Language: UR
سیرت حضرت اماں جان
سیرت حضرت اماں جان Λ 11 ۱۲ نمبر شمار ۱۳ ۱۴ と ۱۵ 17 فهرست مندرجات باب اول.......مختصر سوانح مختصر سوانح حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی سب سے پہلی مالی تحریک نور ہسپتال کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد ہجرت پاکستان باب دوم....آخری بیماری اور وصال آخری بیماری اور وصال دعاؤں اور صدقات کی تحریک وفات اور تدفین حضرت اماں جان کیلئے خاص دعا کی تحریک حضرت اماں جان کے صدقہ کی رقوم آخری بیماری اور وفات تیمار داری کرنے والے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی تدفین قرار داد لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ قرارداد نصرت گرلز کالج قرار داد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ حضرت اماں جان کی تعزیت کے خطوط کے جوابات صفحہ 1 تا 19 له 7 8 15 19 1 20 45028 20 27 28 تا 38 35 40 46 47 47 49
53 ا ا ا ا ا ا ن 55 62 89 له مادة له 69 73 92 107 118 121 123 126 129 131 137 143 146 147 149 152 156 سیرت حضرت اماں جان ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ 2 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام حضرت اماں جان کی وفات پر ہمدردی کے پیغامات سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بعض رؤیا و کشوف باب سوم.....سيرت و شمائل سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب حضرت مولانا عبدالرحمن جٹ صاحب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب حضرت مولانا قدرت اللہ صاحب سنوری امته الرحمن بیگم مولوی عبدالمنان عمر صاحب محترم احمد الدین صاحب حضرت سیدہ نعیمہ صاحبہ بنت حضرت سید میر حامد شاہ صاحب والدہ صاحبہ سید اعجاز احمد شاہ صاحب حضرت سکینۃ النساء صاحبہ محتر مہ امۃ السلام تبسم صاحبہ محترم خواجہ غلام نبی صاحب ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷
160 170 174 179 188 209 211 215 220 227 230 232 242 249 251 253 257 259 261 262 263 سیرت حضرت اماں جان ۳۸ ۳۹ ۴۰ ام ۴۲ محترم چوہدری محمد شریف صاحب 3 باب چهارم......اوصاف حمیده ہمدردی اور عنایات کریمانہ تاثرات حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال غریب نوازی اور حسنِ انداز تربیت دوسرں کی خوشی میں شریک اور اپنی اولاد کی طرح سلوک بچوں پر شفقت مهمان نوازی خوشی سے تحائف عطا کرنا اور قبول فرمانا جود وسخا آپ کی ذات مجموعہ خلائق تھی زریں نصائح بچوں سے شفقت اور عنایات اپنے ہاتھ سے دوسروں کے کام کرنا اولاد سے پیار خوش مزاجی اور خوش خلقی علمی ذوق وشوق ملازموں کی دلجوئی کا لطیف طریق عبادات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت و عقیدت شعائر اللہ کا احترام خلافت کا احترام اور محبت ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ لا ۵۸
265 269 270 282 284 286 292 295 296 297 298 299 300 302 305 308 313 315 318 320 4 سیرت حضرت اماں جان ۵۹ ۶۰ قادیان سے محبت علم تعبیر قبولیت دعا آپ کی روحانی اولاد تاثرات سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تاثرات حضرت مرزا عبدالحق سلمه ر به باب پنجم....آپ کے پیغمات حضرت سیدۃ النساء اعلیٰ اللہ درجاتها کا پیغام درویشان قادیان کے نام باب ششم......نذرانه هائے عقیدت محترم عبد الحکیم صاحب محترم محمد انور صاحب بنگوی مولانا مصلح الدین را جیکی حضرت قاضی ظہور الدین اکمل مکرم عبد السلام اختر مکرم ثاقب زیروی صاحب مکرم سید حسن حمیدی سردار رشید قیصرانی صاحب حضرت مولا نا غلام رسول را جیکی مولانا مبشر احمد را جیکی يتزوج ويولد له باب هفتم......متفرقات حضرت اماں جان کی آواز کا ریکارڈ تعزیتی خطوط کے جوابات ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ لا ۶۸ > 45 ۶۹ اے ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۵ ۷۶ LL ZA
مختصر سوانح اب اول
3 ۱۸۶۵ء ۱۸۷۱ء: مختصر سوانح حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہان بیگم آپ حضرت سید میر ناصر نواب صاحب دہلوی کے ہاں ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئیں.آپ نے چھ سال کی عمر میں گھر کی چاردیواری میں قرآن کریم اور اردو نوشت و خواند کی تعلیم شروع کی.جو آپ کے والد ماجد حضرت میر ناصر نواب دہلوی نے خود ہی شروع کرائی.۱۸۸۴ء: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی ۱۷ نومبر ۱۸۸۴ء ۲۷ محرم ۱۳۰۲ھ بروز سوموار دہلی میں مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی نے گیارہ سوروپے حق مہر پر نکاح پڑھایا ۱۵ را پریل ۱۸۸۶ء: حضرت صاحبزادی عصمت صاحبہ کی پیدائش (وفات جولائی ۱۸۹۱ء) جون ۱۸۸۷ء: ۱۹رجون ۱۸۸۷ء کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ انبالہ چھاؤنی تشریف لے گئے.جہاں کہ حضرت سید میر ناصر نواب صاحب دہلوی ان دنوں ملازم تھے.۲ ۷ اگست ۱۸۸۷ء:
4 حضرت صاحبزادہ بشیر اول کی پیدائش (وفات ۴ / نومبر ۱۸۸۸ء) مئی ۱۸۸۸ء: سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع اہل بیت حضرت اماں جان ، صاحبزادہ بشیر اول کے علاج و معالجہ کے سلسلہ میں چند ایام بٹالہ میں مقیم رہے.۳ ۱۲/ جنوری ۱۸۸۹ء: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ولادت.فروری مارچ ۱۸۸۹ء: حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت اماں جان لدھیانہ میں مقیم رہے.وہاں آپ نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت لینے کا آغاز فرمایا.حضرت میر ناصر نواب صاحب ان ایام میں محلہ اقبال گنج لدھیانہ میں مقیم تھے.ہے.اکتوبر نومبر ۱۸۸۹ء: حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی کے ہاں لدھیانہ میں تشریف لے گئیں.نومبر ۱۸۸۹ء میں حضرت اماں جان لدھیانہ میں سخت بیمار ہوگئیں.چنانچہ آپ کی تیمار داری کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٫۵رنومبر ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ تشریف لے گئے.۱۸۹۱ء: حضرت صاحبزادی شوکت صاحبہ کی ولادت.۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت.نومبر دسمبر ۱۸۹۳ء: ۱۸۹۴ء: نومبر ۱۸۹۳ء میں حضرت اماں جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ہاں فیروز پور چھاؤنی تشریف لے گئیں.وہاں آپ نے قریباً ایک ماہ قیام فرمایا.بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فیروز پور چھاؤنی تشریف لے گئے.جہاں آپ نے قریباً پچیس ایام قیام فرمایا.حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت نانی اماں جان والدہ ماجدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئیں.ے
5 ۱۸۹۵ء :۲۴ رمئی ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی ولادت ۱۸۹۷ء:۲ / مارچ ، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ولادت ۱۸۹۹ء: ۴ ارجون ، حضرت صاحبزادہ مرزا امبارک احمد صاحب کی ولادت ۱۹۰۳ء: ۲۸ جنوری حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ النصیر صاحبہ کی ولادت ۱۹۰۴ء: ۲۵ / جون، حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی ولادت اکتوبر ۱۹۰۵ء: ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کو آپ کے خویش و اقارب سے ملانے کے لئے دہلی تشریف لے گئے.۲۷ را پریل ۱۹۰۸ء: حضرت اماں جان کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور کے سفر پر روانہ ہوئے.۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء: سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو لاہور میں وصال ہو ا.وصال کے وقت حضرت اماں جان لاہور میں مقیم تھیں.اس اندوہناک موقعہ پر آپ نے غیر معمولی صبر و رضائے باری تعالٰی کا عملی نمونہ دکھایا.۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء: جون ۱۹۱۲ء: حضرت اماں جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ کے ساتھ قادیان تشریف لا ئیں.اعلام الہی اور منشائے الہی کے مطابق اس روز قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمد یہ کا آغاز ہوا.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اسی روز قدرت ثانیہ کے مظہر اول ، حاجی الحرمین حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی خلیفتہ امسیح الاول کی بیعت کی.آپ قادیان سے لاہور تشریف لے گئیں.10 حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا لاہور سے حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب کے ہمراہ
جون ۱۹۱۳ء: نومبر ۱۹۱۳ء: دسمبر ۱۹۱۳ء: 6 سرسہ تشریف لے گئیں.حضرت میر صاحب سرسہ میں بطور اسٹنٹ سر جن خدمات بجالا رہے الفضل کے اجزاء میں آپ کی بیش قیمت مالی قربانی.آپ نے اپنی ایک زمین فروخت کر کے اس کی رقم جو قریباً 1000 ( ایک ہزار روپے ) عنایت فرمائی.۱۲ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ۸/نومبر ۱۹۱۳ء کو قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کیا.آپ کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الاول نے بہت دعائیں کیں.اس خوشی کے موقع پر حضرت اماں جان نے مٹھائی تقسیم فرمائی.۱۳ جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۱۳ء کے بابرکت موقع پر حضرت اُم المومنین نے مہمانوں کی خاطر و مدارات میں سعی بلیغ فرمائی نیز آپ نے کچھ وعظ بھی فرمائے.۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء: حضرت اُم المومنین اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب معہ اہل و عیال سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی تیمارداری اور عیادت کے لئے کوٹھی دارالسلام قادیان تشریف لے گئے.تا کہ آپ کی خدمت میں حصہ لے سکیں.۱۵ سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کا وصال ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو ہوا.۱۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت اماں جان نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کی.۱۶ قادیان میں مدرسۃ البنات اپریل ۱۹۱۴ء میں حضرت اماں جان نے مدرسۃ البنات کے لئے (جس میں اس وقت ساٹھ طالبات زیر تعلیم تھیں) کمال محبت اور مہربانی سے اپنے دونوں جانب کے نچلے دالان گرلز سکول کے لئے مرحمت فرما دیئے.جزاها اللہ احسن الجزاء.کا
سیرت 7 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی سب سے پہلی مالی تحریک نومبر ۱۹۱۶ء: سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی سب سے پہلی مالی تحریک بارہ ہزار روپے کی فرمائی.حضرت اماں جان نے اس تحریک میں ایک صد روپے چندہ عطا فرمایا.۱۸ حضرت اماں جان معہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب قادیان سے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئیں.19 ۱۹۱۷ء میں آپ شملہ تشریف لے گئیں.۲۰ ۱۹۱۸ء: حضرت اماں جان معہ حضرت سید میر محمد الحق صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نیز حضرت سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ پٹیالہ تشریف لے گئیں.۲۱ ۱۹۲۱ء کو حضرت سیدہ اماں جان صاحبہ کشمیر تشریف لے گئیں.۲۲ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۲۲ء تاسیس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت اُم المومنین و لجنہ اماءاللہ کی اولین مربیہ تھیں اور ابتدائی چودہ ممبرات میں سے سب سے پہلا نمبر آپ کا تھا.لجنہ اماءاللہ کے بنیادی مقاصد ابتدائی تحریک پر سب سے پہلے آپ کے دستخط ہیں.رسالہ احمدی خاتون سلسلة الجدید جلد نمبر صفحہ ۶ پر آپ کا نام یوں شائع ہوا: ( حضرت اُم المومنین ) ام محمود نصرت جہاں بیگم.ނ سب سے پہلا اجلاس آپ ہی کی زیر صدارت ہوا جس میں صدر اور سیکرٹری کا انتخاب عمل میں لایا گیا.وقتاً فوقتاً آپ لجنہ اماء اللہ کے اجلاسوں میں شرکت فرمائیں اور مناسب ہدایات نواز تھیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب جب سات سال یورپ و امریکہ میں خدمتِ اسلام کے بعد قادیان پہنچے تو لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے آپ کی خدمت میں ایک تہنیت نامہ پیش کیا گیا اس کے آخر میں سب سے پہلے حضرت اُم المومنین کے یوں دستخط ثبت ہیں: پریزیڈنٹ لجنہ اماءاللہ (ام المومنین ) نصرت جہاں بیگم ۲۳
80 ۱۹۲۲ء مالی تحریک پر لبیک ۱۹۲۲ء کا سال مالی لحاظ سے جماعت کے لئے ایک مشکل سال تھا.سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نا رضی اللہ عنہ نے انجمن احمدیہ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے چندہ خاص کی تحریک فرمائی.اس میں حضرت اماں جان نے ایک سو روپے عنایت فرمائے.۲۴ مارچ ۱۹۲۳ء ملکانہ کے مجاہدین کے لئے دعا ۱۲ / مارچ ۱۹۲۳ء کو ملکانہ کے لئے پہلا قافلہ روانہ ہوا.اس قافلہ کی قیادت حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے فرمائی.قافلہ کو روانہ کرنے کے لئے حضرت اُم المومنین بھی از راہ شفقت مع چند خواتین تشریف لائیں.اس موقع پر آپ نے دعا کی.اور مجاہدین کو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنی آنکھوں کے سامنے روانہ ہوتے دیکھا.۲۵ قیام لجنہ کے بعد مستورات کے لئے پہلی مالی تحریک قیام لجنہ اماءاللہ کے بعد مستورات کے لئے سب سے پہلی مالی تحریک جو سیدنا حضر نہ خلیفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمائی وہ مسجد برلن کی تعمیر کیلئے چندہ کی تحریک تھی.اس تحریک میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے پانچ صد روپے ادا فرمائے ۲۶ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے حضرت سیدہ اماں جان کے چندہ مسجد برلن کی نسبت فرمایا : ” بڑی رقموں میں سے ایک رقم حضرت اُم المومنین کی طرف سے پانسو روپے کی تھی.ہماری جائیداد کا ایک حصہ فروخت ہوا تھا اس میں سے ان کا حصہ پانسور و پیہ بنتا تھا انہوں نے وہ سب کا سب اس چندہ میں دے دیا.میں جانتا ہوں کہ ان کے پاس یہی نقد مال تھا.“ہے ۱۹۲۳ء: نور ہسپتال کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد یکم اگست ۱۹۲۳ء کو صبح آٹھ بجے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد حضرت سیدہ اماں جان صاحبہ کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا.آپ کمال مہربانی اور شفقت سے نور ہسپتال تشریف لے گئیں.ممبرات لجنہ آپ کے ہمراہ تھیں.آپ نے ہسپتال کے لئے دعا کروائی.اور نور ہسپتال کے زنانہ کمروں کی بنیادی اینٹ رکھی.۲۸
اپریل ۱۹۳۱ء: حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اپنے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کے ہاں مظفر گڑھ تشریف لے گئیں.۲۹ تحریک جدید کے پنج ہزاری مجاہدین میں آپ کا انہیں سالہ چندہ 6373 روپے تھا.مکرم محترم حضرت چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال تحریک جدید تحریر کرتے ہیں : آپ کا انیس سالہ حساب تحریر کرتے ہوئے یہ نوٹ دینا ضروری ہے کہ آپ نے کسی سال بھی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ ہر سال جو نہی سید نا حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تحریک جدید کے چندہ کا اعلان فرماتے اس کے معاً بعد آپ اپنا چندہ گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ نقد عطا فرما تیں.اسی طرح آپ سترھویں سال تک اپنی جیب خاص سے ادا فرماتی رہیں.آپ کی وفات کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے سال ۱۹،۱۸ کا چندہ ادا ۱۹۳۳ء: فرمایا.جزاها الله خيراً واكرم مثواهافی اعلی علیین آمین.حضرت اُم المومنین کا ہر سال کا اضافہ جماعت احمدیہ کی ہر خاتون کے لئے اسوۂ حسنہ ہے نہ صرف عورتوں کے لئے بلکہ ان مردوں کے لئے بھی نمونہ ہے جو کم سے کم شرح سے تحریک جدید کا چندہ دیتے ہیں اور پھر کم سے کم اضافے کرتے ہیں وہ اس شاندار نمونہ سے سبق حاصل کر کے اپنے معیار قربانی کو بلند تر کریں اور اپنی حیثیت کے مطابق وعدے کریں اور حتی المقدور جلدی ادا کرنے کی کوشش کریں“.۳۰ ۱۹۳۳ء میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا ضلع رہتک تشریف لے گئیں.جہاں آپ کے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بطور سول سر جن خدمات بجالا رہے تھے.اس ۲۳ فروری ۱۹۳۳ء سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ اماں جان صاحبہ کی کوٹھی بیت النصرت“ کا سنگِ بنیاد رکھا.یہ کوٹھی حضرت اماں جان صاحبہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے لئے بنوائی تھی.۳۲
دسمبر ۱۹۳۳ء: 10 نظارت ضیافت قادیان نے جلسہ سالانہ کے لئے دیگوں کی ضرورت پیش آنے پر تحریک کی.اس تحریک میں حضرت اماں جان نے ایک دیگ عنایت فرمائی.۳۳ اس تحریک میں آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بھی ایک دیگ عنایت فرمائی.فروری ۱۹۳۴ء.فیروز پور میں : حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اور سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ لجنہ اماء اللہ فیروز پور کی درخواست پر ا ا فروری ۱۹۳۴ء کو فیروز پور تشریف لے گئیں.ممبرات لجنہ فیروز پور نے آپ کے اعزاز میں مکرم پیرا کبر علی صاحب کی کوٹھی پر دعوت طعام دی.اور حضرت اماں جان کی خدمت میں ایک ریشمی چادر کا تحفہ پیش کیا.جس کو آپ نے بڑے خلوص سے شرف قبولیت عطا فرما کر تمام خواتین کے ساتھ مل کر دعا کی.۳۴، ۳۵ فروری ۱۹۳۴ء ساٹھ ہزار روپے قرضہ کی تحریک: سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر فروری ۱۹۳۴ ء میں مرکزی اداره نظارت امور عامہ قادیان کی طرف سے ساٹھ ہزار روپے قرض کی ایک تحریک کی گئی.اس تحریک میں کئی احباب و خواتین نے حصہ لیا.اس تحریک میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے بھی حصہ لیا.۳۶ ٫۵٫۴اگست ۱۹۳۴ء ۲ جولائی ۱۹۳۴ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا نکاح حضرت صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ عمل میں آیا.۴ را گست ۱۹۳۴ء کو آپ کی بارات مالیر کوٹلہ گئی.جن میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ ، حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب ، اور حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب شامل ہوئے.۵/اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.۳۷ رض
۶ ستمبر ۱۹۳۴ء 11 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب قادیان سے ولایت کے لئے روانہ ہوئے.آپ کو الوداع کرنے کے لئے ایک بہت بڑا اجتماع تھا.اس الوداعی تقریب میں افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی احباب شامل تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، مرزا گل محمد نیز حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا بھی الوداع کرنے کے لئے بنفس نفیس شامل ہوئیں.۳۸ مئی ۱۹۳۵ء.زلزلہ کوئٹہ : ۳۱ رمئی ۱۹۳۵ ء کو کوئٹر میں ایک لرزہ خیز زلزلہ آیا جس سے بے حد جانی اور مالی نقصان ہوا.سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی نے جماعت احمدیہ کو توجہ دلائی کہ وہ ہر رنگ میں مصیبت زدگان کی مدد کریں.لجنہ اماء اللہ کے ذریعہ چندہ جمع کرنے کا انتظام کیا گیا.حضرت اُم المومنین نے اس مد میں دو سو روپے چندہ دیا.۳۹ ۱۹۳۶ء تعمیر مہمان خانہ و توسیع بيوت الذكر : ناظر صاحب بیت المال قادیان نے ایک اپیل شائع کی کہ توسیع مہمان خانہ مسجد مبارک ،مسجد اقصیٰ اور جلسہ سالانہ کے لئے جماعت کے افراد اپنی اپنی ماہوار آمد کا تہائی حصہ دیں.یہ مبارک کام جو در پیش ہیں ان کا بیشتر فائدہ مستورات کو پہنچے گا اس لئے خواتین جماعت کو اس چندہ میں خصوصیت سے حصہ لینا چاہیے.حضرت اُم المومنین نے تعمیر مہمان خانہ اور توسیع مسجد کے لئے دو سوروپے عطا فرمائے.۴۰ ۱۹۳۶ء میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ علیل رہیں.جلسہ سالانہ ۱۹۳۶ء سے قبل آپ بفضلہ تعالیٰ صحت یاب ہو گئیں.اس توقع سے لجنہ اماءاللہ قادیان نے آپ کی ملاقات کا خاص اہتمام کیا تا کہ خواتین آپ سے شرف ملاقات حاصل کر سکیں.اے ۱۹۳۸ء.خلافت جو بلی فنڈ : حضرت اماں جان نے خلافت جو بلی فنڈ کی مد میں پانچ صد روپے چندہ عطا فرمایا.۴۲
12 فروری تا جون ۱۹۳۸ء میں آپ کی طبیعت علیل رہی.اس دوران آپ کو کمی خون اور خرابی جگر کی بھی شکایت رہی.اس عرصہ میں آپ کی صحت کے لئے دعا کے باقاعدہ اعلانات شائع ہوتے رہے.۲۳ جون ۱۹۳۸ء: حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت، کامیابی اور بخیریت (انگلستان ) سے واپسی کے لئے تمام احمدی جماعتیں دعا کرتی رہیں.نیز ۹ جون ۱۹۳۸ء سے ان کا امتحان شروع ہونے والا ہے.جو ۵ ارجون تک جاری رہے گا.اس میں کامیابی کے لئے بھی دعا کی جائے.۴۴ اکتوبر ۱۹۳۸ء: آپ قادیان سے لاہور تشریف لے گئیں.۴۵ ۲۳ اگست ۱۹۳۹ء : حضرت اماں جان بذریعہ گاڑی لاہور سے واپس قادیان تشریف لائیں.۴۶ ۱۹۳۹ء.لوائے احمدیت کا اہتمام: حضرت میاں فقیر محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ و نجواں ضلع گورداسپو ر۱۹۳۹ء میں قادیان تشریف لائے.اور لوائے احمدیت کی غرض سے تیار شدہ سوت میں کچھ سوت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا.اور عرض کیا کہ میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے بیج بویا اور پانی دیتارہا.اور پھر پھنا اور صحابیوں سے ڈھنوایا اور اپنے گھر میں اس کو کتو ایا.ہے جون ۱۹۴۰ء: ۱۹ جون ۱۹۴۰ء کو حضرت سیدہ اماں جان اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مع بیگم صاحبہ قادیان سے لاہور تشریف لے گئے.۲۸ ۱۸ اگست ۱۹۴۰ء: حضرت اماں جان اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب مع اہلیہ آج شام گاڑی سے دہلی تشریف لے گئے.۴۹ جون ۱۹۴۰ء میں آپ لا ہور تشریف لے گئیں.۵۰
13 ستمبر ۱۹۴۰ء: قادیان میں صنعتی سکول کا افتتاح مکرمہ محترمہ زکیه خانم صاحبہ بنت مکرم شیخ محمد لطیف صاحب نے گرلز سکول قادیان کے نزدیک ایک صنعتی سکول کا اجراء کیا.جس کا افتتاح حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہانے ۱۵ ستمبر ۱۹۴۰ء کو فرمایا.اس موقعہ پر حضرت ام ناصر احمد صاحبہ حضرت سیدہ مریم النساء بیگم ام طاہر صاحبہ، حضرت ام مظفر احمد صاحبہ اور حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم بھی موجود تھیں.۵۱ دسمبر ۱۹۴۰ء: آپ سر درد کی تکلیف کی وجہ سے بیمار ہو گئیں.۵۲ جنوری ۱۹۴۱ء: ۲ جنوری ۱۹۴۱، کوسید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی، حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادی امتہ القیوم صاحبه، صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب،صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا اظہر احمد اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب قادیان سے شام پونے چار بجے تبدیلی آب و ہوا کے لئے راجپورہ تشریف لے گئے.۵۳ مئی ۱۹۴۲ء.غرباء کے لئے غلہ دینے کی تحریک: ۲۰ رمئی ۱۹۴۲ء سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت میں تحریک فرمائی کہ وہ غرباء کے لئے پانچ صد من غلہ اپنے گلہ میں سے دیں یا خریدنے کے لئے نقد دیں تاکہ غرباء کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے.چنانچہ حضور کے اس فرمان پر کئی احباب وخواتین نے لبیک کہا.حضرت سیدہ اماں جان نے اس تحریک میں نقدی کی صورت میں مبلغ دس روپے عنایت فرمائے.۵۴ ۱۹۴۴ء تعلیم الاسلام کالج کے لئے چندہ کی تحریک: ۱۹۴۴ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تعلیم الاسلام کالج کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کی چندہ کی تحریک فرمائی.حضرت اماں جان نے اس مد میں پانچ صد روپے چندہ عطا فرمایا.۵۵ ۱۹۴۴ء فضل عمر ہوٹل کے لئے تحائف: فضل عمر ہوٹل کا قیام دارالانوار قادیان کے گیسٹ ہاؤس میں عمل میں آیا.سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اس ہوٹل کا افتتاح فرمایا.
14 مکرم و محترم چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے ( حال وکیل التصنیف تحریک جدیدر بوہ ) بیان کرتے ہیں: ”ہمارے پہلے باور چی غلام محمد صاحب تھے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا تقریباً روزانہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوٹھی، پیدل مع خادمات تشریف لے جایا کرتی تھیں.اور برقعے کے ساتھ چھتری بھی استعمال فرمایا کرتی تھیں.دو تین دن تو ہم حجاب میں رہے.ایک دن ہمت کر کے راستے میں گیسٹ ہاؤس کے سامنے قطار باندھ کر کھڑے ہو گئے اور سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی.ایک ایک کا نام اور پتہ دریافت فرمایا.نیز پوچھا کہ کھانے کا کیا انتظام کیا ہے.عرض کی کہ ابھی تو لنگر خانے سے آتا ہے.برتن وغیرہ نہیں خریدے گئے.اس لئے پکنا شروع نہیں ہوا.اسی دن حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو واقعی ہماری اماں جان تھیں.اپنے ذاتی برتن ہمارے استعمال کے لئے بھجوائے.جن پر نصرت جہاں بیگم کے مبارک اور ۱۹۴۴ء: ۱۹۴۷ء: تاریخی الفاظ کندہ تھے.‘۵۶ حضرت سیدہ اماں جان صاحبہ حضرت سیدہ ام طاہر ، مریم النساء بیگم صاحبہ کے ایام بیماری میں لا ہور تشریف لے گئیں.۵۷ دوران سال ۱۹۴۷ء میں حضرت اماں جان طبیعت کی ناسازی ، شدید نزلہ، کھانسی ، ضعف، سر درد اور کمزوری کی وجہ سے علیل رہیں.۵۸ ۱۹۴۷ء کے جماعتی اخبارات خصوصاً اخبار الفضل میں با قاعدہ طور پر آپ کی صحت اور شفایابی کے لئے درخواست دعا کے اعلانات شائع ہوتے رہے.باوجود مسلسل بیماری کے آپ بحالی صحت کے ایام میں مصروف العمل رہیں اور اس عرصہ میں بعض سفر بھی کئے.۱۹۴۷ء کے بعض وقائع پیش خدمت ہیں.مارچ ۱۹۴۷ء.حضرت اماں جان کا سفر سندھ ۵/ مارچ ۱۹۴۷ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ، مع اہل بیت و دیگر افراد خاندان نیز
15 حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ محمود آباد سندھ تشریف لے گئے.حضرت اماں جان محمود آباد سے بہمراہ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب نصرت آبا دا سٹیٹ تشریف لے گئیں.۵۹ ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ء: سیدنا حضرت مصلح موعو د ایدہ اللہ تعالیٰ معہ اہل بیت اور حضرت سیدہ اماں جان صاحبہ سفر سندھ کے دوران ناصر آبا دسندھ تشریف لے گئے.۱۰ یکم اپریل ۱۹۴۷ء سندھ سے قادیان مراجعت حضرت مصلح موعود معہ اہل بیت اور حضرت سیدہ اُم المومنین سندھ سے قادیان واپس تشریف لے آئے.اس موقع پر احمد یہ چوک قادیان میں کثیر احباب نے جمع ہو کر اس قافلہ کا استقبال کیا.11 اگست ۱۹۴۷ء ہجرت پاکستان : ۲۵ را گست ۱۹۴۷ء کو قادیان دارالامان سے احمدی مستورات کو لاہور بھجوانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.۲۵ /اگست ۱۹۴۷ ء والے قافلے میں حضرت اماں جان اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری خواتین میں شامل تھیں.یہ قافلہ لاہور پہنچا.۱۲.۱۹۴۸ء سفر سندھ: ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء سے ۱۹ مارچ تک سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سندھ کے سفر پر رہے.حضرت اماں جان صاحبہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں.۶۳ اکتوبر ۱۹۴۸ء: ماه اکتوبر ۱۹۴۸ء کے آخر تک ۵۳۹ جن احباب و خواتین نے وادی غیر ذی وزرع ربوہ میں رہائش کے لئے اپنی رقوم پیش کیں.ان میں حضرت اماں جان کا نام بھی شامل تھا.۶۴ ۲۱ رمئی ۱۹۴۹ء کوئٹہ میں : ۲۱ رمئی ۱۹۴۹ء کو حضرت اُم المومنین ، حضرت اُم ناصر احمد ، حضرت اُم وسیم احمد اور صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب پاکستان میل کے ذریعہ کو ئٹہ تشریف لے گئے.۲۵ ۱۳ کتوبر ۱۹۴۹ء مسجد مبارک کا سنگ بنیاد ۳ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بعد از نماز عصر مسجد مبارک ربوہ کا
16 سنگ بنیا درکھا.مسجد مبارک کی تعمیر کیلئے افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دنیا بھر کی جماعتوں نے چندہ جات دیئے.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اپنی طرف سے ۴۰ روپے عطا فرمائے.آپ کا اسم گرامی چندہ دہندگان کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے.14 جون ۱۹۵۰ء: ۵ جون ۱۹۵۰ء کی صبح سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہمراہ حضرت سیدہ ام المومنین حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحب ، حضرت سیدہ ام وسیم احمد صاحب ، حضرت سیدہ ام متین صاحبہ، حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ، حضرت صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ مکرمہ صاحبزادی امتها الجمیل بیگم صاحبہ، صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب پاکستان میل کے ذریعہ لاہور سے کوئٹہ تشریف لے گئے.۱۷ اگست ۱۹۵۰ء: ۹ راگست کو حضرت اماں جان شمع سیدہ ام وسیم احمد صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد کوئٹہ سے لا ہور تشریف لے گئیں.۶۸ وصال ۲۰ ر ا پریل ۱۹۵۲ء: حضرت اماں جان ماہ جنوری سے اپریل ۱۹۵۲ء تک مسلسل علیل رہیں.اس دوران احباب جماعت کی خدمت میں دعائیہ اعلانات شائع ہوتے رہے.نیز غیر معمولی صدقات کی توفیق ملی.تاہم بالآخر تقدیر الہی غالب آ کر رہی.آپ کا وصال بقضائے الہی ۲۰ را پریل کی شب ساڑھے گیارہ بجے ہوا.وصال کے وقت آپ کی عمر پچاسی اور چھیاسی سال کے درمیان تھی.آپ کا جنازہ سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہزاروں افراد کی موجودگی میں پڑھایا اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی.انا لله وانا اليه راجعون.۱۹.
17 حوالہ جات ا ماخوذ از سیرت نصرت جہاں حصہ اول صفحہ ۱۷۱-۲۷۲ ۲ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ا۴ ۱۳ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر دوم صفحه ۶۴ ۵ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۱۰۱ الفضل قادیان ۲۲؍ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحه ۹ ۹ حیات نور صفحه ۲۸۵ طبع جدید ایدر قادیان ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۱ ۱ الفضل قادیان ۱۲ نومبر ۱۹۱۳ صفحه ا ۱۵ الفضل قادیان ۱۱/ مارچ ۱۹۱۴ء ا الفضل قادیان ۱۸؍ مارچ ۱۹۱۴ء و الفضل قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۶ء صفحه ا مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۹۴-۹۳ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۱۲۵-۱۲۴ حیات نور صفحه ۲۸۵ طبع جدید اخبار بدر قادیان ۲۰ جون ۱۹۱۲، صفحه ۱ الفضل قادیان ۴ جولائی ۱۹۲۴ء ۱۴ الفضل قادیان ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ا ۱۲ الفضل قادیان ۱۸ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه الفضل قادیان ۲۷، ۲۹ را پریل ۱۹۱۴ء ۲۰ الفضل ۶ نومبر ۱۹۱۷ صفحه ۹ ۲۱ نصرت الحق با راول صفحہ ۲۱.بحوالہ تجلی قدرت صفحه ۸۵-۸۴ ۲۲ مصباح ربوہ مئی جون ۱۹۶۲ء صفحه ۷۴ ۲۳ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحه ۱۳۵ ۲۵ الفضل قادیان ۱۵ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۲ الحکم قادیان ۲۱ فروری ۱۹۲۳ء صفحه ۷ ۲۹ الفضل ۲۸ / اپریل ۱۹۳۱ صفحه ا ا یا ہنامہ مصباح مئی جون ۱۹۵۲ء صفحه ۵۶ ۱۳۳ الفضل قادیان ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۳ء ۳۵ مصباح قادیان یکم جولائی ۱۹۳۴ء صفحه ۱۰ ۳۷ تاریخ احمدیت جلدے صفحہ ۱۹۳ ۳۹ افضل قادیان ۱۸ جون ۱۹۳۵ء صفحه ۲ ام الفضل قادیان ۲۳ دسمبر ۱۹۳۶، صفحه ۲ ۲۳ اخبار فاروق قادیان فروری تا جون ۱۹۳۸ء ۲۵ فاروق قادیان ۱۷ارجون ۱۹۳۸ ء صفحه ا ۷ روئید ادخلافت جو بلی و الفضل قادیان ۲۰ / اگست ۱۹۴۰ء ۱۵۱ الفضل قادیان ۱۵ ستمبر ۱۹۴۰ء ۲۴ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحه ۱۳۵ الحکم قادیان ۲۱ / فروری ۱۹۲۳ صفحه ۷ ۱۲۸ افضل قادیان ۷ راگست ۱۴۷ / اگست ۱۹۲۳ء ۳۰ تحریک جدید کے پنج ہزار مجاہدین صفحه ۵۲ ۳۲ الفضل قادیان ۲۶ فروری ۱۹۳۳ء صفحها ۳۴ مصباح قادیان یکم جولائی ۱۹۳۴ صفحه ۱۰ ۳۶ تاریخ لجنہ اماءاللہ صفحہ ۳۲۵ ۱۳۸ الحکم قادیان ۱۴ر ستمبر ۱۹۳۴ء صفحه ۲ م الفضل قادیان ۱۵ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحه ۱۰ الفضل قادیان ۱۵ جون ۱۹۳۸ صفحه ۶ ۲۴ فاروق قادیان ۷ ارجون ۱۹۳۸ء صفحه ا ۴) الفضل قادیان ۲۵/اگست ۱۹۳۹ء ۲۸ الفضل قادیان ۲۱ جون ۱۹۴۰ء ۵۰ تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۶۱ ۱۵۲ الفضل یکم جنوری ۱۹۴۱ ، صفحه ۲
18 الفضل قادیان ۸/جنوری ۱۹۴۱ء صفحه ۲ ۵۵ الفضل قادیان ۱۲ مئی ۱۹۴۴ء صفحه ۵ ۵۷ مصباح مئی جون ۱۹۵۲ء صفحه ۲۰ و الفضل قادیان ۱۱ مارچ ۱۹۴۷ء ا الفضل قادیان ۲ را پریل ۱۹۴۷ صفحه ا الفضل لاہور۷ ارفروری ۱۹۴۸ صفحه ۴-۵ ۶۵ الفضل لا ہو ر ۲۲ رمئی ۱۹۴۹ء ۶۷ الفضل ۶ جون ۱۹۵۰ صفحه ا ۶۹ الفضل لا ہور۱۲۳٫۲۲اپریل ۱۹۵۲ء ۵۴.الفضل قادیان ۳۰ رمئی ۲۹ جون ۱۹۴۲ء ۵۶ تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۲۸ ۲۷ ۵۸ الفضل قادیان جنوری تا جولائی ۱۹۴۷ء ٢٠ الفضل قادیان ۲۵ مارچ ۱۹۴۷ء الفضل لا ہور ۶ جنوری ۱۹۴۸ ، صفحیم ۶۴ الفضل لا ہور ۲ نومبر ۱۹۴۸ء ۱۶ الفضل لا ہور۷ اکتوبر ۱۹۴۹ء الفضل لاہورے اسراگست ۱۹۵۰ صفحه ۲
☆ 19 آخری بیماری اور وصـــــــــــــال دعاؤں اور صدقات کی تحریک وفات اور تدفین...احباب کی تعزیت حضرت مصلح موعودؓ کے رویا و کشوف منظوم نذرانہ ہائے عقیدت اب دوم
20 20 حضرت اماں جان کیلئے خاص دعا کی تحریک ۱۹۵۱ء کے آخر میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا علیل ہوگئیں.احباب جماعت نے آپ کی صحت کاملہ و عاجلہ کیلئے غیر معمولی دعاؤں اور صدقات پر زور دیا.اس دوران احباب جماعت کیلئے خصوصی دعاؤں کی تحریک کی گئی.ذیل میں بعض تحریکات کا ذکر پیش ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں: آج ایک دوست جو صحابی ہیں اور چند دن سے ربوہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں.مجھے ملے اور حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا کی خیریت دریافت کی.میں نے عرض کیا کہ رات بخار بھی تیز ہو گیا تھا اور کمزوری بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور کبھی کبھی کچھ غفلت کی حالت بھی ہو جاتی ہے.بہت دعا کرنی چاہئیے.فرمانے لگے میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ خدایا اگر تیرے علم میں حضرت اُم المومنین کی زندگی بہتر ہے تو انہیں شفا عطا فرما اور جو بات تیرے علم میں بہتر ہے وہی ہو.اس پر میں نے کسی قدر تلخی سے کہا کہ جب آپ کے لڑکے نے گذشتہ سال فلاں امتحان دیا تھا گذشتہ سال ان کے ایک بچے نے ایک اعلیٰ امتحان میں شرکت کی تھی اور خدا کے فضل سے پاس بھی ہو گیا تھا ) تو کیا آپ نے اس کے لئے یہی دعا کی تھی اور ہم سے بھی اسی دعا کی توقع رکھتے تھے کہ خدا یا اگر اس کا پاس ہونا بہتر ہو تو اسے کامیاب فرماور نہ جو تیری مرضی ہو.اس پر یہ دوست شرمندہ ہو کر اور گھبرا کر فرمانے لگے کہ نہیں ایسا تو نہیں.میں نے کہا تو کیا پھر حضرت اماں جان اُم المومنین کی زندگی کا سوال ہی ایسا ہے کہ آپ اس کے لئے خود اپنی طرف سے کوئی کلمہ خیر زبان پر نہ لاسکیں اور ایک طرف تو خدا کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا ئیں اور دوسری طرف اس سے یہ عرض کریں کہ خدایا جو تو چاہتا ہے وہی کر.یہ تو کوئی دعا نہ ہوئی بلکہ گویا تو تکل کا عامیانہ پہلو ہو گیا اور پھر اس نظریہ کے تحت تو علاج وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی.کیونکہ بہر حال جو خدا چاہے گا وہی ہوگا.خیر یہ دوست بہت شرمندہ ہوئے اور اپنے غلط خیال سے توبہ کی اور فرمانے
21 لگے کہ یونہی بے سوچے سمجھے جلدی سے میرے منہ سے ایک بات نکل گئی تھی.ورنہ میں تو حضرت اُم المومنین کی بابرکت زندگی کے لمبا ہونے کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.بہر حال میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر دوستوں کو بتا نا چاہتا ہوں کہ دعا میں یہ طریق بالکل درست نہیں ہے کہ خدایا جو بات تو پسند کرے وہی کر.اور حقیقتہ ایسی دعا کو دعا کہنا ہی غلط ہے بلکہ دعا وہی ہے جس میں عزم اور امید کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ایک معین خیر مانگی جائے اور جس چیز کو انسان اپنے علم کے مطابق بہتر اور بابرکت خیال کرتا ہے اسے عزم و جزم کے ساتھ اپنے خدا سے طلب کرے اور اس کے پورا کرنے کے لئے ظاہری تدابیر بھی اختیار کی جائیں اور اس کے بعد نتیجہ خدا تعالیٰ پر چھوڑا جائے یہی دعا کا صحیح نظریہ ہے جس پر ہر زمانہ میں انبیاء اور صلحاء کا عمل رہا ہے.ہمارے آقا عدہ کیا خوب فرماتے ہیں کہ : اذادعا احدكم فليعزم المسئلة ولا يقولن اللهم ان شئت فاعطني فانه لا مستكره له.( بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر 6338) د یعنی جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ اپنے سوال کو معین صورت دے کر اس پر پختگی سے قائم ہو اور ایسے الفاظ استعمال نہ کرے کہ خدایا اگر تو پسند کرے تو میری اس دعا کو قبول فرمالے.کیونکہ خدا تو بہر حال اسی صورت میں دعا قبول کر گا کہ وہ اسے پسند ہو.کیونکہ خدا سب کا حاکم ہے اور اس پر کسی کا دباؤ نہیں.“ یہ ایک نہایت لطیف نفسیاتی نکتہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سکھایا ہے اس حکیمانہ نکتہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ دعا میں مشروط یا ڈھیلے ڈھالے الفاظ کہہ کر اپنی دعا کے زور اور اپنے دل کی توجہ کو کمزور نہیں کرنا چاہئیے.دراصل دعا کے واسطے انتہائی توجہ اور انہماک اور استغراق کی ضرورت ہوتی ہے.گویا دعا کرنے والا اپنے کرب اور سوز کی تپش میں اپنی روح کو پگھلا کر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دیتا ہے کہ میرے آقا مجھے یہ چیز عطا کر.لیکن مشروط یا ڈھیلے ڈھالے الفاظ سے کبھی بھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی.اور پھر ایسی دعا خدا کی شان کے بھی خلاف ہے کہ ہم زمین و آسمان کے خالق و مالک اور اپنے رحیم و کریم آقا کے سامنے سوالی بن کر مانگنے کے لئے جائیں اور پھر اگر مگر کے دھوئیں میں اپنی دعا کو غائب کر کے ختم کر دیں.
22 بے شک بعض استثنائی حالات میں آنحضرت ﷺ نے مشروط دعا کی اجازت مرحمت فرمائی ہے.مثلاً اگر کوئی شخص اپنے بڑھاپے یا بیماری یا مصائب سے تنگ آ کر اپنی زندگی کو اپنے لئے ایک بوجھ خیال کرے تو آپ نے فرمایا ہے کہ اگر ایسی حالت میں ایسا شخص اپنے لئے معین بہتری کی دعا نہ کر سکے تو پھر وہ بصورت مجبوری ایسی دعا کر سکتا ہے کہ خدا یا اگر میرے واسطے زندگی بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ.لیکن اگر زندگی بہتر نہیں ہے.تو مجھے وفات دے کر اپنے پاس بلا لے.لیکن یہ ایک استثنائی صورت ہے جس میں ایک مایوس انسان کے لئے جو یہ طاقت نہیں رکھتا انتہائی مایوسی میں گرنے کا رستہ بند کیا گیا ہے ورنہ عام حالات میں ایک مومن اور مسلمان صحیح اور مسنون رستہ یقیناً یہی ہے کہ وہ عزم کے ساتھ معین صورت میں دعا مانگے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے خدا پر حسن ظنی رکھتے ہوئے اور اسے ہر بات پر قادر خیال کرتے ہوئے جس چیز کو بھی اپنے لئے بہتر اور بابرکت خیال کریں اسے معین صورت میں عزم و جزم کے ساتھ خدا سے مانگیں یہی وہ وسطی نقطہ ہے جس پر خدا کی خدائی اور بندے کی بندگی کی مثالیں ملتی ہیں.اس موقعہ پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت اُم المؤمنین اطال اللہ ظلہا کی بیماری بہت تشویش ناک صورت اختیار کر چکی ہے.بدنی طاقت انتہا درجہ کمزور ہو چکی ہے اور بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت بے حد گر چکی ہے.دوسری طرف حضرت اماں جان کے وجود کی برکتیں ظاہر وعیاں ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے مبارک کلام میں حضرت اُم المومنین کے وجود کو گویا نعمتوں کا گہوارہ قرار دیا ہے اور پھر ایک جہت سے اس بات میں بھی شک نہیں کہ حضرت اماں جان کا وجود وہ آخری تار ہے جس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسمانی رشتہ اس وقت دنیا میں قائم نظر آ رہا ہے.پس دوستوں کو چاہیئے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت اماں جان کی صحت کے لئے دعائیں کریں اور جہاں جہاں ممکن ہو اجتماعی دعا کا بھی انتظام کیا جائے جیسا کہ قادیان کے دوستوں نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہواور ہمارے سروں کے ٹھنڈے اور با برکت سائے کو تا دیر سلامت رکھے.آمین یا ارحم الراحمین.خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۲.اپریل ۱۹۵۲ء 1
23 حضرت اماں جان کی تشویش ناک علالت اور خاندان حضرت مسیح موعود اللی کی طرف سے مشتر کہ صدقہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ربوہ کی حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا کی بیماری بہت تشویش ناک صورت اختیار کرگئی ہے.اور اب تو گویا ان کی حالت کو نازک ہی کہنا چاہیئے.کیونکہ دودن سے دل اور تنفس اور بلڈ پریشر کی حالت بہت ہی پریشان کن ہے.اور کمزوری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.اور گو ظاہری علاج کی طرف پوری توجہ دی جارہی ہے.لیکن ایسی حالت میں جبکہ عمر بھی پچاسی سال کو پہنچ چکی ہو.اور کمزوری کا یہ عالم ہو کہ سیال غذا بھی نگلنی مشکل ہو جائے.اصل سہارا صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہوتا ہے.فنعم المولى ونعم النصیر.ان پریشان کن حالات میں یہ امر بے حد تسلی کا باعث ہے.کہ جماعت کے مخلصین میں اس موقع پر دعاؤں کی طرف خاص توجہ ہے.اور بعض مخلصین نے تو اپنے طور پر صدقہ کا بھی انتظام کیا ہے.فجزا ھم اللہ خیراً فی الدنيا و لقهم نَضْرَةٌ وسروراً في الآخرة یہاں ربوہ میں مجھے خیال آیا کہ انفرادی صدقہ تو ہوتا ہی رہتا ہے.اگر حضرت اماں جان اُمّ المومنین اطال اللہ ظلھا کے لئے حضرت مسیح موعود کے سارے خاندان کی طرف سے مشتر کہ صدقہ کا انتظام ہو جائے.تو یہ بھی روحانی لحاظ سے خدا کے خاص فضل ورحم کا جاذب ہوسکتا ہے.کیونکہ جیسا کہ استقاء کی مسنون نماز سے استدلال ہوتا ہے ( جبکہ بارش کے رک جانے پر سارے مومن ایک جگہ جمع ہو کر دعا کرتے ہیں.اسلام نے اجتماعی مصیبت اور تکلیف کے وقت میں اجتماعی دعا اور اجتماعی عبادت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.پس تجویز کی گئی کہ خاندان حضرت مسیح موعود کی طرف سے جس کی حضرت اُم المومنین گویا ایک جہت سے بانی ہیں.اس موقعہ پر مشترکہ صدقہ کا انتظام کیا جانا مناسب ہے.لیکن چونکہ بعض اوقات رقوم کے اعلان
24 سے بعض کمزور طبیعتوں میں تکلف یا ریاء وغیرہ کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے ساتھ ہی یہ تجویز بھی کی گئی کہ کسی کی رقم نوٹ نہ کی جائے.بلکہ جو تم کوئی عزیز اپنے حالات کے ماتحت شرح صدر سے دے سکے وہ نوٹ کرنے کے بغیر خاموشی کے ساتھ اس تھیلی کے اندر ڈال دے.جو اس غرض کے لئے صدقہ کی رقوم وصول کرنے والے عزیز کے سپرد کی گئی تھی.تا کہ ایسے نازک موقعہ پر کوئی رنگ تکلف و غیرہ کا نہ پیدا ہو.بلکہ جو کچھ دیا جائے.خالص و پاک نیت کے ساتھ صرف خدا کی رضا کی خاطر دیا جائے.دوسری شرط یہ لگائی گئی.کہ اس صدقہ کے لئے خاندان کا ہر فرد کچھ نہ کچھ رقم ضرور دے خواہ وہ ایک پیسہ یا ایک دھیلہ ہی ہو.تا کہ کوئی مرد یا عورت یا لڑکا یا لڑ کی حتی کہ دودھ پیتے تک بچہ بھی اس صدقہ کی شمولیت سے باہر نہ رہے.چنانچہ ان شرائط کے ماتحت صدقہ کی رقم جمع کی گئی.جو مستحق غرباء میں تقسیم کی جارہی ہے.بے شک یہ درست ہے کہ اسلام نے اپنی عبادتوں اور دعاؤں اور صدقوں میں ظاہر اور خفی ہر دو قسم کا طریق مد نظر رکھا ہے.کیونکہ ان ہر دو میں بعض حکیمانہ فوائد کا پہلو مقصود ہے.لیکن کم از کم جہاں تک صدقات کا تعلق ہے اسلام نے ظاہر کی نسبت مخفی طریق کو زیادہ پسند کیا ہے کیونکہ ایک تو جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اس طریق پر صدقہ کی رقوم جمع کرنے میں تکلف وغیرہ کا رنگ پیدا نہیں ہوتا.جس سے بچ کر رہنا ایسے نازک موقعوں پر از بس ضروری ہے.اور دوسرے اس طرح صدقہ کی رقم تقسیم کرنے میں لینے والا بھی احساس کمتری کی پست خیالی سے محفوظ رہتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: (سوره البقرۃ:۲۷۲) ان تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنَعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَآءُ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ یعنی اگر تم اپنے صدقات کھلے طور پر دو.تو یقیناً یہ بھی ایک نیکی کا کام ہے.لیکن اگر تم چھپ کر خاموشی کے ساتھ غرباء کی امداد کرو.تو یہ اس سے بھی زیادہ بہتر حل ہے کیونکہ اس ذریعہ سے تمہاری بعض کمزوریوں پر خدا کی مغفرت کا پردہ پڑا رہتا ہے.“ دوسری جگہ دعا کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (اعراف: ۵۶) د یعنی اپنے رب کو طبعی رقت کی حالت میں ظاہر طور پر یا خاموشی کے ساتھ خفیہ طور پر ہر دو طرح
پکارتے رہو.“ 25 25 اس آیت میں تضرع کا لفظ بظاہر بے موقعہ اور بے جوڑ نظر آتا ہے.کیونکہ خفیة کے مقابل ظاہر کا لفظ استعمال ہوتا ہے.نہ کہ تضرع کا.لیکن اگر غور سے دیکھا جائے.تو اس جگہ اس لفظ کے اختیار کرنے میں ایک بھاری حکمت ہے.کیونکہ ظاہر کے لفظ کی جگہ تضرع کا لفظ استعمال کر کے خدا تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے.کہ ظاہر کی عبادت صرف وہی قابل قبول ہوتی ہے جس میں دلی اور طبعی جذبات کے اظہار کا رنگ ہو.دراصل عربی میں تضرع کا لفظ ضرع سے نکلا ہے.جس کے معنے پستان یا تھن کے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! بے شک تم ظاہر میں بھی عبادت بجالاؤ.مگر یہ عبادت دودھ دینے والے جانور کی طرح ہونی چاہیئے.کہ جو چیز اندر ہے لازماً وہی باہر آئے.اور آئے بھی طبعی اور قدرتی رنگ میں اور کسی قسم کے تکلف یار یا کا پہلو ہرگز نہ پایا جائے.اور یہی اصول صدقات وغیرہ میں مد نظر ہونا چاہئے.کہ وہ بالعموم مخفی طور پر دیے جائیں.تاکہ کسی فرد کی کمزوری کی وجہ سے ان پر تکلف اور ریا کا پردہ نہ پڑ سکے البتہ جب دل کے اندرونی جذبات طبعی ابال کی صورت میں ظاہر ہوں.جیسا کہ بچے کے رونے پر ماں کا دودھ بہ نکلتا ہے.تو پھر ان کے اظہار میں حرج نہیں.کیونکہ جذبات کا مخلصانہ اور طبعی اظہار دوسروں کے واسطے ہمیشہ نیک تحریک کا باعث بنتا ہے.اور لوگوں میں اپنے پاک نمونہ سے نیکی پھیلانا بھی اسلام کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول ہے.اس نوٹ کے شروع میں میں نے حضرت اُم المومنین اطال اللہ ظلھا کو ایک جہت سے خاندان کا بانی کہا ہے.اس پر تعجب نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں ایک لحاظ سے خاندان کا بانی قرار دیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے ہاں میں ایک شریف اور مشہور خاندان سادات میں میری شادی ہوگئی...سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا.کہ......میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمائیت اسلام کی ڈالے گا.اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا.جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے.اور اس سے جو اولاد پیدا کرے.جوان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور یہ عجیب اتفاق ہے.کہ جس طرح
26 سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا.اسی طرح میری بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی.اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“ ( تریاق القلوب صفحه ۶۴-۶۵) اور دوسری جگہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے حضرت ام المومنین کے متعلق فرماتا ہے کہ اُشكُرُ نِعْمَتِی رَاتَيْتُ خَدِيجَتِی یعنی ” میری اس نعمت کا شکر ادا کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا ہے.“ اس جگہ خدیجہ کے نام میں خاندان کی بنیادرکھنے والی خاتون کی طرف اشارہ ہے.جیسا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول کریم علیہ کے خاندان کی بانی تھیں.ان حوالوں سے حضرت اُم المومنین اطال الله ظلھا کا بلند اساسی مقام ظاہر وعیاں ہے.پس دوستوں کو ان ایام میں حضرت اُم المومنین کے لئے خاص طور پر دعا سے کام لینا چاہیئے.اور دعا بھی ایسی ہونی چاہیئے جو تضرع کا رنگ رکھتی ہو.اور ایک قدرتی ابال کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر آئے.آجکل حضرت اماں جان کی حالت بے حد تشویش ناک ہے.بلکہ جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں اسے دراصل نازک کے لفظ سے تعبیر کرنا چاہیئے.مگر ہمارا خدا اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور یہ وہ عظیم الشان رحمت ہے.جس کی طرف اسلام کے سوا کسی اور مذہب نے راہ نمائی نہیں کی.حقیقہ غور کیا جائے.تو یہ کتنی بابرکت تعلیم ہے کہ اولا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کسی بیماری کو لا علاج نہ سمجھو.کیونکہ صحیفہ فطرت میں موت کے سوا ہر بیماری کا علاج موجود ہے.ثانیاً اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر عام کے ماتحت مقدر بھی ہو چکی ہو تو پھر بھی مایوس نہ ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب بھی ہے اور اپنی تقدیر عام کو اپنی تقدیر خاص....اور ثالثا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ اگر کسی مصلحت سے خدا اپنی کوئی نہ بدلے تو پھر بھی سچے مومنوں کو ہرگز ہراساں نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ مومنوں کے اجتماع کا آخری نقطہ خدا کی ذات ہے.یہ تعلیم کتنی پاکیزہ اور امید کے جذبات سے کتنی معمور ہے کہ ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے ہر دکھ کا علاج پہلے سے مہیا کر رکھا ہے.لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہر حال میں اپنے خدا سے اس کی بہترین نعمت کے طالب ہوں.وقال الله تعالى اَنَا عِندِ ظَنِّ عَبْدِى وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ - )
27 22 حضرت اماں جان کے صدقہ کی رقوم از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے حضرت اماں جان اطال الله ظلها کی تشویش ناک بیماری کی وجہ سے بعض جماعتوں اور افراد نے مجھے صدقہ کی کچھ رقوم بھجوائیں ہیں.چونکہ آجکل علیحدہ علیحدہ رسید بھجوانا مشکل ہے.اس لئے ایسے احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ ایسی رقوم درج ریکارڈ کر کے مستحق غرباء میں تقسیم کر دی جاتی ہیں.اور بعض صورتوں میں جانور ذبح کر کے صدقہ کر دیا جاتا ہے.چنانچہ ایک دوست کی خواب کی بناء پر ایک اونٹ بھی صدقہ کرایا گیا.حضرت اُم المومنین طوّل الله بقائها کی حالت بدستور نہایت تشویش ناک ہے.چنانچہ چند دن کے خفیف افاقہ کے بعد آج پھر درجہ حرارت زیادہ ہے.اور نبض کی حالت بھی خراب ہے اور کمزوری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے جس کے ساتھ کبھی کبھی غفلت کے آثار بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور گلے اور گردن میں بھی تکلیف ہے.احباب دعا ئیں جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ام المومنین اطال الله ظلھا کی صحت اور عمر میں خارق عادت برکت عطا فرمائے اور ان کے مبارک سایہ کو جماعت کے سر اور خاندان کے سر پر لمبے سے لمبا کر دے آمین یا ارحم الراحمین.جو جماعتیں یا افراد جماعت صدقہ کرنا چاہیں.ان کے لئے بہتر ہے کہ مقامی مستحقین میں تقسیم کر دیں اور اس تعلق میں سائل اور نظر آنے والے مسکین اور محروم تینوں طبقات کو مدنظر رکھیں مسکین کے مفہوم میں بتائی اور بیوگان بھی شامل ہیں.لیکن اگر کوئی دوست اپنی رقوم یا ان کا کچھ حصہ یہاں ربوہ میں بھجوانا چاہیں تو انشاء اللہ ایسی رقوم کی تقسیم کا انتظام کر دیا جائے گا.لیکن مقدم حق مقامی غرباء کا ہے.دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ صدقہ بھی دراصل ایک قسم کی دعا ہے.کیونکہ جس طرح مونہہ کی دعا قولی دعا ہے.اسی طرح صدقہ عملی دعا ہے.جس کے ذریعہ ایک مومن اپنی قولی دعا پر اپنے عمل کی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے.لیکن ایسے موقعوں پر کسی قسم کے تکلف یا ریا وغیرہ کا رنگ ہر گز نہیں ہونا چاہیئے.بلکہ اگر دل میں حقیقی خواہش پیدا ہو تو حسب توفیق خاموشی کے ساتھ صدقہ دے دیا جائے.خاکسار: مرزا بشیر احمد ربوہ ۳
888 28 پیاری اماں جان! آخری بیماری اور وفات از مکرم حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب خلف الرشید حضرت مصلح موعود کی آخری بیماری سے قبل حضرت اماں جان کی طبیعت پوچھنے میں آپ کے پاس جایا کرتا تھا مگر آپ نے کبھی کسی قسم کی خاص تکلیف کا اظہار نہیں فرمایا.سوائے اس کے کہ کبھی کوئی معمولی عارضہ ہوا اور آپ نے اس کے متعلق کہہ کر مجھ سے دوا طلب فرمائی.مگر چھپیس فروری کی شام میرے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑ گئی ہے جبکہ آپ کی اس بیماری کا علم ہوا جو بالآخر آپ کو ہم سب سے ہمیشہ کے لئے جدا کرگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر پچیس فروری ۱۹۵۲ء عشاء کے قریب حضرت امیر المومنین کا پیغام مجھے ملا کہ حضرت اماں جان کو آکر دیکھ جاؤں کیونکہ آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے.چنانچہ میں اُسی وقت حضرت اماں جان کے گھر گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب چونکہ چھپیں تاریخ صبح چار بجے سندھ تشریف لے جارہے تھے اس لئے حضرت اماں جان کو ملنے آئے اور مصافحہ کرنے پر حضرت اماں جان کے ہاتھ گرم معلوم ہوئے تو حضرت صاحب کو خیال ہوا کہ ان کو بخار ہے اور اس وجہ سے مجھے کہلا بھیجا.میں نے حضرت اماں جان کو دیکھا آپ کو اُس وقت سو کے قریب بخار تھا اور کوئی تکلیف بظاہر نہ تھی.چنانچہ بخار کا نسخہ لکھ کر اور دوا بنوا کر میں آ گیا.اس کے بعد میں روزانہ صبح شام دونوں وقت حضرت اماں جان کو دیکھنے جاتا.شروع میں بخار ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن زیادہ ہوتا.( یعنی سوڈگری کے قریب یا اس سے کچھ زیادہ ) اس کے علاوہ کوئی اور تکلیف نہ تھی.لہذا اغلب خیال ملیر یا بخار ہی کا تھا.اور اس و جہ سے اس کا ہی علاج کیا گیا.مگر بخار کو کلی آرام نہ آیا البتہ ٹمپر یچر نارمل ہو جاتا تھا.بعض دفعہ چو میں اڑتالیس گھنٹے بھی نارمل رہتا.مگر بخار پھر ہو جاتا تھا.اس دوران میں حضرت اماں جان
29 22 نے کسی اور تکلیف کا اظہار نہ کیا بلکہ رفع حاجت وغیرہ کے لئے بھی آپ کموڈ وغیرہ پر تشریف لے جاتی تھیں اور بظاہر کوئی خاص کمزوری اس بخار سے معلوم نہ ہوتی تھی.یہ حالت تقریباً دو ہفتے یا کچھ زائد رہی اور جب بخار کا کلی افاقہ نہ ہوا تو مجھے فکر لاحق ہوا کہ کسی اور قسم کا بخار نہ ہو.چنانچہ انہیں دنوں حضرت اماں جان کو پیشاب کی تکلیف محسوس ہوئی تو میں نے پیشاب کا ٹیسٹ کرایا اور اس میں گردوں کی سوزش کا اثر پایا گیا جس کا علاج فوری شروع کر دیا گیا.یہ انداز آبارہ تیرہ مارچ کی بات ہے.یعنی بخار شروع ہونے سے تیسرا ہفتہ گزر رہا تھا.اب حضرت اماں جان کو جلد جلد کمزوری ہونی شروع ہوگئی تھی اور غذا بھی بہت ہی کم ہوگئی تھی.( نوٹ : اور پہلے بھی چند ماہ سے بھوک بہت کم ہو کر غذا برائے نام ہی رہ گئی تھی.صرف سیال چیز ہار کس وغیرہ آسانی سے لے لیا کرتی تھیں وہ بھی کم مقدار میں.) چنانچہ میں نے مکرم ناظر صاحب اعلیٰ اور مکرم صاحبزادہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو لکھ کر عرض کیا کہ حضرت اماں جان کی بیماری لمبی ہوتی جارہی ہے اور کمزوری بڑھ رہی ہے لہذا لا ہور سے کسی ڈاکٹر کو بلا کر دکھانا ضروری ہے.اس پر فوراً ایک آدمی لاہور مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے پاس بھجوایا گیا کہ وہ ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ یا ڈاکٹر بلوچ کو لے کر فور ار بوہ آجائیں.چنانچہ ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ کولیکر 23 مارچ 1952 ء کور بوہ آئے.مکرم شیخ بشیر احمد صاحب بھی اُن کے ہمراہ تھے.ڈاکٹر ضیاء اللہ صاحب نے حضرت اماں جان کو دیکھا اور کچھ ادویہ تجویز کیں جو علاج گردوں کی سوزش کے لئے پہلے کیا گیا تھا اس سے اتفاق کیا اور آئندہ کے لئے بھی کچھ ترمیم کے ساتھ اُسی کی ہدایت دی.نیز کچھ مزید علاج تجویز کیا.مگر اب حضرت اماں جان کی حالت دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی.دل میں کمزوری کے آثار شروع ہو چکے تھے اور خون کا دباؤ گرنا شروع ہو گیا.پاؤں پر ورم ہو گیا اور غذا برائے نام لیتی تھیں.چھبیس مارچ کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سفر سندھ سے تشریف لائے اور سیدھے حضرت اماں جان کے پاس تشریف لے گئے.حضرت اماں جان نے آپ کو پہچانا اور فرمایا: کب آئے ؟ حضرت امیر المومنین کے ساتھ مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی آگئے تھے لہذا اس کے بعد سے وہ بھی علاج کے مشورہ میں آخر تک شامل رہے.جب حضرت اماں جان کی حالت سنبھلتی نظر نہ آئی تو 29 مارچ 1952ء کو پھر لاہور سے
30 ڈاکٹر غلام محمد صاحب بلوچ کو بلوایا گیا.وہ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے ساتھ آئے اور حضرت اماں جان کا معائنہ کیا اور دوائیں وغیرہ تجویز کیں.ایک دوا ایسی تھی جو آسانی سے دستیاب نہ ہو سکتی تھی.لہذا اس کے لئے فوری کراچی امیر جماعت صاحب کو تاردی.نیز لاہور سے اس کے حصول کی کوشش کی تاکید مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کو کی.انہوں نے لاہور جا کر فوری تلاش کر کے دوا بھجوائی.نیز کراچی سے بھی خاص آدمی دوالے کر تیسرے دن پہنچ گیا.ڈاکٹروں کے مجوزہ علاج تمام جاری تھے مگر اماں جان کی علالت میں کوئی فرق نہ پڑتا تھا.عارضی طور پر اگر کسی دن کسی علامت میں تخفیف ہوتی تو دوسری علامت زیادہ شدت اختیار کرگئی.تنفس کے لئے آکسیجن گیس با قاعدہ سنگھانی شروع کر دی گئی تھی.سیال غذادی جا رہی تھی اور کوشش کر کے جتنی مقدار بھی حضرت اماں جان بغیر کوفت کے لے سکتی تھیں دی جاتی.اکثر ایسا ہوتا کہ چار اونس دودھ یا شور با ایک ایک گھونٹ پیتے پیتے آدھ گھنٹہ لگ جاتا بلکہ چند بارگھنٹہ بھر صرف ہوا.کبھی ذرا اچھی ہوتیں تو نسبتاً جلد لے لیتی تھیں.ٹھنڈے پانی کی خواہش اور پیاس بہت رہتی.تقریباً ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن آدمی لاہور بھجوایا جاتا جو حضرت اماں جان کی حالت کی تفصیل پر مشتمل خط ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے پاس لے جاتا اور مکرم ڈاکٹر صاحب وہاں ڈاکٹروں سے مشورہ کر کے اگر مزید ہدایات ہوتیں تو مجھے لکھتے جب حالت کسی صورت سنبھلتی نظر نہ آئی تو پھر لاہور سے ڈاکٹر محمد یوسف صاحب کو دکھانے کے لئے بلوایا گیا وہ پانچ اپریل رات کے وقت آئے اور حضرت اماں جان کو دیکھا.اُس دن حضرت اماں جان کے دل کی حالت بہت ہی تشویش ناک تھی.مکرم ڈاکٹر محمد یوسف صاحب نے معائنہ کے بعد کچھ علاج تجویز کیا ( یہاں یہ لکھنا ضروری ہے کہ تمام ڈاکٹروں کا تجویز کردہ علاج تقریباً ایک ہی تھا سوائے معمولی فرق کے ) اور چلے گئے.ایک ٹیکہ جو کہ انہوں نے دل کی بے قاعدگی دور کرنے لئے تجویز کیا (جس کی منہ کے ذریعہ دینے والی دوا تو اس دن صبح سے ہی شروع کر دی گئی تھی ) حضرت اماں جان کو خاکسار نے فورا لگایا.نیز وریدوں میں گلوکوز کے ٹیکے جو تجویز ہوئے اس کا پہلا ٹیکہ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب نے اُسی وقت خود حضرت اماں جان کو کیا.
31 چونکہ حضرت اماں جان کی حالت بہت تشویش ناک دور سے گزر رہی تھی اس لئے میں تو تقریباً چو میں گھنٹے آپ کے پاس ہی ہوتا اور مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی اکثر وقت وہیں ہوتے.اس کے ایک دن بعد حضرت اماں جان کے دل کی حالت سنبھل گئی.مگر پھر دوسرے دن تنفس میں بے قاعدگی شروع ہوگئی جو اس حالت تک پہنچ گئی کہ ہم گھبرا گئے کہ شائد آخری وقت آن پہنچا ہے.اُسی وقت خاکسار نے ایک ٹیکہ نفس کے لئے کیا جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تنفس بہتر ہونا شروع ہو گیا اور شام تک تقریباً نارمل ہو گیا اس کے بعد سے آخری وقت تک یہی حالت رہی کہ جب کسی عضو جسم میں کوئی کمزوری معلوم ہوتی اس کے لئے فوری ٹیکہ کر دیا جاتا.اور وقتی طور پر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ حالت دور ہو جاتی.اسی اثناء میں حضرت امیر المومنین کی خواہش پر کہ دیسی طب کا علاج بھی کروانا چاہیئے شاید اللہ تعالیٰ اس سے شفا دے.لاہور سے حکیم محمد حسن صاحب قرشی کو بلوایا گیا.اُن کے ساتھ مکرم حکیم محمد حسین مرہم عیسی صاحب بھی تشریف لائے.دونوں نے حضرت اماں جان کو اٹھارہ اپریل کی رات کو دیکھا اور اگلے دن لاہور جا کر اُسی کار کے ذریعہ جو ان کو پہنچانے گئی تھی ادویہ بھجوائیں.جو ہیں اپریل کو شروع کر دی گئیں.ہیں اپریل صبح چار بجے حضرت اماں جان کو پھر دل میں کمزوری کی علامات شروع ہوئیں جس کے لئے میں نے فوری ٹیکہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس بجے دن تک حالت سنبھل گئی اور بقیہ حصہ دن حالت سنبھلی رہی بلکہ اس دن بخار بھی پہلے سے کم رہا.مگر آہ کسے معلوم تھا کہ یہ آخری سنبھالا ہے اور ہماری اماں جان اسی رات ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہونے والی ہیں.چنانچہ رات تقریباً نو بجے اماں جان نے کروٹ لی اور ساتھ ہی کرب کے ساتھ کراہتے ہوئے جیسے کوئی شدید تکلیف ہو اتنا کہا کہ مجھے ٹھنڈا پانی دو اور زور سے پنکھا کر و‘اور جب ہاتھ کا پنکھا لایا گیا تو فرمایا کہ دو نہیں چھت کا پنکھا ہلاؤ.“ اسی وقت خاکسار نے اماں جان کی نبض دیکھی تو محسوس ہوا کہ حضرت اماں جان پر صدمہ (Shock) کی حالت طاری ہے.چنانچہ اس کے لئے طاقت کا ٹیکہ فوری کیا.دوبارہ دس منٹ بعد ٹیکہ کیا اور پھر پانچ منٹ بعد ایک اور ٹیکہ کیا.ان ٹیکوں کے بعد نبض میں بہت
32 تھوڑے وقفہ کے لئے تھوڑا فرق ہوا مگر پھر جلد ہی حالت خراب ہو گئی.جس پر میں نے ران میں ایک ٹیکہ کیا مگر پھر بھی نبض کی حالت نہ سنبھلنی تھی نہ سنبھلی.بلکہ اس وقت نبض محسوس ہونا بھی بند ہو چکی تھی.اس کے بعد مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے بھی ایک ٹیکہ کیا لیکن جس بات کا فیصلہ آسمان میں مقدر ہو چکا تھا اُس کا وقت آن پہنچا تھا اور کوئی زمینی تدبیر اس کو اب ٹال نہ سکتی تھی.چنانچہ ساڑھے گیارہ بجے شب میری پیاری اماں جان نے اس دنیا کا آخری سانس لیا اور اپنی سب اولاد اور اولاد در اولاد کو اپنے گرد روتے بلکتے ہوئے اس دنیا مں چھوڑ اپنے مولا سے جاملیں.إنا لله وإنا اليه رَاجِعُونَ راضی برضائے الہی 66 بیماری کے حالات اختصار سے لکھنے کے بعد میں چاہتا ہوں کہ اس بیماری کے دوران میں جو کوئی خاص بات یا واقعہ ( میرے علم میں ) ہوا ہو اس کو ضبط تحریر میں لے آؤں.سب سے اہم بات جس نے میرے دل پر گہرا اثر کیا یہ تھی کہ تقریباً دوماہ کی مسلسل بیماری میں ایک دن بھی اماں جان کے منہ سے کوئی مایوسی یا تکلیف کا کلمہ نہ نکلا اور جب بھی کسی نے آپ سے پوچھا کہ اماں جان طبیعت کیسی ہے؟ تو آپ نے یہی فرمایا کہ کہ اچھی ہے.بلکہ اکثر یہی فرما تیں کہ بہت اچھی ہے.میں خود حضرت اماں جان سے تقریب روزانہ ہی یہ پوچھتا کہ اماں جان آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ آپ جواباً فرما تیں.اچھی ہے.بلکہ کئی دفعہ تو فرمایا کہ ” بہت اچھی ہے.حتی کہ جب آپ کو ضعف بہت زیادہ ہو چکا تھا تو کئی دفعہ میرے پوچھنے پر سر کے اشارے سے فرماتیں ”اچھی ہے.ٹیکے وغیرہ میں خود ہی حضرت اماں جان کو کرتا تھا اور پانچ اپریل سے تو وریدوں میں گلوکوز کے ٹیکے دونوں وقت ، پنسلین کے ٹیکے دن میں بار بار، حیاتین کے ٹیکے دل کی طاقت کے ٹیکے.غرض دن میں آٹھ دس ٹیکے لگتے تھے مگر کبھی آپ نے ٹیکہ کروانے سے انکار نہیں کیا.اور میرے ہاتھ سے ٹیکہ کی آپ کو عادت سی ہو گئی تھی.کیونکہ اسی دوران میں چند ایک مرتبہ جب کسی دوسرے نے ٹیکہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ کس نے ٹیکہ کیا ہے؟ ( آپ اکثر آنکھیں بند رکھتی تھیں اس لئے ٹیکہ کرنے والے کو عام طور پر دیکھتی نہ تھیں.اسی طرح جب تین چار روز وریدوں میں گلوکوز کا ٹیکہ ( جو کہ حضرت اماں جان کے دل کی حالت کے پیش نظر بہت آہستہ آہستہ اور احتیاط
33 33 سے دیا جاتا تھا ) میری طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب نے کیا تو اماں جان نے فور فر مایا کہ کون ٹیکہ کر رہا ہے؟ جب بتایا گیا کہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد تو فرمانے لگیں درد کی ہے.نیز جب ایک مرتبہ ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ ٹیکہ کرنے لگیں تو اماں جان نے پیار سے فرمایا کہ اگر مجھے درد کی تو مارونگی تمہیں.ایک دن جب میں ٹیکہ کرنے لگا اور ٹیکہ سے پہلے بازو پر پٹی باندھی تو فرمانے لگیں " کیا کرنے لگے ہو؟“ میں نے عرض کی ٹیکہ.فرمایا: تمہیں اسی لئے ڈاکٹری پڑھائی تھی ؟ یہ فقرہ بھی مادرانہ شفقت اور پیار کا تھا کہ بجائے بیماری میں آرام دینے کے سوئیاں چھورہے ہو.تمام بیماری کے دوران میں حضرت اماں جان کے ہوش درست رہے.اگر چہ آپ اکثر ضعف کی وجہ سے آنکھیں بند کر کے لیٹی رہتی تھیں مگر جب بھی بلایا جاتا آپ آنکھیں کھول کر جواب دیتیں.اور بعض دفعہ تو آپ خود بھی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد بغور دیکھتیں اور لوگوں کو پہچانتیں.ایک دن میں سرہانے کی طرف کھڑا تھا کہ آپ نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھ کر فرمایا.ڈاکٹر صاحب ہیں؟“ میں نے کہا ” اماں جان میں ہوں منور احمد ، جس پر آپ نے فرمایا.’ہاں ڈاکٹر منور احمد.یعنی یہ کہ آپ نے پہلے مجھے پہچان کر ہی ڈاکٹر کہا تھا.اس بیماری ، سے قبل بھی حضرت اماں جان اکثر شام کے وقت گھر کے لڑکوں کو ( جواکثر عزیزان مرزار فیع احمد ، مرزا حنیف احمد ، میر محمود احمد ہوتے تھے ) بلا کر قرآن شریف اور احادیث سنا کرتی تھیں.اس بیماری کے دوران میں بھی کئی دفعہ آپ نے خود کہہ کر قرآن شریف سنا.حتی کہ وفات کے دن بھی صبح کے وقت جب میں ورید میں ٹیکہ شروع کرنے لگا تو آپ نے فرمایا: قرآن شریف سناؤ.میں نے عرض کی اماں جان ٹیکہ کر لوں پھر سُن لیں.جس پر آپ نے اثبات میں سر سے اشارہ کیا.چنانچہ ٹیکہ کے بعد میر محمود احمد نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا.اور وفات سے ایک گھنٹہ قبل یعنی رات ساڑھے دس بجے بھی اماں جان نے فرمایا.قرآن شریف سناؤ.جس پر میر محمود احمد صاحب نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا.( آپ نے سورہ مریم کی آیات نمبر سے لیکر آیت نمبر ۴۱ ، انا نحن نرث الارض و من عليها والينا يرجعون تک پڑھ کر سنائیں.مؤلف )
34 جب ہیں تاریخ کی رات کو اماں جان کی حالت یکدم خراب ہوگئی تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی بھی تشریف لے آئے.اور اماں جان کے سرہانے بیٹھے دعا ئیں فرماتے رہے.اسی دوران میں حضرت اماں جان نے آنکھیں کھول کر حضرت صاحب کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر اشارے سے دعا کرنے کے لئے کہا.حضرت صاحب دعا ئیں بڑے سوز اور رقت سے کرتے جاتے تھے اور کبھی آپ کی آواز بلند بھی ہو جاتی تھی.اس وقت جو دعا آپ نے بلند آواز سے بار بار دہرائی اور جسے میں سن سکا تھی.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِياً يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فامنا.....الآية - ( آل عمران : ۱۹۴) اماں جان کے آخری ڈھائی گھنٹے حضرت صاحب آپ کے پاس ہی رہے سوائے اس کے کہ چند منٹ کے لئے باہر برآمدے میں تشریف لے جاتے پھر کمرہ میں آجاتے.حضور کے علاوہ حضرت اماں جان کے کمرے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے، صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ، سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبه، سیدہ ام متین صاحبہ، سیدہ ام ناصر صاحبہ، صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ، ہماری تینوں ممانی جان، خاکسار، عزیز میرمحمود احمد صاحب اور کچھ اور افراد خاندان موجود تھے.باقی تمام افراد خاندان برآمدے میں تھے اور تمام ہی اپنے رب کے حضور دعاؤں میں نہایت کرب کے ساتھ مشغول تھے.حضرت اماں جان کو آخری سانس سے قبل ایک لمبا سانس کھینچ کر آیا اس وقت حضرت صاحب چند منٹ قبل برآمدے میں تشریف لے گئے تھے.چنانچہ بڑی پھوپھی جان نے زور سے کہا کہ بڑے بھائی کو بُلا ؤ حضور فوراً اندر تشریف لائے اور عین اُسی وقت حضرت اماں جان نے آخری چھوٹا سا سانس لیا اور آپ کی پاک رُوح ہمیشہ کے لئے جسدِ عصری کو چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئی.بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پر اے دل تو جاں فدا کر حضرت اماں جان کی بیماری کا آخری مہینہ سارے کا سارا تقریباً نہایت ہی تشویش میں گزرا.چنانچہ اس وجہ سے خاندان کے اکثر افراد آپ کے پاس رہے اور اپنے اپنے رنگ میں آپ کی خدمت میں مصروف رہتے.
35 تیمار داری کرنے والے چونکہ ایسے سخت بیمار کے پاس لوگوں کا جمگھٹا بھی مناسب نہیں ہوتا اس لئے اپریل ۱۹۵۲ء کے پہلے ہفتہ سے سب کی ڈیوٹیاں لگادی گئی تھیں تا کہ باری باری سب کو خدمت کا موقع مل جائے.لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو چوبیس گھنٹے وہیں رہتے اور ڈیوٹی ادا کرتے تھے.ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اکثر اماں جان کے گھر رہتے.نیز خاکسار، صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب عزیز میرمحمود احمد صاحب، مرزا حنیف احمد صاحب، میر داؤ د احمد صاحب بھی ہر وقت حاضر رہتے.مستورات میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ( جو چوبیس گھنٹہ حضرت اماں جان کے کمرہ میں ہی رہتی تھیں ) سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سیدہ ام متین صاحبہ، سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ ، ہماری تینوں ممانی جان ( یعنی حضرت اماں جان کی بھاو جیں ) صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ، صاحبزادی امتہ المجید بیگم بسیدہ طیبہ بیگم نیز طاہرہ بیگم بیماری کے شروع ایام میں تو خاندان میں سے تھیں اور ان کے علاوہ آمنہ بیگم ( جن کو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے ہی بچپن سے پرورش کیا تھا ) اہلیہ مکرم نیک محمد خان صاحب عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم حمد المعیل صاحب سابق خادم لنگر خانہ (بچپن سے پرورش کردہ حضرت اماں جان اور مسلسل خدمت کرنے والی رہی ہیں.اماں جان ان دونوں سے بہت محبت فرماتی تھیں ) اور رضیہ بیگم نرس نور ہسپتال ( جو نذیر احمد صاحب مبلغ افریقہ کی بھانجی ہیں ) تھیں.اور جیسا کہ پہلے لکھ آیا ہوں مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی اکثر وقت حضرت اماں جان کے پاس حاضر رہے.بلکہ زیادہ خراب حالت میں بعض راتیں بھی وہیں سوۓ.فـجــزاهـم الـلـه اجـمـعـين احسن الجزاء فی الدارین.ان کے علاوہ خاندان کے دوسرے افراد بھی اپنے وقت میں ڈیوٹی ادا کرتے رہے.میں مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کا بھی بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے حضرت اماں جان کی بیماری میں ہر ممکن کوشش اور امداد آپ کے علاج کے لئے ہم پہنچائی.فجزاه الله احسن الجزاء في الدارين
36 اے میرے خدا تو سمیع وعلیم ہے اور مضطر کی دعاؤں کو ضرور سنتا ہے.ہمیں یقین کامل ہے کہ جو دعائیں اور صدقات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احباب جماعت نے اپنی پیاری ماں کی صحت اور درازی عمر کے لئے کئے وہ ضرور تیرے حضور شرف قبولیت حاصل کر گئے ہیں.گو ظاہری شکل میں وہ نتیجہ نہ نکلا جس کے لئے خاندان اور جماعت تیرے حضور ملتی ہوئے کیونکہ تیری تقدیر مبرم تھی.اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری وہ دعائیں ہماری اماں جان کے درجات بہت بلند کریں گی.لیکن اے ہمارے آقا ! ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہم اپنی پیاری محبت کرنے والی ماں کی دعاؤں سے اب ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئے ہیں.سو تو اس کا بدل ہمیں ایسے رنگ میں جس کو تو ہی بہتر جانتا ہے عطا فرما کہ ہم اپنی پیاری ماں کی ان محبت بھری دعاؤں سے محروم نہ رہ جائیں.اور اُن کی دعائیں ان کی وفات کے بعد بھی ہمارے ہر حال میں ہمارے ساتھ شامل رہیں.آمین یا رب العالمین !.اے میرے پیارے خدا اب میرا جسمانی تعلق میری پیاری اماں جان سے منقطع ہو چکا ہے اور ان کو پیغام پہنچانے کا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں سوائے اِس کے کہ تو اپنے اس گناہ گار بندے پر رحم فرماتے ہوئے اس کا یہ پیغام اس کی اماں جان کو پہنچا دے کہ میری پیاری اماں جان! میں نے آپ کو بیماری میں ٹیکے کر کر کے بہت تکلیف پہنچائی.مگر میری اماں جان! میں یہ سب کچھ صرف اسی لئے کر رہا تھا کہ شاید آپ کو صحت ہو جائے اور آپ کچھ عرصہ اور ہم لوگوں میں رہیں.آپ کو ٹیکے کرتے وقت خود میرا دل ایک سخت چھن محسوس کرتا تھا.مگر میں مجبور تھا اماں جان مجھے معاف فرمائیں تا میرا خدا بھی مجھے معاف فرمادے آمین یارب العالمین.نوٹ از حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ مجھے یہ خوشی اور اطمینان بھی اس حالت غم میں حاصل ہوتا رہا کہ میرے پیارے منو رکو جو علاوہ بھتیجا ہونے کے میر اداماد اور فرزند عزیز ہے، اماں جان کی خدمت کا اس قدر موقع حاصل ہوا ہے.جب پہلے طبیعت بعد السلام علیکم پوچھتے نہایت نرم آواز میں کہتے.اماں جان طبیعت کیسی ہے؟ اور جواب سن کر پھر بعد ، بلڈ پریشر دیکھنے کا سلسلہ شروع کرتے.
37 پہلے تو کبھی کبھی ہم لوگوں کے یادوسروں کے پوچھنے پر سر درد وغیرہ بتایا بھی کرتی تھیں مگر اس دوماہ کی علالت میں تو پیاری اماں جان نے خدا جانے کیا سمجھ لیا تھا اور کیا عزم کر لیا تھا کہ جب کہا اچھی ہوں ہی کہا.اوّل تو قادیان سے آنے کے بعد نمایاں طور پر میں نے محسوس کیا تھا کہ اپنے جسمانی عوارض کی شکایت بہت ہی کم کر دی تھی.ہے.
