Language: UR
اس کتاب میں بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پاکیزہ سوانح سے سیرت کے مختلف واقعات کو مختصر طور پر اور آسان زبان میں پیش کیا گیا ہے، تاکہ بچے اس کو شوق سے پڑھیں اور احمدی مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے آپ علیہ السلام کی حیات طیبہ کے واقعات سناکر بچوں میں خدا اور مذہب سے قربت ومحبت پیدا کرسکیں۔
بسلسلہ صدسالہ خلافت احمدیہ جو بلی سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لو صد سالہ خلافت جوہلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پیارے بچو! سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السه جب آپ سکول میں داخل ہوتے ہیں یا نئی کلاس میں جاتے ہیں تو آپ نئی کتابیں خریدتے ہیں جو خوبصورت معلوم ہوتی ہیں.لیکن آپ ان نصاب کی کتابوں کو خود نہیں پڑھ سکتے.اس لئے آپ کو ایک اچھا استاد اور ایک اچھا سکول چاہیے.اس لئے آپ سب سکول جاتے ہیں.وہاں آپ کے استاد آپ کو محنت سے پڑھاتے ہیں.بالکل اسی طرح بچھو اسو سال قبل ایک واقعہ ہوا.اسلام ہمارا پیارا دین تو موجود تھا اور خدا تعالی نے جو نصاب یعنی قرآن کریم نازل کیا تھا وہ بھی موجود تھا لیکن لوگوں نے کیا کیا کہ اسے خوبصورت غلافوں میں لپیٹ کر رکھ دیا.وہ تو پڑھنے اور عمل کے لئے نازل ہوا تھا.ہوا یہ کہ اب کوئی استاد چاہیئے تھا جو دوبارہ قرآن کریم کو پڑھاتا.اللہ تعالی کو اپنی مخلوق پر بہت رحم آیا ، اس صلى الله نے ارادہ کیا کہ وہ پیارا دین جو آنحضرت علی لائے تھے اسے دوبارہ زندہ کرے.پھر اس نے ایک ایسے شخص کو استاد بنا کر بھیجا جس کو خود آنحضرت ﷺ نے سلام بھیجا تھا.آپ جان گئے ہوں گے کہ وہ ہمارے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 2 پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں.خدا تعالی نے قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی کو چنا اور اس میں 13 فروری 1835 ء کو بروز جمعہ آپ علیہ السلام پیدا ہوئے.اب ہم آپ کو اس پیارے انسان کی کہانی سناتے ہیں.اسی کہانی میں ہم آپ کو بتا ئیں گے کہ اس زمانہ کا استاد بننے کے لئے کیا خوبیاں خدا نے آپ علیہ السلام کے اندر پیدا کیں.کن اوصاف حمیدہ کے آپ علیہ السلام حامل تھے اور ہم آپ علیہ السلام کی عادات و خصائل کا تذکرہ بھی کریں گے.آپ علیہ السلام کا خاندان اپنے علاقے میں ایک معزز بر لاس خاندان تھا.آپ علیہ السلام کے بزرگ سمرقند کے علاقے سے آئے تھے اور دریائے بیاس کے کنارے ایک بستی آباد کی جس کا نام قادیان پڑ گیا.آپ علیہ السلام کے خاندان کے بزرگ مرزا ہادی بیگ اس علاقے کے قاضی یا مجسٹریٹ مقرر ہوئے.آپ علیہ السلام کے والد ماجد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ تھا.آپ خاندانی رئیس تھے.اور ایک ماہر طبیب تھے اور آپ کے ہاتھ میں خدا تعالی نے شکار کھی تھی.لیکن طب آپ کا ذریعہ معاش نہ تھا.شجاعت، جرأت، اولوالعزمی و صاف گوئی آپ کے نمایاں اوصاف تھے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 3 آپ علیہ السلام کے والد کی وفات جون 1872ء میں ہوئی.انبیاء اور خدا کے نیک اور پاک لوگوں کے حالات کا مطالعہ کرو تو خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ والدین کی کامل اطاعت کی صفت بھی نظر آئے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بالکل اسی طرح اپنے والدین کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کرتے نظر آتے ہیں.چنانچہ اپنے والد کے حکم پر آپ علیہ السلام نے چار سال سیالکوٹ جا کر ملازمت بھی کی اور زمینداری کے کاموں میں بھی ان کا ہاتھ بٹایا.اگر چہ آپ علیہ السلام کو یہ دونوں کام پسند نہ تھے.جانتے ہو کیوں ؟ خدا نے آپ علیہ السلام سے دنیا کی اصلاح کا بڑا کام جو لینا تھا! آپ علیہ السلام کے والد کی طبیعت میں غرباء کے لئے بے حد ہمدردی و غم خواری تھی.مخلوق خدا سے ہمدردی کی ایک اور مثال دیکھو! ایک مرتبہ قادیان میں ہیضہ کی وباء پھوٹ پڑی اور چوہڑوں کے محلہ میں تیزی سے لوگ اس کا شکار ہونے لگے.آپ اس وقت بٹالہ میں تھے آپ کو اطلاع ملی تو فوراً قادیان تشریف لائے.اور کھڑے کھڑے حکم دیا کہ قادیان کے عطار (عطر فروش ) آمل ، کشتے ، گڑ اور نمک وغیرہ لیتے آئیں (آمل، کشتے دیسی دوائیوں میں استعمال ہوتے ہیں).ان چیزوں کو مٹی کے بڑے برتنوں میں ڈلوایا گیا اور حکم دیا کہ جو چاہیے گڑ ڈال کر پیئے اور
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 4 جو چاہیے نمکین.دوسرے دن اس نسخہ کے استعمال سے ہیضہ سے قادیان.پاک ہو گیا.اب ایک راجہ کا واقعہ سنو ! تا کہ پتہ چلے کہ کس طرح حضرت مرز اعلام مرتضی صاحب کے دل میں امیر غریب سب کے لئے غیر معمولی ہمدردی تھی.ایک بار بٹالے کا راجہ تیجا سنگھ بیمار ہوا.اس کو ایک قسم کا پھوڑا نکل آیا جو کہ تکلیف دہ تھا.بہت علاج کروائے مگر شفا نہ ہو سکی آخر اس نے ایک آدمی بھیج کر آپ علیہ السلام کو بلوایا.آپ علیہ السلام کی صحیح تشخیص اور علاج کے سبب خدا تعالی نے شفا عطا کی اب جیسا کہ راجوں کا طریق ہوتا ہے کہ فوراً انعام عطا کرتے ہیں.اسی طرح راجہ نے اپنی ریاست کے کچھ دیہات اور ایک بڑی رقم دینے کے لئے پیشکش کی لیکن آپ نے اس انعام کو قبول نہ کیا.اور اصرار کے باوجود فرمایا ” میں ان دیہاتوں کو علاج میں ( علاج کے بدلے میں لینا ) اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے جنگ سمجھتا ہوں“.اس واقعہ سے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی عالی ہمتی اور بلند خیالی کا پتہ چلتا ہے.مخلوقِ خدا سے دلی ہمدری کے باعث جو علاج آپ نے کیا وہ کسی انعام کے لیے نہ تھا.نیز آپ اپنی کھوئی ہوئی ریاست
سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام 5 اپنی ہمت سے لینا چاہتے تھے.آپ کی ساری زندگی اپنے خاندان کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے اور اپنی ضبط شدہ جائیدادوں کے حصول کے لئے گزری.اس کام میں تعاون کے لئے آپ چاہتے تھے کہ آپ کے دونوں بیٹے مددگار ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کامل اطاعت کی اور تشریف لے گئے.لیکن آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ اس طرح ان علیہ السلام کا بہت قیمتی وقت اکثر مرتبہ مقدمات کی پیروی میں ضائع ہورہا ہے وہ وقت جو خدمت دین میں صرف ہونا چاہیے.آپ علیہ السلام کے والد صاحب کو بھی یہ احساس تھا کہ کام تو سہی ہے جو میرا چھوٹا بیٹا کر رہا ہے.دنیا کے پیچھے بھاگنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا.اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ کا یہ احساس شدت اختیار کر گیا.آپ اکثر غمزدہ رہتے اور افسوس کا اظہار کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کے آپ اکثر اپنے والد یعنی حضور علیہ السلام کے دادا کا یہ شعر پڑھا کرتے جس کا ایک مصرعہ یہ ہے.ے جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے.“ چنانچہ آپ نے قصبہ کے وسط میں برسرِ بازار ایک مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے قطعہ زمین جو معمولی قیمت کا تھا لیکن نیلامی میں کئی سو گنا قیمت میں لینا پڑا حاصل کر کے مسجد کی تعمیر شروع کی.یہ چونکہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 6 جامع مسجد تھی اس لئے دوسری مساجد سے بڑی تھی.اس وقت ایک شخص نے کہا کہ یہاں کس نے نماز پڑھنی ہے؟ چمگادڑ ہی رہا کریں گے.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کے اس اخلاص کو قبول کیا اور آج وہ مسجد روئے زمین پر نہایت ممتاز و مقبول ہے.بچو! جانتے ہو یہ کسی مسجد کا ذکر ہے.قادیان کی مسجد اقصیٰ کا.آپ جب قادیان جائیں تو اس کوضرور دیکھیں.ایک بات اور بھی آپ کو بتا ئیں کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے وصیت کی کہ اس مسجد کے گوشہ میں میری قبر ہوتا کہ پانچ وقت خدائے عز وجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے.اس وصیت سے آپ کے اخلاص کا اور اس ترپ کا جو آپ کے دل میں تھی پتہ چلتا ہے گزشتہ عمر دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے میں گزری ، اب انجام مسجد کے قرب میں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بن جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا ابھی مسجد کی تکمیل ہوئی ہی تھی کہ آپ چند روز بیمار رہ کر وفات پاگئے.اور مسجد کے اُسی گوشہ میں جہاں کھڑے ہو کر نشان کیا تھا دفن کئے گئے.آپ نے قریبا پچاسی سال عمر پائی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو حضرت اقدس علیہ السلام لاہور میں تھے.خدا تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ آپ علیہ السلام کو خبر دی.آپ علیہ السلام قادیان پہنچے تو اپنے والد کو کچھ بیمار
