Language: UR
مصنفہ: حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ
لصلوة والسلام ارج موعد فخر قوم لیڈر حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی Publisher: M.M.TAHIR & AZHAR CHOUDHRY.BLOOR STE 507, MISSISSAUGA ONT 1470 - LUX IR6, CANADA
02
3 بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم دیباچه "سیرت مسیح موعود" پر لکھنا اور چند صفحوں پر قناعت کرنا لاریب تعجب انگیز بات ہے.اس نام کو سن کر بالبداہت ایک شخص کے خیال میں آئے گا کہ ایک کبیر اور ضخیم کتاب ہوگی.مگر اصل بات یہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا یا کہا ہے اس سے زیادہ نہیں کہ بہت لائق اور معنی آفریں دوستوں کے لئے ایک راہ تیار کی ہے ممکن ہے کہ کوئی زیادہ واقف اور عاشق اس سے بہتر اور صاف تر باتیں اس پاک اور اہم مضمون کے متعلق لکھ لینے پر قادر ہو جائے.یا پھر کبھی مجھے ہی توفیق مل جائے کہ میں اس مضمون کو مکمل کردوں.اس میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اپنے کچے وجدان اور ایمان اور واقعی تجربوں کا نچوڑ لکھا ہے.مجھے کامل یقین ہے کہ نہ میں نے خود دھوکا کھایا ہے اور نہ دوسروں کو دھوکا دینا چاہا ہے.مدت دراز کی تحقیق اور راستی کی تائید اور صبح اخوان نے مجھے مجبور کیا کہ قوم کی خدمت میں اس پیرایہ میں چند باتیں عرض کروں شاید کوئی رشید اس نور اور حق کی معرفت سے بہرہ مند ہو جائے جس کے لئے محض خدا تعالٰی کے فضل نے ہماری جماعت کو چن لیا.اس رسالہ کی تالیف سے میری اصلی غرض جو میرے ذرہ ذرہ وجود میں
خمیر کی گئی ہے اور جس کی اشاعت کے لئے میرے بال بال میں جوش ڈالا گیا ہے یہ ہے کہ میں یہ دکھا دوں کہ وہ شخص کیسا ہونا چاہئے جس کے ہاتھ میں ہم ایمان جیسی گرامی قدر امانت سپرد کریں.آج ہمارے پنجاب اور ہندوستان میں بہت سی گندیاں اور خدا نمائی کے مدعی ہیں.اور اس میں شک نہیں کہ ان کو انسانوں کی معقول تعداد کی دلربائی کا فخر بھی حاصل ہے.ایمن آباد کے متصل دھونکل ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں بے شمار لوگوں کا مجمع ہو جاتا ہے.اس لحاظ سے قریب ہے کہ غیر محققوں پر حق و باطل مشتبہ ہو جائے یا راہ حق کی تلاش کی پیچ دار مشکلات ان کو تلاش کی صعوبتوں کے مقابل پست ہمت اور بد دل بنا دیں.میں نے رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مد نظر رکھ کر اور اس کو بنا قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت لکھی ہے اور در حقیقت خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ ثابت کر دیا ہے کہ اس زمانہ میں امام حق اور ہادی اور مہدی ہمارے آقا و محبوب حضرت میرزا غلام احمد قادیانی ہیں.میں نے تکلف سے کوشش نہیں کی کہ خواہ نخواہ آپ کی سیرت کو نبی کریم است کی سیرت سے ملایا ہے بلکہ حقیقت الامر یہ ہے کہ ہمارے محبوب امام مہدی کی فطرت دست قدرت سے ایسی ہی بنائی گئی ہے کہ آپ سے اضطرار اوہی افعال و اقوال سر زد ہوتے ہیں جو آپ کے متبوع و مقتدا نبی کریم ﷺ سے ہوئے ہم مسلمانوں پر خدا تعالٰی کا بڑا فضل ہے.لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ الایہ کے منطوق نے ہمیں ان تمام پیچیدگیوں اور مذموم حیرتوں سے نکال دیا ہے جس میں اہل باطل
5 مبتلا ہیں.یسوع مسیح کا نہایت ناقص نمونہ- اخلاق میں.اعمال میں.معاشرت میں.سیاست میں غرض زندگی کے ہر شعبہ میں اضطرار : اس کا موجب ہوا کہ پادری خود نبی اور پیغمبر کی مسند پر غاصبانہ چڑھ بیٹھے اور مسیح یسوع کے نقصورا کی تلافی کی.ہمارے رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی انسان کی شگفتہ اور نشود نما یافتہ اور کامل مہذب زندگی کے ہر شعبہ کے لئے نمونہ بہم پہنچاتی ہے.ایک مصلح ایک قوم بنانے والا.ایک جنگی سپہ سالار - ایک غیر قوموں سے برتنے کے آداب کے معرفت کا خواہاں یا عارف ایک شوہر ایک باپ ایک عظیم الشان دوست ایک فیاض ایک جواد کریم ایک قادر علی الانتقام اور پھر عفو کر دینے والا.ایک جلیل القدر سلطان- ایک منقطع الی اللہ درویش غرض ہر ایک صاحب خلق مخربی آدم ﷺ کے پاک وجود میں کامل نمونہ پاتا ہے.راتاں بے بس یسوع مسیح میں ہم کسی خلق کا نمونہ پاسکتے ہیں جسے کسی انسانی خلق کے ظاہر کرنے کا کوئی موقعہ نہیں ملا.غرض رسول اللہ اللہ کے نمونہ نے ہمیں ہر قسم کی ظلمت کے نشیبوں سے نکال کر صاف فیصلہ اور نور کا بلند سطح پر پہنچا دیا ہے.اب ہمارے لئے کس قدر آسان بات ہے کہ ہر ایک پارٹی کے نذر کر اس کامل معیار پر کس لیں.سب سے بڑی بات حضرت رسول کریم ان کی زندگی کی جو آپ کی غرض اصلی اور آپ کی جان اور غذائے جان تھی بجز اس کے اور کیا تھی کہ آپ نے اپنا تمام وقت کلمتہ اللہ کی تبلیغ اور اعداء اللہ سے مقابلہ میں صرف کیا.قرآن کو پڑھ کر دیکھو کہ وہ باطل سے کیسی خوفناک
ٹکریں لگاتا ہے رسول الله ال اس کو عمل میں لا کر دکھانے والے تھے.اگر آپ کی سوانح سے کوئی واقف نہ بھی ہو جب بھی قرآن کے عمل سے پتا لگا سکتا ہے کہ کس قدر عظیم الشان کام آپ کے سپرد تھا.اور اس سے قیاس کر سکتا ہے کہ کس قدر آرام اور تن آسانی میں آپ کی زندگی بسر ہوتی ہوگی.اب اس وقت خدا تعالٰی کے لئے دیکھو کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے قدم بقدم کون شخص چل رہا ہے.کس نے آج عیسائیوں.آریوں.سکھوں جینیوں یہودیوں اور برہموں اور دہریوں پر اسلام کی حجت پوری کی ہے.اور کس نے از سر نو اسلام کو.قرآن کو.رسول کو.معجزات اور خرق عادات کو اپنے نمونوں سے زندہ کر کے دکھا دیا ہے.اور کس کے وجود میں ہم رسول خدا کے اخلاق و افعال کے نمونے پاتے ہیں.غرض میں نے ان چند اوراق میں باذن اللہ صاف نشان دے دیا ہے کہ خلافت اللہ کی مسند پر بیٹھنے کا استحقاق آج کس کو ہے.خداتعالی میری ناچیز کوشش کو قبول فرمائے آمین عبد الكريم قادیان ۲۶ جون ۱۹۰۰ء
7 بد الله الرحمن الرحيم زمانہ کے اندرونی مفاسد جو طبعاً ایک مصلح کے مقتضی ہیں اندرونی مفاسد قوم میں خداتعالی کی نسبت وہ اعتقاد جو تقویٰ اور خشیت پیدا کر سکے نہیں رہا.مقتدر اور قدیر اور منتظم اور علیم بذات الصدور اس کو ہرگز مانا نہیں جاتا.ورنہ اس قدر جسارت اور جرات گناہ پر کیوں ہو.اور دنیا میں جب کبھی گناہ اور شیطان کا زبردست تسلط ہوا ہے اور فسق وفجور نے دلوں اور سینوں کو سیاہ اور تباہ کیا ہے اس کا اصلی سبب یہی ہوا ہے کہ اللہ تعالٰی کے وجود کی نسبت حقیقی اور شرح صدر والا اعتقاد دلوں سے جاتا رہا.جس طرح وہ قرن جو رسول کریم ﷺ کی بعثت کا مستدعی اور مقتضی ہوا اپنے مفاسد کی وجہ سے چیخ چیخ کر مصلح کو بلاتا تھا اسی طرح یہ زمانہ بھی اپنی کھلی بے حیائی اور بے باکانہ بدکاری کی وجہ سے آج چلا چلا کر مجدد و مصلح کو بلاتا ہے.اور جس طرح اس وقت رسول کریم نے خدا دکھا کر مفاسد کی جڑ کائی آج بھی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ ایسے وجوہ اور اسباب بہم پہنچائے جائیں اور ایسی تدابیر بروئے کار لائی جائیں جو خدا کو گویا دکھا دیں اور اس کی زندہ اور مقتدر ہستی کا یقین دلادیں.سواب جیسے ایک مصلح کی ضرورت شدید ہے ویسے ہی وہ مصلح اس پالیہ اور
00 قوت کا ہونا چاہئے کہ اس میں خدا بینی اور خدا نمائی کی سب سے بڑی طاقت ہو.اور یہ قوت دو رنگ کی ہونی چاہئے یعنی ایک طرف تو وہ دلائل قویہ اور حج ساطعہ اور معارف یقینیہ سے قلوب کو مطمئن اور سیراب کر دے اور اس کے روح قدس سے بھرے ہوئے بیان اور زبان سے دل خود بخود بول اٹھیں کہ خدا ہے.اور سچائی کی روح ان میں نفخ ہو جائے اور ناگہاں ایک پاک تبدیلی ان میں پیدا ہو جائے.اور دوسری طرف قادرانہ پیشگوئیوں پر جو علم غیب اپنے اندر رکھتی ہوں قدرت رکھتا ہو.اور یوں غیب الغیب مقتدر ہستی کی خلافت کا واقعی طور پر سزادار ہو.اس وقت وہ در حقیقت رسول کریم کا پورا مظہر ہو گا.اور ایسے ہی لوگ حقیقتہ" زمانہ کو اپنے کامل نمونے سے درست کر سکتے ہیں.اس لئے کہ رسول کریم کو بھی ان ہی دو طاقتوں کے سبب سے پورا امتیاز ہے جہاں آپ نے قرآن کریم جیسی مدلل اور معقول علمی کتاب سے قلوب کو مسخر اور باطل کا معنوی استیصال کیا اس کے ساتھ بلا فصل قادرانہ پیشگوئی کی تصدیق میں مخالفوں کو صوری اور مادی ذلت بھی دکھائی.کیا ہی سچ کہا گیا ہے.نے علمش کسی رسید و نے شک کبر اگر ور زور متکبیرے یک طرف حیران از د شاہان وقت یک طرف مبهوت ہر دانشوری غرض اس وقت پھر وہی وقت آگیا ہے کہ اس رنگ وصفت کا مجدد و مصلح ہو.قوم میں سخت تفرقہ اور تفریق ہے.اس وقت ۷۲ فرقے نہیں بلکہ جتنے انسان ہیں ہر ایک بجائے خود ایک فرقہ ہے.خود رائی اور ذاتی اجتہاد کا یہ عالم ہے کہ ایک مولوی دوسرے مولوی کے نزدیک راستی سے دور اور خطا سے قریب ہے.دو مولوی ایک ہی شہر اور گاؤں میں اس طرح کارروائی کر رہے ہیں گویا دو الگ الگ مذہبوں
کے حامی اور مشیع ہیں.خدا تعالی کی کتاب اور سنت کی طرف پیٹھ دی گئی ہے.اور ہوا اور رسم اور عادت کی طرف بھی منہ کیا گیا ہے.رات دن ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق کے یوں درپے ہیں جیسے وہ کلاب جس میں تمارش واقع ہو جائے.بالکل دنیا اور جاہ کو اپنا قبلہ ہمت بنالیا ہے.خدا تعالی کی کلام اور سنت خیر الا نام سے یوں بازی کرتے ہیں جیسے بچے کھلونوں سے.اس کے علاوہ بڑے بڑے تفرقے وہابی اور مقلد اور شیعہ اور سنی کے قوم کی جان کو کھا گئے ہیں.اور گویا شہتیر چھت کے نیچے سے نکل گیا ہے اور قریب ہے کہ بڑی بھاری چھت سب کو نیچے دبا کر دار البوار میں روانہ کردے.اب وقت رہائی دے رہا ہے کہ کوئی مرد میدان ایسا ہو جو ان تفرقوں کو مٹائے.مقلدوں کے پیشوا اپنی کہہ رہے ہیں اور وہابیوں کے اپنی.اور وہ چند کس جنہوں نے ان اضداد کو جمع کرنا چاہا ان کی مثال ٹھیک وہی ہوئی.تو از چنگال گرم 1) ربودی چو دیدم واقبت خود گرگ بودی انہوں نے بجائے جمع کے اور پریشان اور بجائے مسلمان کے پکا بے ایمان کر دیا.سب سے بڑا بھاری مفسدہ جواب ایک ہونے نہیں دیتا اور ایک ہونے کے.بغیر فلاح وصلاح نہیں وہ یہی تفرقہ مذاہب و مشارب ہے.پس یہ بڑی ضرورت مصلح کی ہے کہ اپنی قوت قدسیہ سے ان خانہ برانداز تفرقوں کا ستیاناس کرے.امراء جو قوم کے پشتی بان ہو سکتے تھے اور ہونے چاہئے تھے وہ باسر ہم لہو ولعب میں مشغول اور اپنی ہی ہوا و ہوس اور کامرانیوں میں سراپا مستغرق ہیں.بڑے بڑے رئیں اور نواب فسق و فجور اور اشتغال بالمناہی کے سبب سے جو انا مرگ ہوئے اور جو باقی ہیں اکثر ان میں پابر کاب بیٹھے ہیں خدا کے دین کے اعلا کی فکر کسی کو
10 نہیں.غرض فقرا کا یہ حال.متوسطین کا وہ حال اور امراء اس رنگ کے.اب اگر پاک نفس مصلح کی ضرورت نہیں تو اور کب ہوگی؟ کام پڑا اور سب سے عظیم الشان مفسدہ صوفیوں اور سجادہ نشینوں کا مفسدہ ہے.قوم کی طرف سے لاکھوں روپے ان کے مصرف کے لئے دیئے جاتے ہیں اور وہ بھی اکثر ان میں سے امراء کی طرح فسق وفجور اور تن پروری اور خواب و خور میں منہمک ہیں.ان کو مطلق خبر نہیں کہ اللہ اور رسول کا فرمودہ کیا ہے.سنت کیا ہے بدعت کیا ہے.اپنے ہی تراشیدہ خیالات اور ادھر ادھر کی باتوں پر مائل ہو رہے ہیں.ایسے خطرناک مشرب اور مذہب نکالے اور ان پر سرنگوں ہو رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمانی ان پر دور سے دیکھ دیکھ کر ہنستی اور روتی ہے.گویا اسلام کے لیاس میں ہزاروں ہزار نئے مذہب نکلے ہوئے ہیں اور اس سے دشمنان دین کو دین حق پر اعتراض اور طعن کا پورا موقع بہتا ہے.ان لوگوں کو حس تک نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کی کیا حالت ہو رہی ہے اور اسلام کے بیرونی دشمن اسلام پر خوفناک حملے کر رہے ہیں اور تلے ہوئے ہیں کہ اس کا شہتیر ہی نکال ڈالا جائے.غرض قوم ان کی غفلت کی وجہ سے سخت تباہ ہو رہی ہے اور یہ زبان حال خدا سے چاہتی ہے کہ کوئی مصلح آئے.بیرونی دشمن کیا کیا نسب سے بڑا مفسدہ اور اصلی فتنہ نصارٹی کا ہے.اور یہ فتنہ کئی روپوں میں جلوہ ا گز ہو رہا ہے.سکولوں کے روپ میں ہزاروں ہزار اسلام کے بچوں کو مرتد اور ست اعتقاد اور کر رہا ہے.