38 وصال آپ کے وصال پر روز نامہ الفضل لاہور میں حسب ذیل اطلاع شائع ہوئی.حضرت سیدۃ النساء ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ نماز جنازہ منگل کے روز صبح ۵ بجے ربوہ میں ادا کی جائے گی.دارہ الفضل نہایت رنج والم کے ساتھ یہ خبر شائع کر رہا ہے کہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالے عنہا ۲۰ را پریل کی رات یعنی اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو ساڑھے گیارہ بجے دارالہجرت ربوہ میں اس جہان فانی سے رحلت فرما گئیں انا لله وانا اليه راجعون نماز جنازہ منگل کے روز ۲۲ / اپریل کو صبح ۵ بجے ربوہ میں ادا کی جائے گی.گزشتہ شب جناب ناظر صاحب اعلیٰ نے اس اندوہناک خبر پر مشتمل ربوہ سے حسب ذیل تا ر ارسال فرمایا: ر بوه ۲۰/۲۱ اپریل (سوا بارہ بجے شب ) حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا آج شب ساڑھے گیارہ بجے انتقال فرماگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.نماز جنازہ منگل کو صبح ۵ بجے ادا کی جائے گی.تار کے انگریزی الفاظ درج ذیل ہیں : "Hazrat Ummulmomeneen passed away eleven thirty tonight innalillah.Janaza 5 :am Tuesday morning" نیز آج صبح سوا آٹھ بجے ریڈیو پاکستان لاہور نے حضرت ممدوحہ کی وفات کی خبر حسب ذیل الفاظ میں نشر کی : ہم افسوس سے اعلان کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی زوجه محتر مہ گزشتہ رات ساڑھے گیارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئیں.آپ جماعت احمدیہ کے
39 66 موجودہ امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی والدہ ہیں.جنازہ کل ۵ بجے ربوہ میں ہو گا.“ سال رواں کے آغاز سے ہی آپ کی طبیعت بہت ناساز چلی آتی تھی.چنانچہ آپ نے چلنا پھرنا عملاً متروک کر دیا تھا.اور آپ عموماً بستر میں ہی رہتی تھیں.وسط فروری سے کمزوری بڑھنے لگی.نیز شروع مارچ سے بخار بھی رہنے لگا.اور خوراک بہت کم ہوگئی.اگر چہ بخار اتر جاتا تھا.لیکن کمزوری بدستور رہی.مارچ کے آخر میں بیماری نے تشویش ناک صورت اختیار کر لی.کمزوری بہت زیادہ ہوگئی جس کا کسی قدر دل پر بھی اثر ظاہر ہونے لگا.کبھی اسہال اور کبھی قبض کی صورت پیدا ہو جاتی نیز گاہے گاہے قے کی شکایت بھی ہونے لگی.نقاہت کے باعث بعض اوقات غنودگی کی سی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی تھی.ڈاکٹری معائنہ سے معلوم ہوا کہ گردے میں سوزش ہوگئی ہے بعد میں یوریمیا کی علامات نمایاں تر ہوتی گئیں اور اسہال شروع ہونے کی وجہ سے کمزوری پہلے کی نسبت اور زیادہ بڑھ گئی.نیز خون کا دباؤ گرنا شروع ہو گیا.اپریل کے دوسرے ہفتہ میں بیماری نے اور زیادہ تشویش ناک صورت اختیار کر لی.سانس بے قاعدہ اور رک رک کر آنے لگا.اگر چہ بعد میں دل کی حالت کسی قدر بہتر ہو گئی لیکن عام طور پر سانس میں بے قاعدگی کی شکایت رہی.اور ضعف میں برابر اضافہ ہوتا رہا.۱۵ را پریل سے نیم بے ہوشی کی حالت طاری رہی ۱۸ را پریل کو رات سخت بے چینی میں گزری.بخار ۱۰۲ درجہ سے بھی بڑھ گیا.وقتاً فوقتاً کپکپی بھی طاری ہوتی رہی.۱۹ اپریل کو رات نسبتا آرام سے گزری لیکن دل کی حرکت اور نفس کی حالت بدستور رہی بالآخر ۲۰ را پریل کی شب کو ساڑھے گیارہ بجے الہی مقدرات کے تحت وہ معین گھڑی آ پہنچی کہ جب آپ کی پاک روح قفس عنصری سے پرواز کر کے جنت النعیم میں مولائے حقیقی سے جاملی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون ۵
40 40 حضرت سیدہ اماں جان رضی اللہ عنہا کی تدفین حضرت سیدہ اماں جان رضی اللہ عنہا کی تدفین کے بارہ میں نامہ نگار روز نامہ الفضل لاہور کی رپورٹ ذیل میں دی جا رہی ہے.( نامہ نگار خصوصی کے قلم سے) ربوہ ۲۲ اپریل ۱۹۵۲.آج صبح آٹھ بج کر ۲ منٹ پر کم و بیش چھ سات ہزار مومنین نے اشکبار آنکھوں محزون قلوب اور اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی رقت اور سوز و گداز سے اور دعاؤں کے ساتھ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسد اطہر کو سپردخاک کر دیا.اور اس طرح اس مقدس وجود کا اس دنیائے فانی سے آخری تعلق بھی منقطع ہو گیا.جس کی خود اللہ تعالیٰ نے عرش پر تعریف فرمائی.اور جو اس زمانہ کے عظیم الشان مامور سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجیت میں داخل ہو کر حضور ہی کی ذات بابرکات کا ایک حصہ بن چکا تھا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - جنازہ اٹھانے کا منظر حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جنازہ اندرون خانہ سے اٹھا کر چھ بج کر ایک منٹ پر تابوت میں باہر لایا گیا.اس وقت خاندان سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نو نہال اسے تھامے ہوئے تھے.تابوت کو ایک چارپائی پر رکھ دیا گیا جس کے دونوں طرف لمبے بانس اس غرض سے بندھے ہوئے تھے.تا کہ ایک وقت میں زیادہ دوست کندھا دینے کی سعادت حاصل کرسکیں.اس وقت ملک کے کونے کونے سے ہزاروں احمدی مردوزن پہنچ چکے تھے.جو اپنی ما در مشفق کیلئے سوز گداز دعائیں کرنے میں مصروف تھے چھ بج کر پانچ منٹ پر جنازہ اٹھایا گیا.جبکہ سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعدد دیگر افراد جنازے کو کندھا دے رہے
41 تھے.اور ساتھ ساتھ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی دعائیں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات کسی قدر بلند آواز سے دہرا رہے تھے.باری باری کندھا دینے کا انتظام چونکہ احباب بہت بڑی تعداد میں آچکے تھے اور ہر دوست کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کا متمنی تھا.اس لئے رستے میں یہ انتظام کیا گیا.کہ اعلان کر کے باری باری مختلف دوستوں کو کندھا دینے کا موقع دیا جائے.چنانچہ صحابہ کرام.امرائے صوبہ جات اضلاع یا ان کے نمائندگان.بیرونی ممالک کے مبلغین.غیر ملکی طلباء کارکنان صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید انجمن احمدیہ، مجالس خدام الاحمدیہ انصار اللہ کے نمائندگان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ مختلف مقامات کی جماعتوں نے بھی وقفے وقفے سے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد نے شروع سے آخر تک کندھا دیئے رکھا.نماز جنازہ.رقت کا ایک خاص عالم چھ بج کر چھپن منٹ پر تابوت جنازہ گاہ میں پہنچ گیا جوموصیوں کے قبرستان کے ایک حصہ میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کی مساعی سے قبلہ رخ خطوط لگا کر تیار کی گئی تھی.صفوں کی درستی اور گنتی کے بعد سات بج کر پانچ منٹ پر سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جنازہ شروع فرمائی.جو سات بج کر سترہ منٹ تک جاری رہی.نماز میں رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا.جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا.نماز جنازہ کے بعد تابوت مجوزہ قبر تک لے جایا گیا جہاں حضرت اماں جان کو امانتاً دفن کرنا تھا.قبر کے لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت قبرستان موصیان ربوہ کا ایک قطعہ مخصوص کر دیا گیا تھا.ہجوم بہت زیادہ تھا.اس لئے نظم و ضبط کی خاطر مجوزہ قبر کے اردگرد ایک بڑا حلقہ قائم کر دیا گیا.جس میں جماعت کے مختلف طبقوں کے نمائندگان کو بلا لیا گیا.چنانچہ صحابہ
42 کرام مختلف علاقوں کے امراء - افسران صیغہ جات.بیرونی مبلغین.غیر ملکی طلباء اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو اس حلقہ میں بلا کر شمولیت کا موقع دیا گیا.پونے آٹھ بجے تابوت کو قبر میں اُتارا گیا.اس وقت سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور تمام حاضر الوقت اصحاب نہایت رقت اور سوز وگزار کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھے.رفت کا یہ سماں اپنے اندر ایک خاص روحانی کیفیت رکھتا تھا.تابوت پر چھت ڈالنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۸ بجکر ۲۲ منٹ پر قبر پر اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی.جس کی تمام احباب نے اتباع کی.جب قبر تیار ہوگئی.تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پھر مسنون طریق پر مختصر دعا فرمائی.اور اس طرح سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہاء کے جسد اطہر کو سپردخاک کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ تجهیز و تکفین کفن کیلئے ایک تھان حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا اپنے ہمراہ قادیان سے لائی ہوئی تھیں.اور اکثر فرمایا کرتی تھیں.کہ میں نے یہ اپنے کفن کے لئے رکھا ہوا ہے.اس تھان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ململ کا مستعمل کر یہ بھی رکھا ہوا تھا.کہ یہ کفن کے ساتھ ان کو پہنایا جائے.چنانچہ نسل کے بعد پہلے کرتہ پہنایا گیا اور اس پر کفن پہنایا گیا.جنازہ میں شرکت کرنے والے احباب کا اندازہ چھ اور سات ہزار کا ہے.جو پاکستان کے ہر علاقہ اور ہر گوشہ سے آئے ہوئے تھے.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات کے معابعد بذریعہ ایکسپریس تار خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو اور جملہ جماعت ہائے احمدیہ کے امراء کو اس سانحہ کی اطلاع بھجوا دی گئی تھی.اور جماعت کے اخلاص کے پیش نظر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا.کہ جنازہ ۲۲ اپریل ۱۹۵۲ء کو صبح ہو.تا کہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوسکیں.چنانچہ ۲ اپریل کی صبح تک ہر علاقہ سے ہزاروں کی تعداد میں احمدی مردوزن ربوہ پہنچ چکے تھے.پشاور سے لے کر کراچی تک کی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے.۲۱ اپریل کی شام کو جب حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زیارت کا موقع مستورات کو دیا گیا.تو قریباً ڈیڑھ ہزار مستورات نے زیارت کا شرف حاصل کیا.اور ابھی ایک
بڑی تعداد باقی رہتی تھی.43 نماز جنازہ کے وقت احباب کی ۲۵ لائینیں تھیں.اور ہر لائن میں کم و بیش اڑھائی صد بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی کھڑے تھے.بعض مستورات بھی اپنے شوق سے اور اخلاص میں جنازہ گاہ تک پہنچ کر شریک نماز ہوئیں.تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ میں شامل ہونے والوں میں پندرہ سولہ وہ غیر ملکی طلباء بھی تھے.جو دنیا کے مختلف حصوں سے دین سیکھنے اور خدمت دین میں اپنی زندگی کو بسر کرنے کے لئے ربوہ آئے ہوئے ہیں ان غیر ملکی طلبہ میں چین، جاوا، سماٹرا، ملایا، برما،شام،مصر، سوڈان، حبشہ ، مغربی افریقہ، جرمنی ، انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طلباء شامل ہیں.علالت کے آخری ایام نقص : حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کے ذریعہ جن حالات کا علم ہوا ہے.ان سے معلوم ہوتا ہے.کہ حضرت ام المومنین قریب دوماہ سے بیمار تھیں ڈاکٹری تشخیص کے مطابق گردوں کے فعل میں پیدا ہوجانے سے بیماری کا آغاز ہوا.اور پھر اس کا اثر دل پر اور تنفس پر پڑنا شروع ہوا.بیماری کے حملے وقتا فوقتا بڑی شدت اختیار کرتے رہے لیکن آپ نے ان تمام شدید حملوں میں نہ صرف کامل صبر و شکر کا نمونہ دکھایا.بلکہ بیماری کا بھی نہایت ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا.اس عرصہ میں لاہور سے علی الترتیب ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ صاحب.ڈاکٹر غلام محمد صاحب بلوچ اور ڈاکٹر محمد یوسف صاحب علاج کیلئے بلائے جاتے رہے.انکے ساتھ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب بھی ہوتے تھے.لیکن وقتی افاقے کے سوا بیماری میں کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی اس کے بعد حکیم محمد حسن صاحب قرشی کو بھی بلا کر دکھایا گیا.جن کے ساتھ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی بھی تھے.لیکن ان کے علاج سے بھی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی.مقامی طور پر صاحبزادہ ڈاکٹر منور احمد صاحب بھی حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے معالج تھے.جن کے ساتھ بعد میں مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی شامل ہو گئے.اور چند دن کے لئے درمیان میں ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب نے بھی علاج میں حصہ لیا.انتظامی سہولت اور نگرانی کے لئے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات اور بچوں کا انتظام
44 کیا گیا تھا جو نہایت تندہی کے ساتھ خدمت میں لگے رہے.بالآخر ۲۰ را پریل ۱۹۵۲ء کی صبح کو ساڑھے تین بجے کے قریب دل میں ضعف کے آثار پیدا ہوئے جو فوری علاج کے نتیجہ میں کسی قدر کم ہو گئے مگر دن بھر دل کی کمزوری کے حملے ہوتے رہے.اس عرصہ میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے ہوش وحواس خدا کے فضل سے اچھی طرح قائم رہے.صرف کبھی کبھی عارضی غفلت سی آتی تھی جو جلد دور ہو جاتی تھی.ہمیں تاریخ کی شب کو پونے نو بجے حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا نے دل میں زیادہ تکلیف محسوس کی.اس کے ساتھ ہی تنفس بگڑنا شروع ہو گیا اور نبض کمزور پڑنے لگی.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے خود ہی ٹیکے وغیرہ لگائے.مگر کوئی افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی.اس وقت حضرت اماں جان نے خود اپنی زبان سے فرمایا.کہ قرآن شریف پڑھو.چنانچہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا.اس وقت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا.دعا کریں.چنانچہ حضو را یدہ اللہ تعالیٰ نے بعض قرآنی دعائیں کسی قدر اونچی آواز سے پڑھیں.اور دیر تک پڑھتے رہے.اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بھی دعا میں مصروف ہیں.آپ کی نبض اس وقت بے حد کمزور ہو چکی تھی.بلکہ اکثر اوقات محسوس تک نہیں ہوتی تھی.لیکن ہوش و حواس بدستور قائم تھے.اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر اپنے اردگر دنظر ڈالتی تھیں.اور آنکھوں میں شناخت کے آثار بھی واضح طور پر موجود تھے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے تھوڑے عرصہ کے لئے ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت باہر تشریف لے جانے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ حضرت اماں جان کے سامنے بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے.اس وقت بھی حضرت اماں جان آنکھ کھول کر دیکھتی تھیں.اور ایسا معلوم ہوتا تھا.کہ دعا میں مصروف ہیں.دیگر عزیز بھی چار پائی کے اردگرد موجود تھے.اور اپنے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے اور حسب ضرورت خدمت بجالاتے تھے.سوا گیارہ بجے شب کے بعد حضرت اُم المومنین نے اشار تا کروٹ بدلنے کی خواہش ظاہر فرمائی.لیکن کروٹ بدلتے ہی نبض کی حالت اور زیادہ گرگئی.اور چند منٹ کے بعد تنفس زیادہ
45 45 کمزور ہونا شروع ہو گیا.بالآخر ساڑھے گیارہ بجے شب حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی روح اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر وفات کے وقت حضرت اُم المومنین کی اولاد میں سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کے پاس موجود تھے.البتہ حضرت مرز ا شریف احمد صاحب اس وقت موجود نہ تھے.آپ چند دن قبل ربوہ آکر لاہور واپس تشریف لے گئے تھے.اور وفات کی خبر پانے کے بعد ربوہ پہنچے.وفات کے وقت حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی عمر پچاسی اور چھیاسی سال کے درمیان تھی.آپ دہلی کے ایک مشہور سید خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس کا سلسلہ حضرت خواجہ میر درد سے ملتا ہے.آپ کی شادی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ۱۸۸۴ء میں ہوئی.جس وقت کہ آپ کی عمر ۱۸ سال کی تھی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جو ۱۹۰۸ میں ہوا چوالیس سال زندہ رہیں اور اپنی تمام زندگی میں کامل تقویٰ طہارت.صبر ورضا اور توکل الی اللہ کا نمونہ دکھا یا بیماری کے ایام میں بھی جبکہ بیماری کے سخت سے سخت حملے ہوتے رہے دریافت کرنے پر آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ طبیعت اچھی ہے اور کبھی کوئی کلمہ بے صبری کا زبان پر نہیں لائیں.بلکہ نہایت ہمت اور صبر کے ساتھ بیماری کے ایام گزارے.ہمدردی کے پیغامات پاکستان اور ہندوستان کے مختلف مقامات سے ہمدردی کی سینکڑوں تاریں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، ناظر صاحب اعلیٰ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد کے نام پہنچ چکی ہیں.اور پہنچ رہی ہیں.تاروں کا رش دیکھ کر محکمہ تار نے حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی بیماری کے ایام سے ہی ایک سکنیلر عارضی طور پر بوہ میں زیادہ کر دیا تھالیکن دوسکنیر وں کے باوجود تاروں کی اتنی کثرت ہے
کہ وہ اسے بمشکل سنبھال سکتے ہیں.46 46 ہمدردی کے اظہار کے لئے بعض غیر احمدی معززین بھی باہر سے تشریف لائے ہیں.غیر مبائع اصحاب میں سے مکرم مرزا مسعود بیگ صاحب لاہور سے اور مکرم مولوی عبداللہ جان صاحب پشاور سے تشریف لائے ہیں.قرار داد لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ مؤرخه ۲ مئی ۱۹۵۲ء بروز جمعہ مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا اجلاس حضرت اماں جان کی تعزیت کے لئے منعقد ہوا.جس میں مندرجہ ذیل ریزولیوشن پاس کیا گیا.مجلس عاملہ کا یہ غیر معمولی اجلاس احمدی قوم کی مشفق و مہربان ماں کی اندوہناک وفات پر گہرے رنج کا اظہار کرتا ہے.یقیناً حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی وفات ہمارے لئے بہت بڑا صدمہ ہے.آپ کا وجود جماعت کے لئے خدائی برکات کے نزول کا بہت بڑا ذریعہ تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض اور برکات کا سب سے زیادہ قریبی مشاہدہ کرنے کا عینی شاہد.افسوس آج ہم ان تمام برکات سے محروم ہیں نہ صرف یہ بلکہ حضرت اماں جان بیوگان کے لئے ملجا وماوی.یتامی کے لئے محبت بھری گود.اور مساکین کے لئے حاجت روا تھیں.اب یہ تمام لوگ آپ کی وفات پر حسرت و یاس کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں.ہمیں یہ دیکھ کر بہت زیادہ رنج اور قلق ہوتا ہے کہ حضرت اماں جان کو اپنی آرام گاہ اپنے پیارے سرتاج کے قرب میں میسر نہیں آسکی.اے خدا اس مقدس وجود کی تربت پر جو تیرے نشانات میں سے ایک نشان تھا اور جس کی تیرے پیارے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں سال قبل پیشگوئی کی تھی اور جس کے لئے يتزوج ويولد له کی پیشگوئی روز روشن کی طرح پوری ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی.ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرما اور اسے جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات میں جگہ عطا فرما اور آپ کی
47 اولاد کو ہر قسم کی دینی و دنیوی نعماء سے بہرہ ور فرما.آمین ہم ہیں آپ کے غم میں شریک ہونے والی ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکز بیر بوہ کے قرارداد نصرت گرلز کالج نصرت گرلز کالج کی طالبات اور سٹاف ایک ایک غیر معمولی اجلاس کالج میں منعقد ہوا.پرنسپل صاحبہ کالج نے ایک مختصر مگر نہایت مؤثر تقریر فرمائی.آپ نے حضرت ام المومنین کی رحلت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال الی اللہ کے بعد سب سے بڑا ابتلاء جماعت کے لئے قرار دیا.آپ نے کہا کہ اس مقدس وجود کی جدائی پر آنکھیں ہمیشہ ہی اشکبار اور دل بے قرار رہیں گے.لیکن اگر جماعت کی بہنیں اور خصوصاً طالبات حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خصائل محمودہ کو اپنا لیں.تو حضرت ممدوحہ کی شان ایک حد تک دنیا میں قائم رہے گے.پرنسپل صاحبہ نے آپ کی بہت سی نا در صفات کا ذکر فرمایا.لیکن خصوصا حضرت مدوحہ کی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت غرباء پروری مہمان نوازی اور ناپسندیدہ باتوں کے سننے سے احتراز کا ذکر فرمایا.بالآخر یہ بھی فرمایا کہ اس کالج کا نام حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے نام پر ہے.اس لئے کالج سے ہر وہ جو وابستہ ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے کردار کو اور اعمال کو انہیں کے نمونہ پر ڈھالے.کالج کا سٹاف اور طالبات نہایت ہی خلوص اور محبت کے جذبات کے ساتھ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ و خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اظہار عقیدت و ہمدردی کرتے ہیں.قرار داد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس منعقده مورخه ۲۸ مئی ۱۹۵۲ء میں مندرجہ ذیل ریزولیوشن کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کیا.مجلس خدام الاحمدیہ کا مرکز یہ کا یہ اجلاس سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتا ہے.ان اللہ انا الیہ راجعون.مشفق اور محسن اماں جان کی وفات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام، سلسلہ احمدیہ، خادمان سلسلہ کیلئے جس قدر تکلیف اور صدمہ کا موجب ہوئی ہے.الفاظ سے بیان نہیں کر سکتے.ہماری آنکھیں غمناک اور دل مجروح ہیں اور ہماری روحیں سخت بے
48 چین اور مضطرب ہیں.اس کے بعد ہم ہر حال میں اپنے رب کی مشیت پر راضی اور اس کی مشیت پر خوش ہیں.اور اس کے آستانہ پر جھکتے ہوئے یہ دعا کرتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درجات بلند کرے.اور آپ اپنے فضل اور رحمت کی بارشیں برسائے.اور آپ کی مبارک اولا داور نسل کو اپنے سایہ عاطفت میں رکھے.اور جو برکات آپ سے وابستہ تھیں.ان کو قائم و دائم رکھے.یہ صدمہ اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ مبارک وجود اپنے آقا اور سرتاج حضرت مسیح موعود علیہ السلام والصلوۃ کے پہلو میں ابدی نیند سونے کی بجائے ایک دور افتادہ جگہ میں مدفون ہے.بہر حال ہم اپنے خدا کی تقدیر پر راضی ہیں.العين تدمع و القلب و يحزن ولا نقول الا بما يرضى به ربنا.
49 حضرت اُم المومنین کی تعزیت کے خطوط کے جوابات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے فرماتے ہیں: رسالہ مصباح کی مدیر صاحبہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے رسالہ کے لئے حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضہا کے متعلق کوئی مضمون لکھ کر ارسال کروں.میں جانتا ہوں کہ طبقہ مستورات کا حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا پر اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا طبقہ مستورات پر دُہر احق ہے لیکن کچھ تو میں آجکل بیمار ہوں اور کچھ ابھی تک طبیعت اس مضمون کے لئے حاضر نہیں ہے اس لئے فی الحال میں اس خط کی نقل ( خط اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں مرتب.) بھجوا رہا ہوں جو میری طرف سے حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی تعزیت کے خطوں کے جواب میں بھجوایا گیا ہے.ان میں سے پہلا خط تو احمدی بہنوں اور بھائیوں کے خطوط کے جواب میں ہے.اور دوسرا خط دوسرے مسلمان حضرات کے خطوط کے جواب میں ہے اور تیسرا خط غیر مسلم اصحاب کے خطوں کے جواب میں ہے.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ان خطوں میں ہمارے جذبات کا خلاصہ آجاتا ہے لیکن اہل بصیرت کو ہمارے جذبات کی ایک جھلک ضرور نظر آسکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری مصباحی بہنیں اس وقت اس جھلک پر ہی اکتفا کر کے مجھے معذور خیال فرمائیں گی.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۱۵/۵/۶۱۹۵۲
50 50 پہلا خط احمدی بھائی بہنوں کے خطوں کے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ربوه ۱۵/۵/۵۲ مکر می محتر می مکرمه محترمه وعلى عهد واسع الموجود محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضہا کی وفات پر آپ کی طرف سے ہمدردی کا خط موصول ہوا.حقیقہ یہ ہم سب کا مشترکہ صدمہ ہے اس لئے طبعاً ایسے موقع پر ایک دوسرے کی ہمدردی اور دعاؤں کا سہارا بڑی تسلی کا موجب ہوتا ہے.فجزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والآخرة.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا وجود جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور واقعات سے ظاہر ہے بڑی برکات کا مجموعہ تھا.پس اب جب کہ یہ مبارک وجود ہماری ماڈی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے ہمیں خصوصیت کے ساتھ دعا کرنی چاہیئے کہ حضرت اماں جان کی برکات اور فیوض کا سلسلہ ہمارے لئے اب بھی اسی طرح جاری رہے بلکہ آگے سے بڑھ کر جاری رہے.کیونکہ طبعا اس اولاد کو شفقت اور رافت کی زیادہ پیاس ہوتی ہے جو اپنے والدین کی وفات کی وجہ سے اُن کی ظاہری محبت سے محروم ہو جاتی ہے.خدا کرے کہ ہم حضرت اُم المومنین اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے وارث بن کر اور ان کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے بیش از بیش حصہ پاتے رہیں اور جب ہمارا سفر آخرت پیش آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ میرے پیچھے میری جسمانی اور روحانی اولاد نے خدائی امانت کو ضائع نہیں کیا اور میرے نام اور کام کو زندہ رکھا اور روشن کیا ہے.میں آپ کی محبت اور ہمدردی کا دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں بھی حضرت اُم المومنین کی ان تمام دعاؤں کو قبول فرمائے جو وہ اپنی زندگی میں جماعت کے لئے فرماتی رہی ہیں.اور آپ اور ہم سب اُن انعاموں سے پورا پورا حصہ پائیں جو ازل سے خدا تعالیٰ کے مقبول بندوں کے لئے مقدر ہیں.آمین یا ارحم الراحمین.
51 دوستوں کو آجکل یہ دعا بھی ضرور کرنی چاہیئے کہ اگر حضرت اُم المومنین کی وفات کے ساتھ کوئی اور تلخ تقدیر بھی وابستہ ہوتو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحم سے ٹال دے اور جماعت کا حافظ و ناصر ہو.آمین.فقط والسلام خاکسار دستخط ( مرزا بشیر احمد ) دوسرا خط غیر احمدی اصحاب کے خطوں کے جواب میں ربوه ۱۵/۵/۱۹۵۲ مکرمی محترمی..السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی وفات پر آپ کی طرف سے ہمدردی کا خط پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس ہمدردی کی جزائے خیر دے اور آپ کا اور آپ کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین والدین کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کا قدرت نے کوئی بدل پیدا نہیں کیا.اسی لئے والدین کا سایہ ایک بہت ہی بابرکت سایہ ہوتا ہے.اور ہماری والدہ محترمہ کا وجود تو ہمارے لئے خصوصیت کے ساتھ ایک نہایت ہی مبارک وجود تھا جس کے ساتھ کئی برکتوں کے سائے وابستہ تھے.اور گو ہم اب بظاہر ان کی پاک صحبت سے محروم ہو گئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ وفات کے بعد بھی ان کی درد بھری دعا ئیں ہمارا ساتھ دیں گی اور خدا کا فضل ہمارے شاملِ حال رہے گا.حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ کو اللہ تعالیٰ نے بے حد پاک سیرت عطا کی تھی.غریبوں اور بیکسوں کی ملجاء و ماوی.مصیبت زدوں کی مونس و غمخوار.خاندان اور جماعت کے لئے عافیت کا حصار.اولاد کے لئے مجسم رحمت.بلالحاظ امیر وغریب ہر شخص کے ساتھ انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ ملنے والی.صبر ورضا کا مجسمہ.دن رات دعاؤں میں مشغول رہنے والی اور خدا اور رسول کی عاشق زار تھیں.ہر شخص ماں رکھتا ہے اور فطرتا ہر شخص کو اپنی ماں سے محبت بھی ہوتی ہے مگر میں اس اظہار سے رک نہیں سکتا کہ:
52 62 کم بزاید بزاید مادرے جوں ایس صفا در یتیم میں آپ کی ہمدردی کا دوبارہ شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس موقع پر ہمارا غم بانٹنے کی کوشش فرمائی ہے.فجزاکم اللہ احسن الجزاء.فقط والسلام.خاکسار دستخط (مرزا بشیر احمد ) تیسر ا خط غیر مسلم اصحاب کے خطوں کے جواب میں ربوه ۱۵/۵/۱۹۵۲ مکرمی محترمی..تسلیم! حضرت اماں جان کی وفات پر آپ کی طرف سے ہمدردی کا خط موصول ہوا.آپ کی اس ہمدردی کا بہت بہت شکریہ.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر دے اور آپ کو خوشی اور راحت کی زندگی نصیب ہو.والدین کا سایہ بہت ہی بابرکت ہوتا ہے اور ہماری والدہ محترمہ کا وجود تو ہمارے لئے خصوصیت کے ساتھ نہایت ہی مبارک وجود تھا جس کے ساتھ کئی برکتوں کے سائے وابستہ تھے.پس ان کی وفات حقیقیہ ایک بہت بھاری صدمہ ہے.مگر ہمیں خدا کے فضل سے امید ہے کہ ان کے بعد بھی ان کی پاک دعا ئیں ہمارا ساتھ دیں گی اور خدا کا فضل ہمارے شاملِ حال رہے گا.حضرت اماں جان کو اللہ تعالیٰ نے نہایت پاک فطرت عطافرمائی تھی.وہ بلا امتیاز مذہب و مدت سب لوگوں کی خیر خواہ اور ہمدرد تھیں اور خصوصیت سے غریبوں کا بے حد خیال رکھتی تھیں.اور نیکی کے کاموں میں سبقت کرنا اور صدقہ و خیرات اور دعا میں وقت گزارنا ان کا محبوب مشغلہ تھا.ایسے وجود کی وفات کسی ایک خاندان یا قوم کا صدمہ نہیں بلکہ دراصل ساری دنیا کا مشتر کہ صدمہ ہے.میں آپ کی ہمدردی کا دوبارہ شکر یہ ادا کرتا ہوں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس ہمدردی کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھے.آمین.فقط خاکسار دستخط (مرزا بشیر احمد )
53 3 حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی قادیان میں تعزیت از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ربوہ ) حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضہا کی بیماری کی خبر تار کے ذریعہ با قاعدہ قادیان میں دی جاتی تھی اور پھر وفات کی خبر بھی بذریعہ ایکسپریس تار دی گئی.قادیان کے مخلص اور فدائی درویشوں کو ان کے مخصوص ماحول میں جانکاہ واقعہ کا جو صدمہ ہواوہ بیان سے باہر ہے.ان میں حضرت بھائی چودھری عبدالرحیم صاحب نو مسلم اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی جیسے قدیم اور بزرگ صحابی بھی شامل ہیں.اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا پوتا عزیز مرزا وسیم احمد سلمہ بھی ہے.اور محترمی مولوی عبدالرحمن صاحب امیر قادیان بھی ہیں جن کا ان کے خسر مرحوم شیخ حامد علی صاحب اور ساس مرحومہ (جو میری رضاعی ماں تھیں ) کی وجہ سے حضرت اماں جان کے ساتھ خاص تعلق تھا.اس تعلق میں مجھے جو خط مولوی عبدالرحمن صاحب امیر قادیان کا موصول ہوا ہے وہ دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ، ربوہ ۲۹/۴/۱۹۵۲ حضرت اماں جان کی فوتیدگی سے مجھے اور دوسرے درویشوں کو جو صدمہ ہوا ہے اس کے متعلق وہی جان سکتا ہے جو قادیان میں ہو اور کیوں نہ ایسا ہوتا جبکہ ہم سب کا آپ سے ایک خاص روحانی واسطہ تھا باقی میں تو ان کے پاس ہی پلا ہوں اور ان کی مجھ پر اور میری ممانی صاحبہ مرحومہ (یعنی ساس صاحبہ ) پر جو مہر بانیاں اور شفقتیں تھیں ان کو میں ہی جانتا ہوں اور اسی شفقت کا نتیجہ تھا کہ حضور اماں جان مہینہ میں ایک دو دفعہ میرے غریب خانہ میں تشریف لا کر میری ممانی صاحبہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں.قادیان میں آپ کی تار پہنچتے ہی تمام دفاتر بند ہو گئے اور جملہ جماعتہائے ہندوستان کو بذریعہ تار
54 اس المناک خبر سے اطلاع دی گئی اور جنازہ کا وقت بتلایا گیا.چنانچہ بعض مقامات سے جواب بھی آئے.قادیان میں بمطابق وقت پاکستان نماز جنازہ مسجد اقصلے میں پڑھائی گئی.اور اس کے بعد ایک جلسہ منعقد کیا گیا.جس میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے سوانح اور سیرت پر بعض دوستوں نے تقریریں کیں اور بعض دوستوں نے آپ کی وفات پر جو نظمیں لکھی تھیں وہ سنائی گئیں.ان میں محمود احمد صاحب مبشر کی نظم ایسے پیرایہ میں لکھی ہوئی تھی کہ جب وہ پڑھ کر سنائی گئی تو سب دوست بے چین ہو کر دور ہے تھے.یہ نظم ساتھ ہی درج ہے.قادیان کے پرانے ہندوؤں میں سے لالہ داتا رام ولد لالہ ملا وامل صاحب اور سردار جوند سنگھ اور سیٹھ پیارے لال ولد سیٹھ گھنیا لال و بانکے لال و لالہ ہری رام بزاز وسیٹھ آگیا رام صراف اور پنڈت لال چند حلوائی افسوس کرنے کے لئے ہمارے پاس آئے.اسی طرح ہر دو مقامی تھانیداری آئی بی انچارج چوکی معہ انچارج نور ہسپتال بھی افسوس کے لئے دار اسیح میں تشریف لائے.اسی طرح بعض مستورات جو ہمارے پڑوس میں رہتی ہیں یا جن کے خاندان اور جماعت کے ساتھ تعلقات تھے برائے افسوس آئیں.اسی طرح دوسرے اور اصحاب ہندوؤں اور سکھوں میں سے بھی افسوس کیلئے ملتے رہے.( دستخط ) عبدالرحمن ( امیر قادیان ) مؤرخه ۲۴/۴/۱۹۵۲ ۱۰
55 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام حضرت اُم المؤمنين نور الله مرقدھا کی وفات پر ہمدردی کے پیغامات حضرت اُم المومنین نوراللہ مرقدھا کی وفات پر کثرت سے اظہار افسوس کے پیغامات موصول ہورہے ہیں جن میں سے چند درج ذیل کئے جاتے ہیں.مکرم مولوی صدر الدین صاحب امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور آپ کی والدہ صاحبہ کی وفات کی خبر سن کر بہت رنج ہوا.صدرالدین.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان حضرت اماں جان کی وفات کی خبر سن کر مجھے سخت تکلیف محسوس ہوئی.خدا تعالیٰ آپ پر اپنے افضال کی بارش برسائے.اور آپ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.ظفر اللہ خان.مسٹر ومسرسی.ایس خان صاحب چیف کمرشل مینجر این ڈبلیو آر اماں جان کی وفات کی خبر سن کر مجھے سخت رنج ہوا.خدا تعالیٰ مرحومہ پر اپنے نعماء و برکات کی بارش نازل فرمائے.اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے.میں خود حاضر ہوتا.مگر میری لڑکی سخت بیمار ہے.چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر از واشنگٹن (امریکہ ) امریکن احمدی حضرت اماں جان کی وفات کی اندوہناک خبر سن کر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں.اور اس حادثہ المیہ پر حضور اور خاندان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے افضال و برکات کی بارش آپ پر برسائے اور اپنے جوار رحمت میں
99 56 بہترین مقام عطا فرمائے.تمام امریکن مشن نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں.خلیل احمد ناصر.مکرم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان ممبران صدرانجمن احمد یہ قادیان اور تمام جماعتہائے ہند حضرت اماں جان کی وفات پر انتہائی رنج وغم کا اظہار کرتی ہے.ناظرا علے قادیان مولوی برکات احمد صاحب بی.اے راجیکی ناظر امور عامہ قادیان بی.اے حضرت اماں جان کی وفات حسرت آیات پر میں گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں.برکات احمد را جیکی عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال قادیان حضرت اماں جان کی وفات کے ناقابل تلافی نقصان نے تمام جماعت احمدیہ کو یتیم کر دیا ہے.میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.حمید عاجز.مرز ابرکت علی صاحب آف ایران از قادیان حضرت اماں جان کی وفات پر میں اپنی اور اپنے خاندان کی طرف سے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں.برکت علی.سردار جواہر سنگھ صاحب بز از قادیان حضرت اماں جان کی افسوسناک وفات پر میں گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں.جواہر سنگھ.صاحبزادہ مرز او سیم احمد صاحب از لکھنو حضرت اماں جان کی وفات کی خبر سن کر انتہائی صدمہ ہوا.انا للہ وانا الیہ راجعون.خدا تعالیٰ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کی مددفرمائے.مرزا وسیم احمد.
امیر جماعت احمد یہ دہلی 57 حضرت اماں جان کی وفات کی خبر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ سنی گئی.جماعت احمد یہ دہلی اس قومی نقصان میں تمام جماعت کی شریک ہے.امیر جماعت احمد یہ دہلی.پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ بمبئی حضرت اماں جان کی وفات سے بے حد رنج ہوا.خدا تعالیٰ اماں جان پر اپنے دائگی افضال ونعماء کی بارش برسائے.پریذیڈنٹ.پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمد یہ بنگلور حضرت اماں جان کی وفات پر ہماری اور جماعت کی طرف سے دلی ہمدردی قبول فرمائیں.ریڈیو پاکستان کی تدفین پر نشر کردہ اطلاع لاہور ۲۲۰ را پریل (۱۹۵۲ء): آج شام کو ۵ بج کر بیس منٹ پر ریڈیو پاکستان لاہور نے سيدة النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسد اطہر کی تدفین اور نماز جنازہ کے متعلق حسب ذیل الفاظ میں خبر نشر کی : " آج ربوہ میں سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو سپردخاک کر دیا گیا.ان کی وفات کل (۲۰ اپریل بروز اتوار ) ربوہ میں ہوئی تھی.ایک بڑے مجمع نے جنازہ میں شرکت کی.نماز جنازہ ان کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھائی.آپ سلسلہ احمدیہ کے موجودہ امام ہیں.۱۲۴ وصال کی خبر اخبارات و جرائد میں قومی ذرائع ابلاغ نے حضرت سیدہ اماں جان رضی اللہ عنہا کی وفات کی اطلاعات شائع کیں.بعض اخبارات کی خبریں خاص طور پر قابل ذکر ہیں.
58 60 وو ۲.روز نامہ احسان لاہور نے ۲۴ /اپریل ۱۹۵۲ء کو لکھا : مرزا غلام احمد کی بیوہ ربوہ میں دفن کر دی گئیں لا ہور ۲۲ اپریل.بانی ، جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد کی اہلیہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں انتقال کیا تھا.( نامہ نگار ) روزنامہ آفاق لا ہور ( مورخہ ۲۴.اپریل ۱۹۵۲ء) کی خبر : بانی احمدیت کی بیوہ کا انتقال ۳.لا ہو ر ۲۲ - اپریل - مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیت کی بیوہ نصرت جہاں بیگم کا پرسوں شب ۸۶ برس کی عمر میں انتقال ہو گیا.نصرت جہاں بیگم احمدی فرقہ کے موجودہ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی والدہ تھیں.ان کی تدفین آج ربوہ میں ہوگئی.(ا.پ) روزنامہ ” خاتون لاہور نے ۲۴.اپریل ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں بعنوان ”مرزا بشیر الدین کی والدہ کا انتقال “ لکھا: و لا ہو ر ۲۲ را پریل.بانی سلسلہ احمدیہ (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی اہلیہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.آپ نے اتوار کی شب کور بوہ ہی میں وفات پائی تھی.نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی.“
۴.59 59 روز نامہ امروز لاہور ( ۲۴.اپریل ۱۹۵۲ء) کے نامہ نگار نے لکھا: بانی جماعت احمدیہ کی زوجہ محترمہ سپردخاک کر دی گئیں لا ہور ۲۲ را پریل.مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو جواتوار کی شب وفات پاگئی تھیں آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کر دیا گیا.نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی ، جس میں ہزار ہا افراد نے شرکت کی.مرحومہ کو احمد یہ جماعت میں کافی بلند مقام حاصل تھا.مقاصد کی تکمیل میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک سرگرم عمل رہیں.“ اخبار دی سول اینڈ ملٹری گزٹ (۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء) کی خبر کا متن یہ تھا: MIRZA GHULAM AHMAD'S WIDOW LAID TO REST ( From a Correspondent) Rabwah, April 22.The body of Sayyeda Nusrat Jahan Begum.Widow of Late Mirza Ghulam Ahmad, founder of the Ahmadiyya Movement who breathed her last on sunday night was laid to rest this morning at Rabwah.The funeral prayer was led by her oldest son, Mirza Bashir ud-Din Mahmud Ahmad, the present Head of the community and was attended by several thousand people from all classes of society.Besides members of the Ahmadiyya community from various parts of the country, a large number of the general public reached to join the Rabwah funeral
60 The deceased lady was held in high esteem in the Ahmadiyya community for her association for over half a century with the work of her husband, the founder of the Ahmadiyya Movement.Condolence messages are pouring in from all parts of pakistan, India and the world including Indonesia, the Middle East, Europe and America where the followers of the movement are spread." ( ترجمہ ) ( حضرت ) مرزا غلام احمد (صاحب) کی بیوہ کو سپرد خاک کر دیا گیا ربوه ۲۲ اپریل.سیدہ نصرت جہاں بیگم جو مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کی بیوہ تھیں گذشتہ اتوار کی رات کو وفات پاگئیں اور آج صبح انہیں ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا..آپ کی نماز جنازہ اُن کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد جو کہ جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں نے پڑھائی اور جنازہ میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد نے شرکت کی.ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے ممبران کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کے لئے ربوہ پہنچے.مرحومہ کا اپنے شوہر محترم کے - کام کے ساتھ نصف صدی سے زائد تعلق کی وجہ سے بہت بلند مقام تھا.پاک و ہند کے ہر حصے سے اور دنیا کے دیگر ممالک مثلاً انڈونیشیا ، شرق اوسط، یورپ اور امریکہ سے جہاں جہاں بھی جماعت کے ممبران موجود ہیں تعزیتی پیغامات موصول ہورہے ہیں.اخبار دی پاکستان ٹائمنز (۲۳ را پریل ۱۹۵۲ء) نے حسب ذیل الفاظ میں خبر دی: BEGUM MIRZA GHULAM AHMAD LAID TO REST The body of Sayyeda Nusrat Jahab Begum, the consort of late Mirza Ghulam Ahmad the Founder of the Ahmadiyya Movement,
61 whose sad demise took place on Sunday night, was laid to rest on Tuesday morning at Rabwah.The funeral prayer was led by her oldest son, Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, the present Head of the community and was attended by several thousand people belonging to all classes of society.Not only devoted members of the Ahmadiyya Community from various parts of the country floeked to the headquarter also a large number of well-wishers and relations joined the burial.(ترجمه) بیگم ( حضرت ) مرزا غلام احمد (صاحب) کو سپر د خاک کر دیا گیا سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ زوجہ محترمہ مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کو جو اتوار کی شب کو فوت ہوگئی تھیں منگل کی صبح ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.نماز جنازہ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی جس میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد شریک ہوئے.تجہیز و تکفین کی رسومات میں شریک ہونے کے لئے نہ صرف جماعت احمدیہ کے مخلصین ہی تشریف لائے بلکہ دوسرے خیر خواہان اور متعلقین بھی کثیر تعداد میں حاضر ہوئے.۱۲
62 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے بعض رؤیا وکشوف حضرت خلیفہ مسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے سفر سندھ سے قبل حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے بارہ میں بعض رؤیا و کشوف دیکھے تھے.جو آپ نے ۱۹ار جون ۱۹۵۲ء کو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے وصال کے موقع پر ایک مجلس میں ارشاد فرمائے.حضور نے فرمایا: (1) فرمایا: سندھ جانے سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ: ” میری ایک داڑھ گر گئی ہے مگر وہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں اسے دیکھ کر تعجب کرتا ہوں کہ وہ اتنی بڑی جسامت کی ہے کہ دو بڑی داڑھوں کے برابر معلوم ہوتی ہے.میں خواب میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ اتنی بڑی داڑھ ہے اسے دیکھتے دیکھتے میری آنکھ کھل گئی.“ چونکہ داڑھ کے گرنے کی تعبیر کسی بزرگ کی وفات ہوتی ہے اور چونکہ منذ رخوابوں کا بیان کرنا منع 66 ہے میں نے یہ رویا بیان نہیں کی لیکن جب سندھ کے سفر میں حضرت اُم المومنین کی بیماری کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو اس رویاء کی وجہ سے مجھے زیادہ تشویش ہوئی اور گوا ابتداء ان کی بیماری کی خبریں ایسی تشویش ناک نہیں تھیں لیکن اس رویا کی وجہ سے چونکہ مجھے تشویش تھی میں نے انتظام کیا کہ روزانہ ان کی بیماری کے متعلق نظارت علیا کی طرف سے بھی اور میرے گھر کی طرف سے بھی الگ الگ تاریں پہنچ جایا کریں.چنانچہ آخر میں وہی بات ثابت ہوئی کہ وہ مرض جسے پہلے معمولی ملیر یا سمجھا گیا تھا آخر ان کے لئے مہلک ثابت ہوا.خواب میں جو داڑھ کو دو داڑھوں کے برابر دکھایا گیا ہے اس سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام المومنین ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی قائم مقام تھیں اور اپنی بھی قائم مقام تھیں اور گو بظاہر وہ ایک نظر آتی تھیں لیکن درحقیقت ان کا وجود دو کا قائمقام تھا.اللہ تعالیٰ اس خلا کو جو پیدا ہو گیا ہے اسے اپنی رحمت اور فضل سے پُر کرے.
99 63 (٢) انہی ایام میں یا سندھ کے دنوں میں میں نے رویا دیکھا کہ : میں ہندوستان گیا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی جماعتوں نے ہندوستان کی حکومت سے مل کر کوئی انتظام کیا ہوا ہے کہ مجھے چند دن کے لئے آنے کی اجازت دیں.جہاں میں گیا ہوں وہ قادیان نہیں ہے بلکہ وسط ہند کی کوئی جگہ ہے.میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے میرے آنے کی اجازت لینی ہی تھی تو قادیان میں لیتے.میرے پوچھنے پر مجھے بتایا گیا کہ اس انتظام کی دو وجہیں ہیں.ایک تو یہ کہ یہ مرکزی جگہ ہے.ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے لوگ یہاں آکر مل سکیں گے.اس بات کو سن کر مجھے خاص خوشی ہوئی اور فور اخیال آیا کہ برادرم سیٹھ عبداللہ بھائی کو ملے ہوئے مدت ہوئی وہ یہاں آکر ملاقات کرسکیں گے.دوسری بات انہوں نے یہ بتائی کہ اس ضلع کا یا اس شہر کا افسر کوئی احمدی ہے یعنی ڈپٹی کمشنر یا سٹی مجسٹریٹ یا پولیس کا افسر یعنی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ یا سپرنٹنڈنٹ پولیس.پس شہر یا ضلع کے افسر کے احمدی ہونے کی وجہ سے انتظام میں زیادہ سہولت رہے گی.جس جگہ پر ہمیں ٹھہرایا گیا ہے وہ بہت بڑی عمارت معلوم ہوتی ہے.بہت بڑے بڑے ہال ہیں.چنانچہ میں ایک چھت پر ہوں اور اردگرد بہت سے دوست ہیں.چھت ایک وسیع میدان کی طرح نظر آرہی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں آدمیوں کے ٹھہرانے کے خیال سے وہ مکان لیا گیا ہے.وہ احمدی افسر جو اس جگہ پر ہیں وہ بھی مجھے نظر آئے اور میں نے ان سے باتیں کیں.قدان کا چھوٹا ہے جسم موٹا تو نہیں لیکن گدرا ہے.مگر ان کے سر پر پگڑی ہندووانہ طرز کی ہے جیسے مرہٹوں یا مارواڑیوں کی ہوتی ہے.میں اس وقت دل میں تکلیف محسوس کرتا ہوں کہ یہاں مسلمانوں کو تکلیفوں سے بچنے کے لئے اپنے لباس بھی بدلنے پڑے ہیں.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.“ یہ رویا غالبا سندھ سے واپس آنے کے بعد دیکھی تھی بلکہ شاید رمضان کے شروع کی یا اس کے قریب کی رؤیا ہے.
99 64 (۳) میں نے دیکھا کہ ہم قادیان میں صرف چند گھنٹوں کے لئے گئے ہیں پھر ہم نے واپس آنا ہے.میں گھر سے باہر دوستوں سے ملاقات کر کے جلدی سے اندر آیا ہوں تا کہ ہم روانہ ہو جائیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں ریل نہیں بلکہ وہی پرانا زمانہ ہے جب بٹالہ سے ریل پر سوار ہونا پڑتا تھا.میں جب اُس مکان کے پاس پہنچا.جس کو گول کمرہ کہتے ہیں.اور جو موجودہ دفتر سے پہلے میرا دفتر ہوا کرتا تھا.تو میں نے دیکھا کہ وہاں کمرے کے پاس کی کوٹھڑی میں چھوٹی چھوٹی چوکیاں لگی ہوئی ہیں.اور اُن پر چائے کا سامان کیک اور پیٹریاں وغیرہ پر تکلف سامان پڑا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ یہاں ہمارے گھر کے لوگوں کو ناشتہ کروایا گیا ہے.مگر میں نے وہاں آدمی کوئی نہیں دیکھا.کھانے کی چیزیں بہت سی پڑی ہیں.لیکن پیالیاں وغیرہ مستعمل معلوم ہوتی ہیں.جیسا کہ لوگ ناشتہ کر چکے ہیں.میں فوراً اُس کمرہ سے نکل کر مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر چڑھ کر گھر میں گیا ہوں.وہاں جا کر میں نے سب لوگوں سے کہا کہ دیر ہوگئی ہے.دو کہے کہ تین کہے کہ اتنے بج گئے ہیں.بٹالہ میں ہم نے جا کر گاڑی پر سوار ہونا ہے اور تم لوگ دیر کر رہے ہو.اس پر انہوں نے تیاری شروع کی.میں نے اُن سے پوچھا.کہ کیا جانے کے لئے سواریوں کا بھی انتظام ہے.انہوں نے جواب دیا کہ چھ تھیں ہم نے تیار کی ہیں.میں نے کہا.کہ رتھ تو تین سے پانچ گھنٹے تک پہنچتی ہے.اس سواری پر تو رات ہو جائے گی.مگر انہوں نے کہا.کہ یہی رکھیں ہماری پرانی موجود تھیں.انہیں میں ہم نے انتظام کیا ہے.گویا خواب میں میں سمجھتا ہوں.کہ جب ہم قادیان میں ہوتے تھے.تو ہماری بہت سی رتھیں ہوتی تھیں.گو ظاہر میں ایسا نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت ایک رتھ ہمارے گھر میں تھی.بعد میں وہ بھی فروخت کر دی گئی تھی.(ل) ۲۲ ۲۳ اپریل (۱۹۵۲ء) کی شب کو میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہال ہے.اُس میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی چار پائی ہے.ہال کے درمیان میں یعنی اُس کی دیواروں
65 سے ہٹ کر چار پائی رکھی ہوئی ہے پائنتی کی طرف میاں بشیر احمد صاحب بیٹھے ہیں اور سامنے فرش پر کچھ اور عورتیں بیٹھی ہیں.میں کمرے میں داخل ہوا.تو میں نے دیکھا کہ اُن کی طبیعت اچھی معلوم ہوتی ہے.بیماری نہیں صرف ضعف ہے.اس لئے وہ لیٹی ہوئی ہیں.اور اوپر کمبل اوڑھا ہوا ہے.میں جب داخل ہوا تو کسی شخص نے جو نظر نہیں آتا.کہ وہ کون ہے یا کوئی فرشتہ یا روح ہے.آپ کو مخاطب کر کے اور میری طرف اشارہ کر کے یہ الفاظ کہے کہ آپ کو ایک ایسا بیٹا ملا ہے جو روحانی آسمان پر ستارہ بن کر چمک رہا ہے.کہ کوئی ایسا کیا چپکے گا.“ اس کے بعد حضرت اُم المومنین میری طرف مخاطب ہوئیں اور کہا بس.بس کے لفظ کے آگے انہوں نے کچھ نہیں کہا.لیکن اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ بس کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے.ایک بات کے خاتمہ پر اور ایک بات کے ابتداء میں.تو وہ بس جو انہوں نے استعمال کیا ہے.وہ بات کے خاتمہ کا نہیں.جیسے کہتے ہیں ”بس بات تو یہ ہے کہ اس بس کے معنی خلاصہ کلام کے ہوتے ہیں.خاتمہ ء کلام کے نہیں ہوتے.تو میں ذہن میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ بس خلاصہ ء کلام کے معنوں میں ہے.خاتمہ کلام کے معنوں میں نہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.آجکل احرار وغیرہ چونکہ شور مچاتے رہتے ہیں.ممکن ہے کہ اس رؤیا کو بھی کوئی غلط رنگ دے کر وہ لوگوں کے سامنے پیش کریں.اس لئے میں ایسے بے دینوں کے لئے نہیں کیونکہ اُن کے اندر سے حیا اور شرم بالکل جاتی رہی ہے.بلکہ صرف شریف لوگوں کے لئے کہتا ہوں.کہ یہ جو الفاظ ہیں کہ کوئی ایسا کیا چمکے گا.اس میں ستاروں کی طرف اشارہ ہے.کوئی خبیث الفطرت آدمی اس کو محمد رسول اللہ لا اللہ کی طرف منسوب کر کے اس کے غلط معنے نہ لے لے.محمد رسول اللہ علی اللہ کا نام قرآن کریم میں سورج آتا ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع آگے ستارے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس رویا میں یہ خبر دی ہے کہ اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کے اتباع میں سے جو نور اور روشنی مجھے ملی ہے وہ کسی اور کو نہیں ملی.اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص مدعی ہے تو وہ آگے آئے اور بتائے کہ اس کو اسلام کی خدمت اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے کیا تو فیق ملی اور اس کے ذریعے کتنے آدمی اسلام میں داخل ہوئے.اگر کوئی اس بات کو ثابت کر دے تو بیشک اس کا دعوی سچا ہوگا.ورنہ اس کو ماننا پڑے گا کہ اس زمانہ میں اسلام کی
66 اشاعت اور اس کی خدمت کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ہی وجود کو مخصوص کیا ہوا ہے.اور میرے مقابلہ میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا.وذالك فضل الله يؤتيه من يشاء! ۱ افضل لاہور ۴ را پریل ۱۹۵۲ء ۱۳ الفضل لاہور ۱۸ / اپریل ۱۹۵۲ ۵ الفضل لا ہور ۲۱ را پریل ۱۹۵۲ء الفضل لا ہور ۱۳ مئی ۱۹۵۲ء ماہنامہ مصباح ربوہ مئی جون ۱۹۵۲ صفحه ۱۱۸ الفضل لا ہو ر ۲۴ را پریل ۱۹۵۲ء ۱۳ الفضل لاہور ۹ جولائی ۱۹۵۲ء حوالہ جات الفضل لا ہور ۸/اپریل ۱۹۵۲ء به مصباح ربوہ مئی جون ۱۹۵۲ ، صفحہ ۱۲-۱۷ الفضل لا ہور ۲۳ را پریل ۱۹۵۲، صفحه ۲-۱ الفضل لاہور ۴ رمئی ۱۹۵۲ء صفحه ۲ ۱۰ الفضل لاہور ۳ رمئی ۱۹۵۲ ، صفحه ۲ ۱۲ افضل لاہور ۲۳ را پریل ۱۹۵۲ء
67 ــاب سـ سیرت و شمائل
68 سیرت و شمائل از تحریرات...سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ย......حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.....حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ☆ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب......حضرت مولانا عبدالرحمن جٹ صاحب...حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ☆ حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب حضرت مولانا قدرت اللہ صاحب سنوری.....بیگم صاحبہ میاں عبدالمنان عمر صاحب......محترم احمد الدین صاحب ☆ حضرت سیدہ نعیمہ صاحبہ بنت حضرت سید میر حامد شاہ صاحب والدہ صاحبہ سید اعجاز احمد شاہ صاحب حضرت سکینۃ النساء صاحبہ محتر مہ امتہ السلام تبسم صاحبہ محترم خواجہ غلام نبی صاحب محترم چوہدری محمد شریف صاحب
69 يا أخمد اسكن أنت وزوجك الجنة خدا تعالیٰ نے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کو ہجرت پاکستان میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ رکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ایک اور مشابہت پوری کر دی.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا فرمودہ ذکر خیر بر موقعہ جلسہ سالانہ ۲۷/دسمبر ۱۹۵۲ء.سید نا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سال احمدیت کی تاریخ کا بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے.اور وہ ہے حضرت اُم المومنین کی وفات.ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان ایک زنجیر کی طرح تھا.اولاد کے ذریعے بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے.مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے.اولا دکو ہم ایک درخت کا پھول تو کہہ سکتے ہیں.مگر اسے اس درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جاسکتا.پس حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں.اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہو گیا.پھر حضرت اُم المومنین کے وجود کی اہمیت عام حالات سے بھی زیادہ تھی.کیونکہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے قبل از وقت بشارتیں اور خبریں دیں.چنانچہ انجیل میں آنے والے مسیح کو آدم کہا گیا ہے.اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ جس رنگ میں حوا آدم کی شریک کا رتھی.اسی طرح مسیح موعود کی بیوی بھی اس کی شریک کار ہوگی.پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے.کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی.اب شادی تو ہر نبی کرتا ہے.صاف ظاہر ہے کہ اس خبر میں یہی اشارہ تھا.کہ اس کی بیوی کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ اس کے کام میں اس کی شریک ہوگی.اسی طرح دتی میں ایک مشہور بزرگ خواجہ میر ناصر گزرے ہیں.ان کے متعلق آتا ہے کہ ان کے پاس کشف میں حضرت امام حسن تشریف لائے.اور انہوں نے ایک روحانیت کی خلعت دیتے ہوئے فرمایا.کہ یہ تحفہ ایسا ہے.جس میں تم مخصوص ہو.اس کی ابتداء تم سے کی جاتی ہے اور اس کا
70 خاتمہ مہدی کے ظہور پر ہو گا.چنانچہ یہ کشف اس طرح پورا ہوا.کہ آپ کی ہی اولاد میں سے حضرت اُم المومنین کا وجود پیدا ہوا.یہ کشف خواجہ ناصر نذیر فراق کے بیٹے خواجہ ناصر خلیق نے اپنی کتاب ” میخانہ میں درج کیا ہے.ایک شبہ کا ازالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعدد الہامات کا بھی حضور نے ذکر فرمایا.جن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اُم المومنین کی فضیلت کا ذکر کیا ہے.ان میں سے ایک یہ تھا: يَا أَحْمَدُ اسْكُنُ أَنْتَ وَ زَوْجَكَ الْجَنَّةَ حضور نے اس الہام کے متعلق فرمایا.اس سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اس میں تو حضرت مسیح موعود اور حضرت اُم المومنین دونوں کے اکٹھے جنت میں رہنے کی خبر ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں دفن ہوئے.اور حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا یہاں دفن ہیں.سو اس شبہ کا پہلا جواب تو یہ ہے.کہ مختلف مقامات میں فوت ہونے والے اور دفن ہونے والے جنت میں اکٹھے ہی ہوتے ہیں.اور دوسرا جواب یہ ہے.کہ اس میں یہی تو پیشگوئی ہے.کہ گو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کسی اور جگہ دفن ہوں گی.مگر اے مومنو! تسلی رکھو.کہ ہم انہیں ضرور واپس قادیان لے جائیں گے اور وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس وہ دفن ہوں گی.پس اس میں تو قادیان کی واپسی کی بھی خبر ہے.اور مومنوں کو امید دلائی گئی ہے کہ تم ضرور وہاں جاؤ گے.پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مثیل قرار دیا ہے.گو مامور نہ ہونے کی وجہ سے میں کبھی اس پر زور نہیں دیتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہجرت میں میرے ساتھ رکھ کر مسیح کے ساتھ میری ایک اور مماثلت نمایاں کر دی.اور وہ یہ کہ جس طرح مسیح اول کی ہجرت کے وقت ان کی والدہ ان کے ہمراہ تھی.اسی طرح مسیح ثانی کے مثیل کے ساتھ اس کی والدہ کو بھی ہجرت کرنا پڑی.حضور نے فرمایا.حضرت اُم المومنین کے جنت میں رہنے کے الہام سے یہ بھی ثابت ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مدفن مقبرہ بہشتی ہے.اسی طرح حضرت ام المومنین کا مدفن بھی یقینی طور پر مقبرہ
71 بہشتی ہے.پس آج بلا کم و کاست ربوہ کے اس قبرستان کو بھی وہی پوزیشن حاصل ہے.جو قادیان کے مقبرہ بہشتی کو حاصل ہے.اگر یہ کہا جائے.کہ جب حضرت اُم المومنین کا جسدِ اطہر قادیان میں منتقل ہو جائے گا.تو پھر ربوہ مقدس مقام رہے گا یا نہیں.سو اس کا جواب یہ ہے کہ جو مقام ایک دفعہ مقدس ہو جاتا ہے.وہ ہمیشہ مقدس رہتا ہے.اس مقدس مقام کے لوگ کسی وقت غیر مقدس ہو سکتے ہیں مگر اس مقام کا تقدس بہر حال قائم رہتا ہے.ربوہ کی تعمیر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل ہے تعمیر ربوہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ربوہ کی تعمیر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل اور احسان ہے درحقیقت پاکستان اور ہندوستان میں یہ واحد مثال ہے کہ اتنی جلدی ایک اکھڑی ہوئی قوم ایک مرکز اور ایک مقام میں جمع ہوگئی.آج مخالف ربوہ کی تعمیر پر اعتراض کرتے ہیں.لیکن یہ لوگ اس وقت کہاں تھے.جب حکومت اس زمین کی خریداری کے متعلق اعلان کر رہی تھی ؟ چلو اس وقت کو جانے دو.آج بھی اس سے سینکڑوں ہزاروں گنا زمین خالی پڑی ہے.ہمارے مخالف یہ زمین لے کر اسے آباد کر کے دکھا دیں.مگر زمین انہیں شرائط پر لیں.جن پر ہم نے حاصل کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ آبادی روپے کے زور سے یا اور مادی اسباب کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ آبادی ان گڈری پوشوں اور ان کھدر پوشوں کی وجہ سے ہوئی ہے.جن کے دل ایمان سے منور تھے.یہ ایمان اگر تمہیں حاصل ہو جائے.تو ایک کیا کروڑ ر بوہ بھی تم آباد کر سکتے ہو.لیکن اگر یہ ایمان نصیب نہیں ہوتا تو تم خواہ ہزار سال تک شور مچاتے رہو.تم ایک ربوہ بھی آباد نہیں کر سکتے.یہ آبادی ایسے حالات میں ہوئی ہے جبکہ ہم ہر طرح کی مشکلات سے دوچار تھے.تعمیر کے لئے لکڑی نہیں ملتی.اینٹیں نہیں ملتیں.اسی طرح باقی سامان بھی بمشکل دستیاب ہوتا ہے.لیکن باوجود اس کو تاہ دامنی کے آج سڑک پر ایک بڑا شہر آباد ہوتا ہوا نظر آتا ہے.حقیقت یہ ہے.کہ جو کچھ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے ہوا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں اسی کی دین ہیں.محض حسد اور بغض اور کینہ سے کیا بنتا ہے.ہمارے مخالف اگر ربوہ کی طرح شہر آباد کرنا چاہتے ہیں.تو ہماری طرح خدا کے سامنے سجدوں میں گر جائیں.بچے دل سے گڑ گڑا ئیں.اور اسی سے مدد مانگیں.اور دعا کریں.کہ الہی
72 ہماری مددفرما.پھر دیکھیں کہ کس طرح وہ ایک چھوڑ کئی ربوہ آباد کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں.حضرت اماں جان کا بلند مقام و مرتبہ سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے اس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا.والدہ سے اس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت ام المومنین کی عظمت تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی دُہری عزت میرے قلب میں موجود ہے.اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت آپ پر کچھ قرض تھا.آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کر دو بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرض کو ادا کر دیا.میں اس وقت بچہ تھا اور میرے لئے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ تھا مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا.
73 مسیح موعود سے محبت کرنے والا بہترین ساتھی بلند اخلاق، بلند اقبال اور بلند توکل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.فرماتے ہیں: (نوٹ: یہ مضمون اس جلسہ میں سنایا گیا جو مجلس خدام الاحمدیہ گول بازارر بوہ کے زیر اہتمام مورخہ ۲۰ را پریل ۱۹۵۹ء کو حضرت سیدہ اُم المومنین نور اللہ مرقدہا کی سیرت واخلاق کے موضوع پر منعقد ہوا.) حضرت اماں جان اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات کو آج پورے سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے.اس عرصہ میں خاکسار نے کئی دفعہ ان کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ جذبات سے مغلوب ہو کر اس ارادہ کو ترک کرنا پڑا.لیکن آج خدام الاحمدیہ گول بازار ربوہ کے احباب کی تحریک پر ذیل کی چند مختصر سطور لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں.والــــــــه الــمــوفــق وهوا المستعان - حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کی بلند سیرت اور بلند ا قبال کے متعلق غالبا سب سے زیادہ جامع اور سب سے زیادہ مختصر کلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا یعنی : اذْكُرْ نِعْمَتِي رَاثَيْتُ خَدِيجَتِي یعنی اے خدا کے برگزیدہ میسیج تو میری اس نعمت کو یاد کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا ہے.ان مختصر الفاظ میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بلند اخلاقی اور بلند اقبالی کے کئی زبر دست پہلو بیان کئے گئے ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس الہام میں آپ کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے ” میری نعمت کے شاندار الفاظ سے یاد کیا ہے.جس سے مراد یہ ہے کہ آپ کا وجود ایک عام نعمت ہی نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کی خاص نعمت ہے جیسا کہ ”میری“ کے لفظ میں اشارہ ہے.پھر اس کے ساتھ اُڈ گر کا لفظ بڑھا کر یہ بتایا گیا ہے.کہ یہ ایک ایسی نعمت ہے.جو یا د ر کھنے کے قابل ہے
74 وو اور بھلانے والی نہیں.اور بالآخر ” خدیجہ" کا لفظ فرما کر اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ حضرت اماں جان کا وجود اپنی برکات اور افضال کے لحاظ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مثیل ہے.اور خدیجہ کے ساتھ پھر دوبارہ ” میری“ کا لفظ بڑھا کر اپنی غیر معمولی محبت اور حضرت اماں جان کے غیر معمولی قرب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ شان ہے.کہ وہ نہ صرف اپنی ذاتی خوبیوں میں نہایت بلند مرتبہ رکھتی تھیں اور آنحضرت ﷺ کی بے حد جاں نثار اور وفا دار اور خدمت گزار اور رفیق کار اور سمجھدار زوجہ تھیں.جنہوں نے ہر تنگی اور ترشی میں آپ کا ساتھ دیا اور ابتدائی گھبراہٹ کی گھڑیوں میں بینظیر طریق پر کی دلداری اور ہمت افزائی فرمائی بلکہ یہی وہ اکیلی مقدس زوجہ محترمہ تھیں.جن سے آپ کی مبارک نسل کا سلسلہ چلا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین کے متعلق بھی اپنے آمین والے اشعار میں نسلِ سیّدہ کے الفاظ فرما کر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے.بلکہ حدیث میں جو الفاظ خود آنحضرت علیہ نے آنے والے مسیح کے متعلق يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ کے فرمائے ہیں ( یعنی مسیح شادی کرے گا اور اس کے اولاد ہوگی ) ان میں بھی درحقیقت اسی نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.آپ کا امتیاز حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کی شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی.اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی مجد دیت کا اعلان فرمایا تھا.اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہء حیات رہیں.اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہا درجہ محبت اور انتہا درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے.اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے تحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے.چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے
75 کہا کرتی تھیں.کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے.جس پر حضرت مسیح موعود ہنس کر فرماتے تھے.کہ ”ہاں یہ ٹھیک ہے.“ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کر نا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونہ چار باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں.آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلونماز اور نوافل میں شغف تھا.پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق اکثر نو جوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے.مهمان نوازی مہمان نوازی بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ اپنے گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے.اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں.تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا.کہ کھانا کھا کر واپس جاؤ چنانچہ اکثر اوقات زبر دستی روک لیتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے.عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں.جب آخری عمر میں زیادہ کمزور ہو گئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور کھانے کا انتظام کردے.وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہو چکی تھیں.اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں حضرت اماں جان کے پاس ان کی
76 عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں.میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف سے حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں.چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے.اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کو کہا تھا.آپ میں بے حد محنت کی عادت تھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں.میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بار ہا کھانا پکاتے.چرخا کاتے.نواڑ بنتے.بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے.بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہوکر صفائی کرواتی تھیں.اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں.مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی احمدی عورت کے متعلق یہ منتیں کہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب وا میر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی.ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں.اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں.اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا.تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں.اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا.بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت پاتی تھیں.تقومی ، توکل اور دینداری مگر غالباً حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے تقویٰ اور تو کل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کاسب سے زیادہ شاندار مظاہرہ ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پا کر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ حضرت ام المومنین علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی -
77 گریہ وزاری اور سوز گداز سے یہ دعا فرمارہی ہیں کہ خدا یا اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما.جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کر رہی تھی اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سوکن آتی ہے؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا.خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں.میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو.دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہر اور کس تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتہ قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جارہا ہے !!! پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی (اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے) اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت اماں جان نَوَّرَ اللهُ مَرْقَدَهَا وَرَفَعَهَا فِي أَعْلَى عِلَّتِین آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہوکر فرمایا: خدایا یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں.مگر تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑیے گا.اللہ اللہ ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی ایسا جو گویا ظاہر لحاظ سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا تو کل اور ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے.یہ اسی قسم کے تو کل اور اسی قسم کے ایمان کا نمونہ ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ ( فداہ نفسی ) کی وفات پر فرمایا: أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللهَ حَلٌّ لَّا يَمُوت.یعنی اے مسلمانو! سنو کہ جو شخص اللہ کی پرستش کرتا تھاوہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.بس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہتا بلکہ کچھ نہیں کہہ سکتا.وَاخِرُدَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - وَاللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِك وَسَلِّمُ خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۲۰ اپریل ۱۹۵۹ء ۳
78 حضرت اماں جان بلند اخلاق، اعلیٰ روحانیت اور غیر معمولی مقام توکل (نوٹ : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے جلسہ سیرۃ حضرت اُم المومنین کے لئے ایک مضمون رقم فرمایا تھا.اپریل ۱۹۵۲ء میں ربوہ میں جلسہ کے موقع پر پڑھا گیا.ذیل کا مضمون اس مضمون سے قدرے مختلف ہے.جو آپ کی تصنیف ”سیرۃ طیبہ میں بطور ضمیمہ شائع ہوا.مرتب.) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رقم فرماتے ہیں: کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک مختصر سا نوٹ حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ کے بلند اخلاق اور بلند مقام تو کل پر لکھا تھا.سو اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ طیبہ پر ایک رسالہ چھپ رہا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختصر سا نوٹ بھی ضمیمہ کے طور پر اس کے ساتھ شامل کر دیا جائے تا کہ جس طرح دنیا میں یہ بزرگ ہستیاں ایک دوسرے کی رفیق حیات تھیں اسی طرح اس ذکر خیر میں بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور میرے دل و دماغ بھی اس معنوی رفات سے سکون و راحت پائیں.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا، اپریل ۱۹۵۲ء میں فوت ہوئی تھیں.اس عرصہ میں مجھے کئی دفعہ اُن کی سیرۃ کے متعلق کچھ لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر ہر دفعہ جذبات سے مغلوب ہوکر اس ارادہ کو ترک کرنا پڑا.اب بعض احباب کی تحریک پر ذیل کی چند سطور لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں.وَاللهُ الْمُوَفِّقُ وَالْمُسْتَعَانُ آپ کی شادی خاص الہی تحریک کے ماتحت ہوئی حضرت اماں جان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اُن کی شادی خاص المی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی.اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی
79 12 اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی مجددیت کا مغفوره اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ء ماموریت میں حضرت اماں جان مرحومہ من حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ ء حیات رہیں.اور حضرت مسیح موعود اُنہیں انتہاء درجہ محبت اور انتہاء درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبر دست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے.چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعود مسکرا کر فرماتے تھے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے.دوسری طرف حضرت اماں جان بھی حضرت مسیح موعود کے متعلق کامل محبت اور کامل یگانگت کے مقام پر فائز تھیں اور گھر میں یوں نظر آتا تھا کہ گویا دوسینوں میں ایک دل کام کر رہا ہے.آپ کی دینداری کا مقدم ترین پہلونماز اور نوافل میں شغف تھا حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونہ چند باتوں کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں.آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلونماز اور نوافل میں شغف تھا.پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق وشوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی.بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں.میں پوری بصیرت کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ (فدا نفسی ) کی یہ پیاری کیفیت کہ جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوةِ یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے.حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی.
دعاؤں میں بے حد شغف تھا 80 60 پھر دعا میں بھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا.اپنی اولا د اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے در دوسوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی.اولاد کے متعلق حضرت اماں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعود نے حضرت اماں جان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اُن کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سے فرمائے.خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ عرض کرتے ہیں: کوئی ضائع نہیں ہوتا جو ترا طالب ہے کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا آسماں پر سے سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں کوئی ہو جائے اگر بندہ فرماں تیرا اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں وہ جو اک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے دیکھ لیں آنکھ ނ وہ چہرہ نمایاں تیرا عمر دے رزق دے اور عافیت و صحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ حضرت اماں جان کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ: يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ یعنی اے میرے زندہ خدا اور اے میرے زندگی بخش آقا !میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں.یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فر مایا ہے کہ:
81 تری رحمت ہے میرے مری جاں تیرے فضلوں کی جماعتی چندوں میں شوق سے حصہ لیتیں کا شہر گیر جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بڑے ذوق وشوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں.تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اُس کے اعلان کیلئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلا توقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کر دیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا اعتبار نہیں.وعدہ جب تک ادا نہ ہو جائے دل پر بوجھ رہتا ہے.دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق وشوق کا عالم تھا.غرباء پروری صدقہ و خیرات اور غریبوں کی امداد بھی حضرت اماں جان نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهَا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے.جو شخص بھی اُن کے پاس اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان اپنے مقدور سے بڑھ کر اُس کی امدا د فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا.اسی ذیل میں اُن کا یہ بھی طریق تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات اُن کے گھروں پر بھی کھانا بھجوا دیتی تھیں.ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے شخص (احمدی یا غیر احمدی، مسلم یا غیر مسلم ) کا علم ہے جو قرض کی وجہ سے قید بھگت رہا ہو ( اوائل زمانے میں ایسے Civil قیدی بھی ہوا کرتے تھے ) اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا میں اُس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کر سکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے.قرض مانگنے والوں کو فراخ دلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا
82 کوئی ایسا شخص تو نہیں تو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کیا کرتا.ایسے شخص کو قرض دینے سے پر ہیز کرتی تھیں تا کہ اس کی یہ بُری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے اُن سے کچھ قرض مانگا.اُس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھی.مُجھ سے فرمانےلگیں ”میاں ! ( وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں ) تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو.یہ عورت لین دین میں صاف ہے.چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دے دی اور پھر اس غریب عورت نے تنگ دستی کے باوجود عین وقت پر اپنا قرضہ واپس کر دیا جو آجکل کے اکثر نوجوانوں کے لئے قابلِ تقلید نمونہ ہے.یتا می گیری حضرت اماں جان نَوَّرَ اللهُ مَرْقَدَهَا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا.میں نے جب سے ہوش سنبھالا اُن کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کو پلتے دیکھا.اور وہ یتیموں کو نوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُن کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ اُن کے آرام و آسائش اور اُن کی تعلیم و تربیت اور ان کے واجبی اکرام اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں.اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے.بسا اوقات اپنے ہاتھ سے قیموں کی خدمت کرتی تھیں.مثلاً یتیم بچوں کو نہلا نا.اُن کے بالوں میں کنگھی کرنا.کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ.مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جان رسول پاک ﷺ کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی کہ أَنَا وَكَا فِلُ الْيَتِيمِ كَهَا تَيْنِ.یعنی قیامت کے دن میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں.مهمان نوازی مہمان نوازی بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا.اپنے عزیزوں اور
83 دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بُلاتی رہتی تھیں.اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو اُن کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں.خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ اپنے گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جاؤ.چنانچہ اکثر اوقات زبر دستی روک لیتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی اُن کی رُوح کی غذا ہے.عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے.اور اس صورت میں حشی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں.جب آخری عمر میں زیادہ کمزور ہوگئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کا انتظام کر دے.وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہو چکی تھیں اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو اُن دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس اُن کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں.میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف سے حضرت اماں جان کی خوشی اور اُن کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے اُس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے اُن کے کہنے پر آپ کو یہ دعوت دی تھی.بے حد محنتی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں.میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بار ہا کھانا پکاتے.چرخہ کاتے.نواڑ بنے.بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے.بعض اوقات خود بھنگنوں
84 کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں.گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلو کی بیل لگانے کا بھی شوق تھا اور عموماً انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں.عیادت مریض مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی احمدی عورت کے متعلق یہ سنتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت علیہ کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی.ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑ کتیں تھیں اور اُن کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں.اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں.اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مُبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا بلکہ حق یہ ہے کہ اُن کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینا ر تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں.میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات پوری ہو مگر غالباً حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام محبت کی غرض سے خدا سے علم پا کر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعود نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ وزاری اور سوز وگداز سے یہ دعا فرمارہی ہیں کہ خدا یا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما جب وہ دُعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کر رہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سوکن آتی ہے؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا: ”خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں میری خوشی اسی میں ہے کہ
85 خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو.“ دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کس تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیۂ قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جا رہا ہے ! اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ اُن کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اُس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پو را فر ما دیا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی (اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے) اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت اماں جان نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهَا وَرَفَعَهَا فِي أَعْلَى علتین آپ کی چار پائی کے قریب فرش پر آ کر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ : خدایا ! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑ یو.“ یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا.اور دل اس یقین سے پُر تھا کہ ایسا ہی ہوگا.اللہ اللہ ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گو یا ظاہری لحاظ سے اُن کی ساری قسمت کا بانی اور اُن کی تمام راحت کا مرکز تھا تو کل اور ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بیمثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے.مجھے اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویا فولادی نوعیت کا قول یاد آرہا ہے جو آپ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت علی (فِدَاهُ نَفْسِی ) کی وفات پر فرمایا کہ: أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَلٌّ لَّا يَمُوتُ.دو یعنی اے مسلمانو! اسنو کہ جو شخص محمد رسول اللہ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد ﷺ فوت ہو گئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اور اُس پر کبھی موت نہیں آئے گی.بس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا.وَاخِرُ دَعُونَا أَن الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - وَاللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِكُ وَسَلِّمُ خاکسار راقم آئم مرزا بشیر احمد ربوه
86 حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضھا کی نسل از حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے) تین چار روز ہوئے ایک دوست نے میرے سامنے حضرت ام المومنین ادام اللہ فیوضھا کی نسل کی فہرست پیش کر کے درخواست کی کہ اگر اس فہرست میں کوئی غلطی رہ گئی ہو.یا کوئی فروگزاشت ہوگئی ہوتو وہ درست کر دی جائے.میں نے اس فہرست کو دیکھ کر ضروری تصحیح کر دی.اس فہرست کی میزان ایک سو گیارہ تھی یعنی حضرت اُم المومنین نوراللہ مرقدھا کی نسل میں اس وقت جو افراد ( مرد عورت لڑکے لڑکیاں ) زندہ موجود ہیں.ان کی میزان ایک سو گیارہ بنتی ہے.اور فوت ہونے والے بچوں کی تعداد میں ہے.جو اس کے علاوہ ہے.یعنی کل میزان ایک سو اکتیس ہے یہ ایک نہایت درجہ غیر معمولی تعداد ہے.جو کسی شخص کو اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں نواسوں اور نواسیوں کی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنی نصیب ہوئی ہے.میں خدا تعالیٰ کے اس غیر معمولی انعام اور غیر معمولی فضل و رحمت کے متعلق غور کر رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا.کہ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی زوجہ محترمہ کی نسل کے متعلق بھی دیکھا جائے کہ ان کی میزان کیا بنتی ہے.سو حساب کرنے سے معلوم ہوا کہ ہماری بڑی والدہ کی نسل میں اس وقت زندہ افراد کی تعداد 9 اکس پر مشتمل ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضھا کی شادی سے قریباً ۳۵ سال پہلے ہوئی تھی.گویا ۳۵ سال زیادہ زمانہ پانے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ اول کی نسل میں اس وقت صرف ۱۹ افراد موجود ہیں.اور اس کے مقابل پر ۳۵ سال کم پانے پر بھی حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ کی زندہ نسل اس وقت ایک سو گیارہ ہے.یہ عظیم الشان بلکہ عدیم المثال فرق یقیناً اللہ تعالیٰ کے ان غیر معمولی وعدوں کی وجہ سے ہے.جو حضرت ام المومنین اور آپ کی نسل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر جاری ہوئے چنانچہ جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں حضرت اماں جان کی شادی پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب
کر کے فرمایا تھا کہ: 87 اذكُرُ نِعْمَتِي رَائَيْتُ خَدِيجَتَى یعنی میرے اس انعام کو یا درکھ کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا.اس وحی الہی میں حضرت اُم المومنین کی شادی کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نعمت قرار دیا ہے.جو ہمیشہ یادرکھنے کے قابل ہے.اور آپ کا نام خدیجہ رکھ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے.کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی بنیاد حضرت خدیجہ کے ذریعہ رکھی گئی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بھی اس خدیجہ ثانی کے ذریعہ قائم ہوگی.اس الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمائیت اسلام کی ڈالے گا....اسی طرح میری بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی.اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام جہان کی نصرت کے لئے میرے خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.“ پھر حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضھا کی شادی خانہ آبادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا اور کن زور دار الفاظ میں فرمایا کہ : أذكُرُ نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكَ - غَرَسْتُ لَكَ بِيَدَيَّ رَحْمَتِي وَقُدْرَتِي - میری اس نعمت کو یاد رکھ جو میں نے تجھ پر کی ہے.میں نے تیرے لئے خود اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا یک شجرہ نصب کیا ہے.اور چونکہ حضرت اُم المومنین حضرت مسیح موعود کے وجود کا حصہ تھیں.اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا.تری نسلاً بعيداً.یعنی تو ایک دور کی نسل کو دیکھے گا.“ پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر حضرت اُم المومنین کی نسل کے متعلق عظیم الشان رحمت و قدرت کا وعدہ فرمایا گیا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کی نسل کو خاص برکت سے نوازا جن کا ایک ادنیٰ اور ظاہری پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اُم المومنین کی نسل کو تعداد کے لحاظ سے بھی غیر معمولی ترقی عطا فرمائی.چنانچہ جیسا کہ بتایا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوشادیاں فرمائیں.پہلی شادی ۱۸۵۰ء کے قریب بڑی بیوی کے ساتھ ہوئی جو حضور کے اپنے خاندان میں سے تھیں.
88 پھر اس کے ۳۵ سال بعد ۱۸۸۴ء میں آپ کی دوسری شادی دتی کے ایک سید خاندان میں ہوئی.اور خدا تعالیٰ نے پہلی بیوی کو بھی اولاد سے نوازا ( اللہ تعالی اس نسل کو اپنے فضل و رحمت کے ہاتھ سے ممسوح فرمائے.کیونکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک سایہ کے نیچے جمع ہو چکی ہے ) اور دوسری زوجہ نے یولدلہ کے وعدہ سے حصہ پایا.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص الخاص مصلحت کے ماتحت دوسری بیوی کے متعلق مخصوص برکت کا وعدہ فرمایا تھا.اس لئے ۳۵ سال بعد میں آنے کے باوجود جہاں اس وقت پہلی بیوی کی نسل کی تعداد صرف ۱۹ نفوس پر مشتمل ہے.وہاں دوسری بیوی کی نسل اس کی زندگی میں ہی ایک سو گیارہ نفوس کے حیرت انگیز عدد کو پہنچ گئی تھی.وذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم یہ ہمارے آسمانی آقا کی رحمت و قدرت کا ایک بولتا ہوا نشان ہے.جس سے کوئی اشد ترین دشمن بھی جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی نہ باندھ رکھی ہوا نکار نہیں کرسکتا.خوب غور کرو کہ ایک پودا ۱۸۵۰ ء میں نصب ہوتا ہے.اور وہ مرتا نہیں.بلکہ وہ بھی خدا کے فضل سے پھولتا اور پھلتا ہے.اور پھر اس کے ۳۵ سال بعد ایک دوسرا پور ۱۸۸۴ء میں نصب کیا جاتا ہے.اور اُس کے متعلق خدا تعالیٰ خاص برکت کا وعدہ فرماتا ہے.اور آج ۱۹۵۲ء میں جبکہ پہلے پودے پر ایک سودوسال کا طویل زمانہ گزر چکا ہے.اور دوسرے پودے پر صرف ۶۷ سال کا قلیل عرصہ گزر چکا ہے.پہلے پودے نے صرف ۱۹ شاخیں پیدا کی ہیں.اور دوسرا پودا ( ولا فخر ) ایک سو گیارہ شاخوں سے لدا پھر انظر آتا ہے ان دونوں زمانوں کو ایک پیمانہ پر لا کر دیکھنے سے یہ نسبت ۱۹ کے مقابل پر ۱۶۹ کی ملتی ہے.اور اگر دونوں جانب کی مشتر کہ نسل کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے.تو پھر یہ نسبت اور بھی زیادہ ہو کر ۸ کے مقابل پر ۱۵۰ کی ہو جاتی ہے.اور یہ ایک بہت بھاری بلکہ خارق عادت فرق ہے.ہماری دلی تمنا اور دعا ہے.کہ اللہ تعالیٰ مسیح پاک کی ہر روحانی اور جسمانی شاخ کو ترقی دے.اور سرسبز رکھے.لیکن خدا کے نشانوں کو چھپایا نہیں جاسکتا.اور یقیناً دیکھنے والوں کے لئے اس میں ایک عظیم الشان نشان ہے.اگر وہ سمجھیں.فقط.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۱۹۵۲ء.۵.۷ ۵
89 عشق و وفا اور صبر ورضا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے تحریر ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر ایمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں میری عمر تو بہت کم تھی اس لئے میں احباب کے سامنے مفصل حالات اس زمانہ کے بتلانے کے قابل نہیں.ایک روایت جس کا میں عینی شاہد ہوں اور جو مجھے آج بھی اسی طرح یاد ہے جیسے کہ واقعہ ہوا تھا.یہ ہے کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گرمیوں کے موسم میں اپنے مکان کی اوپر والی منزل چھوڑ کر نچلے حصہ میں آجایا کرتے تھے اماں جان نے اس صحن کے نچلے حصہ میں ایک کمرہ بنوالیا تھا جس کا نام گلابی کمرہ رکھا گیا.ایک دفعہ اماں جان نماز پڑھ رہی تھیں.اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.میں ان کے قریب ہی تھا.سلام پھیرنے کے بعد انہوں نے مجھے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے ابا دوسری شادی کر رہے ہیں.ان کی مراد محمدی بیگم سے تھی.غالباً میری عمر اس وقت پانچ یا چھ سال کی تھی.یہ سُن کر میں روپڑا اماں جان نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں جو ہوں تم روتے کیوں ہو میں تمہارا اچھی طرح خیال رکھوں گی.پھر باتوں باتوں میں یہ بھی بتایا کہ نماز میں یہ دعا مانگ رہی تھی کہ خدا کرے یہ شادی ہو جائے خواہ اس کی وجہ سے مجھے ذاتی طور پر کتنی ہی تکلیف اُٹھانی پڑے.میرا خیال ہے کہ حضوراقدس بھی اس موقعہ پر وہاں آگئے تھے.اس وقت کم عمری کی وجہ سے تو مجھے پورے حالات کا علم نہیں تھا.مگر اس بات پر مجھے ضرور تعجب پیدا ہوا کہ اماں جان روروکر کیوں دعا مانگ رہی ہیں کہ یہ شادی ہو جائے.اپنی عمر کے لحاظ سے اس بات کی سمجھ نہ آئی.پھر بڑے ہو کر مجھے پتہ لگا کہ اماں جان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر کتنا ایمان تھا.اور ایسے موقعہ پر جب کہ عورتیں دوسری شادی کے وقت گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہیں.آپ نے اس امر کے لئے
90 خدا تعالیٰ سے روروکر دعا کی کہ یہ شادی ہو جائے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو.مجھے علم نہیں کہ یہ روایت کسی کتاب میں درج ہو چکی ہے یا نہیں مگر میرا خیال ہے کہ اس طور پر روایت کا درج ہونا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس وقت میرے اور اماں جان کے علاوہ کوئی اور شخص وہاں موجود نہ تھا.صبر وشکر عزیز مبارک احمد جو ہمارا بھائی تھا کی وفات پر ہمارے گھر میں کوئی واویلا نہیں ہوا.نہ لڑکوں میں نہ بچوں میں اور نہ ہی اماں جان نے کوئی واویلا کیا.بلکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اماں جان کو بتایا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.تو اماں جان نے کلمات شکر ورضا کا اظہار کیا.اور کہا الحمد اللہ میں تیری رضا پر راضی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی وقت اپنا بستہ کھولا اور جماعت کے احباب کو تسلی دلانے کے لئے خطوط لکھنے شروع کئے.جب آپ جنازہ پڑھا کر واپس آئے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اماں جان نے کسی تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کی حضور نے وہ لسی پی لی.اور اس کے بعد پھر حضورا اپنے دوستوں کو خطوط لکھتے رہے.اس کی تفصیل حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بیان کی ہے ) جس کے آخری الفاظ یہ ہیں: لیکن اس کی وفات پر حضرت اُم المومنین کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے.کہ قرآن میں ہے.ان الله مع الصابرین.اور جب صابروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہیئے.مبارک احمد کی وفات اور حضور ا تقریر کرنا اپنے اندر عجیب رنگ رکھتا تھا.(اصحاب احمد جلد چہارم ص 116) مهمان نوازی ابتدائی زمانہ میں جب کہ مہمانوں کی تعداد بھی تھوڑی ہوتی تھی حضور مہمانوں کے ساتھ ہی کھانا کھایا کرتے تھے.مسجد مبارک کے جانب شمال دیوار کے ساتھ دستر خوان بچھ جایا کرتا تھا.اور اس
91 پر آپ دیوار کی جانب بیٹھتے تھے.دوسرے لوگ کچھ دیوار کی طرف اور کچھ آپ کے مقابل پر بیٹھتے تھے.اس زمانہ میں کھانا گھر میں ہی پکا کرتا تھا اور اندر سے باہر آجایا کرتا تھا.ایک دفعہ مہمانوں کو سالن اچھا نہ ہونے کی شکایت پیدا ہوئی اس پر حضرت اماں جان نے مہمانوں کے لئے اپنے ہاتھوں سے چنے کی دال پکا کر بھجوائی.وہ دال گھوٹو یں تھی اور بڑی لذیذ تھی.متاہلانہ زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیوی.سے حضور کے عرصہ سے تعلقات نہیں تھے.حضرت اُم المومنین سے شادی کے بعد حضور نے ان سے جا کر فرمایا کہ آپ یا مجھ سے طلاق لے لیں یا مجھے اپنے حقوق زوجیت معاف کر دیں ، انہوں نے کہا کہ میں حقوق زوجیت معاف کرتی ہوں.اس کے بعد حضرت اماں جان ان سے ملنے جاتی رہتی تھیں.اور وقتاً فوقتا ان کی اعانت کرتی رہتی تھیں.
92 60 چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدها تحریر فرماتی ہیں: (نوٹ: یہ مضمون مجلس خدام الاحمدیہ گول بازار کے زیر اہتمام جلسہ سیرۃ حضرت اماں جان کے موقع پر ۲۰ را پریل ۱۹۵۹ء کو پڑھا گیا.مرتب.) زوجہ مطہرہ آپ میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے یہ دعائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بزبان حضرت اماں جان علیہا السلام نہ پڑھی ہو گی.یہ مصرعہ آپ کو اس وجود کی اہمیت اور بزرگی کا مرتبہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیحا کے لئے چن کر چھانٹ لیا وہ کیا چیز ہوگی ؟ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر اپنے مرسل مسیح موعود اور مہدی علیہ السلام اور معہود علیہ السلام کے لئے رفیق حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا.اور آپ کی تمام حیات، آپ کی زندگی کا ہر پہلو اس پر روشن شہادت دیتارہا.اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخ احمدیت میں مہر درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا.آپ نیک ،عصمت مآب اور تابعدار بنی رہیں.بہترین رفیق، اشاروں پر چلنے والی سچے دل سے ایمان لانے والی اور اپنے عالی شان شوہر کی عاشق بیوی رہیں.ملازموں اور تابعین کی نهایت درجه مشفق مالکہ ہمیشہ ثابت ہوئیں.آپ کی نرمی اور شفقت ملازموں کو بگاڑ تو سکتی تھی.مگر کوئی فرد آپ پر سختی کا الزام نہ دے سکا نہ دے سکے گا.انشاء اللہ.یتا می گیری آپ نے یتیم پالے اور نہایت پیار محبت سے پالے جن لڑکیوں کو پرورش کیا ، ان کے ہر موقعہ پر
93 حقیقی والدین کی مانند ان کی خوشیاں پوری کیں.بھائیوں کی دل و جان سے چاہنے والی بہن اور ان کے دکھ درد کی شریک بنی رہیں.تمام میکے اور سسرال کے عزیزوں سے جیسا بھی وقت تھا.سخنے و در مے ہر طرح نیک سلوک کیا.ظاہر و خفیہ اعزاء کی ہر صورت امداد پر کمر بستہ رہیں.نیک کام میں سبقت لے جانے اور جلد سے جلد حصہ لینے کی آپ کو تڑپ اور خوشی ہوتی تھی.دین لین حساب کتاب میں نہایت محتاط اور از حد درجہ مستعد مزدور کی مزدوری ہو یا چیز لانے والے کا حساب آپ اس کی ادائیگی میں اتنی جلدی فرماتیں کہ اکثر لینے والا بھی نادم ہو جا تا یا گھبرا جا تا کئی بار ایسا ہوتا کہ سامان لانے والے تو کہہ رہے ہیں کہ اماں جان ابھی لے لیں گے.ذرا ٹھہریں تو سہی اور آپ رقم پکڑا رہی ہیں کہ نہیں ابھی سنبھالو.صبر ورضا آپ کا اظہر من الشمس ہے.اللہ تعالیٰ نے جس کی شہادت دے دی.شفقت اولاد آپ کی شفقت بر اولاد کا ذکر بظاہر چھٹ گیا ہے.مگر نہیں میں نے عمداً اس کو بعد میں رکھا ہے کیونکہ اس کا خالص ذاتی احساسات سے تعلق ہے.آپ بہترین ماں تھیں آپ کا پُر از محبت سینہ صافی نازک ترین مادرانہ جذبات کا حامل تھا.اتنا پیارا تنا خیال آخر ضعیفی کی عمر تک شاید ہی کسی ماں سے اولادکو ملا ہو گا.سب جانتے ہیں کہ جب انسان زیادہ ضعیف اور قومی کمزور ہو جاتے ہیں تو اس کے تمام فطرتی جذبات بھی قدرے ڈل ہو جاتے اور سست پڑ جاتے ہیں ایک جمود اور بے حسی سی طاری ہو جاتی ہے.بوڑھے والدین خود بچہ صفت ہو جاتے ہیں اور اپنے لئے ہی قدرتاً سہارے کے خواہاں ہوتے ہیں مامتا کا رنگ بدل جاتا ہے.مگر حضرت اماں جان کی مامتا ان کی اپنی اولاد کے لئے درد اور تڑپ اور اب تک ننھے بچے کی طرح ہم لوگوں کی چھوٹی چھوٹی تکالیف کا احساس اور خیال یہ نمونہ شاید ہی کہیں نظر آ سکے دعاؤں پر زور تو تربیت حضرت مسیح موعود کے زیر اثر اور اس ایمان کامل کے نتیجہ میں ایک ضروری اور لازمی امر تھا ہی اور ہمارے لئے کیا میں نے آپ کو اپنی روحانی اولاد میں سے اکثر کے لئے ایسا تڑپ کر ایک آہ کے ساتھ پکار کر دعا کرتے سنا ہے کہ شاید کبھی ان کی اپنی ماں نے نہ کی ہوگی.