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 7 پایا.پھر الہام ہوا کہ غروب آفتاب کے بعد یہ واقعہ ہو گا اس طرح خدا تعالی نے آپ علیہ السلام کو ذہنی طور پر بھی تیار کر دیا اور آپ علیہ السلام سے تعزیت بھی کر دی.یہ خدا تعالیٰ کا اپنے خاص بندوں سے سلوک ہوا کرتا ہے.والد صاحب کی وفات یقیناً آپ علیہ السلام کے لئے صدمہ کا باعث تھی اور ایک لحظہ کے لئے یہ خیال بھی آپ علیہ السلام کو آیا کہ آپ علیہ السلام کی آمدنی کے وہ ذرائع جو آپ علیہ السلام کے والد صاحب کی زندگی سے وابستہ تھے، نہ رہیں گے.اس خیال کے آتے ہی خدا تعالی نے جو ہمیشہ آپ علیہ السلام کا کفیل رہا، الہاما آپ علیہ السلام کوتسلی دی.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عبدہ کہ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.اس طرح آپ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اپنا بندہ کہہ کر تسلی دے دی.یہی وہ الہامی الفاظ ہیں جو آپ علیہ السلام نے انگوٹھی پر لکھوا لئے اور امرتسر سے پانچ روپے میں یہ انگوٹھی تیار ہوئی.یہی وہ انگوٹھی ہے جو آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد قرعہ اندازی میں حضرت مصلح موعود کے حصے میں آئی اور آپ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء اسے پہنتے ہیں.بچو! آپ نے یہ انگوٹھی خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں دیکھی ہوگی.جو شخص اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دیتا ہے، خدا تعالی خود اس کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 8 کفیل ہو جاتا ہے.اس کی سب ضروریات اور نیک خواہشات پوری کرتا ہے.تو یہ تھا کر خیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد کا.آپ جب قادیان جائیں تو مسجد اقصیٰ ضرور جائیں وہیں صحن میں پرانی قسم کی اینٹوں کا ان کا مزار ہے آپ کی کس قدر خوش قسمتی ہے کہ ان کے اُس بیٹے کے ذریعے جس کی وہ سب سے زیادہ فکر کیا کرتے تھے، ایک پاک سلسلے کی بنیاد پڑی.درس دینے والے حضرات بھی اس مزار کے پاس کھڑے ہو کر درس دیا کرتے ہیں.حضرت خلیلہ اسیح الثانی کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے پورا قرآن کریم اس مزار کے پاس کھڑے ہو کر ختم کیا.اس طرح خدا تعالی اپنے نیک بندوں کی خواہشات کو پورا کرتا ہے.(1) اب آئیں ہم آپ کو اس عظیم خاتون کے بارے میں بتا ئیں جن کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں.آپ کا نام حضرت چراغ بی بی صاحبہ تھا.آپ آیمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان میں سے تھیں.آپ کی خصوصیات میں سے مہمان نوازی اور مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی نمایاں تھیں.طبیعت بے حد بشاش اور با وقا تھی.مہمانوں کے آنے سے بہت خوشی محسوس کرتیں اور اگر چار افراد کا کھانا منگوایا جاتا تو آٹھ افراد کا کھانا بھجواتیں.غرباء کی بے حد ہمدرد تھیں اور لوگ ان
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے ماں جیسی شفقت حاصل کرتے.ایسی عظیم الشان ماں کی تربیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئی اور آج دیکھیں کتنی دنیا آپ علیہ السلام کے جاری کردہ لنگر سے کھانا کھا رہی ہے اس طرح مہمان نوازی کا ایک سلسلہ اللہ نے جاری فرما دیا.یوں تو ہر ماں اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے! لیکن سب بچے ایک جیسے نہیں ہوتے.آپ علیہ السلام جب بچے تھے تو دوسرے بچوں کی طرح نہ ضد کرتے نہ مطالبہ کرتے ، اس لئے آپ علیہ السلام کی والدہ آپ علیہ السلام کا خاص خیال رکھا کرتیں اور آپ علیہ السلام کی ضروریات پر نظر رکھتیں اور خودان کو پورا کرتیں.لیکن یہ اہتمام ان کی زندگی تک رہا.دراصل آپ علیہ السلام کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام تو خود خدا فرما تا رہا اور شروع سے ہی ایک پیارے بچے کی طرح آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی گویا گود میں رہے.آپ خود فرماتے ہیں.ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار حضور علیہ السلام کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی.آپ علیہ السلام کے رفیق حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور علیہ السلام سیر کے لئے اس قبرستان کی طرف تشریف لے گئے جو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 10 آپ علیہ السلام کے خاندان کا پرانا قبرستان تھا.آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہ کے مزار پر آئے اور بہت دیر تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ دعا کی.(2) آپ علیہ السلام بچپن کے زمانے میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنے ننھیال جایا کرتے اور وہاں کی بڑی بوڑھی عورتیں آپ علیہ السلام کے دعوی کے بعد جب قادیان آیا کرتیں تو آپ علیہ السلام کے پاکیزہ بچپن کو یاد کیا کرتیں.حضرت سید و نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی تھیں میٹھی خستہ نکیاں (جن کو اردو زبان میں سہال اور پنجابی میں منتھیاں کہتے ہیں) آپ علیہ السلام کو اپنی والدہ کی یاد میں بہت پسند تھیں.مگر خاص اپنے کھانے کے لئے نہیں بلکہ بچوں کے لئے.حضرت والدہ صاحبہ سے فرماتے تھے کہ وہ بنا رکھا کرو، ہماری والدہ ہمارے لئے بنا رکھا کرتی تھیں.جب ہمیں بھوک لگتی ہم لے لیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو بہنیں اور دو بھائی تھے.(1) مراد بیگم صاحبہ نہایت عبادت گزار خاتون تھیں.جوانی میں بیوہ ہو گئیں اور جب تک زندہ رہیں یا دالی میں اپنی زندگی گزاری.ان کی شادی مرزا محمد بیگ ہوشیار پوری سے ہوئی تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 11 (2) مرز اغلام قادر صاحب.(3) ایک اور بچہ جو پچپن میں فوت ہو گیا.(4) جنت بی بی صاحبہ یہ بہن آپ علیہ السلام کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھیں اور پیدائش کے چند دن بعد فوت ہو گئیں.(5) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صحیح و مہدی علیہ السلام.(3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچپن کا زمانہ عام بچوں سے مختلف تھا.ہر وقت کھیل کود اور شوخی و شرارت میں دوسرے بچوں کا ساتھ نہ دیتے.لیکن مفید کھیلوں میں آپ علیہ السلام نے حصہ لیا.مثلا تیرا کی، گھڑ سواری اور ورزش ، لیکن آپ علیہ السلام سب سے زیادہ سیر کرنا پسند کرتے تھے.کئی کئی میل تک سیر کو جایا کرتے اور خوب تیز چلتے.بڑے ہونے تک سیر کی عادت قائم رہی.جب آپ علیہ السلام کی عمر 70 سال سے بھی زیادہ تھی تب بھی آپ علیہ السلام روزانہ سیر کے لئے تشریف لے جاتے.لیکن بچو !چھوٹی عمر سے آپ علیہ السلام کو کیا جستجو تھی.جب آپ علیہ السلام کی عمر نہایت چھوٹی تھی اس وقت آپ علیہ السلام اپنی ہم عمر ماموں زاد بہن جس کے ساتھ آپ علیہ السلام کھیلا کرتے تھے ، اُسے کہتے ہیں :.دعا کر خدا میرے نماز نصیب کرے !‘ اس فقرے سے پتہ چلتا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 12 ہے کہ آپ علیہ السلام کو نماز پڑھنے کا کس قدر شوق تھا اور دیکھو کہ اُس کی توفیق بھی خدا سے مانگ رہے ہیں.بچپن سے ہی یہ خیال آپ علیہ السلام کے اندر پختہ ہو گیا تھا کہ ہر نیکی کی توفیق بھی محض خدا کے فضل سے حاصل ہوتی ہے.ایک اور واقعہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام بچپن میں اپنے ننھیال آئیمہ جب ایک بار گئے تو ایک بزرگ غلام رسول صاحب نے جو خود بھی ولی اللہ تھے، آپ علیہ السلام کو دیکھا اور آپ کی نیکی کو دیکھا تو فرمایا:.اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے“ آپ علیہ السلام کا بچپن اور جوانی میں یہ طریق تھا کہ آپ علیہ السلام زیادہ وقت تنہائی میں عبادت الہی میں گزارتے.آپ علیہ السلام کے والد صاحب آپ علیہ السلام کی اس عادت کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو مسیتر کہتے تھے یعنی ایسا شخص جو ہر وقت مسجد میں ہی رہے.وہ فکر مند ہوتے کہ ان کے بعد آپ کا کیا بنے گا.وہ چاہتے تھے کہ آپ علیہ السلام دنیاوی امور میں دلچسپی لیں اور لوگوں سے میل جول رکھیں.کہیں سادگی میں آپ علیہ السلام کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے.لیکن آپ علیہ السلام کا ذمہ تو خدا نے لے رکھا تھا.اس لئے آپ علیہ السلام کے بچپن کا زمانہ اسی طرح گزرا جو شخص خدا کی طرف چل پڑتا ہے خدا خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 13 جس زمانے میں آپ علیہ السلام پیدا ہوئے تعلیم کا اتنا رواج نہ تھا اور نہ آج کل کی طرح سکول کالج کھلے ہوتے تھے لیکن آپ علیہ السلام کے خاندان میں علم کی قدر تھی.ایسے گھرانوں کے لوگ گھروں میں استاد رکھ لیا کرتے تھے.چنانچہ جب آپ علیہ السلام چھ یا سات سال کے تھے تو آپ علیہ السلام کے لئے فارسی جاننے والے ایک استا در کھے گئے جن کا نام فضل الہی تھا.انہوں نے قرآن شریف اور فارسی کی چند کتب پڑھا ئیں.جب آپ علیہ السلام دس سال کے ہوئے تو عربی جاننے والے ایک استادر کھے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.یہ بہت دیندار بزرگ تھے اور بہت توجہ سے پڑھاتے تھے.اب دیکھو کہ کس طرح خدا نے ایسے استاد آپ علیہ السلام کو مہیا کیے جن کا نام فضل، تھا.دراصل خود خدا تعالیٰ آپ علیہ السلام کا استاد تھا اور اس کا فضل آپ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ تھا اور آپ علیہ السلام تیزی سے علم کی منازل طے کرتے گئے.سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی گل علی شاہ صاحب سے آپ علیہ السلام نے گرائمر ، منطق اور حکمت کے مضامین پڑھے.پھر طب کی بعض کتا میں اپنے والد صاحب حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب سے پڑھیں.یہی آپ علیہ السلام کی ابتدائی تعلیم تھی.(4) ابھی آپ نے پڑھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان علم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 14 دوست تھا.چنانچہ ایک بڑا کتب خانہ (لائبریری) آپ علیہ السلام کے گھر میں تھا.آپ علیہ السلام اکثر مطالعہ میں مصروف رہتے.بچو! بڑا سا بستہ بھر لینے اور بہت سی کتابیں جمع کر لینے سے تو علم نہیں آتا ! بلکہ علم حاصل کرنے کے لئے مفید کتابوں سے دوستی کرنی پڑتی ہے.اب آئیں دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قسم کے مطالعہ کی عادت تھی.آپ علیہ السلام کی سب سے محبوب کتاب قرآن شریف تھی.آپ علیہ السلام کثرت سے قرآن پڑھا کرتے تھے.صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ اُس کے معنی بھی سمجھتے اور اُس پر غور وفکر کرتے کیونکہ علم کا سب سے بڑا ذریعہ تو قرآن کریم ہے.پھر اپنے رب کے حضور دعا کرتے:.66 یا اللہ تیرا کلام ہے.مجھے تو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں.“ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جو آپ علیہ السلام کے سب سے بڑے بیٹے تھے بیان کرتے ہیں آپ علیہ السلام نے شاید دس ہزار مرتبہ قرآن کریم کو پڑھا ہو.(5) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہندوستان میں بے شمار مذاہب تھے جن کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم سچے ہیں لیکن خدا نے آپ علیہ السلام کو چنا تھا تا کہ آپ علیہ السلام اس میدان میں اتریں اور اسلام کی سچائی کو دنیا کے سامنے دوبارہ زندہ کر کے دکھائیں.اب اس کے لئے دوسرے تمام