11 " واعظوں اور منادوں کے رنگ میں سادہ دہقانوں اور گنواروں کو خراب کر رہا ہے.زنانہ واعظوں کے رنگ میں مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگا رہا ہے.مشن ہسپتال وہ کام کر رہے ہیں جو کسی چیر اور اکراہ نے دنیا میں وہ کام نہیں کیا.قحط کے دنوں میں ہزار ہا غریبوں اور مفلسوں کو روٹی دیگر بے راہ کیا جاتا ہے.س.حکام مجازی ہے رسوخ پیدا کر کے ہزاروں آدمی ان کے دباؤ کے نیچے آئے.اور مرتد ہوئے.ی.اخباروں.ماہواری رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ سے ہزاروں کو تباہ کیا جاتا ہے.کالج بادہ پرستی اور بے دینی پھیلانے کے عمدہ ذریعے ہیں.ان میں ایسے کورس اور تعلیمی کتابیں آئے دن مقرر کئے جاتے ہیں کہ ان میں سے بعض کا میلان قطعاً دہریت کی طرف ہوتا اور بعض صریحاً اسلام پر حملہ کرنے کی نیت سے لکھی گئی ہیں.اور چونکہ عملہ منتحسین کتب درسیہ میں مقتدر اعضا پادری ہوتے ہیں اس لئے وہ ایسی کتابوں کے انتخاب کو روا رکھتے ہیں.غرض ان کالجوں نے عجیب شتر مرغ کے رنگ کے آدمی دنیا کو دیئے ہیں جو نہ حقیقی فلاسفر ہیں اور نہ واقعی جاہل ہیں.ہاں اسلام کو بعضے علمی رانگ میں اور اکثر عملاً استخفاف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یورپ کے آزادوں اور بے یاکوں کی طرح مذہب حق اور شرائع حقہ کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے.اکثر پورے زندیق اور ایا حتی ہیں.ایک بے دین ایم اے جب فتق سے روکا گیا اور نکاح کے لئے اسے کہا گیا.فرانس کے زندوں کی طرح بول اٹھا کہ نکاح ایک خواہ مخواہ کی بندھن ہے.انسان آزاد ہے کتوں کی طرح جو چاہے کرے.
12 غرض کالجوں نے ایک خوفناک طاعون دنیا میں پھیلایا ہے رات دن کالجوں کے فرزند جواب دہی زمانہ کے میدان میں کارکن بھی ہیں دنیا دنیا پکارتے اور دنیا ہی کے لئے کمیٹیاں اور کانفرنسیں کرتے اور وام و ورم اور قدم دنیا ہی کے لئے اٹھاتے اور خرچ کرتے ہیں اور دین کے نام پر غیظ و غضب میں آجاتے ہیں.ان کا فلسفہ اور طبعی اور سائنس ان سب مفاسد کی جڑ ہے.اب ایسے مصلح کی ضرورت ہے جو ان علوم باطلہ کی جگہ علوم حقہ کو ممکن کر سکے.کچہریاں، مقدمہ بازی نے راست بازی تقوی.دیانت امانت اور اخوت اور ہمدردی ان سب اخلاق فاضلہ کا خون کردیا ہے اور گھر گھر اور کوچہ کوچہ اور گاؤں گاؤں اور شہر شہر میں بنی آدم کے لباس میں گرگ و پلنگ اور گیدڑ اور کتے پیدا کر دیئے ہیں.اپیل نویس اور عرضی تولیں عموماً وكلاء بیرسٹر مختار مقدمات کی ترغیب دیتے ہیں.ان صورتوں میں کہاں خدا کا خوف دلوں میں سائے.ہر ایک مکان میں مقدمہ بازی کے لئے رات دن جھوٹے منصوبے اور مشورے ہوتے ہیں اور دین اور کار دین معمل چھوڑا گیا ہے.ہوم اور محکمے خصوصاً تار ڈاک اور ریل کے محلے.ان میں کام کی وہ کثرت رکھی ہے کہ الامان.ایک آدمی وہاں رکھا گیا ہے جہاں تین آدمیوں کا کام ہے.اس کثرت کار اور شدت مصروفیت کی وجہ سے خدا کا خانہ پوری طرح مقبوض اور بھر دیا گیا ہے.دین کی ریاضت اور توجہ الی اللہ اور فرائض و مهمات دین کی بجا آوری کی فرصت کہاں.ریل کے محکمے نے خطرناک غفلت پیدا کی ہے اسٹیشن پر رات دن فرصت ہی نہیں ملتی.رات کو جاگنا اور دن کو کام کرنا گویا خدا کے قانون قدرت کے میلان کے خلاف جنگ کرنا مخلوق کو سکھایا جاتا ہے.پس یہ بڑا بھاری دجل ہے جس نے قوائے ایمانیہ کو قریباً بیکار کردیا ہے.
13 -۵- حکام اور سر بر آوردہ لوگوں کا عام میلان الناس على دين ملوكهم چونکہ حکام محض مادی اور دنیا ہی کے کپڑے ہیں اور خدا اور معاد سے ان کو ذرا بھی تعلق نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ رعایا پر بھی وہی اثر پڑے.لا جرم اکثر افراد رعایا کے سراسر کلاب الدنیا ہو گئے ہیں.دوسرا بیرونی دشمن آرید اس قوم نے بھی نصاری کی طرح اسلام پر حملے کئے ہیں اور ایسی گندی اور پلاک کتابیں اسلام کے خلاف شائع کی ہیں کہ ان کے پڑھنے سے غیور مسلمان کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.بہت سے مسلمانوں کے فرزند آریہ اور آریہ ذاق کے ہو گئے.ان کی طرف سے اخبار اور رسالے برابر شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں حضرت رسول کریم اور قرآن کریم کی توہین ہوتی ہے اور ہزاروں مسلمان جو سادہ اعتقاد ہیں انہیں پڑھ کر تباہ ہوتے ہیں.یہ لوگ چونکہ محکموں میں سر بر آوردہ ہیں اور گورنمنٹ کے مختلف محکموں میں عہدہ دار ہیں ان کے ہاتھوں سے مسلمان سخت بتائے جارہے ہیں.غرض ایک طوفان عظیم برپا ہے اور کشتی اسلام تلاطم میں ہے پس ضروری ہے کہ اس وقت مصلح آدے.والسلام عایز عبد الکریم ۱۸ ماه رمضان المبارک ۱۳۱۷
14 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت النعال العلامة السريع برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو حد سے زیادہ انتظار کی تکلیف دی اور عرصہ دراز تک اپنے محبوب و آقا کے کلمات طیبات کے سنانے اور اٹھی سلسلہ کی نسبت کچھ لکھنے سے قاصر رہا.ان خطوط کی رفتار چاہتی تھی کہ اس کی راہ میں کوئی روک نہ آئے مگر بہت سے نالاند - شید و امور ایسے پیش آگئے کہ لامحالہ وہ نظام ٹوٹ گیا.مگر میں اس سے خوش ہوں کہ میرا یہ خط احباب کو ایسا خوش کرے گا کہ وہ مافات پر متاسف نہ ہوں گے اور معا مجھے امید ہے کہ وہ اپنے ایک بھائی کے لئے درد دل سے دعا کریں گے جو وسعت بھر اسی ناک میں لگا رہتا ہے کہ کوئی سرور بخش راحت افزا چیز مل جائے تو دوستوں کی نذر کردے.مگر بعض ابتلا طبعا اس پر ایسے اوقات لے آتے ہیں کہ اس کے ہاتھ اور قلم میں منافرت واقع ہو جاتی ہے.برادران! میں نے اپنے کسی خط میں وعدہ کیا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اندرونی زندگی کے حالات و واقعات لکھوں گا.اس لئے کہ خدا تعالی کے خاص فضل نے مجھے کئی سال سے یہ موقع دے رکھا ہے کہ حضرت کے قرب وجوار کا نسبتاً مجھے بہت زیادہ فخر حاصل ہے اور علاوه بر ان خداوند حکیم نے مجھے دل بھی ایسا تیز حس اور نکتہ اس عنایت کیا ہے کہ میں کسی دیده و شنیدہ واقعہ کو جزوی ہویا کلی بے التفاتی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا.میرا جودت زا دل ہر امر میں ڈوب جاتا اور
15 اس کی تہ سے کام کی بات نکال لاتا ہے اور یہ بھی خاص فضل مجھ پر ہے کہ زندگی کی کثرت اور وحدت کی گھڑیوں میں نہ تو میں ہی کبھی اپنے دل کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہوں اور نہ میرے دل نے اپنی اصلی صورت اور حقیقی حقیقت کے خلاف کسی اور روپ میں کبھی میرے سامنے جلوہ افروزی کی ہے.اس در از تجریہ میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اندرونی و بیرونی معاملات میں جس قدر دیکھی ہے میں آرزو رکھتا ہوں کہ اسے بطور مصالح و مواد کے قلمبند کروں کہ ہر ایک تیز ذہن سلیم الفطرت نگار خانہ عالم کی سحر آفرینیوں کا شیدا اس مواد سے خود ایک مجسمہ یا تصویر تیار کرے اور پھر اس کے نقوش میں غور کرے کہ ایسی تصویر بجز منجانب اللہ انسان کے اور کس کی ہو سکتی ہے.اگرچہ سرسری نگاہ سے اوپری کی بات معلوم ہوئی کہ مومنین معتقدین سے یہ خطاب کیا تعلق رکھتا ہے اس لئے کہ انکا ایمان ایسی جزئیات اور تفاصیل سے مستغنی ہوتا اور ان کا عشق تو پکار پکار کر یہ پڑھتا ہے ع حاجت مشاطه نیست روئے دلارام را مگر جب میں اپنے نفس کو دیکھتا ہوں کہ اس علم بالجزئیات سے اس نے کیا کیا فائدے حاصل کئے اور یہ واقفیت منازل سلوک کے طے کرنے میں میری کس قدر مدد گار ہوئی ہے تو میری روح صبح اور ہمدردی کے جوش سے مجھے کشاں کشاں اس طرف لاتی ہے کہ ان بھائیوں کو بھی اس سے آگاہ کروں جنہیں خدا کی مشیت اور ارادہ نے ایسا موقع نہیں دیا جو محض فضل سے مجھے دیا ہے.اور میرا دلی اعتقاد ہے کہ میں اس تقریب سے ان بہت کی اندرونی اور معاشرتی خطرناک بیمایوں کے مجرب نسخے پیش کر سکوں گا جنہوں نے اکثر گھروں کو ان مکانوں کی طرح جن میں وق اور سل کی بیماری متوارث چلی آتی ہے بجائے راحت
16 بخش اور سرور افزامکان اور گھر ہونے کے ماتم کدے اور شیون سرا بنا رکھا ہے.اس بنا پر پہلے میں حضرت خلیفتہ اللہ کی معاشرت کی نسبت کچھ لکھتا ہوں اس لئے کہ سب سے بڑی اور قابل فخر اہلیت کسی شخص کی اس سے ثابت ہوتی ہے کہ اہل بیت سے اس کا تعلق اعلیٰ درجہ کا ہو اور اس کا گھر اس کی قوت انتظامی اور اخلاق کی وجہ سے بہشت کا نمونہ ہو جس کی بڑی بڑی تعریف یہی ہے کہ وہاں دلوں کی تپش اور جلن اور رنج اور کدورت اور غل اور حسد کے محرکات اور موجبات نہ ہوں گے.خدا تعالٰی کی حکیم کتاب میں آیا ہے.وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ اور اس حکیم کتاب کا عملی نمونہ ہمارے سید و مولی رحمتہ للعالمین ال فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے افضل اور خیرو برکت سے بھرا ہوا وہی ہے جس کی رفتار اپنے اہل سے خیر و برکت کی ہے.عرصہ قریب پندرہ برس کے گذرتا ہے جب سے حضرت نے بار دیگر خدا تعالٰی کے امر سے معاشرت کے بھاری اور نازک فرض کو اٹھایا ہے.اس اثنا میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو.کوئی بشر خیال کر سکتا ہے کہ ضعیف اور کم علم جنس کی طرف سے اتنے دراز عرصہ میں کوئی ایسی ادایا حرکت خلاف طبع سرزد نہ ہوئی ہوگی.تجربہ اور عرف عام گواہ ہے کہ خانہ نشین ہم پہلو کی طبعی اور جہالت سے کیسے کیسے رنج دہ امور کے مصدر ہوا کرتے ہیں.با ایں ہمہ وہ ٹھنڈا دل اور بہشتی قلب قابل غور ہے جسے اتنی مدت میں کسی قسم کی رنج اور تنفض عیش کی آگ کی آنچ تک نہ چھڑئی ہو.وہ کڑوا گوشت کا ٹکڑا جو تمام زہروں کا مخزن اور ہر قسم کے غل اور حسد اور کینہ اور عداوت کا مشاہر ہے اور جو اس عالم میں دوزخ در بغل ہے اگر کسی شخص سے قطعاً مسلوب نہ ہو چکا ہو اور خدائے قدوس کے دست خاص نے اس کا تزکیہ و تطہیر اور شرح صدر نہ کیا ہو تو خیال میں آسکتا ہے کہ اس پر پیچ و تاب اور آتش ناک
17 زندگی میں ایسے سکون اور وقار اور جمعیت سے زندگی بسر کر سکے؟ ایک ہی خطرناک اور قابل اصلاح عیب ہے جو سارے اندرونی فتنوں کی جڑ ہے.وہ کیا؟ بات بات پر نکتہ چینی اور چڑ.اور یہ عجیب ایسے منقبض اور تنگ دل کی خبر دیتا ہے کہ جس کی نسبت بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ اس عالم میں دم نقد دوزخ میں ہے.دس برس سے میں بڑی غور اور نکتہ چینی کی نگاہ سے ملاحظہ کرتا رہا ہوں اور پوری بصیرت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت اقدس کی جبلت پاک میں شیطان کے اس مس کا کوئی بھی حصہ نہیں.میں خود اپنے اوپر اور اکثر افراد پر قیاس کر کے کہہ سکتا ہوں کہ یہی اعتراض اور نکتہ چینی اور حرف گیری اور بات بات میں چڑ چڑا پن کی فطرت ہے جس نے بتوں کے آرام اور عیش کو مکدر کر رکھا ہے اور ہر ایک شخص جس کی ایسی طبیعت ہے اور قلیل اور بہت ہی قلیل ہیں جو اس عیب سے منزہ ہیں) اس کھا جانے والی آگ کے فوری اثر کو محسوس کرتا اور گواہی دے سکتا ہے کہ بالآخر یہی فطرت ہے جو تمام اخلاقی مفاسد کی اصل اصول ہے اور اس سے زیادہ خدا اور مخلوق کے حقوق کی تباہی کی بنیاد باہر ھنے والی کوئی شے نہیں اور بالآخر یہی تلخی آفرین طبیعت ہے جس نے اس عالم کو دار الکدورت اور بیت المحن بنا رکھا ہے.چنانچہ خدا تعالی کی کتاب حکیم نے جہاں چاہا ہے کہ اس دوسرے عالم کا دار السلام اور بیت السرور ہونا ثابت کرے اور اس کی قابل رشک خوشیوں اور راحتوں کا نقشہ بالمقابل اس عالم کے دکھائے ان الفاظ سے بہتر تجویز نہیں فرمائے.وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِّنْ عَل اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ یعنی بہشت میں وہ قوت ہی انسانوں کے سینہ ہے ہی نکال ڈالی جائے گی جو عداوتوں اور کینوں اور ہر قسم کے تفرقوں کی موجب ہوتی ہے.جس شخص میں اس
18 وقت وہ موجود نہ ہو ہم صاف کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسی عالم میں بہشت بریں کے اندر ہے.اور چونکہ یہ قوت ایک چشمہ کی طرح ہے اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ اور اخلاق کس پایہ اور کمال کے ہوں گے.اس بات کو اندرون خانہ کی خدمتگار عورتیں جو عوام الناس سے ہیں اور قطری سادگی اور انسانی جامہ کے سوا کوئی تکلف اور تصنع کی زیر کی اور استنباطی قوت نہیں رکھتیں بہت محمدہ طرح سے محسوس کرتی ہیں.وہ تعجب سے دیکھتی ہیں اور زمانہ اور اپنے اور اپنے گردو پیش کی عام عرف اور برتاؤ کے بالکل بر خلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں اور میں نے بارہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے که "مرجا نیوی دی گل بڑی مندا ہے " ایک دن خود حضرت فرماتے تھے کہ ”فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں " اور فرمایا و ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں." ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضرت اس بات سے بہت کشیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے".جن دنوں امرت سر میں ڈپٹی آتھم.مباحثہ تھا ایک رات خان محمد شاہ مرحوم کے مکان پر بڑا مجمع تھا.اطراف سے بہت سے دوست مباحثہ دیکھنے آئے ہوئے تھے.حضرت اس دن جس کی شام کا واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں معمولاً سر درد سے بیمار ہو گئے تھے شام کو جب مشتاقان زیارت همه تن چشم انتظار ہو رہے تھے.حضرت مجمع میں تشریف لائے.منشی عبدالحق صاحب لاہوری پٹنہ نے کمال محبت اور رسم دوستی کی بنا پر بیماری کی تکلیف کی
