲۵۳ میر عباس علی صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جیسا کہ میں اس باب کے شروع میں بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام عہد دوستی کی بہت بڑی رعایت کرتے تھے اور حتی الوسع نہیں چاہتے تھے کہ یہ عہد ضائع ہو.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں آپ کے بہت بڑے مداح اور موید تھے اور اس کی وجہ آپ کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کی متقیانہ زندگی اور خدمت اسلام کے لئے آپ کا صادقانہ درد تھا اس لئے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے حالات سے سماعی طور پر واقف نہ تھے بلکہ وہ آپ کے ہم مکتب بھی رہ چکے تھے.انہوں نے براہین احمدیہ پر ریویو کرتے وقت اسی ایک امر کو بیان کیا تھا کہ میں ذاتی طور پر واقف ہوں اور یہ بالکل درست تھا ، غرض براہین احمدیہ کی تصنیف کے عہد میں وہ ایک دوستانہ اور مخلص دوستانہ تعلق آپ سے رکھتے تھے.اس اخلاس میں یہاں تک ترقی کی کہ وہ حضرت مسیح موعود کو وضو کرانا اپنی عزت اور سعادت سمجھتے تھے.لیکن جب آپ نے مسیح موعود کا دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب نے اختلاف کیا.اس اختلاف کی وجوہات کچھ بھی ہوں انہوں نے اختلاف کیا اور یہ اختلاف اس حد تک بڑھا کہ انہوں نے تمام ہندوستان میں سفر کر کے آپ اور آپ کے متبعین پر کفر اور قتل کا فتویٰ مرتب کرایا اور اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ کو مخالفت کے لئے وقف کر دیا.یہاں تک ہی نہیں بلکہ بٹالہ کے اسٹیشن پر قادیان کو آنے والی سڑک پر علی العموم وہ اس غرض کے لئے آتے جاتے تھے کہ قادیان کو آنے والے لوگوں کو روکیں اور ہر طرح سے کوشش کرتے پھر اس پر بھی بس نہ کر کے عیسائیوں کے مقدمہ اقدام قتل میں شہادت دی.پنڈت لیکھرام کے قتل ہو جانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سازش کا الزام لگانے کی تگ و دو کی اور ہر ممکن سے ممکن کوشش حضرت مسیح موعود کو تکلیف پہنچانے آپ کے سلسلہ کو ناکام بنانے کے لئے کی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیشہ اس عہد دوستی کی رعایت کی اور مولوی محمد حسین صاحب کا یہ حال ہو گیا کہ جب کبھی کوئی امرا سے پیش آجا تا جس کا کچھ بھی تعلق حضرت مسیح موعود سے ہوتا تو فوراً اس کے لئے لکھ دیتا.اشاعۃ السنہ کے خریداروں میں اکثر وہ لوگ بھی تھے جو بعد میں اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سلسلہ حقہ میں داخل ہو گئے اور انہوں نے رسالہ بند کر دیا.مولوی محمد حسین صاحب نے ان کا نام اپنے رجسٹر خریداران سے خارج نہ کیا اور باوجود حساب صاف ہو جانے کے مطالبہ کرتا رہتا.وہ اسے جواب دیتے کہ ہم قیمت دے چکے ہیں اور ہمارا حساب صاف ہے.مگر ان ایام میں ان کی حالت بہت کچھ قابل رحم ہو چکی تھی.وہ بلا وجہ بھی مطالبہ کرتے تھے.آخر انہوں نے میری معرفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا.حضرت نے فرمایا کہ ان دوستوں کو لکھ دو کہ وہ اس سے حساب نہ کریں اور روپیہ بھیج دیں کہ میرے ساتھ تعلق رکھتا تھا وہ جس قدر مانگتا ہے بطور احسان کے دے دیں.چنانچہ جن احباب کے نام انہوں نے لکھے تھے میں نے ان کو خط لکھ دیئے اور ایک معقول رقم اس طرح پر ان کو دلا دی اور باوجود مخالفت اور سخت مخالفت کے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ اس کو کوئی تکلیف اور نقصان نہ پہنچے اور کبھی کبھی اس عہد دوستی کی یاد بھی فرماتے ہیں.وَوَاللَّهِ لَا انْسَى زَمَانَ تَعَلَّقِ وَلَيسَ فُؤَادِي مِثْلَ أَرْضِ تَحَجْرٍ ترجمہ.اور خدا کی قسم میں اس تعلق کے زمانہ کو بھولتا نہیں اور میرا دل سنگلاخ زمین کی طرح نہیں ہے.یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب کی کیفیت اور ایک دوست قدیم کی یاد کے جذبات کو بخوبی ظاہر کرتا ہے.آپ کو مولوی محمدحسین صاحب کی ہر قسم کی ایذاد ہیوں کے باوجود ان کی بہتری کا خیال رہتا تھا اور میں نے خود مولوی محمد حسین صاحب سے نہ ایک مرتبہ بلکہ متعدد مرتبہ سنا کہ وہ کہا کرتے تھے ” تم مرزا کو نہیں جانتے میں اب بھی ان کو جو کچھ کہوں گا کرالوں گا یہ مخالفت اور رنگ کی ہے میں اس حق دوستی کی ایک اور مثال مولوی محمد حسین صاحب کے واقعات ہی میں لکھنے سے نہیں رہ سکتا.آخر میں مولوی صاحب کی حالت کچھ عجیب ہوگئی تھی.وہ اپنے رسالہ کی اشاعت کے لئے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۵۵ مختلف قسم کی مشکلات میں تھے.یہاں تک کہ کوئی کا تب ان کا رسالہ لکھ کر نہ دیتا تھا.اور جو کا پیاں انہوں نے لکھوائی ہوئی تھیں ان کی صحت اور درستی کے لئے بھی مشکلات تھیں.چھپوانا تو اور بھی مشکل تھا.انہوں نے جہاں تک مجھے یاد ہے مولوی ثناء اللہ صاحب کو لکھا.مولوی ثناء اللہ صاحب نے معاملات کے اصول پر مطالبہ کیا کہ وہ اجرت وغیرہ بھیج دیں تو ممکن ہے کہ وہ ان کا کام کرا دیں مگر معلوم نہیں کیوں مولوی صاحب نے اس کو پسند نہ کیا.انہوں نے مجھے پیغام دیا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کروں کہ منشی غلام محمد کا تب امرتسری سے جوان ایام میں قادیان میں کام کرتے تھے.ان کا یہ کام کرا دیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ان کو کہہ دو کہ وہ اپنی کا پیاں اور مضمون لے کر آجاویں میں اپنا کام بند کر کے ان کا کام کرادوں گا.خواہ وہ میری مخالفت ہی میں ہو“.مولوی محمد حسین صاحب نے اس وقت حضرت مسیح موعود کی اس مہربانی کا خاص طور پر احساس کیا.مولوی محمد حسین صاحب نے جب مخالفت کا اظہار کیا اس وقت بھی آپ اپنے خطوط میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے ان تعلقات کی رعایت رکھتے تھے.میں بعض خطوط سے چند فقرات یہاں دیتا ہوں تا کہ اندازہ ہو سکے.اگرچہ میں آپ سے ان باتوں کی شکایت کروں تا ہم مجھے بوجہ آپ کی صفائی باطن کے آپ سے محبت ہے اور اگر میں شناخت نہ کیا جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی مقدر تھا مجھے فتح اور شکست سے کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ عبودیت اور اطاعت سے غرض ہے.میں جانتا ہوں کہ اس خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہوگی.(اللہ رے! حسن ظن.عرفانی) مجھے اس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں...........اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے اگر آپ بٹالہ آجائیں تو اگر چہ میں بیمار ہوں اور دورانِ سر اس قدر ہے کہ نماز
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تا ہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں.بقول رنگین وہ ہ نہ آوے تو تو ہی چل رنگین اس میں کیا تیری شان جاتی ہے میر عباس علی صاحب لود بانوی میر عباس علی صاحب اور ہانوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُن مخلص خدام میں سے تھے جو اشاعت براہین کے عہد میں خدا تعالیٰ نے آپ کو دیئے تھے اور اس زمانہ میں جس ہمت اور جوش کے ساتھ انہوں نے خدمت کی وہ بے شک قابل قدر ہے.لیکن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا پنہانی معصیت اور نخوت تھی جس نے آخر ان کو الگ کر دیا.مسیح موعود کے دعوی کی اشاعت کے وقت ان کو ابتلا آیا.اسی طرح پر جیسے مولوی محمد حسین صاحب اس وقت الگ ہوئے.میر صاحب کا ی ابتلا بھی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی پیش گوئی کے مطابق تھا.( جیسا کہ ان مکتوبات میں درج ہے جو میر صاحب کے نام کے میں نے چھاپے ہیں.عرفانی ) لیکن باجود اس کے کہ میر صاحب نے مخالفت کا اعلان کیا اور اس مخالفت میں حد ادب اور رعایت اخلاق سے بھی وہ نکل گئے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کسی تحریر یا تقریر میں ان کے تعلق کے عہد کو فراموش نہ کیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میر صاحب کو سمجھا رہے تھے اور اس فروتنی اور انکسار کے ساتھ کہ ایک سنگ دل اور خشونت طبع والا انسان بھی اگر قبول نہ کرے تو کم از کم اس کے کلام میں نرمی اور متانت آجانی چاہیے.حضرت مسیح موعود جب بھی اس سے خطاب کرتے تو میر صاحب.جناب میر صاحب! کہہ کر مخاطب کرتے اور فرماتے کہ آپ میرے ساتھ چلیں میرے پاس کچھ عرصہ رہیں خدا تعالیٰ قادر ہے کہ آپ پر حقیقت کھول دے مگر میر صاحب کی طبیعت میں باوجود صوفی ہونے کے خشونت اور تیزی آجاتی تھی.اور ادب اور اخلاق کے مقام سے الگ ہو کر حضرت سے کلام کرتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ تھے مگر با ایں حضرت صاحب نے اپنے طرز خطاب کو نہ بدلا.آسمانی فیصلہ کے اخیر میں میر صاحب کے متعلق ایک مبسوط تحریر موجود ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس محبت اور دلسوزی سے آپ نے خطاب کیا ہے.ہندوؤں اور غیر قوموں سے تعلقات اسی طرح پر آپ کے جو تعلقات ہندوؤں یا دوسری اقوام کے ساتھ تھے جہاں تک تمدنی اخلاق کا تعلق ہے آپ نے ہمیشہ ان کو نہایت خوبی اور عمدگی سے نبھایا اور کبھی موقع نہ دیا کہ ان کو قطع کر دیا جاوے.قادیان کے آریوں میں سے لالہ ملا وامل صاحب زندہ ہیں.باوجود یکہ مذہبی امور میں سخت مخالفت تھی اور یہ لوگ سلسلہ کی مخالفت میں اپنے ہم قوم اور ہم خیال لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی اس قسم کی مخالفت کو مدنظر رکھ کر کبھی ان سے ناراضی کا اظہار نہ کیا اور نہ ان تعلقات کو کبھی کم کیا.برابر ان کی آمد ورفت جاری تھی اور جو خصوصیت ان کو ہمیشہ حاصل تھی وہ حاصل رہی کہ جس وقت چاہتے آکر آپ سے ملتے اور اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتے.اسی طرح پر ایام طالب علمی کے زمانہ سے لالہ بھیم سین صاحب سے آپ کی واقفیت اور دوستی تھی.پھر سیالکوٹ میں جب آپ کو رہنے کا موقع ملا تو لالہ بھیم سین صاحب بھی وہیں تھے اور اس طرح پر ان کے ساتھ ایک خلت کے تعلقات کا رنگ تھا.لالہ صاحب آپ کی بے لوث زندگی اور مخلصانہ دوستی کے ہمیشہ مزاح اور آپ کی خدا پرستی اور مقرب باللہ ہو نے کے قائل تھے.ایک دوسرے کی ضرورتوں اور رنج و راحت میں ہمیشہ شریک رہتے.چنانچہ جن دنوں گورداسپور میں مقدمات کا ایک سلسلہ جاری تھا.لالہ بھیم سین صاحب نے اپنے قابل فرزند لالہ کنور سین صاحب ایم.اے حال حج جموں کی خدمات بطور قانونی مشیر کے پیش کی تھیں.چونکہ وکلاء کام کر رہے تھے حضرت نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا.میں جانتا ہوں کہ لالہ کنورسین صاحب کے دل میں بھی اس عہد دوستی کی ایک عظمت باقی ہے.بہر حال آپ نے ہمیشہ اس عہد دوستی کی رعایت رکھی اور کسی کو موقع نہیں دیا کہ ان کی طرف
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ سے تعلقات قطع ہوں.اور اس عہد دوستی کی قدر و منزلت کو قائم رکھا اور جہاں تک ممکن ہوا ان کے ساتھ ہر قسم کے احسان و مروت کے سلوک کو جاری رکھا.جب کسی ایسے شخص نے مخالفت بھی کی تو اس کو دوسرے معاملات کے ساتھ ملانا آپ نے پسند نہ کیا.اپنی دلی ہمدردی اور غم گساری کو ان کے ساتھ اپنے اعمال سے ثابت کیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ غصہ اور غیرت دینی غیرت دینی غصہ اور غیرت دینی دو جدا جدا چیزیں ہیں.بعض لوگ ان میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے غلطی کھاتے ہیں اور وہ صحیح اندازہ حسن اخلاق کا نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہاں ایک طرف غصہ کے اس ناپاک جذبہ سے پاک تھے جو انسان میں نخوت و تکبر اور انانیت کے جراثیم پیدا کرتا ہے.وہاں آپ کی فطرت میں غیرت دینی کا اس قد رز بر دست جذ بہ تھا کہ آپ ایسے موقع پر ہر قسم کے تعلقات کو قربان کر دینے کو تیار ہوتے تھے اور محبت اور نرمی کا کوئی اثر اس وقت دیکھا نہیں جاسکتا تھا.آپ کبھی کسی شخص پر اپنے ذاتی کام اور ذاتی نقصان کی وجہ سے ناراض نہیں ہوئے اور کوئی ایسی مثال پائی نہیں جاتی لیکن جب کوئی مقابلہ دین کا پیش آجاوے تو آپ اس موقع پر کبھی اس کو نظر انداز نہ کرتے تھے اور اس معاملہ میں وہ کبھی کسی کی پروا نہ کرتے تھے خواہ وہ کتنا ہی عزیز اور رشتہ داری کے تعلقات رکھنے والا کیوں نہ ہو.یہ ناممکن تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یا قرآن مجید کے خلاف کوئی بات سن سکیں.اس معاملہ میں ان لوگوں کو آپ مستثنیٰ کرتے تھے جو اسلام کے پہلے سے مخالف ہیں جیسے آریہ یا عیسائی وغیرہ اُن کو اعتراض کا موقع دیتے اور اُس کا جواب دیتے اس صورت میں آپ کی غیرت دینی کا اقتضا یہ ہوتا تھا کہ کوئی ایسا اعتراض بلا جواب نہ چھوڑتے تھے اور مختلف طریقوں سے اس کا جواب دیتے تھے لیکن اگر کوئی مسلمان کہلا کر کبھی ایسی بات کہہ دیتا یا کوئی ایسا فعل کرتا جس سے کسی نہ کسی پہلو سے قرآن مجید یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر یا ہتک ہوتی ہو تو آپ اس کو برداشت نہیں کرتے تھے.اور باوجود اس کے کہ آپ کسی پر غصہ ہونا نہ جانتے تھے شدید رنج کا اظہار کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کو جو محبت اور عشق تھا اس کی نظیر نہیں ملتی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام چنانچہ آپ فرماتے ہیں.۲۶۰ بعد از خدا بعشق محمد محمر م گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم آپ کے کلام کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کہیں نام اور ذکر آتا ہے اُس وقت آپ کی حالت بالکل اور ہو جاتی ہے محبت اور فدائیت کا ایک سمندر ہے جو موجیں مار رہا ہے.عربی، فارسی ، اردو میں جو مدح آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ہے اس کی شان ہی نرالی ہے.غرض دنیا کی تمام محبوب ترین چیزوں میں سے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بہت پیارا تھا اور وہ اس محبت اور پیار کو اس وقت سے رکھتے جبکہ شیر خوار تھے خود فرماتے ہیں عشق تو دارم از اں روز یکه بودم شیر خوار اور اس محبت اور عشق کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کے لئے اس قدر غیرت اور جوش پیدا ہو گیا تھا کہ اس کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کو ہمیشہ آمادہ رہتے تھے.یہ محبت یہ عشق ایک معرفت کا مقام تھا.اس کا ثبوت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو جس رنگ میں آپ نے ظاہر کیا ہے تیرہ سوسال کے اندر اس کی نظیر نہیں ملتی.غرض اس غیرت دینی نے ہمیشہ اپنے وقت پر اپنا جلوہ دکھایا اور یہ ظہور آپ کی بعد بعثت اور قبل بعثت یکساں تھا جیسا کہ میں واقعات سے بتا تا ہوں.اپنی حقیقی چچی کے ہاں جانا چھوڑ دیا ابھی حضرت مسیح موعود کا دنیا میں کوئی دعوئی نہ تھا بلکہ دنیا آپ کو نہ جانتی تھی.براہین احمدیہ بھی ابھی لکھی جانی شروع نہ ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود کے ایک چچا مرزا غلام حیدر مرحوم تھے یہ وہی مرزا غلام حیدر مرحوم تھے جن کے مکان میں آج حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رہتے ہیں.ان کی اہلیہ بی بی صاحب جان تھیں ایک مرتبہ ان کے منہ سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بے ادبی کا کلمہ نکل گیا با وجود اس احترام کے جو آپ بزرگوں کا کرتے تھے اس بات کا اثر آپ کی طبیعت پر اس قدر ہوا اور اس قدر بے تابی آپ کے قلب میں پیدا ہوئی کہ اس کا اثر آپ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۶۱ کے چہرہ مبارک سے نمایاں تھا.وہ غصہ سے تمتما رہا تھا.اس حالت میں آپ کا کھانا بھی چھوٹ گیا محض اس لئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کیوں بے ادبی ہوئی.اس قدر رنج آپ کو ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا.مخدومی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب پنشنر جو اس روایت کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کو بہت ہی غصہ تھا اور انہوں نے اس واقعہ سے متاثر ہو کر ان کے ہاں کا کھانا پینا ترک کر دیا.یہ ایک ہی واقعہ آپ کی زندگی میں نہیں گزرا بلکہ اس قسم کے متعدد واقعات آپ کی زندگی میں ملتے ہیں جن میں غیرت دینی کی شان نمایاں ہے.اقارب سے قطع تعلق یہ ایک ہی مثال اس امر کی نہیں ہے کہ آپ نے محض غیرت دینی کے جوش سے ایک عزیز سے قطع تعلق کر لیا ہو بلکہ جب کبھی ایسا موقعہ پیش آیا آپ نے اس کی پروا نہیں کی.آپ کے چچازاد بھائی مرزا امام الدین صاحب کی مجلس میں اسلام سے ہنسی ہوتی تھی اور وہ خود بھی ایسے الفاظ وکلمات اپنی زبان سے نکال دیتے تھے.جن سے تحقیر دین متین ہو ان باتوں کو دیکھ کر آپ نے ان لوگوں سے قطع تعلق کر لیا اور آخری وقت تک اس پر قائم رہے.ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی.بلکہ اگر کبھی کسی موقع پر ان کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے یا وہ اپنی کسی مالی ضرورت کے وقت تحریک کرتا تو آپ نے کبھی اس سے مضائقہ نہ کیا اور ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھا.یہ ایسے واقعات ہیں جن کو قادیان کے لوگ عموماً جانتے ہیں.پنڈت لیکھرام کا واقعہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود فیروز پور سے قادیان کو آرہے تھے ان ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم فیروز پور میں مقیم تھے اور اس تقریب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں گئے ہوئے تھے.خاکسار عرفانی کو (جو ان ایام میں محکمہ نہر میں امید وار ضلعداری تھا اور رکھا نوالہ میں حافظ محمد یوسف ضلعدار کے ساتھ رہ کر کام سیکھتا تھا) بھی فیروز پور جانے کی سعادت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۲ نصیب ہوئی.آپ جب وہاں سے واپس آئے تو میں رائے ونڈ تک ساتھ تھا.وہاں آپ نے از راہ کرم فرمایا.کہ تم ملازم تو ہو ہی نہیں چلو لا ہور تک چلو.عصر کی نماز کا وقت تھا آپ نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوئے.اس وقت وہاں ایک چبوترہ بنا ہوا کرتا تھا.مگر آج کل وہاں ایک پلیٹ فارم ہے.میں پلیٹ فارم کی طرف گیا تو پنڈت لیکھر ام آریہ مسافر جوان ایام میں پنڈت دیانند صاحب کی لائف لکھنے کے کام میں مصروف تھا جالندھر جانے کو تھا کیونکہ وہ غالبا وہاں ہی کام کرتا تھا مجھے سے اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو میں نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کا ذکر سنایا تو خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ بھاگا ہوا وہاں آیا جہاں حضرت اقدس وضو کر رہے تھے ( میں اس نظارے کو اب بھی گویا دیکھ رہا ہوں.عرفانی ) اس نے ہاتھ جوڑ کر آریوں کے طریق پر حضرت اقدس کو سلام کہا مگر حضرت نے یونہی آنکھ اٹھا کر سرسری طور پر دیکھا اور وضو کر نے میں مصروف رہے اس نے سمجھا کہ شاید سنانہیں اس لئے اس نے پھر کہا.حضرت بدستور اپنے استغراق میں رہے.وہ کچھ دیر ٹھہر کر چلا گیا.کسی نے کہا کہ لیکھر ام سلام کرتا تھا فرمایا.” اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توہین کی ہے.میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس کا سلام لوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر تو حملے کرتا ہے اور مجھ کو سلام کرنے آیا ہے.“ غرض آپ نے اظہار غیرت کیا اور پسند نہ کیا کہ وہ شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے میں اُس کا سلام بھی لوں.جنگ مقدس میں اس خلق کا اظہار اسی سال ۱۸۹۳ء میں امرتسر کے مقام پر عیسائیوں سے مباحثہ ہوا جس کا نام جنگ مقدس رکھا گیا ڈاکٹر پادری مارٹن کلارک نے چائے کی دعوت پر آپ کو اور آپ کے خدام کو بلانا چاہا.آپ نے محض اس بنا پر صاف انکار کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بے ادبی کرتے ہیں اور نعوذ باللہ آپ کو جھوٹا کہتے ہیں اور مجھے چائے کی دعوت دیتے ہیں، میں نہیں پسند کرتا.ہماری غیرت تقاضا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۶۳ ہی نہیں کرتی کہ ان کے ساتھ مل کر بیٹھیں سوائے اس کے کہ ہم ان کے غلط عقائد کی تردید کریں.آریہ سماج لاہور کا واقعہ آپ کی زندگی کے آخری سال ۱۹۰۷ ء میں لاہور میں آریہ سماج کا جلسہ تھا اس جلسہ میں انہوں نے مذہبی کا نفرنس کی اور مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنا مضمون بھیجنے کی دعوت دی.چنانچہ آپ نے وہ مضمون لکھا جو چشمہ معرفت کے اول میں چھپا ہوا ہے.اس مضمون کے سنانے کے لئے حضرت حکیم الامت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ مامور ہوئے اور ایک جماعت آپ کے ساتھ بھیجی گئی.آریوں نے اپنی نوبت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دل آزار کلمات بولے آپ نے جب یہ سنا کہ ہماری جماعت کے لوگ ان کلمات کو سن کر بیٹھے رہے تو آپ نے اظہار ناراضگی فرمایا کہ کیوں جماعت کے لوگ وہاں بیٹھے رہے باوجود یکہ حضرت حکیم الامت کا آپ بہت احترام فرماتے تھے اور ان سے بہت محبت رکھتے تھے مگر اس فرو گذاشت میں جو حاضرین مجلس سے ہوئی تھی آپ نے کسی کی پروا نہ کی اور اظہار ناراضگی فرمایا.حضرت خلیفہ ثانی بھی اس وفد میں شریک تھے اور وہ اس وقت وہاں سے آنا بھی چاہتے تھے.مگر ایک دوست نے کہہ دیا کہ راستہ نہیں ہے (اور فی الواقع نہیں تھا ) ان کو بھی اٹھنے نہ دیا.باوجودیکہ آپ کو بہت محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر یہ غلطی ان کی بھی قابل معافی نہ سمجھی گئی اور ان سے جواب طلب کیا گیا کہ کیوں تم اس مجلس سے نہ اٹھ آئے جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوئی تھی.کاش وہ جو عداوت اور مخالفت کی نظروں سے آپ کو اور آپ کے سلسلہ کو دیکھتے ہیں ان واقعات پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا وہ شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس قد رفتا اور گمشدہ ہے.وہ انسان جو آپ کے لئے اس قدر غیرت اور جوش رکھتا ہے کہ اپنے عزیزوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے محض اس بنا پر کہ ان میں سے کسی نے دانستہ یا نادانستہ سوء ادبی کی وہ جو اپنے اخص مخلص اور وفا دار اور جان شار دوست اور خدا تعالیٰ کی بشارت کے ایک موعود بیٹے اور اپنی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ جماعت کے بعض لوگوں پر محض اس لئے ناراض ہو جاتا ہے کہ کیوں انہوں نے اُس مجلس کو نہیں چھوڑا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف بے ادبی کے کلمات بولے گئے.وہ اسلام کا حقیقی پرستار اور خیر خواہ ہے یادشمن! غور کرو اور سوچو! میں اس باب کو ایک اور واقعہ کے بیان کے بعد ختم کر دیتا ہوں.صاحبزادہ مبارک احمد ( اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا ) کا واقعہ حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب آپ کے چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے ( جو خدا تعالیٰ کی وحی کے موافق فوت ہو گئے اور مقبرہ بہشتی میں ان کا مزار ہے ) ہر بچہ اپنے ماں باپ کو پیارا ہوتا ہے قدرتی طور پر مبارک احمد کو حضرت صاحب بہت پیار کرتے تھے.وہ خدا تعالیٰ کی ایک آیت تھا.اس سے ایک مرتبہ قرآن مجید کے متعلق سہوا ایک بے ادبی ہو گئی قرآن مجید ان سے گر گیا تھا.حضرت اقدس نے جب دیکھا تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا وہ شخص گویا بالکل بدل گیا تھا.باوجود یکہ آپ بچوں کو تعلیمی معاملات میں سزا دینے کے بہت خلاف تھے مگر اس کو برداشت نہ کر سکے اور مبارک احمد کو ایک تھپڑ مارا جس سے نشان ہو گیا.اور اظہار رنج فرمایا کہ قرآن مجید کی بے ادبی ہوئی ہے.وہ بچہ ہے ابھی ان آداب سے واقف نہیں لیکن آپ اس کو برداشت نہیں کر سکتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی حرکت کسی سے دانستہ یا نا دانستہ ایسی سرزد نہ ہو جو استخفاف شریعت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کی ہتک اور تحقیر کا موجب ہو.غرض آپ کی زندگی میں جب کبھی ایسا موقع آیا آپ نے غیرت دینی کا اظہار پورے جوش سے فرمایا آپ کو لوگوں نے گالیاں دیں.ہر قسم کی تحقیر کی.سامنے بیٹھ کر بُرا بھلا کہا.آپ کو کبھی غصہ نہیں آیا اور آپ نے عفو و کرم کا اظہار کیا مگر جو امر آپ کی برداشت سے باہر تھا وہ ایک ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر نہ سن سکتے تھے.یہ واقعات غیرت دینی کے اظہار کی ایک شان ہیں غیرت دینی کے اظہار کا ایک دوسرا رنگ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے خلاف کوئی اعتراض آپ سن نہ سکتے تھے اور فورا اس کے جواب کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے.اس کا بیان دوسرے موقع پر ہوگا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ بیماری اور تیمارداری عیادت اور تعزیت کے سلسلہ میں یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے اس حصہ کو پیش کروں جو بیماری اور تیمار داری کی حالتوں میں آپ کے اخلاق اور کیریکٹر کو ظاہر کرتا ہے.انسان بیمار ہوتا ہے اور اس کے متعلقین احباب عزیز واقارب میں سے بھی بعض بیمار ہوتے ہیں اور اس کو ان کی تیمارداری کرنی پڑتی ہے ان دونوں حالتوں میں اس کے اندرونی اخلاق اور ایمانی کیفیات کا جو منظر سامنے آتا ہے.وہ دوسری حالتوں میں ممکن نہیں.مجھ کو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دونوں قسم کے موقع دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے مگر قبل اس کے کہ میں ان واقعات کا ذکر کروں میں مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت مولا نا عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے اس پہلو پر جو کچھ تحریر فرمایا ہے اسے یہاں درج کروں آپ فرماتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ کو سخت در دسر ہورہا تھا اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس حد سے زیادہ شور وغل بر پا تھا.میں نے عرض کیا جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی.فرمایا ! ہاں اگر چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے.میں نے عرض کیا تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے فرمایا آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں میں تو کہہ نہیں سکتا.بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گویا مزہ میں سورہے ہیں.کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اور تو نے ہماری خدمت نہیں کی.میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیمار دار اس کی بدمزاجی اور چڑ چڑا پن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں اسے گالی دیتا ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا السلام ۲۶۶ اُسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آجاتی ہے بے چاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین کہیں تکان کی وجہ سے ذری اُونگھ گئی ہے بس پھر کیا خدا کی پناہ آسمان کو سر پر اٹھا لیا.وہ بے چاری حیران ہے ایک تو خود چور چور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں مارے غضب وغیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے.غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہوتی ہے خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے.برخلاف اس کے سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمعیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں.میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جب کہ ابھی ابھی سردرد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا.آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ آپ کسی بڑے عظیم الشان دل کشا نزہت افزا باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے.میں ابتدائے حال میں ان نظاروں کو دیکھ کر بڑا حیران ہوتا تھا اس لئے کہ میں اکثر بزرگوں اور حوصلہ اور مردانگی کے مدعیوں کو دیکھ چکا تھا کہ بیماری میں کیا چولہ بدل لیتے ہیں اور بیماری کے بعد کتنی کتنی مدت تک ایسے سڑیل ہوتے ہیں کہ الامان کسی کی تقصیر آئی ہے جو بھلے کی بات منہ سے نکال بیٹھے.بال بچے بیوی دوست کسی او پرے کو دور ہی سے اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھنا کالا ناگ ہے نزدیک نہ آنا.اصل بات یہ ہے کہ بیماری میں بھی ہوش و حواس اور ایمان اُسی کا ٹھکانے رہتا ہے جو صحت کی حالت میں مستقیم الاحوال ہو اور دیکھا گیا ہے کہ بہت سے تندرستی کی حالت میں مغلوب الغضب شخص بیماری میں خالص دیوانے اور شدت جوش سے مصروع
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ ہو جاتے ہیں.حقیقت میں ایمان اور عرفان اور استقامت کے پرکھنے کے لئے بیماری بڑا بھاری معیار ہے جیسے سکر اور خواب میں بڑ بڑانا اور خواب دیکھنا حقیقی تصویر انسان کی دکھا دیتا ہے بیماری بھی مومن اور کافر، دلیر اور بُزدل کے پرکھنے کے لئے ایک کسوٹی ہے.بڑا مبارک ہے وہ جو صحت کی حالت میں جوش اور جذبات نفس کی باگ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا.برادران ! چونکہ موت یقینی ہے اور بیماریاں بھی لابدی ہیں کوشش کرو کہ مزاجوں میں سکون اور قرار پیدا ہو.اسلام پر خاتمہ ہونا جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہے اور جو امید و بیم میں معلق ہے اسی پر موقوف ہے کہ ہم صحت میں ثبات و تثبیت اور استقامت واطمینان پیدا کرنے کی کوشش کریں ورنہ اُس خوفناک گھڑی میں جو حواس کو سراسیمہ کر دیتی اور عقاید اور خیالات میں زلزلہ ڈال دیتی ہے تثبیت اور قرار دشوار ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (ابراهیم : ۲۸) یہ تثبیت یہی ہے جو میں حضرت خلیفتہ اللہ کی سیرت میں دکھا چکا ہوں.وہ انسان اور کامل انسان جس پر اس دنیا کی آگ اس دنیا کی آفات اور مکروہات کی آگ یہاں کچھ بھی اثر نہیں کر سکی وہ وہی مومن ہے جسے دوزخ کہے گی کہ اے مومن گزر جا کہ تیرے نور نے میری نار کو بجھا دیا ہے.اور اے بہشت کو دونوں جیبوں میں اسی طرح موجود رکھنے والے برگزیدہ خدا جس طرح آج کل لوگ جیبوں میں گھڑیاں رکھتے ہیں تو یقیناً خدا سے ہے.ہاں تو اس کثیف اور مکروہ دنیا کا نہیں ورنہ وجہ کیا کہ یہ دنیا اپنی آفات و امتحانات کے پہاڑ تیرے سر پر تو ڑتی ہے اور وہ یوں تیرے اوپر سے ٹل جاتے ہیں جیسے بادل سورج کی تیز شعاعوں سے پھٹ جاتے ہیں.لاکھوں انسانوں میں یہ تیرا نرالا قلب اور فوق العادت جمیعت اور سکون اور ٹھہرا ہوا مزاج جو تجھے بخشا گیا ہے یہ کس بات کی دلیل ہے.یہ اس لئے ہے کہ تو صاف نظر کر پہچانا جائے کہ تو زمینی
سیرت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ نہیں ہے بلکہ آسمانی ہے اس زمین کے فرزندوں نے تجھے نہیں پہچانا حق تو یہ تھا کہ آنکھیں تیری راہ میں فرش کرتے اور دلوں میں جگہ دیتے کہ تو خدا کا موعود خلیفہ اور حضرت خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خادم اور اسلام کو زندہ کرنے والا ہے.“ مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم سیالکوٹی" صفہ ۲۲ تا ۲۵) حقیقت میں بیماری انسان کی ایمانی اور قلبی کیفیت کے جانچنے کے لئے ایک امتحان ہوتا ہے اور بہت تھوڑے ہوتے ہیں جو اس امتحان میں پاس ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دوران سر کی عام شکایت تھی اور دوسرے لوگ شناخت بھی نہ کر سکتے تھے.بعض اوقات مجلس میں بیٹھے ہوئے بھی دورہ ہو جاتا تھا.مگر کبھی آپ کی زبان سے ہائے وائے نہیں سنا گیا بلکہ اگر کوئی آواز آتی تھی تو سُبْحَانَ الله عزم اور ہمت اتنی بلند تھی کہ جونہی اس سے ذرا سا بھی افاقہ ہوتا پھر بدستور کام میں مصروف ہو جاتے اور شاداں و فرحاں باہر آتے اور کبھی آپ کے چہرہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ بیماری کے ایک شدید حملہ اور دورہ سے نکل کر آئے ہیں.بیماری کے مختلف حملے آپ پر ایام بعثت سے پہلے بھی ہوئے ہیں اور بعد میں بھی لیکن کبھی اور کسی حال میں آپ کے طرز عمل میں تبدیلی نہیں ہوئی.قولنج زحیری سے بیمار ہوئے ۱۸۸۰ء میں آپ تو لنج زحیری سے بیمار ہوئے.سولہ دن تک برابر خون کے دست آتے رہے اور سخت تکلیف تھی.مگر باوجود اس سخت تکلیف اور شدت کرب کے نہ تو آپ کے منہ سے ایسا کلمہ نکلا جو خدا تعالیٰ کے شکوہ کا ہو.یا بے صبری ظاہر ہوتی ہو بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ پڑے رہے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتے رہے.گھر والوں کو یقین ہو گیا تھا کہ اس مرض سے اب جانبر نہ ہوں گے.بٹالہ سے مولوی محمد حسین صاحب کے والد شیخ رحیم بخش صاحب عیادت کے لئے آئے اور انہوں نے یہ کہہ کر اور بھی ڈرایا کہ یہ بیماری آج کل وباء کے طور پر پھیلی ہوئی ہے میں بٹالہ میں ایک جنازہ پڑھ کر آرہا ہوں جو اسی بیماری سے فوت ہوا ہے اور قادیان میں میاں فضل الدین حجام کا والد
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا وعود علیہ السلام ۲۶۹ میاں محمد بخش اسی بیماری سے حضرت صاحب کے ساتھ ہی بیمار ہوا تھا اور آٹھویں دن فوت ہو گیا مگر حضرت سولہ دن تک یہ تکلیف اٹھاتے رہے اور آخر حالت یہ ہوگئی کہ آپ چار پائی سے اٹھ نہ سکتے تھے اور بالکل نومیدی کی حالت نمودار ہوئی اور عزیزوں نے تین مرتبہ سورۃ یسین بھی سنائی.آپ کو اگر چه تاب گویائی نہ تھی تاہم آپ کے ہونٹ ہلتے معلوم ہوتے تھے اور آپ تسبیح میں لگے ہوئے تھے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر القا کیا کہ دریا کی ریت جس کے ساتھ پانی بھی ہو تسبیح اور درود کے ساتھ اپنے بدن پر ملو چنانچہ ریت منگوائی گئی اور آپ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ العظیم اور درود شریف کے ساتھ وہ ریت ملتے تھے اور جوں جوں ملتے جاتے تھے بدن آگ میں سے نجات پاتا جاتا تھا اور صبح تک وہ مرض بالکل دور ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی الہام ہوا ” وَانُ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَا تُوْا بِشِفَاءٍ مِّنْ مِّثْلِهِ “.یہ واقعہ آپ کی بعثت سے پہلے کا ہے اور ابھی تک اس کے دیکھنے والے موجود ہیں آپ نے اپنی تصانیف میں بھی اسے شائع کیا ہے.غرض بیماروں میں جو چڑ چڑا اپن ، گھبراہٹ اور بیقراری ہوتی ہے وہ آپ میں کبھی نہیں پائی گئی.عام طور پر آپ کی حالت یہ تھی کہ بیماری میں خاموش پڑے رہتے تھے اور خدا کی تحمید اور تسبیح کرتے رہتے یا درود شریف پڑھتے رہتے.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ اس وقت کی حالت ہے جبکہ آپ پبلک میں نہ آئے تھے اور گردو پیش لوگوں کا ہجوم نہ تھا.مگر یہ بات غلط ہے آپ کی حالت کی تبدیلی نے آپ کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی.اس وقت بھی آپ ایک بڑے کنبہ کے ایک فرد تھے اور آپ کا خاندان ذی وجاہت اور نوکروں چاکروں کی کبھی کمی نہ تھی.مگر آپ کی خلوت پسند طبیعت نے کبھی یہ گوارا ہی نہیں کیا.مزاج میں ایک قسم کا سکون تھا اور بیماری میں بے قراری اور بے تابی آپ کے پاس نہ آتی تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا زمانہ بعثت کے بعد علالت ۲۷۰ مبعوث ہونے کے بعد جبکہ لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہوگئی تب بھی آپ کی یہی حالت تھی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے موافق دوز رد چادروں میں تو آپ ہمیشہ رہتے ہی تھے.یعنی دوران سر اور ذیا بیطیس کی شکایت رہتی تھی.مگر ان بیماریوں کے باوجود اپنے کاروبار میں ہمیشہ مصروف رہتے بلکہ سچ یہ ہے کہ جس قدر بڑی بڑی کتابیں آپ نے تصنیف فرمائی ہیں وہ انہیں بیماریوں کے حملے میں.آپ ہمیشہ اپنی بیماری کو خدا تعالیٰ کی کسی عظیم الشان مصلحت کا نتیجہ یقین کرتے تھے.اور بیماری میں آپ کی توجہ دعا اور خدا تعالیٰ کی طرف بے حد مبذول ہوتی جاتی تھی.نہ یہ کہ خود دعا کیا کرتے بلکہ دوسرے دوستوں کو بھی دعا کے لئے تحریک کرتے رہتے اور یہ ایک ایسا امر ہے جس سے آپ کا دعا پر یقین اور ایمان کامل ثابت ہوتا ہے.مئی ۱۹۰۲ء کے عشرہ اوّل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درد گردہ کی قسم کا ایک حملہ ہوا.یہ حملہ نہایت خطر ناک تھا.حضرت حکیم الامت آپ کا علاج کر رہے تھے.مگر اس حملہ میں جوموت کے قریب پہنچا دینے والا تھا.کسی قسم کی جزع فزع ہائے وائے آپ کے منہ سے نہیں سنی گئی.آپ خود بھی دعا میں مصروف تھے اور خدام کو بھی آپ نے دعا کے لئے خاص طور پر تاکید کی.چنانچہ مسجد اقصیٰ میں خاص طور پر دعا کی گئی.اس وقت حالت ایسی ہو گئی تھی کہ گویا آخری وقت ہے.مگر آپ کی طرف سے کسی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا اظہار نہ تھا.حضرت مخدوم الملت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کو حکم دیا کہ باہر بھی دوستوں کو دعا کے لئے خطوط لکھیں.چنانچہ ارمئی ۱۹۰۲ء کو انہوں نے کچھ خطوط لکھ دیئے مگر رات کو ہی آپ کی حالت میں ایک فوری تغیر ہوا.چنانچہ امئی ۱۹۰۲ء کو الحکم کا جو غیر معمولی نمبر میں نے شائع کیا اس میں حضرت مولوی صاحب نے آپ کے کلمات طیبات کو لکھا.جس سے آپ کی اس حالت ایمانی اور عرفانی کا پتہ لگتا ہے جو حالت مرض میں تھی.چنانچہ فرماتے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ بہت سے مخلص دوستوں کو کل ہی کی ڈاک میں حضرت اقدس علیہ السلام کے حکم سے آپ کی علالت طبع کی نسبت خط لکھے تھے اور ان سے چاہا گیا تھا کہ وہ حضرت کی صحت و عافیت کے لئے دعا کریں.اُن کے اور عام احباب کی اطلاع کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل نے مجھے عمدہ اور من مانا موقع دیا کہ میں ان کو بشارت دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رات سے پوری عافیت حاصل ہوگئی وَالْحَمْدُ لِلَّهِ.آج صبح خدا کی طرف سے وحی ہوئی ”خوشی کا مقام - نَصْرٌ مِّنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ“.فرمایا.یہ ہماری آمد ثانی ہے اور فرمایا مسیح علیہ السلام کو صلیب کا واقعہ پیش آیا اور خدا تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی.ہمیں بھی اس کی مانند صلب یعنی پیٹھ کے متعلقات کے درد سے وہی واقعہ جو پورا موت کا نمونہ تھا پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے عافیت بخشی.اور فرمایا جس طرح تو ریت کا وہ بادشاہ جسے نبی نے کہا کہ تیری عمر کے پندرہ دن رہ گئے ہیں اور اس نے بڑی تضرع اور خشوع سے گریہ و بکا کیا اور خدا تعالیٰ نے اس نبی کی معرفت اسے بشارت دی کہ اس کی عمر پندرہ روز کی جگہ پندرہ سال تک بڑھائی گئی اور معاً اسے ایک اور خوشخبری دی گئی کہ دشمن پر اُسے فتح بھی نصیب ہوگی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دو بشارتیں دی ہیں ایک عافیت یعنی عمر کی درازی کی بشارت جس کے الفاظ ہیں ” خوشی کا مقام“ دوسری عظیم الشان نصرت اور فتح کی بشارت.فرمایا.دشمنوں کی یہ آخری خوشی تھی.اور فرمایا.پرسوں طبیعت بالکل درست ہو گئی تھی مگر برف پینے کے سبب سے دوبارہ درد کی شدت زور پکڑ گئی اور فرمایا میں نے اس میں غور کی کہ کیوں قضا و قدر نے مجھے اتنی برف پلا دی کہ جس سے خوفناک حد تک مرض کی نوبت پہنچ گئی مجھے اس میں کئی اسرار معلوم ہوئے.اوّل یہ کہ بعض دوستوں کے لئے مجھے ہنوز پُر درد اور مخلصانہ دعا کرنی تھی اور اس کا موقع وہی حزن اور کرب کی گھڑیاں تھیں.جو جاتی رہی تھیں.دوم بعض دوستوں کو ہمارے حق میں پُرسوز
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۲ اور مخلصانہ دعائیں کرنے کا ثواب ملنا تھا.سوم خدا نے چاہا کہ تھوڑی دیر کے لئے دشمن بھی خوش ہو لیں اور اس خوشی سے اپنے لئے وہ سامان پیدا کریں اور اس قضا و قدر کی تحریک کریں جو ان کے لئے مقدر ہے.چہارم بعض ثواب اور مدارج ہیں جن کا ملنا موقوف تھا ایسی نازک اور جاں گداز حالت پر.اس بیماری کے اثناء میں جس چیز نے میرے ایمان کو بڑھایا اور اس میں وہ نور بخشا وہ حضرت کا بار بار اپنے احباب کو دعا کی تحریک کرنا تھا.حضرت بار بار خدام کو عورتوں کو ، جو آپ کے گرد و پیش جمع رہتیں اور باہر خدام کو بار بار کہتے اور کہلا کر بھیجتے کہ دعائیں کرو اور استغفار بہت پڑھو کہ یہ ابتلا کا وقت ہے.“ (الحکم مورخه امئی ۱۹۰۲ء غیر معمولی نمبر الحکم ) آپ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی سے بہت ڈرتے اور اس کے فضل کے لئے دعاؤں کو بہترین ذریعہ یقین کرتے تھے یہ آپ کی ایک بیماری کا نقشہ ہے.عام طور پر یہی حالت تھی.بیماری میں آر کی توجہ الی اللہ بہت بڑھ جاتی تھی اور آپ عام طور پر فرمایا کرتے تھے کہ بیمار اقرب الى الله ہوتا ہے.ایک اور واقعہ ایک مرتبہ آپ بعد نماز مغرب حسب معمول شد نشین پر تشریف فرما تھے اور گرمی کا موسم تھا کہ آپ پر ضعف قلب کا دورہ ہوا.یکا یک آپ کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے.آپ نے مشک نکال کر ( جو ہمیشہ رومال میں باندھ کر رکھا کرتے تھے ) کھایا اور گرم پانی منگوایا گیا.جس میں پاؤں رکھے گئے.حملہ بہت سخت تھا اس حالت کی خبر پیرا پہاڑ یا ( ملازم حضرت اقدس ) کو بھی ہوئی.وہ بھاگا آیا اور اس کے پاؤں کیچڑ میں لت پت تھے.اسی حالت میں آگے چلا آیا.کسی نے اس کو روکنا چاہا مگر آپ نے فرمایا مت روکو وہ کیا جانتا ہے کہ کیچڑ والے پاؤں سے فرش پر جانا ہے یا نہیں محبت سے آیا ہے آنے دو.اس وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ سبحان اللہ سبحان اللہ، کہتے تھے اور یہی بات سنے میں آتی تھی.چہرہ پر تمانیت اور تسلی تھی اور اندر سے جب دریافت کیا جاتا اور بار بار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ دریافت کیا جاتا تو آپ فرما دیتے دورہ ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا ہوں فکر نہ کریں.قریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک برابر اسی طرح پر مالش وغیرہ ہوتی رہی تب آپ کی طبیعت درست ہوئی اور نماز ادا کر کے اندر تشریف لے گئے.ہم لوگ جو اردگرد بیٹھے تھے اس حالت کو دیکھ کر کہ بردِ اطراف ہو رہی تھی گھبرارہے تھے مگر آپ کی طبیعت میں سکون اور اطمینان تھا.عام حالت بیماری میں عام طور پر جس طرح آپ کی توجہ دعا کی طرف ہوتی تھی اور زیادہ زور دعاؤں ہی پر ہوتا تھا.دوا کی طرف بھی آپ توجہ کرتے تھے اور فوراً علاج کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور تَمَسُّك بالاسباب کو بھی ضروری سمجھتے تھے اور اس غرض کے لئے کبھی اس بات کی پراہ نہ کرتے تھے کہ اس علاج پر کیا خرچ ہوتا ہے.جب آپ پر کسی بڑی بیماری کا حملہ ہوتا تھا تو وہ کسی بڑے عظیم الشان الہام کا پیش خیمہ ہوتی تھی.جنوری ۱۹۰۰ء کے اوائل میں مرزا امام الدین صاحب اور ان کے رفقاء نے مسجد کا راستہ ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا اس وقت آپ کو دردسر کا دورہ ہوا.چنانچہ حضرت مخدوم الملت لکھتے ہیں.حضرت اقدس کو کل معمولاً در دسرتھا اور ہم نے بھی عادتاً یقین کر لیا تھا کہ تحریک تو ہو ہی گئی ہے اب خدا کا کلام نازل ہو گا.ظہر کے وقت مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا در دسر بہت ہے.دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھ لی جائیں.نماز پڑھ کر اندر تشریف لے گئے اور سلسلہ الہام شروع ہو گیا اور مغرب تک تار بندھا رہا.مغرب کو تشریف لائے اور الہام اور کلام الہی پر بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے کہ کس طرح خدا کا کلام نازل ہوتا ہے اور مہم کو اس پر کیسا یقین ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے الفاظ ہیں اگر چہ دوسرے اس کی کیفیت سمجھ نہ سکیں.“ ( مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی " صفحہ ۵۶)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ یہ الہامات " الرَّحَى تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ سے شروع ہوتے ہیں.ان ایام میں ہم اس كوسورة الرحی کہا کرتے تھے.اور جس وقت یہ وحی الہی نازل ہوئی ہے حضرت سید فضل شاہ صاحب رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ کے پاؤں دباتے تھے انہوں نے اس کیفیت اور نظارہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ پر غنودگی طاری ہوتی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وحی الہی نازل ہوتی تھی اور آپ لکھواتے جاتے تھے.مختصر یہ کہ آپ کی علالت عام طور پر کسی الہام کا پیش خیمہ ہوتی تھی اور جس قدر شدت سے بیماری کا حملہ ہوتا تھا اسی قدر عظیم الشان نشان نازل ہوتا تھا.ان بیماریوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے بعض خاص علاج آپ کو بتا دیئے.اور ادویات متشکل ہو کر سامنے آگئیں جیسا کہ ایک مرتبہ پیپر منٹ حاضر ہوا.اور اس نے کہا کہ ” خاکسار پیپر منٹ“ اور اسی طرح بعض بیماریوں کا آپ کو خطرہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سے محفوظ رہنے کی بشارت دی.آپ کی تیمارداری جس طرح آپ اپنی بیماری میں ایک سکون اور اطمینان کی حالت میں رہتے تھے اور اگر کوئی خدانخواستہ بیمار ہو جاتا تو آپ اس کے علاج اور تیمارداری میں اس طرح منہمک ہو جاتے کہ دیکھنے والے کو حیرت ہوتی تھی.مگر آپ کا یہ انہاک اور مصروفیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ کی ایک تفسیر ہوتی تھی اور جس قدر انسانی قدرت اور ہمت میں ہے آپ تمسک بالاسباب کر کے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے اور آپ کی ساری توجہ اسی شافی الامراض کی طرف ہوتی تھی.آپ خود ڈاکٹروں اور طبیبوں کو بھی ہمیشہ اسی قسم کا وعظ اور ہدایت فرماتے رہتے تھے.آپ کی تیمارداری کے بعض واقعات میں رضا بالقضا کے عنوان کے نیچے لکھوں گا انشاء اللہ.اس لئے یہاں تفصیل نہیں کروں گا.تاہم بعض واقعات کا اظہار یہاں بھی کرتا ہوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا لودعلیہ السلام ۲۷۵ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا واقعہ ایک دفعہ آپ نے کشف میں صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے متعلق دیکھا کہ وہ مبہوت اور بدحواس ہو کر دوڑتا ہوا آپ کے پاس آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اڑے ہوئے ہیں اور کہتا ہے کہ ابا پانی یعنی مجھے پانی دو.حضرت اقدس اس وقت باغ میں مقیم تھے اور دو گھنٹہ بعد اس کشف کے بعینہ یہ واقعہ پیش آیا.آٹھ بجے صبح کا وقت تھا اور حضرت اقدس ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے.مبارک احمد چار برس کی عمر کا تھا.یکا یک وہ اسی طرح مبہوت حضرت کی طرف آیا اور کشف پورا ہو گیا ، آپ فرماتے ہیں.” میں نے اس کو گود میں اٹھالیا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں تیز قدم اٹھا کر اور دوڑ کر کنوئیں تک پہنچا اور اس کے منہ میں پانی ڈالا.اس نقشہ کا تصور کریں کہ جب آپ چار برس کے بچہ کو اٹھاتے ہوئے کنویں کی طرف بھاگے جارہے تھے.آپ نے یہ پروانہیں کی کہ میں آواز دے کر اپنے بیسیوں خادموں کو بلاسکتا ہوں پانی ہی منگوا سکتا ہوں.کسی کا انتظار نہیں کیا بلکہ خود اٹھا کر بھاگتے ہوئے کنوئیں کی طرف چلے گئے.اپنی اولا داور ا قارب کے ساتھ ہی یہ بات مخصوص نہ تھی بلکہ ہر ایک کے ساتھ آپ کو اسی قسم کا در دتھا اور آپ دوسروں کے لئے اپنا آرام قربان کر دیتے تھے.حضرت ام امؤمنین پر جب کبھی بیماری کا حملہ ہوتا تو آپ ہر طرح آپ کی ہمدردی اور خدمت کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اپنے عمل سے آپ نے یہ تعلیم ہم سب کو دی کہ بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟ جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہے عند الضرورت وہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک اس سے کریں.چنانچہ آپ علاج اور توجہ الی الہ ہی میں مصروف نہ رہتے بلکہ بعض اوقات حضرت ام المؤمنین کو دباتے بھی تا کہ آپ کو تسلی اور سکون ملے.احمق اور نادان ممکن ہے اس پر اعتراض کریں مگر حقیقت میں نسوانی حقوق کی صیانت اور ان کے حقوق کی مساوات کا یہ بہترین نمونہ ہے جو حضرت مسیح موعود
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا علیہ السلام نے دکھایا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تیمار داری اور عیادت کے واقعات او پر بیان ہو چکے ہیں.حضرت حکیم الامت اور بعض دوسرے دوستوں کی علالت میں بھی آپ کا کرم ورحم بے حد تھا اور مرض الموت میں یہی انسان کے لئے تسلی بخش ہوتا ہے.علاج معالجہ بھی کرتے تھے شاید یہ باب نامکمل رہ جائے اگر میں یہ ذکر خود نہ کروں کہ بیماروں کے ساتھ ہمدردی لفظا ہی نہ تھی اور نہ دوسروں کی تاکید کی صورت میں ہی تھی بلکہ آپ خود علاج بھی فرمایا کرتے تھے اور یہ بطور پیشہ کے نہیں بلکہ محض خدا کی مخلوق کی ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے.آپ نے طبّ اپنے والد صاحب سے سبقاً پڑھی تھی مگر بطور پیشہ اس کو کبھی اختیار نہ کیا البتہ کسی کو جب ضرورت ہوتی تو آپ اس کا علاج بغیر کسی اجورہ کی ادنیٰ سے تحریک اور خواہش کے بھی کرتے اور قیمتی ادویات اپنے پاس سے دے دیتے.اوائل میں آپ کے گھر میں اچھا خاصہ ہسپتال تھا اور صبح کے وقت کا بہت ساحصہ غرباء اور مرضی کو ادویات دینے میں بھی صرف ہوتا تھا اور آپ اس خدمت کو اسی طرح کرتے جس طرح دوسری دینی خدمات کو پوری مسرت اور انشراح کے ساتھ.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اس کا نقشہ چشم دید واقعہ کی بنا پر کھینچا ہے اور بہترین نقشہ دکھایا ہے فرماتے ہیں.و بعض اوقات دوا درمل پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں مر جا جی بُوا گھو لوتاں“ حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذیشان کا حکم آیا ہے اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں.ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہیں.ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کردیا اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ ہے آپ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ.دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے.ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آنکلیں.اور آپ کو دینی ضرورت کے لئے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا.میں بھی اتفاقاً جا نکلا کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا.فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے.اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا " یہ بڑا ثواب کا کام ہے مومن کو ان کاموں میں سُست اور بے پروا نہ ہونا چاہیے.“ مصنفہ مولاناعبدالکریم سیالکوٹی صفر ۳۵،۳۴) ادویات خواہ کتنی ہی قیمتی ہوں آپ بے دریغ دے دیتے تھے اور فوراً دے دیتے تھے.تریاق الہی جب آپ نے تیار کیا اور وہ بہت قیمتی تھا.ہزاروں روپیہ اس پر خرچ آئے جب کسی نے مانگا تو آپ کافی مقدار میں جھٹ لا کر دے دیتے تھے اور کسی مریض کے لئے جب کسی دوا کی ضرورت ہوئی اور معلوم ہوا کہ آپ کے سوا اور کسی جگہ نہیں ملتی تو فوراً آپ ساری کی ساری اٹھا کر دے دیتے تھے کہ کسی طرح مریض کو فائدہ پہنچے.مریضوں کو جب آپ ادویات دیا کرتے تھے تو خود
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸ اپنے ہاتھ سے تیار کر کے دیتے تھے.اس کام میں آپ کی مدد کرنے کے لئے کوئی کیمو نڈر یا خادم نہ ہوتا بلکہ آپ ادوایات کے معاملہ میں خاص طور پر احتیاط سے کام لیا کرتے تھے.ایک یتیم کے معالجہ میں سرگرمی اس خصوص میں آپ کی سیرت کا یہ پہلو نا تمام رہ جائے گا اگر میں ایک یتیم کے واقعہ کا ذکر نہ کروں.ایک یتیم لڑکا جس کا نام فی جا ہے وہ آج کل یہاں قادیان ہی میں ایک مخلص احمدی کی حیثیت سے رہتا اور صاحب اولاد ہے اور معماری کا کام کرتا ہے.ابتدا میں مرزا نظام الدین صاحب کے گھر میں رہتا تھا.بعض سختیوں کو نا قابل برداشت پا کر وہ حضرت اقدس کے گھر میں آ گیا.کسی سر پرستی اور تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت بہت خراب تھی اطوار وحشیانہ اور غیر مہذبانہ تھے.طبیعت میں تیزی تھی ایک مرتبہ وہ اپنی شوخی کی وجہ سے جل گیا.کھولتا ہوا پانی اس کے سارے بدن پر گر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے لئے اس سے کم صدمہ نہیں ہوا جس قدر اپنے لختِ جگر کے لئے ہوا تھا.ایک مرتبہ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی چشم زخم پہنچا تھا.آپ ہمہ تن اُس کے علاج میں مصروف ہو گئے.بدن پر تازہ دھنی ہوئی روٹی رکھی جاتی تھی اور بڑی احتیاط کی جاتی تھی.اس کے علاج میں آپ نے نہ تو روپیہ کی پروا کی اور نہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی مضائقہ کیا اور نہ ہی غور و پرداخت اور غذا او دوا میں کوئی کمی جائز رکھی گئی.خود اپنے سامنے ہر چیز کا انتظام کراتے تھے اور اس کو ہمیشہ تسلی دیتے تھے یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس صدمہ سے یہ بچ گیا تو نیک ہوگا.چنانچہ آپ کا یہ ارشاد بالکل صحیح ثابت ہوا.اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بلا سے نجات دی اور اب وہ ایک مخلص احمدی ہے.اس جلنے کا نشان اس کے بدن پر اب تک باقی ہے.سب جانتے ہیں کہ اس وقت وہ ایک میلی چیلی شکل کا بچہ تھا اور کس مپرسی کی حالت میں اس نے زندگی کے ابتدائی دن کاٹے تھے.عرف عام کے لحاظ سے کسی بڑی قوم اور خاندان سے تعلق نہ رکھتا تھا.ایسی مصیبت کے وقت میں جبکہ انسان اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی علالت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۹ سے بھی اکتا جاتا ہے آپ ایک لمبے عرصہ تک اس کی تیمار داری میں مصروف رہے اور نہ صرف خود بلکہ سب گھر والوں کو اس کے متعلق خاص طور پر ہدایات تھیں.اس کے آرام اور علاج میں کوئی کمی نہ کی جاوے.یتیم پروری اور تیمارداری کی یہ بہترین مثال ہے.آپ کے صاحبزادے اکثر بیمار ہو جاتے ان کے علاج معالجہ اور دوا در من میں راتوں کو دن کر دینا معمولی بات ہوتی تھی.حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) کی آنکھیں بیمار تھیں آپ اس کے علاج کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے اور ساری ساری رات خود ٹہلتے رہتے اور ان کو بہلاتے.مگر کبھی شکایت نہ کی.ہم نے اپنے گھروں میں دیکھا ہے کہ بیماری ذرا لمبی ہوئی یا کسی کو زیادہ وقت تک کسی بیمار کے پاس رہنا پڑا تو گھبرا کر ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتے ہیں جو قابل افسوس ہوتے ہیں مگر حضرت کو دیکھا گیا کہ بعض اوقات مہینوں تیمارداری کرنی پڑی ہے اور ساری ساری رات اور دن بھر اس کوفت میں رہے ہیں مگر زبان سے کوئی لفظ شکوہ کا نہیں نکلا پوری مستعدی کے ساتھ اس میں لگے رہے.تیمار داری میں گھبراہٹ اور بیمار کی حالت اور چڑ چڑاہٹ سے آپ کو رنج نہ پیدا ہوتا تھا اور نہ اس کی حالت کے کسی مرحلہ پر نازک ہو جانے سے کوئی مایوسی ظاہر ہوتی تھی.مایوسی تو کبھی اور کسی حال میں آپ کے نزدیک آ ہی نہیں سکتی بلکہ خطر ناک حالتوں میں بھی آپ کے چہرہ کو دیکھ کر حد درجہ کا نا امید اور کمزور طبیعت کا انسان ایک قوت اور امید کی شعاع اپنے اندر پیدا کر لیتا تھا.غرض نہ تو اپنی بیماری میں گھبراہٹ اور چڑ چڑا پن آپ میں ہوتا تھا.ایک سکون اور اطمینان سے بیٹھے رہتے تھے اور ادویات کے استعمال سے جی نہ چراتے.کیسی ہی تلخ اور بد مزا دوائی ہو بغیر منہ بنانے اور ذرا بھی تامل کرنے کے پی لیتے تھے اور اوپر والوں کو اپنی تیمارداری کے لئے کوئی تکلیف نہ دیتے.طبیعت میں استقامت اور عزم اور قوت اس حالت میں بھی پاتے تھے جبکہ اسہال کی کثرت یا دوران سر اور بَردِ اطراف کے دورے نے نقاہت اور ضعف پیدا کر دیا ہو.بعض اوقات بیماریوں کے لمبے دورے میں عام طور پر خود مریض بھی جان سے بیزار ہو جا تا اور گھبرا جاتا ہے.آپ بیماری میں بھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ اس شوق و ذوق سے پڑے رہتے کہ دیکھنے والا آپ کو ایسی حالت میں بیمار نہ سمجھتا.آپ کے کام آپ کے کلام اور آپ کے عزم سے اس بات کا سمجھنا محال ہو گیا تھا.آخری حصہ تو عموماً بیماری میں ہی گزرا ہے اور جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں تمام بڑی بڑی تصانیف بیماری ہی میں لکھی گئی ہیں بلکہ ایام بیماری میں آپ کا قلم تیز ہو جاتا تھا.آپ سمجھتے تھے کہ شاید وقت قریب آ گیا ہے اس لئے جس قدر کام ہو سکے وہ کم ہے.جس طرح اپنی بیماری میں آپ کی یہ حالت تھی متعلقین اور دوسروں کی تیمار داری میں بھی آپ کا استقلال اور اطمینان ایک اعجازی حیثیت رکھتا تھا.ایک طرف بیمار کا چڑ چڑا پن اس کی تکلیف اور دواؤں کی بدمزگی سے نفرت ہے دوسری طرف اپنی بے آرامی اس کے علاج میں مصروفیت اس کی نگہداشت اور سلسلہ کے کاموں میں مصروفیت مزید برآں ہے.مگر یہ تمام بے آرامیاں تمام کوفتیں اس طرح سے گزار لیتے کہ گویا کوئی واقعہ ہے ہی نہیں.یہ سب کچھ انسانی ہمدردی اور تعظیم لامر اللہ کی بنا پر تھا.بیماری اور تیمار داری دونوں حالتوں میں یہ شیر خدا ایک جنت کی حالت میں تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اگر موت فوت کا کوئی واقعہ ہو جاتا تو وہ حالت بھی آپ کی حالت میں تغییر پیدا نہ کرتی.بیماری کی حالت میں وہ شکور تھا اور موت فوت کی حالت میں راضی بالقضا تھا.اس کی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہ آتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ سے اپنے قرب اور صدق اور وفا کے مقام کو آگے نہ پاتا ہو.میں آگے چل کر آپ کا نمونہ رضا بالقضا کا انشاء اللہ دکھاؤں گا.شاید اس جگہ بعض بیماریوں کے نسخے آپ کے بیان کردہ لکھ لینے مناسب سمجھے جاتے.مگر سیرت کے مضمون سے ان کا کچھ تعلق نہیں اس لئے اگر توفیق ملی تو آپ کی طب کا بیان کرتے ہوئے انشاء اللہ درج کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو اخلاق بیماری اور تیمار داری میں ظاہر ہوئے ہیں واقعات کے لحاظ سے وہ کثیر التعداد ہیں.اور یہ بھی آسان نہیں کہ اخلاقی اعجاز اور اعجاز مسیحائی میں فرق کیا جاسکے.یعنی جو نشانات آپ کی دعاؤں سے بیماروں کی صحت و شفا کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں وہ بھی کثیر التعداد ہیں.مگر میں ان کو عام طور پر آپ کے اعجازات کی تفصیل میں کہوں گا.یہاں میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۸۱ ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو اگر چہ بجائے خود ایک زبردست نشان ہے مگر اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اخلاق فاضلہ کا بھی ثبوت ملتا ہے جو مسافروں اور غریب الوطن لوگوں کی تیمارداری میں آپ سے ظاہر ہوتا تھا.اوپر میں نے ایک واقعہ ایک یتیم بچہ کے علاج کا بتایا ہے.یہ ایک غریب الوطن کا واقعہ ہے.ایک غریب الوطن لڑکے کی تیمارداری مکرمی سیٹھ حسن صاحب رئیس یاد گیر نے ( جو سلسلہ کے مخلص اور پرانے احمدی ہیں ) عبد الکریم نامی ایک لڑکے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجا.اتفاق سے اس کو ایک دیوانہ کتے نے کاٹا.اس کو علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا ، وہاں سے شفایاب ہو کر جب وہ قادیان میں آیا تو یکا یک اس کی بیماری عود کر آئی اور دیوانگی کے آثار اس پر ظاہر ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ کا دل اس غریب الوطن کی حالت پر پکھل گیا اور آپ کو دعا کے لئے خاص رقت پیدا ہوئی.عبد الکریم کو بورڈنگ سے نکال کر اس مکان کے ایک حصہ میں رکھا جس میں خاکسار راقم الحروف عرفانی رہتا تھا وہ مکان سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کا تھا.کسولی سے بذریعہ تار معلوم کیا گیا تو انہوں نے اُسے لا علاج بتایا.مگر مسیح موعود علیہ السلام نے اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے اس قدر توجہ فرمائی کہ حیرت ہوتی تھی.تھوڑی تھوڑی دیر بعد آپ اس کی خبر منگواتے تھے اور اپنے ہاتھ سے دوا تیار کر کے اس کے لئے بھجواتے تھے.آپ اس قدر بے قرار تھے کہ کوئی اپنے عزیز کے لئے بھی نہیں ہو سکتا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بچالیا اور وہ اب تک زندہ ہے اور صاحب اولاد ہے اس واقعہ کی تفصیل حضرت اقدس کی تصانیف میں ہے مگر میں اس واقعہ کو دیکھنے والا ہوں یہ نشان میری آنکھوں کے سامنے میرے مکان میں ظاہر ہوا.خود حضرت مسیح موعود نے بھی اس بے قراری اور اضطراب کا اظہار فرمایا ہے جو اس کے لئے آپ کے دل میں پیدا ہوا.چنانچہ فرماتے ہیں.اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا کیونکہ اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مرگیا تو ایک بُرے رنگ میں اس کی موت شامت اعداء کا موجب ہو گی تب میرا دل اُس کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۴۶ ، ۴۷ طبع اوّل.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۰)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ جود و سخا و احسان و عطا جود و سخا کی حقیقت پر ایک نظر ایصالِ خیر کے اخلاق میں سے احسان بھی ایک خلق ہے.اور اس کے مختلف مدارج اور شعبے ہیں.اس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ نہ احسان کا خیال ہو اور نہ شکر گزاری پر نظر ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اور نیکی ایک طبعی جوش کے ساتھ ہو.جیسے والدہ اپنے بچے کے ساتھ نیکی اور ہمدردی کرتی ہے وہ کسی غرض اور تبادلہ احسان کا رنگ نہیں رکھتی یہ اعلیٰ مقام ہے اور اس سے بھی آگے ایک درجہ ہے جو ایثار کہلاتا ہے کہ انسان باوجود اپنی ضروریات کے بھی دوسروں کے آرام آسائش اور ضرورتوں کو اپنے نفس پر مقدم کر لیتا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان صفات اخلاق کی مختلف مقامات پر خوب تشریح کی ہے اور بخل ، اسراف اور سخاوت میں فرق کر کے دکھایا ہے اور یہ تینوں اخلاق بھی ایک باریک اور دقیق فرق رکھتے ہیں.کیونکہ مال کی غرض یہ ہے کہ وہ ضرورت اور حاجت کے موقع پر استعمال کیا جاوے.اگر وہ ضرورت کے وقت صرف نہ کیا جاوے تو بخل ہو جائے گا بےضرورت صرف کیا جاوے تو اسراف ہوگا اور ضرورت کے موقع پر صرف کیا جاوے تو وہ سخاوت ہوگا.لیکن اس میں پھر ایک بحث ہے کہ ضرورت اور حاجت سے کیا مراد ہے؟ اور سخاوت میں کیا کچھ داخل ہے؟ ضرورت سے مراد جو کچھ حضرت مسیح موعوڈ کے کلام سے اور عمل سے مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ضرورت شرعی ہو رواج اور عادت کے ماتحت نہ ہو.اور سخاوت کے بڑے بڑے اجزا یہ ہیں کہ بن مانگے احساس ضرورت کر کے دیا جاوے.دے کر احسان نہ کیا جاوے سائل کو دیکھ کر خوش ہو اور اسے جھڑ کے نہیں کسی حالت اور صورت میں کسی امید، طمع ، مبادلہ شکر گزاری اور مدح و ثنا کے خیال سے نہ دیا جاوے اور کسی رسم و عادت کے ماتحت یہ عطا نہ ہو.قرآن کریم کے مختلف مقامات کو یکجائی نظر سے دیکھنے کے بعد یہی پایا جاتا ہے کہ مال کی یہی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ غرض ہے کہ وہ ضروت کے وقت صرف نہ کیا جاوے تو یہ بخل ہو گا.بے ضرورت صرف کیا جائے تو یہ اسراف ہے اس میں تھوڑے یا بہت کا سوال نہیں ہے ضرورت پر ایک لاکھ خرچ کر دینا اسراف میں داخل نہیں بلا ضرورت ایک پائی خرچ کرنا بھی اسراف ہو جاتا ہے.پھر سخاوت کے بھی مدارج ہیں اور اس کے کچھ لوازم اور اصول ہیں جب تک وہ ان کے ساتھ نہ ہو اس کی حقیقت کچھ نہیں.عمل صالح کے دوا جزاء اسلام جو روح انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے وہ مخلص فی الدین ہونے کی روح ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی عمل عمل صالح نہیں کہلا تا جب تک اس میں دو باتیں نہ ہوں اوّل اخلاص دوم صواب.اخلاص سے مراد یہ ہے کہ وہ محض خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کے ارشاد و ہدایت کے موافق ہو اور صواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے موافق ہوا گر یہ دونوں باتیں اس میں نہ پائی جاویں تو خواہ بظاہر وہ کتنا ہی نیک عمل نظر آتا ہو مگر اس میں نمو کی قوت نہیں وہ ایک مردہ چیز ہے.مثلاً نماز کیسی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے.مومن کا معراج اور صعود الی اللہ کا ذریعہ ہے لیکن جب وہ ریا کے ساتھ ملی ہوئی ہو تو اس پر خدا تعالیٰ نے خود ہلاکت اور لعنت کا اطلاق فرمایا.قتل بجائے خود کیسی مکروہ اور خوفناک چیز ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے کوئی قتل کر دیتا ہے تو وہ پیارا فعل ہو جاتا ہے اسی طرح ہر عمل کے لئے یہ دونوں شرائط ضروری ہیں.جو دوسخا کے ساتھ بھی سب سے اوّل یہ ضروری ہے کہ وہ اخلاص اور صواب سے ہو.یہ تو اس کے اجزائے اعظم ہیں.سخاوت کے اجزائے خیر اس کے ضمن میں اس کے اور بھی چھوٹے چھوٹے اجزا ء ضرور یہ ہیں مثلاً (۱) دے کر احسان نہ جتلانا.سائل اگر اصرار کرتا جاوے تو نرمی سے جواب دینا اور کسی مرحلہ پر بھی اس کو جھڑ کنا نہیں.سائل کو خالی ہاتھ حتی الوسع نہ پھیرنا.اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر اس پر بد گمانی نہ کرنا.پھر اسی کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۵ ضمن میں ان اموال کی بھی تفصیل ہوتی ہے جو اس مقصد کے لئے استعمال میں آنے چاہئیں.یعنی وہ طیب ہوں جو کسب حلال سے پیدا کئے گئے ہوں اور پھر وہ رڈی اور ناقص اشیاء نہ ہوں جو کسی وجہ سے اپنے استعمال میں نہ آسکتی ہوں اور مفت کرم داشتن کا مصداق ہوتی ہوں.غرض جو دو عطا کے متعلق ان اجزا کو مد نظر رکھ کر جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کو دیکھتے ہیں اور ان واقعات اور حالات پر نظر کرتے ہیں جو ہمارے سامنے پیش آئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس خلق عظیم سے حصہ وافر دیئے گئے تھے اور یہ طرز عمل آپ کی زندگی میں اس وقت سے پایا جاتا ہے جب سے آپ نے ہوش سنبھالا تھا.یہ نہیں کہ مامور ہو جانے کے بعد آپ سے اس قسم کے اخلاق کا صدور کسی تکلف سے ہوتا تھا بلکہ آپ کی طبیعت کا ایک جز و تھا.اس قسم کے اخلاق بعض وقت بالکل مخفی ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسے طور پر بھی ان کا صدور قدرتی طور پر ہو جاتا تھا کہ دوسروں کو علم ہو جاوے.آپ کا عام رجحان اسی طرف تھا کہ مخفی رہے.چنانچہ ابتدائی زندگی کے واقعات جودوسخا عموما مخفی رہتے تھے اس لئے کہ آپ ایک گوشہ گزین تھے اور مخفی طور پر ( جیسا کہ میں حیات احمد میں ذکر کر چکا ہوں) آپ بعض لوگوں سے اس وقت کے حسب حال سلوک کیا کرتے تھے لیکن جب خدا تعالیٰ نے آپ کو پبلک میں نکالا اور لوگوں کی آمد و رفت کثرت سے ہونے لگی اور آپ کے حالات پبلک ہونے لگے تو ان واقعات کے دیکھنے والے اور بیان کرنے والے بھی پیدا ہو گئے.اب میں واقعات کو پیش کر کے آپ کی سیرت کے اس پہلو کو دکھانے کی خدا کے فضل اور رحم سے کوشش کرتا ہوں.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ آپ سائل کو رد نہ کرتے سائل کو آپ کبھی بھی رد نہ کرتے تھے آپ کی زندگی اَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرُ کی ایک عملی تفسیر تھی.حضرت مولا نا عبدالکریم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہوا کہ نماز عصر کے بعد آپ معمولا اٹھے اور مسجد کی کھڑکی میں اندر
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۶ جانے کے لئے پاؤں رکھا اتنے میں ایک سائل نے آہستہ سے کہا کہ میں سوالی ہوں حضرت کو اُس وقت ایک ضروری کام بھی تھا اور کچھ اُس کی آواز دوسرے لوگوں کی آوازوں میں مل جل گئی تھی جو نماز کے بعد اٹھے اور عادتاً آپس میں کوئی نہ کوئی بات کرتے تھے.غرض حضرت سرزدہ اندر چلے گئے اور التفات نہ کیا مگر جب نیچے گئے وہی دھیمی آواز جو کان میں پڑی تھی اب اس نے اپنا نمایاں اثر آپ کے قلب پر کیا.جلد واپس تشریف لائے اور خلیفہ نورالدین صاحب کو آواز دی کہ ایک سائل تھا اسے دیکھو کہاں ہے، وہ سائل آپ کے جانے کے بعد چلا گیا تھا خلیفہ صاحب نے ہر چند ڈھونڈا پتہ نہ ملا.شام کو حسب عادت نماز پڑھ کر بیٹھے وہی سائل آگیا اور سوال کیا.حضرت نے بہت جلدی جیب سے کچھ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیا.اور اب ایسا معلوم ہوا کہ آپ ایسے خوش ہوئے ہیں کہ گویا کوئی بوجھ آپ کے اوپر سے اتر گیا ہے.چند روز کے بعد ایک تقریب سے ذکر کیا کہ اس دن جو وہ سائل نہ ملا میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ مجھے سخت بے قرار کر رکھا تھا اور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سرزد ہوئی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہیں کیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آ گیا ور نہ خدا جانے میں کس اضطراب میں پڑا رہتا.اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لائے.“ مصنفہ مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۵۹) سائل کو کچھ دے دینا یا ر ڈ نہ کرنا ایک ایسی بات ہے کہ بعض دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاسکتی ہے مگر یہ احساس کہ آپ سائل کے لئے اس قدر تلاش کریں اور اس کے نہ ملنے پر اس قدر اضطرا ہو کہ معصیت سمجھنے لگیں یہ ایسی بات ہے کہ جب تک قلب اعلیٰ درجہ کا مظہر اور مرگی نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے اس ارشاد وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ الضُّحَى )
سیرت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۷ کی حقیقی عظمت اس میں نہ ہونا ممکن ہے.الفاظ اس کے لئے مساعدت نہیں کرتے کہ فطرت کی اس علو ہمتی اور فیاضی کے اس بلند مقام کا نقشہ کھینچ سکیں.حضرت نے اس کی آواز کو جو بجائے خود دھیمی تھی اور دوسرے لوگوں کی آوازوں میں ملی ہوئی تھی پورے طور پر سنا بھی نہیں تھا اور وہ اگر اس پر توجہ نہ کرتے تو اخلاقی شریعت میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں تھا مگر اس دھیمی آواز کا اتنا اثر کہ ضروری سے ضروری کام چھوڑ کر آتے ہیں اور ایک آدمی کو سائل کی تلاش پر مقرر کرتے ہیں اور پھر یہاں تک ہی نہیں بلکہ اس کے لئے دعا کرتے ہیں کہ سائل مل جاوے.یہ پاکیزہ فطرت خدا تعالیٰ کے نبیوں کے سوا دوسری جگہ نہیں مل سکتی.آپ کی عادت میں کبھی اس امر کو کسی نے نہیں دیکھا کہ کسی سائل کے متعلق آپ نے بدظنی کی ہو کہ یہ فی الواقع حاجت مند نہیں ہے.آپ ہمیشہ یہی فرماتے تھے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ دیناہی چاہیے اور آپ کا یہ عام طرز عمل تھا کہ حتی المقدور کبھی کسی سائل کو رڈ نہ کرتے تھے اور یہ کبھی کسی نے نہیں دیکھا کہ آپ نے رڈ کیا ہو.اور اس کے ساتھ ہی آپ کا یہ طریق بھی تھا کہ آپ موقع اور محل کو بھی دیکھتے تھے.چونکہ محض خدا کی رضا مقصود ہوتی تھی کوئی فخر یا نمائش مد نظر نہ تھی.اس امر کا لحاظ بھی رکھتے تھے کہ برمحل ہو.ایک عجیب واقعہ آپ ۱۸۸۹ء میں جو بیعت کا سال ہے اور ہا نہ میں موجود تھے.ایک موقع پر آپ کے پاس ایک سائل آیا اور اس نے ذکر کیا کہ میرا ایک عزیز فوت ہو گیا ہے میرے پاس کفن دفن کے لئے کچھ انتظام نہیں ہے اور اس نے کچھ سکتے چاندی اور تانبے کے رکھے ہوئے تھے یہ دکھانے کے لئے کہ کسی قدر چندہ ہوا ہے اور ابھی اور ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مکرمی حضرت قاضی خواجہ علی صاحب رضی اللہ عنہ کو ( جو بڑے ہی مخلص اور حضرت کی راہ میں فدا شدہ بزرگ تھے ) فرمایا کہ ” قاضی صاحب ان کے ساتھ جا کر کفن کا سامان کر دو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قسم کی عادت نہ تھی بلکہ عام طور پر جو مناسب سمجھتے دے دیتے.اس ارشاد پر خدام کو تعجب ہوا.قاضی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ صاحب نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا دے دوں بلکہ وہ ساتھ ہی ہو گئے.اور اسے کہا کہ چلو بھائی میں چل کر تمام انتظام کرتا ہوں.وہ سائل قاضی صاحب کو لے کر رخصت ہوا.تھوڑی دیر کے بعد قاضی صاحب ہنستے ہوئے واپس آئے اور کہا کہ حضرت وہ تو بڑا دھوکہ باز تھا راستہ میں جا کر اس نے میری منت و خوشامد شروع کی کہ خدا کے واسطے آپ نہ جائیں جو کچھ دینا ہو دے دو.میں نے کہا مجھے تو خود جانے کا حکم ہے جو کچھ تمہارے پاس ہے مجھے دو جو کچھ خرچ آئے گا میں کروں گا.آخر اس نے جب دیکھا کہ میں نہیں ملتا تو اس نے ہاتھ جوڑ کر ندامت کے ساتھ کہا کہ نہ کوئی مرا ہے نہ کفن دفن کی ضرورت ہے یہ میرا پیشہ ہے.اب میری پردہ دری نہ کرو تم واپس جاؤ اور مجھے چھوڑ دو میں اب یہ کام نہیں کروں گا.“ جب قاضی صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو طبعی طور پر اس کے سننے سے ہنسی بھی آئی مگر آپ کی فراست مومنانہ اور اخلاق کا بھی عجیب اثر ہوا.آپ نے حُسنِ ظن کر کے اس کو جواب تو نہ دیا مگر ایسا طریق اختیار کیا جس سے اس کی اصلاح ہو گئی اور غیر محل پر آپ کو خرچ کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑی.آپ کسی کی ضرورت کا احساس کر کے سوال کی بھی نوبت نہ آنے دیتے تھے جہاں آپ کی عادت میں یہ تھا کہ آپ سائل کو کبھی رڈ نہ کرتے تھے یہ امر بھی آپ کے معمولات میں تھا کہ بعض لوگوں کی ضرورتوں کا احساس کر کے قبل اس کے کہ وہ کوئی سوال کریں ان کی مدد کیا کرتے تھے.چنانچہ ۲۸ /اکتوبر ۱۹۰۴ء کی صبح کو قبل نماز فجر آپ نے کچھ روپیہ جس کی تعداد آٹھ یا دس ہو گی ایک مخلص مہاجر کو یہ کہہ کر دیئے کہ موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی اس مہاجر کی طرف سے کوئی سوال نہ تھا.خود حضور علیہ السلام نے اس کی ضرورت محسوس کر کے سیر قم عطا کی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۹ یہ ایک واقعہ نہیں متعدد بار ایسا ہوتا.اور مخفی طور پر آپ عموماً حاجت مند لوگوں سے سلوک کرتے رہتے اور اس میں کسی دوست دشمن ہند و یا مسلمان کا امتیاز نہ تھا.نہالا بہار وراج کے ساتھ سلوک قادیان میں ایک شخص نہال چند ( نہالا ) بہارو راج ایک برہمن تھا اپنی جوانی کے ایام میں وہ ایک مشہور مقدمہ باز تھا.آخر عمر تک قریباً اس کی ایسی ہی حالت رہی.وہ ان لوگوں میں سے تھا جو حضرت اقدس کے خاندان کے ساتھ عموماً مقابلہ اور شرارتیں کرتے رہتے تھے پھر سلسلہ کے دشمنوں کے ساتھ بھی وہ رہتا.اخیر عمر میں اس کی مالی حالت نہایت خراب ہوگئی اور یہاں تک کہ بعض اوقات اس کو اپنی روزانہ ضروریات کے لئے بھی مشکلات پیش آتی تھیں.اس نے ایک مرتبہ حضرت اقدس کے دروازے پر آکر ملاقات کی خواہش کی اور اطلاع کرائی.حضرت صاحب فوراً تشریف لے آئے.اس نے سلام کر کے اپنا قصہ کہنا شروع کیا.حضرت اقدس نے نہ صرف تسلی دی بلکہ پچیس روپے کی رقم لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا کہ فی الحال اس سے کام چلاؤ پھر جب ضرورت ہو مجھے اطلاع دینا.چنانچہ اس کے بعد اس شخص کا معمول ہو گیا کہ وہ مہینے دو مہینے کے بعد آتا اور ایک معقول رقم آپ سے اپنی ضروریات کے لئے لے جاتا.وہ نہ صرف حضرت اقدس سے لیتا بلکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس نے بطور قرض ایک معقول رقم ایک خاص وعدہ پر لی تھی.جب وہ وعدہ کا وقت گزر گیا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اس سے مطالبہ کرایا.مگر اس نے یوں ہی سرسری جواب دے کر ٹال دیا.آخر حضرت خلیفہ اول نے مجھے فرمایا کہ میں اس سے مطالبہ کروں.میں نے جب اُس کو کہا تو اس نے مندرجہ بالا واقعہ اپنا بیان کیا اور کہا کہ ” مولوی صاحب بار بار آدمی بھیجتے ہیں مرزا جی تو مجھے ہمیشہ روپیہ دیتے ہیں اور اس سے میرا گزارا چلتا ہے“.میں نے آکر حضرت خلیفہ اول سے واقعات عرض کئے تو فرمایا کہ اچھا اب اس کو نہ کہنا.اسی طرح ایک شخص پنڈت پیج ناتھ بہنوت بھی تھا.مجھے معلوم ہے کہ بعض اوقات حضرت نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ ا ۲۹۰ اس کے ساتھ بھی سلوک کیا.میاں غفارے کی شادی میں قیمتی زیور دے دیا میاں غفارا (عبد الغفار ) کشمیری جس کا ذکر میں نے حیات احمد کے دوسرے حصہ میں کیا ہے حضرت مسیح موعود کے احسان و مروت کے تذکرے کیا کرتا تھا اور ان میں اپنا یہ واقعہ بھی بیان کیا کرتا تھا کہ جب اُس کی شادی ہوئی تو آپ نے دو قیمتی زیور اس کی مدد کے لئے دے دیئے.یہ آپ کی بعثت کے زمانہ سے پہلے کی بات ہے جبکہ آپ ایک گوشہ نشین کی صورت میں زندگی بسر کرتے تھے.سوال کی بار یک صورتوں میں بھی آپ دے دیتے جیسے آپ کی عادت تھی کہ سائل کو کبھی رڈ نہ کرتے تھے اور جس طرح پر آپ بدوں سوال کرنے کے بھی اہلِ حاجت کی امداد فرماتے یہ بھی آپ کی عادت شریف میں تھا کہ آپ سوال کی باریک در بار یک صورتوں کو بھی خوب سمجھتے تھے اور ایسے موقع پر بھی اپنی عطا سے کام لیتے.صاحبزادہ سراج الحق صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کے پاس خوبصورت ٹوپی بھیجی جب یہ پارسل حضرت کی خدمت میں پہنچا تو اتفاق سے ایک ہند و صاحب بھی پاس موجود تھے.آپ نے پارسل کو کھولا تو ٹو پی نکلی.اس ہندو نے اس ٹوپی کی بہت تعریف کی.آپ نے جب اس کے منہ سے ٹوپی کی تعریف سنی تو جھٹ وہ ٹوپی اسی کو دے دی.کپڑے عموماً دیتے رہتے تھے جب سے حضرت اقدس نے بعثت کا اعلان کیا اور لوگوں کو یہ بھی علم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.لوگ علی العموم آپ سے کپڑوں کا سوال کرتے تھے اور آپ کبھی کسی کو جواب نہیں دیتے تھے.اور بعض اوقات یہ حالت ہو جاتی تھی کہ آپ کے بدن پر ہی کپڑے رہ جاتے تھے سب دے دئیے جاتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۲۹۱ عام طور پر آپ حصہ صدقہ کر دیتے تھے صدقہ و خیرات تو آپ کی عادت میں بہت تھا اور عام طور پر آپ کا معمول تھا کہ ۱۰/ حصہ صدقہ کر دیتے تھے.اس کے متعلق حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی ایک روایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی میں لکھی ہے کہ وو بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود صدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ دیتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہیں لگتا تھا.خاکسار نے دریافت کیا کہ کتنا صدقہ دیا کرتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا بہت دیا کرتے تھے.اور آخری ایام میں جتنا روپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقے کے لئے الگ کر دیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے.والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ دسویں حصہ سے زیادہ نہیں دیتے تھے بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات اخراجات کی زیادت ہوتی ہے تو آدمی صدقہ میں کوتاہی کرتا ہے لیکن اگر صدقہ کا روپیہ پہلے سے الگ کر دیا جاوے تو پھر کوتا ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ روپیہ پھر دوسرے مصرف میں نہیں آسکتا.والدہ صاحبہ نے فرمایا اسی غرض سے آپ دسواں حصہ تمام آمد کا الگ کر دیتے تھے ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے.خاکسار نے عرض کیا کہ کیا آپ صدقہ دینے میں احمدی غیر احمدی کا لحاظ رکھتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیں“.(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۵۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) غرض آپ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً ہمیشہ جو دو عطا میں مصروف رہتے اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا رمضان کے مہینہ میں آپ کا ہاتھ بہت وسیع ہوتا تھا.اور اکثر حاجت مندوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے اور ایسے طریق پر کہ کسی دوسرے کو علم نہیں ہوسکتا تھا.لیکن وہ لوگ آپ کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کر دیتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ ایک ٹر گدا کا قصہ قادیان کے قریب سٹھیالی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو قادیان سے قریباً چھ میل کے فاصلہ پر ہوگا.وہاں سے ایک جٹ فقیر آیا کرتا تھا.اس کے دیکھنے والے بہت لوگ اب تک موجود ہیں.وہ مسجد مبارک کی چھت کے نیچے آکر کھڑکی کے پاس آواز لگایا کرتا تھا.جو بیت الفکر کی مغربی دیوار میں ہے.اس کی آواز یہ ہوتی تھی ”غلام احمد اروپیہ لینا ہے ، یعنی اے غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام ) روپیہ لینا ہے.اور وہ وہاں بیٹھ جاتا.حضرت صاحب کسی کام میں بعض اوقات مصروف ہوتے اور آپ کی توجہ اس میں ہوتی اور آپ اس کی آواز کو نہ سن سکتے.تو وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد آواز میں لگاتا.اکثر لوگوں کو نا گوار معلوم ہوتا اور کوئی اسے ٹوکتا تو وہ کہہ دیتا کہ میں تمہارے پاس آیا ہوں ؟ میں تو غلام احمد ( علیہ الصلوۃ السلام ) سے مانگتا ہوں.حضرت اقدس کو اگر معلوم ہو جاتا کہ کسی نے اسے کچھ کہا ہے تو آپ ناپسند فرماتے اور ہنستے ہوئے اس کو روپیہ دے دیا کرتے.اور یہ بھی آپ کا معمول تھا کہ سائل کو زیادہ دیر انتظار میں نہ رکھتے تھے.مرزا میراں بخش کا معاملہ (لگان ) اسی طرح قادیان میں مرزا میراں بخش نام ایک مجنون رہتا تھا وہ کسی کو دکھ نہ دیتا تھا.حضرت صاحب جب سیر کو نکلتے تو وہ آگے بڑھ کر کہتا ” مرزا جی میرا معاملہ دے دو گویا وہ خراج وصول کرتا ہے.حضرت صاحب بہت اچھا کہہ کر اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے اور اس طرح پر پھر وہ آپ کے تمام خدام سے مستقل طور پر اپنا معاملہ وصول کر لیتا.پیالہ بھر دیا ایک مرتبہ ایک سائل آیا اس نے قادیان میں ایک پھیری لگا دی وہ صبح کو اٹھتا اور حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم کی نظم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۳ ہوا نا صر خدا تیرا مرے اے قادیاں والے ہمیں بخشی اماں تو نے ہے اے دارلاماں والے پڑھا کرتا اور کبھی کبھی ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے“.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم پڑھتا تمام قادیان میں چکر لگاتا.جب وہ دوسری نظم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پڑھا کرتا تو حضرت مخدوم الملت مولانا مولوی عبد الکریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت ناگوار ہوتا.وہ فرمایا کرتے کہ یہ اس نظم کا اہل نہیں کیونکہ یہ نظم ایک حقیقت اور حال ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے وجود میں پائی جاتی ہے.جو کچھ اس نظم میں بیان کیا گیا ہے میں کسی دوسرے کے منہ سے غیرت کی وجہ سے سن ہی نہیں سکتا.چہ جائیکہ اس قسم کا عامی سائل پڑھتا پھرے.یہ تو مخدوم الملت کی اس محبت اور عشق کی کیفیت ہے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھا.بہر حال اس سائل نے قادیان میں ایک چکر لگا یا رمضان کا مہینہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عرصہ میں متعدد مرتبہ اس کو بہت کچھ دیا لیکن وہ کہتا تھا میرا پیالہ بھر دو چنانچہ عید کے دن وہ بہت بڑا پیالہ لے کر آ گیا اور مسجد میں دروازہ کے قریب چادر بچھا کر بیٹھ گیا اور جب حضرت صاحب تشریف لائے تو سوال کیا کہ میرا پیالہ بھر دو.حضرت اقدس نے اس میں ایک روپیہ ڈالا اس روپیہ کا ڈالنا تھا کہ روپوں کا مینہ برس گیا اور مختلف قسم کے سکوں سے اس کا پیالہ بھر دیا گیا.جب حضرت صاحب نے اس کا سوال سنا تو متبسم ہوئے اور اس حالت میں وہ روپیہ ڈالا.آپ کی عادت جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے عام طور پر مخفی دینے کی تھی مگر یہ عطا علانیہ تھی اوروه ” اَلدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ “ کی مصداق تھی.غرض سائل شاداں و فرحاں گھر کو چلا گیا اور پھر اس نے یہ طریق سالانہ اختیار کرنا چاہا چونکہ گداگری کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے اس لئے اس کو نا پسند فرمایا گو اُس کو آپ نے کچھ نہیں کہا مگر دوسرے لوگوں نے اس کو سمجھایا مگر گدا گر لوگ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے.پھر بھی وہ کبھی کبھی آجاتا اور کچھ لے ہی جاتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ اکثر لوگ اس قسم کے سائل بھی آجاتے جو عام طور پر سوال نہ کرتے مگر رقعہ لکھ کر دیتے اور کسی کو یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ اس نے سوال کیا ہے لیکن جب حضرت اقدس اندر سے سائل کے لئے کچھ بھیجتے تو پتہ لگتا یا کبھی اندر تشریف لے جاتے وقت کہہ جاتے کہ تم بیٹھو میں آتا ہوں اور بعض لوگ اس خیال سے ٹھہر جاتے کہ حضرت صاحب آئیں گے تو معلوم ہوتا کہ آپ سائل کے لئے اس کی مطلوبہ چیز نقدی یا کپڑا لے کر آ رہے ہیں.مخفی عطا کا ایک عجیب واقعہ میں نے بتایا ہے کہ آپ کی عام عادت یہ تھی کہ جو کچھ کسی کو دیتے تھے وہ کسی نمائش کے لئے نہ ہوتا تھا بلکہ محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور شفقت علی خلق اللہ کے نقطہ ء خیال سے اور اس لئے عام طور پر آپ نہایت مخفی طریقوں سے یہ عطا فرماتے تھے اور کبھی دوسروں کو تحریک کرنے کے لئے اور عملی سبق دینے کے واسطے علانیہ بھی کرتے تھے.مخفی طور پر عطا کرنے میں آپ کا یہ بھی ایک طریق تھا کہ بعض اوقات ایسے طور پر دیتے تھے کہ خود لینے والے کو بھی بمشکل علم ہوتا تھا.اس سلسلہ میں میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.منشی محمد نصیب صاحب ( جو آج کل قادیان سے قطع تعلق کر چکے ہیں ) ایک یتیم کی حیثیت سے قادیان آئے تھے اور حضرت اقدس کے رحم و کرم سے انہوں نے قادیان میں رہ کر تعلیم پائی.ان کے اخراجات اور ضروریات کا سارا بارسلسلہ پر تھا.جب وہ جوان ہو گئے اور انہوں نے شادی کر لی تو وہ لاہور ایک اخبار کے دفتر میں محتر رہوئے اور پھر دفتر بدر قادیان میں آکر بارہ روپے ماہ وار پر ملازم ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو جب اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا بیٹا نصیر احمد ( اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا ) عطا فرمایا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرحوم نصیر احمد صاحب کے لئے ایک ان کی ضرورت پیش آئی میں نے شیخ محمد نصیب صاحب کو تحریک کی کہ ایسے موقع پر تم اپنی بیوی کی خدمات پیش کر دو.ہم خرما وہم ثواب کا موقع ہے.میرے مشورہ کو شیخ صاحب نے قد روعزت کی نظر سے دیکھا اور ان کو یہ موقعہ مل گیا اور ان کی بیوی صاحبزادہ نصیر احمد صاحب کو دودھ پلانے پر مامور ہوگئیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باتوں ہی باتوں میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ دریافت فرمایا کہ شیخ محمد نصیب صاحب کو کیا تنخواہ ملتی ہے.جب آپ کو معلوم ہوا کہ صرف بارہ روپے ملتے ہیں تو آپ نے محسوس فرمایا کہ اس قدر قلیل تنخواہ میں شاید گزارہ نہ ہوتا ہو.اگر چہ وہ ارزانی کے ایام تھے لیکن حضرت اقدس کو یہ احساس ہوا اور آپ نے ایک روز گزرتے ہوئے ان کے کمرہ میں ہیں پچیس روپے کی پوٹلی پھینک دی.شیخ صاحب کو خیال گزرا کہ معلوم نہیں یہ روپیہ کیسا ہے.آخر یہ معلوم ہوا کہ حضرت اقدس نے ان کی تنگی کا احساس کر کے رکھ دیا ہے تا کہ تکلیف نہ ہو اور آرام سے گزارہ کر لیں.چنانچہ انہوں نے اس روپیہ کوزیور بنانے میں خرچ کیا کیونکہ اس وقت ان کی کھانے پینے کی ضروریات حضرت کے وسیع دستر خوان سے پوری ہو جاتی تھیں.مجھے افسوس ہے کہ ایسے محسن کے شہر کو چھوڑ کر اب وہ لاہور چلے گئے ہیں اور جس اولوالعزم بیٹے کی خدمت کی بدولت ان کو یہ سعادت نصیب ہوئی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود کے دار میں ایک وقت رہنے کا موقع پاچکے تھے اس سے قطع تعلق ہوا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.ایک سکھ کو جو دشمن تھا قیمتی مشک دے دیا قادیان میں نہال سنگھ نامی ایک بانگر وجٹ رہتا تھا.اپنے ایام جوانی میں وہ کسی فوج میں ملازم بھی رہا تھا اور پنشن پاتا تھا.اس کا گھر جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے دیوان خانہ سے دیوار بدیوار ہے.یہ سلسلہ کا بہت بڑا دشمن تھا.اور اس کی تحریک سے حضرت حکیم الامت اور بعض دوسرے احمدیوں پر ایک خطر ناک فوجداری جھوٹا مقدمہ دائر ہوا تھا.اور ہمیشہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر احمد یوں کو تنگ کیا کرتا تھا.اور گالیاں دیتے رہنا تو ایک معمول تھا.عین ان ایام میں جب کہ مقدمات دائر تھے اس کے بھتیجے سنتا سنگھ کی بیوی کے لئے مشک کی ضرورت پڑی اور کسی دوسری جگہ سے یہی نہیں کہ مشک ملتا نہ تھا بلکہ یہ بہت قیمتی چیز تھی.وہ اس حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر گیا اور مشک کا سوال کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے پکارنے پر فورا ہی تشریف لے آئے تھے اور اسے ذرا بھی انتظار میں نہ رکھا.اس کا سوال
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۶ سنتے ہی فوراً اندر تشریف لے گئے اور کہہ گئے کہ ٹھہر وہ ہمیں ابھی لاتا ہوں.چنانچہ آپ نے کوئی نصف تولہ کے قریب مشک لا کر اس کے حوالہ کر دی.جود و عطا میں آپ کا ایثار آپ کی زندگی میں جو دو عطا کی ایک اور شان بھی جلوہ گر ہے جو شفاعت وسپارش کا رنگ رکھتی ہے.بعض اوقات آپ کی خدمت میں کوئی ایسا سائل آتا جس کے سوال کو پورا کرنا آپ کے اختیار میں نہ ہوتا بلکہ اس کا تعلق دوسروں سے ہوتا.اس حالت میں آپ اس امر کا بھی التزام رکھتے تھے کہ اس کے فائدہ کے لئے ایسے لوگوں کو بھی سپارش کر دیتے جن کو اپنی کسی ذاتی ضرورت کے لئے بھی کبھی کچھ نہ کہتے تھے اور یہ ایک ایسی کریمانہ اور مخلصانہ شان ہے کہ بہت ہی کم دنیا میں پائی جاتی ہے.اس کے متعلق میں دو واقعات پیش کروں گا.پہلا واقعہ شیخ محمد نصیب صاحب جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.وہ قادیان میں ایک سکھ عورت کے کرایہ دار تھے.اُس نے ایک مرتبہ اُن کو کسی وجہ سے تنگ کیا اور وہ اس کے ہاتھ سے نالاں تھے.وہ مکان خالی کرنے پر مجبور کر رہی تھی اور قادیان کی یہ حالت تھی کہ مکانات ملتے ہی نہ تھے.میاں محمد نصیب صاحب نے حضرت کی خدمت میں اپنی تکلیف کا اظہار کیا.حضرت کے اپنے مکانات میں کوئی حصہ ایسا نہ تھا کہ دیا جا سکتا اس لئے آپ نے اسی مکان کے متعلق رفع تکلیف کا وعدہ کیا اور اس کے لئے آپ نے جناب مرز انظام الدین کو کہلا بھیجا.کیونکہ وہ مالکہ مکان ان کے زیر اثر تھی.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تکلیف رفع ہو گئی.جو امر اس واقعہ میں قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ مرز انظام الدین صاحب اپنے بڑے بھائی مرزا امام الدین صاحب کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اچھے تعلقات نہ رکھتے تھے بلکہ عداوت اور مخالفت کا رنگ تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوسرے کے آرام اور نفع کے لئے یہ پسند کر لیا کہ مرز انظام الدین صاحب کو بھی کہلا بھیجا کہ اس کی تکلیف کو رفع کر دیا جاوے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۷ دوسرا واقعہ دوسرا واقعہ خود مرزا نظام الدین صاحب کے بھائی مرزا امام الدین صاحب کے متعلق ہے.یہ کوئی مخفی امر نہیں مرزا امام الدین صاحب اس سلسلہ کے سخت دشمن تھے اور حضرت کے خاندان کے ساتھ ان کو عداوت تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی عداوت کو دنیوی معاملات میں ہمیشہ نظر انداز کر دیتے تھے یعنی ان سے حسن سلوک میں کبھی بھی آپ نے فرق نہ کیا.وہ بسا اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مالی مدد لے لیتا تھا اور باوجودان احسانات کے مخالفت میں بھی لگا رہتا تھا اور اس طرح پر تلخ دشمن تھا.ایک مرتبہ اس نے ایک گھوڑ افروخت کرنا چاہا اور اس کے لئے اس نے بہتر موقع یہ تجویز کیا کہ اس گھوڑے کو جموں لے جاوے اور حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ذریعہ پیش کرے.تا کہ اس طرح پر اسے ایک معقول رقم مل جاوے.اس تجویز کو زیر نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خود درخواست کی کہ آپ ایک سپارشی خط حضرت حکیم الامت کے نام لکھ دیں.آپ نے اس درخواست کو رد نہ فرمایا اور بلا تامل حضرت مولوی صاحب کے نام ایک سپارشی خط دے دیا جس کو میں ذیل میں درج کرتا ہوں.حالات ظاہر ہیں اور واقعہ واضح.مرزا امام الدین صاحب کی دشمنی اور عداوت کو ئی مخفی امر نہ تھا.مگر آپ نے جب بھی نیکی اور احسان کرنے کا موقع آیا اس عداوت کا کبھی خیال بھی نہیں کیا اور اسے فائدہ پہنچانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا.خط نمبر امتعلق مرزا امام الدین صاحب بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.اس خط کی تحریر سے مطلب آپ کو ایک تکلیف دینا ہے امید ہے کہ آپ توجہ اور سعی سے دریغ نہ فرمائیں گے اور وہ یہ ہے کہ مرزا امام دین صاحب جو میرے ایک چچا زاد بھائی ہیں ایک بیش قیمت گھوڑا ان کے پاس ہے جو خوش رفتار اور راجوں رئیسوں کی سواری
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ کے لائق ہے.اب وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں چونکہ ایسے گراں قیمت گھوڑوں کو عام لوگ خرید نہیں سکتے اور رئیس خود ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں لہذا مکلف ہوں کہ آپ برائے مہربانی رئیس جموں یا اس کے کسی بھائی کے پاس تذکرہ کر کے جد و جہد کریں کہ تا مناسب قیمت سے وہ گھوڑا خرید لیں.اگر خریدنے کا ارادہ ان کی طرف سے پختہ ہو جائے تو گھوڑا آپ کی خدمت میں بھیجا جاوے.ضرور کوشش بلیغ کے بعد اطلاع بخشیں.والسلام خاکسار غلام احمد مرز امحمد بیگ مرحوم کی سپارش از قادیان ۳ مارچ ۱۸۸۸ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۶۴ مطبوعه ۲۰۰۸) اسی سلسلہ میں مرزا محمد بیگ خلف مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیار پوری کا واقعہ بھی درج کر دیتا ہوں.مرز امحمد بیگ کے خاندان کے ساتھ بھی تعلقات اچھے نہ تھے اور یہ تعلقات کی ناخوش گواری محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے تھی.مرزا محمد بیگ نے جموں جا کر ملازمت کرنی چاہی اور حضرت مسیح موعودؓ سے سپارش چاہی کہ حضرت حکیم الامت کے نام سپارشی خط دیا جاوے.حضرت نے بلا تأمل مندرجہ ذیل خط لکھ دیا اس لئے کہ آپ کسی جائز سوال کو ر ڈ نہ کرتے تھے.خط نمبر (2) محمد بیگ لڑکا جو آپ کے پاس ہے.آن مکرم کو معلوم ہوگا کہ اس کا والد مرزا احمد بیگ بوجہ اپنی بے سمجھی اور حجاب کے اس عاجز سے سخت عداوت اور کینہ رکھتا ہے.....کچھ مضائقہ نہیں کہ ان لوگوں کی سختی کے عوض میں نرمی اختیار کر کے اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (المؤمنون: ۹۷) کا ثواب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ حاصل کیا جائے.اس لڑکے محمد بیگ کے کتنے خط اس مضمون کے پہنچے ہیں کہ مولوی صاحب پولیس کے محکمہ میں مجھ کو نو کر کرا دیں.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۱۴۱۱۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس خط کے بعد حضرت مولوی صاحب نے اُس کو پولیس میں نوکر کرا دیا.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ آپ ہر طرح سے مخلوق خدا کی نفع رسانی کے لئے آمادہ رہتے تھے اور داد و دہش اور شفاعت و سپارش سے کبھی دریغ نہ فرماتے.باوجود ان باتوں کے جہاں آپ دیکھتے کہ کچھ دینا مسرفانہ رنگ رکھتا ہے آپ اس سے پر ہیز فرماتے.ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست ۲۱ رمئی ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے کہ کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبر کا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں.حضرت امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم چندہ تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں.مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابلہ میں اس قسم کے خرچوں میں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں.یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصیٰ ہے وہ سب سے مقدم ہے آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں.ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے.