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 15 مذاہب کی تعلیمات کو بھی پڑھنا اور سمجھنا تھا اور پھر اسلام کی خوبصورت اور کی تعلیم سے ان کا مقابلہ کرنا تھا.اس لئے آپ علیہ السلام وہ تمام کتب بھی تفصیل سے پڑھتے.پھر اخباروں میں مضامین لکھ کر اسلام کی سچائی ثابت کرنے کا سلسلہ بھی آپ علیہ السلام نے شروع کر دیا.بچو! کس قدر بڑا مطالعہ کا کام آپ علیہ السلام نے چھوٹی عمر سے ہی کرنا شروع کر دیا تھا.یہ اُس عظیم کام کی تیاری تھی جس کے لئے خدا نے آپ علیہ السلام کو چنا تھا.آپ علیہ السلام اس قدر توجہ سے پڑھتے کہ بعض اوقات آپ علیہ السلام کے والد صاحب کو منع کرنا پڑتا کہیں صحت خراب نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کا بڑا کام آپ علیہ السلام کے سپر د کرنا تھا اس لئے دنیا میں ہونے والے ہر قسم کے واقعات و حالات کا بھی آپ علیہ السلام کو علم حاصل کرنا تھا.اس کے لئے آپ علیہ السلام اخبارات کا مطالعہ کرتے اور اُن میں مضامین بھی بھجواتے.اخبار عام وہ اخبار تھا جسے آپ علیہ السلام پڑھنا پسند فرماتے.آپ علیہ السلام کا طریق یہ تھا کہ شروع سے آخر تک پورا اخبار پڑھتے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی بات ہوتی تو اس کا جواب لکھتے.اس طرح کثرت مطالعہ اور تحریر کا کام ساتھ ساتھ جاری تھا.ہم آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں جس سے آپ علیہ السلام کے عظیم
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 16 مقصد کا پتہ چلتا ہے.ایک مرتبہ قادیان کے طلباء کا کرکٹ میچ تھا.بچوں کی خوشی کی خاطر بعض بزرگ بھی شامل ہو گئے.حضرت اقدس علیہ السلام کے ایک صاحبزادے نے آپ علیہ السلام سے کہا ”ابا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ تو کھیل کر واپس آجا ئیں گے مگر میں تو وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گی.‘ (6) اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ علیہ السلام اس قسم کی کھیلوں سے روکتے تھے.آپ علیہ السلام پسند فرماتے تھے کہ بچے مفید کھیل کھیلیں.لیکن آپ علیہ السلام کو وقت ضائع کرنا نا پسند تھا.خدا نے بھی آپ کو الہا ما فرمایا تھا:.تو بزرگ مسیح ہے.تیرا وقت ضائع نہ کیا جائے گا.پھر دیکھو کہ اتنے تھوڑے عرصہ میں آپ نے 01 کتب تحریر 84 فرمائیں.لیکچرز دئیے، مضامین لکھے جو نہ صرف اردو میں بلکہ عربی اور فارسی میں بھی ہیں.اس کے علاوہ روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنا اور ان کے جوابات لکھنا.پھر کتب کے سلسلے میں خود ہی پروف درست کرنا اور خود ہی چھپوائی کا اہتمام کرنا، روزانہ بیسیوں آدمیوں سے ملاقات کرنا اور نصائح سے نوازنا ، پانچوں وقت نمازوں کے لئے نہ صرف مسجد میں جانا بلکہ نمازوں کے بعد مجالس میں تقاریر اور وعظ ونصیحت کرنا.پھر جماعت کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 17 نظام کو چلانا اور مہمانوں کی دیکھ بھال کرنا، یہ سب خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ممکن ہوا.اُس زمانے کے رواج کے مطابق آپ علیہ السلام کی شادی 16,15 سال میں اپنے ماموں مرزا جمیعت بیگ صاحب کی صاحبزادی حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی.آپ علیہ السلام کو اس شادی سے خدا تعالیٰ نے دو بیٹے عطا کئے.1 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ان کو خان بہادر کا لقب ملا.ادبی دنیا میں بھی خاص شہرت پائی.-2 حضرت مرز افضل احمد صاحب.آپ جوانی میں وفات پاگئے تھے.خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ آپ علیہ السلام کے ذریعہ ایک بابرکت خاندان کی بنیاد پڑے اور آپ علیہ السلام کی وجہ سے خاندان کی پہچان ہو چنانچہ خدا تعالیٰ کے خاص ارادے سے آپ علیہ السلام کی دوسری شادی دہلی کے ایک معز ز سادات خاندان میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کی صاحبزادی حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے ہوئی.اس عظیم خاتون کو خدا تعالیٰ نے میری خدیجہ کے نام سے پکارا.حضرت سیدہ نصرت جہاں صاحبہ کا وجود ساری جماعت کے لئے ایک شفیق ماں کا وجود بنا.وہ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتی تھیں.اسی لئے سب انہیں
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 18 حضرت اماں جان کہتے ہیں.آپ علیہ السلام کی یہ بابرکت شادی 1884ء میں ہوئی.اب یہاں ضروری ہے کہ ہم آپ کو حضرت اماں جان کے بارے میں کچھ بتا ئیں تا کہ یہ پتہ چلے کہ وہ کتنی مقدس خاتون تھیں جن کو خدا نے اپنے مسیحا کے لئے چن لیا تھا.خدا تعالیٰ کے چن لینے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ کچھ ایسی خوبیاں انسان میں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے خدا ان لوگوں کو چن لیتا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہترین ساتھی و معاون و مددگار تھیں.شروع شروع میں مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے کوئی الگ جگہ نہ ہوتی تھی.تمام مہمان جو دور ونزدیک سے ملاقات کے لئے ، دین سیکھنے حضور علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے آتے وہ حضور علیہ السلام کے اپنے گھر میں ٹھہرتے.ان کی رہائش کا انتظام، کھانے پینے کی سب ضروریات کا اہتمام حضرت اماں جان خود فرماتیں.کئی دفعہ یہ حال ہوتا تھا کہ پورا گھر کشتی کی طرح بھر جاتا اور مزید مہمان بھی آجاتے.آپ ذرا نہ گھبراتیں اور سب کو پیار سے ٹھہرایا کرتیں.حضرت اماں جان کے مزاج میں سختی نہ تھی.نہایت نرم دل اور مخلوق کی ہمدرد تھیں.آپ کا وجود بہت عبادت گزار اور دعائیں کرنے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 19 والا تھا.نماز ٹھہر ٹھہر کر اور سنوار کر پڑھتیں.زیادہ تر کام اپنے ہاتھ سے کرتیں.شکوہ اور چغلی سے آپ کو سخت نفرت تھی.استغفار کثرت سے کرتیں.جب آپ بیاہ کر قادیان آئیں تو صرف سترہ سال کی تھیں اور دیکھیں کتنی بھاری ذمہ داریاں آپ نے اٹھا ئیں.آپ کے پانچ بچے چھوٹی عمروں میں فوت ہو گئے.لیکن ہمیشہ صبر وشکر کے کلمات آپ کی زبان سے نکلے.حتی کہ خدا تعالی نے ان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ خدا خوش ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کو خدا تعالیٰ نے دس بچے عطا فرمائے جن میں سے پانچ بچے چھوٹی عمروں میں فوت ہو گئے.ان کے نام درج ذیل ہیں :.1- صاحبزادی عصمت پیدائش 15 اپریل 1886ء 1886ء ، وفات 1891ء -2- صاحبزادہ بشیر اوّل پیدائش 17 اگست 1887 ء وفات 4 نومبر 1888ء 3 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب 12 جنوری 1889 ء کو پیدا ہوئے اور 1914ء میں خلیفہ ثانی ہوئے.یہ وہی موعود فرزند تھے جن کی ولادت کی خبر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چالیس دن کی مسلسل عبادت و چلہ کشی کے بعد پیش گوئی کی صورت میں عطا کی جسے پیش گوئی مصلح موعود کے نام سے پکارا جاتا ہے.اس پیشگوئی میں یہ وعدہ فرمایا گیا کہ 9 سال کے عرصے میں خدا تعالیٰ آپ علیہ السلام کو ایسا بیٹا عطا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 20 20 فرمائے گا جو علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور قوموں کی تقدیریں اُس سے وابستہ ہوں گی.اُس آنے والے کا نام مصلح موعود ہوگا یعنی ایسا 52 اصلاح کرنے والا جس کا وعدہ دیا گیا.اسی پیشگوئی میں مصلح موعود کی 2 علامتیں بیان کی گئیں جو آپ کے 52 سالہ دور خلافت میں پوری ہو ئیں.آپ کو حضرت فصل عمر بھی کہتے ہیں.4 صاحبزادی شوکت 1891 ء میں پیدا ہو ئیں اور 1002 ء میں فوت ہوئیں.-5 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے 20 اپریل 1892 ء پیدا ہوئے.آپ کا الہامی نام قمر الانبیاء ہے جس کے معنی ہیں نبیوں کا چاند.6- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب 24 مئی 1895ء کو پیدا ہوئے آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رویا میں دیکھا وہ بادشاہ آیا یہ با برکت وجود ہمارے موجودہ امام , حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دادا جان ہیں.7 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 2 مارچ 1997ء کو پیدا ہوئیں.آپ کے بارے میں الہام ہوا.نواب مبارکہ بیگم اس طرح خدا نے پہلے ہی خبر دے دی کہ آپ کی شادی نواب خاندان میں ہوگی چنانچہ مالیر کوٹلہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے آپ کی شادی