19 نسبت پوچھنا شروع کیا اور کہا آپ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے آپ کو چاہئے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال کریں اور ایک خاص مقوی غذا لارنا آپ کے لئے ہر روز طیار ہونی چاہئے.حضرت نے فرمایا ”ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پروا نہیں کرتیں." اس پر ہمارے پرانے موحد خوش اخلاق نرم طبع مولوی عبداللہ غزنوی کے مرید نشی عبدالحق صاحب فرماتے ہیں.واجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے.میرا یہ حال ہے کہ میں کھانے کے لئے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی مل جائے اور میرے کھانے کے اہتمام خاص میں کوئی سرمو فرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لے لیں." میں ایک طرف بیٹھا تھا منشی صاحب کی اس بات پر اس وقت خوش ہوا اس لئے کہ یہ بات بظاہر میرے محبوب و آقا کے حق میں تھی اور میں خود فرط محبت سے اسی سوچ بچار میں رہتا تھا کہ معمولی غذا سے زیادہ عمدہ غذا آپ کے لئے ہونی چاہئے اور ایک دماغی محنت کرنے والے انسان کے حق میں لنگر کا معمولی کھانا بدل ما ستحلل نہیں ہو سکتا.اس بنا پر میں نے نشی صاحب کو اپنا بڑا موید پایا اور بے سوچے سمجھے (در حقیقت ان دنوں الہیات میں میری معرفت ہنوز بہت سا درس چاہتی تھی) بوڑھے صوفی اور عبداللہ غزنوی کی صحبت کے تربیت یافتہ تجربہ کار کی تائید میں بول اٹھا کہ ہاں حضرت با منشی صاحب درست فرماتے ہیں.حضور کو بھی چاہئے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں.حضرت نے میری طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا ”ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پر ہیز کرنا چاہئے." اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے میں ذکی الحس آدمی اور ان دنوں تک عزت و ہے عزتی کی دنیا داروں کی عرفی اصطلاح کے قالب میں ڈھالنے اور اپنے تئیں ہر بات
20 میں کچھ سمجھنے اور ماننے والا میں خدا ہی خوب جانتا ہے کہ میں اس مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا.اور مجھے سخت افسوس ہوا کہ کیوں میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی بوڑھے تجربہ کار نرم خو صوفی کی پیروی کی.برادران! اس ذکر سے جسے میں نے نیک نیتی سے لکھا ہے میری غرض یہ ہے کہ اس انسان میں جو مجبولاً پاکیزہ فطرت اور حقوق کا ادا کرنے والا اور اخلاق فاضلہ کا معلم ہو کر آیا ہے اور دوسرے لوگوں میں جنہیں نفس نے مغالطہ دے رکھا ہے کہ وہ بھی کسی کی صحبت میں کوئی گھائی طے کر چکے ہیں اور ہنوز رہی اخلاق سے ذرہ بھی حصہ نہیں لیا بڑا فرق ہے.ہاں وہ بات تو رہ ہی گئی.اس بد مزاج دوست کا واقعہ سن کر آپ معاشرت نسواں کے بارے میں دیر تک گفتگو کرتے رہے اور آخر میں فرمایا "میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازه کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے.اور یا ایں ہمہ کوئی دلآزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نقلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے".کا مجھے اس بات کے سننے سے اپنے حال اور معرفت اور عمل کا خیال کر کے کس قدر شرم اور ندامت حاصل ہوئی بجز خدا کے کوئی جان نہیں سکتا.میری روح میں اس وقت میخ فولادی کی طرح یہ بات جاگزیں ہوئی کہ یہ غیر معمولی تقوی اور خشیت اللہ اور دقائق تقویٰ کی رعایت معمولی انسان کا کام نہیں ورنہ میں اور میرے امثال سینکڑوں اسلام اور اتباع سنت کے دعوئی میں کم لاف زنی نہیں کیا کرتے اور اس میں شک نہیں کہ متعمد بے باک اور حدود الہیہ سے متکبرانہ تجاوز کرنے والے بھی نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ قوت قدسیہ اور تیز شامہ ہمیں نہیں لی یا اور
21 عوارض کے سبب سے کمزور ہو گئی ہے.ہم بڑی سے بڑی سعادت اور اتقا اس میں سمجھتے ہیں کہ موٹے موٹے گناہوں اور معاصی سے بیچ رہیں اور بڑے ہی تین اور مرئی گناہوں کے مواد قائق معاصی اور مشبہات کی طرف ہم التفات نہیں کرتے.یہ خوردبین کامل ایمان اور کامل عرفان اور کامل تقوی سے ملتی ہے جو حضرت اقدس امام الزمان علیہ السلام کو عطا ہوتی ہے اور میں نے اس وقت لسان اور جنان کے بچے اتفاق سے کہا اور تسلیم کیا کہ اگر اور ہزاروں باہرہ حجتیں آپ کے منجانب اللہ ہونے پر جو آفتاب سے زیادہ درخشاں ہیں نہ بھی ہو تیں جب بھی یہی ایک بات کہ غیر معمولی تقوی اور خشیتہ اللہ آپ میں ہے کافی دلیل تھی.بڑے بڑے مرتاض صوفیوں اور دنیا وما فیہا سے دل برداشتگی اور واسوختگی کے اشعار ورد زباں رکھنے والے زاہدوں اور بڑے بڑے انتہائع کے مدعیوں اور علماء رسوم کو دیکھا گیا ہے کہ جلوت میں اپنائے دنیا کے حضور گریہ مسکین کی طرح بیٹھتے ہیں اور ہر ایک دیقہ کے بعد سر اٹھا کر اور سینہ ابھار کر ایک آہ سرد بھر دیتے ہیں اور مشتاقان سخن کے انتظار شدید کے بعد بھی زبان پاک کو کلام سے اگر چہ موزوں اور بر محل کیوں نہ ہو آلودہ نہیں کرتے گھر میں بد مزاج اور گرگ و پلنگ ہیں.ہندوستان میں ایک نامی گرامی سجادہ نشین ہیں لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں اور خدا کے قرب کا انہیں دعوئی بھی بڑا ہے ان کے بہت ہی قریب متعلقین سے ایک نیک بخت عورت کو کچھ مدت سے ہمارے حضرت کے اندرون خانہ میں رہنے کا شرف حاصل ہے.وہ حضرت اقدس کا گھر میں فرشتوں کی طرح رہنا نہ کسی سے نوک ٹوک نہ چھیڑ چھاڑ جو کچھ کہا گیا اس طرح مانتے ہیں جیسے ایک واجب الاطاعت مطاع کے امر سے انحراف نہیں کیا جاتا ان باتوں کو دیکھ کر وہ حیران ہو ہو جاتیں اور بارہا تعجب سے کہہ چکی ہیں کہ ہمارے حضرت شاہ صاحب کا حال تو سراسر اس کے خلاف ہے وہ جب باہر سے زنانہ میں آتے ہیں ایک ہنگامہ دست خیز برپا ہو جاتا ہے
22 اس لڑکے کو گھور اس خادمہ سے خفا اس بچہ کو مار بیوی سے تکرار ہو رہی ہے کہ نمک کھانے میں کیوں زیادہ یا کم ہو گیا یہ برتن یہاں کیوں رکھا ہے اور وہ چیز وہاں کیوں دھری ہے تم کیسی پھو ہر بد مذاق اور بے سلیقہ عورت ہو اور کبھی جو کھانا طبع عالی کے حسب پسند نہ ہو تو آگے کے برتن کو دیوار سے شیخ دیتے ہیں اور بس ایک کرام گھر میں بچ جاتا ہے.عورتیں بلک بلک کر خدا سے دعا کرتی ہیں کہ شاہ صاحب باہر ہی رونق افروز رہیں.غض بصر اور عفو اور چشم پوشی کے جزئیات بڑا لمبا مفصل مضمون چاہتے ہیں.موٹی سے موٹی سمجھ کی کام کاج کرنے والی عورتیں ایسا یقین اس بات پر رکھتی ہیں جیسے اپنے وجود پر کہ حضرت کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے.ہفتوں مہینوں اندر صحن میں پھرا کریں اور عورتوں کے مجمع میں سے ہر روز کیوں نہ گذرا کریں کبھی بھی آنکھ اٹھا کر کسی کی طرف نہیں دیکھتے ہمیشہ نظر بر پشت پا دوختہ رہتے ہیں.عجب سکون اور جمعیت باطن اور فوق العادۃ وقار اور علم ہے کہ کیسا ہی شور اور غلغلہ برپا ہو جائے جو عموماً قلوب کو پر کاہ کی طرح اڑا دیتا اور شور اور جائے شور کی طرف خوانخواہ کھینچ لاتا ہے حضرت اسے ذرہ بھر بھی محسوس نہیں کرتے اور مشوش الاوقات نہیں ہوتے.یہی ایک حالت ہے جس کے لئے اہل مذاق تڑپتے اور مالک ہزار دست و پا مارتے اور رو رو کر خدا سے چاہتے ہیں.میں نے بہت سے قابل مصنفوں اور لائق محرروں کو سنا اور دیکھا ہے کہ کمرہ میں بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں اور ایک چڑیا اندر گھس آئی ہے اس کی چڑچڑ سے اس قدر حواس باختہ اور سراسیمہ ہوئے ہیں کہ تفکر اور مضمون سب نقش بر آب ہو گیا اور اسے مارنے نکالنے کو یوں لپکے ہیں جیسے کوئی شیر اور چیتا پر حملہ کرتا یا سخت اشتعال دینے والے دشمن پر پڑتا ہے.ایک بڑے بزرگ صوفی صاحب یا قاضی صاحب کی بڑی صفت ان کے پیرو جب کرتے ہیں یہی کرتے ہیں کہ وہ بڑے نازک طبع ہیں اور جلد برہم ہو جاتے ہیں اور تھوڑی دیر آدمی ان کے پاس بیٹھے تو گھبرا جاتے ہیں
23 اور خود بھی فرماتے ہیں کہ میری جان پر بوجھ پڑ جاتا ہے.مدت ہوئی ایک مقام پر میں خود انہیں دیکھنے گیا شاید دس منٹ سے زیادہ میں نہ بیٹھا ہوں گا جو آپ مجھ سے فرماتے ہیں کچھ اور کام بھی ہے.اس میں شک نہیں کہ یہی جمعیت قلب اور کوہ وقاری اور ظلم اکسیر ہے جس میں ہو اور یہی صفت ہے جس سے اولیاء مخصوص اور میں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدس نازک سے نازک مضمون لکھ رہے ہیں یہاں تک کہ عربی زبان میں بے مثل فصیح کتابیں لکھ رہے ہیں اور پاس ہنگامہ قیامت برپا ہے بے تمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں چیخ رہی ہیں چلا رہی ہیں یہاں تک کہ بعض آپس میں دست و گریبان ہو رہی ہیں اور پوری زنانہ کر تو تیں کر رہی ہیں.مگر حضرت یوں لکھے جا رہے ہیں اور کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں یہ ساری لا نظیر اور عظیم الشان کتابیں عربی اردو فارسی کی ایسے ہی مکانوں میں لکھی ہیں.میں نے ایک دفعہ پوچھا اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی.مسکرا کر فرمایا میں سنتا ہی نہیں تشویش کیا ہو اور کیونکر ہو.ایک دفعہ کا ذکر ہے محمود چار ایک برس کا تھا حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک قول بھی تھا پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت میں مصروف ہیں سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو سیاق عبارت کو ملانے کے لئے کسی گذشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی.اس سے پوچھتے ہیں خاموش اس سے پوچھتے ہیں دیکا جاتا ہے.آخر لکھنے ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دئیے عورتیں بچے اور گھر کے
24 لوگ حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہوگا.اور در حقیقت عادتا ان سب کو علی قدر مراتب بری حالت اور مکروہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہئے تھا مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں خوب ہوا اس میں اللہ تعالی کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالی چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے.اس موقع پر بھی ابنائے زمانہ کی عادات سے مقابلہ کئے بغیر ایک نکتہ چیں نگاہ کو اس نظارہ سے واپس نہیں ہونا چاہئے.ایسا ہی ایک دفعہ اتفاق ہوا جن دنوں حضرت تبلیغ لکھا کرتے تھے مولوی نور الدین صاحب تشریف لائے حضرت نے ایک بڑا بھاری دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغت خداداد پر حضرت کو ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کے لئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیئے مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی واپسی پر کہ ہنوز راستہ ہی میں تھے مولوی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں مولوی صاحب کے ہاتھ سے وہ مضمون گر گیا واپس ڈیرہ میں آئے اور جیٹھ گئے حضرت معمولاً اندر چلے گئے میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرتا ہے.مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں کو دوڑایا کہ نہیں پکڑیو، لیکیو کانز راہ میں گر گیا.مولوی صاحب اپنی جگہ بڑے بخل اور حیران تھے کہ بڑی خفت کی بات ہے حضرت کیا کہیں گے یہ عجیب ہوشیار آدمی ہے ایک کاغذ اور ایسا ضروری کاغذ بھی سنبھال نہیں سکا.حضرت کو خبر ہوئی معمولی ہشاش بشاش چهره تقسیم ریز لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر دوارو اور تکاپو کیوں کیا گیا میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر ہمیں عطا فرما دے گا.برادران ! ان سب باتوں کی جڑ خدائے زندہ اور قادر کی ہستی پر ایمان ہے یہ
25 ایمان ہر وقت قومی کو زندہ اور تازہ رکھے اور ہر قسم کی پڑمردگی اور افسردگی سے بچاتا رہتا ہے جو دنیا داروں کو بسا اوقات بڑی بڑی شرمناک حرکات پر مجبور کرتی ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ کو سخت درد سر ہو رہا تھا اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس جد سے زیادہ شور و غل بر پا تھا میں نے عرض کیا جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی فرمایا ہاں اگر چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے میں نے عرض کیا تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے فرمایا آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں میں تو کہہ نہیں سکتا.بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گویا مزہ میں سو رہے ہیں.کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اور تو نے ہماری خدمت نہیں کی.کو سر ہے میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیمار دار اس کی بد مزاجی اور چڑچڑا پن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں اسے گالی دیتا ہے اسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آ جاتی ہے بے چاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین کہیں تکان کی وجہ سے ذری اونگھ گئی ہے بس پھر کیا خدا کی پناہ آسمان اٹھا لیا.وہ بے چاری حیران ہے ایک تو خود چور چور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں مارے غضب و غیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے.غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہوتی ہے خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے.بر خلاف اس کے سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمعیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں.میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جب کہ ابھی ابھی سر درد کے لیے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے اب اللہ تعالٰی کا فضل ہے اس وقت مجھے
26 ایسا معلوم ہوا کہ گویا آپ کسی بڑے عظیم الشان دل کشا نزہت افزا باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے.میں ابتدائے حال میں ان نظاروں کو دیکھ کر بڑا حیران ہو تا تھا اس لئے کہ میں اکثر بزرگوں اور حوصلہ اور مردانگی کے مدعیوں کو دیکھ چکا تھا کہ بیماری میں کیا چولہ بدل لیتے ہیں اور بیماری کے بعد کتنی کتنی مدت تک ایسے سڑیل ہوتے ہیں کہ الامان.کسی کی تقصیر آئی ہے جو بھلے کی بات منہ سے نکال بیٹھے.بال بچے بیوی دوست کسی اوپرے کو دور سے ہی اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھنا کالا ناگ ہے نزدیک نہ آنا.اصل بات یہ ہے کہ بیماری میں بھی ہوش و حواس اور ایمان اس کا ٹھکانے رہتا ہے جو صحت کی حالت میں مستقیم الاحوال ہو اور دیکھا گیا ہے کہ بہت سے تندرستی کی حالت میں مغلوب غضب شخص بیماری میں خالص دیوانے اور شدت جوش سے مصروع ہو جاتے ہیں.حقیقت میں ایمان اور عرفان اور استقامت کے پرکھنے کے لئے بیماری بڑا بھاری معیار ہے جیسے سکر اور خواب میں بڑبڑانا اور خواب دیکھنا حقیقی تصویر انسان کی دکھا دیتا ہے بیماری بھی مومن اور کافر دلیر اور بزدل کے پرکھنے کے لئے ایک کسوئی ہے بڑا مبارک ہے وہ جو صحت کی حالت میں جوش اور جذبات نفس کی باگ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا.برادران 1 چونکہ موت یقینی ہے اور بیماریاں بھی لابدی ہیں کوشش کرو کہ مزاجوں میں سکون اور قرار پیدا ہو.اسلام پر خاتمہ ہونا جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہے اور جو امید وبیم میں معلق ہے اس پر موقوف ہے کہ ہم صحت میں ثبات و تثبیت اور استقامت و اطمینان پیدا کرنے کی کوشش کریں ورنہ اس خوفناک گھڑی میں جو جو اس کو سراسیمہ کر دیتی اور عقاید اور خیالات میں زلزلہ ڈال دیتی ہے تثبیت اور قرار دشوار ہے.خدا تعالی فرماتا ہے يُنبتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ یہ حثیت کی ہے جو میں حضرت خلیفہ اللہ