عَلَ الصَّلوة والسلام حصّہ سوم جسکو خاک الیعقوں علی تراب احمدی عرفانی ایڈیرا علم و تادیب النساء نے مرتب کیا اور اک ابوالخیر محمد احمد مجاد بصری نے انقلاب ٹیم پریس ہومیں چھوا کر نوار حمیدی پڑھی قادیان دار الآمان سے شائع کیا، بار اول تاریخ اشاعت ۲۰ رنویر ۴ ( قیمت علاوہ محصول ڈاک ) تعداد جلد ۵۰۰
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٣ حصہ سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال الحَمدُ لِلہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل ورحم سے مجھے پھر موقعہ دیا کہ میں اپنے بحسن و آقا مطاع و مقتداء سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شمائل و اخلاق کا ایک اور حصہ شائع کرسکوں.پہلی جلد ۱۲ رمئی ۱۹۲۴ء کو اور دوسری ۱۰ را پریل ۱۹۲۵ء کو شائع ہوئی تھی اور اب تیسری جلد شائع کر رہا ہوں.میں اس تعویق اور توقف کے لئے کوئی عذر نہیں کرنا چاہتا.اس لئے کہ میں اسے اپنے اختیار و تصرف سے باہر پاتا ہوں.اور ہر مرتبہ میں نے دیکھا کہ میری کوشش اور تجویز نے مجھے شرمندہ کیا ہے.میں چاہتا تھا کہ اس سلسلہ کو متواتر جاری رکھوں.مگر جون ۱۹۲۵ء میں میں یورپ چلا گیا اور اب اگست ۱۹۲۷ء میں یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت سے واپس آیا.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس سفر نے مجھے اس سعادت کی توفیق دی جس کی آرزوسالہا سال سے تھی.یعنی بیت اللہ کی زیارت اور حج کی سعادت مل گئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ واپس آنے کے بعد پہلا کام میں یہی کر رہا ہوں کہ اپنے مطاع ومولیٰ کی سیرت و شمائل کا ایک حصہ شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں.اور باقی حصص کو بھی وقتا فوقتا شائع کرنے کی توفیق کے لئے دعا کرتا ہوں مجھے افسوس سے یہ بھی کہنے دیا جاوے کہ اب تک پوری پانچ سو جلد میں بھی اس سیرت کی شائع نہیں ہوسکیں.اس لئے ہر خادم مسیح موعود سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ یہ کام جلد جلد ہو تو اس کی کثرت اشاعت کے لئے سعی کریں.اگر مستقل طور پر پانچ سوخریدار بھی ہوں تو انشاء اللہ العزیز سال میں کم از کم 4 جلدیں شائع ہو سکتی ہیں.مجھ کو آخر میں یہ بھی گزارش کرنا ہے کہ حضرت اقدس کے اخلاق و عادات اور سیرت کے متعلق
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ کوئی واقعہ کسی صاحب کو معلوم ہو یا حضرت اقدس کی کوئی تحریر کسی کے پاس موجود ہو تو وہ از راہ کرم اصل یا نقل مجھے بھیج دیں تا کہ اپنے مقام پر درج ہو جاوے.ایسا ہی حضرت اقدس کے دشمنوں میں سے کسی دشمن اور مخالف کے عبرتناک اور اعجازی انجام کے واقعات اور کوائف کا صحیح علم ہو تو اس سے بھی اطلاع دیں اور بالآ خر عرض ہے کہ وہ میرے لئے دعا کریں کہ میں اس کام کو اخلاص کے ساتھ ختم کرنے کی توفیق پاسکوں.والسلام خاکسار عرفانی کنج عافیت واقع تراب منزل دار الامان قادیان
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ عطائے کوزہ مخدومی حضرت ڈاکٹر صادق ان بزرگوں میں سے ایک ہیں.جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص پیاروں میں ہونے کی سعادت اور شرف حاصل ہے.جن کی نسبت حضرت مسیح موعود" فرمایا کرتے تھے کہ لاہور سے ہمارے حصہ میں مفتی محمد صادق ہی آئے ہیں.ڈاکٹر صادق کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ حضرت کی مجلس میں کوئی بات سنتے تو نوٹ کرتے.ذیل کا واقعہ ان کی ایک پرانی نوٹ بک سے لیا گیا ہے.جس کو نہایت عزت و احترام سے درج کیا جاتا ہے.۱۸۹۷ء کا ذکر ہے.عاجز راقم اپنی ملازمت سے چند روز کی رخصت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر تھا.ایک دن غالباً ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک کے شمال مغربی کونے میں بیٹھے تھے.گویا کونے کے دونوں طرف کی دیواروں سے آپ کی پشت مبارک لگی ہوئی تھی.خدام اردگرد بیٹھے تھے.میرے قدیمی وطن بھیرہ ضلع شاہ پور سے ایک احمدی عورت آئی ہوئی تھی.اس نے دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر ایک مٹی کا کوزہ بھیرے کا بنا ہوا حضرت کے حضور میں پیش کیا.اس کوزے پر کچھ رو پہلی کام کیا ہوا تھا.اس کی شکل اس طرح سے تھی.حضرت نے اس کوزے کو ہاتھ میں پکڑا.اس کی صنعت کی تعریف کی.پھر اس کی مشت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.کہ کسی شاعر نے اس پر ایک رباعی کہی ہے.کہ یہ ایسا ہے جیسا کہ دوست
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۶ کی گردن میں عاشق ہاتھ ڈالے ہوئے ہو.تب آپ نے وہ رباعی پڑھی.میں نے جھٹ اپنی نوٹ بک حضور کی خدمت میں پیش کر کے درخواست کی کہ حضور وہ رباعی مجھے لکھ دیں.حضور نے ذرہ نوازی سے جو اپنے غلاموں پر کرتے تھے اپنے دست مبارک سے وہ رباعی میری کاپی پرلکھ دی.وہ کاپی اب تک محفوظ ہے.اور اس میں سے حضور کی دستی تحریر کا عکس درج ذیل کیا جاتا ہے.این کوزه خوری عالمی نهار ما بود که در بود که زلط نگاری مدونات این دست که در گردن اور کے بیٹے وسیعی اش که در گردن پاریزی و توریست ایس کوزه چو من عاشق زارے بود است در بندسر زلف نگاری بود است این دست که در گردنِ او می بینی دست است که در گردن یاری بوداست ترجمہ.یہ کوزہ میری طرح بے چارہ عاشق ہو چکا ہے.کسی معشوق کی زلف میں قید رہ چکا 66 ہے.یہ ہاتھ جو تو اس کی گردن میں دیکھتا ہے یہ وہ ہاتھ ہے جو کسی یار کی گردن میں ہے.“ اخبار الحکم خاص نمبر بابت ۲۲٬۲۱ مئی ۱۹۲۲ صفحه ۱۷) تھوڑ دینا جانتے ہی نہ تھے صندوقچی ہی آگے رکھ دی حافظ نور احمد صاحب سوداگر پشمینہ اور ہا نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے اور مخلص خدام میں سے ہیں.ان کو اپنے تجارتی کاروبار میں ایک بارسخت خسارہ ہوگیا اور کاروبار قریبا بند ہو گیا.انہوں نے چاہا کہ وہ کسی دوسری جگہ چلے جاویں.اور کوئی اور کاروبار کریں تا کہ اپنی مالی حالت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۷ کی اصلاح کے قابل ہو سکیں.وہ اس وقت کے گئے ہوئے گویا اب واپس آسکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں برابر خط و کتابت رکھتے تھے.اور سلسلہ کی مالی خدمت اپنی طاقت اور توفیق سے بڑھ کر کرتے رہے اور آج کل قادیان میں ہی مقیم ہیں.وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی داد و دہش اور جود وسخا کے متعلق میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ آپ تھوڑا دینا جانتے ہی نہ تھے.اپنا ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے جب اس سفر کا ارادہ کیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ روپیہ مانگا.حضور“ ایک صند و نچی جس میں روپیہ رکھا کرتے تھے اٹھا کر لے آئے اور میرے سامنے صندوقچی ہی رکھ دی کہ جتنا چاہو لے لو اور حضور کو اس سے بہت خوشی تھی.میں نے اپنی ضرورت کے موافق لے لیا.گو حضور یہی فرماتے رہے کہ سارا ہی لے لو.اصل بات یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ تو آپ کا معاملہ ہی الگ تھا.وہ اپنے مال کو دوستوں ہی کا مال عملاً سمجھتے تھے.اور اس معاملہ میں آپ کو اس سے تکلیف ہوتی.اگر کوئی خادم مغایرت کرے.حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ سے کچھ قرض لیا.جب انہوں نے اس روپیہ کو حضرت کی خدمت میں واپس بھیجا تو حضرت نے ناپسند فرمایا اور واپس کر کے فرمایا کہ آپ ہمارے روپیہ کو اپنے روپیہ سے الگ سمجھتے ہیں.حضرت سید فضل شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ حضرت سید فضل شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت ہی مخلص خدام میں سے تھے.شاہ صاحب مکرمی سید ناصر شاہ صاحب کے برادر معظم تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کو عشق تھا.آخر وہ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.اور دار الضعفاء میں رہتے تھے اور اب مقبرہ بہشتی میں آرام فرماتے ہیں.جولائی ۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے کہ وہ قادیان آئے ہوئے تھے.انہوں نے ۶ / جولائی ۱۹۰۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جانے کی اجازت طلب کی.اور یہ بھی خواہش کی کہ حضور چند کلمات
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۸ نصیحت کے لکھ دیں.نیز کوئی دوائی اور ایک کر یہ بھی طلب کیا.حضرت اقدس کو دوران سر کا شدید دورہ تھا.اور نماز میں بھی تشریف نہ لا سکے.مگر آپ نے باوجود اس کے کہ سر میں سخت درد تھا شاہ صاحب کے خط کے جواب میں ایک نصیحت نامہ لکھا.اور دوائی اور گریہ بھی دیا.یہ واقعہ اس بات کی شہادت ہے کہ آپ اپنی بیماری کی شدید ترین حالتوں میں بھی اپنے خدام کی جائز درخواستوں کو پورا کرنے کے لئے تیار رہتے تھے.اور عوام کے نفع اور بھلائی کے لئے تکلیف کی بھی پروانہ کرتے تھے.اور تبلیغ حق اور صح اور کلمتہ الخیر کے پہنچانے میں ہر وقت آمادہ رہتے تھے.ہر سائل کو عطاء کے لئے تیار رہتے تھے جب حضور آخری مرتبہ ۱۹۰۵ء میں دہلی تشریف لے گئے تو ایک روز آپ دہلی کے مزارات وغیرہ پر جانے کے ارادے سے نکلے.کسی نے بیان کیا کہ حضور اس طرف راستہ میں اس قدر گداگر ہوتے ہیں کہ گزرنا مشکل ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا.آج ہم چلتے ہیں ہم سب کو دیں گے.یہ معمولی عزم اور حوصلہ نہ تھا.آپ حقیقت میں اس امر کے لئے تیار تھے کہ جو کوئی بھی مانگے گا اسے دیں گے.جس کثرت سے گدا گروں کا ہونا بتایا گیا تھا اس قدر تو ملے نہیں.بعض ملے اور ہر ایک نے اپنے سوال کا جواب عملی طور پر حاصل کیا.میں نے حضرت کو پیسہ دیتے نہیں دیکھا میں ۱۸۹۸ ء سے مستقل طور ہر حضرت کی خدمت میں آگیا.اور ۱۸۹۲ء سے قادیان آتا تھا.میرے سامنے اکثر لوگوں نے سوال کیا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی نہیں دیکھا کہ آپ نے سائل کو تانبے کا سکہ یعنی پیسہ دیا ہو.آپ ہمیشہ چاندی کا سکہ دیتے تھے اور علی العموم معمولی سائل کو بھی ایک روپیہ دے دیتے تھے.ایک غیر احمدی فقیر نے ایک مرتبہ حضرت کی خدمت میں آکر سوال کیا.کہ میں جنگل میں ایک کنواں لگوانا چاہتا ہوں.وہاں مسافروں کو اس سے آرام ملے گا.اور وہ پانی پیئیں گے.کہتے ہیں حضرت نے اس کو اس غرض کے لئے دوسور و پی دے دیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۹ دوسرے کے سوال کا انتظار نہ کرتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں یہ امر بھی داخل تھا جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ بعض اوقات وہ کسی کی حاجت اور ضرورت کا احساس کر کے اس کے سوال یا اظہار کے منتظر نہ رہتے تھے بلکہ خود بخود ہی پیش کر دیا کرتے تھے.مکرمی شیخ فتح محمد صاحب پنشن انسپکٹر ریاست کشمیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرصہ دراز سے آنے والے ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب کبھی حضرت کی خدمت میں آتا تھا تو ہمیشہ میرا کرایہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے.مگر مجھ کو چونکہ ضرورت نہ ہوتی تھی میں نے کبھی لیا نہیں.لیکن حضرت کی روح سخاوت اس قدر عظیم الشان تھی کہ آپ بغیر استفسار ہمیشہ پیش کر دیتے.اور یہ میرے ساتھ ہی معاملہ نہ تھا بلکہ اکثر کو دیتے رہتے تھے.شام اور عرب سے بعض لوگ آتے.اور آپ ان کو بعض اوقات بیش قرار رقوم زادِ راہ کے طور پر دیتے کیونکہ حضور جانتے تھے.وہ دور دراز سے آئے ہیں.تریاق الہی کی عطاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب طاعون اس ملک میں پھیلی تو اللہ تعالیٰ کی وحی اور علم کے ماتحت ایک دوائی تیار کرنی شروع کی.جس کا نام حضور نے تریاق الہی رکھا.اس دوائی کا کوئی مقرر نسخہ نہ تھا.بلکہ جس جس طرح پر اللہ تعالیٰ کی وحی خفی نے ہدایت کی آپ اس کے اجزاء مہیا کرتے تھے.اور عرفی اصول طب کی پروا نہ کرتے ہوئے اجزاء کے وزن اور پیمانہ کو اسی اصل علم الہی کے ماتحت کر دیا.اس دوائی میں کئی ہزار کے تو جو ہرات ڈالے گئے اور بھی بہت سی قیمتی ادوایات ڈالی گئیں.جب یہ دوائی تیار ہوئی تو حضور نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اسے تقسیم کیا.اور ایک جبہ کسی سے نہیں لیا بلکہ باہر سے طلب کرنے والوں کو رجسٹر ڈ پارسل بھی اپنے خرچ سے بھجوا دیتے تھے.مکرمی ڈاکٹر صادق صاحب نے ایک مرتبہ بیان کیا تھا کہ کسی شخص نے دو تین ماشہ تریاق طلب کیا تھا.آپ نے اسے بہت سی مقدار ڈبیہ میں بند کر کے رجسٹری کرا کر روانہ کردی.خود خاکسار عرفانی نے جب عرض کیا تو بہت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی مقدار میں عطاء فرمایا.۳۱۰ تریاق ہی کے متعلق حضور کا یہ طرز عمل نہ تھا.بلکہ ادوایات کے متعلق تو حضور کا اسوہ یہ تھا.کہ بعض اوقات تمام بوتل ہی حوالہ کر دیتے تھے.میں نے دشمنوں سے سلوک کے باب میں بیان کیا ہے کہ کس طرح بعض اوقات آپ نے نہایت قیمتی اور اعلی درجہ کا ملک اپنے تلخ دشمنوں کو دے دیا.احباب کی خوشیوں میں فیاضانہ حصہ لیتے تھے آپ کے طرز عمل سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بعض اوقات آپ دوستوں کی خوشیوں میں فیاضانہ حصہ لیتے تھے اور یہ طریق آپ کا اظہار محبت اور جو دو عطاء کی شان رکھتا تھا.چنانچہ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کے نام جو خطوط وقتا فوقتا آپ نے تحریر فرمائے.ان کے مطالعہ سے اور خود منشی صاحب موصوف کے بیان سے یہی ثابت ہے کہ حضور نے ایک مرتبہ منشی صاحب موصوف کے ولیمہ میں اور دوسری مرتبہ عقیقہ فرزند میں اپنی طرف سے ایک رقم خرچ کر دی.اور اس خرچ کرنے میں آپ کو خوشی اور انشراح تھا.بعض اوقات لوگ اپنی اس قسم کی تقریبوں پر کچھ روپیہ حضرت کے حضور بھیج دیتے اور لکھ دیتے کہ وہاں دعوت احباب کر دیں.مگر وہ تحریر کے وقت اس امر کو نا دانستہ بھول جاتے کہ قادیان کی دعوت چند آدمیوں کی دعوت نہیں ہو سکتی.لیکن حضرت اقدس ان کو مکرر اس کے متعلق کچھ نہ لکھتے.بلکہ اپنی گرہ سے ایک رقم ڈال کر ان کی تمنا کو پورا کر دیتے.اور بارہا ایسے موقعہ آپ کو پیش آتے.مگر کبھی اس کا ذکر اشارہ کنایہ بھی نہ کرتے بلکہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر یہی فرماتے کہ فلاں دوست کی طرف سے دعوت ہے.شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی کا واقعہ شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی میرے بتیس سال کے مخلص دوست اور بھائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم ہیں.شروع ہی سے ان کی طبیعت صوفیانہ واقع ہوئی ہے.اور صلحاء کی صحبت کا شوق دامنگیر رہا.مدرسہ تعلیم الاسلام میں شروع سے آج تک مدرس ہیں.اوائل میں وہی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۱ مہمانوں کو کھانا وغیرہ کھلایا کرتے تھے.گویا انہیں ناظر ضیافت کہنا چاہیے.وہ جب سے یہاں آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاص طور پر ان کا خیال رکھتے.اور ان کی ضروریات کا آپ تکفل فرماتے.ایک مرتبہ حضرت نانا جان مرحوم شیخ صاحب سے ناراض ہوئے اور بے حد ناراض ہوئے.انہوں نے ان کے قرضہ وغیرہ کی فہرست تیار کی.ان میں حلوائیوں کا قرضہ بھی تھا.مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ادا ہو چکا ہے.معاملہ حضرت تک پہنچا.کہ انہوں نے حلوائیوں سے اس قدر قرضہ برداشت کیا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سن کر ہنسے اور فرمایا کہ ” مجھے یہ معلوم ہے اور وہ قرضہ ادا ہو چکا ہوا ہے.بلکہ ہر ہفتہ بے باق ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ صاحب کے ہفتہ وار یا جب وہ چاہیں اخراجات ادا کر دیتے تھے.اور شیخ صاحب نہایت بے تکلفی سے جیسے بیٹا باپ سے جا کر کہتا ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ بے تکلفی سے عرض کر دیتے کہ اس قدر خرچ ہو گیا ہے.اور حضرت فوراً ادا فرما دیتے.اس قسم کی شاہانہ اور مربیانہ فیاضیاں آپ کی ہوتی تھیں.ختم کرتے ہوئے میں ایک اور واقعہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا.خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک قیمتی کوٹ کیونکر لے لیا خواجہ کمال الدین صاحب ( جو آج سلسلہ سے منقطع ہو چکے ہیں ) اور محسن باپ کی اولاد سے ئیر اور دشمنی رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نوازشوں اور کرم فرمائیوں اور جود و عطاء کے بہت بڑے تجربہ کار ہیں.بیش قرار رقوم انہوں نے لیں.اور باوجود لینے کے کبھی اقرار نہیں کیا.اور اپنی خدمات کی ڈینگ مارتے رہے.میں اسے محسن کشی اور احسان فراموشی سمجھتا ہوں.جن ایام میں گورداسپور میں مولوی کرم الدین کے مقدمات ہو رہے تھے.ایک دفعہ دوران مقدمہ میں انہوں نے حضرت کو خط دکھایا.جو انہیں اپنے گھر پشاور سے آیا تھا.(خط کیوں لکھا گیا یہ ایک راز ہے.عرفانی) اور اس میں خرچ کی تنگی کا ذکر کیا.حضرت نے فوراً پانچ سوروپیہ نفقد اُن کو دے دیا.اور پھر ماہانہ ایک سو روپیہ ماہوار دیتے رہے.اور خاص طور پر احباب نے حضرت کی تحریک پر بہت بڑی رقم اخراجات
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۲ مقدمہ کے لئے بھیجی جو خواجہ صاحب کے پاس رہتی تھی.حضرت نے کبھی حساب نہ مانگا.اس قسم کے مالی سلوک اور عطاء کے علاوہ حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب شہید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک قیمتی کوٹ جو افغانی طرز کا تھا لائے.خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر مانگ لیا کہ حضور یہ کوٹ مجھے عنایت کر دیں کہ میں پہن کر عدالت میں داخل ہوا کروں.اور اس کی برکت سے فریق مخالف کے وکیل اور عدالت پر میرا رعب ہو.حضور نے ہنس کر یہ کا مدار قیمتی چغہ خواجہ صاحب کو دے دیا.غرض آپ کی عطا ایک دریائے بیکراں تھی اور آپ کا ہاتھ ابر گوہر بار تھا.برستا تھا اور سیراب کر جاتا تھا.اور یہ سلسلہ رمضان کے مہینے میں بہت بڑھ جاتا تھا.اور مخفی اور مخفی طریقوں سے حضور حاجت مندوں کو دیتے رہتے تھے.اور قیمتی سے قیمتی چیز دوسروں کو دے دینے میں آپ کو کبھی تامل نہ ہوتا تھا.یہ حالت آپ کی زندگی کے تمام حصوں میں پائی جاتی ہے.بعثت اور مامور بیت سے پہلے بھی یہ اپنی شان میں جلوہ گر ہے.چنانچہ میں نے سوانح حیات میں غفارہ یکہ والے کے متعلق لکھا ہے.کہ حضرت نے کس طرح پر اس کی شادی کی تقریب پر اس کی مدد بعض زیورات سے کی.یہا کیلی مثال نہیں.ایسے بہت سے واقعات ہیں.کوئی موقعہ ایسا آپ کو پیش نہیں آیا کہ آپ سے کسی نے کچھ مانگا ہو اور آپ نے نہ دیا ہو.یا آپ نے کسی کی حاجت کو محسوس کر کے بغیر اس کے سوال یا درخواست کے اس کی مدد نہ کی ہو.آپ کریم ابن کریم ابن کریم تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِكْ وَسَلَّمُ
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۳ بے تکلفی اور سادہ زندگی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر تھی.اور اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نہایت سادہ اور بے تکلف تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کو میں نے ہمیشہ نہایت غور سے مطالعہ کیا اور اسے احمد کی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی منی اور عکس پایا.خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور مرسلوں میں یہ ایک خوبی ہوتی ہے کہ باوجود یکہ ان کا وجود ہلیبت و رعب کا ایک مجسمہ ہوتا ہے اور یہ رُعب خداداد ہوتا ہے مگر با ایں وہ کوئی ڈراؤنی ہستیاں نہیں ہوتے.اپنے خدام اور احباب کے زمرہ میں وہ ایک شفقت آمیز بے تکلفی اور سادگی کا نمونہ ہوتے ہیں.اپنی ذات کے لئے کوئی فوق اور امتیاز کی خواہش نہیں ہوتی.اور وہ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمُ خدا کی وحی کے ماتحت کہتے ہیں.لیکن سچ یہ ہے کہ اس سادگی میں بھی ایک رُعب اور امتیاز پایا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ فرمایا تھا " نُصِرُتَ بِالرُّعُب، لیکن آپ جب اپنے خدام واحباب میں تشریف فرما ہوتے تو کوئی خاص مسند اور تکیہ آپ کے لئے مخصوص نہ ہوتا.جہاں اور جس طرح دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے آپ ان میں ہی بیٹھ جاتے.بے تکلفی کا یہ عالم تھا کہ اگر گرمی کا موسم ہوتا اور شدت گرما کے باعث لوگ اپنی ٹوپی یا پگڑی اتار کر رکھ لیتے تو آپ کبھی اسے خلاف ادب نہ سمجھتے اور آزادی کے ساتھ ہر شخص اپنے آرام کو مدنظر رکھ کر بیٹھ جاتا.کبھی یہ خیال بھی نہ ہوتا کہ کوئی کس طرح پر بیٹھا ہے.میں نے اور ہزار ہا لوگوں نے ان حالات اور واقعات کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے مگر میں اس تائید میں حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش کرتا ہوں جس کو انہوں نے اپنے ایک خط مندرجہ الحکم میں شائع فرمایا تھا اور بعد میں وہی خط کے نام سے میں نے شائع کیا.فرماتے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ حضرت مسیح موعود کی مجلس کا رنگ " آپ کی مجلس کا رنگ ہو بہو نبوت کا (علی صَاحِبِهَا الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ) کا رنگ ہے.وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے مسئلہ پر آج کج بحثیں کرتے ہیں.وہ غور فرمائیں کہ ۱۹۰۰ء میں وہ شخص جو خدا کی وحی میں مسلمانوں کا لیڈر کہلایا.کیا عقیدہ رکھتا ہے.عرفانی) حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہی آپ کی انجمن تھی.اور وہی ہر قسم کی ضرورتوں کے پورا کرنے کی جگہ تھی.ایک درویش دنیا سے قطع کر کے جنگل میں بیٹھا ہوا اور اپنے تئیں اسی شغل میں پورا با خدا سمجھنے والا اگر ایسے وقت میں آپ مسجد میں آجائے کہ جب آپ جہاد کی گفتگو کر رہے ہیں.اور ہتھیاروں کو صاف کرنے اور تیز کرنے کا حکم دے رہے ہیں تو کیا وہ خیال کر سکتا ہے کہ آپ ایسے رحیم کریم ہیں کہ رَحْمَةٌ لِّلْعَالَمِینَ ہونے کا حق اور بجاد عویٰ کر رکھا ہے اور ساری دنیا سے زیادہ خدا اور اس کی مخلوق کی رعایت رکھنے والے ہیں.اسی طرح ایک دفع ایک شخص جو دنیا کے فقیروں اور سجادہ نشینوں کا شیفتہ اور خو کر دہ تھا ہماری مسجد میں آیا.لوگوں کو آزادی سے آپ سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہو گیا.آپ سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں ! لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں.آپ نے فرمایا.” میرا یہ مسلک نہیں.کہ میں ایسا تند خو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں.اور میں بہت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں.میں تو بت پرستی کے رڈ کرنے کو آیا ہوں.نہ یہ کہ میں خود بت بنوں.اور لوگ میری پوجا کریں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا.میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بہت پرست اور خبیث نہیں.متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا.بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صفحه ۴۱ ۴۲ )
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ مسجد مبارک میں آپ کی نشت کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی.ایک اجنبی آدمی آپ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا.آپ ہمیشہ دائیں صف میں ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے.میں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اس لئے داخلی دروازہ کے عین محاذ میں ہوتا ہوں بسا اوقات ایک اجنبی جو مارے شوق کے سرزدہ اندر داخل ہوا ہے.تو سیدھا میری طرف ہی آیا ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوا ہے یا حاضرین میں سے کسی نے اُسے حقدار کی طرف اشارہ کر دیا ہے.آپ کی مجلس میں احتشام اور وقار اور آزادی اور بے تکلفی دونوں ایک ہی وقت میں جمع رہتے ہیں.ہر ایک خادم ایسا یقین کرتا ہے کہ آپ کو مخصوصا مجھ سے ہی پیار ہے.جو جو کچھ چاہتا ہے بے تکلفی سے عرض کر لیتا ہے.گھنٹوں کوئی اپنی داستان شروع رکھے اور وہ کیسی ہی بے سروپا کیوں نہ ہو.آپ پوری توجہ سے سنے جاتے ہیں.بسا اوقات حاضرین اپنی بساط قلب اور وسعت حوصلہ کے موافق سنتے سنتے اُکتا گئے ہیں.انگڑائیاں اور جمائیاں لینے لگ گئے ہیں مگر حضرت کی کسی حرکت نے ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی ملال کا نشان ظاہر نہیں کیا.آپ کی مجلس کا یہ رنگ نہیں کہ آپ سرنگوں اور متفکر بیٹھے ہوں.اور حاضرین سامنے حلقہ کئے یوں بیٹھے ہوں جیسے دیواروں کی تصویریں ہیں.بلکہ وقت کے مناسب آپ تقریر کرتے ہیں.اور کبھی کبھی مذاہب باطلہ کی تردید میں بڑے بڑے زور شور سے تقریر فرماتے ہیں.گویا اُس وقت آپ ایک عظیم الشان لشکر پر حملہ کر رہے ہیں.اور ایک اجنبی ایسا خیال کرتا ہے کہ ایک جنگ ہورہی ہے.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه ۴۱،۴۰) یہ تو آپ کی مجلس کی ایک بے تکلفانہ شان کا نقشہ ہے.آپ کے تمام حالات اور معمولات میں سادگی اور بے تکلفی جلوہ گر تھی.دنیا کے تکلفات اور نمائش اور تصنع آپ میں پایا نہ جاتا تھا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۶ سادگی کی شان کا ایک جلوہ تصویر کے وقت ۱۸۹۹ء میں یورپ میں تبلیغ کے نکتہ خیال اور ضرورت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو لینے کی ضرورت پیش آئی.لاہور سے ایک مصور بلایا گیا.اور فوٹو کا انتظام کیا گیا.فوٹوگرافر اپنے علم کے لحاظ سے اور تصویر کی خوبی کے پہلو کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود کو اپنی نشست اور سامنے کی طرف دیکھنے کے متعلق کچھ ہدایات دینا چاہتا تھا.بلکہ اس نے نہایت ادب سے عرض بھی کر دیا.جو ہستی تکلفات اور تصنع کی خوگر نہ ہو.اس سے یہ قطعی ناممکن تھا کہ وہ ان ہدایتوں کی پابندیاں کرسکتی.ہر چند کوشش کی چند مرتبہ اس نے آپ کے لباس اور نشست وغیرہ کے متعلق عرض کیا.آخر وہ عاجز آگیا.اس لئے کہ وہ انتظام نہ رہ سکتا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ فوٹو اس شان سادگی کی ایک نمایاں تصویر آج بھی ہمارے ہاتھ میں ہے.اور اپنی پوری سادگی کے ساتھ حقیقی جلال اور شان آپ کے چہرہ پر ہویدا ہے.مکان ولباس میں سادگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ سادگی آپ کے رہنے کے مکان اور پہننے کے لباس میں صاف صاف نظر آتی تھی.جہاں تک طہارت.نظافت اور حفظ صحت کا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی بے حد رعایت کرتے تھے.اور ایسی رعایت کہ دوسرے کے لئے شاید تکلیف دہ ہو.مگر آپ کا یہ فعل رعایت اسباب اور طہارت و نظافت کے شرعی آداب اور احکام کی تعمیل میں ہوتا تھا.اس میں وہ تکلف جو بانکمپین اور نری نمود کا رنگ رکھتا ہے قطعا نہیں پایا جاتا تھا.لباس کے متعلق میں نے شمائل و عادات کے باب میں بحث کر دی ہے.اور لباس کے متعلق حالات دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح پر آپ سادہ لباس پہنا کرتے تھے.گرگابی کی شناخت کے لئے کیا انتظام ہوتا.گھڑی کا استعمال کس رنگ میں کرتے.پلنگ سے کس طرح پر میز وغیرہ کا کام ایک ہی وقت لیتے تھے.عرفی تکلفات اور نمائش کا غلام تو اس قسم کی باتوں کو دیکھ کر شاید گھبرا جاتا مگر آپ کبھی اس کی پرواہ نہ کرتے تھے.حضرت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مخدوم الملت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.۳۱۷ ”حضرت مکان اور لباس کی آرائش اور زینت سے بالکل غافل اور بے پروا ہیں.خدا کے فضل و کرم سے حضور کا یہ پایہ اور منزلت ہے کہ اگر چاہیں تو آپ کے مکان کی اینٹیں سنگ مرمر کی ہوسکتی ہیں.اور آپ کے پا انداز سندس واطلس کے بن سکتے ہیں.مگر بیٹھنے کا مکان ایسا معمولی ہے کہ زمانہ کی عرفی نفاست اور صفائی کا جاں دادہ تو ایک دم کے لئے وہاں بیٹھنا پسند نہ کرے.میں نے بار ہا وہ تخت لکڑی کا دیکھا ہے جس پر آپ گرمیوں میں باہر بیٹھتے ہیں اُس پر مٹی پڑی ہوئی ہے اور میلا ہے جب بھی آپ نے نہیں پوچھا اور جو کسی نے خدا کا خوف کر کے مٹی جھاڑ دی ہے جب بھی التفات نہیں کیا کہ آج کیسا صاف اور پاک ہے.غرض اپنے کام میں اس قدر استغراق ہے کہ ان مادی باتوں کی مطلق پروا نہیں.جب مہمانوں کی ضرورت کے لئے مکان بنوانے کی ضرورت پیش آئی ہے بار بار یہی تاکید فرمائی ہے کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسہ خرچ کرنا عبث ہے اتنا ہی کام کرو جو چند روز بسر کرنے کی گنجائش ہو جائے.نجار تیر بندیاں اور تختے رندہ سے صاف کر رہا تھا روک دیا اور فرمایا یہ محض تکلف ہے.اور ناحق کی دیر لگانا ہے مختصر کام کرو.( مصنفہ حضرت مولاناعبدالکریم سیالکوٹی صفحہ ۳۸،۳۷) لباس کا یہ حال ہے کہ پشمینہ کی بڑی قیمتی چادر ہے.جس کی سنبھال اور پر تال میں ایک دنیا دار کیا کیا غور و پرداخت کرتا اور وقت کا بہت سا حصہ بے رحمی سے اس کی پرستش میں صرف کر دیتا ہے.حضرت اُسے اس طرح ( یہ اصطلاح فیشن پرستان.عرفانی) خوار کرتے ہیں.کہ گویا ایک فضول کپڑا ہے.واسکٹ کے بٹن نیچے کے ہول میں بند کرنے سے آخر رفتہ رفتہ سبھی ٹوٹ جاتے ہیں.ایک دن تعجب سے فرمانے لگے کہ بٹن کا لگانا بھی تو آسان کام نہیں ہمارے تو سارے بٹن جلدی ٹوٹ جاتے ہیں.“ آپ کا یہ طریق اور طرز عمل صرف اس لئے تھا کہ آپ اپنے وقت کو ان کاموں میں لگانا غیر ضروری سمجھتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھانے کی سادگی ۳۱۸ میں اس پر پہلے لکھ آیا ہوں.یہاں زیادہ صراحت کی ضرورت نہیں.صرف ایک امر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.آپ عام طور پر سیب کا رس نکال کر پیا کرتے تھے.بہت کم آپ اسے عام پھلوں کی طرح تراش خراش کر کے کھاتے.اگر محض ذائقہ مقصود ہوتا.تو اسے خوب طرح پر کاٹ کر اور قاش بنا کر کھاتے مگر آپ کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ یہ بحالی قوت کے لئے اور قلب کے لیے مفید ہے.گویا بطور دوا کے استعمال کر رہے ہوتے تھے.کوئی شخص یہ غلطی نہ کھائے کہ آپ نعوذ باللہ کسی قسم کی زینت لباس یا کھانے کے مرغن و لذیذ ہونے کو جائز نہیں سمجھتے تھے.یہ بے ہودگی ہے.آپ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حرام نہیں کرتے تھے.اور خدا تعالیٰ نے جو حلال کیا اسے حلال سمجھتے ہی نہیں اپنے عمل سے دکھاتے تھے.آپ کے لباس میں زینت کا جو درجہ ہوتا تھا وہ اپنی جگہ ہوتا تھا.مگر جب میں کہتا ہوں کہ وہ تکلفات سے بری ہوتا تھا.تو اس سے یہ مطلب ہے کہ فیشن کے غلاموں اور پرستاروں کی طرح وہ اس میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرتے تھے.اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا جائز شکر یہ ادا کرتے تھے.ہاں ان تمام اشیاء سے صرف ضرورت کی حد تک فائدہ اٹھاتے تھے.وہ چیزیں کبھی آپ کی زندگی کا مقصود اور مطلوب نہ ہوتی تھیں.غرض آپ کے لباس، آپ کے مکان ، آپ کی خوراک ہر چیز میں سادگی تھی.اور تکلف نہیں پایا جا تا تھا.اور یہ نہیں کہ جب آپ قادیان میں ہوں تو ایسی حالت پائی جاتی ہو بلکہ کبھی اور کسی حال میں بھی بے جا نمود اور تکلف کے آپ عادی نہ تھے.مباحثہ آگفتم کا ایک واقعہ مئی ۱۸۹۳ء کے اواخر میں عبد اللہ آتھم مسیحی سے امرتسر میں آپ کا تاریخی مباحثہ ہوا.جو امرتسر کے عیسائی مشن اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں جنگِ مقدس کے نام سے موسوم ہے.مجھے اس جگہ اس مباحثہ کے حالات اور واقعات کو بیان نہیں کرنا ہے.بلکہ ایک واقعہ کا ذکر آپ کی سادگی اور بے تکلفی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۹ کے متعلق کرنا ہے.مباحثہ کے شروع میں آپ ہال بازار میں مطبع ریاض ہند کے متصل ایک مکان میں قیام فرما تھے.ایک حصے میں حضور خود رہتے تھے.اور دوسرے حصہ میں مہمانوں کا قیام تھا.خاکسار عرفانی جب تک امرتسر میں رہا.اسی مکان میں رہا.اور وہیں سے الحکم کا اجراء ہوا.ایک روز جب آپ مباحثہ کر کے واپس آئے تو دوسرے دن کا پرچہ لکھوانے کے لئے آپ کو کاغذات مباحثہ کو پڑھنا اور جواب کے لئے کچھ یادداشتیں لکھنا تھا.مولوی اللہ دین صاحب امرتسری بائبل سے بعض حوالہ جات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضمون کے لحاظ سے ضروری تھے.نشان لگانے پر مامور تھے.اور خاکسار عرفانی بھی اس کام میں ان کو مدددیتا تھا.ہم دونوں ان حوالجات کی فہرست تیار کر کے حضرت کے پاس لے کر گئے.گھر میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں حضرت اقدس علیحدہ بیٹھ سکتے.مردانہ مکان مہمانوں سے ایسا بھرا ہوا تھا کہ بہت تکلیف تھی.چنانچہ بہت جلد اس مکان کو چھوڑ کر میرمحمود صاحب ریکیں امرتسر کی تحریک پر اُن کے ایک بہت بڑے مکان میں جو کڑہ اہلو والیاں میں واقع ہے چلے گئے تھے.غرض اس مکان میں جگہ نہ تھی موسم خطر ناک گرم تھا.حضرت اقدس اس موقعہ پر کوٹھے پر دیوار کے سایہ میں ایک معمولی چٹائی بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے.اور کاغذات کو پڑھ رہے تھے.اس چٹائی پر کوئی دری کوئی تکیہ کچھ بھی نہ تھا اور وہ اتنی بڑی بھی نہ تھی کہ اس پر اگر آپ لیٹنا چاہتے تو لیٹ سکتے.اسی طرح جب اس مکان سے اٹھ کر خان محمد شاہ والے مکان میں چلے گئے تو آپ کو اسہال کی شکایت تھی.آخری دن تو بہت ہی زیادہ اسہال آئے تھے.اسی مقصد کے لئے مجھے اور میاں اللہ دین صاحب کو اسی مکان میں اندر جانا پڑا تو آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور وہ اتنی چوڑی تھی کہ آپ کا نیچے کا جسم گھٹنوں تک زمین پر تھا مگر آپ نہایت بے تکلفی اور سادگی سے اس پر لیٹے ہوئے اٹھ بیٹھے.میں بیان نہیں کر سکتا کہ ان واقعات کو دیکھ کر میرے اور میاں اللہ دین صاحب کے دل پر کیا گزرا.آنکھوں کے سامنے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ گزر گیا کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریئے پر آرام فرمارہے تھے.اٹھے تو لوگوں نے دیکھا کہ پہلوئے مبارک پر نشان پڑگئے ہیں.عرض کی یا رسول اللہ کیا ہم لوگ کوئی گڈا بنوا کر حاضر
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۰ کریں.ارشاد ہوا کہ ”مجھ کو دنیا سے کیا غرض.مجھے کو دنیا سے اس قدر تعلق ہے جس قدر اس سوار کو جو تھوڑی دیر کے لئے راہ میں کسی درخت کے سایہ میں بیٹھ جاتا ہے پھر اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں اللہ دین صاحب نے کہا تھا کہ یہاں کوئی دری بچھادی جاوے.تو فرمایا ”نہیں میں سونے کی غرض سے نہیں لیٹا تھا.کام میں آرام سے حرج ہوتا ہے اور یہ آرام کے دن نہیں ہیں." یہ سادگی اور دنیا کے متاع سے بے نیازی اور عادات کی بے تکلفی نہ تو اس وجہ سے تھی کہ دنیا کے عیش و آرام کی چیزیں یا اسباب میسر نہ تھے اور نہ اس لحاظ سے تھی کہ آپ جو گیا نہ اور راہبانیت کے رنگ کو پسند کرتے تھے.اسلام راہبانیت اور اس قسم کی زندگی کا سخت دشمن ہے اور لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسْلَامِ “ کہ کر اس نے جو گیانہ زندگی کی تمام برائیوں کا قلع قمع کر دیا ہے اور خدا کے فضل سے ہر ایک نعمت آپ کو میسر تھی اور آپ ان سے تمتع فرماتے تھے مگر کبھی ناز و نعمت.تکلف و عیش پرستی آپ کا شعار وشیوا نہ تھا.ان انعام سے تمتع محض اس اکیلے مقصد کے لئے ہوتا تھا کہ خدمت دین کے لئے طاقت اور قوت میسر ہو چولا صاحب کے معائنہ کے سفر کا ایک واقعہ ڈیرہ بابا نانک میں ایک چولہ صاحب رکھا ہوا ہے.جس پر قرآن کی آیات لکھی ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء کو خود اُس چولے کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تھے.اگر چہ آپ نے اس سے پیشتر اپنے بعض خدام کو بھی بھیجا تھا.کہ وہ دیکھ کر اور تحقیقات کر کے آئیں.جب وہ واپس آئے اور حالات بیان کئے.تو پھر خود حضرت نے بہ نفس نفیس تشریف لے جانا اور معائنہ کرنا بغرض تحقیق ضروری سمجھا.اس سفر میں چند احباب حضور کے ہم رکاب تھے.راستہ میں ایک جگہ آپ تشریف فرما تھے کہ بعض لوگ سن کر ملاقات کو آئے.مگر آپ کی سادگی اور بے تکلفی نے ان میں سے بعض کو فورا شناخت کرلینے کا موقعہ نہ دیا اور انہوں نے جناب مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو جو 66
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۱ اس سفر میں ہم سفر تھے.حضرت مسیح موعود" سمجھ کر ہاتھ بڑھایا تا کہ مصافحہ کریں جناب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے اپنے آقا و مولی کا پتہ دیا یہ محض آپ کی بے تکلفانہ زندگی کا ایک کرشمہ تھا.جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں.آپ کی مجلس میں آپ کے لئے کوئی خاص مسند اور امتیازی جگہ نہ ہوتی تھی.اپنے خدام میں رل مل کر بیٹھا کرتے تھے.گورداسپور میں کرم دین والے مقدمات کے ایام میں جب آپ جامن کے درختوں کے نیچے بیٹھا کرتے تھے.تو ہزاروں آدمیوں نے دیکھا کہ آپ کس سادگی اور بے تکلفی سے زمرہ خدام میں تشریف فرما ہیں.اکثر اوقات کیا روزانہ بڑے بڑے آدمی جو اپنی سوسائٹی میں معزز ومحترم ہوتے آتے.اور آپ ان سے اسی طرح ملاقات فرماتے.جس طرح پر ایک پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے خادم سے.وہ بھی اسی آزادی سے عرض حال کرتا اور آپ سنتے.اور ایک رئیس اور متمول اپنے رنگ میں گفتگو کرتا.مگر آپ کے طرز عمل میں دونوں کے لئے جذبات ہمدردی اور محبت کا ایک ہی رنگ ہوتا.غرض آپ کی ہر ادا اور ہر فعل سادگی اور بے تکلفی کا صحیح اور حقیقی مظہر ہوتا تھا.بات بنا کر کرنی جانتے ہی نہ تھے.صفائی سے جو کچھ کہنا ہوتا فرما دیتے.ذو معنی الفاظ اور فقرے آپ کے قلم اور زبان سے کبھی نہیں نکلتے تھے.اور کلام اور تحریر میں ملائمت ہوتی تھی.بڑے بڑے دقیق اور عمیق مضامین اور مسائل جو فلاسفروں کی سمجھ میں بھی بمشکل آئیں.ان کو ایسی آسانی سے آپ نے اپنی تحریروں میں حل فرمایا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اور ایک ایسے عام فہم طریق سے اسے مدلل کر دیا ہے کہ ایک زمیندار اور دیہاتی جو کسی قسم کے علوم سے واقف نہیں ہے.انہیں سمجھتا ہے اور نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ دوسروں کو سمجھا سکتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۲ جنگ مقدس کے ایام کا ایک اور واقعہ سادگی آپ کی سادگی اور بے تکلفی کے متعلق میرے ایک مکرم بھائی شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس نے ایام جنگ مقدس کا ایک واقعہ بیان کیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اسے بھی یہاں دے دوں.شیخ نور احمد صاحب کو براہین احمدیہ کے تمام و کمال چھاپنے کا موقعہ ملا ہے.کچھ انہوں نے اپنے ہاتھ سے چھاپی ہے.اور کچھ ان کے اپنے مطبع میں طبع ہوئی.اس کے علاوہ عرصہ دراز تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب وہی چھاپتے رہے ہیں.اور بعض اوقات وہ مہینوں اپنے پر لیس کو قادیان لے کر آ جاتے تھے.اسی طرح آنے اور جانے میں انہیں نقصان بھی ہوا.مگر جب حضرت اقدس انہیں بلاتے.وہ فور حاضر ہو جاتے تھے.اس وقت تک جبکہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں وہ ۸۸ سال کے ہیں اور زندہ ہیں.شیخ صاحب کہتے ہیں کہ جنگ مقدس کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہو گئے تھے.ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کھانا رکھنا یا پیش کرنا گھر میں بھول گیا.میں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ بھی کثرت کا روبار اور مشغولیت کی وجہ سے بھول گئی.یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا.اور حضرت نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا.تو سب کو فکر ہوئی.بازار بھی بند ہو چکا تھا اور کھانا نہ مل سکا.حضرت کے حضور صورت حال کا اظہار کیا گیا.آپ نے فرمایا.اس قدر گھبراہٹ اور تکلف کی کیا ضرورت ہے دستر خوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہوگا.وہی کافی ہے.دستر خوان کو دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے.آپ نے فرمایا یہی کافی ہیں.اور ان میں سے ایک دوٹکڑے لے کر کھالئے اور بس.بظاہر یہ واقعہ نہایت معمولی معلوم ہوگا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی اور بے تکلفی کا ایک حیرت انگیز اخلاقی معجزہ نمایاں ہے.کھانے کے لئے اس وقت نئے سرے سے انتظام ہوسکتا تھا اور اس میں سب کو خوشی ہوتی مگر آپ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ بے وقت تکلیف دی جاوے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۳ اور نہ اس بات کی پرواہ کی.کہ پُر تکلف کھانا آپ کے لئے نہیں آیا.اور نہ اس غفلت اور بے پروائی پر کسی سے جواب طلب کیا اور نہ جنگی کا اظہار.بلکہ نہایت خوشی اور کشادہ پیشانی سے دوسروں کی گھبراہٹ کو دور کر دیا.آپ جانتے تھے کہ مہمانوں کی کثرت میں ایسی باتیں ہو ہی جایا کرتی ہیں.صاحبزادہ سراج الحق صاحب کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے احباب و خدام میں بھی بے تکلفی کی روح پیدا کرنا چاہتے تھے.مگر اس سے کبھی وہ بے تکلفی مراد نہیں جو اخلاق فاضلہ کے خلاف اور رندیت کے رنگ کی ہو.بے تکلفی سے انسان میں جرات پیدا ہوتی ہے.بناوٹ اور نمائش سے پر ہیز کی قوت نمودار ہو جاتی ہے.صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے خود اس واقعہ کو بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ صبح چار بجے تھے.گلابی موسم تھا.خاکسار اور منشی محمد خان مرحوم عاشق مسیح موعود علیہ السلام اور منشی ظفر احمد صاحب ساکنان کپورتھلہ اور حافظ احمد اللہ خان صاحب مرحوم اور دیگر دو تین احباب مسجد مبارک میں بیٹھے تسبیح و تہلیل اور درود واستغفار میں مصروف تھے.کسی نے اذان خوش الحانی سے دی.جب وہ اذان دے چکا تو میرے دل میں جوش پیدا ہوا اور میں نے آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار خوش الحانی سے پڑھنے شروع کئے.تو منشی محمد خان صاحب نے زور سے پڑھنے کے لئے فرمایا.چونکہ مرحوم کا اور میرا گہرا تعلق تھا اور ساتھ ہی بے تکلفی تھی.ان کے ذوق قلبی اور ارشاد پر میں نے وہی اشعار زور سے پڑھے اور وہ اشعار یہ تھے ا.چوں مرا نورے بیٹے قومے مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند ۲ سے درخشم چوں قمر تا بم چو ر ص آفتاب کور چشم آنان که در انکار با افتاده اند ترجمہ.ا.چونکہ مجھے عیسائی قوم کے لئے ایک نور دیا گیا ہے.اس وجہ سے میرا نام ابن مریم رکھا گیا ہے.۲.میں چاند کی طرح روشن ہوں اور آفتاب کی طرح چمکتا ہوں ، وہ اندھے ہیں جو انکار میں پڑے ہوئے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۴ بشنوید اے طالباں کز غیب بکنند ایں ندا مصلح باید که در هر جا مفاسد زاده اند ” جب دوسرا شعر پڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کی در بچی یعنی کھڑکی سے چہرہ منور چمکتا ہوا نکالا.اور دست مبارک مین لالٹین روشن شد تھی.اور ایک لیمپ مسجد میں روشن تھا.اللہ اکبر اس وقت کا منظر کیسا ہی مبارک اور دلکش تھا.عین دوسرے شعر کے مصرعہ اول کے مطابق تھا.سے درخشم چوں قمر تا بم چوٹر ص آفتاب آنکھیں چکا چوند ہوگئیں.محمد خان صاحب مرحوم پر تو وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی.ایک طرف استیلائے محبت اور ایک طرف استغراق محو نظارہ.میں خاموش ہو رہا.آپ بیٹھ گئے اور فرمایا.صاحبزادہ صاحب! چپ کیوں ہو گئے پڑھو اس پر صاحبزادہ صاحب نے مکر رسہ کر را شعار کو پڑھا.اور آپ سن کر محظوظ ہوئے اور فرمایا.جَزَاكَ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بعض اوقات کوئی نہ کوئی نظم پڑھی جاتی تھی.خود حضرت نے بہت ہی کم کسی کو کہا ہے کہ نظم سناؤ.البتہ جب کوئی عرض کرتا تو آپ اجازت دیتے.صاحبزادہ صاحب کو جو آپ نے فرمایا یہ اس حجاب اور تکلف کو رفع کرنا تھا.جو بیکا یک حضرت کے تشریف لانے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا.آپ چونکہ جماعت کی تربیت فرمارہے تھے اور ان میں اخلاق فاضلہ اپنے عمل سے پیدا کر رہے تھے.اس لئے ہرگز پسند نہ فرمایا کہ مجمع احباب میں جبکہ وہ ایک روحانی ذوق اٹھارہے تھے.آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے کوئی روک پیدا ہو.اس لئے آپ نے ان اشعار کو سنے کا ارشاد فرما دیا.تا کہ وہی روبے تکلفی کی قائم رہے.اے طالبو!سنو غیب سے یہ آواز آرہی ہے کہ ایک مصلح درکار ہے کیونکہ ہر جگہ فساد پیدا ہو گئے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ مقدمہ جہلم کا ایک واقعہ جہلم میں کرم دین ساکن بھیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکیم فضل دین مرحوم اور خاکسار عرفانی پر ایک مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی کا دائر کر رکھا تھا.جو پہلی ہی پیشی پر خارج ہو گیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم اس مقدمہ کی جواب دہی کے لئے تشریف لے گئے.تو راستہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق عجیب و غریب نشانات ظاہر فرمائے.گجرات کے سٹیشن پر چوہدری نواب خان صاحب تحصیل دار نے کھانا پیش کیا.چونکہ اس قدر وقت نہ تھا کہ حضرت اقدس اور آپ کے خدام وہاں ٹھہر کر کھانا کھا سکتے.اس لئے چوہدری صاحب نے کھانا اور برتن ساتھ ہی دے دیئے.احباب نے ریل میں کھا لیا.چوہدری صاحب ایک خاص قسم کی فرنی حضرت اقدس کے لئے تیار کر کے لائے تھے.اور وہ پیالہ بھی الگ رکھا ہوا تھا.جب سب کھا چکے تو حضرت نے مفتی فضل الرحمان صاحب سے دریافت کیا کہ میاں کھانا تقسیم ہو گیا.اور سب نے کھالیا.انہوں نے عرض کیا ہاں حضور تقسیم ہو گیا.پھر آپ نے دریافت فرمایا کیا تم نے بھی کھا لیا.مفتی صاحب نے جواب دیا کہ حضور اب کھاؤں گا.آپ نے وہ فرنی کا پیالہ ان کے حوالہ کیا اور کہا کہ آپ یہ کھائیں.یہ واقعہ حضرت کے ایثار اور احسانات کے ذیل میں بھی آسکتا ہے.مگر میں نے اسے بے تکلفی اور سادگی کے ضمن میں دکھایا ہے.کہ کس طرح حضور اپنے خدام کے ساتھ بے تکلفی کا برتاؤ کرتے تھے.مفتی صاحب کا ایک اور واقعہ جو حضرت مسیح موعود کا معجزہ ہے جن ایام میں حضور گورداسپور مقدمات کی پیروی کے لئے قیام پذیر تھے ایک روز مولوی یارمحمد صاحب قادیان سے گورداسپور پہنچے.اور انہوں نے حضرت ام المومنین کی علالت کی خبر دی.مفتی فضل الرحمان صاحب کے پاس ایک گھوڑا تھا.اور وہ اپنا گھوڑا لے کر گورداسپور رہا کرتے تھے.تا کہ اگر ضروری کام پیش آجائے تو وہ فور أسوار ہو کر روانہ ہوں.وہاں کے قیام میں دودھ اور برف کا انتظام بھی ان کے سپر د تھا.غرض مولوی یار محمد صاحب یہ خبر لے کر پہنچے.مفتی فضل الرحمان صاحب کہتے ہیں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۶ کہ میں سویا ہوا تھا اور خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود" میرے پاؤں دبا رہے ہیں.اور میں جلدی میں اٹھا ہوں اور اپنی پگڑی تلاش کرتا ہوں.ادھر یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ یکا یک انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص پاؤں دبا رہا ہے.انہوں نے زور سے آواز دی.حضرت مسیح موعود نے فرمایا.”میاں فضل الرحمان اٹھو جلدی کام ہے.“ یہ گھبرا کر اٹھے اور انگیٹھی پر اپنی پگڑی تلاش کرنے لگے.اندھیرا تھا.حضرت نے پوچھا کیا کر رہے ہو.انہوں نے عرض کیا کہ پگڑی تلاش کر رہا ہوں.آپ نے فرمایا کہ یہ میری پگڑی باندھ لو.مولوی یار محمد صاحب آئے ہیں.والدہ محمود بیمار ہیں.تم فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ.میں خط لکھتا ہوں اور اُن کے قلم سے جواب لکھوا کر لاؤ.مفتی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اٹھ کر گھوڑے کے آگے دانہ رکھ دیا.اور تیار ہو گیا.حضرت نے خط ختم کیا.تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے فجر کی اذان دی.میں سوار ہو کر چلا آیا.اور یہ حیرت انگیز امر ہے میں نہیں جانتا میرے لئے زمین کس طرح سمٹ گئی.میں قادیان پہنچا تو نماز ہورہی تھی.میں نے گھوڑے کو دروازے کے ساتھ کھڑا کیا.اور اوپر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا.حضرت اُم المومنین خود ہی تشریف لائیں.اور میں نے واقعہ عرض کیا.اور خط دے کر کہا کہ اس کے لفافہ پر ہی جلد حضور کو اپنی خیریت کی خبر لکھ دیں.چنانچہ حضرت ام المومنین نے ایسا ہی کیا.اور میں فور روانہ ہو گیا اور میں نہیں جانتا کیا ہوا کہ میرا گھوڑا گویا پرواز کرتا ہوا جا رہا تھا.جب گورداسپور پہنچاہوں تو نماز ختم ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دریافت فرمایا.کہ تم ابھی گئے نہیں.میں نے عرض کیا کہ جواب لے آیا ہوں.اور یہ کہہ کر وہ لفافہ پیش کر دیا.آپ ہنستے رہے اور فرمایا کوئی اس کو کیا سمجھے مگر یہ معجزہ ہے یہ واقعہ اپنی اعجازی کیفیت کے ساتھ حضرت کی سادگی کی ایک بے نظیر مثال ہے.ایک خادم کو جگانے کے لئے آپ نے اسے کس شفقت سے اٹھانا چاہا.اور اپنی دستار مبارک ہی جھٹ دیدی.کہ یہی باندھ لو.اس واقعہ سے حضور کی حسن معاشرت پر بھی روشنی پڑتی ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۷ اس مقدمہ کا ایک اور واقعہ مفتی صاحب ہی کہتے ہیں کہ میں گورداسپور سے ایک خط لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا.گرمی کا موسم تھا.اور میں سخت دھوپ میں آیا.رات کو بھی میں سو نہ سکا تھا.حضرت مسیح موعود" نیچے کے کمرے میں تشریف فرما تھے.میں جب پہنچا تو آپ خط لے کر میرے لئے شربت لینے تشریف لے گئے.گرمی اور کوفت کی وجہ سے میں اونگھ گیا.اور وہیں لیٹ گیا.تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں حضرت کے ہاتھ میں پنکھا ہے.میں اٹھ بیٹھا اور بہت ہی شرمندہ ہوا.فرمایا.” تھکے ہوئے تھے سو جاؤا چھا ہے.میں نے عذر کیا.پھر آپ نے وہ شربت دیا اور میں پی کر گھر چلا آیا.غرض حضور کی زندگی میں اس سادگی اور بے تکلفی کی ایک نہیں سینکڑوں مثالیں اور واقعات ملیں گے.کبھی اور کسی حال میں آپ نے تفوق کی خواہش نہیں کی.اور اپنے تمام خدام سے ایسا محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے تھے کہ وہ شرمندہ ہوتے.مگر وہ سلوک ان کے قلوب میں ایک ایسی برقی رو پیدا کر دیتا تھا کہ کوئی چیز حضور سے ان کو جدا نہ کر سکتی.سادگی اور بے تکلفی کے چند اور واقعات مکرمی قاضی اکمل صاحب نے الحکم کے ایک خاص نمبر کے لئے داستانِ شوق لکھی تھی.اس میں چندا ایسے واقعات بھی قلمبند فرمائے تھے.جو حضور کی بے تکلفی اور سادہ زندگی کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں.میں ایک سے زیادہ مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء بناوٹ ، تکلف اور نمائش سے بالکل بری ہوتے ہیں.ذیل کے واقعات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے چند نظارے ملاحظہ کرو.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ منشی کرم علی صاحب کے بیٹے رحمت اللہ کا حضرت کو چمٹ جانا (۱) قادیان کے آریہ اور ہم “ کا شائع ہونا تھا کہ جو نہ شبھ چپتک رہا، نہ اس کا ایڈیٹر، نہ اس کا مربی ، نہ مدرسہ یہ معجزہ میری آنکھوں نے دیکھا.مگر افسوس کہ اکثر لوگ بے ایمان ہی رہے.اس رسالہ کی نظم کا ایک شعر تھا جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے منشی کرم علی صاحب کا تب کے چھوٹے سے بچے رحمت اللہ (جواب بفضلہ جوان جی اے.وی اور قادیان ہی میں مدرس ہیں) نے اپنی سریلی آواز میں پڑھا اور جب وہ اس شعر پر پہنچا تو بے اختیار دوڑ کر ساتھ چمٹ گیا اس کی یہ بات اب تک مجھے یاد ہے.(۲) حافظ ابراہیم صاحب کھڑکی کے پاس بیٹھ رہتے.( یہ کھڑ کی وہ ہے جو بیت الفکر سے بیت الذکر میں آنے کے لئے ہے.عرفانی) حضور جب تشریف لاتے تو سب سے پہلے یہ ضرور لباس مبارک پر ہاتھ پھیر کر برکات کوٹ لیتے.حضور کبھی منع نہ فرماتے.(۳) ایک روز شیخ رحمت اللہ صاحب و دیگر احباب لا ہور تشریف لائے.تو طبیعت ناساز تھی.فرمایا کہ اندر ہی آجاؤ.(حضور" اس وقت اُس کمرے میں تھے جس کا دروازہ بیت الفکر میں کھلتا ہے.عرفانی) میں بھی ساتھ ہی چلا گیا.حضور ایک پلنگ پر تشریف فرما تھے جو اتنا چوڑا تھا جتنی بالعموم چار پائیاں ہوتی ہیں.( یہ پلنگ حضور کی تمام ضروریات تصنیف و تالیف کا کام دیتا تھا.اس لئے وہ لمبا چوڑا بنوایا تھا.عرفانی) اس کے سرہانے ایک چھوٹا سا میز تھا.اس پر بتیاں بہت سی پڑی تھی.(حضور موم بتی کی روشنی کرتے.اور ایک ہی وقت کئی بتیاں روشن کر لیا کرتے تھے.تا کہ کافی روشنی ہو.عرفانی ) ایک دوات تھی.جس کے گرد غالبا مٹی تھی ہوئی تھی.( یہ ایک رکابی میں رکھ کر اس کے اردگرد مٹی لگا دی گئی تھی.تا کہ گر نہ پڑے.عرفانی) لوگ بے تکلفی سے جہاں جس کو جگہ ملی بیٹھ گئے.کوئی چار پائی پر کوئی صندوق پر کوئی ٹرنک پر کوئی دہلیز پر کوئی فرش پر دیر تک ہم بیٹھے رہے.اور حضور کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۹ کلمات طیبات سے شاد کام ہوتے رہے.کمرہ میں بالکل سادگی تھی.کوئی فرش نہ تھا.نہ مکلف سامان بلکہ میں نے دیکھا کہ رضائی بھی پھٹی ہوئی تھی.اس کی روئی مجھے نظر آ رہی تھی.(۴) ایک دفعہ جب حضور کو معلوم ہوا کہ دوست آئے ہیں تو اس وقت مہندی لگوائی ہوئی تھی.اسی طرح ریش مبارک پر رومال باندھے صرف کرتہ پہنے اغلبا سر پر صرف ٹوپی ہی تھی.( یہ بہت پرانی رومی ٹوپی تھی.جو اکثر پگڑی کے نیچے رہتی ) مسجد مبارک میں تشریف لے آئے.اس سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ میں نے حضور کو صرف ایک ہی دفعہ باہر آتے دیکھا.ورنہ آپ نماز وسیر کے لئے جب بھی تشریف لاتے.تو کوٹ پہنے پگڑی سر پر رکھے عصا ہاتھ میں لئے (نماز کے سوا.عرفانی) تشریف لاتے.اس وقت نو بجے کا وقت تھا.آپ نے اپنی جیب سے ایک گھڑی نکالی جو رومال میں بندھی ہوئی تھی اور فرمایا.اس میں تو تین بجے ہیں.پھر کسی نے چابی لگائی.وقت صحیح کر دیا تو آپ نے اسی طرح باندھ کر جیب میں ڈال لیا.جب حضور کے سامنے ذکر کیا کہ ایک گھڑی آٹھ روزہ چابی لیتی ہے تو بہت خوشی ظاہر فرمائی.صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب کا واقعہ حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق جمالی نعمانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خدام میں مسیح سے ہیں.سر ساوہ ضلع سہارنپور آپ کا وطن ہے.اور آپ کے والد صاحب کا سلسلہ پیری مریدی بہت مشہور ہے.اور اب اس گدی پر آپ کے بھیجے گدی نشین ہیں.صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے بہت سے واقعات مختلف اوقات میں بیان کئے.اور شائع بھی فرمائے ہیں.۱۹۲۴ء میں الحکم کے خاص نمبر کے لئے انہوں نے چند واقعات تحریر فرمائے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں.ایک ہی وقت میں ان سے حضور کی بے تکلفی اور سادگی اور حضور کی شفقت و رحمت اپنے خدام پر شب بیداری اور توجہ الی اللہ ثابت ہوتی ہے.یہاں میں اسے صرف حضور کی سادگی اور بے تکلفی کے سلسلہ میں درج کرتا ہوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۰ ذِكْرُ الْحَبِيبِ حَبِيبٌ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شیخ حامد علی مرحوم کو جو دن رات آپ کی خدمت میں رہتے تھے اور جن کی نسبت آپ نے فرمایا تھا کہ حامد علی جیسا کہ اب دنیا میں میرے ساتھ ہے اسی طرح بہشت میں میرے ساتھ ہوگا.امرتسر کسی کام کے لئے روانہ فرمایا.چونکہ میں یوں تو ہمیشہ خدمت میں رہتا تھا مگر خدمت کے طور سے مجھ سے کام نہیں لیتے تھے.میں نے عرض کیا کہ حضور شیخ حامد علی تو امرتسر چلے گئے.رات کو آپ کو تکلیف ہوگی.میرا جی چاہتا ہے کہ رات کو بھی آپ کی خدمت مبارک میں رہوں.اور جو کام آپ کے ہوں وہ بخوشی دل سے کروں.مدتوں میں آج تمنا پوری ہوئی.فرمایا بہت اچھا.پھر میں بعد نماز عشاء اس کا تہیہ کر کے مسجد مبارک کی چھت پر پہنچا.اس زمانہ میں ایک عشرہ کے لئے ایک چلہ کیا تھا.اور وہ چلہ ایک خاص کام کے لئے دعا کا تھا.جب میں پہنچا تو فرمایا.صاحبزادہ صاحب آگئے.میں نے عرض کیا کہ حضرت صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٍ آ گیا.آپ ٹہلتے رہے اور کچھ دعا ئیں وغیرہ پڑھتے رہے.پھر آپ نے کلام مجید یعنی حمائل ہاتھ میں لے لی اور مغربی منارہ پر لائین رکھ کر پڑھتے رہے.درمیانی اور باریک آواز سے.میں بیٹھا رہا کہ جب کوئی کام حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام فرمائیں گے میں کروں گا.خواہ تمام رات جاگنا پڑے.لیکن آپ نے مجھے کوئی کام نہ فرمایا.آپ نے اپنا گر تہا تارا اور تہ بند باندھا.گرمیوں کے دن تھے.فرش مسجد پر لیٹ گئے.اس پر بوریا (چٹائی ) یا جانماز کچھ نہیں تھا.اور سیدھے لیٹ گئے.ہاتھ پیر پھیلا دیئے.اور فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں.کہ ہمیں بغیر چار پائی کے نیند نہیں آتی ، اور کھانا ہضم نہیں ہوتا.ہمیں تو خوب خدا کے فضل سے زمین پر نیند آتی ہے اور ہاضمہ میں بھی کوئی فتور نہیں ہوتا.میں آپ کے پیر دبانے لگا.آپ نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب رات بہت چلی گئی، سو جاؤ، تمہیں بہت تکلیف ہوئی.ہمارے کام
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۱ تو چلے ہی جاتے ہیں.اور ہمیں کام ہی کیا ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضرت صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٍ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے.بہت بہت سفر کیے، پہاڑی ملک میں جانا پڑا.بدن سدھا ہوا ہے.پھر فرمایا.تم تو پیر ہو.پیروں کو تو عادت ہوتی ہے کہ بغیر چار پائی اور عمدہ بستر کے نیند نہیں آتی.میں نیچے سے تمہارے واسطے چار پائی اور بستر گد گدا اچھا سالا تا ہوں.میں یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا اور کانپنے لگا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ یہ تکلیف گوارا کریں.میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے زمین پر سونے کی واقعی عادت ہے، کیونکہ چھ چھ ماہ اور سال سال بھر کی چلہ کشیاں کیں ہیں.چارپائی کا نشان بھی نہ ہوتا تھا.اور قادیان میں تو عموماً چار پائی پر یکم لیٹنا پڑتا ہے.( یہ واقعہ میں بعد میں لکھوں گا) اور حضور تھوڑی سی بات کے واسطے تین منزلہ سے نیچے جائیں اور بوجھ لاویں.مجھے یہ منظور نہیں.اور نیز میرے والد صاحب شاہ حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو حضور کے دعوی سے پہلے گزر گئے انہوں نے بھی یہ عادت ڈال دی ہے کہ اکثر زمین پر سلاتے اور سردیوں میں حالانکہ سب کچھ تھا.گرم کپڑے نہ بنا کر دیتے.اگر کوئی کہتا تو فرماتے کہ فقیری اور آرام طلبی جمع نہیں ہوسکتیں.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کو سن کر خوش ہو گئے.فرمایا.تمہارے والد صاحب کا ایسا کرنا اب کام آگیا.اور ایسا ہی چاہیے.اور احباب کو یہی کرنا چاہیے، کہ آرام طلبی نہ ہو.فرمایا ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہمارے دوست و احباب ایسے بن جاویں کہ گویا فرشتے ہیں اور ابھی آسمان سے اُترے ہیں.یہ دنیا میں ہوں مگر نہ ہوں.پھر فرمایا کہ میں بایاں پاسا بدل لوں یعنی بائیں کروٹ لے لوں.میں نے عرض کیا کہ حضرت صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٌ بہت اچھا.آپ سو گئے اور میں سر سے لے کر پیروں تک رہا تا ہوا آیا.آپ کی آنکھ کھل گئی.فرمایا.ابھی سوئے نہیں.دبا رہے ہو.میں نے عرض کیا کہ میں اسی غرض سے آیا تھا.پھر فرمایا کہ.میں دایاں پاسا بدل لوں.میں نے عرض کیا بہت اچھا.آپ نے پھر کروٹ بدل لی اور میں دباتا رہا.پھر آپ سو گئے.اور آپ کا سونا اس طریق سے تھا کہ دو تین منٹ کبھی چار پانچ منٹ آپ سوتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۲ تھے.اور سُبْحَانَ اللهُ سُبْحَانَ الله !! کہہ کر پھر سو جاتے تھے اور آپ کے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت ہلتی رہتی تھی جیسے بچے انگلیوں کو حرکت دیا کرتے ہیں.پھر آپ جاگ گئے اور فرمایا سو جاؤ.پھر میں بحکم الآمُرُ فَوقَ الْادَبِ آپ کے پیروں کی طرف لیٹ گیا اور مصلی جو میں ساتھ لے گیا تھا وہ سرہانے سر کے نیچے رکھ لیا.پچھلی رات کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام جاگے اور مجھے خبر نہیں دی آپ قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور آہستہ آہستہ باریک آواز سے کہ یہ ( یعنی عاجز راقم الحروف) جاگ نہ اٹھے.آخر حسب معمول میری آنکھ کھل گئی اور آپ کا قرآن شریف پڑھنا اور آہستہ آہستہ پڑھنا اور ٹہلناد یکھا.فرمایا.صاحبزادہ صاحب جاگ اٹھے.میں نے عرض کیا کہ حضرت صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٌ جَاكَ اٹھا.فرمایا.صاحبزادہ صاحب وضو کے واسطے پانی لاؤں.میں نے عرض کیا حضرت صَلَّی اللهُ عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٌ میں تو اس لئے حاضر خدمت ہوا تھا کہ میں خدمت کروں آپ میری خدمت کے لئے تیار ہو گئے.فرمایا.کیا مضائقہ ہے پس میں جلدی سے مسجد کے نیچے اتر گیا اور ڈھاب میں وضو کیا اور جلد آ گیا اور آپ بھی نوافل پڑھتے رہے اور میں بھی نوافل میں مصروف ہو گیا.پھر تھوڑی دیر میں اذان کا وقت آگیا.فرمایا.اذان کہو.میں نے اذان کہی اور لوگ آنے شروع ہو گئے.اب میں وہ واقعہ لکھتا ہوں.جس کا وعدہ اوپر کر آیا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ میرے لئے جو چار پائی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے دے رکھی تھی جب مہمان آتے تو میری چار پائی پر بعض صاحب لیٹ جاتے.اور میں مصلی زمین پر بچھا کر لیٹ جاتا.اور جو میں بستر چار پائی پر بچھا لیتا.تو بعض مہمان اسی چار پائی بستر شدہ پر لیٹ جاتے تو میرے دل میں ذرہ بھر بھی رنج یا ملال نہ ہوتا.اور میں سمجھتا کہ یہ مہمان ہیں اور ہم یہاں کے رہنے والے ہیں.اور بعض صاحب میرا بستر چار پائی کے نیچے زمین پر پھینک دیتے اور آپ اپنا بستر بھیجا کر لیٹ جاتے.ایک دفعہ ایسا ہی ہوا حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک عورت نے خبر دی کہ حضرت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۳ پیر صاحب زمین پر لیٹے پڑے ہیں.آپ نے فرمایا.چار پائی کہاں گئی.“ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں.آپ فوراً باہر تشریف لائے اور گول کمرہ کے سامنے مجھے بلایا.کہ زمین میں کیوں لیٹ رہے ہو.برسات کا موسم ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ ہے.“ میں نے سب حال عرض کیا کہ ایسا ہوتا ہے.اور میں کسی کو کچھ نہیں کہتا.آخر ان لوگوں کی تواضع اور خاطر و مدارت ہمارے ذمہ ہے.یہ سن کر آپ اندر گئے.اور ایک چار پائی میرے لئے بجھوادی.ایک دوروز تو چار پائی میرے پاس رہی.آخر پھر ایسا ہی معاملہ ہونے لگا.جیسا کہ میں نے بیان کیا.پھر کسی نے آپ سے کہہ دیا پھر آپ نے اور چار پائی بھجوادی.پھر ایک روز کے بعد وہی معاملہ پیش آیا.پھر کسی نے اطلاع دی.اور صبح کی نماز کے بعد مجھ سے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب بات تو یہی ہے جو تم کرتے ہو اور ہمارے احباب کو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن تم ایک کام کرو ہم ایک زنجیر لٹکا دیتے ہیں.چار پائی میں زنجیر باندھ کر چھت میں لٹکا دیا کرو “ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ایسے بھی استاد آتے ہیں جو اس کو بھی اتارلیں گے پھر آپ بھی ہنسنے لگے.ایک روز مغرب کی نماز پڑھی گئی.اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کھڑا تھا.جب نماز کا سلام پھیرا گیا تو آپ نے بایاں ہاتھ میری دائیں ران پر رکھ کر فرمایا.کہ صاحب زادہ صاحب اس وقت میں التحیات پڑھتا تھا.الہاماً میری زبان پر جاری ہوا کہ صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٌ - مولانا نورالدین صاحب مرحوم امام تھے.پھر ان سے مخاطب ہو کر فرمایا.تب سے میں جو بات حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہتا تھا.تو یہ کبھی زور سے کبھی آہستہ ضرور پڑھ لیا کرتا تھا.اور یہی عادت میری اکثر تحریر میں بھی ہے.“ اخبار الحکم خاص نمبر بابت ۲۱ تا ۲۴ مئی ۱۹۲۴، صفحه ۵)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام غَاسِقُ الله ۳۳۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی اور بے تکلفی کا ایک عجیب وغریب واقعہ درج کئے بغیر میں آگے نہیں جاسکتا.۲۸ / جنوری ۱۹۰۳ء کی صبح کو ساڑھے چار بجے کے قریب آپ کے مشکوئے معلی میں ایک صاحبزادی امتہ النصیر نام پیدا ہوئی تھی.جو ۳ دسمبر ۱۹۰۳ء کو فوت ہوگئی.صاحبزادی مرحومہ کی پیدائش سے پہلے اسی شب کو ۱۲ بجے حضور کو غاسق الله الہام ہوا تھا.حضور اسی وقت مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کے دروازے پر تشریف لائے.مولوی صاحب موصوف اس وقت اس حجرہ میں رہا کرتے تھے جو مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر جا کر صحن میں کھلنے والے دروازے کے دائیں ہاتھ کو تھا.اس وقت وہ حصہ محض ایک صحن کا رنگ رکھتا تھا اور احباب تنگی جگہ کی وجہ سے وہاں نماز پڑھا کرتے تھے.رات کے بارہ بجے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب کے دروازے پر دستک دی.مولوی صاحب نے پوچھا کہ کون ہے تو حضور نے جواباً فرمایا غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام ) مولوی صاحب کی آواز میں خشونت تھی.وہ گھبرا کر اٹھے اور دروازہ کھولا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت آنے کا عذر کیا.اور یہ الہام مولوی صاحب کو سنایا.اور ایک رویا بھی سنائی.جو اس وقت دیکھی تھی کہ حضرت حجتہ اللہ کو حضرت ام المومنین کہتی ہیں کہ اگر میرا انتقال ہو جاوے تو آپ اپنے ہاتھ سے میری تجہیز و تکفین کریں“.یہ رویا اور الہام صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ کی وفات پر پورا ہو گیا.اس وقت الحکم میں یہ واقعہ شائع کر دیا گیا تھا.جو امر اس واقعہ میں قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس نے جب دروازہ پر دستک دی اور مولوی صاحب نے کون ہے؟ کہہ کر استفسار کیا تو آپ نے کسی تکلف سے کام نہیں لیا اور نہ خشونت آمیز آواز سن کر اظہار ملال فرمایا.بلکہ بے وقت آکر دستک دینے پر عذر فرمایا.میں نے ۱۴ فروری ۱۹۰۳ء کے الحکم میں جب اس واقعہ کو شائع کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخلاق کی طرف یہ لکھ کر اشارہ کیا ہے کہ ۳۳۵ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی سادگی اور بے تکلفی کا ایک پر شوکت نمونہ تھی.جو لوگ جھوٹے تکلفات اور نمائشوں سے اپنا رعب ، وقار اور درجہ قائم کرنا چاہتے ہیں اِس میں اُن کے لئے ایک بیش قیمت سبق ہے.کہ حقیقی عزت و اکرام صرف متقی اور حقیقی مومن کا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے مامور ومرسل دنیا کے تکلفات سے بالکل جدا ہوتے ہیں.ان کی زندگی چونکہ دوسروں کے لئے نمونہ ہوتی ہے اور وہ ان کے لئے اسوہ حسنہ ہوتے ہیں.اس لئے کبھی کوئی فعل ان سے اس قسم کا سرزد نہیں ہوتا جو انسانی نفوس کی تکمیل اور تہذیب میں روک ہو یا کبھی کسی قسم کی ٹھوکر کا موجب ہو.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے خدا کے مرسل میں اس نمونہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.وِلِلهِ الْحَمْدُ
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ خدام سے حسنِ سلوک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل و اخلاق کی پہلی جلد میں خدام سے عفو و درگزر کے عنوان کے تحت میں بعض واقعات لکھ چکا ہوں.لیکن یہ ایک مستقل عنوان بجائے خود ہے.جس کے تحت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام کے ساتھ عام سلوک کا ذکر کروں گا.اس میں خدام سے مراد وہ لوگ ہیں جو خصوصیت سے آپ کے تنخواہ دار خادم تھے.اور وہ لوگ بھی جو حضور کے ساتھ تعلقات ارادت رکھتے ہوئے آپ کے خادم کہلانے پر فخر کرتے ہیں.آقا اور نوکر کے تعلقات آقا اور نوکر کے تعلقات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھا ہے کہ اخلاقی ٹھوکر کھا جاتے ہیں.آقا یہی سمجھتا ہے کہ جو شخص ہماری خدمت اور ملا زمت میں ہے.قدرت نے نعوذ باللہ اس کو انسان نہیں بلکہ جانور بنا دیا ہے اور جو خدمت اس سے جس وقت چاہیں لیں وہ تکلیف اور تکان کے اثروں سے محفوظ ہے.اور اس کے جذبات اور حسیات کا تو قطعا خیال نہیں کرتے احترام کرنا تو در کنار.جن الفاظ میں چاہیں اس کو خطاب کریں.غرض یہ ایسا کھلا ہوا معاملہ ہے کہ اس پر زیادہ بحث کرنے کی مجھے حاجت نہیں.مگر خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کی زندگی ایک اعجازی زندگی ہوتی ہے.وہ چھوٹوں کو بڑے بنانے کے لئے آتے ہیں.مامور من اللہ کی زندگی اور وہ اپنے عمل سے بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مشیت نے اگر کسی کو کسی دوسرے کے ماتحت اور دست نگر بنایا ہے تو یہ ایک انتظامی امر ہے.جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے.لیکن اس سے نفس انسانیت کے شرف کو کچل دینا مقصود نہیں ہوتا.آج دنیا میں ملازموں اور آقاؤں کے سیاسی جھگڑوں نے دنیا میں ایک طوفان بے تمیزی پیدا کر دیا ہوا ہے اور دنیا کے آئندہ خرمن امن پر مزدوری اور سرمایہ داری
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۷ کی جنگ کی چنگاری خطرناک دھمکی دے رہی ہے.اس عقدہ کا حل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں نظر آئے گا.اور میں واقعات کی روشنی میں دکھاؤں گا کہ آپ ملازموں اور خادموں سے کیا سلوک کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کو ہمیشہ خادم میسر تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاندانی وجاہت اور حالت خدا کے فضل سے ایسی تھی کہ ہمیشہ آپ کے گھر میں ایک سے زیادہ خادم رہا کرتے تھے.اور خود آپ کی ذات کے لئے بھی ایک دو خدمت گار رہتے ہیں.خادم سے سلوک مگر کبھی آپ نے اُن خادموں کے ساتھ کسی قسم کا بھی بُرا سلوک نہیں کیا.ہر چند وہ آپ کے خادم اور ملا زم ہوتے تھے مگر آپ اُن کے ساتھ برادرانہ اور مساویانہ برتاؤ کرنے کے عادی تھے.آپ کی زندگی میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے یہ پایا جا تا ہو کہ آپ نے اپنے ملازموں سے بدسلوکی تو در کنار سختی سے بھی برتاؤ کیا ہو بلکہ آپ کی زندگی کا پُر غور مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ آپ ملازموں کو اللہ تعالیٰ کا ایک فضل اور رحم سمجھا کرتے تھے.اور اس فضل کے شکریہ کے لئے ان سے ہمیشہ اخلاق اور محبت سے پیش آتے تھے.حافظ حامد علی صاحب مرحوم کا ذکر خیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادموں میں سے ایک حافظ حامد علی صاحب مرحوم تھے.وہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے آخر عمر میں انہیں پینشن دے دی تھی.اور وہ قادیان میں رہنے کے لئے ایک مختصری دوکان کرتے تھے.اب مقبرہ بہشتی میں آرام فرماتے ہیں.ان کے حالات زندگی توفیق ربّی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ اور فرصت ہوئی تو انشاء اللہ علیحدہ لکھوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق اور برتاؤ کا جو حضور حافظ صاحب سے کرتے تھے ان پر ایسا اثر تھا کہ وہ بار ہا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے میں نے تو ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں بلکہ زندگی بھر حضرت کے بعد کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا تھا.حافظ صاحب کہتے تھے کہ مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ جھڑ کا اور نہ بختی سے خطاب کیا.بلکہ میں بڑا ہی سُست تھا اور اکثر آپ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر کر دیا کرتا تھا.با ایس سفر میں مجھے ہمیشہ ساتھ رکھتے.اور میں نے خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حافظ حامد علی صاحب کو حاضر غائب اسی پورے نام سے پکارتے یا میاں حامد علی کہتے.ایک شخص بہ حیثیت خادم آپ کی خدمت میں عمر کا بہت بڑا حصہ گزارتا ہے.وہ خوداعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں سُست تھا مگر یہ خدا کا برگزیدہ کبھی اسے جھڑ کہتا نہیں بلکہ ہمیشہ اس کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا برتاؤ کرتا ہے.پیرا کا واقعہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں میں ایک پیرا پہاڑ یا تھا.جو بالکل جاہل اور اجد آدمی تھا.اس کے دیکھنے والے بہت موجود ہیں.اس سے بے وقوفی کے افعال سرزد ہونا ایک معمولی بات ہوتی تھی.مگر حضرت نے اُسے کبھی جھڑ کا تک نہیں بلکہ اس کے متعلق فرمایا کرتے کہ اَهْلُ الْجَنَّة ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بیماری کا دورہ ہوا.باوجود یکہ گرمی کا موسم تھا.ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے.اوپر مسجد کی چھت پر بعد نماز مغرب تشریف فرما تھے.احباب فوری تدابیر میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ مصروف ہو گئے.پیرا کو بھی خبر ہوئی وہ اس وقت مٹی گارے کا کوئی کام کر رہا تھا.پاؤں کیچڑ میں کت پت تھے.اسی حالت میں مسجد میں چلا آیا.آگے دری تھی اور یہ قدرتی امر تھا کہ اُس کی اس حالت سے پاس والوں کے کپڑے اور دری کا فرش خراب ہوتا.اس ہیئت کذائی سے وہ آگے بڑھا اور حضرت کو دبانے لگا.بعض نے اس کو کہا کہ تو کس طرح آگیا.تیرے پاؤں خراب ہیں مگر اس نے کچھ نہیں سنا اور حضرت کو دبانے لگا حضرت نے فرمایا.اس کو کیا خبر ہے.جو کرتا ہے کرنے دو کچھ حرج نہیں.اُس کی یہ پہلی حرکت نہ تھی وہ ہمیشہ اپنی بے وقوفی یا سادگی سے دوسروں کا معتوب ہوسکتا تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کبھی نہیں ڈانٹا اور نہ دھمکایا.بعض خادموں پر خفا ہونے کی نظیر بھی حضور کی زندگی میں ملتی ہے.مگر وہ ایسی نظیر ہے کہ اس کی مثال بھی تلاش سے نہ ملے گی.اسی پیرا کی بیماری کے علاج کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخدومی اکبر خان صاحب سنوری کو مقرر کیا تھا اور اس کو جونکیں لگوانے کا حکم دیا.انہوں نے بہت تلاش کیا کوئی جونکیں لگانے والا نہ مل سکا.حضرت اس پر ناراض ہوئے کہ کیوں بٹالہ وغیرہ سے جا کر کسی کونہ لائے.یہ پیرے کے علاج میں ایک قسم کی غفلت کے نتیجہ میں حضور کی ناراضگی تھی.یوں اگر کوئی کام کسی سے خراب ہو جاتا.اور جس کا اثر براہ راست حضرت کی ذات پر پڑتا تھا تو اس کے لئے آپ اپنے خادموں پر ناراض نہ ہوتے.بلکہ ان کی دلداری کرتے.ایک نادان تعزیرات پر زور دینے والا شاید انتظامی پہلو سے اسے پسند نہ کرے.مگر وہ نہیں جانتا کہ عفوا اور چشم پوشی بعض اوقات اتناز بر دست علاج کمزوریوں کا ہے.جو تعزیرات سے وہ بات حاصل نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کی صفت میں آتا ہے يَعْفُوا عَنْ كَثِيرِ (المائدة :۱۲).تو تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللهِ کی تعلیم دینے والے معلم کی عملی زندگی میں اس کا نمونہ لازمی ہے.آپ اپنے خدام کی کمزوریوں سے بشرطیکہ وہ دین اور مذہب کے عملی حصہ پر مؤثر نہ ہوں.یا ان سے استخفاف شریعت نہ ہوتا ہو.خوردہ گیری کرنے کے عادی نہ تھے.اور وقتاً فوقتاً اُن سے ذرا بھی زائد
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰ کام لینے پر داد و دہش فرماتے.اور ان کو خوش رکھنے کے لئے ہر طرح کوشش فرماتے تھے.اور نہ صرف اپنے ذاتی ملازموں یا خادموں کے متعلق یہ مدنظر رکھتے بلکہ ان لوگوں کے متعلق بھی یہی امر ملحوظ خاطر رہتا.جو دوسروں کے ماتحت کر دیئے گئے تھے.حضرت حکیم فضل دین صاحب مرحوم اور ملازمین پریس کا سوال ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہِ راست خود پریس کی نگرانی اور انتظام فرماتے تھے.لیکن جوں جوں آپ کی مصروفیت بہت بڑھتی گئی اور حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے.تو آپ نے پریس کا انتظام حکیم صاحب کے سپرد کر دیا.پریس کا کام مرزا اسماعیل بیگ صاحب اور ان کے بھائی بند کرتے تھے.مرزا اسماعیل بیگ حضرت صاحب کی خدمت میں ایک عرصہ دراز سے بطور خادم کام کرتا تھا.پہلے وہ ایک عام خادم کی طرح کام کرتے تھے.زمینوں کا انتظام اور دوسرے کا روبار.بعض کتابیں اور اشتہار وغیرہ چھپوانے کے لئے بھی ان کو ہی حضور بھیج دیا کرتے تھے.اور پھر یہ انتظام ہوا کہ قادیان میں ضیاء الاسلام پریس قائم کر کے اس میں چھاپنے کا کام مرزا اسماعیل بیگ صاحب کو دے دیا.جب تک یہ کام براہِ راست حضرت اقدس کی نگرانی اور انتظام میں رہا.حالت بالکل اور تھی.گویا ایک چھوٹی سی مملکت تھی جس کے مُطلق العنان بادشاہ مرزا اسماعیل بیگ تھے.لیکن جب یہ کاروبار انتظامی حیثیت سے حکیم صاحب کے سپرد ہوا تو حالات میں یکدفعہ پلٹا ہوا.حکیم صاحب کے لئے کام نیا تھا.مگر ان کی تاجرانہ فراست اور تجربہ کاری نے جلد اس کام کے مالی پہلوؤں کو سمجھ لیا.انہوں نے اپنی انتہائی اقتصادی اور انتظامی تجربہ کاری سے کام لینا چاہا.ادھر مرزا اسماعیل بیگ صاحب کی آزادی اور مطلق العنانی میں فرق آیا.اور سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق اور آپ کے فیاضانہ اور محسنانہ طریق عمل کا لطف اٹھایا ہوا تھا.کوئی شخص خواہ کتنا بھی کمال لطف و کرم میں کرتا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل کے ادنی ترین شعبہ تک بھی نہ پہنچ سکتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۱ گو حکیم صاحب قبلہ بہت ہی متحمل مزاج اور سیر چشم واقعہ ہوئے تھے.اور ہر طرح نرمی اور لطف کا برتاؤ کرتے.مگر آزادی اور پابندی بھی آخر کچھ فرق رکھتی ہے.رواداری اور چشم پوشی کا پیمانہ لبریز ہو گیا.اور حکیم صاحب کے تحمل و بردباری کی حد سے بات باہر ہوگئی.وہ نہایت افسوس کے ساتھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب تنگ کرتے ہیں.یہ غلطی کرتے ہیں.وہ تکلیف دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت توجہ سے ان شکایات کو سنا اور حضرت حکیم صاحب غالباً سمجھتے تھے کہ کوئی سخت سزا کا حکم فرمایا جائے گا.لیکن آپ نے ساری روداد سن کر فرمایا.حکیم صاحب! با ہمیں مردمان باید ساخت دوسرے بھی تو آدمی ہی ہوں گے اگر یہ کسی اعلیٰ درجہ کے کام کے اہل ہوتے تو یہ کام ہی کیوں کرتے.یہ کئی برسوں سے میرے پاس کام کرتے آئے ہیں.آخر کام ہوتا ہی آیا ہے.یہ پرانے لوگ ہیں.آپ چشم پوشی سے کام لے لیا کریں.حکیم صاحب اور دوسرے لوگوں کے ایمان میں جو ترقی ہو سکتی تھی وہ ظاہر ہے اور حکیم صاحب کو جو سبق اس شکایت سے حاصل ہوا اس نے مُدَّةُ الْعُمُر انہیں شکایت کرنے سے باز رکھا.اور باوجود یکہ انہیں بعض اوقات سخت تکلیف ہوتی تھی مگر وہ نہایت عالی حوصلگی اور صبر سے کام لیتے تھے.خادموں سے حسن سلوک کے متعلق یہ شکایت انہیں اکسیر بنا گئی.میں نے اوپر کہا ہے کہ یہی نہیں کہ آپ اپنے خدام کی خطاؤں سے درگز رفرماتے بلکہ ان کے تھوڑے سے عمدہ کام پر ہرقسم کی خاطر داری فرماتے.منشی غلام محمد کاتب کے ساتھ سلوک منشی غلام محمد امرتسری ایک اچھے کا تب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدا میں منشی امام الدین صاحب امرتسری سے کام لیا کرتے تھے.چنانچہ براہین احمدیہ کی پہلی تین جلدیں، شحن حق، سرمه چشم آریہ وغیرہ اسی کی لکھی ہوئی ہیں.آئینہ کمالات اسلام کا ایک بڑا حصہ بھی اسی نے لکھا تھا.مگر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ پھر آپ منشی غلام محمد صاحب سے کام لینے لگے.منشی غلام محمد صاحب عجیب قسم کے نخرے کیا کرتے تھے.اور مختلف طریقوں سے اپنی مقررہ تنخواہ سے زیادہ وصول کیا کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان باتوں کو سمجھتے تھے.مگر ہنس کر خاموش ہو رہتے.ایک روز آپ مسجد میں ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائے.اور نماز کے بعد بیٹھ گئے.آپ کا معمول عام طور پر یہی تھا کہ فرض پڑھ کر تشریف لے جاتے تھے.مگر کبھی کبھی بیٹھ بھی جاتے.آپ نے ہنس کر اور خوب ہنس کر فر مایا.کہ آج عجیب واقعہ ہوا.میں اندر لکھ رہا تھا کہ منشی غلام محمد صاحب کا بیٹا روتا اور چلاتا ہوا بھا گتا آیا.اور اس کے پیچھے منشی غلام محمد صاحب جو تا ہاتھ میں لئے ہوئے شور مچاتے آئے کہ باہر نکل میں تم کو مار ہی ڈالوں گا.حضرت اقدس یہ شور سن کر باہر نکلے اور منشی صاحب سے پوچھا کہ کیا ہوا.وہ یہی کہتے جاتے تھے کہ میں نے اس کو مار ہی دینا ہے آخر حضرت کے اصرار پر بتایا کہ حضور میں نے اس کو نیا جوتا لے کر دیا تھا اس نے گم کر دیا ہے.اب میں اس کو مار ہی دوں گا.حضرت اس کو سن کر ہنس پڑے اور منشی صاحب کو کہا کہ اس پر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے.اور مارتے کیوں ہو.بات تو صرف جوتے کی ہے.میں ہی نیا جو تا خرید دوں گا.‘اس پر منشی غلام محمد صاحب خوش ہو کر چلے گئے.اور بیٹے کو کہا کہ اچھا اب آجا حضرت صاحب جو تا خرید کر دیں گے.حضرت اقدس اس واقعہ کو بیان کرتے اور ہنستے تھے.کہ دیکھو یہ اس نے کیا کیا تنخواہ کے علاوہ اس کی خوراک وغیرہ کا خرچ بھی آپ دیتے.اور اس پر کھانا بھی وہ حضرت ہی کے ہاں سے لے لیتا.اور بعض ضروری پار چات بستر وغیرہ یا سردی کا موسم ہو تو رضائی اور گرم کوٹ بھی لے لیتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس کی ان تمام باتوں کو سمجھتے.مگر کبھی نہ تو ناراض ہوتے اور نہ اس کو الگ کرتے.اس کی ناز برداریاں کرتے ہوئے اُسے کام دیتے رہتے.اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ اور کاتب نہ ملتے تھے.مگر آپ عہد وفا کو قائم رکھتے اور خادموں سے حسن سلوک کے عملی نمونہ جات سے جماعت کی تربیت فرمارہے تھے.یہ حسن سلوک کسی ایک خادم کے ساتھ مخصوص نہ تھا.بلکہ سب کے ساتھ آپ کے برتاؤ یکساں تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ لنگر خانہ کے ایک ملازم کا واقعہ ملک غلام حسین صاحب جو رہتاس ضلع جہلم سے اب ہجرت کر کے قادیان آگئے ہیں.ابتدا میں لنگر خانہ میں روٹی پکانے کے کام پر ملازم تھے.اور اس وقت قریب بازار میں خرید وفروخت کا کام بھی وہی کرتے تھے.ایک شخص جو اس قدرسخت کام کرتا ہو.اور مختلف آدمیوں سے اسے واسطہ پڑتا ہواس میں اگر غصہ اور جوش پیدا ہو جاوے یا بعض اوقات کسی ایک یا دوسری وجہ سے وہ کسی کو خوش نہ رکھ سکے تو یہ کوئی غیر معمولی اور انوکھی بات نہ ہوگی.ملک غلام حسین صاحب بھی اس کلیہ سے مستقلی نہ تھے.ان سے بعض غلطیوں کا صدور بھی آسان تھا.کئی مرتبہ ان کی شکایت حضرت کے حضور ہوئی.یہاں تک کہ بعض بڑے بڑے آدمیوں نے بھی کی جن کی نسبت یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کی شکایت بے اثر رہے گی.اور یہ بچ جائیں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان شکایتوں کی کبھی پرواہ نہ کی.اور درگز ر فر مایا لنگر خانہ کے متعلق ان کی کمزوری یا شکایت کو وقعت نہ دی اور معاف ہی فرماتے رہے.اور اپنے لطف و کرم کا مور در کھا.لیکن جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ کاروبار کے سلسلے میں کبھی آپ ملازموں پر خفانہ ہوتے.لیکن جہاں غیرت دینی کا سوال ہوتا وہاں آپ چشم پوشی نہ فرماتے اور سزا دیتے.انہیں ملک صاحب نے اپنے ایک واقعہ کو خود بیان کیا اور شائع کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان سے ایک موقعہ پر ناراض ہوئے اور قادیان سے چلے جانے کا حکم دیا اور جب وہ مقررہ وقت گزر گیا تو معاف کر دیا اور اب خدا تعالیٰ نے ان کو پھر قادیان میں مستقل سکونت کا باعزت موقع دے دیا.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اور برکت سے ان کی اولاد کے ذریعے بڑے بڑے فضل کر دیئے.خدا تعالیٰ اور بھی فضل و کرم کرے.آمین میاں نجم الدین صاحب داروغہ لنگر خانہ ایک عرصہ دراز تک میاں نجم الدین صاحب مرحوم بھیروی داروند لنگر خانہ تھے.میاں نجم الدین صاحب بہت بڑے مخلص، جفاکش اور مجتہدانہ طبیعت کے آدمی تھے.بہت بڑے تعلیم یافتہ نہ تھے.مگر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ طبیعت رسا تھی.اور اپنی سمجھ کے موافق بعض اوقات قرآن کریم کے نکات بھی بیان کر دیا کرتے تھے.اور اسی وجہ سے ان کے بے تکلف دوست ان کو مجتہد کہہ دیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو مہمانوں کی خدمت اور لنگر خانہ کے انتظام کے لئے مقرر کیا.ان کی طبیعت اجڈ واقع ہوئی تھی.اُن کی زبان بھی آسانی سے ہر شخص کو سمجھ نہ آتی تھی.اور طریق کلام ایسا تھا کہ خواہ نخواہ سننے والے کو لڑنے جھگڑنے کا خیال ہوتا اور وہ اسے خشونت طبع کا نتیجہ سمجھتا.مگر اصل یہ ہے کہ وہ بہت نیک اور خیر سگال واقع ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں مگن اور سرشار تھے.اور اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے مفوضہ کام کو سر انجام دینے کی کوشش کرتے رہتے.لنگر خانہ کا کام.ان کی طبیعت کی تیزی اور ان کی زبان کی کرختگی اور پھر انتظام میں اپنی مجتہدانہ طبیعت سے کام لینے کی عادت.یہ سب باتیں مل ملا کر کئی دفعہ ایسی شکایات پیدا کر دیتی تھیں کہ اگر وہ کسی دوسری جگہ ہوتے تو خدا جانے کس تکلیف اور ذلت کے ساتھ الگ کر دیئے جاتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے اخلاص اور محبت کو جانتے تھے اور اس کی قدر فرماتے تھے اور ان کی غلطیوں کو اعتراض کا رنگ نہ دیتے تھے.بڑی سے بڑی بات جو آپ کبھی ان کو کہتے تو یہ ہوتی کہ میاں نجم الدین میں نے تم کو سمجھا دیا ہے.اور تم پر حجت پوری کر دی ہے اگر تم نے غفلت کی.تو اب تم خدا کے حضور جوابدہ ہو گے.“ حضرت خود کوئی حساب نہ رکھتے.بلکہ لنگر خانہ کا تمام حساب ان کے ہی سپر د تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام باوجود ان کے اجڑ پن اور کرختگی مزاج کے کبھی ان سے کشیدہ خاطر نہ ہوئے.اور ہمیشہ ان کی محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی قدر فرماتے رہے.کسی شخص کی زندگی میں خواہ وہ کیسا ہی ہو.یہ موقع کبھی نہیں آسکتا کہ وہ اپنے آقا کو ناراض نہ کرلے.اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی اس سے نہ ہو جاوے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسا آقا نہیں ملے گا.جو اپنے خدام کے قصوروں اور فرو گذاشتوں کو دیکھتا اور چشم کرم سے ان پر سے گزر جاتا اور ایک مرتبہ نہیں بیسیوں مرتبہ وہ اخلاق الہی میں ایسار نگین تھا کہ عملاً یہی فرماتا تھا صد بار اگر توبه شکستی باز آ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ جو چیز اسے ناراض کرتی اور بے حد ناراض کرتی وہ صرف غیرت دینی تھی.جہاں مذہب کا معاملہ ہوتا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال ہوتا اس کے خلاف حضور کچھ نہیں سن سکتے تھے اور نہ اسے برداشت کر سکتے تھے.آپ کے جس قدر بھی ملازم تھے یا مختلف اوقات میں جس کو حضور کے ساتھ اس قسم کے تعلق کی عزت حاصل ہوئی وہ اپنے ذاتی تجربہ سے اعتراف کرتا ہے کہ حضور سے بجز عفو و چشم پوشی اور لطف وکرم کے کچھ مشاہد ہ نہیں کیا.اور یہ معمولی اور عام بات نہیں ہے.میں نے اس عنوان کے شروع میں لکھا ہے کہ آج دنیا کی بہت بڑی مصیبت سرمایہ داری اور مزدوری کا سوال ہے خادم اور ملازم اپنے آقاؤں سے خوش نہیں اور ان کی سختیوں اور خوردہ گیریوں سے نالاں ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عملی زندگی میں اس مسئلہ کا آسان حل موجود ہے.آپ کے پاس ہمیشہ نو کر رہے اور ہمیشہ ان سے غلطیوں کا صدور ہوا مگر آپ نے ہمیشہ ہی ان سے درگز رفرمایا.نہ صرف در گزر بلکہ انہیں اپنے لطف وکرم کا موردرکھا اور کسی ایک نے بھی کبھی آپ کی بدسلوکی یا سخت گیری کی شکایت نہ کی.میاں شمس الدین صاحب کا ایک واقعہ میاں شمس الدین صاحب کے والد ماجد قاضی فضل البی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی استاد تھے اور یہ قادیان میں قاضی یا ملاں تھے.میاں شمس الدین صاحب خود بھی فارسی کے اچھے عالم تھے اور خوش نویس بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی غربت اور عیال داری پر رحم فرما کر آخر عمر تک ان کا کھانا اپنے ہاں رکھا ہوا تھا.اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرتے رہتے.براہین احمدیہ کے مسودات کو خوشخط لکھنے کا کام بھی ان کو دے رکھا تھا.اور اس کی اجرت الگ ان کو دیا کرتے تھے.میاں شمس الدین صاحب ایک سادہ مزاج آدمی تھے.انہیں ایام میں جب کہ وہ اس خدمت کے لئے مقرر تھے.ایک مرتبہ لوہری کا تہوار آیا.یہ ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جس میں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گھروں میں جا کر لو بڑی مانگتی ہیں.مسلمانوں کو اس تہوار سے کسی قسم کا تعلق نہیں.