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 21 ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کئی سال راتوں اور دن کا اکثر حصہ آپ علیہ السلام کے قرب میں گزرا ان کی چار پائی بھی حضور علیہ السلام کی چار پائی کے قریب ہی ہوا کرتی تھی.اس طرح چھوٹی عمر میں ہی آپ نے بے شمار باتیں نوٹ کیں محسوس کیں، سیکھیں اور احباب جماعت تک پہنچا ئیں.آپ خود فرماتی ہیں:.وو صد ہزار احسان میرے پیارے محسن خدا کا کہ مجھے اکثر باتیں اور خصوصاً آپ علیہ السلام کا چہرہ مبارک آپ علیہ السلام کا سونا ، آپ علیہ السلام کا جاگنا آپ علیہ السلام کا سبلنا، لکھنا، نماز پڑھنا ، چلنا پھرنا، طرز تکلم بہت صفائی سے یادرہا میرے دل میں جو ہر وقت آپ علیہ السلام کی یاد رہی اس نے مجھے بھولنے نہیں دیا اس وقت بھی میں گویا آپ علیہ السلام کو دیکھ رہی 66 ہوں.(6B) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو سچی خوا ہیں بچپن سے ہی آتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کو دعا کے لئے کہتے تھے.8.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب 14 جون 1899ء کو پیدا ہوئے اور 16 شہر 1907 ء کو وفات پائی.ستمبر 9.صاحبزادی امتہ النصیر 28 جنوری 1903ء کو پیدا ہوئیں اور اُسی سال
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 3 دسمبر کو وفات پاگئیں.22 22 کو 10 حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 25 جون 1904ء ک پیدا ہوئیں.آپ کے بارے میں الہام ہوا 'دخت کرام یعنی عزت والی بیٹی.(7) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچ بچے جو چھوٹی عمروں میں فوت ہو گئے ان میں سے کچھ بچوں کے واقعات آپ کو سناتے ہیں.صاحبزادی عصمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے بڑی بیٹی تھیں.ان کے بعد بشیر اؤل پیدا ہوئے اور کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئے.حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت اماں جان نے بتایا کہ جب تمہارے بڑے بھائی یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد پیدا ہوئے تو عصمت سو رہی تھیں.خادمہ نے اُسے جگایا اور کہا اٹھو بی بی تمہارا بشیر آ گیا کیونکہ بشیر اوّل کی وفات پر غالباً عصمت اس کو یاد کرتی ہو گی.(8) صاحبزادہ مبارک احمد صاحب 8 سال زندہ رہے.اُن سے حضرت اقدس علیہ السلام کا بڑا پیار کا تعلق تھا.یہ آپ علیہ السلام کے چہیتے اور سب سے چھوٹے فرزند تھے جو خدا کی منشاء کے موافق وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کا مزار ہے.
23 یہ بہت نیک سیرت اور حلیم الطبع تھے.لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا.قرآن کریم بھی پڑھ لیا تھا بچپن کی اس عمر میں ایسے نیک و پاک آثار تھے کہ لوگ انہیں ولی کہہ کر پکارتے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب چھوٹے تھے تو ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق ہوا.تو ہم نے کچھ مرغیاں رکھیں.کچھ میر محمد اسحق صاحب جو حضرت اماں جان کے بھائی تھے، انہوں نے رکھیں اور کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں.ہم اُن کے انڈے جمع کرتے اور پھر اُن سے بچے نکالتے یہاں تک کہ سو کے قریب مرغیاں ہو گئیں.صبح صبح ہم جاتے، مرغیوں کے ڈربے کھولتے ، انڈے گنتے ، پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دیئے اور تمہاری نے اتنے.ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی شامل ہو جاتا.اس طرح بیماری میں کسی نے خواب دیکھی کہ مبارک احمد کی شادی ہو رہی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ خواب بیان ہوئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کی تعبیر تو موت ہے لیکن بعض تعبیر کرنے والوں نے لکھا ہے کہ اگر ظاہری رنگ میں پوری کر دی جائے تو بعض دفعہ بری خبر مل جاتی ہے.اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کر دیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام 24 اب حُسنِ اتفاق دیکھیں کہ حضرت ڈاکٹر سیدعبدالستارشاہ صاحب جو جماعت کے بہت بڑے بزرگ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں سے بھی تھے ، وہاں موجود تھے نیچے گول کمرہ میں رہتے تھے.اُن کی اڑھائی سالہ بیٹی مریم بھی وہاں موجود تھی.حضور اقدس علیہ السلام نے اُس کی والدہ سے فرمایا کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کر دیں.بچو ! اب یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کا اخلاص و فدائیت دیکھیں کہ اڑھائی سالہ مریم کے والدین رضامند ہو گئے اور خواب کو پورا کرنے کی خاطر ان کا نکاح مبارک احمد سے کر دیا گیا.لیکن خدا تعالیٰ کا منشاء پورا ہوا اور مبارک احمد 16 ستمبر 1907 ء کو وفات پاگئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے کتبہ کے لئے اشعار کہے جو درشین میں درج ہیں.جس کا ایک مصرعہ یہ ہے.جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر خدا تعالیٰ کو حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ بڑی ہوکر یہ بچی دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو بنیں اور حضرت خلیفہ الثانی المصلح الموعود کے نکاح میں آئیں.اور جانتے ہو کہ کس عظیم وجود کی ماں بنیں ! حضرت مرزا طاہر احمد صاحب
سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام 25 25 خلیفہ المسح الرابع حمہ اللہ کی اور اس نسبت سے اُمّم طاہر کے نام سے موسوم ہوئیں.اس طرح خدا تعالی پر کامل تو کل اور قربانی کی جزا خدا تعالی نے عطا فرمائی.(9) صاحبزادی امتہ النصیر 28 جنوری 1903ء میں پیدا ہوئیں اور 3 دسمبر کو اسی سال وفات پاگئیں.اُن کا جنازہ خودحضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور چھوٹے بازار سے نکلنے تک یعنی ڈاک خانہ تک حضور علیہ السلام خود اٹھا کر لے کر گئے.ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شفیق باپ تھے اور آپ علیہ السلام کا طرز عمل آنحضرت ﷺ کے حکم پر کہ اولاد کی عزت کرو کا مظہر تھا.(10) یہ وہ با برکت خاندان تھا جس کی بنیاد خود خدا تعالیٰ نے رکھی تھی.پتہ ہے بچھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے گھر کا نام دار الامن' رکھا جسے ہم دار مسیح ، کہتے ہیں.جب کبھی بھی آپ قادیان جائیں تو اُن با برکت کمروں کو دیکھیں کہ کس طرح وہ سادہ گھر امن و محبت کا گہوارہ تھا اور رہے گا.انشاء اللہ.ایسا گھر جس کی بنیا د دعاؤں سے پڑی ہو.جہاں بزرگوں کا ادب و احترام ہو، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے آپ علیہ السلام سے ایک شفیق باپ کے علاوہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک بزرگ سمجھ کر محبت کیا کرتے تھے، امن و محبت اور سلامتی کا گہواراہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کیوں نہ ہوگا ! (11) 26 26.اس گھر میں چھوٹوں سے شفقت کا یہ نظارہ تھا کہ بھائی بہنوں کا خیال رکھتے اور بہنیں اپنے بھائیوں کا احترام کرتیں.وہاں بچپن کی معصوم شرارتیں بھی تھیں لیکن ہمیشہ دوسروں کے ادب کے ساتھ.یہ تفصیل ہم نے آپ کو اس لئے بتائی ہے کہ یہ کوئی معمولی بچے نہ تھے ان سے بھی خدا نے خدمت دین کا عظیم کام لینا تھا اور انہوں نے جماعت کے لئے مفید وجود بننا تھا.آپ علیہ السلام کے یہ سب بچے خدا تعالی کی طرف سے نشان تھے جن کی خبر خدا تعالیٰ آپ کو الہا ما دیتا رہا اور جو بچے جلد فوت ہو گئے ان کی خبر بھی اس نے آپ علیہ السلام کو پہلے ہی دے دی.آئیں! اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیسے شفیق باپ تھے.سب والدین ہی اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور اپنے رنگ میں ان کی تربیت کرتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان تھے اس لئے آپ علیہ السلام بچوں کی بہت زیادہ خبر گیری کرتے.بیماری میں ان کی تیماداری کرتے.کبھی ان کو گھنٹوں بہلاتے.کہانیاں سناتے لیکن ساتھ ساتھ تربیت کرتے نظر آتے اور سب سے بڑھ کر وہ دعائیں ہیں جو آپ علیہ السلام نے ان کے لئے مانگیں جن کا فیض قیامت تک جاری رہے گا.انشاء اللہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 27 آپ علیہ السلام کی سب سے بڑی صاحبزادی عصمت لدھیانہ میں بیمار ہوئیں.آپ علیہ السلام ان کے علاج میں اس طرح مصروف ہو گئے گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے.لیکن خدا کی منشاء سے وہ فوت ہو گئیں تو آپ علیہ السلام خدا کی رضا پر فور اراضی ہو گئے.(12) اس طرح مرزا مبارک احمد کی بیماری میں آپ علیہ السلام انہیں دوائی دیتے.ان کا دل بہلاتے.ان کے پاس بیٹھتے اُن کا دل بہلانے کے لئے چھوٹی چھوٹی چڑیاں لائیں گئیں.(13) بیماری میں بچوں سے شفقت کا سلوک صرف اپنے بچوں سے ہی نہ تھا قادیان میں جو غریب لوگ رہا کرتے تھے.وہ بھی دوائی لینے نسخہ پوچھنے کثرت سے آتے.آپ علیہ السلام نہایت اہم مضمون تیار کر رہے ب ہوتے اور دیہاتی عورتیں زور زور سے دروازہ بے دھڑک کھٹکھٹا تیں اور اپنی زبان میں کہتیں.” مرزا جی ! ذرا بوا کھولو نا“ حضور علیہ السلام سب کام چھوڑ کر اس طرح اٹھتے جیسے کسی بڑے افسر کا حکم آیا ہے اور ان کی کیفیت تفصیل سے سنتے.بعض دفعہ وہ گھر کے مسائل بھی بیان کرنے لگ جاتیں اور گھنٹہ بھر ضائع کروادیتیں.مگر آپ علیہ السلام کوئی سخت جملہ نہ کہتے.مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں:.
سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام 28 ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا.میں بھی اتفاقاً جا نکلا.کیا دیکھتا ہوں حضور علیہ السلام کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے.پانچ ، چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں.تین گھنٹے تک یہی بازار لگار ہا اور ہسپتال جاری رہا.فراغت کے بعد میں نے عرض کیا کہ اس طرح تو بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے.“ حضور علیہ السلام نے بڑے اطمینان سے انہیں جواب دیا یہ بھی تو دینی کام ہے.یہ مسکین لوگ ہیں.یہاں کوئی ہسپتال نہیں ہے ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھتا ہوں.یہ بہت ثواب کا کام ہے.مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہیئے.(14) ال 66 سردیوں کا موسم تھا.آپ علیہ السلام نے واسکٹ پہن رکھی تھی صاحبزادہ محمود احمد صاحب نے ایک اینٹ کا ٹکڑا آپ علیہ السلام کی جیب میں ڈال دیا.جب آرام کرنے کے لئے لیٹے تو وہ اینٹ چھنے لگی.آپ علیہ السلام کے خادم میر حامد علی صاحب آپ علیہ السلام کو دبارہے تھے ان کو فر مایا " چند دنوں سے ہماری پہلی میں درد ہے.میر حامد علی صاحب نے جسم پر ہاتھ پھیرا تو اینٹ پر لگ گیا.عرض کیا حضور اینٹ تھی جو چبھی
سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام 29 تھی.فرمایا ” اوہو! محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں، میں اس سے کھیلوں گا." (15) اس طرح بچے کی دلداری بھی کی اور ان کی رکھوائی ہوئی چیز کی حفاظت بھی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جب چھوٹے بچے تھے.تین سال کی عمر ہوگی.ان کو شکر کھانے کی عادت ہو گئی.ہمیشہ حضور علیہ السلام کے پاس آ کر ہاتھ پھیلا کر کہتے ” ابا ! چھٹی ( چھٹی سفید کو کہتے ہیں) آپ علیہ السلام کتاب لکھ رہے ہوتے ، مصروف ہوتے، کام چھوڑ کر اٹھتے ، چینی نکال کر دیتے پھر اپنا کام کرنے لگ جاتے.بچہ پھر دوبارہ آتا اور وہی مطالبہ کرتا.روزانہ کئی کئی بار ایسا ہوتا.آپ ہر دفعہ اٹھتے اور بچے کو چینی دیتے.(16) آپ علیہ السلام صرف بچوں کو پیار ہی نہ کرتے بلکہ ان کی تربیت کی طرف بھی توجہ فرماتے اور اگر بچہ غلطی کرتا تو فوراً اصلاح فرماتے.ہم چند واقعات آپ کو سناتے ہیں.ایک مرتبہ آپ علیہ السلام اپنے اس حجرہ (کمرہ) میں کھڑے تھے جہاں حضرت اماں جان بھی پاس ہی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مرزا نظام دین ( جو آپ کے سخت مخالف تھے ) کا نام لیا لیکن صرف نظام دین کہا.آپ علیہ السلام نے ٹو کا اور کہا ” میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اس طرح نام نہیں لیا کرتے.“ (17) 30 30 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بچپن میں ایک دفعہ گھر میں دروازے بند کر کے چڑیا پکڑ رہے تھے کہ حضور علیہ السلام نے جمعہ کی نماز کے لئے جاتے ہوئے انہیں دیکھ لیا اور فرمایا " میاں گھر کی چڑیا نہیں پکڑا کرتے.جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں.“ (18) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کا بڑا ہی پیارا انداز تھا کہ آپ بچوں پر اعتماد کرتے کہ میرا بچہ یہ کام کر ہی نہیں سکتا.( یعنی کوئی غلط کام ) آپ کے بچے اس اعتماد و شرم کی لاج رکھتے اور آپ دونوں کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے.مثلاً ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چوبارے کے صحن میں بیٹھے تھے اور بادام آگے رکھے تھے.آپ علیہ السلام کے ایک مرید سید فضل شاہ صاحب بادام توڑ رہے تھے کہ اتنے میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کی عمر چار یا پانچ سال تھی، تشریف لائے اور سارے بادام جھولی میں ڈال لئے.حضور علیہ السلام نے یہ دیکھا تو فرمایا ” یہ میاں بہت اچھا ہے زیادہ نہیں لے گا صرف ایک دو لے گا.باقی سب ڈال دے گا.“ جب حضور علیہ السلام نے یہ فرمایا تو بچے نے فوراً بات مان لی اور صرف ایک دو بادام لے کر چلا گیا.(19) اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 31 کی بات میں اثر تھا اور ان کے بچے فوراً کہا مان لیا کرتے تھے.ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور علیہ السلام چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی کس قدر نگرانی فرماتے تھے.ایک دفعہ آپ علیہ السلام اصحاب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے راستہ میں کیکر کا درخت گرا ہوا تھا.بعض دوستوں نے اس کی شاخوں سے مسواکیں بنا لیں.صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ساتھ تھے.ایک مسواک کسی نے ان کو بھی دی انہوں نے بے تکلفی اور پچپن کی وجہ سے کہا ” ابا! مسواک لے لیں، حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا ” میاں! پہلے ہمیں یہ بتلاؤ کہ کس کی اجازت سے یہ مسواکیں حاصل کی گئی ہیں.یہ بات سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں.دیکھو کتنے پیارے مسکرا کر ایک اہم پہلو دیانت داری کی طرف توجہ دلا دی کہ کسی کی چیز بغیر پوچھے نہیں اٹھانی خواہ وہ سٹرک پر ہی گری پڑی ہو (20) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس زمانے میں آپ علیہ السلام نے دعا کے مضمون کو اچھی طرح سمجھایا اور خدا کے قریب ہونے کا بہترین ذریعہ دعا جو خودخدا نے سکھایا ہے ہمارے سامنے رکھا.اب دیکھیں آپ علیہ السلام نے بچوں کو کس طرح دعا ئیں کرنا سکھائیں.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 32 32 آپ علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی حضرت سید ہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں:.” جب میں چھوٹی لڑکی تھی تو حضور نے کئی بار فر مایا کہ میرے ایک کام کے لئے دعا کر دیا کرنا.سی اس لئے ہوتا تھا کہ بچوں کو ذہن نشین ہو جائے کہ ہم نے بھی دعائیں کرنی ہیں اور تا دعاؤں کی عادت پڑے اور بچے جان لیں کہ اللہ کی رحمت کا ( دروازہ کھلا ہے، مانگو گے تو پاؤ گے.(21) دعا کے لئے اور بھی سب بچوں کو کہا کرتے اور جماعت کے دوسرے بچوں کو یہ بھی فرماتے کہ کوئی خواب دیکھو تو بتانا.پھر بچے اپنی خوا میں آپ علیہ السلام کو سنایا کرتے اور آپ علیہ السلام ڈائری میں نوٹ کر لیا کرتے.ایک بار حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو آپ کے رفیق تھے، ان کے بیٹے منظور صادق صاحب نے خواب دیکھی کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں.آپ علیہ السلام نے خواب سن کر خاندان کے ہر فرد کی طرف سے بکرا ذبح کیا اور یہ ارشاد فرمایا ”مومن کبھی رویا دیکھتا ہے اور کبھی اس کی خاطر کسی اور کو دیکھایا جاتا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچوں کو بھی کہانیاں سننے کا شوق
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 33 33 تھا آپ علیہ السلام اکثر سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے.حضور علیہ السلام کی سنائی ہوئی ایک کہانی ہم آپ کو یہاں سناتے ہیں.ایک گنجا اور ایک اندھا تھا.خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا " تو کیا چاہتا ہے؟ سنجے نے کہا میرے سر کے بال آجا دیں اور مال و دولت آ جاوے.چنانچہ فرشتے نے گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو خدا کی قدرت سے اس کے سر پر ہال بھی نکل آئے اور مال و دولت اور نوکر چاکر بھی مل گئے.پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تو کیا چاہتا ہے؟ اندھے نے کہا کہ میری آنکھیں روشن ہو جاویں تو میں ٹکریں نہ کھانا پھروں اور روپیہ پیسہ بھی مل جاوے تو کسی کا محتاج نہ رہوں.فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ روشن ہو گئیں اور مال بھی مل گیا.پھر وہی فرشتہ گنجے اور اندھے کی آزمائش کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فقیر کے بھیس میں آیا اور گنجے کے پاس جا کر سوال کیا.گنجے نے ترش روئی (یعنی سختی سے جواب دیا اور جھڑک دیا کہ چل تیرے جیسے بہت فقیر پھرتے ہیں.فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر دوبارہ گنجا ہو گیا اور سب مال و دولت جا تا رہا.پھر وہی فرشتہ فقیر کی شکل میں اندھے کے پاس آیا جواب بڑا دولتمند تھا اور دیکھنے بھی لگ گیا تھا.فقیر بن کر اس نے سوال کیا.اس نے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 34 34 کہا سب کچھ اللہ نے ہی دیا ہے.اس کا مال ہے.تم لے لو.اس پر اللہ تعالیٰ نے اندھے کو اور بھی مال و دولت دیا.(22) پس اے عزیز بچو تم بھی یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کرو.اور اس کی قدر کرو اور سوالی کو جھڑ کی نہ دو.خیرات کرنا اچھی بات ہے اس سے خدا خوش ہوتا ہے.اس طرح کی کئی کہانیاں آپ علیہ السلام نے سنائی ہیں.جب آپ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں گے نا تو وہاں ایسی حکایات بھی ملیں گی جو آپ علیہ السلام نے اصلاح کے لئے درج کی ہیں.ایک بار محرم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کو بلا کر حضرت امام حسینؓ کی دردناک کہانی بھی سنائی اور خود آنسوؤں سے روئے کہ یزید نے ہمارے پیارے رسول ﷺ کے نواسے پر کس طرح ظلم کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول بیان فرماتے ہیں کہ بارہا میں نے دیکھا کہ اپنے اور دوسرے بچے آپ علیہ السلام کی چار پائی پر بیٹھے ہیں اور آپ علیہ السلام کو مضطر ( مجبور ) کر کے پائینتی پر بٹھا دیا ہے اور اپنے بچھپنے کی بولی میں مینڈک اور کوے، چڑیا کی کہانیاں سنا ر ہے اور گھنٹوں سنائے جا رہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جا رہے رہیں کہ گویا کوئی مثنوی رومی سنارہا ہے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 35 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم سے پہلے قرآن مجید جو تمام علوم کا خزانہ ہے، پڑھایا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو حضرت حافظ احمد اللہ نے قرآن پڑھایا لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب بیگم صاحبہ کو حضرت پیر منظور محمد صاحب نے قرآن کریم پڑھایا.آپ سب بچوں نے قاعدہ یسر نا القرآن پڑھا ہوگا ! جانتے ہیں کہ وہ کس نے تحریر کیا اور کن بچوں کے لئے ؟ یہی بزرگ اس قاعدہ کے مصنف ہیں اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچوں کے لئے لکھا گیا.3 نومبر 1901 ء میں ان بچوں کی آمین کی تقریب ہوئی جس میں حضور علیہ السلام نے دوستوں کی دعوت کی اور بتامی اور مساکین کو کھانا کھلایا گیا.اس کے لئے ایک مشہور نظم جو درمشین میں ہے وہ آپ سب کو آتی ہو گی.اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:.ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں تو نے دکھایا یہ دن میں تیرے منہ کے قرباں اے میرے رب محسن کیونکر ہو شکر احساں روز کر مبارک سبحان من گرانی