27 کی سیرت میں دکھا چکا ہوں.وہ انسان اور کامل انسان جس پر اس دنیا کی آگ اس دنیا کی آفات اور مکروہات کی آگ یہاں کچھ بھی اثر نہیں کر سکی وہ وہی مومن ہے جسے دوزخ کے گی کہ اے مومن گزر جاکہ تیرے نور نے میری نار کو بجھا دیا ہے.اے بہشت کو دونوں جیبوں میں اس طرح موجود رکھنے والے برگزیدہ خدا جس طرح آج کل لوگ جیبوں میں گھڑیاں، رکھتے ہیں تو یقیناً خدا سے ہے.ہاں تو اس کثیف اور مکروہ دنیا کا نہیں ورنہ وجہ کیا کہ یہ دنیا اپنی آفات و امتحانات کے پہاڑ تیرے سر پر توڑتی ہے اور وہ یوں تیرے اوپر سے مل جاتے ہیں جیسے بادل سورج کی تیز شعاعوں سے پھٹ جاتے ہیں.لاکھوں انسانوں میں یہ تیرا نرالا قلب اور فوق العادت جمعیت اور سکون اور ٹھرا ہوا مزاج جو تجھے بخشا گیا ہے یہ کس بات کی دلیل ہے یہ اس لئے ہے کہ تو صاف نظر کر پہچانا جائے کہ تو زمینی نہیں ہے بلکہ آسمانی ہے اس زمین کے ا فرزندوں نے تجھے نہیں پہچانا حق تو یہ تھا کہ آنکھیں تیری راہ میں فرش کرتے اور ولوں میں جگہ دیتے کہ تو خدا کا موعود خلیفہ اور حضرت خاتم النبین کا خادم اور اسلام کو زندہ کرنے والا ہے.ہاں تو چشم پوشی اور فراغ حوصلگی کی کیا کیا تعریف کروں.ایک عورت نے اندر سے کچھ چاول چرائے چود کا دل نہیں ہوتا اور بین لئے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بے تابی اور اس کا ادھر ادھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا.شور پڑ گیا.اس کی بغل سے کوئی پندرہ سمیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی.ادھر سے ملامت ادھر سے پھٹکار ہو رہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے ادھر آ نکلے پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا.فرمایا محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خدا تعالٰی کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو.کبھی کسی سے باز پرس نہیں کرتے کہ یہ تمہاری حرکات نازیبا ہیں اور تم نے کیا بے ہودہ بکو اس شروع کر رکھا ہے گھر بار میں رعب اور جلال ہے ہر ایک عورت اور بچہ کو جیسے یہ کامل یقین ہے کہ حضرت سزا دینے والے نہیں
28 اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ادب اور حمیت اور احترام ان کے دلوں میں پلایا گیا ہے اور ڈرتے بھی ایسے ہیں جیسے کسی بڑے سخت گیر ہے.میں اس ڈر اور ہیبت اور معاً محبت اور مودت کو نہ تو دنیا کے کسی پیرایہ میں بیان کر سکتا ہوں اور نہ کسی دنیا کے بیٹے کو سمجھا سکتا ہوں اس کو وہ مومن ہی خوب سمجھ سکتا ہے جس کا خدا تعالٰی سے تعلق ہو.ایک طرف تو خدا کا جلال اور عظمت اور خشیت اور تقویٰ ایسے طور سے بیان کی گئی ہے کہ تصور سے پیٹھ کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور ایک جوان بوڑھا ہو جاتا ہے.اور با ایں ہمہ عشاق اس کی طرف یوں بڑھتے ہیں جیسے شیر خوار بچہ ماں کی پستان کی طرف حالانکہ فطرتا انسان ڈراؤنی چیز سے بھاگتا ہے گروہ بات کیا ہے کہ روحیں آگ اور پانی کے سمندروں کی کچھ بھی پرواہ نہ کر کے خدا سے ملنے کو تڑپتی ہیں خدا تعالٰی کے مظہروں اس کے خلیفوں کی ہیبت اور عظمت اس شخص کی مانند نہیں ہوتی جو قہر اور سطوت سے غضباً قلوب پر متمکن ہو جاتا اور ایک خوفناک زہریلے سانپ کی طرح غضب کے مقناطیسی اثر سے چھوٹے جانداروں کو بے ہوش کر دیتا ہے اور نہ ان کا حلم اور فروتنی ایک بے غیرت بد دل کی سی ہوتی ہے جو لازماً ہر آنکھ اور دل سے اتر جاتا ہے ان کی ہیبت محبت اور پیار سے ملی ہوئی اور ان کا پیار ارب اور عظمت کو ساتھ لئے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے سالیہ کے نیچے پاکیزگی اور طہارت اور عفت اور تقویٰ اور اوامر الہی کی پابندی آرام پاتی ہے اور شیطان اور اس کی ذریت کو ان جگہوں میں دخل نہیں ملتا ورنہ ممکن ہے کہ گرفت نہ ہو کبھی قسم کی کوئی دھمکی اور سزا نہ ہو اور نظام میں خلل نہ آجائے اور گھر سارے لوازم میں معاشرت کے عمدہ سے عمدہ محاسن کا قابل تقلید نمونہ ہو.ایک تند خوجس کا نفس پر ذرا بھی قابو نہیں اور جو در حقیقت اپنے آپ میں ہر وقت جلتے ہوئے تنور میں پڑا ہے یہ سن کر جلد بول اٹھے گا اور انکار اور اعتبار سے میرے اس بیان کے دیکھے گا اس لئے کہ اس کے نزدیک اصطلاحی رعب اور ادب اور غیرت قائم رکھنے
29 کے لئے شیر کی طرح میں بجیں رہنا اور چیتے کی طرح مونچھوں کو تاؤ دیتے رہنا اور سیمہ کے کانٹوں کی طرح کھڑا رکھنا ضروری ہے مگر اس نے ٹھوکر کھائی ہے اور اس کے شریر نفس نے اسے سخت دھوکا دیا ہے کاش اسے خبر ہوتی کہ اس کا سارا گلہ اس سے بیزار ہے اور وہ اس وقت بڑے خوش ہوتے ہیں جب وہ گرگ وش گلہ بان ان کے سر پر نہ ہو.کبھی گھر میں حساب نہیں لیتے کہ جتنا تم نے مانگا تھا واقعی اتنا خرچ بھی ہوا اور کہاں کہاں ہوا اور اتنا زیادہ لیا گیا.اور فلاں چیز اس اندازہ سے کم ہے اور ان اخراجات اور آمدنیوں کے لئے کوئی حساب کتاب یا بہی کھاتہ نہیں.خدا تعالٰی نے آپ کا قلب ایسا وسیع اور صدر ایسا منشرح بنایا ہے کہ ان امور کی فکریں اور کاوشیں اور یہ مادی نجس اس میں دخل پاہی نہیں سکتے.میں مانتا ہوں کہ ایک دنیا دار جس کا خدا اپنا ہی ناتواں نفس ہے یہ چال اختیار نہیں کر سکتا اور نہ کرنی چاہتا ہے اور اگر وہ تکلف سے اختیار بھی کرے تو ممکن ہے کہ اس کا سا اشیرازہ ادھر جائے اور تارو پور ٹوٹ پھوٹ جائے مگر زندہ اور قادر خدا پر ایمان رکھنے والوں کے قول اور فعل نرالے ہی ہو.تے ہیں.ان کی راستی اور خدا پر غیر مذہذب بھروسہ میں نامراد نہ ہونے کا صاف ثبوت یہی ہے کہ سب سے زیادہ مستقیم الاحوال اور ان محتمل اور ممکن تاہیوں اور خانہ ویرانیوں سے محفوظ ہیں جو ایسی صورتوں میں ایک دنیا دار کے خیال و گمان میں آتی ہیں.اور در حقیقت خدا والوں کو ان جز درسیوں اور بہی کھاتوں کی فکروں.اسے جو شامت اعمال اور عدم تقوی سے کلاب الدنیا کے طائر عنیق ہو رہی ہیں کیا تعلق ہے ایک روز حضرت اقدس فرماتے تھے اگر انسانوں میں تقوی ہو تا تو پرندوں کی طرح بھوکے نکلتے اور پیٹ بھر کر واپس آتے.در حقیقت یہ آگ طلب دنیا کی جس نے آدم کے بیٹے کو کتے کی جنس سے بنا دیا ہے کہ ہر وقت ہانپتا رہتا اور ایک اندرونی جلن ہے جو اسے لگی ہوئی ہے اس کی جڑ خدا کے وعدوں پر یقینی اعتماد اور توکل نہ ہونا اور اپنے ہی قوی کو امید و بیم کا مرجع ٹھہرانا ہے مو بھی
30 ضعیف اور مطلوب بھی ضعیف نتیجہ یہی ہونا چاہئے کہ اسے کبھی قرار نہ آئے.آج مادی دنیا کے آگے یہ باتیں نہیں ہیں اور وہ ایسے لوگوں کو بڑی فراخ حوصلگی سے نیم مجنون اور مخبط الحواس کا لقب دیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ اس سائنس سے بے خبر ہیں اور ہوا پرستی نے خدا پرستی کے قومی اور جو اس تباہ کر دیئے ہیں.الغرض حضرت کو ہر متنفس پر وثوق ہے اور بالبداہت ہر ایک کو سچا سمجھتے ہیں.کیسی ہی خستہ حال اور گھناؤنی صورت و وضع کی کوئی عورت ہو جس کو دیکھ کر ایک بدظن اور اس عالم کا تیز حس یہ چاہے کہ اس کے آگے سے دور ہو جائے اور وہ بات کرے تو کان بند کرلے اور اس سے پہلے آنکھ پر اور ناک میں ہاتھ اور انگلی رکھ دے حضرت ہیں کہ گھنٹوں ایسی جمعیت اور قرار سے اس کی بات سنے جا رہے ہیں کہ گویا ایک عندلیب شیریں مقال چہچہا رہی ہے یا ایک طوطی عذب البیان ہے جو دلچسپ نقل لگا رہی ہے کیسی بے تکی اور بے معنی باتیں کوئی کرے کبھی ایک اشارہ تک نہیں کیا کہ تیری باتیں فضول محض اور ان کا سنتا اوقات کا خون کرنا ہے اور جو واقعہ سنایا گیا اس کی تکذیب نہیں کی جو سودا لائی ہے اس کی چگونگی کی نسبت باز پرس نہیں اور جو کچھ خرچ کیا اور جو کچھ واپس دیا ہے آنکھ بند کر کے لیا اور جیب میں ڈال لیا ہے.گاؤں کے بہت ہی گمنام اور پست ہمت اور وضیع فطرت جولاہوں کے لڑکے اندر خدمت کرتے ہیں اور بیسیوں روپوں کے سودے لاتے اور با رہا لاہور جاتے اور ضروری اشیاء نرید لاتے ہیں کبھی گرفت نہیں سختی نہیں باز پرس نہیں خدا جانے کیا قلب ہے اور در حقیقت خدا ہی ان قلوب، مطہرہ کی حقیقت جانتا ہے جس نے خاص حکمت اور ارادہ سے انہیں پیدا کیا ہے اور کیا ہی سچ فرمایا ہے اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہ میں نے خاص نور کی اور ڈھونڈ کی ہے آنکھ لگائی ہے کان لگائے ہیں اور ایسے اوقات میں ایک نکتہ چیں ریویو نویس کا دل و دماغ لے کر اس نظارہ کا تماشائی بنا ہوں.مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میری
31 آنکھ اور کان ہر دفعہ میرے ایمان اور عرفان کو بڑھانے والی بات ہی لائے اتنے دراز عرصہ میں میں نے کبھی بھی نہیں سنا کہ اندر تکرار ہو رہی ہے اور کسی شخص سے لین دین کے متعلق باز پرس ہو رہی ہے.سبحان اللہ کیا سکون فا دل اور پاک فطرت ہے جس میں سوء ظن کا شیطان نشیمن بنا نہیں سکا.اور کیا ہی قابل رشک بہشتی دل ہے جسے یہ آرام بخشا گیا ہے.اور پھر کوئی نقصان اور حضرت عائد حال نہیں ظاہر ہے کہ اگر یہ اغماض اور اعتماد عام معاش اور معاد کی میزان میں کم وزن ہو یعنی نظام عالم اور خدا کی نگاہ میں مکروہ ہو تو کار خانہ درہم برہم ہو جانا چاہئے.مگردن دانی رات چوگنی ترقی گواہ ہے کہ خدا ایسے ہی دلوں کو پیار کرتا ہے اگر کبھی کوئی خاص فرمائش کی ہے کہ وہ چیز ہمارے لئے تیار کر دو اور عین اس وقت کسی ضعف یا عارضہ کا مقتضا تھا کہ وہ چیز لازماً تیار ہی ہوتی اور اس کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا اور کبھی کبھی لکھنے یا توجہ الی اللہ سے نزول کیا ہے تو یاد آگیا ہے کہ کھانا کھانا ہے اور منتظر ہیں کہ وہ چیز آتی ہے آخر وقت اس کھانے کا گذر گیا ان شام کے کھانے کا وقت آگیا ہے اس پر بھی کوئی گرفت نہیں.اور جو نرمی سے پوچھا ہے اور عذر کیا گیا ہے کہ دھیان نہیں رہا تو مسکرا کر الگ ہو گئے ہیں.اللہ اللہ اوئی خدمت گار اور اندر کی عورتیں جو کچھ چاہتی ہیں پکاتی کھاتی ہیں اور ایسا تصرف ہے کہ گویا اپنا ہی گھر اور اثاث البہیت ہے.اور حضرت کے کھانے کے متعلق کبھی ذہول اور تغافل بھی ہو جائے تو کوئی گرفت نہیں.کبھی نرم لفظوں میں بھی یہ نہ کہا کہ دیکھو یہ کیا حال ہے تمہیں خوف خدا کرنا چاہیئے.یہ باتیں ہیں جو یقین دلاتی ہیں کہ سرور عالم ﷺ کا فرمانا سچ ہے کہ میں اپنے رب کے ہاں سے کھاتا اور پیتا ہوں.اور حضرت امام علیہ السلام بھی فرماتے ہیں من می زیم بومی خدائے کہ بامن ست پیغام اوست چون نفس روح پر ورم حقیقت میں اگر یہ سچ نہ ہو تو کون تاب لا سکتا ہے اور ان فوق العادت فطرت
32 رکھنے والے انسانوں کے سوا کس کا دل گردن ہے کہ ایسے حالات پر قناعت کر سکے مجھے یاد ہے کہ حضرت لکھ رہے تھے ایک خادمہ کھانا لائی اور حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کھانا حاضر ہے فرمایا خوب کیا مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں آواز دینے کو تھا وہ چلی گئی اور آپ پھر لکھنے میں مصروف ہو گئے اتنے میں کتا آیا اور بڑی فراغت سے سامنے بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتنوں کو بھی خوب صاف کیا اور بڑے سکون اور وقار سے چل دیا.اللہ اللہ ان جانوروں کو بھی کیا عرفان بخشا گیا ہے.وہ کتا اگر چہ رکھا ہوا اور سدھا ہوا نہ تھا مگر خدا معلوم اسے کہاں سے یہ یقین ہو گیا اور بجالیقین ہو گیا کہ یہ پاک وجود بے شر اور بے ضرر وجود ہے اور یہ وہ ہے جس نے کبھی چیونٹی کو بھی پاؤں تلے نہیں مسلا اور جس کا ہاتھ کبھی دشمن پر بھی نہیں اٹھا.غرض ایک عرصہ کے بعد ہاں ظہر کی اذان ہوئی تو آپ کو پھر کھانا یاد آیا.آواز دی خادمہ دوڑی آئی اور عرض کیا کہ میں تو مدت ہوئی کھانا آپ کے آگے رکھ کر آپ کو اطلاع کر آئی تھی اس پر آپ نے مسکرا کر فرمایا اچھا تو اب شام کو ہی کھائیں گے.آپ کے حلم اور طرز تعلیم اور قوت قرسیہ کی ایک بات مجھے یاد آئی ہے دو سال کی بات ہے تقاضائے سن اور عدم علم کی وجہ سے اندر کچھ دن کہانی کہنے اور سننے کا چسکا پڑ گیا.آدھی رات گئے تک سادہ اور معصوم ہے اور پاک دل بہلانے والے قصے ہو رہے ہیں اور اس میں عادتاً ایسا استغراق ہوا کہ گویا وہ بڑے کام کی باتیں ہیں.حضرت کو معلوم ہوا منہ سے کسی کو کچھ نہ کہا.ایک شب سب کو جمع کر کے کہا آؤ آج ہم تمہیں اپنی کہانی سنائیں.ایسی خدا لگتی اور خوف خدا دلانے والی اور کام کی باتیں سنائیں کہ سب عورتیں گویا ہوتی تھیں اور جاگ اٹھیں سب نے توبہ کی اور اقرار کیا کہ وہ صریح بھول میں تھیں اور اس کے بعد وہ سب داستانیں انسانہ خواب کی طرح یادوں ہی سے مٹ گئیں.ایسے موقعہ پر ایک تند خو مصلح جو کارروائی کرتا اور بے فائدہ اور بے نتیجہ حرکت کرتا ہے کون نہیں جانتا.ممکن ہے کہ ایک بد مزاج -