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ اس دن جبکہ لوہڑی کا تہوار تھا کچھ ہندولڑکیاں اچھے کپڑے پہن کر اپنی رسم کے مطابق گول کمرے کے آگے سے نکلیں.اس وقت گول کمرے کے آگے احاطہ نہ تھا.اور نہ صحن تھا.گول کمرہ میں پریس لگوایا گیا تھا.میاں شمس الدین صاحب نے کسی سے دریافت کیا کہ آج کیا ہے.جب ان کو بتایا گیا کہ لو ہڑی کا تہوار ہے تو انہوں نے جھٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک درخواست لکھ کر پیش کر دی کہ آج مجوس کا تہوار ہے اور انعام چاہا.حضرت مسیح موعود" باہر آئے اور ان کو سمجھایا کہ یہ تم نے کیا حرکت کی ہے.آپ نے ان کے اس فعل کو پسند نہ فرمایا.مگر از راہ کرم کچھ دے دیا.جہاں تک مذہبی غیرت کا سوال تھا.اس حد تک آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مد نظر رکھ کر ان کو مناسب اور احسن طریق پر ایسے امور میں کسی قسم کی شرکت اور تعلق سے منع کیا.اور دوسری طرف جہاں تک سوال و عطا کا پہلو تھا.آپ نے پسند نہ فرمایا کہ ان کے سوال کو رد کر دیں.میاں شمس الدین صاحب کے ساتھ حضور نے یہ سلوک کیا کہ جب تک وہ زندہ رہے ان کو کھا نالنگر خانہ سے ملتا رہا.اور اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً نقدی سے بھی مدد فرماتے رہتے تھے.وہ اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے.ان کے بچے کی تعلیم میں بھی مدرسہ تعلیم الاسلام میں سہولتیں مہیا کر دینے کا آپ نے ارشاد فرمایا ہوا تھا.خدام سے حسن سلوک پر جامع بیان خدام سے حسن سلوک کے متعلق جس قدر واقعات اور حالات میں او پر لکھ چکا ہوں اگر چہ یہ شمه از شمائل اور قطره از دریا ہے.مگر ایک بصارت رکھنے والے عارف اور طالب کے لئے اس میں بہت بڑے سبق ہیں اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور سیرت میں اپنے لئے ایک صراط مستقیم ہی نہیں بلکہ ایک خدا نما طریق عمل پاتا ہے.میں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خلق کے متعلق ایک جامع بیان کے طور پر تبصرہ کر دینا چاہتا ہوں تا کہ محض واقعات تک ہی یہ امر محدود نہ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی خدام کو خواہ وہ آپ کے تنخواہ دار ملازم تھے یا آپ کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ ساتھ سلسلہ بیعت میں خادم تھے حقیر و کم پایہ نہیں سمجھا.بلکہ انہیں اپنے کنبہ کا ایک فرداور اپنے اعضاء کا ایک جز ویقین کیا.اور اپنے عمل سے ہمیشہ دکھایا کہ کسی معاملہ میں کبھی کسی قسم کی ہتک ان کی پسند نہیں کی.ان کو اپنے دوستوں اور خدام کا اس قدر پاس تھا کہ وہ کسی دوسرے سے بھی ان کی بہتک سننا پسند نہ کرتے تھے.میرے لئے یہ ایک ایسی لذیذ داستان نہیں نہ ہی ایمان وعرفان سے بھری ہوئی حقیقت ہے کہ میں ہر چند چاہتا ہوں کہ ہر باب کو ایک محدودحصہ میں ختم کر دوں.لیکن پھر کوئی نہ کوئی بات آکر واقعات کے اضافہ پر مجبور کر دیتی ہے.اس جگہ اپنے خدام کے متعلق غیرت کا ذکر کرتے ہوئے مجھے یاد آ گیا کہ ڈاکٹر عبد الحلیم خان مرتد نے جماعت کے بعض بزرگوں پر اپنے خطوط میں حملہ کیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے سختی سے جواب دیا اور جماعت کے معزز افراد کی عزت بچانے کے لئے اسے جماعت سے خارج کر دینا آسان سمجھا.آپ اپنے احباب و خدام پر ہمیشہ اعتماد کرتے تھے اور اُن پر حسن ظن رکھتے.اُن کی دیانت وامانت پر بھروسہ فرماتے.آپ کی عادت میں نہ تھا کہ خدام سے حساب کرتے رہیں.یا ان پر احتساب قائم کریں.دو دوست اور احباب تو بہت بڑی بات ہے آپ اپنے ادنیٰ درجہ کے خدام اور ملازمین سے بھی یہی سلوک روار کھتے تھے.حضرت مخدوم الملتہ نے اس خصوص میں لکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ گاؤں کے بہت ہی گمنام اور پست ہمت اور وضیع فطرت جولا ہوں کے لڑکے اندر خدمت کرتے ہیں اور بیسیوں روپیہ کے سودے لاتے ہیں.اور بار ہا لا ہو ر جاتے اور ضروری اشیاء خرید لاتے ہیں.کبھی گرفت نہیں سختی نہیں ، باز پرس نہیں ، خدا جانے کیا قلب ہے اور در حقیقت خدا ہی ان قلوب مطہرہ کی حقیقت جانتا ہے جس نے خاص حکمت اور ارادہ سے انہیں پیدا کیا ہے.اور کیا ہی سچ فرمایا: اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ.“ میں نے خاص غور کی اور ڈھونڈ کی ہے.آنکھ لگائی ہے.کان لگائے ہیں.اور ایسے اوقات میں ایک نکتہ چیں ریو یونولیس کا دل ودماغ لے کر اس نظارہ کا تماشائی بنا ہوں.مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میری آنکھ اور کان ہر دفعہ میرے ایمان اور عرفان کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ بڑھانے والی بات ہی لائے اتنے دراز عرصہ میں میں نے کبھی نہیں سنا کہ اندر تکرار ہورہی ہے اور کسی شخص سے لین دین کے متعلق باز پرس ہو رہی ہے.“ خدام کے چھوٹے چھوٹے کام کی ہمیشہ قدر فرماتے اور ان کی دل جوئی فرماتے.ان کی محنت سے زیادہ دیتے.جن ایام میں کوئی کتاب یا رسالہ جلدی اور ضروری چھاپنا اور شائع کرنا مقصود ہوتا اور راتوں کو کام ہوا کرتا تھا تو جو لوگ حضور کے ساتھ عملہ پریس یا کا تب کام کرتے ان کے لئے دودھ اور دوسری ضروری چیزیں خاص توجہ سے مہیا فرماتے.اور معمولی سے زیادہ اجرتیں دیتے.اور با ایں ان کی کارگذاری پر نہ صرف خوشی بلکہ شکریہ کا اظہار فرماتے.جن لوگوں نے ان آنکھوں ان ہاتھوں اور اس زبان کو دیکھا ہے اور حضرت کے عطایا کا لطف اٹھایا ہے.آج ان کو کوئی بھی خوش نہیں کر سکتا.اس زمانہ کے مقابلہ میں آج اجرتیں عام طور پر بھی زیادہ ہیں اور لوگ بہت کچھ کما لیتے ہیں.لیکن اگر ان سے پوچھا جائے تو وہ اس عصر سعادت کی یاد کا اشکبار آنکھوں سے جواب دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام عفو اور درگزر سے جو کام لیتے تھے.اُسے میں عفو اور درگز ر کے باب میں بیان کر چکا ہوں.یہاں میں صرف اس قدر لکھ جانا چاہتا ہوں کہ ایک طرف حسن کارگزاری پر خوشنودی اور انعام دیتے تھے اور غلطیوں اور فروگذاشت پر معاف کر دیتے تھے.ان کے ساتھ محض ملازم یا خادم ہونے کی وجہ سے کبھی آپ اس قسم کا سلوک نہ فرماتے جو شرف انسانیت کی ہتک کرنے والا ہو.بلکہ آپ ہمیشہ مساوات کا خیال رکھتے اور حاضر و غائب کسی کی تحقیر نہ صرف خود نہ کرتے بلکہ کسی کو جرات بھی نہ ہوتی کہ کر سکے.ہر شخص کا نام عزت سے لیتے اور جب موقع ہوتا اس مساوات کا عملی اظہار مختلف صورتوں سے کرتے.تا کہ دوسروں کو آپ کے اس عمل سے اپنے بھائیوں کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کرنے کا سبق ملے.اگر چہ اس مقام پر خدام سے حُسنِ سلوک کے باب کو میں مختصر کر چکا تھا.اس لئے کہ تمام واقعات کی تفصیل آسان اور ممکن نہیں.لیکن ایک واقعہ مجھے ایسا یاد آ گیا ہے کہ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ مرزا اسماعیل بیگ صاحب کا واقعہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب جن کو بچپن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خادم ہونے کی عزت حاصل ہے اور جن کا ذکر پہلے بھی اسی سیرت میں آچکا ہے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے مرزا صاحب قبلہ کے ارشاد کی تعمیل میں بعثت سے پہلے مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہمرکاب ہوتا تھا.لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے.میں بار بارا انکار کرتا اور عرض کرتا کہ حضور مجھے شرم آتی ہے.آپ فرماتے کیوں؟ تمہیں گھوڑے پر سوار ہونے سے شرم آتی ہے.ہم کو پیدل چلنے میں شرم نہیں آتی !! مرزا اسماعیل بیگ کہتے ہیں کہ جب قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے گھوڑے پر سوار کرتے.جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہو جاتا تو میں اتر پڑتا اور آپ سوار ہو جاتے.اور اسی طرح عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے.اور جب خودسوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا تو اسی چال سے چلنے دیتے ایسا ہوتا گویا با گوں کا اشارہ بھی نہیں ہوا.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عام خدام سے بھی کیسا اعلیٰ درجہ کا برتاؤ کرتے تھے اور سواری میں ان کو نصف کا شریک رکھتے.اور باوجود ان کے انکار کرنے کے بھی گوارا نہ کرتے کہ وہ پیدل چلیں.مساوات کی یہ بے نظیر شان ہے.یہ ایک ہی واقعہ نہیں.میں نے سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مرزا میراں بخش صاحب کا واقعہ بھی لکھا ہے.غرض ہر طرح آپ اپنے خدام سے سلوک فرماتے اور کبھی کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے اور عام برتا ؤ اور سلوک میں مساوات کے پہلو کو غالب رکھتے.خط وکتابت میں بھی آپ کے یہی امر ملحوظ رہتا.ہر شخص کو اخویم“ کے لفظ سے خطاب کرتے.اور عزت اور تکریم کے الفاظ سے یاد کرتے اور اپنی ذات کے لئے ہمیشہ خاکسار کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ لفظ استعمال فرماتے.کوئی تحریر آپ کی ایسی نہیں ملے گی جس میں اپنے نام کو خاکسار کے ساتھ نہ لکھا ہو.آپ کی طبیعت پر خاکساری اور فروتنی کا بہت غلبہ تھا.بہت ممکن ہے کہ سیرت کے کسی دوسرے مقام پر میں اس کا ذکر کسی قدر تفصیل سے کروں.ایک موقعہ پر فرماتے ہیں.کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار لیکن جب آپ اپنے خدا داد رتبہ اور مقام کا ذکر فرماتے تو اس وقت اپنی ہستی کو گم کر کے اس مقام کا اظہار اور اعلان فرماتے اور اسی وجہ سے بعض کو ر چشموں کو ان بلند پایہ دعاوی سے دھو کہ لگتا اور انہیں اس میں تعلی کی بو آتی.مگر یہ خودان کا اپنا نقص اور قصور فہم تھا.المختصر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام سے ہمیشہ حسن سلوک فرماتے.ان کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرتے اور ان کی خوبیوں پر تحسین اور شکر گزاری.خدام ایسے آقا کی غلامی پر ناز کرتے ہیں اور ان ایام کی یادا نہیں تڑپا جاتی ہے.
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام به حیثیت باپ تربیت اولا د اور بچوں پر شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر خصوصاً شفقت فرمایا کرتے تھے.اور حضور نے تربیت اولاد کے سلسلہ میں اولاد میں خود داری اور عزت نفس پیدا کرنے کے لئے ہدایت فرمائی.اَكْرِ مُوا أَوْلَادَكُمْ.حضرت رسالت پناہی کے اس ارشاد میں تربیت اولاد کا بہترین راز مضمر ہے.اولاد کی تکریم سے اولاد میں جو احساس اور شعور پیدا ہوتا ہے.وہ اسے دنیا میں معزز اور محترم بنادیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کو ہم نے پڑھا نہیں خدا کے فضل سے دیکھا ہے.اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا کامل نمونہ اور صحیح نقشہ پایا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولا د دی اور ایک جماعت کثیر دی.جس کے بچوں کو حضرت کے حضور آنے جانے کا موقعہ ملتا اور حضور کے اس برتا ؤ اور تعلق کو ہم ن بِرَأي العین مشاہدہ کیا.اسی مشاہدہ کی بناء پر واقعات کی روشنی میں بتانا اور دکھانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز عمل تربیت اولا د اور بچوں پر شفقت کے متعلق کیا تھا.کس طرح پر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت فرمائی.کس حد تک انہیں آزا د رکھتے.اور کن حالتوں میں ان کے افعال کو پابند کرتے اور عام طور پر بچوں سے کس طرح پیش آتے.اور کس طرح سلوک فرماتے.بچوں کی پرورش اور خبر گیری بچوں کی پرورش اور خبر گیری کے متعلق میں اپنے الفاظ میں کچھ کہنا نہیں چاہتا.بلکہ حضرت مخدوم الملت مولا نا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کا ارشاد درج کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیرت کے اس شعبہ کے متعلق فرماتے ہیں.۳۵۲ " آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمار داری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں.مگر بار یک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مد نظر ہے.آپ کی پہلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہو ئی آپ اُس کے علاج میں یوں دو دوی کرتے کہ گویا اُس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف و اصطلاح میں اولا د کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکا ہی کر نہیں سکتا مگر جب وہ مرگئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه ۵۴۵۳) اسی طرح صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی علالت کے ایام میں آپ نے شبانہ روز اپنے عمل سے دکھایا کہ اولاد کی پرورش اور صحت کے لئے ہمارے کیا فرائض ہیں؟ بچوں کو سزا دینے کی ممانعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو سزا دینے کے سخت مخاف تھے.مدرسہ تعلیم الاسلام میں جب کبھی کسی استاد کے خلاف شکایت آتی کہ اس نے کسی بچہ کو مارا ہے.تو سخت نا پسند فرماتے اور متواتر ایسے احکام نافذ فرمائے گئے کہ بچوں کو جسمانی سزا نہ دی جاوے.چھوٹے بچوں کے متعلق فرمایا کرتے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو مکلف ہیں ہی نہیں پھر تمہارے مکلف کیونکر ہو سکتے ہیں.(مفہوم) حضرت مخدوم الملت فرماتے ہیں.بات میں بات آگئی حضرت بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف ہیں میں نے بارہا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۳ دیکھا ہے ایسی کسی چیز پر برہم نہیں ہوتے جیسے جب سن لیں کہ کسی نے بچہ کو مارا ہے.یہاں ایک بزرگ نے ایک دفعہ اپنے لڑکے کو عادتامارا تھا حضرت بہت متاثر ہوئے اور انہیں بلا کر بڑی درد انگیز تقریر فرمائی.فرمایا ” میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.“ فرمایا.ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا تحمل اور برد بار اور با سکون اور باوقار ہوتو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزادے یا چشم نمائی کرے مگر مغلوب الغضب اور سُبک سر اور طائش العقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو.فرمایا.جس طرح اور جس قد ر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کر لیں.اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.فرمایا.میں التزاماً چند دعائیں روز مانگا کرتا ہوں اول اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خدا مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظا ہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے.پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ عین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں.پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں.پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے.اور اسی ضمن میں فرمایا.حرام ہے شیخی کی گدی پر بیٹھنا اور پیر بننا اُس شخص کو جو ایک منٹ بھی اپنے متوسلین سے غافل رہے.ہاں پھر فرمایا.ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزاردینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرنا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۴ ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پر ہیز کرنا چاہیے.آپ نے قطعی طور پر فرمایا اور لکھ کر بھی ارشاد کیا کہ ہمارے مدرسہ میں جو استاد مارنے کی عادت رکھتا اور اپنے اس ناسز افعل سے باز نہ آتا ہوا سے یک لخت موقوف کر دو.فرمایا.ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد و آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں بس اس سے زیادہ نہیں اور اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں جیسا کسی میں سعادت کا ختم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا.“ مصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ ۳۷،۳۶) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو آداب مسجد سکھاتے ہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جو آج کل خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کے ناظر تعلیم و تربیت ہیں اور جو خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق تالیف واقعات کا کام کر رہے ہیں.ابھی بچے ہی تھے.ارفروری ۱۹۰۴ء کی شام کا واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حسب معمول مسجد میں تشریف فرما تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے مسجد میں آگئے.اور حضرت اقدس کے پاس آکر بیٹھ گئے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آجانے پر آپ دبی آواز سے کھل کر ہنس پڑتے تھے.اس پر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مسجد میں ہنسنا نہ چاہیئے.جب میاں صاحب نے دیکھا کہ ہنسی ضبط نہیں ہوتی.تو چپکے سے چلے گئے اور حضرت اقدس کی نصیحت پر اس طرح عمل کر لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب کوئی بچہ آپ کی خدمت میں آتا تو آپ جگہ دینے کے لئے ایک طرف کو کھل جاتے اور اپنے پہلو میں اسے بیٹھنے کا موقعہ دیتے.حضرت خليفة أسبح الثانى ( مَتَعَنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهِ - آمین ) اکثر آیا کرتے تھے.صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب اور صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کم.سیر میں بھی کبھی کبھی ساتھ ہو جاتے.اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۵ صاحب زادہ مبارک احمد صاحب (اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا ) کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام گود میں لئے ہوئے بار ہا نکل آتے اور لئے جاتے.پھر خدام لے لیتے اور جب صاحبزادہ صاحب خواہش کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ان کو اٹھا لیتے.رحم کی تعلیم دیتے ہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تالیف سیرت المہدی میں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی روایت سے ایک واقعہ لکھا ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) کو تعلیم رحم دینا مقصود ہے.وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفہ اسح جانی ) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا.میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں.“ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۱۷۶ روایت نمبر ۱۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بڑوں کا ادب کرنے کی تعلیم دیتے ہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنا ایک ذاتی واقعہ سیرت المہدی میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے مکان کے ساتھ ملحق ہے.والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں.میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین صاحب کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.میاں آخر وہ تمہارا چاہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے.“ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۳۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۶ بچوں کی دلداری کا کہاں تک خیال رہتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کی دلداری کا بہت خیال رکھا کرتے تھے.اور اپنے صاحبزادوں کا خصوصیت سے اس لئے بھی خیال رکھا کرتے کہ ان کو آیات اللہ یقین کرتے تھے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک کی پیدائش سے پہلے بطور نشان پیشگوئی فرمائی.اور حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی " يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ “ کہ کر پیشگوئی فرمائی ہوئی تھی.پس احترام واکرام اور دلداری آپ آیات اللہ کے اکرام کے رنگ میں بھی فرمایا کرتے تھے.اس سے قطع نظر ایک شفیق باپ کا نمونہ آپ کے طرز عمل میں ایسا موجود تھا.کہ اس کی نظیر عام انسانوں میں نہیں بلکہ صرف انبیاء میں ملتی ہے.حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ایام طفولیت کا ایک واقعہ ہے جس کو حضرت مخدوم الملت نے تحریر فرمایا ہے.اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس شفقت پدری کا نمونہ تھے.چنانچہ حضرت مخدوم الملت فرماتے ہیں.” جاڑے کا موسم تھا محمود نے جو اُس وقت بچہ تھا آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی.آپ جب لیٹیں وہ اینٹ چھے میں موجود تھا آپ حامد علی سے فرماتے ہیں.حامد علی ! چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چھتی ہے.وہ حیران ہوا اور آپ کے جسدِ مبارک پر ہاتھ پھیر نے لگا اور آخر اس کا ہاتھ اینٹ سے جالگا جھٹ جیب سے نکال لی اور عرض کیا یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی.مسکرا کر فرمایا.او ہو چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں میں اس سے کھیلوں گا.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۳۹) نوٹ.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی ایک روایت میں اینٹ کی بجائے آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے لکھا ہے (سیرت المہدی جلد ٢ حصہ چہارم روایت نمبر ۱۰۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء).(ناشر)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے اور اس سے حضور کے استغراق کا بھی پتہ چلتا ہے.مگر بچہ کی دلداری کا اس قدر خیال ہے کہ اس کی ڈالی ہوئی اینٹ کو بھی جیب میں ہی پڑا رہنے دیا.اسی طرح حضور کے عفو و در گذر کے نظاروں میں میں دکھا چکا ہوں کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفہ ثانی نے جبکہ وہ چار برس کے تھے.دیا سلائی لے کر حضور کے مسودوں کو آگ لگا دی.اور آن کی آن میں ساری محنت کو ضائع کر دیا.مگر آپ نے کسی بھی خفگی یا رنج کا اظہار نہیں کیا.بلکہ مسکرا کر صرف اتنا کہا.خوب ہوا.اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہوگی.اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے.“ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک اور واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں نہ تھا کہ کسی ایسی بات پر جو دینی یا اخلاقی حیثیت سے مؤثر نہ ہو بچوں سے سختی کے ساتھ مطالبہ کریں.بلکہ اسے بچپن کا ایک عام واقعہ سمجھ کر نظر انداز فرماتے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی طبیعت میں اس وقت بھی بہت بڑی سادگی ہے.بچپن میں تو سادگی ہی نہیں بے پروائی تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھے عرفانی نے تمام صاحبزادوں کو ان کے بچپن کے ایام سے دیکھا اور ان کی عادات و حالات کا مطالعہ کیا ہے.اس لئے ایک ایک واقعہ اس کے سامنے ہے.میرے محترم بھائی صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے ان کے بچپن کے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے.میرے سامنے اور موجودگی کا ہے.اس لئے بھی میں اُسے درج کرتا ہوں.یہ واقعہ بتا تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی خوردہ گیری کے خوگر نہ تھے.وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے تشریف لے گئے.ابھی تھوڑا سا دن چڑھا تھا.سردی کا موسم تھا.پندرہ سولہ احباب ساتھ تھے.پھر پیچھے سے اور بہت سے آملے.حضرت خلیفہ ثانى مدَّ فَيضُ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی آگئے.اور ایک دوٹر کے اور بھی ان کے ساتھ تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ چھوٹی عمر تھی ننگے پاؤں اور ننگے سرمیاں بشیر احمد صاحب تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تبسم فرما کر فرمایا کہ ”میاں بشیر احمد ! جوتی ٹوپی کہاں ہے؟ کہاں پھینک آئے ؟“ میاں بشیر احمد صاحب نے کچھ جواب نہ دیا.اور ہنس کر بچوں سے کھیلتے کھیلتے آگے بڑھ گئے.اور کچھ فاصلہ پر دوڑ گئے.( یہ بات چیت اس جگہ ہوئی جہاں میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر کی دو منزلہ دوکان ہے.اور آج کل اس میں دفتر قضاء ہے.عرفانی ) آپ نے فرمایا.بچوں کی بھی عجیب حالت ہوتی ہے.جب جوتا نہ ہو تو روتے ہیں کہ جو تالا کے دو.اور جب جوتا منگوا کر دیا جاوے تو پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے.اور نہیں پہنتے.یونہی سوکھ سوکھ کر خراب ہو جاتا ہے.یا گم ہو جاتا ہے.کچھ بچوں کی جبلت ہی ایسی ہوتی ہے.کہ کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی.عجیب بے فکری کی عمر ہوتی ہے.اور اکثر اپنے آپ کو پا بر ہنہ رکھنا ہی پسند کرتے ہیں.ابھی دو چار دن کا ذکر ہے کہ جو نا کا تقاضا تھا.جب منگوا کر دیا تو اس کی پرواہ نہیں.میں نے کہا ” در طفلی پستی ، در جوانی مستی و در پیری ستی ، خدارا کے پرستی“ یہ سن کر ہنسے تو پھر میں نے عرض کیا کہ حافظ حامد علی کو بھیج دیا جاوے.وہ جو تہ ٹوپی لے آئیں گے.فرمایا جانے دو خدا جانے کہاں ہوں گے.“ بچوں کے ہم جولیوں سے سلوک میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا.کہ آپ کے صاحب زادگان کے ساتھ کھیلنے والے بچوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک فرمایا کرتے.جیسے اپنے بچوں سے شفقت فرماتے.ایک روز آپ نے ہنس کر ایک واقعہ بیان فرمایا کہ فلاں لڑکا ( جو آج کل افریقہ میں ملازم ہے اور ان ایام میں اپنے باپ کے ساتھ حضرت اقدس کے گھر میں رہا کرتا تھا.کیونکہ اس کا باپ لنگر خانہ میں کام کرتا تھا.عرفانی) حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب یا شریف احمد صاحب ( دونوں میں سے کسی ایک کا واقعہ ہے.عرفانی) کہ رہا تھا کہ ہمارا باپ تو ہم کو بہت سے آم دیتا ہے.صاحب زادہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۹ صاحب موصوف نے حضرت اقدس سے کہا.( ان ایام میں آم آئے ہوئے تھے اور حضرت اقدس بچوں کو خود تقسیم فرما رہے تھے.عرفانی) حضرت اقدس بہت ہنسے اور بہت سے آم صاحب زادہ صاحب کو دیئے.آپ کی غرض یہ تھی کہ وہ اپنے ہم جولیوں میں اچھی طرح تقسیم کریں.یہ تو ان کے ہاتھ سے دلائے.اور خود ان سب کو جو ساتھ ہوتے برابر حصہ دیتے.اور وہ حضرت کے گھر میں ایک شاہانہ زندگی بسر کرتے.عام سلوک میں حضرت اقدس کو کبھی کسی سے بھی فرق نہ ہوتا.کھانے پینے کے لئے برابر پوری آزادی اور فراغت حاصل تھی.ان کے سوا اگر ایسے موقعہ پر جبکہ آپ کوئی چیز تقسیم کر رہے ہوں.کوئی بچہ ار کسی کا بچہ سامنے آجاوے آپ اس کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرتے اور کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرما دیتے اور یہ عادت حضور کی ہمیشہ سے تھی.اپنی عمر کے اس حصے میں جب کہ آپ اللہ تعالیٰ کے امر اور اذن کے ماتحت مجاہدات میں مصروف تھے.بعض یتامیٰ کی خاص طور پر خبر گیری فرماتے اور اپنی خوراک کا ایک حصہ ان کو دیتے تھے.بچوں کی باتوں سے اکتاتے نہ تھے ہے کہ.حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ نے بچوں کے متعلق آپ کے طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا بار ہا میں نے دیکھا ہے اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چار پائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کر کے پائینتی پر بٹھا دیا ہے اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جارہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں گویا کوئی مثنوی ملائے روم سنا رہا ہے.حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت خلاف ہیں.بچے کیسے ہی بسور یں.شوخی کریں.سوال میں تنگ کریں اور بیجا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیر موجود شے کے لئے حد سے زیادہ اصرار کریں آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں نہ جھڑ کہتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمود ( حضرت خلیفہ امسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) کو ئی تین برس کا ہو گا آپ لدھیانہ میں تھے میں بھی وہیں تھا گرمی کا موسم تھا مردانہ اور زنانہ میں ایک دیوار حائل تھی آدھی رات کا وقت ہو گا جو میں جا گا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرت کے ادھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی حضرت اُسے گود میں لئے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چپ نہیں ہوتا تھا.آخر آپ نے کہا دیکھو محمود وہ کیسا تارا ہے بچہ نے نئے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چپ ہوا.پھر وہی رونا اور چلا نا اور یہ کہنا شروع کر دیا ”اتا تارے جانا“.کیا مجھے مزہ آیا اور پیارا معلوم ہوا آپ کا اپنے ساتھ یوں گفتگو کرنا یہ اچھا ہوا ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکالی.“ آخر بچہ روتا رو تا خود ہی جب تھک گیا چُپ ہو گیا مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپ کی زبان سے نہ نکلا.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۳۶،۳۵) یہ ایک مثال اور واقعہ نہیں.ایک اور واقعہ میں حضرت مخدوم الملت کے الفاظ میں درج کرتا ہوں.جس سے ایک طرف آپ کے اس سلوک اور طرز عمل کا پتہ چلتا ہے جو بچوں کے متعلق تھا.اتابه اکھول وہاں آپ کے حوصلہ اور حلم کا بھی اظہار ہوتا ہے.میں جب آپ کے حوصلہ اور حلم کا ذکر کروں گا.تو انشاء اللہ اس واقعہ کی طرف اشارہ کر دینا ہی کافی سمجھوں گا.آپ کی قدیمی عادت ہے کہ دروازے بند کر کے بیٹھا کرتے ہیں ایک لڑکے نے زور سے دستک بھی دی اور منہ سے بھی کہا ہے ابا بُو اکھول آپ وہیں اٹھے ہیں اور دروازہ کھولا ہے کم عقل بچہ اندر گھسا ہے اور ادھر ادھر جھانک تانک کر الٹے پاؤں نکل گیا ہے.حضرت نے معمولاً دروازہ بند کر لیا ہے.دو ہی منٹ گزرے ہوں گے جو پھر موجود
ت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۱ اور زور زور سے دھکے دے رہے ہیں اور چلا رہے ہیں ابا بُوا کھول، آپ پھر بڑے اطمینان سے اور جمعیت سے اٹھے ہیں اور دروازہ کھول دیا ہے.بچہ اب کی دفعہ بھی اندر نہیں گھستا ذرا سر ہی اندر کر کے اور کچھ منہ میں بڑبڑا کے پھر الٹا بھاگ جاتا ہے.حضرت بڑے ہشاش بشاش بڑے استقلال سے دروازہ بند کر کے اپنے نازک اور ضروری کام پر بیٹھ جاتے ہیں.کوئی پانچ ہی منٹ گزرے ہیں تو پھر موجود اور پھر وہی گرما گرمی اور شور اشوری کہ ابا بوا کھول اور آپ اٹھ کر اسی وقار اور سکون سے دروازہ کھول دیتے ہیں اور منہ سے ایک حرف تک نہیں نکالتے کہ تو کیوں آتا اور کیا چاہتا ہے اور آخر تیرا مطلب کیا ہے جو بار بارستا تا اور کام میں حرج ڈالتا ہے.میں نے ایک دفعہ گنا کوئی ہمیں دفعہ ایسا کیا اور ان ساری دفعات میں ایک دفعہ بھی حضرت کے منہ سے زجر و تو شیخ کا کلمہ نہیں نکلا.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفر ۳۳ ۳۴) بچوں کے علاج معالجہ میں بڑی مستعدی سے کام لیتے یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ ہر شخص کی ہر قسم کی مصیبت میں اس کے ساتھ ہمدردی فرماتے اور بیماروں کی طرف بھی توجہ فرماتے.لیکن بچوں کے علاج معالجہ کے لئے شروع شروع میں آپ خاص اہتمام فرماتے.قادیان میں کوئی ہسپتال اور دواخانہ تو تھا نہیں حضرت حکیم الامت بھی بعد میں تشریف لائے.اور اس قسم کی ضرورتیں ہمیشہ لاحق رہتی تھیں.ارد گرد کے دیہات کی مستورات اور قادیان کی عورتیں بھی اپنے بچوں کو علاج کے لئے حضرت اقدس کی خدمت میں لے آتی تھیں.آپ پوری شفقت اور توجہ سے ان کا علاج فرماتے.حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں.’ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کولیکر دکھانے آئیں اتنے میں اندر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آنکلیں.اور آپ کو دینی ضرورت کے لئے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا.میں بھی اتفاقاً جا نکلا کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر پچست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے.اللہ اللہ ! کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے.یہ مسکین لوگ ہیں، یہاں کوئی ہسپتال نہیں ہمیں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں.اور فرمایا.یہ بڑا ثواب کا کام ہے مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہونا چاہیے.“ ( مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفر ۳۴، ۳۵) دینی معاملات میں بچوں کے سوال کو بھی اہمیت دیتے تھے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ معمول تھا کہ وہ بچوں پر ہر طرح شفقت فرماتے.اوران کو سزادینے سے نہ صرف کراہت فرماتے بلکہ اگر کوئی سزا دے تو سخت ناپسند فرماتے.وہاں دینی امور میں آپ بچوں کے کسی ایسے فعل کو جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کی تو ہین کا موجب ہو برداشت نہ کرتے.جیسا کہ میں پیچھے کسی موقعہ پر لکھ آیا ہوں کہ ایک مرتبہ حضرت صاحب زادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو آپ نے مارا.اسی طرح اگر کوئی بچہ دینی معاملہ میں استفسار کرے تو آپ کا یہ طریق نہ تھا کہ محض بچہ سمجھ کر اس سے بے التفاتی کریں.اس کا جواب نہ دیں.اور یہ بھی نہ ہوتا کہ اگر بچہ کوئی بات کہنا چاہے تو اسے روک دیں.برابر توجہ سے اسے سنتے.اس کے سوال کو اسی طرح اہم سمجھتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ جیسے کسی بڑے ذی علم اور عمر رسیدہ انسان کے سوال کو مکر می ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو حضرت قبلہ نانا جان میر ناصر نواب صاحب کے صاحب زادے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ حضرت ام المومنین کے بھائی ہونے کی وجہ سے رشتہ اخوت رکھتے ہیں.ان کی ذاتی روایت ہے حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تالیف سیرت المہدی میں اس طرح لکھی ہے.” جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو میں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا.مجھے اس دعوی سے کچھ اطلاع نہیں تھی.ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں نے اُن کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے حضرت عیسی تو زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہوں گے.خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے.میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میرا یہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ اُٹھے اور کمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ ”فتح اسلام“ (جو آپ کی جدید تصنیف تھی ) لا کر مجھے دے دیا.اور فرمایا.اسے پڑھو.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچے کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے.“ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) سبق یاد نہ کرنے پر بچوں پر خفا نہ ہوتے میں نے اوپر لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو مارنے کے سخت خلاف تھے تعلیمی معاملات میں مارنے والے استادوں کو پسند نہ فرماتے.حضور نے اگر چہ خود با قاعدہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دی.لیکن ابتدائی ایام میں جبکہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے آپ مامور ہوکر مبعوث نہ ہوئے تھے.خان
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۴ بہادرمرزا سلطان احمد صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (اپنے والد مکرم ) سے فارسی کی بعض کتب مثلاً گلستان ، بوستان اور نحو اور منطق کے ابتدائی رسالے پڑھے تھے.خان بہادر نے مجھے بتایا کہ ان کا معمول تھا کہ میں کتابیں سرہانے رکھ کر سو جایا کرتا تھا.بہت محنتی نہ تھا.لیکن سبق سمجھ لیا.اور کچھ یاد بھی رکھا.حضرت مسیح موعود" میرا آموختہ بھی سنا کرتے تھے اور میں بھول بھی جاتا تھا.مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ پڑھنے کے متعلق مجھ سے ناراض ہوئے ہوں یا مجھے مارا ہو.جب حضور خدا کے منشاء اور وحی سے مامور ہو کر تبلیغ سلسلہ کے کام میں مصروف ہو گئے تو بچوں کی تعلیم کے متعلق دوسرے استادوں کی خدمات حاصل ہونے لگیں مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ بچوں کی عربی علیم کے لئے آپ نے ایک کورس عربی بول چال کا تیار کرنا شروع فرمایا تھا.اور بچے نہایت خوشی سے اسے یاد کرتے تھے.بعد میں ایک کورس آپ نے بڑے آدمیوں کے لئے بھی تیار فرمانا چاہا.اور کچھ سبق لکھے بھی گئے تھے.مگر وہ سکیم کثرت کار کی وجہ سے ملتوی ہو گئے.محبت پدری کا مظاہرہ میں نے ذکر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد سے جو محبت کرتے تھے اور ان کا اکرام کرتے تھے اس میں ایک راز یہ بھی تھا کہ آپ ان کو آیات اللہ یقین کرتے تھے.خدا تعالیٰ نے ایسے وقت میں کہ آپ کو دوسری شادی کا خیال بھی نہ تھا.اس شادی اور اس کے ذریعہ ایک خادم دین اولاد کی پیشگوئی فرمائی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوئی.اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے اس برگ و بار سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں.عام طور پر والدین کو اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے اور بچوں کو والدین سے.اور جب بچے ایک سے زیادہ ہوں.تو بچوں میں یہ جذبہ بھی ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک سمجھتا ہی نہیں یقین کرتا ہے.کہ مجھ سے زیادہ محبت ہے.اور بعض اوقات بچے اپنے بچپنے کی شان سے آپس میں اس محبت پدری و مادری پر مباحثہ بھی کرتے ہیں.ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ مجھ سے زیادہ محبت ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مظاہرہ کا ایک واقعہ سیرت میں لکھا ہے.میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۵ اسے نہایت اہم سمجھتا ہوں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت پدری کا ایک بہترین نمونہ.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد کو چھیڑ نے لگ گئے کہ ابا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے.میاں شریف بہت چڑتے تھے.حضرت صاحب نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرومگر ہم بچے تھے لگے رہے.آخر میاں شریف رو نے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے بہت رطوبت بہتی تھی.حضرت صاحب اُٹھے اور چاہا کہ ان کو گلے لگا لیں تا کہ ان کا شک دور ہومگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بہہ رہا تھا پرے پرے کھچتے تھے.حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شاید اسے تکلیف ہے اس لئے دور ہوتا ہے.چنانچہ کافی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ حضرت صاحب ان کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھجتے تھے.اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے.“ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۶۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ایک دوسری روایت میں حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں یا کسی اور حالت میں ہوں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ اتنا پیسہ دو اور آپ اپنے رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے.اگر ہم کسی وقت کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ میاں میں اس وقت کام کر رہا ہوں زیادہ تنگ نہ کرو.اولاد د کے متعلق آپ کی خواہش یہ تھی کہ وہ خادم دین ہوں اولاد کے متعلق حضور کی خواہش و تمنا ایک دنیا دار کے حصول و مقاصد کی طرح نہ تھی.کہ وہ بہت بڑے عہدہ دار ہوں یا ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر سونا اور دنیا کے متاع ہوں.آپ کی غرض واحد اور تمنائے اعظم محض یہ تھی کہ وہ خادم دین ہوں.یہ امر آپ کی دعاؤں سے جو اولاد کے متعلق آپ نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ کی ہیں ظاہر ہے اور واقعات بھی اس کی شہادت دیتے ہیں.میں اس جگہ دو واقعات لکھوں گا جن میں سے ایک خان بہادر مرز سلطان احمد صاحب کے متعلق ہے.اور ایک حضرت خلیفتہ امسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب شروع ہی سے نہایت سادہ مزاج اور مستغنی طبیعت تھے.طبیعت بالکل لا ابالی واقع ہوئی تھی.انہوں نے اپنے واقعات میں ایک واقعہ حضرت أم المومنین کی روایت سے بیان کیا ہے کہ.ایک موقعہ پر جب تم بچے تھے اور شاید دوسری جماعت میں ہو گے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود رفع حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم اس وقت ایک چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مار ہے اور قلابازیاں کھا رہے تھے آپ نے دیکھ کر تبسم فرمایا اور کہا دیکھو یہ کیا کر رہا ہے پھر فرمایا اسے ایم.اے کرانا.“ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۶۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اب ایم.اے ہیں.اور ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی حضور کی وفات کے بعد پوری ہونے والی تھی.اور حضور کی وفات کے بعد حضرت ام المومنین کی زندگی میں ہونے والی تھی.میں اس وقت پیشگوئی پر بحث نہیں کرتا ہوں بلکہ اس کی طرف ایک نکتہء خیال سے گفتگو کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد ایم اے کرانے سے یہ ہرگز نہ تھا کہ وہ حکومت میں کوئی بڑا عہدہ حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے یا اور کوئی دنیوی مفاد حاصل ہو گا.بلکہ حضور یہ چاہتے تھے کہ خدمت دین کے لئے بہترین موقعہ ان کو مل سکے گا.اس لئے کہ آپ کی اصل تمنا یہی تھی اور آج واقعات اس کی تصدیق کر رہے ہیں.غرض اولاد کے متعلق آپ کا منتہائے نظر یہی تھا کہ وہ خادم دین ہوں.اب میں ان دونوں واقعات کو درج کرتا ہوں.جن کا اوپر ذکر کر چکا ہوں.اعلیٰ حضرت کے منجانب اللہ ہونے کے دوسرے دلائل و براہین میں سے آپ کی عملی زندگی کا وہ حصہ بھی عجیب ہے جو آپ اندرون خانہ میں گزارتے ہیں.آؤ میں تمہیں آپ کی ایک اندرون خانہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۷ مجلس کے حالات سناؤں.یہ وقت بالکل علیحدگی کا ہے.جو انسان کی حالت پر پوری روشنی ڈالنے والا ہوتا ہے.صاحب زادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امتحان انٹرنس دے کر امرتسر سے واپس آئے ہیں.آپ کے متعلق سلسلہ کلام شروع ہوا.کسی نے کہا میاں صاحب بہت ڈبلے ہو گئے ہیں.دوسرے نے کہا ان کو اپنی کمزوری کا خیال کر کے سخت فکر لگی ہوئی ہے.کہ ایسا نہ ہو فیل ہو جاؤں.اس پر حضرت میاں صاحب سے کسی بہت ہی پیار کرنے والے نے کہا کہ آپ دعا کریں کہ پاس ہو جاویں.اس پر اعلیٰ حضرت حجتہ اللہ نے جو کچھ فرمایا وہ آب زر سے بھی لکھا جائے تو اس کی پوری قدر نہیں ہوسکتی.یہ فقرات آپ کی اندرونی حالت کا راز ظاہر کئے دیتے ہیں.اور آپ کی پاک سیرت کو عیاں کر کے دکھاتے ہیں.فرمایا ”ہمیں تو ایسی باتوں کی طرف توجہ کرنے سے کراہت پیدا ہوتی ہے.ہم ایسی باتوں کے لئے دعا نہیں کرتے.ہم کو نہ تو نوکریوں کی ضرورت ہے اور نہ ہمارا منشاء ہے کہ امتحان اس غرض سے پاس کئے جاویں.ہاں اتنی بات ہے کہ یہ علوم متعارفہ میں کسی قدر دستگاہ پیدا کر لیں.جو خدمت دین میں کام آئے.پاس فیل سے تعلق نہیں.اور نہ کوئی غرض.“ ان فقرات پر غور کرو.کہ کیا کسی دنیا دار اور دنیا طلب کے منہ سے نکل سکتے ہیں.ایسی حالت اور ایسے وقت میں جبکہ وہ اپنی بیوی بچوں میں بیٹھا ہوا ہے.مریدین اور مخلصین کی کوئی کثیر جماعت اس کے ارد گرد نہیں ہے.اس سے بڑھ کر آپ کی سچائی اور صدق دعوئی پر کس دلیل کی ضرورت ہے.کہ برخلاف ابناء دنیا کے جو اپنے بیٹوں کے لئے ایسی امتحانی منزلوں کے طے کرانے کے لئے کس قدر اضطراب اور قلق ظاہر کرتے ہیں اور اس کے لئے ہر قسم کے جائز و ناجائز وسائل تک کے استعمال کرنے سے بھی نہیں ڈرتے.حضرت اقدس اپنے بیٹے کی نسبت اس رنگ کی دعا سے بھی کراہت کرتے ہیں.یہ واقعہ تو آپ کی زندگی میں آج سے بائیں تئیس سال پیشتر کا ہے ممکن ہے کہ کوئی کم فہم اپنی بدنصیبی سے کہہ اٹھے کہ 66
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ اس وقت چونکہ مخلصین کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی.اور کسی قسم کی کوئی حجت اور پروانہیں تھی اس لئے ایسا فرمایا.لیکن میں ایک بہت ہی پرانا واقعہ ناظرین کو سناتا ہوں.جب کہ نہ یہ سلسلہ تھا اور نہ اس قدر خدام گرد و پیش موجود تھے.بلکہ تنہائی کی زندگی آپ بسر کر رہے تھے.اور گوشہ گمنامی میں اپنے محبوب و مولا سے راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے.اس وقت جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد حال پنشنز ڈپٹی کمشنر گوجرنوالہ جو اعلیٰ حضرت کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں.امتحان تحصیل داری میں شریک ہوئے انہوں نے دعا کی درخواست کی.عصر کی نماز کا وقت تھا.آپ وضو کر رہے تھے.اس وقت مرزا سلطان احمد کا عریضہ ملا.آپ نے وضو کر کے اسے دیکھا.اور نہایت نفرت اور کراہت کے ساتھ اُسے چاک کر کے پھینک دیا.اور فرمایا.میں ایسی باتوں کے لئے دعا نہیں کرتا.مجھے ایسے امور کے لئے دعا کرنے سے نفرت آتی ہے.اس کے بعد معاً آپ کو الہام ہوا کہ ” پاس ہو جائے گا.یہ خدا کا فضل تھا.غرض جہاں تک آپ کی لائف میں نظر کرتے جاویں اس قسم کے ہزاروں واقعات ملیں گے.مخدوم الملت حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالٰی روایت فرماتے ہیں.کہ میاں محمود والا واقعہ سن کر میرے دل میں آپ کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت اور بھی زیادہ مضبوط ایمان ہو گیا ہے.اس لئے کہ جیسا میں ہر موقعہ پر دیکھتا ہوں اس موقعہ پر بھی وہی تجر بہ سچا ثابت ہوا کہ حضرت اقدس کے پیش نظر دین اور اعلاء دین ہی ہے.محض دنیا کی طرف نہ کبھی توجہ ہوئی ہے اور نہ کبھی متوجہ ہونا پسند کرتے ہیں.چنانچہ ایک دن فرمایا کہ ”جب کوئی شخص دنیا کے لئے درخواست کرتا ہے.طبیعت میں بہت کراہت پیدا ہوتی ہے لیکن جب کسی کی درخواست خدا تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے یا کوئی شخص کسی ابتلا میں محض دین کی خاطر مبتلا ہوتا ہے اور ستایا جاتا ہے.اس وقت دعا 66 کے لئے بے اختیار تحریک پیدا ہوتی ہے.“ اس وقت کسی کو کیا معلوم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا یہ واقعہ حضرت مرزا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۹ بشیر الدین محمود احمد صاحب کے لئے ایک پیشگوئی کا رنگ رکھے گا.حضرت میاں صاحب اس امتحان میں فیل ہوئے اور خدا کے حضور کا میاب ہو گئے.خدا تعالیٰ نے تبلیغ و اشاعت دین کا آپ سے وہ کام لیا.جو آج ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خدا کا شکر اور اس کی حمد ہے کہ ہم اس کے خدام میں داخل ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس اولو العزم کے ارادوں میں برکت دے.آمین بچوں کی تربیت کہانیوں کے ذریعہ عام طور پر بچوں میں کہانیاں کہنے اور سنے کا شوق ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے.خصوصاً حضرت خلیفۃ اسیح ثانی کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کی دلداری نہیں بلکہ تربیت کے خیال سے کہانیاں سننے کی اور دوسروں کو سنانے کی اجازت ہی نہ دیتے تھے.بلکہ خود بھی بعض اوقات سنا دیا کرتے تھے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح کے دوسرے حصہ کے صفحہ ۱۵۵ ( حیات احمد جلد اصفحہ ۲۴۱ تا ۲۴۵ شائع کردہ نظارت اشاعت) پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کہی ہوئی دو کہانیاں درج کی ہیں.پہلی کہانی ایک گنجے اور اندھے کی تھی اس کہانی سے آپ کو یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کرو.اور ان کی قدر کرو.سوالی کو جھڑ کی نہ دو.خیرات کرنا اچھی بات ہے.اور سوالی کو کچھ نہ کچھ دینا چاہیے.اس سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور اپنی دی ہوئی نعمتوں کو بڑھاتا ہے.دوسری کہانی ایک بزرگ اور چور کی تھی.اس کہانی سے آپ کو یہ تعلیم دینی تھی کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو.کہانی کا نتیجہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے کیا کیا نعمتیں ملتی ہیں.اور تقویٰ اختیار کرنے سے کیا دولت نصیب ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھتا ہے کہ دیکھو وہ خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کے رہنے والوں کی پرورش کرتا ہے.وہی پاک اور سچا خدا ہے.جو ہم تم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٧٠ سب کو پالتا ہے.پس اسی سے ڈرو اور اسی پر بھروسہ کرو.اور نیکی اختیار کرو.بہت ممکن ہے کہ آپ نے متعدد کہانیاں سنائی ہوں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بُرے بھلے آدمی کی کہانی بھی آپ سناتے تھے.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک بُرا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا.آخر کار بُرے آدمی کا انجام بُرا ہوا اور اچھے کا اچھا.لیکن میرے علم میں اس وقت تک یہی دو آئی تھیں.جو بچوں کو سنائی تھیں.اسی باب کے تحت میں او پر میں بیان کر آیا ہوں کہ کبھی کبھی بچے بھی آپ کو کہانیاں سنایا کرتے تھے اور آپ بیٹھے ہوئے کہانیاں سنتے اور اکتاتے نہ تھے.آپ کا یہ فعل شوق سے نہ تھا بلکہ محض بچوں کی دلداری اور تربیت کا ایک پہلو اپنے اندر رکھتا ہے.میری مونس زندگی اور غم گسار بیوی شروع ۱۸۹۸ء میں جب میرے ساتھ قادیان آگئی.اور مجھے مطبع اور اخبار کی ضروریات کی وجہ سے کبھی امرتسر جانا پڑتا تو ایک یا دو دن کے لئے حضرت اقدس کے گھر میں اسے میری غیر حاضری میں رہنے کی سعادت حاصل ہوتی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب میرے پاس پڑھنے کے لئے بھی آیا کرتے تھے.اور اس لئے وہ میری اہلیہ کو استانی کہتے.اور کبھی کبھی اس کو کہانی سنانے کے لئے سپارش کراتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ اچھی کہانی سنادینی چاہیے اس سے بچوں کو عقل اور علم آتا ہے میری غرض اس واقعہ کے لکھنے سے یہ ہے کہ حضور بچوں کی دلداری اور تربیت کو بہت مدنظر رکھتے تھے.چونکہ کہانیوں کا ذکر آ گیا ہے میں ایک اور امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کہانی کہنے کی کثرت اور عادت کو آپ پسند نہ فرماتے تھے بلکہ بعض اوقات نہایت لطیف پیرایہ سے روک دیتے تھے.اس کا ذکر میں کسی دوسرے موقعہ پر جہاں آپ کے طرز تعلیم اور قوت قدسیہ کا بیان ہوگا.انشاء اللہ العزیز کروں گا.باوجود یکہ حضور بچوں کی تالیف قلب اور دلداری کے لئے چھوٹی سے چھوٹی بات بھی مان لیتے تھے.مگر کبھی کبھی دینی کام کے پیش آجانے پر ان کے حسب خواہش معمولی کام بھی کرنے سے انکار کر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۱ دیتے تھے.۱۵ فروری ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے کہ ہمارے مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طلباء کا کرکٹ میچ تھا.بچوں کی خوشی بڑھانے کے لئے بعض بزرگ بھی شامل ہو گئے.کھیل میں نہیں.بلکہ نظارہ کھیل کے لئے.اور فیلڈ میں چلے گئے.حضرت اقدس کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میں کہا کہ ہا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے.یہ وہ زمانہ تھا جب آپ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے مقابلہ میں اعجاز المسیح لکھ رہے تھے.بچہ کا سوال سن کر جو جواب دیا وہ آپ کی فطرتی خواہش اور مقصد عظمی کا اظہار کرتا ہے فرمایا.وہ تو کھیل کر واپس آجائیں گے.مگر میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں.جو قیامت تک قائم رہے گا.“ (اخبار الحکم ۲۴ فروری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۰) بچوں کو اس قسم کے کھیلوں میں شریک ہونے سے کبھی نہیں روکتے تھے بلکہ پسند فرماتے تھے.بچوں کی شادی کے متعلق طرز عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ پایا جاتا ہے کہ آپ حالات زمانہ کو مدنظر رکھ کر یہ پسند فرماتے تھے کہ بچوں کی شادی بد و شباب سے کچھ پہلے ہو جاوے.تا کہ جب وہ زمانہ بلوغت میں قدم رکھیں.اور ان کی زندگی میں ایک تغیر کا دور شروع ہو.وہ اپنی رفیقہ زندگی اور مونسہ کو موجود پائیں.چنانچہ آپ نے تمام بچوں کی شادیاں چھوٹی عمر ہی میں کر دی تھیں.گوان کے رخصتانے زمانہ بلوغت میں ہوئے.حضرت ام المومنین (مَتَّعَنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهَا.آمین ) کی روایت سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس طرز عمل کے متعلق حضور کا منشاء صاف کر دیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب نے تم بچوں کی شادیاں تو چھوٹی عمر میں ہی کر دی تھیں مگر اُن کا منشاء یہ تھا کہ زیادہ اختلاط نہ ہوتا کہ نشو و نما
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ میں کسی قسم کا نقص پیدا نہ ہو.“ بچوں پر عام شفقت سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۸۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت اور لطف اپنی اولاد کے ساتھ مخصوص نہ تھا.بلکہ عام طور پر تمام بچوں کے ساتھ تھا.جماعت کے کسی فرد کے ہاں بچہ پیدا ہوتا.تو آپ بہت خوش ہوتے اور اکثر ان کے نام خود تجویز فرمایا کرتے.باہر سے بھی لوگ بچوں کے نام کے متعلق استفسار کرتے.اور حضور نام تجویز فرماتے.خاکسار عرفانی کے دوسرے بیٹے ابراہیم علی، تیسرے لڑکے یوسف علی، چوتھے لڑکے محمد داؤد کے نام اور محمودہ حمیدہ.حامدہ لڑکیوں کے نام حضور نے ہی رکھے تھے.مدرسہ کے غریب سے غریب طالب علم کی بیماری پر بھی آپ کا وہ جوش ہمدردی مشاہدہ کیا گیا ہے جو کم لوگوں کو اپنی اولاد کے لئے بھی نصیب ہوتا ہوگا.آپ بار بار اضطراب سے پھرتے اور دعا مانگتے تھے.اور بار بار حالات پوچھتے تھے.اور اس کی صحت پر آپ کو ایسی خوشی ہوتی جیسے کسی اپنے بچہ کی صحت پر.ایسے بہت سے واقعات ہیں.عبد الکریم صاحب حیدر آبادی اور میاں عبد الرحیم خان صاحب خالد بیرسٹر ایٹ لا تو اس شفقت کے اعجازی نشان ہیں.بچوں کی خوابوں کو بھی آپ نظر انداز نہ فرماتے تھے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل و اخلاق کی جلد اول ( کتاب لھذا) میں آپ کے عادات و معمولات کے ضمن میں صفحہ ۶۶ تا ۶۸ پر " خواب سننے اور سنانے کی عادت کا تذکرہ کیا ہے.اور آپ کے معمولات میں یہ امر واضح ہے کہ آپ بچوں تک کی خواب کو بھی نظر انداز نہ فرمایا کرتے تھے.بلکہ بعض اوقات فرماتے کہ بچوں کا نفس زکیہ ہوتا ہے.اور اس لئے ان کی خواہیں بھی صحیح ہوتی ہیں.اور اس خصوص میں آپ اپنی اولا دہی کی خوابوں تک اس امر کو محدود نہ رکھتے تھے.بلکہ کسی بھی بچہ کی خواب آپ تک پہنچ جاوے.اگر وہ خواب کو ئی حقیقت رکھتی ہے.جس کو حضور خوب سمجھ سکتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۳ تھے.تو نہ صرف اسے نوٹ کر لیتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے.حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی اکثر خوا ہیں آپ بیان فرما دیا کرتے تھے.اور بعض آپ نے اپنی الہامات کی نوٹ بک میں بھی نقل کی ہیں.وہ مشہور و معروف رؤیا (جس کا ذکر حضرت خلیفہ ثانی نے ۱۹۱۴ء کے سالانہ جلسہ پر کیا جو برکات خلافت کے صفحہ ۳۴ لغایت ۳۷ پر درج ہے (انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۱۸۰ تا ۱۸۳ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ).اور جو ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے.سالانہ جلسہ پر حضرت نے دکھائی تھی.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نوٹ بک میں درج ہے.جیسا کہ سب کو معلوم ہے یہ رویا جماعت کے اس تفرقہ اور فتنہ خلافت کے متعلق ہے جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوا.جس کو میں ہمیشہ خلافت کے ساتھ غدر سے تعبیر کیا کرتا ہوں.میں نے خود ہی اس رؤیا کو شمائل کی جلد اول صفحه ۶۲ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد هذا حصہ اول صفحہ ۶۷ تا ۶۸ ) پر درج کر دیا ہے.اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ایک رویا جو دیوار کے متعلق تھی.حضور نے نوٹ فرمائی.غرض اکثر رویا بچوں کی نوٹ کرلیا کرتے تھے.اور بعض کی ان میں سے اشاعت بھی ہو جاتی تھی.غرض آپ بچوں کی رؤیا کو حض لغو اور بے حقیقت قرار دے کر نظر انداز نہ فرما دیا کرتے تھے.یہ ایک مشہور اور شائع شدہ واقعہ ہے کہ جب آپ ۱۹۰۵ء کے زلزلہ عظیمہ کے بعد باغ میں تشریف لے گئے تو مکرمی ڈاکٹر صادق صاحب کے بڑے لڑکے منظور صادق نے ایک رؤیا دیکھی.کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کو سن کر اپنے خاندان کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک بکرا ذبح کیا اور آپ کی اتباع میں ہر شخص نے جو مقدرت رکھتا تھا ہر مبر خاندان کی طرف سے ایک ایک یا کل خاندان کی طرف سے ایک ہی بکرا ذبح کیا.اور اس قسم کی قربانیوں سے خون کی ایک نالی جاری ہو گئی تھی.کم از کم ایک سو بکرا ذبح ہوا ہوگا.عزیز مکرم مفتی منظور صادق کی رؤیا کے مطابق 9 اپریل ۱۹۰۵ء کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تعمیل کے لئے ارشاد فرمایا تو اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا ” مومن کبھی رویا دیکھتا ہے.اور کبھی اس کی خاطر کسی اور کو دکھاتا ہے.ہم نے اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۴ کی تعمیل میں چودہ بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے.سب جماعت کو کہ دو کہ جس جس کو استطاعت ہے.قربانی کر دے.“ (اخبارالبدر۱۳ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم نمبر۳) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ایک رؤیا کا تو او پر ذکر کیا ہے.ان کی ایک اور رویا کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم اپریل ۱۹۰۵ء کو ذکر فرمایا تھا.اور وہ رؤیا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی رؤیا کی تشریح بتائی تھی.اس تاریخ کی ڈائری میں درج ہے.حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب نے اپنا ایک رؤیا سنایا کہ پیر منظور محمد صاحب کہتے ہیں کہ نصرت الحق پورا ہو گیا ہے اور چھپ گیا ہے.یہ خواب صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کے خواب کی تشریح ہے.(میاں شریف احمد صاحب نے یکم اپریل ۱۹۰۵ء کو خواب دیکھا تھا کہ قیامت آگئی ہے اور لوگ آسمان کی طرف اڑ کر جا رہے ہیں.اور دیکھا کہ ایک طرف بہشت ہے.اور ایک طرف دوزخ ہے.کوئی کہتا ہے کہ یہ بہشت تمہارے لئے ہے.مگر ابھی جانے کا حکم نہیں.عرفانی) - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی رؤیا کی تشریح صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کی رؤیا کو بتایا اور فرمایا کہ یہ قیامت نصرت الحق ہے.( یہ براہین احمدیہ جلد پنجم سے مراد ہے.عرفانی) غرض آپ بچوں کے خوابوں کو محض بچے سمجھ کر نظر انداز نہ فرماتے تھے.آپ بچوں کو گود میں اٹھایا کرتے تھے اگر چہ میں اوپر مِنْ وَجْهِ لکھ چکا ہوں.مگر کسی قد رصراحت سے پھر اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.کہ آپ بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے.اور سیر میں بھی اٹھالیا کرتے.اس میں کبھی آپ کو تامل نہ ہوتا تھا.اگر چہ خدام جو ساتھ ہوتے.وہ خود اٹھانا اپنی سعادت سمجھتے.مگر حضرت بچوں کی خواہش کا احساس یا ان کے اصرار کو دیکھ کر آپ اٹھا لیتے اور ان کی خوشی پوری کر دیتے.پھر کچھ دور جا کر کسی خادم کو دے دیتے.صاحبزادی امتہ انصیر کی وفات پر اُن کا جنازہ بھی حضور نے اپنے ہاتھوں پر اٹھایا تھا اور چھوٹے بازار سے باہر نکلنے تک یعنی اڈا خانہ تک حضور ہی اٹھائے ہوئے لے گئے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ تھے.یہ تمام واقعات حضور کی کمال شفقت اور محبت پر دلالت کرتے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ بہ حیثیت باپ کے اپنی اولاد کے ساتھ اکرِ مُوا أَوْلَادَكُمْ“ کے ماتحت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تھا.اور عام طور پر بچوں کے ساتھ آپ اس خلق عظیم کے مظہر تھے.بچوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے بچوں کی ہر قسم کی خوشی کی تقریبوں کو آپ مناتے اور ان میں شریک ہوتے.آمین کے جلسے ہوتے تھے.اور اس تقریب پر سچی اور حقیقی خوشی کا اظہار ہوتا تھا.اور نمونہ دکھایا جاتا تھا.مگر یہ تقریبیں مسنون اور معروف ہوتی تھیں.آپ یہ کبھی پسند نہ فرماتے تھے.کہ ان تقریبات پر کسی قسم کا کوئی ایسا فعل ہو جو خلاف شریعت اور خلاف سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو.بچوں کے عقیقہ کی تقریب تو ان کے بچپن کے ایسے وقت ہوتی ہے کہ ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا.البتہ آمین کی تقریب ایسی تھی کہ وہ محسوس کرتے تھے.اور جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے.ان تقریبوں کی کیفیت اور اس وقت کے جذبات کا اظہار ہر ایک آمین سے ہوتا ہے.حضرت خلیفہ ثانی کی آمین کی تقریب کے بعد پھر تمام بچوں کی آمین کی ایک ہی تقریب تھی.اور ہر دو تقاریب کی آمین شائع شدہ ہے.حضرت نواب صاحب کے بچوں کی آمین کی بھی تقریب ہوئی تھی.اور وہ بچے آپ کے سامنے پیش کئے گئے جنہوں نے قرآن مجید ختم کیا تھا حضور بہت مسرور ہوئے اور دعا فرمائی.اسی طرح صاحبزادہ عبدالحی مرحوم کی آمین اور میاں محمد اسحاق صاحب کی شادی کی تقریب بھی اپنے رنگ میں بہت ہی خوشگوار اور مسرت افزا اتقریبیں تھیں.غرض حضور بچوں کی خوشیوں کی تقریب میں شریک ہوتے تاکہ ان کی خوشی دو بالا ہو جاوے.اور ایسی تقریب کا بابرکت ہو جانا تو ظاہر بات ہے.