دوسروں کی تکالیف کا احساس 94 اس کے علاوہ آپ کی محبت آپ کا ہر تکلیف ہر احساس کا خیال رکھنا چھوٹی چھوٹی بات پر نظر رکھنا کہ ان کو کوئی تکلیف تو نہیں چہرہ دیکھ کر خفی افسردگی کو بھی پہچان لینا اور مضطرب ہوجانا میں تو کبھی بھی نہیں بھولوں گی نہ ہی اس نعمت کی کمی اس دنیا میں پوری ہو سکتی ہے.اس ضمن میں کچھ چھوٹے چھوٹے واقعات بھی تحریر ہیں جو کہنے کو چھوٹے مگر اپنے اثر کے لحاظ سے بڑے ہیں.ایک بار لاہور میں میں نے ضروری اشیاء کی خرید سے واپسی پر ویسے ہی ذکر کر دیا کہ ایک قمیض کا ٹکڑا خاص میری پسند کا رنگ تھا.مگر اس وقت بالکل گنجائش نہ تھی چھوڑ آئی صبر کر کے خاموش ہو گئی.پھر پوچھا کیسا تھا کس دکان پر تھا.مگر بظاہر گویا بالکل سرسری سا سوال.دو پہر بھر چپ سی رہیں تیسرے پہر کارمنگوائی اور تھوڑی دیر بعد تشریف لائیں اور وہی کپڑا ایک قمیص کا میرے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ لو بنواؤ اور پہنو.ساری دو پہر میراجی بے چین رہا میرے دل میں جیسے کوئی چٹکیاں لے رہا تھا کہ میری بچی اس وقت روپیہ کم ہونے کی وجہ سے اپنا دل مار کر آگئی ؟ میری بے بی ( آصفہ بیگم ) جب مجھ سے (میرے میاں مرحوم کے بعد خصوصاً لاہور میں تازہ پارٹیشن کے زمانہ میں ) کچھ طلب کرتی یا خواہش کرتی تو اکثر اس کو فرما تیں بے بی تو میری بچی کو نہ ستایا کر جو تیرا دل چاہے مجھے کہو مجھ سے مانگ میں دوں گی.اس کو کچھ نہ کہہ.ان ایام میں حالات کچھ ایسے ویسے ہی تھے.میں نے کبھی ظاہر نہیں کیا تھا مگر خاموشی سے میرے پاس کچھ رو پیر کھ جانا کہ لوتم کوضروریات کی تکلیف نہ ہو تمہیں آجکل کہیں سے خرچ نہیں آرہا.حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفہ اسیح علیہ السلام بچپن سے حضرت اماں جان سے بے حد مانوس تھے اور جوان بچوں والے ہو کر بھی چھوٹی چھوٹی بات جو شکایت ہو یا تکلیف ہو حضرت اماں جان کے پاس ہی ظاہر کرنا اور آپ کی محبت ہمدردی اور مشورہ سے تسکین پانا آپ کا ہمیشہ طریق رہا.ذراسی بات ہے مگر ماں کی محبت ظاہر کرتی ہے کہ ایک میٹھے تاروں کے گولے سے ہوتے ہیں جن کو مائی بڑھی کا جھانا کہ کر ہمارے پنجاب میں فروخت کرتے اور بچے شوق سے کھاتے ہیں کہیں بچپن میں حضرت خلیفہ اسیح ثانی کو بھی پسند ہوگا.میں نے دیکھا کہ بچوں کے پاس دیکھ کر حضرت اماں جان نے فوراً منگوایا کہ میاں کو پسند ہے.ان کو دے کر آؤ.اسی طرح
95 ہر وقت ہر کھانے پر خیال رہتا تھا کہ یہ میرے بشریٰ (حضرت مجھلے بھائی صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) کی پسند ہے کوئی دے کر آئے.ان کو بھی اہتمام سے ان کے شوق کی چیز تیار کروا کر بھجواتی رہتی تھیں.ذرا خاموش سادیکھتیں تو پریشان ہو جاتی تھیں.یہ مضمون بہت لمبا ہو سکتا ہے.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں تو نکلتی چلی آئیں گی.اب ایک واقعہ تحریر کرنے کے بعد بند کرتی ہوں.اپریل ۱۹۵۲ء میں وفات سے کوئی دو یا تین روز ہی پہلے کی بات ہے ضعف بے حد طاری ہو چکا تھا.ہر وقت غفلت طاری رہتی تھی بس ایک سانس تھا جو گویا حکم الہی کا منتظر چل رہا تھا.ہم لوگ ( عورتیں ) خدمت میں اندر حاضر رہتے اور حضرت منجھلے بھائی صاحب اور دیگر مرد و افراد خاندان، برآمدے میں ہوتے.حضرت منجھلے بھائی صاحب کو بے حد تڑپ تھی کہ کسی وقت حضرت اماں جان آنکھیں کھولیں تو میں مل لوں ایک دفعہ میں نے ہشیار دیکھ کر ان کو جلدی سے اندر بلا لیا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئے طبیعت پوچھی حسب معمول اچھی ہوں کہا مگر جب وہ اُٹھ کر چلے گئے تو مجھے آہستہ سے کہنے لگیں کہ شریف کو چائے پلوا دواس کے سر میں درد نہ ہو جائے یا تو اس ضعف کی حالت میں حضرت منجھلے بھائی صاحب کو چھوٹے بھائی صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ) سمجھایا اُن کے بھی دیکھنے کی خواہش ہوگی اور خیال کیا کہ وہ بھی باہر ہوں گے اور آگئے ہوں گے.وہ لا ہور تھے اور علیل تھے اس وقت تک پہنچ نہ سکے تھے یا آکر دوبارہ جاچکے تھے غالبا کیونکہ یہ واقعہ بہت ہی وفات کے قریب کے وقت کا ہے.اس سے آپ لوگ اس بے نظیر مادری محبت کا اندازہ کریں کہ گویا آخری دم ہیں اور شریف کے سر درد اور ان کی چائے کا فکر ہے.ہزا ر ہا ہزار رحمتیں تا ابد آپ پر ہر لمحہ نازل ہوتی رہیں یا امی یا اُم المومنین.آمین.فقط.مبارکہ
96 ہماری اماں جان نورالله مرقدها ر قم فرموده حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه ) ابھی نہ میرے دل و دماغ میں طاقت تھی نہ ہاتھوں میں سکت کہ میں کچھ لکھ سکوں.مگر آج کے رمئی کے الفضل میں ایک روایت کی تصحیح کے لئے ضروری معلوم ہوا کہ میں یہ چند سطور لکھ دوں.(1) برادرم خان عبدالمجید خان کی جو تحریر شائع ہوئی ہے.اس میں ۱۹۰۵ ء یا ۱۹۰۶ء میں حضرت اماں جان کا کپورتھلہ جانا غالبا کا تب کی غلطی سے لکھا گیا ہے.۱۹۱۵ء یا ۱۹۱۶ء ہوگا کیونکہ حضرت اُم المومنین علیہا السلام ۱۹۰۵ ء یا ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کے علاوہ کہیں تشریف نہیں لے گئیں.کپور تھلہ ضرور آپ گئی ہیں.مگر جب میری شادی ہو چکی تھی سن ٹھیک مجھے یاد نہیں.وہاں سے واپسی پر آپ وہاں کا ذکر فرماتی رہی ہیں.کپورتھلہ کی جماعت کے لوگ بھی ان لوگوں میں سے تھے جن سے آپ خاص محبت فرماتی تھیں.(۲) برادرم احمد اللہ خان کی والدہ صاحبہ نے جن کو اس زمانہ میں صفیہ کی ماں کہہ کر مخاطب کیا جا تا تھا.حضرت اماں جان کی بہت مدد اور خدمت کی ہے.کھانا شاید کسی وقت حسب ضرورت پکایا ہو.مگر وہ عام طور پر مہمان نوازی کا سامان بستر چار پائیاں برتن سنبھالنے رکھنے نکالنے دینے لینے کا کام کیا کرتی تھیں.دودھ بھی جو گھر میں آتا اس کو رکھنا اور تقسیم کرنا وہی کرتی تھیں.حضرت اماں جان ان پر بہت شفقت فرماتی تھیں.ان کے علاوہ اصغری کی اماں تھیں اہلیہ اکبر خان صاحب مرحوم انہوں نے سالہا سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور سب گھر کا کھانا پکایا اور بہت ہی محبت سے جان دے کر خدمت کی.ہنڈیا میں چمچہ پھیرتی جاتیں.دعائیں کیا کرتی تھیں.ان کی سادہ دعا یہی ہوا کرتی تھی کہ یا اللہ ساری دنیا کے مزے میرے حضرت صاحب کے کھانے میں آجائیں، کبھی حضرت اماں جان ہنس کر فرما تیں کہ اصغری کی اماں میرے بھائی (حضرت میر محمد اسمعیل صاحب) کے کھانے کا مزا بھی ؟ تو فوراً کہتیں (ماموں جان لاہور میں پڑھتے تھے ) ہاں.یا اللہ میاں اسمعیل لکھے کھانے کا مزانہ آئے.
97 غرض یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے خاموش خدمتیں کیں.اور بہت کیں.بے حد اخلاص سے کیں.حضرت اماں جان کو خانہ داری کے بوجھ سے بڑی حد تک آزاد رکھا.اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر اور ان کی اولاد پر ہمیشہ رہے.(۳) صرف اس لئے نہیں کہ اماں جان غیر معمولی محبت کرنے والی ماں تھیں.اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکر خیر کے طور پر آپ کا تعریفی پہلولکھا جائے.اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی ( اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں ان کی جدائی کو برداشت کر رہی ہوں ) بلکہ حق اور محض حق ہے.کہ حضرت اماں جان کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا.کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے.اور اس وجود کو اپنی خاص نعمت قرار دے کر اپنے مرسل کو عطا فرمائے.آپ نہایت درجہ صابرہ اور شاکرہ تھیں.آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو.آپ کے دل پر میل نہ آتا تھا.کان میں پڑی ہوئی رنجیدہ بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی.اور ایسا برتاؤ کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دہرانے کی جرات نہ ہوتی تھی شکوہ، چغلی، غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی آپ نے کیا نہ اس کو پسند کیا.اس صفت کو اس اعلیٰ اور کامل رنگ میں کبھی کسی میں میں نے نہیں دیکھا.آخر دنیا میں کبھی کوئی بات کوئی کسی کی کر ہی لیتا ہے.مگر زبان پر کسی کے لئے کوئی لفظ نہیں آتے سنا تو حضرت اماں جان کے.جہاں کسی نے مجلس میں کسی کی بطور شکایت بات شروع کی اور آپ نے فوراٹو کا حتی کہ اپنے ملازموں کی شکایت جو خود آپ کے وجود کے ہی آرام کے سلسلہ میں تنگ آکر کبھی کی جاتی پیچھے سے سننا پسند نہ کرتی تھیں.اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں.آخری ایام میں جب آواز نکلنا محال تھا مائی عائشہ ( والدہ مجید احمد مرحوم درویش قادیان) کی آواز کسی سے جھگڑنے کی کان میں آئی بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقت فرمایا ” مائی کیوں روئی ؟“ میں نے کہا نہیں اماں جان روئی تو نہیں یو نہی کسی سے بات کر رہی تھیں.مگر جو درد حضرت اماں جان کی آواز میں اس وقت مائی کے لئے تھا.آپ نے کئی لڑکیوں اور لڑکوں کو پرورش کیا.اور سب سے بہت ہی شفقت و محبت کا برتاؤ تھا.خود اپنے ہاتھ سے ان کا کام کیا کرتی تھیں.اور کھلانے پلانے ، آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا.مگر تربیت کا بھی بہت خیال رکھتیں.اور زبانی نصیحت اکثر فرماتیں.
98 ایک لڑکی تھی.مجھے یاد ہے میں ان دنوں حضرت اماں جان کے پاس تھی.وہ رات کو تہجد کے وقت سے اٹھ بیٹھتی.اور حضرت اماں جان سے سوالات کرنے اور لفظوں کے معنے پوچھنا شروع کرتی.اور آپ اس کی ہر بات کا جواب صبر اور خندہ پیشانی سے دیا کرتیں.میں نے اس کو سمجھایا کہ اس وقت نہ ستایا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ نے بہت زیادہ صبر وقتل کا نمونہ دکھایا.مگر آپ کی جدائی کو جس طرح آپ محسوس کرتی رہیں.اس کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس صبر کو اور بھی حیرت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے.آپ اکثر سفر پر بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتی تھیں.باغ وغیرہ یا باہر گاؤں میں پھرنے کو بھی عورتوں کو لے کر جانا یا گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا کھانا پکوانا اوراکثر غرباء میں تقسیم کرنا (جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا ) لوگوں کا آنا جانا ،اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا.صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے.ایک سفر ہے جس کو طے کرنا ہے.کچھ کام ہیں جو جلدی جلدی کرنے ہیں.غرض بظاہر ایک صبر کی چٹان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی.جو آپ پر طاری رہتی تھی.مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہو گئی تھیں.دل میں طوفان اس درد جدائی کے اٹھتے.اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامان کرتیں.مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رنج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہو جاتا.اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کرتیں.میں اپنے لئے دیکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ایک چشمہ ہے بے حد محبت کا جو اماں جان رضی اللہ عنہا کے دل میں پھوٹ پڑا ہے.اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں.یہ کیا یاد کرے گی جو یہ کہتی ہے وہی کرو.غرض یہ محبت بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی.اس کے بعد میری زندگی میں ایک دوسرا مرحلہ آیا یعنی میرے میاں مرحوم کی وفات.ان کے بعد
99 ایک بار اور میں نے اس چشمہ محبت کو پورے زور سے پھوٹتے دیکھا.جیسے بارش برستے برستے یکدم جھڑا کے سے گرنے لگتی ہے.اس وقت وہی بابرکت ہستی تھی.وہی شفقت ورحمت کا مجسمہ تھا جو بظاہر اس دنیا میں خدا تعالے رفیق اعلی ورحیم وکریم ذات کے بعد میرار فیق ثابت ہوا جس کے پیار نے میرے زخم دل پر مرہم رکھا.جس نے مجھے بھلا دیا کہ میں اب ایک بیوہ ہوں.بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کہیں جا کر پھر آغوش مادر میں واپس آگئی ہوں.اب دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو میرا منہ دیکھے کہ اداس تو نہیں ہے.اب کوئی ایسا نہیں جو میرے احساس کو سمجھے.میرے دکھ کو اپنے دل پر بیتا ہوا دکھ محسوس کرے.خدا سب عزیزوں کو سلامت رکھے میرے بھائیوں کی عمر میں اپنے فضل سے خاص برکت دے.مگر یہ خصوصیت جو خدا نے ماں کے وجود میں بخشی ہے.اس کا بدل تو کوئی خود اس نے ہی پیدا نہیں کیا.اور میری ماں تو ایک بے بدل ماں تھیں سب مومنوں کی ماں ہزاروں رحمتیں لمحہ بہ لحہ بڑھتی ہوئی رحمتیں ہمیشہ ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں.وہ تو اب خاموش ہیں مگر ہم جب تک خدا ان سے ملائے گا.ان کی جدائی کی کھٹک برابر محسوس کرتے رہیں گے.عمر بھر کاہش جاں بن کے یہ نڑ پائے گی وہ نہ آئیں گی مگریاد چلی آئے گی
100 حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا حسن سلوک رقم فرمودہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی ) حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے ایک سید زادی کو یتیمی کی حالت میں پرورش کیا مگر کچھ عرصہ کے بعد میں نے آپ سے لے کر اپنے پاس رکھا تھا.اور ان کی شادی سید انعام اللہ شاہ صاحب مرحوم ( ایڈیٹر دور جدید) سے کر دی تھی.ان کا خط جو حضرت اماں جان کی وفات پر آیا ہے اس کے چند سطور مندرجہ ذیل ہیں.جو لکھا بالکل ٹھیک ہے.میں نے خود دیکھا کہ یہی سلوک آپ کا تھا بلکہ اس سے بڑھ کر لاڈ پیار تھے ان کے ساتھ.جہاں کہتی تھیں سیر کو لے جاتی تھیں و لکھتی ہیں کہ میں روتی جاتی ہوں اور لکھتی جاتی ہوں میرا اپنادل بھرا پڑا ہے.میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیا لکھوں؟.دل چاہتا ہے کہ اڑ کر پر ہوں تو آپ کے پاس پہنچ جاؤں اور آپ کے گلے سے لگ جاؤں.آپ کا کیا حال ہے.اماں جان نواب صاحب مرحوم کے بعد تو آپ کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں.اللہ رکھے بچے اپنے گھر بار کے ہوئے آپ تو ان کے پاس چلی جاتی تھیں تو آپ کو ڈھارس ہو جایا کرتی تھی.اللہ کی مدد آپ کے شامل ہو.میری خود بچپن سے لے کر اب تک وہ ہمدردر ہیں.ان جیسا وجود اب ہمیں کہاں ملے گا.ہم ان کی دعاؤں سے محروم ہو گئے.بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے.اپنے پیارے ہاتھوں سے میرے کپڑے دھونے میرے سر سے جوئیں نکالنی میرا سر گوندھنا پھر پوچھ کر مجھے کھانا پکانا کہ کس چیز کو دل چاہتا ہے؟ جو کہنا وہی پکانا.پھر قادیان میں اب بھی میرے کمرے میں آکر لیٹ جانا کتاب سنناوہ سارا زمانہ یاد آرہا ہے.میری پیاری اماں جان ایسی شفیق قیموں کی سرپرست محبت و شفقت کرنے والی اتنی نیک اتنی خوبیوں والی اتنی اچھائیوں کی مالک ان کی دعائیں.ان کی برکتیں اب ہمیں کہاں ملیں گی.
101 آہ پیاری اماں جان! رقم فرمودہ حضرت ام ناصر بنت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب) موت ایک ایسی چیز ہے جو عزیز سے عزیز چیز کو بھی چھین لیتی ہے.آج ہماری محبوب ماں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا جن کا سایہ میرے لئے ہمیشہ سایہء ہما رہا، ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنے پیارے مولائے حقیقی کے پاس چلی گئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.کئی عزیز بہنوں کی خواہش پر کہ آپ کوئی واقعات لکھ کر دیں چند واقعات لکھ رہی ہوں.جو کہ میری ابتدائی زندگی یعنی جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں ۱۹۰۲ء میں بیاہی آئی.اس کے متعلق لکھوں.اُس وقت میں بچپن اور کم سنی کے دور میں سے گزررہی تھی.میری عمر کا گیارھواں سال تھا جبکہ میری شادی ہوئی اور یہ شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش سے.میرے والد صاحب ( ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ) نے حضور سے عرض کیا کہ لڑکی کی عمر بہت چھوٹی ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ کوئی نہیں یا کوئی حرج نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان تھا کہ بچپن میں آنے کی وجہ سے میں نے اس نعمت کو پایا اور ان کی شفقت ، محبت اور دعاؤں سے مجھ پر انعام اور فضل نازل فرمایا.شفقت و محبت آپ کی شفقت والدین سے بھی بہت بڑھ کر تھی حضور ہمیشہ نہایت پیار سے محمودہ کہہ کر بلاتے تھے.جب میں شادی ہو کر پہلی دفعہ آئی تو میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ تین رات رہی.آپ فرماتی تھیں کہ یہ بچہ ہے اداس ہو جائے گی.پھر میں دوبارہ ایک سال کے بعد قادیان آئی ( کیونکہ میرے ابا جان کا تبادلہ رڑکی سے آگرہ ہو گیا تھا ) حضرت اماں جان کے پاس سوئی.مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں گویا اپنی والدہ سے بھی زیادہ شفیق والدہ کے ساتھ سورہی
102 ہوں.جب میری آنکھ کھلی تو میں حضرت اماں جان کے ساتھ چھٹی ہوئی تھی.اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے.حضرت اماں جان نے بہت پیار کیا تو میں ضبط نہ کرسکی.رفتہ رفتہ آپ کی محبت والفت کی چادر مجھ پر کشادہ ہوتی گئی یہاں تک کہ میں اپنامیکہ بھول گئی.گویا ایک ماں کی گود سے نکل کر دوسری آغوش مادر میں خدا تعالیٰ نے بھیج دیا.( جب میرا بیٹا پیدا ہوا تو وہ جنوری کا مہینہ تھا ، جمعہ کا دن تھا.میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ مجھے تکلیف ہے.آپ نماز پڑھ کر تشریف لے آئیں.اور آپ کے آنے کے بعد بچہ پیدا ہوا.بچہ کونسل وغیرہ دے کر حضرت اماں جان کی گود میں دیا.آپ نے فرمایا کہ محمودہ! اس بچے کے لئے کوئی گرم شال نہیں ہے؟ اس پر میں نے کہا.نہیں اماں جان ( منگوائی نہیں ) آپ نے جو گرم چادر اوڑھی ہوئی تھی اور جس کا رنگ نسواری تھا اس میں بچے کو لپیٹ دیا.ان کا غریبوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا اور امیروں کے ساتھ ان کی ہمدردی جو تھی وہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے.عبادت اور دعائیں میں نے انہیں کبھی خالی وقت میں خاموش نہیں دیکھا.وہ دعا جو اکثر گھبراہٹ کے وقت پڑھا کرتی تھیں وہ يا حي يا قيوم برحمتك نستغيث ہے.اور حقیقت ہے کہ میں نے دعا ئیں سیکھی ہی حضرت اماں جان سے ہیں.دوسری دعا جو وہ کرتی تھیں وہ یتھی.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے.اس بات کا بے حد صدمہ ہے کہ جو دعاؤں کا دروازہ ہمارے لئے کھلا تھا وہ اماں جان کی وفات سے بند ہو گیا.اللہ تعالیٰ محبوب مادر مہربان پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرما اور اپنے فضلوں اور رحمتوں کی چادر سے ڈھانپ لے.آمین یا رب العالمین.۱۰
103 تاثرات محترمہ صاحبزادی امته الرشید بیگم صاحبه ہماری پیاری اماں جان ہم سے جدا ہو کر اللہ میاں کو پیاری ہوئیں اور گویا ہم سب کی کمریں توڑ گئیں.ٹوٹی ہوئی کمروں کا اللہ ہی سہارا ہے.الْعَيْنُ تَدْ مَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزَنُ وَمَاتَقُولُ إِلَّا مَا يَرُضَىٰ بِهِ رَبُّنَا.آنکھیں اشکبار ہیں اور دل غم سے نڈھال لیکن ہم اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی رضا کے خلاف کوئی کلمہ زبان پر نہیں لاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر حضرت اماں جان کے دم سے خدا کے پاک مسیح علیہ السلام کا ذاتی گھر آباد تھا.آج دار المسیح ہونا ہے.آہ.اُن کے جاتے ہی یہ کیا ہوگئی گھر کی صورت نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت حضرت اماں جان کے مقدس وجود کے ساتھ ہزاروں ہزار برکات و فیوض وابستہ تھے جن سے آج ہم محروم ہیں.قریباً چوبیس سال کا عرصہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت میں گزارا اور آپ کی پاک زندگی کا ہر پہلو اپنے اندر نور نبوت کا پر تو لئے ہوئے تھا جو آپ کو قریب سے دیکھنے والے ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بنالیتا تھا.آپ کی سیرت طیبہ کا ورق آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.میں اپنے اس مختصر نوٹ میں صرف چندایسی باتیں بیان کروں گی جن کا تعلق میرے ذاتی مشاہدہ سے ہے.باتیں بظاہر معمولی اور روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہیں لیکن ان میں ایک مقدس آسمانی روح کی بلند سیرت کی جھلک نظر آتی ہے.میری عمر کوئی نو دس برس کی ہوگی.ایک دفعہ میں حضرت اماں جان کے صحن میں کھڑی تھی کہ وہاں سے ایک بچہ گزرا جس کے نام کے ساتھ سب بچے ”موٹے“ کا لفظ استعمال کرتے تھے.میں
104 نے بھی اُسے اُس نام کے ساتھ موٹا کہہ کر پکارا.ایک دم مجھے پیچھے سے نہایت شیر یں لیکن بے حد بارعب آواز نے چونکا دیا.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر حضرت اماں جان کو کھڑے پایا.فرمانے لگیں.تمہیں معلوم ہے یہ بچہ یتیم ہے.میں اس وقت اپنی کم عمری کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہ سکی.کہ یتیم اور ”موٹے کا کیا تعلق ہے.حضرت اماں جان سمجھ گئیں کہ یہ نہیں سمجھی.فرمانے لگیں.اللہ تعالیٰ یتیم کا دل دُکھانے سے سخت ناراض ہوتا ہے.پھر ایسا نہ کرنا.اس بچے کا نام دوسرے بچوں نے یونہی موٹا رکھ دیا ہوا ہے.میرے دل پر اب تک اس واقعہ کا اثر ہے.اللہ اللہ آپ کس قدر محبت کرتی تھیں یتیموں سے اور کتنی توجہ تھی آپ کی اس طرف کہ آپ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم پورا کریں.اور پھر اپنے بچوں کی تربیت کا کس قدر خیال تھا حضرت اماں جان کو.حضرت اماں جان کو اپنی تمام اولاد اور اولاد در اولاد کی تربیت کا خاص خیال رہتا تھا.آپ نے ہمیشہ ہی نہایت اچھے رنگ میں ہم سب کی تربیت فرمائی مگر بایں ہمہ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی بھی ہم میں سے کسی کو ڈانٹا ڈ پٹا ہو.بلکہ اس کے برعکس نہایت مناسب رنگ میں نصیحت فرماتی تھیں.حضرت اماں جان کو یتیموں سے اس درجہ محبت تھی کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے.آپ یتیموں کی دلجوئی کے لئے ہر وقت کوشاں رہتی تھیں.قادیان میں ماموں جان مرحوم حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی زمیر نگرانی یتیم بچے دار الشیوخ میں پرورش پاتے تھے.حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ آپ اکثر وہاں سے یتیم بچوں کو اپنے پاس بلوالیتیں اور انہیں کھانا وغیرہ کھلوا کر نہایت محبت اور شفقت بھرے دل سے دعا دے کر رخصت کرتیں.آپ کو یتیم بچوں کا اتنا خیال رہتا تھا کہ جب تک آپ اپنے دست مبارک سے کھانا تقسیم نہ کرتیں یا اپنے سامنے اُن کو کھاتے ہوئے نہ دیکھ لیتیں آپ بے چین رہتیں.حضرت اماں جان کا گھر کے ملازمین سے اس قدر مشفقانہ سلوک تھا کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے.بسا اوقات ہمیں خیال گزرتا کہ حضرت اماں جان اُن سے بھی ہمارے برابر محبت کرتی ہیں اور اُن کا بھی ویسا ہی خیال رکھتی ہیں جیسا ہمارا.بڑے سے بڑے قصور پر بھی آپ نے کسی ملا زم کو کبھی بُرا بھلا نہیں کہا اور بڑے سے بڑے نقصان پر بھی صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہہ کر
105 خاموش ہو جاتیں.جب کہ دوسرے لوگ ادنی ادنی نقصان پر بھی ملازموں کا بُرا حال کر دیتے ہیں.لیکن حضرت اماں جان ہمیشہ عفو اور درگزر سے کام لیتیں اور اپنے تمام ملازمین کے کھانے، کپڑے اور تمام چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خاص خیال رکھتیں.صرف اُن کا ہی نہیں بلکہ اُن کے لواحقین کا بھی خیال رکھتیں.اگر کسی خاندان کا کوئی ایک فرد آپ کی خدمت کرتا تو اس کا تمام کنبہ آپ کے سائے میں پلنے لگتا اور آپ اُن سب کی ہر قسم کی ضرورتیں پوری کرتیں.عام طور پر لوگ بچوں والی عورتوں کو ملازم رکھتے ہوئے گھبراتے ہیں اور جور رکھتے بھی ہیں وہ اِس خیال سے رکھتے ہیں کہ اُن کے بچے بھی ہمارا کام کریں گے.اور پھر اُن بچوں سے اس قدر کام لیتے ہیں کہ اُن کو تعلیم حاصل کرنے اور ترقی کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا.لیکن حضرت اماں جان چار چار پانچ پانچ بچوں والی عورتوں کو اپنے پاس بخوشی رکھتیں اور اُن کے بچوں کی جملہ ضروریات زندگی مہیا فرماتیں.یہاں تک کہ اُن کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام فرما تھیں.اور کبھی اُن سے اس طریق پر کام نہ لیتیں اور نہ ہی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو لینے دیتیں جس سے اُن کی تعلیم میں کوئی حرج واقع ہو.اسی لئے آپ کے گھر میں جتنے بچے بھی پہلے اُن میں سے کوئی بھی جاہل نہیں رہا بلکہ بعض نے اعلی تعلیم حاصل کی.چند دن ہوئے ایک عورت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور کہتی جاتی تھی.”ہائے اماں جان تو چلی گئیں ہمارا اس دنیا میں اب کون ہے.میرے بچوں کی تو اماں جان نے زندگی بنادی.میں جاہل ، بچوں کا باپ جاہل، دادا جاہل تمام خاندان جاہل کسی کو الف سے بے نہیں آتا آج اماں جان کے طفیل میرا بچہ لائق ہو گیا اور خدا کے فضل سے میٹرک پاس کر کے ملازم ہو گیا.جس کا مجھے وہم بھی نہیں آسکتا تھا.میرے دوسرے بچے بھی پڑھ رہے ہیں.میں احمدیت سے بے بہر تھی.حضرت اماں جان کے حسن سلوک سے مجھے احمدیت کی دولت نصیب ہوئی.“ لمصلہ ۱۹۴۷ء میں اصلح الموعود کا جو جلسہ دہلی میں ہوا.اُس میں مخالفوں کی شورش اور فساد کے نتیجہ میں جن لوگوں کو چوٹیں آئیں اُن میں سے ایک یہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب ) بھی تھے.ان کے سر پر سخت چوٹ آئی اور زیست کی کوئی امید نہ رہی.تمام ماہر ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ یہ اب نہیں بچیں گے.سیدنا ابا جان باہر سے تشریف لائے اور مجھے گلے لگا کر فرمانے لگے.ڈاکٹروں کے نزد یک احمد کے بچنے کی بظاہر کوئی امید نہیں رہی لیکن اللہ تعالیٰ قادر ہے دعا کرو.میں یہ سن
106 کر سخت گھبرائی اور نہایت کرب کی حالت میں شدت غم سے میرے منہ سے چیخ نکل گئی اور ساتھ ہی میں نے کہا.اماں جان! آپ دعا کریں.آپ نبی کی بیوی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی دعا ضرور سُنے گا.پیاری اماں جان جو اُس وقت منہ پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی تھیں اُٹھ کر بیٹھ گئیں اور سخت اضطراب کی حالت میں اپنے خدا کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ ” اے خدا ابھی چند دن ہوئے میرا بھائی فوت ہوگیا ، بہو فوت ہوئی اب مجھ میں برداشت کی طاقت نہیں تو احمد کو صحت دے اور وہ اپنے بچوں کے سر پر سلامت رہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی دعا کو سنا اور ان کو خارق عادت رنگ میں صحت عطا فرمائی اور اپنے قول کے مطابق کہ میرے بعض بندے مجھے اس قدر پیارے ہوتے ہیں کہ میں اُن کے منہ سے نکلی ہوئی بات رد نہیں کر سکتا.حضرت اماں جان کی اُس وقت کی درد بھری دعا کو قبول کیا.جبکہ تمام دنیوی سہارے ٹوٹ چکے تھے اور کوئی بھی سہارا موجود نہیں تھا سوائے خدا کے.ان پر ہی کیا منحصر ہے آپ کی رافت و شفقت ہر کہہ دمہ کے لئے عام تھی.آپ بے کسوں کی مددگار ، بیواؤں کی خبر گیری کرنے والی ، یتامی کی طلباو ماوی.حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے والی اور ہر ایک کے دکھ سکھ کی شریک تھیں.آہ! وہ برگزیدہ ماں جس کے وجود باجود کے ساتھ ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں وابستہ تھیں آج ہم میں موجود نہیں.ہم آپ کی دردمندانہ دعاؤں سے محروم ہو گئے.اے اللہ ! تو ان پر اپنی بے شمار رحمتوں کا سایہ رکھ اور ہمارے لئے اُن کی دعاؤں کے اثر کو دائمی بنادے.اے اللہ ! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم آپ کے نقش قدم پر چل کر تیری رضا کے حاصل کرنے والے ہوں اور صحیح معنوں میں آپ کی نسل کہلانے کے مستحق ٹھہر ہیں.اے مادر مہربان ! تجھ پر ہزاروں سلام اور لاکھوں درود ہوں.
107 اخلاق جمیلہ - اوصاف حمیدہ روایات و تاثرات حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب) خدائے تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ ھو الناصر سیدہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے اوصاف حمیدہ آج احباب جماعت سے پوشیدہ نہیں ہیں تا ہم میں بھی تعمیل ارشاد کچھ بیان کر کے اس نیک کام میں حصہ لیتا ہوں تا شاید اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے انجام بخیر فرمادے.میں اکتوبر ۱۹۱۸ء میں جبکہ سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انفلوئنزا سے شدید بیمار تھے اور بہت کمزور ہو گئے تھے یہاں تک کہ حضور نے وصیت بھی لکھوادی تھی ، طبی خادم کی حیثیت سے حضور کے قدموں میں حاضر ہوا سوا تین ماہ تک اماں جان والے دالان میں حضور کے پاس موجود رہا جبکہ اور کوئی تیسرا شخص کمرہ میں نہ ہوتا تھا.ان دنوں میں میری حیثیت خادم کی بھی تھی اور مہمان کی بھی.سیدہ حضرت اُم المومنین اُس دالان کے قریب دوسرے کمرہ میں رہتی تھیں جس کا محن وہی تھا جو دالان کا صحن تھا میرا یہ سوا تین ماہ کا وقت ایسے گزر گیا جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں آرام اس سے بھی زیادہ ملا.مشفقانہ سلوک اس کے بعد فروری ۱۹۱۹ء میں حسب منشاء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مستقل طور پر قادیان آگیا اور مجھے رہائش کے لئے حضرت نواب ( محمد علی خان ) صاحب رضی اللہ عنہ کا شہر والا اونچا مکان مل گیا اور تاوقت پارٹیشن میں اُسی مکان میں مقیم رہا.اس مکان کا ایک دروازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے چھوٹے صحن میں کھلتا تھا جس کے آگے لکڑی کی چھوٹی سیڑھی لگی رہتی تھی اور اس میں اس دروازہ سے حضور کی دوائی وغیرہ پہنچایا کرتا تھا اور بسا اوقات اس دروازہ سے حضور کو دیکھنے کے لئے جایا کرتا تھا.اور میرا گز رحضور اماں جان
108 کے دونوں صحنوں میں سے ہوتا تھا.الغرض مجھے خادم اور ہمسایہ ہونے کا حق میسر آیا.میں نے اس طویل زمانہ میں آں سیدہ سے کوئی ایسی بات محسوس نہیں کی کہ جس کی وجہ سے میرے دل کو تکلیف پہنچی ہو.اس کے برخلاف آں سیدہ سے اکثر مشفقانہ سلوک کا مشاہدہ کیا.اں سیدہ نے بارہا ایسا فرمایا کہ فلاں چیز ڈاکٹر صاحب کے ہاں دے آؤ کیونکہ وہ بھی تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں آں سیدہ کا قاعدہ تھا کہ جب کبھی کوئی خاص وجہ ہوتی یا دل چاہتا تو اپنی بہوؤں کے ہاں کا پکا ہوا کھانا منگوا لیتیں اسی دستور کے مطابق میرے ہاں بھی یہ کہ کر منگوا لیتیں کہ یہ گھر بھی تو ہمارا ہی ہے اب ایسے پُر شفقت سلوک کی موجودگی میں کس طرح ممکن ہے کہ آپ کے اوصاف حمیدہ کے گیت نہ گائے جائیں اور آپ پر بے شمار درود نہ بھیجے جائیں.میں نے بارہا دیکھا کہ میری بیوی بصد خوشی فوری طور پر جو کچھ ہوتا حضرت اماں جان کی خدمت میں بھجوا دیتیں اور کئی بار جب کوئی چیز اچھی پک جاتی تو از خود ہی حضرت اماں جان کی خدمت میں بھیج دیتیں اور اماں جان نہایت خندہ پیشانی سے جزاکم اللہ کہتے ہوئے اس چیز کو رکھ لیتیں.اگر کبھی کسی موقعہ پر آں سیدہ کو کسی غلط فہمی کی وجہ سے یا میری کوتاہی کی وجہ سے ملال پیدا ہوا تو میں نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ وہ صرف اُسی لمحہ کے لئے تھا اور بس حضور کے دل میں کوئی جذبہ انتقام یا جذ بہ مخالفت جگہ نہ پکڑتا تھا.میں نے آں سیدہ کو ہمیشہ صاف اور سیدھی اور حق بات کرتے پایا کبھی بھی کوئی پیچیدہ بات کرتے نہیں پایا اور کبھی بھی منصوبہ بندی کی بات کرتے نہیں پایا اور نہ کسی کی غیبت میں اس کے خلاف شکوہ شکایت کا باب کھولتے دیکھا.دعا گوئی ، ذکر الہی مجھے آں سیدہ کی علالت کے وقت کئی بار علاج کی غرض سے سیدہ کے پاس جانا ہوتا تھا یا پھر کسی عزیز کو دیکھنے کے وقت آں سیدہ اس جگہ ہوتی تھیں تو اکثر انہیں یا حی یا قیوم پڑھتے سنا.اور کئی بار آں سیدہ کی معیت میں موٹر کا سفر کیا ہے تو دیکھا کہ جب موٹر چلنے لگتی تو سبـــحـــان الــذى سخر لنا هذا والی دعا بالالتزام پڑھتیں.
غرباء پروری 109 میں اپنے مشاہدہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ آپ ہمسایوں یا بعض اوقات دور کے گھروں میں بلکہ غریب سے غریب گھر میں تشریف لے جاتیں.آپ کے چند لحوں کی آمد سے اہل خانہ کی عید ہو جاتی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس گھر کی قسمت جاگ اُٹھی ہے جس میں تشریف لے جاتیں میرے گھر میں بھی جتنی دفعہ آتیں اور عید بنا کر چلی جاتیں.اپنے خدام کے ہاں شادی کے موقعہ پر پوری خوشی سے حصہ لیتیں اور آپ کے اس عمل سے اہل شادی کی خوشی میں بہت اضافہ ہو جاتا ایسا ہی نفی کے موقعہ پر بھی نہایت احسن طریق پر غمخواری کرتیں.پڑوسی سے حسن سلوک آں سیدہ کو میں نے اپنی خادمات یا خدام کو کبھی بھی ایسے رنگ میں سخت ست کہتے نہیں سنا جیسا کہ دوسرے لوگ اپنی بڑائی کی وجہ سے کر یہ طور پر غصہ کا اظہار کیا کرتے ہیں.میں نے آپ کو اپنے خادموں کی خصوصاً دیرینہ خادموں کی قدردانی کرتے پایا سیدہ کے خادموں میں ایک میاں نور محمد مرحوم پر ا نا خادم تھا.اس کو میں نے ہمیشہ خوش و خرم پا یا کبھی کسی قسم کا شکوہ شکایت کرتے نہ سنا.جب آں مرحوم کے کپڑوں کو آگ لگ جانے کی وجہ سے جسم کے جھلس جانے کا حادثہ پیش آیا تو آں سیدہ سخت بے قرار ہو گئیں.اور اس کے علاج معالجہ میں کافی امداد فرمائی مگر وہ فوت ہو گئے.سیدہ نے اُن کی بیوہ کو تا زیست اپنے پاس رکھا حالانکہ وہ مخبوط الحواس تھی اور کوئی کام نہ کرتی تھی.پرورش یتامیٰ ومساکین پھر میں نے دیکھا کہ جو بچیاں آں سیدہ کی خدمت میں رہتی تھیں وہ بہت خوش و خرم رہتی تھیں اور اپنے گھروں میں جانے کا نام نہ لیتی تھیں حتی کہ وہ نکاح کے قابل ہو جاتیں تو خود ہی اُن کی شادی کا انتظام کرتیں ایسی کئی خواتین اب بھی موجود ہیں.میں نے سیدہ کا یہ عمل بھی نوٹ کیا کہ جب کوئی خادم کوئی چھوٹے سے چھوٹا تحفہ بھی پیش کرتا تو خوب اونچی آواز سے جزاکم اللہ
110 کہتیں.اگر کسی خاتون نے کوئی پہننے کی چیز آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر پیش کی تو اُسی وقت اس چیز کو پہن کر تحفہ دینے والی خاتون کی خوشی کی موجب بن جاتیں.۱۹۱۷ء میں آں سیدہ مع حضرت میر محمد اسحاق میاں ناصر احمد اور سیدہ نصیرہ بیگم پٹیالہ تشریف لے گئیں اور تین دن تک ہمیں خدمت کا موقعہ دیا اس موقعہ پر آپ کا قرآن کریم کے ایک حکم پر عمل کرنے کا پتہ چلا وہ یہ کہ حضور نے قیدیوں کو کھانا کھلانے کے انتظام کا فرمایا میں نے اپنے سول سرجن کے ذریعہ انتظام کرا دیا سیدہ نے پچاس روپے کی رقم عنایت فرمائی.صبر وشکر اب میں سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق بعض اہم باتیں بیان کرتا ہوں.۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء کا وہ دن ہے جو جماعت احمدیہ کے لئے سخت غم واندوہ کا دن تھا جس وقت ہمارا پیارا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہا تھا.ایسے نازک وقت میں حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے جو الفاظ منہ سے نکالے یہ تھے دیا اللہ ! یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں پر تو ہمیں نہ چھوڑی.اطاعت امیر تیسری چیز جو آپ کے وجود سے جماعت کو میسر آئی جس سے جماعت کو استقلال حاصل ہوا اور بداندیش دشمن خائب و خاسر رہا یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت خلیفہ اول کی پوری اطاعت تمام وقت تک کی پھر جب خلافت ثانیہ وقوع میں آئی جو آپ کے فرزند ارجمند کے ذریعہ قائم ہوئی تو آپ نے اس خلیفہ کی بیعت بھی اُسی رضا ورغبت کے ساتھ کی جیسا کہ حضرت خلیفہ اول کی کی تھی اور کمال اطاعت کا ثبوت بہم پہنچایا.ایسے واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ جب کبھی خلیفہ ثانی ہاں آپ کے بیٹے نے کسی بات سے آپ کو روکا تو آپ فورارک گئیں یہ خلیفہ وقت اپنی ذکاوت اور اپنی انتظامی قوت کے لحاظ سے بہت بلند و برتر ہستی ہیں اس لئے آپ کے ساتھ آپ کی والدہ کا اطاعت گزاری کے رنگ میں چلے چلنا نہایت مشکل امر تھا مگر آپ رضی اللہ عنہا نے اس کو نباہ دیا اور جماعت میں اعلیٰ درجہ کی یگانگت کا موجب بنیں.
111 تربیت اولاد چوتھی بات جو آپ کے وجود مبارک سے جماعت احمد یہ اور اسلام کو میسر آئی یہ تھی کہ آپ نے جب دیکھا کہ آپ کا فرزند پیارا محمود بچپن سے ہی اپنے پیارے والد علیہ الصلوۃ والسلام پر فدا ہے اور حضور کے کاموں میں پور امد گار بنا ہوا ہے اور اپنی جان کو اسی طرح اسلام کے لئے لڑا رہا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جان خرچ کی تھی اور دیکھا کہ یہ اپنی اولاد کی خبر گیری نہ کر سکے گا تو آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بڑے بیٹے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد سلمہ کو آپ نے اپنا بیٹا بنالیا اور ان کی تربیت میں اسی طرح لگ گئیں جس طرح ایک وقت میں اپنے پیارے محمود کی تربیت کی تھی آج ہم اس عزیز کو حضرت محمود ایدہ اللہ کا بیٹا کہہ کے پکارتے ہیں.لیکن مشاہدہ کرنے والی دور بین آنکھیں آدھا بیٹا سیدہ ام المومنین کا کہنے پر مجبور ہوں گی کوئی کیا جانے کہ کسی پیار اور کس محبت سے آں سیدہ نے اس پیارے کو رکھا اور کیا ہی اعلیٰ تربیت دی کہ وہ آج ہماری آنکھوں کا تارا ہے ہاں ایک بڑا روشن ستارہ ہے اور آج وہ اپنے والد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جن کا مرتبہ ہمارے اندازہ سے بہت بلند ہے دست و باز و بنا ہوا ہے.زوجہ مطہرہ پانچواں احسان جو آپ کے وجود سے ظاہر ہوا یہ ہے کہ آپ دہلی کے مشہور معزز خاندان سادات کی صاحبزادی تھیں.آپ نے جبکہ آپ کی عمر چودہ پندرہ سال کی تھی ایک ایسے شخص کو جن کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور جو کہ پنجابی تھے.اور نہایت چھوٹے سے گاؤں کے رہنے والے تھے اپنی زوجیت کے لئے منظور فرمالیا اور اپنے نانامہ کی پیشگوئی کے پورا کرنے کا موجب بنیں اور ایک مبارک نسل کی ماں بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو سیدہ کو فرماتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس نے انہیں اپنے مسیح کیے لئے چن لیا جیسا کہ اس شعر سے پتہ چلتا ہے.چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے لیکن اللہ تعالی نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو ارشاد فرماتا ہے
112 اشکر نعمتی رایت خدیجتی یعنی اے ہمارے مسیح تو میری نعمت کا شکر یہ ادا کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا یعنی سیدہ رضی اللہ عنہا کو حضور مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں دلائے جانے کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے.اور اس پاک وجود کو اپنی خدیجہ قرار دیتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ خود مجازی باپ بن گئے ہیں اور اپنا احسان جتاتے ہیں کہ میں نے اپنی خدیجہ کو تیرے نکاح میں لانا تیرے نصیب کیا ہے کیا ہی مرتبہ ہے اس خاتون کا.ایک وہ خدیجہ تھیں اور کیا ہی پاک وجود تھیں جنہوں نے ایک یتیم کو اپنے نکاح کے لئے چن لیا جو بڑا ہی قابل ستائش فعل ہے لیکن وہاں زیادہ احسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر آتا ہے کیونکہ ایک عمر رسیدہ اور بیوہ خاتون کو اپنے نکاح کے لئے منظور کر لیا.لیکن ہماری اس خدیجہ نے اپنے لئے زیادہ عمر کے اور گاؤں کے رہنے والے شخص کو منظور کر لیا.ذریت طیبہ چھٹا احسان آں سیدہ کا ہم پر یہ ہے کہ جس طرح حضرت آدم صفی اللہ آدم اول کو اپنی زوجہ سمیت جنت میں سکونت پذیر رہنے کا حکم ملا تھا جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے یا آدم اسکن انت و زوجك الجنة.یہی حکم آدم ثانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کے حضور سے ملا کہ یا آدم اسکن انت وزوجك الجنة ليكن آدم صفی اللہ کی زوجہ نے ممنوعہ پھل کھا لیا اور اپنے اور اپنے شوہر کے جنت سے نکلنے کا موجب بنیں.لیکن آدم ثانی کی زوجہ مطہرہ نے نہ صرف ممنوعہ پھل سے اجتناب ہی کیا بلکہ اُس کے مقابل پر اپنے گھر کو اپنے شوہر کے لئے جنت بنائے رکھا اور ایسے پانچ شیریں پھلوں کا تحفہ دیا کہ جن کی شیرینی سے دنیا جہاں محفوظ ہورہا ہے انہیں پھلوں کے ذریعہ اُس شیطان کا زور کچلا جائے گا جس نے آدم اول کو اذیت پہنچائی تھی اور اُس سے پورا بدلہ لیا جائے گا.ان پھلوں میں سے ایک پھل محمود ہے جس کا مقام نہایت ہی ارفع ہے جس کے دست مبارک سے آج اسلام دنیا جہاں میں از سر نو قائم ہورہا ہے جو کہ مظہر ہے آنحضرت کی اس تجلى كا جس كو عسى ان يبعثك ربك مقاماً محمودا ، میں بیان کیا گیا ہے اور جو کہ پورا کرنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمودہ کو جُــــــت لِي الْأَرْضُ
113 مَسْجِد ا آج حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے دست مبارک سے تمام دنیا میں مساجد تیار ہوکر آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو سچا ثابت کر رہے ہیں.ہمارے محمود نے اپنی اسلامی خدمت کو ایک عجیب لطیف رنگ میں اپنے اس شعر میں بیان فرمایا ہے کہ میدان عشق میں ہیں رہے پیش پیش وہ محمود بن گئے وہ بنے ایاز ہم تعلیم وتربیت ساتواں احسان آں سیدہ کا یہ ہے کہ اپنے پیارے مسیح کی مفارقت کے بعد نیب ہونے کی حالت میں چوالیس سال زندہ رہیں اور وہ روح الصدق دنیا میں پھونکے رکھی اور تربیت جسمانی اور روحانی اولاد کی گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر کو چوالیس سال لمبا کر دیا.معلوم ہوتا ہے کہ بکر و ثیب کا الہام اسی غرض سے کیا گیا تھا کہ بکر ہونے کی حالت میں تو نسل مطہرہ جنے گی اور مجیب ہونے کی حالت میں اُس نسل کی تربیت کریں گی یہ دونوں کام ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے تھے بلکہ اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے وقت میں جبکہ عالم اسلام پر اندھیرا چھایا ہوا تھا.اسلام کی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور ہر مذہب وملت کے لوگوں کو للکارا کہ آؤ اور اپنے مذہب کا اسلام سے مقابلہ کرو اور ایسے روشن دلائل اسلام کی صداقت برتری اور زندہ مذہب ہونے کی پیش کئے کہ دنیا ششدر رہ گئی اور تن تنہا اس تن خاکی کو اس جانکا ہی کے کام میں لگا دیا حتی کہ خدا اور اس کے فرشتے آسمان سے آپ کی مدد کے لئے اُتر آئے آپ اس کام میں تھک کر چور ہو گئے.آخر ارحم الراحمین کا رحم جوش میں آیا اور آپ کو اپنے پاس بلا لیا کہ آپ نے فرض کو ادا کر دیا ہے اور اب آپ مزید وقت کے لئے اس مشقت کو برداشت کرنے کے لائق نہیں رہے نیز آپ کو اس وقت کے آنے سے پہلے اٹھا لیا جس میں وہ حالات پیدا ہوئے جو سخت تکلیف دہ تھے.لیکن ساتھ ہی آپ کو قدرت ثانیہ کے ظہور کی بشارت دیدی اور آپ کے قلب کو سکنیت بخش.دی وہ کیا ہے قدرت ثانیہ یہی سیدہ ام المومنین اور آپکا پیارا محمود ان دونوں ماں اور بیٹے نے اپنی
114 مریمی صفات اور مسیحی نفس سے دنیا کو پاک کیا اور پہلے مسیح کی نا کامی کا بدلہ لیا اور شیطان کو راستہ سے ہٹا دیا اور کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے.۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے جبکہ ہمارا مثیل مسیح معہ اپنی والدہ کے کشمیر گیا ہاں اس وقت گیا جبکہ مستریوں نے گندہ دہانی سے سے دلوں کو سخت مجروح کیا تھا جب اُس مقام پر قیام پذیر ہوئے جس کو پہل گام کہتے ہیں.جو کہ ایک سرسبز ٹیلہ ہے جس کی دو ڈھلوانوں کے نیچے دو شفاف چشمے بہتے ہیں تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ غالباً یہی میدان کشمیر ہے جس کو ذکر قرآن میں وَاوَيْنَا هُمَا إلى رَبُوَ....میں کیا گیا ہے اس وقت ہمارا مسیح اپنی والدہ سمیت مستریوں سے سخت تکلیف اٹھا کر آیا ہے اور آرام لے رہا ہے.غالباً پہلا مسیح بھی اسی جگہ پر آرام پذیر ہوا ہو گا.۱۳ شفقت ہی شفقت شـ مکرمہ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ تحریر کرتی ہیں: آج حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے بے شمار بچوں کو غمگین اور حسرت زدہ چھوڑ کر مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئیں.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا لَيْهِ رَاجِعُون بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر میں تو آپ کی شفقت اور محبت مادرانہ کی وجہ سے اپنے آپ کو آپ کی بیٹی ہی سمجھتی رہی ہوں.بچپن میں بھی اسی یقین کی وجہ سے ایک فخر سا پیدا ہو گیا تھا.اُس وقت یہ سمجھ ہی نہ تھی کہ حضرت اماں جان تو ہزاروں لاکھوں مومنوں کی ماں ہیں.آپ کی شفقت و محبت بہت وسیع ہے.بچپن تو غفلت اور بے فکری کا زمانہ تھا مگر جب مصائب و رنج وغم کا وقت آیا، خصوصاً جب والد صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو وہ وقت بھی حضرت اماں جان کی شفقت و نصائح کی وجہ سے قابلِ برداشت ہو گیا.میری والدہ مرحومہ بھی بہت صابر و شاکر ، بہت مومن مخلص و دلیر خاتون تھیں اور ان کو حضرت اماں جان مرحومہ سے خصوصاً اور سب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عموماً والہانہ عشق تھا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے تو بے حد محبت
115 تھی.خدا تعالی ان با برکت وجودوں کو اپنی جناب سے ہی اس صدمہ عظیم کی برداشت اور صبر جمیل عطا فرمائے اور آئندہ کوئی غم وفکران کے قریب نہ آنے دے.آمین ثم آمین.حضرت اُم المومنین کا تعلق اور لطف و کرم بھی ایک عجیب شان رکھتا تھا.مجھے ہمیشہ یہی شوق ہوتا کہ میں حضرت اماں جان کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں اور آپ مجھ سے کوئی خدمت لیں.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہمیں اپنے ہر قسم کے کام کا بہت بے تکلفی سے حکم دیتیں اور اپنی خدمت کا موقع عطا فرما تیں رہتیں.اپنے والدین کو بھی دیکھتے تھے کہ وہ حضرت اُم المومنین کی خدمت کو سب دوسرے کاموں سے زیادہ مقدم سمجھتے.والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بھی لاہور جاتے تو پہلے حضرت اُم المومنین کی خدمت میں حاضر ہوتے.آپ نے اگر کچھ منگوانا ہوتا تو بتا دیتیں یا کوئی اور کام ہوتا تو اس کی ہدایت فرما دیتیں.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا برقع سینے کی سعادت تو ہمیشہ والدہ صاحبہ مرحومہ اور عاجزہ کو حاصل ہوتی رہی.خدا تعالیٰ نے ہمیں بہت مبارک زمانہ عطا فرمایا آئندہ لوگ اس وقت کو ترسیں گے.مگر ہم نے بھی زمانہ کی قدر کا جتنا حق تھا وہ ادا نہیں کیا.کئی بار ایسا ہوا کہ میں حضرت اماں جان کا کوئی کام نہ کر سکتی تو نادم ہوتی.مگر آپ بڑی شفقت اور خوش خلقی سے اس ندامت کا احساس بھی مٹادیتیں.آپ کے احسانات تو ہم پر بے شمار ہیں مگر ان کا لکھنا اور ترتیب دینا بہت مشکل ہے.غالباً پہلی جنگ عظیم کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العز یز حضرت اماں جان اور سب خاندان والے بمبئی تشریف لے گئے تھے.جب بمبئی سے واپس تشریف لائے تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا حسب معمول اپنے باغ میں تشریف لائیں (ہم لوگ ان دنوں آپ کے باغ والے مکان میں رہتے تھے.) آپ چبوترے کی طرف سے بڑے کمرے کے دروازہ سے تشریف لائیں.والدہ صاحبہ وہیں بیٹھی کچھ کام کر رہی تھیں ، آپ کو دیکھ کر کھڑی ہو گئیں.میں بھی وہیں تھی.اماں جان نے دروازے میں قدم رکھتے ہی اپنی بلند و شیر میں آواز میں فرمایا.السلام علیکم عزیزہ کی اماں والدہ صاحبہ نے مصافحہ کیا.میں نے بھی سلام عرض کیا تو آپ نے
116 والدہ صاحبہ مرحومہ کے ہاتھ دیکھ کر اچانک فرمایا کہ تمہارے ہاتھ کیوں خالی ہیں ؟.والدہ صاحبہ نے بتایا کہ میں نے کڑے بیچ کر دار الرحمت میں زمین خرید لی ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ تو اچھا کیا مگر تمہارے خالی ہاتھ مجھے اچھے نہیں لگتے.پھر آپ نے سونے کی چوڑیاں جو آپ نے بمبئی سے نئی خریدی تھیں اپنے دست مبارک سے اتار کر والدہ صاحبہ کو پہنا دیں.میں دیکھ رہی تھی، پہلے والدہ صاحبہ کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا پھر ایک دم اماں جان کی طرف دیکھا، کچھ فکرمند ہو گئیں.حضرت اماں جان نے فرمایا کوئی فکر نہ کرو جب روپے ہوں گے دے دینا.مکان نصرت اماں جان کا ہی تھا اور شاید دس ماہ کا کرایہ قابل ادا ہو گا غالبا اماں مرحومہ کو یہی خیال آیا ہوگا.واللہ اعلم.وہ چوڑیاں اس کے بعد والدہ صاحبہ مرحومہ نے کبھی بھی نہیں اتاریں وفات کے بعد غسل دیتے ہوئے ہی اُتاری گئیں.اب یہی چوڑیاں خاکسار کے ہاتھ میں ہے.صرف حقیقی ماں ہی اپنی بیٹیوں کے لئے ایسا احساس رکھ سکتی ہے کہ ان کے ہاتھ خالی نہ ہوں.حضرت اماں جان کی شفقت سب کے لئے ماں سے بھی بڑھ کر تھی.پھر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے والد صاحب اور سب کی خیریت دریافت فرمائی اور تھوڑی دیر تک ہمارے گھر میں تشریف فرمار ہیں بعد میں صحن کے دروازہ سے جو بہشتی مقبرہ کی طرف تھا وہاں سے تشریف لے گئیں.شاید امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ بھی ساتھ تھیں.میں بھی ساتھ ہی چلی گئی.( میں اور سید امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ قریباً ہم عمر ہیں ) پہلے آپ نے مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دعا کی تھوڑی دیر باغ میں سیر کر کے واپس تشریف لے گئیں.کچھ اور عورتیں بھی ساتھ تھیں مگر اب مجھے یاد نہیں کون کون تھیں.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کبھی روزانہ اور کبھی دوسرے تیسرے دن ضرور باغ میں تشریف فرما ہوتیں اور ہمارے گھر بھی رونق افروز ہوتیں.امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اکثر والد ہ صاحبہ سے سلائی سیکھنے کے لئے وہیں چھوڑ جاتیں.والدہ صاحبہ کو بہت ہی اچھا سلائی کا کام آتا تھا میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ اکٹھی ہی سیکھا کرتی تھیں.محلہ ناصر آباد کی بہت سی لڑکیاں بھی امتہ الحفیظ بیگم کا سن کر آ جاتیں.حضرت اماں جان بھی بسا اوقات چار بجے تک وہیں تشریف رکھتیں.ہم سب بچیاں آپ کے سامنے باغ میں کھیلتی رہتیں اور خوب پھل وغیرہ تو ڑ کر کھاتیں.کچی لو کاٹیں ، آم اور گل گلیں تک تو ڑ کر نمک مرچ سے
117 کھاتی رہتیں.چٹنیاں بناتیں.پکوان تلتیں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے کبھی کسی کو منع نہیں فرمایا.بلکہ آپ بہت خوش ہوتیں اور خود پھل توڑ کر ہمیں عطا فرماتیں.میں کئی سفروں میں بھی حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہی.بہت کچھ لکھنے کو دل چاہتا ہے ، پھر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو لکھوں گی.مصباحی بہنوں سے دعا کی درخواست ہے.عموماً صحت خراب رہتی ہے.۱۲
118 حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نیک دل برکات الہی کا منبع تاثرات حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان ) حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے ابتدائی ☆ ☆ عمر میں رویائے صادقہ والہامات سے مشرف فرمایا.اور آپ کا وجود برکات اور نشانات کا مخزن اور منبع تھا ( حضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں) ( نوٹ : حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر مکرم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جناب تاثیر احمدی صاحب نامه نگار الفضل.دوران ملاقات مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار فرمایا.) حضرت اماں جان کا وجود باجود نہ صرف خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بلکہ تمام جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی برکات کا موجب تھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندہ یاد گار تھیں.اور اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان نشان ” مصلح موعود کا وجود آپ کے بطن مبارک سے ہی پیدا ہوا.اسی طرح سینکڑوں نشانات آپ کی ذات والا صفات سے پورے ہوئے اور ہور ہے ہیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان زندہ ثبوت تھیں.اور اسلام اور احمدیت کی صداقت اور حقانیت کا بھی زندہ نشان تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا ذکر کرتے ہوئے چودھری صاحب موصوف نے فرمایا کہ: حضور کو مورخہ ۲۶ رمئی ۱۹۰۵ء کو الہامات ہوئے: (1) رد اليها روحها وريحانها (۲) اني رددت اليها روحها و ریحانها ( بدر جلد نمبر ۸ صفحه ۲ و تذکره صفحه ۷-۵)
119 یعنی (۱) اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اس کے آرام اور اچھے رزق کو لوٹایا.(۲) میں نے اس کی طرف اس کے آرام کو اور اچھے رزق کو لوٹا دیا.ان الہامات سے مترشح ہوتا ہے کہ اس میں خلافت کے اجراء کی طرف اشارہ ہے.اور حضرت اماں جان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مندرجہ بالا الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دی تھی.کہ خاندان مسیح موعود علیہ السلام پر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی وجہ سے یتیم و بے کس نظر آتا تھا.اللہ تعالیٰ انوار و برکات روحانیہ پھر لوٹا دے گا.اور خود کفیل ہو گا.اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں.حضرت اُم المومنین کو نہ صرف ابتدائی عمر ہی میں اللہ تعالیٰ نے رویائے صادقہ اور الہامات سے مشرف فرمایا.بلکہ آپ کے وجود باجود کو بہت سی برکات اور نشانات کا مخزن اور منبع بھی بنایا.چنانچہ آپ کے بطن مبارک سے جتنی بھی اولاد پیدا ہوئی.وہ ساری کی ساری مبشر تھی.اور ان میں سے ایک عظیم الشان نشان ” مصلح موعود کی صورت میں ظاہر ہوا.( جیسا کہ حدیث نبوی علی يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُلَهُ میں بھی اشارہ ہے) صاحب رؤیا وکشوف حضرت اماں جان کے رویا و کشوف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا.کہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین کا ایک رویا اپنی کتب میں درج فرمایا ہے.کہ بشیر اول کی وفات کے بعد حضرت اماں جان نے رویا دیکھا کہ بشیر اول مرحوم آیا ہے اور آپ کو چمٹ گیا ہے.اور آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے.لا افارقك بالسرعة “كراب میں آپ سے جلد جدا نہیں ہوں گا.اس رویا سے جہاں بشیر ثانی کی لمبی عمر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.وہاں حضرت اماں جان کی خارق عادت لمبی عمر پانے کی طرف بھی بالتصریح اشارہ موجود ہے.چنانچہ آپ نے ۸۶ سال کی عمر پائی.یہ ایک دو ہری بشارت تھی.کہ ماں بیٹے کی مشترکہ عمر لمبی ہوگی.چنانچہ ماں بیٹے کو ایک دوسرے کی رفاقت ۶۳ سال تک عطا کی گئی.اس رویا کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام رد اليها روحها وریحانھا کے ساتھ ملانے سے واضح ہو جاتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے وجود باجود میں بہت سی برکات جمع
فرما دی تھیں.120 اسی طرح آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بشارت دی تھی.کہ آپ کے فلاں فلاں اعضاء پر ضعف نہیں آئے گا.نیز آپ کا خطر ناک طور پر بیمار ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے شفا پا جانا اور آپ کی صحت کے لئے اللہ تعالیٰ کا دعائیہ الفاظ بتلانا یہ تمام امور بھی آپ کے نہایت بابرکت وجود ہونے پر دال ہیں.مهمان نوازی حضرت اماں جان کی مہمان نوازی اور شفقت کا ذکر کرتے ہوئے چودھری صاحب محترم نے فرمایا کہ: حضرت خلیفہ اسیح اول کے زمانہ اوائل اگست ۱۹۱۱ء میں میں بغرض تعلیم لندن روانہ ہونے والا تھا.اپنے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے ہمراہ قادیان پہنچا.حضرت اماں جان نے ایک وقت کا کھانا خود اپنے ہاتھ سے پکا کر ہمیں بھجوایا.اور اسی طرح دوسرے مہمانوں کے ساتھ بھی آپ کمال شفقت اور تواضع سے پیش آتیں.اور مجھتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں.چنانچہ مہمانوں کے لئے ہر آرام اور آسائش کا خیال رکھتیں.اور ان کی راحت کے پیش نظر خود چار پائیاں اٹھانے سے بھی دریغ نہ کرتیں.حضرت اماں جان کی سادگی اور شگفتہ طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے بیان فرمایا کہ.ایک دفعہ حضرت اُم المومنین معہ خاندان جس میں چھوٹے بچے بھی کافی تھے.سری نگر کشمیر تشریف رکھتی تھیں.ایک دن حضرت اماں جان سیر کے لئے باہر تشریف لائیں.تو میں نے حضرت اماں جان سے دریافت کیا.کہ اتنے بچوں کو آپ کیسے پہچان لیتی ہیں.تو آپ نے مسکراہٹ سے فرمایا.کہ بڑے بچوں کے تو سب کے نام مجھے یاد ہیں اور چھوٹے بچوں کے متعلق اتنا جانتی ہوں کہ یہ سب اپنے ہی ہیں.۱۳)
121 تاثرات جناب چوہدری عبداللہ خان صاحب (امیر جماعت احمدیہ کراچی نے حضرت اُم المومنین کی اندوہناک وفات کی خبر سن کر تا ثیر احمدی صاحب سے ملاقات کے دوران میں مندرجہ ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا ) حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیشہ مجھ سے احسان و شفقت کا سلوک فرمایا میری بیوی اور بچوں سے بہت محبت فرماتی تھیں اور مختلف طریقوں سے عنایات فرماتی تھیں.۱۹۳۲ء میں گورداسپور ہمارے پاس تشریف لائیں.گو میر امکان شہر گورداسپور سے ایک ملحقہ بستی میں تھا اور راستہ بھی صاف نہیں تھا.مکان بھی کسی رنگ میں ان کے قیام کے قابل نہ تھا.لیکن آپ نے کئی دن قیام فرمایا اور با وجود یہ کہ ہم کسی خدمت کے قابل نہ تھے آپ بہت خوش رہیں.اسی طرح جب مرزا عزیز احمد صاحب قصور میں مجسٹریٹ تھے اور یہ عاجز بھی وہاں ملازم تھا.آپ حضرت مرز اصاحب کے موصوف کے ہاں تشریف لائیں اور ہمیں اپنی محبت شفقت اور احسانات وعنایات میں برابر شریک فرماتی رہیں.میری کسی قسم کی ترقی کی اطلاع سے ہمیشہ بہت خوش ہوتیں اور میری کسی رنگ کی تکلیف کی اطلاع ہونے پر ہمیشہ دریافت فرمایا کرتی تھیں اور دعا فرمایا کرتی تھیں اللهم ارفع درجتها في جنته الاعلے آمین.۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۶ء تک میں ٹانگ کی بیماری میں مبتلا تھا اور آخری چار پانچ سال چلنے پھرنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی تھی.بالآخر ۱۹۴۶ء اپریل میں بھائی جان چودھری ظفر اللہ خان سلمہ اللہ تعالیٰ مجھے انگلستان لے گئے لنڈن میں میرا اپریشن کروایا ( فجزا الله احسن الجزاء) الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ مجھے صحت بخشی اور اکتوبر میں خاکسار ہندوستان کے لئے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب جو ان دنوں انگلستان تشریف لے گئے ہوئے تھے کے ہمراہ واپس ہوا.۲۶ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو اس عاجز نے دارالامان پہنچتے ہی مسجد مبارک میں دو نفل شکرانہ ادا کئے.ابھی میں التحیات میں بیٹھا تھا کہ کسی خادمہ کی آواز سنائی دی کہ عبداللہ خاں کہاں ہے.اماں جان ان سے ملنے کے لئے کھڑی ہیں اور بلوارہی ہیں.وہ خادمہ مجھے پہچانتی نہیں تھی
122 اور ادھر اُدھر پوچھ رہی تھی.آخر کسی دوست نے بتایا کہ عبداللہ خاں وہ بیٹھا ہے میں نے سلام پھیرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ اماں جان تمہارا انتظار کر رہی ہیں.اماں جان کی اس بے اختیار محبت و شفقت کا خیال کر کے میں آبدیدہ ہو گیا.میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھ کر بہت دعائیں دیں.ٹانگ کے متعلق تفصیلاً دریافت فرمایا اور پھر فرمایا کہ تم میرے سامنے چلو اور میں دیکھوں.میں نے چل کر دکھایا بہت ہی خوش ہوئیں.اللہ تعالیٰ کا شکر فرمایا اور مجھے دعائیں دیتی رہیں.پھر دریافت فرمایا کہ میاں منصور اور تم اکٹھے آئے تھے وہ کیوں نہیں پہنچے.میں نے ان کے متعلق تفصیلات بتلائیں.اس کے بعد اجازت حاصل کر کے یہ عاجز سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے آگیا.مکرم چودھری صاحب نے فرمایا کہ اس وقت کی کیفیت اور لذت سے کچھ میں ہی واقف ہوں.اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے میں نے ہمیشہ ہر نماز میں حضرت اماں جان کے لئے دعا کی اور جب تک زندہ ہوں انشاء اللہ العزیز اپنی اماں جان رضی اللہ عنہا کی بلندی درجات کے لئے دعا کرتا رہوں گا.و ماتوفيقي إلا بالله العلى العظيم.اللهم ارفع درجاتها في جنة الاعلى آمین !
123 مادر مہرباں حضرت سیدہ النساء اماں جان تا ثرات حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ قادیان دارالامان ) میں ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء میں بچپن میں اپنے گاؤں فیض اللہ چک سے قادیان آیا.مجھے میرے ماموں حضرت حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ ساتھ لائے تھے.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کیا تھا میرے والد صاحب کو جو گول کمرہ میں ہی فوت ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُم المومنین علیہ السلام بخوبی جانتے تھے.حضور علیہ السلام نے میرے پیش ہونے پر میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے لئے وظیفہ کی سفارش فرمائی.اس وقت تین روپیہ ماہوار سے زیادہ کسی شخص کا بھی وظیفہ نہ تھا لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی شفقت خاص سے اس عاجز کا وظیفہ پانچ روپیہ ماہوار مقرر ہوا.متعلق میری ممانی (حضرت حافظ حامد علی صاحب کی اہلیہ ) حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رہتیں.اور ان کا وہیں کھانا پینا اور رہائش تھی.میں بھی ابتداء میں ان کی وجہ سے اکثر وہیں رہتا تھا.میں نے حضرت اماں جان کا سلوک و احسان جو اپنے دیکھا.اور جو دوسروں کے متعلق مشاہدہ کیا.وہ ایک نہ بھولنے والی داستان ہے.جس کی یاد میرے ذہن اور قلب پر منقوش ہے.اور جس کی وجہ سے ہر وقت میرے دل کی گہرائیوں سے آپ کے لئے اور آپ کی سب اولاد کے لئے دعائیں نکلتی رہتی ہیں.جب بھی حضرت اماں جان اپنے کسی صاحبزادہ یا صاحبزادی کو کوئی مٹھائی یا کھانے پینے کی کوئی چیز دیتیں تو اس خادم غلام زادے کو بھی کبھی فراموش نہ کرتیں.گو میں بورڈنگ میں رہتا تھا لیکن کثرت سے اور بار بار ” الدار میں آنے اور رہنے کی سعادت ملتی رہتی تھی.اور بہت ہی کثرت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تبرک کھانے کا بھی موقعہ ملتا تھا.میری والدہ جس نے مجھے جنا اس کا دودھ شاید میں نے پیا ہوگا.لیکن اس سے زیادہ اس کی پرورش کا مجھے علم نہیں.حضرت اماں جان ہی تھیں جنہوں نے مجھے جب میں اپنی ممانی کے ساتھ
124 الدار میں بود و باش رکھتا تھا.میری پرورش اور ہر طرح خبر گیری کی.یہ احسانات حضرت اماں جان کے صرف مجھ پر ہی نہ تھے بلکہ مجھ جیسے بیسیوں غلاموں کی زندگی کا ہر ہر لمحہ حضرت ممدوحہ کے احسانات کا رہین تھا.میری آنکھیں اشکبار ہیں.اور دل درد سے بھرا ہوا ہے لیکن سوائے خدائے ذوالجلال کے حضور اماں جان اور حضرت ممدوحہ کی اولا د ولواحقین کے لئے دعا اور التجا کے اور کچھ نہیں کرسکتا.میرے دل و دماغ میں اس زمانہ کی پر سرور یاد ابھی تک تازہ ہے.جب حضرت اماں جان کے صحن میں ہاں اسی صحن میں جہاں حضرت اماں جان اپنے ارضی جسم کے ساتھ دوبارہ نہ آئیں گی میں اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور کبھی صاحبزادگان میں سے کوئی کبڈی کھیلا یا کشتی کیا کرتے تھے.اور میری ممانی اس شور و شغب کی وجہ سے مجھے کبھی ڈانٹ بھی دیا کرتیں.لیکن حضرت اماں جان ہماری بچپن کی اٹھکیلیوں پر باز پرس نہ فرماتیں.مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے.جب ہمارے آقا اور خدا تعالیٰ کے پیارے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت ام المومنین علیہا السلام کے باغ میں تشریف لے جاتے ہم بچے بھی ساتھ ہوتے.دونوں آقاؤں کے سامنے ہم درختوں سے شہوت اور لوکاٹ وغیرہ کے پھل توڑتے اور کھاتے لیکن ہمارے یہ حسن و مہربان اس پر کبھی گرفت نہ کرتے.بلکہ ہماری خوشی سے حقیقی خوشی اور راحت محسوس کرتے اور ہم حقیقت میں یہی سمجھتے کہ یہ باغ اور اس کے پھل ہماری ہی ملکیت ہیں.حضرت اماں جان کی شفقت اور احسان کا سلوک صرف میرے بچپن تک ہی محدود نہ رہا.بلکہ جب میں شادی کے قابل ہوا تو میری شادی کے جملہ انتظامات بھی حضرت اماں جان اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمائے.اور میرے آرام و سہولت کا ہر طرح خیال فرماتے رہے.جو ناز اور اعتماد کسی چہیتے بیٹے کو اپنے حقیقی والدین پر ہو سکتا ہے.اس سے بڑھ کر ہمیں حضرت اماں جان پر تھا.ایک دفعہ کسی تقریب پر حضرت اماں جان نے میری بیوی یا اس کی بہن کو نہ بلایا.جس پر وہ روٹھ گئی تو حضرت اماں جان نے از راہ شفقت خاص طور پر ان کو بلوایا اور دلداری کی.میں اس بات کو تحدیث بالنعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ بسا اوقات کئی ایک کام جو حضرت اماں جان اپنے دوسرے خدام سے زیادہ عمدگی سے کروا سکتی تھیں اس خادم اور غلام کے سپر دفرماتیں.حالانکہ مجھ سے زیادہ اہل موجود ہوتے.اس کی وجہ
125 میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت مدوحہ پرانے تعلق کو مد نظر فرما تھیں.میں اس وقت حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت اور حالات کے متعلق تفصیل سے کچھ لکھ نہیں سکتا.حضرت ممدوحہ کی فرقت نے نڈھال کر دیا ہے.آخر میں صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت اماں جان کو میں نے اپنی زندگی میں بہترین اخلاق والی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت کی بہترین طور پر اہل پایا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کی مستورات میں صرف یہی وجود تھا.جو ہر طرح خدا تعالیٰ کی خدیجہ، اس کی نعمت ، مقدس خاندان کی بانی اور طالمود اور حدیث شریف کی موعودہ ہونے کی اہل تھیں.خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور فضل اس مقدس ہستی اور اس کی مقدس اولاد اور اولاد در اولاد پر ہوں اور خدا تعالیٰ قیامت تک اس کے سلسلہ کو بابرکت و ممتاز رکھے اور آپ کو اپنے مقدس آقا کے پہلو میں اعلیٰ مقام پر جس کی وہ مستحق ہیں فائز فرمائے.آمین ۱۵
126 حضرت سیدۃ النساء کا روحانی اور اخلاقی کمال حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ یکے از احباب تین صد تیرہ تحریر فرماتے ہیں: میں بچہ تھا جب قادیان میں اللہ تعالیٰ مجھے لایا.اور اب ۷۸سالہ بوڑھا ہوں.میری قریباً ساٹھ سالہ زندگی ”الدار کی ڈیوڑھی کی دربانی میں اور سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین اعلیٰ اللہ درجاتہا فی الجنہ کے قدموں میں گزری.میں ملک کے طول و عرض میں مختلف اسفار میں حضرت ممدوحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمرکاب رہا.اس عرصہ میں جو کچھ حسن سلوک ، عطایا اور انعامات مجھ غلام پر سیدہ اطہرہ کی طرف سے ہوئے وہ میرے لئے احاطہ تحریر میں لانے ناممکن ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے غلامی اور یتیمی کی حالت میں قادیان کی بستی میں پہنچایا.لیکن حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی تو جہات کریمانہ اور احسانات بے پایاں نے مجھے سب غم بھلا دیئے اور وہ اطمینان وسکون اور سہولت و آرام بخشا جو ایک بچہ کو حقیقی ماں کی گود میں بھی میسر نہیں آسکتا.میں نے اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں جو حضرت ممدوحہ کے قدموں میں گزاری آپ کو بہترین شفیقہ ، اعلیٰ ترین اخلاق کی مالکہ ، ہمدرد و تقوی شعار اور خدا تعالیٰ کی راہ میں راستباز پایا.اور آج جبکہ دنیا کی یہ محسنہ ہم سے جدا ہوگئی ہیں.اپنے لمبے تجربہ کی بناء پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا نقشہ گانَ خُلُقُهُ الْقُرآن کے الفاظ میں کھینچا تھا.اسی طرح حضرت اُم المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اخلاق کا نقش كان خلقها كخلق المسيح الموعود کے الفاظ میں کھینچتا ہوں.یعنی حضرت اُم المومنین نصرت جہاں بیگم کے اخلاق وہی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام
127 کے اخلاق تھے.اور آپ کی عادات و اطوار اور سیرت و کردار وہی تھے جو مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجہ محترمہ کے ہونے چاہئیں تھے.جب بچپن میں خدا تعالیٰ کے خاص ہاتھ نے مجھے بت پرست قوم سے نجات دے کر نور ایمان و اسلام سے منور کیا.تو میری حقیقی والدہ جس نے مجھے جنا تھا.اپنی مامتا سے مجبور ہوکر ایک سے زیادہ بار مجھے واپس لے جانے کے لئے قادیان آئی لیکن مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کی غلامی اتنی محبوب اور دل پسند تھی کہ میں نے اس کو ہزار آزادیوں اور آراموں پر ترجیح دی.اور جب ایک دفعہ میرے والد نے بڑی آہ وزاری والحاح سے مجھے واپسی کے لئے مجبور کرنا چاہا تو میں نے اس واقعہ کے مطابق جو حضرت زید مولی رسول ﷺ سے متعلق ان کے والدین کو پیش آیا تھا اپنے مقدس آقا کو جس کی غلامی میں میں تھا چھوڑنے سے انکار کر دیا.اپنی والدہ کو یہ کہا کہ وہ ذرا اس مقدس اور پُر شفقت ہستی کو تو ملے جس کی غلامی پر مومنوں کی تمام جماعت فخر کرتی ہے.چنانچہ میری والدہ میری درخواست و اصرار پر سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے ملاقی ہو ئیں اور تھوڑے سے وقت کی ملاقات سے ہی حضرت ممدوحہ کے اخلاق کریمانہ کی والہ و شیدا ہو کر واپس لوٹیں اور اس بات کا اظہار کرتی تھیں کہ اگر میرا بچہ مجھے چھوڑ کر ایک ایسی مشفقہ اور کریمہ ومحسنہ کی غلامی میں آگیا ہے تو یہ میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے کوئی باعث تشویش امر نہیں.یہ تھے سیدۃ النساء کے اخلاق فاضلہ.اس وقت صدمہ تازہ ہے اور زخم ہرے ہیں.اس لئے جذبات میں کھوئے جانے کے باعث اپنے خیالات کو مجتمع نہیں کر سکتا اور نہ ہی حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت کے متعلق سر دست تحریر کر سکتا ہوں.ہاں ایک دو مختصر واقعات احباب کے سامنے پیش کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے مقدس ایام تھے.حضور لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب کے گھر میں فروکش تھے.ایک دن بعض دوستوں نے مجھے سے حضرت اقدس علیہ السلام کا تبرک حاصل کرنے کی فرمائش کی.میں اپنے آقا کی عقبہ عالیہ پر حاضر ہوا.دستک دی.اندر سے سیدۃ النساء نے فرمایا کون ہے عرض کی حضور خادم و غلام عبد الرحمن قادیانی.آنے کی غرض دریافت فرمائی.جس پر اس عاجز نے عرض کی کہ مسیح پاک کے تبرک کے حصول کے لئے حاضر ہوا ہوں.
128 حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے کھانا چنا ہوا تھا اور حضور معہ اہل بیت تناول فرما رہے تھے.سیدۃ النساء نے طشت آگے سے اٹھایا اور اس حقیر خادم کو عطا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں فرمایا کہ بھائی جی آپ تبرک مانگتے ہیں؟ آپ تو خود ہی تبرک ہو گئے ہیں.“ اللہ! اللہ ! حضرت ممدوحہ کی نگاہ لطف نے اس حقیر غلام کو غلام ہوتے ہوئے بھی تبرک بنا دیا.محترم قارئین کرام! میں اس موقعہ پر آپ سے التجا کرتا ہوں کہ از راہ کرم اس نوٹ کو پڑھتے ہوئے اور بعد میں بھی دعا فرمائیں.کہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ کو حقیقت ہی بنادے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب حضور کا جسدِ اطہر بٹالہ سے قادیان لایا جا رہا تھا.تو اس خادم کی ڈیوٹی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے رتھ کے ساتھ تھی.حضرت ممدوحہ اس وقت خاموشی کے ساتھ ذکر وافکار اور دعاؤں میں مشغول تھیں اور صبر و رضا کا کامل نمونہ پیش فرمارہی تھیں.جب رتھ نہر کے پل سے نکل کر آگے بڑھی.تو حضرت ممدوحہ نے دلسوز اور رقت آمیز آواز سے فرمایا ” بھائی جی پچیس سال گزرے میری ڈولی اس سڑک پر سے گزری تھی.آج میں بیوگی کی حالت میں اس سڑک پر سے گزر رہی ہوں.یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے اور درد پیدا کر رہے ہیں.میں بچہ تھا جب والدین اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر قادیان پہنچا.لیکن سیدۃ النساء کی شفقت اور مہربانی کی وجہ سے میں نے اور دوسرے احمدی بھائیوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اکیلا اور یتیم نہیں سمجھا تھا.اور اس شفیق ہستی کے طفیل ہم نے سب رشتہ داروں کو بھلا دیا تھا.لیکن اب جبکہ حضرت مدوحہ کی وفات کا حسرت ناک واقعہ ہوا ہے ہمارے دل غم سے نڈھال ہو گئے ہیں.اور ہم اپنے آپ کو پھر یتیم محسوس کرتے ہیں.اے خدا تو اس مبارک وجود کو جس کو تو نے اپنی خدیجہ اور اپنی نعمت قرار دیا.جس کو تو نے مقدس خاندان کا بانی بنایا.جس کے ذریعہ سے تو نے پنجتن پاک کا ظہور فرمایا.جس کو تو نے مسیح پاک اور بروز محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا فخر بخشا.اعلیٰ علیین میں مقام بلند وارفع عطا فرما.اور اس کے درجات ہر آن بلند فرماتا چلا جا اور اس کی اولاد اور لواحقین پر بھی بے شمار رحمتیں اور فضل نازل فرما.آمین ثم آمین ۱۵
129 تاریخ وصال حضرت اماں جان اعلیٰ اللہ در جانبا حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل تحریر فرماتے ہیں: آج کا دن (۲۱ اپریل) اپنی تمام محشر سامانیوں کے ساتھ ہم وابستگان دامن مہدویت پر طلوع ہوا.العين تدمع والقلب يحزن انا لله واناالیه راجعون.اور اس وقت مجھے آج سے ۴۵ سال قبل کا سانحہ ہو شر با یاد آرہا ہے جو اسی لاہور میں میری آنکھوں کے سامنے گزرا.ایک با برکت وجود ہم سے پنہاں ہو گیا.رحمة الله وبركاته عليكم يا اهل البیت.یہ سارا مهینه دعا و درود و استغفار میں گزرا.شب درمیان ۶/۷ اپریل میں نے دیکھا کہ مسجد کی محراب والی دیوار کے اوپر سے سفید کرنیں نکل رہی ہیں اور ان کی روشنی میں نظر آتا ہے کہ دیوار کریک (Crack) کھا گئی ہے.اس کے بعد ایک مصرعہ تھا ع سیده نصرت جہاں بے غم ہوئی چونکہ آپ ہی کی فکر و تشویش میں سوتا تھا اس لئے بے غم سے یہ حسب تمنا و قلبی تعبیر کی کہ بیماری کی تکلیف جاتی رہے گی.آج جب ریڈیو پر یہ خبر وحشت اثر سنی.اس کے بعد دیر تک تو مبہوت سار ہا بعد ازاں ایک طرف لا خوف عليهم ولا هم يحزنون یاد آیا دوسری طرف معایه کہ حضرت والد ماجد نے میری والدہ ماجدہ (جن کا نام مریم بیگم تھا ) کی وفات پر مجھے بتایا کہ انکی وفات کا سال ” مریم بے غم سے ( قمری ہجری ۱۳۴۲) نکلتا ہے.تب مجھے خیال آیا کہ کہیں اس مصرعہ کا بھی کچھ ایسا ہی مطلب ہو گا.چنانچہ میں نے اعداد ابجدی گنے تو ۹۵۲ اسن عیسوی مطابق ۱۳۷۱ھ نکلے.تو سبحان اللہ و بحمدہ زبان پر جاری ہوا.اس کے بعد ۱۶/۱۷ اپریل کو میں نے دیکھا کہ ایک دیوار کی مرمت ہو رہی ہے اور ایک انجینئر محمد شفیع نام مجھے بتاتے ہیں کہ سائینٹفک طریق سے معلوم ہوا کہ بعض خاص حصے دیوار کے پختہ ہوں تو آجکل کی چھت بھی سلامت رہتی ہے اور دیوار بھی.اس لئے آپ تعجب نہ کریں کہ کیوں خاص خاص جگہ بچہ کاری ہورہی ہے.ایک سفید ریش والے بزرگ ہیں جن کے ہونٹ اور داڑھی کی سفیدی ہی میری نظروں میں ہے.
130 وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ مغفور اور مغفورہ میں کیا فرق ہے.میں کہنے والا تھا تذکیر و تانیث کا.مگر جلد ہی انہوں نے اپنا کلام یوں مکمل کیا کہ باعتبار اعداد ابجدی.میں نے کہا پانچ کا.فرمانے لگے پینتالیس کا ( پنجابی میں پچتالی فرمایا ) اور پھر غائب ہو گئے.میں کچھ سمجھا نہیں.آج یہ نکتہ بھی مجھ پر کھلا ہے کہ مغفور کے اعداد (۱۳۲۶) ہیں اور یہ قمری ہجری سال وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور میرا ہی نکالا ہوا.اور مغفورہ (کے حروف ابجد ۱۳۳۱) ہیں تو یہ حضور کے زوج کا سال رحلت نشسی ہجری ہے.اور یوں ۱۳۲۶ تا ۱۳۷۱ ہجری میں ۴۵ سال کا فرق ہے اور ۵ کا بھی.ایک اور بات بھی سن لیجئے کہ میں نے ایک کتاب ” ظہور المسیح “ نام ۱۸۹۹ء ۱۹۰۰ میں لکھی تھی.اس کے ساتھ ایک تتمہ تھا.اس کتاب کا کچھ حصہ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی رضی اللہ عنہ کے ذریعے وزیر آبادہی میں چھپا.چھاپنے والا فوت ہو گیا اور مطبوعہ اور اق ۱۹۰۲ء میں مجھے مل سکے.اس میں آیت لیستخلفنہم کی تفسیر میں یہ بھی لکھا تھا کہ لام کے اعداد (۳۰) ہیں.یہ پہلی خلافتِ راشدہ کی مدت ہے اور آخر ( ھم ) کے اعداد ۴۵.یہ خلافت علی منہاج النوۃ کے ہیں.اس وقت حضرت مسیح موعود کا زمانہ مدنظر تھا کہ بعض روایات میں امام مہدی کے لئے ہم اور ۴۵ سال بھی آئے ہیں.یہ ایک ذوقی لطیفہ تھا.کیونکہ میرے نزدیک سوا اس کے کہ کوئی مامور من اللہ اعلام الہی سے یا کوئی مسلمہ بزرگ رویا سے ابجدی اعداد کے رو سے کوئی نکتہ نہ فرمائیں معاند و مخالف کیلئے محبت نہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نام ” غلام احمد قادیانی“ سے سن بعثت ۱۳۰۰ اور سورہ والعصر کے اعداد سے مدت پیدائش آدم تا ایندم بتائی ہے وغیرہ ڈلک.بہر حال اُس وقت میں گولیکی تھا اور مجھے کچھ معلوم نہ تھا جب تریاق القلوب شائع ہوئی اس میں حضور نے بائیبل کی ایک پیشگوئی سے استدلال فرماتے ہوئے (۱۲۹۰) سے لے کر (۱۳۲۵) تک زمانہ عروج سلسلہ بتلایا تو ۳۵ سال کے عرصے کی تصدیق سے مجھے ایک مسرت ہوئی کہ میں نے بھی کسی مقام پر ایسا لکھا تھا.چنانچہ ۱۳۳۵ ہجری پر میں نے ایک نظم لکھی تھی جس میں سلسلہ کی ترقی کا ذکر ہے.ی فلم چھپ چکی ہے.اب میں دیکھتا ہوں کہ اگر شی ہجری مراد ہوتو موجودہ زمانہ ۲۹ آمنشی ہجری یعنی ۱۹۱۱ء سے لے کر جب حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے تکمیل اشاعت ہدایت کا کام شروع کیا تا ۳۳۵ آئنسی ہجری اعلاء کلمتہ اللہ کا وقفہ ۴۵ سال ہوتا ہے.۳۰ اور ۴۵ کے بارے میں اور بھی کئی نکات ہیں مگر کیا اور کیونکر عرض کروں.17.