33 ہیں.بد زبان ظاہر میں ڈنڈے کے زور سے کامیاب ہو جائے گر دہ گھر کو بہشت نہیں بنا سکتا.ہمارے حضرت کی سیرت اس کے لئے اسوہ حسنہ ہے.حضرت کی زوجہ محترمہ آپ سے بیعت ہیں اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر صدق دل سے ایمان رکھتی سخت سے سخت بیماریوں اور اضطراب کے وقتوں میں جیسا اعتماد انہیں حضرت کی دعا پر ہے کسی چیز پر نہیں.وہ ہر بات میں حضرت کو صادق و مصدوق مانتی ہیں جیسے کوئی جلیل سے جلیل صحابی مانتا ہے ان کے کامل ایمان اور راسخ اعتقاد کا ایک بین ثبوت سنئے.عورتوں کی فطرت میں سوت کا کیسا برا تصور ودیعت کیا گیا ہے.کوئی بھیانک قابل نفرت چیز عورت کے لئے موت سے زیادہ نہیں.عربی میں سوت کو ضرہ کہتے ہیں.حضرت کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے جو ایک نکاح کے متعلق ہے اور جس کا ایک حصہ خدا کے فضل سے پورا ہو چکا ہے اور دوسرا دور نہیں کہ خدا کے بندوں کو خوش کرے حضرت بیوی صاحبہ مکرمہ نے بارہا رو رو کر دعائیں کی ہیں اور بارہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت اور جھوٹ کا زوال و ابطال ہو.ایک روز دعا مانگ رہی تھیں حضرت نے پوچھا آپ کیا دعا مانگتی ہیں آپ نے بات سنائی کہ یہ رہی ہوں.حضرت نے فرمایا سوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے آپ نے فرمایا کچھ ہی کیوں نہ ہو مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں خواہ میں ہلاک کیوں نہ ہو جاؤں.برادران یہ ایمان تو میں مسلمانوں کے مردوں میں بھی نہیں دیکھتا.کیا ہی مبارک ہے وہ مرد اور مبارک ہے وہ عورت جن کا تعلق باہم ایسا سچا اور مصفا ہے اور کیا بہشت کا نمونہ وہ گھر ہے جس کا ایسا مالک اور ایسے اہل بیت ہیں.میرا اعتقاد ہے کہ شوہر کے نیک و بد اور اس کے مکار اور فریبی یا راستیاز اور متقی ہونے سے عورت خوب آگاہ ہوتی ہے.حقیقت میں ایسے مانگ
34 خلا ملا کے رفیق سے کونسی بات مخفی رہ سکتی ہے.میں ہمیشہ سے رسول کریم کی نبوت کی بڑی محکم دلیل سمجھا اور مانا کرتا ہوں آپ کے ہم عمر اور محرم راز دوستوں اور ازواج مطہرات کے آپ پر صدق دل سے ایمان لانے اور اس پر آپ کی زندگی میں اور موت کے بعد پورے ثبات اور وفاداری سے قائم رہنے کو.صحابہ کو ایسی شامہ اور کامل زیر کی بخشی گئی تھی کہ وہ اس محمد میں جو انا بشر مثلکم کہتا اور اس محمد ال میں جو اِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کتا ساف تميز کرتے وہ بے غش اخوان الصفا اور آپ کی بیبیاں جیسے اس محمد سے جو بشر محض ہے ایک وقت انبساط اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے اور کبھی کبھی معمولی کاروبار کے معاملات میں پس و پیش اور رد و قدح بھی کرتے ہیں اور ایک وقت ایسے اختلاط اور موانست کی باتیں کر رہی ہیں کہ کوئی حجاب حشمت، اور پردہ تکلف درمیان نہیں وہی دوسرے وقت محمد رسول ﷺ کے مقابل یوں سرنگوں اور متادب بیٹھے ہیں گویا لٹھے ہیں جن پر پرندے بھی بے باکی سے گھونسلا بنا لیتے ہیں اور تقدم اور رفع صوت کو آپ کی حضور میں حبط اعمال کا موجب جانتے ہیں اور ایسے مطیع و منقاد ہیں کہ اپنا ارادہ اور اپنا علم اور اپنی رسم اور اپنی ہوا امر رسول کے مقابل یوں ترک کر دیتے ہیں کہ گویا وہ بے عقل اور بے ارادہ کٹھ پتلیاں ہیں ایسی مخلصانہ اطاعت اور خودی اور خود رائی کی کینچلی سے صاف نکل آنا ممکن نہیں جب تک دلوں کو کسی کے بچے بے ریا اور منجانب اللہ زندگی کا زندہ یقین پیدا نہ ہو جائے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں حضرت اقدس کو آپ کی بی بی صاحبہ صدق دل سے مسیح موعود مانتی ہیں اور آپ کی تبشیرات سے خوش ہوتی اور انذارات سے ڈرتی ہیں.غرض اس برگزیدہ ساتھی کو برگزیده خدا سے سچا تعلق اور پورا اتفاق ہے اور علی ہذا جتنا جتنا آپ کا کوئی گہرا دوست اور واقف کار جلیس ہے وہ اسی اندازہ پر آپ کی راستی کا قائل ہے اور جتنا در از عرصہ کوئی آپ کی خدمت میں رہے وہ محبت اور نیک گمان میں دوسروں کی.
35 نسبت بہت زیادہ ترقی کر جاتا ہے.حضرتہ کا حوصلہ اور حلم یہ ہے کہ میں نے سینکڑوں مرتبہ دیکھا ہے آپ اوپر دالان میں تنہا بیٹھے لکھ رہے ہیں، یا فکر کر رہے ہیں اور آپ کی قدیمی عادت ہے کہ دروازے بند کر کے بیٹھا کرتے ہیں ، ایک لڑکے نے زور سے دستک بھی در) اور منہ سے بھی کہا ہے ابا بوا کھول آپ وہیں اٹھے ہیں اور دروازہ کھولا ہے کم عقل بچہ اندر گھسا ہے اور ادھر ادھر جھانک انک کر لئے پاؤں نکل گیا ہے.حضرت نے پھر معمولاً دروازہ بند کر لیا ہے.دو ہی منٹ گزرے ہوں گے جو پھر موجود اور زور زور سے دھکے دے رہے ہیں اور چلا رہے ہیں ابا برا کھول آپ پھر بڑے اطمینان سے اور جمعیت سے اٹھے ہیں اور دروازہ کھول دیا ہے بچہ اب کی دفعہ بھی اندر نہیں گھستا ذرا سر ہی اندر کر کے اور کچھ منہ میں بڑبڑا کے پھر الٹا بھاگ جاتا ہے.حضرت بڑے ہشاش بشاش بڑے استقلال سے دروازہ بند کر کے اپنے نازک اور ضروری کام پر بیٹھ جاتے ہیں.کوئی پانچ ہی منٹ گزرے ہیں تو پھر موجود اور پھر وہی گرما گرمی اور شورا شوری کہ کیا ہوا کھول اور آپ اٹھ کر اسی وقار اور سکون سے دروازہ کھول دیتے ہیں اور منہ سے ایک حرف تک نہیں نکالتے کہ تو کیوں آتا اور کیا چاہتا ہے اور آخر تیرا مطلب کیا ہے جو بار بار ستاتا اور کام میں حرج ڈالتا ہے.میں نے ایک دفعہ گنا کوئی ہمیں دفعہ ایسا کیا اور ان ساری دفعات میں ایک دفعہ بھی حضرت کے منہ سے زجر اور توبیخ کا کلمہ نہیں نکلا.بعض اوقات دوا در مل پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں."مرحاجی جرا ہوا کھولو تاں " حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں.ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہیں.ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا ہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے آپ
36 وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے.ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آنکلیں.اور آپ کو دینی.ضرورت کے لئے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھتا تھا میں بھی اتفاقاً جا نکلا کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت، یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے.اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں.میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہونا چاہئے.میں نے بچوں کا ذکر کیا ہے عام خدمت گار عورتوں کی نسبت بھی آپ کا یہی رویہ ہے کئی کئی دفعہ ایک آتی اور مطلوب چیز مانگتی ہے اور پھر پھر اس چیز کو مانگتی ہے ایک دفعہ بھی آپ نہیں فرماتے کہ کمبخت کیوں دق کرتی ہے جو کچھ لیتا ہے ایک ہی دفعہ کیوں نہیں لے لیتی.بارہا میں نے دیکھا ہے اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کر کے پائینتی پر بٹھا دیا ہے اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جا رہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جا رہے ہیں گویا کوئی مثنوی ملائے روم سنا رہا ہے.حضرت
37 بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں.بچے کیسے ہی بسوریں.شوخی کریں.سوال میں تنگ کریں اور بیجا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیر موجود شئے کے لئے حد سے زیادہ اصرار کریں آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں.محمود کوئی تین برس کا ہو گا آپ لدھیانہ میں تھے میں بھی وہیں تھا گرمی کا موسم تھا مردانہ اور زنانہ میں ایک دیوار حائل تھی آدھی رات کا وقت ہوگا جو میں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرت کے ادھر ادھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی حضرت اسے گود میں لئے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چپ نہیں ہوتا تھا.آخر آپ نے کہا دیکھو محمود وہ کیسا تارا ہے بچہ نے نئے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چپ ہوا.پھر وہی رونا اور چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا ” یا تارے جانا " کیا مجھے مزہ آیا اور پیارا معلوم ہوا آپ کا اپنے ساتھ یوں گفتگو کرنا ” یہ اچھا ہوا ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکالی" آخر بچہ روتا رو تا خود ہی جب تھک گیا چپ ہو گیا مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپ کی زبان سے نہ نکلا.بات میں بات آگئی حضرت بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف ہیں میں نے بارہا دیکھا ہے ایسی کسی چیز پر برہم نہیں ہوتے جیسے جب سن لیں کہ کسی نے بچہ کو مارا ہے.یہاں ایک بزرگ نے ایک دفعہ اپنے لڑکے کو عادتاً مارا تھا حضرت بہت متاثر ہوئے اور انہیں بلا کر بڑی درد انگیز تقریر فرمائی فرمایا میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.فرمایا ایک جوش والا آدمی جب ، کسی بات پر سزا دیتا ہے اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بردبار اور باسکون اور باد قار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا
38 دے یا چشم نمائی کرے مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش والعقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو.فرمایا جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کرلیں.اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.فرمایا میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں اول اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خدا مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے.پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ مین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں.پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سبہ، دین کے خدام بنیں.پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے.اور اسی ضمن میں فرمایا حرام ہے مشیخی کی گدی پر بیٹھنا اور پیر بنا اس شخص کو جو ایک منٹ بھی اپنے متوسلین سے غافل رہے.ہاں پھر فرمایا ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرنا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پر ہیز کرنا چاہئے.آپ نے قطعی طور پر فرمایا اور لکھ کر بھی ارشاد کیا کہ ہمارے مدرسہ میں جو استاد مارنے کی عادت رکھتا اور اپنے اس ناسزا فعل سے باز نہ آتا ہو اسے یک لخت موقوف کر دو.فرمایا ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالٰی پر رکھتے ہیں جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا.برادران حضرت اقدس کے اس عمل سے سبق لینا چاہئے.ہماری جماعت
39 میں بعض ایسے بھی ہیں جو بڑے بڑے اونچے دعوے کرتے اور معرفت کی ساری منزلوں کو طے کر جانے کے بدگی ہیں مگر اشتعال کے وقت اور پھر ادنی سی باتوں پر درندے بن جاتے ہیں اور اپنے بچوں سے ان کا سلوک اچھا نہیں وہ مارنے کو فرض جانتے ہیں اور اس پر بڑے دلا کل لاتے ہیں امید ہے کہ اس کے بعد تنہریں کریں گے.حضرت مکان اور لباس کی آرائش اور زینت سے بالکل غائل اور بے پرواہ ہیں خدا کے فضل و کرم سے حضور کا یہ پایہ اور منزلت ہے کہ اگر چاہیں تو آپ کے مکان کی اینٹیں سنگ مرمر کی ہو سکتی ہیں اور آپ کے پا انداز سندس و اطلس کے بن سکتے ہیں مگر بیٹھنے کا مکان ایسا معمولی ہے کہ زمانہ کی عرفی نفاست اور صفائی کا جاں دادہ تو ایک دم کے لئے وہاں بینڈ پسند نہ کرے.میں نے بارہا وہ تخت لکڑی کا دیکھا ہے جس پر آپ گرمیوں میں باہر بیٹھتے ہیں اس پر مرا پڑھی ہوئی ہے اور میلا ہے جب بھی آپ نے نہیں پوچھا اور جو کسی نے خدا کا خوف کر کے مٹی جھاڑ دی ہے، جب بھی التفات نہیں کیا کہ آج کیا صاف ، اور پاک ہے غرض اپنے کام میں اس قدر استغراق ہے کہ ان مادی باتوں کی مطلق پرواہ نہیں.جب مہمانوں کی ضرورت کے لئے مکان بنوانے کی ضرورت پیش آئی ہے بار بار یہی تاکید فرمائی ہے کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسہ خرچ کرنا عبث ہے اتنا ہی کام کرو جو چند روز بسر کر نہ کر، گنجائش ہو جائے.نجار تیر بندیاں اور تختے زندہ سے صاف کر رہا تھا روک دیا اور فرمایا یہ محض ہے اور ناحق کو دیر لگاتا ہے مختصر کام کرو.فرمایا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی ان ہی ہم اپنے مکانوں کو اپنے اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چند روز گزارہ کرلیں.اور فرمایا میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور - درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں ، بیری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر
40 ایک وقت واسطه و رابطہ رہے.برادران یہ باتیں کچی ہیں اور واقعات ان کے گواہ ہیں مکان اندر اور باہر نیچے اور اوپر مہمانوں سے کشتی کی طرح بھرا ہوا ہے اور حضرت کو بھی بقدر حصہ اسدی بلکہ تھوڑا سا ایک حصہ رہنے کو ملا ہوا ہے اور آپ اس میں یوں رہتے ہیں جیسے سرائے میں کوئی گزارہ کرتا ہے اور اس کے جی میں کبھی نہیں گذر تاکہ یہ میری کو ٹھری ہے.ر لباس کا یہ حال ہے کہ پشمینہ کی بڑی قیمتی چادر ہے جس کی سنبھال اور پر تال میں ایک دنیا دار کیا کیا غور و پرداخت کرتا اور وقت کا بہت سا حصہ یہ رحمی سے اس کی پرستش میں صرف کر دیتا ہے حضرت اپنے اس طرح خوار کر رہے ہیں کہ گویا ایک فضول کپڑا ہے.واسکٹ کے بٹن نیچے کے ہول میں بند کرنے سے آخر رفتہ رفتہ سبھی ٹوٹ جاتے ہیں ایک دن تعجب سے فرمانے لگے کہ بٹن کا لگانا بھی تو آسان کام نہیں ہمارے تو سارے بٹن جلدی ٹوٹ جاتے ہیں اور فرمایا حقیقت میں ان میں تضیع اوقات بہت ہے اگر چہ آرام بھی ہے.فرمایا میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع جاتا ہے یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے اور فرمایا کوئی مشغولی اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے مجھے سخت ناگوار ہے.اور فرمایا جب کوئی دینی ضروری کام آ پڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے.فرمایا ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے.جاڑے کا موسم تھا محمود نے جو اس وقت بچہ تھا آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی آپ جب لیٹیں وہ اینٹ چھے میں موجود تھا آپ حامد علی سے فرماتے ہیں حامد علی چند روز سے ہماری پہلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چھتی ہے.وہ حیران ہوا اور آپ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا اور آخر اس کا ہاتھ اینٹ سے جالگا جھٹ جیب سے نکال لی اور عرض کیا یہ اینٹ تھی جو