ت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حُسن معاشرت میں یہ ایک سے زیادہ مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت کا آئینہ اور صحیح نقشہ ہیں.اور آپ کے حالات و واقعات زندگی میں احمد مکی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر نظر آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت ذات پر جو احسان فرمایا ہے اس کی تجدید عملی اور علمی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہوئی ہے.جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عورت ذات پر ہر قسم کے ستم روا ر کھے جاتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ماموریت سے پہلے بھی وہی حالت ہو چکی تھی.اور مسلمان با وجود قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے سامنے ہوتے ہوئے اس کو عملاً ترک کر چکے تھے.وہ خَيْرُ كُمُ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ" پڑھتے تھے اور عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کی تلاوت بھی کرتے تھے لیکن عملاً اسے منسوخ اور خارج سمجھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے پھر اس تعلیم کو زندہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم اس خصوص میں دی ہے وہ کشتی نوح اور دوسری تصنیفات میں درج ہے.اور یہاں اس کا درج کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل کو دکھانا ہے." پہلی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مشیت ایزدی کے ماتحت دو دفعہ شادی کرنے کا اتفاق ہوا.پہلی شادی آپ کی بعثت کے زمانہ سے پہلے ہوئی.جبکہ ابھی آپ کسی حیثیت سے بھی پبلک میں نہ آئے تھے.میں نے آپ کے سوانح حیات (حیات النبی نام کتاب ” موجودہ نام حیات احمد ) میں لکھتے ہوئے پہلی شادی کے متعلق لکھا ہے کہ
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خسر اول آپ کے ماموں تھے اور وہ قادیان ہی میں رہتے تھے.اس خاندان کے ساتھ آپ کے خاندان کے تعلقات دیرینہ چلے آتے تھے کیونکہ وہ خاندان صحیح النسب ہونے کے لحاظ سے ممتاز اور مُشَارٌ إِلَیہ تھا.اگر چہ دولت واقبال کے لحاظ سے وہ اس خاندان کے ساتھ کوئی لگا نہیں کھاتا تھا.تاہم وہ چیز جو خاندانی شرافت اور نجابت کے لئے ضروری سمجھی گئی ہے.اس میں موجود تھی.مرزا جمعیت بیگ صاحب آپ کے ماموں اور خسر یہاں قادیان میں ہی رہتے تھے.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کی تجویز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نکاح ہو گیا.کوئی دھوم دھام اور کوئی رسم آپ کے نکاح میں عمل میں نہ آئی.“ اسی سلسلہ میں میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم اس وقت کے حالات کے موافق ہر قسم کے رسوم کے پابند تھے.چنانچہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی شادی میں اس کا نمونہ نظر آتا ہے.مگر قدرت الہی کا کرشمہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کے وقت خود بخودان رسوم خلاف شریعت میں سے ایک بھی ہونے نہیں پائی.یہ تصرف الہی تھا.چونکہ آپ مامور ہونے والے تھے.اگر اس وقت آپ کے متعلق کوئی رسم ایسی ہو بھی جاتی تو آپ عند اللہ اور عند الناس بری الذمہ ہوتے.کیونکہ آپ کے ایماء یا اشارہ سے نہ ہونی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے اس پہلو سے بھی آپ پر اعتراض نہ ہونے دیا.غرض یہ شادی نہایت سادگی اور بغیر کسی دہوم دھام کے ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر جہاں تک واقعات سے پتہ ملتا ہے اس وقت پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی.اُس عہد کا طریق تمدن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی ہوئی ہے تو عام طور پر شرفاء اور رؤسا کا طریق تمدن اس قسم کا تھا کہ کل خاندان ایک ہی جگہ رہتا تھا.اور سب کے لئے ایک ہی باورچی خانہ میں کھانا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ پکتا.البتہ رؤسا اور امراء کے ہاں رہنے کے مکانات بڑے بڑے ہوتے.اور اس طرح پر خاندان کے شادی شدہ ممبران جدا جدا ہی اپنے کمروں میں رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان جیسا کہ سب کو معلوم ہے ایک نہایت ممتاز اور معزز خاندان تھا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر قسم کی آسائش اور آرام میسر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت پہلے سے خلوت نشینی کی تھی.اور عام طور پر آپ کے اوقات عبادت و توجہ الی اللہ اور مطالعہ دینی میں گزرتے تھے.اور آپ دنیا اور اس کی دلفریبیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت ہی نہ پاسکتے تھے.حضرت مسیح موعود کا طرز عمل میں ایک شعور اور یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اختیار میں ہوتا اور آپ سے شادی کے متعلق مشورہ لیا جاتا.تو شاید آپ ابھی اس کے لئے آمادگی ظاہر نہ کرتے.اور انکار کر دیتے.مگر آپ ماں باپ کے نہایت ہی سعادت مند اور اطاعت گزار فرزند تھے.اس لئے جب حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم نے تجویز کی اس پر راضی ہو گئے اور کوئی عذر نہیں کیا.چونکہ خاندان کی ضروریات کا انتظام بڑے مرزا صاحب کے ذریعہ ہوتا تھا اور حضرت مائی صاحبہ (سیدہ چراغ بی بی رضی اللہ عنہا) حضرت کی والدہ گھر کا انتظام فرماتی تھیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوئی خاص اہتمام اس خصوص میں کرنا نہ پڑتا تھا.اور آپ اپنے مشاغل دینیہ کو جاری رکھتے ہوئے معاشرہ کے فرائض کو بھی ادا کر رہے تھے.اس زمانہ میں کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا.کہ آپ نے اپنے گھر میں کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا ہو.جہاں تک آپ کے امکان میں تھا اور جن امور کا تعلق آپ کی ذات سے تھا.حسن معاشرت کے پہلو اور خَیرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِہ کی تعلیم کو ہمیشہ مد نظر رکھا.اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے دو صاحبزادے خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب حال پینشنز ڈپٹی کمشنر ) اور مرحوم مرز افضل احمد صاحب عطا فرمائے.اس کے بعد آپ کا دینی شغل دن بدن بڑھتا گیا اور آپ کی توجہ روحانی علوم اور منازل سلوک طے کرنے کی طرف ترقی کرتی گئی اور آپ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس شغل میں اس قدرمنہمک ہو گئے کہ ۳۷۹ دنیا سے آپ کی توجہ بالکل جدا ہوگئی پھر تالیفات کا سلسلہ غیر مذاہب کے لیڈروں اور معترضین اسلام کے اعتراضات کے جوابات اور مباحثات کا سلسلہ شروع ہو گیا.اور کامل طور پر آپ اسی میں مصروف ہو گئے.اس عرصہ میں آپ حسن سلوک اور شفقت کے کسی پہلو کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.اسی اثناء میں خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت آپ کو دوسری شادی کرنے کا اتفاق ہوا.کن حالات میں وہ شادی ہوئی.اور کیا اسباب پیدا ہوئے.اس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ سوانح حیات میں کروں گا.یہاں یہ ذکر محض سلسلہء واقعات کی زنجیر کےطور پر کیا ہے.غرض جب دوسری شادی ہوگئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دوستم کی ذمہ داریاں عائد ہو گئیں.یعنی پہلی اور دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حالت بالکل اور ہو چکی تھی.خاندانی تمدن اور طریق بود و ماند میں تبدیلی واقعہ ہو چکی تھی.ایک خاندان مشترکہ دو خاندانوں پر منقسم ہو گیا تھا.اس وقت حالات نے ایک اور پلٹا کھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بالکل اذن و امر الہی کے ماتحت ہوگئی.آپ کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی وحی خفی کے ماتحت ہونے لگا.اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلقات پہلی بیوی کے ساتھ جہاں تک ضروریات زندگی کا تعلق ہے بہت اچھے تھے.آپ ان کی ضروریات کا تکفل فرماتے.اور با قاعدہ اخراجات دیتے رہتے تھے.دوسری شادی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رعایت انصاف اور عدل کا احساس کامل فرمایا.حضرت ام المومنین کی اپنی روایت اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح پرلکھی ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرز افضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر بھیجے دی ماں“ کہا کرتے تھے بے تعلقی ہی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۰ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں....ہاں آپ اخراجات وغیرہ با قاعدہ دیا کرتے تھے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو میں گنہ گار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاؤں گا.انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں.“ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۴۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء) یہ عمل بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جاری رہا.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے با علام الہی اپنے بعض رشتہ داروں اور عزیزوں پر (جو دین سے نہ صرف غافل اور بے پرواہ تھے.بلکہ بعض ان میں سے استخفاف شریعت میں دلیر اور استہزاء کرنے میں بے باک تھے ) اتمام حجت کے لئے محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی کا اظہار کیا.اس سے طبعی طور پر مخالفت بھڑک اٹھی.اور آپ کی اہلیہ اول نے بھی ان رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیرت دینی سے کام لیا.آپ کا تعلق دین کے معاملہ میں کسی سے اس کی مخالفت کی صورت میں نہ رہ سکتا تھا.باوجود ہر قسم کی ہدایت و فہمائش کے جب ایسے مخالفوں سے قطع تعلق نہ کیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار بہ عنوان نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین“ شائع کیا اور خود قطع تعلق کا اعلان کر دیا.لیکن باوجود اس بے تعلقی اور علیحدگی کے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی شفقت عامہ اور پاس رشتہ سابقہ کے باعث حضرت ام المومنین کو وقتاً فوقتاً ان کے ساتھ سلوک کرنے سے یہی نہیں کہ منع نہیں کیا بلکہ من وجه ارشاد بھی فرما دیا تھا.چنانچہ حضرت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ام المومنین اس روایت میں فرماتی ہیں.کہ ۳۸۱ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی.واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ بھیجے کی ماں بیمار ہے اور یہ یہ تکلیف ہے.آپ خاموش رہے.میں نے دوسری دفعہ کہا تو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارہ کنایہ مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی.“ 66 (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۴۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حسن معاشرت پر جامع بیان حضرت مخدوم الملت کے قلم سے دوسری شادی جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے اذن اور وحی کے ماتحت ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ برس تک اس شادی کے بعد زندہ رہے.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق اس شادی کے لئے آپ ہر قسم کا سامان فرمایا اور اس کو بار آور اور موجب برکات اور بہت سے نشانات کا ذریعہ بنایا.آج بھی ہم خلافت ثانیہ کے عہد میں اسی کے برکات سے بہرہ اندوز ہیں.۲۵ سال کا زمانہ ایک لمبا زمانہ ہے.اور ایک شخص کی سیرت اور معاشرت کے پر غور مطالعہ کے لئے کافی سے بہت زیادہ ہے.حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ نے ایک جامع بیان آپ کی حسن معاشرت پر لکھا ہے.میں اسے یہاں دے دینا کافی سمجھتا ہوں اور یہ تو ایک خاکہ اور ابتدائی داغ بیل گویا قصر سیرت کی ہے.پیچھے آنے والی نسلیں خدا جانے کس قدر شاندار محل اور عمارتیں حضرت کی سیرت کے متعلق تیار کریں گی.قبل اس کے کہ میں حضرت مخدوم الملت کا بیان درج کروں ایک امر کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین کو شعائر اللہ میں سے سمجھتے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۲ تھے.اس کی تائید میں ایک واقعہ اور حضرت کے اپنے ارشاد کو درج کر دینا ہی کافی ہے.یہ واقعہ حضرت ڈاکٹر صادق نے بیان کیا ہے.ایک دن کا ذکر ہے کہ کسی دیوار کے متعلق حضرت ام المومنین کی رائے تھی کہ یوں بنائی جائے اور مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ کی رائے اس کے خلاف تھی.چنانچہ مولوی صاحب موصوف نے حضرت اقدس سے عرض کیا.تو آپ نے فرمایا.خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی.اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے.اس لئے میں اسے شعائر اللہ سے سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں.اور جو وہ کہے مان لیتا ہوں.“ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان اور تعظیم لامر اللہ وشعائر اللہ کے راز پر بھی روشنی ڈالتا ہے.اب میں ان اقتباسات کو دے دیتا ہوں جن کا اوپر ذکر کیا ہے.وو پہلے میں حضرت خلیفتہ اللہ کی معاشرت کی نسبت کچھ لکھتا ہوں اس لئے کہ سب سے بڑی اور قابل فخر اہلیت کسی شخص کی اس سے ثابت ہوتی ہے کہ اہلِ بیت سے اس کا تعلق اعلیٰ درجہ کا ہو اور اس کا گھر اس کی قوت انتظامی اور اخلاق کی وجہ سے بہشت کا نمونہ ہو جس کی بڑی سے بڑی تعریف یہی ہے کہ وہاں دلوں کی تپش اور جلن اور رنج اور کدورت اور غل اور حسد کے محرکات اور موجبات نہ ہوں گے.خدا تعالیٰ کی حکیم کتاب میں آیا ہے.وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء :٢٠) اور اس حکیم کتاب کا عملی نمونہ ہمارے سید ومولا رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم ) فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ، یعنی تم میں سے افضل اور خیر و برکت سے بھرا ہوا وہی ہے جس کی رفتارا اپنے اہل سے خیر و برکت کی ہے.عرصہ قریب پندرہ برس کے گذرتا ہے (اب قریباً ۴۲ برس ہوتے ہیں.عرفانی ) جب سے حضرت نے بار دیگر خدا تعالیٰ کے امر سے معاشرت کے بھاری اور نازک فرض کو اٹھایا ہے.اس اثنا میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۳ کوئی بشر خیال کر سکتا ہے کہ ضعیف اور کم علم جنس کی طرف سے اتنے دراز عرصہ میں کوئی ایسی ادا یا حرکت خلاف طبع سرزد نہ ہوئی ہوگی.تجر بہ اور عرف عام گواہ ہے کہ خانه نشین ہم پہلو کی طبعی اور جہالت سے کیسے کیسے رنج وہ امور کے مصدر ہوا کرتے ہیں.با ایں ہمہ وہ ٹھنڈا دل اور بہشتی قلب قابل غور ہے.جسے اتنی مدت میں کسی قسم کی رنج اور تنغض عیش کی آگ کی آنچ تک نہ چھوئی ہو.وہ کڑوا گوشت کا ٹکڑا جو تمام زہروں کا مخزن اور ہر قسم کے غل اور حسد اور کینہ اور عداوت کا منشا ہے اور جو اس عالم میں دوزخ در بغل ہے اگر کسی شخص سے قطعاً مسلوب نہ ہو چکا ہو اور خدائے قدوس کے دستِ خاص نے اس کا تزکیہ تطہیر اور شرح صدر نہ کیا ہو تو خیال میں آسکتا ہے کہ اس پر پیچ و تاب اور آتش ناک زندگی میں ایسے سکون اور وقار اور جمعیت سے زندگی بسر کر سکے؟ ایک ہی خطرناک اور قابل اصلاح عیب ہے جو سارے اندرونی فتنوں کی جڑ ہے.وہ کیا؟ بات بات پر نکتہ چینی اور چڑ.اور یہ عیب ایسے مقبض اور تنگ دل کی خبر دیتا ہے کہ جس کی نسبت بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ عالم میں دم نقد دوزخ میں ہے.دس برس سے میں بڑی غور اور نکتہ چینی کی نگاہ سے ملاحظہ کرتا رہا ہوں اور پوری بصیرت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت اقدس کی جبلت پاک میں شیطان کے اس مس کا کوئی بھی حصہ نہیں.میں خود اپنے اوپر اور اکثر افراد پر قیاس کر کے کہہ سکتا ہوں کہ یہی اعتراض اور نکتہ چینی اور حرف گیری اور بات بات میں چڑ چڑا پن کی فطرت ہے جس نے بہتوں کے آرام اور عیش کو مکدر کر رکھا ہے اور ہر ایک شخص جس کی ایسی طبیعت ہے اور قلیل اور بہت ہی قلیل ہیں جو اس عیب سے منزہ ہیں ) اس کھا جانے والی آگ کے فوری اثر کو محسوس کرتا اور گواہی دے سکتا ہے کہ بالآخر یہی فطرت ہے جو تمام اخلاقی مفاسد کی اصل اصول ہے.اور اس سے زیادہ خدا اور مخلوق کے حقوق کی تباہی کی بنیاد
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ باندھنے والی کوئی شے نہیں اور بالآخر یہی تلخی آفرین طبیعت ہے جس نے اس عالم کو دار الکدورت اور بیت الحن بنارکھا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی کتاب حکیم نے جہاں چاہا ہے کہ اُس دوسرے عالم کا دار السلام اور بیت السرور ہونا ثابت کرے اور اس کی قابل رشک خوشیوں اور راحتوں کا نقشہ بالمقابل اس عالم کے دکھائے ان الفاظ سے بہتر تجویز نہیں فرمائے.وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِّنْ غِلٌ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِينَ (الحجر : ۴۸) یعنی بہشت میں وہ قوت ہی انسانوں کے سینہ سے ہی نکال ڈالی جائے گی جو عداوتوں اور کینوں اور ہر قسم کے تفرقوں کی موجب ہوتی ہے.جس شخص میں اس وقت وہ موجود نہ ہو ہم صاف کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسی عالم میں بہشت بریں کے اندر ہے.اور چونکہ یہ قوت ایک چشمہ کی طرح ہے اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ اور اخلاق کس پایہ اور کمال کے ہوں گے.اس بات کو اندرون خانہ کی خدمت گار عورتیں جو عوام الناس سے ہیں اور فطری سادگی اور انسانی جامہ کے سوا کوئی تکلف اور تصنع کی زیر کی اور استنباطی قوت نہیں رکھتیں.بہت عمدہ طرح سے محسوس کرتی ہیں.وہ تعجب سے دیکھتی ہیں اور زمانہ اور اپنے اور اپنے گردو پیش کے عام عرف اور برتاؤ کے بالکل بر خلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں، اور میں نے بارہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مر جائیوی دی گل بڑی مندا ہے.ایک دن خود حضرت فرماتے تھے.”فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.اور فرمایا کہ ”ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.“ ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضرت اس بات سے بہت کشیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا:
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے“ ۳۸۵ اس بد مزاج دوست کا واقعہ سن کر آپ معاشرت نسواں کے بارے میں دیر تک گفتگو کرتے رہے اور آخر میں فرمایا.میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے.اور با ایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.“ مجھے اس بات کے سننے سے اپنے حال اور معرفت اور عمل کا خیال کر کے کس قدر شرم اور ندامت حاصل ہوئی بجز خدا کے کوئی جان نہیں سکتا.میری روح میں اُس وقت میخ فولادی کی طرح یہ بات جاگزیں ہوئی کہ یہ غیر معمولی تقویٰ اور خَشْيَةُ الله اور دقائق تقویٰ کی رعایت معمولی انسان کا کام نہیں ورنہ میں اور میرے امثال سینکڑوں اسلام اور اتباع سنت کے دعوے میں کم لاف زنی نہیں کیا کرتے اور اس میں شک نہیں کہ متعمد بے باک اور حدود الہیہ سے متکبرانہ تجاوز کرنے والے بھی نہیں.تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ قوت قدسیہ اور تیز شامہ ہمیں نہیں ملی یا اور عوارض کے سبب سے کمزور ہو گئی ہے.ہم بڑی سے بڑی سعادت اور اتقا اس میں سمجھتے ہیں کہ موٹے موٹے گنا ہوں اور معاصی سے بیچ رہیں اور بڑے ہی بین اور مرئی گناہوں کے سوا دقائق معاصی اور مشتبہات کی طرف ہم التفات نہیں کرتے.یہ خورد مبین کامل ایمان اور کامل عرفان اور کامل تقویٰ سے ملتی ہے جو حضرت اقدس امام الزمان علیہ السلام کو عطا ہوئی ہے اور میں نے اُس وقت لسان اور جنان کے نیچے اتفاق سے کہا اور تسلیم کیا کہ اگر اور ہزاروں باہرہ حجتیں آپ کے منجانب اللہ ہونے پر جو آفتاب سے زیادہ درخشاں ہیں نہ بھی ہوتیں جب بھی یہی ایک بات کہ غیر معمولی تقویٰ اور خَشْيَةُ اللہ آپ میں ہے کافی دلیل تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۶ بڑے بڑے مرتاض صوفیوں اور دنیا وما فیہا سے دل برداشتگی اور واسوختگی کے اشعار وردِ زبان رکھنے والے زاہدوں اور بڑے بڑے اتباع کے مدعیوں اور علماء سوء کو دیکھا گیا ہے کہ جلوت میں ابنائے دنیا کے حضور گر بہ مسکین کی طرح بیٹھتے ہیں اور ہر ایک دقیقہ کے بعد سر اٹھا کر اور سینہ ابھار کر ایک آہ سر دبھر دیتے ہیں اور مشتاقان بخن کے انتظار شدید کے بعد بھی زبان پاک کو کلام سے اگر چہ موزوں اور برمحل کیوں نہ ہو آلودہ نہیں کرتے گھر میں بدمزاج اور گرگ و پلنگ ہیں.ہندوستان میں ایک نامی گرامی سجادہ نشین ہیں لاکھ سے زیادہ اُن کے مرید ہیں اور خدا کے قرب کا انہیں دعویٰ بھی بڑا ہے ان کے بہت ہی قریب متعلقین سے ایک نیک بخت عورت کو کچھ مدت سے ہمارے حضرت کے اندرون خانہ میں رہنے کا شرف حاصل ہے.وہ حضرت اقدس کا گھر میں فرشتوں کی طرح رہنا، نہ کسی سے نوک ٹوک، نہ چھیڑ چھاڑ جو کچھ کہا گیا اس طرح مانتے ہیں جیسے ایک واجب الاطاعت مطاع کے امر سے انحراف نہیں کیا جاتا ان باتوں کو دیکھ کر وہ حیران ہو ہو جاتیں اور بارہا تعجب سے کہہ چکی ہیں کہ ہمارے حضرت شاہ صاحب کا حال تو سراسر اس کے خلاف ہے.وہ جب باہر سے زنانہ میں آتے ہیں ایک ہنگامہ رست خیز بر پا ہو جاتا ہے.اس لڑکے کو گھور ، اُس خادمہ سے خفا ، اس بچہ کو مار ، بیوی سے تکرار ہو رہی ہے کہ نمک کھانے میں کیوں زیادہ یا کم ہو گیا، یہ برتن یہاں کیوں رکھا ہے اور وہ چیز وہاں کیوں دھری ہے، تم کیسی پھوہڑ ، بد مذاق اور بے سلیقہ عورت ہوا ور کبھی جو کھا ناطبع عالی کے حسب پسند نہ ہو تو آگے کے برتن کو دیوار سے شیخ دیتے ہیں اور بس ایک کہرام گھر میں بچ جاتا ہے.66 عورتیں بلک بلک کر خدا سے دعا کرتی ہیں کہ شاہ صاحب باہر ہی رونق افروز رہیں.“ سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ ۱ تا ۱۸) اگر کبھی کوئی خاص فرمائش کی ہے کہ وہ چیز ہمارے لئے تیار کر دو اور عین اس وقت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۷ کسی ضعف یا عارضہ کا مقتضا تھا کہ وہ چیز لازم تیار ہوتی اور اس کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا اور کبھی کبھی جو لکھنے یا توجہ الی اللہ سے نزول کیا ہے تو یاد آ گیا ہے کہ کھانا کھانا ہے اور منتظر ہیں کہ وہ چیز آتی ہے آخر وقت اس کھانے کا گزر گیا اور شام کے کھانے کا وقت آگیا ہے اس پر بھی کوئی گرفت نہیں.اور جونرمی سے پوچھا ہے اور عذر کیا گیا ہے کہ دھیان نہیں رہا تو مسکرا کر الگ ہو گئے ہیں.اللہ اللہ ادنی خدمت گار اور اندر کی عورتیں جو کچھ چاہتی ہیں پکاتی کھاتی ہیں اور ایسا تصرف ہے کہ گویا اپنا ہی گھر اور اثاث البیت ہے.اور حضرت کے کھانے کے متعلق کبھی ذہول اور تغافل بھی ہو جائے تو کوئی گرفت نہیں کبھی نرم لفظوں میں بھی یہ نہ کہا کہ دیکھو یہ کیا حال ہے تمہیں خوف خدا کرنا چاہیے.یہ باتیں ہیں جو یقین دلاتی ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سچ ہے کہ میں اپنے رب کے ہاں سے کھا تا اور پیتا ہوں.اور حضرت امام علیہ السلام بھی فرماتے ہیں.من می زدیم بوحی خدائے کہ با من است پیغام اوست چون نفسِ روح پرورم حقیقت میں اگر یہ سچ نہ ہو تو کون تاب لا سکتا ہے اور ان فوق العادت فطرت رکھنے والے انسانوں کے سوا کس کا دل گردہ ہے کہ ایسے حالات پر قناعت کر سکے.مجھے یاد ہے کہ حضرت لکھ رہے تھے ایک خادمہ کھا نا لائی اور حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کہ کھانا حاضر ہے.فرمایا کیا خوب مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں آواز دینے کو تھا وہ چلی گئی اور آپ پھر لکھنے میں مصروف ہو گئے.اتنے میں کتا آیا اور بڑی فراغت سے سامنے بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتنوں کو بھی خوب صاف کیا.اور بڑے سکون اور وقار سے چل دیا.اللہ اللہ ان جانوروں کو بھی کیا عرفان بخشا گیا ہے وہ کتا اگر چہ رکھا ہوا ترجمہ.میں تو اس خدا کی وحی کے سہارے جیتا ہوں جو میرے ساتھ ہے اس کا الہام میرے لئے زندگی بخش سانس کی طرح ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ اور سدھا ہوا نہ تھا.مگر خدا معلوم اسے کہاں سے یہ یقین ہو گیا کہ یہ پاک وجود بے شر اور بے ضرر وجود ہے اور یہ وہ ہے کہ جس نے کبھی چیونٹی کو بھی پاؤں تلے نہیں مسلا.اور جس کا ہاتھ کبھی دشمن پر بھی نہیں اٹھا.غرض ایک عرصہ کے بعد وہاں ظہر کی اذان ہوئی.تو آپ کو پھر کھانا یاد آیا.آواز دی خادمہ دوڑی آئی عرض کیا کہ میں تو مدت ہوئی کھانا آپ کے آگے رکھ کر آپ کو اطلاع کر آئی تھی اس پر آپ نے مسکرا کر فرمایا.اچھا تو ہم شام کو ہی کھائیں گے.حضرت کی زوجہ محترمہ آپ سے بیعت ہیں اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر صدق دل سے ایمان رکھتی ہیں.سخت سے سخت بیماریوں اور اضطراب کے وقتوں میں جیسا اعتماد انہیں حضرت کی دعا پر ہے کسی چیز پر نہیں.وہ ہر بات میں حضرت کو صادق و مصدوق مانتی ہیں.جیسے کوئی جلیل سے جلیل صحابی مانتا ہے.اُن کے کامل ایمان اور راسخ اعتقاد کا ایک بین ثبوت سنئے.عورتوں کی فطرت میں سوت کا کیسا بُرا تصور ودیعت کیا گیا ہے.کوئی لگتا 66 بھیا نک قابل نفرت چیز عورت کے لئے سوت سے زیادہ نہیں.عربی میں سوت کو حضرہ “ کہتے ہیں حضرت کی اُس پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے جو ایک نکاح کے متعلق ہے اور جس کا ایک حصہ خدا کے فضل سے پورا ہو چکا ہے اور دوسرا دور نہیں ( خدا تعالیٰ نے اس حصّہ کو دوسرے رنگ میں پورا کر دیا.عرفانی) کہ خدا کے بندوں کو خوش کرے.حضرت بیوی صاحبہ مکرمہ نے بار ہا رو رو کر دعائیں کی ہیں اور بار ہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ گو میری زنانه فطرت کراہت کرتی ہے مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت اور جھوٹ کا زوال وابطال ہو.ایک روز دعا مانگ رہی تھیں.حضرت نے پوچھا آپ کیا دعامانگتی ہیں؟ آپ نے بات سنائی کہ یہ مانگ رہی ہوں.حضرت نے فرمایا.سوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے آپ نے فرمایا.کچھ ہی کیوں نہ ہو مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ باتیں پوری ہو جائیں خواہ میں ہلاک کیوں نہ ہو جاؤں.برادران ! یہ ایمان تو میں مسلمانوں کے مردوں میں بھی نہیں دیکھتا.کیا ہی مبارک ہے وہ مرد اور مبارک ہے وہ عورت جن کا تعلق باہم ایسا سچا اور مصفا ہے اور کیا بہشت کا نمونہ وہ گھر ہے جس کا ایسا مالک اور ایسے اہل بیت ہیں.میرا اعتقاد ہے کہ شوہر کے نیک و بد اور اس کے مکار اور فریبی یا راستباز اور متقی ہونے سے عورت خوب آگاہ ہوتی ہے.حقیقت میں ایسے خلا ملا کے رفیق سے کون سی بات مخفی رہ سکتی ہے میں ہمیشہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بڑی محکم دلیل سمجھا اور مانا کرتا ہوں آپ کے ہم عمر اورمحرم راز دوستوں اور ازواج مطہرات کے آپ پر صدق دل سے ایمان لانے اور اس پر آپ کی زندگی میں اور موت کے بعد پورے اثبات اور وفاداری سے قائم رہنے کو.صحابہ کو ایسی شامہ اور کامل زیر کی بخشی گئی تھی کہ وہ اس محمد میں جو اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہتا اور اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جو إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعًا کہتا.صاف تمیز کرتے.وہ بے فخش اخوان الصفا اور آپ کی بیبیاں جیسے اس محمد سے جو بشر محض ہے ایک وقت انبساط اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے اور کبھی کبھی معمولی کاروبار کے معاملات میں پس و پیش اور ر دو قدح بھی کرتے ہیں اور ایک وقت ایسے اختلاط اور موانست کی باتیں کر رہی ہیں کہ کوئی حجاب حشمت اور پردہ تکلف درمیان نہیں وہی دوسرے وقت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل یوں سرنگوں اور متأدب بیٹھے ہیں گو یا ٹھے ہیں جن پر پرندے بھی بے باکی سے گھونسلا بنا لیتے ہیں اور تقدم اور رفع صوت کو آپ کے حضور میں حَبطِ اَعمال کا موجب جانتے ہیں اور ایسے مطیع و منقاد ہیں کہ اپنا ارادہ اور اپنا علم اور اپنی رسم اور اپنی ہوا امر رسول کے مقابل یوں ترک کر دیتے ہیں کہ گویا وہ بے عقل اور بے ارادہ کٹھ پتلیاں ہیں ایسی مخلصانہ اطاعت اور خودی اور خود رائی کی کینچلی سے صاف نکل آنا ممکن نہیں جب تک دلوں کو کسی کے بچے بے ریا اور منجانب اللہ زندگی کا زندہ یقین پیدا نہ ہو جائے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں حضرت اقدس کو آپ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ کی بی بی صاحبہ صدق دل سے مسیح موعود مانتی ہیں اور آپ کی تبشیرات سے خوش ہوتی اور انذارات سے ڈرتی ہیں.غرض اس برگزیدہ ساتھی کو برگزیدہ خدا سے سچا تعلق اور پورا اتفاق ہے.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۲۹ تا ۳۳) حسن معاشرت کا نتیجہ اس حسن معاشرت کے اثر اور نتیجہ کے اظہار کے لئے سیرت اُم المومنین میں بہترین مقام ہوسکتا ہے.مختصراً ان الفاظ پر غور کرو جو حضرت اُم المومنین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر فرمائے.اور میں نے اپنے کانوں سے سنے.اور خدا کے فضل سے سب سے اول ان کی اشاعت کی.جب حضرت مسیح موعود کا جسد خاکی لاہور سے لا کر باغ میں رکھا ہوا تھا.خاکسار عرفانی بعض دوسرے دوستوں ( سیکھواں والے بھائی) کے ساتھ جنازہ کی حفاظت پر مامور تھا.حضرت ام المومنین تشریف لائیں اور فرمایا.تو نبیوں کا چاند تھا تیرے ذریعہ میرے گھر میں فرشتے اترتے تھے اور خدا کلام کرتا تھا.اس وقت کو دیکھو اور غور کرو کہ ایسے حالات میں تصنع اور بناوٹ نہیں رہ سکتی.اس فقرہ سے نمایاں ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے اہل بیت سے کس طرح معاشرت کرتے تھے.اور آپ کے دعاوی کی صداقت کس طرح حضرت ام المومنین کے دل میں جا گزیں تھی.حضرت ام المومنین (مَتَّعْنَا اللَّهُ بِطُولِ حَيَاتِهَا.آمین ) کی خاطر داری حضور کو بہت منظور تھی اور اس کی وجہ وہی ہے.جو حضور نے خود بیان فرمائی.کہ وہ ان کو شعائر اللہ میں سے سمجھتے تھے.حضرت ام المومنین بھی آپ کی راہ میں بہ حیثیت خدا تعالیٰ کے مرسل و مہدی ہونے کے فدا تھیں.اور ہر قسم کی مالی قربانیوں کے لئے آمادہ رہتی تھیں.جب حضرت مسیح موعود کو سلسلہ کے اغراض و مقاصد کے لئے ضرورت ہوئی تو حضرت ام المومنین نے اپنے مال کو آپ کے قدموں میں ڈال دیا اور حضرت مسیح موعود نے حج کا ارادہ فرمایا ہوا تھا.لیکن خدا کی مشیت نے آپ کو فرصت نہ دی.حضرت ام المومنین نے اپنے پاس سے روپیہ دے کر حج بدل کے لئے ایک آدمی کو بھیجا اور حضرت کے وصال کے بعد حج کرایا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ ایک مرتبہ سیٹھی جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب والے مکان کی دیوار کے ساتھ تھی.اس کی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی.اور اسے اس بالا خانہ کی دیوار کے ساتھ رکھنا تھا.جس میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے اور نیچے مولوی سید محمد احسن صاحب رہتے تھے.مولوی محمد احسن صاحب وہاں رکھنے کے مخالف تھے کہ میرے حجرہ کو اندھیرا ہو جائے گا.اور حضرت ام المومنین کا حکم تھا کہ وہاں رکھی جاوے.حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ نانا جان یہ انتظام کر رہے تھے.اور ان کو اس کے لئے بڑی جد و جہد کرنی پڑی.آخر ان کے مزاج میں گرمی تھی.اور جہیر الصوت تھے.انہوں نے زور زور سے بولنا شروع کیا.اور اس وقت مولوی سید محمد احسن صاحب کو کہہ رہے تھے.کہ یہ سیڑھی یہاں ہی رہے گی.وہ بھی اونچی آواز سے انکار اور تکرار کر رہے تھے.حضرت صاحب باہر تشریف لے آئے اور پوچھا کیا ہے؟ میر صاحب نے کہا مجھ کو اندر سیدانی (ام المومنین ) آرام نہیں لینے دیتی.اور باہر سید سے پالا پڑ گیا ہے.نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتی ہیں.میں کیا کروں.حضرت مسیح موعود نے مسکرا کر فرمایا.مولوی صاحب آپ کیوں جھگڑتے ہیں.میر صاحب کو جو حکم دیا گیا ہے ان کو کرنے دیجیئے.روشنی کا انتظام کر دیا جاوے گا.آپ کو تکلیف نہیں ہوگی.اور اس طرح پر حضرت ام المومنین کے ارشاد کی تعمیل ہوگئی.غرض کبھی اور کوئی موقعہ ایسا نہیں آیا کہ آپ نے حضرت ام المومنین کی کبھی دل شکنی کی ہو.آخری سفر جو حضور نے لا ہور کا فرمایا.اور جس میں حضور کا وصال ہو گیا.وہ بھی حضرت ام المومنین ہی کی خاطر کیا گیا تھا.کیونکہ حضرت سیدہ کی طبیعت ناساز تھی.اور علاج کے لئے لاہور ہی کا مشورہ دیا گیا تھا.اور آخر یہ سفر سفر آخرت ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ مساوات ومواسات خدا تعالیٰ کے نبیوں کا یہ بھی ایک خاصہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کسی قسم کا امتیاز ہمدردی عامہ کے سلسلہ میں روانہیں رکھتے.اور انسانیت کے شرف کو کچلتے نہیں.بلکہ اسے قائم کرتے ہیں.ان کی نظر میں رنگ اور ذات اور ملک و قوم کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا.بلکہ وہ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِین ہوتے ہیں.اس لئے کہ رب العالمین کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں.اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل درست ہوتا ہے کہ ان کے ہاں کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا.ہر ملک اور ہر بستی و ہر قوم کے لوگ یکساں ہوتے ہیں.اور نہ مال اور نسب یا کسی اور وجہ سے کوئی امتیاز کرتے ہیں.جو چیز ان کی نظر میں کسی کو ممتاز بناتی - ہے.وہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ نے باعث امتیاز قرار دی ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ.یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی مکرم و معظم ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.محض وہ علوم وفنون میں کمال اور قابلیت کو باعث تکریم نہیں سمجھتے.بلکہ اس قسم کے بتوں کولوگوں کے دلوں سے نکالنا چاہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علم کی حقیقت اور اس کا معیار ایک شعر میں بیان کر دیا ہے علم آن بود که نور فراست رفیق اوست اس علم تیرہ را بہ پشیزے نے خرم غرض انبیاء کی بعثت کی یہ بھی ایک غرض ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اخلاص اور وفا کے سبق پڑھا کر مساوات کی سطح پر لے آئیں.اور ان لوگوں کو جو دنیا کے عرفی امتیازات کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں چھوٹے اور ذلیل ہوتے ہیں.اٹھا کر معزز اور بڑے بنادیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میں جب ہم اس پہلو سے غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ قوم کی تربیت اسی اصول پر کرنے میں پورے کامیاب ہوئے.اور ما وتو کے امتیازات اٹھا کر ایک وحدت آپ نے پیدا کر ترجمہ.علم تو وہ ہے کہ فراست کا نور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.اس تاریک علم کو تو میں ایک کوڑی کا بھی نہیں خریدتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۳ دی.آپ کی تعلیمات میں تو اس کے متعلق بہت سی تصریحات آئی ہیں.اور مختلف موقعوں پر آپ نے اپنے خدام کو اس کی طرف متوجہ کیا.مگر سب سے بڑھ کر جو بات تھی وہ آپ نے اپنی عملی زندگی میں اس اصول کو دکھایا.اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مساوات کی ایک لہر جماعت میں پیدا ہو چکی ہے.اور وہ اپنے اثرات کو اس قدر وسیع کر رہی ہے.کہ ہندوستان کے وہ مسلمان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی نادانی سے مخالفت کرتے تھے.اس ضرورت کا احساس کر رہے ہیں.اور تنظیم کے نام سے مساوات عامہ کی تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ان واقعات کو دکھاتا ہوں.جو عملی مساوات کا سبق دینے والے تھے.یہ سب جانتے ہیں کہ دوسروں کو حقیر سمجھنے یا اپنے برابر نہ جاننے کے لئے جو عملی صورتیں اس وقت مروج ہیں.وہ یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست - طریق تخاطب و کلام اور با ہم خورد ونوش اور باہم رشتہ داری کے معاملات میں مساوات کا برتاؤ نہیں کیا جاتا.مثلاً کھانا کھانے بیٹھتے ہیں.تو جس شخص کو حقیر یا چھوٹا سمجھتے ہیں.اس کو اپنے ساتھ بٹھانے سے مضائقہ کریں گے.اور جب اس کو پکاریں گے تو کسی عزت کے کلمہ سے خطاب نہ کریں گے.بلکہ او.تو.وغیرہ کے کلمات استعمال کریں گے.علی ہذا القیاس.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے طرز عمل سے بتایا کہ یہ باتیں فضول ہیں.اور آپ نے کبھی اور کسی حال میں اس قسم کے برتاؤ کو جائز نہ سمجھا.کھانا کھاتے وقت کوئی امتیاز نہ کرتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب تک یہ معمول تھا کہ آپ باہر اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے کبھی آپ نے یہ امتیاز نہ کیا کہ کون آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے.اور نہ کبھی کسی کومحض اس وجہ سے اٹھانے کو جائز سمجھا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں.یا وہ ان پڑھ زمیندار یا کسی اور قوم کا آدمی ہے.آپ کے دستر خوان پر ہر شخص آزادی کے ساتھ جہاں چاہتا بیٹھ جاتا.ایک شخص خا کی شاہ نام راہوں کا رہنے والا ایک وقت یہاں رہا کرتا تھا.اس کی عادت تھی کہ جب کھانا لا یا جاتا وہ کو دکر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ حضرت کے قریب جا بیٹھتا.میں نے دیکھا کہ اگر وہاں جگہ تنگ ہے تو حضرت خود ایک طرف کو کھل کر بیٹھ جاتے.اور اس کو جگہ دے دیتے.وہ ایک معمولی آدمی تھا.دنیا کے عرف کے لحاظ سے اپنی قوم یا شہر میں کوئی امتیازی درجہ اس کو حاصل نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دن بھی یہ نہ کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو.گو بعض لوگ اس کی اس حرکت کو نا پسند کرتے مگر حضرت نے کبھی اس کو نا پسند نہ فرمایا.جب کبھی آپ باہر جاتے تو آپ کے خدام جو ساتھ ہوتے.ان کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھاتے اور یہ پسند ہی نہ کرتے کہ وہ الگ کھا ئیں.میرے محترم بھائی حضرت منشی عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مجھے ہوشیار پور کا ایک واقعہ سنایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور نے اپنے صاحبزادہ کی شادی پر مدعو فرمایا، اس سفر میں آپ کے ساتھ میر عباس علی لود بانوی حافظ حامد علی صاحب اور خود منشی صاحب موصوف حضور کے ہمراہ تھے.شیخ مہر علی صاحب نے عرف عام کے موافق یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ رؤسا کے لئے کھانے کا الگ انتظام تھا.یعنی ان کے لئے ایک خاص کمرہ رکھا ہوا تھا.جہاں تمام بڑے بڑے رئیس کھانا کھاتے تھے.اور ان کے خدام اور نوکروں کے واسطے ایک جدا مکان تھا.یعنی کھانے کے انتظام پر وہ اس قسم کا امتیاز کرتے تھے.اور اس کو ہتک سمجھتے تھے کہ رئیسوں کے ساتھ ان کے نوکر بیٹھ کر کھانا کھاویں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کو جائز نہ سمجھتے تھے.اس لئے آپ کا معمول یہ تھا کہ جب کھانے کے لیے آپ تشریف لے جاتے اور اس خاص کمرے کے دروازہ پر جاتے.تو آپ باہر کھڑے ہو جاتے.اور اپنے ہر سہ رفقاء کو خود اپنے سے پہلے داخل فرماتے اور جب تک وہ داخل نہ ہولیں باہر کھڑے رہتے.اور پھر دستر خوان پر ان کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر آپ درمیان میں تشریف رکھتے تا کہ ان کو کوئی تکلیف نہ ہو.اور وہ آزادی اور بے تکلفی سے کھانا کھا لیں.یہ قابل غور امر ہے ایسے موقعہ پر بالطبع انسان اپنے شرف اور رتبہ کے اظہار کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اپنے عمل سے، طرز کلام سے دوسروں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی ہے.اور دوسرے اس کے نوکر اور غلام ہیں.یہ آج کی بات نہیں.بلکہ آج سے قریباً چالیس بیالیس برس پیشتر کا واقعہ ہے جبکہ اس قسم کے عرفی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ امتیازات پر لوگ مرتے تھے.اور پرانے فیشن کے لوگ تو اب تک اس کے دلدادہ اور گرویدہ ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تقریب پر جبکہ پنجاب کے قریباً تمام بڑے بڑے رئیس اور اہلکار موجود تھے اپنے طرز عمل سے.مساوات کا سبق دیا اور بتایا کہ انسانیت کے شرف کو قائم رکھنے کے لئے اس قسم کے امتیازات کو مٹا دینا چاہیے.یہ نظیر اگر پائی جاتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں کہ آپ نے اسود و احمر کے سوال کو اڑا دیا.چھوٹے اور بڑے کے امتیاز آقا اور نوکر کے تفرقہ کو مٹا کر سب کو بھائی بھائی بنا دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانیت کے گم شدہ شرف کو قائم کیا.اور امتیاز ذات وقوم کو اٹھا کر صرف مسلمان کے نام میں سب کو شریک کر کے ایک کر دیا.یہ تو آپ کے طرز عمل کا میں نے وہ واقعہ بیان کیا ہے جہاں عاد تا لوگ اس قسم کی جرات کر ہی نہیں سکتے.اور وہ پسند ہی نہیں کرتے کہ کسی چھوٹے آدمی کو ( بخیال خویش ) اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائیں.یہاں قادیان میں تو آپ کا گھر تھا.اور کسی موقع کو بھی اس اخلاق فاضلہ کی تعلیم اور ترویج سے جانے نہ دیتے تھے.خواجہ صاحب کو دال ملی اور ہماری شکایت ہوئی ایک موقعہ پر جب کہ سالانہ جلسہ تھا خاکسار عرفانی اور مفتی فضل الرحمن صاحب مہمانوں کے کھانے وغیرہ کے انتظام کے لئے مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف الفاظ میں ہدایت فرمائی کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو.اور تمام کو ایک ہی قسم کا کھانا دیا جاوے.انتظام کے ماتحت ایک وقت دال پکتی تھی اور سب مہمانوں کو دال ہی پیش کی گئی.خواجہ کمال الدین صاحب (آہ جو معلوم کر کے سب کچھ محروم ہو گئے ہیں.عرفانی) مرغن پلاؤ اور گوشت کھانے کے شوقین تھے.ان کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ بھی حسب معمول دال پیش کی گئی.مولوی محمد علی صاحب کی نظر میں ہمارا یہ جرم نا قابل عفو تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور مفتی فضل الرحمن کی شکایت ہوئی کہ انہوں نے خواجہ صاحب کو دال دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حقیقت معلوم تھی آپ نے فرمایا کہ میرے حکم سے ایسا ہوا ہے اور سب کو دال دی گئی ہے.ایسا ہی ایک دوسرے موقعہ پر حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب والے مکان میں کھانے کا انتظام ہم کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوپر سے خود نگرانی فرماتے تھے.جناب مولوی غلام حسن صاحب پشاوری ( جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے خسر ہیں ) کے لئے ہم نے چاہا کہ خاص انتظام کریں اور ان کے لئے پلاؤ وغیرہ پکوانے کا انتظام کیا اور حضرت کی خدمت میں اس رشتہ کے تعلق کی وجہ سے خاص انتظام کرنے کا باعث پیش کیا.مگر حضور نے پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ نہایت نا مناسب ہے وہ سب کی طرح مہمان ہیں جو سب کو ملے گا وہی ان کو دیا جائے گا.“ غرض کسی ایسے مرحلے اور موقعہ پر حضور ایسا امتیاز جائز نہ رکھتے.ہاں جب کبھی خاص طور پر کوئی شخص آتا یعنی سالانہ جلسہ یا کسی ایسی ہی تقریب کے سوا آتا تو حضرت ان کی ضرورتوں کا خاص طور پر بھی لحاظ رکھتے لیکن دستر خوان پر سب کو ایک ہی قسم کا کھانا ملتا.اگر فرق ہوتا تو صرف ایسا کہ مثلاً ایک شخص صرف چاول کھاتا ہے اور روٹی کھانے کا عادی نہیں تو اس کے لئے چاول ہی آتے.اس امر کا حضرت مسیح موعود" خاص طور پر التزام فرماتے اور لحاظ رکھتے جیسا کہ میں اکرام ضیف کے باب میں بیان کر آیا ہوں.ایسے امتیازات جو دوسروں کی حقارت یا دل شکنی کا موجب ہوں یا اصول مساوات کے خلاف ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام سلوک میں کبھی جائز نہ سمجھتے تھے.اور نہ آپ نے ان کو رائج ہونے دیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۷ طریق خطاب میں احترام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عام طریق خطاب تھا کہ کبھی کسی کو تو یا اؤ کے لفظ سے نہیں پکارتے تھے.میں نے ہمیشہ اس امر کو غور سے مطالعہ کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ آپ سے گویا فطرتاً سرزد ہوتا ہے کہ دوسروں کو عزت و احترام سے پکار ہیں.حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ اپنے تجربہ کی بناء پر فرماتے ہیں.آپ اپنے خدام کو بڑے ادب اور احترام سے پکارتے ہیں اور حاضر و غائب ہر ایک کا نام ادب سے لیتے ہیں.میں نے بارہا سنا ہے اندر اپنی زوجہ محترمہ سے آپ گفتگو کر رہے ہیں اور اس اثناء میں کسی خادم کا نام زبان پر آ گیا ہے تو بڑے ادب سے لیا ہے جیسے سامنے لیا کرتے ہیں.کبھی تو کر کے کسی کو خطاب نہیں کرتے تحریروں میں جیسا آپ کا عام رویہ ہے ” حضرت اخویم مولوی صاحب اور اخویم حبی فِی اللہ مولوی صاحب اسی طرح تقریر میں بھی فرماتے ہیں.”حضرت مولوی صاحب یوں فرماتے تھے.میں نے اکثر فقراء اور پیروں کو دیکھا ہے وہ عار سمجھتے ہیں اور اپنے قدر کی کا وش خیال کرتے ہیں اگر مرید کوعزت سے یاد کریں.کیسر شاہ ایک رند بے باک فقیر تھا اس کا بیٹا کوئی ۲۴ یا ۲۵ برس کی عمر کا تھا سخت بے باک شراب خوار اور تمام قسم کی منہیات کا مرتکب تھا وہ سیالکوٹ میں آیا.شیخ اللہ داد صاحب مرحوم محافظ دفتر جو شہر میں معزز اور اپنی ظاہری وجاہت کے سبب سے مانے ہوئے تھے بدقسمتی اور علم دین سے بے خبر ہونے کے سبب سے اُس کے باپ کے مرید تھے.وہ لڑکا آپ کے مکان میں اتر امیں نے خود دیکھا کہ وہ شیخ صاحب سے جب مخاطب ہوتا ان ہی لفظوں میں ہوتا اللہ داد بھائی توں ایہ کم کرناں.“ غرض بڑے بڑے شیخ اور پیر دیکھے گئے ہیں انہیں ادب اور احترام سے اپنے متوسلین کے نام لینا گویا بڑی بدکاری کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے.میں نے اتنے دراز عرصہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ میں کبھی نہیں سنا کہ آپ نے مجلس میں کسی ایک کو بھی تو کر کے پکارا ہو یا خطاب کیا ہو.“ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه ۴۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس طرز عمل اور اسوہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت مخدوم الملت نے ایک نکتہ معرفت لکھا ہے.چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور آپ کے شائل و اخلاق کو اسی نیت سے لکھ رہا ہوں کہ ہم میں عملی روح پیدا ہو کر ہم تزکیہ، قلوب اور تہذیب نفس کی نعمت حاصل کر سکیں.اس لئے حضرت مخدوم الملت نے جو نکتہ معرفت عمل کے لئے لکھا ہے اسے درج نہ کرنا اصل مقصد کو فوت کر دینا ہوگا.الطَّريقَةُ كُلُّهَا آدَبٌ افسوس بہت سے ہنوز اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ادب کس قدر پاکیزگی اور طہارت دلوں میں پیدا کرتا اور اندر ہی اندر محبت کا بیج بو دیتا ہے وہ اپنے نفسوں کو مغالطہ دیتے ہیں جب خیال کرتے ہیں یا منہ سے کہتے ہیں کہ وہ آپس میں بے تکلف دوست ہیں.اگر وہ پاک جماعت بننا چاہتے ہیں اور مبارک دنوں کے امیدوار ہیں تو آپس میں چھوٹے بڑے کا امتیاز اٹھاویں اور ذات پات اور شریف و وضیع کے خیال کو پاؤں تلے مسل ڈالیں اور ہر ایک سے رو بروادب واحترام سے پیش آئیں اور غیبت میں ادب سے نام لیں اور ذکر کریں اس وقت یوں ہو گا کہ خداوند کریم وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلْ الآية (الحجر: ۴۸) کا مصداق انہیں بنادے گا اور وہ دنیا کے لئے شہداء اور مصلح ہوں گے.“ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفر ۴۳) مریدین اور متوسلین سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عمل اسی عہد اخوت کی بنا پر تھا جس کا حضور نے شرائط بیعت میں اعلان فرمایا تھا.دوسرے پیروں کی طرح وہ مریدین کو اپناز رخرید غلام نہیں سمجھتے تھے.اگر چہ ہر مرید آپ کی غلامی کو ہی عزت اور مایہ افتخار یقین کرتا ہے مگر آپ اصول مساوات کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ توڑنا پسند نہ فرماتے تھے اور شرف انسانیت کی گمشدہ متاع کو پھر واپس لانا چاہتے تھے.وہ لوگ جو آپ کے تنخواہ دار ملازم اور نوکر تھے ان کے ساتھ بھی آپ کا سلوک اسی قسم کا تھا جیسا کہ میں مناسب مقامات پر اس کا ذکر کر آیا ہوں.رشتہ ناطہ میں بھی آپ نے امتیاز نہیں رکھا تمدنی پہلو کے لحاظ سے رشتوں ناطوں کا بھی ایک معاملہ ہے.اس موقعہ پر بھی انسان اپنی قوم کے تعصبات کو ترک نہیں کرتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عملی طور پر اپنے صاحبزادوں اور صاحبزادی کے رشتوں کے سلسلہ میں دکھا دیا کہ آپ صرف نبی پابندیوں میں پھنسنا پسند نہیں فرماتے تھے.آپ نے ان تمام رشتوں میں اخلاص.صدق.نیکی اور تقویٰ کے امور کوملحوظ خاطر رکھا.گو یہ امر دوسرا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان رشتوں میں عرفی شرافتوں اور بزرگیوں کو بھی جمع کر دیا.میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ حضور نے رشتوں ناطوں کو اپنی قوم کو مغلوں تک محدود نہ رکھا.ایک بھی رشتہ مغلوں میں نہ کیا اس میں صرف آپ کو ذات پات کے بند ہنوں کو کاٹنا مقصود تھا اور جماعت میں مساوات کی ایک لہر پیدا کر دینا آپ کے زیر نظر تھا.اور جو تعلیم عملی رنگ میں دی جاوے وہ زیادہ مؤثر نتیجہ خیز ہوتی ہے.یہ نسبت ایسی تعلیم کے جو محض تقریروں یا تحریروں کی حد سے آگے نہ جانے پاوے.حضور فرمایا کرتے تھے از عمل ثابت کن آں نوری که در ایمان تست ☆ دل چو دادی یوسفے را راہِ کنعاں را گزین خدا تعالیٰ کی مخلوق سے عام ہمدردی کا جذبہ خدا تعالیٰ کے مامور و مرسلین کی بعثت کی غرض ہی اس کی مخلوق کی ہمدردی ہوتی ہے اور وہ ہمدردی میں کچھ ایسے خمیر کئے جاتے ہیں کہ انہیں دوسروں کے لئے اپنی جان دے دینی آسان معلوم ہوتی حملہ ترجمہ.اس نور کو جو تیرے ایمان میں ہے اپنے عمل سے ثابت کر جب تو نے یوسف کو دل دیا تو کنعان کا رستہ بھی اختیار کر.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰ ہے.اس ہمدردی کا پہلا اور آخری مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے دور افتادہ بندے اس سے عہد صلح باندھ کر حقیقی عبودیت کے مقام پر کھڑے ہو جاویں اور ان میں زند ہ اور گناہ سوز ایمان پیدا ہو جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی فطرت اور رُوح ہمدردی کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:٢) یعنی اے نبی کیا تو اپنے آپ کو (اس ہم و غم میں ) ہلاک کر لے گا کہ یہ لوگ مومن نہیں ہوتے.جس جس قدر ان کی زندگی کا مطالعہ کریں گے ان کے ہر فعل اور قول میں انسانی ہمدردی کی روح موجود ہوگی.اور کسی وقت بھی وہ اس مقصد کو اپنے سامنے سے اوجھل نہیں ہونے دیتے.اور اس راہ میں ہر دکھ اور ہر قربانی کو آسان سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین لکھتے وقت اسی جوش اور جذبہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا بدل در دیکه دارم از برائے طالبان حقیقی نے گردد بیاں آں درد از تقریر کوتا ہم اور آپ کی زندگی کے مختلف شعبوں اور شیون میں اسی جذبہ کا عملی اظہار نظر آتا ہے.وہ اپنے سے سلوک کرتے ہیں تو اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ ان کی بھلائی اور بہتری کے لئے.غیروں سے باوجود گالیاں سننے اور دکھ اور تکلیف پر تکلیف محسوس کرنے کے ان کے لئے دعائیں کرتے اور حتی الوسع اخلاقی اور مادی مدد سے بھی دریغ نہیں کرتے.میں اسی سیرت میں دکھا آیا ہوں کہ جاں ستاں دشمنوں کے ساتھ بھی آپ کا سلوک کیسا کریمانہ اور ہمدردانہ تھا.وہ اپنے سخت سے سخت دشمنوں کو بھی ایسے وقت جب کہ انہیں انتقام لینے کا پورا موقع اور مقدرت حاصل تھی معاف کر دیتے تھے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ پادری مارٹن کلارک جس نے اقدام قتل کا جھوٹا مقدمہ آپ پر دائر کیا تھا، کو با جود یکہ عدالت اقدام باجود نے کہا کہ آپ کو ان پر مقدمہ چلانے کا حق ہے.معاف کر دیا.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ( جواسی مقدمہ میں خطر ناک گواہ بن کر آیا تھا اور حضرت کا جائز حق تھا کہ اسے رسوا اور ذلیل ہونے دیا ترجمہ.وہ درد جو میں طالبانِ حق کے لئے اپنے دل میں رکھتا ہوں.اُس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ جاتا مگر اس حالت میں بھی حضور نے پسند نہ کیا کہ اُس پر سوالات جرح میں ایسے سوالات کیے جاویں جن سے اس کی زندگی تلخ ہو جاوے.اس قسم کی متعدد اور بیسیوں مثالیں ہیں.مختلف لکھنے والے انہیں جمع کر دیں گے.المختصر ان لوگوں کی ہمدردی ایک نمونہ اور اُسوہ ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہمدردی عامہ کا سب سے بڑا اور عام مظاہرہ یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہر شخص کے لئے جو آپ کو لکھتا دعا کرتے.اور ان دعاؤں کے متعلق آپ کا جو معمول تھا وہ حیرت انگیز تھا.چنانچہ حضور نے ۲۶ جنوری ۱۹۰۸ ء کو ایک مجلس میں بعض لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا.حضرت مسیح موعود کی ہمدردی دعا کے رنگ میں ”جو خط آتا ہے.میں اُسے پڑھ کر اُس وقت تک ہاتھ سے نہیں دیتا جب تک دعا نہ کرلوں کہ شاید موقع نہ ملے یایاد نہ رہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس طرز عمل پر غور کرو.کہ حضور کی خدمت میں سینکڑوں خطوط آتے تھے اور آپ جیسا کہ فرماتے ہیں کسی خط کو ہاتھ سے نہیں دیتے تھے.جب تک کہ اس کے متعلق دعا نہ کریں.غور کرو.کہ کس قدر موتیں یہ وجود ہر روز اپنے اوپر وارد کرتا ہوگا.اپنے کسی ذاتی فائدہ کے لئے نہیں کسی دنیوی متاع اور مقصد کے واسطے نہیں محض دوسروں کی بھلائی اور فلاح کے لئے یہ فطرت اور یہ سیرت کیا کسی ایسے شخص کومل سکتی ہے جو خدا کا مرسل نہ ہو.ہم جانتے ہیں اور خود ہمارے اعمال اس امر کی شہادت ہیں کہ بسا اوقات ہم دوسروں کے خطوط کے جواب تک بھی نہیں دیتے.مگر یہ کیسا دل اور کیسی روح ہے.کہ دوسروں کی ہمدردی میں اس قدر سوز اور فلق اپنے اندر پیدا کرتا ہے.دعاؤں کے متعلق حضور نے بار ہا فرمایا کہ ” منگے سومر رہے“.یعنی حالت دعا کو پیدا کرنے کے لئے موت کو اپنے اوپر وارد کرنا ہوتا ہے.جو دوسروں کے لئے دعا کا اس قدر جذ بہ اپنے اندر رکھتا ہے.اس کی ہمدردی کا نقشہ دکھانا قطعاً ناممکن ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عامہ ہمدردی کے دوسرے مناظر اور واقعات ہم نہ بھی پیش کریں تو صرف آپ کا یہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ ارشاد اور آپ کا طرز عمل اس خصوص میں آپ کو لا نظیر قرار دیتا ہے.ہمدردی کی یہ خصوصیت نہایت ہی اعلیٰ درجہ اور صفائی کا مل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود میں پائی جاتی تھی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا تھا.اور پھر وہی جو ہر آپ کے بروز اور ظل حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں نظر آتا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہمدردی جو عام نوع انسان سے ہی نہیں بلکہ خلق اللہ سے تھی.اس کے متعلق میں ایک اور پہلو سے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.اور ہر قلب سلیم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس پر غور کرے کہ خلق اللہ کا یہ غمخوار کس بلند مقام پر کھڑا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گوشہ نشینی کی محبت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر تھی.آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے کی حضرت کی مجھے ایک تحریریلی ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا خلاصہ اور مغز ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے متعلق سوال کیا ہے.تو اس عالمہ اور فقیہ خاتون نے کیا لطیف جواب فرمایا.کہ حضرت کی سیرت قرآن کریم ہے.حقیقت میں یہ بڑا پر معرفت اور بلیغ جواب ہے.کیونکہ قرآن مجید کی تعلیم جس اعلیٰ اور اصفی مقام پر واقع ہوئی ہے.اس کی وحی نازل نہیں ہوسکتی.جب تک کہ اسی شان اور مرتبہ کا قلب نہ ہو.یہ ایک نکتہ معرفت ہے.جس پر بہت کچھ غور کرنے کی ضرورت ہے.یہ تحریر جس کا میں نے ذکر کیا ہے میں نے اس کو پڑھا تو اس لذت اور خوشی کا اظہار نہیں کر سکتا جو میرے دورانِ خون کے ساتھ تمام بدن میں پھیل گئی.اور میں یقین کرتا ہوں کہ آپ جب پڑھیں گے تو ایک تو اجد کی کیفیت آپ کے اندر ضرور پیدا ہو جاوے گی کہنے کو یہ ایک فقرہ ہے مگر اس کی تفسیر اور شرح سینکڑوں نہیں ہزاروں صفحات لکھوانا چاہتی ہے.حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ الْمَسَاجِدُ مَكَانِى وَ الصَّالِحُونَ إِخْوَانِى وَ ذِكْرُ اللَّهِ مَالِي وَ خَلْقُ اللَّهِ عَيَالِي میرا مکان مسجدیں ہیں ، اور صالحین میرے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ذکر میر امال و دولت ہے اس کی مخلوق میرا کنبہ ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۳ دوستو ! خدا کے لئے غور کرو.اور دنیا کے اس عظیم الشان وسیع الحوصلہ کا پتہ دو کہنے کو یہ چار فقرے ہیں.مگر ان کے اندر جس قدر معارف اور حقائق کا ذخیرہ ہے.میں یا آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.اس قلب کی وسعت حوصلگی کا اندازہ کرو جو کہتا ہے خَلْقُ اللَّهِ عَيَالِی “ دنیا کی ساری مخلوق کو جو اپنا کنبہ سمجھتا ہے.اس کی ہمدردی ، رحم، چشم پوشی ، انکساری مروت کی کوئی حد بھی ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں.جیسے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ ہے وہ رب العالمین ہے.اسی طرح پر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود کی شان سے دنیا میں نازل ہوا.خَلْقُ اللہ کو اپنا عیال قرار دیتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا.مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: ۱۰۸) اسی طرح احمد قادیان اپنے قلب کی کیفیت بیان کرتا ہے.اس چھوٹے سے سینہ میں کائنات عالم کے لئے ہمدردی کا دریا موجزن ہے.اس قدر وسعت قلب اور مواسات کا جذبہ کسی انسان میں پیدا نہیں ہوسکتا.جب تک کہ وہ خدا کے اپنے ہاتھوں سے پاک وصاف نہ کیا گیا ہو.اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و رحمت عامہ کی تجلی ہر وقت اس پر سایہ میگن نہ ہو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی ایک بھی مخلوق ایسی نہ تھی.جس سے حضرت مسیح موعود کو ہمدردی اور محبت نہ ہو.آج سے ساٹھ سال پیشتر جب انہوں نے اپنے قلب کا مطالعہ کر کے یہ فقرہ لکھا ہوگا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اسے اپنے مامور ہونے کا وہم بھی تھا.نہیں یہ وہی بات ہے جو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرح صدر کے متعلق پیش آئی.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا الَم نَشْرَحُ لَكَ صَدْرَكَ (الشرح:۲) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرح صدر کر دیا.اس میں کوئی بغض اور کینہ کسی سے باقی نہ رکھا گیا.یہ حضرت مسیح موعود کی اس وحی الہی کے ایک جز و کی تفسیر ہے جو آپ کو دَنَا فَتَدَلی کے الفاظ میں ہوئی.یہ کیفیت فتدلی کی ہے.دنا صعود تھا.یہ نزول ہے.یہ حالت اُس وقت میسر آتی ہے جب نفوس قدسیہ خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے فیوض الہی کو جذب کر چکنے کے بعد مخلوق کی محبت تامہ کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ باعث ان فیوض کو مخلوق تک پہنچاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو وَجَدَكَ عَائِلًا فرمایا ، اس کی حقیقت بھی یہی ہے.پس یہ فقرہ جو ساٹھ سال پہلے آپ نے اپنے قلب کی حالت کی بنا پر لکھا تھا.آج اس کی شرح کے لئے دفاتر کی ضرورت ہے.پھر انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ دنیا کے مال وزر اور ذخارف کو چاہتا ہے.اس فطرت کا نقشہ قرآن مجید کی اس آیت میں خوب بیان کیا ہے.جہاں فرمایا کہ لوگوں کی فطرت میں یہ بات خوش نماد کھائی گئی ہے کہ اموال اور عورتیں اور گھوڑے وغیرہ پسند کرتے ہیں.لیکن انبیاء علیہم السلام اور ان کے رنگ میں رنگین لوگوں کی حالت اس سے بالکل الگ اور جدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ذِكُرُ الله مالی میرا مال و متاع اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے.حقیقت میں جس قوم کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ذکر اللہ اکبر دنیا کی تمام عظمتوں اور شوکتوں کے مقابلہ میں رفعت و عظمت اگر ہے تو وہ ذِکرُ اللہ ہی کے لئے ہے.پھر اس فانی مال و دولت کے لئے خدا کے ہاتھوں سے معطر اور مسموع کئے ہوئے قلوب کب اس کی طرف جا سکتے ہیں.سُورہ جمعہ کے اس مقام پر غور کرنے سے ایک لطیفہ معلوم ہوتا ہے کہ مومنوں کو ذکر اللہ کی طرف سعی کرنے کا ارشاد ہوا اور پھر ایک حالت یہ بتائی کہ جب لوگ تجارت یا لہو کو دیکھتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یا آپ کے خلفاء اور نواب کو چھوڑ کر ادھر متوجہ ہو جاتے ہیں.اس لئے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ مال و دولت جو تجارت کا نتیجہ ہے یا وہ خوشی اور عارضی مسرت جواہو کا نتیجہ ہے وہ نہ روح کی پرورش کا ذریعہ ہیں نہ جسم کی بلکہ وہ ذکر اللہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو خَیرُ الرَّازِقِین سے تعلق پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے.قرآن کریم کے دوسرے مقام پر فرمایا أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:(۲۹) حقیقی سکینیت واطمینان ذکر اللہ ہی سے پیدا ہوتا ہے.پس حضرت مسیح موعود نے جو اپنی قلبی کیفیت کو کاغذ پر عیاں کیا ہے.اس سے آپ کے اطمینانِ قلب اور سکینت کی حالت عیاں ہے.لوگ اطمینانِ قلب کے لئے تڑپتے اور دنیا میں ہزاروں پاپڑ بیلتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اطمینان اور سکیت کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ جس اعلیٰ مقام پر ہیں.کیا کوئی اس کی نظیر پیش کر سکتا ہے.پھر ایک طرف ہمدردی اور مروت کا تقاضا یہ ہے کہ خدا کی ساری مخلوق کو اپنا کنبہ قرار دیا ہے.انسان اپنے کنبہ کی پرورش اور نگرانی میں بُرے بھلے کی تمیز نہیں کرتا.اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ اپنی صفت ربوبیت میں مومن و کافر اور زندقہ.انسان و حیوان کا تفرقہ نہیں کرتا لیکن جیسے محبت اور تعلق خاص صفات اور خوبیوں کی پروا کی جاتی ہے جیسے معیت کے متعلق فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا و الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل : ۱۲۹) اسی طرح صادق اور خدا پرست انسان باوجود یکہ ایک طرف کل مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور مروت کے لئے اپنے قلب کو وسیع پاتا ہے لیکن دوسری طرف خدا تعالیٰ کی محبت اور تعلق کے لئے پھر اس مخلوق میں قربانی کا سلسلہ شروع کرتا ہے.چنانچہ ہر بہتر کے لئے ادنیٰ کو قربان کرتا چلا جاتا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے اخوت کے لئے صالحین کو منتخب کیا.ہر شخص کے چال چلن اخلاق اور مرغوبات کا پتہ اس کے دوستوں سے مل سکتا ہے.اب جو ہستی صرف صالحین سے محبت کرتی ہے.اور انہیں اخوت کے مقام پر رکھتی ہے اس کی صلاحیت کا اندازہ ہوسکتا ہے.قرآن مجید نے مومن کو اِخْوَةٌ کا درجہ دیا ہے.اور مومن کا ادنی درجہ صالح ہے.صالح وہ ہوتا ہے جس میں کسی قسم کا فساد باقی نہیں ہے.صالح غذا و ہی کہلاتی ہے جس میں کوئی نقص نہ ہو.پس صالح وہی مومن رہتا ہے جس کے اعتقادات صحیح کے مطابق اعمال ہوں یہ صلاحیت بطور بیج کے ہوتی ہے.پھر جس قدر انسان اس میں ترقی کرتا ہے وہ ایمانی مدارج میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ وہ شہدا ء صد یقین اور مبین کے مقام کو علی قدر مراتب پالیتا ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک آپ کی ہمدردی ایسی عام اور وسیع ہے آپ اخوت اور محبت کے تعلق صرف ان لوگوں سے رکھنا پسند کرتے تھے جو صالح اور ہر قسم کے فساد سے پاک ہوں.میرے دوستو! کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم ہر ایک قسم کے فساد سے پاک ہو کر صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں.اور ہمارے تعلقات اخوت صرف اسی زمرہ سے ہوں جو صالحین کا زمرہ ہے.جولوگ کسی نہ کسی رنگ میں نظام احمدیت کو دھکا لگاتے ہیں.اور شیرازہ کو جو ہمیشہ سے ایک امام کے ذریعہ جو خدا
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۶ کی کتاب کی اصطلاح میں حَبلُ اللہ کہلاتا ہے توڑتے ہیں.وہ خواہ کتنے ہی زور سے نَحْنُ مُصْلِحُونَ کہیں.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مجید حمید کتاب انہیں مصلح نہیں مفسد قرار دیتی ہے.آپ کی وسعت قلب اور ہمدردی عامہ کے لئے جو میں نے آپ کے ایک ماٹو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے وہ آپ کے اس خلق کی ایک نامکمل تصویر سے زیادہ نہیں.آپ کی ساری زندگی اس کی عملی تفسیر تھی.واقعات کی ایک فہرست اس خصوص میں پیش کی جاسکتی ہے.بلکہ مجھے تو یہ کہنا چاہیے کہ آپ کا ہر قول اور ہر فعل اسی ہمدردی کا ظہور تھا.آپ کی بعثت آپ کی تبلیغ آپ کا پند و نصیحت کرنا.سب اسی ہمدردی عامہ کا ظہور تھا.چنانچہ فرماتے ہیں.ان کی خیر خواہی اور ہمدردی ہمارے دل میں اس قدر بھری ہوئی ہے کہ نہ زبان کو طاقت ہے ☆ کہ بیان کرے اور نہ قلم کو قوت ہے کہ تحریر میں لاوے.“ (1) بدل در دے کہ دارم از برائے طالبانِ حق نے گردد بیاں آن درد از تقریر کو تا ہم (۲) دل و جانم چناں مستغرق اندر فکر اوشان است کہ ئے از دل خبر دارم نه از جان خود آگا ہم (۳) بدین شادم که غم از بهر مخلوق خدا دارم از میں در لذتم کز در دمے خیز د زدل آہم (۴) مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمتِ خلق است ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسم ہمیں راہم (۵) نه من از خود نهم در کوچه پند و نصیحت پا که همدردی برد آنجا به جبروز ور و اکراهم ترجمہ اشعار.(۱) وہ درد جو میں طالبان حق کے لئے اپنے دل میں رکھتا ہوں اس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.(۲) میری جان و دل ان لوگوں کی فکر میں اس قدر مستغرق ہے کہ مجھے نہ اپنے دل کی خبر ہے نہ اپنی جان کا ہوش ہے.(۳) میں تو اس پر خوش ہوں کہ مخلوق خدا کا غم رکھتا ہوں اور اس کے باعث میرے دل سے جو آہ نکلتی ہے اس میں مگن ہوں.(۴) میرا مقصود اور میری خواہش خدمت خلق ہے یہی میرا کام ہے ، یہی میری ذمہ داری ہے، یہی میرا فریضہ ہے.(۵) میں نے اپنی مرضی سے وعظ و نصیحت کے کوچہ میں قدم نہیں رکھا بلکہ مخلوق کی ہمدردی مجھے زبر دستی کھینچے لئے جارہی ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ (1) غم خلق خدا صرف از زبان خوردن چه کار است این گرش صد جاں بپاریزم هنوزش عذر می خواہ تم (۷) چوشام پر غبار و تیره حال عالمی بینم خدا بر وے فرود آرد دعا ہائے سحر گا ہم اس ہمدردی عامہ کا ذکر اور مخلوق خدا کے لئے مواسات کے جوش کا اظہار ایک ہی مرتبہ آپ نے نہیں فرمایا بلکہ آپ کی تمام تحریروں اور تقریروں میں ہزاروں مرتبہ اس دلی سوزش اور نژپ کا اظہار ہوا ہے.جو آپ کو نوع انسان اور عام مخلوق الہی کے لئے تھی.اس ہمدردی میں کسی کی تمیز نہ تھی.اپنے پرائے دوست و دشمن سب یکساں تھے.پنڈت لیکھر ام جو اسلام کا ایک تلخ اور بد زبان دشمن تھا.جب لاہور میں قتل ہوا تو باوجود یکہ یہ خدا تعالیٰ کے ایک نشان کی تجلی تھی مگر اس حالت میں بھی جہاں تک اس کی ذات اور شخصیت کا سوال تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُس کے ساتھ ہر طرح ہمدردی تھی.اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سعی اور کوشش سے اسے فائدہ پہنچ سکتا تو حضور اس کے لئے کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے.اور آپ نے اس کا اظہار بھی فرمایا.عام ہمدردی میں آپ کسی قسم کی تمیز نہ کرتے تھے اور ہر انسان کو اس کا مستحق سمجھتے تھے.طبعی طور پر دوستوں اور خدام کو رفیق بھی سمجھتے تھے اور ان کے لئے ہر قسم کی ذاتی قربانی کے لئے آمادہ رہتے تھے.سیرت کے باب میں بیماری اور تیمارداری کے تحت میں نے صفحہ ۲۷۸ پر ایک یتیم لڑکے فجا ( جو آج کل معمار اور ایک مخلص احمدی ہے ) کا واقعہ درج کیا ہے جس دل سوزی اور محبت و ہمدردی سے حضور نے اپنے گھر میں رکھ کر اس کا علاج کیا.اور اس کی جان بچائی.اس کی نظیر نہیں ملتی.ادنی درجہ اور معروف چھوٹے طبقہ کے لوگوں کی عیادت اور خبر گیری کے لئے ان کے گھروں میں چلے جانا.یہ ایسی بات نہیں ہے کہ ہم سرسری طور پر اس سے گزر جاویں.اسی طرح میں نے شمائل واخلاق کے حصہ دوم کے نسخہ پر ایک واقعہ لکھا ہے اور اس میں دکھایا ہے کہ وہ وجود جو کبھی کسی پر بڑے سے بڑے نقصان ترجمہ اشعار.(۶) صرف زبان سے خلق خدا کے غم کھانے کا کیا فائدہ اگر اس کے لئے سو جانیں بھی فدا کروں تب بھی میں معذرت کرتا ہوں.(۷) جب دنیا کی تاریکی کو دیکھتا ہوں تو ( چاہتا ہوں کہ ) خدا اُس پر میری چھلی رات کی دعاؤں کی قبولیت ) نازل کرے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ پر بھی ناراض نہ ہوتا تھا.بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ناراض ہونا جانتا ہی نہ تھا وہ اپنے ایک مخلص خادم پر محض اس وجہ سے ناراض ہوتا ہے کہ اس نے ایک بیمار کی تیمارداری میں کیوں غفلت کی.اور وہ بیمارلوگوں کے پیمانہ امتیاز کے لحاظ سے محض نا قابل لحاظ شخص ہو سکتا ہے.مگر حضرت کی نظر میں بہ حیثیت انسان اتنی ہی قیمتی جان رکھتا تھا جیسے کوئی اور محترم و معز شخص.واقعہ کی تفصیل تو وہاں دیکھی جاسکتی ہے.مگر میں اس کا نام یہاں بھی دینا چاہتا ہوں یہ وہی پیرا پہاڑ یا حضرت کا خادم تھا.جس کا ذکر اسی سیرت میں متعدد مرتبہ آیا ہے اور آتا رہے گا.دوسروں کی ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے اپنے وقت کا بہت سا حصہ اردگرد کے دیہات کی گنوار عورتوں اور بچوں کے علاج میں بھی دے دیا کرتے تھے.اور دوسرے کام چھوڑ کر بھی اس طرف توجہ کرتے.ایک مرتبہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اسے تضیع اوقات سمجھ کر عرض بھی کیا.جب کہ خود انہوں نے اس منظر کو دو تین گھنٹہ تک خود مشاہدہ کیا.اس کا جو جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اسے خود حضرت مولوی صاحب نے تحریر فرمایا ہے.اسے پڑھو اور سوچو کہ اس جواب دینے والے کے اندر کون سی روح بول رہی ہے.حضرت مخدوم الملت فرماتے ہیں فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے.اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا.یہ بڑا ثواب کا کام ہے مومن کو ان کاموں میں سُست اور بے پروا نہ ہونا چاہیے.66 ( مصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۳۵) مخلوق کی ہمدردی اور مواسات باہمی کی ہمیشہ تعلیم دیتے اور اپنے عمل سے اس کی روح پیدا کرتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۹ با بوشاہ دین صاحب مرحوم کا واقعہ اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم جولوگ سلسلہ میں حدیث العہد ہیں وہ سلسلہ کے پرانے مخلصین اور وفا دار جان نثار مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سے عموماً واقف نہیں.اور میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و شمائل میں ان مخلصین کے سوانح حیات اور ان کی سلسلہ کے لئے خدمات اور قربانیوں کا ذکر کر سکوں.چاہتا ہوں کہ ان کی یاد نئے آنے والوں کے لئے چھوڑ سکوں.مگر یہ خدا کے فضل اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں.بابوشاہ دین صاحب بھی انہیں مخلص اور جاں نثار دوستوں میں سے ایک تھے.آپ اسٹیشن ماسٹر تھے ابتداء پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے تعلق رکھتے تھے.جب خدا تعالیٰ نے ان کو اس سلسلہ میں آنے کی توفیق دی تو شاہ دین حقیقی طور پر شاہ دین بن گیا.اس کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہوا.وہ جو اپنے ہمعصروں میں بادہ خوار تھا.وہ شب زندہ دار اور ایک زاہد بے ریا اور ولی اللہ ہو گیا.وہ بیمار ہو کر قادیان آگئے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین کی بظاہر علالت اور حقیقتاً مشیت ایزدی کے ماتحت لاہور تشریف لے گئے.آپ کو بابوشاہ دین صاحب کے علاج اور خبر گیری کی طرف خاص توجہ تھی.آپ نے لاہور پہنچ کر اپنی وفات سے ۱۳ روز پیشتر مخدومی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین کو (جن کو الدار میں رہنے کے لئے چھوڑ گئے تھے.عرفانی) ایک خط لکھا.میں اس خط کے اس حصہ کو جو حضرت بابوشاہ دین صاحب کے متعلق ہے یہاں دیتا ہوں.اس سے معلوم ہوگا کہ حضور کو کس قدر توجہ اس امر کی طرف تھی کہ بابو صاحب کی خبر گیری میں کسی قسم کی سستی نہ ہونے پاوے.حضور لکھتے ہیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ با بوشاہ دین صاحب کی تعہد اور خبر گیری سے آپ کو بہت ثواب ہوگا.میں بہت شرمندہ ہوں کہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ ان کے ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا اور جس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے میں حریص تھا وہ آپ کو ملا.امید کہ آپ ہر روز خبر لیں گے.اور دعا بھی کرتے رہیں گے اور میں بھی دعا کرتا ہوں.ایک دوسرے خط میں جو اس سے پہلے آیا.حضرت نے لکھا تھا کہ ” اور میری دلی خواہش ہے کہ آپ تکلیف اٹھا کر ایک دفعہ اخویم بابوشاہ دین صاحب کو دیکھ لیا کریں.اور مناسب تجویز کریں.میں بھی ان کے لئے پانچ وقت دعا میں مشغول ہوں وہ بڑے مخلص ہیں ان کی طرف ضرور پوری توجہ کریں.“ مجھ کو ضرورت نہیں کہ ان گرامی نامہ جات پر کسی قسم کا حاشیہ لکھوں.ان کے الفاظ اس روح مواسات کا اظہار کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں کام کر رہی تھی.البتہ اس وقت کے حالات اور واقعات کو دکھانا چاہتا ہوں.حضرت ام المومنین کی علالت کے باعث حضور بغرض علاج لا ہور تشریف لے گئے ہیں اور حضور کی مصروفیت آپ کے مقام اور منصب کے لحاظ سے ان ایام میں بمقام لا ہور جو ہوگئی تھی.وہ ظاہر ہے.مختلف طبقوں اور خیالات کے لوگ حضرت کی خدمت میں آرہے ہیں.اور مخالفین سلسلہ اپنی شورشوں سے آپ کی توجہ کو الگ اپنی طرف مبذول کرار ہے.مگر باوجود ان تمام مصروفیتوں کے حضور کو بابوشاہ دین صاحب کا خیال نہیں بھولتا.یہی نہیں کہ آپ کو احساس ہے.اور آپ اپنے ایک مخلص اور بے ریا خادم حضرت ڈاکٹر رشید الدین صاحب کو توجہ دلا رہے ہیں.بلکہ آپ لاہور بحالت مجبوری جانے کا عذر پیش کر کے فرماتے ہیں کہ ”میں شرمندہ ہوں کہ ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا.“ اس احساس شرمندگی کی قدر و قیمت اس قدر بلند ہے کہ دنیا کے عرفی الفاظ یا چاندی سونا کے سکے اور جواہرات اس کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتے.آپ کا مقام یہ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بروز ہو کر نازل ہوئے ہیں.اور مسیح اور مہدی کے نام سے کھڑے کئے گئے ہیں.بابوشاہ دین صاحب کو آپ کی غلامی کی سلک میں شامل ہونے پر ناز اور فخر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ ہے.مگر آقا ہو کر اپنے غلام کی خبر گیری نہ کر سکنے کے لئے مجبور ہو جانے کی وجہ سے عذر کرتا ہے.ایسے آقا پر دنیا کی ہر دولت و زندگی کیوں شمار نہ ہو.ایسے آقا کی غلامی پر دنیا کی حکومت بھی کیوں قربان کرنے کو جی نہ چاہے.یہ معمولی جذ بہ اور اظہار خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے یہ خط اپنے اندر ایک پیشگوئی بھی رکھتا ہے.اگر چہ اس کا یہ حل نہیں.مگر میں سرسری طور پر بیان کر جانا چاہتا ہوں.یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے ۱۳ یوم پیشتر لکھا ہے.اور اس میں بابوشاہ دین صاحب کے نازک وقت کا اشارہ فرمایا ہے اور آپ اس وقت موجود نہ ہونے کا بھی اظہار کر دیا ہے.آخر یہی ہوا کہ بابو صاحب کی علالت مرض الموت ہوگئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس موقعہ پر موجود نہ تھے.اور یہ سعادت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے حصہ میں آئی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم مقام کی حیثیت سے اس خدمت کو انجام دیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل اور فعل سے ہمیشہ یہ دکھایا کہ آپ شرف انسانیت کو قائم کرنا چاہتے تھے.اور آپ نے جات پات کے تمام جھگڑوں اور بکھیڑوں کو جو مزیل حیثیت شرف انسانی ہیں دور کر کے اخوت و مساوات کی ایک رو پیدا کردی اور اپنے اُسوہ حسنہ سے ہمیشہ یہ سبق دیا کہ آپ خدا تعالیٰ کی عاجز و درماندہ مخلوق کے لئے ایک حصار اور مامن ہیں.اور آپ کے دل میں ہمدردی عامہ کا وہ جذبہ موجود ہے جو رب العالمین کے پیارے اور رحمۃ للعالمین کے بروز کی شایانِ شان ہے.آپ کی ہمدردی کا اجمالی تذکرہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پر ختم کر دینا چاہتا ہوں.حضرت مخدوم الملت مولا نا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدعا کے اوپر میرا حجرہ تھا اور میں اسے بطرز بیت الدعا استعمال کیا کرتا تھا.اُس میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حالت دعا میں گریہ وزاری کو سنتا تھا.آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ ہوتا تھا.اور آپ اس طرح پر آستانہ الہی پر گریہ وزاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردزہ سے بیقرار ہو.وہ فرماتے تھے کہ میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا کرتے تھے.کہ الہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.‘“ یہ خلاصہ اور مفہوم حضرت مخدوم الملت کی روایت کا ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ باوجود یکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا.مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اس قدر حریص تھے کہ اس عذاب کے اٹھائے جانے کے لئے (باوجودیکہ دشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود تھی) رات کی سُنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے.ایسے وقت جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوتی تھی یہ جاگتے تھے.اور روتے تھے القصہ آپ کی یہ ہمدردی اور شفقت علی خلق اللہ اپنے رنگ میں بے نظیر تھی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِكُ وَسَلَّم.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۳ حلم وحوصلہ اور ضبط نفس و بُر دباری میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلسفہ اخلاق پر شمائل واخلاق کی پہلی جلد میں بحث کی ہے اور اس میں غزالی کے فلسفہ اخلاق سے مقابلہ کر کے دکھایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق فاضلہ کی حقیقت کو جس آسان اور عام فہم طریق میں بیان کیا ہے کوئی دوسرا اس کی برابری نہیں کر سکتا.اور یہ فلاسفروں کے طریق پر نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کے طریق پر ہے.اس باب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم وحوصلہ اور ضبط نفس و بُردباری پر بحث کرنا چاہتا ہوں.حقیقت میں یہ ایک ہی قوت اخلاق کے مختلف مظاہر ہیں.اور ان میں بہت ہی کم فرق ہے.ایسا فرق کہ ہر شخص امتیاز بھی نہیں کرسکتا.غزالی کے فلسفہ کے موافق غضب کی قوت اگر افراط وتفریط سے بالکل بری ہو.یعنی اس طرح عقل کے قابو میں ہو کہ وہ جس طرف بڑھائے بڑھے.اور جہاں رو کے رک جائے.تو اس کو شجاعت کہتے ہیں.اور شجاعت کے مختلف مظاہر میں حلم ایک مظہر ہے.میں اس پر بحث نہ کر کے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حلم غصہ کے مقابل واقع ہوا ہے.اور میں پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلسفہ اخلاق کی روشنی میں بتا چکا ہوں کہ کوئی قوت اور کوئی جذ بہ جو انسان کو دیا گیا ہے.فِي نَفْسِهَا بُرا یا مضر نہیں بلکہ اس کے سُوءِ استعمال سے نقائص یا رذائل پیدا ہوتے ہیں.اور اس کے استعمال کی تعدیل سے اعلیٰ اخلاق سرزد ہوتے ہیں.غصہ کبھی بھی نہ آئے تو یہ کوئی خوبی کی بات نہیں.اس لئے کہ جہاں غصہ آنا چاہیے اگر وہاں بھی نہ آیا تو قدرتی اور طبعی طور پر اس سے فضائل نہیں رذائل پیدا ہوں گے.بے ہمتی ، دنائت طبع اس سے پیدا ہوتی ہے.اسلام یہ نہیں سکھاتا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ی تعلیم اخلاق لے کر آئے.آپ نے بتایا کہ قوت غضبیہ کا جائز استعمال کرو.اور اس استعمال کے وقت اس پر حکومت کرو.ہمیشہ لَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة :۱۹۱) تمہارے سامنے رہے اگر تم نفس اور جذبات پر حکومت نہیں کرتے.تو اس شرف انسانی کی جس کو خلافت اللہ کہتے ہیں تم ہتک کرنے والے ٹھہرو گے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۴ میں نے بہت غور کیا اور میری سمجھ میں یہی آیا ہے کہ غصہ پر حکومت کے لئے ایک اصل آسان نظر آتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ غصہ علی العموم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص ہمارے مرغو بات و مطلوبات پر ( وہ اصلی ہوں یا غیر اصلی حملہ کرتا ہے.اور ہم سے چھین لینا چاہتا ہے.جب میں اصلی اور غیر اصلی کا لفظ بولتا ہوں تو میری مراد یہ ہے کہ بعض مطلوبات تو اس قسم کے ہیں جن کو ہم چھوڑ ہی نہیں سکتے.اور وہ ہماری زندگی کا جز ولازم ہیں.جیسے غذا ، لباس وغیرہ اور بعض وہ ہیں جو زندگی کا جز ولازم نہیں مگر ہم نے ان کو اپنے نفس کے لئے بطور محبوب کے بنالیا ہے.جیسے حُبّ جاہ ،خواہش تشہیر وغیرہ.پس جب ہم اپنے نفس پر حکومت کرنے لگیں گے تو ہم اصلی اور غیر اصلی میں ہی امتیاز نہ کریں گے بلکہ اسباب حملہ اور دماغ حملہ پر غور کر کے ایک مستقیم راہ اور متعدل اصول نکال سکنے کی توفیق پائیں گے.یہ ایک لمبی بحث فلسفہء اخلاق کی ہو جائے گی.اور شمائل و اخلاق مسیح موعود علیہ السلام کے بیان میں اس بحث کی طرف قارئین کو لے جانا میرا مقصود نہیں.میں دکھانا یہ چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق میں حلم و حوصلہ یا ضبط نفس و بُردباری کی شان کہاں تک جلوہ گر تھی اور آپ کی زندگی کے واقعات اور حالات اس حقیقت کو کس طرح نمودار کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غصہ میں نے سیرت کے مختلف مقامات پر بعض واقعات کو درج کیا ہے اور دکھایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں غصہ کی شان نمودار اور نمایاں تھی.مگر نہ اس طرح پر کہ جیسے ایک مغلوب الغضب آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ گرتی ہے.اور دیوانہ وار دوسروں کی جان مال اور آبرو پر حملہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غصہ دلانے والی ایک ہی بات تھی.کہ شعائر اللہ کی ہتک ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر کوئی حملہ ہو.اس کے لئے آپ کو غصہ آتا تھا.مگر وہ غصہ وحشیانہ رنگ نہ رکھتا تھا.بلکہ وہ حمیت و غیرت دینی خود داری اور عزت نفس کے مختلف شعبوں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ کا مظہر ہوتا تھا.جہاں آپ کی اپنی ذاتی چیز کا سوال ہوتا آپ حد درجہ رحیم و کریم اور دل کے حلیم تھے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ حلیم تھے تو اس کے یہی معنے ہیں کہ آپ غیرت دینی اور حمیت اسلامی کی صحیح شان کے مظہر تھے.اور کبھی اور کسی حالت میں آپ سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوتا تھا جو جوش نفس کا ایک بیجا نتیجہ ہو.جب انسان اپنے عادات و جذبات پر حکومت نہیں کر سکتا تو اس کی حالت مضطر بانہ ہوتی ہے.اس سے برداشت اور حوصلہ کی قو تیں سلب ہو جاتی ہیں.بعض لوگ عادتا ایسے واقع ہوتے ہیں کہ ان میں قوت غضبیہ کا فقدان ہوتا ہے.اس لئے ان کی حلیمی کوئی خلق نہیں کہلاتی جب تک انسان کو ایسے حالات اور واقعات پیش نہ آجاویں.جن میں اس کی غضبی قوتوں میں ایک ہیجان اور جوش ہو اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنے جذبات پر حکومت کرتا ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود کے خُلق علم کی شان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلق حلم وحوصلہ کی شان بہت بڑھ جاتی ہے جب ہم ان حالات پر غور کرتے ہیں جو حضور کو پیش آئے.آپ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ومرسل ہونے کا دعوی کیا اور یہ دعوی کسی خاص قوم کی طرف مبعوث ہونے کا نہ تھا بلکہ اپنے سید ومولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع میں نوع انسان کی طرف تھا.خدا تعالیٰ نے آپ کو موعودادیان اور صلح ائم بنا کر بھیجا تھا.اس مقام و منصب نے آپ کو مجبور کیا کہ وہ ہر قوم اور مذہب کے غلط عقائد اور اعمال پر حملہ کریں.مدتوں کے مانے ہوئے غلط عقائد اور مروجہ رسوم و عادات سے الگ ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی.اس پر ہر قوم کے مذہبی پیشواؤں میں جوش پیدا ہوا.اور انہوں نے کوئی دقیقہ آپ کی مخالفت اور ایزا دہی کا باقی نہ رکھا.بد زبانی اور ایذا ہی کی حد ہوگئی.لیکن آپ چونکہ خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل تھے.آپ نے اس تمام مقابلہ میں باوجود یکہ بے حد اشتعال دلایا گیا.ضبط اور برداشت کی قوتوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا.اس کے علاوہ آپ کی روزانہ زندگی میں عادتاً ایسی بہت سی باتیں پیش
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ آجاتی تھیں جہاں کوئی شخص بھی صبر اور حوصلہ سے کام ہی نہیں لے سکتا.اور جوش اور غضب میں آکر نا گفتنی اور ناکردنی باتیں کر گزرتا ہے.مثلاً وقت پر کھانا ہی تیار نہ ہوا تو گھر بھر میں ایک آفت بیا ہے.یا بچوں نے شور کرنا شروع کر دیا اور صاحب خانہ کا پیمانہ لبریز ہو گیا.وغیرہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے مختلف حصوں اور حالتوں پر نظر کرو.اور واقعات کا دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کرو.تو معلوم ہوگا کہ یہ نفس مطمئنہ مجسم ہیں.“ اور غضب اور غصہ کی وہ قو تیں جو انسان کو اخلاق سے گرا کر نیچے گرا دیتی ہیں.آپ سے سلب کر لی گئی تھیں.اب میں واقعات اور حالات کی روشنی میں آپ کے خلق عظیم کی شان حلم و برداشت کو دکھاتا ہوں.اندرون خانہ زندگی میں حوصلہ اور علم کے مناظر سب سے پہلے میں اندرون خانہ کی زندگی میں حضور کے حلم وحوصلہ کے شعبوں کو دکھاتا ہوں.اور اس کے لئے میں پسند کرتا ہوں کہ حضرت مخدوم الملت کے بیان کردہ واقعات کو اولاً ذکر کروں.جوانہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھے ہیں.بچوں سے شفقت کے باب میں میں نے بیان کیا ہے کہ کس طرح پر بچے بار بار آکر دروازہ پر دستک دیتے اور دروازہ کھلواتے.بعض اوقات ہیں ہیں دفعہ ہوتی تھیں.مگر آپ نے پڑھا ہے کہ حضرت کبھی ناراض نہیں ہوئے چیں برجیں نہیں ہوئے.یہ آپ کے حوصلہ اور علم کی ایک مثال ہے.ایک اور موقعہ کے متعلق حضرت مخدوم الملت فرماتے ہیں." آپ کے حلم اور طرز تعلیم اور قوت قدسیہ کی ایک بات مجھے یاد آتی ہے دو سال (۱۸۹۷ ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہے.عرفانی) کی بات ہے تقاضائے سن اور عدم علم کی وجہ سے اندر کچھ دن کہانی کہنے اور سننے کا چسکا پڑ گیا آدھی رات گئے تک سادہ اور معصوم کہانیاں اور پاک دل بہلانے والے قصے ہو رہے ہیں اور اس میں عادتاً ایسا استغراق ہوا کہ گویا وہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۷ بڑے کام کی باتیں ہیں.حضرت کو معلوم ہوا.منہ سے کسی کو کچھ نہ کہا.ایک شب سب کو جمع کر کے کہا آج ہم تمہیں اپنی کہانی سنائیں ایسی خدا لگتی اور خوف خدا دلانے والی اور کام کی باتیں سنائیں کہ سب عورتیں گویا سوتی تھیں اور جاگ اٹھیں سب نے توبہ کی اور اقرار کیا کہ وہ صریح بھول میں تھیں.اور اس کے بعد وہ سب داستا نہیں افسانہ خواب کی طرح یادوں ہی سے مٹ گئیں.ایسے موقعہ پر ایک تند خو مصلح جو کارروائی کرتا اور بے فائدہ اور بے نتیجہ حرکت کرتا ہے کون نہیں جانتا ممکن ہے کہ ایک بدمزاج بد زبان ظاہر میں ڈنڈے کے زور سے کامیاب ہو جائے مگر وہ گھر کو بہشت نہیں بنا سکتا“.سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۳۱،۳۰) انسان پر بیماری کے حملے جب ہوتے ہیں تو وہ بھی اس کے سکون وقرار کو ہلا دیتی ہے اور اس کی طبیعت میں چڑ چڑا پن اور بد مزاجی پیدا کر دیتی ہے.بیمار بات بات پر بگڑتا ہے.اور غصہ ہوتا ہے.میں بیماری اور تیمارداری کے باب میں شمائل کے دوسرے حصہ میں بیان کر آیا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حوصلہ اور برداشت سے کام لیتے ہیں.کسی پر ناراضگی نہیں اگر کسی نے پوچھا نہیں تو افسوس نہیں بلکہ ایک قلب مطمئن کے ساتھ اپنے وقت کو گزار لیتے ہیں.اس کے بعد کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق اہتمام بھی ایک چیز ہے کہ انسان کی اندرون خانہ زندگی پر اثر پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب مطہر پر ان باتوں سے بھی کسی قسم کی کدورت یا تلخی پیدا نہیں ہوتی.اگر کسی نے وقت پر انتظام نہیں کیا یا تعمیل حکم میں سستی کی ہے تو آپ نے اس سے بھی باز پرس نہیں کی.بلکہ پورے حوصلہ اور حلم سے کام لیکر بتا دیا کہ یہ سب چیزیں آپ کے سکون اور وقار کو ہلا نہیں سکتی ہیں.اس کے متعلق میں حضرت مخدوم الملت کے الفاظ میں ایک واقعہ نقل کرنا چاہتا ہوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ منشی عبدالحق لاہوری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا انتظام جن دنوں امرتسر میں ڈپٹی آٹھم سے مباحثہ تھا ایک رات خان محمد شاہ مرحوم کے مکان پر بڑا مجمع تھا.اطراف سے بہت سے دوست مباحثہ دیکھنے آئے ہوئے تھے.حضرت اس دن جس کی شام کا واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں معمولاً سر درد سے بیمار ہو گئے تھے شام کو جب مشتاقان زیارت ہمہ تن چشم انتظار ہو رہے تھے.حضرت مجمع میں تشریف لائے.منشی عبدالحق صاحب لاہوری پنشنر نے کمال محبت اور رسم دوستی کی بنا پر بیماری کی تکلیف کی نسبت پوچھنا شروع کیا اور کہا کہ آپ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے آپ کو چاہیے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال کریں اور ایک خاص مقوی غذا لازماً آپ کے لئے ہر روز طیار ہونی چاہیے.حضرت نے فرمایا.”ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پروانہیں کرتیں.“ اس پر ہمارے پرانے موحد خوش اخلاق نرم طبع مولوی عبد اللہ غزنوی کے مرید نشی عبد الحق صاحب فرماتے ہیں.اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے.میرا یہ حال ہے کہ میں کھانے کے لئے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمام خاص میں کوئی سَر مو فرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لیں.‘ میں ایک طرف بیٹھا تھا منشی صاحب کی اس بات پر اس وقت خوش ہوا اس لئے کہ یہ بات بظاہر میرے محبوب و آقا کے حق میں تھی اور میں خود فرط محبت سے اسی سوچ بچار میں رہتا تھا کہ معمولی غذا سے زیادہ عمدہ غذا آپ کے لئے ہونی چاہیے اور دماغی محنت کرنے والے انسان کے حق میں لنگر کا معمولی کھا نا بدل ما يَتَحَلَّل نہیں ہوسکتا.اس بنا پر میں نے منشی صاحب کو اپنا بڑا موید
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۹ پایا اور بے سوچے سمجھے ( در حقیقت اُن دنوں الہیات میں میری معرفت ہنوز بہت سا درس چاہتی تھی ) بوڑھے صوفی اور عبد اللہ غزنوی کی صحبت کے تربیت یافتہ تجربہ کار کی تائید میں بول اٹھا کہ ہاں حضرت ہمنشی صاحب درست فرماتے ہیں.حضور کو بھی چاہیے که درشتی سے یہ امر منوائیں.حضرت نے میری طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا.”ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پر ہیز کرنا چاہیے.“ 66 اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے میں زکی الیس آدمی اور ان دنوں تک عزت و بے عزتی کو دنیا داروں کی عرفی اصطلاح کے قالب میں ڈھالنے اور اپنے تئیں ہر بات میں کچھ سمجھنے اور ماننے والا بس خدا ہی خوب جانتا ہے کہ میں اُس مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا.اور مجھے سخت افسوس ہوا کہ کیوں میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی بوڑھے تجربہ کار نرم خو صوفی کی پیروی کی.برادران ! اس ذکر سے جسے میں نے نیک نیتی سے لکھا ہے میری غرض یہ ہے کہ اس انسان میں جو مجبور پاکیزہ فطرت اور حقوق کا ادا کرنے والا اور اخلاق فاضلہ کا معلم ہو کر آیا ہے اور دوسرے لوگوں میں جنہیں نفس نے مغالطہ دے رکھا ہے کہ وہ بھی کسی کی صحبت میں کوئی گھائی طے کر چکے ہیں اور ہنوز وہی اخلاق سے ذرہ بھی حصہ نہیں لیا بڑا فرق ہے.“ سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفر ۱۴ تا ۱۶) شور و شر کرنے والوں کو منع نہیں کرتے تھے بلکہ ادھر توجہ ہی نہ ہوتی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو منصب لیکر مبعوث ہوئے تھے اس کا اقتضا تھا کہ آپ ہر وقت تبلیغ اور تلقین کے کام میں لگے رہیں.اور اس مقصد کے لئے آپ کو عموماً تحریر کا کام کرنا پڑتا تھا.یہ کام بھی ظاہر ہے کہ ایک سکون اور خلوت چاہتا ہے.اس میں کسی قسم کا شور وغل طبیعت کو دوسری طرف متوجہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۰ کر دیتا اور اصل کام کی راہ میں ایک ہرج واقعہ ہو جاتا ہے.مگر حضرت کے حوصلہ اور ضبط نفس کا یہ عجیب نمونہ تھا کہ ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا.عجب سکون اور جمعیت باطن اور فوق العادت وقار اور حلم ہے کہ کیسا ہی شور اور غلغلہ برپا ہو جائے جو عموماً قلوب کو پر کاہ کی طرح اڑا دیتا اور شور اور جائے شور کی طرف خوانخواہ کھینچ لاتا ہے حضرت اسے ذرہ بھر بھی محسوس نہیں کرتے اور مشوش الاوقات نہیں ہوتے.یہی ایک حالت ہے جس کے لئے اہل مذاق تڑپتے اور سالک ہزار دست و پا مارتے اور رو رو کر خدا سے چاہتے ہیں.میں نے بہت سے قابل مصنفوں اور لائق محرروں کو سنا اور دیکھا ہے کہ کمرہ میں بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں اور ایک چڑیا اندر گھس آئی ہے اس کی چڑ چڑ سے اس قدر حواس باختہ اور سراسیمہ ہوئے ہیں کہ تفکر مون سب نقش بر آب ہو گیا اور اسے مارنے نکالنے کو یوں لیکے ہیں جیسے کوئی شیر اور چیتا پر حملہ کرتا یا سخت اشتعال دینے والے دشمن پر پڑتا ہے.ایک بڑے بزرگ صوفی صاحب یا قاضی صاحب کی بڑی صفت ان کے پیرو جب کرتے ہیں یہی کرتے ہیں کہ وہ بڑے نازک طبع ہیں اور جلد برہم ہو جاتے ہیں اور تھوڑی دیر آدمی ان کے پاس بیٹھے تو گھبرا جاتے ہیں اور خود بھی فرماتے ہیں کہ میری جان پر بوجھ پڑ جاتا ہے.مدت ہوئی ایک مقام پر میں خود انہیں دیکھنے گیا شاید دس منٹ سے زیادہ میں نہ بیٹھا ہوں گا جو آپ مجھ سے فرماتے ہیں کچھ اور کام بھی ہے.اس میں شک نہیں کہ یہی جمعیت قلب اور کوہ وقاری اور حلم اکسیر ہے جس میں ہو اور یہی صفت ہے جس سے اولیاء اللہ مخصوص اور ممتاز کئے گئے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدس نازک سے نازک مضمون لکھ رہے ہیں یہاں تک کہ عربی زبان میں بے مثل فصیح کرتا ہیں لکھ رہے ہیں اور پاس ہنگامہ ء قیامت برپا ہے بے تمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں، چیخ رہی ہیں، چلا رہی ہیں، یہاں تک کہ بعض آپس میں دست وگریبان ہو رہی ہیں اور پوری زنانہ کرتو تیں کر رہی ہیں.مگر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۱ حضرت یوں لکھے جارہے ہیں اور کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں یہ ساری لا نظیر اور عظیم الشان کتابیں عربی ،اردو، فارسی کی ایسے ہی مکانوں میں لکھی ہیں.میں نے ایک دفعہ پوچھا اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی.مسکرا کر فرمایا.میں سنتا ہی نہیں تشویش کیا ہو اور کیونکر ہو.“ سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۱۹ ،۲۰) بیماری اور بیماری کے بعد آپ کے حوصلہ اور علم کا نمونہ حضرت مخدوم الملت نے بیماری اور بیماری کے بعد آپ کے حلم وحوصلہ کا نمونہ ان الفاظ میں بیان فرمایا.ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ کو سخت در دسر ہورہا تھا اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس حد سے زیادہ شور و غل بر پا تھا میں نے عرض کیا جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی فرمایا.ہاں، اگر چپ ہو جا ئیں تو آرام ملتا ہے.میں نے عرض کیا تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے.فرمایا.آپ اِن کو نرمی سے کہہ دیں میں تو کہہ نہیں سکتا.بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گویا مزہ میں سورہے ہیں.کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اور تو نے ہماری خدمت نہیں کی.میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیمار دار اس کی بدمزاجی اور چڑ چڑا پن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں.اسے گالی دیتا ہے اُسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آجاتی ہے بے چاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین.کہیں تکان کی وجہ سے ذرا اُونگھ گئی ہے بس پھر کیا خدا کی پناہ آسمان کو سر پر اٹھا لیا.وہ بے چاری حیران ہے ایک تو خود نچور چور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ مارے غضب وغیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے.غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہوتی ہے خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے.برخلاف اس کے سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمعیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں.میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جب کہ ابھی ابھی سر درد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا.آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے، اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اُس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ آپ کسی بڑے عظیم الشان دل کشا نہ بہت افزا باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے.میں ابتدائے حال میں ان نظاروں کو دیکھ کر بڑا حیران ہوتا تھا اس لئے کہ میں اکثر بزرگوں اور حوصلہ اور مردانگی کے مدعیوں کو دیکھ چکا تھا کہ بیماری میں کیا چولہ بدل لیتے ہیں اور بیماری کے بعد کتنی کتنی مدت تک ایسے سڑیل ہوتے ہیں کہ الامان کسی کی تقصیر آئی ہے جو بھلے کی بات منہ سے نکال بیٹھے.بال بچے بیوی دوست کسی او پرے کو دور سے ہی اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھنا کالا ناگ ہے نزدیک نہ آنا.اصل بات یہ ہے کہ بیماری میں بھی ہوش و حواس اور ایمان اسی کا ٹھکانے رہتا ہے جو صحت کی حالت میں مستقیم الاحوال ہو اور دیکھا گیا ہے کہ بہت سے تندرستی کی حالت میں مغلوب الغضب شخص بیماری میں خالص دیوانے اور شدت جوش سے مصروع ہو جاتے ہیں.حقیقت میں ایمان اور عرفان اور استقامت کے پر کھنے کے لئے بیماری بڑا بھاری معیار ہے جیسے سکر اور خواب میں بڑ بڑانا اور خواب دیکھنا حقیقی تصویر انسان کی دکھا دیتا ہے بیماری بھی مومن اور کافر اور دلیر اور بزدل کے پرکھنے کے لئے ایک کسوٹی ہے.بڑا مبارک ہے وہ جو صحت کی حالت میں جوش اور جذبات نفس کی باگ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا.