131 روایات بابت سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم حضرت مولانا قدرت اللہ سنوری نوراللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں: حسب ارشاد با وجود تنگی وقت کے میں چند واقعات سیرت اُم المومنین رفعہ اللہ تعالیٰ تحریر کر کے ارسال خدمت کرتا ہوں.ہر ایک مختصر واقعہ کے متعلق آپ کے اخلاق عادات اور شفقت اور بندہ نوازی پر ایک وسیع مضمون لکھا جا سکتا ہے.معزز احباب اور سامعین خود ہر ایک واقعہ پر غور کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.دستور العمل قرار دے کر مدارج عالیہ حاصل کر سکتے ہیں.افراد جماعت سے مشفقانہ سلوک چونکہ مرحوم مولوی عبداللہ صاحب سنوری بیعت کے سلسلہ شروع ہونے سے سات سال پہلے مسیح موعود علیہ السلام سے ملتے تھے.اس لئے ہمارے تعلقات خادمانہ تھے.اسی وجہ سے میں نے اپنی ہمشیرہ کی شادی کے موقع پر آپ سے سنور جانے کی درخواست کی فاصلہ تقریباً ڈیڑھ صد میل ہوگا آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے اجازت لے کر سیدی میاں ناصر احمد صاحب کو ہمراہ لیا اور چند علماء بھی ساتھ تھے اور سنور تشریف لے گئیں.قریباً دس یوم سنور میرے مکان پر تشریف فرمار ہیں اپنے عملی نمونہ کے علاوہ مختلف نصائح سے بھی ساری جماعت کی عورتوں کو بھی مستفید فرمایا.واقعہ قبولیت دعا سنور کے قیام کے ایام میں آپ بالا خانہ سے نیچے تشریف لائیں اور صحن میں تشریف فرما تھیں.میں نے عرض کیا.کہ سامنے والا دالان میں سیاہ رنگ کی کیڑے مکوڑے نکل کر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں اور گرمی کے موسم میں کئی ماہ تک یہ تکلیف دیتے ہیں.میں نے مختلف طریقوں سے ان کو نکالنے کی کوشش کی یہ مکان میں نہ نکلیں.مگر یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ نکل
132 آتے ہیں.مجھ سے دریافت فرمایا ” آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا ”حضور دعا فرما دیں کہ یہ مکان چھوڑ جاویں فرمایا ”اب میں کیڑوں کے لئے دعا کرتی پھروں میں نے عرض کیا حضور کی مرضی اس پر آپ آگے بڑھیں.اور جہاں وہ کیڑے نکل رہے تھے.کھڑے ہو کر فرمایا ( یعنی کیٹروں کو مخاطب کر کے ارے بھئی تم ان کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ پرے چلے جاؤ اس واقعے کے بعد میں سال بعد تک پاکستان کے قیام تک وہ مکان میرے قبضہ میں رہا مگر اس میں پھر کیڑے نہ آئے.ایک اعجا ز نما واقعہ میں خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جلسہ کے بعد ہمیشہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی حضرت ام المومنین ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد کو دعوت دیا کرتا تھا اور اس کا اہتمام حضرت اُم المومنین خود فرماتیں.روٹی صرف لنگر سے پکتی.باقی کھانے گھر میں تیار کر وائے جاتے تھے ایک سال ایسا واقعہ ہوا.کہ میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ، حضرت قمر الانبیاء، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مبارکہ بیگم صاحبہ سب گھر والوں کی دعوت کی چنانچہ گوشت و روٹی تو آپ نے لنگر خانے سے پکنے کا حکم دے دیا.باقی زردہ پلاؤ اپنے باورچی خانے میں پکوایا.یہ عرض کیا گیا تھا کہ تینوں صاحبان مسجد مبارک میں میرے ساتھ کھانا کھاویں.اور باقی گھروں میں کھانا بھجوا دیا جائے.چنانچہ آپ نے ایسا ہی فرما دیا جب مسجد میں کھانا کھانے کے لئے بیٹھے.تو چونکہ میں نے سلسلہ کے تیرہ احباب کو دعوت دی ہوئی تھی.وہ بھی شامل ہو گئے اور تینوں میاں صاحبان بھی شامل ہو گئے.اس وقت میں نے حضرت اماں جان سے عرض کیا کہ سترہ آدمیوں کا کھانا بھجوا دیں.آپ نے مجھے فرمایا.کہ تم نے پہلے کیوں نہ کہا کہ دس بارہ اور آدمیوں کی بھی دعوت ہے.میں نے گھروں میں جو کھانا بھجوایا وہ سینیوں میں کافی طور پر بھیج دیا.میں نے عرض کیا کیا اب کھانا کم ہے.آپ نے فرمایا سوائے زردہ کے باقی سب کھانا کافی ہے زردہ صرف چار پانچ آدمیوں کے لئے کافی ہے اس کے بعد آپ نے کھانا بھجوانا شروع کر دیا.جب زردہ بھجوانے کا نمبر آیا تو آپ نے دیگچے کے منہ سے تھال اٹھا کر اپنا دوپٹہ اس پر ڈال دیا.اور میری بیوی سے فرمایا کہ جلدی جلدی پلیٹیں کرتی جاؤ آپ تیزی سے زردہ پلیٹوں میں ڈالتی گئیں جب
133 سترہ پوری ہو گئیں تو آپ نے دوپٹہ ہٹا کر جلدی سے تھال اس کے منہ پر دے دیا.جب مسجد میں کھانا کھا چکے تو آپ نے میری بیوی سے فرمایا کہ یہ دیکھو.زردہ کا دیگچہ جب دیکھا تو اس میں تین چار آدمی کے کھانے کا باقی تھا آپ نے فرمایا کہ یہ زردہ تم اپنے گھر لے جاؤ.قدرت اللہ کو کہنا کہ شام کو کھائے.کل صبح کو کھائے جو باقی رہے خشک کرلے.اس کو پھر پکا کر کھا لینا یہ صرف تمہارے ہی لئے ہے.افراد جماعت سے مادرانہ شفقت بھرا سلوک ۱۹۱۵ء میں میں قادیان شریف میں آیا ہوا تھا.میری بیوی ساتھ تھی.اور میرے گھر میں Delivery ہونے والی تھی.میں ایک دن ظہر کی نماز کے واسطے مسجد مبارک جانے لگا تو میری بیوی نے مجھ سے کہا مجھے کچھ تکلیف ہے.دعا کرنا.میں مسجد مبارک کے چھوٹے زینہ سے جب چڑھنے لگا.تو میں نے کھڑکی کی کنڈی کھٹکا کر خادمہ سے کہہ دیا.کہ حضرت اُم المومنین سے عرض کر دیں.کہ قدرت اللہ سنوری سلام عرض کر کے کہتا ہے کہ میری بیوی کو تکلیف ہے.آپ دعافرما دیں.( آپ کو یہ علم تھا کہ میرے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے ) میں نماز سے فارغ ہو کر جب گھر پہنچا اور ہم ایک ہندوؤں کے مکان میں جو ارائیوں کی مسجد سے آگے تھا.رہائش رکھتے تھے.تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ آپ نے حضرت اُم المومنین کو کیوں اطلاع دی تھی میں نے کہا کہ دعا کے لئے کہنے میں کچھ حرج تھا ؟ انہوں نے بتایا.ایسے گرمی کے وقت دھوپ کے درمیان آپ ایک خادمہ لڑکی کو ہمراہ لے کر یہاں تشریف لے آئے چونکہ میں سوگئی تھی.آپ نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا.اور السلام علیکم فرما کر تبسم لب یہ فرمایا گڑ لیے تو تاپی سوررہی ایں.اس نے مینوں اطلاع دتی کہ تینوں تکلیف ہورہی اے.میں ایہ اطلاع پاکے خود آئی ہاں.میں نے عرض کیا حضور معمولی تکلیف تھی.آپ نے فرمایا اچھا مجھے تیل دو اور تم لیٹ جاؤ.تیل دے کر وہ حسب ارشا د لیٹ گئیں.آپ نے دستِ مبارک سے پیٹ پر اچھی طرح سے مالش کی اور فرمایا کہ ابھی بچہ کی پیدائش میں چند دن باقی ہیں.چنانچہ قریباً ہفتہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے لڑ کی عطا فرمائی.جس کا نام حمیدہ بیگم ہے.اور وہ زندہ سلامت ہے ۱۹۱۲ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی حج کے لئے تشریف لے گئے تو میں آپ کی روانگی
134 سے پہلے قادیان آیا تھا جب حضور حج کو تشریف لے گئے.آپ کے بعد میں نے حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اب میں جانا چاہتا ہوں.اور حضرت خلیفہ اول سے اجازت لے لوں گا.تو آپ نے مجھے فرمایا آپ میاں صاحب کی واپسی تک یہاں ٹھہرے رہیں اور ہر نماز میں حضرت خلیفہ اول اور احباب جماعت کو دعا کی تحریک کیا کریں.چنانچہ میں آپ کی واپسی تک یہی کام کرتا رہا چنانچہ حضور نے واپسی کے وقت پر مجھے ایک دو تہی اور ایک جائے نماز عطا فرمایا (الحمد للہ کہ چھیالیس سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری بیوی کو حج کرنے کی توفیق عطا فرمائی ) باطنی پاکیزگی اطاعت خلافت حضور کی غیرت اسلامی اور تطهر قلبی کا واقعہ درج کرتا ہوں.سن دس گیارہ (11-1910 ) کے قریب کا واقعہ ہے.کیونکہ ہمیں اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گہری عقیدت و محبت تھی.میں زینہ میں کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اور حضرت اُم المومنین کو دعا کے لئے عرض کر رہا تھا.اور آپ مادر مہربان کی طرح نہایت شفقت سے پیش آرہی تھیں.اور فرماتی تھیں ہاں دعا کروں گی.ہاں دعا کروں گی.میں نے جوش محبت سے یہ عرض کر دیا.کہ ہمیں تو خوشی اس دن ہوگی کہ روحانی بادشاہت دوبارہ اس گھر میں آجائے گی.آپ نے فرمایا.ہیں ہیں یہ تم نے کیا کہا! استغفار کرو استغفار کرو.آپ کو معلوم نہیں کہ خلیفہ کی موجودگی میں ایسی بات کہنی مناسب نہیں بلکہ نا جائز ہے.پھر فرمایا استغفار کریں.۱۹۱۵ء میں مجھے قادیان میں چھ مہینے رہنے کا اتفاق ہوا.پہلے اندرون دار مسیح بالا خانہ میں جگہ دی گئی تھی.کچھ عرصہ بعد کسی ضرورت کے تحت مجھے فرمایا کہ آپ مکان کے نچلے حصہ میں جو میرے دالان کے نیچے ہے قیام کریں.چنانچہ ہم اس کمرہ میں چلے گئے.میری بیوی اور دو بچیاں ساتھ تھیں اس کمرہ میں ایک بہت بڑا پلنگ پڑا تھا.اس پر لیٹنے کے لئے فرمایا کہ اس پر تم سب لیٹ جاؤ اور فرمایا میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام عرصہ تک اس پلنگ پر لیٹتے رہے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور بچیاں پیشاب کر دیں گی کوئی اور چار پائی بدل لیتے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں.جب میرا قیام قادیان میں تھا.تو میں ایک مقدمہ کی وجہ سے تاریخ پر پٹیالہ گیا تھا.ایک دن عصر
135 کے وقت میری بیوی نے درخواست کی کہ حضور میں نے بیت الدعا میں دعا کرنی ہے.آپ نے اجازت دے دی.جب دعا سے فارغ ہو کر وہ نکلیں چونکہ انہوں نے نہایت تضرع سے دیر تک دعا کی تھی.ان کی آنکھوں پر ورم معلوم ہوتی تھی.آپ نے دیکھ کر فرمایا.کیوں اس قدر گھبراہٹ ہے.اس نے عرض کیا حضور بڑا فکر ہے.حضور بھی ان کے لئے دعا فرماویں (میرے خاوند کے لئے ) آپ نے فرمایا.دعا.دعا کرتی ہے.میں پنجتن کی بجائے چھ تین کے لئے دعا کرتی ہوں.( جس کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنے پانچوں بچوں کے ساتھ چھٹا اس کو شامل کرتی ہوں ) میری لڑکی سعیدہ بیگم سولہ سالہ سنور میں فوت ہو گئی اور مجھے یہ بتایا گیا کہ اس نے وصیت کی ہوئی ہے.میں نے اس کی نعش کو امانتا صندوق میں دفن کرا دیا.چھ سات ماہ کے بعد قادیان آتے ہوئے وہ صندوق اپنے ہمراہ لایا.قادیان میں سید سرور شاہ صاحب مرحوم سے جو افسر بہشتی مقبرہ تھے.درخواست کی.انہوں نے دفتر سے معلوم کر کے بتایا کہ اس کی یہاں کوئی وصیت نہیں ہے.میں نے اپنی ہمشیرہ سے جو قادیان میں رہتی تھی دریافت کیا.کہ فارم وصیت پچھلا ہمارے پاس موجود ہے.مگر وہ پیش نہیں کیا.کہ آپ کے آنے پر پیش کریں گے مگر معلوم نہ تھا کہ اس کی وفات ہو جائے گی.میں نے وہ فارم مولوی صاحب کو دکھایا.انہوں نے جواب دیا کہ جب تک دو موصی مؤكد بعذاب قسم کھا کر بیان نہ کریں کہ ہمارے سامنے اس نے وصیت کی ہے اس وقت تک یہ وصیت منظور نہیں ہوسکتی.میں حیران تھا.میں نے حضرت اُم المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور دعا کریں کہ سعیدہ کے متعلق یہ جھگڑا ہے.آپ نے فرمایا ذرا ٹھہریں.آپ اندر تشریف لے گئیں اور ایک پرچہ مولوی سرور شاہ صاحب کے نام تحریر فرما کر مجھے دے دیا جس میں یہ درج تھا کہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی صاحبزادی سعیدہ مرحومہ نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ میں نے وصیت کر دی ہے میں وہ پر چہ لے کر مولوی صاحب کے پاس گیا اور انہوں نے نعش کو بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا.میرے خسر میاں کریم بخش صاحب مرحوم نمبر دار رائے پور ریاست نابھہ قادیان آئے تھے اور مجھ سے یہ درخواست کی تھی.کہ میری لڑکی کو جو آپ کی اہلیہ ہے.ہمارے ساتھ قادیان بھیج دیں ہم ایک مہینہ تک واپس آجائیں گے.قریباً دو ماہ گزر گئے.وہ واپس نہ ہوئے.میں نے خط کے ذریعہ ان کی اطلاع دی کہ مہینہ کی بجائے دو مہینے ہوتے ہیں.آپ میری اہلیہ کو واپس بھجوا دیں.
136 ان کے گاؤں میں چونکہ طاعون ہو رہی تھی اور حضرت مسیح موعود نے ان کو منع فرما دیا تھا کہ اب وہاں نہ جائیں.یہیں ٹھہرے رہیں.انہوں نے وہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کر دیا.کہ حضور نے تو ہمیں جانے سے منع فرمایا ہے.اور وہ لکھتے ہیں کہ میری بیوی کو واپس بھیج دو.آپ نے فرمایا کہ ہاں ان کی بیوی کو پہنچا دیں.انہوں نے عرض کی کہ میاں کریم بخش باورچی جارہے ہیں.میں ان کی ہمراہ لڑکی کو بھیج دیتا ہوں.صرف ایک سٹیشن آگے سر ہند اس نے جانا ہے.یہ وہاں پہنچ جائے گی.آپ نے فرمایا جس سفر میں رات آجائے نامحرم کے ساتھ وہ سفر جائز نہیں.میری خوشدامن نے حضرت اُم المومنین سے عرض کی کہ حضور حضرت صاحب سے سفارش فرما دیں کہ حضور ارشاد فرما دیں کہ قدرت اللہ اپنی بیوی کو خود آ کر لے جاوے.چنانچہ حضرت اُم المومنین نے سفارش کی اور حضور نے منظور فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ اپنی بیوی کو لے جائے.چنانچہ میں اس خط کے پہنچنے پر قادیان آیا.اور کئی دن قیام کے بعد اپنی بیوی کو واپس لے گیا.کا
137 سیرت و اخلاق کے درخشندہ پہلو از امته الرحمن بیگم مولوی عبد المنان عمر صاحب ) حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت ہوئی.آپ بہنیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ کس طرح حضرت اماں جان کی بیماری کے دنوں میں ساری جماعت نے نہایت الحاح، زاری اور خشوع و خضوع کے ساتھ دعاؤں پر دعائیں کیں.صدقات پر صدقات دیئے.علاج کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا.لیکن آہ! الٹی نوشتے پورے ہوئے اور ایسا محترم مکرم ، ایسا مطہر اور ایسا پیارا وجود دیکھتے دیکھتے ہم سے رخصت ہو گیا.یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر نہیں تھی تو اور کیا تھا.اور وہ اللہ تعالیٰ کے بہت ہی خاص وجود ہوتے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر کام کرتی ہے.حضرت اماں جان تقریباً دو ماہ بستر علالت پر رہیں.جماعت نے اس عرصہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا خاص طور پر دعاؤں اور صدقات کی طرف توجہ دی اور انابت الی اللہ کا وہ بے نظیر نمونہ دکھایا جس کی مثال صرف اور صرف انہی جماعتوں میں ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مامور کی قائم کردہ ہوتی ہیں.عام طور پر بیماریاں عام لوگوں کے لئے ابتلاؤں، مصیبتوں اور بے صبریوں کے مظاہروں کا موجب بنتی ہیں لیکن حضرت اماں جان کی علالت قوم کی قوم کو خالق حقیقی کے دروازے پر جھکا دینے اور رجوع الی اللہ کا موجب ہوئی.اور اس وجود باجود کی بیماری نے بھی قوم کو عظیم الشان نعمتوں سے متمتع کر دیا.ہر کسی کو یہ مقام کہاں میسر ہوتا ہے اور ہر کسی کے وجود میں اتنی عظیم الشان نعمتیں کہاں مرکوز ہوتی ہیں.بیماری کے ایام میں ہی انسان کی حقیقی خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں.کمزور ایمان کا انسان جزع فزع کرتا ہے ، بے صبری کے کلمات منہ سے نکلتے ہیں اور ایک ایسا رویہ انسان اختیار کر لیتا ہے جو حقیقی مومن کی شان سے بعید ہوتا ہے.لیکن حضرت اماں جان کتنا لمبا عرصہ بیمار رہیں کتنی شدید بیماری میں سے گزریں.کیسی کیسی تکلیفیں آپ کو ہوئیں لیکن جن لوگوں کو آپ کی بیماری کے ایام میں شب و ہی افسوس ہے کہ حضرت اماں جان کی وفات کے جلد بعد مضمون نگار اور ان کے خاوند جماعت سے لاتعلق ہو گئے.
138 روز آپ کے پاس رہنے اور آپ کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی وہ آپ کو بتلائیں گے کہ اس تکلیف اور بیماری کے لمبے عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی تو ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بے صبری کا کلمہ آپ کی زبان پر آیا ہو اور کوئی جزع فزع کی بات آپ نے کی ہو.بلکہ وفات سے کچھ وقت پہلے اگر کوئی بات آپ کی زبان پر تھی اور آپ کا دماغ کسی طرف مائل تھا تو وہ صرف دعا تھی.آخری حرکت جو آپ نے کی وہ یہی تھی کہ خدا کی طرف آپ کا رجوع تھا اور دعا کے لئے آپ نے ہاتھ اُٹھا دیئے تھے اور کلام الہی کے سنائے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.تاریخ احمدیت کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا تو حضرت اماں جان کی زبان مبارک پر یہی الفاظ تھے کہ ”اے خدا یہ تو ہمیں چھوڑ چلے ہیں پر تو ہمیں نہ چھوڑ یو.“ گویا اُس وقت بھی آپ کا آخری سہارا اور آخری نظر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف تھی.اور جب اس واقعہ کے چوالیس برس بعد خود حضرت اماں جان کی اپنی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت بھی آپ کی نظر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف تھی.وہی پاک و برتر ہستی آپ کا آخری سہارا تھی.عام انسانوں کو تو دوسروں کی تکلیف کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.لیکن جب کوئی شخص خود تکلیف میں ہو اُس وقت تو دوسروں کے دکھ اور تکلیف کا احساس اُسے بالکل رہتا ہی نہیں.لیکن حضرت اماں جان کردار کی اس پستی سے بہت زیادہ بلند تھیں.صحت و آرام کے وقت ہی نہیں بلکہ اپنی بیماری اور تکلیف کے دنوں میں بھی دوسروں کے آرام و راحت کا انہیں ہمیشہ خیال رہا.چنانچہ آپ کی بیماری کے ایام میں جب کبھی بھی آپ سے پوچھا جاتا آپ کی طبیعت کیسی ہے تو اس خیال سے کہ میری تکلیف کی وجہ سے تیمارداروں کو تکلیف نہ پہنچے اور اُن کے حوصلے پست نہ ہوں تو آپ بڑی بلند حوصلگی کے ساتھ فرماتیں ” بہت اچھی ہے“.بیماری کے ایام میں یہ حوصلہ اور دوسروں کے آرام کا اس درجہ خیال ہر کسی کا کام نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.آمین ! حضرت اماں جان ہم سے جدا ہو چکی ہیں مگر اس وقت بھی آپ کا چلتا پھرتا وجود آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے آپ کا طریق تھا کہ اکثر سیر کو تشریف لے جاتیں تھیں مگر یہ سیر تو محض ایک
139 تقریب ہوتی تھی.آپ کا یہ دستور تھا کہ سیر کے لئے آتے اور جاتے ہوئے جماعت کی بہنوں کے گھروں میں تشریف لے جاتیں اور ہر گھر کے مناسب حال گھر اور لباس کی صفائی ، بچوں کی دیکھ بھال تعلیم و تربیت اور امورِ خانہ داری کے متعلق قیمتی ہدایات اور نصائح فرماتیں اور ساری جماعت کے ساتھ اس طرح براہ راست نہایت قریب کا ذاتی تعلق قائم رکھتیں.ان کی آمد سے گھر گلزار بن جاتے.آہ! آج وہ وجود ہم میں نہیں.عورتوں میں بیکاری نا پسند فرماتیں حضرت اماں جان عورتوں میں بریکاری کو سخت نا پسند فرماتی تھیں.آپ نہ خود بریکار رہتیں نہ دوسروں کا بیکار رہنا پسند کرتیں.بسا اوقات خود چرخہ لے کر بیٹھ جاتیں اور اگر اسی دوران میں کوئی ایسی بہن آجاتی جس کا تنانہ آتا ہو تو اسے گودی میں بٹھا کر چرخہ کا تنا سکھلاتیں.آپ کی طبیعت میں بے انتہا سادگی تھی.گفتگو سادہ طریق ملاقات بناوٹ سے خالی ، رہنے سہنے کا ڈھنگ تکلف سے مبر ا.کوئی ملنے آتا تو سادگی اور شفقت سے اُسے ملتیں کسی سے ملنے جاتیں تو سادگی اور محبت وہاں بھی آپ کے ساتھ ہوتی.حضرت اماں جان کی مہمان نوازی تو ایک مسلمہ حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام خبر دی تھی کہ بڑی کثرت سے آپ کے پاس لوگ آئیں گے.ان آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کابار حضرت اماں جان ہی کے کندھوں پر تھا.اس فرض کو آپ نے جس خوبی ، خوش اسلوبی اور عمدگی سے نبھایا کہ ایک دنیا اس کی گواہ ہے.حضرت اماں جان اپنے بھائیوں کے لئے بہترین بہن ،اپنے بچوں کے لئے بہترین ماں ، اپنے خاوند کے لئے بہترین بیوی اور اپنے ماں باپ کے لئے بہترین بیٹی تھیں.غریبوں کے لئے آپ کے دل میں خاص تڑپ تھی.اور اُن کی امداد کے لئے آپ کا ہاتھ ہر وقت دراز رہتا تھا.اپنے خادموں پر خاص شفقت فرماتی تھیں.اگر کسی نوجوان خادمہ کے تنگ کرنے پر کبھی اُسے ڈانٹ ڈپٹ کی بھی تو پھر جلدی محبت ، شفقت اور انعام و اکرام سے اُسے خوش کر دیا.گھر کی چھوٹی خاد ماؤں کو بیٹی کہہ کر پکارنا ، اُن کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خود خیال رکھنا اور دوسری عورتوں پر نہ چھوڑنا آپ کا طریق تھا.
140 شکوہ و شکایت ،عیب چینی اور غیبت سے آپ کو از حد نفرت تھی.ایسی باتیں نہ خود کر تیں نہ کسی سے ایسی باتوں کا سننا پسند فرماتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ اور اُن کی اولاد کے ساتھ آپ خاص طور پر محبت اور شفقت سے پیش آتیں اور ان کے لئے دعا ئیں فرماتی تھیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے یونہی مومنوں کی ماں نہیں کہہ دیا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ماں کی مامتا ہر فرد کے لئے آپ کے دل میں جاگزیں تھی.تربیت اولاد تربیت اولا د جس خوبی اور عمدگی سے آپ نے کی خدا کے فضلوں کے ساتھ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ساری ہی اولاد آفتاب و ماہتاب بن کر دنیا میں چمک رہی ہے.بیٹی کو شادی کے وقت رخصت کرتے ہوئے ماں کے کیا کچھ جذبات نہیں ہوتے.آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم کو شادی کے وقت جو نصیحتیں فرمائیں وہ زریں حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں مجھے شادی کے ایام میں آپ نے جو چند نصائح فرمائی تھیں وہ یہ ہیں فرمایا: (۱) اپنے شوہر سے پوشیدہ یا وہ کام جس کو اُن سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہرگز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظا ہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے.(۲) اگر کوئی کام اُن کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا صاف کہہ دینا.کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے.(۳) کبھی اُن کے غصہ کے وقت نہ بولنا تم پر یا کسی نوکر پر یاکسی بچہ پر خفا ہوں اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں جب بھی اُس وقت نہ بولنا.غصہ تقسم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا اُن کو سمجھا دینا.غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں.اُن کے عزیزوں کو، عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا.کسی کی برائی تم نہ سوچنا اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ لینا.پھر دیکھنا ہمیشہ خدا تمہارا ہی بھلا کرے گا.“
141 مالی قربانیاں حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی سلسلہ کے لئے مالی قربانیوں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے.یہ وقت نہیں کہ ایک ایک کر کے اُن سب کو اس مختصر وقت میں گنو اسکوں اور یہ بتاؤں کہ کس طرح آپ نے اپنی آبائی جائدادوں کو بیچ کر منارة اسبیح کے چندہ میں حصہ لیا.اور نصف صدی تک جماعت کی تقریباً ہر تحریک میں نمایاں طور پر شریک ہوتی رہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صدقہ خیرات کے دو پہلو ہیں اور اپنے اپنے وقت پر دونوں کا اختیار کرنا نہایت ضروری ہے.صدقہ و خیرات کا ایک پہلو وہ ہوتا ہے جس میں اختفاء ہی اختفاء ہوتا ہے اور ا ظہار کا کوئی رنگ نہیں ہوتا.حضرت اماں جان کی ساری زندگی دا دور بہش سے معمور ہے اور اس میں ہزاروں واقعات ایسے ہیں کہ آپ نے دائیں ہاتھ سے دیا اور بائیں کو اُس کی خبر بھی نہ ہوئی.اگر وہ لوگ جن سے آپ کی کرم فرمایوں کا یہ سلوک ہوا اُن کا ذکر نہ کرتے تو ہمیں ان کا علم بھی نہ ہوتا.اور نہ معلوم نیکی اور حسن سلوک کے کتنے ہی وہ واقعات ہیں جو پردہ اخفا میں ہیں اور دنیا نہیں جانتی.پھر صدقہ و خیرات اور مالی قربانیوں کا ایک پہلو وہ ہے جو اپنے اندر ایک گونہ ظاہر کا رنگ رکھتا ہے.ایک کی قربانی دوسروں کے لئے نیکی کی تحریک کا موجب ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے جماعت کے لئے آپ کی مالی قربانیوں کا ذکر کیا ہے.عابدہ زاہدہ حضرت اماں جان حد درجہ عبادت گزار تھیں.پنجگانہ نماز نہایت التزام کے ساتھ ادا فرماتی تھیں.تجد آپ سے نہیں چھوٹتی تھی.اشراق کی نماز بھی اکثر پڑھتی تھیں.واقف کار بہنیں آپ کو بتائیں گی کہ کس طرح نماز مغرب کے بعد مصروف عبادت رہتی تھیں.ہمہ وقت شکر الہی کے کلمات آپ کی زبان پر جاری رہتے تھے.دعاؤں کی آپ بہت ہی عادی تھیں.نماز نہایت خشوع و خضوع سے ادا فرماتی تھیں.اس کمزوری کے عالم میں آپ کے سجدوں کی طوالت کو دیکھ کر بعض وقت خود اپنے اندر شرمساری محسوس ہونے لگتی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ میں حضرت اُم المومنین کی سیرة
142 طیبہ کا اجمالی نقشہ آپ بہنوں کے سامنے یوں رکھتی ہوں: آپ بہت صدقہ و خیرات کرنے والی.ہر چندہ میں شریک ہونے والی.اول وقت اور پوری توجہ اور انہماک سے پنجوقتہ نماز ادا کرنے والی تھیں.اور صحت وقوت کے زمانہ میں تہجد کا التزام رکھتی تھیں.خدا کے خوف سے معمور.صفائی پسند.شاعر با مذاق.زمانہ جہالت کی باتوں سے دور.گھر کی عمدہ منتظم.اولاد پر از حد شفیق.خاوند کی فرمانبردار اور کینہ نہ رکھنے والی خاتون تھیں.غرض آپ کا اٹھنا بیٹھنا.کھانا پینا سونا جاگنا.رہنا سہنا اور آپ کا مرنا جینا سب کچھ خدا تعالیٰ ہی کے لئے تھا.اور آپ کا مبارک وجود ان محترم اور پر عظمت ہستیوں میں سے تھا جو بجا طور پر یہ کہہ سکتی ہیں: إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِيْنَ اے مادر مہربان! تجھ پر سلام.اے ام المومنین ! تجھ پر درود.اے نصرت جہاں بیگم رہتی دنیا تک تیرا نام روشن رہے.آمین یارب العلمین ۱۸ العلا الاد
143 قبولیت دعا کے نشانات مکرم و محترم احمد الدین صاحب انور آف مغلپورہ لاہور تحریر کرتے ہیں: ۱۲ فروری ۱۹۴۷ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بچی عطا فرمائی جس کا نام سعیدہ رکھا گیا.چونکہ اس سے پہلے میرے سب بچے فوت ہو چکے تھے اور اس بچی کی صحت بھی خاص اچھی نہ تھی.میں اکثر افسردہ رہتا تھا.میں اور میری بیوی اس کی صحت اور درازی عمر کے لئے نہایت تضرع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیا کرتے تھے.وقت گزرتا گیا لیکن بچی کی صحت کسی طرح بھی اطمینان بخش نہ ہوئی.چنانچہ ایک دن میری بیوی نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ حضرت اماں جان کی خدمت اقدس میں حاضر ہو اور اُن سے بچی کی صحت کے لئے دعا کرنے اور اوراس کا نام تجویز کر دینے کی درخواست کرے.حقیقت یہ ہے کہ یہ ارادہ تکمیل سے پہلے ہی میری تسکین کا باعث ہوا اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ گویا سعیدہ روبصحت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے لمبی عمر عطا فرما دی ہے.سعیدہ کی عمر اس وقت قریباً تین ماہ ہوگی جب میری اہلیہ اسے لے کر حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئیں.وہ کہتی ہیں کہ جس وقت میں حضرت اماں جان کی خدمت میں پہنچی تو آپ ایک لکڑی کے بڑے تخت پوش پر تشریف فرما تھیں اور چھالیہ کاٹ رہی تھیں.میرے سلام کے جواب دینے کے بعد ایک چٹائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ”بیٹھ جاؤ.چند لمحے آپ خاموش رہیں.میں نے عرض کیا اماں جان میری بچی ہمیشہ بیمار رہتی ہے آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیریں.اس کی درازی عمر کے لئے دعافرما ئیں.نیز اس کا نام آپ اپنی مبارک زبان سے تجویز فرمائیں.اس پر آپ اپنا دست مبارک سعیدہ کے سر پر پھیر نے لگیں اور مجھ سے میرا نام دریافت فرمایا.میں نے عرض کیا حمیدہ.معاً آپ کی زبان سے نکلا تو بچی کا نام سعیدہ ( واضح رہے کہ اس سے پہلے بچی کا نام حضرت اماں جان پر ظاہر نہ کیا گیا تھا ) میں دل ہی دل میں سوچ کر کہ اماں جان کا تجویز کردہ نام وہی ہے جو ہم نے پہلے رکھا ہوا ہے بہت خوش ہوئی.اس کے
بعد فرمایا: 144 اللہ تعالیٰ اس بچی کو نیک کرے گا اور لمبی عمر دے گا.اللہ تعالیٰ اور بچے بھی دے گا جو زندگی والے ہوں گے.“ اس واقعہ کو بمشکل چار ماہ ہوئے تھے.تقسیم ملک کے فسادات ہو گئے جبکہ نہایت بے چارگی اور بے بسی کے عالم میں ہمیں ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک بستی قادیان دارالامان سے ہجرت کرنا پڑی گھروں سے نکل کر بورڈنگ میں پناہ لی جو چند دنوں میں حد درجہ گندہ ہو گیا.ایسی صورت میں کسی کی صحت کو درست رہنا ایک غیر ممکن بات تھی.چنانچہ میری بچی بیمار ہوگئی اور حالت اس حد تک بگڑ گئی کہ صحت کی کوئی امید باقی نہ رہی.وہ تمام علامات جو حالت نزع کی ہوتی ہیں نمایاں اور واضح تھیں.میرا دل بیٹھا جار ہا تھا اور میری اہلیہ کو سوائے خاموشی سے آنسو پونچھ لینے کے کوئی چارہ کار نہ تھا.چونکہ بظاہر بچی کی موت بالکل قریب نظر آرہی تھی میرا دل مایوس ہو جاتا اور میں اپنے تئیں پوچھتا کیا اماں جان کی دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمائیں؟ پھر یکا یک میرا دل ایمان سے لبریز ہو جا تا.میرے ہونٹ متحرک ہو جاتے اور بے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکل پڑتے کہ ” ضرور اور ضرور اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا ہے سعیدہ صحت یاب ہوگی‘اسی کیفیت میں وہ وقت آپہنچا جب احمدی مستورات کا قافلہ موٹروں کے ذریعہ لاہور روانہ ہونے والا تھا.چنانچہ میں نے اپنی اہلیہ اور قرب المرگ بچی کو ٹرک میں سوار کر دیا اس وقت بچی کی حالت بے حد نازک تھی.ٹرک بورڈنگ کے سامنے سڑک پر کھڑے تھے اور میں ان کی روانگی کے انتظار میں کھڑا تھا.چونکہ سعیدہ مجھ سے جدا ہو رہی تھی.میری اہلیہ نے مجھ سے دریافت کیا کہ اگر بچی راستہ میں فوت ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیئے.میں نے جوابا کہا اس کی نعش کو لاہور لے جا کر دفن کر دینا.ٹرک جاچکے تھے اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیوں میں حضرت اماں جان کی دعاؤں کو جو آپ نے سعیدہ کے لئے کی تھیں بھول گیا.کیوں میں نے اپنی بیوی کی توجہ ان دعاؤں کی طرف نہیں کرائی.اور کیوں میں نے سعیدہ کے صحت یاب ہونے اور لمبی عمر پانے کا اسے یقین نہ دلایا.چند روز کے بعد بورڈنگ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد گرامی پڑھ کر
145 سنایا گیا.جس میں مریضوں اور بوڑھوں کو پاکستان چلے جانے کی اجازت دی گئی تھی.چونکہ میری صحت بھی خراب ہو چکی تھی.اس لئے میں نے دار الامان کو الوداع کہا اور پاکستان چلا آیا.سعیدہ کو کہ جس کی موت کے ہم منتظر تھے تندرست پایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکرانہ ادا کیا.سعیدہ اللہ تعالیٰ اسے صحیح و سالم رکھے اور لمبی عمر عطا فرمائے آج سوا پانچ برس کی ہے اور کون ہے جو یہ کہنے کی جرات کرے کہ سعیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی مقبولیت دعا کا ایک زندہ نشان نہیں.آہ! وہ برگزیدہ اور مہربان ماں جس کے وجود باجود کے ساتھ ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں وابستہ تھیں آج ہم میں موجود نہیں.ہم اس کی دردمندانہ دعاؤں سے محروم ہیں.افسردہ ومحزون ہیں.اس کی یاد سے منور اور معمور ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے حضور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری اس مقدس ماں کو حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتہائی قرب میں جگہ دے.آمین ۱۹
146 دوسروں کی تکلیف کا احساس اور مہمان نوازی مکرمہ حضرت سیدہ نعیمہ صاحبہ بنت حضرت سید میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ اہلیہ ڈاکٹر سید محمد اکرام صاحب ) تحریر کرتی ہیں: ۱۹۱۴ء دسمبر کے سالانہ جلسہ پر میں اور میری بڑی بھا وجہ سیدہ رفعت صاحبہ قبلہ ابا جان کے ساتھ گئیں.اور چھ سات روز حضرت اماں جان کے پاس ہی قیام ہوا.ابا جان کا قیام تو باہر تھا.جلسے کی مصروفیت میں رہتے کسی دن ملاقات ہوتی.ہم حضرت اماں جان کے پاس ہی رہیں.رات کو وہیں اُن کے پاس اُسی کمرہ میں سونا.رات کو بخاری جلتی.اور پاس سب نے بیٹھ جانا.اور بڑی محبت اور اخلاص سے پوچھنا سناؤ لڑکیو! دن کو کہاں کہاں گئیں.کس کو ملیں کیا کچھ دیکھا.ہم اپنی دن کی تمام رپورٹ دیتیں.پھر یوں سوال جواب ہوتے.رات کوا کثر سونے سے پہلے حضرت صاحب آپ کے پاس آتے یہ معمول تھا.کچھ باتیں ہوتیں کچھ جلسے وغیرہ کی اور ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوتیں.ایک دن حضرت صاحب نے کچھ اونچی آواز سے باتیں شروع کیں.ساتھ ہنستے بھی جاتے.تو آپ آہستہ فرمانے لگیں میاں آہستہ باتیں کرو.میر صاحب کی لڑکیاں سورہی ہیں.آپ نے کچھ حیرت سے کہا.کون میر صاحب.آپ فرمانے لگیں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹ والے.آپ نے فرمایا.اماں جان ان کو ساتھ والے چھوٹے کمرے میں سلایا کریں.یہاں سب نے آنا جانا ہوا.ان کو تکلیف ہوتی ہوگی.دوسرے دن ہم کو ساتھ کے چھوٹے کمرے میں سلایا.آپ کا قیام ان دنوں مسجد مبارک کے ساتھ ہوتا تھا بڑے کمرے میں.جب ہم کو علیحدہ سلایا تو اُن کا معمول تھا.رات کو سونے سے پہلے ہمارے پاس آتیں.اور کہتیں لڑکیو اچھی ہو کوئی تکلیف تو نہیں.پھر صبح نماز کے بعد آتیں.اور فرماتیں.لڑکیو رات اچھی رہیں.پھر صبح کو اپنے پاس سے ناشتہ بھیجتیں.چائے کے ساتھ کبھی مٹھائی کبھی کھجوریں.اتنی مہربانی اور پیار اور اخلاص سے برتاؤ کرتیں.بعض وقت ہم کو شرم اور حجاب آتا.ان کے پاس عورتوں کے آنے جانے کا تانتا لگارہتا.امیر غریب سب آتیں.
147 آپ سب سے بڑی محبت اور اخلاص سے پیش آتیں.اور بعض عورتیں حیرت سے ہم کو دیکھتیں کہ یہ کون ہیں جن کا اتنا خیال ہے.بعض کو وہ خود ہی کہہ دیتیں کہ سیالکوٹ والے میر صاحب کی لڑکیاں ہیں.۲۰ حضرت اماں جان کی شفقت و دلداری مکرم سید اعجاز احمد شاہ صاحب اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بعض واقعات بیان کرتے ہیں: ہمارے گھر پر حضرت اماں جان کے ان گنت و بے شمار انعامات و احسانات ہیں.آپ کا دست شفقت ہمارے گھر پر عملی طور پر اس وقت سے ہے.جبکہ میری والدہ (اہلیہ اول سید احمد علی صاحب انبالوی ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اپنے والد مولوی امام علی خاں صاحب آف سنور ریاست پٹیالہ کے ساتھ اپنی چھوٹی سی عمر میں قادیان دارالامان آئیں.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں.کہ میرے ابا کی قادیان میں وہ پہلی آمد تھی اور تحقیق حق کی غرض سے تھی.چنانچہ مجھے بوجہ چھوٹی عمر اور بچہ ہونے کے اندرون خانہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں رہنے کا موقعہ ملا اور میں نے خود کو اپنی ماں سے بھی زیادہ چاہنے والی شفیق ماں کی گود میں محسوس کیا.یہی وجہ تھی کہ جب بھی دوران قیام میں والد صاحب نے مجھ سے پوچھا.کہ بیٹی تجھے یہاں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں.تو میں نے اباجی کو جواب میں یہی کہا.میرا دل تو یہاں لگ گیا ہے.اور اب قادیان سے واپس جانے کو نہیں چاہتا.والدہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ زمانہ شاید ۱۹۰۳ء کا تھا.۱۹۰۳ء سے لے کر اب ۱۹۵۲ء تک یعنی تقریباً نصف صدی تک حضرت اماں جان کا وہی سلوک رہا.جو پہلے روز تھا.اور اس شفقت میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑا.اور اسی نظر کرم کا طفیل تھا کہ پھر میں خود کوشش کر کے بھی کئی بار اپنے ابا مرحوم کے ہمراہ قادیان دار الامان حاضر ہوئی اور شادی کے بعد ۱۹۲۳ء سے اپنے بچوں کو قادیان میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی.مجھ پر میرے بچپن سے اب بڑھاپے تک جبکہ کئی ایک انقلابات سے مجھے دو چار ہونا پڑا.ہمیشہ حضرت اماں جان کی شفقت اور ہمدردی و امداد نے مجھے سنبھالا.اور بڑی سے بڑی مشکل میں بھی میرے قدم کبھی نہ ڈگمگائے.مجھ پر اس مقدس وجود کی بے شمار شفقتیں ہیں.۱۹۲۷ء میں مجھے میرے والد صاحب مرحوم کے ترکہ میں سے مبلغ سات صد روپیہ ملا.میں ان مبلغات کو لے کر بغرض رہنمائی و مشورہ
148 حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئی.اور عرض کیا کہ اس کا کیا کروں.فرمایا.کہ زمین خرید کر یہاں قادیان مکان بنائو.اور از راہ نوازش و شفقت خود حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مکرم کو فرمایا.کہ اسے کسی ” قریب جگہ کا انتظام کر دیں.“ چنانچہ پھر مجھے محلہ دارالفضل میں صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی کے قریب زمین عطا ہوئی اور وہاں پر ہی مکان بنا.دارالامان کے عرصہ رہائش میں جب کبھی آنحضور پرنور کو سیر کی غرض سے احمد یہ فروٹ فارم میں تشریف لے جانے کا موقعہ ملتا.تو از راہ تلطف آواز دے کر مجھے ہمراہی کا شرف بخشیں.اور اپنی پیاری میٹھی میٹھی باتوں سے دوران سیر میں جوا کثر دینی باتیں اور تعلیم و تربیت کی ہوتیں فرماتیں.جو میرے لئے تسکین قلب اور میری گھبراہٹ کے دنوں میں مشعل راہ کا کام دیتیں.بچیوں کی تعلیم.شادی بیاہ پر نہ صرف اپنے قیمتی مشوروں سے بلکہ مادی طور پر بھی زرکثیر سے ہمیشہ مجھے نوازا.ނ والدہ صاحبہ کے علاوہ میں خود کو حضرت اماں جان کے احسانات میں دبا پاتا ہوں.بچپن سے اب تک متواتر میری ہر مادی روحانی تکلیف میں مجھے اگر کوئی وجود اس قابل نظر آتا تھا کہ میں اس سے بے روک ٹوک بلا حجاب کہہ گزروں.تو وہ حضرت اماں جان سکا وجود مبارک ہی تھا.مشکل ے مشکل گھڑیوں میں میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوکر تکلیف دی اور حضرت اماں جان جو واقعی اُم المومنین تھیں نے پورے طور پر تعاون فرمایا.اور حقیقی ماں سے بھی بڑھ کر صبر و استقلال کی تعلیم دیتے ہوئے تسلی و تشفی فرمائی.اور ان کی اس تسلی و تشفی ملنے کی دیر ہوتی تھی کہ میں فکر سے خود کو آزاد سمجھتا تھا.جیسا کہ کوئی فکر نہ تھا.اور اس طرح ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار ہوا.جس کا شمار بھی اب محال ہے.سال گزشتہ ہی میں خانگی طور پر کچھ مشکلات درپیش تھیں.اور ان میں سے ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ ربوہ میں کوئی مکان یا کوارٹر نہ ملنے کے باعث اور حافظ آباد ( جہاں مستقل آباد ہوں ) میں اکیلی اپنی والدہ کو بوجہ ان کے کمزور اور ضعیف ہونے کے چھوڑ نہ سکنے کے باعث کہیں باہر بے فکر ہوکر نہ جاسکتا تھا.مجھے حضرت اماں جان کی خدمت میں حسب عادت حاضر ہوکر عرض کرنا پڑا.کہ حضور والدہ کمزور اور نحیف ہیں.چلنا پھرنا بھی ان سے مشکل ہے.اکیلی رہ نہیں سکتیں.یہاں ربوہ کوئی بندوبست نہیں.کہ والدہ کو اکیلا چھوڑ کر باہر دورہ پر بے فکری سے
149 جاسکوں.اس فکر میں ہوں.دعا اور رہنمائی کی غرض سے حاضر ہوا ہوں.حضرت اماں جان نے درد سے پر مشفقانہ انداز میں فرمایا.تمہیں کیا فکر میں جو ہوں.یہ میری بیٹی میرے پاس رہے گی.تم بے فکری سے اپنا کام کرو.اللہ اللہ کیا کیا انعامات اور شفقتیں تھیں.حضرت اماں جان کی غلام ابن غلام پر اور کیا جاذ بیت تھی.ان پیارے منہ سے نکلے ہوئے پیارے کلمات کی.ان پیارے الفاظ نے میری تمام مشکلات کو حل کر دیا.چنانچہ پھر والدہ صاحبہ کامل سوا سال تک حضرت اماں جان کی خدمت میں ہی رہیں.اور ان کو ایسا آرام ملا.کہ مجھ سے اس قسم کا آرام ملنا مشکل تھا.۲۱ شفقت اور مہمان نوازی کے واقعات حضرت سکینۃ النساء صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل تحریر کرتی ہیں: حضرت اماں جان رحمتہ اللہ علیہا کی صفات حسنہ اس قدر زیادہ ہیں کہ کئی اوراق لکھنے پر بھی ختم نہ ہوسکیں.یوں بھی اخبار میں گنجائش کم ہوگی مگر ان کے وصال کا صدمہ دل حزیں پر اس قدر شدید ہے کہ جذبات خیال نے کچھ نہ کچھ لکھنے پر آمادہ کر ہی لیا.اس لئے مختصر طور پر چندان کی عام عادات کا حال لکھتی ہوں جو آپ کی روزمرہ کی گویا خصوصیات تھیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے گویا عادت ثانیہ بن چکی تھیں.حضرت اقدس علیہ السلام کا اثر پاک اور کامل دینداری کا پر تو ایک خاتون ایک دہلی کی شہزادی پر پڑچکا تھا جس طرح کہ حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے اور صحابہ کرام نے احادیث کا علم حاصل کیا اسی طرح حضرت اُم المومنین نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا نے اصل اسلام کے اخلاق حسنہ پر پورے طور پر عملدرآمد کر کر کے صحیح معنوں میں حضرت اقدس علیہ السلام کا حقیقی ساتھی اپنے آپ کو ثابت کیا.عاجزی و خاکساری حضرت اماں جان میں غرور ہر گز نہیں تھا.دنیا کی دولت یا مال کی یا نئے برتن خرید نے یا مکان اعلیٰ بنانے وغیرہ کی حرص کبھی نہیں کی.غریبوں اور محتاجوں پر رحم فرما کر ان کی ہر طرح خبر گیری فرماتیں.کئی یتیم بچوں اور بیواؤں کا کھانا کپڑا ضروریات بغیر کسی مطلب یا معاوضہ کے اپنے ذمہ
150 لیا ہوا تھا.خلاف شرع کبھی کوئی کام نہیں کیا یعنی کسی دردناک موت پر بھی منہ سے اُف تک نہ کی نہ آواز نکالی.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب آپ کے بھائی تھے اور نہایت ہی لائق و فائق فرمانبردار بھائی یکے بعد دیگرے دونوں کی قادیان میں وفات ہوگئی مگر اس شاندار خاتون نے سوائے انا للہ کے کوئی لفظ بھی منہ سے نکالا ہو.آہ ! اب اس چند روزہ زندگی میں ایسی بے نظیر اور شاندار خاتون کی زیارت کیا ہوگی.اس چمن میں دیدہ ور پیدا ہونا ہی مشکل اور محال ہے.اماں جان میں رحم کا مادہ بھی از حد تھا آپ جب قادیان میں تھیں.کسی دن تو سحر کے وقت ہی اماں جان کی آواز آتی عائشہ آؤ سیر کو چلیں ( یہ عائشہ بھی ایک یتیم لڑکی تھی جسے اماں جان نے پرورش کیا ،شادی کی علیحدہ گھر دیا ، سامان دیا.بھینس تک خرید دی.اب بفضل خدا چارنو جوان برسر روزگار بچوں کی ماں ہے ) اماں جان کی ہمیشہ سے عادت یہ تھی کہ صبح نماز سے فارغ ہو کر باہر دو چار میل چلی جاتیں.راستہ میں محلوں میں سے بعض مخلص خواتین جن کو معلوم ہوتا کہ اماں جان باغ میں یا فلاں طرف شاید تشریف لے جائیں گی تو وہ گھروں میں سے باہر نکل کر ساتھ ملتی جاتیں.طبیعت شجاع اور بہادر تھی.راستہ میں گاؤں بھینی یا منگل یا کھارا کی طرف سے دیہاتی عورتیں بھی اماں جان کو جھک جھک کر سلام کرتیں اور آپ ان کے گھروں بال بچوں وغیرہ کی خبر پوچھتی چلتی رہتیں اور یوں کوئی تھکان محسوس بھی نہ ہوتی.دوسروں کے آرام کا خیال اماں جان کو ہر کسی کے آرام کا بھی خیال رہتا یعنی بھوک پیاس کا پوچھتیں.اگر ذرا محسوس ہوتا کہ کسی کو پیاس لگی ہے تو اپنے مزارعوں میں سے کسی عورت کو بلا کر اس کے گھر سے دودھ لسی یا گنے کا رس ہی پلواتیں گو آپ کو کسی یارس یا کوئی ایسی ویسی چیز پیتے کھاتے ہم نے نہیں دیکھا.ایک دفعہ آپ نے اپنے باغ میں آلو لگوائے تھے.حضرت نواب مبارکہ بیگم بھی لاہور یا شملہ سے آئی ہوئی تھیں تو ہم سب سیر کو باغ میں گئے.اماں جان نے لڑکیوں کے لئے ( محترمہ عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کی بھی دلداری اور خاطر عزیز تھی تو ایک بہت بڑے رشتہ کی پینگ درخت پر ڈلوادی اور دوٹو کرے آلو ابال کر ساتھ روٹیاں اچار اپنے باغ میں سے لوکاٹ اتروا کر چٹنی تیار کروائی.زمین
151 پر دریاں بچھا کر درختوں کے نیچے کوئی ہمیں پچیس خواتین کو دعوت کھلائی.لڑکیاں پینگیں جھولتی کھیلاتی رہیں.الغرض اماں جان کا مزاج شگفتہ اور تفریح پسند بھی تھا.یتامی پروری ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اماں جان کسی چھوٹے گاؤں کی طرف نکلیں تو ساتھ دونوں خادمائیں ہی تھیں (امام بی اور مائی فجو ابھی مائی کا کونہیں تھیں) جب ایک گلی میں گاؤں کی گزرے تو دیکھا ایک گندی چیتھڑوں میں لپٹی لڑکی لیٹی ہے اور خربوزوں کے گندے چھلکے منہ میں ڈال رہی ہے.آپ نے اس کے پاس ٹھہر کر پوچھا یہ کون ہے.گاؤں کی چند عورتوں نے بتایا کہ اس کے ماں باپ مرگئے تھے اور یہ گونگی بہری ہے.آپ نے ایک خادمہ کو حکم دیا کہ اسے اسی طرح لے چلو.وہ ہوگی کوئی چھ سات سال کی.بات کرنی نہیں آتی تھی.تو آپ اسے قادیان دارالامان اپنے ساتھ لے آئیں.اس وقت ہمارا گرل سکول آپ کے ہی دالان کے نیچے لگتا تھا ہم مدرستہ البنات میں بیٹھی تھیں کہ دیکھا ایک ہیبت ناک شکل وصورت کی لڑکی نہایت غلیظ اور گندے چیتھڑے پہنے جن سے بد بو کے بھبھکے نکل رہے تھے بیٹھی ہے.کئی لڑکیاں تو ڈر کے مارے بھاگنے لگیں مگر اتنے میں ہماری بابرکت اور پاکیزہ اماں جان ڈیوڑھی سے نمودار ہوئیں اور خوف زدہ فضاء کو دیکھ کر ہنسیں.پھر فرمایا یہ یتیم لڑکی ہے اور لاوارث ہے اسے انسان بنانا تمہارا کام ہے اور اس کا نام نہیمی بلایا.یہ فرما کر اوپر سیٹرھیوں پر چڑھ گئیں.کچھ دیر کے بعد فینائل کی بوتل کنگھا قینچی کپڑوں کا جوڑا جوتی تیل وغیرہ آگئے.اور کنواں تو پاس ہی تھا.استانی میمونہ صوفیہ ہی مستعد خاتون نے ایک آدھ گھنٹہ میں اس گندی لڑکی کو نہلا دھلا کر صاف ستھری لڑکی بنادیا.کھانا کھلایا اور وہ کچھ دنوں میں ہی اماں جان کی مہربانی سے ایک اچھی خاصی لڑکی بن گئی.چند سالوں کے بعد وہ شادی شدہ رحیم بی بی کہلاتی زبان سے الفاظ صحیح نہیں نکال سکتی تھی.تا ہم کام چلا لیتی.اماں جان زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر دنیاوی علوم کی بھی میری کئی اردو زبان کی غلطیاں نکالیں اور صحیح تلفظ سکھایا اور دینی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلک یا احمدیت میں تو ایسی ماہر تھیں کہ ہم سی خاکپاؤں کے دماغ اماں جان کے سامنے بیچ تھے.اور حضور علیہ السلام کی سب پیشگوئیوں پر اماں جان کا یقین محکم اور پختہ ایمان تھا.ہجرت کے بعد آپ اکثر فرماتی تھیں داغ
152 ہجرت والا الهام ضرور پورا ہونا تھا.پھر قادیان کے دوبارہ مل جانے کا بھی الہام انشاء اللہ ضرور پورا ہوگا.اماں جان مستجاب الدعوات بھی تھیں اور میں نے اسے بہت دفعہ آزمایا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم مغفور ہمیشہ آپ کو دعا کیلئے لکھتے رہتے اور القاب ہمیشہ ” نہایت تعظیمی سیدہ ام “ لکھتے.حضرت خلیفہ اول مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی بے حد عزت کرتے.یہ میرے سامنے کی باتیں ہیں.تینتالیس چوالیس سال ان کی صحبت مقدسہ میں گزرے واقعات تو حد سے زائد ہیں مگر اخبار میں گنجائش کہاں.اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو تو اپنی آغوش رحمت میں لے لیا اور وہ ضرور جنت کے اعلیٰ طبقوں میں مسرور ہوں گی.۲۲ سیدۃ النساء کی ایک جھلک مکرمه ومحتر مہ امتہ السلام تبسم بنارس تحریر کرتی ہیں: ۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء کی شام ہم لوگوں کے لئے ایک صدمہ عظیم کی خبر لائی.عصر کی نماز ادا کر کے میں تختہ سے اُٹھی ہی کہ ہماری عزیز ترین بہن اور فرینڈ سید نسرین بھاگلپوری کا خط ملا.جس میں صرف حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے انتقال پر ملال کی خبر تھی.آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا.یا میرے اللہ.یہ کیا ہوا! کیا جماعت ایک بزرگ ہستی کی دعاؤں سے محروم ہوگئی ؟ کیا اک پاک ہستی کا بابرکت وجود ہم سے چھن گیا.آہ! کس قلم سے لکھوں! کس زبان سے کہوں کہ ہماری جماعت اک مشفق ماں ! اک مادر مہرباں کی عنایات سے محروم ہو گئی.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا بے حد روحانی اور اخلاقی صلاحیت کا مجسمہ تھیں.خاکسار نے آپ کو صرف ایک بار دیکھا تھا.بلکہ صرف ایک جھلک دیکھی تھی.۱۹۴۵ء کے جلسہ سالانہ پر عاجز بھی والدین کے ساتھ گئی تھی.پہلے دن جلسہ سے لوٹ کر والدہ صاحبہ حضرت اماں جان سے شرف ملاقات حاصل کرنے گئیں.مجھ کو حضرت اماں جان کو دیکھنے کا بے حد شوق تھا.والدہ صاحبہ زینہ پر سے ہوتی ہو ئیں اوپر چھت پر آئیں.جہاں پر آپا محمودہ آنے والوں کا پُر جوش استقبال کر رہی تھیں.اخیر میں ہم لوگ آپا بشری کے پاس پہنچے.انہوں نے بھی بڑی محبت ومسرت کے ساتھ استقبال
153 کیا.وہاں پر والدہ صاحبہ نے اماں جان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی.انہوں نے امتہ النصیر صاحبہ سے کہا ” ان لوگوں کو اماں جان کے پاس لے جاؤ“ وہ ہم لوگوں کو زینہ سے نیچے لے جانے لگیں.سیٹرھیاں جہاں تک یاد ہے.تختہ کی تھیں.اس لئے میں آہستہ آہستہ اتر نے لگی.مبادا ٹوٹ نہ جائیں.اس وقت میں کوئی دس سال کی تھی.ادھر امتہ النصیر صاحبہ والدہ صاحبہ کے ساتھ غائب تھیں.گھبراہٹ میں جو نیچے اتری تو دیکھا بہت سی عورتیں ایک کمرے کی طرف جارہی تھیں.اور کچھ نکل بھی رہی تھیں.قرین قیاس میں نے سمجھا کہ والدہ بھی ادھر ہی ہوں گی.ادھر ہی چل پڑی.مگر کمرہ کے دروازہ پر ہی کوئی منتظمہ تعینات تھیں.انہوں نے اندر جانے سے روک دیا.شاید بچہ سمجھ کر.میں نے اندر جھانک کر دیکھا.جو ابھی تک اسی طرح میری آنکھوں کے سامنے ہے.اللہ اللہ ! کیا نظارہ تھا.حضرت اماں جان تکیہ کا سہارا لئے ہوئے پلنگ پر نیم دراز تھیں.اور مسکراہٹ وشفقت کے ساتھ ہر ایک کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں.ان کا وہ روشن پر جلال اور دلکش مسکراتا ہوا چہرہ اُسی طرح مجھے نظر آتا ہے.مگر یہ سب کچھ صرف چند لمحوں میں دیکھا.شاید اس دن ان کی طبیعت کچھ نا ساز تھی.اس لئے ملنے والوں کو صرف چند منٹ کا عرصہ ہی دیا جاتا تھا.لوٹتے وقت میرا دل مسرتوں سے پُر تھا.کیوں آج تک میں نے ایسا روشن اور پر جلال چہرہ کسی عورت کا نہ دیکھا تھا.آج بھی اس جھلکی ملاقات کو یاد کر کے مجھے فخر اور مسرت ہوتی ہے.مگر دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے.آج اُم المومنین کا وہ عظیم الشان با برکت وجود ہم میں نہیں.۲۳ تاثرات و واقعات مکرم حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد آف گوالمنڈی لاہور تحریر کرتے ہیں: (1) خاکسار کے حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے دونوں محترم برادران کے ساتھ خادمانہ تعلقات
154 ۱۹۲۱ء سے ان ہردو بزرگوں کی وفات تک قائم رہے حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کی سیادت میں اڑھائی سال بطور مہتم دار الشیوخ کام کرنے کا موقعہ ملا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل رضی اللہ عنہ کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد قادیان میں مقیم ہونے سے لے کر روز وفات تک ( جو پارٹیشن سے ایک ماہ قبل جولائی ۱۹۴۷ء میں ہوئی ہے مجھے قریباً ہر روز آپ کے نیاز حاصل کرنے کا موقعہ ملتا اور میں آپ جیسے منقطع الی اللہ.عارف باللہ ولی اللہ محب اللہ عاشق الله متخلق با خلاق اللہ موصوف به جمیع صفات حسنہ بزرگ کے روحانی اور علمی فیوض سے متمتع و مستفید ہوتا رہا.اور آپ کو غسل دینے کی سعادت آپ کی وصیت کے مطابق دوسرے دو بزرگوں حضرت بھائی عبد الرحیم رضی اللہ عنہ ومحترم شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کے ساتھ نصیب ہوئی.آپ بٹالہ پینشن لینے کے لئے جاتے تو خاکسار کو ساتھ لے جاتے.ایک بار اپنی ایک صاحبزادی صاحبہ اور صاحبزادہ کے گلے کے اپریشن کروانے کے سلسلہ میں لاہور آئے.اور کئی دن ٹھہرے تو بھی خاکسار آپ کے ساتھ تھا.سفر میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا اور آپ کے بڑے حرم محترم بھی ساتھ تھے.حضرت اماں جان پہلے مستری محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاں اقامت گزیں ہوئیں.اور مجھے آپ کی خدمت میں حضرت میر صاحب نے دہلی مسلم ہوٹل انار کلی سے بھیجا.میں نے دونوں بچوں کے کامیاب اپریشن کی اطلاع عرض کی.اور ان کے غرارہ کرنے کی غرض سے دو برتن حضرت اماں جان نے مجھے دیئے.واپسی کے وقت قادیان تک آپ کی معیت میں سفر کا موقعہ ملا.ایک دن خاکسار صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی کوٹھی پر جو حضرت اماں جان نے بنوائی تھی اور جہاں پر سیدنا حضرت میرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ مقیم تھے آپ کے دونوں صاحبزادوں ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب و پروفیسر مرزا مجید احمد صاحب سلمہما اللہ تعالیٰ کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے گیا.تو حضرت اماں جان بھی شہر سے تشریف لے گئیں.مجھے برآمدہ میں بیٹھا دیکھا میں نے سلام عرض کیا.تو اندر جا کر فرمایا.”میاں تمہارے ماسٹر صاحب باہر آئے بیٹھے ہیں ان سے جا کر پڑھو.“
155 (۳) ایک بار مولانا مولوی عبداللطیف صاحب فاضل بہاولپوری کے بھتیجا کی بیوی دار امسح قادیان حاضر ہوئیں.حضرت اماں جان نے ان سے دریافت فرمایا کہ وہ کس کی بیوی اور بہو ہیں.انہوں نے عرض کیا مولوی عبد اللطیف صاحب کی.حضرت اماں جان فرمانے لگیں مولوی عبداللطیف شہید کی ؟ اس پر انہوں نے عرض کیا نہیں اماں جان.بہاولپوری مولوی عبداللطیف صاحب کی.آپ نے مجھے شہید کے نام سے یاد فر مایا.اور حضرت مولوی محمد اسمعیل رضی اللہ عنہ تو صرف شہید کے نام سے پکارا کرتے تھے.اس پر میں نے دوبارہ یہ تعارفی نام رکھ لیا ہے.تا کہ مجھے ان بزرگوں کی یاد کبھی فراموش نہ ہو اور ہمیشہ ان پر درود پڑھتار ہوں.اور میں اکثر درود شریف کے الفاظ میں حضرت میر محمد اسمعیل حضرت اماں جان حضرت میر محمد اسحاق ، حضرت نانا جان، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت نانی جان رضی اللہ عنہا اجمعین کے لئے....دعا کرتا ہوں.اللہ تبارک تعالیٰ قبول فرمائے.اے اللہ ! میری سب سے بڑی خواہش اور دعا یہی ہے کہ تو مجھے جنت العلیا میں ان کی معیت بخشے اور مجھے قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذرہ نوازی سے میری یہ دعا قبول فرمائے گا.وھوارحم الرحمین.۲۴ رض
156 صداقت احمدیت کی مجسم دلیل.آپ کا ایک عظیم احسان مکرم و محترم خواجہ غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل تحریر کرتے ہیں: کونسا احمدی ہے جس پر حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے احسانات نہیں اور کس احمدی کی جبین نیاز آپ کی نوازشات کے بار سے خم نہیں.لیکن مجھ نا چیز پر ذاتی طور سے دوسرے بہت سے احسانات کے علاوہ ایک خاص احسان آپ نے ایسا فرمایا جس کا عمر بھر شکر ادا ہونا ممکن نہیں.اور جو ایسا عظیم الشان اور بابرکت احسان ہے کہ اس زندگی میں بھی میں نے اس سے بے حد فائدہ اٹھایا اور انشاء اللہ دوسری زندگی میں بھی میرے لئے مغفرت کا ذریعہ ہوگا.میں بالکل ابتدائی عمر میں قریباً ۱۹۱۱ء میں قادیان آ گیا تھا.اُس وقت میرے دور ونزدیک کے رشتہ داروں میں سے کوئی احمدی نہ تھا.میرے والد صاحب میرے بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے.تایا صاحب کے نرینہ اولاد نہ تھی ، انہوں نے میری پرورش کی اور انتہائی محبت و شفقت سے غور و پرداخت فرماتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ احمدی نہ تھے.پرانے وقتوں کے پڑھے لکھے تھے کڑستی اور پیروں وگدی نشینوں کے معتقد تھے.قریب قریب کے علاقہ میں اچھی شہرت رکھتے تھے.احمدیت کی مخالفت میں کافی حصہ لیتے تھے.کسی اہلِ علم احمدی سے گفتگو کرنے کی تو جرات نہ کرتے تھے لیکن عام احمدیوں سے بحث مباحثہ جاری رکھتے تھے.اور عموماً مخالفانہ باتوں میں سرگرم حصہ لیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تریاق القلوب میں جن لوگوں کو نشان دیکھنے کے لئے قادیان آنے کی دعوت دی ہے اُن میں اُن کا بھی نام ہے.باوجود گھر کے اس ماحول کے میری نشست و برخاست ایک احمدی مرز امحمد افضل صاحب مرحوم ابن حضرت مولانا جلال الدین صاحب بلا نوی جن کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے تین سو تیرہ اصحاب میں تیسرے نمبر پرلکھا ہے.مرتب ) کے پاس تھی.وہ میری عمر اور علم کے مطابق مجھ سے احمدیت کے متعلق گفتگو کرتے رہتے تھے.جب مڈل تک تعلیم پانے کے بعد مزید تعلیم پانے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے مجھے قادیان جانے کی تلقین کی اور میں آمادہ
157 ہو گیا.والدہ ماجدہ نے میرا تعلیمی شوق دیکھ کر مجھے جانے کی اجازت تو دیدی مگر ساتھ ہی تاکیدی طور پر نصیحت کی کہ دیکھنا احمدی نہ ہو جانا.اور متفکر بھی بہت تھیں کیونکہ بھیجنے کی اپنے پرائے سب مخالفت کرتے تھے اور ڈراتے تھے.میرے قادیان جانے کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت خلیفہ المسح اول رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے.انا للہ وانا اليه رَاجِعُون.اور خلافت ثانیہ کا دور شروع ہوا اگر چہ میں اس وقت تک اپنے آپ کو کسی مصرف کا نہ پاتا تھا لیکن حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سایہ عاطفت میں آچکا تھا اور ” الفضل “ کے دفتر میں ایک نہایت معمولی سے کام پر مجھے لگا دیا گیا تھا.حضور نے اپنے عہد مبارک کے پہلے ہی جلسہ سالانہ پر مجھ ناچیز پر غیر معمولی نوازش فرماتے ہوئے میر ا عقد مرزا محمود بیگ صاحب آف پٹی کی بھانجی ہاجرہ سے کر دیا تو میرے لئے موقع پیدا ہو گیا کہ میں والدہ ماجدہ کو قادیان آنے اور شادی کا کام سرانجام دینے کے لئے عرض کروں.میں نے اس کے لئے کوشش کی اور آپ بخوشی تشریف لانے پر آمادہ ہو گئیں.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور مزید خوشی اس بات سے ہوئی کہ تایا صاحب جو قادیان کے نام تک سے بد کتے تھے وہ بھی آنے کے لئے تیار ہو گئے.میں نے مقررہ تاریخ سے اطلاع دیدی اور والدہ ماجدہ شادی کی مناسب تیاری کے ساتھ معہ تا یا صاحب قادیان آگئیں.قادیان پہنچنے کے دوسرے یا تیسرے دن والدہ صاحبہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی زیارت کے لئے گئیں اور بس اس پہلی زیارت نے ہی آپ پر ایسا اثر کیا کہ احمدیت کی صداقت کی قائل ہو گئیں حالانکہ اس سے قبل احمدیت کے متعلق انہوں نے جو کچھ سن رکھا تھا اس سے بہت خوف زدہ تھیں.حضرت اقدس کے گھر جانے اور خاص کر حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی زیارت کرنے کا تو انہیں بے حد شوق تھا مگر گھبراتی بھی بہت تھیں.اپنی سادگی کی وجہ سے اپنے دیہاتی لباس کے باعث اپنی دیہاتی طرز گفتگو کے سبب ڈرتی تھیں کہ شاید کوئی بات ہی نہ کر پائیں.لیکن میں نے بہت تسلی دی اور بتایا کہ دیہات کی عورتیں کثرت سے اپنے سادہ اور معمولی دیہاتی لباس میں حضرت ام المومنین اور دوسری خواتین مبارکہ کی زیارت کے لئے جاتی ہیں اور خوش و خرم آتی ہیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین تو الگ رہا کوئی اور بھی کسی قسم کی ناگوار بات کہے یہ ممکن ہی نہیں.ساتھ کی عورتوں نے بھی ہر طرح تسلی دلائی اور والدہ صاحبہ چلی گئیں.