41 آپ کو چھتی تھی.مسکرا کر فرمایا اور ہو چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں میں اس سے کھیلوں گا.غرض لباس سے آپ کو دل چسپی نہیں بے شک ایک دنیا پرست حقیقت ناشناس ظاہر میں اچھا لباس دیکھ کر اس کنہ میں پے نہیں لے جاسکتا اور قریب ہے کہ وہ اپنے نفس پر قیاس کر کے کہے کہ آپ کو اچھے لباس سے تعلق ہے.مگر رات دن کے پاس بیٹھنے والے اس بے التفاتی کی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں.ایک روز فرمایا کہ ہم تو اپنے ہاں کے کاتے اور بنائے ہوئے کپڑے پہنا کرتے تھے اب خدا تعالٰی کی مرضی سے یہ کپڑے لوگ لے آتے ہیں ہمیں تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان میں اور ان میں کوئی تفاوت نظر نہیں آتا.آپ کے مزاج میں وہ تواضع اور انکسار اور ہضم نفس ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں زمین پر آپ بیٹھے ہوں اور لوگ فرش پر یا اونچے بیٹھے ہوں آپ کا قلب مبارک ان باتوں کو محسوس بھی نہیں کرتا.چار برس کا عرصہ گذرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے جون کا مہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا میں دوپہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا حضرت ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا آپ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے ہیں میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوئے رہوں مسکرا کر فرمایا میں تو آپ کا پہرا دے رہا تھا.لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے.باہر مسجد مبارک میں آپ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی ایک اجنبی آدمی آپ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پیچان نہیں سکتا.آپ ہمیشہ دائیں صف میں ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے میں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اس لئے داخلی
42 دروازہ کے عین مجاز میں ہوتا ہوں بسا اوقات ایک اجنبی جو مارے شوق کے سر زده اندر داخل ہوا ہے تو سیدھا میری طرف ہی آیا ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر منتقبہ ہوا ہے یا حاضرین میں سے کسی نے اس حقدار کی طرف اشارہ کر دیا ہے.آپ کی مجلس میں احتشام اور وقار اور آزادی اور بے تکلفی دونوں ایک ہی وقتہ میں جمع رہتے ہیں ہر ایک خادم ایسا یقین کرتا ہے کہ آپ کو خصوصا مجھ سے ہی پیار ہے.جو جو کچھ چاہتا ہے بے تکلفی سے عرض کرلیتا ہے گھنٹوں کوئی اپنی داستان شروع رکھے اور وہ کیسی ہی بے سروپا کیوں نہ ہو آپ پوری توجہ سے سنے جاتے ہیں.بسا اوقات حاضرین اپنی بساط قلب اور وسعت حوصلہ کے موافق سنتے سنتے اکتا گئے ہیں انگڑائیاں اور جمائیاں لینے لگ گئے ہیں مگر حضرت کی کسی حرکت نے ایک لحظہ کے لئے بھی کبھی کوئی ملال کا نشان ظاہر نہیں کیا.آپ کی مجلس کا یہ رنگ نہیں کہ آپ سرنگوں اور متفکر بیٹھے ہوں اور حاضرین سامنے حلقہ کئے یوں بیٹھے ہوں جیسے دیواروں کی تصویریں ہیں بلکہ وقت کے مناسب آپ تقریر کرتے ہیں اور کبھی کبھی مذاہب باطلہ کی تردید میں بڑے زور و شور سے تقریر فرماتے ہیں گویا اس وقت آپ ایک عظیم الشان لشکر پر حملہ کر رہے ہیں اور ایک اجنبی ایسا خیال کرتا ہے کہ ایک جنگ ہو رہی ہے.آپ کی مجلس کا رنگ ہو بہو نبوت کا (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) رنگ ہے حضرت سرور عالم کی مسجد ہی آپ کی انجمن تھی اور وہی ہر قسم کی ضرورتوں کے پورا کرنے کی جگہ تھی ایک درویش دنیا سے قطع کر کے جنگل میں بیٹھا ہوا اور اپنے تئیں اسی شغل بے شغلی میں پورا با خدا سمجھنے والا اگر ایسے وقت میں آپ کی مسجد میں آجائے کہ جب آپ جہاد کی گفتگو کر رہے ہیں اور ہتھیاروں کو صاف کرنے اور تیز کرنے کا حکم دے رہے ہیں تو وہ کیا خیال کر سکتا ہے کہ آپ ایسے رحیم کریم ہیں کہ رحمتہ للعالمین ہونے کا حق اور بجا دعوی کر رکھا ہے اور ساری دنیا سے زیادہ خدا اور اس کی مخلوق کے حقوق کی رعایت رکھنے والے ہیں.
43 اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص جو دنیا کے فقیروں اور سجادہ نشینوں کا شیفتہ اور خو کر وہ تھا ہماری مسجد میں آیا.لوگوں کو آزادی سے آپ سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہو گیا آپ سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں آپ نے فرمایا میرا یہ مسلک نہیں کہ میں ایسا تند خو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں اور میں بہت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں میں تو بت پرستی کے رد کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں.اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا.میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بت پرست اور خبیث نہیں.متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے؟ آپ اپنے خدام کو بڑے ادب اور احترام سے پکارتے ہیں اور حاضر و غائب ہر ایک کا نام ادب سے لیتے ہیں.میں نے بارہا سنا ہے اندر اپنی زوجہ محترمہ سے آپ گفتگو کر رہے ہیں اور اس اثناء میں کسی خادم کا نام زبان پر آگیا ہے تو بڑے ادب سے لیا ہے جیسے سامنے لیا کرتے ہیں.کبھی تو کر کے کسی کو خطاب نہیں کرتے تحریروں میں جیسا آپ کا عام رویہ ہے "حضرت اخویم مولوی صاحب “ ” اور اخویم " حبي في الله مولوی صاحب اسی طرح تقریر میں بھی فرماتے ہیں حضرت مولوی صاحب یوں فرماتے تھے.میں نے اکثر فقرا اور پیروں کو دیکھا ہے وہ عار سمجھتے ہیں اور اپنے قدر کی کاپشن خیال کرتے ہیں اگر مرید کو عزت سے یاد کریں.کیسر شاہ ایک رند بے باک فقیر تھا اس کا بیٹا کوئی ۲۴ یا ۲۵ برس کی عمر کا تھا سخت بے باک شراب خوار اور تمام قسم کی منہیات کا مرتکب تھا وہ سیالکوٹ میں آیا.شیخ اللہ داد صاحب مرحوم محافظ دفتر جو شہر میں معزز اور اپنی ظاہری وجاہت کے سبب سے مانے ہوئے تھے بد قسمتی اور علم دین سے بے خبر ہونے کے سبب سے اس کے باپ کے مرید تھے.وہ لڑکا آپ کے مکان میں اترا میں نے خود دیکھا کہ وہ شیخ صاحب سے :
44 مخاطب ہوتا ان ہی لفظوں میں ہوتا ”اللہ دادا بھائی توں ایہ کم کرناں".غرض بڑے بڑے شیخ اور پیر دیکھے گئے ہیں انہیں ادب اور احترام سے اپنے متوسلین کے نام لینا گویا بڑی بدکاری کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے.میں نے اتنے دراز عرصہ میں کبھی نہیں سنا کہ آپ نے مجلس میں کسی ایک کو بھی تو کر کے پکارا ہو یا خطاب کیا ہو.اس بات کی طرف ہماری جماعت کو خصوصاً لاہوری احباب کو خاص توجہ کرنی چاہئے.ان میں میں نے دیکھا ہے ایک دوسرے کا نام ادب سے لیا نہیں جاتا.ابھی ایک نوجوان قادیان میں آئے تھے وہ احباب کے ذکر کے سلسلہ میں جب کسی کا ذکر آیا ضمیر واحد اور فعل واحد کا استعمال کرتے تھے جیسے کوئی معمولی حقیر لوگوں کا ذکر کرتا ہے.افسوس بہت سے ہنوز اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ادب کس قدر پاکیزگی اور طہارت دلوں میں پیدا کرتا اور اندر ہی اندر محبت کا بیج بو دیتا ہے وہ اپنے نفسوں کو مغالطہ دیتے ہیں جب خیال کرتے ہیں یا منہ سے کہتے ہیں کہ وہ آپس میں بے تکلف دوست ہیں.اگر وہ پاک جماعت بننا چاہتے ہیں اور مبارک دنوں کے امیدوار ہیں تو آپس میں چھوٹے بڑے کا امتیاز اٹھا دیں اور بات بات اور شریف و وضیع کے خیال کو پاؤں تلے مسل ڈالیں اور ہر ایک سے روبرو ادب و احترام سے پیش آئیں اور غیبت میں ادب سے نام لیں اور ذکر کریں اس وقت یوں ہوگا کہ خداوند کریم وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ عَلِ الآنیہ کا مصداق انہیں بنا دے گا اور وہ دنیا کے لئے شہداء اور مصلح ہوں گے.آپ کی ملاقات کی جگہ عموماً مسجد ہی ہے.آپ اگر بیمار نہ ہوں تو برابر پانچ وقت نماز با جماعت پڑھتے ہیں اور نماز با جماعت کے لئے از بس تاکید کرتے ہیں اور بارہا فرمایا ہے کہ مجھے اس سے زیادہ کسی بات کا رنج نہیں ہو تا کہ جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے.مجھے یاد ہے جن دنوں آدمیوں کی آمدروفت کم تھی آپ بڑی آرزو ظاہر کیا کرتے تھے کہ کاش اپنی ہی جماعت ہو جس سے مل کر پانچوں وقت نماز
45 پڑھا کریں اور فرماتے تھے میں دعا میں مصروف ہوں اور امید ہے کہ اللہ تعالی میری دعا منظور کرے گا آج خدا کا یہ فضل ہے کہ پانچوں نمازوں میں اپنے ہی آدمی اسی نوے سے کم نہیں ہوتے فریضہ ادا کرنے کے بعد آپ معا اندر تشریف لے جاتے ہیں.اور تصنیف کے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں.مغرب کی نماز کے بعد آپ مسجد میں بیٹھے رہتے ہیں.کھانا بھی وہیں دوستوں میں مل کر کھاتے ہیں اور عشاء کی نماز پڑھ کر اندر جاتے ہیں.دوپہر کا کھانا بھی باہر احباب میں مل کر کھاتے ہیں.اس وقت بھی کسی نہ کسی بات پر تقریر ہو جاتی ہے آپ کی ہر ادا سے صاف ترشح ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی حب جاہ اور علو نہیں اور آپ جلوت میں محض خدا تعالی کے امر کی تعمیل کی خاطر بیٹھتے ہیں.فرمایا اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں مجھے تو کشاں کشاں میدان عالم میں اس نے نکالا ہے.جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالی کے کون واقف ہے.میں قریب ۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں.مجھے طبعا اس سے کراہت رہی ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں مگر امر آمر سے مجبور ہوں.فرمایا میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا میر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالی کے امر کی تعمیل کی بنا پر ہے.آپ دینی سائل کو خواہ کیسا ہی بے باکی سے بات چیت کرنے اور گفتگو بھی آپ کے دعوئی کے متعلق ہو بڑی نرمی سے جواب دیتے اور تحمل سے کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا مطلب سمجھ جائے.ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تیں جہاں گرد اور سرد و گرم زمانه دیده و چشیدہ ظاہر کرتا تھا ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے باب کلام دا کیا اور تھوڑی ہی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا آپ اپنے دعوے میں کاذب ہیں اور میں نے ایسے مکار
46 بہت سے دیکھتے ہیں اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں غرض ایسے ہی بے باکانہ الفاظ کے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا بڑے سکون سے سنا کئے اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا.کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقعہ ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم میں یا نثر میں کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو آپ نے سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت اور ملامت کا اظہار نہیں کیا.بسا اوقات بعض سامعین اس دلخراشن لغو کلام سے گھبرا کر اٹھ گئے ہیں اور آپس میں نفرین کے طور پر کانا پھوسی کی ہے اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حوصلے اور ارمان بھی نکالے ہیں مگر مظہر خدا کی حلیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا.کوئی دوست کوئی خدمت کرے کوئی شعر بنا لائے کوئی مضمون تائیکہ حق پر آپ بڑی قدر کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور بارہا فرماتے ہیں کہ اگر نکھے کوئی تائید دین کے لئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے اصل قبلہ ہمت آپ کا دین اور خدمت دین ہی ہے.فرماتے ہیں جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلاوے کہ وہ خادم دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے.بارہا قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہم ہر ایک شے سے محض خدا تعالٰی کے لئے پیار کرتے ہیں.بیوی ہو بچے ہوں دوست ہوں سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالی کے لئے ہے.کوئی شخص آپ سے محبت لگائے اور گاڑھا تعلق پیدا کرے وہ بالمقابل آپ کی محبت دیکھ کر شرمندہ ہو جاتا اور اپنی محبت کو بہت کم اور پست دیکھتا ہے.دنیا میں کوئی ایسا رشتہ نہیں جسے اپنے کسی متعلق کے سود و بہبود کی وہ فکر ہو جو آپ کو اپنے متوسلین کی ہے.ہاں شرط یہ ہے کہ وہ مومن اور متقی اور خادم دین ہو یوں تو عام طور پر آپ کو سب کی فلاح و
47 صلاح مد نظر رہتی ہے مگر مومنوں کے ساتھ تو خاص محبت اور تعلق ہے میں گذشتہ اکتوبر میں بیمار ہو گیا اور اس وقت چند روز کے لئے سیالکوٹ میں گیا ہوا تھا.میری حالت بہت نازک ہو گئی میرے عزیز مکرم دوست میر حامد شاہ صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ضلع سیالکوٹ نے میری بیماری کے متعلق حضرت کو خط لکھا آپ نے اس کے جواب میں جو خط لکھا میں اسے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں اس لئے کہ میرے نزدیک وہ خط حضرت کے مظہر اللہ ہونے کی بڑی دلیل ہے وانما الاعمال بالنیات اور وہ یہ ہے."مکرمی اخویم مولوی عبد الکریم صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته اس وقت قریباً دو بجے کے وقت وہ خط پہنچا جو اخویم سید حامد شاہ صاحب نے آپ کے حالات علالت کے بارے میں لکھا ہے.خط کے پڑھتے ہی کوفت غم سے وہ حالت ہوئی جو خدا تعالٰی جانتا ہے اللہ تعالٰی اپنا خاص رحم فرمائے میں خاص توجہ سے دعا کروں گا.اصل بات یہ ہے کہ میری تمام جماعت میں آپ دو ہی آدمی ہیں جنہوں نے میرے لئے اپنی زندگی دین کی راہ میں وقف کر دی ہے ایک آپ ہیں اور ایک مولوی حکیم نور الدین صاحب ابھی تک تیسرا آدمی پیدا نہیں ہوا اس لئے جس قدر ہے اور جس قدر بے آرامی ہے بجز خدا تعالیٰ کے اور کون جانتا ہے اللہ تعالٰی شفا بخشے اور رحم فرمائے اور آپ کی عمر دراز کرے آمین ثم آمین.جلد کامل صحت سے مجھے اطلاع بخشیں.خاکسار مرزا غلام احمد از قاریان ۲۴ - اکتوبر ۱۸۹۹ء.خدا کا شکر ہے کہ آپ کی دعا سے مجھے صحت ہو گئی.غرض ہمارے برگزیدہ احباب کے زمرہ میں کوئی ایسا نہیں جو صدق دل سے اعتراف نہیں کرتا کہ حضرت کا ہاتھ اس کے ہاتھ کے اوپر ہے اور ہر حال میں اوپر ہے.آپ کوئی مضمون لکھا ہوا سنائیں یا اشتہار کا مسودہ مجلس میں سنائیں اس لئے کہ آپ کی اکثر عادت ہے کہ مطبع میں دینے سے پہلے خدام کو سنا دیتے ہیں اگر کوئی گرفت کرے اور کوئی بات بتائے تو ا زبس خوش ہوتے ہیں.میں نے اس خصلت