رت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۳ برادران ! چونکہ موت یقینی ہے اور بیماریاں بھی لا بدی ہیں کوشش کرو کہ مزاجوں میں سکون اور قرار پیدا ہو.اسلام پر خاتمہ ہونا جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہے اور جو امید و بیم میں معلق ہے اسی پر موقوف ہے کہ ہم صحت میں ثبات وتنثبیت اور استقامت واطمینان پیدا کرنے کی کوشش کریں ورنہ اُس خوفناک گھڑی میں جو حواس کو سراسیمہ کر دیتی ہے اور عقاید اور خیالات میں زلزلہ ڈال دیتی ہے تثبیت اور قرار دشوار ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يُثبت اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (ابراهيم (٣٨) یہ تثبیت یہی ہے جو میں حضرت خلیفتہ اللہ کی سیرت میں دکھا چکا ہوں.وہ انسان اور کامل انسان جس پر اس دنیا کی آگ، اس دنیا کی آفات اور مکروہات کی آگ یہاں کچھ بھی اثر نہیں کر سکی وہ وہی مومن ہے جسے دوزخ کہے گی کہ اے مومن گزر جا کہ تیرے نور نے میری نار کو بجھا دیا ہے.اے بہشت کو دونوں جیبوں میں اسی طرح موجود رکھنے والے برگزیدہ خدا جس طرح آج کل لوگ جیبوں میں گھڑیاں رکھتے ہیں تو یقیناً خدا سے ہے.ہاں تو اس کثیف اور مکروہ دنیا کا نہیں ورنہ وجہ کیا کہ یہ دنیا اپنی آفات و امتحانات کے پہاڑ تیرے سر پر توڑتی ہے اور وہ یوں تیرے اوپر سے ٹل جاتے ہیں جیسے بادل سورج کی تیز شعاعوں سے پھٹ جاتے ہیں.لاکھوں انسانوں میں یہ تیرا نرالا قلب اور فوق العادت جمعیت اور سکون اور ٹھہرا ہوا مزاج جو تجھے بخشا گیا ہے یہ کس بات کی دلیل ہے یہ اس لئے ہے کہ تو صاف نظر کر پہچانا جائے کہ تو زمینی نہیں ہے بلکہ آسمانی ہے.آہ اس زمین کے فرزندوں نے تجھے نہیں پہچانا حق تو یہ تھا کہ آنکھیں تیری راہ میں فرش کرتے اور دلوں میں جگہ دیتے کہ تو خدا کا موعود خلیفہ اور حضرت خاتم النبین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خادم اور 66 اسلام کو زندہ کرنے والا ہے.“.سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ ۲۲ تا ۲۵)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۴ یہ تو حضور کی اندرون خانہ زندگی کا ایک ایسا نقشہ ہے جو شمہ از شمائل ہے.گھر سے باہر کی زندگی کی شان بھی اپنی جگہ کامل اور دلر با ہے.آپ کی مجلس میں مختلف قسم کے لوگ آتے.بعض جو آپ کے دعاوی پر ایمان نہیں رکھتے تھے.جلوت میں ان اخلاق کا نمونہ اور مخالفانہ جوش لے کر آتے اور آپ کی مجلس ہی میں جو منہ میں آتا کہہ دیتے.خیال تو کریں کہ ایک شخص اپنے خدام اور جان شمار مریدین کے حلقہ میں بیٹھا ہے جو اسے خدا کا برگزیدہ مرسل یقین کرتے ہیں.اس کی عزت اس کی شان ان کی نظر میں اتنی بلند ہے کہ وہ کسی درجہ کے انسان کو اس کے مقابلہ میں وقعت اور رفعت نہیں دیتے.ایک شخص آتا ہے اور اس زمرہ اور حلقہ میں بیٹھے ہوئے آقا کی شان میں بعض ناگفتنی باتیں کہہ جاتا ہے.جن میں عام اور اخلاقی شرافت اور ادب مجلس کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا.اگر کوئی دنیا دار آدمی ہوتا.تو خدا جانے ایسے موقعوں پر وہ خود کیا کر گزرتا.یا اس کے جان نثار مرید کیا کر دیتے.اور وہ دونوں ہی اخلاقی حیثیت یا قانونی پیمانہ سے برسر حق ہوتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں میں نے اپنی آنکھ سے بعض ایسے مواقع دیکھے ہیں کہ آپ کی مخالفت میں ایک شخص نے جو چاہا کہا.آپ پورے حوصلہ صبر اور سکون معا وقار سے سنتے رہے ہیں.اور اس کی بدزبانی اور شوخی کا جواب نہایت محبت اور اخلاص سے دیا ہے اور اپنی قوتِ انتقام اور زبر دست قوت قدسی سے اپنے خدام پر بھی ایسا اثر ڈالا ہے کہ انہیں جوش میں نہیں آنے دیا.متعدد مرتبہ ایسے واقعات اور حالات پیش آئے کہ جہاں نہایت ہی نرم دل اور مسکین انسان بھی جوش میں آسکتا ہے اور خواہ وہ کچھ بھی نہ کر سکے کم از کم اپنی زبان سے ہی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے دکھایا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے قلب کو غضب کی زہر اور انتقامی جوش کے فساد سے بالکل پاک وصاف کر دیا ہے.
برت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۵ لاہور کے دو واقعات ۱۸۹۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ مسیحیت کے بعد لاہور تشریف لے گئے.اولاً آپ منشی میراں بخش صاحب اکا ؤنٹنٹ کے مکان پر اترے ہوئے تھے.بعد میں آپ لنگے منڈی کی طرف محبوب رائیوں کے مکان میں چلے گئے.نماز آپ میاں چراغ دین مرحوم کے گھر کے پاس ایک مسجد میں پڑھا کرتے تھے.مکرمی مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم اس مسجد کے امام تھے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پڑھ کر گھر کو جارہے تھے، خدام آپ کے ساتھ تھے ، خاکسار عرفانی بھی ان ہمراہیوں میں شرکت کی عزت رکھتا ہے اور آج اپنے بخت رسا پر ناز کرتا ہے.الحَمدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ادعائی مہدی کا حملہ اور حضرت کا جوش رحمت بابا پیغمبر اسنگھ صاحب کے بھائی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہوا تھا.اور وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَهْدِى رَسُولُ اللهِ کا کلمہ پڑھا کرتا تھا.اس نے پیچھے سے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کر دیا.اور آپ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر آپ کو گرادینا چاہا.حضرت سنبھل گئے اور خدام نے اسے پکڑ لیا.وہ اپنی زبان پر بے قابو تھا.جو منہ میں آتا کہہ رہا تھا.حضرت کے خدام کو سخت طیش آیا.اور مخدومی حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کو تو سخت غصہ آیا اور قریب تھا کہ وہ حملہ آور مہدی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.حضرت نے خدام کے اس جوش کو دیکھا آپ کو اس کی حرکت کا ذرا بھی خیال نہ آیا.فرمایا.جانے دو معذور ہے.“ اور سخت تاکیدی حکم دیا کہ کوئی اس کو کچھ نہ کہے.اور ہرگز نہ چھیڑے.اس کولوگوں نے پکڑ لیا تھا.حضرت روانہ ہوئے اور خلاف عادت ہر دو چار قدم کے بعد مڑ کر دیکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ دیکھو کوئی کچھ نہ کہے یہ معذور ہے.اور اسی طرح اپنے مکان میں آپ پہنچ گئے.اس کو چھوڑ دیا گیا اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۶ وہ پھر پیچھے آیا اور مکان کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی تقریر کرتا رہا.مگر حضرت بار بار تا کید فرماتے تھے کہ اس کو کچھ نہ کہا جاوے صبر کرنا چاہیے.میں جانتا ہوں کہ یہ محض حضور کی قوت قدسی کا اثر تھا.ورنہ اس وقت خدام میں ایسا جوش تھا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے.اس واقعہ کی نوعیت پر غور کرو.ایک شارع عام پر ایک شخص مجنونانہ حملہ کرتا ہے اور زبانی ایذارسانی کا کوئی دقیقہ باقی نہیں دیتا.حضرت کو اس وقت پوری قدرت اور طاقت حاصل ہے کہ اس سے انتقام لیں اور اس کو اپنی شرارت کا مزہ چکھانے کے لئے خدام اپنی جان کی قیمت دینے کو تیار ہیں.اور اگر اس قسم کا کوئی عمل بھی نہ ہوتا تب بھی اس کو قانونی سلوک سے سزا دلائی جاسکتی تھی.مگر حضرت نے اس کی اس مجنونانہ حرکت پر کچھ بھی نوٹس نہ لیا.اور اپنے جذبات رحمت و شفقت کا نمونہ دکھایا.اور کامل حوصلہ اور حلم سے اس ساری تکلیف کو پی گئے.ایک دنیا دار سر بازار اپنے اوپر اس قسم کا حملہ دیکھ کر خدا جانے کیا کر گزرتا.وہ اپنی عزت و آبرو اپنے درجہ اور مقام کے بتوں کو دیکھتا ہوا مر جاتا.اور جوش میں جو جائز ہوتا اندھا ہو جاتا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس واقعہ پر سے ایسے گزر گئے کہ گویا کچھ بھی تو نہیں ہوا.ایک بد زبان بھری مجلس میں پھر اسی محبوب رائیوں والے مکان کا واقعہ ہے.ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک برہمو لیڈر ( غالباً انباش موز مدار با بو تھے ) حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے.اور حضرت جواب دیتے تھے.اسی اثناء میں ایک بد زبان مخالف آیا.اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دل آزار اور گندے حملے آپ پر کئے.وہ نظارہ میرے اس وقت بھی سامنے ہے.آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا.کہ پگڑی کے شملہ کا ایک حصہ منہ پر رکھ کر یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے.خاموش بیٹھے رہے اور وہ شور پشت بکتا رہا.آپ اس طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہونہیں رہا.یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے.برہمولیڈر نے اسے منع
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۷ کرنا چاہا.مگر اس نے پرواہ نہ کی.حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں کہنے دیجیے.آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا.اور اٹھ کر چلا گیا.برہمولیڈ ر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے.اس وقت حضور اسے چپ کراسکتے تھے اپنے مکان سے نکال سکتے تھے.اور بکواس کرنے پر آپ کے ایک ادنی اشارہ سے اس کی زبان کائی جاسکتی تھی.مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا.میر عباس علی صاحب کی شوخی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ضبط میر عباس علی صاحب کے نام سے سلسلہ میں نئے آنے والے لوگ بہت ہی کم واقف ہو سکتے ہیں.میر صاحب ایک انگریزی خواں اور ہانہ کے صوفی تھی.اور شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہایت محبت اور اخلاص کا دعویٰ رکھتے تھے.براہین احمدیہ کی اشاعت میں انہوں نے بہت محنت کی مگر دعوائے مسیحیت کے ساتھ ان کو بدظنی ہوئی.اور کوئی پنہانی معصیت انہیں انکار و تکذیب کی طرف لے گئی.جالندھر کے مقام پر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بیٹھے ہوئے اعتراضات کر رہے تھے.حضرت مخدوم الملت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں موجود تھے.اور مجھے خود انہوں نے ہی یہ واقعہ سنایا.مولانا نے فرمایا کہ میں دیکھتا تھا.کہ میر عباس علی صاحب ایک اعتراض کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت شفقت و رافت اور نرمی سے اس کا جواب دیتے تھے اور جوں جوں حضرت صاحب اپنے جواب اور طریق خطاب میں نرمی اور محبت کا پہلو اختیار کرتے میر صاحب کا جواب بڑھتا جاتا یہاں تک کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی اور بے ادبی پر اتر آیا اور تمام تعلقات دیرینہ اور شرافت کے پہلوؤں کو ترک کر کے تو تو میں میں پر آ گیا.میں دیکھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حالت میں اسے یہی فرماتے.جناب میر صاحب آپ میرے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۸ ساتھ چلیں میرے پاس رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کوئی نشان ظاہر کر دے گا.اور آپ کو راہنمائی کرے گا.وغیرہ وغیرہ.مگر میر صاحب کا غصہ اور بے با کی بہت بڑھتی گئی.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں حضرت کے حلم اور ضبط نفس کو دیکھتے ہوئے بھی میر عباس علی صاحب کی اس سبک سری کو برداشت نہ کر سکا.اور میں جو دیر سے پیچ و تاب کھا رہا تھا.اور اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم سمجھ رہا تھا.کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اس طرح پر حملہ کر رہا ہے.اور میں خاموش بیٹھا ہوں مجھ سے نہ رہا گیا.اور میں باوجود اپنی معذوری کے اُس پر لپکا اور للکارا اور ایک تیز آوازہ اُس پر کسا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اٹھ کر بھاگ گیا.حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ضبط نفس اور علم کا جو نمونہ دکھایا.میں اسے دیکھتا تھا.اور اپنی حرکت پر منفعل ہوتا تھا.مگر مجھے خوشی بھی تھی.کہ میں نے اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم نہیں بنایا.کہ وہ میرے سامنے حضرت کی شان میں نا گفتنی بات کہے اور میں سنتار ہوں.گو بعد کی معرفت سے مجھ پر یہ کھلا کہ حضرت کا ادب میرے اس جوش پر غالب آنا چاہیے تھا.یہ واقعہ اپنی سادگی کے لحاظ سے بالکل معمولی معلوم ہوتا ہے، مگر ہم اپنے نفس پر غور کریں کہ کیا ہم اپنے نفس پر ایسا ہی قابو رکھ سکتے ہیں جبکہ ایک شخص جو مخالف الرائے ہو ہمارے خلاف کوئی بات ہمارے ہی منہ پر کہے.خصوصاً ایسی حالت میں کہ اس میں حق کی نہیں بلکہ غضب اور تار یک عداوت کی مرارت بھی ملی ہوئی ہو.اور اس کا انداز بخن شرافت اور اخلاق کے عام معیار سے بھی گر گیا ہو.ضبط نفس مخدوم الملت کی آنکھ اور قلم سے حضرت مخدوم الملت کا ایک بیان کردہ واقعہ میں اوپر دے چکا ہوں.اجمالی طور پر انہوں نے حضرت کے ضبط نفس اور حوصلہ کے متعلق جولکھا ہے درج کرتا ہوں.مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے اور جو کسی کی تحریک سے ذکر آ جائے تو بُرے نام سے یاد نہیں کرتے یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۹ آگ نہیں ورنہ جس طرح کی ایذا قوم نے دی ہے اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے ہیں تو رات دن کڑھتے رہتے اور امیر پھیر کر ان ہی کا مذکور درمیان لاتے اور یوں حواس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آجاتا.زنی جیسی گالیاں دینے والا ، عرب کے مشرک بھی حضور سرور عالم کے مقابل نہ لا سکے مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ نا پاک پر چہ اوقات گرامی میں کوئی بھی خلل کبھی نہیں ڈال سکا.تحریر میں ان موذیوں کا برمحل ذکر کوئی دیکھے تو یہ شاید خیال کرے کہ رات دن انہیں مفسدین کا آپ ذکر کرتے ہوں گے.مگر ایک مجسٹریٹ کی طرح جو اپنی مفوضہ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر پھر کسی کی ڈگری یا ڈسمس یا سزا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نہ اُسے در حقیقت کسی سے ذاتی لگاؤ یا اشتعال ہوتا ہے اسی طرح حضرت تحریر میں ابطال باطل اور احقاق حق کے لئے لوجہ اللہ لکھتے ہیں آپ کے نفس کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا ایک روز فرمایا.میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اُسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.“ آپ کی استقامت اور قوت قلب اولوالعزم انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرح کسی ترہیب اور رعب انداز نظارہ سے متاثر نہیں ہوتی.کوئی ہولناک واقعہ اور غم انگیز سانحہ آپ کی توجہ کو منتشر اور مفوض کام سے غافل نہیں کر سکتا.اقدام قتل کا مقدمہ جسے پادریوں نے برپا کیا اور جن کی تائید میں بعض ناعاقبت اندیش نام کے مسلمان اور آریہ بھی شامل ہو گئے تھے ایک دنیا دار کا پٹہ پگھلا دینے اور اس کا دل پریشان اور حواس مختل کر دینے کو کافی تھا مگر حضرت کے کسی معاملہ میں لکھنے میں.معاشرت میں.باہر خدام سے کشادہ پیشانی اور رافت سے ملنے میں غرض کسی حرکت وسکون میں کوئی فرق نہ آیا.کوئی آدمی قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ پر کوئی مقدمہ ہے کسی خوف ناک رپورٹ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۰ کو جو کسی وقت کسی دوست کی طرف سے پہنچی ہے ( کہ فلاں شخص نے یہ مخبری کی ہے.اور فلاں جگہ بڑی بڑی سازشیں آپ کے خلاف ہورہی ہیں اور فلاں شخص شملہ کے پہاڑوں سے سر ٹکرا تا اور ماتھا پھوڑتا پھرتا ہے کہ آپ کے دامن عزت پر اپنے ناپاک خون کا کوئی دھبہ ہی لگا دے ) کبھی آپ نے مرغوب دل سے نہیں سنا.آپ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ کوئی معاملہ زمین پر واقع نہیں ہوتا جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل اور ضائع نہیں کرے گا.یہ ایک ایسار کن شدید ہے جو ہر مصیبت میں آپ کا حصن حصین ہے.میں مختلف شہروں اور نا گوار نظاروں میں آپ کے ساتھ رہا ہوں.دہلی کی ناشکر گزار اور جلد باز مخلوق کے مقابل.پٹیالہ.جالندھر.کپورتھلہ.امرتسر.لاہور اور سیالکوٹ کے مخالفوں کی متفق اور منفر د دل آزار کوششوں کے مقابل میں آپ کا حیرت انگیز صبر اور حلم اور ثبات دیکھا ہے کبھی آپ نے خلوت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلاں شخص یا فلاں قوم نے ہمارے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبان سے یہ نکالا.میں صاف دیکھتا تھا کہ آپ ایک پہاڑ ہیں کہ نا تواں پست ہمت چو ہے اس میں سرنگ کھود نہیں سکتے.ایک دفعہ آپ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا.ابتلا کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے.تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق و محبت الہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی.اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں.“ پھر یہ 66 پڑھا هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه ۵ تا ۵۳)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۱ ایک بد زبان ہندوستانی اور حضرت کا حوصلہ ” آپ دینی سائل کو خواہ کیسا ہی بے باکی سے بات چیت کرے اور گفتگو بھی آپ کے دعوئی کے متعلق ہو بڑی نرمی سے جواب دیتے اور تحمل سے کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا مطلب سمجھ جائے.ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سرد و گرم زمانہ دیدہ و چشیدہ ظاہر کرتا تھا ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے باب کلام وا کیا اور تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا آپ اپنے دعوے میں کا ذب ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت سے دیکھے ہیں اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں غرض ایسے ہی بے باکانہ الفاظ کہے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا.بڑے سکون سے سنا کئے اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا.کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقعہ ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم میں یا نثر میں کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو آپ نے سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت اور ملامت کا اظہار نہیں کیا.بسا اوقات بعض سامعین اس دلخراش کغو کلام سے گھبرا کر اٹھ گئے ہیں اور آپس میں نفرین کے طور پر کا نا پھوسی کی ہے اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حوصلے اور ارمان بھی نکالے ہیں مگر مظہر خدا کی حلیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا.“ (سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی صفر ۴۴) شیخ عبدالرحمان صاحب فرید آبادی کا واقعہ میرے نہایت ہی مکرم بھائی اور مخلص دوست ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی رضی اللہ عنہ کے نام سے بہت لوگ واقف نہیں.میں انشاء اللہ العزیز تو فیق ملنے پر اُن کا تذکرہ لکھوں گا.وہ ایک قابل جرنلسٹ اور پنجاب کے بعض مشہور اخبارات چودہویں صدی اور وکیل کے ایڈیٹر رہ چکے تھے.وہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۲ بڑے شہروں میں اپنے قلم سے بہت کچھ کما سکتے تھے.مگر خدا تعالیٰ کی رضا محض کے لئے قادیان ہجرت کر کے آگئے.اور منزل مقصود کو پالیا.ان کے ایک بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب ہیں.میں نے ماسٹر صاحب کی تحریک پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب قبلہ کے صاحبزادوں کی خدمت کے لئے ان کو رکھوا دیا.ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور لوگ شام کو اپنے مضامین نظم و نثر سنایا کرتے تھے.میں نے شیخ صاحب کو تحریک کی کہ آپ بھی نظم لکھیں.وہ سادہ مزاج ہیں انہوں نے بھی ایک بے ربط سی نظم لکھی جس کا ایک شعر یہ ہے.نوابین نے جبکہ ہم کو پکارا رہا افراتفری میں مضموں ہمارا ی نظم جب انہوں نے پڑھی تو مجلس میں عجب لطف پیدا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محبت آمیز تقسیم سے اسے سنا.اور جب تک انہوں نے ختم نہ کر لیا.نہایت صبر اور حوصلہ سے سنتے رہے.یہ واقعہ تو ضمناً موقعہ کی مناسبت سے آ گیا.میں یہ بیان کر رہا تھا کہ حضرت کے حضور بعض اوقات ایسے لوگ پیش ہوئے ہیں.جنہوں نے نہایت شوخی اور بے باکی سے گفتگو کی.اور ایسی باتیں کیں جو آپ کو اور حاضرین کو جوش دلا سکتی تھیں.اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ حاضرین میں سے کوئی برداشت نہ کر سکا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت حوصلہ اور صبر کے ساتھ سنتے اور جب جواب دینے لگتے تو اس میں محبت اور ہمدردی کے جذبات شرافت و متانت عالی ہمتی اور خود ضبطی کی تاثیرات نمایاں ہوتی تھیں.خود اس گستاخ اور بے ادب معترض اور مخالف کو بھی شرم آجاتی تھی.اور خدام اور مخلصین کی تو روحانی تربیت اور منازل سلوک کو طے کرانے کا طریق ہی یہ ہو گیا تھا.۲۹ جنوری ۱۹۰۴ء کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا فرما یا صبر کرنا چاہیے ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے.اور آپ کو نعوذ باللہ مدم کہا کرتے تھے.تو آپ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں.میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے مـحـمـد رکھا ہوا ہے.(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا.يَحْمَدُكَ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۳ اللهُ مِنْ عَرشِه یعنی اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے تیری حمد ( تعریف کرتا ہے.یہ وحی براہین احمدیہ میں موجود ہے.آپ کی طبیعت پر اس قسم کی غصہ دلانے والی باتیں اثر ہی نہیں کرتی تھیں.کہ آپ کو گالیوں کا جواب اسی رنگ میں دینے کی تحریک ہوتی.آپ ایسے لوگوں کے لئے دعا دیتے.جیسا کہ فرمایا.گالیاں سن کر دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے ایک لکھنوی حضرت مسیح موعود کی خدمت میں اس کی شوخیاں اور حضرت کا حلم وضبط نفس ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء کو ایک ڈاکٹر صاحب لکھنو سے تشریف لائے.بقول ان کے وہ بغدادی الاصل تھے.اور عرصہ سے لکھنو میں مقیم تھے.انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ چند احباب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بغرض دریافت حال بھیجا ہے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا.ان کے بیان میں شوخی.استہزاء اور بے با کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی اور ان کی باتوں کا جواب دیتے تھے.سلسلہ کلام میں ایک موقعہ پر انہوں نے سوال کیا.نو وارد.عربی میں ، آپ کا دعوی ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا.حضرت اقدس.ہاں اس پر نو وارد نے نہایت ہی شوخی اور مستمز یا نہ طریق پر کہا کہ بے ادبی معاف.آپ کی زبان سے تو قاف بھی نہیں نکل سکتا.میں خود اُس مجلس میں موجود تھا.اس کا طریق بیان بہت کچھ دکھ دہ تھا ایسا تکلیف دہ تھا کہ ہم اُسے برداشت نہ کر سکتے تھے.مگر حضرت کے حلم کی وجہ سے خاموش تھے.لیکن حضرت صاحبزادہ مولانا عبد اللطیف صاحب شہید مرحوم رضی اللہ عنہ ضبط نہ کر سکے اور وہ اس کی طرف لپک کر بولے کہ یہ حضرت اقدس ہی کا حوصلہ ہے.سلسلہ کلام کسی قدر بڑھ گیا.اور قریب تھا کہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۴ دونوں صاحب باہم گتے جاویں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخلص اور جاں نثار و غیور فدائی کو روک دیا.اس پر نو وارد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ استہزا اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے.حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ ہم تو ناراض نہیں ہوتے.یہاں تو خاکساری ہے.اور جب اس نے قاف ادا نہ کرنے کا حملہ کیا.تو حضرت اقدس نے فرمایا.”میں لکھنو کا رہنے والا تو نہیں ہوں.کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو میں تو پنجابی ہوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ لا يَكَادُ يُبينُ اور احادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہوگی.“ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضرت نے اپنی جماعت موجودہ کو خطاب کر کے فرمایا.”میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب وشتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہیئے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے.ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ارادت اور ادب چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں.یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے بات کریں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہوتو وہ معصیت میں داخل ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں.چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے.“ احکم ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳ تا تلخیص) وہی ڈاکٹر صاحب پھر کچھ دن اور ٹھہرے.اور صبح و شام حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کرتے رہے اور جواب سنتے رہے.میں نے اس سوال وجواب کو انہی ایام میں شائع کر دیا تھا.آخر میں نو وارد ڈاکٹر نے دعا کے لئے عرض کیا، حضرت نے فرمایا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۵ دعا تو میں ہندو کے لئے بھی کرتا ہوں.مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ امر مکروہ ہے کہ اس کا امتحان لیا جاوے.میں دعا کروں گا آپ وقتا فوقت یاد دلاتے رہیں.اگر کچھ ظاہر ہوا تو اس سے بھی اطلاع دوں گا.مگر یہ میرا کام نہیں.خدا تعالیٰ چاہے تو ظاہر کر دے.وہ کسی کے منشا کے ماتحت نہیں ہے بلکہ وہ خدا ہے اور غَالِب عَلی اَمرِہ ہے.ایمان کو کسی امر سے وابستہ کرنا منع ہے.مشروط بشرائط ایمان کمزور ہوتا ہے.نیکی میں ترقی کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے.ہمدردی کرنا ہمارا فرض ہے اس کے لئے شرائط کی ضرورت نہیں.ہاں یہ ضروری ہوگا کہ آپ ہنسی ٹھٹھے کی مجلسوں سے دور رہیں.یہ وقت رونے کا ہے.نہ جنسی کا.اب آپ جائیں گے موت حیات کا پتہ نہیں.دو تین ہفتہ تک تو سچے تقویٰ سے دعائیں مانگو کہ الہی مجھے معلوم نہیں تو ہی حقیقت کو جانتا ہے.مجھے اطلاع دے اگر صادق ہے تو اس کے انکار سے ہلاک نہ ہو جاؤں.اور اگر کا ذب ہے تو اس کے اتباع سے بچا اللہ تعالی چاہے تو اصل امر کو ظاہر کر دے." اس پر نو وارد نے عرض کیا.”میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں بہت بُرا ارادہ کر کے آیا تھا.کہ میں آپ سے استہزا کروں اور گستاخی کروں.مگر خدا نے میرے ارادوں کو رد کر دیا.میں اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو فتویٰ آپ کے خلاف دیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے.اور میں زور دے کر نہیں کہہ سکتا کہ آپ مسیح موعود نہیں ہیں.بلکہ مسیح موعود ہونے کا پہلو زیادہ زور آور ہے.اور میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ آپ مسیح موعود ہیں.جہاں تک میری عقل اور سمجھ تھی.میں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے.اور جو کچھ میں نے سمجھا ہے.میں ان لوگوں پر ظاہر کروں گا.جنہوں نے مجھے منتخب کر کے بھیجا ہے.کل میری اور رائے تھی اور آج اور ہے.آپ جانتے ہیں کہ اگر ایک پہلوان بغیر لڑنے کے زیر ہو جائے.تو وہ نامرد کہلائے گا.اس لئے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ بدوں اعتراض کے تسلیم کر لیتا.“ الحکم مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۹) الغرض وہ نو وارد ڈاکٹر یہ اثر لے کر چلے گئے.اس ملاقات اور مکالمات کا جو ذکر میں نے کیا ہے اور جس کو آج سے ۲۴ برس پیشتر میں شائع کر چکا ہوں.اس سے بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں.اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق و شمائل کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.اول.آپ کو اپنے منجانب اللہ ہونے پر کس قدر بصیرت اور ایمان تھا.دوم.آپ کا طریق استدلال ہمیشہ علی منہاج نبوت تھا.سوم.آپ کے تلخ ترین دشمن جو مختلف قسم کے منصوبے اور ارادے لے کر آتے تھے.وہ بھی آپ کے دعوے کو نبیوں کا دعویٰ سمجھتے تھے.چہارم.آپ اکرام ضیف اور مہمان نوازی کے لئے کس قد رحوصلہ اور وسعت اپنے قلب میں رکھتے تھے.اور آپ کا قلب مطہر اس کو جائز ہی نہ رکھ سکتا کہ مہمان کو کچھ بھی رنج ہو.پنجم.آپ کا حوصلہ اور حلم اس قدر وسیع اور آپ کو اپنے جذبات پر اس قدر قوت اور قدرت حاصل تھی کہ تلخ سے تلخ بات جو اشتعال اور جوش دلا سکتی ہے.وہ آپ کے قلب کو مقام سکینت و وقار سے ہلا نہیں سکتی تھی.ششم.آپ کے مزاج میں اس قدر انصاف تھا کہ آپ نے ایک مخالف کا یہ حق تسلیم کر لیا کہ وہ جو چاہے کہے.اس لئے کہ وہ عقیدت مند نہیں.اور اس سے وہ توقع نہیں کرنی چاہیے جو ایک راسخ الاعتقاد مرید سے ہوسکتی ہے.ہفتم.خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسی فراست اور نور عطا کیا تھا کہ آپ شرارت کے نکتہ خیال سے آنے والے کو بھی پہچان جاتے تھے.یہ شخص جیسا کہ اس نے خود اعتراف کیا.دل میں بڑے ارادے اور منصوبے استہزاء اور ٹھٹھے کے لے کر آیا تھا.مگر اپنے ارادوں میں ناکام رہا.اور یہ کہ خدا تعالیٰ کی اُس وحی کی تصدیق بھی اُس کے سامنے ہو گئی جو يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرُشِهِ ہے.ہشتم.یہ اصل بھی ثابت ہو گیا ہے کہ آپ نے جو ہمیشہ جماعت کو قرآن مجید کی اس تعلیم کی طرف توجہ دلائی.اِدْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ وہی صحیح اور مؤثر طریق تبلیغ ہے.تہم.آپ اپنی نبوت پر یقین رکھتے تھے.اور آپ علی وجہ البصیرت دوسرے انبیاء علیہم السلام کے طرز پر اپنی صداقت کو پیش کرتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۷ ان امور پر تفصیلی بحث ہوسکتی ہے کہ وہ اس ملاقات و مکالمات سے کس طرح پر ثابت ہیں.لیکن یہ مقام اس مقصد کے لئے نہیں مجھے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوصلہ اور حلم کے ایک موقع کو پیش کرنا تھا کہ ایسے مواقع پر بھی جب کہ دوسروں کو اشتعال اور جوش ہوسکتا تھا.آپ صبر اور حوصلہ سے کام لے کر عملاً جماعت کی تربیت فرماتے تھے میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کا حوصلہ اور حلم اسی حد تک تھا.جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہوتا تھا.شعائر اللہ کی ہتک اور توہین آپ برداشت نہ کرتے تھے.اس لئے کہ یہ غیرت دینی کے خلاف تھا چنانچہ حضرت مخدوم الملت اس خصوص میں فرماتے ہیں.” آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی.اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمار داری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں.مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدنظر ہے.آپ کی پہلوٹی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا دوی کرتے کہ گویا اُس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف واصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر نہیں سکتا مگر جب وہ مرگئی آپ یوں الگ ہو گئے گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی.یہ مصالحت اور مسالمت خدا کی قضاء و قدر سے بجر منجانب اللہ لوگوں کے ممکن نہیں.کوئی نوکر کوکتنابڑا نقصان کر دے آپ معاف کر دیتے اور معمولی چشم نمائی بھی نہیں کرتے حامد علی کو کچھ لفافے اور کارڈ ڈاکخانہ میں ڈالنے کو دیئے فراموش کا رحامد علی کسی اور کام میں مصروف ہو گیا اور اپنے مفوض کام کو بھول گیا.ایک ہفتہ کے بعد محمود جو ہنوز بچہ تھا کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑا آیا کہ ابا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں آپ نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۸ دیکھا تو وہی خط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط تھے اور آپ ان کے جواب کے منتظر تھے حامد علی کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا.”حامد علی تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو.ایک ہی چیز ہے جو آپ کو متاثر کرتی اور جنبش میں لاتی اور حد سے زیادہ غصہ دلاتی ہے.وہ ہے ہتک حرمات اللہ اور اہانت شعائر اللہ.فرمایا.”میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسمان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے.جن دنوں میں وہ موذی اور خبیث کتاب امہات المؤمنین، جس میں بجز دل آزاری کے اور کوئی معقول بات نہیں چھپ کر آئی ہے اس قد رصدمہ اس کے دیکھنے سے آپ کو ہوا کہ زبانی فرمایا.”ہمارا آرام تلخ ہو گیا ہے.یہ اُسی صدمہ اور توجہ الی اللہ کا نتیجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس باطل عظیم اور شرک جسیم ( مسیح کی الوہیت اور کفارہ ) کے استیصال کے لئے وہ حربہ آپ کے ہاتھ میں دیا یعنی مرہم عیسی اور مسیح کی قبر کا نشان کشمیر میں آپ کو ملا.نزدیک ہے دور نہیں کہ مسیح کی قبر اس باطل کے پرستاروں کے گھر گھر میں ماتم ڈالے اور مسلمانوں کے دل ٹھنڈے ہوں اور اس رنج کو بھول جائیں جواس نا پاک کتاب سے انہیں پہنچا.“ (سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مصنفہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه ۵۳ تا ۵۵) سیالکوٹ کے سفر میں حلم وضبط نفس کے نظارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ اکتو بر ۱۹۰۴ء کی صبح کو ۲ بجے کے قریب دارالامان سے روانہ ہوکراسی روز سیالکوٹ پہنچے.حضرت کا یہ سفر ایک ایفاء عہد کی وجہ سے تھا.گورداسپور میں مقدمات کا ایک سلسلہ عرصہ سے جاری تھا.انہی دنوں میں چند روز کے لئے حضور لا ہور تشریف لے گئے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۹ جماعت سیالکوٹ بھی اس موقعہ پر لاہور حاضر ہوئی.اور اس نے حضرت کے حضور سیالکوٹ جانے کے لئے درخواست کی جس کو حضور نے منظور فرمالیا تھا.اس عہد کو پورا کرنے کے لئے آپ ۱/۲۷ اکتوبر کو روانہ ہوئے.اس سفر کے حالات سوانح حیات میں تفصیل سے انشاء اللہ آجائیں گے.مجھے اس مقام پر صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ضبط نفس اور حوصلہ وحلم کا ایک مرقع دکھانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریف آوری کی خبر سن کر بڑے بڑے جگادری مخالف وہاں جمع ہو گئے تھے.پیر جماعت علی شاہ صاحب سب کے پیشرو تھے.اور جعفر زینتی وغیرہ کو بھی بلالیا گیا تھا.چنانچہ ۲۴ رنومبر ۱۹۰ء کے احکام میں میں نے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۹۰۴ آدم کے ابتدائی دشمن نے اپنی ہلاکت کو محسوس کرتے ہوئے مخالفت حق کا پہلو اختیار کرنا چاہا اس کے بعد ہمارے مخالف لوگوں نے امرتسر ، لاہور اور دوسرے مقامات سے جہاں ان کو موقع ملا ان لوگوں کو بلایا.جو اس سلسلہ کی مخالفت اور تلخ اور نازیبا مخالفت میں دستار فضیلت حاصل کر چکے تھے.جوں جوں حضرت اقدس کی آمد کا شہرہ سیالکوٹ میں ہوتا گیا.اور آنے کے دن قریب ہوتے گئے.اسی قدر مخالفت کا بازار گرم اور تیز ہو گیا.“ غرض یہ تو ابتدائی تیاری تھی.لوگوں کو حضرت اقدس کی زیارت کے لئے نہ جانے کی ہدایت کی اور یہاں تک بھی کہ جو شخص وہاں جائے گا اُس کی عورت پر طلاق ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ.اور جس راستہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکچر گاہ کو جانا تھا.وہاں مختلف مقامات پر بظاہر وعظ کے اڈے بنائے گئے مگر در حقیقت وہ گالیوں اور بد زبانی استہزاء اور ٹھٹھا کرنے کے اڈے تھے میں نے اس وقت اس نظارہ کو دیکھ کر جو نوٹ لکھا تھا.اس جگہ اُسے بجنسہ درج کرنا پسند کرتا ہوں.”راستہ میں گزرتے وقت مخالفوں کے اڈوں اور مجمعوں پر بھی ہم نے نظر کی وہاں کیا ہوتا ہے.ہم خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر بغیر کسی ضد یا تعصب کے لکھتے ہیں.کیونکہ ہم تو ان مخالفوں اور سب و شتم کرنے والوں کو اس کھیت کی کھاد سمجھتے ہیں.وہ اس بازار کی رونق کا ذریعہ ہیں.اور اس حسن کی خوبیوں کے اظہار کا باعث وَ نِعْمَ مَا قِيلَ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۰ را (۱) گر نبود در مقابل روئے مکروہ وسیہ کس چہ دانتے جمال شاہد گلفام (۲) روشنی را قدر از تاریکی است و تیرگی و از جهالت هاست عز و و قر عقل تام را (۳) حجت صادق زنقض و قدح روشن تر شود عذر نامعقول ثابت میکند الزام را ”حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خدام کی سواری ان مجمعوں کے پاس سے گزری تو ان لوگوں نے کیا کیا.اس کا ذکر کرنا شاید اس کے بھول جانے سے بہتر نہ ہوگا.مگر نہیں ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا.اُن کے اشتہار پڑھ کر ہمیں خیال ہوا تھا کہ ان وعظ کے مجمعوں میں جیسا کہ ظاہر کیا گیا تھا.حقائق اور معارف قرآن بیان ہوتے ہوں گے.لیکن ہماری حیرت اور تعجب اور اس کے ساتھ ہی افسوس بھی بڑھ گیا جب دیکھا کہ وہاں گالیوں کے سوا اور کوئی شغل نہیں.اُن کی گالیاں سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے استغنا اور کمال اعراض نے آپ کے قول کی فعل سے تصدیق کر دی.گالیاں سن کر دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹا یا ہم نے اس بیان سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی حالت کیا تھی.الفاظ میں پورا نقشہ نہیں دکھایا جاسکتا تھا.اور پاجی پن کی کیا تصریح کی جاوے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان گالیوں کو سنتے ہوئے پورے وقار صبر وسکون سے گزر گئے.جس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ سے واپس ہوئے ہیں اس روز تو اُن سفلہ مزاجوں نے حد ہی کر دی.اور اس قسم کے نا کر دنی افعال کئے کہ ان کے بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.میں نے واقعات کے ذیل میں جس قدر متانت اور تہذیب سے ممکن تھا ان کا ذکر کیا ہے.لیکن خود اخبار اہل حدیث امرتسر نے جو سلسلہ کا پرانا دشمن ہے.اس وقت جن الفاظ ا ترجمہ اشعار..اگر مقابلہ میں بدشکل اور سیاہ رو نہ ہوتا تو کیونکر کوئی گل اندام معشوق کا حسن پہچان سکتا.۲.اندھیرے کی وجہ سے ہی روشنی کی قدر ہے اور جہالت کی وجہ سے ہی عقل کی عزت قائم ہے.۳.کچی دلیل عیب گیری اور بحث کی وجہ سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے اور بے ہودہ بہانہ الزام ہی کو ثابت کرتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۱ میں ان نالائقوں کا نقشہ کھینچا ہے اور بڑی رعایت سے اُن کی حالت کو عریاں کیا ہے.وہ قابل غور ہے.اہل حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں.چنانچہ ان سے ( مخالف مسلمانوں.عرفانی ) جہاں تک ہو سکا انہوں نے مرزا صاحب کا ساتھ دیا.روانگی کے وقت بدستور ریلوے سٹیشن تک جیسا استقبال کیا تھا.اس سے بڑھ کر استد بار کیا.بلکہ ایک مزید بات یہ بھی ہوئی جو سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے قادیانی کرشن جی کی مہما میں اپنے اسلامی اخلاق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا.چلتی گاڑی کے وقت اسٹیشن سے ایک طرف پرہ باندھ کر کھڑے ہو گئے.اور مرزا صاحب کی مستورات کے سامنے جوش جنون میں ننگے ہو کرنا چتے رہے.“ (الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴ کالم نمبر ۳) یہ وہ رائے ہے جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک گستاخ و شوخ دشمن نے ظاہر کی ہے.اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ ننگ انسانیت حرکت کرنے والا مجمع کس حد تک پہنچا ہوا تھا.میں جو ان حالات کو اپنی آنکھ سے دیکھنے والا ہوں سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ سلوک طائف کے گنڈوں اور شہروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا.اسی طرح یہاں آپ کے بروز احمد قادیانی سے سیالکوٹ میں اس جماعت نے کیا.جو مسلمانوں کے چیدہ و برگزیدہ علماء نے چند روز پہلے کے وعظ سے تیار کی تھی.خدا کا مامور ومرسل ان میں آیا.تا کہ خدا کا پیغام انہیں سناوے.اور تقرب الی اللہ کی راہیں بتائے.مگر انہوں نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اہل طائف نے کیا تھا.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ نگ انسانیت دشمن طائف کے شریروں سے بھی آگے نکل گئے.گالیاں دیں.ننگے ہو کرنا چے.اور بالآخر پتھر مارے.طائف کے بدمعاشوں نے یہ تو نہیں کیا تھا.کہ وہ ننگے ہو کر نا چیں.اس قسم کی ایذا دہی پر قیاس ہو سکتا ہے کہ اس کے جواب میں انتہائی غیظ و غضب کا اظہار کیا گیا ہوگا.حضرت حجت اللہ مسیح موعود علیہ السلام ان جفا کار ان کو دیکھتے.اور ان کے لئے دعا کرتے.اور نہایت درد دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور عرض کرتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۲ بستریم (1) یا رب باب چشم من ایں کسل شاں بشو کامروز تر شد است ازین درد (۲) امروز قوم من نه شناسد مقام من روزے بگرید یاد کند وقت خوشترم (۳) در تنگنائے حیرت و فکرم ز قوم خولیش! یا رب عنایتے کہ ازیں فکر مضطرم (۴) بد گفتم از نوع عبادت شمرده اند در چشم شاں پلید تر از هر مزوّرم اور پھر اپنے دل کو خطاب کر کے کہتے ہیں.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعواء حبّ پیمبرم! بالاخر اپنے استغنا اور حوصلہ اور ضبط نفس کا عملاً ثبوت دیتے ہوئے زبان سے کہہ رہے تھے.(۱) از طعن دشمناں خبرے چوں شود مرا کاندر خیالِ دوست بخواب خوش اندرم (۲) بد بوئے حاسداں نرساند زیان به من من ہر زماں نے نافہ یادش معطرم! سیالکوٹ کا یہ منظر اس سلسلہ کی تاریخ میں نمایاں رہے گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلم وحوصلہ کا ایک بین اور تاریخی ثبوت اس قسم کے حالات اور واقعات صرف ایک جگہ ہی پیش نہیں آئے بلکہ جہاں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اعلائے کلمتہ الحق کے لئے خدا تعالیٰ کے اشارہ سے سفر کرنا پڑا.ہر جگہ اسی قسم کے مناظر پیش آئے.دہلی ، لودہانہ، امرتسر میں اس کی نظیر میں موجود ے ترجمہ اشعار.ا.اے رب میری آنکھ کے پانی سے ان کی یہ ستی دھو ڈال کہ اس غم کے مارے آج میرا بستر تک تر ہو گیا.۲.آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں پہچانتی لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ روروکر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی.۳.میں اپنی قوم کے باعث حیرت اور فکر کی مصیبت میں ہوں اے میرے رب مہر بانی فرما کہ میں اس پریشانی سے بے قرار ہوں.۴.ان لوگوں نے مجھے بُرا کہنا عبادت سمجھ رکھا ہے ان کی نظروں میں میں ہر کذاب سے زیادہ پلید ہوں.تاہم اے دل تو ان لوگوں کا لحاظ رکھ کیونکہ آخر میرے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ے ا.دشمنوں کے طعن کا مجھ پر کیا اثر ہوسکتا ہے میں تو دوست کے تصور میں مدحوش ہوں.۲.حاسدوں کی بد بو مجھے نقصان نہیں پہنچاسکتی کیونکہ میں ہر وقت یا دخدا کے نافہ سے معطر رہتا ہوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۳ ہیں.امرتسر کے مقام پر تو وہ طوفان بے تمیزی برپا کیا گیا.کہ وہاں کی پولیس اور مقامی حکام کو انتظام قائم رکھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خدام کی حفاظت کا خاص طور پر انتظام کرنا پڑا.آپ کی گاڑی پر دور تک پتھروں کی بارش ہو رہی تھی.میں اس لطف اور ذوق کو بیان نہیں کر سکتا جو اس وقت ایمانی رنگ میں پیدا ہورہا تھا.خاکسار عرفانی بھی اس گاڑی پر کوچوان کے ساتھ بیٹھنے کی سعادت رکھتا تھا.جس پر امرتسر کے لفنگے پتھر مار رہے تھے.اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک کھلا کھلا نشان تھا.کہ وہ پتھر ادھر سے اُد ہر نکل جاتے تھے.اور ہم محفوظ اور صحیح سلامت اپنے گھر پہنچ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان تمام حالات میں پورے مطمئن اور مستقیم الاحوال تھے.نہ انہیں کسی قسم کا خوف تھا اور نہ غم اور وغصہ بلکہ آپ کے رحم ولطف کے جذبات جوش میں تھے.اور مسلمانوں کی اس حالت پر افسوس کرتے تھے.کسی شخص کو آپ نے سختی اور برہمی سے جواب نہیں دیا.اور نہ ان کے لئے بددعا کی.اگر چہ خدا تعالیٰ نے جو اپنے مرسلوں کے لئے غیور ہوتا ہے.اور وہ عزیز ذوانتقام بھی ہے.اسی امرتسر میں جہاں اس کے مرسل پر پتھر برسائے گئے تھے.گولیوں کی بارش کروادی اور تاریخی طور پر یہ عبرت بخش نظارہ ایک یادگار کے طور پر جلیا نوالا باغ کی صورت میں قائم رہ گیا.احمق اور نادان اس قسم کے واقعات سے سبق اور عبرت حاصل نہیں کیا کرتے.لیکن سنتِ الہی یہی ہے کہ وہ اپنا عتاب و عذاب مختلف صورتوں میں نازل کرتا ہے.اور خصوصاً ایسے اوقات میں کہ اہل قریہ بالکل غافل ہو جاتے ہیں.گالیوں کا پلندہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بالمشافہ زبانی گندے حملے ہی نہ ہوتے تھے اور آپ کی جان پر اس طرح کے بازاری حملوں پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا تھا.آپ کے قتل کے فتووں اور منصوبوں اور پھر اس کے لئے کوششوں کو ہی کافی نہیں سمجھا جاتا تھا.اخبارات اور خطوط میں بھی گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی.اور پھر اسی پر بس نہیں ایسے خطوط عموماً بیرنگ آپ کو بھیج دیئے جاتے تھے.خدا کا برگزیدہ ان
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۴ خطوط کو ڈاک کا محصول اپنی گرہ سے ادا کر کے لیتا تھا.اور جب کھولتا تھا تو ان میں اوّل سے آخر تک گندی اور مخش گالیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا.آپ ان پر سے گذر جاتے اور ان شریروں اور شوخ چشموں کے لئے دعا کر کے ان کے خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان ایام میں اپنی مخالفت میں حد سے بڑھا ہوا تھا.اور اس نے اپنی گالیوں پر اکتفا نہ کر کے سعد اللہ لد بانوی جعفر زٹلی اور بعض دوسرے بے باک آدمیوں کو اپنارفیق اور معاون بنارکھا تھا.وہ ہر قسم کی اہانت کرتے مگر خدا کے برگزیدہ کو اس کا شیریں کلامِ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ تسلی دیتا اور کامل صبر سے ان گندی تحریروں پر سے گذر جاتے.ایک مرتبہ ۱۸۹۸ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بھیجا میں نے ۲۷ جولائی ۱۸۹۸ء کے الحکم میں اس کیفیت کو درج کر دیا ہے.اور آج قریباً تمہیں سال ہوئے جب اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت حوصلہ ضبط نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں.دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے کیا جانئے ہمیں کیا یاد آیا یه ۲۵ جولائی ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہے.جب کہ ایک شخص محمد ولد چوغطہ اعوان ساکن ھموں گھگڑ ضلع سیالکوٹ نے مولوی صاحب کا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کیا.جسے مولوی محمدحسین صاحب نے بھیجا تھا.آپ نے وہ رسالہ لانے والے قاصد کو اس پر ایک فقرہ لکھ کر واپس کر دیا اور وہی اس کا جواب تھا.جواب مذکور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے حاضرین کو پڑھ کر سنایا اور سب نے آمین کہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب یہ تھا.رَبِّ إِنْ كَانَ هَذَا الرَّجُلُ صَادِقًا فِي قَوْلِهِ فَاكْرِمُهُ وَ إِنْ كَانَ كَاذِبًا فَخُذُهُ.آمین یعنی اے میرے رب ! اگر یہ شخص اپنے قول میں (جواس نے کتاب میں لکھا ہے ) سچا ہے.تو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۵ تو اس کو معزز و مکرم بنادے.اور اگر جھوٹا ہے تو پھر آپ ہی اس سے مواخذہ کر اور اس جھوٹ کے لئے اسے پکڑ.آمین.اس کے بعد اس کا کیا حشر ہوا.دنیا جانتی ہے.یہاں اسے بیان کرنے کا محل اور موقع نہیں وہ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینِ میں بیان ہوگا.( انشاء اللہ العزیز) لیکن جس غرض کے لئے یہاں میں نے اس کا ذکر کیا ہے وہ اسی قدر ہے کہ ان گالیوں کا اثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اسی قدر تھا کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی ، اپنے قلم سے کسی قسم کے غصہ اور شدت غضب کا اظہار نہیں کیا.ورنہ اگر حضور کچھ بھی نہ کہتے تو آپ کے خدام بھی اس کی گالیوں کا جواب دے سکتے تھے.اور عطائے او بدلقائے او آسان تھا.غرض آپ کی زندگی کے جس واقعہ کو آپ دیکھیں جہاں دشمنوں نے آپ پر کسی قسم کا حملہ کیا ہو.آپ نے اس کے جواب میں پورے حلم اور حوصلہ اور صبر و حمل کا اظہار کیا ہے.آپ کے سکون خاطر اور کوہ و قاری کو کوئی چیز جنبش نہ دے سکتی تھی.اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ خدا تعالیٰ کی وحی جو آپ پر ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اسی خدا نے وہ خارق عادت اور فوق الفطرت صبر اور حوصلہ آپ کو عطا فرمایا تھا.جو اولوا العزم رسولوں کو دیا جاتا ہے.قبل از وقت خدا تعالیٰ نے متعد دفتنوں کی آپ کو اطلاع دی تھی.اور وہ فتنے اپنے اپنے وقت پر پوری شدت اور قوت کے ساتھ ظاہر ہوئے.مگر کسی موقعہ اور مرحلہ پر آپ کے پائے ثبات کو جنبش نہ ہوئی.پنڈت لیکھرام کے قتل پر تلاشی پنڈت لیکھرام آریہ مقتول اسلام پر شوخی اور گستاخی سے حملہ کرنے کا عادی تھا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی ذات کے متعلق نشان طلب کیا.یہ واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد کتابوں ، اشتہاروں میں تحریر فرمائے ہیں.اور دوست دشمن ان سے واقف ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۶ خدا تعالیٰ کے زبردست ہاتھ کی تجلتی پر غور کرو.کہ اس نے خود آریوں کے ہاتھ سے اس کی یاد گار کو قائم کرا کر اس نشان کو زندہ رہنے دیا ہے.اور یقین ہے کہ یہ نشان اب انمٹ ہو چکا ہے.اس کے قتل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سازش پر محمول کیا گیا.اور آریوں نے شور مچایا کامل تفتیش اور تحقیق سے یہ الزام بالکل بے بنیاد ثابت ہوا.اس قتل کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تلاشی ہوئی.اور یہ تلاشی بھی خدا تعالیٰ کی وحی سے کی ہوئی پیشگوئی مندرجہ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۷،۵۵۶ ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق خود ایک اعلان 1ار اپریل ۱۸۹۷ء کو شائع کیا تھا.میں اس کا یہاں آخری حصہ درج کرتا ہوں اور یہی حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے اس مقام کے متعلق ہے.اب ہم ایک بڑی حکمت اس خانہ تلاشی کی لکھتے ہیں جس کے تصور سے ہمیں اس قدر خوشی ہے کہ ہم اندازہ نہیں کر سکتے.جس دن خانہ تلاشی ہونے والی تھی یعنی ۱/۸اپریل روز پنجشنبہ.اس دن افسران پولیس کے آنے سے چند منٹ پہلے میں اپنے رسالہ سراج منیر کی ایک کاپی پڑھ رہا تھا.اور اس میں براہین احمدیہ کے حوالہ سے یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو اپنی کلام میں میرا نام عیسی رکھا ہے تو ایک وجہ مشابہت وہ ابتلا ہے جو حضرت عیسی“ کو پیش آیا تھا.یعنی یہود کی قوم نے اپنی کوششوں سے اور نیز گورنمنٹ رومیہ کو دھوکا دینے سے چاہا کہ حضرت عیسی کو صلیب دی جائے.اس عبارت کے پڑھنے کے وقت مجھے یہ خیال آیا کہ حضرت مسیح کے دشمنوں نے دو پہلو اختیار کئے تھے.ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایذارسانی کی کوششیں کیں اور دوسرے یہ کہ گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی.مگر میرے معاملہ میں تو اب تک صرف ایک پہلو ہے.یعنی صرف آریوں کی کوششیں اور اخباروں اور خطوط کے ذریعہ سے ان کی بد گوئی.اس وقت معاًمیرے دل نے خواہش کی کہ کیا اچھا ہوتا کہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا تا وہ پیشگوئی جولیکھرام کی نسبت اس کی موت سے سترہ برس پہلے لکھی گئی ہے اپنے دونوں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۷ پہلوؤں کے ساتھ پوری ہو جاتی.سو ابھی میں اس سوچ میں تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ صاحب ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ بہادر پولیس مسجد میں ہیں.تب میں بڑی خوشی سے گیا اور صاحب بہادر نے مجھے کہا کہ ' مجھے حکم آگیا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں آپ کے گھر کی تلاشی کروں“ تلاشی کا نام سن کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی جیسے اُس ملزم کو ہو سکتی ہے جس کو کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہوگی.تب میں نے کہا کہ آپ اطمینان کے ساتھ تلاشی کریں اور میں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں.اس کے بعد میں ان کو مع دوسرے افسروں کے اپنے مکان میں لے آیا.اور اوّل مردانہ مکان میں ، پھر زنانہ مکان میں.تمام بستہ جات وغیرہ انہوں نے دیکھ لئے اور مہمان خانہ ومطبع وغیرہ مکانات سب کے سب دکھلا دیئے گئے.غرض صاحب موصوف نے عمدہ طور پر اپنے فرض منصبی کو ادا کیا اور بہت ساحصہ وقت کا خرچ کر کے اور خدا کی پیشگوئی کو اپنے ہاتھوں سے پوری کر کے آخر آٹھ بجے رات کے قریب چلے گئے.یہ تو سب کچھ ہوا.مگر ہمیں اس بات کی نہایت خوشی ہوئی کہ اس روز براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۶ اور ۵۵۷ کی پیشگوئی کامل طور پر پوری ہوگئی.اور جیسا کہ لکھا تھا چمکدار نشان کے لوازم ظہور میں آگئے.المشتهر خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی ۱۱ اپریل ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۷۸ ۷۹ طبع بار دوم )
سیرت حضرت مسیح موعود ۴۴۹ علیہ الصلوۃ والسلام سیرت حضرت مسیح موعود حصہ چہارم مصفى حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی باوجود کوشش کے ابھی تک نہیں ملی اس لئے اس کتاب میں شامل نہیں ہے.حصہ چہارم
الله جنة الحرة الري مَا الصَّلوة والسلام حضرت سیح موعود کے شمائل عادات و اخلاق کا تذکرہ آپ کی دعاؤں کے آئینہ میں حصہ پنجم ای بالای زانای زیر انکم صرف المطبوع طبع نظام کی حمد آباد کین) باراول تاریخ اشاعت ۲۰ نومبر ۹۳ قیمت مع محصول اک جا فی جلد تعدا وجلد ۵۰۰
سیرت حضرت مسیح موعود علیہا ۴۵۲ بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال پورے سولہ سال کے بعد سیرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کے سلسلہ میں یہ نمبر اشاعت پارہا ہے.مجھ کو اس عرصہ التوا کا سخت صدمہ ہے میں چاہتا تھا کہ اب تک سیرت و سوانح کے تمام مجلدات مکمل ہو جاتے مگر عَرَفْتُ رَبِّي بِفَسُحَ الْعَزَائِمِ اگر چہ اس عرصہ میں یہ کام کسی نہ کسی نہج پر ہوتا رہا ہے الحکم کے ذریعہ بہت سا مواد جمع کر دیا گیا مگر کتابی صورت میں اب تک یہ محتاج تکمیل ہے میں اسباب التوا کی بحث غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ دشکن ہے یہ کام اب پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے شروع کیا گیا ہے اسی کی توفیق سے تکمیل کا امیدوار ہوں.اس آغاز کی ہمت افزائی فدائے سلسلہ حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی اور حضرت سیٹھ حسن یادگیری کی رہین منت ہے.حضرت سیٹھ حسن نے باوجود مختلف قسم کے ابتلاؤں کے ( جن میں وہ عبد شکور ثابت ہوئے ) میرا ہاتھ مضبوط کرنے کو قدم بڑھایا اس کی تفصیل میں کتاب تعارف میں انشاء اللہ کروں گا.سر دست میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احباب توجہ فرمائیں اور اللہ تعالیٰ مجھے صحت و توفیق عطا فرمائے تو یہ کام مسلسل جاری رہ سکتا ہے اس کے لئے میں نے اپنی تجویز یا تحریک دوسری جگہ کی ہے، احباب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں اور ایسے مخلصین سے تعاون کی توقع، بالآ خر ساری توفیقیں اللہ تعالیٰ ہی کے حضور سے آتی ہیں اُسی کے آستانہ پر گر کر کہتا ہوں.آغاز کرده ام تو رسانی به انتہا خاکسار یعقوب علی عرفانی نزیل سکندر آباد ۲۰ / نومبر ۱۹۴۳ء
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۳ حصہ پنجم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیرت و شمائل دعاؤں کے آئینہ میں (پانچواں حصہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے سلسلہ میں آپ کی دعاؤں کا ذکر بظاہر بے جوڑ معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کی سیرت و شمائل کا صحیح آئینہ اس کی دعائیں ہیں یا دوسرے الفاظ میں اس کی آرزوؤں اور تمناؤں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے اخلاق و عادات کا کیا رنگ ہے اور اس خصوص میں اس کا کیا مقام اور شان ہے یہ ایک بدیہی بات ہے کہ انسان کے جذبات اور اس کے قلبی تاثرات کا ظہور اس کی تمناؤں اور خواہشوں سے ہوتا ہے جو ایک محبوب کے لئے تمنا کہلاتی ہے اور عارف اسی کو دعا کہتا ہے.خدائے تعالیٰ سے دور انسان تمناؤں کے تلاطم میں غوطے کھاتا ہے اور وہ اس سفلی زندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر عارف کے جذبات خدائے تعالیٰ کی تجلیات کو جذب کرتے ہیں اس لئے کہ ان میں طہارت نفس اور تقرب الی اللہ کی کشش اور قوت پیدا ہوتی ہے اور وہ اسی طرف دوڑتا ہے وہ اسباب بھی اسی سے مانگتا ہے اور اس کے نتائج کا سود مند ہونا بھی اسی سے چاہتا ہے.غرض کسی شخص کی سیرت و شمائل کا صحیح پتہ اس کی آرزؤوں اور دعاؤں میں ملتا ہے اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کو اسی نقطہ نظر سے پیش کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی میرا مقصد یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امتیازی خصوصیات میں یہ امر بھی داخل ہے کہ آپ نے مبعوث ہو کر دعا کی حقیقت کو نمایاں فرمایا جس طرح آپ کے وجود سے زندہ خدا زندہ رسول اور زندہ کتاب کی اصطلاحیں ظاہر ہوئیں آپ نے دعا کو بھی زندہ کیا لوگ دعا کی حقیقت سے بے بہرہ ہو چکے تھے.جس طرح دوسرے اعمال
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۴ رسم و قشر کی صورت اختیار کر چکے تھے دعا بھی ایک بے معنی چیز ہوگئی تھی اس میں زندگی کے آثار مفقود تھے اور اس وجہ سے خود مسلمانوں کے اندر ایک جماعت پیدا ہوگئی تھی جو دعا کی منکر تھی اس لئے کہ وہ دیکھتے تھے کہ دعاؤں کی قبولیت کے آثار اور ثمرات نظر نہیں آتے اور یورپ کے خیالی فلسفہ نے اس کی اہمیت اور قوت و تاثیر سے بدظن کر دیا.اور جو لوگ بظاہر دعا کے قائل تھے ان کی حالت یہ تھی کہ دعا کے الفاظ اور شکل تو موجود تھی اور وہ ان الفاظ کو دہراتے اور رشتے بھی تھے مگر حقیقت اور تا ثیر مفقود تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یورپ کے فلسفہ زدہ لوگوں کے لئے برکات الدعا لکھی اور دعاؤں کی عملی قبولیت کے آثار و اعجاز سے دعا کی قوت کا مشاہدہ کرا دیا اور اس طرح یہ خیالی بات نہ رہی بلکہ ایک طرف اسے علمی دلائل سے ثابت کیا دوسری طرف اس کی تاثیرات سے نا قابل تردید مشاہدہ پیش کیا.اپنی دعاؤں کی قبولیت کو ایک عظم الشان آیت اور نشان کے رنگ میں پیش کیا اور جولوگ مغربی فلسفہ سے مرعوب ہو کر اس کا انکار کرتے تھے انہیں متحد یا نہ رنگ میں دعوت دی.قصہ کوتاہ کن بہ بیس از مادعائے مستجاب دعا کی حقیقت اور اس کے برکات کو ایسے آسان اور واضح رنگ میں پیش کیا کہ نیچری اور فلسفی کو اس کے قبول کئے بغیر چارہ نہ رہا.دنیا کے اندر جو آج انقلاب ہورہا ہے یقیناً اس انقلاب میں انہیں دعاؤں کا اثر ہے.جس طرح آنحضرت ﷺ کی دعاؤں نے دنیا میں حیرت انگیز انقلاب پیدا کیا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آہ وزاری نے عرش عظیم کو ایسی حرکت دی کہ آسمان زمین کے قریب ہو گیا اور دنیا نے ان تجلیات کا مشاہدہ کر لیا جو پہلے نظر نہ آتی تھیں.اس طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مطاع علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع میں گم اور فنا ہو کر اور اسی ردا کو پہن کر اسی رنگ میں اپنی دعاؤں سے ایک ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین کی تکوین ہوگئی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۵ حصہ پنجم 66 جو تاریکی کے فرزندوں کو نظر نہیں آتی.آپ کی دعاؤں نے فی الحقیقت مردوں کو زندہ کر دیا اور وہ جو سفلی جذبات میں محو ہو کر نفس دُنی کی قبروں میں پڑے سڑ رہے تھے ان کو قسم بِاِذْنِ اللهِ کہ کر اٹھایا اور ان میں ایک ایسی تبدیلی کر دی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت و وفا میں زندہ ہو گئے اور ان کے سفلی جذبات پر موت وارد ہوگئی اس کی دعاؤں نے پاکوں کے سردار ﷺ کے دشمنوں پر قہری بجلیاں گرا ئیں اور منکرین کرامت کو پکار کر کہا ”بیا بنگر ز غلمان محمد “ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں پر غور کرنے سے ایک طرف ایمانی قوتوں میں نشو ونما ہوتا ہے دوسری طرف انسان تقرب الی اللہ کی اس راہ پر لذیذ ایمان پالیتا ہے جو دعاؤں کی صورت میں پیش کی گئی ہے اور ان دعاؤں سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت و شمائل پر ایک نفسیاتی مطالعہ کا دلچسپ سلسلہ سامنے آتا ہے اسی مقصد کے پیش نظر میں نے پسند کیا کہ سیرت و شمائل کی پانچویں جلد کو حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کے رنگ میں پیش کروں.(وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيقِ) عرفانی خاکسار یکم ستمبر ۱۹۳۹ء نزیل سکندر آباد دکن
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۶ حصہ پنجم دعا کے متعلق آپ کے بعض ملفوظات اگر چہ دعا کے متعلق مستقل تالیف کا عرصہ سے عزم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے مختلف پہلوؤں پر جو بصیرت افروز روشنی اپنے ذاتی علم اور معرفت اور تجربہ کی بناء پر ڈالی ہے اس کو پیش کیا جاوے لیکن اس موقع کی مناسبت سے اور محض اس خیال سے کہ شاید کسی پڑھنے والے کو اس سے فائدہ پہنچے اور میرے لئے موجب ثواب ہو میں حضرت کے ملفوظات میں سے چند باتیں پیش کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.(۱) دعا کی ماہیت دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق جاذبہ ہے.یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہِ الوہیت ہے اور اُس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.تب اُس کی روح اُس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر اُن تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۷ تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں.اور اگر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے.یعنی بِاِذْنِهِ تَعَالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دُعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے.اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے.اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا.اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِك عَلَيْهِ وَآلِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَ غَمِّهِ وَحُزْنِهِ لِهذِهِ الْأُمَّةِ وَ اَنْزِلْ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ.اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے.بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے.“ بركات الد عار وحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۹ تا ۱۱)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۸ (۲) دعا ایک فطرتی امر ہے دیکھو ایک بچہ بھوک سے بیتاب اور بے قرار ہو کر دودھ کے لیے چلاتا ہے اور چیختا ہے، تو ماں کی پستان میں دودھ جوش مار کر آ جاتا ہے؛ حالانکہ بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اُس کی چھینیں دُودھ کو جذب کر لیتی ہیں.یہ ایک ایسا امر ہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کو اس کا تجربہ ہے.بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دُودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں لیکن جونہی بچہ کی درد ناک چیخ کان میں پہنچی ، فور دُودھ اتر آیا ہے.جیسے بچہ کی ان چیچنوں کو دُودھ کے جذب اور کشش کے ساتھ ایک علاقہ ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلا ہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اُس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے اور میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے اور میں اپنے تجربہ کی بناپر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے، میں نے اپنی طرف کھنچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے.ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کر سکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دُنیا سے اُٹھ نہیں سکتی اور خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ میں قبولیت دعا کا نمونہ دکھانے لئے ہر وقت تیار ہوں.“ (۳) دعا اور قضاء وقدر ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ ربوہ ) " آج کل مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ بھی پایا جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ دُعا کچھ چیز نہیں ہے اور قضا و قدر بہر حال وقوع میں آتی ہے.لیکن افسوس کہ یہ لوگ نہیں جانتے که با وجود سچائی مسئلہ قضا و قدر کے پھر بھی خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں بعض آفات
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۹ حصہ پنجم کے دُور کرنے کے لئے بعض چیزوں کو سبب ٹھہرا رکھا ہے جیسا کہ پانی پیاس کے بجھانے کے لئے اور روٹی بھوک کے دور کرنے کے لئے قدرتی اسباب ہیں پھر کیوں اس بات سے تعجب کیا جائے کہ دُعا بھی حاجت براری کے لئے خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ایک سبب ہے جس میں قدرت حق نے فیوض الہی کے جذب کرنے کے لئے ایک قوت رکھی ہے.ہزاروں عارفوں راستبازوں کا تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ درحقیقت دُعا میں ایک قوت جذب ہے.اور ہم بھی اپنی کتابوں میں اس بارے میں اپنے ذاتی تجارب لکھ چکے ہیں اور تجربہ سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں.اگر چہ یہ سچ ہے کہ قضا و قدر میں پہلے سب کچھ قرار پاچکا ہے مگر جس طرح یہ قرار پا چکا ہے کہ فلاں شخص بیمار ہو گا اور پھر یہ دوا استعمال کرے گا تو وہ شفا پا جائے گا اسی طرح یہ بھی قرار پا چکا ہے کہ فلاں مصیبت زدہ اگر دُعا کرے گا تو قبولیت دعا سے اسباب نجات اس کے لئے پیدا کئے جائیں گے.اور تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ جس جگہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہو جائے کہ ہمہ شرائط دُعا ظہور میں آوے وہ کام ضرور ہو جاتا ہے.اسی کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ فرما رہی ہے.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم میرے حضور میں دُعا کرتے رہو آخر میں قبول کرلوں گا.تعجب کہ جس حالت میں باوجود قضا و قدر کے مسئلہ پر یقین رکھنے کے تمام لوگ بیماریوں میں ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پھر دُعا کا بھی کیوں دوا پر قیاس نہیں کرتے ؟“ (۴) دعا اور تدبیر کا باہمی تعلق ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۳۲ حاشیه ) دیکھا جاتا ہے کہ انسانی طبائع کسی مصیبت کے وقت جس طرح تدبیر اور علاج کی طرف مشغول ہوتی ہیں.ایسا ہی طبعی جوش سے دُعا اور صدقہ اور خیرات کی طرف جھک جاتی ہیں.اگر دُنیا کی تمام قوموں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کسی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۰ حصہ پنجم قوم کا کانشنس اس متفق علیہا مسئلہ کے برخلاف ظاہر نہیں ہوا.پس یہی ایک رُوحانی دلیل اس بات پر ہے کہ انسان کی شریعت باطنی نے بھی قدیم سے تمام قوموں کو یہی فتویٰ دیا ہے کہ وہ دُعا کو اسباب اور تدابیر سے الگ نہ کریں بلکہ دعا کے ذریعہ سے تدابیر کو تلاش کریں.غرض دعا اور تدبیر انسانی طبیعت کے دو طبعی تقاضے ہیں کہ جو قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے دو حقیقی بھائیوں کی طرح انسانی فطرت کے خادم چلے آئے ہیں اور تدبیر دُعا کے لئے بطور نتیجہ ضرور یہ کے اور دُعا تدبیر کے لئے بطور محرک اور جاذب کے ہے اور انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ تدبیر کرنے سے پہلے دُعا کے ساتھ مبدء فیض سے مدد طلب کرے تا اُس چشمہ لازوال سے روشنی پا کر عمدہ ایام اصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۳۱ ۲۳۲) تدبیریں میسر آ سکیں.“ (۵) دعا اور تدبیر میں تناقض نہیں ہے ”خدا کا قانونِ قدرت جو ہماری نظر کے سامنے ہے ہمیں بتلا رہا ہے کہ سو تدابیر اور معالجات کا طلب اور استدعا سے وابستہ ہے یعنی جب ہم فکر کے ذریعہ سے یا کسی اور طریق جستجو کے ذریعہ سے کسی تدبیر اور علاج کو طلب کرتے ہیں یا اگر ہم طلب کرنے میں احسن طریق کا ملکہ نہ رکھتے ہوں یا اگر اس میں کامل نہ ہوں تو مثلاً اس غور اور فکر کے لئے کسی ڈاکٹر کو منتخب کرتے ہیں اور وہ ہمارے لئے اپنی فکر اور غور کے وسیلہ سے کوئی احسن طریق ہماری شفا کا سوچتا ہے تب اس کو قانونِ قدرت کی حد کے اندر کوئی طریق سُوجھ جاتا ہے جو کسی درجہ تک ہمارے لئے مفید ہوتا ہے سو وہ طریق جو ذہن میں آتا ہے وہ درحقیقت اس خوض اور غور اور فکر اور توجہ کا نتیجہ ہوتا ہے.جس کو ہم دوسرے لفظوں میں دُعا کہہ سکتے ہیں کیونکہ فکر اور غور کے وقت جب کہ ہم ایک مخفی امر کی تلاش میں نہایت عمیق دریا میں اتر کر ہاتھ پیر مارتے ہیں تو ہم ایسی حالت میں بہ زبانِ حال اُس اعلیٰ طاقت سے فیض طلب کرتے ہیں جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.غرض
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۱ حصہ پنجم جب کہ ہماری روح ایک چیز کے طلب کرنے میں بڑی سرگرمی اور سوز و گداز کے ساتھ مبدء فیض کی طرف ہاتھ پھیلاتی ہے اور اپنے تئیں عاجز پا کر فکر کے ذریعہ سے کسی اور جگہ سے روشنی ڈھونڈتی ہے تو درحقیقت ہماری وہ حالت بھی دُعا کی ایک حالت ہوتی ہے.اُسی دُعا کے ذریعہ سے دنیا کی کل حکمتیں ظاہر ہوئی ہیں.اور ہر ایک بہت اعلم کی گنجی دُعا ہی ہے اور کوئی علم اور معرفت کا قیقہ نہیں جو بغیر اس کے ظہور میں آیا ہو.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۴ صفحه ۲۳۰،۲۲۹) (۶) عارفوں اور مجو بوں کی دعا میں کیا فرق ہے؟ 66 ”ہمارا سوچنا ہمارا فکر کرنا اور ہمارا طلب امر مخفی کے لئے خیال کو دوڑ انا یہ سب امور دُعا ہی میں داخل ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ عارفوں کی دُعا آداب معرفت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اور اُن کی روح مبدء فیض کو شناخت کر کے بصیرت کے ساتھ اس کی طرف ہاتھ پھیلاتی ہے اور مجو بوں کی دُعا صرف ایک سرگردانی ہے جو فکر اور غور اور طلب اسباب کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ سے ربط معرفت نہیں اور نہ اس پر یقین ہے وہ بھی فکر اور غور کے وسیلہ سے یہی چاہتے ہیں کہ غیب سے کوئی کامیابی کی بات اُن کے دل میں پڑ جائے اور ایک عارف دُعا کرنے والا بھی اپنے خدا سے یہی چاہتا ہے کہ کامیابی کی راہ اس پر کھلے لیکن مجوب جو خدا تعالیٰ سے رابطہ نہیں رکھتا وہ مبدء فیض کو نہیں جانتا اور عارف کی طرح اس کی طبیعت بھی سرگردانی کے وقت ایک اور جگہ سے مدد چاہتی ہے اور اسی مدد کے پانے کے لئے وہ فکر کرتا ہے.مگر عارف اُس مبدء کو دیکھتا ہے اور یہ تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ جو کچھ فکر اور خوض کے بعد بھی دل میں پڑتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ متفکر کے فکر کو بطور دُعا قرار دے کر بطور قبول دُعا اس علم کو فکر کرنے والے کے دل میں ڈالتا ہے.غرض جو حکمت اور معرفت کا نکتہ فکر کے ذریعہ سے دل میں پڑتا ہے وہ بھی خدا سے ہی ،
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۲ حصہ پنجم آتا ہے اور فکر کرنے والا اگر چہ نہ سمجھے مگر خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ مجھ سے ہی مانگ رہا ہے.سو آخر وہ خدا سے اس مطلب کو پاتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے یہ طریق طلب روشنی اگر علی وجہ البصیرت اور ہادی حقیقی کی شناخت کے ساتھ ہو تو یہ عارفانہ دُعا ہے اور اگر صرف فکر اور خوض کے ذریعہ سے یہ روشنی لا معلوم مبدء سے طلب کی جائے اور منور حقیقی کی ذات پر کامل نظر نہ ہو تو وہ مجو بانہ دعا ہے.“ 66 ایام الصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۴ صفحه ۲۳۰، ۲۳۱) (۷) قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیر میں موجود ہیں قانوں قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے.اسی لئے اس نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة: ۷،۶ ) کی دُعا تعلیم فرمائی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا منشاء اور قانون ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا سے پایا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر.ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر تو اشارۃ النص کے طور پر اس سے دُعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے.صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے ، لیکن اس کے سر پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة: ۵) بتا رہا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.یعنی صراط مستقیم کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانت الہی کو مانگنا چاہیے.پس ظاہری اسباب کی رعایت ضروری ہے.جو اس کو چھوڑتا ہے، وہ کا فر نعمت ہے.دیکھو! یہ زبان جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور عروق واعصاب سے اس کو بنایا ہے.اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے.ایسی زبان دُعا کے لیے عطا کی جو قلب کے خیالات اور ارادوں کو ظاہر کر سکے (اگر ہم دُعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو ہماری شور بختی ہے.بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جائیں تو وہ یکدفعہ ہی کام چھوڑ بیٹھتی ہے ) یہ رحیمیت ہے.ایسا ہی قلب میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۳ حصہ پنجم خشوع و خضوع کی حالت رکھی اور سوچنے اور تفکر کی قو تیں ودیعت کی ہیں.پس یا درکھو.اگر ہم ان قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں، تو یہ دُعا کچھ بھی مفید اور کارگر نہ ہوگی.کیونکہ جب پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا، تو دوسرے سے کیا نفع اٹھا ئیں گے، اس لئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے پہلے اِيَّاكَ نَعْبُدُ بتا رہا ہے کہ ہم نے تیرے پہلے عطیوں اور قوتوں کو بریکار اور برباد نہیں کیا.یاد رکھو! کہ وہ رحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اُٹھانے کے قابل بنادے، اس لئے خدا تعالیٰ نے جو ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن (۲۱) فرمایا یہ نری لفاظی نہیں ہے، بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے.مانگنا انسانی خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا جو نہیں مانتا وہ ظالم ہے.دعا ایک ایسی سرور بخش کیفیت ہے کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں کن الفاظ میں اس لذت اور سُرور کو دنیا کو سمجھاؤں.یہ تو محسوس کرنے سے ہی پتہ لگے گا.مختصر یہ کہ دُعا کے لوازمات سے اول ضروری یہ ہے کہ اعمال صالحہ اور اعتقاد پیدا کریں.کیونکہ جوشخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا اور دُعا کرتا ہے، وہ گویا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۲۸، ۱۲۹ مطبوعہ ربوہ ) (۸) دعا کے اثر کے لئے صفات الہیہ کا لحاظ ضروری ہے أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرۃ: ۱۸۷).اور قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعاؤں کو سنتا ہے اور وہ بہت ہی قریب ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ کی صفات اور اسماء کالحاظ نہ کیا جائے اور دُعا کی جائے تو وہ کچھ بھی اثر نہیں رکھتی.صرف اس ایک راز کے معلوم نہ ہونے کہ وجہ سے نہیں، بلکہ معلوم نہ کرنے کی وجہ سے دنیا ہلاک ہو رہی ہے.میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ہم نے بہت دُعائیں کیں اور ان کا نتیجہ کچھ نہیں ہوا.اور اس نتیجہ نے اُن کو دہریہ بنا دیا.بات
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۴ حصہ پنجم اصل میں یہ ہے کہ ہر امر کے لیے قواعد اور قوانین ہوتے ہیں.ایسا ہی دُعا کے واسطے قواعد وقوانین مقرر ہیں.یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی ، اس کا باعث یہی ہے کہ وہ ان قواعد اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے جو قبولیت دُعا کے واسطے ضروری ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب ایک لا نظیر اور بیش بہا خزانہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس کو پاسکتا ہے اور لے سکتا ہے.کیونکہ یہ کبھی بھی جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر خدا مان کر یہ تجویز کریں کہ جو کچھ اس نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور جو ہمیں دکھایا ہے.یہ محض سراب اور دھوکا ہے.ایسا وہم بھی انسان کو ہلاک کر سکتا ہے.نہیں.بلکہ ہر ایک اس خزانہ کو لے سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی کمی نہیں.وہ ہر ایک کو یہ خزانے دے سکتا ہے پھر بھی اس میں کمی نہیں آسکتی.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۷ ۲۷، ۲۷۸ مطبوعہ ربوہ ) (۹) دعا میں اسباب کی رعایت ضروری ہے سنو! وہ دُعا جس کے لئے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن :۶۱) فرمایا ہے.اس کے لئے یہی سچی رُوح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں، تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے.یہ ایک غلط نہی ہے.شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ؟ یا اسباب دُعا نہیں ؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دُعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ ہے.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۰۷ مطبوعہ ربوہ ) (۱۰) غیر اللہ سے دعا اور سوال غیر مومنانہ طریق ہے پھر یہ بات یادر کھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے، دعا سے حاصل ہوتی ہے.غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مخالف ہے، کیونکہ یہ مرتبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے.جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اُسی سے نہ مانگے.سچ سمجھو کہ وہ حقیقی طور پر سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں.جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سے گلوں کو چلاتا ہے.پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون کو اُس انجن کی طاقتِ عظمی کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیونکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو اتی وَجَّهُتُ وَجْهِيَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ (الانعام: ۸۰) کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے منہ سے کہتا ہے، ویسے ہی اُدھر کی طرف متوجہ ہو تو لا ریب وہ مسلم ہے.وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور اُدھر بھی جھکتا ہے، وہ یادر کھے کہ بڑا ہی بدقسمت اور محروم ہے کہ اُس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے.ترک نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے، تو رُوح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح (جس کی شاخیں ابتداءً ایک طرف کر دی جاویں اور اُس طرف جھک کر پرورش پالیس ) ادھر ہی جھکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیدا ہو کر اُسے منجمد اور پتھر بنادیتا ہے.جیسے وہ شاخیں.پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتا.اسی طرح پر وہ دل اور روح دن بدن خدا تعالیٰ سے دُور ہوتی جاتی ہے.پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے.“ 66 حصہ پنجم ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۰۶ مطبوعہ ربوہ )
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۶ حصہ پنجم (۱۱) دعا سے کیا ملتا ہے اگر یہ دعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خدا شناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا.دُعا سے الہام ملتا ہے.دُعا سے ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کلام کرتے ہیں.جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اُس پر ظاہر ہوتا ہے جولوگوں سے پوشیدہ ہے.“ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۴ صفحه ۲۳۹) فرماتے ہیں آں خدائے کہ از وخلق جہاں بے خبراند بر من او جلوه نمود است گر اہلی به پذیر (۱۲) قبولیت دعا کے متعلق ایک اصول دعا کا اصول یہی ہے.اللہ تعالیٰ قبول دعا میں ہمارے اندیشہ اور خواہش کے تابع نہیں ہوتا ہے.دیکھو بچے کس قدر اپنی ماؤں کو پیارے ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، لیکن اگر بچے بیہودہ طور پر اصرار کریں اور روکر تیز چاقو یا آگ کا روشن اور چمکتا ہوا انگار مانگیں، تو کیا ماں باوجود سچی محبت اور حقیقی دلسوزی کے کبھی گوارا کرے گی کہ اس کا بچہ آگ کا انگارہ لے کر ہاتھ جلالے یا چاقو کی تیز دھار پر ہاتھ مار کر ہاتھ کاٹ لے؟ ہر گز نہیں.اسی اصول سے اجابت دعا کا اصول سمجھ سکتے ہیں.میں خود اس امر میں ایک تجربہ رکھتا ہوں کہ جب دعا میں کوئی جزو مضر ہوتا ہے تو وہ دعا ہر گز قبول نہیں ہوتی ہے.یہ بات خوب سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ہمارا علم یقینی اور صحیح نہیں ہوتا.بہت سے کام نہایت خوشی سے مبارک سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ان کا نتیجہ بہت ہی مبارک خیال کرتے ہیں، مگر انجام کار وہ ایک غم اور مصیبت ہو کر ترجمہ.وہ خدا جس سے دنیا کے لوگ بے خبر ہیں اس نے مجھ پر تجلی کی ہے.اگر تو عقلمند ہے تو مجھے قبول کر.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۷ چمٹ جاتے ہیں.غرض یہ کہ خواہشات انسانی سب پر صاد نہیں کر سکتے کہ سب صحیح ہیں.چونکہ انسان سہو اور نسیان سے مرکب ہے، اس لئے ہونا چاہیے اور ہوتا ہے کہ بعض خواہش مضر ہوتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو منظور کر لے تو یہ امر منصب رحمت کے صریح خلاف ہے.یہ ایک سچا اور یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے.مگر ہر رطب و یابس کو نہیں.کیونکہ جوش نفس کی وجہ سے انسان انجام اور مال کو نہیں دیکھتا اور دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ جو حقیقی بہی خواہ مال بین ہے ان مضرتوں اور بدنتائج کوملحوظ رکھ کر جو اس دعا کے تحت میں بصورت قبول دائی کو پہنچ سکتے ہیں اسے رد کر دیتا ہے.“ (۱۳) دعا کا اصل مقصد اطمینان قلب ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۶۷ مطبوعہ ربوہ ) بعض لوگ.ناقل ) جو اپنی نظر خطا کار کی وجہ سے یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ بہتیرے ایسے آدمی نظر آتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے حال اور قال سے دعا میں فنا ہوتے ہیں پھر بھی اپنے مقاصد میں نائر اور بہتے اور نامر ادمرتے ہیں اور بمقابل ان کے ایک اور شخص ہوتا ہے کہ نہ دُعا کا قائل نہ خدا کا قائل وہ اُن پر فتح پاتا ہے اور بڑی بڑی کامیابیاں اُس کو حاصل ہوتی ہیں.سوجیسا کہ ابھی میں نے اشارہ کیا ہے اصل مطلب دُعا سے اطمینان اور تسلی اور حقیقی خوشحالی کا پانا ہے.اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اُسی امر میں میسر آ سکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دعا چاہتے ہیں بلکہ وہ خدا جو جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امر میں ہے وہ کامل دعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے جو شخص رُوح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے ہاں وہ کامل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۸ حصہ پنجم دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تختِ شاہی پر حاصل نہیں ہوسکتی.سواسی کا نام حقیقی مرادیابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے.اور اُن کی آفات کا خاتمہ بڑی خوشحالی کے ساتھ ہوتا ہے.لیکن اگر اطمینان اور سچی خوشحالی حاصل نہیں ہوئی تو ہماری کامیابی بھی ہمارے لئے ایک دُکھ ہے.سو یہ اطمینان اور روح کی سچی خوشحالی تدابیر سے ہر گز نہیں ملتی بلکہ محض دعا سے ملتی ہے.مگر جو لوگ خاتمہ پر نظر نہیں رکھتے وہ ایک ظاہری مُرادیابی یا نا مرادی کو دیکھ کر مدار فیصلہ اسی کو ٹھہرا دیتے ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ خاتمہ بالخیر اُن ہی کا ہوتا ہے جو خدا سے ڈرتے اور دُعا میں مشغول ہوتے ہیں اور وہی بذریعہ حقیقی اور مبارک خوشحالی کے سچی مراد یابی کی دولت عظمی پاتے ہیں.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۳۷، ۲۳۸) میں سمجھتا ہوں کہ اس قدر اشارات مسئلہ دعا اور استجابت کے سمجھنے میں کافی مدد دیں گے اس لئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے اور مزید تفصیلات رسالہ دعا کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی خصوصیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی خصوصیات کو بھی زیر نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے بھی آپ کے ایمان اور تعلق باللہ خشوع وخضوع کی کیفیات کا پتہ چلتا ہے.ان دعاؤں میں حضور کی پاکیزہ فطرت اور غیرت دینی کا نمایاں ظہور ہے.اپنی ذات اپنی اولاد کے لئے جس چیز کی تمنا ہے وہ ایک ہی چیز ہے کہ خدا کی رضا اور اسلام کی خدمت کا مقام حاصل ہو.دعاؤں کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ آپ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے عشق و محبت کا اس قدر غلبہ ہے کہ اسی میں اپنی ہستی کو کم کر دیا ہے ملت بیضا کے لیے ہم وغم کی کیفیت کا اس قدر استیلا ہے کہ اس کے بقاء و وقار کے قیام کے لئے ہر قربانی کا جوش دل میں ہے بلکہ فرماتے ہیں کہ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے ہمارا اسی راہ میں مرنا.“ آپ کی دعاؤں میں کامل درجہ کا تذلیل اور انکسار پایا جاتا ہے اور یہی چیز ہے جو دعاؤں میں قبولیت کا جذب پیدا کرتی ہے اور عظمت و رحمت الہی کو جوش دلاتی ہے.دعاؤں میں حضرت اقدس کا طریق جو آپ کی تحریروں سے نمایاں ہے اور جس کو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور آپ کے عمل میں مشاہدہ کیا وہ یہی ہے کہ اولاً آپ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے اور اس کو اس قد ر لمبا کرتے جو دوسرے کسی انسان کے لئے آسان نہیں اور یہ اسی ایمان اور تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے آپ کو تھا اور پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجتے اور کثرت سے پڑھتے تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کی خصوصیات میں یہ امر بھی داخل ہے کہ آپ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر کثرت سے درود پڑھا ہے اس کثرت سے کہ اس کی نظیر نہیں پائی جاتی اسی کثرت درود نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر قریب کر دیا کہ آپ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہی میں فنا ہو کر اسی رنگ میں نمایاں ہو گئے اور آپ پر وہ انوار نازل ہوئے کہ آپ مهبط انوار ہو گئے اور آپ کے درودیوار پر وہ نور برسا اور وہ گھر دارالانوار بن گیا.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ ایک رات اِس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آپ زُلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں.اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ 66 وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم.“ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۹۸ حاشیه در حاشیه نمبر۳) اور اسی کے متعلق آپ نے حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۱ کے حاشیہ میں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیوں کہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی من مشکیں ہیں اور کہتے ہیں هَذَا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ " ترجمہ.یہ نزول انوار اس درود کی وجہ سے ہے جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا ہے.(عرفانی) آپ سے جب کبھی کسی نے درخواست کی کہ کوئی وظیفہ بتا ئیں تو آپ نے ہمیشہ فرمایا کہ استغفار اور درود شریف کثرت سے پڑھا کرو.درود شریف کی حقیقت اور فلاسفی آپ نے اپنی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم تصانیف میں تقریروں اور مکتوبات میں کھول کھول کر بیان فرمائی ان تمام امور کو یک جائی نظر سے دیکھنے سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ آپ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت تھی تامہ محبت جو عشق کا درجہ رکھتی تھی چنانچہ آپ نے فرمایا.بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وثنا آپ کے فضائل و مناقب کے لئے آپ کی تصانیف نظم و نثر میں ایک خاص شان پائی جاتی ہے اس وقت میں آپ کی سیرت کے اس پہلو پر بحث نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں دکھانا چاہتا ہوں کہ آپ کی دعاؤں کی خصوصیات میں یہ امر داخل تھا کہ آپ دعا میں کثرت سے درود شریف پڑھتے اور دوسروں کو پڑھنے کی ہدایت فرماتے اور اس چیز کو سر چشمہ برکات قرار دیتے تھے.ایک مرتبہ فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں یقیناً کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 66 دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.“ پھر فرمایا.وو ” درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم 66 ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.“ الحکم جلدے نمبر ۸ مورخہ ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ سے کالم نمبر او۲)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات و مکتو بات کو جب ہم غور سے پڑھتے ہیں تو درود شریف کے برکات اس کے پڑھنے کا طریق اوقات خصوصی اور اس کے خاص ثمرات کی تفاصیل ملتی ہیں.خود آپ کا معمول تو اس کثرت سے تھا کہ اس کا شمار ناممکن ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی نمازوں میں اہم دعا یہی تھی خواہ وہ کسی رنگ میں ہو وہ دوسروں کی ہدایت کی تڑپ اپنے اندر رکھتی ہو اپنے دوستوں کی بھلائی اور مخلوق الہی کی بہتری کا پہلو لئے ہوا اپنی اولا دیا عزیزوں کے لئے ہوان سب میں اصل چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور جلال کا ظہور مقصود تھا.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں.ہر کسے اندر نماز خود دعائے مے کند من دعا ہائے بر و بار تو اے باغ بہار یعنی ہر شخص اپنی نماز میں اپنا کوئی مقصد رکھتا ہے لیکن میرا مقصد وحید حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مراتب و مدارج کے ترقیات اور آپ کے کمالات آپ کے مقصد بعثت کی کامیابی اور ثمرات کے لئے ہیں اور یہی درود شریف کا مفہوم ہے چنانچہ آپ ایک مکتوب میں ( جو میں نے مکتوبات احمد یہ جلد اول میں درج کر دیا ہے ) لکھتے ہیں.دو درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں.نہ اُن کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور نام سے اپنے رسول مقبول کیلئے برکات الہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہرگز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہا تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ جو کچھ محبان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے.وہ سب کچھ اُٹھانے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷۳ حصہ پنجم کیلئے دلی صدق سے حاضر ہو.اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوت واہمہ پیش نہ کر سکے کہ جس کے اُٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کر سکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا تو درود شریف ، جیسا کہ میں نے زبانی بھی سمجھایا تھا، اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بناوے اور اُس کی بزرگی اور اُس کی شان وشوکت اس عالم اور اس عالم میں ظاہر کرے.یہ دعا حضور نام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کا ملہ الہیہ حضرت رسول مقبول پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے.اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو.پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو.اور یہاں تک یہ توجہ رگ وریشہ میں تا خیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جائے.“ مکتوبات احمد یہ جلد اول مکتوب نمبر ۹ صفحه ۴۰۱۳ ابنام میر عباس علی صاحب - مکتوب احمد جلد اصفه۵۲۳٬۵۲۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) پھر ایک دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں.پنے ”آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی ا.پیارے کیلئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو در و دشریف میں مذکور ہیں.اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے.جو شخص ذاتی محبت سے کسی کیلئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ باعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے.مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں.“ ( مکتوبات احمد یہ جلدا مکتوب نمبر ۶ صفحه ۲۴، ۲۵ بنام میر عباس علی صاحب - مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۵،۵۳۴مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مندرجہ اقتباسات سے اظہر من الشمس ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ ”من دعا ہائے بروبار تو اے باغ بہار تو اس کی حقیقت ان برکات اور فیوضات کا اجر اور تکمیل ہے جو حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ اور آپ کے اقتدا اور آپ کی محبت سے ظاہر ہوتے ہیں جن کا آپ خود ایک پیکر تھے اور جس حقیقت کو نادان نے نہ سمجھ کر جو چاہا کہا ہر قسم کی ترقیات روحانی اور ہر قسم کے افکار و مشکلات جسمانی کا حل آپ نے درود شریف ہی کو بتایا ہے.جب بھی آپ کے خدام نے اپنی مشکلات و مصائب کا رونا آپ سے رویا تو آپ نے اسی بے خطا نسخہ کی طرف ان کو توجہ دلائی.آپ کے مخلص خدام میں حضرت سیٹھ عبد الرحمن مدراسی رضی اللہ عنہ بڑے ہی مخلص اور جاں نثار بزرگ تھے وہ بہت بڑے تاجر اور صاحب مال و دولت تھے ان پر مالی اور تجارتی ابتلاؤں کا ایک لمبا سلسلہ آیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷۵ اور اس امتحان میں وہ نہایت کامیاب اور مستقیم الاحوال ثابت ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو بار بار لکھا کہ ”میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم سے کم استغفاراورسومر تبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کر لیا کریں.“ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ امکتوب نمبر ۲۷صفہ ۱ مورخ ۱۳ نومبر ۱۸۹۷ء.مکتوبات احمد جلد۲ صفر ۳۶۲ مطبوعہ ۶۲۰۰۸) اسی قسم کی ہدایات بار ہا لکھیں اور وہ اس پر عمل کرتے تھے چنانچہ خدائے تعالیٰ نے سیٹھ صاحب مرحوم کو اطمینان قلب عطا فرمایا اور استقامت اور رحمت کے فرشتے ان پر نازل ہوئے اور وہ ان پرفتن ابتلاؤں میں خدائے تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے.اور یہ اس درود شریف کی برکت اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ئیں تھیں.آپ کی زندگی کا مقصد ایک مکتوب میں آپ فرماتے ہیں.یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتار ہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں اور 66 دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں.“ مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۲۱ مکتوب نمبر ۱۵ بنام میر عباس علی صاحب - مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ اس عہد کی باتیں تھیں کہ جب آپ خدائے تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے پر مامور نہیں تھے اور نہ آپ نے کوئی دعویٰ مسیح و مہدی کا کیا تھا.ایک خلوت کی زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ کی ساری مرادیں اسی امر پر مرکوز تھیں کہ خدائے تعالیٰ کی رضا کا عالی مقام حاصل ہو دعاؤں کے متعلق آپ نے ایسے اصول تعلیم فرمائے کہ جن سے دعاؤں کا فلسفہ ان کی قبولیت کا راز اور اس کے اسباب و وسائل عام فہم الفاظ میں بیان کر دئیے اور ایک جماعت دنیا میں پیدا کر دی جو دعاؤں کی قبولیت کا زندہ اور مجسم نشان ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم خود آپ کو قبولیت دعا کا بہت بڑا نشان دیا گیا اور اس کے لئے آپ نے ہر قسم کے مخالفین پر اتمام حجت کیا.عیسائیوں، برہموؤں ، آریوں اور اسلام کے ہر مخالف کو یہ دعوت دی اور آپ کی دعاؤں کا انکار جن لوگوں نے کیا ان کو بھی اس مقابلہ کے لئے بلا یا مگر سے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے اور اگر کوئی شخص اس مقابلہ میں آگے آیا تو وہ قابل سزا ہو کر آپ کی صداقت کا ایک نشان ٹھہر گیا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے.اس حصہ میں مجھے آپ کی دعاؤں کے آئینہ میں آپ کی سیرت و شمائل کو بیان کرنا ہے.ابتدائی دور کی دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کو میں دو دوروں میں تقسیم کرتا ہوں پہلا دور آپ کی ابتدائی زندگی کا ہے جب تک آپ مبعوث نہیں ہوئے تھے میں اس دور کو عہد صعود کہتا ہوں.انبیاء علیہم السلام اور خدائے تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کی زندگی کا پہلا دور دو ر صعود ہوتا ہے اس عہد میں وہ اپنی روحانی ترقیات میں اوپر کی طرف جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کے قرب کی منزلیں طے کرتے ہیں وہ دنیا اس کے مالوفات حتی کہ اپنے نفس سے بھی بے پروا ہوتے ہیں اور جب وہ قرب الہی کے اس مقام کو پالیتے ہیں جو ان کا منتہائے نظر ہوتا ہے.تب اللہ کی تجلیات کا مظہر ہو کر وہ عالم ناسوت کی طرف نزول کرتے ہیں اور جس جس قدر وہ عالم ناسوت کی طرف آتے جاتے ہیں اسی قدر مخلوق الہی کے لئے اپنے دل میں درد اور اضطراب کو ترقی کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور ان کی ہر حرکت اور سکون خدائے تعالیٰ کی مخلوق اور انسانیت کے لئے بالخصوص ہو جاتی ہے.یہ ایک علمی مضمون ہے اس مقام پر میں اس کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا بلکہ اس کے لئے سیرت المہدی کے اس باب میں جگہ ہے جہاں آپ کے علوم پر بحث ہے یہاں مجھے اسی قدر بیان کرنا ہے جب آپ اسی عہد صعود کی منازل سلوک کو طے کر رہے تھے اس عہد کی دعاؤں میں یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ آپ حضرت باری کے ساتھ محبت واخلاص اور عبودیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی ایک تڑپ اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم اضطراب اپنے قلب میں پاتے ہیں اور اس منزل مقصود کو حاصل کرنے کے لئے آپ کا قلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی محبت اور عشق سے معمور نظر آتا ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو دیکھ کر آپ کے عمل میں وہ کیفیت پیدا ہوگئی کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ایک غیرت اور صداقت اسلام کے اظہار کے لئے نہ رکنے والا جوش پیدا ہو گیا ہے اور یہ جوش آپ کی بعثت اور ماموریت کے زمانہ کو قریب کرتا گیا غرض آپ کے اس عہد صعود کی دعاؤں میں اپنی بے کسی اور خاکساری اور اپنی کمزوریوں کا اعتراف اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی لا انتہا قدرتوں اور طاقتوں پر لذیذ ایمان ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے محامد ومحاسن جو عشق محمدی کو ترقی دیں) کے مناظر نظر آتے ہیں.عہد بعثت کی دعا ئیں عہد ماموریت میں آپ کی دعاؤں میں ایک نئی شان پیدا ہو جاتی ہے انہیں اسلام کی ترقی اور عظمت کے اظہار کے لئے جوش اور منکرین اسلام پر اتمام حجت کی پر شوکت تحدیوں اور نشانات کی طلب.اپنی سچائی اور منجانب اللہ ہونے پر معرفت اور بصیرت افروز حقائق کا ادعا ہے اور منکرین اسلام کو متحد یا نہ رنگ میں اور مسلمانوں کو بیدار کرنے اور ان میں کچی حمیت اور اخلاص پیدا کرنے پر الہی نصرتوں کو پکارا گیا ہے پھر اس عہد کی دعاؤں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان میں اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت پر اس قدر ہم و غم آپ کے قلب پر معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ان افکار میں بے اختیار ہو کر پکارا ٹھتے ہیں ؎ ایس دو فکرِ دین احمد مغز جان ما گداخت کثرتِ اعدائے ملت قلت انصارِ دیں یہ ہم وغم اپنی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے ایسا ہے کہ اگر ساری دنیا کے مسلمانوں کے ہم وغم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور آپ کے احساسات و ہموم کو ایک طرف تو آپ کا پلہ بھاری رہے گا.☆ کا ترجمہ.دین احمد کے متعلق ان دو فکروں نے میری جان کا مغز گھلا دیا اعدائے ملت کی کثرت اور انصار دین کی قلت.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷۸ عہد ماموریت کی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ پر شوکت تحدی ہے جب آپ مقابلہ میں نکلتے ہیں تو عہد صعود کی خاکساری کی جگہ خدائے تعالیٰ کی دی ہوئے کبریائی لے لیتی ہے.اور ایک قوت و جلال نظر آتا ہے اپنے دعاوی کی صداقت پر ایسی بصیرت ہے جو محض وحی الہی سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کا ہاتھ آپ کی پشت پر ہے.بعض اوقات انسان دعاؤں کو دیکھ کر تھرا اٹھتا ہے.میرا اپنا یہ حال ہے کہ میں ان کو پڑھ بھی نہیں سکتا دل کانپتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی قہری تجلیوں کا نزول مشاہدہ میں آتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر انسان انصاف اور شرافت نفس سے کام لے تو آپ کی دعاؤں کو دیکھ کر ہی اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ لاریب یہی شخص اپنی دعاؤں میں صادق ہے لیکن علم خشک اور کوری باطن بعض اوقات انسان کو قبول حق سے محروم کر دیتی ہے.گر علم خشک و کوري باطن نہ رہ زدے ہر عالم و فقیہ شدے ہم چو چاکرم عہد ماموریت کی دعاؤں میں ایک اور امتیازی خصوصیت بھی نظر آتی ہے کہ گو دعاؤں کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی کے ان پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے جو جلوت کی بجائے خلوت سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ہے کہ وہ خدا کی مخلوق کے ساتھ شفقت و ہمدردی کے جوش سے لبریز ہیں اور یا ان میں ایک علمی امتیاز ہے یہ مسلمہ امر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کا حربہ لے کر آئے تھے اور آپ نے مخالفین اور منکرین کو ہر میدان میں علمی ہو یا عملی دعاؤں کی بے نظیر قوت سے شکست دی.دعاؤں کا علمی امتیاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصانیف میں جو متحد یا نہ اور اعجازی قوت ہے وہ آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا نمونہ ہے حضرت مسیح موعود کی تصانیف میں جو اہم مضامین ہیں وہ دعاؤں کے ذریعہ نازل ہوئے ہیں اور عربی تصانیف تو خصوصیت سے ان دعاؤں کی قبولیت ہی کا نتیجہ ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷۹ جو دوران تحریر میں آپ فرماتے تھے.حضرت کا معمول تھا کہ وہ ہر ایک تصنیف کو جو معرکتہ الآرا ہو تحدی یا اعجازی رنگ میں پیش کی جانے والی ہو.دعا اور استخاروں کے بعد خصوصاً شروع کرتے اور یوں ہر مرتبہ جب آپ قلم اٹھاتے تو دعا کے بعد اٹھاتے تا کہ خدا کی تائید اور نصرت آپ کی رفیق قلم ہو دوران تصنیف میں اگر کوئی مشکل پیش آئی تو اسی وقت دعا کی اور وہ حل ہو گئی.اس طرح پر آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے علمی نشانوں کو جمع کیا جاوے تو وہ بے شمار ہوں گے.افسوس ہمارے نو جوان دوستوں میں اس قسم کا شوق نہیں پایا جاتا وہ الحکم کے ان اشارات سے ہی کام لے کر کچھ مددکریں.غرض آپ کی اس قسم کی دعاؤں کی تعداد لا انتہا ہے میں محض خوش اعتقادی کے طور پر باتیں بنانے کا عادی نہیں ہوں.میں نے حضور کو پڑھا ہے اور آپ کو نفسیات کی روشنی میں دیکھا ہے.اپنی ان باتوں کا ثبوت رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲۶ رستمبر ۱۸۹۸ء کو جبکہ صبح کی نماز کے بعد حسب معمول تشریف فرما تھے آپ نے فرمایا.میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوئی ہیں.ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کو و متنی کرتا ہوں.( کیونکہ ان کے طفیل اور اقتداء سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے ) اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعا ئیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی.میں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دولاکھ یا کتنی.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه ۲ ۱۸ مطبوعہ ربوہ ) اس سے آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا علمی اعجاز ثابت ہے.آپ کی دعاؤں کا ایک اور شاندار پہلو اب میں آپ کی دعاؤں کا ایک اور نہایت ہی شاندار پہلو دکھانا چاہتا ہوں جس کو پڑھ کر ہر احمدی کی روح یقیناً وجد کرے گی.اور وہ محسوس کرے گا کہ اس نے ایک ایسے وجود سے تعلق پیدا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۰ حصہ پنجم کیا ہے جو اس کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہر وقت مصروف رہتا اور اپنی زندگی کا یہی مقصد سمجھتا تھا.آپ نے ۲۱ رمئی ۱۸۸۳ء کو میر عباس علی صاحب کے نام ایک مکتوب لکھا اس میں تحریر فرمایا کہ.دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں.اَلدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ.یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے.مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں.سو اگر خداوند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا.یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی 66 ہے جس میں سرگرمی سے دعا ہے.“ آگے چل کر فر ماتے ہیں.پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہی ہے.اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح تب کام نکلتا ہے.یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو.تا وہ کام کر دکھاوے.سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا.کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا.یعنی اُن کی فطرت میں حضرت احدیت نے بندگانِ خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے.پس وہی عشق کی آگ اُن سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر اُن کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں.تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور اُن کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو جان کنی سے کیا اجر ملے گا.کیونکہ اُس کے جوشوں کی بنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے.الی آخرہ مکتوبات احمد یہ جلد اول مکتوب مورخه ۲۱ مئی بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احم جلد اصفحه ۵۳۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اب اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اپنے وابستگان دامن کے لئے کس قدر جوش ان کی بھلائی کے لئے تھا.مبار کی ہوان کو جنہوں نے اس کو پکڑا!