158 خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے زیارت کرنے اور باتیں سننے کا اچھا موقع عطا کیا اور میری جو خواہش تھی وہ پوری ہو گئی یعنی آپ پر احمدیت کی صداقت کھل گئی.آپ نے گھر آکر مجھے بتایا کہ حضرت صاحب کے گھر قدم رکھتے ہی میرا خوف اور تر دو تو بالکل دُور ہو گیا مگر اس کی جگہ حیرت اور استعجاب نے لے لی.میں نے جس کو بھی دیکھا مجسم اخلاق پایا.مجھے عزت و آبرو کے ساتھ ایسی اچھی جگہ بٹھایا کہ مجھے تو وہاں قدم رکھتے ہوئے بھی شرم آتی تھی.ہر ایک نے محبت اور نرمی سے ہمارے ساتھ گفتگو کی اور میں حیران تھی کہ ہم ایسی دیہاتی عورتوں کے ساتھ یہ برتاؤ.غرض میں نے اس گھر میں عجیب ہستیاں دیکھیں.ایسی عجیب کہ ساری عمر میں کبھی نہ دیکھی تھیں.اور بڑی بیوی صاحبہ (حضرت اُم المومنین ) کے متعلق کیا کہوں ان کا نورانی چہرہ دیکھ کر اور آپ کی چند ہی باتیں سن کر میں تو احمدی ہونے پر مجبور ہوگئی.یہی جی چاہتا تھا کہ آپ کے پاس بیٹھی آپ کی باتیں سنتی رہوں.لیکن دوسری عورتوں کے خیال سے آگئی کہ ان کو بھی زیارت کا موقع مل سکے.والدہ ماجدہ اپنے گاؤں اور خاص کر اپنے گھر میں میرے ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے احمدیت کا ذکر سنتی چلی آرہی تھیں.ہمارے گاؤں کے چند معزز اصحاب ابتداء میں ہی احمدیت قبول کر چکے تھے اس وجہ سے موافقانہ اور مخالفانہ گفتگو اور وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری رہتا تھا.شادی اور غمی کے موقع پر احمدیوں کے بائیکاٹ کا سوال بھی پیدا ہو جاتا تھا.احمدیوں کو ستانے اور دکھ دینے میں بھی کمی نہ کی جاتی تھی.سنجیدہ اور سمجھدار مرد عورتیں احمدیوں کی دینداری کا بھی اعتراف کرتے تھے اور ان کی خوبیوں کے قائل تھے لیکن والدہ صاحبہ اس بارے میں خاموش تھیں.اگر مخالفت میں کوئی حصہ نہ لیتیں تو موافقت کے لئے بھی تیار نہ تھیں مگر حسن اتفاق سے جب خود قادیان جانے کا موقع ملا تو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی پہلی ہی زیارت اور چند باتوں سے ایسا اثر ہوا کہ سالہا سال کے زنگ بالکل صاف ہو گئے.احمدیت کی صداقت روز روشن کی طرح نظر آگئی اور ایک لمحہ کا تر ڈ دکئے بغیر احمدیت قبول کر لی.اس کے بعد اپنی وفات تک ہر سال دو تین بار قادیان تشریف لاتیں.اور میں نے بار بار احمدیت کے موٹے موٹے مسائل باتوں باتوں میں آپ کے سامنے عام فہم الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی.آپ خاموشی سے سنتی رہتیں اور پھر یہ فرما دیتیں." مجھے تو حضرت بیوی صاحبہ نے ایک
159 آن میں وہ کچھ سمجھا دیا کہ اس کے بعد کچھ سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی.بس میرے لئے وہی کافی ہے.جو کچھ میں نے دیکھا اور سمجھا ہی شاید ہی تمہیں نصیب ہو“.میں اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتا اور آپ کے ایمان پر مجھے رشک آتا اور آخر آپ کا جو مبارک انجام ہوا اس نے مجھ پر واضح کر دیا کہ واقعی حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی زیارت سے آپ کو قابلِ رشک درجہ اور ایمان حاصل تھا.اور خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے مجسم صداقت وجود باجود کی زیارت سے کس قدر خوش نصیب روحوں نے اعلیٰ مدارج حاصل کئے.اس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کو آخری ٹھکا نہ محض اپنے فضل سے قادیان کی مقدس سرزمین میں عطا فرمایا.ہم سالہا سال قادیان میں رہے.بچپن کے بعد جوانی آئی.جوانی بیتی بڑھاپا آیا مگر معلوم نہیں آخری وقت کہاں آئے گا.لیکن والدہ ماجدہ کا صدق و اخلاص جو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے ذریعہ آپ کو حاصل ہوا خدا تعالیٰ نے اس قدر نوازا کہ ایک کو ردہ سے اُٹھا کر قادیان کی بابرکت سرزمین میں پہنچا دیا.اب جبکہ ہم قادیان سے محروم ہیں اور اس کے دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں میرے تین چھوٹے لڑکے ، ایک جوان بیٹی اور والدہ صاحبہ ہمارے خاندان کی یادگار وہاں موجود ہیں.اگر ہم مرے بھی وہاں نہ پہنچ سکے تو انشاء اللہ حشر اجساد کے دن یہ روحیں قادیان - ނ جب کھڑی ہوں گی تو ممکن ہے کسی لحاظ سے ہمارا نام بھی پکارا جائے.غرض والدہ ماجدہ کو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی زیارت کا موقع نصیب ہونا اور آپ کا احمدیت قبول کرنا مجھ پر حضرت اُم المومنین کا اتنا بڑا احسان ہے جس کا میں اندازہ بھی نہیں کرسکتا.اس احسان کے نہایت شیریں ثمرات میں نے اس دنیا میں بھی بکثرت حاصل کئے اور اُمید ہے آخرت میں بھی خدا تعالیٰ مجھے محروم نہ رکھے گا.اس کے مقابلہ میں ہم نے حضرت اُم المومنین کی کیا خدمت کی اور کیا کر سکتے ہیں ؟ خدا تعالیٰ سے ہی التجا ہے کہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور قیامت تک آپ کے فیوض و برکات دنیا میں جاری رکھے.آمین ۲۵
160 توکل علی اللہ اور استقلال حضرت اماں جان کی ایک دعا مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب فاضل مربی سلسلہ بلا دعر بیہ ( مرحوم و مغفور ) تحریر فرماتے ہیں: آج سے ۴۴ سال قبل ۱۹۰۸ء میں بتاریخ ۲۶ رمئی بروز صد شنبہ لا ہور شہر میں حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنے کام کو ختم کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رحلت فرمانے کے قریب تھے.اور الرَّحِيلُ ثُمَّ الرّحِيلُ کا نقارہ بج رہا تھا.اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دعوت مل رہی تھی.کہ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةٌ مَّرْضِيَّةٌ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ”اے روح جسے کوئی قلق واضطراب نہیں اور جس کی سب خوشیاں اپنے خدا سے وصال میں ہیں اپنے پیدا کنندہ کے پاس بخوشی و خرمی واپس آجا.اور ہر قسم کی خوشیوں سے دوچار ہو جا اور میرے بندوں کو آمل اور میرے بہشت میں داخل ہو جا! اس وقت حضرت اقدس کے پاس جو خوش قسمت اصحاب موجود تھے.ان میں سے آپ کی دونوں جہانوں میں رفیقہ حیات حضرت اُم المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم اور آپ کے لختِ جگر حضرت مرزا محمود احمد اور حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس وقت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح اپنے مولیٰ کے پاس جان کے لئے اس دنیا کی زندگی کو خیر باد کہنے کے لئے آخری کشمکش میں تھی.اور حضرت اُم المومنین کو یہ یقین ہو گیا.کہ اب آپ اس جہان کو الوداع کہہ رہے ہیں اس وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے جو الفاظ کہے یا بلفظ دیگر دعا کی، وہ حاضرین کے الفاظ میں یہ تھے کہ خدایا اب یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں.لیکن تو ہمیں نہ چھوڑ یو“.حضرت اُم المومنین علیہا السلام کی یہ دعا ایک ایسی دعا ہے.جس کا انکار نہ مبائعین کر سکتے ہیں اور
161 نہ ہی غیر مبایعین.کیونکہ ہر دو فریق نے یہ دعا اپنے لٹریچر میں درج کی ہے.یہ دعا ایسے وقت میں کی گئی.جب آپ لاہور شہر میں غریب الوطن تھیں.اور جب ایسا وقت تھا.جو آپ کے لئے سب سے زیادہ نازک وقت تھا.اور بظاہر نظر آپ کے لئے دنیا اندھیر ہورہی تھی.ایسے وقت میں جب دنیا کی تمام عورتوں کو جو جوانی کی عمر میں بیوہ ہو رہی ہوں.سوائے رونے دھونے مین ڈالنے اور کپڑے پھاڑنے اور منہ پیٹنے اور آہ وویل کرنے کے اور کچھ نہیں سوجھتا ، اسوقت آپ کی یہ دعا آپ کے کمال استقامت اور کمال ایمان باللہ کو ظاہر کر رہی ہے.آپ کی اس دعا کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جہان سے رخصت ہو کر اپنے باری تعالیٰ سے جاملے اور حسب وعدہ اللى يا أَحْمَدُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةِ بہشت میں داخل ہو گئے.اور آپ کے لئے بظاہر نظر مشکلات کا ایک دروازہ کھل گیا.سب سے پہلی مشکل تو لا ہور شہر میں ہی در پیش تھی.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی لاہور شہر کے مختلف اطراف سے جمع ہو کر آپ کے دروازہ کے سامنے جمع ہونے شروع ہو گئے اور وہ دن جو احمدیوں کے لئے ماتم کا دن تھا.احمدیت کے دشمنوں کے لئے خوشی کا دن بن گیا.اور وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شدید دشمن تھے.کسی طرح بھی گمان نہیں کر سکتے تھے.کہ آپ کے اہل و عیال آج بخیر و عافیت لاہور سے اپنے وطن قادیان میں جاسکیں گے.اور پھر قادیان میں بھی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اقارب آپ کے مخالف ہی تھے.اس لئے حضرت اُم المومنین علیہا السلام کے لئے قادیان بھی اب دوبارہ مشکلات کی جگہ تھی.جہاں آپ کے دنیاوی رشتہ داروں سے کسی فائدہ یا ہمدردی کی امید رکھنا ایک طمع خام کا مصداق تھا.آپ کی زندگی اور آرائش و آسائش کا محور تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات ہی تھی.اور آپ کے اس جہان کو چھوڑ جانے کے بعد بظاہر نظر آپ کے قریبی رشتہ داروں کو ایک دفعہ پھر ابھر آنے کا موقع مل گیا تھا.تیسری طرف قادیان کی قوت جذب کو بھی دھکا لگ گیا تھا.کیونکہ قادیان میں دور دور سے آنے والے لوگ جو يَأْتُونَ من كل فج عميق و ياتيك من كل فج عميق كے ماتحت آتے تھے اور مال و تحائف لاتے تھے.ان کا مرکزی نقطہ جو ان سب آنے والوں کی تمنا اور مقصود تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ تو اب اپنے خدا تعالیٰ سے جاملے تھے.اس لئے کے
162 اس وقت یہ یقین کرنا کہ اب قادیان کی طرف لوگوں رجوع کا ہوگا.اور قادیان پھر ارض حرم کا نظارہ پیش کرے گی اور مال و تحائف آتے چلے جائیں گے.اس کی بھی دنیاوی نقطہ نظر سے کوئی امید نہیں تھی.پھر اس بات کا خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مشن پورا ہوگا.جس کے لئے آپ مبعوث کئے گئے تھے.اور آپ کے سلسلہ کا آپ کی وفات کے بعد قائم رہ جانا، یہ بھی دنیا داروں کی نظر میں ایک عجوبہ سے کم نہ ہوگا.پھر اگر یہ بھی مد نظر رکھا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت میرزا سلطان احمد صاحب نے تو اس وقت تک آپ کی بیعت نہیں کی تھی.اور حضرت ام المومنین کے بچے ابھی چھوٹی عمر میں تھے.حضرت میرزا محموداحمد صاحب کی عمر اس وقت تقریباً بیس سال تھی.اور حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کی عمر پندرہ سال تھی اور حضرت میرزا شریف احمد صاحب کی عمر ۱۴ سال کی تھی.اور یہ تینوں ابھی اس قابل نہ تھے کہ اپنی جائداد کی بھی نگرانی کر سکیں اور عمالیق سے اپنا حصہ بقوت علم یا بزور بازو لے سکیں.الغرض ہر لحاظ سے مشکلات ہی مشکلات تھیں اور ان مشکلات کا حل کرنا بھی سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کے ہاتھ میں نہ تھا.مگر ہماراوہ خدا جس نے اپنے برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر دے رکھی تھی اِنّى مَعَكَ ومع أهلك هذه میں تیرے ساتھ اور تیری اس بیوی (نصرت جہاں بیگم ) کے ساتھ ہوں.اور اس خبر و بشارت کو متعد دمرتبہ دہرایا تھا، کب آپ کی اہلیہ کو چھوڑ سکتا تھا ؟ اس لئے اس نے اپنی خدیجہ حضرت اُم المومنین کی دعا کو سنا اور تمام مشکلات کو دور کر دیا اور حضرت اُم المومنین کو بے نصرت و بے مدد نہ چھوڑا.لا ہور شہر میں ہی حضرت ام المومنین علیہا السلام نے یہ دعا کی تھی.کہ یا الہی یہ تو ہمیں چھوڑے جار ہے ہیں پر تو ہمیں نہ چھوڑیو! اور لاہور شہر سے ہی اس کی قبولیت کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسد اطہر بلا کسی خاص تکلیف کے چھ سات لاکھ لاہوریوں سے بچ کر نہایت عزت و احترام کے ساتھ قادیان میں پہنچ گیا.اور حضرت اُم المومنین علیہا السلام آپ کے حواریوں کی معیت ورفاقت میں قادیان میں پہنچ گئیں.اور پہلی مرتبہ اس دعا کی قبولیت ظاہر ہو گئی.پھر قادیان بھی آپ کے لئے وہی قادیان رہا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں
163 تھا.اور آپ اپنے سب دنیاوی ، قریبی رشتہ داروں سے جو وحی الہی میں عمالیق کے نام سے یاد کئے گئے ہیں ہر طرح سے محفوظ ومصئون رہے.اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور آپ کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ آپ کی تمام مخالفت جاتی رہی ، اور آپ کے مخالف یکے بعد دیگرے آپ کے عقیدت مندوں میں داخل ہوتے گئے یہاں تک کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی بیعت میں ایک لمبا عرصہ تک تو قف ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کے لخت جگر محمود کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق دیدی.اور تائی صاحبہ کو بھی بیعت کرنے کی سعادت مل گئی.اور مرز اگل محمد صاحب بھی آپ کے تابع ہو گئے.اور آہستہ آہستہ قادیان کے باقی ماندہ مغلیہ خاندان کے تمام افراد آپ کے ارادت مندوں میں داخل ہو گئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلسلہ بھی جو دشمنوں اور حاسدوں کی نظر میں تقریباًنا بود ہو گیا تھا.حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اس کی تجدید ہوگئی اور سلسلہ خلافت بلا کسی معاوضہ کے ظہور پذیر ہو گیا.اور گرتی ہوئی جماعت خدا تعالیٰ نے سنبھال لی.اور قادیان میں آنے والوں اور مال و تحائف لانے والوں کی تعداد روز بروز زیادہ ہوتی گئی.اگر ۱۹۰۷ء میں قادیان میں جلسہ سالانہ پر آنے والے مردان خدا کی تعداد سات آٹھ سو کے قریب تھی.تو ۱۹۱۳ء میں بارہ تیرہ سو ہو گئی ، اور ۱۹۳۹ء میں چالیس ہزار کے قریب ہوگئی.اور ان مردانِ خدا میں سے ہر ایک اسی طرح حضرت اُم المومنین علیہا السلام کے لئے اپنی جان نثار کرنے کو تیار تھا.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اپنی جان نثار کرنے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا.اور آپ کے وہی بچے جو ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کے روز چھوٹے چھوٹے بچے نظر آتے تھے اور جن کا مستقبل اس وقت بظاہر نظر تاریک نظر آتا تھا.دنیا میں آپ کی زندگی میں ہی سورج چاند کی طرح چمکے.حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کا نورنظر بنایا.مجلس معتمدین کا ممبر تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صدرانجمن احمد یہ قادیان قائم کرتے وقت ہی بنادیا تھا.حضرت خلیفتہ امسیح اول نے آپ کو اپنی جگہ پریذیڈنٹ بھی بنادیا.امامت جماعت کا منصب بھی بوقت ضرورت آپ کے سپرد کرتے رہے.پھر جماعت احمدیہ کی اکثریت کے دل بھی آپ کی طرف مائل ہو گئے.پھر ۱۹۱۴ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ ثانی
164 بھی بنادیا.پھر ۱۹۴۲ء میں آپ پر یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ آپ مصلح موعود بھی ہیں ، اور وہی پسر موعود و امام ہمام جس کی ولادت کا وعدہ ہوشیار پور میں دیا گیا تھا.اور جس کے متعلق مفصل پیشگوئی ۲۶ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں شائع کی گئی تھی.اور سبز اشتہار میں اس کی تجدید و تو ضیح کی گئی تھی.حضرت میرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت میرزا شریف احمد صاحب اور آپ کی دونوں دختران نیک اختران کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضلوں سے نوازا.اور وہی جائداد جس فحص کے ضائع ہو جانے کا خطرہ بھی ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو پیدا ہو گیا تھا.وہ اگر اس روز دس ہزار روپیہ کی تھی تو آپ کی وفات کے بعد لاکھوں روپیہ کی جائداد بن گئی.اور حضرت اُم المومنین علیہا السلام کی عزت بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے طور سے جماعت کے دلوں کے اندر پیدا کی جس کا بیان کرنا بہت سے اوراق چاہتا ہے.کہاں وہ دن؟ جبکہ حضرت اُم المومنین اور آپ کی اولاد کے لئے قادیان میں بھی ہر طرف سے خطرہ ہی خطرہ نظر آتا تھا.اور بچوں کو دودھ پلانے یا خدمت کرنے کے لئے باہر سے نیک خادمات کی تلاش کی جاتی تھی.اور کہاں وہ دن ؟ جب کہ قادیان میں آپ کے عقیدتمندوں کی تعداد دس بارہ ہزار کے قریب تھی.اور آپ قادیان کے شمال و جنوب یا مشرق و مغرب میں جس طرف جانا چاہیں بنا کسی خوف ،خطر یا روک ٹوک کے جا سکتی تھیں.اور جس گھر کے سامنے آپ گزرتی تھیں.اس گھر کے ہر خور دو کلاں کی یہ تمنا ہوتی تھی.کہ کاش حضرت ام المومنین ہمارے غریب خانہ پر تشریف لا کر ہمیں اپنی کسی خدمت کی سعادت بخشیں.یا اپنے کلام سے ہمیں مشرف فرمائیں.اور اپنی دعا سے ہمیں برکت بخشیں! اور آپ کی عزت خدا دا د اور تکریم کریم صرف قادیان کی حدود تک ہی محدود نہ تھی بلکہ قادیان کے علاوہ بھی جس مقام پر آپ تشریف لے جائیں.آپ کے لئے قربان ہونے اور آپ کی خدمت میں اپنی سعادت دیکھنے والے آپ کے روحانی بیٹے موجود تھے.اور خدا تعالیٰ کی نصرت آپ کے ساتھ تھی.اور دنیا کی آپ کے خاوند اقدس اور آپ کے ذریعہ اور آپ کے فرزندان کرام (اطال الله بقاء هم فینا ) کے ذریعہ ہو رہی تھی.اور ہوتی رہے گی.وذالك فضل الله يوتيه من يَّشَاءُ! کہاں وہ ۱۹۰۸ء کا زمانہ جب کہ سوائے قریبی دیہات اور شہروں کی احمدی عورتوں کے بہت ہی کم
165 عورتیں آپ کے پاس دور دراز جگہوں سے آتی تھیں.اور کہاں آپ کی عمر کا آخری زمانہ ؟ جب کہ آپ کے پاس بغرض زیارت آنے والی احمدی مستورات کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں تک پہنچ جاتی تھی.اور آپ کے پاس اسی طرح ہدایا اور تحائف آتے تھے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدائی وعده يأتون من كل فج عميق ويأتيك مـن كـل فـج عمیق کے مطابق آیا کرتے تھے.اور یہ سب عزت اور نصرت اور سب مال اور سب عقیدت اور آپ کی ساری اولاد کی آپ کی زندگی میں ہی برومندی اور کثرت اور عزت اور آپ کی اس دعا کی ” خدایا اب یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں.لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو“ کی قبولیت کا زندہ ثبوت ہے.اور آپ کی یہ دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت اس الہی وعدہ کی عملی تصدیق تھی.کہ إِني مَعَكَ ومَعَ اَهْلكَ هذه“ میں تیرے ساتھ اور تیری اس بیوی کے ساتھ ہوں ولنعم ما قال احمد عليه السلام اے کہ گوئی گر دعا ہارا اثر بودے کجا است؟ سوئے من بشتاب بنائم تر چوں آفتاب؟ بے شک حضرت اُم المومنین علیہا السلام کی وفات قادیان سے ربوہ میں ہوئی.مگر مشیت الہی میں یہی مقدر تھا.کہ آپ کی اپنے زوج حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس رنگ میں بھی مشابہت ہو.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی غریب الوطن ہونے کی حالت میں ہی اپنے تمام عزیزوں کی موجودگی میں رحلت فرمائی اور شہادت فی سبیل اللہ کا درجہ پایا.اور حضرت اقدس علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ علیہا السلام نے بھی غریب الوطن ہونے کی حالت میں ہی اپنے تمام اعزہ کی موجودگی میں رحلت فرمائی.اور اپنی جان اپنے جان آفرین کی خدمت میں پیش کی.اور ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش میں شہادت فی سبیل اللہ کا درجہ پایا.اور يَا أَحَمدُ اسْكُنُ انت وَزَوْجُكَ الجنَّة کی مصداق ہوئیں ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده مثبت شد بعشق بر جریده عالم دام شان اللهمَّ صل على محمد وعلى آل محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد ٣٦
166 ا الفضل لا ہو ر ۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ صفحریم ۱۳ نصرت الحق.بار اول ص ۳-۹ ۵ الفضل لاہور ۱۳ مئی ۱۹۵۲ صفحه م ے نصرت الحق.بار اول صفحہ ۱۳ و الفضل ۲۴ مئی ۶۵۲ لا مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۳۸-۳۶ ۱۳ الفضل لا ہور ۸ رمئی ۱۹۵۲ء افت روزه بدر قادیان ۲۶ اپریل ۶۵۲ کا مصباح ربوہ مئی جون ۱۹۵۲ء صفحه ۵۶-۵۵ وا مصباح مئی جون ۱۹۵۲ صفحه ۳۹-۴۲ ا الفضل لا ہو ر ۱۲ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۶ ۲۳ الفضل لاہور ۱۳ مئی ۱۹۵۴، صفحریه ۲۵ نصرت الحق.باراول پشتہ ٹائیٹل حوالہ جات الفضل قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۹ء ت سیرت طیبه صفحه ۸۰-۸۹ ۶ نصرت الحق.بار اول صفحه ۳-۱۰ الفضل ۱۱ رمئی ۵۲ صفحه ۳ ا مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۳-۴ ۱۲ مصباح جولائی ۱۹۵۲، صفحہ ۱۱-۱۲ ۱۴ الفضل ۲۱ ر مئی ۱۹۵۲ء ہفت روزه بدر قادیان ۲۸ / اپریل ۱۹۵۲ء ۱۸ نصرت الحق صفحه ۳۱-۳۸ ۲۰ الفضل لا ہو ر ۲۱ مئی ۱۹۵۲ صفحریه الفضل لا ہور ۱۸ رمئی ۱۹۵۲ء صفحریم ۲۴ ماهنامه درویش، جون جولائی ۱۹۵۲ ء ص ۲۰-۱۹ ۲۶ مصباح ربوہ جولائی ۱۹۵۲ء صفحه ۱۴-۱۲
167 اب چهـ اوصاف حمیده ارم
☆ ☆ ☆ 168 تاثرات و روایات ہمدردی اور خدام سے محبت ابر جود و کرم.....عنایات کریمانہ بے تکلفی اور سادگی خادمات سے حسنِ سلوک دوسروں کی تکلیف کا احساس مہمان نوازی محبت اور شفقت تحفہ قبول کرنا اور تحائف دینا حسنِ انتظام وسلیقہ شعاری نصائح اور عورتوں کی تربیت بچوں سے محبت اور پیار کام کی عظمت اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت......ذوق لطیف اور خوش طبعی ☆...سفارش اور نا جائز سفارش سے گریز خدا تعالیٰ کو مقدم رکھنا قرآن کریم سے محبت
☆ 169 عبادت اور نماز کی اہمیت حضرت مسیح موعود سے محبت شعائر اللہ کا احترام خلافت کا احترام اور اطاعت وفرمانبرداری مناظر قدرت سے لگاؤ ☆ صدقہ و خیرات و مالی قربانی......حسن ظنی ☆ نور فراست و ذہانت غیر معمولی حافظه علم تعبیر دعا اور معجزانہ قبولیت دعا کے نظارے پر وقار غم اور صبر ورضا احمدیت کی صداقت.....حضرت اماں جان کا وجود.....آپ کی روحانی اولاد
170 ہمدردی اور عنایات کریمانہ محترم ملک غلام نبی صاحب تحریر کرتے ہیں: ایک دفعہ میری اہلیہ عائشہ بی بی قادیان حاضر ہوئی.تو اس کے بدن پر جو قمیص تھی وہ باریک تھی.اور سردی کا موسم تھا.اس کو دیکھتے ہی حضرت اماں جان نے فوراً ایک گرم قمیص نکالی اور اسی وقت اس کو پہنا دی.میرے لڑکے عبد القادر مرحوم کی شادی ہونے کے بعد جب میری بیوی اپنی بہو کو ساتھ لے کر حضرت اماں جان کے حضور حاضر ہوئی.تو حضرت اماں جان نے مبلغ دس روپیہ اور ایک تھال کھانڈ لا کر میری بہو کو دیا اور خوش ہو کر کہا کہ یہ میرے منشی صاحب کی نواسی ہے.غرضیکہ ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو ان کے اخلاق فاضلہ اور رحیمانہ برتاؤ کا ثبوت ہیں لے مکرمہ امتہ المجید ایم.اے تحریر کرتی ہیں: والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب خاکسار را قمة الحروف پیدا ہوئی.تو حضرت اماں جان از راہِ شفقت ہمارے ہاں تشریف لا ئیں.مجھے گود میں اُٹھالیا.اور دیکھ کر فرمایا ' لڑکی قسمت والی ہے اپنے خادموں کے ساتھ مادرانہ سلوک اور نیک خواہشات ہی کی وجہ سے آپ کا گھر مرجع خلائق رہتا تھا.کبھی چلے جائیں آپ کو زائرات سے گھرے ہوئے پایا.کوئی ملنے کے لئے آئی ہوئی ہیں.کوئی اپنے عزیزوں کی مشکلات دور ہونے کے لئے اور کوئی بیماروں کی تندرستی کے لئے دعا کے لئے کہنے آئی ہے.الغرض آپ کے پہلو میں ایسا دردمند دل تھا.کہ ہر عورت جو تکلیف میں ہوتی.وہ آپ کی طرف رجوع کرتی.اور آپ بھی اس کی ڈھارس بندھا تیں.لوگ کہتے ہیں حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ زندہ جاوید ہوگئیں.آپ ان چند ہستیوں میں سے ہیں.جن کی زندگیوں کو موت مٹانے کی بجائے اور بھی زیادہ اُجاگر کر دیتی ہے.حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جسمانی اور طبعی طور پر وفات پاگئیں.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خدائی قانون کے تحت فوت ہو گئیں.لیکن کیا موت نے ان ہستیوں کی بزرگی کو کچھ کم کر دیا ؟ ہے
171 مکرمہ امتہ الحمید بیگم اہلیہ قاضی محمد رشید آف نوشہرہ بیان کرتی ہیں تقریباً ۱۹۲۱ء کا واقعہ ہے کہ میں اور میری پھوپھی صاحبہ حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئیں.میں نے اپنی پھوپھی کو ایک لیس بن کر دی ہوئی تھی جو انہوں نے قمیص پر لگائی ہوئی تھی.حضرت اماں جان نے بھی اس لیس کو دیکھا اور پسند فرمایا.اس پر میری پھوپھی صاحبہ نے بتایا کہ یہ میری بھتیجی امتہ الحمید نے بنائی ہے.آپ نے فرمایا.لڑکی! مجھے چادر کی لیس یا ایک میز پوش بن دو.پھر آپ نے دھاگے کا ایک ڈبہ امرتسر سے منگوا دیا اور فرمایا.گیارہ گزلیس بنا دو.“ و غالبًا بی بی امتة السلام صاحبہ بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے جہیز کے لئے بنوائی تھی.چنانچہ میں دھا گے لے گئی.اس عرصہ میں حضرت اماں جان کشمیر تشریف لے گئیں اور میں بھی بیمار پڑ گئی.اور حضرت اماں جان کی واپسی پر میں یہ لیس لے کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئی تو فرمایا.تم نے چھ ماہ لگا دیئے ہیں.چنانچہ میں نے اپنی بیماری کا ذکر کر کے معذرت کی سے دوسروں کی تکلیف کا احساس اہلیہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تحریر کرتی ہیں میرے بچے نعیم احمد کی پیدائش پر جب میں بیمار ہوگئی تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی کوشش سے ڈاکٹر صاحب مجھے کشمیر لے گئے.وہاں حضرت اماں جان بھی خیمہ میں رہتی تھیں.ہمارا خیمہ بھی قریب ہی تھا.ایک دن سیر کرتے ہوئے ہمارے خیمہ میں تشریف لائیں.میں اینٹوں کے چولہے پر چائے پکارہی تھی.فرمانے لگیں اینٹوں کے چولہے پر کیوں پکار ہی ہو.میں نے کہا اماں جان مجھے تو چولہا بنانا نہیں آتا.دو دن کے بعد محلہ خان یار میں تشریف لے گئیں اور ایک چولہا لے آئیں اور خادمہ کے سر پر اٹھوا کر خود ساتھ تشریف لا کر فرمانے لگیں.دیکھو بیگم میں خود جا کر تمہارے لئے محلہ خان یار سے چولہا لائی ہوں.اس وقت میں ندامت سے آنکھیں نیچی کر کے کہا.اماں جان آپ نے کیوں تکلیف فرمائی.فرمانے لگیں تمہیں جو تکلیف تھی.“ تاثرات مکرمه امۃ الرشید شوکت صاحبہ میری والدہ جو۳۱۳ صحابہ میں سے ایک مخلص صحابی حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی کی
172 بیٹی ہیں.اور خود بھی انہیں نو سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان حضرت ام ناصر احمد صاحب کے ہمراہ ہمارے گاؤں سیکھواں تشریف لائیں.میرے نانا جان مرحوم اور دونوں چھوٹے بھائی اکٹھے ایک ہی جگہ رہتے تھے.دیہاتی دستور کے مطابق متینوں گھروں میں جو کچھ پکا ہوا تھا وہ آپ کے سامنے رکھا گیا.آپ نے وہ سادہ کھانا نہایت خوشی سے مزے لے لیکر کھایا.موٹھ کی کھچڑی جود یہاتی سردیوں کے موسم میں اکثر کھاتے ہیں بہت پسند فرماتے تھے.اور اس کے بعد بھی کبھی کبھی مائی کا کو کے ذریعہ اس قسم کی اشیاء منگواتی رہیں جو کہ آپ کی سادگی اور ہر ایک سے بے تکلفی اور مر بیا نہ سلوک کو ظاہر کرتی ہے.میں آپ سے برکت حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس جایا تو کرتی تھی لیکن السلام علیکم اور دعا کے بعد آپ کے رعب اور اپنے شرم کے باعث کبھی زیادہ بات چیت نہ کرسکی.قادیان کا ایک واقعہ یاد ہے.ایک دن اپنی بھابھی کے ہمراہ حضرت اماں جان کی زیارت کو گئی.آپ نے ہمارے خاندان کے مختلف افراد کا نام لے کر پوچھا کہ اُن کا کیا حال ہے اور وہ کہاں رہتے ہیں.اسی طرح کھانے پینے کی چیزوں کا ذکر بھی شروع ہو گیا.میں نے پوچھا...اماں جان! آپ کو کونسی چیز پسند ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے لئے پکا کر لاؤں.فرمانے لگیں.بغیر گوشت کے پکے ہوئے کریلے جن میں تھوڑی سی کڑواہٹ باقی ہو“.میں نے اسی دن شام کے وقت نہایت احتیاط سے کریلے تیار کئے اور حضرت اماں جان کی خدمت میں لے کر حاضر ہوگئی.شام کا وقت تھا میں نے پلیٹ آپ کے سامنے کر دی.حضرت اماں جان نے پوچھا یہ کیا ؟ میں نے عرض کی کہ کریلے پکا کر لائی ہوں.آپ نے جزاک اللہ کہہ کر پلیٹ میرے ہاتھ سے لے لی اور ایک کریلا کھا کر فرمایا کہ تم نے بہت تکلیف کی.لیکن یہ تکلیف تو میرے لئے عین راحت تھی...از محترم ملک غلام نبی صاحب آف ڈسکہ حضرت اماں جان غریبوں سے ماؤں سے بڑھ کر ہمدردی فرماتی تھیں.اور غریبوں کا ہر طرح
173 سے خیال رکھتی تھیں.خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی.مجھے ایک واقعہ یاد ہے.جس کے مروی شیخ نوراحمد صاحب مرحوم تھے انہوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ حضرت اماں جان نے ایک دفعہ ایک بھینس مبلغ ستر روپیہ میں کرم دین جلا ہا کے پاس فروخت کی.دوماہ کے بعد وہ بھینس مرگئی.ایک دن حضرت اماں جان نے منشی صاحب سے دریافت فرمایا.منشی صاحب وہ بھینس جو کرم دین کو دی تھی.اس کا کیا حال ہے.منشی صاحب نے جواب میں کہا کہ وہ تو مرگئی ہے.حضرت اماں جان نے اسی وقت ستر روپیہ اندر سے لا کر منشی صاحب کو دے دیئے.کہ لو یہ روپیہ کرم دین جولاہا کو دے آؤ.وہ غریب آدمی ہے.منشی صاحب وہ روپیہ حضرت اماں جان کے حکم کے مطابق کرم دین کو دے آئے.ے از مکرمه سلطانه عزیز صاحبه ایک دفعہ قادیان میں میں نے حضرت اماں جان سے بیت الدعاء میں دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ نے نہایت شفقت کریمانہ سے دعا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی.جب میں دعا کرنے سے فارغ ہو کر آئی تو آپ نے اپنے گلے سے پھولوں کا ہار اتارکر مجھے عنایت فرمایا.جس کو میں نہایت حفاظت سے رکھا کرتی تھی مگر افسوس ہے کہ گذشتہ انقلاب میں ضائع ہو گیا مکرمہ امتہ الرحیم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تحریر کرتی ہیں جب سیدہ حضرت امتہ الحئی کی وفات ہوئی تو اس وقت سارے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بالخصوص اور تمام جماعت کو بالعموم بہت رنج و ملال تھا.لیکن باوجود اس کے حضرت سیدہ اطہرہ اپنے خدام اور خادمات کی خوشیوں اور غموں میں باقاعدہ شریک تھیں.چنانچہ انہی دنوں عبدالقادر صاحب قادیانی کی شادی ہوئی تو حضرت سیدۃ النساء ہمارے گھر مبارک دینے کے لئے تشریف لائیں.از امة الحمید بیگم اہلیہ قاضی محمد رشید آف نوشہرہ میری ہمشیرہ سعیدہ کی زوجہ مولوی ابوالعطاء صاحب کی شادی کی تقریب پر حضرت اماں جان ہمارے گھر تشریف لائیں اور جہیز کی سب چیزیں ایک ایک کر کے دیکھیں اور بہت خوشی کا اظہار
174 فرمایا اور کئی گھنٹے تک ہمارے گھر رہیں.ایک کھیں کو تو خاص طور پر پسند فرمایا اور پھر جب شادی کے بعد حضرت اماں جان اُن کے سرال میں گئیں اور وہ چیز میں دکھانے لگے تو آپ نے فرمایا میں یہ اشیاء سعیدہ کے ابا کے گھر دیکھ آئی تھی.10 تاثرات حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے کہ مجھے مگروں کی بیماری سے بہت تکلیف تھی.ایک رات مجھے سخت تکلیف ہوئی.اور میں ساری رات نہ سوسکا.حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا.حضرت میر صاحب تشریف لائے.اور خود اپنے ہاتھ سے دوائی لگا کر تشریف لے گئے.اور شدت بیماری کا مجھ سے یا میری بیوی سے ذکر نہ کیا البتہ واپس گھر جا کر حضرت خلیفہ ایسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ذکر کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ تو تقریباً ضائع ہو چکی ہے اور آنکھ کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے.اور آنکھ کے اندر کی سفیدی نظر آتی ہے اور دوسری آنکھ کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ ہے.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دلوں میں درد اور ترحم پیدا ہوا.اور اسی وقت میرے لئے دعا کی.اور رات حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے رویا میں دیکھا کہ میں حضور ایدہ اللہ کے سامنے بیٹھا ہوں.اور میری دونوں آنکھیں بالکل صحیح سلامت ہیں.یہ رویا حضور نے صبح ہی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کو سنایا.تو حضرت ممدوحہ اسی وقت خوش خوش اور ہشاش بشاش ہمارے مکان پر تشریف لائیں.اور میرے گھر میں تشریف لاکر مبارک باد دی کہ اللہ تعالیٰ جلدی صحت دے گا.اور حضرت میر صاحب کی رپورٹ اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے رویا کا ذکر فرمایا.اور فرمایا.اب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نازل ہوگا.اور صحت ہو جائے گی.بعد میں حضرت میر صاحب تشریف لائے.اور آنکھ کی حالت کا معائنہ کر کے سخت حیرانی کا اظہار کیا کہ ایک رات میں زخم کا ۱۸ے حصہ مندمل ہو گیا.اس کے بعد میری بیماری گھٹنی شروع ہو گئی.اور میری دونوں آنکھیں درست ہو گئیں.اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمبا عرصہ خدمت سلسلہ کا موقعہ عطا فرمایا.اور پھر دوبارہ کبھی ایسی تکلیف نہ ہوئی.میں نے ہندوستان کے بعض ایسے
175 علاقوں میں بھی کام کیا ہے.جو اپنے گردو غبار اور دھوپ اور ٹو کے لئے مشہور ہیں.اور آنکھوں کے لئے سخت مضر لیکن بیماری نے پھر عود نہیں کیا.یہ واقعہ میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ حضرت اماں جان گو میری بیماری کا خاص خیال تھا.نیز یہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کشف اور رویا پر حضور کوکس قدر ایمان تھا.ڈاکٹری رپورٹ کے خلاف ایک رویا پر یقین کرنا کس قدرز بر دست ایمان کا ثبوت ہے.اور یہ دلی تعلق کا ثبوت تھا.کہ علم ہوتے ہی سب سے پہلے یہی کام کیا.غریب خانہ پر تشریف لائیں.ورنہ یہ ہو سکتا تھا کہ سہولت کے ساتھ دن کے وقت کسی وقت تشریف لے آتیں.!! چوہدری فضل الہی صاحب حال موضع ملیا نوالہ تحصیل ڈسکہ سیالکوٹ سے تحریر فرماتے ہیں: جب ملک مولا بخش صاحب مرحوم گورداسپور میں کلرک آف دی کورٹ ( سیشن ج ) تھے ، حضرت ام المومنین ان کے ہاں گئیں.وہاں حضرت ممدوحہ نے دریافت فرمایا کہ کسی نزدیکی گاؤں میں کوئی احمدی گھر بھی ہے.ملک صاحب مرحوم نے ہمارے گھر کا پتہ دیا کہ موضع نبی پور میں جو گورداسپور سے قریباً ایک میل ہے.دو گھر احمدیوں کے ہیں.حضرت اُم المومنین نے اسی وقت ہمارے گاؤں میں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ میرے چھوٹے بھائی چوہدری عبدالواحد صاحب بی اے جواب نائب ناظر دعوت و تبلیغ ہیں کی راہبری میں حضور ہمارے گاؤں کی طرف پیدل چل پڑیں.اور اچانک ہمارے گاؤں میں تشریف لے آئیں.ہمارا گاؤں ایک چھوٹا سا گاؤں اور ہماری طرز رہائش دیہاتی اور بود و باش وغیرہ وہی پرانی دیہاتی وضع کی تھی میری والدہ (مرحومه مغفوره ) ایک پورانی وضع کی دیہاتی عورت شہری تمدن سے بالکل بے خبر تھی.جب حضرت اُم المومنین کو دیکھا تو گھبرا گئی.حضرت مدوحہ کو معہ دیگر مستورات کے جو غالبا ۱۲ کی تعداد میں تھیں.چار پائیوں پر بٹھایا اور گھبراہٹ میں پانی وغیرہ پوچھنا بھی یادنہ رہا.حضرت اُم المومنین میری والدہ سے خیر خیریت کی خبر دریافت فرماتی تھیں اور میری والدہ جواب کچھ اور دیتی تھی.آخر والدہ صاحبہ کو یاد آیا کہ میں اماں جان کی کوئی خدمت کروں.مگر دیہات میں کیا رکھا تھا.شہر ایک میل تھا.گھر میں کوئی سیانا آدمی نہ تھا.بڑی متفکر ہوئیں.حضرت اماں جان فرماویں کہ بڑی بی آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ مگر والدہ صاحبہ کو ہوش کہاں تھی.آخر دماغ میں ایک ترکیب آگئی.گھر میں باسمتی کے چاول تھے مگر دیکھنے پر وہ بھی
176 ایک سیر سے زیادہ نہ نکلے.آخر وہی لے کر دیہاتی طرز کا ہی زردہ تیار کر لیا.مگر اب دیکھتی ہیں ۱۲ عورتیں جو حضرت اماں جان کے ساتھ.کچھ گھر کے افراد.چاول صرف ایک سیر.حیران ہیں کہ کیا کریں.آخر والدہ صاحبہ کی اللہ پاک نے راہنمائی کی.فوراً چولہے پر سے دیگچی اٹھائی اور حضرت اماں جان کے سامنے لے جا کر رکھ دی پلیٹیں بھی ساتھ رکھ دیں.حضرت اماں جان بڑی خوش ہوئیں اور اپنے ہاتھ مبارک سے ہر ایک کو وہ زردہ تقسیم کیا.میری والدہ صاحبہ مرتے دم تک یہ واقعہ بیان کرتیں اور حیران ہوتیں کہ وہ زردہ ۱۲ عورتوں نے بھی کھایا اور ہم گھر والوں نے بھی کھایا اور بھی دیچی میں کچھ بچا ہوا تھا.اور پھر لطف یہ کہ سب نے سیر ہو کر کھایا.اس کے بعد حضرت اماں جان نے فرمایا کہ بڑی بی تم اپنی زمینداری کی پیداوار کہاں رکھتی ہو.مجھے دکھاؤ.جیسا کہ زمینداروں کا قاعدہ ہے اناج مٹی کی کوٹھیاں سی بنا کر رکھتے ہیں.والدہ صاحبہ نے ایک کوٹھی دکھائی کہ حضور اس میں گندم ہے.حضرت اماں جان نے دیکھا.والدہ صاحبہ نے عرض کی کہ حضور اس میں برکت والا ہاتھ بھی پھیر دیں.چنانچہ اس گزارش کے ما تحت حضرت اُم المومنین نے ہمارے سارے اناج کے ذخیرہ کو دیکھا.اور ہر اناج پر برکت کا ہاتھ پھیرا.کچھ عرصہ ٹھہر کر حضرت مدوحہ نے دعا کی اور واپس تشریف لے گئیں.۱۲.شفقت ہی شفقت تاثرات حضرت زینب بی بی صاحبہ جب حضرت اماں جان ربوہ میں ابھی تھوڑی تھوڑی بیمار تھیں تو میں ربوہ میں ہی رہتی تھی.میں آپ کی بیمار پرسی کو آئی.میرا اپنا دل بھی اپنی بیماری کی وجہ سے سخت گھبرایا ہوا تھا اور باوجود اس حالت کے میرا دل حضرت اماں جان کی زیارت کو بہت چاہتا تھا.جب میں آپ کے مکان پر گئی اُس وقت عصر کا وقت تھا.میں حضرت اماں جان کے پاس آکر بیٹھ گئی.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ وہاں موجود تھیں انہوں نے مجھ سے آنے کی وجہ دریافت کی.میں نے عرض کیا کہ میں ایک تو حضرت اماں جان کی زیارت کے لئے آئی ہوں اور دوسرے حضرت اماں جان کا تبرک پینے آئی ہوں.بیگم صاحبہ اس وقت چائے پی رہی تھیں انہوں نے اپنے ہاتھ سے چائے کی پیالی عنایت فرمائی اور کہا کہ حضرت اماں جان ابھی سو رہی ہیں پہلے آپ
177 یہ چائے کی پیالی پی لیں اور پھر یہاں بیٹھیں.جب حضرت اماں جان اٹھیں.تو آپ نے فرمایا زینب کیوں آئی ہو؟ میں نے عرض کیا.کہ ایک حضور کی زیارت کرنے اور دوسرے حضور کا چائے کا تبرک پینے آئی ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تو نمکین چائے پیتی ہوں اور آپ چینی ڈال کر پیتے ہوں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور آپ مجھے نمکین ہی عنایت فرما دیں.اس پر آپ نے ایک پیالی چائے کی منگوائی اور ایک گھونٹ اس میں سے بھرا اور باقی کیلئے مجھے فرمایا زینب ! یہ لے لو.میں نے وہ چائے کی پیالی حضرت اماں جان کے مبارک ہاتھوں والی پی لی.حضور کی زیارت اور آپ کا چائے کا تبرک پینے سے مجھے خوب تسکین ہوئی اور میری بیماری میں بہت افاقہ ہو گیا.۱۳ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہجرت کے بعد جب حضرت اماں جان لا ہور تشریف لائے ہوئے تھے.میں اپنے بڑے لڑکے محمد اعظم کے پاس لاہور میں رہتی تھی.میں اپنے گھر سے حضرت اماں جان کی ملاقات کے لئے گئی.جب میں حضور کے پاس حاضر ہوئی تو حضرت اماں جان نے فرمایا کہ زینب ! مجھے آم کا اچار ڈال دو.حضور نے سب چیزیں اچار کی رکھی ہوئی تھیں میں نے اسی وقت اچار ڈال دیا.میں جب اٹھنے لگی تو حضرت اماں جان مجھے ایک روپیہ کا نوٹ انعام دیا.میں حضرت اماں جان سے عرض کیا کہ حضور مجھے نوٹ نہ دیویں مجھے اپنی یاد گیری کے لئے کوئی پائیدار چیز عنایت فرمائیں تو پھر حضرت اماں جان نے اسی وقت اپنی جیب سے نکال کر ایک روپیہ دیا اور فرمایا.زینب یہ لو، یہ پائیدار ہے میں نے وہ نوٹ پہلا واپس کرنا چاہا تو حضور نے فرمایا کہ نہیں نوٹ بھی اپنے پاس رکھو اور یہ روپیہ بھی.وہ روپیہ میں نے حضرت اماں جان کے برکت والے ہاتھوں کا ایک ریشمی کپڑے میں باندھ کر او پر حضرت اماں جان کا اسم مبارک لکھ کر محفوظ رکھا لیکن فیروز والے آکر ایک مرتد نے چوری کر کے دوسری چیزوں کے ساتھ ہمارے کمرے کے قتل کو چابی لگا کر نکال لیا.۱۴ پھر ایک دفعہ کا ذکر ہے.کہ یہ عاجزہ پھر فیروز پور شہر سے قادیان دارالامان گئی.اور اپنے مکان فضل منزل پر جا اُتری.وہاں سے پھر حضرت اماں جان کے دولت خانے پر حاضر ہوئی.جب حضور کی خدمت میں پیش ہوئی تو اس وقت مجھے سخت پیاس لگی ہوئی تھی.میں نے اس وقت حضرت اماں جان کی خدمت میں بڑی بے تکلفی سے عرض کیا.کہ حضور مجھے سخت پیاس لگی ہوئی
178 ہے.اس لئے مجھے اپنے گھر کی لسی جو حضور کے اپنے دست مبارک سے بلوئی ہوئی ہو.اس عاجزہ کو عنایت فرما دیں.تو آپ نے اسی وقت اپنی خادمہ کو حکم دیا.کہ جولسی منجھلے میاں (حضرت میاں بشیر احمد صاحب) کے لئے رکھی ہوئی ہے.اس لسی میں سے زینب کو پلا دو.پھر خادمہ حضور کی وہ کسی لائی.میں اس کسی کو پی کر سیر ہوگئی.اس وقت میرالڑ کا محمد اعظم اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں برکت دے اور دین اور دنیا میں اس کو کامیاب کرے.میری گود میں تھا.حضرت اماں جان کے اخلاق کیسے اعلیٰ درجے کے تھے.جواب تک اس عاجزہ کو وہ محبت والی لسی پلانی یاد ہے.جس کو انشاء اللہ میں کبھی نہیں بھولوں گی.۱۵ مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر بیان کرتی ہیں کہ قادیان میں الیکشن کے ایام میں مکرمہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ڈلہوزی تشریف لے جانے کی وجہ سے مجھے پندرہ دن دفتر لجنہ اماء اللہ میں کام کرنا پڑا.پندرہ دن متواتر دو پہر کا کھانا حضرت اماں جان کے ساتھ آپ کے دستر خوان پر کھاتی رہی.آپ بہت زیادہ خیال رکھتیں.اپنے ہاتھ سے چیز اُٹھا کر دیتیں اور پھر اصرار سے کھلاتیں.اکثر پوچھتیں "کل فلاں چیز پکواؤں کھاؤ گی؟“ ایک دن فرمانے لگیں ”کل موٹھ کی کچھڑی کھاؤ گی ؟ میں نے کہا ”جی“.دوسرے دن کھچڑی بھی پکی.اماں جان کے باورچی خانہ کے ساتھ والی کوٹھڑی میں دسترخوان لگا ہوا تھا.آپ حضرت اچھی اماں یعنی بیگم صاحبہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم اور سیدہ بشری دختر حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم بیٹھی ہوئی تھیں.میرا انتظار ہورہا تھا.جب میں اُس چھوٹے سے راستے پر آئی جو حضرت اُمّم طاہر احمد کے مکان کی طرف سے حضرت اماں جان کے گھر کو جاتا تھا تو میں نے سنا آپ اونچی آواز سے حمیدہ حمیدہ “ کہہ کر مجھے بلا رہی تھیں.( آہ! اس میٹھی آواز کی حلاوت آج تک میرے کانوں میں ہے ) میں نے کہا ” آئی اماں جان اور دوڑ کر گئی.آپ دستر خوان پر بیٹھی ہوئی میرا نتظار فرما رہی تھیں.اللہ ! اللہ ! کیا کیا شفقتیں وہ اپنی روحانی اولاد پر فرماتیں.آپ کی خوبیاں، آپ کی کرم فرمائیاں دنیا ر ہتی دنیا تک یادر کھے گی.۱۶
غریب نوازی اور حسنِ انداز تربیت 179 مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب.ربوہ میں جب تک آپ کی صحت نے اجازت دی آپ گھر سے باہر تشریف لے جاتیں اور غریبوں کے کچے گھروں کو اپنے قدموں سے برکت دیتیں.ایک دن میرے گھر تشریف لائیں.دروازے میں آواز دی ”بیٹی کیا کر رہی ہو؟ میں دوڑ کر باہر نکلی اور آپ کو کمرہ میں لے آئی.نصرت گرلز سکول میں اکثر دفعہ تشریف لائیں.تھوڑی دیر ٹھہر تھیں اور پھر واپس تشریف لے جاتیں.ایک دن باتوں باتوں میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.دھوبی کو کپڑے دینے سے پہلے دیکھ لیا کرو کہ کہیں سے کپڑا پھٹا ہوا تو نہیں.اسی طرح پہننے سے پہلے بھی.اس پر ایک لطیفہ سنایا کہ کس طرح ایک آدمی کو اس بے احتیاطی پر خفت اٹھانی پڑی.اکثر ذہانت ٹیسٹ کرنے کے لئے پہیلیاں سناتیں.اور اُن کا مطلب پوچھتیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کے آخری ایام میں بھی مجھے حقیر کوحضرت اماں جان کی خدمت کا موقع بخشا میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ کے لئے آپ کے کمرہ میں جاتی ، پنکھا کرتی.ہاتھ رشی ہلانے میں مصروف رہتے اور نگاہیں اُس پیارے اور مبارک چہرہ پر مرکوز ہوتیں اور زبان درود شریف پڑھنے میں.اے ام المومنین ! تجھ پر لاکھوں سلام اور درود.کا از مکر مہ اہلیہ صاحبہ مولوی محمد یعقوب صاحب انچارج شعبہ زود نویسی.حضرت اماں جان کی صحت جب تک اچھی رہی آپ اکثر سیر کے اوقات میں اپنے خدام کے گھروں کو اپنی تشریف آوری سے بابرکت کیا کرتی تھیں.اسی معمول کے مطابق آپ ہمارے ہاں اکثر تشریف لاتیں اور گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی خیریت دریافت فرماتیں.آپ کا حافظہ اس بارہ میں نہایت ہی اچھا تھا اور جماعت کے افراد کے ہزاروں ہزار نام آپ کو یاد تھے.اکثر خاندانوں کی مستورات اور ان کی لڑکیوں تک کے نام یاد تھے.اور جب ملتیں تو نام لے کر ہر ایک کی خیریت دریافت فرما تیں.قادیان میں جب ہمارے والد صاحب ( حضرت مرزا محمد اشرف صاحب مرحوم سابق محاسب و
180 ناظم جائداد صدرانجمن احمد یہ قادیان) نے مکان بنایا جو بہشتی مقبرہ روڈ پر واقع ہے.تو ابتداء میں اس کا صرف کچھ حصہ تعمیر ہوا تھا آپ بڑی محبت سے دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور مبارک باد دی اور فرمایا اتنے پر اکتفا نہ کرنا مکان اور زیادہ وسیع کرنا.ہمارے والد صاحب مرحوم نے ان کے ارشاد کی تعمیل میں صحن بڑھا کر کچھ وسعت کر لی.پھر کچھ عرصہ کے بعد حضرت اماں جان تشریف لائیں تو پھر ہماری والدہ سے فرمایا کہ ” ہمارے مرزا صاحب سے کہہ کر صحن اور کھلا کرو اور کمرے بھی بڑھا لو.ہماری والدہ صاحبہ نے غلطی سے عرض کیا کہ میرا تو ایک ہی لڑکا ہے اتنے مکان بنا کر کیا کرنے ہیں.فرمانے لگیں کہ لڑکیاں بھی تو تمہاری ہی ہیں شریعت نے اُن کا بھی باپ کی جائداد میں حق رکھا ہے.غرض حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اصرار پر والد صاحب نے مکان کو بہت وسیع کر لیا اور انہیں کی تحریک پر صحن میں کنواں لگوایا اور چوبارہ وغیرہ بنایا گیا.جسے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں ”اب مکان بہت اچھا بن گیا ہے.مرزا صاحب میں فرمانبرداری کا مادہ بہت ہے.۱۸ جب میری شادی ہوئی تو والدہ صاحبہ کی تحریک پر رخصتانہ کے دن کمال محبت سے تشریف لائیں اور دعا فرمائی اور چونکہ گھر میں بھینس تھی اور اسی کے خالص گھی سے مٹھائی گھر میں حلوائی بلا کر بنوائی گئی تھی بہت پسند فرمائی اور اس کی بہت تعریف کی.اس پر والدہ صاحبہ نے تین چار سیر مٹھائی گھر کے ناشتہ کے لئے پیش کر دی.میر امکان جو دارالفضل میں واقع تھا وہاں بھی کئی دفعہ تشریف لائیں.ایک دفعہ نواب صاحب کی کوٹھی تشریف لے جارہی تھیں اور کئی عورتیں اور دوتین صاحبزادیاں ہمراہ تھیں.فرمانے لگیں کہ " تم تو کچھ صحت کی خرابی اور کچھ بچے چھوٹے ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں آتیں لیکن میرا جی چاہتا ہے تو میں خود دیکھ جاتی ہوں.اس پر ایک صاحبزادی نے پوچھا کہ ”اماں جان! یہ کس کا مکان ہے؟ آپ نے فرمایا یہ ہمارے بابو فخر دین صاحب پنشنر جو کہ لاہور چھاؤنی میں رہتے تھے اور لاہور میں ہم اُن کے مکان پراکثر جایا کرتے تھے.بابو صاحب اور اُن کی بیوی میری بہت خاطر خدمت کیا کرتے تھے، یہ ان کے لڑکے محمد یعقوب کا مکان ہے اور یہ لڑکی ہمارے مرزا صاحب کی جو پہلے محاسب ہوا کرتے تھے اور اب ناظم جائداد ہیں.اس کا نام انور بیگم ہے لیکن میں اسے منورہ کہا کرتی ہوں.19
181 تاثرات مکرمہ عائشہ بی بی صاحبہ والدہ مکرم مجید احمد صاحب در ولیش قادیان قادیان آکر پہلے پہل میرے لڑکے محمد حسین کی شادی ہوئی.اس کی شادی پر بہت امداد کی اور پچیس روپے نقد دیئے.بعد میں عزیزی صنوبر کی شادی پر بھی کافی امداد کی.ایک جوڑا اور بہیں روپے نقد دیئے.اس کے بعد عزیزم مجید احمد مرحوم کی شادی پر بھی امداد کی.مجید احمد مرحوم کی شادی پر عزیزم محمد حسین نے پچاس روپے اُدھار مانگے مگر اُدھار نہیں دیا اور نقد پچیس روپے بطور امداد دے دیئے.جب کبھی میں نے کوئی چیز طلب کی وہ دے دی اور انکار نہیں کیا.اس کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ کہ میرے لئے اور میرے بچوں کے لئے دعائیں فرمایا کرتیں.اب جبکہ قادیان سے ہجرت ہوئی تو خداوند تعالیٰ کی حکمت ہجرت کے بعد میرے دو بچے عزیزم محمد حسین اور مجید احمد دونوں قادیان درویشوں میں رہ گئے تھے.عزیزم محمد حسین تو مئی ۱۹۴۸ء میں واپس آگیا اور عزیزم مجید احمد قادیان رہ گیا.۱۹۴۹ء میں ماہ رمضان کے شروع میں وہ بیمار ہو گیا اور اسی سال حج کے دن مولا حقیقی کو جاملا.عزیزم کی بیماری کے دوران میں جتنی دعائیں سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کیں اتنی اور کسی نے نہیں کیں.لیکن حکم خداوندی یہی تھا کہ عزیزم مرحوم نے اتنا ہی دنیا میں رہنا تھا.عزیزم کی بیماری کے دوران میں جب خبریں آنی شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اب اس کو آرام ہے جو دراصل موت کا سنبھالا تھا.مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا لڑکا عبدالسلام قادیان سے آیا اس نے آ کر کہا که عزیزم مجید احمد کو آرام ہے اور اُس نے کہا کہ مجید احمد کپڑے مانگتا تھا تو حضرت اماں جان کو علم ہونے پر ۳۰ روپے دیئے اور پنجیری اپنے پاس سے تقسیم کی کہ مائی کے لڑکے کو اللہ تعالیٰ نے صحت دی ہے.اور اتنی خوش ہو ئیں کہ جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے..اسی طرح ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں قادیان میں تھی.حضرت اماں جان ڈلہوزی گئی ہوئی تھیں تو ڈلہوزی سے خاص کر میرے لئے زردہ پکوا کر بھجوایا.رستہ میں حضور نے دریافت کیا کہ اس برتن میں کیا ہے؟“ تو جواب ملا زردہ پکا ہوا ہے.فرمایا " لاؤ کھائیں.جواب میں عرض کیا گیا یہ حضرت اماں جان نے مائی کے لئے بھیجا ہے تو حضور نے فرمایا ” اس کو نہ چھیڑنا.غرضیکہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی میرے بچوں کو بہت دیا کرتی تھیں.ایک سال کی بات ہے کہ میں نے دریاں مانگیں کہ میرے
182 بیٹے محمد حسین کے لئے چاہئیں فورا نکال کر دیدیں اور فرمایا لے جاؤ.“ میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ جو مضامین آجکل اخباروں میں نکل رہے ہیں یا پہلے سیرۃ کی صورت میں شائع ہوئے ہیں یہ تو ایک خاکہ ہے حضرت اُم المومنین کی زندگی کا میں کیا بیان کروں.حضرت اماں جان کی خدمت سے جدا ہونے کے بعد بھی میری بہت عزت ہو رہی ہے خود پیارے آقا و مطاع حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرا خیال فرمایا ہے اور محترمہ مریم صدیقہ نے میرے لڑکے محمد حسین کو پیغام بھجوایا ہے کہ تم کوئی فکر نہ کرنا جس طرح مائی کو حضرت اماں جان جانتے تھے اُسی طرح ہم مائی کا خیال رکھیں گے.اور جس چیز کی مائی کو ضرورت ہو وہ ہم سے لے.میں کیا چیز تھی حضرت اُم المومنین کے پاس رہنے کی وجہ سے دُنیا جانتی ہے اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور میرے بچوں کو بھی دنیا جانتی ہے اور یہ سب کچھ حضرت اُم المومنین کی برکتیں ہیں.پس خداوند تعالیٰ کی بیحد رحمتیں نازل ہوں.اُس بے نظیر وجود پر کہ نہ ۱۳ سو سال میں حضرت محمد مصطفے ﷺ کے بعد کوئی ماں کی بچی پیدا ہوئی نہ قیامت تک ہوگی.میرا ایمان ہے.پس میں کیا کیا لکھوں.۷ اسال کے اندر جو احسانات مجھ پر حضرت اماں جان نے کئے اگر ایک ایک کر کے لکھوں تو کتاب بن جائے.اور میں تو کہتی ہوں کہ کوئی ماں کا لال حضرت اُم المومنین کی سیرت لکھ ہی نہیں سکتا.یہ سب خدا وند تعالیٰ کا فضل ہے جو حضرت ام المومنین کی بدولت مل رہا ہے نہیں تو لاکھوں انسان دنیا میں پڑے ہیں جو بڑی بڑی شان رکھتے ہیں مگر دنیا انہیں جانتی تک نہیں ہے.میں ایک ناچیز سی ہوں حضرت اُم المومنین کے ساتھ رہنے کی وجہ سے دُنیائے احمدیت مجھے جانتی ہے.۲۰ مشفق و مهربان ماں اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب آف مشرقی افریقہ جب میں افریقہ سے واپس آئی تو سٹیشن سے اُترتے ہی حضرت اماں جان سے ملنے کے لئے الدار گئی.میں چونکہ ایک لمبی بیماری سے اٹھی تھی اس لئے سیٹرھیاں جلدی جلدی نہ چڑھ سکتی تھی لیکن مشفق و مہربان اماں جان پہلے ہی سے اپنی اس خادمہ کے انتظار میں کمرے کے
183 دروازے میں کھڑی تھیں.اوپر پہنچتے ہی گلے لگا کر ملیں.مجھ جیسی اور بھی بیسیوں خادماؤں کے ساتھ حضرت اماں جان کا یہی سلوک تھا.جب بھی کبھی میں آپ کی خدمت میں ہوتی اور آپ کوئی کھانے کی چیز پھل وغیرہ کھاتیں تو عاجزہ کو بھی مرحمت فرماتیں.اگر کوئی اور خادمہ پاس ہوتی تو اُسے بھی دیتیں.۲۱ ۱۹۲۵ء میں جب عاجزہ کی ایک ساڑھے تین سالہ چھوٹی لڑکی کھیلتے میں کچلہ اور سنکھیا کی گولیاں کھا کر آنا فانا فوت ہوگئی تو حضرت اماں جان بنفس نفیس عاجزہ کے غریب خانہ پر افسوس کے لئے تشریف لائیں.پہلے تو ایسی خطرناک دوا کے لا پرواہی سے رکھنے کی وجہ سے خفا ہوئیں.پھر تسلی دیتے ہوئے فرمایا." خدا تعالیٰ کے سب کام پر حکمت ہوتے ہیں ، بڑی ہو کر نہ جانے کیسی نکلتی.خدا تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہو.اس کے بعد بھی کبھی جب آپ اپنے ساتھ عورتوں کو لے کر باہر سیر کو جاتیں تو کبھی اس عاجزہ کے ہاں بھی تشریف لے آتیں اس لئے ایسی خوشی محسوس ہوتی جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو.جب تک حضرت اماں جان زیادہ کمزور نہیں ہوئیں آپ اپنے ساتھ دو چار عورتوں کو لے کر کسی کے ہاں پھرتے پھراتے چلی جاتیں اور اس کا حال پوچھ آتیں.ایسے ایک دفعہ آپ مجھے ساتھ لے کر محلہ دار البرکات میں ماسٹر محمد دین صاحب کی بیوی ( جو ان دنوں بیمار تھیں ) کا حال پوچھنے گئیں اور ان کا سارا مکان اور باغیچہ پھر کر دیکھا.غرض یہ کہ جماعت سے آپ کا سلوک بالکل مہربان اور مشفق ماؤں کا سا تھا.۳۲ غالبًا ۱۹۳۹ ء یا ۱۹۴۰ء کا واقعہ ہے کہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین دیلی تشریف لے گئیں.ہم لوگ بھی ان دنوں ملازمت کے سلسلہ میں دہلی میں تھے.لجنہ اماءاللہ دہلی کی طرف سے خاکسار کو مطلع کیا گیا.کہ لجنہ اماءاللہ دہلی کا جلسہ زیر صدارت اُم المومنین قرار پایا ہے.ان دنوں میری چھوٹی بچی بیمار تھی.اس لئے میں جلسہ میں نہ پہنچ سکی تھی.قدرتی طور پر رنج ہوا جو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی ملاقات سے محرومی کے لحاظ سے خاص طور پر زیادہ ہوا.ناچار اپنی معذوری کے اظہار کے ساتھ درخواست دعا حضرت اُم المومنین کی خدمت میں بھجوائی گئی.چند گھنٹوں کے بعد کیا دیکھتی ہوں.کہ وہ عظیم الشان ہستی بہ نفس نفیس اپنی میزبان صاحبہ کے ہمراہ غریب خانہ پر رونق افروز ہوئیں.اس روحانی ماں کی تشریف آوری سے جو خوشی مجھے اپنے گھر میں دیکھ کر ہوئی.وہ کچھ میرا دل ہی جانتا تھا، عجیب طرح کا فخر محسوس
184 ہوا.اور اس قادر کریم ہستی کا شکر ادا کیا.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا بچی کی علالت کا سن کر جلداز جلد غریب خانہ پر قدم رنجہ فرمانا انسانی ہمدردی کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے.جو اس سیدۃ النساء کے شایانِ شان تھا.اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں اور برکتیں ان پر نازل فرمائے.( آمین )۲۳ خدام سے گہرا تعلق از مکر مہ امته الرحیم بنت حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی جن دنوں میں قادیان میں مقیم ہوئی اور میرے شوہر محترم بسلسلہ ملازمت عراق و ایران میں تھے تو خاکسارہ ان کے حالات سے حضرت مدوحہ کو باخبر رکھتی اور حضرت سیدۃ النساء بھی ہر وقت ان کی خیر و عافیت میں دلچسپی لیتیں اور دریافت حالات کرتی رہتیں.جب ان کی واپسی کی اطلاع آتی تو جس دن انہوں نے واپس ہونا ہوتا کئی بار خادمات کو بھجواتیں کہ کیا مرزا صاحب آئے ہیں یا نہیں.ان دنوں چونکہ قادیان میں ریل نہ آئی تھی اور ہمیں وقت کا علم نہ ہوتا تھا اس لئے دن میں کئی کئی بار حضور کی طرف سے خادمات آتیں اور حسب ہدایت پہلے خیریت سے واپسی کی اطلاع حاصل کرتیں اور پھر حضرت ممدوحہ کے ارشاد کے ماتحت مبارک باد در بیتیں.جب قادیان میں ریل ۱۹۲۸ء میں آگئی تو اس وقت بھی ایسا ہی ہوتا اور گاڑی کے وقت سیدۃ النساء کی طرف سے خادمہ آکر دریافت کرتی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت مدوحہ کی سب توجہ اور تعلق میرے گھر سے ہی ہے.اور یہ حال ہمارا ہی نہ تھا بلکہ حضرت ممدوحہ کا سینکڑوں ہزاروں دیگر خدام اور خادمات سے بھی ایسا ہی سلوک تھا.ہر ایک کے دکھ درد میں برابر بلکہ زیادہ کی شریک تھیں.۲۴ حضرت سیدۃ النساء اپنے خدام کی ہر جائز طریق پر دلجوئی فرمایا کرتی تھیں.ان کے آرام اور سہولت کا بھی خیال رکھتیں.کئی دفعہ حضرت اماں جان خاندان کی مستورات کے ساتھ قادرآباد بھی تشریف لے جایا کرتی تھیں.رستہ میں ہمارے مکان میں بنفس نفیس خود کئی بار اندر داخل ہو کر آواز دیا کرتیں ” لڑکیو آؤ.اس طرح میں اور میری بھا وجہ مرحومہ ساتھ ہولیتیں اور بعض دفعہ خادمہ کو حکم دیتیں کہ بھائی جی کی لڑکی اور بہو کو بلا لو.خاندان کی شہزادیاں ورزش کی غرض سے ٹینس
185 وغیرہ کھیلتیں جس کا انتظام پردہ میں ہوتا تھا یعنی چاردیواری کے اندر.اور حضرت ممدوحہ ان کی دلجوئی کی خاطر کھیل دیکھتی رہتیں اور بعض اوقات قادر آباد کے خادموں کے کسی گھر میں تشریف لے جایا کرتیں اور اس طرح اپنے غلاموں کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی فرما تیں اور دیگر گھر کے افراد کی خیر خیریت دریافت فرماتیں.مکرمہ اہلیہ صاحبہ حضرت منشی تنظیم الرحمن صاحب بیان کرتی ہیں: میرے خاوند جناب منشی کظیم الرحمن صاحب اکتوبر ۱۹۱۹ء میں قادیان ملازم ہو کر آئے اور میں بھی اوائل نومبر ۱۹۱۹ء میں قادیان آگئی تھی.میری قادیان میں کسی سے کوئی خاص واقفیت نہ تھی.محلہ دار الفضل قادیان میں ایک چوبارہ کرایہ پر لے کر ہم اس میں رہتے تھے.ایک روز ایک عورت ہمارے گھر کا پتہ دریافت کرتی ہوئی ہمارے گھر آ پہنچی.اور مجھ سے میرا پتہ وغیرہ دریافت کر کے کہا کہ مجھے اماں جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کو بلایا ہے.میں اس وقت حیران ہوئی کہ اماں جان کو میرا کس طرح پتہ چلا خیر میں ان کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئی مجھے دیکھ کر آپ نے بہت پیار کیا.اور پھر پاس بیٹھایا اور دریافت فرمایا کہ تم ظفر احمد کی لڑکی ہو.پھر دریافت فرمایا کتنے دن سے یہاں آئے ہوئے ہو.میں نے بتایا کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے فرمایا اتنے دنوں سے میرے پاس کیوں نہ آئیں.یہ عرض کرنے پر کہ پیدل چلنے کی عادت نہیں ڈولی یا ٹانگہ میں جانے کی عادت ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ اپنے بچہ کو ساتھ لے کر اپنے مکان کے اردگر در وزانہ پھرا کرو پھر عادت ہو جائے گی.چنانچہ میں نے اس پر عمل کیا.۲۵ محترمه حشمت بی بی صاحبہ اہلیہ مالی محمد دین صاحب مرحوم میری عمر ابھی سات آٹھ سال کی تھی.کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام، حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی معیت میں منگل کا ہلوں کی طرف سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے.حضرت جب ہمارے دروزاہ کے آگے سے گزرتے.تو میری والدہ صاحبہ فوراً باہر آتیں.اور کبھی کچھ تحفہ پیش کرتیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا.تو حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی خادماؤں کی معیت میں منگل کی طرف سیر کو تشریف لے جاتیں.تو میری والدہ صاحبہ کو خاص طور پر آکر آواز دیتیں.میری والدہ ہر کام چھوڑ کر حضور کی خدمت میں پہنچ جاتیں اور سیر میں شامل ہو جاتیں.اس قدر الفت سے حضرت اماں جان بلا تھیں
186 کہ دل باغ باغ ہو جاتے.اور دوسرے لوگوں کو رشک آتا.جب میری والدہ خواہش کرتیں.تو حضرت اُم المومنین خوشی سے گھر میں بیٹھ جاتیں.اور گھر کی تمام باتوں سے واقفیت حاصل کرتیں اور دعا فرماتی تھیں.والدہ اردگرد کی غیر احمدی عورتوں کو اکٹھا کر کے لاتیں.تو حضرت اماں جان ان کو نہایت احسن طریق سے احمدیت سے روشناس کرا تیں.جب میرے والد صاحب فوت ہو گئے.تو دنیا میں جیتا جاگتا مقدس سہارا حضرت اُم المومنین ہی تھیں.ہر قسم کا دکھ درد حضور کی خدمت بابرکت میں جا کر پیش کرتیں اور آپ کچھ اس طرح دلجوئی فرماتیں کہ دنیا کے ہر قسم کے غم بھول جاتے.ایک دفعہ زمین کا مالیہ ادا کرنا تھا.کوئی چارہ نہ تھا.میری والدہ مرحومہ حضرت اُم المومنین کی خدمت میں پہنچیں.اور عرض کیا.آپ نے حسب ضرورت فور ارقم دے دی.یہ تو صرف ایک واقعہ ہے.ورنہ ہر قسم کے دکھ درد کا طلا و ماویٰ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا تھیں.زیادہ تر بچوں کی بیماریوں کا علاج حضرت اُم المومنین کے تبرک سے کرتی تھیں.رمضان ۱۳۷۰ھ میں جب میں دو تین سال کے بعد حضرت کی خدمت میں پیش ہوئی تو آپ با وجود نقاہت کے خادمہ کو دیکھ کر بے حد مسرور ہوئیں.اور یہ معلوم کر کے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے آپ نے بڑی شفقت سے دس روپے مرحمت فرمائے ۲۶ از اہلیہ مولوی غلام نبی صاحب مصری میری زندگی میں کئی ایسے واقعات گزرے ہیں جن میں سے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی غریبوں سے محبت معلوم ہو سکتی ہے.۱۹۱۷ ء میں جب میری شادی ہوئی.تو ہمارے پاس سفید زمین تھی.لیکن اتنی طاقت نہ تھی کہ مکان بنا سکتے.آخر ہم ایک کوٹھڑی بنانے میں کامیاب ہو گئے اور وہ بھی ایسی کہ چار دیوار میں کھڑی کر کے ان پر ایک چھت معمولی سی ڈال دی.دروازہ کے لئے لکڑی بھی نہیں خرید سکے محض دروازہ کی جگہ چھوڑ دی.ایک چھوٹی سے کھڑکی لگالی تا کہ ہوا آ سکے.باہر کپڑے لٹکوا کر ایک پردہ سا بنا لیا تھا.اماں جان نے کہیں وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا تو تشریف لے آئیں.آپ کے ساتھ آپا امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بھی تھیں.آپ اندر تشریف لائیں اور کوٹھڑی دیکھنے لگیں.حضرت اماں جان کے اس طرح تشریف لانے سے مجھے اس قدرخوشی ہوئی کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی.میں حضرت اماں جان کے گھر جایا کرتی تھی.لیکن اس سے
187 پہلے حضرت اماں جان میرے گھر تشریف نہیں لائی تھیں.جب اماں جان کو دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا.کہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت میرے گھر میں آگئی ہے.میں نے مقدور بھر خدمت کی.اماں جان کچھ دیر تک ٹھہری رہیں.پھر واپس چلی گئیں.حضرت اماں جان کے اس ورود مسعود کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس دن کے بعد سے متواتر ہماری مدد کی.اور ہم بتدریج اپنے مکان کی تعمیر کرتے رہے.اس واقعہ کے کچھ عرصہ کے بعد خدا تعالیٰ نے ہماری مدد کی.اور ہم نے ایک چھوٹا سا برآمدہ اس کو ٹھڑی کے سامنے بنا لیا.حضرت اماں جان نے جب اُس کو دیکھا تو پھر تشریف لائیں اور فرمانے لگیں."برآمدہ بنانے کا تمہیں کیا فائدہ “ مطلب یہ تھا کہ تم کمرہ بنا لیتیں.لیکن تم نے برآمدہ بنالیا ہے.میں نے عرض کی.کہ ابھی اتنی طاقت نہیں کہ کمرہ بناسکیں.اس لئے ہم نے سوچا کہ برآمدہ بنالیں.اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک نیا مکان بنا.تو اماں جان اُسے دیکھ کر تشریف لائیں اور مجھ سے فرمایا.” یہ مکان تمہارا ہے میں نے بتایا کہ یہ مکان ہمارا نہیں.تو اماں جان نے فرمایا تو تم کب بناؤ گی.میں نے درخواست کی کہ ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد فرمائے تا کہ ہم مکان بناسکیں.تو اماں جان نے ایسی ہمارے لئے دعا کی.کہ آج بھی جب یاد آتا ہے.تو وہ دلکش منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے.آپ نے اپنے دوپٹے کی جھولی اٹھائی.اور تین دفعہ فر مایا.”اے اللہ تو اسے توفیق دے کہ یہ مکان بنا سکے.“ خدا تعالیٰ کے کام عجیب ہیں.خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کی دعا سنتا ہے.اور ان کو پورا فرما دیتا ہے.ان دنوں میں نے ایک کمیٹی میں حصہ لیا ہوا تھا.لیکن کون جان سکتا تھا.کہ اس دفعہ میرے ہی نام وہ کمیٹی نکلے گی.جب حضرت اماں جان نے دعا فرمائی.تو اس کے چند دنوں کے بعد کمیٹی نکلی.اور وہ میرے ہی نام کی تھی.اس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے روپے کا انتظام کر دیا اور ہم مکان بنانے میں کامیاب ہو گئے.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے.کہ حضرت اماں جان کو ہم غریبوں سے کس قدر ہمدردی اور محبت تھی.اور آپ کو ہمارے حالات کے سنورنے کا کتنا خیال تھا.۲۷
188 دوسرں کی خوشی میں شریک اور اپنی اولاد کی طرح سلوک تاثرات محتر مہامہ المجید صاحبہ ایم.اے اپنے عقیدت مندوں اور جماعت کے لوگوں کی دلداری کرنا ان کے غم اور خوشی میں حصہ لینا.اُن سے شفقت کا سلوک کرنا اور ہر طرح سے اُن کی مدد کرنا حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے امتیازی خصائل تھے.ہماری اماں جی ہمیں سنایا کرتی ہیں.کہ جب اُن کی شادی ہوئی.تو ہمارے نانا جان مکرم میاں امام دین صاحب سیکھوانی جو مولوی جلال الدین صاحب شمس کے والد تھے.اور ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.اُنہوں نے ہماری اماں جی کی شادی کی تقریب پر حضرت اماں جان کو بھی مدعو کیا.اُس وقت ہمارے نانا جان سیکھواں نامی گاؤں میں جو قادیان سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر واقع تھا.سکونت پذیر تھے.حضرت اماں جان ٹانگے پر گاؤں تشریف لائیں.اور اماں جی کو خود دلہن بنایا.اماں جی بتاتی ہیں.کہ گاؤں کی اکثر ہندو عورتیں بھی حضرت اماں جان کی زیارت کے لئے آئیں.اور آپ سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور ان میں سے اکثر بڑی عقیدت کے ساتھ گڑ ، شکر ہتل اور ستوؤں کے تحائف بھی لائیں.حضرت اماں جان نے ان کے تحائف کو قبول فرمایا.اور پھر اماں جی کو بھی اپنے ساتھ ٹانگے میں بٹھا کر قادیان لائیں.اماں جی بتا تیں ہیں.کہ راستہ کچا ہونے کے سبب جب ٹانگے کو جھٹکا لگتا تھا.تو آپ اپنے ہاتھوں سے مجھے تھام لیتی تھیں.تاکہ میں رگر نہ جاؤں قادیان آنے پر حضرت اماں جان نے والد صاحب کا نام لے کر فر مایا.کہ وزیر محمد کے ہاں چونکہ کوئی عورت نہیں ہے.اس لئے دلہن کو میں اپنے گھر میں اُتاروں گی چنانچہ حضرت اماں جان نے اماں جی کو الدار میں ہی اُتارا.اور کھانا وغیرہ کھلانے کے بعد انہیں رخصت کیا.اس طرح آپ نے والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں کی طرح سے مادرانہ شفقت کا اظہار فرمایا.۲۸ مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ دختر حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب بیان کرتی ہیں: آپ اپنی ملازم عورتوں کا بہت خیال رکھتی تھیں.اُن کی ہر ضرورت کو پورا فرما تیں اور اکثر انہیں
189 عطیات بھی دیتی رہتیں.اکثر دفعہ کام میں اُن کا ہاتھ بٹا تیں.قادیان میں میں نے متعدد مرتبہ آپ کو باورچی خانہ میں بیٹھے ہوئے سبزی بناتے ہوئے یا ہنڈیا بھونتے ہوئے دیکھا اور ایک دفعہ میں اور عزیزہ صاحبزادی مسعودہ آصفہ نے مل کر مصالحہ تیار کیا اور حضرت اماں جان نے مرغابی پکائی اور پھر ہم نے ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا.سردار بیگم مرحومہ (جو آپ کی قدیم خادمہ تھیں) کی وفات کے دو تین دن کے بعد میں حضرت اماں جان کی زیارت کے لئے گئی.سیڑھیاں طے کر کے حضرت اماں جان کے مکان کے دروازے میں ہی تھی کہ میرے کانوں میں آواز آئی ” کوئی اللہ میری سردار میں نے ادھر ادھر دیکھا.کیا دیکھتی ہوں آپ حضرت ام ناصر احمد صاحب کے مکان کی طرف سے اپنے گھر تشریف لا رہی ہیں.اس فقرہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اپنی خادمہ سردار بیگم سے کتنا تعلق تھا.اُس دن اُس نیک بخت خاتون کی قسمت پر مجھے بڑا رشک آیا.۲۹ از حضرت حضرت زینب بی بی صاحبہ جب یہ عاجزہ شہر فیروز پور سے قادیان دارالامان آتی تھی تو حضرت اماں جان کی خدمت میں جا کر بیٹھنا بہت پسند کرتی تھی.اور حضور کی زیارت اور قیمتی نصائح سے فیض یاب ہوتی تھی.اُن دنوں ہمارا امکان قادیان دارالامان میں مسجد اقصیٰ کی پچھلی گلی میں فضل منزل نام کا بنا ہوا تھا.ایک دفعہ جب میں حضور کی خدمت میں اپنے مکان سے آکر ان کے دولت خانے پر جا کر حاضر ہوئی تو حضرت اماں جان نے مجھے فرمایا.کہ زینب تم کو فرصت ہے.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا.کہ حضور کے سامنے فرصت کا کیا سوال ہے، جہاں حضور چاہیں بڑی خوشی سے حاضر ہوں.اس میری بات کے سننے کے بعد حضرت اماں جان مجھے حضرت مسیح موعود کے بہشتی مقبرے کے باغ کی طرف لے گئیں.پھر بہشتی مقبرے کے باغ میں جا کر ایک چکوترے کے درخت کے پاس آکر کھڑی ہوگئیں.پھر آپ نے اس درخت سے ایک بڑے سائز کا چکوتر اتو ڑا اور ہم دونو و ہیں بیٹھ گئیں.پھر وہ چکوتر احضرت اماں جان نے خود اپنے دستِ مبارک سے چھیلا.اُس چکوترے کی قاشیں آپ نے خود بھی نوش فرما ئیں.اور مجھے بھی عنایت فرما ئیں.پھر اُس چکوترے کا پھل کھانے کے بعد بہشتی مقبرے سے فارغ ہو کر حضرت اماں جان نے فرمایا.کہ زینب اب تم نے اپنے گھر جانا ہے یا میرے ساتھ چلنا ہے.اس پر میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا.کہ میں
190 آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی.جب تک آنجناب خود مجھے اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں دیں گی.اس لئے حضور آپ جہاں چاہیں مجھے لے جائیں.یہ سن کر حضرت اماں جان نے میری اس سعادت مندی اور جرات کو دیکھ کر فرمایا.کہ میں نے گلگتیوں کے مکان پر جانا ہے.وہاں ان کی دوکان پر کپڑا جا کر دیکھنا ہے.اگر وہاں جا کر مجھے کوئی کپڑا پسند آ گیا.تو میں اپنی نواسی عزیزہ منصورہ بیگم کی قمیض کے لئے ایک ٹکڑ ا خریدنا چاہتی ہوں.پھر میں حضرت اماں جان کے ہمراہ گلگتیوں کی دوکان پر گئی.وہاں حضرت اماں جان نے تشریف لے جا کر ان کی دوکان کے کپڑوں کو دیکھا.پھر ان کپڑوں میں سے ایک کپڑے کا ٹکڑا سبز رنگ کے مرینے کا آپ نے پسند فرمایا.جو عزیزہ منصورہ بیگم میاں ناصر احمد کے لئے خریدا.اور فرمایا.کہ مجھے دیر ہوگئی ہے کہ میں نے بی بی منصورہ بیگم کو کوئی کپڑا نہیں دیا.اس کے بعد یہ عاجزہ حضرت اماں جان کے ہمراہ روانہ ہوگئی اور حضور کو ان کے دولت خانے پر چھوڑ کر اپنے مکان فضل منزل پر آ گئی.۳۰ دوسروں کی تکلیف کا احساس محترمہ آمنہ بیگم اہلیہ چوہدری عبداللہ خان صاحب رض ۱۹۴۶ء میں حضرت اماں جان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ڈلہوزی تشریف فرما تھیں.اتفاق سے میں بھی وہاں ہی تھی.چودھری صاحب ان دنوں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ٹانگ کے اپریشن کے لئے گئے ہوئے تھے.آپ اس خیال سے کہ میں گھبراتی ہوں.اکثر میرے ہاں تشریف لے آتیں.بعض دفعہ سارا دن تشریف رکھتیں.چودھری صاحب کے لئے دعا فرماتیں.اور خاص طور پر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے لئے دعا فرماتیں اور مجھے بھی ان کے لئے دعا کرنے کی تاکید فرماتیں.ایک دفعہ بچوں کو فرمایا: وضو کر کے آؤ.اور نماز میں اپنے تایا ابا اور ابا کے لئے دعا کرو.“ اکثر مجھ سے بھائی جان ( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی صحت اور حالات دریافت فرما تیں.ایک دفعہ قادیان میں میں سیدہ مریم صدیقہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اتنے میں اماں جان
191 تشریف لے آئیں.اور چودھری صاحب محترم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا.وہ بلند پائے کا انسان ہے.اس کو کوئی کوئی سمجھ سکتا ہے.“ تقسیم ملک کے بعد جب میں ٹاٹانگر سے لاہور میں آئی.تو حضرت اماں جان رتن باغ میں مقیم تھیں.میں جا کر ملی.حضرت اماں جان سکی آنکھوں میں آنسو تھے.تھوڑی دیر کے بعد فرمایا: دو گڑیے تیرے ابا تے اوتھے ہی رہ گئے.“ اور مجھے اپنے ساتھ لگالیا.میں نے کہا.اماں جان مجھے تو ذرا بھی گھبراہٹ نہیں.آپ سب خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت سے آگئے.تو سب کچھ آ گیا.آبدیدہ ہوکر فرمایا.مجھے فتح محمد کی بڑی تکلیف ہے“ اماں جان فداک روحی.آپ کے آنسوؤں پر ہمارا سب کچھ قربان ! ہم سب یہاں ہیں.اور آپ چلی گئیں.اور ہم میں سے کوئی بھی آپ کے بدلے نہ جاسکا.۱۹۴۸ء کے اپریل میں جب میرے ابا جان گورداسپور جیل سے رہا ہو کر آئے.تو انہیں ایک رات بورسٹل جیل میں گزارنا تھی.ہم بورسٹل جیل گئے ابا جان سے ملے.اور انہوں نے باہر نکلتے ہی کہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہم پر کتنے احسان ہیں.انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق اتنا گہرا کر دیا ہے کہ ہم کسی حالت میں مایوس نہیں ہوتے.“ اس کے بعد فوراً کہا.میں سب سے پہلے حضرت اماں جان اور مصلح موعود سے ملنا چاہتا ہوں.میں نے بتایا کہ حضور تو سندھ تشریف لے گئے ہیں.اور حضرت اماں جان یہیں ہیں.ہم سیدھے رتن باغ پہنچے.میں وہ محبت بھرا ایمان افروز نظارہ کبھی نہیں بھول سکتی.ہم سیڑھیاں چڑھے.ابا جان دروازے میں ٹھہر گئے.میں حضرت اماں جان کے پاس پہنچی.ان دنوں حضرت اماں جان کی طبیعت قادیان سے آکر کمر درد کی وجہ سے سخت خراب تھی.آپ نیم غنودگی میں لیٹی ہوئی تھیں.میں نے آہستہ سے کہا.اماں جان ! میرے ابا آگئے ہیں اور باہر کھڑے ہیں.اللہ! اللہ ! کس بجلی کی سی پھرتی سے اماں جان فوراً اٹھ کر کھڑی ہوگئیں.کپڑا کمر کے گرد باندھا ہوا تھا.ننگے پاؤں مجھ سے بھی پہلے دروازے کے پاس پہنچی ہوئی تھیں.وہ اُم المومنین بے چینی
192 کے ساتھ مضطر بانہ تھوڑی سی جگہ میں چکر کاٹ رہی تھیں.اور میرے والد سے بار بار حال پوچھ رہی تھیں.اور میں اماں جان کے اس فقرے کو محسوس کر رہی تھی.مجھے فتح محمد کی بڑی تکلیف ہے.۳۱۴ مکرمہ عزیز بخت صاحبہ اہلیہ مولانا غلام رسول صاحب را جیکی جب دار مسیح میں پہرہ کا انتظام لجنہ کی طرف سے شروع ہوا تو میری بھی ڈیوٹی لگی.میں اور محلہ دار الرحمت کی ایک اور بہن پہرہ کے لئے حضرت اماں جان کے مکان پر حاضر ہوئیں.حضرت اماں جان نے میری ساتھن کو حضرت امم طاہر کے مکان پر بھجوا دیا.اور مجھے اپنے پاس رکھ لیا اور اپنی خادمہ سردار بیگم صاحبہ کو کہا کہ ان کا کھانا لنگر سے نہیں منگوانا یہ کھانا میرے ساتھ کھائیں گی اور مجھے فرمایا کہ جب بھی محلہ کی طرف سے پہرہ کی ڈیوٹی لگے آپ اور کسی جگہ نہ جائیں بلکہ میرے مکان پر ڈیوٹی دیں اور میرے پاس رہیں.ایک دفعہ کھانا کھانے کے بعد میں نے آپ کے پاؤں دبانے شروع کئے.حضرت اماں جان تھوڑی دیر میں سو گئیں.میں نے اس خیال سے کہ آپ آرام فرمالیں دبانا چھوڑ دیا.اور علیحدہ ہوکر بیٹھ گئی.تھوڑی دیر میں مجھے غنودگی سی ہوئی اور میں بھی سوگئی.جب ظہر کی اذان ہوئی تو حضرت اماں جان اٹھ کر وضو کے لئے تشریف لے گئیں.میں جب نیند سے بیدار ہوئی تو حضرت اماں جان کو کمرہ میں نہ پا ک فو را با ہر نکلی.آپ وضو فرمارہی تھیں.مجھے دیکھ کر فرمایا.کہ اذان ابھی ہوئی ہے نماز میں کافی دیر ہے تم آرام کرلو.میں تو آہستگی سے آئی تھی تا کہ آہٹ سے بیدار نہ ہو جاؤ.میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی.پھر میں نے عرض کیا کہ اماں جان! میں بیت الدعا میں نفل پڑھ لوں؟ آپ نے فرمایا.اجازت لینے کی ضرورت نہیں بیت الدعا میں جب چاہو نفل ادا کرو.اس کے بعد جب بھی میں پہرہ کی ڈیوٹی پر جاتی حضرت اماں جان کے مکان پر ڈیوٹی دیتی.کئی دفعہ میں اپنے ساتھ پھولوں کے ہار لے جاتی.حضرت اماں جان بڑی خوشی سے ہاروں کو قبول فرما تیں.ایک دفعہ جب میں پہرہ پر گئی تو حضرت اماں جان نے سوجی کا آٹا خود گوندھا سردار بیگم صاحبہ نے روٹی پکائی.آپ نے اندر کمرے میں کھانا تناول فرمایا اور تبرک مجھے بھجوا دیا.۳۲
193 ایک دفعہ حضرت سیدہ ام طاہر کے مکان کے چوبارہ پر مولوی صاحب ( میرے شوہر ) کی تقریر ہوئی.حضرت اماں جان بھی سننے کے لئے تشریف لے گئیں.واپسی پر جب میں آ رہی تھی تو میرے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے اس لئے آہستہ آہستہ چلتی تھی اور دوسروں سے پیچھے رہ گئی حضرت اماں جان جو آگے نکل گئی تھیں مجھے دیکھ کر ٹھہر گئیں.اور مستورات کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اس لئے تیز نہیں چل سکتیں.اس میں کیا اعتراض ہے.ابھی تم سب ان کے میاں کی تقریرین کر " سبحان اللہ سبحان اللہ کرتی تھیں لیکن اب اعتراض کرتی ہو.۳۲ دوسروں کی خوشی غمی میں شریک مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ بنت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب وو میرے والدین پر آپ کی نظر شفقت بہت زیادہ تھی.آپ ان کا بہت خیال رکھتیں.والدہ صاحبہ بھی آپ سے بہت محبت کرتی تھیں اور ضرورت پڑنے پر آپ سے مشورہ لیتیں اور پھر اُس مشورہ کے مطابق عمل کرتیں میری والدہ محترمہ کو حضرت اماں جان کی خدمت کا بہت شوق تھا.وہ گھر میں لگے ہوئے درخت آم ہسنگترے ، امرود، انگوروں وغیرہ کی اچھی طرح دیکھ بھال صرف اِس نیت سے کرتی تھیں کہ پھل آئے اور میں حضرت اماں جان کو کھلاؤں.قادیان میں ہمارے صحن میں ایک اچھی قسم کا آم تھا اور وہ حضرت اماں جان کو بہت پسند تھا.جب اس پر آم لگتے حضرت والد صاحب اور والدہ صاحبہ اس کی بہت نگرانی کرتے.بچوں کو اُس درخت کے آم توڑنے کی اجازت نہ تھی اور جو جو دانہ آم کا پکتا حضرت اماں جان کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا.ایک دفعہ سردیوں کے موسم میں سیر سے واپسی پر حضرت اماں جان ہمارے گھر تشریف لائیں.والدہ صاحبہ نے حضرت اماں جان کی دستی چھڑی سے سنگترے تو ڑے آپ خود جُھک جھک کر سنگترے اُٹھاتی تھیں اور فرماتیں.” بیٹی ! بس بھی کروکیا سارے سنگترے مجھے ہی تو ڑ کر دے دو گی.بچوں کے لئے بھی رہنے دو.“ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کو میری والدہ صاحبہ کے ہاتھ کے پکے ہوئے کریلے بہت پسند تھے.والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ کریلے پکا کر آپ کو کھلائے.گھر میں جب بھی کوئی خاص چیز پکتی.
194 والدہ صاحبہ حضرت اماں جان کی خدمت میں ضرور بھیج دیتیں.میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے حضرت اماں جان کو اپنے گھر آتے دیکھا ہے.آپ اکثر سیر سے واپسی پر تشریف لاتیں.بعض دفعہ کھڑے کھڑے واپس تشریف لے جاتیں اور کبھی تھوڑی دیر کے لئے قیام فرمالیتیں.آپ نے تقریباً ہمارے گھر میں ہر موقع پر ہر تقریب میں شمولیت فرمائی ہے.بچوں کی پیدائش پر تشریف لاتیں، انہیں دیکھتیں اور دعا فرماتیں.میرے چھوٹے بھائی عزیز عبدالحمید سلمہ اللہ کی پیدائش پر تشریف لائیں.اس کا نام خود تجویز فرمایا کہ بہن کے نام پر عبدالحمید رکھیں.اسی طرح میری بھتیجی عزیزہ امتہ الہادی سلمہا اللہ کا نام بھی اُس کی بڑی بہنوں امۃ الشافی اور امتہ الباری کے وزن پر امتہ الہادی تجویز فرمایا.شادی بیاہ کے موقع پر تشریف لاتیں.سارے انتظامات کے متعلق پوچھتیں.کپڑے دیکھتیں اور اپنے قیمتی مشورہ سے نواز میں اور اکثر اسی ٹوہ میں رہتیں کہ کس چیز کی کمی یا ضرورت ہے تا وہ اُسے خود پورا کریں.۳۳ اہلیہ صاحبہ حضرت منشی کظیم الرحمن صاحب میں جب کبھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی اور آنے کے لئے اجازت چاہتی تو فرما تھیں ابھی بیٹھی رہو.چنانچہ جب آپ خوشی سے اجازت فرماتیں اس وقت میں گھر آتی اور اگر میرا ان کے پاس جانے میں وقفہ ہو جاتا اور جب جاتی تو فرما تیں کہ تم یہاں ہی ہو.میں تو سمجھتی تھی کہ تم قادیان میں ہو ہی نہیں کہیں باہر ہی گئی ہوئی ہو.“ آپ عموماً حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر پیدل تشریف لے جایا کرتی تھیں.راستہ میں میرا گھر تھا.واپسی پر جب دل چاہتا یہ فرماتی ہوئی اندر تشریف لے آتیں.ی کظیم الرحمن کا گھر ہے“.میں عرض کرتی جی.اور فوراً کرسی بچھا دیتی اور آپ اس پر تشریف فرما ہوتیں.میں پانی پیش کرتی بخوشی نوش فرماتیں.سب کی خیریت اور حالات دریافت فرما کر تشریف لے جاتیں.بعض اوقات مجھے معلوم ہو جاتا کہ حضرت اماں جان تشریف لا رہی ہیں.اور نواب صاحب کی کوٹھی کی طرف تشریف لے جارہی ہیں تو میں جلدی جلدی پان بنا کر پیچھے پیچھے ہو جاتی.دیکھ کر پان لیتیں اور کھا لیتیں اور فرما تھیں کہ جب تک نہ تھکو میرے ساتھ چلی آؤ.جب تھک جاؤ واپس چلی جانا.۳۴
از مکرمه امته الرشید شوکت صاحبه 195 ایک بار میری والدہ اپنی بچی ( والدہ مولوی قمر الدین صاحب ) اور چچازاد بہن ہمشیرہ مولوی قمر الدین صاحب) کے ہمراہ حضرت اماں جان کی خدمت میں گئیں.کھانے کا وقت تھا.آپ کے سامنے تازہ پھلکے اور کڑھی ( جو پکوڑے ڈال کر تیار کی گئی تھی ) اور کھیر کی پلیٹیں رکھی ہوئی تھیں.میری والدہ اور میری نانی اور خالہ فرش پر سلام کر کے بیٹھ گئیں.حضرت اماں جان نے چند پھلکے کڑھی کی پلیٹ اور کھیر کی ایک پلیٹ میری نانی جان کو جو آپ کے قریب بیٹھی تھیں عنایت کیں.انہوں نے اس تبرک کو آپس میں تقسیم کر لیا.تھوڑی دیر کے بعد اماں جان نے فرمایا کہ ”سارہ کو بھی دینا ( یہ میری والدہ کا نام ہے ) میری نانی جان نے جواب دیا کہ اماں جان میں نے اس کو بھی دیا ہے.یہ ایک معمولی سی بات ہے لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح آپ کسی کے دل میں آنے والے خیال کو فورا بھانپ لیتی تھیں.آپ نے تبرک میری والدہ کی چچی کے ہاتھ میں دیا تھا.میری والدہ کے دل میں طبعا یہ خیال آ سکتا تھا کہ افسوس مجھے آپ کے ہاتھ سے تبرک لینے کا شرف حاصل نہیں ہوا.ان الفاظ نے ان کے اس غم کو دور کر دیا اور وہ خوش ہو گئیں.اللہ للہ کیا شان ہے خدا کے پیاروں کی.وہ کیسے ہر ایک کی دلداری کرتے اور کس طرح ہر ایک کے جذبات کو بھانپ لیتے ہیں.۳۵ مادر مهربان مکرم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل تحریر کرتے ہیں: ایک دفعہ میں کشمیر کے سفر میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے خدام میں شامل تھا.ان ހނ دنوں سکھوں اور ہندوؤں نے قادیان میں مذبحہ کی بناء پر شورش بر پا کر رکھی تھی.پہلگام - سرینگر کو واپسی کے لئے حضور لاریوں کے اڈے میں کھڑے تھے.قادیان کا تار ملا کہ اردگرد کے سکھوں نے بہت بڑی تعداد میں حملہ کر کے مذبحہ گرا دیا ہے.سرینگر پہنچ کر حضور کو ناظر صاحب اعلیٰ کا ایک اور تار ملا کہ غلام نبی کو بھیج دیا جائے.حضور نے پہلے تو پسند نہ فرمایا.اور فرمایا! اخبار کے لئے وہیں انتظام کرنا چاہیئے.لیکن دوسرے دن مجھے فرمایا تم چلے جاؤ.میں تیار ہو کر روانہ ہونے والا تھا کہ حضرت اُم المومنین، پاس سے گزریں.اور فرمایا.کہاں جاتے ہو.میں نے عرض کیا
196 قادیان.فرمایا کھانا ساتھ لے لیا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں.فرمایا.راستہ میں تمہیں کھانا کہاں ملے گا اور اسی وقت ارشاد فرمایا کہ کھانا تیار کر کے دیا جائے.چنانچہ مجھے کھانا پکا کر دے دیا گیا.یہ شفقت اور محبت ایک مادر مہربان ہی کے قلب میں پیدا ہوسکتی ہے.اس مادر مہربان کے قلب میں جو ہر بچہ کو حسب مواقع اپنی شفقت کے سایہ میں لینے کے لئے بے تاب ہوتی ہے.الہی تو بڑے بڑے افضال اور برکات نازل فرما.ہماری اس روحانی ماں پر اور اپنے قرب میں انہیں بلند ترین مقام عطا کر.آمین یا رب العلمین.۳۶ اہلیہ ڈاکٹر گوہر دین صاحب ہمدردی خلق میں برما سے قادیان والدین کے پاس آئی ہوئی تھی.ہمارے گھر سے دارالمسیح آواز پہنچنا آسان ہے اگر آواز زور کی ہو، ایک روز میں گھر میں نہ تھی.میری چھوٹی بہن سیٹرھیوں سے گر پڑی.جس پر وہ اور دوسرے بھائی بہن خوب چلائے.ان کا شور اماں جان کے کان تک پہنچا.آپ مغرب کی نماز کے لئے وضو فرما رہی تھیں.یکے بعد دیگرے کئی عورتوں کو ہمارے گھر روانہ کر دیا.کہ دیکھو شاید حفیظ کو دورہ ہوا ہے.وضو کر چکنے کے بعد خود بھی برقعہ پہن کر چل پڑیں.ابھی احمدیہ چوک تک تشریف لائی تھیں.کہ ان کی بھیجی عورتیں واپس آتی مل گئیں.خیریت معلوم ہونے پر واپس لوٹ گئیں.دوسرے دن میں حاضر ہوئی.تو گلے لگا کر فرمایا کل شام کو تمہارے گھر سے آوازیں آئیں.تو میں اس خیال سے گھبراگئی.کہ تم کو شاید دورہ ہوا ہے.عورتوں کو روانہ کرنے کے بعد خبر گیری کے لئے.میری تسلی نہ ہوئی اس لئے میں خود بھی دوڑی میں نے کہا اس کی ماں بھی نہیں نہ یہاں میاں ہے.اس لئے میں خود جاؤں.اللہ اللہ آج کون ہے جو ہمارے درد میں اس طرح شریک ہو.صرف اس لئے کہ ان کی روحانی بیٹی جو چند روز کے لئے آئی ہے.اور تنہا ہے.اسے اس بیماری میں تسکین کی ضرورت ہوگی.اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل ہوں آپ کے مرقد پاک پر ۳۷ برما پر جاپانی محاصرہ کے وقت میں اور ڈاکٹر صاحب وہیں تھے.جب کئی برس بعد ہر طرف امن وامان ہو گیا.تو ہم اپنے پیارے مرشد و مرکز کی طرف شوق کے قدموں سے لوٹے.