36 36 بچو ! یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے خدا تعالیٰ کے نشان تھے لیکن آپ علیہ السلام نے کسی بچے کی سالگرہ نہیں منائی.جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ آپ علیہ السلام کا ہر عمل سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں تھا اور آپ علیہ السلام نے وہ کام نہیں کیے جو آنحضرت ﷺ نے ثابت نہیں.آپ علیہ السلام کبھی کبھی بچوں کو پیار سے چھیڑا بھی کرتے.وہ اس طرح کہ کسی بچے کا پہنچہ پکڑ لیا اور کوئی بات نہ کی.خاموش ہور ہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پاؤں پکڑ کر تلوے سہلاتے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ اس طرح میرے ساتھ کئی مرتبہ ہوا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں' دوسروں کی خدمت سے بھی آپ علیہ السلام خوش ہوتے.ایک ضعیفہ مائی تابی ہمارے گھر میں رہا کرتی تھیں.دائمی سردرد کی مریضہ تھیں.آپ علیہ السلام ان کا بہت خیال رکھتے.دوائیں بھی دیتے اور بادام کا شیرا ان کو پلواتے.میں مائی تائی کو شیرہ رگڑ کر اکثر پلاتی تو بہت دعائیں دیتی اور مجھے احساس تھا کہ آپ علیہ السلام بھی میرے اس کام سے خوش ہوں گے.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم آپ علیہ السلام کے رفیق تھے.ان کی وفات کے بعد ان کی بیوی جن کو سب مولود پانی کہتے تھے ، کا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 37 آپ علیہ السلام نے بہت خیال رکھا.آپ علیہ السلام ان کی بہت دلداری فرماتے.وہ مجھے بہت چاہتی تھیں.آپ علیہ السلام کبھی فرماتے " تم نے مولویانی کو لتاڑ ا.وہ مجھے ٹانگوں پر کھڑا کر کے دبواتی تھیں اس کو " لتاڑنا کہتے ہیں.میں آپ علیہ السلام کے اتنا کہنے پر بڑی خوشی سے مولویانی کوخوب لتاڑا کرتی.وہ میرے ہاتھ پکڑے رہتیں کہ گر نہ جائے.‘ (23) دیکھا بچو ! بزرگوں کی خدمت کرنے سے کتنی دعائیں ملتی ہیں.آپ کے گھر میں بھی جو بزرگ رہتے ہوں ، آپ ان کے چھوٹے چھوٹے کام بھاگ بھاگ کر کیا کریں ، بہت دعائیں ملیں گی.فرض نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ خدا تعالیٰ کے حضور ہر وقت دعا کرنے کو آپ نے ہتھیار قرار دیا.آپ علیہ السلام چاہے گھر میں ہوتے یا سفر میں ایک جگہ مخصوص کر لیتے اور وہ بیت الدعا' کہلاتا.قادیان میں آپ علیہ السلام کے گھر میں جو بیت الدعا ہے و 1903ء میں بنایا گیا.اپنے روزانہ کے پروگرام میں خاص ایک وقت دعا کے لئے رکھتے.جانتے ہیں ایسا کیوں فرماتے؟ تاکہ توجہ قائم ہو.آپ علیہ السلام کا طریق یہ تھا کہ ہر ایک اہم کام شروع کرنے سے پہلے دعا کرتے اور استخارہ کرتے.ہم کو بھی نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہیے.کیونکہ یہ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 38 آپ علیہ السلام پسند فرماتے تھے.چلتے پھرتے.سوتے جاگتے ہر وقت دعا ئیں آپ علیہ السلام کی زبان پر ہوتیں.حضرت اماں جان فرماتی ہیں: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ آپ علیہ السلام کثرت سے پڑھتے ، درود شریف آپ کثرت سے پڑھتے اور استغفار بہت کرتے.خدا تعالیٰ نے الہاماً آپ کو یہ دعا سکھائی.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَا حُفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي اور آپ علیہ السلام کے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اس زمانے کا اسم اعظم ہے.اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ " جب آنکھ کھلے یا کروٹ اوتو ضرور دعا کر لیا کرو“ آپ بھی بچو! دعاؤں کی عادت ڈالو.یہ نصیحت ہم سب بڑوں اور آپ سب بچوں کے لئے بھی ہے.یہ سب وہ باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پسند فرماتے.اب ہم چند وہ امور بتاتے ہیں جو آپ علیہ السلام نے بچوں کو کرنے سے منع فرمایا.1- بارش کے بعد آسمان پر دھنک رنگوں کی ایک کمان ظاہر ہوتی ہے جسے سب قوس قزح کہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں قوس اللہ کیا کرو کیونکہ قوس قزح کا مطلب ہے.شیطان کی کمان.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 39 2 چھری یا قینچی کی نوک کسی کی طرف نہ کرو نہ تیز رخ سے پکڑاؤ.و کبھی ڈھیلا یا پتھر کسی کی جانب نہ پھینکو.بے جا لگ جائے تو آنکھ ہی پھوٹ جائے.- تم کیوں کوئی بری خبر جا کر سناؤ ، کوئی اور سنادے گا.5 کشتی بے شک کھیلوئیکن کھیل کھیل میں ایک دوسرے کو ٹانگیں نہ مارو کسی نازک جگہ چوٹ لگ سکتی ہے.- کم عمری میں روزہ رکھوانا آپ پسند نہ فرماتے.(24) والدہ صاحبہ کے ذکر میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی والدہ کتنی مہمان نواز تھیں.یہ صفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی فطرتا آئی.اب آپ پوچھیں گے کہ یہ کون لوگ تھے ؟ کون سے مہمان تھے جو حضور علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے؟ دیکھیں ہم نے بتایا قادیان ایک چھوٹی سی گمنام بستی تھی.جب حضور علیہ السلام نے دعویٰ مسیحت کیا تو یہ خبر دور دور تک پھیل گئی.لوگوں کو شوق پیدا ہوا کہ اس شخص کو دیکھا جائے ، اس سے ملا جائے.لوگ تکلیف اٹھا کر قادیان کا سفر کرتے.اس زمانے کا سفر آسان نہ تھا.جہاز اور آرام دہ سواریاں یا موٹریں نہ تھیں.قادیان میں تو ریل گاڑی بھی نہ آئی تھی.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 40 خدا تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے دل کو ایسا وسیع بنایا اور آپ علیہ السلام کو الہام نا فرمایا.وسع مكانك آپ علیہ السلام کے ساتھ حضرت اماں جان اور آپ علیہ السلام کے بچے سب مل کر لوگوں کا استقبال خوشی سے کرتے.اگر لوگ تکلیف اٹھا کر محض خدا تعالیٰ کی خاطر آتے اور ان کے کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست نہ کیا جاتا تو کس قدر تکلیف ہوتی.ہمارا دین ہمیں مسافر کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے مکہ کی بے آب و گیاہ بستی کو جس طرح آباد کیا اور لوگوں کے بار بار آنے کی جگہ بنا دیا، بالکل اسی طرح خدا تعالیٰ نے قادیان کو بھی لوگوں کو بار بار آنے کی جگہ بنایا دیا.خدا تعالی نے آپ علیہ السلام کو خبر دی کہ لوگ اس کثرت سے آئیں گے کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے.نمونہ کے طور پر ایک واقعہ سنیں.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدر آباد دکن کے رہنے والے بزرگ ہیں 1893 ء میں وہ قادیان پہلی بار آئے.اس وقت وہ ایک غریب طالب علم تھے.شام تک بٹالہ جو قادیان سے بارہ میل ہے، پہنچے آگے سواری نہ مل سکی.راستے کا بھی صحیح علم نہ تھا.ہاتھ میں سبزی وغیرہ اور دوسری قسم کا سامان بھی تھا.وہ غلط راستے پر چل نکلے.لوگوں سے پوچھتے بچاتے کسی طور پر جب قادیان آئے تو رات کے تین بجے تھے.حضرت حافظ حامد علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام
41 کے خادم تھے.ان سے ملے.انہوں نے اُن کو گول کمرہ میں ٹھہرایا.حضور علیہ السلام کو اطلاع ہوئی تو فوراً وہاں تشریف لے آئے.فوراً ہی پر تکلف کھانا کھلایا گیا.پھر سفر کا حال پوچھتے رہے اور بار بار فرماتے.وو راستہ بھول جانے کی پریشانی بہت ہوتی ہے.“ پھر خود جا کر بستر لائے اور فرمایا.اچھا حامد علی تم اچھی طرح سے کھلا ؤ اور یہاں ہی بستر لگا دو.“ چنانچہ حافظ حامد علی نے کھانا کھلوایا اور بستر بچھوا دیا اور جب عرفانی صاحب لیٹ گئے تو حامد علی صاحب رہانے لگے.کہ حضور علیہ السلام کی خاص ہدایت سے بہت تھکے ہوں گے ، ذراد با دینا.(25) اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ علیہ السلام کس طرح مہمان کی ہر سہولت کا خیال رکھا کرتے تھے.مہمان نوازی کے بڑے دلچسپ واقعات آپ علیہ السلام کے اصحاب نے بیان کیے ہیں.ایک واقعہ یوں ہے کہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب جو بعد میں حضرت مصلح موعود کے خصوصی معالج بنے ، پٹیالہ کے علاقہ کے رہنے والے تھے.1907 ء کا واقعہ ہے کہ وہ جلسہ سالانہ پر حاضر ہوئے جلسہ کی آخری کا روائی کے بعد جلسہ کے عہدیداران کی میٹنگ بلائی گئی.مسجد مبارک میں یہ اجلاس ہونا تھا.ڈاکٹر صاحب نے صبح کا کھانا