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۱ حصہ پنجم اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے جو وہ اپنی جماعت کے لئے کرتے تھے.اور جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے اعلیٰ مقصد سمجھتے رہے ہیں.کون وہ دل ہے جو اس حقیقت کو پالے اور وہ بیتاب ہو کر ایسے حسن پر درودنہ پڑھے.دوستو ! یہی وہ چیز ہے.اور یہی وہ حقیقت ہے.جس کی طرف آپ کو بار بار غور کرنا چاہیے.اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سچی محبت پیدا ہوگی.اور یہی محبت نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ وحی بھیجی تھی.إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے بعض مختلف پہلوؤں کا ذکر میں نے کیا ہے اب میں ایک اور خاص پہلو کا ذکر کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت حضرت نبی کریم ﷺ ہی کی بعثت ہے.اس لئے آپ کے وجود میں رحمت اور رافت کا رنگ بہت غالب ہے.اور میں آپ کی دعاؤں کےسلسلے میں انشاء اللہ یہ بتاؤں گا کہ آپ کی دعاؤں کا سلسلہ مخلوق الہی کے لئے کس قدر وسیع ہے.مگر یہاں جس امر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے دشمنون کے لئے بھی کبھی بد دعا نہیں کی.یہاں تک کہ امرتسر میں عبد الحق غزنوی سے جو مباہلہ ہوا تھا اس میں بھی آپ نے اس کے لئے بددعا نہیں کی.بلکہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ، کہ اگر میں مفتری ہوں اور تیری طرف سے نہیں آیا.تو مجھ پر ایسا عذاب نازل کر کہ کسی مفتری پر نازل نہ ہوا ہو.اور یہی وہ فقرات تھے جس نے امرتسر کی عید گاہ میں ایک فضائے رقت پیدا کر دی تھی اور میدانِ بکا بن گیا تھا.اسی فقرہ نے حافظ محمد یوسف ضلع دار کے بھائی حافظ محمد یعقوب پر ایسا اثر ڈالا کہ وہ کود کر آگے آیا کہ میری بیعت قبول کریں یہ گویا اس مباہلہ کی کامیابی کا پہلا نشان تھا.غرض آپ نے کبھی اپنے دشمن کے لئے بھی بد دعا نہیں کی جہاں تک میری تحقیقات ہے دو موقعے ایسے نظر آتے ہیں.لیکن ان میں بھی بددعا کی صورت نہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۲ حصہ پنجم ایک مرتبہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اشاعۃ السنہ کی ایک جلد شائع کی اور اس میں دل کھول کر اس نے گالیاں دیں.اور اس قدرسخت مخالفت کی کہ اسے پڑھ کر شرم آتی تھی ، وہ گالیوں کا پلندہ اس نے قادیان ایک آدمی کے ہاتھ حضرت کی خدمت میں بھیجا آپ نے اس کو دیکھ کر فوراً عربی زبان میں ایک فقرہ لکھ دیا کہ ”اے اللہ ! اگر یہ شخص مجھ پر اس الزام لگانے میں سچا ہے تو دنیا میں اس کی عزت واکرام پیدا کر دے.اور اگر جھوٹا ہے تو اس سے مواخذہ کر “ یہ آخری لفظ تو اس سے مواخذہ کر“ آپ نے لکھا اور دنیا میں جس قد رمواخذہ اس سے ہوا.اور اس کی رہی سہی عزت جاتی رہی.اور دنیا نے دیکھی.یہ بھی بددعا نہ تھی.بلکہ ایک طلب انصاف وفریاد داد تھی.ایسا ہی ایک موقعہ پر راولپنڈی کے ایک بزرگ کی نسبت ایک واقعہ ہوا.مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بہت ہی جلد بصیرت دے دی اور اللہ تعالیٰ کے اخذ سے وہ بچ گیا اس کی زندگی کا وہ سب سے بڑا کارنامہ ہے غرض حضرت کی طبیعت میں رحم اور کرم بے حد تھا چنانچہ خود فرماتے ہیں.اور یہ واقعہ ہے ؎ گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں اُن لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے ہاں ! اپنی صداقت و منجانب اللہ ہونے پر آپ کو اسی قدریقین اور بصیرت تھی کہ ہمیشہ جب بھی موقع آیا آپ نے اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کیا.کہ اگر میں مفتری اور کذاب ہوں تو مجھے پارہ پارہ کر اور ایسا عذاب نازل کر کہ اس کی نظیر نہ ہو.اس قسم کی دعاؤں کے بعد دیکھا گیا کہ آپ کا اکرام اور اعزاز بڑھا.جماعت میں ترقی ہوئی.آپ کے کاموں میں ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے سعادت مندوں کی تعداد بڑھی ایسے ہی ایک موقع کی ایک دعا کو کسی دوسری جگہ درج کروں گا.یہ آپ کی ہمت بلند اور وسعت اخلاق کا ایک نمونہ ہے کہ دشمنوں کے لئے بھی اپنی دعاؤں کو وسیع کرتے تھے چنانچہ جولائی ۱۹۰۰ء میں آپ نے جماعت کی اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے تقریر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۳ حصہ پنجم فرمائی اس میں جماعت کو اخلاق کے جس بلند منار پر آپ لے جانا چاہتے ہیں اور آپ کی رافت و رحمت کا دامن کس قدر وسیع ہے اس کا اندازہ ان ارشادات سے ہوتا ہے فرمایا.” میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے.جس قدر دعا وسیع ہوگی اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہوگا اور دعا میں جس قد ر بخل کرے گا.اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دُور ہوتا جاوے گا اور اصل تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۳۵۳ مطبوعه ر بوه ) ان الفاظ پر غور کرو کہ یہ آپ کے قلب کی وسعت کا پتہ دیتے ہیں ہمدردی اور خیر خواہی کا یہ مقام ہر شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا.یہ مقام انہیں پاک نفوس کو دیا جاتا ہے جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے مسح کرتا ہے اور پاک کر دیتا ہے حضرت مسیح موعود کا یہ ارشاد کہ دشمنوں کے لئے بھی دعا کرو.مسیح ناصری علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقولہ سے بہت بڑھ کر ہے کہ دشمنوں سے پیار کرو“.دشمن سے پیار کرو کے الفاظ بظاہر خوش گن معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن کے تصور کے ساتھ ہی پیار کے جذبات دب جاتے اور انتقام اور نفرت کے جذبات میں جوش اور ہیجان پیدا ہوتا.ہوتا ہے.لیکن دعا کی تحریک تو انتہائی غصہ کی حالت میں بھی پیدا ہوسکتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فطرتی رنگ بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی رنگ ہے چنانچہ یہ تاریخی مشہور واقعہ ہے کہ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر طائف کے شریروں نے حملہ کیا اور پتھر مار مار کر آپ کو لہولہان اور زخمی کر دیا اور اس حالت میں آپ نے ان کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ ان کی ہدایت کے لئے دعا فرمائی کہ اے میرے اللہ ان کو ہدایت فرما کیونکہ یہ جانتے نہیں.آپ کی زندگی میں یہ عملی رنگ ہمیشہ نمایاں تھا ایک موقعہ پر اپنے اس طرز عمل کا یوں اظہار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الہ ۴۸۴ حصہ پنجم فرماتے ہیں گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اور یہی تعلیم بار بار آپ نے اپنی جماعت کو دی چنا نچہ فرمایا اے میرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشک تتار نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دمار جس نے نفس دوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا وہ چیز کیا ہیں اسکے آگے رستم و اسفند یار گالیاں سن کے دعا دو پاکے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیس سے فرار غرض آپ کی ہمدردی اور خیر خواہی کا دامن دعا کی صورت میں اس قدر وسیع اور فراخ تھا کہ سیاہ دل دشمن بھی اس میں امن پاتے تھے اور آپ ان کے لئے بھی دعا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی اور آپ کے اعمال پر اگر غامر نظر کی جاوے تو جو چیز آپ کے اعمال میں نمایاں نظر آتی ہے وہ آپ کی دعاؤں کی کثرت ہے.ہرامر کے لئے آپ کا سہارا دعا تھی اور دشمن کے مقابلہ کے لئے آپ نے جس حربہ سے کام لیا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۵ اور فتح پائی وہ دعا کا حربہ تھا.آپ کی دعاؤں میں صرف اس شخص کے خلاف گونہ بددعا ہے جو دین اسلام کی حمایت وحمیت کا جوش نہ رکھتا ہو چنانچہ فرمایا.اے خدا شاداں مکن آن دل تاریک را آنکہ اور را فکر دین احمد مختار نیست اپنی ذات کے ساتھ خطرناک دشمنی کرنے والے بد زبان دشمنوں کے لئے بھی بددعا نہیں کی مگر آپ چونکہ ہر دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی محبت اور عظمت کے سوا کچھ دیکھنانہ چاہتے تھے اس لئے ایسے غافل دل کے لئے جو فکر دین سے بے پروا ہو خوش نہ رہنے کی بد دعا ضرور کی اور یہ آپ کی اس محبت کا انتہائی مقام ہے جو حضور علیہ الصلواۃ والسلام سے تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السا ۴۸۶ حصہ پنجم بيت الدعا حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے سلسلہ میں آپ کی دعاؤں کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرتا آیا ہوں.میں چاہتا ہوں کہ احباب اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے متعلق ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں دعا کے لئے ایک مخصوص جگہ بنا لیا کرتے تھے اور وہ بیت الدعا کہلاتا تھا.میں جہاں جہاں حضرت کے ساتھ گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے دعا کے لئے ایک الگ جگہ ضرور مخصوص فرمائی اور اپنے روزانہ پروگرام میں یہ بات ہمیشہ داخل رکھی کہ ایک وقت دعا کے لئے الگ کر لیا.قادیان میں ابتداء تو آپ اپنے اس چوبارہ میں ہی دعاؤں میں مصروف رہتے تھے جو آپ کے قیام کے لئے مخصوص تھا.پھر بیت الذکر اس مقصد کے لئے مخصوص ہو گیا جب اللہ تعالیٰ کی مشیّت ازلی نے بیت الذکر بھی عام عبادت گاہ بنا دیا.اور تخلیہ میسر نہ رہا تو آپ نے گھر میں ایک بیت الدعا بنایا جواب تک موجود ہے.جب زلزلہ آیا اور حضور کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی ایک چبوترہ اس غرض کے لئے تعمیر کرالیا.گورداسپور مقدمات کے سلسلہ میں آپ کو کچھ عرصہ کے لئے رہنا پڑا تو وہاں بھی بیت الدعا کا اہتمام تھا.غرض حضرت کی زندگی کا یہ دستور العمل بہت نمایاں ہے آپ دعا کے لئے ایک الگ جگہ رکھتے تھے بلکہ آخر حصہ عمر میں تو آپ بعض اوقات فرماتے کہ بہت کچھ لکھا گیا اور ہر طرح اتمام حجت کیا.اب جی چاہتا ہے کہ میں صرف دعا ئیں کیا کروں.دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک خاص مناسبت تھی.بلکہ دعائیں ہی آپ کی زندگی تھی.چلتے پھر تے اٹھتے بیٹھتے آپ کی روح دعا کی طرف متوجہ رہتی تھی.ہر مشکل کی کلید آپ دعا کو یقین کرتے تھے اور جماعت میں یہی جذبہ اور روح آپ پیدا کرنا چاہتے تھے کہ دعاؤں کی عادت ڈالیں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۷ حصہ پنجم اور دعاؤں میں آپ خدا کی تمام مخلوق پر شفقت فرماتے تھے اور ہر شخص کے لئے خواہ وہ کسی مذہب وملت کا ہو درخوست کرنے پر دعا فرمایا کرتے تھے اور آپ اپنی دعاؤں میں اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی شریک فرمایا کرتے تھے.آپ کی دعاؤں کا عجیب انداز ہے.قرآن کریم سارے کا سارا آپ نے دعاؤں ہی کے ذریعے حضرت باری سے پڑھا ہے.یہ بات شاید بعض لوگوں کو عجیب معلوم ہومگر یہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے.آپ جن ایام میں سیالکوٹ میں مقیم تھے (۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء) حضرت حکیم میر حسام الدین مرحوم کو آپ کی خدمت میں جانے کا اکثر اتفاق ہوتا تھا.انہوں نے حضرت اقدس سے طب کی بعض کتابیں بھی پڑھی تھیں وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات آپ لکھ کر اپنے سامنے لٹکا لیتے اور عام طور پر قرآن مجید روروکر پڑھا کرتے اور دعا کرتے کہ یا اللہ یہ تیرا کلام ہے تو ہی سمجھائے گا تو سمجھوں گا.یہ آپ کی دعاؤں کا مفہوم تھا اور اس مقصد کے لئے کہ دعا کے لئے بار بار تحریک ہو.آپ ایک آیت لکھ کر لٹکا لیتے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفہیم ہو جاتی تو پھر آپ دوسری آیت لکھ کر لٹکا لیتے اور دعاؤں میں مصروف رہتے.اس طرح پر قرآن مجید کو آپ نے دعاؤں ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے پڑھا.دعاؤں کی قبولیت کے اس قدر نشان آپ نے دیکھے تھے اور اس نسخہ کہ ایسا محبوب پایا تھا کہ ہر مرض اور مشکل کے لئے اس کو ہی استعمال کرتے تھے.دعاؤں کی قوت اور اثر کو آپ دنیا کی ہر قوت سے بڑھ کر یقین کرتے تھے اور اپنی دعاؤں میں اس تاثیر قبولیت کا آپ کو اس لئے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ فرمایا تھا.ایک دفعہ حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ کو ایک مکتوب میں آپ نے قوت و اثر دعا کا چندا شعار میں ذکر کیا تھا کہ.بغیر کسی فخر کے مجھے یقین ہے کہ میری دعا معمولی نہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸۸ اسی سلسلہ میں یہ اشعار بھی تحریر فرماتے ہیں (۱) ہر آن کاریکه گردد از دعائے محو جانانے (۴) نہ شمشیرے کند آں کار نے بادے نہ بارانے (۲) عجب دارد اثر دستے کہ دست عاشقی باشد (۴) بگرداند جہانے را ز بهر کار گریانی (۳) اگر جنبد لب مردے نے بہر آں کہ سرگرداں (۴) خدا از آسمان پیدا کند هر نوع سامانے (۴) ز کار افتاده را بهر کار می آرد خدا زین ره (۴) ہمیں باشد دلیل آنکه هست از خلق پنهانی (۵) مگر باید که باشد طالب او صابر و صادق (۴) نه بیند روز نومیدی وفادار از دل و جانے غرض دعاؤں کی قوت و تاثیر پر آپ کا ایمان انتہائی مقام پر تھا.حصہ پنجم ترجمہ اشعار.(۱) فنافی اللہ شخص کی دعا سے جو کام ہو جاتا ہے وہ کام نہ تلوار کر سکتی ہے نہ ہوا نہ بارش.(۲) اس کے عاشق کے ہاتھ میں عجیب تاثیر ہوتی ہے خدا اس سونے والے کا کام بنانے کے لئے ایک دنیا کو پلٹ دیتا ہے (۳) اگر اس آدمی کا ہونٹ ہلتا ہے جو خدا کا عاشق ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے ہر طرح کا سامان پیدا کر دیتا ہے.(۴) خدا اس طرح ایک ناکارہ انسان سے کام لیتا ہے اور یہی اس مخفی ہستی کی موجودگی کا ثبوت ہے.(۵) مگر چاہیے کہ اس کا طالب صابر اور سچا ہو، اُس کا دلی وفادار نا مرادی کا دن نہیں دیکھتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السا ۴۸۹ آخری بات میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی خصوصیات کو نہایت اختصار سے بیان کیا ہے ورنہ جس طرح دعا کا مضمون وسیع ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ایک مستقل تصنیف کو چاہتی ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی خصوصیات کی مختلف شانوں پر بحث بھی ایک جدا گانہ تالیف کی داعی ہے میں نے صرف ایک راستہ کھول دیا ہے تا کہ احباب خودان دعاؤں کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کو لکھوں گا.میں چاہتا تھا کہ ان میں ایک ایسی ترتیب قائم کروں جو اپنے اندر تاریخی رنگ رکھتی ہو مگر میں سر دست اس کا التزام نہیں کر سکا گو میں نے کسی حد تک کوشش کی ہے.ان دعاؤں کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ آپ کی بعثت سے قبل کی دعاؤں میں ایک خاص رنگ حصول رضائے الہی تزکیہ نفس ذاتی اعلائے کلمتہ الاسلام کے لئے ایک تڑپ کا پایا جانا ہے اور بعثت کے بعد دعاؤں میں ایک اور رنگ پیدا ہو گیا ہے مخلوق الہی کی ہدایت کے لئے تجلیات الہیہ کے ظہور و نزول کے لئے ایک جوش ہے اور اعداء و مخالفین کے مقابلہ میں بھی آپ نے بددعا کا رنگ اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے لئے طلب عذاب کی کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو تباہ کر دے مگر خدا تعالیٰ نے آپ کی ترقی اور کامیابی کے اعجازی نشانات دکھائے الغرض یہ دعائیں انسان کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا کرتی ہیں اور اس کی روح میں بالیدگی اور توجہ الی اللہ کے لئے جوش کے جذبات کو ابھارتی ہیں میں نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حضرت اقدس کی دعاؤں کو جمع کر دوں مگر یہ ناممکن ہے اس لئے کہ آپ نے لا انتہا دعائیں کی ہیں.آپ کے شب و روز ہر حرکت وسکون میں دعا کا سلسلہ جاری رہتا تھا نا دان اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے.بعض مطالب کے بیان میں تکرار بھی پایا جائے گا مگر یہ رنگ خود حضرت مسیح موعود نے پیدا کیا ہے اور یہ قرآن کریم کا اتباع ہے اس میں زندگی بخش اسرار ہیں بہر حال میں نے اپنی حقیر کوشش کو پیش کیا ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرما دے اور یہ نافع الناس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۰ ہو اور ہم سب فائدہ اٹھانے کی توفیق پائیں آمین.حصہ پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے متعلق کچھ اور قبل اس کے کہ میں آپ کی دعاؤں کو اور ان کے آئینہ میں آپ کی سیرت کے نقوش اور خد و خال پیش کروں میں اس مضمون کو درج کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو مکرمی مخدومی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ۲۶ دسمبر ۱۹۴۱ء کو سالانہ جلسہ کی تقریب پر پڑھا تھا.اگر چہ اس میں بعض اقتباسات بھی ممکن ہے آ جاویں جو میں اپنے ابتدائی اور تمہیدی مضمون میں لکھ چکا ہوں مگر یہ قند مکرر کا مزا دے جائیں گے اور دعا کا مضمون اتنا وسیع اور اہم ہے کہ اس کو جتنی بار پڑھا جاوے اور اس پر غور کیا جائے اور پھر اس سے عملاً فائدہ اٹھایا جائے وہ کم ہے.(عرفانی کبیر ) ہر کام سے پہلے دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی.استخارہ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ سے طلب خیر کرنا.استخارہ کے نتیجہ میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آ جائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں.یہ طریق مسنون نہیں.اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہو جاتا ہے.بغیر وقتوں کے حاصل ہو جاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہو جاتا ہے.عموماً استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشاء کیا جاتا ہے.دورکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد فورا سور ہنا چاہیے.اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا.لیکن حسب ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز عصر میں استخارہ ۴۹۱ حصہ پنجم ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دورانِ ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابوسعید نامی کو جو ابوسعید عرب کے نام سے مشہور تھے.لاہور سے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا.انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کر لیں.اس وقت نماز عصر ہونے والی تھی اور مسجد مبارک میں احباب جمع تھے.وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرار پائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابوسعید صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کر لیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.اور پھر لاہور چلے گئے اور جس مقصد کے واسطے بھیجے گئے.اس میں کامیاب ہو کر واپس آئے.مجلس میں دعا گو بعض دفعہ کسی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کر دیا کرتے تھے.مگر عام طور پر آپ کا طریق یہ تھا.کہ نمازوں کے اندر دعا کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ کسی دوسرے وقت بھی تحریک دعا ہوتی.تو آپ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے.اور دعا کرتے.چنانچہ ایک دفعہ ۱۹۰۴ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب بہت بیمار ہو گئے تھے اور اس بیماری کی حالت میں ایک وقت تنگی اور تکلیف کا اُن پر ایسا وارد ہوا کہ اُن کی بیوی مرحومہ نے سمجھا کہ اُن کا آخری وقت ہے.وہ روتی چینی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں.حضور نے تھوڑی سی مشک دی کہ انہیں کھلا ؤ اور میں دعا کرتا ہوں یہ کہ کر اسی وقت وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو گئے.صبح کا وقت تھا حضرت مفتی صاحب کو مشک کھلائی گئی اور ان کی حالت اچھی ہونے لگ گئی اور تھوڑی دیر میں طبیعت سنبھل گئی.مجسم دعا دعاؤں کے کرنے اور کرانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر توجہ رہتی تھی کہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ مجسم دعا تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الہ بخل اگر جائز ہوتا ۴۹۲ حصہ پنجم ایک دفعہ فرمایا کہ میں نے سوچا کہ بخل تو ناجائز ہے کسی حالت میں انسان کو خیال نہیں ہونا چاہیے.لیکن اگر بخل جائز ہوتا تو وہ کون سی چیز ہے جس کے دینے یا بتلانے میں میں بخل کرتا.میں نے بہت سوچا مگر کوئی چیز میری نظر میں ایسی نہ آئی جس پر بخل کرنے کو میرا دل چاہتا.سوائے اس کے کہ میں اس بات کے بتلانے میں بخل کرتا کہ دعا کتنی بڑی شاندار نعمت ہے اور کس آسانی سے حاصل ہوسکتی ہے.ایک خاص دعا ۲۵ فروری ۱۹۰۱ ء کا واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.میں اس بات کے پیچھے لگا ہوا ہوں کہ اپنی جماعت کے واسطے ایک خاص دعا تو ہمیشہ کی جاتی ہے مگر ایک نہایت جوش کی دعا کرنا چاہتا ہوں جب اس کا موقعہ مل جاوے.احباب کے واسطے دعا اس سے ظاہر ہے کہ خاص دعاؤں کا وقت اور موقع اور ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ میسر نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں دیکھا جاتا تھا کہ جب کوئی دوست رخصت ہونے کی اجازت چاہتا تھا.تو فرمایا کرتے تھے.” کیا آپ دو چار روز اور نہیں ٹھہر سکتے اور اکثر خدام کو زیادہ سے زیادہ وقت قادیان میں رہنے کی ترغیب دیتے حالانکہ بظا ہر کوئی کام ان کے ذمہ نہ ہوتا.اس کی اصل غرض یہی تھی کہ سامنے رہنے سے دعا کے خاص موقعہ میں شامل ہو جا ناممکن ہوتا.بذریعہ دعا شک کا ازالہ دعاؤں کے اثر پر آپ کو اس قدرا اعتماد تھا کہ آپ نے اپنے نہ ماننے والوں کو بھی ایک دعا ہی سکھائی جس سے ان پر حق ظاہر ہو سکے فرماتے ہیں بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مواخذہ الہی سے ڈرتے ہیں وہ بلا تحقیق اس زمانے کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں اور آخری زمانہ کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۳ حصہ پنجم مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں اور ان فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہو جائیں کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعوی جو اس عاجز نے کیا ہے اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو.تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلا تا ہوں.جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اول تو بہ نصوح کر کے رات کے وقت ۲ رکعت نماز پڑہیں جس کی پہلی رکعت میں سورۃ یسین اور دوسری میں ۲۱ مرتبہ سورۃ اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے ۳۰۰ مرتبہ درود شریف اور ۳۰۰ مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر و کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک جو مسیح موعود اور مہدی اور مجددالوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے.کیا صادق ہے یا یہ کاذب ، اور مقبول ہے یا مردود اپنے فضل سے یہ حال رؤیا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرماتا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں.اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں.ہمیں ہر ایک فتنہ سے بچا اور ہر ایک مقدرت تجھ کو ہی ہے.آمین یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتہ کر یں لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر کیونکہ جو شخص پہلے ہی بغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اُس پر غالب آ گئی ہے.اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے.جس کو وہ بہت ہی برا جانتا ہے.تو شیطان آتا ہے.اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پُر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے.پس اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے.سواگر خدا تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چا ہے.تو اپنے سینہ کو بکلی بغض اور عناد سے دھو ڈالے اور اپنے تئیں بکلی خالی النفس کرے اور دونوں پہلوؤں بغض اور محبت سے الگ ہو کہ اس سے ہدایت کی روشنی مانگے وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دخان نہیں ہوگا سوائے حق کے طالبو ! مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۴ حصہ پنجم مت پڑو.اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قومی اور قدیر اور علیم اور ہادی مطلق کی مددچا ہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کر دی ہے.آئندہ تمہیں اختیار ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المبلغ غلام احمد عفى عنه عشق الہی دعا کیا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے دلی جذبات اور خواہشات کا اظہار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواللہ تعالیٰ کے حضور میں کس قدر محبت اور عشق تھا.اس کا بھی کچھ پتہ آپ کی دعاؤں سے لگتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے ہیں.اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار اے مرے یار یگانہ اے مری جاں کی پنہ بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار ہے اے مرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود نیک دن ہو گا وہی تجھ پہ ہوویں ہم شار دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا معشوق ہے تو میرا عشق صفا یہی ہے اے مرے یار جانی! کر خود ہی مہربانی مت کہہ کہ لَن تَرَانِی تجھ سے رجا سے رجا یہی ہے اے مرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام در حقیقت بس دل یکے جان در دو و آنچه می خواهم ۴۹۵ از حصہ پنجم یار یکے نگار یکے عزیز توئی ہے تو نیز نیز توئی (1) اے دلبر و دلستان و دلدار سے و اے جان جہان (۲) اے مونس جان کز خود بر بودیم یہ (۳) چشم و و نور انوار فدائے یک دلستانی بار جان و دل بتو گرفتار ہر کہ عشقت در دل و جانش جانش فندک ناگہاں جانے در ایمانش فتد کے ترجمہ اشعار.در حقیقت محبوب ایک ہی کافی ہے کیونکہ دل بھی ایک ہوتا ہے اور جان بھی ایک اس لئے محبوب بھی ایک ہونا چاہیے.سے دونوں عالم میں تو ہی میرا پیارا ہے اور جو چیز میں تجھ سے چاہتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے.۳ (۱) اے دلبر ، محبوب اور دلدار.اے جہاں کی جان اور نوروں کے نور.(۲) اے میرے مونس جاں ! تو کیسا دلستاں ہے کہ دفعتاً تو نے مجھے مدہوش کر دیا.(۳) میری آنکھ اور سر تجھ پر قربان ہیں اور میرے جان و دل تیری محبت میں قید.ہر وہ شخص جس کے جان و دل میں تیرا عشق داخل ہو جائے تو اس کے ایمان میں فورا جان پڑ جاتی ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۶ حصہ پنجم اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی کامل اور مستقل وفاداری کے متعلق عرض کرتے ہیں ؎ خواہی قہرم کن بد اخواہی بلطفم رونما خواہی بکش یا کن رہاگے ترک آن داماں کنم لے (۱) سهل است ترک ہر دو جہاں گر رضائے تو آید بدست اے پسند و کہف و ما منم کے (۲) در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم غیر مبایعین سے فیصلہ کی آسان راہ ہمارے پرانے دوست جواب اپنے آپ کو لاہوری احمدی کہلا نا پسند کرتے ہیں.ان کے ساتھ بھی ہمارا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے ذریعہ سے بآسانی ہوسکتا ہے.مولوی محمد علی صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی فرزند کہا کرتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کیا اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور توجہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں.تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ اولاد جو روحانی بھی ہے اور جسمانی بھی اور جس کی تربیت اور تعلیم بھی حضور علیہ السلام کی نگرانی میں ہوئی اور جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں بھی ہیں اور جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کثرت سے دعائیں کیں.کیا ممکن ہے کہ وہ سب اولا د جو تمام متعلقین اور اولین سابقین کی ایک بڑی جماعت کے گمراہ ہو جائے.اب میں ان دعاؤں میں سے جو حضور نے اپنی اولاد کے واسطے کیس چند ایک بطور نمونہ درج کرتا ہوں.حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہماری اولا د شعائر اللہ میں داخل ہے.ان کا اکرام ضروری ہے اور حضور کی دعائیں اپنی اولاد کے واسطے تو شب و روز بے انتہا تھیں آپ نے فرمایا کہ میں ہر نماز میں اپنے اہل بیت اور اولاد کے لئے دعا کرتا ہوں یہ چند فقرات حسن اتفاق سے تحریر میں بھی آگئے.ا ترجمہ اشعار.خواہ تو تو مجھے ناراض ہو کر جدا کر دے، خواہ لطف فرما کر اپنا چہرہ دکھا دے، خواہ مار یا چھوڑ میں تیرے دامن کو نہیں چھوڑ سکتا.۲ (۱) دونوں جہاں کا ترک کرنا آسان ہے اگر تیری رضا مل جائے اے میری پناہ.اے میرے حصاراے میرے دارالاماں (۲) اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۷ حصہ پنجم کوئی ضائع نہیں ہوتا جو ترا غالب ہے کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا مری اولا د کو تو ایسی ہی کردے پیارے دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا عمر دے رزق دے اور عافیت وصحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وعرفاں تیرا کریما دور کر تو ان سے ہر شر رحیما نیک کر اور پھر معمر تیری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے دعا کرتا ہوں اے میرے یگانہ نہ آوے اُن یہ رنجوں کا زمانہ آستانه میرے مولا انہیں ہر دم بچانا نہ چھوڑیں وہ تیرا دعا کے ذریعہ آسمانی فیصلہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر علماء زمانہ نے کفر کے فتوے لگائے اور ہر قسم کی عداوت اور دشمنی اور ایذارسانی پر کمر باندھی تو حضور نے دعا ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے فیصلہ چاہا اور یہ دعا کی.اس عاجز غلام احمد قادیانی کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے ایک دعا اور حضرت عزت سے اپنی نسبت آسمانی فیصلہ کی درخواست اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال قادر قدوس حتی و قیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالآباد مبارک ہے تیری قدرت کے کام کبھی رُک نہیں سکتے.تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے.تو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا اور فرمایا کہ اُٹھ کہ میں نے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجت پوری کرنے کے لئے اور اسلامی سچائیوں کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ اور قومی کرنے کے لئے چنا.اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ” تو میری نظر میں منظور ہے.میں اپنے عرش پر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۸ تیری تعریف کرتا ہوں“.اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ تو وہ مسیح موعود ہے جس کے وقت کو ضائع نہیں کیا جائے گا.اور تو نے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ” تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری تو حید اور تفرید.اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ ”میں نے لوگوں کی دعوت کے لئے تجھے منتخب کیا.ان کو کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں اور سب سے پہلا مومن ہوں.اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ” میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا اسلام کو تمام قوموں کے آگے روشن کر کے دکھلاؤں اور کوئی مذہب اُن تمام مذہبوں میں سے جو زمین پر ہیں برکات میں، معارف میں تعلیم کی عمدگی میں ، خدا کی تائیدوں میں ،خدا کے عجائب غرائب نشانوں میں اسلام سے ہمسری نہ کر سکے.اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.میں نے اپنے لئے تجھے اختیار کیا“.66 مگر اے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا.اور مجھے مفتری سمجھا.اور میرا نام کا فر اور کذاب اور دقبال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دل آزار باتوں سے مجھے ستایا گیا اور میری نسبت یہ بھی کہا گیا کہ حرام خور لوگوں کا مال کھانے والا ، وعدوں کا تختلف کرنے والا ، حقوق کو تلف کرنے والا ، لوگوں کو گالیاں دینے والا ، عہدوں کو توڑنے والا ، اپنے نفس کے لئے مال کو جمع کرنے والا اور شریر اور خونی ہے“.یہ وہ باتیں ہیں جو خود اُن لوگوں نے میری نسبت کہیں جو مسلمان کہلاتے اور اپنے تئیں اچھے اور اہل عقل اور پر ہیز گار جانتے ہیں.اور اُن کا نفس اس بات کی طرف مائل ہے کہ در حقیقت جو کچھ وہ میری نسبت کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور انہوں نے صدہا آسمانی نشان تیری طرف سے دیکھے مگر پھر بھی قبول نہیں کیا.وہ میری جماعت کو نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں.ہر ایک اُن میں سے جو بد زبانی کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ بڑے ثواب کا کام کر رہا ہے.سواے میرے مولا قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹۹ نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں.اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہو.اور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی ان کے اندر پیدا ہو اور زمین پر پاکی اور پرہیز گاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلاویں اور ہر ایک طالب حق کو نیکی کی طرف کھینچیں اور اس طرح پر تمام قو میں جو زمین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تئیں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے.لیکن اگر اے پیارے مولیٰ میری رفتار تیری نظر میں اچھی نہیں ہے تو مجھ کو اس صفحہ دنیا سے مٹا دے تا میں بدعت اور گمراہی کا موجب نہ ٹھہروں.میں اس درخواست کے لئے جلدی نہیں کرتا تا میں خدا کے امتحان کرنے والوں میں شمار نہ کیا جاؤں.لیکن میں عاجزی سے اور حضرت ربوبیت کے ادب سے یہ التماس کرتا ہوں کہ اگر میں اُس عالی جناب کا منظور نظر ہوں تو تین سال کے اندر کسی وقت میری اس دعا کے موافق میری تائید میں کوئی ایسا آسمانی نشان ظاہر ہو جس کو انسانی ہاتھوں اور انسانی تدبیروں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ آفتاب کے طلوع اور غروب کو انسانی تدبیروں سے کچھ بھی تعلق نہیں.اگر چہ اے میرے خداوند یہ بچی ہے کہ تیرے نشان انسانی ہاتھوں سے بھی ظہور میں آتے ہیں لیکن اس وقت میں اسی بات کو اپنی سچائی کا معیار قرار دیتا ہوں کہ وہ نشان انسانوں کے تصرفات سے بالکل بعید ہو تا کوئی دشمن اس کو انسانی منصوبہ قرار نہ دے سکے.سواے میرے خدا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اگر تو چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے.تو میرا ہے جیسا کہ میں تیرا ہوں تیری جناب میں الحاح سے دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۰۰ اور اگر یہ سچ ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے تو تو میری تائید میں اپنا کوئی ایسا نشان دکھلا کہ جو پبلک کی نظر میں انسانوں کے ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے برتر یقین کیا جائے تا لوگ سمجھیں کہ میں تیری طرف سے ہوں.اے میرے قادر خدا! اے میرے تو انا اور سب قوتوں کے مالک خداوند ! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جن اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں.دنیا میں ہر ایک فریب ہوتا ہے اور انسانوں کو شیاطین بھی اپنے جھوٹے الہامات سے دھوکہ دیتے ہیں مگر کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گئی کہ وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے.کیونکہ تو وہ ہے جس کی شان لا إِله إِلَّا اللہ ہے اور جو الْعَلِيُّ الْعَظِیم ہے.حصہ پنجم تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۷ تا ۵۱۰) صلوٰۃ اور دعا میں فرق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ میں اور نماز میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے اَلصَّلوةُ هِيَ الدُّعَاءُ.صلوۃ ہی دعا ہے.الصَّلوةُ مُخُ الْعِبَادَةِ نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوا نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب، انکسار، تواضح اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دعا کی وہ ہے.جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.صلوٰۃ کا لفظ پُر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے.جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے.ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے.تب اس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.“
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا میں بڑی قوت فرمایا کرتے تھے.۵۰۱ دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا.دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں.خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.....دعا سے بڑھ کر اور کوئی ہتھیار نہیں.“ دعا کرنا موت اختیار کرنے کے برابر حصہ پنجم فرمایا کرتے تھے کہ اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانہ پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے.دراصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے.“ دعا میں علیحدگی فرمایا کرتے تھے.وو جب خوف الہی اور محبت غالب آتی ہے.تو باقی تمام خوف اور محبتیں زائل ہو جاتی ہیں.ایسی دعا کے واسطے علیحدگی بھی ضروری ہے.اسی پورے تعلق کے ساتھ انوار ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک تعلق ایک رشتہ کو چاہتا ہے.“ اپنی زبان میں دعا فرمایا کرتے.”نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دعامانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.سورہ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.وہ اسی طرح عربی زبان میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۰۲ حصہ پنجم ہی پڑھنا چاہیے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہیے اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں.لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہیے.اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تا کہ حضور دل پیدا ہو جائے کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں.وہ نماز نہیں.آج کل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھو نگے دار پڑھ لیتے ہیں.جلدی جلدی نماز ادا کر لیتے ہیں.جیسا کہ کوئی بریگار ہوتی ہے.پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیر نے کے بعد پھر دعا کی جاوے.نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دعا کو اس سے علیحدہ خیال کرتے ہیں نما ز خود دعا ہے.دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں.نماز کے اندر ہر موقعہ پر دعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں بعد تنیج سجدہ میں بعد تسبیح.التحیات کے بعد کھڑے ہو کر رکوع کے بعد بہت دعا ئیں کرو.تا کہ مالا مال ہو جاؤ چاہیے کہ دعا کے وقت آستانہ الوہیت پر روح پانی کی طرح بہہ جاوے.ایسی دعا دل کو پاک وصاف کر دیتی ہے.یہ دعا میسر آئے.تو پھر خواہ انسان چار پہر دعا میں کھڑا رہے.گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعامانگنی چاہئیں.دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہو جاتی ہے.بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.یہ غلط خیال ہے.ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے.“ حقیقت دعا ایک دفعہ فرمایا.”جب دعا اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو اس کی حقیقت کی مثال ظلمی طور پر اس طرح ہے کہ گویا دعا کرنے والا خدا بن جاتا ہے اور اس کی زبان گویا خدا کی زبان ہوتی ہے...66
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام این دعائے شیخ ۵۰۳ حصہ پنجم مگر یہ حالت خدا کی طرف سے آتی ہے انسان کے اختیار میں کچھ نہیں.دعا حق ہے.اس میں انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی چادر کے نیچے خفی ہو جاتا ہے عبودیت کو ربوبیت کے ساتھ قدیم سے ایک رشتہ ہے جس کا نام خلافت.ہر دعا سے قبل سورۃ فاتحہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا کہ ہر مجلس میں اور ہر موقعہ پر حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھوں بعض دفعہ جب کوئی دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں دعا کی تحریک کرتے اور حضور اُسی مجلس میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو میں بہت قریب ہو کر یہ سنے کی کوشش کرتا کہ حضور کیا الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں.بار بار کے تجربہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر دعا میں سب سے پہلے سورہ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے اور بعد میں کوئی اور دعا کرتے تھے.سب کے واسطے دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ ہر ایک دعا کے موقع پر اپنے خدا کو اپنی دعاؤں میں یاد کر لیا کرتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت قاضی امیرحسین رضی اللہ عنہ کا ایک خوردسال بچہ فوت ہو گیا.اس کے جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود پڑھائی اور عموماً جنازوں کی نمازوں میں حضور خود ہی پیش امام ہوا کرتے تھے.اس وقت قادیان میں جماعت تھوڑی تھی.اس جنازہ میں شامل ہونے والے احباب کی تعداد ۱۴.۱۵ کے قریب تھی.نماز کے بعد ایک شخص نے عرض کیا حضور میرے واسطے دعا کریں.تو حضور نے فرمایا کہ میں نے تو ابھی اس نماز میں سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے.اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف میت اور اُس کے لواحقین کے لئے دعا نہیں کی تھی.بلکہ جتنے لوگ جنازہ میں شامل ہوئے.سب کے لئے دعا کر دی تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بيت الدعا ۵۰۴ حصہ پنجم ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے.ستر سال کے قریب عمر سے گزر چکے ہیں.موت کا وقت معلوم نہیں خدا جانے کس وقت آ جائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے.ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے.رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں ہے.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا دیئے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا.اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعدا پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا.دعا کرنے میں ہلاکت ۴ جون ۱۹۰۴ء کو فر مایا.نماز اصل میں دعا ہے اگر انسان کا نماز میں دل نہ لگے.تو پھر ہلاکت کے لئے تیار ہو جائے کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ گویا خود ہلاکت کے نزدیک جاتا ہے.دیکھو ایک طاقتور حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں.مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں بیکسوں کی امداد کرتا ہوں.لیکن ایک شخص جو مشکل میں مبتلا ہے.اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا.نہ اپنی مشکل کا اس کے آگے بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے.تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا.خدا تعالیٰ ہر وقت انسان کو آرام دینے کے واسطے تیار ہے.بشر طیکہ کوئی اس سے درخواست کرے.قبولیت دعا کے واسطے ضروری ہے کہ انسان نافرمانی سے باز رہے اور بڑے زور سے دعا کرے.کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے.تب آگ پیدا ہوتی ہے.حقیقت دعا اکتوبر ۱۹۰۴ء فرمایا.یا درکھو کہ انسان کی بڑی سجاوٹ اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ دعا ہی ہے.یہی دعا اس کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم لئے پناہ ہے.اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے.یہ بھی یقیناً سمجھو کہ یہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے.دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں.آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ تناسخ کے چکر میں سے ہم نکل ہی نہیں سکتے اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے.ان کو دعا کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اور اس سے کیا فائدہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے.جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائے گا.کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ خاص اکرام اسلام کے لئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے.لیکن اگر آپ ہی اس فضل.محروم ہو جائیں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں تو پھر کس کا گناہ ہے.جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے.اور آدمی ہر وقت اس سے پانی پی سکتا ہے.پھر بھی اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے.تو خود طالب موت اور نشانہ ہلاکت ہے.اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے.یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں.قرآن شریف کے تین پارے ہیں اور سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں.لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں وہ نصیحت کون سی ہے.جس پر اگر مضبوط ہو جا ئیں اور اس پر پورا عمل درآمد کریں.تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے.مگر میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے.دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا.لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں.اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے دعا یہی نہیں کہ چند لفظ منہ سے بڑ بڑائے یہ تو کچھ بھی نہیں.دعا اور دعوت کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لئے پکارنا اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے.جب انسان کمال درد دل اور سوز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر آستانہ الہی کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے.تو دیکھتے ہو.کہ.اس کی پکار میں کیا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے.اس کی آواز ہی میں درد بھرا ہوا ہوتا ہے.جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے اسی طرح وہ دعا جو اللہ تعالیٰ سے کی جائے اس کی آواز اس کا لب ولہجہ اور ہی ہوتا ہے.اس میں وہ رقت اور درد ہوتا ہے جو الوہیت کے چشمہ رحم کو جوش میں لاتا ہے.اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے عضو اُس سے متاثر ہو جائیں اور زبان میں خشوع خضوع ہو.دل میں درد اور رقت ہو.اعضا میں انکسار اور رجوع الی اللہ ہو اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو.ایسی حالت میں جب آستانہ الوہیت پر گرے گا.نامراد واپس نہ ہوگا.چاہیے کہ اس حالت میں بار بار حضور الہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار ہوں اور کمزور ہوں تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ ہو نہیں سکتا.تو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر.کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے.جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا.تو کسی نا معلوم وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نو ر اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی.جو دل سے گناہ کی تاریکی کو دور کرے گی اور غیب سے ایک طاقت عطا ہوگی.جو گناہ سے بیزاری پیدا کرے گی.اور وہ ان سے بچے گا.اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا.گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا.جو بے اختیار اسے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تھے.ایک دفعہ وہ سب زنجیر ٹوٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جیسے پہلی حالت میں گناہ کی طرف ایک رغبت اور رجوع تھا اُس حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے.گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اللہ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت اور کشش پیدا ہوگی.اوروں سے دعا کرانا جب حضرت مفتی محمد صادق صاحب لا ہورا کو نٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازم تھے.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملتان کے سفر پر تشریف لے گئے.لاہور میں حضور کو دوسری گاڑی کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۰۷ انتظار میں ٹھہرانا پڑا.ان دنوں حضرت مفتی صاحب بہت بیمار تھے.جب حضور لا ہور اترے تو اسٹیشن سے ان کی عیادت کے لئے ان کے مکان پر تشریف لے گئے جو محلہ ستھان میں تھا اور انہوں نے کرایہ پر لیا ہوا تھا.ایک گھنٹہ کے قریب ان کے پاس بیٹھے رہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی ہمراہ تھے.جب آپ تشریف لے جانے لگے تو انہیں فرمایا کہ مفتی صاحب آپ بیمار ہیں.بیمار کی بھی دعا قبول ہوتی ہے.آپ ہمارے کام میں کامیابی کے لئے دعا کریں.بندہ بھی اس وقت حضرت مفتی صاحب کے پاس موجود تھا.یہ آخر اکتوبر ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے اس طرح سے گا ہے گا ہے آپ دوسروں سے بھی اپنے مقاصد کے واسطے دعا کرایا کرتے تھے.ایک طریقہ دعا جموں کے رہنے والے خلیفہ نور الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور آجکل قریب سو سال کی عمر میں جموں میں مقیم ہیں.انہوں نے ذکر کیا کہ ایک دفعہ میری آنکھیں دکھتی تھیں.بہت علاج کئے.مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری آنکھیں اچھی ہونے میں نہیں آتیں.حضور نے فرمایا آپ ان الفاظ میں دعا کیا کریں اے خدا میرے وہ گناہ بھی بخش جن کی وجہ سے میں اس آنکھوں کے مرض میں گرفتار ہو گیا ہوں.“ دعا سے عربی تصنیف اپنے ابتدائی ایام تصانیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی کتاب عربی زبان میں نہیں لکھی تھی.بلکہ تمام تصانیف اردو میں یا نظم کا حصہ فارسی میں لکھا.ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور کچھ عربی میں بھی لکھیں.تو بڑی سادگی اور بے تکلفی سے فرمایا کہ میں عربی نہیں جانتا مولوی صاحب بے تکلف آدمی تھے انہوں نے پھر عرض بھی کچھ کیا میں کب لے اشاعت ہذا کے وقت فوت ہو چکے ہیں رضی اللہ عنہ ( عرفانی)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۰۸ حصہ پنجم کہتا ہوں کہ حضور عربی جانتے ہیں.میری غرض تو یہ ہے کہ کوہ طور پر جائیے اور وہاں سے کچھ لائیے.فرمایا ہاں میں دعا کروں گا.اس کے بعد آپ تشریف لے گئے اور جب دوبارہ باہر تشریف لائے تو ہنتے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب میں نے دعا کر کے عربی لکھنی شروع کی.تو یہ بہت ہی آسان معلوم ہوئی.چنانچہ پہلے میں نے نظم ہی لکھی اور کوئی سو شعر عربی میں لکھ کر لے آیا ہوں.آپ سنئے یہ عربی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی تصنیف تھی اور کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہوئی.اس کے بعد آپ نے کئی کتابیں عربی میں تصنیف کیں اور زمانہ بھر کے علماء کر چیلنج کیا کہ کوئی آپ کے مقابلہ میں ایسی فصیح اور بلیغ پر معنی و معارف و حقائق سے پُر عبارت عربی زبان میں لکھ کر دکھاوے مگر کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ اس مقابلہ کے لئے کھڑا ہوتا الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام کاروبار کا انحصار دعاؤں پر تھا.آپ کی زندگی کے اوقات کا اکثر حصہ دعاؤں میں گزرتا تھا.ہر کام سے قبل آپ دعا کیا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کو بھی دعاؤں کے طرف متوجہ کرتے رہتے تھے.دعا کو آپ ایک عظیم الشان نعمت یقین کرتے تھے.کسی اور ذریعہ کو آپ ایسا عظیم التاثیر نہیں بتلاتے تھے.جیسے کہ دعا ہے اور دعا کو اسباب طبعیہ میں سے ایک سبب بتلاتے تھے.سرسید بانی علی گڑھ کالج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا؎ ہاں مکن انکار میں اسرار قدرت ہائے حق قصہ کوتاه کن بین از ما دعائے مستجاب نہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۰۹ حصہ پنجم زمانہ بعثت سے قبل کی دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ بعثت سے میری مراد آپ کا اعلان دعوت بیعت ہے.گو اس سے پہلے آپ کو اس قسم کے الہامات ہوتے تھے جو آپ کے مامور ومرسل ہونے پر دلالت کرتے تھے بلکہ براہین احمدیہ کے وقت (۱۸۷۹ء) کثرت سے ماموریت کے مظہر الہامات ہورہے تھے جن میں آپ کے مقام اور مرتبہ کا بھی ذکر تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس کلام میں آپ کی شان کا ذکر فرمایا تھا.ان الہامات کو دیکھ کر بعض دوستوں کو یہ بھی خیال گزرا کہ اس تعریف میں گونہ مبالغہ ہے چنانچہ لودہانہ کے ممتاز اور صاحب ارشاد صوفی حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے مِن وجہ اس کا ذکر صوفی عباس علی صاحب سے ( جوان ایام میں اول الناصرین تھے اور بعد میں کسی شامت اعمال کی وجہ سے مرتد ہو گئے ) کیا اور انہوں نے اپنے ایک خط میں اس کا ذکر کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں ان کو لکھا کہ.جو منشی احمد جان صاحب نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا.اس کتاب میں (براہین احمدیہ.عرفانی) قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہے سو وہ دونوں دریائے بے انتہا ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل ان کی تعریف کرتے رہیں تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے.ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خدا وند کریم کی طرف سے القا ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ جو بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں اور اسی وقت تک کوئی دوسرا ان کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اسی نبی کریم کی متابعت کرے اور جب متابعت سے ایک ذرہ منہ پھیرے تو پھر تحت الثریٰ میں گر جاتا ہے ان الہامی عبارتوں میں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۰ حصہ پنجم خداوند کریم کا یہی منشا ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے.۱۸ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ رذوالحجہ ۱۲۹۹ھ ) ( مکتوبات احمد یہ جلد احصہ اوّل صفحہ ۳.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۰۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حقیقت تو یہ ہے کہ جب سے مخاطبات و مکالمات الہیہ کا سلسلہ شروع ہوا اسی وقت سے شانِ ماموریت نمایاں تھی مگر علی الاعلان جب آپ نے بیعت کے لئے دعوت دی تو میں اسی تاریخ کو بعثت کی تاریخ قرار دیتا ہوں اور یہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کا واقعہ ہے اسی سلسلہ میں دوسرا اعلان آپ نے ۱۲ فروری ۱۸۸۹ء کو کیا.دعوت بیعت سے پہلے آپ ماموریت اور مجددیت کا اعلان کر چکے تھے مگر اس وقت ابھی بیعت نہ لیتے تھے اور حقیقت تو یہ ہے کہ براہین احمدیہ کی تالیف و تصنیف ہی ماموریت کا نتیجہ تھا جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا.کتاب براہین احمدیہ جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہوکر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے یہ اشتہار انگریزی اور اردو میں تمیں ہزار چھپوا کر بذریعہ رجسٹر ڈ خطوط ہر مذہب کے اکابر اور دنیا کے بڑے بڑے آدمیوں کو بھیجا گیا تھا اس کے متعلق تفصیلات حیات احمد جلد دوم نمبر اول میں بیان کر دیئے ہیں یہاں مجھ کو فقط انتہا ہی بیان کرنا مقصود ہے کہ باوجود یکہ آپ کے الہامات پہلے ہی دن سے آپ کو مامور ومرسل قرار دیتے تھے اور براہین کی تالیف کے وقت مجد دیت اور ماموریت کا اعلان بھی کیا گیا تھا مگر دعوت بیعت کا اعلان دسمبر ۱۸۸۸ ء تک نہ ہوا.اس لئے میں اسی تاریخ کو آپ کی بعثت کی تاریخ اعلان قرار دیتا ہوں.اور اسی حصہ میں صرف ان دعاؤں کا ذکر کروں گا جو دسمبر ۱۸۸۸ء تک مختلف اوقات میں آپ کرتے رہے اور جو ہمارے علم میں آئی ہیں ورنہ میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ آپ کا سب سے زیادہ حصہ زندگی کا دعاؤں ہی میں گزرا ہے اور آپ کا سب سے بڑا حربہ دعا ہی تھا ایک جگہ فرماتے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۱ دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لیے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں“.حصہ پنجم مکتوب ۲۱ رمئی ۱۸۸۳ء بنام میر عباس علی صاحب - مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس زمانہ بعثت سے قبل کی دعاؤں کے لئے میں تاریخی ترتیب کو مد نظر نہ رکھوں گا بلکہ میرے مدنظر صرف ایک نقطہ ہوگا کہ وہ دسمبر ۱۸۸۸ء سے پہلے کی ہوں.وَ بِاللهِ تَوْفِیق.(1) بچپن میں دعا کا جذبہ بچپن بالآخر بچپن ہے وہ کسی بادشاہ کا ہو یا عام آدمی کا تو نگری کا ہو یا غریبی کا مگر بچپن کے رجحانات آگے چل کر بطور ایک پیج کے ثابت ہوتے ہیں اور اسی لئے مثل مشہور ہے.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات میں جب آپ کے سوانح حیات کے لئے مواد جمع کر رہا تھا اور آپ کے بچپن کے حالات مختلف ذرائع سے معلوم کرتا رہتا تھا تو مجھ کو ایک عجیب اور مؤثر واقعہ کا پتہ لگا جس کو میں نے سیرت مسیح موعود جلد اوّل نمبر دوم کے صفحہ ۱۵۷ پر درج کیا ہے میں نے اس واقعہ سے آپ کے دعاؤں پر فطرتی ایمان اور بچپن میں نماز کے لئے جوش کو ظاہر کیا ہے.حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اسی واقعہ کے متعلق علم النفس کی روشنی میں جن تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ آپ ہی کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں.”مرزا صاحب کو اپنی بچپن کی عمر سے ہی اپنے والد صاحب کی زندگی میں ایک ایسا تلخ نمونہ دیکھنے کا موقع ملا کہ دنیا سے آپ کی طبیعت سرد ہوگئی.اور جب آپ بہت ہی بچہ تھے تب بھی آپ کی تمام خواہشات رضائے الہی کے حصول میں لگی ہوئی تھیں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۲ چنانچہ آپ کے سوانح نویس شیخ یعقوب علی صاحب آپ کے سواخ میں ایک عجیب واقعہ جو آپ کی نہایت بچپن کی عمر کے متعلق ہے تحریر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہو گئی کہا کرتے تھے کہ.نا مراد ے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے“.اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت بچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہورہا تھا اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہوگئی تھی.کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کا پورا کرنے والا خدا تعالیٰ ہی کو سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اسی پر موقوف جانتے تھے.نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ ہی کو جاننا اور پھر اس گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لئے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہونہیں نکل سکتی“ سیت مسیح موعود از حضرت خلیفۃ السیح الثانی انوارالعلوم جلد ۳ صفحه ۳۳۶، ۳۳۷) اس سے یہ امر واضح اور روشن ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو دعاؤں کے لئے جوش اور نماز کی طرف رغبت تھی اور نما ز معراج المومن ہے اور الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ ہے.بچپن کی دعاؤں کے متعلق مجھے کوئی ایسا مواد نہیں مل سکا مگر اس فطرت کا اظہار ہی آپ کے ایمان باللہ اور تو کل علی اللہ کا ایک ثبوت ہے اور یہی فطرتی جذ بہ تھا جو بعد میں نشو ونما پاتا رہا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۳ حصہ پنجم (۲) عہد شباب کی دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر عرف عام کے موافق عہد شباب آیا ہی نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی پاکیزہ فطرت کو آغاز جوانی سے محفوظ کر دیا تھا.میرا مقصد یہاں آپ کے اس زمانہ بلوغت کے واقعات کو بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ کی دعاؤں کے آئینہ میں آپ کی سیرت کو دکھانا ہے.میں اس زمانہ کا تعین آپ کے پہلے چالیس سال تک کا کرتا ہوں.ان ابتدائی ایام میں یعنی زمانہ بعثت سے پہلے آپ فارسی زبان میں عموماً نظم کہتے تھے.آپ کی فطرت میں خدا داد ملکہ شعر تھا.خود حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم و مغفور بھی شعر کہتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے.حضرت مسیح موعود اس عہد میں فرخ تخلص فرماتے تھے چنانچہ آپ کا ایک دیوان فرخ بھی تیار ہو گیا تھا.یہ دیوان خاکسار عرفانی کے مخطوطات قدسیہ میں محفوظ تھا.ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہو گیا حضرت امیر المومنین میری عیادت کو تشریف لائے اور میں نے وہ گراں بہا تحفہ آپ کی نذر کر دیا کہ وہ آپ ہی کے لیے سزاوار تھا.بعد میں آپ نے وہ نعمت عظمی فخر الدین ملتانی (جس کا انجام افسوس ہے اچھا نہ ہوا اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے ) کو طباعت کے لئے دے دیا اور دُر مکنون کے نام سے وہ شائع ہوا.اس دیوان میں حضرت کی بعض دعاؤں کا نمونہ ہے اور یہ آپ کے عہد شباب کی دعائیں ہیں اور ان کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس رنگ میں رنگین تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۴ حصہ پنجم (۱) اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات پر خطاب کرتے ہیں ☆ (1) من نہ بیچم سر از تو اے جانان دامن خود ز دست من مربان (۲) من ز مادر برائے تو زادم ہست عشقت غرض ز ایجادم که دلدارم بس هست غیور (۳) سوئے دیگر کسے مبین نہ حضور (۴) دل بدنائے دون چرا بندیم し بیار عزیز خورسندیم (۵) دلبر من تو ہستی اے جانان دل بتو بسته ام ز ہر دو جہاں (1) من ز مادر برائے تو زادم ہست عشقت غرض ز ایجادم (۷) دل ز عشق کے تپد مرا اے مبارک کسے کہ دید مرا (۸) روئے دلدار بردل من تافت دل من مقصد دو عالم یافت (۹) بر سر ہر صدی برون آید آنکه دلدار را ہے شاید (۱۰) عز خود گر دہی برائے نگار عر خود را بتو بنهد دلدار ا حاشیہ.میں ان اشعار کا ترجمہ دے دینا اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ بدقسمتی سے اس وقت فارسی کی طرف توجہ بہت کم رہ گئی ہے.ترجمہ.(۱) اے میرے محبوب (مولا) میں آپ کے حضور سے سرتابی نہیں کروں گا.اپنے دامن کو میرے ہاتھ سے نہ چھڑائیے.(۲) مجھے تو میری ماں نے آپ ہی کے لیے جنا ہے.میری پیدائش کی تو غرض ہی آپ کا عشق ہے.(۳) اے دل کسی اور طرف نظر نہ کر.(یاد رکھ ) کہ میرا محبوب بہت غیور ہے.(۴) دنیائے دون پر ہم کس لئے دل لگائیں.ہماری ساری خوشیوں کا ( مرکز ) تو یار عزیز ہے.(۵)اے میرے محبوب مولیٰ میرا دلبر تو تُو ہی ہے.میں نے دونوں جہانوں میں سے آپ ہی سے دل کو وابستہ کر لیا ہے.(۶) مجھے تو میری ماں نے آپ ہی کے لئے جنا ہے.میری پیدائش کی تو غرض ہی آپ کا عشق ہے.(۷) میرا دل اللہ تعالیٰ ہی کے عشق میں پیتا ہے.وہ شخص مبارک ہے جس نے مجھے دیکھا.نوٹ.یہاں گسے کا لفظ رکھ کر عظمت الہی کو بیان کیا ہے.(۸) میرے محبوب نے میرے قلب پر چہرہ نمائی کی.اور میرے دل نے دونوں جہاں کے مقاصد کو پالیا.(۹) وہ وجود ہر صدی کے سر پر ظہور کرتا ہے.جو محبوب مولیٰ کو پسند ہوتا ہے.(۱۰) اگر اس محبوب مولی کے لئے تو اپنی عزت کو قربان کرتا ہے.وہ محبوب اپنی عزت تیرے لئے عطا کرتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۵ حصہ پنجم (11) نفس را هر که از میان انداخت شب او روز گشت واه بشناخت (۱۲) تا نفس خود اسیر ضلال كشف راه خدا مبذ خیال (۱۳) ماه تاباں است صورت دلدار نفس تو پیش ماه چون دیوار است (۱۴) تا مرا بر رخ تو سودائی است از خلائق ز غم نه پروائی (۱۵) خلق در کاروبار خود ہوشیار ما چو مستان فتاده بر درِ یار ان اشعار پر پورے سکون اور اطمینان سے غور کرو یہ کلام ۱۸۶۲٬۶۱۸۶۰ء کا ہے اور یہ وہ وقت ہے جبکہ اپنی عمر کے بچھپیں چھبیس سال کے نوجوان تھے جس عہد شباب میں انسان کی امنگوں میں ہیجان اور دماغ میں ایک خاص قسم کا نشہ ہوتا ہے مگر حضرت فرخ کی طبیعت اور آپ کے دل و دماغ میں جن خیالات کا ہجوم ہے وہ دنیا اور اس کی کدورتوں سے پاک ہیں وہ اپنی پیدائش کی علت غائی صرف خدا ہی کا ہو جانا یا خدا ہی کو پانا یقین کرتے ہیں اور اس کے لئے آپ کا قلب بے چین ہے.پھر ان اشعار میں آپ اُن قلبی وارداتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی محبت و عشق میں فنا ہو کر آپ کے قلب مطہر پر گزرتی ہیں صاف اعتراف واظہار ہے کہ.خدا تعالیٰ کی رؤیت آپ کو ہوئی ہے اور اپنے مقام کا بھی لطیف پیرایہ میں شعور ہے جیسا کہ کہتے ہیں وہ شخص مبارک ہے جس نے مجھے دیکھا (الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلهِ مجھے بھی یہ دولت نصیب ہوئی.اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مُبَارَكًا أَيْنَمَا يَكُونُ) ترجمہ اشعار.(۱۱) جس نے اپنے نقش کو اپنے اور مولیٰ کے تعلقات سے باہر نکال دیا اس کی رات دن سے بدل جاتی ہے اور وہ صراط مستقیم کو شناخت کر لیتا ہے.(۱۲) جب تک تو اپنے نفس کا اسیر ہے.اللہ کے راستہ کے کھلنے کا خیال بھی نہ کر.(۱۳) محبوب کا چہرہ تو چاند کی طرح روشن ہے.لیکن تیرا نفس اس چاند کے سامنے دیوار کی طرح روک ہے.(۱۴) جب سے مجھے آپ کے چہرہ کا عشق ہوا ہے.میں مخلوق سے کسی قسم کا نہ غم رکھتا ہوں نہ اس کی پرواہ کرتا ہوں.(۱۵) دنیا کے لوگ اپنے کاروبار میں ہوشیار ہیں اور ہم تو مستوں کی طرح آستانہ حضرت احدیت پر پڑے ہوئے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۶ پھر اس کلام سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اس وقت بھی آپ کو ایک بصیرت دی گئی تھی کہ آپ اس صدی کے مجدد ہوں گے.غرض اس کلام میں آپ کے عہد شباب کی داستان موجود ہے ہاں ضرورت ہے.قلب سلیم کی اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَسَلِّمُ (۲) حضرت مسیح موعود کی پرانی دعا (۳) باز بنما یہ دعا بھی ۶۰.۱۸۶۱ء کے زمانہ کی ہے ) بدین خود (۱) آن خداوند بر تر و پاک است صنعتش مهر و ماه و افلاک است (۲) ہر ره و کوچه پر شد از اشرار زنده کن دین خویش دیگر بار شوکت باز بر ما نظر کن از رحمت (۴) باز احیائے دین احمد کن مگس کُفر از جہاں رد کن (۵) کافر و و کفر از جهان بردار راحت بخش از سنگ و مردار متان جان من از بلاؤ غم برہان (1) اے خداوند قادر و (۷) تو غفوری و اکبر و امجد هشت بخشائش برون از حد (۸) کس شریک تو نیست در دوجہاں بر دو عالم توئی خدائے لگاں (۹) تو بزرگ و شان تست عظیم تو وحیدی و پاک و فرد قدیم ا ترجمہ اشعار.(۱) وہ اللہ تعالیٰ بزرگ و پاک ہے جس نے سورج چاند اور افلاک کو پیدا کیا.(۲) ہر راستہ اور کو چہ اشرار سے بھر گیا ہے.اے خدا اپنے دین کو پھر زندہ کر.(۳) پھر اپنے دین کی شوکت کو ظاہر کر.پھر رحم سے ہم پر نظر کرو.(۴) پھر دین احمد کو زندہ فرمائیے.کفر کی مکھی کو دنیا سے دور فرماؤ.(۵) کفرو کا فرکو دنیا سے اٹھا دو کتے اور مردار کو دور کر کے راحت عطا کرو.(۶) اے خدائے قادر ومنان ! میری جان کو دین کے اس غم سے نجات دے.(۷) تو غفور ہے اکبر ہے اور امجد ہے.تیری بخشش کی کوئی انتہا نہیں ہے.(۸) دونوں جہاں میں تیرا کوئی شریک نہیں.تو ہی ایک وحدہ لاشریک خدا ہے.(۹) تو بزرگ ہے اور تیری شان عظیم ہے.تو اکیلا ہے تو پاک ہے تو لا شریک ازلی ابدی خدا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۷ (۱۰) اے خدا ہمتم بدین افزائے كمر من به بندد ره بکشائے (11) دل من رشک درد نا کان کن سرمن خاک کوئے پاکان گن (۱۲) ديده من بصدق روشن کن کارم بوجه احسن گن (۱۴) پدم ہمہ (۱۳) از وجود خودم برآرم چنان که نماند تصرف شیطان بنیاد خود پرستی گن گم کن از خویش و هستی کن (۱۵) کشش ده بوئے خود را نشان کہ دے ناید م قرار ازان (11) دل من پاک کن ز کبر و غرور سینه ام پر کن از خاطر نور (۱۷) آن چنانم اسیر عشق خود بکن که نماند ز من نه شاخ و بن بریز در جانم و مجذوب خود بگردانم (۱۸) شور مجنون (۱۹) آنکہ یکدم بجز تو ہوشش نیست آنکہ بے تو زبان و گوشش نیست (۲۰) آن بگردان مرا کسے چیزے نیست قدر او نزد او پشیزی نیست ترجمہ اشعار.(۱۰) اے خدا ترقی دین کے لئے میری ہمت کو بڑھا.تو اس کے لئے میری کمر کو مضبوط کر اور میری رہنمائی فرما.(۱۱) میرے دل میں اس قدر درد دین کے لئے پیدا کر دے کہ بڑے بڑے دکھی دل بھی اس پر رشک کریں.اور پاک لوگوں کے کوچہ کی خاک میرا سر ہو (۱۲) میری آنکھوں میں صداقت کی روشنی بخش.مرے تمام کاموں کو ایسے طور پر سر انجام دے کہ ان میں حسن پیدا ہو.(۱۳) اپنے نفسانی وجود سے مجھے اس طرح پر نکال دے کہ شیطان کا تصرف اس پر نہ رہے.(۱۴) میرے اندر سے خود پرستی کی بنیاد کو گرا دے.مجھے اپنے نفس سے گم کر اور اپنی ہستی میں زندگی بخش.(۱۵) میرے اندر ایک ایسی کشش پیدا کر دے کہ وہ تیری محبت کی بُو کا نشان پالے اور پھر اس کے بغیر ایک دم بھی مجھے آرام نہ ملے.(۱۲) مرے دل کو کبر اور غرور سے پاک کر اور مرے سینہ کو اپنے نور سے منور کر دے (۱۷) اپنے عشق میں مجھے ایسا اسیر کر کہ اس کے سوا میری کوئی شاخ و جڑ نہ ہو.(۱۸) میری جان میں مجنون کا شور پیدا کر اور اپنا ہی مجذوب اور مست بنالے.(۱۹) میری ایسی حالت ہو جاوے کہ تیرے بغیر ایک دم بھی مجھے ہوش نہ ہو.اور تیرے بغیر میری زبان سے نہ کچھ نکلے اور نہ میرے کان کچھ نیں.(۲۰) میری حالت ایسی ہو جائے کہ میں کسی کو کچھ نہ سمجھوں.اور اس کی قیمت ایک کوڑی نہ ہو.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الہ ۵۱۸ (۲۲) دائم الحبس شود دران چاہے حصہ پنجم نماند (۲۱) آنکه او را بخلق کار نماند باز کارش بروزگار که نیاید از و برون گا ہے نظرم فقر کن مطلب بزرگ ترم (۲۳) تیم و زر کن حقیر در (۲۴) آنچنان بخش عقل حق جویم کہ براہت بچشم و سر پویم (۲۵) شور عشقت در بریز جانم از مجذوب بگردانم (۲۶) ہمہ مدح و ثنائے تو خواہم ہر چہ خواہم برائے تو خواہم (۲۷) اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش (۲۸) تا مرا دل به تو حمد تو پیوست ہمہ کاروبار ہا بگسست ان اشعار میں جو ایام شباب کے جذبات کے مظہر ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبل از بعثت کی زندگی کے اسرار پنہاں ہیں وہ اپنی تنہائی اور خلوت کی ساعتوں میں اپنے ربّ کریم کو مخاطب کرتے ہیں اور اپنی دعا میں دنیا اور اس کے مالوفات کی کوئی خواہش نہیں کرتے اپنی راحت و آسائش کے طالب نہیں بلکہ آپ کی دعا کا مرکزی نقطہ.حضرت احدیت کی محبت و عشق ہے.اور اس کے بعد جس چیز کی زبردست خواہش آپ کے دل میں ہے وہ دین احمد کے احیا کا زبر دست جذبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو کفر و شرک سے نجات دے.ترجمہ اشعار.(۲۱) ہاں مجھے ایسا بنا دے کہ دنیا سے کوئی کام ہی نہ رہے.دنیا کیا زمانہ سے بھی کوئی کام نہ رہے.(۲۲) میں تیری محبت کے چاہ میں ایسا اسیر ہو جاؤں.کہ پھر اس سے کبھی باہر نہ نکل سکوں.(۲۳) سیم وزر میری نظر میں حقیر کر دے.میرا سب سے عظیم تر مقصد فقر کر دے (۲۴) مجھ کو وہ عقل عطا فرما جوحق جو ہواور تیرے راستہ میں بسر و چشم آؤں.(۲۵) میری جان میں اپنے عشق کی نمک ریزی فرما.اور اس محبت میں مجھے مست و مجذوب کر دے.(۲۶) میری خواہشوں کا منتہا تیری حمد وثنا ہے.خلاصہ یہ ہے کہ میری جو بھی خواہش ہے وہ تیری رضا ہی کے لئے ہے.(۲۷) اے میرے اللہ میرے گناہ بخش.اپنی درگاہ کی طرف میری رہنمائی فرما.(۲۸) جب سے میرا دل آپ سے اور آپ کی محبت میں محو ہو گیا ہے.دنیا اور اس کے ہر قسم کے کاروبار کو چھوڑ دیا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۹ حصہ پنجم اور اپنی ذات کے لئے اخلاق فاضلہ کی دعا ہے کہ کبر و غرور سے پاک کر دے اور میرے سینہ کو اپنے نور سے منور کر دے.یہ اسی قسم کی دعا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ اے اللہ ! میری آنکھ میں نور پیدا کر دے، میرے قلب میں نور رکھ دے.یہ باتیں تکلف سے کسی دل سے نہیں نکل سکتی ہیں.کوئی دوسرا ان باتوں کو سنتا نہیں یہ آپ کے قلب کے مخفی در مخفی گوشوں میں پیدا ہونے والی آواز ہے دنیا کا کوئی انسان اسے جانتا نہیں تھا.آپ ان تنہائی کی ساعتوں میں اپنے رب سے جو کچھ بھی مانگتے ہیں وہ اصلاح نفس عشق ربانی اور احیائے دین احمد کا جذبہ ہے.یہ چیز آپ کی فطرت میں تھی اور خدا تعالیٰ آپ سے اس قسم کی دعائیں خود کراتا تھا اس لئے کہ آپ خود احیاء دین احمد کے لئے مبعوث ہونے والے تھے اللہ تعالیٰ کے علم میں تو یہ بات تھی اس لئے آپ کی فطرت میں یہ جوش پیدا کر دیا.اللہ تعالیٰ جو مجیب الدعوات ہے اور جس نے مضطر کی دعاؤں کو قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ان دعاؤں کو کیوں قبول نہ فرماتا اور اگر غور کیا جاوے تو یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن پاک وجودوں کو اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ فرماتا ہے اس مقصد کے لئے ان کی فطرت میں ایک خاص جوش اور جذ بہ رکھ دیتا ہے اور وہ اپنی بعثت سے قبل دنیا کی حالتِ زار کو دیکھ کر بے انتہا دعائیں کرتے ہیں اور دعائیں ہی خدا تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لاتی ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بھی قبل از بعثت یہی تھی جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی تجلیات اور اعجاز ” وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے.اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے.اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے.اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا.اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۰ حصہ پنجم وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس امی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللَّهُمَّ صَلِّ وَ سَلَّمْ وَبَارِك عَلَيْهِ وَآلِهِ بِعَدَدِ هَمه وَ غَمِّهِ وَحُزْنِهِ لِهَذِهِ الَّا مَّةٍ وَ اَنْزِلُ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ - بركات الدعار وحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۱،۱۰) اور ایک دوسرے مقام پر آپ اس طرح پر اس کا اظہار فرماتے ہیں.(1) اندر آن وقتے کہ دنیا پر ز شرک و کفر بود هیچکس را خون نه شد دل جز دل آن شهر میاد (۲) هیچکس از خبث شرک ور جس بت آگه نه شد این خبر شد جان احمد را که بود از عشق زار (۳) کس چه می داند کرازان ناله ها باشد خبر کان شفیعے کرداز بهر جهان در پنج غار ر گنج (۴) من نمیدانم چه دردے بود و اندوه و غم کاندران غارے درآوردش حزین و دلفگار (۵) نے ز تاریکی توحش نے تنہائی ہر اس نے زمر دن غم نہ خوف کر دے ئے بیم مار (۲) کشته قوم و فدائے خلق و قربان جہان نے بجسم خویش میلش نے بہ نفس خویش کار (۷) نعرہ ہا پُر درد میزد از پئے خلق خدا شد تضرع کار او پیش خدا لیل و نہار ی ترجمہ اشعار.(۱) ایسے وقت میں جبکہ دنیا کفر و شرک سے بھر گئی تھی سوائے اُس بادشاہ کے اور کسی کا دل اس کے لئے غمگین نہ ہوا.(۲) کوئی بھی شرک کی نجاست اور بتوں کی گندگی سے آگاہ نہ تھا صرف احمد کے دل کو یہ آگاہی ہوئی جو محبت الہی سے چور تھا.(۳) کون جانتا ہے اور کسے اُس آہ وزاری کی خبر ہے؟ جو آنحضرت نے دنیا کے لئے غار حرا میں کی.(۴) میں نہیں جانتا کہ کیا در دغم اور تکلیف تھی جو اسے غم زدہ کر کے اس غار میں لاتی تھی.(۵) نہ اسے اندھیرے کا خوف تھا نہ تنہائی کا ڈر نہ مرنے کا غم نہ سانپ بچھو کا خطرہ.(۶) وہ کشتہ قوم فدائے خلق اور اہل جہاں پر قربان تھا نہ اسے اپنے تن بدن سے کچھ تعلق تھا نہ اپنی جان سے کچھ کام.(۷) خدا کی مخلوق کے لئے دردناک آہیں بھرتا تھا اور خدا کے سامنے رات دن گریہ وزاری اس کا کام تھا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۱ حصہ پنجم (۸) سخت شورے بر فلک افتاد زان عجز و دعا قدسیاں را نیز شد چشم از غم آں اشکبار (۹) آخر از عجز و مناجات و تضرع کردنش شد نگاه لطف حق بر عالم تاریک و تار آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه۲۵،۲۴) نورمحمدی کے ظہور کے لئے دعائیں اسی طرح پر دنیا کی حالت کو دیکھتے ہوئے آپ کا جگر پانی پانی ہو جاتا تھا اور بجز دعاؤں کے آپ کا کام نہ تھا.ان دعاؤں کے آثار اور نشان کہیں کہیں ملتے ہیں چنانچہ ایک مکتوب میں پہلے دنیا کی حالت کا مختصر نقشہ کھینچا اور اس پر اظہار افسوس کیا ہے کہ لوگوں کے دلوں پر خت دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے اور غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم کر رکھا ہے اور پھر فرماتے ہیں.اگر اس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا دیں.“ مکتوب محتره ۹ رفروری ۱۸۸۳ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب مکتوبات احمد جلد اصفه۵۱۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ وہ زمانہ ہے کہ آپ خلوت گزیں اور جلوت سے بیزار رہتے لیکن یہ ظاہر ہے کہ آپ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جلال وانوار کے لئے بے انتہا مضطرب اور نالہ کناں تھے حضرت رب العزت کے آستانہ پر روز وشب یہی پکار اور فریاد تھی اور آپ کو منجانب اللہ یقین دلایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی تجلی اور نورمحمدی کے ظہور کا وقت آ پہنچا ہے.کوئی دعا اس وقت اپنی ذات یا اپنے عزیزوں وغیرہ کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے غلبہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتمام نور کے لیے تھیں.یہ تو ۱۸۸۳ء کا واقعہ ہے جو میں نے اوپر ترجمہ اشعار.(۸) اس کے عجز ودعا کی وجہ سے آسمان پر سخت شور برپا ہوگیا اور اس کے غم کی وجہ سے فرشتوں کی آنکھیں بھی غم سے اشکبار ہو گئیں.(۹) آخر کار اُس کی عاجزی ، مناجات اور گریہ وزاری کی وجہ سے خدا نے تاریک و تار دنیا پر مہربانی کی نظر فرمائی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۲ بیان کیا ہے مگر ۶۰ ،۱۸۶ء کا کلام میں نے شروع میں درج کیا ہے اس کو ایک خالی الذہن انسان جب پڑھتا ہے تو اس پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ صاحب کلام کے دل میں امت مرحومہ کے لئے کس قد رغم ہے اور کس طرح حالت کفر کو دیکھ کر وہ درد سے بے چین ہو کر کراہ رہا ہے اور پھر جیسے جیسے معرفت اور بصیرت بڑھتی گئی اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کا مظہر آپ کا قلب صافی ہوتا گیا اسی قدر یہ درد اور بے قراری بڑھتی گئی چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں ؎ (۱) ایس دوفکر دین احمد مغز جانِ ما گداخت کثرت اعدائے ملت قلت انصار دینی (۲) اے خدا زود آو بر ما آب نصرت با بار یا مرا بردار یا رب زین مقام آتشین غرض آپ کی زندگی میں بچپن اور شباب سے اپنی ماموریت کے اعلان تک ایک نہ تھمنے والا طوفانِ اشک غم ملت میں اٹھتا ہوا نظر آتا ہے.اس کلام کے ایک ایک شعر پر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ غم ملت میں یہ ۲۵ ، ۲۶ برس کا نوجوان کس طرح بے تاب اور نوحہ کناں ہے.عمر کے اس حصہ میں جب کہ انسانی زندگی میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے اس نو جوان کے سینہ میں بھی ایک طوفان برپا ہے مگر وہ دنیا سے نرالا ہے وہ دنیا کو معصیت اور ناپاکی سے پاک کر دینے کے لئے طوفان ہے وہ دین احمد کے جلال اور شوکت واقبال کے لئے دعاؤں کا جوش ہے.مبارک وہ جو اس سے برکت پاوے.(۳) مولوی عبد اللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے دعا اگر چہ میں آپ کے عہد شباب کی اپنی دعاؤں کا تذکرہ کر رہا ہوں اور اس سے میری مراد وہ دعائیں ہیں جو آپ کرتے تھے مگر اس سلسلہ میں ایک اور دعا کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے وہ آپ ہی کی دعا ہے لیکن آپ نے ایک نیک مرد کو کہا کہ میرے لئے دعا کریں یہ مرد نیک مولوی سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو اپنے وقت کے صلحاء میں سے تھے اور اپنے ملک سے نکال دیئے گئے تھے حمد ترجمہ.(۱) دین احمد کے متعلق ان دوفکروں نے میری جان کا مغز گھلا دیا اعدائے ملت کی کثرت اور انصارِ دین کی قلت.(۲) اے خدا جلد آ اور ہم پر اپنی نصرت کی بارش برسا.ورنہ اے میرے رب اس آتشیں جگہ سے مجھ کو اٹھا لے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۳ حصہ پنجم اور اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ عامل بالحدیث تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ واقعہ خود بیان فرمایا ہے اور میں اسے سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جلد اول کے صفحہ ۸۰ ( حیات احمد جلد اصفحہ ۱۲۶ شائع کردہ نظارت اشاعت) پر لکھ آیا ہوں یہاں مقصد بیان آپ کی دعا ہے.عبداللہ غزنوی سے دعا اور اُس کا جواب حضرت اقدس نے اُن سے اپنی ملاقات کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وو ” جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیر دی میں اور دوسری دفعہ مقام امرتسر میں اُن سے میری ملاقات ہوئی میں نے انہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اس کے لئے آپ دعا کرو مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤں گا کہ کیا مدعا ہے.انہوں نے کہا کہ در پوشیدہ داشتن برکت است و من انشاء اللہ دعا خواهم کرد والہام امراختیاری نیست.اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اُس کا مددگار ہو.بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک اُن کا خط مجھے ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ ایں عاجز برائے شما دعا کرده بود القا شد - وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ - فقیر را کم اتفاق مے افتد که بدیں جلدی القا شود این از اخلاص شما می بینم.حضرت مسیح موعود کی خواہش کا اندازہ اس دعا سے ہوسکتا ہے کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا تھی ؟ آپ مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے پاس اپنی ذاتی غرض کے لئے نہیں گئے تھے اور نہ کچھ پیش کیا.جو غرض مخفی آپ کے دل میں تھی.وہ محض اسلام کی ترقی کے لئے تھی اور اس کی تائید اور نصرت کی دعا تھی.مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے پاس جانے کا زمانہ ۷۲.۱۸۶۸ء کے درمیانی عرصہ کا ہے.دعا کے متعلق میں نے شروع میں لکھا ہے کہ وہ انسان کی نہاں در نہاں خواہشوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس سے انسانی سیرت کا بآسانی پتہ لگ جاتا ہے اس لئے کہ ان جذبات اور خواہشوں کو اس
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۴ حصہ پنجم کے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر یہاں حضرت اقدس ایک دوسرے بزرگ کو دعا کے لئے کہتے ہیں اور اپنے مقصد کا اظہار نہیں کرتے اور ان کو جو جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جاتا ہے وہ آپ کے مقاصد کا آئینہ دار ہے اور خود حضرت نے فرمایا کہ میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اس کا مددگار ہو.ایسا ہی آپ میاں شرف الدین صاحب ہم والے کے پاس کبھی کبھار جاتے تھے مگر آپ کا جانا ذاتی غرض کے لئے نہ ہوتا تھا بلکہ ترقی اسلام کے لئے آپ خود بھی دعاؤں میں مصروف تھے اور اگر کسی کے متعلق یہ معلوم تھا کہ وہ دعا کرنے کا اہل ہے تو اسے بھی مخفی طور پر دعا کرنے کے لئے بلا اظہار مطلب توجہ دلاتے اور یہ دعائیں تائید دین متین اور شوکت و جلال محمدی علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے لئے ہوتی تھیں.آپ کی زندگی کے ہر عہد کی دعاؤں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی دعاؤں اور آپ کی زندگی کا.مرکزی نقطہ احیاء دین احمد تھا.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ (۴) ۱۸۷۴ء کی ایک دعا یہ ایک لطیف دعا ہے جو آپ نے خواب میں کی خواب کے واقعات انسان کی اپنی طاقت اور اختیار سے باہر ہیں اور ان میں تصنع اور بناوٹ نہیں ہو سکتی.اسی لئے اس زمانہ میں جب بعض لوگوں کو اپریشن کیوقت کلورا فارم سونگھایا جاتا ہے تو ان کی دماغی کیفیت اصلیت کو بعض الفاظ کے بیان و اظہار سے کھول دیتی ہے.بہر حال خواب ایک ایسی کیفیت ہے جس میں خواب بین کے حواس ظاہری معطل ہوتے ہیں نہ وہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے وغیرہ.اس حالت میں جو کچھ بیان کرتا ہے وہ اس کی اصل حالت کا آئینہ ہوتا ہے حضرت اقدس اس خصوص میں ایک اپنے خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور خواب میں آپ نے ایک دعا کی ہے جس پر فرشتوں نے آمین کہی ہے دعا کسی دنیوی مفاد اور مقصد کو لئے ہوئے نہیں بلکہ سراسر تزکیہ نفس اور طہارت باطنی کے پاک