197 جب اماں جان رضی اللہ عنہا سے شرف دید پایا.آپ نے انتہائی محبت سے سینہ سے لگالیا.بڑی دیر تک لگائے رکھا.جب علیحدہ فرمایا تو میں وہ کیفیت بیان کرنے سے قاصر ہوں.جس کے ساتھ آپ نے فرمایا.” میں جب برما میں بمباری کی خبر سنتی تو کہتی اللہ میری حفیظ اللہ میری حفیظ “آہ میری پیاری مقدس ماں دنیا بھر کی نعمتوں سے بالا تر تھی.۳۸ امتہ الحمید بیگم اہلیہ قاضی محمد رشید صاحب آف نوشہرہ میں جب بھی کبھی حضرت اماں جان کے پاس جاتی تو آپ پوچھتیں کہ تمہارے میاں کہاں ہیں؟ چنانچہ ۱۹۴۳ء میں جب میرے میاں قاضی محمد رشید صاحب بمبئی میں تھے اور ان کی طرف سے خط آیا کہ کھانے وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ کچھ تکلیف میں ہیں.میں نے حضرت اماں جان سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تمہارا میاں وہاں تکلیف میں ہے تو تم یہاں کیوں مزے کرتی ہو.جاؤ اس کے پاس ضرور جاؤ.آخر میں حضرت اماں جان کے کہنے کے مطابق بمبئی گئی اور آپ کی دعا اور توجہ سے خدا تعالیٰ نے برکت دی اور ابھی مجھے وہاں گئے صرف اٹھائیس دن گزرے تھے کہ میرے میاں کی تنخواہ ۱۹۵ سے بڑھ کر ۴۰۰ روپیہ ہوگئی اور بمبئی سے سکندر آباد دکن تبادلہ ہو گیا.چنانچہ جب میں وہاں سے واپس آئی تو میں نے جا کر حضرت اماں جان سے ذکر کیا.اور آپ مجھ سے وہاں کی باتیں پوچھتی رہیں اور یہ بھی پوچھا کہ وہاں تو ساڑھی پہنے کا رواج ہے کیا تم نے بھی پہنی تھی ؟ میں نے کہا کہ بوجہ شرم کے میں نے نہیں پہنی.آپ نے فرمایا ضرور پہنی چاہیئے تھی.۳۹ حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا ۱۹۳۳ء میرا نکاح حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے پڑھایا.تو اسی دن حضور کسی کام کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے اور ایک دوست وہاں کھڑے تھے.میں بھی تھا.حضور نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.کہ مولوی ظہور حسین کا نکاح پڑھنے کے بعد میں نے گھر آکر حضرت اُم المومنین سے دریافت کیا کہ میں اس کا نکاح تو پڑھا آیا ہوں.آپ کو علم ہے.کہ اس کی بیوی اور والدین کیسے ہیں؟ اس پر حضور نے فرمایا کہ حضرت اُم المومنین نے فرمایا کہ ہاں میں اُن کو خوب جانتی ہوں.وہ نیک اور شریف لوگ ہیں.اور لڑ کی اچھی ہے“.اس پر میں نے خدا تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کیا.کہ اول حضور کی ہم عاجزوں کی طرف کتنی نوازش ہے.اور یہ
198 کہ حضور کو ہمارا کتنا خیال ہے.پھر حضرت ام المومنین کی شفقت اور ان کی یا دا اپنے خادموں کے متعلق کتنی اور کیسی اچھی ہے.۴۰ حضرت سیدۃ النساء کو ہمیشہ سیر کی عادت تھی.اور آپ کی سیر بھی دراصل عبادت تھی.آپ سیر کو تشریف لے جاتیں.تو کبھی کسی کے گھر تشریف لے جاکر ان کا حال دریافت کرتیں.ان کے لئے برکت کی دعائیں فرماتیں.اور آپ کے تشریف لے جانے پر جو خوشی اور سرور اہل خانہ کو ہوتا اس کا اندازہ اور اس کی قدرو ہی محسوس کر سکتے ہیں.عاجز کا مکان دارالانوار میں تھا.اور کبھی آپ تشریف فرما ہوتیں.اور میں گھر نہ ہوتا.تو بعد میں مجھ کو علم ہوتا.کہ حضرت اُم المومنین تشریف فرما ہوتیں.تو مجھ کو اتنی خوش ہوتی.کہ میں کافی دیر تک اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتا.کہ ہمارے گھر میں تشریف لا کر انہوں نے ہمیں نوازا ہے.اور گھر کو برکت بخشی ہے.مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے والدہ مرحومہ کے بہت گہرے اور قریبی تھے.انہوں نے کبھی کبھار اپنے مبارک قدموں سے ہمارے گھر کو بھی نواز نا شروع فرمایا.آپ مسرت کے موقع پر ہماری مسرت میں شرکت فرما کر ہمارے لئے فخر کا ایک جذبہ پیدا کر دیتیں اور ہماری تکلیف میں اپنی ہمدردی اور تسکین آمیز کلمات سے اسے کم کرنے کا باعث ہوتیں.مجھے یاد ہے کہ میری مرحومہ بہن رحمت بی بی صاحبہ کے ہاں سیف اللہ پیدا رض ہوا.حضرت اماں جان خبر ملنے پر خود ہی تشریف لے آئیں.اور بچہ کو اپنے دست مبارک سے گھٹی دی.آپ کو کسی رسمی دعوت کی احتیاج نہ تھی.آپ کے غلام کا گھر تھا اس لئے آپ کا اپنا ہی گھر تھا.پس بچپن ہی سے اس محسنہ ماں کی محبت و احسانات کے نقوش قلب پر موجود تھے.عمر کے ساتھ ساتھ احسانات بڑھتے اور نقوش گہرے ہوتے چلے گئے.۱۹۴۵ء میں میرا انگلستان کے لئے روانہ ہونے کا وقت آیا.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے دروازہ پر حاضر ہوا اور الوداعی دعائیں لیں.حضرت اماں جان نے از راہ کرم ایک لوٹا اور گلاس عطا فرمایا جو اس سفر میں میرے ہمراہ رہا اور اب تک محفوظ ہے.ایک مبلغ احمدیت کا ہتھیار قرآن کریم ہی ہے.میں نے اپنا خاص نسخہ حضرت اماں جان کی خدمت میں کلثوم اہلیہ ام کے ذریعہ بھجوایا اور درخواست کی کہ دعائیں فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس ہتھیار کو کامیابی سے استعمال
199 کرنے کی توفیق بخشے.کلثوم نے بتایا کہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اس نسخہ کو محبت کے ساتھ ہاتھ میں لیا اور نہایت درد اور رقت کے ساتھ دعائیں فرمائیں.حضرت اماں جان کے آنسو اس قرآن کریم پر بھی پڑے.۴۲) از اہلیہ ابوالہاشم خان صاحب حضرت اُم المومنین ہر ایک سے شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا کرتی تھیں.خصوصاً غیر ملکی لوگوں کے ساتھ بہت ہمدردی رکھتی تھیں.شروع میں جب ہم ابھی بنگال سے نئے نئے آئے ہوئے تھے.اس وقت ہمارا اپنا مکان نہ تھا.جب کبھی حضرت اماں جان کے پاس جاتی تھی.تو وہ ہماری مکان کی تنگی کا احساس کرتے ہوئے فرماتی تھیں کہ اپنے میاں ( یعنی چوہدری ابوالہاشم صاحب جو کہ پنشن کے بعد حضور پرنور کے حکم کے ماتحت بنگال میں امیر جماعت کی خدمت بجالا ر ہے تھے ) کو جلدی بلواؤ.اور مکان بنوالو.آپ کی خاص توجہ اور دعا سے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک فراخ مکان بنانے اور اس میں چھ سال تک رہنے کی توفیق عطا فرمائی.حضرت اماں جان جب دارالانوار کی طرف سیر کے لئے جائیں.تو اکثر ہمارے غریب خانہ پر تشریف لاتیں.اور کچھ دیر آرام فرما تیں.حضرت اماں جان میری لڑکیوں سے بھی بہت مشفقانہ سلوک کیا کرتی تھیں.ان سے کبھی کبھی مختلف سلائی وغیرہ کی چیزیں بنوا کر استعمال فرماتی تھیں.اور اس ذراسی خدمت پر بہت دعائیں دیا کرتی تھیں.ان کی دعاؤں کی قبولیت کے ہم نے آج تک بہت سے نشانات دیکھے ہیں.چنانچہ قادیان سے ہجرت کے بعد میری دوسری لڑکی عزیزہ عابدہ مرحومہ کے نکاح کے بعد خود میرے غریب خانہ پر تشریف لائیں اور عزیزہ کو گلے لگا کر فرمانے لگیں ”بیٹی ! میری کوئی نماز ایسی نہیں تھی.جس میں میں نے تیرے لئے دعا نہ کی ہو.اس کے بعد خود اپنے ہاتھ سے دعا فرما کر انگوٹھی پہنائی.آج عزیزہ کی جدائی پر مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہورہی ہے.کہ وہ ہم میں سے سب سے پہلے اماں جان سے جنت میں ملنے والی ہے.۴۳ محبت اور دعا کے نمونے مکرمہ عزیز بخت صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب فرماتی ہیں:
200 کہ ایک مرتبہ حضرت اماں جان نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا کہ یہ پکھی ہے اس کو گوٹہ کناری وغیرہ لگادو.میں نے عرض کیا کہ کس طرح بناؤں.آپ نے فرمایا کہ تمہیں سب طریق معلوم ہیں.میں پیکھی تیار کر کے لے گئی.آپ نے دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ معلوم ہے کہ یہ تم سے کس لئے بنوائی ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور کو ہی معلوم ہے.فرمانے لگیں.”مجھ کو شملہ جانا ہے رستہ میں اس پنچھی سے ہوا کروں گی.اور اس کو دیکھ دیکھ کر تمہارے لئے دعا کروں گی اور واپسی پر بھی اسی طرح کروں گی.میں یہ سن کر آپ کی شفقت، محبت اور اخلاق حسنہ سے بہت متاثر ہوئی.اور کئی دن تک خاص طور پر آپ کے لئے میرے قلب سے دعا نکلتی رہی.۴۴ قادیان میں جب ہمارا مکان دارلرحمت میں حضرت نانا جان میر ناصر نواب کی زیر نگرانی تعمیر ہور ہا تھا تو جب حضرت اُم المومنین مشہر سے حضرت نواب صاحب کی کوٹھی تشریف لاتیں ہمارے مکان کی طرف سے گزر کر اس کو دیکھتیں اور واپسی پر مجھے بتاتیں کہ میں نے آج آپ کا مکان دیکھا ہے.اس کا فلاں حصہ بن چکا ہے اور فلاں حصہ بن رہا ہے.غرض نہایت شفقت سے چھوٹی چھوٹی باتوں میں دلچسپی کا اظہار فرماتیں اور اپنے پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتیں.جعــل الــلــه الجنة مثواها و اعلی الله درجا تها.۲۵ جب ہم دارالرحمت کے مکان میں رہائش پذیر ہوئے تو دودھ خریدنے کا انتظام محلہ دارالعلوم میں مکرمی ماسٹر محمد علی صاحب اظہر کے گھر کیا.ایک دن میں دودھ کا حساب کرنے اور رقم ادا کرنے کے لئے ماسٹر صاحب کے گھر جارہی تھی تو حضرت اماں جان سے سکول والی سڑک پر جاتے ہوئے ملاقات ہوئی.حضرت اماں جان نے دریافت فرمایا کہ آپ کے محلہ میں دودھ کا انتظام نہیں ہوسکتا ؟ میں نے عرض کیا نہیں.آپ نے فرمایا کہ خود بھینس رکھ لو.میں نے عرض کیا کہ بچے چھوٹے ہیں دودھ دوہنے والا گھر میں کوئی نہیں.آپ نے فرمایا خود دوہنا سیکھ لیں.چنانچہ آپ کی توجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ایک بھینس میرے بھائی نے گاؤں سے بھیج دی.جب بھینس نے بچہ دیا تو میں دوسرے دن دودھ لے کر حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئی.آپ بہت خوش ہوئیں.پھر بعد میں مکھن بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتی رہی.آپ بہت خوشی کا اظہار فرما تھیں.کہ اتنا زیادہ مکھن آپ کی بھینس دیتی ہے.آپ نے جب کڑہی پکانی ہوتی تو کئی دفعہ نوکر کو بھیج کرسی ہمارے ہاں سے منگواتیں.میں لسی
201 میں مکھن ڈال کر بھجوا دیتی.آپ بڑی خوشی کا اظہار فرماتیں.۴۶ اہلیہ حضرت منشی کظیم الرحمن صاحب میرے والد صاحب منشی ظفر احمد صاحب مرحوم اور میرے پھوپھا صاحب منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پوری جب تک زندہ رہے جب بھی میں آپ کے پاس جاتی ان کی خیریت دریافت فرمایا کرتیں اور دونوں کے بچوں کی خیریت اور حالات دریافت فرمایا کرتیں.اور دونوں کی اولاد کے متعلق دریافت فرمایا کرتیں.سب احمدی ہیں اور یہ معلوم کر کے کہ سب احمدی ہیں بہت خوش ہوتیں.میرے بڑے لڑکے لطیف الرحمن سلمہ کی جب شادی تھی.میرے حاضر ہونے پر دریافت فرمایا کہ بری کیسی تیار کی ہے.زیور کیا کیا بنایا ہے.میں نے عرض کر دیا.فرمایا.مجھے بھی دکھانا.چنانچہ لے کر گئی.اماں جان نے بکس میں سے ہر ایک چیز ( کپڑ از یور ) کو اپنے دست مبارک سے اٹھا اٹھا کر دیکھا اور پھر خود ہی بکس میں رکھ کر انگشتری اپنی انگلی مبارک میں پہن کر دعا فرمائی.میری درخواست پر شادی پر میرے گھر آنے کا ارادہ بڑی خوشی سے فرمایا.لیکن جس روز رخصتا نہ تھا آپ کو اچانک دہلی سے تار آ جانے پر وہاں جانا ہو گیا.لیکن جاتے ہوئے اپنی خاص خادمہ کے ذریعہ یہ پیغام بھجوا دیا.کہ مجھے دہلی ایک تار کی بناء پر جانا ہو گیا ہے اس لئے میں شادی میں شامل نہیں ہوسکوں گی ہاں میں دعا کر چلی ہوں کہ تم ٹھنڈے ٹھنڈے اپنی بہو کو بیاہ کر گھر لاؤ.حالانکہ اس روز سخت گرمی تھی.لیکن جب ہم بیاہنے چلے تو خوب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنی شروع ہوگئی اور کچھ ترشح بھی ہوا اور تین چار روز تک موسم خوب ٹھنڈا ر ہا.میرے چھوٹے لڑکے لطف الرحمن سلمہ کی شادی فسادات کے بعد لاہور میں ۱۹۴۸ء میں ہوئی.نکاح کے بعد آپ خود ہمارے مکان پر اچانک تشریف لے آئیں اور آکر لطف الرحمن کے والد صاحب کو فر مایا میں مبارکباد دینے آئی ہوں.آپ کو مبارک ہو.انہوں نے عرض کیا اماں جان آپ کو ہی مبارک ہو اور یہ سب مبارکبادیاں آپ کے لئے ہی ہیں.بیٹھنے اور چاء کے لئے درخواست پر فرمایا میں صرف مبارکباد دینے آئی ہوں.لطف الرحمن سلمہ کی دلہن کی انگشتری دعا کے لئے لے کر گئی تو اس کو اپنی انگلی مبارک میں پہن کر دعا فرمائی.پھر شادی کے بعد دلہن کو لے کر گئی تو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور دلہن کو گلے سے
202 لگایا اور خوب پیار کر کے اپنے پاس بٹھا لیا.دعوتِ ولیمہ کے لئے عرض کیا کہ مکان میرا دور ہے.یہاں لنگر خانہ میں آپ کے لئے کھانا تیار کروانے کا انتظام کردوں کیونکہ وہاں سے کھانا آتے آتے ٹھنڈا ہو جائے گا.فرمایا نہیں بیٹی.جو پکے وہی مجھے یہاں بھیج دینا.میں یہاں گرم کروا کر کھالوں گی.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا (چونکہ آپ کی طبیعت خراب تھی جا نہیں سکتی تھیں ).۴۷ حضرت زینب بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت حاجی محمد فاضل فیروز آبادی ایک دفعہ یہ عاجزہ شہر فیروز پور سے قادیان دارالامان آئی تو حضرت اماں جان کو خاص طور پر ملنے کے لئے ان کے دولت خانے پر حاضر ہوئی.جب کہ میرے دل میں بڑی گھبراہٹ تھی اور گرمی کا موسم تھا.اور صبح کا وقت تھا.حضرت اماں جان نے فرمایا.زینب اتنی سویرے آج کیوں آئی ہو.حضرت اماں جان ہمیشہ میرا نام لے کر پکارتی تھیں.جس کی وجہ سے میرے دل میں بڑی خوشی تھی.اور میرے سفر کی ساری تھکاوٹ میرا نام لینے کی وجہ سے اتر جاتی تھی.کہ اب میرا نام محبت سے لینے والا سوائے حضرت اماں جان کے اور کون ہے؟ اور پھر اس عاجزہ کی حیثیت ہی کیا ہے.کہ مجھ نا چیز غریبنی کا حضور نام لے کر پکارتی ہیں.جب انہوں نے پوچھا کہ زینب اتنے سویرے کیوں آئی ہو.تو میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میں نے بیت الدعا میں نفل پڑھنے ہیں اور دعائیں مانگتی ہیں.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ اگرچہ میں نے یہ بیت الدعامیاں محمود ایدہ اللہ کے لئے وقف کی ہوئی ہے.لیکن آج وہ چونکہ پھیر پیچی جارہے ہیں.اور میں بھی اُن کے ساتھ وہاں جارہی ہوں اس لئے تم کو بیت الدعا میں نفل پڑھنے کی اجازت ہے.لیکن اس شرط کے ساتھ اجازت دیتی ہوں.کہ میرا میاں ناصر ولایت گیا ہوا ہے.اس کی کامیابی کے لئے بھی دعا کرنا.اور وہ اعلیٰ ڈگری پاس کر کے آجاوے.آمین.پھر میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں یہ عرض کی کہ حضور کتنے وقت کے لئے مجھے بیت الدعا میں نفل پڑھنے اور دعائیں مانگنے کی اجازت ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا.زینب جتنا وقت تمہارا جی چاہے.اتنی ہی اجازت ہے.اس کے بعد حضرت اماں جان پھیر و هیچی تشریف لے گئیں.اور یہ عاجز ہ حضور کورخصت کرنے کے لئے نیچے چلی گئی.جب میں حضور کو نیچے جا کر رخصت کر کے واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ ایک خادمہ حضرت اماں جان کی بیت الدعا کو تالا لگانے لگی.تو اُس خادمہ کو بیت الدعا کا تالا لگاتے دیکھ کر
203 ایک دوسری خادمہ مسمات سردار نے حضرت اماں جان کی اس بیت الدعا کو تالا لگانے والی خادمہ سے کہا.کہ بیت الدعا کا تالا مت لگاؤ.کیونکہ حضرت اماں جان اس بہن زینب بی بی کو بیت الدعا میں نفل پڑھنے اور دعائیں مانگنے کی اجازت دے گئے ہیں.جو صبح سے بیت الدعا کے باہر اسی غرض کے لئے بیٹھی ہوئی ہے اس لئے اس تالا لگانے والی خادمہ نے بیت الدعا کو تالا لگانا چھوڑ دیا.اور مجھ کو کہا کہ آپ پھر بیت الدعا میں نفل پڑھنے اور دعائیں کرنے کے لئے چلی جائیں.اس کے اس طرح بلانے پر میں بیت الدعا کے اندر جب داخل ہونے لگی اور جو نہی بیت الدعا کے باہر والی سیڑھی پر اپنا قدم رکھا کہ میں بیت الدعا میں داخل ہو جاؤں اُس وقت مجھے سخت رقت طاری ہو گئی.یہ حضرت مسیح موعود کا خاص معجزہ ہے اور حضرت اماں جان پر عاجزہ کی غریب پروری اور شفقت خاص کا نتیجہ ہے.پھر اس عاجزہ نے بیت الدعا کے اندر داخل ہو کر نفل پڑھے اور خوب دل کھول کر دعائیں کیں سلسلہ کی کامیابی کے لئے اپنے لئے اپنے میاں اور بال بچوں کے لئے رشتہ داروں کے لئے اور پھر میاں ناصر احمد کی ولایت سے کامیاب ہو کر آنے کے لئے اور دوسرے بہن بھائیوں سب کے لئے دعائیں کرتی رہی.اور عجیب بات بیت الدعا میں اس عاجزہ نے یہ دیکھی.کہ جتنا عرصہ میں بیت الدعا میں نفل پڑھتی رہی اور دعائیں کرتی رہی.تمام کا تمام عرصہ میری آنکھوں سے برابر آنسو جاری رہے.سبحان اللہ احمد للہ پر اللہ تعالی کا شکر کرتے ہوئے اپنے مکان فضل منزل پر واپس چلی گئی.۴۸ محبت اور عجز وانکسار مکرم ایم اسلم قریشی صاحب کراچی جماعت احمدیہ میں حضرت اماں جان کی جو پوزیشن تھی.وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حرم محترم تو تھیں ہی.لیکن اس کے علاوہ آپ کی وہ شان تھی.کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خدیجہ کہہ کر پکارا.اور اس طرح جماعت کے علاوہ دنیا کو بھی یہ بتایا گیا.کہ اس مقدس عورت کا رتبہ بہت بلند ہے.مگر اس قدر اونچا مقام رکھنے کے باوجود آپ کا سلوک جماعت کے غریب طبقے کے ساتھ ایسا مشفقانہ تھا.کہ آج آپ کی جدائی کو بچہ بچہ محسوس کر رہا ہے.غریب اور امیر کے ساتھ یکساں کرم فرمائی کے ساتھ پیش آنے والا وجود
204 اس دنیا سے ظاہری طور پر تو اُٹھ گیا.لیکن ہمارے قلوب سے نہیں نکلا.ان جذبات کے ہوتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ وہ صرف چند افراد کی جسمانی طور پر ماں تھی.اور قوم کی ماں نہیں تھی.ایک ہی مضمون میں آپ کے اخلاق حسنہ کے مختلف حصوں پر روشنی ڈالنا تو ناممکن ہے اور میرے خیال میں تو کسی ایک اخلاق کو بھی کما حقہ الفاظ میں مقید نہیں کیا جاسکتا.تاہم میں مندرجہ بالا عنوان کے ماتحت کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.میں ۱۹۱۹ء میں قادیان آیا.اور ۱۹۲۰ء میں میری والدہ مرحومہ بھی میرے پاس قادیان آگئیں.میری والدہ محترمہ کے والد یعنی میرے نانا خلیفہ حبیب اللہ ایک بہت بڑے پیر خواجہ احرار غزنوی کے ہندوستان کے لئے خلیفہ تھے.چنانچہ جب میں ۷ سال کی عمر میں احمدی ہوا.تو نا نا صاحب کو بہت شاق گزرا.اور اُنہوں نے مجھے بہت دکھ دیئے.وہ کہا کرتے تھے.کم بخت لوگ تو ہماری بیعت کرتے ہیں.اور تم قادیان والے کے مرید بن گئے.میری والدہ محترمہ نے گو مجھے کچھ نہیں کہا.بلکہ مجھے چھوٹی عمر میں پابند دین دیکھ کر خوش ہوا کرتی تھی.لیکن خود احمدی ہو جانا ان کے لئے ناممکن کے قریب قریب تھا.کیونکہ ان پر اپنے والد کی پوزیشن کا بہت اثر تھا.میرے منت سماجت سے وہ میرے پاس قادیان چلی تو آئیں.مگر مجھ سے وعدہ لیا کہ میں ان سے احمدیت کے متعلق کچھ نہ کہوں.البتہ میں انہیں حضرت اماں جان سے ملتے رہنے کی تلقین کرتا رہا.آہستہ آہستہ حجاب دور ہوا.اور میری والدہ محترمہ حضرت اماں جان سے ملنے لگیں.اور ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے.کہ ایک دن بیعت کر کے آگئیں.اور کہنے لگیں یہاں کی تو دنیا ہی اور ہے.حضرت اماں جان کی شفقت اور محبت کو اس طرح بیان کیا کہ میں خود حیران ہو گیا.میری والدہ کا تجربہ تو یہ تھا.کہ بڑے گھرانے کی عورتیں غریب عورتوں سے بات کرنا بھی تو ہین سمجھتی ہیں.میری والدہ نے یہ حسنِ سلوک دیکھ کر ہی مجھے مجبور کیا کہ ہم اب قادیان میں ہی دکان بنالیں.اور یہیں مستقل طور پر ہجرت کر آئیں.گویا میری والدہ کا احمدی ہونا اور میری ہجرت اسی پاک وجود کی شفقت کا نتیجہ تھی.۱۹۲۱ء میں میری شادی کے لئے میری والدہ نے کوشش شروع کی.حضرت اماں جان نے کئی لڑکیاں دکھا ئیں اور میری والدہ انکار کرتی رہیں.مگر اماں جان ناراض نہیں ہوئیں اور اچھے رشتے کی تلاش جاری رکھی.یہ شفقت میرے جیسے غریب آدمی کے ساتھ تھی.ایک دفعہ مجھے گھر بلا کر بھی
205 رشتے کے متعلق بات چیت کی.آخر آپ کی توجہ اور دعاؤں سے مجھے ایک ایسی بیوی ملی.جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا تھا.جو اب تک خدا کے فضل سے زندہ ہے.اور جس کے وجود کو میں اپنے لئے جنت سمجھتا ہوں.میں نے ۱۹۲۲ء میں محلہ دار الفضل میں ایک چھوٹا سا مکان بنایا.حضرت اماں جان محض ایک غریب کی حوصلہ افزائی کے لئے خود چل کر خاکسار کے مکان تشریف لائیں.اور اس چھوٹے سے کچے مکان کو دیکھ کر اس قدر خوش ہو ہو کر کہنے لگیں.یہ مکان تو بہت ہی اچھا ہے.اور کچا مکان تو زیادہ آرام دہ رہتا ہے.ٹھنڈا رہتا ہے گرمیوں میں.اور گرم رہتا ہے سردیوں میں اور دعا کر کے تشریف لے گئیں.اللہ الہ کس قدر شفقت تھی.کتنی محبت تھی اس پاک وجود کے اندر.کہنے کو تو یہ معمولی واقعات ہیں.مگر ان معمولی واقعات میں ایک بینا انسان کے لئے اخلاق کے ہزاروں سبق ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.۴۹ مکرمہ عائشہ بی بی والدہ بکرم مجید احمد صاحب در ولیش قادیان خدا وند تعالیٰ کی حکمت تھی کہ اپریل ۱۹۲۴ء میں میرے خاوند چوہدری غلام حسن صاحب اور سر چوہدری علی محمد صاحب دونوں پندرہ دن کے اندراندر مولا حقیقی کو جاملے.میرے چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے.صرف ایک لڑکا جوان تھا باقی سب چھوٹے تھے.ایک طرف میرے اور بچوں کے سر پرست فوت ہو گئے.دوسری طرف احمدیت کی وجہ سے سخت مخالفت تھی.سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مددگار نہیں تھا.میں ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۳۴ ء تک اپنے گاؤں شادی وال میں بیٹھی رہی ۱۹۳۴ ء کے شروع میں چوہدری حکم الدین صاحب کے کہنے پر قادیان آگئی.اور اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر بچوں کو ساتھ لے کر قادیان میں آئی اور بمع بچوں کے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے ہاں ملازم ہوگئی.بچے بھی نواب صاحب نے کام پر لگا دیے.ایک سال گزرا ہوگا کہ مجھے سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی بیٹی سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو کہہ کر صرف آٹھ دن کے لئے منگوایا.کیونکہ سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس کوئی خادمہ نہ تھی.اور کہا کہ آٹھ دن کے بعد مائی عائشہ کو بھیج دوں گی.مگر آٹھ دن کیاے اسال ۴ ماه اخیر دم تک مجھے واپس نہیں جانے دیا.اس سوا سترہ سال کے دوران میں سیدہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے بہت کوشش کی کہ مجھے
206 حضرت اماں جان واپس بھیج دیں.مگر سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک نہ مانی اور یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ میں اپنی مائی کو واپس نہیں بھیجوں گی.اب میں سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے احسانات اور حسنِ سلوک کولکھ دیتی ہوں جو آپ نے ایک لمبا عرصہ میرے ساتھ روا ر کھے.میں جب کبھی بھی رخصت لے کر اپنے وطن گجرات جایا کرتی تھی تو کچھ دن گزرنے کے بعد خط پر خط آنے شروع ہو جاتے کہ مائی فوراً آجا.جب میں واپس آتی تو فرماتیں اتنے دن لگا دیئے.“ اور میرے رخصت پر جانے کے بعد جو چیز دوسروں میں تقسیم فرماتیں اس کا میرا حصہ ضرور بالضرور نکال کر رکھ کر لیا کرتیں اور میرے آنے پر ایک ایک چیز گن گنا کر رکھ دیتیں کہ یہ تیرا حصہ ہے.سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرا بہت خیال رکھا کرتی تھیں.بغیر کہے کپڑا پہننے کے لئے دیا کرتیں.اور نہ صرف میرا ہی خیال رکھتیں بلکہ میرے بچوں کا بھی بہت خیال رکھتیں.چنانچہ جب کبھی میری لڑکیاں ملنے کے لئے آیا کرتیں تو مجھ سے بڑھ کر اُن کو وہ کچھ دیا کرتیں جو ماں باپ لڑکیوں کو دیتے ہیں.۵۰ مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب ۱۹۲۹ء کے مئی کا ذکر ہے.خاکسار نے مولوی فاضل کے امتحان کے لئے امرتسر جانا تھا.جانے سے پہلے میں نے چاہا کہ بیت الدعا میں جا کر دعا کرلوں.چنانچہ میں نے مائی کا کو صاحبہ کے ذریعہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں بیت الدعا میں جا کر دعا کرلوں.اس پر مائی کا کو صاحبہ نے آکر کہا کہ حضرت اُم المومنین فرماتی ہیں کہ ۱۸اور ۹ بجے کے درمیان آجانا.چنانچہ خاکسار دوسرے دن مقررہ وقت پر حاضر ہوا.اور جا کر دروازه پر دستک دی تو ایک خادمہ دروازہ پر آئی.تو اس نے پوچھا کون ہو.میں نے جواب دیا کہ میں حضرت اُم المومنین کے ارشاد کے ماتحت بیت الدعا میں دعا کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں.اس پر خادمہ کہنے لگیں کہ ابھی وہاں پر حضرت اُم المومنین نے بعض مہمان عورتوں کو دعوت پر بلایا ہے.اس لئے آپ کل آئیں.میں نے عرض کیا کہ آپ حضرت اُم المومنین سے عرض کر دیں کہ میں آج ہی امتحان کے لئے جا رہا ہوں.اس پر وہ خادمہ چلی گئی اور پھر واپس نہ آئی.آخر میں نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا تو مائی کا کوصاحبہ باہر
207 آئیں.میں نے ان سے ساری بات عرض کی.میری بات سن کر مائی کا کو اندر چلی گئیں اور تھوڑی دیر کے بعد آئیں اور کہنے لگیں کہ حضرت اُم المومنین نے فرمایا کہ ہم نے دعوت کا وقت تبدیل کر کے ساڑھے نو کر دیا ہے.آپ اب دعا کے لئے بیت الدعا میں جاسکتے ہیں.اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے خدام کا کتنا احساس تھا اور بعض دفعہ آپ ان کے مفاد کے لئے اپنے پروگرام کو بھی تبدیل کر دیتی تھیں.اللہ تعالیٰ آپ پر ہزاروں ہزار برکات نازل فرمائے.آمین.۵۱ مکرم عبدالمجید خان صاحب ریاست قلات بلوچستان تحریر کرتے ہیں جب ہم دونوں بھائی شادی کے بعد شاہجہانپور سے اپنی اپنی بیویوں کو قادیان لائے.یہ قریب ۱۹۱۰ء کا واقعہ ہے.تو دوسرے روز دعوتِ ولیمہ کا ہم نے انتظام کیا.علاوہ خاندان کے بہت سے آدمی بھی کھانے میں شریک ہوئے.جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو حضرت اُم المومنین تشریف لائیں اور ولیمہ کا خرچ میری والدہ کو دیا کہ صفیہ کی اماں یہ دعوت ولیمہ میری طرف سے سمجھو.میری والدہ نے عرض کیا کہ خرچ تو ہم کر چکے ہیں آپ کیوں تکلیف کرتی ہیں.مگر آپ نے کہا کہ نہیں اس میں میری خوشی ہے.اور ہم سب کے لئے بہت بہت دعائیں کیں.ان کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت بہت فضل کئے ہیں.ہم پھولے نہیں سماتے.ہم دونوں کی بیویاں ہندوستان کی رسم کے بموجب گھونگٹ کئے سر جھکائے بیٹھی رہتیں.آپ نے یہ گھونگٹ اُٹھوادیا.آپ روزانہ آکر ان کے پاس بیٹھتیں اور خوب میٹھی میٹھی باتیں کرتیں اور بہت خوش ہوا کرتیں.ان ایام میں ہم حضور کے گھر میں ہی رہا کرتے تھے اور بہت سالوں تک رہے.جب پہلی دفعہ میری بیوی ربوہ آپ کو ملنے گئی تو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں.ہمارے خاندان کی ایک ایک خاتون کی خیریت دریافت کی.سب کے لئے دعائیں کرتی جاتیں.اللہ اللہ کیا نیک مزاج خوش خلق تھیں.اے اللہ تو ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما.آمین.ہمارے خاندان پر آپ کے بہت بہت احسان ہیں.جن کو ہم فراموش نہیں کر سکتے.۵۲.مکرمہ آمنہ بیگم اہلیہ کرامت اللہ صاحب کراچی ایک دن کا ذکر ہے کہ باورچی خانہ میں ہی تشریف لے آئیں اور فرمایا میں بیٹھ کر گرم گرم بھلا کا کھاؤں گی.یہاں زیادہ مزہ آئے گا.والدہ محترمہ نے اس خیال سے کہ باورچی خانہ
208 چھوٹا ہے اور جگہ صاف نہیں عرض کیا آپ کمرے میں تشریف لے جائیں میں گرم پھل کا آمنہ کے ہاتھ بھجوا دوں گی.یہاں بچوں کا شور ہے اور باورچی خانہ چھوٹا ہے.فرمایا فکر نہ کرو.جگہ چاہے چھوٹی ہو مگر عزیزوں سے بھری ہوئی ہو تو بابرکت ہے میں تو یہاں بیٹھ کر ہی کھانا کھاؤں گی.میں تو کئی دن یہاں رہوں گی تکلف ٹھیک نہیں.۵۳ مکرم ملک غلام نبی صاحب آف ڈسکہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری بیوی عائشہ بی بی سے بہت ہمدردی اور شفقت مادرانہ سے ہمیشہ پیش آیا کرتی تھیں.اور اپنی بیٹیوں کی طرح خیال رکھتی تھیں.اللہ تعالیٰ ان پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے.آمین.حضرت اماں جان ایک دفعہ کھارا تشریف لائیں.میرے ہی غریب خانہ پر سیدھی قادیان سے تشریف لائیں کھانے کا بندوبست ہونے لگا.تو حضرت اماں جان خود چولہے کے قریب تشریف لے آئیں.اور میری بیوی کو فرمایا کہ عائشہ تم پرے ہٹ جاؤ.میں خود آج پکا کر سب کو کھانا کھلاؤں گی.اللہ اللہ ایسی مہربان شفیق ماں کہ بطور مہمان ہیں اور ہماری قابل احترام ہیں لیکن وہ خود اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر سب کو کھلاتی ہیں.اور آخر میں ایک لمبی دعا فرمائی.اور عصر کے بعد واپس قادیان روانہ ہوگئیں.سارا دن بڑی خوشی سے اپنی خدام عورتوں میں اس طرح گزارا جس طرح ایک مشفق ماں اپنے بچوں میں گزارتی ہے.۵۴ از امتہ الحمید بیگم اہلیہ قاضی محمد رشید آف نوشہرہ ۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے کہ میں اپنے میاں کے پاس فیروز پور جانے والی تھی.اُن دنوں میں اپنے محلہ دار البرکات میں بطور سیکرٹری لجنہ اماءاللہ کے کام کرتی تھی اس لئے حضرت اُمّم طاہر مرحومہ نے فرمایا کہ تم پندرہ دن ٹھہر جاؤ.اور اپنے میاں کو میری طرف سے لکھ دو.چنانچہ میں رک گئی اور حضرت اُمّم طاہر مرحومہ نے ایک الوداعی پارٹی مجھے اپنے گھر میں دی.اُسی دن اتفاق سے مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب کی بڑی ہمشیرہ کا رخصتا نہ تھا اس لئے انہوں نے حضرت اماں جان کو بلایا لیکن حضرت اماں جان نے فرمایا آج تو ہمارے گھر میں پارٹی ہے تو میں کیسے آسکتی ہوں.چنانچہ دعوت میں مجھے حضرت اماں جان کے پہلو میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا.بعد ازاں اس دعوت سے فارغ ہو کر شام کے قریب حضرت اماں جان
209 مولوی ابوالعطا ء صاحب کے ہاں بھی تشریف لے گئیں.۵۵ مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ نیک محمد خان غزنوی صاحب ، جنہیں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے ہی بچپن سے پرورش کیا تھا، بیان کرتی ہیں: جب مہمان عورتیں حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملاقات کے لئے آتیں تو آپ نہایت خوشی ومسرت سے پیش آتیں اور انہیں شرف مصافحہ بخشتیں اور گھر کے حالات دریافت فرماتیں.عورتیں دعا کے لئے عرض کرتیں تو آپ فرماتیں.انشاء اللہ ضرور دعا کروں گی.“ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت رکھی ہوئی تھی کہ جو بات آپ فرماتیں وہ بہت جلد اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو جاتی.بچوں پر شفقت ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی شادی تھی تو حضرت اماں جان نے مجھے تقریبا ایک ماہ پہلے اپنے گھر بلایا ہوا تھا.جیسا کہ ایک حقیقی ماں اپنی بیٹی کو بھائی کی شادی پر بلاتی ہے.میری لڑکی جس کی عمر اس وقت تقریباً تین سال کی تھی اور خوب صحت مند اور بہت باتیں بھی کرتی تھی.اس لئے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بچی کو بہت پیار کرتے اور ہر وقت کوئی میٹھی چیز مثلاً کوئی مٹھائی وغیرہ کھانے کو دیتے.ایک دن میاں صاحب باہر سے آئے تو آتے ہی عزیزہ کولڈ ودیا.اُس وقت حضرت اماں جان تشریف لائیں اور فرمانے لگیں.” ناصر احمد تم بچی کو اتنا میٹھا کھلاتے ہو.گرمی کا موسم ہے یہ میٹھا اس کی آنکھوں سے نکلے گا.خدا کی قدرت کا معجزہ دیکھئے جس وقت حضرت اماں جان نے یہ الفاظ فرمائے تو اُس وقت خوب تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی.اسی وقت ہلکا سا با دل آیا اور تیز بارش ہونے لگی.بچی بارش میں نکلی تو آپ فرمانے لگیں.”لو اب بارش میں پھرنے لگی.اس کے تھوڑی دیر بعد عزیزہ کی آنکھوں میں میل اور سرخی آئی اور آنکھیں با قاعدہ ڈ کھنے لگیں اور سُوج کر کہتا ہو گئیں تین چار دن تک تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ رہی اور آنکھیں بالکل نہ کھلیں.جب میں بچی کو کندھے لگائے پھرتے پھرتے تنگ آگئی.اور چونکہ ہمیں پیاری
210 اماں جان پر بہت ناز تھا اس لئے بچی کو میں نے آپ کی گود میں لٹا دیا اور عرض کی.”اماں جان! جب آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی بات پتھر پر لکیر ہوتی ہے تو آپ میرے لئے ایسی باتیں نہ ارشاد فرمایا کریں بلکہ میرے لئے اچھی اچھی باتیں اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمایا کریں حضرت اُم المومنین نے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا اور بچی کو گود ہی میں لے کر دعا فرمائی یا اللہ ! تو اس بچی کی آنکھوں کو جلد شفا بخش.اور ساتھ ہی آپ دعائیں پڑھ پڑھ کر بچی کے چہرے پر پھونکتی جاتیں اور یہ الفاظ بار بارڈ ہراتی جاتیں.یا اللہ ! تو اپنے فضل سے اس بچی کی آنکھیں محفوظ رکھے.اور مجھے فرمانے لگیں.تم اب اسے ہاتھ نہ لگا نا میں خود اس کا علاج کروں گی“.اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی دعاؤں کی برکت سے بچی کی آنکھوں کو دوسرے دن ہی شفا بخش دی.اس بات کو میں ہی سمجھ سکتی ہوں کہ اُس وقت حضرت اماں جان کس بے چینی اور گھبراہٹ سے بچی کے لئے دعا فرمارہی تھیں اور اس دعا کا میرے دل پر کتنا گہرا اثر ہوا جو کہ کبھی مٹ نہیں سکتا.اسی طرح ایک اور واقعہ ہے.ایک دفعہ میں ایک بچے کی پیدائش سے قبل سخت بیمار تھی.شدت کا بخار تھا اور جسم پر بہت ورم تھی.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اطلاع دی گئی تو آپ اُسی وقت میرے غریب خانے پر تشریف لے آئیں اور مجھے گلے لگا کر نہایت ہمدردی اور شفقت سے پیار کیا.اس وقت آپ کی مبارک آنکھیں پر نم تھیں.آپ فرمانے لگیں.”میں نے تمہیں اس لئے تو نہیں پالا تھا کہ میں تمہارے یتیم پالوں.اچھا اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے صحت دے تا کہ تم اپنے بچوں کی پرورش کر سکو.اور اس کے تھوڑی دیر بعد آپ واپس تشریف لے گئیں.مجھے معلوم ہوا کہ جاتے ہی حضرت اماں جان بیت الدعا میں تشریف لے گئیں اور کافی دیر تک دعا فرماتی رہیں.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا معجزہ دیکھئے اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف کم کر دی اور مجھے لڑ کا عطا فرمایا.جب حضرت اماں جان کو اطلاع کی گئی تو فرمانے لگیں.الحمد لله - ۵۶
211 مکرم سید عبدالقادر صاحب کراچی مہمان نوازی ۱۹۲۹ء یا ۱۹۳۰ء میں میری والدہ مرحومہ (اہلیہ سید عبدالقیوم صاحب مدظلہ) پہلی بار قادیان تشریف لے گئیں تھیں.دارالامان پہنچتے ہی آرام کئے بغیر سیدھی حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں جا حاضر ہوئیں لباس بھی تبدیل نہیں کیا تھا اس میلی کچیلی حالت میں بوجہ شوق زیارت چلی گئیں.حضرت اُم المومنین اس وقت پلنگ پر تشریف فرما تھیں اور اردگر دمستورات کا کافی جمگھٹا تھا.والدہ صاحبہ مرحومہ نے جذبہ محبت سے مجبور ہوکر آگے بڑھنا چاہا.لیکن چند عورتوں نے آگے جانے سے روک دیا.مجبوراً والدہ صاحبہ مرحومہ نے دور سے ہی بلند آواز سے سلام عرض کیا تو حضرت اُم المومنین نے نہایت شفقت کے ساتھ فرمایا.و علیکم السلام.آئیے آئیے میرے پاس تشریف لائیے.“ والدہ صاحبہ قریب پہنچیں تو آپ نے اٹھ کر مصافحہ فرمایا اور خیریت دریافت کرنے کے بعد اپنے پاس پلنگ پر بٹھایا.پھر فرمایا پیاس تو ضرور ہوگی اور معا اٹھ کر خود ہی صراحی میں سے ٹھنڈے پانی کا گلاس بھر کر اپنے دست مبارک سے عطا فرمایا.پھر پوچھا کہ آپ کو پان کا شوق ہے؟ اثبات میں جواب ملنے پر پان بھی اپنے مقدس ہاتھوں سے عنایت فرمایا.تھوڑی دیر کے بعد پوچھا آپ کہاں سے تشریف لائی ہیں.والدہ صاحبہ نے عرض کیا ہوشیار پور سے تو آپ بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمایا کہ ہوشیار پور کو بھی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی سے خاص تعلق ہے.جب والدہ صاحبہ نے اپنے والد ماجد الحاج مولانا شاہ غلام محمد صاحب مرحوم فاضل ہوشیار پوری ) کا نام بتایا اور اس مکان کا تذکرہ کیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کیا تھا.اور شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور سے اپنے خاندان کے قدیمی تعلقات کا ذکر کیا تو حضرت اُم المومنین بے حد خوش ہوئیں بعد ازاں آپ نے ہوشیار پور کے مشہور تاریخی واقعات اور وہاں کے تعلیمی، تمدنی، معاشرتی ، مذہبی اور تجارتی و زرعی حالات دریافت فرمائے اور بازار کے نرخ بھی پوچھے.۵۷
212 حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال میں سب سے پہلے جون ۱۸۹۸ء میں قادیان آیا.میں بچہ تھا.اور قصور ضلع لاہور کے ڈسٹرکٹ بورڈسکول میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا.اس زمانہ میں حضرت اماں جان مہمان نوازی میں خاص طور پر حصہ لیتیں.مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھاتے تھے.جب کھانا کھا چکے.تو ایک شخص آیا اور اس نے آواز دی.کہ کسی مہمان کو کوئی خاص ضرورت ہو.یا کھانے کے متعلق کوئی خاص عادت ہو.تو بتا دے.میں نے بے تکلفی سے کہہ دیا کہ مجھے کسی کی عادت ہے.تھوڑی دیر میں دہی کی میٹھی لسی لائی گئی.اور میں نے پی اور بعض دوسرے دوستوں نے بھی پی.غالباً بعض دوسرے دوست حسب عادت چائے یا پان منگواتے تھے.مہمانوں کے آرام کے خیال کی یہ ایک اچھی مثال ہے.کہ کسی مہمان کو کسی خاص عادت کی وجہ سے تکلیف نہ ہو.اور اس سے دریافت کر لیا جائے.بچوں سے یکساں محبت اور احسان کا سلوک فرماتیں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمام بچوں سے یکساں محبت اور احسان کا سلوک کرتیں خواہ ان سے یا ان کے والدین سے ذاتی طور پر واقف ہوں یا نہ ہوں.میں ایک دہقانی لڑکا تھا.اور حالات کے ماتحت مجھے اچھی طرح یقین ہے.کہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے والدین سے روشناس نہ تھیں.تاہم کئی دفعہ ایسا واقعہ ہوا.کہ جب ہم دار مسیح کے پاس کہیں بیٹھے ہوں.تو اندر سے کوئی خادم کھانے کی چیز لے آتا تھا.یہ تعلق اور خوشی کے اظہار کے لئے ہوتا تھا.چنانچہ مجھے اچھی طرح یاد ہے.میں اور ایک دوسرا طالب علم مسجد مبارک کی دوسری منزل پر بیٹھے ہوئے تھے.ایک خادمہ پان لائی.اور کہا کہ اماں جان نے بھیجے ہیں.اور ہم نے کھائے.یہ پہلا پان تھا.جو میں نے کھایا.یہ غالباً ۱۹۰۲ یا ۱۹۰۳ کا واقعہ ہے.اس زمانہ میں لا ہور میں شاذ شاذ دوکانیں پانوں کی کھل گئی تھیں.لیکن گاؤں کے لوگ بالکل پان نہیں کھاتے تھے.اسی طرح مجھے ایک دفعہ رائتہ بھجوایا.حالانکہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے بالکل نہیں جانتی تھیں.کہ میں کون ہوں اور کہاں کا رہنے والا ہوں.غالبا مجھے سکول میں بچوں کے ساتھ یا مسجد میں دیکھا ہوگا.اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کی دلداری کا کون خیال رکھتا ہے.بعد میں میں جب
213 مضبوط ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سفر اور حضر میں خدمت کی سعادت بخشی.تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے اچھی طرح پہچان گئی تھیں.۵۸ مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ بنت حضرت عبد الرحمن صاحب قادیانی حضرت سیدۃ النساء کی مہربانیاں یہاں تک بڑھی ہوئی تھیں کہ بیان کر ناممکن نہیں.۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے.میرے شوہر محترم مرزا صاحب اپنی ملازمت سے رخصت پر قادیان تشریف لائے.حضرت سیدۃ النساء کو بہت خوش ہوئی.ایک دن اپنی خاص نگرانی میں کھانا تیار کرا کر حضور نے بطور ضیافت کے بھجوایا.ہم گھر کے دو ڈھائی افراد تھے لیکن حضرت ممدومہ نے مختلف قسم کے لذیذ دار عمدہ کھانے اتنی مقدار میں بھجوائے کہ دس افراد کے لئے کافی تھے.چنانچہ اس ضیافت سے میرے میکہ والوں نے بھی برکت حاصل کی.۵۹ از حضرت زینب بی بی صاحبہ شروع شروع میں جب کہ ابھی ہمارا اپنا مکان قادیان دار الاماں میں تیار نہیں ہوا تھا.شہر فیروز پور کی میونسپل کمیٹی میں سب اور سیری کی ملازمت تھی.ملازمت سے رخصت لے کر قادیان دار الاماں میں رخصت گزارنے کے لئے آئے ہوئے تھے.اُن دنوں یہاں مکانات کی بڑی قلت تھی.اس لئے حضرت اماں جان نے ہمیں میاں امام الدین صاحب عرف ماٹا کی گلی میں پختہ حویلی مرزا نظام الدین صاحب کے مکان کے دائیں طرف اپنا کچا مکان رہنے کیلئے دیا حضرت اماں جان کی یہ بڑی نیک عادت تھی.کہ جو مہمان قادیان دارالاماں میں باہر سے آتے تھے.ان کا خاص خیال رکھتے تھے.اس لئے ایک دن حضرت اُم المومنین ہمارا حال دریافت کرنے کے لئے ہمارے مکان میں آئیں.اور حال دریافت فرمایا.میری ان کے ساتھ اتنی بے تکلفی تھی.کہ حضور ہمیشہ میرا نام لے کر مجھے بلایا کرتی تھیں.فرمایا زینب تم کیا کر رہی ہو.میں نے عرض کیا کہ میں اپنے بچوں کے کپڑے دھور ہی ہوں.اس وقت محمد اعظم ابھی بچہ تھا.اور وہ رور ہا تھا.مجھے کپڑے دھونے کی حالت میں دیکھ کر فرمایا.کہ باہر کے لوگ بڑے کفایت شعار ہوتے ہیں.جو خود اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کا سارا کام کاج کرتے ہیں.اس لئے مجھے کام کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں.پھر حضور نے فرمایا.کہ زینب تم کو اس مسافری میں کوئی تکلیف تو نہیں ہے.میں نے عرض کیا کہ
214 اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں آپ بزرگوں کی دعاؤں کے طفیل آپ کے سائے میں رہنے کا موقع ملا ہے.اسی وجہ سے ہم قادیان دارالامان میں آکر اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے ہیں اور آپ کی اور حضرت مولوی صاحب (خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ) کی دعائیں لیتے ہیں.میری یہ بات سن کر حضرت اُم المومنین بہت خوش ہوئیں اور تشریف لے گئیں.۲۰ ایک دفعہ کا ذکر ہے.کہ میں قادیان دارالامان گئی اور حضرت اُم المومنین کے دار امسیح پر جاکر حضور کے پاس بیٹھ گئی.اتنے میں ان کے ہاں میاں ناصر آگئے.اور میں اپنے گھر جانے کے واسطے اُٹھنے لگی.ان دنوں ہمارا مکان دار الفضل یعنی فضل منزل قادیان میں بنا ہوا تھا.لیکن مجھے حضرت اُم المومنین نے اٹھنے نہ دیا.اور فرمایا کہ زینب بیٹھی رہو.پھر حضرت اماں جان نے میاں ناصر صاحب کیلئے گرم گرم پکوڑے بازار سے منگوائے.ان پکوڑوں میں سے مجھے بھی کافی پکوڑے اپنا مہمان سمجھ کر دیئے.کچھ پکوڑے تو میں نے وہاں ہی بیٹھ کر کھالئے.اور کچھ پکوڑے اپنے ساتھ حضرت اماں جان کے تبرک کے طور پر اپنے بچوں کے لئے رکھ لئے.ازاں بعد حضرت اماں جان سے اجازت لے کر اپنے گھر فضل منزل میں واپس آگئی.11 ایک دفعہ میں قادیان دارالامان میں حضرت اماں جان کی حضور کے مکان پر ملاقات کرنے گئی.جب میں حضور کے گھر پہنچی.تو حضرت اماں جان اپنے باورچی خانے میں کڑھی پکار ہے تھے اور اُس کڑھی میں انہوں نے خوب پکوڑے ڈالے ہوئے تھے.اس وقت میری پیاری والدہ صاحبہ بھی میرے ہمراہ تھیں.حضرت اماں جان نے ہماری مہمان نوازی کو مدنظر رکھتے ہوئے دو سچی چینی کی پلیٹوں میں اپنے دست مبارک سے پکائی ہوئی کڑھی ڈال دی.اور ساتھ دو چپاتیاں ایک سینی میں رکھ کر ہم دونوں کے آگے وہ سینی رکھ دی.ہم نے کہا کہ حضور نے یہ کیوں تکلیف کی.تو آپ نے فرمایا کہ یہ تکلیف کی کونسی بات ہے.اس وقت آپ دونوں ہماری مہمان ہیں.مہمانوں کی کچھ تواضع کرنی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.پھر ہم دونوں نے تھوڑا تھوڑا اُس میں سے کھایا.تو حضرت اماں جان نے ہمارے او پر جرح کی اور فرمایا.کہ میں تو ساری پلیٹ کھا لیتی ہوں اور پھر کھونڈ پکڑ کر سیر کرنے کے لئے چلی جاتی ہوں.اور تم نے جوان ہو کر بہت تھوڑا کھایا ہے.لیکن میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میں نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا تھا.تب میں نے اتنا بھی کھا لیا.ورنہ میں تو حضور اتنا بھی نہ کھا سکتی.کیوں میں بہت
215 ہی کم کھانے والی عورت ہوں.اس کے جواب میں حضرت اماں جان نے فرمایا.کہ تم اپنے معدے کا علاج کرو.اور تم بھی روزانہ سیر کیا کرو.جس طرح میں سیر کرنے چلی جاتی ہوں.اُس کے بعد ہم دونوں حضرت اماں جان سے رخصت لے کر اپنے گھر فضل منزل میں آگئیں.۱۲ خوشی سے تحائف عطا کرنا اور قبول فرمانا مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی آپ کھانے پینے کی اشیاء میں بہت سادگی پسند تھیں.ہر حلال و طیب چیز کو رغبت سے استعمال فرماتی تھیں بالخصوص اگر کوئی چیز اخلاص و محبت سے پیش کرے تو اس کو بخوشی قبول فرماتیں اور دینے والے کی دلجوئی کا باعث بنتی تھیں یہاں تک کہ دیہاتی عورتیں جو معمولی قسم کی موٹی جھوٹی چیزیں دیہاتی چرخہ پر تیار کر کے لاتی تھیں اُن کو بھی بخوشی قبول کر کے اُن کیلئے باعث خوشی ومسرت ہوتی تھیں.۶۳ مکرم شیخ عبد الحکیم صاحب احمدی یہ عاجز جب کبھی رخصت پر قادیان جاتا.تو میرا معمول تھا.کہ دہلی سے کچھ پان لے کر جاتا جو آپ از راه شفقت خوشی سے قبول فرماتیں اور فرماتیں یہ دہلی کا تحفہ ہے جو میرا میکہ ہے اور اکثر دروازه تک تشریف لاتیں اور جماعت کے تمام خاندانوں کے حال دریافت فرماتیں.اور دریافت فرماتیں کتنی رخصت لے کر آئے ہو.یہاں ہی قیام رہے گا.یا کسی اور طرف بھی جانا ہے.پھر فرما تھیں.اس رخصت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دین سیکھیں.کیا ہی ذرہ نوازی تھی اور ہر لمحہ ہماری تربیت کی فکر تھی.یہ شفقت مادری جو میرے لئے جو کہ بوجہ احمدیت اپنے خاندان سے کٹ چکا تھا.ایک ایسی ڈھارس تھی.جسے میں بیان نہیں کر سکتا اور اب میں آپ کی رحلت سے اپنے آپ کو صحیح رنگ میں یتیم پاتا ہوں -۶۴ حضرت زینب بی بی صاحبہ جب میں پہلی دفعہ لاہور سے حضرت اماں جان گور بوہ میں آکر ملی تو میں نے کچھ چاول باسمتی اعلیٰ درجہ کے بطور تحفہ قبول کئے کیونکہ میں ایک بزرگ ہستی کو خالی ہاتھ ملنا پسند نہ کرتی تھی.اس وقت ہماری مالی حالت ایسی تھی کہ میرے پاس اور کوئی چیز نہ تھی.صرف یہی چاول تھے جو مجھے کسی نے
216 تحفہ دیئے ہوئے تھے.وہی میں حضرت اماں جان کے لئے لے گئی.حضرت اماں جان چاولوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور خادمہ کو فرمایا کہ آج زینب کے ان چاولوں کا پلاؤ پکانا.حالانکہ آپ بادشاہ تھیں.آپ کو چاولوں کی کیا پر واہ تھی لیکن اس عاجزہ کی خوشنودی کی خاطر اس کو معمولی تحفہ نہ سمجھا اور خادمہ کو پکانے کا حکم دے دیا جس سے میرا دل بہت خوش ہوا.۶۵ اہلیہ حضرت منشی تنظیم الرحمن صاحب میں گھر میں جب کوئی نئی چیز پکاتی تو اماں جان کی خدمت میں ضرور لے کر حاضر ہوتی.اماں جان دیکھ کر بہت ہی خوشی کا اظہار فرماتیں اور فرماتیں کہ میرا دل اسی کو چاہتا تھا.جب آپ یہ فرما تھیں کہ میرا دل بھی اسی کو چاہتا تھا تو میں خوش کے مارے پھولے نہ سماتی.دراصل میری حوصلہ افزائی اور شکران نعمت کی تعلیم دنیا غرض ہوتی تھی.ورنہ ان کو کسی چیز کی کیا کمی تھی.14 از اہلیہ صاحبہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اس ناچیز کو حضرت اُم المومنین ، اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قدموں میں تمھیں بتیس سال رہنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.اس عرصہ میں حضرت اماں جان نے جو جو اس ناچیز کے ساتھ شفقت اور محبت اور مہربانیاں فرمائیں میری زبان میں طاقت نہیں کہ بیان کرسکوں چند ایک ان میں سے بیان کرتی ہوں.جب میں 1919ء میں پٹیالہ سے آئی ہوں تو مجھے بوجہ حضرت اماں جان کے اعزاز کے بہت ہی شرم آتی تھی.میں خیال کرتی تھی کہ اتنی بڑی ہستی کے پاس میں ناچیز کس طرح بیٹھوں.لیکن حضرت اُم المومنین نے خود ہی بلا لیتیں اور فرما تھیں لڑکی کہاں بھاگی جا رہی ہو آؤ بیٹھ جاؤ.پھر بہت ہی محبت کے ساتھ باتیں کرتیں اس طرح مجھے جو حجاب تھا وہ کم ہو گیا اور مجھے حضرت اماں جان کی محبت اور چہرہ مبارک کو دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگا کہ ساری دنیا کی محبت اس مبارک وجود میں بھری ہوئی ہے.ہر روز کسی نہ کسی رنگ میں اس ناچیز کے ساتھ محبت کا اظہار فرما تیں رہتیں.جب کبھی اپنے باغ میں تشریف لے جاتیں اور آم اور جامن لا تیں تو مجھے بھی ضرور بھیجتیں اور فرماتیں یہ ہمارے ڈاکٹر بھی ہیں اور ہمسایہ بھی ہیں.جب کہیں تشریف لے جاتیں تو میرے لئے اور بچوں کے لئے تحفے ضرور لاتیں.۲۷
217 حضرت زینب بی بی صاحبہ اہلیہ حاجی محمد فاضل فیروز آبادی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں فیروز پور شہر سے قادیان آئی تو حضرت اماں جان کے لئے ایک تولیہ بسترے والا خود اپنے ہاتھ سے کات کر بنایا ہوا ساتھ لائی.جس کے خوب سرخ ڈورے تھے اور کنی ڈالی ہوئی تھی.وہ تولیہ حضرت اماں جان کی خدمت میں پیش کیا.حضرت اماں جان اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور تولیہ کی بہت تعریف کی اور اپنی خادمہ کو فر مایا کہ یہ تولیہ ابھی میرے بستر پر بچھا دو، مجھے دیسی کپڑا بڑا اچھا لگتا ہے.میرا دل بہت ہی خوش ہوا کہ حضور اتنے بادشاہ ہیں اور ایک ادنی تحفہ بھی کسی غریب کو خوش رکھنے کے لئے قبول فرمایا.۲۸ ایک دفعہ کا ذکر ہے.کہ میں فیروز پور شہر سے قادیان دار الا ماں آئی.تو میں دارالمسیح میں جا کر حضرت اُم المومنین کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئی.تو وہاں میں نے حضرت اماں جان کی پاک صحبت میں کچھ عرصہ گزارانے کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا.حضور دعا فرما دیں کہ ہم کو اللہ تعالیٰ اپنے گھر فیروز پور میں بھینس رکھنے کی توفیق عطا فرمادے.تو حضرت ماں جان نے اس وقت ہاتھ مبارک اٹھا کر ہمارے لئے دعا فرمائی.حضور کے دعا کرنے کے بعد میں نے اپنے دل میں پختہ ارادہ کر لیا.کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھینس دے گا.تو میں انشاءاللہ نذرانہ کے طور پر اس بھینس کا خالص گھی حضرت اماں جان کی خدمت میں پیش کروں گی.گومولی کریم نے حضرت اماں جان کو اپنے فضل سے بہتیر ارزق دیا ہوا ہے.مگر وہ خالص گھر کا گھی بہت پسند کرتی ہیں.دو تین ماہ کے بعد جب جلسہ سالانہ آیا.اللہ تعالیٰ کی قدرت پر میں قربان جاؤں کہ جلسہ سے کچھ عرصہ پہلے ہم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی دعاؤں کے طفیل بھینس رکھنے کی توفیق دے دی.تو میں اپنے ساتھ جلسہ سالانہ پر آئی.تو فیروز پور سے وہ گھی والی نذر پوری کرنے کے لئے اپنے گھر کا گھی حضرت ماں جان کی خاطر ہمراہ لائی.اور قادیان دارالاماں آکر ایک سینی میں رکھ کر حضور کے مکان پر حاضر ہو کر ان کی خدمت میں پیش کیا.حضرت اماں جان کو تو خدا کے فضل سے اپنے گھر میں کسی چیز کی پرواہ نہ تھی.مگر اس عاجزہ کی خواہش کو منظور فرماتے ہوئے بڑے زور سے اونچی آواز میں جزاکم اللہ احسن الجز ا محبت سے کہا.اور پھر فرمایا.کہ میری پیاری زینب تم نے یہ کیوں تکلیف کی.پھر اپنی خادمہ کو حکم دیا کہ زینب خالص گھی اپنے گھر سے لائی ہے.اس کو علیحدہ رکھنا.پھر نا چیز تحفے کو حضرت اماں جان کی خدمت میں پیش کر کے میں نے
218 اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کیا.کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجزہ کی مانی ہوئی نذر پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی.جس سے میں سرخرو ہو گئی.اس کے بعد میں حضرت اماں جان سے رخصت لے کر واپس اپنے مکان فضل منزل پر آگئی.گو یہ نذرانہ حقیر تھا.اور حضرت اماں جان کی شان کے مطابق نہ تھا.جس کو حضور نے منظور کیا.کہ میرا دل شکستہ نہ ہو.۱۹ مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب حضرت اماں جان تحفے تحائف بھی بہت دیتی تھیں.آپ ڈلہوزی تشریف لے گئیں.آپ کی واپسی پر آپ کی خادمہ عائشہ ہمارے گھر آئیں.اُن دنوں حضرت اماں جان نے ایک دو پٹہ مجھے کاڑھنے کے لئے دیا ہوا تھا.میں نے مائی عائشہ صاحبہ کو آتے دیکھا تو خیال آیا کہ دو پٹہ لینے کے لئے آئی ہیں.اور چونکہ مصروفیت کی بناء پر میں نے وہ دو پٹہ ختم نہیں کیا ہوا تھا.اس لئے دل میں ندامت ہوئی کہ جواب دینا پڑے گا کہ ابھی مکمل نہیں ہوا.مگر وہ میرے پاس آئیں اور اپنی جھولی میں سے ایک نہایت خوبصورت چھپا ہوا دوپٹہ جس پر چنٹ پڑی اور خوشبو لگی ہوئی تھی.نکال کر مجھے دیا کہ اماں جان ڈلہوزی سے تمہارے لئے تحفہ لائی ہیں.میرے اس وقت کے جذبات احاطہ تحریر میں نہیں آسکتے.احساس ندامت کی بجائے خوشی کی لہر تمام جسم میں دوڑ گئی اور اس عنایت وذرہ نوازی سے اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا.الحمد اللہ.۷۰ محترمہ آمنہ بیگم اہلیہ کرامت اللہ صاحب حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا جہاں تشریف لے جاتیں تحائف خرید تیں.آپ کو خریدنے کا بہت شوق تھا.باوجود اس کے گورداسپور ایک چھوٹا سا شہر تھا.وہاں سے بھی مختلف اقسام کے تحائف خرید فرماتیں.ایک دقعہ جب تشریف لائیں تو عاجزہ کے واسطے ایک پھولدار دو پٹہ اور خوبصورت رو مال اور اگر بتی کا ایک پیکٹ بطور تحفہ لائیں اور اکثر قادیان سے سفید شکر یا کوئی چیز تحفہ بھجوادیا کرتی تھیں ۱۹۲۴ء میرے والد صاحب کا تبادلہ حصار ہو گیا.اور ہم دوری کے باعث حضرت اماں جان کی عنایات سے محروم ہو گئے.ہم جب ان سے ملنے قادیان گئے تو فرمایا آمنہ ! اب تم دور جا رہی ہو.تیرے بلانے پر میں گورداسپور چلی جاتی تھی.جا تجھے اللہ تعالیٰ خوش رکھے اور نیک نصیب کرے.اماں جان کی اس دعا کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ نے نے آج مجھے اس قدر فضلوں کا وارث بنایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا اور حضرت اماں جان کا پورے طور پر شکر یہ نہیں ادا
219 کر سکتی.میری جب شادی ہوئی.تو میرے شوہر چوہدری کرامت علی صاحب طالب علم.اثناء میں حضرت اماں جان دہلی تشریف لائیں.اور ایک دور وز میرے سسرال میں قیام فرمایا اور فرمایا محض تیری وجہ سے یہاں ٹھہری ہوں تو مجھے بچپن سے عزیز ہے.مائی کا کونے مجھے بتایا ( وہ اماں جان کے ہمراہ دہلی آئی تھیں ) کہ آمنہ اماں جان تیرے لئے بڑی فکرمند ہیں کیونکہ ایک دن میں نے شام کی نماز کے وقت یہ کہتے سنا کہ اے اللہ تو آمنہ پر رحم کر دے تو خوش ہو جا یہ الفاظ ان کے منہ سے بڑے درد سے نکلے تھے تیرے حق میں دعا قبول ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا.میرے میاں نے تعلیم چھوڑ رکھی تھی.دوبارہ کالج میں داخل ہوئے اور تعلیم مکمل کی حضرت اماں جان کی دردمندانہ دعاؤں کی بدولت جس قدر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل کئے میں گنوا نہیں سکتی.اے مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب ۱۹۳۶ء میں جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو ایک بوسکی کا تکیے کا غلاف کاڑھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا.اس کے ایک طرف ایک سینری اور دوسری طرف ناٹ سیچ (Knot Stitch) کی سلی تھی.آپ نے از راہ کرم اُسے بہت پسند فرمایا اور وہ مقدس لب تا دیر میرے اور میرے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے دعا کرتے رہے.اور یہ غلاف آپ کو اس قدر پسند آیا کہ بعد میں بھی آپ نے کئی مرتبہ اس کی تعریف کی اور وہ کافی دیر تک آپ کے استعمال میں رہا.قادیان میں ہمارے گھر میں موتیا اور چنبیلی کے اچھی قسم کے پودے تھے.میری والدہ صاحبہ با قاعدہ اہتمام سے پھول چن کر اور بڑے بڑے ہار بنا کر حضرت اماں جان کو بھیجتیں اور پھولوں کے موسم میں یہ کام اس قدر شوق اور باقاعدگی سے کرتیں کہ شاید ہی کسی دن ناغہ ہوتا.اکثر دفعہ میں یا والدہ صاحبہ خود حاضر خدمت ہو کر اپنے ہاتھوں سے وہ ہارا ماں جان کے گلے میں ڈالتیں.آپ از راہ شفقت اپنا سر آگے بڑھا دیتیں.تاہم ہار آسانی سے ڈال سکیں.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہم نے صبح کے وقت کے بھیجے ہوئے ہار شام کو جا کر آپ کی گردن سے اتارے اور تازہ ہار پہنا دیئے اور اُتارے ہوئے ہار اپنے پاس رکھ لئے آپ بہت دعائیں دیتیں اور متعدد مرتبہ والدہ صاحبہ کو فرمایا.بیٹی ! میں تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے بہت دعا کرتی ہوں.۷۲
220 مکرمہ عزیز بخت صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ایک دفعہ میری ہمشیرہ صاحبہ ایک کھیں گاؤں سے خاص طور پر بنوا کر لائیں.وہ چار خانوں والا تھا.میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے قبول فرمایا اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کو بھجوادیا.بعد میں ایک دن مجھے فرمایا کہ وہ کھیں میں نے امتہ الحفیظ کو بھجوا دیا تھا.بہت عمدہ تھا اور مجھے بہت پسند تھا.ایک دفعہ میں نے تین کھیس پیش خدمت کئے.آپ نے میرے سامنے اپنے کمرہ میں پچھوا دیئے.اور خوشی کا اظہار فرمایا.اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی نسل پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش قیامت تک فرما تار ہے.اور آپ کے درجات کو ہر آن بلند کرے.۷۳ جود وسخا تاثرات مکرم عبدالمجید خان صاحب ریاست قلات بلوچستان ایک دفعہ میں نیچے کھڑا تھا.چھت پر سے ایک روپیہ پھینکا کہ یہ بہشتی کو دے آؤ نیچے پکا فرش تھا.وہ روپیہ اُچھل کر میری کوٹ کی جیب میں اس طرح گرا کہ مجھ کو بالکل علم نہ ہوا.میں نے اور میری والدہ نے بہت تلاش کیا مگر نہ ملا.آپ اوپر سے دیکھ رہی تھیں جھٹ دوسرا پھینکا کہ یہ دے آؤ.میں نے وہ اپنی جیب میں ڈال لیا.اور باہر جانے لگا.جب میں نے ہاتھ ڈالا.تو دیکھا کہ پہلا روپیہ بھی موجود ہے میں نے عرض کیا کہ حضور پہلا روپیہ شاید ابھر کر میری جیب میں آگرا ہے فرمایا.چلو دونوں ہی دے دو.غربا پروری اور رحم ہو تو ایسا ہو.پھل مٹھائیاں اکثر میری والدہ کو دیتیں کہ یہ اپنے بچوں کے لئے لے جاؤ اور ہمیشہ ہمارا ہر طرح کا خیال رکھتیں.حضرت ام المومنین کے فوت ہونے سے چند روز پیشتر میری بیوی نے خواب دیکھا صبح نماز کا وقت تھا.۴ کے حضرت مولوی محمد جی صاحب حضرت اماں جان کے حلم وجود و کرم کا یہ حال تھا کہ سلسلہ کے دشمنوں کی مستورات کی امداد فر مایا کرتیں تھیں.بعض لوگوں نے ان سے ہاتھ کھینچنے کی درخواست کی مگر آپ نے ایسا نہ کیا.ان مستورات کے بچوں کو خدا تعالیٰ نے احمدیت میں داخل کیا.۷۵
221 مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب عزیزہ امتہ الحفیظ سلمہا اللہ کے بیاہ پر اپنے ہاتھوں سے بچے سفید موتیوں کا بہت سی لڑیوں والا ہار پر وکرلائیں اور ساتھ ایک ریشمی جوڑا بھی.مہندی کے دن صبح کے وقت گھر پر تشریف لا کر اپنے ہاتھ سے تھوڑی تھوڑی مہندی گوندھ کر حفیظ سلمہا اللہ کو لگائی اور اپنے دست مبارک پر بھی لگائی.فرمایا شاید میں شام کو نہ آسکوں.اسی طرح میرے چھوٹے بھائیوں عزیز عبد المنان سلمہ اللہ وعبد السلام سلمہ اللہ کے بیاہوں پر بھی شرکت فرمائی.دونوں بھائیوں کا بیاہ میری چچا زاد دو بہنوں کے ساتھ ہوا تھا.اس لئے کپڑے تیار کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ایک جیسی چیزیں تیار ہوں.حضرت اماں جان کو دلہنوں کے کپڑے دکھاتے ہوئے بتایا کہ بازار سے سُرخ رومال صرف ایک ملا ہے.یہ سُنتے ہی حضرت اماں جان نے مسکراتے ہوئے بالکل ویسا ہی سرخ رومال اپنے برقعے کی جیب سے نکال کر عطا فرمایا جسے دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی.ایک تو ضرورت پوری ہوئی اور دوسرے تبرک ملا.پھر گھر جا کر دائی عائشہ کے ہاتھ پچاس روپے تحفہ شادی اور ایک ازار بند بھیجا.ساتھ دستِ مبارک کی لکھی ہوئی ایک تحریر بھی اور کچھ برتن جو میں نے بیاہ کے موقع پر استعمال کرنے کے لئے آپ سے مانگے تھے.امتہ الشافی سلمہا اللہ کی شادی پر آپ صبح ہی تشریف لے آئیں.سارا دن ہمارے گھر میں قیام فرمایا اور نہایت سادگی سے ہمارے باورچی خانہ میں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا.میں درخواست کرتی رہی ” اماں جان! میں کھانا کمرے میں لاتی ہوں.“ فرمایا.”نہیں ، میں یہیں بیٹھ کر کھانا کھاؤں گی.‘ہے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب قادیان کی...ڈھاب کے مشرقی پل اور میرے مکان کے درمیان اور کوئی مکان نہ تھا.ہمیں خدمت کا کوئی موقع ملے.ہمارے لئے نہایت خوشی اور فخر کا موجب تھا.لیکن حضور رضی اللہ عنہا باریک بین اور حساس طبیعت رکھتے ہوئے هل جزاء الاحسان الا الاحسان کا خاص خیال رکھتی تھیں.میری بیوی حاجرہ مرحومہ قرآن شریف کی عالم تھیں.صرف ناظرہ ہی نہیں.بلکہ ترجمہ اور تفسیر بھی کم از کم مجھ سے زیادہ جانتی تھیں.اس لئے ان کو نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور سیدہ امتہ السلام صاحبہ کو ناظرہ قرآن شریف پڑھانے کی خدمت کا موقع ملا.گھر پر آکر اور بچیوں
222 کے ساتھ پڑھتی تھیں.ہم نے کبھی کسی سے نہ پہلے اور نہ پیچھے کبھی معاوضہ لیا.نہ ہمیں خیال تھا.لیکن جب ان دونوں بچیوں نے قرآن شریف ختم کیا.تو مجھے سخت حیرت ہوئی کہ حضرت اماں جان نے میری بیوی ہاجرہ مرحومہ کو ایک سونے کا ہار عنایت فرمایا.میں نے جب ہار دیکھا.اس وقت میرا اندازہ قیمت کوئی اڑھائی تین سو روپے کا تھا.ہمیں جس قدر حیرت ہوئی اس سے بڑھ کر خوشی ہوئی.کیونکہ ہم نے اسی نوازش کو تبرک اور خاص امتیازی نشان کے طور پر سمجھ کر قبول کیا.(کوئی) اور صاحب اگر دیتے تو ہم ہرگز قبول نہ کرتے.اور لوگوں پر یہ امر اس قدر معلوم اور معروف تھا.کہ کبھی کسی نے معاوضہ پیش کرنے کی جرات نہیں کی.واجر الله خير لنا من الدنيا ومافيها.جب میں دوسری دفعہ ولایت سے واپس آیا.تو میں باغ والے مکان میں چلا گیا.اس مکان کی رہائش کے زمانہ میں مجھے معلوم ہوا.کہ حضرت اماں جان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کس قدر محبت اور عقیدت تھی.آپ قریباً ہر روز صبح مزار اطہر پر تشریف لاکر دعا فرمایا کرتی تھیں.اور دعا کے بعد ا کثر ہم خادمان کے پاس تشریف لاتیں.جو ہمارے لئے نہایت خوشی اور اطمینان کا موجب ہوتا تھا.اس کے بعد جب میں نے دارالانوار میں مکان بنایا.حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہاں بھی تشریف لایا کرتی تھیں.اگر چہ یہ مکان خاصہ دور اور دارالانوار کے علاقہ میں پہلا مکان تھا.ے کے محترم عبد الرحیم صاحب شہر مار بوہ سے تحریر فرماتے ہیں: غالبا یہ ۱۹۲۱ء کا واقعہ ہے.حضرت بوزینب بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے اپنی کوٹھی واقعہ محلہ دار الفضل قادیان میں رہائش کیلئے ہمیں ایک مکان دے رکھا تھا.جس میں ہماری بود و باش تھی.اس وقت ہمارا کنبہ پانچ افراد پر مشتمل تھا.اس وقت میری تنخواہ کچھ زیادہ نہ تھی گزراہ کچھ تنگی سے ہوتا تھا.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا اکثر حضرت میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر تشریف لایا کرتی تھیں.ان کو ہماری اس تنگی سے گزارے کا علم ہو گیا.ان کو معلوم ہوا کیونکہ تمام کنبے کیلئے صرف آدھ سیر دودھ لیا جاتا ہے.میرے ان چھوٹے بچوں کی حالت دیکھ کر ان کو ترس آیا.کوٹھی سے واپس جا کر حضرت اُم المومنین نے پہلا یہ کام کیا کہ اپنی دودھ دینے والی گائے ہمارے گھر
223 بھجوادی.اور کہلا بھیجا کہ بچوں کو خوب اچھی طرح دودھ پلایا کرو.وہ گائے ایسی اچھی نسل کی تھی.سات یا آٹھ سیر پختہ دودھ دیا کرتی تھی.اس گائے کا ہمارے گھر میں آنا تھا ایسی برکت ہوئی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں حالت تنگی کی فراخی میں بدل گئی.یقین ہے حضرت ممدوحہ نے ہماری حالت سے متاثر ہو کر دعا بھی ضرور کی ہوگی.میری بیوی اسی گائے کا نصف دودھ گھر کے استعمال کے لئے رکھ لیا کرتیں اور نصف دودھ فروخت کر کے اس کی خوراک وغیرہ کا انتظام کرتیں اس کے بعد ہم شیر دار مویشی رکھنے کے عادی ہو گئے.اور کوئی دقت نہ رہی.اے ہمارے خدا ہماری اس محسنہ اور ہمدرد غمگسا رام المومنین پر بے شمارا اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اور اس کی آل اور اولاد کی جسمانی اور روحانی پر بھی.آمین.۷۸
224 مکرم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی آپ کی شفقت و مہربانی حضرت اُم المؤمنین نوراللہ مرقدہ ہا بے شمارخوبیوں کی حامل تھیں.لیکن جس امر سے ہر فرد بشر انتہائی متاثر ہوتا تھا.وہ آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال شفقت ہے جو آپ اپنے خادموں پر فرمایا کرتی تھیں.آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے نوازا گیا تھا.اور واقعی آپ کا وجود جماعت کے لئے ماں کا درجہ رکھتا تھا.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس شفقت اور مہربانی سے آپ پیش آیا کرتی تھیں اس شفقت اور مہربانی سے مائیں بھی نہیں پیش آتیں.ماں کی ساری محبت صرف اپنے بچے کے لئے مخصوص ہوتی ہے.لیکن آپ کی شفقت سے ساری جماعت فیضیاب ہوتی تھی.آپ کا دامنِ رحمت بڑا اوسیع تھا.امیر اور غریب اب آپ کی نظر میں یکساں تھے.آپ کی شفقت و محبت اور مہربانی کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں.میں ایک ذاتی واقعہ عرض کرتا ہوں ۱۹۳۷ء میں خاکسار کی پیدائش کے ایک ماہ بعد جب والد صاحب محترم نے میرا عقیقہ کرنا چاہا.تو حضرت ام المومنین سے شرکت کی درخواست کی.آپ ان دنوں سونی پت ضلع رہتک میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے پاس مقیم تھیں.آپ نے بڑی خوشی سے اس درخواست کو قبول فرمالیا اور بمعہ حضرت میر صاحب وممانی جان سونی پت سے پانی پت تشریف لائیں.خود اپنے دست مبارک سے کڑھی ہوئی ٹوپی مجھے مرحمت فرمائی ( یہ تبرک ٹوپی ۱۹۴۷ء تک بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی تھی.مگر افسوس اس وقت کی قیامت صغریٰ میں یہ بھی ہاتھ سے جاتی رہی.جس کا مجھے انتہائی قلق ہے اور ہمیشہ رہے گا ) مجھے اپنے مقدس ہاتھوں میں لے کر میرے لئے دعا فرمائی اور تین روز تک قیام فرمایا.پھر جب میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے قادیان آیا.جب بھی.ہمیشہ میرے ساتھ انتہائی شفقت کا سلوک فرماتی رہیں.آپ تعلیمی اخراجات کے لئے ہر سال مجھے ایک سو روپیہ مرحمت فرمایا کرتی تھیں.اور پاکستان آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ اس وقت تک آپ نے جاری فرمائے رکھا.جب تک میں تعلیم سے فارغ نہ ہو گیا آپ ایسی شفقت اور مہربانی کرنے والی ماں اب کہاں؟
225 حقیقت یہ ہے کہ شفقت اور مہربانی کی جو مثالیں آپ نے قائم کی ہیں وہ مثالیں سوائے امہات المومنین کے دنیا کے اور کسی فرد میں بھی پائی نہیں جاتیں.۷۹ مکرمه عزیزه بخت صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب بیان کرتی ہیں: ایک دفعہ میں مولوی صاحب کے ساتھ قادیان آئی.حضرت اماں جان نے مجھے اپنے مکان میں ٹھہرایا.مولوی صاحب مہمان خانہ میں ٹھہر گئے.حضرت اماں جان روزانہ اپنے ساتھ کھانا کھلاتیں اور نماز بھی اکٹھی پڑھتیں بہت دفعہ عشاء کی نماز کے بعد میرے کمرے میں تشریف لا کر دیر تک باتیں کرتی رہتیں اور کبھی لطیفے اور سبق آموز کہانیاں سناتی رہتیں.ایک دن کشمیر سے ایک بڑا ٹو کر اسیبوں کا آپ کے پاس آیا.آپ نواب صاحب کی کوٹھی میں تشریف لے گئیں.واپسی پر مجھے بلا کر چھ سیب دیئے اور فرمایا کہ تین تمہارے لئے ہیں اور تین مولوی صاحب کے لئے.۸۰ سلیقہ شعاری والدہ مکرم جمال الدین صاحب قادیانی ابن چوہدری بدرالدین صاحب مرحوم چنیوٹ بیان کرتی ہیں: آپ کے گھر میں ہر چیز قرینے کے ساتھ موزوں جگہوں پر بھی ہوئی نظر آتی اور صفائی کا اہتمام خاص طور پر ہوتا گھر اور لباس وغیرہ میں صفائی کا آپ کا اہتمام سب کے لئے ایک عجیب نمونہ ثابت ہوا.چنانچہ میں نے تقلید میں آپ کی خوشنودی حاصل کر لی.ایک دفعہ مجھ سے نہایت محبت سے فرمایا.لڑ کی تمہارا گھر ہی اس حلقہ میں بہت صاف ستھرا ہوتا ہے.اسی لئے میں تمہارے گھر روزانہ آجاتی ہوں“.فجر کی نماز کے بعد آپ اکثر بہشتی مقبرہ جاتے ہوئے یا واپسی پر میرے ہاں تشریف لے آتیں اور میرا گھر برکتوں، رحمتوں اور مسرتوں سے بھر جاتا.کھانا پکانے تقسیم کرنے اور کھلانے کا طریق آپ کا بہترین تھا.اور میں یہ کہوں گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹوں پوتوں اور لڑکیوں کے گھروں میں جو سلیقہ اور قرینہ ہے.یہ محض حضرت اماں جان کے وجود کی برکت سے ہے.اگر کبھی کھانا تھوڑا پکتا.اور مہمان زیادہ آجاتے تو ایسے طور سے تقسیم فرماتیں کہ کھانا کفایت کر جاتا.مجھے یاد نہیں کہ کبھی مہمانوں کو کوئی کوفت ہوئی ہو.A1
226 ہم اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی ہو چکے تھے.مگر حضور کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ آپ کا وہیں رہنا زیادہ مفید ہے.باوجود شدید خواہش کے ہجرت کر کے قادیان میں آباد نہ ہو سکے بلکہ حضور علیہ السلام کے وصال کے چند سال بعد غالبا ۱۹۱۱ء میں حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے مستقل طور پر قادیان میں آباد ہو گئے.او پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خاندان کے زیرِ احسانات عمریں وہیں گزار ہیں.گاؤں چھوڑ کر نئے ماحول اور اجنبی مقام عزیز واقارب کی جدائی مستقبل کے بارے میں پریشانی.سابقہ جائدادوں کا فکر ان سب وجوہات کے سبب میں روتی رہتی.کسی نے حضرت اماں جان کو اطلاع کر دی.آپ ایک دن صبح ہی تشریف لے آئیں.فرمایا لڑکی مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اداس ہو اور ہر وقت روتی رہتی ہو.تم صبح ہی کھانا وغیرہ پکا کر میرے گھر آجایا کرو اور شام کو آکر پھر کھانا پکانا“ کر لیا کرو.سارا دن وہیں رہا کرو بس اسی دن سے میں نے یہ دستور بنا لیا.میرے خاوند خدمات سلسلہ میں سالہا سال تک باہر رہے اور میں چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر سارا دن حضرت اماں جان کے ہاں گزارتی.اور خدا کا فضل ہے کہ میرے بچے حضرت مسیح پاک کے گھرانوں میں کھیل کود کر بڑے ہوئے.دوسرے ہی دن جب میں حضرت اماں جان کے ہاں گئی تو فرمایا تمہیں کوئی تکلیف یا ضرورت ہو مجھ سے کہہ دیا کرو.۸۲ علاج و معالجہ امۃ الرشید شوکت صاحبه ایک دفعہ گورداسپور میں ہمارے گھر تشریف لائیں.میرا چھوٹا بھائی بعارضہ پیچیش تقریبا ایک ماہ سے بیمار تھا.کسی دوائی سے آرام نہیں آتا تھا.حضرت اماں جان ہمارے گھر آئیں.بچہ کو کمزور اور بیمار دیکھ کر ہمدردی کا اظہار کیا اور خونی پیچش کی نہایت سادہ دوائی بھی بتائی کہ لسوڑی کی ہری ہری کونپلوں کو مٹی کے برتن میں بھگو کر چھان کر اس میں چینی ملا کر بچہ کو دو انشاء اللہ آرام آجائے گا.میری والدہ بیان کرتی ہیں کہ دو تین دن یہی دوائی دینے سے بچہ کو خدا کے فضل سے آرام آگیا.میری شادی کے موقع پر دوبارہ ہمارے گھر تشریف لائیں.۸۳
227 آپ کی ذات مجموعه خلائق تھی مکرم شیخ محمد احمد پانی پتی صاحب آپ کی ذات مجموعہء خلائق تھی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ ثبوت تھیں.حضور علیہ السلام جماعت سے جن بہترین اخلاق کی تو قعات رکھتے تھے.وہ سب حضرت اماں جان میں موجود تھے.سخاوت غرباء پروری عبادت دیانت.پاکبازی صبر اخلاص.دین کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کرنی.مہمان نوازی.اولاد کی عمدہ تربیت غرض یہ کہ کوئی صفت اور کوئی اخلاق ایسا نہ تھا.جو آپ میں بدرجہ اتم نہ پایا جاتا ہو.بطور نمونہ چند مثالیں درج ذیل ہیں.عورت کو سوت سے جو نفرت ہوتی ہے وہ ایک طبعی امر ہے.اس کے دل میں سوت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور وہ اس کے لئے کسی قسم کی ہمدردی نہیں چاہتی.لیکن حضرت ام المومنین کی یہ حالت نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی پہلی بیوی سے عملی رنگ میں علیحد گی تھی.جب حضور نے حضرت اُم المومنین سے شادی کی تو آپ نے ان کو کہلا کر بھیجا کہ اب اگر میں دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو میں گنہگار ہوں گا.اس لئے اب دوباتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دوں گا.تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں طلاق کیا لوں گی مجھے خرچ ملتار ہے میں اپنے حقوق چھوڑتی ہوں.۱۴ حضرت ام المومنین جانتی تھیں کہ وہ سوت ہیں.لیکن آپ ان سے اکثر ملا کرتی تھیں.اور بسا اوقات ان کی امداد بھی فرمایا کرتی تھیں.چنانچہ آپ خود ہی اپنی بیان کردہ روایت میں فرماتی ہیں: ایک دفعہ مرزا سلطان احمد صاحب کی والدہ بیمار ہوئیں.تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں ان کو دیکھنے کے لئے گئی.واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ بھیجے کی ماں بیمار ہے اور یہ یہ تکلیف ہے.آپ خاموش رہے.میں نے دوسری دفعہ کہا تو
228 فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا.میرا نام درمیان میں نہ آئے ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں ) والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارہ کنایہ مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام نہ آئے اپنی طرف سے کچھ مددکروں سو میں کر دیا کرتی تھی.۸۵ اس روایت سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے.کہ کس طرح حضرت اُم المومنین کا دل ہر ایک کی ہمد در دی محبت اور خیر خواہی سے بھرا ہوا تھا.کیا کسی عورت کے دل میں بھی اپنے سوت کے متعلق ہمدردی اور خیر خواہی کے وہ جذبات ہو سکتے ہیں جو حضرت اُم المومنین کے دل میں تھے؟ کوئی عورت بھی یہ نہیں چاہتی کہ اس کا خاوند دوسری شادی کرلے.لیکن حضرت سیدۃ النساء محض خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنے مد نظر رکھتی تھیں.اس کے علاوہ اور کوئی جذبہ کبھی آپ پر تسلط نہیں پاسکتا تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کے متعلق پیشگوئی فرمائی تو حضرت اُم المومنین نے خدا تعالیٰ کے حضور روروکر دعائیں فرمائیں کہ الہی یہ پیشگوئی پوری ہو.آپ نے بار ہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ گومیری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے بگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے مونہہ کی با تیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہو.اور جھوٹ اور زوال کا بطلان ہو“.ایک روز آپ دعا مانگ رہی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا آپ کیا دعا مانگتی ہیں؟ آپ نے یہ بات سنائی کہ میں یہ مانگ رہی ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا.سوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے؟ آپ نے فرمایا کچھ ہی کیوں نہ ہو مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ کی نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں خواہ میں ہلاک کیوں نہ ہو جاؤں‘۸۶
229 چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال تاثرات مکرم شیخ عبدالحکیم صاحب احمدی جماعت احمد یہ شملہ نے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے وافر حصہ پایا ہے.ان افضال الہی میں سے ایک یہ تھا.کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ افراد ہر سال موسم گرما میں شملہ چند ماہ کے لئے تشریف لاتے.اور جماعت کو ان کی خدمت کا موقع ملتا.میں سمجھتا ہوں.یہ اُسی قرب کا نتیجہ تھا.کہ جماعت شملہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے کیا روحانی اور کیا دنیاوی بڑی بڑی نعماء کی وارث بنی.بعض دفعہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا بھی شملہ تشریف فرما ہوتیں.اور ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر مادرانہ شفقتوں سے حصہ پاتے.ان خوش بخت لوگوں میں سے یہ عاجز راقم الحروف بھی ایک ہے.میں نے اکثر دیکھا کہ آپ اپنے ملازموں کو کبھی زیر بار ہوتے نہ دیکھ سکتی تھیں.اور بہ اصرار بہت سے اخراجات خود برداشت کرتیں.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم.لوگ آپ کے ہمراہ سیر کو گئے.واپسی پر چونکہ بہت زیادہ چڑھائی ہے.میں نے تین رکشا کرایہ پر لیں.میں خود پیدل ہمراہ تھا.جب قیام گاہ پر پہنچے.تو یہ عاجز رکشا والوں کو کرایہ دینے لگا.تو آپ نے جلدی سے ایک نوٹ مجھے دیا.اور فرمایا یہ کرایہ اُن کو دو.جو معمول سے بہت زیادہ تھا.میں نے عرض کیا.ہمیں خدمت کا موقع دیں.اور یہ رقم تو زیادہ ہے.فرمایا نہیں دیدو.میں نے ذرا تامل کیا تو فرمایا.میں جو کہتی ہوں یہ ان کو آپ دیدیں.بندہ اپنے اصرار پر نادم ہوا.اور عرض کی.الامر فوق الادب فرمایا.یہ تمہاری سعادت ہے.یہ غریب لوگ کس محنت سے ہمیں لائے ہیں.اور وہ تمام قلی دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے.گویا آپ نے اپنے عمل سے مجھے یہ سبق دیا.کہ مزدور کو اُس کی اُجرت سے ہمیشہ زیادہ دوتا وہ خوش خوش جائے چنانچہ یہ عاجز آج تک اس پر کار بند ہے.۸۷
230 از مکرمه امتہ العزیز ارشد صاحبه زریں نصائح میری دوسری والدہ محترمه سردار بیگم صاحبہ مرحومہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت بابرکت میں رہتی تھیں.اس لئے حسب فرصت مجھے اور میرے بچوں کو بھی اکثر حضرت اماں جان کی زیارت و صحبت نصیب ہوتی.آپ میرے بچوں سے نہایت بے تکلفی سے اپنے بچوں کی طرح پیش آتیں اور مجھے بھی کبھی غیر نہ سمجھا.جب میری شادی (رخصتانہ ) ہوا.اور میں اپنے میاں کے ہاں آئی.تو حضرت اماں جان ہمارے ہاں تشریف لائیں.اور فر مایا کہ دیکھو بیٹی ! میں ایک نصیحت کرتی ہوں.کہ کبھی اپنے میاں سے ناجائز مطالبات اور ایسی فرمائش نہ کرو.جواس کی حیثیت و طاقت سے بڑھ کر ہو مثلاً فلاں قیمتی کپڑا یا چیز لا دو.یا فلاں زیور بنوا دو.جس سے اس پر بوجھ پڑے.کیونکہ اس سے مردوں کے لئے بدیانتی و بے ایمانی کا رستہ کھلتا ہے.کہ وہ بیوی کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنے کیلئے ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے یا قرضہ اٹھا کر مطالبہ پورا کرتے ہیں.جس کا انجام نہایت خطرناک و مہلک ہوتا ہے.اس لئے اپنے پاؤں چادر کے مطابق پھیلاؤ.اور کبھی زیر بار نہ ہو.نہ اپنے خاوند کو ہونے دو سینگی ترشی اور صبر و استقلال سے گزارہ کرو.قرضہ سے ہمیشہ بچو.اور حتی الوسع کبھی قرض نہ لو.دوسری بات میری طرف سے رشید (خاوند) کو کہ دینا کہ اگر اس کے پاس دفتر کی رقم ہوا کرے.تو اسے کبھی ذاتی یا گھر کی ضرورت پر خرچ نہ کرے.نہ دفتر کا روپیہ ذاتی روپیہ کے ساتھ ملا کر رکھے.بلکہ بالکل علیحدہ رہنے دے.آپ چغل خوری اور غیبت یا کسی کی غیر حاضری میں اس کی شکایت وغیرہ کو سخت نا پسند فرما تیں.بلکہ اس سے بے حد نفرت تھی.چنانچہ ایک مرتبہ کسی عورت کو اس کے کسی نقص کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کی نصیحت کی.تو اس نے کسی خاتون کا نام لے دیا.کہ اس نے آپ کو کہا ہوگا.حالانکہ اس
231 بیچاری کو اس کا علم تک نہ تھا.اس پر بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا.اور کہا کہ تم نے بے حق بدظنی سے کام لیا ہے ایسا نہیں چاہئے.۸۸ از مکرمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر بدرالدین صاحب مشرقی افریقہ حضرت اماں جان (رضی اللہ عنہا ) کسی کی خواہش کور دنہ فرمایا کرتی تھیں ایک دفعہ میں آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک مانگا تو آپ نے دینے کا وعدہ فرمایا.اگلے دن اپنی کسی خادمہ کے ہاتھ حضور علیہ السلام کا تبرک بھی بھیجا اور ساتھ ہی کچھ سنتو تحفہ مرحمت فرمائے اور کہلا بھیجا کہ ایسا اچھا تبرک میں کسی کسی کو دیتی ہوں.عام طور پر میں لوگوں کو گرم کپڑے والا تبرک ہی دیتی ہوں لیکن تمہیں یہ سوتی کپڑے والا بھیج رہی ہوں فخر اللہ احسن الجزا.۸۹
232 بچوں سے شفقت و محبت از محترمہ آمنہ بیگم اہلیہ کرامت اللہ صاحب میری عمر کوئی آٹھ سال کی ہوگی.جب پہلی دفعہ حضرت اماں جان میرے والد محترم ملک مولا بخش صاحب مرحوم کے ہاں ضلع گورداسپور تشریف لائیں.ان کی آمد کی اس قدر خوشی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتی.ان کی تشریف آوری پر.جب کھانا کھانے کا وقت آیا تو ہم سب ان کے ہمراہ دستر خوانوں پر بیٹھیں.میں اور میری ایک سہیلی تھوڑا سا کھانا کھا کر اٹھنے لگیں تو فرمایا.بچیو! دستر خوان سے خالی پیٹ نہیں اٹھنا چاہئے.ظاہر ہے کہ محض حجاب کی وجہ سے اٹھنے لگی تھیں.ان کی ہدایت کے ماتحت پیٹ بھر کر کھانا کھایا.۹۰ مکرم امتۃ الرشید شوکت صاحبه میرے بھائی جان بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں میں بی.اے میں پڑھتا تھا اور چھٹیوں میں قادیان آیا ہوا تھا ایک دن صبح کے وقت اپنی بیٹھک میں بیٹھا ہوا تھا مطالعہ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا.بیٹھک کا دروازہ کھلا تھا سامنے حد نظر تک سرسبز کھیت لہلہا ر ہے تھے.دُور درختوں کے جھنڈ میں کنوئیں کے چلنے کی آواز آرہی تھی.کہ اتنے میں سامنے سے حضرت اماں جان اپنی خادماؤں کے ساتھ قدرت کے ان دلفریب مناظر کی سیر کرتی ہوئیں ہماری بیٹھک کے سامنے سے گزریں.مجھے دیکھ کر فرمانے لگیں.”نورالدین کیا کر رہے ہو.‘ بھائی جان بیان کرتے ہیں کہ میرا چہرہ خوشی اور مرعوبیت کے ملے جلے جذبات سے سُرخ ہو گیا اور میں نے نہایت آہستہ آواز میں کہا کہ اماں جان پڑھنے لگا ہوں.لیکن وہ پیارے الفاظ آج تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں.حیرانگی آتی ہے اس بابرکت وجود پر کہ کس طرح وہ اپنے حقیر خادموں کے بچوں پر بھی شفقت کی نظر رکھتی تھیں.ایک بچہ نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچے یہی سمجھتے ہوں گے کہ اماں جان مجھ سے زیادہ محبت کرتی تھیں اے خدا! یہ کیسی عالمگیر محبت ہے جو تو اپنے پیاروں کو دیتا ہے؟
اہلیہ صاحبہ حضرت منشی تنظیم الرحمن صاحب 233 میرا چھوٹا لڑکا لطف الرحمن قادیان میں پیدا ہوا تھا ابھی اس کی عمر دو ماہ کی تھی کہ اس کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ آپ اس کو اپنی گود میں لے کر اس کے لئے دعافرمائیں.چنانچہ حضرت اماں جان نے لطف الرحمن کو گود میں لے کر دعا فرمائی.پہلے عورتوں کے سالانہ جلسہ کا انتظام جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے مکان پر ہوتا تھا.میرے چھوٹا لڑکا لطف الرحمن مسلمہ جس کی عمر اسوقت تین چار ماہ کی ہوگی.بعد اختتام جلسہ میں اس کو جلسہ گاہ کی میز پر بٹھا کر کسی کام کوگئی تو کسی نے اس کو اکیلا دیکھ کر اٹھا کر دفتر میں بھجوا دیا.میں واپس آکر جب اس کو نہ دیکھا تو بہت گھبرائی اور ڈھونڈتی ڈھونڈتی حضرت اماں جان کے پاس پہنچی.یہ واقعہ عرض کرنے پر اظہار ناراضگی فرماتے ہوئے فرمایا کہ: بچوں کی طرف سے ایسی غفلت نہیں ہونی چاہئیے.اگر کوئی دشمن اٹھا کر لے گیا ہوتو پھر کیا ہوگا.مگر لڑ کا جلد ہی مل گیا.۹۲ از اہلیہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میری لڑکیوں سے بھی آپ بہت محبت کرتی تھیں.جب بھی کوئی لڑکی دوائی پلانے جاتی دوائی پی کر دعائیں دیتیں.یہ حضرت امیر المومنین اور حضرت اماں جان کی مبارک دعاؤں ہی کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ساری اولا د کو ہی اپنے فضلوں سے نوازا ہے حضرت اُمّم طاہر احمد کی شادی کے موقعہ پر حضرت اماں جان جب رخصت کرانے کے لئے تشریف لے جانے لگیں تو مجھے کہلا بھیجا کہ میں تمہیں ساتھ نہ لے جاؤں گی ( کیونکہ میں ان دنوں بیمار تھی) تم اپنی بیٹی زینب کو میرے ساتھ بھیج دو.میں نے زینب کو حضرت اماں جان کے ساتھ بھیج دیا.جب آپ تانگے میں بیٹھیں تو زینب کو اپنی گود میں بیٹھا لیا.اور جب تک دلہن کو لے کر واپس تشریف نہ لائیں اپنے ساتھ ہی رکھا.اور واپس آکر خود او پر آکر فرمایا کہ اپنی بیٹی کو سنبھال لو.پیاری اماں جان کی ان مادرانہ شفقتوں کے باعث مجھے اپنے والدین کبھی اس رنگ میں یاد نہ آتے تھے کہ مجھے کوئی کمی محسوس ہو.جب مجھے کوئی پریشانی یا ضرورت ہوتی تو بلا تکلف عرض کر دیتی.آپ میرے لئے دعا بھی کرتیں اور ضرورت بھی پوری کر دیتیں.۹۳ مکرم سید غلام حسین شاہ صاحب بھلوال رہتک کے محلہ قلعہ کی تاج منزل میں میری رہائش تھی تو انہیں دنوں میرے گھر لڑکا پیدا ہوا تو میری
234 بیوی سیدہ جمیلہ خاتون صاحبہ نے فورا ہی لڑکیوں کے ہاتھ بچے کو حضرت اُم المومنین کی خدمت میں بھیج دیا.حضرت اُم المومنین نے از راہ شفقت بچے کو گود میں لے کر گھٹی دی اور اور دعا فرمائی اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے ایک کان میں آذان اور دوسرے میں تکبیر کہی.اس بچے کا نام حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے رفیق احمد شاہ رکھا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلائے.آمین !.حضرت خلیفہ اسیح اول نے عاجز سے ذکر کیا کہ ہم نے حضرت میر ناصر نواب صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ بتلا سکتے ہیں کہ آپ نے کونسی نیکی کی ہے کہ جس کے بدلہ میں آپ کی صاحبزادی حضرت مسیح علیہ السلام کے نکاح میں آئی.انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اور تو کچھ یاد نہیں صرف اتنا یاد ہے کہ جس دن سے یہ پیدا ہوئی اُس دن سے لیکر جس دن اس کو ڈولی میں ڈالا میں روزانہ یہی دُعا کرتا رہا کہ خدایا اس کو کسی نیک کے پلے باندھیں.۹۴ مکرم اخوند فیاض احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: اولاد کی گھر یلوزندگی میں دخل نہ دینا : ایک دفعہ خاکسار کی والدہ صاحبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،ساتھ خاکسار کی نانی جان اہلیہ محتر مہ خان بہادر غلام محمد صاحب بھی تھیں.نانی صاحبہ نے آپ سے پوچھ لیا کہ حضرت صاحب کی باری اس دن کہاں ہوگی.تو جواباً فرمایا مجھے کیا معلوم حضرت صاحب کہاں ہوں گے.ہم نے تو پالا پوسا.پڑھایا لکھایا جوان ہوئے.شادیاں کیں اور بیویوں کے حوالے کر دیا.۹۵ مکرم محمد عبد اللہ صاحب نیلا گنبد لا ہور ۱۹۱۱ء کا ذکر ہے.کہ میرے چچا عبدالمجید صاحب قادیان میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھا کرتے تھے.آموں کا موسم آیا.تو اس سراسر رحمت و شفقت کے مجسمہ نے ایک ٹوکرا آموں کا بھر کر بورڈنگ میں چچا عبدالمجید صاحب کے پاس بھجوایا.۹۶ از محترمه آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ کرامت اللہ صاحب ایک دفعہ پھر حضرت اماں جان گورداسپور تشریف لائیں.اور ہمارے ہاں ہی قیام فرمایا اور ایک دن میرے سکول تشریف لے گئیں لڑکیوں کو مٹھائی کے لئے کچھ روپے مرحمت فرمائے استانی نے شکر یہ ادا کیا اور عرض کیا تکلیف کی کیا ضرورت تھی.فرمایا میری بچی اس سکول میں پڑھتی ہے.خوشی سے دے رہی ہوں آپ پر کوئی احسان نہیں کر رہی.۹۷
235 از مکرمه عزیز بخت صاحبہ اہلیہ مولانا غلام رسول را جیکی صاحب میں عزیز مبشراحمد تسلمہ اللہ کا چھلہ (چلہ ) نہا کر باہر نکلی اور بہشتی مقبرہ دعا کیلئے گئی.سردار بی بی صاحبہ نے بچے کو اٹھایا ہوا تھا اور میں ساتھ تھی.باغ کے پاس حضرت اماں جان کی زیارت ہوئی.آپ نے بڑی محبت سے مبشر احمد کو گود میں اٹھا لیا اور دیر تک اس کو پیار کرتی رہیں اور دُعا دے کر شہر کی طرف روانہ ہوئیں.۹۸ ۱۹۵۰ء کے جلسہ سالانہ کا موقعہ تھا.کہ ایک روز میں اور میری چھوٹی بہن جس کی عمر اس وقت صرف تین چار سال تھی.اور میری دو پھوپھی زاد بہنیں جن کی عمریں اس وقت صرف گیارہ اور نو سال کی تھیں.اور خود میری عمر بھی گیارہ سال کی ہوگی.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی خدمت میں سلام عرض کرنے ک لئے حاضر ہوئیں.آپ نے بڑی شفقت سے ہمیں اپنے سامنے بچھی ہوئی چار پائی پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.اس کے بعد خود اُٹھ کر کمرے کے اندر تشریف لے گئیں اور ایک آدھ منٹ کے بعد خادمہ کے ہاتھ میں ایک طشتری میں چلغوزے، اخروٹ، مالٹے اُٹھوا کر لے آئیں.اور ہمارے سامنے رکھوا کر نہایت شفقت سے کھانے کا حکم دیا میری چھوٹی بہن نے اس لئے کہ وہ ذرا شوخ طبیعت ہے.مجھے مخاطب کر کے آہستہ سے کہا.آنسہ، چلغوزے نہ کھانا اور نہ اماں جان سمجھیں گی کہ یہ بھو کی لڑکیاں ہیں.اس کی یہ بات حضرت اماں جان نے بھی سُن لی آپ بہت ہنسیں اور فرمانے لگیں.بیٹی تم بے شک کھاؤ میں تمہیں بھوکی نہیں کہوں گی.اس کے بعد ہم چند منٹ اور بیٹھی رہیں.اور حضور سے ہم مختلف سوالات کرتی رہیں.واپسی پر رخصت ہونے کی اجازت مانگی.اور آپ نے ہم سب کے سروں پر دست شفقت پھرا.اور ہمیں دعائیں دیں.کہاں ہم چھوٹی چھوٹی غلام زادیاں اور کہاں حضور جیسی مقدس و مظہر عظیم الشان ہستی جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجیت کا شرف حاصل تھا.لیکن ہماری خاطر داری کے لئے اس قدر پیرانہ سالی میں خود اُٹھ کر جاتی ہیں اور کھانے کی چیزیں فراہم کرتی ہیں.اور پھر طبیعت میں بشاشت اس قدر ہے کہ ایک کم سن اور نا سمجھ لڑکی کی معصومانہ حرکت پر کسی غصہ کا اظہار نہیں فرماتیں بلکہ اس کو مزاح کا رنگ دے کر اُس پر خوب خوش ہوتی ہیں.99 مکرمہ امتہ الکریم نصرت اہلیہ مولانا برکات احمد راجیکی صاحب مجھ خاکسار کو خدا تعالیٰ کے فضل نے حضرت اُم المومنین کی گود میں کھیلنے کا شرف پہلی بار سوا سال
236 کی عمر میں عطا فرمایا.میری چھوٹی بہن کی عمر اس وقت پانچ ماہ کی تھی.میری والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ میں اور میری چھوٹی بہن عزیزہ امتہ المجیب کی ولادت خاص حضرت اماں جان کی دعا سے ہوئی.جب میری والدہ صاحبہ ایران سے واپس آئیں تو ہم دونوں بہنوں کو آپ کے قدموں میں ڈال دیا.حضرت مدوحہ نے بڑی شفقت اور محبت سے ہم کو یکے بعد دیگرے اپنی گود میں اٹھا لیا اور لمبی دعا فرمائی.میری والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ جب بھی ان کو ہمیں ساتھ لے کر حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو حضرت اماں جان نہایت محبت و پیار کا سلوک فرماتیں اور اکثر کھانے کی اشیاء مٹھائی ، پھل وغیرہ عطا کر کے اپنے سامنے بٹھا کر کھانے کا حکم دیتیں.۱۹۳۹ء میں جب دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوئی اور ہم ایران و عراق سے واپس قادیان آئے اور حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت اماں جان نے ہمیں بہت پیار کیا اور کھانے کے لئے مٹھائی وغیرہ دی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بجائے اپنے سامنے بٹھا کر کھلانے کے آپ فرماتیں کہ یہ چیز گھر لے جاؤ اور اپنے بہن بھائیوں میں مل کر کھاؤ.ایک دفعہ ہم حضرت اماں جان کے دار مقدس میں حاضر ہوئیں تو آپ نے اپنے دست مبارک سے ایک چھکے میں سے جو آپ کے دالان میں لٹک رہا تھا آم نکال کر ہمیں کھانے کے لئے دیئے اور فرمایا گھر لیجا کر سب مل کر کھانا.ایک دوسری دفعہ جب ہم حاضر ہوئیں تو آپ نے حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی ایک صاحبزادی صاحبہ کو ارشاد فرمایا کہ بیٹی ! آم کی قاشیں کر کے ان بچیوں کو دو چنانچہ آپ کے ارشاد کی تعمیل ہوئی اور ہمیں صاحبزادی صاحبہ نے قاشیں کاٹ کردیں.صاحبزادی صاحبہ کی حیرانی کو دیکھ کر حضرت اماں جان نے فرمایا کہ یہ بھائی جی قادیانی کی نواسیاں ہیں.صاحبزادی صاحبہ ہنس پڑیں اور عرض کیا کہ میں نے تو ان کو نہیں پہچانا.جواباً فرمایا کہ تم چھوٹی تھیں اور یہ ایران میں رہ کر آئی ہیں.کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اندر سے ہمارے لئے چاکلیٹ ،سویٹ اور دیگر اسی قسم کی کھانے کی اشیاء لاتیں اور ہمیں عطا فر ماتیں.آپ کی طبیعت میں جہاں وقار سنجیدگی اور رعب تھا وہاں سادگی بھی بے حد تھی.چنانچہ ہم نے کئی دفعہ دیکھا کہ آپ باورچی خانہ میں بیٹھ کر ناشتہ یا کھانا تناول فرمارہی ہوتیں تو ہمیں بھی پلیٹوں میں کھانا ڈال کر سامنے بٹھا کر کھانے کا حکم دیتی تھیں.میری والدہ صاحبہ کی خواہش پر تبرک بھی