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 42 کھایا ہوا تھا.لیکن آپ کو یہ خوف ہوا کہ اگر کھانا کھانے چلے گئے تو یہ اجلاس شروع نہ ہو جائے.آپ کھانا چھوڑ کر اجلاس کے لیے مسجد مبارک چلے گئے.پونے بارہ بجے رات کو اجلاس ختم ہوا.لنگر خانہ بند ہو گیا تھا.آپ اس طرح اپنی قیام گاہ پر چلے گئے.کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا کہ جس دوست نے کھانا نہیں کھایا وہ ہنگر خانے جا کر کھالے چنانچہ جو کچھ لنگر خانے والوں نے پیش کیا وہ کھا لیا.آپ کے علاوہ دو اور آدمی بھی تھے.اگلی صبح نو بجے معلوم ہوا کہ رات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالی نے الہاما خبر دے دی تھی اس کا ذکر شیخ عبد الحق صاحب سابق معاون دارالضیافت کے خط سے سنا.1907ء کے جلسے پر کچھ دوست ایک رات بھوکے رہے.ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا.بھو کے اور بے حال کو کھانا کھلاؤ.رات کو ہی آدمی تلاش کرنے لگے کہ جو رات کھانا کھائے بغیر سو گئے تا اُن کو جگا کر کھانا کھلایا جائے صبح حضور علیہ السلام مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں پر تشریف لائے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (خلیفہ اوّل) کو بلاؤ.چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل تشریف لائے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا " مولوی صاحب رات جو الہام ہوا کہ بعض دوستوں کا اضطراب اتنی جلدی عرش پر پہنچ گیا اور عرش کو ہلا دیا کہ فورا الہام کے ذریعے اُن کو کھانا کھلانے 66 ,,
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اطلاع پہنچی.(26) 43 ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ خدا کو حاضر جان کر کہتا ہوں کہ اُسی رات میں بھوکا اور بھوک کی یہ تکلیف مجھے سلسلہ کے کام کی وجہ سے تھی جس نے عرش کو ہلا دیا.اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خد اتعالیٰ کا منشاء بھی یہی تھا کہ آپ علیہ السلام مہمانوں کا اکرام و احترام کریں کیونکہ ایک زمانہ آپ علیہ السلام کے دستر خوان پر کھانے والا تھا.آج دیکھو کس طرح ہر ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بابرکت لنگر جاری ہے جو جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کرتا ہے.دیگر امور جن کا آپ خیال رکھا کرتے تھے یہ ہیں.(1) مہمانوں کے آنے پر لنگر خانے کے کارکنوں کو خصوصی ہدایت ہوتی کہ فوراً حضور کو اطلاع دی جائے.(2) مہمان جس علاقے سے ہوتے مثلاً مدارس ، بنگال یا کشمیر کے، تو چاول ضرور تیار کرواتے اور فرماتے کہ اگر ان لوگوں کی صحت نہ رہی تو دین کیا سیکھیں گے.“ (3) مہمانوں کے لیے موسم کی مناسبت سے چائے لسی شربت مہیا فرماتے اور اگر فوراً تیار نہ ہوتا تو دودھ ، ڈبل روٹی یا پھل وغیرہ فورا حاضر کیا جاتا.(4) مہمان کے جلد واپس جانے سے خوش نہ ہوتے اور چاہتے کہ زیادہ دیر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 44 تک رہے.ایک بار منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی آئے.وہ جب جانے کی اجازت مانگتے تو سہی کہتے چلے جانا ابھی کون سی جلدی ہے اس طرح ایک لمبا عرصہ ان کو ٹھہر الیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی فرماتے ہیں کہ " یہی بات آپ علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ کیونکہ جھوٹا آدمی ایک دن میں گھبرا جاتا ہے اور دوسروں کو نکال دیتا ہے تا کہ اس کا پول نہ کھل جائے.آپ علیہ السلام چونکہ خدا کی طرف سے آئے تھے اس لئے آپ علیہ السلام کو کوئی ڈر نہ تھا.“ (5) بے تکلفی کو پیدا کرنے کے لئے بھی اپنے باغ سے شہوت یا آم کے ٹوکرے منگواتے اور مہمانوں کے ساتھ مل کر کھاتے.(6) سفر میں کھانا باندھ کر ساتھ دیتے.(7) مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی آپ علیہ السلام کے مخلص رفیق تھے.ایک بار جون میں تشریف لائے تو دو پہر کو آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے.حضور علیہ السلام چار پائی کے پاس نیچے لیٹ گئے.وہ گھبرا کر ادب سے اٹھ بیٹھے.مسکرا کر فرمایا ” میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا لڑ کے شور کرتے تھے، انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے.“ (27) (8) جلسے کے موقع پر سب کے لئے ایک ہی کھانا پکتا.آپ علیہ السلام نا پسند
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 45 فرماتے کہ اس موقع پر کوئی امتیازی سلوک کیا جاوے.فرماتے ” میرے لئے سب برابر ہیں.اس موقع پر امتیاز یا تفریق نہیں ہو سکتی." (9) میاں نجم الدین لنگر خانہ کے انچارج تھے.ان کو بلا کر جو ہدایات فرمائی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے ، فرمایا:.دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں.ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الکرام جان کر تواضع کرو.سردی کا موسم ہے چائے پلا ؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میر احسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کو نکلے کا انتظام کرو.‘ (28) پیر سراج الحق صاحب آپ علیہ السلام کے مخلص رفیق تھے.انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ بیان کیا کہ قادیان کے پاس کے گاؤں میں ایک سکھ دیہاتی آدمی جو بہت بڑی عمر کا تھا ، ایک واقعہ بیان کیا کرتا کہ میں حضرت صاحب سے بیس سال بڑا ہوں اور بڑے مرزا صاحب آپ علیہ السلام کے والد) کے پاس میرا بہت آنا جانا تھا.بڑے مرزا صاحب بعض دفعہ کسی بڑے افسر سے ملوانے کے لئے حضرت کو بلواتے تو
سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام 46 آپ علیہ السلام آنکھیں نیچی کئے ہوئے آتے اور اپنے والد صاحب سے کچھ فاصلے پر سلام کر کے بیٹھ جاتے.وہ دیہاتی کہتا کہ آپ علیہ السلام کے والد صاحب آپ علیہ السلام کو مسیت کہتے اور کہتے کہ یہ نہ نوکری کرتا ہے اور نہ کماتا ہے.پھر وہ آپ علیہ السلام کو ہنس کر کہتے چلو تمہیں کسی مسجد میں ملاں کروا دیتا ہوں.دس من وانے تو گھر آ جایا کریں گے.پھر وہ آپ علیہ السلام کو افسوس کی نگاہ سے دیکھتے کہ میرا یہ لڑکا دنیا کی ترقی سے محروم رہا جاتا ہے.وہی سکھ دیہاتی ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملنے آیا.آپ علیہ السلام کے اصحاب اس وقت گول کمرے میں کھانا کھا رہے تھے.اس نے ملنے کی خواہش ظاہر کی.لوگوں نے کہا اس وقت حضور علیہ السلام کام میں مصروف ہوں گے جب تشریف لائیں گے تو مل لینا.اس پر اس نے بے دھڑک آواز دی کہ مرزا جی ! ذرا باہر آؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوراً بغیر پگڑی باندھے باہر تشریف لے آئے اور مسکراتے ہوئے اُسے فرمایا ”سردار صاحب! اچھے ہو، خوش ہو، بہت دنوں کے بعد ملے ہو.“ اس نے کہا کہ " میں خوش ہوں مگر بڑھاپے نے ست کر رکھا ہے.“ پھر اس نے کہا کہ ”مرزا جی ! آپ علیہ السلام کو وہ پہلی باتیں بھی یاد ہیں جو بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے.آج وہ زندہ ہوتے تو یہ چہل پہل دیکھتے کہ کس طرح ان کا یہ مسیر لڑکا بادشاہ بنا بیٹھا ہے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 47 اور بڑے بڑے لوگ دور دور سے آ کر اس کے در کی غلامی کرتے ہیں“.حضرت اقدس علیہ السلام اس کی ان باتوں کو سن کر مسکراتے جاتے.پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں مجھے یہ ساری باتیں یاد ہیں.یہ سب اللہ کا فضل ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.“ اور پھر محبت سے اسے فرمایا ٹھہرو میں تمہارے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہوں.“ یہ سب باتیں بیان کرتے ہوئے وہ سکھ بھی روتا رہا اور کہنے لگا آج مرز اغلام مرتضی زندہ ہوتے تو کیا نظارہ دیکھتے." (288) پیارے بچو! یہ ایک سکھ دیہاتی کی گواہی ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیسی عظمت خدا تعالی نے عطا میں موعودعلیہ کسی خدا تعالیٰ نے فرمائی.آپ علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں:.ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دکان کیا کرتے تھے.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لیے قادیان آیا سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا.رات کو
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 48 جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزرگئی اور قریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی.میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے تھے.ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لائٹین تھی.میں حضور علیہ السلام کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور علیہ السلام نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں.آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی.اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لایا ہوں.سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اللہ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں! یہ خدا کا برگزیدہ صحیح اپنے اونی خادموں تک کی خدمت اور دلدادی میں کتنی لذت اور تکلیف اُٹھاتا ہے.(29) یہ تو ہم نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ عادات و خصائل کی ایک مہلکی سی جھلک دکھائی.اب یقیناً آپ کا دل چاو ر ہا ہوگا کہ ایسا شخص جو اتنے پاک اوصاف کا مالک تھا، وہ ظاہری طور پر کیسا پاک شکل تھا.تو آئیں ہم آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلیہ مبارک کے بارے میں بتاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قد درمیانہ سے ذرا اونچا، جسم کچھ