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۵ جذبات پر مشتمل ہے جیسے مولوی عبد اللہ صاحب کو آپ نے اپنے مقصد کو دل میں مخفی رکھ کر دعا کے لئے فرمایا اسی طرح یہ خواب کی دعا اس سے بھی بڑھ کر کیفیت اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے کہ وہ بیداری کی حالت تھی اور یہاں خواب کی حالت ہے جس میں حواس ظاہری بھی غائب ہیں اب میں اس دعا کو آپ کے ہی الفاظ میں کہتا ہوں لیکن اس کی عظمت اس خواب کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے اس کا درج کرنا بھی ضروری ہے.تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپورہ میں تھا کہ مجھے یہ خواب آئی کہ میں ایک جگہ چار پائی پر بیٹھا ہوں اور اُسی چار پائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں جن کی اولا داب امرتسر میں رہتی ہے.اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چار پائی سے نیچے اتار دوں.چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا یعنی جس حصہ چار پائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اُس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا تب اُنہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائینتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پر ہو بیٹھے.تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی میں اُن کو اٹھا دوں پھر میں اُن کی طرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر پھر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے.پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اِس جگہ سے بھی اُن کو اور زیادہ پائینتی کی طرف کیا جائے.تب پھر وہ چند انگلی پائینتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے.القصہ میں ایسا ہی اُن کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائینتی کی طرف کھسکتے گئے یہاں تک کہ اُن کو آخر کار چار پائی سے اُترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اُس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اُتر کر بیٹھ گئے.اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے.ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا وہ بھی اُن کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چار پائی پر بیٹھا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۶ حصہ پنجم رہا.تب میں نے اُن فرشتوں اور مولوی عبد اللہ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو.تب میں نے یہ دُعا کی کہ رَبِّ اذْهَبْ عَنِّـى الرِّجْسَ وَطَهَّرُنِى تَطْهِيرًا.اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور مولوی عبداللہ صاحب بھی آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے بتمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہو سکتی.“ تریاق القلوب مطبوعه ۱۹۰۲ ء صفحه ۹۴، ۹۵ - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۵۲٬۳۵۱) (۵) قرآن مجید کے فہم کے لئے دعا (۶۴ - ۱۸۶۸ء کا درمیانی واقعہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں دعا ایک بے نظیر حربہ ہے وہ ہر کام دعا ہی سے لیتے تھے دعا ہی کے ذریعے سے عربی زبان کے ہزاروں الفاظ کا علم آپ کو دیا گیا اکثر امراض کا ازالہ دعاؤں سے ہوا.دشمن کے مقابلہ میں اسی حربہ سے فتح حاصل کی.یہ زمانہ آپ کی جوانی کا تھا اور آپ اس زمانہ میں سیالکوٹ میں یہ سلسلہ ملازمت تھے آپ کی عام عادت شروع سے یہ تھی کہ اپنا دروازہ بند کر کے خلوت میں رہتے تھے سیالکوٹ میں یہی طریق تھا بعض لوگ اسی ٹوہ میں تھے کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے ہیں آخر ایک دن انہوں نے موقع پالیا اور آپ کی اس مخفی زندگی کا ان پر انکشاف ہوا اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر دعا کر رہے تھے کہ یا اللہ تیرا کلام ہے مجھے تو تو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں.یہ قرآن مجید سے محبت اور اس کے حقائق و معارف کی اشاعت کے جوش کا نتیجہ ہے جیسا کہ اوپر میں بیان کر آیا ہوں کہ آپ دین قویم کے غلبہ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال و اقبال کے لئے دعاؤں میں مصروف تھے اس کے ضمن میں قرآن کریم پر جو اعتراض اس زمانہ میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۷ حصہ پنجم پادریوں اور دہریوں وغیرہ کی طرف سے ہو رہے تھے ان کے جوابات کے لئے آپ بے قرار اور مضطرب تھے اور اس کے لئے اپنے نفس اور رائے سے کچھ بولنا نہیں چاہتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ سے براہ راست فیض حاصل کرنے کے لئے دعاؤں میں مصروف تھے اور ان دعاؤں ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ پر اَلرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرآن کی وحی ہوئی اور آپ نے اپنے عمل سے بتایا کہ قرآن فہمی کے لئے دعاؤں اور توجہ الی اللہ ہی رہنما ہے چنانچہ آپ نے دوسرے مقام پر فرمایا سے مشکل قرآن نہ از ابنائے دنیا حل شود ذوق آن می داند آن مستی که نوشد آن شراب (1) حق کی تائید اور فتح کے لئے دعا جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں اور آپ کے سوانح حیات میں میں نے تفصیل سے ذکر کیا ہے حضرت والد صاحب مرحوم کے احکام کی محض تعمیل و اطاعت میں آپ اپنی ریاست کے مقدمات کی پیروی کے لئے بھی جاتے تھے اور آپ کے معمول میں یہ امر داخل تھا کہ مقدمہ کی تاریخ سے پہلے دن عشاء کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کر کے حاضرین سے فرماتے کہ مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہو جاوے اور مجھے مخلصی ملے میں نہیں کہتا کہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حق کیا ہے؟ پس جو اس کے علم میں حق ہو اس کی تائید اور فتح ہو.“ اس دعا کے لئے آپ خود بھی ہاتھوں کو خوب پھیلاتے اور دیر تک دعا مانگتے اور تمام حاضرین بھی شریک ہوتے تھے.دعا کے الفاظ اپنی حقیقت اور دعا کرنے والے کے دلی عزائم اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں.لوگ مقدمات کرتے ہیں اور ان میں کامیابی کے لئے تقویٰ اور صداقت کی قطعاً پروا نہیں کرتے بلکہ ہرقسم کی مزوّرانہ چالوں کو اپنی دانش مندی اور فرزانگی قرار دیتے ہیں.مگرغور کریں کہ حضرت اقدس حقیقت اور صداقت کے صحیح عل کو اللہ تعالیٰ کی عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ہستی ا ترجمہ.قرآن کو سمجھنے کا مسئلہ اہل دنیا سے حل نہیں ہو سکتا اس شراب کا مزاو ہی جانتا ہے جو اس شراب کو پیتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۸ پر ایمان رکھتے ہوئے حق کی فتح کی دعا کرتے ہیں.حصہ پنجم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص تقویٰ کے کس اعلیٰ مقام پر ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر کس قدر طاری ہے.اور وہ اپنے علم وفہم اور تجویزوں پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر کر حق کی فتح اور تائید کی دعا کرتا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلِّمُ (۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور عظمت کے ثبوت اور اظہار کے لئے آپ ہمیشہ بے قرار رہتے اور جو موقع بھی اس مقصد کے لئے ملتا اس کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے.آپ کی نمازوں اور دعاؤں میں مرکزی نقطہ یہی ہوتا تھا چنانچہ فرماتے ہیں.ہر کسے اندر نماز خود عائے می کند من دعا ہائے بر و بار تو اے باغ بہار ہے اس زمانہ میں جب کہ آپ سیالکوٹ کی ملازمت کے سلسلہ کو اپنے والد محترم و مکرم حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے حکم کے ماتحت ختم کر کے قادیان آچکے تھے اور گوحسب معمول عملاً گوشہ گزیں تھے مگر کبھی کبھی حضرت والد صاحب مرحوم کے حکم کی تعمیل میں بعض مقدمات کی پیروی کے لئے بھی چلے جاتے تھے.قادیان کے لوگوں کو آپ کی بزرگی اور تعلق باللہ کا یقین تھا باوجود اس کے کہ قادیان کے بعض آریہ سماجی ممبر حضرت اقدس کی خدمت میں آتے رہتے تھے اور اسلام کے متعلق مناظرات کرتے رہتے تھے ایک موقعہ پر اس قسم کا معاملہ پیش آیا کہ حضرت اقدس کو ایک خاص معاملہ میں دعا کے لئے لالہ شرمیت رائے آنجہانی نے تحریک کی اور یہ تحریک برنگ اعتراض تھی جیسا کہ خود حضرت اقدس نے براہین احمدیہ جلد سوم میں تحریر فرمایا ہے یہ واقعہ ۶۸ تا ۱۸۷۰ء کے قریب کا ہے مجھے اس واقعہ کا لکھنا اس لئے ضروری ہوا کہ اس دعا کی عظمت اور قبولیت پر اس کی تفصیل سے ایمان بڑھتا ہے اور اس میں حضرت اقدس کی اس غیرت دینی کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو صداقت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے تھی چنانچہ فرماتے ہیں.ا ترجمہ.ہر شخص اپنی نماز میں (اپنے لیے دعا کرتا ہے مگر میں اے میرے آقا تیری آل و اولاد کے لئے دعامانگتا ہوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲۹ عرصہ تخمیناً بارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو صاحب کہ جواب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صحیح و سلامت موجود ہیں.(اب فوت ہو چکے.عرفانی ) حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا.اور اس کا پادریوں کی طرح شدّت عناد سے یہ خیال تھا کہ یہ سب پیشگوئیاں مسلمانوں نے آپ بنا لی ہیں.ورنہ آنحضرت پر خدا نے کوئی امر غیب ظاہر نہیں کیا.اور اُن میں یہ علامت نبوت موجود ہی نہیں تھی.مگر سبحان اللہ کیا فضل خدا کا اپنے نبی پر ہے.اور کیا بلندشان اس معصوم اور مقدس نبی کی ہے کہ جس کی صداقت کی شعاعیں اب بھی ایسی ہی چمکتی ہیں کہ جیسی قدیم سے چمکتی آئی ہیں.کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اس ہندو صاحب کا ایک عزیز کسی نا گہانی بیچ میں آ کر قید ہو گیا.اور اُس کے ہمراہ ایک اور ہندو بھی قید ہوا.اور ان دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گزرا.اس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلا سکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.تب میں نے جواب دیا کہ غیب تو خاصہ خدا کا ہے اور خدا کے پوشیدہ بھیدوں سے نہ کوئی نجومی واقف ہے نہ رمال نہ فال گیرنہ اور کوئی مخلوق.ہاں خدا جو آسمان و زمین کی ہر یک مھمدنی سے واقف ہے اپنے کامل اور مقدس رسولوں کو اپنے ارادہ اور اختیار سے بعض اسرار غیبیہ پر مطلع کرتا ہے.اور نیز کبھی کبھی جب چاہتا ہے تو اپنے بچے رسول کے کامل تابعین پر جو اہل اسلام ہیں ان کی تابعداری کی وجہ سے اور نیز اس باعث سے کہ وہ اپنے رسول کے علوم کے وارث ہیں بعض اسرار پوشیدہ اُن پر بھی کھولتا ہے تا ان کے صدق مذہب پر ایک نشان ہو.لیکن دوسری قومیں جو باطل پر ہیں جیسے ہندو اور اُن کے پنڈت اور عیسائی اور اُن کے پادری.وہ سب اُن کامل برکتوں سے بے نصیب ہیں.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ وہ شخص اس بات پر اصراری ہو گیا کہ اگر اسلام کے متبعین کو دوسری قوموں پر ترجیح ہے تو اسی موقع پر اس ترجیح کو دکھلانا چاہئے.اس کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۰ حصہ پنجم جواب میں ہر چند کہا گیا کہ اس میں خدا کا اختیار ہے انسان کا اس پر حکم نہیں مگر اس آریہ نے اپنے انکار پر بہت اصرار کیا.غرض جب میں نے دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور دین اسلام کی عظمتوں سے سخت منکر ہے.تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہی جوش ڈالا گیا کہ خدا اس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے.اور میں نے دعا کی کہ اے خداوند کریم تیرے نبی کریم کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تو نے اپنے رسول پر ظاہر فرما ئیں سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لا جواب ہوسکتا ہے اور تو ہر بات پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں.تب خدا نے جو اپنے بچے دین اسلام کا حامی ہے اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے.رات کے وقت رویا میں گل حقیقت مجھ پر کھول دی اور ظاہر کیا کہ تقدیر الہی میں یوں مقدر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ماتحت میں پھر واپس آئے گی اور پھر اس عدالت ماتحت میں نصف قید اس کی تخفیف ہو جائے گی مگر بُری نہیں ہوگا.اور جو اس کا دوسرا رفیق ہے وہ پوری قید بھگت کر خلاصی پائے گا اور بری وہ بھی نہیں ہوگا.پس میں نے اس خواب سے بیدار ہو کر اپنے خداوند کریم کا شکر کیا جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا اور اُسی وقت میں نے یہ رویا ایک جماعت کثیر کو سنا دیا اور اُس ہندو صاحب کو بھی اسی دن خبر کر دی.“ (براہین احمدیہ جلد سوم روحانی خزائن جلد اول صفحه ۲۷۷ تا ۲۷۹ حاشیه در حاشیہ نمبرا) اس نشان کے ضمن میں جن سطور کو جلی قلم سے لکھا گیا ہے یہ وہ دعا ہے جو اس واقعہ پر حضرت اقدس نے کی اور یہ دعا ظاہر کرتی ہے کہ آپ کے دل میں صداقت اسلام اور عظمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کس قدر جوش تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَسَلِّمُ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۱ حصہ پنجم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے آپ کی دعاؤں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور وہ خواہ بذاته حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ہوں یا اسلام کے اقبال وجلال کے لئے وہ بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے ہیں اور میں مختلف مقامات پر اُن کا تذکرہ جدا جدا عنوانوں کے ماتحت کروں گا ان دعاؤں سے آپ کی سیرت پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے اس قدر عشق و محبت تھی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم یہ واقعہ وقت واحد میں دو باتوں کو ثابت کرتا ہے اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعا محض اس لئے کی کہ سائل کو عظمت اسلام سے انکار تھا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عظمت کا ثبوت دینا تھا دوسرے قبولیت دعا کا بھی یہ واقعہ ایک ثبوت ہے کہ ادھر آپ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رویا صالحہ آپ پر پوری کیفیت واضح کر دی اگر چہ جیسا کہ واقعات سے پتہ لگتا ہے بعض شریروں نے اس نشان کو مشکوک کرنے کے لئے واقعات کو غلط رنگ میں شہرت دی مگر خدا تعالیٰ کی باتیں اٹل ہیں.آخر حقیقت کا اظہار ہو گیا اس حالت ہم و غم میں بھی خدا تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور قبولیت دعا میں جو بشارت دی گئی تھی اس کی صحت کا یقین دلایا اور عین حالت نماز میں الهاماً فرمایا " لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الأعلى اور جیسا کہ آپ نے خدا تعالیٰ سے بشارت پا کر اعلان کیا تھا اسی طرح پر ظہور میں آیا.سچ ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے (۸) امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے دعائیں آپ کی زندگی کا سب سے عجیب اور بے نظیر وہ حصہ ہے جس میں آپ رات کی سنسان گھڑیوں اور دن کے اوقات میں اپنے ہر قسم کے مالوفات سے الگ ہو کر امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے اپنے دلی جوش سے دعائیں کرتے تھے یہ دعا ئیں کن الفاظ میں کی جاتی تھیں اور کتنی لمبی اور مسلسل ہوتی تھیں ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا اتنا پتہ چلتا ہے کہ بد شباب بلکہ اس سے بھی پہلے سے یہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۲ جوش آپ کی فطرت میں رکھا گیا تھا جو دعاؤں کے ذریعہ ظاہر ہوتا تھا جیسا کہ میں پیچھے بھی بیان کر آیا ہوں اور آئندہ بھی غالباً کئی مرتبہ اس کا ذکر آئے ایک موقع پر فرماتے ہیں: اکثر دلوں پر حُبّ دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے.خدا اس گرد کو اٹھاوے.خدا اس ظلمت کو دور کرے.دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے.خدا وند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں ویسا ہی ان کو مر ہم عطا فرمادے اور اُن کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نو رسمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے.جنہوں نے حضرت احدیت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی غنیمت نہیں سمجھا اور اس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے.سواگر اس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا وہیں.“ مکتوبات احمد یہ جلد اول محرره ۹ فروری ۱۸۸۳ء صفحه ۵۰۴ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۱۳٬۵۱۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اَللَّهُمَّ اصْلِحُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ ارْحَمُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ انْزِلُ عَلَيْنَا بَرَكَاتِ مُحَمَّدٍ وَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكُ وَسَلِّمُ غرض یہ ایک غیر متناہی سلسلہ ہے جو قبل بعثت آپ اسی قسم کی دعاؤں میں مصروف تھے اور جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے یہی وہ دعا ئیں تھیں جنہوں نے عرش کو جنبش دی اور خدا تعالیٰ کی تجلی نے اُس قلب احمد کو اپنا عرش بنایا اور ان دعاؤں کی قبولیت کے ثبوت میں بطور ایک آیت اللہ مامور و مبعوث فرمایا.آپ کی اس عہد کی زندگی میں آپ کا محبوب اور مرغوب مشغلہ یہی نظر آتا ہے کہ اپنے وقت کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۳ حصہ پنجم بیشتر حصہ اس کوفت اور کرب میں گزارتے ہیں جو امت محمدیہ کی اعتقادی اور عملی خرابیوں کو دیکھ کر ہوتا تھا اور ایک مضطرب قلب کو لے کر آپ اللہ تعالیٰ کے حضور گرتے ہیں اور اس کی استعانت طلب کرتے ہیں نہ صرف اندرونی حالت سے صدمہ ہوتا تھا بلکہ جب بیرونی حملوں کو دیکھتے تھے کہ مختلف مذاہب کی طرف سے اسلام کی تعلیم اور پاکوں کے سردار خیل انبیاء علیہم السلام کے امام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جگر خراش اعتراض ہوتے ہیں تو آپ کا اضطراب اور بھی بڑھ جاتا تھا اور یہ ماحول آپ کے لئے دعاؤں کا محرک ہوتا تھا اس مقصد کے لئے آپ نے اس قدر دعائیں کی ہیں.کہ بلا مبالغہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا.آپ کا ہر سانس ایک آہ بن کر نکلتا تھا اور وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف عظمت اسلام اور صداقت محمدیہ کے اظہار کے لئے.(۹) زمانہ خلوت کی ایک مناجات اس مناجات میں جہاں سے دعا شروع ہوتی ہے اس پر میں نے نمبر دے دیئے ہیں پہلے چار اشعار میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی صفات کا ذکر کیا ہے اور دعا کے لئے ایک جزو اعظم ہے کہ اولاً اللہ تعالیٰ کی حمد ہو جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے.(عرفانی) میں اس کتاب کے پڑھنے والوں کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو جب پڑھیں تو انہیں خصوصیت سے اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ غور کریں کہ ایک شخص عالم تنہائی میں جبکہ کوئی اسے نہیں دیکھتا اپنے مولا کے حضور اپنی تمناؤں اور آرزؤں کو پیش کرتا ہے.ان تمناؤں میں دنیا یا اس کے مالوفات کا ذکر نہیں اس کی ساری امنگوں اور آرزؤں کا مرکز خود حضرت باری عَزَّ اِسْمُہ کی ذات ہے.سیہ ایک دور ہے جو ابتدائی دور آپ کی زندگی کا ہے.اس دور میں آپ حضرت باری کے ساتھ محبت واخلاص اور عبودیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی ایک تڑپ اور اضطراب اپنے قلب میں پاتے ہیں.اسی کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت اور عشق پیدا ہوتا ہے.اور وہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۴ حصہ پنجم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حسن و احسان کو دیکھ کر.اس سے اسلام اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ایک خاص غیرت اور جوش آپ کے قلب میں پیدا ہوتا ہے.یہ دور آپ کی ماموریت اور بعثت کے قریب زمانہ کا ہے.اس وقت آپ کی دعاؤں میں جیسا کہ میں وقتاً فوقتاً انشاء اللہ دکھاؤں گا ایک نئی شان پیدا ہوتی ہے.ان میں اسلام کی ترقی اور عظمت کے لئے ایک جوش پایا جاتا ہے.اور جب اس عہد کی دعاؤں کو دیکھتے ہیں تو اس میں اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت پر اس قدر ہم و غم آپ کے قلب پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر ساری دنیا کے مسلمانوں کے احساس اور غم کو ایک طرف رکھ دیا جائے جو حالت اسلام پر نوحہ کرتے اور خود حضرت کا ایک طرف تو آپ کا پلہ بھاری رہے گا.پھر ایک اور دور آتا ہے.آپ ایک مامور کی حیثیت سے دنیا میں نمودار ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس منصب جلیل پر مامور ہوتے ہیں جس کی بشارت تمام نبی دیتے آئے.اور جس کی منتظر تمام قومیں تھیں اور جس کی آمد کو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ظہور قرار دیا تھا اور فر مایا تھا کہ تم میں سے جو کوئی اسے پاوے میر اسلام اُس کو پہنچائے.اس عہد میں آپ کی دعاؤں کا رنگ بالکل الگ ہے.ان کی شان نرالی ہے.ان میں پر شوکت تحدی ہے اور قوت و جلال نظر آتا ہے.اپنے دعاوی کی صداقت پر ایسی بصیرت حاصل ہے.اور ہونی ہی چاہیے کہ وہ وحی الہی کی بنا پر ہے.اور خدا کا ہاتھ آپ کی پشت پر ہے.انسان ان دعاؤں کو دیکھ کر ایک وقت تو تھر آجاتا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر انصاف اور شرافت کو انسان جواب نہ دے دے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہر عہد کی فقط دعاؤں کو دیکھ کر یقین کر اٹھتا ہے کہ لاریب یہ شخص اپنی دعاؤں میں صادق ہے لیکن علم خشک اور کوری ء باطن انسان کو ایسی صداقت سے محروم کر دیتی ہے.خود حضرت نے بھی فرمایا سے گر علم خشک وکوری ء باطن نہ رہ زدے ہر عالم وفقیہ شدے ہمچو چا کریم لا ترجمہ.اگر خشک علم اور دل کی نابینائی حائل نہ ہوتی تو ہر عالم اور فقیہ میرے آگے غلاموں کی طرح ہوتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۵ حصہ پنجم میں چاہتا ہوں کہ قارئین کرام ہمیشہ آپ کی دعاؤں کے سلسلہ میں ان باتوں کو مدنظر رکھیں.ایک بات اور بھی میں کہہ جانا چاہتا ہوں کہ ناظرین اسی نکتہ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ہی وہ وجود ہے جس نے دعاؤں کی قبولیت کو بتایا اور دعا کی اہمیت اور اس کے اثرات کو عملی صورت میں اس زمانہ کے فلسفیوں اور منکروں کے سامنے پیش کیا اور دعا ہی کو تمام مشکلات کی کلید ثابت کر دیا.یہاں تک کہ ایک موقع پر فرمایا کہ انگریزی کے لئے چالیس تہجد کافی ہیں.مگر یہ کوشش نہیں کرتا تا کہ میرے دوستوں کو ثواب کا موقع حاصل رہے.غرض سب سے بڑا اور زبردست حربہ جو آپ کے ہاتھ میں تھا وہ دعا ہی تھا.آپ کی طبیعت پر دعا کا رنگ اس قدر غالب تھا کہ معمولی سلسلہ کلام میں جو آپ کبھی نثر یا نظم کی صورت میں لکھتے تو جھٹ گریز کر کے دعا کی طرف چلے جاتے.ان اشارات کے بعد آپ کی ایک ابتدائی منظوم دعا کو پیش کرتا ہوں.قارئین کرام پڑھیں اور لطف اٹھائیں.(خاکسار عرفانی) مناجات (1) اے خداوند خلق و عالمیاں خلق و عالم ز قدرت حیران (۲) چہ مہیب است شان و شکوت تو چه عجیب است کار و صنعت تو (۳) گردش آسمان از تست مدام کوه ها را به شست استحکام (۴) نام تو پاک و شان تو صدی است بادشاہی و سلطنت ابدی است لا ترجمہ اشعار.(۱) اے مخلوقات اور موجودات کے مالک یہ مخلوق اور جہاں تیری قدرت پر حیران ہے.(۲) تیری شان و شوکت کتنی پُر ہیبت ہے تیرے کام اور صنعت کس قدر عجیب ہیں.(۳) آسمان کی دائمی گردش تیری ذات سے ہے پہاڑوں کو تجھ سے استحکام حاصل ہے.(۴) تیرا نام پاک اور تیری شان بے نیازی ہے تیری بادشاہی اور سلطنت ابدی ہے.(نوٹ.پہلے چار اشعار کا ترجمہ ناشر کی طرف سے دیا گیا ہے)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۵) دلبرا سوئے خویش را ہم دہ ۵۳۶ در حریم قدس پناهم ده که نیاید خبر ز خود که منم (1) بربائم چناں ز خویش تنم (۷) دل من رشک دردناکاں کن سیر من خاک کوئے پاکاں کن (۸) زاں نمط گم بعشق خویشم کن که نماند ز من نه شاخ نہ بُن در جانم (۹) شور مجنون بریز (۱۰) داستانی دلر بائی کن مست و مجذوب خود بگردانم گم کن و باز رہنمائی کن (11) جاں بشویم ز رنگ ہستی خویش وا رہا نم خود پرستی خویش (۱۲) آتش فروز در دل من که از و در تپش فتد همه تن (۱۳) ہرچه غیر از تو زان نفورم کن غرق در لجہ ہائے نورم کن (۱۴) از همه من خلاصم کن مهبط فیض نور خاصم کن حمد حاشیہ.دعا کے اشعار کا ( شعر نمبر ۵ سے ) نمبر وار تر جمہ حسب ذیل ہے جو حاصل مطلب کے طور پر لکھتا ہوں.(ترجمه از مرتب) (۵) اے میرے محبوب مجھے اپنی ہی طرف رہنمائی کر اپنے ہی حریم قدس میں مجھ کو پناہ دے.(۶) مجھ کو اپنی خودی ( انانیت) سے اس طرح الگ کر دے کہ مجھے اپنی ہستی کی کچھ خبر ہی نہ رہے.(۷) میرے دل میں ایسا درد پیدا کر دے کہ اس پر رشک کریں اور میرا سر پاک لوگوں کے کوچہ کی خاک ہو جائے.(۸) مجھے اپنی محبت و عشق میں اس طرح پر فنا کر دے کہ میرے شجر ہستی کی نہ شاخ رہے نہ جڑ باقی ہو.(۹) میری فطرت میں مجنوں کا شور پیدا کر دے ہاں ہاں مجھے اپنا ہی مست و مجذوب بنا دے.(۱۰) دل ستانی اور دل ربائی فرما مجھے مقام فنا عطا کر کے آپ رہنمائی فرما.(۱۱) میں اپنی ہستی کے رنگ کو مٹا ڈالوں اور اپنی خود پرستی کو کھودوں.(۱۲) میرے دل میں ایک ایسی آگ پیدا کر دے جس سے میرے بدن کے ہر ذرہ میں ایک تپش پیدا ہو جاوے.(۱۳) ماسوی اللہ سے مجھے نفرت عطا کر اور اپنے ہی نور میں مجھے غرق کر دے.(۱۴) مجھے ہر ما ومن سے مخلصی عطا فرما اور اپنے خاص نور کا مجھے جلوہ گاہ بنادے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۷ حصہ پنجم (۱۵) و از دلم دور ہر بلندی کن خاک در چشم خود پسندی کن (۱۶) بخداوندیت که پرده بپوش برہانم ز ہر رعونت و جوش ہمہ درگزر بلطف و کرم چشم گریانم (۱۷) آنچه دانم و زآنچه بے خبرم از (۱۸) اے خداوند اے نگہبانم رحم کن رو ریزه (۱۹) سوخت از درد ہجر سینه من ریزه شد آبگینه من (۲۰) جانم از غم بفضل خود برہان اے تو اہل تفضل و احسان و ضعیف چون مورم (۲۱) رحم فرما که زار و بیزورم ناتوان (۲۲) کرکے ام نہ آدمی زادم از سگان تو بدتر افتادم گاه برخاسته دلم چون گرد و (۲۳) گاه هستم برو فتاده ز درد (۲۴) بے تو دیگر کسے نے دارم (۲۵) میزنم و پا نیابم راه ایکه کردی حوالتم کارم زانچه بر من رود توئی آگاہ در مکنون صفحه ۲ ،۳ مطبوعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۱۶ء) بقیہ حاشیہ.(۱۵) میرے دل سے ہر قسم کی بلندی کا خیال محو کر دے اور خود پسندی کی آنکھ میں خاک ڈال دے.(۱۲) تیرے عظمت و جلال کی قسم میری پردہ پوشی فرما اور مجھے ہر قسم کی رعونت اور جوش سے نجات بخش.(۱۷) میں اپنی کمزوریوں کو جانتا ہوں یا نہیں جانتا تو سب سے از راہ لطف و کرم درگز رفرما.(۱۸) اے میرے اللہ اے میرے نگہبان میری رونے والی دونوں آنکھوں پر رحم فرما.(۱۹) ہجر کے درد سے میرا سینہ جل چکا ہے اور میرا شیشہ دل پارہ پارہ ہو چکا ہے.(۲۰) میری جان کو اپنے فضل سے غم سے رہائی بخش تو صاحب فضل واحسان ہے.(۲۱) رحم فرما کیونکہ میں ناچا رو کمزور ہوں بلکہ چیونٹی کی طرح ضعیف و نا تواں ہوں.(۲۲) میں آدمی زاد کیا ایک کیڑا ہوں تیرے حضور میں اپنے آپ کو انتہائی کمزورسمجھتا ہوں.(۲۳) میری حالت یہ ہے کہ کبھی درد و اضطراب سے گرا ہوا ہوتا ہوں اور کبھی میرا دل تیرے راستہ میں گرد و غبار کی طرح اٹھتا ہے.(۲۴) حقیقت یہ ہے کہ میرا تو تیرے سوا کوئی بھی نہیں تو نے ہی میرے سپر د میرا کام کر دیا ہے.(۲۵) ہاتھ پاؤں مارتا ہوں پھر بھی راستہ نہیں ملتا اور اس کشمکش میں میری جو حالت ہے اس سے آپ ہی آگاہ ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۱۰) خدا طلبی کے لئے اظہار مدعا ۵۳۸ حصہ پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا سلسلہ بہت وسیع ہے آپ کی جن دعاؤں کا اظہار ہوا ہے وہ بے شمار ہیں اس لئے میں یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں صرف بطور نمونہ دعاؤں کو پیش کروں گا میں ایک راستہ دکھا دینا چاہتا ہوں آنے والی نسلوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو مختلف رنگوں میں ان دعاؤں پر قلم اٹھائیں گے اور حضرت کے کمالات کا اظہار کریں گے اللهُمَّ اجْعَلُ اَوْلَادِى وَاَحْفَادِى مِنْهُمُ.آمین.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منظوم دعا (1) اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش (۲) روشنی بخش در دل و جانم پاک کن از گناه پنهانم (۳) دلستانی دلر بائی کن نگا ہے گرہ کشائی کن عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۱۶) (۴) در رو و ( نوٹ ) اس دعا میں آپ نے کیا مانگا ہے؟ کیا دنیا کی عزت و دولت؟ کیا اولا د و احفاد کی کثرت یا حظ نفس کے سامان؟ ہر گز نہیں.غور کرو آپ کی دعا کا مقام کتنا بلند ہے اور اس سے آپ کے نفسِ مطہر کی شان نمایاں ہے.آپ خدا تعالیٰ سے خدا ہی کو مانگتے ہیں.غور کرو اس آخری شعر پر کہ ہر دو جہاں میں مجھے آپ ہی عزیز ہیں اور میری ساری امیدوں ترجمہ اشعار.(۱) اے میرے خداوند ! میرے گناہ بخش دے اور اپنی درگاہ کی طرف مجھے رستہ دکھا.(۲) میری جان اور میرے دل میں روشنی دے اور مجھے میرے مخفی گنا ہوں سے پا کر.(۳) دل ستانی کر اور دلر بائی دکھا اپنی ایک نظر کرم سے میری مشکل کشائی کر.(۴) دونوں عالم میں تو ہی میرا پیارا ہے اور جو چیز میں تجھ سے چاہتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳۹ اور آرزوؤں کی منتہا آپ ہی ہیں آپ ہی کو آپ سے مانگتا ہوں اس دعا کی مثال تیرہ سوسال کے اندر دکھاؤ.و آنچه میخواهم از تو نیز توئی اس دعا کی قبولیت کی کیفیت بھی سن لو خدا تعالیٰ نے آپ پر وحی کی اَنتَ مِنِّى وَأَنَا مِنْكَ اور پھر فرمایا انتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَ تَفْرِيدِی.تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تو مجھ سے میری توحید اور تفرید کے مقام پر ہے.حق وصداقت کے دشمن اور معرفت الہی سے بے بہرہ و بدنصیب اس قسم کے الہامات پر جہالت سے اعتراض کرتے ہیں لیکن یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام اور شان کو ہی ظاہر نہیں کرتے بلکہ آپ کی اس حیثیت عبودیت کو بھی ظاہر کرتے ہیں جو آپ نے اپنے عمل سے ظاہر کی.آپ کی تمام تحریروں کو پڑھیں.آپ کی ان تقریروں پر غور کریں جن کی اشاعت کی توفیق اس گنہ گار کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محض فضل سے دی.خدا تعالیٰ کی حمد و شامیں آپ ہر وقت رطب اللسان ہیں اور اپنی انکساری و ناتوانی و بے کسی کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں.بلکہ اس کا آپ کے قلب پر اس قدر غلبہ ہے کہ جب اس سلسلہ کو شروع کرتے ہیں تو اسی میں محو ہو جاتے ہیں اور یہاں تک کہہ جاتے ہیں.ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار اس انکساری اور فروتنی نے آپ کو وہ عظیم الشان مقام دیا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا انتَ مِنى وَأَنَا مِنْكَ (۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا بیت اللہ میں یہ دعا آپ نے لکھ کر حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کو دی تھی جب کہ وہ حج کے لئے تشریف لے گئے تھے.منشی احمد جان صاحب مرحوم صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب پیر منظور محمد صاحب کے والد ماجد تھے اور خود صاحب سلسلہ تھے مگر آپ نے اس حق کو پایا.اور اپنے مریدین اور اولا د کو قبول حق کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۰ حصہ پنجم وصیت کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کی ساری اولا د الحَمدُ لِلہ اس وقت قادیان میں مہاجرین کی صورت میں رہتی ہے اور حضرت منشی صاحب سے جناب خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کونسبت صبری تھی.اس ارشاد عالی کی تعمیل میں حضرت منشی احمد جان صاحب نے بیت اللہ میں جا کر حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں دعا کی.اور بآواز بلند دعا کی اور جماعت آمین کہتی تھی.مقام عرفات پر بھی یہ دعا کی.مناجات شوریدہ اندر حرم اس سال حج اکبر ہوا.یعنی جمعہ کے دن حج سے فراغت پاکر بخیر و عافیت جیسا کہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا تھا.واپس تشریف لائے اور گیارہ بارہ روز زندہ رہ کر ۱۳۰۳ھ میں لودہا نہ میں وفات پائی.یہ اس دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے.حضرت اقدس نے منشی صاحب کی بخیر و عافیت واپسی کے لئے دعا کی تھی.اس دعا کی قبولیت تو ان کی مع الخیر واپسی سے ظاہر ہے.اور یہی ثبوت ہے کہ دعا جو اس خط میں درج ہے.وہ بھی قبول ہوئی اور بعد کے واقعات اور حالات نے اس کی قبولیت کا مشاہدہ کرا دیا.کافی ہے سو چنے کواگر اہل کوئی ہے اس خط کے بوسیدہ ہو جانے کی وجہ سے کچھ حصہ اڑ گیا ہے.جہاں نقطے دے دیئے ہیں.مگر یہ ضائع شدہ الفاظ مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہو سکتے ہیں.تقاضائے ادب مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں ان الفاظ کو ( جو سیاق و سباق عبارت سے بآسانی سمجھ میں آ سکتے ہیں ) اپنی طرف سے نہ لکھوں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا آپ کی سیرت آپ کے ایمان علی اللہ اور جوش تبلیغ اور قبولیت دعا پر ایمان کے مختلف شعبوں کو ظاہر کرتی ہے.(عرفانی)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۱ حصہ پنجم از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد با خویم مخدوم و مر می نشی احمد جان صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالى بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامه آن مخدوم پہنچا.اس عاجز کی غرض پہلے خط سے حج بیت اللہ کے بارے میں صرف اسی قدر تھی کہ سامان سفر میسر ہونا چاہیے.اب چونکہ خدا تعالیٰ نے زادراہ میسر کر دیا اور عزم مصم ہے اور ہر طرح سامان درست ہے.اس لئے اب یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا وند کریم آپ سے یہ عمل قبول فرمائے اور آپ کا یہ قصد موجب خوشنودی حضرت عَزَّ اِسْمُهُ ہوا اور آپ خیر و عافیت اور سلامتی سے جاویں اور خیر و عافیت اور سلامتی سے بہ تحصیل مرضات اللہ واپس آویں.آمین یارب العالمین.اور انشاء اللہ یہ عاجز آپ کے لئے بہت دعا کرے گا اور آپ کے پچیس روپے پہنچ گئے ہیں آپ نے اس ناکارہ کی بہت مدد کی ہے اور خالصا للہ اپنے قول اور فعل اور خدمت سے حمایت اور نُصرت کا حق بجالائے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَ اَحْسَنَ إِلَيْكُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْعُقْبَى یہ عاجز یقین رکھتا ہے کہ آپ کا یہ عمل بھی حج سے کم نہیں ہوگا.انشاء اللہ تعالی.دل تو آپ کی اس قدر جدائی سے محزون اور مغموم رہے گا.لیکن آپ جس دولت اور سعادت کو حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اس فوز عظیم پر نظر کرنے سے انشراح خاطر ہے.خدا تعالیٰ آپ کا حافظ اور حامی رہے اور یہ سفر منْ كُلِّ الْوُجُوُہ مبارک کرے.آمین.اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یا درکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباداللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت وغربت کے ہاتھ بھنور دل اٹھا کر گزارش کریں کہ اے اَرحَمُ الرَّاحِمِین ! ایک تیرا بندہ عاجز و ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے.اس کی یہ عرض ہے کہ اے اَرحَمُ الرَّاحِمین تو مجھ سے راضی ہو.اور میرے خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے.مجھ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۲ حصہ پنجم میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار.اور اپنے ہی کامل محبین میں اٹھا.اے اَرحَمُ الرَّاحِمِین ! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک.....اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں سب پر پوری کر اور اس عاجز اور.....اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے...حمایت میں رکھ کر دین اور دنیا میں ان کا متکفل....اور سب کو اپنے دار الرضا میں پہنچا.اور اپنے...اور اس کے آل و اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر.آمِين يَارَبَّ الْعَالَمِين “ یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں.والسلام.خاکسار غلام احمد ۱۳۰۳ھ 66 یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میں ایک مبسوط باب کا متن ہے میں قارئین کرام سے بار بار درخواست کروں گا کہ وہ اس کو پڑھیں کہ کیا یہ اُس قلب کی تصویر ہوسکتی ہے.جس کو کا ذب اور مفتری کہا جاتا ہے یا اس ضمیر پر تنویر کا مرقع غیر فانی جوش اپنے قلب میں رکھتا ہے.اور وہ اس شعور سے بول رہا ہے کہ خدا نے اسے کھڑا کیا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد صرف ایک ہے کہ میرا مولی مجھ سے راضی ہو جائے.اگر یہ صیح ہے اور ضرور صحیح ہے تو اس کے بعد اُس کی تکذیب سمجھ لو کیا نتیجہ پیدا کرے گی.یہی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۳ وہ دعا ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے اس پر یہ شعر الہام کیا.بلرزد چو یاد آورم مناجات شوریده اندر حرم حصہ پنجم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ شعر ار ا پریل ۱۹۰۲ء کو الہام ہوا تھا.آپ نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ شوریدہ سے مراد دعا کرنے والا ہے اور حرم سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کردیا ہواور دلم می بلرزد بظاہر ایک غیر محل سا محاورہ ہوسکتا ہے.مگر یہ اسی کے مشابہ ہے.جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکالنے میں مجھے تر ڈ ہوتا ہے.توریت میں جو پچھتانا وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں.دراصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوں نے نہیں سمجھے.اس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اور حرم کے لفظ میں گویا حفاظت کی طرف اشارہ ہے.“ (الحکم جلد ۶ نمبر۷ اصفحہ ۶ کالم ۳) یہ وہ تصریح ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ بالکل صحیح اور درست ہے خدا تعالیٰ کا کلام کسی زبان اور کسی صورت میں نازل ہو وہ ذوالمعارف ہوتا ہے.امر واقعہ کے مطابق بھی یہ الہامی شعر ایک حیثیت رکھتا ہے.اور ہمارا ایمان ہے کہ اس رنگ میں بھی اُس کی پوری تجلتی ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دشمنوں اور مخالف اقوام کے انفرادی اور اجتماعی حملے اور آپ اور آپ کی جماعت کو مٹادینے کے منصوبے اس عصر سعادت کی تاریخ کے عبرت بخش اوراق ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اور اس کی قبولیت کے نشان کے طور پر ان سب کو نا مراد کیا میں واقعات کے رنگ میں اس الہام کا یہ مفہوم بھی لیتا ہوں (ذاتی رنگ میں ) کہ اس دعا کی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۴ حصہ پنجم قبولیت کا بھی اظہار ہے جو ۳ ۱۳۰ھ میں بیت اللہ (حرم ) میں کی گئی تھی.کچھ شک نہیں اس وقت دعا کے الفاظ حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے ہونٹوں سے نکل رہے تھے مگر خدا تعالیٰ کے حضور ان الفاظ کے ساتھ خود حضرت اقدس موجود تھے اسی لئے الہام میں یاد آورم کا لفظ ہے.نوٹ.اس دعا کے الفاظ پر غور کرنے سے حضرت اقدس کی سیرت کے مندرجہ ذیل پہلو صاف صاف نمایاں نظر آتے ہیں.ނ اوّل.آپ میں انتہائی درجہ کی خاکساری اور انکساری ہے.خدا تعالیٰ کی کبریائی پر اس قدر ایمان اور عظمت الہی کی ایسی بصیرت ہے کہ اپنے آپ کو نا کارہ اور عاجز محض یقین کرتے ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ ساری قوتوں اور کبریائیوں کا چشمہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور جب تک انسان اپنی انانیت کو اس راہ میں کھو نہیں دیتا وہ کسی عظمت اور بزرگی کا مرکز نہیں ہوسکتا.دوم.آپ کی زندگی کا مقصد عظیم صرف یہ تھا کہ خدا تعالیٰ آپ سے راضی ہو.چشم بصیرت اور قلب سلیم لے کر دیکھو کہ جس شخص کی زندگی کا مقصد یہ ہو کہ اپنی مولیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہو اس سے یہ ممکن ہے کہ وہ اس پر افتر اکرے؟ سوم.آپ کی فطرت اتنی پاکیزہ اور ایسا قدسی نفس ہے کہ جسے گناہ سے بے انتہا نفرت ہے اور نفس کے جذبات اور محرکات کو وہ اتنا دور ڈال دینا چاہتا ہے جیسے مشرق اور مغرب کا فاصلہ ہے.چہارم.اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ فانی ہے اور اپنی زندگی اور موت اور ہر ایک قوت کا ظہور اللہ تعالیٰ کی محبت میں چاہتا ہے.پنجم.آپ ایک بصیرت اور کامل شعور کے ساتھ خدا تعالیٰ کے گھر میں اس کے حضور اپنی ماموریت کا اظہار کرتے ہیں.ایک مفتری علی اللہ کا یہ حوصلہ اور دل گردہ نہیں ہوسکتا کہ مامور نہ ہو اور خدا کے حضور مامور ہونے کا اظہار کرے.ششم.آپ کی فطرت سلیم میں یہ جوش ڈالا گیا تھا کہ وہ خدمت دین کریں اس فطرتی جوش کی تکمیل کے لئے آپ کے قلب میں تڑپ ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۵ ہفتم.آپ کی بعثت کی غرض مخالفین اسلام پر اتمام حجت ہے اور آپ کی سب سے بڑی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ اسلام کی خوبیوں سے بے بہروں کو آگاہ کریں.ہشتم.آپ کو اپنی اور اپنی جماعت کی کامیابی کا کامل یقین ہے.نہم.آپ اس یقین سے بھی لبریز دل رکھتے ہیں کہ آپ اور آپ کے مخلصین خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعام کے وارث ہوں گے دین و دنیا میں اللہ تعالیٰ ہی ان کا متکفل ہوگا اور ان کو دارالرضا نصیب ہوگا.دہم.آپ کی اس محبت کا اظہار ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین سے ہے.تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ اس دعا کو پھر پڑھو تم کو ایک لفظ بھی اس میں نہ ملے گا جس میں دنیا کی کوئی متاع اور مألوفات کی کسی خواہش کا اظہار ہو.طبعی طور پر انسان زمینی آسائشوں اور عزتوں کا طلب گار ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے اپنے ہاتھ سے ممسوح کیا ہوا کہ اس قسم کی تمام خواہشوں پر موت وارد کر لیتا ہے آپ کے کلام اور عملی زندگی کو دیکھ تو معلوم ہوگا کہ ان چیزوں سے آپ کو کوئی تعلق نہ تھا چنا نچہ آپ فرماتے ہیں.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو ز میں سے کیا نقار ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دنیا میں گزرے ہیں امیر و تاجدار داغ لعنت ہے طلب کرنا زمین کا عز و جاہ جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار کام کیا عزت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض گروہ ذلت سے ہوراضی اُس پہ سوعزت نثار ہم اسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہو گیا چھوڑ کر دنیائے دوں کو ہم نے پایا وہ نگار دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش رب العالمیں قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اترا مجھ میں یار کوئی ره نزدیک تر راہ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۶ اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار یہ میں نے بطور نمونہ آپ کے کلام کا ایک ٹکڑا پیش کیا ہے ورنہ آپ کے ملفوظات آپ کی تالیفات میں یہی ایک چیز ہے جس کا مختلف رنگوں میں اور مختلف اسالیب بیان سے ذکر کیا ہے اس دعا میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت ہی کو طلب کیا اور اسی محبت میں دائماً سرشار اور مست رہے اور اسی مئے محبت سے ایک جماعت کو مست و بے تاب کر دیا اور اب وہ اسی رنگ میں رنگین ہے.دلبر کی راہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہوشیار ساری دنیا اک باولا یہی ہے ان اشعار پر غور کیجئے کہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد زندگی کو آئینہ کر دیا ہے اور دنیا کی عزتوں اور شہرتوں پر لات مار کر آپ نے وہ مقام حاصل کیا کہ اپنے قلب کو عرشِ رب العالمین پایا.نادان معرفت سے بے خبر اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ نوافل سے بندہ اس قدر قرب الہی حاصل کر لیتا ہے کہ اس کے جوارح اور اعضا اعضائے حق ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ دعا آپ نے اس زمانے میں بیت الحرام میں بالواسطہ کی جب کہ آپ کو دنیا والے جانتے بھی نہ تھے اور آپ گوشہ ء گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اس دعا کے پڑھنے سے آپ کا پتہ لگتا ہے اور اس درد کا اندازہ ہوتا ہے جو غلبہ ء اسلام کے لئے آپ کے دل میں تھا.(۱۲) ایک اور دعا اے رب العالمین ! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کرسکتا تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو.اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۷ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.الحکم مورخه ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء، جلد ۲ نمبر صفحہ ۹ کالم نمبر ۳) نوٹ.اس دعا پر غور کرو کہ کیا اس میں دنیا طلبی اور جاہ طلبی کا کوئی شائبہ بھی پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے جو چیز طلب کی ہے وہ مغفرت از گناہ ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت خاص اور رضا ہے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے استغفار کرتے تھے اور حق ناشناسوں نے اس پر اعتراض کئے بحالیکہ یہ استغفار ہی آپ کی طہارت نفس اور قوت قدسی کا ایک ثبوت تھا ایسے معترض استغفار کی حقیقت سے نابلد و نا آشنا ہوتے ہیں استغفار انسان کے اندر گناہ سوز فطرت پیدا کر دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور کامل خشوع اور خضوع کے ساتھ نفس کو دل کی تمام آلائشوں سے پاک رہنے کے لئے دعا کرتے ہیں اور اپنی دعا میں اس کی محبت خاص اور رضا کے طالب ہیں.اگر قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور یقین وہ خدا تعالیٰ کا ابدی اور غیر فانی کلام ہے اور اگر اُس میں خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمُ اور یقیناً اس نے وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنے وعدوں میں اَصْدَقُ الصَّادِقِین ہے.اگر حضرت مرزا صاحب کے متعلق ہر قسم کے دلائل اور آیات سے قطع نظر بھی کر لی جاوے تو ہر شخص اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اور خدا کے حضور یوم الحساب کو کھڑا ہونے کا یقین کر کے بتاوے کہ کیا ایسا انسان جو اپنی تنہائی کی گھڑیوں میں اپنی خلوت کے اوقات میں جب کہ کوئی اس کو دیکھنے والا اور سننے والا نہیں وہ اپنی اندرونی خواہشوں کا یہ اظہار کرتا ہے کا ذب ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۸ ہر ایک سلیم الفطرت کو یہ اقرار کرنا پڑے گا یہ شخص اپنی پاکیزگی ، طہارت نفس اور تعلق باللہ میں ایک اعلیٰ مقام پر ہے.کچھ تو سوچو کہ وہ شخص جو خدا پر افترا کرتا ہو اور ہر روز کرتا ہو وہ اس قسم کی دعا کر سکتا ہے؟ کبھی نہیں مفتری علی اللہ کب کہہ سکتا ہے کہ تو مجھ سے ایسے عمل کرا جس سے تو راضی ہو جائے.اس دعا کے ایک ایک فقرہ پر غور کرو اور اس دعا کو اپنے دستورالعمل میں داخل کرو کہ یہ انسان کو ایک طرف تزکیہ نفس کی طرف لے جائے گی اس کے نفس میں گناہ سے نفرت پیدا ہوگی اور اس کے ثمرات میں خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا کا مقام نصیب ہوگا.ہلاکت کی ہر راہ سے وہ بچایا جائے گا.اور غضب الہی سے محفوظ ہو جائے گا.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - راز حیات و موت اس دعا میں آپ نے راز حیات و موت کو بھی نمایاں فرمایا ہے اور یہ موت وحیات کا وہ فلسفہ ہے جس کو انبیاء علیہم السلام ہی سمجھتے اور سمجھاتے ہیں دنیا کے فلاسفر اور حکیم اس نعمت سے بے بہرہ ہیں آپ فرماتے ہیں.” میرے گنہ بخش تا کہ میں ہلاک نہ ہو جاؤں میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا کہ مجھے زندگی حاصل ہو.“ خدا تعالیٰ کی خاص محبت کو آب حیات حقیقی یقین کرتے ہیں اور گنہ آلود زندگی کوموت ، یہ ایک فطرتی امر ہے کہ ہر انسان حیات و زندگی کا طالب ہے اور موت سے باوجود یکہ وہ یقیناً جانتا ہے کہ ایک دن آنے والی ہے مگر اس سے بچنا چاہتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں زندگی اور موت کا فلسفہ بالکل جدا گانہ ہے گناہ آلود زندگی کو اگر چہ اس کا بسر کرنے والا حکیموں اور فلسفیوں کے نزدیک زندہ کہا جاوے موت کا مترادف جانتے ہیں اور پاک اور خدا تعالیٰ کی محبت میں بسر ہونے والی زندگی کو حقیقی زندگی قرار دیتے ہیں اس دعا سے آپ کے اس مقام کا بآسانی پتہ لگتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں تھا.اللہ تعالیٰ کی محبت ہی میں آپ گم تھے اور آپ کے قلب پر اُسی کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴۹ حصہ پنجم غلبہ تھا.میں نے پہلے بھی کسی جگہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت و عشق میں آپ فانی تھے اور عشق و محبت کے جلوے آپ کے کلام میں اس کثرت سے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے مثلاً فرماتے ہیں.اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی لے دوسری جگہ فرماتے ہیں.در کوئے تو اگر عشاق را زنند اول کے کہ لاف تعشق زند نم کے اور یہ فطرت محمدیہ کا عکس تھا.مبارک وہ جو اس راز حیات کو سمجھے اور یہ زندگی اسے حاصل ہو.اے اللہ حیات طیبہ سے مجھے بھی حصہ دے.آمین (۱۳) معرفت الہی کے لئے دعا (1) اے خداوندم به خیل انبیاء کش فرستادی به فضل او فرس (۲) معرفت ہم وہ چو بخشیدی دلم کے بدہ زاں ساں کہ دادی ساغر ے (۳) اے خداوندم بنام مصطفی کش شدی در هر مقامے ناصرے (۴) دست من گیر از ره لطف و کرم مہتمم باش یار و یاورے (۵) تکیه بر زور تو دارم گرچه من ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے لے ترجمہ اشعار.اے محبت تو نے عجیب رنگ دکھائے تو نے یار کی راہ میں زخم اور مرحم برابر کر دیئے.اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جوعشق کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا.در جا ہے.(۱) اے میرے خدا ان انبیاء کے گروہ کے طفیل جن کو تو نے بڑے بھاری فضلوں کے ساتھ بھیجا.(۲) مجھے معرفت عطا فرما جیسے تو نے دل دیا ہے.شراب بھی عطا کر جبکہ تو نے جام دیا ہے.(۳) اے میرے خدا.مصطفی کے نام پر جس کا تو ہر جگہ مددگار رہا ہے.(۴) اپنے لطف و کرم سے میرا ہاتھ پکڑ اور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا.(۵) میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگر چہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵۰ حصہ پنجم ( نوٹ ) اس دعا میں بھی دنیا کی مالوفات میں سے کوئی چیز طلب نہیں کی گئی بلکہ معرفت الہی کی تڑپ ہے اور اس بصیرت اور شعور کی بنا پر جو امیر عظیم کے لئے ماموریت کا آپ کو دیا گیا ہے اپنی کمزوری اور ضعف کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کی تائید اور قوت و نصرت کو طلب کیا گیا ہے انبیاء علیہم السلام کی سیرت میں یہ خصوصیت ہمیشہ نمایاں نظر آتی ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو ہر وقت پیش کرتے اور اپنی تمام قوتوں کو قوی عزیز خدا سے فیض یافتہ یقین کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعا اس حقیقت کو بے نقاب کر رہی ہے.(۱۴) دعا کا ایک نیا اسلوب به اظہار شکر حضور و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے سیکھنے سے ایک اور حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ کی دعا بہت لمبی ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہایت لذیذ اور شیریں روح پرور چیز آپ کے اندر پیدا ہو رہی ہے.اس لطف اور ذوق میں آپ بے خود ہو جاتے ہیں.ایسی بے خودی کہ خدا تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کے صفات عالیہ کے اظہار کے لئے ایک جوش آپ کے قلب میں پایا جاتا ہے.گریہ و بکار کی ظاہری صورت و کیفیت دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتی تھی اور ایک پُرسکون دل کے ساتھ آپ دعا فرماتے تھے لیکن اندر سے گریہ و بکار کا انتہائی مقام اور انتہائی کیفیت آپ پیدا کر لیتے ہیں.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں.جوش اجابتش که بوقت دعا بود زاں گونه زاریم نه شنید است مادرم اس شعر میں آپ نے اپنی حالت گریہ و بکاء کا اظہار کیا ہے.اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ اس انتہائی مقام پر پہنچا ہوا ہے کہ ایک بچہ بھی اپنی ماں سے الگ ہو کر اتنی گریہ وزاری نہیں کر سکتا اور آپ کی دعا میں وہ تمام کیفیات اور شروط جمع ہو جاتے تھے.جو قبول ہونے والی دعا کے راز ہیں.آپ کی عادت شریف میں یہ بات بھی تھی کہ بعض انعامات الہیہ کے نزول پر بھی بے اختیار ا ترجمہ.اس کی قبولیت کا جوش جو میری دعا کے وقت ظاہر ہوتا ہے.اتنی گریہ وزاری میری ماں نے بھی نہیں سنی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵۱ حصہ پنجم دعا کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے.چنانچہ ۶ ستمبر ۸۳ء کو خدا تعالیٰ نے مالی ضرورت کے وقت اکیس" روپے آنے کی بشارت دی.پھر ۱۰ ستمبر کو بھی تاکیدی طور پر سہ بارہ یہ الہام ہوا.جس سے سمجھا گیا کہ آج اس پیشگوئی کا ظہور ہو جائے گا.اس الہام سے کوئی تین منٹ کے بعد وزیر سنگھ نامی ایک بیمار آیا اور اس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا.اور ڈاکخانہ سے پتہ منگوایا گیا تو ڈاک منشی نے کہا کہ پانچ روپیہ کا منی آرڈر آیا ہے ابھی روپیہ نہیں آیا.آئے گا.تو دوں گا.اس حالت میں الہام ہوا کہ بست و یک آئے ہیں اس میں شک نہیں.اس الہام پر دو پہر نہیں گزری تھی کہ ایک آریہ کو اسی ڈاک منشی نے کہا کہ دراصل بست روپے آئے ہیں اور پہلے یونہی منہ سے نکل گیا تھا.اسی جوش میں حضور نے ایک دعا کی جو یہ ہے..(1) اے خدا اے چارہ آزار ما اے علاج گریہ ہائے زار (۲) اے تو مرہم بخش جان ریش ما اے تو دلدارے دل غم کیش ما (۳) از کرم برداشتی هر بار ما و از تو بر اشجار ما (۴) حافظ و ستاری از جود و کرم بیکساں را یاری از لطف اتم (۵) بنده درمانده باشد دل تپاں ناگہاں درمان براری از میاں گیرد براه ہر بار و نا گہاں آری برو صد مهر و ماه (1) عاجزی را ظلمتے (۷) حُسن و خُلق دلبری بر تو تمام سبت بعد از لقائے تو حرام ترجمہ اشعار.(۱) اے خدا! اے ہمارے دکھوں کی دوا اور اے ہماری گریہ وزاری کا علاج.(۲) تو ہماری زخمی جان پر مرہم رکھنے والا ہے اور تو ہمارے غم زدہ دل کی دلداری کرنے والا ہے.(۳) تو نے اپنی مہربانی سے ہمارے سب بوجھ اٹھا لیے ہیں اور ہمارے درختوں پر میوہ اور پھل تیرے فضل سے ہے.(۴) تو ہی مہربانی اور عنایت سے ہمارا محافظ اور پردہ پوش ہے اور کمال مہربانی سے بے کسوں کا ہمدرد ہے.(۵) جب بندہ مغموم اور در ماندہ ہو جاتا ہے تو تو وہیں سے اس کا علاج کر دیتا ہے.(۶) جب کسی عاجز کو رستے میں اندھیرا گھیر لیتا ہے تو تُو یکدم اس کے لیے سینکڑوں سورج اور چاند پیدا کر دیتا ہے.(۷) حسن و اخلاق اور دلبری تجھ پر ختم ہیں تیری ملاقات کے بعد پھر کسی سے تعلق رکھنا حرام ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵۲ حصہ پنجم اس طریق پر یہ بہت بڑی نظم ہے اُس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت الہی کا ایک فوارہ ہے جو آپ کے اندر پھوٹ رہا ہے اور آپ کی روح حضرت باری کے حضور پرواز کرتی ہوئی چلی جاتی ہے اس طرح پر آپ کی دعاؤں کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ ان میں اطناب ہوتا ہے اور اس اطناب میں خود حضرت باری کی حمد و ثناء کے لئے جوش پایا جاتا ہے اور بعض اوقات اس حمد و ثناء میں اتنے مستغرق اور گم ہو جاتے ہیں کہ نفس مطلب دعا بھی اس جوش حمد الہی میں گم ہو جاتا ہے.میں نے یہ تو ایک مختصر سا نکتہ بتایا ہے اور وہ بھی حالت بیماری میں لیٹے لیٹے لکھا سکا.انشاء اللہ العزیز صحت ہو جانے پر اسرار د عا پیش کر سکوں.وَبِاللهِ التَّوفيق (۱۵) اکیلے وقت کی دعا تمہیدی نوٹ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام انبیاء علیہم السلام سے ایک مشابہت دی گئی ہے اور اس لئے حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے بعض نبیوں کے اسماء سے پکارا اور بالآ خر فر مایا جَرِى اللهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ چنانچہ آپ فرماتے ہیں.میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار آپ کی فطرت کو حضرت داؤد علیہ السلام کی فطرت سے بھی ایک مناسبت ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی بعض دعا ئیں بالکل حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے ہم رنگ ہیں اور کوئی شخص زبور کی ایک دعا اور آپ کی اکیلے وقت کی دعا پڑھ کر امتیاز نہیں کرسکتا.یہ امر کہ آپ کو حضرت داؤد علیہ السلام سے مناسبت ہے آپ کے مندرجہ بالا کلام سے بھی ظاہر ہے او آپ کے الہامات میں خدا تعالیٰ نے داؤد کے نام سے آپ کو مخاطب فرمایا مگر میں ایک واقعہ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ۷ جنوری ۱۸۸۴ء کو آپ نے میر عباس علی لد بانوی کو ایک مکتوب میں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرمایا کہ ۵۵۳ حصہ پنجم کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع تمام شب گز را نیم در قیام و سجود چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اُس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھاوہ بطورا الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ یہ ہے ہے طریق زہد و تعبد ندانم اے زاہد خدائے من قدمم راند بر رو داؤد مکتوبات احمد جلد اصفحہ ۵۸۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ ایسے وقت کا الہام ہے جب آپ کسی سے بیعت نہ لیتے تھے اور اس کے لئے مامور نہ تھے اس داؤدی فطرت کو اس آئینہ دعا میں پڑھو جو آپ کے اکیلے وقت کی دعا ہے.(عرفانی) اکیلے وقت کی دعا اے میرے خدا میری فریا دسن کہ میں اکیلا ہوں اے میری پناہ ! اے میری سپر! اے میرے پیارے! مجھے ایسا مت چھوڑ، میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری درگاہ پر میری روح سجدے میں ہے اس کی دعا کی قبولیت کو ان الہامات میں مشاہدہ کرو جوانی مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ (٢) أَنْتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَ تَفْرِيدِی وغیر ذالک کے الفاظ میں ہوئے ہیں.ہی ترجمہ.اے زاہد! میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا.میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵۴ حصہ پنجم (۱۶) تمام قوموں کی ہدایت کے لئے دعا کہ اے خداوند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش که تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں.تا ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جائیں کہ جو بچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں.اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبی میں حاصل ہو سکتی ہے.بلکہ بچے راست باز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں بالخصوص قوم انگریزی جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جس کی شائستہ اور مہذب اور بارہم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاونت سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم اُن کے دنیا و دین کے لئے جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں تا ان کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منور ہوں فَنَسْئَلُ اللهَ تَعَالَى خَيْرَهُمُ فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ - اَللّهُمَّ اهْدِهِمْ وَ اَيْدُهُمْ بِرُوحٍ مِّنْكَ وَاجْعَلُ لَّهُمْ حَظًّا كَثِيرًا فِي دِينِكَ وَ اجْذِبُهُمْ بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ لِيُؤْمِنُوا بِكِتَابِكَ وَ رَسُولِكَ وَ يَدْخُلُوا فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا.آمین ثم آمين وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين - اس دعا میں آپ نے جہاں تمام اقوام کے متعدد دلوں کے ہدایت یاب ہونے کی تمنا کی ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہر قسم کی سعادت ، برکت اور خوشحالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے ملتی ہے اور سب سے عجیب اور قابل غور یہ امر ہے کہ آپ نے کس جرات اور دلیری کے ساتھ حکومت وقت کے لئے بھی قبول اسلام کی دعا فرمائی ہے.حکومت وقت کی لوگ جھوٹی خوشامد کرتے ہیں مگر یہ خیر خواہ خلق وجود حکومت کے لئے اپنے دل میں وہ جوش رکھتا ہے جو پسندیدہ خدا ہے ان کے لیے وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو اپنے لئے.اور وہ ایک ہی چیز ہے کہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم اس قسم کی دعائیں ترقی اسلام اور لوگوں کے لئے قبول اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ ارادت میں داخل ہونے کی بکثرت ہیں.(۱۷) ایک دعوت مباہلہ کی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعوئی سے پیشتر جب خدمت اسلام کے لئے قلم اٹھایا اور منکرین و مخالفین اسلام کو دعوت مقابلہ دی تو اپنی صداقت و حقیت اسلام و قرآن مجید اثبات نبوت محمدیہ عَلَيْهِ التَّحِيَّةُ پر اس قدر یقین اور بصیرت تھی کہ مختلف قسم کے رقمی انعامات پیش کیے.براہین احمدیہ کے جواب کے لئے دس ہزار کا انعام پیش کیا اور کسی کو آج تک جرات نہ ہوئی کہ شرائط پیش کردہ کے رو سے مقابلے پر آتا.پھر براہین احمدیہ کے بعد سرمہ چشم آریہ کے لئے بھی پانچ سو روپیہ کا انعام مشتہر کیا.مگر کسی آریہ کو اس انعام کے لئے آج تک ہمت نہ ہوئی.اسی قسم کی تحدیوں کے علاوہ آپ نے سرمہ چشم آریہ کے آخر میں.دعوت مباہلہ بھی دی یہ کسی معمولی دل گردے کے انسان کا کام نہیں اس میدان میں وہی آگے بڑھ سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کامل ایمان رکھتا ہو اور اپنی صداقت اور کامل ایمان ہونے پر بھی اس کو بصیرت افزایقین ہو.چنانچہ آپ نے سُرمہ چشم آریہ کے جواب کے لئے اولاً دعوت دی اور چہل روزہ دعوت نشان نمائی کا اعلان کیا اور بالآخر اس کے ساتھ ہی مباہلہ کی دعوت دی.مباہلہ ایک دعا ہے جو ہر ایک فریق اپنے متعلق کرتا ہے.میں ذیل میں جس دعائے مباہلہ کو درج کرنا چاہتا ہوں اس کے سمجھنے کے لئے کہ وہ کسی تقریب سے دی گئی اس حصہ کو بھی درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بطور تمہید یا تقریب ہے چنانچہ فرماتے ہیں.”اب ہم اپنی پہلی کلام کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ وید برکات روحانیہ اور محبت الہیہ تک پہنچانے سے قاصر اور عاجز ہے اور کیونکر قاصر و عاجز نہ ہو وہ وسائل جن سے یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں یعنی طریقہ حقہ خداشناسی و معرفت نعماء البی و
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بجا آوری اعمال صالحہ و تحصیل اخلاق مرضیه و تزکیه نفس عن رذائل نفسیه ان سب معارف کے صحیح اور حق طور پر بیان کرنے سے وید بکلی محروم ہے.کیا کوئی آریہ صفحہ زمین پر ہے کہ ہمارے مقابل پر ان امور میں وید کا قرآن شریف سے مقابلہ کر کے دکھلاوے؟ اگر کوئی زندہ ہو تو ہمیں اطلاع دے اور جس امر میں امور دینیہ میں سے چاہے اطلاع دے تو ہم ایک رسالہ بالتزام آیات بینات و دلائل عقلیہ قرآنی تالیف کر کے اس غرض سے شائع کر دیں گے کہ تا اسی التزام سے وید کے معارف اور اس کی فلاسفی دکھلائی جائے اور اس تکلیف کشی کے عوض میں ایسے وید خوان کے لئے ہم کسی قدر انعام بھی کسی ثالث کے پاس جمع کرا دیں گے جو غالب ہونے کی حالت میں اس کو ملے گا.شرط یہی ہے کہ وہ ویدوں کو پڑھ سکتا ہوتا ہمارے وقت کو ناحق ضائع نہ کرے.جاننا چاہیے کہ جو شخص حق سے اپنے تئیں آپ دور لے جاوے اس کو ملعون کہتے ہیں اور جو حق کے حاصل کرنے میں اپنے نفس کی آپ مدد کرے اس کو مقرون کہتے ہیں.اب ہمارے مقابل پر مقرون یا ملعون بننا آریوں کے ہاتھ میں ہے اگر کوئی با تمیز آریہ جو ویدوں کی حقیقت سے خبر رکھتا ہو موازنہ و مقابلہ وید و قرآن کی نیت سے تین ماہ کے عرصہ تک میدان میں آ گیا اور ہماری طرف سے جو رسالہ بحوالہ آیات و دلائل قرآنی تالیف ہو دید کی شرتیوں کے رو سے اس نے رڈ کر کے دکھلا دیا تو اس نے وید اور وید کے پیروؤں کی عزت رکھ لی اور مقرون کے معزز خطاب سے ملقب ہو گیا لیکن اگر اس عرصہ میں کسی ویددان نے تحریک نہ کی تو وہ خطاب جو مقرون کے مقابل پر ہے سب نے اپنے لئے قبول کر لیا اور اگر پھر باز نہ آویں تو آخراٹیل مباہلہ ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارت کر آئے ہیں.مباہلہ کے لئے وید خوان ہونا ضروری نہیں ہاں باتمیز اور ایک باعزت اور نامور آریہ ضرور چاہیے جس کا اثر دوسروں پر بھی پڑسکے سو سب سے پہلے لالہ مرلیدھر صاحب اور پھر لالہ جیوند اس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور اور پھر منشی اندر من صاحب مراد آبادی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵۷ اور پھر کوئی اور دوسرے صاحب آریوں میں سے جو معزز اور ذی علم تسلیم کئے گئے ہوں مخاطب کئے جاتے ہیں کہ اگر وہ وید کی ان تعلیموں کو جن کو کسی قدر ہم اس رسالہ میں تحریر کر چکے ہیں.فی الحقیقت صحیح اور بچے سمجھتے ہیں اور ان کے مقابل جو قرآن شریف کے اصول و تعلیمیں اسی رسالہ میں بیان کی گئی ہیں ان کو باطل اور دروغ خیال کرتے ہیں تو اس بارہ میں ہم سے مباہلہ کر لیں اور کوئی مقام مباہلہ کا برضامندی فریقین قرار پا کر ہم دونوں فریق تاریخ مقررہ پر اس جگہ حاضر ہو جائیں اور ہر یک فریق مجمع عام میں اٹھ کر اس مضمون مباہلہ کی نسبت جو اس رسالہ کے خاتمہ میں بطور نمونہ اقرار فریقین قلم جلی سے لکھا گیا ہے تین مرتبہ قسم کھا کر تصدیق کریں کہ ہم فی الحقیقت اس کو سچ سمجھتے ہیں اور اگر ہمارا بیان راستی پر نہیں تو ہم پر اسی دنیا میں وبال اور عذاب نازل ہو.غرض جو جو عبارتیں ہر دو کاغذ مباہلہ میں مندرج ہیں جو جانبین کے اعتقاد ہیں بحالت دروغ گوئی عذاب مترتب ہونے کے شرط پر ان کی تصدیق کرنی چاہیئے اور پھر فیصلہ آسمانی کے انتظار کے لئے ایک برس کی مہلت ہوگی پھر اگر برس گزرنے کے بعد مؤلف رسالہ ہذا پر کوئی عذاب اور وبال نازل ہوا یا حریف مقابل پر نازل نہ ہوا تو ان دونوں صورتوں میں یہ عاجز قابل تاوان پانسو روپیہ ٹھہرے گا جس کو برضامندی فریقین خزانہ سرکاری میں یا جس جگہ بآسانی وہ روپیہ مخالف کومل سکے داخل کر دیا جائے گا اور در حالت غلبہ خود بخود اس روپیہ کے وصول کرنے کا فریق مخالف مستحق ہوگا اور اگر ہم غالب آئے تو کچھ بھی شرط نہیں کرتے کیونکہ شرط کے عوض میں وہی دعا کے آثار کا ظاہر ہونا کافی ہے.اب ہم ذیل میں مضمون ہر دوکا غذ مباہلہ کولکھ کر رسالہ ہذا کو ختم کرتے ہیں وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضمونه مضمون مباہلہ از جانب مؤلف رساله هذا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بعد حمد وصلوۃ میں عبداللہ الاحد الصمد احمد ولد میرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم ( جو مؤلف کتاب براھین احمدیہ ہوں ) حضرت خداوند کریم جَلَّ شَانُهُ وَ عَزَّاسُمُهُ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اکثر حصہ اپنی عمر عزیز کا تحقیق دین میں خرچ کر کے ثابت کر لیا ہے کہ دنیا میں سچا اور منجانب اللہ مذہب دین اسلام ہے اور حضرت سیدنا و مولا نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کے رسول اور افضل الرسل ہیں اور قرآن شریف اللہ جل شانہ کا پاک و کامل کلام ہے جو تمام پاک صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل ہے اور جو کچھ اس کلام مقدس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وجوب ذاتی اور قدامت ہستی اور قدرت کا ملہ اور اپنے دوسرے جمیع صفات میں وحدہ لا شریک ہے اور سب مخلوقات کا خالق اور سب ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ ہے اور صادق اور وفادار ایمانداروں کو ہمیشہ کے لئے نجات دے گا اور وہ رحمان اور رحیم اور تو بہ قبول کرنے والا ہے ایسا ہی دوسری صفات الہیہ و دیگر تعلیمات جو قرآن شریف میں لکھی ہیں یہ سب صحیح اور درست ہیں اور میں دلی یقین سے ان سب امور کو سچ جانتا ہوں اور دل و جان سے ان پر یقین رکھتا ہوں اور اگر چہ ان کی سچائی پر صد ہا عقلی دلائل جو قطعی اور یقینی ہیں اللہ جل شانہ نے مجھ کو عطا کی ہیں لیکن ایک اور فضل اُس کا مجھ پر یہ بھی ہوا ہے جو اس نے براہ راست مجھ کو اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے دوہرا ثبوت ان سچائیوں کا مجھ کو دے دیا ہے اب میری یہ حالت ہے کہ جیسے ایک شیشہ عطر خالص سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن شریف تمام برکات دینیہ کا مجموعہ ہے اور فی الحقیقت خدائے تعالیٰ سب موجودات کا موجد اور تمام ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ اور ہر قسم کی خیر اور نیکی اور فیض کا مبدء ہے اور اس کا پاک
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵۹ حصہ پنجم رسول احمد مجتبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابیہ وسلم سچا صادق و کامل نبی ہے جس کی پیروی پر فلاح آخرت موقوف ہے لیکن میرا فلاں مخالف (اس جگہ اس مخالف کا نام جو مباہلہ کے لئے بالمقابل آئے گا لکھا جائے گا ) جو اس وقت میرے مقابلہ کے لئے حاضر ہے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نعوذ باللہ جناب سید نا محمد مصطفیٰ سچے نبی نہیں ہیں اور جعل سازی سے قرآن شریف کو بنالیا ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدائے تعالیٰ ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ نہیں اور کسی پرستار اور بچے ایماندار کو نجات ابدی کبھی نہیں ملے گی اور جو کچھ ویدوں میں بھرا ہوا ہے وہ حقیقت میں سب سچ ہے اور اس کے برخلاف جو قرآن شریف میں ہے وہ سب جھوٹ ہے سواے خدائے قادر مطلق تو ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر اور ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے بیانات میں اور اپنے عقائد میں جھوٹا ہے اور بصیرت کی راہ سے نہیں بلکہ تعصب اور ضد کی راہ سے ایسی باتیں منہ پر لاتا ہے جن پر یقین کرنے کے لئے کوئی قطعی دلیل اس کے ہاتھ میں نہیں اور نہ اس کا دل نور یقین سے بھرا ہوا ہے بلکہ سراسر ضد اور طرفداری اور نا خدا ترسی سے ایسی باتیں بناتا ہے جن پر اس کا دل قائم نہیں اس پر تو اے قادر کبیر ایک سال تک کوئی اپنا عذاب نازل کر اور اس کی پردہ دری کر کے جو شخص حق پر ہے اس کی مددفرما اور لعنت سے بھرے ہوئے دکھ کی مارا یسے شخص کو پہنچا کہ جو دانستہ سچائی سے دور اور راستی کا دشمن اور راست باز کا مخالف ہے کیونکہ سب قدرت اور انصاف اور عدالت تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ (نوٹ ) اس دعائے مباہلہ سے اس بصیرت معرفت اور ایمان باللہ کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات کا ملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کے الہی دین ہونے پر تھا اور آپ کامل شعور کے ساتھ جانتے تھے کہ اس مقابلہ میں آنے والا یقیناً ہلاک ہو جائے گا اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے گا.یہ وہ زمانہ تھا کہ آپ نے اپنی بعثت و ہدایت کا اعلان نہ کیا تھا اور نہ سلسلہ کے لئے دعوت دی تھی ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۰ حصہ پنجم ومجدد ہوکر آپ نے براہین احمدیہ کی تالیف کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور اسی سلسلہ میں مختلف رنگوں میں اتمام حجت کر رہے تھے.۱۸۸۶ء کے اوائل میں اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے آپ نے ہوشیار پور کا تاریخی سفر کیا اور وہاں آپ عبادت اور دعا میں مصروف رہے ان دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا چنانچہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں آپ با علام الہی تحریر فرماتے ہیں.” خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جَلَّ شَانُهُ وَ عَزَّ اِسُمُهُ ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی.“ ( مجموعه اشتہارات جلدا صفحه ۹۵ طبع بار دوم ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بے شمار دعائیں ان ایام میں کیں.ہوشیار پور پہنچ کر چالیس دن تک دعا و عبادت میں مصروف رہے تھے اس کے تفصیلی حالات سوانح حیات میں آتے ہیں.یہاں یہ مقصود ہے کہ چالیس دن تک کس قدر دعا ئیں آپ نے کی ہوں گی یہ چلہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کے حضور خلوت میں حاضر رہ کر پورا کیا تھا.اس سے فارغ ہو کر آپ جبکہ وہاں مقیم تھے تو ماسٹر مرلی دھر صاحب سے ایک مباحثہ ہوا جو سُرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع ہوا اور اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ دعائے مباہلہ شائع کی اور اس کے ساتھ ایک اشتہار دعوت چہل روزہ بھی نشان نمائی کے لئے شائع فرمایا تھا مگر کسی کو اس میدان میں آنے کی جرات نہ ہوئی لیکھر ام آریہ نے جب بخیال خویش سُرمہ چشم آریہ کا جواب لکھا تو اس نے بھی دعائے مباہلہ کے جواب میں ایک دعا شائع کی مگر جو اس اصل پر نہ تھی جو حضرت اقدس نے پیش کیا تھا تاہم انجام کار وہ خدا تعالیٰ کی بشارت کے موافق حضرت اقدس کی زندگی میں ۱۸۹۷ء میں فوت ہو گیا بحالیکہ جوان عمر تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو اس کی وفات کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک حیات طیبہ عطا کی.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَسَلَّمَ -
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۱ بعثت کے بعد کی دعائیں میں اصطلاحی طور پر زمانہ بعثت سے مراد صرف اس زمانہ کو قرار دیتا ہوں جو بیعت کے اعلان یکم دسمبر ۱۸۸۸ء سے شروع ہوتا ہے یوں آپ کی بعثت کا آغا ز تو بہت پہلے ہو چکا تھا جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے الہام ووحی سے آپ کو مشرف فرمایا اور ان الہامات میں آپ کے منصب کا ذکر بھی بکثرت آیا بیعت کے اعلان میں آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا“ اس کے بعد آپ ہر بیعت میں داخل ہونے والے کے لئے مدۃ العمر دعائیں کرتے رہے ان دعاؤں کا کوئی شمار نہیں ہو سکتا تین اور چار لاکھ کے درمیان بیعت کنندگان کی تعداد آپ کی زندگی میں پہنچ گئی تھی لاکھوں دعاؤں کا تو یہی شمار ہوتا ہے پھر ہر شخص کے لئے اس کی مختلف حاجتوں اور ضرورتوں میں ان کے لئے دعائیں کیں.اس لیے یہ دعویٰ ایک صحیح اور بلا مبالغہ دعوی ہے کہ دعاؤں کا شمار نہیں ہوسکتا اس زمانہ کی دعاؤں کو میں دو قسم کی دعاؤں پر تقسیم کرتا ہوں اوّل وہ دعائیں ہیں جو آپ نے اپنی صداقت کے دلائل کے طور پر پیش کی ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ اگر میں تیری طرف سے نہیں ہوں تو میرے ساتھ وہ معاملہ کر جو مفتریوں کے ساتھ کرتا آیا ہے ان دعاؤں میں ایک درد ہے ایک شعور صداقت ہے دوسری قسم کی وہ دعائیں ہیں جو آپ کی سیرت مطہرہ اشاعت فرض کے لئے اضطراب اور عذاب الہی سے پناہ اپنی اولاد کے لئے برکات پر مشتمل ہیں.میں اُن سب کو لکھ نہیں سکوں گا کہ اس سے کتاب کا حجم بڑھ جائے گا صرف نمونہ کے طور پر میں درج کروں گا وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۲ حصہ پنجم (۱۸۷) حضرت مسیح موعود اپنے مولیٰ کے حضور (1) اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما (۲) ایکه می داری تو بر دلها نظر ایکه از تو نیست چیزے مستتر (۳) گر تو می بینی مرا پرفسق و شر گر تو دید استی که هستم بد گہر (۴) پاره پاره کن من بدکار را شاد گن این زمرہ اغیار را (۵) بر دل شاں ابر رحمت ہا بیار ہر مراد شان بفضل خود برآر (۶) آتش افشاں بر در و دیوار من (۷) (۸) ہر سوزنده باش و تب کن کارمین ور مرا از بندگانت یافتی قبله من آستانت یافتی در دل من آں محبت دیده کز جہاں آں راز را پوشیده (۹) با من از روئے محبت کارکن اند کے افشائے آں اسرار کن (۱۰) ایکہ آئی سوئے ہر جوئندہ واقعی از سوز ترجمه اشعار.(۱) اے میرے قادر زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے.اے میرے رحیم اور مہربان اور ہادی آقا (۲) اے میرے مولیٰ تو دلوں پر نظر رکھتا ہے.اور وہ تیرے سامنے ہیں اور آپ سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں.(۳) اگر تو دیکھتا ہے کہ میں فسق و شرارت سے بھر پور ہوں.اور اگر تو دیکھتا ہے کہ میں ایک بدطینت آدمی ہوں.(۴) تو تو مجھے بد کا رکو پارہ پارہ کر کے ہلاک کر دے.اور میرے مخالف گروہ کو میری اس حالت سے خوش کر دے.(۵) ان کے دلوں پر رحمت کی بارش برسا.اور ان کی ہر مرادا اپنے فضل سے پوری کر دے.(۶) میرے درو دیوار پر اپنے غضب کی آگ برسا.تو آپ میرا دشمن ہو کر میرے کا روبار کو تباہ کر دے.(۷) لیکن مرے مولیٰ اگر تو نے مجھے اپنے بندوں میں پایا ہے.اور اپنے آستانہ کو میری توجہ کا قبلہ پایا ہے.(۸) تو نے میرے دل میں اس محبت کو دیکھا ہے.جس کو تو نے دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہے.(۹) تو پھر میرے آقا میرے ساتھ وہ سلوک فرما جو تیری محبت کا نتیجہ ہے اور کسی قدر اس راز محبت کو جو میرے ساتھ ہے ظاہر فرما.(۱۰) میرے مولیٰ آپ تو ہر تلاش کرنے والے کی طرف چل کر آتے ہیں.اور آپ تو ہر سوز محبت میں جلنے والے کی سوزش قلب سے آگاہ ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۳ حصہ پنجم (11) زاں تعلق ہا که با تو داشت زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم (۱۲) خود بروں آ از پئے ابراء من اے تو کہف وملجاً و ما وائ من (۱۳) آتش کاندر دلم افروختی وز دم آن غیر خود را سوختی (۱۴) ہم ازاں آتش رُخ من برفروز ویں شب تارم مبدل کن بروز (۱۵) چشم بکشا ایں جہانِ کور را اے شدید البطش بنما زور را (۱۶) ز آسماں نور نشان خود نما یک گلے از بوستان خود نما (۱۷) ایں جہاں بینم پر از فسق و فساد غافلان را نیست وقت موت یاد (۱۸) از حقایق غافل و بیگانه اند ہمچو طفلاں مائل افسانه اند (۱۹) سرد شد دلها زمہر روئے دوست روئے دلہا تافته از کوئے دوست (۲۰) سیل در جوش است و شب تاریک و تار از کرمها آفتابی را برابر ترجمہ اشعار.(۱۱) میں تجھے اس تعلق کا واسطہ دیتا ہوں کہ جو مجھے آپ سے ہے.ہاں اس محبت کا واسطہ دیتا ہوں جس کا پودہ میں نے اپنے دل میں بورکھا ہے.(۱۲) تو آپ مجھ کو ان الزامات سے ( جو اندھی دنیا لگا رہی ہے) بری ٹھہرانے کے لئے باہر نکل تو ہی تو میری پناہ اور میرا مادی و ملجا ہے.(۱۳) وہ آگ جو تو نے میرے دل میں روشن کی ہے.اور جس نے غیر اللہ کی محبت کو جلا ڈالا ہے.(۱۴) اس آگ سے میرے چہرہ کو منور کر دے اور میری اس تاریک و تار رات کو روز روشن سے بدل دے.(۱۵) اس اندھی دنیا کی آنکھوں کو روشن کر دے.اے شدید البطش تو اپنی قوت و قدرت کو ظاہر فرما.(۱۶) آسمان سے اپنے نور کے نشان دیکھا.اپنے باغ سے ایک پھول کھلا دے.(۱۷) میں دیکھتا ہوں کہ یہ دنیا فسق و فساد سے بھری ہوئی ہے.اور غفلت کا اس قدر دور دورہ ہے کہ غافل انسان موت کو بھول چکے ہیں.(۱۸) حقیقت سے بالکل غافل اور بیگانہ ہیں.بچوں کی سی حالت ہو چکی ہے اور فسانوں پر مائل ہیں.( ۱۹ ) دلوں سے دولت حقیقی کی محبت ٹھنڈی ہوگئی ہے.اور دلوں کو کو چہ دوست سے پھیر دیا ہے.(۲۰) حالت ایسی ہو چکی ہے کہ طوفان امڈا آ رہا ہے اور ات اندھیری ہے.پس اس حالت کو دور کر کے اپنی رحمت وکرم سے آفتاب کو روشن کر.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۴ ۱۹/۲ آسمانی شہادت اور فیصلہ کے لئے دعا کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو وہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلا ؤ سب کمندوں کو اس عاجز غلام احمد قادیانی کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے ایک دعا اور حضرت عزت سے اپنی نسبت آسمانی فیصلہ کی درخواست اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال قا در قدوس حی و قیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالآباد مبارک ہے.تیرے قدرت کے کام کبھی رک نہیں سکتے.تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے.تو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا اور فرمایا کہ "اُٹھ کہ میں نے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجت پوری کرنے کے لئے اور اسلامی سچائیوں کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ اور قوی کرنے کے لئے چنا“.اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ” تو میری نظر میں منظور ہے.میں اپنے عرش پر تیری تعریف کرتا ہوں“.اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ تو وہ مسیح موعود ہے جس کے وقت کو ضائع نہیں کیا جائے گا.اور تو نے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ” تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری تو حید اور تفرید “.اور تو نے ہی مجھے حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۵ فرمایا کہ ”میں نے لوگوں کی دعوت کے لئے تجھے منتخب کیا.ان کو کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں اور سب سے پہلا مومن ہوں.“ اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ”میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا اسلام کو تمام قوموں کے آگے روشن کر کے دکھلاؤں اور کوئی مذہب اُن تمام مذہبوں میں سے جو زمین پر ہیں برکات میں، معارف میں تعلیم کی عمدگی میں ، خدا کی تائیدوں میں خدا کے عجائب غرائب نشانوں میں اسلام سے ہمسری نہ کر سکے.اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.میں نے اپنے لئے تجھے اختیار کیا.مگر اے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا.اور مجھے مفتری سمجھا.اور میرا نام کا فر اور کذاب اور دجال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دل آزار باتوں سے مجھے ستایا گیا اور میری نسبت یہ بھی کہا گیا که حرام خور لوگوں کا مال کھانے والا ، وعدوں کا تختلف کرنے والا ، حقوق کو تلف کرنے والا ، لوگوں کو گالیاں دینے والا ، عہدوں کو توڑنے والا ، اپنے نفس کے لئے مال کو جمع کرنے والا اور شریر اور خونی ہے.یہ وہ باتیں ہیں جو خود اُن لوگوں نے میری نسبت کہیں جو مسلمان کہلاتے اور اپنے تئیں اچھے اور اہل عقل اور پرہیز گار جانتے ہیں.اور اُن کا نفس اس بات کی طرف مائل ہے کہ در حقیقت جو کچھ وہ میری نسبت کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور انہوں نے صدہا آسمانی نشان تیری طرف سے دیکھے مگر پھر بھی قبول نہیں کیا.وہ میری جماعت کو نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں.ہر ایک اُن میں سے جو بد زبانی کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ بڑے ثواب کا کام کر رہا ہے.سواے میرے مولا قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں.اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہو.اور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی ان کے اندر پیدا ہو اور زمین پر پاکی اور پرہیز گاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلا دیں اور ہر ایک طالب حق کو نیکی کی طرف کھینچیں اور اس طرح پر تمام قومیں جو زمین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دنیا میں تیرا جلال چھکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تئیں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے.لیکن اگر اے پیارے مولیٰ میری رفتار تیری نظر میں اچھی نہیں ہے تو مجھ کو اس صفحہ دنیا سے مٹا دے تا میں بدعت اور گمراہی کا موجب نہ ٹھہروں.میں اس درخواست کے لئے جلدی نہیں کرتا تا میں خدا کے امتحان کرنے والوں میں شمار نہ کیا جاؤں.لیکن میں عاجزی سے اور حضرت ربوبیت کے ادب سے یہ التماس کرتا ہوں کہ اگر میں اُس عالی جناب کا منظور نظر ہوں تو تین سال کے اندر کسی وقت میری اس دعا کے موافق میری تائید میں کوئی ایسا آسمانی نشان ظاہر ہو جس کو انسانی ہاتھوں اور انسانی تدبیروں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ آفتاب کے طلوع اور غروب کو انسانی تدبیروں سے کچھ بھی تعلق نہیں.اگر چہ اے میرے خداوند یہ بیج ہے کہ تیرے نشان انسانی ہاتھوں سے بھی ظہور میں آتے ہیں لیکن اس وقت میں اسی بات کو اپنی سچائی کا معیار قرار دیتا ہوں کہ وہ نشان انسانوں کے تصرفات سے بالکل بعید ہوتا کوئی دشمن اس کو انسانی منصوبہ قرار نہ دے سکے.سواے میرے خدا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اگر تو چاہے تو سب کچھ کرسکتا ہے.تو میرا ہے جیسا کہ میں تیرا ہوں تیری جناب میں الحاح سے دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور اگر یہ سچ ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے تو تو میری تائید میں اپنا کوئی ایسا نشان دکھلا کہ جو پبلک کی نظر میں انسانوں کے ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے برتر یقین کیا جائے حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۷ تالوگ سمجھیں کہ میں تیری طرف سے ہوں.اے میرے قادر خدا! اے میرے تو انا اور سب قوتوں کے مالک خداوند ! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جن اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں.دنیا میں ہر ایک فریب ہوتا ہے اور انسانوں کو شیاطین بھی اپنے جھوٹے الہامات سے دھوکہ دیتے ہیں مگر کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گئی کہ وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے.کیونکہ تو وہ ہے جس کی شان لَا إِلَهَ إِلَّا الله ہے اور جو الْعَلِيُّ الْعَظِیم ہے.جو لوگ شیطان سے الہام پاتے ہیں ان کے الہاموں کے ساتھ کوئی قادرانہ غیب گوئی کی روشنی نہیں ہوتی جس میں الوہیت کی قدرت اور عظمت اور ہیبت بھری ہوئی ہو.وہ تو ہی ہے جس کی قوت سے تمام تیرے نبی تحدی کے طور پر اپنے معجزانہ نشان دکھلاتے رہے ہیں اور بڑی بڑی پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں جن میں اپنا غلبہ اور مخالفوں کی درماندگی پہلے سے ظاہر کی جاتی تھی.تیری پیشگوئیوں میں تیرے جلال کی چمک ہوتی ہے اور تیری الوہیت کی قدرت اور عظمت اور حکومت کی خوشبو آتی ہے اور تیرے مرسلوں کے آگے فرشتہ چلتا ہے تا ان کی راہ میں کوئی شیطان مقابلہ کے لئے ٹھہر نہ سکے.مجھے تیری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے تیرا فیصلہ منظور ہے.پس اگر تو تین برس کے اندر جو جنوری ۱۹۰۰ عیسوی سے شروع ہو کر دسمبر ۱۹۰۲ عیسوی تک پورے ہو جائیں گے میری تائید میں اور میری تصدیق میں کوئی آسمانی نشان نہ دکھلاوے اور اپنے اس بندہ کو اُن لوگوں کی طرح رڈ کر دے جو تیری نظر میں شریر اور پلید اور بے دین اور کذاب اور دجال اور خائن اور مفسد ہیں تو میں تجھے گواہ کرتا ہوں کہ میں اپنے تئیں صادق نہیں سمجھوں گا اور ان تمام تہمتوں اور الزاموں اور بہتانوں کا اپنے تئیں مصداق سمجھ لوں گا جو میرے پر لگائے جاتے ہیں.دیکھ! میری روح نہایت تو کل
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۸ کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہشمند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں اور جس کو تو نے بھیجا ہے اُس کی تکذیب کر کے ہدایت سے دور نہ پڑ جائیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے اور میری تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں.یہاں تک کہ سورج اور چاند کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں پیشگوئی کی تاریخوں کے موافق گرہن میں آدیں اور تو نے وہ تمام نشان جو ایک سو سے زیادہ ہیں میری تائید میں دکھلائے جو میرے رسالہ تریاق القلوب میں درج ہیں.تو نے مجھے وہ چوتھا لڑکا عطا فرمایا جس کی نسبت میں نے پیشگوئی کی تھی کہ عبدالحق غزنوی حال امرتسری نہیں مرے گا جب تک وہ لڑکا پیدا نہ ہوئے.سو وہ لڑکا اُس کی زندگی میں ہی پیدا ہو گیا.میں اُن نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں.میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے.لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا.اس لئے نہ میں نے بلکہ میری روح نے اس بات پر زور دیا کہ میں یہ دُعا کروں کہ اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں اور اگر تیرا غضب میرے پر نہیں ہے اور اگر میں تیری جناب میں مستجاب الدعوات ہوں تو ایسا کر کہ جنوری 19ء سے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندہ کے لئے گواہی دے جس کو زبانوں سے کچلا گیا ہے.دیکھ ! میں تیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اُٹھاتا ہوں کہ تو ایسا ہی کر.اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں اور جیسا کہ خیال کیا گیا ہے کافر اور کا ذب نہیں ہوں.تو ان تین سال میں جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ ء تک ختم ہو جائیں گے کوئی ایسا نشان دکھلا جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہو.جبکہ تو نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں تیری ہر ایک دعا قبول
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶۹ حصہ پنجم کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں.تبھی سے میری روح دعاؤں کی طرف دوڑتی ہے.اور میں نے اپنے لئے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میری یہ دعا قبول نہ ہو تو میں ایسا ہی مردود اور ملعون اور کافر اور بے دین اور خائن ہوں جیسا کہ مجھے سمجھا گیا ہے.اگر میں تیرا مقبول ہوں تو میرے لئے آسمان سے ان تین برسوں کے اندر گواہی دے تا ملک میں امن اور صلح کاری پھیلے اور تا لوگ یقین کریں کہ تو موجود ہے اور دعاؤں کو سنتا اور اُن کی طرف جو تیری طرف جھکتے ہیں جھکتا ہے.اب تیری طرف اور تیرے فیصلہ کی طرف ہر روز میری آنکھ رہے گی جب تک آسمان سے تیری نصرت نازل ہو.اور میں کسی مخالف کو اس اشتہار میں مخاطب نہیں کرتا اور نہ اُن کو کسی مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں.یہ میری دعا تیری ہی جناب میں ہے کیونکہ تیری نظر سے کوئی صادق یا کاذب غائب نہیں ہے.میری روح گواہی دیتی ہے کہ تو صادق کو ضائع نہیں کرتا اور کاذب تیری جناب میں کبھی عزت نہیں پاسکتا اور وہ جو کہتے ہیں کہ کاذب بھی نبیوں کی طرح تحدی کرتے ہیں اور ان کی تائید اور نصرت بھی ایسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ راستبا زنبیوں کی وہ جھوٹے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نبوت کے سلسلہ کو مشتبہ کر دیں بلکہ تیرا قہر تلوار کی طرح مفتری پر پڑتا ہے اور تیرے غضب کی بجلی کذاب کو بھسم کر دیتی ہے مگر صادق تیرے حضور میں زندگی اور عزت پاتے ہیں.تیری نصرت اور تائید اور تیرا فضل اور رحمت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے.آمین ثم آمین.المشتهر مرزا غلام احمد از قادیاں ۱۵ نومبر ۱۸۹۹ء تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۷ تا ۵۱۲) (نوٹ ) اس دعا کو پڑھیے یہ دعا جہاں ایک طرف اس بصیرت اور وثوق کو ظاہر کرتی ہے جو آپ کو اپنے مامور من اللہ ہونے پر ہے دوسری طرف آپ کی فطرت میں رحم کا جو جذ بہ ہے اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۰ حصہ پنجم خدا تعالیٰ کی مخلوق کو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے جو تڑپ اور جوش ہے، اس کا اظہار ہے آپ دنیا کی ہلاکت نہیں بلکہ نجات کے خواہش مند ہیں اس دعا میں اپنی ذات کے لئے کوئی امر مقصود نہیں بلکہ فرمایا کہ دیکھ میری روح نہایت تو کل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسے کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے میں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں 66 کو اختیار کریں اور جس کو تو نے بھیجا ہے اس کی تکذیب کر کے ہدایت سے دور نہ پڑ جائیں.“ اور پھر اس دعا کا مقصد مکرر بیان کیا کہ تو میرے لئے آسمان سے ان تین برسوں کے اندر گواہی دے تا ملک میں امن اور صلح کاری پھیلے اور تا لوگ یقین کریں کہ تو موجود ہے اور دعاؤں کو سنتا اور ان کی طرف جو تیری طرف جھکتے ہیں جھکتا ہے.کیسا پاک اور عظیم المرتبت مقصد ہے یہ مقصد عظیم بجز خدا تعالیٰ کے مامور کے کسی کا نہیں ہوسکتا.ان سے بڑھ کر کوئی شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہوتا اور ان کی خیر خواہی اس رنگ میں ہوتی ہے کہ وہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیں جو زندگی کا اصل مقصد ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن مجید شہادت دیتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴) کیا تو اپنی جان کو اس غم وہم میں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں مومن باللہ نہیں ہوتے.یہی روح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بولتی ہے اور وہ مخلوق کی ہدایت کے لئے بے قرار ہیں ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں.بدل در دے کہ دارم از برائے طالبان حق نے گردد بیان آن درد از تقریر کو تا ہم ترجمہ.وہ درد جو میں طالبانِ حق کے لئے اپنے دل میں رکھتا ہوں اس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۱ حصہ پنجم پھر اس دعا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ علی وجہ البصیرت یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان تین سال تک میں زندہ رہوں گا.ورنہ تین سال کی قید نہ لگاتے ایک عاجز انسان جو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی زندگی کا دوسرا سانس بھی لے گا یا نہیں جب تک خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی دی ہوئی بشارتوں پر یقین نہ رکھتا ہو اس طرح پر تعینمدت نہیں کر سکتا.ان تین سالوں میں جو نشانات آپ کی تائید میں ظاہر ہوئے ان کی تفصیل اس جگہ میرا موضوع نہیں مجھے صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے جو اس دعا سے ظاہر ہوتے ہیں.اوّل آپ کا خدا تعالیٰ سے تعلق اور قرب اور اس کے کلام پر کامل ایمان.دوم دعاؤں کی قبولیت کا یقین اور وثوق اور خصوصیت سے اپنے مستجاب الدعوات ہونے کا اقرار سوم آپ کے تو کل علی اللہ کا اظہار.چہارم دعاؤں میں آداب دعا کی معرفت جس کو مدنظر نہ رکھنے کی وجہ سے انسان خائب و خاسر ہو جاتا ہے.ہم اس امر کا تعین کہ صادق کبھی ضائع نہیں ہوتا.ششم اپنی بعثت و ماموریت پر یقین کامل.غرض اس دعا کے الفاظ میں آپ کی سیرت پر بڑی وسیع روشنی پڑتی ہے دن بھر کا تھکا ماندہ پرند کس شوق سے اپنے آشیانہ کی طرف رُخ کرتا ہے وہی شوق اور جوش آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات میں تھا.گویا آپ کا صبر و سکون باب رب العزت پر گرنے میں ہی تھا آپ کے دل کا اطمینان آپ کی تسلی و خوشی آپ کی راحت اور قوت کا سارا سامان خدا تعالیٰ کی آغوش میں تھا اور اللہ تعالیٰ کے نام سے آپ کی روح میں قوت پرواز پیدا ہوتی تھی اور وہ اس طرح پر اچھلتی تھی جیسے پانی ایک بلند چشمہ میں اُبلتا ہے اور آستانہ الوہیت پر اس طرح پر گرتی تھی جیسے پانی آبشار سے گرتا ہے اور آپ اس حالت میں اوپر ہی اوپر جاتے تھے.اگر حضرت مسیح موعود کو اپنے مامور من اللہ ہونے اور اس کلام کے متعلق جو آپ پر نازل ہوتا تھا ذرا بھی نعوذ باللہ شبہ ہوتا تو اپنے لئے اس قسم کی دعا نہ مانگتے.میں پہلے آپ کی ایک دعا درج کر آیا ہوں جس میں آپ نے بصورت مفتری علی اللہ ہونے کے تباہی و بربادی کی دعا کی تھی اور خدا تعالیٰ نے اس کے بعد اپنی برکات اور فضلوں کے سلسلہ کو اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۲ بھی وسیع کیا اور ہر میدان میں آپ کی تائید کی اور آپ کے دشمنوں کو خائب و خاسر کیا.اور اس دعا کے بعد ہی رحمت وفضل کے کثیر نشان ظاہر ہوئے وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ میں نے یہ دو دعا ئیں بطور نمونہ بیان کی ہیں ورنہ آپ کی تصنیفات میں بہت سی ایسی دعائیں ملتی ہیں اور ایک شریف النفس انسان ان کو پڑھ کر کانپ اٹھتا ہے وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَّشَآءُ.(۲۰۱۳) کافر کہنے والوں کے لئے دعا ( دشمنوں کے لئے جوش رحم ) اے خُدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا فدا مجھ کو دکھلا دے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبار خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز کام تیرا کام ہے ہم ہو گئے اب بے قرار اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کر میں سوچ اور بیچار گووہ کا فر کہہ کے ہم سے دُور تر ہیں جا پڑے انکے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار ہم نے یہ مانا کہ انکے دل میں پتھر ہو گئے پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید آیت لَا تَيْسُوا رکھتی ہے دل کو استوار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رپ ڈوالیکن یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کامیابی کا سب سے بڑا حر بہ آپ کا آستانہ الہی پر گر کر دعائیں کرنا ہے.جو انقلاب آپ کی بعثت نے پیدا کیا.یہ ان دعاؤں ہی کا ثمرہ ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کو دنیا میں آپ نے اس عہد الحاد میں جو آئینہ کر دیا اور ایک بصیرت افروز یقین اس پر پیدا کرایا وہ دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے آپ کو اپنی دعاؤں کی قبولیت پر اس قدر ناز تھا کہ آپ اپنے دشمن کو خطاب کر کے فرماتے؎ عمارت ہمہ دوناں خراب خواہم ساخت اگر ز چشم رواں آبشار خود بکنم و اور کبھی دنیا کی ہر قسم کی مصیبتوں اور مشکلات میں مبتلا لوگوں کو بشارت دیتے اور اپنے مقام کی ترجمہ.میں ان سب نالائقوں کی عمارت کو برباد کر کے رکھ دوں گا اگر میں اپنی آنکھوں سے ( آنسوؤں کا ) ایک چشمہ جاری کر دوں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۵۷۳ ہزار سرزنی و مشکلے نه گردد حل چو پیش او بروی کار یک دعا باشد غرض یہی ایک چیز ہے جو ہر مشکل کی کلید ہے اور ہر درد کی دوا ہے.اس لئے میں آپ کی دعاؤں کو بار بار پیش کر رہا ہوں کہ ہم خود دعاؤں کی عادت ڈالیں.اب آپ کی اس ایک دعا کو پڑھو جو منظوم ہے اس سے اس مقصد عالی کا پتہ چلتا ہے جو آپ لے کر آئے اور آپ کی فطرت میں جو کرم اور شفقت اپنے دشمنوں تک کے لئے تھی اس کا اظہار ہوتا ہے.آپ نے اپنے دشمنوں کے لئے بھی کبھی بددعانہیں کی یہاں تک کہ مباہلہ میں بھی اپنے لئے یہ دعا کی دوسرے کے لئے نہیں ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اس سے اُس رحم وکرم کا کچھ اندازہ ہوتا ہے جو آپ کی فطرت میں اپنے دشمنوں تک کے لئے تھا اور یہ رحم وکرم اور شان عفو و در گذر اسی رحم و عفو کا عکس ہے جو آپ کے مطاع علیہ الصلوۃ والسلام کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے ودیعت فرمایا تھا یہ واقعہ سب جانتے ہیں کہ باوجو یکہ مکہ کے کفار نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو مکی زندگی میں اس قدر دکھ دیا کہ اگر فتح مکہ کے بعد ان کو گولی سے اڑا دیا جاتا اور ان کے گوشت کا قیمہ کر کے کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا تو دنیا کی کوئی عدالت اسے خلاف انصاف قرار نہ دیتی مگر اس رَحْمَةٌ لِّلْعَالَمِین نے فرمایا.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - اور ان سب کو معاف کر دیا.وہی شان آپ کے اس رحم میں جلوہ گر ہے باوجود ان اذیتوں اور تکلیفوں کے برداشت کرنے کے ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور اسی دعا کو دہراتے ہیں جو آپ کے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کے لئے کی تھی.اے اللہ ! ان کو ہدایت دے وہ جانتے نہیں.یہی نہیں کہ اُن گالیاں دینے والوں کے لئے آپ دعا کرتے ہیں بلکہ یہی ہدایت اور تلقین اپنی جماعت کو بھی فرماتے ہیں.ترجمہ.تو ہزار کریں مارتا رہے مگر تیری مشکل حل نہیں ہوتی لیکن جب تو اُس کے سامنے جاتا ہے تو اُس کی ایک دعا کافی ہوتی ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۴ میں تمہیں کہتا ہوں کہ جب ایسی گالیاں اور ایسے اعتراض سنو تو غمگین اور دلگیر مت ہو کیونکہ تم سے اور مجھ سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کی نسبت یہی لفظ بولے گئے ہیں تو ضرور تھا کہ خدا کی وہ تمام سنتیں اور عادتیں جو نبیوں کی نسبت وقوع میں آچکی ہیں ہم میں پوری ہوں.اور پھر دوسرے مقام پر فرمایا گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو! حصہ پنجم اے مرے پیارو ! شکیب وصبر کی عادت کرو وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مُشک تثار نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دمار جس نے نفس دُوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفندیار کرکے گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار چُپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں رستم دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کر دیں حالِ زار دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو شدت گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے یہ خیال، اللہ اکبر، کس قدر ہے نابکار خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیس سے فرار پاک دل پر بد گمانی ہے یہ شقوت کا نشاں اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار (۲۱/۴) اپنی قوم کے لئے دعا ایک نبی ورسول کا چونکہ مقصد ایک قوم کی اصلاح ہوتی ہے.اس لئے قوم کی اصلاح کے لئے اس کا دل برف کی طرح پکھلتا ہے.کبھی وہ ان کو وعظ ونصیحت کرتا ہے.کبھی وہ ان کو انذاری