237 عطا فرماتیں اور تبرک میں زائد کھانا ڈال کر مرحمت فرماتیں.۱۰۱ از مکرم احمد اللہ خان صاحب آف کوئٹہ میرے والدہ مرحوم ۱۸۹۹ء میں شاہجہانپور سے ہجرت کر کے اپنے بیوی بچوں سمیت جب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از راہ نوازش الدار میں ہمیں جگہ دی جہاں ہم ایک لمبا عرصہ یعنی ۱۹۱۴ ء تک مقیم رہے.ہجرت کے وقت میری عمر چند ماہ کی تھی.میری والدہ مرحومہ کے بیان کے مطابق وہ حضرت مسیح موعود کے مطبخ میں کام کیا کرتی تھیں.کام کے دوران میں جب مجھے چار پائی پر لٹا دیتیں اور میں شیر خوار بچہ ہونے کی وجہ سے جب کبھی رونے لگتا تو حضرت اماں جان یہ دیکھتے ہوئے کہ میری والدہ کھانا پکانے میں مشغول ہیں.تو از راه شفقت مجھے گود میں اٹھا کر لوری دیتیں.جب میں ۷۱۸ برس کی عمر کا تھا تو ایک دفعہ مجھے سخت بھوک لگی.میں اپنی والدہ مرحومہ سے روٹی مانگ رہا تھا.میری والدہ مجھے ہر بار جھڑک دیتیں غالباً اس وجہ سے کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت اماں جان اور دیگر گھر کے افراد کھانا تناول نہ فرمالیں وہ مجھے کھانا پہلے کیسے دیدیں.اس اثناء میں مجھے بھوک نے جو تنگ کیا.تو رونے لگ گیا.حضرت اماں جان اپنے کمرے کے سامنے صحن میں ٹہل رہی تھیں.مجھے روتے دیکھ کر فوراً میری والدہ سے فرمایا کہ لڑکا رورہا ہے.اسے روٹی کیوں نہیں دیتیں.میری والدہ نے جواباً کہا کہ ابھی تو کھانا تیار نہیں ہوا.یہ جواب سنتے ہی یکدم حضرت اماں جان مطبخ میں آئیں اور میری والدہ کے پاس ہی دوسرے چولھے پر جو سٹی کی ہنڈیا میں دودھ تھا.اس میں سے ایک کٹورے میں اوپر اوپر سے ملائی اتار کر اور کچھ دودھ ڈال کر میرے پاس لے آئیں اور نہایت ہی ہمدردانہ رنگ میں وہ بھرا ہوا کٹورا میرے ہاتھ میں دے دیا.حضرت اماں جان کی یہ مادرانہ شفقت اور قریب رہنے کی وجہ سے ان کی دعاؤں کے اثر ہی کا نتیجہ ہے کہ آج میں اور میری اولاد خدا کے فضل و رحم سے دینی ودنیوی انعامات سے مالا مال ہیں.اللھم زد فزد.دعا ہے کہ مولیٰ کریم حضرت اماں جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.اور اپنے دائمی افضال و نعماء کی بارش نازل فرما تا ر ہے آمین ثم آمین.۱۰۲ محترمه ام رشید صاحبه ربوه میں ایسی عمر میں قادیان گئی تھی جب کہ میں چھوٹی عمر کی تھی اور سوائے حضرت اقدس کے مقدس گھر
238 کے کسی اور گھر میں جانے کی اجازت نہ تھی.سارا سارا دن حضرت ام المومنین کے پاس ہی کھیلاتی رہتی.لڑکیوں کی تربیت کا ان کو خاص خیال رہتا اور پھر ہر بچے کو اپنی خدا داد فراست سے سمجھ لیتی تھیں کہ یہ بچہ یا بچی کیسی ہے.حضرت صاحبزادہ میاں میاں شریف احمد صاحب کا سب سے پہلا مکان وہ تھا جہاں کہ بعد میں حضرت اُمّم طاہر رہتی تھیں اور ان کے کمرے میں اچار چٹنیاں مربے مرتبان میں بند رکھے ہوئے ہوتے تھے.خادمائیں بہت سی ہوتیں اور دوسری لڑکیاں جن کی کفالت خاص طور پر حضرت اماں جان ہی کرتی تھیں وہ بھی تھیں.ایک دفعہ بہت سا حصہ اچار چٹنیاں اور مربوں کا ختم ہو گیا.سب کو بلایا گیا اور ایک لڑکی مجھے بھی ساتھ لے گئی جب حضرت اماں جان کی دور بین نگاہ مجھ پر پڑی میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پاس کھڑا کرلیا اور فرمایا کہ تم یہاں ان میں کیوں کھڑی ہوا اور کس نے کھڑا کیا ہے.میں نے اس کا نام بتایا تو آپ نے نرم الفاظ میں اس پر ناراضگی کا اظہار کیا.اگر کسی بچے یا بچی کو تنبیہ کرنی ہوتی تو نرم الفاظ اور مختصر الفاظ میں کرتیں اگر کوئی ملنے والی آتیں تو اس کا حال دریافت فرماتیں کچھ ارشاد فرماتیں پھر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ کی حمد میں مشغول ہو جاتیں.پھر آج تک آپ کے ملنے میں کوئی چیز روک نہیں بنی سوائے چند دن بیماری کے اور وہ بھی طبی لحاظ سے منع تھا.کوئی آٹھ سال کا عرصہ ہوا کہ میں بیما تھی اور کمزور ہوگئی تھی.شام کو آپ کی زیارت کے لئے گئی تو نہایت شفقت سے آواز دی کہ مسعودہ ادھر آؤ پاس گئی فرمانے لگیں کہ کیا تم نے کوئی بیماری لگالی ہے.سب باتوں کو خدا پر چھوڑ دواور کسی قسم کا غم یا فکر نہ کرو.خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے تمہارا اس طرح کرنا خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے ۱۰۳ از مکرم ابوالمبارک محمد عبداللہ صاحب حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے لفظ لفظ سے محبت اور شفقت ٹپکتی تھی.آپ نے جب بھی مجھے بلایا ہوتا.تو خادمہ کو یہ نہ کہتی کہ عبد اللہ کو بلاؤ بلکہ ہمیشہ فرمایا کرتیں.”ہمارے عبداللہ کو بلاؤ ۳۸ سال کا زمانہ گزر چکا ہے مگر میرے کانوں میں ابھی تک ”ہمارے عبداللہ کو بلاؤ کی آواز آ رہی ہے.حضرت اُم المومنین کا مقام دینی اور دنیوی بہت بلند تھا.ساتھ ہی اس کے یہ بات بھی آپ سے خاص تھی.کہ وہ بچوں سے بچوں کے لائق اور بڑوں سے ان کے مقام کے مطابق سلوک کرتیں.بچوں کی چھوٹی سی چھوٹی خواہش کو بھی کمال خوشی سے پورا کرتیں.ایک دفعہ آپ
239 دہلی تشریف لے گئیں.وہاں غیر متوقع آپ نے پندرہ بیس روز قیام کیا آپ کی غیوبت کی وجہ سے طبیعت میں بہت اداسی پیدا ہوگئی.جب تشریف لائیں اور میں ملنے کیلئے گیا تو جوش محبت سے جی بھر آیا آنکھوں میں آنسو امڈ آئے.اور میں نے کہا.اماں جان! آپ نے تو کتنے ہی دن لگا دیئے؟ عبداللہ کو بھلا دیا ؟ فرمایا نہیں.میں تو تمہارے لئے دہلی سے کھلونے لائی ہوں اندر سے مجھے تین بلوری کھلونے اور مٹھائی لا کر دی.قادیان میں خربوزوں کے موسم میں ایک میلہ لگا کرتا تھا جسے قدموں کا میلہ“ کہتے تھے.میں نے گھر کے بچوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا اماں جان ! میلہ دیکھنے کی اجازت دیں.فرمایا عبداللہ میلوں میں واہیات باتیں ہوتی ہیں یہ نہیں دیکھنے چاہئیں.پھر فرمایا اس میلہ میں تو خربوزے ہی سکتے ہیں جاؤ اور دیکھ آؤ.اور ہم سب کو خرچ کرنے کے لئے پیسے بھی دیئے.حضرت میاں شریف احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ والان کے صحن میں رات کو سٹڈی کر رہے تھے میں نے بھی کرسی لی اور اسی میز کے ایک طرف بیٹھ کر سٹڈی کرنے میں مصروف ہو گیا.حضرت اماں جان نے میاں صاحب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : میاں ! جس طرح تم میرے تین بیٹے ہو عبداللہ میرا چوتھا بیٹا ہے.۱۰۴ مکرمہ اہلیہ صاحبہ نشی کظیم الرحمن صاحب میں نے اپنے گھر قادیان میں گائے رکھی ہوئی تھی اور گائے سے متعلقہ کام میں خود اپنے ہاتھ سے سرانجام دیا کرتی تھی.ایک دن میں صفائی کر رہی تھی کہ حضرت اماں جان تشریف لے آئیں.مجھے دیکھ کر شرم آگئی.فرمانے لگیں.یہ کام تو بہت اچھے ہیں.ایسے کام تو کرنے چاہئیں.اس سے صحت اچھی رہتی ہے.ہاتھ پاؤں میں چستی پیدا ہوتی ہے.۱۰۵ از امتہ الحمید بیگم اہلیہ قاضی محمد رشید آف نوشہرہ غالباً ۱۹۳۵ء کی بات ہے میں مع اپنی خوشدامن صاحبہ مرحومہ اور والدہ مکرمہ کے حضرت اماں جان کی زیارت کے لئے گئی.ہم نے دیکھا کہ حضرت اماں جان اپنے باورچی خانہ میں ایک بہت بڑی پرات میں بہت سا آٹا گوندھ رہی ہیں.میری خوشدامن صاحبہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ حضرت اماں جان آٹا گوندھ رہی ہیں.اس پر اماں جان نے پنجابی زبان میں فرمایا ”میں رن نہیں منڈاواں، یعنی کیا میں عورت نہیں لڑکا ہوں؟ لیکن بعد میں ہمیں بتایا کہ آج یتیموں کی دعوت ہوئی ہے اس لئے میں خود اپنے ہاتھ سے آٹا گوندھ رہی ہوں.۱۰۶
240 مکرم ایمن الله خان صاحب آف سلانوالی سرگودھا محلہ دارالرحمت میں ہمارا امکان ابھی زیر تعمیر تھا حضرت اُم المومنین تشریف لائیں اور مکان کی بناوٹ میں قدرے تبدیلی کرنے کا حکم فرمایا.چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق تبدیلی کی گئی.حضرت اماں جان جب کبھی محلہ دارالرحمت کی طرف تشریف لاتیں تو عموماً ہمارے ہاں بھی تشریف لاتیں.چنانچہ ایک مرتبہ جب آپ تشریف لائیں تو والدہ مرحومہ چرخہ کات رہی تھیں.آتے ہی فرمایا ' اٹھ نی بہتیاں پوتیاں والئے میں گہاں اس پر والدہ صاحبہ نے چرخہ چھوڑ دیا اور آپ نے اپنے دست مبارک سے چند پونیاں کا تیں.واپسی پر والدہ نے کچھ تازہ مکھن پیش کیا جو آپ نے بخوشی قبول فرمایا اور بعد میں چارہ نوکر کے ہاتھ بھینس کے لئے بھجوایا کہ یہ اسی بھینس کے آگے ڈالنا جس کا میں مکھن لائی ہوں.۱۰۷ اہلیہ صاحبہ مولانا محمد یعقوب صاحب انچارج زود نویسی ہاتھ سے کام کرنا بھی حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کو بہت مرغوب تھا اور کام کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں جب کہ میری عمر دس گیارہ سال کی تھی میں اپنی چھوٹی بھانجی کی گرم قمیص اپنے ہاتھ سے سی رہی تھی (اس وقت موتیوں کے کام کا بہت رواج تھا) اس پر موتی اور ستارے لگا رہی تھی.اماں جان کو میری سلائی بہت پسند آئی اور فرمانے لگیں کہ اتنی عمر میں ایسی سلائی شاذ ہی کوئی کرتا ہوگا ، پھر فرمایا کہ اتنی پیاری قمیص کون پہنے گا.میں عرض کیا کہ وہ سامنے جو بچی بیٹھی ہے.دیکھ کر فرمانے لگیں واقعی لڑ کی اس قمیص کے قابل ہے.“ مکرمه امۃ الرشید شوکت صاحبه بسا اوقات جب حضرت اماں جان ہمارے ہاں تشریف لاتیں تو والدہ صاحبہ کوئی نہ کوئی گھر کا کام کرنے میں مشغول ہوتیں.مثلاً چولہے بنانا یا گندم صاف کرنا وغیرہ.ایک دفعہ والدہ صاحبہ نے کہہ دیا کہ جس دن آپ تشریف لاتی ہیں اسی دن میرے یہی کام ہوتے ہیں.تو فرمانے لگیں.مجھے نکما آدمی بہت بُرا معلوم ہوتا ہے.میں تو کام کرنے والے آدمی کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں.اس میں شرم کی کیا بات ہے.تمہاری عادت اچھی ہے کہ ہر وقت گھر کی صفائی اور کام کاج میں لگی رہتی ہو.عام عورتوں کی طرح باہر نہیں جاتیں.۱۰۸ مکرمه آمنه بیگم صاحبہ اہلیہ نیک محمد خان غزنوی حضرت اماں جان ہر ایک قسم کا کام اس حُسنِ ترتیب کے ساتھ کرتیں کہ ہم سب دیکھنے والے
241 حیران ہو جاتے کہ آپ دہلی کی رہنے والی اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون ہیں اور دیہاتی کام مثلاً دودھ بلونا، چرخہ کاتنا، کپاس بیلنا، نواڑ بہتا کس خوبی سے کرتیں.سیدا کثر بہنوں نے دیکھا ہوگا کہ حضرت اماں جان آپ بہت سی کپاس منگوا تیں اور بڑے اہتمام سے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے بیلتیں.پھر اکثر جب عورتیں دیکھتیں کہ آپ خود کام کر رہی ہیں تو ثواب کی خاطر بڑی التجاؤں کے ساتھ آپ سے کام لے کر کرتیں.۱۰۹ والدہ مکرم جمال الدین صاحب آف چنیوٹ آپ کی طبیعت میں غصہ اور چڑ چڑا پن نام کو نہ تھا کسی غلطی یا کسی نقصان کو کمال تحمل سے برداشت کر جاتیں.نقصان کرنے والا خود ہی ندامت سے پانی پانی ہو جاتا.آپ جس گھر بھی جاتیں مجسمه همدردی و غمگساری اور مشفق ماں کی حیثیت سے جانتیں اور ہمارے گھر یلو معاملات میں از راه شفقت اس طرح دخل دیتیں گویا آپ حقیقی ماں ہیں.آپ کو خود بھی یہ احساس تھا کہ میں اس سب کی ماں ہوں اور آپ کے اس سلوک میں امیر غریب کا کوئی امتیاز نہ تھا.فجر کی نماز کے بعد جب میرے ہاں تشریف لاتیں تو کئی دفعہ عجیب مواقع پیدا ہو جاتے ایک دن میں بیٹھی ہوئی دودھ بلور ہی تھی کہ آپ تشریف لے آئیں.آتے ہی مسکراتے ہوئے فرمایا ”لڑکی اٹھو میں بلوتی ہوں.میں برکت کی خاطر اور ادب کو لو ظ ر کھتے ہوئے فوراً اٹھ گئی اور آپ دودھ بلو کر مکھن نکالنے لگیں.اور مجھے فرمایا ” اس طرح بلو یا کرو ایک دن میں چکی پر مکی کا آٹا پیس رہی تھی.ارادہ تھا کہ خود پیس کر حضرت اماں جان کے لئے منگی کی روٹیاں پکا کر لے جاؤنگی اتنے میں آپ تشریف لے آئیں.فرمایا: لڑ کی کیا کر رہی ہو.اٹھو میں چکی پیستی ہوں کچھ میرے بازؤں میں بھی زور آئے.میں نے عرض کیا نہیں اماں جان یہ آپ کی شان نہیں ! مگر مجھے اصرار کر کے اٹھا دیا اور خود تھوڑی دیر تک چکی چلائی.110
242 اپنے ہاتھ سے دوسروں کے کام کرنا محترمه آمنہ بیگم اہلیہ چوہدری عبداللہ خان صاحب حضرت اماں جان کو میری والدہ مرحومہ ( ہاجرہ بیگم بنت مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم جو حضرت خلیفہ اول کی نواسی تھی ) سے بہت ہی محبت اور انس تھا.۱۹۲۱ ء میں جب ہم حضرت اماں جان کے مکان واقعہ بہشتی مقبرہ میں چلے گئے.تو ہر عید پر حضرت اماں جان کے ہاں سے عیدی کپڑے اور کھانا آیا کرتا تھا.میری والدہ کے ہر بچہ کی پیدائش پر حضرت اماں جان نفوراً تشریف لاتیں.اور بچے کو دیکھتیں اور بعض دفعہ پیار سے بچے کولوری بھی دیتیں.اور ہمیں اکثر نصیحت آموز کہانیاں سنا تیں.ہمارے بہشتی مقبرہ کے مکان میں رہنے کے عرصہ میں ( ہم وہاں ۱۹۲۱ء میں گئے.اور وہاں ہی ۱۹۲۷ء میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا.انا للہ ) جہاں تک میری یاد کام کرتی ہے.حضرت اماں جان ہر صبح (الا ما شاء اللہ ) نماز کے بعد باغ میں تشریف لاتیں.آپ کے ساتھ اکثر دو ایک عورتیں ہوتیں.پہلٹ سیدھی حضرت مسیح موعود علیہا الصلوۃ والسلام کے مزار پر تشریف لے جاتیں.پھر واپسی پر ہمارے گھر دروازے پر آ کر نہایت پیاری آواز سے میری والدہ کا پکارتیں.حاجرہ ! اور اس کے ساتھ ہی بلند آواز سے ”السلام علیکم فرماتیں.اور پھر اندر آجاتیں.تھوڑی دیر بیٹھتیں والدہ سے باتیں کرتیں.سب کا حال پوچھتیں.اور پھر واپس تشریف لے جاتیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان سردیوں میں تشریف لائیں.میری والدہ دودھ بلور ہی تھیں.میرا چھوٹا بھائی اور ہا تھا.حضرت اماں جان نے نہایت شفقت سے میری والدہ کو اٹھا دیا.اور فرمایا اٹھ کر بچے کو لے لو اور خود بیٹھ کر دودھ بلونا شروع کر دیا.اور پھر خود ہی مکھن نکالا.بکھرے ہوئے برتن اٹھوائے.اور واپس تشریف لے گئیں.اس کے بعد تو حضرت اماں جان سکا معمول ہو گیا.کہ ہر روز اپنے ساتھ کسی ایک عورت کو محض میری والدہ کو اس کام میں مدد دینے کے لئے ساتھ لاتیں.اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار کی طرف جاتی ہوئی ہمارے ہاں
243 چھوڑ جاتیں.اس عرصہ میں وہ عورت دودھ بلوتی رہتی.اور واپسی پر عورت کو ساتھ لے کر واپس تشریف لے جاتیں.یہ شفیقانہ سلوک ایک عرصے تک جاری رہا.میری والدہ کی وفات کے بعد جلد ہی میری شادی ہو گئی.اس لئے پھر مجھے حضرت اماں جان سے وقفوں کے بعد ملنے کا موقعہ ملا.لیکن اتنی دیر نہیں.کہ دو تین مہینے سے زیادہ وقت گزر جائے.حضرت اماں جان کو میں نے اکثر ( جب بھی آپ مجھ سے میری والدہ کی وفات کے بعد ملی ہیں ) رقت اور پیار کے ساتھ ان کا ذکر کرتے سنا.اور ایک عجیب کرب کے ساتھ ہمیشہ فرماتیں: یا اللہ میری ہاجرہ کے بچوں پر رحم کیجیو“ اور ہر چھوٹے اور بڑے بچے کو ہمیشہ سینہ سے لگا کر فرما تھیں.یہ میری ہاجرہ کے بچے ہیں.“ ۱۹۲۹ ء میں میری شادی ہوئی.حضرت اماں جان دو دن پہلے آکر ہمارے ہاں رہیں.اور نہایت شفقت اور توجہ سے میرا خیال رکھا.ایک رات پہلے محترمہ بے بے جی ( والدہ صاحبہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب ( قادیان تشریف لے آئے تھے.بے بے جی محترمہ اور حضرت اماں جان بہت رات تک باتیں کرتی رہیں.رات کے کوئی بارہ ایک بجے کے قریب بے بے جی اور حضرت اماں جان میرے پاس آئیں.میں جاگ رہی تھی.اماں جان نے نہایت پیار سے پوچھا.”کیوں“ میرے کانوں میں اس وقت تک وہ ” کیوں گونج رہی ہے.میں روتے ہوئے اماں جان سے لپٹ گئی.مجھے پانی پلوایا.خاص طور پر ہاتھوں اور پاؤں کی مہندی دیکھی.جہاں سے اتر گئی تھی.وہاں اپنے ہاتھ سے دوبارہ لگائی.اور بہت دیر تک میرے پاس بیٹھی مجھے پیار کرتی رہیں.ال1 حضرت اماں جان کو بے بے جی محترمہ سے دلی تعلق اور لگاؤ تھا.ان کے آنے پر میں ہمیشہ دیکھا.کہ بہت مسرت کا اظہار فرماتیں.ان کے لئے خاص طور پر خود کھانے وغیرہ کا اہتمام کرتیں.میری شادی پر بہت سی چیزیں بطور تحفہ دیں.پھر عین جب میں رخصت ہونے لگی.تو چپکے سے میرے ہاتھ میں کچھ روپے دیئے.اور فرمایا: ”لڑکیوں کو بعض دفعہ ضرورت پڑ جاتی ہے.یہ تم اپنے پاس ہی رکھنا“ شادی کے بعد جب میں واپس آئی تو میرے ساتھ میری شفیق بے بے جی بھی
244 تھیں.خاص طور پر حضرت اماں جان نے ہماری دعوت کی.اور سارادن بلا کر اپنے پاس ٹھیرایا.حضرت اماں جان سے ایک دفعہ میں قادیان ملنے گئی.دیکھا کہ ایک باورچی خانہ میں پراٹھے پکار ہی ہیں.میں نے کہا.اماں جان آپ بیٹھی ہیں.اٹھیں میں پکاتی ہوں تو بہت نرم اور میٹھی آواز میں قہقہ لگا کرفرمایا.تمہیں روٹی پکانی آتی ہے.مجھے تو ایسے لگتا ہے جیسے تم صرف کھیلنا اور ہنسناہی جانتی ہو.اور مجھے اس طرح ہی اچھی لگتی ہو.یہاں بیٹھو میں روٹی پکاتی ہوں تم کھاؤ“.میں ہنستے ہوئے وہیں بیٹھی گئی.حضرت اماں جان نے میرے آگے چوکی پچھوا دی اور اس پر مجھے خود کھانا نکال کر دیا.اور یہ تو اکثر ہوا کہ جب کبھی میں رات کو باہر سے قادیان پہنچی.تو صبح سویرے ہی حضرت اماں جان کسی عورت کے ساتھ میرے ابا جان کے گھر تشریف لے آئیں.اور آتے ہی اپنی مخصوص بلند آواز میں ”السلام علیکم کہا.( بعض دفعہ تو میں ابھی سو ہی رہی ہوتی تھی ) اور نہایت محبت سے سینہ سے لگالیا.اور فرمایا.مجھے رات اطلاع ہوگئی تھی.کہ میری آمنہ آگئی ہے.اس لئے میں صبح ہی ملنے کے لئے آگئی.بعض دفعہ میرے ساتھ چودھری صاحب ( چودھری عبد اللہ خاں) بھی ہوتے ، اور چونکہ ان کی ٹانگ خراب تھی اس لئے میرے اصرار کے باوجودان کو نیچے نہ اترنے دیتیں.اور خود او پر جا کر ان سے ملتیں.اور خیریت دریافت فرماتیں.۱۱۲ از مکر مهد رقیه بیگم بنت محمد اعظم مرحوم آف دہلی دروازہ لاہور ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے کہ ہم اپنے گاؤں موضع تھے غلام نبی سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.اور محلہ دارالفضل میں ایک کرایہ کے مکان میں مقیم تھے.ایک روز میں اور میری والدہ مرحومہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی زیارت کو گئیں.جب ہم دار امسیح میں داخل ہوئیں تو دیکھا کہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا آٹا گوندھ رہی ہیں.والدہ مرحومہ کو یہ دیکھ کر بہت ہی تعجب ہوا.کیونکہ ایسے کام بڑے گھروں میں عام طور پر خادمائیں کرتی ہیں.اور اس تعجب کی وجہ سے والدہ صاحبہ نے کہا.کہ بیوی جی آپ خود آٹا گوندھ رہی ہیں ؟ تو حضرت اُم المومنین نے ہنس کر پنجابی زبان میں فرمایا کہ ”کیا میں عورت نہیں ہوں لڑکا ہوں.اس سے ہم بہت ہی متاثر ہوئے.کہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں عار نہیں سمجھتیں.حالانکہ ایسے کاموں کے لئے ان کی کئی خادمائیں وہاں موجود تھیں.۱۳)
245 مکرمہ عزیز بخت صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام رسول را جیکی سب سے پہلے مجھے حضرت ممدوحہ کی زیارت کا شرف لاہور میں حاصل ہوا.حضرت اماں جان ان دنوں حضرت میاں چراغ الدین صاحب کے مکان میں فروکش تھیں.میں نے حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کے بعد کچھ پھل اور نقدی پیش کی.آپ نے محبت اور شفقت سے اپنے پاس بٹھایا.مولوی صاحب کی خیریت دریافت فرمائی اور میرے خاندانی حالات پوچھتے رہے.۱۲ بجے دو پہر مکرم میاں معراج الدین صاحب عمر کے ہاں آپ کی دعوت تھی.وہاں مجھے بھی ساتھ لے گئے.مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلایا.اس کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کی بیوی آپ کے جسم کو دبانے لگی.میں نے بھی دبانا چاہا لیکن خواجہ صاحب کی بیوی نے منع کر دیا.کہ تمہیں دبانا نہیں آتا.لیکن حضرت اماں جان نے فوراً میری دلجوئی کی خاطر فرمایا.’ فاطمہ ! تم چھوڑ دو اور ان کو دبانے دو.میں آپ کی اس شفقت سے جو پہلے ہی دن آپ نے مجھ پر فرمائی بے حد متاثر ہوئی.انہی دنوں لاہور میں جماعت کا ایک جلسہ تھا.جس میں شمولیت کے لئے بہت سے مہمان بیرون سے آئے ہوئے تھے.ان مہمانوں کا کھانا پک رہا تھا.حضرت اماں جان بھی وہاں تشریف لے گئیں اور سالن پکانے اور آٹا گوندھنے کی خدمت کو بڑی مسرت سے سرانجام دیتی رہیں.مجھے بھی آپ نے اپنے ساتھ کام میں شریک رکھا.فالحمد لله على ذلك ۱۱۴ ایک دفعہ میں جلسہ سالانہ پر لاہور سے قادیان حاضر ہوئی.حضرت اماں جان نے اپنے مکان میں ٹھہرایا.میرے ساتھ ایک ہی کمرہ میں مکرمی ماسٹر محمد علی صاحب بی اے.بی ٹی کی مرحومہ بیوی اور نواب بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد یوسف صاحب اور دو اور مستورات تھیں.حضرت اماں جان کچھ کھانا گھر پکواتے اور کچھ لنگر سے منگواتے اور ہمارے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے.میں اس موقع پر کئی دن قادیان ٹھہری.اس عرصہ میں حضرت ممدوحہ کا یہی معمول رہا.آپ انگیٹھی اور تو ا پاس رکھ لیتیں اور روٹیاں گرم کر کر کے ہمیں کھانے کے لئے دیتی جاتیں اور خود بھی کھا تھیں.اس وقت جو شفقت اور محبت آپ کے چہرہ سے ظاہر ہوتی تھی وہ کبھی نہیں بھول سکتی.۱۱۵ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب تحریر کرتے ہیں میری بیوی ہاجرہ مرحومہ سے بہت محبت کا سلوک فرماتی تھیں.اور اکثر ہمارے گھر میں تشریف
246 فرما ہوا کرتی تھیں.اور نصیحت فرمایا کرتی تھیں کہ بیوی اور خاوند کو ایک دوسرے کی خوشی کا خیال رکھنا چاہیئے.لباس کے پہنے ، کھانے پینے کی عادات اور اوقات تک کا خیال رکھنا چاہیئے.بعض دفعہ ساتھ جو ساتھی عورتیں یا خادمات ہوتی تھیں.ان کو کام میں مددکا حکم بھی دیتی تھیں اور میری بیوی ہاجرہ مرحومہ اکثر حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوتی رہتی تھی.111 گھریلو کاموں میں جماعت کی مستورات کی رہنمائی از مکرم اخوند فیاض احمد صاحب ایک مرتبہ آپ ہمارے گھر تشریف لائی ہوئی تھیں اور خاکسار کی والدہ کے ساتھ کھڑی ہوکر ان کو کلف لگے اور چنے ہوئے دوپٹے کو تہہ کرنے کا ایسا طریقہ بتایا.جس سے دوپٹے کی کلف اور شکن محفوظ رہتی ہیں.ایک مرتبہ فرمایا کہ آجکل لڑکیاں کام نہیں کرتیں.خاکسار کی والدہ صاحبہ نے عرض کیا.ہمیں تو گھر میں بہت کام ہوتا ہے.فرمانے لگیں کیا کام ہوتا ہے چند کپڑے سی لئے یا سلائیاں بن لیں لیکن پرانے زمانے میں تو عورتیں خود سوت چرنے پر کات کر کپڑا بنتی تھیں.خود آٹا چکی پر پیس کر روٹی پکاتی تھیں گائے بھینس رکھتی تھیں دودھ بلوتی تھیں.تم لوگ صرف چند کپڑے سی لینے اور چند سلائیاں بن لینے کو کافی کہتے ہو.آپ نے ایک دفعہ والدہ صاحبہ کو ایک احمدی خاتون کا واقعہ سنایا کہ وہ کہتی ہے کہ میرے خاوند نے مجھے فلاں فلاں چیز نہیں لا کر دی.پھر فرمایا کہ خاوندوں کو کیا پتہ کہ وہ اپنی بیویوں کو کیا لا کر د ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مردوں کو اپنی ضروریات بتایا کریں.۱۱۸ از امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد رشید آف نوشہرہ میری اولاد زندہ نہیں رہتی تھی جس کا علم حضرت اماں جان کو بھی تھا.آخر اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑی بچی صفیہ عطا کی اور میں اس کو لے کر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے بڑے لڑکے کی شادی کے موقع پر ان کے ہاں گئی وہاں حضرت اماں جان بھی تشریف لائی ہوئی تھیں.آپ نے میری گود میں بچہ دیکھ کر فور پوچھا.”لڑکا ہے یا لڑ کی ؟“ میرے بتانے پر کہ لڑکی ہے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پنجابی زبان میں فرمایا.شکر ہے نی گڑیے تینوں وی خدا نے دنیا نال رلایا
ہے.‘119 مکرم اخوند فیاض احمد صاحب بیان کرتے ہیں : 247 خاکسار کی والدہ صاحبہ (یعنی جواب بقید حیات ہیں اور خاکسار کی دوسری والدہ ہیں.اور اس مضمون میں اپنی والدہ صاحبہ کا ہر جگہ ذکر ہے ) بیان کرتی ہیں کہ جب ان کی شادی کے موقعہ پر خاکسار کے ابا جی ان کو لینے کے لئے قادیان پہنچے تو حضرت اماں جان بھی اس تقریب پر رونق افروز تھیں.سہ پہر کو آپ کی خدمت میں ناشتہ پیش کیا گیا.تو آپ نے از راہ شفقت دلہن (یعنی والدہ صاحبہ ) کو بلوایا اور فرمایا کہ نئے گھر میں تم شرم کے مارے کچھ نہ کھاؤ گی.اب یہ ناشتہ کھا لو تا کہ بھوکی نہ رہو اور اپنے سامنے والدہ صاحبہ کو بسکٹ کیک وغیرہ کھلائے اور اپنی چائے کی پیالی والدہ صاحبہ کو دے دی.جس میں کچھ گھونٹ آپ نے چائے پی ہوئی تھی.اور اپنے لئے دوسری پیالی میں چائے بنائی.پھر آپ نے اباجی کو فرمایا خانصاحب ( یعنی خاکسار کے ابا جی ) کو میری طرف سے کہہ دو کہ یہ ( یعنی والدہ صاحبہ ) چائے کی عادی ہے.اس کی چائے کا خیال رکھیں.( کیونکہ خاکسار کی والدہ صاحبہ کشمیر اور گلگت کے علاقوں سے آئی ہیں) چنا نچہ ابا جی نے مدت العمران کے حسب عادت چائے کا خیال رکھا گو وہ خود چائے کے عادی یا شائق نہیں تھے.اگر کبھی کسی وجہ سے ڈاکٹروں نے والدہ صاحبہ کو چائے سے پر ہیز کرنے کا مشورہ دیا.تو ابا جی والدہ کو فرماتے کہ میں نہیں کہتا.ڈاکٹر کہتے ہیں.نیز حضرت اماں جان نے شادی پر خاکسار کی والدہ صاحبہ کو دوروپے عنایت فرمائے تھے.۱۲۰ مکرمہ حمیدہ صابر ہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب قادیان کی بات ہے آپ نے ایک دو پٹہ اوڑھا ہوا تھا.میں نے پوچھا.اماں جان ! یہ کس نے بنایا ہے.فرمایا بیٹی ! تمہارے سوا مجھے اور کون بنا کر دیتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی اور بہن نے کبھی ان کو دوپٹہ کاڑھ کر نہیں دیا تھا بلکہ کئی خواتین حضرت اماں جان کے لئے کاڑھے ہوئے دو پئے تحفہ لائیں.آپ نے میری دلجوئی کے لئے یہ فقرہ فرمایا.ایک دفعہ میں نے اور میری بڑی بھائی جان نے دو تین گھنٹے میں ایک دو پٹہ تیار کیا.اور جب وہ آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اس کے اتنی جلدی بتانے پر اظہار خوشنودی فرمایا.قادیان ، لاہور اور پھر ربوہ میں میں نے حضرت اماں جان کے لئے سویٹر بنے.لاہور میں
248 فرمایا.میرا دل سرخ رنگ کا سویٹر پہننے کو چاہتا ہے.میں نے کہا بہت اچھا اماں جان ! بنا دیتی ہوں.جب سویٹر مکمل ہو گیا تو پہناتے وقت غلطی سے میں نے بائیں آستین چڑھانے کے لئے پہلے پیش کی.آپ نے فرمایا.نہیں پہلے دایاں پہناؤ.مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا.۱۹۵۱ء میں جب اُونی کوئی آپ کو پہنانے لگی تو اتفاق سے پھر اسی غلطی کی مرتکب ہوئی.آپ نے فرمایا.لڑکی ! دایاں بازو پہلے پہنا کرتے ہیں.اس پر مجھے سخت ندامت ہوئی کہ دائیں ہاتھ کی برکات جانتے ہوئے بھی یہ غلطی مجھ سے دو دفعہ سرزد ہو چکی ہے.آپ کی عادت تھی کہ جب دوپٹہ کاڑھنے کے لئے دیتیں تو دھاگوں کے لئے پیسے ساتھ دیتی تھیں تا اپنی پسند کا دھاگہ لے سکوں.فرماتیں بے شک اندازے سے زیادہ لے لیا کرو تا کہ کم ہو جانے کی صورت میں اور نہ منگوانے پڑے.آخری اونی کوئی جو میں نے بنا کر آپ کو پہنائی ہے.اس نمونہ کا ایک سویٹ نمائش کے لئے میں نے بنایا تھا.جو حضرت اُم داؤ داحمد صاحب نے خریدا.آپ کو یہ ڈیزائن پسند آیا.فرمایا بغیر آستینیوں کے اس نمونے کا سویٹر بنا دو.اُون لاہور جا کر خود خرید کر لانا.لاہور سے واپسی پر میں پان لے کر حاضر ہوئی فرمایا: اون لے آئی ہو عرض کی جی فرمایا ” کتنے کی ہے“ میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا.”اماں جان اون تو بہت پیسوں کی ہے.اصل قیمت تو کوئی بنا کر ہی بتا سکوں گی“ سن کر متبسم ہوئیں.جب کوئی تیار کر کے پہنائی تو پھر پوچھا ” کتنے کی اُون لگی ہے اور ساتھ ہی ہوا اُٹھا کر پیسے نکالنے کے لئے اُسے کھولنا چاہا.میں نے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور درخواست کی اماں جان! آپ میرے اور میرے والدین کے لئے دعا فرمائیں اور مجھے اپنا کوئی کپڑا تبرک دیں.اس پر وہ پُرنور چہرہ متبسم ہوا اور فرمایا : اچھا، دو تین دن کے بعد میں پھر گئی اور کہا.اماں جان آپ نے میرا قرضہ دینا ہے، مسکرا کر خاموش ہو گئیں.دوسرے دن آپ نے اپنا ایک پھولدار وائل کا قمیض اور تین اونس اون میرے گھر بھیجی.میں خدمت اطہر میں حاضر ہوئی اور پوچھا کہ ”اماں جان ! اون کا کیا بنانا ہے؟ فرمایا ” تمہارے لئے ہے.۱۲۱
249 اولاد سے پیار مکرم ابوالمبارک محمد عبداللہ صاحب حضرت اماں جان کو جہاں مولیٰ کریم نے روحانی لحاظ سے سیدۃ النساء العالمین ہونے کی عزت دی تھی جسمانی لحاظ سے بھی اپنے بہت سے بندوں پر آپ کو فضیلت عطا کی تھی.آپ پانچ گاؤں کی واحد مالکہ تھیں اور بعض اطراف میں تو آپ کی زمین کا سلسلہ دو دو میل نکل گیا تھا.ایک دن فجر کی نماز کے بعد فرمایا.عبداللہ نواں پنڈ ( جانب بسراواں ) کو سیر کرنے چلیں گے میں ساتھ ہولیا.برکت نام ایک خادمہ بھی ساتھ تھیں ہم نواں پنڈ سے بہت دور آگے نکل گئے.واپسی پر راستہ تو چھوڑ دیا.اور کھیتوں کھیت ہو کر چلنے لگے.ایک جگہ ایک کھیت کی منڈیر پر کھڑے ہو کر فرمایا.”عبداللہ یہ کھیت ہمارا ہے اور یہ کھیت ( حضرت مرزا) سلطان احمد ( ڈپٹی کمشنر ) کا ہے.ہمارے کھیت میں ساگ (سرسوں کا ) اچھا نہیں مگر اس میں اچھا ہے.آواسی سے ساگ تو ڑلیں کہ وہ بھی تو ہمارا ہی بیٹا ہے“.یہ واقعہ میں نے اسلئے ذکر کیا ہے کہ باوجود ( سیدنا ) حضرت میاں محمود احمد اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب سلمہما اللہ تعالیٰ ایسے لائق بیٹوں کے ہوتے ہوئے آپ کو اپنی زرعی جائیداد کی بھی پوری پوری واقفیت تھی.ہماری کتنی بہنیں ہیں جنہیں اس بات کا علم بھی ہے کہ ان کے والد ، میاں کس دفتر میں کام کرتے ہیں.اس کے شعبے کا تو نام ہی نہ لو.مگر حضرت اماں جان ہیں کہ انہیں اپنی ہی زمین نہیں اپنے بیٹے (حضرت مرزا) سلطان احمد کی زمین کی بھی پوری واقفیت ہے.۱۲۳ مجھے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ میری آنکھوں نے دیکھا نچلے دالان میں ایک پانچ چھ سالہ لڑکی بھی چار پائی پر پڑی ہوئی ہے.لگی سی معلوم ہوتی ہے.ہوش و حواس درست معلوم نہیں ہوتے اکثر دفعہ پیشاب وغیرہ بھی چارپائی پر ہی کر دیتی ہے.عورتیں اور دوسرے بچے جب اس کی چارپائی کے پاس سے گزرتے ہیں.تو ناک کے آگے
250 کپڑا رکھ لیتے ہیں کہ بد بو نہ آئے.اللہ رے رحم اور شفقت.ام المومنین ہیں کہ جنہیں نہ ان سے بد بو ہی آتی ہے.نہ اسے دیکھ کر کراہت ہی پیدا ہوتی ہے.خود دوسرے چوتھے روز اسے نہلاتی ہیں.صاف کپڑے پہناتی ہیں.جوئیں نکالتی ہیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ پگی لڑکی جسے ہم جیمی جیمی“ کہتے تھے ( نام تو امتہ الرحیم تھا ) حضرت اُم المومنین کی اپنی ہی بیٹی ہے.آپ کا یہ دست شفقت اس پر مہینہ دو مہینہ نہیں.سال دو سال نہیں بلکہ اس وقت تک جب تک کہ وہ جوان ہوگئی.اور آپ نے بچیوں کی طرح اس کی شادی کر دی.حضرت اُم المومنین یتیموں اور مسکینوں کی پرورش یتامیٰ اور مسکین کے درجے کے مطابق ہی نہ کرتی تھیں.بلکہ ان کو اپنے گھر میں اپنے بچوں جیسا درجہ دیتی تھیں.اور گھر کے اپنے بچوں پر بھی یہ اثر ڈالا کرتی تھیں.کہ وہ بھی زیر پرورش کو یتیم یا مسکین خیال نہ کریں.بلکہ اپنا ایک بھائی یا بہن سمجھیں.۱۲۲ مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی حضرت اماں جان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہایت اعلیٰ انتظامی قوتیں عطا ہوتی تھیں.جس مجلس میں بیٹھتیں اشارے اشارے میں انتظامات درست ہوتے جاتے اور ہر کام کی تفصیلات میں دلچسپی لیتیں اور پایہ تکمیل تک پہنچاتیں.جب مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمدیہ گورداسپور کی شادی اور دعوت ولیمہ ہوئی تو اس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات مبارکہ نے بھی شمولیت فرمائی.حضرت اماں جان بنفس نفیس دعوت میں شامل تھیں اور بعض لڑکیاں بھی شریک دعوت تھیں.کھانے کے دوران میں آپ کی نگاہ ہر عورت اور لڑکی پر پڑ رہی تھی اور آپ کے اشارے سے ہر ایک کی ضرورت پوری ہو رہی تھی.لڑکیوں کی طرف آپ کی خاص نظر شفقت تھی.عام طور پر ایسی دعوتوں میں بالخصوص مستورات میں کئی انتظامی خامیاں رہ جاتی ہیں اور باعث تکلیف ہو جاتی ہیں لیکن حضرت اماں جان کی محض موجودگی سے جملہ انتظامات نہایت عمدگی سے درست طور پر سرانجام پارہے تھے.۱۲۳ ذوق لطیف اور خوشی محترمه امۃ الرشید شوکت صاحبه
251 میری شادی کے موقع پر دوبار ہمارے گھر تشریف لائیں.میری چھوٹی بہن کی شادی پر بھی ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائیں.عورتیں خاموش بیٹھی ہوئی تھیں آپ نے آتے ہی کہا کہ چُپ چاپ کیوں بیٹھی ہو ، گاتی کیوں نہیں.میں نے خود دیکھا کہ آپ شادی و بیاہ کی مجلسوں میں خاموش رہنا پسند نہیں فرماتی تھیں.بلکہ چہل پہل اور روافق سے آپ کو خوشی ہوتی.ایک صاحبزادی کی شادی کے موقع پر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے اردگرد بیٹھی ہوئی عورتوں کو کچھ سُنانے کے لئے کہا اور فرمانے لگیں کہ اگر تم نہیں پڑھوگی تو میں خود پڑھوں گی.اس کے بعد شعر خود بھی سُنائے اور پڑھنے والی کی غلطیوں کو بھی درست فرمایا.۱۲۴ خوش مزاجی اور خوش خلقی امتہ الحمید بیگم اہلیہ قاضی محمد رشید صاحب آف نوشہرہ محترمہ سکینہ بیگم صاحبه دکاندار اہلیہ شیخ نور الدین صاحب کی بڑی لڑکی کی شادی تھی.وہ میری سہیلی تھی.چنانچہ میں اس موقع پر ان کے گھر گئی.وہاں حضرت اماں جان بھی تشریف فرما تھیں.اور لڑکیوں کو چپ چاپ بیٹھے دیکھ کر فرمایا: "لڑکیو ! گیت کیوں نہیں گاتیں.“ اس پر لڑکیوں نے گیت گائے.بعد ازاں حضرت اماں جان نے آمنہ کی انگلی میں انگشتری پہنائی اور دعا کی.۱۲۵ محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبه میری والدہ محترمہ ایک دن میری بھابھی کے ساتھ انگوروں کی ایک پلیٹ لے کر گئیں.آپ نے نهایت خندہ پیشانی سے اس حقیر تحفہ کو قبول کیا اور ہنس کے فرمایا کہ ”ہم تو پلیٹ بھی نہیں دیا کرتے، اس کے بعد خادمہ کو بلا کر کہا کہ یہ انگور رکھ لو اور پلیٹ صاف کر کے لاؤ.اتنی عمر میں آپ کا ہر ایک آنے والے سے خندہ پیشانی سے عنا اور لطیف قسم کے مذاق سے آنے والے کو محظوظ کرنا یہ آپ کی ہی خاص خوبی تھی.ورنہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ اتنی عمر کو پہنچنے والے عموماً یا تو نہایت خاموش اور سنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ کسی سے بات بھی نہیں کرتے یا سخت قسم کے چڑ چڑا مزاج کہ کسی بچے کی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن آپ کی طبیعت میں اس قسم کے بڑھاپے کی کوئی علامت نہیں تھی.نہایت زندہ دل اور خوش مزاج اور روشن دماغ تھیں.بلکہ آپ کے پاس بیٹھنے والی کی طبیعت میں بھی ایک تازگی اور چہرے پر بشاشت اور زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی
تھی.۱۲۶ 252 محترمہ آمنہ بیگم اہلیہ نیک محمد خان غزنوی حضرت اُم المومنین کو خاموشی کسی وقت بھی پسند نہ تھی.آپ ہر وقت اپنی مجالس کو بار وفق پسند فرماتیں.عام طور پر آپ کی مجالس میں اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر اذکار ہوتا.کبھی لطائف اور کہانیاں دوسروں سے سنتیں اور خود سنا تھیں.امتہ اللہ اہلیہ صاحبہ خان میر خان صاحب اکثر آپ کی خدمت میں رہتیں.آپ نے بچپن سے ان کا نام ” لال پری مخصوص فرمایا ہوا تھا.پہلے تو اکثر ہی مگر اب بھی جبکہ آپ بہت کمزور ہو چکی تھیں جب بھی لال پری صاحبہ آپ کی خدمت میں آتیں تو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا فرماتیں لال پری خاموش کیوں بیٹھی ہو کچھ بولو تو وہ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فارسی کی نظمیں یا حضرت امیر المومنین کی نظمیں یا پھر کبھی پنجابی کے قصے سناتیں تو آپ بہت خوش ہوتیں.غرضیکہ آپ کی مجلس ہمیشہ با رونق رہتی.۱۲۷ مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضبا غریبوں اور ضرورت مندوں کا بہت خیال رکھتی تھیں اور ان کی مددفرماتیں.آپ کے جو دو کرم کی بہت سی روایات ہیں.آپ ظاہری طور پر بھی مددفرماتی تھیں اور پوشیدہ طور پر بھی.آپ نے کئی غریب و یتیم لڑکیوں کی پرورش کی.اُن کی ماؤں سے بڑھ کر ان کی تربیت کی.اور پھر اُن کے بیاہ کئے کئی لڑکے اور لڑکیوں کا تعلیم کا خرچ برداشت کیا.آپ حد سے زیادہ خوش اخلاق تھیں اور خوش طبعی بھی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.ایک دفعہ میری بہن عزیزہ امتہ الحفیظ سلمہا اللہ نے دہلی سے حضرت والدہ صاحبہ کے ہاتھ حضرت اماں جان کے لئے ایک جوتی بھیجی.جب میری والدہ صاحبہ نے آپ کی خدمت میں پیش کی تو اتفاق سے آپ کو اُس جوتی کا ڈیزائن زیادہ پسند آیا جو میری والدہ صاحبہ نے پہنی ہوتی تھی.فرمایا مجھ سے یہ جوتی بدل لو.عورتیں دوپٹہ بدل کر بہنیں بنتی ہیں ہم جو تیاں بدل کر بہنیں بن جائیں.والدہ صاحبہ نے عرض کیا میری اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے.آپ سوچیں تو سہی کس قدر وسیع اخلاق کی مالک تھیں وہ خاتون.آپ نے اپنی ایک خادمہ کی مستعمل جوتی پہنے میں عار نہیں فرمایا اور اپنی نئی جوتی میری والدہ صاحبہ کو پہنا دی.کیا اس قسم کی مثال کہیں اور بھی مل سکتی ہے.اسی طرح اکثر خوش طبعی سے آپ والدہ صاحبہ محترمہ کو مخاطب
253 کر کے فرمایا کرتیں.ڈاکٹر کی بیوی ، ڈاکٹر کی ماں ڈاکٹر کی بھاوج ، ڈاکٹر کی سالی.مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھوڑی دیر آپ کے پاس ٹھہرنے کے بعد میں حضرت آپا جان اُمّم ناصر احمد صاحب کی طرف جارہی تھی کہ حضرت اماں جان نے بلند آواز سے مجھے پکارا.حمیدہ ! استانی حمیدہ ، فیض علی کی بیٹی حمیدہ ، احسان علی کی بہن حمیدہ.میں ہنستی ہوئی دوبارہ خدمت اقدس میں حاضر ہو گئی ۱۲۸ علمی ذوق و شوق مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب حضرت اماں جان بڑی علم دوست تھیں.آپ کو کتابیں سننے کا بہت شوق تھا.آپ بڑی توجہ سے سنتیں اور ساتھ ساتھ غلط تلفظ کو درست فرماتیں اور معنے بتاتی جاتیں.مجھے بہت مرتبہ آپ کو کتابیں سنانے کا موقع ملا.ایک دفعہ ایک کتاب میں نے درمیان سے پڑھ کر سنانی شروع کی یعنی اُس کا شروع کا حصہ آپ کسی اور سے سن چکی تھیں.میں نے دو چار صفحے پڑھے.مگر قصہ کے ابتدائی حصہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اُس کے کردار کو اچھی طرح نہ سمجھ سکی اس لئے آپ نے مجھے شروع سے لے کر سارا قصہ سنایا اور پھر بقیہ کتاب میں نے پڑھ کر سنائی.اس واقعہ کے بیان سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کو صرف اپنا شوق پورا کرنا ہی مقصود نہ ہوتا تھا بلکہ سنانے والے کی خاطر بھی منظور ہوتی تھی.تا وہ بھی اس میں پوری دلچسپی لے سکے.ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی.وہ دن مجھے حضرت اماں جان کے حضور گزارنے کا موقع مل گیا.ظہر کی نماز کے بعد میں نے وہ کتاب آپ کو سنانی شروع کی.درمیان میں عصر کی نماز کے لئے اُسے چھوڑا اور شام سے قبل اُسے ختم کرلیا.حضرت اماں جان نے کہیں باہر جانا تھا آپ تیار ہو کے بیٹھی رہیں کہ کتاب ختم ہوتو تشریف لے جائیں.کتاب ختم کرنے کے بعد میں نے ایک چھوٹا سا نوٹ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں لکھ کر وہ کتاب واپس کر دی کہ حضرت اماں جان کو یہ کتاب سنانے کی مجھے سعادت ملی ہے.
254 اس لئے جلد واپس کر رہی ہوں.قادیان میں ایک دفعہ میں آپ کے کمرہ میں داخل ہوئی آپ اس وقت اپنے پلنگ پر بیٹھی ہوئیں خوش الحانی سے بہادر شاہ ظفر کے اس شعر کو بار بار دو ہر ار ہی تھیں کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے اب میں جب اس شعر کو پڑھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ یہ تو ہم پر صادق آتا ہے.ربوہ میں ایک دن حاضر خدمت تھی.فرمایا، یہ شعر کس کا ہے.میں نے عرض کیا مہرباں ہو جائیں گے دردِ جگر ہونے تو دو خود چلے آئیں گے آہوں میں اثر ہونے تو دو آپ نے فرمایا.مجھے اس طرح پسند ہے مہرباں ہو جائیں گے دل میں تڑپ ہونے تو دو خود چلے آئیں گے دعاؤں میں اثر ہونے تو دو ۱۲۹
255 اگر میرا ناصر بھی چوری کرے تو میں تو اُس کی بھی سفارش نہیں کروں گی تاثرات حضرت زینب بی بی صاحبہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں شہر فیروز پور سے قادیان دار الاماں آئی.تو حضرت اماں جان اپنے ہال کمرے میں لیٹے ہوئے تھے.پر جب انہوں نے اس عاجزہ کو دیکھا.تو حضور نے اپنے پاس بلا کر اپنی چارپائی پر مجھے اپنے برابر بٹھا لیا.اور دریافت فرمایا کہ زینب تو کب آئی ہے.اور تمہارے بال بچوں کا کیا حال ہے.اور تمہارے بابومحمد فاضل کی آنکھوں کا کیا حال ہے.میں نے حضور کو سب حال سنایا.تو میری اس گفتگو کے دوران میں ایک خاکرو به حضرت اُم المومنین کے پاس باہر سے آئی.اور بڑے درد ناک لہجے میں اس خاکروبہ نے عرض کیا کہ میں حضور کی خدمت میں ایک زبر دست سفارش کرانے آئی ہوں اور وہ سفارش یہ ہے کہ میرے لڑکے نے کسی کے گھر کا قفل تو ڑا ہے.اور اس گھر والے میرے لڑکے کو پکڑ کر لے گئے ہیں.برائے مہربانی آپ میرے لڑکے کے لئے سفارش فرمائیں.کہ میں غریب عورت ہوں میرے لڑکے چھوڑ دیا جائے.حضرت اماں جان نے اس خا کرو بہ کو خوب گرج کر جواب دیا.کہ میں تو ایسے لڑکے کی کبھی سفارش نہیں کروں گی.کہ اُس چورلڑکے کو چھوڑ دیا جائے.ہرگز ہرگز میں ایسی سفارش نہیں کرسکتی.کیونکہ یہ شریعت کے بالکل خلاف ہے.تم میری بات کان کھول کر سن لو.اگر میرا ناصر بھی چوری کرے تو میں تو اُس کی بھی سفارش نہیں کروں گی.۱۳۰ سفارش بھی کر دی اور جرمانہ بھی ادا کر دیا از مکرم ابوالمبارک محمد عبد اللہ صاحب میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا تھا.اور حضر خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز اللہ ن کی عمر کو بہت لمبا کرے آرزؤں کو برلائے ) اس کے ہیڈ ماسٹر تھے.امتحان کے دن نزدیک تھے.اور میں نے گاؤں جانے کے لئے میاں صاحب ان دنوں سب لوگ حضور کو اسی نام سے
256 پکارا کرتے تھے ) سے رخصت طلب کی.میاں صاحب نے فرمایا.امتحان بہت قریب ہے چھٹی نہیں مل سکتی.پھر عرض کی.میاں صاحب نے پھر انکار کر دیا.گھر آکر حضرت اماں جان سے شکوہ کیا.اماں جان! میرا جی اداس ہو گیا ہے.اور میاں چھٹی نہیں دیتے آپ میری بات سن کر خاموش ہور ہیں.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا ان دنوں یہ معمول تھا کہ شام کا کھانا اپنے دالان میں تینوں بیٹوں سمیت اکٹھے ہی کھایا کرتیں.ایک چھوٹا سا تختہ زمین پر بچھ جاتا.اور اردگرد حضرت اماں جان اور سب صاحبزادے بیٹھ کر کھانا کھاتے کھانا بھی کھاتے جاتے اور مختلف قسم کا سلسلہ کلام بھی جاری رہتا.معلوم ہوتا ہے ایسے موقع پر حضرت اماں جان نے میری سفارش بھی کر دی تھی.صبح سکول گیا تو حضرت میاں صاحب (امیر المومنین ) نے دفتر میں مجھے بلا کر فرمایا.رخصت تو دے دیتا ہوں مگر رخصت کے دن یعنی جمعہ کے روز ہی واپس آجانا اگر نہ آئے تو سزا ملے گی.میں نے شرط منظور کر لی اور گھر یعنی موضع بہادر حسین چلا گیا.خدا کا کرنا یہ ہوا کہ گاؤں پہنچ کر ایک شادی کی تقریب میں شامل ہونا پڑا اور جمعہ کے روز ہی واپسی کے ہفتہ اور اتوار کو بھی واپس نہ آسکا اور سوموار کی صبح کو سکول میں حاضر ہوا.میاں صاحب نے دفتر میں مجھے طلب کیا اور دودن کی غیر حاضری پر سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ سکول سے نکل جاؤ اور کل تب آنا کہ ایک روپیہ جرمانہ بھی ساتھ لاؤ.میں سکول سے تو نہ گیا مگر گھر جا کر اماں جان کو سارا واقعہ کہہ سنایا: اماں جان! میاں سخت ناراض ہو گئے ہیں اور کہتے ہیں ایک روپیہ جرمانہ لاؤ تو سکول آؤ ورنہ نہ آؤ.اماں جان نے جھڑک کر کہا ! تو جب میاں نے تمہیں ایک ہی دن کی رخصت دی تھی تو تم نے دو دن کیوں لگا دیئے میں ٹھٹھک کر رہ گیا.اور سوچنے لگا.اٹھی ! اب کیا کروں.پھر عرض کی اماں جان! جنہیں ملنے کے لئے گیا ہوا تھا.وہ تو بٹالہ میں ایک شادی پر گئے ہوئے تھے مجھے ان کے پیچھے جانا پڑا.اس لئے دو دن لگ گئے اور آج اسی ڈر کے مارے راتوں رات سفر کر کے واپس پہنچا ہوں.اس پر آپ خاموش ہو گئیں.مغرب کے بعد وہی نورانی اور بابرکت محفل گرم ہوئی.یعنی شمع کے گرد تینوں پروانے جمع ہوئے.باتوں باتوں میں حضرت اماں جان نے عبداللہ کا ذکر بھی چھیڑ دیا.اور میں ایک طرف کھڑے ہو کر یہ گفتگو سننے لگا.اماں جان ہیں کہ عبداللہ کی معذوریاں بیان کرتی ہوئی تھکتی نہیں.اور میاں ہیں کہ وہ اپنا حکم منوانے پر بضد ہیں.
257 خدایا اب کیا ہو گا ! کیوں نالائقی کی.کیوں حکم نہ مانا ! کیوں دو دن غیر حاضر ہوا.حضرت اماں جان نے جب دیکھا کہ میاں ماننے میں نہیں آتے.تو جھٹ جیب سے ایک روپیہ نکال میز پر رکھ دیا.اور کہا.اچھا نہیں مانتے تو لو یہ اٹھا لو.اب بھلا روپیہ اٹھائے تو کون اٹھائے.وہ تولہ کا روپیہ نہیں.وہ منوں کا روپیہ ہو گیا ہے.جواٹھ نہیں سکتا.ہمارے دل مغموم ہیں اور آنکھیں اشکبار.اماں جان ! یتیموں کی اماں ! مسکینوں کی اماں ! آپ کی جدائی کا صدمہ دل پر سخت بھاری ہے.مولیٰ اپنی شان کے مطابق اپنی رحمتوں اور برکتوں کا آپ پر نزول فرمائے اور آپ کی آل پر آپ کی جماعت پر اس کی ان گنت رحمتوں کی بارش ہو.۱۳۱) اها ملازموں کی دلجوئی کا لطیف طریق از مکرم اخوند فیاض احمد صاحب خاکسار کی والدہ صاحبہ کی موجودگی میں ایک دفعہ ایک عورت نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ فلاں ملازمہ کہتی ہے کہ اس کو روٹی تھوڑی ملی ہے.تو آپ نے باورچی خانہ سے اس کا کھانا منگوایا اور اس کے برتن میں اور سالن ڈالا.دو روٹیاں اور منگوا کر اس کی روٹیوں میں شامل کر کے اپنے تولیہ میں لپیٹ کر رکھ لیں اور فرمایا کہ وہ بچوں والی ہے اس کو روٹی کم نہ دو.جب وہ ملازمہ آئی تو اس کی دلجوئی کے لئے فرمایا دیکھو میں نے تمہاری روٹیاں اپنے تولیے میں لپیٹ کر رکھی ہیں تاکہ ٹھنڈی نہ ہو جا ئیں.۱۳۲) از اہلیہ گوہر دین صاحب میرے شوہر محترم سالہا سال بیمار رہے ہیں.دعا کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کرتی.پھر جب کبھی دارالامان آتی.اور چونکہ میرے شوہر بیماری کے سبب آنہ سکتے.مجھ سے ان کی بیماری کی ذراذرا کیفیت دریافت فرما ئیں.غذا ، پر ہیز ، آرام کے بیش بہا مشورے عطا فرما تیں.تسلی دیتیں اور آخر میں ” میں دعا کروں گی اللہ فضل کرے گا.ایک مرتبہ میں آپ کے پاس بیٹھی تھی.کوئی عورت اپنے کسی بیمار عزیز کے حالات آپ کو سنا رہی
258 تھی.آخر میں اس نے کچھ ایسی بات کہی.گویا کہ کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا.مگر فلاں تدبیر سے اب اسے آرام ہوا.اماں جان نے اسی پر وقار انداز سے فرمایا.” تم یہ کیوں نہیں کہتیں.کہ اس تدبیر سے منشائے الہی شامل حال ہوا.اب اس کے فضل سے آرام ہے.‘۱۳۳ عزیز بخت صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام رسول را جیکی صاحب ایک دفعہ ہم چاروں بہشتی مقبرہ مزار مبارک پر دعا کے لئے گئیں.نواب بیگم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے کچھ مٹی لے کر کھائی اور باقی کپڑے میں باندھ لی.میں نے کہا کہ ایسا کرنا شرک ہے.اُس بہن نے جواب دیا کہ میرے بچے چھوٹی عمر میں مرجاتے ہیں شاید اس مٹی کی برکت سے بچ جائیں.شام کی نماز کے بعد جب ہم حضرت اماں جان کے ساتھ کھانا کھانے لگیں تو میں نے اس بات کا ذکر کیا.حضرت اُم المومنین یہ سن کر سخت ناراض ہوئیں اور آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا.آپ نے اس عورت سے دریافت فرمایا: جب اس نے اقرار کیا تو آپ نے تختی سے فرمایا کہ یہ شرک ہے.جومٹی کھالی ہے وہ تو واپس نہیں ہو سکتی لیکن جو کپڑے میں باندھی ہے وہ فورا باہر پھینک دو.اور تو بہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام شرک مٹانے کے لئے آئے تھے مشرک بنانے کے لئے نہیں.تیرے بیٹے زندہ رہیں گے چھوٹی عمر میں نہ مریں گے.اللہ تعالیٰ نے واقعی ایسا فضل فرمایا کہ اس کے بعد نواب بیگم کے ہاں چھ بچے ہوئے اور زندہ رہے ۱۳۴
259 عبادات مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ دختر ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب تلاوت قرآن کریم سے آپ کو عشق تھا.قادیان میں بہت دفعہ میں نے آپ کو قرآن کریم پڑھتے دیکھا اور سنا.زندگی کے آخری سالوں میں جب آپ خود تلاوت نہ فرماسکتی تھیں.دوسروں سے قرآن کریم سنتیں.عصر کے وقت آمنہ بیگم صاحبہ آپ کو قرآن کریم سناتیں.یہ آپ کی قرآن کریم سے محبت ہی تھی کہ آخری وقت میں آپ نے قرآن کریم سننے کی خواہش فرمائی.۱۳۵ محترمه آمنه بیگم اہلیہ نیک محمد خان غزنوی صاحب حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اللہ تعالیٰ کی ہزار ہار حمتیں اور درود نازل ہوں اور آپ کے درجات کو اللہ تعالیٰ بلند سے بلند تر فرمائے.آپ ہر وقت باوضور ہیں یہاں تک کہ آپ بیماری اور سخت کمزوری میں بھی بار بار تکیہ یا پلنگ کی پٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرہ مبارک پر بطور تیم فرما تھیں.یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ آپ کی کمزوری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نماز نہایت خشوع و خضوع سے اولین وقت میں ادا فرما تیں اور قادیان میں نوافل بیت الدعا میں ادافرما ئیں.مغرب کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک کے وقت میں آپ دعا اور عبادت میں مصروف رہتیں.ہر وقت حضرت اماں جان کی زبان مبارک پر سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ العظيم اور يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيْتُ کے دعائیہ کلمات رہتے.۳۶ مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب حضرت اماں جان نماز کا اولین وقت میں ادا کرنے کی عادی تھیں.اذان سنتے ہی نماز کی تیاری میں مصروف ہو جاتیں.اور نہایت ہی احسن طور پر نماز ادا کرتیں.میں نے سینکڑوں دفعہ آپ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے.اس آخری بیماری میں بھی جب ایک غیر احمدی خاتون کو ساتھ لے کر حضرت اماں جان کے گھر گئی.میں آپ کو دیکھنے کے لئے آپ کے کمرہ میں داخل ہوئی.آپ
260 نقاہت کی وجہ سے آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھیں.مغرب کی اذان ہوئی.آمنہ بیگم صاحبہ (جن کو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے ہی بچپن سے پرورش کیا تھا) نے عرض کیا.اماں جان اذان ہوگئی ہے.آپ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر سرہانے کی طرف مار کر تیم کیا.اور نماز کی نیت باندھی.۱۳۷ مکرمہ امۃ الرحم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ایک عظیم الشان خوبی حضرت اُم المومنین میں خاکسارہ نے دیکھی ہے کہ باوجود کثرت مشاغل اور ذمہ داریوں کے نماز نہایت التزام کے ساتھ اول وقت میں ادا فرماتیں اور پیرانہ سالی میں بھی جبکہ آپ کی عمر ستر سال کے لگ بھگ تھی میں نے دیکھا آپ کھڑی ہو کر نماز نہایت اطمینان کے ساتھ ادافرمایا کرتیں.۱۳۸ اہلیہ خان بہادر ابوالہاشم خان صاحب ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عاجزہ اپنی پہلی لڑکی کی پیدائش کے بعد پہلی دفعہ حضرت اماں جان کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئی.بہت دیر تک ان کے پاس ان کی نماز کے اختتام تک بیٹھی رہی.حضرت اماں جان نماز پڑھ کر دوبارہ آئیں.تو ہم سے دریافت فرمایا کہ لڑکیو! کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے.ہم نے کہا بچے نے پیشاب یا پاخانہ کیا ہوگا گھر چل کر پڑھ لیں گے.فرمانے لگیں.بچوں کے بہانہ سے نماز ضائع نہ کیا کرو.اس طرح بچے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتے ہیں.بچہ تو خدا کا ایک انعام ہے.آج تک جو بھی نماز کے لئے بچہ کا بہانہ کرتا ہے.۱۳۹
261 سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت و عقیدت حضرت مولوی محمد جی صاحب حضرت اماں جان حضرت اقدس کی پاکیزہ زندگی کی سب سے زیادہ گواہ صادق تھیں.آپ نے دعویٰ کی تصدیق کی اور حقیقت بھری گفتگو سے خدا کے مسیح کی تسلی کا پہلا ذریعہ بنیں.حضرت اقدس سفر میں ہوتے تو اماں جان کو ان کا خیال رہتا.ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام گورداسپور سے مع حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے یکہ میں سوار تشریف لا رہے تھے.خاکسار نے نہر کے کنارے ملاقات کی اور پھر قادیان میں خبر دی.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے خوشخبری سن کر ایک روپیہ انعام دیا.۱۴۰ مکرم محمد عبداللہ صاحب نبیرہ حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب نیلا گنبد لاہور حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں آپ پر نازل ہوں.ہمارے خاندان پر بڑی شفقت فرمایا کرتی تھیں.آپ کی تشریف آوری پر ہم میں سے ہر ایک یہی محسوس کرتا.کہ ہمارے لئے عید کا چاند طلوع ہو گیا ہے.باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا بھر کی عورتوں پر تفوق عطا فر مایا تھا.آپ اپنے خدام سے بڑے ہی لطف و کرم کا سلوک فرماتیں.اکثر بار جب آپ لا ہور تشریف لائیں.تو جہاں بھی قیام فرمایا.رقعہ یا پیغام بھیج کر دادی جان اور والدہ صاحبہ یا ان میں سے کسی ایک کو یاد فرما تیں.اور اس طرح انہیں خدمت کی برکت حاصل ہوتی.جب کبھی بھی آپ نیلا گنبد تشریف لائیں تو مکان میں داخل ہوتے ہی فرماتیں کٹڑیو تہاڈا کی حال اے مکان کے کھلے حصہ میں قیام فرماتیں اور انفرادی طور پر حال دریافت فرماتیں.ہمارے خاندان کے بعض افراد نے عرض کیا.کہ اماں جان بہما را مکان تنگ ہے اور آپ کے تشریف رکھنے کے شایان شان نہیں دعا فرماویں اللہ تعالیٰ ہمیں بہتر مکان عطا کرے.فرمایا نہیں! یہ مکان تمہارے لئے بڑا برکت والا ہے.کیونکہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا چکے ہیں.اس مکان کو نہ چھوڑنا.۱۴۱
262 شعائر اللہ کا احترام حضرت مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارہ خاکسار کی والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں.کہ ایک مرتبہ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے مظفر گز سے اطلاع بھجوائی کہ دوسرے صبح علی الصبح حضرت اماں جان اور آپ بمع اہل وعیال ملتان تشریف لائیں گے.اور ملتان میں مدفون ائمہ سلف کے مزاروں پر بغرض دعا تشریف لے جائیں گے.چنانچہ حسب اطلاع مظفر گڑھ سے حضرت اماں جان اور حضرت ماموں جان جمع اہل وعیال تشریف لائے.چنانچہ سب مستورات اور خاکسار کے ابا جی اور چند اور خدام حضرت اماں جان کے ہمرکاب ملتا ن کے پرانے قلعہ پر آئے اور بزرگان کے مزاروں کے اندر جا کر حضرت اماں جان نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی.۱۴۲ ملک غلام نبی صاحب آف ڈسکہ ایک دفعہ ایک آدمی نے باغ کا پھل جب ابھی آموں کو پو ر ہی پڑا تھا.چھ صدر و پیہ میری معرفت کہلا بھیجا.میں نے حضرت اماں جان کی خدمت میں عرض کی.تو جواباً فرمایا.یہ ناجائز ہے.جب آموں کو پھل لگ گیا تو وہ بہت تھوڑے روپیہ میں بگا.وہی آدمی منشی صاحب کو کہنے لگا.کہ اس وقت چھ صد روپیہ لے لیتے تو اچھا تھا.اب کتنے روپیہ کم ہیں.منشی صاحب نے جواب دیا.کہ بھائی جب حضرت اماں جان اس کو ناجائز سمجھتی ہیں.اور وہ ناجائز ہے.تو ایسے روپیہ کو کیا کرنا.گویا اسلام کے حکموں کی ہر طرح پابند غریبوں یتیموں کی ہمدرد اور پرورش کرنے والی ۱۴۳
263 حضرت مولوی محمد جی صاحب خلافت کا احترام اور محبت حضرت اماں جان اسلامی مساوات کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں.زائرات کو اپنی چار پائی اور پاس کے تخت پر بٹھا کر ہر ایک کے حالات دریافت فرما ہیں.ہر زائرہ خیال کرتی کہ آپ کو اس سے زیادہ محبت ہے.حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اسیح الاول) نے آپ کو فرمایا ہوا تھا کہ صحت افزاء ہوا میں سیر کیا کریں اس مشورہ کی بناء پر ایک دومیل کا چکر آپ لگایا کرتی تھیں اور احمدیوں کے گھروں کو بھی مزید برکت بخشا کرتی تھیں.سنت نبویہ علیہ کے مطابق بچوں سے پیار کرتیں اور خوش طبعی سے ان کو ہنسا تھیں.جب حضرت مولوی صاحب (خلیفتہ امسیح الاول) نے مسندِ خلافت کو زینت دی تو اماں جان نے اطاعت کا قابل رشک نمونہ پیش کیا جس سے مولوی صاحب بہت متاثر ہوئے.ایک دن صوفی غلام محمد صاحب امرتسری مغفور نے عرض کیا کہ لحاف قابل مرمت ہیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ بیوی صاحب ( یعنی حضرت اماں جان ) کے پاس بھیج دیں وہ درست کر دیں گی.صوفی صاحب متردد سے ہو گئے.آپ نے فرمایا.مجھے انہوں نے کہا ہوا ہے کہ میں ان کو کام بتادیا کروں.چنانچہ اماں جان نے لحاف درست کر کے بھجوادیے.حضرت اماں جان کو حضرت خلیفہ اول نے کہا کہ آپ اپنی غیر احمدی رشتہ دار مستورات سے تعلق پیدا کریں (وہ مدت سے تعلق توڑ چکی تھیں ) آپ نے مشورہ دیا کہ پہلے آپ ان کے گھروں میں جائیں.خدا تعالیٰ نے ان میں سے بہتوں کو احمدیت کی دولت عطا فرمائی.۱۴۴ مکرم محموداحمد قریشی صاحب حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بہت احترام تھا.جب ان کا کوئی خادم دوائی لینے یا کسی دیگر غرض کے لئے آتا.آپ سب کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے.آپ کے پاس جو تحائف آتے.وہ اکثر حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی
264 طرف بھیج دیتے تھے.ایک مرتبہ آپ نے درس عام میں فرمایا.کسی شخص نے میری بیوی کے لئے ام المومنین کے الفاظ استعمال کئے ہیں.یہ غلطی ہے.بیوی صاحب ام المومنین ہیں.آپ خلیفہء وقت کی اطاعت کا نمونہ تھیں.جس کا ذکر حضرت مسیح الا ول رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے.جب آپ گھوڑے سے گرے.اور ایک لمبے عرصہ تک بیمار رہے.صبح کا ناشتہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھیجتی تھیں.اللهم اغفر لها وارحمها - آمین ۱۴۵ حضرت مولوی محمد جی صاحب حضرت مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے حلقہ تدریس میں گوجر طالبعلم تھے.ایک روز ایک جوان رو پڑا.اس سے پوچھا گیا.تو اس نے کہا مجھے لسی نہیں ملتی.مولوی صاحب نے اماں جان کو پیغام بھیجا کہ ہمارے شفاخانہ میں روزانہ لیس بھجوا دی جائے.حضرت اماں جان تمام گرمی میں بڑا برتن کسی کا بھجواتی رہیں.۱۴۶
265 قادیان سے محبت آمنہ بیگم صاحب الیہ چو ہدری عبد اللہ خان صاحب جب حضور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اصلح الموعود ایدہ اللہ الود و در بہ مستقل رہائش کے لئے تشریف لے گئے.تو میں بھی ساتھ گئی.جس مکان میں ہم سب نے کھانا کھایا.حضرت اماں جان اس کے برآمدے میں تشریف فرما تھیں.میں جا کر پاس بیٹھ گئی.باتوں باتوں میں میں نے کچھ ایسا فقرہ کہا جس کا مفہوم کچھ اس قسم کا تھا.کہ ربوہ قادیان جیسا لگتا ہے.یہ قادیان کے غم کو دور کر دے گا.حضرت اماں جان میرے پاس لیٹی ہوئی تھیں.جوش سے اٹھ کر بیٹھ گئیں میرے کندھے کو ذرا جھٹک کر رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: تم اس جگہ کو بھول جاؤ گی.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دفن ہیں.“ میری زندگی میں شاید یہ پہلا اور آخری خفگی کا اظہار تھا.جو حضرت اماں جان نے فرمایا.اور مجھے اس کا بے حد دکھ اور قلق ہے.کہ میرے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا.مگر اس سراپا احسان کی بے نیازی دیکھئے.کہ اس کے فوراًبعد کی گفتگو محبت اور پیار میں بسی ہوئی تھی.مجھے ہمیشہ اس فقرے کا احساس رہا.مگر الحمد للہ اس خدیجہ نے اسے کبھی نہیں دہرایا.۱۴۷ مناظر قدرت سے لگاؤ مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی حضرت ممدوحہ قدرتی مناظر کو دیکھنے کا بہت شوق رکھتی تھیں کیونکہ ایسے مناظر کو دیکھنے سے خدا تعالیٰ کی شان اور حکمت سے آگاہی ہوتی ہے.چنانچہ جب موسم برسات میں قادیان کی ڈھاب میں کثرت سے پانی آجاتا تو اس کا نظارہ دیکھنے کیلئے حضرت اماں جان ہمارے گھر مکان حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ) میں جو ڈھاب کے کنارے پر واقع ہے تشریف لاتیں.اور دروازے میں سے کھڑی ہو کر پانی کا نظارہ دیکھتیں.کبھی ڈھاب کے پل پر سے بھی
266 جو دارالا نوار کی سڑک پر واقع ہے کھڑی ہو کر پانی کا چڑھاؤ اور بہاؤ ملاحظہ فرما تیں.اسی طرح پل بہشتی مقبرہ پر بھی تشریف لے جاتیں.۱۴۸ خدا کے فضل اور قدرت الہی پر نظر رکھنا مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبداللہ خان صاحب آپ ہر وقت خدا تعالیٰ کے فضل اور قدرت پر نظر رکھتیں.ایک دفعہ قادیان میں کافی عرصے کی بات ہے.دوپہر کا وقت تھا کہ آپ پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں کہ محترمہ خالہ رحمانی صاحبہ مرحومہ آئیں.وہ اکثر آپ کی خدمت میں بیٹھا کرتی تھیں.محترمہ خالہ صاحبہ اپنے گھر سے ریڈیو پر جو ڈرامہ یا خبریں وغیرہ سنتیں تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت بہلانے کی خاطر آپ کوسُنا تیں.ایک دفعہ خالہ صاحبہ یونہی مذاقاً کہنے لگیں.”اماں جان انگریزوں کے ہاتھوں کے قربان جائیں انہوں نے کیسے کیسے حیرت انگیز کام کئے.مثلا ریڈیو ایجاد کیا جس کے ذریعے ہم دُور ہی بیٹھے وہاں کی خبریں سن سکتے ہیں، آپ اسی وقت اپنے پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گئیں.اور فرمانے لگیں ” قربان جائیں اُس اللہ کے جس نے انسان بنائے اور پھر اُس نے اس کو اتنی عقل دی ۱۳۹۴ سبقت في الخير از مکرم شیخ عبدالحکیم احمدی صاحب آپ ہر نیک کام میں سبقت فرما تیں.ایک بار کا ذکر ہے.کہ جماعت شملہ نے مسجد کے چندہ کی تحریک کی.آپ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے بنگلہ پر تشریف فرما تھیں.اور ہمارا جلسہ یہاں ہی ہو رہا تھا.آپ نے جیسے ہی سُنا کہ چندہ کی تحریک ہوئی ہے.اندر سے اپنی خادمہ کے ہاتھ ایک سوروپے چندہ مسجد میں بھجوائے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.یہ عملی تربیت تھی جو اپنے نمونہ سے خدام کو کرتیں.اور ہمارے دلوں میں ایک بشاشت پیدا ہوتی.جس کو میں بیان نہیں کر سکتا.۱۵۰ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ نیک محمد خان غزنوی صاحب ویسے تو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا ہاتھ صدقہ وخیرات میں بارانِ رحمت کی طرح برستا
267 تھا.مگر خاص کر موسم سرما کے آغاز پر آپ غرباء کے لئے کپڑے بڑے اہتمام سے تیار کروا کر تقسیم فرما تھیں.اور موسم سرما کے کھانے مثلاً اس کی کھیر ہنگی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ پکوا کر غرباء کے گھروں میں بھجوا تیں.مگر ویسے بھی آپ اکثر ہر موسم میں کھانے پکوا کرلوگوں کے گھروں میں بھیجتیں.بعض اوقات آپ اپنے گھر پر بلوا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ڈال کر پلیٹیں غریب بچوں کے سامنے رکھتیں اور جب کھا نا ختم ہو جاتا تو آپ فرماتیں’ بچودُعا کرو.۱۵۱۴ اپنے معاملات میں نہایت سادہ اور محتاط تھیں مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ بنت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت اماں جان اپنے معاملات میں نہایت سادہ اور محتاط تھیں لیکن ساتھ ہی اپنی خادمات پر اعتماد بھی کرتی تھیں.حضرت ممدوحہ کے پاس سینکڑوں ہزاروں روپیہ لوگوں کی امانت پڑا رہتا تھا جس میں سے حسب ضرورت قرض بھی دیا کرتی تھیں چنانچہ میں نے حضرت ممدوحہ سے کئی بار ہزاروں روپیہ تک قرض لیا اور مقررہ وقت کے مطابق خداوند کریم ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرما تا رہا.۱۵۲ حسن ظن از عزیز بخت صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا غلام رسول را جیکی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں حضرت اماں جان کے مکان میں ٹھہری ہوئی تھی اور ایک بابو صاحب کی بیوی بھی آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ٹھہری ہوئی تھیں.اُن کے ساتھ ایک نو جوان تھا جو بے حجاب ان کے پاس آتا جاتا تھا اور وہ اس سے پردہ نہیں کرتی تھیں.دو عورتوں نے حضرت اماں جان سے شکایت کی.کہ بابو صاحب کی بیوی اس طرح اپنے نوکر سے پردہ نہیں کرتی اور بے تکلفی سے بات چیت کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ یونہی بدظنی کرنا اچھا نہیں.ہوسکتا ہے کہ وہ اس کا رشتہ دار ہو.پھر حضرت اماں جان نے اس عورت کو بلا کر دریافت فرمایا.اس نے بتایا کہ میرا چھا جلد ہی فوت ہو گیا تھا.یہ اس کا بالکل چھوٹا بچہ تھا جو ہمارے گھر میں پلا ہے اور میرا رشتہ دار ہے.حضرت اماں جان نے معترض عورتوں کو اس سے اطلاع دی اور ان کو بدظنی کرنے سے منع فرمایا.۱۵۳
نور فراست 268 مکرم سید غلام حسین شاہ صاحب.بھلوال سرگودھا ۱۹۳۳ء میں بندہ ضلع رہتک میں ویٹرنری ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھا.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ وہاں سول سرجن تھے.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئی ہوئی تھیں.میری لڑکی سیدہ محمودہ خاتون اپنی چھوٹی بہن سیدہ مبارکہ کو ساتھ لے کر حضرت اُم المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئی تو حضرت اُم المومنین نے سیدہ مبارکہ کے چہرے کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اس لڑکی کے چہرے سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک دن استانی بنے گی.اُس وقت مبارکہ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی.خدا کی قدرت عزیزہ مبارکہ ایف اے پاس کر کے بھوپال کے گرلز سکول میں استانی ہو گئی.بعد ازاں اُس نے بی.اے تک تعلیم حاصل کر لی تو اسکی شادی ہوگئی.شادی کے بعد آجکل بھی وہ استانی کا کام گرلز سکول میں کر رہی ہے اور بہت کامیاب استانیوں میں سے ہے.یہ واقعہ آپ کی فراست کا مظہر ہے.۱۵۴ مکرمه سیده فضیلت بیگم صاحبہ بنت حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب میری پہلی ملاقات حضرت اُم المومنین سے غالباً ۱۹۱۶ء یا ۱۹۱۹ء میں سیالکوٹ میں اپنی ماموں زاد بہن سیدہ نعیمہ بنت حضرت سید حامد شاہ صاحب مرحوم کی شادی پر ہوئی.جب آپ تشریف لائیں تو میں پیشوائی کے لئے سیڑھیوں پر کھڑی تھی.میری طرف نظر پڑتے ہی آپ نے اہلیہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے جو آپ کے ہمراہ تھیں پوچھا ”یہ تحصیلت علی شاہ کی لڑکی ہے؟ جب انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا ” میں نے آنکھوں سے پہچانا ہے مجھے آپ کی ذہانت پر حیرت ہوئی.کیونکہ میرے والد سید فصیلت علمی صاحب مرحوم کو فوت ہوئے اس وقت کم از کم سولہ سال گزر چکے تھے جب وہ فوت ہوئے میں تین سال کی تھی.اس سے پہلے نہ ان کی زندگی میں اور نہ بعد ہی آپ نے مجھے کہیں دیکھا تھا.والد صاحب بے شک ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.مگر ملازم پیشہ تھے اور پھر سلسلہ کے ابتدائی زمانہ میں آپ کی وفات ہوگئی تھی.کچھ عرصہ مستقل طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہنے کا کوئی امکان ہی تھا کہ اماں جان کو انہیں متعدد بار دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو.اب سوائے اس
269 کے کیا کہا جائے کہ جس خدا نے آپ کو ایک عظیم الشان قوم کی ماں بنایا اس نے اپنی روحانی اولاد کے ساتھ مادرانہ محبت بھی دی کہ ان کے ذہن میں ان کی صورتیں نقش ہو گئیں.۱۵۵ علم تعبیر مکرمہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر بدرالدین صاحب مشرقی افریقہ آپ کو خوابوں کی تعبیر کا علم بھی تھا.ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اماں جان مجھے فرما رہی ہیں کہ تم خاموشی کے ساتھ دودھ کے ساتھ ڈبل روٹی کھاؤ.میں یہ خواب سنانے کے لئے شام کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی.تو آپ نے فرمایا کہ رات کے وقت خوا میں نہیں سنایا کرتے (اس سے معلوم ہوا کہ رات کے وقت خواہیں سنانا مناسب نہیں کیونکہ ان خیالات کی وجہ سے رات کو بھی ویسی ہی خواہیں آئیں گی ) خیر میں نے اگلے روز یہ خواب سنائی.آپ نے سن کر فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بغیر محنت کے آرام والا رزق عطا فرمائے گا.جس طرح دودھ میں بھگوئی ہوئی ڈبل روٹی آرام سے حلق سے اُترتی ہے ایسے ہی آرام والا رزق وہ دے گا.چنانچہ اس کے بعد ایسا ہی ہوا اور خدا تعالیٰ نے بہت آرام والا رزق عطا فرمایا.فالحمد للہ ! ۱۵۶ مکرم ایمن الله خان صاحب آف سلانوالی سرگودھا ایک دفعہ عاجز نے خواب میں دیکھا کہ میں نے حضرت اُم المومنین نور اللہ مرقدہا کے دست مبارک کی پکی ہوئی روٹی کھائی.چنانچہ میں نے یہ خواب حضرت اُم المومنین سے بیان کیا.جس پر آپ نے اپنے دست مبارک سے کھانا پکا کر مجھے بھجوایا.جو کہ میں نے خود بھی کھایا اور دیگر احباب میں بطور تبرک کے تقسیم کیا.کھانا کئی قسم کا تھا.۱۵۷
270 قبولیت دعا مکرمہ صالحہ مریم بنت حضرت حاجی عبدالکریم صاحب کراچی میری والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں.کہ قریباً بیس برس ہوئے ہیں میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ قادیان دارالامان گئی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر ہم سب مقیم رہے.وضع حمل کا وقت قریب تھا.میں بیمار ہونے کی وجہ سے سخت کمزور تھی.اور ان ایام میں اکثر عورتیں زچگی میں فوت ہو رہی تھیں.یوں معلوم ہوتا تھا.کہ وبا کی صورت ہوگئی ہے.میں دعا کا خط لے کر حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئی.آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ میں انشاء اللہ دعا کروں گی.مجھے تسلی ہوئی.اس کے بعد میں چلنے سے معذور ہوگئی تو حضرت ماں جان تقریباً ہر روز اپنی خادمہ میری خبر لینے کے لئے بھیجا کرتی تھیں.جب ولادت کا وقت قریب ہوا تو حضرت اماں جان نے اپنا کرتہ مبارک اپنی خادمہ کے ہاتھ مجھے بھیجا کہ اس کو پہن لو.چنانچہ میں نے وہ کرتہ پہن لیا.مجھے خدا تعالیٰ نے صحت و عافیت کے ساتھ لڑکی عطا فرمائی.کراچی واپس آنا تھا.کیونکہ حاجی صاحب کی رخصت ختم ہونے کو تھی.اس لئے حضرت اماں جان نے مجھے پیغام بھیجا کہ بچی کو دکھا کر جانا.میں نے ان کے ارشاد کے ماتحت ان کی خدمت میں حاضر ہوئی.آپ نے بچی دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا اور دعا دی.اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے.کہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اپنی غریب احمدی مستورات پر کس حد تک شفقت فرمایا کرتیں تھیں.۱۵۸ حاجی محمد فاضل صاحب تحریر کرتے ہیں: میری اہلیہ بیان کرتی ہیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان فیروز پور تشریف لے گئیں.میرے ساتھ حضور کی خاص محبت تھی کیونکہ میں شہر کی لجنہ کی صدر تھی.مجھے حضرت اماں جان نے مرزا ناصر علی صاحب کی کوٹھی پر بلایا.میں اپنے لڑ کے محمد اعظم کو بھی ساتھ لے کر گئی جو اُس وقت تقریباً سات سال کا تھا اور محمد اعظم کا اتبا آگرے گیا ہوا تھا جب کوٹھی پر میں حضور کو ملی اور
271 کچھ دیر وہاں بیٹھی رہی ، اس وقت محمداعظم کو بخار ہو گیا.میں حیران تھی کہ بخار کی حالت میں بچہ نہ چلنے کے قابل ہے اور نہ مجھ سے اُٹھایا جا سکتا ہے میں کیا کروں.اس وقت حضرت اماں جان نے فرمایا کہ زینب مت گھبراؤ میں دعا کرتی ہوں اور اس کو پانی گرم کر کے پلاؤ.حضور نے دعا فرمائی اور دو تین دفعہ اس کو پانی گرم کر کے پلایا تو بخار محمد اعظم کا بالکل اتر گیا اور وہ میرے ساتھ چل کر پیدل گھر آگیا.یہ حضرت اماں جان کا معجزہ ہے.۱۵۹ ایک دفعہ پھر میں شہر فیروز پور سے قادیان دارالامان آئی.تو ان دنوں قاضی محمد عبد اللہ صاحب جو میرے خالہ زاد بھائی لگتے ہیں.ان کی دعوت ولیمہ تھی.اور اس دعوت ولیمہ پر خاندان حضرت مسیح موعود کی مستورات کے ساتھ اس عاجزہ کی بھی دعوت تھی.جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا.اُس دعوت ولیمہ میں اس عاجزہ نے حضرت اماں جان کے ساتھ بیٹھ کر دعوت کھائی.اس دعوت ولیمہ کھانے کے وقت دعوت کھا چکنے کے بعد حضرت اماں جان نے فرمایا.کہ آؤ دعا کریں.کہ اللہ تعالیٰ اب قاضی محمد عبد اللہ صاحب کو جلدی اولا د دیوے.تو پھر یہاں ہی بیٹھ کر دعوت کھائیں.پھر کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا.کہ میرے بھائی قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے ہاں اُن کی پہلی بیوی سے ہی لڑکی (امتہ الوہاب ) پیدا ہوئی.جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہے.اللہ تعالٰی اس کو دین اور دنیا میں کامیاب فرمادے.آمین.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی شادی کی ولیمہ کھانے والی دعا منظور فرمائی.اور یہ لڑکی امتہ الوہاب میرے بھائی قاضی محمد عبد اللہ کی حضرت اماں جان کی دعا کا معجزہ ہے.۱۶۰ از مکرمه سلطانه عزیز صاحبه میری آپا کی نند حمودہ کے سسرال و شوہر غیر احمدی تھے اور حد سے زیادہ اسے تکالیف پہنچانے لگے.وہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ربوہ آئی اور حضرت اماں جان کی خدمت میں دعا کی درخواست کر کے رونے لگی اور اپنی تکالیف کا سب ماجرا بیان کیا.اس پر حضرت اماں جان نے فرمایا.کیا تیرے ماں باپ اندھے تھے اور تو بھی اندھی تھی جو ان میں رشتہ کیا گیا اور تو نے اس وقت کیوں نہ انکار کر دیا.اس پر محمودہ نے عرض کیا کہ میں اس وقت نابالغ تھی.اس پر حضرت اماں جان نے کہا پھر تو روتی کیوں ہے.جاؤ اور اب بھی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں ان ظالموں کے پنجہ سے نجات
272 دے گا.چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے بہت جلد خلاصی دے دی.یہی وہ محمودہ ہے جواب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل کے عقد میں آکر اور مبلغہ بن کر اس وقت اپنے شوہر کے ہمراہ فری ٹاؤن افریقہ میں تبلیغ کا کام کر رہی ہے.یہ حضرت اماں جان کی محض دعاؤں کا نتیجہ ہے.میری چچازاد بہن شادی کے بعد نو سال کے قریب بے آباد در ہی.نو سال وہ لڑکی یہاں ربوہ میں جلسہ سالانہ پر آئی.اور حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کی.اماں جان نے دعا فرمائی.خدا تعالیٰ کا فضل ہوا کہ تھوڑے عرصہ کے بعد اسے سسرال اپنے گھر لے گئے اور راضی خوشی بسنے لگی.اب اسے اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا فرمایا ہے.جوفریقین کی خوشنودی کا باعث ہو رہا ہے.غرض حضرت اماں جان نہایت مستجاب الدعوات تھیں.۱۶۱ محترمہ صغریٰ بیگم صاحبہ کراچی لکھتی ہیں کہ : ایک مرتبہ حضرت اماں جان دہلی تشریف لائی ہوئی تھیں.خاکسارہ نے دعوت کے لئے عرض کیا.چنانچہ آپ نے از راہ شفقت و عنایت دعوت قبول فرمائی اور تقریبا تمام دن قیام فرمایا.دوران گفتگو کوئی تمیں سال پہلے کا ذکر فرمایا کہ ہم نے لدھیانہ میں بھی آپ کے ہاں دعوت کھائی تھی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے چند سال بعد کا ذکر ہے اور گھر کا تمام نقشہ بیان کیا.جس سے آپ کی یادداشت اور توجہ اور دعاؤں کا پتہ چلتا ہے.تمام دن ہی محبت سے باتیں کیں اور دعائیں دیں.میری ایک لڑکی سخت بیمار اور مہینوں سے بستر پر پڑی تھی.بالکل چل پھر نہیں سکتی تھی.آپ نے جاتے وقت دعا دی کہ اب میں دوبارہ آؤں گی تو انشاء اللہ تمہیں چلتا پھرتا دیکھوں گی.اور بطور تبرک ایک ریشمی رومال عطا فر مایا.چنانچہ حضرت اماں جان جب دوسرے سال تشریف لائیں تو وہ لڑ کی تندرست تھی اور چلتی پھرتی تھی اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تندرست ہے اور اس کی شادی ہو چکی ہے.آپ کی یادداشت کمال درجہ کی تھی ہمارے صحن میں کچھ حصہ میں پکا فرش تھا اس سال ہم نے دو تین گز اور بڑھالیا.اگلے سال آپ تشریف لائیں تو فرمایا کہ پچھلے سال تو فرش یہاں تک تھا اب یہ اور زیادہ کر لیا ہے.؟۱۶۲ اہلیہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حضرت اماں جان کی قبولیت دعا پر مجھ نا چیز کو کامل یقین تھا ہر مشکل وقت میں اماں جان کی خدمت
273 میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کرتی اور وہ مشکل حل ہو جاتی تھی.جب میرے لڑکے محمد احمد نے ۱۹۳۵ء میں ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا تو اس کے بعد دواڑھائی سال گزر گئے نہ تو کہیں ملازمت کا انتظام ہوانہ اور کسی طرح کی صورت روزگار پیدا ہوئی.ایک دن میں رات کے وقت بہت پریشانی کی حالت میں اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئی تو مجھے دیکھ کر فرمانے لگیں.آؤ بیٹی کہاں جارہی ہو.میری چارپائی میں پائینتی ڈال دوگی.میں نے عرض کیا جی اماں جان بڑی خوشی سے.میں رسی لے کر کھڑی ہوئی اور آپ اس وقت فرمانے لگیں.تمہارے محمد احمد کا کیا حال ہے.میں نے عرض کیا اماں جان میں محمد احمد کے لئے پریشان ہو کر آپ کے پاس آئی تھی.دوسال ہو گئے وہ تو بالکل بے کار ہے اور بے روز گار ہے.آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے روز گار کی کوئی صورت پیدا کر دے اور باعزت رزق عطا فرمائے.آپ نے فرمایا بے کار تو نہیں ہے خاندان کی خدمت کرتا ہے یہ بھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو موقع عطا فرمایا ہے.ہاں بے روز گار ضرور ہے روزگار بھی اللہ تعالیٰ اسے ضرور دے گا.صبح مبارکہ بیگم (یعنی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) شملہ جارہی ہیں ان کے ساتھ امتہ المجید بھی جارہی ہے.کیونکہ اس کے ہاتھوں پر ایگزیما ہے اور اس کو بہت تکلیف ہے.ان کو ڈاکٹر کی ضرورت ہے ان کے ساتھ اپنے محمد احمد کو ضرور بھیج دو.میں نے عرض کیا میں ضرور بھیج دوں گی.اور گھر میں آکر فوراً ہی محمد احمد کو تیار کر دیا اورمحمد احمد صبح کو بیگم صاحبہ کے ساتھ شملہ چلا گیا.اور میں دوسرے روز زینے سے اتر کر اماں جان کے پاس گئی.مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگیں.کیا تمہارا محمد احمد شملہ چلا گیا ؟ میں نے کہا جی ہاں چلا گیا.تو خوش ہو کر فرمانے لگیں جزاک اللہ.ابھی محمد احمد کو شملہ گئے پندرہ یا بیس روز ہی ہوئے تھے کہ سندھ سے ایک ملازمت کی اطلاع آگئی.اور اس کو شملہ سے ڈیوٹی پر حاضر ہونے کے لئے واپس آنا پڑا.اسی طرح ایک روز محمد احمد کی شادی کے لئے دریافت فرمایا.” تم اپنے بیٹے کی شادی کیوں نہیں کرتیں“.میں نے عرض کیا اماں جان مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ خدا جانے کیسی بہو آئے آپ دعا کریں کہ نیک بخت محبت کے ساتھ گزارہ کرنے والی بہو ملے.آپ نے فرمایا.ایسی ہی ملے گی.کچھ دنوں کے بعد محمد احمد کا نکاح ایسی جگہ ہو گیا کہ جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں تھا.اور مجھے نیک بخت فرمانبردار.محبت کے ساتھ گزارہ کرنے والی بہو اللہ تعالیٰ نے اماں جان کی دعاؤں کی بدولت عطا فرمائی.میرے ہر ایک بچے کی شادی پر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا محبت کے ساتھ تحفہ دیتیں حتی
274 کہ اپنے مکان کے بابرکت کمرے بھی مہمانوں کے لئے خالی کروا دیتیں.اور اگر مجھے برتنوں کی ضرورت ہوتی تو الماری کھول کر فرماتیں لولے لو جتنے لینے ہیں.الغرض پیاری اماں جان کے لطف و کرم اس ناچیز پر بارش کی طرح ہیں جن کو شمار نہیں کر سکتی اور نہ ہی قلم میں طاقت ہے کہ لکھ سکوں.مجھے کسی طرح بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ اماں جان بھی ہم سے اس طرح جدا ہو جائیں گی.یہی خیال ہوتا تھا کہ اماں جان کا مبارک سایہ ہم پر ہمیشہ اسی طرح رہے گا.اے اللہ تیری ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں اماں جان پر نازل ہوں.آمین ۱۶۳ مکرم محمد حسین خان صاحب آف جڑانوالہ ہمارے گاؤں موضع ماڑی بچیاں تحصیل بٹالہ میں ایک احمدی دوست میاں اللہ رکھا صاحب دوکاندار تھے.وہ دیہات سے غلہ خرید کر آس پاس کی منڈیوں میں فروخت کرنے کا کام کرتے تھے.ایک دفعہ وہ قادیان گئے ان کا گھوڑا خود بخو دکھل گیا.یا کوئی شخص بد نیتی سے کھول کر لے گیا.میاں اللہ رکھا نے اردگرد کے دیہات میں تلاش کی.مگر نا کام واپس آئے.حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کیلئے درخواست کی.میاں اللہ رکھا بہت پریشان تھے.حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دعا کاغذ پر لکھ دی.اور فرمایا میں بھی دعا کروں گی.آپ یہ دعا پڑھتے جائیں.اور گھوڑے کو تلاش کریں.انشاء اللہ مل جائے گا.میاں اللہ رکھا صاحب بیان کرتے تھے.کہ دعا کے الفاظ پڑھتے ہوئے اور سیاہی خشک کرنے کیلئے کاغذ پر پھونکیں مارتا ہوا میں لنگر خانہ سے تھوڑی دور ہی آگے بڑھا تھا.کہ میرا گھوڑا دوڑتا ہوا سامنے آرہا تھا.جسے میں نے پکڑ لیا.وہ دعا میاں اللہ رکھانے مجھے بتلائی تھی.عربی زبان میں تھی.مجھے اب وہ یاد نہیں رہی.ایک غریب دیہاتی کی عرض پر اس قدر توجہ کہ علاوہ خود دعا کرنے کے کاغذ پر ایک دعا لکھ دی تا کہ وہ خود بھی دعا کر سکے.کسی قدر بلند اخلاقی کی دلیل نیز حضرت اُم المومنین کا اپنے خدا کے مجیب الدعوات ہونے پر کس قدر پختہ ایمان تھا.کہ قبل از وقت فرمایا.انشاء اللہ گھوڑ امل جائے گا.۱۶۴ مکرم عبدالسمیع نون صاحب ایڈوکیٹ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے چودھری عبد اللطیف
275 صاحب سے ملاقات ہوئی.دوران ملاقات میں حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر خیر بھی آیا.چودھری صاحب نے سنایا.کہ وہ آج سے تین برس قبل بعارضہ ٹی.بی سخت بیمار پڑ گئے.اور نوبت یہاں تک پہنچی.کہ آپ کروٹ تک بھی نہیں بدل سکتے تھے.نہ کوئی دوائی وغیرہ کھانے کے لئے منہ تک کھول سکتے تھے.نہ صرف اقارب بلکہ معالج ڈاکٹر تک نے مایوسی کا اظہار کر دیا تھا.اس وقت انہوں نے حضرت اُم المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کیلئے ایک عریضہ لکھا.حضور ان دنوں رتن باغ میں قیام فرما تھے.جب حضور کو یہ خط ملا.تو آپ نے اس کا ذکر حضرت اماں جان سے کیا.دوسرے روز جب چودھری صاحب کی ہمشیرہ رتن باغ گئی.تو حضرت اماں جان ان کے آنے کی خبر پا کر خود دوسری منزل سے نیچے تشریف لا ئیں.اور کمال مادرانہ شفقت سے یوں گویا ہوئیں کہ شیر علی کے بیٹے کا کیا حال ہے.ان کے بیٹوں میں سے عبدالرحیم کمزور تھا.عبدالرحمن اور عبداللطیف تو اچھے صحت مند جوان تھے.لیکن رات مجھے محمود احمد ( یعنی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) نے بتایا.کہ اسے ٹی.بی ہوگئی ہے.آپ کی ہمشیرہ نے کہا.ہاں اماں جان وہ سخت بیمار ہیں.دعا کریں.آپ نے فرمایا.میں نے دعا اسی وقت کر دی تھی.اللہ تعالیٰ اسے شفادے گا.پھر فرمایا میں حیران ہوں.اسے یہ مرض ہو کیسے گیا.وہ تو اتنا طاقت ور اور ہمت والا نو جوان تھا.کہ محمود احمد کی موٹر کے ساتھ دو دو تین تین میل تک دوڑتا جاتا تھا.آپ نے کچھ ایسی شفقت اور طمانیت سے ان خیالات کا اظہار فرمایا.کہ جب عبد اللطیف صاحب کو اس کی اطلاع ملی.کہ حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہانے ان کیلئے دعا فرمائی ہے.تو وہ نوجوان جس نے حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کے زیر سایہ تربیت پائی تھی.اور جس نے تو کل اپنے فرشتہ سیرت باپ سے ورثہ میں پایا تھا.فرط انبساط سے سنبھل کر چار پائی پر تکیہ لگا کر بیٹھ گیا.اور لواحقین کو جواب مایوسی کے عالم میں کھوئے ہوئے تھے.بلا کر پر نم آنکھوں سے کہا.کہ تم اس پاس اور نامیدی کو الوداع کہو.اور اپنی اشکبار آنکھوں کو خشک کر لو.کہ میں شفا پا گیا ہوں.اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں.کہ میں اس مرض سے نہیں مروں گا.بھلا میری پیاری اماں جان ہاں وہ اماں جان جن کے سر پر سورج (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) اور جن کی گود
276 میں چاند ( یعنی حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ ) ہے.میرے لئے دعا کریں.اور پھر بھی میں صحت یاب نہ ہوں.یہ کیسے ممکن ہو.جبکہ غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے.تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر ریاض علی شاہ صاحب ماہر امراض تپدق وغیرہ انہیں دیکھنے کیلئے گئے.تو چودھری صاحب نے انہیں بھی خوشخبری سنائی.کہ آپ کا مریض اچھا ہو گیا.انہوں نے پوچھا وہ کیسے؟ آپ نے یہ واقعہ انہیں بھی سنایا.خیر وہ تو خاموش ہو کر چلے گئے.لیکن مریض روز بروز اچھا ہوتا گیا.اور یہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اس خطر ناک مرض کے خطرے سے ۱۰۰ فی صدی محفوظ ہیں.ذالك فضل الله يؤتية يشاء والله ذو الفضل العظيم -۱۶۵ من
277 صبر ورضا، غموں کا مداوہ حوصلہ افزائی از اہلیہ ڈاکٹر گوہر دین صاحب میری ایک رشتہ کی ممانی بیوہ ہو گئیں.لا ولد تھیں.اور کوئی عزیز قریب بھی نہ تھا.بس خاوند تھا.جو فوت ہو گیا.ہیوگی کے بعد مجھے ساتھ لے کر اماں جان سے ملنے آئیں.اماں جان نے گلے سے لگایا.اور فرمایا.”ہائے تیری جوڑی بچھڑ گئی.چہرہ پر سکون مگر یہ جملہ اس درد میں ڈوبا تھا.کہ میں اس وقت کم عمری کے باوجود اس کی شدت محسوس کر رہی تھی.اور آج بھی.حضرت خلیفہ اول اور عبدالحی کی وفات پر میں نے آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے.سوائے آنسوؤں کے باقی پر سکون و با وقار کیفیت تھی.محترمہ امتہ الحفیظ بیگم کی شادی تھی.کسی شاعر نے اس موقع پر سہاگ گیت پنجابی میں بنائے تھے.جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد یہ پہلی تقریب کر رہی تھی.میری بڑی ہمشیرہ آنمحتر مہ کی استانی تھیں.رخصتانے کے روز وہ بھی وہاں تھیں.ہنس کر فرمایا.” پہلے حفیظ کی استانی کو تو دلہن بنالوں بیش قیمت دو پٹہ کے علاوہ گلے میں نہایت قیمتی جڑا اوزیور پہنایا.۲۶) اہلیہ صاحبہ غلام نبی صاحب مصری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا صدمہ بہت بڑا صدمہ تھا.لیکن جس طرح حضرت اُم المومنین نے اس کو صبر سے برداشت کیا.اس کی مثال تاریخ عالم میں ملنی مشکل ہے.جب کبھی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد آتی تھی.تو آپ کبھی صبر کا دامن نہ چھوٹنے دیتیں تھیں.ایک دفعہ میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی.آپ اس وقت نواب صاحب کی کوٹھی کے درمیانی کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے.حضرت اُم المومنین بھی وہاں پر ساتھ تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا.کہ حضور علیہ السلام نے جلدی واپس جانا ہے.بچے اندر آتے جاتے اور سلام کہہ کر باہر نکل جاتے میں حضرت اماں جان کی خدمت میں عرض کی.کہ میری بھی ملاقات کروادیں.اس پر میری آنکھ کھل گئی.میں نے یہ
278 خواب اماں جان کو سنایا.تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں.آپ نے سرداراں جو آپ کی خادمہ تھی.اُس کو پکارا اور فرمایا.میرا قرآن شریف لے آؤ.“ جب وہ قرآن شریف لائی.تو آپ نے پڑھنا شروع کیا.میں نے اسی وقت سوچا.کہ خدا تعالیٰ نے دکھ درد کو دور کرنے کے لئے قرآن کریم کو کیا اکسیر بنایا ہے.ہم کو بھی حضرت اماں جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس چیز کو اپنا شعار بنانا چاہیئے.۱۶۷ مکرمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب حضرت پھوپھی جان کی وفات پر آپ نے کہلا بھیجا کہ جب دہلی سے اُن کی میت آجائے تو مجھے اطلاع کر دینا صبح پانچ بجے بھائی جان رحمت اللہ نے جا کر اطلاع دی’ دہلی سے جنازہ آگیا ہے آپ فوراً تشریف لے آئیں.حضرت والد صاحب کو اُن کا نام لے کر پکارا اور اپنی زبان مبارک سے اظہار افسوس کیا.بار بار پھوپھی جان کا ذکر تعریفی رنگ میں فرما تھیں.جنازہ گھر سے لے جانے کے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد تک میرے پاس ٹھہری رہیں اور دلجوئی کی باتیں فرماتی رہیں.از حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا جب انتقال ہوا ہے.تو آپ (سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام) باہر تشریف لائے میں موجود تھا.فرمایا کہ لڑ کے حالت نازک تھی.اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا اس کے پاس بیٹھ جائیں.میں نے نماز نہیں پڑھی.میں نماز پڑھ لوں.فرمایا کہ وہ نماز میں مشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہو گیا.میں ان خیالات میں پڑ گیا کہ جب اس کی والدہ لڑکے کے فوت ہونے کی خبر سنے گی تو بڑا صدمہ ہوگا.چنانچہ انہوں نے سلام پھیرتے ہی مجھ سے پوچھا کہ لڑکے کا کیا حال ہے.میں نے کہا لڑکا تو فوت ہو گیا.انہوں نے بڑے انشراح صدر سے کہا کہ الحمد للہ میں تیری رضا پر راضی ہوں.ان کے ایسا کہنے سے میرا غم خوشی سے بدل گیا.اور میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیری اولاد پر بڑے بڑے فضل کرے گا.باہر جب آپ تشریف لائے ہیں تو اس وقت آپ کا چہرہ بشاش تھا.کئی دفعہ میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ کسی کی بیماری کی حالت میں بہت گھبراتے تھے اور مریض کو گھڑی گھڑی دیکھتے اور دوائیں بدلتے رہتے تھے.مگر جب وہ مریض فوت ہوجاتا تو پھر گویا حضور کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی چنانچہ میاں مبارک احمد صاحب کی بیماری میں
279 بہت گھبراہٹ حضور کی تھی اور گھڑی گھڑی باہر آتے.پھر دواد یتے لیکن اس کی وفات پر حضرت اماں جان کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے کہ قرآن شریف میں ہے کہ ان اللہ مع الصابرین جب صابروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے.لڑکے کا فوت ہونا اور حضور کا تقریر کرنا ایک عجیب رنگ رکھتا تھا.۱۶۹ مکرمہ سید فضیلت بیگم صاحبہ بنت حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب ۱۹۲۳ء میں میں پہلی دفعہ قادیان گئی.ان دنوں بٹالہ سے قادیان تک گاڑی نہیں جاتی تھی.یہ سفر بذریعہ بس یا تانگہ پر ہوتا تھا.سڑک بہت خراب تھی.ایک جگہ بس الٹ گئی.قادیان خبر پہنچی تو شاید حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کوئی سواری بھیجی.جب میں حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے حال پوچھا اور اس کے بعد میں ہر سال جلسہ سالانہ پر جاتی اس وقت ہمارے خاندان کے زیادہ افراد غیر مبائع تھے.مگر حضرت اماں جان ایک ایک کا حال پوچھتیں.سبحان اللہ اخلاق اس قدر بلند تھا کہ کبھی ان کے غیر مبائع ہونے پر اظہار افسوس نہیں کیا.شاید کسی رنج و افسوس کا اظہار وہ جائز نہیں رکھتی تھیں.آپ کے نورانی چہرہ پر ہمیشہ بشاشت رہتی.کیسے کیسے جانکاہ صدمات آپ کو پہنچے.جوان بھائی جن سے آپ کو بہت محبت تھی ان کی وفات کے صدمات کو کس طرح حوصلہ سے آپ نے برداشت کیا.حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات سے چند ہی روز بعد میں قادیان تعزیت کے لئے گئی تو آپ کھانا کھانے لگی تھیں.خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ مصافحہ کیا اور کھانے میں شریک ہونے کو کہا.جب آپ کھانا کھا چکیں تو میں نے حضرت میر صاحب کی وفات پر اظہار افسوس کیا.آپ نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا: جب وہ فوت ہوئے تو ان کی لڑکی نے والدہ سے آکر کہا امی انجام بخیر ہو گیا.والدہ نے جواب میں کہا الحمدللہ ! اسب ٹھیک ہوا.صبر و شکر کا نمونہ دکھا کر ہمیں خاموش کرا دیا.پھر ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں.کہنے لگیں.لڑکی مجھے تم پر سفید دو پٹہ اچھا نہیں لگتا.میں نے عرض کیا.اماں جان میں تو کئی سال سے سفید دو پٹہ ہی لے رہی ہوں.فرمایا وہ اور بات ہے وہ چنا ہوا تو ہوتا تھا.کتنا وسیع تھاما درانہ جذ بہ اور کتنی بے نظیر تھی شان صبر و حمل کہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹے مگر ماتھے پر شکن نہ آئی اور منہ سے اُف نہ کی.