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 49 بھاری، آنکھیں بڑی بڑی مگر ہمیشہ نیچے کو جھکی ہوئی ، چہرہ چمکدار، کمر سیدھی ، جسم کا گوشت مضبوط ، رنگ سفید و سرخ گندمی تھا، جب آپ ہنستے تو بہت سرخ ہو جاتا ، سر کے بال سید ھے، کانوں تک لٹکتے ، چمکدار تھے داڑھی گھنی تھی ، آپ کا قد بالکل سیدھا تھا، ذرا بھی کمزوری اور جھکاؤ نہ آیا تھا، پیشانی پر کوئی جھری نہ تھی.(30) ، آپ علیہ السلام عام طور پر یہ لباس پینا کرتے ، کرتا یا قمیض ، صدری، کوٹ، عمامہ ( پگڑی کی طرح کپڑا) اس کے علاوہ رومال بھی ضرور رکھتے اور ذرا بڑا ر کھتے.اس کے کونوں میں آپ علیہ السلام مشک اور ضروری دوائیں جو آپ علیہ السلام استعمال کرتے ، رکھتے تھے.سردی میں جرا ہیں استعمال فرماتے ، جوتی آپ علیہ السلام کی دیسی ہوتی.آپ علیہ السلام باہر جاتے وقت عصا (سوٹی ) ضرور رکھتے مگر بوڑھے لوگوں کی طرح اس پر سہارا یا بوجھ ڈال کر نہ چلتے.اسی سادہ لباس پہننے والے انسان کو مخاطب کر کے خدا نے فرمایا کہ:.”بادشادہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“ آپ کی عادت تھی کہ رات کو سونے سے قبل لباس ضرور تبدیل کر لیتے.پاجامہ اتار کر تہہ بند باندھا کرتے اور اسی میں سو جایا کرتے.(31) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آپ علیہ السلام کے کام کرنے کے
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام طریق کے بارے میں بتاتی ہیں.50 50 آپ علیہ السلام کے کاموں میں بھی سستی یا رکاوٹ نظر نہیں آئی.وقت میں اتنی برکت اللہ تعالیٰ نے ڈالی کہ اب سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ و 240 گھنٹے کے شب و روز تھے کہ 48 گھنٹے سے بھی زیادہ کے تھے.دن کو بیٹھ کر لکھنا اور ٹہل کر بھی لکھنا.آپ علیہ السلام زیادہ تر ٹہلتے ہوئے تحریر فرماتے.ایک اونچی تپائی ( چھوٹی میز ) پر دوات رکھی رہتی.نب ٹیڑھی نوک کا باریک ہوتا تھا.چلتے چلتے ہولڈرڈ بو لیتے اور لکھتے رہتے.اس میں دوسروں کی بات بھی سننا ، جواب بھی دینا ، لوگوں کو دوا دارو بھی دینا اور پھر وہی روانی.آپ علیہ السلام کا قلم گویا خدائے کریم کے ہاتھ میں تھا.کوئی دوسرا ہوتا تو ذراسی گڑ بڑ میں سب کچھ بھول جاتا.(32) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نمایاں خصوصیات خوراک کے معاملے میں یہ تھی کہ جو بھی آپ علیہ السلام کے سامنے لایا جاتا ، آپ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر کے کھالیتے.جو غذا ئیں آپ نے استعمال کیں وہ ہم آپ کو بتاتے ہیں.آپ علیہ السلام کی خوراک کم تھی.جو چیز بھی آپ علیہ السلام کے سامنے رکھی جاتی خوشی سے کھاتے اور اپنی پسند اور خوشی کا اظہار بھی فرماتے.
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 51 روزانہ اور اکثر ، عام پھلکے یعنی چپاتی لیتے جس کے آپ علیہ السلام چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے نوش فرماتے.آپ کی انگلیاں سائن سے تر نہ ہوتیں.ہمیشہ آپ علیہ السلام کے سامنے بچے ہوئے ٹکڑے رہ جاتے جو اصحاب بطور تبرک لے لیا کرتے.حضرت سید ہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں.اس کے علاوہ پوڑے، دال بھرے پراٹھے جو خاص طور پر حضرت اماں جان کے ہاتھ کے بہترین ہوتے تھے، پہلے پہلے اور بڑے بڑے.غرض ایسی ہی چیزیں اگر آپ علیہ السلام کے سامنے رکھی جاتیں تو آپ علیہ السلام شوق سے کھاتے.‘ (33) اس کے علاوہ ڈبل روٹی ، بسکٹ اور رس بھی آپ علیہ السلام کھاتے.مکئی کی روٹی بھی استعمال فرمائی.گوشت بھی آپ علیہ السلام کے ہاں پکتا مگر دال آپ علیہ السلام کو گوشت سے زیادہ پسند تھی.سالن ہر قسم کا اور سبزی ہر طرح کی آپ کے دستر خوان پر ہوتی.پرندوں میں تیتر اور فاختہ کا گوشت بھی آپ علیہ السلام کو پسند تھا.پلاؤ بھی آپ نے کھایا مگر ہمیشہ نرم اور گلے ہوئے چاولوں کا.جب طبیعت خراب ہوتی تو خشکہ چاول کھاتے.آخری کھانا جو آپ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا ، وہ 28 مئی کی شام کا تھا جس میں خشکہ تھا.جب
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 52 52 تصنیف کا کام زیادہ ہوتا تو فرنی اور میٹھے چاول گڑ والے کہہ کر پکواتے.دودھ کا استعمال اکثر فرماتے.طاقت قائم رکھنے کے لئے تین چار بار تھوڑا تھوڑا استعمال فرماتے.پھلوں میں آپ علیہ السلام کو انگور ، بمبئی کا کیلا، ناگپور کے سنگترے، سیب، سردے اور سرولی آم ( آموں کی ایک قسم) زیادہ پسند تھے.اور جو بھی پھل آتا ، کھا لیا کرتے.گنا بھی آپ علیہ السلام کو پسند تھا.شہتوت کے موسم میں اکثر اپنے باغ سے منگوا کر کھاتے یا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیر کے وقت باغ میں کھاتے.خاص بات یہ ہے بچو! کہ آپ علیہ السلام نے کبھی کسی خاص کھانے کے لئے اصرار نہیں کیا اور دوسری بات یہ کہ کبھی اکیلے نہ کھاتے.گھر میں ہوتے تو گھر والوں کے ساتھ کھاتے.باہر اصحاب کے درمیان ہوتے تو ہمیشہ آپ علیہ السلام کے دستر خوان پر لوگ ہوتے جن کی تعداد بعض دفعہ ہیں ہیں یا پھپیں بھی ہو جاتی.جو لوگ اکثر آپ علیہ السلام کے ساتھ کھاتے ، اگر ان میں سے کوئی موجود نہ ہوتا تو اس کا حصہ رکھ لیتے.یہ عادت ایک بیج کی طرح تھی کیونکہ وقت آنے والا تھا جب ہزاروں آدمی آپ علیہ السلام کے دستر خوان پر کھانے والے تھے.کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھو یا کرتے.سردیوں میں اکثر
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 53 گرم پانی استعمال فرماتے اور کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے.(34) اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے میں ایک تو ازن تھا.آپ علیہ السلام ہر قسم کی غذائیں کھاتے.یہ مزاج نہ تھا کہ فلاں چیز نا پسند ہے یا نہیں کھانی.جیسے بعض بچے کرتے ہیں کہ دودھ نہیں پینا یا فلاں پھل نہیں کھانا.اس طرح ہر قسم کی غذا کھانے سے انسان بڑے بڑے کاموں کا اہل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ سب نعمتیں خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سیرت کے صرف چند گوشے اور پہلو آپ کے سامنے آئے ہیں.بیچ تو یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی کامل اطاعت و پیروی کا رنگ رکھتا ہے.آپ علیہ السلام کا چلنا پھرنا ، سونا جاگنا، آپ علیہ السلام کی تحریر و تقریر و منظوم کلام سب میں یہی عکس نمایاں ہے اور یہی تو آپ علیہ السلام کے آنے کا مقصد تھا کہ اپنے آقا و مطاع کے رنگ میں رنگین ہو کر اخلاق حسنہ کو دوبارہ قائم کریں.اپنے آقا کے لئے جو غیرت و فدائیت آپ علیہ السلام کے اندر تھی ، اس کا تذکرہ آپ علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد فرماتے ہیں:.”ایک بات میں نے والد صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام )
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 54 الله میں خاص طور پر دیکھی ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے خلاف ذراسی بھی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان کے خلاف ذراسی بات کہتا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور غصے سے ان کی آنکھیں متغیر ہو نے لگتی تھیں اور فورا ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے.آنحضرت ﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا.(35) آپ علیہ السلام خود فرماتے ہیں.وو سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول عربی نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی.زندہ خدا جولوگوں سے پوشیدہ ہے، اس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے.وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الہبی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی." (38)
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 55 (1) حیات طیبہ صفحہ 15 تا 37 (2) حیات احمد صفحہ 187 (3) حیات طیبہ صفحہ 9 (4) حیات طیبہ صفحہ 10 تا 13 (5) حیات احمد صفحہ 13 حوالہ جات (6) سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی صاحب صفحہ 385 (6B) تحریرات مبارکہ صفحہ 202-201 (7) حیات طیبہ صفحہ 68،67 (8) تحریرات مبارکہ صفحہ 222 (9) تابعین اصحاب احمد سیرت ام طاہر مولفہ ملک صلاح الدین ایم.اے (10) ذكر حبيب (11) تحریرات مبارکہ (12) سیرت حضرت مسیح موعود از مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ 54 (13) ذکر حبیب صفحہ 171 (14) سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ 34 (15) سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ 39 (16) حیات بشیر صفحہ 11 (17) حیات بشیر صفحه 14 (18) سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 58
سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام (19) سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 11 (20) سوانح فضل عمر دجلد اوّل صفحہ 52 (21) تحریرات مبارکہ صفحہ 66-67 (22) حیات احمد صفحہ 198 99 56 (23) تحریرات مبارکہ صفحہ 203-202 (24) تحریرات مبارکہ صفحہ (25) سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی صاحب صفحہ 146 - 147 - 148 (26) روزنامه الفضل 20 مارچ 2007 ء (27) یعقوب علی عرفانی صفحہ 156 (28) از عرفانی صاحب صفحہ 151-163 (28B) سیرت المہدی صفحہ 80 ،81 (29) سیرت طیبہ صفحہ 69-71 (30) ذکر حبیب صفحہ 31 (31) تحریرات مبارکہ صفحہ 206 (32) تحریرات مبارکہ صفحہ 205،204 (33) تحریرات مبارکہ صفحہ 28 (34) سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ 97 (35) سیرت طیبہ صفحہ 124 از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (36) سراج منیر صفحہ 80
as (Seerat Hadrat Masih-e-Mauood "s) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 990 6