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۵ حصہ پنجم.پیشگوئیوں سے ڈراتا ہے اور کبھی بشارتوں کے وعدے دیتا ہے.اور کبھی خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور روتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں یہ سب نظارے موجود ہیں حضرت اقدس نے ہزار ہا مرتبہ آستانہ الہی پر بجز کے ساتھ سر جھکایا اور اپنی قوم کے لئے روروکر دعا کی.آج میں اس کا ایک منظر پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ یا اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اے سا رہاں جنگ کی مہار کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے خاک میں ہوگا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار فضل کے ہاتھوں سے اب اس وقت کر میری مدد کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر تانہ خوش ہود شمن دیں جس پہ ہے لعنت کی مار میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کوسن میں ہو گیا زار ونزار دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دینِ مصطفے مجھ کو کراے میرے سُلطاں کامیاب و کامگار کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مُراد یہ تو تیرے پر نہیں امید اے میرے حصار فضل کر اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سُن لے پکار قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار اب نہیں ہیں ہوش اپنے ان مصائب میں بجا رحم کر بندوں پر اپنے تا وہ ہوویں رستگار کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سُو ہر کنار ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا آ گیا اس قوم پر وقت خزاں اندر بہار نور دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہو گئی اپنی کجرائی پر ہر دل کر رہا ہے اعتبار جس کو ہم نے قطرۂ صافی تھا سمجھا اور تقی غور سے دیکھا تو کیڑے اس میں بھی پائے ہزار دوربین معرفت سے گند نکلا ہر طرف اس وبا نے کھالئے ہر شاخ ایماں کے ثمار اے خدا دن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح جل گیا ہے باغ تقویٰ دیں کی ہے اب اک مزار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۶ حصہ پنجم تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار اک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں اک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار تیرے مُنہ کی بھوک نے دل کو کیا زیر و زبر اے مرے فردوس اعلیٰ اب گرا مجھ پر شمار اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار اے میرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم تیری قدرت سے نہیں کچھ دور یہ پائیں سدھار كشتي اسلام بے لطف خدا اب غرق ہے اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش جس سے ہو جاؤں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار وہ لگا دے آگ میرے دل میں ملت کیلئے شعلے پہنچیں جس سے ہر دم آسماں تک بیشمار اے خُدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا خدا مجھ کو دکھلا دے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبار خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز کام تیرا کام ہے ہم ہو گئے اب بے قرار اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار کیسے پتھر پڑ گئے ہے ہے تمہاری عقل پر دیں ہے منہ میں گرگ کے تم گرگ کے خود پاسدار ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دین احمد پر تبر کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار کون سی آنکھیں جو اُس کو دیکھ کر روتی نہیں کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بے قرار کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک کیا یہ شمس الدیں نہاں ہو جائے گا اب زیر غار جنگ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا دل گھٹا جاتا ہے یارب سخت ہے یہ کا رزار ہر نبی وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر کر گئے وہ سب دعا ئیں بادو چشم اشکبار اَےخدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۷ حصہ پنجم جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے میں غریب اور ہے مقابل پر حریف نامدار دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر اے مری جاں کی پناہ فوج ملائک کو اُتار بستر راحت کہاں اِن فکر کے ایام میں غم سے ہر دن ہو رہا ہے بد تر از شب ہائے تار لشکر شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھر گیا بات مشکل ہو گئی قدرت دکھا اے میرے یار نسل انساں سے مدد اب سے مدد اب مانگنا بیکار ہے اب ہماری ہے تری درگاہ میں یارب پکار ان اشعار کو پڑھو اور پھر پڑھو.غور کرو اور سوچو کہ جس انسان کا یہ آئینہ ہو اس کے قلب کی کیا حالت ہوگی.(نوٹ ) اس دعائے منظوم کے ایک ایک شعر میں حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت و شمائل کے دفتر موجود ہیں سب سے بڑا غم اور سب سے بڑا فکر جو آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے وہ اسلام کی بے کسی اور امت مرحومہ کی حالت زار ہے.ایک دوسرے مقام پر اس ہم و غم کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں کیا ہے.(1) این دو فکرِ دین احمد مغز جان ما گداخت کثرتِ اعدائے ملت قلتِ انصارِ دیں (۲) اے خدا زود آ و بر ما آب نصرت با بیار یا مرا بر دار یارب زمیں مقام آتشیں (۳) اے خدا نور ہدگی از مشرق رحمت برار گر ہاں را چشم گن روشن ز آیات مبین (۴) چون مرا بخشیده صدق اندریں سوز و گداز نیست امیدم که ناکامم به میرانی در یں (۵) کاروبار صادقاں ہرگز نماند ناتمام صادقاں را دست حق باشد نہاں در آستیں ترجمہ اشعار.(۱) دین احمد کے متعلق ان دو فکروں نے میری جان کا مغز گھلا دیا اعدائے ملت کی کثرت اور انصار دین کی قلت.(۲) اے خدا جلد آ اور ہم پر اپنی نصرت کی بارش برساور نہ اے میرے رب اس آتشیں جگہ سے مجھ کو اٹھا لے.(۳) اے خدا رحمت کے مطلع سے ہدایت کا نور طلوع کر اور چمکتے ہوئے نشان دکھلا کر گمراہوں کی آنکھیں روشن کر.(۴) جب تو نے مجھے سوز و گداز میں صدق بخشا، تو مجھے یہ امید نہیں کہ تو اس معاملہ میں مجھے ناکامی کی موت دے گا.(۵) بچوں کا کاروبار ہر گز نامکمل نہیں رہتا.صادقوں کی آستین میں خدا کا ہاتھ مخفی ہوتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۸ حصہ پنجم دین احمد کی بے کسی اور تائید ونصرت ربانی کی تڑپ سے بے قرار ہو کر بار ہا اس قسم کی آہ و زاریاں اور دعائیں آپ نے رب کریم کے حضور کی ہیں اور اس حد تک گریہ وزاری کی کہ بعض اوقات آپ کا بستر تر ہو گیا چنانچہ فرمایا ہے رسد (۱) اے حسرت ایں گروہ عزیزاں مرا ندید وقتے به بیندم که ازین خاک بگذرم (۲) گرخون شد است دل زغم و دردشان چه شد هست آرزو که سر برود هم در میں سرم (۳) ہر شب ہزار غم به من آید دردِ قوم یارب نجات بخش از یں روز پُر شرم (۴) یا رب بآب چشم من این کسل شان بشو کامروز ترشد است ازین درد بسترم (۵) دریاب چونکہ آب ز بیر تو ریختیم دریاب چونکه جز تو نماند است دیگرم (۶) تاریکی عموم بآخر نمی ایں شب مگر تمام شود روز محشرم (۷) دل خون شد است از غم این قوم ناشناس و از عالمان سج که گرفتند چنبرم الحاصل آپ کے کلام کو پڑھا جائے تو ہر جگہ اسی دردو غم کا تذکرہ اور ان ہی افکار کا اظہار ہے.یہ دردو غم آپ کی اس محبت و شفقت میں پیدا ہوا جو بنی نوع انسان کی حقیقی بھلائی اور نجات کے لئے آپ کے دل میں تھا.ایک مفتری علی اللہ انسان ایک منصو بہ باز کبھی اس درد کو اپنے قلب میں پیدا نہیں کرسکتا.انبیاء علیہم السلام کی سیرت میں یہ ہی درد پا یا جاتا ہے اور یہ دردان کی فطرت میں ترجمہ اشعار.افسوس عزیزوں نے مجھے نہیں پہچانا یہ مجھے اس وقت جانیں گے جب میں اس دنیا سے گزر جاؤں گا (۲) اگر ان کے دردو غم کی وجہ سے میرا دل خون ہو گیا ہے تو کیا ہوا میری تو خواہش یہ ہے کہ اسی دُھن میں میرا سر بھی قربان ہو جائے (۳) ہر رات قوم کے درد سے مجھ پر ہزاروں غم وارد ہوتے ہیں اے رب مجھے اس شور وشر کے زمانہ سے نجات دے (۴) اے رب میرے آنکھ کے پانی سے ان کی یہ شستی دھوڈال کہ اس غم کے مارے آج میرا بستر تک تر ہو گیا (۵) میری داد کو پہنچ کیونکہ میں نے تیرے لئے آنسو بہائے ہیں میری فریادسن کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی نہیں رہا (1) غنموں کی تاریکی ختم ہونے میں نہیں آتی.یہ اندھیری رات تو شاید حشر تک لمبی چلی جائے گی (۷) اس ناقد ردان قوم کے غم سے میرا دل خون ہو گیا.نیز گمراہ عالموں کی وجہ سے جو میرے پیچھے پڑ گئے ہیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷۹ خمیر کیا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے اس حصہ میں جو شفقت علی خلق اللہ کا پہلو لئے ہوئے ہے یہ رنگ از بس نمایاں ہے.ایک مرتبہ ایک یادداشت میں لکھا.الْمَسَاجِدُ مَكَانِي وَ خَلْقُ اللَّهِ عَيَالِي یعنی میرا مکان مساجد ہیں اور اللہ کی مخلوق میرا کنبہ ہے اس سے شفقت عامہ کا کسی قدرا ندازہ ہوتا ہے الغرض اس منظوم دعا کے پڑھنے سے قارئین کرام پر بخوبی کھل جائے گا کہ جس قلب سے یہ دردناک صدا بلند ہورہی ہے وہ غم دین میں انہماک کے اعلیٰ مقام پر ہے اور دنیا میں تقوی وطہارت پیدا کرنے کے لئے بے قرار ہے کسی ایک جگہ میں اپنی ذات کے لئے اپنے نفس کے آرام و آسائش کے لئے دعا نہیں کی بلکہ اضطراب و اضطرار میں ہر آن بڑھتے چلے جاتے ہیں جس قدر دین کے مصائب اور اسلام پر اغیار کے حملے اور اپنوں کی بے رغبتی اور سہل انگاری کو دیکھتے ہیں یہ درد بڑھتا چلا جاتا ہے.ایک شخص نے اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک رات وہ آپ کے قریب سویا ہوا تھا اور رات کے کسی حصے میں اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ آپ نہایت بے قراری سے تڑپتے ہوئے ادھر سے اُدھر لوٹ رہے ہیں.وہ اس وقت سوء ادب کے خیال سے کچھ بول نہ سکا مگر دوسرے وقت جب اس نے واقعہ شب کو بیان کر کے پوچھا تو آپ نے اپنے دردو غم کی وجہ مصائب اسلام و ملت ہی کو بتایا.(۲۲/۵) اسی قسم کی کچھ اور دعائیں بغیر کسی قسم کے حاشیہ اور نوٹ کے میں چند دعائیں اور اسی قبیل کی درج کرتا ہوں.سخت شور اوفتاد اندر زمین رحم کن بر خلق اے جاں آفریں کچھ نمونہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوریٰ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۲۳/۶) دعا برائے نشان ۵۸۰ اک کرشمہ اپنی اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوری حق پرستی کا جاتا ہے نام اک نشاں دکھلا کہ حجت تمام (۲۴۱۷) لقاء اللہ کا جوش ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا ان اُس نے ہے کچھ دکھانا اس سے رجا یہی دو چار ہونا عزت ہے اپنی کھونا ان ہے سے ملاپ کرنا راہ ریا یہی ہے بس اے میرے پیارو! عقبی کو مت بسارو اس دیں کو پاؤ یارو بدر الدجی یہی میں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیده شاہد ہے آپ دیدہ واقف بڑا یہی ہے میں دل کی کیا سُناؤں کس کو یہ غم بتاؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے دیں کے عموں نے مارا اب دل ہے پارہ پارہ دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم اس یار کی نظر میں شرط وفا یہی ہے حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۱ برباد جائیں گے ہم گر وہ نہ پائیں گے ہم رونے سے لائیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں اب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے جلد آ پیارے ساقی اب کچھ نہیں باقی ہے دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے (۲۵/۸) عشق صادق ایک نور ہے اے میرے رب رحمن تیرے ہی ہیں احسان مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے اے میرے یار جانی! خود کر تو مہربانی ورنہ بلائے دُنیا اک اژدھا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے جلد آ مرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے منہ مت چھپا پیارے میری دوا یہی ہے کہتے ہیں جوشِ اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا دل پر مرے پیارے ہر دم ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر گھٹا یہی ہے جیتا ہوں اس ہوس سے میری غذا یہی ہے حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۲ معشوق دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا ہے تو میرا عشق صفا یہی ہے غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا سے سُنا کہ شرط مهر و وفا یہی ہے دلیر کا ورد آیا حرف خودی مٹایا جب میں مرا چلایا جام بقا یہی ہے کیا کروں کہ اُس نے مجھ کو دیا یہی ہے اس عشق میں مصائب سو سو ہیں ہر قدم میں پر حرف وفا نہ چھوڑوں اِس عہد کو نہ توڑوں اِس دلبر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں میرے گھر گھر دل ہو گئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے در پہ آتے شیخ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا یہی ہے دل ڈرتا نہیں کسی دلبر کی ره میں ہشیار ساری دُنیا اک باؤلا یہی اس رہ میں اپنے قصے تم کو میں کیا سُناؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے ہے سب ماجرا یہی ہے دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اک نظارہ دیوانه مت کہو تم عقل رسا یہی ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۳ اے میرے یار جانی! کر خود ہی مہربانی مت کهه که لن ترانی تجھ سے رجا یہی ہے فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جاں کنی ہے عاشق جہاں مرتے وہ تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیب ڈوری مجھ کربلا یہی ہے طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بلا یہی ہے میں وفا ہے پیارے بچے ہیں عہد سارے ہم جا پڑے کنارے جائے گا یہی ہے ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا تو فضل پر والا ہم پر ہے اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں کھلا یہی ہے کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں وہ جاں گزرا یہی ہے اک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا مجھ کو ہے سینہ دشمنوں کے پتھر پڑا یہی ہے اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دیکھا کچھ شعر سب جھوٹے دیں مٹا دیں مٹا دے میری دعا یہی ہے و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۴ (۲۶/۹) فارسی کلام میں سے کچھ اسی سلسلہ میں آپ کے فارسی کلام میں سے بھی کچھ نمونے اسی موضوع پر پیش کر دیئے جاتے ہیں.اے خداوند رہنمائے جہاں صادقاں را ز کا زباں برہاں آتش افتاد در جہاں ز فساد (۲۷/۱۰) امر فیصل کی دُعا الغیاث اے مغیث عالمیاں سے (1) اے خدا اے مالک ارض و ہے سما اے پناہ حزب خود در ہر بلا (۲) اے رحیم و دست گیر و رہنما ایکه در دست تو فصل است و قضا (۳) سخت شورے اوفتاد اندر زمین رحم گن برخلق اے جاں آفریں (۴) امر فیصل از جناب خود نما تا شود قطع نزاع و فتنه با لے ترجمہ اشعار.اے خدا تو دنیا کا رہنما ہے.( تیرے حضور میری دعا ہے ) کہ صادقوں کو کا ذبوں سے چھڑا دے.دنیا میں فساد کی آگ پھیل رہی ہے اے دنیا کے فریاد رس تجھ سے ہی فریاد ہے.(۱) اے زمین و آسمان کے مالک اے میرے خدا.تو ہی اپنے گروہ (حزب اللہ ) کی ہر بلا سے پناہ گاہ ہے.(۲) اے رحیم ، اے دستگیر ، اے رہنما.تیرے ہی قبضہ قدرت میں فصل اور قضا ہے.(۳) زمین میں سخت شور برپا ہے.اے جان آفریں اپنی مخلوق پر رحم فرما.(۴) اپنی جناب سے ایک فیصلہ کن امر نازل فرما.جس سے ہر قسم کے فتنے اور جھگڑے بند ہو جائیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۵ (۲۸/۱۱) رضائے الہی کی طلب (۱) گر خدا هیچ حیوانی از بنده خوشنود نیست چو (۲) گرسگ نفس دنی مردود نیست را پروریم از سگان کوچہ ہا ہم کمتریم (۳) اے خدا اے طالبان را رہنما ایکہ میر تو حیات روح (۴) بر رضائے خویش گن انجام し し تا برآید در رو عالم کام ما (۵) خلق و عالم جمله در شور و شراند طالبانت در مقام دیگر اند ول حصہ پنجم (۶) آں یکے را نور می بخشی واں دگر را می گذاری پا به گل (۷) چشم و گوش و دل ز تو گیرد ضیا ذات تو چشمه فیض و بدی ترجمہ اشعار.(۱) اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے خوش نہیں ہے.ایسے انسان سے بڑھ کر کوئی جاندار مردود نہیں.(۲) اگر ہم نفس دنی کے کتے کی پرورش کرتے رہیں.یقینا ہم گلیوں کے کتوں سے بدتر ہیں.(۳) اے خدا جو اپنے طالبوں کی رہنمائی کرتا ہے.اے خدا تو وہ ہے کہ تیری محبت ہماری روح کی زندگی ہے.(۴) اپنی رضا پر ہمارا انجام کر.دونوں جہانوں میں یہی ہمارا مقصد ہے اور وہ اس سے پورا ہو جائے گا.(۵) دنیا جہاں ایک شور وشر میں مبتلا ہے.( مگر میں جانتا ہوں) کہ تیرے طب گاروں کا مقام ہی دوسرا ہے.(۶) اس ایک (طالب خود ) کے دل میں تو ایک نور عطا کرتا ہے.اور وہ دوسرا ( جو رو بدنیا ہے ) کیچڑ میں پھنسا ہوا ہے.(۷) آنکھ کان اور دل تجھ ہی سے نور حاصل کرتے ہیں.تیری ہی ذات ہر فیض و ہدایت کا سرچشمہ ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۶ (نوٹ) اس دعا کے ایک ایک لفظ سے حضرت اقدس کے مقام عالی کا پتہ لگتا ہے کہ آپ کا مقصدِ زندگی خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہی کو آپ غذائے روح اور مایہ حیات یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اور تعلق باللہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے تمام اعضاء اور جوارح میں ایک نور پیدا کر دیتا ہے.( ۲۹/۱۲) عذاب الہی سے بچنے کی دعا انبیاء علیہم السلام کی سیرت و فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہمیشہ پناہ مانگتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قہری تجلیات کے آثار دیکھ کر بے قرار ہو جاتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی پاک سیرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ سخت آندھی آتی تو آپ گھبراتے اور دعا میں مصروف ہو جاتے اس لئے کہ یہی صرصری ہوا پہلے ایک قوم پر عذاب کی صورت میں آچکی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ایک زلزلہ عظیمہ کی خبر دی آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اس دعا میں ایک خاص رنگ ہے.پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن زلزلہ کیا اس جہاں سے کوچ کرجانے کے دن تم تو ہو آرام میں پر اپنا قصہ کیا کہیں پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت گھبرانے کے دن کیوں غضب بھڑ کا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو! ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن غیر کیا جانے کہ غیرت اس کی کیا دکھلائے گی خود بتائے گا انہیں وہ یار بتلانے کے دن ہ چمک دکھلائے گا اپنے نشاں کی پنج بار خدا کا قول ہے سمجھو گے سمجھانے کے دن وہ یہ حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۷ طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دکھلانے کے دن وہ گھڑی آتی ہے جب عیسی پکاریں گے مجھے اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن اے میرے پیارے! یہی میری دعا ہے روز و شب ، گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دل کھانے کے دن رکرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں فضل کا پانی پلا اس آگ برسانے کے دن اے مرے یار یگانہ! اے مری جاں کی پناہ! کر وہ دن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن پھر بہار دیں کو دکھلا اے مرے پیارے قدیر! کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سُورج دکھا اس دیں کے چپکانے کے دن دل گھٹا جاتا ہے ہر دم جاں بھی ہے زیر و زبر اک نظر فرما کہ جلد آئیں تیرے آنے کے دن چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے کیا میرے دلدار تو آئے گا مر جانے کے دن حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۸ ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آ مرے اے ناخدا آگئے اس باغ پر اے یار مُرجھانے کے دن تیرے ہاتھوں سے میرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ دیں میت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن اک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں دل چلا ہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دن میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا کچھ اثر آ گئے ہیں اب زمیں پر آگ بھڑکانے کے دن جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے طور دُنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دن چاند اور سورج نے دکھلائے ہیں دو داغ کسوف پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب تھرانے کے دن کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا لرزہ آیا اس زمیں پر اُس کے چلانے کے دن صبر کی طاقت جو تھی مجھ میں وہ پیارے اب نہیں میرے دلبر اب دکھا اِس دل کے بہلانے کے دن دوستو اُس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸۹ پر ہے دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر در پیش یہی ہیں دوستو اُس یار کے پانے کے دن دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں پر شور ہے اب گیا وقت خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں اب تو ہیں اے دل کے اندھو دیں کے گن گانے کے دن خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے ہو بغض و کہیں سے وقت اب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو! یہ پچھتانے کے دن (۳۰/۱۳) انعامات الہیہ کا شکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ہمیشہ شکر کرتے اور اس کی قدرتوں اور اعجاز نمائیوں کے اظہار میں رطب اللسان رہتے.ذیل میں میں جو دعائیں درج کر رہا ہوں یہ آپ کی ایک طویل نظم کے اجزا ہیں.اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار رکس طرح تیرا کروں اے ڈوا لیکن شکر و سپاس بدگمانوں وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار سے بچایا بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ کر دیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۰ تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار اے مرے یار یگانہ اے مری جاں کی بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے غمگسار تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگہ میں بار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۱ اس قدر مُجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار ہو گئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثل غبار سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہر جا انتشار پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں تا وہ نخل راستی اس ملک میں لاوے ثمار لوگ سو بک بک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں رازدار ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران ونفع وعسر و ئیسر تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار جس کو چاہے تخت شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشان جس کو تو نے کردیا ہے قوم و دیں کا افتخار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ۵۹۲ فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار عزت و ذلت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کر دیا کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار تیرے اے میرے مُربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار بھاگیں ابتدا سے گوشئہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تا رد کروں حکم شہ ذی الاقتدار تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتواں و دلفگار دعوت ہر ہرزہ گو کچھ خدمت آساں نہیں ہر قدم میں کوہ ماراں ہرگزر میں دشت خار چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پکار اب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۳ (۳۱/۱۴) عشق و محبت الہی کے اثرات اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت نہیچ ہے فضل پر تیرے ہے سب جہد و عمل کا انحصار جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار چھٹ گئے شیطاں سے جو تھے تیری الفت کے اسیر جو ہوئے تیرے لئے ہے برگ و بر پائی بہار پیاسوں سے نکوتر تیرے مُنہ کی ہے پیاس جس کا دل اس سے ہے بریاں پاگیا وہ آبشار وہ تجھ کو جا ملا جس کو تیری دھن لگی آخر جس کو بے چینی ہے یہ وہ پا گیا آخر قرار عاشقی کی ہے علامت گرید و دامان دشت کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہو اشکبار تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نام اضطرار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۴ میں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے چل رہی ہے وہ ہوا جو رخنہ انداز بہار جفہ دنیا یہ یکسر گر گئے دنیا کے لوگ زندگی کیا خاک اُن کی جو کہ ہیں مُردار خوار دین کو دے کر ہاتھ سے دُنیا بھی آخر جاتی ہے کوئی آسودہ نہیں بن عاشق و شیدائے یار رنگ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار سو چڑھے سورج نہیں بن رُوئے دلبر روشنی یہ جہاں بے وصل دلبر ہے شب تاریک و تار اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بینظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام نقد پا لیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار کون ہے جسکے عمل ہوں پاک بے انوار عشق کون کرتا ہے وفا بن اُسکے جس کا دل فگار غیر ہو کر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اگل و شُرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۵ پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جُھک گئے وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانہ ناپائیدار جسکو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار منبروں ہر پر اُنکے سارا گالیوں کا وعظ ہے مجلسوں میں انکی ہر دم سبّ و غیبت کاروبار جس طرف دیکھو یہی دنیا ہی مقصد ہو گئی طرف اُس کے لئے رغبت دلائیں بار بار ایک کانٹا بھی اگر دیں کیلئے اُن کو لگے چیخ کر اس سے وہ بھا! بھاگیں شیر سے جیسے حمار ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں دیں کی کچھ پروا نہیں دنیا کے غم میں سوگوار لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار ( نوٹ ) اس نظم کا ایک ایک شعر حضرت کے اس عالی مقام کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کو حاصل ہے اور محبت و عشق الہی کی کیفیات اور تجلیات آپ کی عملی زندگی میں نمایاں نظر آتی ہیں وہ مصائب اور تکالیف جو آپ نے اندھی دنیا کے فرزندوں سے برداشت کیں وہ ایک داستان دردناک ہے جو خون سے لکھی گئی ہے مگر اُس جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلْلِ الْاَنْبِيَاءِ کی شان کو دیکھو کہ باوجود مصائب اور مشکلات کے طوفانوں کے وہ ایک چٹان کی طرح مضبوط کھڑے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اطاعت اور وفاداری کی شان جلوہ گر ہوئی آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ان اشعار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۶ سے روشنی پڑتی ہے میں ایک ایک شعر کی تشریح میں آپ کی زندگی کے واقعات کو دکھاتا اگر مجھے اس کتاب کے ضخیم ہو جانے کا خطرہ نہ ہوتا اور میں طوالت کی پرواہ بھی نہ کرتا اگر کاغذ کی نایابی اور گرانی ہمت کو نہ توڑ دیتی تاہم دانشمندوں اور فکر کرنے والوں کے لئے یہ ایک اشارہ کافی ہے.(۳۲/۱۵) زندگی کے حقیقی مقصد کے لئے التجا اے میرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو نیک دن ہو گا وہی جب تجھ پر ہوویں ہم شار جسطرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا رازدار نیک ظن کرنا طریق صالحان قوم ہے لیک سو پر دے میں ہوں اُن سے نہیں ہوں آشکار بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بد یا نیک مرد میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرہ وار ابن مریم ہوں مگر اُترا نہیں میں چرخ نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کارزار ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نے دیار مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۷ ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دُنیا میں گزرے ہیں امیر و تاجدار داغ لعنت طلب کرنا زمیں کا عز و جاہ ہے طلب جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار کام کیا عزت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض گر وہ ذلت سے ہو راضی اُس پر سو عزّت شار ہم اُسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہو گیا وہ نگار العالمیں چھوڑ کر دُنیائے دُوں کو ہم نے پایا دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش رب العا قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اترا مجھ میں یار دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر دوستی آ ملی اُلفت سے اُلفت ہو کے دو دل پر سوار دیکھ لو میل لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار کوئی ره نہیں نزدیک تر راہِ محبت سے طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار (۳۳/۱۶) جاودانی زندگی کی تڑپ اے عزیز و کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ ایک دن ہے غرق ہونا با دو چشم اشکبار جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں گلشن دلبر کی رہ ہے وادیء غربت کے خار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹۸ اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھا لے سارا بار تیری عظمت کے کرشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی تیری قدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار کام دکھلائے جو تو نے میری نصرت کے لئے پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار کس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا میں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں پر شار ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال وحسن میں جس نے اک چمکار سے مجھ کو کیا دیوانہ وار اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم تیری قدرت سے نہیں کچھ ڈور گر پائیں سُدھار (۳۴/۱۷) غم دین میں طلب جنون کشتی اسلام بے لطف خدا اب غرق ہے اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش جس سے ہو جاؤں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار وہ لگا دے آگ میرے دل میں ملت کیلئے شعلے پہنچیں جس سے ہر دم آسماں تک بیشمار اے خُدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا فدا مجھ کو دکھلا دے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پھر ۵۹۹ خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز کام تیرا کام ہے ہم ہو گئے اب بے قرار اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بیچار ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے بعد اس کے ظن غالب کو ہیں کرتے اختیار یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں تنگ ہو جائے مخالف پر مجال کارزار باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسی نے دی تھی محض عیسی کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزن دیوار سے لیک جب ڈر گھل گئے پھر ہو گئے شیر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے ب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمید وار (۳۵/۱۸) موجودہ عذاب کی پیشگوئی اور بچاؤ کی تدبیر ودعا نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن وہ تو اک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار اک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰۰ فاسقوں اور فاجروں پر وہ گھڑی دُشوار کچھ ہے جس سے قیمہ بن کے پھر دیکھیں گے قیمہ کا بگھار خوب کھل جائیگا لوگوں پہ کہ دیں کس کا ہے دیں پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہردوار وجی حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قسموں کی مار ہی ہو پر وہ نہیں رکھتا زمانہ میں نظیر فوق عادت ہے کہ سمجھا جائے گا روز شمار جو طاعوں ملک میں ہے اسکو کچھ نسبت نہیں اُس بلا سے وہ تو اک حشر کا نقش و نگار ہے وقت ہے تو بہ کرو جلدی مگر کچھ رحم ہو! شست کیوں بیٹھے ہو جیسے کوئی بی کر کوکنار پی تم نہیں لوہے کے کیوں ڈرتے نہیں اس وقت سے جس سے پڑ جائینگی اک دم میں پہاڑوں میں بغار وہ تباہی آئے گی شہروں پر اور دیہات پر مثل کوئی زینہار جس کی دنیا میں نہیں ہے ایک دم میں غم کدے ہو جائینگے عشرت کدے شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہو کر سوگوار وہ جو تھے اُونچے محل اور وہ جو تھے قصرِ بریں پست ہو جائینگے جیسے پست ہو اک جائے غار ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر.جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الہ پر ۶۰۱ خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں اُن کو جو جھکتے ہیں اس درگہ پہ ہو کر خاکسار یہ خوشی کی بات ہے سب کام اُس کے ہاتھ ہے وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمرزگار کب یہ ہو گا؟ خدا کو علم ہے پر اس قدر دی خبر مجھ کو کہ وہ دن ہوں گے ایام بہار پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار یاد کر فرقاں سے لفظ زُل ـتْ زِلُزَا ایک دن ہو گا وہی جو غیب لزَالَهَا ނ پایا قرار سخت ماتم کے وہ دن ہونگے مصیبت کی گھڑی لیک وہ دن ہونگے نیکوں کیلئے شیریں ثمار آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائینگے جو کہ رکھتے ہیں خُدائے ذوالعجائب سے پیار انبیاء سے بغض بھی اے غافلو! اچھا نہیں دُور تر ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار کیوں نہیں ڈرتے خدا سے کیسے دل اندھے ہوئے بے خدا ہرگز نہیں بدقسمتو! کوئی سہار نشان آخری ہے کام کر جائے مگر ورنہ اب باقی نہیں ہے تم میں اُمید سدھار آسماں پر ان دنوں قہر خدا کا جوش ہے کیا نہیں تم میں سے کوئی بھی رشید و ہونہار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰۲ اس نشاں کے بعد ایماں قابل عزت نہیں ایسا جامہ ہے کہ نو پوشوں کا جیسے ہو اُتار اس میں کیا خوبی کہ پیڑ کر آگ میں پھر صاف ہوں خوش نصیبی ہو اگر اب سے کرو دل کی سنوار اب تو نرمی کے گئے دن اب خدائے خشمگیں کام وہ دکھلائے گا جیسے ہتھوڑے سے کہار اُس گھڑی شیطاں بھی ہو گا سجدہ کرنے کو کھڑا دل میں یہ رکھ کر کہ حکم سجدہ ہو پھر ایک بار بے خدا اس وقت دنیا میں کوئی مامن نہیں یا اگر ممکن پھرتا ہے ہو اب سے سوچ لو راہِ فرار سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہر گھڑی آنکھوں کے آگے وہ زماں وہ روزگار گر کرو تو بہ تو اب بھی خیر ہے کچھ غم نہیں تم تو خود بنتے ہو قہر ڈوالمین کے خواستگار میں نے روتے روتے سجدہ گاہ بھی تر کر دیا نہیں ان خشک دل لوگوں کو خوف کردگار یا الہی اک نشاں اپنے کرم سے پھر دکھا گردنیں جھک جائیں جس سے اور مکذب ہوں خوار اک کرشمہ سے دکھا اپنی وہ عظمت کے قدیر جس سے دیکھے تیرے چہرے کو ہر اک غفلت شعار تیری طاقت سے جو منکر ہیں انہیں اب کچھ دیکھا پھر بدل دے گلشن و گلزار دشت خار حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰۳ زور سے جھٹکے اگر کھاوے زمیں کچھ غم نہیں پر کسی ڈھب سے تزلزل سے ہو ملت رستگار دین و تقوی گم ہوا جاتا ہے یا رب رحم کر بے بسی سے ہم پڑے ہیں کیا کریں کیا اختیار میرے آنسو اس غم دل سوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویراں ہے اور دنیا کے ہیں عالی منار دیں تو اک ناچیز ہے دنیا ہے جو کچھ چیز ہے آنکھ میں اُن کی جو رکھتے ہیں ذَر و عزّ و وقار جس طرف دیکھیں وہیں اک دہریت کا جوش ہے دیں سے ٹھٹھا اور نمازوں روزوں سے رکھتے ہیں عار جاه و دولت یہ زہریلی ہوا پیدا ہوئی موجب نخوت ہوئی رفعت کہ تھی اک زہر مار ہے بلندی شان ایزد گر بشر ہووے بلند فخر کی کچھ جا نہیں وہ ہے متاع مُستعار ایسے مغروروں کی کثرت نے کیا دیں کو تباہ ہے یہی غم میرے دل میں جس سے ہوں میں دلفگار اے مرے پیارے مجھے اس سیل غم سے کر رہا ورنہ ہو جائے گی جاں اس درد سے تجھ پر نثار نوٹ.مندرجہ بالا منظوم دعاؤں پر یک جائی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ کے قلب صافی میں بنی نوع انسان کی بھلائی اور غم گساری کے لئے کس قدر جوش ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلقات کس بلند مقام پر ہیں.حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰۴ اللہ تعالیٰ کی محبت اور ذات باری کے ساتھ وفاداری اس پر توکل کا جذبہ اس قدر غالب ہے کہ الفاظ اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتے.ان دعاؤں میں آنے والے عذابوں سے پناہ مانگی ہے وہ عذاب جن کی نظیر زمانہ سابقہ میں نہیں ملتی اور آج حرب عمومی نے اس تمام کیفیت کو جو آج چالیس سال پیشتر زلزلہ کے رنگ میں آپ پر واضح کی گئی تھی نمایاں کر دیا ہے ایک جاہل سے جاہل اور نجمی سے نبی انسان بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ کس قدر عظمت اور شان کے ساتھ یہ قہری بجلی ظاہر ہورہی ہے ان دعاؤں میں بعض عظیم الشان پیشگوئیاں بھی ہیں جن کو پورا ہوتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں مثلاً یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آپ نے اس عذاب کے اپنی زندگی کے بعد آنے کے لئے دعا کی ہے اور اس کی کامل تجلی آپ کے بعد ہو گی.چنانچہ فرماتے ہیں.اے مرے پیارے! یہی میری دُعا ہے روز و شب گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دل کھانے کے دن اور پھر ان دعاؤں پر غور و فکر کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قہری نشان اسلام کی ترقی اور شوکت و جلال کے لئے ایک پیش خیمہ ثابت ہوں گے جس جس قدر کوئی ان دعاؤں اور اشعار پر غور کرے گا اسی قدرحقائق اور علوم کا ایک سمندر موجیں مارتا ہوا اسے نظر آئے گا اور خلاصہ کے طور پر اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ شخص جس کے قلب سے یہ دعائیں نکل رہی ہیں وہ ایک عارف باللہ اور مزکی نفس وجود ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور نہایت قرب کا مقام رکھتا ہے اور اسے جو غم وفکر ہے وہ صرف اسلام کی ترقی اور دنیا کی فلاح کا فکر ہے وہ فلاح جو خدا تعالیٰ میں ہو کر ملتی ہے اور جو اسلام کی ہدایتوں پر عمل کرنے میں مخفی ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمُ حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۳۶/۱۹) اولاد کے حق میں دعائیں ہرانسان اپنی فطرت میں بقائے نوع کا جذبہ لے کر آتا ہے اور یہ ایک فطرتی اور طبعی تقاضا ہے لیکن انبیاء علیہم السلام اور ان کے خلفاء ونواب اور اولیاء وصلحائے امت کے اندر یہ جذ بہ دوسرے رنگ میں کارفرما ہوتا ہے جیسے ان کی زندگی بظاہر شان میں عام انسانوں کی ہی طرح ہوتی ہے اور باوجود اس کے بھی عوام سے ممتاز ہوتی ہے ان کی ہر حرکت وسکون ہر قول و فعل محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اولاد کے متعلق ان کی خواہش اور تمنا ئیں بقائے نام یا وارث جایداد کے مقاصد کو لئے ہوئے نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ ان علوم آسمانی اور مز کی انسان کے ورثاء کے لئے ہوتی ہیں جولوگوں کے نفوس کو پاک کرتے ہیں اور اُن پر اُن کی زندگی کے مقصد حقیقی کو پیش کر کے اُس کے حصول کے راستوں پر چلاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی کا ایک تھا زمانہ گوشہ نشینی میں گزرا ہے باوجود یکہ آپ کی شادی آغاز شباب میں ہو گئی تھی لیکن دو صاحبزادوں کے پیدا ہو جانے کے بعد آپ خلوت نشین ہو کر اہلی زندگی سے بالکل علیحدہ ہو چکے تھے اسی زمانہ میں خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نے آپ کی دوسری شادی کی بشارتیں دیں اور آپ ہی اس کے اہتمام و انصرام کا ذمہ لینے کی بھی بشارت دی اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ آنحضرت نے اس امت میں آنے والے مسیح موعود کے لئے شادی اور اُس شادی کی اولا د کو ایک نشان قرار دیا تھا.میں اس جگہ ان امور پر تفصیل سے نہیں لکھ سکتا جو صاحب چاہیں وہ سیرت حضرت ام المومنین کو پڑھیں جو عزیز مکرم محمود احمد عرفانی نے حال میں لکھی ہے.میں اولاد کے متعلق دعاؤں کو درج کرنے سے پہلے یہ ایک تمہیدی نوٹ ان دعاؤں کے سمجھنے اور غور کرنے کے لئے لکھتا ہوں اور وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ حضرت اقدس کے کلمات کا اقتباس دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کو واسطہ ٹھہرایا اور پہلے سے جو فر مایا گیا تھا کہ يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ یعنی وہ شادی کرے گا اور صاحب اولا د ہوگا.یہ اس لئے کہ مسیح موعود اشاعت ہدایت کے لئے آئے گا اور ایسے وقت میں جب کہ صلیب کا غلبہ ہوگا اور اسلام پر ہر قسم کے اعتراض ہورہے ہوں گے خود مسلمان رسمی طور پر مسلمان ہوں گے قرآن کریم کا علم اور اس کا عمل اٹھ گیا ہو گا.اس وقت خدا تعالیٰ مسیح موعود کو مبعوث کرے گا اور وہ احیاء اسلام کر کے ایک جماعت کی بنیا در کھے گا.اور اس کی اولاد کے ذریعہ حق کو غالب کرے گا اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانات سے زندہ ایمان پیدا کرے گا.اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں مختلف الفاظ اور مختلف رنگوں میں آپ پر ظاہر کیا کہ آپ کا قائم کردہ سلسلہ دنیا میں ترقی کرے گا اور کامیاب ہوگا اور آپ کے خاندان اور آپ کی مبشر اولاد کے ذریعہ سے حمایت اسلام کی جو بنیاد آپ رکھیں گے اس پر وہ عظیم الشان قصر تعمیر کرنے کے باعث اور موجب ہوں گے اور ایک بیٹا خصوصیت سے ایسا ہوگا کہ اس کا نزول گویا خدا کا نزول ہوگا.یعنی اس کے ذریعے سے حق ترقی کرے گا.اور اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہوگا یہاں تک کہ وہ اس وقت کو قریب کر دیگا جب کہ پرود بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اب میں پیشگوئیوں کو مختصر الفاظ میں دیدیتا ہوں اور بعد میں دعاؤں کو لکھوں گا.آنحضرت ﷺ نے بطور پیشگوئی فرمایا يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى حصہ پنجم وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ (مشكوة كتاب الفتن باب نزول عيسى عليه السلام ) ترجمہ.جب مسیح دنیا میں آئے گا تو شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولا د ہوگی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰۷ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پیشگوئی کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس پیشگوئی کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:.مسیح موعود کی خاص علامتوں میں سے یہ لکھا ہے کہ.....وہ بیوی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی.....یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل میں سے ایک شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں خبر آچکی ہے.“ حصہ پنجم (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۰۷ ۳۱۲۹.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲۰ و ۳۲۵) حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں ۱۸۸۱ء میں جب کہ اس دوسری شادی کے متعلق وہم و گمان بھی نہ تھا بلکہ آپ بعض اعراض اور امراض کی وجہ سے ضعیف اور کمزور تھے اور قریب ہی وہ زمانہ گذر چکا تھا کہ آپ پر مرض دق کا حملہ ہوا تھا اور فرماتے ہیں کہ باعث گوشہ گزینی اور ترک دنیا کے انتظامات تاہل سے دل سخت کا رہ تھا اور عیالداری کے وجہ سے طبیعت متنفر تھی اس حالت پر ملالت کے تصور کے وقت یہ الہام ہوا تھا.(۱) إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَسِيْنٍ - یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۰) (۲) الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ.ترجمہ.وہ خدا سچا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہارے نسب کو شریف بنایا.جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے.( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۷۲ ۲۷۳)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰۸ حصہ پنجم (۳) '' ایک مرتبہ مسجد میں بوقت عصر یہ الہام ہوا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کرونگا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی.اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے.66 (۴) هر چه باید نو عروسے را ہماں سامان کنم “ وانچه مطلوب شما باشد عطائے آن کنم اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے.چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی کا تعلق بخشا.اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے.یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا.جو دہلی ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی......اور جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہوگئی.......سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کر یگا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولا د پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی.اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۵) حمایت اسلام کی بنیاد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد سے ہوگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ سو کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہو گئی.چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جوان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی.اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“ (1) کثرت اولاد کی پیشگوئی حصہ پنجم تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۷۳ تا ۲۷۵) تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض اُن میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی اور اگر وہ تو بہ نہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۰ حصہ پنجم کریں گے تو خدا ان پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.“ ( تذکره صفحه ۱۱۲۰۱۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۹۶ طبع بار دوم ) (۷) مصلح موعود کی پیشگوئی یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام اولا دمبشر ہے اور ہر ایک ان میں سے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے ماتحت موعود ہے لیکن خصوصیت سے حضرت اقدس کو مصلح موعود ایک بیٹے کی بشارت دی گئی تھی اُس کا تذکرہ مختلف جگہ آپ کی تصانیف میں ہے مگر میں صرف بنیادی الہام درج کرتا ہوں.خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جَلَّ شَانُهُ وَ عَزَّ اسمه ( مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے یہ پایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا.تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تاوہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی ﷺ کو انکار اور تکذیب کی راہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۱ حصہ پنجم پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہم ہوگا اور دل کا حلیم.اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا لے (۱) یہ عبارت کہ خوبصورت پاک لڑکا...جو آسمان سے آتا ہے یہ تمام عبارت چند روزہ زندگی کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے.اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہو جاوے.اور بعد کا فقر مصلح موعود کی طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اس کی تعریف ہے.ہمیں فروری کی پیشگوئی دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی.جو غلطی سے ایک سمجھی گئی.اور پھر بعد میں.الہام نے اس غلطی کو رفع کر دیا.(مکتوب ۴ دسمبر ۱۸۸۸ء بنام حضرت خلیفة المسح اول) (ب) بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے.کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا.اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام بشیر ثانی بھی ہے.اور ایک الہام میں اس کا نام 66 ( سبز اشتہار صفحه ۲۱ حاشیه ) فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے.‘“ نوٹ.اس الہامی فقرہ کے مطابق مصلح موعود کی پیدایش سے پہلے اگست ۱۸۸۷ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا.جو چند روزہ زندگی گزار کر نومبر ۱۸۸۸ء میں اس دنیا کو چھوڑ گیا.اور اپنے خدا سے جاملا.اور اس پیشگوئی کے اس فقرہ کے مطابق کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئیگا.اس کے بعد وہ لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام اس پیشگوئی میں فضل رکھا گیا تھا.اور جس کا دوسرا نام الہام الہی نے محمود اور تیسرا نام بشیر ثانی بتایا تھا.اور جس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا تھا.آپ کی پیدائش ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی.اور ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب خلافت سے سرفراز فرمایا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - خاکسار مرتب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۲ حصہ پنجم اور وہ تین کو چار کر نے والا ہوگا ( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الاَوَّلِ وَالْآخِر مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں سے اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۹۵ ۹۶ طبع بار دوم ) ا (الف) خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ذریت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی.وہ آسمان سے اتریگا.اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دیگا.وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا.اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دیگا.فرزند دلبند گرامی ارجمند.مَّقْضِيًّا - مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه۱۸۰) (ب) ” ایک اولی العزم پیدا ہو گا.وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ تیری ہی نسل سے ہوگا.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۲ ۲۴۳) کے یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں.بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے.جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے.اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلی واولی و اکمل وافضل واتم ہے.کیونکہ مردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے...جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے.مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ واحسانه و برکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سو اگر چہ بظاہر یہ نشان احیاء موتی کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے.مُردوں کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے.اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے.مگر ان روحوں اور اس رُوح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.“ (اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ ء روز دوشنبه مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۹۹ ۱۰۰ اطبع بار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السا دوم ) ۶۱۳ جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں آپ کی سب اولا دمبشر اور موعود ہے یہاں تک کہ صاحبزادیوں کے متعلق بھی الہامات ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خدا تعالیٰ کی وحی نے جو انکشاف کیا وہ یہی ہے کہ آپ کی اولاد کے ذریعہ يُحْيِ الدِّينَ وَ يُقِيمُ الشَّرِيعَةَ (احیاء دین اور قیام شریعت) ہوگا اور قو میں ان سے برکت پائیں گی.پس اسی ایک مقصد کے زیر نظر آپ کی دعائیں اس اولاد کے متعلق ہیں.اب میں بغیر کسی مزید تمہید اور نوٹ کے ان دعاؤں کو لکھ دیتا ہوں اگر چہ آمین کا ہر شعر دعا ہے مگر میں بطور اقتباس کچھ اشعار لکھتا ہوں.حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۴ حضرت مسیح موعود کی اپنی اولاد کے متعلق دعائیں (منقول از در مشین) تو نے نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر احساں تیری ثنائیں گایا شکر صد ہے خدایا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْــحَـــــانَ مَنْ يَّرَانِـي تو یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں یہ میرے بار و بر ہیں تیرے غلام در ہیں سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي کر انکو نیک قسمت دے انکو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت دے رُشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے بندہ پرور کر ان کو نیک اختر رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج و افسر تو ہمارا رہبر، تیرا نہیں ہے ہے ہمسر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي شیطاں سے دُور رکھیو دور رکھیو اپنے حضور رکھیو جاں پر ز نور رکھیو دل پر سرور رکھیو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۵ ان پر میں تیرے قرباں! رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِـي میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در آئے لیکر امید بھاری یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا دن ہوں مُرادوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس کے ہیں دو برادر ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر کر فضل پہ یکسر رحمه رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر ان سے دُور یا ربّ دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۶ فضل کر کہ ہوویں نیکو گہر سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سُن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری اپنی پسند میں رکھیو سُن کر میری زاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے واحد و یگانہ اے خالقِ زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اقبال کو بڑھانا اب فضل لے کے آنا رنج سے بچانا دُکھ درد سے چھڑانا خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا! یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر یہ ہادیء جہاں ہوں یہ ہوویں نور یکسر ہر حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۷ یہ مربع شہاں ہوں یہ ہو دیں مہر انور یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي اہل وقار ہوویں فخیر دیار ہوویں پر ثار ہوویں مولی کے یار ہو دیں با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي حق مرے مولی مری اک دُعا تری درگاه میں عجز و ہے بکا ہے وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے ہے مری اولاد جو تیری عطا ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے عجب محسن ہے تو بَحْرُ الْآيَادِى ـحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِئُ رہیں خوشحال اور فرخندگی بچانا اے خدا بد زندگی وہ ہوں میری طرح دیں کے مُنادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي حصہ پنجم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۸ عیاں کر ان کی پیشانی اقبال نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دجال بچانا ان کو غم ނ بہر حال ہر نہ ہوں وہ دُکھ میں اور رنجوں میں پامال یہی امید ہے دل نے نے بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي حصہ پنجم دعا کرتا ہوں اے میرے یگانه آوے ان رنجوں کا زمانہ چھوڑیں وہ ترا آستانه مرے مولی ! انہیں ہر دم بچانا یہی امید ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي دیکھیں وہ زمانہ بے کسی کا جب ہو کا الم کا، بے بسی کا میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا آوے وقت میری واپسی کا بشارت تو نے پہلے ނ سنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي تیرے فضلوں کو کروں یاد خدایا تیرے بشارت تو نے دی اور پھر اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱۹ خبر مجھ کو تو نے بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي مری اولاد تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت ނ ہوا ہے حصہ پنجم پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دُور اُس مہ اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا اک دل کی غذا دی ہے فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي ( تشریحی نوٹ) میں نے اولاد کیلئے دعاؤں کے ابتدائی نوٹ میں بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شادی اور اس شادی سے اولا د ایک مبشر اور موعود اولاد تھی اور علم الہی میں وہ ایک ایسے خاندان کے بانی ہونے والے تھے جن کے ذریعہ اس نو روحق کی اشاعت ہوگی جو خود حضرت مسیح موعود لے کر آئے تھے اور اس طرح پر تکمیل اشاعت ہدایت کا ذریعہ ہونگے اسی لئے میں نے ان پیشگوئیوں کو جو اس شادی اور اولاد کے متعلق تھیں درج کر دیا ہے ورنہ ایک نادان کہہ اٹھتا کہ دعاؤں کو ان پیشگوئیوں سے کیا تعلق.اللہ تعالیٰ کی یہ دائمی عادت ہے کہ وہ اپنی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۰ حصہ پنجم جمالی اور جلالی صفات کی تجلی اپنے ماموروں کے ذریعہ دکھاتا ہے اس لئے وہ انذار و تبشیر کی دونوں صفات کے جامع ہوتے ہیں.پس یہ سمجھ لینے کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ اولا د مبشر اور موعود ہے اور اس میں ایک خاص وجود اور مصلح موعود ہے پھر اولاد کے حق میں دعاؤں کا راز بآسانی معلوم ہو جاتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام محض ایک انسان کی حیثیت اور انسان کے فطری جذبات کے ماتحت بھی اپنی اولاد کے اقبال و شکوہ کے لئے دعائیں کرتے تو بھی یہ جائز اور صحیح ہوتا لیکن یہاں اولاد کے لئے جو دعائیں ہیں وہ اس نوعیت کی نہیں اس مقصد کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور دین قویم کی عظمت کے قیام کیلئے ہیں اور اسی لئے ان دعاؤں میں جو اوپر درج کر آیا ہوں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا گیا ہے وہ وہی چیز ہے جس کے ذریعہ ترقی کر سکتا ہے.حضرت اقدس کی ایک ایک دعا وہی ہے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں میں فرمایا ہے میں بطور مثال کے ایک دو کا ذکر کرتا ہوں مثلاً آپ نے ایک دعا میں عرض کیا.کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس دعا میں ان کے متقی نیک دیندار رشید اور ہادی و مہدی ہونے کی دعا ہے اس کے ساتھ دولت کی بھی دعا ہے نادان کہے گا کہ مال و دولت میں دنیا کیلئے طلب ہے.یہ سراسر غلط ہے دنیا کے ہادی اور اشاعت دین کے مبلغ ہونے کے لئے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ان کی معاشی حالت اعلیٰ درجہ کی ہو علاوہ بریں خدا تعالیٰ نے جو بشارت دی تھی اس میں خصوصیت سے مصلح موعود کے متعلق فرمایا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۱ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا حصہ پنجم خدا تعالیٰ کے کلام میں جب یہ بشارت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ کی روح میں یہ جوش تھا کہ خدا کی باتیں پوری ہوں ورنہ اپنی ذات میں حضرت اقدس دنیا اور اس کی مالوفات سے بے نیاز تھے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں فرمایا کام کیا عزت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض گر وہ ذلت سے ہو راضی اس پہ سو عزت نثار ہم اسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہو گیا چھوڑ کر دنیائے دوں کو ہم نے پایا وہ نگار اسی طرح پر اولاد کے لئے آپ نے دعا کی کہ یہ مرجع شہاں ہوں ایک نادان دنیا طلبی کی دعا قرار دے سکتا ہے مگر حقیقت یہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو بشارت دی تھی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.تو یہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی دعا ہے آپ کی اولاد کے حق میں دعاؤں کو غور سے پڑھو اور بار بار پڑھو تو معلوم ہوگا کہ آپ نے اولاد کے لئے متقی.حق پر نثار ہونے والے.مولی کے یار.ہادی جہاں.بخت جاودانی اور فیض آسمانی پانے والے.رشید.معزز.شیطان کے تسلط سے محفوظ.قرب الہی پانے کی دعائیں کی ہیں اور بالآخر یہ دعا کی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا ہے وہ سب ان کو دے.اولاد کے متعلق دعاؤں کی حقیقت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب انسان ان مبشرات اور الہامات کو پڑھتا ہے جو اولاد کے متعلق حضرت مسیح موعود پر نازل ہوئے.ایک تاریک اندرون انسان جس پر تاریکی کے جذبات غالب ہیں وہ کینہ اور بغض کے بخارات سے متاثر ہو کر اعتراض کرتا ہے اس موعود اولاد میں سے ہر ایک کے متعلق جدا جدا مبشرات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے اور ان کی اولاد کے ذریعہ سے ایک عظیم الشان نسل کی بنیا درکھنے کا وعدہ فرمایا اور وہ دینیائی رہنمائی اور ہدایت کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں ، ان پر اعتراض براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہی نہیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی حملہ ہے.یہ محض خوش عقیدگی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۲ حصہ پنجم کی بات نہیں یہی حقیقت ہے ہاں وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کا سرے سے انکار کرتا ہے اس کا معاملہ الگ ہے لیکن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صادق اور خدا کا مامور ومرسل یقین کرتا ہے پھر اگر وہ اولاد کے متعلق اعتراض کرتا ہے تو وہ بد بخت ہے اولاد کے لئے دعاؤں میں ایک پہلو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا بھی ہے.آپ نے جب اولاد کے لئے مطہر، مزکی ، ہادی و رہنما اور متقی ہونے کی دعائیں کی ہیں تو اس سے آپ کے اس مقام کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے.جو تقرب الی اللہ طہارت نفس اور مہدی ہونے کا تھا.میں نے ان دعاؤں کو بھی بہت مختصر کر کے لکھا ہے ورنہ آپ کے کلام میں نظم و نثر میں ذریت طیبہ کے لئے دعاؤں کا بہت بڑا سلسلہ ہے اور آپ ان کو شعائر اللہ اور آیات اللہ یقین کرتے تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمُ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السا ۶۲۳ حصہ پنجم الہامی دعائیں اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعض ان دعاؤں کا ذکر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی تسلیم فرمائیں.یا د رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی یہی ایک سنت قدیم ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے انبیاء علیہم السلام اور مخلص بندوں کو بعض دعائیں بذریعہ وحی والہام تسلیم کرتا ہے اور ایسی دعا ئیں یقیناً قبولیت کا اثر لے کر آتی ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کی دعائیں موجود ہیں اور صحفِ سابقہ میں بھی وہ دعائیں ملتی ہیں جو ان نبیوں کو وقتاً فوقتاً بذریعہ وحی سکھائی گئیں.ان دعاؤں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوسکھائی گئیں بعض وہ دعائیں ہیں جو قرآن کریم میں بھی آئی ہیں اور بعض اُن کے سوا بھی ہیں.ان دعاؤں سے بھی حضرت اقدس کی پاکیزہ فطرت اور مطہر زندگی کا پتہ لگتا ہے اب میں بغیر کسی مزید توضیح و تمہید کے ان دعاؤں کو درج کرتا ہوں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ.(۱) طہارت باطنی کی دعا ۱۸۷۴ء کے قریب کی بات ہے کہ آپ نے ایک رویا میں مولوی عبد اللہ غزنوی کو دیکھا ( یہ رویا مفصل تذکرہ ص ۷ اپر در بیج ہے ) تین فرشتے آسمان سے اترے اور زمین پر مولوی صاحب موصوف کے ساتھ بیٹھ گئے تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے ان سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو اور آپ نے دعا کی ( جو الہاما اسی حالت رویا میں سکھائی گئی ) رَبِّ اذْهَبُ عَنِّى الرِّجْسَ وَطَهِّرُنِي تَطْهِيرًا ترجمہ.اے میرے رب مجھ سے ناپا کی کو دور رکھ اور مجھے بالکل پاک کر دے.حضرت فرماتے ہیں کہ وہی ایک رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوگئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی.تذکره صفحه ۲۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۴ نوٹ.یہ دعا جو الہامی دعا ہے آپ کی پاکیزہ فطرتی اور مطہر زندگی کا ثبوت ہے.(۲) ایک خطرناک مرض سے شفا پانے کی دُعا ۱۸۸۰ء کے قریب آپ قولنج زحیری میں مبتلا ہوئے اور سولہویں دن حالت سخت نازک ہوگئی تین مرتبہ بین سنائی گئی آپ فرماتے ہیں تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہو گا تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ (۳) ایک مدقوق کی صحت کے لئے دعا لالہ ملا وامل ساکن قادیان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اپنی جوانی کے ایام سے حاضر ہوتے رہے ہیں اور اس وقت تک زندہ ہیں وہ اسی عہد شباب میں سخت بیمار ہو گئے اور دق کا عارضہ سمجھا گیا وہ حضرت کی خدمت میں مضطرب ہو کر آیا اور بیقراری سے رویا.آپ کا دل اس کی عاجزانہ حالت سے پگھل گیا اور حضرت احدیت کے حضور آپ نے دعا کی اس دعا کے جواب میں یہ الہام ہوا قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَّسَلَامًا - (۴) جماعت مومنین کی دُعا رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَان - وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ وَسِرَاجًا مُّبِيرًا - اَمْلُو.( براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۴۲ حاشیه در حاشیہ نمبر.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۸) ( ترجمہ ) اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۵ سنی.جوایمان کی طرف بلاتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے.سو ہم ایمان لائے (ان تمام پیشگوئیوں کو تم لکھ لو.کہ وقت پر واقع ہوں گی ).(۵) برکات تامہ کی دعا پہلے اس سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدا تعالیٰ نے اس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُبَارَكًا حَيْثُمَا كُنْتُ یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر کہ ہر جگہ کہ میں بود و باش کروں برکت میرے ساتھ رہے.پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی.اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اوّل آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے.“ ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحہ ۶۲۱) (۶ تا ۱۲ ) رِبِّ اغْفِرْ وَارْحَمُ مِّنَ السَّمَاءِ.رَبُّنَا عَاجٌ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِى إِلَيْهِ.رَبِّ نَجِّنِي مِنْ غَمِّى إِيْلِى إِيْلَى لِمَا سَبَقْتَنِی - کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ.اے میرے رب میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر.ہمارا رب عاجی ہے (اس کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے ).جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بلاتے عاج کا لفظ یا تو جا میں سے اسم فاعل کا صیغہ ہے.جس کے معنی ہیں ایک طرف سے دوسری طرف رُخ پھیر لینا.پس اس صورت میں یہ مخالفین کے اعتراض کا جواب ہے کہ یہ منصب سادات میں سے کسی معروف و مشہور شخص کو ملنا چاہیے.اور عج کا اسم فاعل بھی ہو سکتا ہے جس کے معنے بلند آواز سے پکارنے کے ہیں.اور اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہمارا رب اپنے روشن نشانات کے ذریعہ سے بلند آواز کیساتھ دنیا کو اپنے داعی کی طرف بلا رہا ہے.خاکسار.مرتب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۶ ہیں ان سے اے میرے رب مجھے زنداں بہتر ہے.اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش.اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تیرے بخششوں نے ہم کو گستاخ کر دیا لے (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۲، ۶۶۳ حاشیه در حاشیه نمبر۴) (۱۳ تا ۱۶) مختلف دعائیں رِبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ مِّنَ السَّمَاءِ.رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرُا لُوَارِثِينَ.رَبِّ اَصلِحُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ.رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْن.ترجمہ.اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.اے میرے ربّ مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے.اے میرے رب امت محمدیہ کی اصلاح کر.اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.(۱۷) بعض بد زبان اقربا کے متعلق دُعا ( تذکره صفحه ۳۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء) فَغَلَّقْتُ الْاَبْوَابَ وَدَعَوْتُ الرَّبِّ الْوَهَّابَ.وَطَرَحُتُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَ خَرَرْتُ أَمَامَهُ سَاجِدًا......وَقُلْتُ يَارَبِّ يَارَبِّ انْصُرُ عَبْدَكَ وَاخْذُلُ أَعْدَانَكَ - اسْتَجِبْنِي يَا رَبِّ اسْتَجِبْنِي إِلَامَ يُسْتَهْزَأُبِكَ وَبِرَسُولِكَ.وَحَيَّامَ يُكَذِّبُونَ كِتَابَكَ وَيَسُبُّونَ نَبِيَّكَ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْثُ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ يَا مُعِيْنُ.پس میں نے دروازوں کو بند کر لیا اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دعا کی.....اور کہا کہ اے میرے رب ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور دشمنوں کو ذلیل اور رسوا کر.اے میرے رب ! میری لے یہ الفاظ بطور حکایت عن الغیر ہیں.جن میں بعض ناسپاس لوگوں کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جو شَرُّ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کا مصداق ہیں.وَاللهُ أَعْلَمُ.خاکسار مرتب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعائن اور اُسے قبول فرما.کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جاتارہے گا.اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بدکلامی کرتے رہیں گے.اے ازلی ابدی خدا! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں.(۱۸) رفع غم وعطائے بیکراں کی دُعا ( ترجمه عربی عبارت) قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي اذْهَبَ عَنِّى الْحَزَنَ و أَعْطَانِي مَالَمُ يُعْطَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِينَ.ترجمہ.تو کہہ کہ تمام تعریف اللہ کو ہے جس نے مجھ سے غم دور کر دیا.اور مجھے وہ کچھ دیا جو تمام مخلوقات میں سے اور کسی کو نہیں دیا.تذکرہ صفحہ ۱۷۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) (۱۹ تا ۲۲) رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى.رِبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ مِّنَ السَّمَاءِ.رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرًا لُوَارِثِينَ - رَبِّ اَصْلِحُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ.رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِين ترجمہ.اے میرے رب ! مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے.اے میرے رب ! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.اے میرے رب ! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے.اے میرے رب ! اُمت محمدیہ کی اصلاح کر.اے ہمارے رب ! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے.اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.(۲۴۲۳) حضرت ام المومنین کی صحت کی دعا حضرت ام المومنین علیها السلام کی طبیعت ۳ جنوری ۱۹۰۱ء کو کسی قدر نا ساز ہوگئی تھی.اس کے متعلق حضرت اقدس نے سیر کے وقت فرمایا کہ چند روز ہوئے میں نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۸ گھر میں کہا کہ میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی عورت آئی ہے اور اُس نے آ کر کہا ہے کہ تمہیں کچھ ہو گیا ہے." اور پھر الہام ہوا أَصِحُ زَوْجَتِي حصہ پنجم چنانچہ کل ۳ جنوری ۱۹۰۱ ء کو یہ کشف اور الہام پورا ہو گیا یکا یک بیہوشی ہوگئی اور جس طرح پر مجھے دکھایا گیا تھا اسی طرح ایک عورت نے آکر بتا دیا.“ الحکم جلد نمبر ۳ صفحه ۵.پر چه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء) " حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک روز اپنی اور سلسلہ عالیہ کے خاص دوستوں کی زیادتی عمر کے لئے دعا کی تو یہ مبشر الہام ہوا.رَبِّ زِدْنِي عُمُرِى وَفِي عُمُرِ زَوْجِيُ زِيَادَةً خَارِقَ الْعَادَةِ.یعنی اے میرے رب ! میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں خارق عادت زیادت فرما.(ایڈیٹر ) الحکم جلد ۵ صفحه ۱۳ - ۱۴- پرچه ۱۷ / اپریل ۱۹۰۱ء) رَبِّ اشْفِ زَوْجَتِي هَذِهِ وَاجْعَلْ لَّهَا بَرَكَاتٍ فِى السَّمَاءِ وَبَرَكَاتِ فِي الْأَرْضِ - اے میرے رب میری اس بیوی کو شفا بخش اور اسے آسمانی برکتیں اور زمینی برکتیں عطا فرما.(ترجمہ از مرتب ) ( تذکره صفحه ۵۰۹ مطبوع ۲۰۰۴ء) (۲۵) ایک بلا کے ٹلا دینے کی دُعا اے میرے قادر خدا اس پیالہ کوٹال دے کے 660 (۲۶) اے ازلی ابدی خدا بیٹریوں کو پکڑ کے (تذکر صحی ۳۸۲ مطبوع ۲۰۰۴ء) لے حضرت اُم المومنین علیھا السلام مراد ہیں.ایڈیٹر کے یہ الہام تذکرہ میں ان الفاظ میں مندرج ہے اے خدا اس پیالہ کو ٹال دے.“ ( تذکرہ صفحہ ۶۸۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲۹ حصہ پنجم (۲۷) رفع مرض کی دعا يَا حَفِيظٌ.يَا عَزِيزُ.يَا رَفِيقُ.رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا.“ تذکره صفحریم ۴۰ مطبوع ۲۰۰۴، بحواله البدر جلد نمبر ۳۵ صفحه ۲۸۰ و الحکم جلدے نمبر ۳۶ صفحه ۱۵) (۲۸) سلسلہ کی ترقی کی دُعا الہی ! میرے سلسلے کو ترقی ہو.اور تیری نصرت اور تائید اس کے شامل حال ہو.(۲۹) ایک اور رفع مرض کی دُعا ۲۷ جنوری ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس کے دائیں رخسارہ مبارک پر ایک آماس سا نمودار ہوا.جس سے بہت تکلیف ہوئی.حضور نے دعا فرمائی تو ذیل کے فقرات الہام ہوئے.دم کرنے سے فورا صحت حاصل ہوگئی.بِسْمِ اللهِ الْكَافِي بِسْمِ اللهِ الشَّافِى - بِسْمِ اللهِ الْغَفُورِ الرَّحِيمِ.بِسْمِ اللهِ الْبَرِّ الْكَرِيم - يَا حَفِيظٌ.يَا عَزِيزُ.يَا رَفِيْقُ يَا وَلِيُّ اشْفِنِي.( ترجمه از مرتب ) میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو کافی ہے.میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو شافی ہے.میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو غفور و رحیم ہے.میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو احسان کرنے والا کریم ہے.اے حفاظت کرنے والے.اے غالب.اے رفیق.اے ولی مجھے شفا دے.تذکره صفحه ۴۴۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۰ (۳۰) آیت اللہ کے لئے دعا رَبِّ أَرِنِي ايَةً مِّنَ السَّمَاءِ.إِكْرَامٌ مَعَ الْإِنْعَامِ - (ترجمہ) اے میرے رب مجھے آسمان سے ایک نشان دکھلا.اس نشان کے ظہور کے وقت خدا ایک عزت دے گا.جس کے ساتھ ایک انعام ہوگا.(۳۱) دشمن کی ہلاکت اور اپنی حفاظت کی دعا خدا قاتل تو باد مرا از دست تو محفوظ دارد (۳۲) مرض سے شفا کی دعا اشْفِنِي مِنْ لَّدُنْكَ وَارْحَمْنِي - ( ترجمہ ) مجھے اپنی طرف سے شفا بخش اور رحم کر.(۳۳) متفرق دعائیں حصہ پنجم ( تذکره صفحه ۵۲۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) رَبِّ لَا تُضَيِّعُ عُمُرِى و عُمُرَهَا وَاحْفَظْنِي مِنْ كُلِّ افَةٍ تُرْسَلُ إِلَيَّ.( ترجمہ ) اے میرے رب میری اور اس کی عمر کو ضائع نہ کر یو.اور مجھے ان تمام آفات سے محفوظ فرمائیو.(۳۴) عذاب کی پیشگوئی کے تاخیر وقت کی دعا ( تذکره صفحه ۵۲۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء) فرمایا آج زلزلہ کے وقت کے لئے توجہ کی گئی تھی.کہ کب آویگا.اسی توجہ کی ما تذکرہ میں یہ الہام یوں مندرج ہے.خدا قاتل تو باد ومرا از شر تو محفوظ دارد.ترجمہ.خدا تجھے تباہ کرے اور تیرے شر سے مجھے نگہ رکھے.تذکره صفحه ۵۵۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۱ حالت میں زلزلہ کی صورت آنکھوں کے آگے آگئی.اور پھر الہام ہوا.رَبِّ أَخْرُ وَقْتَ هَذَا یعنی اے میرے خدا! یہ زلزلہ جو نظر کے سامنے ہے.اس کا وقت کچھ پیچھے ڈال دے.قاعدہ نحو کے مطابق ھذا کی جگہ ھذہ چاہیے تھا.مگر اس جگہ ھذا سے مراد هذَا الْعَذَاب ہے.کیونکہ اصل غرض تو عذاب سے ہے.ورنہ زلزلے تو پہلے بھی آچکے ہیں.پھر بعد اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.رَبِّ سَلِّطْنِي عَلَى النَّارِ یعنی اے میرے خدا! مجھے آگ پر مسلط کر دے.یعنی ایسا کر کہ عذاب کی آگ میرے حکم میں ہو جاوے.جس کو میں عذاب دینا چاہتا ہوں.وہ عذاب میں گرفتار ہو.اور جس کو میں چھوڑ نا چاہوں وہ عذاب سے محفوظ رہے.( بدر جلد۲ نمبر ۱۳ مورخه ۲۹ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ.والحکم جلده انمبر اصفحہ۱) رَبِّ فَرِّقْ بَيْنَ صَادِقٍ وَّ كَاذِبٍ.أَنْتَ تَرَى كُلَّ مُصْلِحٍ وَّ صَادِقٍ یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا.تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے.تذکره صفحه ۵۳۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۳۵) رَبِّ أَرِنِي أَنْوَارَكَ الْكُلِّيَّةَ ( تذکر صفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۳۶) ترجمہ.اے میرے رب مجھے اپنے تمام انوار دکھا.إِنِّي أَنَرْتُكَ وَاخْتَرْتُكَ - ترجمہ.میں نے تجھے روشن کیا اور تجھے برگزیدہ کیا.تذکر صفحه ۳۹۴ مطبوع ۲۰۰۴ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۲ حصہ پنجم وَإِنَّهُ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَاءِ مَا يُرْضِيكَ - ترجمہ.اور آسمان سے ایک ایسا امر اترنے والا ہے جو تجھے خوش کر دے گا.تذکره صفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۳۷) خدا تمہیں سلامت رکھے.تذکره صفحه ۵۳۴، ۵۳۵ مطبوعه (۲۰۰۴ء) (۳۸) رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا - نہ چھوڑ.(ترجمہ از مرتب ) اے میرے رب ! زمین پر کافروں میں سے کوئی باشندہ (۳۹) رَبِّ احْفَظْنِى فَإِنَّ الْقَوْمَ يَتَخِذُونَنِي سُخْرَةٌ - تذکره صفحه ۵۷۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ترجمہ.اے میرے رب ! میری حفاظت کر کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے کی جگہ ٹھہرالیا.( تذکره صفحه ۵۷۸ مطبوع ۲۰۰۴ء) (٢٠) إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ - ترجمہ.بے شک اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اے اہل بیت تم میں سے ناپاکی کو دور کر دے.( تذکره صفحه ۵۸۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۴۱) اے میرے اہل بیت ! خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے.تذکره صفحه ۵۹۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۴۲) ☆ رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُم * ترجمہ.اے خدا ! ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں فیصلہ کر.ا تذکرہ میں یہ الہام دو جگہ پر مندرج ہے دونوں جگہوں پر الفاظ مختلف ہیں.جو یہ ہیں.رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِینَ.ترجمہ.اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.( تذکره صفحه ۳۷ و ۱۹۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۳ حصہ پنجم (۴۳) اے عبد الحکیم ! خدا تعالیٰ تجھے ہر ایک ضرر سے بچاوے.اندھا ہونے اور مفلوج ہونے اور مجزوم ہونے سے.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ عبدالحکیم میرا نام رکھا گیا ہے.فرمایا.) خلاصہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ ان بیماریوں میں سے کوئی بیماری میرے لاحق حال ہو کیونکہ اس میں شماست اعداء ہے.“ بدر جلد نمبر ۴۱ صفحه امورخها ا/اکتوبر ۱۹۰۶ء.واحکام جلد نمبر ۳۵ مورخه ۱ را کتوبر ۱۹۰۶، صفحه)) (۴۴) یا اللہ ! اب شہر کی بلائیں بھی ٹال دے.( تذکره صفحه ۵۹۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۴۵) اے ازلی ابدی خدا! مجھے زندگی کا شربت پلا.تذکر صفحه ۶۰۰ مطبوع ۲۰۰۴ء) (۴۶) یا اللہ رحم کر.(۴۷) اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویراں کر دی.تذکر و صفحه ۶۰۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) تذکره صفحه ۴۲۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۴۸) شریف احمد کی نسبت اس کی بیماری کی حالت میں الہامات ہوئے.عَمَّرَهُ اللَّهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَقُعِ ترجمہ.اس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ اُمید سے بڑھ کر عمر دے گا.أَمَّرَهُ اللهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَقُعِ.ترجمہ.اس کو یعنی شریف احمد کو اللہ تعالیٰ امید سے بڑھ کر امیر کرے گا.( تذکره صفحه ۶۰۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۴۹) رَبِّ أَخْرِجُنِي مِنَ النَّارِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَخْرَجَنِي مِنَ النَّارِ إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ اَقُوْمُ وَالُومُ مَنْ يَلُومُ وَأَعْطِيكَ مَا يَدُومُ وَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ إِلَى الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.ترجمہ.اے میرے رب مجھے آگ سے نکال.سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے آگ سے نکالا.میں رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۴ جو اُسے ملامت کرے گا اور تجھے وہ چیز عطا کروں گا جو ہمیشہ رہے اور وقت معلوم تک میں زمین پر رہوں گا.(۵۰) رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ - ترجمہ.اے میرے رب ! مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا.(۵۱) رَبِّ اجْعَلْنِي غَالِبًا عَلَى غَيْرِى ترجمہ.اے میرے رب ! مجھے میرے غیر پر غالب کر.تذکره صفحه ۶۱۳۶۱۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ( تذکره صفحه ۶۱۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ( تذکره صفحه ۶۱۴ مطبوع ۲۰۰۴ء) (۵۲) رَبِّ ارْحَمْنِي إِنَّ فَضْلَكَ وَرَحْمَتَكَ يُنْجِي مِنَ الْعَذَابِ - ترجمہ.اے میرے رب! مجھ پر رحم فرما.تحقیق تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں.یعنی تیر افضل اور تیری رحمت عذاب سے بچاتے ہیں.( تذکره صفحه ۶۲۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۵۳) یا اللہ فتح.تذکره صفحه ۶۲۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۵۴) يَا مَسِيحَ اللَّهِ عَدْوَانَا.ترجمہ.اے اللہ کے مسیح ہماری شفاعت کر.( تذکره صفحه ۶۳۵ مطبوع ۲۰۰۴ء) (۵۵) رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى.رَبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ مِّنَ السَّمَاءِ ترجمہ.اے میرے رب ! مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے.اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.( تذکره صفحه ۳۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۵۶) اسم اعظم ۶۳۵ رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے.اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کوچہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں.ایک اُن میں سے میری طرف آیا تو میں نے اُسے مار کر ہٹا دیا.پھر دوسرا آیا تو اُسے بھی ہٹا دیا.پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُر زور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا.میں نے اُس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں.میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا.مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا.اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي.(ترجمہ از مرتب ) اے میرے رب ! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما.) اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں جو کہ اُسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اُسے نجات ہوگی.تذکره صفحه ۳۶۴،۳۶۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۵۷) باطل کو کچل دینے کی دعا فَسَحْقُهُمْ تَسْحِيقًا ترجمہ.پس پیس ڈال ان کو خوب پیس ڈالنا.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۶ حصہ پنجم فرمایا.میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے.اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی.جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے.اور وہ دعا یہ ہے.يَارَبِّ فَاسْمَعُ دُعَائِي وَمَزِّقُ أَعْدَانَكَ وَأَعْدَائِي وَانْجِزُ وَعْدَكَ وَانْصُرُ عَبْدَكَ وَاَرِنَا أَيَّامَكَ وَشَهِّرُ لَنَا حُسَامَكَ وَلَا تَذَرُ مِنَ الكَافِرِينَ شَرِيرًا - اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے.پھر فرمایا.ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اُس کے ماموروں کی راہ میں جولوگ روک ہوتے ہیں ان کو ہٹا دیا کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں.ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح ان امور کو ظاہر تذکره صفحه ۴۲۶ ، ۴۲۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء) کر رہا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السا ۶۳۷ حصہ پنجم آخری بات الہامی دعاؤں کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے اور بعض دعائیں بِكَرَاتٍ وَ مَرَّاتٍ آپ پر وحی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ جن دعاؤں کو اپنے مامورین و مرسلین کی زبان پر جاری کرتا ہے وہ یقیناً قبولیت کے اثر کو لے کر آتی ہیں اور ان میں ان برگزیدوں کی زندگی کی تطہیر اور ان کی صداقت کے نشانات ہوتے ہیں.اگر ان الہامی دعاؤں میں سے ہر ایک پر تشریحی نوٹ لکھے جاویں یا ان کے شان نزول کے واقعات کو درج کر دیا جاوے تو یہ بجائے خود ایک ضخیم کتاب ہو جائے گی.سر دست میں اسے قارئین کرام کے لئے چھوڑ دیتا ہوں کہ اس پر غور کریں اور اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات میں ان پر تفصیلی بحث کرسکوں گا کیونکہ اس وقت ان واقعات اور ماحول کا تذکرہ لازمی ہوگا جن میں یہ دعا ئیں آپ پر وحی ہوئیں اور پھر جس عظمت وشان سے پوری ہوئیں.اس کا ذکر بھی لازماً آئے گا مجھے اعتراف ہے کہ میں نے بہت سی دعاؤں کو جو حضرت اقدس کی تالیفات، مکتوبات، اشتہارات میں ہیں کتاب کے حجم کے بڑھ جانے کے خطرہ سے چھوڑ دیا ہے اس لئے کہ کاغذ گراں ہی نہیں نایاب بھی ہے.میں نے اس خصوص میں ایک راستہ تیار کیا ہے تا کہ احباب حضرت اقدس کے کلام اور آپ پر نازل شدہ وحی کو غور اور فکر سے پڑھیں اور ان برکات سے متمتع ہوں جو ان میں رکھے گئے ہیں اور خصوصیت سے دعاؤں کے لئے ان کے قلوب میں ایک جوش اور تڑپ پیدا ہو اور اس ذریعہ سے وہ اپنی مشکلات کے حل کے لئے باہر جانے کی بجائے اپنی کوٹھڑیوں کے دروازے بند کر کے اپنے مولیٰ ہی سے کشور کار کی راہ پائیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳۸ اور اس طرح پر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ایک خاص محبت اور آپ کی اتباع کا جوش بھی پیدا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں کی طرف رہنمائی فرمائے.آمین (خاکسار عرفانی کبیر) حصہ پنجم