280 میں نے یہ انتہائی رنج کے الفاظ اُن کے منہ سے سنے کہ وہ ضعیفی کی وجہ سے خاطر خواہ عبادت نہیں کر سکتیں.واقعہ یوں ہے کہ میں جب قادیان جاتی تو میری بڑی خواہش ہوتی کہ بیت الدعا میں نماز پڑھوں.پہلی بار جب میں نے اماں جان سے پوچھا کہ بیت الدعا میں نماز ادا کرلوں.‘“ تو آپ حسب عادت ہنس دیں اور فرمایا.”ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہوا.‘ لے مکرم شیخ محمد احمد پانی پتی حضرت اُم المومنین کی ایک نمایاں خصوصیت مصائب پر صبر کرنا تھی.سب سے پہلے آپ کو اپنی سب سے پہلی لڑکی عصمت کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا.مگر آپ نے اس موقع پر کوئی کلمہ جزع فزع کا منہ سے نہ نکالا.اور خدائی تقدیر پر شاکر وصابر رہیں.صاحبزادی عصمت کے بعد بشیر اول کی وفات ہوئی.مگر اس موقع پر بھی آپ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا.حب بشیر اول پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنی نماز کیوں قضا کروں؟ چنانچہ اس حالت میں آپ نے وضو کر کے نماز شروع کر دی.نماز کے دوران میں اس کی وفات ہوگئی.نماز پڑھنے کے بعد آپ نے بچہ کی حالت دریافت فرمائی.جب آپ کو بتایا کہ وہ فوت ہو گیا ہے.تو آپ اناللہ وانا اليه راجعون کہہ کر خاموش ہوگئیں.کیا کہیں ایسی مثال دنیا میں مل سکتی ہے کہ کوئی ماں اپنے بچہ کو نزع کی حالت چھوڑ کر اپنے خدا کی عبادت کے لئے کھڑی ہو جائے ؟ اس کے بعد صاحبزادی شوکت اور صاحبزادی امتہ النصیر فوت ہوگئیں.مگر کسی موقع پر بھی آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُم المومنین کو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد سے انتہائی درجہ کی محبت تھی اور اس کی بیماری کے ایام میں کوئی دقیقہ اس کے علاج معالجہ میں فروگذاشت نہیں کیا گیا تھا.لیکن جب تقدیر الہی سے وہ بھی فوت ہو گیا تو حضرت اُمّم المومنین نے انا للہ وانا اليه راجعون کہنے کے بعد فرمایا: میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں“ جب خدا تعالیٰ نے اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے اس عظیم الشان صبر کو دیکھا تو اس نے اپنے پیارے مسیح علیہ السلام پر نازل فرمایا: خدا خوش ہو گیا
281 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ الہام حضرت اُم المومنین کو سنایا تو آپ نے فرمایا: ” مجھے اس الہام سے اس قدرخوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پروانہ کرتی کہاں ہیں ایسی مائیں جو محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اپنے دو ہزار بچوں کے مرجانے کی بھی کوئی حقیقت نہیں سمجھتیں.پھر جب وہ گھڑی آئی جب خدا کا برگزیدہ رسول اور اُم المومنین کا محبوب شوہر اس جہان فانی سے رخصت ہو کر اپنے مولائے حقیقی کے دربار میں حاضر ہورہا تھا اس وقت اگر آپ کی زبان سے کوئی فقرہ نکلا تو یہی الہی یہ تو ہمیں چھوڑے جارہے ہیں پر تو ہمیں نہ چھوڑ یو ں صبر کا کس قدر اعلیٰ نمونہ اور خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کا کتنا عظیم الشان جذ بہ تھا جو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا نے اس موقعہ پر ظاہر کیا.اکلے
282 احمدیت کی صداقت.حضرت اماں جان کا وجود والدہ مکرمہ مکرم جمال الدین صاحب آف چنیوٹ آپ کی صحبت میں ایک وقار تھا.عیب چینی.غیبت.شکوے گلے وغیرہ نام کو نہ تھے.کوئی عورت فضول باتیں کرنے کی جرات نہ کرتی.پند و نصائح تربیت و تدریس.غمزدہ اور متفکر عورتوں کی دلجوئی.مصیبت زدہ پریشان حال اور دیگر حاجت مندوں کی طرف سے دعا کی درخواستیں اور دعا ئیں جاری رہتیں.الغرض ہر وقت اور ہر آن کوئی نہ کوئی سبق.نمونہ نصیحت یا ثواب کا موقع موجود رہتا.مجھے اپنا وطن بھول گیا.پریشانیاں سکون وراحت سے بدل گئیں.دیہاتی تمدن سے نکل کر ایک اعلیٰ درجے کے اسلامی اور شہری تمدن میں آگئی.ایک نئی روشنی حاصل ہوگئی.حضرت اماں جان کے گھر میں بیٹھ کر بہت کچھ دیکھا اور سیکھا.اسے ایک فقرہ میں اس طرح ادا کر سکتی ہوں کہ احمدیت کی صداقت عورتوں پر عملی رنگ میں ثابت کرنے کے لئے حضرت اماں جان سکا وجود ہی کافی تھا.۱۷۲ حضرت اماں جان کی روحانی اولاد تاثرات مکرم نصیر الدین احمد صاحب بی.ایس سی.ربوہ اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا.کہ حضرت اماں جان کو اپنی جسمانی اولاد کو دیکھ کر زیادہ خوشی ہوتی تھی.یا روحانی اولاد کو دیکھ کر.یہ دو مختلف شیریں پھل تھے.جو خدا تعالیٰ نے عطا کئے.اور یہ دونوں ہی آپ کے لئے خوشی کا باعث تھے.حضرت اماں جان کی جسمانی اولاد کے افراد ماشاء اللہ ایک سو گیارہ ہیں لیکن اس قد ر اولاد نے آپ کو اپنی روحانی اولاد کی خبر گیری اور اس سے پیار سے بے نیاز نہ کیا.قادیان میں حضرت اماں جان دور دور کے محلوں میں اپنی ضعیف العمری کے باوجود اپنے روحانی بیٹوں اور بیٹیوں کی خبر گیری کے لئے جایا کرتی تھیں.محلہ دارالشکر قادیان میں شمالی جانب آخری
283 محلہ تھا.آپ یہاں بھی بسا اوقات صبح کے وقت اچانک ہمارے گھر تشریف لے آیا کرتیں.اور میری امی کا نام لے پکار تھیں.میری امی اپنے بچوں سمیت بھاگتی ہوئی اماں جان کے پاس آجاتیں آپ ابا جان ( ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب حال بورینو ) کا تفصیلی حال دریافت کرتیں اور پوچھتیں کہ کیا ان کی طرف سے خیریت کی اطلاع آئی ہے.پھر میری بڑی ہمشیرہ (اہلیہ صوفی مطیع الرحمن صاحب سابق مبلغ امریکہ ) کی خیریت دریافت کرتیں جوان دنوں امریکہ میں تھیں.اور پھر باقی کے ایک ایک بچے کو دیکھتیں اور ان کے متعلق مختلف امور دریافت کرتیں اور امی ابھی اسی فکر میں ہوتیں کہ ہم اماں جان کی کیا خدمت کریں کہ آپ تشریف لے جاتیں.حضرت اماں جان کو کسی گھر میں سبزی یا پھل لگے ہوئے دیکھ کر.بہت خوشی ہوتی.ہمارے گھر میں لگی ہوئی سبزیاں بہت خوشی سے دیکھتیں اور بتاتیں کہ مجھے فلاں سبزی بہت پسند ہے.اور امی جان کبھی گھر کی سبزی تو ڑ کر حضرت اماں جان کی خدمت میں جا کر پیش کرتیں تو آپ بہت خوش ہوتیں.میری دادی اماں مرحومہ اہلیہ خانصاحب مولوی فرزند علی خان صاحب ہر سال اپنے گھر کے لگے ہوئے انگور حضرت اماں جان کو کھلاتیں.جس سے آپ بہت خوشی کا اظہار فرما ہیں.اسی طرح مجھے حمید احمد صاحب اختر پسر مکرمی عبدالرحیم صاحب جلد ساز (حال ربوہ) نے بتایا.کہ حضرت اماں جان جب بھی ان کے گھر آتیں تو ان کی امی کا نام لے کر پکار کر یہ دریافت کرتیں کہ تمہارے امرود کیسے ہیں.اور خود جاکر امرود کے درختوں کو دیکھتیں.ان کے گھر میں ایک درخت کو چھوٹے چھوٹے اور نہایت میٹھے امرود لگا کرتے تھے.حضرت اماں جان ان کو بہت پسند فرماتیں.گو یہ چھوٹے چھوٹے اور معمولی واقعات ہیں.لیکن دلوں پر بہت گہرے اثرات چھوڑ گئے ہیں.ان سے کسی قد را اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی روحانی اولاد سے کس قدر انس تھا اور کس قدر لگاؤ.۱۷۳
284 حضرت اماں جان کے انداز تربیت (سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) حضرت اماں جان بچوں کی تربیت کے بارہ میں بہت زیادہ توجہ دیتی تھیں.اور اپ کے چند ایک خاص نکات ہیں جن کو بیان کرنا ضروری ہے.بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اسکو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت تھا.جھوٹ سے نفرت اور غیرت وغنا آپ کا اول سبق ہوتا تھا، اکثر فرما تھیں کہ بچہ کو عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے.پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے.آپ بچوں پر سختی نہ کرتیں تھیں.لیکن آپ کا ایک خاص رعب تھا.بچوں کی تربیت کے متعلق آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کی پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پور از ور گاؤ.دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کرخود ہی ٹھیک ہو جائیں گئے.۱۷۴.سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت اماں جان کے انداز تربیت کے بارہ میں فرماتے ہیں: حضرت اماں جان نے بچوں کی تربیت کے بہترین اصول اپنائے.اور پھر اپنی اولاد میں جاری کئے.اگر آپ بھی اپنی اولا د کو گندے اثرات سے بچانا چاہتی ہیں تو حضرت امان جان کے پاک نمونے پر عمل کریں.یہ نسخہ بے خطا ہے.بہت کار آمد نسخہ ہے.جس نے بھی عمل کیا کامیابی پائی.جھوٹ سے نفرت سب سے پہلی بات جو حضرت اماں جان بچوں کو سکھاتی تھیں وہ جھوٹ سے نفرت ہے.بچپن سے ہی آپ بڑی کثرت سے بار بار اس بارہ میں تلقین فرمایا کرتی تھیں کہ جو مرضی خطا ہو جائے جو بھی اس کی سزا ملے لیکن ہرگز جھوٹ بول کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کریں.قرآن کریم جھوٹ کو شرک قرار دیتا ہے.جو جھوٹ بول کر کسی بات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے وہ شرک کرتا ہے.سب سے زیادہ زور آپ جھوٹ سے نفرت کرنے پر دیتی تھیں.
285 بچوں پر اعتماد ایک اور بات جو حضرت اماں جان کیا کرتی تھیں وہ ہے بچوں پر اعتماد کرنا.بچوں کو محسوس ہونا چاہئے کہ ماں باپ ان پر اعتماد کرتے ہیں.اس سے ان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے.عزت نفس پیدا ہوتی ہے.اور خود اعتمادی جنم لیتی ہے.بچے یہ یقین کرتے ہیں کہ جب ماں باپ اور دوسرے لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں تو دنیا کیوں کرے گی.کہا ماننے کی عادت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بچوں میں بچپن سے کہا ماننے کی عادت ڈالا کرتی تھیں.آپ کا طریق یہ تھا کہ کہ چھوٹی موٹی شرارتیں بے شک کرتے رہو.مگر ماں باپ کا کہا مانو.اگر یہ عادت بچوں میں ڈال دی جائے تو سارے تربیتی مسائل حل ہو جائیں گے.اور اگر بچپن میں یہ عادت پختہ ہو جائے تو ساری عمر ساتھ دیتی ہے.دعا پر زور حضرت امان جان کی تربیت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ دعا پر بہت زور دیا کرتی تھیں.اور آپ کی روحانی اولاد نے روحانی امور میں جو ترقی کی ہے، وہ انہی دعاؤں کا نتیجہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو اوڑھنا بچھونا ہی دعا تھا.یہی بات آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھی.دن رات دعا کرتی تھیں.بچپن میں جب ہم آپ کے صحن میں گزرتے تو آپ کی نظر دعا بن کر ہم پر پڑتی تھی.اگر کھانا کھا رہی ہیں تو ایک لقمہ ہمارے منہ میں بھی ڈالا کرتی تھیں.اور پھر دعائیں دیتی.اللہ نیک نصیب کرے.۱۷۵
286 تاثرات حضرت مرزا عبد الحق صاحب سلمه ر به آپ نے دوران انٹریو بیان فرمایا: ”میری پہلی شادی ہوئی تو حضرت اماں جان خود میری بیوی کو میرے مکان پر چھوڑ کر گئیں.جو میں نے شادی کے لئے قادیان میں لیا تھا.میں اس روز شام کو گھر گیا.اس وقت میں لاء کالج میں پڑھتا تھا اس لئے کوئی باقاعدہ بارات کا انتظام نہ کیا تھا.بلکہ یہ شادی بڑی سادگی سے ہوئی.آپ کی میرے پر بڑی شفقت تھی کہ آپ خود چھوڑ کر گئیں تھیں.ایک شادی که موقع پر آپ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی شادی پر ہمارے گھر تشریف لائیں.میری دوسری بیوی کی بیٹی کا رشتہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے لئے مانگا.لیکن عمر کے فرق کی وجہ سے میری بیوی رضامند نہ ہوئی.اور مجھے اس بات کا افسوس رہا کہ میں ان کے ارشاد کی تعمیل نہ کر سکا.پھر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہا کے ساتھ گورداسپور ہمارے پاس تشریف لائیں ، آپ کی مجھ پر یہ بڑی شفت و محبت تھی.‘۱۷۶۴
287 الفضل یکم جولائی ۵۲ ۳ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۷۴ ۵ مصباح مئی جون ۵۲ء الفضل یکم جولائی ۵۲ ماہنامہ مصباح مئی، جون ۱۹۵۲ء ۱۱ الفضل ۲۸ مئی ۶۵۲ ۱۳ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه یم ۱۵ حالات و روایات صفحه ۳۷ کا مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۹ مصباح مئی جون ۵۲ء ا مصباح اکتوبر ۵۲ صفحه ۱۳-۱۴ ۲۳ الفضل ۱۴ مئی ۶۵۲ ۲۵ الفضل ۱۶ مئی ۶۵۲ ۲۷ الفضل ۱۲ جولائی ۶۵۲ ۲۹ الفضل یکم جولائی ۵۲ء ا حالات و روایت ص ۳۳-۳۵ ۳۳ مصباح دسمبر ۶۵۵ صفحه ۱۲ ۱۳۵ افضل ۵۲-۵-۱۶ ۳۷ الفضل ۴ رمئی ۶۵۲ حوالہ جات الفضل ۶ رمئی ۶۵۲ م الفضل ۵۲-۵-۲۰ ۶ مصباح مئی جون ۵۲ ء الفضل ۱۸ مئی ۵۲ وا مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۷۴ ۱۲ الفضل ۴ رمئی ۶۵۲ ۱۴ مصباح فروری ۵۳ صفحه ۵ ۱۶ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۸ مصباح مئی جون ۵۲ء ۲۰ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۶۸-۶۷ ۲۲ مصباح اکتوبر ۵۲ صفحه ۱۴ ۲۴ ماہنامہ مصباح مئی، جون ۱۹۵۲ء ۲۶ الفضل ۵۲-۵-۱۴ ۲۸ الفضل ۶ رمئی ۶۵۲ ۳۰ مصباح مئی جون ۵۲ء مصباح دسمبر ۵۵ صفحه ۱۳-۱۱۲ ۳۴ مصباح مئی جون ۵۲ ۳۶ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۳۸ الفضل ۳ جولائی ۶۵۲ ۳۹ الفضل ۳ جولائی ۶۵۲ ام الفضل ۱۱ مرجون ۶۵۲ ۴۰ مصباح مئی جون ۵۲ء ۴۲ الفضل ۱۱ جون ۶۵۲
۴۳ الفضل ۲۷ / اپریل ۶۵۲ ۴۵ مصباح دسمبر ۶۵۵ صفحه ۱۲ ۴۷ مصباح دسمبر ۶۵۵ صفحه ۱۲ ۹ حالات روایات - روایت نمبر ۸ صفحه ۳۳-۳۵ ا۵ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۶۷ ۵۳ افضل ۵۲-۵-۱۶ ۵۵ الفضل یکم جولائی ۵۲ء ۵۷ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۶۹ ۱۵۹ الفضل ۲۸ مئی ۵۲ء ۶۱ روایات صفحه ۲۵ ۶۳ حالات و روایات صفحه ۲۷-۲۶ ۶۵ مصباح مئی جون ۵۳ صفحریه ۱۷ الفضل ۵۲-۵-۲۰ ۱۹ روایت نمبر ۷ صفحه ۳۲-۳۱ اس الفضل ، ار جولائی ۵۲ ۷۳ مصباح دسمبر ۵۵ صفحه ۱۳ ۷۵ الفضل ۲۴ مئی ۶۵۲ سے افضل ۲۸ مئی ۵۲ء 288 ۴۴ الفضل ۴ مرمئی ۵۲ ۴۶ مصباح دسمبر ۶۵۵ صفحه ۱۲ ۲۸ الفضل ۱۹۵۲-۵-۱۶ ۵۰ ماهنامه درویش قادیان جون جولائی ۵۲ صفحه ۶۲ ۵۲ افضل ۴ رمئی ۶۵۲ ۱۵۴ الفضل ۱۰؍ جولائی ۵۲ء ۵۶ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۷۵ ۵۸ افضل ۲۸ مئی ۶۵۲ ۲۰ بروایات صفحه ۲۵ ۶۲ ماہنامہ مصباح مئی، جون ۱۹۵۲ء) ۱۴ الفضل اارجون ۶۵۲ ۶۶ الفضل ۶ ارمئی ۰۵۲ ۶۸ مصباح فروری ۵۳ صفحه ۵ ۷۰ مصباح مئی جون ۵۲ء ۷۲ مصباح مئی جون ۵۲ء ۷۴ الفضل یکم جولائی ۵۲ء ۷۶ مصباح مئی جون ۵۲ء ۷۸ الفضل ۴ مئی ۶۵۲ ۷۹ الفضل ۲۷ اپریل ۶۵۲ ۸۱ الفضل ، ار جولائی ۵۲ء ۸۰ مصباح دسمبر ۵۵ صفحه ۱۲ ۸۲ مصباح مئی جون ۵۲ء روایت حضرت اُم المومنین از سیرت المہدی حصہ اول) ۸۴ ( سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۷) ۱۸۵ الفضل ۲۷ اپریل ۶۵۲ ۸۶ الفضل ۱۱ر جون ۶۵۲ الفضل یکم جولائی ۱۸۹۰۵۲ الفضل ۱۰ر جولائی ۵۲ء ۸۸ مصباح اکتوبر ۵۲ صفحه ۱۴ ۸۹ الفضل ۶ ارمئی ۶۵۲ ۹۰ مصباح مئی جون ۵۲ء
و الفضل ۵۲-۵-۲۰ ۹۳ الفضل ۲۹ جون ۶۵۲ 289 ۹۲ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۵۶ ۹۴ الفضل ۳ جولائی ۶۵۲ ۹۶ مصباح دسمبر ۵۲ ۶ صفحه ۱۲ ۹۵ الفضل ۱۰ جولائی ۶۵۲ ۱۹۷ الفضل ۱۲ جون ۶۵۲ ۹۸ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۴۷ ۱۹۹ افضل ۲۰ مئی ۶۵۲ ام الفضل ۶ ارمئی ۶۵۲ ۱۰۳ الفضل ۵۲-۵-۱۶ ۱۰۵ مصباح مئی جون ۶۵۲ ۱۰۷ الفضل یکم جولائی ۵۲ ۱۰۹ الفضل ۱۴ رمئی ۶۵۲ الا مصباح دسمبر ۵۵ صفحه ۱۱ ۱۳ الفضل ۲۹ جون ۶۵۲ ۱۰۰ الفضل ۷ نومبر ۶۵۲ ۱۰۲ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۴ ۷ ۱۰۴ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۰۶ الفضل ۱۰ر جولائی ۵۲ء ۱۰۸ الفضل یکم جولائی ۶۵۲ ۱۱۰ مصباح دسمبر ۵۵ صفحه ۱۱ ۱۱۲ افضل ۲۸ مئی ۶۵۲ ۱۱۴ افضل ۲۹ جون ۶۵۲ ۱۱۵ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۷۴ ۱۱۶ الفضل ۲۹ جون ۶۵۲ ا مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۱۸ الفضل ۷ نومبر ۶۵۲ ۱۱۹ الفضل ۷ ارنومبر ۶۵۲ ۱۲۰ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۲۱ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۲۲ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۷۵ ۱۲۳ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۲۴ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۲۵ مصباح مئی جون ۶۵۲ ۱۲۷ الفضل سے رنومبر ۵۲ ۱۲۶ مصباح مئی جون ۶۵۲ ۱۳۸ الفضل ۲۹ جون ۶۵۲ ۱۳۹ الفضل ۳ جولائی ۵۲ ۱۳۰ الفضل ۲۹ جون ۶۵۲ ۱۳۲ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۶۸ ۱۳۱ مصباح مئی جون ۵۲ ۱۳۳ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۳۵ الفضل ۴ رمئی ۶۵۲ ۱۳۴ حالات و روایت ص ۳۳-۳۵ ۱۳۶ مصباح مئی جون ۵۲ء ۱۳۷ الفضل ۲۴ مئی ۶۵۲ ۱۳۸ الفضل ۳ جولائی ۵۲
۱۳۹ الفضل ۱۱ جون ۶۵۲ ۱۴۱ الفضل ۲۴ مئی ۶۵۲ ۱۴۳ الفضل ۲۴ مئی ۶۵۲ ۱۴۵ مصباح مئی جون ۶۵۲ ۱۴۷ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۶۸ ۱۴۹ مصباح دسمبر ۶۵۵ صفحه ۱۲ ۱۵۱ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۵۶ ۱۵۳ مصباح اکتوبر ۵۲ صفحه ۱۴ ۱۵۵ الفضل لا ہوراا / جون ۶۵۲ ۱۵۷ بروایت نمبر ۱۲ صفحه ۳۸ ۱۵۹ الفضل ۲۴ مئی ۶۵۲ 290 ۱۴۰ الفضل یکم جولائی ۶۵۲ ۱۴۲ الفضل یکم جولائی ۵۲ء ۱۴۴ الفضل یکم جولائی ۶۵۲ ۱۴۶ الفضل ۱۱ جون ۶۵۲ ۴۸ اماہنامہ مصباح مئی، جون ۱۹۵۲ء ۱۵۰ مصباح مئی جون ۵۲ صفحه ۵۶ ۱۵۲ الفضل ۱۲ / اکتوبر ۵۲ ۱۵۴ الفضل ۱۶ مئی ۶۵۲ ۱۵۶ مصباح فروری ۵۳ صفحه ۲۷ - ۲۶ ۱۵۸ الفضل ۱۸ مئی ۶۵۲ ۲۰ ر الفضل ۵۲-۵-۲۰ ۱۶۱ الفضل ۵۲-۵-۱۴ ۱۶۲ الفضل یکم جولائی ۵۲ء ۱۶۳ الفضل ۳ جولائی ۶۵۲ ۱۶۴ الفضل ۵۲-۵-۱۴ ۱۶۵ مصباح مئی جون ۵۲ء ۲۶ ۱ روایات منشی ظفر احمد صاحب.روایت نمبر ۷۸ صفحه ۱۱۴ ۱۲۷ الفضل ۱۲ / اکتو بر۶۵۲ ۱۶۸ الفضل ۲۷ اپریل ۶۵۲ ۱۶۹ الفضل ۱۰ جولائی ۵۲ء ۱۷۰ الفضل ۷ ارجون ۴۵۲ احلا الفضل ۱۰ر جولائی ۶۵۲ ۷۴ سیرت ام المومنین حصہ اول ص ۳۹۳۰ تا ۳۹۵ ۵ کل خطاب لجنہ جلسہ انڈونیشیا کیم جولائی ۲۰۰۰ء از الفضل ۱۷۶ انٹرویو مئی ۲۰۰۴ء ربوہ ۲۰ جولائی ۲۰۰۰
اب پـ 291 آپ کا ایک پیغام
292 حضرت سیدۃ النساء الی الله در جانتہا کا پیغام درویشان قادیان کے نام مکرم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف اصحاب احمد ( مرحوم و مغفور ) تحریر کرتے ہیں: حضرت اُم المومنین ، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بہت ہی بلند فرمائے کے وصال سے وہ عدیم المثال خاتون ہم سے جدا ہوئیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت اور مثیل حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قرار دیا تھا.اور جس کی حضرت بروز محمد ﷺ کی زوجیت میں آنے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ساڑھے تیرہ سوسال قبل يتزوج ویولد لہ میں دی تھی.آپ کا محکم یقین اور ایمان آپ کی رضا بالقضاء اور آپ کی تمنا اپنی جسمانی اولا داور درویشوں کے متعلق کیا تھی وہ ذیل کے پیغام سے ظاہر ہے.جو مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوة و تبلیغ قادیان کی درخواست پر حضرت ممدوحہ نے جلسہ سالانہ ۱۹۴۸ء پر بھجوایا تھا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ” السلام عليكم ورحمته الله وبركاته مجھے آپ کی طرف سے یہ درخواست پہنچی ہے کہ میں قادیان کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ کو کوئی پیغام بھجوا ؤں.سومیرا پیغام یہی ہے کہ میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتی ہوں اور یقین رکھتی ہوں کہ آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یادرکھتے ہوں گے کہ ایک دوسرے کے متعلق مومنوں کا یہی مقدم فرض مقرر کیا گیا ہے.آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ گذشتہ فسادات اور غیر معمولی حالات کے باوجود آپ کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں ٹھہر نے اور وہاں کے مقدس مقامات کو آباد رکھنے اور خدمت بجالانے کی توفیق دے رکھی ہے.میں یقین رکھتی ہوں کہ آپ لوگوں کی یہ خدمت خدا کے حضور مقبول ہوگی.اور احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے خاص یادگار رہے گی.میں ۱۸۸۴ء میں بیا ہی جا کر قادیان میں آئی اور پھر خدائی مشیت کے ماتحت مجھے ۱۹۴۷ ء میں
293 قادیان سے باہر آنا پڑا.اب میری عمر اسی سال سے اوپر ہے.اور میں نہیں کہہ سکتی کہ خدا کی تقدیر میں آئندہ کیا مقدر ہے.مگر بہر حال میں اپنے خدا کی تقدیر پر راضی ہوں اور یقین رکھتی ہوں کہ خواه درمیانی امتحان کوئی صورت اختیار کرے قادیان انشاء اللہ جماعت کو ضرور واپس ملے گا.مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو موجودہ امتحان کو صبر اور صلوۃ کے ساتھ برداشت کر کے اعلیٰ نمونہ قائم کریں گے.چند دن سے قادیان مجھے خاص طور پر یاد آرہا تھا شاید اس میں جلسہ سالانہ کی آمد آمد کی یاد کا پر تو ہو یا آپ کی اس دلی خواہش کا مخفی اثر ہو کہ میں آپ کے لئے اس موقعہ پر کوئی پیغام لکھ کر بھجواؤں.سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ جماعت ایمان اور اخلاص اور قربانی اور عمل صالح میں ترقی کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور دعا کے مطابق میری جسمانی اولاد کا بھی اس ترقی میں وافر حصہ ہو.آپ لوگ اس وقت ایسے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں جو خالصاً روحانی ماحول کا رنگ رکھتا ہے.آپ کو یہ ایام خصوصیت کے ساتھ دعاؤں اور نوافل میں گزارنے چاہئیں اور عمل صالح اور باہم اخوت و اتحاد اور سلسلہ کیلئے قربانی کا وہ نمونہ قائم کرنا چاہئیے جو صحابہ کی یاد کو زندہ کرنے والا ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین ثم آمین.“ ( وشخط) أم محمود ام المومنین.رتن باغ.لاہور ۱۲ دسمبر ۱۹۴۸ء حوالہ جات ے ماہنامه درویش قادیان جون جولائی ۱۹۵۲ء صفحه ۲۶- ۲۵ ۲ الفضل لا ہور۴ جون ۱۹۵۲ء صفحه ۲
294 ــاب ششـ نذرانه هائی قيـ دت
295 تیری رحلت سے یہ ٹوٹی ہوگئی بزم جہاں ( کلام محترم عبد الحکیم صاحب کراچی ) بے صداؤں کی صدا اے بے زبانوں کی زباں ! تا ابد قائم رہے تیری وفا کی داستاں ! تیری رحلت سے یہ سُونی ہوگئی بزم جہاں آہ! اب کس سے کہوں میں دردِ دل کی داستاں دار احمد تیرے دم سے شاد تھا ،آباد تھا ! ملت احمد کا ہر فرد بشر دل شاد تھا آس تھیں بیمار کی ، ڈھارس دل لاچار کی تھا سکوں دم سے ترے دولت تھیں تم نادار کی مہدی آخر زماں کے گھر کی تھیں مختار تم اور مہمانوں کی اپنے پوری خدمت گار تم ! مادرانہ شفقتیں جب یاد آئیں گی ہمیں، بے تحاشا خون کے آنسو رلائیں گی ہمیں اے خدیجہ تیری تربت پر ہزاروں برکتیں مالک قدوس کی برسیں ہمیشہ رحمتیں لے
296 باغ عالم کی فضا ئیں غم سے ہیں معمور کیوں کلام مکرم ومحترم انور صاحب بنگو کی سرگودھا) باغ عالم کی فضائیں غم سے ہیں معمور کیوں؟ آج کچھ بدلا ہوا دنیا کا ہے دستور کیوں؟ اشک خوننا بہ بہاتا ہے دل رنجور کیوں؟ بن گیا ہے آج ہر زخم جگر ناسور کیوں؟ آج ہر مومن کا دل رونے پہ ہے مجبور کیوں؟ ہوگئی ہے اُس کی دُنیا سے خوشی مستور کیوں؟ اک تفکر کا سماں ہے ہر طرف چھایا ہوا رنج و غم کی قید میں ہر مردوزن محصور کیوں؟ آج اُم المومنین کیا ہوگئیں ہم سے جدا ؟ ہو گئی ہے خبر بد یہ ہر طرف مشہور کیوں ؟ ۲
297 آئندہ آنے والی خواتین مبارکہ کلام حضرت قاضی ظہورالدین صاحب اکمل ) اے ام المومنین تیری شان ہے بلند پہلو میں تیرے اترا کیا ہے پیام حق کیا وصف لکھ سکے یہ حقیر و فقیر قوم حقیر و فقیر قوم تو خلق خلق میں تو خلق خلق میں ہے نشانِ دوامِ حق روز ازل سے تا بہ ابد کائنات میں مخصوص ہے تیرے لئے دارالسلام حق قوموں کی ماں ہے.انکی ترقی کی جان ہے تو جاری رہے گا تجھ سے یہ فیضانِ کام حق آینده آنے والی خواتین مبارکہ اور ہونے والے سارے ائمة عطاء حق تیرے ہی دم قدم سے ہیں وابستہ سب کے سب بھیجا کریں گے تجھ درود و سلام حق سے
298 حضرت اُم المومنین (از مکرم محترم عبد السلام صاحب اخترایم.اے.پروفیسر جامعتہ المبشرين ربوہ) اے میچ پاک کے خُلق مقدس کی امیں ! حشر تک زندہ رہے گا تیرا نام دلنشیں ! زندہ جاوید ہے تیرا وجود ذی وقار بے سہاروں کا سہا راغم کے ماروں کی پکار منبع جود و کرم تھی معدنِ صدق وصفا پیکر جذب و محبت.خُوگر صبر و رضا آج بھی اُس درد کی لذت مٹا سکتا ہے کون؟ تیرے احسانات کو دل سے بھلا سکتا ہے کون؟ اب بھی خونِ دل میں موجوں کی روانی تجھ سے ہے! ملت احمد میں جوشِ زندگانی تجھ سے ہے کوئی شے بھی جلوہ حق کو چھپا سکتی نہیں ان مبارک ہستیوں پر موت آ سکتی نہیں ! جلوه خورشید جب تک دہر پر چھایا رہے اے خدا.اُن پر ہمیشہ نور کا سایہ رہے.
299 روح کو آواز دے کر لے گئی روح ارم کلام مکرم ثاقب زیروی صاحب مرحوم ) چھیڑ کر مغموم کے میں ذکر اُم المومنین میری مایوسی میں کس نے تازہ آہیں گھول دیں دفعہ جو لانیوں کی گرم سانسیں رک گئیں شمع نور صبر و ہمت کی لویں تھرا اٹھیں آہ وہ شفقت بھرے لمحات - جو باقی نہیں اک بگولا انبساط جسم و جاں کو لے گیا جسم و جاں تو کیا نشاط جاوداں کو لے گیا مہدی آخر زماں کی ہم عناں کو لے گیا نازشِ بزمِ جہاں نصرت جہاں کو لے گیا درد کاسیلا ب جسم ناتواں کو لے گیا وہ محبت اور ارادت کے زمانے اب کہاں وہ تبرک کے لئے حیلے بہانے اب کہاں وہ رفاقت آفریں رنگیں ترانے اب کہاں جن کا ہر نقطہ حقیقت تھا فسانے اب کہاں جو خزف کو بھی ڈر نایاب جانے اب کہاں وقت کی بے مہریوں کا کھل گیا آخر بھرم ایک غم دے کر اجاگر کردیئے ہیں لاکھ غم بلبلاتے اور تڑپتے رہ گئے با چشم نم روح کو آواز دے کر لے گئی روح ارم تھم گئی کس مرحلے پر بارش لطف و کرم گل ہوئی شمع سکوں رنگِ وفا جاتا رہا اک وجودِ بے مثال و بے بہا جاتا رہا جس کا نام امید کا پیغام تھا جاتا رہا خلق کے روندے ہوؤں کا آسرا جاتا رہا جس پہ میری جان سوجاں سے فدا جاتا رہا لیکن اے شہر خوشاں کی مقدس سرز میں تو اظہارِ تفوق کا طریق اچھا نہیں ایسی آبادی کے منصوبے پہنتے ہیں کہیں جن کی بنیادیں ہوں چشم نم.دل اندونگیں چومتی ہو اس لئے پاؤں کہ جھک جائے جبیں
300 تیرے دامن میں نہاں ہیں سینکڑوں عالی وقار سیم تن لاکھوں کروڑوں گلبدن رنگیں غدار ایسے سطوت کوش نازاں جن پہ بزمِ روزگار تجھ سے خم کھا کرگزرتا ہے غرورِ شہر یار تیرے جھونکے زرد کر دیتے رہے روئے بہار اس فراوانی پہ بھی ہم سے یہ دولت چھین لی ان گنت بچوں سے ”امی“ کی محبت چھین لی کٹ رہی تھی جس کے بل بوتے پر غربت چھین لی جس کے خود حق نے کہا تھا ” میری نعمت چھین لی باپ نے بیٹوں کو جو دی امانت چھین لی دار ہجرت بے سرو سامانیاں گرداب غم ہر طرف امڈ چلا آتا ہے سیلاب سم یاس کی روش زدہ امن کی امید کی کم وقت کی چنون پڑھکیں چرخ کی گردن میں خم ہر زباں پر ہے ڈسا جمنے نہ پائیں اب قدم نشین یہ سبھی کچھ ہے مگر اے ساکن خلد بریں اے گلستانِ عدم آباد کی محفل تربت پہ آتی ہیں بصد عزم و یقین جن پر کھلی ہے تیری چشم جبیں وہ کسی در پر خدا کے بعد جھک سکتی نہیں 1
301 جہاں حضرت مسیح موعود کے حضور میں از سید حسن حمیدی بی.اے (آنرز) (1) نوائے شوق دل بیقرار لایا ہوں حضور حسرت بے اختیار لایا ہوں حضور اور ہے کیا پاس غم نصیبوں کے نگاہ شوق میں گوہر ہزار لایا ہوں میں مجھ کو کہیں بھی اماں نہیں ملتی ہجوم درد غم بے شمار لایا ہوں جگر کے داغ ، رُخ زرد خوں فشاں نظریں حضور آج اچھوتی بہار لایا ہوں حضور ایک جھلک خواب ہی میں دکھلائیں جگر فگار نظر بے قرار لایا ہوں ہیں ظلم زمانے نے دیکھئے کیا کیا زبانِ شوق میں شکوے ہزار لایا ہوں کئے حضور اشکوں کے موتی قبول ہو جائیں کرم نوازی عمد (r) حضور آر بہار لایا ہوں کے در کے سوا کہاں جاؤں حضور کون غریبوں کی بات سنتا ہے حضور مجھ سے زمانے نے پھیر لیں آنکھیں نہ دوست ہے نہ کوئی آشنا کہاں جاؤں مزید جور مصائب کی مجھ میں تاب نہیں حضور عام ہے رسم جفا کہاں جاؤں ہمارے حال پہ قسمت بھی مسکراتی ہے ازل سے ہوں میں اسیر بلا کہاں جاؤں یہ زندگی ہے کہ دور عذاب ہے کیا ہے ؟ مری خزاں ہے کہ عہد شباب ہے کیا ہے ؟ کے رحلت ام المومنين (1) کتنی اداس شب ہے ”شہادت“ کی بیسویں یہ کون کہہ گیا غم فرقت کی داستاں پاک دل کی دھڑکنیں خاموش ہوگئیں خاموش ہوگئی ہے زمیں ،چپ ہے آسماں
302 میرے خدایا یہ کون سا تارا ہوا غروب تاریک و تار سانظر آنے لگا جہاں اے سرزمین ربوہ ! بتا کیوں اُداس ہے کس نے اٹھالیا ترے بستاں سے آشیاں (r) وہ ت جہاں خدا نے خدیجہ کہا جسے وابستہ جس کے دم سے ہوئی نصرت جہاں اپنے خدا کی پاک بشارات کی امیں پیکر وفا و سخا،مومنوں کی ماں تعبيريتــــ زوّج ويـــولـــدل یعنی خدا کے پاک مسیحا کی رازداں آئی تھی اپنے گھر میں تو سونا پڑا تھا گھر رخصت ہوئی ہے آج ہزاروں کے درمیاں (۳) پھر یاد آرہی ہے دیار مسیح کی بے اختیا رآنکھ سے آنسو ہوئے رواں وہ مقبرہ خدا نے بہشتی کیا جسے جس کی زمیں سے رفعت ہفت آسماں عیاں ہم آج اس فضا میں دعائیں نہ کر سکے اس بے بسی کو دیکھ اے آقائے دوجہاں (۴) کتنے چراغ راہ تھے جو بجھ گئے مگر سالار کارواں کا ابھی عزم ہے جواں ہر چند حادثات سے خوں ہو گیا ہے دل پیش نظر رہی ہے مگر ذات جاوداں تیرے جلو میں ایک دن آئیں گے ہم ضرور لے کر تری امانتیں اے ارضِ قادیاں ^
303 بروفات حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا از مکرم محمود احمد صاحب مبشر رکن بزم درویشان) آج کیوں ہیں دل ہمارے اس طرح سے بے قرار بے بسی ہے ہر طرف.ہے آنکھ سب کی اشکبار مومنوں کے ہے دلوں پر آج غم چھایا ہوا ہے زمیں سہمی ہوئی ،اور چرخ مرجھایا ہوا جسم اُم المومنین ہوتا ہے مٹی میں نہاں آج دل ربوہ میں ہیں اور جسم ہیں خالی یہاں جب کبھی ”الدار میں ہوتا ہے یاں میرا گزر سہم جاتا ہے مرادل اس مکاں کو دیکھ کر جس کو کہتے ہیں کہ اُم المومنین کا ہے مکاں دل میں کہتا ہوں کہ ام المومنین اب ہیں کہاں کاش! اُمّ المومنین کی اور بڑھ جاتی عمر قادیاں کی واپسی پر بھی ہمیں آتے نظر قادیاں واپس ملے گا سب کے سب ہی آئینگے پر نہ اُم المومنین کو واپسی پر پائینگے ہائے کیسی نیک تھی ماں آپ تھی اپنی مثال ہم غریبوں کا جو رکھتی تھی ہمیشہ وہ خیال ہے یہ دنیا آنی جانی اور یہ موت وحیات آج آئے کل چلے ہے كُل نفس ذائقة الموت ہے قرآن میں ہر بشرفانی مبشـ ر اس جہانِ فان میں 9 سلسلہ کائنات
304 عہد حاضر کے لئے تھی جو مقصد یادگار آفتاب ( مکرم سردار رشید قیصرانی صاحب) احمدیت کی درخشنده کرن آج ضو افشا فضائے آسمانی میں نہیں آج غم انگیز ہے یہ وسعت کون ومکاں آج اُم المومنین اس دار فانی میں نہیں جس کے دم سے ظلمتوں میں نور کی بارش ہوئی جاذب اکرام ربانی رہا جس کا وجود مصلح اقوام عالم کو دیا جس نے جنم وجود منبع انوار یزدانی رہا جس کا جس کو حاصل تھا مسیحا کی رفاقت کا غرور عہد حاضر کے لئے تھی جو مقدس یادگار جس کے دم سے میرے آقا کا چمن پھولا پھلا چل بسی وہ چھوڑ کر اپنے مقدس برگ و بار مکین عرش اب قید مکانی میں نہیں وہ آج اُم المومنین اس دار فانی میں نہیں 10
305 تاریخ وفات سيدة النساء حضرت اُم المومنين تربت قطعه تھا کھڑا میں اک روز سیدہ کی تاریخ سوچتا تھا حالت میں ہی دعا کی اُلٹے پڑھو عدد نصرت تم ہاتف نے یہ صدادی جہاں بیگم جنت کی شہزادی ۱۷۳۱ آخری مصرعہ کے عدد ۱۷۳۱ بنتے ہیں.اس رقم کو مروجہ طریق سے الٹ یعنی بائیں سے دائیں کی بجائے دائیں سے بائیں کو پڑھا جائے تو ۱۳۷۱ کا عدد حاصل ہوگا اور یہی سال یعنی ۱۳۷۱ ہجری سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین نصرت جہاں بیگم کی وفات کا سال ہے.والسلام خاکسار مرز امحمد حیات تاثیر احمدیہ کا نتیج.چنیوٹ !!
306 قطعہ ء تاریخ وفات از ڈاکٹر محمد بدرالحسن صاحب کلیم از پاک پتن ) آپ مدیرہ مصباح کے نام لکھتے ہیں : آپ کا رسالہ اُم المومنین نمبر میری بچی بشری خاتون کے نام پہنچا ہم سب کو بہت خوشی حاصل ہوئی.خدا آپ کو اس کا اجر عظیم بخشے.اس میں حضرت اماں جان کے متعلق ایک تاریخی قطعہ میری نظر سے گزرا.فاضل شاعر نے تاریخ وفات خوب نکالی ہے.ہم بھی ایک تاریخ پیش کرتے ہیں.فاضل شاعر نے تو سب کو الٹ دیا ہے ہم صرف ہزار والے ہند سے کو اکائی کی جگہ دینا چاہتے ہیں جس سے بجائے ہجری سن کے عیسوی سن برآمد ہوگا.وہ یہ ہے.وقت رحلت کسی نے فرمایا + ہم چلے گھر تر اخدا حافظ ۲۱۹۵ اب ہم صرف ۲ کے ہندسے کو اکائی کی جگہ پر رکھ دیتے ہیں زیادہ اُلجھن میں ڈالنا نہیں چاہتے.بدلنے سے ۱۹۵۲ برآمد ہوا.یہی ہمارا مقصود ہے.۱۲) تاریخ وفات مرکز میں چلے جانے کے ایام تھے آئے اب باغ شمرور تو خلد برین رفت ۱۹۵۲ء ۱۹۵۲ء نصرت جہاں بیغم عبدہ ۱۹۵۲ء
307 حضرت مقدسہ مطہرہ اماں جان کی وفات پر ! (از حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ) ايا يوم الرحيل ويوم حسرات باحزان القـلـوب وسيل عبرات رأيــــنـــا فـيك مـن حشــر عـظـيـم كأن اللـــه نــزل من السموات لأم المـــومــــنـيـــن بــدا ارتــحـــال وقدر الله حُلّ بهول مافات فعندالـنـعـيـي قـد فـزعـتُ قلوب وقد فُـجـتـت نـفـس عـنـد صـدمــات وبعد مسيحنا يوم الرزيئة لرحُلَتِهـا اشـد مـن الـمـصـيـبـات رأينا مـنـظـر الآفاق كـالـلـيـل وفي ابصارنا الدنيا بظلمات رضينا بالـقـضــاء ومــالـقـيـنــا وليس لنا نقول خلاف مرضات لـوافـقـنـا الـمـقـدر اصطباراً وان الصـــــابـــرين لهم بشارات لعبد مـــؤمــــن صبــــر واجـــــر لَيُرحَمُ بالهدى من بعد صلوات ونشـــــــوابــــاحــزنــابـد مـع الى الرحمان مولاناوزفرات وان حيات دنيـــــانــــاكــأسـفــــار لأعوام وايــــــام وســــــــاعــــــــات وذكر الخير يبقى بعد موت وذكر الخيــر كــالـمـحـيــالأمـوات لِمَنُ مِن باقیات صالحات هو الحي الذي يبـقـى ومــامــات وأم الـمـؤمـنـيـــن حيـــــات قـوم وخير الامهات كـــأصـل خيـرات بــلــم شــــان أم الـمـؤمـنـيـنــاً منيناً لهـامـجــد وعـنـدالـلـه درجـات وان اللــــه قـدائــنــي عليهـا واكرمهـــابـــانـــواع الـكــرامــات وسمّـاهـــاخـــديــجـتـــه بـوحـيــي ونعمته لِمُرْسَلِـه كبـركـات جرى الــلــه فـــي حـلـل الانبيــا لهازوج واسـنــي بـالــرسـالات ونـــعـــل
308 الخلق مهدی و هادی نبیــى اللـــه حـقـاً بـالـكـمـالات ـول الله احمد ذوالمكارم ومـــوعـود الـمـهـيـمـن بـالبشارات لــمــوعـــود ذوقــــدررفيــــع هـو الـمـحـودذومــجــدبـــآيـــات له ذكر التزوّج فــي حـديـث ويعلم من له علم بمشكوت ـــــامن ربّهـــــاشــــــان عـظـيـم لهــــاقـبــل التــولــدمـــن بشـــارات كذلك جاء في التنزيل ذكر ولكن بالاشارة والكنايات ومن جرثومة السادات نسلاً وآل مــحــمــد فـــخــــرالـســـــادات وبنت المصطفى من نسل زهراء وكـانـت لـلـمسيح كخير زوجات مقدسة مطهرة تـقيـــى وبـالـنـفـس الزكية اطهر بالذات وكرمها المهيمن اصطفاءً لِمُرْسَلِه کآیات برکات لها من حسن اخلاق شان ومن أسنى المكارم بالمباهات كانت مثل أُمّ مثل أم وللفقراء سعفة بحاجات ومونسة اليتــامـــى والـمســـاكـيـن ومشفقة عليهـم بـالـمـواســات لقين على الـنـوائــب الـنـوازل تواسی اهلها عندالمهمات وتفدى وَجْهَهُ حُباً بجذبات تُحِبّ الله مِن حُبِّ شديد : وتــــذكــــــرة بتسبيح و ره بتسبيح وحـــمـــد وكان بشغفها في كل اوقات لهــــه شغل لذيذ في دُعاءٍ لها خير المشاغل في الحبادات ليمـضـى وقـهـافـي الـديـن نـعـهــاً لها الضاعات اوشغل المناجات لكانت اوّل الا نـصــــار عــونـــاً ونصرتها بدت عندالمهمات لها في الديـن سـعــى بعد سعـي لهافی الله جهد عند خدمات نــاهــــــة وعـــابــــة بشــــان صابــــة بـصـيـــر كــل حــالات بوقـــت ألا بتــــداء زمـــــان بــؤس اذا الاقوام قامـــــت بـالـمـعـــادات ارت صبـــا بســمــح كــل ســب وتدعــوالـلـعــدوّدعــــاء خيرات
309 بدعوتها ونصرتها العظيمه لقد وجدت من الله اولرادات واعطــاهــا العطاء ربّ كريم واغناها المهيمن بالعنايات بشـــــــارات لها قبــل التــولــد وبعد مماتها تبشير جنّات لهــــا الا ولادفــي الــدنيـــا ونسل لها البشرى فكانوا مثل آيات وندعو الله يعطى ما تشاء وفي الجنات يرفعها بدرجات ويــحـفـظ آلهــا مــن آل محمد وينــصــر هـم بـنـصـرتـه وبـركـات ١٣
310 حضرت ام المؤمنين رضى الله عنها ( ازمولا نا مصلح الدین احمد راجیکی صاحب) رَضِيْنَا بِالْقَضَاءِ وَمَا لَقِينَا وَلَوْصَرَفَتْ صُرُوقُ الدَّهْرِ فِيْنَا وَإِنْ يَّأْتِ الزَّمَانُ بِكُلّ خَيْرٍ فَلايَأْتِي فَلَا يَأْتِي بِامِّ الْمُؤْمِنِينَ فَكُلُّ القَوْمِ لِلاحْزَان صَرُعَى فَيَا لَلْحُزنِ لَمْ يَتْرُكُ مُعِيْنَا وَنَشْكُرُبَنَّنَا فِي كُلّ حِيْنِ إِلَى رَبِّ كَرِيمٍ مَابَقِينَـــا فَيَا لَيْتَ الزَّمَانَ بِنَايُوَاسِي وَيَقْضِيْنَا بِخَشْنِ الْأَمْرِلِيْنَا وَنَرْجُلُ فِي مَجَالِ الْعُمُر هَوْنَا وَرَكُبُ الْمَوْتِ عَنْ قُرُبِ يَلِيْنَا وَنَرْجُو الدَّهْرَ فِي الْأَعْمَارِ طُوْلًا وَسَهُمُ الْمَوْتِ يَفْجَأْ مَنْ هَوِيْنَا تَذَكَّرُهَادِ مَاللَذَّاتِ تَتْرَا إلى مَا تَشْتَهِي تَمُرًا وَتِينَا فَيَا لَيْتَ الْخُلُودَ لَنَا بِأَرْضِ مَضَتْ مِنْ عُمْرِنَا فِيْنَا سِنِينَا ا ١٣
311 يا ليت يكمت الزمان ( کلام مولانا مبشر احمد صاحب را جیکی) فُجِنَتْ عَشَائِرُنَا بِظَعُنِ حَيَاتِهَا ضَنَكَتْ مَعِيشَتُنَا بِحُزْنِ مَمَاتِهَا خُتِمَتْ بِهَا وَبِشَانِهَا كُلُّ مَدْحَةٍ حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهَا وَصِفَاتِهَا وَكَفَتْ لِأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ سَيَادَةً اِذْكَانَ خَيْرُ الْخَلْقِ مَنُبَتُ ذَاتِهَا لَوْلَا الْعَيَاذُ بِرَتِنَامُتَكَفِّلْ ضُرِمَتْ عَلَيْنَا حَوَادِثُ بِوَفَاتِهَا يَالَيْتَ يُمْكِتُهَا الزَّمَانُ بِنَامَعًا هِيَ مَلْجَةٌ لِعُرَاتِهَا وَحُفَاتِهَا فَمَنِ اللذِي حَاذَا لُعَوَارِفَ مِثْلَهَا لِلَّهِ دَرُّ خَدِيجَةٍ وَهُدَاتِهَا أَسَفًا عَلَى الْإِعْصَارِ هَبْ لِرَوْضَةٍ جَنَحَتْ إِلَى قُطُوفُهَا بِصَلَاتِهَا نَدْعُرُ اسَلَامَةَ أَهْلِهَا بِكَرَامَةٍ لَا رَيْبَ أَنَّ مَسِيلَنَا بِفُرَاتِهَا يَارَبِّ صَلِّ عَلَى مَاثِرِ امِنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْدَ مَمَاتِهَا ٤ ا م
312 اماہنامہ مصباح مئی جون ۱۹۵۲ صفحه ۲۳ ماہنامہ درویش قادیان جون جولائی ۱۹۵۲ صفحه ۶۶ ۵ ماهنامه در ویش قادیان جون جولائی ۱۹۵۲ صفحه ۴۰.الفضل لا ہور۴ جون ۱۹۵۲ء صفحه ۲ ۹ ماهنامه در ولیش قادیان جون جولائی ۱۹۵۲، صفحه ۳۲ الے ماہنامہ مصباح مئی جون ۱۹۵۲ صفحیم ۱۳ مصباح اگست ۱۹۵۲ صفحه ۷-۸ حوالہ جات ماہنامہ مصباح ربوہ مئی جون ۱۹۵۲ء صفحه ۶۳ ماہنامه درویش قادیان جون جولائی ۱۹۵۲ء صفحه ۸ الفضل لاہور ۲۸ مئی ۱۹۵۲ء الفضل لاہور ۲۹ مئی ۱۹۵۲ ، صفحه ۳ ۱۰ الفضل لا ہور ۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء ۱۲ مصباح ستمبر ۱۹۵۲، صفحه ۱۵ ۱۴ مصباح اگست ۱۹۵۲ صفحه ۸
313 يتزوج ويولد له آواز کا ریکارڈ تعزیتی خطوط کے جوابات
314
315 يتزوج ويولدله جس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر مبر صادق صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دی ہے.اس کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے.يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ.یعنی مسیح جب آئے گا.تو وہ نکاح کرے گا.اور اس کے اولا د بھی ہوگی.ایک حدیث میں اس بات کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ: لا مهدى الا عيسى یعنی جس الامام المہدی کی آمد کی خبر دی گئی ہے.وہ وہی ہے جس کا دوسرا نام عیسی ہے.اگر غور کیا جائے تو ایک ہی موعود کے ان دونوں ناموں کی وجہ کھل جاتی ہے.مہدی اس لحاظ سے نام رکھا گیا ہے کہ وہ موعود ایک پہلو سے امتی ہوگا.اور عیسی اس لئے کہ وہ موعود ایک پہلو سے نبی ہوگا.وہ مسیح ہو گا مگر مسیح موسوی نہیں بلکہ مسیح محمدی ہوگا.مسیح موسوی صرف بنی اسرائیل کے لئے اور شریعت موسوی کے احیاء کے لئے آیا تھا.کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے ہی تھے.مسیح محمدی شریعت محمدی کے احیا کیلئے اور تمام عالم کے لئے آئے گا.کیونکہ محمد رسول اللہ اللہ رحمۃ للعالمین ہیں.دونوں میں یہ تو ایک کام کی وسعت کا فرق ہے.اس کے ساتھ ہی دونوں میں ایک بین ظاہری فرق یہ بھی ہوگا.کہ جہاں مسیح موسوی نے نکاح کیا تھا.اور کوئی اولاد پیدا نہیں کی تھی.وہاں مسیح محمدی علیہ السلام نکاح بھی کرے گا اور اس کے اولاد دبھی ہوگی.کیونکہ رسول کریم ﷺ کی یہ بھی حدیث صحیح ہے کہ: النِّكَاحُ سُنَّتِي فَمَنْ لَمْ يَعْمَلُ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي مسیح محمدی محمد رسول اللہ کا امتی اور اس نے آپ ہی میں سے ہونا تھا اس لئے آسمان پر ضروری ٹھہرایا گیا کہ يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُلَهُ ضرور نکاح کریگا.اور ضرور اولاد پیدا کرے گا حضرت ولی نعمت اللہ شاہ علیہ الرحمۃ کی مشہور ومعروف پیشگوئی سے بھی جو یقینا آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ہی کی ہے.مخبر صادق عے کی مندرجہ بالا پیشگوئی کی تائید
316 وتصدیق کرتی ہے.جہاں وہ الامام المھدی کا ذکر فرماتے ہیں ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں: پسرش یادگار یعنی مہدی موعود علیہ السلام کا ایک بیٹا ہوگا.جو یاد گار ہوگا.گویا آپ نے رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُلہ کی تشریح فرمائی ہے.اور بتایا ہے کہ ویولدلہ “ کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود یا الامام المہدی کا ایک بیٹا خاص ایسا پیدا ہو گا.جو آپ کا قائمقام ہو کر آپ کے کام کو آگے بڑھائے گا.پھر حضرت ولی نعمت اللہ شاہ کی پیشگوئی سے رسول اللہ ﷺ کی دوسری حدیث لا مهدى الا عیسیٰ“ کی بھی تصدیق ہوتی ہے.اور ثابت ہوتا ہے کہ احادیث میں مہدی اور عیسی دو نام ایک ہی موعود کیلئے استعمال کئے گئے ہیں.کیونکہ جو بات يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ حدیث میں عیسی کے نام سے بیان ہوئی ہے وہی حضرت ولی نعمت اللہ شاہ کی پیشگوئی میں الامام المہدی کے نام سے بیان ہوئی ہے.حاصل کلام یہ کہ احادیث میں جو کچھ موعود مہدی یا عیسی کیلئے کہا گیا ہے.وہ ایک ہی موعود ہستی کے لئے کہا گیا ہے.اور نہ صرف حدیث نبوی ہی سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.بلکہ حضرت ولی نعمت اللہ شاہ کی پیشگوئی نے بھی اس پر مہر تصدیق لگا دی ہے.اور جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے.وہ ” موعود “ ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی کہلائے گا.اس بات کو سمجھ لینے کے بعد ان تمام احادیث کی توضیح بھی اب آسان ہو جاتی ہے.جن میں کہا گیا ہے.کہ حضرت عیسی حضرت الامام المہدی کے پیچھے نماز ادا کریں گے.گویا موعود اگر چہ نبی کہلائے گا مگر ہو گا امتی.اسی بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں بھی واضح کیا گیا ہے.جَرَى اللَّهُ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءَ یعنی اللہ تعالیٰ کا جری جو انبیاء علیہم السلام کے لباس میں ہے.جری اللہ کا ٹکڑا وہ نشان ظاہر کرتا ہے جو مہدی کے نام کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اور فی حلل الانبیاء کا ٹکڑا وہ شان ظاہر کرتا ہے جو عیسے کے نام سے ظاہر ہوتی ہے.مہدی وہ جری اللہ ہے جو احیائے اسلام کرے گا.جو از سر نو دین اسلام کو سب ادیان پر غالب کرے گا اور وہ عیسی کا نام اس لئے پائے گا.کہ مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح اس کو بھی نبوت کا لباس دیا جائے گا.لیکن چونکہ یہ نبوت حضرت محمد علیہ کی نبوت کا ہی پر تو ہوگی.اس لئے فی حلل الانبیاء کہا گیا ہے.اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کے متعلق ثابت شدہ بات ہے کہ.
317 حسن یوسف دم عیسی آنچه خوباں ہمہ بیضا داری دارند تو تنها داری ذیل میں ہم حضرت خواجہ میر محمد ناصر بانی طریقہ محمدیہ اور والد ماجد میر درد کا ایک کشف درج کرتے ہیں.جس میں حدیث يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ ، اور حضرت شاہ نعمت اللہ دہلوی کی پیشگوئی پسرش 66 یادگار بینم کی ایک واضح اور ٹھوس صورت کے ظہور پذیر ہونے کی طرف بد یہ اشارہ پایا جاتا ہے.جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے.کہ الامام المهدى و المسيح الموعود کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آ گیا ہے.کشف حسب ذیل ہے: تاریک کمرہ یکدم غیر معمولی روشنی سے منور ہو گیا.اور ایک خوبصورت نوجوان جس کے سر پر ایک جواہر نگارتاج تھا سامنے آیا.اور آگے بڑھ کر آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا اے محمد ناصر یہ کیا جبر و ستم ہے جو تو اپنے نفس پر کرتا ہے.تب انہوں نے دریافت کیا کہ آپ اپنے اسم مبارک سے مجھے آگاہ فرما ئیں اس پر انہوں نے فرمایا.کہ میں حسن مجتبے بن علی مرتضے ہوں اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کے ماتحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالا مال کروں.“ اس کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ.....ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے.اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگا.“ (میخانہ درد )
318 حضرت اُم امومنین ادام اللہ فیوضہا کی آواز کا ریکارڈ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مدظلہ العالی ) اس زمانہ کی بعض ایجاد میں اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہیں.جن کے ذریعے کئی قسم کی علمی اور تاریخی اور جذباتی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.ان میں سے ایک انسانی آواز کو محفوظ کرنے کی ایجاد ہے.جو ریکارڈنگ مشین کے ذریعے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لی جاتی ہے.اور پھر حسب ضرورت مشین کو چلا کرسنی جاسکتی ہے یہ ایک قسم کی ترقی یافتہ گراموفون ہے.جو بجلی کے ذریعے کام کرتی ہے.بعض مشینوں میں تار استعمال ہوتی ہے اور بعض میں ٹیپ یعنی فیتہ استعمال ہوتا ہے.گذشتہ موسم سرما میں سید عبدالرحمن صاحب امریکہ سے ایک تار والی مشین اپنے ساتھ ربوہ لائے تھے.اور میری تحریک پر انہوں نے سے فروری ۱۹۵۲ء کو حضرت اُم المومنین نور اللہ مرقدھا کی آواز محفوظ کی.یہ ایک مختصر سا پیغام ہے.جو حضرت اماں جان نے سوال وجواب کے رنگ میں جماعت کے نام دیا ہے.سوال میری طرف سے میری آواز میں ہے اور جواب حضرت اماں جان کی طرف سے حضرت اماں جان کی آواز میں ہے.میں اس سوال و جواب کو دوستوں کی اطلاع کیلئے درج ذیل کرتا ہوں یہ ریکارڈ امریکہ سے واپس آنے پر انشاء اللہ یہاں کے جلسہ مستورات میں سنایا جا سکے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی وفات سے صرف دواڑھائی ماہ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ مشین ربوہ پہنچا دی.اور پھر اس مشین کے ذریعہ حضرت اماں جان کی آواز محفوظ کرنے کا خیال بھی آگیا.بہر حال جن الفاظ میں آواز بھری گئی ہے وہ درج ذیل کئے جاتے ہیں : خاکسار مرزا بشیر احمد : اماں جان السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.حضرت اماں جان وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ خاکسار مرزا بشیر احمد : آپ کی آواز جماعت برکت کے خیال سے محفوظ کرنا چاہتی ہے.اگر آپ کی طبیعت
319 اچھی ہو تو جماعت کے نام کوئی پیغام دے کر ممنون کریں.حضرت اماں جان میرا پیغام یہی ہے کہ میری طرف سے سب کو سلام پہنچے جماعت کو چاہیے کہ تقویٰ اور دینداری پر قائم رہے اور اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو.اسی میں ساری برکت ہے میں جماعت کے لئے ہمیشہ دعا کرتی ہوں.جماعت مجھے اور میری اولا دکو اپنی دعاؤں میں یادر کھے.خاکسار مرزا بشیر احمد : یہ حضرت اُم المومنین اطال الله طلبا حال مقیم ربوہ کا جماعت احمدیہ کے نام پیغام ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور حضرت اماں جان کی صحت اور عمر اور فیوض میں برکت عطا کرے.خاکسار مرزا بشیر احمد کے فروری ۱۹۵۲ء.یہ وہ الفاظ ہیں جن میں سے فروری ۱۹۵۲ ء کو حضرت اُم المومنین ادام اللہ فیوضہا کی آواز ریکارڈنگ مشین میں بھری گئی تھی.یہ آواز احتیاطاً دو دفعہ بھری گئی تھی.کیونکہ حضرت اماں جان کے ضعف اور نقاہت کی وجہ سے ایک دفعہ کی کوشش میں کچھ غلطی ہوگئی تھی.امید ہے دونوں ریکارڈوں کو ملانے اور جوڑنے سے پورا پیغام مکمل ہو جائے گا.اس کے بعد ۲۰ را پریل ۱۹۵۲ء کو حضرت اماں جان ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دائمی زندگی پانے کیلئے اللہ کے حضور پہنچ گئیں.ویبقى وجه ربك ذوالجلال والاكرام - والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه یکم جون ۱۹۵۲ء ۲
320 تعزیتی خطوط کے جوابات حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات پر تعزیتی خطوط کے موصول ہونے پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو جواب احباب کو ارسال ہوا تھا، درج ذیل کیا جاتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم مکرمی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کا خط حضرت اُم المومنین کی وفات پر تعزیت کا موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اس غم میں ہم اور آپ برابر کے شریک ہیں.روحانی اولاد کے جذبات ایسے ہی ہونے چاہئیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہمیں اُن کی وفات سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اُس کے بداثرات سے بچائے.اور اُن کی دعاؤں سے ہمیشہ حصہ دلا تار ہے.اور اُن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جانا ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہماری شرمندگی کا موجب نہ بنے.بلکہ اللہ تعالیٰ ہماری کسی نا چیز خدمت کو جو ہم سے ہوئی ہے.نیک رنگ میں ان کے سامنے پیش کرے تا اُن کی دعاؤں اور حضرت اُم المومنین کی دعاؤں سے ہمیں ہمیشہ حصہ ملتا ر ہے اور خدا کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں اُن کے نیک نمونہ پر چل کر اسلام اور احمدیت کے لئے باعث فخر وعزت بنتے رہیں.باقی افراد خاندان کی طرف سے بھی میں اس شرکت غم پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.والسلام.حوالہ جات خاکسار مرز امحمود احمد ۳ الفضل لا ہور ۲۳ را پریل ۱۹۵۲ء.الفضل لا ہور۴ / جون ۱۹۵۲ء ص ۲.س یا ہنامه در ولیش قادیان جون جولائی ۱۹۵۲ء صفحه ۴۸-۵۱ تمت بالخير