48 میں آپ کو لا نظیر پایا ہے.ایک مولوی اور دنیا کا مولف یا مصنف آگ بگولہ ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات پر حرف رکھے اور اپنے تئیں معصوم مانتا ہے.محضن حضرت کے تعلق کی اپنے خدام سے ایک عجیب بات ایک دن فرمایا میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے اس سے قطع نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرو ہو تو بلا خون لامتہ لائم کے اسے اٹھا کر ا لے آئیں گے.فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کر دیتا نہ چاہئے.اور دوستوں سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آوے اسے اغماض اور محمل کے محل میں اتارنا چاہئے.بھائیوں کو اس سیرت سے بڑا بھاری سبق لینا چاہئے.بات بات پر بگڑ جانا اور اشتعال کے وقت عامیوں اور جنبیوں کا سا ایک دوسرے سے سلوک کرنا اس عہد کے خلاف ہے جو ید اللہ سے باندھا گیا ہے.افسوس بہتیرے ایسے ہیں جنہوں نے اب تک اس راز کو سمجھا نہیں کہ قوم کس طرح بنتی ہے ہم سب کا یہ اصول ہونا چاہئے کہ اگر ایک کتے کے منہ سے بھی وہ پیارا نام نکل جائے جس کو ہم نے آج تمام دنیا و مافیہا سے گرامی سمجھا ہے تو اس کا منہ چاٹ لینے میں ذرا پس و پیش نہ کرنا چاہئے.پھر آپس میں تکرار اور رنج کس قدر نامناسب بات ہے.سیٹھ صاحب نے اپنے کسی ضروری کام کے لئے 10 جنوری کو اجازت مانگی اور آپ کو بلانے کے لئے دو راس سے تار بھی آیا تھا حضرت نے فرمایا آپ کا اس مبارک مہینہ میں یہاں رہنا از بس ضروری ہے.اور فرمایا ہم آپ کے لئے وہ دعا کرنے کو تیار ہیں جس سے باذن اللہ پہاڑ بھی ٹل جائے فرمایا میں آج کل احباب کے پاس کم بیٹھتا ہوں اور زیادہ حصہ اکیلا رہتا ہوں.یہ احباب کے حق میں از بس مفید ہے.میں تنہائی میں بڑی فراغت سے دعائیں کرتا ہوں اور رات کا بہت ناحصہ بھی دعاؤں میں صرف ہوتا ہے.منہ - ry اه حضرت سیٹھ عبد الر حمن مداری ک رمضان المبارک
49 آپ کسی کو اس کی خطا اور لغزش پر مخاطب کر کے ملامت نہیں کرتے.اگر کسی کی حرکت ناپسند آوے تو مختلف پیرایوں میں عام طور پر تقریر کر دیں گے اگر وہ سعید ہوتا ہے تو خود ہی سمجھ جاتا اور اپنی حرکت پر نادم ہوتا ہے.آپ جب تقریر وعظ و نصیحت کی کرتے ہیں ہر ایک ایسا ہی یقین کرتا ہے کہ یہ میرے ہی عیب ہیں جو آپ بیان کر رہے ہیں اور یوں اصلاح اور تزکیہ کا پاک سلسلہ بڑی عمدگی سے جاری رہتا ہے اور کسی کو کوئی ابتلاء پیش نہیں آتا اور نہ کسی کی حمیت اور ناک کو چوٹ لگتی ہے کہ جاہلیت کی جرات سے اور بھی گناہ پر آمادہ اور دلیر ہو.اس سیرت میں بڑا عمدہ سبق ہے ان لوگوں کے لئے جو ذرا سا کسی کا نقص دیکھ کر اصلاح کے لباس میں اسے یوں کاٹنے پڑتے ہیں کہ درندہ بھی شرمندہ ہو جائے اور بجائے صلح کارمی کے فساد پھیلاتے ہیں.اس اصلاح کا اتنا ثواب نہ ہو تا جتنا وہ جنگ و جدل کر کے عقاب و عذاب خرید لاتے ہیں.افسوس میں نے اکثر مولویوں خصوصاً غیر مقلدوں کو تبلیغ میں درشت تند خو اور بد زبان پایا ہے.کسی کی ذرا مونچھیں بڑھی ہوں اور پاجامہ ذرا مخنوں سے نیچا ہو اور ان کی مسجدوں میں گھس جائے تو سمجھو کہ وہ یا غستان میں گھس گیا اب خدا ہی ہے جو پھر سلامت اسے درہ خیبر سے یا علی مسجد سے واپس لائے.افسوس یہ رحمتہ للعالمین کی سیرت بیان کرنے کے وقت تو وہ حدیث بھی بیان کر جاتے ہیں کہ کسی نے آنحضرت ا اللہ کی مسجد میں پیشاب کر دیا اور آپ نے اسے کچھ بھی نہ کہا.مگر عملاً کچھ بھی نہیں دکھاتے.مجھے خوب یاد ہے ڈاکٹر فضل الدین صاحب اسٹنٹ سرجن جن دنوں سیالکوٹ میں متعین تھے ایک دفعہ کسی کام پر مجھے ساتھ لے کر جموں گئے اور مولوی نور الدین کے ہاں فروکش ہوئے.ان دونوں عبد الواحد غزنوی بھی وہیں رہا کرتے تھے ڈاکٹر صاحب نے اس وقت بڑی بھاری بھر کم شلوار پہن رکھی تھی.ابھی تھوڑی ہی
50 دیر ہوئی تھی ہمیں وہاں پہنچے ہوئے.ہاں ہنوز وہاں بیٹھے بھی نہ تھے کھڑے ہی تھے جو مولوی غزنوی صاحب سامنے سے نمودار ہوئے.ہاتھ میں آپ کے پتلی سی چھڑی تھی.جھٹ پاس آتے ہی چھڑی ڈاکٹر صاحب کی شلوار سے لگا دی اور چیں بجیں تند خو اور ترش مگر دھیمی آواز سے اپنی افغانی اردو میں فرمایا یہ پاجامہ مخنوں سے نیچا ہے یہ حرام ہے.ڈاکٹر صاحب آزاد طبع اور ان رسوم سے قطعاً غافل اور لاپرواہ اس قدر پر ہم ہوئے کہ اگر مولوی صاحب کا پاس نہ ہوتا تو عبد الواحد کو امر بالمعروف کی کیفیت سمجھا دیتے.غرض اس میں ہمارے امام قدم بقدم حضور سرور عالم سید الاصفیاء ا کے چلتے ہیں اور عقد ہمت اور دعا سے خطا کار کی طرف متوجہ رہتے ہیں.یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اسے القا کے ذریعہ یا اور ذریعہ سے اصلاح کی توفیق دیتا ہے.آپ مجلس میں ذو معنی بات نہیں کرتے نہ کبھی آنکھ کے اشارے سے کوئی بات کرتے ہیں.کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ آپ نے کسی کو لگا کر کوئی بات کی ہو یا مجلس میں کسی کو مخاطب کر کے کہا ہو کہ ہم تم پر ناراض ہیں تمہاری فلاں حرکت ہمیں ناگوار ہے اور فلاں بات مکروہ ہے.آپ کو جیسا کہ خدا کی طرف سے یہ خطاب ملا اور کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَو كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ حقیقت میں آپ کی ذات میں ایسی لیست اور حلم اور اغماض ہے کہ مزیدے براں متصور نہیں ہو سکتا.اور کوئی شخص جو کسی گلہ کا گلہ بان ہونا چاہے اور متفرق افراد کو جمع کرنا چاہے جب تک اس میں لینت نہ ہوگی ہر گز کامیاب نہ ہو گا.میں نے اپنے بعض مکرم دوستوں اور بہتوں کو شکایت کرتے سنا ہے کہ کوئی ان کی بات نہیں مانتا اور باوجود طرح طرح کے احسانوں کے قلوب ان کے فتراک سے متعلق نہیں ہوتے اور لوگوں میں ان کی طرف سے وحشت رہتی ہے وہ حضرت امام کی سیرت اغماض اور عفو کو اپنا اسوہ
51 بنائیں.نکتہ چینی اور ٹوک اور مجلس میں ذو معنی بات اور لگا کر بات کرنی اور مجمع میں کسی پر اظہار ناراضی کرنا یک قلم ترک کر دیں نیہ سیرت در حقیقت ایک شیشہ یا قمقمه ہے جس میں ہزاروں جن اور پریاں بند کی جا سکتی ہیں یا طلسم ہے کہ جو اس میں ایک مرتبہ پھنس جائے پھر نکلنے کی کوئی راہ نہیں.اکثرون کو باہر سیر کرنے جاتے ہیں اور راہ میں مناسب وقت تقریر کرتے ہیں ہمیشہ پشت پا پر نظر کر کے چلتے ہیں دائیں بائیں کبھی نہیں دیکھتے اور چلتے میں خدا تعالٰی نے ایسی طاقت دے رکھی ہے کہ کوسوں پیادہ سفر کر سکتے ہیں.حضرت کبھی پسند نہیں کرتے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں.آنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں اور جانے پر کرہ سے رخصت دیتے ہیں.اور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں.اب کی دفعہ دسمبر میں بہت کم لوگ آئے اس پر بہت اظہار افسوس کیا اور فرمایا ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں.وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں اور فرمایا جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اسپر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھرنے میں ہم پر بوجھ ہو گا اسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا خیال ہو جائے تو ہماری مہمات کا متکفل خدا ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں.ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے.یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہئے.میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں ہم تو سکتے ہیں یوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں توڑا کریں.وہ یاد رکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں.ایک روز حکیم فضل الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور
52 میں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو فرمایا آپ کا یہاں بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے.غرض بڑے درد ناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے حضور میں کے عذر کیا تھا اِنَّ بَيُوتُنَا عَوْرَةُ اور خدا تعالٰی نے ان کی تکذیب کر دی کہ اِن تُرِيدُونَ الأَفِرَارًا برادران.میں بھی بہت کڑھتا ہوں اپنے ان بھائیوں کے حال پر جو آنے میں کو تاہی کرتے ہیں.اور میں بارہا سوچتا ہوں کہ کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو ان کو یقین دلا سکوں کہ یہاں رہنے میں کیا فائدے ہوتے ہیں.علم صحیح اور عقائد صحیحہ بجر یہاں رہنے کے میر آہی نہیں سکتے.ایک مفتی صادق صاحب کو دیکھتا ہوں اسلمہ اللہ و بارک لہ و علیہ وفیہ) کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود.مفتی صاحب تو نقاب کی طرح ای تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زور آور ہاتھوں سے کوئی فرصت کریں اور محبوب و مولی کی زیارت کا شرف حاصل کریں.اے عزیز برادر خدا تیری ہمت میں استقامت اور تیری کوششوں میں برکت ڈالے اور تجھے ہماری جماعت میں قاتل اقتدا اور قابل فخر کارنامہ بنائے.حضرت نے بھی فرمایا لاہور سے ہمارے حصہ میں تو مفتی صادق صاحب ہی آئے ہیں.میں حیران ہوں کہ کیا مفتی صاحب کی کوئی بڑی آمدنی ہے اور کیا مفتی صاحب کی جیب میں کسی متعلق کی درخواست کا ہاتھ نہیں پڑتا اور مفتی صاحب تو ہنوز نو عمر ہیں اور اس عمر میں کیا کیا امنگیں نہیں ہوا کرتیں.پھر مفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشق کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے کہ وہ ساری زنجیروں کو توڑ تاڑ کر دیوانہ وار بٹالہ میں اتر کر نہ رات
53 دیکھتے ہیں نہ دن نہ سردی نہ گرمی نہ بارش نہ اندھیری آدھی آدھی رات کو پیاده پا پہنچتے ہیں جماعت کو اس نوجوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہئے.فرمایا ہمارے دوستوں کو کس نے بتایا ہے کہ زندگی بڑی لمبی ہے.موت کا کوئی وقت نہیں کہ کب سر پر ٹوٹ پڑے اس لئے مناسب ہے کہ جو وقت ملے اسے غنیمت سمجھیں فرمایا یہ ایام پھر نہ ملیں گے اور یہ کہانیاں رہ جائیں گی بھائیو خدا کے لئے تلافی کرو اور ان جھوٹے تعلقات کی بستگی سے دست کشی کرو اور یاد رکھو ابدی کام آنے والا تعلق یہی ہے اور کوئی نہیں باقی سارے تعلقات حسرت ہو جائیں گے یا گناہ کی صورت میں طوق گلو ہوں گے.میں ہمیشہ حضرت کی اس سیرت سے کہ وہ بہت چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے پاس رہیں یہ نتیجہ نکالا کرتا ہوں کہ یہ آپ کی صداقت کی بڑی بھاری دلیل ہے اور آپ کی روح کو کامل شعور ہے کہ آپ منجانب اللہ اور راستباز ہیں.جھوٹا ایک دن میں گھبرا جاتا اور دوسروں کو دھکے دے کر نکالتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کا پول ظاہر ہو جائے.مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے اور جو کسی کی تحریک سے ذکر آجائے تو برے نام سے یاد نہیں کرتے یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں ورنہ جس طرح کی ایذا قوم نے دی ہے اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے تو رات دن کڑھتے رہتے اور ایر پھیر کر ان ہی کا مذکور درمیان لاتے اور یوں خواس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آجاتا.زنلی جیسی گالیاں دینے والا عرب کے مشرک بھی حضور سرور عالم کے مقابل نہ لا سکے مگر میں خدا تعالٰی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ پلاک پرچہ اوقات گرامی میں کوئی بھی خلل کبھی بھی ڈال نہیں سکا تحریر میں ان موڈیوں کا بر محل ذکر کوئی دیکھے تو یہ شاید خیال کرے کہ رات دن انہیں مفسدین کا آپ ذکر کرتے ہوں گے.مگر ایک مجسٹریٹ کی طرح جو اپنی مفوضہ ڈیوٹی
54 سے فارغ ہو کر پھر کسی کی ڈگری یا ڈسمس یا سزا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نہ اسے در حقیقت کسی سے ذاتی لگاؤ یا اشتعال ہوتا ہے اسی طرح حضرت تحریر میں ابطال باطل اور احقاق حق کے لئے لوجہ اللہ لکھتے ہیں آپ کے نفس کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا ایک روز فرمایا ”میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالٰی نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہو گا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا“ آپ کی استقامت اور قوت قلب اولوالعزم انبياء عليهم الصلوة والسلام کی طرح کسی ترہیب اور رعب انداز نظارہ سے متاثر نہیں ہوتی.کوئی ہولناک واقعہ اور غم انگیز سانحہ آپ کی توجہ کو منتشر اور مفوض کام سے غافل نہیں کر سکتا.اقدام قتل کا مقدمہ جسے پادریوں نے برپا کیا اور جن کی تائید میں بعض ناعاقبت اندیش نام کے مسلمان اور آریہ بھی شامل ہو گئے تھے ایک دنیا دار کا پتہ پگھلا دینے اور اس کا دل پریشان اور حواس مختل کر دینے کو کافی تھا مگر حضرت کے کسی معاملہ میں لکھتے ہیں.معاشرت میں.باہر خدام سے کشادہ پیشانی اور رافت سے ملنے میں غرض کسی حرکت و سکون میں کوئی فرق نہ آیا.کوئی آدمی قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ پر کوئی مقدمہ ہے کسی خوفناک رپورٹ کو جو کسی وقت کسی دوست کی طرف سے پہنچی ہے کہ فلاں شخص نے یہ مخبری کی ہے اور فلاں جگہ بڑی بڑی سازشیں آپ کے خلاف ہو رہی ہیں اور فلاں شخص شملہ کے پہاڑوں سے سر ٹکراتا اور ماتھا پھوڑتا پھرتا ہے کہ آپ کے دامن عزت پر اپنے ناپاک خون کا کوئی دھبہ ہی لگا رے کبھی آپ نے مرعوب دل سے نہیں سنا.آپ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ کوئی معاملہ زمین پر واقع نہیں ہوتا جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے بندہ
55 کو ذلیل اور ضائع نہیں کرے گا یہ ایک ایسار کن شدید ہے جو ہر مصیبت میں آپ کا حصن حصین ہے.میں مختلف شہروں اور ناگوار نظاروں میں آپ کے ساتھ رہا ہوں.دیلی کی ناشکر گزار اور جلد باز مخلوق کے مقابل.پٹیالہ جالندھر.کپور تھلہ - امرتسر لاہور اور سیالکوٹ کے مخالفوں کی متفق اور منفرد دل آزار کوششوں کے مقابل میں آپ کا حیرت انگیز مبر اور علم اور ثبات دیکھا ہے کبھی آپ نے خلوت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلاں شخص یا فلاں قوم نے ہمارے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبان سے یہ نکالا.میں صاف دیکھتا تھا کہ آپ ایک پہاڑ ہیں کہ ناتوان پست ہمت چو ہے اس میں سرنگ کھور نہیں سکتے.ایک دفعہ آپ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا.ابتلاء کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خدا تعالی کی قسم ہے کہ اس عشق و محبت اللی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں" پھر یہ پڑھا هَل تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی.اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمار داری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں گویا اور کوئی فکر ہی نہیں.مگر باریک میں دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کے لئے ہے اور خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مد نظر ہے.آپ کی پہلوٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا روی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیادار دنیا کی عرف و اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاری کر نہیں سکتا مگر جب وہ مرگئی آپ یوں
56 الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی.مصالحت اور مسالمت خدا کی قضاء و قدر سے بجز منجانب اللہ لوگوں کے ممکن نہیں.کوئی نوکر کو کتنا بڑا نقصان کر دے آپ معاف کر دیتے اور معمولی چشم نمائی بھی نہیں کرتے حامد علی کو کچھ لفافے اور کارڈ ڈاک خانہ میں ڈالنے کو دیئے فراموش کار حامد علی کسی اور کام میں مصروف ہو گیا اور اپنے مفوض کام کو بھول گیا.ایک ہفتہ کے بعد محمود جو ہنوز بچہ تھا کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑا آیا کہ ایا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں آپ نے دیکھا تو وہی خط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط تھے اور آپ ان کے جواب کے منتظر تھے حامد علی کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا ”حامد علی تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے فکر سے کام کیا کرو.ایک ہی چیز ہے جو آپ کو متاثر کرتی اور جنبش میں لاتی اور حد سے زیادہ غصہ دلاتی ہے.وہ ہے ہتک حرمات اللہ اور اہانت شعائر الله - فرمایا ” میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے یہ نسبت دین کے ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے “.جن دنوں - میں وہ موذی اور خبیث کتاب " امہات المومنین " جس میں بجز دل آزاری کے اور کوئی معقول بات نہیں چھپ کر آئی ہے اس قدر صدمہ اس کے دیکھنے سے آپ کو ہوا کہ زبانی فرمایا کہ ”ہمارا آرام تلخ ہو گیا ہے." یہ اسی صدمہ اور توجہ الی اللہ کا نتیجہ ہے کہ خدا تعالٰی نے اس باطل عظیم اور شرک جسیم ( مسیح کی الوہیت اور کفارہ) کے استیصال کے لئے وہ حربہ آپ کے ہاتھ میں دیا یعنی مرہم عیسی اور مسیح کی قبر کا نشان کشمیر میں آپ کو ملا- نزدیک ہے دور نہیں کہ مسیح کی قبر اس باطل کے پرستاروں
57 کے گھر گھر میں ماتم ڈالے اور مسلمانوں کے دل ٹھنڈے ہوں اور اس رنج کو بھول جائیں جو اس ناپاک کتاب سے انہیں پہنچا.آپ کے تعلقات غیر قوموں سے ایسے ہیں کہ اس سے بہتر ممکن نہیں ہر ایک کی بہتری چاہتے ہیں خواہ کسی مذہب کا ہو.کافہ بنی نوع کی بہبود آپ کا قبلہ ہمت اور نصب مین فرض ہے.قادیان کے ہندو ہر ایک مصیبت کے وقت آپ کے وجود میں امین اور مفید صلاح کار پاتے ہیں.مذہب کے لحاظ سے بعض یہاں کے ہندو آریہ اور اسلام کے مخالف ہیں اور حضرت کو عظیم الشان اور پختہ مسلمان تسلیم کرتے ہیں اور مذاہب باطلہ کی بیخ کنی کرنے والا دل سے یقین کرتے ہیں مگر حضرت کوئی دوا بتائیں اس پر ایک رشی کی بات سے کم تریقین نہیں رکھتے.ہمیشہ اپنے خدام کو تقریر و تحریر میں یہی نصیحت کرتے اور اس پر بڑا زور دیتے ہیں کہ کسی جاندار کی حق تلفی نہ کرو اور تمہاری زبانوں اور کاموں میں فریب اور ایذا نہ ہو بادشاه وقت (گورنمنٹ برطانیہ) سے جو آپ کے پاک اور بچے تعلقات ہیں وہ آپ کی کتابوں اور آئے دن کے اشتہاروں سے صاف ظاہر ہیں.میں نے دس برس کے عرصہ میں خلوت و جلوت میں کبھی نہیں سنا کہ کبھی اشارہ یا کنایہ یا صراحت سے کوئی کمہ برا گورنمنٹ یا گورنمنٹ کے کسی آئینشل کی نسبت آپ کے منہ سے نکلا ہو.ہزاروں روپے خرچ کر کے عربی فارسی میں آپ نے رسائل تالیف کئے اور بلاد شام و عرب و افغانستان وغیرہ میں پھیلائے جن میں سرکار انگریزی کی اعلیٰ درجہ کی حمایت ک ہے قوموں کو ایسی حکومت کے ظل عاطفت کے نیچے آنے کی بہت ترغیب دی ہے.برادران چونکہ اور کام بہت ہیں اب بالفعل اتنے پر بس کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ نے نیا علم بخشا اور قلم پکڑنے کی توفیق دی تو پھر اس مضمون پر لکھوں گا.خدا
58 تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میری اس تحریر کو قبول کرے اور اسے بہتوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے.آمین عبدالکریم - قادیان- ۶ - جنوری ۱۹۰۰ء
59 عملہ اگرچہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اب جو کچھ لکھتا ہوں اسے آئندہ خط میں لکھوں گا مگر بھائیوں کی محبت اور خاطر داری اور عدم یقین بحیات نے مجبور کیا کہ آئندہ پر اسے نہ اٹھا رکھوں.برادران کل عجیب اور غیر معمولی روز قادیان میں تھا.ہمارے ہمسائے ہوں تو جو عنایتیں اور کرم ہمارے حال پر سدا مبذول فرماتے ہیں وہ کچھ کم یادگار اور کم شکریہ کے قابل نہیں مگر کل ان کی انتقامی قوت اور سبیعی جوش نے ایک نئی اور غیر مترقب راہ نکالی ہماری مسجد کو آنے والی اور شارع عام گلی کو کچی اینٹوں سے پاٹ دیا یہ واقعہ - جنوری 1900 ء کا ہے اور اس راہ میں کانٹے بچھانے والے پہلوان کے نقش قدم کی پوری پیروی کی.اب ہمارے مہمان گاؤں کے گرد چکر لگا کر اور بڑا پھیر کھا کر مسجد مبارک میں آتے ہیں.حضرت اقدس کو کل معمولاً درد سر تھا اور ہم نے بھی عادتنا یقین کر لیا تھا کہ تحریک تو ہو ہی گئی ہے اب خدا کا کلام نازل ہو گا.ظہر کے وقت آپ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا درد سر بہت ہے.دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھ لی جائیں.نماز پڑھ کر اندر تشریف لے گئے اور سلسلہ الہام شروع ہوا اور مغرب تک تار بندھا رہا مغرب کو تشریف لائے اور الہام اور کلام الہی پر بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے کہ کس طرح خدا کا کلام نازل ہوتا ہے اور ملہم کو اس پر کیسا یقین ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے الفاظ ہیں اگرچہ دوسرے اس کی کیفیت سمجھ نہ سکیں.اور پھر ان الماموں کی قافیہ بندی پر تقریر کرتے رہے اور فرمایا قرآن کی عظمت اس سے سمجھ میں آتی ہے اور اس کی عبارت کا مقفی مسیع ہونا اور اس کی
60 خوبی اسی طریق سے سمجھ میں آسکتی ہے.اور وہ الہامات یہ ہیں.الرَّحَى تَدُورُ وَيُنْزِلُ الْقَضَاءُهِ إِنَّ فَضْلَ اللَّهِ لَاتِ وَ لَيْسَ لاحَدٍ أَنْ يَرُدُّ مَا أَتَى قُلْ إِلَى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقُّ لَا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفَى وَيَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْهُ وَحَى مِنْ رَبِّ السَّمَوَاتِ الْعُلَى إِنَّ رَبِّي لَا يَضِلُّ وَيَا يَنْسى ، ظَفَرُ مُّبِيْنَ وَ إِنَّمَا تُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَعَى ٥ انْتَ مَعِي وَأَنَا مَعَكَ قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُ فِي غَيْهِ يَتَمَطَى إِنَّهُ مَعَكَ وَإِنَّهُ يَعْلَمُ السَّرَ وَ مَا اخْفَى ا لا اله إلا هُوَ يَعْلَمُ كُلَّ شَى و يرى.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسْنَى هِ إِنَّا أَرْسَلْنَا أَحْمَدَ إِلى قَوْمِهِ فَأَعْرَضُوا وَقَالُوا كَذَّابٌ أَشِرَ هِ وَجَعَلُوا يَشْهَدُونَ عَلَيْهِ وَ يَسِيلُونَ كَمَاء مُنْهَمِرٍ إِنَّ حَتَّى قَرِيْبَ إِنَّهُ قريب مستتر ترجمہ چکی پھرے گی اور قضا نازل ہوگی.یقیناً خدا کا فضل آنے والا ہے اور کسی کی شان نہیں کہ رد کرے اسے جو آگیا.کہدے ہاں میرے رب کی قسم وہ یقینا حق ہے وہ نہ بدلے گا اور نہ مخفی رہے گا.اور اترے گا جس سے تو اچنبھے میں رہ جائے گا.یہ وحی ہے جو بلند آسمانوں کے رب سے ہے.میرا رب نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے.فتح میں ہے اور انہیں ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے.تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.کہدے اللہ پھر اسے چھوڑ دے که تا وه اپنی ناز میں مٹک مٹک کر چلا کرے.وہ تیرے ساتھ ہے اور وہ جانتا ہے سر کو اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز کو.کوئی معبود نہیں بجز اس کے اور وہ ہر شے کو جانتا اور دیکھتا ہے.اللہ ان کے ساتھ ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکی کو ستوار کے کرتے ہیں.ہم نے احمد کو بھیجا اس کی قوم کی طرف پس انہوں نے اعراض کیا اور کہا جھوٹا خود پسند ہے.اور اس کے خلاف شہادت دیتے اور اس کی طرف
61 جرار پانی کی طرح دوڑتے ہیں.میرا محبوب قریب ہے.وہ قریب ہے مگر چھپا ہوا.ان میں بعض الہام اس پیشگوئی کی تصدیق و تائید میں ہیں جس کی انتظار کی طرف آنکھیں لگ رہی ہیں ایک تدبر کرنے والا خود الفاظ سے کنہ حقیقت میں پے لے جاسکتا ہے.
62 ضمیمہ ایک روز اخراجات کا تذکرہ ہوا.ہمارے ایک مکرم دوست نے کہا کہ میں اتنے میں گزاراہ کرتا ہوں.کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ.آپ نے فرمایا الیہ تعالی بہتر جانتا ہے کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اہم تحمل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دو دو وقت بڑے آرام سے بسر کر سکتا ہوں." اور فرمایا ”ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کر سکتا ہے اس کے امتحان کے لئے چھ ماہ تک میں نے کچھ نہ کھایا کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھا لیا اور چھ ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے.اس اثناء میں دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا تھا اور مجھے اپنی حالت کا انتظا منظور تھا.اس اتفا کی تدابیر کے لئے جو زحمت مجھے اٹھانی پڑتی تھی شاید وہ زحمت اوروں کو بھوک سے نہ ہوتی ہوگی.میں وہ دو وقت کی روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کر دیتا اس حال میں نماز پانچوں وقت مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناؤں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا " فرمایا ”خدا تعالٰی نے جس کام کے لئے کسی کو پیدا کیا ہے اس کی تیاری اور لوازم اور اس کے سر انجام اور مہمات کے ملے کے لئے اس میں قومی بھی تناسب حال پیدا کئے ہیں دوسرے لوگ جو حقیقت فطرت کے مقتضا سے وہ نہیں رکھتے اور ریاستوں میں پڑ جاتے ہیں آخر کار دیوانے اور منحبط الحواس ہو جاتے ہیں " اسی ضمن میں فرمایا کہ طبیبوں نے نیند کے نئے طبعی اسباب مقرر کئے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب خدا تعالٰی کا ارادہ ہوتا ہے کہ ہم سے کلام کرے اس وقت پوری بیداری میں ہوتے ہیں اور یک دم ربودگی اور غنودگی وارد کر دیتا ہے اور اس قومی
63 جسمانی عالم سے قطعاً باہر لے جاتا ہے اس لئے کہ اس عالم سے پوری مناسبت ہو جائے.پھریوں ہوتا ہے کہ جب ایک مرتبہ کلام کر چکتا ہے پھر ہوش و حواس واپس دے دیتا ہے اس لئے کہ ملہم اسے محفوظ کر لے اس کے بعد پھر ربودگی طاری کرتا ہے پھر یاد کرنے کے لئے بیدار کر دیتا ہے غرض اس طرح کبھی پچاس دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے وہ ایک تصرف الہی ہوتا ہے اس طبعی نیند سے اس کو کوئی تعلق نہیں اور اطباء اور ڈاکٹر اس کی ماہیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے." آپ سائل کو رد نہیں کرتے جو کچھ میسر ہو وے دیتے ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ نماز عصر کے بعد آپ معمولاً اٹھے اور مسجد کی کھڑکی میں اندر جانے کے لئے پاؤں رکھنا اتنے میں ایک سائل نے آہستہ سے کہا کہ میں سوالی ہوں حضرت کو اس وقت ایک ضروری کام بھی تھا اور کچھ اس کی آواز دوسرے لوگوں کی آوازوں میں مل جل گئی تھی جو نماز کے بعد اٹھے اور عادتاً آپس میں کوئی نہ کوئی بات کرتے تھے.غرض حضرت سرزدہ اندر چلے گئے اور التفات نہ کیا مگر جب نیچے گئے وہی دھیمی آواز جو کان میں پڑی تھی اب اس نے اپنا نمایاں اثر آپ کے قلب پر کیا.جلد واپس تشریف لائے اور خلیفہ نور الدین صاحب کو آواز دی کہ ایک سائل تھا اسے دیکھو کہاں ہے وہ سائل آپ کے جانے کے بعد چلا گیا تھا ظیفہ صاحب نے ہر چند ڈھونڈا پتہ نہ بلا.شام کو حسب عادت نماز پڑھ کر بیٹھے وہی سائل آگیا اور سوال کیا.حضرت نے بہت جلدی جیب سے کچھ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیا.اور اب ایسا معلوم ہوا کہ آپ ایسے خوش ہوئے ہیں کہ گویا کوئی بوجھ آپ کے اوپر سے اتر گیا ہے.چند روز کے بعد ایک تقریب سے ذکر کیا کہ اس دن جو وہ سائل نہ ملا میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ مجھے سخت بے قرار کر رکھا تھا اور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سرزد ہوتی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہیں کیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا.اللہ
:.64 تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آگیا ورنہ خدا جانے میں کسی اضطراب میں پڑا رہتا.اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالی اسے واپس لائے.برادران - چونکہ اور کام بہت ہیں اب بالفعل اتنے پر بس کرتا ہوں.اگر خدا تعالٰی نے نیا علم بخشا اور قلم پکڑنے کی توفیق دی تو پھر اس مضمون پر لکھوں گا خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میری اس تحریر کو قبول کرے اور اسے بہتوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے.عبد الکریم از قادیان-۷ - جنوری ۱۹۰۰ء